رنگ و نور جلد چہارم
حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اُمت
اللہ تعالیٰ
کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے سب سے افضل اور محبوب نبی حضرت محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں پیدا فرمایا
ہے… الحمدللہ ، الحمدللہ
، الحمدللہ … یہ بہت عظیم الشان نعمت
ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطاء
فرمائے… اور ہمیں اس نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے کی ہمت عطاء فرمائے… ماضی کے بڑے
بڑے انبیاء علیہم السلام کی یہ تمنا تھی کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی اُمت میں شامل ہوں… اللہ تعالیٰ نے اپنے
محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو بے شمار فضیلتیں عطاء فرمائی ہیں…
اس اُمت کے فضائل قرآن پاک میں بھی بیان ہوئے ہیں اور خود حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائے ہیں… یہ سب سے آخری اُمت
ہے کہ اس کے بعد کوئی اُمت نہیں… بلکہ قیامت ہے… اسی لئے ہمیں ختم کرکے کوئی بچ
جائے گا اس کا کوئی امکان نہیں ہے… بس قیامت سے کچھ عرصہ پہلے زمین پر کافر اور
شریر لوگ مکمل قابض ہوں گے اور انہیں پر قیامت ٹوٹے گی… مگر اس سے پہلے ایک بار یہ
اُمت پوری دنیا پر غالب ہوگی … اور یہ اُمت سب سے پہلی اُمت بھی ہے کیونکہ قیامت
کے دن سب سے پہلے اس کا حساب وکتاب ہوگا اور جنت میں بھی سب سے پہلے یہی اُمت داخل
ہوگی…
سورۃ
توبہ کے آخر میں بتایا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی
اُمت سے بہت محبت ہے، بہت پیار ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اُمت
کی تکلیف تک گوارہ نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شدید خواہش
مبارک تھی کہ آپ کی اُمت زیادہ ہو… حریص علیکم کا معنیٰ حضرت شاہ عبدالقادررحمہ
اللہ نے یہی بیان فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پوری فرمائی اور اس اُمت میں خوب برکت
عطاء فرمادی… جنت میں لوگوں کی کل ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے باقی تمام
اُمتوں کی چالیس صفیں ہوں گی جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
اُمت کی اسّی (۸۰) صفیں
ہوں گی…
اھل
الجنۃ عشرون ومائۃ صف ثمانون فیھا من ھذہ الامۃ واربعون من سائرالامم (ترمذی)
قیامت
کے دن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اپنی خاص علامتوں کی وجہ سے
سب اُمتوں میں ممتاز ہوگی… وضو کی برکت سے ان کے اعضاء چمک رہے ہوں گے اور ان کے
اعضاء کی اسی نورانیت سے وہ دور دور سے پہچانے جائیں گے… صحابہ کرام ڑنے ایک بار
عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ
ہمیں قیامت کے دن پہچان لیں گے… ارشاد فرمایا جی ہاں! تمہاری ایک علاُمت ہوگی جو
اُمتوں میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ہوگی تم میرے پاس حوض کوثر پر اس شان سے آؤگے
کہ وضو کے اثر سے تمہارے چہرے روشن اور پاؤں نورانی اور چمکدار ہوں گے …
قالوا
یا رسول اللہ اتعرفنا یومئذ؟ قال نعم لکم سیما لیست لاحد من
الامم تردون علیّ غرّا محجلین من اثر الوضو (مسلم)
امریکہ
سے لیکر ڈنمارک تک… اور اسرائیل سے لیکر ناروے تک کے کافر بہت بڑی بھول میں ہیں کہ
وہ … حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ کمی کرسکیں گے یا اس
اُمت کو اپنا غلام بنالیں گے… ان کو علم نہیں ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کو چار تلواریں دیکر بھیجا … یہ چار تلواریں آج بھی قرآن مجید میں موجود ہیں…
مشرکین کے خلاف تلوار… یہود و نصاریٰ اہل کتاب کے خلاف تلوار… منافقین کے خلاف
تلوار… اور باغیوں کے خلاف تلوار…
صلی
اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم …
قال
علی بن ابی طالب ذ: بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم باربعۃ اسیاف (تفسیر ابن کثیر)
اسلام
کا پہلا غزوہ برپا تھا… جنگ کے آغاز میں تین بڑے مشرک سردار مقابلے کے لئے نکلے…
مسلمانوں کی طرف سے تین انصاری مجاہدین ان کے مدِ مقابل ہوئے… مشرکین نے مطالبہ
کیا کہ ہماری قوم کے لوگ مقابلے پر آئیں… تب حضرت سیّدنا حمزہ رضی اللہ
عنہ ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عبیدۃ بن الحارث رضی
اللہ عنہ میدان میں تشریف لائے… حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ کو ڈھیر کردیا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید کو ٹھکانے لگادیا… جبکہ حضرت عبیدۃ بن الحارثذ عتبہ
کو زخمی کرکے خود بھی زخمی ہوگئے… ان کو اٹھا کر حضور پاک صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا… نہ چیخ و پکار نہ شکوے شکایت بلکہ محبت اور بڑھ
گئی، جذبہ اور بھڑک اُٹھا… دنیا والو! کسی کے پاس اس کی مثال ہے؟… امریکہ کے زخمی
سپاہی بش کو وہ گالیاں دیتے ہیں کہ کان سن نہیں سکتے… مگر حضرت
عبیدۃ رضی اللہ عنہ کی پنڈلی سے خون کے آخری قطرے تک بہہ چکے تھے مگر
محبت اور وفاداری کا یہ عالم تھا کہ اپنا رخسار آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے قدم مبارک پر رکھا ہوا ہے اور پوچھ رہے ہیں کہ یارسول اللہ !
کیا میں شہید ہوں؟… اور اس حالت میں بھی محبت اور وفاداری کے اشعار پڑھ رہے ہیں:
فان
یقطعوا رجلی فانی مسلم
ارجی
بہ عیشا من اللہ عالیا
یعنی
اگر کافروں نے میرا پاؤں کاٹ دیا تو کوئی بات
نہیں، الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور اس تکلیف کے
بدلے اللہ تعالیٰ سے بہت اونچے عیش و آرام کا امیدوار ہوں…
والبسنی
الرحمن من فضل منّہ
لباسا
من الاسلام غطّی المساویا
اور
میرے اللہ مہربان نے مجھ پر یہ فضل واحسان فرمایا ہے کہ
مجھے اسلام کا لباس پہنایا ہے جس نے تمام برائیوں کو ڈھانک دیا ہے…
زمانے
کے کافر چاند تک تو پہنچ گئے مگر وہ اس اُمت کے قدموں کی دھول تک بھی نہیں پہنچ
سکیں گے… حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت یہی تو بتا رہے ہیں کہ
مسلمان ہونا… اور اس اُمت کا فرد ہونا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کی خاطر اپنا سب کچھ
قربان کرنا آسان ہے… اور اصل عزت کا لباس ’’اسلام‘‘ ہی ہے… پس جس کے پاس ’’اسلام‘‘
نہیں وہ ننگا، بے آبرو، بے عزت اور حقیرہے… یہی اشعار پڑھتے ہوئے ان کی روح جنت کی
طرف پرواز کر گئی تو آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
اشھد
انک شھید
میں
گواہی دیتا ہوں کہ تو شہید ہے… اللہ اکبرکبیرا
روایات
میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماضی میں جو احکامات انبیا
علیہم السلام کو دیئے تھے وہ احکامات اس اُمت کے افراد کو عطاء فرمائے …
امرتھم
بالغسل من الجنابۃ کما امرت الانبیاء وامرتھم بالحج کما امرت الانبیاء وامرتھم
بالجھاد کما امرت الرسل (بیہقی)
یعنی
میں نے اس اُمت کو ’’غسل جنابت‘‘ کا حکم دیا جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کو دیا
تھا اور حج کا حکم دیا جس طرح انبیاء کو دیا تھا اور جہاد کا حکم دیا جس طرح
رسولوں کو دیا تھا…
ماضی
کی تاریخ دیکھو! اللہ پاک نے اپنے عام نظام میں کئی طرح
تخصیص فرما کر اس اُمت کی حفاظت فرمائی… آگ کا کام جلانا ہے مگر صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کو وہ نہ جلا سکی جب دشمنوں نے اُن میں سے بعض کو جلانے کا
ارادہ کیا… یہ واقعہ معروف ہے… دریا اور سمندر کا کام ڈبونا ہے مگر صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر سے یوں گزر گئے جس طرح ہموار میدان ہو… اور قرب
قیامت میں جب یاجوج ماجوج زمین پر قبضہ کرلیں گے اور اس اُمت کے محدود لوگ کسی جگہ
پناہ لے لیں گے تو اس وقت بھی ان کی حفاظت کے لئے اللہ پاک
خصوصی نظام قائم فرمائے گا… روایت میں آیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج کے قبضے کے وقت پناہ گزین مسلمانوں کے کھانے
پینے کا کیا بندوبست ہوگا؟
قالوا
فما طعام المؤمنین یومئذ؟
تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قال
التسبیح والتکبیر والتھلیل (مسنداحمد)
یعنی اللہ تعالیٰ
کی تسبیح، تکبیر اور تہلیل ہی ان کی غذا بن جائے گی…
ہم
مسلمانوں نے غارثور کے خطرے سے لیکر یاجوج ماجوج تک کے خطرے سے نمٹنا ہے
اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے باقی اور غالب رہنا ہے… یہ سب
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات ہیں… لوگ سمجھاتے ہیں کہ کافروں
کو زیادہ نہ بھڑکاؤ وہ ختم کردیں گے تو ہم یہی عرض کرتے ہیں کہ اس اُمت کا خاتمہ
کسی کے بس میں نہیں ہے… غارثور میں پورا اسلام موت سے تین قدم کے فاصلے پر تھا…
مشرکین مکہ کے مسلح دستے غار کے دہانے تک پہنچ چکے تھے اور حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ ان کے پاؤں دیکھ رہے تھے… وہاں اسلام اور مسلمانوں کو کس نے بچایا؟… قرآن
پاک ایک سے زیادہ بار ہجرت کا واقعہ یاد دلا کر مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ کافروں
سے ڈرنا چھوڑ و… اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا سیکھو… پھر چودہ
سو سال کے اس عرصے میں بڑے بڑے خطرے آئے مگر وہ سب خطرے خود ہی ختم ہوگئے اور ان
کا نام ونشان تک باقی نہ رہا…
آج
کوئی ہے جو ابوجہل کی تعریف میں قصیدے لکھتا ہو؟… آج کوئی ہے جو ہلاکو خان اور
چنگیز خان کی یاد میں آنسو بہاتا ہو؟… جبکہ ہر
طرف الحمدللہ محمدرسول اللہ … محمد
رسول اللہ گونج رہا ہے صلی اللہ علیہ وسلم
… صلی اللہ علیہ وسلم … ہر زمانے میں منافقین کا اصرار تھا کہ مسلمان
اپنی بقاء کے لئے طاقتور کافروں کے سامنے گردن جھکادیں، ورنہ کوئی بھی نہیں بچے
گا… مشرکین مکہ سے لڑائی تھی تو منافق کہتے تھے یہ ناقابل تسخیر ہیں ان سے لڑنا
حماقت ہے… یہودیوں سے لڑائی تھی تو منافق کہتے تھے ان کو چھیڑنا بے وقوفی اور
خودکشی ہے… رومیوں سے لڑائی تھی تو منافق کہتے تھے کہ اب مسلمانوں کا کچھ نہیں بچے
گا… یہاں تک کہ جب سوویت یونین سے لڑائی تھی تو منافق کہتے تھے کہ اب مسلمانوں کی
خیر نہیں ہے، ان پاگل مجاہدین نے پوری اُمت کو مروانے کا ارادہ کرلیا ہے… مشرکین
مکہ بھی ختم ہوگئے … یہودی بھی سمٹ گئے… رومیوں نے بھی صدیوں تک مسلمانوں کے جوتے
صاف کیے… اور سوویت یونین صفحۂ ہستی سے ہی مٹ گیا… جبکہ اسلام باقی ہے اُمت مسلمہ
باقی ہے… آج کل منافقین کا بس یہی شور ہے کہ … مجاہدین نے مسلمانوں کو مروادیا
بھلا امریکہ اور یورپ سے بھی مقابلہ ممکن ہے؟… جی ہاں ممکن ہے اور انشا
ء اللہ دنیا دیکھے گی کہ نہ امریکہ بڑی طاقت رہے گا اور نہ
یورپ کا غرور… میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت موجود رہے گی… اور
انشاء اللہ غالب ہوگی… اے مسلمانو! نہ تو یہ بڑھکیں ہیں اور
نہ حد سے بڑھی ہوئی خوش فہمی … بلکہ یہ قرآن پاک کے سمجھائے ہوئے سبق ہیں اور قرآن
پاک کے اسباق میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے… اللہ کرے
’’فتح الجوّاد فی معارف آیات الجہاد‘‘ کی دوسری جلد شائع ہوجائے… اس جلد میں جہاد
کا اصل رنگ نظر آتا ہے کیونکہ یہ جلد سورۃ انفال اور نصف سورۃ توبہ پر مشتمل ہے…
اور آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ دونوں سورتیں جہاد کے قطعی احکامات اور حقیقت کو بیان
کرتی ہیں … انشاء اللہ اگر یہ جلد چھپ گئی اور آپ نے پڑھ لی
تو ان شاء اللہ دنیا کی ہر طاقت کا خوف دل سے نکل جائے گا
اور جہاد کے وہ دلائل معلوم ہوں گے جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہ سنے ہوں … تب آپ کو
بھی یہی نظر آئے گا کہ اسلام اور مسلمانوں کو کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا اور جہاد
کے مقابلے میں دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہرسکتی…
اللہ تبارک
وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اس اُمت کو سب سے افضل اور بہتر اُمت قرار دیا ہے…
کنتم
خیر امۃ اخرجت للناس…
اللہ تبارک
وتعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے سب سے افضل اور محبوب
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں شامل فرمایا ہے… اب ہم سب کو یہی
دعاء کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے
کی توفیق عطاء فرمائے… اور اس نعمت کا حق ادا کرنے کی ہمت نصیب فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین، وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا
محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
یا
اللہ صلّ وسلم علیٰ حبیب اللہ …
٭٭٭
’’رحمت‘‘ پانے کا طریقہ
اللہ تعالیٰ
کی ’’رحمت‘‘ کے ہم سب محتاج ہیں… آج ہر انسان طرح طرح کی مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے…
ان تمام مصیبتوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ سے ہی
ہوسکتا ہے… بعض لوگ مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ کافر ہو رہے ہیں… یہ ایک بڑی مصیبت
ہے… کچھ مسلمانوں پر نفاق کا حملہ ہے، جی ہاں منافقت جیسے خطرناک مرض کا حملہ… یہ
بھی بڑی سخت مصیبت ہے… بعض مسلمانوں کے دل و دماغ پر شہوت کا غلبہ ہے وہ رات دن بس
شرمگاہ کی فکر اور سوچ کے گرد گھومتے رہتے ہیں… یہ ایک دردناک مصیبت ہے… بعض
مسلمانوں پر مال کی خارش کا حملہ ہے وہ ہر لمحہ مال کے بارے میں سوچتے ہیں اور
پوری زندگی مال جوڑتے جوڑتے مرجاتے ہیں، مال تو یہاں رہ جاتا ہے اور وہ خالی ہاتھ
تنگ وتاریک قبر میں قید ہوجاتے ہیں… یہ بہت بڑی مصیبت ہے… بعض مسلمانوں پر قرضے کا
حملہ ہے، ایک قرض ادا کرتے ہیں دوسرا چڑھ جاتا ہے، دن رات قرضے لیتے، قرضے ٹالتے،
قرض خواہوں کے سامنے جھوٹ بولتے ان کا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے… یہ بھی ایک مصیبت
ہے… کسی کی شادی نہیں ہو رہی اور عمر گزرتی جارہی ہے … کسی کو رہنے کی جگہ نہیں مل
رہی، مکان اور رہائش کا مسئلہ ہے… کسی سے گناہ نہیں چھوٹ رہے، صبح شام گناہوں کی
تلاش ہے اور گناہوں کی مار… کسی کو ناشکری نے ایسا گھیر لیا ہے کہ ہر وقت دل سے
آہیں اور آنکھوں سے آنسو ٹپکتے رہتے ہیں… کسی کو بے صبری نے ایسا پکڑ لیا ہے کہ
چوبیس گھنٹے بیماریوں اور مصیبتوں کا رونا ہے… کسی کو بے کاری نے ایسا جکڑ لیا ہے
کہ کوئی کام ہی نہیں ہے، ٹائم ہی نہیں گزرتا… کسی پر غیبت گوئی کا ایسا حملہ ہے کہ
ہر وقت اس کے منہ سے زندہ مسلمانوں کے خون اور گوشت کی بدبو جاری رہتی ہے… کسی کو
تکبرّ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ ہر وقت اپنی ناک ، اپنی عزت اور اپنی شان کے لئے
رسوا ہوتا رہتا ہے… کسی پر وساوس اور بدگمانیوں کا ایسا زور ہے کہ دل و دماغ میں
بدگمانیوں کا ایک پورا گٹر جاری ہے… کسی پر نیند کا ایسا خمار ہے کہ بستر بھی اس
کے جسم سے تھک چکا ہے اور ہر کسی کی نظروں میں وہ گر رہا ہے… کسی پر مال کی ایسی
تنگی ہے کہ روٹی پوری نہیں ہوتی… اور کسی پر بیماریوں کا ایسا حملہ ہے کہ بیماریاں
قطار لگا کر اس پر حملہ آور ہیں… کسی کے دل پر غم کا ایسا زخم ہے کہ کبھی خوشی ہی
محسوس نہیں ہوتی… اور کسی پر غفلت اور خوشی کا ایسا حملہ ہے کہ قبرستان میں بھی
جاکر گانے سنتا ہے… کوئی کسی کے عشق میں پھنس کر مچھلی کی طرح تڑپ رہا ہے تو کوئی
کسی کی دشمنی سے خوفزدہ چھپتا پھرتا ہے…
مصیبت
ہی مصیبت، آفت ہی آفت، پریشانیاں ہی پریشانیاں اور زحمت ہی زحمت … حالانکہ مجھے
بھی معلوم ہے کہ میں نے ضرور مرنا ہے اور آپ سب کو بھی معلوم ہے کہ آپ بھی مرجائیں
گے… ہم سب کا یہ بھی یقین ہے کہ آخرت کا دن یقینی اور برحق ہے… جی ہاں قیامت بالکل
یقینی ہے، بالکل برحق ہے… جبکہ دنیا تو دھوکے کا سامان ہے… قیامت کے بارے میں ہم
بہت کم سوچتے ہیں حالانکہ اصل مسئلہ وہی ہے، دنیا تو عارضی اور فانی ہے…
مرنے
کے لئے کیا تیاری کی ہے؟… قبر کے لئے کیا انتظام ہے؟… چار دن کے لئے
کسی جگہ جانا ہو تو سارا دن سوچتے ہیں اور گھنٹوں تیاری کرتے ہیں… کیا آخرت کے
یقینی سفر کی کوئی تیاری ہے؟… اللہ اکبرکبیرا … آپ یقین کریں کہ ہماری
آخرت بھی اللہ تعالی کی ’’رحمت‘‘ سے ہی کامیاب ہوسکتی ہے…
اور دنیا میں ہماری مصیبتوں کا خاتمہ بھی اللہ تعالیٰ کی
’’رحمت‘‘ ہی سے ہوسکتا ہے…
میں
ایک شخص کو جانتا ہوں، وہ مجاہد بھی ہے اور عالم بھی… ایک بار وہ قید میں پھنس گیا
اور مصیبتوں کے سیلاب نے اس کو خوب غوطے دیئے… وہ دن رات دعائیں کرتا رہا وظیفے
کرتا رہا… کئی بار روشنی اور نجات قریب آئی مگر مسئلہ حل نہ ہوا… ایک بار وہ قرآن
پاک میں سورۃ انبیاء کی تلاوت کر رہا تھا… تلاوت کرتے ہوئے اس کا دل جاگ اٹھا، اسے
نظر آیا کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ ’’رحمت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا
ہے… اللہ پاک کی ’’رحمت‘‘… اور بتایا گیا ہے کہ نجات
تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے…
بس
یہ بات سمجھنے کے بعد اس نے ایک ہی دعاء کو اپنا معمول بنالیا کہ
یا اللہ رحم فرما… یا اللہ رحمت
فرما… اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے محبوب نبی حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم فرمایا ہے کہ
آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت مانگیں…
وَقُلْ
رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرٌ الرَّاحِمِیْنَ (المؤمنون۱۱۸)
ترجمہ: اور
کہو اے میرے رب معاف فرما اور رحم فرما اور آپ سب سے بہتر رحم فرمانے والے ہیں۔
اس
میں یہ بھی اشارہ ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ
کی رحمت سے محروم ہوتا ہے… چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَوْلاَ
تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہ َ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (النمل۴۶)
ترجمہ: تم اللہ تعالیٰ
سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے… اس آیت سے پہلے کا مضمون
پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘
آجاتی ہے تو ہر مصیبت دور ہوجاتی ہے اور ہر عذاب ٹل جاتا ہے…
اس
شخص نے رات دن اللہ تعالیٰ سے اسکی ’’رحمت‘‘ مانگنی شروع
کی… نماز کے بعد، تلاوت کے بعد، درود شریف کے بعد… اس دعاء سے اس کے دل کو ایک طرح
کا سکون ملنا شروع ہوگیا… کیونکہ عام طور پر مصیبت کے وقت دعاء کرنے میں غلطی
ہوجاتی ہے… کبھی انسان شکوہ کرنے لگتا ہے کہ یا اللہ یہ کام
کیوں نہیں ہورہا…کبھی انسان زیادہ جذبے میں آکر کہتا ہے کہ
یا اللہ بس یہ کام کردیجئے… ا ور کبھی انسان یہ کہتا ہے کہ
معلوم نہیں میرے کس گناہ کی وجہ سے آپ دُعا قبول نہیں فرما رہے … حالانکہ یہ سب
جملے غلط ہیں اور نعوذب اللہ گستاخی پر مبنی ہیں… دعاء تو حقیر غلاموں
کی طرح کرنی چاہئے، سر جھکا دینے چاہئیں، اپنی کھال کو نرم کرکے دعاء مانگنا
چاہئے… جس دعاء میں شکوہ، شکایت، اکڑ اور نخرے ہوں کہ میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا
ہے؟ تو وہ دعاء ٹھیک نہیں ہے… ہم کون ہیں اکڑنے والے؟، دعاء میں تو شکر سے بات شروع
کرنی چاہئے اور کسی وقت بھی اپنے لہجے کو سخت نہیں ہونے دینا چاہئے… خیر وہ شخص
’’رحمت‘‘ مانگتا رہا، اللہ پاک کا عجیب نظام ہے کہ اسے
مانگنے والے پسند ہیں… اور وہ مانگنے والوں کو راستہ بھی خود دیتا ہے… اب رحمت
مانگی تو رحمت بھی ملے گی انشاء اللہ اور رحمت پانے والے
اعمال کی توفیق بھی خود بخود ملتی چلی جائے گی… چند دن ہی گزرے تھے
کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے آئی کہ دنیا حیران رہ گئی…
رہائی کے بعد اس شخص نے ایک بڑے عالم بزرگ کو یہ بات بتائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور
فرمایا کہ آپ کی درست رہنمائی ہوئی … حقیقت یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ ہی ہمارے ہر مسئلے کا حل ہے… آپ
قرآن پاک میں غور فرما لیجئے قرآن پاک سمجھاتا ہے کہ مصیبتیں گناہوں کی وجہ سے آتی
ہیں… اور پھر قرآن پاک بتاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا تبھی ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ
کی رحمت شامل ہو…
وَمَنْ
تَقِ السَّیِّئَآتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ
ترجمہ:
(یا اللہ ) جس کو آپ نے گناہوں سے بچالیا اس پر آپ نے رحم فرمایا… بعض مفسرین
نے یومئذٍ سے قیامت کا دن مراد لیا ہے کہ قیامت کے دن کی تکلیفوں
سے حفاظت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہوگی جبکہ دوسرے مفسرین
کے نزدیک یومئذٍ سے دنیا مراد ہے کہ دنیا میں جس کو آپ نے گناہوں سے
بچالیا تو یہ اس پر آپ کی رحمت کی دلیل ہے… حضرت شاہ عبدالقادررحمۃ اللہ علیہ
لکھتے ہیں:
یعنی
تیری (مہربانی) ہی ہو کہ برائیوں سے بچے، اپنے عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا تھوڑی بہت
برائی سے کون خالی ہے۔ (موضح القرآن)
پھر
آپ دیکھیں ہمارا سب سے خطرناک دشمن، ہمارا اپنا ’’نفس‘‘ ہے اور نفس کے شر سے بچنا
بھی اللہ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ ہی سے ممکن ہے اس کے علاوہ اور
کوئی ذریعہ نہیں…
اِنَّ
النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلاَّ مَارَحِمَ رَبِّیْ (یوسف۵۳)
ترجمہ: بے
شک نفس تو برائی سکھاتا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے… قرآن پاک بار بار بتاتا ہے
کہ جب کوئی عذاب آیا تو اس عذاب سے وہی بچا جس
کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ’’رحمت‘‘ دے کر بچالیا، اس موضوع پر
آیات مبارکہ لکھوں تو مضمون بہت طویل ہوجائے گا… اصحاب کہف جب اپنے دشمن بادشاہ کے
گھیرے میں تھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ’’رحمت‘‘ مانگی
رَبَّناَ
اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (الکہف۱۰)
ترجمہ: اے
ہمارے رب ہم پر اپنی رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لئے کامیابی کا سامان
کردے
یہ
تو ہوئی دشمنوں سے حفاظت، جبکہ قوت، طاقت اور دشمنوں پر غلبہ
بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملتا ہے… ذوالقرنین نے جب یاجوج
ماجوج کے سامنے لوہے کا پہاڑ کھڑا کردیا اور انہیں مغلوب کردیا تو فوراً کہا:
قاَلَ
ہَذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّیْ (الکہف۹۸)
ترجمہ: کہا
یہ میرے رب کی رحمت ہے۔
یعنی
میری یہ ساری قوت، طاقت اور غلبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے
ہے…
خلاصہ
یہ ہوا کہ دنیا میں کام چلے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی
سے چلے گا اور آخرت میں بھی کام بنے گا تو اللہ تعالیٰ کی
رحمت ہی سے بنے گا…
قُلْ
اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَْومٍ عَظِیْمٍo مَنْ یُّصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ
فَقَدْ رَحِمَہٗ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ۔ (الانعام۱۵،۱۶)
ترجمہ:
کہہ دو! اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں، جس
سے اس دن عذاب ٹل گیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے رحم کردیا
اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ
کا فضل بھی اس کی رحمت کا ایک بڑا درجہ ہے… اللہ تعالیٰ کی
رحمت کا موضوع بہت میٹھا اور مفصل ہے، میرے سامنے اس وقت کئی آیات مبارکہ ہیں جن
کو لکھا جاسکتا ہے مگر … اللہ تعالی آپ کو توفیق دے اور رحم
فرمائے تو قرآن پاک کی ’’رحمت‘‘ والی آیات کو ایک بار ترجمے اور تفسیرکے ساتھ دیکھ
لیں… تاکہ یقین کامل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ جو رحمن بھی ہے
اور رحیم بھی… اور ارحم الراحمین بھی، اس کی رحمت کے ہم کتنے زیادہ محتاج ہیں… اور
پھر ہم حقیقی محتاج کی طرح گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا
سوال کریں
یَاحَیُّ
یَا قَیُّوْمُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ… رَبِّ اغْفِرْ
وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرٌ الرَّاحِمِیْنَ… وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا
وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلاَنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ…
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا
لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ…
یا
رحمن رحم فرما… یا رحیم رحمت فرما… یا ارحم الراحمین رحمت فرما، رحم فرما…
یہ
تو ہوئی ایک بات… اب دوسری بات سمجھنے کی کوشش
فرمائیں… اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کئی درجے ہیں… ایک عمومی
رحمت ہے جو دنیا میں ہر انسان، ہر جاندار اور ہر چیزپر ہے…
یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی تو ہے کہ ہر کوئی سانس لے رہا ہے
اور رزق پا رہا ہے… اور ایک اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اور
یہ خاص رحمت اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو عطاء فرماتا ہے…
دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور آخرت میں تو رحمت کا معاملہ ایمان والوں کے
ساتھ ہی خاص ہوجائے گا… پھر اس خاص رحمت کے بھی درجات ہیں سب سے اونچا درجہ تو
انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ عظام کو نصیب ہوا ہے… اور اس میں بھی سب سے اونچا
درجہ رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہوا ہے
… اور ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہر وقت، بہت خصوصیت سے برستی رہتی
ہیں…
اِنَّ اللہ وَمَلآئِکَتَہٗ
یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (الاحزاب ۵۶)
یعنی
بے شک اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے رحمت کی دعاء
کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے۔
صلوٰۃ
کا معنیٰ ہے خصوصی رحمت اور اس خصوصی رحمت کی بدولت نور اور ترقی کا راستہ ملتا
ہے… اور ہر طرح کے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، خود اللہ تعالیٰ
کا ارشاد گرامی ہے:
ہُوَ
الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلآئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ
اِلَی النُّوْرِ وَکَانَ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب ۴۳)
یعنی
وہ اللہ تعالیٰ تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی
تاکہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے اور وہ ایمان والوں پر نہایت رحم والا
ہے…
معلوم
ہوا کہ صلوٰۃ من اللہ اللہ تعالیٰ کی وہ
رحمت ہے جس سے انسان کے دنیا و آخرت کے مسائل حل ہوتے ہیں… کیونکہ ’’نور‘‘ کا ملنا
ہی ہر اندھیرے سے نجات ہے… اور گناہ سے لیکر عذاب جہنم تک ہر مصیبت اندھیرا ہی
اندھیرا ہے… اللہ تعالیٰ کی یہ صلوٰۃ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنی برسی اور اتنی برستی ہے کہ خود
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف
سے ’’رحمت‘‘ بن گئے… چنانچہ ارشاد فرمایا کہ
وَمَا
اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ…
اگر
آپ نے یہ دوسری بات بھی سمجھ لی ہے تو اب آخری اور تیسری بات
سمجھیں… اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’درود و سلام‘‘ پڑھنے کا قرآن مجید میں
حکم دیا ہے اور ہمارے لئے اس درود وسلام کا بدلہ یہ مقرر فرمایا ہے کہ جب ہم ایک
بار درود پڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہم پر دس ’’صلوٰۃ‘‘ یعنی
خصوصی رحمتیں نازل فرمائے گا… جبکہ بعض روایات میں ستر رحمتوں کا بھی تذکرہ ہے…
صحیح
احادیث میں بالکل واضح فرمایا گیا کہ…
من
صلّی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشرًا
جو
کوئی مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس شخص پر
دس رحمتیں نازل فرمائے گا (صحیح مسلم)
اب
ہمارے لئے معاملہ آسان ہوگیا… پہلی بات یہ کہ
ہم اللہ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ کے سخت محتاج ہیں آج ہر طرف
زحمت ہی زحمت نظر آرہی ہے… دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی
خاص رحمت کو ’’صلوٰۃ‘‘ کہتے ہیں اور اس رحمت کی برکت سے دنیا آخرت کے مسائل حل
ہوتے ہیں… اور تیسری بات یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے سے انسان
کو اللہ تعالیٰ کی یہ ’’خاص رحمت‘‘ نصیب ہوتی ہے… توبس پھر
دیر کس بات کی ہے آج ہی سے نہایت کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھ کر… اپنی زحمتوں،
مصیبتوں ا ور بے کاریوں کو بھگائیں اور دنیا وآخرت
میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے مزے لوٹیں… درود شریف کے
مختلف صیغے احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں… ایک مستند
ومعتمد اللہ والے شیخ طریقت صاحب نے مجاہدین کے لئے یہ
پیغام دیا ہے کہ وہ اگر درج ذیل دو صیغوں کا بھی اہتمام کریں تو
انشاء اللہ دیگر بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ انہیں جہاد میں
بھی خوب ترقی اور کامیابی ملے گی…
(۱)۔
ارشادفرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ: جس
شخص کے پاس خیرات کرنے کو مال نہ ہو، وہ اپنی دعاء میں یہ درود شریف پڑھے تو اس کے
لئے باعث تزکیہ ہوگی۔
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ
وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ (ابن حبان)
(روزانہ
کم از کم ستر بار اس کا اہتمام کریں)
(۲)۔
ارشاد فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ ہمارے گھرانے والوں پر درود شریف پڑھتے وقت ثواب کا
پورا پیمانہ لے تو یہ درود شریف پڑھے‘‘
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ
الْمُؤْمِنِیْنَ وَذُرِّیَّتِہٖ وَاَہْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی
اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔(ابوداؤد)
(روزانہ
کم از کم اکتالیس بار اس کا اہتمام کریں)
الحمدللہ
، ثم الحمدللہ … القلم پڑھنے والے حضرات و خواتین پہلے سے ہی ایک ہزار
یا اس سے زیادہ درود شریف کا اہتمام کر رہے ہیں… اللہ رب
العزت خوب قبول فرمائے اور خوب رحمتیں عطاء فرمائے… اب اس کے ساتھ ان دو صیغوں کا
بھی اضافہ کرلیا جائے،
انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی اور زیادہ
رحمتیں ملیں گی… اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بے حد
محتاج ہیں…
یا
ارحم الراحمین صل علی من ارسلتہ رحمۃ للعالمین وبارک وسلم تسلیما کثیراکثیرا…
٭٭٭
ہمارا سیاسی نعرہ
اللہ تعالیٰ
کی شان دیکھیں ’’صدرپرویز مشرف‘‘ کے عنقریب امریکہ چلے جانے کی خبریں زوروں پر
ہیں… اخبارات کے کالم نویس اس موضوع پر دل کھول کر لکھ رہے ہیں… ایک سابق جنرل نے
اعلان کیا ہے کہ چند دن بعد صدر مشرف اپنا سامان لے کر امریکہ کی ریاست ’’ورجینیا‘‘
چلے جائیں گے… اور اپنی زندگی کے باقی ایام ’’روشن خیالی‘‘ کی یاد میں بسر کریں
گے… ایک اور سابق جنرل نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ’’پرویز مشرف صاحب‘‘ کو گرفتار
کرلینا چاہئے اور عوام اور فوجیوں کے قتل عام پر ان کے خلاف کورٹ مارشل ہونا
چاہئے…
ایک
اخبار کا دعویٰ ہے کہ جیسے ہی چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں اپنا کام شروع کردیں
گی صدر صاحب خود ہی ’’صدارت‘‘ چھوڑ کر اپنے کسی بھی پسندیدہ ملک روانہ ہوجائیں گے…
پہلے تو ’’ترکی‘‘ ان کا پسندیدہ ملک تھا مگر اب وہاں کا ماحول بھی خراب ہوگیا ہے
کیونکہ وہاں کی حکومت نے کالج کی لڑکیوں کو دوپٹہ اوڑھنے کی اجازت دے دی ہے… اس
لئے صدر صاحب کسی خالص روشن خیال ملک کے بارے میں سوچ رہے ہیں… بعض سیاسی مبصرین
کا دعویٰ ہے کہ صدر صاحب ابھی کچھ عرصہ اور اس بدنصیب قوم پر مسلط رہیں گے… و
اللہ اعلم بالصواب…
مدینہ
منورہ میں مقیم ایک بزرگ عالم دین صدر پرویزمشرف کے اقدامات سے بہت رنجیدہ تھے… اب
تو ان کا انتقال ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے
بہت اونچے درجے کے اللہ والے تھے اور اس فانی دنیا سے بے
رغبت تھے… صدر پرویز مشرف نے جب اپنے پر، پرزے نکالے اور دینی مدارس اور جہاد کے
خلاف کھلم کھلا بولنے لگے … اور دن رات روشن خیالی کا ورد کرنے لگے… اور انہوں نے
