رنگ و نور جلد سیزدہم
جلوۂ رنگ ونور
ایک
سچے عشق کی درد اور مٹھاس بھری سچی داستان
حضرت
مولانا طلحہ السیف
مدیر القلم
استاذ
الحدیث جامعۃ الصابر، بہاولپور
ایک
مسودہ کئی ہفتوں سے میرے سرہانے رکھا ہے۔ اب تک کئی بار اُس کا مطالعہ کرچکا ہوں۔
مجھے اُس کے الفاظ سے، اسلوب سے اور مضامین سے قدیم اور گہری شناسائی ہے لیکن
امتحان یہ درپیش ہے کہ مجھے اس پر کچھ لکھنا ہے اور میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ع
اے
دِل مگر یہ وقت بڑے اِبتلاء کا ہے
کتنی
بار تحریر شروع ہوئی اور پھرنا مکمل چاک کرکے ٹوکری کی نذر کردی۔کیا ہر لکھنے والے
کو جب اپنی محبت، اپنے عشق اور اپنے دیرینہ تعلق کی داستان لکھنی ہوتو اسے ایسی ہی
کیفیات کا سامنا ہوتا ہے؟
’’رنگ ونور‘‘ کے ساتھ میرے تعلق کی داستان کچھ ایسی ہی ہے۔ میں قلم
قبیلے میں ایک اجنبی کے طور پر آیا تھا۔ نہ ارادہ تھا اور نہ صلاحیت کہ یہاں قیام
پذیر ہوسکوں۔ اس خدمت پر رکھ لیا گیا کہ ’’رنگ ونور‘‘ آیا کرے تو اس کے پروف کی
تصحیح کردیا کروں اور بس… یوں محبت کی اس داستان کا آغاز ہوا۔ ’’رنگ ونور‘‘ آتا
،اس کی کمپوزنگ ہوتی اور میں اسے دو تین بار پڑھ کر غلطیاں درست کرادیا کرتا اوریہ
قارئین تک پہنچ جاتا۔ ’’القلم‘‘ اخبار میں یہ مضمون بنیادی حیثیت سے شائع ہوتا اور
اس کے ساتھ کئی دیگر موتی بھی جگمگاتے۔ بلکہ اگر یوں کہہ دوں کہ ’’القلم‘‘ کی روح
’’رنگ ونور‘‘ ہی تھا۔’’ رنگ ونور‘‘ القلم کے لئے نہیں آتا تھا القلم ’’رنگ ونور‘‘
کے لئے شائع ہوتا تھا تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ شروع شروع میں اس کام کا ایک تشکیل اور
ڈیوٹی کے پر طور پر آغاز ہوا لیکن رفتہ رفتہ یہ عادت اور پھر محبت بن گیا اور پھر
اس محبوب نے مجھے کیا کچھ دیا ،کیا کچھ سکھایا، میری کتنی جہالتوں کودور کیا، میری
کتنی غلطیوں کو سدھارا، میرے نظریات کی کس طرح اصلاح کی، مجھے پڑھنے اور لکھنے کے
شوق سے کیسا نوازہ، میرے زبان وبیان کی کس طرح درستگی کی۔
یہ پندرہ
برس کا قصہ ہے دوچار دِنوں کی بات نہیں
سوچئے!
جس
شخص کو اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے ایک طویل مدت یہ نعمت نصیب رہی ہو کہ حضرت
سعدی حفظہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے نمودار
ہونے کے بعد ’’رنگ ونور‘‘ کے رنگ کو سب سے پہلے اُس کی آنکھوں نے دیکھا ہو اور
اُس کے ’’نور‘‘ نے سب سے پہلے اس کے دل پر دستک دی ہو اسے آج یہ لکھنا ہو کہ یہ
محبوب عنوان اب اختتام پذیر ہورہا ہے۔ امید ہے آپ اسے جملوں کی بے ترتیبی اور
مضمون کی بے ربطگی پر معذور جانیں گے۔
ت…ت…ت
پرویز
مشرف کا دور آمریت اپنے نصف النہار پر تھا جب ’’القلم‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس عزم کے
ساتھ اور اس پالیسی کے ساتھ کہ زندگی تو صرف ایک دن کی ہے اور وہ دن عزت کے ساتھ
سرفرازی اور سربلندی کے ساتھ اور اعلانِ حق کے ساتھ گزرنا چاہئے تاکہ یہ ’’آج‘‘
آنے والے ’’کل‘‘ کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔
’’رنگ ونور‘‘ نے القلم کی اس پالیسی کا اعلان کیا اور پھر اپنے
آخری دن تک اسے جس طرح نبھایا وہ ایک عجیب وغریب داستان ہے۔
’’جہاد ‘‘کا نام ممنوع ہے لیکن ’’القلم‘‘ جہاد کو اس طرح بیان کرے
گا کہ دیگر ہر بیانیہ ضمنی ہوگا۔
’’مجاہدین‘‘ کالعدم ہیں لیکن ’’القلم‘‘ اِن کی دعوت کو اور ان کی
خبر کو اس نمایاں حیثیت کے ساتھ اجاگر کرے گا کہ ان کا وجود دنیا کو نظر آئے گا
اور پابندیاں کالعدم معلوم ہوں گی۔
حق
گوئی کی قیمت کافی بھاری ہے لیکن ہر قیمت پر یہ فریضہ اس طرح انجام دیا جائے گا کہ
ایوانوں تک اس کی گونج سنائی دے۔
اور
ہاں!
جو ابو جہلی دشمن مجاہدین
کے خاتمے کی آس لگائے سامان جشن فراہم کئے آخری خبر کے انتظار میں بیٹھے ہیں انہیں
بلا توقف بتایا جاتا رہے گا کہ تم ہار گئے بدر کا لشکر جیت رہا ہے۔
’’رنگ ونور‘‘ اس پالیسی کو لے کر دندناتا ہوا آتا اور پھر ہم سب
بھی اُسی سے روشنی لے کر اس کی آڑ اور ڈھال کے پیچھے سے تیر چلایا کرتے۔ یوں
القلم نے پرویزی آمریت کے سینے پر جس طرح مونگ دلے کسی اور کو یاد ہو نہ ہو پرویز
مشرف خود اُسے کبھی نہیں بھول پایا اور نہ بھول پائے گا۔ وہ آج بھی ’’اُن‘‘ کا
نام لیتا ہے تو اس کے منہ سے جھاگ اور آنکھوں سے شعلے نکلتے ہیں۔ شکست کی دھول اس
کا چہرہ دھندلا دیتی ہے اور ناکامی کی مایوسی چھپائے نہیں چھپتی۔
اندازہ کیجئے!
’’رنگ ونور‘‘ پر لکھنے والے کا نام درج نہیں ہوتا تھا لیکن بغض سے
بھرا ہر دل جانتا تھا اور محبت سے لبریز ہر قلب کو بھی عین الیقین علم تھا کہ
لکھنے والا کون ہے۔ ’’رنگ ونور‘‘ آکر نغمہ جہاد سناتا اور جنہیں روزِ نزول سے اِس
لفظ سے چڑ، بغض، عناد اور تکلیف ہے وہ بھی ساتھ چلے آتے۔ کوئی دو مہینے نہ گزرتے
کہ دفتر نہ بدلنا پڑے اور اخبار کو نئی پابندیوں اور دھمکیوں کا سامنا نہ ہو۔
گھبراہٹ تیز ہوتی تو ’’رنگ ونور‘‘ { وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا } کا پیغام
لے کر آجاتا۔ حوصلے پھر جوان ہوجاتے اور نئے عزم کے ساتھ کام کا آغاز ہوجاتا۔
چند دن گزرتے اور پھر وہی منظر لوٹ آتا۔ اخبار کا پورا سیٹ اپ ایک سے دوسری جگہ
منتقل کرنا کارے دارد ۔خیال گزرتا کہ چلو پوری نہیں تو کچھ مان لی جائے۔ ایک آدھ
سرکاری خبر لگانے کا مطالبہ تھا۔ حکومتی بیانات کسی حد تک نشر کرنا تو ہر اخبار کے
لئے قانون کا حصہ تھا۔ محاذوں کی خبر ہیڈ لائن نہ ہوا کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ
مضامین میں دعوت جہاد یوں کھلم کھلا نہ ہوا کرے۔ ان کا پیغام پہنچا دیا گیا۔’’ رنگ
ونور‘‘ آیا اور اس نے ’’القلم‘‘ کے لئے بھی اورپیغام بھجوانے والوں کے لئے بھی ایک
دو ٹوک پالیسی واضح کردی۔ عنوان تھا ’’ہمارے آج کی قیمت‘‘… ’’رنگ ونور‘‘ کی جلدوں
میں تلاش کرکے وہ مضمون ضرور پڑھ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر زندگی میں کچھ ’’آب
زر‘‘ سے لکھنے یا لکھوانے کی وسعت عطاء فرمائی تو سب سے پہلے اسی مضمون کو
لکھوائوںگا اور یہ تمنا آج کی نہیں جس دن یہ مضمون آیا تھا دل سے اسی دن یہ
آواز نکلی تھی۔ ’’رنگ ونور‘‘ نے اس دن یہ بات صرف پڑھائی نہیں دل پر نقش کردی کہ
آج کو بچانے کے لئے اگر اس کا حلیہ بگاڑ دیا جائے، اگر اپنے آج کی چال ڈھال کھال
بدل لی جائے۔ اپنے آج کے نظر ئیے کو قربان کردیا جائے۔ اپنے آج کی عزیمت تج دی
جائے۔ اپنے آج کا سر جھکا دیا جائے تو ’’کل‘‘ کبھی بھی اچھا نہیں آئے گا۔ بد سے
بدتر آئے گا۔ ’’رنگ ونور‘‘ نے کہا کہ اپنا آج سر بلند ہوکر جیو سرفراز رہوگے۔
ہمارے جہادی حلقے میں اس ایک مضمون کی اثر پذیری اوراس کے ذریعے برپا ہونے والے
انقلابِ احوال کا ذکر لے کر بیٹھ جائوں تو مضمون نہیں کتاب بھی کم پڑ جائے۔ اِس ایک
مضمون نے صرف القلم اخبار کی نہیں پوری جماعت کی، جماعت کے منہج دعوت کی اور جماعت
کی عملی جدوجہد کی راہ متعین کردی اور اس کا بنیادی اصول واضح کردیا۔ یہ جملہ ایک
مضمون کا نہیں ایک منشور کا عنوان ثابت ہوا اور یہ مضمون جماعت کے دستور کی حیثیت
اختیار کرگیا۔ اور پھر ’’رنگ ونور‘‘ جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے اس عنوان
سے شائع ہوتا رہے اسی نظریے پر لکھا جاتا رہا اور شائع ہوتا رہا۔ اس کے ہر ’’رنگ‘‘
نے آج کو سنوارنے کا ایک نیا ڈھنگ دیااور کیسے کیسے ’’نور‘‘ پڑھنے والوں کی زندگی
میں سجا دئیے۔ آپ کا ’’آج‘‘ سچے اور کھرے نظرئیے کے ’’رنگ ‘‘سے سجا ہونا چاہئے۔
ایک ایک عنوان سے آپ تک سچے اور کھرے اسلامی نظریے کا ’’نور‘‘ پہنچایا۔ آپ کی
زندگی پر ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا ’’رنگ‘‘ آجائے تو سب کچھ بن جائے، یہ ’’نور ‘‘
تو ایک مہم کی شکل میں عام کیا اور بلاشبہ ہزاروں لوگوں کو یہ کلمہ سمجھ آیا اور
ان کی زندگی کا لازمی معمول بن گیا۔ آج بھی رنگ ونور پڑھنے والے ہزاروں کی تعداد
میں اس کے روزانہ بارہ سو مرتبہ وِرد کے ’’مجددی ‘‘ نصاب سے جڑے ہوئے ایمان کی
حلاوت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ’’رنگ و نور‘‘ نے تسبیح سے روشناس کرایا، تحمید سے جوڑا
،اللہ سے مانگنا سکھایا، دعاء کا نور عام کیا ،در در بھٹک رہے پریشان حالوں کو
اللہ تعالیٰ کے نام کے نور سے مسائل کا حل سکھایا۔ ایک مومن کا ’’آج‘‘ تو آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی اور
والہانہ محبت کے بغیر اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔ ’’رنگ ونور‘‘ نے عشق مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وسلم کا نور عام کیا۔ ’’رحمۃ للعلمین‘‘
القلم کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس میں سب
سے پہلے وہ مضامین ہیں جو’’ رنگ ونور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ اِن مضامین کو پڑھئیے
محبت کا کیسا’’ رنگ‘‘ دل پر چڑھتا ہے اور عشق کا کیسا ’’نور‘‘ آنکھوں کو منور
کرتا ہے۔ ’’رنگ ونور‘‘ نےایمان والوں کو سکھایا کہ اپنے ’’آج‘‘ کو درود وسلام جیسی
مقبول اور عظیم عبادت کے ’’رنگ‘‘ سے سجا لو، قبروآخرت تو کیا زندگی میں بھی
’’نور‘‘ آجائے گا۔ یہ دعوت جیسی سلسلہ وار، مرتب اور منظم انداز میں ’’رنگ ونور‘‘
نے عام کی آپ اس کی کوئی دوسری مثال ڈھونڈ کر لے آئیں مشکل ہے۔ آج بلا مبالغہ
ہفتہ وار کروڑوں کی تعداد میں درودوسلام کا وِرد اُن لوگوں کی زندگیوں کا لازمی وظیفہ
ہے جنہوں نے رنگ ونور سے یہ سبق حاصل کیا۔
اور
ہاں!
’’جہاد‘‘… اسلام کی سب سے بلند چوٹی، اسلام کی عزت و سربلندی کا
علَم، ایمان ونفاق کے درمیان حد فاصل، امت مسلمہ کے مسائل کا حقیقی حل اور یقینی
راستہ اور قرآن مجید کا اَحکام کے باب میں سب سے کثیر مضمون۔ کسی بھی عنوان سے
،کسی بھی رنگ میں اور کیسے بھی الفاظ میں کتنے بھی یقینی دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ
دی جائے کہ صرف یہ موجودہ زمانہ نہیں صدیاں کھنگال لی جائیں، جہاد کی جتنی مسلسل،
مدلل اور مؤثر دعوت ’’رنگ ونور‘‘ کے عنوان سے پھیلی اس کی مثال نہ ملے گی تو ذرہ
برابر بھی مبالغہ نہ ہوگا۔
سبحان
اللہ!
آپ
قرآن مجید کی دعوتِ جہاد کو مکمل غوروفکر کے ساتھ پڑھیں، خوب تدبر کے ساتھ اس کا
ایک ایک اسلوب ذہن نشین کریں اور پھر ’’رنگ ونور‘‘ کے جہادی مضامین کا مطالعہ کریں۔
آپ کو قرآنی دعوتِ جہاد کا پورا پورا ’’رنگ‘‘ ان مضامین میں ملے گا اور آپ جہاد
کے ’’نور‘‘ کو دِل میں بستا ہوا محسوس کریں گے۔
قرآن
نے دلیل اور فلسفے کے ساتھ جہاد سمجھایا۔ زندگی موت کی حقیقت واضح کرکے جہاد کی
بُرہان قائم فرمائی۔ فضائل کا ذکر کرکے جہاد کو آسان کیا۔ مظلوم مسلمانوں،اسیروں
اور موذیوں کے شکنجے میں جکڑے اہل ایمان کا درد سنا کر جہاد پر ابھارا،شعائر اللہ
کی حرمت کے واسطے دے کر دلوں میں جذبہ جہاد برانگیختہ کیا ، شہادت کے مزے اور شہیدوں
کی مزیدار زندگی بیان کرکے میدانوں کی طرف پکارا، اسلام کے غلبے کا راستہ قرار دے
کر جہاد کی ضرورت اور اہمیت اجاگر کی، عزت اور ذلت والی زندگی اقتدار اور کمزوری
کے حالات کا موازنہ کرکے جہاد کی حجت مضبوط فرمائی۔مال خرچ کرنے پر عظیم اجر کے
دعوے اور اس کے دنیوی اُخروی فوائد بتا کر انفاق فی سبیل اللہ کی طرف بلایا۔ یہ سب
قرآنی اسلوب میں پڑھئیے اور پھر رنگ ونور کی طرف چلے آئیے آپ کو اسی ’’رنگ‘‘ میں
یہ ’’نور‘‘ بٹتا نظر آئے گا ۔کیوں نہ ہو ’’رنگ ونور‘‘ جس قلم سے منصۂ شہود پر
آتا ہے اسی نے تو صدیوں کا یہ قرض بھی اتارا کہ قرآن کے پیغام جہاد کو یکجا کرکے
’’فتح الجواد‘‘ کے عنوان سے اُمت تک پہنچایا۔ ’’رنگ ونور‘‘ اسی قرآنی پیغام سے
روشنی لے کر تحریر کیا جاتا تو اس میں یہ ’’رنگ‘‘ کیوں نہ چھلکتا…
ت…ت…ت
دعوتِ
جہاد کو ایک زمانے تک ایک گرج دار، دردمند اور پُرسوز آواز نصیب رہی جو صرف
پاکستان میں نہیں دنیا میں جہاں جہاں پہنچ سکی پہنچ کر گونجی۔ امارات کے صحرائوں
سے لے کر یورپ کے کفر زاروں تک ہر جگہ سنی گئی سنائی گئی۔ جہاں جہاں پہنچی وہاں سے
اہل ایمان کے قافلے میدانوں کی طرف لپکے۔ نوے کی پوری دہائی دنیا بھر سے افغانستان
اور کشمیر کے محاذوں کا رخ کرنے والے کسی بھی غیر عرب مجاہد سے پوچھا جاتا توا س
کا ایک ہی جواب ہوتا کہ وہ اس آواز پر کھنچا چلا آیا ہے۔ یہ دعوتِ جہاد کا دور
’’اظہری‘‘ تھا کہ دعوت ظاہر تھی اور کھلے عام اسٹیج پر چہکار رہی تھی۔ پھر مشیت
الہٰی سے وہ دور آگیا کہ اس دعوت اور اس آواز کا یوں اظہر رہنا ممکن نہ رہا تو
دعوت جہاد کے دور ِ’’ازہری‘‘ کا آغاز ہوا کہ دعوت اب خوشبو کی طرح خاموشی سے آئے
اور مشامِ جان میں اتر جائے۔ اب خوشبو بھی بھلا پابند کی جاسکتی ہے؟ سو نہ کی جا
سکی اور ہر طرف پھیل گئی۔ اور اس دعوت کا عنوان تھا ’’رنگ ونور‘‘۔ وہی میرا محبوب
جس کی محبت کے میٹھے میٹھے ہلکورے اب بھی دل پر محسوس کررہا ہوں اور قلم بھاگتا
چلا جارہا ہے۔ دعوت کا پہلا اسلوب بظاہر زیادہ مؤثر لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ
بولے ہوئے الفاظ اگرچہ وقتی تاثیر میں تو لکھے ہوئے سے برتر ہوسکتے ہیں لیکن
’’کتاب‘‘ کا اثر دیرپا اور باقی رہنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے ’’کتاب‘‘ سنانے والے نبی
تو دنیا سے چلے جاتے ہیں ’’کتاب‘‘ باقی رکھی جاتی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور
’’رنگ ونور‘‘ نے وہ جہادی طبقہ تشکیل دیا جو نظریاتی پختگی اور سلامتی فکر کے باب
میں پہلوں سے ہر طرح بڑھ کر تھا اور ہے۔ آپ نے ’’رنگ و نور ‘‘ میں ہی جا بجا ان دیوانوں
کا معطر تذکرہ پڑھا ہو گا جنہوں نے محاورتاً نہیں حقیقتاً اس زمانے کو خیر القرون
کے ساتھ لاکھڑا کیا۔ یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں ’’رنگ و نور‘‘ نے موت کے آئینے میں
رخِ یار دکھا کر ان پر وہ دیوانگی اور وارفتگی طاری کی کہ نہ اپنوں کی کج رویاں ان
کا راستہ روک سکیں نہ دشمنوں کی بے مہار طاقت اِن کی راہ میں رکاوٹ بن سکی۔ کوئی بیت
اللہ کی عظمت پر کٹ مرا اور کوئی اسیروں کی فکر میں قربان ہو گیا۔ کسی کو قرآن کی
غیرت نے کھینچ لیا اور کوئی ناموس محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اٹھتی انگلیاں کاٹنے کو دوڑا چلا گیا۔
یوں
اس قرآنی ’’رنگ ‘‘نے شوق شہادت اور جذبۂ حریت کا ’’نور‘‘ ایسا عام کر دیا کہ آج
عالَم اس سے جگمگا رہا ہے اور اسے بجھانے کی فکر کرنے والے اپنے زخم چاٹنے پر
مجبور ہیں۔ دعوتِ جہاد وہ عمل ہے جو جہاد کے لئے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاد کی
تحریک جتنی بھی بڑی ، باوسائل اور مضبوط ہو اگر اسے دعوت کی پشت پناہی حاصل نہ ہو
تو وہ تحلیل ہو جاتی ہے اور جس تحریک کو دعوت مسلسل اور منظم انداز میں نصیب ہو
جائے اس کا وجود بھی باقی رہتا ہے اور اثر بھی۔ ’’رنگ و نور‘‘ سے روشنی لے کر اللہ
تعالیٰ کی توفیق سے ایک ایسا طبقہ دعوت کے میدان میں اتر آیا جن کے ہاں دعوت ایک
عظیم مشن ہے اور وہ اس کی خاطر قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کر رہے ہیں جن کے تصور
سے بھی روح لرز اٹھتی ہے۔ لیکن جتنی بھی سختی، پابندی اور تکلیف بڑھتی چلی جا رہی
ہے دعوت کا کام مزید مربوط، منظم اور مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ اس طبقے سے
ملئے، ان کے احوال لیجئے اور ان سے پوچھئے کہ انہیں یہ مضبوطی ، یہ جذبہ اور یہ
صلاحیت کہاں سے ملی ؟ جواب یہی ہو گا کہ ’’رنگ و نور‘‘ سے۔ ایسے لوگ جو چند الفاظ
بھی درست طریقے سے اداء کر کے دعوت دینے پر قادر نہ تھے ’’رنگ و نور‘‘ ہاتھ میں لے
کر نکل جاتے اور بس۔ جس مسلمان تک چند بار وہ یہ مضمون پہنچا آتے وہ ان کی دعوت
کا اسیر ہوجاتا۔ یوں بے زبانوں کو ایک فصیح و بلیغ ، دردمند اور پُر اثر آواز مل
گئی اور انہوں نے اسے اپنی دعوت بنا لیا۔ اس طرح الحمد للہ دعوت جہاد کی وہ منظم
اور مربوط شکل وجود میں آئی جس نے دلیل کی قوت اور برہان کی طاقت سے مسلمانوں کے
دلوں میں گھر کیا اور ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہوئی۔
ت…ت…ت
’’رنگ ‘‘ پابند نہیں کئے جا سکتے اور ’’نور‘‘ کی تو ویسے ہی کوئی
سرحد نہیں ہوتی۔ الحمد للہ ’’رنگ و نور‘‘ بھی سرحدوں کی بندش سے آزاد ہو کر ہر
طرف پہنچا اور اس کی روشنی ہر جانب پھیلی۔ ہندوستان کی حکومت سے زیادہ چڑ اور تکلیف
شاید کسی اور کو نہ ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ اس نے اسی دشمن کو
عرصے تک رنگ و نور کی اشاعت پر مامور کئے رکھا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ رنگ و نور یہاں
پاکستان میں مسلمانوں تک بعد میں پہنچا اور ہندوستان کے ٹی وی چینلوں پر پہلے نشر
ہو گیا۔ کئی بار وہاں کے نیوز چینلوں پر صبح کی نشریات سے رنگ و نور کے اقتباسات
سنائے جانا شروع ہوتے اور رات کی نشریات تک ہر گھنٹے بلا تعطل سنائے جاتے۔ اللہ
تعالیٰ نے یوں جان کے دشمن کو اس پیغام کی نشرواشاعت پر لگائے رکھا۔ بے شک
{وَاللهُ غَالِبٌ عَلٰى أَمْرِهٖ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ
لَا يَعْلَمُوْنَ}
ہندوستان
میں ایک عالم دین کا خطبہ جمعہ بہت مقبول ہے۔ شنید ہے کہ ان کی آمد سے قبل ہی
مسجد باہر سڑک تک بھر چکی ہوتی ہے۔ میرے ایک عالم دین دوست نے ایک بار مجھے فون کیا
اور بولے:
’’ ایک بات پر حیران ہوں ، مسلسل سوچ رہا ہوں مگر مسئلہ حل نہیں ہو
رہا۔ جمعہ کی نماز پڑھا کر نکلتا ہوں تو مسجد کے باہر القلم تقسیم کرنے والا مجاہد
کھڑا ہوتا ہے۔ اس سے اخبار خرید لیتا ہوں۔ گھر جا کر رنگ و نور پڑھتا ہوں اور دیگر
مضامین بھی دیکھ لیتا ہوں۔ عصر کے بعد انٹرنیٹ پر ہندوستان کے فلاں عالم دین ہیں
ان کا خطبہ جمعہ سنتا ہوں۔ کئی ماہ سے نوٹ کر رہا ہوں کہ ان کا پورا بیان اسی
موضوع پر ہوتا ہے جس پر تازہ رنگ و نور مشتمل ہوتا ہے۔ ایک دو بار سوچا کہ ویسے
تَوافُق ہو جاتا ہو گا لیکن کئی ماہ مسلسل ایسا ہونا تو ناممکن ہے۔ اب سوچ رہا ہوں
کہ رنگ ونور تو جمعہ کو تقسیم ہوتا ہے پھر ان تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟
کہیں
آپ انہیں پہلے تو نہیں بھیج دیتے؟…
میں
نے انہیں بتایا کہ اخبار آپ تک جمعہ کو پہنچتا ہے لیکن انٹرنیٹ پر بدھ کو شام کے
وقت نشر کر دیا جاتا ہے۔ کہنے لگے : چلو یہ مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس طرح تو
معاشی نقصان ہوتا ہے۔ اخبار پہلے تقسیم کیا جاتا ہے انٹرنیٹ پر بعد میں لگاتے ہیں
تاکہ فروخت میں فرق نہ آئے۔
حضور
یہ دعوت ہے تجارت نہیں اور یہاں منشور یہ ہے کہ زندگی تو ویسے ہی صرف ’’آج‘‘
ہے۔’’ کل‘‘ کا کیا علم … اس لئے جلدی چلا دیتے ہیں… اچھا تو اس ہفتے سے پھر پندرہ
روپے کا نقصان مزید برداشت کیجئے… ہم بھی جمعہ تک انتظار کیوں کریں بدھ کو ہی پڑھا
کریں گے۔
’’رنگ و نور ‘‘ نجانے کہاں کہاں اس طرح بیانات کی شکل میں بھی
لوگوں تک پہنچاکرتا۔
ت…ت…ت
’’القلم ‘‘ اپنی اسی ’’ آج ‘‘ کو سنوارنے اور بنانے کی پالیسی کے
مطابق جب تک اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا نکلتا رہا اور ’’رنگ و نور‘‘ اس کی پیشانی
پر جھومر کی طرح چمکتا اور اپنا نور بکھیرتا رہا۔ جھوٹے اور غیر یقینی ’’ کل ‘‘ کی
خاطر بزدلی، نظریے سے انحراف اور تبدیلی کا کوئی داغ الحمد للہ اس نے قبول نہ کیا
اور اپنے اصلی ’’کل‘‘ کو اچھا کرنے کی فکر کی۔ اپنی اسی شان کے ساتھ وہ ختم ہو گیا۔
’’مالہ بدایۃ فلہ نہایۃ ‘‘ ہر ابتداء کی انتہا ہے اور ہر شئے نے ختم ہونا ہے۔ لیکن
یہ صرف ایک نام کا اختتام ہے کسی کام کا نہیں۔ اور یہاں نام کی فکر ہے بھی کسے ؟ …
نام تو رنگ و نور پر بھی کوئی اور تھا لیکن اپنےپرائے سب پہچانتے تھے کہ کام کس کا
ہے۔ اور اس کام کی انتہا ہے نہیں جب تک الصادق المصدوق الامین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیشنگوئی پوری نہیں ہو جاتی۔
حتی
یقاتل آخرھم المسیح الدجال…
نہ
یہ کام رُک سکتا ہے نہ اس کی دعوت رو کی جا سکتی ہے۔ اس کام کے علمبردار اور داعی
بھی تبدیل ہوتے رہیں گے اس کے عنوان بھی بدلتے رہیں گے اور انداز بھی۔ اسے مٹانے کی
فکر کرنے والے بھی ایک کے بعد دوسرے آتے رہیں گے اور تاریخ کے کوڑا دان کا رزق
بنتے جائیں گے۔
’’رنگ و نور‘‘ اس کام اور اس دعوت کا ایک روشن باب تھا جو یہاں
اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ جس قلم کا شہکار تھا وہ بھی سلامت
ہے اور اللہ کرے ہمارے بعد بھی سلامت رہے۔ جس جماعت کا شعار تھا الحمد للہ وہ بھی
باقی ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔ جس کام کا عنوان تھا الحمد للہ شجرۂ
طیبہ کی طرح اس کی جڑیں زمین کی تہہ میں جمی ہوئی اور شاخیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
اس نے جو رِجالِ کار تیار کئے وہ بھی میدانوں میں مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور اس
نے جو پیغام پھیلایا وہ چہار دانگ عالم میں گونج رہا ہے۔ اس کا ہر ’’رنگ ‘‘ سلامت
ہے اور اس کا ہر ’’نور ‘‘ چمک رہا ہے۔ ’’رنگ و نور‘‘ مدینہ کا منادی تھا اور اس کا
قلم کار خیمۂ نبوی کا چوکیدار ہے۔ ’’مدینہ مدینہ ‘‘ پکارنے والے اس کا پیغام ہر
عنوان سے آگے چلاتے اور پھیلاتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ہاں یہ غم اور دکھ
تو ہے کہ جس عنوان نے سالہا سال ہماری آنکھوں کو روشن کیا وہ رخصت ہو رہا ہے۔
خراج تحسین اور خراج عقیدت کے ساتھ
الوداع
اے محبوب الوداع
الوداع
اے دوست الوداع
ت…ت…ت
جاتے
جاتے بھی دیکھئے کہ ’’رنگ ونور‘‘ ہماری زندگیوںکو کیسے نورانی تحفے بہم پہنچا رہا
ہے۔ آپ اس آخری جلد کو پڑھنا شروع کریں گے سب سے پہلے آپ کو یہ ایک عظیم ایمانی،
جہادی روحانی عمل سے روشناس کرائے گا۔
’’الرمایہ‘‘ یعنی تیر اندازی۔ اِسلامی اَعمال میں بہت فضیلت اور
تاکید والا ایک خاص عمل۔ اُمت میں زمانے سے متروک اس عمل کی یاد دہانی آئے دو سال
کا عرصہ ہوا ہے تقریباً اور میری ناقص معلومات کے مطابق ہزاروں لوگ الحمد للہ اس
سے جڑ چکے ہیں اور ان کی زندگیاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری اور پسندیدہ سنت کے نور سے سج گئی ہیں۔
اسی جلد میں آپ کو امام الاولیاء حضرت بابا فرید گنج شکر قدس سرہ کے قیمتی
ملفوظات کا خزانہ کئی مضامین میں ملے گا جن کا ہر ہر لفظ زندگی بنانے اور سنوارنے
والا ہے۔ اس میں آپ کو ایمانی ’’تبدیلی‘‘ کا مفہوم ملے گا۔ وہ تبدیلی جو حقیقتاً
’’نور‘‘ ہے اور اس کا ’’رنگ‘‘ ہر مسلمان کی زندگی میں آنا ضروری ہے۔ اس میں آپ
کو اللہ تعالیٰ کے ایک عاشق بندے مولانا طلحہ رشید شہید کا تذکرہ ملے گا۔ ایک ایسا
شخص جو اس زمانے میں ’’شاب نشأ فی عبادۃ اللہ‘‘ اور {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا
عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ } کا جیتا جاگتا
مصداق تھا۔ اس میں آپ کو ’’شورٰی‘‘ جیسے اسلامی حکم کی تفصیلات بھی ملیں گی اور
اس کی ضرورت واہمیت پر پُر مغز کلام بھی۔ اوریہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ’’رنگ ونور‘‘
ہو اور اس میں کلمہ طیبہ کے معارف، اس کو دل میں اتارنے والے ترغیبی جملے اور اس
کے ورد کی اہمیت پر بات نہ ہو۔ اس جلد میں بھی آپ جابجا یہ مضمون پائیںگے۔ رنگ
ونور منّادِ مدینہ ہے اب بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی بزم ہو اور خوشبوئے مدینہ
سے خالی ہو؟ آپ کو یہاں بھی درود وسلام کے معطر جھونکے ملیں گے۔ اس میں ایک بہت دلچسپ
مضمون ہے جو تین حقیقی واقعات پر مشتمل ہے اور آپ ان واقعات کی روشنی میں مشرک کا
مزاج بخوبی سمجھ لیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے آپ کو اس بات پر شرمندگی بھی محسوس ہو کہ
ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں مشرک سے ڈر کر جینے کا سبق پڑھایا اور
رٹایا جارہا ہے۔
اور
ہاں! آخر میں آپ کو شاید رونا پڑے۔ آخر میں عشق ومحبت کی ایک داستان ہے اور اس
داستان کے ایک ایک حرف سے خونِ جگر ٹپک رہا ہے۔ اس کی ایک ایک سطر گرم پیازی
آنسوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ ایک محبوب دوست کی قربانی اور جدائی
کی داستان ہے۔ اور وہ دوست کون ہے؟ میں آپ کو یہ بات کیوں بتاؤں آپ خود وہاں
پہنچیں گے تو آپ کو علم ہو جائے گا۔
آپ
اس کتاب کو پڑھئیے! اس کا ایک ایک حرف ایمان کی دعوت ہے، عزیمت کی دعوت ہے۔ اس کی
ہر سطر میں ’’صبغۃ اللہ‘‘ والا ’’رنگ‘‘ ہے اور اس کا ایک ایک عنوان نورِ حیات ہے۔
آپ یقین کیجئے آپ کو اس خوانِ نعمت پر وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی آپ کو ضرورت
ہے۔
ارے
ہاں! آپ کو اس کتاب کے مطالعے سے اردو کا ایک محاورہ بھی بخوبی سمجھ آجائے گا
’’مخمل میں ٹاٹ کاپیوند لگانا‘‘۔ کہاں ’’رنگ ونور‘‘ اور کہاں اس پر یہ چند سطور۔
والسلام
طلحہ
السیف
یوم
الاحد ۶
ذوالقعدہ ۱۴۴۱ھج
28 جون 2020
٭٭٭
آئینۂ تصنیفات
امیر
المجاہدین، حضرت مولانا محمد مسعود ازہر دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیفات کا
مختصر، جامع اور دلکش تعارف، علم و جہاد کی دنیا کا سچا سفر نامہ
مولانا
مفتی عبید الرحمٰن
رئیس
دار البیان
و
مہتمم جامعۃ الصابر، بہاولپور
میں
مسلسل کئی دنوں سے پریشان بھی ہوں اور حیران بھی۔ کیونکہ ایک ایسا کام
شروع كکررہا ہوں جس کے بارے ضروری علم تو کجا بنیادی اہلیت سے بھی عاری ہوں۔
کہاں میں اور کہاں وہ؟ خاک کے ایک ذرے کو ثریا سے کیا نسبت ؟ اسی لئے پریشان
ہوںاور حیران۔ کام یہ ہے کہ حجۃ اللہ فی الجہاد، امیر المجاہدین، حضرت اقدس، حضرت
مولانا محمد مسعود ازہر دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیفات کا تعارف لکھنا ہے۔ یقین
جانیں اس کام کا حق اداء کرنے کے لئے پہاڑوں جیسا مضبوط اور سمندر جیسا گہرا علم
اور تجربہ درکار ہے ۔ اور میں ان چیزوں سے بہت دو ر ہوں بہت دور۔ لیکن میرے پاس
حضرت کی محبت اور دعاؤں کا سہارا موجود ہے۔ بس اسی سہارے کو بیساکھی بنا کر
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کچھ باتیں لکھنے کی جسارت کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں
اپنی بارگاہ اقدس میں قبول فرمائیں، آمین
٭…٭…٭
قرآن
کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی اکرم و مکرم حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے جو مقاصد ارشاد فرمائے ہیں… ان میں
سےایک اہم ترین مقصد ہے…’’تعلیم کتاب و حکمت‘‘…
یعنی جہالت میں ڈوبی انسانیت کو قرآن و سنت کی تعلیم دے کر علم و آگہی سے
معمور کرنا، انسانوں کو ان کے مقصد حیات سے روشناس کرانا اور اسی مقصد کو زندگی کا
محور قرار دینا… یہ وہ اہم ترین مقصد ہے جسے رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی
مقامات پر بیان فرمایا ہے۔
اور
ایک دوسرا اہم ترین مقصد ہے ’’تزکیہ‘‘ … یعنی شرک ، کفر، بدعات ، رسومات، رذائل
اور گناہوں کی دلدل سے انسانوں کو نکال کر ان کی ایسی باطنی صفائی کرنا اور ایسی
تربیت کرنا کہ وہ رشک ملائک ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و رضا ان کا نصیب
ٹھہرے… یہ مقصد ِبعثت بھی قرآن کریم میں پوری وضاحت کے ساتھ جا بجا بیان ہوا ہے۔
اور
ایک تیسرا اہم ترین مقصد ہے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘… یعنی جہاد و قتال کے ذریعے روئے
زمین سے ہر باطل مذہب اور ہر باطل نظام کی بیخ کنی کرنا… اور اللہ تعالیٰ کے سچے،
محبوب اور دین برحق ’’اسلام‘‘ کو اس طرح غالب کرنا کہ ’’وَ یَکُوْنَ الدِّیْنُ
کُلُّہٗ لِلہ‘‘ کی عملی تصویر سامنے آجائے… اس کا اعلان بھی قرآن کریم بار
بار کرتا ہے اور واشگاف الفاظ میں کرتا ہے۔
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی یہ ذمہ داریاں کما حقہ پوری فرما کر جب دنیا
سے پردہ فرماگئے تو یہ سب ذمہ داریاں امت کے کاندھوں پر آ گئیں… تب نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق زار امتیوں نے اپنے محبوب کے مشن کو پایۂ
تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایسی ایسی داستانیں رقم کیں اور ایسی ایسی قربانیاں دیں
کہ … مؤرخ بھی قلم توڑنے پر مجبور ہو گیا… کسی نے علم کی امانت کو سینے سے لگایا
اور زندگی کی ساری امنگیں اس امانت پر وار دیں… زندگی کی صبح و شام ، دن و رات سب
کچھ علم کے لئے وقف کر دیا… العلماء العزاب کا ایک پورا طبقہ تاریخ کے سینے میں
جگہ پا گیا۔ اور کسی نے تزکیہ و اصلاح کی امانت کو تھام کر سلوک و احسان کی
راہوں پر ایسی دوڑ لگائی کہ زندگیاں ختم کر چھوڑیں… اور اپنے پاک انفاس سے
انسانیت کے مردہ دلوں میں زندگی کی لہریں اٹھاتے چلے گئے۔ اور کچھ دیوانوں نے
اپنی متاع عزیز جانوں کو ہتھیلیوں پر دھرا، تلواریں تھامیں اور اعداء اسلام کی
گردنیں ماپتے ماپتے واپسی کے راستے تک بھول گئے… اور وقت کی بڑی بڑی سپر طاقتوں کو
بھوسے کے ڈھیر کی طرح اڑا کر رکھ دیا۔
ان
دیوانوں میں کچھ خوش نصیب ہستیاں ایسی بھی ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی جامعیت
عطاء فرمائی کہ انہوں نے ان سبھی میدانوں میں سباقی کی داستانیں رقم کیں… ایک طرف
وہ ’’مسند علم‘‘ کے بے تاج بادشاہ بنے رہے اور طالبان علوم نبوت کے سینوں میں علوم
انڈیلتے رہے، تو دوسری طرف ان کے پاک انفاس سے خانقاہوں، حجروں اور تنہائیوں میں
’’ترقی و لقاء‘‘ کی منازل طے ہوتی رہیں… اور تیسری طرف وہ امام جہاد بن کر دشمنوں
کے نشیمن اکھاڑتے رہے اور ان کے جا نثار بڑھ بڑھ کر شہادت کی بانہوں میں
جھولتے رہے۔ امام سرماری، حضرت عبد اللہ
بن مبارک، ابن النحاس شہید رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر شہداء بالاکوٹ تک ایسے ’’درخشندۃ
ستاروں‘‘ کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر جا بجا پھیلی پڑی ہیں۔
انہی
’’روشن ستاروں‘‘ میں سے اک ’’ستارے‘‘ جس کی روشنی سے آج جہاں جگمگا رہا ہے
امیر المجاہدین،حجۃ اللہ فی الجہاد، حضرت اقدس، حضرت مولانا محمد مسعود ازہر دامت
برکاتہم العالیہ بھی ہیں۔ کون ہے جو حضرت کی شخصیت سے واقف نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے خیر
کی کتنی ہی نہریں حضرت کی ذات بابرکات سے جاری فرمائی ہوئی ہیں۔ ایک طرف دنیا کے
مختلف محاذوں پر آپ کے دیوانے اپنی جانیں دین اسلام پر نچھاور کر رہے ہیں، اور
دوسری طرف ’’دورہ تربیہ‘‘ اور بیعت ارشاد کی شکل میں اصلاح و سلوک کے ایسے سلسلے
چل رہے ہیں جن کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی۔ اور تیسری طرف آپ کے علوم و معارف ایک
سیل رواں کی طرح جاری و ساری ہیں۔ کتنے ہی اکابر اُمت آپ کے وسعت علم، دقت نظر
اور اصابت رائے میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے بلند علمی
مقام کو دیکھتے ہوئے پگڑیاں گرنے لگتی ہیں۔ آپ کی جہادی، تنظیمی مصروفیات،
حالات کی ستم ظریفیوں اور علمی درسگاہوں کی عدم دستیابی نے آپ کے بہت سے علوم و
معارف پر پردہ ڈالا ہوا ہے… ورنہ ساحت علم کا کونسا مقام ہے جو آپ کی دسترس سے
باہر ہو۔ آپ کےبلند علمی مقام کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کے لئے آپ کی گرانقدر تصنیفات
اور وقیع مضامین بھی کافی ہیں ۔’’ فتح الجواد فی معارف آیات الجہاد‘‘ اور ’’فضائل
جہاد‘‘ سے لے کر ’’آزادی مکمل یا ادھوری‘‘ تک اور’’ یہود کی چالیس بیماریوں سے‘‘
لے کر ’’مقام عافیت‘‘ تک ایک ایک کتاب گوہر نایاب ہے۔ اور ان میںسے ایک ایک کتاب
ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کر چکی ہے۔ ویسے تو ہر کتاب ہی انسان کو
کچھ نہ کچھ دے جاتی ہے، لیکن جو کتاب انسان کی زندگی کا رخ ہی موڑ دے ایسی کتاب کے
بارے میں آپ کیا کہیں گےکہ اسے کیا نام دیا جائے؟ حضرت دامت برکاتہم العالیہ کی
ہر ہر کتاب میں اس خاصیت کا پورا سمندر موجزن ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کا سایہ عاطفت
ہم گناہگاروں کے سروں پر تا دیر قائم رکھیںاور اُمت کو اس بحر ذخار کی صحیح
معنی میں قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
یہاں
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب حضرت امیر محترم دامت برکاتہم العالیہ نے جہاد کے میدان
میں قد م رکھا تھااس وقت جہاد امت میں اجنبی ہو چکا تھا۔ جہاد کے بارے میں معلومات
اور لٹریچر نہ ہونے کے برابر تھا۔ قادیانی فتنے کی اثر انگیزی عروج پر تھی۔ عوام
تو عوام، خواص بھی جہاد کے بارے طرح طرح کے شبہات اور اشکالات کا شکار تھے۔ ایک ہو
کا عالم تھا، ہر طرف جمود طاری تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر محترم
کو اس میدان میں ایک شعلہ جوالہ بنا کر اتارا اور پھر حضرت کی سحر انگیز تقریر و
تحریر نے ایسا طوفان اٹھایا کہ عالم کفر پر لرزہ طاری ہو گیا۔ آپ کی تقاریر کی
لاکھوں کیسٹیں دنیا بھر میں پھیل گئیں اور آپ کے رسائل و کتب لاکھوں کی تعداد میں
شائع ہو کر عرب و عجم ہی نہیں یورپ تک پھیل گئے ۔ اور ہزاروں، لاکھوں فرزندان
اسلام اس پیغامِ بیداری پر لبیک کہتے ہوئے جہادکے میدانوں کی طرف لپکے ۔ دشمن
نے اس آواز کو دبانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا، آپ کو پابند سلاسل کیا گیا،
آپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، آپ کی عقیدت و چاہت ختم یا کم کرنے کے
لئے اتہامات و الزامات کے طوفان اٹھائے گئے، لیکن آپ کا قلم تلوار بن کر ان سب
رکاوٹوں کو عبور کرتا رہا اور اپنے منز ل کی جانب بڑھتا رہا۔ آج نتیجہ سب کے
سامنے ہے۔ وہ فریضہ جو آج سے چند سال قبل منوں مٹی تلے دبا دیا گیا تھا آج اس کا
سورج نصف النہار پر ہے۔ آج دنیا کا سب سے بڑا اور اہم موضوع جہاد ہے۔ آج جہاد ایک
فاتح بن کر عالم کفر کے سینے پر سوار ہے۔ اور آج جہاد و جماعت کے پاس اپنا ایک
کامل کتب خانہ موجود ہے، جس میںایک سے بڑھ کر ایک نافع کتاب موجود ہے۔ یہ سب حضرت
کی کاوشوں کا ثمر ہے۔
آئیے!
اب اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں اور حضرت امیر المجاہدین دامت برکاتہم کی عظیم اور
دلکش کتابوں کا مختصر مختصر تعارف پڑھتے ہیں۔
١ فتح الجواد فی معارف آیا
ت الجہاد :
یہ
حضرت کی تصانیف میں سب سے اونچی اور عدیم المثال تصنیف ہے۔ اسلامی تاریخ میں جہاد
کے موضوع پر ایسی کوئی تصنیف نہیں ملتی ۔ اس کتاب میں حضرت نے قرآ ن کریم کی ۵۵۸
مدنی آیات جہاد کی ایسی تفسیر فرمائی ہے کہ قرآن کریم کا موضوعِ جہاد کھل کر
سامنے آ جاتا ہے۔ اس کتاب میں حضرت نے اُمت کے مقبول علماء و مفسرین کرام کی تفسیرات
پر اعتماد فرمایا ہے۔ اور مسئلہ جہاد ایسا واضح فرما دیا ہے کہ جو شخص بھی ایک بار
دل کی آنکھوں سے اسے پڑھ لے تو پھر دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ملحد مسئلہ جہاد میں
اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی جلد میں سورۃ
البقرہ، سورۃ آل عمران، سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ کی آیات جہاد کی تفسیر
ہے، دوسری جلد میںسورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کی ابتدائی ساٹھ آیات ، تیسری جلد
میں سورۃ التوبہ کا بقیہ حصہ اور سورۃ الحج، سورۃ النور، سورۃ الاحزاب اور سورۃ
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آیات، جبکہ چوتھی جلد میں سورۃ الفتح، سورۃ
الحجرات، سورۃ الحدید، سورۃ المجاد لہ، سورۃ ا لحشر، سورۃ الممتحنہ ، سورۃ الصف،
سورۃ المنافقون، سورۃ التحریم، سورۃ العادیات اور سورۃالنصر کی آیات جہاد کی
تفسیرات ہیں ۔ جبکہ اس جلد کے آخر میں دو ضمیمے بھی ہیں۔ پہلے ضمیمے کا نام
ہے ’’کلام برکت‘‘۔ اس میں حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ علیہ کی تفسیر ’’موضح قرآن‘‘ سے مزید ۲۳ مدنی آیات کو شامل کیا گیا ہے۔ ان آیات کے
تحت حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ نے جہاد کے معارف بیان فرمائے ہیں۔ دوسرا ضمیمہ
’’مکی سورتیں اور اشارات جہاد‘‘ کے نام سے ہے۔ اس میںان مکی آیات کی تفسیر کی گئی
ہے جن میں جہاد کی طرف اشارات ملتے ہیں۔ اس کتاب کے عربی، پشتو اور انگلش
تراجم بھی ہو چکے ہیں، ان میں سے انگلش اور پشتو تراجم تو مطبوع ہیں اور عربی
ترجمہ تاحال غیر مطبوع ہے۔
٢ کتاب
الجہاد و السیرمن صحیح البخاری
اصح
الکتب بعد کتاب اللہ ’’صحیح البخاری‘‘ کی کتاب الجہاد و السیرکی احادیث مبارکہ پر
حضرت امیر المجاہدین دامت برکاتہم العالیہ کے انتہائی قیمتی اور مفید حواشی کا
مجموعہ ۔ یہ کتاب ہنوز زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی۔ البتہ دورہ تفسیر آیات
الجہاد پڑھانے والے علماء کرام کو اس کا مسودہ فراہم کیا جاتا ہے اور وہ اسے
سبقاً پڑھاتے ہیں۔
٣
فضائل جہاد
۳۳ ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ۸۸۰
صفحات کی یہ تاریخی کتاب در اصل آٹھویں اور نویں صدی ہجری کی مشہور علمی، روحانی
اور جہادی شخصیت علامہ ابن النحاس شہید رحمہ اللہ علیہ کی کتاب ’’مشارع الاشواق الی مصارع العشاق و مثیر
الغرام الی دار السلام‘‘ کی اردو تلخیص و تشریح ہے۔ اور اس کے آخر میں ’’فضائل
جہاد مختصر‘‘ بھی شامل ہے، جو حضرت مصنف دامت برکاتہم العالیہ نے اس تلخیص سےپہلے
خود تحریر فرمائی تھی اور دس حصوں میں اس کتاب کو مکمل کرنے کا ارادہ تھا۔ لیکن اس
تلخیص کے بعد اس کام کو روک دیا گیا، کیونکہ اس تلخیص میں اللہ تعالیٰ نے کفایت کا
سامان فرما دیا۔
موجودہ
زمانے میں دعوت جہاد کے پھیلاؤ اور مقبولیت میں اس کتاب کا وافر حصہ شامل ہے۔
حضرت دامت برکاتہم العالیہ نے ہندوستان کی جیل میں بیٹھ کر اس کتاب میں ایسا خون
جگر نچوڑا ہے کہ اس کتاب کی چاشنی روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دنیا کی کتنی ہی
مساجد اور گھروں میںاور محاذوں پر اس کتاب کی باقاعدہ تعلیم جاری ہے اور بے شمار
لوگ اس چشمے سے سیراب ہو کر میدانوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس کتاب کا پشتو
زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔اس کتاب کے شروع میں حضرت نے تعارف اور ایک تحریضی
مقدمہ بھی لکھا ہے۔ اور رنگ و نور کی جلد ۱۳ (مشرب مؤمن) میں بھی
اس کتاب کی تصنیف کے ایمان افروز حالات تحریر فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی
قبولیت و مقبولیت میں مزید اضافہ فرمائے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اس زمانے میں
ہر گھر کی اہم ترین ضرورت ہے۔
٤ یہود
کی چالیس بیماریاں
قرآن
کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی وہ برائیاں اور جرائم تفصیل سے بیان فرمائے ہیں
جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود اور مغضوب ہوئے۔ ادھر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی متنبہ فرما دیا تھا ’’
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الخ‘‘ کہ میرے امتیو! پچھلی امتوں نے جو جو کام
کئے تم بھی ان میں مبتلا ہو گے۔ اس لئے خطرہ موجود ہے اور ضروری ہے کہ ہر مسلمان
مرد و عورت اس خطرے سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔ہندوستان کے تاریک زندانوں میں لکھی
گئی یہ عظیم الشان کتاب بس اسی دعوت کو سموئے ہوئے۔ اس کتاب میں قرآن کریم کی
روشنی میں یہود کے جرائم اور برائیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ان سے بچنے
کے راستے اور حفاظت کی راہیں دکھائی گئی ہیں۔ لیکن یہ کتاب فی الحال نامکمل ہے۔
مطبوعہ نسخہ اس کتاب کی جلد اول ہے اور اس میں چالیس میں سے دس بیماریوں کا تذکرہ
ہے۔ جبکہ باقی تیس بیماریوں پر لکھا جا نا باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم کام کو
اپنی شان کریمی سے جلد مکمل کرا دیں۔ یقیناً یہ امت پر حضرت کا بہت بڑا احسان ہے۔
کتنے ہی بڑے بڑے اکابر اس کتاب کے دیوانے ہیں اور اس کتاب کی تکمیل کے لئے ان کی
طرف سے بار بار اصرار جاری رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ
بند راستے کھول دیں اور حضرت کے قلم مبارک کا رخ جلد اس طرف فرما دیں، تاکہ امت کی
اس تشنگی کا جلد سامان ہو جائے۔ اس کتاب کا انگلش میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
(٥تا ١١) رنگ و نور (۷
جلدیں)
ہفت
روزہ القلم کی روح اور جان، حضرت امیر محترم کے سیال و آبدار قلم سے لکھے گئے
مبارک مضامین، جو ہر ہفتے میں ایک بار القلم کے صفحات اور پڑھنے والوں کے
دلوں پر قوس قزح کے رنگ بکھیرتے تھے۔ ان معطر اور ایمان افروز مضامین کو ۱۴۳۰
ھ میں کتابی شکل میں شائع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور بفضل اللہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
آج الحمد للہ یہ قیمتی اور نایاب ہیرے سب کے سب اپنی اصل شکل میں محفوظ ہو کر
آئندہ نسلوں کے لئےقیمتی ذخیرہ بن چکے ہیں۔ تیرہویں جلد آپ کے ہاتھ میں ہے،
اور ۱۲
جلدیں اس سے پہلے آ چکی ہیں۔ سات جلدوں تک تو یہ کتاب رنگ و نور کے نام سے ہی
شائع ہوتی رہی۔ اس کے بعد ہر جلد کو باقاعدہ الگ نام بھی دیا جا نے لگا۔ سب کتا
بوں کی ترتیب یہ ہے کہ ہر مضمون سے پہلے اس مضمون کا مختصر خلاصہ اور تعارف مع تاریخ
اشاعت الگ صفحہ پر لکھا گیا ہے اور پھر اصل مضمون رکھا گیا ہے۔اس کتاب کی پہلی اور
دوسری جلد میں ۵۳
، ۵۳
مضامین ہیں، تیسری میں ۵۵،
چوتھی میں۵۸،
پانچویں میں ۶۶،
چھٹی میں ۶۲
اور ساتویں میں ۵۵
مضامین۔ اللہ تعالیٰ اسے تادیر امت کے لئے نافع بنائے رکھیں اور اُمت کو انہیں
سرمۂ چشم بنانے کی توفیق عطاء فرمائیں،
اٰمین
سات جلدوں کے بعد اگلی
جلدوں کے کیا کیا نام ہیں ۔ انہیں ذیل میں بالترتیب نقل کیا جا رہا ہے۔
١٢ مقامات
یہ
رنگ ونور کی آٹھویں جلد ہے۔ اس کتاب کے تمام مضامین کے عناوین حرف ’’میم‘‘ سے
شروع ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں کل ۵۰ مضامین ہیں۔
١٣ مائدۃ
الصابر :
یہ
رنگ ونور کی نویں جلد ہے اور اسے حضرت امیر محترم حفظہ اللہ تعالیٰ کے والد گرامی رحمہ اللہ علیہ کے نام نامی سے موسوم کیا گیا ہے اور اس کتاب کا
ثواب بھی انہیں ہدیہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مرقد مبارک کو جنت کا باغ بنائیں، اٰمین۔
اس
کتاب میں کل ۵۲
مضامین ہیں۔
١٤ اذان
عمر
یہ
رنگ ونور کی دسویں جلد ہے اور اسے امیر المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور اس کا ثواب بھی
انہی کو ہدیہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کو ان کے فیوض و برکات میں سے
وافر حصہ عطاء فرمائیں اور پوری اُمت کی طرف سے انہیں بہترین بدلہ عطاء فرمائیں۔
اس کتاب میں کل ۵۵
مضامین ہیں۔
١٥ اُمید
اور استقامت
یہ
رنگ ونور کی گیارہویں جلد ہے اور اس میں بھی کل ۵۵ مضامین ہیں۔
١٦ میدانِ
خالد سیف اللّٰہی
یہ
رنگ ونور کی بارہویں جلد ہے۔ اسے امام المجاہدین حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اس میں کل ۵۷
مضامین ہیں۔
١٧ مشرب
مؤمن
یہ
رنگ ونور کی تیرہویں اور آخری جلد ہے اور اس میں کل ۴۷ مضامین ہیں، ہر مضمون دوسرے سے بڑھ کر ہے۔
واقعتاً یہ کتاب ایک ’’مؤمن ‘‘کے لئے ’’مشرب‘‘ ہے۔
١٨ دروس
جہاد
جہاد
ایک مشکل اور کٹھن عمل ہے۔ جہاد کا ایک علمی پہلو ہے اور دوسرا عملی۔
دونوں پہلوؤں کو زندہ رکھنے کے لئے مسلسل تحریض کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ
جذبۂ جہاد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ اور بڑے بڑے مجاہدین کو بھی دیمک لگ جاتی ہے۔ بس اسی
مقصد کو لے کر یہ کتاب لکھی گئی۔ یہ کتاب در اصل ان سولہ دروس کے خلاصوں کا مجموعہ
ہے جو جہاد کے مختلف موضوعات پر حضرت امیر المجاہدین دامت برکاتم العالیہ نے کوٹ
بھلوال جیل میں قیدی ساتھیوں کو ارشاد فرمائے۔ ان دروس میں جہاد کے بہت سے اہم
گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بہت سے قیمتی نکات اٹھائے گئے ہیں اور اہل علم
کے لئے تحقیق کی بہت سی راہیں کھولی گئی ہیں۔ اور بہت سے فتنوں کا تعاقب کیا
گیا ہے۔ اس کتاب کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا
ہے۔ حضرت مصنف دامت برکاتہم العالیہ نے اس پر ایک مفصل پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ اس
کتاب کا پشتو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
١٩ زاد
مجاہد
جہاد
ایک اجتماعی عمل ہے۔ اور اس عمل کے صحیح معنیٰ میں بارآور ہونے کے لئے
’’جماعت‘‘ ضروری ہے۔ ایسی جماعت جو شرعی ترتیب پر قائم ہو۔ ورنہ بسا اوقات ایسے ایسے
فتنے آتے ہیں جو پوری پوری تحریکوں کا رخ بدل کر رکھ دیتے ہیں، یا پھر
اندرونی طور پر تحریکوں میں ایسی کمزوریاں اور خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو ان کی
محنت کے ضائع ہونے کا سبب بن جاتی ہیں۔ تہاڑ جیل، نئی دہلی میں خون جگر سے
لکھی گئی یہ کتاب مجاہدین کو ’’جماعت‘‘ کا وہ مکمل نقشہ پیش کرتی ہے جس پر کھڑی
ہونے والی جماعت نہ صرف یہ کہ شرعی ترتیب پر آجاتی ہے بلکہ اگر اصولوں کی پاسداری
کی جائے تو ایسی جماعت بن جاتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہاتھ
آجاتا ہے، ان شاء اللہ ۔ اس کتاب میں ایک جہادی جماعت کے خدو خال ، اس کے شعبہ
جات اور ان کے کام کرنے کا طرز الغرض ایک ایک چیز کو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا
ہے۔ کتاب کے آخر میں حضرت امیر المجاہدین دامت برکاتہم العالیہ کے وہ گرانقدر ۱۶
مکتوبات بھی شامل ہیں جو انہوں نے ہندوستان کی جیل سے تحریر فرماکر بھیجے تھے۔ اس
کتاب کا پشتو زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
٢٠
تعلیم الجہاد
جہاد
کی مبادیات، ضروری معلومات اوراکتالیس احادیث مبارکہ پر مشتمل ایک مختصر مگر جامع
و مفید کتاب۔ جو پہلے چار حصوں پر مشتمل تھی پھر بعد میں نظر ثانی اور تصحیح کے
بعد اب تین اجزاء اور ایک ضمیمے پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے کا مواد چونکہ فتح الجواد
میں آگیا اس لئے اب اس کو اشاعت سے خارج کر دیا گیا ہے۔ جہاد کی بنیادی و ضروری
معلومات اور عقیدۂ جہاد کی صحیح بنیادوں پر استواری کے لئے یہ کتاب لاجواب ہے۔ یہ
کتاب دورہ اساسیہ میں سبقاً پڑھائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اس قابل
ہے کہ ہر مدرسہ، اور ہر سکول کے نصاب میں اسے شامل کیا جانا چاہئے اور چھوٹے بچوں
کو بچپن میں ہی یہ کتاب یاد کرا دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو ان نعمتوں
کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ یہ کتاب اردو اور پشتو دو زبانوں میں شائع ہو
رہی ہے۔
٢١
لطف اللطیف جل جلالہٗ
دکھوں
کی ماری انسانیت اور مصائب کی شکار مخلوق کے لئے ایک شاہکار تحفہ۔ مسنون و مجرب
قرآنی وظائف کا انمول مجموعہ۔ جس میں اسم اعظم پر ایمان افروز بحث کی گئی ہے، حل
مشکلات کے تیر بہدف وظائف بتائیے گئے ہیں، جادو، آسیب کا توڑ دیا گیا ہے، دشمنوں
سے حفاظت، روحانی و جسمانی امراض کے علاج، روزی میں برکت کے مجربات دلنشین
انداز میں بیان کئے گئے ہیں ۔ نیز اللہ الصمد کے فوائد، قید سے رہائی کے نسخے اور
مبارک دعاؤں کا ضمیمہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ یہ کتاب کن حالات میں ، کیسے اور کیوں
لکھی گئی ؟ یہ سب حضرت مصنف دامت برکاتہم العالیہ نے خود اس کتاب میں بیان کر دیا
ہے۔یہ کتاب کتنی اہم اور مفید ہے؟ اس کا صحیح اندازہ تو اسے پڑھ کر اور عمل میں لا
کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ کچھ اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ
کتاب ۱۴۲۴
ھ مطابق 2004 میں پہلی بار شائع ہوئی ۔اس وقت سے لے کر اب تک اس کتاب کی پینتالیس
اشاعتیں ہو چکی ہیںاور ان اشاعتوں میں سوا لاکھ کے قریب نسخے چھپ کر امت کے ہاتھوں
میں پہنچ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی قبولیت اور نافعیت میں مزید برکت
عطاء فرمائیں اور اسے اسی طرح دکھی انسانیت کے زخموں کا مرہم بنائے رکھیں، اٰمین
اس کتاب کا پشتو ترجمہ بھی
ہو چکا ہے۔
٢٢
تحفۂ سعادت
قرآن
کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ لِلہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی
فَادْعُوْہُ بِھَا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے پیارے پیارے ناموں کے ساتھ پکارو۔
معلوم ہوا کہ اسماء الحسنٰی اللہ تعالیٰ سے منوانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اور کیوں
نہ ہوں آخر اسماء ہیں کس کے؟ رب العٰلمین کے، رب السمٰوات و الارض و رب
العرش العظیم کے۔ ارے! جن کے ارادے پر سارے جہان قائم ہیں ان کے مبارک ناموں میں کتنی
تاثیر ہو گی اور کتنی طاقت، کتنی رحمت ہو گی اور کتنی برکت، کتنی چاشنی ہو گی اور
کتنی ٹھنڈک۔ پھر یہ در بدر کی ٹھوکریں کیوں؟ پھر یہ غیر اللہ کو سجدے کیوں؟ پھر یہ
مخلوق کے سامنے پھیلے ہاتھ کیوں؟ بس یہی درد اور یہی پیغامِ حیات لئے اللہ تعالیٰ
کے پیارے پیارے ناموں پر مشتمل یہ خوبصورت اور دلنشین باغ واقعی اسم با مسمٰی ہے ۔
جی ہاں! تحفۂ سعادت، واقعی تحفۂ سعادت۔ اس باغ میں جگہ جگہ اسماء الحسنٰی کی
بہاریں ہیں اور ان کے خواص و فوائد کی آبشاریں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مصنف دامت
برکاتہم کو امت کی طرف سے بہترین بدلہ عطاء فرمائے، جنہوں نے امت کویہ عظیم تحفہ دیا۔
اس کتاب کے شروع میں حضرت نے دس اہم اور مفید ہدایات بھی تحریر فرمائی ہیں۔ لگ بھگ
دو سو صفحات کی اس کتاب کا پشتو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
٢٣
مناجات صابری
’’اوراد و مشاغل کا ذوق رکھنے والوں کو دیکھا کہ کئی کئی کتابیں
اور کتابچے اپنےساتھ رکھتے ہیں… قرآنی سورتوں کے الگ، دعاؤں کے الگ، اور درود شریف
کے الگ اور عملیات کے الگ… میں نے خود کئی بزرگوں کو دیکھا ہے کہ رومال میں
آٹھ دس رسالے اور کتابچے باندھے سفر کرتے تھے… اب ان شاء اللہ ایسے افراد کے لئے
سہولت ہو جائے گی کہ وہ ایک کتاب ’’مناجات صابری‘‘ ساتھ رکھیں اور ہر طرح کے اوراد
و وظائف سے مستفید ہوں۔‘‘
مناجات
صابری کے تعارف کا یہ اقتباس اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ یہ کتاب کیا ہے؟ اور اس میں کیا سوغات امت کو پیش
کی گئی ہے؟ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ذرا اس فہرست پر نظر ڈال لیجئے:
پہلا
باب :
حصہ
اوّل: قرآن کریم کی روز مرہ پڑھی جانے والی چودہ سورتیں مع فضائل ……
حصہ
دوم: کچھ متفرق سورتوں کے فضائل …
حصہ
سوم: متفرق آیات قرآنیہ کے مسنون فضائل، احادیث طیبہ کی روشنی میں …
دوسرا
باب :
حصہ
اوّل: مختلف اوقات و احوال کی مسنون کی دعائیں …
حصہ
دوم: دعاء کے فضائل، آداب، قبولیت کے اوقات و مقامات ،تاثیرات اور ۹۸
مسنون دعائیں اور آخر میں ذکر کے فضائل …
تیسرا
باب :
مجموعۂ
الحزب الاعظم و مناجات مقبول۔ حضرت ملا علی القاری رحمہ اللہ علیہ کی الحزب الاعظم اور حضرت حکیم الامت تھانوی
رحمہ اللہ علیہ کی مناجات مقبول کی
دعاؤں پر مشتمل ایک جامع مجموعہ ۔ جسے سات منزلوں پر تقسیم کیا گیا ہے ۔
چوتھا
باب :
استغفارکا ایک مبارک
مجموعہ ، جس میں استغفارکے فضائل اور سو صیغے جمع کئے گئے ہیں۔
پانچواں
باب :
اس
باب میں حزب البحر اور اوراد فتحیہ مع خواص جلوہ گر ہیں۔
چھٹا
باب :
اس
باب میں درودو سلام کی برسات ہے۔ درود و سلام کے فضائل، احکام، چالیس مسنون صیغے
اور دو مبارک مجموعات (۱) دلائل
الخیرات (۲) ذریعۃ
الوصول الیٰ جناب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
ساتواں
باب :
’’مجربات قرآنی‘‘ کا حسین مجموعہ
آٹھواں
باب :
تحفۂ
ولی اللّٰہی اور مفید و مجرب عملیات و دعائیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کے مجرب عملیات اور دیگر مفید عملیات و ادعیہ کا
خوبصورت گلدستہ
نواں
باب:
ادعیہ
و وظائف رنگ و نور۔ رنگ و نور میں بیان کردہ وظائف و ادعیہ پر مشتمل مفید عام
مجموعہ
دسواں باب
:
اسماء الحسنیٰ
کے فوائد و خواص
گیارہواں باب
:
یہ
باب ’’چہل حدیث جہاد‘‘ اور وظیفہ ’’اسماء بدریین‘‘ پر مشتمل ہے
بارہواں
باب:
بہت
عجیب باب۔ مختصر مختصر الفاظ میں دین اسلام کا خلاصہ۔ اسلامی عقائد، احکامات،
فرائض اور وہ بنیادی معلومات جن کا سیکھنا ایک مسلمان پر فرض ہے
تیرہواں
باب :
محترم
ابا جی حضرت الحاج اللہ بخش صابر صاحب رحمہ اللہ علیہ کے بارے میں تین اہم مضامین
ما
شاء اللہ کوئی ایسی چیز نہیںجو چھوڑی گئی ہو۔ ایک مسلمان کو روز و شب کے اوراد و
معمولات اور حوائج و ضروریات کے لئے درکار وظائف و عملیات یکجا مل جائیں، او وہ بھی
انتہائی دیدہ زیب انداز میں تو پھر اس کو اور کیا چاہیے؟ بس یہ ہے اس کتاب کا لب
لباب اور خلاصہ … ۹۶۰
صفحات پر مشتمل یہ کتاب یقیناً ایک در ثمین ہے۔
٢٤ مبارک
مناجات
’’مبارک مناجات‘‘ سبحان اللہ! نام پڑھ کر ہی نشہ چڑھنا شروع ہوجاتا
ہے ، جی ہاں ! پیارے رب سے مناجات کا نشہ، میٹھا نشہ،لذیذ نشہ، شرابا طہورا سے زیادہ
پاکیزہ اور معطر نشہ، اور اگر وہ مناجات ہوں بھی ’’برکات‘‘ کا خزینہ تو پھر سرمستی
کے کیا کہنے؟
آیات ’’لا الٰہ الا‘‘ آیات
تسبیح،آیات حمد اور آیات استغفار کا خوبصورت گلدستہ
لَا
الٰہ الا اللہ سب سے پاکیزہ اور سب سے بڑا کلمہ، وجود عالم اور بقائےعالم کاراز
کلمہ، جنت کی چابی کلمہ اور سب سے افضل ذکر کلمہ۔’’ تسبیح‘‘ ہر مخلوق کا وظیفہ ،
تسبیح اللہ تعالیٰ کا مؤکد حکم ، تسبیح رزق کی چابی، تسبیح محبوب عبادت۔’’ حمد‘‘
سب سے افضل دعاء، حمد شکر کا خزانہ، حمداللہ تعالیٰ کے سب سے اونچے کلام کا آغاز،
حمد جس کے بغیر ہر عبادت ادھوری۔ اور استغفار، جی ہاں! گناہگاروں کے لئے سب سے
افضل دعاء، گناہوں کو بخشوانے کا مضبوط ذریعہ، اظہار عبدیت کا خوبصورت انداز ،
استغفار وہ پیاری عبادت جو کائنات کی سب سے افضل اور سب سے پاک ہستی ہر مجلس میں
ستر ستر بار کیا کرتی تھی۔یہ چار خوبصورت موتی اس کتابچے کا موضوع ہیں۔ اس کتابچے
میں ان چارسُچے موتیوں کی آیات کو جمع کیا گیا ہے اور ہر ایک کی آیات کی الگ
مجلس بنائی گئی ہے۔اور چونکہ یہ سب اوراد ’’قرآنی‘‘ ہیں تو ان کی تاثیر، اہمیت
اور چاشنی دو آتشہ ہی نہیں کئی گنا ہو گئی ہے۔ بظاہر یہ چھوٹانظر آنے والا
کتابچہ حقیقت میں ایک ’’سر مکتوم‘‘ ہے۔ اگر لوگوں کو اس کی قدر معلوم ہو جائے تو
ان کا کوئی دن اس کے ورد سے خالی نہ جائے ۔ حضرت مصنف دامت برکاتہم نے اس کتابچے
پر مختصر تعارف بھی تحریر فرمایا ہے۔
٢٥ الیٰ
مغفرۃ
حضرت
امیر المجاہدین دامت برکاتہم العالیہ کی شہرۂ آفاق کتا بوں میں سے ایک اہم کتاب۔
دکھی دلوں کے لئے مرہم، مایوسیوں کی دلدل میں پھنسے ہوؤں کے لئے امید، ظلم و
جہالت اور محرومیوں کے شکار لوگوں کے لئے روشنی کی کرن، گناہگاروں کا سہارا ،
بندوں کو ان کے رب سے جوڑنے کا ذریعہ، مصیبتوں، تکلیفوں، غموں اور پریشانیوں کا
علاج… جی ہاں! یہ کتاب اس موضوع پر لکھی گئی ہے جس کے بارے ارشاد ہوا :
مَنْ
لَزِمِ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَ مِنْ
کُلِّ ضِیْقٍ مَّخْرَجًا وَ رَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ۔
’’جس نے استغفار کو لازم پکڑا اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات، ہر
تنگی سے نکلنے کا راستہ اور بے گمان رزق عطاء فرمائیں گے۔‘‘ [سنن ابن ماجہ۔ ۳۳۱۹]
استغفار
کے معانی و مطالب، توبہ کے مفاہیم، استغفار کے فضائل، فوائد، معارف اور نکات کا ایک
حسین انسائیکلوپیڈیا۔ یہ خوبصورت کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں آیات
استغفار مع تشریح کا خوبصورت گلدستہ ہے اور دوسرے حصے میں احادیث استغفار اور دیگر
متفرق معارفِ استغفار وادعیۂ استغفار کی آبشاریں ہیں۔ اس کتاب کا انگلش میں ترجمہ
بھی ہو چکا ہے۔
٢٦ سات
دن روشنی کے جزیرے پر
یہ دلنشین
کتاب اپنے نام کی طرح واقعتاً روشنی کا ایک خوبصورت جزیرہ ہے۔ جماعت کے اصلاحی
نظام ’’دورۂ تربیہ‘‘ کے چالیس اعمال کا مفصل تعارف اور فضائل اور کچھ اہم ہدایات
اس کتاب کا موضوع ہے۔ یہ کتاب کیسی ہے؟ حقیقت ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا
جاسکتا۔ حضرت مصنف دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے مبارک قلم سے اس کتاب کا جامع اور
بصیرت افروز تعارف تحریر فرمایا ہے، جو کتاب کے بالکل شروع میں ہے ۔
٢٧
افضل ایام الدنیا
حدیث
مبارکہ میںعشرۂ ذوالحجہ کے دنوں کو ’’افضل ایام الدنیا ‘‘ یعنی دنیا کے افضل
ترین دن قرار دیا گیا ہے اور ان دنوں کے حیراں کن فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
یہ کتاب امت کو انہی دنوں سے جوڑنے کی مناد ہے۔ اس کتاب کے تین باب ہیں۔ پہلا باب
عشرہ ذوالحجہ کے فضائل، مناقب، احکام و اسرار اور اس عشرہ کو پانے کے نصاب و ترغیبات
پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں حج و عمرہ کے فضائل اور احکام و معارف بیان کئے گئے ہیں
جبکہ تیسرے باب میں قربانی کے فضائل و مسائل اور حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ عشرہ
ذی الحجہ نامی کتابچہ بھی اب اس کتاب کا حصہ ہے۔
٢٨ شہر
رمضان
رمضان
المبارک کے مقام ، فضائل، اعمال، برکات، خصوصیات، کیفیات ، ترغیبات اور رمضان
المبارک کو پانے اور کمانے کے لاجواب نسخے۔ ان سب سوغاتوں پر مشتمل ایک خوبصورت
گلدستہ ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر لاجواب تحفہ ہے۔ رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے
لئے اس کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔ رمضان المبارک کے ایام میں ملک بھر کی بہت سی
مساجد اور گھروں میں اس کتاب کی باقاعدہ تعلیم کرائی جاتی ہے۔
٢٩ آزادی
مکمل یا ادھوری؟
کوٹ
بھلوال كجیل کے ایک سیل میں لکھی گئی یہ کتاب بظاہر دیکھنے میں چھوٹی سی ہے،
مگر حقیقت میں کئی کئی جلدوں کی ضخیم کتابوں پر بھاری ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی
جہاندیدہ شخصیت کی کتاب ہے جس کا دل امت کے غم میں تڑپتا ہے، اور ہمیشہ امت
کے اتحاد، طاقت اور عروج کا خواب دیکھتا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی آنکھیں اسلام
اور اہل اسلام کی ترقی و فلاح کے علاوہ کوئی خواب نہ دیکھتی ہوں اور پھر کتاب لکھی
بھی ایسی حالت میں گئی ہو کہ تنگ و تاریک سیلوں میں ظلم و جبر کی داستانیں رقم کی
جارہی ہوں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسی کتاب کیسے خزانوں کا مجموعہ ہو گی۔
اور ہاں! یہ کتاب ہر اس شخص کے لئے بھی جلاء البصراور روشنی کا استعارہ ہے جو
مصنف دامت برکاتہم کی طرح امت کے اتحاد و سربلندی کا خواہاں ہو۔ اس کتاب میں
انگریز اور اس کے غلاموں کی حقیقت آشکارا کی گئی ہے اور مدارس دینیہ، تبلیغی
جماعت ، خانقاہوں اور علماء و طلباء کا روشن کردار واضح کیا گیا ہے۔ دینی مدارس کے
طلباء کرام کو دعوت عمل بھی دی گئی ہے اور بہت سے رازوں سے پردہ بھی اٹھایا گیا
ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطب تو دینی مدارس کے طلباء کرام ہیں، لیکن یہ کتاب ہر خاص و
عام کے لئے مفید اور راہ نما ہے۔ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کے ایک مضمون پر حضرت مصنف دامت
برکاتہم العالیہ کو آٹھ بار شاباش سے نوازا۔ حضرت مصنف دامت برکاتہم العالیہ نے
اس کتاب کا مفصل تعارف بھی تحریر فرمایا ہے۔
٣٠ روزن
زنداں سے
یہ
کتاب بھی حضرت امیر محترم دامت برکاتہم کی ان کتب میں سے ہے جو ہندوستان کی جیلوں
میں لکھی گئیں۔ اس کتاب کا بنیادی اور اکثری مواد تو تہاڑ جیل دہلی کا ہے ، البتہ
کچھ مواد ہندوستان سے رہائی کے بعد کا بھی ہے جسے بعد میں شامل کر لیا گیا ۔اس
کتاب کی ترتیب درج ذیل ہے۔
پہلاباب : ’’سوز دروں‘‘
اس
باب میں وہ ۵۳
مضامین ہیں جو حضرت نے تہاڑ جیل دہلی میں مختلف موضوعات پر تحریر فرمائے۔
دوسرا
باب: نوائے دل
اس
باب میں وہ بارہ(۱۲) ایمان
افروز بیانات ہیں جو حضرت نے جیل میں قیدی ساتھیوں کو مختلف موضوعات پر ارشاد
فرمائے۔
تیسرا
باب: افکار دلپذیر
اس
باب میں دواہم انٹر ویو ہیں ۔
چوتھا
باب: نوشتہ ٔ اسیر
اس
باب میں ۱۳
گرانقدر خطوط ہیں۔ان میں سے کچھ خطوط تو جیل سے لکھے گئے ، اور کچھ رہائی کے
بعد کے ہیں، جن میں جماعت کے احباب و کارکنان کو اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ کتاب
اب شائع نہیں ہو رہی۔
٣١
مسکراتے زخم
اس
کتاب کا نام ہی اس کے تعارف کے لئے کافی ہے۔ ہندوستان کے عقوبت خانوں اور ٹارچر سینٹروں
کے دلدوز حالات و واقعات پر مشتمل ایک ایمان افروز کتاب۔اسیران اسلام کا درد بانٹتی
ایک درد بھری کتاب۔ مکار دشمن کےپردے چاک کرتی ایک چشم کشا کتاب۔ مایوسیوں کے اندھیروں
میں امید کا چراغ روشن کرتی ایک چمکتی کتاب۔ اس کتاب میں سفر ہندوستان، اس سفر کے
اغراض و مقاصد اور پیش آمدہ حالات و واقعات اور پھر گرفتاری، قید اور ٹارچر سینٹروں
و عقوبت خانوں کے حالات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ ایک ہنساتی، رلاتی اور بہت سے
حقائق سے پردہ اٹھاتی عجیب داستان۔ جس نے بھی پڑھا اس کے دل کے تار ہلا دئیے اور
عزائم میں طوفان اٹھا دیا۔ یہ کتاب دراصل ان ۳۲ مضامین کا
مجموعہ ہے جو پندرہ روزہ ’’جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں ’’چاک قفس
سے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ۔ کتاب کے آخر میں ۴۴ سوالات پر مشتمل
حضرت کا ایک مفصل انٹرویو بھی ہے جو پندرہ روزہ ’’جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
نے کیا تھا اور اسی میں شائع بھی ہوا تھا۔
٣٢ دل کی لگی
ایمان افروز اور نظریات
ساز مضامین پر مشتمل اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ کا عنوان ہے ’’درویش کے قلم
سے‘‘ اس حصہ میں وہ پچیس مضامین ہیں جو ایام نظر بندی میں اسی قلمی نام سے ایک
روزنامہ میں شائع ہوئے تھے اور دوسرا حصہ ’’میانوالی جیل سے‘‘ کے نام سے
موسوم ہے۔ اس حصہ میں وہ مضامین ہیں جو میانوالی جیل میں لکھے گئے تھے۔
پابندیوں،
سختیوں، بد عہدیوں اور مشقتوں کے ایام میں لکھے گئے یہ مضامین ایک سے بڑھ کر ایک
شاہکار ہیں، کہیں تو قارئین کو بلااختیار ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں ا ورکہیں
آنکھوں کو آنسوؤں کا غسل دے دیتے ہیں، کہیں سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہیں تو کہیں
سازشیوں کو آئینہ دکھاتے ہیں، کہیں اغیار کو للکارتے ہیں تو کہیں اپنوں کی ڈھارس
بندھاتے ہیں۔ دل لگی کا سامان لئے ہوئے دل کی لگی بھی خوب سناتے ہیں ۔حضرت نے اس
کتاب کا تعارف بھی لکھا ہے، جو ایک الگ د نیا اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پوری کتاب
ایک طرف اور تعارف ایک طرف۔ یہ تعارف غیرت ایمانی، حمیت ایمانی اور جرأت واستقامت
کا ایک باب ہے۔ یہ حسین گلدستہ تقریباً ۲۸۰ صفحات پر مشتمل
ہے۔
٣٣ سراغ
حقیقت
’’اس کتاب کا نام ’’سراغ حقیقت‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔
اس کتاب میں جن ’’حقائق‘‘ کا سراغ ملتا ہے وہ بہت سارے ہیں، مثلاً قرآن پاک
میں آیات جہاد کتنی اور کون کون سی ہیں؟… طالبان تحریک کامیاب یا ناکام؟… گیارہ
ستمبر 2001 کی چیخیں کن چیخوں کی بازگشت تھیں؟… افغانستان کا مستقبل کیا نظر آ
رہا ہے؟… پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر کے کیا کھویا اور کیا پایا؟…
قادیانی فتنہ جہاد کا منکر کیوں ہے؟… ختم نبوت اور جہاد کا التزام کس طرح سے
ہے؟… قادیانیت کا خلاصہ انکار جہاد کیونکر؟…
دہشتگردی کے خلاف جنگ کرنے والوں کے اصل مقاصد کیا ہیں؟… کیا مسلمان موجودہ
حالات میں ہتھیار ڈال دیں؟… امارت اسلامیہ کا سقوط کیوں اور کیسے؟… ملحدین کی
چالبازیاں… اور جہاد کے مخالفین کی اصل حقیقت کا بیان۔‘‘
کتاب
کا یہ تعارف خود مصنف دامت برکاتہم العالیہ کا تحریر فرمودہ ہے۔ ایسی خوبصورت کتاب
اور ایسے حقائق سے محروم رہنا یقیناً خسارہ ہی ہے۔ اس نعمت کو حاصل کیجیے اور
آنکھوں کی بصیرت بنائیے۔
٣٤
معرکہ
یہ
کتاب حضرت امیر المجاہدین دامت برکاتہم العالیہ کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ہفت
روزہ ضرب مؤمن میں ’’معرکہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتے رہے۔ یقیناً یہ بھی ایک
قیمتی خزانہ ہے۔ یہ کتاب اب کافی عرصہ سے شائع نہیں ہو رہی۔
٣٥
مجاہد کی اذاں
یہ
کتاب حضرت امیر محترم دامت برکاتہم کے ان رشحات قلم کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ صدائے
مجاہد میں اداریوں، تجزیوں اور مضامین کی شکل میں شائع ہوئے ۔ بعد میں انہیں جمع
کر کے کتابی شکل دے دی گئی۔ اس کتاب کی دو جلدیں ہیں۔ پہلی جلد ۳۱۱
صفحات اور دوسری جلد ۳۲۸
صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اب شائع نہیں ہو رہی۔
٣٦
رسائل جہاد
دس اجزاء اور ۲۳۲
صفحات کی یہ کتاب حضرت امیر محترم دامت برکاتہم العالیہ کے حالات زندگی، نو اہم
رسائل اور ’’متفرقات‘‘ کے نام سے حضرت والا کے بارے مختلف اہل دل و اہل قلم کی تحریرات
کا مجموعہ ہے، وہ تحریرات جو ہندوستان کے ہاتھوں حضرت کی گرفتاری کے پس منظر میں
لکھی گئیں۔ اس کتاب کے مرتب حضرت مولانا طاہر حمید صاحب نے عرض مرتب میں حضرت کے
کچھ احوال اور کچھ کتب کا تعاف لکھا ہےجبکہ ’’آئینۂ کردار‘‘ کے نام سے محترم
سلطان محمود ضیاء صاحب نے حضرت امیر محترم دامت برکاتہم العالیہ کے کچھ حالات زندگی
تحریر فرمائے ہیں۔ کتاب میں شامل نو رسائل کے نام درج ذیل ہیں:
١ جہاد
ایک محکم فریضہ
٢ جہاد رحمت یا فساد؟
٣
مسلمانوں کو ایک چیلنج
٤ بنیاد
پرستی
٥ میرا
بھی ایک سوال ہے
٦ اسلام
اور جہاد کی تیاری
٧ اللہ
والے
٨
تعلیم الجہاد
٩ بابری مسجد
یہ
کتاب پہلے اسی نام اور اسی ترتیب سے شائع ہوتی تھی، اب ’’دس خزانے‘‘ کے نام
سے شائع ہو رہی ہے البتہ اس میں کچھ تبدیلیاں کی
گئی ہیں۔
٣٧ دس
خزانے
یہ
کتاب بنیادی طور پر تو انہی رسائل کا مجموعہ ہے جو ’’رسائل جہاد‘‘ کا حصہ ہیں ۔
آپ اسے ’’رسائل جہاد‘‘ کی شکل نو بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں کافی
فرق بھی ہے۔ ’’رسائل جہاد‘‘ میں حضرت امیر المجاہدین دامت برکاتہم العالیہ کی
سوانح اور حالات پر بہت سا مواد تھا، دس خزانے میں حضرت نے وہ سب حذف کرا دیا ہے۔
ایسے ہی تعلیم الجہاد نئی ترتیب کے ساتھ اب چونکہ الگ شائع ہو رہی ہے اس لئے اسے
بھی حذف کر دیا گیا ہے۔ اور دو نئے رسائل کا اضافہ کیا گیا ہے، جن کے نام یہ ہیں:
١ عمومی
عذاب
٢ جواہر
پارے
یوں
کل دس قیمتی رسائل کا یہ مجموعہ تیار ہو گیا۔ اس کتاب کے بعض مضامین پر حضرات
اکابر کی گرانقدر آراء بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب عرصہ دراز سے تسلسل کے ساتھ شائع
ہو کر ہزارہا لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب کا باعث بن رہی ہے، و الحمد للہ ۔ اس
کتاب کا پشتو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
٣٨
خطبات جہاد
یہ
حضرت امیرالمجاہدین دامت برکاتہم العالیہ کے ایمان افروزاور پر مغز خطبات کا
مجموعہ ہے۔، جنہیں کیسٹوں سے تحریر کی شکل میں ڈھالا گیا ہے۔ اس کتاب کی دو
جلدیں ہیں اور ہر جلد کے دو حصے۔ یوں کتاب کل چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے
دونوں حصوں میں سات سات، تیسرے میں دس اور چوتھے حصے میں بارہ خطبات ہیں۔ اس کتاب
پر حضرت اقدس مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ علیہ کی گرانقدر تقریظ بھی ہے۔
٣٩
جمال جمیل
ایک
’’کامیاب انسان‘‘ کی داستان حیات، ایک کوہ گراں کی زندگی کے نقوش، ایک بلند و
عالی ہمت شخص کے نقوش پا، ایک عظیم انسان کے اخلاق و کردار کا تذکرہ، ایک روشن
ستارے کی کرنیں، ایک تاریخ ساز شخصیت کی جھلک، جی ہاں! حضرت امیر المجاہدین
کے محبوب استاد اور علماءو اکابر کے منظور نظر حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان
صاحب شہید رحمہ اللہ علیہ کی سوانح حیات اور دو خطبات پر مشتمل ایک خوبصورت
کتاب ۔ جو پچھلوں کے لئے اپنے اندر بہت سے اسباق سموئے ہوئی ہے۔
٤٠
اے مسلمان بہن!
یہ
کتاب ماہنامہ بنات عائشہ رضی اللہ عنہا کےان اداریوں اور مضامین کا مجموعہ ہے جو
حضرت کے نورانی قلم سے معرض تحریر میں آئے۔ اس کتاب اور اس کے مضامین میں
مسلمان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو ان کی اصل ذمہ داریوں سے روشناس کرایا گیا ہے
اور انہیں حضرت خولہ و حضرت خنساء رضی
اللہ تعالی عنہا کی سیرت اپنانے کی ترغیب
دی گئی ہے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں اپنا بھر پور حصہ ملانے کی ترغیب دی گئی
ہے۔ یقیناً یہ کتاب ہر گھر کی زینت اور ہر مسلمان خاتون کی لازمی ضرورت ہے۔ اس
کتاب کا انگلش ترجمہ بھی کافی عرصہ سے شائع ہو رہا ہے۔
٤١ تحفہ
ذی الحجہ
عشرہ
ذوالحجہ اور قربانی کے مسائل و معارف پرمشتمل یہ چھوٹا سا کتابچہ بہت مفید اور
جامع ہے۔ عرصہ دراز تک یہ اپنے موضوع پر امت کی وافر راہنمائی کا ذریعہ بنا رہا۔
اب اسے ’’افضل ایام الدنیا‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
٤٢ سورۃ
الفاتحہ
سورۃ
الفاتحہ کے فضائل، معارف اور خواص پر مشتمل ایک مختصر مگر مفید عام کتابچہ، جو
ہزارہا لوگوں کی نفع رسانی کاسبب بن چکا ہے۔ بالخصوص اس میں بیان کردہ ’’ورد
السعادۃ‘‘ تو ہر محروم و شکست خوردہ کی دواء ہے۔
٤٣ آیۃ
الکرسی
آیۃ
الکرسی کے فضائل و معار ف اور خواص پر مشتمل توحید کا ایسا جام، جس کا نشہ ایک بار
چڑھ جائے تو دل و دماغ کو مسحور کر جائے، اور دل کو کتنی ہی غلاظتوں اور کمزوریوں
سے پاک کر جائے۔ یہ کتابچہ انتہائی قلیل مدت میں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو چکا
ہے۔
٤٤ استخارہ
تکبر،
عجب ، تشتت آراء، خود غرضی، خود رائی اور فتنوں کے زمانے میں ایک ٹھنڈا سائبان۔
آپ کو جو بھی چھوٹا یا بڑا مسئلہ ہو اپنے رب کے حضور پیش کر کے راہنمائی مانگ لیں۔
بس یہی استخارہ ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ ایسے سکھاتے تھے جیسے قرآن کریم کی
آیات۔ استخارہ کے معانی و مفاہیم، حقیقت وطریقہ اور فضائل و فوائد پر مشتمل ایک
جامع کتابچہ ۔ یہ کتابچہ اشاعت کی دنیا میں ریکارڈ قائم کر چکا ہے، بلامبالغہ
لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے اس کتابچے نے استخارے کے بارے میں امت کی صحیح
راہنمائی کا حق اداء کیا ہے اور استخارہ کے نام پر پھیلی بدعات و رسومات کی حقیقت
سے پردہ اٹھایا ہے۔ کتنے ہی لوگوںنے اس کتابچے کا جام پیا اور پھر استخارہ کے ذریعے
اللہ تعالیٰ کا قرب پا گئے۔ یہ اپنی جگہ ایک ایمان افروزداستان ہے۔
٤٥ الحجامہ
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ کو سب سے افضل اور بہترین علاج قرار دیا۔
حجامہ کی فضیلت، ترغیب، احادیث اور ہدایات پر مشتمل ایک مفید کتاب ۔ جسے پڑھنے کے
بعد اس موضوع پر کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔اور طبی دہشتگردی کے اس دور میں انسانیت
کو سنت کی میٹھی اور ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوتی ہے۔ حجامہ کو سمجھنے اور پانے کے لئے یہ
کتاب یقیناً یہ ایک عظیم نعمت ہے۔
٤٦
مقام عافیت
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان و یقین کے بعد ’’عافیت‘‘ کو سب سے بڑی
نعمت قرار دیا۔ عافیت کیا ہے؟ عافیت کے معانی و مفاہیم کیا ہیں؟ عافیت کے فضائل
اور فوائد کیا ہیں؟ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نےکس کس انداز سے عافیت مانگنے کی ترغیب ارشاد
فرمائی ہے؟ اور اس کے لئے کون کون سی دعائیں تلقین فرمائی ہیں؟ ان سب سوالوں کے
شافی جواب کے لئے یہ کتاب بہترین تحفہ ہے۔آفات، بلیات، حوادثات اور وباؤں کے اس
زمانے میں یہ کتاب ایک محفوظ قلعہ ہے۔
٤٧
معمولات یومیہ
ایک
مختصر مگر جامع کتابچہ۔ جس میں ایک مسلمان کی روز مرہ کی روحانی ضروریات کا وسیع
خزانہ موجود ہے۔ اس کتابچے میں کیا کچھ ہے؟ ذرا ایک نظر اس فہرست پر ڈال لیجئے:
١ قرآنی
سورتیں…سورۂ یٰس، سورۂ واقعہ، سورۂ ملک اور سورۂ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات
اور ان کے فضائل
٢ منزل…
مشہور قرآنی وظیفہ ’’منزل‘‘ اور اس کے فضائل و خواص
٣ اوراد
فتحیہ…مسنون ادعیہ پر مشتمل مقبول وظیفہ جو صدیوں سے مسلمانوں کے ورد زبان ہے اور
اس کا قدرے تعارف
٤ نماز
اور نماز جنازہ کا طریقہ
٥
معمولات مجاہد… اصلاحی بیعت میںشامل ہونے والے حضرات و خواتین کوحضرت امیر محترم کی
طرف سے تلقین کئے جانے والے معمولات
٦ دورہ
تربیہ کے چالیس معمولات کی مختصر فہرست
٧
الاستغفار…استغفار کے چھ مسنون صیغے اور ان کے فضائل
٨ الصلوٰۃ
والسلام… قرآن و سنت سے ثابت درود و سلام کے کئی صیغےاور ان کے فضائل
٩ الاذکار
المسنونہ… صبح شام کی مسنون دعائیں، نماز کے بعد کے مسنون اذکار
٢٠ جہادی
اذکار…جہاد کے مختلف مراحل کی مسنون دعائیں، استخارہ کی دعاءاور دیگر اوقات و
مقامات کی مسنون و مستند دعائیں
یہ
سب کچھ اس کتابچے میں جمع ہے۔ یقیناً یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
٤٨ ایمانی
ہمسفر
مسنون
دعاؤں، چہل حدیثِ جہاد ، نماز اور درود شریف کے فضائل و صیغہ جات پر مشتمل ایک
نورانی ہمسفر۔ یہ کتابچہ اب شائع نہیں ہوتا۔
٤٩ اذانِ
حج
حج
و عمرہ کے فضائل، معارف ، طریقہ، اہم اہم مسائل اور ترغیبات کا مرقع۔ یہ کتاب
تاحال زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوئی۔
٥٠
حکمت اور عقل کی باتیں
انفاق
فی سبیل اللہ کے فضائل، ترغیبات اور چند قیمتی نکات پر مشتمل ایک چھوٹا سا کتابچہ۔
جو اپنے موضوع پر بے حد مفید ہے۔
انگلش کتب
حضرت
امیر محترم دامت برکاتہم العالیہ کی بعض کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا
ہے۔ جن کے نام یہ ہیں:
١ فتح
الجواد … جلد۱،
۲،
۳
٢ یہود
کی چالیس بیماریاں
٣ الیٰ
مغفرۃ
٤ اے
مسلمان بہن!