پورا پاکستان امریکہ کو کرائے بلکہ پٹے پر دے دیا اور امریکی جہاز پاکستانی اڈوں
سے اڑ کر افغانستان کے مسلمانوں کو برباد کرنے لگے تو
وہ اللہ والے بزرگ بہت غمگین ہوئے… انہوں نے کئی دن تک
استخارہ کیا اور دعاء مانگی تب ان کو خواب میں بتایا گیا معزولٌ او مقتولٌ … اب ان
بزرگوں کی بشارت کے مطابق صدر صاحب معزولی کے بالکل کنارے پر کھڑے ہیں… ان کے تمام
دوست، احباب ان کا ساتھ چھوڑ کر جاچکے ہیں… لاہور کے موسیقار اور فنکار اب ان کے
نام کے نغمے گانا ’’حرام‘‘ سمجھتے ہیں… پورے ملک میں ایک ہی نعرہ ہے گو مشرف گو…
اور کالم نویس بہت کھلی زبان میں صدر صاحب کو گالیاں دے رہے ہیں… پاکستان کا ہر
پتھر ان سے بیزار ہے اور عزت ان سے ہمیشہ کیلئے روٹھ گئی ہے… آگے آگے دیکھئے ہوتا
ہے کیا… ہر وہ شخص جس نے کسی بھی موقع پر صدر مشرف کا ساتھ دیا وہ آج بری طرح سے
پچھتا رہا ہے، اگر لوگوں میں عقل باقی ہے تو اب شاید کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کی
غلطی نہیں کرے گا…
امریکہ
کے دو نائب وزراء صدر مشرف کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لئے کئی دن تک پاکستان
کو گندا کرتے رہے… مگر ہر کسی نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ صدر مشرف کا بوجھ اٹھانا
ہمارے بس کی بات نہیں ہے… ہمارے بعض سیاسی لیڈر امریکہ کے قریبی ’’یارِنار‘‘ ہیں
مگر انہوں نے بھی ادب کے ساتھ عرض کیا کہ ہم امریکہ کی ہر خدمت کے لئے تیار ہیں،
مگر صدر مشرف کو ساتھ رکھنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے…
اللہ اکبر
کبیرا… جنرل مشرف کی گونجتی تقریریں، ’’میں میں ہوں‘‘ کا فخریہ نعرہ، مجاہدین کو
ننگی دھمکیاں، اور غرور سے اکڑی گردن… اور آج کا دن کہ کوئی وزیر خوشی سے ان کو
حلف دینے کے لئے تیار نہیں ہو رہا تھا… ملا محمد عمر مجاہد آج بھی کل کی طرح معزز
ہیں… بلکہ شاید ان کی عزت میں اضافہ ہوا ہے… اور آج بھی لاکھوں مسلمان ان کو اپنا
’’امیر‘‘ مانتے ہیں اور ان کے ایک اشارے پر جان سے گزر جاتے ہیں … معلوم ہوا
کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ ہے اور امریکہ کچھ بھی نہیں… ملا
محمد عمر نے امریکہ سے دشمنی کی اور اللہ تعالیٰ سے دوستی
کی… جبکہ صدر مشرف نے امریکہ سے یاری کو سب کچھ سمجھا… ملا محمد عمر مدظلہ کا نام
آج بھی دلوں میں حرارت پیدا کرتا ہے، … جبکہ صدر مشرف کے قریبی لوگ بھی ان سے دور
بھاگ رہے ہیں…
اے
مسلمانو! عبرت پکڑو امریکہ صدر مشرف کو کچھ نہ دے سکا، امریکہ ملا محمد عمر مجاہد
کا کچھ نہ بگاڑ سکا… اب تو امریکہ کی عظمت دل سے نکال پھینکو… اور یاد رکھو جب
آخرت کی اصل زندگی شروع ہوگی تو امریکہ کے یار بہت زیادہ پچھتائیں گے…
یہ
تو ہوئی ایک بات… دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے دوست پوچھتے ہیں اب جبکہ حکومت بدل
چکی ہے تو اب کیا ہوگا؟…
ہمارا
جواب یہ ہے کہ کل بھی ’’ اللہ ‘‘ اور آج بھی ’’ اللہ ‘‘… بس اہل ایمان حکمرانوں کی
بجائے اللہ تعالیٰ ہی پر توکل رکھیں… پاکستان میں ابھی سب
کچھ وہی ہے… وہی بیوروکریسی، وہی سیاستدان، وہی پولیس، وہی خفیہ ادارے، وہی عقوبت
خانے، وہی لاقانونیت، وہی جاگیرداری، وہی مال وجاہ کی ہوس… اور وہی امریکہ کی
غلامی… اس لئے موجودہ حکومت سے زیادہ امیدیں باندھنے کی ضرورت نہیں ہے… حالات میں
جو بہتری آئے گی وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے آئے گی… اور
حالات میں جو خرابی آئے گی وہ ہمارے ’’ترک جہاد‘‘ اور دیگر گناہوں کی وجہ سے آئے
گی…
آپ
نے دیکھا ہوگا کہ گزشتہ دو ماہ سے ہم نے ملکی سیاست پر زیادہ کچھ نہیں لکھا… وجہ
بالکل واضح ہے کہ موجودہ دور کے حکمرانوں سے امیدیں باندھنا ایک واضح غلطی ہے…
چنانچہ انتخابات کے موقع پر اور اس کے بعد ہم اور ہمارے تمام رفقاء یہی دعاء
مانگتے رہے کہ… یا اللہ ایسے حکمران عطاء فرما جو آپ کو
مانتے ہوں، آپ سے ڈرتے ہوں، آخرت کی فکر رکھتے ہوں… اور جہاد کے حامی ہوں… حضرت
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بہت عجیب نصیحت لکھی ہے…
وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’مسلمان
کی انتہائی ترقی کا راز صرف ’’اسلامی تعلیمات‘‘ پر عمل کرنے میں مضمر ہے، اس کے
سوا کچھ نہیں ہے، لہذا آخری نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ جہاں کسی ناجائز امر کو
دیکھو اور اس کے روکنے پر قدرت ہو اس میں دریغ نہ کرنا اور جہاں قدرت نہ ہو وہاں
نزاع وفساد پیدا نہ کرنا، یہ دو امر نہایت اہم اور دقیق ہیں۔ (الاعتدال فی مراتب
الرجال ص۲۸۸)
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کی اسی نصیحت کے مطابق ہم نے انتخابات وغیرہ پر نہ لکھا اس پر
لکھنا نہ لکھنا برابر تھا… بلکہ لکھنے میں یہ نقصان نظر آتا تھا کہ دینی طبقہ مزید
تقسیم کا شکار نہ ہوجائے… چنانچہ ہم مدینہ منورہ کی حسین راہوں اور یادوں سے اپنا
کالم سجاتے رہے… اور آج جب کہ نئی حکومت بن چکی ہے
تو الحمدللہ حکومت کی طرف کوئی توجہ نہیں کہ وہ ہمارے مسائل
حل کرے گی… بلکہ کل بھی ’’ اللہ ‘‘ آج بھی ’’ اللہ ‘‘… امریکہ کی خوفناک طاقت اور
صدر مشرف کی اس کے ساتھ بھرپور حمایت کے باوجود… جہاد اور مجاہدین کا کیا بگڑا
ہے؟…
آخر
کس نے ان خطرناک حالات میں جہاد اور مجاہدین کی نصرت فرمائی؟…
صرف اللہ تعالیٰ نے، جی ہاں
ایک اللہ تعالیٰ نے جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں… اب
موجودہ حکومت سے خوف اور امید وہی رکھے گا جس کی ٹانگ پر پاگل کتے نے کاٹا ہوگا…
موجودہ حکومت تو خود مسائل کے خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہے… اور تو اور ہر پارٹی کی
خواہش تھی کہ ابتدائی گندگی اٹھانے کے لئے دوسری پارٹی کا وزیر اعظم بَلی (قربانی)
چڑھے… زرداری صاحب نے نواز شریف صاحب کی گردن میں گھنٹی باندھنے کی کوشش کی مگر وہ
بچ گئے… موجودہ حکومت اگر کچھ اچھا کام کرے گی تو خود اس کا اپنا فائدہ ہوگا… اور
اس کی ہر اچھائی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی مسلمانوں کو
نصیب ہوگی… اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کو راضی رکھیں … اور مکمل
اسلام کو مانیں اور اس پر عمل کریں… اور یقین رکھیں کہ بغیر جہاد کے اسلام مکمل
نہیں ہوتا… اور نہ ہی وہ اسلام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے
جس میں جہاد کا انکار یا تحریف ہو…
موجودہ
حکومت کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ دین کو بھی سمجھے اور
حالات کو بھی… ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ کی غلامی کی تو کیا حاصل کیا؟ موجودہ
حکومت اس ذلت ناک غلامی سے ملک کو نکالے… وزیرستان سے لے کر سوات تک تمام فوجی
آپریشن فی الفور بند کرے… اور جامعہ حفصہؓ کی دوبارہ تعمیر، حضرت مولانا عبدالعزیز
صاحب مدظلہ کی رہائی… اور لال مسجد میں ان کی بحالی کا اعلان کرے… ملک کے محسن
جناب ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو رہا کیا جائے… اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو
ان کے عہدے پر بحال کیا جائے… صدر مشرف نے غیر قانونی طور پر جن دینی جہادی
جماعتوں پر پابندی لگائی، ان پر سے پابندی ہٹائی جائے… اور امارت اسلامیہ
افغانستان کے خلاف امریکہ کا تعاون بند کیا جائے… بس یہی سادہ سے چند اقدامات پورے
ملک کو امن اور خوشحالی سے بھر سکتے ہیں… اور اگر خفیہ عقوبت خانے ختم کرکے غیر
قانونی طور پر زیر حراست تمام قیدیوں کو رہا کردیا جائے تو
انشاء اللہ اس ملک پر اللہ تعالیٰ کی
رحمتیں ہر جانب سے برسنا شروع ہوجائیں گی…
نئی
حکومت یہ سارے کام کرتی ہے یا نہیں… یہ اس کی اپنی قسمت… ہم بے گھر فقیروں کو اپنی
نظر ’’جنت کے ٹھکانے‘‘ پر رکھنی ہوگی، اور اللہ تعالیٰ سے
اس پر استقاُمت مانگنی ہوگی… ایک ایسی جماعت جو پورے دین کو مانتی ہو، پورے دین پر
حتی الوسع عمل کرتی ہو… مسلمانوں کو اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ایسی جماعت کی
ضرورت ہے… ایک ایسی جماعت جس میں دو لشکر ہوں، ایک لشکر غزا اور ایک لشکر دعاء…
ایک ایسی جماعت جو کفریہ طاقتوں سے بالکل مرعوب نہ ہو… ایک ایسی جماعت جس میں نماز
سے لے کر جہاد تک کا پورا نصاب موجود ہو… اور جس میں شہادت کا شوق اور تڑپ ہو… یہ
جماعت اسلام کی ضرورت ہے، یہ جماعت مسلمانوں کی ضرورت ہے، یہ جماعت ہم سب کی ضرورت
ہے…
بس
ہمارا اصل کام ایسی جماعت قائم کرنا، اس میں خود کو مٹا کر اپنا فرض ادا کرنا، اس
کے ساتھ وفادار رہنا… اور اس کی تعمیر وترقی کے لئے دن رات محنت کرنا… زمانے کی
قسم سب انسان خسارے میں ہیں… سوائے ان کے جو ایمان لائے، ایمان کے تقاضوں پر چلے،
حق پر خود بھی ڈٹے رہے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتے رہے خود بھی مضبوطی سے
قائم رہے… اور دوسروں کو بھی مضبوط کرتے رہے… بس بھری دنیا میں یہی لوگ کامیاب
ہیں…
یا اللہ ہمیں
کامیاب لوگوں میں شامل فرما… اور ہمیں کامیابی والے کام پر لگا… باقی حالات کیا رخ
پکڑیں گے ؟ تو ہمار ایمان ہے کہ کل بھی اللہ … اور آج
بھی اللہ … بس یہی ہمارا سیاسی موقف ہے… اور یہی ہمارا سیاسی نعرہ ہے…
کل بھی اللہ … آج بھی اللہ … اور
ہمیشہ اللہ ہی اللہ …
٭٭٭
ایک تعزیت … ایک اعلان
اللہ تعالیٰ
ان کے درجات بلند فرمائے…وہ صاحبِ علم، صاحبِ قلم، صاحبِ بیان اور صاحبِ دل بزرگ
تھے… اللہ تعالیٰ نے ان کو ’’خیرِ کثیر‘‘ عطا فرمائی وہ
قرآن پاک کو سمجھتے تھے اور ’’علوم القرآن‘‘ کے ماہر تھے… وہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث
دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی حکمتوں کے امین اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین
احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردِ رشید تھے… انہوں نے سعادت والی لمبی زندگی
پائی ۱۹۱۷ء
سے لیکر ۲۰۰۸ء
تک کا عرصہ… یہ بانوے برس کا سفر انہوں نے علم سیکھتے اور سکھاتے گزار دیا… وہ
دارلعلوم دیوبند کے نامور فاضل تھے، وہ تاریخ اسلامی کے بابرکت محقق حضرت مولانا
سرفراز صاحب صفدر مدظلہ العالی کے چھوٹے بھائی تھے، وہ پنجاب کی معروف و مستند
دینی درسگاہ جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کے بانی تھے… انہوں نے ۱۹۵۲ء
میں اس شاندار مدرسے کی بنیاد رکھی… اللہ تعالیٰ قیامت تک
ان کے اس گلشن کو آباد رکھے… وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے، ان کا مشہور درس قرآن
’’معالم العرفان‘‘ کے نام سے ۲۰ جلدوں
میں شائع ہو چکا ہے… انہوں نے ’’نماز مسنون‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب میں احناف
کی نماز کا عین سنت کے مطابق ہونا مضبوط دلائل سے ثابت کیا… وہ ’’علم المناظرہ‘‘
کے ماہر تھے انہوں نے امام اہلسنت حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کی
خدمت میں رہ کر اس ’’فن‘‘ کی تکمیل فرمائی تھی… وہ ’’طبیب‘‘ بھی تھے انہوں نے طبیہ
کالج حیدر آباد دکن سے طبّ کا چار سالہ کورس کیا تھا،
مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا رخ ’’دوائیاں کوٹنے‘‘ سے قرآن
پاک پڑھانے اور سمجھانے کی طرف پھیر دیا… وہ استاذ العلماء ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ابوالعلماء‘‘
بھی تھے ان کے ایک بیٹے تو فوت ہو گئے جبکہ باقی تینوں بیٹے
ماشاء اللہ جیّد عالم ہیں… وہ جہاد اور مجاہدین سے بہت محبت
فرماتے تھے اور مجاہدین کی عملی کارروائیاں سن کر خوش ہوتے تھے اور انہیں دعاؤں
سے نوازتے تھے… کل مورخہ ۲۸ ربیع
الاول ۱۴۲۹ھ
بروز اتوار اس دار فانی سے کوچ کر گئے…
انا
للہ وانا الیہ راجعون… ان اللہ ما اعطیٰ ولہ مااخذوکل شئی عندہ باجل
مسمّٰی… اللّٰھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ…
چونکہ
ایسی جامع علمی شخصیات کا اٹھ جانا، پوری اُمت کیلئے صدمہ ہے اس لئے ہم… ان کے
صاحبزادوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ پوری اُمت مسلمہ سے بھی ’’تعزیت‘‘ کرتے
ہیں… یہ دنیا ’’عارضی متاع‘‘ اور ’’اُمتحان گاہ‘‘ ہے… ہم سب کو چاہئے کہ غفلتوں
اور دنیا پرستیوں کو چھوڑ کر اپنے وقت کو قیمتی… اور اپنی آخرت کو محفوظ بنانے کی
محنت کریں… اور اس فانی دنیا میں دل نہ لگائیں ؎
کمر
باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت
آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ
چھیڑ اے نکہتِ باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے
اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
اللہ تعالیٰ
حضرت شیخ التفسیررحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے… اور ان کے صدقاتِ جاریہ کو
قبول فرمائے۔
ایک
مبارک تقریب
بہت
سے مسلمانوں کو پچھلے سال کا ایک دن یاد ہو گا… وہ تاریخ تھی ۲۳ ربیع
الاول ۱۴۲۸ھ
کی اور وقت تھا عشاء کے بعد کا… یعنی ۱۲ اپریل ۲۰۰۷ء
جمعۃ المبارک کی رات… اور رات کے سوا گیارہ بجے کا لمحہ… گاؤں کا نام تپّی اور
میدان کا نام تھا ’’وادی الشھداء… جی ہاں کوہاٹ شہر کے مضافات میں اہل ایمان کا
کھچاکھچ بھرا ہوا ایک میدان… جو اس لمحے تکبیر کے نعروں سے گونج رہا
تھا… اللہ اکبر، اللہ اکبر…سبیلناً
سبیلناً الجہاد ، الجہاد… یوں لگتا تھا کہ آسمان سے رحمت نازل ہو رہی ہے… ہزاروں
افراد تھے… مگر ہر کسی پر الگ رنگ تھا اور الگ کیفیت… کوئی آنسو بہا رہا تھا…
کوئی ہچکیاں لے رہا تھا… اور کوئی جوش سے بے ہوش تھا… خوشی بھی تھی اور غم
بھی…جذبات بھی تھے اور تصورات بھی… یہ بہت عجیب منظر تھا، ناقابل فراموش منظر…
انکارِ جہاد کے اس دور میں دعوت جھاد کا غلغلہ… مجمع میں موجود تھے اولیاء بھی،
علماء بھی اور شہداء کے وارث بھی… اس لمحے سب پر حال طاری تھا… اُمت مسلمہ کے
فاتحین اور مستقبل کے فدائی خود کو ’’نورانی سرور‘‘ میں تیرتا ہوا محسوس کر رہے
تھے… پنڈال میں نعرے گونج رہے تھے جبکہ اسٹیج پر ایک ’’بوڑھے بزرگ‘‘ ایک کتاب بانٹ
رہے تھے… انکارِ جھاد کے دور میں ’’آیات الجھاد‘‘ کی
کتاب… اللہ اکبر کبیرا…
کیا
آپ کو وہ منظر یاد ہے…؟… میں نے ایک صاحب سے پوچھا وہ تقریب کیسی تھی… فرمانے لگے
یوں لگتا تھا کہ جنت میں بیٹھا ہوں… خیر دنیا میں جنت کہاں؟… البتہ ایسی مبارک
مجلسیں جنت تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں… اب آپ ایک اور تاریخ لکھ لیں… چند دن
بعد ہونے والے ایسے ہی ایک اجتماع کی تاریخ…مورخہ ۱۹ ربیع
الثانی ۱۴۲۹ھ
بمطابق ۲۶ اپریل ۲۰۰۸ء
ہفتہ کا دن… عشاء کی نماز کے بعد کا وقت… اور بہاولپور کی ’’مرکزی عید گاہ‘‘…
انشاء اللہ ’’فتح الجوّاد‘‘ کی دوسری جلد کا افتتاح ہو
گا…پھر اہل ایماں، اہل جنوںجمع ہونگے… پھر اللہ والے مل
بیٹھیں گے… ماشاء اللہ ، انشاء اللہ …
جو
مسلمان پچھلی تقریب میں شریک تھے وہ اس میں بھی آ جائیں … وہ جو کرایہ خرچ کریں
گے وہ بھی قیمتی… اور جو قدم اٹھائیں گے وہ بھی
قیمتی… اللہ کے بندو! جھاد کے فریضے کا احیاء کوئی معمولی
کام نہیں ہے… ربّ کعبہ کی قسم کوئی معمولی کام نہیں ہے… اور یہ تقریب بھی اسی
سلسلے کی ایک کڑی ہے…
اور
جو پچھلی تقریب میں شرکت سے رہ گئے تھے وہ آج ہی دو رکعت نماز ادا کر
کے… اللہ تعالیٰ سے شرکت کی دعا مانگیں اور ابھی سے تیاری
شروع کر دیں… ممکن ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ تقریب
پچھلی تقریب سے بھی زیادہ بابرکت …اور مفید ہو… الحمدللہ … مدینہ منورہ کے پروانوں
نے ’’اجتماع‘‘ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں… اور انہوں نے سب سے پہلے اپنے مالک کو
پکارا ہے… جی ہاں پورے ملک میں دین کے دیوانے، مدینہ پاک کے پروانے اس اجتماع کی
کامیابی کیلئے دعائیں اور وظیفے کر رہے ہیں…
میں
اپنی مسلمان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے خاص طور پر دعاء کی درخواست کرتا ہوں…
ہماری جماعت کے پورے کام میں ہماری ماؤں، بہنوں کی دعاؤںکا بہت دخل ہے… انکی
مخلصانہ اور والہانہ دعائیں جماعت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت
کے برسنے کا ذریعہ بنتی ہیں… گزشتہ آٹھ سال میں جماعت نے بہت نشیب و فراز دیکھے…
کئی لوگ ٹوٹے، ان سے زیادہ مزید لوگ جڑے، جماعت کے خلاف باتیں بھی بہت پھیلائی
گئیں… مگر آفرین اپنی غیور ماؤں، بہنوں پر جو اس پورے عرصہ میں جماعت کے ساتھ
جڑی رہیں اور غائبانہ دعاؤں سے مدد بھیجتی رہیں… اللہ پاک
ان سب کو’’اجر عظیم‘‘ عطاء فرمائے…
امید
ہے کہ اس اجتماع کے لئے بھی ماؤں، بہنوں کی طرف سے دعاؤں کا…
انشاء اللہ خاص اہتمام ہوگا…
ابھی
انیس دن باقی ہیں… ایسی مبارک تقریب، اور اتنے مفید اجتماع کے انتظار میں ایک ایک
دن بھاری ہے… ہر طرف طوفان بھی ہیں اور اندھیرے بھی… مگر ہم
نے اللہ تعالیٰ کا نام لیکر…
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘پڑھ کر ان طوفانوں میں کشتی ڈال
دی ہے…
شب
تاریک و بیم موج و گردابے چنیں ھائل
دل
افگندیم بسم اللہ مجرٖیھا ومرسٰھا
ایک
رب کے سہارے… ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے… بے
شک اللہ ایک ہے… اس کا کوئی شریک
نہیں…یا اللہ مدد فرما… یا اللہ مدد
فرما… یا اللہ مدد فرما…
آمین
وصل اللّٰھم علی حبیبک سیّدنا و مولانا وشفیعنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیراًکثیرا
٭٭٭
کتاب…… کراچی
اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے، اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے آج چند باتیں عرض کرنی ہیں:
ایک
مبارک کتاب
آج
صبح سے میں اس بابرکت اور حیرت انگیز کتاب میں کھویا ہوا ہوں… ایک بار رکھتا ہوں
تو پھر دوبارہ اٹھا لیتا ہوں… اور پھر شوق اور بے تابی کے ساتھ کبھی کہاں سے شروع
کردیتا ہوں اور کبھی کہاں سے… اور پھر کبھی اسے چومتا ہوں اور کبھی اس پر احتیاط
سے اپنا پسندیدہ عطر لگاتا ہوں…
اس
کتاب کا ہر صفحہ خوشبودار ہے، منور ہے، معطر ہے… اس کتاب میں میرے آقا حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ سو ستتر (۱۱۷۷) اسماء مبارکہ مہک
رہے ہیں… حضرت مخدوم سیّد محمد ہاشم سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے کمال کیا اور بڑا کام
کیا… اسی کتاب کے مرتب نے لکھا ہے کہ سخت گرمی کے موسم میں بھی حضرت مخدوم رحمۃ
اللہ علیہ کی قبر ٹھنڈی رہتی ہے… بے شک عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
بڑی نعمت ہے… اللہ تعالیٰ مولانا نوید انور صاحب کو بہت بہت
جزائے خیر عطاء فرمائے کہ انہوں نے اور ان کے رفقاء نے اس کتاب کی ترتیب واشاعت
میں جان توڑ محنت کی ہے… ماشاء اللہ عجیب سرورق (ٹائٹل)
بنایا ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر نام مبارک کو درود پاک
سے سجایا ہے… کتاب کو آرٹ پیپر پر چار رنگوں سے مزین کیا ہے… قصیدہ بردہ کا بھی
خوب ساتھ جوڑا ہے… ہر صفحے پر دلکش تصاویر کی کہکشاں بھی چمکائی ہے… اور آخر میں
بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام دے کر دعوت جہاد کی ذمہ داری بھی
ادا کی ہے… آپ یقین کریں یہ کتاب بہت نافع، بہت بابرکت اور بہت حسن والی ہے… میں
نے کل ہی کراچی سے منگوائی مگر ابھی تک اس کے ایک صفحے سے بھی آنکھیں سیر نہیں
ہوئیں… یہ تو ماشاء اللہ عجائبات کا مجموعہ ہے… کتاب کا نام
ہے ’’حدیقۃ الصفا فی اسماء النبی المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہمارے قارئین بھی
پتا نوٹ فرما لیں… مکتبہ رازی سلام کتب مارکیٹ، بنوری ٹاؤن
کراچی… اللہ اکبر کبیرا… زمانے کے ابوجہل اور ابولہب جب ذات
نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر گستاخیوں کے پتھر پھینکنے لگے تو اُمت
مسلمہ میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ پھیل گیا … یہ کتاب تین
سو سال پہلے لکھی گئی مگر شائع اب ہوئی… بے شک یہی اس کا بہترین وقت تھا، آج
مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہے… جی ہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذات مبارک سے محبت ہوگی تو دین پر چلنا آسان ہوگا… جہاد کرنا لذیذ ہوگا… اور دین
کے دشمنوں سے ٹکرانا اور انہیں مٹانا مسلمانوں کا قلبی شوق بن جائے گا… اس کتاب کے
مرتب اور ناشر سعدی فقیر کی طرف سے مبارکباد قبول فرمائیں…
اہل
کراچی ہوشیار
پیارا
شہر کراچی پھر منہ زور فتنوں کی لپیٹ میں آتا محسوس ہو رہا
ہے… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے… صدر پرویز کے ڈوبتے اقتدار کو
اب دو ہی چیزوں کا سہارا ہے… ایک امریکہ اور دوسرا لسانیت پرست عناصر… ظلم اور بے
حیائی کی آٹھ سالہ تاریک رات مسلمانوں پر جاری رہے… یہ امریکہ کی سب سے بڑی خواہش
ہے… اور مسلمانوں کو مدینہ والے پاک عربی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
توڑنے والے لسانیت پرست عناصر بھی امریکہ، برطانیہ کا ساتھ دے رہے ہیں…
کراچی
نے بہت ظلم دیکھا ہے… بہت ستم سہے ہیں… اللہ کرے اب کراچی
آزاد ہوجائے اور کراچی دین کا اور امن کا گہوارہ بن جائے… ملک کے حالات خراب کرنے
کے لئے قاتلوں کو اشارہ دے دیا گیا ہے… اور مظلوم لاوارث لاشوں کے لئے بوریاں تیار
کرلی گئی ہیں… کراچی والو ہوشیار رہو… یہ عذاب ٹل سکتا ہے اگر
تم اللہ تعالیٰ کو راضی کرلو، اپنے حقیقی مالک کو منالو… اس
کے لئے ایک چھوٹا سا نصاب پیش خدمت ہے:
۱۔ نماز
باجماعت کا اہتمام ہو، مساجد کی آبادی کی برکت سے شہر ویران ہوجانے سے بچ جاتے
ہیں۔
۲۔
زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کا اہتمام ہو، خصوصاً جہاد میں مال لگائیں، اس سے مصیبتیں
ٹل جاتی ہیں… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاد میں مال لگایا تو
ان کے علاقے ایسے پرامن ہوئے کہ بدامنی کا نام ونشان باقی نہ رہا اور وہ خود روم
وفارس کے خزانوں کے مالک بن گئے… سورۃ توبہ کی تفسیر میں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ
علیہ اور دیگر مفسرین نے یہ نکتہ بیان فرمایا ہے، اہل علم ان تفاسیر میں ملاحظہ
فرمالیں…
۳۔
زنا، بدکاری اور بے حیائی سے اچانک موت کا عذاب آتا ہے، اس لئے ان گناہوں کے
سدّباب کی کوشش کی جائے… گھر سے نکلتے ہی دعاء کیا کریں کہ
یا اللہ میرے کان، آنکھیں، زبان، دل سب آپ کا دیا ہوا ہے
میں ان چیزوں کو آپ کی پناہ میں دیتا ہوں… انہیں اپنی نافرمانی سے بچائیے…
۴۔
گھروں سے ٹی وی نکال دیں یہ فتنوں کی جڑ ہے…
۵۔
گھر سے پہلا قدم باہر رکھتے ہی آیت الکرسی پڑھ لیا کریں… اور قرآن پاک کی آخری دو
سورتیں کثرت سے پڑھیں…
۶۔
درود شریف کی کثرت کریں اس سے رحمت نازل ہوگی اور زحمت ٹل جائے گی…
۷۔
استغفار کا اہتمام کریں، استغفار اس اُمت کی امان ہے…
۸۔
ہر زبان بولنے والا مسلمان اپنے ہم زبان لوگوں کو ’’لسانیت پرستی‘‘ سے بچنے کی
دعوت دے… لسانیت پرستی کا نعرہ بدبودار ہے اور یہ ذلت کاسبب ہے… اردو بولنے والے
اردو بولنے والوں کو، پشتو والے پشتو والوں کو، پنجابی والے پنجابی بولنے والوں کو
الغرض ہر قوم میں سے مدینہ منورہ کے غلام کھڑے ہوںاور لوگوں کو اس ذلت اور گناہ سے
بچنے کی دعوت دیں…
۹۔
روزانہ کی تلاوت کا اہتمام کریں، قرآن پاک کے سامنے کوئی باطل اور کوئی عذاب نہیں
ٹھہر سکتا…
۱۰۔
ہر طرح کے جھگڑوں، دنگوں، اختلافات اور نزاعات سے بچیں، مسلمانوں کا باہمی نزاع ان
پر عذاب کا ذریعہ بنتا ہے…
اللہ تعالیٰ
کراچی اور اہل کراچی پر رحم فرمائے… اور اس شہر کی حفاظت فرمائے… یہ مجاہدین،
علماء اولیاء اور دین کے خادموں کا شہر ہے…
اجتماع
کی طرف
اللہ تعالیٰ
توفیق عطاء فرمائے بہاولپور کے اجتماع میں شرکت کی ضرور کوشش کریں… پچھلے سال کے
اجتماع میں شریک کئی بہادر نوجوان کافروں اور مشرکوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں…
بس اسی سے اندازہ لگائیں کہ اس طرح کے اجتماعات میں آپ کو کن لوگوں کی صحبت نصیب
ہوتی ہے…
جی
ہاں فاتحین، مقبولین اور مستقبل کے شہداء کرام کی صحبت… ان لوگوں کی صحبت جو دین
کی خاطر اپنے جسم کا ہر ذرّہ قربان کرتے ہیں… ایسے اجتماعات میں شرکت ’’مغفرت‘‘ کا
ذریعہ بنتی ہے… اور آپ کو اُمت مسلمہ کے ساتھ اپنی آواز ملانے کا موقع دیتی ہے…
امریکہ اور نیٹو سے لڑنے والے، گستاخان رسول کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے والے اور
مشرکین کی گردنیں توڑنے والے لوگ… اللہ تعالیٰ کے وہ اولیاء
ہیں جن کی زیارت بھی انشاء اللہ باعث سعادت ہے… آج ہر
مسلمان دنیا اور مال بنا رہا ہے جبکہ یہ دیوانے اپنا سب کچھ قربان کرکے دین کی
حفاظت کر رہے ہیں… آپ سب کی خدمت میں درد مندانہ گذارش ہے کہ اپنا مال اور وقت خرچ
کرکے اس اجتماع میں شرکت فرمائیں… اور اپنی شرکت کو ’’مقبول‘‘ بنانے کے لئے ان
امور کا خیال رکھیں:
۱۔ نیت
خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کی ہو اور مقصد یہ ہو
کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی سربلندی والی محنت میں ہمارا حصہ
شامل ہوجائے۔
۲۔
قرآن پاک بار بار سمجھاتا ہے کہ غیر جہادی اسلام قابل قبول نہیں ہے، جہاد قرآن کا
حصہ ہے، جہاد اسلام کا حصہ ہے اور جہاد اس دین کا سب سے بلند مقام ہے، اب آپ خود
اندازہ لگائیں کہ اسلام کا یہ فریضہ مسلمانوں کو سکھانا اور سمجھانا کتنا ضروری
ہے… ورنہ دنیا بھر کے کافر اور منافق مسلمانوں کو یہی سمجھا رہے ہیں کہ اسلام میں
سے جہاد کو نکال دو یا اس کا معنیٰ بدل دو۔
۳۔
قربانی کے جذبے کے ساتھ آئیں، سفر کی تکالیف کو اجر سمجھ کر برداشت کریں، کھانے
پینے کی طرف زیادہ توجہ نہ رکھیں، ہر وقت معدہ بھرا رکھنا مومن کی شان نہیں ہے، اس
لئے کھانے پینے کے معاملے میں گزارہ کریں اور
توجہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف رکھیں، زندگی کا ایک دن
اور ایک رات اگر دین کی خاطر بھوک، پیاس اور بے آرامی میں گزرے تو سعادت ہے…
انشاء اللہ زندگی کے ایسے دن اور ایسی راتیں ہی ہمارے اصل
کام آئیں گی۔
۴۔
اپنے دماغ سے تنقید کی کیسٹ اور سی ڈی نکال کر گھر چھوڑ جائیں… یہ عادت ہمیں ہر اس
جگہ محروم رکھتی ہے جہاں ہم کچھ پا سکتے ہیں… اسلام کے احکامات بہت وسیع اور اونچے
ہیں… گھڑی کس ہاتھ میں باندھی جائے اور کیلا کیسے کھایا جائے اسلام اسی کا نام
نہیں ہے… لوگوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے حلقے مضبوط بنانے کیلئے بعض ذوقی چیزوں کو اصل
دین بنایا ہوا ہے… ہم بار بار جو عرض کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ
علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل اور
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات زندگی پڑھیں… اس کا ایک مقصد یہ بھی
ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو فضول تنگ نظری سے نجات ملے… اس اجتماع میں کچھ پانے اور
حاصل کرنے کی نیت سے تشریف لائیں… راستے میں دعاء کرتے آئیں کہ
یا اللہ اس شرکت کو میری اصلاح کا ذریعہ بنا… ہر بیان سے
پہلے دعاء کریں کہ یا اللہ اس بیان میں میری اصلاح کا سامان
عطاء فرما… اور کہنے والے کی زبان سے میری غلطیوں کا علاج عطاء فرما۔
۵۔
خدمت کے جذبہ سے آئیں… خدمت کرنے والوں کے لئے فرشتے دعائیں کرتے ہیں… اپنے رفقاء
سفر کی خدمت اور اجتماع میں شریک مسلمانوں کی خدمت … یاد رکھیں دینے والا ہاتھ
لینے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے… آپ یہی نیت کریں کہ میں دوسروں کی خدمت کروں گا
اور دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں گا… تب اللہ تعالیٰ آپ کو
دوسروں کی خدمت کے اسباب اور وسائل عطاء فرمائے گا… لیکن اگر دوسروں پر بوجھ بننے
کی نیت ہو تو انسان حقیر ہوجاتا ہے… اللہ پاک حفاظت فرمائے۔
یہ
ہے اجتماع میں اپنی شرکت کو قیمتی بنانے والی ایک آسان سی ترتیب
… اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے… یہ مشورہ
بھی آرہا تھا کہ خواتین کے لئے بھی شرکت کا نظام بنایا جائے، مگر دعاء اور غور و
خوض کے بعد … یہی طے ہوا ہے کہ شرعی حدود کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے یہ انتظام
کرنا اتنے مختصر سے وقت میں ممکن نہیں ہوپائے گا… اب ہماری مائیں بہنیں خود تو
اجتماع میں شریک نہیں ہوسکیں گی مگر وہ اجتماع کا پورا پورا فائدہ اٹھا سکتی ہیں…
اور خوب اجر اور برکت انشا ء اللہ حاصل کرسکتی ہیں… اور وہ
اس طریقے سے کہ
۱۔ روزانہ
اجتماع کی عند اللہ قبولیت، کامیابی اور حفاظت کی دعاء کرتی رہیں
۲۔
گھر کے مردوں کو اجتماع پر بھیجیں اور ان کا سامان اپنے ہاتھوں سے تیار کریں
۳۔
اپنے بھائی، بیٹے یا کسی غریب رشتہ دار کو اجتماع میں جانے کا کرایہ دیں
۴۔
اجتماع کے انتظامات میں اپنا حصہ ڈالیں
۵۔
اجتماع کی کیسٹیں منگوا کر سنیں
۶۔
’’فتح الجوّاد‘‘ لے کر خود بھی پڑھیں اور دوسروں تک بھی پہنچائیں
۷۔
اجتماع والی رات صلوٰۃ الحاجۃ اور درود شریف پڑھ کر خاص دعاء کا اہتمام کریں
وصلی اللہ تعالیٰ
علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا
٭٭٭
زندہ آنسو
اللہ تعالیٰ
کا بے حد احسان اور شکر ہے کہ… فتح الجوّاد کی دوسری جلد شائع ہوگئی ہے…
ماشاء اللہ پہلی جلد سے زیادہ خوبصورت اور وزنی ہے…
بہاولپور میں آج سے چار دن بعد انشاء اللہ اس کی تقریب
رونمائی ہے… سنا ہے کہ خوب تیاری ہورہی ہے اور ہر طرف ’’دعوتِ جہاد‘‘ کی بہار نظر
آرہی ہے… کراچی سے لے کر خیبر تک بسوں اور کوچوں کے قافلے بہاولپور جانے کے لئے
تیار ہیں… ماشاء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ … ایسے وقت میں
مجھے کچھ لوگ، جی ہاں بڑے لوگ یاد آرہے ہیں… یہ ۹ھ کا زمانہ تھا
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تیس ہزار جانثاروں کے ساتھ
غزوۂ تبوک کے لئے تشریف لے جارہے تھے مگر… کچھ لوگ رو رہے تھے، بہت زیادہ رو رہے
تھے… قافلہ جارہا تھا اور دور ہو تا جارہا تھا مگر… ان حضرات کے پاس سواریاں نہیں
تھیں کہ ساتھ جاسکیں… آئیے جہاد کی محبت میں رونے والے ان حضرات کا تھوڑا سا تذکرہ
کرلیتے ہیں… جی ہاں تفاسیر کی روشنی میں تھوڑا سا مگر بہت دلکش تذکرہ … اور پھر
آخر میں ایک چھوٹی سی بات…
کچھ
تذکرہ جہاد کے مخلص عاشقوں کا
قرآن
پاک نے سورۂ توبہ کی آیت (۹۲) میں
جہاد کے سچے عاشقوں کا عجیب تذکرہ فرمایا ہے… یہ لوگ معذور تھے، ان کے پاس سواری
نہیں تھی مگر وہ شوق جہاد میں بلک بلک کر تڑپ تڑپ کر رو رہے تھے…
۱۔ ایک
طرف منافقین تھے جو اسباب ہونے کے باوجود جھوٹے بہانے بنا رہے تھے اور ایک طرف یہ
مخلص عاشقینِ جہاد تھے کہ معذور ہونے کے باوجود غم اور بے چینی سے آنسو بہا رہے
تھے…
۲۔
لوگ مصیبتوں، تھکاوٹوں اور سختیوں سے بچنے کے لئے ہر محنت کرتے ہیں جبکہ اسلام کے
یہ بیٹے خود کو جہاد، گرمی اور سفر کی تکلیف میں ڈالنے کے لئے رو رہے تھے…
۳۔
یہ لوگ بھی کہہ سکتے تھے کہ جہاد لغت میں محنت کو کہتے ہیں اور ہم مدینہ میں رہ کر
محنت کرکے جہاد کا ثواب لے لیتے ہیں مگر وہ دین کو سمجھنے والے صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین تھے ان کے پاس نہ جانے کا سچا عذر بھی تھا مگر پھر بھی ان کی
آہیں اور نالے آسمان کو ہلا رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جہاد کیا ہے اور جہاد
میں کتنی فضیلت ہے…
۴۔
ان کے آنسو سچے تھے، اللہ پاک نے ان کو اتنا پسند فرمایا کہ
ان کے آنسوؤں کا تذکرہ قرآن پاک کا حصہ بنادیا اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر جہاد کے دوران
انہیں یاد رکھا اور فرمایا کہ وہ ہمارے اجر میں شریک ہیں…
۵۔ اللہ تعالیٰ
ان حضرات کو پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے کہ ان کے آنسو آج تک
جہاد کے مسئلے پر پڑنے والے ہر تحریفی غبار کو دھو کر رکھ دیتے ہیں… (و
اللہ اعلم بالصواب)
جوتے
دیدیجئے ہم پیدل دوڑتے جائیں گے
مفسرین
نے لکھا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے یہاں تک عرض کیا کہ ہمیں سواری نہیں ملتی تو
کوئی حرج نہیں ہمیں چمڑے کے موزے اور جوتے مل جائیں تو ہم مجاہدین کے اونٹوں کے
ساتھ دوڑتے جائیں گے…
علامہ
آلوسی پ لکھتے ہیں:
فکانہم
قالوا: احملنا علیٰ مایتیسر او المراد احملنا ولو علی نعالنا واخفافنا۔ (روح
المعانی)
تفسیر
مظہری میں ہے:
یہ
بھی کہا گیا ہے کہ (جن لوگوں کے پاس سواریاںنہ تھیں ان) لوگوں نے یہ خواہش کی تھی
کہ ہم کو پیوند لگے موزے اور مرمت کی ہوئی جوتیاں عنایت کردیجئے تاکہ ہم آپ کے