اور
ان کتابوں کے انگریزی ترجمے پر کام چل رہا ہے:
١ فضائل
جہاد کامل
٢ شہر
رمضان
حضرت
کی بہت سی کتب او ر رسائل یورپ و ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں،
فللہ الحمد و المنۃ۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مے خانہ کو اسی طرح
آباد و شاد رکھیں، اس میں مزید برکتیں اور وسعتیں عطاء فرمائیں، اور امت کو
بھی اس مے خانے کی خوب خوب قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں، آمین بجاہ سید الانبیاء
و المرسلین
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ
صَلوٰۃً
دَائِمَۃً مَّقْبُوْلَۃً تُؤَدِّیْ بِھَا عَنَّا حَقَّہُ الْعَظِیْمَ وَ بَارِکْ
وَ
سَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
محمد
عبید الرحمٰن
۹ ذوالقعدہ ۱۴۴۱
ھ
29 جون 2020
لیلۃ
الثلاثاء
٭٭٭
جب
حسن و محبت مل کے بہم سرشار و غزل خواں ہوتے ہیں
فطرت
کو بھی حال آجاتا ہے نظارے بھی رقصاں ہوتے ہیں
باطل
کی ہو کتنی ہی طاقت باطل کی اطاعت کیا معنٰی؟
ایماں
پہ فدا ہو جاتے ہیں جو صاحبِ ایماں ہوتے ہیں
مَشْرَبِ مُؤمِن
مصنف
مولانا
محمد مسعود ازہر
اعداد
و تقدیم
دار
البیان
ناشر
مکتبہ
عرفان لاہور
محبوب
کی چاہت
* ایک مؤمن کےلیے ہمیشہ کی حیات
اور کامیابی کا راز کیاہے؟
* ایک مسلمان کےلیے ترقی اور
بلندی کا آخری مقام کیا ہے؟
جواب
ہے :
’’مقام شہادت‘‘ جی ہاں! ’’مقام شہادت‘‘ کیونکہ یہ محبوب صلی اللہ
علیہ وسلم کی چاہت اور دل کی مانگ ہے…
*’’مقام شہادت‘‘ کی عظمت و بلندی کو سمجھانے
کےلیے ایک انمول حدیث مبارک کی الہامی ، چشم کشااور ایسی وجد آفرین تشریح کہ دل
بے اختیار پکار اٹھے:
لَوَدِدْتُّ
اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ۔
* اگر آج بھی امت مسلمہ میں اس
مقام کی ’’وُدّ‘‘یعنی محبت پیدا ہوگئی تو ان کی قوت، غلبے اور ہیبت کے سامنے دنیا
کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکے گی۔
محبوب کی چاہت
اللہ
تعالیٰ سے مقبول شہادت کا سوال ہے۔
اَللّٰہُمَّ
ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ۔
شہادت
کا مقام… علمی اور لفظی طور پر تو دنیا میں سمجھا، سمجھایا جا سکتا ہے… مگر اس کی
اصل حقیقت کا ادراک ہمارے لیے ممکن نہیں ہے… یہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں… اور اللہ
تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کو دکھایا اور سمجھایا ہے…
اور جب کوئی مؤمن شہادت پا جاتا ہے تو وہ بھی اس مقام کو دیکھ لیتا ہے… مگر
باوجود زندہ ہونے کے اس کا رابطہ زندہ لوگوں سے کٹ جاتا ہے… وہ انہیں نہیں بتا
سکتا کہ وہ کس حال میں ہے… کس لذت میں ہے… اور کس بلند مقام پر ہے… اگر کسی ایک شہید
کو بھی موقع دے دیا جائے کہ وہ… زندہ لوگوں کو اپنے حالات بتاسکے تو… پھر کوئی
مسلمان بھی شہادت سے محرومی کا تصور بھی نہ کرے… اور سب لوگ دیوانوں کی طرح شہادت
کی طرف لپکیں… مگر اصل ایمان تو ’’ایمان بالغیب‘‘ ہے… بغیر دیکھے، بغیر محسوس کئے
اور بغیر چکھے مان لینا… پھر ’’شہادت‘‘ عشق کا اعلیٰ مقام ہے… اور عشق کی باتیں
راز ہوتی ہیں… جب بھی کوئی ایمان والا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شہادت پا لیتا
ہے تو… اس کی ایک خواہش یہ بھی ہوتی ہےکہ اسے اجازت دی جائے کہ… وہ تھوڑی دیر کے لیے
دنیا کے افراد کو اپنا حال بتا سکے… مگر اسے اس کی اجازت نہیں دی جاتی… کیونکہ
اگر یہ اجازت مل جائے تو پھرنہ غیب، غیب رہا… اور نہ راز، راز… اس کے باجود اللہ
تعالیٰ کا فضل دیکھیںکہ… انہوں نے شہادت کے فضائل… اور شہادت کےمقام کو کھول کر بیان
فرمایا… ایمان والوں کے لئے تو ان کا اشارہ ہی کافی تھا…مگر اللہ تعالیٰ کا احسان
اور فضل کہ… آیات پر آیات نازل فرمائیں… اور شہداء کا پیغام پیچھے والوں تک
پہنچایا… اور پھرحضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کا اپنی محبوب امت پر عظیم
احسان کہ… شہادت کو اتنی تفصیل اور خوبصورتی سے بیان فرمایاکہ… گویا کہ… اس کے عظیم
مقام کو آنکھوں کے سامنے رکھ دیا… یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنی ذات اقدس کے لئے… بار بار شہادت کی
تمنا فرمانا… کیا اس کے بعد کسی اور فضیلت… کسی اور تقریر… کسی اور تحریر… کسی اور
ترغیب… یا کسی اور مضمون کی ضروت باقی رہ جاتی ہے؟
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اس مخلوق میں سب سے افضل… اور افضل ترین ہیں…
کونسا مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں؟… اور کونسی منزل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترس میں اللہ تعالیٰ نے نہیں دی… پھر قیامت
تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامات کی مزید بلندی کا… اللہ تعالیٰ نے ایک
مستحکم اور عجیب نظام قائم فرما دیا ہے… ہر روز، ہر لمحہ اور ہر گھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں… مزید بلندی ہوتی ہے…جب بھی کوئی
انسان اسلام قبول کرتا ہے… جب بھی کوئی مسلمان کوئی نیکی کرتاہے… جب مسلمان فتوحات
پاتے ہیںاور کسی نئی زمین پر اسلام کا پرچم لہراتے ہیں… جب مسلمان اذان دیتے ہیں…
جب بھی کوئی مسلمان حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے… تو
ان اعمال کا اجر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے سب سے پہلے لکھا جاتا ہے… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شان میں مزید بلندی ہوتی ہے… بلندی ہی
بلندی… اور مزید بلندی:
{وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْأُوْلٰى}
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے… ہر اگلا لمحہ اور ہر اگلا مرحلہ… پچھلے
سے زیادہ بہتر اور زیادہ شان والا ہے… مخلوق میں سب سے زیادہ فضیلت… حضرات انبیاء
و رسل اور ملائکہ کی ہے… بالاتفاق آپ صلی
اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ
و السلام اور تمام رسولوں کے سردار اور امام ہیں… اس ساری صورتحال کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لئے… اللہ تعالیٰ کے راستے میں بار بار
قتل ہونے اور شہید ہونے کی تمنا کا ظاہر فرمانا… اس امت کو کیا سکھاتا ہے؟… ہمارا
ایمان ہے کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات سچی ہے… ہر بات ’’حق‘‘ ہے… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعراء والے مبالغے اور ایسی لفاظی سے پاک ہیںجو حقیقت
سے دور ہو… دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے شہداء کے لئےجو مقام بنایا ہے… وہ بہت
ہی محبوب اور پر کشش ہے… اور یہ مقام اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا دیا… یہ مقام اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقامات کے مقابلے میںچھوٹا ہے… مگر اس میں
اتنی محبوبیت اور اتنی کشش ہے کہ… یہ ’’مقام شہادت‘‘ جو کہ حقیقت میں ’’مقام
محبت‘‘ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بے حد پسند آیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر اس کی طلب اور رغبت محسوس فرمائی…
اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنےاپنی تمنا ظاہر فرمائی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی تمنا مبارک پوری ہوئی… اور اس مقام کو بھی آپ کے مقامات میں شامل فرما لیا گیا…
جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر مقامات… بلا شبہ مقام شہادت سے بلند ہیں…
حضرت علامہ سخاوی رحمہ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:
’’وَ مِنْ أَدِلَّۃِ ذٰلِکَ اَیْضًا قَوْلُہٗ تَعَالٰی: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوْا فِي
سَبِيْلِ اللّٰهِ أَمْوَاتًاط بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ }
[اٰل عمران:۱۶۹] … فَإِنَّ
الشَّهَادَةَ حَاصِلَةٌ لَهٗ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰى أَتَمِّ الْوُجُوْهِ، لِأَنَّهٗ
شَهِيْدُ الشُّهَدَاءِ۔ وَ قَدْ صَرَّحَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ وَ
غَيْرُهُمَا بِأَنَّهٗ صلی اللہ علیہ
وسلم مَاتَ شَهِيْدًا ۔‘‘
[القول البدیع۔ص: ۳۵۱]
اب
ایک نظر اس طرف دیکھیں!… حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملے میںاپنی امت کی فکر فرمائی… اور
اپنی امت پر ہر معاملے میں ’’احسانِ عظیم‘‘ فرمایا… شہادت جیسی اونچی، میٹھی، دلکش
اور انمول نعمت… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے زیادہ سے زیادہ افراد کو نصیب ہو …
اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے… شہادت کو عجیب طریقے اور عجیب الفاظ میںبیان
فرمایا:
لَوَدِدْتُ
أَنِّی أُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ۔
فرمایا
کہ میری محبت یہ ہے… میری چاہت یہ ہے… میری پسند یہ ہے… میرے دل کی مانگ یہ ہے کہ…
میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیا جاؤں… یعنی شہادت پاؤں… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ’’وُدّ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا…
ایسا لفظ جس سے ’’شہد‘‘ ٹپکتا ہے… جس سے ’’چاہت‘‘ امڈتی ہے… جس سے ’’دل‘‘ کھنچتا
ہے… اسی لفظ ’’وُدّ‘‘ سے اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ’’اَلوَدُودُجل شانہ‘‘ ہے …
محبت فرما نے والا … آپ اس لفظ ’’وُدّ‘‘ کی گہرائی میں جائیں تو… شہادت کی خواہش
میں ڈوب جائیں گے … جب اللہ تعالیٰ کے حبیب … اللہ تعالیٰ کے محبوب… ساری مخلوقات
کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور
چاہت یہ ہے کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
’’شہادت‘‘ ملے تو اندازہ لگائیں کہ… اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونا، شہادت
پانا… کتنی عظیم نعمت ہے… اب ایک مسلمان کے لیے یہ کام آسان ہوگیا کہ… وہ اپنے
’’نفس‘‘ کو شہادت کے لیے تیار اور راضی کرے… ہر نفس میں زندہ رہنے کی بہت خواہش
ہوتی ہے… یہ دنیا اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے… اس کشش کو توڑنے کے لیے اس سے بڑی
کشش کی ضرورت پڑتی ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت پر احسان فرماتے ہوئے… شہادت کی یہ کشش…
اپنے مبارک الفاظ… اور اپنی ذاتی تمنا کے ذریعہ اُمت کو عطاء فرما دی ہے… اب ایک
مؤمن اپنے ’’نفس‘‘ سے کہہ سکتا ہے کہ… دیکھو! محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی خواہش فرمارہے ہیں… شہادت تو محبوب کی
چاہت ہے… وہ فرمارہے ہیں… مجھے ایک بار نہیں… بار بار شہید ہونے کی قلبی چاہت ہے…
پس اے نفس!… اگر تو مسلمان ہے، اگر تو مؤمن ہے… اگر تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت رکھتا ہے… اگر تو حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مقام کو جانتا
ہےتو پھر… تجھ پر بھی لازم ہے کہ تو بھی اپنے اندر شہادت کی چاہت بھرلے… اور تو بھی
کہہ دے:
لَوَدِدْتُ
أَنِّی أُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ۔
کہ
میری حقیقی چاہت، خواہش اور محبت یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل
کیا جائے… اسی طرح اُمت کا درد رکھنے والے… مبلغین، دُعاۃ اور اہل علم کے لیےبھی
سہولت ہوگئی کہ… وہ دشمنان اسلام کے مقابلہ کے لیے… مسلمانوں کو آسانی سے
کھڑا کرسکتے ہیں… ہر سچے مسلمان کے دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے… بس مسلمانوں کو عشق یاد دلایا
جائے اور پھر بتایا جائے کہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت’’ شہادت‘‘ ہے… تو اُن کے غلاموں کی بھی یہی
چاہت ہونی چاہیے… اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقامات بیان کیے جائیں… ان مقامات کا
تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے… اور پھر اُمت سے کہا جائے کہ… اتنے عظیم اور بلند
مقامات رکھنے کے باوجود… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کو اپنی چاہت قرار دیا ہے… تو پھر
ہمارے لیے بزدلی کا کیا جواز بنتا ہے؟… ہم تو گناہگار بھی ہیں اور سیاہ کار بھی …
ہم مغفرت کے بھی محتاج ہیں اور معافی کے بھی… اور شہادت کے ذریعہ مغفرت بھی ملتی
ہے اور معافی بھی۔
اُمت
میں جب شہادت کی ’’وُدّ‘‘ پیدا ہوگی… یعنی شہادت ان کی چاہت بن جائے گی تو پھر…
کفار اُن کو اپنا غلام نہیں بنا سکیں گے… اور ان کے بڑھتے قدموں کو کوئی روک
نہیں سکے گا… دنیا میں زندہ رہنے کی خواہش وہ ’’وَھْن‘‘ ہے جو کسی بھی قوم کو
مکڑی کا جالا اور ’’حقیر شکار‘‘ بنادیتا ہے… جو افراد اللہ تعالیٰ کے لیے جان دینے
کا جذبہ رکھتے ہوں… ان کی قوت، غلبے اور ہیبت کے سامنے دنیاکی کوئی طاقت نہیں ٹھہرسکتی…
لیجیے! محبت اور مٹھاس سے بھرے ہوئے… حدیث شریف کے الفاظ پڑھ لیجیے:
حَدَّثَنَا
اَبُوزُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ اَبَاهُرَيْرَةَ عَنِ
النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ:……
وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُّ خَلْفَ سَرِيَّةٍ،
وَلَوَدِدْتُّ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ
أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں کسی لشکر سے
پیچھے نہ رہتا اور میری چاہت (تو یہ) ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیا
جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا
جاؤں۔‘‘
[صحیح بخاری۔حديث رقم:۳۶، طبع:دار الکتب
العلمیہ۔ بیروت]
حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پیار
بھرے الفاظ کو دل میں اُتاریں… اور ہمیشہ کی حیات اور کامیابی کا راز پالیں… مقام
شہادت کی ایک جھلک سمجھنے کے لیے اب ایک اور حدیث مبارکہ دیکھیں… سبحان اللہ!… ایک
مؤمن، ایک مسلمان کے لیے ترقی اور بلندی کا آخری مقام کیا ہے… ملاحظہ کیجیے!
حضرت
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک
صاحب نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ’’اسلام‘‘ (فرمانبرداری) کیا ہے؟‘‘… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اسلام یہ
ہے کہ تیرا دل اللہ تعالیٰ کے لیے تسلیم (فرمانبردار) ہوجائے اور دوسرے مسلمان تیری
زبان اور ہاتھ سے سلامت رہیں‘‘… ان صاحب نے عرض کیا: ’’سب سے افضل اسلام کونسا
ہے؟‘‘ … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا : ’’ایمان‘‘… انہوں نے پوچھا:’’ایمان کیا ہے؟‘‘… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر،
اس کے ملائکہ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ
زندہ کیے جانے پر یقین رکھے‘‘… انہوں نے عرض کیا: ’’ کونسا ایمان سب سے افضل
ہے؟‘‘… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ’’ہجرت‘‘… انہوں نے پوچھا:’’ہجرت کیا ہے؟‘‘… ارشاد فرمایا: ’’ہجرت یہ
ہے کہ تم برائی کو چھوڑ دو‘‘… انہوں نے عرض کیا: ’’کونسی ہجرت سب سے افضل ہے؟‘‘…
ارشاد فرمایا:’’جہاد‘‘… انہوں نے عرض کیا: ’’جہاد کیا ہے؟‘‘… ارشاد فرمایا: ’’جہاد یہ ہے کہ تم کفار سے قتال
کرو جب تمہارا اُن سے مقابلہ ہو‘‘… انہوں نے عرض کیا: ’’کونسا جہاد سب سے
افضل ہے؟‘‘… ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ مجاہد کے گھوڑے کو قتل کردیا
جائے اور خود اس کا خون بھی بہادیا جائے (یعنی وہ شہید ہوجائے)۔‘‘
[مسند احمد۔ حدیث رقم: ۱۷۰۲۷، طبع: مؤسسۃ
الرسالہ، بیروت]
حدیث
شریف پر غور فرمائیں… سعادت اور کامیابی کا سفر ’’اسلام‘‘ سے شروع ہوا
اور’’شہادت‘‘ پر مکمل ہوا… اسلام نے ترقی پائی تو ایمان بنا… ایمان نے دل میں ڈیرہ
جمایا تو ہجرت کی ہمت آئی… ہجرت نے ترقی پائی تو جہاد نصیب ہوا… جہاد نے اپنی آب
و تاب پائی تو… شہادت تک پہنچادیا… اور یوں ایک اُمتی کے لیے… ایک مؤمن کے لیے…
کامیابی اور ترقی کا سفر مکمل ہوا…اللہ تعالیٰ سے مقبول شہادت کا سوال ہے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 652
اَلرِّمَایَۃ ( تیر اندازی)
ایک عظیم نورانی عمل
* تیر اندازی کے فضائل اور اس کی ترغیب…
* تیر کمان کے موجِد، حضرت ابراہیم علیہ السلام …
* سیاست پر نہ لکھنے کی وجہ…
* حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ علیہ کی وفات کا ایمان افروز واقعہ…
* حضرت انس رضی اللہ عنہ کی تیر اندازی …
* تیر کمان سے حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کی محبت اور لگاؤ…
’’تیر اندازی‘‘ کی دعوت، ترغیب اور اہمیت پر مشتمل ایک پر نور تحریر
تاریخ
اشاعت:
۶ذوالقعدہ۱۴۳۹ھ/بمطابق20جولائی2018ء
اَلرِّمَایَۃ ( تیر اندازی)
ایک عظیم نورانی عمل
اللہ
تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے ’’کمان‘‘ بنائی… تیر، کمان… جبکہ
بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ’’تیر کمان‘‘ کی ایجاد حضرت سیّدنا شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک بادشاہ نے کی
اور سب سے پہلے اس کے ذریعہ سے ایک سانپ کو مارا… حضرت سیّدنا اسماعیل علیہ السلام
کا تیر انداز ہونا تو بہرحال حدیث صحیح سے
ثابت ہے… تیر اندازی بڑا نورانی عمل ہے… آپ اس مبارک عمل پر اگر تھوڑا سا بھی
مطالعہ کریں تو آپ کو اس کے فضائل ہی فضائل اور فوائد ہی فوائد ملیں گے… اللہ
تعالیٰ اُمت مسلمہ میں اس جہادی، روحانی ، نورانی اور مفید عمل کو جاری فرمائے… دل
چاہتا ہے کہ ایک مستقل کتاب ’’تیر اندازی‘‘ پر لکھ دوں… اللہ تعالیٰ آسان فرمائے
، توفیق عطاء فرمائے۔
سیاسی
ماحول
ہمارے
جو ساتھی الحمد للہ… اپنی آخرت کے باغات آباد کرنے میں مشغول اور منہمک ہیں…اُنہیں
اس بات پر کوئی شکوہ نہیں ہے کہ ہم سیاست پر کیوں نہیں لکھ رہے… وہ سب خوش نصیب
ساتھی اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں … کوئی میدان جہاد میں ہے تو کوئی میدان تربیت
میں… کوئی کلمہ ، نماز اور جہاد کی آواز لگا رہا ہے تو کوئی شہداء کرام کے اہل
خانہ کی خدمت میں لگا ہے… کوئی مساجد کی تعمیر میںمست ہے …تو کوئی مدارس کی بنیادیں
مضبوط کرنے میں مگن ہے…کوئی تعلیم امت میں مشغول ہے تو کوئی تزکیہ کی محنت میں جڑا
ہوا ہے… کوئی تیراکی سیکھ اور سکھا رہا ہے تو کوئی تیر اندازی کی مشق میں عرق
آلود ہے … کوئی امت کو جگا رہا ہے تو کوئی سنت نکاح میں مسلمانوں کا تعاون کر رہا
ہے… کوئی اسلحہ اٹھائے شہادت کے پیچھے دوڑ رہا ہے تو کوئی قلم تھامے امت کی اصلاح
میں مگن ہے…کوئی دینی دعوت شائع کرنے میں لگا ہے تو کوئی حجامہ کے ذریعے خدمت میں
مشغول ہے…ان حضرات کی زندگی خسارے کے گڑھے سے نکل کر… کامیابی کی شاہراہ پر دوڑ رہی
ہے … اور وہ مطمئن ہیں اور مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں… مَاشَاءَ اللہُ لَاقُوَّۃَ
اِلَّا بِاللّٰہِ… مگر ہمارے وہ کرم فرما جو سوشل میڈیا کی بھوت بھری دنیا میں
جاتے رہتے ہیں… ان کو بہرحال کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ پوچھتے ہیں کہ… آپ سیاست
اور انتخابات پر کیوں نہیں لکھ رہے… تو بات یہ ہے کہ سیاست اور انتخابات پر لکھنا
بہت ہی آسان کام ہے… کسی ایک پہلو کو ہی پکڑ لیں تو کالم مکمل ہو جائے… عبرت ہی
عبرت ہے… لطیفے ہی لطیفے ہیں اور تماشے ہی تماشے ہیں… کسی کی تائید میں لکھنا چاہیں
تو ہزاروں پیدل دلائل سامنے آ جاتے ہیں اور اگر کسی پر تنقید کرنا چاہیں تو…
لاکھوں شواہد قطار جوڑ لیتے ہیں… سنجیدہ لکھنا چاہیں تو وہ بھی آسان… سیاست میں
دکھ کی داستانیں بہت ہیں اور اگر دلچسپ مزاحیہ فکاہیہ لکھنا چاہیں تو وہ اور آسان
کیونکہ… ہمارے سیاستدان بذات خود بڑے کثیف لطیفے ہیں… مگر یہ سب کچھ لکھنے سے
فائدہ کیا ہو گا؟ … اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے… اب جب کوئی فائدہ ہی نظر نہیں
آ رہا تو اس کام پر وقت کیوں لگایا جائے؟… کبھی کسی نتیجے یا فائدے کا امکان ہوا
تو ان شاء اللہ ضرور لکھیں گے… اور ایسے حالات جہاد کی برکت سے ان شاء اللہ ضرور
آئیں گے جب… سیاست کے تلوں سے بھی کچھ کچھ تیل نکلنے لگے گا…فی الحال تو یہ حالت
ہے کہ… ایک بار ایک معروف سیاستدان کے بعض بیانات سے بہت تکلیف ہوئی … ارادہ کیا
کہ انہیں جواب دیا جائے… رات کو خواب میں تشریف لائے اور فرمایا… کس پریشانی میں
پڑ گئے ہیں آپ؟ ہمارا تو دنیا داری کا کام ہے… چنانچہ صبح اُٹھ کر اس موضوع پر
لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا کہ… دنیاداری میں پڑے لوگ کبھی جہاد کی حمایت کرتے ہیں
کبھی مخالفت… کبھی دین کے طرف دار ہو جاتے ہیں کبھی بددینی کے… تو ان کی کس کس بات
کو پکڑا جائے… اچھا یہی ہے کہ جتنی عمر باقی ہے دین کے کام میں لگ جائے… دین کے
کام اور دین کی دعوت میں الحمد للہ نفع ہی نفع ہے… باقی یہ بات نہیں ہے کہ ’’دینی
دعوت‘‘ کو لوگ پڑھتے نہیں… الحمد للہ اُمت مسلمہ میں ’’خیر‘‘ موجود ہے… اور دینی
جہادی دعوت کو پوری دنیا میں مسلمان قبول کر رہے ہیں… اور اپنا رہے ہیں… اگر میں
ان میں سے بعض کے خطوط اور جذبے شائع کر دوں تو یقیناً آپ حیران ہوں گے کہ… کیسے
کیسے ماحول میں رہنے والے نوجوان مرد اور خواتین… الحمد للہ دین اور جہاد سے نظریاتی
طور پر جڑ رہے ہیں، مَاشَاءَ اللہُ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
ایک
اور ابراہیم
پہلے
ہم نے پڑھ لیا کہ… کمان حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایجاد ہے… اب ایک اور پیارے
ابراہیم کا تذکرہ پڑھتے ہیں… یہ ہیں بادشاہت چھوڑ کر… اللہ تعالیٰ کی محبت اور
معرفت میں قربانیاں اٹھانے والے… اولیاء کرام کے سرتاج ، اہل علم کے رہنما… حضرت
الشیخ ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ علیہ …
ان کے بارے میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ آپ علم کی مفتاح یعنی چابی تھے… ہاں بے
شک! ہم جب بھی ان کا تذکرہ اور ان کے اقوال پڑھتے ہیں تو … علم کا کوئی نیا باب دل
و دماغ میں روشن ہو جاتا ہے… اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت ، اکرام ، اعزاز اور جزائے خیر
کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائیں… ’’مشارع الاشواق‘‘ سے ان کا یہ قصہ ملاحظہ فرمائیں:
’’ابو عبد اللہ الجوزجانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ علیہ سمندر میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے، جس رات آپ
کا انتقال ہوا تکلیف کی وجہ سے آپ کو پچیس بار قضائے حاجت کے لئے جانا پڑا اور ہر
بار آپ آ کر نماز کے لئے نیا وضو فرماتے تھے۔ جب انہیں موت قریب محسوس ہوئی تو
فرمایا: میری کمان تیار کر کے مجھے دے دو، چنانچہ انہوں نے کمان اپنے ہاتھوں میں
پکڑی اور اسی حال میں انتقال فرمایا۔
[التہذیب]
مصنف ( ابن النحاس) فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے ایسا اس
لئے کیا تاکہ وہ قیامت کے دن اس حالت میں کھڑے کئے جائیں کہ جہاد کے لئے کمان ان
کے ہاتھ میں ہو۔‘‘ [ فضائل جہاد]
سبحان
اللہ!… سمندری جہاد میں وفات جو کہ خود بڑی شہادت ہے… پھر پیٹ کی تکلیف سے وفات جو
کہ خود شہادت کا ایک باب ہے … اور پھر ہاتھ میں کمان اور اس کمان میں جڑا ہوا تیر…
سبحان اللہ! کیسا زبردست حسن خاتمہ ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی جہاد اور جہادی اسلحہ
سے سچی محبت اور تعلق نصیب فرمائے… تیر کمان میں تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی بڑی
برکت رکھی ہے… جو مسلمان اسے اپنے گلے میں لٹکائے اس کے دل کے غم دور ہو جاتے ہیں…اور
جو اچھی نیت سے خرید کر گھر میں رکھے تو اس کے گھر سے فقر و فاقہ چالیس سال دور
بھاگ جاتا ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین اپنے ورثے اور
ترکے میں… اپنی اولاد کے لئے اور مجاہدین کے لئے اچھی سے اچھی تیر کمانیں چھوڑ کر
جاتے تھے… حضرت سیّدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ… انہیں تیر اندازی کا
بہت شغف تھا… وہ آخری عمر تک بڑے اہتمام سے تیر اندازی کی مشق فرماتے رہے… اور پھر
اپنے ورثے میں ستر سے زائد کمانیں چھوڑ گئے اور وصیت فرمائی کہ… یہ سب کمانیں
مجاہدین کو جہاد کے لئے دے دی جائیں… خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ورثے میں پانچ
یا اس سے زائد کمانیں چھوڑیں… ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے کہ… اس
نے ہمیں مرنے سے پہلے تیر اندازی کی توفیق اور تیر کمان کی ملکیت عطاء فرمائی ہے…
اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس نورانی اور مبارک عمل سے جوڑے رکھے… اور امت مسلمہ میں
اس عظیم سنت اور حکم کو جاری فرمائے۔
ذوق
دیکھیں، مہارت دیکھیں
بھائیو!
اور بہنو! پرانی باتوں میں بڑی خیر ہے … پرانے طریقوں میں بڑی بھلائی ہے… یہ قدامت
پسندی نہیں… فطرت پسندی ہے… دیکھیں! یہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں… دس سال خدمت کا شرف… ارے! کسی کو ایک
لمحہ بھی… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع مل جائے تو دو جہانوں سے بڑھ کر
ہے… جبکہ ان کو دس سال یہ سعادت نصیب رہی… واہ انس! تیری قسمت پر قربان… حضرت سیدنا
انس رضی اللہ عنہ روئے زمین کے خوش نصیب ترین انسانوں میں سے ایک
تھے…حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ علیہ نے
سند صحیح کے ساتھ ان کا یہ عمل لکھا ہے کہ… ان کے لئے بستر بچھا دیا جاتا جس پر وہ
تشریف رکھتے … اور پھر ان کے سامنے ان کے بیٹے تیر اندازی کرتے۔ ( ماشاء اللہ ان کی
اولاد کثیر تھی اور حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی دعاء کا فیض تھا) حضرت
ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار
حضرت انس رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہم تیر اندازی کر رہے تھے… فرمایا:
تم لوگ کتنی بُری تیر اندازی کر رہے ہو … پھر آپ نے کمان لے لی اور تیر پھینکے تو
کوئی تیر بھی ہدف سے خطا نہیں ہوا۔(یعنی سب تیر درست نشانے پر لگے)
یہ
تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ روشن ستاروں کا ذوق… اور یہ تھی
ان حضرات کی جہادی مہارت… الحمد للہ اُمت میں تیر اندازی واپس آ رہی ہے… ہم یہ
سمجھ بیٹھے تھے کہ… مروّجہ اسلحہ اب تیر اندازی کا قائم مقام ہے… اور یہ بات درست
بھی ہے… مگر اصل تو اصل ہوتا ہے… تیر اندازی اصل حکم ہے… اور اس کی برکات بے شمار
ہیں… بس اتنا یاد رہے کہ… تیر اندازی ہو یا گھڑ سواری… تیراکی ہو یا حجامہ… ان سب
میں اچھی نیت اور اخلاص ضروری ہے… اگر اللہ تعالیٰ موقع عطاء فرمائے تو ایک بار
’’فضائل جہاد‘‘ میں سے… تیر اندازی کی فضیلت کا باب ضرور پڑھ لیں…بہت کچھ ہاتھ لگ
جائے گا، ان شاء اللہ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 653
بات آگے بڑھ رہی ہے
* اللہ تعالیٰ سے نور کا سوال ہے…
* نور کے بغیر زندگی بے کار ہے…
* انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے فتنے سے بچنے کی دعوت
* مجاہدین کشمیر کو خراج تحسین…
* اسرائیل کا ’’صہیونی ریاست‘‘ کے قیام کا اعلان…
* اس اعلان سے ’’اسلام کے عروج اور غلبہ‘‘کی بات آگے
بڑھ گئی ہے…
* جب بات آگے بڑھ گئی اور منزل قریب آگئی تو اب
مسلمانوں کو بھی آگے بڑھنا ہوگا…
* مسلمان کیسے آگے بڑھیں… طریقۂ کار اور راہ عمل کی
نشاندہی…
بہت سے حقائق سے پردہ
اٹھاتی ایک چشم کشا تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۳ذوالقعدہ۱۴۳۹ھ/بمطابق27جولائی2018ء
بات آگے بڑھ رہی ہے
اللہ
تعالیٰ ’’نور‘‘ ہے… {اَللہُ نُوْرُ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ} [النور:۳۵]… اللہ
تعالیٰ سے ’’نور‘‘ کا سوال ہے… ’’نور‘‘ کے بغیر زندگی ’’ بے نور‘‘ ہے… ’’بے سرور‘‘
ہے… ’’ بے حضور‘‘ ہے:
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِّیْ
نُوْرًا
اَللّٰھُمَّ اَعْظِمْ لِیْ
نُوْرًا
بھائیو!
بہنو!… خوب اللہ اللہ کرو… لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پڑھو… مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللہ رٹو… تاکہ نور ملے… موبائل اور نیٹ کی کالی روشنی نے دلوں کو بے نور کر دیا
ہے… وہ مسلمان نوجوان جو زمین کا رنگ بدل سکتے تھے… جو پہاڑوں کا سینہ چیر سکتے
تھے … جو سمندروں کو مسخر کر سکتے تھے… وہ واٹس ایپ پر الفاظ کی مکھیاں ما رہے ہیں…
فیس بک پر کھٹملوں سے کھیل رہے ہیں… جبکہ حقیر اور ذلیل یہودیوں نے روئے زمین کی
پہلی صہیونی حکومت کا اعلان کر دیا ہے… ’’مودی‘‘ ہندوستان کو ایک مشرک ریاست بنانے
کی تیاری میں ہے…اور ہم پر وہ لوگ مسلط ہیں…جنہیں ’’کلمہ طیبہ‘‘ تک درست پڑھنا نہیں
آتا… جو دین کے باغی اور اسلام سے شاکی ہیں… بس اُنہیں اس بات کا اصرار ہے کہ وہ
مسلمان ہیں… اور حکمرانی اُن کا حق ہے… وہ ہمارے جسموں سے خون اور ہمارے دلوں سے
جذبے چوس رہے ہیں… سلام ہو کشمیری مجاہدین کو!… وہ اپنا موبائل اور اپنا نیٹ بھی
جہاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں… وہ نہ خبروں پر تبصرے کرتے ہیں اور نہ ایک ایک بیان
اور ایک ایک واقعہ پر مکھیاں مارتے ہیں… انہوں نے اپنے موبائل اور نیٹ کو تلوار
بنا دیا ہے… بم بنا دیا ہے… کلاشنکوف بنا دیا ہے… تیر کمان بنا دیا ہے… دعوت جہاد
کا لاؤڈ اسپیکر بنا دیا ہے… گویا کہ انہوں نے موبائل اور نیٹ کو پاک کر کے… پاک
کاموں کا معاون بنا دیاہے… اب انڈیااُن سے لرزرہا ہے… اربوں روپے اُن کے موبائل کا
رخ موڑنے اور اُن کے موبائل کے وار ڈھونڈنے پر خرچ کر رہا ہے … مگر بات نہیں بن رہی…
ہاں بے شک! دل میں ایمان ہو تو… ہر چیز ایمان کی معاون بن جاتی ہے…مؤمن کے ہاتھ میں
موبائل آتا ہے تو وہ بھی ایمان کی روشنی بکھیرنے لگتا ہے… جبکہ فاسق کے ہاتھ
قرآن مجید بھی آ جائے تو وہ اس میں سے انکارِ جہاد کے دلائل ڈھونڈنے کی کوشش میں
لگ جاتا ہے… ہاں بے شک! نصیب اپنا اپنا…یا اللہ!’’نور‘‘ عطاء فرما… ہمارے نصیب کو
منور اور نورانی بنا۔
{اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ
الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ} [البقرۃ: ۲۵۷]
بات
آگے بڑھ رہی ہے
اسرائیل
کسی ملک کا نام نہیں ہے… وہ غنڈوں، بدمعاشوں کا ایک مافیا ہے… دنیا کے ہر جرم اور
ہر گناہ کا اڈہ… اسرائیل کوئی حکومت نہیں ہے… وہ ذلیل یہودیوں کی سازشوں کی ایک
’’کالونی‘‘ ہے…یہودیوں پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ذلت اور مسکنت کو مسلط فرما دیا
ہے … وہ طاقتور ہو کر بھی ذلیل ہیں، محتاج ہیں اور خوفزدہ ہیں… اور وہ مالدار ہو
کر بھی بخیل ہیں، مسکین ہیں، حریص ہیں… یہ قرآن کا فیصلہ ہے … جو یہودیوں کو ذلیل
نہیں مانتا وہ قرآن مجید کو نہیں سمجھتا…رشوت دے کر جینا بھی کوئی جینا ہے؟ … خوف
کی دیواروں کے پیچھے زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ …ہزاروں سازشی ادارے بنا کر اپنے
سانسوں کی بھیک مانگنا بھی کوئی عزت ہے؟… ہزاروں لابیاں بنا کر… ایک چھوٹے سے
علاقے میں اپنی غنڈہ گردی قائم کرنا بھی کوئی بہادری ہے؟ … مجاہدین کے پتھروں سے
چوہے کی طرح کانپنا اور دن رات بمباریاں کر کے امن تلاش کرنا بھی کوئی امن
ہے؟…اللہ کے لئے میری ان باتوں پر غور کریں اور یہودیت، صہیونیت کے رعب سے باہر
نکلیں۔
آج یہ بات عرض کرنی ہے
کہ… ہم مسلمانوں کی تاریخ اور مستقبل دونوں کے لئے یہودیوں کے حالات بہت اہم ہیں…
ہمارے قرآن عظیم الشان کی سب سے بڑی سورۃ ’’البقرۃ‘‘ … یہودیت کو بیان کرتی ہے
اور یہودیت سے بچنے اور نمٹنے کے طریقے سکھاتی ہے…معلوم ہوا کہ… یہودی بہرحال ہمارے
لئے خطرہ ہیں… اور یہودیت ہمارے لئے ایک ایسی خباثت ہے … جس سے ہم نے ہرحال میں
بچنا ہے… اگر ہم اس سے نہ بچے تو یہ ہماری رگوں میں گھس جائے گی… آغازِ اسلام میں
ہمارا مقابلہ یہودیوں سے ہوا…اور ہم مسلمانوں نے ان کا وہ حشر کیا جو…’’ سورۃ
الحشر‘‘ میں مذکور ہے… تب سے یہودیوں نے میدان چھوڑ کر سازش کا راستہ پکڑا ہوا ہے
اور وہ دیواروں کے پیچھے سے … ہم پر وار کرتے ہیں… مگر قرب قیامت میں یہودی ایسی
طاقت بنا لیں گے جو میدان میں ہمیں للکارے گی… تب مسلمان متحد ہو جائیں گے… اور
ابتدائی نقصانات کے بعد… اسی جگہ جہاں آج اسرائیل قائم ہے… یہودیوں کا خاتمہ کر دیں
گے… یہودیوں کی قیادت دجال کے ہاتھ میں ہو گی… جبکہ مسلمانوں کی کمان… حضرت سیّدنا
عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدی رضی
اللہ عنہ کے پاس ہو گی… تب اسلام کے عروج
کا وہ زمانہ شروع ہو گا جو روئے زمین کے ہر کچے پکے گھر اور خیمے تک اسلام کو پہنچا
دے گا… خوشی کی خبر ہے کہ بات آگے بڑھ رہی ہے… ٹرمپ کا ’’القدس‘‘ کو اسرائیل کا
دارالحکومت تسلیم کرنا…اور اب اسرائیل کی پارلیمنٹ کا اپنے مافیا اڈے کو صہیونی ریاست
قرار دینا… اسی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بات آگے بڑھ رہی ہے… اور آگے چونکہ اسلام
کی عظمت اور عروج کا دور ہے تو ہمارے لئے بہرحال ایک خوشی کی بات ہے… مگر آج سے
لے کر اس عروج کے درمیان کا عرصہ آسان نہیں ہے… اس میں فتنے ہیں… اس میں فتنوں کی
بڑھتی طاقت کا دور ہے … اس میں مسیح دجال کا زمانہ ہے… اس لئے اپنے ایمان کی بنیادیں
مضبوط کریں… ایمان کی چوٹی کو اپنا ٹھکانہ بنائیں… چوٹیاں ہمیشہ فتنوں اور آفتوں
سے پناہ کی جگہ ہوتی ہیں… اور اسلام کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے… جہاد فی سبیل
اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط بنائیں… مستحکم بنائیں … جہاد کو سمجھیں، جہاد کو مانیں…
جہاد کی تربیت حاصل کریں… اور جہاد سے چمٹے رہیں…اہل جہاد کا نہ کوئی دجال کچھ
بگاڑ سکتا ہے… اور نہ دجالی فتنے… بس شرط یہ ہے کہ جہاد سے ہمارا تعلق صرف لفظی
کلامی نہ ہو… بلکہ قلبی، عملی اور جانی ہو… اللہ پاک ہمارے قلوب کو ’’نور‘‘ عطاء
فرمائے … ہماری آنکھوں کو نور عطاء فرمائے … ہمارے بدنوں کو نور عطاء فرمائے…
تاکہ ہم ایمان کی چوٹی جہاد کو دیکھ سکیں اور اس پر پناہ پکڑ سکیں… آپ کبھی کسی
مستند کتاب میں موت کی شدت کا حال پڑھیں… اللہ، اللہ، اللہ… موت بڑی سخت ، بھاری
اور کڑوی چیز ہے… یہ تلواروں کے وار، تندور کی گرمی اور پہاڑوں کے بوجھ سے زیادہ
سخت ہے… مگر ابھی کچھ عرصہ پہلے مقبوضہ کشمیر میں ہمارے دو محبوب مجاہد شہید ہوئے
… اور ان میں سے ایک نے عین شہادت کے وقت قریب دیوار پر لکھا… ’’جیش محمد زندہ
باد‘‘ … یہ ہے جہاد کی کرامت، یہ ہے شہادت کی لذت کہ… جان نکلتے وقت بھی ہوش
سلامت، ایمان سلامت، جذبہ سلامت… اور یہ فکر کہ جاتے جاتے بھی دوسروں کو حق کا
راستہ دکھاتے جائیں۔
ہم
بھی آگے بڑھیں
جب
بات آگے بڑھ رہی ہے تو پھر… ہم بھی آگے بڑھیں… ہم نہ میڈیا کے ذریعہ آگے بڑھ
سکتے ہیں… اور نہ سوشل میڈیا کے ذریعہ… قرآن مجید میں کافروں کی ایک سازش کا
تذکرہ ہے… سورۃ ’’آل عمران‘‘ میں… سازش یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کی ترقی دکھا
کر… اچانک اس ترقی کو پیچھے کھینچ لو…اس سے مسلمانوں میں مایوسی پھیل جائے گی… کچھ
بااثر لوگوں کو بھیجو کہ وہ آ کر مسلمان ہونے کا اعلان کریں … اس سے مسلمانوں میں
ہر طرف خوشی اور اعتماد پھیل جائے گا… پھر اچانک وہ لوگ دوبارہ اپنے کافر ہونے کا
اعلان کر دیں تب… مسلمانوں میں بد دلی پھیلے گی اور وہ بھی نعوذ باللہ اسلام کے
مستقبل سے مایوس ہو کر… کفر میں اپنی کامیابی دیکھنے لگیں گے… اب آپ اس زمانے میں
اس طرح کی سازش دیکھیں… چار پانچ سال پہلے کا میڈیا اُٹھا کر دیکھیں… جہاد، جہاد
اور جہاد… مجاہدین کی تصویریں… اُن کی کامیابیوں کے چرچے… اُن کی گردنیں کاٹتی ویڈیوز…
اُن کے اونچے اونچے بیانات…یہ سب کچھ اتنی تیزی اور کثرت سے نشر ہو رہا تھا جیسے
کہ… دنیا بھر کا میڈیا مسلمانوں کے قبضے میں ہو … فیس بک کا بانی کوئی عربی مسلمان
ہو …یوٹیوب کا مالک بغداد کا کوئی سنی مجاہد ہو… اور امریکی اخبارات کے ایڈیٹر
افغانستان کے مسلمان ہوں… نہ کوئی پابندی تھی اور نہ کوئی قدغن… حالانکہ یہ چاہتے
تو کچھ بھی نشرنہ ہونے دیتے… یہ چاہتے تو اباما کو للکارنے والی ویڈیوز کا راستہ
روک لیتے… یہ چاہتے تو خبروں کا بلیک آؤٹ کر دیتے … مگر کچھ نہیں روکا جا رہا
تھا… بلکہ ہر طرف جہاد اور مجاہد کو للکارتے، مارتے، دھاڑتے، گلے کاٹتے، نکاح
رچاتے اورتقریریں گاڑتے دکھایا جا رہا تھا …یہ بالکل اس طرح تھا جیسا کہ قرآن مجید
نے نقشہ کھینچا ہے کہ… پہلے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا دو… اپنے بڑے بڑے لوگ مسلمان
کرا دو… تاکہ مسلمان زمین سے اُٹھ جائیں… ہر روز ترقی دیکھنے کے عادی ہو جائیں …
اور پھر اچانک یہ فریبی سیڑھی اُن کے نیچے سے ہٹا دو… اور کفر کا ایسا غلبہ دکھاؤ
کہ مسلمانوں کے ہوش اُڑ جائیں… اب آپ آج کا میڈیا اُٹھا کر دیکھیں…کہیں مجاہدین…
اس شان و شوکت سے نظر آ رہے ہیں؟… کالے برقعوں والے ہاتھوں میں کلاشنیں نظر آ رہی
ہیں؟… مجاہدین کے بیانات اور ویڈیوز اس پیمانے پر نشر ہو رہے ہیں؟ …کچھ بھی نہیں…
چنانچہ اسی سازش کا اثر ہے کہ … مسلمانوں کا حوصلہ زمین سے چپک رہا ہے … اور وہ دل
تھام کر خوفزدہ ہیں… اور اُن کا جہاد پر سے اعتبار کمزور ہو رہا ہے…حالانکہ اگر
چار سال پہلے مجاہدین کی تعداد… مثال کے طور پر دو لاکھ تھی تو آج الحمد للہ چار
لاکھ ہے… ( یہ عدد میں نے صرف بات سمجھانے کے لئے لکھا ہے)دنیا کا کوئی خطہ ایسا
نہیں کہ… جہاں جہاد اور مجاہدین کا مکمل خاتمہ کیا جا چکا ہو… وہ جو عروج تھا وہ
بھی مصنوعی یعنی آرٹیفیشل تھا… اور آج جو زوال دکھایا جا رہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ
مصنوعی اور نقلی ہے۔
افغانستان
میں بدستور جہاد جاری ہے… اور دشمن بری طرح سے بے بس ہے… کشمیر میں جہاد کے پرچم
گلی گلی میں لہرا رہے ہیں… اور آپریشن آل آؤٹ لانے والے خود بری طرح سے آؤٹ
ہو رہے ہیں… فلسطین کا جہاد اپنی جگہ برقرار ہے… وہی عزیمت ، وہی جوش، وہی قربانی…
اور وہی دشمنوں کے حواس پر تسلط… عراق اور شام میں بھی جہاد اور لڑائی جاری ہے…
ابھی تک وہاں کے ظالم حکمرانوں کا وجود… غیر ملکی سہاروں پر ہے… عراق کی حکومت امریکہ
اور ایران کے بغیر… اور شام کی حکومت روس اور ایران کے بغیر ایک ہفتہ قائم نہیں رہ
سکتی…تو پھر مایوسی کس بات کی؟… ہم اسی لئے میڈیا اور سوشل میڈیا کا اسیر بننے سے
مسلمانوں کو روکتے ہیں کہ…وہ جو چاہتے ہیں دکھاتے ہیں اور جو چاہتے ہیں پھیلاتے ہیں…
اللہ کے لئے اپنے کام کو ان کا محتاج نہ بنائیں… بات آگے بڑھ چکی ہے… آپ بھی
اللہ تعالیٰ سے ’’نور ‘‘ مانگ کر… اللہ تعالیٰ سے ’’نور ‘‘ پا کر… آگے بڑھیں… نظریاتی
اور عملی مسلمان مجاہد بنیں… اور زمین پر آنے والی تبدیلیوں میں اپنی چڑھتی جوانیوں
کا پورا پورا مثبت حصہ ڈالیں…اور ہاں… تیراکی اور تیر اندازی سیکھنا جلد شروع کر دیں…
یہ آغاز ہو گا… اللہ پاک ہم سب کو بہترین انجام عطاء فرمائے… نور والا خاتمہ، ایمان
والا خاتمہ… حسن خاتمہ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 654
بات ختم ہوچکی
* ’’کنجوسی‘‘ بہت بری بیماری ہے، اس سے بچنے کی فکر
اور دعاء کرنی چاہیے…
* کنجوسی کی بعض وجوہات واسباب…
* اگر کسی کو یہ بیماری لگ جائے تو وہ خود کو شیطان کے
سپرد نہ کرے بلکہ ہمت سے کام لے کر اس سے نکلنے کی کوشش کرے…
* کنجوس کو صدقہ پر زیادہ اجر ملتا ہے، اس کے صدقہ کو
حدیث مبارکہ میں ’’افضل صدقہ ‘‘ قرار دیا گیاہے…
* دل پروار کرنے والے دو طرح کے خیالات، ان کے اسباب
وعوامل اور ان کے بارے میں لائحہ عمل…
* ’’قربانی‘‘کے بارے میں نام نہاد ’’دانش وروں‘‘
کی ’’دانش وری‘‘کا آپریشن…
تاریخ
اشاعت:
۲۰ذوالقعدہ۱۴۳۹ھ/بمطابق3اگست2018ء
بات ختم ہوچکی
اَللہُ
اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ
الْحَمْدُ۔
آج
ایک عجیب بات سنیں… جو مسلمان ’’کنجوس‘‘ ہیں… بخیل ہیں… ان کے بڑے مزے ہیں… وہ اگر
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کریں تو ان کو زیادہ اجر ملتا ہے… سخی لوگوں کے
خرچ کرنے سے بہت زیادہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے کنجوسوں کے خرچ کرنے کو ’’افضل الصدقۃ‘‘ قرار
دیا ہے… یعنی سب سے افضل صدقہ۔
کنجوس
کے مزے
کنجوسی
بہت بری چیز ہے… ہم سب کو روز اور بار بار اس سے پناہ مانگنی چاہیے:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ۔
مگر
یہ بیماری اکثر لوگوں کو لگ جاتی ہے… کیوں لگتی ہے؟ اس کی بڑی تفصیل ہے… بہت سی
وجوہات ہیں…مثلاً بخیل مالداروں کی صحبت میں بیٹھنا… بیت الخلاء بغیر دعاء پڑھے
ننگے سر جانا بھی اس کی وجوہات میں سے ہیں… اللہ بچائے… بڑا خطرناک مرض ہے… انسان
کو نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے دیتا ہے… نہ کھانے دیتا ہے نہ خوش ہونے دیتا ہے… ہر
وقت پیسے کی فکر… ہر وقت پیسے کی گنتی… ہر خرچے پر دل پریشان… نہ کوئی سکون نہ کوئی
اطمینان…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ۔
لیکن
اگر بخیل آدمی ہمت کرے… اور اپنے دل پر آری چلا کر نیکی کے کاموں میں مال خرچ
کرے تو اس کا اجرو ثواب بہت بڑا ہے… اور اس کا صدقہ ’’افضل الصدقۃ‘‘ ہے… وجہ بالکل
واضح ہے…کسی سخی مسلمان نے قرآن مجید کی ایک آیت سنی کہ مال خرچ کرو… وہ اُٹھا
اور اُس نے اپنی پوری جیب اُلٹ دی… مگر جب ’’کنجوس‘‘ نے وہی آیت سنی تو اب کشمکش
میں پڑگیا…ایمان نے اُبھارا کہ مال خرچ کر دو… مگر دل رونے لگا کہ مال خرچ کیا تو
کم ہو جائے گا… اب اس کے دماغ میں ایک جنگ چل رہی… بے چارہ بے چینی میں مبتلا ہے…
قبر، آخرت یاد آتی ہے تو سوچتا ہے چلو خرچ کر دوں مگر…پھر تو پیسے کم ہو جائیں
گے…دل پر چھری چلی… پھر خود کو سنبھالا کہ یار ہمت کرو… اللہ تعالیٰ اور دے دے گا…
مگر دل غصے ہو گیا کہ… پہلے کچھ مال بنا تو لو پھر حاتم طائی بن جانا… روز کا روز
خرچ کرو گے تو محتاج ہی رہو گے… اللہ تعالیٰ کو تمہارے خرچے کی کیا حاجت ہے؟… مگر
پھر ایمان نے بلایا کہ مال چھوڑ کر مر جاؤ گے کیا فائدہ ہو گا؟ خرچ کر دو… وہ تیار
ہوا تو دل پرشیطان نے نیا وار کر دیا کہ … بچے بڑے ہونے والے ہیں اُن کی شادیاں کیسے
کرو گے؟ … خلاصہ یہ کہ کنجوس آدمی کے لئے مال خرچ کرنا… اپنے جسم سے گوشت کاٹ کر
دینے کی طرح مشکل ہوتا ہے… مگر وہ ایمان کی آواز پر سر جھکاتا ہے اور نفس کی سخت
مزاحمت کے باوجود… اپنا مال خرچ کرتا ہے تو اسے… بہت زیادہ اجر ملتا ہے… جس طرح کہ
بزدل آدمی کو… جہاد کا اجر بہادر آدمی سے زیادہ ملتا ہے… کیونکہ اسے جہاد میں
بہت زیادہ خوف اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے… عرض کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ…
نعوذ باللہ کنجوسی یا بزدلی کوئی اچھی چیز ہے… نہیں ہرگز نہیں… یہ دونوں بہت
خطرناک اور بہت عیب دار بیماریاں ہیں… جن چیزوں سے ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہو وہ چیزیں کبھی اچھی ہو ہی نہیں
سکتیں… مقصد یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کو اس کے کسی گناہ کی وجہ سے… بخل ، کنجوسی یا
بزدلی کی بیماری لگ چکی ہے تو اب وہ… شیطان کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے… اور نہ ہی دنیاداروں
کی طرح اپنی کنجوسی کو… اپنی سمجھداری قرار دے… کنجوس کبھی سمجھدار نہیں ہوتا…
ہاں! ہر کنجوس خود کو بد قسمتی سے سمجھدار قرار دیتا ہے… حالانکہ اسے چاہیے کہ… وہ
رو رو کر اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے کہ… یا اللہ! بخل کی موذی بیماری سے نجات عطاء
فرما… اور ساتھ ساتھ وہ خود پر جبر کر کے نیکی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کرتا
رہے… اسے اس خرچ کرنے پر… سخی افراد سے زیادہ اجر وثواب ملے گا۔
’’صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے اعتبار سے
سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تو ایسے وقت میں صدقہ کرے جبکہ
تو تندرست ہو اور خرچ کرتے ہوئے نفس کنجوس بن رہا ہو، تجھے تنگدستی کا ڈر ہو اور
مالداری کی اُمید لگائے بیٹھا ہو اور صدقہ کرنے میں تو اتنی دیر نہ لگا کہ جب روح
حلق کو پہنچنے لگے تو تو کہنے لگے کہ فلاں کو اتنا دینا او رفلاں کو اتنا دینا (
اب تیرے دینے اور اعلان کرنے سے کیا ہو گا) اب تو فلاں کا ہو ہی چکا۔‘‘
[ الانفاق فی وجوہ الخیر حضرت بلند شہری رحمہ اللہ علیہ ]
الحمد
للہ قربانی کا مبارک موقع آ رہا ہے… عشرہ ذی الحجہ بھی آ رہا ہے… یہ مال کو خرچ
کرنے اور قیمتی بنانے کے بہترین مواقع ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بخل اور
کنجوسی کے مہلک مرض سے بچائے… جو مسلمان اس مرض کا شکار ہوں اور مالدار بننے کی
خواہش میں مال جمع کر رہے ہوں… وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں… خوب کھلے دل سے مال
خرچ کریں… واجب قربانی میں بھی… اور نفلی قربانی میں بھی …اور عشرہ ذی الحجہ میں
اپنا زیادہ سے زیادہ مال جہاد فی سبیل اللہ، مساجد اللہ اور صلہ رحمی وغیرہ کے
اچھے مصارف میں خرچ کریں… ان کو اس خرچ کا بہت زیادہ اجر ملے گا… یہ مال ان کے لئے
محفوظ ہو جائے گا… یہ مال ان کو اس دن کام آئے گا جب انسان… بہت مجبور اور محتاج
ہو گا اور سامنے بڑے بڑے عذاب ہوں گے… اور کیا بعید ہے کہ… ان مبارک خرچوں کی برکت
سے اللہ تعالیٰ انہیں کنجوسی اور بخل سے ہی نجات عطاء فرما دیں… پھر تو ان کے مزے
ہی مزے ہو جائیں گے۔
دل
پر نظر رکھیں
ہم
سب اپنے دل پر نظر رکھیں… دل میں اگر یہ خیال آتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ کے راستے میں
خرچ کرو… اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرو… اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کر کے
خرچ کرو اور کمی کا اندیشہ نہ کرو… جب بھی دل میں ایسے ارادے آئیں تو انسان سمجھ
لے کہ… اللہ تعالیٰ کا مقرب فرشتہ میرے دل پر اُترا ہوا ہے… اسے اللہ تعالیٰ نے میرے
لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے… ایسے مواقع پر انسان کو دو کام کرنے چاہئیں پہلا یہ کہ
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ… اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو اس قابل سمجھا کہ اس
پر توجہ فرمائی، رحمت فرمائی اور اپنا فرشتہ اس پر اتارا… اور دوسرا کام یہ کرنا
چاہیے کہ جتنا مال خرچ کرنے کا ارادہ دل میں آیا ہو فوراً وہ مال خرچ کر دے… اس میں
نہ تاخیر کرے اور نہ کچھ کمی کرے… جس نے یہ دونوں کام کر لئے اس کے دل پر یہ نعمت
بار بار اُترتی رہے گی… اس کا مال اسی طرح قیمتی بنتا چلا جائے گا… اور اللہ تعالیٰ
اس کے مال کو اور زیادہ بڑھاتے جائیں گے …اسے نہ دنیا میں کوئی کمی آئے گی اور نہ
اسے آخرت میں پچھتاوا ہو گا… ان شاء
اللہ… لیکن اگر ایسے ارادوں کے فوراً بعد دل میں بخل اور تنگی کے خیالات شروع ہو
جائیں… اور یہ ڈر پیدا ہونے لگے کہ… خرچ کرنے سے تو میرا مال کم ہو جائے گا…میں
محتاج ہو جاؤں گا…میرے بچے لوگوں کے محتاج ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ… تو وہ سمجھ
لے کہ اس کے دل پر شیطان اتر آیا ہے اور وہ دل میں خوف اور بے یقینی ڈال رہا ہے…
ایسے وقت میں اسے چاہیے کہ شیطان سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے…
اور اپنے اس وسوسے کو زیادہ نہ بڑھنے دے… اور نہ ہی اسے اپنا عمل بنائے…اب ہم واجب
یا نفل قربانی کا ارادہ کریں تو پھر اپنے دل پر نظر رکھیں کہ کب فرشتہ تشریف لاتا
ہے تاکہ ہم شکر کریں اور اس ارادے کو اپنا عمل بنائیں… اور کب شیطان آتا ہے تاکہ
ہم ا س کے شر سے پناہ مانگیں اور اس کی بات پر عمل نہ کریں۔
حضرت
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی آدم کے دل پر شیطان کی
پہنچ بھی ہوتی ہے اور فرشتے کا نزول بھی ہوتا ہے شیطان (تنگدستی، کمی وغیرہ) سے ڈراتا ہے اور حق کو
جھٹلاتا ہے اور فرشتہ خیر کے واقع ہونے کی امیدیں دلاتا ہے اور حق کی تصدیق کرتا
ہے، پس تم میں سے جو شخص بھی اسے ( یعنی اچھی حالت کو ) محسوس کرے تو جان لے کہ وہ
اللہ کی طرف سے ہے لہٰذااللہ کی حمد کرے… اور جو شخص دوسری بات محسوس کرے وہ شیطان
سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگے یہ بات بیان فرما کر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت: {اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ
الْفَقْرَوَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَاءِ }
تلاوت فرمائی۔‘‘ [ الانفاق فی
وجوہ الخیر بحوالہ مشکوٰۃ]
بات
ہی ختم ہوگئی
دنیا
جب سے بنی اور جب تک رہے گی… اس دنیا میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سخی نہ کوئی گذرا …
نہ کوئی آئے گا… دنیا جب سے بنی اور جب تک رہے گی اس میں… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا عقلمند، دانشمند نہ کوئی گذرا… نہ کوئی
آئے گا…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم نے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں
اور محتاجوں پر مال خرچ کرنے کے جو فضائل اور فوائد بتائے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی نے نہیں بتائے… اللہ تعالیٰ نے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’معلم‘‘ بنا کر بھیجا
ہے تعلیم کی جو اہمیت آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے دل مبارک میں تھی… وہ کسی اور کے
دل میں نہیں ہو سکتی…اس لئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ…اگر قربانی کے جانور کی قیمت
کسی رفاہی ، تعلیمی یا ہنگامی خدمت میں لگانا بہتر ہوتا تو… آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی ترغیب دیتے… اور خود اسے اپنے عمل میں
لاتے… مگر حال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام میں ہر سال
نہایت پابندی سے قربانی فرمائی… نہایت شان سے قربانی فرمائی… اپنی امت کو قربانی کی
تلقین فرمائی… اور اپنی اُمت کے غریب افراد کی طرف سے بھی خود قربانی فرمائی… اور
ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ
اعلان مبارک فرما دیا کہ:
’’دس ذی الحجہ ( یعنی عید کے دن) کوئی بھی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے
نزدیک( قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ‘‘۔
[سنن ترمذی۔ رقم الحدیث: ۱۴۹۳،طبع۔دار الکتب
العلمیہ۔ بیروت]
تو
بس بات ہی ختم ہو گئی… دانشمندی اور عقلمندی بھی اسی پر مکمل ہو گئی… اور امت کو
واضح راستہ مل گیا کہ… عید کے دن سب سے محبوب، سب سے ضروری، سب سے مفید ، سب سے
اعلیٰ اور سب سے اہم عمل… قربانی ہے…مسلمانوں کے وہ دانشور جو قربانی کے عمل پر…
اپنی دانش کی چھری چلاتے رہتے ہیں… ان بد نصیبوں سے اتنی گذارش ہے کہ… بات ختم ہو
چکی ہے… اب فضول باتیں کر کے… کیوں اپنی آخرت برباد کرتے ہو… قربانی کرو ، قربانی
… اگر دل میں جذبہ ہے تو… اپنے گھر کا سارا سامان اُٹھا کر… غریبوں میں بانٹ دو…
مگر مسلمانوں سے… قربانی جیسا محبوب، مسنون، واجب اور قیمتی عمل نہ چھینو…ادب سیکھو
ادب… جب حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ
فرما دیں تو… بات ختم ہو جاتی ہے… پھر بھی اگر کوئی بک بک کرے تو وہ بڑا بدنصیب ہے
… بڑا بد نصیب … یا اللہ !آپ کی پناہ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 655
تبدیلی،تبدیلی
* سندھ میں پانی کی قلت اور اس کے اسباب
* قحط زدہ علاقوں کیلئے بارش کی دعاءاور توبہ واستغفار
کی دعوت
* ہر ’’تبدیلی‘‘ اچھی نہیں ہوتی،بلکہ بعض تبدیلیاںبہت
خوفناک اور خطرناک ہوتی ہیں۔اس لیےاللہ تعالیٰ سے ’’خیر والی تبدیلی‘‘ مانگنی
چاہیے
* وطن عزیز پاکستان ’’خیر والی تبدیلی‘‘ کا بہت پیاسا
ہے
* حکمرانوں کے مظالم اور ان کا انجام
* ’’فورتھ شیڈول‘‘ میں جکڑے اہل ایمان کی حوصلہ
افزائی
* نئی حکومت سے نہ کوئی خوف اور نہ امید، خوف بھی اللہ
تعالیٰ کا اور امید بھی اللہ تعالیٰ سے یہ ہیں اس پرنور تحریر کے پر مغزمضامین۔
تاریخ
اشاعت:
۲۷ذوالقعدہ۱۴۳۹ھ/بمطابق10اگست2018ء
تبدیلی،تبدیلی
اللہ
تعالیٰ ’’معاف ‘‘ فرمائے… مخلوق پر رحم فرمائے … جن کو ’’پانی‘‘ کی ضرورت ہے اُن
کو خیر و برکت والا ’’پانی‘‘ عطاء فرمائے…سندھ سے خبر آئی ہے کہ ’’پانی‘‘ کی قلت
خوفناک شکل اختیار کر رہی ہے …اور بھی کئی علاقوں سے ایسی اطلاعات آ رہی ہیں …
لوگ ’’بارش‘‘ کو ترس رہے ہیں… پانی کے کنویں اور بور خشک ہو رہے ہیں… جانور پیاسے
مر رہے ہیں جبکہ انسان موت جیسی زندگی کاٹ رہے ہیں… انتخابات یعنی الیکشن میں اتنے
گناہ ، اتنے ظلم، اتنی بے حیائی اور اتنے جھوٹ ہوتے ہیں کہ … اللہ تعالیٰ کی پناہ
… الیکشن کے ایک ماہ کے عرصے میں زمین کو ہلا دینے والے جو گناہ ہوئے انہوں نے…
اپنی نحوست ہر طرف بکھیر دی ہے… بارشیں بند ہیں اور جب کھلتی ہیں تو آفت بن جاتی
ہیں… ایسی گندی اور ناپاک سیاست ایک اسلامی ملک میں زیب نہیں دیتی… آپ صرف ایک
حلقے میں ہونے والے… گناہوں کی فہرست بنائیں… کیا کچھ نہیں ہوتا؟ … تب گردن شرم سے
جھک جائے گی… جو دیندار لوگ سیاست کا حصہ بنتے ہیں وہ بھی انتخابات کے ایام میں…اللہ
تعالیٰ سے بہت دور ہو جاتے ہیں… کئی دن سے اہل ایمان کی طرف سے تقاضا تھا کہ … قحط
زدہ علاقوں میں بارش کی دعاء کی جائے… الحمد للہ دو دن سے توفیق مل رہی ہے… آپ سب
سے بھی گزارش ہے کہ… توبہ، استغفار کی خوشبو پھیلا کر … اس مسئلے کو اپنا مسئلہ
سمجھ کر روز اور بار بار دعاء کریں… دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کا غضب… اس کی رحمت میں
تبدیل ہو جاتا ہے۔
سورہ
ٔفاتحہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتی ہے… کیونکہ سورۂ فاتحہ خود دعاء ہے اور
دعاء کی تعلیم ہے… ہمیں ہر خیر والی ’’تبدیلی‘‘ کی اُمید صرف اللہ تعالیٰ سے رکھنی
چاہیے…ابھی فوری ’’تبدیلی‘‘ جس کی سخت ضرورت ہے…وہ موسم کی ’’تبدیلی ‘‘ ہے …
مسلمان بہت مشکل میں ہیں… چند دن پہلے سندھ کے رفقاء کرام نے جو صورتحال لکھی ہے…
اس نے دل کو لرزا دیا ہے… اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ… اللہ
تعالیٰ کے غضب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ… یا اللہ! اے زمین و آسمان کے خزانوں کے
خالق اور مالک!… خیر کا پانی برسا دیجئے… اور اس پانی کے ساتھ ہدایت کی ہوائیں بھی
چلا دیجئے… ہمارا ملک واقعی ’’تبدیلی‘‘ کو ترس رہا ہے… خیر والی تبدیلی۔
صرف
تبدیلی نہ مانگیں
انقلاب
کہتے ہیں… حالات کے اُلٹ جانے کو …اور یہی مطلب ’’تبدیلی‘‘ کا بھی ہے… قرآن مجید
میں ایک ایسی ’’تبدیلی‘‘ کا ذکر ہے … جو بڑی خطرناک اور خوفناک تبدیلی ہے… اس تبدیلی
کا آغاز دل کی نیت سے ہوتا ہے… اور پھر یہ تبدیلی سب کچھ اُلٹ کر رکھ دیتی ہے…
{اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا
بِاَنْفُسِھِمْ} [الرعد: ۱۱]
کچھ
لوگ کچھ قومیں جو اچھی حالت میں ہوتی ہیں… مگر پھر اُن کے دل میں برے ارادے جڑ
پکڑنے لگتے ہیں…اور جب وہ اپنے دل کی حالت بدل لیتے ہیں اور وہاں برائی کی نیت کو
پکا کر لیتے ہیں تو… اللہ تعالیٰ اُن کے اچھے حالات بدل دیتا ہے… اور اُن پر برے
حالات مسلط فرما دیتا ہے… دنیا کا تقریباً ہر انسان اس تبدیلی کے حملے کا شکار
ہوتا ہے… ہمارے دل کی بری نیتوں نے ہمیں کیسی کیسی عظیم نعمتوں سے محروم کرا دیا…
اس لئے اپنے دل پر نظر رکھنی چاہیے… اور کسی بھی گناہ، کسی بھی برے ارادے… کسی بھی
ناجائز منصوبے … کسی بھی ناجائز بدگمانی… کسی بھی ناجائز سازش کو اپنے دل میں… پکا
نہیں ہونے دینا چاہیے… کیونکہ یہ برے ارادے خود ہمیں ہی برباد کرتے ہیں… قرآن مجید
میں ایک اور تبدیلی کا بھی ذکر ہے جو ’’قوم سبا ‘‘ پر آئی… اللہ تعالیٰ نے اُن کو
بے شمار اور حیرت انگیز نعمتیں عطاء فرمائی تھیں… مگر وہ ناشکری اور ناقدری میں پڑ
گئے تو سب کچھ چھین لیا گیا… قرآن مجید نے وہاں بھی ’’تبدیلی‘‘ کا لفظ استعمال
فرمایا ہے… معلوم ہوا کہ … ہر تبدیلی اور ہر انقلاب اچھا نہیں ہوتا… اس لئے صرف
تبدیلی تبدیلی نہ مانگیں… جب بھی تبدیلی مانگیں… خیر والی مانگیں… وہ تبدیلی جو اللہ
تعالیٰ ’’عباد الرحمٰن‘‘… کو عطاء فرماتے ہیں… اور اُن کے گناہوں کو اُن کی نیکیوں
سے بدل دیتے ہیں… اُن کے برے حالات کو اچھے حالات سے بدل دیتے ہیں… وہ تبدیلی جو
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری اور تکلیف کے بعد عطاء فرمائی…
اور اُن کی سابقہ نعمتوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ بھی فرما دیا… وہ تبدیلی
جو اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد عطاء فرمائی… حتٰی کہ
فضا، ہوا، موسم اور چیزوں کے وزن تک میں خیر والی تبدیلی آگئی… تبدیلی کا موضوع
کافی مفصل ہے … ہمیں توجہ کر کے… قرآن مجید میں اس موضوع کو سمجھنا چاہیے… واٹس ایپ
کے کسی گروپ میں دو ڈھائی سو افراد کی فضولیات پڑھنے اور ان پر پتے پھینکنے کی
بجائے… ہم اتنے وقت میں قرآن مجید کی ایک آیت سمجھ لیا کریں ایک آیت یاد کر لیا
کریں… یہ ہمیں ہمیشہ کام دے گی،ان شاء اللہ۔
خیر
والی تبدیلی مانگیں
گذشتہ
اٹھارہ سال میں کئی حکومتیں آئیں … اور چلی گئیں… مگر حالات نہ بدلے… ہر حکومت
گذشتہ حکومت کی اُن پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے… جو پالیسیاں ظالمانہ ہیں…
احمقانہ ہیں… بزدلانہ ہیں… صدر پرویز مشرف ملک کو جس کھائی کی طرف دھکا دے کر بھاگ
گیا… ملک اسی کھائی میں گرتا چلا جا رہا ہے …اور ہر نئی حکومت مشرف کی اُن پالیسیوں
کی بھرپور حفاظت کر رہی ہے… سب جانتے ہیں کہ … امریکی جنگ کا حصہ بننا…مشرف کی ایک
بزدلانہ اور احمقانہ پالیسی تھی… مشرف کے بعد جو حکومتیں آئیں انہوں نے مشرف کو
توگالیاں دیں… مگر اس کی پالیسیوں کو نہیں بدلا… بلکہ نواز شریف حکومت تو… اُن
ظالمانہ پالیسیوں میں مشرف سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی… آپ صرف فورتھ شیڈول کا
قانون لے لیں…اپنے ملک کی عوام کو…’’ فورتھ شیڈول‘‘ کے ذلت ناک ظلم میں مبتلا کرنا
یہ صرف پاکستان میں ہی چل رہا ہے… اچھے خاصے با شرع امانتدار شہریوں کو … باقاعدہ
تھانوں میں حاضری دینی ہوتی ہے… جہاں اُن کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے …
اُن آزاد شہریوں کو غلاموں کی طرح کہیں آنے جانے کے لئے… ایس ایچ او بہادر سے
اجازت لینی پڑتی ہے… یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے حج بیت اللہ پر نہیں جا سکتے… کہیں
آزادانہ سفر نہیں کر سکتے… اُن کی ذات اور اُن کا گھر ہر وقت پولیس کی نظر، نگرانی
اور غلامی میں ہے… آپ بتائیں کیا پوری دنیا میں کسی بھی جگہ … اپنے شہریوں کے
ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے؟ … اپنی ہر بات میں یورپ اور امریکہ کے حوالے دینے والے…
ہمارے سیاستدان کبھی ’’فورتھ شیڈول‘‘ کے ناقابل برداشت قانون کی بھی… کوئی مثال دنیا
میں پیش کر سکتے ہیں؟… یہ قانون’’ مشرف‘‘ نے شروع کیا اور پھر نون لیگ نے اس کو
باقاعدہ ایک ہتھیار بنا لیا … مظلوموں کی آہیں رنگ لاتی ہیں… مشرف بیرون ملک …
ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے… نہ دن کو چین ہے نہ رات کو آرام… نہ اپنے ملک
جا سکتا ہے اور نہ اپنے جمع کئے ہوئے مال سے کچھ راحت پا سکتا ہے… ہر قدم پر ذلت
اور رسوائی ہے… گویا کہ فورتھ شیڈول سے بھی بڑھ کر… پابندیوں کا شکار ہے… اور ساتھ
ساتھ پچھتر سال کے اس بڑھاپے میں… آگے کہیں بھی اُمید کی کوئی کرن نظرنہیں آ رہی…
انسان کے سامنے جب اس کا مستقبل تاریک ہو جائے تو… اس کے دل کا چین اور آرام چھن
جاتا ہے… دور بیٹھنے والوں کو یورپ، امریکہ کی زندگی پرکشش، پر لذت لگتی ہے لیکن
جو وہاں پھنس جائے اس سے پوچھیں کہ… وہ کیسی جہنم ہے…وہاں جو خوش ہیں… وہ اپنے ایمان،
اچھے اعمال اور آخرت کی اچھی امیدوں پر خوش ہیں… جبکہ مشرف جیسے لوگ… بس آہیں
بھرتے ہیں … کہاں وہ وقت کہ اشاروں پر دنیا ناچتی تھی اور کیا یہ وقت کہ اپنے گھر
والے بھی بوجھ سمجھیں… اور اپنے ملک میں واپسی سے خوف آئے… اور پھر فورتھ شیڈول
کے قانون سے… اہل ایمان کے گلے گھونٹنے والے نواز شریف کو دیکھ لیں… اس کی ذلت،
رسوائی برے انجام اور بے چارگی کو دیکھ کر تو بعض اوقات دل میں… ہمدردی تک آنے
لگتی ہے … موٹی گردن والا فرعون صفت انسان… جو غصے میں پھنکارتا تھا تو بے قابو ہو
جاتا تھا… جو پورے ملک کو اپنا نوکر، اپنا غلام اور اپنی جاگیر سمجھتا تھا… جو ہمیشہ
ایسے اختیارات چاہتا تھا کہ… جو کچھ اس کے منہ سے نکلے بس وہی حرف آخر ہو… جو اپنی
ضد اور ہٹ دھرمی میں تمام حدود پھلانگ جاتا تھا… جسے نہ انسانوں کے خون کی پرواہ
تھی اور نہ جس کے دل میں کسی غریب کی عزت تھی… جو زیادہ اختیارات حاصل کرنے کے
جنون میں… توحید اور ختم نبوت کے خلاف برسرپیکار ہو گیا تاکہ… کافر دنیا اس کی پشت
پر کھڑی ہو جائے… وہ جو قاتلانہ پولیس مقابلوں سے راحت پاتا تھا… اور اہل دین کو
حقارت کا نشانہ بناتا تھا…اب وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آیا تو ذلتوں نے اس کی
ذات کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے… مجمعوں میں پڑنے والے جوتے… عدالتوں میں ججوں کی
جھڑکیاں… راستوں میں پولیس کے دھکے… وزارت عظمیٰ سے نا اہلی… چھوٹے بھائی کی بدلی
بدلی آنکھیں… اہل خانہ کی پریشانیاں… دو بیٹے دونوں اشتہاری… پاؤں کے نیچے سے
سرکتی ہوئی زمین… اپنی پارٹی کی طوطا چشمی… دور دور تک پھیلی جائیداد کے کانٹے اور
فکریں…اور رہائش کے لئے… تیس محلات کے مالک کے لئے… اڈیالہ جیل کا ایک کمرہ …ہر
قدم پر جیل پولیس کی محتاجی… نخرے اور مطالبے … اور سامنے اندھیرا ہی اندھیرا… یعنی
فورتھ شیڈول کی پریشانی سے دس گنا بلکہ سو گنا زیادہ ذلت ، رسوائی اور مشقت… اے
فورتھ شیڈول کے ظلم میں پسنے والے اہل ایمان! تھوڑا سا صبر اور کرو… اپنے دل کو
مطمئن رکھو… آپ کی یہ تکلیف دین کی خاطر ہے… جبکہ اوپر جن کا تذکرہ ہوا وہ… دنیا
کی خاطر اس سے زیادہ تکلیف بھگت رہے ہیں… اپنا دل چھوٹا نہ کرو… جن کو حج سے روکا
جائے اُن کی طرف سے فرشتے حج کرتے ہیں… جن کو پابندیوں میں جکڑا جائے… اُن کے لئے
آخرت وسیع ہو جاتی ہے… صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے خیر والی تبدیلی مانگو… اللہ
تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے… نئے یا پرانے حکمرانوں سے کوئی اُمید نہ
باندھو… یہ سب ایک جیسے ہیں… اِن سے کوئی خیر ملے گی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم
سے ملے گی…
حَسْبُنَا
اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ…حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔
نہ
خوف ، نہ اُمید
پاکستان
میں حکومت کی تبدیلی ہو رہی ہے … اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور اہل پاکستان کو اس
تبدیلی میں خیر عطاء فرمائیں… کچھ لوگ ڈرا رہے ہیں کہ نئے حکمران اچھے لوگ نہیں ہیں…
یہ زیادہ اودھم مچائیں گے اور اہل ایمان کو دبائیں گے…جبکہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں
کہ… یہ نسبتاً اچھے لوگ ہیں… اچھی باتیں کر کے آئے ہیں اور اچھے ارادے رکھتے ہیں…
دلوں کا حال اللہ ہی جانے…ڈرانے والوں سے … کہہ دیا جائے کہ… ہم نہیں
ڈرتے…حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ… اور اُمیدیں دلانے والوں سے کہہ دیا
جائے کہ… ہم صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ہی خیر اور اچھی تبدیلی کی اُمید رکھتے ہیں…
اَللہُ
اَللہُ رَبِّی لَااُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَلَا اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖ وَلِیًّا۔
’’اللہ، اللہ ہی سب کچھ ہے، ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں
ٹھہراتے اور نہ اس کے سوا کسی کو اپنا یارو مددگار سمجھتے ہیں۔‘‘
نئے
حکمرانوں سے عرض ہے کہ خیر لاؤ گے تو خیر پاؤ گے شر پھیلاؤگے تو اسی کا لقمہ بن
جاؤ گے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 656
کامیابی اور کمال
* صدر یاوزیر اعظم بن جانا نہ
تو کوئی کامیابی ہے اور نہ کوئی کمال، بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے۔ کمال یہ ہے کہ
انسان کو کلمہ طیبہ نصیب ہو جائے…
* وظائف صرف’’ شرعی‘‘ کرنے چاہئیں،
غیر شرعی وظائف سے اجتناب ضروری ہے…
* حاجات کی تکمیل کیلئے ایک
طاقتور وظیفہ…
* رزق میں برکت اور وسعت کیلئے
ایک مضبوط اور مجرب وظیفہ…
* اصل ولی اور بزرگ کون؟…
* کلمہ طیبہ کے سامنے کوئی جادو
منتر نہیں ٹھہر سکتا…
* جادو کا ایک طاقتور ترین
علاج…
تاریخ
اشاعت:
۵ذوالحجہ۱۴۳۹ھ/بمطابق17اگست2018ء
کامیابی اور کمال
اللہ
تعالیٰ جسے چاہتے ہیں ’’بادشاہ ‘‘ بنا دیتے ہیں… اور جس سے چاہتے ہیں ’’بادشاہت‘‘
چھین لیتے ہیں… پہلے زمانے میں ’’بادشاہ ‘‘ ہوتے تھے… اب بھی کہیں کہیں پائے جاتے
ہیں… جبکہ آج کل کے زمانے میں صدر، وزیر اعظم، سردار اور گورنر ہوتے ہیں… کوئی بھی
کسی وظیفے ، کسی چلّے، کسی بزرگ، کسی مزار … یا کسی تعویذ کی وجہ سے… وزیر اعظم نہیں
بن سکتا…اگر ایسا ہوتا تو ہر گلی میں دو تین بادشاہ… اور تین چار وزیراعظم ضرور
ہوتے … کیونکہ مزار پرہر کوئی جا سکتا ہے… وہاں ہر کوئی جھک سکتا ہے… تعویذ ہر کوئی
باندھ سکتا ہے… وظیفہ ہر کوئی کر سکتا ہے… پھر یہ سب ’’وزیر اعظم ‘‘ کیوں نہیں
بنتے؟
دراصل
شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ… ہمیں اللہ تعالیٰ سے کاٹ دے… وہ لوگ جو آج معمولی
معمولی باتوں پر… اللہ تعالیٰ سے کٹ جاتے ہیں… وہ دجال کے سامنے کیا کریں گے… دجال
تو بارشیں برسائے گا… رزق کے ڈھیر لگائے گا… سونے چاندی کے پہاڑ چلائے گا اور
مردوں کو زندہ کرے گا… مگر اہل ایمان … تب بھی اس کو اپنا خدا نہیں مانیں گے… ایک
اللہ کی توحید پر جان دیتے چلے جائیں گے… مگر وہ تھوڑے ہوں گے… بہت سے لوگ دجال کے
فتنے کاشکار ہو جائیں گے… یا اللہ! آپ ایک ہیں… اللہ ایک ہے… اللہ تعالیٰ کے ساتھ
کوئی شریک نہیں…اللہ تعالیٰ ہی زندگی، موت ، عزت ، ذلت، رزق اور سانس کا مالک ہے…
ہر حاجت صرف وہی پوری فرما سکتا ہے… وہ جب چاہتا ہے کسی کو کوئی عہدہ دیتا ہے اور
جب چاہتا ہے اس سے عہدہ چھین لیتا ہے… آج اگر ایک نیا وزیر اعظم آیا ہے تو دو وزیراعظم
چلے بھی گئے ہیں… حالانکہ اُن کے پاس بھی پیروں ، مزاروں ، عاملوں ، جادوگروں اور
منتر بازوں کی کمی نہیں تھی… پھر وہ کیوں چلے گئے؟ … پھر وہ کیوں نکالے گئے؟ سوچیں
اور کہیں…اَللہُ اَحَدُ، اَللہُ اَحَدُ… اَللہُ الصَّمَدُ، اَللہُ الصَّمَدُ۔
کامیابی
نہیں ہے
اس
میں کوئی شک نہیں کہ … وظیفے اگر شریعت کے مطابق ہوں تو اُن سے فائدہ ہوتا ہے…
اللہ کا ذکر، اللہ کا نام، اللہ کا کلام… اور اللہ تعالیٰ سے دعاء… اس میں فائدہ ہی
فائدہ ہے… میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی حاجت وغیرہ پیش آئے تو دو رکعت نماز ادا کر
کے… سات بار سورہ ٔفاتحہ اور تین بار سورۂ اخلاص توجہ سے پڑھ لیں… اول آخر سات
سات بار درود شریف… اس کے بعد اپنی حاجت مانگی جائے تو… ماشاء اللہ عجیب طرح سے
قبولیت آتی ہے… بس یوں سمجھیں کہ زندگی ہی آسان ہو جاتی ہے… دو رکعت نماز میں سب
کچھ آجاتا ہے… پھر درود شریف قبولیت کی چابی ہے… پھر سورۂ فاتحہ ہر خیر کو
کھولنے والی ہے پھر سورۂ اخلاص … وہ تو عظمت کا مینار ہے… محبوب کلمات کا پر تاثیر
مجموعہ ہے… اور اس میں اخلاص ہی اخلاص ہے… یعنی بندہ خالص ایمان پر آ جاتا ہے …
خالص توحید پر آ جاتا ہے… اب اس کے بعد دعاء مانگیں تو اس میںتاثیر تو ہو گی۔
صدر
یا وزیراعظم بن جانا… نہ تو کوئی کامیابی ہے اور نہ کوئی نعمت… یہ ایک آزمائش ہوتی
ہے اور زندگی کا ایک مرحلہ… کوئی اگر خوش نصیب ہو تو وہ اس آزمائش میں کامیاب ہو
جاتا ہے…جبکہ اکثر لوگ اس آزمائش میں ناکام ہو جاتے ہیں… اور وہ اپنی دنیا اور
آخرت دونوں کا گھاٹا کر بیٹھتے ہیں … پاکستان میں تو ’’وزراء اعظم ‘‘ کی تاریخ
اور انجام اتنا بھیانک ہے کہ… بچوں کو بھی اگر یہ تاریخ کہانی بنا کر سنائیں تو وہ
ڈر جاتے ہیں… پاکستان میں سب سے زیادہ بار ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کا حلف اُٹھانے والے
’’شیر صاحب‘‘ آج کل… بڑی سخت تکلیف میں ہیں… حالانکہ انہوں نے دنیا بھر کے بڑے
بڑے نجومیوں اور جادوگروں کی خدمات حاصل کیں… کہاں کہاں سے عامل بلوائے… طرح طرح
کے چلّے کٹوائے…یہاں تک کہ ہندو نجومیوں، پنڈتوں اور تانترکوں سے مدد حاصل کی… مگر
کچھ نہ بنا… اس واقعہ کو دیکھ کر…ممکن ہے بہت سے لوگ نجومیوں اور جعلی عاملوں سے
بچ جاتے… مگر ایک دم سوشل میڈیا پر شور مچ گیا کہ… نئے وزیراعظم کا تقرر بھی عملیات
، مؤکلات اور وظیفوں کے زور سے ہوا ہے… استغفر اللہ، استغفر اللہ۔
اے
اہل ایمان!… اپنے ایمان کی حفاظت کرو… دنیا کے عہدے، منصب اور مالداریاں سب لکھی
جا چکی ہیں… ان میں کچھ بھی کامیابی نہیں… وظیفے کرنے ہیں تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے کرو… اُن میں نقصان کا ذرہ برابر
خطرہ نہیں… جبکہ فائدہ دنیا کا بھی ہے اور آخرت کا بھی…اگر کوئی عامل، نجومی یا
عاملہ کسی کو وزیراعظم بنانے کی طاقت رکھتے تو وہ خود کیوں نہیں وزیراعظم بن جاتے…
یا اپنی اولاد کو نہیں بنا دیتے؟
آگے
کیا ہوگا؟
رزق
کے بارے میں ایک وظیفہ ہے… میں نے اپنی زندگی میں کئی افراد کو اس وظیفے کے بعد
مالدار ہوتے دیکھا… مال تو بہر حال اُن کی قسمت میں پہلے سے لکھا ہوا تھا… مگر اُن
کی مالداری کا ظاہری سبب یہی وظیفہ بنا… فرض نماز کی پابندی کرنے والے حضرات وخواتین
اگر اس کی پابندی کریں تو… اُن کے رزق میں برکت کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں… روزانہ ’’یَا
مُغْنِیُ‘‘ بارہ سو بار اور یہ دعاء ستر بار… اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ
عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّن سِوَاکَ… اوّل آخر چند بار درود
شریف… میں سالہا سال سے… غالباً اپنی دینی تعلیم کے آخری سال سے یہ وظیفہ کسی کسی
کو بتادیتا ہوں… جس نے بھی پابندی کی وہ مالدار ہوگیا…اور افسوس یہ کہ بہت سے لوگ
مالدار ہوکر… دین میں کمزور ہوگئے، جہاد سے ہٹ گئے… عزیمت کے راستے سے کٹ گئے… ہاں
بے شک! مال کے فتنے کو بہت کم لوگ اپنے لئے نعمت بنا پاتے ہیں…خود میں نے کبھی اس
وظیفے کی پابندی نہیں کی… کبھی ضرورت پڑ جائے تو ایک دو ہفتے یا صرف جمعہ کے دن
کبھی کبھار… پڑھ لیتا ہوں… آگے بھی یہی ارادہ ہے کہ ان شاء اللہ ضرورت کے وقت پڑھ
لیا جائے… زیادہ توجہ اُن اَوراد و وظائف پر دی جائے جن سے دل کی اصلاح ہوتی
ہے…آخرت بنتی ہے… عذاب قبر سے نجات ملتی ہے… رخ سیدھا رہتا ہے… عافیت نصیب ہوتی
ہے۔
ہمارے
پاک نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے…
اپنی امت کو ہر حاجت کی دعاء اور وظیفے سکھا دئیے ہیں… میں نے چھ دعائوں کا ایک
جامع نصاب احادیث مبارکہ سے بنایا ہے… یعنی اگر کوئی آدمی بیمار ہو اور وہ زیادہ
معمولات نہ کرسکے… یا کوئی آدمی بہت زیادہ مشغول ہوتو… وہ صبح وشام یہ چھ اوراد
کرلے… صرف چند منٹ لگتے ہیں… مگر الحمدللہ ہر طرح سے کفایت ہوجاتی ہے… یہ نصاب میں
نے اپنی ایک محبوب شخصیت کے لئے ان کی بیماری کے دوران بنایا تھا… اب ارادہ ہے کہ
رنگ ونور میں بھی شائع کردیا جائے… آج کل پیشین گوئیاں کرنے والے… طرح طرح کے
پروفیسر، عامل، جادوگر اور نجومی… مسلمانوں کے درمیان گھس گئے ہیں… اُن کے حالات
اور لوگوں کا اُن کی طرف رجوع دیکھ کر… دل بے چین ہوتا ہے کہ…کیسے ناکام لوگوں کے
سامنے ’’اہل اسلام‘‘ خود کو جھکا رہے ہیں…ایک اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر… دردر کی
ٹھوکریں کھارہے ہیں… جادو، ٹونے کو انہوں نے نعوذ باللہ پہاڑ سمجھ لیا ہے جبکہ
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کو یہ کچھ نہیں سمجھتے… استغفراللہ، استغفراللہ…جب
سات زمین اور آسمان… کلمہ طیبہ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے… اور یہ بات یقینی ہے تو
جادو اس کے سامنے کیسے ٹھہر سکتا ہے؟…صبح وشام سو، سو بار پڑھیں:
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ
الْحَمْدُوَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ۔
جو
بھی اس کی پابندی کرتا ہے اس پر ہونے والا جادو ٹوٹ جاتا ہے… کیونکہ یہ کلمہ طیبہ
کا خاص اور طاقتور ورد ہے… اور کلمہ طیبہ کی طاقت اتنی ہے کہ ہم اُسے بیان ہی نہیں
کرسکتے کیونکہ… کوئی مثال موجود نہیں ہے… بھائیو! بہنو! صدر،وزیراعظم بننا کمال نہیں
ہے… فرعون بھی بادشاہ تھا اور نمرود بھی… اباما بھی صدر تھا اور بش بھی… اصل کمال یہ
ہے کہ… ہمیں کلمہ طیبہ نصیب ہوجائے… پیروں اور بزرگوں کے پاس جانا ہے تو… وزیراعظم
بننے کے لئے نہ جائیں بلکہ… کلمہ طیبہ سیکھنے کے لئے جائیں… جو کلمہ طیبہ سکھا دے
وہی بزرگ ہے، وہی ولی ہے…ایسے ولی کے پاس جانے کے لئے… سات جنگل اور سمندر عبور
کرنے پڑیں تو بھی سودا سستا ہے… کلمہ طیبہ دل میں اتر جائے تو بس پھر کامیابی ہی
کامیابی ہے… ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی… نہ ختم ہونے والی… نہ مٹنے والی…اصل کمال یہ
ہے کہ… ہم مؤمن بن جائیں… ہم مجاہد فی سبیل اللہ بن جائیں… اور ہمیں… اللہ تعالیٰ
کے راستے کی مقبول شہادت نصیب ہوجائے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 657
بابا مسعود واقعی مسعود
(حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کی مجلس سے)
* گستاخانہ خاکوں پر شدید رد
عمل اور اس حساس معاملےکے بارے میں اہل اسلام کو چند اہم ہدایات…
* شیخ الاسلام حضرت خواجہ فرید
الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کا مبارک تذکرہ اور تعارف…
* آپ رحمہ اللہ علیہ کی اصل تعلیمات اور ان سے حاصل
ہونے والے اسباق…
* ’’راحت القلوب‘‘ کا تعارف اور
چند اہم اقتباسات…
* ’’راحت القلوب‘‘ کے اصل موضوع
کی تعیین…
* تین اہم فوائد…
یہ
ہیں اس معطر تحریر کے اہم موضوعات ، ملاحظہ کیجیے۔
تاریخ
اشاعت:
۱۹ ذوالحجہ ۱۴۳۹ھــ/31اگست
2018ء
بابا مسعود واقعی مسعود
(حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کی مجلس سے)
اللہ
تعالیٰ کی ’’صلوٰت‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا سلام … ہمارے آقا حضرت سیّدنا محمد صلی
اللہ علیہ والہٖ وصحبہٖ وسلم پر… گستاخانہ خاکوں کا معاملہ گرم ہے… اللہ تعالیٰ کی،
اُس کے تمام فرشتوں کی اور اُس کی تمام مخلوق کی ’’لعنت‘‘ منحوس خاکے بنانے والوں
پر ، چھاپنے والوں پر اور اِن پرخوش ہونے والوں پر… جو لوگ یہ خاکے بناتے ہیں وہ
سب ’’واجب القتل ‘‘ مردود اور ملعون ہیں…اُن کو قتل کرنا بڑی عبادت اور پکی مغفرت
کا ذریعہ… اور اللہ تعالیٰ کے خاص قرب کو پانے کا’’ وسیلہ‘‘ ہے… میں اس معاملے میں
کچھ زیادہ ہی معذور ہوں… نہ ہی اپنے اندر اُن ناپاک خاکوں کو دیکھنے کی ہمت پاتا
ہوں … اور نہ اس موضوع پر زیادہ لکھنے کی قوت رکھتا ہوں… عالم اسلام کے ہر مسلمان
سے میری دردمندانہ گذارش ہے کہ … وہ اِن عذاب زدہ خاکوں کو نہ دیکھیں… نہ پھیلائیں…
اور نہ اس حرکت کو معمولی اور قابل معافی جرم سمجھیں… اس موضوع پر زیادہ بات چیت
نہ کریں… دل میں انتقام کی شمع روشن کریں اور جس کو جہاں بھی موقع ملے ان خاکہ نویسوں
کو واصل جہنم کریں… اُن کو جو بھی نقصان پہنچا سکتے ہوں پہنچائیں…اور دنیا کو بتا
دیں کہ… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہم ادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں
کر سکتے… اس گستاخی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں ساری دنیا سے لڑنا پڑے تو ہم لڑیں گے…
مرنا پڑے تو مر جائیں گے… ساری دنیا کو آگ لگانی پڑے تو لگا دیں گے…ایٹم بم اور طیارے
اُن کے لئے خوف کی علامت ہوتے ہیں جو زندہ رہنا چاہتے ہوں… حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کو برداشت کر کے زندہ رہنے کا شوق کسی
کلمہ گو مسلمان کے دل میں نہیں ہو سکتا… پھر ڈر کس چیز کا؟… تم ہمارے زمانے کے لوگ
ہو، آؤ ہم سے بات کرو…ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہاتھ کیوں بڑھاتے ہو؟… اپنے ناپاک،
بدبودار اور نجس ہاتھوں کا رخ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرو گے تو… کتے سے بدتر موت مرو گے… میدان
میں تو تم ہمارا مقابلہ کر نہیں سکتے… تمہارے فوجی پیمپر پہن کر غلاظت میں ڈوب
جاتے ہیں… تم اپنے گھروں اور شہروں کو محفوظ نہ سمجھو… امت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کا غیظ و غضب ہر پتھر کے نیچے تمہیں
ڈھونڈ کر جلا دے گا… مسلمانو! مسلمان بنو… ان گستاخوں ، ظالموں سے ہر رشتہ توڑ
ڈالو… اور اُن کے دماغوں کو اُن کی کھوپڑیوں سمیت اُڑا ڈالو… ہماری ان باتوں کو
کوئی نفرت کا پیغام کہتا ہے تو کہتا رہے… کوئی دہشت گردی کہتا ہے تو کہتا رہے… کوئی
انتہا پسندی کہتا ہے تو کہتا رہے… ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کچھ نہیں… ہمارے دامن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے علاوہ کچھ نہیں… ناموس رسالت پر جان
گئی تو مزے ہو جائیں گے… سارے گناہ مٹ جائیں گے… اور شہادت کا وہ مقام ملے گا جس
کے سامنے ہزار زندگیاں بھی کچھ نہیں… مسلمانو! شور مچانے سے کچھ نہیں ہو گا دشمنوں کے گھروں کے اندر شور اُٹھاؤ… مذمت
کرنے سے کچھ نہیں ہو گا… یہ وہ جرم نہیں جو صرف’’ مذمت‘‘ سے دھل سکتا ہو… یہ اُن کی
طرف سے سب سے بڑا اعلان جنگ ہے … جنگ کا جواب جنگ سے دو… تم اس نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے امتی ہو جو خود میدانوں میں نکل
کر جہاد فرمایا کرتے تھے… گھر بیٹھ کر خود کو ’’مجاہد‘‘ نہ کہلواؤ… اور صرف مذمت
کر کے دشمنوں کو اپنے اوپر نہ ہنساؤ۔
اللہ
کرے دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک کر کے مارے جائیں… اور پھر کسی کو ہمت
نہ ہو کہ وہ یہ جرم کر سکے… یا اللہ! مجھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہر فرد کو…سچا ایمان اور سچا عشق رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نصیب فرما… ہم سب کو عملی مجاہد بنا… ہم سب کو
عشق کے اصل تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطاء فرما… ہمیں اس زمانے کے دجالی فتنے
’’سوشل میڈیا‘‘ کے شر سے بچا… دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کی ہمیں ہمت ، جرأت اور توفیق عطاء
فرما… ہمارے دلوں سے مخلوق کا خوف، رعب اور دنیا کی محبت دور فرما… ہمیں شہادت کا
دیوانہ بنا… اور ہم سے کام لے لے…آمین یا ارحم الراحمین۔
حضرت
مسعود… واقعی مسعود
آج
کل’’پاک پتن ‘‘ کا نام بہت چل رہا ہے … وہاں جس ’’اللہ والے‘‘ کا مزار ہے… اُن کا
نام نامی، اسم گرامی ’’مسعود‘‘ تھا…والدین نے ’’مسعود‘‘ نام رکھا اور اللہ تعالیٰ
نے آپ کو اپنے فضل سے واقعی ’’مسعود‘‘ بنا دیا… سعادتمند ، خوش نصیب، سعادتوں کا
مجموعہ… ورنہ نام کا ہر’’مسعود ‘‘ تو ’’مسعود ‘‘ نہیں ہوتا… یا اللہ ! رحم… آپ کا
لقب ’’فرید الدین‘‘ اور عرف ’’ گنج شکر‘‘ تھا… وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک
مخلص، وفادار اور مقبول بندے تھے… وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، دیوانے اور متبع امتی تھے…وہ سلسلہ چشتیہ
کے تیسرے بڑے ستون اور حضرات اولیاء کرام کے سر کا تاج تھے… وہ علم ، عمل ، اخلاص،
عبادت اور تبلیغ کے کامیاب شہسوار تھے… میں نے اُن کی زندگی اور اُن کے حالات و
اقوال پر غور کیا تو بس یہی سمجھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک ’’راز‘‘
اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ’’نشانی‘‘ تھے… سب سے پہلے اُن سے تعارف…
اپنے استاذ، اپنے شیخ اور اپنے مربی ومحسن حضرت مفتیٔ اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی نور
اللہ مرقدہ کی کتاب سے ہوا… حضرت نے ’’اولیاء پاک وہند‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف
فرمائی تھی… یہ کتاب اب نایاب ہے… میں نے اس پر کچھ کام کیا تھا تاکہ… اسے دوبارہ
شائع کیا جا سکے مگر ابھی تک اس بارے قسمت نہیں جاگی… جو میرے اللہ کو منظور… پھر
ابھی کچھ دنوں سے توجہ… حضرت ’’شیخ عالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نور اللہ
مرقدہ‘‘ کی طرف ہو گئی… مختلف ذرائع سے اُن کے حالات زندگی پڑھے تو معلوم ہوا کہ…
اُن کے ملفوظات پر مشتمل ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے… یہ کتاب حضرت شیخ بابا جی رحمہ اللہ علیہ کے جانشین اور سلسلہ چشتیہ کے چوتھے ستون… حضرت
نظام الدین اولیاء نور اللہ مرقدہ نے لکھی ہے …اور اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا
ہے… تلاش کے بعد یہ کتاب مل گئی… نام اس کتاب کا ’’راحت القلوب ‘‘ ہے… صفحات کی
تعداد ایک سو پچھتر ہے… جس میں اصل کتاب کا مواد ایک سو پچیس ( 125 ) صفحات پر
مشتمل ہے… کتاب پڑھنے کی دعوت اس لئے نہیں دے سکتا کہ اول تو یہ کتاب ملتی نہیں…
دوسرا یہ کہ اکابر صوفیاء کرام کی باتوں کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں… وہ
بہت کچھ ایسا فرماتے ہیں جسے دلائل پر نہیں پرکھا جا سکتا… تب طرح طرح کی بحثیں
شروع ہو جاتی ہیں اور نادان و کم عقل لوگ… اُن اولیاء کرام کی گستاخی میں زبانیں
دراز کرنے لگتے ہیں… جیسا کہ چند دن پہلے انٹرنیٹ پر سرگرم ایک جاہل بے وقوف …
حضرت ہجویری ة رحمہ اللہ علیہ کی کتاب ہاتھ میں لے کر اس پر اور حضرت ہجویری پر
تابڑ توڑ جاہلانہ حملے کر رہا تھا… حتیٰ کہ وہ اتنی جہالت پر اُتر آیا کہ… حضرت
بایزید بسطامی رحمہ اللہ علیہ کے نام پر چیخنے
لگا کہ… بایزید کامطلب ’’ابو یزید‘‘ ہے اور’’ یزید‘‘ نام کو اپنے نام کا حصہ بنانے
والا شخص کیسے ولی ہوسکتاہے؟…حالانکہ یزید نام تو کئی حضرات صحابہ کرام کا بھی
ہے…تیسرا یہ کہ کتاب ’’راحت القلوب‘‘ میں کئی عربی عبارات اور دعاؤں میں کتابت کی
غلطیاں ہیں… عربی سے ناواقف لوگ اس میں خطاء کر سکتے ہیں… چوتھا یہ کہ حضرات صوفیاء
کرام کی کئی باتوں کا تعلق اُن کے کشف اور ذوق سے ہوتا ہے اور نقل در نقل میں غلطیاں
بھی ہو جاتی ہیں… ان چار وجوہات کی وجہ سے کتاب پڑھنے کی دعوت صرف اہل علم، اہل
ادب اور اہل دل کو ہی دی جا سکتی ہے ( اہل ادب سے مراد ادیب نہیں بلکہ باادب لوگ)
… بہرحال یہ لاجواب کتاب ہے اور اس کے پڑھنے سے دل میں نور و سرور کا ایک دریا
موجزن ہو جاتا ہے…اللہ تعالیٰ حضرت شیخ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ
علیہ کے درجات بلند فرمائے… اور انہیں اس
امت کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطاء فرمائے… اور آج جو لوگ اُن کے ساتھ اپنی
نسبت کا دعویٰ کر رہے ہیں… اور جو لوگ اُن کی گدی کے وارث ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو
بھی حضرت بابا جی کے نقش قدم پر چلائے… وہاں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے… اس کا حضرت
بابا جی کی زندگی اور آپ کی مبارک تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں
آتا… اسی لئے عرض کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک ’’راز‘‘ تھے…کاش اُن
کی خانقاہ سے ہی کوئی ’’رازدان ‘‘ اُٹھے … اور لوگوں کو اصل اور سچے ’’بابا فرید‘‘
سے جوڑ دے… وہ بابا ’’فرید‘‘ جو توحید و سنت کے علمبردار دنیا سے زاہد و بے رغبت
عبادت و ریاضت میں اپنی مثال آپ، اللہ تعالیٰ کی معرفت کے روشن مینار حضرت امام
ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے باعلم پیروکار،
سنت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے اور اپنے جد امجد حضرت سیدنا عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی سے سرشار تھے۔ حضرت شیخ الاسلام، مجدد زمان
خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے لمبی عمر، دنیا کی سیاحت،
زمانے کے اولیاء کرام کی صحبت اور علم و عمل کی بلند نسبت عطاء فرمائی تھی…آپ کی
ولادت شعبان کے مہینہ میں جبکہ وفات محرم الحرام کے مہینہ میں ہوئی…ولادت کا سال ۵۸۹ھ
بمطابق 1173 ء ہے… اور وفات کا سال ۶۶۶ ھ بمطابق 1265
ء ہے… یعنی آج سے تقریباً پونے آٹھ سو سال پہلے (تاریخ وفات میں اور اقوال بھی
ہیں)… آپ کی ولادت ’’ملتان‘‘ میں ہوئی… اس لئے آپ کی شاعری میں ’’سرائیکی ‘‘
اشعار بکثرت ہیں… ’’وفات‘‘ پاکپتن میں ہوئی… آپ کی پنجابی شاعری ’’مقبول جہاں‘‘
ہے… دینی علم مکمل حاصل فرمانے کے لئے افغانستان اور ماوراء النہر کے اسفار فرمائے
… عربی ، فارسی اور سنسکرت کے الفاظ آپ کی شاعری میں موزوں ہوتے ہیں… زمانے کے
بڑے بڑے علماء اور اولیاء سے فیض حاصل کیا… اور بالآخر روحانیت کا یہ شہباز… حضرت
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نور اللہ مرقدہ کے دست حق پرست کا اسیر ہوا… اور حضرت
قطب کے بعد آپ ہی سلسلہ چشتیہ کے سربراہ بنائے گئے… آپ کا سلسلۂ نسب اکثر مؤرخین
کے نزدیک … حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
دلوں
کی راحت
آپ
کے ملفوظات کے مجموعہ کا نام ’’ راحت القلوب ‘‘ ہے… اور یہ ملفوظات واقعی ’’دلوں کی
راحت‘‘ ہیں …ہمارے دل جب دنیا، عہدے اور خواہشات کی محبت میں پھنستے ہیں تو وہ…
راحت اور سکون سے محروم ہو جاتے ہیں… اور جب ان دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور
آخرت کی فکر پیدا ہو جاتی ہے تو پھر…راحت و سکون بھی واپس آ جاتے ہیں… حضرت والا
کے یہ ملفوظات ’’مجالس‘‘ کی شکل میں ہیں… حضرت نظام الدین اولیاءہر ’’ مجلس‘‘ کا
آغاز اس کی تاریخ اور مجلس کے حاضرین کے ناموں سے فرماتے ہیں… اور ہر مجلس کا
اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ پھر اذان ہو گئی… حضرت فوراً نماز میں مشغول ہو گئے
اور اہل مجلس وہاں سے اُٹھ گئے… تمام ملفوظات میں نماز کے بے حد اہتمام کا درس
ملتا ہے… رمضان المبارک کی مجلس میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ رمضان کا مہینہ ہے۔ میں روز رات کو
تراویح میں پورا قرآن پاک ختم کیا کروں گا، کوئی ہے جو میرا ساتھ دے؟ تمام حاضرین
نے خوشی اور سعادتمندی کے ساتھ شرکت کا عزم کیا۔ پھر حضرت شیخ ایک رات میں دو دو
قرآن ختم فرماتے تھے، ہر رکعت میں دس دس پارے پڑھتے تھے اور تھوڑی رات رہے فارغ
ہوتے۔‘‘
[راحت القلوب۔ ص:۱۰۱،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
آگے لکھتے ہیں:
’’جو شخص ان چار باتوں کا خیال نہیں رکھتا (۱) زکوٰۃ ( ۲) صدقہ
و قربانی (۳) نماز
(۴) دعاء
… تو اللہ تعالیٰ اسے چار خیروں سے محروم کر دیتا ہے…ترک زکوٰۃ سے برکت جاتی رہتی
ہے، ترک صدقہ سے صحت بگڑنے لگتی ہے، ترک نماز سے مرتے وقت ایمان سلب ہو جاتا ہے
اور ترک دعاء سے پھر دعاء مستجاب ( یعنی قبول ) نہیں ہوتی۔‘‘
[راحت القلوب۔ ص:۱۲۵،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
’’راحت القلوب‘‘ کا اصل موضوع
اس
کتاب کا اصل موضوع … اول تا آخر… دنیا اور مال سے محبت کی مذمت، اس کے نقصانات
اور اس سے چھٹکارا پانے کی فکر ہے…حضرت نے اپنے واقعات بیان فرمائے کہ… آپ کو کیسی
کیسی جاگیریں اور زمینیں ملیں مگر آپ نے قبول نہ فرمائیں… اور اپنے ان خلفاء اور
مریدین کو سخت تنبیہ فرمائی جو مالداروں اور بادشاہوں کے قریب ہو گئے… اور آپ نے
موت کا شوق اپنے مریدین میں پیدا فرمایا کہ… اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کریں…
اور موت سے غافل نہ ہوں… آخری مجلس میں آپ نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ
وسلم کی وفات کا واقعہ بیان فرمایا… اور روتے روتے بے ہوش ہو گئے… جب آپ کو ہوش آیا تو حضرت خواجہ نظام الدین
کو مخاطب کر کے فرمایا :
’’جن کے واسطے تمام عالم پیدا کئے( یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ) جب اُنہیں کو عالم میں نہ رکھا تو پھر میں اور
آپ کون ہیں کہ زندگی کا دم بھریں۔ پس ہم بھی اپنے آپ کو رفتگان (دنیا سے جانے
والوں) میں شمار کرتے ہیں، مگر زاد راہ کا فکر کرنا بہت ضروری ہے، غفلت اور گفتگو
میں وقت نہیں کھونا چاہیے تاکہ کل قیامت کے روز شرمندہ نہ ہوں۔‘‘
[راحت القلوب۔ ص:۱۷۴،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
دنیا
داری کے بارے میں آپ رحمہ اللہ علیہ کے
چند اقوال ملاحظہ فرمائیے:
١ ’’درویشی
پردہ پوشی کا نام ہے اور خرقہ ( یعنی بزرگوں والا لباس ) پہننا اس شخص کا کام ہے
جو مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے عیبوں کو چھپائے اور انہیں کسی پر ظاہر نہ کرے،
مالِ دنیا میں سے اس کے پاس جو کچھ آئے اسے راہ خدا میں صرف کرے اور جائز مصرف میں
اُٹھائے، خود اس میں سے ایک ذرے پر نظر نہ رکھے۔‘‘
[راحت القلوب۔ ص:۷۴،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
٢ ’’اہل
معرفت نے کہا ہے جس نے دنیا کو چھوڑ دیا وہ اس پر حاوی ہو گیا اور جس نے دنیا کو
اختیار کیا وہ مارا گیا۔ مولا اور بندے کے درمیان دنیا سے بڑھ کر کوئی حجاب نہیں،
جس قدر انسان دنیا میں مشغول ہوتا ہے اسی قدر حق سے دور رہتا ہے۔ ‘‘
[راحت القلوب۔ ص:۶۴،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
٣ ’’جو
درویش دنیا میں مصروف رہتا ہو اور دنیاوی عہدے اور عزت کا طلبگار ہو سمجھ لو کہ وہ
درویش نہیں بلکہ طریقت کا مرتد ہے کیونکہ فقر نام ہی اس چیز کا ہے کہ دنیا سے
اعراض کیا جائے۔‘‘ [راحت القلوب۔ ص:۱۲۵،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
٤ ’’جس
قدر مالدار لوگوں سے بچو گے اسی قدر اللہ تعالیٰ سے نزدیکی ہوتی جائے گی۔ چونکہ
مالدار ( دنیا داروں) کے دل میں دنیا کی محبت پکی ہوتی ہے اس لئے ان کی صحبت سے
نقصان ہوتا ہے۔‘‘ [راحت القلوب۔ ص:۶۷،ط:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
اہم
ترین
آخر
میں تین اہم ترین باتیں مختصر طور پر عرض کر کے مجلس ختم کرتے ہیں۔
١ اہل
سنت والجماعت
حضرت
بابا جی رحمہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :
’’جو شخص اپنے مریدوں کو مذہب اہل سنت والجماعت کے قانون پر نہیں
چلاتا اور اپنی حالت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے موافق نہیں رکھتا وہ ’’رہزن
‘‘ ہے۔
دھویں سے آگ کا پتہ چلتا
ہے اور مرید سے پیر کا یہ جو بیسیوں آدمی گمراہی میں پڑے دکھائی دیتے ہیں پس اس کی
وجہ یہی ہے کہ ان کا پیر کامل نہیں ہے۔‘‘
[راحت القلوب:۷۷،ضیاء
القرآن پبلی کیشنز۔لاہور]
معلوم
ہوا کہ مسلک ’’اہل سنت والجماعت ‘‘ ہی کامیابی کی ضمانت ہے… اور اس کی طرف لوگوں
کو متوجہ کرنا ’’فرقہ پرستی ‘‘ نہیں بلکہ… حق کی دعوت ہے… حضرت بابا جی قدس سرہ سے
محبت کے دعویدار اس کا ضرور اہتمام کریں ورنہ ان کا دعویٰ محبت… صرف زبانی رہ جائے
گا۔
٢ صرف
اسلام، صرف اسلام
حضرت
اپنے تمام ملفوظات میں… اسلام کی حقانیت اور اسلام کی دعوت کو اپنا بنیادی موضوع
بناتے ہیں اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے ہیں کہ… اپنے مذہب کا شجرہ یاد رکھیں جو
کہ اسلام ہے… اور ائمہ کرام کے چار مذاہب میں سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
علیہ کے مسلک کو فاضل تر قرار دیتے ہیں… کتاب کے صفحہ (۱۳۲) سے لے کر( ۱۳۴) تک
یہی مضمون ہے… پس سکھ مذہب کے جو افراد حضرت بابا جی کے چند اشعار کو اپنی
’’گوربانی ‘‘ میں شامل کر کے… خود کو ’’حضرت بابا جی‘‘ کا معتقد قرار دیتے ہیں وہ…
حضرت بابا جی کی بنیادی دعوت کو سمجھیں اور قبول کریں… حضرت بابا جی رحمہ اللہ
علیہ اگر سب ادیان کو… حق پر سمجھتے تو
آپ کے ہاتھ پر بے شمار غیر مسلم افراد اسلام قبول نہ کرتے۔
٣ فدائی
مجاہدین زندہ باد
حضرت
نظام الدین اولیاء تحریر فرماتے ہیں:
’’پھر اللہ تعالیٰ کی بزرگی ( یعنی عظمت) پر گفتگو شروع ہوئی۔ (
حضرت بابا فرید رحمہ اللہ علیہ نے) ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب سے بزرگ ہے،
لیکن جب یہ بات ساری دنیا جانتی ہے تو اس نعمت سے محروم کیوں رہتی ہے اور فکر و
ذکر میں عمر کس لئے صرف نہیں کرتی… پھرارشاد فرمایا کہ بعض بندے اللہ کے ایسے ہیں
جو دوست ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کا نام سن کر جان و مال فدا کر دیتے ہیں۔ ‘‘ [راحت القلوب:۱۲۱،ضیاء القرآن
پبلی کیشنز۔لاہور]
دیکھیں!
اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب ولی …جان و مال قربان کرنے کی کیسی دلکش فضیلت بیان فرما
رہے ہیں… اس زمانے میں اگر حضرت بابا جی رحمہ اللہ علیہ کے ملفوظات پر کوئی عمل کر رہا ہے تو وہ … اسلام
کے سچے ’’فدائی مجاہدین‘‘ ہیں… اور یہی خوش نصیب بندے… گستاخانہ خاکے بنانے والوں
کو بھی خاک میں ملا دیںگے، ان شاء اللہ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 658
بیماری اور مصروفیت کے وقت
معمولاتِ کافیہ
* ’’معمولات کافیہ‘‘ یعنی وہ معمولات جو اگر
صبح و شام
کر
لئے جائیں تو بندے کی دنیا و آخرت کی حاجات
کے لئے کافی ہو جاتے ہیں۔
* گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی منسوخی پر اظہارِ تشکر
* اعمال اور معمولات کے بارے میں دو اہم ہدایات
* اہل علم سے ایک گزارش
ایک
مبارک تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۶ ذوالحجہ۱۴۳۹ھ/7
ستمبر 2018ء
بیماری اور مصروفیت کے وقت
معمولاتِ کافیہ
اللہ
تعالیٰ کا بے حد ’’شکر‘‘… الحمد للہ ناپاک ’’خاکوں‘‘ کا مقابلہ ’’منسوخ ‘‘ ہو گیا
ہے… جس نے بھی اس سلسلے میں اخلاص کے ساتھ جو بھی محنت کی ہے… اللہ تعالیٰ اس کو
جزائے خیر عطاء فرمائے … اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس نے کیا محنت کی اور کس نیت
سے کی… اور کس کی محنت اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت
اُتار دی…یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی نصرت ہی تھی کہ اتنا بڑا عذاب ٹل گیا…
الحمد للہ ، الحمد للہ ، الحمد للہ… اللہ تعالیٰ ان نجس مقابلوں کا اعلان کرنے
والے ’’اڑیل گدھے ‘‘ کو اس کے انجام تک پہنچائے۔
وعدہ
یاد ہے
عید
سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ… ’’اعمال کفایت ‘‘ عرض کئے جائیں گے… یعنی وہ ’’معمولات‘‘
جو اگر صبح و شام کر لئے جائیں تو وہ … بندے کی دنیا و آخرت کی حاجات کے لئے کافی
ہو جاتے ہیں… ارادہ تھا کہ آج وہ سارے اعمال باحوالہ اور باتفصیل عرض کر دوں… مگر
حالت کچھ ایسی ہے کہ تفصیل سے نہیں لکھ سکتا… اسی لئے بس وہی ’’اعمال ‘‘ مختصراً
عرض کردیتاہوں…آپ میں سے جو صاحب مطالعہ ہیں ان کو تو تفصیل خود معلوم ہو گی… اور
جن کو معلوم نہیںہے ان کے لئے ان شاء اللہ کسی اور وقت میں تفصیل بیان کر دی جائے
گی… مگر ان ’’معمولات ‘‘سے پہلے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیں۔
١ ذکر
اللہ اور دعاؤں والے معمولات ہمیشہ پورے کرنے چاہئیں…اعمال اور معمولات میں سستی
اچھی بات اور اچھی عادت نہیں ہے… یہ ذکر اللہ اور دعائیں ہمارے وقت کا بہترین مصرف
ہیں… اور ان سے ہماری آخرت آباد اور دنیا آسان ہوتی ہے… آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں…
مثلاً آپ کے صبح کے معمولات اگر دو گھنٹے کے ہیں تو لوگ سوچیں گے یہ آدمی اور کیا
کام کر سکے گا؟… دو گھنٹے صبح کے معمولات، دو گھنٹے شام اور رات کے معمولات… پانچ
فرض نمازیں… تہجد، اشراق اور چاشت بھی… دو یا تین وقت کا کھانا… چھ یا سات گھنٹے
آرام… پھر زندگی کے کاموں کے لئے کیا وقت بچا؟… مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ… جو شخص
اتنے یا اس سے بھی زیادہ معمولات کرتا ہو… اس کے وقت میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ وہ
فارغ لوگوں سے زیادہ کام کر لیتا ہے… اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسا وزن، ایسا مقام
اور ایسی قدر و قیمت عطاء فرما دیتے ہیں کہ… اس کے لئے مختصر وقت میں بڑے بڑے کام
کرنا آسان ہو جاتا ہے… اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایک کلرک اور ایک وزیر اعظم کے
دستخط میں کتنا فرق ہوتا ہے… وزیراعظم کے دستخط سے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں
حالانکہ دستخط کرنے میں اس کا بھی کلرک جتنا وقت ہی صرف ہوتا ہے… اس لئے اگر اللہ
تعالیٰ نے آپ کو اپنے ذکر کی توفیق دے رکھی ہے… دعاء کا ذوق دے رکھا ہے… درود شریف
کی توفیق دے رکھی ہے تو…اپنے ان معمولات کی حفاظت کریں…اور سخت عذر کے علاوہ کبھی
اپنے معمولات نہ چھوڑیں… گذشتہ کالم میں حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج
شکر نور اللہ مرقدہ کی کتاب ’’راحت القلوب‘‘ کا تذکرہ آیا تھا… حضرت شیخ نے اپنی
اس کتاب میں دو تین مقامات پر… معمولات اور اعمال مکمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے…
ان میں سے بس ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
حضرت
بابا جی ارشاد فرماتے ہیں :
’’اگر اہل سلوک کبھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوتے ہیں تو کہتے
ہیں کہ ہم اس وقت مردہ ہیں، اگر زندہ ہوتے تو مولیٰ کا ذکر ہم سے الگ نہ ہوتا۔
بغداد میں ایک بزرگ تھے ہزار بار ذکر اللہ ان کا روزانہ وظیفہ تھا۔ ایک دن وہ ناغہ
ہو گیا، غیب سے آواز آئی کہ فلاں ابن فلاں نہ رہا۔ لوگ اس آواز کو سن کر جمع
ہوئے اور ان بزرگ کے دروازے پر پہنچے مگر وہ زندہ تھے سب حیرت میں پڑ گئے اور بزرگ
سے معذرت کرنے لگے کہ غلطی یاغلط فہمی ہوئی۔ انہوں نے تبسم فرمایا اور کہا آپ
صاحبان ٹھیک آئے… جیسا کہ آواز میں سنا ویسا ہی جانو، میرا وظیفہ ناغہ ہو گیا
تھاوہاں اعلان ہو گیا کہ میں مر گیا ہوں۔ ‘‘
[راحت القلوب:۱۲۱،طبع:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔لاہور]
٢
انسان کبھی بیمار ہو جاتا ہے… ایسا بیمار کہ اپنے وظیفے اور معمولات کو پورا نہیں
کر سکتا… یا بعض اوقات انسان ایسا مصروف ہو جاتا ہے کہ …زندگی تنگ دائرے میں
گھومنے لگتی ہے اور معمولات کا موقع نہیں ملتا… تب انسان کو چاہیے کہ ہاتھ بالکل
خالی نہ کرے… بلکہ ان اعمال و معمولات کو اپنا لے جن کے بارے میں ہمارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ… یہ اعمال
انسان کے لئے کافی ہو جاتے ہیں… یعنی انسان ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی رحمت،
حفاظت اور عنایت میں رہتا ہے…اور وہ غفلت اور بڑے حوادث سے محفوظ رہتا ہے… بیماری
اور مصروفیت کے دنوں میں اگر ہم ان معمولات کی پابندی کریں جو کہ چند منٹ کے ہیں
تو… بہت جلد حالات کھل جاتے ہیں … اور پھر گھنٹوں کے حساب سے پہلے کی طرح… ذکر
اللہ اور دیگر معمولات کی توفیق مل جاتی ہے، ان شاء اللہ۔
اعمالِ
کفایت
صبح
کب شروع ہوتی ہے اور شام کب ؟ … اہل علم اور اہل دل کے کئی اقوال ہیں… مضبوط اور
اطمینان والی بات یہ ہے کہ صبح صادق سے صبح شروع ہو جاتی ہے… یعنی جن اعمال اور
دعاؤں کے بارے میں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح پڑھنے کا حکم فرمایا ہے… وہ صبح صادق یعنی
فجر کی نماز کا وقت داخل ہوتے ہی پڑھے جا سکتے ہیں…اور شام غروب آفتاب سے شروع
ہوتی ہے… یعنی جب سورج غروب ہو جائے افطار اور نماز مغرب کا وقت داخل ہو جائے تو یہ
شام ہو گئی… اب وہ اعمال اور دعائیں ادا کی جا سکتی ہیں جن کو حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے شام کے وقت ادا کرنے کا
حکم فرمایا ہے…فرض نمازیں تو بہرحال ضرور ادا کرنی ہیں … البتہ خواتین کے لئے عذر
کے ایام میں نمازیں معاف ہیں…نمازوں کے بعد صبح شام کے اعمال کفایت یہ ہیں ۔
١ صبح و
شام تین تین بار سورۂ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس
٢ ایک ایک
بار سید الاستغفار
اَللّٰہُمَّ
أَنْتَ رَبِّی لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ
وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ
مَا صَنَعْتُ أَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْءُ بِذَنْبِیْ
فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ۔
٣ یہ دو
دعائیں تین تین بار
(الف): أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا
خَلَقَ۔
(ب): بِسْمِ اللہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی
الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
٤ سات بار یہ دعاء ( آیت)
حَسْبِیَ
اللہُ لَا اِلٰہَ الَّا ھُوَ عَلَیہِ
تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔
٥ ایک
بار وہ دعاء جو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرمائی ہے:
اَللّٰہُمَّ
اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ
الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ مَا شَآءَ اللہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اَعْلَمُ
اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ
عِلْمًا۔اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ
دَآبَّۃٍ اَنْتَ اٰخِذٌم بِنَاصِیَتِہَا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔
٦ سورۂ
فاتحہ پھر سورۂ بقرہ کی پہلی آیات ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘ تک… آیۃ الکرسی اور اس
کے بعد کی آیات ’’خَالِدُوْنَ‘‘ تک… اور سورہ ٔبقرہ کی آخری آیات’’ اٰمَنَ
الرَّسُوْلُ‘‘ سے آخر تک۔
آخری
گذارش
بندہ
بے علم اور ناچیز طویل عرصہ سے مسنون دعاؤں اور معمولات کے مطالعے سے شغف رکھتا
ہے…جب کوئی کتاب پڑھی اس میں دعاؤں کی طرف ہمیشہ خاص توجہ رہی… ابھی ’’راحت
القلوب‘‘ پڑھی تو اس میں بھی دعاؤں اور وظائف پر نشانات لگا لئے ہیں اور ایک وظیفہ
اپنے معمولات میں بھی شامل کر لیا ہے… حتٰی کہ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے وقت بھی یہی
ذوق رہا… جہاد اور دعاء…اس لئے اپنے اس طویل مگر محدود تجربے کی بنیاد پر… یہ چھ
اعمال کفایت منتخب کئے ہیں… یقیناً اہل علم کے پاس اس بارے میں زیادہ علم ہو گا ان
میں سے کئی مشورہ بھی دینا چاہتے ہوں گے…ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق
عمل فرمائیں… بندہ نے تو اپنے جیسے افراد کے لئے یہ نصاب منتخب کیا ہے… اور بندہ
کا وجدان بھی یہی ہے کہ جب صبح اور شام یہ چھ اعمال ہو جائیں تو دل میں ایک اطمینان
سا محسوس ہونے لگتا ہے… اور ویسے بھی پہلے عرض کر دیا ہے کہ … یہ چھ اعمال اس صورت
میں ہیں جب بیماری نے زیادہ اعمال سے عاجز کر دیا ہو… یا مصروفیات نے مکمل گھیراؤ
کر لیا ہو… عام حالات میں تو جی بھر کر ذکر، دعاء اور معمولات کرنا ہی… اہل ایمان
کا طریقہ ہے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 659
نئے سال کا روزنامچہ
* سال نو۱۴۴۰ھ کا آغاز اور
اس کے لئے منصوبہ بندی…
* اسلامی سال کے آغاز میں ہونے والے کچھ نامناسب امور
کی تردید…
* سورۃ ’’وَالْعَصْرِ‘‘ کی مختصر تشریح…
* ہر انسان خسارے میں ڈوبتا جا رہا ہے مگر وہ جو
اپنی زندگی کے اوقات ایمان، عمل صالح ، حق کی دعوت اور صبر کی دعوت میں خرچ
کرے۔اس لئےہر نئے سال کی منصوبہ بندی بھی انہی چار چیزوں کومد نظر رکھ کر کرنی
چاہیے…
یہ
ہیں اس معطر تحریر کے اہم موضوعات، ملاحظہ کیجیے
تاریخ
اشاعت:
۳
محرم الحرام ۱۴۴۰ھ/14
ستمبر 2018ء
نئے سال کا روزنامچہ
اللہ
تعالیٰ نئے سال کو ہم سب کے لئے ’’مبارک‘‘ فرمائے… آج ’’حجاز مقدس‘‘ میں یکم محرم
۱۴۴۰ھ
کی تاریخ ہے… ہمارے ہاں بھی کل یہی تاریخ ہو گی… اور جب ساری امت مسلمہ ایک
’’چاند‘‘ پر آ جائے گی تو ہر جگہ تاریخ بھی ایک ہو جائے گی، ان شاء اللہ… چلیں
آج نئے سال کا روزنامچہ ( یعنی ڈائری) تیار کرتے ہیں۔
کچھ
کام تو خود بخود ہوں گے
محرم
الحرام شروع ہوتے ہی کچھ کام تو خود بخود شروع ہو جاتے ہیں…آغاز محرم میں حضرت امیر
المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا تذکرہ مہکتا ہے… چونکہ آپ سے محبت رکھنے
والے افراد آپ کا دن منانے کی بجائے آپ سے روشنی پانے کی زیادہ فکر رکھتے ہیں…
اس لئے امت میں باقاعدہ’’یوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ‘‘ نہیں منایا جاتا… جبکہ بعض لوگ مناتے بھی ہیں…
مگر عمومی ماحول چودہ سو سال سے یہ دن نہ منانے کا ہے… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ کی شان، جلال اور انوارات کسی ایک دن کے ساتھ خاص نہیں… ایک مسلمان کو پورا
مسلمان بننے کے لئے… چاروں خلفائے راشدین کی سیرت کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے…یکم
محرم کے بعد پھر پانچ محرم کے دن… ہمارے مخدوم مرشد حضرت بابا فرید الدین مسعود
گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کا عرس شروع ہو
جاتا ہے… سنا ہے بڑی دھوم دھام ہوتی ہے… کوئی بہشتی دروازہ بھی کھلتا ہے… نماز وغیرہ
کی زیادہ فکر نہیں کی جاتی البتہ قوالی اور سماع کا زور رہتا ہے… حالانکہ حضرت
بابا جی قدس سرہ کے آخری دن… یعنی چار محرم کی مصروفیات کے بارے میں سوانح نگار
لکھتے ہیں:
’’( حضرت بابا جی شیخ الاسلام والمسلمین فرید الدین مسعود ذوالحجہ
کے آخر میں بیمار ہو گئے زندگی کا آخری دن یعنی چار محرم بیماری کی تکلیف کی وجہ
سے) بے چینی اور تکلیف میں گذرا مگر تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں اور تمام
وظائف بھی پورے کئے ، پھر عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔
کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے پوچھا کہ میں نے
عشاء کی نماز پڑھ لی ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ حضرت عشاء کی نماز وتر کے ساتھ ادا
کر چکے ہیں۔اس کے بعد آپ پھر بے ہوش ہو گئے۔جب ہوش آیا تو فرمایا کہ میں دوسری
مرتبہ نماز ادا کروں گا،اللہ جانے پھر موقع ملے یا نہ ملے۔ مولانا بدر الدین کہتے
ہیں کہ اس رات آپ نے تین مرتبہ عشاء کی نماز ادا کی۔ پھر آپ نے وضو کے لئے پانی
منگوایا، وضو کیا، دو رکعت نماز ادا کی پھر سجدے میں چلے گئے اور سجدے میں ہی
آہستہ آواز سے یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ پڑھتے ہوئے محبوب سے جا ملے۔‘‘ (
انتہیٰ)
یہ
ہے اصل بہشتی دروازہ… نماز، سجدے ، اللہ تعالیٰ سے آخری دم تک وفاداری …کاش! عرس
میں شریک لاکھوں افراد کو بھی حضرت بابا جی کا یہ اصلی درد اور اصلی پیغام پہنچے…
لوگوں نے تو نعوذ باللہ ایسے عظیم بزرگوں کو بھی… بلدیہ کا کونسلر سمجھ لیا ہے جو
کہ بس اُن کے دنیاوی مسائل حل کراتا رہے… حالانکہ اللہ والوں سے اللہ کا راستہ
پوچھا جاتا ہے۔
پانچ
محرم کے بعد پھر ہمارے محبوب، سید شباب اہل الجنۃ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سوگ شروع ہو جاتا ہے… جو کہ بہت
خوفناک صورت اختیار کر جاتا ہے…پورا ملک سیاہی، بد امنی ، خوف اور ہنگامہ آرائی
کا شکار ہو جاتا ہے… حضرت سیّدنا بابا حسین شہید رضی اللہ عنہ نے اپنے بابا حضرت سیّدنا
علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت
کبھی اس طرح منایا ہوتا تو… پھر ہمارے لئے بھی جواز نکلتا کہ… شہداء کرام کے دن اس
طرح منایا کریں… حضرت سیدنا حسین رضی اللہ
عنہ بہت ہی عظیم، مقبول ، محبوب ، برحق اور مقتدیٰ شخصیت کے مالک ہیں… مسلمانوں کو
چاہیے کہ ان کے ساتھ اپنی نسبت بڑھائیں، محبت بڑھائیں… اور اُن سے جرأت ، عزیمت
اور حکمت کے اسباق پڑھیں… مسلمان اگر اپنے سال کا آغاز ذکر، عبادت، روزہ، دعاء
اور خوشی سے کریں تو کتنا اچھا ہو… ابھی تو اکثر مسلمانوں کو یہ تک معلوم نہیں
ہوتا کہ ان کا اسلامی سال کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا۔
منصوبہ
بندی کر لیں
ہر
انسان خسارے میں ڈوبتا جا رہا ہے… مگر وہ جو اپنی زندگی کے اوقات ایمان، عمل صالح،
حق کی دعوت اور صبر کی دعوت میں خرچ کر رہے ہیں… اس لئے ہمارے نئے سال کی منصوبہ
بندی بھی انہی چار چیزوں پر منحصر ہونی چاہیے… اور ہمیں روز اللہ تعالیٰ سے دعاء
مانگنی چاہیے کہ یا اللہ! ہمیں خسارے سے بچا… { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ }
… فرمایا: تمام کے تمام انسان خسارے میں گرتے جا رہے ہیں… مگر وہ جو ایمان لائے
اور انہوں نے اعمال صالحہ کئے اور حق کی دعوت دی اور صبر کی تاکید کی… اللہ تعالیٰ
مجھے اور آپ سب کو خسارے سے بچائے… اور سورۂ ’’والعصر‘‘ اچھی طرح سمجھنے کی توفیق
عطاء فرمائے… یہ سورۂ مبارکہ ایک پوری کتاب ہے، ایک مکمل نصاب ہے… اور پوری پوری
تاریخ ہے… بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم گھاٹے ، نقصان اور خسارے سے ڈر جائیں… اور
اس سے بچنے کے لئے اپنی جان، اپنا مال ، اپنا وقت اور اپنا سب کچھ لگا دیں… اس لئے
سال کے آغاز میں ہی ترتیب بنا لیں کہ… اس سال کے گھاٹے اور خسارے سے کس طرح بچنا
ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ؟…کیا کہنا ہے او رکیا نہیں کہنا؟…کیاپڑھنا ہے
اور کیا نہیں پڑھنا ؟…کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں لکھنا؟… کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں
سوچنا؟… ہمیں اپنی زندگی کا روزنامچہ خود تیار کرنا ہے… ہمیں اپنا حساب خود لینا
ہے تاکہ آگے درد ناک حساب اور عذاب سے بچ جائیں… اگر اس سال ہم اپنی نماز ٹھیک کر
لیں…مکمل ٹھیک ،مکمل مضبوط اور مکمل جاندار… اور ہم اس سال اپنا جہاد ٹھیک کر لیں
… مکمل اخلاص ، قربانی اور وفاداری والا جہاد… تو ان شاء الله خسارے سے بچنے کے
چاروں لوازمات مکمل ہو جائیں گے۔
پہلی
چیز کلمہ طیبہ یعنی ایمان
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کے بغیر نہ
ہم انسان ہیں، نہ مسلمان… اس کلمہ کے بغیر نہ زندگی اچھی، نہ موت… اس کلمہ کے بغیر
نہ دنیاکامیاب نہ آخرت کامیاب… ابھی تک تو کئی مسلمانوں کو کلمہ طیبہ صحیح تلفظ
سے پڑھنا نہیں آتا… روز درست پڑھیں اور مسلمانوں کا کلمہ درست کرائیں… بہت سے
مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کا معنٰی اور مطلب معلوم نہیں… ایمان چاہیے تو روز اس کے
معنٰی پر غور کریں اور مسلمانوں تک پہنچائیں… اکثر مسلمانوں کو’’ کلمہ طیبہ‘‘ کے
تقاضے معلوم نہیں… روز اُن تقاضوں کو معلوم کریں اور آگے پہنچائیں… ہم اگر اپنی
زندگی کو ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے دائرے میں بند اور محدود کر دیں تو… ہماری ہر تنگی دور
ہو جائے گی کیونکہ’’ کلمہ طیبہ‘‘ کا دائرہ زمین سے بھی بڑا ہے اور آسمانوں سے بھی
بڑا ہے…روز ذوق و شوق کے ساتھ بارہ سو بار ’’کلمۂ طیبہ‘‘ کا ورد… اور کچھ وقت ایک
سانس میں زیادہ سے زیادہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ پڑھنے کی کوشش… اور کبھی
تنہائی میں… آنسوؤں کے ساتھ کلمے کا ورد… اور اس سب سے عظیم الشان نعمت پر اللہ
تعالیٰ کا شکر… کیا ہم اس سال تین سو پینسٹھ افراد تک کلمہ طیبہ کی یہ دعوت پہنچا
سکتے ہیں؟… نیت اور عزم کر لیں۔
دوسری
چیز اعمال صالحہ
اعمال
صالحہ وہ اعمال جن کے کرنے کا حکم ہمارے محبوب مالک اللہ جلّ شانہٗ نے ہمیں دیا…
اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے انہیں کر کے دکھایا…
اور اُن کی ترغیب دی…اُن اعمال میں سب سے اہم… اسلام کے پانچ فرائض ہیں۔
١
نماز
٢ زکوٰۃ
٣ رمضان المبارک کے روزے
٤ حج بیت اللہ
٥ جہاد
فی سبیل اللہ
یہ
فرائض ہی ہماری زندگی کا مقصد اور ہماری زندگی کا حاصل ہیں… پھر درجہ ہے سنت رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کا…جن میں اہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مبارکہ کو اپنانا ہے… اور پھر درجہ ہے
نوافل کا… اس سال ہم اپنے یہ تمام فرائض مکمل سیکھیں… مکمل ادا کریں…اور مکمل ادا
کرنے کی نیت کریں… اعمال صالحہ کی تشریح بہت تفصیل مانگتی ہے… فی الحال یہی خلاصہ
کافی ہے۔
تواصی
بالحق
حق
کی تاکید کرنا یہ لازمی کام ہے…اس کے بغیر نہ دین مکمل نہ خسارے سے پوری حفاظت
ممکن… ہمارے اس دور میں حق کی دعوت ایک عیب بنا دی گئی ہے، ایک جرم بنا دیا گیا
ہے…دین اسلام کا ہر حکم ’’حق ‘‘ ہے… جہاد ’’حق‘‘ ہے…آخرت ’’حق‘‘ ہے… آج اچھا
آدمی وہ سمجھا جاتا ہے جو کسی کو کچھ نہ سمجھائے… نہ اپنی اولاد کو دین کے معاملے
پر روکے ٹوکے… اور نہ اپنے گھر کی خواتین کے دین کی حفاظت کرے… آج مسلمان عورتوں
میں کیسا بے پردہ اور گندا لباس رائج ہو رہا ہے… آج بار بار عقیدۂ ختم نبوت اور
ناموس رسالت پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں… آج ہر باطل چمکدار اور ہر حق ’’قدامت‘‘ کی
نشانی بنا دیا گیا ہے… آج حق کی دعوت دینا اپنے امن کو خطرے میں ڈالنا ہے… اور
لوگوں میں ’’غیر محبوب ‘‘ ہونا ہے… مگر ہمیں اپنے رب کا حکم مان کر یہ کام کرنا ہو
گا… خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے… اور ہر طرح کے نتائج سے بے پروا ہو کر۔
تَوَاصِیْ
بِالصَبْر
گرتے
ہوؤں کو تھامنا… بھاگنے والوں کو واپس لانا… لیٹے ہوئے افراد کو اٹھانا… خوفزدہ
مسلمانوں کی ہمت بڑھانا… تھک جانے والوں کو نہ تھکنے دینا… مایوسی کے گڑھوں میں
گرے ہوؤں کو نکالنا…حق کی دعوت آئے گی تو شیطان کے حملے ہوں گے…اور شیطانی قوتیں
مکمل طاقت کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوں گی… جب دین کے راستے میں تکلیفیں آتی ہیں تو
’’صبر ‘‘ آسان نہیں ہوتا… بڑے بڑے ہاتھی پھسل جاتے ہیں… آخر بلا وجہ ماں باپ کی
گالیاں سہنا… اپنی پرنور داڑھیوں پر تھپڑ برداشت کرنا… فورتھ شیڈول کی حیوانی
پابندیاں جھیلنا… آئے دن قید و بند کے خوف میں رہنا… یہ سب آسان تو نہیں ہے… مگر
کچھ لوگ مسلسل اپنا یہی کام بنا لیں… بلکہ ہر کوئی اس کام کو اپنا لے کہ… ہم نے امید
کی روشنی کم نہیں ہونے دینی… ہم نے حوصلے کا بازار ٹھنڈا نہیں ہونے دینا… ہم نے حق
کے داعیوں کو ہر طرح سے سنبھالنا ہے… آخر قرآن میں حضرات انبیاء علیہم السلام پر آنے والی مصیبتوں کے تذکرے کس لئے ہیں؟… اُن
تذکروں سے ہر زمانے میں آکسیجن ملتی ہے، توانائی ملتی ہے…’’ تواصی بالصبر‘‘ یعنی
ڈٹے رہنے کی تاکید کرنا یہ ہر مسلمان پر لازم ہے… میں آپ کو سنبھالوں اور آپ
مجھے سنبھالیں… کوئی چھوٹا گر رہا ہو تو ہم اسے کہیں بیٹے! معاذ، معوذ کو دیکھو…
کوئی جوان گر رہا ہو تو ہم اسے سیدنا حسین کی یاد دلائیں… کوئی بڑا گر رہا ہو تو
ہم کہیں… حضرت بس روشنی آنے والی ہے، تھوڑی سی ہمت اور فرما لیں… وہ حضرت ابو ایوب
انصاری رضی اللہ عنہ کو دیکھیں… فدائی بے چین ہوتے ہیںکہ نمبر نہیں
آ رہا، گناہ میں نہ ڈوب جائیں … تب ہم اُن کو پاکیزہ سہارا دیں… کوئی خوف پھیلا
رہا ہو تو ہم ’’حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘ کا نعرۂ مستانہ عام کرنا
شروع کر دیں۔
فرمایا: زمانے کی قسم!…
تمام کے تمام انسان خسارے میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں… مگر وہ جو ایمان لائے اور
انہوں نے اعمال صالحہ کئے اور حق کی تاکید کی…اور صبر و استقامت کی دعوت دی… وہ
ماضی میں بھی خسارے سے بچ گئے… کامیاب ہو گئے…اور مستقبل میں بھی… بس وہی کامیاب ہوں
گے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 660
ایک ضروری دعاء
* سوشل ميڈيا زمانے كکا ایک ’’دجالی فتنہ‘‘…
* خود کو اور اپنی اولاد کو اس فتنے سے بچانے کی محنت
اور فکر کرنا ضروری
* سوشل میڈیا کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے مستقل دعاء
کا اہتمام لازمی
* ’’دل‘‘ اصل ہے یا ’’دماغ‘‘؟ ایک لطیف نکتہ…
* ’’راحت القلوب‘‘ کی ایک عبارت کا تجزیہ…
تاریخ
اشاعت:
۱۰
محرم الحرام ۱۴۴۰ھ/21
اگست 2018ء
ایک ضروری دعاء
اللہ
تعالیٰ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے شر سے میری اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے، آمین
حیران
نہ ہوں
بہت
سے مسلمان سوشل میڈیا پر اپنے گمان میں… صرف خیر کے لئے جاتے ہیں… خیر پڑھتے ہیں،
خیر پھیلاتے ہیں…وہ حیران ہوں گے کہ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے شر سے پناہ کی دعاء ہی آج
کے کالم کا نکتہ آغاز کیسے بنی؟
جواب
یہ ہے کہ ہم روزانہ دن اور رات کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… چاند پر
نظر پڑے تو اس کے شر سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… بلکہ مسنون دعاؤں کی
برکت سے ہم ساری مخلوق کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… معلوم ہوا کہ
’’قانون الہٰی‘‘ کے مطابق ہر مخلوق میں ہمارے لئے شر ہو سکتا ہے…اور ہمیں اس شر سے
صرف اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتے ہیں…گھوڑے کی پیشانی میں ’’قیامت‘‘ تک کے لئے خیر رکھ
دی گئی ہے… یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے… مگر ہمارے دل میں موجود شر کی وجہ سے
گھوڑا بھی ہمارے لئے شر کا باعث بن جاتا ہے…جب ہم اسے فخر،ریاکاری اور حرام شرطوں
کے لئے پالیں …ایک مقبول مجاہد میں خیر ہی خیر ہوتی ہے …لیکن ہمارے نفس کے شر سے
مجاہد بھی ہمارے لئے شر کا ذریعہ بن سکتا ہے… مثلاً اس طرح کہ… ہمارے سامنے اس کے
برے عیب کھل کر ایسے سامنے آ جائیں کہ… ہم نعوذ باللہ جہاد سے ہی دور ہو جائیں… عیب
اور کمزوریاں حضرات انبیاء علیہم السلام کے علاوہ ہر انسان میں ہوتی ہیں… اگر وہ ہم سے
پوشیدہ رہیں تو ہم کتنا فیض پا لیتے ہیں … لیکن اگر وہ کھل جائیں تو ہم اس شخصیت
سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے… اس لئے ’’اللہ والوں ‘‘ کی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہیے…
اُن کے عیب نہیں ڈھونڈنے چاہئیں…اگر عیب نظر بھی آ جائیں تو ہم سچے دل سے استغفار
کریں… اپنا دل پاک ہو گا تو اللہ والوں کے عیب بھی اس سے مٹ جائیں گے … بہرحال خیر
اور شر کا سلسلہ جاری ہے… اور سوشل میڈیا تو آیا ہی ’’ اہل شر ‘‘ کی طرف سے ہے…
اور اس میں شر بہت غالب ہے…اچھا تو یہ ہے کہ اہل ایمان اس’’ بیت الخلاء‘‘ کی سیر
سے خود کو بچائیں… لیکن اگر نہیں بچ پا رہے تو کم از کم یہ دعاء تو دل کی توجہ سے
مانگا کریں کہ…’’ یا اللہ! اس کے شر سے ہماری حفاظت فرما۔‘‘
خود
اندازہ لگا لیں
سوشل
میڈیا پر سرگرم ہونے کے بعد آپ کے دل میں سکون آتا ہے یا بے چینی بڑھتی ہے؟… دل
میں نور محسوس ہوتا ہے یا میل کچیل کا احساس ہوتا ہے؟… دل میں خشوع ، خوف الہٰی
اور گداز پیدا ہوتاہے یا تکبر، کج بحثی ، فخر اور پریشانی کے جذبات اُبھرتے ہیں؟…
دل کا ’’میٹر‘‘ ہر شخص کے سینے میں لگا ہوا ہے اسی پر دیکھ لیں کہ کیا نتیجہ نکل
رہا ہے… ایک صاحب رو رہے تھے کہ میرے فلاں بیان پر مجھے سوشل میڈیا پر ایسی گالیاں
پڑی ہیں جو میں نے پوری زندگی میں نہیں سنی تھیں… اور جو میرے ’’فین‘‘ تھے وہ بھی
مجھے گالیاں دے رہے ہیں… اُن سے کوئی پوچھے کہ جناب آپ وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟
آخر کیا مجبوری ہے؟ … اور اگر جاتے ہیں تو پھر یہ بات یاد رکھیں کہ… وہاں جو عزت
دی جاتی ہے اس کی بہت خوفناک قیمت وصول کی جاتی ہے… بہرحال آج صرف یہ گذارش ہے کہ
دیندار مسلمان سوشل میڈیا سے باز تو نہیں آ رہے… کم از کم اس دعاء کو تو اپنا
معمول بنا لیں کہ…’’ یا اللہ! سوشل میڈیا کے شر سے ہماری حفاظت فرما‘‘… اگر یہ
دعاء اخلاص کے ساتھ اور مسلسل مانگی گئی تو بہت امید ہے کہ… کسی نہ کسی دن زمانے
کے اس ’’دجالی فتنے‘‘ سے ہمیں آزادی مل جائے گی… اور جب ہم اپنے سارے اکاؤنٹ ختم
کر کے… کسی مسجد کے کونے میں بیٹھے ہوں گے تو شکر ادا کرتے ہوئے… آنسوؤں کی جھڑی
لگ جائے گی کہ… یا اللہ! کیسی غلاظت سے نجات عطاء فرمائی… کیسی غلامی سے آزاد
فرمایا… اب گویا کہ وہ ناپاک دنیا ہے ہی نہیں جہاں ہمارا وقت، ہمارا دین اور ہماری
عزت ذبح ہوتی تھی… اور ہر فضول شخص کی ہر بات پڑھنا اور اس کا جواب دینا ہم پر
لازم تھا… کئی افراد سے عرض کیا کہ غفلت کے خاتمے کے لئے چالیس دن تک روز… چار
ہزار بار استغفار کریں… انہوں نے شروع کیا اور پھر جو حالات لکھے وہ قابل رشک ہیں…
کاش! انتظام ہوتا تو ان تاثرات کو شائع کرتے… بتایا کہ زندگی ہی بدل گئی… عجیب
نور، عجیب سرور، عجیب گداز اور عجیب لذتیں ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوشل میڈیا
کے شر سے بچائے… اور اپنے ذکر کی حلاوت نصیب فرمائے۔
دل
کا فیصلہ
اوپر
عرض کیا کہ ہر سینے میں دل کا میٹر لگا ہوا ہے… یہ واقعی سچ ہے کہ دل جب تک زنگ
اور میل سے سیاہ مردہ نہ ہو جائے وہ ہمیں ہر بات کی خیر اور شر سمجھا دیتا ہے… آپ
کسی کی صحبت میں بیٹھیں اور آپ کے اُس دن کے معمولات میں برکت ہو جائے اور کسی
اور کی صحبت میں بیٹھیں تو سارے معمولات
درہم برہم ہو جائیں… یہ سب دل کے فیصلے ہیں… دل روشنی والوں سے روشنی اور تاریکی
والوں سے تاریکی پکڑتا ہے …دل کے خفیہ تار کسی سے جڑ جائیں تو بہت دور سے بھی اس
کا فیض حاصل کر لیتا ہے… دل کی دنیا بہت عجیب، طاقتور اور وسیع ہے… نیوروسرجن اور
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ… دماغ اصل ہے اور دل اس کا تابع … وہ درست نہیں کہتے… دماغ تو
دل کا چھوٹا سا خادم اور مرید ہے… دل کی سلطنت بہت وسیع ہے… مراقبے میں جو لوگ
دماغ پر محنت کرتے ہیں… اُن کا کام نہیں بنتا… مگر جو دل پر محنت کرتے ہیں وہ صدیاں
کما لیتے ہیں… یوگا، آسن اور بدھ مت کے سارے مجاہدے دماغ تک محدود ہیں… جبکہ
مسلمان کا مراقبہ… دل کی طاقت اور یکسوئی کے لئے ہوتا ہے… دل بن گیا تو سب کچھ بن
گیا… اگر یہ بات آپ کو سمجھ آ گئی ہے تو بہت اچھا… نہیں سمجھ آئی تو دعاء کردیں
کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو زندگی عطاء فرمائے اور ہمیں اور ہماری اولاد کو سوشل
میڈیا کے شر سے بچائے۔
حضرت
بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں
دل
کے ذریعہ ہی اللہ والوں کا فیض حاصل کیا جا سکتا ہے… عقل کے ذریعہ بالکل نہیں… ابھی
آپ ’’راحت القلوب ‘‘ پڑھ کر دیکھ لیں… بہت سی باتیں مروّجہ علمی معیار پر پوری نہیں
اُترتیں …لیکن اگردل اُن باتوں کی تہہ تک پہنچ جائے تو بڑا فائدہ پا لیتا ہے… ویسے
مسائل اور روایات میں بزرگوں کی باتوں سے علمی اختلاف کی کھلی اجازت ہے…مگر دو
شرطوں کے ساتھ… پہلی یہ کہ اختلاف کرنے والے اہل علم ہوں… اور دوسری یہ کہ اس
اختلاف سے ادب میں کوئی فرق نہ آئے… ہم الحمد للہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ
، حضرت امام مسلم رحمہ اللہ علیہ اور حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ
علیہ سے والہانہ محبت رکھتے ہیں مگر ساتھ
اختلاف بھی چلتا رہتا ہے… اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ ، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ ، حضرت امام
احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ جیسے حضرات کی
محبت اور ادب سے دل معمور رہتا ہے … مگر فقہی مسائل میں ہم حضرت امام ابو حنیفہ
رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اُن
حضرات سے اختلاف کرتے ہیں… یہ سب ہمارے دین کا حسن اور ہماری شریعت کی وسعت ہے کہ…
اس میں اختلاف کی یہ قسم رحمت ہی رحمت ہے… اب آپ ’’راحت القلوب‘‘ کی ایک عبارت دیکھیں…
حضرت بابا جی فرید رحمہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ ایک بزرگ تھے کہ جس شخص کو حدیث شریف میں کوئی مشکل درپیش ہوتی یہ
اسے حل کر دیتے ایک روز کنگھی کرنے کی نسبت گفتگو ہو رہی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ
کنگھی کرنا ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر پیغمبران علیہم السلام کی سنت ہے، جو شخص رات کے وقت داڑھی میں کنگھی
کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو فقر کی آفت میں مبتلا نہ کرے گا ( یعنی وہ شخص مالی
تنگی اور محتاجی میں مبتلا نہ ہو گا)داڑھی میں جس قدر بال ہوتے ہیں اُن میں سے ہر
ایک کے بدلے ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اسی قدر گناہ دور کرے گا۔‘‘
[راحت القلوب:۱۲۲،طبع:ضیاء
القرآن پبلی کیشنز۔لاہور]
اب
اگر اس عبارت کو آپ سوشل میڈیا پر بحث کے لئے ڈال دیں تو… ہر طرف سے تیر اندازی
شروع ہو جائے گی… کوئی اس پر شیخ البانی کا ٹھپہ مانگے گا تو کوئی شیخ بن باز کی
مہر طلب کرے گا… بحث بڑھتی جائے گی…داڑھی اور کنگھی ایک طرف رہ جائے گی جبکہ
معاملہ کفر ، اسلام کی بحث تک پہنچ جائے گا…یہاں یہ بات عرض کر دوں کہ… حضرت شیخ
البانی اور شیخ بن باز سے بہت سے اختلافات کے باوجود بندہ کے دل میں اُن کے لئے عقیدت
و محبت ہے…یہ بات ممکن ہے ہمارے کئی قریبی احباب کو اچھی نہ لگے … مگر حقیقت یہی
ہے کہ مجھے حضرت شیخ البانی اور شیخ بن باز سے عقیدت ہے… حضرت شیخ البانی نے واقعی
بہت کام کیا ہے… یہ الگ بات ہے کہ علم و تحقیق سے محروم عرب طبقے نے اُن کے کام کو
ہی’’ حرف آخر‘‘ قرار دے کر بڑی غلطی اور جہالت کا ثبوت دیا ہے… ایسا دعویٰ تو خود
شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ نے بھی کبھی نہیں
کیا کہ… اُن کی تحقیق کو حرف آخر سمجھا جائے اور بخاری و مسلم کی روایات کی بھی
اُن سے توثیق لی جائے… حضرت شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ کا سب سے ناقابل فراموش کارنامہ …اُن کا ’’جہادی
فتویٰ ‘‘ ہے… انہوں نے افغانستان پر سوویت حملہ کے بعد… افغان جہاد کے شرعی ہونے
کا فتویٰ دیا… اُن کے اہل حاشیہ نے اُن کو مغالطے میں ڈالنے کی بہت کوشش کی… سخت گیر
سلفی تحریک نے اُن پر بہت دباؤ ڈالا کہ… افغان مجاہدین بدعتی ہیں، مقلد ہیں وغیرہ
وغیرہ… مگر شیخ ڈٹے رہے اور انہوں نے اس جہاد کے حق میں اس وقت فتویٰ دیا جب عالم
اسلام پر عمومی غفلت کی سیاہ رات طاری تھی…یہ حضرت شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ کے دل کی روشنی تھی … اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے
اُن کی قبر کو روشن فرمائے … اس مبارک فتوے نے افغانستان کے جہاد کو بہت تقویت دی…
اسی طرح شیخ بن باز رحمہ اللہ علیہ نے بھی
جہاد اور مجاہدین کی بھرپور سرپرستی فرمائی… وہ جہاد فلسطین اور جہاد افغانستان کے
مکمل حامی تھے… اسی سلسلے میں بندہ نے بھی ایک بار اُن کی زیارت کی اور اُن کے ہاں
کھانا کھایا… عرض یہ کر رہا تھا کہ … حضرت بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا عبارت کو سمجھنے کے لئے… اسلام میں
داڑھی کے عظیم اور ضروری مقام… اور کئی احادیث مبارکہ کی روشنی لی جائے تو اس
عبارت پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا… مگر یہ روشنی’’سوشل میڈیا‘‘ پر دستیاب نہیں
ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نور اور روشنی عطاء فرمائے اور سوشل میڈیا کے شر سے
ہماری اور تمام اُمت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، آمین یا ارحم الراحمین۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 661
ایک قدم ’’بہادری ‘‘ کا
* اہل
دل صوفیاء کرام کے ملفوظات پڑھنے سے ایمان
کو قوت ملتی ہے اور دل زندگی محسوس کرتا ہے…
* حضرت
خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ کے دو
اہم ملفوظات…
* انڈین
آرمی چیف کی پاکستان کو دھمکیاںاور حکومت کا غلط طرز عمل
* حکومت
کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟…
* مجاہدین
پر ایک غلط الزام کی تردید…
* انڈیا
پاکستان سے جنگ نہیں کرے گا…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں یہ تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۷محرم الحرام ۱۴۴۰ھ/28
اگست 2018ء
ایک قدم ’’بہادری ‘‘ کا
اللہ
تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ’’قیامت‘‘ کب آئے گی…قرب قیامت کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں
وہ نہایت تیزی سے پوری ہو رہی ہیں … حضرت شیخ الاسلام عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جب آخری زمانہ آئے گا تو ’’علماء‘‘ کو چوروں کی طرح ماریں گے
اور علماء کو منافق کہیں گے اور منافقوں کو عالم۔‘‘ (انیس الارواح)
دوسری
جگہ ارشاد فرمایا :
’’امیر لوگ زور آور ( یعنی طاقتور) ہو جائیں گے اور عالم لوگ عاجز
( یعنی کمزور ہو جائیں گے) اس وقت اللہ تعالیٰ مخلوق پر سے اپنی برکت اٹھا لے گا
اور شہر ویران ہو جائیں گے۔‘‘ ( انیس
الارواح)
باقی
باتیں پھر کبھی
حضرت
خواجہ عثمان ہارونی نور اللہ مرقدہ کے ’’ملفوظات‘‘ ان کے مرید، خلیفہ اور جانشین
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ
اللہ علیہ نے ’’انیس الارواح ‘‘ کے نام سے
جمع فرمائے ہیں…یہ پینتالیس صفحے کی مختصر سی کتاب ہے … دو دن پہلے نصیب ہوئی تو ایک
ہی مجلس میں پڑھ ڈالی… الحمد للہ بہت فائدہ ہوا… اہل دل صوفیاء کرام کے ملفوظات
پڑھنے سے ایمان کو قوت ملتی ہے اور دل زندگی محسوس کرتا ہے…دل میں زندگی کی لہر
دوڑتی ہے تو ’’جذبۂ جہاد ‘‘ اور ’’شوق شہادت‘‘ بھی تازہ ہو جاتا ہے… حضرت خواجہ
عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک تو…
اصل فقیر، اصل بزرگ اور اصل ولی وہی ہو سکتا ہے جو موت سے محبت رکھتا ہو…موت سے
محبت ہو جائے تو دل میں اطمینان اور سکون آ جاتا ہے… پھر نہ ٹرمپ کی غراہٹ سے خوف
محسوس ہوتا ہے اور نہ مودی اور اس کے آرمی چیف کے بھونکنے سے کوئی گھبراہٹ ہوتی
ہے…یہ بے چارے مجبور، مسکین، نام کے حکمران ہر کسی کے محتاج، ذلت کے پتلے اور میعادی
بادشاہ بس اوپر اوپر سے دھمکیاں دیتے ہیں… جبکہ خود ان کا دل خوف سے لرز رہا ہوتا
ہے…یہ نہ رات کو چین سے سوتے ہیں اور نہ کبھی اطمینان کا ایک سانس ان کو نصیب ہوتا
ہے… چند دن بعد ان کے موجودہ اختیارات بھی ختم ہو جائیں گے اور پھر یہ سب
ابامے،ٹونی، بش اور مشرف بن جائیں گے… تب یہ کتے پال کر اپنی باقی زندگی کاٹیں گے
… حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ موت سے پیار کرنا سکھاتے ہیں… یہ دنیا کا واحد پیار
ہے جو انسان کو ’’طاقتور ‘‘ بنا دیتا ہے…آج ارادہ تھا کہ حضرت بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کے وظائف … اور حضرت خواجہ عثمان
ہارونی رحمہ اللہ علیہ کے کچھ مواعظ عرض
کروں مگر… آس پاس کے حالات کافی گرم ہیں… اس لئے یہ دونوں تحفے پھر کبھی، ان شاء
اللہ۔
ایک
بات سمجھ نہیں آتی
ہمارے
ملک پاکستان کا حکمران کبھی ’’وزیر اعظم ‘‘ ہوتا ہے اور کبھی ’’صدر‘‘… ملک کے آئین
کو ہر ’’پارٹی‘‘ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتی ہے…یہ ایک مستقل بحث ہے جو کہ آج
کا موضوع نہیں ہے… اصل بات یہ عرض کرنی ہے کہ… پاکستان میں جو ’’حکمران‘‘ بھی آتا
ہے… اسے فوراً ’’ہندوستان‘‘ کے ساتھ ’’دوستی‘‘ کی بے حد جلدی لگ جاتی ہے… معلوم نہیں
اس کرسی کے نیچے کچھ دفن ہے یا کرسی کے اندر کچھ مدفون ہے… مشرف جب حکمران نہیں
تھا تو ہندوستان سے کارگل میں پنجہ آزمائی کر رہا تھا… مگر جیسے ہی وہ حکمران کی
کرسی پر بیٹھافوراً ہندوستان سے دوستی کی فکر میں ہلکان ہونے لگا… کچھ حکمرانوں کا
تو ’’ہندوستان‘‘ اور ’’ہندوؤں ‘‘ سے کوئی جراثیمی رشتہ ہے… اور اب جو ہمارے ’’وزیراعظم
‘‘ آئے ہیں انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں ہی ہندوستان کو پیشکش کر دی کہ… تم ایک
قدم بڑھاؤ گے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے… آخر یہ دو قدم کیوں؟… یہ جلدی کیوں؟…
پھر فوراً وزرائے خارجہ کی ملاقات کا خط بھی بھیج دیا گیا… آخر یہ سب کیا
ہے؟…حالانکہ ملک کے حکمران کو چاہیے کہ پہلے اپنی عوام کے مسائل حل کرے… اچھی طرح
سے ہندوستان کو سمجھے…ماضی کی تاریخ دیکھے پھر اس کے مطابق ہندوستان سے اپنے
معاملات چلائے …دراصل ہندوستان نے پاکستان کو مفلوج اور محتاج کرنے کے لئے اپنی ایک
طاقتور لابی اسلام آباد میں بٹھائی ہوئی ہے…اور یہ لابی روپ بدل بدل کر اپنا مشن
پورا کرتی ہے… جیسے ہی کوئی نیا حکمران کرسی پر بیٹھتا ہے تو یہ لابی سرگرم ہو جاتی
ہے… اور اس حکمران کے دماغ میں یہ بات بھر دیتی ہے کہ… ہندوستان سے دوستی سب سے
اہم مسئلہ ہے… اور اس میں صرف آپ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں… اور آپ اگر اس میں کامیاب
ہو گئے تو پھر آپ کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا…اور ساری دنیا میں آپ کی
واہ واہ ہو گی… چنانچہ ہر نیا حکمران اس جال میں پھنس جاتا ہے… ہماری نئی حکومت کو
ابھی ملک کی وزارتوں کے نام تک پوری طرح یاد نہیں ہوئے مگر ہندوستان سے دوستی کے
نعرے شروع ہو گئے…اس بار اچھا ہوا کہ’’ مجرم مودی‘‘ کرپشن کے الزامات میں بری طرح
پھنسا ہوا تھا… اور کشمیر میں مجاہدین کی مسلسل یلغار نے بھی اس کے ہوش اُڑا رکھے
تھے… چنانچہ اس نے اگلے الیکشن میں کامیابی کے لئے… پاکستان سے دشمنی کا تازہ
مرحلہ شروع کر دیا… اس کام کے لئے اس نے اپنے آرمی چیف کو آگے کر دیا ہے… انڈین
آرمی چیف جو کہ ایک چلتا پھرتا کارٹون ہے… پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے … حکومت
پاکستان کو چاہیے کہ صرف چھ ماہ کے لئے کشمیری مجاہدین کے راستے کی رکاوٹیں ہٹا لے
… انڈیا کو اس کی ہر دھمکی کا پورا پورا جواب مل جائے گا ،ان شاء اللہ۔
جنگ
نہیں ہو گی
ہم
انڈیا اور پاکستان کی جنگ کبھی بھی نہیں چاہتے… مجاہدین پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ
انڈیا اور پاکستان کو لڑانا چاہتے ہیں… مجاہدین تو صرف انڈیا کے مظالم کا جواب دیتے
ہیں اور انڈیا کو اس کی اوقات یاد دلاتے ہیں… ماضی کی بعض غلطیوں کی وجہ سے انڈیا
کا حوصلہ بہت بڑھ چکا تھا… مشرقی پاکستان ہم نے اپنی شرمناک غلطیوں کی وجہ سے کھویا
انڈیا کی بہادری کی وجہ سے نہیں… مگر اس واقعہ نے انڈیا اور اس کی عوام کو اپنی
طاقت کے دھوکے میں ڈال دیا تھا… باقی رہی سہی کسر انڈین فلم انڈسٹری نے پوری کر دی…
انہوں نے تسلسل کے ساتھ ایسی فلمیں بنائیں کہ… جن سے وہاں کی بھوکی، ننگی، نشئی
عوام تک کو یقین ہو گیا کہ… انڈیا ناقابل تسخیر ملک ہے اور وہ جب چاہے پاکستان کو
مٹا سکتا ہے… الحمد للہ جہاد کشمیر نے انڈیا کو بار بار ذلت آمیز شکست سے دو چار
کر کےاس کی طاقت کا سارا خمار اتار دیا ہے… اب انڈیا کبھی بھی جنگ کی غلطی نہیں کر
سکتا…وہ فضاء سے لے کر زمین تک ہر جگہ مجاہدین سے شکست کھا چکا ہے…اس کی فوج کا
حوصلہ بری طرح سے گرا ہوا ہے… دنیا میں سب سے زیادہ جو وردی والے خود کشی کر رہے ہیں
وہ انڈیا کے فوجی ہیں… اُن کا آرمی چیف جو کہ ’’آپریشن آل آؤٹ‘‘ کے نعرے کے
ساتھ میدان میں اُترا تھا اپنی شکست تسلیم کر چکا ہے… ایک ایسا ملک جو اپنی عوام
کا حوصلہ سنبھالنے کے لئے ایک ’’نقلی سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا سہارا لینے پر مجبور ہو
وہ اصلی جنگ کی ہمت کیسے کر سکتا ہے؟… مگر پاکستان میں موجود انڈین لابی ہر وقت
ہمارے حکمرانوں کو… انڈین حملے سے ڈراتی رہتی ہے… حالانکہ انڈیا اپنی آٹھ لاکھ
فوج لگا کراکیس سال سے جاری جہاد کشمیر کو اب تک نہیں روک سکا… وہ پانچ مجاہدین کے
ہاتھوں سے اپنا ایک طیارہ نہیں چھڑا سکا… وہ بمبئی کے دھماکوں کے مبینہ ذمہ دار ایک
چھوٹے سے سمگلر کو اب تک نہیں پکڑ سکا… وہ اپنی چھ نامور فورسز لگا کر کشمیر کے
بارڈر کو اب تک محفوظ نہیں بنا سکا… وہ اپنی پارلیمنٹ کو حملے سے نہیںبچا سکا… وہ
تیس سال کے مظالم کے باوجود خالصتان کی تحریک کو ختم نہیں کر سکا… وہ اپنے ہزاروں
فوجی اور سپاہی گنوا کر بھی نکسل وادی جدوجہد کا خاتمہ نہیں کر سکا… وہ اپنی ساری
طاقت لگا کر چین کو ایک سڑک بنانے سے نہیں روک سکا… وہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ابھی
تک افغانستان میں اپنے قدم نہیں جما سکا… انڈیا اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے… وہ اب
دھمکیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے… پاکستان میں سرگرم اس کی لابی یہاں
خوف پھیلا رہی ہے… وہ فلم اور کرکٹ کے ذریعہ ہمیں نیچا دکھانا چاہتا ہے…ہمارے
حکمران اس کی طرف محبت کے دو قدم بڑھانے کی بجائے… صرف بہادری کا ایک قدم آگے
بڑھا دیں… تب وہ حیرت انگیز نتائج دیکھیں گے… برہمن اور ہریجن کی خوفناک تقسیم انڈیا
کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی… وہاں کے بے چین مسلمان اگر کھڑے ہو گئے تو انڈیا میں مزید
تین پاکستان اور بن جائیں گے… یا اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہمت اور جذبہ عطاء
فرما…آمین یا ارحم الراحمین
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 662
مفید اور قیمتی تحفے
* اللہ
تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین عبادت ’’شکر‘‘ہے…
* افغان
جہاد مکمل ’’شرعی جہاد‘‘ ہے…
* علماء
کرام کے خلاف ایک بھیانک سازش کا انکشاف
* حضرت
خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ کے چار
وظائف…
* حضرت
بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کا ایک وظیفہ…
* اقوام
متحدہ میں مسئلہ کشمیر کی گونج
* ایران کی بوکھلاہٹ
ان سب چیزوں سے روشناس
کراتی ایک مبارک تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۴ محرم الحرام ۱۴۴۰ھ/5
اکتوبر 2018ء
مفید اور قیمتی تحفے
اللہ
تعالیٰ کا شکر کہ ہمیں ’’اسلام ‘‘ کی نعمت عطاء فرمائی… سب سے بڑی نعمت… سب سے قیمتی
نعمت… سب سے ضروری نعمت… آئیے! ایمان تازہ کرتے ہیں۔
لَااِلٰہَ
اِلَّا اللہُ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللہِ
ٹرمپ
اس نعمت سے محروم…مودی محروم… بل گیٹس محروم…مارک زگربرگ محروم… ہائے بے چارے، مسکین…
یا اللہ! آپ کا شکر… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… کوئی فخر نہیں کوئی
غرور نہیں… یا اللہ! ہمیں اس نعمت کے لائق بنا… اور اسی پر ہمیں موت عطاء فرما۔
آج
کی مجلس کا خلاصہ
آج
کچھ باتیں دنیا کے حالات پر ہوں گی، ان شاء اللہ… مثلاً علماء کرام کے خلاف ایک بھیانک
سازش… اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کی گونج… ایران کی بوکھلاہٹ… اور پانچ وظیفے
عرض کئے جائیں گے… چار حضرت قطب الاقطاب خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ کے… اور ایک حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر
رحمہ اللہ علیہ کا… یعنی رنگ اور نور ساتھ
ساتھ چلیں گے… اللہ تعالیٰ میرے اور آپ کے لئے نافع بنائے۔
قیمتی
تحفہ
عبادات
میں سے جو عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے وہ ہے ’’شکر‘‘ …افسوس کہ شکرگذار بندے
تھوڑے ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں ’’شکر گذار‘‘ بنائے… شکر ادا کرنے سے نعمت بڑھتی
ہے… یہ اللہ تعالیٰ کا پکا وعدہ ہے… حضرت عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مال کا شکر ادا کرنا ’’صدقہ‘‘ دینا ہے، اور اسلام کا شکریہ
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ}
کہنا ہے۔ جو شخص{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} کہتا ہے وہ اسلام کا شکریہ بجا لاتا ہے اور جو
شخص زکوٰۃ اور صدقہ دیتا ہے وہ مال کا حق ادا کرتا ہے ۔‘‘
( انیس الارواح۔ ص: ۳۳)
بڑا
زبردست تحفہ مل گیا…{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} … نعمت اسلام کا
شکر ادا کرنے کا طریقہ معلوم ہو گیا…{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} …
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ کے
وصال کو آٹھ سو سال گزرنے والے ہیں… آٹھ سو سال گذرنے کے بعد بھی ان کے فیوض و
برکات جاری ہیں… جب سے ان کی یہ عبارت پڑھی ہے اب{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعَالَمِیْنَ} کہنے میں الگ طرح کا مزہ آ رہا ہے… اور جب زبان پر {اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ}جاری ہوتا ہے تو ایک سو کا عدد پورا کئے بغیر چین نہیں
آتا… اور حدیث شریف کے مطابق ایک سو بار {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ}
کہنے سے ’’تیس ہزار‘‘ پکی نیکیاں نامہ اعمال کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی ہیں… اور
ذہن اس نکتے کی طرف بھی جاتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی پہلی آیت میں…
ہمیں ’’نعمت اسلام‘‘ کا شکر ادا کرنے کا طریقہ سکھا دیا ہے … {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} …یہ چونکہ قرآن مجید کی آیت بھی ہے تو اس کے ہر حرف کے
بدلے دس نیکیاں الگ… {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} …اور مال کی نعمت کا شکر صدقہ ہے… معلوم ہوا کہ جب بھی کچھ
مال ملے… تھوڑا ہو یا زیادہ تو پہلے ’’صدقہ‘‘ نکال کر… اس مال کا شکر ادا کیا
جائے…اب فائدہ یہ ہو گا کہ جس نعمت کا شکر ادا کر دیا جائے اس نعمت کا آخرت میں
حساب نہیں ہو گا… اور دوسرا فائدہ یہ کہ مال خوب بڑھے گا… اور صدقہ کے جو بے شمار
فوائد ہیں وہ الگ ملیں گے۔
علماء
کرام کے خلاف ایک سازش
افغانستان
کی کٹھ پتلی حکومت نے ایک کمیشن بنایا ہے… اس میں کچھ نام کے مولوی حضرات جمع کئے
ہیں… ان امریکہ نواز دانشوروں نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے کہ… افغانستان کی جنگ
’’شرعی جہاد‘‘ نہیں ہے… اور ’’فدائی حملے‘‘ اسلام کی رو سے حرام ہیں… ان دانشوروں
کو چونکہ امریکہ کی ’’ڈالرانہ حمایت ‘‘ حاصل ہے… اس لئے وہ کرائے بھاڑے کی فکر سے
بے نیاز دنیا بھر میں اُڑتے پھرتے ہیں… کبھی جکارتہ، کبھی جدہ اور کبھی اسلام
آباد… اس کمیشن کے افراد پاکستانی علماء کرام سے بھی رابطہ کر رہے ہیں تاکہ اپنے
’’مجرمانہ جاہلانہ فتوے‘‘ پر ان کے دستخط کرا سکیں… افغانستان کے جہاد میں اب تک
دو ملین سے زیادہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں… اور افغانستان کے جہاد کی مکمل قیادت اب
بھی ’’علماء کرام ‘‘ کے ہاتھوں میں ہے… اگر افغانستان کا یہ جہاد نہ ہوتا تو
پاکستان بھی اب تک تاریخ کا حصہ بن چکا ہوتا …اور دنیا کا نقشہ آج سے یکسر مختلف
ہوتا… افغان جہاد روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے… افسوس کہ آج اس نعمت
کو مٹانے کے لئے… ’’عالم کفر‘‘ علماء کرام کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے…
پاکستان کے علماء کرام کو چاہیے کہ اس مجرمانہ سازش کا حصہ نہ بنیں… اور پہلے سے
بڑھ کر افغانستان ، کشمیر اور فلسطین کے جہاد کی حمایت جاری رکھیں… ’’جہاد فی سبیل
اللہ‘‘ ایک محکم اسلامی فریضہ ہے… حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ نے کلمہ
طیبہ کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بمعنٰی قتال فی سبیل اللہ کا تذکرہ فرمایا ہے… اور
ساتھ بہت واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ… فرض کا منکر کافر ہو جاتا ہے اور جہنم اس کا
مقدر بن جاتی ہے… فائیواسٹار ہوٹلوں کی چمک دمک، جہازوں کے فرسٹ کلاس ٹکٹ اور
ملکوں کی سیاحت… یہ گھٹیا اور معمولی چیزیں اس قابل نہیں ہیں کہ… ان کے عوض اپنے ایمان
کو خطرے میں ڈالا جائے… افغان جہاد کی آج بھی قیادت جس فرد کے ہاتھ میں ہے وہ…
راسخ العلم شیخ الحدیث ہیں… یہ جہاد کرامتوں والا جہاد ہے… اور اس کی مخالفت میں
سوائے خسارے اورخسران کے اورکچھ بھی نہیں ہے…اگر کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا تو
کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس کی زبانی حمایت کرے…اور اس کی مخالفت سے اپنا دامن پاک
رکھے۔
دنیا
و آخرت میں کامیابی کا مؤثر اور طاقتور عمل
حضرت
خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ بڑے اونچے درجے کے بزرگ، ولی اور عالم دین گذرے
ہیں… آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ علیہ کے شیخ ہیں… آپ کی قبر مبارک مکہ مکرمہ میں ہے…
سندھ کے’’ سیہون شریف‘‘ والے خواجہ عثمان ایک دوسرے بزرگ ہیں… اُن کا اسم گرامی
حضرت خواجہ عثمان مروندی رحمہ اللہ علیہ ہے اور آپ ’’شہباز قلندر‘‘ کے نام سے معروف ہیں…
اہل سنت اور اہل طریقت کے ان دونوں بزرگوں کا زمانہ قریب قریب کا ہے…مگر حضرت
خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ عمر میں خواجہ عثمان مروندی رحمہ اللہ علیہ سے بڑے ہیں… اُن کے ملفوظات اُن
کے مرید، خلیفہ اور جانشین سلطان الہند، غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ علیہ نے ’’ انیس الارواح ‘‘ کے نام سے جمع فرمائے ہیں…
ان ملفوظات میں یہ وظیفہ بھی درج ہے:
’’ جو شخص دن رات میں ہر نماز کے بعد سورۂ یٰس ایک بار،آیۃ الکرسی
ایک بار اور سورۂ اخلاص تین بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے مال اور اس کی عمر کو
زیادہ کرتا ہے اور اس کو قیامت کے میزان اور پل صراط کے حساب میں آسانی ہوتی
ہے۔‘‘
( انیس الارواح۔ ص: ۴۲)
دن
رات میںپانچ بار سورۃ یٰس اور سورۃ اخلاص کے عجیب و غریب فوائد اہل دل سے مخفی نہیں
ہیں۔
اقوام
متحدہ میں
اس
سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں… پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر
قابل ستائش تھی… ہم جہاں حکومت کے غلط اقدامات کی مذمت کرتے رہتے ہیں وہاں ہمیں…حکومت
کے اچھے اقدامات کی تعریف بھی کرنی چاہیے … اپنے خطاب میں ناموس رسالت کا بھرپور
تذکرہ … مسئلہ کشمیر کی پر زور وکالت… اور مسئلہ فلسطین کی حمایت پر… حکومت
پاکستان ’’شکریہ‘‘ کی مستحق ہے… اقوام متحدہ اگرچہ مسلمانوں کے مسائل اور ان کی
آواز کو کوئی اہمیت نہیں دیتی… اور خود اپنے فیصلوں میں بھی انصاف نہیں کر پاتی
مگر پھر بھی… وہاں اچھی باتوں کا تذکرہ ایک غنیمت ہے…اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر
پر کئی قراردادیں اور رپورٹیں موجود ہیں… مگر ابھی تک ان میں سے کسی پر عمل نہیںہوا…
اور نہ ہی اقوام متحدہ نے ان قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں بھارت پر کوئی
پابندی لگائی ہے… لیکن یہی اقوام متحدہ… اگر کسی اسلامی تنظیم یا شخصیت کو دہشت
گرد قرار دے دے تو پھر… مکمل دباؤ ڈال کر اپنے فیصلے پر عمل کراتی ہے…معلوم ہوا
کہ… کانی، بہری اور بے انصاف ہے۔
ایک
نورانی عمل
حضرت
شیخ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ ایک مجلس میں جنت کی عظیم الشان اور غیر فانی
نعمتوں کا تذکرہ فرماتے ہیں اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:
’’جو شخص ان نعمتوں کو حاصل کرنا چاہے وہ جمعہ کے دن فجر کی نماز
کے بعد سو بار سورۂ اخلاص پڑھے اور ہمیشہ پڑھے اس پر نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔‘‘
( انیس الارواح۔ ص: ۳۱)
یعنی
اصل تو آخرت کی نعمتیں ملیں گی… ساتھ دنیا کی نعمتیں بھی اس پر زیادہ برسیں گی…کتاب
کے آغاز میں حضرت عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ یہ فرما چکے ہیں کہ ہر وظیفہ صرف اسی کو فائدہ دیتا
ہے جو پانچ وقت فرض نماز کا پابند ہو۔
ایران
کی بوکھلاہٹ
ایران
دنیا کا واحد ملک ہے جو کھلم کھلا دوسرے ممالک میں عسکری مداخلت کرتاہے… اور سرکاری
سطح پر دوسرے ممالک میں اپنے جنگی رضاکار اور فوجی جرنل بھیجتا ہے… یہ عمل اگر کسی
اور ملک نے کیا ہوتا تو دنیا کی بڑی کفریہ طاقتیں اس پر متحدہ حملہ کر دیتیں… مگر
ایران چونکہ ’’عالم کفر‘‘ کو محبوب ہے اس لئے وہ شام میں لڑے یا عراق میں… یمن میں
دہشت گرد بھیجے یا لبنان میں… اسے کھلی چھوٹ حاصل ہے… ایران کے ان مظالم کے بدلے میںچند
دن پہلے ایران کے اندر ایک فوجی پریڈ پر حملہ ہوا تو اب ایران بری طرح سے بوکھلاہٹ
کا شکار ہے…اس نے شامی مسلمانوں پر اپنے میزائلوں کی آندھی مچا رکھی ہے… کوئی ہے
جو نام نہاد عالمی قوانین کے تحت ایران کو اس کے ان ظالمانہ اقدامات سے روک دے۔
چھوٹے
بچوں کا رونا
حضرت
خواجہ عثمان ہارونی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں :
’’ چھوٹا بچہ تب روتا ہے جب شیطان اس کو ستاتا ہے۔ اس لئے جب بچہ
روئے تو تم’’لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔‘‘پڑھا
کرو، تاکہ تمہیں خوشخبری ہو اور بچہ رونے سے باز آجائے۔‘‘
یہ چار
وظائف حضرت شیخ عثمان ہارونی رحمہ اللہ علیہ کےمکمل ہوئے… اب حضرت بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کا ایک مجرب وظیفہ۔
غربت
اور تنگدستی کا علاج
حضرت
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کے پاس جب بھی کوئی شخص دینی یا دنیاوی مشکل لے
کر آتا تو آپ اسے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے… عام طور پر صبر کی
تلقین فرماتے اور نماز پڑھنے کی تاکید کرتے …ایک روز ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی
کہ حضرت!میں بے حد تنگ دست ہوں گھر میں عام طور پر فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے… آپ
نے اس کے لئے دعاء فرمائی اور اسے ہدایت کی کہ ہر رات کو سونے سے پہلے سورۂ جمعہ
پڑھ لیا کرے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 663
مولی کھلا دی
* پریشانی اور رنج و غم کے وقت
کا ایک مؤثر وظیفہ…
* امریکہ طالبان کے پیچھے…
* انڈین
فوج نے سرجیکل سٹرائیک کے نام
پر ’’مودی‘‘ کو ’’مولی‘‘ کھلادی…
* انڈیا کا مستقبل ’’اسلام‘‘
ہے…
* ہندؤوں کی غلط فہمی…
* بے بسی سے نجات، رزق کی کشادگی
اور
عذاب قبر سے حفاظت کے مجرب وظائف…
حالات حاضرہ اور مفید
وظائف پر
مشتمل ایک ہنستا، مسکراتا
مضمون
تاریخ
اشاعت:
۲ صفر المظفر۱۴۴۰ھ/12
اکتوبر 2018ء
مولی کھلا دی
اللہ
تعالیٰ ہماری آج کی مجلس کو بابرکت، پرنور اور مفید بنائے…آج حالات حاضرہ پر ایک
نظر۔
١ مودی کو مولی کھلا دی
٢
امریکہ طالبان کے پیچھے پیچھے
٣
گائے کا پیشاب نوش کر کے سو جاؤ
٤ شیر
اور بکری ایک گھاٹ پر
٥ حضرت
بابا فرید نور اللہ مرقدہ کے چار طاقتور اور شاندار وظیفے
مجلس کا آغاز وظیفے سے
کرتے ہیں۔
سخت
پریشانی اور رنج و غم کے وقت کا وظیفہ
’’جس کسی کو کوئی رنج و غم یا کوئی سخت مرحلہ ( اور بڑی حاجت) پیش
آئے تو وہ فجر کی نماز کے بعد ایک سو بار پڑھے:
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ
اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ یَا فَرْدُ یَاوِتْرُ یَااَحَدُ یَاصَمَدُ
۔‘‘
[ راحت القلوب۔ ص: ۱۴۵،طبع۔
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
حاجات
کے پورا ہونے اور پریشانیوں کے حل کے لئے یہ بہت نایاب ، قیمتی اور مؤثر وظیفہ ہے
اور حدیث پاک سے ثابت ہے… جس نے بھی کچھ دن اس کی پابندی کی وہ الحمد للہ اپنے
مقصد میں کامیاب ہوا۔
مودی
کو مولی کھلا دی
بھارت
کی بد نصیبی کہ اسے ’’مودی‘‘ جیسا حکمران ملا…جس دن بھارت سے مودی کی حکومت ختم
ہوئی… اور اس دن بھارت اپنی حالت پر موجود ہوا تو… انڈیا والوں پر عجیب و غریب راز
کھلیں گے کہ… مودی نے بھارت کو کس طرح سے کمزور اور کھوکھلا کر دیا ہے… مودی کو
فلمی ہیرو بننے کا بہت شوق ہے… نودولتیوں کی ہر برائی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی
ہے… وہ ایک بزدل قاتل ہے… انڈیا میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس کا خیال تھا کہ
وہ پاکستان پر بھی فتح حاصل کرے گا… اسے نہ زمینی حقائق کا علم ہے اور نہ ہی وہ
جنگ کو سمجھتا ہے… وہ تو صرف نہتے انسانوں کو پولیس گردی کے ذریعہ مروا سکتا ہے…
کشمیر میں مجاہدین کی مسلسل کاروائیوں کے بعد وہ اپنی فوج کو بار بار حکم دے رہا
تھا کہ… پاکستان کو سبق سکھاؤ… فوج پریشان تھی کہ کیا کرے؟ … وہ اگر پاکستان کے
اندر گھس کر کاروائی کرتی تو… کاروائی میں شریک فوجیوں کا زندہ واپس جانا ناممکن
تھا… یوں ملک کی بدنامی ہوتی اور فوج میں بڑے پیمانے پر تبادلے ہوتے… تب انڈین فوجی
سر ملا کر بیٹھے کہ… مودی کے جارحانہ،پاگلانہ احکامات سے کیسے نمٹا جائے… یہ تو
روز صبح اُٹھ کر نئے حملے کا حکم جاری کر دیتا ہے… اور گھس کر مارنے کی بڑھک چھوڑتا
ہے… جبکہ جنگ کرنا،جنگ سے نمٹنا اور گھس کر مارنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے… تب
انڈین فوج نے ایک منصوبہ بنایا کہ… کشمیر کے دوردراز جنگلوں میں… ایک نقلی سرجیکل
سٹرائک کا ڈرامہ فلمبند کیا جائے… اور وہ مودی کو پیش کر دیا جائے… مودی خوش ہو
جائے گا… اور چونکہ یہ حملہ نقلی ہو گا تو پاکستان اسے ماننے سے انکار کر دے گا…
اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ… مودی جب ہمیں دوبارہ حملے کا حکم دے گا تو ہم کہہ سکیں
گے کہ… شرجی! ایک کیا ہم تو دس حملے کرنے کو تیار ہیں… مگر پاکستان کی پالیسی یہ
ہے کہ وہ ہمارے کسی حملے کو تسلیم نہیں کرے گا…یوں ہمارے حملے کا کوئی خاص فائدہ
نہیں ہو گا… بین الاقوامی میڈیا بھی ہمارے حملے کو شک سے دیکھے گا…اس لئے اب حملے
کرنے یا گھس کر مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے… آپ کوئی اور طریقہ سوچیں جس سے
پاکستان کو نیچا دکھایا جا سکے…اور یوں انڈین آرمی نے… ایک نقلی سرجیکل سٹرائک کر
کے مودی کو مولی کھلا دی ہے… کشمیری زبان میں مولی کھلانے کا مطلب کسی کو ٹھنڈا
کرنا، مایوس کرنا ہوتاہے… اس سال جب مودی حکومت پچھلے سال کے سرجیکل سٹرائک کا جشن
منا رہی تھی تو…ساری دنیا میں اس کا مذاق اُڑایا جا رہا تھا… اور تو اور خود انڈیا
کے سمجھدار اور عقلمند صحافی بھی شک کا اظہار کر رہے تھے… کیونکہ سب جانتے ہیں کہ
مجاہدین کبھی بھی اپنے نقصانات اور اپنے شہداء کرام کو نہیں چھپاتے… بلکہ وہ تو
انڈیا کے مظالم اور اپنے شہداء کرام کے تذکرے سے… اپنی دعوت جہاد کو مؤثر بناتے ہیں…
اگر انڈیا نے مجاہدین پر حملہ کیا ہوتا تومجاہدین اس کے خلاف پاکستان میں بڑے بڑے
مظاہرے کرتے، جلوس نکالتے… لاکھوں افراد شہداء کرام کے جنازے ادا کرتے… اور ان
شہداء کرام کے انتقام کے لئے مزید سینکڑوں نوجوان جہاد کے لئے خود کو پیش کرتے۔
بے
بس اور مجبور افراد کے لئے شاندار تحفہ
’’جو شخص پریشانیوں سے بے بس اور لاچار ہو چکا ہو اور حالات کی
خرابی سے تھک چکا ہو وہ ان کلمات کو ایک ہزار بار پڑھے۔ اس کی حاجت ضرور پوری ہو گی،
ان شاء اللہ
’’اَقْویٰ مُعِیْنٍ وَاَھْدیٰ دَلِیْلٍ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ
نَسْتَعِیْنُ۔‘‘
[ راحت القلوب۔ ص: ۱۴۶،طبع۔
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
ماشاء
اللہ عجیب پرسکون، پرکیف اور طاقتور عمل ہے… اخلاص اور توجہ کے ساتھ کریں … باوضو
کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی شان پر یقین رکھیں … اس عمل میں سورۂ فاتحہ کا
دل بھی آگیا… اسی سے تاثیر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
امریکہ
طالبان کے پیچھے پیچھے
سائنس
کی ترقی دیکھیں کہ… افغانستان پر حملہ کرنے والا… ہزاروں ایٹم بموں کا مالک… خود
کو سپر پاور کہلوانے والا… ساری دنیا میں ناقابل تسخیر سمجھا جانے والا امریکہ…
آج کل ’’امارت اسلامی طالبان ‘‘ سے مذاکرات کے لئے ان کے پیچھے پیچھے پھر رہا ہے…
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’’طالبان‘‘ امریکہ سے مذاکرات کے لئے منت سماجت کرتے… کیونکہ
ان پر حملہ ہوا ہے… اور ان کی حکومت بھی بظاہر ختم ہوئی ہے…مگر طالبان بالکل بے
فکر ہو کر جہاد کر رہے ہیں… ان کو نہ اپنی حکومت کی پروا ہے اور نہ اپنے نقصانات کی…وہ
مکمل اعتماد اور اطمینان سےد نیا کی چالیس فوجوں سے لڑ رہے ہیں… وہ صبح سویرے
جاگتے ہیں… تہجد میں اللہ تعالیٰ کے حضور روتے ہیں…فجر ادا کر کے قرآن مجید کی
تلاوت کرتے ہیں… پھر ہلکا سا سادہ ناشتہ کر کےاپنا اسلحہ اٹھا کر لڑائی میں مصروف
ہو جاتے ہیں… دوپہر تک جلدی جلدی دشمن کو نمٹا کر بارہ بجے کھانا کھاتے ہیں… اور
ظہر پڑھ کر اطمینان سے سو جاتے ہیں… عصر کے بعد کچھ کھاتے، کھیلتے اگلے حملوں کا
مشورہ کرتے ہیں… ان کو نہ مہینے گذرنے کی فکر نہ سال ختم ہونے کا غم… زندگی سعادت
اور موت شہادت… ان میں سے اکثر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ مذاکرات کیا ہوتے ہیں اور
کیوں ہوتے ہیں… جبکہ امریکہ پر اس جنگ کا ایک ایک لمحہ بھاری ہے… اس کے ڈالر پانی
کی طرح اور اس کا حوصلہ دھوپ میں رکھی برف کی طرح بہہ رہا ہے… اس لئے وہ طالبان کو
ڈھونڈتا پھر رہا ہے کہ ان سے مذاکرات کرے…اسی مد میں وہ پاکستان پر بھی زور اور
دباؤڈالتا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے… اس دوران کئی نوسرباز نقلی
طالبان بن کر امریکہ کو اچھا خاصا لوٹ بھی چکے ہیں… امریکہ لڑنے جائے تو اسے
افغانستان کے ہر پتھر پر طالبان نظر آتے ہیں… مگر جب وہ مذاکرات کے لئے نکلتا ہے
تو اسے طالبان نظر ہی نہیں آتے… وہ انہیں ہر طرف ڈھونڈتا پھر رہا ہے… بھائیو! ہے
نہ سائنس کی ترقی؟
رزق
میں کشادگی کا وظیفہ
حضرت
بابا جی فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ ایک دفعہ میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا اور وہاں دعاء کے بارے میں
باتیں ہو رہی تھیں حضرت قطب صاحب رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا : ’’جس کو معاش کی تنگی ہو وہ اس دعاء
کا ورد کرے:
’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یَا دَائِمَ الْعِزِّ
وَالْمُلْکِ وَالْبَقَاءِ وَیَاذَاالْمَجْدِ وَالْعَطَاءِ یَا وَدُوْدُ ذَاالْعَرْشِ الْمَجِیْدُ
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔‘‘
[ راحت القلوب۔ ص: ۱۴۶،طبع۔
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
گائے
کا پیشاب پی کر سو جاؤ
انڈیا
میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں کہ… تیرہ مسلمانوں نے دین اسلام چھوڑ کر’’ہندو مت‘‘
قبول کر لیا ہے… بی بی سی والے اس خاندان سے انٹرویو لینے گئے تو وہاں عجیب
صورتحال تھی… مسلمانوں کا ایک مجبور اور بے بس غریب گھرانہ… پولیس گردی کے ظلم سے
بچنے کے لئے ’’ہندو‘‘ بنا بیٹھا تھا… ان سے نام پوچھے تو کبھی وہ اسلامی نام بتاتے
اور کبھی نئے ہندو نام… بعض کا اصرار تھا کہ ہم ابھی تک مسلمان ہیں اور بعض کہہ
رہے تھے کہ… مجبوری میں ہندو ہوئے ہیں تاکہ انصاف مل سکے…وہاں کے ہندو خوشیاں منا
رہے تھے … حالانکہ اس میں ان کے لئے خوشی کی کوئی بات نہیں ہے… الحمد للہ اسلام
زندہ ہے اور روز دنیا بھر میں ہزاروں افراد بخوشی اسلام میں داخل ہو رہے ہیں…
اسلام ہی آج دنیا کا اکثریتی دین ہے… اور یہ دین ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اپنے
غلبے کی طرف بڑھ رہا ہے… ہندوستان میں آج کل مودی اور یوگی نے مسلمانوں کا جینا
دو بھر کیا ہوا ہے… اور وہاں کے مسلمان سیاستدانوں نے غلامی کو فخر سمجھا ہوا
ہے…خوب اچھی طرح سن لو کہ… انڈیا کا مستقبل ’’اسلام‘‘ ہے…اور آج بھی دنیا بھر میں
روز درجنوں ہندو کامیابی کے راستے اسلام کو اختیار کر رہے ہیں… اس لئے بجرنگ دل کے
بندر تیرہ افراد پر خوشی نہ منائیں … بلکہ گائے کا پیشاب پی کر سو جائیں… وہ جب
جاگیں گے تو یہ تیرہ افراد بھی توبہ کر کے دوبارہ مسلمان ہو چکے ہوں گے، ان شاء
اللہ۔
عذاب
قبر سے حفاظت کے لئے
اللہ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عذاب قبر سے بچائے…عذاب قبر کا تصور ہی خوفناک ہے… حضرت
بابا جی فرید رحمہ اللہ علیہ نے عذاب قبر
سے حفاظت کے کئی وظائف لکھے ہیں… اُن میں سے ایک وظیفہ جو آپ نے حضرت سیدنا عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف
منسوب فرمایا ہے وہ یہ ہے :
’’جمعہ کی رات دو رکعت نماز ادا کرو، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ ایک
بار اور سورۂ اخلاص پچاس بار پڑھو۔‘‘
[ راحت القلوب۔ ص: ۱۳۹۔طبع:
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے
مجھے اور آپ سب کو عذاب قبر، عذاب جہنم اور آخرت کے ہر عذاب سے بچائے …آمین یا
ارحم الراحمین
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور … 664
مقام عبدیت
* اللہ تعالیٰ کا ’’ذکر‘‘ سب اعمال سے بڑا عمل ہے…
* ’’ذکر‘‘ کسے کہتے ہیں؟ ’’ذکر‘‘ کا معنٰی و مطلب…
* ’’ذکر اللہ‘‘ کے طریقے…
* خیالات کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک اہم مشق…
* دماغ کے تھکنے کی وجوہات اور اس کے اثرات…
* ’’عبدیت‘‘ ایک مؤمن کی زندگی کا لازمی جزو ہے…
* ہماری بہت سے پریشانیوں کی ایک
بڑی وجہ ’’عبدیت‘‘ کانہ
ہونا ہے
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم موضوعات
تاریخ
اشاعت:
۹ صفرالمظفر ۱۴۴۰ھ/19
اکتوبر 2018ء
مقام عبدیت
اللہ
تعالیٰ ہمیں اپنا ’’ذکر‘‘ نصیب فرمائے …’’ذکر اللہ‘‘ کے برابر کوئی عمل نہیں، کوئی
چیز نہیں…{وَلَذِکْرُاللہِ اَکْبَرُ}… اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑا… اللہ تعالیٰ
سب سے بڑا… اللہ، اللہ، اللہ… ہماری آج کی مجلس ہے … ذکر اللہ کا طریقہ … اور
حضرت بابا جی فرید الدین مسعود رحمہ اللہ علیہ کے کچھ وظائف۔
ایک
ضروری بات سمجھیں
’’ذکر ‘‘ کہتے ہیں ’’یاد‘‘ کو… ذکر اللہ کے کئی طریقے ہیں…بلکہ بے
شمار طریقے ہیں… مگر سب سے اہم یہ ہے کہ… بس اللہ تعالیٰ کی یاد ہو … نہ کوئی غرض،
نہ کوئی فریاد…بس اللہ کی یاد… بس اللہ کی یاد… نہ کوئی دعا، ء نہ کوئی التجاء …
صرف اللہ کی یاد… صرف اللہ کی یاد… نہ کوئی خوف، نہ کوئی امید… صرف اللہ تعالیٰ کی
یاد… صرف اللہ تعالیٰ کی یاد… اللہ، اللہ ، اللہ…اللہ تعالیٰ کو اپنی کسی غرض کے
لئے یاد کرنا کچھ برا نہیں…اللہ تعالیٰ سے فریاد کر کے اسے پکارنا عبادت ہے… اللہ
تعالیٰ سے دعاء کرنا عبادت کا مغز ہے… اللہ تعالیٰ سے التجاء کرنا بڑی نیکی ہے
…اللہ تعالیٰ سے خوف اور امید رکھنا یہ ایمان کا حصہ ہے… مگر کبھی کبھی ایسی’’ یاد‘‘
جو بس’’ یاد‘‘ ہو … ایسا ’’ذکر‘‘ جو بس ’’ذکر‘‘ ہو… اللہ، اللہ، اللہ… زبان سے ہو یا
دل سے… ہڈیوں سے ہو یا کھال سے… بس انسان ڈوب جائے … اپنے محبوب اور مالک کا نام لیتا
جائے اور اس میں ڈوبتا جائے… ڈوبتا جائے… اللہ، اللہ، اللہ… نہ دائیں کی خبر، نہ
بائیں کی خبر…اللہ، اللہ ، اللہ… بس’’ اللہ‘‘ مل جائے، ’’اللہ‘‘ کی یاد مل جائے…
انسان خود مٹتا جائے اور اللہ، اللہ ہر چیز پر غالب آتا جائے… یہ ذکر بہت اونچا
ہے ، بہت ضروری ہے، بہت کام آنے والا ہے … یہ اس طرح ہے جیسے اپنی روح اللہ تعالیٰ
کے حوالے کر دی… ایسے ذکر سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں… اور یہ ذکر انسان کو سیدھے
راستے پر لے جاتا ہے… اللہ کا ذکر، اللہ کے لئے ، اللہ کی خاطر…اللہ، اللہ، اللہ۔
اللہ تعالیٰ نے بغیر مانگے
ہمیں پیدا فرمایا… بغیر مانگے ہمیں پالا… بغیر مانگے ہمیں سانس دے رہے ہیں… بغیر
مانگے ہمیں ہوا اور پانی دے رہے ہیں… بغیر مانگے ہمارے جسم کا نظام چلا رہے ہیں…اللہ
تعالیٰ بغیر مانگے ہمارا خون چلا رہے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب ہیں، مالک ہیں،
رازق ہیں… ہم نے ان کی طرف لوٹنا ہے… دن رات ہم کیسی کیسی باتوں میں اور یادوں میں
کھوئے رہتے ہیں … کبھی اپنے حقیقی محسن، حسین اور محبوب کو بھی یاد کر لیا کریں …
سچی یاد … محبت بھری یاد… اس کی عظمت کا استحضار… اللہ، اللہ، اللہ۔
نماز
کے بعد یا معمولات کے بعد… بس تھوڑی دیر آنکھیں بند کریں… اور زبان سے پڑھیں…
اللہ، اللہ، اللہ… سانس سے پڑھیں … اللہ، اللہ، اللہ…پھر زبان بند کر دیں… اور دل
سے پڑھیں اللہ، اللہ، اللہ… اور پھر اسی میں کھو جائیں… ڈوب جائیں… اللہ، اللہ،
اللہ… اگر اس میں واقعی کھو گئے تو اب آنکھیں برسیں گی… دل پاک ہو گا… اور نور
ٹھاٹیں مارے گا… تب خود کو بزرگ نہ سمجھ لیں… اس انتظار میں نہ لگ جائیں کہ اب دنیا
میرا ادب کرے گی… بلکہ اسی ذکر میں ڈوب جائیں… اور اللہ کو بڑا اور خود کو چھوٹا دیکھتے
جائیں… ہم سمندر میں ہوں تو سمندر سے کتنے چھوٹے… پہاڑ کے دامن میں ہوں تو ہم پہاڑ
سے کتنے چھوٹے… ارے! یہاں تو اللہ ہے… پہاڑ اور سمندر جس کے سامنے ایک ذرے کے
برابر نہیں… اور ہم تو ویسے ہی بے کار ہیں… اصلی ذکر انسان میں عاجزی اور تواضع پیدا
کرتا ہے… کیونکہ دل پاک ہوتا ہے تو اس میں اپنی حقیقت نظر آتی ہے… نہ نماز سیدھی،
نہ کلمہ سیدھا… بس غلاظت اور گندگی اور گناہ ہی گناہ… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ وہ
اتنا عظیم ہو کر … ہم جیسوں کو اپنا نام لینے دے… اللہ، اللہ، اللہ۔
ایک
مشق
انسان
کا دماغ ہر وقت متحرک رہتا ہے… کسی ایک جگہ نہیں ٹکتا… گناہوں میں تو شیطان نے ایک
مقناطیسی کشش لگا دی ہے… اس لئے فلموں وغیرہ میں لوگ ڈوب جاتے ہیں… مگر نماز اور
ذکر میں توجہ ایک طرف نہیں رہتی… اگر رہے تو جلدی تھک جاتی ہے…اس لئے روزانہ ایک
مشق کیا کریں… اس ’’مشق‘‘ سے خیالات کو قابو کرنا آسان ہو جاتا ہے … اور بکھرا
ہوا ذہن مجتمع ہو جاتا ہے… زمین پر بیٹھ جائیں… اگر مٹی یا گھاس ہو تو بہت اچھا
ورنہ فرش پر ہی بیٹھ جائیں…اب آنکھیں بند کر کے اپنے سانس کی نگرانی کریں… سانس
اندر جا رہا ہے، سانس باہر نکل رہا ہے… پوری توجہ سانس پر ہو… اور ہر سانس کی مکمل
نگرانی ہو کہ کب اندر گیا اور کب باہر نکلا… اس طرح روز بیس سانس سے سو سانس تک یہ
مشق کریں… اس سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا… ایسے کئی افرادجن کا دماغ کسی وجہ
سے تھک جاتا ہےان کو بھی ہم یہی مشق بتاتے ہیں … بیچارے دماغ پر جب ہم تین سو چینل
چلائیں گے تو وہ گرم ہو گاتھکے گا… تب اس میں طرح طرح کے غم، بدگمانیاں، تنگی اور
الجھن پیدا ہو گی… بہت سے لوگوں پر نہ جادو ہوتا ہے اور نہ جنات… بس ان کا داغ تھک
چکا ہوتا ہے… جب دماغ تھکتا ہے تو وہ پورے بدن کو گرا دیتا ہے… اور دماغ اکثر دو
وجہ سے تھکتا ہے… ایک تو اوپر چڑھنے والی گیس… اور دوسرا خیالات کا بے ہنگم ہجوم…
اور آج کل نیند کی کمی اور فون سکرین کی ریڈیائی لہریں بھی دماغ کو تھکا دیتی ہیں…
بہرحال دماغ تھک جائے تو وہ انسان کو طرح طرح کی اُلٹی حرکتوں اور شہوتوں میں
ڈالتا ہے … غم اور بدگمانی میں ڈالتا ہے… مایوسی اور بد دلی میں دھکیلتاہے… اور
کبھی کبھی تو ’’نقلی فلمیں‘‘ بھی بنانے لگتا ہے…جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے یہ
آواز آ رہی ہے ، مجھے وہ آواز آ رہی ہے… پانی مجھ سے باتیں کر رہا ہے، دیواریں
مجھے سمجھا رہی ہیں… اور مجھے فلاں چیز نظر آ رہی ہے… جن نظر آ رہا ہے ، روح نظر
آ رہی ہے… یہ سب کچھ دماغ کی تھکاوٹ اور خشکی سے ہوتا ہے… فون، ٹی وی وغیرہ کی
سکرین پر زیادہ دیر نظر ڈالنا چھوڑ دیں … اور اوپر جو ’’مشق‘‘ عرض کی ہے وہ کریں…اور
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق سر پر خوب تیل ڈالا کریں… کوئی
دن تیل ڈالنے سے خالی نہ رہے… دماغ کو تیل کی سخت ضرورت ہوتی ہے… کاش! ہم ہر سنت
کو ہی اپنا مستقل فیشن بنا لیں تو ہمارے لئے دنیا و آخرت میں کتنی خیر ہو جائے۔
عبدیت
… بندگی
ہم
اللہ تعالیٰ کے ’’عبد‘‘ یعنی غلام اور بندے ہیں… آج ہماری پریشانیوں کی ایک اہم
وجہ یہ ہے کہ… ہم میں ’’عبدیت‘‘ نہیں ہے… ہم ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے سودے
بازی کرتے ہیں… ہم نے یہ کیا تو یہ کیوں نہیں ہوا؟… نہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عظمت
کو سمجھا اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقام کو پہچانا… یہ اسلام کے فدائی آخر شہادت کی
اتنی زیادہ تڑپ کیوں رکھتے ہیں؟ … کیا ان کے جسم میں ہماری طرح خواہشات نہیں ہوتیں؟…
کیا انہیں دنیا میں کچھ کشش محسوس نہیں ہوتی؟… سب کچھ ہوتا ہے… مگر وہ اللہ تعالیٰ
کی عظمت کو تھوڑا سا پہچان لیتے ہیں تو پھر… اس پر بے قرار ہوتے ہیں کہ… اتنے عظیم
رب کو ہم کیسے راضی کریں؟… پھر ان کے پاس جو سب سے آخری اور قیمتی چیز ہوتی ہے یعنی
اپنی جان… وہ اسے پیش کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں… وہ سمجھتے
ہیں کہ اتنی عظیم بارگاہ میں… اس سے کم چیز پیش کرنا بے ادبی ہے… اور دوسری طرف ہم
ہیں کہ… دن رات اللہ تعالیٰ سے صرف سودے بازی کرتے ہیں … اگر دنیا کے مسائل حل
ہوتے رہیں تو ہم اعمال میں لگے رہتے ہیں… لیکن اگر دنیا کے مسائل حل نہ ہوں تو ہم
اعمال سے بھی ہٹ جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنا اصلی ذکر اور اپنی حقیقی یاد
نصیب فرمائے… صرف ایک دن یعنی چوبیس گھنٹے تو ہم اللہ تعالیٰ کے ’’عبد‘‘ یعنی غلام
بن کر گذاریں… نماز اسی کی رضاء کے لئے ادا کریں … سارے اعمال اس کی رضاء کے لئے
اداکریں…اور اسی کے ذکر میں ڈوبے رہیں … اللہ، اللہ، اللہ۔
مقام
عبدیت
اللہ
تعالیٰ کا ’’عبد‘‘ یعنی بندہ بننا ہی اصل مقام ہے… آج اسی کے لئے ذکر کا یہ ایک
طریقہ عرض کیا ہے … روزانہ تھوڑی دیر اس ذکر کو ہم اپنے معمولات میں شامل کر لیں…
کیا معلوم کہ ہمیں بھی عبدیت کے مقام کا کچھ ذرہ نصیب ہو جائے… بات لمبی ہو گئی اس
لئے وظائف نہ آ سکے… بہت معذرت … ویسے ’’ذکر اللہ‘‘ ہی سب سے بڑا وظیفہ ہے…اللہ،
اللہ، اللہ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور…665
المجاہد فی سبیل اللہ
* حضرت مولانا طلحہ رشید شہید رحمہ اللہ علیہ کے حالات زندگی پر لکھی گئی
کتاب’’المجاہد فی سبیل
اللہ‘‘ کا تعارف…
* شہید محترم کے اوصاف،کمالات اور قربانیوں کا حسین
تذکرہ…
روشن،
معطر اور راہنما اسباق پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ
تاریخ
اشاعت:
۱۶ صفر ۱۴۴۰ھ/ 26 اکتوبر
2018ء
المجاہد فی سبیل اللہ
اللہ
تعالیٰ کا شکر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘… اللہ تعالیٰ سے معافی’’
اَسْتَغْفِرُ اللہَ ربَّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘… اللہ تعالیٰ سے سؤال’’ اِیَّاکَ
نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘… اللہ تعالیٰ کی بے شمار خصوصی رحمتیں…’’ صَلوٰۃُ
اللہِ وَسَلَا مُہٗ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمِ النَّـَبِیِّـیْنَ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ‘‘…
اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے ’’انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین‘‘… یااللہ!