ساتھ دوڑ سکیں۔ (مظہری)
ان
کے آنسو نہیں … گویا آنکھیں بہہ رہی تھیں
’’اعینہم
تفیض من الدمع: یہ جملہ بہت بلیغ ہے کہ اس میں آنکھ ہی کو بہتا ہوا
آنسو بنادیا گیا۔ (مفہوم ماجدی)
اللہ ، اللہ جہاد
کتنی بڑی چیز ہے، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو سمجھتے تھے اس
لئے اس سے محرومی کے غم کی وجہ سے ان کے آنسو اس قدر بہہ رہے تھے کہ گویا آنکھیں
ہی بہہ جائیں گی… اسی وجہ سے ان کا نام ’’البکّاؤن‘‘ یعنی بہت رونے والے پڑ گیا…
امام
قرطبی پ لکھتے ہیں:
فَسُمّوا
البکائین (القرطبی)
سات
بھائی، ساتوں صحابی، ساتوں مجاہد
امام
قرطبی پ لکھتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق یہ آیت سات بھائیوں کے متعلق نازل ہوئی یہ
سب ’’مقرّن‘‘ کے بیٹے تھے، ان کے اسماء گرامی یہ تھے:
۱۔ نعمان ۲۔
معقل ۳۔عقیل ۴۔سوید ۵۔سنان ۶۔عبد
اللہ ۷۔عبدالرحمن
رضی اللہ عنہم اجمعین
یہ
سب ’’صحابی‘‘ تھے اور ان کے علاوہ یہ شرف کسی کو حاصل نہیں کہ سات بھائی صحابی
ہوں… انہوں نے ہجرت کی اور یہ ساتوں بھائی غزوہ خندق میں حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے…
وقیل
نزلت فی بنی مقرّن وعلیٰ ہذا جمہور المفسرین ۔ وکانوا سبعۃ اخوۃ کلہم صحبوا
النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولیس فی الصحابہ سبعۃ اخوۃ غیرہم… ہاجروا
وصحبوا الرسول صلی اللہ علیہ وسلم … وقد قیل انہم شہدوا الخندق کلہم
(القرطبی)
تنبیہ: جن
حضرات کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ان کی تعیین میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں
ملاحظہ فرمائیے قرطبی، ابن کثیر، مظہری، روح المعانی۔
اس
پر روتے تھے کہ قربانی سے رہ گئے
’’شدّت
درد و غم سے بے اختیار ہو کر رونے لگتے تھے۔ کس بات پر؟ اس پر کہ عیش و راحت میں
انہیں حصہ نہیں ملا؟ نہیں… اس پر کہ راہِ حق کی مصیبتوں اور قربانیوں میں شریک
ہونے سے رہ گئے۔‘‘ (ترجمان القرآن)
ان
کے آنسو آج بھی زندہ ہیں
’’
ان کے دردو غم کا یہ حال تھا کہ ’’البکّائین‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے تھے، یعنی
بہت رونے والے (ابن جریر)۔
سبحان اللہ
، ان چند آنسوؤں کی قدر و قیمت جو ایمان کی تپش سے بہے تھے کہ ہمیشہ کے لئے ان کا
ذکر کتاب اللہ نے محفوظ کردیا… آج بھی کہ تیرہ صدیاں گزر
چکی ہیں، ممکن نہیں، ایک مؤمن یہ آیت پڑھے اور ان آنسوؤں کی یاد میں خود اسکی آنکھیں
اشکبار نہ ہوجائیں۔‘‘ (ترجمان القرآن)
کوئی
ہے جو ایسی مثال لائے؟
حضرت
شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے
ہیں:
’’سبحان اللہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے
دلوں میں عشق الٰہی کا وہ نشہ پیدا کیا تھا جس کی مثال کسی قوم وملت کی تاریخ میں
موجود نہیں… مستطیع اور مقدور (یعنی استطاعت اور قدرت) رکھنے والے صحابہ (ڑ)کو
دیکھو تو جان و مال سب کچھ خدا کے راستے میں لٹانے کو تیار ہیں اور سخت سے سخت
قربانی کے وقت بڑے ولولہ اور اشتیاق سے آگے بڑھتے ہیں (اور) جن کو مقدور (یعنی
قدرت) نہیں وہ اس غم میں رو رو کر جان کھوئے لیتے ہیں کہ ہم میں اتنی استطاعت کیوں
نہ ہوئی کہ اس محبوب حقیقی کی راہ میں قربان ہونے کے لئے اپنے کو پیش کرسکتے، حدیث
صحیح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو خطاب کرکے فرمایا کہ تم
مدینہ میں ایک ایسی قوم کو پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہر قدم پر تمہارے اجر میں شریک
ہے، تم جو قدم خدا کے راستے میں اٹھاتے ہو یا کوئی جنگل قطع کرتے ہویا کسی پگڈنڈی
پر چلتے ہو، وہ قوم برابر ہر موقع پر تمہارے ساتھ ساتھ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں
واقعی مجبوریوں نے تمہارے ہمراہ چلنے سے روکا … حسن پ کے ’’مرسل‘‘ میں ہے کہ یہ
مضمون بیان فرما کر آپ نے یہ ہی آیت
ولا
علی الذین اذا ما أتوک لتحملہم قلت لا اجد الخ
تلاوت
فرمائی۔ (تفسیرعثمانی)
ایک
چھوٹی سی بات
ہم
سب نے چند بڑے لوگوں کا تذکرہ پڑھ لیا… یقینا آنکھیں بھی بھیگ گئیں… آپ نے سوچا کہ
اس ’’تذکرے‘‘ سے ہمیں کیا سبق ملا؟… یہی نا! کہ جہاد میں جانے کے لئے پور ازور
لگانا چاہئے کہ مسلمان کو جہاد میں بڑی کامیابی ملتی ہے… اور اگر نہ جا سکیں تو
پھر آنسو بہانے چاہئیں… یہ بالکل ٹھیک مگر ایک اور بات بھی تو سمجھ میں آتی ہے …
وہ یہ کہ نیت سچی ہو تو اللہ تعالیٰ کسی کو محروم نہیں
فرماتا … اس نے کسی کو سواری دی، کسی کو راستہ دیا، کسی کو طاقت دی، کسی کو امن
دیا… اور کسی کو ان چیزوں میں سے کچھ نہ دیا تو آنسو دے دیئے … انہوں نے سچے آنسو
بہائے اورسواری والوں کے ساتھ پہنچ گئے اور اجر پا گئے… بہاولپور میں
انشاء اللہ ’’فتح الجوّاد‘‘ کی تقریب ہوگی… کچھ لوگ بسوں
میں جائیں گے … قریب والے پیدل آئیں گے… زیادہ دور والے جہازوں اور ریل گاڑیوں سے
آئیں گے… مگر ہم ؟؟؟… ٹھیک ہے اگر نہ جاسکے تو آنسو تو بہالیں گے… جی ہاں دنیا کا
کوئی جبر آنسو بہانے سے تو نہیں روک سکتا… تشکر کے آنسو، استغفار کے آنسو، التجا
اور شوق کے آنسو… دعوتِ جہاد کے اجتماع میں جانے والو! مبارک ہو، بہت مبارک…
٭٭٭
قوتِ برداشت
اللہ تعالیٰ
کی رحمت اور نصرت ہوئی… الحمدللہ بھاولپور کا اجتماع بہت
مفید اور مثالی رہا… اللہ پاک اپنے فضل سے قبول فرمائے، اور
اس کے مثبت اثرات اُمت مسلمہ کو عطاء فرمائے… آج کے ’’القلم‘‘ میں آپ اجتماع کی
کارگذاری پڑھ لیں گے… حضرات علماء کرام نے احسان فرمایا کہ اتنی بڑی تعداد میں
’’اجتماع‘‘ کو رونق بخشی… کچھ حضرات باوجود خواہش کے شرکت نہ فرما سکے… مگر انہوں
نے دعاؤں اور نیک تمناؤں کے پیغامات بھیجے… اجتماع رات بھر جاری رہا اور فجر کی
اذان کے بعد ختم ہوا… جن بزرگوں اور علماء کرام کو اس طوالت سے تکلیف پہنچی ہو ان
کی خدمت میں معذرت عرض ہے… ماشاء اللہ اچھے بیانات ہوئے،
انتظامات بھی بہترین تھے… اور الحمدللہ شرکت کرنے والوں کے
تأثرات بہت ایمان افروز ہیں… ایک شہید کے والد صاحب فرما رہے تھے کہ اس اجتماع نے
تو مجھے جوان کردیا ہے… آئیے خوشی کے اس موقع پر چند باتوں کا مذاکرہ کرلیتے ہیں…
حضرت
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عجیب عبارت
غزوۂ
بدر میں مسلمانوں کوعجیب خوشی نصیب ہوئی… اسی خوشی کی تھکاوٹ میں تھوڑا سا اختلاف
بھی ہوگیا… حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
جنگ
میں بعضے آگے بڑھے اور بعضے پشت پر رہے، جب غنیمت جمع ہوئی بڑھنے والوں نے کہا یہ
حق ہمارا ہے فتح ہم نے کی اور پشتی (یعنی پیچھے سے مدد کرنے) والوں نے کہاتم ہماری
قوت سے لڑے… حق تعالیٰ نے دونوں کو خاموش کیا کہ
فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے… زور کسی کا پیش نہیں جاتا…
(یعنی کام نہیں آتا)
سو
مالک مال کا اللہ تعالیٰ ہے اور نائب اس کا
رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، پھر آگے بہت دور تک یہی بیان فرمایا کہ
فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے اپنی قوت سے نہ سمجھو۔(موضح
القرآن)
اس
عبارت سے دو سبق ملے پہلا یہ کہ بڑی خوشی کے بعد اختلافات کا خطرہ ہوتاہے، پس
جماعت کا ہر فرد جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتا ہے… اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا اُمتی ہے… وہ
خود کو اختلاف میں پڑنے سے بچائے… اور اختلاف ڈالنے والی کوئی بات زبان سے نہ
نکالے… ورنہ اپنی زندگی بھر کے اعمال برباد کر بیٹھے گا…
اور
دوسرا سبق یہ کہ کوئی بھی اپنی ذات اور محنت پر نظر اور فخر نہ کرے… بلکہ یہی محکم
عقیدہ رکھے کہ جو کامیابی ملی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہی
سے ملی ہے…
اجتماع
کے فوراً بعد کا پیغام
الحمدللہ جس
وقت اجتماع کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی تھی… اپنے اور غیر سب حیران تھے… غریب مجاہدین
عجیب خوشی اور سرشاری محسوس کر رہے تھے… اس وقت جماعت کے خادم کی طرف سے یہ پیغام
ہر طرف بھجوایا جارہا تھا…
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام
ہم جماعت ساتھیوں کے لئے رحمت الٰہی کی دعاء… اور
مبارکباد… اللہ تعالیٰ نے بہت احسان اور فضل فرمایا،
ماشاء اللہ ، بارک اللہ … اللہ پاک
قبول فرمائے، تمام ساتھی اللہ پاک کی رضا کیلئے فوراً یہ
پانچ کام کرلیں:
۱ دو
رکعت شکرانے کی نماز ادا کریں
۲ ایک
سو بار سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم وبحمدہ استغفر اللہ پڑھیں
۳ تین
سو بار یہ استغفار پڑھیں : یا غفار اغفرلی ذنوبی
۴ ’’فتح الجواد‘‘ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک
پہنچانے کی کوشش کریں آپ کا اجر بھی شامل ہوجائے گا
۵ قرآن
پاک کے دو جملے ہیں (پہلا) ’’ اللہ پاک ہی نے بدرمیں تمہاری نصرت
فرمائی جبکہ تم کمزور تھے‘‘… اس جملے کی کیفیت ہم سب پر طاری رہے۔ (دوسرا) ’’اور
حنین کے دن تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہوا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور کشادہ
زمین تم پر تنگ ہوگئی‘‘۔ اس جملے کے مطابق ہم عُجُب اور فخر سے بچیں… والسلام خادم
جن اللہ کے
بندوں نے سچی بیعت کی ہے … اپنے رب کو راضی کرنے اور اپنی آخرت کو کامیاب بنانے
کیلئے … انہو ں نے اس پیغام پر عمل کیا…
یوں
برکتیں محفوظ ہوگئیں… اور خوشبوئیں لافانی بن گئیں…
ماشا
ء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ …
ایک
افواہ
ریٹائرڈ
جنرل پرویز مشرف نے بہاولپور میں ہمیشہ ایسی انتظامیہ تعینات رکھی… جو ہماری جماعت
کو ستاتی رہے، دباتی رہے… اس انتظامیہ کی کچھ ’’باقیات سیئات‘‘ اب بھی موجود ہیں…
اس بار اللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کرام کے خون کی برکت
اور اُمت مسلمہ کی دعائیں رنگ لائیں اور انتظامیہ نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی… مگر ایک
خاص برانچ کے کچھ بدقسمت افسر مووی کیمرے لاکر ماحول کو خراب اور مشکوک بناتے رہے…
بعض لوگوں نے سمجھا کہ نعوذباللہ باقاعدہ مووی بن رہی ہے… حالانکہ
ایسا ہر گز نہیں تھا…
اب
تو لوگ دینی جلسوں کی کھلم کھلا مووی بنا رہے ہیں… اگر ہم بھی اسے ٹھیک سمجھتے تو
ضرور بنالیتے مگر نہ ٹھیک سمجھا ہے… اور نہ بنایا ہے… اسپیشل برانچ کے کچھ اہلکار
سیکورٹی کے نام پر مووی بنانے آئے تو ان کو روک دیا گیا … و
الحمدللہ رب العالمین…
نصرت
رُک نہ جائے
غزوۂ
بدر کے بعد جب حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان تھوڑا سا
اختلاف ہوا تو قرآن پاک نے خوب سمجھایا کہ… اگر ایک فتح کے بعد تم لوگ آپس میں ٹوٹ
گئے تو آئندہ کیلئے نصرت رک جائے گی… اور دشمن تم پر غالب آجائیں گے… اس لئے سارے
کام چھوڑو سب سے پہلے ’’اصلاح ذات البین‘‘ کرو… یعنی آپس کے معاملات ٹھیک کرلو…
اگر آپس کے معاملات ٹھیک ہوگئے تو دنیا وآخرت کی ہر کامیابی تمہارا مقدر بنے گی…
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو بہت اونچے لوگ تھے ان سے تو بعض کام آئندہ
اُمت کی تعلیم کے لئے کرائے جاتے تھے… انہوں نے فوراً لبیک کہی… ہر کسی نے دوسرے
کے حق کو مانا، اپنا حق چھوڑا، ایک دوسرے کو معاف کیا تو جماعت جڑ گئی… اور پھر
کچھ عرصہ بعد روم و فارس کی فاتح بن گئی… سبق یہ ملا کہ ہر خوشی کے بعد جماعت کے
بڑوں اور چھوٹوں کو مل بیٹھنا چاہئے اور آپس کے معاملات کی مکمل اصلاح کرلینی
چاہئے… تاکہ جنت میں داخلے تک کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے… کیونکہ ابھی تو بہت
مرحلے باقی ہیں، بہت منزلیں باقی ہیں…
واصلحوا
ذات بینکم
غزوۂ
بدر کے فوراً بعد جو احکامات دیئے گئے ان میں سے ایک اہم سبق یہ تھا… واصلحوا ذات
بینکم اور آپس میں صلح رکھو… آپس کے تعلقات اور معاملات کو درست کرو…
امام
نسفیپ لکھتے ہیں:
یعنی
ما بینکم الاحوال تکون احوال الفۃ ومحبۃ واتفاق
’’یعنی
آپس میں الفت، محبت اور اتفاق والے حالات بناؤ‘‘(المدارک)
۲ واصلحوا
ذات بینکم یعنی آپس کے سابقہ (تعلقات اور معاملات) کو ایسا سنبھالو، سنوارو کہ
باہمی رشک ومسابقت (یعنی حسد اور ایکدوسرے کو نیچا دکھانے) کا نام و نشان نہ رہے
اور بندوں کے حقوق پوری طرح ادا کرو (ماجدی)
۳ مراد
اس سے زبان کی حفاظت ہے، امام ابن کثیرپ لکھتے ہیں:
وقال
السدی فاتقوا اللہ واصلحوا ذات بینکم ای لا تستبوا
سدّی
پ فرماتے ہیں کہ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہو،
گالیاں نہ دو(ابن کثیر)
امام
رازی پ لکھتے ہیں:
واصلحوا
ذات بینکم من الاقوال یعنی آپس کے اقوال اور باتوں کو درست کرو۔
۴ ہر
طرح کے جھگڑوں سے بچو۔ امام ابن کثیرپ لکھتے ہیں:
واصلحوا
ذات بینکم ولا تظالموا ولاتخاصموا ولاتشاجروا
یعنی
آپس میں تعلقات درست رکھو، ایکدوسرے پر ظلم نہ کرو، ایکدوسرے سے جھگڑا نہ کرو اور
آپس میں نزاع نہ کرو (تفسیر ابن کثیر)
آپس
میں صلح وآشتی سے رہیں اور ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے نہ ڈالیں (تفسیر عثمانی)
۵ کئی
مفسرین حضرات نے واصلحوا ذات بینکم کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ مال غنیمت پر جو
اختلاف اور کچھ کھینچا تانی ہوگئی تھی اب آپس میں صلح کرکے اور لیا ہوا مال واپس
کرکے اس کی تلافی کرو… یعنی اختلافات اور جھگڑے کے اثرات تک کو ختم کردو۔ (فتح
الجوّاد ص۲۶ج۲)
آپس
میں اصلاح اور صلح کا یہ حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو
دیا ہے… پس جو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے اس پر اس حکم کا
ماننا بھی لازم ہے… خصوصا ہر خوشی اور فتح کے بعد اس حکم کا مذاکرہ ضروری ہے… ورنہ
ہوتا یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگ اجر اور بخشش کے خزانے لوٹ رہے ہوتے ہیں… جبکہ
کچھ بدنصیب اس وقت بھی محروم رہتے ہیں… اللہ پاک ہم سب پر
رحم فرمائے…
تقویٰ
کا ایک عجیب معنیٰ
غزوۂ
بدر کے بعد مسلمانوں کو فتح کی خوشی برداشت کرانے اور اختلافات سے بچانے کا جو
قرآنی نسخہ … سورۃ انفال میں نازل ہوا اس میں ایک حکم یہ ہے ۔
فاتقوا
اللہ
یعنی اللہ تعالیٰ
سے ڈرو…
امام
قرطبیپ نے لکھا ہے کہ … یہاں تقویٰ کا معنیٰ آپس کے اختلافات سے بچنا ہے …فتح
الجوّاد میں ہے:
’’ویسے
تو جہاد میں ہر قدم پر تقویٰ لازمی ہے، تاکہ کسی بھی موقع
پر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محرومی نہ ہو اور جہادی طاقت کا
غلط استعمال نہ ہو…
مگر
یہاں جس تقویٰ کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے اس کا تعلق مجاہدین کے باہمی معاملات
سے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو اور
اختلاف سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے امیر کی اطاعت کرو…
امام
قرطبیپ لکھتے ہیں:
فاتقوا اللہ واصلحوا
ذات بینکم امر بالتقوی والاصلاح، ای کونوا مجتمعین علی
امر اللہ فی الدعاء اللہم اصلح ذات البین، ای الحال التی
یقع بہا الاجتماع الخ (القرطبی) (فتح الجوّاد ص۲۴ج۲)
اس
سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سب کو یہ دعاء کرنی چاہئے…
اَللّٰہُمَّ
اَصْلِحْ ذَاتَ اَ لْبَیْنٍ … اَللّٰہُمَّ اَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا…
آپ
حیران ہوں گے
الحمدللہ ہر
طرف اجتماع کی خوشیاں ہیں… لوگ ایک دوسرے کو عجیب مبارکبادیں دے رہے ہیں… شکرانے
کے نوافل ادا کیے جا رہے ہیں… مجلسوں اور مجمعوں میں اجتماع کا تذکرہ ہے… تمام آنے
والے خیریت سے اپنے علاقوں کو پہنچ گئے ہیں… کسی نے اسے نورانی مجلس کا نام دیا ہے
تو کوئی کسی اور اچھے لقب سے یاد کر رہا
ہے… الحمدللہ ثم الحمدللہ ابھی تک
کسی منفی اثر یا تبصرے کی خبر نہیں ہے… تو پھر سعدی فقیر کیوں آج کڑوا موضوع لیکر
بیٹھ گیا ہے؟… پچھلے سال کے اجتماع پر کوہاٹ والوں کو مبارکباد دی تھی تو اس سال
اہل بہاولپور کے نام سے کالم کیوں نہیں سجایا؟…
بات
دراصل یہ ہے کہ یہ اجتماع ماشاء اللہ بہت بھاری نعمت ہے… یہ
اجتماع کوہاٹ والے اجتماع سے کافی بڑا تھا… اس میں علماء کرام نے بھی پچھلے سال سے
زیادہ شرکت فرمائی… اور علماء و اہل مدارس ہمارے سر کا تاج ہیں … بہت سے پرانے
ساتھی جو کافی عرصہ سے گھروں میں بیٹھے تھے اس اجتماع میں حاضر ہوئے اور تازہ جذبہ
لے کر گئے… الغرض یہ اجتماع ہر اعتبار سے ’’بھاری نعمت‘‘ ہے… جبکہ ہم بہت کمزور
ہیں… اور شیطان کے داؤ بہت خطرناک ہیں… اس لئے خوشی منانے کی بجائے ان باتوں کا
مذاکرہ مناسب معلوم ہوا… جو خوشی برداشت کرنے اور اسے قیمتی بنانے کی قوت پیدا
کرتی ہیں… مسلمانوں کے باہمی اختلافات نے اسلام کے ہر گلشن کو ویران کر رکھا ہے…
کہاں ہے خلافت؟… کہاں ہے قوت؟… اور کہاں ہے عزت وعظمت؟… ہمارے نزدیک تو سب سے اہم
بات یہ ہوتی ہے کہ … فلاں نے مجھے یہ کہہ دیا … اور فلاں نے میرے بارے میں یہ سوچ لیا…
یہ اجتماع بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اترتی ہے… اور
اتر رہی ہے… بس تم اپنے باہمی حالات ٹھیک رکھو… اللہ تعالیٰ
کے ساتھ تعلق مضبوط بناؤ… اور مدینہ منورہ سے جڑے رہو… سعادت مندی کا بازار گرم ہے
تم بھی اپنے نفس میں برداشت کا مادّہ پیدا کر کے اس بازار کے خریدار بنے رہو…
٭٭٭
مقابلہ
اللہ تعالیٰ
ہم سب کی ’’نفاق‘‘ سے حفاظت فرمائے… منافق کی سب سے اہم نشانی یہ ہے کہ وہ ’’جہاد
فی سبیل اللہ ‘‘ کا مخالف ہوتا ہے… وہ خود بھی نہیں نکلتا اور دوسروں
کو بھی نکلنے سے روکتا ہے…
تفسیر
کے مشہور امام ’’ابوحیاّن الاُندلسیپ‘‘ سورۃ التوبہ آیت (۷۱) کی تفسیر ان
الفاظ میں کرتے ہیں:
وہی
الخمسۃ التی یتمیز بہا المومن علی المنافق
یعنی
اس آیت میں ایمان والوں کی وہ پانچ صفات بیان کی گئی ہیں… جن کی بدولت وہ منافقین
سے جدا اور ممتاز ہوتا ہے… آج کل ہر پارٹی لوگوں کو اپنی طرف بلا رہی ہے، ہر تنظیم
آوازیں لگا رہی ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ… اور بے شمار ادارے اور این جی اوز
قدم قدم پر موجود ہیں… کسی بھی پارٹی یا جماعت میں جانے سے پہلے خوب غور کرلیجئے
کہ ان میں ایمان والوں کی علاُمتیں ہیں یا نہیں؟… ان میں منافقین والی برائیاں تو
نہیں؟ …
امام
ابو حیان پ فرماتے ہیں… منافق میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں:
۱ … نیکی سے روکنا… جہاد بہت بڑی
نیکی ہے
۲ … برائی
کی طرف بلانا … یہ منافق کا خاص مشن ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں گناہ اور برائیاں
پھیلانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے… آج کل کی اکثر این جی اوز کو دیکھ لیجئے
۳ … وہ
نماز میں سستی کرتا ہے… اداہی نہیں کرتا یا کرتا ہے تو بہت بے دلی اور سستی سے
۴ … وہ
زکوٰۃ ادا کرنے میں بخل کرتا ہے… بے شک ہر منافق مال کا پجاری اور بے حد لالچی
ہوتا ہے… اور بہت زیادہ بخیل
۵ … وہ
جہاد میں نہیں نکلتا، جب اسے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو خود بھی نہیں جاتا اور
دوسروں کو بھی روکتا ہے
فالمنافق
یامر بالمنکر وینہیٰ عن المعروف ولا یقوم الی الصلٰوۃ الا ہو کسلان و یبخل
بالزکٰوۃ ویتخلف بنفسہ عن الجہاد واذا امرہ اللہ تثبط وثبط
غیرہ (البحر المحیط)
یہاں
ہم سب دو کام کریں … پہلا یہ کہ اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ ہمارے اندر ان پانچ
منافقانہ صفات میں سے کوئی ہے تو نہیں؟ … اللہ کرے نہ ہو،
اس پر خوب شکر ادا کریں… اور دوسرا کام یہ کہ دراصل منافق کی یہ تمام صفات قرآن
پاک ہی میں بیان ہوئی ہیں… امام ابو حیان پ نے اپنی طرف سے بیان نہیں کی… سورۃ
التوبہ آیت ۶۷ میں
منافقین کا مکمل نصب العین اورمشن بیان ہوا ہے… اگر فرصت ملے تو کسی معتبر تفسیر
کی روشنی میں مطالعہ فرمالیں… وہاں صرف منافق مردوں کا نہیں بلکہ منافق عورتوں کا
بھی تذکرہ ہے… جی ہاں قرآن پاک بتاتا ہے کہ نفاق کا مرض عورتوں میں بھی ہوتا ہے
اور ان میں بھی یہ پانچ صفات پائی جاتی ہیں…
امام
ابوحیان پ آگے لکھتے ہیں:
والمومن
بضد ذلک
یعنی
مؤمن اس کے بالکل برعکس ہوتاہے وہ
۱ نیکی
کا حکم کرتا ہے
۲ برائیوں
سے روکتا ہے
۳ نماز
قائم کرتا ہے
۴ زکوٰۃ
ادا کرتا ہے
۵ جہاد
میں نکلتا ہے
والمؤ
من بضد ذلک کلہ من الامر بالمعروف والنہی عن المنکر واقام الصلٰوۃ وایتاء الزکٰوۃ
والجہاد وہو المراد فی ہذہ الآیۃ بقولہ ویطیعون اللہ ورسولہ
(البحر المحیط)
یعنی
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد جہاد میں نکلنا ہے…
ہم
نے پانچ صفات پڑھ لیں… ہم میں سے ہر کسی نے اپنا
حساب اللہ تعالیٰ کو خود دینا ہے… ہم اپنے اندر جھانک کر
دیکھیں کہ یہ صفات موجود ہیں یا نہیں؟… اللہ کرے موجود ہوں
تو اس پر خوب شکر ادا کریں… اب آئیے اصل بات کی طرف… دراصل ایک مسلمان کو ’’حقیقی
مؤمن‘‘ بننے کے لئے خوب محنت کرنی چاہئے اور اپنی اجتماعی ’’ذمہ داریوں‘‘ کو
سمجھنا چاہئے… قرآن پاک سمجھاتا ہے کہ اسلام کے دشمن ’’منافقین‘‘ آپس میں مل کر،
ایک جماعت بنا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں… تب ان کے شر سے بچنے کے لئے
مسلمان مردوں اور عورتوں کو بھی آپس میں مل کر اور جماعت بن کر ان کا مقابلہ کرنا
چاہئے… جماعت بننے سے عورتوں کا گھروں سے نکلنا اور سڑکوں پر آنا مراد نہیں… اس کی
تفصیل انشاء اللہ کچھ آگے چل کر… پہلے ’’منافقین‘‘ کی تنظیم
اور جماعت یا ’’تنظیموں‘‘ کے مقاصد، اہداف اورنصب العین پر ایک
نظر… اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
اَلْمُنٰفِقُوْنَ
وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْمبَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ
وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ ط نَسُوا اللّٰہَ
فَنَسِیَھُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ
(ترجمہ) منافق
مرد اور عورتیں سب ایک طرح کے ہیں، برے کاموں کا حکم کرتے ہیں اور نیک کاموں سے
منع کرتے ہیں اور ہاتھ بند کیے رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو
بھول گئے پس اللہ تعالیٰ نے انہیں بھلا دیا بے شک منافق وہی
ہیں نافرمان۔ (التوبہ۶۷)
منافقین
جہاد فی سبیل اللہ کے دشمن ہیں
اس
آیت کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیے یہ عبارت:
’’اتحاد
مقصد (یعنی مقصد ایک ہونے) کے اعتبار سے منافق مرد و عورت یکساں ہیں کہ دونوں کی
غرض مسلمانوں کو مرکزی قوت کی حفاظت اور فریضۂ جہاد سے روکنا
ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے انہیں بڑی ہی سخت
تکلیف محسوس ہوتی ہے، انہوں نے ان فرائض کو فراموش کردیا ہے جو ان کے لئے زندگی
بخش تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اب ان چیزوں کو مفید سمجھ رہے ہیں جو ان کے لئے
مضرت کا باعث ہیں، انہوں نے عین ضرورت کے وقت اسلام کی مدد نہ کی
پس اللہ تعالیٰ بھی عین ضرورت کے وقت ان کی حاجت روائی نہ
کرے گا۔ جو لوگ حفاظت اسلام کا خیال ترک کردیں، جہاد فی
سبیل اللہ سے نفرت کریں اور محض زبانی دعویٰ اسلام کرتے
پھریں، ان میں اور ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہتا جو اسلام کی جانب رخ تک نہ
کریں۔‘‘ (تفسیر الفرقان)
منافقین
جہاد سے روکتے ہیں
اس
آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں:
وینہون
عن المعروف
اور
اچھے کاموں سے روکتے ہیں یعنی ایمان اور اللہ تعالیٰ کی
فرمانبرداری سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں گرمی میں جہاد کو نہ نکلو۔ (تفسیر مظہری)
یعنی
جہاد میں کوئی بھی نقصان بتا کر جہاد سے روکتے ہیں جیسے غزوۂ تبوک کے موقع پر
گرمی کا بہانہ بنا کر روک رہے تھے۔
ہاتھ
بند کرنے کا ایک مطلب جہاد چھوڑنا ہے
و
یقبضون ایدیہم
وہ
منافقین اپنے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں… اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ جہاد میں نہیں
نکلتے
وقبض
ایدیہم عبارۃ عن ترک الجہاد (القرطبی)
یعنی
ہاتھ روکنے کا مطلب ہے جہاد چھوڑنا کہ وہ جہاد نہیں کرتے
وقال
ابن زید وعن الجہاد وحمل السلاح فی قتال الاعداء (البحر المحیط)
یعنی
ابن زیدرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ جہاد سے اور دشمنوں سے قتال میں اسلحہ
اٹھانے سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں…
ویدخل
فیہ ترک الانفاق فی الجہاد ونبّہ بذلک علی تخلفہم عن الجہاد (تفسیرکبیر)
یعنی
ہاتھ روکنے میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ جہاد میں مال خرچ نہیں کرتے، اور اس جملہ سے
ان کے ترک جہاد کو بیان کیا گیا ہے…
جہاد
سے نفرت منافق کی اہم نشانی
ہم
نے قرآن پاک کی آیت مبارکہ پڑھ لی اور کچھ مفسرین کی عبارتیں بھی… اب ان کی روشنی
میں حکمرانوں کو دیکھیں… این جی اوز میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کو
دیکھیں… اور سیاسی پارٹیوں کو دیکھیں…
منافق
کی خاص نشانی یہ ہے کہ وہ جہاد سے نفرت کرتا ہے اور جہاد کا نام سنتے ہی بدکنے
لگتا ہے… آج اس موضوع پر بس اتناہی … اسی پر غور فرمائیں … باقی باتیں
انشاء اللہ زندگی رہی تو اگلے ہفتے… والسلام
وصلی اللہ تعالیٰ
علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
وبارک
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی حضرت چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ
اللہ تعالیٰ
نے ’’القلم‘‘ کو آج ایک اور سعادت بخشی ہے… فاتح ربوہ، جرنیل ختم نبوّۃ حضرت
مولانا محمد منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی شمارہ آپ کے سامنے ہے… یہ
شمارہ انشاء اللہ دور دور تک پہنچے گا اور دور دور تک
پہنچایا جائے گا… آپ کو معلوم ہے کہ ’’مرزائی ٹولہ‘‘ کتنا منظم ہے؟… یہ لوگ کتوں
کی طرح ہر طرف سونگھتے رہتے ہیں، جیسے ہی کوئی ان کے خلاف کچھ لکھتا ہے یہ فوراً
اپنے بڑوں کے پاس شکایت کرنے پہنچ جاتے ہیں… ان کے بڑے کون ہیں؟ یہودی، نصرانی،
ہندو اور ہر اسلام دشمن ان کا بڑا اور ان کا سرپرست ہے… یہ ہر سال ’’انسانی حقوق‘‘
کی ڈاکو تنظیموں کو بتاتے ہیں کہ اس سال ہمارے خلاف فلاں فلاں رسالے نے لکھاہے …
فلاں عالم نے تقریر کی ہے اور فلاں تنظیم نے ہمیں دھمکی دی ہے… مرزائی ٹولہ اسلام
اور مسلمانوں کا شدید ترین دشمن ہے… مسلمانوں کو عشق مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم کے جذبے کا واسطہ کہ… اس دجالی فتنے کو سمجھیں اور اس کے شر کو توڑنے کی
کوشش کریں… ’’شیزان‘‘ مرزائیوں کی کمپنی ہے اس کے جوس اور دیگر مصنوعات کو ہرگز
استعمال نہ کریں… یہ ہماری طرف سے ختم نبوۃ کی مقدس تحریک میں ادنیٰ سی حصہ داری
ہوگی… ورنہ کرنے کے کام تو بہت ہیں… ’’مرزائی‘‘ پاکستان کی رگوں میں گھسے ہوئے
ہیں… پاکستان بنا تو پہلا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ مرزائی، قادیانی تھا…
اس بدقسمت سے لے کر نیلو فر بختیار تک مرزائیوں کے پاکستان پر مظالم کی ایک لمبی
تاریخ ہے… مرزائیت کسی مذہب کا نام نہیں یہ تو اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کا نام
ہے… اہل حق نے محنت فرمائی بھٹو کے دور میں قادیانی غیر مسلم قرار پائے تب ان کی
شرارتوں نے رخ بدل لیا… وہ انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافتی اداروں اور این جی اوز
کا لبادہ اوڑھ کر کام کرنے لگے… وہ پاکستان کے ہر حکمران تک پہنچ جاتے ہیں، امریکہ
اور برطانیہ ان کو حکومت تک پہنچاتا ہے… صدر پرویز مشرف تو مسلسل ان کے ’’زیر
اثر‘‘ رہے ان کے صدارتی اور نجی عملے پر مرزائیوں کا راج تھا اور آج تک ہے… جو
عالم اس گستاخ رسول فتنے کے خلاف بولے وہ فوراً ’’فرقہ پرست‘‘ قرار دے دیا جاتا
ہے… مرزائی اپنا مذہب چھپا کر اعلیٰ سرکاری عہدوں تک پہنچتے ہیں اور قوم پرست
تنظیموں میں گھس کر اہل حق علماء کو قتل کراتے ہیں… مسیلمہ کذاب کا فتنہ بڑا سخت
تھا مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف تلوار لیکر
میدان میں کود پڑے… جی ہاں کوئی مسلمان حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کی دستارِ ختم نبوۃ پر ہاتھ ڈالنے والے گستاخوں کو برداشت کر ہی نہیں سکتا… حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بڑی قربانی دی ایک ایک دن میں قرآن پاک کے
چھ سو حفاظ صحابہ اور تابعین شہید ہوئے… الحمدللہ وہ فتنہ
ختم ہوگیا… مگر مسیلمہ پنجاب مرزا غلام قادیانی ملعون کا فتنہ ابھی تک بھڑک رہا
ہے… اور اب تک ہزاروں لوگوں کو جہنم کا ایندھن بنا چکا ہے… دراصل مسلمانوں میں
شعور اور دینی غیرت کی کمی ہوگئی ہے… اور قادیانیوں کی کئی ذیلی شاخیں مسلمانوں
میں سے جذبہ جہاد اور دینی غیرت کو ختم کرنے کی محنت کر رہی ہیں… میں کچھ عرصہ
’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ پڑھتا رہا اس میں ایک مزاحیہ کالم نویس
’’سعد اللہ جان برق‘‘ … ہنسی مزاح کے انداز میں جہاد کی
مخالفت، اور علماء کی تحقیر کرتا ہے… تھوڑی سی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ ’’منکر
حدیث‘‘ ہے اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ’’دواسلام‘‘ مانتا ہے… مسلمان بے چارے
کہاں جائیں؟… یا اللہ اُمت مسلمہ پر رحم فرما… مرزائی اور
دوسرے گمراہ فرقے مسلمانوں کے اندر گھس کر کفر کا زہر پھیلا رہے ہیں… ان کے خلاف
کام کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کی پیٹھ پر ملکی وغیر ملکی حکمران ہیں…
مگر اللہ ایک ہے… ہمارے لئے ڈرنے، گھبرانے اور پسپا ہونے کا
کوئی جواز نہیں ہے… مرزا اور اس کے چیلوں نے ہر زور لگالیا مگر وہ جہاد کی شمع کو
نہ بجھا سکے۔ اسلام کے فدائیوں نے مرزا کے ہر جال کو توڑ دیا… اب تو صرف بدقسمت
لوگ ہی اس کی باتوں کو مانتے ہیں… ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء
کو مرزا ہیضے کی موت مرگیا… آج ۱۲ مئی ۲۰۰۸ء
کی تاریخ ہے… سو سال ہوگئے اس ملعون کو مرے ہوئے… القلم کی سعادت ہے کہ وہ مرزا
ملعون کے سوسالہ ’’وصلِ جہنم‘‘ کے موقع پر ختم نبوۃ کے جھنڈے کو بلند کر رہا ہے…
مرزائی اس اخبار کو دور دور تک لے جائیں اور خوب شکایتیں لگائیں…
ہمیں الحمدللہ ذرّہ برابر خوف اور ڈر نہیں … ایک اخبار تو
کیا آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر ہزار جانیں بھی قربان ہوں
تو سعادت ہی سعادت ہے…
فتح
الجوّاد بھی مرزا کے لئے موت ہے ’’القلم‘‘ نے اس کا پرچار کیا… اور آج ’’القلم‘‘
مدینہ منورہ کی راہوں میں چند اور پھول نچھاور کر رہا ہے… حضرت چنیوٹی رحمۃ اللہ
علیہ جو مرزائیت کے لئے ’’عذاب کا کوڑا‘‘ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے فدائی تھے، وہ آج ’’القلم‘‘ کی اس محفل کے ’’دولہا‘‘ ہیں… آج سے تقریبا
تین سال پہلے حضرت اقدس چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین برادرم مولانا محمد الیاس
چنیوٹی نے علماء کرام کے پاس ایک سوالنامہ بھیجا تھا… دراصل وہ حضرت چنیوٹی رحمۃ
اللہ علیہ کی مفصل سوانح حیات تیار کرنے کی کوشش میں تھے۔ یہ مفصل سوانح حیات ابھی
تک منظر عام پر نہیں آسکی، اللہ کرے جلد آجائے… ہم آج کے
کالم میں تین سال پرانا ایک زندہ مضمون نقل کر رہے ہیں… یہ مضمون ابھی تک شائع
نہیں ہوا اس لئے بالکل تازہ ہے… اس میں چند سوالات ہیں… اور ان کے جوابات
… ملاحظہ فرمائیے حضرت چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے سبق آموز حالات پر
مشتمل یہ تحریر…
اپنا
زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
بسم اللہ الرحمن
الرحیم
محترم
ومکرم جناب حضرت مولانا محمد الیاس صاحب چنیوٹی زید قدرہ
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی
نامہ موصول پایا… حضرت استاذ مکرم، سفیر ختم نبوۃ ضیغم اسلام مولانا منظور احمد
چنیوٹی نور اللہ مرقدہٗ کی جدائی کا زخم تازہ ہوا… ان کی
رحلت ملّی سانحہ ہے اور ہم سب خود کو ایک ’’نعمت ِ الٰہی‘‘ سے محروم … محسوس کر
رہے ہیں… اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت اور توفیق عطاء فرمائے کہ ا
ن کی اونچی اور جاں سوز مسند کا رنگ پھیکا نہ پڑنے دیں… وما ذلک
علی اللہ بعزیز… حضرت کی سوانح حیات مرتب کرنے کافیصلہ بہت
مبارک، ضروری … اور مستحسن ہے… انشاء اللہ اس کے ذریعے سے
آئندہ نسلوں کے لئے دعوت وعزیمت کا ایک مثالی چراغ روشن ہوجائے گا… اور دین کے
دیوانوں کی دنیا آباد رہے گی… آپ نے جو چند سوالات بھجوائے ہیں ان کے جوابات حاضر
خدمت ہیں…
سوال: آپ