ہمیں بھی ان کی راہ پر چلا… بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ… یا اللہ!
طلحہ شہید کے درجات بلند فرما… ’’فِیْ أَعْلٰی عِلِّیِّیْنَ‘‘… طلحہ کے بارے میں
لکھے ہوئے اس مضمون کو قبول فرما، آمین… یَا خَیْرَ الْغَافِرِیْنَ، یَا رَبَّ الشُّہَدَآ ءِ وَالْمُجَاہِدِیْنَ۔
٭٭٭
اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک پیا
راسا بھانجا دیا… یہ ۱۹۹۳ء
کا سال تھا… ستمبرکا مہینہ اور جمعہ کا مبارک دن… خاندان میں الحمد للہ ’’جہاد‘‘ کی
خوشبو پھیلی ہوئی تھی… جہادی نسبت سے ہی اس کا نام ’’طلحہ‘‘ تجویز ہوا… روئے زمین
اور زمانے کے بہترین مجاہدین میںسے ایک حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے مبارک نام
پر… طلحہ ابھی چار ماہ کا تھا کہ میںکشمیر میں گرفتار ہوگیا… نہ اس نے مجھے شعورکی
آنکھوں سے دیکھا اور نہ میں اسے جی بھر کر دیکھ پایا… میں واپس آیا تو طلحہ ساتویں
سال میں تھا… قرآن مجید حفظ کر رہا تھا… مجھے بہت محبت بھری آنکھوں سے دیکھتا
تھا… اس نے قرآن مجید حفظ کیا… اور دینی تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل ہوگیا… ہماری
بہت کم ملاقات رہی… پھر میں کہیں دور چلا گیا… وہ ملاقات کے لیے مچلتا تھا… ایک
بار وہاں پہنچ گیا تو بس ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا تھا… پھر وقتاً فوقتاً مختصر
ملاقاتیں ہوتی رہیں… آخری سالوں میں وہ مجھے خط بھی لکھتا تھا… ان خطوط سے لگتا
تھا کہ وہ بیمار ہوچکا ہے… ’’مریض محبت‘‘ بن چکا ہے… اسے ’’عشق ‘‘ہوچکا ہے… ایسا
سچا عشق جو محبوب کے دیدار کے سوا اور کسی دواء سے شفاء نہیں پاتا… وہ باصلاحیت
تھا… سب چاہتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کام کرے… مگر اس کا ’’عشق‘‘ دیوانگی کی
حدود کو چھورہا تھا… وہ سب سے محبت کرتا تھا مگر اس نے ’’محبوب حقیقی‘‘ بس ایک ہی
بنالیا تھا… اسی کے عشق میں اس کی آنکھوں سے آنسو ابلتے تھے اور وہ بے قرار، بے
تاب اور مجبور ہوجاتا تھا… یہ عشق اس کی رگ رگ میں اتر چکا تھا؎
رگ
رگ میں دل ہے،دل میں تڑپ دردعشق کی
محشر
بنا ہوا ہوں، تمنائے یار میں
طلحہ
شہید کی داستان بہت عجیب ہے… آج میں اس داستان کا ایک ورق لکھنے بیٹھاہوں تو
حیران ہوں کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں … لوگوں کی زندگی ان کی موت
پر ختم ہوجاتی ہے جبکہ عاشق اور دیوانے کی زندگی … اس کی موت سے شروع ہوتی ہے ؎
یہ
عشق نہیں آسان اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک
آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
تھوڑی
سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی
آنکلے
ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے
تصویر
کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک
نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے
اشکوں
کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں
معصوم
محبت کا معصوم فسانہ ہے
’’طلحہ‘‘ اس دنیا میں چوبیس سال رہا… اس کے بس میں ہوتا تووہ چوبیس
گھنٹے بھی نہ رہ سکتا… وہ کچھ دیکھ چکا تھا… بس وہی پاناچاہتاتھا ؎
از
سر بالین مربرخیز اے ناداں طبیب
درد
مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
وہ
محبوب کے وصال کےلئے روتارہا ،بلکتا رہا ،تڑپتا رہا اپنا گربیاں چاک کرتارہا… گرم
سےگرم ،خطرناک سے خطرناک … اور سخت سے سخت میدانوں میں کودتارہا ؎
اپنے
قریب پا کے معطر سی آہٹیں
میں
بارہا سلگتی ہوا سے لپٹ گیا
بالآخر
اس کو اپنی منزل ایک گل پوش وادی میں نظر آئی … مگر وہ وادی اونچی تھی، دورتھی…
اور بظاہر طلحہ کے بس سے باہر تھی… مگر وہ عشق ہی کیا جو ہار مان جائے… وہ دیوانگی
ہی کیا جو رکاوٹوں اور فاصلوں کو تسلیم کرلے۔
٭٭٭
طلحہ
شہید کی یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے… آپ اسے پڑھیں گے تو آپ کو معلوم
ہوگاکہ… طلحہ کو ن تھا؟… طلحہ کیساتھا؟…طلحہ کہاں رہا؟… طلحہ کہاںگیا؟… یہ کتاب
طلحہ شہید نے خود نہیں لکھی… مگر میں اسے ’’طلحہ کی کتاب ‘‘کہتا ہوں… یہ اس کی
زندہ کرامت ہےکہ اس کے اہل محبت نے دل کھول کر طلحہ کے بارے میں لکھا… طلحہ جو
دعوت امت کو دینا چاہتا تھا وہ اس کتاب میں بہت پرتأثیر آگئی ہے… اس کے پاس
لکھنے کی فرصت نہیں تھی … وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا تھاکہ جس کو آڑبنا کر
اسے ’’وصال یار‘‘سے روکا جاسکے… وہ خو د لکھنے بیٹھتا تو کمال کا لکھتا… ماشااللہ
ہر فن میں ماہر تھا… مگر اسے ڈرتھا کہ اسے لکھنے کے کا م پر نہ بٹھا دیا جائے…
مگروہ امت میں جہاد کا درد اور شہادت کا شوق بھی اجاگر کرنا چاہتا تھا… اللہ تعالیٰ
نے اپنے مخلص اوروفا دار بندے کی یہ خواہش بھی پوری فرمائی… اور طلحہ کی یہ کتاب
دعوت جہاد اور شوق شہادت کا مرقع بن کر امت کے ہاتھوں میں پہنچ گئی… طلحہ سچا عاشق
اور سچا دیوانہ تھا… اس کی یہ کتاب بھی اسی پاکیزہ عشق کا مرقع ہے ؎
رند
وہ ہوں کہ غزل بھی وہی رندانہ ہے
معنٰی
و لفظ نہیں بادہ و پیمانہ ہے
واہ
کیا مست غزل تونے پڑھی آج جگر
ایک
اک لفظ چھلکتا ہوا پیمانہ ہے
حضرت
سیّد احمد شہید رحمہ اللہ علیہ خود کوئی مصنف نہیں تھے… انہوں نے اپنی جان ہتھیلی
پر رکھی اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے عشق کی بازی جیت گئے… تب اللہ تعالیٰ
نے زمانے کے اہل علم ،اہل قلم کو ان کی دعوت کے لئے مسخر فرمادیا… اور حضرت سید
صاحب کی دعوت جہاد اس قد ر پھیلی کہ… کوئی واعظ ،کوئی مصنف صدیاں لگا کربھی … اس
قد ر وسیع اور مؤثر دعوت نہیں پہنچا سکتا… بے شک جان کی قربانی سے بڑھ کر کوئی
عمل نہیں… ماضی قریب کے ایک مصنف کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ وہ سید صاحب کی جہادی
تحریک پر تحقیق کریں … اور مکمل تفصیل سے اس تحریک کا حال لکھیں … انہوں نے اپنی
زندگی کے سترہ قیمتی سال اس خدمت پر لگا دیئے… اور حضرت سید بادشاہ شہید کی تحریک
جہاد پر کئی کتابیں لکھیں… دوران تحقیق ایک بار انہیں خواب میں حضرت سیّد صاحب شہید
رحمہ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی… حضرت سید
صاحب نے ان سے فرمایا … مہر صاحب آپ نے جو لکھنا ہو لکھیں مگر میرے اصل کام یعنی
’’جہاد‘‘کو خوب اجاگر کریں … طلحہ شہید کا جینا ،مرنا سب جہادکے لئے تھا… اس نے دنیا
میں کسی سے کچھ نہیں مانگا… بلکہ اسے اگر کہیں سے کچھ ملنے کی توقع ہوتی تو وہاں
سے دور ہوجاتا کہ … کہیں ’’وصال یار‘‘میں کوئی رکاوٹ نہ بن جائے … وہ جہاد پرا پنا
سب کچھ لٹاتا رہا … اور جب چلا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مؤثر اور دیوانہ وار
دعوت کے پھیلنے کا انتظام فرما دیا… اس کے اہل تعلق نے راتوں کو جاگ کر اس کتاب پر
کام کیا… اور ہر کسی نےاپناخون جگرنچوڑکرطلحہ کی یہ کتاب تیار کی… اللہ تعالیٰ سے
امید ہے کہ یہ کتاب لاکھوں نوجوانوں کو…حقیقی دین ،حقیقی جہاد اور حقیقی عشق کا
راستہ دکھائے گی …ان شاءاللہ
٭٭٭
حدیث
مبارک آپ نے سنی ہوگی کہ …اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَ جَنَّۃُ
الْکَافِرِ’’دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت‘‘…اس حدیث شریف کا
اپنے زمانے میں مصداق دیکھنا ہوتوہم…طلحہ شہیدکی مختصر ایمانی زندگی کودیکھ سکتے ہیں …ابھی
بولنا سیکھا تھا کہ قرآن مجید کی تعلیم اورحفظ میں پابندہوگیا…حفظ مکمل
ہواتودینی تعلیم کی پابندیوں میں جابیٹھا…ابھی کچھ علم حاصل کیا تھا کہ عشق کا مرض
لگا اور خود کو جہاد کی پر مشقت زندگی میں ڈال دیا…وہ کوئی لفظی یا سرسری
مجاہدنہیں تھا …مکمل محنت سے ہر جہادی عمل سیکھتا تھا…محاذوں پر پہرے دیتا تھا…
آگے بڑھ کرلڑتاتھا…مجاہدین کی دن رات خدمت کرتا تھا…حالانکہ یہ اس کی عمر کا وہ
حصہ تھاجب انسان آزادی مانگتاہے…طرح طرح کی خواہشات کا اسیر بنتاہے…مگر طلحہ دین
کا پابند رہا،جہاد کا پابند رہا …پھر اس نے کشمیر جانے کا عزم کیا تو خود کوہر
مشقت اور تکلیف میں ڈالا… سردی کے موسم میں ٹھنڈے دریا پار
کرنا…پاؤں اور گھٹنے کی تکلیف کے باوجود گھنٹوںپیدل چلنااور دوڑنا…اور دن را
ت شہادت کے لئے تڑپنا ؎
ہجر
جاناں میں غضب شورش مستانہ ہے
روح
قالب میں نہیں قید میں دیوانہ ہے
اس
دوران وہ مکمل طور پر ’’سبیل اللہ ‘‘یعنی اللہ کے راستے کا قیدی بنا رہا…حرمین شریفین
گیا تووہاں بھی بس شہادت ہی مانگتا رہا…اور ’’وصال یار‘‘کے لئے تڑپتا پھڑکتا رہا؎
رہائی
ہو نہیں سکتی کبھی قید تعلق کی
جو
اک زنجیر ٹوٹی دوسری زنجیر دیکھیں گے
بے
شک ایسے ہی افراد کے لئے ’’موت‘‘روزہ افطار کرنے جیسی لذیذہوتی ہے…وہ دنیا میں قیدی
اورروزہ دارکی طرح رہتے ہیں …اور موت سے ان کی یہ قید اور روزہ ختم ہوتا ہے… ایک
کم عمر نوجوان کوکامیابی کایہ راز سمجھ آگیا…کاش !ہم سب اسے سمجھ لیں …اور اپنی
زندگی بے کار آزادیوں اور خواہشات میں ضائع نہ کریں؎
حالات
کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے
بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے
ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن
کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو
وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ
صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
کرنا
ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے
بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا
٭٭٭
آپ
نے’’ فضائل جہاد ‘‘کتاب پڑھی ہے؟…یہ ایک عربی کتاب ’’مشارع الاشواق‘‘ کا ترجمہ
ہے…’’مشارع الاشواق‘‘ (شوق کی راہیں)… کتاب کے مصنف خود ایک بڑے عالم اور مجاہد
تھے …اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’شہادت ‘‘سے نوازا …یہ کتاب’’جہاد‘‘ کے فضائل پرقرآنی
آیات ،احادیث مبارکہ اور اسلاف کے قصوں کا مجموعہ ہے…دین اسلام کی ایک خاصیت یہ
ہے کہ یہ دین کبھی پرانا نہیں ہوتا…ہرزمانے میں دین اسلام کے ہر حکم پر عمل
کرنے والے افراد موجود رہتے ہیں … آپ فضائل جہاد کے ایک ایک باب کو کھولتے
جائیں …اورہمارے زمانے کے ایک نوجوان مجاہدطلحہ شہید کی سوانح دیکھتے جائیں…
بلامبالغہ آپ کو حیرت ہوگی کہ فضائل جہاد جس طرح کا ’’مجاہد‘‘ دکھانا اور بنانا
چاہتی ہے…طلحہ شہید بالکل ویسا مکمل مجاہد تھا…آپ نیت جہاد سے لیکر شوق شہادت
تک…زخم جہاد سے لیکر اموال جہاد میں امانت تک…جہاد کی تیاری سے لیکر رباط تک … تیراندازی
سے لیکر گھڑ سواری تک … خدمت مجاہدین سے لیکر انفاق فی سبیل اللہ تک…ہر عمل کو
طلحہ شہید میں زندہ پائیں گے…واقعی یہ دین اسلام کی کرامت ہے …یہ سچے جہاد کی
کرامت ہے…اور یہ طلحہ شہید کی سعادت ہے…طلحہ بیٹے!بہت مبارک ہو…آپ نے نوجوانی میں
اتنے فضائل جمع کئے…اتنی کرامات حاصل کیں …اور میدان وفا کے حقدار شہزادے بن گئے؎
اس
کوچے میں ہوں صورت یک نقش وفا میں
دنیا
نے مٹایا مجھے لیکن نہ مٹا میں
بُن
بُن کے مٹاؤ نہ مرا نقشۂ ہستی
مٹ
مٹ کے بنا ہوں ہمہ تن نقش وفا میں
اے
اہل حقیقت مجھے آنکھوں پہ بٹھاؤ
طے
کرکے چلا آتاہوں میدان وفا میں
٭٭٭
جیلوں
میں اکثر قیدی …رہائی کو ہی اپنی فکر اور اپنی دُھن بنا لیتے ہیں…پھران کی ہر
دعاء،ہر عبادت اور ہر کوشش کا مرکزی نکتہ رہائی ہوتی ہے … بعض افرادپر یہ دُھن ایسی
سوار ہوتی ہے کہ … اس کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے سے بھی باز نہیں آتے …اسی
طرح بعض مریضوں پرصحت پانے کی فکراوردُھن سوار ہوجاتی ہے… تب ان کی دعاء ،ان کی
عبادت اور ان کی ہر کوشش صحت کی خواہش میں صرف ہوتی ہے…اور بعض اوقات وہ صحت پانے
کے لئے حرام راستے بھی اختیار کرنے سے نہیں چوکتے …اسی طرح وہ افراد جن کو موت یا
سزائے موت کا خطرہ ہو…وہ بھی اکثر اپنی موت کو ٹالنے کے لئے ہر کوشش،ہر طریقہ اور
ہر حیلہ اختیار کرتے ہیں… اور بعض افراد تواپنی روح نکلنے تک اپنے قاتلوں کے سامنے
روتے،ہاتھ جوڑتے اورزندگی کی بھیک مانگتے مرجاتے ہیں…حالانکہ یہ سب افراد جانتے ہیں کہ
یہ دنیا فانی ہے … اس کی رہائی ،اس کی صحت اوراس کی زندگی سب فانی ہیں … مگر انسان
عجیب ہے کہ وہ ان فانی چیزوں کی فکر کو اپنا ’’حال‘‘بنا لیتاہے…اللہ تعالیٰ ایسے
’’حال ‘‘سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… مگر دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے صادق اور وفادار
عاشق …اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اسکے حضور اپنی جان پیش کرنے کی فکر اور دُھن
اپنے اوپر سوار کرلیتےہیں …ایسے افراد چونکہ اللہ تعالیٰ سے جان کا سوداکرتے ہیں
توان کے ہر عمل میں جان پڑجاتی ہے… گویاکہ وہ جان دیکرجان پانے کا گُرسیکھ جاتے ہیں…وہ
زندگی دیکر زندگی حاصل کرنے کا راز جان لیتے ہیں …تب ان کی عبادت بھی جاندار،ان کی
دعاءبھی جاندار،ان کی نیکیاں بھی جاندار…اور ان کی موت بھی جاندارزندگی بن جاتی
ہے…طلحہ شہید بھی ان خوش نصیب، صادق اور وفادار بندوں میں شامل تھے جواس راز
کوپاگئے…طلحہ شہید رحمہ اللہ علیہ نے اپنی
جان اللہ تعالیٰ کو پیش کرنے کے لئے جو جو محنتیں کیں ، جس طرح فکر کی، وہ سب حیرت
انگیز ہے…کیا کوئی انسان مرنے کے لئے بھی اتنی محنت، اتنی کوشش اور اتنی فکر
کرسکتا ہے؟… ہاں بے شک! جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کوپہچان جائے …جو اللہ تعالیٰ
سے ملاقات کے شوق میں دیوانہ ہوجائے …اور جسے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہوجائے
وہ یہ سب کچھ کرتا ہے…اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صدق و وفا کا یہ جام اپنے فضل سے
پلائے۔
٭٭٭
طلحہ
شہید سے میری بہت قریبی رشتہ داری تھی …مگراس کے باوجود …ہم ایک دوسرے سے دور دور
رہے …وہ بھی مسافر تھااور میں بھی مسافر …کبھی کبھار ملاقات ہوتی مگر بہت
مختصر…چند باراس نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے کچھ اسباق پڑھا دیں …حدیث شریف پڑھا دیں…میرا
بھی بہت دل چاہاکہ ایسا ہو …مگر نہ ہوسکا…اس نے دوران تعلیم اسباق چھوڑ کر راہ
جہاد کو اختیار کیا تو ہم سب کی رائے تھی کہ وہ تعلیم مکمل کرے …چھٹیوں میں محاذوں
پر جاتا رہے …مگراس پر حال طاری تھا… وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے اس اقدام کی اسے
باقاعدہ اجازت دے دوں …پھر اس نے خط لکھ کربیعت کی خواہش ظاہر کی…ایک ملاقات ہوئی
اور ماموں ،بھانجا پیر مرید بن گئے… مگر ہم دونوں میں محبت اور دوری کا سلسلہ
پھر بھی برقرار رہا…حضرت سیّدناابوزرغفاری رضی اللہ عنہ جب مال وغیرہ کے معاملات میں لوگوں پراورخود پر
بہت سختی فرماتے تو…ایک بڑے صحابی نے ان کی صفائی ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ:
ّّ’’ابوذرکوایک
علم حاصل ہوا ہے اور وہ اس علم کے سامنے مجبو ر اور بے بس ہوچکے ہیں۔‘‘
یعنی
ابوذر پر اپنے علم کا ایساحال طاری ہوچکا ہے کہ … یہ اس سے باہر قدم رکھنے کی ہمت
ہی نہیں پاتے …یہ اپنے علم کے ہاتھوں مجبور ہیں …اور اسی پر عمل کرنے کے
پابند ہوچکے ہیں…طلحہ پر بھی لقاءاللہ ،شوق شہادت اور قربانی کے علم کا ایسا رنگ
چڑھاکہ وہ اس علم سے باہر قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا…وہ اپنے علم کے
سامنے ایسا مجبور اور مغلوب ہوچکا تھا کہ… جہاد کے کام کی کوئی اور تشکیل بھی اسے
گوارہ نہیں تھی…ایک باراس کا ایک مفصل خط مجھے ملا… خط کیا تھا…لاڈ،ناز،پیار،ادب اور جھگڑے کا ایک
مرکب تھا…وہ خط اس نے پوری رات جاگ کر کشمیر کے محاذکے قریب کہیںسے لکھاتھا…میں نے
اس خط کو کافی تلاش کیاتاکہ اس کتاب میں شائع کرسکوں …مگر وہ مجھے نہیں ملا …ممکن
ہے طلحہ کی دعاء کا اثر ہو…کیونکہ وہ یہ خط لکھنے کے بعد کچھ شرمایاشرمایاسارہتا
تھا…اس خط میں اس نے اپنے شوق شہادت کو جس طرح بیان کیا …وہ سب کچھ قابل رشک بھی
ہے اور قابل غور بھی …اس نے لکھا کہ آج میں اپنے امیراوراپنے مرشد کو نہیں بلکہ …
آپ کے بیٹے اور بھانجے کے طور پر یہ خط اپنے پیارے ماموں کو لکھ رہا ہوں …اور
پھروہ اپنے جذبات میں مغلوب ہوتا چلا گیا…اس کا پورا زور اس پر تھا کہ میں اسے
فدائی کاروائی کی باقاعدہ اجازت دے دوں …مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ …طلحہ شہید
شہادت پانےکے لئےہر گُر ،ہرطریقہ اور ہر کوشش کو بروے کار لایا … مگرمیں اپنی
جماعتی ذمہ داری اور جماعتی قوانین کے سامنے مجبور تھا…نہ اسے روک سکتا تھااور نہ
طالبعلمی کے دوران اس کوکھلی اجازت دے سکتا تھا…بس یہی اس کے دل کا ایک
کانٹاتھا…آخری ملاقات میں جب وہ ملنے آیاتوتنہائی تھی…اس نے باربار معافی مانگی…بالآخرمیں
نے کہا…طلحہ میں خوش ہوں ،خوشی سے اجازت ہے…اورمیری ناراضی کے بارے میں بالکل بے
فکر ہوجاؤ…بس یہ الفاظ سنتے ہی اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح کھل اٹھا…یوں
لگا کہ دل کا کانٹا نکل گیا ہے …اور خوشی اس کے انگ انگ میں سرایت کر گئی ہے…بس یہ
آخری ملاقات تھی…یہ ملاقات مجھےکبھی بھی نہیں بھولے گی…مگراس ملاقات کی کچھ کیفیت
بیان کرنے کے لئے جگر مرحوم کی ایک نظم کا سہارا لیناپڑے گا؎
مدت
میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالم
خاموش
اداؤں میں وہ جذبات کا عالم
نغموں
میں سمویا ہوا وہ رات کا عالم
وہ
عطر میں ڈوبے ہوئے لمحات کا عالم
اللہ
رے وہ شدتِ جذبات کا عالم
کچھ
کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم
عارض
سے ڈھلکتے ہوئے شبنم کے دو قطرے
آنکھوں
سے جھلکتا ہوا برسات کا عالم
وہ
نظروں ہی نظروں میں سوالات کی دنیا
وہ
آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالم
تھک
جانے کے انداز میں وہ دعوتِ جرأت
کھو
جانے کی صورت میں وہ جذبات کا عالم
وہ
عارضِ پُرنُور، وہ کیفِ نگہِ شوق!
جیسے
کہ دمِ صبْح مناجات کا عالم
دو
بِچھڑے دِلوں کی وہ بَہَم صُلْح و صفائی
پُر
کیف وہ تجدیدِ مُلاقات کا عالم
وہ عرش تا فرش برستے ہوئے انوار
وہ
تہْنِیَتِ ارض و سماوات کا عالم
تا صبح وہ تصدِیقِ محبّت کے نظارے
تا
شام وہ فخر و مُباہات کا عالم
وہ عِشق کی بربادئ زندہ کا مُرقّع
وہ
حُسن کی پائندہ کرامات کا عالم
طلحہ
شہید نے عبادت ،ریاضت ،پاکیزگی ، دعاءاور آہ وبکاسے اپنی جان کو قیمتی بنایا اور یہ
جان اللہ تعالیٰ کو بیچ دی … اس کے روشن
دل اور بے قرار روح نے اپنی منزل ایک اونچی گل پوش وادی میں دیکھ لی… اس نے کشمیر
کے لئے ’’رخت سفر‘‘باندھا … ہرکسی نے اس کے عزم کی تکمیل کو ناممکن قرار دیا… مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے سچے
عشق کی لاج رکھی… تب پہاڑوں کو بچھا دیاگیا، فاصلوں کو سمیٹ دیاگیا… اورہفتوںکی
مسافت کو گھنٹوں کے سفر میں تبدیل فرمادیاگیا:
مَنْ
أَحَبَّ لِقَآءَ اللہِ أَحَبَّ اللہُ لِقَآءَہٗ۔
’’جو اللہ سے ملنا چاہتے ہیں اللہ بھی ان سے ملنا پسند فرماتاہے۔‘‘
[صحیح بخاری۔حديث رقم:۶۵۰۷ ، طبع: دار
الكتب العلميه۔ بيروت]
طلحہ
کشمیر پہنچ گیا وہ کشمیر فتح نہیں کرسکا مگر جہاد کشمیر کی حقانیت کی دلیل بن گیا
… اس نے کعبہ سے لپٹ کر شہادت مانگی … اس نے روضۂ اطہر پر شہادت کی التجائیں کیں…
اس نے شہداءاحد کے قدموں میں شوق شہادت کے آنسو بہائے اس نے شہداء بدر کے پاس بیٹھ
کر اپنا گریباں چاک کرکے اللہ تعالیٰ سے شہادت کاسوال کیا…اس نے اپنی ہر نماز ،ہر
عبادت اور ہر خدمت کے بعدشہادت مانگی… اس نے شادی کو ٹھکرایا … دنیا کو چھوڑا… ماں
باپ کی محبت قربان کی… ننھے منے بھائیوں کے پیار کو قربان کیا… اپنی بہنوں کے
آنسو پونچھے… اپنی پیاری نانی اماں سے شہادت کی دعائیں کرائیں … جب ایسا سچا
مجاہد ،سچا عاشق کشمیر میں جاکر جان دیتا ہے تو… یہ جہاد کشمیر کی حقانیت کی بہت
روشن دلیل ہے… اس نے کشمیر میں جا کر کوئی بڑا طوفان نہیں اٹھایا… مگر اپنی جان دیکر
اس نے جہاد کشمیر کا پانسہ مجاہدین کے حق میں پلٹ دیا… بے شک شہید کی قربانی…
ہزاروں حملوں سے زیادہ دشمن کو نقصان پہنچاتی ہے؎
دشمن
کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدان
کار زار کا پانسہ پلٹ گیا
طلحہ
نے آخری معرکہ بہت جانبازی سے لڑا… دشمنوں کو بھر پور نقصان پہنچایا… اور آخر میں
تخت دہلی پر اپنا سرفراز سرگاڑدیا… یعنی فتح اور اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا… طلحہ شہید
کی شہادت کے بعد کشمیر کی صورتحال میںبہت تبدیلی آئی ہے… آج وہاں روزانہ کی بنیاد
پر نئے مجاہدین میدان وفا میں اتر رہے ہیں … اور تخت دہلی مجاہدین کی یلغار سے لرز
رہا ہے۔
زمانہ
دیکھے گا کہ … طلحہ شہید کا پاکیزہ خون …اسلام ،حریت اور آزادی کے کیسے کیسے رنگ
دکھاتا ہے… میرے پیارے بھانجے ، میرے شیخ اور مرشد، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ، اے
طلحہ! منزل مبارک ،شہادت مبارک ہو۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور : 666
اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم
* ’’درود و سلام‘‘ اللہ تعالیٰ
کا ایک تاکیدی حکم…
* ’’دورد و سلام‘‘ کے بارے میں
حضرات
اسلاف و مشائخ رحمہ اللہ علیہ کاطرزعمل
* ’’درود و سلام‘‘ صرف حصولِ
ثواب کاذریعہ ہی نہیں،
بلکہ ایک مؤمن کی لازمی
ترین ضرورت ہے…
* مجاہدین کیلئے ’’درود و
سلام‘‘ کی کثرت اور اہتمام از حدضروری…
* فتنوں سےبچاؤ کاایک اہم ترین
ذریعہ ’’درود و سلام‘‘…
* ’’دورد و سلام‘‘ جہاد کی
قبولیت وترقی کا ذریعہ…
* ’’دورد و سلام‘‘ کے دو اہم
فوائد…
* ’’دورد و سلام‘‘ مجاہدین کو
ان کے ’’حقیقی امیر‘‘
اور ’’اصلی مرکز‘‘ سے
جوڑنے کا ذریعہ…
* حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی صحبت وزیارت نہ پا سکنے کی وجہ
سے ہونے والی کمی کے
ازالے کاایک ذریعہ ’’ دورد وسلام‘‘ …
*
ایک انمول درو د شریف…
تاریخ
اشاعت:
۲۳ صفر المظفر۱۴۴۰ ھ/ بمطابق 2
نومبر2018ء
اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم
اللہ
تعالیٰ کا تاکیدی حکم ہے کہ…تمام ایمان والے… نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کریں… حضرت بابا فرید الدین
مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’حضرات صحابہ و تابعین اور مشائخ نے درود شریف کا وظیفہ مقرر کیا
تھا کہ ( روز اتنا پڑھا کریں گے) اگر کسی دن اُن کا یہ وظیفہ فوت ہوجاتا تو وہ خود
کو مردہ سمجھتے اور ماتم کرتے کہ آج کی رات ہم مر گئے تھے اگر زندہ ہوتے تو سرور
کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتے۔‘‘
[ راحت القلوب۔ صـ:۱۴۱،طبع۔
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
مجاہدین
سے دردمندانہ گذارش
مجاہدین
کرام مکمل اخلاص اور محبت کے ساتھ … درودشریف کا اہتمام کریں… اس سے ان کا جہاد
قبولیت اور ترقی پائے گا… آج کل فتنے بہت زیادہ ہیں… اور اصلی جہاد پر قائم رہنا
بہت مشکل ہے…آج اُمت مسلمہ کو جہاد کی بے حد ضرورت ہے…مگر ایسا جہاد جو خالص
ہو،شریعت کے مطابق ہو اورمقبول ہو…احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ…مجاہدین کی دو قسمیں
ہیںایک مقبول اور دوسری غیر مقبول…اسی طرح شہداء کی بھی دو قسمیں ہیں…چونکہ جہاد
سے پورے دین کو قوت ملتی ہے اس لئےمجاہدین پر شیطان بہت حملے کرتا ہے… جہاد سب سے
افضل عمل ہے… اور مجاہد سب سے افضل مؤمن ہے … افضلیت کا یہ اونچا مقام مجاہد سے
چھیننے کے لئے شیطان پورا زور لگاتا ہے… اس لئے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ…
فتنوں سے بچیں… جہاد کے نام کو ہی کافی نہ سمجھیں بلکہ… خالص اور مقبول مجاہد بننے
کی فکر، دعاء اور کوشش کریں… اور اس کا ایک بہترین ذریعہ درود و سلام کی کثرت ہے…
نبی کریم آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مرکز ہیں… ہم اپنے مرکز سے مضبوط جڑیں گے
تو فتنوں سے بچیں گے… ترقی پائیں گے… اور سیدھے راستے پر رہیں گے۔
لازمی
ضرورت
ہم
جب تک درود شریف کو’’ ثواب‘‘ حاصل کرنےکا ذریعہ سمجھتے رہیں گے… اس وقت تک ہمیں اس
کا اہتمام نصیب نہیں ہو گا… ہمیں چاہیے کہ ہم ’’درودشریف‘‘ کو اپنی لازمی ضرورت
سمجھیں… اس میں شک نہیں کہ ’’درود شریف‘‘ بہت بڑے ثواب اور اجر حاصل کرنے کا ذریعہ
ہے… ایک بار درودشریف پڑھنے پر نقد پچاس انعامات ملتے ہیں…اور حضرت خواجہ گنج شکر
رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک تو ایک بار
درودشریف پڑھنے پر ایک لاکھ نیکیاں ملتی ہیں اور درود پڑھنے والے کا شمار’’اولیاء
اللہ‘‘ میں ہوتا ہے… حقیقی صوفیاء کرام دراصل اللہ تعالیٰ کی بڑائی، کبریائی اور
اس کی وسعت رحمت کے مراقبہ میں غوطہ زن رہتے ہیں… اس لئے وہ اعمال کا ثواب بھی اسی
رحمت کی وسعت کے مطابق بیان فرماتے ہیں… یہ مبالغہ نہیں ہوتا… آج کسی کو بھی رحمت
الہٰی کے مراقبے کی سیر نصیب ہو تو… وہ دیکھ لے گا کہ… اس عظیم بادشاہ کے سامنے
لاکھوں اور کروڑوں کی کیا حیثیت ہے… بہرحال درودشریف کا اجراورثواب بے انتہا ہے…
مگر ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ درود شریف کے بغیر ہمارا گذارہ ہی نہیں ہے… ہمیں
نہ تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی… اور نہ ہم نے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت مبارک پائی … ہم نے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خدمت کی… اور نہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کچھ سنا … ہم نےنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں کا فیض پایا… اور نہ ہمارے
کانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز
مبارک سننا نصیب ہوئی… جبکہ دین اسلام کا مرکزی نکتہ ’’محمد رسول اللہ ‘‘ ہے… یہ
کلمۂ ایمان کا لازمی جزو ہے… ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللہِ‘‘… ہم نے بھی اس مبارک کلمے پر اسی طرح ایمان لانا ہے جس طرح حضرات صحابہ
کرام؇ ایمان لائے…
حضرات صحابہ کرام؇ کو حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت، خدمت اور
مرافقت کا شرف نصیب ہوا … تو کلمہ اُن کے قلوب میں اتر گیا… جبکہ ہمارے لئے اس کمی
کی تلافی کیسے ہو؟… بے شک درود و سلام کی کثرت ہماری اس کمی اور محرومی کی بڑی حد
تک تلافی کر سکتی ہے… ہم حضرات صحابہ کرام؇ کا مقام تو نہیں پا سکتے …
مگر درودشریف کے ذریعہ ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک روحانی قرب ملتا ہے… اور اس قرب کی برکت
سے… ہم زمانے کے بڑے بڑے فتنوں سے بچ سکتے ہیں۔
ایسے
بے شمار واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ … کئی افراد نے درود شریف سے اپنا تعلق مضبوط
رکھا تو… بڑے بڑے گناہوں اور کوتاہیوں کے باوجود … اُن کو مغفرت ملی… وہ مرکز سے
جڑے ہوئے تھے… اور جو مرکز سے غیر مشروط وفاداری رکھے تو فتنے اس کے قریب نہیں آ
سکتے… درودشریف ہماری آخرت کے لئے بے حد لازمی … اور ہماری دنیا کے لئے بے حد
ضروری ہے… ہمیں ہر خیر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی ملی ہے…وہ قرآن ہو یا نماز… وہ
کعبہ ہو یا مسجد نبوی… وہ حج ہو یا جہاد … وہ ذکر ہو یا تلاوت …وہ دین ہو یا دنیا…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اسی
طرح…اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں…جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں تھے… تو آج بھی ہمیں
جو خیر ملے گی وہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی ملے گی… اور درودشریف حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق مضبوط بناتا ہے… ہر درود وسلام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں… اور درودشریف
پڑھنے والے کا نام اس کی ولدیت سمیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے… اللہ تعالیٰ نے اس
کام کے لئے فرشتوں کا ایک وسیع نظام مقرر فرما دیا ہے… درودشریف کا پہلا فائدہ تو یہ
ہے کہ اس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ … ہمارا تعلق
اپنے مرکز سے مضبوط ہوتا ہے… اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نسبت مضبوط ہوتی ہے… اب جسے یہ
نعمتیں حاصل ہو جائیں اس کے لئے دنیا بھی خیر اور آخرت بھی خیر۔
اے
پیارے مجاہدو!
اے
پیارے مجاہدو! اللہ تعالیٰ کے محبوب بندو! اللہ تعالیٰ تمہیں ساری امت کی طرف سے
جزائے خیر عطاء فرمائیں… تم نے اپنا سب کچھ اس دین کی خاطر لگا رکھا ہے… تمہارے
جسم زخموں سے چور ہیں… تم پر ساری دنیا کا کفر حملہ آور ہے… تم پر طرح طرح کی
پابندیاں ہیں… تم نے اللہ تعالیٰ سے جان و مال کا سودا کر کے… اس دنیا کے عیش و
آرام کو چھوڑ رکھا ہے… بے شک تمہارا مقام بہت بلند اور تمہاری محنت بہت افضل ہے…
اللہ تعالیٰ تمہیں قدم قدم پر اپنی نصرت اور فتوحات عطاء فرمائے… تمہاری یہ قربانی
اور محنت مزید ترقی اور قبولیت پائے… اس کے لئے تم اپنے حقیقی امیر سے اچھی طرح جڑ
جاؤ… ہاں! قیامت تک کے ہر مجاہد کے حقیقی امیر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
ہیں… تم اپنے مرکز سے مضبوط جڑ جاؤ… اور
تمہارے حقیقی مرکز حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں…تم ان کی سیرت و صورت کی مکمل پیروی کرو…
ان سے محبت کا حق ادا کرو… اور ان پر درود و سلام کی ایسی کثرت کرو کہ… ہر وقت
رحمت ونصرت کے فرشتے تم پر محو پرواز رہیں… فرصت نکال کر ایک باردرودوسلام کے تمام
فضائل پڑھ لو… ان فضائل کے رازوں پر غور کرو… اور پھر درودوسلام کی طاقت اور خوشبو
کو اپنے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمولو… تب تم دیکھو گے کہ… تمہارے قدموں کے ساتھ
نصرت کس طرح چلتی ہے… اور فتنے تم سے کس طرح دور بھاگتے ہیں… اخلاص، محبت ، توجہ
اور اہتمام کے ساتھ… درود شریف … بہت زیادہ درودشریف… {صَلُّوْا
عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ ا تَسْلِیْمًا
}
ایک
انمول درودشریف
حضرت
بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ راحت القلوب‘‘ میں ایک درودشریف
لکھا ہے… اور اس کے فضائل و فوائد پر دو تین صفحے رقم فرمائے ہیں… بندہ کراچی میں
ایک بار استاذ محترم حضرت مولانامفتی محمد جمیل خان شہید رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ
حضرت استاذ محترم مولانا بدیع الزمان صاحب رحمہ اللہ علیہ کی عیادت کے لئے حاضر ہوا… حضرت مولانا بدیع
الزمان صاحب رحمہ اللہ علیہ بہت متبع سنت،
راسخ العلم اور بڑے مقام والے عالم دین اور ولی اللہ تھے… حضرت مولانا بدیع الزمان
صاحب رحمہ اللہ علیہ نے سخت علالت کے
باوجود محبت و شفقت سے ملاقات فرمائی… اور تفسیر مظہری میں سےاسی درودشریف کی فضیلت
پڑھوائی جو کہ حضرت بابا فرید رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے… البتہ تفسیر مظہری والا درود شریف
کچھ مختصر تھا جبکہ بابا فرید رحمہ اللہ علیہ والا کچھ مفصل ہے… یہ درودشریف واقعی ایک تحفہ،
ایک انمول خزانہ اور ایک زندہ کرامت ہے… کوشش کریں کہ صبح و شام ایک ایک مرتبہ… یا
صبح دس بار اور شام دس بار پڑھ لیا کریں… اس کا معنٰی و مطلب بھی کسی سے سمجھ لیں…
اور اسے اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں … درودشریف یہ ہے۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ مَنْ صَلّٰی عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ
بِعَدَدِ مَنْ لَّمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ
وَتَرْضٰی بِأَنْ تُصَلّٰی عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تَنْبَغِی
الصَّلٰوۃُ عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا اَمَرْتَنَا
بِالصَّلٰوۃِ عَلَیْہِ۔
حضرت
بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک… درود
شریف کے یہ صیغے حدیث پاک سے تقریراً ثابت ہیں… حضرت نے اس درودشریف کی جو کرامات
لکھی ہیں وہ ’’راحت القلوب‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
[راحت القلوب ۔ص: ۱۴۳،طبع۔
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
لا
اِلٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور : 667
میٹھے کو میٹھی نعمت مبارک
* محمدعثمان ابراہیم شہید رحمہ اللہ علیہ کو خراج تحسین…
* شہید کے حالات، واقعات، مزاج اور کردار…
* شہیدپر’’عثمانی نسبت‘‘ کے اثرات اور اس کے چند
مظاہر
* شہید کی جرأت، ہمت، شجاعت اور بہادری…
* شہادت کی مٹھاس جنت اور حوروں کی مٹھاس سےبھی بڑھ
کر ہے…
* ’’حوریں‘‘ برحق ہیں… دنیاکی غلاظت میں لت پت
’’تاریک خیالوں‘‘کو کیاپتہ
کہ حوریں کیا ہیں؟…
* حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کے آٹھ وظائف…
تاریخ
اشاعت:
۳۰صفرالمظفر ۱۴۴۰
ھ/بمطابق ۹
نومبر 2018ء
میٹھے کو میٹھی نعمت مبارک
اللہ
تعالیٰ کے راستے میں… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے… اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے
ہاتھوں ’’قتل‘‘ ہونا… دنیا کی سب سے میٹھی اور مزیدار نعمت ہے… بظاہر یہ جتنی
خوفناک نظر آتی ہے حقیقت میں یہ اسی قدر لذیذ ہے… محبوب کے لئے قربان ہونا، محبوب
کے لئے قتل ہونا، محبوب کے لئے ذبح ہونا… سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ
اللہِ الْعَظِیْمِ …پیارے اور عزیز بیٹے محمد عثمان ابراہیم کو یہ عظیم نعمت مبارک
ہو… وہ میٹھا تھا بالآخر میٹھی نعمت پا گیا ۔
تھوڑا
سا سوچیں کہ… جنت کی حوروں میں کتنی مٹھا س ہو گی…جنت کی نعمتوں میں کتنی مٹھاس ہو
گی… مگر اس ساری مٹھاس کو پا کر بھی … اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے کی مٹھاس
نہیں بھولے گی… عثمان سفر میں جا رہا تھا… میں اسے رخصت کرنے اپنے دروازے تک نکلا…
وہ گلے لگا تو میں نے اس کا بوسہ لیا… تب اس کی محبت بے قابو ہو گئی…وہ خود کو
سنبھالے ہوا تھا… مگر پیار بھرے بوسے نے اسے پھر بیٹا بنا دیا … بچہ بنا دیا … اور
اس نے مجھ پر بوسوں کی بارش کر دی مگر زور لگا کر اپنے آنسوؤں کو نہ چھلکنے دیا…
اس وقت اس کے چہرے پر شہادت کا نور صاف نظر آ رہا تھا… میرا ہر دن دل دھڑکتا تھا
کہ آج خبر آئی یا کل آئی… روز اس کی حفاظت کے لئے دعاء کرتا تھا … مگر اس کا
جذبہ اور شوق شہادت ایسا غالب آیا کہ… آخری دن دعاؤں کا رخ تکوینی طور پر کسی
اورطرف مڑ گیا… اور عثمان فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ الوداع کہہ گیا… ہاں! وہ جیت گیا
… وہ تو پیدا ہی جیتنے کے لئے ہوا تھا… اس نے پیدا ہونے سے لے کر آخری لمحے تک…
شکست کا کبھی منہ ہی نہیں دیکھا…اس نے دنیا میں آنکھ کھولی تو فتح دیکھی اور اس
نے دنیا سے آنکھ بند کی تو فتح ہی دیکھی۔
شہادت
سے چند لمحے پہلے اس نے کہا… میں نے الحمد للہ دشمن سے اپنا حساب پورا کر لیا ہے…
اب مجھے کوئی فکر نہیں…اس نے رات کو دشمن پر ایک کامیاب کاروائی کی… واپس آ رہا
تھا کہ … راستے میں زخمی ہو گیا… اس حملے میں وہ شہید بھی ہو سکتا تھا… مگر اہل ایمان
پر نام کی نسبت اپنا رنگ جماتی ہے… اس پر تو ماشاء اللہ بہت چھوٹی عمر سے ’’عثمان
‘‘ نام کی سخاوت اور حیاء والی نسبت غالب تھی… گھر سے پیسے لے جا کر غریبوں میں
تقسیم کرتا تھا… اپنا کوئی ہم سبق بچہ ضرورتمند ہوتا تو یہ اپنے والدین کے سر پر
سوار ہو جاتا کہ اس بچے کی ضرور مدد کرنی ہے… شہادت کے وقت جسمانی تکلیف اور اذیت
برداشت کر کے جانا… اور سخت ترین لمحات میں استقامت کا نمونہ بننا یہ بھی ’’عثمانی
نسبت ‘‘ کا اثر تھا… وہ زخمی ہوا… جسم کا اکثر خون نکل گیا… مگر نہ اس نے آہ و
پکار کی… اور نہ ہی ایک لمحے کے لئے خود کو بے بس بنایا… ایسے حالات ہی میں اکثر
مجاہدین گرفتار ہو جاتے ہیں… جسم میں لڑنے کی طاقت باقی نہیں رہتی… اور خون کی کمی
کی وجہ سے… دل کا حوصلہ اور دماغ کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے… ایسا ہونا ایک فطری
عمل ہے… کیونکہ انسان بہرحال کمزور ہے… مگر اہل عزیمت اور اہل سعادت کی تو دنیا ہی
الگ ہوتی ہے… وہ زخمی بازو کے ساتھ چلتا رہا… اور ایک جگہ پہنچ کر مورچہ سنبھال لیا…
اور پھر اس نے جو معرکہ لڑا… شاید ایسے ہی معرکوں کے بارے میں وہ روایت ہے کہ…جنت
کی حوریں بے تاب ہو کر… اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آسمان اول پر تشریف لاتی ہیں…
اور اپنے دولہے کا یہ آخری معرکہ دیکھتی ہیں… اور اس کے لئے دعاؤں کے ہاتھ پھیلائے
رکھتی ہیں… دنیا کی دلہن لینے کے لئے… اس کے گھر جانا پڑتا ہے… مگر یہاں اتنی پاکیزہ،
اتنی حسین اور اتنی افضل و اعلیٰ دلہن… خود اپنے دولہے کو لینے کے لئے…جنت سے اُتر
آتی ہے… بے شک اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں…بے شک حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سچے ہیں… لوگ ہم پر طعنے کستے ہیں کہ…
یہ حوروں کے دھوکے دے کر نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں… نہیں ، اللہ کی قسم! نہیں…
کوئی دھوکہ نہیں…دنیا کی غلاظتوں میں پڑے ہوئے انسان… حوروں کو کیا جانیں … جنت کو
کیا جانیں… ان چیزوں کو تو… ’’عثمان ‘‘ جیسے عارف باللہ اولیاء، صدیقین سمجھتے ہیں…
جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر پورا یقین رکھتے ہیں…جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر پورا یقین
رکھتے ہیں… آج کسی کی انگلی زخمی ہو جائے تو اس کی ہائے ہائے پورا محلہ سنتا ہے …
جبکہ یہاں ایک نوخیز ، نوجوان بچہ…اپنے بازو کی ہڈی میں …گولی کھا کر پھر اسی زخم
کے ساتھ میلوں سفر کر کے… خون سے خالی جسم کے ساتھ اپنی امی جان سے… کہہ رہا ہے
کہ… میرا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا وقت آ چکا ہے… آپ پریشان نہ ہونا بلکہ … اور
بیٹوں کو بھی جہاد میں بھیجنا…یہ تبھی ہو سکتا ہے… جب دل کی آنکھیں کھل چکی ہوں…
ورنہ مصیبت کے لمحات میں… لوگ یہ وصیت کرتے ہیں کہ میں تو مارا گیا … آپ کسی اور
کو اس مصیبت میں نہ بھیجنا… واہ عثمان واہ!… واہ اللہ کے شیر واہ!
حضرت
بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کی مجلس میں
حضرت
اقدس بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کے وظائف لکھنے کاسلسلہ جاری
ہے… درمیان میں کئی اور ضروری موضوعات آ گئے جن کی وجہ سے یہ سلسلہ مکمل نہ ہو
سکا… حضرت بابا جی رحمہ اللہ علیہ کی خاصیت
یہ ہے کہ…ان کا قرآن مجید سے تعلق بہت مضبوط اور والہانہ ہے …وہ قرآن مجید کی
تلاوت کو…سب اذکار اور معمولات سے افضل قرار دیتے تھے… اور اپنے مریدین کو… زیادہ
وظیفے قرآن مجید کی آیات کے تلقین فرماتے تھے… حضرت بابا فرید رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
١ جو
شخص یہ چاہے کہ اس کے اعمال مقبول ہوں تو اس کے لئے یہ آیت ہے:
{رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا
إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ} [البقرۃ: ۱۲۷،۱۲۸]
٢ اگر
کوئی چاہے کہ دنیا و آخرت میں بھلائی پائے اور جہنم کی آگ سے محفوظ ر ہے تو یہ
آیت پڑھا کرے:
{رَبَّنَا اٰتِنَآ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ
حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرۃ:
۲۰۱]
٣ اگر
بڑے بڑے کاموں میں صابر( یعنی مضبوط) رہنے کا آرزو مند ہو اور ہر معاملے میں ثابت
قدم اور دشمنوں پر ظفریاب رہنا چاہتا ہو تو یہ آیت مجرب ہے:
{رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا
وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ}
[البقرۃ: ۲۵۰]
٤ اور
اگر یہ منظور ہو کہ اس کا دل ایمان اور امان کے ساتھ رہے، رحمت الہٰی اس کے شامل
حال ہو ، اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو اور وہ با ایمان دنیا سے جائے تو یہ
آیت پڑھا کرے:
{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ
لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ} [البقرۃ:۸]
٥ جو
شخص اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں شامل ہونا چاہے وہ یہ آیت کثرت سے پڑھے:
{رَبَّنَآ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ
اِنَّ اللّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ}
[البقرۃ: ۹]
٦
جب کسی کو کوئی مہم ( مشکل، حاجت یا اہم معاملہ) درپیش ہو یا کسی کا غلام بھاگ گیا
ہو یا وہ نیک اور متقی بیٹے کی خواہش رکھتا ہو تو یہ آیت پڑھا کرے:
{رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ
سَمِیْعُ الدُّعَآءِ} [اٰل عمران: ۳۸]
٧ جو
آدمی چاہے کہ اس کا حشر نیک لوگوں کے ساتھ ہو اور قیامت کے دن اس کو آسانی ہو تو
یہ آیت پڑھا کرے:
{رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا
تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّکَ
لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ} [اٰل عمران: ۱۹۴]
اس
آیت کی فضیلت پر حضرت بابا جی رحمہ اللہ
علیہ نے ایک واقعہ بھی لکھا ہے۔
٨ جب
کوئی شخص ظالموں کے ہاتھ سے نجات پانا چاہے تو لازم ہے کہ اس آیت کا ورد کرے۔
{رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ
أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّدُنکَ وَلِیًّا وَّاجْعَل لَّنَا مِنْ
لَّدُنکَ نَصِیْرًا} [النسا ء: ۷۵]
[ راحت القلوب۔ ص:۱۴۹،طبع۔
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ لاہور]
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور ۔ 668
کامیابی
* کامیابی ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘کے ساتھ باندھ دی گئی ہے۔
* ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے بغیر
کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔
* جس کے پاس ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘ موجود وہ کامیاب، خواہ اس
کے پاؤںمیں جوتےتک نہ ہوں… اور جس کے
پاس ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘نہیں وہ ’’پکا ناکام‘‘ خواہ دنیا
بھرکی دولت کامالک بن
جائے۔
* ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو دل
اور روح کی گہرائیوں میں
اُتارنا ہر مسلمان کیلئے
ضروری ہے۔
* ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو دل
اور روح میں اتارنے کیلئے
’’کلمہ‘‘ سے محروم لوگوں کے ’’ناکام‘‘ ہونے کا
یقین اورعقیدہ رکھنا ضروری
ہے۔
* ’’ لبرل ازم‘‘ کا فتنہ ’’
نفاق‘‘ کی ایک شکل ہے ۔
* ’’ لبرل ازم‘‘کی بنیاد اور
مقصد کیا ہے؟
’’کلمہ طیبہ‘‘ کے معارف اور’’لبرلوں‘‘ کے تعاقب
پر مشتمل ایک پرُ نور تحریر…
تاریخ
اشاعت:
۷ ربیع الاول ۱۴۴۰ھ/
بمطابق16نومبر 2018ء
کامیابی
اللہ
تعالیٰ نے ’’کامیابی ‘‘ کو ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے ساتھ ’’باندھ‘‘ دیا ہے… ’’ لا
الٰہ الا اللہ‘‘ ہی میں کامیابی ہے…ہر طرح کی کامیابی… ہمیشہ کی کامیابی… ’’ لا
الٰہ الا اللہ‘‘کے بغیر کوئی کامیابی نہیں… یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے… غور
سے پڑھیں… اس بات کو سرسری نہ سمجھیں… جب شیطان دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ تم ناکام
ہو تو پڑھیں… ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘…دل کے یقین کے ساتھ …ذہن کی توجہ کے ساتھ… صاف
زبان سے ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘… شیطان بھاگ جائے گا… کیونکہ آپ نے اعلان کر دیا
کہ آپ کامیاب ہیں… ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ کامیاب ہیں…
’’ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
اب
اگلی بات بہت غور سے پڑھیں… اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس کا نفع عطاء فرمائے اور آپ
کو بھی… وہ یہ کہ ہم ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو ساتھ لے کر مرے تو پھر ہماری کامیابی
پکی ہو گئی… اور اگر خدانخواستہ ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کسی کے ساتھ نہ گیا تو اس کی
ناکامی پکی ہو گئی… اب شیطان کی یہ بھرپور کوشش ہے کہ وہ ہم سے ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘ چھین لے… تو ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ سے
رشتہ ہر دن اور مضبوط ہوتا جائے… ہم بوڑھے ہوتے جائیں مگر ہمارا ’’کلمہ‘‘ جوان
ہوتا جائے… ہم پرانے ہوتے جائیں مگر ہمارا کلمہ نیا ہوتا جائے… ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘ کو ہم اپنے دل میں اتاریں… ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو ہم اپنی روح میں اتاریں…
اور ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے ورد کے بغیر ہمیں چین نہ آئے۔
اب
اگلی بات اور زیادہ غور سے پڑھیں… ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہمارے دل میں اس وقت تک
پکا نہیں اترے گا… جب تک ہم ان لوگوں کو کامیاب سمجھتے رہیں گے جو ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘ سے محروم ہیں… یقین رکھیں کہ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ سے جو بھی محروم ہے وہ
ناکام ہے… ’’محمد رسول اللہ ‘‘ سے جو بھی محروم ہے وہ ناکام ہے…یہ بات بطور فخر کے
نہیں بلکہ بطور ’’عقیدہ ‘‘ کے ہمارے دلوں میں مضبوط ہونی چاہیے… آج ہم نے کامیابی
کا مدار ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے… ہمارے نزدیک کوئی چاند پر
پہنچنے کا دعویٰ کر دے وہ کامیاب … جو اچھا کاروبار بنا لے وہ کامیاب… جو بڑا عہدہ
پا لے وہ کامیاب… جو دنیاوی معلومات زیادہ جمع کر لے وہ کامیاب… جو بہت سا پیسہ
جمع کر لے وہ کامیاب… اس کے پاس کلمہ ہو یا نہ ہو… آج کامیابی کا مدار ’’مال ‘‘
کو سمجھ لیا گیا ہے کہ … ہر مالدار کامیاب ہے اور ہر غریب ناکام… اَسْتَغْفِرُ
اللہَ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ ،اَسْتَغْفِرُ
اللہَ … اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ
رَاجِعُوْنَ… بس یہ وہ سوچ ہے جو کلمے کو ہمارے دل میں نہیں اترنے دے رہی… اسی لئے
ہم ’’ ایمان‘‘ کی حلاوت سے محروم ہیں… ہم ایمان کی مٹھاس سے محروم ہیں… ہم ایمان کی
عزت سے محروم ہیں… ہم ایمان کے اطمینان سے محروم ہیں… کلمہ طیبہ دل میں آ جائے تو
دل ایک خاص قسم کی مٹھاس پاتا ہے… ایک حلاوت پاتا ہے… دل میں اطمینان اور عزت کا
احساس آ جاتا ہے… اور دل خوش ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوش نصیب ہے…
مگر چونکہ ہم نے کامیابی ’’مال‘‘ ’’عہدے‘‘ اور’’ منصب ‘‘ میں سمجھ رکھی ہے… اور
کلمے کی قدر ہمارے دلوں میں نہیں ہے… تو اس لئے ہم کلمے کے فوائد سے بھی محروم ہیں
اور کلمے کی تاثیر سے بھی محروم ۔
یہ
جو ہمارے ہاں ’’لبرل ‘‘ نام کا نیا فتنہ تیزی سے پھیل رہا ہے… یہ دراصل ’’نفاق‘‘
کا فتنہ ہے…اس فتنے کا اصل مقصد ہی کلمے کی قدر کو گرانا اور مال کی قدر کو بڑھانا
ہے… اور مال چونکہ کافروں کے پاس زیادہ ہے… تو اس طرح وہ کفر کی قدروقیمت اور عزت
کو بڑھا رہے ہیں… اور یہی ’’منافقین‘‘ کا اصل مشن ہے… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے
’’لبرل ازم ‘‘ کا یہ فتنہ کئی نام نہاد علماء میں بھی داخل ہوتا چلا جا رہا ہے…
چنانچہ وہ کلمہ پڑھنے والوں کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ مال بناؤ تاکہ کلمے والوں
کی عزت ہو …اَسْتَغْفِرُ اللہَ … کیسا ظالمانہ اورفاجرانہ نظریہ ہے کہ… عزت کلمے میں
نہیں، مال میں ہے… اور کلمے والوں کو بھی اگر عزت چاہیے تو وہ مال حاصل کریں…
حالانکہ اسلام نے دنیا میں آ کر یہ اعلان فرمایا کہ… عزت صرف ایمان میں ہے،کلمے میں
ہے… دنیا کے مالدار لوگ بھی اگر عزت چاہتے ہیں تو کلمہ پڑھ لیں… اگر وہ کلمہ نہیں
پڑھیں گے تو وہ ذلیل و خوار ہیں… اور ان کے جان و مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے…
اور ان سے قتال کیا جائے گا… وہ اگر اپنے جان و مال کو قیمتی بنانا چاہتے ہیں تو
وہ… یا تو کلمہ پڑھ لیں یا کلمہ پڑھنے والوں کی پناہ اور غلامی میں آ جائیں… ان
دو صورتوں کے علاوہ ان کے لئے کوئی عزت نہیں ، کوئی حرمت نہیں کوئی قدر نہیں … یہ
ہے اسلام کی اصل دعوت… اور یہی سچی دعوت ہے… اور یہی حقیقت ہے… آج اگر دنیاکے کفر
نے چار دن کے لئے کچھ طاقت بنا لی ہےاور کچھ چمک دمک حاصل کر لی ہے تواس کا یہ
مطلب نہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں… یا وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے… ایسا ہرگز
نہیں… بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری دنیا پر کافروں کا قبضہ ہو جائے… اور ساری دنیا
کا مال اُن کے ہاتھ لگ جائے… اور اُن میں سے ہر شخص ہوا میں اُڑتا پھرے اور پانی
پر چلے اور فضاؤں میں گھومے… اُن کے مکانات سونے کےا ور اُن کی سڑکیں چاندی کی بن
جائیں… اور اُن میں سے ہر شخص اربوں پتی ہو جائے تب بھی وہ ناکام ہیں… اور اس وقت
اگر دنیا میں صرف ایک دو مسلمان باقی ہوں… اور اُن کے پاؤں میں جوتے تک نہ ہوں تو
وہ بلاشبہ ، بلاشبہ کامیاب ہیں… وجہ یہ ہے کہ کامیابی ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ ‘‘ میں ہے…یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے… پس جس کے پاس ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘ ہو گا وہی کامیاب ہے… اور جس کے پاس ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ نہیں ہو گا وہ
ہر حال میں ناکام ہے… یہ بات دنیا میں کوئی مانے یا نہ مانے… مگر اللہ تعالیٰ نے موت
کا پکا نظام قائم فرما دیا ہے…چنانچہ ہر حکمران، ہر جابر، ہر ظالم ، ہر پھنے خان،
ہر فقیر ، ہر غریب نے ضرور مرنا ہے… اور پھر اللہ تعالیٰ نے ’’یوم الدین‘‘ قائم
فرما دیا ہے… انصاف کا دن… اس دن حقیقی انصاف ملے گا…ا ور اس انصاف کے مطابق کلمے
والے کامیاب اور بغیر کلمے والے ناکام ہوں گے… اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو وہ
موت کے نظام سے بچ کر دکھا دے… اور جو ان باتوں پر بغیر دیکھے یقین رکھتے ہیں… نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہوئے، قرآن
کو مانتے ہوئے،وہی ایمان والے ہیں۔
خلاصہ
اس پوری بات کا یہ ہوا کہ ہم نے دو محنتیں کرنی ہیں… پہلی یہ کہ کلمہ ہمارے دل میںاتر
جائے… کلمے کی عزت اور قدر ہمارے دل میں راسخ ہو جائے… اور دوسری یہ کہ… ہمارا یہ
مضبوط عقیدہ بن جائے کہ کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کے بغیر
کوئی کامیاب نہیں… خواہ وہ دنیا میں جو کچھ بھی پا لے… اور ہمیں ’’ لا الٰہ الا
اللہ‘‘کی خاطر قتال کرنا ہے… تاکہ لوگ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کریں… یا ’’
لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے سائے اورپناہ میں آجائیں… اور اس زمانے کا خطرناک فتنہ…
خود کو ’’لبرل ‘‘ کہنا، لبرل بنانا اور لبرلز کی صفوں میں شامل کرنا ہے… مسلمان
کبھی ’’لبرل‘‘ نہیں ہوتا… وہ فرمانبردار ہوتا ہے… وہ پابند ہوتا ہے… وہ ’’حدود
اللہ ‘‘ کے درمیان رہتا ہے …وہ دنیا میں ایک پابند قیدی کی زندگی گزارتا ہے… اللہ
تعالیٰ کے احکامات اور حدود سے آزادی کسی جانور کو بھی زیب نہیں دیتی چہ جائیکہ
انسان خود کو ’’لبرل ‘‘کہہ کرخوش ہوتا رہے …یہ خود کو’’لبرل‘‘کہنے والےدراصل اپنے
نفس، اپنی شہوات اور اپنی خواہشات کے بری طرح غلام اور پابند ہوتے ہیں… جبکہ مؤمن
کلمہ طیبہ کی عرش تک پھیلی ہوئی سلطنت میں سیر کرتا ہے… اس کی پابندی ان بدبختوں کی
آزادی سے زیادہ مزیدارہے… آج کل پاکستان کے ’’لبرلز‘‘کوچاہیے کہ فوراًامریکہ جائیں…وہاں
’’کیلیفورنیا‘‘ میں آگ بھڑک رہی ہے… امریکہ،جس کی ٹیکنالوجی کے حوالے دے کر یہ
مسلمانوں کو گالیاں بکتے رہتے ہیں… وہ کئی دن کی سرتوڑ کوشش کے باوجود… ایک معمولی
سی آگ کو ابھی تک نہیں بجھا سکا:
{ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ خ مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ}
[الحج:۷۳،۷۴]
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور ۔ 669
جاندار نماز
* نماز کو جاندار اور مقبول بنانے کااہم ذریعہ’’توجہ‘‘
* نماز میں’’توجہ‘‘ پانے کے اہم طریقے
* ربیع الاول اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،چند
لازمی آداب و ہدایات
* ’’اتباعِ سنت‘‘ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق وتعلق
مضبوط کرنے کا بنیادی ذریعہ
* امریکی صدر کی گیدڑ بھبکیاںاورپاکستانی حکمرانوں
کی شرمناک
و ضاحتیں
یہ ہیں اس تحریر کے اہم
موضوعات،
پڑھیے اور آگاھی حاصل کیجئے
تاریخ
اشاعت:
۱۴
ربیع الاول ۱۴۴۰ھ/
23 نومبر 2018ء
جاندار نماز
اللہ
تعالیٰ سے معافی اور عافیت کا سوال ہے … کیا ہم اپنی’’ نماز‘‘ توجہ سے ادا کرتے ہیں؟ربیع
الاول میں سیرت مبارکہ کے تمام پہلو بیان کیوں نہیں ہوتے؟صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم
’’ ٹوئٹرجنگ ‘‘ اصل جواب کیا بنتا ہے؟ آج ان تین معاملات پر مختصر تحریر کا ارادہ
ہے… اللہ تعالیٰ شرح صدر فرمائے، آسان بنائے…{رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ}
نماز
میں توجہ کا ایک طریقہ
سب
سے پہلے مجھے اور آپ کو ہمیشہ اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ہماری نماز ٹھیک ہو
جائے…اچھی ہو جائے…جاندار ہو جائے…توجہ والی ہو جائے… اور مقبول ہو جائے…نماز ہماری
زندگی کا سب سے اہم کام ہے … نماز ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے…نماز ہمارا سب سے ضروری
فرض ہے… نماز ٹھیک تو سب کچھ ٹھیک… نماز خراب تو سب کچھ خراب… نماز کے بغیر ایمان
کا وجود خطرے میں رہتا ہے…نماز ہماری دنیا بھی ہے اور ہماری آخرت بھی… اور نماز
تب نماز ہوتی ہے جب اس میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہو… اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع اور
عاجزی ہو… اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات ہو… اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہو… ان چیزوں
کے بغیر نماز بے جان ہوتی ہے… فرض تو ادا ہو جاتا ہے مگر فوائد نہیں ملتے… دل نہیں
بنتا… نور پیدا نہیں ہوتا… اچھی نماز ادا کرنے والے کو کبھی دنیا میں رزق کی کمی
نہیں آتی… اور وہ کبھی صراط مستقیم سے نہیں بھٹکتا…نماز ’’معراج ‘‘ کا تحفہ ہے
اور معراج نام ہے ملاقات کا… اللہ تعالیٰ سے ’’ملاقات‘‘… اللہ تعالیٰ سے باتیں…
اللہ تعالیٰ سے مناجات… ایک مسلمان جتنی نماز توجہ سے پڑھتا ہے بس وہی اس کے نامہ
اعمال میں لکھی جاتی ہے… یہ بات سچی ہے اور ہم سب کو خوفزدہ کرنے والی ہے… چنانچہ
اسی بات کو سامنے رکھ کر کہ بے توجہی سے ادا کی جانے والی نماز نامہ اعمال میں نہیں
لکھی جاتی بہت سے افراد طرح طرح کی گمراہیوں میں پڑ گئے… ایک فرقے نے یہ اعلان کر
دیا کہ ہم اپنی نماز اپنی زبان میں ادا کریں گے… تاکہ ہمیں توجہ حاصل ہو… وہ اردو،
انگریزی وغیرہ میں نماز پڑھتے ہیں… ایسے افراد کی نماز سرے سے ہوتی ہی نہیں اور نہ
ہی ان کا فرض ادا ہوتا ہے…ایک فرقے نے یہ طریقہ اپنایا کہ وہ نماز کے وقت کسی جگہ
بیٹھ کر… تھوڑی دیر مکمل توجہ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ
نماز کا مقصد اللہ تعالیٰ کی یاد ہے… ہم نے مقصد حاصل کر لیا… یہ لوگ بھی غلطی اور
گمراہی پر ہیں… انہوں نے نماز کا اصل مقصد ہی نہیں سمجھا، چنانچہ وہ اسلام کے اہم
ترین فریضے سے محروم ہو گئے… پھر آخر کیا کیا جائے؟… بے توجہی سے ادا کی گئی نماز
نامۂ اعمال میں لکھی نہیں جاتی… اور ہمیشہ توجہ سے نماز ادا کرنا ہمارے لئے بہت
مشکل ہے تو پھر آخر کیا کریں؟۔
آج
اسی بارے میں کچھ باتیں اپنے لئے اور آپ کے لئے عرض کرنی ہیں… نماز میں توجہ حاصل
کرنے کے لئے ہمیںکچھ کام کرنے ہوں گے…کچھ طریقے اپنانے ہوں گے…اُن طریقوں میں سے
پہلا اور سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ… ہمیں پوری زندگی کے لئے یہ فکر اپنانی ہو گی
کہ ہماری نماز توجہ والی بن جائے…ہم کبھی اس فکر سے غافل نہ ہوں… اور آپ جانتے ہیں
کہ انسان جس چیز کو اپنی فکر بنا لے وہ اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور پالیتا
ہے…اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کو بہت طاقت عطاء فرمائی ہے… انسان کا دل جس چیز کے
پیچھے لگ جائے اسے اکثر حاصل کر لیتا ہے… چنانچہ ہم توجہ والی’’ نماز‘‘ کو اپنی
مستقل فکر بنا لیں…ہم کھانے اور علاج کی طرح اس کے بارے میں سوچا کریں … اور اسے
پانے کو اپنی اہم ضرورت سمجھیں… تب ہم پر اس کے راستے کھلتے چلے جائیں گے، ان شاء
اللہ۔
ربیع
الاول اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
ایک
مسلمان کو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تمام دنوں میں اپنے آقا حضرت
محمدمدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑا
رہنا چاہیے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے احسانات ہم پر ہر گھڑی اور ہر
لمحہ برستے رہتے ہیں… ہمارے پاس جو بھی ’’خیر‘‘ ہے وہ ہمیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ملی ہے… اس لئے ہمارے نزدیک ہر دن میلاد
ہے… اور ہر دن حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے تجدید محبت کا زمانہ ہے…
چنانچہ ہم ’’ربیع الاول‘‘ میں ان خاص رسومات کو نہیں مناتے جو کئی لوگوں نے جوش
محبت یا کم علمی کی وجہ سے شروع کر رکھی ہیں… مگر چونکہ اس مہینے میں ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی ماحول بن جاتا ہے تو… اس مناسبت سے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو زیادہ اہتمام سے بیان کیا
جاتا ہے … اور مسلمانوں کو اطاعت رسول ، اتباع رسول ، عشق رسول اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی جاتی ہے… آج چونکہ مسلمان دنیا بھر
میں مغلوب ہیںاس لئے وہ اپنے فاتح اور شجاعت کے پیکرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے تمام پہلو بیان نہیں کرتے…
بلکہ اپنے ماحول اور حالات کے پیش نظر سیرت مبارکہ کو بیان کرتے ہیں… حالانکہ ایسا
نہیں ہونا چاہیے … آج ہمیں اور ہر مسلمان کوحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک غزوات کی تفصیل معلوم ہونی چاہیے… آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے گئے سرایا کا
علم ہونا چاہیے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں کے نام یاد ہونے چاہئیں… آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں کا علم ہونا
چاہیے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر لگنے والے جہادی زخموں کی پہچان
ہونی چاہیے… اہل دل اس سلسلے میں خصوصی محنت فرمائیں۔
نماز
میں توجہ کا ایک اہم طریقہ
ہم
روزانہ جس طرح اللہ تعالیٰ سے رزق مانگتے ہیں…صحت مانگتے ہیں… عافیت مانگتے ہیں…اپنی
اولاد کی اصلاح مانگتے ہیں… اپنی حفاظت مانگتے ہیں…اسی طرح ہم روزانہ کئی کئی باریہ
دعاء مانگا کریں کہ… یا اللہ! میری نمازوں کو ٹھیک فرما دیں…مجھے توجہ والی، قبولیت
والی اور خشوع والی نماز مستقل نصیب فرما دیں:
(۱) اَللّٰھُمَّ
اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ
(۲) اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ
(۳) رَبِّ اجْعَلْنِیْ
مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
اور
اسی طرح کی اور دعائیں… آپ ایک تاجر سے پوچھیں کہ جب اسے اپنی تجارت میں مسلسل
خسارہ ہو رہا ہو تو وہ کس طرح سے اس خسارے سے بچنے کی دعاء مانگتا ہے… آپ کسی بیمار
سے پوچھیں کہ جب اس کی بیماری بڑھتی جا رہی ہو تو وہ کس طرح سے صحت کی دعاء مانگتا
ہے… آپ کسی غیرتمند مقروض سے پوچھیں کہ وہ کس طرح سے قرض ادا کرنے کی دعاء مانگتا
ہے…بھائیو اور بہنو! نمازوں کا جاندار ہونا ہمارے لئے صحت، نفع اور حفاظت سے زیادہ
ضروری ہے… اس لئے ہم اس کی فکر کریں… اور نہایت آہ و زاری کے ساتھ اس کی دعاء
مانگا کریں…بے شک دعاء بند دروازوں کو کھول دیتی ہے۔
چوہدری
اور میراثی
انگریزوں
نے مسلمانوں پر جن سانپوں کو مسلط کیا ہے… اُن میں سے ایک سانپ ’’ظالم و فاسق جاگیردار
‘‘ ہیں… تفصیل پڑھنی ہو تو بندہ کی کتاب ’’آزادی مکمل یا ادھوری ‘‘ میں ملاحظہ
فرما لیں… یہ ’’جاگیردار‘‘ کسی جگہ چوہدری، کسی جگہ خان، کسی جگہ وڈیرے وغیرہ
کہلاتے ہیں… ان جاگیرداروں کے کچھ میراثی نوکر ہوتے ہیں جو جاگیردار کے حکم پر ہر
اچھا برا کام بجا لاتے ہیں… کبھی کوئی جاگیردار اپنے میراثی سے ناراض ہو کر اسے
طعنہ دیتا ہے کہ میں نے تمہیں اتنی گندم دی،اتنے کپڑے دئیے مگر تم نے میرا کوئی
کام نہیں کیا… تب وہ میراثی اپنی صفائی میں اپنا ہر جرم اور ہر گناہ یوں کھول کھول
کر بیان کرتا ہے کہ شیطان بھی شرما جاتا ہے… امریکہ کے حکم اور دھمکی پرپاکستان کا
میراثی ’’پرویز مشرف‘‘ گھٹنوں کے بل گرا… پڑوس میں قائم ایک اسلامی سلطنت کو برباد
کرنے کے لئے اس نے پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے امریکہ کو فراہم کئے… پاکستانی
حکومت کے اس تعاون کے ذریعے ہزاروں افغان بچے شہید ہوئے… لاکھوں مسلمان بے گھر
ہوئے …ہزاروں افراد کے جسموں کے ٹکڑے اُڑے … اور پر امن پاکستان بھی بد امنی کی
آگ میں جلنے لگا… آج ریاست ، ریاست کی رٹ لگانے والے بعض علماء کیا اپنے حالیہ
نظرئیے کے تحت پرویز مشرف کے ان گناہوں کو
اپنے سر لینے پر تیار ہیں؟… بہرحال پرویز مشرف کے ایک حرام فیصلے نے لاکھوں
مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا… مگر امریکہ اب تک خوش اور راضی نہیں ہے… وہ جاگیردار
چوہدری کی طرح ناراضی کا اظہار کرتا ہے تو… پاکستانی حکمران میراثیوں کی طرح اپنے
شرمناک جرائم اور گناہ بیان کرنے لگتے ہیں کہ… ہم نے تو فلاں تعاون بھی کیا…فلاں
بھی کیا…یہ عجیب شرمناک صورتحال ہوتی ہے… چوہدری کی دھمکیاں سن کر بھی شرم آتی
ہے…اور میراثیوں کی وضاحتیں تو پاکستان کے مسلمانوں کو شرم میں ڈبو دیتی ہیں …امریکہ
کا تعاون کر کے اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کون سا نیک کام تھا کہ اسے بطور
صفائی کے پیش کیا جاتا ہے؟…الحمدللہ اس بار ٹرمپ کے بیانات کا کافی مضبوط جواب گیا
ہے مگر اصل جواب یہ بنتا ہے کہ… ہم نے واقعی تمہارا تعاون کر کے بہت بڑا جرم اور
بہت عظیم گناہ کیا ہے… اور اب ہم سے ایسے مزید ذلت ناک اقدامات کی تم ہرگز امید نہ
رکھو۔
نماز
میں خشوع کا ایک اہم طریقہ
نماز
جنت کی کنجی ہے… مگر نماز کی کنجی اور چابی کیا ہے؟ …نماز کی چابی ’’طہارت‘‘ ہے…
بغیر طہارت کے نماز نہیں ہوتی… اس سے واضح اشارہ مل گیا کہ ’’طہارت‘‘ جس قدر مضبوط
اور اچھی ہو گی نماز بھی اسی قدر ہم پر کھلے گی… اہل دل فرماتے ہیں کہ… انسان کا
صاف اور پاک لباس بھی نماز میں اس کا ساتھ دیتا ہے اور ذکر کرتا ہے… آپ تجربہ بھی
کر لیں کہ کپڑے اگر صاف ہوں تو نماز میں دل لگتا ہے …اور اگر میلے کچیلے ہوں تو
نماز میں توجہ نہیں رہتی… آج کل پاکی اور طہارت کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا…
خواتین واشنگ مشینوں میں کپڑے دھوتی ہیں… جس میں سارے پاک اور ناپاک کپڑے خلط ہو
جاتے ہیں… گھروں میں قالینیں بچھی ہیں… جو ناپاک ہو جائیں تو پتا بھی نہیں چلتا
اور پھر اُن پر گیلے پاؤں چلنے سے پاؤں بھی ناپاک ہو جاتے ہیں… آج کل اکثر
گھروں میں جو جادو وغیرہ کے مسئلے ہیں … اُن کے پیچھے اہم سبب دو ہیں ایک ناپاکی
اور دوسرا قرآن مجید اور دینی اوراق کی بے حرمتی…پھر وضو بھی اہتمام اور توجہ سے
عبادت سمجھ کر نہیں کیا جاتا… جب طہارت کا یہ حال ہے تو نماز کیسے کھلے گی؟ نماز کیسے
ٹھیک ہو گی؟…طہارت کا نظام مضبوط کریں… چابی ٹھیک ہو گی تو تالا ضرور کھلے گا… جسم
اور کپڑے پاک اور صاف رکھیں…یعنی طہارت بھی ہو اور نظافت بھی… وضو اہتمام کے ساتھ
سنت کے مطابق کریں… اس سے ان شاء اللہ ہماری نمازوں کا حال بہت بہتر ہو جائے گا۔
ربیع
الاول اور اتباع سنت
اگر
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے عشق اور تعلق کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں
تو اس کا طریقہ نہ قمقمے جلانا ہے اورنہ مسجد نبوی شریف کے نقلی گنبد بنانا… ہم
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنا لیں اور دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہر قربانی کے لئے خود کو تیار کر لیں… یہ
چیز ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے
قریب کر دے گی… وہ مسلمان جو داڑھی کی نعمت سے محروم ہیں وہ ربیع الاول میں پکی نیت
کر کے اپنے چہرے کو اس سنت کا حسن عطاء کریں…یاد رکھیں ! اس وقت ایک سازش کے تحت
داڑھی بھی فیشن بنتی جا رہی ہے…اس وقت سے پہلے کہ جب دنیا کے سارے لوفر اور کمینے
اس فیشن کو اپنا لیں آپ خالص سنت کی نیت سے داڑھی رکھ لیں… اور ایک عظیم گناہ سے
بچ جائیں…اسی طرح ہم حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام پڑھنے
کو بھی اپنا مستقل عمل بنا لیں۔
ہائے
ٹرمپ بے چارہ
دنیا
کے ناکام ترین، بدنام ترین انسانوں میں سے ایک… صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کے مسئلے
پر سخت پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہے… وہ پیسے گننے کا عادی ہے… صبح سے شام تک پیسے
گنتا ہے… اور پیسوں کے لئے مرتا جیتا ہے… پیسوں کی خاطر اس نے کئی دوستوں کو دشمن
بنا لیا ہے… کئی بڑے بڑے ٹیکس دنیا کے ملکوں پر لگا دئیے ہیں… سالہا سال سے جاری
کئی فنڈ اور امدادی اسکیمیں بند کر دی ہیں… مگر جب وہ افغانستان کی طرف دیکھتا ہے
تو اس کا دل چیخیں مارتا ہے… روزانہ اتنا خرچہ؟ آخر کس وجہ سے؟ … وہ افغانستان سے
نکلنا چاہتا ہے مگر اشرف غنی جیسے اثاثوں کا کیا کرے؟… وہ قدموں میں گر جاتے ہیں
کہ آپ نہ جائیں… لیکن اب ٹرمپ کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے … بس اسی پریشانی میں
وہ اپنا غصہ پاکستان پر نکالتا ہے کہ پاکستان نے ہمیں یہ جنگ ہرا دی… اہل پاکستان
کو ٹرمپ کی دھمکیوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے… اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کو ٹرمپ
کی باتوں سے خوفزدہ ہونا چاہیے…افغانستان کے طالبان اٹھارہ سال کی جنگ سہہ کر بھی
سینہ تانے کھڑے ہیں …پھر پاکستان کو گھبرانے اور دبنے کی کیا ضرورت ہے… اور اس کا
کیا جواز ہے۔؟
نماز
میں توجہ کا ایک اہم طریقہ
ایک
اہم نکتہ یاد رکھیں… ہر مسلمان کو الحمد للہ نماز میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نصیب
ہوتا ہے… ہم نماز کے وقت دوسرے کام چھوڑ کر طہارت اور وضو کے لئے اُٹھتے ہیں…یہ بھی
اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر ہے… پھر ہم نماز کے لئے کھڑے ہوئے… یہ بھی اللہ تعالیٰ
کی یاد ہے… چونکہ نماز کا ہر عمل ہم اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کے لئے کرتے ہیں
… اس لئے یہ سب کچھ ذکر میں آتا ہے…چنانچہ توجہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز چھوڑنے کی
ہرگز ضرورت نہیں ہے… ہم ہرحال میں نماز ادا کرتے رہیں… اور کبھی بھی نماز نہ چھوڑیں…
توجہ ہو یا نہ ہو… فرض ادا کرنا ہے… البتہ نماز میں خشوع اور توجہ بھی ایک ضروری
اور اہم نعمت ہے تو… ہم اسے حاصل کرنے کی فکر، دعاء اور کوشش ہمیشہ کرتے رہیں… اس
کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم نماز میں پڑھی جانے والی ہر چیز کا مکمل ترجمہ اچھی
طرح سمجھ کر یاد کریں… اَللہُ اَکْبَرُ کا مطلب… اَلْحَمْدُ کا معنٰی… سُبْحَانَ
رَبِّی کا مطلب… پھر ہم نماز میں جو کچھ پڑھیں اسے چبا چبا کر ، رک رک کر پڑھیں…
اور ترجمہ ذہن میں رکھیں… اس سے ان شاء اللہ ہمیں کافی توجہ نصیب ہو جائے گی۔
نماز
میں توجہ کے لئے اور بھی کئی طریقے اور کام ہیں… کبھی موقع ملا تو عرض کر دئیے جائیں
گے ان شاء اللہ… آج آپ میرے لئے دعاء کریں کہ مجھے نماز میں خشوع اور توجہ ہمیشہ
کے لئے نصیب ہو جائے میں بھی آپ کے لئے دعاء کروں گا، ان شاء اللہ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور ۔ 670
بابری
مسجد کی پکار
’’بابری مسجد‘‘ کی جگہ باقاعدہ ’’رام مندر‘‘ تعمیر کر نے کے لیے…
ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں ہندؤوں نے تحریک چلائی تو… حضرت امیر المجاہدین
دامت برکاتہم العالیہ نے دنیا بھر کو للکارا… اپنوں، پراؤں کو آئینہ دکھایا،
مسلمانوں کو عزیمت و قربانی کا درس دیا… بابری مسجد کے لیے جان و مال سب کچھ قربان
کرنے کا اعلان فرمایا… اور رب ذوالجلال کی بارگاہ میں توفیق اور راستوں کی درخواست
پیش کی…
ایمان، استقامت، جرأت،
ہمت، وفا اور
مبارزتِ اعداء سے لبریز ایک
معطر تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۱
ربیع الاول ۱۴۴۰ھ/
30 نومبر 2018ء
بابری مسجد کی پکار
اللہ
تعالیٰ ’’اُمت مسلمہ ‘‘ کو’’ بابری مسجد شریف‘‘ واپس عطاء فرمائے… وہ عظیم ’’بابری
مسجد‘‘ جو ہمارے ’’بزدلی‘‘ کے کبیرہ گناہ کی وجہ سے ہم سے چھین لی گئی… اس پر ایک
عارضی مندر قائم کر دیا گیا… اور آج کل وہاں مشرکوں کامشتعل مجمع اکٹھا ہے… وہ
’’رام مندر ‘‘ کی تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں…اُن کے ہاتھوں میں تلواریں اور ترشول
ہیں… جبکہ مسلمان سہمے سہمے خوفزدہ ہیں… بابری مسجد پھر پکار رہی ہے… اُمت مسلمہ
کے لئے امتحان کی گھڑی ہے… یا اللہ! جان حاضر ہے… یااللہ! سب کچھ حاضر ہے …بابری
مسجد واپس عطاء فرما دیجئے… اُمت مسلمہ کی آبرو لوٹا دیجئے… اُمت کے اجتماعی گناہ
بھی معاف فرما دیجئے… انفرادی گناہ بھی معاف فرما دیجئے… رام مندر کی تعمیر روک دیجئے…
اور اپنے شیروں کو راستہ دے دیجئے… وہ آپ کو اپنی محبت اور وفاداری دکھانے کے لئے
بے تاب ہیں … بابری مسجد کے مقام پر تکبیر کے نعرے… اللہ اکبر، اللہ اکبر… اڑتا
خون… جھاگ مارتے زخم…عشق کی خوشبو میں رچے بسے جسم اور جان کے ٹکڑے…شرک اور مشرکین
کی شکست… ایمان اور توحید کی جیت… یا رب! ایک دو نہیں،ہزاروں حاضر ہیں… تیار ہیں…
جذبات سے کانپ رہے ہیں… غصے سے بپھرے ہوئے ہیں کہ… بابری مسجد کو واپس لانا ہے…
ماں کے سر کا آنچل بچانا ہے… سجدہ گاہ کو شرک کی جگہ نہیں بننے دینا… اے بدر میں
نصرت اُتارنے والے رب! اب ذرا اپنے آج کے دیوانوں کو بھی راستہ دے… پھر ان شاء
اللہ زرد رنگ کی دہشت سرخ رنگ کے طوفان میں غرق ہو جائے گی… تب ’’ٹھاکرے‘‘ ٹھوکروں
پر ہو گا… ’’مودی ‘‘ مکڑی کے جالے کی طرح ’’بودی ‘‘ ہو جائے گا… ان شاء اللہ، ان
شاء اللہ… بھارتی دہشت گردو! بس اتنا یاد رکھنا… ہم بابری مسجد پر پوری نظر رکھے بیٹھے
ہیں… ہم ناجائز ’’رام مندر‘‘ کو روکنے کی مکمل فکر رکھتے ہیں… تم تو سرکاری اختیارات
اور پیسہ خرچ کرنا جانتے ہو… ہم اس معاملے پر خود خرچ ہونے کو تیار ہیں… ان شاء
اللہ۔
کچھ
ہوش کرو
اُدھر
ہندوؤں کا مجمع ایودھیا میں جمع ہو کر بابری مسجد کا قصہ ہی ختم کرنا چاہ رہا ہے…
جبکہ اِدھر ہمارے ملک میں انڈیا کی چاپلوسی کا مکروہ عمل نواز شریف کے بعد بھی جاری
ہے … اے حکمرانو! کچھ تو شرم کرو…کچھ تو ہوش میں آؤ… کرتارپور کی راہداری کھولی
جا رہی ہے… اس کی افتتاحی تقریب کے لئے سشما سوراج… اور امریندر سنگھ کی منتیں اور
ترلے کئے جا رہے ہیں کہ…وہ اپنے منحوس اور ناپاک قدم ہماری سرزمین پر رکھیں… جبکہ
وہ تکبر کے گھوڑے پر سوار ہیں اور تقریب میں اپنے دو چھوٹے وزیر بھیج رہے ہیں…
اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر بھی… ہمارے حکمرانوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے
ملاقات کی درخواست کی جو اس نے مسترد کر دی… مگر ان کو پھر بھی غیرت نہ آئی… اب
دوبارہ اس کے قدموں میں درخواست ڈال بیٹھے… جو اس نے حقارت سے ٹھکرا دی… ہائے کاش!