کا نام اور مکمل پتا؟
جواب: نام:
محمد مسعود ازہر۔ پتا:جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ ماڈل ٹاؤن بی بہاولپور
سوال: حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق کی نوعیت؟
جواب: حضرت
مولانا نور اللہ مرقدہ میرے استاذ محترم تھے اور محبوب بھی۔
سوال: ان
سے تعارف کب اور کیسے ہوا؟
جواب: جامعۃ
العلوم الاسلام علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جب داخلہ کی سعادت نصیب ہوئی تو… پہلے
سال ہی حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوگئیں…
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے ایک صاحبزادے برادرم مولانا محمد ادریس صاحب بھی
اسی سال جامعہ میں داخل ہوئے تھے اور یوں ہم دونوں پورے نو سال تک ہم سبق رہے…
حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے اوراب جانشین… حضرت مولانا محمد الیاس
صاحب چنیوٹی… ان دنوں جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے…
اور ان کے تقویٰ اور خطابت کا طلبہ میں خوب چرچہ تھا… اچھی
اولاد… اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے… حضرت مولانا
چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے
ساتھ ساتھ… آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والی یہ نعمت بھی عطاء فرمائی… ان کے یہ دونوں
صاحبزادے… جامعہ میں اپنے والد کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنے ہوئے تھے… ان
میں اپنے والد محترم کی پاکیزگی اور سادگی کی جھلک صاف نظر آتی تھی… حضرت
مولانارحمۃ اللہ علیہ جب بھی کراچی تشریف لاتے تو جامعہ میں قیام فرماتے تھے… اس
طرح سے ان کی زیارت بچپن ہی میں نصیب ہوگئی … پھر جامعہ کے مہتمم امام اہلسنت حضرت
مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب نور اللہ مرقدہ نے… حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کو جامعہ کی سالانہ چھٹیوں میں طلبہ کو ’’ردّ
قادیانیت‘‘ کا نصاب پڑھانے کی دعوت دی… تب … جامعہ کا دارالحدیث … حضرت مولانا
چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کی طاقتور آواز سے گونجنے لگا… بندہ کو بھی حضرت مولانا
رحمۃ اللہ علیہ سے یہ نصاب پڑھنے کی سعادت ملی… بس یوں میرے اور ان کے تعلق اور
تعارف کی نوعیت… بحمد اللہ متعین ہوگئی… اور زندگی کے آخری لمحات تک
میں انہیں استاذ محترم! کہتا رہا اور وہ بھی مجھے اپنا شاگرد سمجھتے رہے… اتنے
اونچے، اتنے مقرب اور اتنے پاکیزہ انسان کے ساتھ یہ تعارف بندہ کے لئے ’’ذخیرۂ
آخرت‘‘ ہے… انشا ء اللہ …
سوال: ان
سے آپ کی ملاقاتوں کی تفصیل؟
جواب:
الحمدللہ ان کے ساتھ ملاقاتیں تو خوب رہیں… وہ چونکہ خیر الناس میں سے
تھے اس لئے ہر ملاقات دینی اعتبار سے مفید ثابت ہوئی… چند ملاقاتوں کا احوال عرض
کردیتا ہوں
٭ رمضان
المبارک کا مقدس مہینہ تھا… حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ جامعۃ العلوم
الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے ہوئے تھے… بندہ جامعہ کی تشکیل پر کراچی کی
ایک مسجد میں نماز اور جمعہ پڑھاتا تھا… یہ مسجد دہلی کالونی میں واقع تھی… بندہ
نے حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ … حضرت مولانا محمد امین صاحب صفدر اوکاڑوی
رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا علامہ خالد محمود صاحب مدظلہ کو تشریف آوی کی دعوت
دی… یہ تمام حضرات مسجد میں تشریف لائے… آخری عشرے کی کوئی طاق رات تھی اور
تقریباً سارا محلہ جاگ رہا تھا… تینوں حضرات نے خطاب فرمایا… حضرت مولانا چنیوٹی
رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اعتکاف‘‘ سے اپنی بات شروع فرمائی اور اسے مرزا قادیانی ملعون
کے گریبان تک لے گئے کہ وہ اعتکاف کا منکر ہے… پھر آپ نے ردّ قادیانیت پر گرجدار
ومدلل خطاب فرمایا… اس کے بعد ہم سب دہلی کالونی سے متصل … پنجاب کالونی گئے جہاں
کے ساتھیوں نے دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا… سب حضرات پر تھکاوٹ کا غلبہ تھا علامہ
خالد محمود صاحب مدظلہ نے مزاحاً یہ رائے دی کہ … امام آگے مصلے پر لیٹ جائے اور
ہم پیچھے صفوں میں لیٹ جاتے ہیں… تب حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ
کر تراویح کی امامت فرمائی… اس دن سفر کی وجہ سے تراویح نہیں ہوسکی تھی جو پنجاب
کالونی کراچی کے ایک گراؤنڈ میں کھلے آسمان تلے آدھی رات کے بعد ادا کی گئی…
٭ انڈیا
کی قید سے اللہ تعالیٰ نے رہائی عطاء فرمائی تو چند دن
قندھار میں قیام رہا… حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب… (قائد جمعیت) نے ملاقات کی
تاکیدی دعوت … ٹیلیفون پر دی… قندھار سے کراچی آنا ہوا تو حضرت مولانا مفتی نظام
الدین شامزی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر دوبارہ یاد دہانی کا فون آیا… بندہ نے حاضری کا
وعدہ کرلیا… بہاولپور پہنچا تو حضرت مولانا محمد اعظم طارق شہیدرحمۃ اللہ علیہ
تشریف لے آئے… انہوں نے جھنگ حاضری کی دعوت دی… بندہ نے ڈیرہ اسماعیل خان جاتے
ہوئے راستے میں جھنگ رکنے کا وعدہ کرلیا… اس وعدہ کے مطابق جھنگ جانا ہوا… ناشتے
کا دسترخوان سجا ہوا تھا مگر مجھے ایک اور نعمت نصیب ہوگئی… میرے استاذ محترم حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ شرف ملاقات بخشنے پہلے سے حضرت مولانا اعظم طارق
رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹھک میں تشریف فرما تھے… یہ ملاقات بہت یادگار تھی… بہت ہی
یادگار… حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کے تھپڑ تو بہت کھائے تھے… جامعہ بنوری ٹاؤن
میں تدریس کے دوران مولانا اپنی دائیں طرف بیٹھے ہوئے طالبعلم کو شفقت سے ہاتھ
مارتے رہتے تھے… ماشاء اللہ اس وقت صحت اچھی اور طاقت خوب
تھی… آپ کاہاتھ جب کمر پر پڑتا تو پورا بدن ہل جاتا تھا… آپ جوش کے ساتھ… مکمل
جذبے اور وارفتگی کے عالم میں پڑھاتے تھے… اور اس پورے عمل کو ایک مقدس عبادت کی
طرح ادا کرتے تھے… دس دن تک میں بھی ان کے دائیں طرف بیٹھ چکا تھا… اس لئے عرض کیا
کہ تھپڑ تو خوب کھائے تھے مگر محبت کے جو پھول انہوں نے مولانا اعظم طارق رحمۃ
اللہ علیہ کی بیٹھک میں نچھاور فرمائے… وہ مجھے کبھی نہیں بھول
سکتے… اللہ تعالیٰ نے انہیں کتنا بڑا دل دیا تھا… اس دن
مجھے اور زیادہ اس کا اندازہ ہوا… بے شمار لوگ ملنے کے لئے کوشش کر رہے تھے مگر
حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد کو بس اپنے سینے سے ہی لگائے رکھا… اور
آنسو بھر کر روتے رہے… میں نے سات سال کے بعد انہیں دیکھا تھا… محسو س ہوا کہ …
بڑھاپے کے آثار بہت تیزی سے حملہ آور ہیں… حالانکہ … حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ
ختم نبوت کے دشمنوں پر بجلیاں گرانے کیلئے بڑھاپے کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے
تھے… مگر کب تک؟… انسان بہت کمزور ہے… مگر دل کیسے داد نہ دے… ان عظیم ہستیوں کو …
جنہوں نے اپنی جوانی کو… اسلام اور ختم نبوت کی خدمت میں بوڑھا کیا… اور بڑھاپے کو
خود سے اس لئے دور بھگاتے رہے تا کہ… ناموس رسالت کے دشمنوں پر رعب رہے… ایسا جذبہ
اور ایسی سوچ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
اس
دن حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کی محبت میں ناشتہ بھی یاد نہ رہا… اور یہ بھی یاد
نہیں رہا کہ کیا کیا باتیں ہوئیں… غالباً حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دستخط
کے ساتھ اپنی ایک کتاب بھی عطاء فرمائی… اور چناب نگر کے جلسے کی دعوت بھی دی…
٭ ایک
بار فیصل آباد جانا ہوا تو پتہ چلا کہ حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کا
آپریشن ہوا ہے… بندہ فوراً ہسپتال حاضر ہوا… آپ نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار
فرمایا …بہت گرمجوشی سے ملے اور پھر اپنے مشن… تحفظ ختم نبوت پر تفصیلی گفتگو میں
مگن ہوگئے… اس دوران یہ بھی فرمایا کہ کل ڈاکٹر نے کہا تھا کہ آپریشن کے بعد تین
دن تک خون آئے گا… مگر مجھے ایک ہی دن میں خون آنا بند ہوگیا… ڈاکٹر نے حیرانی کا
اظہار کیا تو میں نے کہا یہ ختم نبوت کی برکت ہے…
آپریشن
کی تکلیف، تازہ زخم… ہسپتال کا ماحول اور بڑھاپا ایسے مواقع پر مریض صرف اور صرف
’’اپنی‘‘ بات کرتا ہے… مگر میرے استاذ محترم نے اس دن بھی ’’اپنی‘‘ کوئی بات نہیں
فرمائی… عام ملاقاتوں کی طرح اس دن بھی ان کا موضوع ’’ختم نبوت‘‘ تھا… مجھے خوشی
بھی ہوئی… اور حیرت بھی… روشنی بھی ملی… اور جذبہ بھی… قربان جاؤں حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ختم نبوت پر کہ اس کے پروانے کس قدر
فدائی … اور یکسو ہیں…
٭ حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے چناب نگر جلسے کی دعوت دی… بندہ پہنچ گیا… حسب
توفیق بیان ہوا… واپسی پر حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کو کوہاٹ کے دورۂ تفسیر کی
دعوت دینی تھی… معلوم ہوا کہ چنیوٹ شہر میں کسی مسجد پر کچھ تنازعہ ہے وہ حل کرانے
تشریف لے گئے ہیں… وقت کم تھا ہمارا قافلہ ان کی تلاش میں نکل پڑا… بالآخر وہ مل
گئے… کچھ عمائدین کے ساتھ شہر کی ایک مسجد کا مسئلہ حل کرا رہے تھے… تب ہمارے
سامنے ان کی سماجی زندگی کا ایک پہلو بھی اجاگر ہوا… ملاقات ہوتے ہی انہوں نے
مختصر طور پر اس مسجد کی صورتحال بتائی… اور جلسے میں حاضری پر خوشی کا اظہار
فرمایا… ہم نے عرض کیا کہ… کچھ دن بعد کوہاٹ میں ہمارا دورۂ تفسیر آیات الجہاد
منعقد ہو رہا ہے… حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب مکی داُمت برکاتہم العالیہ بھی… دو
دن کے لئے تشریف لا رہے ہیں… پانچ دن کے اس دورے میں… پورے قرآن پاک کی سینکڑوں
آیات جہاد پڑھائی جاتی ہیں … الحمدللہ سینکڑوں علماء … اور
ہزاروں طلبہ شرکت کر رہے ہیں… آپ بھی کچھ وقت عنایت فرمائیں … تاکہ… طلبہ کو منکر
جہاد مرزا قادیانی کی ناپاک تحریک کا پتہ چلے… ہماری دعوت سن کر حضرت مولانارحمۃ
اللہ علیہ بہت خوش ہوئے… ڈائری منگواکر دورۂ تفسیر کے منتظم مولانا آصف قاسمی کے
ساتھ وقت اور سفر کی ترتیب بنائی… اور ہمیں ٹھنڈے مشروب اور دعاؤں کے ساتھ رخصت
فرمایا…
کوہاٹ
کے علاقے وادی شہداء تپی میں دورۂ تفسیر آیات الجہاد پورے زور وشور … کے ساتھ
جاری تھا… حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ غالباً آخری دن تشریف لائے… ہزاروں طلبہ نے
گونجدار نعروں سے آپ کا استقبال کیا… طویل سفر اور مسلسل مشغولیات کی وجہ سے حضرت
مولانارحمۃ اللہ علیہ کا گلا بیٹھا ہوا تھا… بندہ نے حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کا
تعارف کرایا اور خطاب کی دعوت دی… مجمع کے ذوق وشوق اور علمی رنگ کا
… الحمدللہ اثر ہوا… اور ختم نبوۃ کا بوڑھا فدائی جرنیل …
ایک دم جوان ہوگیا…اور پھر آپ نے ایک تاریخی اور علمی مفصل خطاب فرمایا… اور طلبہ
کو دعوت دی کہ… قادیانی فتنے کے بارے میں غفلت سے کام نہ لیں… اور … ہمارے ادارے
میں آکر پندرہ روزہ ردّ قادیانیت کورس پڑھیں…
بندہ
نے واپسی پر اسٹیج سے اتر کر انہیں رخصت کیا… گاڑی میں بٹھایا … وہ سلام کرکے چلے
گئے… اور یوں … اس دنیا کی آخری ملاقات مکمل ہوگئی… پھر … ان کے انتقال کی روح
فرسا خبر ملی… اور بندہ… جنازے میں شرکت کے لئے ترستا رہ گیا…
٭ ان
چند ملاقاتوں کا تذکرہ اس لئے کیا کہ… اس میں سے ہر ملاقات حضرت مولانارحمۃ اللہ
علیہ کی عظیم صفات کے الگ الگ پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے… ورنہ تو بہت سے جلسوں
میں الحمدللہ … اکٹھے شرکت کی سعادت ملی… کئی اجتماعی اور
انفرادی نشستیں ہوئیں… اور کئی بار ان سے فیض حاصل کرنے کا موقع
ملا… اللہ تعالیٰ ان کے درجات عالیہ میں مزید بلندی عطاء
فرمائے…
سوال: آپ
نے ان کو کس حیثیت سے دیکھا اور کیسا پایا؟
جواب: حضرت
مولانارحمۃ اللہ علیہ ایک ’’متاثر کن‘‘ شخصیت کے حامل انسان تھے… اور اپنی بعض
صفات کے اعتبار سے’’منفرد‘‘ بھی تھے … اور اللہ تعالیٰ نے
انہیں بعض ایسی نعمتیں عطاء فرمائی تھیں جن کے باعث وہ … اپنے معاصرین اور اصاغر کے
لئے ’’قابل رشک‘‘ تھے میرے سامنے انکی زندگی کے جو چند پہلو زیادہ نمایاں ہو کر
آئے وہ درج ذیل ہیں:
۱ بہترین
استاذ
اللہ تعالیٰ
نے آپ کو ’’تفہیم‘‘ کا ایسا ملکہ عطاء فرمایا تھا کہ بہت مشکل، سنگلاخ اور ویران
موضوع کو بھی دلچسپ، آسان اور قابل قبول بنادیتے تھے… مدرّس کا کمال یہ ہے کہ وہ
طالبعلم کے دماغ اور دل کو پکڑ کر اپنے دل و دماغ سے ملا لے… اور طالبعلم کے حواس
پر چھا جائے… حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے
یہ ملکہ خوب سخاوت کے ساتھ عطاء فرمایا تھا… بغیر کسی تنقید کے عرض ہے کہ حضرت
مولانارحمۃ اللہ علیہ سے پہلے… ہم نے… ردّ قادیانیت کورس ایک اور محترم استاذ سے
پڑھا… وہ بہت اللہ والے بزرگ تھے اور ختم نبوت پر ان کی
خدمات قابل سلام ہیں… وہ درسگاہ میں تشریف لا کر سبق شروع فرمادیتے … دلائل اور
جوابات دیتے چلے جاتے اور ایک ترتیب کے ساتھ نصاب مکمل فرمادیتے… سچی بات یہ ہے
کہ… ہمیں قادیانیت کا اصل چہرہ نظر نہ آسکا اور نہ ہم اس پر گرفت کرنے کے قابل
ہوسکے… اگلے سال حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے ردِّ قادیانیت کورس پڑھایا
تو انداز ہی کچھ اور تھا… آپ قادیانیت پر علمی گرفت تو کرتے ہی تھے اس کے سیاسی
عزائم بھی بے نقاب فرماتے … اہم دلیل پیش کرنے سے پہلے… طلبہ میں اس کا ایسا شوق
اور طلب پیدا کرتے کہ دلیل یاد کرنے اورقبول کرنے کی استعداد پیدا ہوجاتی…
آپ
مناظرہ بھی پڑھاتے تھے اور اپنے تجربات کی روشنی میں مناظرے کے گُر بھی سکھاتے…
چار گھنٹے کے مسلسل سبق میں نہ خود تھکتے اور نہ طلبہ کو تھکنے دیتے… لطائف،
واقعات، سوز و گداز اور انداز خطابت کے ذریعے طلبہ کو … اپنی گرفت میں رکھتے… اور
اس دوران پورا نصاب انہیں میٹھے اور لذیذ شرکت کی طرح پلا دیتے… اور خاص بات یہ کہ
غیر محسوس طریقہ پر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ طلبہ کے دل
میں ایسا پیوست فرماتے کہ… مرزا قادیانی … اس کی ذریت اور اس کے فتنے سے صرف عقلی
ہی نہیں طبعی نفرت بھی پیدا ہوجاتی…
آپ
کی تدریس کا یہ عمدہ انداز آپ کو دارالعلوم دیوبند کی اس مسند تک لے گیا جس کے
بلاشبہ آپ حقدار تھے…
۲ صف
در مناظر
مناظرہ
ایک دینی خدمت ہے… قرآن پاک کے علوم میں سے ایک علم ’’علم المناظرہ‘‘ ہے… حضرات
علماء کرام نے علم مناظرہ کے اصول وضوابط پر کتابیں لکھی ہیں… اُمت مسلمہ کی تاریخ
کا ایک روشن باب… اُمت مسلمہ کے وہ ’’مناظرین‘‘ بھی ہیں جنہوں نے دلیل کے زور پر
باطل کا بھیجا اڑایا… اور اس کی صفوں کو درہم برہم کیا… مناظرہ میں کامیابی کے لئے
وسیع اور گہرے علم کی ضرورت پڑتی ہے… علم تو مناظر کے لئے شرط اوّل ہے مگر صرف
’’علم‘‘ سے کام نہیں چلتا… حاضر دماغی بھی ازحد ضروری ہے… اور حاضر جوابی بھی… اسی
طرح رعب اور وجاہت کا بھی مناظرے کے نتائج پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑتا ہے… مناظرے
میں اگر علمی سوال جواب کا یہ سلسلہ طویل ہو تو … عوام یہی سمجھتے ہیں کہ جناب!
دونوں طرف دلائل موجود ہیں… اس لئے مخالف کو جلد ناک آؤٹ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے…
اور اس کے لئے علم نفسیات میں مہارت کے ساتھ ساتھ مخالف کی کمزوریوں پر گہری نظر
درکار ہوتی ہیں… مناظرہ میں اچھی اور بلند آواز کا بھی اثر پڑتا ہے… بلکہ دینی
علوم سے دوری کے اس زمانے میں تو اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے… پھر چونکہ علم کی
طرح تحریف کا میدان بھی کافی وسیع ہے اس لئے مناظرہ کے دوران کافی چستی اور مہارت کی
ضرورت پڑتی ہے، معلوم نہیں مخالف کہاں سے تحریف کا کوئی نیا باب کھول
دے… اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ
علیہ کو یہ تمام مناظرانہ صفات اپنی رحمت سے عطاء فرمائی تھیں… آپ وسیع علم رکھتے
تھے… مخالف کی کمزوریوں کو سمجھتے تھے … خوب حاضر دماغ وحاضر جواب تھے… مخالف کو
خود اس کی زلف میں پھنسا نے کا فن رکھتے تھے… اور بہت جلد دشمنان ختم نبوۃ کو ناک
آؤٹ کردیتے تھے… اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو
بہترین وجاہت، بلند آواز، شاندار انداز خطابت… اور فطری رعب سے بھی نوازا تھا… آپ
کے مناظرانہ دور میں قادیانیت پر لرزہ طاری رہا… اور قادیانی مربی… اپنے شاگردوں
کو مناظرے سے بچنے کی تلقین کرتے رہے… حق یہ ہے کہ میدان مناظرہ میں آپ صف در…
یعنی صفوں کو چیرنے والے ایسے شاہسوار تھے… جن کو… زمانہ
انشاء اللہ کبھی نہیں بھلا سکے گا… بقول جگر مرحوم
جان
کر من جملۂ خاصان میخانہ مجھے
مدّتوں
رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
۳ فخر
اُمت مسلمہ
انسان
کبھی نفس وشیطان کے ہاتھوں ایسا ڈسا جاتا ہے کہ … زندگی بھر… سر اُٹھا کر نہیں چل
سکتا… اللہ تبارک وتعالیٰ نے… حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو یہ شرف بخشا ہے کہ… اس میں … بلند کردار افراد کی کسی
زمانہ میں کمی نہیں رہی … یہی بلند کردار افراد اُمت مسلمہ کا فخر ہیں… اور انہی
کی برکت سے … یہ زمین عمومی تباہی سے بچی ہوئی ہے… مرزا قادیانی ملعون نے انگریز
کے ایماء پر جس ناپاک بیج کو بویا… اس بیج کے سبھی پھل پودے… ناپاکی اور نجاست میں
ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں… حالانکہ مرزا قادیانی ملعون کا دور ابھی تازہ ہے… مگر
ناپاکی اس کے ہر معتقد کے جسم و روح میں سرایت کرچکی ہے… جبکہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور کو صدیاں گزر چکی ہیں… مگر… اس
کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے بہت سے افراد … فحاشی
اور بے حیائی کے اس دور میں بھی پاکیزہ… اور بے داغ ہیں…
مرزا
قادیانی کے بیٹے… پوتے اور خلفاء تک ناپاک اور داغدار… اور حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ سو سال بعد کے اُمتی بھی پاکیزہ اور
بے داغ…
یہ
بات عقل سلیم رکھنے والے انسانوں کو… قادیانیت کی حقیقت سمجھانے کے لئے کافی ہے…
اور اس کام کے لئے اللہ پاک نے اپنے جس پاکیزہ بندے کو
منتخب فرمایا وہ تھے… حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ … جنہوں نے…
مرزا کے خاندان کے اہم افراد… اور اس کے گدّی نشینوں کو کھلے الفاظ میں مباہلہ کی
دعوت دی… اور اعلان کیا کہ… تم لوگ … ہر طرح کی ’’بے حیائی‘‘ میں مبتلا ہو…
اور اللہ پاک نے مجھے ہر طرح کی ’’بے حیائی‘‘ سے بچایا ہے …
اگر تمہیں میرے اس دعوے میں شک ہے تو میدان میں آؤ مباہلہ کرتے ہیں… اور فیصلہ
… اللہ تعالیٰ سے کراتے ہیں… پھر جو جھوٹا ہوگا اس
پر اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا لعنت نازل ہوجائے گی… بظاہر یہ
سادہ سی بات تھی… خود کو نعوذ ب اللہ نبی اور مسیح موعود کا جانشین
کہنے والے اگر پاکدامن ہوتے تو فوراً میدان میں اتر آتے مگر کہاں؟… ان پر تو موت
طاری ہو گئی … ان کا تو پورا دھندا ہی عیاشی اور بے حیائی کے گرد گھومتا ہے… ان
لوگوں نے جہاد کے خلاف تحریک چلانے کا ’’انگریزی مشن‘‘ اسی فانی دنیا کی مستیاں
پوری کرنے کیلئے تو اختیار کیا ہے… حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ ہر صبح اور
ہر شام … ہر قادیانی خلیفہ کو للکارتے رہے … اور انکی بدکرداری سے پردہ اٹھا کر …
مسلمانوں کو مدینہ منورہ کے پاکیزہ سائے سے قادیان کے ناپاک گڑھے میں گرنے سے
بچاتے رہے… اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں … اس پاکیزہ انسان پر
جس نے اپنے کردار کی خوشبو کو بھی … تحفظ ختم نبوت کے لئے وقف کر دیا…
۴ کامیاب
سیاستدان
جمہوری
سیاست کا میدان …کیچڑ اور دلدل سے بھرا پڑا ہے… لوگ اسلام کی خدمت کیلئے اس میدان
میں اترتے ہیں… اور پھر اسلام آباد کے بلیو ایریا میں گم ہو جاتے ہیں … اور اسلام
انہیں حیرت سے دیکھتا رہ جاتا ہے…کچھ عرصہ قبل ایک ایسے نوجوان سے ملاقات ہوئی جو
بہت متقی ہوا کرتے تھے… اور تلاوت کلام پاک کے شیدائی بھی … انکی
بدقسمتی کے وہ الیکشن جیت گئے اور پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے… وہ تقریباً رو رہے تھے
اور بتا رہے تھے کہ … ایمان تباہ ہو گیا ہے … اور اب دامن میں کچھ بھی نہیں بچا …
جہاد کے بہت سے حامی اسمبلی کا ممبر بنتے ہی جہاد کو ایجنسیوں کا کھیل کہنے لگے …
اور بہت سے نمازی اسمبلی میں جا کر … بے نمازی بن گئے … سیاست کی اس کیچڑ اور دلدل
میں دینداروں کا کیا کچھ لٹ گیا… اس کی داستان بہت طویل ہے … اسی لئے تو امریکہ
سمیت کسی کو بھی علماء … اور انتہا پسندوں کے سیاست میں آنے پر کوئی اعتراض نہیں
ہے …بلکہ … مقبوضہ کشمیر میں پانچ سو انڈین فوجیوں کو قتل کرنے والا کوئی مجاہد
…اگر سیاست میں آنا چاہے تو اسے فوراً خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اس کے تمام
جرائم ( ان کی نظر میں) کو معاف کر دیا جاتا ہے … اس دلخراش داستان کی تفصیل میں
پڑنے سے دریغ کرتے ہوئے عرض ہے کہ … اللہ تعالیٰ کے کچھ
مخلص بندے… سیاست کے اس دلدل سے بھی بحفاظت گزر گئے … اور … اس کیچڑ میں سے بھی …
طرح طرح کے دینی موتی چن لائے … ان حضرات نے جہاں ایک طرف اپنے کردار کی حفاظت کی
… وہاں انہوں نے اپنے مقاصد کو بھی پوری طرح سے یاد رکھا … اور ان حضرات کا سب سے
بڑا کارنامہ یہ ہے کہ …یہ اسمبلی ، سیاست اور اسلام آباد کے پرفریب ماحول سے
متاثر نہیں ہوئے … اور نہ انہوں نے سیاست میں ترقی ہی کو اپنا مقصد حیات بنایا …
انہوں نے سیاست کو تو اپنے ’’دینی مقصد‘‘ کیلئے استعمال کیا … مگر خود سیاست کے
ہاتھوں استعمال نہیں ہوئے… اور جب بھی … تاریخ نے ان سے سیاست یا دینی مقصد میں سے
ایک کو اختیار کرنے کا اُمتحان لیا تو انہوں نے … نفرت کے ساتھ سیاست کو پاؤں کی
ٹھوکر پر رکھا … ہم ایسے ہی سیاستدانوں کو کامیاب اور بامراد سیاستدان کہہ سکتے
ہیں… حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی بھی … اس اعتبار سے بہت کامیاب سیاستدان تھے …
وہ سیاست کی اس کیچڑ سے … ربوہ کا نام چناب نگر بدلوا آئے… جو ایک ایسا عظیم
الشان کارنامہ ہے جس پر … پوری اُمت مسلمہ کو حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ
کا ممنون اور شکرگزار ہونا چاہئے … وہ تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے …
اور ہر بار … ختم نبوت کی روح پرور خوشبو … اسمبلی کے ایوانوں میں
پھیلاتے رہے … وہ سیاست کے دلدل اور کیچڑ سے خود کو بچا بچا کر … اسلام
اور ختم نبوت کی جنگ لڑتے رہے … جو بذات خود ایک بہت بڑا مجاہدہ اور کارنامہ ہے …
اس آخری الیکشن میں … جبکہ یہ فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ … علماء کو سیاست کے کنویں
میں ڈال کر … ختم نبوت ، جہاد… اور مجاہدین کو شکار کیا جائے … حضرت مولانا چنیوٹی
رحمۃ اللہ علیہ جیسے سیاستدان کو منتخب نہیں ہونے دیا گیا … حالانکہ … جس زمانے میں
علماء کرام کو پورے ملک سے صرف دو چار سیٹیں ملتی تھیں اس وقت بھی … حضرت مولانا
چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ الیکشن جیت جاتے تھے … مگر … جب ہر طرف دینی طبقے کا زور
تھا …اور فوجی حکومت کی خواہش بھی یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ علماء کرام کو …
اسمبلیوں میں نظر بند کیا جائے … تب… مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پکی سیٹ
بھی ہار گئے … غالباً حکومت کو اندازہ تھا کہ … اس مرد حُر کو پابند نہیں کیا جا
سکتا … اور اسمبلی میں اس کے ہوتے ہوئے … ناموس رسالت… اور ختم نبوت کے خلاف کچھ
بھی پاس نہیں کیا جا سکے گا…
یوں
ہمارا یہ کامیاب سیاستدان … الیکشن ہار گیا … مگر … اپنا مقصد جیت گیا …
پاکستان
کے ستاون سالہ دور میں … اس وقت سب سے زیادہ علماء کرام اور دینی جماعتوں کے حضرات
اسمبلیوں کے رکن ہیں … ملک کی مختلف اسمبلیوں میں ڈیڑھ سو سے زائد ارکان کا تعلق …
ملک کی دینی سیاسی جماعتوں سے ہے … مگر… گزشتہ تین سالوں میں … جتنا نقصان … ختم
نبوت، جہاد، مجاہدین، مدارس اور مسئلہ ناموس رسالت کو پہنچا ہے… انتا گزشتہ باون
سالوں میں نہیں پہنچا … یقیناً یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے
… اللہ کرے دین کی حفاظت …اور خدمت کیلئے منتخب ہونے والے
یہ حضرات … اسلامی اقدار … خصوصاً ختم نبوت ، جہاد اور مدارس کی حفاظت کو … اسمبلی
رکنیت اور حکومت میں شرکت پر مقدم رکھیں … اور کسی ایسی مصلحت کا شکار نہ ہوں جو …
اسلام اور مسلمانوں کیلئے نقصان دہ ہو…
جہاد
کی غیر مشروط حمایت
حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا ایک اہم اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ
نے ہمیشہ… جہاد فی سبیل اللہ کی غیر مشروط حمایت
اور خدمت کی … آپ کا یہ طرز عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ
… اللہ تعالیٰ نے آپ کو قول و فعل کی صداقت کا اونچا مقام
عطا فرمایا تھا …یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی ملعون جہاد کا مخالف ہی
نہیں بدترین دشمن تھا … اور اس نے جہاد کے خلاف باقاعدہ تحریک چلا رکھی تھی … اور
اس تحریک کا دائرہ کار وہاں تک تھا جہاں تک انگریز کی فرمانروائی تھی … انگریز
چاہتا تھا کہ اسکا اقتدار سدا بہار رہے … اس کی خواہش کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ
اسلام کا حکم جہاد اور مسلمانوں کا جذبۂ شہادت تھا… انگریز کو مسلمانوں کے علاوہ
باقی اقوام سے یہ تجربہ تھا کہ وہ … غلامی کو قسمت یا سعادت سمجھ کر قبول کر لیتے
ہیں … جبکہ … مسلمان غلامی گوارہ نہیں کرتے اور استحصالی قوتوں کے خلاف میدان میں
اتر آتے ہیں … اس لئے اسلام کے حکم ’’جہاد‘‘ کو بدلنے اور مسلمانوں میں ’’جذبہ
شہادت‘‘ کی بجائے ’’خوئے غلامی ‘‘ پیدا کرنے کیلئے … انگریزوں نے ایک دجّالی تحریک
کا سہارا لیا … اور اس قادیانی تحریک کو اپنے وسائل کے زور پر دنیا بھر میں پھیلا
دیا … قادیانی لٹریچر اور ذہنیت کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ … اس
ناپاک تحریک کا خلاصہ ’’انکار جہاد‘‘ ہے … مرزا قادیانی ملعون نے انگریزی حکومت کی
خدمت کیلئے مسئلہ جہاد پر تحریف و تاویل کی ایسی بوچھاڑ کی کہ … اس کے ناپاک اثرات
بہت عام ہونے لگے … حتیٰ کہ مرزا قادیانی کے خلاف کام کرنے والے کئی افراد کو
دیکھا کہ جہاد کے بارے میں ان کے نظریات … مرزا قادیانی کی تحریفات سے متاثر ہیں …
حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے … قادیانیت
کے خلاف ایک حقیقی مجاہد کے طور پر کھڑا فرمایا تھا … چنانچہ … جہاں آپ نے
قادیانیت کا بھرپور تعاقب کیا وہاں نظریۂ جہاد کی بھی خوب خدمت کی … آپ بار ہا
افغانستان تشریف لے گئے … آپ نے تمام جہادی جماعتوں کی ہر وقت … اور ہر طرح کے
موسم میں اعانت کی… آپ رحمۃ اللہ علیہ مجاہدین کے اجتماعات اور جلسوں کے روح رواں
بنے رہے … آپ کشمیر کے جہاد کے زبردست حامی رہے… آپ نے اپنی تقاریر میں نہایت
نپے تلے علمی الفاظ کے ساتھ … جہاد کی حمایت کا سلسلہ تادم واپسیں جاری رکھا … اور
یوں آپ کی ذات … مکمل طور پر ’’رد قادیانیت‘‘ کا چلتا پھرتا نمونہ بن گئی …
پھر اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص فضل یہ رہا کہ آپ ’’حسد‘‘
اور ’’تنگ دلی‘‘ سے بہت دور رہے … اور آپ اکثر دینی جماعتوں اور کاموں کی بے دھڑک
تائید اور حمایت فرماتے تھے … اور اپنے سے بہت چھوٹے افراد کی بھی … بھرپور حوصلہ
افزائی کرتے تھے … حالانکہ … ہمارے اس دور میں ایسا بہت کم ہوتا ہے …
اپنے
مقصد کا جنون
حضرت
مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کی سب سے زیادہ متاثر کن صفت … ان کا اپنے مشن اور
مقصد کے ساتھ والہانہ لگاؤ… اور جنون تھا … ہم نے ’’یکسوئی‘‘ کا لفظ بارہا سنا ہے
… مگر کوئی ’’یکسو دیوانہ‘‘ خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے… لوگ کسی دینی کام کو
اپنا مقصد اور مشن بناتے ہیں … مگر پھر… دائیں بائیں پھسل جاتے ہیں … کچھ لوگ
تنگی، تنگدستی، ناقدری کی وجہ سے اپنا مشن بھول جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ خوف اور
دباؤ کی وجہ سے راستہ بدل لیتے ہیں … کچھ لوگوں کو … کسی اور کام میں زیادہ
’’چمک‘‘ نظر آ جاتی ہے تو کچھ اپنی ذات کی مجبوریوں میں پھنس جاتے
ہیں… اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ
کوبہت مثالی یکسوئی عطا فرمائی تھی وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے سرشار ہو کر … قادیانیوں کے تعاقب میں نکلے تو پھر … نہ جیل کی
سختی انہیں روک سکی … اور نہ ریل کی تھکاوٹ آڑے آئی… انہوں نے اپنی ذات کو اس
قدر بھلا دیا کہ … مجھے یاد نہیں کہ … انہوں نے درجنوں ملاقاتوں کے دوران اپنی ذات
کی کوئی بات کی ہو … وہ سفر کے دوران ملے یا حضر میں … صحت کی حالت میں ملے یا
بیماری میں … انہوں نے … اپنا عاشقانہ موضوع ہی دہرایا … انہوں نے تحفظ ختم نبوت
کو اپنا ذاتی مسئلہ بنا لیا … اور پھر اسی کی صدا لگاتے رہے … مجھے یاد ہے کہ
گوجرانوالہ میں جلسہ کے موقع پر … کھانے کی نشست کے دوران قومی اسمبلی کے ایک ممبر
بھی… تشریف فرما تھے … حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں
فرمایا جناب میرا ایک مسئلہ بھی حل کرا دیں … میں سمجھا … کوئی ذاتی
مسئلہ ہو گا … مگر انہوں نے … قادیانی املاک کو اوقاف کی ملکیت میں دینے کا مسئلہ
پوری تفصیل سے بیان کیا … اور ممبر اسمبلی صاحب سے اس کے لئے کوشش کرنے کا وعدہ
لیا … اسی طرح … موجودہ قادیانی گرو مرزا مسرور کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ …
یہ میرا ملزم ہے … اور پھر پوری تفصیل سے اس کی گرفتاری کا قصہ سناتے تھے … اپنے
مقصد کے ساتھ جنونی تعلق کا یہ عالم تھا کہ … مرزا قادیانی کے کذب کی جیتی جاگتی
نشانی … محترمہ محمدی بیگم صاحبہ کو ڈھونڈ لیا اور ان سے اس وقت مل آئے جب وہ
بڑھاپے کی آخری منزلوں پر تھیں … حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ کی ہزار صفات
اور ہزار کارنامے ایک طرف … مگر میرے نزدیک ان کی سب سے قابل تقلید اور قابل رشک
صفت ان کی یہ یکسوئی، لگن اور کڑھن تھی … انسان بہت کمزور اور مجبور ہے … ہر آدمی
کے بے شمار مخالف اور دشمن ہیں … ہر آدمی طرح طرح کی بیماریوں اور عوارض کا شکار
ہے … اس لئے وہ اپنے مقصد کے ساتھ اس قدر ’’یکسو‘‘ نہیں رہ سکتا … مگر ختم نبوت کی
شمع بہت تابناک ہے … اور اس کا یہ مخلص پروانہ بس اسی کے گرد گھومتا رہا … اپنی
جوانی، زندگی … اور راحت کو مزے لے لے کر فدا کرتا رہا … اور پھر بہت سے افراد کو
اس شمع کا پروانہ بنا کر خود … آرام کے لئے بلا لیا گیا …
سوال: ان
کے چند ایک واقعات جن سے انکی شخصیت کا کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہو ؟
جواب
نمبر ۴ کے
ذیل میں چند واقعات عرض کر دیئے ہیں…
سوال
: انکی کوئی تحریر آپ کے پاس ہو تو اس کی صاف اور واضح فوٹو کاپی
عنایت فرمائیں۔
جواب
: حضرت مولانا چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف جلسوں میں دعوت دینے کیلئے … اور
بعض دوسرے حضرات کے جلسوں میں شرکت کی سفارش کیلئے … بعض خطوط تحریر فرمائے… بندہ
اپنی دربدری کی وجہ سے انہیں ڈھونڈنے اور بھجوانے سے قاصر ہے … البتہ حضرت
مولانارحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دو کتابیں عنایت فرماتے وقت ان کے شروع میں چند
الفاظ لکھے تھے انکی فوٹو کاپی بھجوا رہا ہوں … ایسا تعمیل حکم میں کر رہا ہوں
میری گزارش ہے کہ انہیں شائع نہ کیا جائے کیونکہ بندہ ان الفاظ کا مستحق نہیں ہے …
یہ حضرت مولانا کی وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ آپ نے اپنے ایک ادنیٰ سے
شاگرد کی حوصلہ افزائی فرمائی …
سوال
: ان کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے
جواب: ایک
ہدایت یافتہ، فلاح یاب، کامیاب مسلمان… سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ، مجاہد اسلام، صفدر مناظر … اور اُمت مسلمہ کا فخر… جگر مرحوم کا
یہ شعر ان کی نذر …
اپنا
زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم
وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
سوال: ان
کے مشن کو جاری رکھنے اور وسعت دینے کیلئے تجاویز!
جواب: اللہ تعالیٰ
حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کے فاضل صاحبزادوں اور تلامذہ کو اسکی بھرپور صلاحیت
اور توفیق عطاء فرمائے … فوری طور پر حضرت مولانا کی سوانح حیات اور آپ کی تصانیف
کو وسیع پیمانے پر عام کرنے کی ضرورت ہے … المنظور کے نام سے ایک ہفت روزہ معیاری
رسالہ جاری کیا جائے … جس میں آدھا حصہ حضرت مولانا کے مواعظ، فرمودات، تصانیف،
واقعات اور مناظروں کے لئے ہو… اور باقی آدھے حصے میں حالات حاضرہ کے مطابق …
تحفظ ختم نبوت وغیرہ پر مضامین ہوں … حضرت مولانا کے ردقادیانیت پر دروس کی کیسٹ اور
سی ڈی کا معیاری سیٹ بنا کر اخبارات اور دینی رسالوں میں اسکا اشتہار دیا جائے
تاکہ لوگ گھر بیٹھ کر … اس نصاب کو حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ کی آواز میں سن
سکیں … اور اہم ترین کام یہ ہے کہ حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ نے جو کام شروع کئے …
خصوصاً … ادارہ مرکزیہ دعوت والارشاد چنیوٹ … ان کا رنگ پھیکا نہ پڑنے پائے …
اللہ تعالیٰ
ان تمام کاموں کو خوب خوب ترقی اور قبولیت عطاء فرمائے… اور ان صدقاتِ حسنہ کو
تاقیامت جاری و ساری رکھے …
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین
محمد
مسعود ازہر
۳ رجب
المرجب ۱۴۲۷ھ بمطابق ۹ اگست ۲۰۰۸ء
٭٭٭
مقابلہ… اور میدان
اللہ تعالیٰ
’’منافقین‘‘ کے شر سے امّت مسلمہ کی حفاظت فرمائے… پچھلے ہفتے ’’حضرت چنیوٹی رحمۃ
اللہ علیہ ‘‘ کے خصوصی شمارے کی وجہ سے وہ کالم مکمل نہ ہوسکا تھا جو ’’مقابلہ‘‘
کے عنوان سے شروع کیا تھا… وہ موضوع بہت اہم ہے… نفاق کا فتنہ بہت ’’طاقتور‘‘
ہوچکا ہے اور امّت مسلمہ کو اندر ہی اندر سے چاٹ رہا ہے… ابھی اسلامی دنیا کے
حکمران ’’شرم الشیخ‘‘ میں بہت بے شرمی کے ساتھ ’’بش‘‘ کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے
ہیں… ہر ایک بش کے قدموں میں بیٹھ کر بس یہی وعدہ کر رہا ہے کہ ہم اپنے ملکوں سے
اسلامی شدّت پسندی اور جہاد کو ختم کردیں گے… ہم اپنے ملکوں کو مغربی گناہوں کا
اڈّہ بنادیں گے… ہم مسلمان ضرور ہیں مگر اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں … ہم لبرل
ہیں، ہم سیکولر ہیں ، ہم امریکہ کے وفادار ہیں، ہم مغرب کے پرستار ہیں… کافروں
جیسا لباس، کافروں جیسی شکلیں، کافروں جیسے کرتوت، کافروں جیسی خرمستیاں… مگر نام
کے مسلمان … اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر رحم فرمائے… کسی ایک
نے بھی عراق کے مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ نہیں اٹھایا… وہاں امریکی اژدھا آٹھ لاکھ
افراد کو نگل چکا ہے… کسی ایک نے بھی کشمیر کا مسئلہ نہیں اٹھایا کہ بش کے چہرے پر
ناراضی کی ایک شکن ان کو گوارہ نہیں… کسی ایک نے بھی افغانستان میں روزانہ ذبح
ہونے والے طالبان کی بات نہیں کی… کیونکہ طالبان کے تو یہ خود دشمن ہیں… ان کی اور
امریکی صدر کی سوچ میں کیا فرق ہے؟… کوئی نہیں… وزیر اعظم گیلانی سمیت تمام مسلمان
حکمران یہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہماری اور صدر بش کی سوچ ایک ہے… انا
للہ وانا الیہ راجعون… کیا یہ مرنے کے بعد بھی صدر بش کے تابوت میں دفن
ہوں گے؟ … خیر چھوڑیں ان باتوں کو یہ باتیں تو آپ روزانہ اخبارات میں پڑھتے رہتے
ہیں… آئیے قرآن پاک سے روشنی لیں اور پوچھیں کہ
۱ نفاق
کے فتنے کا مقابلہ کیسے ہوگا؟
۲ نفاق
کے فتنے کا مقابلہ کہاں ہوگا؟
۳ نفاق
کے فتنے سے ہم خود کیسے بچ سکتے ہیں؟
ہمارے
جذباتی مسلمان جب اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے حالات دیکھتے ہیں تو فوراً ان کیخلاف
مسلّح جہاد کا اعلان کردیتے ہیں… حالانکہ یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے خلاف جنگ
نہیں فرمائی… حالانکہ اُس زمانے کا ’’نفاقی فتنہ‘‘ بہت خطرناک تھا… انہوں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش
کی… انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں علاقہ پرستی اور قوم پرستی
کا نعرہ بلند کرکے اسلام کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی… انہوں نے کافروں کے ساتھ ہر طرح
کا خفیہ تعاون مسلمانوں کے خلاف کیا… انہوں نے کافروں کو اڈّے فراہم کیے… انہوں نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے تک پر تہمت کی انگلیاں اٹھائیں… مگر
ان کے خلاف ’’جنگ‘‘ نہیں کی گئی… یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی
حکمت عملی تھی… اسی حکمت عملی نے اسلام کو تیس سال کے عرصے میں دنیا کا طاقتور
ترین حکمران بنادیا… آج کے مسلمان اسی حکمت عملی سے محروم ہیں… ہماری ساری
توانائیاں منافقین کے خلاف خرچ ہو رہی ہیں… اور کافر مزے سے اپنی طاقت اور اپنا
فتنہ بڑھاتے جارہے ہیں… مصر کے مجاہد حسنی مبارک کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں… الجزائر
والے وہاں کی حکومت سے لڑ رہے ہیں… تیونس اور اردن کی تحریکیں بھی اندر ہی اندر کٹ
رہی ہیں… اور پاکستان میں بھی یہاں کی حکومت پر حملے کرنا اب سب سے بڑا جہاد سمجھا
جارہاہے… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین اگر منافقین کے ساتھ اُلجھ جاتے تو دینِ اسلام مدینہ منورہ اور مکہ
مکرمہ سے باہر نہ نکل سکتا… مگر اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے منافقین کو ایسے ہی چھوڑ دیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
تو اپنی بے مثال حکمت عملی کی بدولت منافقین کے فتنے کو جڑ سے اکھاڑ دیا… اور اس
کا نام و نشان تک مٹادیا… قرآن پاک سمجھاتا ہے کہ منافقین کے ساتھ ’’مقابلہ‘‘ کرنے
کے لئے مسلمانوں کے پاس تین ہتھیار ہیں:
۱ جماعت ۲ جہاد ۳ مسجد
مسلمانوں
کو یہ تین ہتھیار بیک وقت استعمال کرنے ہوں گے تب منافقین کا فتنہ اپنی موت آپ
مرجائے گا…
اس
بات کو سمجھنے سے پہلے دو چھوٹی سی باتیں ذہن نشین کرلیں…
پہلی
بات یہ کہ منافقین ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا صبر ٹوٹ جائے اور وہ ان سے
لڑنے لگیں… مدینہ منورہ کے منافقین نے ایسی بہت سی حرکتیں کیں اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ان کے خلاف تلواریں نکال لینے کا ارادہ کیا… مگر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے صبر کو ٹوٹنے نہ دیا اور ہر موقع
پر یہی حکم دیا کہ مسلمان منافقین کے خلاف جنگ نہ کریں… یوں مسلمان ہر طرح کی خانہ
جنگی سے محفوظ رہے اور چن چن کر کافر دشمنوں کا صفایا کرتے رہے… پہلے مشرکین مکہ،
پھر یہود مدینہ، پھر عرب قبائل اور پھر شام… اور پھر عراق… اور یوں روم وفارس کی
سلطنتیں سمٹ گئیں اور اسلام ہر طرف پھیل گیا… دراصل جو شخص شیر کا شکار کرنے نکلا
ہو وہ ناک پر بار بار حملہ کرنے والی مکھی سے الجھ کر اپنی طاقت کو ضائع نہیں
کرتا… مکھی بار بار اس کے منہ پر اور اس کی ناک پر حملہ کرتی ہے اور اسے دعوت دیتی
ہے کہ شیر کو چھوڑو مجھ سے مقابلہ کرو… اب اگر یہ شخص اپنا تمام اسلحہ اور طاقت اس
مکھی کی سرکوبی پر خرچ کردے تو ’’آدم خورشیر‘‘ آزاد پھرتا رہے گا۔
دوسری
بات یہ ہے کہ منافقین ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کسی ’’غلط میدان‘‘ میں
مقابلے پر لے آئیں… اب ہر میدان میں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت
نہیں اترتی… یہ نصرت تو صرف خاص اور اچھے میدانوں میں اترتی ہے… اس کو آسان سی
مثال سے سمجھیں، اگر کوئی گدھا یہ دعویٰ کردے کہ میں انسان سے افضل ہوں کیونکہ
میری آواز بہت طاقتور ہے… تو کیا انسان فوری طور پر اس میدان میں گدھے کے مقابلے
پر اتر آئے گا؟… اگر گندگی کا کیڑا دعویٰ کردے کہ میں انسان سے افضل ہوں کہ گندے
اور ناپاک پانی میں سانس لیتا ہوں جبکہ انسان ایسا نہیں کرسکتا … تو کیا انسان
اپنی فضیلت اور حقانیت ثابت کرنے کے لئے گندے پانی اور گٹر میں کیڑے کا مقابلہ
کرنے کے لئے اتر آئے گا؟… آج کل ہر طرف یہی شور ہے کہ مسلمانوں کو ’’جدید میڈیا‘‘
پر باطل کا مقابلہ کرنا چاہئے… کیا گندگی کے اس گٹر میں ہم باطل کا مقابلہ کرسکتے
ہیں؟… مدینہ منورہ کے منافقین نے بھی ایسے کئی میدان تجویز کیے اور مسلمانوں کو
مقابلے کے لئے بلایا… مگر مسلمانوں کے سروں پر آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم موجود تھے اور قرآن پاک نازل ہو رہا تھا… چنانچہ ’’ہرمیدان‘‘ میں مقابلے کا
غلط نعرہ اس زمانے میں کامیاب نہیں ہوسکا… دراصل بعض میدان تو ہوتے ہی کافروں اور
منافقوں کے ہیں… ان میدانوں میں جاکر ہم ان کا مقابلہ کس طرح سے کرسکتے ہیں؟… اگر
ہم ان میدانوں میں گئے تو ہم خود مذاق بن جائیں گے… جس طرح آج ’’ٹی وی‘‘ پر باطل
کا مقابلہ کرنے والے مذاق بنے ہوئے ہیں… پاکدامن عورتیں ’’بے حیائی‘‘ کے مقابلے
میں کہاں کامیاب ہوسکتی ہیں؟… جس طرح قرآن پاک کو ہرجگہ لے جانا جائز نہیں ہے کہ…
کوئی نعوذب اللہ ناپاک جگہ بھی اسے اٹھا کر لے جائے… اسی طرح ’’اسلام‘‘
اور ’’حق‘‘ کو ہر جگہ لے جانا بھی جائز نہیں ہے یہ شیطان کا دھوکا اور منافقین کی
سازش ہے… اور ہم میں سے بعض لوگ اس سازش کا ’’نیک نیتی‘‘ سے شکار ہو رہے ہیں… یاد
رکھیں ہم بینک بناکر، ٹی وی چینل کھول کر … اور مخلوط تعلیمی ادارے بنا کر ان کا
مقابلہ کرنے نکلے تو ہم بری طرح ناکام ہوں گے…
سرسیّد
احمد خان یہی نظریہ اُٹھا کر بہت سوں کو تباہ کر گئے… افسوس کہ آج کئی مخلص
مسلمان اسی نظریئے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں…
ان
دو باتوں کو ذہن میں رکھ کر ہم پھر اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ… منافقین سے
مقابلہ کیسے ہو اور کہاں ہو اور کس طریقے پر ہو… قرآن پاک نے تین طریقے سمجھائے
ہیں کہ بیک وقت ان تین طریقوں کو اختیار کرکے منافقین کے فتنے کو توڑا جاسکتا ہے
اور مسلمانوں کی نفاق سے حفاظت کی جاسکتی ہے…
۱ ایمان
کی بنیاد پر قائم ہونے والی جماعت
۲ اسلام
دشمن کافروں کے خلاف مسلسل جہاد
۳ مساجد
کی آبادی
منافقین
کے ساتھ مقابلہ کا یہ تین نکاتی نصاب قرآن پاک نے ’’سورۃ التوبہ‘‘ میں بیان فرمایا
ہے… یہ سورۃ دراصل منافقین کے حالات سمجھانے والی اور کرید کریدکر ان کی صفات
بتانے والی سورۃ ہے… مثال کے طور پر آپ اس زمانے میں مغرب کی شہہ پر کام کرنے والی
این جی اوز کو دیکھیں… اور پھر سورۃ التوبہ کو دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ
قرآن پاک نے کس طرح سے صدیوں سے پہلے ان فتنہ پرور اداروں کے حالات بیان فرمادیئے
ہیں… اسی طرح آپ سورۃ التوبہ کو دیکھیں اور موجودہ اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے طرز
عمل کو دیکھیں تو آپ کا دل پکار اٹھے گا کہ بے شک قرآن
پاک اللہ رب العالمین کا کلام ہے… سورۃ التوبہ آیت (۱۰۷) کو
دیکھیں… منافقین نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے ایک عمارت بنائی… نام اس کا ’’مسجد‘‘
رکھا اور اعلان کیا کہ ہمارا مقصد رفاہ عامہ اور خدمت خلق ہے… اِنْ اَرَدْنَآ
اِلاَّ الْحُسْنٰی… بیمار، کمزور اور بوڑھے لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے ہم نے یہ
مسجد بنائی ہے… قرآن پاک بتاتا ہے کہ ان کے اصل مقاصد چار تھے:
۱ مسلمانوں
کے دینی مراکز اور مساجد کو نقصان پہنچانا
۲ مسلمانوں
کے معاشرے میں کفریہ باتوں کو پھیلانا اور کفر کو تقویت دینا
۳ مسلمانوں
کے درمیان تفرقے پیدا کرنا، ان میں جدائیاں ڈالنا
۴ اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والے کافروں کو اڈے فراہم کرنا، ان کے لئے خفیہ
مرکز بنانا اور ان کی امداد کرنا
دیکھئے
قرآن پاک کے الفاظ:
وَالَّذِیْنَ
اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًا م بَیْنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ
حَارَبَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ
اِنْ اَرَدْنَآ اِلاَّ الْحُسْنٰی وَ اللہ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ
لَکٰـذِبُوْنَ ۔ (التوبۃ۱۰۷)
ترجمہ: کچھ
منافق وہ ہیں جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنائی کہ (مسجد قباء کو اور مسلمانوں
کو) نقصان پہنچائیں اور کفر کو تقویت دیں اور ایمان والوں میں پھوٹ ڈالیں اور اس
مسجد کو اس شخص کے گھات لگانے کی جگہ بنائیں جو ایک عرصہ سے اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصد
تو صرف بھلائی تھی اور اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بے شک
وہ جھوٹے ہیں…
اگر
آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کو غور سے پڑھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں … اور مدارس
اور مساجد کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اور قوم پرستی کے جو نعرے ہر طرف بلند ہو رہے
ہیں ان کی اصل وجہ سمجھ میں آجائے… انشاء اللہ اگلی نشست
میں اس آیت کی کچھ تفسیر اور منافقین سے مقابلے کے جو تین طریقے ہیں ان کے بارے
میں کچھ عرض کیا جائے گا…
وصلی اللہ تعالیٰ
علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما
مقابلہ… اور کامیابی
اللہ تعالیٰ
ہمیں ایمان کامل عطاء فرمائے اور نفاق ومنافقین سے ہماری حفاظت فرمائے… پچھلے ہفتے
ہم نے پڑھا کہ مدینہ منورہ کے منافقین نے ’’مسجد‘‘ کے نام سے ایک عمارت بنائی… اور
مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے
افتتاح کی درخواست کی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے لئے تشریف
لے جارہے تھے… اس لئے اس معاملہ کو اپنی واپسی تک ملتوی فرمایا… واپسی کے سفر میں
ابھی مدینہ منورہ پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش سے آگاہ فرمادیا اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرؓام کو بھیج کر اس عمارت کو آگ
لگوادی… یہاں چند باتیں ذہن میں رہیں…
۱ منافقین
نے اس عمارت کا نام ’’مسجد‘‘ رکھا… معلوم ہوا منافقین دین کا لبادہ اوڑھ کر اور
دینی اصطلاحیں استعمال کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں
۲ انہوں
نے اعلان کیا کہ ہمارا مقصد نیک ہے… ہم ضعیف، بیمار اور کمزور مسلمانوں کو فائدہ
اور آسانی پہنچانا چاہتے ہیں… معلوم ہوا کہ منافقین یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم اُمت
مسلمہ کے خیرخواہ ہیں، ہم اُمت کی ترقی، آسانی اور حفاظت چاہتے ہیں
حضرت
مولانا عاشق الٰہی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’انوار البیان‘‘ میں مسجد ضرار
کی مثال کے طور پر مرزا قادیانی کو پیش فرمایا ہے… اور ہم اس زمانے میں دہلی کے
وحید الدین خان اور لاہور کے ’’جاوید غامدی‘‘ کو پیش کرسکتے ہیں… ان تین شخصیات کو
آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو ’’مسجدضرار‘‘ کا پورا معاملہ سمجھ میں آجائے گا…
۱ نام
اسلامی اور دل کفر اور کافروں کی محبت سے لبریز
۲ مسلمانوں
کی خیر خواہی کا دعویٰ کہ جہاد میں ان کے لئے ہلاکت ہے اور امریکہ کی غلامی میں ان
کی نجات، ترقی اور آسانی ہے
۳ مسلمانوں
سے نفرت اور ان کی تحقیر اور کافروں کو معزز سمجھنا
۴ مسلمانوں
کے جہاد پر اعتراضات کہ ایک جان کو قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے… مگر امریکہ
اور انڈیا جتنے مسلمانوں کو قتل کردے اس کو اچھا سمجھنا اور مجاہدین کو قتل کرنے
والوں کو خوب داد دینا
۵ ہر
معاملے میں مسلمانوں کو غلط قرار دینا اور کافروں کی منہ بھر کر وکالت کرنا
اور
ان سب کی عادتیں بھی ایک جیسی ہیں…
۱ عزت
اور نام کے بھوکے … ظالم حکمرانوں کے چیلے
۲ مال
کے لالچی اور حریص
۳ واضح
دینی احکام میں تاویلیں کرنے والے
۴ امریکہ،
برطانیہ اور یورپ کے پجاری
۵ دینی
غیرت کے دشمن
۶ کافروں
کے لئے نرم اور مسلمانوں کے لئے بے حد بدزبان اور سخت
ابھی
چند دن ہوئے مجھے ’’جاوید غامدی‘‘ کے ایک چیلے کے خطوط ملے اس میں لکھا ہے:
۱ امریکہ
نے عراق اور افغانستان کے مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلائی ہے
۲ صدر
بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر دنیا میں امن قائم کیا ہے
۳ توہین
رسالت کی سزا موت قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے
۴ عورتوں
کی اماُمت کو غلط قرار دینا جاہل مولویوں کا کام ہے
۵ اسلام
میں عورت کا پردہ نہیں ہے
۶ جہاد
کی آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے
لئے تھیں
۷ اگر
کنڈوم استعمال کرکے زنا کیا جائے تو یہ اس زنا کی طرح قابل مذمت نہیں جس سے اولاد
ہوتی تھی اور اسلام نے منع کیا تھا
۸ موسیقی
حلال ہے
۹ شراب
اور جسم فروشی پر پابندی غلط ہے
۱۰ یہ
عقیدہ غلط ہے کہ صرف مسلمان ہی جنت میں جائیں گے
اس
ظالم شخص نے مسلمانوں کے خلاف، مجاہدین کے خلاف اور علماء کے خلاف ایسی گندی اور
سخت زبان استعمال کی ہے کہ … اسے نقل کرنا بھی محال ہے… اور حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ عنہ کی شان میں بھی گستاخی بکی ہے…
آپ
وحید الدین خان، ڈاکٹر جاوید غامدی اور اس طرح کے دوسرے منحرفین کو دیکھیں ان سب
نے اپنے اور اپنے اداروں کے نام اسلامی رکھے ہوئے ہیں… یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان
بدترین تفریق ڈالتے ہیں جبکہ ظاہری طور پر فرقہ واریت کے خلاف بولتے ہیں… یہ لوگ
’’مادّی ترقی‘‘ کو اصل کامیابی سمجھتے ہیں اور کافروں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں
کہ وہ مجاہد مسلمانوں کو ختم کردیں… یہ لوگ ظاہری طور پر محبت اور رواداری کا درس
دیتے ہیں… مگر جب وہ مجاہدین اور علماء کے خلاف لکھتے یا بولتے ہیں تو ان کی
’’محبت‘‘ اور ’’رواداری‘‘ کہیں دور گم ہوجاتی ہے… یہ لوگ اسلامی معاشرے کو بے
حیائی، موسیقی اور مغرب پرستی سے بھرنا چاہتے
ہیں… اللہ تعالیٰ ان سب کے شر سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے…
عجیب بات ہے کہ یہ لوگ صدر پرویز کے دیوانے عاشق ہیں… اور وجہ صرف ایک ہے کہ انہوں
نے مجاہدین کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کا ساتھ دیا ہے… بس ان کے اسی طرز عمل سے آپ
اندازہ لگالیں کہ یہ لوگ کس کے ایجنٹ اور کس کے آلہ کارہیں… اور یہ مسلمانوں سے
کتنی نفرت رکھتے ہیں…
حضرت
مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مسجد ضرار کی مثال کے طور پر مرزا قادیانی
کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ
منافقین کا پرانا طرز عمل ہے کہ وہ دین کا نام لیکر کفر پھیلاتے ہیں اور مسلمانوں
کو نقصان پہنچاتے ہیں، مسجد ضرار میں بھی نام ’’مسجد‘‘ کا تھا مگر حقیقت میں وہ
کفر و نفاق اور شرو فساد کا ایک اڈّہ تھا۔
انگریزوں
کو اپنے اقتدار میں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں مسلمان جہاد کے لئے کھڑے نہ ہوجائیں،
اس لئے انہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلام ہی کی راہ سے جہاد کو منسوخ
کرائیں، جہاد اسلام کا بہت بڑا عمل ہے۔ اپنے وفادار نام نہاد علماء سے منسوخ کراتے
تو کون مانتا، اس لئے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک شخص سے نبوت کا دعویٰ
کرایا پھر اس سے جہاد منسوخ ہونے کا اعلان کرادیا، وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح مسلمان
جہاد کو منسوخ مان لیں گے، انہیں یہ پتہ نہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے بنائے ہوئے
نبی کو ماننے سے انکار کردیں گے، بہرحال انہوں نے اپنا یہ حربہ استعمال کیا، یعنی
ایک شخص سے نبوت کا اعلان کراکے جہاد منسوخ کرانے کی سعی لاحاصل کی‘‘۔ (تفسیر
انوارالبیان)
جاوید
احمد نے بھی اپنے نام کے ساتھ ’’غامدی‘‘ لگا کر خود کو عربی اور علمی شخصیت قرار
دینے کی کوشش کی ہے… اس شخص کا تعلق مشرقی پنجاب سے ہے… ایک صحافی نے اس سے پوچھا
کہ آپ ’’غامدی‘‘ کیسے بن گئے… جواب دیا کہ میرا داد اصلاحی کام کرتا تھا میں نے
ارادہ کیا کہ ان کی طرف اپنی نسبت کروں… مگر ان کے پنجابی نام کی طرف نسبت کے لئے
لفظ موزوں نہیں ہو رہا تھا… پھر مجھے پتہ چلا کہ عربوں کا قبیلہ ’’بنوغامد‘‘ بھی
اصلاحی کام کرتا ہے تو میں فوراً ’’غامدی‘‘ بن گیا… اب اگر اس کا نام ’’جاوید‘‘
رہتا تو لوگ اس کی باتوں کو ’’جیدے کی چولیاں‘‘ سمجھ کر چھوڑ دیتے مگر غامدی کا
لفظ سنتے ہی یوں لگتا ہے جس طرح ماضی کا کوئی بڑا امام ہو اور کوئی بڑی علمی
شخصیت… انا للہ وانا الیہ راجعون…
اب
نفاق کے اس خوفناک فتنے کا مقابلہ کیسے ہو؟… قران پاک نے جو طریقے بتائے ہیں ان کو
سمجھنے کے لئے ملاحظہ فرمایئے سورۃ التوبہ آیت ۷۱
اللہ تعالیٰ
کا ارشاد گرامی ہے:
وَالْمُؤمِنُوْنََ
وَالْمُؤمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَأمُرُوْنَ بِا لْمَعْرُوْفِ وَ
یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤتُوْنَ الزَّکٰوۃَ
وَیُطِیْعُوْنَ اللہ وَرَسُوْلـَہٗ اُوْلٰٓئِکَ
سَیَرْحَمُہُمُ اللہ اِنَّ اللہ عَزِیْزٌ
حَکِیْمٌ۔ (التوبۃ۷۱)
ترجمہ: اور
ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں نیکی کا حکم کرتے
ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن
پر اللہ تعالیٰ رحم کرے گا، بے
شک اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے۔
اس
کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والے مردوں اور
عورتوں کے لئے جنت کا وعدہ فرمایا ہے… حکمت اس کی یہ سمجھ آتی ہے کہ مؤمن دنیا میں
پابندی اور مشکل کی زندگی گذارتا ہے تو اس کو بتایا گیا کہ یہ پابندی اور مشکلات
تمہارے لئے بہتر ہیں… تمہاری مکمل آزادی والی زندگی آخرت میں شروع ہوگی اور تمہیں
جنت میں ہر وہ مزہ ملے گا جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا… جبکہ منافق یہ
سارے مزے اس دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے… وہ نماز سے آزاد، جہاد سے آزاد، دینی
پابندیوں سے آزاد رہتا ہے تو مرتے ہی اس کے لئے جہنم اور ’’سجین‘‘ کا قید خانہ
تیارہے…
صاحب
فتح الجوّاد اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
پہلے
منافقین کی صفات بیان فرمائی گئیں، جن سے معلوم ہوا کہ یہ طبقہ اسلام اور مسلمانوں
کے لئے بے حد خطرناک ہے یہ لوگ ’’مُنْکَرْ‘‘ یعنی کفر اور برائی کو پھیلانے میں
اپنی قوت اور زور خرچ کرتے ہیں اور ’’مَعْرُوْف‘‘ یعنی اسلام کے خلاف ہر کوشش صرف
کرتے ہیں… اب سوال یہ ہے کہ آستین میں چھپے ہوئے اس خطرناک فتنے کا مقابلہ کیسے
ہوگا؟ یہ تو اندر ہی اندر سے مسلمانوں کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے تو ان دو آیات
میں فرمایا گیا کہ مسلمان مرد اور عورتیں ایمان کی بنیاد پر ایک جماعت بن کر رہیں
اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور اس جماعت کے ضروری کام یہ ہوں:
۱ امر
بالمعروف ، نہی عن المنکر
۲ اقاُمت
صلوٰۃ
۳ ایتاء
الزکوٰۃ
۴ جہاد
فی سبیل اللہ
تو
پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت آئے گی اور اس جماعت کو دنیا میں
حفاظت اور عزت ملے گی ان اللہ عزیز حکیم۔ (فتح الجوّاد)
صاحب
تفسیر الفرقان لکھتے ہیں:
مؤمن
مرد اور عورتیں آپس میں ’’جسم واحد‘‘کی طرح ہیں، حدیث میں آتا ہے :
المؤمن
للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا وشبک بین اصابعہ (بخاری)
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا کر فرمایا کہ اس طرح سے
ایک مسلمان دوسرے کی قوت کا باعث ہوتاہے۔
دوسری
روایت میں آتا ہے:
مثل
المومنین فی توادّہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد اذا اشتکٰی منہ عضو تداعی لہ
سائر الجسد بالسہرو الحمّی (مسلم)
باہمی
محبت (اور تعاون) کے اعتبارسے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ایک عضو کو تکلیف پہنچتی
ہے تو اس کو تمام جسم صاف محسوس کرتا ہے۔
یہ
لوگ اصولی امور کو ہمیشہ پہلے لیتے ہیں، قرآن کی حفاظت ان کا اوّلین کام ہے، جہاد
کر کے مرکزی قوت کو کمزور ہونے سے بچاتے ہیں، اللہ تعالیٰ
ان کو دنیا میں عزت عطاء فرمائے گا اور یہ بات اس عزیز و حکیم کے نزدیک کچھ بھی
(مشکل) نہیں ہے۔ (تفسیر الفرقان)
ان
آیات کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمان خود کو منافقین سے الگ رکھیں اور ان کے
اثرات قبول نہ کریں، تفسیر ماجدی کے مصنّف لکھتے ہیں:
’’فقہاء
نے لکھا ہے کہ آیت کی رو سے ایک مستقل گروہ کافروں اور منافقوں کا قرار پاگیا اور
دوسرا مستقل طبقہ اہل ایمان کا، اس لئے جو سلوک ومحبت مؤمنین کے درمیان آپس میں
ثابت اور لازم ہے وہ سلوک ومحبت کفار ومنافقین سے نہیں رکھنی چاہئے اور جو سختی
اور شدّت کفار ومنافقین کے ساتھ رکھنا دینی طور پر ضروری ہے وہ سختی مسلمانوں کے
ساتھ رکھنا جائز نہیں۔ (تفسیر ماجدی)
معلوم
ہوا کہ منافقین کا مقابلہ ایک ایسی جماعت کرسکتی ہے جو ایمان اور جہاد کی بنیاد پر
قائم ہو… اور فکر آخرت سے پوری طرح سرشار ہو … اور یہ جماعت مسلمانوں کو مسجد میں
جوڑے، جمع کرے اور وہاں مسلمانوں کی تربیت کرے… یہ بات ویقیمون الصلٰوۃ سے بھی
معلوم ہوئی … اور جہاں قرآن پاک نے ’’مسجد ضرار‘‘ کا تذکرہ فرمایا ہے
وہاں بھی اس بات کی ترغیب موجود ہے کہ اہل ایمان… ان مساجد کو آباد کریں جن کی
بنیاد تقویٰ اور طہارت پر ہے… مثال کے طور پر ڈاکٹر جاوید غامدی یا وحید الدین خان
ٹی وی پر آتے ہیں… وہ کہتے ہیں موجودہ حکمرانوں کی اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے…
سونیا گاندھی، من موہن سنگھ، پرویز مشرف… ان سب کی اطاعت قرآن و سنت کی رو سے
مسلمانوں پر فرض ہے… اور مولوی کہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں جن حکمرانوں کی اطاعت کا
ذکر ہے وہ خلفائے راشدین یا اچھے حکمران ہیں تو ہم پوچھتے ہیں قرآن وسنت میں جہاں
والدین کی اطاعت کا حکم ہے تو کیا وہاں بھی یہی مراد ہے کہ والدین اگر صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں تو ان کی اطاعت کی جائے؟… ٹی وی پر بیٹھنے والے لوگ
اس دلیل سے متاثر ہوتے ہیں … کیونکہ مسجد کا پاکیزہ ماحول موجود نہیں ہے… گناہ کے
ماحول میں گناہ کی بات ہی وزنی نظر آتی ہے… اگلے دن وحید الدین خان اور ڈاکٹر
جاوید غامدی کہتے ہیں جہاد کی آیات تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لئے تھیں… نصرت کے وعدے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تھے ان آیات کا اس زمانے میں استعمال گمراہی ہے… ٹی وی
کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ اس بات کو بھی مان لیتے ہیں اور انہیں گزشتہ
کل والی بات یاد نہیں رہتی کہ حکمرانوں کی اطاعت والی روایت اس زمانے کے لئے بھی
ہیں… وجہ بالکل واضح ہے… ٹی وی گانے سناتا ہے… بے حیائی دکھا تا ہے… دنیا بھر کے
گندے اور برے انسانوں کو اداکار بنا کر پیش کرتا ہے… اس گندے ماحول کے درمیان گندی
باتیں ہی اثر کریں گی… جبکہ مسجد میں اذان ہوگی، تلاوت ہوگی، نماز ہوگی… ذکر ہوگا…
دین کے حلقے ہوں گے… نظر کی حفاظت ہوگی… ایسے ماحول میں قرآن وسنت کی بات ٹھیک طرح
سے سمجھ میں آجائے گی… وحید الدین خان اور غامدی کبھی ہمت نہیں کریں گے کہ عام
مسلمانوں کی مسجدوں میں آکر شراب، بے پردگی اور امریکہ کی وکالت کرسکیں… وہ یا تو
کسی ہوٹل کے ہال میں یہ باتیں کریں گے یا ٹی وی کے اسٹوڈیو میں… ویسے بھی تمام
صحیح مساجد کعبہ شریف کی بیٹیاں ہیں اور ہدایت کعبہ شریف پر اترتی ہے اور وہاں سے
مساجد کی طرف منتقل ہو کر لوگوں میں تقسیم ہوتی ہیں… مساجد اور مساجد کا ماحول
مسلمانوں کے لئے ہوا اور آکسیجن کی طرح ضروری ہے… اگر مسلمان ایمان اور جہاد کی
بنیاد پر جماعت بناکر نہ رہے اور انہوں نے مساجد کے ماحول کو اختیار نہ کیا تو
نفاق کے فتنے سے ان کی حفاظت بہت مشکل ہوجائے
گی… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو جماعت، جہاد… اور مساجد
کا ماحول نصیب فرمائے … اور ہم سب کی نفاق ومنافقین سے حفاظت فرمائے… اور ہمیں اس
فتنے کے مقابلے میں کامیابی نصیب فرمائے…
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیماً
٭٭٭
کسی کی یاد میں
اللہ تعالیٰ
نے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے… اور بہت تیز ٹھنڈی ہوا کی آندھی بھیجی… فرشتوں نے
رعب ڈالا اور آندھی نے طوفان اٹھایا… تب اتحادیوں کا لشکر بچاؤ، بچاؤ کی آوازیں
لگاتا ہوا بھاگ گیا… بارہ ہزار جنگجو بھاگ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے محاذِ جنگ سے
واپس مدینہ منورہ پہنچے… جسم مبارک گرد وغبار کی چادر اوڑھے ہوئے تھا… پیاری اور
لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پانی لا کر سر
مبارک دُھلانے لگیں کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لے آئے…
یارسول اللہ آپ نے ہتھیار اتار دیئے جبکہ ہم آسمان والوں نے
ابھی تک نہیں اتارے… آسمان والے مجاہدین ایک ہزار فرشتے ابھی تک اسلحہ اٹھائے ہوئے
ہیں… حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کار گذاری سناتے ہوئے فرمایا میں مشرکین کے لشکر
کو بھگاتا رہا، بھگاتا رہا اب ان کو ’’روحاء‘‘ سے آگے تک چھوڑ کر آیا ہوں… بعد میں
ابوسفیانؓ نے بتایا کہ جب ہمارا لشکر بھاگا تو اس کے پیچھے اسلحے کی جھنکار صاف
سنائی دے رہی تھی… یہاں تک کہ ہم ’’روحاء‘‘ نامی علاقے سے آگے نکل گئے، پھر یہ
آوازیں بند ہوگئیں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اب کیا
ارادہ ہے؟… جبرئیل علیہ السلام نے یہودِ بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو فوری
طور پر ’’بنوقریظہ‘‘ سے جہاد کے لئے بھیج دیا… اور پھر خود بھی روانہ
ہوگئے… صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم … یہ
سب ۵ہجری
کے واقعات ہیں… شوال ۵ ہجری
میں یہودیوں، مشرکو ں اور کافروں کے ایک اتحادی لشکر نے مدینہ منورہ پر اپنے گمان
میں ایک فیصلہ کن حملہ کردیا تھا… قرآن پاک نے احسان فرمایا کہ یہ واقعہ بہت تفصیل
کے ساتھ سورۃ الاحزاب کی آیت (۹) سے
(۲۵) تک
میں بیان فرمادیا… اب جب بھی مسلمانوں پر اتحادیوں کا حملہ ہوتا ہے تو ہم ان مبارک
آیات سے پوری پوری رہنمائی لے سکتے ہیں… قرآن پاک نے سب کچھ بتادیا… خوفناک حملہ،
گویا کہ شدید زلزلہ… خوف، پریشانی، بھوک اور ظاہری طور پر مستقبل سے مایوسی… پھر
منافقین کے زرد چہرے، لمبی زبانیں، کافروں کے ساتھ ملنے کے اشارے اور جہاد کے خلاف
سخت باتیں … مسلمانوں کی استقامت، ان کا فدائی جذبہ اور ان کی قربانیاں… قرآن پاک
نے سارے کردار کھول کھول کر بیان فرمادیئے… ہم ان آیات کو پڑھ لیں اور پھر
افغانستان پر امریکیوں کے اور نیٹو کے اتحادی حملے کو دیکھیں تو ہمیں ان آیات کی
روشنی میں ملاّ محمد عمر کا استقامت سے چمکتا ہوا غبار آلودہ چہرہ دعاء
مانگتا ہوا نظر آئے گا… اور ہم کرزئی، مشرف اور جاوید غامدی کو بھی دیکھ سکیں گے…
جی ہاں قرآن پاک کی روشنی میں سب کچھ صاف صاف نظر آتا ہے… منافق چلاّ رہے تھے کہ
ہائے ہم مارے گئے، ہم مارے گئے… ہمارے ساتھ جہاد کے نام پر دھوکا ہوا، نصرت کی
باتیں سب فراڈ ہیں… کوئی نصرت نہیں آئے گی، ابوسفیان کا لشکر ناقابل شکست ہے، اب
ایک مسلمان بھی نہیں بچے گا، ہاں ایک بھی… کسی طرح (نعوذب اللہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے حوالے
کردو تاکہ پوری قوم تو بچ جائے … نعوذب اللہ ، نعوذب اللہ … اس بار
ابوسفیان اور غطفان کی جنگی ٹیکنالوجی کے سامنے مسلمان کچھ بھی نہیں کرسکیں گے …