یہ کچھ غیرت کھاتے اور اپنی قوم کو اس قدر ذلیل نہ کراتے… ایودھیا میں ہندوؤں کے
مشتعل ہجوم کو دیکھ کر یہ راہداری والی تقریب ملتوی کر دیتے… ساری دنیا دیکھ رہی
تھی کہ بال ٹھاکرے کا پوت’’ اَدھو ٹھاکرے‘‘ ایودھیا میں کس طرح تلواریں لہرا رہا
ہے… مگر وہاں کی حکومت نے نہ اس کو گرفتار کیا اور نہ حفاظتی تحویل میں گم کیا…
جبکہ ہمارے حکمران ہر وقت پاکستان کے دینی طبقے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں…انہوں نے ایک
معذور اور بزرگ عالم دین کو اُٹھا کر جیل میں ڈال دیا … آخر کیوں؟… علامہ خادم
رضوی نے نہ کوئی تلوار لہرائی تھی اور نہ بھارت کے ہندوؤں کی طرح اقلیتوں کے قتل
عام کی دھمکی دی تھی۔
پاکستان
کے حکمران اچھی طرح سن لیں… بابری مسجد کا مسئلہ ساری امت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ
ہے… وہ جن کو مسلمانوں کا لیڈر بننے کا شوق ہے وہ اس وقت اپنی ذمہ داری ادا کریں…
اور بھارت کو صاف صاف بتائیں کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر برداشت نہیں
کی جائے گی… پاکستان کے حکمران یہ بھی یاد رکھیں کہ… اگر بابری مسجد کی جگہ رام
مندر کی تعمیر ہوئی تو پورا برصغیر… دہلی سے کابل تک… بد امنی کی ایک ایسی کالی
آندھی میں گھرجائے گا جو بہت دور دور تک تباہی پھیلا دے گی۔
ہمیں
کوئی شکوہ نہیں
ایودھیا
میں قاتل ہندو کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں… ان بندروں کے منہ کو انسانی خون لگ
چکا ہے… یہ بمبئی سے ہاشم پورہ تک اور میوات سے گجرات تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید
کر چکے ہیں… ہندوستان میں اب تک ہزاروں مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں … اور جب سے
قاتل مودی آیا ہے تب سے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ مزید بڑھ گیا ہے … ہمیں امریکہ
اور یورپ سے کوئی شکوہ نہیں ہے کہ وہ ان حالات کا نوٹس کیوں نہیں لیتے… ہم یہ شکایت
بھی نہیں کرتے کہ… وہ جنہیں چار مسلمان علماء اکٹھے برداشت نہیں ہوتے آج وہ
لاکھوں ہندوؤں کو مسلح دیکھ کر بھی کیوں خاموش ہیں… ہم انٹرنیشنل میڈیا سے بھی
کوئی شکوہ نہیں کرتے کہ… وہ صرف مسلمانوں کو ہی دہشت گرد کیوں کہتا ہے… کیا اسے ایودھیا
اور ہاشم پورہ کے مناظر نظر نہیں آتے؟…ہم یورپی یونین سے بھی یہ سوال نہیں کرتے
کہ… ایک عاصیہ ملعونہ کی خاطر زمین آسمان ایک کرنے والے آج لاکھوں مسلمانوں کے
تحفظ کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھا رہے… جبکہ اس وقت لکھنؤ، فیض آباد اور پورے
اُترپردیش کے مسلمان خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں …ہمیں امریکہ سے کوئی
شکوہ نہیں…یورپی یونین سے بھی نہیں… عالمی نشریاتی اداروں سے بھی نہیں… کیونکہ ہم
جانتے ہیں کہ یہ سب دین محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کے پکے دشمن ہیں…یہ حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں… ہم
دشمنوں سے ہمدردی اور تعاون کی بھیک اور خیرات نہیں مانگتے … بس افسوس صرف اتنا ہے
کہ خود کو مسلمان کہلوانے والے حکمران، فوجیں اور اہل اختیار… آخر کب تک ذلت اور
غلامی کو مسلمانوں پر مسلط کرتے رہیں گے…مسلمان الحمد للہ ایک ناقابل شکست امت ہیں…وہ
اپنے سارے مسئلے خود حل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں… ان میں الحمد للہ کسی بھی چیز کی
کمی نہیں ہے … مگر ہمارے ارباب اختیار مکمل طور پر ذہنی غلامی کا شکار ہیں…وہ نہ
تو خود مسلمانوں کے مسائل حل کرتے ہیں… اور نہ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر اپنے مسائل
حل کرنے دیتے ہیں۔
عاصیہ
ملعونہ کی قانونی وکالت کرنے والےبابری مسجد کی قانونی وکالت کیوں نہیں کرتے؟…عاصیہ
کے لئے دو عدالتوں سے سزائے موت اور ایک سے بری ہونے کا فیصلہ ہے… جبکہ بابری مسجد
چھ سو سال تک مسلمانوں کو اذان سناتی رہی …چھ سو سال تک کسی کو یاد نہ آیا کہ وہ
رام کی جائے پیدائش پر بنی ہوئی ہے … مگر جب ہندوؤں کو اقتدار ملا تو وہ تاریخ بھی
اپنی مرضی کی بنانے لگے… ہائے کاش! مسلمانوں کو بھی ایک ایسا مسلمان حکمران مل
جائے جو اسلام کے لئے مرتا جیتا ہو… ہندوؤں کو’’ مودی‘‘ … عیسائیوں کو’’ ٹرمپ‘‘
اور یہودیوں کو’’ بن یامین نیتن یاہو‘‘ مل گيا…ہائے کاش!…ہائے کاش!مسلمانوں کو بھی
کوئی مخلص مسلمان حکمران مل جائے… خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی… اصل یہ عرض کرنا ہے
کہ ہم نے اپنے مسائل کے لئے غیروں سے بھیک نہیں مانگنی … امت مسلمہ خود بابری مسجد
کے مسئلے کے حل کے لئے کھڑی ہو… تیار ہو… اور آگے بڑھے۔
دور
دور تک اثر پڑے گا
’’بابری مسجد شریف‘‘ کی جگہ اگر باقاعدہ رام مندر تعمیر کیا گیا تو
مسلمان اسے برداشت نہیں کریں گے…سب سے زیادہ خوفناک رد عمل برصغیر میں ہو گا، ان
شاء اللہ… افغانستان کے غیور اور بہادر مسلمان… کابل اور جلال آباد وغیرہ میں
موجود بھارتی مراکز کو تہس نہس کر دیں گے … خود ہندوستان کے مسلمان بھی اپنے مصلحت
پسند لیڈروں سے آزاد ہو کر ان شاء اللہ باہر نکلیں گے… اور پاکستان میں بھی حکومت
اس ردعمل کو نہیں روک سکے گی…’’ مودی‘‘ پر اس وقت 2019 کے الیکشن کا خوف سوار ہے
…ہندوستان میں علاقائی پارٹیاں کافی زور پکڑ چکی ہیں… ’’مودی‘‘ اپنے مجرمانہ ایجنڈے
کو مکمل کرنے کے لئے یہ الیکشن ہر حال میں جیتنا چاہتا ہے… انڈیا کے کالے چور یعنی
ارب پتی اس کی پیٹھ پرہیں… ساری دنیا میں وشوہندو پریشد اور آر ایس ایس کے حامی
مودی کے لئے فنڈنگ کر رہے ہیں… امریکہ اور اسرائیل کی حکومتیں بھی مودی کا ساتھ دے
رہی ہیں… مگر مودی کو ووٹ کے لئے خون کی ضرورت ہے… اور خون بھی مسلمانوں کا… اور
بابری مسجد کا… مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان حالات کو سمجھ کر عزیمت اور قربانی کا
راستہ اختیار کریں… ابوجہل کو اپنی اسلام دشمنی پر ناز تھا… اہل اسلام نے قربانی
کا راستہ چنا تو ابوجہل اوندھے منہ ایک اندھے کنویں کی غذا بن گیا… ابوجہل کے بعد
سے مودی تک… بے شمار مشرک سردار مسلمانوں سے ذلت ناک شکست کھا چکے ہیں … اس وقت
ہندوستان میں ہندوؤں کے جتنے بھی بڑے اور نامور ہیرو مشہور کئے جا رہے ہیں… وہ سب
مسلمانوں سے بری طرح مار کھا کر اور ذلیل ہو کر مرے ہیں… پرتھوی راج ہو یا شیوا جی…
مراٹھے ہوں یا جاٹ… ان سب نے مسلمانوں سے شکست کھائی ہے… ابھی رام جنم بھومی کی
تحریک میں ہندوؤں کے کتنے بڑے بڑے نام اب تک ذلیل ہو چکے ہیں …اور اب نمبر ہے مودی
شیطان کا… مسلمانو! بابری مسجد پکار رہی ہے… جنت مہک رہی ہے … شہداء مسکرا رہے ہیں…شجاعت
انتظار کر رہی ہے … اپنے زمانے میں اپنے حصے کا کام کامیابی سے کرنے کے لئے تیار
ہو جاؤ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور ۔671
ایک کہانی
* ایک دلچسپ کہانی اور اس سے حاصل
ہونے والے روشن اسباق
* ’’ناشکری‘‘ کا وبال اور ’’شکر گزاری‘‘ کے فوائد
* پیامِ شکر
* غیر مسلم حاکم قوموں کا ظالمانہ طرز حکومت
* مسلم حکمرانوں کو تنبیہ
تاریخ
اشاعت
۲۸ ربیع الاول ۱۴۴۰ھ/
7 دسمبر 2018ء
ایک کہانی
اللہ
تعالیٰ ہمیں اپنا ’’شکر گذار‘‘ بندہ بنائے … آج کچھ ہلکی پھلکی باتیں… ایک کہانی
اور اس سے حاصل ہونے والے دو تجزئیے۔
آنسو
سے مٹھائی تک
ایک
صاحب شدید مالی تنگی کا شکار تھے… کھانا پینا تو خیر پورا ہو جاتا تھا مگر رہائش کی
سخت پریشانی تھی… وہ ایک اللہ والے بزرگ سے عقیدت رکھتے تھے… حالات سے تنگ ہو کر
ان کی خدمت میں حاضر ہوئے… اور عرض کیا کہ حضرت! بہت تکلیف ہے، بہت پریشانی ہے… بس
ایک کمرے کا گھر ہے…اس میں خود بھی رہتا ہوں، میری بیوی اور چار بچے بھی ساتھ ہیں،
بوڑھی والدہ اور دو بہنیں بھی ساتھ ہیں اور خاندان کی ایک بوڑھی رشتہ دار بیوہ
خاتون بھی میرے زیر کفالت ہیں… اتنے سارے افراد اور ایک کمرہ… بہت سخت پریشانی ہے…
یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو بار بار چھلک پڑے… بزرگوں نے گردن جھکائی ، غور کیا اور
فرمایا… تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا… ایک مرغا لے آؤ اور اسے بھی اپنے کمرے میں
ساتھ رکھ لو … وہ صاحب خوشی خوشی گئے…مرغا لیا اور اسے بھی کمرے میں رکھ لیا… ایک
ہفتے بعد بزرگوں کے پاس حاضر ہوئے تو پہلے سے زیادہ غمزدہ اور دکھی تھے… حضرت !
مسئلہ بالکل حل نہیں ہوا بلکہ اب تو اور بڑھ گیا ہے… مرغا شور مچاتا ہے، گندگی پھیلاتا
ہے… بزرگوں نے گردن جھکائی، تھوڑا سا سوچا اور فرمایا… اب میں سمجھا، تمہارا مسئلہ
تھوڑا بڑا ہے… تم ایک بکرا لے آؤ اور اسے بھی ساتھ رکھو… اور ایک ہفتے بعد اطلاع
دو… ہفتے بعد وہ صاحب آئے تو پریشانی سے کانپ رہے تھے… یا حضرت ! مسئلہ اور گھمبیر
ہو گیا ہے …بکرا پیشاب بھی کر دیتا ہے اور نیند بھی ٹھیک نہیں کرنے دیتا… بزرگوں
نے غور کیا اور فرمایا… اچھا اچھا اب سمجھا تمہارا مسئلہ کیا ہے… تم ایسا کرو کہ ایک
گدھا لے آؤ اور اسے بھی ساتھ رکھو… اور ہفتے بعد اطلاع کرو… ایک ہفتے بعد وہ
صاحب آئے تو لگتا تھا کہ غم اور پریشانی سے ابھی وفات پا جائیں گے… آنسو اُن کی
آنکھوں سے برس رہے تھے… اور وہ ادھ موئے ہو چکے تھے… یا حضرت! اب تو زندگی سے تنگ
ہو گیا ہوں… گدھے نے تو جینا حرام کر دیا ہے … بزرگوں نے فرمایا: اچھا ایسا کرو کہ
مرغا نکال دو… اور ہفتے بعد اطلاع کرو… وہ صاحب ہفتے بعد آئے اور کہنے لگے حالات
میں تھوڑی سی بہتری ہو گئی ہے… بزرگوں نے کہا: اچھا اب بکرا بھی نکال دو… اور ہفتے
بعد اطلاع کرو… ہفتے بعد انہوں نے آ کر بتایا کہ حالات پہلے سے کافی بہتر ہیں…
فرمایا: اب گدھا بھی نکال دو اور ہفتے بعد اطلاع کرو… ہفتے بعد وہ صاحب آئے تو
ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا…چہرے پر مسکراہٹ اور انگ انگ میں خوشی… یا حضرت! مسئلہ
بالکل حل ہو گیا ہے… اب اپنا کمرہ بنگلہ لگتا ہے … سب گھر والے خوش ہیں… سب کھلے
کھلے رہتے ہیں اور کمرہ بالکل پاک صاف ہے… اسی خوشی میں مٹھائی لایا ہوں، قبول
فرمائیے … وہ صاحب مٹھائی دے کر چلے گئے تو بزرگوں نے فرمایا کہ… اب اس کی گاڑی
کامیابی والی سڑک پر آگئی ہے… اب یہ ہر دن مزید راحت اور ترقی پائے گا، ان شاء
اللہ۔
شکوے
سے شکر تک
وہ
صاحب جب پہلی بار بزرگوں کے پاس آئے تھے تو وہ رو رہے تھے… اور آخری بار جب آئے
تو خوش تھے… حالانکہ وہی کمرہ تھا اور وہی افراد…کچھ بھی اضافہ نہ ہوا تھا… آنسو
سے مٹھائی تک کا یہ سفر…شکوے سے شکر تک کا یہ سفر … بظاہر بہت چھوٹا ہے مگر حقیقت
میں یہ زمین سے آسمان تک کے سفر سے بھی زیادہ بڑا ہے … وہ صاحب آئے تو بزرگوں نے
سمجھ لیا کہ اُن کی رزق میں تنگی کا بڑا سبب ان کی ناشکری اور بے صبری ہے… یہ اگر
ناشکری چھوڑ دیں تو ان کی روزی کے تمام دروازے کھل جائیں گے…چنانچہ بزرگوں نے ان
پر پہلے سخت بوجھ لادا، پھر وہ بوجھ ہلکا کیا تو ان کی حالت بدل گئی۔
اپنی
بیماری میں کراہنے والا کوئی شخص ہسپتال کے ایمرجنسی یا کیجولٹی وارڈ میں چلا جائے
تو واپسی پر وہ شکر ادا کرتے ہوئے نکلتا ہے…شیطان کا ایک نام ’’کفور‘‘ ہے، بہت بڑا
ناشکرا… اور یہی ’’ناشکری‘‘شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک مہلک ہتھیار ہے… شیطان
سارا دن اور ساری رات ناشکری بانٹتا ہے … آپ کے پاس جو سواری ہے آپ کو اس سے اچھی
سواری کی لالچ میں ڈال دے گا… تب اپنی سواری حقیر نظر آ ئے گی تو ضرور ناشکری ہو
گی … اور جب ناشکری ہو گی تو پھر برکت ضرور اٹھ جائے گی… اس لئے ضروری ہے کہ ہم شیطان
کے اس وار کو سمجھیں … اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطاء فرمایا ہے اس پر اللہ
تعالیٰ کا شکر ادا کریں… اور اپنے دل کو اس نعمت پر راضی کریں… آج مسلمانوں میں
جو ہر طرف رزق کی تنگی اور بے برکتی پھیلی ہوئی ہے… اس کا ایک بڑا سبب یہی ناشکری
ہے… اس ناشکری سے ہم سب توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں۔
اَللّٰھُمَّ رَضِّنِیْ
بِمَا قَضَیْتَ لِیْ۔
اَللّٰھُمَّ رَبِّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَ بَارِکْ لِیْ فِیْمَا
اَعْطَیْتَنِیْ۔
’’یا اللہ! مجھے جو عطاء فرمایا ہے اسی پر مجھے خوشی اور قناعت
عطاء فرما دیجئے۔‘‘
رَضِیْتُ
مَا اَعْطَانِیَ اللہُ
’’میں اس پر راضی ہوں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء فرمایا
ہے۔‘‘
میاں،
بیوی ، اولاد، مکان ، خوراک ، کپڑے ،صحت وغیرہ… ان سب میں ہم شکرگذاری کے راستے کو
اختیار کریں… یہ ہے اس کہانی کا پہلا تجزیہ اور سبق۔
دوسرا
تجزیہ
مسلمانوں
کے علاوہ دنیا کی جتنی حاکم قومیں گذری ہیں… انہوں نے انسانیت کی بہت تذلیل کی ہے،
خصوصاً انگریزوں نے… انہوں نے یہ طرز اختیار کیا کہ پہلے اپنے محکوم افراد پر بے
انتہا بوجھ اور مشقت ڈال دیتے تھے… اور پھر ان کو اپنا غلام اور احسان مند بنانے
کے لئے تھوڑا تھوڑا بوجھ ہٹاتے تھے… تب مشقت اور مصیبت میں پسے ہوئے انسان … اسی
کو غنیمت سمجھ کر ان کے احسان مند ہو جاتے اور ان کی غلامی اختیار کر لیتے… مثلاً
پہلے دونوں ہاتھ بھی باندھ دئیے اور پاؤں بھی… پھر کسی اندھیری جگہ ڈال دیا…
خوراک اور پانی بھی بند… اب اس کے بعد کچھ روشنی دکھا دی … کبھی دو گھونٹ پانی دے
دیا… کبھی آدھی روٹی کھلا دی اور کبھی ایک ہاتھ کھول دیا… اور اس احسان کے بدلے
ان کی وفاداری خرید لی… برصغیر پر چونکہ انگریزوں کی حکومت رہی اور انگریز اپنے پیچھے
اپنا ہی نظام اور اپنی ہی سوچ چھوڑ کر گیا تو… اب یہاں کے حکمران اسی طرز عمل پر
کاربند ہیں…یہ اپنی عوام پر ہر طرح کے گھوڑے، گدھے، بکرے اور مرغے لاد دیتے ہیں… ایک
ایک رات میں کرنسی کی قیمت دس، دس فیصد گرا دیتے ہیں… ایک منٹ میں مہنگائی کو دو
گنا بڑھا دیتے ہیں… اور پھر ایک پائی کی سہولت دے کر احسان جتلاتے ہیں… اور اپنے
کارنامے گنواتے ہیں… اسی طرح یہ اپنی عوام پر بے حد سختیاں کرتے ہیں… جیلیں راتوں
رات بھر دیتے ہیں… اور پھر ایک ایک فرد کو رہا کر کے اپنا احسان منواتے ہیں… یہ
ظالمانہ طرز حکومت مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا… اور یہ زیادہ عرصے چلتا بھی نہیں
ہے… اے مسلمان حکمرانو! اپنی رعایا کو انسان سمجھو… یہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں …ان کی توہین نہ کرو… ان کے ساتھ
کھلواڑ نہ کرو… تم انگریز سے نہیں… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے حکمرانی کا طریقہ
سیکھو!
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور ۔ 672
مودّت نامہ
* خاوند اور بیوی کے درمیان
محبت ایک
فطری نعمت اور اللہ تعالیٰ
کی خاص نشانی…
* اس محبت کے اثرات اور اس
محبت کو بڑھانے کے اکسیر
نسخے…
* خاوند اور بیوی کے درمیان
محبت کاایک دلچسپ قصہ…
* نماز میں توجہ اور خشوع پیدا
کرنے کے طریقے…
یہ ہیں اس مبارک تحریر کے
اہم موضوعات
تاریخ
اشاعت:
۶
ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ/
14 دسمبر 2018ء
مودّت نامہ
اللہ
تعالیٰ اپنے خاص فضل سےہر مسلمان خاوند اور بیوی کے درمیان سچی محبت، رحمت اور
اعتماد نصیب فرمائے۔
خاوند اور بیوی کے درمیان
’’محبت‘‘ اللہ تعالیٰ کی خاص نشانی ہے… یہ ’’محبت‘‘ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے …
اور اس میں ایمان والوں کے لئے نفع ہی نفع اور راحت ہی راحت ہے… شیطان اس ’’محبت‘‘
کا دشمن ہے… اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے مبارک نام سے قائم ہونے والے اس رشتے کی
قدر کرو… اور اس بات کو سوچا کرو کہ اللہ تعالیٰ خاوند اور بیوی کے درمیان محبت
چاہتے ہیں… تم اللہ تعالیٰ کی چاہت پوری کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت
کی برکات سے مالا مال فرما دے گا… اور یہ سوچا کرو کہ شیطان اس محبت کا دشمن ہے…
تم شیطان کی چاہت پوری کرو گے تو وہ تمہیں دنیا و آخرت میں تباہ و برباد کر دے
گا… آج اسی موضوع پر ایک دو ہلکے پھلکے قصے سنانے ہیں… اور نماز میں توجہ حاصل
کرنے کے کچھ مزید طریقے عرض کرنے ہیں۔
پہلی
تکبیر… یعنی تکبیر تحریمہ
نماز
میں خشوع اور توجہ کے بہت سے نسخے ہیں…اہل علم نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے…
دراصل خشوع اور توجہ والی نماز حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے لئے ہر ترقی کا
دروازہ کھل جاتا ہے… نماز سیدھی تو سب کچھ سیدھا … نماز خراب تو سب کچھ خراب… نماز
میں خشوع اور توجہ کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ’’ ہم نماز میں مکمل توجہ سے داخل
ہوں‘‘… پہلی تکبیریعنی’’ تکبیر تحریمہ‘‘ جو نماز کے فرائض میں سے ہے اسے دل اور
زبان دونوں سے ادا کریں… اللہ اکبر… اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اقامت شروع ہوتے ہی
دنیا سے کٹ کر مالک الملک کے دربار میں خود کو حاضر سمجھیں… ہم ایسے ہو جائیں جیسے
کہ ہمارا اب سوائے اللہ کے اور کسی سے کوئی تعلق ہی نہیں … عام طور پر جب اقامت
شروع ہو تی ہے تو لوگ طرح طرح کی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں… کوئی کسی کو آگے کرتا
ہے تو کسی کو پیچھے…کوئی رضا کار بن کرصفیں سیدھی کرانے کا شور مچاتا ہے تو…کسی کو
اس وقت بڑے چھوٹے کا اکرام یاد آ جاتا ہے… اور وہ کسی کو اپنی جگہ کھڑا کرتا ہے
اور کسی کو کھینچتا ہے… اللہ کے بندو! پہلی تکبیر تو مکمل توجہ سے ادا کر لو…
آغاز اچھا ہو گا تو آگے بھی کام بنے گا… یوں سمجھو کہ ہم رب العالمین کے دربار
عالی شان میں کھڑے ہیں… کہاں ہم اور کہاں رب العالمین؟… پھر کعبہ کو بالکل اپنے
سامنے سمجھو … اپنی اس نماز کو زندگی کی آخری نماز سمجھو… اور دل کے سارے نور کو
جمع کر کے زبان پر لاؤ اور کہو… اَللہُ اَکْبَرُ… اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں… عظیم
ہیں…عالی ہیں… اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ
اَکْبَرُ… اب باقی ہر چیز چھوٹی ہو گئی… مکمل توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گئی۔
خاوند
بیوی کی محبت کا قصہ
خاوند
بیوی کے درمیان ’’محبت‘‘ ایک فطری نعمت ہے… اور ان دونوں کے درمیان نفرت ایک غیر
فطری عمل ہے… بالکل خالص شیطانی عمل ہے… خاوند اور بیوی کے درمیان محبت کے نقشے دیکھنے
ہوں تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
کی مبارک زندگی میں دیکھیں… سبحان اللہ… ایک
ایک واقعہ اور ایک ایک لمحہ ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے… لوگ پوچھتے ہیں کہ خاوند
اور بیوی کے درمیان محبت کا نسخہ کیا ہے؟… چند دن پہلے بھی ایک خط اسی سوال پر
مشتمل آیا… عرض کیا کہ… ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے مبارک حالات پڑھا کریں… ان کا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے رویہ کیسا تھا؟… اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے معاملہ کیسا تھا؟ … تب ہمیں محبت و
مودّت کا ایک مکمل نصاب اور مکمل طریقہ معلوم ہو جائے گا… خاوند اور بیوی میں محبت
ہو تو اس کا اثر دونوں کی عبادت پر بھی پڑتا ہے اور صحت و رزق پر بھی… اب تو
سائنسدانوں نے بھی یہی تحقیق پیش کر دی ہے کہ… دنیا میں کئی امراض کی وجہ خاوند
اور بیوی کے درمیان اختلاف اور منافرت ہے… خیر مجھے اس تحقیق میں ذرا برابر دلچسپی
نہیں…ہمارے سامنے تو قرآن مجید کی’’ سورۃ الروم‘‘ ہے… خاوند اور بیوی میںمحبت کاد
وسرا طریقہ ’’دعاء‘‘ ہے…
{رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا}
والی
دعاء عجیب اکسیر ہے… حضرت لاہوری رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ… آپ کے اہل و اولاد آپ کے
اس قدر فرمانبردار اور جانثار کیسے ہیں؟… فرمایا نماز کے تشہد کے آخر میں یہی
دعاء پڑھنے کا معمول ہے… اسی موضوع پر ایک بہت دلچسپ اور حکیمانہ قصہ آج آپ کو
سنانا ہے۔
ایک
پرانے گھر میں ایک بوڑھا خاوند اور اس کی بوڑھی بیوی رہتی تھی… دونوں ایک دوسرے سے
خوش اور راضی… وہ دونوں چونکہ ایک دوسرے سے خوش تھے تو باقی سب کچھ خودبخود اچھا
بن چکا تھا… ان کی ملکیت میں بس ایک گھوڑا تھا… وہ اسے کرائے پر دیتے تو کچھ پیسے
اور کچھ دانے مل جاتے… اور وہ دونوں اسی تھوڑی سی آمدن میں ٹھاٹھ کے ساتھ زندگی
گزارتے… ایک بار ان کے گھر کی چھت میں شگاف ہو گیا… دونوں مشورے کے لئے سر جوڑ کر
بیٹھ گئے… گرمیوں میں تو یہ شگاف اچھاہے ہوا اور روشنی آئے گی …مگر بارش اور سردی
میں کیا کریں گے؟… تب دونوں کا اتفاق اس پر ہوا کہ گھوڑا فروخت کر دیا جائے… اس سے
جو رقم ملے گی اس سے چھت ٹھیک کرا لیں گے… باقی رہا کھانا پینا تو اللہ تعالیٰ اس
کا کوئی انتظام فرما دیں گے… بیوی نے بڑی محبت سے اپنے بابے کو تیار کر کے ، کھلا
پلا کے گھوڑابیچنے روانہ کر دیا… اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں آپ کے ہر فیصلے اور
ہر سودے پر راضی و خوش ہوں گی… بوڑھا آدمی گھوڑا لے کر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک
کسان ملا جو اپنی گائے ہانکتا ہوا غمگین جا رہا تھا… بوڑھے نے پوچھا کہ آپ غمگین
نظر آ رہے ہیں…اس نے کہا: یہ دودھ بہت کم دے رہی ہے… گھر والوں نے کہا ہے کہ بیچ
کر آؤ، اب اسے کون خریدے گا؟… بوڑھے نے کہا: آپ کو اگر میرا گھوڑا پسند ہو تو
سودا کر لیتے ہیں… گھوڑا آپ لے لیں، گائے مجھے دے دیں… اس نے خوشی خوشی سودا کر لیا…
بوڑھا آدمی اب گائے لے کر بازار کی طرف گیا … وہاں ایک اور بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا
رو رہا تھا …اس بوڑھے نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا: میں کل دنبہ خریدنے گیا … ایک
دنبہ بہت ناقص مل گیا، آج گھر والوں نے پھر بھیج دیا کہ یہ دنبہ بیچ کر آؤ، اب
اسے کون لے گا؟… بابے نے کہا: میری گائے کے بدلے سودا کر لو… وہ خوش ہو گیا اور
اسے دنبہ دے کر گائے لے گیا… اب یہ بوڑھا دنبہ لے کر جا رہا تھا کہ ایک عورت سخت
پریشان نظر آئی…وجہ پوچھی تو کہنے لگی : گھر والوں نے ایک بطخ دی ہے جو بہت کم
انڈے دیتی ہے…انہوں نے کہا ہے کہ ضرور بیچ کر آنا … بوڑھے نے کہا: تم میرے دنبے
کے بدلے اپنی بطخ بیچ دو… وہ بہت خوش ہوئی اور دنبہ لے گئی… اب بابا جی اپنے گھوڑے
سے ایک بطخ پر آ چکے تھے مگر پھر بھی خوش تھے… اسی دوران ایک نوجوان کو دیکھا کہ
بے چین پھر رہا تھا… وجہ پوچھی تو اس نے کہا: گھر والوں نے مرغی دی ہے کہ بیچ کر
آؤ … پریشان ہوں کہ اتنی چھوٹی سی مرغی کون خریدے گا اور مجھے بطخ لینی ہے… بابا
نے اپنی بطخ کے بدلے وہ مرغی خرید لی… آگے بڑھے تو ایک بچہ پریشان کھڑا تھا اور
رو رہا تھا … وجہ پوچھی تو بولا: امی نے خراب سیبوں کا ایک تھیلا دیا ہے کہ اسے
ضرور بیچ کر آؤ… سیب اچھے ہوتے تو بک جاتے مگر خراب سیبوں کو کون خریدے گا؟…
بابا نے اپنی مرغی کے بدلے وہ سیب خرید لئے… بولے کہ ہمارے گھر سیب کا ایک درخت
تھا… آخر میں وہ بھی خراب سیب دینے لگا تھا… چلو آج اس کی یاد تازہ ہو گئی… یہاں
ایک مالدار آدمی یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا… اس نے بابا سے کہا: آپ نے خراب سیب
لے لئے، آپ کے گھر والے آپ کو ذلیل کریں گے…بوڑھے نے کہا: نہیں میری بیوی میرے
ان تمام سودوں پر میری پیشانی چومے گی اور میری عقلمندی اور تجارتی سوجھ بوجھ کی
داد دے گی… مالدار آدمی نے کہا:ایسا ہو ہی نہیں سکتا … بیویاں تو عقلمند خاوندوں
کو بے وقوف قرار دیتی ہیں… جبکہ آپ نے تو اتنی بڑی بے وقوفی کی ہے کہ اچھے خاصے
گھوڑے کو دے کر ان خراب سیبوں کو اپنے گھر لے جا رہے ہیں… میں شرط لگاتا ہوں کہ
اگر آپ کی بیوی نے آپ کو کچھ نہ کہا تو میں آپ کو سو دینار دوں گا… بابا نے
کہا: میں شرط نہیں لگاتا…اس نے کہا :چلیں شرط نہیں، انعام سمجھ لیں… وہ دونوں اس
بوڑھے کے گھر کی طرف آئے… بوڑھا اندر داخل ہوا اور دروازہ کھلا چھوڑ گیا… مالدار
آدمی چھپ کر کھڑا ہو گیا… بیوی نے گرمجوشی سے خاوند کا استقبال کیا… پانی وغیرہ
پلایا اور پھر گھوڑے کا پوچھا… بوڑھے نے کہا: میں نے وہ بیچ کر گائے لے لی…بیوی نے
کہا: واہ! کیسا زبردست کام کیا، اب ہم دونوں دودھ پئیں گے… بوڑھے نے کہا: گائے میں
نے دنبے کے بدلے بیچ دی… بیوی نے کہا: یہ تو اور اچھا ہو گیا … دنبے کے بالوں سے میں
اون بناؤں گی… بوڑھے نے کہا: وہ دنبہ میں نے بطخ کے بدلے فروخت کر دیا… بیوی نے
کہا: یہ تو زبردست کام کیا… بطخ تنہائی میں ہمارا بہت دل بہلائے گی … بوڑھے نے
کہا: وہ بطخ مرغی کے بدلے بیچ دی … بیوی نے کہا: یہ تو کمال ہو گیا، مجھے کئی دن
سے انڈے کھانے کا شوق ہو رہا تھا… بوڑھے نے کہا: وہ مرغی میں نے خراب سیبوں کے
بدلے بیچ دی … بیوی نے کہا: یہ تو آپ نے بہت ہی اچھا کیا، مجھے اپنا وہ درخت یاد
آئے گا اور پرانی یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں… اس نے وہ سیب لئے اور بوڑھے کی
پیشانی چومی… وہ مالدار یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس عجیب محبت اور اعتماد کو دیکھ
کر پسینہ پسینہ ہو رہا تھا… وہ اجازت لے کر اندر آیا… اور اس نے ایک سو دینار ان
کو پیش کر دئیے… اور یوں محبتی جوڑے کو ایک نہیں کئی گھوڑوں کی قیمت گھر بیٹھے مل
گئی۔
قصوں
میں تو خیر مبالغہ بھی ہوتا ہے اور بناوٹ بھی… مگر کبھی مدینہ منورہ کی طرف جھانک
کر دیکھیں… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ لگا رہے ہیں… اور جب وصال مبارک کا
وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک ان کی گود میں ہے… انٹرنیٹ، ناجائز
دوستیوں اور خاوند بیوی کے خوفناک تصادم کے ماحول میں شاید یہ باتیں اور واقعات
سمجھ میں نہ آئیں… مگر اللہ تعالیٰ کا قانون اور کامیابی کے راز اٹل ہیں…خاوند
اور بیوی میں قلبی جوڑ اور اتفاق ہو تو رزق بارش کی طرح برستا ہےا ور مکمل حفاظت
رہتی ہے… ہم سب دعاء تو کر سکتے ہیںکوشش تو کر سکتے ہیں … ورنہ آج کل تو گھروں کا
ماحول جہنم بنتا جا رہا ہے۔
اللہ
کے بندو! اپنی بیویوں کی قدر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھو… اللہ کی بندیو! اپنے خاوند سے معاملہ
کرنے کا طریقہ اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن سے سیکھو… اللہ تعالیٰ کو خوش کرو، شیطان کو خوش
نہ کرو۔
نماز
میں توجہ کا ایک اہم طریقہ
ہمارے
حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ سے جب کوئی نماز میں خشوع اور توجہ
حاصل کرنے کا طریقہ پوچھتا تو آپ فرماتے : ہر رکن کی دل میں نیت کیا کرو… قیام کی
نیت تو تکبیر تحریمہ سے ہو گئی… اب رکوع میں جاتے وقت دل میں ( زبان سے ہرگز نہیں)
یہ نیت کہ اللہ تعالیٰ کے لئے رکوع کر رہا ہوں… پھر سجدہ میں جاتے وقت نیت کہ اللہ
تعالیٰ کے لئے سجدہ میں جا رہا ہوں…اللہ تعالیٰ کے لئے تشہد میں بیٹھ رہا ہوں…( اسی
طرح مکمل نمازمیں )
یہ
عمل بہت مجرب ہے… مگر اس میں تھوڑی ہمت اور ہوشیاری کی ضرورت ہے… اللہ تعالیٰ مجھے
اور آپ سب کو مقبول، شاندار اور جاندار نماز نصیب فرمائے…اور بابری مسجد شریف
اُمت مسلمہ کو واپس عطاء فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
مثالی قافلہ
* قافلۂ قربانی،قافلۂ اخلاص،
قافلۂ عزیمت،
قافلۂ عشق و وفا، قافلۂ
سیّد احمد شہید کی یاد میں…
* اس مبارک اور مثالی قافلہ پر
ستم ڈھانے
والے لوگ جن کی ریشہ دوانیاں
آج بھی جاری ہیں…
* جہادی قافلے کے خلاف دشمن کی
ناپاک
اور خوفناک مکاریاں اور سازشیں
* سیّد بادشاہ کے قافلے کی کامیابیاں…
ایک خاص تحریر جو اپنوں میں
چھپے غیروں کو بے نقاب
کرتی ہے…
۱۳ ربیع الثانی۱۴۴۰ھ؍
21 دسمبر2018ء
مثالی قافلہ
اللہ
تعالیٰ جب عطاء فرمانے پر آئے تو ایسا نوازتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔
وَاللہُ
ذُوالْفَضْلِ الْعَظَیْمِ
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو ہ طور کی طرف روانہ
ہوئے تاکہ … آگ کا ایک شعلہ لے آئیں … مگر نوازنے والے رب نے اُن کو نبوت، رسالت
اور امامت کا سورج دے کر واپس بھیجا ۔
سُبْحَانَ
اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظَیْمِ
وہ
کوہ طور پر تشریف لے گئے کہ … اپنی اہلیہ محترمہ کے لئے سرد موسم میں گرمی اور
حرارت کا کچھ انتظام لائیں … مگر وہاں ان کو ’’تحریک آزادی‘‘ کی گرمی عطاء ہوئی
کہ جا کر غلامی کی برف میں ٹھنڈی پڑی ’’ قوم بنی اسرائیل ‘‘ کا خون گرمائیں… حضرات
انبیاء علیہم السلام کی اولاد بنی اسرائیل ایک بدبخت انسان کے قدموں میں روندی پڑی
تھی ۔
سُبْحَانَ
اللہِ ،نِعْمَ الْقَادِرُ اَللہُ
وہ
کوہ طور پر گئے تھے … ایک فرد کی راحت کا سامان لانے … مگر نوازنے والے رب نے انہیں
لاکھوں افراد کو ہدایت اور راحت پہنچانے کا سامان عطاء فرما دیا ۔
وَاللہُ
عَلٰی کُلِّ شَئیٍ قَدِیْرٌ
* قافلہ سیّد احمد شہید رحمہ
اللہ علیہ کن مقاصد کے لئے نکلا تھا ؟… اس قافلے نے کیا پایا ؟ اس قافلے کے اثرات
کہاں تک پہنچے؟… اس قافلے کے اثرات کب تک مہکتے رہیں گے؟… ہاں! یہ ایک طویل اور
دلکش داستان ہے … مگر ایک بات مکمل وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس قافلے سے
اللہ تعالیٰ نے جو کام لیا وہ خود اہل قافلہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا… اس
قافلے کو اللہ تعالیٰ نے جہاں تک پھیلا دیا اس کا تصور بھی محال تھا … سید صاحب
رحمہ اللہ علیہ گم ہو گئے… شاہ اسماعیل رحمہ اللہ علیہ شہید ہو گئے … قافلے کی تقریباً
ساری قیادت کٹی پھٹی لاشوں کی صورت اجتماعی قبرمیں دفن ہو گئی … بچے کھچے مجاہدین
کو سر چھپانے کی جگہ نہ تھی … ایسے لگا کہ بس قصہ ختم … مگر کہاں؟ … قصہ آج تک چل
رہا ہے … پوری آن اور شان کے ساتھ چل رہا ہے… ایک قافلے نے ہزاروں قافلے کھڑے کر
دئیے … ایک چنگاری نے سرچھپانے سے پہلے ہر طرف شعلوں کو جنم دے دیا … بے بسی اور
بے کسی کے قبرستان نے گرجتے برستے جانبازوں کے لشکر اٹھا دئیے … ہاں! بے شک اللہ
تعالیٰ ’’اَلشَّکُوْر‘‘ ہے قدردان … اس کے ہاں اخلاص کی قدر ہے،قربانی کی قدر ہے …
قافلۂ سیّد احمد شہید رحمہ اللہ علیہ اخلاص و قربانی کا قافلہ تھا … اسی لئے اللہ
تعالیٰ نے اسے مٹنے نہیں دیا … اہل قافلہ کو اللہ تعالیٰ نے جلد آرام دے دیا …
مگر ان کے کام کو ہر طرف پھیلا دیا … ہر طرف چلا دیا ۔
سُبْحَانَ
اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَان اللہِ الْعَظَیْمِ
* کوئی قافلہ آسانی سے نہیں بنتا … قافلے اور
ریوڑ میں بہت فرق ہے … جہادی قافلہ کے لئے ایک ’’امیر ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے … اور
امیر برحق آسانی سے نہیں ملتا … صدیوں کی محنت کوئی ایک ’’فرد‘‘ تیار کرتی ہے … ایسا
فرد جو اپنی صفات میں بھی ’’فرد ‘‘ ہو اور اپنے کام میں بھی ’’فرد‘‘ ہو … منفرد،
مثالی، بے نظیر، بے ہمتا اور بے تاب … اپنے ’’مقصد‘‘ کے لیے سب کچھ کھونے کی ہمت
رکھنے والا … اور کچھ بھی پانے سے بے نیاز ؎
فرشتے
آسمانوں سے امامت کو نہیں آتے
قتال
و حرب کے سامان اور لشکر نہیں لاتے
یہ
سنت ہے کہ انسانوں سے اک انسان اٹھتا ہے
و
ہ جس کے دل میں آزادی کا اک طوفان اٹھتا ہے
وہ
بے شک بے نوا اور بے سروسامان ہوتا ہے
مگر
اس کا خدا کی ذات پر ایمان ہوتا ہے
جس
زمانے میں مسلمانوں کی قسمت جاگتی ہے … اُنہیں ایسا ’’امیر ‘‘ مل جاتا ہے … اس امیر
کا درد اپنے گرد دردمندوں کا ایک قافلہ جمع کر لیتا ہے … پھر یہ قافلہ چل پڑتا ہے
… اور زمین و آسمان سے لے کر جنت تک مہکنے لگتی ہے:
بِسْمِ
اللہِ مَجْرٖھَا وَ مُرْسٰھٰا اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
* صدیاںمحنت کر رہی تھیں … حضرت مجدد الف ثانی
رحمہ اللہ علیہ کی عملی و روحانی تحریک …
غزنی کے ایک جانباز صفت سید خاندان کی عزیمتیں اور جہاد … شاہ علم اللہ رحمہ اللہ
علیہ کا فقر اور رائے بریلی کا دائرہ … شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کے
خانوادہ کی تدریسی،تعلیمی اور تحریکی خدمات … شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ
علیہ کی ’’ خلاصۃ العصر ‘‘ شخصیت … اور شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ علیہ کی قرآن فہمی،
بے نفسی اور گوشہ نشینی … یہ ساری نسبتیں ایک ’’سیدزادے ‘‘ نے اپنے دل میں سمیٹیں
… اور مسلمانوں کو امیر مل گیا … نام پڑا سیّداحمد ؎
یہ
مرد حق بریلی کی مبارک خاک سے اٹھا
محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دودمان پاک سے اٹھا
خدا
نے چن لیا درویش کو بہر جہانبانی
فقیر
راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
عزیمت
کا علم تھامے ہوئے میدان میں آیا
خدا
رحمت کرے اقبال نے کیا خوب فرمایا
نکل
کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ
فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
مزاج
خانقاہی کو مبدل کر دیا اس نے
مسلمانوں
کے اندر جوش غیرت بھر دیا اس نے
جو
گدڑی پوش تھے وہ ہو گئے مشتاق جانبازی
جو
تھے گوشہ نشیں وہ بن گئے میدان کے غازی
چلاتے
تھے جو حجروں میں فقط تسبیح کے دانے
وہ
سینے تان کر نکلے عدو کی گولیاں کھانے
اٹھی
تحریک ہندوستان سے سیلاب کی صورت
شب
مسلم کو روشن کر گئی مہتاب کی صورت
یہ
تھا پہلا تصور ایک اسلامی ریاست کا
جہاں
مقصود تھا غلبہ شریعت کی سیاست کا
سُبْحَانَ
اللہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَان اللہِ الْعَظَیْمِ
* جہاد ہر زمانے میں نا ممکن نظر آتا ہے …
کافروں کی طاقت سے برابر کا مقابلہ کبھی عالم وجود میں نہیں ہوتا … جہاد ہمیشہ
غزوئہ بدر کے میدان سے روشنی لے کر کھڑا ہوتا ہے … جہاں کفر کی طاقت مسلمانوں سے
کئی گنا زیادہ تھی … بلکہ ساری طاقت اُنہی کے پاس تھی … مسلمانوں کے پاس تو بس
کٹوانے کو گردنیں تھیں … تقریباً ہر زمانے میں یہی توازن ہوتا ہے…اسی لیے جو لوگ
اسلام کا غلبہ نہیں چاہتے … جو اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی نہیں دینا چاہتے وہ ہمیشہ
وسائل سے مالا مال ہوتے ہیں … وہ بظاہر مسلمانوں کے محافظ اور غمخوار سمجھتے جاتے
ہیں … حالانکہ یہی لوگ کینسر کے دانے ہوتے ہیں … یہی غلامی کے پاسبان اور ذلت کے
چوکیدار ہوتے ہیں … ان کو نہ تو کوئی ’’امیر ‘‘ معیار پر پورا نظر آتا ہے … اور
نہ کبھی ان کی خود ساختہ شرائط پوری ہوتی ہیں …یہ لوگ بس یہی کہتے ہیں کہ مسلمانو!
… غلام بنے رہو ، غلامی کے مزے لوٹو اور زندہ رہنے کو ہی سب سے بڑی نعمت سمجھو …
اور زندگی کی خاطر ہر ذلت سر پر اٹھائو … جہاد ہمیشہ ہجرت مانگتا ہے … جبکہ ان
لوگوں کے نزدیک ہجرت صرف مال کی خاطر جائز ہے … اور وہ بھی مسلمانوں کے ممالک سے
نکل کر کافروں کے ملکوں کی طرف … جہاد، خون مانگتا ہے … جبکہ یہ لوگ خون دیکھ کر
بے ہوش ہو جاتے ہیں … جہاد محنت، تھکاوٹ اور پراگندگی مانگتا ہے … جبکہ یہ لوگ جیتے
ہی راحت، عیش اور زینت کے لئے ہیں … جہاد ظاہری طور پر ایک بے نتیجہ کوشش ہوتی ہے…
جبکہ یہ لوگ عمل سے پہلے نتائج کی ضمانت چاہتے ہیں… حضرت سیّد احمد شہید رحمہ اللہ
علیہ کے قافلے پر بھی اسی طبقے کے افراد نے طرح طرح کے ستم ڈھائے؎
کئی
نادان کہتے تھے کہ یہ ناکام کوشش ہے
یہ
قبل از وقت ہنگامہ ہے، بالکل خام کوشش ہے
نظام
ملت اسلام کا شیرازہ برہم ہے
وسائل
کی کمی ہے، فوج کی تعداد بھی کم ہے
مماثل
ہی نہیں ہم دشمنوں کے جاہ و قوت میں
امامت
کی بھی اہلیت نہیں سید کی طینت میں
نہیں
ہے اسلحہ کافی، رسد ہے اور نہ دولت ہے
حکومت
کے مقابل جاہ و شوکت ہے نہ صولت ہے
امیروں
کی رفاقت ہے، نہ شاہوں کی شراکت ہے
جہاد
اس حال میں اپنی ہی جانوں کی ہلاکت ہے
یہ
باتیں کون لوگ کرتے ہیں؟
وہ
جن کو جان و مال و خانماں محبوب ہوتا ہے
یہی
اُن کا لب و لہجہ یہی اسلوب ہوتا ہے
جنہیں
راہ خدا میں جان دینا بار ہوتا ہے
زباں
سے ان کی ان باتوں کا اظہار ہوتا ہے
غلط
اندیشیاں انسان کو بزدل بناتی ہیں
عمل
سے دور تک رہنے کو تاویلیں سکھاتی ہیں
اَللّٰھُمَّ اِنَّا
نَعُوْذُبِکَ مِنَ اْلبُخْلِ وَالْجُبْنِ
تمسلمان
جب جہاد کی طرف آتا ہے … مسلمانوں میں جب کوئی جہادی قافلہ وجود پاتا ہے تو شیطانی
نظام میں ایک خوفناک بھونچال آجاتا ہے … شیطان اور شیطانی قوتوں کو اپنی تمام
محنت موت کے منہ میں جاتی نظر آتی ہے … تب وہ جہاد اور مجاہدین کے خلاف پوری قوت
سے سرگرم ہو جاتے ہیں …پہلی محنت یہ کہ جہادی قافلہ چلے ہی نہ … دوسری کوشش یہ کہ
اگر چل پڑے تو ہجرت سے پہلے ہی گر جائے … تیسری سازش یہ کہ ہجرت کر لے تو’’
دارالہجرت‘‘ میں جا کر مال، عورتوں اور عہدوں میں گم ہو جائے … چوتھی مکاری یہ کہ
ہجرت کے بعد اگر جہاد میں اترے تو منافقین کی ریشہ دوانیوں میں دفن ہو جائے …
پانچویں ضرب یہ کہ اگر منافقین سے بچ نکلے تو باہمی ٹوٹ پھوٹ سے بکھر جائے … اور
آخری وار یہ کہ اگر ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچ جائے تو فتح کے فخر میں برباد یا شکست کے
غم میں مٹ جائے ۔
سیّد
بادشاہ کا قافلہ رائے بریلی سے چلا … ہر شیطانی وار کو توڑتا … ہر شیطانی سازش کو
روندتا… بالآخر بالاکوٹ کی چوٹیوں پر … شہادت کی کامیابی سے ایسا بغل گیر ہوا کہ
… آج دو صدیاں گزر چکیں … ہر دن اس قافلے کے لیے نئی ترقی ہے … نئی کامیابی ہے …
نئی سرفرازی ہے … نئی شادابی ہے…اور نئی سرمستی ہے۔
فُسُبْحَانَ
مَنْ لَا لِیُضِلَّ اَعْمَالَھُمْ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور: 673
ایک واقعہ یاد آ گیا
* اولادکے حقوق سے غافل، موبائل کی دنیا میں مست
لوگوں کے لیے ایک عبرت
انگیز اور چشم کشا واقعہ…
* اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
وعدوں پر کامل یقین عظیم نعمت…
* امریکہ کی طالبان سے مذاکرات کی بھیک
اور پاکستان سے تعاون کی درخواستیں…
* ایک مقروض شخص کا سبق آموز واقعہ اور درود شریف کی
عظیم برکات
* تہی دامن امت کے پاس ایک ’’طاقتور نسبت‘‘
موجود ہے،یہی ’’نسبت‘‘ فرعونوں کی گردن توڑتی ہے
اور کفریہ اتحادکو خاک
چٹاتی ہے…
* دنیا وآخرت میںجو سرفرازی چاہتا ہے اسے
’’اُمت مسلمہ‘‘ کی چھتری
تلے آنا ہوگا اور
اس عظیم نسبت کو پانا ہوگا…
ایک
ایمان افروز تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۳ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ/
21 دسمبر 2018ء
ایک واقعہ یاد آ گیا
اللہ
تعالیٰ رحمٰن اور رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں … آج کی مجلس کا خلاصہ ۔
١ ایک
واقعہ یاد آ گیا
٢ کاش!
میں موبائل فون ہوتا
٣ کوئی
ایسا وظیفہ بتا دیں کہ وساوس سے مکمل جان چھوٹ جائے
کاش!
میں موبائل فون ہوتا
کہتے
ہیں کہ ایک سکول ٹیچر نے ایک روز اپنی کلاس میں اعلان کیا کہ … ہر طالبعلم اچھی
طرح غور کر کے اپنی سب سے ضروری اور اہم تمنا اور خواہش لکھ کر لائے… جس کی تمنا
اور خواہش سب سے اچھی ہو گی اسے انعام ملے گا… اگلے دن تمام بچے اپنی تمنا لکھ کر
لائے اور ماسٹر صاحب کو دے دی… چھٹی کے بعد وہ استاد صاحب گھر پہنچے اور بچوں کے
جوابات پڑھنے لگے… اچانک ایک کاغذ پڑھتے ہوئے ان کی حالت بدل گئی… وہ رونے لگے،
کانپنے لگے…اور پھر ان کے رونے کی آواز بلند ہوتی چلی گئی… ان کی بیوی نے آواز
سنی تو دوڑ کر آئی …پانی پلایا، وجہ پوچھی… انہوں نے بتایا کہ طلبہ کی تمنائیں
پڑھ رہا تھا، ایک بچے کی تمنانے دل اور آنکھوں کو رلا دیا… بیوی نے کہا: مجھے بھی
سنائیں… ماسٹر صاحب کاغذ لے کر پڑھنے لگے… بچے نے لکھا تھا… میری سب سے بڑی تمنا یہ
ہے کہ کاش! میں موبائل فون ہوتا… تاکہ میرے ابو مجھے ہر وقت اپنے کان اور دل سے
لگائے رہتے…اور میری امی گھنٹوں مجھ سے باتیں کرتی اور مجھ پر اپنی انگلیاں اور
ہاتھ پھیرتی اور مجھے سینے پر رکھ کر سوتی… مگر میں تو ان کا بیٹا ہوں، ان کا ٹچ
موبائل نہیں… اس لئے مجھے یہ ساری توجہ نہیں ملتی جو ان کے ٹچ موبائل کو ملتی ہے…
اس لئے میں اپنی تنہائی اور محرومی کے دوران یہی سوچتا رہتا ہوں کہ کاش! میں ان کا
موبائل فون ہوتا… ماسٹر صاحب یہ پڑھتے ہوئے پھر رو پڑے… بیوی نے سنبھالا اور کہا:
ماشاء اللہ! کوئی سمجھدار بچہ ہے، والدین کو واقعی اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے
اور انہیں وقت دینا چاہیے… ماسٹر صاحب پھر زور زور سے رونے لگے اور کہا : بیگم! یہ
تحریر کسی اور کی نہیں، ہمارے اپنے بیٹے کی ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ہدایت
عطاء فرمائے… ماسٹر صاحب کے رونے کی آواز بلند ہوئی… مگر اب وہ اکیلے نہیں
تھے…کمرے میں دوافراد رو رہے تھے اور دونوں کے ٹچ موبائل پرواٹس ایپ کی گھنٹیوں کا
تانتا بندھا ہوا تھا… ہم سب کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے… اس سے سبق لینا چاہیے۔
ایک
واقعہ یاد آ گیا
اللہ
تعالیٰ پر یقین… اللہ تعالیٰ کی کتاب پر یقین… اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یقین… رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ پر یقین بڑی دولت ہے… بہت ہی
عظیم نعمت ہے…افغانستان پر امریکہ نے جب حملہ کیاتھا تو چند دن کے مظاہروں کے بعد
اندھیرا ہی اندھیرا اور خاموشی ہی خاموشی چھا گئی تھی… اچھے خاصے افراد نے امارت
اسلامی افغانستان سے منہ موڑ لیا… لبرلز تو اس وقت سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے… وہ
کہہ رہے تھے کہ بس اب ایک آدھ مہینے کی بات ہے، طالبان کا خاتمہ ہو جائے گا…
طالبان کا صفایا ہو جائے گا…ایک بد کلام کالم نویس نے تو نعوذ باللہ قرآنی آیات
تک کا مذاق اُڑایا کہ اب{لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ
الْاَعْلَوْنَ}کا سبق پڑھانے والے کہاں گئے؟ …دیکھ لینا چند دن بعد دنیا میں
طالبان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہو گا… تب الحمد للہ اللہ تعالیٰ پر اور اللہ
تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے… اکتالیس ملکوں کی خوفناک جنگی یلغار اور ٹیکنالوجی
کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ آواز لگائی تھی کہ امریکہ کو ان شاء اللہ شکست ہو گی…
نیٹو اتحاد ذلیل ہو گا… اور مجاہدین سرخرو ہوں گے… تب بچے کھچے اہل دل نے بہت مسرت
کا اظہار فرمایا… میرے اس عاجزانہ کالم کو منبر و محراب سے سنایا… مگر کئی اپنے
افراد نے شک کا اظہار بھی کیا… ایک صاحب نے فرمایا: مولانا نے بہت اچھا لکھا ہے،
مزید بھی لکھیں، چلو مسلمانوں کو کچھ تو حوصلہ ملے گا باقی ہمیں تو معلوم ہے کہ اب
کچھ بچنے والا نہیں ہے… لیکن الحمد للہ ہمیں اس وقت بھی یقین تھا کہ سب کچھ بچ
جائے گا… بلکہ ان شاء للہ بڑھ جائے گا… اور مزید بھی بہت کچھ بن جائے گا… اس ’’بچ
جائے گا‘‘ …’’ بڑھ جائے گا‘‘… اور’’ بن جائے گا‘‘کی تشریح لکھوں تو صبح سے شام تک
کا وقت بھی کافی نہ ہو… بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے سچے فرمائے۔
قرآن
مجید ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا اور ہمیشہ رہنمائی فرماتا رہے گا… یہ اس رب کا
کلام ہے جو ’’حَیٌّ قَیُّوْمٌ‘‘ ہے زندہ اور تھامنے والا… چنانچہ یہ کلام بھی ہر
لمحہ زندگی بانٹتا ہے… ہر دن نئی رہنمائی فرماتا ہے… رات جب رنگ و نور لکھنے کے
لئے خبریں کھولیں تو پہلی اور بڑی سرخی یہ تھی کہ… ’’پاکستان کے تعاون سے … طالبان
نے امریکہ کے ساتھ ابو ظہبی میں مذاکرات کی حامی بھر لی ہے‘‘… سُبْحَانَ اللہِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ
… امریکہ چالیس ملکوں کے عسکری تعاون سے طالبان کو ختم نہیں کر سکا… البتہ اب وہ
طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے اور اس کے لئے بھی اسے پاکستان کا تعاون
درکار ہے… بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے… مذاکرات کی یہ خبر پڑھتے ہی میرے
ذہن میں اس آدمی کا واقعہ تازہ ہو گیا جو بڑے قرضے کے بوجھ تلے دب گیا تھا… وہ
قرضے لینے کا عادی نہیں تھا مگر تجارت میں مسلسل خسارے نے اسے چار ہزار دینار کا
مقروض کر دیا تھا… دینار سونے کا ہوتا ہے اور چار ہزار دینار اس زمانے کی بہت بڑی
رقم تھی… قرض خواہ نے اس پر مقدمہ کیا تو قاضی نے اسے عدالت میں طلب کر لیا…
پوچھنے پر اس نے قرضے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ میں اس وقت کوڑی کوڑی کا محتاج
ہوں… قرضہ میں نے ضرور ادا کرنا ہے مگر اس وقت کسی بھی طرح ادا کرنے کی حالت میں
نہیں ہوں…قاضی نے کہا: پھر تو آپ کو قانون کے مطابق گرفتار کیا جاتا ہے… اس نے
کہا: میں گھر میں بتا کر نہیں آیا، میرے بیوی بچے سب انتظار میں ہوں گے…مجھے صرف
ایک دن کی مہلت دے دیں… میں کچھ ادھار لے کر گھر میں کھانے پینے کا کچھ سامان دے
آؤں اور بیوی بچوں کو الوداع کہہ آؤں… قاضی نے کہا: آپ کوئی ضامن دیں تو ہم
آپ کو ایک دن کی مہلت دے سکتے ہیں… اس نے کہا: قاضی صاحب! میرے ضامن میرے آقا
اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم ہیں…قاضی غصے ہو گیا، کہنے لگا: تم کیسی
بے ادبی کر رہے ہو… ضامن کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اگر تم نہ آئے تو ہم اسے
گرفتار کر لیں گے… پھر نعوذ باللہ تم اتنا بڑا نام لے رہے ہو، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب تمہیں ملحوظ نہیں؟ … اس نے کہا: قاضی
صاحب!میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضامن بنانے کا مطلب آپ نہیں سمجھے… دراصل
ضمانت کے طور پر سب سے قیمتی چیز رکھوائی جاتی ہے… اور میرے پاس سب سے قیمتی چیز یہ
ہے کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہوں… میں اپنی یہ قیمتی چیز اپنے ساتھ
آخرت میں لے جانا چاہتا ہوں… اور میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب امتیوں کو وعدے اور عہد کی پابندی کا
حکم فرمایا ہے… چنانچہ اگر میں کل واپس گرفتاری دینے نہ آیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہو جاؤں گا… چنانچہ میں نے یہ قیمتی
چیز بطور ضمانت کے رکھوائی ہے کہ… اگر میں کل حسب وعدہ نہ آیا تو قیامت کے دن
مجھے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں شمار نہ کیا جائے… یہ سن کر قاضی
اور قرض خواہ دونوں کی گردن جھک گئی… آنکھیں بھیگ گئیں اور انہوں نے اسے گھر جانے
دیا… وہ صاحب گھر پہنچے… اپنی بیوی کو سارا قصہ سنایا… اور کہا کہ میں کچھ قرضہ
اٹھاتا ہوں، اس سے تم بچوں کی دیکھ بھال کرنا… اور میرے پیچھے اپنا اور ان کا خیال
رکھنا… بیوی ایماندار تھی، وفادار تھی… کہنے لگی: آج کھانے کا کچھ موجود ہے … میں
بچوں کو کھلا کر سلا دیتی ہوں… آپ مزید قرضہ نہ لیں… آپ نے جو چیز ضمانت رکھوائی
ہے آج میں اور آپ اس کو مزید پکا کریںگے…اور ساری رات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف پڑھیں گے… بچے سو گئے… میاں بیوی
باوضو بیٹھ کر درودپاک پڑھنے لگے… کافی رات گذر گئی بیوی تو پڑھتی رہی، خاوند کو نیند
آگئی… اور خواب میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو گئی… فرمایا: صبح فلاں شخص کے پاس
چلے جانا اسے میرا سلام دینا… اور ایک علامت ارشاد فرمائی کہ یہ اس کو بتانا… وہ
تمہارا قرضہ اتار دے گا… صبح وہ شخص اس آدمی کے پاس پہنچےاورپورا خواب سنایا… وہ
کچھ متردد ہوئے تو ان کو علامت بتائی… وہ رونے لگے اور فوراً آٹھ ہزار دینار لے
آئے… فرمایا: چار ہزار قرضہ اتار دینا اور چار ہزار ہدیہ ہے اس خوشی میں کہ آپ کے
ذریعے مجھے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام وپیام آیا ہے…وہ صاحب دو تھیلیاں
اٹھائے عدالت کی طرف لپکے… وہاں قاضی صاحب باہر بے چینی سے کھڑے تھے… ان کو دیکھ
کر آگے بڑھے… بہت محبت سے ملے اور ایک تھیلی دی کہ اس میں چار ہزار دینار ہیں… یہ
میری طرف سے ہدیہ ہیں… ابھی قرض خواہ آئے گااس کو ادا کر دینا… میں تو صبح سے
تمہارے انتظار میں کھڑا تھا… مجھے رات زیارت ہوئی اور تمہارا قرضہ اتارنے کا حکم
ملا… یہ کہہ کر دونوں عدالت میںجا بیٹھے وقت ہوا تو قرض خواہ بھی آگیا… قاضی نے
بتایا کہ یہ شخص پیسے لے آیا ہے آپ وصول کر کے دستخط کر دیں… اس نے کہا: قاضی
صاحب میں نے قرضہ معاف کر دیا ہے… اور مزید ان کے لئے چار ہزار دینار ہدیہ بھی لایا
ہوں… رات مجھے بھی زیارت ہوئی اور قرض معاف کرنے کا حکم ملا… پھر وہ سب آپس میں
خوب گلے ملے… اور ان صاحب کو دروازے تک چھوڑنے آئے… وہ جو گھر سے خالی ہاتھ نکلے
تھے…اب اتنی بڑی رقم لے کر گھر واپس آئے … یہ ہے نسبت کی طاقت اور یہ ہے یقین کی
قوت… اللہ تعالیٰ ہمیں یقین کی طاقت اور حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم نسبت مکمل یقین کے ساتھ عطاء فرمائے۔
اے
دین اسلام کے دشمنو! … مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہ ہو، مگر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت موجود ہے…اور یہی نسبت دنیا اور آخرت میں
کامیابی کی ضمانت ہے…تم اس عظیم نسبت سے محروم ہو…اس لئے اتنی طاقت ، اتنی ٹیکنالوجی
ا ور اتنی فوجوں کے باوجود شکست کھا رہے ہو…اگر تم آخرت کے دردناک عذاب سے بچنا
چاہتے ہو… اور دنیا اور آخرت میں سرفراز ہونا چاہتے ہو تو… خاکے بنانے والے
منحوسوں کو پھانسی پر لٹکاؤ… اور کلمہ طیبہ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
پڑھ کر حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی نسبت حاصل کر لو… تب تمہیں ہر کامیابی
کی ضمانت مل جائے گی… تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے… اور تم بھی عظیم
’’اُمت مسلمہ‘‘ یعنی امت محمدیہ میں شامل ہو جاؤ گے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور : 674
محبت و رحمت کا نظام
درودشریف
کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے…جی ہاں!محبت ورحمت کا نظام… اس نظام کی تفصیل
وترتیب سمجھاتی،پریشانیوں اور تکلیفوں سے لاچار مسلمانوں کے لیے ایک روشن تحریر…
مزید
فوائد:
١
لاعلاج امراض میں مبتلا ء افراد کے لیے لاجواب نسخہ…
٢ ایک حدیث
مبارکہ اور اس میں موجود عوام وخواص کے لیے اسباق
٣ سب
سےافضل درود شریف…
تاریخ
اشاعت:
۲۰
ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ/
28 دسمبر 2018ء
محبت و رحمت کا نظام
اللہ
تعالیٰ ہمیں ’’درودشریف‘‘ جیسی عظیم الشان نعمت کی قدر نصیب فرمائے… حضرت شیخ
شعراوی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ…’’
اگر کوئی مسلمان درود شریف کی قدر جان لے تو پھر وہ روزانہ ایک لاکھ بار درودشریف
پڑھنے کو بھی زیادہ نہیں سمجھے گا‘‘… ہاں بے شک! ’’درودشریف ‘‘ میں محبت ہے… اور
محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی… اور محبت کی پیاس کبھی نہیں بجھتی… درودشریف کے اندر
’’محبت ‘‘ اور رحمت کا ایک عجیب نظام قائم ہے… ایک عالم سنا رہے تھے کہ ایک بارایک
نوجوان نے انہیں فون کیا … وہ خود کشی کی اجازت مانگ رہا تھا … کہہ رہا تھا کہ میں
بہت پریشانی اور تکلیف میں ہوں… مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے سر پر پہاڑ رکھ دیا
گیا ہے… اب میرے لئے ایک لمحہ زندہ رہنا مشکل ہے… میری پریشانیوں اور تکلیفوں کا
کوئی حل نہیں ہے…بس میں مرنا چاہتا ہوں… عالم نے فرمایا: تم میری ایک بات مان لو…
ابھی مغرب کا وقت قریب ہے… تم وضو کر کے مسجد میں جاؤ…نماز ادا کر کے ایک طرف بیٹھ
کر درودشریف پڑھتے جاؤ…عشاء تک یہی عمل کرو… پھر مجھ سے رابطہ کرنا… عشاء کی اذان
کے قریب اس نوجوان کا دوبارہ فون آیا… وہ خوشی سے چیخ رہا تھا… حضرت !میرے سر سے
پہاڑ اُتر گیا… میرے غم دور ہو گئے… میری حالت بدل گئی … سبحان اللہ! صرف ایک
گھنٹے کے ’’درودشریف‘‘ نے ایسا ’’نظام محبت و رحمت ‘‘ جاری فرمایا کہ اس نوجوان کی
دنیاہی بدل گئی … شک کی کیا گنجائش ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے… ’’اِذًا تُکْفٰی ھَمُّکَ وَ یُغْفَرُلَکَ
ذَنْبُکَ‘‘ … تم درودشریف کی کثرت اپناؤ گے تو تمہاری ساری فکروں کا حل نکل آئے
گا… تمہارے غم ، تمہارے مسائل اور تمہاری مصیبتیں سب دور ہو جائیں گی …اور تمہارے
گناہ معاف فرما دئیے جائیں گے ۔
نظامِ
محبت
عرض
کیا کہ… درود شریف کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے… ہم اسے ’’نظام محبت ‘‘ اور
’’نظام رحمت ‘‘ کہہ سکتے ہیں… درودشریف پڑھتے ہی یہ پورا نظام حرکت میں آ جاتا
ہے… مختصر طور پر اس نظام کو سمجھ لیں… درودشریف پڑھنے والے نے اللہ تعالیٰ سے
محبت کا ثبوت دیا… کیونکہ درودشریف پڑھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے… یہ ہوئی
پہلی محبت… اور يہ محبت ایمان کی لازمی بنیاد ہے درود شریف پڑھنے والے نے حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک حق ادا کیا… یہ محبت ایمان کے
لئے لازمی ہے…جب تک حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمیں مخلوق میں سے
ہر چیز سے بڑھ کر حاصل نہیں ہو گی اس وقت تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا…
اعتبار والا ایمان وہی ہے جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت سب سے بڑھ کر ہو… اپنے والدین، اپنی
اولاد، اپنے مال اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر… انسان کو جب کسی چیز کی سچی محبت ہوتی
ہے تو وہ اس کا تذکرہ زیادہ کرتا ہے… آپ بازار چلے جائیں… ہر طرف مال، مال اور
مال کی آوازیں سنیں گے… ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل نہیں ہوئی … مگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تو پا سکتے ہیں… یہ محبت ہمیں جس قدر زیادہ
نصیب ہو گی اسی قدر ہمارے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت، شفاعت، صحبت
اور تذکرے کا شوق بڑھے گا… درودشریف میں ایک بندہ اپنی اسی محبت کا اظہار کرتا ہے…
تو یہ ہوئی دوسری محبت… ہم نے محبت سے درود شریف پڑھا تو درودشریف کی خدمت پر
مامور ملائکہ نے اسے محبت سے اُٹھایا اور سنبھالا… ان عظیم ملائکہ یعنی فرشتوں کے
عجیب حالات حدیث شریف کی کتابوں میں آئے ہیں… یہ معزز فرشتے درود شریف کو اُٹھانے
، سنبھالنے اور پہنچانے کی خدمت بہت تیزی اور محبت سے سر انجام دیتے ہیں… فرشتوں
کو درودشریف سے محبت ہے… اس کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے… یہ ہوئی تیسری محبت…
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع طاقت اور سماعت رکھنے والا فرشتہ ( دو فرشتے یا ایک
فرشتہ)مقرر فرما رکھا ہے… جو درودشریف پڑھنے والے کو بڑی محبت بھری دعاء دیتا ہے
اور کہتا ہے ’’غَفَرَاللہُ لَکَ‘‘… اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے… فرشتے کی اس
دعاء پر دیگر فرشتے آمین کہتے ہیں … اور اللہ تعالیٰ اس دعاء کو قبول فرماتے ہیں…
یہ ہوئی چوتھی محبت… فرشتوں نے یہ درودشریف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تک… درود شریف پڑھنے والے کی ولدیت کے ساتھ
پہنچا دیا کہ… یا رسول اللہ! فلاں بن فلاں نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے…آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اس صلوٰۃ و سلام کا محبت کے ساتھ جواب ارشاد فرماتے ہیں …
سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کا جواب … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے لئے دعاء رحمت اور ہمارے لئے سلام … یہ
ہوئی پانچویں محبت… اب ان پانچ محبتوں کے بعد محبت کے مئے خانہ کا اصل دور شروع
ہوتا ہے … وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ توجۂ خاص فرماتے ہیں … اور پھر اس بندے پر محبت
اور رحمت کی بارش فرما دیتے ہیں… دس خاص رحمتوں کا نزول… دس درجات کی بلندی … دس
گناہوں کی معافی…اور معلوم نہیں کیا کیا انعامات…دیکھا آپ نے کہ جیسے ہی ہم نے
کہا: اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ… تو زمین سے لے کر
عرش تک کیسا زبردست ’’نظام محبت و رحمت‘‘ متحرک ہو گیا… اب جس بندے کو یہ نعمت نصیب
ہو اس کا کون سا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو گا اور کون سی پریشانی ہے جو دور نہیں ہو
گی۔
ایک
صاحب کا قصہ
ایک
صاحب سخت بیمار تھے، دماغ میں کینسر کا مرض تھا… ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اب
بچنا نا ممکن ہے… انہوں نے علاج چھوڑا اور تنہائی اختیار کی… اور اس تنہائی میں
محبت اور رحمت کا چراغ ’’درودشریف‘‘ روشن کر دیا… وہ پڑھتے تھے:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا مُحَمَّدٍ طِبِّ الْقُلُوْبِ وَدَوَائِھَا وَعَافِیَۃِ
الْاَبْدَانِ وَشِفَاءِ ھَا وَنُوْرِالْاَبْصَارِوَضِیَاءِ ھَا۔
اچانک
انہیں اپنے سر پر کسی ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اور وہ اس پر سکون ٹھنڈک میں ڈوب
گئے … آواز آئی کہ یہ بھی کہو :
وَرُوْحِ
الْاَرْوَاحِ وَسِرِّبَقَائِھَا۔
اب
انہوں نے پڑھنا شروع کیا:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا مُحَمَّدٍ طِبِّ الْقُلُوْبِ وَدَوَائِھَا وَعَافِیَۃِ
الْاَبْدَانِ وَشِفَاءِ ھَا وَنُوْرِالْاَبْصَارِوَضِیَاءِ ھَا وَرُوْحِ
الْاَرْوَاحِ وَسِرِّبَقَائِھَا۔
چند
دن ہی ہوئے تھے کہ انہیں افاقہ محسوس ہوا اور پھر وہ مکمل تندرست ہو گئے… ڈاکٹروں
کو دکھایا تو وہ حیران رہ گئے… پوچھا کون سا علاج کیا؟ …انہوں نے بتایا کہ درود شریف
کثرت سے پڑھا… یعنی ’’نظام محبت‘‘ اور ’’نظام رحمت‘‘ میں غوطے لگائے… تب ایک غیر
مسلم ڈاکٹر یہ کرامت دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔
غور
فرمائیں
درود
شریف کے فضائل میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں ہے… درودشریف کی پہنچ بہت دور تک ہے…ہر
دعاء قبول ہونے کے لئے درود شریف کی محتاج ہے…جبکہ درودشریف خود ہی مقبول ہے اور
خود ہی قبول ہے۔
١ درودشریف
میں پورا کلمہ طیبہ موجود ہے… اللہ تعالیٰ کی واحدانیت، اولوہیت اور حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی رسالت… لا الہ الا اللہ
محمد رسول اللہ
٢ درودشریف
میں کامل محبت موجود ہے… کیونکہ اصل محبت صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے… باقی وہی محبت اچھی ہے جو اللہ اور
رسول کے لئے ہو… درودشریف میں محبت کا پورا نصاب ہے… کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ سے
دعاء ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے لئے دعاء ہے … اور دعاء بھی وہ جواللہ
تعالیٰ کو محبوب ہے ۔
٣ درودشریف
میں مکمل دعاء ہے… کیونکہ دعاء کامقصد یہ ہوتا ہے کہ… اصل حاجت روا صرف اور صرف
اللہ تعالیٰ ہے اور ہم اپنی حاجت اس کے سامنے پیش کرتے ہیں… مگر درودشریف میں ہم ایسا
عمل کرتے ہیں کہ وہی اصل حاجت روا ہم پر اپنی رحمتیں اور الطافات نازل فرمانے پر
آجاتا ہے… پھر حاجتیں تو خود بخود پوری ہو جاتی ہیں ۔
٤ درودشریف
میں مکمل توحید ہے… کیونکہ اگر مخلوق میں سے کسی کی بندگی جائز ہوتی یا مخلوق میں
سے کوئی عبادت کے لائق ہوتا تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے…مگر ہم درودشریف میں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ
سے خاص رحمت مانگتے ہیں… جب حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے
مانگا جا رہا ہےتو پھر اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کے لائق کون ہو سکتا ہے؟۔
٥ درودشریف
میں پورا استغفار ہے… اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرماتے ہیں اور
مٹاتے ہیں … اور اس کی برکت سے بندوں کو توبہ کی توفیق ملتی ہے…اسی لئے تو حضرت سیدنا
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جیسے باذوق اور
باعلم صحابی نے اجازت چاہی کہ… میں اپنی دعاء کا سارا وقت درود شریف پر لگانا
چاہتا ہوں تو… ان کو بشارت ملی کہ… اِذًا تُکْفٰی ھَمُّکَ وَ یُغْفَرُلَکَ
ذَنْبُکَ… تب تو تمہاری ساری فکریں ختم ہو جائیں گی اور تمہارے گناہ بخش دئیے جائیںگے
…یہ مرتبہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے…اس مرتبے کو پانے کے لئے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت بہت اونچے معیار کی درکار ہوتی ہے …
تب انسان اپنی ساری حاجتوں کو بھول کر درود شریف کو وظیفہ بناتا ہے … آپ غور کریں
کہ جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے
اپنے اس ارادے اور عزم کا اظہار کیا کہ… وہ اپنے وظیفے اور دعاء کا سارا وقت
درودشریف پر لگائیں گے تو اس وقت انہیں یہ فضیلت اور بشارت نہیں ملی تھی کہ… اس
عمل کا انہیں دنیا میں کیا فائدہ ہو گا… وہ تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اور درود شریف کے بلند مقام کی قدر
کرتے ہوئے اس عمل کو اپنا رہے تھے… اور اس کی خاطر اپنی حاجتوں ، دعاؤں اور
ضرورتوں سےدستبردار ہو رہے تھے… تب انہیں بشارت ملی کہ آپ کے اس مثالی ذوق کی
بدولت آپ کو دنیا میں بھی کوئی محرومی نہیں ہو گی…بلکہ آپ کی تمام فکریں، حاجتیں
اور ضرورتیں پوری فرما دی جائیں گی… ہاں !بے شک ہر انسان پر مختلف تفکرات اور
ضرورتوں کا حملہ ہوتا ہے… اور انسان اُن کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا
ہے… مگر ایک بندہ اپنی ان ضروریات کو ایک طرف رکھ کر اسی وقت کو صلوٰۃ و سلام میں
لگاتا ہے تو پھر…’’ نظام رحمت‘‘ اس کو ہر طرح سے مالا مال کر دیتا ہے… عام
مسلمانوں کے لئے تو اس حدیث شریف میں یہ سبق ہے کہ درودشریف کی کثرت کریں… اپنے
نامہ اعمال میں زیادہ سے زیادہ درودشریف جمع کریں… تاکہ آخرت کی منزلیں آسان
ہوں… آخرت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو، گناہ معاف ہوں، حساب آسان ہو…
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نصیب ہوں اور درجات حاصل ہوں … جبکہ خواص یعنی محبت کے اعلیٰ
مقام والوں کے لئے یہ راستہ بھی ہے کہ … وہ درودشریف کو ہی اپنی دعاء اور وظیفہ
بنا لیں… مگرقرآن مجید کی تلاوت ،ضروری مسنون اذکار اور دینی ذمہ داریوں سے
بھی غافل نہ ہوں۔
ایک
ضروری بات
سب
سے افضل درود… ’’درود ابراہیمی‘‘ ہے… بندہ کا ناقص خیال یہ ہے کہ… جب تک ’’درود
ابراہیمی‘‘ اچھی طرح شرح صدر کے ساتھ نصیب نہ ہو… اس وقت تک درود شریف کا حقیقی
ذوق پیدا نہیں ہوتا… اس لیے جو حضرات و خواتین… مختصر صیغے والے درود شریف
پڑھتے ہیں… مثلاً ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘… ’’صَلَّی اللہُ عَلَی
النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ وغیرہ… وہ اسے جاری رکھیں… مگر ساتھ کچھ مقدار ’’درود
ابراہیمی‘‘ کی بھی مقرر کر لیں۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور ۔: 675
باتیں اوریادیں
* اسیران اسلام کا تذکرہ اور ان کے لیے دعاء…
* 31 دسمبر 1999کی یادیں…
* ’’وسوسہ‘‘کی تعریف…
* ’’وسوسہ‘‘کی بنیادی اور ضروری معلومات…
* ’’وسوسہ‘‘کے متعلق چند انمول احادیث مبارکہ…
* ’’وسوسہ‘‘کی چند خطرناک قسمیں اور ان سے بچنے
کے تیر بہدف نسخے…
* ’’ درود شریف‘‘ کے افضل صیغے…
یہ
سب کچھ جاننے کے لیے ورق الٹیے
اور پڑھیے یہ مؤقر تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۷ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ/
4 جنوری 2019
باتیں اوریادیں
اللہ
تعالیٰ تمام ’’ اسیرانِ فی سبیل اللہ ‘‘ کو باعزت ،با عافیت رہائی عطاء فرمائے…رات
کو کئی ایسے حضرات بے ساختہ یاد آ گئے جو بہت طویل عرصہ سے قید ہیں… بعض کو تو پچیس
سال سے بھی زائد کا عرصہ بیت گیاہے… ایک صدی کا چوتھائی حصہ جیل میں… یا اللہ! رحم
فرما… آج کی مجلس میں کچھ ملی جلی باتیں ہوں گی… آج صبح سے اتفاقاً یاد آ گیا
کہ آج 31 دسمبر کا دن ہے… پھر 31 دسمبر 1999ء کی یاد اور یادگاروں میں کھو گیا …
انیسویں صدی کا آخری دن… اس دن جمعہ مبارک تھا… رمضان المبارک کا مہینہ تھا… اور
ہجری اسلامی سال ۱۴۲۰ھ
چل رہا تھا… روزہ جموں میں رکھاتھا اور’’ افطار ‘‘ قندھار میں ہوا … اللہ تعالیٰ
جب چاہتا ہے فاصلے سمیٹ دیتا ہے… ’’وساوس‘‘ کا موضوع بھی کئی ہفتے سے لٹکا ہوا ہے
… آج اس پر بھی ان شاء اللہ کچھ بات ہو گی… روح المعانی میں حضرت شیخ علامہ آلوسی
رحمہ اللہ علیہ نے اس پر بحث فرمائی ہے کہ
درودشریف کا سب سے افضل صیغہ کون سا ہے؟… یہ بحث پڑھی تو جستجو بڑھ گئی… اس موضوع
پر دیگر اہل علم کی کئی تحریریں بھی پڑھ ڈالیں… تشفی تو ہو گئی ہے مگر پیاس نہیں
بجھی… ’’صلوٰۃ علی النبی‘‘ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں پیاس
نہیں بجھتی… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر جتنے احسان ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے تو…
اگر ہم ہر سانس کے ساتھ بھی درودشریف پڑھیں تو حق ادا نہیں ہو سکتا… درود شریف کا
افضل صیغہ کون سا ہے؟… فی الحال اس بحث میں پڑے بغیر میں آج کے کالم میں وہ ’’صیغے
‘‘ مختلف مقامات پر لکھتا جاؤں گاجن کے افضل ہونے پر کسی اہل علم کا قول موجود ہے
… آئیے! پہلے صیغے کا جام اُٹھائیے۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ
وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی
مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی
اٰلِ اِبْرَ اھِیْمَ اِ نَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
وسوسہ…بنیادی
معلومات
’’وسوسے‘‘ کا معاملہ اہم ہے… اس معاملے کو درست طریقے سے سمجھنا ہو
تو دو کام کریں…پہلا یہ کہ قرآن مجید میں جہاں بھی وسوسے کے موضوع کا بیان ہے اسے
اچھی طرح پڑھ لیں… دوسرا یہ کہ احادیث مبارکہ میں وسوسے کے بارے میں جو ارشادات
آئے ہیں ان کو اچھی طرح سمجھ لیں …بس پھر یہ معاملہ دل میں بیٹھ جائے گا، ان شاء
اللہ…قرآن مجید نے اپنی آخری سورۃ میں اس معاملے کو ذکر فرمایا ہے… اس میں بتایا
گیا کہ :
١
’’وسوسہ‘‘ اُن چیزوں میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے… یعنی
وسوسہ ایک بری اور خطرناک چیز ہے جو کسی مسلمان کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
٢
خطرناک وسوسہ ڈالنے والے کو’’ خناس‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ وہ چھپ کر وار کرتا ہے…
وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے… یا اپنے وسوسے کو خیر خواہی کے پردے میں چھپا کر ڈالتا
ہے۔
٣
وسوسہ ڈالنے والا خناس… جنات یعنی شیاطین میں سے بھی ہوتا ہے اور انسانوں میں سے
بھی… اَللّٰھُمَّ یَا رَبَّ النَّاسِ، یَا مَلِکَ النَّاسِ، یَا اِلٰہَ النَّاسِ
اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ
صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ۔
’’وسوسہ ‘‘کہتے ہیں:
تَرَدُّدُ الشَّیْءِ فِی
النَّفْسِ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّطْمَئِنَّ اِلَیْہِ وَیَسْتَقِرَّ عِنْدَہٗ ۔
’’انسان کے جی میں کسی بات کا آنا جانا، وہ بات دل میں پکی نہ بیٹھی
ہو اور اس پر دل کو یقین اور اطمینان بھی نہ ہو۔‘‘
وسوسہ
سے شریعت کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا… کفر کے وسوسے سے کوئی کافر نہیں ہوتا… ناپاکی
کے وسوسے سے غسل واجب نہیں ہوتا… بدکاری کے وسوسے سے کوئی سزا لاگو نہیں ہوتی اور
نہ پاکدامنی پر کوئی فرق پڑتا ہے… خطرناک سے خطرناک وسوسے پر بھی کوئی گناہ نہیں
ہوتا۔
وسوسہ
ایمان والوں کو… دین والوں کو … اور اللہ والوں کو زیادہ آتا ہے… بہت خطرناک آتا
ہے… اور اس وسوسے کی وجہ سے ان کو جو تکلیف ہوتی ہے اس پر ان کے درجات بلند ہوتے ہیں…
یہ ہیں چند ضروری معلومات … انہیں یاد رکھیں… اور وسوسے کے شر سے اللہ تعالیٰ کی
پناہ مانگ کر درودشریف پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیَّتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی
آلِ اِبْرَاہِیْمَ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیَّتِہٖ
کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمْیْدٌ مَجِیْدٌ۔
تاریخی
دن
اللہ
تعالیٰ نے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی اُمت کو ہر نعمت دوسری امتوں سے
افضل عطاء فرمائی ہے… سب سے افضل نبی، سب سے افضل کتاب ، سب سے افضل شریعت ، سب سے
افضل زمانہ، اور سب سے افضل اعمال … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت سے بے انتہا محبت ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے لئے وہ سب کچھ کیا جو کوئی اور
کسی کے لئے نہیں کر سکتا… حتیٰ کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے امت کی خوشی کو اپنی
خوشی اور امت کے غم کو اپنا غم بنایا… یہاںتک کہ قیامت کے سخت دن بھی آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ’’اُمَّتِيْ اُمَّتِيْ‘‘ فرما
رہے ہوں گے… اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی
اللہ علیہ وسلم ’’اُمَّتِيْ اُمَّتِيْ‘‘
کہتے نہیں تھکتے تو ہم ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ‘‘ کہتے
ہوئے کیوں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں… دراصل ہم نے ’’صلوٰۃ وسلام ‘‘ کے مقام کو سمجھا ہی
نہیں… حتٰی کہ ہم میں سے کئی لوگ تو اسے عبادت بھی نہیں سمجھتے … بس ثواب کے لئے ایک
نفل عمل سمجھ لیتے ہیں …حالانکہ یہ افضل ترین عبادات اور اعلیٰ ترین طاعات میں سے
ہے… اور یہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کا بہترین ذریعہ ہے… علامہ آلوسی ة رحمہ
اللہ علیہ نے اس بات پر اجماع لکھا ہے کہ صلوٰۃ وسلام علی النبی یعنی حضور اقدس پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا ہر
مسلمان پر فرض عین ہے… اور قرآن مجید میں جو حکم فرمایا گیا ہے کہ ان پر درود اور
سلام بھیجو… یہ وجوبی حکم ہے… اور ہر مسلمان کے لئے زندگی میں کم از کم ایک بار اس
حکم پر عمل کرنا فرض ہے۔
بات
یہ چل رہی تھی کہ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ہر چیز دوسروں سے افضل اور بہتر عطاء
فرمائی ہے … چنانچہ اس امت کو اپنے مہینے، اپناسال اور اپنی تاریخ بھی عطاء فرمائی
گئی… ہم اسے قمری ، ہجری ،اسلامی تاریخ کہتے ہیں… اللہ کرے تمام اسلامی ممالک اپنی
اس تاریخ کو اپنا لیں… یقیناً اس تاریخ میں بہت خیر اور برکت ہے… اس وقت چونکہ دنیا
پر صلیبیوں کا غلبہ ہے اس لئے انہوں نے اپنی تقویم اور تاریخ ہر جگہ چلا رکھی
ہے…31 دسمبر 1999ء کا دن ان کے نزدیک بہت تاریخی تھا… کیونکہ اس پر ان کی تاریخ
کے دو ہزار سال مکمل ہو رہے تھے… اور وہ اس موقع پر ’’ملینیم ‘‘ کا جشن زور شور سے
منا رہے تھے…ہندوستان میں بھی چونکہ انگریزوں کا راج آج تک جاری ہے … اس لئے وہاں
بھی ’’ملینیم‘‘کا شور تھا… مگر ہندوستان کی گردن بہت بری طرح سے قندھار میں پھنسی
ہوئی تھی… ہندوستان 1971ء کے بعد سے ہر دسمبر میں اپنی فتح کا جشن مناتا رہا ہے …
جب اس کی افواج کے سامنے پاکستانی فوج کی مشرقی کمان نے ہتھیار ڈالے تھے… یہ تاریخ
اور یہ واقعہ ہندوستان میں بہت فخر، مبالغے اور شیخی کے ساتھ یاد کیا جاتا تھا…
مگر 1999ء کے دسمبر نے اس غبارے سے ہوا نکال دی… 1971 ء میں تو انڈیا کی لاکھوں
فوج کے سامنے اپنے ملک سے کٹے ہوئے پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے… مگر
1999ء کے دسمبر میں انڈیا کی سترہ لاکھ سے زائد فوج اور ایک ارب عوام نے… چند
مجاہدین کے سامنے انتہائی ذلت ناک حالت میں ہتھیار ڈال دئیے… اور یوں حساب برابر ہی
نہیں ہوا بلکہ اُلٹا اینٹ کو پتھر ملا … یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل تھا… یہ اس امت
مسلمہ کی شان اور فتح تھی… اس دن کے بعد سے انڈیا اب دسمبر کا فاتحانہ جشن تقریباً
بھول چکا ہے… اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو مزید ترقی اور فتوحات عطاء فرمائیں… آئیے!
شکر ادا کرتے ہیں… درودشریف کے دو صیغے جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں:
١ اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَکَ الذَّاکِرُوْنَ وَ
کُلَّمَا سَھَا عَنْہُ الْغَافِلُوْنَ ۔
( یہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ والے صیغے سے مختلف ہے )
٢
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا ھُوَ اَھْلُہٗ وَ مُسْتَحَقُّہٗ۔ ( روح
المعانی )
صَرِیْحُ
الْاِیْمَانِ
احادیث
مبارکہ میں آیا ہے کہ کئی صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’وسوسے ‘‘ کی شکایت عرض کی… وہ اپنے
’’وساوس‘‘ پر سخت غمزدہ تھے … اور عرض کر رہے تھے کہ یا رسول اللہ ! ایسے وسوسے
آتے ہیں کہ اُن کو بیان کرنے سے بہتر یہ لگتا ہے کہ ہم آگ میں جل کر کوئلہ ہو
جائیں…ایسے وسوسے آتے ہیں کہ اُن کے مقابلے میں آسمان سے گر کر مر جانا ہمارے
لئے بہتر ہے، وغیرہ وغیرہ… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے یہ سن کر خوشی کا اظہار فرمایا…
اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا اور بشارت دی کہ:ـ
ذَاکَ
صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ۔
’’یہ تو خالص ایمان ہے ۔ ‘‘
[صحیح مسلم۔حديث رقم:۲۰۹ ، طبع: دار
الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اور
ساتھ یہ بشارت بھی عطاء فرمائی کہ:
اِنَّ
اللہَ تَجَاوَزَ لِاُمَّتِیْ عَمَّا وَسْوَسَتْ بِہٖ اَنْفُسُھَا مَالَمْ تَعْمَلْ
اَوْتَتَکَلَّمْ۔
’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے نفس کے وسوسے معاف فرما دئیے ہیں،
جب تک کہ کوئی اُن کو عمل میں نہ لائے اور زبان سے نہ بولے۔ ‘‘
[صحیح بخاری۔حديث رقم:۶۶۶۴ ، طبع: دار
الکتب العلمیہ۔ بیروت]
ایک
صحابی نے عرض کیا کہ شیطان میری نماز میں وسوسے اور خلل ڈالتا ہے… ارشاد فرمایا:
’’ اس کا نام ’’ خنزب ‘‘ ہے۔ جب تمہیں وہ محسوس ہو تو اللہ تعالیٰ
سے پناہ مانگو اور بائیں طرف تین بار تھوک دو۔ صحابی نے یہ عمل کیا تو اُن کی یہ
تکلیف اللہ تعالیٰ نے دور فرما دی۔‘‘ [صحیح مسلم۔حديث رقم:۲۲۰۳ ، طبع: دار
الکتب العلمیہ۔ بیروت]
وسوسہ
ایمان والوں کو آتا ہے … جبکہ بے ایمان اور گمراہ لوگوں کو تو شیطان باقاعدہ ’’وحی‘‘
کرتا ہے… وہ ان کے دل میں آواز دیتا ہے اور وہ اسے یقینی سمجھ کر اس پر عمل کرتے
ہیں… آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی لوگ طرح طرح کے دعوے کرتے ہیں… کوئی نعوذ باللہ
نبوت کا مدعی بن جاتا ہے تو کوئی خود کو مسیح یا مہدی کہہ دیتا ہے… یہ وسوسے سے نہیں
ہوتا … یہ ’’شیطانی وحی‘‘ سے ہوتا ہے… اس لئے ہر مسلمان کو کوشش کرتے رہنا چاہیے
کہ وسوسے کو آگے نہ بڑھنے دے… وسوسے کی کئی قسمیں خطرناک ہیں مثلاً:
١ اللہ
تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں شکوک و شبہات کے وسوسے… ان کا تذکرہ کئی احادیث
مبارکہ میں آیا ہے… اور ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ ایسے وساوس کو فوراً روک دینا
چاہیے ۔ [صحیح مسلم۔حديث رقم:۲۱۴
، طبع:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اور کہنا چاہیے آمَنْتُ
بِاللّٰہِ ’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر۔‘‘
[صحیح مسلم۔حديث رقم:۲۱۲
، طبع: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
روکنے کا اچھا طریقہ یہ ہے
کہ خود کو کسی اچھے کام میں لگا لیں… زیادہ وسوسے غم اور فخر کی حالت میں حملہ
کرتے ہیں… تب اپنی اس حالت کو فوراً بدل دیں… غم کو بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی
نعمتوں کو یاد کر کے شکر ادا کریں… اور فخر و خوشی کی حالت کو ٹھیک کرنے کے لئے
اپنے گناہ اور کمزوریاں یاد کر کے استغفار کریں اور درودو سلام کے نظام محبت میں
غوطہ لگائیں۔
٢
اپنی ذات کے بارے میں وسوسے کہ میں کوئی بڑی چیز ہوں… میں عام انسانوں سے بلند
ہوں… میں بڑے مقام والا ہوں مگر میری قدر کوئی نہیں کرتا وغیرہ…ایسے وسوسے اللہ
تعالیٰ کے ذکر سے دور ہوتے ہیں… انسان اس بات کویاد کرے کہ اللہ تعالیٰ اگر اس کی
پردہ پوشی نہ فرمائیں تو وہ غلاظت ، کمزوری اور گناہ کا ایک ڈھیر ہے۔
٣ اپنی
ذات کے بارے میں وسوسے کہ میں بالکل بے کار ہوں، میری بخشش ہو ہی نہیں ہو سکتی میں
کبھی نہیں سدھر سکتا وغیرہ… یہ خطرناک مایوسی ہے… ایسے وقت میں انسان اللہ تعالیٰ
کے انعامات کو یاد کرے… اس کی رحمت کو یاد کرے… کلمہ طیبہ پڑھ کر اس کی قیمت یاد
کرے … درودشریف پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو اپنے اوپر برستا محسوس کرے۔
٤ پاکی
اور طہارت کے بارے میں وسوسے… اس کا علاج علم ہے … طہارت کے مسائل کا علم حاصل
کرے… کسی عالم کی نگرانی میں وضو اور پاکی کر کے اطمینان حاصل کرے… اور’’ سورۃ
الناس‘‘ کا زیادہ ورد کرے…اور اپنے دماغ کو خشکی سے بچائے۔
وساوس اور ان کے علاج کے
بارے میں یہ چند اشارے عرض کر دئیے ہیں… چند دن قبل حضرت سیّدنا ابن عباس رضی اللہ
تعالی عنہما کا سکھایا ہوا علاج بھی عرض کیا تھا کہ وسوسے كکے وقت سورۃ الحدید کی یہ
آیت مبارکہ پڑھی جائے:
{ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ
بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ }
آئیے!