مشرکوں کو خط لکھو اور بتاؤ کہ ہمارا ان مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم اسلام
کا کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر جنگ وجہاد میں ہم ان دیوانوں کے ساتھ نہیں ہیں… بچاؤ
بچاؤ ہم مارے گئے، ہم مارے گئے… ہمارے ساتھ دھوکا ہوا… قرآن پاک نے عجیب نقشہ
کھینچا ہے… سات سال پہلے جب امریکہ اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا تو منافقین
کے یہ تمام جملے میں نے اخبارات کے کالموں میں پڑھے… کئی دانشوروں نے قوم کو ڈرایا
کہ ملاّ محمد عمر نے مسلمانوں کو مروادیا… دیکھ لینا چند دن میں کچھ بھی نہیں بچے
گا، دیکھ لینا مجاہدین اور پیچھے جائیں گے… اور پیچھے… آج سات سال ہوگئے
ماشاء اللہ مجاہدین آگے ہی آگے جارہے ہیں… ایمان والوں میں
سے کچھ نے تو شہادت پاکر اپنا عہد پورا کردیا اور کچھ انتظار میں ہیں کہ کب شہادت
ملے گی… اور جہاد آگے ہی آگے جارہا ہے آگے ہی آگے… آج میں غزوۂ احزاب پر نہیں لکھ
رہا بلکہ لکھنا کچھ اور چاہتا ہوں… اور لکھا کچھ اور جارہا ہے… دراصل آج مجھے ایک
شخص یاد آرہا ہے… کچھ دن سے وہ بہت یاد آتا ہے، تھوڑی دیر آنکھوں کے سامنے رہتا ہے
اور پھر دل کو ہلا کر چلا جاتا ہے… اور دور کہیں چھپ جاتا ہے… ہاں حسن والوں کا
یہی انداز ہوتا ہے… وہ آتے ہیں، ترساتے ہیں، تڑپاتے ہیں… اور پھر گم ہوجاتے ہیں…
چند دن پہلے بی بی سی پر ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کا انٹرویو سنا… دل بہت خوش
ہوا، ڈاکٹر صاحب بڑے آدمی ہیں… اللہ پاک نے ان کو کچھ آزادی
دی ہے تو دل کو سکون ملا ہے… مگر ان کا انٹرویو سن کر بھی مجھے وہ ’’حسین شخص‘‘
یاد آگیا… پھر بی بی سی والوں نے پاکستان کے ایک مجاہد لیڈر کا انٹرویو دیا… وہ
امریکہ کو صفائی دے رہے تھے کہ ہمارا جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے… ہم نے سفارتخانوں
کو اپنی صفائی کے خطوط بھی بھیج دیئے ہیں… لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں، ہمارا جہاد سے
کوئی تعلق نہیں کوئی تعلق نہیں… یہ انٹرویو سن کر بھی مجھے ’’وہ شخص‘‘ یاد آگیا …
اللہ اکبر… اللہ تعالیٰ
نے اس کو کتنی استقاُمت عطاء فرمائی ہے… کتنا بہادر ہے وہ … بالکل صلاح الدین
ایوبیپ اور نور الدین زنگیپ جیسا لگتا ہے… اللہ تعالیٰ کی
خاطر سب کچھ چھوڑنے والا… ایک اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے
والا … اسلام کی خاطر کرسی قربان کرنے والا … اور اُمت مسلمہ کی اس زمانے میں لاج
رکھنے والا… آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو بھی آزادی مل رہی
ہے… الحمدللہ … پرانے مجاہد لیڈر بھی معاشرے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں…
صفائی دے کر… مگر وہ شخص تو بس ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے پر
ہے… اس کے بے شمار دوست ہیں مگر وہ ان میں سے کسی کے گھر نہیں جاسکتا … اس کے بے
شمار چاہنے والے ہیں مگر وہ کسی سے مل نہیں سکتا… اس نے اسلام کو اجاگر کیا اور
خود روپوش ہوگیا… اس نے جہاد کو بلند کیا اور خود غاروں کی تاریکی میں گم ہوگیا…
ہزاروں طیارے اس پر بم برسانے کے لئے ہواؤں کے چکر کاٹ رہے ہیں… اور دنیا کے ایک
سو ملک اس کو شہید کرنے کی کوشش میں ہیں… دنیا کی چھ ایٹمی طاقتیں اس کو مٹانا
چاہتی ہیں… اور اکتیس ملکوں کی مشترکہ فوج اس کو تلاش کر رہی ہے… کوئی اور ہوتا تو
اب تک مصالحت کے لئے ہاتھ بڑھا دیتا… کیونکہ ظاہری طور پر ہر طرف اندھیرا ہی
اندھیرا ہے… مگر وہ جب بھی بولتا ہے قرآن پاک کی آواز میں بولتا ہے اور بتاتا ہے
کہ… اللہ ایک ہے، وہ ہماے ساتھ ہے تو ہمیں کسی کی پروا
نہیں… اور ہم نہیں جھکیں گے، ہم اسلام کو رُسوا نہیں کریں گے… میں اس شخص کو قریب
سے جانتا ہوں… وہ بیت المال کے اموال میں بے حد احتیاط کرنے والا سچا مسلمان ہے…
وہ جنگ اور جہاد پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے… مگر اپنی ذات کو مشکل میں رکھتا ہے…
وہ اپنے رفقاء کو ہر راحت پہنچا سکتا ہے مگر اپنے لئے اس نے دروازے بند کر رکھے
ہیں… ایسا شخص روپوشی میں کیسے زندگی گزارتا ہوگا؟…
چار
ماہ کی نظر بندی کے بعد اپنے نظریات بدلنے والے اس بات کو نہیں سمجھ سکتے… ہاں
القلم والو! مجھے اپنا محبوب امیر حضرت ملاّ محمد عمر مجاہد یاد آرہا ہے… معلوم
نہیں وہ کس حال میں ہوں گے… بھائیو اور بہنو ان کے لئے دعاء تو کیا کرو… ان کے
بغیر تو ہر طرف بھوسہ ہی بھوسہ ہے… دنیا کی محبت، کافروں سے یاریاں، غیر ملکی
ویزے… اور بزدلی کے پہاڑ… مدینہ والا دین کس کے پاس ہے… ان کے پاس جو اپنی بیٹیوں
کی تین تین ماہ تک شادیاں کرتے ہیں… یا وہ جو کریڈٹ کارڈوں اور گرین کارڈوں کے
پیچھے پڑے ہوئے ہیں…
حضرت
امیر المؤمنین نے اللہ تعالیٰ کی خاطر سب کچھ قربان کردیا…
اور اپنے لئے دنیا کا دروازہ بند کردیا… میں سورۃ احزاب پڑھ رہا تھا… اور مجھے
امیر المؤمنین یاد آرہے تھے… یا اللہ تیرا شکر ہے کہ کوئی
تو ہے جس کو دیکھ کر ہمیں قرآن پاک کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے… کوئی تو ہے جس کو
دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات کو سمجھنے میں روشنی ملتی
ہے…
ملاّ
محمد عمر مجاہد… اس زمانے کا سچا مسلمان،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق… ایک مہمان
کی حفاظت کے لئے حکومت قربان کردی… اور پھر اتحادیوں کے خلاف جنگ میں پہاڑ کی طرح
ڈٹ کر کھڑا ہوگیا… ملاّ محمد عمر نے ہم مسلمانوں کو بہت کچھ دیا… مگر ہم انہیں کچھ
نہ دے سکے… کئی قریبی ساتھی گھر بیٹھ گئے… کچھ روٹھ گئے… اور کچھ آئے دن شرارتیں
اور بغاوتیں کرتے ہیں… جی ہاں جن کو امن نصیب ہے وہی زیادہ نخرے کرتے ہیں… اور یہ
سوچتے تک نہیں کہ ایک عظیم انسان ان سب کو جوڑنے کے لئے موم بتی کی طرح پگھل رہا
ہے… اللہ ، اللہ ، اللہ … میں امیر المؤمنین کے
دن رات اور ان کے درد کو سوچتا ہوں تو کانپنے لگتا ہوں… تنہائی، ظاہری بے بسی اور
ہر طرف ظاہری اندھیرا… مگر پھر سوچتا ہوں کہ نہیں وہ تو مزے میں ہیں… ان کا جب
کوئی نہیں رہا تو وہ جب ’’ اللہ اللہ ‘‘ پکارتے ہوں گے تو یہ
پکار کتنی خالص ہوتی ہوگی… وہ جب ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کہتے ہوں گے تو
یہ کلمہ کتنی سچائی کے ساتھ ان کے دل سے نکلتا ہوگا… اور جب وہ سجدے میں جاتے ہوں
گے ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کہتے ہوں گے تو ان پر محبت کے بوسے کتنی گرمی اور پیار کے
ساتھ برستے ہوں گے… الا اللہ ، صرف اللہ ،
الا اللہ ، صرف اللہ ، الا اللہ ،
صرف اللہ …
یا اللہ امیر
المؤمنین تک ہمارا سلام پہنچا دیجئے… ان کی حفاظت فرمادیجئے… ان کو وافر رزق پہنچا
دیجئے … ان کے اہل وعیال کو اپنی امان اور کفالت میں لے لیجئے… اور اس اُمت میں ان
جیسے مخلص، سچے اور پیارے انسان اور بھی پیدا فرمادیجئے…
امیر
المؤمنین… آپ بہت یاد آرہے ہیں… آپ پر سلاُمتی
ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو… اور اس کی برکتیں…
٭٭٭
فتوحات کا دروازہ
اللہ تعالیٰ
اُمت مسلمہ پر حملہ آور ’’اتحادی افواج‘‘ کو شکست عطاء فرمائے… حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تیئس سالہ دور نبوّت میں قیامت تک کے لیے
ہدایات موجود ہیں… آج کل اُمت مسلمہ پر ’’اتحادی افواج‘‘ کا حملہ ہے… قرآن پاک میں
سورۃ ’’الاحزاب‘‘ موجود ہے… ’’احزاب‘‘ لشکروں کو کہتے ہیں… اُس زمانے کی اتحادی
افواج نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا تھا… اس اتحادی لشکر میں یہودی بھی تھے اور مشرک
بھی… اور پیسوں کی خاطرلڑنے والے کرائے کے فوجی بھی… یہودیوں کا قبیلہ بنونضیر اس
حملے کا اصل محرِّک تھا… جبکہ قیادت مکہ کے مشرک قریشی کر رہے تھے… آج کی اتحادی
افواج کو بھی کھڑا کرنے والے یہودی ہیں جبکہ ان اتحادی افواج کی قیادت امریکہ کے
مشرکین کر رہے ہیں… تین خدا ماننے والے مشرک… اُس لشکر میں غطفان کا قبیلہ کھجوروں
کی لالچ میں شریک تھا جبکہ کرائے کے حبشی بھی ساتھ تھے… آج بھی ڈالروں کی خاطر،
تیل کی خاطر بہت سے کرائے کے بے ضمیر ممالک اور فوجی اس ’’عالمی اتحاد‘‘ کا حصہ
ہیں … مدینہ منورہ پر حملہ کرنے والے ’’اتحادی لشکروں‘‘ کا بھی ایک ہی اعلان تھا
کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کا مکمل خاتمہ
ہمارا مقصد ہے… آج کے اتحادی بھی اسی طرح کا نعرہ لگا رہے ہیں… اُن اتحادیوں کو
’’خندق‘‘ کی وجہ سے تیر اندازی کا سہارا لینا پڑا تھا… کیونکہ مسلمانوں نے بڑی
محنت کرکے مدینہ منورہ کے راستے پر ساڑھے تین میل لمبی اور بہت گہری خندق کھود دی
تھی… جبکہ آج کے اتحادیوں کو اپنی ’’بزدلی‘‘ کی وجہ سے بمباری کا سہارا لینا پڑ
رہا ہے… اُس لڑائی میں بھی مسلمان اندر باہر سے گھیرے میں تھے… اِس لڑائی میں بھی
مجاہدین اندر باہر سے گھیرے میں ہیں… سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم…
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ وقت مسلمانوں کے لئے
بہت سخت آزمائش کا تھا… اُن کی جان اُن کے حلق میں آرہی تھی… اور
لوگ اللہ تعالیٰ پر طرح طرح کے گمان کر رہے
تھے… اللہ اکبرکبیرا … خود اندازہ لگائیے کہ جس آزمائش
کو اللہ تعالیٰ سخت آزمائش فر ما رہے ہیں اس کی شدّت اور
سختی کا کیا عالم ہوگا… بعد کے لوگوں نے تو صرف محبت کے دعوے کرنے ہوتے ہیں… جبکہ
ساتھ والوں کو ’’عملی اُمتحان‘‘ کا سامنا ہوتا ہے…
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نوجوان نے حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟ … اگر وہ ہمارے زمانے میں ہوتے تو ہم ان
کو زمین پر پاؤں نہ رکھنے دیتے اور ان کو اپنی گردنوں پر اٹھا کر چلتے… اور جنگ
میں ان کے آگے یوں لڑتے … اور یہ کرتے اور وہ کرتے… حضرت حذیفہ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا… بھتیجے کاش تم ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
غزوۂ خندق کی راتوں میں دیکھ لیتے…
ایک
رات شدید سردی تھی… اور بہت اندھیرا … اتنا اندھیرا کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ نہیں
دیکھ سکتا تھا… ہم بھوکے تھے اور تیز ہوائیں تھپیڑے مار رہی تھیں… ابوسفیان کا بہت
بڑا لشکر ہمارے سامنے تھا… اور اندر بنوقریظہ کے یہودی دشمنی پر اترے ہوئے تھے…
اُس رات میرے پاس سردی سے بچنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا… بس اپنی بیوی کی ایک
اوڑھنی تھی جو میں نے گھٹنوں تک باندھ رکھی تھی… اور میں سردی، بھوک اور حالات کی
سختی کی وجہ سے زمین پر گرا پڑا تھا… اس رات جیسی سردی اور اندھیرا میں نے کبھی
نہیں دیکھا تھا… ہوا کی آواز بجلی کی کڑک جیسی تھی اور اندر کے یہودیوں سے اپنے
بیوی بچوں پر حملے کا خوف بھی تھا… اِس حالت میں حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے مجھے پکارا… اے حذیفہ اُٹھو اور مشرکین کے لشکر میں کچھ تازہ صورتحال
پیدا ہوئی ہے وہ دیکھ کر آؤ… میں زمین کے ساتھ چپکا پڑا تھا اور آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دشمنوں کے لشکر میں بھیج رہے تھے … میں
کھڑا ہوگیا… تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دعاء دی …
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعاء دینا تھا کہ سردی، بھوک اور خوف سب کچھ
ختم ہوگیا… اورجب میں جار ہاتھا … اور واپس آرہا تھا تو یوں لگتا تھا کہ گرم حمام
میں چل رہا ہوں… یہ قصہ بہت طویل اور دلچسپ ہے… ہم نے اس کا اختصار عرض کردیا ہے…
اندازہ لگالیں کہ اس وقت حالات کیسے تھے… امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان
پر حملے کے وقت بھی حالات بہت عجیب تھے… اور بہت سخت … کئی عربی مجاہد شہزادے اپنی
باپردہ بیویوں اور بیٹیوں کو ساتھ لیے خون کے آنسو بہا رہے تھے… اور افغان بھائیوں
سے کہہ رہے تھے کہ ان کو کافروں کے ہاتھ نہ لگنے دینا… اس وقت ان کے نزدیک شہادت
سب سے لذیذ اور آسان راستہ تھا… خیر قربانی دینے والے تو خوش نصیب رہے اب
انشاء اللہ جنّتوں کے مزے لوٹتے ہوں گے … مگر افسوس تو بے
غیرتی دکھانے والوں پر ہے… ڈالروں کی خاطر بکنے والے… اپنے ہی کلمہ گو محمدی
بھائیوں کو مارنے والے، پکڑنے والے… اور بمباری سے بچنے کا بہانہ بنا کر اتحادی
لشکر کا ناپاک حصہ بننے والے… کاش اس عظیم گناہ سے پہلے یہ مر گئے ہوتے تو اتنا
بڑا ظلم تو نہ کرتے… مگر وہ تو اب تک کر رہے ہیں… اور ابھی تک صلیبی اتحاد کا حصہ
بنے ہوئے ہیں… انا للہ وانا الیہ راجعون…
اللہ تعالیٰ
ان کو توبہ کی توفیق عطاء فرمائے… اور ان کو سورۂ احزاب پڑھنے اور سمجھنے کی
توفیق بھی نصیب فرمائے… اور اگر ان کی قسمت میں توبہ نہیں ہے
تو اللہ تعالیٰ ان کے شر سے اُمت مسلمہ کی حفاظت فرمائے…
غزوۂ
احزاب، جس کا دوسرا نام غزوۂ خندق ہے، اس میں ہم مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات کے
مطابق کئی اسباق موجود ہیں… اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ
احزاب کے دوران جو دعائیں مانگیں اور اپنے صحابہ کرؓام کو سکھائیں… ان دعاؤں سے
بھی آج ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے…
ایک
بڑی خوشخبری
چوبیس،
پچیس دن تک ’’اتحادی افواج‘‘ نے مدینہ منورہ کا محاصرہ جاری رکھا… جب مسلمانوں کی
آزمائش اور اُمتحان پورا ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر
جہاد میں ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ نے غیبی نصرت بھیجی …
مشرق کی طرف سے جو ہوا چلتی ہے اس کو عربی میں ’’صبا‘‘ کہتے ہیں … اردو میں اسے
’’پرُوا ہوا‘‘ کہا جاتا ہے… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے
لیے یہ ہوا خاص نصرت کا پیغام ہے…
غزوۂ
احزاب کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے تین نصرتیں بھیجیں:
۱ صبا
یعنی مشرقی ہوا
۲ ایک
ہزار فرشتے
۳ رُعب
فرشتوں
نے لڑائی تو نہیں کی مگر کافروں کو خوب ڈرایا… یہ فرشتے گھوڑوں پر سوار تھے اور
انہوں نے عمامے باندھ رکھے تھے اور ان کے پاس اسلحہ بھی تھا… یہ سب باتیں مستند
تفاسیر میں موجود ہیں … فرشتے مشرکین کے لشکر کے گرد تکبیر کے نعرے لگاتے تھے اور
ان کو ڈراتے تھے… جبکہ صبا تیز آندھی بن کر آئی اور اس نے اتحادیوں کے لشکر کو
اُلٹ کر رکھ دیا… جبکہ ’’رُعب‘‘ نے یہودیوں کو جکڑے رکھا وہ مدینہ منورہ کے اندر
موجود تھے اور ان کے راستے میں کوئی خندق بھی نہیں تھی… مگر وہ ’’رُعب‘‘ کی گرفت
میں رہے…
فرشتے
عمومی طور پر نظر نہیں آرہے تھے… روح المعانی میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی
روایت ہے کہ ان کو بیس فرشتے نظر آئے… جو اپنے گھوڑوں پر سوار تھے اور انہوں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سلام عرض کیا
اور فتح کی بشارت دی… جبکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اِس جنگ کے بعد اگلی جنگ کی
اطلاع دینے… حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لائے … ان کو بعض
ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی دیکھا … خلاصہ یہ کہ
’’اتحادی لشکر‘‘ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگا کر بھاگ گیا… وہ بہت عجیب منظر تھا …
قرآن پاک نے تھوڑا سا نقشہ کھینچا ہے… تب اس موقع پر آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الآن
نغزوہم ولا یغزوننا
’’اب
ہم ان سے لڑیں گے اور یہ ہم سے نہیں لڑسکیں گے‘‘
یعنی
آج کے بعد یہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوسکیں گے، اب ہم ہی ان پر حملے کریں گے… یہ
روایت بخاری اور مسند احمد میں موجود ہے… چنانچہ ایسا ہی ہوا… اس کے بعد حالات بدل
گئے… مسلمانوں نے یہودیوں پر حملے کیے… ان کے تمام علاقے فتح کیے… بنوقریظہ اور
خیبر کی زمینیں مسلمانوں کو ملیں… اور پھر مسلمان فاتحانہ طور پر مکہ مکرمہ میں
داخل ہوئے اور مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا… اور پھر فتوحات کا یہ سلسلہ کئی بر اعظموں
تک پھیلتا چلتا گیا… اس وقت بھی حالات ’’غزوۂ احزاب‘‘ سے ملتے جلتے ہیں… کافروں
اور مشرکوں کے اتحادی لشکر اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں… اہل ایمان اپنی طاقت کے
مطابق ان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں… غزوۂ احزاب میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ
عنہ جیسے عظیم صحابی زخمی ہوئے تھے… اور چند دن بعد وہ شہید ہوگئے … ان کے جنازے
میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی اور ان کی شہادت پر اللہ تعالیٰ
کا عرش ہل گیا یا جھوم اٹھا … حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مضبوط انسان بھی اپنے
اوپر قابو نہ رکھ سکے، حضرت امّاں عائشہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں … میں اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے رونے کی آوازیں الگ الگ پہچان رہی تھی… یہی وہ لوگ تھے جن کو قرآن پاک نے
’’رحماء بینہم‘‘ قرار دیا تھا… آج کے اتحادی حملے میں بھی بڑے بڑے مسلمان شہید
ہوچکے ہیں… جن کی یاد آتی ہے تو آنکھیں آنسو بہاتی ہیں… غزوۂ احزاب کے موقع پر
بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جذبہ فدائی تھا… خود قرآن پاک نے اس
بارے میں ان کو سچا قرار دیا ہے… اور آج بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کے بیٹے اتحادی لشکروں پر فدائی حملے کر رہے ہیں… اُس لڑائی میں بھی سخت حالات تھے
اور جان حلق میں آرہی تھی… اور آج بھی حالات بہت سخت ہیں… بس اب انتظار ہے اس لمحے
کا جب اللہ تعالیٰ کی حتمی نصرت آئے گی… مشرق کی طرف سے ایک
ہوا چلے گی… اور آسمان سے فرشتے اتریں گے… یہ پیشین گوئی نہیں بلکہ دعاء ہے… اور
دل کی آرزو ہے… کیونکہ اللہ تعالیٰ تو وہی ہے، قرآن پاک بھی
وہی ہے… اور دین بھی وہی ہے… کچھ کمزوری ہم مسلمانوں میں ہے تو اس پر ہم توبہ کرتے
ہیں اور استقاُمت اور ترقی کی دعاء کرتے ہیں… انشا ء اللہ تعالیٰ اس
بار جب یہ اتحادی لشکر ناکام ونامراد واپس لوٹیں گے تو حالات کا رُخ بدل جائے گا…
اور انشاء اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر فتوحات کا بہت بڑا دروازہ کھل جائے
گا… آج کی مجلس میں اتنا ہی … انشاء اللہ اگلی مجلس میں وہ
دعائیں عرض کی جائیں گی جو غزوۂ احزاب کے موقع پر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرؓام
کو سکھائیں… تب ہم سب بھی ان دعاؤں کو انشاء اللہ اپنا
معمول بنائیں گے… اور اپنے رب سے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے
الفاظ میں نصرت اور فتح مانگیں گے … انشاء اللہ تعالیٰ
٭٭٭
بڑی جنگ اور دعائیں
اللہ تعالیٰ
اہل ایمان کی نصرت فرمائے اور اُمت مسلمہ پر حملہ آور اتحادی افواج پر شکست اور
ذلت مسلط فرمائے… ویسے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے آثار صاف نظر
آئے ہیں… طالبان نے قندھار کی جیل پر حملہ کرکے گیارہ سو قیدی آزاد کروالیے ہیں…
چھ سو مجاہدین جیل سے نکل کر اپنے گھروں اور ٹھکانوں تک پہنچ گئے… اور امریکہ اور
نیٹو کی ٹیکنالوجی اور طاقت اپنا منہ دیکھتی رہ گئی… بے
شک اللہ تعالیٰ ایک ہے اور وہ اکیلا اتنے بڑے لشکروں کو
شکست دینے پر قادر ہے…
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ، صَدَقَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ
عَبْدَہٗ، وَاَعَزَّ جُنْدَہٗ، وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ، فَلاَ شَیْئَ
بَعْدَہٗ (بخاری، مسلم)
دو
دن پہلے امریکہ کے وزیر دفاع نے بیان دیا ہے کہ … اسی مہینے افغانستان میں ہمارے
مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد عراق میں مارے جانے والے فوجیوں سے زیادہ ہے…
سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم
گزشتہ
ہفتے وعدہ کیا تھا کہ… غزوہ احزاب کے موقع پر جو دعائیں حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے
مانگیں تھیں وہ عرض کی جائیں گی… کیونکہ اس وقت پھر اُمت مسلمہ پر ’’اتحادی
لشکروں‘‘ کا حملہ ہے…
محاصرے
اور شدّت کے وقت کی خاص دعاء
’’عن
ابی سعید ذقال: قلنا یوم الخندق: یارسول اللہ ہل من شیء
نقول فقد بلغت القلوب الحناجر؟ قال صلی اللہ علیہ وسلم نعم، قولوا: اللہم استر
عوراتنا وآمن روعاتنا، قال: فضرب وجوہ اعدائہ بالریح فہزمہم بالریح وکذا رواہ
الامام احمد بن حنبلپ عن ابی عامر العقدی۔ (تفسیر ابن کثیر ص۴۴۰ ج۳)
یعنی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہم نے خندق کے دن عرض
کیا: ہماری جانیں حلق تک پہنچ چکی ہیں، کیا کوئی دعاء ہے جو اس وقت ہم پڑھیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں!
آپ
لوگ یہ دعاء مانگیں:
اَللّٰہُمَّ
اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِن رَّوْعَاتِنَا
حضرت
ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہوا کے تھپیڑے دشمنوں کے منہ پر پڑے
اور وہ پسپا ہوگئے۔
حضرت
کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں مسند
احمد کے حوالے سے یہ روایت یوں بیان فرمائی ہے:
’’مسند
احمد میں ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ہم نے حصار (یعنی محاصرے) کی شدّت اور سختی
کا ذکر کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء کی
درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعاء مانگو:
اَللّٰہُمَّ
اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَّوْعَاتِنَا
اے اللہ ہمارے
عیبوں کو چھپا اور ہمارے خوف کو دور فرما۔ (سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وسلم ص۳۲۴ ج۲)
یہ
بہت اہم اور بہت مبارک دعاء ہے… تمام مجاہدین خصوصاً اور تمام مسلمان عموماً اس
دعاء کا کثرت سے اہتمام فرمائیں… دعاء دل کی توجہ سے مانگیں اور ترجمہ ذہن میں
رکھیں… اس دعاء میں اللہ تعالی سے ’’حفاظتی پردہ‘‘ مانگا
گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ’’ستار‘‘ ہے بہت پردہ پوشی فرمانے
والا … اور اس دعاء میں ’’امن‘‘ بھی مانگا گیا ہے
اور اللہ تعالیٰ ’’المؤمن‘‘ ہے امن اور ایمان عطاء فرمانے
والا…
دشمنوں
کو اکھاڑ دینے والی دعاء
’’وفی
الصحیحین من حدیث اسماعیل بن ابی خالد عن عبد اللہ بن ابی
اوفیٰ ذقال: دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم علی الاحزاب فقال: اللہم منزل الکتاب سریع الحساب اہزم الاحزاب
اللہم اہزمہم وزلزلہم‘‘ (تفسیر ابن کثیر ص۴۴۴ج۴)
یعنی
بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
حملہ آور لشکروں کے خلاف ان الفاظ میں بددعاء فرمائی:
اَللّٰہُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِہْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰہُمَّ
اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ
یا اللہ کتاب
کو نازل فرمانے والے، جلد حساب لینے والے، ان لشکروں کو شکست دے…
یا اللہ ان کو شکست دے اور انہیں سخت ہلا دے…
حضرت
کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کے حوالے سے یہ دعاء ان الفاظ میں لکھی ہے:
اَللّٰہُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَ مُجْرِیَ السَّحَابِ وَ ہَازِمَ الْاَحْزَابِ اَللّٰہُمَّ
اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ
ترجمہ: یا اللہ کتاب
کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے لشکروں کو شکست دینے والے، ان لشکروں
کو شکست دے اور ہمیں ان پر غلبہ عطاء فرما۔
حاشیہ
میں تحریر فرماتے ہیں:
مسند
احمد اور ابن سعد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد
احزاب میں ہاتھ اٹھا کر اور کھڑے ہو کر دعاء مانگی اور ابو نعیم کی روایت میں ہے
کہ زوال کے بعد (یہ دعاء مانگی)۔ (سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ص۳۲۴ ج۲)
یہ
بہت مؤثر دعاء ہے… ائمہ کرام کو چاہیے کہ اس دعاء کو جمعۃ المبارک کے خطبہ کا حصہ
بنائیں… جمعہ کا دن اور خطبہ کا وقت دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص وقت ہے… اور ان
مظلوم مسلمانوں کا ہم پر بڑا حق ہے جن پر کافروں کے اتحادی لشکروں کا براہ راست
حملہ ہے… حقیقت میں تو یہ حملہ پوری اُمت مسلمہ پر ہے اور ہم سب اس حملے کے برے
اثرات کا شکار ہیں… اس لیے سب مسلمان اس دعاء کو اپنا معمول بنائیں… جب بھی دعاء
کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو یہ دعاء مانگ کر صلیب کے پجاری اتحادی لشکروں کی شکست کا
سوال اللہ تعالیٰ سے کریں… گھروں میں پردہ نشین مسلمان
خواتین بھی اس دعاء کو اپنا معمول بنائیں…
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر یہ دعاء مانگی تھی…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس دعاء میں شریک
تھے… اللہ تعالیٰ نے یہ دعاء قبول فرمالی تو بعد میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعاء کی قبولیت کے حوالے
سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے… بخاری اور مسلم کی
روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ، صَدَقَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ
عَبْدَہٗ، وَاَعَزَّ جُنْدَہٗ، وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ، فَلَا شَیْئَ
بَعْدَہٗ
’’
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے، اس نے اپنا وعدہ سچا
فرمایا اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکر کو عزت دی اور اکیلے تمام
لشکروں کو شکست دی، پس اللہ تعالیٰ کے بعد کچھ نہیں۔ (تفسیر
ابن کثیر ص۴۴۴ ج۴)
ہر
طرف سے حفاظت کی دعاء
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دشمن کے لشکروں
کا حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا… یہ واقعہ قدرے اختصار کے ساتھ گزشتہ ہفتے بیان
ہوچکا ہے… جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روانہ فرمایا تو ان الفاظ
سے دعاء دی…
اَللّٰہُمَّ
احْفَظْہُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ وَعَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ
شِمَالِہٖ وَمِنْ فَوْقِہٖ وَمِنْ تَحْتِہٖ
یا اللہ اس
کی حفاظت فرما اس کے سامنے سے، پیچھے سے، دائیں طرف سے، بائیں طرف سے، اوپر سے اور
نیچے سے۔
حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس دعاء کے بعد میرے دل سے ہر خوف نکل گیا اور
سردی بھی مجھے محسوس نہیں ہو رہی تھی… الغرض ہر چیز سے ان کی حفاظت ہوگئی… خوف سے،
دشمنوں سے، سردی سے اور تیز ہوا اور آندھی سے…
یہ
تو خیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا مگر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ میں بھی تو قبولیت کی بہت بڑی
تاثیر ہے… اگر ہم نے یہ دعاء کسی اور کے لیے کرنی ہو تو اس کی نیت سے انہی الفاظ
میں کرلیں جو اوپر لکھے گئے ہیں… یا تھوڑی سی تبدیلی کرلیں مثلاً حضرت
امیرالمؤمنین کے لیے کرنی ہو تو الفاظ یوں ہوں گے:
اَللّٰہُمَّ
احْفَظْ مُلَّا مُحَمَّدْ عُمَرَ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ وَعَنْ
یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ وَمِنْ فَوْقِہٖ وَمِنْ تَحْتِہٖ
اور
اگر ہم یہ دعاء اپنے لیے کریں تو الفاظ یہ ہوں گے اور یہ الفاظ ابوداؤد اور ابن
ماجہ کی روایت میں بھی آئے ہیں:
اَللّٰہُمَّ
احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ
شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَاَعُوْذُ بِعَظْمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ
ترجمہ: اے اللہ میرے
سامنے سے، میرے پیچھے سے، میری دائیں طرف سے اور میری بائیں طرف سے اور میرے اوپر
سے میری حفاظت فرما اور میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک
نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اس
دعاء کو تمام مجاہدین… اور سب مسلمان مرد ا ور عورتیں صبح شام کم از کم تین بار
توجہ سے پڑھ لیا کریں اور ترجمہ بھی ذہن میں رکھا کریں…
مظلوموں
کی دعاء
امام
قرطبیپ لکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی
اللہ عنہ کو دعاء دے کر دشمنوں کے حالات دیکھنے کے لیے بھیجا… وہ اپنا اسلحہ اٹھا
کر روانہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے ہاتھ مبارک اٹھا کر یہ دعاء فرمائی…
یَا
صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ وَیَا مُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ اِکْشِفْ ہَمِّیْ
وَغَمِّیْ وَکَرْبِیْ فَقَدْ تَرٰی حَالِیْ وَحَالَ اَصْحَابِیْ
ترجمہ: اے
پریشان حال لوگوں کی مدد فرمانے والے ، اے مجبوروں کی پکار سننے والے، میری
پریشانی، میرے غم اور میرے رنج کو دور فرمادے، بے شک آپ میری اور میرے صحابہ کی
حالت دیکھ رہے ہیں‘‘۔
پس
اسی وقت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاء قبول کرلی ہے اور دشمنوں
کے خوف سے خود آپ کی کفایت فرمادی ہے۔
یہ
سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک پھیلا دیئے اور آنکھیں
جھکادیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:
شُکْرًا
شُکْرًا کَمَا رَحِمْتَنِیْ وَرَحِمْتَ اَصْحَابِیْ
یا اللہ آپ
کا شکر ہے… یا اللہ آپ کا شکر ہے کہ آپ نے مجھ پر اور میرے
صحابہ پر رحم فرمایا (تفسیرقرطبی)
یہ
ہیں چند دعائیں جو غزوہ احزاب کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
منقول ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دعائیں مانگنے کی توفیق
عطاء فرمائے… اور ہماری دعاؤں کو ہمارے حق میں اور اُمت مسلمہ کے حق میں قبول
فرمائے… دشمنوں سے حفاظت کی مسنون دعائیں اور بھی ہیں… اور جہاد کے مواقع پر پڑھی
جانے والی مسنون دعائیں مستقل ایک عمل ہے…
جہاد
کی تعلیم وتربیت کے وقت جس طرح اسلحہ سکھایا جاتا ہے… گھڑ سواری سکھائی جاتی ہے…
جسمانی ورزشیں کرائی جاتی ہیں… اسی طرح ان دعاؤں کو سکھانے اور پڑھنے کا اہتمام
بھی بہت رغبت اور شوق سے کیا جائے… حصن حصین، مناجات مقبول… اور ایمانی ہمسفر میں
یہ دعائیں مذکور ہیں… آئیے مجلس کے اختتام پر ہم سب وہ دعائیں مانگ لیں جو آج کے
کالم میں بیان کی گئی ہیں:
اَللّٰہُمَّ
اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَّوْعَاتِنَا
اَللّٰہُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِہْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰہُمَّ
اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ
اَللّٰہُمَّ
مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَ مُجْرِیَ السَّحَابِ وَ ہَازِمَ الْاَحْزَابِ اَللّٰہُمَّ
اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ
اَللّٰہُمَّ
احْفَظِ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ
اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِہِمْ وَمِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِہِمْ
اَللّٰہُمَّ
احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ
شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَاَعُوْذُ بِعَظْمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ
یَا
صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ وَیَا مُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ اِکْشِفْ ہَمِّیْ
وَغَمِّیْ وَکَرْبِیْ فَقَدْ تَرٰی حَالِیْ
آمین
یا ارحم الراحمین
لاَ
اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ، صَدَقَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ
عَبْدَہٗ، وَاَعَزَّ جُنْدَہٗ، وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ، فَلَا شَیْئَ
بَعْدَہٗ
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیّدنا وحبیبنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ وازواجہ وبناتہ وبارک
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
شہداء کے جھرمٹ میں
اللہ تعالیٰ
نے ’’شہداء کرام‘‘ کے لیے ایک بہت عجیب نظام قائم فرمایا ہے… اس نظام میں مزے ہی
مزے ہیں، سکون ہی سکون ہے اور عزت ہی عزت ہے… ربّ کعبہ کی قسم اگر وہ نظام ہماری
سمجھ میں آجائے تو ہم ایک منٹ اس دنیا میں رہنا گوارہ نہ کریں… اس دنیا میں رکھا
ہی کیا ہے… دھوکا، جھوٹ، بیماری، پریشانی، لڑائی، جھگڑے، گناہ … اور بے چینی …
شہید سے جنت میں پوچھا جائے گا کہ کیا چاہئے ؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! مجھے
دنیا میں بھیج دیجئے تاکہ دوبارہ شہادت پاسکوں… جنت جیسی جگہ سے شہادت کی خاطر
واپسی… اللہ اکبر کبیرا… سونے، چاندی اور موتیوں کے محلات،
پاک، صاف حسین وجمیل حوریں، نہ غم، نہ بیماری … انبیاء علیہم السلام اور صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت … ہواؤں میں اڑتے ہوئے گھوڑے… بے مثال صحت
اور جوانی… اور ہر وہ چیز جس کی خواہش کوئی انسان کرسکتا ہے… نہ خوف، نہ غم … مگر
شہادت کے وقت شہید کو جو کچھ ملتا ہے اسے پانے کے لیے وہ جنت کو چھوڑنے پر بھی
تیار… آج لکھنے بیٹھا تو شہداء کرام یاد آنے لگے…
ملک
کی سیاست آج کل اس قابل نہیں کہ اس کو کریدا جائے… آج کل سیاست نہیں کھلی دہشت
گردی ہے… امریکیوں کے ٹیلیفون، پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی اور آصف زرداری کی ذاتی
مجبوریاں… بے شک پاکستان ایک طرح کے عذاب کا شکار ہے… کافروں اور قاتلوں کا ساتھ
دینے والا ملک گناہوں کے بوجھ سے لرز رہا ہے… جامعہ حفصہؓ، باجوڑ، وزیرستان، سوات
اور کراچی سے ابھی تک ظلم کا دھواں اٹھ رہا ہے… مگر مجھے اس دھویں سے شہداء کے خون
کی خوشبو آرہی ہے… حضرت لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت
شامزیٔ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت جمیل رحمۃ اللہ علیہ، مفتی اقبال رحمۃ
اللہ علیہ یہ سب شہدائِ کراچی… غازی عبدالرشید رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مقصود احمد
رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سی پیاری بہنیں اور بیٹیاں شہدائے جامعہ حفصہ(رضی اللہ
عنہا) … باجوڑ اور وزیرستان کے شہداء، پھولوں جیسے معصوم بچے اور گلاب جیسی پاکیزہ
بیٹیاں … یہ سب کس جرم میں قتل کیے گئے؟ … شکر ہے ریٹائرڈ فوجیوں کو عقل آئی ہے وہ
اچھی اچھی باتیں کر رہے ہیں… کاش حاضر سروس جرنیلوں کو بھی کوئی یاد دلا دے کہ وہ
مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں… بچپن میں ان کے کانوں میں اذان کی آواز گونجی ہے…
انہوں نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے…
پھر وہ کیوں بش کے سپاہی بنے جارہے ہیں… کیا ان کو موت، قبر، مدینہ منورہ … اور
حوضِ کوثر یاد نہیں ہے… یا وہ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد حق بولیںگے؟
کافروں
سے اللہ پاک نفرت فرماتا ہے اور ان کے کسی اچھے عمل کو بھی
قبول نہیں فرماتا… یہ بات قرآن پاک نے بار بار سمجھائی ہے… پھر کافروں سے جنگی
تعاون کرنا… ان کے ناپاک اتحاد کا حصہ بننا کہاں جائز ہے؟… یاد رکھو کافروں کا
ساتھ دینے والے بھی اللہ پاک کی نفرت اور غضب کا نشانہ بن
سکتے ہیں… اور بن رہے ہیں… ابوجہل کے لشکر میں بھی کچھ مسلمان تھے، حالات کے ساتھ
چلنے والے مسلمان … یہ لوگ مکہ مکرمہ میں رہتے تھے، جب ابوجہل اپنا لشکر لیکر نکلا
تو یہ بھی اس کے ساتھ نکل پڑے… آپس میں کہتے تھے کہ جب میدان جنگ میں آمنا سامنا
ہوگا تو ہم اس وقت حالات دیکھ کر فیصلہ کریں گے… اگر مسلمانوں میں کچھ طاقت نظر
آئی تو اپنے اسلام کا کھلم کھلا اعلان کرکے ان کے ساتھ مل جائیں گے… لیکن اگر وہاں
طاقت نظر نہ آئی تو ہم اپنی قوم یعنی مشرکین کے ساتھ جڑے رہیں گے… آخر دنیا میں
بھی تو رہنا ہے … آخر زمانے کے ساتھ بھی تو چلنا ہے… ابوجہل کا لشکر ’’بدر‘‘ کے
میدان میں پہنچ گیا… شان، شوکت، اسلحہ، طاقت، بینڈ باجے، ناچ گانے، فخر، غرور… اور
جنگی قوت… ان کے سامنے مسلمان بھی آکھڑے ہوئے … کمزور، نہتے، مسکین … پاؤں میں
جوتے نہیں، ہاتھوں میں تلواریں نہیں… چند تلواریں وہ بھی ٹوٹی پھوٹی … اور باقی کے
ہاتھ میں لاٹھیاں اور پتھر… مشرکین کے لشکر میں اونٹوں، گھوڑوں کا شور… اور
مسلمانوں کے لشکر میں دعائیں اور آہیں … تب سات آسمان لرز اٹھے… جبرئیل امین علیہ
السلام اپنے گھوڑے حیزوم پر بیٹھ کر زمین پر اتر آئے اور ان کے ساتھ فرشتوں کا
لشکر… اور شیطان ابلیس اپنے لاکھوں شیاطین کے ساتھ ابوجہل کے لشکر میں آبیٹھا…
مشرکین مکہ کے لشکر میں شامل مسلمانوں نے جب دونوں لشکروں کا حال دیکھا تو کہہ
اٹھے… مسلمان تو آج صرف مرنے کے لیے آئے ہیں… یہ چند نہتے اور کمزور … اس بڑے لشکر
کا کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں؟ … آج جنگ نہیں ہوگی یکطرفہ کارروائی ہوگی… ابوجہل اور
اس کا لشکر چند منٹ میں مسلمانوں کاصفایا کردے گا… بقول شیخ رشید آملیٹ بنادے گا…
جی بے شک کھلی آنکھوں سے تو یہی کچھ نظر آرہا تھا… چنانچہ وہ مصلحت پسند مسلمان
مشرکین کے لشکر کا حصہ بنے رہے… جنگ شروع ہوئی تو وہ بدقسمت مارے گئے… قرآن پاک
بتاتا ہے کہ وہ سب … جہنم میں گئے، فرشتوں نے روح قبض کرتے وقت ان کو بہت مارا اور
پوچھا کہ یہ تم نے کیاکیا؟… انہوں نے جواب دیا ہم کمزور تھے اس لیے مجبوراً مشرکین
کے لشکر کا حصہ بنے رہے… فرشتوں نے یہ جواب قبول نہیں کیا اور ان کو آگ کے کوڑوں
سے مار مار کر عذاب کی طرف لے گئے… یا اللہ ! آپ کی امان… کہاں شہداء
کے مزے اور کہاں کافروں کا ساتھ دینے والوں پر یہ عذاب … ہاں مجھے آج شہداء کرام
یاد آرہے ہیں… بابری مسجد کے گرد شہید ہونے والے حذیفہپ، طلحہپ، پاملاپ … اور ان
کے بعد خون پر خون پیش کرنے والے… جنت کے دولھے … ارسلان پ، باہوپ اور ان کے
ساتھی… بابری مسجد کعبہ کی بیٹی، اسلام کی عزت… اس پر شور مچانا بھی حق تھا… کوئی
جرم نہیں… بابری مسجد پر شورمچانے کا طعنہ دینے والے لال کرشن ایڈوانی کے ہاتھ
مضبوط کر رہے ہیں… تاکہ بابری مسجد کی تحریک کمزور ہو اور ایڈوانی وہاں مندر
بنالے… اور اس مندر کے افتتاح کے لیے پاکستان کے ان خطیبوں کو لے جائے جو ہمیں
طعنہ دیتے ہیں کہ… بابری مسجد کا شور مچانے والے لال مسجد کے وقت کہاں سوگئے… لال
مسجد بھی کعبہ کی بیٹی ہے… اسے بھی کسی نے نہیں بھلایا نہ کوئی مسلمان اسے بھلا
سکتا ہے… اللہ پاک کاشکر ہے وہاں اذان بھی ہو رہی ہے اور
نماز بھی … اللہ کرے تاقیامت ہوتی رہے… اور لال مسجد کے
منبر کو پھر حضرت مولانا عبدالعزیز کی صحبت اور آواز نصیب ہو… شہید کا بیٹا، شہید
کا والد، شہید کا بھائی، شہید کا بھتیجا… حضرت مولانا عبدالعزیز
حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ … دراصل بات یہ ہے کہ میں نے قرآن
پاک کی ایک سورت کا مطالعہ شروع کیا … اس سورۃ کا نام ہے ’’محمد‘‘ … اور دوسرا نام
ہے ’’سورۃ القتال‘‘ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد
وقتال کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے… جو لوگ جہاد وقتال کو نہیں مانتے وہ درحقیقت حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے… اس سورۃ میں سے جہاد کے موتی
ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کر رہا تھا صرف آیت ۴ پر
پینتالیس سے زائد صفحات لکھے گئے… اس آیت میں جہاد کا حکم بھی ہے اور جنگی قیدیوں
کے احکامات بھی… اور آیت مبارکہ کے آخر میں شہداء کرام کی فضیلت ہے اور شہداء کرام
کی فضیلت کا مضمون آگے مزید دو آیتوں میں بھی ہے…
میں
مفسرین کی عبارتیں پڑھ رہا تھا… اور شہداء کرام کے مقام کو رشک کی نگاہ سے دیکھ
رہا تھا… اللہ اکبر کبیرا… شہیدوں نے بہت ہی بڑی کامیابی
حاصل کرلی ہے… مگر شہادت کا اصل مقام یا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ
وسلم کو پتا تھا… یا پھر جو شہید ہو جاتا ہے اسے شہادت کے بعد پتا چلتا ہے کہ
شہادت کتنی بڑی اور اونچی چیز ہے… حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو
تو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام سمجھا اور دکھا دیا تھا اس لیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار شہید ہونے کی دنیا ہی میں تمنا
فرمادی … حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام شہداء کے مقام سے بہت
ہی بلند اور اعلیٰ ہے… دوسرے مسلمانوں کو شہید کے فضائل تو پتا ہوتے ہیں مگر اس کا
اصل مقام اور اس مقام کے عملی انعامات کا پتا شہادت کے بعد چلتا ہے… اسی لیے شہید
جنت میں جاکر واپس دنیا میں آکر شہادت کی تمنا کرے گا… میں شہداء کے فضائل پڑھ رہا
تھا… اور مجھے ان لوگوں پر ترس آرہا تھا جو جہاد کی اہمیت کم کرنے کے لیے رسالے
لکھتے ہیں… اور اپنے گمان میں مسلک حقہ کی وکالت کرتے
ہیں… الحمدللہ ’’اہل حق‘‘ خود باشعور ہیں ان کو مفت کے
وکیلوں کی حاجت نہیں ہے… افغانستان کے شہداء …
ماشاء اللہ اس زمانے میں تحریک جہاد کے بانی… دشت لیلیٰ کے
دس ہزار طالبان شہداء … یہ دس ہزار کا عدد بھی عجیب ہے… حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ کے زمانے میں جب خاقانیوں نے خراسان پر حملہ کیا تو اس لڑائی میں مسلمانوں کا
پورا لشکر شہید ہوا جس کی تعداد دس ہزار تھی… آخری زمانے میں خراسان سے مسلمانوں
کا ایک لشکر حضرت امام مہدی کی نصرت کے لیے روانہ ہوگا… اور راستے ہی میں دس ہزار
کا یہ پورا لشکر شہید ہوجائے گا… قرآن پاک تو بار بار سمجھاتا ہے
کہ… اللہ تعالیٰ کو کسی کے جہاد کی ضرورت نہیں ہے وہ چاہے
تو کافروں کو خود ہلاک کردے… مگر اس نے جہاد فرض کیا تاکہ اُمتحان لے کہ کون
مسلمان سچا ہے… اور کون نام کا مسلمان ہے… اور جہاد اس لیے فرض کیا تاکہ کچھ
مسلمانوں کو شہادت کا اونچا مقام عطاء فرمائے… آج ہر مسلمان عام ہو یا خاص وہ اپنے
گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کے اس اُمتحان
میں وہ کس جگہ پر کھڑا ہے؟… چند دن پہلے میں ایک راستے پر پیدل جا رہا تھا… اسکول،
کالج کے چند نوجوان بہت بلند آواز سے ’’مسئلہ جہاد‘‘ پر بات کر رہے تھے… ان سب کا
لباس اور انداز مغربی تھا… وہ کہہ رہے تھے کہ اصل جہاد تو نفس کا جہاد ہے اور یہی
بڑا جہاد ہے… میں شیطان کے اس جال سے حیران رہ گیا… قرآن پاک کی پونے چھ سو آیات
نے جس جہاد کو بیان فرمایا … وہ اصل جہاد نہیں ہے بلکہ وہ تو چھوٹا جہاد ہے…
’’جہاد نفس‘‘ پر کتابیں لکھنے والے تھوڑا سا عوام میں تو گھوم پھر کر دیکھ لیتے
کہ… لوگ آج کل جس ’’جہاد نفس‘‘ کو بڑا جہاد قرار دے رہے ہیں… یہ حضرات ابراہیم
عبلہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام رازی
رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ والا … جامع جہاد
نفس نہیں ہے… بلکہ یہ تو مرزاقادیانی والا جہاد نفس ہے… جس کی آواز لگا کر اسلام
کے فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کو کمزور کیا جارہا
ہے… یقین نہ آئے تو لوگوں سے جاکر پوچھ لیں ان کو تو جہاد نفس کا وہ معنیٰ پتا ہی
نہیں جس کو بنیاد بنا کر آپ نے تحقیق کو رسوا کیا ہے…
ہاں
آج پھر شہداء کرام یاد آرہے ہیں… شہدائے کشمیر…
ماشاء اللہ مشرکین کے خلاف جہاد کرنے والے شہزادے… پورا
قرآن پاک مشرکین سے جہاد کرنے کی آیات سے منور ہے… آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم نے جہاد کا آغاز مشرکین سے فرمایا… انہی مشرکین نے اماں عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کو مکہ مکرمہ میں ستایا… اور ان کو وہاں سے نکالا… مشرکین تو ہمارے پورے دین
کے دشمن ہیں… اور انہوں نے مسلمانوں کے زیر حکومت رہنے والی ایک بڑی زمین پر قبضہ
کر رکھا ہے… ان مشرکین نے مشرقی پنجاب میں ہزاروں مساجد کو ویران کیا ہے… اور یہ
ظالم لوگ لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ہیں… اور شہدائے فلسطین …
سبحان اللہ یہودیوں کے خلاف لڑنے والے … اسلام کے خطرناک
ترین دشمن اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ بننے والے… سلام ہو… ان تمام شہداء پر… اور
شہدائے عراق پر جنہوںنے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سرزمین کی لاج رکھ
لی ہے۔
سلام
چند
دن پہلے مسلمانوں کے ایک قاتل نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ(ز) پر بم برسانے والوں
کو سلیوٹ کیا… اس کا حق ہے کہ وہ دنیا آخرت میں ساتھ رہنے والے اپنے یاروں کو
سلیوٹ کرے… ہمیں تو شہداء سے محبت ہے … بہت محبت… اسی لیے ادب سے کانپتے دل کے
ساتھ… تمام شہداء اسلام کی خدمت میں…سلام… سلام… سلام
٭٭٭
پانی
اللہ تعالیٰ
نے ’’پانی‘‘ کو پیدا فرمایا… اور پھر پانی سے بہت سی چیزیں پیدا فرمائیں… آپ نے
کبھی غور کیا کہ قرآن پاک میں جب بھی ’’جنت‘‘ کا تذکرہ آتا ہے تو ساتھ ہی اکثر جگہ
’’پانی‘‘ کا ذکر بھی ہوتا ہے کہ … جنت میں نہریں بہتی ہیں… دراصل پانی بہت ہی بڑی
نعمت ہے… آج کل حکمرانوں کے ظلم کی وجہ سے مخلوق کو پانی کم ملتا ہے… بجلی چلی
جاتی ہے تو پانی کی موٹر بھی نہیں چلتی اور جب پانی ختم ہوجاتا ہے تو زندگی مشکل
میں پڑ جاتی ہے … امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت عجیب بات لکھی ہے کہ … جنت میں
نعمتیں تو بہت زیادہ ہیں… بے شمار نعمتیں اور طرح طرح کی نعمتیں، مگر اکثر جگہ صرف
پانی کا تذکرہ کیا جاتا ہے… وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’پانی‘‘ علاُمت ہے زندگی کی… اور
’’آگ‘‘ علاُمت ہے ہلاکت کی… اہل جنت کو زندگی ملنی ہے بہت اونچی اور بہت طاقتور
زندگی … اس لیے جنت کے تذکرے کے ساتھ نہروں اور دریاؤں کا تذکرہ آتا ہے کہ… جنت
میں زندگی ہی زندگی ہوگی… کیونکہ نہریں اور دریا ہوں گے تو درخت بھی ہوں گے… درخت
ہوں گے تو پھل بھی ہوں گے اور پھول بھی… اور جہنم کے تذکرے کے ساتھ اکثر ’’آگ‘‘ کا
ذکر آتا ہے کہ… وہاں ہلاکت ہی ہلاکت ہوگی، ایسی ہلاکت جو تکلیف تو بہت پہنچائے گی
مگر موت نہیں لائے گی… وہاں اگر کچھ پینے کے لیے ملے گا تو وہ بھی آگ کی طرح گرم
ہوگا جس کو پیتے ہی جسم کے اندر سے انتڑیاں باہر آجائیں
گی… اللہ تعالیٰ کی پناہ… اَللّٰہُمَّ اَجِرْنَا مِنَ
النَّارْ … یا اللہ ہمیں آگ سے بچا…
اللہ تعالیٰ
نے جنت کے پانی، وہاں کی نہروں اور چشموں کا قرآن پاک میں بار بار تذکرہ فرمایا
ہے… ہر جنتی کو کم از کم چار نہریں تو ضرور ملیں گی… دودھ، شہد، شراب اور پانی کی
نہریں… حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہر جنتی کے لیے چار نہریں
تو ضرور ہوں گی… اور بعض کو زیادہ ملیں گی… یہاں ایک بات تو یہ یاد رکھیں کہ عربی
زبان میں ’’نہر‘‘ دریا کو کہتے ہیں… اس لیے ’’نہر‘‘ کا لفظ پڑھ کر پاکستان کے وہ
چھوٹے چھوٹے نالے ذہن میں نہ آجائیں… جو دنیا بھر کا کچرا اٹھائے پھرتے ہیں… دوسری
بات یہ ہے کہ جنت کے دریا دنیا کے دریاؤں کی طرح تو نہیں ہوں گے… وہ تو بہت عجیب
شان کے دریا ہوں گے… اللہ پاک نے قرآن مجید میں آسان اور عام فہم الفاظ
سے باتیں سمجھائی ہیں… دریا اور نہر کا لفظ سب کو سمجھ آتا ہے اس لیے فرمادیا کہ
جنت میں دودھ کے دریا ہوں گے… جن کا ذائقہ خراب نہیں ہوگا… اور شہد کے دریا ہوں گے
بالکل صاف شفاف شہد… اور پانی کے دریا ہوں گے جو پانی خراب نہیں ہوگا اور بہت لذت
بخش شراب کے دریا ہوں گے… مگر جنت کی نعمتوں کو تو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں… اس لیے
جو کم عقل لوگ ہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ دودھ اور شہد کے دریا کیسے ہوں گے؟… آج سے
سو سال پہلے کوئی جانتا تھا کہ موبائل فون کیسا ہوتا ہے؟… انٹرنیٹ کیسا ہوتا ہے؟…
جب آج کل کی حقیر سی اشیاء کو کچھ عرصہ پہلے سمجھنا اور سمجھانا مشکل تھا تو جنت
تو بہت اونچی ہے… بہت دور ہے اور ترقی کی انتہاء ہے… چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ یقین
رکھیں کہ وہاں ان تمام چیزوں کے دریا ہیں … مگر ان کی شکل وصورت اور ترتیب کیا
ہوگی یہ تو جب انشاء اللہ جائیں گے تو دیکھیں گے… تفسیر ابن
کثیرپ میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں … شاید تم لوگ یہ گمان کرتے ہو
کہ جنت کے دریا زمین کھود کر بنائے گئے ہیں… ایسا نہیں ہے
… اللہ تعالیٰ کی قسم وہ تو زمین کے اوپر چلتے ہیں… ان کی
دیواریں موتیوں کے قبے ہیں… اور ان کی مٹی مشک کی ہے… آج کی اس چھوٹی سی دنیا میں
لوگوں نے کیا کیا بنا لیا ہے تو پھر جنت تو بہت بڑی جگہ ہے… خیر بات پانی کی چل
رہی تھی…
پانی
کے بارے میں ہمیں چند کام کرنے چاہئیں:
۱ پانی اللہ تعالیٰ
کی بہت بڑی نعمت ہے… اسی کے بخارات سے آسمان بنے، اسی کے جوہر سے زمین بنی … اور
اسی سے اکثر جاندار چیزوں کو بنایا گیا… ہمیں چاہیے
کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت کی دل و جان سے قدر
کریں
۲ ہم
پانی کو بالکل ضائع نہ کریں … وضو اور دیگر ضروریات میں ضرورت سے زیادہ پانی
استعمال نہ کریں…
۳ ہم
دوسروں کو زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں ، انسانوں کو بھی جانوروں اور پرندوں کو بھی
۴ ہم
پانی پینے اور استعمال کرنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے
اور سنتوں پر عمل کریں…
۵ اگر
ہماری استطاعت ہو تو ہم دوسرے لوگوں کے لیے پانی کا مستقل انتظام کریں
۶ ہم
سخت ضرورت کے علاوہ کسی بھی وقت دوسروں کو پانی لینے سے منع نہ کریں
یہ
ہے پانی کا ’’چھ نکاتی‘‘ نصاب… ہم نے اس نصاب پر عمل کیا تو
انشاء اللہ دُنیا و آخرت میں فائدہ پائیں گے…
انسانیت
کے دشمن تو پانی کو مسلسل خراب کر رہے ہیں… جانوروں کی طرح کھانے پینے اور عیاشی
کرنے کے حریص لوگوں نے فیکٹریاں لگا لگا کر کتنا پانی خراب کردیا ہے؟ … ان ظالموں
سے کوئی پوچھے کہ ایسی ترقی کا کیا فائدہ کہ انسانوں کو صاف پانی جیسی نعمت بھی نہ
ملے… ایٹمی ممالک سمندروں میں ایٹمی دھماکے کرتے ہیں … جس سے سمندروں میں زہر پھیل
جاتا ہے… مچھلیاں مرجاتی ہیں… اور پھر یہ ممالک اپنا ایٹمی فضلہ بھی پانی میں ڈال
کر پانی اور ماحول کو برباد کرتے ہیں… کوئی ہے سوچنے والا کہ دنیا میں جو کچھ
بنایا جارہا ہے انسان کو اس کی زیادہ ضرورت ہے یا تازہ ہوا اور صاف پانی کی… طرح
طرح کے برتن، طرح طرح کا فرنیچر، طرح طرح کی گاڑیاں، طرح طرح کی مشینیں … کیا یہ
سب انسان کی ضرورت ہیں؟… مال کے ساتھ کھیلنے والے لالچی مالداروں نے صرف اپنا بینک
بیلنس بڑھانے کے لیے پوری انسانیت کو برباد کر رکھا ہے… اللہ تعالیٰ
مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی توفیق دے … مسلمان جہاد
کریں گے تو دنیا کا نظام ٹھیک ہوگا… اللہ پاک نے پانی کا
مرکز جنت الفردوس کو بنایا ہے… وہاں سے یہ پانی پوری جنت میں تقسیم ہوتا ہے… اور
کئی احادیث سے ثابت ہے کہ … دنیا کے بعض دریا بھی جنت سے آئے ہیں… بخاری شریف کی
روایت ہے … حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’بلاشبہ
جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے فی
سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار فرمایا ہے، ہر
دودرجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا آسمان وزمین کے درمیان پس جب
تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو
کیونکہ وہ جنت کا سب سے افضل اور اعلیٰ درجہ ہے… اور اسی کے اوپر رحمن (جل شانہٗ)
کا عرش ہے اور اسی سے نہریں جاری ہیں… (صحیح البخاری)
اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
سیحان،
وجیحان ، والنیل والفرات کل من انہار الجنۃ (صحیح مسلم)
یعنی
دنیا کے یہ چار دریا جنت سے آئے ہیں، (۱)سیحون (۲)جیحون
(۳)نیل
(۴)فرات…
مجاہدین
کی بھی عجیب شان ہے… جس جگہ کو اللہ پاک نے جنت کا اور پانی
کا مرکز بنایا ہے… یعنی جنت الفردوس … اللہ پاک نے مجاہدین
کو خصوصاً عطاء فرمائی ہے… شہداء جنت الفردوس میں مز ے کرتے ہیں… ویسے بھی مجاہدین
کا ’’پانی‘‘ کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے… اہل دل فرماتے ہیں کہ سب سے افضل پانی وہ
تھا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے چشموں کی طرح
پھوٹا تھا… یہ پانی کن کو نصیب ہوا؟ … یقینا مجاہدین کو جو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں نکلے ہوئے تھے اور پیاس کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے…
پھر افضل ترین پانی ’’زمزم شریف‘‘ ہے…
وہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی
نعمت ہے… اگر زمزم کے فضائل اور خواص لکھنے بیٹھ جاؤں تو آج کا مضمون اسی میں پورا
ہوجائے گا اور بات پھر بھی مکمل نہ ہوسکے گی… دراصل آج کل کے مشینی دور نے
مسلمانوں کے یقین کو کمزور کردیا ہے… وہ قرآن و سنت کی باتوں سے پورا فائدہ نہیں
اٹھاتے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب آپ صلی اللہ
علیہ وسلم سے سنا کہ زمزم جس نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے… اور یہ برکت والا
پانی ہے اور اس میں شفاء ہے تو انہوں نے یقین کرلیا اور خوب فائدہ اٹھایا … مشہور
صحابی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ چالیس دن رات کعبہ شریف میں مقیم رہے اور صرف زمزم
پیتے رہے… اس کے علاوہ نہ کچھ کھایا نہ پیا… فرماتے ہیں مجھے بالکل بھوک محسوس
نہیں ہوئی بلکہ میرا جسم پہلے سے زیادہ موٹا
ہوگیا… اللہ اکبر کبیرا… آج ہم لوگ ڈسپرین اور پیناڈول کی
گولی میں تو تأثیر مانتے ہیں مگر زمزم شریف میں ہمیں کوئی تأثیر نظر نہیں آتی…
علامہ ابن قیمپ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ میں نے اپنی کئی بیماریوں کا علاج
زمزم شریف سے کیا… اور الحمدللہ مجھے شفاء ملی… یہ زمزم
شریف کعبۃ اللہ کے پاس ہے… اور مسلمانوں نے جہاد کے ذریعہ
مکہ مکرمہ، کعبۃ اللہ اور زمزم کو آزاد کرایا… ورنہ وہاں تو
مشرکین کی حکومت تھی… خلاصہ یہ ہے کہ زمزم شریف کی آزادی میں بھی مجاہدین کا حصہ
ہے… غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ کی نصرت مجاہدین پر ’’پانی‘‘
کی صورت میں نازل ہوئی … قرآن پاک میں اس کا تذکرہ ہے… اور صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کے لشکر پانی پر چلتے ہوئے دشمن تک پہنچ گئے… اور پانی نے ان کو نہیں
ڈبویا… خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… ہم سب کو پانی کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ قیامت کے
دن پانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا… حدیث شریف میں آیا ہے :
’’قیامت
کے دن نعمتوں میں سے اللہ تعالیٰ سب سے پہلے بندہ سے پوچھے
گا کہ کیا ہم نے تجھے جسمانی صحت نہیں دی تھی اور تجھے ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں
کیا تھا؟۔ (ترمذی)
بے
شک ٹھنڈا پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے… اور جب یہ
میٹھا بھی ہو تو سبحان اللہ
بخاری
شریف کی روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ٹھنڈے پانی میں شہد
ملا کر نوش فرماتے تھے (زاد المعاد ص۱۸۰ ج۴)
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے پانی کو ضائع کرنے سے منع فرمایا … حتیٰ کہ وضو میں بھی اسراف
یعنی زیادہ پانی خرچ کرنے سے منع فرمایا … (مسند احمد)
اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن نیکیوں کی ترغیب دی ان میں پانی پلانے کی
نیکی بھی شامل ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی ترغیب کا نتیجہ تھا کہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کا کنواں ’’بئر روما‘‘ ایک یہودی سے خرید
کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا… علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے پانی پلانے کے فوائد
پر ایک عجیب واقعہ لکھا ہے… خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت شیخ حاکم ابو عبد اللہ رحمۃ
اللہ علیہ کے چہرے پر دانے اور پھوڑے نکل آئے… انہوں نے طرح طرح کے علاج کروائے
مگر کوئی فائدہ نہ ہوا… انہوں نے شیخ ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے دعاء کی درخواست
کی… شیخ نے جمعۃ المبارک کی مجلس میں دعاء کروائی اور لوگوں نے آمین کہی… اگلے
جمعہ جب شیخ مجلس میں آئے تو ایک عورت نے ان کی طرف ایک پرچہ پھینکا اور خود اپنے
گھر چلی گئی … پرچہ میں لکھا تھا کہ میں نے پچھلے جمعہ کے بعد شیخ حاکم کے لیے خوب
دعاء کی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خواب میں زیارت ہوئی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حاکم ابو عبد
اللہ کو بتاؤ کہ مسلمانوں کو خوب پانی پلائے… یہ خواب جب حاکمپ تک
پہنچا تو انہوں نے اپنے گھر کے باہر پانی کی سبیل بنوادی اور لوگوں کے لیے ٹھنڈے
پانی کا انتظام کیا … ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ان کی بیماری دور ہوگئی،
چہرے کے دانے اور پھوڑے ختم ہوگئے… اور چہرہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگیا۔
(الترغیب والترہیب ص۴۳ ج۲)
اسی
طرح حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی واقعہ ہے کہ ان کے
پاس ایک شخص آیا اس کے گھٹنے میں پھوڑا تھا جس سے خون نکلتا رہتا تھا… بہت علاج کے
باوجود وہ ٹھیک نہیں ہورہا تھا… حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کسی ایسی
جگہ کنواں کھودنے کا مشورہ دیا جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہو… اس نے ایسا ہی کیا
تو اس کی بیماری ٹھیک ہوگئی…
یہ
دو واقعات تو اچانک سامنے آگئے… اصل بات یہ ہے کہ پانی پلانا اور پانی کا انتظام
کرنا ایک بڑی اور مقبول نیکی ہے… حدیث پاک میں آتا ہے کہ جو کوئی کنواں کھودے گا…
پھر اس کنویں سے جو جاندار بھی پانی پیئے گا اس کے
بدلے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اجر عطاء فرمائے گا …
پانی پینے والا جاندار انسان ہو، جن ہو یا کوئی پرندہ… (ابن خزیمہ)
اس
گناہگار عورت کا واقعہ تو مشہور ہے جس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا
تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا… اس موضوع پر احادیث اوربھی
ہیں… خلاصہ اس پوری بات کا یہ ہوا کہ… پانی اللہ تعالیٰ کی
عظیم الشان نعمت ہے… اللہ پاک نے جنت کو پانی سے سجایا اور
آباد فرمایا ہے… ہم اس نعمت کی قدر کریں… اس کو ضائع نہ کریں، اس کو گندا اور خراب
نہ کریں… خود استعمال کریں تو شکر ادا کریں… اور دوسروں کو پلانے کی پوری کوشش
کریں… اور رات کو پینے کا پانی ڈھک دیں… کیونکہ کھلے پانی میں بیماری آجاتی ہے…
اور ہم اللہ رب العالمین سے جنت الفردوس کا سوال کریں… اور
جنت کے ایک خاص چشمے ’’تسنیم‘‘ کا سوال کریں… جو مقرب لوگوں کو پلایا جائے گا… یہ
چشمہ جنت کی اونچی فضائوں میں بہتا ہے… اللہ اکبر کبیرا…
اللہم
انا نسئلک الجنۃ جنۃ الفردوس ونعوذبک من النار…
وصلی اللہ تعالیٰ علی الحبیب النبی الکریم وآلہ وصحبہ وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
دلچسپ
برصغیر
کی تقسیم سے پہلے ایک بزرگ شاعر گزرے ہیں وہ ایک بار صابن کی ٹکیہ ہاتھ میں لیے
نہا رہے تھے کہ ایک پوری نظم ہوگئی… اس نظم کا آخری شعر (مقطع) یہ تھا:
کل
غسل میں تھے مصروف حسنؔ بس یونہی طبیعت آجوگئی
یہ
نظم زباں پر جاری تھی اور ہاتھ میں ٹکیہ صابن کی
اسی
طرح چار روز پہلے ہمارے علاقے کی بجلی خراب ہوئی تو ’’پانی‘‘ کی تنگی ہوئی، تب یہ
مضمون ذہن میں آگیا… اور مضمون لکھنے سے پہلے زمزم شریف پی کر دعاء کی کہ مضمون
قبول ہو اور مفید لکھا جائے اور لکھنے کے دوران سنت پر عمل کرنے کے لیے ٹھنڈے پانی
میں شہد ملا کر پیتا رہا… اگر یہ بات پڑھ کر آپ کے منہ میں ’’پانی‘‘ آگیا ہو تو
کوئی حرج نہیں کیونکہ آ ج کے کالم کا عنوان ہے ’’پانی‘‘… و الحمدللہ رب
العالمین…
٭٭٭
طوفانوں کی آغوش میں
اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ…
اللہ پاک
کا شکر ہے ’’رجب المحرَّم‘‘کا مہینہ شروع ہوچکا
ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اور پوری اُمت مسلمہ کے لیے رجب
اور شعبان میں برکتیں عطاء فرمائے… اور قبولیت و مغفرت والا رمضان المبارک نصیب
فرمائے… یہ مسنون دعاء ہم سب کو دو ماہ تک پڑھتے رہنا چاہئے… آج ہم اپنے ایک
’’زندہ دوست‘‘ کا تذکرہ کر رہے ہیں… القلم کا یہ تازہ شمارہ ’’القلم‘‘ کے پہلے
مدیر کی یا دمیں چند آنسو، چند پھول … اور چند موتی لے کر حاضر خدمت ہے… ’’القلم‘‘
کا پہلا شمارہ نکلا تو وہ بھائی محمد مقصود احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے تیار کیا…
اور اپنی زندگی کے آخری دن وہ ’’القلم‘‘ ہی کے لیے اپنی آخری تحریر لکھ کر اپنے
مقام شہادت کی طرف روانہ ہوئے… بے شک ہمارا ’’مثالی یار‘‘ بہت باوفا تھا… اور بہت
با صفا تھا … مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کو
سمجھنے کے لیے چند بکھری ہوئی باتیں عرض کر رہا
ہوں… اللہ کرے میرے لیے اور آپ کے لیے مفید ہوں … مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے زندگی کے آغاز میں
ایک بڑا ’’طوفان‘‘ دیکھا… موت کئی بار اس سے سینہ ٹکرا کر پیچھے ہٹ گئی… شہادت نے
اسے اپنا حسین جلوہ دکھایا اور پھر اس کی بانہوں سے نکل کر بھاگ گئی… مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا
گیا، دوڑتا چلا گیا… یہ ہے مقصود شہیدرحمۃ
اللہ علیہ کی زندگی کا خلاصہ… ایک دوڑتا ہوا، بے چین، بے قرار انسان، جسے اس دنیا
میں ٹھہرنے اور کچھ بنانے سے غرض نہیں تھی… مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے اندر خطاّب شہیدپ،
زرقاوی شہیدپ اور غازی علم دین رحمۃ اللہ علیہ شہید جیسی روح تھی… مگر قدرت نے اسے
’’علم و قلم‘‘ کی صلاحیت سے نوازا تھا، اس صلاحیت کی وجہ سے وہ محاذوں سے دور
پھنستا چلا گیا، پھنستا چلا گیا… جو کام اس کے ذمے تھے وہ بھی بہت اونچے اور بہت اجر
والے تھے… مگر روح کو تو تبھی چین ملتا ہے جب اسے اپنی پسند کا میدان ملے… وہ
’’کمانڈر‘‘ تھا اور کمانڈر بننا چاہتا تھا مگر حالات نے اسے داعی، قلمکار، مبلغ
اور ادیب بنادیا … وہ دین کی خاطر یہ سب کچھ نباہتا رہا… مگر اس کی روح طوفانوں کو
ڈھونڈتی رہی… جگر مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے:
زندگی
جس سے عبارت ہے، محبت زندہ
وہ
سکوں صرف ہے آغوش میں طوفانوں کے
چلیں
بات آگے بڑھانے سے پہلے جگر کی اسی غزل کے چند اور اشعار بھی پڑھ لیں، یوں لگتا ہے
انہوں نے ہمارے مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ ہی
کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں:
چشم
ساقی! میں تصدُّق ترے پیمانوں کے
چند
گھونٹ اور بھی، لیکن انہی مے خانوں کے
آگ
میں پھاند پڑیں، موت سے ٹکرا جائیں
واہ!