درودشریف کا جام بھرتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ اَفْضَلَ صَلَوٰتِکَ وَعَدَدَ
مَعْلُوْمَاتِکَ۔ ( روح المعانی )
سنا
کر کیا کریں گے؟
آج
صبح سے اُنیس سال پہلے والے 31 دسمبر1999 ء کی یادیں… زندگی میں پہلی بارکافی شدت
سے دل و دماغ پر اُبھر آئیں… کوشش کی کہ کسی کو سنا دوں مگر موقعہ نہ بنا… تب رنگ
و نور لکھنے بیٹھ گیا کہ اس میں آ جائیں گی مگر یہاں وساوس کا موضوع چل پڑا… تب
سوچا کہ اپنی باتیں تو بس باتیں ہی ہوتی ہیں… سنا کر کیا کریں گے … اللہ تعالیٰ دین
کی باتیں سننے سنانے کی مزید توفیق عطاء فرمائیں اور صلٰوۃ علَی النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح ذوق نصیب فرمائیں… آئیے! حضرت علامہ
آلوسی رحمہ اللہ علیہ کی تحقیق کے آخری
صیغے سےاپنی مجلس پر’’مسک الختام‘‘ لگاتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ اَبَدًا اَفْضَلَ صَلَوٰتِکَ عَلٰی سَیِّدِنَا عَبْدِکَ وَ نَبِیِّکَ وَ
رَسُوْلِکَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ وَ سَلِّمْ عَلَیْہِ تَسْلِیْمًا
وَ زِدْہُ شَرَفًا وَّ
تَکْرِیْمًا وَّ اَنْزِلْہُ
الْمَنْزِلَ الْمُقَرَّبَ
عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ ( روح المعانی )
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور: 676
بیداری اور خواب
* ’’آگے بڑھنے‘‘ اور ’’نیچے
گرنے‘‘ والے لوگ…
* عبادت اور ذکرمیں دل نہیں
لگتا، خیالات کا
ہجوم اور غلبہ ہے،ایسے ذکر اور عبادت کا کیا
فائدہ؟… تین شافی جواب
* خواب کی تعبیر بہت
مشکل’’علم‘‘
* خواب اور تعبیر کے متعلق لازمی
ہدایات
* ’’دل ‘‘کی جانچ ضروری
* امراض قلب پہنچاننےکےچار ٹیسٹ
اور
ان امراض سے شفا پانے کے لاجواب نسخے۔
* ’’آیۃ الکرسی‘‘ کتابچے کی
اشاعت کی خوشخبری، اس سے فائدہ
اٹھانے اور مطالعہ کرنے کی ترغیب
یہ ہیں اس مبارک تحریر کے
اہم موضوعات
تاریخ
اشاعت:
۴ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۴۰ھ/
11جنوری 2019ء
بیداری اور خواب
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ
بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ
سَلِّمْ تَسْلِیْمًا
’’ اللہ تعالیٰ ‘‘ ہمیں ’’اللہ والا‘‘ بنائے … ہماری آج کی مجلس
کو ہمارے لئے اپنے قرب کا ذریعہ بنائے… خبروں پر نظر ڈالی توکوئی قابلِ تبصرہ نظر
نہ آئی…سب ہی پیچھے کی طرف جا رہے ہیں نیچے کی طرف جا رہے ہیں… سیاستدان ، لیڈر ،
حکمران ، صحافی، کھلاڑی اور تاجر … صرف ’’اللہ والے‘‘ ہر قدم آگے جا رہے ہیں…ہر
سانس اونچے جا رہے ہیں… شہداء، مجاہدین ، علمائے ربانیین ، ذاکرین، اہل امانت، اہل
خدمت اور اہل عشق… چلیے! ’’ذکر اللہ ‘‘ سے مجلس شروع کرتے ہیں۔
مزے
کے لئے نہیں
ذکر
کرنے والے کہتے ہیں کہ ذکر میں دل نہیں لگتا… درودشریف میں دل نہیں لگتا… خیالات
کا ہجوم اور غلبہ رہتا ہے، بلکہ غلط خیالات بھی آ جاتے ہیں… تو ایسے ذکر اور ایسی
عبادت کا کیا فائدہ؟… بھائیو اور بہنو ! بہت فائدہ ہے۔
١ ابھی
دونوں کام چل رہے ہیں ذکر بھی اور وساوس بھی… اگر ذکر چھوڑ دیا تو پھر وساوس رہ
جائیں گے… اس لئے ذکر چلنے دیں اور بڑھا دیں … درودشریف بھی ذکر ہے… ایک وقت آئے
گا کہ ذکر چھا جائے گا… وساوس کا غم نہ کھائیں… وہ سب کو آتے ہیں… اچھے لوگوں کو
زیادہ آتے ہیں۔
٢
خیالات آتے ہیں مگر زبان تو ذکر کر رہی ہے… جب ذکر کی برکت سے زبان کو جہنم سے
نجات ملے گی تو ان شاء اللہ باقی اعضاء کو بھی مل جائے گی…اس پر شکر کریں کہ اللہ
تعالیٰ نے ہمارے اعضاء میں سے ایک عضو یعنی زبان کو اپنے ذکر پر لگا دیا ہے… اس پر
شکر کریں گے تو ان شاء اللہ توجہ والا ذکر بھی مل جائے گا… یہ کون سی کم نعمت ہے
کہ زبان اچھے کام میں لگی رہے… یہی زبان انسان کو اوندھے منہ جہنم میں ڈلواتی ہے… یہی
کفر بکتی ہے… غیبت غلاظتی ہے، جھوٹ اور بے شمار گناہ کرتی ہے ۔
٣ جب اللہ تعالیٰ نے ہماری زبان کو اپنے ذکر میں
لگا دیا ہے توکیا بعید ہے کہ آگے چل کر ہمیں ’’ذکر بیداری‘‘ نصیب ہو جائے… پھر
ترقی ہو اور ’’ذکر حضوری‘‘ نصیب ہو جائے… اور پھر ایسی ترقی ہو کہ دل میں سے اللہ
تعالیٰ کے سوا ہر چیز غائب ہو جائے… ویسے بھی ذکر کی توفیق خود بہت بڑی نعمت ہے…
ذکر روحانی مزے کے لئے نہیں کیا جاتا… بلکہ یہ ہر مومن ، مخلص کی بندگی اور ذمہ
داری ہے… اہل دل نے لکھا ہے کہ… جو ذکر اور عبادت اس لئے کی جائے کہ مجھے روحانی
لذت حاصل ہو… مجھے کشف کا مقام نصیب ہو… تو یہ نیت بھی ’’اخلاص‘‘ کے خلاف ہے… ذکر
اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے ہونی چاہیے… اللہ تعالیٰ کا حکم
سمجھ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے… پھر اگر روحانی لذت بھی ملتی ہے تو بہت
اچھا، نہیں ملتی تو نہ ملے… غلام کا کام آقا کا حکم بجا لانا ہے۔
یَا
رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِمًا اَبَدًا
عَلٰی
حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ
خوابوں
کی دنیا
خواب
کی تعبیر بہت مشکل ’’علم ‘‘ ہے سچے خواب بہت کم آتے ہیں… نیند میں دیکھی گئی ہر چیز
خواب نہیں ہوتی، یہ تین باتیں ایک بار پھر پڑھ لیں تاکہ دل میں بیٹھ جائیں ، اب
اور سنیں۔
١
شیطان انسان کے خوابوں میں طرح طرح کے تصرفات کرتا ہے… اکثر لوگ بے وضو سوتے ہیں…پیٹ
بھر کر سوتے ہیں … بستر کی پاکی کا خیال نہیں رکھتے… شیطان ان کو ڈراتاہے، مایوس
کرتا ہے، بدگمانیوں میں ڈالتا ہے… اس لئے ’’اللہ والوں‘‘ نے سختی سے سمجھایا ہے کہ
خوابوں کی باتیں چھوڑو…اپنی بیداری اور حقیقت کو اچھا بناؤ… حضرت مجدد الف ثانی
رحمہ اللہ علیہ نے تو باقاعدہ اس بات کی
محنت فرمائی کہ خوابوں کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے… کیونکہ اس آخری زمانے میں
خوابوں کو فتنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے…وہ سمجھاتے تھے کہ اگر تم خود کو خواب میں
بادشاہ دیکھو توکیا تم بادشاہ بن گئے؟ … نہیں بنے تو پھر اور باتوں میں اپنے
خوابوں کا اتنا اعتبار کیوں کرتے ہو؟ … حضرت مجدد رحمہ اللہ علیہ نے اپنے خلفاء کرام کو بھی تاکید فرمائی کہ اپنے
مریدین کے خوابوں اور کشفوں کی تعبیر اور توجیہ میں نہ پڑیں … آپ مکتوبات میں
لکھتے ہیں:
ّّ’’یہی
وجہ ہے کہ اکابر نقشبندیہ واقعات ( اور خوابوں) کا کوئی اعتبار نہیں کرتے اور
طالبوں (یعنی مریدین ) کے واقعات ( یعنی خواب و کشف وغیرہ) کی تعبیر میں توجہ نہیں
دیتے کیونکہ ان چیزوں میں نفع بہت کم ہے … معتبر وہی ہے جو ہوش اور بیداری میں میسر
آ جائے۔‘‘ ( دفتر دوم مکتوب: ۵۸)
٢ اہل تعبیر کے نزدیک مسلّم
ہے کہ … اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس کا بیٹا مر گیا ہے تو یہ کسی بڑی نعمت کے ملنے کی
دلیل ہے…اب اندازہ لگائیں کہ خواب کی تعبیر خواب سے کس قدر مختلف ہے… یہی حال دیگر
خوابوں کا بھی ہوتا ہے… خواب میں کسی کو نیک اور بزرگ دیکھنا اس کے نیک اور بزرگ
ہونے کا ثبوت نہیں ہے… اور خواب میں کسی کو برا اور گناہ گار دیکھنا یہ ثابت نہیں
کرتا کہ وہ واقعی برا یا گناہگار ہے… بلکہ بعض حالات میں ایسے خواب کی تعبیر بالکل
الٹ اور برعکس بھی ہوتی ہے… اور اگر کوئی آدمی کسی ’’ اللہ والے‘‘ کو خواب میں بری
حالت یا بری شکل میں دیکھے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ … خواب دیکھنے والا
خود کسی بڑے گناہ یا برائی میں ملوث ہے… اس لئے اچھے لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے
کہ…اگر کوئی خوف والا یا برا خواب دیکھیں تواللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں،اُلٹی طرف
تین بار تھتھکار دیں اور صدقہ دیں… اور اگر کوئی اچھا خواب دیکھیں تو صرف اہل علم
و اہل قلب کو بتائیں ، ہر کسی کو نہیں… اور جو خواب بہت بکھرا ہوا، کچھ یاد، کچھ
بھولا ہوا ہو، وہ خواب نہیں ہوتا…وہ کسی کو نہ سنائیں اور امت پر احسان کریں۔
٣ اپنے کسی خواب کی وجہ سے کسی مسلمان سے بدگمانی
نہ رکھیں… کسی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کریں۔
٤ اپنے خواب کو بتاتے ہوئے اس میں جھوٹ کی ملاوٹ
نہ کریں… جھوٹے خواب نہ گھڑیں… یہ بہت خطرے والا گناہ ہے… اس کی پکڑ آخرت میں میدان
حشر سے شروع ہو جائے گی… خلاصہ یہ کہ اپنی بیداری کو اچھا بنائیں … خوابوں کوزیادہ
اہمیت نہ دیں۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ وَ سَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ
الطَّاھِرِ الذَّکِیِّ صَلٰوۃً تُحَلُّ بِھَا الْعُقَدُ وَ تُفَکُّ بِھَا
الْکُرَبُ۔
دل
کی جانچ
ہر
مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دل کو دیکھا کرے، اس کی جانچ کیا کرے… یعنی دل کا ٹیسٹ
ضروری ہے… ڈاکٹر سے نہیں بلکہ خود یہ ٹیسٹ کرتا رہے تاکہ دل کا مریض نہ بن جائے…
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے منافقین کے بارے میں فرمایا گیا : {فِیْ قُلُوْبِھِمْ
مَرَضٌ}… کہ وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں… یہاں بطور مثال چار ٹیسٹ عرض کئے جا
رہے ہیں :
١
اگر اپنے گناہ اور اپنے حالات دیکھ کر دل یہ سوچتا ہے کہ میری معافی اور میری
اصلاح نہیں ہو سکتی تو… یہ مایوسی کفر ہے… یہ دل کو لگ جائے تو نعوذ باللہ اسے
کافر بنا دیتی ہے… گناہ جتنے بھی زیادہ ہوںتوبہ نہیںچھوڑنی چاہیے… ندامت نہیں
چھوڑنی چاہیے… اللہ تعالیٰ کی امید سے ناامید نہیں ہونا چاہیے…حضرت مجدد الف ثانی
رحمہ اللہ علیہ نے بہت عجیب بات لکھی
ہے…فرماتے ہیں:
’’اگر تمام گناہوں سے توبہ میسر ہو جائے اور تمام محرمات اور
مشتبہات سے ورع و تقویٰ (یعنی تمام حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچنا ) حاصل ہو جائے
تو بڑی اعلیٰ دولت اور نعمت ہے ورنہ بعض گناہوں سے توبہ کرنا اور بعض محرمات سے
بچنا بھی غنیمت ہے۔شاید ان بعض کی برکات و انوار بعض دوسروں میں بھی اثر کر جائیں
اور تمام گناہوں سے توبہ اور ورع کی توفیق نصیب ہو جائے۔‘‘ ( دفتر دوم
مکتوب: ۶۶)
٢ اگر اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر رحمتیں اور
انعامات دیکھ کر دل یہ سوچتا ہے کہ اب مجھے زیادہ نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی
ضرورت نہیں… میں اللہ تعالیٰ کا مقرب بن چکا ہوں… تو یہ ’’محرومی ‘‘ ہے… یہ دل کو
لگ جائے تو اسے بہت دور پھینک دیتی ہے… اللہ تعالیٰ کے انعامات دیکھ کر اور زیادہ
نیکی کرنی چاہیے، اور زیادہ گناہوں سے بچنا چاہیے… توبہ کی ضرورت گناہگاروں سے زیادہ
نیک لوگوں کو ہوتی ہے…تاکہ ان کے دل کی سپلائی ٹھیک رہے۔
٣
اگر عبادت اور نیکی چھوٹنے پر دل کو کوئی غم نہیں ہوتا… اور گناہ کرنے پر دل پشیمان
نہیں ہوتا تو سمجھ لیں کہ’’ ہارٹ اٹیک‘‘ شروع ہے… یہ دل کو مار دینے والے بیماری
ہے… فوراً خود کو اچھے ماحول میں لے جا کر دل کا علاج کرانا چاہیے … اللہ والوں
خصوصاً مجاہدین کی صحبت اختیار کرنی چاہیے… اور اپنی زندگی کو یکسر بدلنا چاہیے۔
٤ اگر عبادت اور نیکی سے دل خوش ہوتا ہے اور گناہ
پر غمزدہ ہوتا ہے تو مبارک ہو… یہ دل کے نور کی علامت ہے… اس نور کو بچانے اور
بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے … تاکہ یہ نور آپ کے ساتھ ساتھ چلے اور دوسروں کو بھی
روشنی فراہم کرے۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلٰوۃً تُنَوِّرُ بِھَا قُلُوْبَنَا
بِنُوْرِمَعْرِفَتِکَ وَ سَلِّمْ عَلَیْہِ تَسْلِیْمًا۔
آیۃ
الکرسی
الحمد
للہ آیۃ الکرسی کے معانی، معارف اور خواص پر بندہ کا مختصر’’ کتابچہ‘‘ شائع ہو
چکا ہے… یہ کتابچہ تیار کر کے جب خود پڑھا تو الحمد للہ بہت فائدہ ہواا ور ’’آیۃ
الکرسی‘‘ سے ایک عجیب تعلق قائم ہو گیا… اس کیفیت کو کسی عمل کا ’’شرح صدر‘‘ کہتے
ہیں کہ سینہ کھل جائے اور وہ عمل دل میں اُتر جائے پھر جب یہ کتابچہ چھپ گیا تو
اپنے کئی قریبی احباب سے التماس کی کہ وہ اسے حرفاً حرفاً پڑھ کر اپنی رائے دیں…
الحمد للہ بہت ایمان افروز آراء سامنے آئیں… چنانچہ آپ سب حضرات و خواتین کو بھی
اسی ’’شرح صدر‘‘ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں… یہ ’’کتابچہ‘‘ اچھی حالت میں توجہ سے
مکمل پڑھ لیں… اللہ تعالیٰ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا نور ہم سب کو نصیب فرمائے۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَدَدَ خَلْقِکَ وَ رِضَا نَفْسِکَ وَ زِنَۃَ
عَرْشِکَ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِکَ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
محبوب
موضوع
* ’’سیرت مبارکہ‘‘ جیسے لازمی،
محبوب اور میٹھے
موضوع کے متعلق دس چمکتے موتی…
* ’’واقعۂ معراج‘‘کی روشنی میں
’’فتنۂ مرعوبیت‘‘کا محققانہ رد…
* مسلمان ہرگز اس فتنے کا شکار
نہ بنیں چند چشم کشا باتیں…
* ہر طرح کےحالات میںخاص رہنمائی
حاصل کرنے کا قوی ترین ذریعہ،
سیرت مبارکہ میں غور، تدبر اور تحقیق…
سیرت
مبارکہ سے دیوانگی کی حد تک
عشق
کا درس دیتی ایک معطر تحریر…
محبوب موضوع
اللہ
تعالیٰ کا اس امت پر یہ عظیم احسان ہے کہ … اس امت کے پاس اپنے رسول اور نبی حضرت
آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل ’’سیرت مبارکہ ‘‘ محفوظ ہے … آج کی
مجلس میں اسی ’’ سیرت مبارکہ ‘‘ پر چند اہم باتیں عرض کرنی ہیں :
١ ہر
مسلمان کے لئے لازم بھی ہے اور حد درجہ مفید بھی کہ وہ … حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی سیرت مبارکہ کو جانے،پہچانے،پڑھے،سنے،سنائے اور اپنائے ۔
٢ کوئی
شخص اُس وقت تک دین کا عالم نہیں ہو سکتاجب تک وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
سیرت مبارکہ کو تفصیل سے نہ پڑھ لے ۔
٣ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا بہت کچھ بیان ’’قرآن مجید‘‘ میں موجود
ہے ۔ یعنی یہ ’’کلام اللہ ‘‘ کا ایک اہم موضوع ہے ۔ اس لئے جو قرآن مجید کو سمجھ
کر پڑھتا ہے وہ سیرت مبارکہ کے ایک اہم حصے سے واقف ہو جاتا ہے ۔
٤ اللہ
تعالیٰ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پوری اُمت مسلمہ کی طرف
سے بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے بہت اہتمام،انتظام ،ترتیب اور محنت
سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو محفوظ فرمایا … اور اُمت مسلمہ
تک پہنچایا ۔
٥ اللہ
تعالیٰ ہماری عظیم مائوں اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن کو پوری امت مسلمہ کی طرف سے بہت
اعلیٰ جزائے خیر عطا فرمائے … وہ سیرت مبارکہ کی حفاظت کا اہم ذریعہ بنیں … اور یوں
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی گھریلو زندگی امت کے لئے بطور رہنما
محفوظ ہو گئی ۔
٦ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پڑھنا ،پڑھانا ، لکھنا ، لکھوانا سننا اور
سنوانا ، چھاپنا اور چھپوانا … یہ سب وہ نیک اعمال ہیں جن کے ذریعہ کوئی بندہ اللہ
تعالیٰ کا قرب اور تقرب حاصل کر سکتا ہے … یہ تمام اعمال اگر اخلاص نیت سے ہوں تو
عبادت ہیں… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور
اتباع کا حکم فرمایا ہے… اور اطاعت اور اتباع تبھی ہو سکتی ہے جب ہمیں حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور احوال کا علم ہو ۔
٧ قرآن
عظیم الشان کے بعد حضو ر اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ جاننے کا دوسرا
اہم ذریعہ حدیث مبارکہ کی کتب ہیں … ہم جس قدر حدیث شریف زیادہ پڑھتے جائیں گے …
ہمیں اس قدر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا علم نصیب ہوتا چلا
جائے گا۔
٨ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایک مؤمن کے ایمان کا حصہ ہے … اور محبوب کا
تذکرہ بھی محبوب اور میٹھا ہوتا ہے … اور بڑی بات یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے اپنے بہت
خاص انوارات ہیں … یہ خاص انوارات صرف سیرت مبارکہ پڑھنے ، پڑھانے اور لکھنے سے نصیب
ہوتے ہیں … اس دوران ایک خاص قسم کی رحمت بھی نصیب ہوتی ہے … اور انسان اللہ تعالیٰ
کی محبت اور رحمت کی برسات میں آجاتا ہے ۔
٩ اللہ
تعالیٰ اُمت مسلمہ کی اُن تمام ہستیوں کو جزائے خیر عطا فرمائے… جنہوں نے حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ
پر مستند اور معتمد کتابیں لکھیں ہیں … اس لازمی، محبوب اور میٹھے موضوع پراب تک
بلا مبالغہ لاکھوں کتابیں مختلف زبانوں میں لکھی جا چکی ہیں…اور سیرت مبارکہ پر
علمی تحقیق کا کام … اور اس منبع علم سے نئے نئے علوم کے انکشافات کا سلسلہ چودہ
سو سال سے آج تک بلا انقطاع جاری ہے ۔
١٠ آج کی مجلس کی آخری اور اہم بات یہ ہے کہ سیرت مبارکہ بھی ایک
بڑا معجزہ ہے … اس میں ہر انسان کے لئے رہنمائی موجود ہے … ہر زمانے کے لئے روشنی
موجود ہے … ہر عمر کے فرد کے لئے کامیابی کا راز موجود ہے … اور ہر طرح کے حالات
کے لئے رہنما اصول موجود ہیں … یعنی سیرت مبارکہ زندہ ہے ، تروتازہ ہے اور رہنما
ہے … ہر کسی کے لئے… ہر زمانے کے لئے … ہر عمر کے لئے … ہر طرح کے حالات کے لیے ۔
ایک مثال لے لیجئے … اللہ
تعالیٰ کی جو کائنات ہمیں نظر آ رہی ہے اس میں چاند زمین کے بہت قریب موجود ہے…
اور تھوڑے فاصلے پر مریخ … جبکہ بے شمار ستارے دور، دور … اور پھر آسمان اُن سے
بھی دور … کچھ انسانوں نے محنت کی اور وہ چاند تک جا پہنچے… وہ وہاں سے نہ انسانوں
کے لیے کوئی رزق لائے نہ کوئی علم … بلکہ زمین پر موجود غریب انسانوں کا بہت سا بیش
بہا سرمایہ اوررزق ضائع کر کے چاند تک ہو آئے…اب مریخ پر جانے کی کوشش میں ہیں …
اُن کے وہاں آنے جانے سے نہ کسی کو کوئی فائدہ ملا اور نہ کوئی نعمت … مگر انہوں
نے اپنے اس ’’ تقلب ‘‘ یعنی قلابازی کو ’’تبلیغ کفر ‘‘ کا ذریعہ بنا ڈالا … اور ہر
طرف یہ شور مچ گیا کہ یہ لوگ ترقی یافتہ ہو چکے … اب ان کی تعظیم کرو، ان کی اطاعت
کرو، ان کے سامنے سجدے کرو… ان کو اپنے سے بڑا اور افضل مانو … گویا مسلمانوں کو
’’مرعوب‘‘ کرنے کا یہ فتنہ چاند اور مریخ سے جا جڑا… حالانکہ مسلمان اگر سیرت
مبارکہ کا غور سے مطالعہ کریں تو کبھی بھی اس طرح کی ’’قلابازیوں ‘‘ سے متاثر نہ
ہوں…سیرت کی ہر کتاب کے ابتدا ئی صفحات میں ’’معراج‘‘ کا واقعہ موجود ہے … اور شق
قمر کا بھی … معراج میں ایک یقینی سفر ہوا … انتہائی تیز رفتار سفر … ایسا تیز
رفتار کہ ابھی تک سائنسی تحقیقات اس تیزی کا حجم طے نہیں کر سکی … کل تک وہ ’’روشنی
‘‘ کو تیز ترین کہتے رہے اب پچاس سال بعد مان لیا کہ … روشنی سے بھی تیز رفتار
ممکن ہے… مگر معراج کا سفر حد درجہ تیز ترین تھا … جس طرح کہ آج ہم میں سے کسی نے
سائنسدانوں کو چاند پر جاتے خود نہیں دیکھا… مگر سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ فلاں
فلاں افراد چاند پہ جا چکے ہیں… اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمام اہل مکہ نے … خواہ وہ مسلمان
تھے یا کافر معراج کے سفر کے اثرات دیکھے، جانچے اور تسلیم کیے … قرآن عظیم الشان
نے بتایا ہے کہ یہ سفر آسمانوں سے بھی بلند تھا … اور اس سفر کا فائدہ کروڑوں،
اربوں انسانوں کو پہنچ چکا ہے اور پہنچتا رہے گا کہ… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
اس سفر سے امت مسلمہ کے لئے ’’نماز ‘‘ جیسی
نعمت لائے… نماز میں ترقی بھی ہے ، رزق بھی ہے، قوت بھی ہے ، نعمت بھی ہے اور نجات
بھی…اب جو انسان علم کی روشنی میں غوطہ لگا کر … سفر معراج کو نہایت غور، تدبر اور
یقین سے پڑھے گا… وہ کیسے ’’فتنۂ مرعوبیت ‘‘کا شکار ہو گا ؟… چاند تو دو قدم پر
ہے…جبکہ یہ سفر ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘سے بھی آگے کا تھا … یعنی جو ترقی ہم آغاز
اسلام میں کر چکے… دنیا بھر کے سائنسدان قیامت تک اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے
… اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ … وہ سفر اللہ تعالیٰ کے انتظام سے تھا… سواری بھی
وہاں سے آئی تھی … جبکہ آج کا سفر انسانی محنت سے ہے… جواب یہ ہے کہ آج کا یہ
مختصر سفر بھی ایندھن، لوہے اور توانائی سے ہے … اور ان تمام کا انتظام بھی اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں …ایندھن اور اسباب سب اللہ تعالیٰ کے پیدا فرمودہ ہیں… انسان نے
اتنا کیا کہ ان کے اچھے یا برے استعمال کو دیکھ لیا … اور یہ تاریخ انسانی کاحصہ
ہے کہ ہر دور کے انسان قدرتی اسباب کو … مختلف کاموں میں استعمال کرنا سیکھ جاتے ہیں…
تو پھر اس کا ترقی سے کیا لینا دینا ہے ؟… ماضی کے انسانوں کی صحت آج کے انسانوں
سے اچھی تھی … ان کی زندگیاں آج کے انسانوں سے زیادہ بھرپور، توانا اور حسین تھیں
… اُن کی خوشیاں آج کے انسانوں کی خوشیوں سے بہت زیادہ تھیں … انہوں نے اسباب پر
وہ محنت کی جس سے انسان کو فائدہ پہنچا… اور آج کے بیوقوف سائنسدان اسباب پر وہ
محنت کر رہے ہیں … جس سے انسان کمزوری ، ہلاکت اور مصنوعیت کے گڑھوں میں گر رہا ہے
… بہرحال جو انسان بھی ’’اسباب ‘‘ پر محنت اور غور و فکر کرتا ہے وہ ضرور کوئی نئی
چیز دریافت کر لیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسباب میں تأثیرات کے خزانے چھپا دئیے
ہیں ۔
آج
اگر مسلمانوں کو آزادی مل جائے … اور یہ مکمل آزادی جہاد فی سبیل اللہ کی برکت
سے ہی مل سکتی ہے تو آپ یقین کریں کہ آزادی کے ماحول میں مسلمان سائنسدان وہ چیزیں
ایجاد کر لیں گے… جن تک آج کے کافر سائنسدان کا ذہن پہنچ ہی نہیں سکتا ۔
بہر
حال ! واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان سیرت مبارکہ کو توجہ سے
پڑھے تو وہ… ہر طرح کے حالات میں خاص رہنمائی حاصل کر سکتا ہے … اور فتنوں سے بچ
سکتا ہے… ایک مسلمان جب سیرت مبارکہ میں ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ … اور ایک سریے
کے بعد دوسرا سریہ پڑھتا ہے تو وہ ’’فتنہ انکار جہاد‘‘ سے بچ جاتا ہے … قادیانی
ترک جہاد پر اسے لاکھ دلائل دیں وہ جب سیرت مبارکہ میں … حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کو تلوار اٹھائے لڑتا دیکھتا ہے
تو … اس کے دل میں ایسی روشنی چمکتی ہے کہ… قادیانی دلائل کا اندھیرا خود غائب ہو
جاتا ہے … ایک مسلمان غم کی حالت میں ہو تو سیرت مبارکہ اس کو غم سہنا سکھاتی ہے …
جبکہ دوسرا انسان خوشی کی حالت میں ہو تو سیرت مبارکہ اس کو خوشی پچانا سکھاتی ہے
… بس یہ ایک اشارہ ہو گیا اب آپ خود ہی اس موضوع کو پھیلا کر سمجھ سکتے ہیں۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور: 677
مشورہ… شوریٰ
* ’’مشورہ‘‘ اور’’ شوریٰ‘‘ کے
متعلق نہایت قیمتی نکات
* ’’مشورہ‘‘ کی مبارک سنت کو
پانے کے چند آداب،
ہدایات اور ضروری احتیاطیں
* ہمیشہ اذان کی آواز پر فون
بند کردیں اور بڑا خزانہ پالیں
* ’’ایمان‘‘ عظیم ترین نعمت،
روزانہ اس نعمت
کا شکر اداکرناکبھی نہ
بھولیں
* ’’صدقہ‘‘عبادت بھی، نعمت بھی،
شفاءبھی،دواء بھی
* روزانہ ’’صدقہ‘‘ دینا انسان
کے اخلاق و کردار
اورصحت و مزاج کی اصلاح
کا مؤثر نسخہ
بکھرے موتیوں پر
مشتمل ایک انمول تحریر…
تاریخ
اشاعت:
۱۱ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۴۰ھ/
18 جنوری 2019ء
مشورہ… شوریٰ
بِسْمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَلِّ وَسَلِّمْ تَسْلِیْماً
اللہ
تعالیٰ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم اپنے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا
کرتے تھے… حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورے کی ضرورت نہیں تھی… مگر اللہ تعالیٰ نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ… اپنے رفقاء سے مشورہ فرمایا
کریں:
{وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ} [آل
عمران: ۱۵۹]
حضرات
مفسرین رحمہم اللہ نے اس حکم کے تین مقاصد لکھے ہیں:
١ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کریں… تاکہ
مشورہ کی سنت ، مشورہ کا قانون اور مشورہ کا طریقہ اُمت مسلمہ میں جاری ہو جائے۔
٢ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کرام سے مشورہ فرمایا کریں… تاکہ اُن
کی حوصلہ افزائی ہو، اُن کے دل خوش ہوں، اُن میں محبت کا احساس بڑھے اور اُن کو
آئندہ اپنے معاملات چلانے کا سلیقہ آ جائے۔
٣ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ فرمایا کریں …
تاکہ امت کو معلوم ہو کہ مشورہ میں برکت ہے، مشورہ میں خیر ہے۔
’’مشورہ‘‘ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے… اللہ تعالیٰ ’’اَلْحَکِیْمُ‘‘ ہیں…
اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمتیں ہوتی ہیں … مشورہ کے حکم میں جو حکمتیں ہیں وہ
بے شمار ہیں… چند کی طرف اوپر اشارہ آ گیا ہے۔
ایک
گذارش
ایک
چھوٹا سا کام ہے، مگر فائدہ کے لحاظ سے بڑا ہے… جب بھی اذان ہوفوراً اپنا موبائل
بند کر دیا کریں… بند کرنے سے مراد اس کی آواز بند کرنا یا اسے خود سے دور کرنا
نہیں … اسے ’’آف‘‘ کرنا ہے… اس عمل سے آپ کو کیا کچھ ملے گا؟… تین دن پوری پابندی
سے عمل کر کے دیکھ لیں…اَللہُ اَکْبَرُ،اَللہُ اَکْبَرُ…اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں…
اُن کی طرف سے آواز آ گئی تو تمام چھوٹے رابطے بند… کسی کو ملک کے صدر ، وزیراعظم
کی کال آ جائے تو اس دوران وہ کسی چوکیدار، چپڑاسی یا کلرک کی کال نہیں سنتا… ہمہ
تن متوجہ ہو کر… وزیراعظم سے بات کرتا ہے… اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ…اذان
کی آواز …یہ کس کی کال ہے؟ … کون اپنی طرف بلا رہا ہے؟… سوچیں ، سمجھیں اور بڑا خزانہ پا لیں… کتنا مزہ
آتا ہے جب ہم حقیر کمزور لوگ اپنے عظیم رب تعالیٰ کی رضاء کے لئے کچھ کرتے ہیں… اذان کی آواز
آئی تو فوراً موبائل اُٹھایا اور بند کر دیا… سبحان اللہ!… آنکھوں میں آنسو آ
جاتے ہیں کہ کچھ تو اچھا کیا ، کچھ تو عقل آئی… بس اب نماز کی تیاری نماز کی فکر
اور اللہ تعالیٰ کا ذکر… اس میں ایک بات یہ یاد رکھیں کہ موبائل کی صرف آواز بند
نہ کریں … اس سے دوسروں کو ایذاء پہنچتی ہے … کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ گھنٹی تو جا
رہی ہے تو پھر اُٹھا کیوں نہیں رہے؟… کوئی سمجھے گا کہ آپ ناراض ہیں… کوئی سمجھے
گا کہ آپ اس کو نظر انداز کر رہے ہیں… اس لئے اے اہل دل! آپ اہل موبائل کو
تڑپانا بند کریں … اُن کو آپ کا فون بند ملے گا تو کسی طرح صبر کر لیں گے…لیکن
اگر کھلا ملا اور آپ نے نہ اُٹھایا تو اُن پر طرح طرح کے دورے پڑ جائیں گے… اذان
کے بعد تو فون ضرور بند کر دینا چاہیے…باقی اوقات میں بھی جب آپ کال وصول کرنے کی
حالت میں نہ ہوں فون کو بند رکھا کریں… ہاں اگر کسی کی دل آزاری کا خطرہ نہ ہوتو
کھلا بھی چھوڑ سکتے ہیں… مگر کھلا فون اپنی ریڈیائی لہروںسے آپ کی نیند اُڑائے
گا… معدہ خراب کرے گا… دماغ کو تھکائے گا… یا کچھ نہ کچھ برا ضرور کرے گا… اتنا
حساس آلہ آرام سے تو نہیں بیٹھ سکتا۔
’’مشورہ‘‘ اہل ایمان کی صفت ہے
اہل
محبت میں سے کسی نے پوچھا کہ’’ استخارہ‘‘ پر کتابچہ آ گیا… اس میں مشورہ کا تذکرہ
نہیں ہے … اُن سے عرض کیا کہ جان بوجھ کر ’’مشورہ‘‘ کا تذکرہ نہیں کیا… کیونکہ’’
مشورہ‘‘ کا موضوع زیادہ مفصل ہے…اس موضوع
کے کئی پہلو ہیں …چنانچہ اگر مختصر لکھا جاتا توکام نہ بنتا… اور اگر مفصل لکھا
جاتا تو استخارہ کی بات کیسے سمجھاتے …’’ مشورہ‘‘ میں تفصیل ہے کہ کن امور میں کیا
جائے کن امور میں نہیں؟… کن سے کیا جائے اور کن سے نہ کیا جائے؟… مشورہ پر عمل
ضروری ہے یا نہیں؟… مشورہ دینے والے کے لئے شریعت میں کیااحکامات ہیں؟ وغیرہ وغیرہ…
مشورہ کا قانون قرآن مجید میں بیان ہوا ہے…اور قرآن مجید کی ایک پوری سورۃ
مبارکہ کا نام ’’الشوریٰ‘‘ ہے… مشورہ کے موضوع پر احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کا بھی ایک ذخیرہ موجود ہے… حضرات مفسرین
کرام رحمہم اللہ علیہ نے بھی مشورہ کے
موضوع پر… بہت تفصیل سے لکھا ہے… اور کئی حضرات نے قرآن و حدیث سے مشورہ کے
احکامات و واقعات کو الگ جمع کرنے کی مبارک کوشش فرمائی ہے… قرآن مجید میں اللہ
تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو
مشورہ کا حکم فرمایا… اور ایمان والوں کی اس بات پر تعریف فرمائی کہ وہ اپنے
معاملات مشورہ سے طے کرتے ہیں:
{وَأَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ} [الشوریٰ:۳۸]
’’سورۂ شوریٰ‘‘ کی اس آیت پر غور فرمائیں تو مشورہ کا تذکرہ دو
فرائض کے درمیان ہے… اس سے پہلے نماز کا تذکرہ ہے اور اس کے بعد انفاق یعنی زکوٰۃ
کا :
{وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ
وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ}
[الشوریٰ:۳۸]
اس
سے مشورہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے… اسی طرح قرآن مجید نے بچے کے دودھ
چھڑانے تک کے معاملے میں مشورہ کی تاکید فرمائی ہے… اور تو اور… فرعون اور ملکہ
سبا کی مجلس مشاورت اور مشورے تک کا ذکر فرمایا ہے کہ … دین و دنیا کے سب معاملات
میں مشورہ کامیابی کا راستہ ہے… اسی لئے فرمایا گیا کہ
مَاخَابَ
مَنِ اسْتَخَارَ وَمَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ۔
’’یعنی استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوتا اور مشورہ کرنے والا
شرمندہ نہیں ہوتا۔‘‘
[المعجم الاوسط حدیث رقم:۶۶۲۷ ، طبع:دار الحرمین،
قاہرہ]
یہ
جملہ حدیث ہے یا کسی کا قول… اس بارے میں دونوں آراء موجود ہیں… جبکہ حضرت علی
المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اَلْاِسْتِشَارَۃُ
عَیْنُ الْھِدَایَۃِ وَقَدْ خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنٰی بِرَأْیِہٖ۔
’’مشورہ عین ہدایت ہے یا رہنمائی کا چشمہ ہے اور وہ شخص خطرے میں
ہوتا ہے جو اپنی رائے کو کافی سمجھتا ہے۔‘‘
[أدب الدنيا والدين۔ص: ۳۰۳، طبع: دار مکتبۃ
الحیاۃ]
ایک
ضروری گذارش
روزانہ
اپنے ’’ایمان ‘‘ کا شکر ادا کرنا کبھی نہ بھولیں… اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام کی
دولت عطاء فرمائی ہے… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ … کوئی ایک وقت مقرر کر لیں … یا دو رکعت مقرر کر لیں…
اور اس کے آخری قعدے میں تشہد و درود شریف کے بعد… اسی شکر کی ادائیگی کے لئے
والہانہ پڑھتے جائیں… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… آج کل خبروں میں انڈیا کے ایک میلے کا تذکرہ آ رہا ہے… یہ
میلہ الٰہ آباد شہر میں ہوتا ہے اور اسے ’’ کمبھ میلہ‘‘ کہتے ہیں… مشرکین وہاں
جمع ہو کر کوئی غسل وغیرہ کرتے ہیں… کل کی رپورٹ تھی کہ…اس میلے میں اگھوری فرقے
کے ہندو سادھو بھی شریک ہوتے ہیں… ہندو معاشرے میں ان سادھوؤں کی بہت عزت کی جاتی
ہے… یہ اپنے جسم پر کپڑا نہیں پہنتے … پیشاب پیتے ہیں …اپنے جسم سے نکلنے والی
غلاظت (قضائے حاجت) کھاتے ہیں… شمشان گھاٹ میں رہتے ہیں… وہاں جو مردے جلائے جاتے
ہیں ان کا گوشت یہ کھا جاتے ہیں… اور مردہ عورتوں کے ساتھ بدکاری بھی کرتے ہیں…
اور بھی اس طرح کے بہت سے غلیظ کام ان کے مذہب میں شامل ہیں… اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم
احسان ہے کہ ہمیںاسلام و ایمان کی نعمت عطاء فرمائی… جہاں پاکی ہے، پاکیزگی ہے، حیاء
ہے اور تقویٰ ہے… اگر انسان کے پاس ایمان کی دولت نہ ہوتو وہ کس قدر گر جاتا ہے…
اے اہل اسلام!اہل ایمان! دل کی گہرائی سے اس عظیم ترین نعمت کا شکر ادا کریں…اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
چار
نعمتیں
اسلاف
میں سے کسی کا قول ہے کہ ’’ جس کو چار چیزیں مل گئیں … وہ چار چیزوں سے محروم نہیں
ہو سکتا:
١ جس کو ’’شکر‘‘ مل گیا… وہ
نعمتوں کے اضافے سے محروم نہیں ہوتا…
٢
جس کو ’’توبہ‘‘ مل گئی…وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا…
٣
جس کو ’’استخارہ‘‘ مل گیا… وہ افضل اور بہتر سے محروم نہیں ہوتا…
٤
جس کو ’’مشورہ‘‘ مل گیا… وہ درست فیصلے سے محروم نہیں ہوتا…
مشورہ
ملنے سے مراد… مشورہ کی عادت اور مشورہ اپنانا… مشورہ کے موضوع پر آج تفصیل سے
لکھنے کا ارادہ نہیں ہے… کیونکہ اس کی بنیادی باتوں کو ہی سمیٹنے کے لئے کم از کم
دو مضامین کی ضرورت ہے… آج صرف توجہ دلانی تھی کہ مشورہ کی سنت اور قانون کو سمجھیں
اور اپنائیں… بس اس میں احتیاط یہ ہے کہ ہر کسی سے مشورہ نہ کیا جائے… اکثر لوگ
مغالطے میں ڈالتے ہیں… صرف اہل نصیحت ، اہل علم ، اہل تجربہ اور اہل مہارت سے
مشورہ کیا جائے… کون سا مشورہ کس سے کرنا ہے… اس کا بھی مشورہ کی نوعیت کے مطابق
انتخاب کیا جائے…آج کل ایک بری عادت خود بخود مشورے دینے کی عام ہو گئی ہے… اس
عادت سے خود کو بچائیں… ہر بات میں اور ہر کسی کو مشورہ نہ دیا کریں… خصوصاً اپنے
بڑوں کو بن مانگے مشورہ نہ دیں… ہاں! اگر وہ مشورہ مانگیں تو سوچ سمجھ کر ایک
مشورہ دیں… مشوروں کا بھنڈار نہ کھول دیں… اسی طرح بعض افراد خود کوئی کام نہیں
کرتے،بلکہ بیٹھے رہتے ہیں…جبکہ وہ کام کرنے والے افراد اور اداروں کو اپنے مشوروں
سے نوازتے رہتے ہیں… یہ بھی بری عادت اور بے عمل لوگوں کا طریقہ ہے… حضرت بنوری
رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے … جس کا مفہوم یہ
ہے کہ:
’’ استخارہ اور استشارہ ( یعنی مشورہ کرنا) یہ دو طریقے ہمارے پاس
موجود تھے… ان سے مکمل رہنمائی مل جاتی تھی… مگر آج اُمت کا شیرازہ بری طرح بکھر
گیا ہے… جس کی وجہ سے استشارہ (یعنی مشورہ کرنا) آسان نہیں رہا… (کیونکہ ہر شخص
کا اپنا رخ ہے اور ہر شخص ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور درست مشورہ نہیں دیتا)
اس لئے استخارہ کا طریقہ زیادہ محفوظ ہے۔‘‘
(بینات)
اہل دل فرماتے ہیں کہ… ہر
مسلمان کو سنت پر مکمل عمل کرنے کے لئے استخارہ اور استشارہ دونوں کو مضبوطی سے
اپنانا چاہیے… استخارہ تو محفوظ ہے کہ… صرف اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے جبکہ استشارہ
کو خود محفوظ بنانا چاہیے کہ صرف مشورہ کے قابل لوگوں سے مشورہ کیا جائے… ایک ضروری
بات یہ ہے کہ جس آدمی سے مشورہ مانگا جائے وہ کبھی غلط مشورہ نہ دے…معذرت کرلے یادرست
مشورہ دے…اگر اس نے غلط مشورہ دیا… کوئی بات چھپائی، یا کسی مغالطے میں ڈالا تو
فرمایا گیا کہ وہ ’’خائن ‘‘ ہے… خیانت کے مرتکب کا گناہ آپ جانتے ہیں… جو مسلمان
کسی دینی ذمہ داری پر ہو اس کو بہرحال … مشورے کو لازم پکڑنا چاہیے… تاکہ وہ زیادہ
سے زیادہ روشنی میں درست فیصلے کر سکے… اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ… اگرآپ کسی کو
کوئی مشورہ دیں تو… اسے اس پر عمل کے لئے مجبور نہ کریں… اور اگر وہ عمل نہ کر سکے
تو اس سے ناراض نہ ہوں… یعنی اپنے مشورے کو حکم یا امر نہ بنائیں۔
ایک
اور گذارش
اپنی
آخرت … اپنی قبر… اپنی دنیا … اپنا رزق … اپنی صحت… اپنا مزاج …اور اپنے اخلاق کو
بھرپور نفع پہنچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ … روزانہ صدقہ دیا جائے… جی ہاں! کوئی
دن صدقہ سے خالی نہ ہو… ہر دن کا صدقہ ہر دن ادا کر دیں… یا کسی جگہ الگ کر کے رکھ
دیں… صدقہ تھوڑا ہو یا زیادہ … روپے ہوں یا کپڑے یا کھانا… یا کوئی بھی ضرورت کی چیز…
اپنے سامان کا جائزہ لیں… بہت سی چیزیں بس ویسے ہی پڑی ہوں گی… ان کو آج ہی نکال
کر صدقہ کریں… گرم کپڑے ہوں یا گھر کی چادریں وغیرہ… اکثر اپنے سامان کی تلاشی لیا
کریں… اورآخرت کے گھر کے لئے بیگ بھر بھر کر آگے بھیجا کریں… صدقہ دراصل… عبادت
بھی ہے اور نعمت بھی… شفاء بھی ہے اور دواء بھی … توفیق ملے تو صدقہ کے فضائل پڑھ
لیں… حیران رہ جائیں گے… اس لئے بار بار پڑھتے رہیں… فضول چیزیں جمع نہ کریں … اگر
ایک سواری سے کام چل رہا ہے تو دوسری سواری لے کر کھڑی نہ کریں… شیطان اس کے ذریعہ
آپ کو شدید نقصان پہنچائے گا… اللہ تعالیٰ کی محبت میں صدقہ دیں… جہنم کی آگ سے
بچنے کے لئے صدقہ دیں… اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لئے صدقہ دیں… بیماری
سے شفاء کے لئے صدقہ دیں… بس دیتے رہیں …دیتے رہیں … تب حقیقی دینے والا آپ کو ہر
طرح سے مالا مال اور خوش فرما دے گا…اَلْمُعْطِیْ ھُوَ اللہُ… جب بھی کوئی مال
آئے، کوئی رزق آئے اس میں سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حصہ نکالیں… اور اپنی اس عادت
کو ہمیشہ اپنائے رکھیں… آج چند گذارشات اور بھی تھیں… مگر ’’مشورہ ‘‘ کا موضوع جڑ
گیا تو بس یہی تین گذارشات اپنے لئے اور آپ کے لئے عرض کر دیں:
١
ہمیشہ اذان ہوتے ہی موبائل بند…
٢ ایمان
کا شکر روزانہ ادا کرنا ہے…
٣ صدقہ
روزانہ دینا ہے…
اللہ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اپنی رضاء کے لئے… ان اعمال کی اپنے فضل سے توفیق عطاء
فرمائیں… آمین یا ارحم الراحمین ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور :678
مظلوموں کے نام
* ساہیوال کا المناک سانحہ… آخریہ ظلم کب تک؟
* مسلمان کہلانے والے ظالم اللہ
تعالیٰ کی پکڑ سے کیوں نہیں دڑتے؟
* ماضی
کے ظالموں کا بھیانک انجام…
* شہداء
کے لواحقین سے قلبی تعزیت…
* آزمائشیں آخرت کے بڑے تمغے
اور اعزازات…
* مظالم کا شکار مسلمانوں کو
صبر وہمت کی تلقین…
* ہزاروں
سال کی مقبول عبادت سے زیادہ بھاری ایک نیکی…
ایک
عظیم قرآنی نکتے سے پردہ اٹھاتی چشم کشا تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۸ جمادیٰ الاولیٰ۱۴۴۰ھ/
25 جنوری 2019ء
مظلوموں کے نام
اللہ
تعالیٰ ’’مظلوموں‘‘ کی نصرت فرمائے ظالموں کو عبرت کا نشان فرمائے۔
آہ!سانحہ
ساہیوال! معصوم بچوں کے سامنے اُن کے ابو، امی اور آپی کو گولیوں سے بھون دیا گیا…
معصوم بچے تو جانوروں کو ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتے… یہاں انہوں نے اپنے ماں، باپ کو
ذبح ہوتے دیکھ لیا…او ظالمو! کب تک دہشت گردی کا الزام لگا کرپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتیوں کو اسی طرح مارتے رہو گے؟…کب تک ظلم
کی یہ آگ جلا کر مظلوموں کو دہشت گرد بننے پر مجبور کرتے رہو گے؟…کب تک اپنے باپ
امریکہ کی اس جنگ میں صلیبی سپاہی بن کر اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون کرتے رہو گے… یہ تو اچھا ہوا کہ سانحہ
ساہیوال میں شہید ہونے والے افراد کسی دینی مدرسے کے قرآن پڑھنے والے طالبعلم نہیں
تھے… ورنہ شاید خبر ہی نہ چلتی…بلکہ قاتلوں کو انعامات اور اعزازات سے نوازا
جاتا…اچھا ہوا کہ ان شہداء کا تعلق اسلام اور پاکستان کے تحفظ کے لئے لڑنے والی کسی
جہادی تنظیم سے نہیں تھا… اگر ہوتا تو کون پوچھتا؟کون انکوائری اور تحقیق کرتا؟…
فوری طور پر قاتلوں کو تمغے اور نوٹوں کے چیک تقسیم ہو جاتے… سانحہ ساہیوال میں بھی
کیا ہو گا؟…دو چار افراد کو علامتی سزائیں … ایک دو افراد کی معطلی اور بس …اور
پھر وہی شرابی، ظالم اور بدکار اسلحہ بردار… اور وہی پاکستان کا مظلوم دینی طبقہ …
آخر یہ ظلم کب تک؟… کوئی بتائے تو سہی کہ آخر کب تک؟… اس وقت بھی ہماری جماعت کے
درجنوں افراد لاپتا ہیں… ان کے بچے گھروں میں اکیلے تڑپ رہے ہیں… کوئی بتانے والا
بھی نہیں کہ آخر وہ ہیں کہاں؟ اور ان کا جرم کیا ہے؟…وہ جماعت جس کے افراد دن رات
کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہیں… اللہ، اللہ کرتے ہیں… ملکی سرحدوں سے دشمنوں کو پیچھے
دھکیلتے ہیں… جب اس کے کارکنوں پر یہ ظلم ہے تو باقیوں کا کیا حال ہو گا؟… آج کسی
ہندو یا سکھ سے کہا جائے کہ… اللہ سے ڈرو تو وہ تھوڑا بہت ڈر جاتا ہے …مگر ہمارے یہ
مسلمان کہلانے والے ظالم … اللہ تعالیٰ کے نام سے بھی نہیں ڈرتے… اللہ تعالیٰ کی
پکڑ سے بھی نہیں ڈرتے… وہ خود کو ملک کا محافظ سمجھتے ہیں… وہ دین اور دینداروں سے
نفرت رکھتے ہیں… حالانکہ ان میں سے خود کسی کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا …پرویز
مشرف سمیت ان میں سے ہر ایک طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہے… ان کو ایک لمحہ بھی
سکون نہیں ملتا… مگر وہ ظلم اور بدنصیبی کے راستے پر آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں…
کوئی ان کو روکنے والا نہیں… خود ان میں کوئی ایسا پیدا نہیں ہو رہا جو ان کی گندی
سوچ کو بدل دے… جو انہیں ان کے ظالمانہ طرز عمل سے روک دے… کوئی شیخ اسامہ کی مخبری
کر کے…امریکہ میں خنزیروں کی زندگی گذار رہا ہے… تو کوئی بڑھاپے میں اپنی اولاد کے
تھپڑ کھا رہا ہے …اور کوئی ہسپتال میں ایڈز سے کراہ رہا ہے… سانحہ ساہیوال کے
شہداء کے لواحقین سے نہایت ندامت کے ساتھ قلبی تعزیت ہے… اور اسی طرح کے مظالم کا
شکار …پاکستان کے دینی اور خصوصاً جہادی طبقے کو ہمت اور صبر کی تلقین ہے …ہر اندھیرا
ایک دن ضرور چھٹ جاتا ہے… ہر رات کے بعد دن اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے… ظلم کی
عمر لمبی نہیں ہوتی…اور ظلم کے خوف سے حق کو چھوڑ دینا یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں
ہے… حق اور دین کے راستے میں آنے والی آزمائشیں انسان کے لئے آخرت کے بڑے تمغے
اور اعزازات ہیں …جو مصیبت قسمت میں لکھی ہو وہ آ کر رہتی ہے … لیکن اگر یہ مصیبت
دین کے راستے میں آئے… جہاد کے راستے میں آئے… تو یہ عظیم سعادت ہے…اگر ہمارے
مجاہد بھائی جیلوں میں ہیں تو… سابق وزیر اعظم بھی تو جیل میں ہے… مگر دین اور
جہاد کی نسبت سے جیل جانا ایسی عظیم نعمت اور سعادت ہے کہ… اگر اللہ تعالیٰ پردہ
ہٹا دے تو ہر مسلمان اس نعمت کی تمنا کرنے لگے …کاش!پاکستان کے حکمران اپنی قبر
اور آخرت کے لئے ہی کچھ کر لیں… کیا یہ تمام سیکیورٹی اداروں میں فرض نماز کو
لازم نہیں کر سکتے؟ …کیا یہ تمام سیکیورٹی اہلکاروں پر شراب کی پابندی نہیں لگا
سکتے؟ … کیا یہ بغیر عدالتی حکم کے کسی کو گرفتار کرنے کو جرم قرار نہیں دے سکتے؟
… کیا یہ خفیہ اداروں میں قرآن و سنت کے احکامات کی تعلیم کا حکم جاری نہیں کر
سکتے؟… ہاں! یہ سب کچھ کر سکتے ہیں… اگر ان کے دل میں ایمان ہو… اور ان کے دلوں میں
اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔
بہت
عظیم نیکی
ایک
بات دل میں بٹھا لیں… یہ بہت نفع دینے والی بات ہے… یہ قرآن مجید کا سبق ہے…اس
لئے پھر تاکید کرتا ہوں… خود کو بھی اور آپ سب کو بھی… کہ اس بات کو دل میں بٹھا
لیں … وہ بات یہ ہے کہ:
’’مشکل حالات میں ایک نیکی ہزاروں سال کی مقبول عبادت سے زیادہ
بھاری ہوتی ہے۔‘‘
یہ
جو قرآن مجید میں پوری ایک سورۃ ہے،’’ سورۃ الکہف‘‘ … اور اس سورۃ میں ’’ اصحاب
کہف‘‘ یعنی غار والوں کا تذکرہ ہے…یہ چند نوجوان اللہ تعالیٰ کو اتنے پیارے اور
اتنے محبوب ہوئے کہ ان کے تذکرے کو اپنے عظیم کلام کی آیات مبارکہ بنا دیا… اور
ان کے ایمان اور عمل کو اتنا قبول فرمایا کہ انہیں ایمان کی مثال بنا دیا… اندازہ
لگائیں کہ حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان آیات مبارکہ کو پڑھتے تھے … یعنی ان
نوجوانوں کے ایمان کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر بھی جاری ہوتا تھا …’’ سورۃ
الکہف‘‘ کے نازل ہونے کے بعد سے اب تک… ان نوجوانوں والی آیات مبارکہ کوکتنے
مسلمانوں نے پڑھا ہو گا… اور کتنے قیامت تک پڑھیں گے… مگر یہ سوچیں کہ ان کا عمل کیا
تھا؟…ان کی تو ابھی عمر ہی کچھ نہ تھی … بالکل کم عمر نوجوان تھے… نہ زیادہ عبادت،
نہ زیادہ صدقات… مگر مشکل وقت میں انہوں نے ایک عمل کیا…اور وہ عمل تھا’’ ہجرت الیٰ
اللہ‘‘… بس اسی عمل سے ایسے شاندار مقبول ہو گئے… حضرت مجدد رحمہ اللہ علیہ کی یہ عبارت غور سے پڑھیں… فرماتے ہیں:
’’آج آنحضرت کے دین کے برحق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے تھوڑا سا
عمل بجا لانا بھی عمل کثیر کے برابر شمار ہوتا ہے… اصحاب کہف نے یہ اعلیٰ درجات
صرف ایک ہی نیکی کے ذریعے سے حاصل کئے ہیں اور وہ نیکی یہ تھی کہ وہ دشمنان دین کے
غلبے کے وقت نور ایمان و یقین کے ساتھ حق تعالیٰ کے دشمنوں سے ہجرت کر گئے تھے۔‘‘
( دفتر اوّل مکتوب ۴۴)
آج
دنیا میں پھر دشمنان دین کا غلبہ ہے … ان کا مسلمانوں سے مطالبہ یہ ہے کہ پورا دین
چھوڑ دو… یا کم از کم دین کی کچھ باتیں چھوڑ دو…پورا دین چھوڑو گے تو وہ تمہیںدجال
کی دجالی جنت میں مست ومخمور کر دیں گے… ہر بدمعاشی، ہر عیاشی، جانوروں کی طرح
لبرل زندگی اور امن و آرام… اور اگر تم پورا دین نہیں چھوڑ سکتے تو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چند باتیں چھوڑ دو… یعنی جہاد چھوڑ دو… اسلامی
خلافت کا خیال چھوڑ دو… اسلام کے غلبے کا تصور چھوڑ دو… مجاہدین کی حمایت چھوڑ دو…
تو پھر تمہیںبھی آسانی سے زندہ رہنے دیا جائے گا… تم ملکوں میں سفر کر سکو گے…
آزادی سے گھوم پھر سکو گے … ظاہری احترام پا سکو گے… لیکن اگر تم نے پورے دین
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنایا تو پھر تمہارے لئے گولی ہے یا پھانسی…
پولیس مقابلے ہیں یا تشدد… پابندیاں ہیں اور درندگیاں… تنہائی ہے اور جیلیں… ان
حالات میں … بعض بد نصیبوں نے تو حالات کے جبر کے سامنے ماتھا ٹیک دیا ہے… وہ دین
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ چکے ہیں… کسی نے اعلان کیا… اور کسی نے
اعلان تو نہیں کیا مگر عملاً یہ ظلم اپنی جان پر کر ڈالا… جبکہ اکثر نے ماتھا تو
نہیں ٹیکا مگر گھٹنے ٹیک دئیے ہیں… وہ دیندار ہیں مگر ایسا دین جس کا قرآن مجید کی
ڈیڑھ ہزار آیات سے کوئی تعلق نہیں… وہ مسلمان ہیں مگر ان کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جہادی سیرت سے کوئی رشتہ نہیں… وہ علماء ہیں
مگر ان کا علم صرف کفار سے امن کی حد تک محدود ہے… اور ان کے علم میں دنیا بھر کے
مظلوم مسلمانوں کے لئے کوئی حکم یا مسئلہ موجود نہیں ہے… وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب
نبی کے محبوب غزوات تک کو اپنی زبانوں پر نہیں لا سکتے… وہ اپنی اس محرومی کو اپنی
مجبوری قرار دے کر اپنے نفس کو مطمئن کرتے ہیں…اور اپنی اس مصلحت پسندی کے عوض اپنی
چار دن کی زندگی اُڑتے پھرتے ، کھاتے پیتے امن کے ساتھ گذارنا چاہتے ہیں… اب ان
حالات میں جو مسلمان پورے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہو گا… اور دشمنان دین کے خوف سےاپنے دین
ا ور نظرئیے کو نہیں بدلے گا… وہ بے شک عظیم ترین نیکی اور سعادت پا لے گا… بے شک
سودا تو بہت سستا اور بہت نفع والا ہے … مگر یہ سعادت صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی
مل سکتی ہے… آئیے! جھولی پھیلاتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے ہیں…وہ
ہمیں مرتے دم تک پورے دین محمد صلی اللہ
علیہ وسلم پر قائم رہنے کی ہمت، سعادت اور
توفیق عطاء فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور : 679
بے حد قیمتی او ر نافع
* طالبان کی فتح مبین اور امریکہ
کی ذلت ناک شکست،
وجوہات کیا ہیں؟… ایک بلیغ نکتہ
* طالبان اور امریکہ کے درمیان
مذاکرات
کی کہانی اور دعاؤں کی درخواست
* حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ علیہ کی تلقین
فرمودہ ایک بے حد قیمتی
،نافع اور مسنون ’’دعاء‘‘
* اس دعاء کی کچھ تشریح اور
آٹھ صیغے
یہ
ہیں اس مضمون کے اہم موضوعات، استفادہ کیجیے
تاریخ
اشاعت:
۲۵ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۴۰ھ/
1 فروری 2019ء
بے حد قیمتی او ر نافع
اللہ
تعالیٰ’’نفس‘‘ کے شر سے حفاظت فرمائے …حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ
ایک مسنون دعاء کی تاکید فرمایا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ
رُشْدِیْ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔
[سنن الترمذي۔رقم الحدیث:۳۴۸۳،الناشر: شركة
مكتبةمصطفى - مصر]
آج
کی مجلس میں اس دعاء کی روایت، مختلف الفاظ اور فضیلت پر تھوڑی سی بات عرض کرنی
ہے،ان شاء اللہ … اور ساتھ ساتھ کچھ حالات حاضرہ بھی۔
ایک
نکتہ سمجھ میں آ گیا
امارت
اسلامی افغانستان … جو کہ ’’طالبان‘‘ کے نام سے معروف ہے… ان کے آج کل ’’امریکا‘‘
سے مذاکرات چل رہے ہیں …امریکا نے بہت محنت اور مشکل سے ’’طالبان‘‘ کو ’’مذاکرات‘‘
پر راضی کروایا ہے… چونکہ طالبان اور امریکہ گذشتہ اٹھارہ سال سے ایک دوسرے کے
مدمقابل ہیں… اس لئے ان کے درمیان مذاکرات کے انتظامات موجود نہیں تھے… گذشتہ
اٹھارہ سال میں طالبان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے وغیرہ کے جو بعض
معاملات ہوئے وہ کسی اور فریق کے ذریعہ سے ہوئے… اب جبکہ ’’امریکا‘‘ ہر حال میں
’’افغانستان ‘‘ سے نکلنا چاہتا ہے…اس لئے اس کی خواہش تھی کہ اس کے طالبان سے براہ
راست مذاکرات ہوں… مگر’’ طالبان‘‘ تک اس کی رسائی نہیں تھی… امریکہ اور اس کے سب
’’اتحادی‘‘ طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر ختم کرنے اور سب سے الگ تھلگ کرنے کی
سالہا سال سے کوشش کر رہے تھے… اس لئے طالبان کی سیاسی قیادت کے پاس کوئی ایسی جگہ
موجود نہیں تھی جہاں بیٹھ کر وہ کسی سے مذاکرات کرتے … اب جبکہ امریکا یہ جنگ ہار
چکا ہے… اور وہ اس جنگ میں مزید اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتا تو اس نے افغانستان میں
طالبان کےحقیقی وجود اور ان کی حقیقی قوت کو تسلیم کر لیا ہے… اسی لئے اس نے قطر اور
پاکستان وغیرہ ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام
کرائیں…یہ ایک طویل، لمبی اور دلچسپ داستان ہے کہ طالبان کو مذاکرات کے لئے کیسے
آمادہ کیا گیا… ہم اس داستان کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں… اب تقریباً چھ سات ماہ
سے امریکہ اور طالبان کے براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں … اور ان مذاکرات کا سب سے
اہم اور مفید دور ابھی تین روز قبل قطر میں مکمل ہوا ہے… دنیا بھر کے وہ دانشور جو
طالبان کو تقریباً بھول چکے تھے … اب انہوں نے ’’طالبان ‘‘ کی اس قدر اہمیت کو دیکھا
تو حیران رہ گئے… ایک طرف روس نے طالبان کو بلایا اور ان کے موقف کو بہت پذیرائی دی
… دوسری طرف امریکہ طالبان کی شرطوں پر ان سے بار بار مذاکرات کر رہا ہے… چین اور
ایران بھی طالبان سے دوستی کی کوشش میں ہیں… اور انڈیا بھی طالبان سے مذاکرات کے
لئے راستے ڈھونڈ رہا ہے… یہ سارے حالات دیکھ کر…دنیا بھر کے دانشوروں نے دوبارہ
جہاد، طالبان ، اسلامی حکومت وغیرہ جیسے موضوعات پر تحریریں اور تجزئیے شروع کر دئیے
ہیں… وہ سب یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ… اٹھارہ سال کی خوفناک جنگ، چالیس ممالک کی
عسکری قوت اورکھربوں ڈالر کے جنگی خرچے آخر کیوں طالبان کو ختم نہیں کر سکے؟…جہاد
آخر ختم کیوں نہیں ہو رہا؟… مسلمانوں کی اب بھی جہاد میں دلچسپی آخر کیوں برقرار
ہے؟… یہ دانشور طرح طرح کے تجزئیے کر رہے ہیں… طرح طرح کے تبصرے لکھ رہے ہیں… ان
سب کو پڑھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ جہاد کو سمجھتے ہیں اور نہ مجاہدین کی
نفسیات کو…ان نامور دانشوروں کے تبصرے پڑھ کر آج ایک عجیب نکتہ ذہن میں آیا ہے…
وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق فرمایا ہے:
’’ یہ کتاب متقی لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے‘‘
{هُدًى لِلْمُتَّقِينَ}
[البقرۃ: ۲]
اس
پر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ جو پہلے سے متقی ہیں ان کو ہدایت کی کیا ضرورت ہے؟… حضرات
مفسرین اور اساتذہ کرام اس سوال کے کئی جوابات دیتے ہیں… آج یہ نکتہ سمجھ آیا
کہ… قرآن مجید یعنی دین اسلام کے احکامات کی حقیقت ایمان اور تقویٰ ہی کے ذریعے
سمجھی جا سکتی ہے… تجربے، حکمت ، دانش وغیرہ کے ذریعے سے نہیں… جہاد بھی قرآن ہے یعنی
قرآن مجید کا حکم ہے… اس لئے اسے سمجھنے کے لئے بھی ایمان اور تقویٰ کی ضرورت ہے…
جن کے اندر ایمان ہوتا ہے وہ جہاد کو سمجھ لیتے ہیں…وہ جہاد پر اپنا سب کچھ لگا دیتے
ہیں… اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں…لیکن یہ غیر مسلم دانشور طرح طرح کے تجربے، تجزئیے
اور تبصرے کر کے تھک جاتے ہیں… مگر وہ جہاد کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے… چنانچہ ان
میں سے کسی کی رائے یہ ہے کہ غربت کے مارے ہوئے لوگ تشدد پر اتر آتے ہیں… کسی کی
رائے یہ ہے کہ مذہبی طور پر ورغلائے ہوئے لوگ جہاد کرتے ہیں… کسی کا ذہن یہ ہے کہ
معاشرے میں تنہائی کا شکار افراد جہاد میں بھرتی ہو جاتے ہیں… وغیرہ وغیرہ… اگر ان
کے دلوں میں ایمان کی روشنی ہوتی تو وہ دیکھتے کہ زمانے کے بہترین لوگ… جن کے دماغ
سب سے بہترین ہوتے ہیں… جن کے دل سب سے خوبصورت اور ہمدرد ہوتے ہیں… جن کی زبانیں
سب سے سچی ہوتی ہیں… اور جو انسانیت کے سب سے زیادہ خیرخواہ ہوتے ہیں…وہی افراد
جہاد پر آتے ہیں… اور وہی جہاد کو نبھاتے ہیں…خلاصہ یہ کہ دین کی ہر بات ایمان کی
روشنی اور تقوے کی روشنی میں درست سمجھ آتی ہے…مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے
ایمان اور تقویٰ حاصل کیا جائے پھر باقی دین پر عمل کیا جائے… یہ درست اور ممکن نہیں
ہے… ایمان اور اعمال خصوصاً فرائض سب نے ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔
نفع
کی پکی ضمانت
ہمارے
حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ علیہ … بہت کم دعائیں اور وظیفے بتاتے تھے… مگر اللہ
تعالیٰ نے آپ کو جو خاص ایمانی فراست عطاء فرمائی تھی… اس کی روشنی میں آپ کا
منتخب فرمودہ وظیفہ بہت کارگر ہوتا تھا… ایک بار میں اپنے ایک دوست کو حضرت کی
خدمت میں لے کر گیا… وہ کسی سخت پریشانی میں مبتلا تھے… بندہ نے عرض کیا کہ حضرت یہ
بہت سخت پریشان ہیں… آپ نے ایک نظر اُن کو دیکھا اور فرمایا :بری صحبت کی وجہ سے
وساوس میں گھر گئے ہیں… لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ روزانہ پانچ سو بار پڑھا کریں…انہوں نے چند دن یہ
عمل کیا اور بالکل ٹھیک ہو گئے…اوپر عرض کیا ہے کہ حضرت جن دو چار دعاؤں کی اکثر
تاکید فرماتے تھے ان میں یہ دعاء بھی شامل ہے۔
اَللّٰھُمَّ
اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔
’’ یا اللہ!جو کچھ میرے لئے بالکل ٹھیک ہو وہ مجھے سمجھا دیجئے، اس
کا الہام مجھے فرما دیجئے اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا لیجئے۔‘‘
[سنن الترمذي۔رقم الحدیث:۳۴۸۳،الناشر: شركة
مكتبةمصطفى- مصر]
یہ
وہ دعاء ہے جس کے بارے میں حضرت آقا مد نی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضمانت اور گارنٹی دی ہے کہ یہ دعاء دنیا و
آخرت میں نفع دیتی ہے ۔
یقینی
بات ہے کہ… انسان کا نفس بہت زیادہ طاقتور ہے… اور یہ نفس انسان کو بہت زیادہ برائی
اور غلطی میں ڈالتا ہے:
{إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ} [يوسف:۵۳]
انسان
کے غلط فیصلے، غلط اقدامات ، غلط سوچیں اور غلط کام اس کی دنیا اور آخرت دونوں کو
برباد کرتے ہیں… اور انسان کا نفس اسے بار بار غلطیوں میں ڈالتا ہے… اب اگر کسی
انسان کو غلطی سے حفاظت کا ’’الہام ‘‘ نصیب ہو جائے… اس کے اندر درست بات کو
سمجھنے کا آلہ لگ جائے… اسے اپنے ہر معاملے میں خیر والی صورت کا علم ہو جائے …
اور اس کا نفس اس کو کسی غلطی یا مغالطے میں نہ ڈال سکے تو ایسا انسان کتنا خوش
قسمت ہو گا اور کتنا کامیاب…اس لئے اس مبارک دعاء کو یاد کریں … اور اسے اپنے
سجدوں میں اور نماز کے آخری قعدے کے آخر میں مانگا کریں… اور اپنے بچوں کو بھی یہ
دعاء یاد کرائیں۔
روایت
اور الفاظ
یہ
دعاء مختلف الفاظ کے ساتھ احادیث مبارکہ کی کتابوں میں آئی ہے …پہلے اس دعاء کی
روایت پڑھ لیں … اس کے بعد اس کے مختلف صیغے عرض کر دئیے جائیں گے۔
’’(ایک صحابی) حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں… ( میرے والد حالت کفر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا :
’’اے حصین!تم آج کل کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘…میرے والد
نے کہا:’’سات معبودوں کی‘‘ جن میں سے چھ زمین پر ہیں اور ایک آسمان میں‘‘… آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم اپنے
خوف اور اُمید کا مرکز کس معبود کو سمجھتے ہو‘‘؟ انہوں نے کہا: ’’اس کو جو
آسمانوں میں ہے‘‘… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر تم اسلام لے آتے تو میں تمہیں
دو کلمے سکھاتا جو تمہیں (دنیا و آخرت میں) نفع پہنچاتے‘‘ … پھر جب میرے والد
مسلمان ہو گئے تو انہوں نے عرض کیا ’’:یا رسول اللہ ! مجھے وہ دو کلمے سکھا دیجئے
جن کا آپ نے وعدہ فرمایا تھا‘‘… تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،کہو:
اَللّٰھُمَّ
اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔
[سنن الترمذي۔رقم الحدیث:۳۴۸۳،الناشر: شركة
مكتبةمصطفى - مصر]
پوری
حدیث مبارکہ کو دوبارہ پڑھیں… ایک شخص کو اسلام لانے پر ایک انعام کا وعدہ کیا جا
رہا ہے… اندازہ لگائیں وہ کوئی معمولی انعام تو نہیں ہو گا… اور پھر یہ ضمانت دی
جا رہی ہے کہ وہ دعاء آپ کو بہت نفع دے گی… اور آپ کو کسی رہنمائی کی کمی محسوس
نہیں ہو گی… واقعی بہت عظیم دعاء ہے کہ ’’الہام حق‘‘ کا دروازہ کھل جائے… درست فیصلے
کی قوت نصیب ہو جائے … کام میں کامیابی کا راستہ معلوم ہو جائے… اور نفس کے شر سے
حفاظت ہو جائے… ایک انسان کو اور کیا چاہیے۔
دعاء
کریں
امریکہ
اور طالبان کے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں ہیں… دنیا بھر کے کفر کی سازشیں بھی
حرکت میں آ چکی ہیں… افغانستان کے شہداء کرام کا خون آنکھوں کے سامنے ہے… لاکھوں
افراد بے گھر اور ہزاروں قید میں ہیں… دعاء کریں کہ ان مذاکرات کا نتیجہ اسلام اور
مسلمانوں کے حق میں آئے… جہاد کے ثمرات اُمت مسلمہ کو نصیب ہوں… اور دنیا کے اس
خطے پردوبارہ اسلامی حکومت کی بہار لوٹ آئے۔
ایک
تحفہ
احادیث
مبارکہ میں ایک ہی دعاء بعض اوقات مختلف الفاظ میںآتی ہے… اس سے اس دعاء کی لذت
بھی بڑھ جاتی ہے… اور ہر دوسرے لفظ میں کوئی مزید نفع بھی مل جاتا ہے… اپنا وظیفہ
بنانے کے لئے تو ایک ہی صیغے یا لفظ کو یاد کر کے اپنا لینا چاہیے… مگر مزید برکت
کے حصول کے لئے دیگر روایات میں آنے والے الفاظ میں بھی کبھی کبھار دعاء مانگ لینی
چاہیے… ’’الہامِ حق‘‘ کی اس دعاء کے مختلف صیغے ملاحظہ فرمائیں۔
١ اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ
رُشْدِیْ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔
[سنن الترمذي۔رقم الحدیث:۳۴۸۳،الناشر: شركة
مكتبةمصطفى- مصر]
٢ اَللّٰھُمَّ
قِنِیْ شَرَّ نَفْسِیْ وَاعْزِمْ لِیْ عَلٰی اَرْشَدِ اَمْرِیْ۔
[مسند احمد ۔رقم الحدیث:۱۹۹۹۲،الناشر: مؤسسة
الرسالة]
٣ اَللّٰھُمَّ
إِنِّي أَسْتَهْدِيْکَ لِأَرْشَدِ أَمْرِي، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ
نَفْسِي۔
[المعجم الكبيرللطبرانی۔رقم الحدیث:۸۳۶۹۹،مكتبة ابن تيمية
- القاهرة]
٤
اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَسْتَهْدِيْکَ
لِأَرْشَدِ أَمْرِي، وَأَسْتَجِيرُکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي ۔
[المعجم الكبيرللطبرانی۔رقم الحدیث:۴۳۹،مكتبة ابن تيمية
- القاهرة]
٥
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَ اَسْئَلُکَ اَنْ
تَعْزِمَ لِیْ عَلٰی رُشْدِ اَمْرِیْ ۔
[شرح مشكل الآثار۔رقم الحدیث:۲۵۲۵،الناشر: مؤسسة
الرسالة]
٦
اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَ قِنِیْ شَرَّ نَفْسِیْ۔
[ جامع المسانید لابن کثیر،حدیث رقم:۲۵۳۷،طبع دار خضر، بیروت]
حضرت
شیخ رحمہ اللہ علیہ مذکورہ بالا اَلفاظ میں دعاء تلقین فرمایا کرتے
تھے۔
٧ اَللّٰھُمَّ
اَلْھِمْنِی رُشْدِیْ وَ عَافِنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔
[ الأسماء والصفات للبيهقی۔رقم الحدیث:۸۹۴،الناشر: مكتبة
السوادي، جدة]
٨
اَللّٰھُمَّ قِنِی شَرَّ نَفْسِیْ وَ اعْزِمْ لِی عَلٰی رُشْدِ یْ۔اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لِیْ مَا اَسْرَرْتُ وَ مَا اَعْلَنْتُ وَ مَا اَخْطَأْتُ وَ مَا
عَمِدْتُ وَ مَا جَھِلْتُ۔
[صحيح ابن حبان ۔رقم الحدیث:۸۹۹،الناشر: مؤسسة
الرسالة - بيروت]
آمِیْنَ
یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور :680
یومِ یکجہتیٔ کشمیر کے موقع پر
5 فروری 2019 یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر حضرت امیرالمجاہدین دامت
برکاتہم العالیہ کا خصوصی ریکارڈڈ بیان… جسے بعد ازاں تحریر کی شکل میں ڈھال دیا گیا…
اس بیان میں شہداء کشمیر کو خراج تحسین پیش کیا گیا… اہل کشمیر کا شکریہ اداء
کیا گیا، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مضبوط لائحہ عمل دیا گیا… انڈیا کی عوام
کو نصیحت کی گئی اور دھوکے سے باہر آنے کا کہا گیا… اور آخر میں سب اہل ایمان کو
دو اہم نصیحتیں کی گئیں…
پڑھیے
اور قلب و اذہان کو روشنی دیجیے۔
تاریخ
اشاعت:
۲ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۴۰ھ/
8 فروری 2019
یومِ یکجہتیٔ کشمیر کے موقع پر
اللہ
تعالیٰ ان تمام لوگوں کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطاء فرمائے… جو آج کشمیر
کے بہادر اور مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اِظہارِ یکجہتی کے لیے جمع ہوئے ہیں… اللہ
تعالیٰ اس شرکت کو قبول فرمائے اور سب حاضرین کو اپنی مغفرت اور اپنے اِکرام کا
اِنعام نصیب فرمائے… تفصیل میں جائے بغیر چند باتیں عرض ہیں۔
خراج
تحسین
سب
سے پہلے تو میں شہدائِ کشمیر کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں… بہت سے چہرے میرے سامنے
آ رہے ہیں… ایک چہرہ ہٹتا ہے تو دوسرا سامنے آجاتا ہے… کس کس کو یاد کروں… کوئی
اُن میں سے ایسا نہیں کہ جسے بھلایا جاسکے… اللہ تعالیٰ اُن سب کو اعلیٰ علیین میں
اعلیٰ مقام نصیب فرمائے… اِن شاء اللہ اُن کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور کشمیر
آزاد ہوگا… اور اپنے ساتھ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کا ذریعہ بھی بنے
گا… اِن شہداء کرام کی خدمت میں یہ چند اَشعار عرض کرتا ہوںـــ
وہ
یوں دِل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیںہوتی
وہ
یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
مجھے
تو کردیا سیراب ساقی نے میرے لیکن
میری
سیرابیوں کی تشنہ سامانی نہیں جاتی
نہیں
معلوم کس عالَم میں حسنِ یار دیکھا تھا
کوئی
عالَم ہو لیکن دِل کی حیرانی نہیں جاتی
جلے
جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر، مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضورِ
شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
محبت
میں ایک ایسا وقت بھی دِل پر گزرتا ہے
کہ
آنسو خشک ہو جاتے ہیں، طغیانی نہیں جاتی
اہل
کشمیر سے گزارش
دوسری
گزارش کشمیر کے مسلمانوں سے ہے… اللہ تعالیٰ کشمیر کی ماؤں، بہنوں کو… وہاں کے
بزرگوں اور نوجوانوں کو اپنی شان کے مطابق بہترین صلہ اور بدلہ عطاء فرمائے… آپ
حضرات کی بہادری، آپ کی جرأت و شجاعت، آپ کی دیوانگی اور آپ کے عشق کو دیکھنے
کے لیے آسمان بھی زمین پر جھانکتا ہوگا… اِن شاء اللہ آپ کو منزل ضرور ملے گی
اور آپ کو پوری اُمتِ مسلمہ کی طرف سے اجر ملے گا… آج جبکہ جہاد کا فریضہ
مسلمانوں میں سے نکلتا جا رہا ہے آپ حضرات نے اس فریضے کو تھاما ہوا ہے… منزل دور
نہیں ہے… ہمت سے لگے رہیں… اور ایک ایک کر کے کٹنے کی بجائے سارے ہی اکٹھے ایک بار
نکل آئیں… انڈیا تو ایک مہینے کی مار نہیں ہے… ایک مہینے کی مار نہیں ہے… پھر
کہتا ہوں ایک مہینے کی مار نہیں ہے… یہ فلمیں بنانے والے، یہ کرکٹ پہ ناچنے والے، یہ
اپنی عزتیں پوری دنیا میں فروخت کر کے مقبولیت حاصل کرنے والے،یہ اپنی بے وقوفیوں
کو اپنی سائنس قرار دینے والے اس قابل نہیں کہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرسکیں… بس
ہمارے درمیان اِنتشار ہے… اگر سارے اہل کشمیر اکٹھے ہو کر نکل آئیں اور ایک دم
نکل آئیں اور ادھر سے اہل پاکستان بھی اُن کی معاونت کریں تو انڈیا کو بھاگنے کا
راستہ بھی نہیں ملے گا … میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوںکہ کشمیر اور پاکستان
الگ الگ نہیں ہیں… لوگ تو کہتے ہیں’’ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے‘‘… میں کہتا ہوں
’’پاکستان کشمیر کا حصہ ہے‘‘… کشمیر کے بہادر، غیور، سمجھدار، ذہین اور زیرک
مسلمان اس بات کے مستحق ہیں کہ وہ پاکستان کی قیادت سنبھالیں… اور پاکستان کشمیر
کے بغیر مکمل نہیں اور کشمیر پاکستان کے بغیر مکمل نہیں…یہ دونوں لازم ملزوم ہیں… اور ایک وقت آئے گا جب دنیا دیکھے گی کہ کشمیر
کے مسلمان اس پورے خطے کی قیادت کریں گے… اس لیے کہ اُنہوں نے قربانی دی ہے اور
اللہ تعالیٰ کسی کی قربانی کو رائیگاں نہیں فرماتے… اللہ تعالیٰ کسی کی قربانی کو
ضائع نہیں فرماتے۔
انڈیا
والو!
تیسری
بات انڈیا کے لوگوں سے کرنی ہے …انڈیا والو اپنے حکمرانوں کو سمجھاؤ… کیوں اپنے
فوجیوں کو مروا رہے ہیں… یہ بیچارے چند ہزار تنخواہ لینے والے… آسام، تامل ناڈو ،
یوپی ، مدھیہ پردیش اوردیگر مختلف ریاستوں سے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے فوج میں
آتے ہیں، ان کو کیوں کشمیر میں دھکیلا جاتا ہے؟… انڈیا کا کشمیر کے ساتھ کیا تعلق
ہے ؟… انڈیا کو کیا حق ہے کہ وہ کشمیر پر اپنی حکمرانی کی بات کرے… ایک ظالم شخص کی
وجہ سے کشمیر پر ایک ظالمانہ اور غاصبانہ قبضہ ہوا جسے کبھی کشمیر کے مسلمانوں نے
تسلیم نہیں کیا… آج ساری دُنیا اپنے فوجیوں کی حفاظت کی بات کر رہی ہے… ڈونلڈ
ٹرمپ جیسا آدمی ہر جگہ سے اپنی فوجیں واپس نکال رہا ہے… انڈیا والے کیوں اپنے فوجیوں
کو دن رات یہاں مروا رہے ہیں…انہیں واپس لے جائیں، کشمیریوں کو آزادی دیں… انڈیا
کی عوام کو چاہیے کہ اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوں… فلموں پر نہ جائیں … فلموں میں
جو کچھ دِکھایا جاتا ہےوہ جھوٹ ہوتا ہے… نہ آپ کی آرمی اتنی بہادر ہےاور نہ آپ کے سیاستدان … ان کے تو دھماکے کی آواز
سن کر ہوش اُڑ جاتے ہیں… اس لیے اپنی حکومت پر زور ڈالیں اور پوچھیں کہ آخر یہ
روز تابوت میں لاشیں کس لیے آتی ہیں؟… کیوں اِس قدر نفرت پھیلائی جا رہی ہے؟… او یہ
بات یاد رکھیں کہ جب مسلمان اس نفرت کا بدلہ لینے کے لیے آگے بڑھیں گے تو پھر …
اِنتقام کا یہ سلسلہ بہت دور، دور تک جائے گا۔
دو
باتیں
دو
باتیں تمام اہل اسلام سے کرنی ہیں… پہلی بات یہ کہ اگر آج کوئی پریس یا مطبع
قرآنِ مجید کا ایسا نسخہ چھاپ دے… جس نسخے میں سے قرآن پاک کی ایک ہزار آیتیں
نکال لی گئی ہوں… تو کیا مسلمان اِس نسخےاوراس عمل کو قبول کریں گے؟… اِس کو
برداشت کریں گے؟… ہر گز نہیں… بلکہ ایسے مطبعوں کو لوگ نکل کر آگ لگا دیں گے…
قرآنِ مجید کا وہ نسخہ جس میں ایک ہزار آیات نہ ہوں کیا وہ پورا قرآنِ مجید
کہلائے گا؟… یقیناً آپ سب کا جواب ہوگا… ہرگز نہیں!…تو پھر اے مسلمان! تو قیامت
کے دِن جب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جائے گا… اللہ تعالیٰ کے حضور پیش
ہوگا… اور تیری زندگی میں جہاد کی ایک ہزار آیتیں نہیں ہوں گی… نہ تو کبھی جہاد
پر نکلا، نہ تو نے جہاد پر مال لگایا، نہ تو نے جہاد میں قربانی دی، نہ تو نے جہاد
کے لیے اپنی زبان کو استعمال کیا…گویا تیری زندگی میں یہ آیات ہیں ہی نہیں…تو پھر
تیرا انجام کیا ہوگا؟… کبھی غور کیا؟… یہ سورۂ بقرہ کی آیات، یہ سورۂ آل عمران
اور سورۂ نساء کی آیات، یہ پوری سورۂ انفال اور سورۂ براء ت تیری زندگی میں ہیں
ہی نہیں… تیرے نبی کے ہاتھ میں تلوار ہےجبکہ تیرا ہاتھ خالی ہے… تیرے نبی کے جسم
پر جہاد کے زخم ہیںاور تیرے جسم پر ایک بھی زخم نہیں… تو کس طرح سے ’’کامل
مسلمان‘‘ کہلائے گا… جہاد کو ریاست کی ذمہ داری قرار دے کر خود مطمئن بیٹھ جانے
والو! قرآنِ پاک کی آیات جہاد کو ایک بار پھر پڑھ لو… شاید تمہارا اِیمان بچ
جائے ،شاید تمہارا اِیمان بچ جائے، شاید تمہارا اِیمان بچ جائے… حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دِل کو تکلیف نہ دو… جہاد سے پیچھے رہنے والے
اور جہاد کے مُنکر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والے ہیں، تکلیف دینے والے ہیں،
تکلیف دینے والے ہیں… اس لیے سب مسلمان عزم کر یں، عہد کر یں کہ اِن شاء اللہ
’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو مانیں گے، اِسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے اور اس میں جس
قدر ہو سکا حصہ ڈالیں گے، ان شاء اللہ
دوسری
گزارش یہ ہے کہ مسلمان، مسلمان بن جائیں… کلمۂ طیبہ کی طرف آ جائیں… لَااِلٰہَ
اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کریں… کثرت سے
کلمہ طیبہ کا وِرد کیا کریں… اور نماز کی بہت زیادہ پابندی کیا کریں…اپنے گھر میں
پابندی کرائیں… اپنے محلے میں پابندی کرائیں… کلمۂ طیبہ کی دعوت،نماز کی دعوت،
جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت… یہ دین کی وہ دعوت ہے جس کو اختیار کرنے کے بعد دین کے
راستے کھلتے چلے جاتے ہیں، فتوحات کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں… اِس دعوت کے لیےمسلمان
آگے بڑھیں، ہمارے ساتھ مل کر، ہمارے ساتھ اپنے قدم ملا کر آگے بڑھیں… اِن شاء
اللہ آج جس طرح امریکہ افغانستان میں مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے … بہت جلد انڈیا
بھی اِسی طرح مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ… وَمَا
ذَالِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْزٍ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور : 681
بلالی محبوبیت
* اہل ایمان سلاطین کی بنیادی
صفات و خدمات
* حج بیت اللہ، حرمین شریفین
اور حجاج کرام
کے بارے ان کا طرز عمل
* حکومت کا نہایت غلط اقدام کہ
حج بیت اللہ مہنگا کردیا
* اس پریشان کن صورتحال میں
عازمین حج
کی راہنمائی اور حوصلہ
افزائی
* ’’قربِ منزل کے جھٹکے‘‘… ایک
الہامی نکتہ
* ’’سیّدنا حضرت بلال رضی اللہ
عنہ پر عظمتوںاور
رفعتوں کے دروازے کیسے
کھلے؟…
ایک روشن داستان
تاریخ
اشاعت:
۹ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۴۰ھ/
15 فروری 2019ء
بلالی محبوبیت
اللہ
تعالیٰ اول تا آخر ہماری نصرت، مغفرت اور رہنمائی فرمائیں:
{ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ
ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ} [الحدید:۳]
(۱) منزل
جب قریب آتی ہے تو آزمائشیں بھی سخت ہو جاتی ہیں… اور شیطان بڑے زوردار حملے
کرتا ہے… اس لئے ہم اول تا آخر اللہ تعالیٰ کی رحمت، فضل اور نصرت کے محتاج ہیں۔
(۲)جب
راستہ بھٹکنے لگے، قدم ڈگمگانے لگیں،سامنے اندھیرا نظر آنے لگے توکامیابی کے
ستاروں سے رہنمائی ، ہمت اور روشنی لینی چاہیے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ستاروں کی طرح ہیں۔
یہ
ہیں ہماری مجلس کے دو موضوع … اور تھوڑی سی بات ’’حج بیت اللہ ‘‘ پر۔
اچھا
نہیں کیا
اللہ
تعالیٰ جب اپنے وفادار بندوں کو حکومت، قوت ، عہدہ یا مال عطاء فرماتے ہیںتو… وہ
بندے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں… وہ مساجد بناتے ہیں… وہ
نماز کو قائم رکھنے کی وسیع ترتیب بناتے ہیں… وہ زکوٰۃ کا نظام مضبوط کرتے ہیں… وہ
حج بیت اللہ کے لئے راحتیں اور آسانیاں فراہم کرتے ہیں… وہ فریضۂ جہاد کی مکمل
ترتیب قائم کرتے ہیں… وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی محنت اُٹھاتے ہیں …
اور وہ اللہ تعالیٰ کے قوانین ، حدود اور احکامات کو نافذ کرتے ہیں… اسی لئے وہ
اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاتے ہیں:
الْمُؤْمِنُ
الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ۔
’’طاقتور مؤمن بہتر ہے اوراللہ تعالیٰ کو کمزور مؤمن سے زیادہ
محبوب ہے۔‘‘
[صحیح مسلم۔حدیث رقم: ۲۶۶۴، الناشر: دار
إحياء التراث العربي]
کیونکہ
اس کی ہر طاقت دین کے لئے استعمال ہوتی ہے… اس کی ہر قوت سے دین کو قوت ملتی ہے…
وہ حاکم جو اللہ تعالیٰ کے دین کا وفادار ہو اس کا مقام اور اس کا رتبہ بہت ہی
بلند ہے… وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا سایہ ہوتا ہے… اور اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے … اسلامی تاریخ میں حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیر القرون کے بعد بھی ایسے بادشاہ ، حاکم
اور سلطان گذرے ہیں کہ… زمانے بھر کے اولیاء ان کے قدموں کی خاک کے برابر نہیں…
آج بھی صوفیاء کرام کے بعض طبقے ان مؤمن سلاطین کے لئے ایصال ثواب اور دعاء کو
اپنے اصلاحی نصاب کا حصہ سمجھتے ہیں۔
حضرات
خلفاء راشدین ہوں یا ان کے بعد کے اہل ایمان سلاطین… ان سب نے فریضۂ حج کی خدمت
کو ہمیشہ اپنی سعادت سمجھا … انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق حجاج کرام اور حرمین
شریفین کی خدمت کی … اور اپنے حکومتی اختیارات اور اموال کواس فریضہ کی خدمت پر بے
دریغ لٹایا…وجہ یہ تھی کہ وہ ’’حج بیت اللہ‘‘ کے مقام کو سمجھتے تھے… وہ اس فریضے
کو امت مسلمہ کی اجتماعیت کا اہم ترین ذریعہ سمجھتے تھے… وہ ’’حرمین شریفین‘‘ کے
عالی قدر مقام کو جانتے تھے… ماضی کے ان حکمرانوں نے حرمین شریفین ، حج بیت اللہ
اور حجاج کرام کی جو خدمت کی ہے…وہ تاریخ کا روشن حصہ… اور ان حکمرانوں کے نامہ
اعمال کی روشنی ہے… ہماری موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی حج بیت اللہ کو
مہنگا کر کے اچھا نہیں کیا… غریب مسلمان مرد اور خواتین سالہا سال تک حج کے لئے
سرمایہ جمع کرتے ہیں… اس کی بڑی عجیب داستانیں ہیں… اخبار میں تھا کہ ایک خاتون حج
کے تازہ اخراجات پڑھ کررونے لگی … وہ معلوم نہیں کب سے محنت کر کے حج کے لئے پیسے
جمع کر رہی تھی…اس سال اسے اپنی منزل قریب نظر آ رہی تھی کہ حکومت نے ایک دم ڈیڑھ
لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا اضافہ کر دیا … اب وہ سوائے رونے کے اور کیا کر سکتی ہے…
مگر اس کے آنسو کہیں اس حکومت کی کشتی ہی نہ ڈبو دیں… حکومت اگر تھوڑا سا غور کرتی
تو کبھی بھی یہ ظلم نہ ڈھاتی… مگر بد نصیبی نے عقلوں پر پردے ڈال دئیے… اللہ تعالیٰ
ہی رحم فرمائیں … اہل ایمان سے گزارش ہے کہ مایوس نہ ہوں:
{وَ لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ} [المنافقون:۷]
اللہ
تعالیٰ کے خزانے بے شمار ہیں…دل میں حج کا شوق بھریں… مکمل یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ
سے دعائیں مانگیں… اور ہمت نہ ہاریں… اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتے ہیں:
{ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ
ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ} [الحدید:۳]
جنہوں
نے حج داخلے کا ارادہ کر رکھا تھا اور اب تازہ قیمتیں پڑھ کر ان کا ارادہ متزلزل
ہو رہا ہے وہ اپنے ارادے کو مضبوط کریں… اپنے شوق کو بڑھائیں… دل کی آواز سے تلبیہ
پڑھیں… اور روزانہ دو رکعت ادا کر کے اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگیں… ان شاء اللہ
انتظام ہو جائے گا… اور اگر نہ بھی ہوا تو انہیں اس طلب، اس تڑپ ، اس عشق اور اس
شوق پر جو کچھ ملے گاوہ بھی ان شاء اللہ حج مبرور سے کم نہیں ہو گا…ایک صاحب ہر
نماز تکبیر اولیٰ سے ادا کرتے تھے… وہ تکبیر اولیٰ کی حقیقت کو جان چکے تھے… دنیا
میں بہت کم لوگ تکبیر اولیٰ اور صف اول کی حقیقت کو جانتے ہیں… ایک بار وہ کسی سخت
عذر کی وجہ سے کچھ لیٹ ہوئے…مسجد پہنچے تو تکبیر اولیٰ نکل چکی تھی… ان کے دل سے
حقیقی درد والی آہ نکلی… ایسی آہ جو کسی مالدار کے دل سے اس کا سارا سرمایہ ڈوب
جانے پر نکلتی ہے… ایک اللہ والے بزرگ نے خواب میں ساری حقیقت دیکھ لی… انہوں نے
اس صاحب سے کہا کہ آپ میری ساری زندگی کی عبادت لے لو… بس مجھے وہ دے دو جو تمہیں
اس ’’آہ ‘‘ پر ملا ہے… مقصد یہ کہ اہل دل کے لئے کسی حال میں محرومی نہیں ہے… اہل
ایمان کے لئے کسی حالت میں خسارہ نہیں ہے… اہل عشق کے لئے کسی حال میں نقصان نہیں
ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی… حقیقی اہل ایمان میںسے بنائیں۔
قربِ
منزل کے جھٹکے
مؤمن
کی جب کوئی منزل قریب ہو تو اس پر آزمائشیں بڑھ جاتی ہیں… اور شیطان بھی بڑے زور
دار حملے کرتا ہے… قرآن مجید کی’’سورۃ الکہف‘‘ میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ مذکور ہے…اس قصے کے اسباق میں سے ایک
سبق یہ بھی ہے جو اوپر عرض کیا ہے… حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ بڑے اطمینان سے سفر فرما رہے
تھے… مگر جب منزل بالکل قریب آ گئی تو پریشانیاں، تھکاوٹیں اور مشقت شروع ہو گئی…
حسب ہدایت نشانی ظاہر ہوئی کہ مچھلی سمندر میں کود گئی…یہ بالکل نہ بھولنے والا
واقعہ تھا،مگر شاگرد بھول گیا… منزل سے آگے نکل گئے تو تھکاوٹ نے گھیر لیا…غصہ
اور تفرقہ بھی ہو سکتا تھا… مگر اُنہوں نے صبر سے کام لیا… برداشت اور ہمت کا
انتخاب فرمایا… اور پھر اُنہیں منزل مل گئی…جس مقصد کے لئے سفر فرمایا تھا وہ اپنی
تمام تر برکات کے ساتھ نصیب ہو گیا… ایسے واقعات اور بھی بہت ہیں…اس لئے یہ قاعدہ
اور قانون یاد رکھیں کہ جب پریشانیاں دونوں جبڑے کھول کر حملہ آور ہو جائیں…
انسان کی سمجھ جواب دینے لگے… اور صبر کرچی کرچی ہو کر ٹوٹنے لگے تو سمجھ جائیں کہ
کوئی بڑی منزل قریب ہے … کوئی عظیم نعمت حاصل ہونے والی ہے… اور کوئی اچھا مقصد
پورا ہونے والا ہے… اسی لئے شیطان پے درپے حملے کر رہا ہے… تب نماز اور صبر سے قوت
حاصل کرنی چاہیے:
{وَ اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوٰۃِ} [البقرہ: ۴۵]
جب
نماز اور صبر کو اپنائیں گے تو:
{اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ} [البقرہ:۱۵۳]
اللہ
تعالیٰ کی معیت اور نصرت حاصل ہو جائے گی۔
یہ
کام آسان نہیں ہے، مگر ضروری بہت ہے… کیونکہ اگر ایسا نہ کیا اور شیطان کا شکار
ہو گئے تو پچھلا ساراسفر بھی رائیگاں جا
سکتا ہے… اللہ تعالیٰ اول تا آخر ہمیں اپنی نصرت، ہدایت ، رحمت اور مغفرت عطاء
فرمائیں:
{ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ
ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ} [الحدید:۳]
روشن
ستارے کے پیچھے
دین
کی خاطر ہر تکلیف برداشت کرنا ممکن ہو جائے… یہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سیکھنا چاہیے… صرف ایک حضرت سیدنا بلال رضی
اللہ عنہ کو ہی دیکھ لیں… اللہ اکبر کبیرا…
شاید ہم میں سے کوئی بھی صرف ایک دن ان تکلیفوں کو برداشت کر کے ثابت قدم نہ رہ
سکے جو… حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں برداشت
فرمائیں… گذشتہ دو راتوں سےان کی سیرت مبارکہ کا ازسرنو مطالعہ شروع کیا تو دل
روشنی سے بھر گیا… سبحان اللہ! اتنا نور اور اتنا بلند مقام … اور سر شرم سے جھک گیاکہ
ہم نے دین کی خاطر کیا کیا؟ اور کیا جھیلا؟
کہتے
ہیں … حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دل پر
اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی عظمت ایسی چھا گئی کہ… اس کے مقابلے میں انہوں نے
اپنی ذات، اپنے نفس اور اپنے بدن کو کچھ بھی نہ سمجھا… چنانچہ جو قربانی مانگی گئی
وہ پیش کرتے چلے گئے… کیونکہ عظیم چیزوں کے لئے معمولی چیزوں کو خرچ کرنا آسان ہو
جاتا ہے… آج ہمارا معاملہ برعکس ہے… ہمارے ہاں نعوذ باللہ دین بہت چھوٹا اور اپنی
ذات، اپنا نفس اور اپنی خواہشات بہت بڑی بن چکی ہیں… حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خود کوبھلا کر ، مٹا کر دین کی
عظمت کو اپنے دل پر سوار کیا تو… اللہ تعالیٰ نے ان پر عظمتوں اور رفعتوں کے
دروازے کھول دئیے… پھر کون سی سعادت ہے جو حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو نہیں
ملی… حتٰی کہ مقام یہاں تک پہنچا کہ مسلمانوں کے… عظیم ترین ایوان… یعنی مسجد نبوی
کے پہلے سپیکر… یعنی مؤذن منتخب ہوئے… قرب ایسا ملا کہ دن رات حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر حاضر رہتے… اعتبار ایسا ملا کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خازن
مقرر ہوئے… اور محبوبیت ایسی ملی کہ… فرمایا گیا:… جنت بھی بلال کی مشتاق ہے…رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ وَاَرْضَاہُ … یا اللہ ہم پر بھی اپنا رحم اور اپنا فضل فرما۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور : 682
اللہ تعالیٰ ہی ہنسانے والے
اللہ تعالیٰ ہی رلانے والے
* تحریک آزادی ٔ کشمیرکی بڑی
فدائی کاروائی اور
اس کے مابعد ہونےوالی بڑی
تبدیلیاں…
* انڈیا کی رسوائی اور تنہائی …
* پلوامہ حملے کے بارے میں ایک
غلط تجزیے کی تردید…
* عادل احمد ڈار شہید رحمہ اللہ
علیہ کی کرامات اور
ان کی عظیم قربانی کے نمایاں اثرات…
* خبردار! کوئی اس عظیم ہیرو کے
خلاف منہ
سے ایک لفظ بھی نہ نکالے
ورنہ تباہی پکی…
* ایسے پیاروں کی طرف نسبت
ہوجانا بڑی سعادت…
تاریخ
اشاعت:
۱۶ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۴۰ھ/
22 فروری 2019ء
اللہ تعالیٰ ہی ہنسانے والے
اللہ تعالیٰ ہی رلانے والے
اللہ
تعالیٰ ہی ہنساتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی رُلاتے ہیں… فرمایا:
{وَاَنَّہٗ ھُوَاَضْحَکَ وَاَبْکٰی}
’’بے شک وہی ہے جو ہنساتا ہے اور رُلاتا ہے۔‘‘ [ النجم: ۴۳]
رنگ
و نور لکھنے بیٹھا تو سنجیدہ تھا… اور کچھ رنجیدہ… گذشتہ ایک ہفتے سے ایک کتاب پر
کام کرنے کے لئے ’’خلوت نشین ‘‘ تھا… اسی خلوت نشینی میں ہی خبر ملی کہ مقبوضہ کشمیر
میں ایک بڑا حملہ ہوا ہے اور آپ کا نام پھر حسب سابق چل نکلا ہے…بلکہ اس بار کچھ
زیادہ ہی شدت ہے… موت اور قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں وغیرہ، وغیرہ… کتاب کا کام
مشکل تھا اور توجہ طلب بھی… کتاب بھی عوام کے لئے نہیں علماء کرام کے لئے تیار کی
جا رہی تھی … ظاہر ہے زیادہ محنت اور احتیاط درکار تھی… اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی…
خبروں اور حالات سے آنکھیں بند کیں… اور پھر کتاب کے کام میں لگ گیا… حضرت امام
بخاری رحمہ اللہ علیہ کی روحانی، علمی
محفل… ساتھ حضرت ابن حجر، حضرت عینی، حضرت قسطلانی ، حضرت کرمانیn اور بڑے معطر لوگ… اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا،
کام کچھ مکمل ہوا تو اب ’’ رنگ ونور‘‘ کی باری آ گئی … معلوم کیا کہ حالات کیا ہیں؟
… پتا چلا کہ کافی گرما گرمی ہے… انڈیا چیخ رہا ہے، تڑپ رہا ہے، بلک رہا ہے ، رو
رہا ہے ، دھمکیاں لگا رہا ہے… مگر چاہتا یہ ہے کہ اس کی ہر دھمکی پاکستان پوری
کرے… اس کی ہر خواہش پاکستان پوری کرے… کیونکہ پاکستان کا وہ محسن ہے… اسی نے
پاکستان کو توڑا … اسی نے پاکستان میں بار بار فسادات کی آگ لگائی …چنانچہ اب
پلوامہ حملے کا انتقام بھی پاکستان اس کو لے کر دے… ادھر پاکستان کی طرف سے جوابات
پھیکے پھیکے سے ہیں… کچھ خوف بھی نظر آ رہا ہے… چنانچہ اس صورتحال سے تھوڑا رنج
ہوا… استخارہ کی دو رکعت پڑھ کر لکھنے آ بیٹھا… خبریں کھولیں تو کسی کرم فرما نے
ایک خبر بھیج رکھی تھی… اسے سنا تو ہنس ہنس کر سارے غم بھول گئے…آواز آ رہی تھی:
’’اب لال ٹماٹر کو ترسے گا پاکستان… ہمارے ہی ٹماٹر کھا کر ہمارے
فوجیوں کو مارنے والا پاکستان اب ایک ایک ٹماٹر کو ترسے گا… دیش بھگت کسانوں نے
اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ اپنا ٹماٹر پاکستان نہیں بھیجیں گے۔‘‘
دنیا
نے منہ موڑ لیا
ٹماٹر
بند ہو جانے کا غم اپنی جگہ… آئیے چند اہم باتوں پر نظر ڈالتے ہیں… پلوامہ
حملہ مقامی کشمیری مجاہدین نے اپنے قاتل
انڈیا پر کیا… مگر انڈیا حسب سابق اس کاالزام اِدھر اُدھر ڈال کر ساری دنیا سے حمایت
کی بھیک مانگنے لگا… لیکن اس بار دال نہیں گلی… حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک
نے اس حملے کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ مذمت کی… یورپی یونین نے بھی کوئی بیان نہیں
داغا… پڑوسی ملک چین کے اخبارات نے اس خبر کو ہی شائع نہیں کیا… البتہ اُن کی
وزارت خارجہ نے مختصر سا بیان دے دیا… برطانیہ جو ہر معاملے میں انڈیا کا ساتھ دیتا
ہے اس حملے پر خاموش ہے … وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس حملے میں نہ
کوئی سویلین مارا گیا اور نہ اس میں دہشت گردی کا کوئی پہلو ہے… وہ فوجی جو لڑنے
اور مارنے جا رہے تھے وہی اس حملے کا نشانہ بنے… وہ جن کو مارنے جا رہے تھے ان میں
سے ایک نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور یوں یہ حملہ ہو گیا… اب دنیا کو کیا
پڑی ہے کہ ایک میدان جنگ میں مارے جانے والے مسلح فوجیوں پر آنسو بہاتی رہے… جبکہ
یہ فوجی اپنے ملک کی حدود سے باہر… اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر ایک آزاد قوم کو
غلام بنائے رکھنے جا رہے تھے… کشمیری قوم کو مبارک ہو کہ اس بار دنیا نے ان کی
آواز کو سنا اور سمجھا ہے… اور بھارت کی آہ و بکاء کو مسترد کر دیا ہے…اللہ تعالیٰ
پاکستان کے خوفزدہ میڈیا کو بھی ہمت، جرأت اور غیرت عطاء فرمائے۔
یہ
بات بالکل غلط ہے
کچھ
لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس حملے سے مودی کو فائدہ ہوا ہے… اس حملے نے اس کی الیکشن مہم
میں جان ڈال دی ہے… یہ بالکل غلط تجزیہ ہے…ایسا کہنے اور سمجھنے والے لوگ نہ انڈیا
کی سیاست کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ ہندو ذہنیت سے واقف ہیں… اس حملے نے تو مودی
کی سیاست اور مقبولیت کا جنازہ نکال دیا ہے… لوگ حیران ہیں کہ مودی نے اب تک اتنا
شور مچایا… اور کشمیر میں آپریشن آل آؤٹ کا دعویٰ کیا… یعنی سب مجاہدین ختم
اور آؤٹ… تو اب یہ حملہ کیسے ہو گیا … حملہ بھی کشمیری مجاہد نے کیا… اور حملہ
بھی سری نگر کے قریب ہوا… پاکستان کے بارڈر پر نہیں…چنانچہ مودی کی تمام بڑھکیں
اور دعوے خاک میں مل گئے… اور اس کی سیاسی پوزیشن اب پہلے سے بہت کمزور ہو چکی ہے
… اگر اس موقع پر حکومت پاکستان نے مضبوطی دکھائی… اور مودی کے دباؤ میں آ کر
کوئی غلط قدم نہ اٹھایا تو مودی اب نیچے اور پیچھے لڑھکتا جائے گا… لیکن اگر اس
موقع پر مودی کے شور شرابے سے گھبرا کر ہمارے حکمرانوں نے اس کے کچھ مطالبات تسلیم
کر لئے تو اس سے مودی کی حالت سنبھل سکتی ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہمت و
جرأت عطاء فرمائیں… یہی کشمیری نوجوان ’’عادل احمد ڈار‘‘ اگر سری نگر یا پلوامہ میں…
کسی جلوس، جلسے کے دوران انڈین گولی کا نشانہ بن جاتا … یا اپنے چہرے پر چھروں
والا کارتوس کھا کر نابینا ہو جاتا تو ہمارے حکمران اس کی حمایت میں ضرور بولتے…
مگر اس نوجوان نےمظلومیت کے ساتھ مرنے کی بجائے آگے بڑھ کر ظلم کو روکا… اور اپنی
لاشوں کا کچھ حساب چکایا تو آج کلمہ گو مسلمان بھی اسے ’’دہشت گرد‘‘ کہہ رہے ہیں…
یہ کون سا دین ہے اور کونسا انصاف؟
میں
عادل احمد ڈار شہید رحمہ اللہ علیہ کی ایک
کرامت پر تو حیران رہ گیا ہوں… ہمارے ملک کے نامور اور شہرہ آفاق صحافی جناب ایاز
امیر صاحب عادل احمد ڈار شہید کی تعریف کر رہے تھے… ایاز امیر صاحب تو کبھی بھول
کر یا مدہوشی میں بھی کسی دینی اسلامی کاز کی تعریف نہیں کرتے… مجاہدین کے لئے اُن
کی سوئی ہمیشہ نوے ڈگری پر رہتی ہے… مگر یہ عادل احمد ڈار شہید کی قربانی ہے… اور
اُن کی عظیم کرامت ہے کہ ایاز صاحب کا دل بھی نرم ہوا… اور انہوں نے اپنے نامہ
اعمال میں ایک نیکی شامل کر لی… ادھر مقبوضہ کشمیر میں عادل احمد ڈار شہید ایک حقیقی
ہیرو بن چکے ہیں … جو لوگ وسیلے کے قائل ہیں وہ اُن کے وسیلے سے دعائیں مانگ رہے ہیں…
اور جو وسیلے کے قائل نہیں وہ اُن کے مقبول عمل کو وسیلہ بنا کر دعاء مانگ رہے ہیں…
گذشتہ دن ہزاروں مسلمانوں نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ اداء کی… اب تک کشمیر کی سینکڑوں
مائیں اپنے بچوں کو عادل احمد ڈار شہید بنانے کا عزم اور دعائیں مانگ چکی ہیں…
وہاں اب ہر گلی، ہر کوچے، ہر بازار میں عادل ہی عادل ہے… وہ عادل جس نے غزوہ بدر کی
یاد تازہ کی… وہ عادل جس نے کشمیر کی تحریک کو کامیابی کے کنارے تک پہنچا دیا…یہ
بات اب واضح ہوچکی ہے…کہ کشمیر کی تحریک آزادی…اب اپنے قدموں پر کھڑی ہوچکی
ہے…اسے نہ کسی بیرونی امداد کی ضرورت ہے، نہ بیرونی تعاون کی … پاکستان کے
حکمرانو! صحافیو! … ہمیں جتنی گالیاں دینی ہیں دے لو… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم
نہ پاکستان کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں اور نہ پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں …
پھر بھی جو دل میں آئے ہمیں کہہ لو…مگر خبردار! خبردار حضرت اقدس الشیخ ، الشہید
عادل احمد ڈار نور اللہ مرقدہ کے خلاف ایک لفظ اپنی زبان سے نہ نکالنا…ورنہ مارے
جاؤ گے… برباد ہو جاؤ گے … اللہ تعالیٰ کے ایسے مقرب اولیاء کے خلاف بد زبانی
کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ بڑا سخت انتقام لیتے ہیں… اللہ تعالیٰ اپنے یاروں کے یار
ہیں… جو اُن کے یاروں کو ایذاء پہنچاتا ہے اس سے وہ اعلان جنگ کر دیتے ہیں … آج
ساری دنیا عادل احمد ڈار جیسے عظیم انسان ، عظیم ولی ، عظیم ہیرو کو میری طرف
منسوب کر رہی ہے… جبکہ میں اس حسرت میں ہوں کہ کاش! میں نے کبھی اُن کو دیکھا
ہوتا… اُن کی زیارت کی ہوتی… اُن سے کبھی کوئی رابطہ ہوتا…جیتے رہو عادل جیتے رہو
… تم جیسے پیاروں کی طرف میری نسبت میرے لئے سعادت کی بات ہے… اور تم جیسے پیاروں
کی وجہ سے اگر مجھے مار بھی دیا گیا تو یہ بھی میرے لئے سعادت ہو گی… تم جیسے بیٹے
آگے استقبال کے لئے جو موجود ہوں گے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور :683
اَللہُ الْکَافِیْ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَزَّ
شَانُہٗ
* مشکل اور کڑے حالات میں کامیابی
کے نسخے اور طاقتور دعائیں…
* بزدل اور بے غیرت انڈیا کی
دھمکیاں مجاہدین کو ہر گز
نہیں دبا سکتیں… ہر گز نہیں ڈرا نہیں سکتیں…
* پاکستانی صحافیوں سے چند
کھری کھری باتیں
* حالات پریشان کن سہی مگر مایو
سی کی گنجائش نہیں …
* اصحاب اقتدار کے لیے کامیابی
کا نسخہ…
پلوامہ حملے کے بعد پیدا
ہونے والی افراتفری اور
پریشانی میں اہل ایمان کو سہارا دیتی ایک انمول
تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۳ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۴۰ھ/
1 مارچ 2019ء
اَللہُ الْکَافِیْ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَزَّ
شَانُہٗ
اللہ
تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہیں:
{حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ} [آل عمران: ۱۷۳]
اللہ
تعالیٰ دشمنوں کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہیں:
{فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} [البقرہ:۱۳۷]
اللہ
تعالیٰ اپنے بندوں کو فتح، نصرت اور غلبہ دینے کے لئے کافی ہیں:
{اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ} [الزمر:۳۶]
اللہ
تعالیٰ دشمنوں کی سازشوں ، تدبیروں اور حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کافی ہیں:
{وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌ
بِالْعِبَادِ} [غافر:۴۴]
اللہ
تعالیٰ طاقتور لشکروں کو شکست دینے کے لئے کافی ہیں:
{سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ} [القمر:۴۵]
اللہ
تعالیٰ دشمنوں کو اُکھاڑنے اور لرزانے کے لئے کافی ہیں:
اَللّٰھُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، مُجْرِیَ السَّحَابِ، ھَازِمَ
الْاَحْزَابِ اِھْزِمْھُمْ وَ زَلْزِلْھُمْ۔
[ الدعاء للطبراني۔رقم الحدیث:۱۰۷۰،الناشر: دار
الكتب العلمية - بيروت]
اللہ
تعالیٰ خوف کو امن سے اور مغلوبیت کو غلبے سے بدلنے کے لئے کافی ہیں:
اَللّٰہُمَّ
اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَ آمِنْ رَوْعَاتِنَا۔
[مسند الإمام أحمد بن حنبل۔رقم الحدیث:۱۰۹۹۶،الناشر: مؤسسة
الرسالة]
اللہ
تعالیٰ مشرکوں کی گردنیں توڑنے اور جھکانے کے لئے کافی ہیں:
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔
[سنن أبي داود۔رقم الحدیث: ۱۵۳۷،الناشر: دار
الرسالة العالمية]
اللہ
تعالیٰ جس کے ساتھ ہوں اس کے لئے وہ ہر منزل میں کافی ہیں:
اَللّٰھُمَّ
اکْفِنَاہُمْ بِمَا شِئْتَ،اَللّٰھُمَّ اَعِنَّا وَ لَاتُعِنْ عَلَیْنَا
وَانْصُرْنَا وَ لَا تَنْصُرْ عَلَیْنَا وَامْکُرْ لَنَاوَلَا تَمْکُرْ عَلَیْنَا۔
ہاں
!بے شک… اَللہُ الْکَافِیْ، اَللہُ الْکَافِیْ ، اَللہُ الْکَافِیْ …جَلَّ
جَلَالُہٗ وَعَزَّ اِسْمُہٗ وَشَاْنُہٗ
تین
جمع ایک
اللہ
تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندوں کے ساتھ ہیں… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اپنے اُمتیوں کے رہنما ہیں… کسی حال
میں تنہائی نہیں … بے بسی نہیں … مایوسی نہیں… چند دن پہلے تک ایسے حالات تھے کہ
ہم پر تین چیزیں لازمی تھیں… اور ان تین میں کامیابی تھی:
١ شکر
کرنا
٢ فخر
سے بچنا
٣ عجب
سے بچنا
ہر
طرف بہاریں مچل رہی تھیں… قوس قزح چھائی ہوئی تھی… خوشی کے شگوفے پھلدار ہو رہے
تھے… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعَالَمِیْنَ… اور اب حالات بدل گئے… اب ہم پر تین جمع ایک واجب ہے… اور اسی میں
ان شاء اللہ کامیابی ہے:
١ ’’
وہن‘‘ یعنی بزدلی سے بچنا
٢
کمزور نہ پڑنا
٣ ’’نہ
دبنا‘‘ یعنی نہ جھکنا، نہ سہارے ڈھونڈنا
٤
اور یہ دعاء بہت مانگنا :
{رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْ
اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَاوَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ} [اٰل عمران:۱۴۷]
یہ
تین جمع ایک یعنی چار کام نصیب ہو جائیں تو مزے ہی مزے… فرمایا:
{فَآتٰھُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَۃِ} [اٰل عمران:۱۴۸]
’’دنیا میں بھی اجر ہی اجر ، خیر ہی خیر آخرت میں بھی خیر ہی خیر۔‘‘
اب
کمزوری ، بزدلی اور جھکنے سے کیسے بچیں؟ … طریقہ آسان ہے نظر آخرت پر رہے اور
دعاء اللہ تعالیٰ سے جاری رہےـ:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْوَھْنِ وَ الضُّعْفِ وَ الْاِسْتِکَانَۃِ۔
’’یا اللہ! میں آپ کی حفاظت اور پناہ چاہتا ہوں بزدلی، کمزوری اور
دبنے جھکنے سے۔‘‘
کتنا
مزہ آتا ہے جب اس موقع پر غزوۂ احزاب والی دعاء مانگی جائے:
اَللّٰھُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، مُجْرِیَ السَّحَابِ، ھَازِمَ
الْاَحْزَابِ، اِھْزِمْھُمْ وَ زَلْزِلْھُمْ۔
’’یا اللہ! کتاب کو نازل فرمانے والے، جلد حساب چکانے والے، بادلوں
کو ہنکانے والے لشکروں کو ہرانے والے، ان دشمنوں کو شکست دے اور انہیں لرزا دے،
اُکھاڑ دے۔‘‘
[ الدعاء للطبراني۔رقم الحدیث:۱۰۷۰،الناشر: دار
الكتب العلمية - بيروت]
اور
ایک روایت میں الفاظ یوں ہیں:
اَللّٰھُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ، مُجْرِیَ السَّحَابِ، ھَازِمَ الْاَحْزَابِ اِھْزِمْھُمْ وَ
انْصُرْنَا عَلَیْھِمْ ۔
’’یا اللہ!کتاب کو نازل فرمانے والے، بادلوں کو ہنکانے والے،
لشکروں کو شکست دینے والے، ان دشمنوں کو شکست دے دیجیے اور ہمیں ان کے مقابلے
میں اپنی نصرت اور غلبہ عطاء فرمادیجیے۔‘‘
[صحيح البخاري۔باب لا تمنوا لقاء العدو۔رقم الحدیث ۳۰۲۴،الناشر:
دار طوق النجاة]
اس
بات کو بھول جاؤ
انڈیا
والوں کا دماغ کام نہیں کر رہا… وہ خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں… وہ اس بات کو بھول
جائیں کہ ان کا شور شرابا ، ان کی دھمکیاں ہمیں ڈرا رہی ہیں… بالکل نہیں! … بالکل
نہیں!… ان کی دھمکیوں سے تو ہمارا خون مزید جوش مارتا ہے… ان کی دھمکیاں ہمارے لئے
وہی کام کرتی ہیں جو کسی شاعر کے لئے سامعین کی واہ واہ کرتی ہے… ایک شاعر کہہ رہے
تھے کہ سامعین کی واہ واہ میں شراب سے بھی زیادہ نشہ ہوتا ہے… شراب کا تو الحمد
للہ تجربہ نہیں مگر واقعی دشمنوں کی دھمکیوں سے بہت لطف آتا ہے:
حَسْبُنَا
اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ …حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ
یہ
پیارا کلام’’حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ دھمکیوں کے جواب میں ہی کہا
گیا تھا تو محبوب حقیقی کو بہت پسند آیا… حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ…
انڈیا
میں ہر بات پر مسلمانوں کو مارا جا رہا تھا … دبایا جا رہا تھا… کشمیر میں ظلم کی
آگ جل رہی تھی…اب مظلوموں نے جواب دیا تو ساری دنیا کو شکایتیں کرتے پھرتے ہیں… یہ
کونسی غیرت ہے اور کونسی بہادری؟… کاش! ان میں تھوڑی سی شرم ہوتی تو ڈوب مرتے، مگر
کہاں؟
{ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ }…{ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ
نَجَسٌ} [التوبۃ: ۲۸]
یہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے… اور بے شک سچا ہے۔
پاکستانی
صحافیوں سے ایک سوال
آپ
حضرات و خواتین … کشمیر میں ہونے والی ہر کاروائی کے بعد چند ظلم ڈھا کر اپنے نامہ
اعمال کو کیوں سیاہ کرتے ہیں؟ … پہلا ظلم یہ کہ … ہمیشہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ اس
کاروائی سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا؟ … دوسرا ظلم یہ کہ… کشمیری بہادر نوجوانوں کی
کاروائی کو انڈیا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں کہ اس نے خود کرایا ہو گا… تیسرا ظلم یہ
کہ… پاکستان میں موجود کشمیری مجاہدین کے حامیوں کو نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ انڈیا
کا ایجنٹ کہنا شروع کر دیتے ہیں … آپ سے گزارش ہے کہ چند باتوں پر غور فرمائیں:
١ کشمیر
پر انڈیا کا بھی دعویٰ ہے اور پاکستان کا بھی… انڈیا نے وہاں سات لاکھ سے زائد
آرمی اور مسلح دستے بھیج رکھے ہیں… پاکستان نے وہاں کیا بھیجا ہے؟… انڈیا کشمیر
پر قبضے کے لئے ماہانہ اربوں روپے خرچ کر رہا ہے… پاکستان کتنا خرچ کر رہا ہے؟ …
انڈیا کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے ہر حد سے گزر کر مظالم ڈھا رہا ہے…
پاکستان کیا کر رہا ہے؟…مگر اس کے باوجود کشمیری مسلمان پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں…
اور ادھر آپ حضرات کی سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ… وہاں اگر کوئی کشمیری مجاہد مضبوط
حملہ کر دے تو آپ کو اپنے کرکٹ میچوں کی فکر لگ جاتی ہے… کہ انڈیا نے یہ کاروائی
ہمارے کرکٹ میچ خراب کرنے کے لئے کرائی ہو گی … اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحافیو! کچھ تو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے کی بھی لاج رکھ لیا کرو… نہ تم خود جا
کر کشمیری مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہو… اور نہ انہیں اپنے دشمن سے لڑنے دیتے ہو…
تمہاری بزدلانہ چیخ و پکار کی وجہ سے ان کی کاروائیاں دھول کے نیچے چھپ جاتی ہیں…وہ
اپنی کاروائیاں ظلم سے آزادی کے لئے کریں یا تم لاڈلوں کے فائدے کے لئے ؟
٢ کیا
کشمیری مسلمانوں کی حمایت کا یہ مطلب ہے کہ… وہ صرف مرتے رہیں اور آپ ان کی خبریں
سناتے رہیں… ان کے بچے ذبح ہوتے رہیں اور آپ اس کا تذکرہ کبھی کبھار اقوام متحدہ
میں کر آئیں… ان کی نسل کشی ہوتی رہے اور آپ صرف مذمتی بیان دے دیا کریں… اور
اپنی اس حمایت کا معاوضہ یہ لیں کہ اگر وہ اپنے دشمن اور اپنے قاتل کو ماریں تو
آپ فوراً ان کی مذمت شروع کر دیں…ایک بیٹے کی شہادت کتنا بڑا صدمہ ہوتی ہے…کسی کا
اپنا بیٹا ہو تو وہ تھوڑا سا سوچ لے۔
٣ کشمیری
مسلمان حالت جنگ میں ہیں … ان میں سے جو لڑنے نکل چکے ہوتے ہیں وہ بہت سخت حالات میں
ہوتے ہیں… ان کو اپنی ایک ایک کاروائی کی تیاری میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں… یہ
بات ہر ذی شعور اچھی طرح سمجھتا ہے…پھر وہ مجاہد کس طرح سے… ہر کاروائی کے وقت خبریں
ٹٹول سکتے ہیں کہ… اس وقت پاکستان میں کسی وی آئی پی کا دورہ تو نہیں ہو رہا…کوئی
کرکٹ میچ تو نہیں چل رہا … مسلمانوں کے محسن سکھوں کے لئے کوئی راہداری تو نہیں
کھولی جا رہی ؟ …پھر اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ پاکستان تو اس وقت انتہائی نازک
حالات میں ہے اور وہاں سپر لیگ کے کرکٹ میچ چل رہے ہیں تو وہ مجاہد فوراً اپنی
کاروائی روک لے… خود کو دشمنوں کے حوالے کر دے… قاتلوں کو اپنا گھر سپرد کر دے…
تاکہ وہ وہاں عزتیں پامال کریںخون کی ہولی کھیلیں۔
٤
پاکستان تو جس دن سے امریکہ اور نیٹو کی صلیبی جنگ کا حصہ بنا ہے یہاں ہر وقت
حالات نازک ہی رہتے ہیں… ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت
دینے والا گناہ کیا… اور بعد کے حکمرانوں نے اس گناہ کے انڈوں تک کی حفاظت کی… اس
گناہ کے بعد سے پاکستان کے حالات کب اچھے ہوئے ہیں؟… ہم رو، رو کر تھک گئے کہ اس
منحوس گناہ سے جان چھڑاؤ تو پاکستان میں امن بھی آ جائے گا اور استحکام بھی…
اللہ تعالیٰ صرف تمہارا نہیں ہے… تم نے جن افغان بچوں کا ان کی ماؤں کی گود میں
امریکہ سے قیمہ کروایا ہے…وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کے اُمتی تھے… تم اس گناہ سے نہیں نکلو گے تو حالات اسی طرح رہیں گے… اسی وجہ
سے انڈیا جیسا ناپاک، بزدل اور کمینہ ملک ہر دن تم پر چڑھا آتا ہے… تمہیں دھمکیاں
دیتا ہے … اور تم اب بھی اس خواب میں ہو کہ… تمہاری امن امن کی رٹ سے امریکہ یا عالمی
برادری تمہارے حق میں ہو جائے گی… یاد رکھو! تم مسلمان ہو… تم ان ظالموں کی نگاہ میں
وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو انڈیا کو حاصل ہے… انڈیا ہر کفر اور کمینگی میں ان
کے ساتھ ہوتا ہے… تم اتنا زیادہ نہیں گر سکتے… ہاں! اگر تم اسلام کو مضبوط تھام
لو، عزت و غیرت سے جینے کا عزم کر لو تو دنیا تمہیں ضرور تسلیم کرے گی۔
مایوسی
کی گنجائش نہیں
اللہ
تعالیٰ جو چاہتے ہیں کر گذرتے ہیں:
{فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ} [البروج:۱۶]
اللہ
تعالیٰ ہی پاکستان کی حفاظت فرما رہے ہیں…ماضی میں بھی کئی طوفان آئے اور گذر
گئے… اللہ تعالیٰ ہی کشمیر کی تحریک ِآزادی کو چلا رہے ہیں… یہ تحریک کئی بار
مٹانے کی مکمل کوشش پہلے بھی ہو چکی ہے… مگر اسے مٹانے والے ایسے مٹے کہ دنیا کے
رہے اور نہ آخرت کے… اب وہ ذلت و کسمپرسی کی زندگی کاٹ رہے ہیں، یا مرکھپ گئے ہیں…
اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان کی قدر ہے… غیرت کی قدر ہے… بہادری کی قدر ہے…جو ایمان،
غیرت اور بہادری پر آتا ہے… اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اسے کامیابیوں
سے ہمکنار فرماتے ہیں… آج جن کے پاس چار دن کے لئے کچھ اختیارات ہیں… ان کے لئے
سنہری موقع ہے کہ اپنی آخرت کے لئے… اور اسلامی تاریخ میں اعزاز پانے کے لئے… ایمان،
غیرت اور بہادری والے فیصلے کریں … اپنے وقتی مفادات کی خاطر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے وفائی نہ کریں… اللہ تعالیٰ نے ہر
انسان کے لئے موت کا ایک وقت مقرر فرما دیا ہے… بزدلی کرنے سے زندگی بڑھتی نہیں
ہے… اور ہمت و استقامت دکھانے سے زندگی گھٹتی نہیں ہے… جن سے اللہ تعالیٰ دین کا
کام لے رہے ہیں… وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک بغیر رکے، بغیر تھکے کام کرتے رہیں
… موت نے جب آنا ہو گا خود آ جائے گی … مرنے سے پہلے مر جانا ایمان والوں کا شیوہ
نہیں ہے… بے شک اللہ ایک ہے۔
اَللہُ
اَللہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَ لَا اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖ وَلِیًّا۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور :684
تین دلچسپ واقعات
* پلوامہ
حملہ کے بعد انڈیا کی حواس باختگیاں اور
پاکستان کی حیران کن پریشانیاں…
* انڈیا
کے مزاج اور ہتھیار کو سمجھانے والے
تین دلچسپ واقعات اور ان
سے اخذ ہوتے نتائج…
* پاکستان
کے لبرلز کی شرمناک خواہشات…
* اگر
پاکستان میں اصل شدت پسندی آگئی
تو پھر ان لبرلز کا کیا بنے گا؟
* حکمرانوں کو خیر خواہانہ
مشورے…
حالات کےجبر کے سامنے بند
باندھتی ایک سبق آموز
تحریر…
تاریخ
اشاعت:
۳۰ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۴۰ھ/
8 مارچ 2019ء
تین دلچسپ واقعات
اللہ
تعالیٰ کی شان ہے کہ میں ابھی تک زندہ ہوں… جبکہ دنیا بھر میں میرے مرنے کی خبر چل
رہی ہے… بے شک اللہ تعالیٰ ہی اصل طاقت ، اصل اقتدار والے ہیں:
{ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَأْنٍ} [الرحمٰن: ۲۹]
آج
مارچ کی چار تاریخ 2019 ء ہے … اصل اسلامی تاریخ ابھی جمادی الآخر کی ستائیس
شروع ہو چکی… ۱۴۴۰ھ
کا سال ہے… پیر کا دن گذر گیا، ابھی رات کے نو بجے ہیں… منگل کی رات شروع ہے…
معلوم نہیں جب یہ تحریر آپ تک پہنچے گی تو اس وقت میں زندہ ہوں گا یا نہیں… موت
ہر ذی روح کے سر پر کھڑی ہوتی ہے … اللہ تعالیٰ ہمیں خالص اپنی رضاء کے لئے موت یعنی
اپنی ملاقات کا شوق نصیب فرمائے… موت وہ پل ہے جو محبوب تک پہنچاتا ہے:
{كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ } [الانبیاء:
۹۳]
اس
لئے دل چاہتا ہے کہ آپ سب اہل محبت سے جی بھرکر باتیں کروں… اسی کے لئے استخارہ کی
دو رکعت ادا کر کے، محبوب و مالک حقیقی سے مدد مانگ کر آ بیٹھا ہوں… ابھی لکھنا
شروع ہی کر رہا تھا کہ ایک اجتماعی کام آ گیا… اس کے لئے پانچ صفحات یعنی ایک رنگ
و نور کے برابر تحریر لکھنی پڑ گئی…لکھنے کا کافی سارا جذبہ تو ادھر بہہ گیا… اسی
میں خیر ہو گی، ان شاء اللہ… وہ بھی بہت ضروری کام تھا… اللہ تعالیٰ اس تحریر کو
بھی قبول فرمائیں… اور ہم سب کے لئے مفید رنگ و نور کی مجلس بھی نصیب فرمائیں… آئیے!
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھ لیتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ
الْاُمِّیِّ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَ سَلِّمْ تَسْلِیْمًا
چیخوں
کے ذریعے دفاع
ہمیں
جیل میں بھی کئی بار جیل ہوئی… جیل کے اندر جیل یہ ہوتی ہے کہ کسی قیدی کو مزید
سزا دینے کے لئے… الگ تھلگ سخت سیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے… یا جیل سے نکال کر چند
دن کے لئے پھر کسی عقوبت خانے یعنی ٹارچر سیل میں منتقل کر دیا جاتا ہے… یہ ہمارے
ساتھ وہاں کئی بار ہوا…ایک بار ہمیں کوٹ بھلوال سنٹرل جیل سے تالاب تلو جے آئی سی
منتقل کر دیا گیا … وہ بڑی خوفناک، وحشت ناک جگہ تھی … وہاںہر قیدی کو جاتے ہی زخمی
کر دیا جاتا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے… ٹانگوں پر زخم دینے کا یہ طریقہ بہت وحشیانہ
تھا… پھر کئی دن تک مسلسل ٹارچر کیا جاتا تھا… قصہ یہ عرض کرنا ہے کہ … ہمیں جب
وہاں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو کوشش رہتی تھی کہ چیخ و پکار نہ کریں … تب وہاں
کے ایک تجربہ کار قیدی نے سمجھایا کہ آپ لوگ اپنے اوپر یہ کیا ظلم کر رہے ہیں؟ … یہ
جب بھی ماریں تو آپ سخت چیخا کریں… اس سے یا تو مارنے والا گھبرا کر جلد چھوڑ دیتا
ہے… یا اکثر اہلکار اپنے افسر کی اجازت کے بغیر شوقیہ ظلم کرتے ہیں…چیخنے سے انہیں
یہ ڈر ہوتا ہے کہ آواز افسر تک جائے گی اور وہ پوچھے گا کہ… بغیر تفتیش کے
خوامخواہ کیوں مار رہے ہو؟… چنانچہ اس ڈر سے یہ جلد جان چھوڑ دیتے ہیں… ساتھیوں نے
اس نصیحت پر عمل شروع کیا تو واقعی ٹارچر میں پچاس فی صد سے زائد کمی ہو گئی…اس میں
ایک لطیفہ یہ ہوا کہ ہمارے ایک ساتھی بلند آواز تھے …ایک بار ایک سپاہی ان کو
مارنے کے لئے جیسے ہی ڈنڈا لے کر ان کے قریب بڑھا تو انہوں نے… ایسی بلند چیخ ماری
کہ وہ سپاہی خوفزدہ ہوکر پیچھے بھاگا اور گرتے گرتے بچا… لگتا ہے آج کل یہ’’انڈین
فارمولہ ‘‘ خود انڈیا استعمال کر رہا ہے… وہ مسلسل مار کھا رہا ہے … لیکن ساتھ چیخیں
اتنی زوردار مارتا ہے کہ ان سے ہمارے حکمران حضرات بھی کانپنے لگتے ہیں … پلوامہ میں
کشمیری مجاہدین نے مارا تو انڈیا نے رو، رو کر چیخ، چیخ کر دنیا کو سر پر اُٹھا لیا…
پھر حملے کی کوشش کی تو ناکام ہوا… پاکستانی بہادر افواج نے حملہ کیا تو انڈیا کو
خوب مار پڑی… جہاز گر گئے… پائلٹ پکڑا گیا… تب اس نے ایسی خوفناک چیخیں ماریں کہ
مارنے والے بھی گھبرا اُٹھے… ابھی صورتحال یہ ہے کہ انڈیا درد سے چیخ رہا ہے…
پاکستان انڈیا کو مار کر اس کی چیخوں سے پریشان ہے… عالمی برادری تماشہ دیکھ رہی
ہے… کبھی انڈیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر سموسے کھا لیتی ہے اور کبھی پاکستان والوں کی
حمایت میں ایک آدھ بیان دے کر چائے پی لیتی ہے…دیکھیں آگے کیا بنتا ہے… مجاہدین
نے پاک انڈیا جنگ نہیں کرائی… یہ جنگ آر ایس ایس نے الیکشن جیتنے کے لئے شروع کی
ہے … اور مجاہدین کے خوف کی وجہ سے یہ جنگ آگے بڑھنے سے رکی ہوئی ہے… پھر بھی
پاکستان میں کہا جا رہا ہے کہ… مجاہدین کشمیر نے ہمیں مروا دیا…ہمیں جنگ میں جھونک
دیا… انڈیا کے حامی موم بتیاں پکڑ کر اپنی لبرل ازم کی دال پکانا چاہ رہے ہیں…مگر
اللہ تعالیٰ موجود ہے… اللہ تعالیٰ ایک ہے…اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے:
{کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ} [الرحمٰن:۲۹]
انڈیا
کا مضبوط ترین ہتھیار
ہم
جب سری نگر کے بادامی باغ ٹارچر سنٹر میں تھے تو… وہاں جو فوجی ہم پر مسلط رہتے
تھے ان میں ایک ’’حوالدار‘‘ بھی تھا… وہ نشے کا عادی اور فخر میں غرق رہنے والا
فوجی تھا… روز ہمیں اپنی بہادری کے قصے سناتا…چونکہ بے وقوف تھا تو ہمارے ساتھی اس
کے ساتھ کھیلتے تھے اور اسے ہر طرح سے نشانہ بناتے تھے…کبھی اس کے بازوؤں کی تعریف
کر کے اس سے ڈنڈ (پش اپ) نکلواتے… تو کبھی اس کے ہاتھوں کی مضبوطی کی تعریف کر کے
لوہے کے دروازے پر مکے مرواتے… وہ ہیرو بننے کے لئے ہر کام بڑی لگن سے کرتا تھا…
اور یوں مظلوم قیدیوں کو تفریح کا ایک سامان ملا ہوا تھا… ایک بار اس نے اپنا قصہ
سنایا کہ… میں اپنے علاقے میں بہادر مشہور ہوں … اور میری بہن بھی بہت بہادر ہے… ایک
بار گاؤں کے ایک بدمعاش نے میری پٹائی کی اور مجھے بہت بری طرح سے مارا… میں مار
کھا کر گھر آیا تو میری بہن سے میری حالت دیکھی نہ گئی… اس نے کہا: میں ابھی بدلہ
لیتی ہوں… وہ نئی ساڑھی پہن کر اس بدمعاش کے پاس گئی… اس کو باتوں میں لگا کر
اچانک اپنی ساڑھی اُتار پھینکی اور شور مچا دیا کہ … اس بدمعاش نے میرے ساتھ بدکاری
کی ہے …بس پھر کیا تھا …لوگ جمع ہوگئے اور اس بدمعاش کو مار مار کر اس کا برا حال
کر دیا… دو دن بعد میں گھر سے نکلا … اس بدمعاش کی طرف گیا تو وہ پٹیاں باندھے بیٹھا
تھا… میں نے اس کے پاس سے گذر کر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور کہا… دیکھا میرا
انتقام … حوالدار کی غیرت اور بہادری کا یہ قصہ سن کر ہم ہنستے ہنستے بے حال ہو
گئے… اور وہ خوشی اور فخر کے ساتھ اکڑ کر چلتا رہا… یہ قصہ واقعی سچا ہے… میرے لئے
اسے لکھنا کافی مشکل تھا… مگر انڈیا کے مزاج اور ہتھیار کو سمجھنے کے لئے یہ قصہ
پوری ایک کتاب کا کام کرتا ہے…آج بالکل وہی صورتحال ہے…انڈیا ساڑھی اُتار کر چیخ
رہا ہے … عالمی برادری کو بلا رہا ہے… اور ہمارے وزیر خارجہ صاحب شرمائے شرمائے سے
صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں… کاش! پاکستان کے حکمران انڈیا کے مزاج کو سمجھ کر اس کے
ساتھ معاملہ کریں… تو سارا دباؤ اور پریشانی ہی ختم ہو جائے … مگر نہ دباؤ ختم ہو
رہا ہے اور نہ پریشانی … اور اس کی وجہ پاکستان میں موجود ’’اشوک طبقہ ‘‘ ہے… اشوک
کون ہے؟اگلے قصے میں ملاحظہ فرمائیں۔
ہاں
بھئی نکالو دو خروڑ
تہاڑ
جیل نمبر (2) کے سیکورٹی وارڈ میں مجھے سات ماہ تک رکھا گیا تھا… اس وارڈ کی سیکورٹی
بہت سخت تھی… اور یہ باقی جیل سے کٹا ہوا تھا…وارڈ میں کئی نامی گرامی قیدی تھے…
جن کی تعداد چار سے چھ تک رہتی تھی… چونکہ یہ قیدی باہر کھلی جیل میں بھی نہیں جا
سکتے تھے تو ان کو اپنا سامان وغیرہ منگوانے کے لئے ایک مشقتی قیدی دیا جاتا تھا…
وہیں’’ اشوک‘‘ سے ملاقات ہوئی… چھوٹے سے قد، تیز رنگ کا یہ ڈھیلا ڈھالا سا ادھیڑ
عمر قیدی سات سال سے اس جیل میں تھا… وہ ہمارا مشقتی تھا… جو صابن، صرف وغیرہ ہم
نے منگوانا ہوتا وہ باہر کھلی جیل سے خرید لاتا… ماضی میں رکشہ ڈرائیور رہا تھا
اور منشیات کے مقدمے میں سزا یافتہ تھا… جیل میں بھی کسی طرح وہ اپنا نشہ منگوا لیتا…
اور اسی نشے کی وجہ سے آہستہ آہستہ چلتا اور رک رک کر بولتا تھا… میں اسے اکثر
نصیحت کرتا کہ نشہ چھوڑ دو ،دودھ پیا کرو، گھی کھایا کرو… تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے
ہیں ،نشے سے مر جاؤ گے … ساتھ ساتھ اسلام کی بھی تبلیغ چلتی رہتی … اسی وجہ سے جب
بھی وہ مجھ سے پیسے مانگتا تو کہتا : خان صاحب!… کچھ پیسے دو دیسی گھی خریدنا ہے…
ایک بار میں نے اسے کہا کہ جب چھوٹ جاؤ گے تو پھر رکشہ چلاؤ گے؟ … کہنے لگا: اب
کون رکشہ چلائے گا… سات سال میں جیل نے بہت کچھ سکھا دیا ہے… میں نے پوچھا:پھر کیا
کرو گے؟ … کہنے لگا: ریل پر چڑھوں گا… پھر مالدار لوگوں کی بوگی میں گھس جاؤں گا…
وہاں چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں… ان میں دیکھوں گا… جو مالدار اکیلا نظر آیاجیب
سے چاقو نکال کر کہوں گا:
’’ہاں بھئی دو خروڑ نکالو۔‘‘
وہ
نشے والی آواز کی وجہ سے ’’کروڑ‘‘ کو’’ خروڑ‘ کہہ رہا تھا… اس وقت بھی وہ نشے میں
تھا…ہاتھ میں چاقو پکڑ کر دھمکی دینے کا پوز بنا رہا تھا تو ساتھ ساتھ کمزوری کی
وجہ سے جھوم بھی رہا تھا… لگتا تھا کہ ابھی گر پڑے گا… اس کی بات اور اس کے انداز
کو جب بھی یاد کرتا ہوں بے اختیار مسکرا دیتا ہوں… ہمارے پاکستان کے لبرل لفافے…
ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں کہ اس ملک سے کب دین کا صفایا ہو جائے… کب داڑھی، پگڑی
والے ختم ہو جائیں… کب یہاں جہاد کا نام لینے والا کوئی نہ رہے…ان کی خواہش ہے کہ یہ
ملک بس ملالہ اور جبران جیسے لوگوں کا ہو جائے … ان ظالموں کو اس بات سے شرم آتی
ہے کہ … اس ملک میں مدرسے بھی ہیں…مجاہد بھی ہیں…داڑھی والے بھی ہیں…یہ عالمی
برادری سے بہت شرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میںابھی تک پتھر کے زمانے کے لوگ موجود ہیں…
ان لبرلز کا بس چلتا تو یہ پاکستان سے دین کا ہر نشان مٹا دیتے… مگر یہ خود
’’اشوک‘‘ کی طرح نشیٔ ہیں، کمزور ہیںاور اپنی رنگینیوں میں مست ہیں…لیکن جیسے ہی
پاکستان پر کچھ دباؤ پڑتا ہے اور یہاں کے حکمران… دینداروں کے خلاف کوئی آپریشن
شروع کرتے ہیں تو… یہ ’’اشوک فیملی ‘‘ ہاتھ میں موم بتیوں کے چاقو لے کر جھومنے لگتی
ہے اور کہتی ہے کہ… نکالو ان شدت پسندوں کو … مارو ان انتہا پسندوں کو … اشوک جب
اپنا پلان مجھے سنا رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ… اگر اس مالدار آدمی نے دو
کروڑ نکالنے کی جگہ… زور سے پھونک بھی مار دی تو اشوک جی زمین پر چت پڑے ہوں گے… یہی
حال یہاں کے لبرلز کا ہے … انہوں نے ابھی شدت پسند دیکھے نہیںہیں …ان کی منحوس
کوششوں سے… پاکستان کا دینی طبقہ… اگر ہتھے سے اُکھڑ گیا تو پھر ان لبرلز کا کیا
بنے گا؟…ابھی تو یہ بڑے مزے سے ویلنٹائن بھی منالیتے ہیں… نیو ائیر نائٹ پر بھی ہر
بے حیائی کر لیتے ہیں… پورے ملک میں یہ آرام سے پھرتے ہیں… لیکن اگر اصل شدت پسندی
آ گئی تو ان کے ساتھ وہ ہو گا کہ یہ اس کے تصور سے بھی لرزیں گے… یہ جنرل ضیاء
الحق کے تھوڑے سے اسلامی قوانین کو برداشت نہیں کر سکے تھے… اور ٹولیاں بنا بنا کر
…اور خود کو سفارت خانوں میں اقلیتی مذہب کا پیروکار لکھوا کر باہر بھاگ گئے تھے۔
پاکستان
میں الحمد للہ دین بھی مضبوط ہے… اور دیندار مسلمانوں کی تعداد بھی ان لبرلز کے
وہم و گمان سے بہت زیادہ ہے… آج بھی دین کی ایک آواز پر لاکھوں مسلمان جمع ہو
جاتے ہیں… اور دین کی خاطر اپنی جانیں خوشی سے قربان کرنے والوں کی بھی بڑی تعداد
موجود ہے… حکمرانوں کو چاہیے کہ جس طرح وہ اپنے معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے باغی
لبرلز کو برداشت کر رہے ہیں… اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں کو بھی برداشت
کریں…اور دباؤ ڈالنے والی عالمی برادری کو بتائیں کہ… ہمارا ملک ہالی ووڈ اور بالی
ووڈ کا سٹوڈیو نہیں ہے کہ تمہیں یہاں صرف لبرلز نظر آئیں…یہ مسلمانوں کا ملک ہے… یہاںہر
طرح کے لوگ موجود ہیں … اور ہم ان سب کے حکمران ہیں… ہمارے حکمران اگر آج صرف
لبرلز کی وکالت کریں گے تو… کیا پاکستان کے دینی غیرت سے سرشار مسلمان اپنے لئے
کوئی اور وزیر اعظم، کوئی اور وزیرخارجہ تلاش کریں؟ … اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ
سے ڈرو… مساجد، مدارس اور مجاہدین پرشک کرنا بند کرو… تحریک کشمیر کے ساتھ بے وفائی
کا سوچو بھی نہ… کیونکہ جب مسلمان کسی میدان میں مشرکین سے مقابلہ شروع کر دیں تو
پھر…جو مسلمان اس میدان سے بھاگے اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے… یہ قرآن
کا حتمی فیصلہ ہے… عالمی برادری کے دباؤ کو محسوس کرنے والو! اللہ تعالیٰ کے حکم
کا بھی کچھ دباؤ محسوس کرو… کشمیر کی تحریک سے بے وفائی کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب
کو دعوت نہ دو… عالمی برادری سے تمہیں اللہ بچا لے گا… مگر اللہ تعالیٰ کے غضب سے
کوئی بچانے والا نہیں ہے… سوائے اللہ تعالیٰ کے :
اَللّٰھُمَّ
لَا مَلْجَأَ وَلَامَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّااِلَیْکَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ
اِلَّا بِکَ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور :685
اہل محبت کے نام
* غزوۂ
احد کا ایک ایمان افروز منظر اور
زمانۂ حال میں اس کی
زندہ مثال…
* ایک مسنون دعاء اور اس کی
مختصر تشریح…
* چند غلط افواہیں اور ان کا
سدباب…
* دین کسی کا محتاج نہیں، جہاد
کسی کا محتاج نہیں…
* کٹھن
حالات میں کامیابی کی راہیں…
* اصل چیز استقامت ہے…
جرأت، غیرت اور استقامت
سے بھرپور ایک تحریر
تاریخ
اشاعت:
۷ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ/
15 مارچ 2019ء
اہل محبت کے نام
اللہ
تعالیٰ ایمان والوں کی نصرت فرماتے ہیں…یہ اُن کا سچا وعدہ ہے… اُن کے حکم اور
نصرت سے مٹھی بھر افرادبڑے بڑے لشکروں پر غالب آ جاتے ہیں… یہ سب کچھ قرآن مجید
میں بیان ہو چکا ہے… اس میں ’’اگر مگر‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں … اللہ تعالیٰ کے
وعدے اور کلمات پکے ہیں:
{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیْلًا} [النساء:۱۲۲]
ایک
عجیب منظر
غزوۂ
اُحد میں مشرکین کے لشکر کا سردار … بڑے بڑے مسلمانوں کے قتل ہونے کا اعلان کر رہا
تھا… اور پوچھ رہا تھا کہ مسلمانو! بتاؤ فلاں زندہ ہے؟ فلاں زندہ ہے؟… مسلمانوں کی
طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے اپنے لشکر کو خوشخبری سنا دی:
’’ خوش ہو جاؤ، اصل لوگ مارے جا چکے ہیں ، زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔‘‘
تب
حضرت سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی
بلند آواز اُحد کے پہاڑوں سے ٹکرائی:
’’ اے اللہ کے دشمن! تو جھوٹ بول رہا ہے ۔ تجھے غم میں ڈالنے والے یہ
سب افراد اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہیں۔ ‘‘
دن
رات تیزی سے گذرے… سال صدیوں میں تبدیل ہوئے اور اس واقعہ کے چودہ سو اڑتیس سال
بعد آج مشرکین پھر وہیں کھڑے ہیں … وہ بعض چھوٹے چھوٹے مسلمانوں کے قتل ہونے کا
اعلان کر رہے ہیں … اپنی قوم کو خوشخبریاں سنا رہے ہیں… تب آواز گونجتی ہے کہ نہیں
اللہ کے دشمنو!ہرگز نہیں … تمہیں غم میں ڈالنے کا سامان اللہ تعالیٰ کے حکم سے
محفوظ ہے… جو نام تم لے رہے ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہیں… تاریخ کے اس
گول چکر کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے اُمید بڑھ گئی ہے… اللہ تعالیٰ پر یقین بڑھ گیا
ہے… اُحد کا وہ معاملہ فتح مکہ اور پھر دنیا پر اسلام کے غلبے تک جا پہنچا… اللہ
تعالیٰ ہمارے اس معاملے کو بھی مسلمانوں کی آزادی اور غلبے تک پہنچائے۔
دنیا
فانی ہے، سب نے مر جانا ہے… مگر جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھے گا… اور اللہ تعالیٰ
کے دین کے لئے آگے بڑھے گا وہ کامیاب ہے …اور جو اعداد و شمار کے چکر میں پڑے گا
کہ … دشمن ہم سے کتنا بڑا ہے… ہم نے دنیا کو منہ دکھانا ہے… وہ قیامت کے دن اللہ
تعالیٰ کو کیا منہ دکھائے گا؟
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
ثُمَّ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء بہت مانگتے تھے:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ سُوْءِ القَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ۔
’’یا اللہ! میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں بری قسمت سے اور دشمنوں
کے خوش ہونے سے۔‘‘
[صحيح البخاري۔ باب التعوذ من جهد البلاء۔رقم الحدیث:۶۳۴۷۔الناشر:
دار طوق النجاة ]
’’شَمَاتَۃُ الْاَعْدَاءِ ‘‘ اس حالت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے
دشمنوں کو خوشی ہو… مسلمان کو ہمیشہ ایسی حالت میں رہنا چاہیے کہ دین کے دشمن،
انسانیت کے دشمن اس سے جلتے رہیں…اس کی وجہ سے غم و غصے میں مبتلا رہیں … اور اس
کا وجوداُن کے لئے غم اور تکلیف کا باعث ہو:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَمَاتَۃِ
الْاَعْدَاءِ۔
اپنی
ذاتی باتیں لکھنے کی عادت نہیں… صرف وہی ذاتی واقعات کبھی کبھار لکھ دئیے جاتے ہیں
جن میں کوئی اجتماعی سبق یا فائدہ ہوتا ہے… صحت اور بیماری اللہ تعالیٰ کے قبضۂ
قدرت میں ہے… کوئی اس بارے میں کوئی فخر نہیں کر سکتا… کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا…
اور کرنا بھی نہیں چاہیے… اپنی صحت پر فخر کرنے والے اکثر صحت سے محروم ہو جاتے ہیں
… اپنے حسن پر فخر کرنے والوں کا حسن اُن کے لئے وبال بن جاتا ہے … کمزور انسان کو
دعوے بازی سے ہمیشہ بچنا چاہیے… ہاں اپنی اچھی حالت پر شکر کیا جا سکتا ہے… اور
کوئی جھوٹ پھیل رہا ہو… اور اس سے بعض مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو تو اس جھوٹ کی
تردید کرنا باعث اجرو ثواب ہے… مجھ نا چیز غریب کے بارے میں تواتر سے خبریں آ رہی
ہیں کہ میں سخت بیمار ہوں …کوئی گردے کا مرض بتا رہا ہے تو کوئی جگر کا… ممکن ہے
دنیا بھر میں دو چار افراد جو مجھ سے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت رکھتے ہوں ان خبروں
سے پریشان ہوں… اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اَلْحَمْدُللّٰہِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلّٰہِ
میں خیریت سے ہوں… گردے بھی ٹھیک ہیں اور جگر بھی… باقی جہاں تک دل کا تعلق ہے تو
اَلْحَمْدُللّٰہِ وہ بھی طبی لحاظ سے ٹھیک
ہے… البتہ روحانی طور پر اسے ٹھیک رکھنے کی فکر اور دعاء کرتا رہتا
ہوں…اَلْحَمْدُللّٰہِ گزشتہ سترہ سال سے
کبھی ہسپتال میں داخل نہیں ہوا… الحمد للہ کئی کئی سال تک کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی
ضرورت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیش نہیں آئی … ٹیسٹ کرانے کا مخالف ہوں،اس لئے ٹیسٹ
نہیں کراتا… مگر علامات سے معلوم ہوتا ہے کہ … شوگر،بلڈ پریشر جیسی بیماریاں بھی
الحمد للہ ابھی تک نہیں ہیں… اور کیا کیا بتاؤں؟ … چونکہ انڈیا میں الیکشن قریب ہیں…
اور وہاں کے الیکشن میں میرا نام بھی چل رہا ہے… اس لئے بطور شکر اور وضاحت یہ چند
باتیں عرض کر دی ہیں…حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نے جن چیزوں میں شفاء بیان
فرمائی ہے… مثلاً حجامہ، کلونجی ، شہد، تلبینہ …اَلْحَمْدُللّٰہِ یہ استعمال کرتا رہتا ہوں… اللہ تعالیٰ نے
قرآن مجید کی پہلی سورۃ اور آخری دو سورتوں میں شفاء کی خاص تاثیر رکھی ہے … اُن
کے اہتمام کی کوشش ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ سے صحت و شفاء کی دعاء مانگتا رہتا
ہوں…اَلْحَمْدُللّٰہِ کوئی معذوری یا
مجبوری نہیں ہے… موقع ملنے پر تیر اندازی کی سنت سے فیض یاب ہوتا ہوں …اور اپنے
کام خودکرنے کی کوشش کرتا ہوں… خلاصہ یہ کہ فی الحال تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے
لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے…باقی مسلسل ذہنی فکر مندی، سخت دماغی محنت، ناہموار
حالات اور تحریری کاموں کے لئے زیادہ بیٹھنے کے سبب کمر، مہروں کی تکلیف اور چھوٹی
موٹی بیماریاں چلتی رہتی ہیں… جن کا کبھی کبھار حجامہ اور دیسی ادویات سے علاج
کرتا ہوں …اَلْحَمْدُللّٰہِ میری صحت ’’نریندر
مودی‘‘ کی صحت سے اچھی ہے… وہ چاہے تو سینے کی چوڑائی ، دماغ کے ٹیسٹ، آنکھوں کی
تیزی، تیراندازی اور نشانہ بازی میں مقابلہ کر کے دیکھ لے… ان شاء اللہ اسے شکست
ہو گی…مگر وہ بہادر انسان نہیں ہے… وہ دنیا بھر میں شکایتیں لگاتا پھرتا ہے، خود
مقابلے پر نہیں آئے گا… صحت کا یہ قصہ بس اتنا ہی …یہ آج مورخہ ۴
رجب ۱۴۴۰ھ
بمطابق 12 مارچ 2019 ء تک کے حالات ہیں… کل کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے…کسی بھی
وقت کسی کو بھی موت اور بیماری آ سکتی ہے…الحمد للہ استخارہ کی برکت سے کام کی
ترتیب ایسی ہے کہ میرے مرنے ، بیمار ہونے یا کام نہ کر سکنے سے کوئی فرق نہیں پڑے
گا… یہ دین کسی کا محتاج نہیں، ہم دین کے محتاج ہیں… یہ کام کسی کا محتاج نہیں، ہم
کام کے محتاج ہیں…اور جہاد کے بارے میں قرآن مجید کی نص قطعی موجود ہے کہ جو کرے
گا اس کا اپنا فائدہ ہے … اور جو چھوڑ دے گا اللہ تعالیٰ اسے دور پھینک کر اس کی
جگہ اس سے بہتر افراد کھڑے فرما دے گا… جہاد قیامت تک جاری رہے گا … فرمایا کہ…
کوئی بھی جہاد کو نہیں روک سکے گا … کوئی بھی اسے بند نہیں کر سکے گا۔
یہ
میری باتیں نہیں… یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں… اس لئے ’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کے
خلاف محنت کرنے والےہوشیار رہیں… وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں…وہ
اللہ تعالیٰ کے غصے کو بلا رہے ہیں …یا اللہ! امان … یا اللہ! امان۔
اہل
محبت سے گذارش
اس
وقت دعاء اور توجہ الی اللہ کی سخت ضرورت ہے… اپنے لئے بھی اور امت مسلمہ کے لئے
بھی… ایک طرف کشمیر کی مبارک تحریک ہے … ایک کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار شہید نے
بڑی قربانی دے کر… مسئلہ کشمیر کو بہت آگے تک پہنچا دیا ہے… اب تو بس تھوڑی سی مزید
محنت درکار ہے… مگر برا ہوبزدلی اور دنیا پرستی کا …اب جہاد کشمیر کے خلاف سازشیں
عروج پر ہیں … اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ شہداء کرام کی قربانی رنگ لائے گی، ان
شاء اللہ… یہاں ایک بات یہ بتانا ضروری ہے کہ کشمیر کی تحریک اگر کشمیر میں نہ چلی
تو یہ اردگرد پھیل جائے گی… یہ فطرت کا اصول ہے، دھمکی نہیں… برصغیر کے امن اور
ترقی کے لئے اگر کوئی مخلص ہے تو اسے پہلے مسئلہ کشمیر حل کرنا ہو گا… ورنہ یہ آگ
پھیلے گی… اور اسے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا… چند مشہور افراد کو مار دینے یا
چند تنظیموں کا گلا دبانے سے یہ آگ رکے گی نہیں … تحریک جب جڑ پکڑ لے تو وہ خود
اپنی خدمت کے لئے افراد اُٹھاتی ہے… تنظیمیں بناتی ہے… افغان جہاد پہلے کھڑا ہوا
تنظیمیں بعد میں بنیں… تحریک کشمیر پہلے اٹھی، تنظیمیں بعد میں بنیں… کاش! عقل
والے سوچیں… اور ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہ کریں… ادھر افغانستان کے حالات بھی
ایسے رخ پر چل پڑے ہیں کہ دعاء کی بہت
ضرورت ہے… بندہ نے موجودہ حالات خراب ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ہی… رنگ و نور میں عرض
کر دیا تھا کہ جب نتیجہ ملنے والا ہوتا ہے اور بڑی خیر آنے والی ہوتی ہے تو آزمائشیں سخت ہو جاتی ہیں…منزل جب قریب آ جاتی
ہے تو راستہ تھوڑا کٹھن ہو جاتا ہے… اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کام کرنے والے
افراد ثابت قدم رہیں، باہمت رہیں اور ہرگز، ہرگز مایوس نہ ہوں… ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر میں ستر مشرکین کی لاشوں پر کھڑے
تھے… اور ایک سال بعد اپنے عزیز ستر صحابہ کرام کی شہادت کا غم دیکھ رہے تھے… اصل
چیز استقامت ہے… پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا
ہے… اور جو ڈٹے رہتے ہیں ان پر رحمت کے فرشتے نازل کئے جاتے ہیں…دونوں باتیں قرآن
مجید میں موجود ہیں ۔
ہم
سب اللہ تعالیٰ سے ہمت مانگیں… استقامت مانگیں… ایمان مانگیں… عافیت مانگیں… نصرت
مانگیں … ہم جو کچھ مانگیں گے وہ ملے گا، ان شاء اللہ…کیونکہ مالک بہت عظیم ہے…
بہت کریم ہے …بہت رحیم ہے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور شمارہ: 686
اَلْحَافِظُ
وَ الْحَفِیْظُ جل شانہ
* نیوزی لینڈ کا درد ناک سانحہ…
* کامیاب کون ؟ قاتل یا مقتول؟…
* اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا عقیدہ لازم ہے…
* ایمان سلامت تو سب کچھ سلامت…
* ’’جماعت‘‘ کی مختصر اور ایمان افروز تاریخ…
* ’’جماعت‘‘ کی حفاظت اور ترقی کے راز…
ایک ایمان افروز تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۴ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ/
22 مارچ 2019ء
اَلْحَافِظُ
وَ الْحَفِیْظُ جل شانہ
اللہ
تعالیٰ کے بندے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے گھر میں جمع
تھے… اللہ تعالیٰ کا دشمن ایک موذی قاتل اسلحہ لے کر وہاں پہنچ گیا… اللہ تعالیٰ
کے گھر میں اللہ تعالیٰ کی ’’جنت ‘‘ مہک اُٹھی… پچاس کے قریب اللہ تعالیٰ کے بندے
اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ گئے…اللہ تعالیٰ کی لعنت اُن کے قاتل اور اس قاتل کے
سرپرستوں پر برسی… {قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ}… ایک طرف قاتل کھڑے ہیں، اِیمان
والوں کے قاتل… اور دوسری طرف مقتول کھڑے ہیں، ایمان والے مقتول … کبھی آپ نے
سوچا کہ کون کامیاب ہے؟… کبھی ہم نے سوچا کہ قرآن مجید ایسے قصے کیوں سناتا ہے کہ
جنت کا راستہ آگ کی خندق سے ہو کر گزرتا ہے… کبھی ہم نے غور کیا کہ فرعون ناکام
ہوا… حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کامیاب ہوئیں … مگر پھر بھی ہم باتیں فرعون جیسی
کرتے ہیں… دنیا ، دنیا اور دنیا … ترقی، ترقی اور ترقی… آخر میں سب نے مر جانا
ہے… اے مسلمانو! سوچو… اے مسلمانو سمجھو !
سُبْحَانَ
اللہِ،سُبْحَانَ اللہِ
ہمیں
حکم دیا گیا کہ ہم تسبیح کیا کریں … سُبْحَانَ اللہِ، سُبْحَانَ اللہِ… اللہ تعالیٰ
کی تسبیح کا عقیدہ لازم ہے… اس کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا … کوئی مومن نہیں
ہو سکتا… انسان جب خود کو زیادہ عقل مند سمجھ کر بے عقل ہو جائے تو وہ نعوذ باللہ
اللہ تعالیٰ پر اِعتراضات کرتا ہے… اللہ تعالیٰ پر باتیں بناتا ہے… کافروں کو اتنی
طاقت کیوں دی؟ … ایمان والے ہر جگہ کمزور کیوں ہیں؟ … کافر ترقی کیوں کر رہے ہیں؟…
مسلمان ہر جگہ مار کیوں کھا رہے ہیں؟…ان باتوں پر اگر اس لئے غور کیا جائے کہ ان
کا حل سمجھنا مقصود ہو تو یہ جائز ہے… مگر کئی لوگ تو نعوذ باللہ ان باتوں سے اللہ
تعالیٰ پر اِعتراضات کرتے ہیں… طنز کرتے ہیں… قرآن مجید کا مذاق اُڑاتے ہیں…
چونکہ اُن کے دلوں پر کافروں کا رُعب اور دُنیا کی محبت چھائی ہوتی ہے … اس لئے
اُن کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے… اور شیطان اُن سے یہ خطرناک جرم کراتا ہے کہ وہ
نعوذ باللہ تسبیح کے عقیدے سے ہٹ جاتے ہیں… ایسی حالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ
مانگنی لازم ہے… سب دل سے کہیں …سُبْحَانَ اللہِ، سُبْحَانَ اللہِ… اللہ تعالیٰ ہر
ظلم سے پاک … اللہ تعالیٰ ہر نااِنصافی سے پاک … اللہ تعالیٰ جو کرتے ہیں وہی حق
ہوتا ہے … وہی ٹھیک ہوتا ہے…اللہ تعالیٰ دھوکہ دینے سے پاک… اللہ تعالیٰ کے ہاں اس
دنیا… اس کی ساری طاقت… اس کی ساری چمک دمک… اس کی ٹیکنالوجی کی قیمت مچھر کے پر
کے برابر بھی نہیں… جبکہ اِیمان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ہے… اس لئے وہ
جن سے محبت فرماتے ہیں اُن کو ایمان عطاء فرماتے ہیں …نمرود کے پاس حکومت تھی…
سلطنت تھی … ترقی تھی… جاہ وجلال تھا… چمک دمک تھی … مگر اِیمان نہیں تھا… حضرت سیّدنا
اِبراہیم علیہ السلام کے پاس حکومت نہیں
تھی… ایمان تھا… نمرود کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا… اِبراہیم علیہ السلام کے پاس جو کچھ تھا وہ سلامت ہے اور سلامت رہے
گا… یہ بالکل واضح بات ہے… مگر آج کل کے بددماغ مسلمانوں کو یہ بات بتائی جائے تو
فوراً چیختے ہیں…ایمان سے پیٹ تو نہیں بھرتا … آخر ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے…
ان نادانوں کو کیا پتا کہ ایمان سے پیٹ بھی بھرتا ہے … اور دُنیا بھی نیچے لگتی
ہے… مگر ایمان ہو تو… جب دل و دماغ پر کفر چھایا ہو…جہالت چھائی ہو …حرص چھائی ہو…
کافروں کا رعب اور خوف چھایاہو… دنیا کی فکر اور آخرت سے غفلت چھائی ہو تو ایمان
کی روشنی… ان کالے بادلوں میں چھپ جاتی ہے… شہدائے نیوزی لینڈ کو مبارک …موت تو
آنی ہی تھی… اور اسی دن آنی تھی… مگر وہ شہادت کی صورت میں آئی… یورپ کی سرزمین
پر مسلمانوں کا خون گرا ہے تو اب تاریکی ٹوٹے گی، ان شاء اللہ
دھوکے
اور راز
اللہ
تعالیٰ کی توفیق سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہماری چھوٹی سی جماعت قائم ہوئی…
ابھی اِعلان ہی ہوا تھا کہ آزمائشوں نے حملہ کر دیا… پہلی آزمائش ہی اتنی سخت تھی
کہ بظاہر جماعت کے باقی رہنے کا اِمکان نہیں تھا… مگر اللہ تعالیٰ کی نصرت آئی
اور جماعت کھڑی ہو گئی… کچھ کام آگے بڑھا تو پھر سخت آزمائش آ گئی… اس بار تو
ہر کسی نے کہہ دیاکہ بس اب یہ قصہ ختم … مگر قصہ ہوتا تو ختم ہوتا…اللہ تعالیٰ نے
جماعت کو چلائے رکھا… حقیقت کی اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتے ہیں… ہم نے کبھی بہت لمبے
مقاصد نہیں رکھے… ہر دن کو اپنی زندگی کا آخری دن سمجھا… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل
تھا کہ جماعت کو کبھی اپنی ذاتی ملکیت نہیں سمجھا… بلکہ اللہ تعالیٰ کی اَمانت
سمجھا… مسلمانوں کو کبھی لمبے لمبے وعدے کر کے دھوکا نہیں دیا… بلکہ جماعت کو ایک
مسجد کی طرح کھڑا کر کے خود بھی اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی کوشش کی… اور
مسلمانوں کو بھی دینی فرائض کی طرف بلایا … یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس کی
توفیق سے جماعت کو اپنی ذاتی قوت، ذاتی تشہیر اور ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا…
بلکہ ایسی ترتیب رکھی کہ جماعت طاقتور ہوتی گئی… اور میں کمزور ہوتا گیا… اکیلا ،
تنہا، گوشہ نشین… الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے جماعت میں شامل ہوتے چلے
گئے… انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں دیں… بڑے عظیم مجاہدے کئے… ان اللہ والوں کے نور
سے مجھ جیسے سست اور کمزور اَفرادبھی لگے رہے، جڑے رہے…لوگ حیران ہوتے ہیں…اور کئی
افراد باقاعدہ شک کرتے ہیں کہ اتنے آپریشن، اتنے کریک ڈاؤن، اتنے مظالم کے
باوجود جماعت کس طرح سے باقی ہے… اور کس طرح سے ترقی کر رہی ہے؟…ان لوگوں نے یہ نہیں
سوچا کہ نقصان تو مفادات کا ہوتا ہے… جہاں صرف قربانی ہی قربانی ہے تو اس کا کیا
نقصان ہونا ہے؟…اگر ہم اور جماعت کے ذمہ دار ساتھی جماعت سے کما رہے ہوتے … جائیدادیں
بنا رہے ہوتے… اپنی دُنیا چمکا رہے ہوتے… اپنے بچوں کے دنیاوی مستقبل سنوار رہے
ہوتے تو… پابندیوں، گرفتاریوں اور مظالم سے نقصان ہوتا…مگر یہاں تو ہر شخص لینے کی
نہیں، اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ دینے کی فکر میں رہتا ہے… یہ جاگیر نہیں،اللہ تعالیٰ
کا گھر بناتے ہیں…یہ مسلمانوں کو اللہ
تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں … یہ کلمہ طیبہ ، اِقامت صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کی
دعوت دیتے ہیں… ان میں سے ہر شخص اللہ تعالیٰ کے لئے قربان ہونے کو سعادت سمجھتا
ہے … ان میں ایسے بھی ہیں جو رات کا اکثر حصہ مصلے پر روتے ہوئے گذارتے ہیں… ان میں
ایسے بھی ہیں جو دُنیا کے بارے میں ایک روپے کی لالچ نہیں رکھتے… وہ آزاد ہوتے ہیں
تو دین کا کام کرتے ہیں… وہ قید تنہائی میں ڈال دئیے جائیں تو ذکر اللہ میں لگ
جاتے ہیں… وہ جیل میں پھینک دئیے جائیںتو وہاں دعوت اِلیٰ اللہ کا کام شروع کر دیتے
ہیں…اب ایسے اَفراد کو کیا نقصان پہنچایا جا سکتا ہے … بہرحال نہ کوئی فخر ہے اور
نہ اپنی مضبوطی کا دعویٰ …کل بھی اللہ تعالیٰ کا سہارا تھا… آج بھی اللہ تعالیٰ
کا سہارا ہے… یہ دُنیا بڑے بڑے رازوں سے بھری پڑی ہے… معلوم نہیں اس تازہ آزمائش
میں کیا کیا راز ہوں گے… یہ دُنیا دھوکے سے بھری پڑی ہے… اس لئے خوف اور بزدلی کے
دھوکے میں نہ آئیں…اگرچہ حکومت کا تازہ آپریشن کافی ظالمانہ، سخت اور بھونڈا ہے…
دِل کبھی کبھار غم سے رو بھی پڑتا ہے… مگر الحمد للہ نہ پریشانی ہے، نہ مایوسی۔
دینی
مدارس میں یہ سال کے اِختتام کا وقت ہوتا ہے… قرآن پڑھنے والے بچوں کا پورا سال
ضائع کر کے… اللہ تعالیٰ کے اَولیاء کو اِیذاء پہنچا کے … یہ حکومت کیا حاصل کرنا
چاہتی ہے… یہ سمجھ سے بالاتر ہے… جماعت کے ساتھی، رُفقاء ،معاونین اور محبین سب
مطمئن رہیں… یہ دین کا کام ہے اور اس دین کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور:شمارہ 687
بیشک وہی ہوتا ہے…
جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں…
* ’’دین
برحق‘‘کی نسبت سے گرفتار ہونے
والے ’’اسیر محبت‘‘ ہیں…
* سوچ
کا فرق، اور اس کی ایک مثال…
* ’’کالعدم دینی جماعتوں‘‘ کے
بارے میں
پھیلی ہوئی غلط اور منفی
سوچ…
* ’’جماعت‘‘
اور ’’امیر جماعت‘‘ کے بارے
میں پھیلے ہوئے
مغالطے اور ان کی تردید…
ایک
چشم کشا تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۱ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ/
29 مارچ 2019ء
بیشک وہی ہوتا ہے…
جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں
اللہ
تعالیٰ کے ’’بندے‘‘ اللہ تعالیٰ کے ’’راستے‘‘ میں ’’آزمائے‘‘ جاتے ہیں…اللہ تعالیٰ
ان ’’آزمائشوں‘‘ پر اپنے بندوں کو بڑے بڑے ’’انعامات‘‘ عطاء فرماتے ہیں… ہمارے
بہت سے ساتھی ’’گرفتار‘‘ ہیں… بے وجہ، بے قصور، بے جرم …یقیناًیہ ’’آزمائش‘‘ اُن
کے لئے مغفرت اور اونچے درجات کا ذریعہ بنے گی، ان شاء اللہ …جو ’’دین برحق‘‘ کی
نسبت سے گرفتار ہوتا ہےوہ ’’اسیر محبت ‘‘ ہوتا ہے … مگر ایسے لوگوں کو جو ’’ایذاء‘‘
پہنچاتے ہیں وہ خطرے میں ہیں بڑے خطرے میں۔
سوچ
کا فرق
ایک
صاحب نے اپنے ایک دوست کو بتایا … میں نے کوئی گولی کھا لی تھی جس سے مجھے گہری نیند
آ گئی اور میں مسلسل بائیس گھنٹے سویا رہا… ان کے دوست نے حیرت سے کہا : بائیس
گھنٹے؟…بغیر کچھ کھائے پیے؟ … سوچ پر کھانا سوار تھا اس لئے بھوکا پیاسا رہنے پر حیرت
ہوئی… شام کو انہوں نے اپنے ایک اوردوست کو بتایا کہ میں بائیس گھنٹے مسلسل سویا
رہا… دوست نے حیرت سے پوچھا: بائیس گھنٹے؟ بغیر نماز کے؟ … کتنی فرض نمازیں ضائع
ہو گئیں…سوچ پر’’نماز‘‘ اور’’ بندگی ‘‘سوار تھی اس لئےنماز چھوٹنے پر حیرت ہوئی …
آج کل جماعت کے خلاف جو آپریشن چل رہا ہے … اس پر بھی ایسی ہی دو سوچیں دیکھی جا
رہی ہیں… پہلی یہ کہ مزے سے کام کر رہے تھے… آسانی بھی تھی اور آزادی بھی… کام
بھی بڑھ رہا تھا کہ اچانک مصیبت آ گئی…بہت کچھ بکھر گیا… پریشانی ہی پریشانی ہے…
دوسری سوچ یہ کہ مزے سے کام کر رہے تھے… خوب ترقی ہو رہی تھی… کام زیادہ ہونے کی
وجہ سے ذکر و دعاء کا وقت بھی کم ملتا تھا… اچانک قبولیت اور محبت کا موسم آیا …
اب ماشاء اللہ دن رات دعائیں ہیں، ذکر اللہ ہےاور آزمائش والی قیمتی زندگی ہے …
راحت و آسانی والے دس سالوں سے آزمائش والا ایک دن زیادہ بھاری اور زیادہ قیمتی
ہے … انڈیا کی ایک جیل کے ایک مشکل لمحے… جب بدن زخمی تھا… چوبیس گھنٹے ہاتھوں میں
بھاری ہتھکڑی رہتی تھی… چہرے سے بہنے والا خون جرسی پر سینے والی جگہ نقش ونگار
بنا چکا تھا… اچانک ایک آئینے پر نظر پڑی تو وہ مسکرا اُٹھا… تب کچھ اشعار کہے
تھے… مطلع یہ تھا ؎
بدن
زخمی کڑی ہاتھوں میں ہر دم
محبت
کا زمانہ آگیا ہے
مغالطے
، جھوٹ ، مفروضے
امریکہ
اور بھارت کے حکم پر صدر مشرف نے جن دینی، جہادی جماعتوں کو ’’کالعدم ‘‘ قرار دیا
تھا… اُن کے بارے میں بہت سے غلط تصورات عام ہیں… کئی لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کوئی
زیرزمین مسلح جماعتیں ہیں… یہ اسلحہ بردار جتھے ہیں… اور یہ کوئی الگ قسم کی مخلوق
ہیں… حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے… ان جماعتوں کے افراد پاکستان کے معزز ، شریف
اور پر امن شہری ہیں… یہ پاکستان ہی میں رہتے ہیں…مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں …
اور معمول کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں… ہمارے سیاسی ’’رہنما‘‘ چونکہ اپنی عزت
و ذلت کے لئےہمیشہ ’’باہر ممالک‘‘ کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ… ایک دوسرے کو بدنام
کرنے کے لئے…کالعدم جماعتوں کا نام لیتے رہتے ہیں کہ فلاں فلاں کا اُن سے تعلق ہے…
حالانکہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا ان کالعدم تنظیموں سے تعلق رہا ہے اور آج
بھی ہے… ہمارے لئے سب سے آسان اور اچھا دور ’’پیپلز پارٹی‘‘ کا تھا اس میں نہ کوئی
اندھے آپریشن ہوئے اور نہ بلا وجہ چھاپے مارے گئے … وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے
قائدین ہمیشہ عوام سے جڑ کر رہتے ہیں… اور زیادہ وقت اپنے ذاتی دھندوں اور مشاغل میں
گزارتے ہیں… پاکستان کے اکثر سیاستدان جانتے ہیں کہ یہ تنظیمیں نہ تو سندھ کے ڈاکو
ہیں اور نہ ’’پنجاب کچے ‘‘ کے لٹیرے… یہ پاکستان کے شہری ہیں اور ان کو پرویز مشرف
نے اپنی ذاتی بزدلی اور کفر پرستی کی وجہ سے کالعدم قرار دیا تھا… اور بعد میں کسی
حکومت نے اس کالے قانون کو بدلنے کی فکر نہیں کی… اور یوں دنیا بھر میں ان تنظیموں
کے بارے میں ایک منفی تاثر پھیل گیا… حالانکہ یہ نہ تو سیاستدانوں کی طرح ملک کو
لوٹتے ہیں … اور نہ ہی کسی قسم کی کرپشن یا منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں…اور نہ ہی ان
تنظیموں کے زیرزمین کوئی خفیہ سیل ہیں… ان تنظیموں کے افراد پہلے سے’’ قومی
دھارے‘‘ میں شامل ہیں … ان میں تاجر ، سرکاری ملازم ، مزدور ، طالبعلم اور علماء
کرام سبھی شامل ہیں… اب ان کو مزید کسی ’’قومی دھارے‘‘ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟…
حکومت اگر قانون ٹھیک کر دے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا… مگر جب اصل فیصلے اور
احکامات باہر سے آتے ہوں تو پھر… ہمارا ملک اسی طرح کے مسائل سے دوچار رہے گا۔
دوسری
بات یہ ہے کہ… ہماری جماعت مروّجہ میڈیا سے دور رہتی ہے… الحمد للہ دین کے نام پر
لیا گیا چندہ میڈیا پر اپنی تشہیر یا اپنی صفائی کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا… جی
ہاں!… ایک روپیہ یا ایک پائی بھی نہیں… اس لئے صحافی حضرات ہمارے بارے میں درست
معلومات نہیں رکھتے… اور جو ان میں سے یہ دعویٰ کر دے کہ وہ ہمارے بارے میں جانتا
ہے تو اس کی ریٹنگ راتوں رات آسمانوں کو چھونے لگتی ہے… گذشتہ دنوں بی بی سی وغیرہ
پر کسی صحافی کا چرچہ رہا ہے کہ انہوں نے میرے کئی انٹرویو کر رکھے ہیں اور وہ
ہمارے حالات جانتے ہیں… مگر ایسا کچھ بھی نہیں… نہ ہی اس نام کے کسی صحافی نے میرا
کبھی کوئی انٹرویو کیا ہے… اور نہ ہی وہ ہمارے حالات درست بیان کر رہے ہیں… میرے
محترم بھائیوں کی تعداد چار لکھی جا رہی ہے جو کہ غلط ہے…حماد اظہر نام کا نہ کوئی
میرا بیٹا ہے اور نہ بھائی… اسی طرح حرکۃ الانصار اور سابق جہادی تنظیموں میں کوئی
عہدہ مانگنے کی بات بھی ایک جھوٹی تہمت ہے… انڈیا میں قید کے دوران کی بہت سی باتیں
انڈین میڈیا غلط پھیلا رہا ہے… حالانکہ اس چھ سالہ قید میں اللہ تعالیٰ کی بے حد
نصرت ساتھ رہی… ہزاروں افراد نے الحمد للہ بندہ سے دین کا علم پڑھا اور جیل میں با
رہا انڈیا کو ذلت و شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر
کسی کو انصاف کرنا ہے تو وہ فروری 1994 ء میں بندہ کی گرفتاری کے بعد… ’’انڈیا
ٹوڈے‘‘ کا وہ پہلا شمارہ دیکھ لے … جس کے ٹائٹل پربرادر محترم حضرت حافظ سجاد شہید
رحمہ اللہ علیہ اور بندہ کی تصویر شائع کی
گئی تھی… تب اندازہ ہو گا کہ اس خوفناک قید میں بھی اللہ تعالیٰ نے کس طرح سے ہم
کمزور فقیروں کو استقامت، عزیمت اور ہمت بخشی… بے شک یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل
تھا کہ قید اور بے بسی کے دوران بھی… ہماری وجہ سے اسلام ، جہاد اور پاکستان پر
کوئی آنچ نہ آئی … بلکہ جیلوں میں بھی الحمد للہ تکبیر کے فلک شگاف نعرے بلند
ہوتے رہے… اور دعوت الی اللہ کی محفلیں برپا رہیں… وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعَالَمِیْنَ
اب
انڈیا اپنی ذلت و خفت کو چھپانے کے لئے… طرح طرح کے جھوٹے اقبالی بیانات اور من
گھڑت فلمیں اور ویڈیوز بنا رہا ہے… مگر اس کا کام نہیں بن رہا… جبکہ اس کے اس منفی
پروپیگنڈے نے لوگوں کی توجہ… ہمارے بیانات، ہماری کتابوں اور ہمارے پیغامات کی طرف
بڑھا دی ہے… گذشتہ دو تین ہفتوں میں لاکھوں افراد نے ان بیانات کو بار بار نشر کیا
ہے… اور یوں ہم فقیروں کے لئے آخرت کا سرمایہ بن گیا کہ… لوگ پہلے سے زیادہ ذوق و
شوق سے دین کی دعوت سن رہے ہیں… ایمان و جہاد کی بات سن رہے ہیں… چند دن پہلے…
اپنے بعض دینی بیانات پر لاکھوں مسلمانوں کا ہجوم دیکھ کر میں اللہ تعالیٰ کی شان
اور اللہ تعالیٰ کے فضل پر شکر میں ڈوب گیا؎
جتنے
بھی ستم وہ ڈھاتے ہیں
سب
عشق پہ احساں ہوتے ہیں
کہاں ایک طرف ساری دنیا مل
کر گردن دبانا چاہتی ہے… اور کہاں اللہ تعالیٰ اس دعوت کو دور دور تک پھیلا رہے ہیں…
بے شک ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں…
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
مَاشَاءَ
اللہُ کَانَ
آج
جب لکھنے بیٹھا تو عنوانات کی ایک چھوٹی سی فہرست بنا لی تھی:
١
حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید قدرہ پر حملہ
٢ صدر
ٹرمپ کی طرف سے گولان کی پہاڑیوں کوباقاعدہ اسرائیلی علاقہ تسلیم کرنے کا فیصلہ
٣
سندھ کی ہندو برادری میں اسلام قبول کرنے کا مبارک رجحان اور اس مبارک عمل کے خلاف
سرگرم باطل قوتیں… دو بہنوں کا قبول اسلام اور حکومت کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی
کی بجائے ان کو ہراساں کرنے کا عمل… اور اس پورے واقعے کا پس منظر۔
(۴) کیا
پاکستان دینی مدارس اور علماء کی وجہ سے سائنسی ترقی سے محروم ہے؟
ان
چار عنوانات پر لکھنا تھا… حضرت شیخ الاسلام مدظلہ پر لکھنے میں تھوڑا تردد تھا کہ
کہیں ہمارے والہانہ اظہار محبت کی وجہ سے ان کو بھی کالعدم جماعتوں سے نہ جوڑ دیا
جائے… جبکہ باقی تین عنوانات پر تفصیل سے لکھنا تھا… مگر قلم نے اپنا راستہ خود ہی
ڈھونڈا… اور اسی پر چل کے کالم کی جگہ مکمل کر دی۔
مَاشَاءَ
اللہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا
بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور:شمارہ 688
اصحاب الکہف
* علماء کرام اور مدارس پر
’’سائنسی ترقی‘‘ میں رکاوٹ کا الزام
لگانے والوںسے چند کھری کھری باتیں اور چشم کشا
سوالات…
* مدارس دینیہ کی مختصر تاریخ…
* بنگلہ دیش کے مدارس ، ان کی
خدمات اور ان کا
نظام
اصلاح و تربیت امت کے لیے عظیم نعمت…
* مدارس پر دہشت گردی کے
الزامات اورانہیں قومی دھارے
میں لانے کی باتیں، وجہ صرف ایک ہے…
* کشمیر
میں اٹھتے سرخ اور جوان جنازے… اجڑتے
خاندان
اور ہماری بے حسیاں… آہ! اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
* تحریک ِکشمیر آگےبڑھے گی
اور کامیابی سے ہمکنار
ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں…
* عجیب دشمن اور عجیب دوست…
* اصحاب
الکہف کا کردار ادا کرنے والے چند کم
عمر
مگر بالغ نظر باایمان نو جوانوں کا حسین تذکرہ…
بکھرے
موتیوں پر مشتمل ایک فکر انگیز اور ایمان افروز تحریر…
تاریخ
اشاعت:
۲۸ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ/
5 اپریل 2019ء
اصحاب الکہف
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی سدا بہار رونق اور روشنی نصیب فرمائیں۔
کیا
مسلمان ’’سائنسی ترقی ‘‘ کر سکتے ہیں؟ … اب ’’جہاد کشمیر ‘‘ کا کیا بنے گا؟
اس
مجلس میں ان دو سوالات پر بات کرنے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ… اور مزید ایک آدھ
ضمنی بات بھی، ان شاء اللہ… چل اے قلم!
بِسْمِ اللہِ وَالْحَمْدُ
للّٰہِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم … {بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖهَا
وَمُرْسٰهَا}
ایک عجیب الزام
’’ وفاق پاکستان‘‘ پر ایک دن بھی کسی عالم دین، کسی مولوی، کسی
مدرسے والے کی حکومت نہیں رہی… پھر علماء اور مولویوں کو یہ الزام کیوں دیا جاتا
ہے کہ وہ سائنسی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہیں؟ … ملک کے سارے وسائل اول دن سے لے کر
آج تک انگریزی تعلیم یافتہ (پڑھے لکھے ) لوگوں کے ہاتھوں میں رہے ہیں …ملک کے
سارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی ان کے زیر اختیار ہیں… اس کے باوجود انہوں
نے سائنس میں ترقی نہیں کی تو اس میں علماء ، مولویوں یا مدارس کا کیا قصور ہے؟…
ضرور غور فرمائیں… آج جو بھی سائنس کے حق میں بولتا ہے وہ فوراً علماء کرام اور
مدارس کو گالیاں دینے پر اُتر آتا ہے… کیا علماء کرام اور مدارس نے اسکول، کالج میں
سائنس کی تعلیم سے روکا ہے؟ … ایک جھوٹی بات کہ بعض علماء نے لاؤڈ اسپیکر تک کی
مخالفت کی تھی…بالفرض اس کو سچ بھی مان لیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟… بعض نہیں سارے
علماء ’’سود‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں… مگر آپ نے ستر سال سے ملک میں سودی نظام چلا
رکھا ہے… تو پھر بعض علماء کی مخالفت کے باوجود آپ سائنس میں بھی ترقی کر سکتے
تھے… آج علماء کو چیخ چیخ کر کہا جاتا ہے کہ… تم جہاز پر کیوں بیٹھتے ہو؟ … تم
بجلی کیوں استعمال کرتے ہو؟ … اس طرح کی چیخ و پکار اور طعنہ زنی کا حق آپ کو تب
حاصل ہو سکتا تھا …جب جہاز یا بجلی آپ نے ایجاد کئے ہوتے… یا آپ کے ابو جان نے یہ
چیزیں ایجاد کی ہوتیں… پھر آپ اس معاملے میں جس قدر بھی جذباتی ہوتے اسے برداشت کیا
جاتا… مگر حال یہ ہے کہ خود آپ نے کچھ بھی ایجاد نہیں کیا… حالانکہ آپ نے سائنس
کی تعلیم حاصل کرنے پر اپنے والدین اور اپنے ملک کا سرمایہ بھی خرچ کرایا… مدارس
تو اسکول کالج کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں … ملک میں تعلیم حاصل کرنے والے پچانوے
فیصد بچے… آپ کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں… جبکہ پانچ فیصد
سے بھی کم بچے قرآن و سنت کی تعلیم کے لئے مدارس میں جاتے ہیں… اب ان پانچ فی صد
مدارس کو بھی اگر اسکول ، کالج بنا دیا جائے تو کیا ملک سائنسی ترقی کر لے گا؟…
تھوڑا سا ٹھنڈے دل سے غور کریں… اور سائنسی ترقی کے غم میں علماء اور مدارس پر
چنگھاڑنے والوں سے کبھی اتنا ضرور پوچھیں کہ…وہ خود سائنسدان کیوں نہیں بنے؟…انہیں
سائنسدان بننے سے کس عالم یا کس مدرسے نے روکا تھا؟… اور اب وہ مسلمانوں کو
سائنسدان یا موجد بنانے کے لئے کیا محنت کر رہے ہیں؟
آہ!
اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
پاکستان
کے ارباب اختیار اور صحافی حضرات کے لئے… آج کل تو کشمیر ٹھیک چل رہا ہے؟… آج
چار کشمیری شہید ہوئے… کل تین کشمیری مسلمان جام شہادت نوش فرما گئے… اس ایک ہفتے
میں اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرزند ’’مسلمان‘‘ اور ’’کشمیری ‘‘ ہونے کے
جرم میں شہید ہوئے اُن کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے… بارہ خاندان اُجڑ گئے… بارہ سرخ
جنازے ، جوان جنازے ہماری بے حس آنکھوں کے سامنے صرف سات دن میں اُٹھے… مگر تسلی
کی بات یہ ہے کہ کسی بھارتی فوجی کے مرنے کی خبر نہیں آئی… بس اسی طرح معاملہ
چلتے رہنا چاہیے… تاکہ کشمیر کی تحریک دہشت گردی کے لیبل سے محفوظ رہے… ہمیں عالمی
برادری سے کسی مذمت اور شکوے کا سامنا نہ کرنا پڑے …ہمیں بھارت کی طرف سے کوئی
خطرہ محسوس نہ ہو… ہمارے سفارتکاروں کو گورے صحافیوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا
پڑے…بس کشمیری مسلمان اسی طرح احتیاط سے شہید ہوتے رہیں کہ بھارتی فوج پر کوئی
آنچ نہ آئے… تاکہ ہم کشمیری مسلمانوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری
رکھ سکیں… ہم قومی اسمبلی کی ’’کشمیر کمیٹی ‘‘ کو فعال رکھ سکیں…ہم سال میں ایک
مرتبہ جنیوا میںکشمیر کا رونا رو سکیں… ہم کبھی کبھار کسی جلسے میں تحریک کشمیر کی
حمایت کر کے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہہ سکیں… آہ! امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم …آہ! امت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم ۔
مدارس
اور سائنس
پاکستان
کے دینی مدارس کی تاریخ پاکستان سے بھی پرانی ہے… یعنی پاکستان بننے سے پہلے بھی
اس خطے میں خالص دینی تعلیم کے مدارس موجود تھے… پھر جب اللہ تعالیٰ نے برصغیر میں
ایک اسلامی ملک مسلمانوں کو عطاء فرمایا تو یہاں مدارس کی تعداد بڑھتی چلی گئی… نائن الیون سے پہلے… یا یوں کہہ لیں کہ پاکستان
میں صدر مشرف کے نامبارک دور حکومت سے پہلے… ان مدارس پر کبھی شدت پسندی یا دہشت
گردی کا کوئی الزام نہیں لگا… مدارس کی زیادہ تعداد مشرقی پاکستان میں تھی…71 ء میں
جب پاکستان ٹوٹنے لگا تو مشرقی پاکستان کے دینی مدارس متحدہ پاکستان کے حق میں تھے
… ان کے اس جرم کی پاداش میں انڈین فضائیہ نے کئی مدارس پر بمباری کی… اور’’مکتی
باہنی‘‘ کے دہشت گردوں نے ان مدارس پر حملے بھی کئے … ہمارے یہ تمام بڑے اور
شاندار مدارس بنگلہ دیش میں چلے گئے… اور کافی عرصہ تک وہاں کی قوم پرست حکومت کے
زیرعتاب رہے… صدر ضیاء الرحمٰن کے زمانے میں تبدیلی آئی اور مدارس پر مظالم کا
سلسلہ ختم ہوا… بہرحال بنگلہ دیش کے مدارس آج بھی علم ، روحانیت ، اصلاح معاشرہ…
اور دینی دعوت کے لحاظ سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں…میرا تین بار بنگلہ دیش
جانے کا اتفاق ہوا ہے…اللہ تعالیٰ کا احسان ہوا کہ مجھے بنگلہ دیش کے کئی مدارس میں
مختصر وقت گذارنے کی سعادت ملی… حقیقت یہ ہے کہ یہ مدارس اور ان کا نظام تعلیم و
اصلاح امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم نعمت ہے… اللہ تعالیٰ وہاں کے مدارس کی…ہر فتنے ،
ہر شر اور ہر صدمے سے حفاظت فرمائے… وہ مدارس تو پاکستان سے چلے گئے … مگر خود باقی
ماندہ پاکستان کے مدارس بھی ماشاء اللہ قابل شکر ہیں… الحاد اور فساد کے سمندر میں
اُبھرے ہوئے نور اور روشنی کے جزیرے… مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی باتیں
سمجھانے والے ترجمان… اور اصلاح معاشرہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی… مشرف کے دور میں
پاکستان میں دہشت گردی اُگائی گئی… اور پھر اس کو مدارس سے جوڑ کر مدارس کے خلاف ایک
ناجائز اور اندھی مہم شروع کر دی گئی… آج پھر شور ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں
لانا ہے… کون سا قومی دھارا؟ … وہی دھارا جس میں قوم کے عظیم لیڈر اور ماضی کے
حکمران بہہ رہے ہیں؟ … وہی دھارا جس کی پیشیاں ریاست کے ماضی کے’’مالک‘‘ بھگت رہے
ہیں؟ … وہی دھارا جس میں ریاست کے آٹھ سال تک سفید و سیاہ کے مالک پرویز مشرف…
عدالت عالیہ کو مطلوب ہیں؟… مدارس بھوکے نہیں مر رہے تھے کہ آپ کو انہیں امداد دینے
کی ضرورت پڑ گئی ہے… مدارس دہشت گرد نہیں اُٹھا رہے تھے کہ آپ نے ان پر پولیس کے
پہرے لگا دئیے ہیں… آج داعش سے لے کر حزب التحریر تک کی تمام پارٹیوں کے … ساڑھے
نناوے فیصد ارکان اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے ہیں… مدارس میں مسلمان
صرف آٹھ سال کا عرصہ دیتے ہیں تاکہ … اللہ تعالیٰ کے کلام اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سمجھ سکیں… وہاں انگریزی اور سائنس
داخل کر کے کیا آپ… خلائی راکٹ اور جوہری ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کر لیں
گے؟ … وجہ صرف ایک ہے کہ… نیو ورلڈ آرڈر میں ان مدارس کو عالم کفر نے ناقابل
برداشت قرار دیا ہے… اور ہمارے حکمران صرف اور صرف اُن کے دباؤ میں آ کر… اپنے دین
کے ان مراکز کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں… آپ اپنی یہی انرجی اور توانائی اپنے
سرکاری تعلیمی اداروں کے سدھار پر خرچ لیں… آپ کا بھی بھلا ہو جائے گا… اور یہ
ملک بھی مزید انتشار اور مزید عذاب سے بچ جائے گا۔
اللہ
تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے
اللہ
تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے… اللہ تعالیٰ شہداء کرام کے خون کو رائیگاں نہیں فرماتا…
کشمیر کی تحریک میں… بہت مبارک، بہت قیمتی، بہت جوان اور بہت لاڈلا خون امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر چکی ہے… کشمیر کی ماؤں ،بہنوں نے جو
قربانی دی ہے اس کی مثال قریب زمانے میں ڈھونڈنا مشکل ہے…کشمیر کی ان عفت مآب
ماؤں، بہنوں کے ایثار، شجاعت اور قربانی نے ہماری گردنوں کو اپنا مقروض بنا دیا
ہے…ہم سری نگر کے آرمی سینٹر میں قید تھے… وہاں کے حالات سناؤں تو کلیجہ منہ کو
آئے گا… گذشتہ کالم میں کچھ مظالم کا ذکر ہو گیا تو… محترمہ و مکرمہ امی جی حفظہا
اللہ نے اتنے آنسو بہائے کہ اب مزید
مظالم کا تذکرہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا… بس یہی عرض کرتا ہوں کہ ان مشکل حالات میں
اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا ہمدرد… اور معاون بنایا تو… وہ ہماری کشمیر کی
محترم اور معزز مائیں، بہنیں تھیں… میں نے اگر جیل میں… گرفتاری کے ایک سال بعد
پہلی بار ڈھنگ کا لباس پہنا تو وہ کپڑے تحریک آزادیٔ کشمیر کے نامور کمانڈر…
مشتاق احمد زرگر صاحب کی والدہ محترمہ لائی تھیں… وہ مجھے دیکھے اور ملے بغیر اپنے
بیٹے سے بڑھ کر میرا خیال رکھتی تھیں… عجیب داستان ہے… ایک سے بڑھ کر ایک… شرم
محسوس ہوتی ہے کہ ہم کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہہ کر بھی وہاں کے لئے کچھ نہیں کر سکے…کشمیریوں کو معلوم
تھا کہ… میں ان کے حالات معلوم کرنے کے لئے باقاعدہ ویزے پر کشمیر آیا تھا… انڈین
آرمی نے مجھے ظلم کا نشانہ بنایا تو کشمیریوں نے مجھے اتنی محبت دی کہ اسے بیان
کرنے کی مجھ میں تاب نہیں ہے… آج بھی کشمیر میں کئی بچوں کا نام… میرے نام پر
رکھا جاتا ہے… اور وہاں کے نوجوان ہماری طرف اپنی نسبت کرنے میں خوشی اور فخر
محسوس کرتے ہیں… مجھے یقین ہے کہ کشمیر کی تحریک بند نہیں ہو گی … بلکہ یہ تحریک
مزید آگے بڑھے گی اور ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہو گی… بے شک! اللہ تعالیٰ
کے وعدے سچے ہیں، پکے ہیں۔
ایک
ضمنی بات
ہمیں
دشمن بھی عجیب ملے ہیں… وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آپ پر کئی سرجیکل سٹرائک کئے
ہیں…اور آپ کو مار دیا ہے … آپ کے تمام قریبی ساتھیوں کو بھی مار دیا ہے … ایک
بار نہیں،بلکہ کئی بار آپ سب کو مار دیا ہے … ہم بار بار صفائی دے رہے ہیں کہ نہیں
ہم ابھی زندہ ہیں…ہم نہیں مرے… مگر وہ مانتا ہی نہیں، بلکہ یہی کہے جا رہا ہے
کہ…ہم نے تمہیں مار دیا ہے… دوسری طرف ہمیں ’’دوست‘‘ بھی عجیب ملے ہیں… وہ دعویٰ
کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کے ایک نہیں تین، تین انٹرویو کر رکھے ہیں … آپ مانیں یانہ
مانیں… آپ کو یاد ہو یا نہ یاد ہو… ہم آپ کے جلسوں میں آئے تھے… اور ایسی ہوشیاری
سے آپ کا انٹرویو کر گئے کہ آپ کو یاد ہی نہیں رہا… اگرچہ اس وقت ہم بہت کم عمر
تھے… صحافت بھی شروع نہیں کی تھی… مگر پشاور کی ’’سپین جماعت‘‘ والے بھیڑ بھرے
جلسے میں … جہاں آپ رش کی وجہ سے مسجد کی انتظامیہ تک سے ہاتھ نہ ملا پائے…وہاں
بھی ہم نے آپ کا انٹرویو کر ڈالا… یہ الگ بات ہے کہ وہ انٹرویو کبھی کسی جگہ شائع
نہیں ہوئے…( بے کار آدمی کے انٹرویو شائع کرنے کے تو نہیں ہوتے) … ہم ان دوستوں
کو صفائی دے رہے ہیں کہ بابا جی ،سید، صوفی ہو کر… ایسی باتیں نہ کریں… پہلے عالم
اسلام کی معروف شخصیت حضرت شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ علیہ کا درست نام پتا کر لیں… ان کے والد کا نام یوسف
تھا… وہ عبد اللہ بن یوسف تھے عبد اللہ بن عزام نہیں … اور وہ ’’سپین جماعت‘‘ میں
نہیں… بلکہ اسی علاقے کی ایک اور مسجد میں جمعہ پڑھاتے تھے… اور وہیں جاتے ہوئے راستے
میں شہید ہوئے تھے… ان معلومات کو درست کر لیں تاکہ آپ کی بے چاری ’’کریڈیبیلٹی
‘‘ مزید نکھر جائے… ( آپ کہہ سکتے ہیں کہ درست نام ، درست مقام اور درست بات کہنے
کا ساکھ سے کیا تعلق؟ )
إِنَّھُمْ
فِتْيَۃٌ آمَنُوْا بِرَبِّھِمْ
اصحاب
کہف بھی عجیب تھے… کم عمر نوجوان ، مگر بالغ نظر باایمان… وہ ایسا ایمان لائے کہ ایمان
کی مثال بن گئے… ایمان کی دعوت بن گئے… بلکہ کہتا ہوں کہ ایمان کا فخر بن گئے…
انہوں نے بہت مختصر وقت پایا… بظاہر تھوڑا سا کام کیا… بس چند دن کا… مگر ان کا
مقام دیکھیں تو ٹوپی سر سے گر جاتی ہے…وجہ یہ تھی کہ ہر طرف فساد اور کفر پھیلا
ہوا تھا… تب وہ اُٹھے اور جان و عیش کی پرواہ کئے بغیر ایمان کے ساتھ کھڑے ہو گئے…
آج جب میں پیارے عمر کو دیکھتا ہوں… طلحہ اور عثمان کو دیکھتا ہوں … کامران اور ریاض
کو دیکھتا ہوں… اور ان کے ان جیسے ہم جولیوں کوتو… مجھے بے اختیار’’ اصحاب کہف‘‘ یاد
آ جاتے ہیں… ایمان لائے اور ایمان پا گئے… میدان میںآئے اور چھا گئے… اور پھر ایسے
مقام پر جا پہنچے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بن گئے… اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے
سودے اور اپنی خریداری کا اشارہ بھیجا تو… سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان بیچنے بازار میں
جا کھڑے ہوئے… دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی بولی لگ گئی اور وہ بک گئے … فروخت ہو گئے…
اللہ تعالیٰ نے انہیں خرید لیا … واہ قسمت والو! تمہارے قدموں کی مٹی پر بھی رشک
آتا ہے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نورشمارہ :689
اُن کا کرم محسوس کرتا ہوں
* ایک بڑی پُر کیف اور معنٰی خیز
دعاء…
* رب تعالیٰ کے نوازنے کاایک
نرالا انداز…
* ’’دنیا‘‘ مؤمن کی گذر گاہ
اور راستہ…
* اہل استقامت کو سلام…
* ’’زمانہ چل رہا ہے‘‘ ایک گہرا
راز…
* انصاف مل جائے گا…
درد
و گداز سے بھرپور ایک راہنما تحریر
تاریخ
اشاعت:
۶ شعبان المعظم ۱۴۴۰ھ/
12 اپریل 2019ء
اُن کا کرم محسوس کرتا ہوں
اللہ
تعالیٰ کا شکر …اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… اللہ تعالیٰ کا شکر ہر چیز
سے پہلے … اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ… اللہ تعالیٰ کا شکر ہر چیز کے
بعد… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَعْدَ کُلِّ شَیْئٍ… اللہ تعالیٰ کا شکر ہر حال میں، ہر
حالت میں… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ…لیجئے! حضرات صوفیائِ کرام رحمہم اللہ علیہ کے ہاں مقبول محبوب اور ایک مؤثر دعاء:
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ بَعْدَ کُلِّ شَیْئٍ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ،
سُبْحَانَ اللہِ لَمْ یَزَلْ، سُبْحَانَ الْحَیِّ الْقَیُّوْمِ، یَاسَتَّارُ یَا
سَتَّارُ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
بڑی پُر کیف اور معنٰی خیز
دعاء ہے… فضیلت تو نہیں لکھ سکتا… کیونکہ بعض صوفیاء کرام رحمہم اللہ علیہ نے اس کی جو فضیلت لکھی ہے، اس کا حوالہ نہیں مل
پایا… طویل عرصہ سے اس دعاء کے ساتھ تعلق ہے… پڑھ کر عجیب لطف آتا ہے… الفاظ بھی
تمام شریعت کے عین مطابق ہیں… حمد ہی حمد ہے اور تسبیح اور چند اَسماء الحسنیٰ …
بعض حضرات کے نزدیک ’’اَلسَّتَّار‘‘ کا اسماء الحسنیٰ میں سے ہونا ثابت نہیں
ہے…مگر ان کی رائے درست معلوم نہیں ہوتی… ’’تحفۂ سعادت‘‘ تو آپ نے پڑھی ہو گی…
’’اسماء الحسنیٰ ‘‘پر یہ کتاب ایک پُر فضاء مقام پر لکھی تھی… اللہ تعالیٰ نے اپنے
فضل سے خوب چلائی… درجنوں ایڈیشن الحمد للہ نکل چکے ہیں… کئی زبانوں میں ترجمہ بھی
ہو کر چھپ چکا ہے… مگر پیاس نہیں بجھی… اسماء الحسنیٰ کے معارف پر ایک اور کتاب کی
تمنا دل میں ہے…شاید قبر میں ساتھ جائے گی … ویسے اچھی بات ہے … دل اچھے اِرادے
اور اچھی تمنائیں لے کر قبر میں اُترے تو یہ امید والی بات ہے … بس اہل محبت یہ
دعاء ضرور فرما دیں کہ درود شریف والی کتاب مکمل ہو جائے …اس کا کام بس پورا ہوا ہی
چاہتا تھا کہ زندگی پھر حالات کی لہروں پر ڈولنے لگی… کل سے سوچ آ رہی ہے کہ…
جتنا کام ہو چکا وہی شائع کر دیا جائے… دیکھیں کیا بنتا ہے… الحمد للہ کوئی مایوسی
نہیں ہے… مگر خاتمہ اور اِختتام تو بہرحال برحق ہے… اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ
عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم کا
موضوع بڑا اہم ہے… فضائل تو الحمد للہ اکثر مسلمانوں کو معلوم ہیں…مگر’’ صلوٰۃ‘‘
کہتے کسے ہیں اور سلام سے کیا مراد ہے؟ … کیا مطلوب ہے؟… ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی
سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ‘‘کا مطلب اور کیفیت کیا ہے… اور ’’اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ عَلٰی
سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ‘‘ کا مفہوم اور مقصد کیا ہے…اس کتاب میں یہ سب کچھ آ رہا
ہے، ان شاء اللہ… کتاب کی جھلکیاں مکتوبات میں اور رنگ و نور میں شائع ہو چکی ہیں…
الحمد للہ ہر شب جمعہ اور یوم جمعہ مقابلۂ حسن بھی بڑی شان سے برپا ہوتا ہے…
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ وَ الصَّلٰوۃُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ۔
زباں
پر میری شکوہ آ نہیں سکتا زمانے کا
کہ
ہر عالم کو میں ان کا کرم محسوس کرتا ہوں
شعبان
المعظم
اللہ
تعالیٰ کے عطاء فرمانے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ… جو کچھ عطاء فرمانا چاہتے ہیں
اس کی دعاء نصیب فرما دیتے ہیں… یعنی پہلے اپنے بندے کو اس بات کا الہام فرماتے ہیں
کہ وہ اپنے رب تعالیٰ سے فلاں چیز مانگے… فلاں دعاء مانگے… بندہ وہ مانگتاہے… اور
اللہ تعالیٰ اسے عطاء فرما دیتے ہیں… یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر فضل در فضل
اور کرم بالائے کرم ہوتا ہے کہ… پہلے دعاء کی توفیق بخشی… جو خود ایک بڑی عبادت،
بڑی سعادت، بڑی نیکی اور بڑا مقام ہے … اور پھر اس کی حاجت بھی پوری فرما دی… یوں
دنیا و آخرت دونوں کا نفع ہی نفع ہو گیا… ابھی شعبان کا مبارک مہینہ شروع ہوا تو
بندوں کو توجہ دلا دی کہ وہ مانگیں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا
فِیْ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ
[مسند البزار۔رقم الحدیث:۶۴۹۶،ناشر:
مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة]
شعبان
میں اگر برکت مل گئی تو ان شاء اللہ رمضان اچھا گزرے گا… رمضان المبارک اچھا گذرا
اور مغفرت مل گئی تو پورا سال اچھا گذرے گا… اور پورا سال اچھا گذرا تو پوری زندگی
اور اس کا اِختتام اچھا ہو گا… مؤمن کے لئے ’’دنیا‘‘ ایک گذرگاہ ہے… صرف راستہ ہی
راستہ ہے… اس کی دنیا میں کوئی’’ منزل‘‘ نہیں … راستے پر چلنا… راستے پر ڈٹے رہنا…
راستے پہ چلتے رہنا ہی اس کی کامیابی ہے:
{اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ}[الفاتحہ:۶]
اسی
لئے جہاد کو بھی راستہ فرمایا گیا …جہاد فی سبیل اللہ… تصوف کو بھی’’ سلوک‘‘ قرار
دیا گیا… یعنی سیدھے راستے پر چلتے ہوئے محبوب کو پانے کی محنت…اس لئے مؤمن کو
اللہ تعالیٰ کے راستے سے پیار ہونا چاہیے ؎
اے
رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں پَر یاد رہے
اس
وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے
اہل
استقامت کو سلام
اللہ
تعالیٰ کے راستے پر چلنے والوں کو سلام اور مبارکباد… اللہ تعالیٰ کے راستے میں
قربان ہونے والوں کو سلامِ محبت… اللہ تعالیٰ کے راستے میں آزمائشیں اُٹھانے
والوں کو سلامِ عقیدت… اللہ تعالیٰ کے راستے میںجلتی خندقوں، بھڑکتے شعلوں ، کڑکتے
طوفانوں، تیز دھار میخوں،چمکتی تلواروں گھٹن زدہ زندگیوں ، غیروں کے ستم اور اپنوں
کی جفاؤں کا سامنا کرنے والے دیوانوں کو ڈھیروں سلام… محبت بھرا سلام… اہل
استقامت پر تو ملائکہ بھی ناز کرتے ہیں… اور ان کی زیارت کے لئے اُترتے ہیں… اور
ان کو بشارتیں سناتے ہیں:
{اَنْ لَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا} [فصلت: ۳۰]
ہاں
بے شک! ماضی بھی اہلِ استقامت اور اہل عزیمت کا ہے… حال بھی اہلِ استقامت اور اہلِ
ہمت کا ہے… اور مستقبل بھی اہلِ استقامت اور اہلِ جرأت کا ہے … زندگی کا کمال یہ
ہے کہ وہ کٹ جاتی ہے… جیل میں بھی، ریل میں بھی… خوشی میں بھی، غم میں بھی… آسانی
میں بھی اور مشقت میں بھی…اسی لئے جب قرآن مجید نے اِستقامت کا سبق پڑھایا تو رب
کریم نے زمانے کی قسم کھائی… اس میں ایک اشارہ یہ بھی دے دیا کہ جو تکلیفوں میں ہیں
وہ گھبرائیںنہ… جھکیںنہ… زمانہ چل رہا ہے… یہ ’’عصر ‘‘ ہے، ڈھلتا وقت … چلتی ہوا…
تیز آندھی… اور جو آج اہلِ اقتدار ہیں اور ظلم ڈھا رہے وہ مطمئن نہ رہیں… زمانہ
چل رہا ہے… چنددن بعد ان کا اقتدار، ان کا ظلم اور ان کی تنی گردنیں سب کچھ ماضی
کا حصہ بن جائے گا… ان کی کرسیوں پر کوئی اور بیٹھا ہوگا … اور وہ گذرتے زمانے کی
حسرتوں کے رندے تلے چھیلے جا رہے ہوں گے…اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
انصاف
مل جائے گا
آج
انڈیا کے انتخابات اور ان کے متوقع نتائج پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ تھا… مگر طبیعت
آمادہ نہ ہوئی… ابھی چند سال ہی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو صرف غیروں
کے دباؤ میں گرفتار کیا گیا… زمانہ چلا… آج ان کو گرفتار کرنے والے خودقید خانوں
اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں… آج پھر وہی طوفان ہے… وہی ظلم ہے… وہی آنسو ہیں…
وہی آہیں ہیں… بلکتے ہوئے معصوم بچے…آنسو چھپا چھپا کر رونے والی تہجد گزار بیبیاں…اور
آنسوؤں سے تر سفید ریش نورانی چہرے ہاں! وہ چہرے… جن سے اللہ تعالیٰ تو حیاء
فرماتا ہے… مگر طاقت اور اقتدار کے گھمنڈ میں بدمست اَفراد کو کوئی حیاء نہیں آتی۔
اللہ
تعالیٰ دیکھ رہے ہیں… زمانہ چل رہا ہے…ہر کسی کا قول و عمل لکھا جا رہا ہے… اور
پھر ایک دن فیصلہ ہو جائے گا…اِنصاف مل جائے گا۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نورشمارہ :690
ملاقات
* ایک بہت پیاری، مؤثر اور طاقتور تسبیح…
* اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا کیا مطلب ہے؟
حدیث مبارکہ کی دلنشین تشریح…
* اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے تقاضے اور اس کے لئے تیاری
کی ترتیب…
* مذہبی مقامات پر حملے نہایت غلط اقدام…
* مجاہدین کے لئے لڑائی کے شرعی اصولوں کو جاننا
انتہائی ضروری…
* ہر لڑائی بری نہیں…
* جہاد کی برکات اور شہداء کی کرامات…
دنیا کے بکھیڑوں، گناہوں
اور غفلتوں سے نکال کر سعادت
اور کامیابی کی راہوں پر گامزن کراتی ایک انمول
تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۳ شعبان المعظم ۱۴۴۰ھ
/ 19 اپریل ۲۰۱۹
ملاقات
اللہ
تعالیٰ ہر چیز کے خالق، ہر چیز کے بنانے والے…اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ءٍ… ایک
بہت پیاری، مؤثر اور طاقتور تسبیح یاد کر لیں… روزانہ دس بار پڑھ لیا کریں… عجیب
نعمتیں پائیں گے… ان شاء اللہ
سُبْحَانَ
الْخَالِقِ الْبَارِیْ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ
ہماری
آج کی مجلس کے ان شاء اللہ دو رخ ہوں گے:
١
ہم ایک صحیح حدیث مبارک سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں گے… یعنی علم کا ایک باب
سمجھیں گے، ان شاء اللہ… یہ بڑے مقام اور بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے کہ ہم حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی
مبارک فرمان کو سمجھ لیں۔
٢
حالات حاضرہ پر کچھ نظر ڈالیں گے، ان شاء اللہ
بِسْمِ
اللہ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ۔
حدیث
مبارک
حدیث صحیح ہے کہ حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ
اَحَبَّ لِقَائَ اللہِ اَحَبَّ اللہُ لِقَائَ ہٗ وَ مَنْ کَرِہَ لِقَائَ اللہِ
کَرِہَ اللہُ لِقَائَ ہٗ۔
’’جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس
سے ملاقات کو محبوب رکھتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے
اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں۔‘‘
[صحیح بخاری۔حديث رقم:۶۵۰۷، ناشر:دار طوق
النجاة]
اس مبارک حدیث کا کیا مطلب
ہے ؟… موت سے اکثر مسلمان حتیٰ کہ اکثر نیک لوگ بھی ڈرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں… تو کیا
یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں؟… حالانکہ ایسا نہیں ہے… موت
کا فطری خوف اکثر افراد کو ہوتا ہے…ہر بندہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے… پھر
اس سے کون سی ملاقات مراد ہے؟… اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہر زمانے میں حاضر و ناظر ہیں،
پھر ملاقات کا کیا مطلب ہے؟… قرآن مجید میں جگہ جگہ دو طبقوں کا ذکر ہے… ایک وہ
جو ’’لقاء اللہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہیں… اور دوسرے وہ جو
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں… قرآن مجید پہلے طبقے کی بہت تعریف
فرماتا ہے… اور دوسرے طبقے کی بہت مذمت فرماتا ہے… اور حدیث شریف بھی ہم نے پڑھ لی
کہ… اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ایسی عظیم نعمت ہے کہ… جسے یہ نعمت نصیب ہو جائے
وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات چاہتے ہیں… اس
لئے ضروری ہے کہ ہم اس حدیث شریف کو سمجھیں… اور اس نعمت کو پانے کی دعاء اور کوشش
کریں…یا اللہ! ہم سب پر اپنا فضل فرمائیے… اور ہمیں اپنی ملاقات کا شوق نصیب فرما
دیجئے۔
سری
لنکا پر حملے
نیوزی
لینڈ میں مسجد پر حملہ ہوا… بہت تکلیف ہوئی… اب سری لنکا میں کئی چرچوں پر حملہ
ہوا…بہت برا لگا… انسانوں کے درمیان لڑائی تو ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے اور ہمیشہ
چلتی رہے گی… ہر لڑائی اچھی نہیں ہوتی … اور ہر لڑائی بری بھی نہیں ہوتی… اگر ہر
لڑائی بری ہوتی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کسی لڑائی میں شریک نہ ہوتے
… مگر چونکہ بعض لڑائیاں انسانیت کے لئے بے حد ضروری اور بے حد مفید ہوتی ہیں تو
اس لئے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے بھی
لڑائیوں میں شرکت فرمائی ہے…اور قرآن مجید نے ان کی اس عمل پر تعریف فرمائی ہے…
چنانچہ جو شخص ہر لڑائی کا مخالف ہوتا ہے وہ یا تو بے ایمان ہوتا ہے یا بے عقل یا
بے وقوف… یا انتہائی بزدل… اچھی لڑائی وہ ہوتی ہے جو اصولوں پر لڑی جاتی ہے… اور
لڑائی کے دوران بھی اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے… مگر ہمارے اس دور میں جنگ اور
لڑائی کافی بے اصول اور بے ترتیب ہو چکی ہے…حکومتیں ہوں یا افراد… وہ لڑتے وقت کسی
بھی اصول کے پابند نہیں رہتے… مذہبی مقامات پر نہتے افراد کو قتل کرنا نہ کسی
حکومت کے مفاد میں ہے، نہ کسی مذہب اور جماعت کے مفاد میں… مسجد کے نمازیوں پر
حملہ ہو یا چرچ میں سروس کرنے والوں پر، اس کا کیا مقصد ہے؟… کیا فائدہ ہے؟ اور کیا
پیغام ہے؟… جب دنیا میں جنگ اتنی ’’ بے اصول‘‘ ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی
ہے کہ دنیا میں عنقریب بہت بڑی تباہی آنے والی ہے… آخر عراق پر حملے کا کیا جواز
تھا؟ … لیبیا کو کیوں تہس نہس کیا گیا؟… ایک شخص کو پکڑنے کا بہانہ بنا کر چالیس
ملک افغانستان پر کیوں چڑھ دوڑے؟… کشمیر پر انڈیا کے قبضے کا کون سا اخلاقی، قانونی،
سفارتی جواز موجود ہے؟… بس ظلم ہی ظلم ، جہالت ہی جہالت اور آ گ ہی آگ ہے… اور
اب یہ آگ مساجد اور چرچوں تک کو جلا رہی ہے… لگتا یہی ہے کہ دنیا کا یہ ظالمانہ
نظام اب کسی بڑے حادثے کا شکار ہونے والا ہے… ایسے افراد جو پاگل خانوں میں رکھنے
کے قابل بھی نہیں تھے وہ بڑی ریاستوں کے سربراہ بن چکے ہیں… باقی رہی بات اسلام
اور جہاد کے بدنام ہونے کی تو اس کی الحمد للہ کوئی فکر نہیں ہے… اسلام کبھی بدنام
نہیں ہو سکتا… جہاد کبھی بدنام نہیں ہو سکتا… بُرے لوگوں کی نفرت سے اچھے لوگ
بدنام نہیں ہوتے… تو پھر اسلام اور جہاد کیسے بدنام ہو سکتے ہیں؟ … اسلام ہی سب سے
بڑی عزت ہے… اور جہاد اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے… جو مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کا
جذبہ رکھتے ہوں وہ جہاد کے اصولوں کو اچھی طرح سمجھیں…اور انہی اصولوں کے پابند ہو
کر جہاد کریں۔
اللہ
تعالیٰ سے ملاقات
ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے
سامنے ہیں … اللہ تعالیٰ ہر زمان اور ہر مکان میں حاضر و ناظر ہیں… مگر قرآن پاک
اور حدیث شریف میںجس ملاقات کا تذکرہ ہے… وہ بالکل الگ طرز کی ملاقات اور تعبیر
ہے… مرنے کے بعد تمام مردوں کو زندہ کیا جائے گا… اور ان کی اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی
ہو گی… ملاقات سے مراد یہ حاضری اور پیشی ہے… اور پھر اہل سعادت کو اللہ تعالیٰ کا
دیدار بھی نصیب ہو گا…پس جو شخص اس ملاقات کا یقین رکھتا ہے… اس ملاقات کا اشتیاق
رکھتا ہے… اور اس یقینی ملاقات کے لئے تیاری کرتا رہتا ہے … اس ملاقات کے لئے
سامان بناتا رہتا ہے تو… یہ وہ خوش نصیب ہے جو اپنے رب سے ملاقات کا شوقین ہے… اور
اس کا مقام یہ ہے کہ… مالک الملک، اللہ رب العالمین بھی اس سے ملنا چاہتے ہیں… مگر
جو اس ملاقات کا یقین نہیں رکھتا اور اس ملاقات کی تیاری نہیں کرتا… یہ وہ محروم
شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے… اور اللہ تعالیٰ بھی اسے
ناپسند فرماتے ہیں… چلیں چند بار تسبیح پڑھتے ہیں… صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی
رضاء کے لئے… تاکہ یہ تسبیح اور یہ عمل ہم اپنے محبوب حقیقی کی ملاقات کے لئے اپنے
ساتھ لے جائیں…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ… سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ
بِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ… سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ،
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ…
اللہ
تعالیٰ توفیق دے تو کبھی سجدے میں ایک سو بار یہ تسبیح پڑھ کر دیکھیں…
سُبْحَانَ
اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ…
اور
پھر یہ عمل اپنے ساتھ بڑی ملاقات پر لے جائیں… دنیا میں ضائع نہ کریں۔
کمزوری
چھپانے کی کوشش
افغانستان میں غیر ملکی بیساکھیوں
پر جو حکومت قائم ہے… حضرات طالبان نے اس حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیا
تھا … ان کا مؤقف یہ تھا کہ اس حکومت کی کوئی قانونی، عوامی حیثیت نہیں ہے…جیسے ہی
غیر ملکی افواج کا انخلاء ہو گا یہ حکومت خودبخود گر جائے گی… پھر کئی حلقوں کی
طرف سے طالبان پر دباؤ ڈالا گیا کہ… وہ بہرحال اس حکومت سے بھی بات چیت کریں…
تاکہ غیر ملکی انخلاء کے بعد ملک میں دوبارہ خانہ جنگی نہ ہو… اور انتقال اقتدار
کے معاملات بخوبی طے پا جائیں…طالبان راضی ہو گئے… تب افغان حکومت نے اپنا قد
اونچا دکھانے کے لئے اڑھائی سو افراد کا وفد مذاکرات کے لئے تشکیل دے دیا… جواباً
طالبان نے کہا کہ یہ مذاکرات ہیں کوئی شادی تو نہیں کہ اتنی بڑی بارا ت قطر آ رہی
ہے…اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ ایک زمانے تک کوئی طالبان کا نام لینا گوارہ نہیں
کرتا تھا… کوئی ان کے وجود تک کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا… کوئی ان سے
مذاکرات کا سوچتا بھی نہیں تھا… مگر جہاد کی برکت ، شہداء کرام کی کرامت کہ… آج
ہر کوئی امارت اسلامی طالبان سے مذاکرات کے لئے مچل رہا ہے:
سُبْحَانَ اللہِ وَ
بِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔
ملاقات
کے تقاضے
جب
انسان کو کسی ملاقات کا پکا یقین ہو تو انسان کی فطرت ہے کہ وہ اس ملاقات کی تیاری
ضروری کرتا ہے… یہ آج جگہ جگہ ’’بیوٹی پارلر‘‘ کیوں بنے ہوئے ہیں؟…جیلوں کے باہر،
ہسپتالوں کے باہر لوگ ملاقات کا سامان اُٹھائے نظر آتے ہیں…جس مؤمن کو اللہ تعالیٰ
سے ملاقات کا یقین ہوتا ہے وہ اس کے بارے میں بار بار سوچتا ہے… اس کا دل شوق سے
بے تاب ہوتا ہے… اور پھر وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی تیاری میں لگ جاتا ہے … ساتھ کیا لے
جاؤں گا؟… شہید کہتا ہے: اپنا خون …
مجاہد کہتا ہے: اپنی قربانی… نمازی کہتا ہے: اپنے سجدے…سخی کہتا ہے: اپنے
خرچ کئے ہوئے اموال… زاہد کہتا ہے: اپنے روزے ، بھوک اور پیاس… ذاکر کہتا ہے: اپنا
ذکر اور آنسو… الغرض ہر مومن بس اسی کو شش میں پوری زندگی گذار دیتا ہے کہ وہ اس
عظیم ملاقات کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان ساتھ لے جائے… ہر وہ عمل جو اس نے خالص
اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کیا ہو…وضو سے لے کر احرام تک… جہاد کی مٹی سے لے کر
طواف کعبہ تک… سخاوتوں سے لے کر قربانیوں تک… بس وہ تیاری میں ہی رہتا ہے…اب دوسری
طرف سے کیا ہوتا ہے؟…اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس بندے سے ملاقات پسند فرماتے ہیں…
چنانچہ اس کی زندگی کے آخری ایام میں اپنا ایک فرشتہ اس کے پاس بھیجتے ہیں… یہ
فرشتہ اس مؤمن کو دنیا کے بکھیڑوں ، گناہوں اور غفلتوں سے نکال کر نیکی کے کاموں
میں ہمہ تن مشغول کر دیتا ہے… اور یوں اس کی زندگی کے آخری دن خالص اللہ تعالیٰ
کے لئے بن جاتے ہیں… اور اس کی موت اس کی زندگی کے ان بہترین دنوں میں آتی ہے…
دوسرا انعام یہ فرماتے ہیں کہ… عین موت کے وقت بشارت والے فرشتوں کو اس کے پاس بھیجتے
ہیں… جو اسے بڑی بڑی نعمتوں کی یقین دہانی کرواتے ہیں اور آخرت کے کچھ مناظر
دکھاتے ہیں تو…مؤمن کی روح بڑی خوشی اور بہت تیزی اور آسانی کے ساتھ اس کے بدن
کو چھوڑ دیتی ہے…یہ ہے دونوں طرف سے ملاقات کے شوق کا ایک منظر…اُمید ہے حدیث شریف
کا کچھ مفہوم واضح ہو گیا ہو گا…آج اس موضوع کوبہت تفصیل سے لکھنا تھا… مگر ابھی
دیکھا کہ کالم لمبا ہو رہا ہے … آپ اُکتا نہ جائیں، اس لئے بس کرتا ہوں… آپ میرے
لئے دعاء کردیں…میں آپ کے لئے کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ملاقات کا یقین
اور شوق نصیب فرما دیں …
آمین یا ارحم الراحمین ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نورشمارہ :691
محبت اور داستان
پلوامہ
حملے کے بعد ملک کے حالات کشیدہ ہو گئے… اور قافلۂ عشق و وفا، کاروانِ رحمت
’’جماعت‘‘ بھی مشکل حالات کے بھنور میں آگئی… جماعت کا پیارا اخبار ’’القلم‘‘ بھی
شائع نہ ہو سکا… تب ’’القلم‘‘ نے اپنے چاہنے والوں سے وفا کی… اور ان کی اشک شوئی
کے لئے برقی پیغام کی صورت میں اپنا پیارا اور دلربا ’’رنگ و نور‘‘ بھیج دیا… وہ پیارا
رنگ و نور آیا اور عشق و محبت کی داستان سنا کر … وفا اور استقامت کا درس دے گیا…
تو آپ بھی پڑھیے نا یہ پیاری داستان …
تاریخ
اشاعت:
۲۰ شعبان المعظم ۱۴۴۰ھ
/ 26 اپریل 2019ء
محبت اور داستان
اللہ
تعالیٰ کا ہر نام پیارا، بہت ہی پیارا…یَا اللہ، یَارَحمٰن، یَارَحِیْم… ایک بات
مان لیں کہ ننانوے’’ اسماء الحسنیٰ‘‘ یاد کر لیں… اللہ تعالیٰ کا ہر ’’کام ‘‘ پیارا،
بہت ہی پیار ا…سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُلِلہِ، اَللہُ اَکْبَرُ…ایک بات بہت
ضروری…اللہ تعالیٰ کی ہر تقدیر پر، ہر فیصلے پر خود کو راضی کر لیں… تقدیر پر راضی
ہونے کا طریقہ کیا ہے؟
١ دعاء
مانگیں:
اَللّٰھُمَّ اَرْضِنِیْ
بِقَضَائِکَ۔
٢ قرآن
مجید کو سمجھیں
٣ دنیا
کو مقصود نہ بنائیں
٤ شاکرین
کی صحبت میں رہیں
٥ یہ
بات دل میں بٹھائیں کہ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ آخرت میں ہونا ہے
آپ
پو چھیں گے کہ حالات کیسے ہیں؟… سچا جواب یہ ہے کہ حالات الحمد للہ بہت اچھے ہیں…اَلْحَمْدُ
لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ… ابھی تک چھیانوے رفقاء کرام گرفتار ہیں… عشق کے اعتکاف
میں ہیں… محبت کے زمانے میں ہیں… ان کے لئے دِل کی گہرائی سے دُعائیں نکلتی ہیں…ان
کے جو حالات جیلوں سے باہر آ رہے ہیں وہ اَشکوں کو آواز دیتے ہیں… کوئی جیل میں
’’دورہ تفسیر‘‘ پڑھا رہا ہے… کوئی قرآن مجید سکھا رہا ہے… کثرت استغفار کا وہ
باہم مقابلہ کرتے ہیں… اور درودشریف کی کثرت سےاپنی دنیا و آخرت حسین بناتے ہیں
مؤمن کے پاس ’’اِیمان‘‘ ہو تو اُس کے حالات اچھے ہی اچھے ہوتے ہیں… وہ تخت پر ہو یا
دار پر… وہی کامیاب ہوتا ہے…وہی غالب ہوتا ہے۔
ایک
پرانا واقعہ یاد آ گیا
ایک
بار میری گرفتاری کا سرکاری فیصلہ ہو چکا تھا… مجھے اس فیصلے کا علم نہیں تھا… کچھ
افراد ملاقات کے لئے آئے… ان کو معلوم تھا کہ گرفتاری ہونے والی ہے … مگر انہوں
نے بتایا نہیں… وہ کچھ اندازہ لگانے آئے تھے… مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ حالات کو
کیسا دیکھ رہے ہیں؟…عرض کیا: بہت اچھے حالات نظر آ رہے ہیں… انہوں نے حیرت سے
کہا: وہ کیسے؟… ان دنوں امریکہ اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ شروع کیا تھا… عرض کیا:
امریکہ افغانستان میں آ گیا ہے… وہ اب تک مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں
مرواتاتھا… اس کے رُعب سے مسلمان حکمران اپنی عوام کو قتل کرتے تھے… وہ آرام دِہ
گھر میں بیٹھ کر ساری دنیا میں آگ لگاتا تھا… اب خود میدان میں آیا ہے تو ان شاء
اللہ بہت بُری مار کھائے گا… اب خود اس کے لوگ بھی مریں گے اور بالٓاخر اس کا رعب
ختم ہو جائے گا… میرے اس جواب سے وہ حیران ہوئے… ان کو شاید اندازہ ہو گیا کہ مجھ
جیسے بے کار لوگ اپنے بارے میں اور اپنے حالات کے بارے میں نہیں سوچتے… بلکہ
مسلمانوں کے حالات سمجھنے اور دیکھنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
حالات
اچھے ہیں تو اخبار کیوں نہیں نکلا؟
ہاں
اس ہفتے آپ کا محبوب ’’اخبار‘‘ نہیں نکلا… وجوہات کچھ زیادہ ہیں… سالہا سال سے وہ
نکل رہا تھا… ہزاروں، لاکھوں افراد تک اس نے دین کا پیغام پہنچایا… اللہ تعالیٰ سے
بھاگے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے اس اخبار کے ذریعے دوبارہ اللہ تعالیٰ سے
جڑے… ماشاءاللہ بہت کثیر تعداد میں نکلتا تھا… بہت دور، دور تک جاتا تھا… اور سب
سے حیرت انگیز بات کہ بار بار مختلف صورتوں میں چھپتا تھا… توبہ کی دعوت چلاتا
تھا… غیرت کے دِیپ جلاتا تھا… اِیمان کی روشنی پھیلاتا تھا… وہ محبت اور امن کا
علمبردار تھا… ایک ہی ہفتے میں کئی زبانوں میں ترجمہ ہو جاتا تھا… اس کے الفاظ
’’اصوات‘‘ میں بھی گونجتے تھے… مائیں، بہنیں شدت سے اس کا انتظار کرتی تھیں… اس
ہفتے اخبار کا اکثر عملہ دوراتِ تفسیر میں مشغول تھا…اور بھی کچھ حالات ایسے بنے
کہ اخبار نہ نکل سکا… قربانی کا درس دینے والا اخبار اپنی قربانی کے لئے بھی ہمہ
وقت تیار رہتا ہے… قربانی میں ترقی ہے… قربانی میں بقاء ہے… قربانی میں سعادت ہے…
دعاء اور کوشش جاری ہے کہ اخبار چلتا رہے، مہکتا رہے… آپ سب سے بھی دعاؤں کی
درخواست ہے… آپ نے اس ’’اخبار‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے جو محبت کی وہ اپنی
مثال آپ ہے… اخباروالوں میںسے کوئی ’’صاحبِ قلم‘‘ کبھی یہ داستان لکھ دے تو… محبت
کی داستانوں میں ایک جاندار اضافہ ہو جائے گا… مگر اس اخبار نے بھی آپ سے بھرپور
محبت کی ہے… چنانچہ آج جب وہ خود نہ آ سکا تو اپنا ’’رنگ و نور‘‘ آپ کو بھجوا
رہا ہے…کچھ ضائع ہونے والا ہے ہی نہیں… خبروں میں آیا ہے کہ فرانس نے انڈیا کی
خوشنودی کے لئے ہماری ساری جائیداد ضبط کر لی ہے… اتنے بڑے ملک کو شرم سے ڈوب مرنا
چاہیے کہ وہ صرف اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں انڈیا کا نوکر بنا ہوا ہے…عجیب
سا لگتا ہے کہ انتہا درجے کے ظلم مسلمانوں پر ڈھائے جاتے ہیں… اور پھر’’ انتہا
پسند‘‘ بھی مسلمانوں کو کہا جاتا ہے… ہم نہ کبھی فرانس گئے… نہ ہمارا فی الحال
فرانس سے کوئی لینا دینا ہے…پھر فرانس کو یہ حق کس نے دیا کا وہ ہمارے خلاف انڈیا
کا کن ٹٹا بدمعاش بنے؟… فرانس نے ہماری جائیدادیں ضبط کرنے کا اعلان کیا تو انڈیا
میں بہت خوشی منائی گئی… ہم نے ازراہِ تفنن اپنے گھر میں کہلوا بھیجا کہ…اب ٹماٹر
وغیرہ سامان احتیاط سے منگوایا کریں… ایک بڑی جائیداد جو کہ ملک فرانس میں تھی ضبط
ہو چکی ہے… اور وہاں کے بینکوں میں جو ہمارا مال تھا وہ قبض کر لیا گیا ہے… تب ہمیں
یاد دِلایا گیا کہ فرانس تو کیا پاکستان میں بھی آپ کی کوئی جائیداد نہیں ہے…
ٹماٹر ، سبزی وغیرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے الحمد للہ مل جاتے ہیں… دراصل ہمارا کام
ہی ایسا رہا کہ… جماعت میں کسی کی دی ہوئی ایک پائی… یا کسی کا بہایا ہوا پسینے کا
قطرہ ان شاء اللہ ضائع ہونے والا نہیں ہے… مثلاً ہمیں بڑے بڑے پلاٹ ملے… ہم نے ان
پر اللہ تعالیٰ کی مساجد بنا دیں… اب مسجد کا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے؟… خصوصاً ایسے
حالات میں جب کہ دنیا دوبارہ اسلام کا غلبہ دیکھنے جا رہی ہے،ان شاء اللہ… یہ
مساجد ہم نے اس لئے نہیں بنائی تھیں کہ ہم نے یا ہمارے بچوں نے وہاں اپنی گدیاں
قائم کرنی تھیں…اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو… اقامت صلوٰۃ کا نظام قائم ہو… مسجد
نبوی شریف کے اعمال زندہ ہوں… یہ ان مساجد کا مقصد تھا…یہ ان شاء اللہ پورا ہوتا
رہے گا… باقی رہا جہاد تو اس کے بارے میں پکا اور حتمی فیصلہ… اللہ تعالیٰ، الجبار،
القہار جل شانہ نے فرما دیا ہے کہ وہ قیامت تک جاری رہے گا… اور ساتھ یہ وعدہ بھی
کہ… جہاد میں لگا ہوا مال… جہاد میں لگی ہوئی محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی… خواہ ظاہری
نتیجہ نظر آیا ہو یا نہ آیا ہو… اس لئے الحمد للہ مطمئن بیٹھے ہیں… نہ کوئی بینک
ہے جسے کوئی لوٹ لے… نہ کوئی اکاؤنٹ ہے جسے کوئی بند کر دے… نہ کوئی پلاٹ ہے جسے
کوئی چھین لے… نہ کوئی جائیداد ہے جسے کوئی ضبط کر لے…نہ پاکستان میں کوئی مسلح
لشکر ہے جسے کوئی نہتا کر دے…اور نہ کوئی حلقۂ انتخاب ہے کہ ووٹوں پر فرق پڑے… نہ
ایسی عوامی مقبولیت ہے جسے کوئی مٹا دے… اور نہ کوئی ’’فین کلب‘‘ جسے کوئی فیوز
کردے… جماعت کا ہر شخص… اپنی جان اللہ تعالیٰ کے لئے ہتھیلی پر رکھے پھررہا ہے… بس
یہی جان ہے جسے لیا جا سکتا ہے… اور یہ جان ویسے ہی جانی ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرما
لے تو پھر قسمت کے کیا کہنے… بھائیو ! بہنو! اِیمان پر اور اپنے عالی نظریات پر
ڈٹے رہو… اپنے محبوب رب کواپنی ایسی استقامت دکھاؤ کہ انہیں پیار آ جائے… اور یوں
ہم کامیاب ہو جائیں، ان شاء اللہ
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور شمارہ: 692
اللہ تعالیٰ کا راستہ
* ایک عظیم بشارت…
* فطرت کو سمجھنے کے لیےایک تمثیلی
کہانی…
* آزمائشیں اور قربانیاں
انعامات ہیں…
* امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ کی گرج…
* سری لنکا کی حکومت کا ایک غلط
اور شر انگیز فیصلہ…
* غفلت سے جھنجھوڑتی ایک فکر
انگیز کہانی…
* رمضان المبارک مقابلے اور
مسابقت کا مہینہ…
* ’’اونچا رابطہ‘‘ ایک سبق
آموز حکایت…
* مظلوموں کے پاس بڑا اونچا
رابطہ موجود ہے،
ظالمو! باز آجاؤ، اگر برداشت کا بندھن ٹوٹ گیا
اور شکایت کے آنسو بہہ
نکلے تو تمہارا کیا بنے گا؟
ایک
ایمان افروز تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۷ شعبان المعظم ۱۴۴۰ھ/
3مئی 2019ء
اللہ تعالیٰ کا راستہ
اللہ
تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کے لئے عظیم بشارت، حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے ( یعنی حیرت انگیز خوشی والا معاملہ
ہے کہ ) اس کے لئے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا
کرتا ہے تو اس کے لئے خیر ہو گئی اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتا ہے تو یہ
بھی اس کے لئے خیر ہو گئی ۔‘‘
[صحيح مسلم ۔رقم الحديث:۲۹۹۹،ناشر: دار إحياء
التراث العربی، بيروت]
دین
کی محنت میں مشغول شکر گذاروں… اور قید خانوں میں بند صبر شعاروں کو مبارکباد اور
قلبی سلام۔
قسمت
کیا ہر ایک کو قسام ازل نے
ایک
تمثیلی کہانی ہے :
’’دو پرندے ’’زیتون ‘‘ کے درخت پر بیٹھے تھے … ایک پرندے نے شکوہ
سنایا : ہم پرندوں کی بھی کیا زندگی ہے؟ … بڑی محنت سے کسی جگہ گھونسلا بناتے ہیں…
پھر تیز آندھی اور ہوا آتی ہے اور ہمارا گھونسلا گر جاتا ہے … اور ہمیں پھر کوئی
نیا ٹھکانہ ڈھونڈنا اور بنانا پڑتا ہے… دوسرے پرندے نے کہا : شکوہ نہ کرو… ہم
پرندوں کو ہمارے مالک نے اسی فطرت پر بنایا ہے کہ ہم ہمیشہ ہجرت، نقل مکانی اور
محنت میں رہیں… یہی ہماری کامیابی ہے، اسی میں ہمارے لئے ہر طرح کی خیر ہے… اسی میں
ہماری نسل کا پھیلاؤ ہے … مگر پہلا پرندہ بغاوت پر اُترا ہوا تھا، کہنے لگا: نہیں،
یہ کوئی زندگی نہیں… ایک جگہ گھر اور ٹھکانہ ہونا چاہیے… جہاں سے ہمیں کوئی نہ ہٹا
سکے… ہمیں روز، روز کے دھکے نہ کھانے پڑیں … یہ دیکھو! زیتون کا یہ درخت سو سال سے
ایک جگہ کھڑا ہے… جبکہ ہم گھر بدل، بدل کر اور بنا، بنا کر تھک ہار جاتے ہیں…
دوسرے پرندے نے سمجھایا کہ ناشکری نہ کرو…فطرت سے بغاوت نہ کرو… درخت کی قسمت یہی
ہے… جبکہ ہماری قسمت میں سیاحت ہے، محنت ہے اور دور، دور کی پروازیں ہیں… فطرت سے
لڑو گے تو مارے جاؤ گے …اسی دوران تیز ہوا چلنے لگی… دوسرے پرندے نے کہا کہ امر
ربی آ گیا ہے کہ ہم کوچ کریں… لو میں تو گیا… مگر پہلا پرندہ آج بغاوت پر اُترا ہوا تھا… وہ فطرت کو نعوذ
باللہ ظلم سمجھ رہا تھا اس نے اُڑنے سے انکار کر دیا…اور پھر ہوائیں طوفان میں بدل
گئیں اور وہ مارا گیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے دین کی
خدمت کا عزم رکھنے والے فطرت کو سمجھیں … دین کے راستے کی آزمائشیں اور قربانیاں یہ
اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں…ایک بڑے امام حضرت محمد بن شبرمہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے تھے :
’’ آزمائش کے دن ایسے لذیذ ہوتے ہیں جیسے سخت گرمی کے موسم میں
بادل، مگر افسوس کہ یہ بادل جلد چھٹ جاتے ہیں۔‘‘
ہاں! جن کو اللہ تعالیٰ سے
ملاقات کا یقین اور شوق ہو… وہ جانتے ہیں کہ دین کی خاطر آزمائش کے دنوں کی کیا قیمت
ہے…مگر جو دنیا کو مقصد بنا چکے ہوں وہ تو ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہونے کو بھی
عذاب سمجھتے ہیں… دیکھیں! امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ گرج رہے ہیں:
’’اے ہیجڑوں کا حوصلہ رکھنے والے انسان! کہاں تو اور کہاں اللہ
تعالیٰ کا راستہ؟یہ تو وہ راستہ ہے جس میں آدم علیہ السلام نے سخت تھکاوٹ برداشت کی ، اس میں نوح علیہ السلام کے نالے بلند ہوئے، اسی میں خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، اسی میں اسماعیل علیہ
السلام ذبح ہونے کے لئے لٹائے گئے، اسی میں
یوسف علیہ السلام ا دنیٰ پونجی پر بیچے گئے اور کئی سال جیل میں رہے، اسی میں زکریا
علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا، اسی میں
سید الحصور یحییٰ علیہ السلام ذبح کئے
گئے ، اسی میں ایوب علیہ السلام نے سخت
تکلیف کا گھونٹ پیا، اسی میں داؤد علیہ السلام کی آہیں بلند ہوئیں، اسی میں عیسیٰ علیہ
السلام کو جنگلوں میں نکلنا پڑا، اسی میں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر تکلیف اور اذیت اُٹھائی۔‘‘
[الفوائد لابن القیم۔ص:۴۲ ، طبع:دار الکتب
العلمیہ۔ بیروت]
غلط
اور شر انگیز فیصلہ
سری
لنکا کی حکومت شاید سخت بوکھلا چکی ہے… اب دہشت گردی کے بہانے مسلمان خواتین کے
پردے پر پابندی لگائی جا رہی ہے… حجاب، نقاب، داڑھی، پگڑی اور اسلامی لباس کا ان
معاملات سے کیا تعلق؟ … کچھ عرصہ پہلے اسی سری لنکا میں’’ بدھ مت‘‘ سے تعلق رکھنے
والے دہشت گردوں نے… پورے ملک میں مسلمانوں پر اور ان کی مساجد پر حملے کئے … بہت
سے مسلمان شہید ہوئے اور بہت سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے … تب ’’بدھ مت‘‘ کے کسی
شعار پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی… جنہوں نے حملہ کرنا ہووہ کر لیتے ہیں…ان کو
کسی برقعے یا حجاب کی ضرورت نہیں پڑتی… مگر دنیا میں جہاں بھی عالم کفر کو موقع
ملتا ہے وہ… بعض واقعات کو آڑ بنا کر اسلامی شعائر کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں…
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسے ہی ظالمانہ اقدامات امت مسلمہ میں بے چینی کا
باعث بنتے ہیں… ایک طرف ہر چیز کی آزادی اور دوسری طرف دین پر بھی پابندی… اس سے
امن کا مقصد تو حاصل نہیں ہو سکتا…البتہ جنگ ضرور پھیل جاتی ہے۔
طوطے
کی موت
ایک
بزرگ ایک شہر میں نوجوانوں کو جمع کر کے… انہیں’ ’لا الٰہ الا اللہ ‘‘ کی دعوت دیتے
تھے…انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا … چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں
تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی… لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ… اللہ تعالیٰ جس
کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے…اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے…ایک
نوجوان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ
کا شیدائی بن گیا تھا… ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو
ہدیہ کر دیا… طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا… بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے… اور جب سبق
کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے… دن رات ’’ لا الٰہ الا اللہ،لا الٰہ الا
اللہ‘‘ کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا… وہ سبق کے دوران جب’’لا
الٰہ الا اللہ،لا الٰہ الا اللہ ‘‘ پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے… ایک دن وہ بزرگ
سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطاساتھ نہیں تھا… شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے…
بتایا کہ کل رات ایک بلی نے اسے کھا لیا… یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے
لگے… شاگردوں نے تعزیت بھی کی… تسلی بھی دی … مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا
رہی تھیں… ایک شاگرد نے کہا: حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا تو آپ کا
صدمہ کچھ کم ہو جائے گا… بزرگ نے فرمایا: بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا… میں
تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات ’’ لا الٰہ الا اللہ،لا الٰہ
الا اللہ ‘‘ پڑھتا تھا… جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ … طوطا لا
الٰہ الا اللہپڑھے گا… مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا… اور طرح طرح کی آوازیں
نکال رہا تھا… اور اس نے ایک بار بھی ’’ لا الٰہ الا اللہ ‘‘ نہیں کہا… وجہ یہ کہ اس
نے ’’ لا الٰہ الا اللہ ‘‘ کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا … مگر اسے اس کلمے کا
شعور نہیں تھا… اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت
ایسا نہ ہو جائے… موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے…اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں…اور
وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو… ہم یہاں دن رات لا الٰہ الا
اللہ کی ضربیں لگاتے ہیں… مگر ہمیں اس کے
ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے … ہمارا عقیدہ بن
جائے… یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے… اور اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت
کر جائے کہ ہم موت کے وقت… جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے… ہم یہ
کلمہ پڑھ سکیں… یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے…
بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ… یا اللہ! یہ
کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب
فرما دیجئے۔
اللہ
تعالیٰ کے راستے کی آزمائشوں کا ایک فائدہ بلکہ عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ… ان
آزمائشوں کی برکت سے کلمہ طیبہ دل میں اُتر جاتا ہے … ذرا مکہ کے تپتے صحراؤں
…اور بدر و اُحد کے میدانوں… اور تبوک وحدیبیہ کے سفر کو یاد کریں۔
مقابلے
کے لئے تیار ہو جائیں
امام
التابعین حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ نے رمضان
المبارک کو اپنی مخلوق کے لئے مقابلے کی دوڑ کا میدان بنایا ہے، اس میں وہ اللہ
تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت کرتے ہیں۔ پس کچھ لوگ خوب سبقت کرتے
ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں۔‘‘
[التنبیہات الحسان فی فضائل شھر رمضان۔ص:۴۸ ، طبع:ادارۃ
المطبوعات۔ المکۃ المکرمۃ]
آئیے!
اس سال رمضان المبارک میں… اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں… ایسا مقابلہ کریں کہ
اللہ تعالیٰ کو پیار آ جائے… ہر کسی کا عمل بہت مبارک… مگر جو رمضان المبارک بھی
دینی آزمائش کے ساتھ گذاریں گے اُن کا مقام کیا ہو گا؟… اللہ تعالیٰ سے عافیت ،
ہمت،صبر اور توفیق کا سوال ہے…اللہ کرے رمضان المبارک سے پہلے ہی سب رفقاء کرام
رہا ہو جائیں… اگر بعض کو رمضان المبارک بھی قید و بند میں نصیب ہو تو… باقی تمام
ساتھی ان کے گھروں کا… ایمان و حیاء کے ساتھ مکمل خیال رکھیں۔
اونچا
رابطہ
ایک
خاوند نے اپنی بیوی پر ہاتھ اُٹھایا اور چہرے پر زور دار تھپڑ مارا… اول تو مرد کو
زیب نہیں دیتا کہ اپنی شریک حیات پر ہاتھ اُٹھائے… اور پھر چہرے پر مارنا تو بہت ہی
بری اور قابل نفرت بات ہے…وہ اللہ کی بندی اس ظلم پر لرز گئی… اس نے کانپتی آواز
میں کہا : آپ نے جو ظلم ڈھایا ہے میں اس کی شکایت لگاؤں گی… خاوند نے کہا: میں
تمہیں گھر سے نکلنے ہی نہیں دوں گا … پھر کہاں جاؤ گی شکایت لے کر؟… بیوی نے کہا:
میں رابطہ کر کے بتا دوں گی… خاوند نے فوراً اس کا موبائل اُٹھایا اور جیب میں ڈال
لیا کہ اب کر لو رابطے … بیوی نے کہا: آپ دیکھنا میں کیسے رابطہ کرتی ہوں… یہ کہہ
کر تیزی سے باتھ روم میں گھس گئی… خاوند غصے میں تھا ، سمجھا کہ باتھ روم میں کوئی
فون چھپا رکھا ہو گا… یا کھڑکی سے کود کر باہر نہ چلی جائے… مگر تھوڑی دیر میں بیوی
باہر نکل آئی… اس نے وضوء کر لیا تھا… کہنے لگی: اونچے رابطے کا انتظام ہو گیا
ہے، میں شکایت لگانے جا رہی ہوں … یہ کہہ کر مصلے پر چڑھ گئی اور نماز شروع کر دی
… اب خاوند پریشان ہوا کہ یہ تو مالک الملک سے شکایت لگانے کھڑی ہو گئی… بیوی نے
لمبا سجدہ کیا… نماز کے بعد ہاتھ پھیلا کر دعاء مانگنے لگی تو خاوند نے آ کر کہا:
سجدے کی بددُعاء اور شکایت کافی نہیں ہے کہ اب ہاتھ اُٹھا کر بھی مانگ رہی ہو… بیوی
نے کہا: نہیں، ظلم بہت بڑا ہے، شکایت بھی لمبی چلے گی…خاوند نے کہا: بس کرو معاف
کر دو… مجھ پر شیطان نے حملہ کیا تھا… بیوی نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا: اسی لئے
سرتاج میں شیطان سے حفاظت ہی کی دعاءسجدے میں اور اب مانگ رہی ہوں … آپ کے لئے میں
کیسے بددعاء کر سکتی ہوں؟… تب خاوند نے آئندہ ظلم سے توبہ کی اور دونوں میں صلح
ہو گئی۔
ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اللہ تعالیٰ کے دین
کا کام کر رہے ہیں… اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہیں…بس اسی جرم میں
ہمارے رفقاء کرام کو ستایا جا رہا ہے… اُن کی اللہ والی ماؤں،بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں
نے اونچا رابطہ جوڑا ہوا ہے… ابھی تک بددعاء شروع نہیں ہوئی … پہلے جنہوں نے ستایا
تھا اُن کا حال سب کے سامنے ہے… کسی جمعہ کے دن عصر کے بعد اگر برداشت کا بندھن
ٹوٹ گیا… اور شکایت کے آنسو بہہ نکلے تو ظلم کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ … اے
حکمرانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور شمارہ: 693
ہمارے ساتھ جائے گی
* دنیا میں مسلمان کی اصل فکر اور محنت…
* ’’نظر آپ پر گئی ہی نہیں‘‘ رزق کے متعلق اصل
اسلامی نظریے کی دلچسپ پیرائے
میں وضاحت …
* رزق اور مال میں برکت حاصل کرنے کے مؤثر طریقے…
* اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت کے لیے عظیم
توشہ ’’مقبول نماز‘‘…
* ’’نماز‘‘کے آغاز اور اختتام کو جاندار اور
شاندار بنانے کے انمول
نسخے…
* ’’نماز‘‘ کے آخر میں مانگی جانے والی
بے حد ضروری اور قیمتی دعائیں…
* ہر ’’نماز‘‘ مکمل توجہ اور اخلاص سے ادا کریں
کیونکہ ایسی ’’نماز‘‘ ہی ہمارے ساتھ چلے گی
اور ہمارے ساتھ جائے گی…
تاریخ
اشاعت:
۴ رمضان ۱۴۴۰ھ/
10مئی 2019ء
ہمارے
ساتھ جائے گی
اللہ
تعالیٰ کے بندو! خوب غور کر لو، آگے کے لئے کیا بھیجا ہے؟… کل یعنی آخرت کے لئے
کیاسامان بھیجا ہے؟… اس کے لئے کتنی محنت کی ہے؟
{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا اَحْضَرَتْ} [التکوير:۱۴]
’’کل یعنی آخرت میں ہر کسی کو پتا چل جائے گا کہ وہ کیا لے کر
حاضر ہو اہے؟‘‘
رمضان
المبارک تشریف لے آئے… آپ سب کو مبارک… روز شکر ادا کیا کریں کہ یا اللہ! آپ کا
شکر کہ رمضان المبارک عطاء فرمایا… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ،اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… اس رمضان المبارک میں بس یہی فکر سوار رہے کہ… اللہ
تعالیٰ سے ملاقات یقینی ہے… ہم نے اس ملاقات کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟… باقی رہی
دنیا تو اس کا فیصلہ ہو چکا… ہم تھوڑی محنت کریں یا زیادہ… تھوڑی فکر کریں یا بہت
فکر… دنیا اُتنی ہی ملنی ہے جتنی لکھی جا چکی۔
نظر
آپ پر گئی ہی نہیں
ایک
مالدار شخص نے اپنی خدمت کے لئے ایک ملازم رکھا ہوا تھا… وہ ملازم وقت کا پابند، نیک
اور نرم مزاج تھا… محنت اور خوشدلی سے سارے کام سر انجام دیتا تھا… وہ اپنے مالک کی
ایسی خدمت کرتا کہ مالک اب خود کو اس کا محتاج سمجھنے لگ گیا تھا… ایک بار اس
ملازم نے خلاف معمول بغیر اطلاع دئیے ایک دن کی چھٹی کر لی… مالک بہت پریشان
ہوا…اس دن کے اس کے سارے کام درہم برہم رہے… اس نے سوچا کہ یہ ملازم کی طرف سے
تنخواہ بڑھانے کا اشارہ ہے… اگلے دن ملازم پھر حاضر ہو گیا تو مالک نے اسے بلا کر
تنخواہ میں اضافے کا بتا دیا… ملازم نے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا اور حسب سابق خدمت
میں مشغول ہو گیا… کچھ عرصہ بعد ملازم نے پھر چھٹی کی… مالک کو اس بار غصہ آیاکہنے
لگا کہ… اس نے تنخواہ میں اضافے کے لئے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے… چنانچہ اس کی
تنخواہ کا جو اضافہ کیا تھا وہ ختم کر کے پرانی تنخواہ مقرر کرتا ہوں… اگلے دن
ملازم حاضر ہوا تو مالک نے اسے تنخواہ میں کمی کا بتا دیا… ملازم نے اس پر بھی کوئی
ردعمل ظاہر نہ کیا اور حسب معمول اپنے کام پر لگ گیا… مالک نے دو دن تک دیکھا کہ
وہ کام کاج میں کچھ سستی یا کمی کرتا ہے یا نہیں؟… مگر اسے کوئی فرق محسوس نہ ہوا
تو اس نے ملازم سے پوچھا:میں نے تمہاری تنخواہ بڑھائی، تم نے کوئی بات نہیں کی،
کوئی اثر نہیں لیا… اب میں نے تنخواہ گھٹائی تو بھی تمہارے رویے یا کام میں کوئی
فرق نہیں آیا… اس کی کیا وجہ ہے؟… ملازم نے کہا: جناب ! رزق کا مالک اللہ تعالیٰ
ہے… وہی سب کا رازق ہے… جس دن میں نے پہلا ناغہ کیا تھا اس دن میرے گھر بیٹی کی
ولادت ہوئی تھی … آپ نے تنخواہ بڑھائی تو میں نے سوچا کہ اللہ رزاق نے میری بیٹی
کا رزق بھیج دیا ہے… دوسری بار جب میں نے ناغہ کیا تھا تو اس دن میری والدہ کا
انتقال ہوا تھا… واپس آیا تو آپ نے تنخواہ کم کر دی تو میں نے سوچا کہ… اللہ
تعالیٰ میری والدہ کے لئے جو عطاء فرماتے تھے وہ چونکہ اب نہیں رہیں تو وہ روزی
بند ہو گئی… دونوں بار میری نظر آپ پر گئی ہی نہیں… کیونکہ آپ میرے رزق میں کوئی
کمی بیشی نہیں کر سکتے… رب صرف اللہ تعالیٰ ہے… وہی رزاق ہے… وہ جب چاہتا ہے…
{یَبْسُطُ الرِّزْقَ}
’’رزق بڑھا دیتا ہے‘‘ [الشوریٰ:۱۲]
اور جب چاہتا ہے …
{وَ یَقْدِرُ}
’’رزق کم فرما دیتا
ہے‘‘ [الشوری:۱۲]
یہی
بات پکی اور یقینی ہے…اس لئے رزق بڑھے تب بھی نظر اللہ تعالیٰ پر جاتی ہے… اور رزق
کم ہو تب بھی نظر اللہ تعالیٰ پر جاتی ہے … مخلوق کی طرف دیکھنے کا کیا فائدہ؟
واقعی
اس اللہ کے بندے نے بالکل درست فرمایا… اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا یقین نصیب فرمائے…
رزق کے لئے مخلوق پر نظر کرنے کے اتنے بے شمار نقصانات ہیں کہ انسان اُن کو شمار
نہیں کر سکتا… آج ہم مسلمان انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اسی غلطی
کی سزا بھگت رہے ہیں… آج نعوذ باللہ ہمارے معاشرے میں مال کی پوجا تک کی جاتی ہے…
اور مال کی خاطر کس کس طرح کی ذلت اُٹھائی جاتی ہے… رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ
ایمان والوں کا رزق بڑھاتے ہیں… آئیے! اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں اس رمضان
المبارک میں اپنا یہ مسئلہ حل کروا لیں… رزق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی
پر ہماری نظر نہ جائے … یہ دعاء رمضان المبارک کی بابرکت او رمقبول گھڑیوں میں بہت
کثرت سے ہم سب مانگیں… اور رزق میں برکت کا سب سے مؤثر طریقہ اپنائیں… اور وہ طریقہ
یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں زیادہ سے زیادہ مال دیں …ہمارے ایک قریبی
دوست بتا رہے تھے کہ… چند سالوں میں ماشاء اللہ اُن کی زکوٰۃ کئی گنا بڑھ چکی ہے… یعنی
اُن کے مال میںزکوٰۃ وصدقات کی برکت سے چند سال میں کئی سو فیصد کا اضافہ ہوا ہے…
حالانکہ آج کل کاروبار کی جو حالت ہے وہ سبھی جانتے ہیں… مگر اللہ تعالیٰ کا ہر
وعدہ بالکل سچا ہے… اور اللہ تعالیٰ کا نظام بالکل پکا ہے… آپ اخلاص اور خوشدلی
کے ساتھ اپنا ہاتھ کھولیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ… آپ کے مال اور رزق میں برکت
نہ ہو:
{بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ} [المائدہ:۶۴]
بے
شک اللہ تعالیٰ کریم کے ہاتھ کھلے ہیں … وہ دینے والوں کو نوازتا ہے اور جو ’’فی
سبیل اللہ‘‘ یعنی جہاد میں خرچ کرتے ہیں اُن کو تو وہ صدیوں کی برکات سالوں میں
عطاء فرما دیتا ہے۔
بھائیو
اور بہنو! اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا وقت قریب ہے… اللہ تعالیٰ سے ہم سب حسن ظن رکھیں…
بہت اچھا گمان… بہت اچھا شکر … اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یقین… رمضان المبارک میں
خوب دل کھول کر مال خرچ کریں … اگر ہو سکے تو اس موضوع پر بندہ کا تازہ رسالہ
’’حکمت اور عقل کی باتیں‘‘… ایک بار مطالعہ فرما لیں۔
تحفہ
ٔ رمضان
اللہ
تعالیٰ سے ملاقات اور آخرت کے لئے ہم نے جو سامان تیار کرنا ہے اس میں سب سے اہم
چیز ’’ نماز‘‘ ہے… نماز مکمل اخلاص اور توجہ سے ادا کی جائے تو وہ ہمارے ساتھ چلے
گی… ہمارے ساتھ رہے گی… نکتہ آج یہ عرض کرنا ہے کہ… نماز کا آغاز اور نماز کا
اختتام اچھا کر لیں… جب نماز شروع کریں تو خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے سمجھ کر
پوری توجہ سے اَللہُ اَکْبَرَ… کہیں اور پھر بات چیت کا آغاز شروع…ہم نے پہلا
جملہ اگر توجہ سے بول دیا تو کام بن جائے گا:
سُبْحَانَکَ
اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ …الخ۔
’’یا اللہ !آپ عظیم ہیں، سبحان ہیں، پاک ہیں، میں آپ کا شکر گذار
ہوں ۔‘‘
’’سُبْحَانَکَ‘‘ کے آخرمیں جو کاف ہے … اس کا مطلب ہے’’ آپ‘‘… ہم
نے اللہ تعالیٰ سے بات شروع کر دی…سُبْحَانَکَ آپ پاک ہیں… دراصل اردو میں فی
الحال یہی ترجمہ ہو سکتا ہے… ورنہ ’’ سُبْحَانَ ‘‘ کا معنٰی بہت اونچا ہے… یا
اللہ! آپ ہر عیب، ہر کمزوری، ہر ظلم اور ہر کمی سے بہت ہی بلند ہیں…سُبْحَانَکَ
اللّٰھُمَّ … بات چیت شروع ہو گئی … نماز کا آغاز جاندار ہو گیا… شاندار ہو گیا…
اب نماز کا آخر آ گیا… اجازت مل گئی کہ جو مانگنا ہے مانگ لو… التحیات کے آخر میں…
بلینک چیک مل گیا ہے کہ مانگ لو… مانگ لو… جھولی بھر کر مانگ لو… اسی لئے حضرات
صحابہ کرام اور اسلاف التحیات کی دعاء کو بہت وقت دیتے تھے… کبھی آدھا گھنٹہ اور
کبھی اس سے بھی زیادہ… اجازت جو مل گئی۔
ایک بہت ضروری بات
حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے آخر کی کئی دعائیں اُمت کو سکھائی ہیں…
مگر جس دعاء کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ تاکید فرمائی ہے… وہ دعاء چار چیزوں
سے پناہ مانگنا ہے… دراصل یہ دعاء ہماری زندگی اور ہماری کامیابی کے لئے بے حد، بے
حد اہم ہے… اس لئے حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی…
اور یہ تاکید اتنی مضبوط فرمائی کہ… اُمت کے بعض ائمہ کے نزدیک نماز کے آخر میں
ان چار چیزوں سے پناہ مانگنا واجب ہے… چنانچہ اُن کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنی کسی
بھی نماز کے آخر میںیہ دعاء نہ مانگے تو اس پر اپنی وہ نماز لوٹانا واجب ہے… جمہور
ائمہ اور علماء کے نزدیک اگرچہ یہ دعاء نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے … مگر اس کی
ضرورت اور اہمیت سب کے نزدیک مسلّم ہے… اس رمضان المبارک میں ہم اس دعاء کو اپنی
ہر نماز کا مستقل حصہ بنا لیں… اور مزید جو دعائیں مانگنی ہوں وہ اس دعاء کے بعد
مانگا کریں… اور اگر صرف ایک ہی دعاء کا وقت ہو تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ اسی دعاء
کو ہم اپنا لیں… دیکھئے! مدینہ منورہ سے کیا حکم آیا ہے…صحیح مسلم کی روایت ہے…
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللہ علیہ وسلم :’’ إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ…الخ‘‘
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی تشہد کرے ( یعنی نماز کے آخری قعدے میں بیٹھے)
تو چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور یوں کہے:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ
فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ
الدَّجَّالِ ۔‘‘
[صحیح مسلم ۔رقم الحديث:۵۸۸،ناشر: دار إحياء
التراث العربی۔ بيروت]
صحیح
مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو… قرآن مجید کی سورت کی طرح تاکید و اہتمام
سے سکھاتے تھے۔
[صحیح مسلم ۔رقم الحديث:۵۹۰،ناشر: دار إحياء
التراث العربی۔ بيروت]
اس دعاء میں چار چیزوں سے
پناہ مانگی گئی ہے:
١ ’’جہنم
کے عذاب سے‘‘… خود سوچ لیں کہ یہ ہمارا کتنا اہم مسئلہ ہے… قیامت کے دن جہنم کے
عذاب سے بچنے کے لئے اگر کسی کو ساری دنیا کا سارا مال دینا پڑے تو وہ خوشی سے دے
دے گا… یہ بات قرآن مجید میں مذکور ہے۔
٢
’’قبر کے عذاب سے‘‘… یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے…معلوم نہیں تنہائی اور وحشت کے گھر
قبر میں ہم نے کتنا عرصہ رہنا ہے؟ … کئی لوگ توہزاروں سال سے قبروں میں ہیں۔
٣
’’زندگی اور موت کے ہر فتنے سے‘‘… آج کل فتنوں کا زمانہ ہے… زندگی اور موت دونوں
پر طرح طرح کے فتنوں کا خطرہ ہے … چنانچہ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔
٤
’’دجال کے فتنے سے‘‘ …یہ بہت اہم معاملہ ہے… مسیح دجال کا فتنہ بڑا خطرناک ہے…تمام
انبیاء کرام علیہم السلام نے اس سے پناہ
مانگی ہے …اور ہمارے زمانے میں تو دجالی فتنوں کی یلغار ہے… آج اُمت مسلمہ کے تقریباً
تمام حکمران زمانے کے چھوٹے چھوٹے دجالوں کے غلام بنے ہوئے ہیں… مسلمانوں میں ایسے
داعی اور مبلغ پیدا ہو گئے ہیں جو نعوذ باللہ کلمہ طیبہ کی توہین کرتے ہیں… اور
عالمی برادری کو نعوذ باللہ خدا کا درجہ دے کر اس کی پیروی کی دعوت دے رہے ہیں…آج
مسلمانوں کے دلوں پر…زمانے کے چھوٹے چھوٹے دجالوں کا ایسا رعب اور خوف مسلط ہے کہ
جہاد کا نام تک نہیں لیتے… ’’مسیح الدجال ‘‘ یعنی ’’ٹچ دجال‘‘ کا زمانہ جوں جوں قریب
آ رہا ہے لوگوں کے ایمان میں کمزوری آ رہی ہے۔
نماز
کے آخر میں ہمیں کھلا اعلان محبت ملا ہوا ہے کہ جو مانگنا ہو مانگ لو… پھر ہمارے
حقیقی مرشد اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرما دی کہ … اپنے یہ چار مسئلے ،
اہم ترین مسئلے اس وقت حل کرا لیا کرو… دنیا میں فتنوں سے بچ گئے… مرنے کے بعد
عذاب قبر اور جہنم سے بچ گئے تو زندگی کتنی کامیاب ہو جائے گی… دعاء مانگنے کے بعد
سلام ہے… اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ… اس وقت پورادھیان رہے کہ… دائیں
طرف کے سارے فرشتے، تمام اہل اسلام اور تمام مسلمان جنات ہمارے مخاطب ہوں … سلامتی
ہو تم پراور اللہ تعالیٰ کی رحمت … جب ہم توجہ سے سلام کریں گے تو نماز کا اختتام
بھی اچھا ہو گیا… اب یہ نماز ہمارے ساتھ چلے گی اور ہمارے ساتھ جائے گی ،ان شاء
اللہ ۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ
و نور شمارہ: 694
بلند مقام جادوگر
* صدیوں پہلے کا ایک سبق
آموزاور عبرت انگیز واقعہ…
* ذلت، پستی، کفر اور جادو کی
ناپاک گہرائیوں
میں پڑے لوگ جب چند لمحوںمیں کامیابی
کا استعارہ اور سعادت کا
نشان بن گئے…
* دنیا کی نام نہاد سپرپاور اور
عالمی برادری کے
سامنے ’’فَاقْضِ مَا
اَنْتَ قَاضٍ‘‘ کا مستانہ نعرہ
لگانے والوں کی سچی داستان اور اس سے
حاصل ہونے والے روشن
اسباق…
مزید
فوائد:
١
پاکستانی حکمران صدر قذافی سے عبرت پکڑیں اور ایسے قدم نہ اٹھائیں
جو انہیں زوال اور عبرت
ناک انجام کی طرف لے جائیں…
٢ خوف
اور پریشانی کی حالت کا ایک عجیب، طاقتور،
پرُ سکون اور پرُ کیف نسخہ… ایک ایمان افروز تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۱ رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ/17
مئی 2019ء
بلند مقام جادوگر
اللہ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو حضرت جبریل علیہ السلام کی ’’بددعاء‘‘ کا مصداق بننے سے بچائے… رمضان پایامگر
مغفرت نہ ملی تو ہلاکت ہے… یا اللہ! آپ کی رحمت، آپ کی حفاظت،آپ کی نصرت، اور
آپ کی مغفرت کا سوال ہے۔
نظر
کرم ہو جائے تو
ساری
زندگی انہوں نے کفر کیا… جادو کیا… جادو سیکھا… جادو سکھایا… یعنی شیطان کی عبادت
کرتے رہے… جادو کے الفاظ میں نعوذ باللہ شیطان کی عبادت ہوتی ہے… اس لئے جادو کے
اکثر الفاظ کافر بنانے والے ہوتے ہیں… مسلمانوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے… ہر علاج
اور ہر منتر کو نہیں اپنانا چاہیے… ہم سب کو چاہیے کہ کم از کم ایک بار دو رکعت
نماز اخلاص سے ادا کر کے توبہ کریں… یا اللہ !کبھی غلطی سے کفر یا جادو کا کوئی
کلمہ زبان سے نکل گیاہو تو معافی مانگتا ہوں، استغفار کرتا ہوں… مغفرت چاہتا ہوں
…سچی توبہ کرتا ہوں… اگر جادو میں کامیابی ہوتی تو ماضی کے جادوگر کیوں ناکام مر
تے؟… جادو میں شفاء ہوتی تو ماضی کے جادوگر خود بیمار ہو کر نہ کراہتے… جتنی سخت بیماری
آ جائے کبھی کوئی غیر شرعی علاج نہ کرائیں… جادو ، ٹونے، کالے علم یہ سب ناجائز ،
حرام اور فضول ہیں… بات چل رہی تھی کچھ لوگوں کی…انہوں نے ساری زندگی کفر کیا جادو
کیا…جادو کے ذریعہ کمائی کی … اور اپنے بادشاہ کو سجدے کئے… اسے (نعوذ باللہ)خدا
مانا… ساری زندگی اتنے بھیانک گناہ… مگر پھر ان پر اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ہو گئی…
تھوڑی دیر کے لئے وہ ڈٹ گئےاور پھر کامیاب ہو گئے… یہ فرعون کے جادوگر تھے… ساری
زندگی کفر اور جادو کی ناپاکی سے لت پت رہے… کوئی ہے جو ان کے گناہوں کی گنتی کر
سکے؟… پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
مقابلے میں اُترے… معجزہ دیکھا تو آنکھیں کھل گئیں… ایمان لے آئے… اللہ تعالیٰ کی
نظر کرم کا کمال دیکھیں کہ… ایمان لاتے ہی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں مست
ہو گئے… اُن کو یقین ہو گیا کہ موت ’’اختتام ‘‘ نہیں ہے… بلکہ اصل زندگی کا’’
آغاز‘‘ ہے… فرعون انہیں دھمکاتا رہا کہ مار دوں گا… کاٹ دوں گا…وہ مسکراتے رہے
کہ… فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍ… تیرا حکم اس دنیا میں چلتا ہے… وہ حکم بہت تھوڑی دیر
کا ہو گا… ہم سہہ لیں گے… جیسے ہی ہمیں موت آئے گی… ہم تیرے حکم سے آزاد اور دور
ہو جائیں گے… اور اس اگلے جہان میں صرف اللہ تعالیٰ کا حکم چلتا ہے… اس لئے ہم
تجھے چھوڑ رہے ہیں… ہم اللہ تعالیٰ کی بندگی اور غلامی میں آ رہے ہیں۔
یہ
چند منٹ کی استقامت… ان جادوگروں کا وہ عمل تھا جس کے مزے وہ آج تک لوٹ رہے ہیں…قیامت
تک لوٹیں گے… اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کامیاب رہیں گے… عالمی سامراج کے سامنے چند منٹ
کی استقامت… اتنا عظیم عمل بن گئی کہ یہ جادوگر قرآن مجید کا کامیاب کردار بن
گئے…آج کل تلاوت میں بار بار ان کا تذکرہ آتا ہے… دل میں رشک پیدا ہوتا ہے
کہ مختصر سے عرصے میں اتنی عظیم کامیابی
اور عظیم سعادت پا گئے…دراصل اس وقت دنیا میں فرعون کے سامنے انکار کرنے والا کوئی
فرد موجود نہیں تھا… حضرت موسی علیہ السلام ابھی ابھی تشریف لائے تھے… اور فرعون ان کی جان
کے درپے تھا… یوں سمجھ لیں کہ اس وقت فرعون دنیا کی مسلّمہ سپرپاور تھا… وہی عالمی
برادری تھا… وہ اس وقت اپنی طاقت اور حکمرانی کے اس مقام پرتھا… جہاں آج امریکہ
اور یورپ بھی نہیں ہیں… فرعون ناقابل شکست تھا… اس سے لڑنے کا بس ایک ہی مطلب تھا
کہ مارے جاؤ… اس کو انکار کہنے کا بس ایک ہی نتیجہ تھا کہ ختم کر دئیے جاؤ…ایسے
حالات میں استقامت کی قدر اور بڑھ جاتی ہے… ایسے وقت میں ہمت و عزیمت کی قیمت مزید
چڑھ جاتی ہے… وہ جادوگر خوش نصیب تھے… انہوں نے ایمان اور استقامت کواختیار کیا…
اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کا استعارہ اور آزادی کی بنیاد بن گئے… اللہ تعالیٰ
نے انہیں زیادہ آزمایا ہی نہیں… اور اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ
نہیں آزماتے۔
اس
قصے کا ایک بڑا سبق یہ ہے کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے… کئی لوگ جو آج ’’دین
اسلام‘‘ کو بدل رہے ہیں… ان کا خیال یہ ہے کہ… دنیا میں کفر کی طاقت اب ناقابل
شکست ہو چکی ہے… امریکہ، انڈیا اور یورپ مزید ترقی کریں گے… اب حالات اسی رخ پر
آگے بڑھیں گے…چنانچہ مسلمانوں کو عالمی برادری کے سامنے جھک جانا چاہیے… اپنے دین
کو بدل لینا چاہیے… جہاد کا نام تک نہیں لینا چاہیے… مگر یہ قصہ بتا رہا ہے کہ
حالات بدل جاتے ہیں… ایمان پر ڈٹ جانا اور اس پر کٹ مرنا بے مثال کامیابی ہے… اور
مظلوموں کی قربانیاں ظالم کے اقتدار کو سمندر میں ڈبو دیتی ہیں… سلام ہو اُن عظیم
، خوش نصیب جادوگروں پر… جنہوں نے کفر اور جادو سے توبہ کی… جنہوں نے ایمان قبول کیا…
اور پھر ایمان پر جان دے دی:
سَلَامُ
اللہِ عَلَیْہِمْ وَ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَ اَرْضَاھُمْ وَ رَحِمَھُمُ اللہُ
تَعَالٰی وَ رَفَعَ دَرَجَاتِھِمْ۔
جو
خوف کی حالت میں ہیں
اللہ
تعالیٰ حکمرانوں کو ایمان وہمت عطاء فرمائیں… پاکستان کے مقتدر حکمران ان دنوں
بالکل وہی غلطیاں کر رہے ہیں… جو لیبیا کے صدر قذافی نے اپنی زندگی کے آخری دو
سالوں میں کی تھیں… اور پھر یہی غلطیاں اس کے زوال اور عبرتناک انجام کا باعث بنیں…
صدر قذافی ایک ملے جلے انسان تھے… کچھ غلطیاں اور کچھ خوبیاں… غلطیاں زیادہ تھیں
مگر عوام میں ایک طبقہ ان کی محبت میں گرفتار تھا… اور قذافی کی کچھ نیکیاں اس کے
لئے مستقل ڈھال بنی ہوئی تھیں… مگر پھر اچانک اسے بڑھاپے میں یہ خیال سوجھا کہ وہ
عالمی برادری کے لئے قابل قبول بن جائے… بس یہیں سے زوال کا آغاز ہوا… قذافی نے
عالمی برادری کے لئے اپنا چہرہ، ماضی اور کردار صاف کرنے کی خاطر اپنے دوستوں پر
ظلم ڈھایا… اور پھر زمین اس کے نیچے سے سرک گئی…عالمی برادری تو وہ چڑیل ہے جو
سارا خون نچوڑ کر بھی مطمئن نہیں ہوتی… آپ ان کی ایک شرط پوری کرو گے وہ آپ پر
مزید دس شرطیں لاد دے گی… پاکستان حکومت نے ملک کے دینی طبقوں پر آج کل جو آپریشن
شروع کر رکھا ہے وہ سراسر ظلم ہے…اور یہ ظلم پاکستان کو زوال کی طرف لے جا رہا ہے…
بہرحال جو قسمت… اب تو سننے والے لوگ بھی نہیں ہیں جو نصیحت قبول کر لیں… اس لئے اللہ
تعالیٰ سے ہی دعاء ہے… جو اہل ایمان خوف اور پریشانی کی حالت میں ہیں… وہ روزانہ ایک
سو بار…
بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ
عَلٰی اللہِ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ…
توجہ
اور پابندی سے پڑھ لیا کریں… عجیب طاقتور، پُر سکون اور پُرکیف نسخہ ہے۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
ایک ایوبی کا سوال ہے
* کفر کی ناقابل فہم ہیبت، قبلہ
اول مسجد اقصیٰ کے آنسو،
مسلمانوں کی کٹی پھٹی لاشیں، مظلوم مسلمانوں کی
زبوں
حالی پکار پکار کر کہہ رہی ہے:
’’ایک
ایوبی کا سوال ہے‘‘
* تاریخ اسلام کے عظیم سپہ
سالار، فاتح القدس،
محسن اُمت ، رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار
اُمتی حضرت صلاح الدین
ایوبی رحمہ اللہ علیہ کی
مثالی زندگی کے نمایاں
نقوش اور جھلکیاں
پڑھیں
اور اپنے لئے سرمۂ بصیرت بنالیں…
ایک ایوبی کا سوال ہے
اللہ
تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن… سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ بھی پیش ہوں گے اور ہم بھی… صلاح
الدین اپنے ساتھ کیا کچھ لائیں گے اور ہم کیا کچھ؟… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ’’جہاد‘‘
کی وہ محبت نصیب فرمائے جو اس نے اپنے بندے ’’صلاح الدین‘‘ کو عطاء فرمائی تھی…
صرف بچپن یا ستاون سال کی عمر… ہجری سال چھوٹا ہوتا ہے… اس لئے شمسی اور قمری
سالوں کے حساب سے عمر میں فرق آجاتا ہے… شمسی اعتبار سے سلطان کی عمر پچپن سال
بنتی ہے… قمری اعتبار سے یہ ستاون سال ہوجائے گی… جو بہت لمبی نہیں ہے… مگر
کارنامے دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ صدیاں جی گئے … اتنی سی عمر میں ایک سو سے
زائد خونریز جنگیں… بڑی بڑی فتوحات…ہزاروں میل پر پھیلے کارنامے … یورپ کے لئے آج
تک ناقابل فہم ہیبت۔
اس
دور کے مسلمان بھی خوش نصیب تھے… ایک ہی وقت میں تاریخ اسلام کے تین ستارے ایک
ساتھ جگمگارہے تھے… یمن، شام اور مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی تھے… مراکش میں یعقوب
المنصور… اور ادھر ہماری طرف شہاب الدین غوری… کیسا عجیب دور ہوگا؟…شکر ہے اللہ
تعالیٰ کا کہ ہم نے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد دیکھ لئے… ورنہ تو ہم حقیقی
مسلمان حکمران دیکھنے کی حسرت آنکھوں میں لئے دنیا سے چلے جاتے…… اللہ تعالیٰ امیر
المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد قدس سرہ کو جزائے خیر عطاء فرمائے…انہوں نے چند سال
تک امت مسلمہ کو ایک اسلامی حکومت قائم رکھ کر دکھائی… اور اس طرح طویل اور بھاری
جمود کو پاش پاش فرمادیا… یوں سمجھ لیں کہ… کفر کی چار سو سالہ محنت پر پانی پھیر
دیا…بہر حال وہ زمانہ مسلمانوں کے لئے مبارک ثابت ہوا کہ… پورے اٹھاسی سال کے بعد
مسلمانوں نے دوبارہ ’’بیت المقدس‘‘ حاصل کرلیا… فاطمیوں کا منحوس اقتدار بھی اسی
زمانے میں ختم ہوا…اور صلیبیوں کو عبرتناک شکستیں بھی اسی زمانے میں ہوئیں۔
سلطان
صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے جب
حکومت سنبھالی… اور مصر وشام کے حاکم بنے… تو انہوں نے قسم کھالی کہ وہ اسلام کی
تلوار بن کر… مسلمانوں کو بیت المقدس واپس لوٹائیں گے… جہاد کی محبت ان کے دل پر ہی
نہیں ان کے جسم کے روئیں روئیں پر حاوی تھی… ایک بار ایسے بیمار ہوئے کہ زمین پر بیٹھ
نہیں سکتے تھے… پورا جسم پھوڑوں اور دردوں سے مضمحل تھا… مگر جب جہادی گھوڑے پر بیٹھتے
تو اپنے سارے درد اور زخم بھول جاتے… اور کسی کو محسوس تک نہ ہوتا کہ وہ بیمار ہیں…
یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے کہ جہاد کسی کے حواس پر اس قدر چھا جائے… دراصل ایسے
لوگ ہی جہاد کا صحیح حق ادا کرتے ہیں… اور جہاد بھی ایسے لوگوں کو حقیقی قوت اور
نورانیت دکھاتا ہے۔
صلاح
الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ زمانۂ تعلیم
میں عسکریت کی طرف زیادہ رجحان نہیں رکھتے تھے… حالانکہ ان کے گھر میں جہاد موجود
تھا… والد محترم بھی شہید ہوئے اور ان کے ایک چچا ’’شیر کوہ‘‘ بڑے غازی، مجاہد اور
بہادر تھے…طالبعلمی کے زمانہ یوسف بن ایوب… یعنی صلاح الدین ایوبی مکمل طور پر اپنی
تعلیم میں مگن رہے … دین کے علم کی طرف زیادہ رغبت تھی… عربی ادب کے ماہر تھے… ’’دیوان
حماسہ‘‘ مکمل زبانی یاد کررکھا تھا… یعنی جب پڑھ رہے تھے تو علم کے تھے لیکن جب
جہاد میں آئے تو ’’جہاد‘‘ کے ہورہے … مگر ان کا علم ان کو جہاد میں ترقی دینے کا
ذریعہ بنارہا… وہ اہل علم کو اپنے ساتھ رکھتے تھے… وہ اہل قلم سے جہاد پر کتابیں
لکھواتے تھے… اور انہوں نے جو علاقہ بھی اپنی حاکمیت میں لیا وہاں دینی علوم اور
رفاہ عامہ کے کاموں کا جال بچھا دیا… طلبۂ علم کے وظیفے خود جاری کرتے اور بڑے
بڑے کتب خانے قائم کرکے علم کی خدمت کا حق ادا کرتے… نماز کے بے حد پابند تھے…
اپنے ساتھ ایسے علماء کرام کو رکھتے تھے جن کی اقتداء میں ہر نماز باجماعت ادا
کرسکیں… علم وجہاد کا یہ عظیم سنگم… امت مسلمہ کے لئے مسلسل بیس سال تک ایسی رحمت
بنا رہا کہ جس دن ان کی وفات ہوئی تو… عالم اسلام غم واندوہ میں ڈوب گیا…مؤرخ
لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے حضرات خلفاء راشدین کی وفات کے بعد… صدمے والا سب سے
غمناک لمحہ… صلاح الدین ایوبی کی وفات کے وقت دیکھا… یہی علم وجہاد کا ربط تھا کہ
سلطان کی رگوں میں… عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خون کی طرح دوڑتا تھا…ملعون عیسائی حاکم ’’رینالڈ‘‘
نے جب حجاج کرام کے ایک قافلے پر شب خون مارا… اور نہتے مسلمانوں کو شہید کرتے
ہوئے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
شان عالی میں گستاخی بکی تو… صلاح الدین ایوبی کے لئے زمین پر زندہ رہنا مشکل ہوگیا…
نہ اسے نیند آتی تھی اور نہ قرار… نہ اسے بھوک لگتی تھی اور نہ پیاس… عشق اور
انتقام کی اس دو آتشی لہر نے سلطان کو… بے پناہ روحانی طاقت بخشی اور وہ اپنے سے
کئی گنا طاقتور صلیبیوں پر موت بن کر ٹوٹا…اس نے اپنی قسم پوری کی اور ’’رینالڈ‘‘
ملعون کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کیا… اور پھر دھاڑتے ہوئے شیر کی طرح یروشلم کی
طرف بڑھا اور بالآخر بیت المقدس کے میناروں سے ۸۸ سال بعد دوبارہ
اذان گونجنے لگی… اپنے زمانے کا یہ سب سے بڑا فاتح، طاقتور بادشاہ… اور سب سے بڑا
سپہ سالار بیت المقدس کی فتح کے بعد بھی… صلیبیوں کی تیسری عظیم جنگ کے سامنے دیوار
بن کر کھڑا…رہا یہاں تک کہ ’’صلیبی‘‘ بیت المقدس سے مکمل طور پر مایوس اور
دستبردار ہوگئے… اور اس وقت سے لے کر ۱۹۴۸ء تک پونے آٹھ
سو سال تک یہ پورا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔
مگر
اتنا عظیم فاتح کبھی حج نہ کرسکا کیونکہ اس کے پاس اتنا ذاتی مال کبھی جمع نہ ہوا
کہ حج اس پہ فرض ہوتا… حج تو حج اس پر کبھی زکوٰۃ بھی فرض نہیں ہوئی… اور جب وہ دنیا
سے رخصت ہوا تو اس کی میراث میں سترہ یا سینتالیس درہم موجود تھے… جبکہ اس کے
کارنامے ہزاروں مربع میل پر جگمگارہے تھے ۔
ہاں
بھائیو! صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ … ہمارے لئے ایک مثال ہیں کہ… جنہیں دیکھ
کر ہم مایوسی، کم ہمتی اور حب دنیا کے اندھیروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں… اللہ تعالیٰ
ان کے درجات بلند فرمائے … ان کو مغفرت اور سعادت کا اونچا مقام عطاء فرمائے… آج
عالم اسلام پھر زخمی زخمی ہے… وہ علاقہ جہاں صلاح الدین ایوبی پیدا ہوئے… تکریت
(عراق)… وہ آج خون مسلم سے لہو رنگ ہے … وہ ’’دمشق‘‘ جو صلاح الدین ایوبی کا
’’عشق‘‘ تھا… اور وہی صلاح الدین کا مدفن بنا وہ آج امت مسلمہ کی طرف بے بسی سے دیکھ
رہا ہے… اور وہ یروشلم جس نے… صلاح الدین ایوبی کا استقبال کیا تھا… مسلمانوں سے
بہت کچھ پوچھ رہا ہے… یااللہ!…اُمت مسلمہ کو پھر ’’ایوبی‘‘ عطاء فرماء… تیری نظر
کرم جس پر پڑگئی… وہ ایوبی بن جائے گا… یااللہ !رحم فرما… یااللہ! نصرت فرما۔
لا
الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰہم
صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا
لا
الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