کیا کھیل ہیں ان سوختہ سامانوں کے
موت
کیا آئے گی ہم عشق کے دیوانوں کو
موت
خود کانپتی ہے نام سے دیوانوں کے
ہر
قدم لاکھ تھپیڑے سہی طوفانوں کے
حوصلے
پست نہ ہوں گے کبھی انسانوں کے
طوفانوں
کی آغوش میں پلنے والا مقصود شہیدپ… ہر طوفان میں سینہ سپر رہا… اور بالآخر وہ
شہادت جو اسے قریب سے اپنا جلوہ دکھا کر بھاگ گئی
تھی… اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اسے مل گئی… دو بچھڑے محبوب
ایک ہوئے، گلے ملے… اور ادھر صدا آئی کہ جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کا بانی رکن، جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نشریاتی دعوت کا سربراہ …
ہمارا محبوب دوست محمد مقصود احمد شہید ہوگیا ہے… یہ تو ہوا خلاصہ … اب اگر اس
مختصر داستان کی تفصیل معلوم کرنی ہو تو پھر آپ کو … سب سے پہلے قرآن پاک کی وہ
آیات پڑھنی چاہئیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ… قتال فی
سبیل اللہ کو سمجھنے
والے اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں… جی ہاں! نفاق کے
اثرات سے پاک زندہ دل ایمان والے ہی جہاد فی سبیل اللہ کو
سمجھتے ہیں…
ہمارا
پیارا ساتھی مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ بھی…
انہی مخلص، زندہ دل ایمان والوں میں سے تھا جن
کو اللہ تعالیٰ نے جہاد فی
سبیل اللہ کی سمجھ عطاء فرمادی تھی… اس بارے میں قرآنی آیات
تو بہت ہیں صرف ایک آیت اور اس کی تفسیر کا ایک حوالہ عرض کرتا ہوں … اللہ تعالیٰ
کا ارشادگرامی ہے:
اَفَلاَ
یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا (محمد۲۴)
ترجمہ:
کیا یہ لوگ دھیان نہیں کرتے قرآن پر، کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔
حضرت
شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یعنی
منافق قرآن کو نہیں سمجھتے کہ جہاد میں کتنے فائدے ہیں اور اقرارِ ایمان سے پھرے
جاتے ہیں کہ لڑائی میں نہ جاویں گے تو دیر تک جیویں گے‘‘ (موضح القرآن)
یعنی
قرآن پاک اور جہاد کا سمجھنا آپس میں لازم وملزوم ہے… جو قرآن پاک کو سمجھتا ہے وہ
جہاد کو بھی سمجھتا ہے… پس جس کو جہاد کی سمجھ نہیں حقیقت میں اس کو قرآن پاک کی
سمجھ نہیں … تفسیر حقانی میں ہے:
’’کاش
قرآن میں غور کرکے مصالح جہاد کو سوچتے، ان کے دلوں پر مہر اور قفل ہیں (ان کو) یہ
توفیق کہاں؟ ہدایت ظاہر ہونے پر جو منہ پھیرتے ہیں ان کو شیطان نے یہ حیلہ بازی
سکھائی کہ جہاد میں یہ خرابی ہے اور اسی نے ان کو امید دلائی ہے کہ مدتوں تک جیو
گے، ابھی کیوں لڑ کر مرتے ہو۔‘‘ (حقانی)
یمن
کے ایک ذہین نوجوان نے کہا تھا… حضرت! بے شک دلوں پر تالے ہوتے
ہیں اللہ پاک ہی ان کو کھول سکتا ہے… حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کو اس کی بات بہت پسند آئی، جب آپ خلیفہ بنے تو اس کو ڈھونڈتے تھے کہ اسے کوئی
حکومتی ذمہ داری دیں … علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ … دلوں کے اپنے
خاص تالے ہوتے ہیں یہ عام تالوں سے مختلف ہوتے ہیں… پس جس کے دل پر تالا لگ جائے
اس کو جہاد سمجھ میں آہی نہیں سکتا… اللہ پاک کی
پناہ، اللہ پاک کی پناہ… اس آیت میں منافقوں کے بارے میں یہ
سب کچھ فرمایا گیا ہے… آپ خود سوچیں قرآن پاک نے کھلم کھلا الفاظ میں قتال کا حکم
دیا… حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود جہاد میں نکلے، لڑے اور زخمی
ہوئے… اور ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جہاد میں شہید ہوئے… پھر بھی
کچھ مسلمانوں کو جہاد کا خیال تک نہیں آتا کہ ہم نے اس فریضے کو ادا کرنا ہے… بلکہ
اس کا نام سن کر بدک جاتے ہیں، الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتے ہیں … اگر ان کے دلوں
پر تالے نہ ہوتے تو کیا وہ ایسا کرسکتے تھے؟ …
اللہ پاک
نے مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ پر اپنی رحمت
کی نظر فرمائی … اس کے دل کے دروازے قرآن پاک کی حقیقی سمجھ کے لیے کھولے… تب
تاریخ کی گود میں ایک اور سچے مسلمان نے اپنی حسین اور کشادہ آنکھیں کھول لیں…
ایک
سخت طوفان
مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے جہاد کا آغاز ایک
بڑے طوفان سے ہوا… وہ طالبعلمی کے زمانے میں طالبان کے سپاہی بن کر مزار شریف
پہنچے… وہاں ایک دھوکا ہوا اور ہزاروں معصوم پھول گولیوں سے بھون ڈالے گئے … ازبک
پہلوانوں نے غدّاری کی اور دشت لیلیٰ کا صحرا طالبان شہداء کا مرقد بن گیا… مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ بھی اس محاصرے میں
تھے… اللہ پاک نے ابھی ان سے اور کام لینے تھے… وہ موت کے
ساتھ کندھے ٹکراتے ٹکراتے صحیح وسالم واپس آگئے… اس سفر کے دوران انہوں نے دن رات
موت کے ساتھ آنکھ مچولی کی… بس اس وقت سے ان کی اس ’’پاکیزہ محبوبہ‘‘ سے یاری ہوگئی…
یہ پوری تفصیل معلوم کرنے کے لیے آپ ایک چھوٹی سی کتاب خرید لیجئے، اس کا نام ہے
’’خاک و خون‘‘ اور اس کے مصنف ہیں خود ہمارے بھائی مقصودشہیدپ…
تشنہ
خواہشیں
اوپر
عرض کیا کہ ان کی روح ایک ’’عسکری کمانڈر‘‘ کی روح تھی…
مگر اللہ پاک نے ان کو علم وقلم کی صلاحیتوں سے نوازا تھا…
جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جس دن اعلان ہوا، مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ اس دن بھی ساتھ تھے…
جیش کے اکابر کا پہلا قافلہ حضرت لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی سربراہی میں
افغانستان گیا تو مقصود شہیدرحمۃ اللہ
علیہ ساتھ تھے… جیش کی شوریٰ کا پہلا اجلاس ہوا تو مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے کاندھوں پر
رسالہ نکالنے کی ذمہ داری آپڑی… وہ تو ماشاء اللہ دل کے
تالے سے آزاد تھے اس لیے جہاد کو پوری طرح سمجھتے تھے… اسی لیے انہوں نے ہر تشکیل
کو قبول کیا… کیونکہ جہاد کی قبولیت کے لیے یہ لازم ہے … ’’جیش‘‘ ماشاء اللہ افغانستان
میں لڑ رہی تھی… اور کشمیر میں دہلی تک اس کے طاقتور بازو پھیلے ہوئے تھے… مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ اگر ضد کرتے تو لاڈلے
تھے، ضدمان لی جاتی اور ان کو بھیج دیا جاتا … مگر انہوں نے اپنی خواہش کو پیاسا
رکھا اور دین کے تقاضوں پر مٹتے رہے… اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے… حضرت شاہ
ولی اللہ محدّث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ ،حجۃ اللہ البالغہ
کے صفحہ ۱۰۹ ج۱ پر
لکھتے ہیں:
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں
جنت گیا تو وہاں ایک گندمی رنگ کی سرخ ہونٹوں والی لڑکی تھی، میں نے پوچھا اے
جبرئیل! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے
جعفرؓ بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کی رغبت گندمی رنگ، سرخ
ہونٹوں والی لڑکی کی طرف پائی تو ان کے لیے اسے پیدا فرمادیا۔
(حجۃ اللہ البالغہ)
اُدماء
اس رنگ والی لڑکی کو کہتے ہیں، جیسا رنگ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا…
یعنی اصل رنگ، بے انتہا حسین وجمیل… یا یوں کہیں انسانوں کا ’’اوریجنل کلر‘‘ …
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ… حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی … پیارے اور بہادر صحابی تھے… وہ غزوہ موتہ میں شہید
ہوئے… ان کے دونوں بازو کٹ گئے تو جنت میں اللہ پاک نے اڑنے
والے بازو عطاء فرمادیئے… ان کے دل میں ایک حلال خواہش
تھی، اللہ پاک نے اس خواہش کو پورا فرمانے کے لیے جنت میں
یہ لڑکی پیدا فرمادی … مجاہد کی جو حلال خواہشیں دنیا میں پوری نہیں ہوتیں ان کا
اسے بہت بڑا بدلہ ملتا ہے … آجکل مجاہدین کو بھی دنیاداری کے سانپ ڈسنے لگے ہیں کہ
وہ اپنی ہر خواہش دنیا میں پوری کرنے کی فکر میں پڑ کر ’’بے وزن‘‘ ہوتے جارہے
ہیں… اللہ تعالیٰ معاف فرمائے … خیر بات تو ایک وزنی نوجوان
کی چل رہی تھی… مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کی
قلبی خواہش محاذ کی تھی مگر وہ خوش اسلوبی کے ساتھ ہر تشکیل نباہتے رہے… مگر ان کی
بے چین روح شہادت کے پیچھے دوڑتی رہی… روح اور جسم کی اسی کشمکش میں بیمار پڑے مگر
قدرت نے ان کے ساتھ اچھا کیا… وہ محاذ پر جاتے تو اکیلے لڑتے جبکہ ان کی لکھی ہوئی
تحریروں نے سینکڑوں نوجوانوں کو محاذ کا اور شہادت کا رستہ دکھایا… وہ بہت عمدہ
کتابیں لکھ گئے … جو انشا ء اللہ مسلمانوں کی رہنمائی کرتی
رہیں گی… اور وہ سات سال تک ایک ایسی جماعت کے اجر میں برابر کے شریک رہے … جس
جماعت کو موجودہ دنیا کے فرعون بش نے خطرناک ترین جماعت قرار دیا… بش جیسے اسلام
دشمن کا ’’حماس‘‘ اور ’’جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کو اپنے لیے
’’خطرناک‘‘ قرار دینا… یہ ایسی سعادت ہے جس کے پیچھے سینکڑوں شہداء کرام کے
مسکراتے چہرے ہیں… و الحمدللہ رب العالمین… معلوم ہوا کہ
’’اصلی فائدہ‘‘ اپنی خواہش پوری کرنے میں نہیں ’’اطاعت‘‘ میں ہے … محاذ کے شوق کی
وجہ سے محاذ کا اجر بھی ملتا رہا … اور ان کے قلم سے جہادی موتی بھی برابر برستے
رہے … مجاہدین کا کتب خانہ کچھ عرصہ پہلے تک ویران ویران سا تھا… ہم لوگوں نے جب
پہلے پہل جہاد سے ’’یاری‘‘ شروع کی تو اردو میں جہا دکی صرف ایک دو کتابیں ملتی
تھیں اور اب ماشاء اللہ ’’بہاریں‘‘ نظر آرہی ہیں… اور ان
بہاروں میں ہمارے مقصود شہیدرحمۃ اللہ
علیہ کا بڑا حصہ ہے… چار دن پہلے کسی عزیز دوست نے مجھے ’’پندرہ روزہ جیش محمد
صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے دو پرانے شمارے لا کر دیئے تو میں
ان کی آب وتاب دیکھ کر حیران رہ گیا … یہ پندرہ روزہ رسالہ بھائی مقصودپ کی زیر
ادارت چھپتا تھا اور اس کی تعداد تیس پینتیس ہزار سے متجاوز تھی… میں کافی دیر تک
ان دو شماروں میں کھویا رہا اور مجھے بار بار مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ یاد آتے رہے ماشا
ء اللہ کیا ذہانت تھی، کیا اطاعت تھی اور کیا سیّال نورانی
قلم تھا… ہماری جماعت نے ’’اسیران اسلام‘‘ کے مسئلے کو اپنا کام سمجھا تو مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ بھی اسی رنگ میں رنگے
گئے…انہوں نے اس موضوع پر بہت لکھا اور خوب لکھا…
’’ہمارے
قیدی بھائی‘‘ کے نام سے اس موضوع پر ان کی ایک مستقل کتاب بھی موجود ہے… ہماری
جماعت میں ’’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا خاص
جذبہ اللہ رب العزت نے اپنے فضل سے عطاء فرمایا… چنانچہ
جماعت کا قلم ہمیشہ گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر تلوار
بنا رہا… مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے اس
موضوع پر بھی اپنی جان لڑائی … امید ہے کہ بھائی مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں ہمارے ہر
مجاہد ساتھی کے ’’ذاتی کتب خانے‘‘ کی زینت بنیں گی… اور ان کا یہ صدقہ جاریہ
تاقیامت… انشاء اللہ جاری رہے گا…
القلم
نے بھائی مقصودشہیدپ کے مضامین اور تاریخی کالموں کو یکجا کرنے کا کام شروع کر
رکھا ہے… آپ سب دعاء فرمائیں کہ ’’نوائے مقصود‘‘ کے نام سے یہ کتاب جلد منظر عام
پر آکر اُمت مسلمہ کو فائدہ پہنچائے۔
آخری
طوفان
مقصود
شہید’’طوفانوں کی آغوش‘ ‘ میں پلا ہوا سپاہی تھا… اس نے دشت لیلیٰ کا طوفان دیکھا
… اس نے قندوز کے معرکوں کا طوفان دیکھا … اس نے جیش محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کے قیام کا طوفانی منظر دیکھا … اس نے جیش محمد صلی اللہ
علیہ وسلم پر ہونے والے کئی طوفانی حملوں کو دیکھا اور جھیلا… وہ طوفانوں میں خوش
رہتا تھا اور خوب کھیلتا تھا… وہ ماشا ء اللہ فطری مجاہد
تھا … وہ القلم کے دفتر بیٹھاتھا کہ قریب ہی لال مسجد کی طرف سرخ طوفان کے بادل
اٹھے… جیش کی قیادت نے بن بلائے لال مسجد والوں کے موقف کی تائید کی…
اور القلم نے غیور بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھا… تب مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ کی بے چین روح ادھر
لپکنے لگی… یہ بات سچ نہیں کہ اس نے جماعت چھوڑ دی تھی اور اطاعت سے نکل گیا تھا…
یہ بات کہنے والے قیامت کے دن اپنی اس بات میں جھوٹے نکلیں گے … وہ بدھ کی صبح فجر
کی نماز کے وقت شہید ہوا… اس کی زندگی کا آخری دن منگل کا دن تھا جو اس نے القلم
کے دفتر میں کام کرتے گزارا … لال مسجد کا طوفان … بہت بڑا طوفان تھا، جس کے
تھپیڑے ابھی تک ساحلوں سے ٹکرا رہے ہیں… اللہ تعالیٰ حضرت
مولانا عبدالعزیز مدظلہ کو جلد رہائی عطاء فرمائے تو اس طوفان کے کچھ پردے دور ہوں
… لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ والے جنگ نہیں چاہتے تھے… یہ بات اب سب لوگ مان چکے
ہیں … جب وہ جنگ نہیں چاہتے تھے تو مجاہدین کو یہ طعنہ دینا کہ وہ وہاں کیوں مورچہ
بند نہیں تھے… ایک غلط طعنہ ہے… لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ پر ظلم حکومت کا ایک
گھناؤنا منصوبہ تھا جس کا مقصد امریکہ اور یورپ میں مقبولیت حاصل کرنا… اور
پاکستان میں اپنی گرتی ساکھ کو بحال کرنا تھا … لال مسجد والے مخلص تھے، دین کے
دیوانے تھے اور شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے… حکومت ان کو دہشت گرد دکھا
کر مارنا یا جھکانا چاہتی تھی… تاکہ دینی طبقے پر اپنی ہیبت کا سکہ بٹھا سکے… مگر
پرویز مشرف، شوکت عزیز اور اس خونی آپریشن کے تمام کردار ناکام ہوگئے… اور لال
مسجد اور جامعہ حفصہ(ذ) کے مظلوم شہداء کامیاب ہوگئے… ان کامیاب ہونے والوں میں
ہمارے بھائی مقصود شہیدرحمۃ اللہ علیہ بھی
تھے… ان کی بے چین روح کو قرار مل گیا… اور طوفان کا بیٹا ایک بڑے طوفان کی گود
میں سکون سے سو گیا…
زندگی
جس سے عبارت ہے، محبت زندہ
وہ
سکوں صرف ہے آغوش میں طوفانوں کے
بھائی
مقصود… بہت شکریہ، بہت شکریہ … ۴؍فروری ۲۰۰۰ء
جس دن جماعت کا اعلان ہوا تھا… اور ۴؍جولائی ۲۰۰۷ء
جب تم شہید ہوئے… طوفانوں سے گھرے ان سات سالوں میں غیر مشروط محبت اور راحت بخش
رفاقت پر بہت شکریہ… الحمدللہ اس پورے عرصے میں ایک دن بھی
دوری نہیں ہوئی… اللہ پاک اپنی رحمت اور فضل سے ’’جنت‘‘ میں
بھی اکٹھا فرمائے… یا اللہ ، یا اللہ ، یا اللہ
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما یا اللہ
٭٭٭
ایک قصہ، ایک بیڑہ
اللہ تعالیٰ
ہر چیز پر قادر ہے… انڈیا نے افغانستان کو اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ اور ’’مورچہ‘‘
بنالیا تھا… گذشتہ پیر کے دن مجاہدین نے اس مورچے کا سر اڑا دیا… انڈیا نے خواب
میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ’’کرزئی‘‘ کی زندگی اور امریکہ کی موجودگی میں اس کے
ساتھ ایسا ہوسکتا ہے… مگر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے…
آئیے اس واقعہ کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ’’قبائلی علاقوں‘‘ پر متوقع
امریکی حملے کی بات کرتے ہیں…
انڈیا
اور طالبان
انڈیا
پر مشرکین کا قبضہ ہے اور یہ مشرکین اسلام کے سخت دشمن ہیں… افغانستان پر طالبان
نے شریعت نافذ کی تو ان کی مخالفت کرنے والوں میں انڈیا بھی شامل تھا… ان دنوں
انڈیا کا میڈیا صبح شام طالبان کیخلاف چیختا تھا… انڈیا خود بھی غزنوی پ، غوری
رحمۃ اللہ علیہ اور ابدالی رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرزندوں سے خوف زدہ تھا… چنانچہ
اس نے بڑھ چڑھ کر ’’شمالی اتحاد‘‘ کی مدد کی… دہلی میں قائم ’’افغان سفارتخانہ‘‘
شمالی اتحاد کے حوالے کردیا … شمالی اتحاد کے کمانڈروں کو اپنے ہاں رہائش اور
عیاشی فراہم کی… لاجپت نگر دہلی کا پوش علاقہ بددین افغانوں سے بھر گیا… وہاں ان
کو سبق پڑھا یا جاتا تھا کہ طالبان کو ختم کردو اور پاکستان کو تباہ کردو… احمد
شاہ مسعود زخمی ہوا تو اس کا علاج انڈیا کے ہسپتال میں کیا گیا یہ
ہسپتال ’’دوشنبہ‘‘ میں قائم تھا… احمد شاہ مسعود نے اسی ہسپتال میں دم توڑا… الغرض
انڈیا نے افغانستان کو بدامنی اور فساد سے بھرنے میں پورا حصہ ڈالا… چنانچہ
’’طالبان‘‘ پر جو مظالم ہوئے ان میں انڈیا کا بھی ہاتھ تھا … اب اگر انڈیا کے لوگ
اور اس کے فوجی کابل میں مارے گئے ہیں تو یہ شہداء کا خون ہے جو … بدلے پر اترا
ہے… انڈیا شور اور واویلا نہ کرے… وہ طویل عرصہ سے مجاہدین کے خلاف لڑ رہا تھا اب
اگر مجاہدین نے بھی جواب دیا ہے تو شور شرابا کیسا ؟… ارے بنیے! یہ تو پھر زنانیوں
والی جنگ ہوئی…
انڈیا
اور مسلمان
ہندوستان
پر پہلے مسلمانوں کی حکومت تھی… اس وقت ہندو بھی آرام سے رہتے تھے اور مسلمان
حکمرانوں کی فیا ضی کے مزے لوٹتے تھے… ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے اس دھرتی پر
راج کیا… پھر بدقسمتی کا دور شروع ہوا… انگریز آیا اور چھا گیا … وہ ڈیڑھ صدی تک
رہا اور مسلمانوں کو کمزور کرتا رہا… وہ جانے لگا تو برصغیر کو تقسیم کرگیا…
ہندوؤں کو بڑا ملک دے گیا اور ہم مسلمانوں کو چار حصوں میں بانٹ گیا… قرآن پاک
سمجھاتا ہے کہ کافروں سے جہاد کرو، اگر ان سے جہاد نہیں کرو گے تو وہ طاقتور
ہوجائیں گے… اور جب کافر طاقتور ہوں گے تو مسلمانوں میں ’’منافقین‘‘ پیدا ہوں گے…
انگریز طاقتور تھا اس نے مسلمانوں میں ’’منافق‘‘ پیدا کیے… نام کے مسلمان، کافروں
کے غلام، مال کے لالچی، بے انتہا بزدل… اور مسلمانوں کے قاتل… قرآن پاک سمجھاتا ہے
کہ … جب منافقوں کو حکومت ملتی ہے تو وہ کافروں کی مدد کرتے ہیں اور مسلمانوں کو
ذبح کرتے ہیں… برصغیر کے مسلمان عجیب آزمائش کا شکار ہیں… ہندوستان میں وہ مشرکین
کے غلام ہیں… اور باقی خطوں میں ان پر منافقین کی تلواریں لٹک رہی ہیں… ہندوستان
کی حکومت شروع سے مسلمانوں کی دشمن رہی… زبان میٹھی مگر دل کالا… اب تک دس ہزار سے
زائد مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں… ولبھ بھائی پٹیل سے لیکر ایڈوانی اور نریندر مودی
تک … ابوجہل کی ٹولی مسلمانوں کو رات دن ستاتی ہے… انڈیا کا خفیہ ادارہ ’’را‘‘ صرف
مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہے… تمام اسلامی ملکوں میں اس کے ایجنٹ بھرے پڑے ہیں…
اور انڈیا نے سب سے زیادہ ظلم کشمیر کے مسلمانوں پر کیا جہاں ایک لاکھ مسلمان اب
تک شہید ہوچکے ہیں… انڈیا کے اسرائیل کے ساتھ گہرے رواسم ہیں… الغرض انڈیا
مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے… اسے معلوم ہے کہ مسلمان دوبارہ اس ملک پر ضرور قبضہ
کریں گے… جس طرح فرعون کو معلوم تھا کہ بنی اسرائیل کا ایک بچہ اس کی سلطنت کو ختم
کرے گا… فرعون نے تقدیر کو ٹالنے کے لیے بچوں کے قتل کا سلسلہ شروع کیا… اسی طرح
انڈیا بھی مسلمانوں کا خون چوس رہا ہے … وہ پاکستان کو مٹانا چاہتا ہے … اور صدر
پرویز مشرف کے دور میں انڈیا کو پاکستان میں گھسنے کا پورا موقع مل گیا…
کابل
میں قائم بھارتی سفارتخانہ… مسلمانوں کے قتل کا انچارج تھا
… اللہ تعالیٰ نے مظلوموں پر رحم فرمایا… کسی ایک مجاہد نے
جاکر ایسی ایمان والی ٹکر لگائی کہ مسلمانوں کے دل خوش ہوگئے… سنا ہے کہ ’’را‘‘ کا
انچارج بھی مارا گیا… مسلمانوں پر حملے کرنے کا حکم دینے والے قونصل جنرل کی لاش
چھت پر سے ملی… اور دہلی لرز کر رہ گیا… اللہ اکبر… بے
شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے…
انڈیا
اور کرزئی
انڈیا
افغانستان سے باہر بیٹھ کر… طالبان کی لاشیں گرا رہا تھا… جب طالبان کا مبارک دور
گزر گیا اور افغانستان کے چمن میں ’’کرزئی‘‘ کا الّو بولنے لگا تو انڈیا بھی…
افغانستان میں داخل ہوگیا… اللہ اللہ … ایک وہ
افغانستان تھا جس میں نور ہی نور نظر آتا تھا… حضرت لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ
علیہ تشریف لے گئے تو منظر دیکھ کر خوشی سے رو پڑے… فرمایا سنت ہی سنت
کا نور نظر آتا ہے… نہ سینما، نہ گانے نہ بے پردگی اور نہ ظلم… پوری دنیا کے
مجاہدین وہاں آرہے تھے… اور ظالموں کے ستائے ہوئے عرب خاندان وہاں آکر عزت اور
سکون کا سانس لے رہے تھے…
سچی
بات ہے عجیب منظر تھا… دنیا کے افضل ترین مسلمان وہاں جمع تھے… اذانیں گونجتی
تھیں، تکبیر کے نعرے بلند ہوتے تھے … اور طرح طرح کی زبانوں میں دین کی بات چلتی
تھی… قندھار میں حضرت ملا عمر… ان کے قریب ایک علاقے میں شیخ اسامہ بن لادن… اور
پھر ہر علاقے میں زمانے کے قطب ابدال … اور صدیقین … جب کہ شہداء کی تو
بس حکومت تھی… پھر منظر بدل گیا… دن چلا گیا اور رات آگئی … بے حیائی کے اڈے،
سینما، بے پردگی … اور نیٹو کے درندے اور منافقین کے
ٹولے… اللہ کرے یہ رات جلد ختم ہو… انڈیا بھی پوری بے حیائی
اور درندگی کے ساتھ افغانستان میں آیا ہوا ہے… انڈیا کے حکمرانوں کے پاس مسلمانوں
کے لیے دو ہی چیزیں ہیں… ایک بے حیائی اور دوسری درندگی … یا بے حیاء بن جا ؤیا
مارے جاؤ… یہی مسلمانوں کے لیے انڈیا کا اعلان ہے… انڈیا افغانستان میں اربوں روپے
کی سرمایہ کاری کر رہا ہے… ظاہری طور پر سڑکیں اور ہسپتال اور اندرونی طور پر
عسکری اڈے بنا رہا ہے… اور فلموں کے ذریعے خوب بے حیائی پھیلا رہا ہے… شکر ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے افغان مجاہدین کو ان کی طرف متوجہ فرمایا
… انڈین اہلکار خوب بن ٹھن کر، مسلح پہرے داروں کی حفاظت میں … سفارتخانے کی طرف
روانہ ہوئے… ان کے دماغوں میں اسلام دشمنی کے کیڑے ابل رہے تھے اور وہ اطمینان کے
ساتھ اپنے اڈے کی طرف بڑھ رہے تھے… مگر یہ کیا ہوا… ان کی گاڑیاں جیسے ہی دروازے
میں داخل ہوئیں… اسلام کا ایک شاہین اپنی گاڑی پر ان کی طرف جھپٹا… ایک تکبیر کا
نعرہ اور ایک خوفناک دھماکہ… دشت لیلیٰ کے شہداء نے مسکرا کر دیکھا … اور کشمیر کے
پہاڑوں سے شہداء کرام نے مسرت سے جھانک کر دیکھا… قرآن پاک میں آتا ہے کہ مسلمانوں
کے خلاف لڑنے والے کافروں کی روحیں جب فرشتے لے کر جاتے ہیں تو راستے میں ان کی
خوب پٹائی کرتے جاتے ہیں… ان کو لوہے اور آگ کے کوڑوں سے مارتے ہیں… اس دن بھی
فرشتے مشرکین کو لے جارہے ہوں گے… مارتے ہوئے … اور کچھ پیاری پیاری حوریں … ایک
’’ذی شان‘‘ یعنی شان والے شہید کا ہاتھ تھامے اس کے چہرے کا غبار صاف کر رہی ہوں
گی… انشاء اللہ انشاء اللہ … ہاں مسلمانو! اللہ تعالیٰ
ہر چیز پر قادر ہے…
بیانات
اس
حملے پر انڈیا کو تو سانپ سونگھ گیا … مگر اپنے ملتان کے پیر صاحب وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی کو بہت دکھ ہوا… انہوں نے مذمتی بیان بہت جلد دے دیا … افغانستان میں
طالبان کی شہادت پر ان کو کوئی دکھ نہیں ہوتا… کرزئی تو غم میں ڈوب گیا… انڈین
فنکار اور بے حیائی کے ٹولے جہازوں میں بھر بھر کر انڈیا کی طرف دوڑے… ساری دنیا
میں الحمدللہ مجاہدین کی دھاک بیٹھ گئی… شام تک انڈیا نے
بھی شور اور واویلا شروع کردیا… اور الزام پاکستان پر لگایا … حالانکہ بے چارہ
پاکستان کسی کافر کو نہیں مارتا… یہاں تو صرف مسلمانوں پر گولے گرائے جاتے ہیں …
انڈیا کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہمارا پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا ہے… معلوم ہوا کہ …
کافی زیادہ نقصان ہوا ہے… اور الحمدللہ بڑی چوٹ لگی ہے…
کیوں نہیں قرآن پاک بار بار بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان
والوں کا مددگار ہے… اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے…
امریکی
بیڑہ
انڈین
سفارتخانے والا قصہ کافی مزیدار ہے، اس پر مزید بھی کچھ لکھنا چاہئے تھا… مگر ایک
اور موضوع بہت ضروری ہے… پورے پاکستان میں خوف پھیلا ہوا ہے کہ امریکہ عنقریب
پاکستان کے قبائلی علاقوں پر باقاعدہ حملہ کرنے والا ہے… خبر مشہور ہے کہ امریکہ
کا ایک بڑا جہاز… یعنی بحری بیڑہ، جس کا نام ’’ابراہام لنکن‘‘ ہے… بہت سے جنگی
جہاز اور بہت سے ڈیزی کٹر بم لیکر بحیرہ عرب میں داخل ہوچکا ہے… یہ بیڑہ، (
اللہ تعالیٰ اسے غرق فرمائے) افغانستان میں روتے، بلکتے، جیتے مرتے
چونتیس ہزار امریکیوں کے لیے جنگی سامان لارہا ہے… یہاں ایک دلچسپ بات سن لیں…
مجاہدین کے ساتھ ’’سلام دعاء‘‘ کرتے میری زندگی کے اٹھارہ سال گزر چکے ہیں… محاذوں
پر لڑنے والے مجاہدین کو ہمیشہ یہ شکوہ کرتے دیکھا کہ ہمارے پاس اسلحہ کم ہے،
سامان کم ہے، گاڑیاں کم ہیں… اور ان میں سے بعض کو یہ کہتے بھی سنا کہ پیچھے ہمارے
قائدین بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور ہمارے پاس گولہ بارود بھی پورا نہیں…
یہ پرانے زمانے کی بات ہے اب الحمدللہ مجاہدین
کافی سدھر گئے ہیں… اپنے ذمہ داروں پر الزامات تو نہیں لگاتے مگر سامان کی کمی کا
رونا روتے رہتے ہیں… ابھی چند دن پہلے میں خبریں سن رہا تھا… خبروں میں بتایا گیا
کہ … نیٹو افواج کے سربراہ نے ایک بڑے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم
افغانستان میں وسائل کی کمی کا شکار ہیں… اگر ہماری حکومتوں نے ہماری مدد نہ کی تو
ہم ناکام ہوجائیں گے اور طالبان، صرف افغانستان ہی میں نہیں بلکہ پورے وسط ایشیا
پر چھا جائیں گے… یہ خبر سن کر مجھے بے حد بے حد خوشی ہوئی … اگر مجاہدین کے پاس
وسائل کم ہیں تو الحمدللہ ان کے دشمنوں کو
بھی اللہ تعالیٰ نے وسائل کی کمی میں مبتلا فرمادیا ہے…
نیٹو فوجی چاہتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس اپنی الگ بکتر بند گاڑی، الگ ٹینک،
الگ رہائشی قلعہ ہو… ان میں سے ہر ایک کی حفاظت کے لیے پانچ طیارے فضاء میں ہر وقت
اڑتے رہیں… اور ہر نیٹو فوجی کے پاس بیس افغان باڈی گارڈ ہوں… ان سب فوجیوں کے لیے
فرانس کے ہوٹلوں سے گرم کھانا آنا چاہیے… اور افغانستان کی تمام سڑکوں کے گرد موٹی
دیواریں بنائی جائیں… تاکہ… یہ بہادر فوجی گشت
کرسکیں… اللہ اللہ تیری شان … پاکستان کے
کالم نویس کافروں کی طاقت لکھ لکھ کر نہیں تھکتے… جبکہ کافروں کے فوجی اپنی کمزوری
اور بے بسی پر رو رہے ہیں… اللہ تعالیٰ نے نہتے مجاہدین کا
رعب ان کے دلوں پر مسلط فرمادیا ہے… میرا دل چاہتا تھا کہ… نیٹو کمانڈر کی وہ
دردناک تقریر پوری اُمت مسلمہ میں تقسیم کروں تاکہ… ہر کوئی پکار اٹھے
کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے…
اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے…
بیڑے
سے نہ ڈریں
بات
دور نکل گئی… اخبارات میں شور ہے کہ امریکی بیڑہ آرہا ہے… ایک کالم نویس نے لکھا
کہ میں بزدل تو نہیں ہوں مگر مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ امریکی بیڑہ آرہا ہے… کسی طرح
اس کے حملے کو رکوایا جائے… اپنے سابق وزیر داخلہ شیر پاؤ صاحب نے بھی فرمایا ہے
کہ امریکہ حملہ کرنے آرہا ہے… یہ سب لوگ پاکستان والوں کو ڈرا رہے ہیں… میں پوچھتا
ہوں کہ اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟… جس کسی نے جس دن مرنا ہوگا اسی دن مرے گا…
زلزلے سے مرے، ہارٹ اٹیک سے مرے، ایکسیڈنٹ سے مرے یا … بمباری سے مرے… پھر ڈرنے کی
کیا بات ہے… کیا موت صرف امریکی بمباری سے آتی ہے… آج پاکستان میں جو
سینکڑوں لوگ مرے ہوں گے کیا یہ امریکی بیڑے نے مارے ہیں؟ …
قرآن
پاک سمجھاتا ہے کہ … جب کافر تم پر خوب تیاری کرکے حملہ کرنے آئیں تو تم ان کے
مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ کو بلالینا… اور ڈرنے کی بجائے
کہنا… حسبنا اللہ ونعم
الوکیل… اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی
ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی
ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے…
اے
مسلمانو! ایمان پر زندہ رہنا سعادت… اور ایمان پر مر جانا شہادت ہے… پھر ڈرنے کی
کیا بات ہے؟ … ہاں ایک بات سب حکمران ضرور سن لیں… اگر صدر پرویز مشرف پاکستان
والوں کو اپنی اہمیت سمجھانے کے لیے یہ حملہ کروا رہے ہیں تو اس کے نتائج بہت
بھیانک ہوں گے… ابھی بھی صدر کے حامی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ پرویز مشرف نے پاکستان
کو امریکی حملے سے بچایا ہوا تھا… خوب سن لیں اور یاد رکھیں کہ پاکستان پر امریکی
حملے کے بعد تمام بند ٹوٹ جائیں گے… سرحدوں کی لکیریں بے معنیٰ ہوجائیں گی… اور
جہاد کی فرضیت کا دائرہ بہت وسیع ہوجائے گا… پاکستانی حکمرانوں کو چاہئے کہ… پرویز
مشرف سے اپنی جان چھڑائیں اور امریکہ کو صاف صاف بتائیں کہ وہ … حملہ کرنے کی صورت
میں جوابی کارروائی کا نشانہ بنے گا… یقین جانیے کہ اگر ہمارے حکمرانوں نے کھلے
الفاظ اور سچی نیت کے ساتھ امریکہ کو یہ بات کہہ دی تو امریکہ کبھی بھی یہ حملہ
نہیں کرے گا… وہ تو پہلے ہی عراق اور افغانستان میں پچھتا رہا ہے… لیکن اگر
حکمرانوں نے غلامی کا ثبوت دیا تو شاید… ایسا حملہ ہوجائے… تب بھی مجاہدین کا اور
مسلمانوں کا کچھ نقصان نہیں ہوگا… رب کعبہ کی قسم بے غیرتی کے امریکی ڈالر کھا کر
زندہ رہنے سے امریکی بم کھاکر مرجانا کروڑوں گنا افضل ہے… مجھے اپنے مولیٰ پر یقین
ہے کہ… وہ ہر ’’دشمن اسلام‘‘ کے مقابلے میں مسلمان مجاہدین کی مدد فرمائے گا… بے
شک وہ ایک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے…
و
اللہ علیٰ کل شیء قدیر…ان اللہ علیٰ کل شیء
قدیر… اللہم صل علیٰ سیّدنا ومولانا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
سورۃ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خلاصہ
اللہ تعالیٰ
نے مسلمانوں کو کافروں سے جہاد کرنے کا حکم فرمایا ہے… لوگ پوچھتے ہیں کہ کافر بھی
تو انسان ہیں… وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں تو پھر ان
کو مارنے کا حکم کیسے دیا گیا؟… لوگ کہتے ہیں کہ کافر بھی اچھے کام کرتے ہیں،
غریبوں کی مدد اور رفاہ عامہ کے کام… پھر ان کے خلاف جہاد کی اجازت اور حکم کس لئے
ہے؟…
لوگ
پوچھتے ہیں کہ… جہاد میں تو قتل وغارت ہوتی ہے اور خونریزی ہوتی ہے تو پھر قرآن
پاک جیسی ’’امن‘‘ والی کتاب نے جہاد کا حکم کیسے دیا؟…
لوگ
کہتے ہیں کہ سب انسان برابر ہیں تو پھر لڑائی کیسی؟…ہر کسی کو حق دیا جائے کہ وہ
جو چاہے کرے … یہ ہیں وہ چند سوالات جن کا جواب ہمیں قرآن پاک کی ایک سورۃ جس کا
نام ’’سورۃمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘ ہے بہت تفصیل کے ساتھ
دیتی ہے… اور بارہ سے زائد طریقوں سے مسلمانوں کو جہاد کا مسئلہ سمجھاتی ہے… اسی
لیے اس سورۃ کا ایک نام ’’سورۃ القتال‘‘ بھی ہے… یہ سورۃ چھبیسویں پارے میں ہے اور
کل اڑتیس آیات پر مشتمل ہے… اگر کوئی مسلمان صرف ایک بار اس سورۃ مبارکہ کو سمجھ
کر پڑھ لے تو وہ بہت آسانی سے جہاد کا مسئلہ سمجھ سکتا ہے… اور دور حاضر کے بہت سے
الحادی اور تحریفی فتنوں سے بچ سکتا ہے… وحید الدین خان سے لیکر غامدی تک ہر
’’منکر جہاد‘‘ کے ہر اعتراض کا جواب اس سورۃ میں نہایت وضاحت کے ساتھ موجود ہے…
اور تو اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سورۃ کی تفسیر میں ’’انسانی حقوق‘‘ کا مسئلہ
بھی اُٹھایا ہے… اور سورۃمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آیات کی روشنی میں یہ بات
سمجھائی ہے کہ… دنیا کا سب سے بڑا جرم ’’کفر اور شرک‘‘ ہے… پس کافر اور مشرک چونکہ
’’انسانی فطرت‘‘ کے دشمن ہیں اس لیے ان کے بہت سے حقوق ختم ہوجاتے ہیں… لوگ
جانوروں کو روز ذبح کرتے ہیں… آخر ان میں بھی تو جان ہوتی ہے اور خون ہوتا ہے…
حکومتیں اپنے مجرموں کو سزائے موت دیتی ہیں… آخر وہ مجرم بھی تو انسان ہوتے ہیں
اور ان کے جسم میں بھی جان ہوتی ہے…
’’سورۃمحمد(
صلی اللہ علیہ وسلم )‘‘ یہ سمجھاتی ہے کہ اگر کافروں سے جہاد نہ کیا گیا تو زمین
ظلم، فساد اور خونریزی سے بھر جائے گی… ہر طرف شیطان کی پوجا ہوگی… ہر گناہ معاشرے
میں عام ہوجائے گا… اور لوگ جہنم کی طرف بے تحاشا دوڑنے لگیں گے… پس اے مسلمانو!…
کافروں کی طاقت کو جہاد کے ذریعہ کمزور کرو تا کہ کفر نہ پھیلے، نفاق نہ پھیلے،
گناہ نہ پھیلیں… اور انسان جہنم کی ناکامی میں نہ گریں… ’’سورۃمحمد( صلی اللہ علیہ
وسلم )‘‘سمجھاتی ہے کہ کافر اللہ تعالیٰ کے باغی اور دین
اسلام کے دشمن ہیں، ان کو اگر کھلی چھوٹ دے دی گئی تو یہ دنیا میں کفر اور گناہ
پھیلائیں گے… سورۃمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سمجھاتی ہے کہ حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد اب کامیابی اور نجات صرف
’’دین اسلام‘‘ میں ہے… پس جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانے گا
وہی کامیاب ہے… اور اس کے لیے گناہوں کی معافی کا دروازہ بھی کھلا ہے… اور جو حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانے گا وہ ناکام ہے حتی کہ اس کے
ظاہری طور پر نیک نظر آنے والے اعمال بھی قبول نہیں ہیں… پس کافر کی نیکی بھی
برباد اور مسلمان کے گناہ بھی معاف… یہ ہے سورۃمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا
بنیادی موضوع… کفر اور اسلام کا تقابل… کہ کفر اللہ تعالیٰ
کومبغوض اور ناپسند ہے… اور اسلام اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے…
اب دو باتوں کو الگ الگ کرکے سمجھتے ہیں اور پھرآخر میں ایک ’’علمی تحفہ‘‘ پیش
خدمت کیا جائے گا، انشاء اللہ تعالیٰ
معتبر
ایمان کونسا؟
سورۃمحمد(
صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اعلان کردیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی بعثت کے بعد… تمام سابقہ شریعتیں اور دین منسوخ ہوچکے ہیں… اب صرف وہی دین
اور ایمان معتبر ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ہوگا…
پس جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا وہ ’’کافر‘‘ ہے اور
کافر کے تمام اعمال (خواہ اچھے ہی کیوں نہ ہوں) اللہ تعالیٰ
نے برباد فرمادیئے ہیں، ملاحظہ فرمائیے آیت ( ۱) تا ( ۳)
کافر
دنیا وآخرت میں ناکام
سورۃ
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بات بہت تفصیل سے سمجھائی
ہے کہ … شرک اور کفر سب سے بڑا جرم ہے… کافر جہنم کا مستحق ہے… کافر دنیا وآخرت
میں ناکام ہے… کفر انسانیت کے لیے بہت نقصان دہ ہے… دراصل جہاد وہی مسلمان کرسکتا
ہے جس کے دل میں ایمان اور اسلام کی محبت، عظمت اور ضرورت پوری طرح سے راسخ ہو…
اور اس کے دل میں کفر کی مکمل نفرت اور بے زاری ہو… اور وہ یقین رکھتا ہو کہ کفر
ہر برائی کی اصل جڑ … اور اسلام ہر کامیابی کی اصل بنیاد ہے… اس لیے اگر کافروں کو
طاقتور ہونے دیا گیا تو یہ بات انسانیت کے لیے بہت بڑی ہلاکت کا باعث ہوگی… پس
انسانوں سے ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ جہاد کیا جائے اور انسانیت کے دشمن کافروں کو
کمزور کیا جائے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ نکتہ سمجھ لیا
اور ہم اس کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں…
ایک
ایمانی تحفہ
سورۃ
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایمانی اور جہادی معارف کا ایک سمندر ہے… اور اس وقت
مسلمانوں کے مکمل حالات کو سمجھانے والی ایک ’’رہبر‘‘ ہے… ملاحظہ فرمائیے سورۃ
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مضامین کے چند خلاصے… ان خلاصوں کی روشنی میں
انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اس مبارک سورۃ کو سمجھنا آسان
ہوجائے گا…
سورۃ
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مضامین جہاد
۱ کافر اسلام کے
دشمن اور دینی دعوت کے راستے کی رکاوٹ ہیں، آیت (۱)
۲ معتبر دین صرف
اسلام ہے ، آیت (۲)
۳ مسلمانوں سے غلبے
کا وعدہ ، آیت(۲)
۴ کافروں کے خلاف
خوب مضبوطی سے جنگ کرو، آیت(۴)
۵ اقدامی جہاد
(یعنی خود بڑھ کر جنگ کرو) آیت(۴)
۶ کافروں کو قیدی
بنانے کی اجازت، آیت (۴)
۷ جنگی قیدی کے
احکام، آیت (۴)
۸ جہاد قیامت تک
جاری رہے گا، آیت (۴)
۹ جہاد ایمان کا
اُمتحان ہے، آیت (۴)
۱۰ شہداء کرام کی
فضیلت اور ان کے لیے عجیب وغریب انعامات، آیت (۴،۵،۶)
۱۱ مجاہدین کی فضیلت
اور انعامات، آیت (۴،۵،۶) (ایک
قرأت کے مطابق)
۱۲ جہاد میں مجاہدین
سے اللہ تعالیٰ کی نصرت کا پکا وعدہ، آیت(۷)
۱۳ مجاہدین صرف دین
کی خاطر جہاد کریں، آیت(۷)
۱۴ اللہ تعالیٰ
ایمان والوں کا مددگار ہے اور کافر بے یار ومددگار ہیں ، آیت (۱۱)
۱۵ مکہ مکرمہ فتح
ہونے کی بشارت ، آیت(۱۳)
۱۶ جہاد کی بنیاد
’’لا الہ الا اللہ ‘‘ آیت(۱۸)
۱۷ ایمان والوں کا
شوق جہاد اور منافقین کی جہاد سے نفرت ، آیت (۲۰)
۱۸ جہاد کے موقع پر
مطلوبہ طرز عمل اور منافقین کی اطاعت کی حقیقت ، آیت(۲۱)
۱۹ جہاد چھوڑوگے تو
دنیا قتل وغارت، خونریزی اور فساد سے بھر جائے گی، آیت(۲۲)
۲۰ منافقوں کو حکومت
ملے تو وہ مسلمانوں کی خونریزی کرتے ہیں، آیت(۲۲) (تفسیری قول)
۲۱ مجاہدین کو طاقت
وحکومت ملے تو فساد برپا نہ کریں، آیت (۲۳)
۲۲ منافق جہاد کی
بات نہیں سنتے اور نہ جہاد کے فوائد کو دیکھتے ہیں، آیت (۲۳)
۲۳ منافقوں کے دلوں
پر تالے ہیں اس لیے وہ جہاد کو نہیں سمجھتے، آیت (۲۴)
۲۴ شیطان نے منافقوں
کو لمبی عمر کی امیدیں دلا کر جہاد سے روکا ہے، آیت (۲۵)
۲۵ منافقوں کی یہ
حالت کافروں سے یاری رکھنے کی وجہ سے ہوئی ہے، آیت(۲۶)
۲۶ جہاد چھوڑنے والے
منافقوں کی موت کا بھیانک منظر، آیت (۲۷)
۲۷ منافقوں کو جہاد
سمیت اللہ تعالیٰ کی رضا والے ہر کام سے نفرت ہے، آیت (۲۸)
۲۸ منافق بے نقاب
ہوسکتے ہیں، آیت (۲۹)
۲۹ منافق جہاد کے
مواقع پر اپنی باتوں سے پہچانے جاتے ہیں، آیت (۳۰)
۳۰ جہاد کے ذریعہ
اُمتحان ہوتا ہے کہ کون سچا مؤمن ہے، آیت (۳۱)
۳۱ اسلام کے خلاف
کافروں کی تدبیریں اللہ تعالیٰ ناکام فرمادیتاہے، آیت (۳۲)
۳۲ مجاہدین
کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے حکم کے مطابق جہاد کرنا چاہئے نہ کہ اپنی خواہش کے مطابق، آیت (۳۳)
۳۳ کافر دنیا وآخرت
میں ناکام ہے، آیت ۳۴
۳۴ جہاد میں کمزوری
اور سستی نہ کرو، کافروں کے غلبے کو تسلیم نہ کرو اور کافروں کو خود صلح کی طرف نہ
بلاؤ، آیت(۳۵)
۳۵ مسلمانوں کے غلبے
کاوعدہ، آیت(۳۵)
۳۶ ایمان والے
مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت کا وعدہ، آیت(۳۵)
۳۷ ایمان والوں کے
اعمال ضائع نہیں ہوں گے، آیت (۳۵)
۳۸ جہاد سے روکنے
اور صلح کی طرف جھکانے والی چیز دنیا کی محبت ہے، دنیا کی حقیقت اور بے ثباتی کا
بیان، آیت(۳۶)
۳۹ جہاد میں مال خرچ
کرنے کی ترغیب ، آیت(۳۷، ۳۸)
۴۰ مسلمان خود جہاد
کے محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ کو ان کے جہاد کی حاجت نہیں،
جہاد میں مسلمانوں کا اپنا فائدہ اور بقاء ہے، آیت (۳۸)
۴۱ کفر اور اسلام کا
تقابل ، آیت (۱، ۲، ۳، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۳۲،۳۴)
۴۲ اسلام اور نفاق
کا تقابل، آیت (۱۶،۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱ ، ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰)
مجاہدین
کے لیے بارہ نصیحتیں
سورۃ
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں مجاہدین کے لیے اہم نصیحتیں اور احکامات ہیں اگر
وہ ان کو ملحوظ رکھ کر جہاد کریں تو ان کے جہاد میں برکت ہو… اور انہیں پوری
کامیابی نصیب ہو… خصوصاً آج کل ان نصیحتوں کو بار بار دہرانے کی زیادہ ضرورت ہے
کیونکہ جہاد کے نام پر ’’خونِ مسلم‘‘ بہانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے…
۱ جنگ بہت قوت سے
کرو، آیت(۴)
۲ جب تک کافروں میں
لڑنے کے طاقت باقی رہے ان کے خلاف جہاد کرتے رہو، آیت (۴)
۳ جہاد
صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور غلبے کے لیے کرو، آیت(۷)
۴ جہاد میں مقتول
ہونے سے نہ ڈرو، آیت (۴، ۵، ۶)
۵ اپنے دل میں جنت
کی نعمتوں کا شوق پیدا کرو، آیت(۱۵)
۶ اگر اللہ تعالیٰ
تمہیں قوت اور حکومت دے دے تو اس کا ناجائز استعمال نہ کرو اور مسلمانوں کی
خونریزی نہ کرو، آیت(۲۲)
۷ جہاد اللہ تعالیٰ
کے حکم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
طریقے کے مطابق کرو، آیت(۳۳)
۸ جنگ میں کمزوری
نہ دکھاؤ اور دنیا کی محبت میں آکر خود صلح کی طرف نہ جھکو، آیت(۳۵)
۹ کافروں کے غلبے
کو تسلیم نہ کرو، آیت(۳۵)
۱۰ دنیا سے بے رغبت
رہو، یہاں کے عیش وآرام کو اپنا مقصود نہ بناؤ، آیت (۳۶)
۱۱ جہاد میں اپنا
مال بھی خرچ کرو، آیت (۳۸)
۱۲ خود
کو اللہ تعالیٰ کا اور جہاد کا محتاج سمجھو، آیت(۳۸)
جہاد
کی دو حکمتیں
سورۃ
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جہاد کی حکمتیں بھی بیان فرمائی ہیں:
۱ کافروں کا زور
ٹوٹ جائے تاکہ وہ دین اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکیں اور لوگوں کو گمراہ نہ
کرسکیں ، آیت (۴)
۲ ایمان کا دعویٰ
کرنے والوں کا اُمتحان ہوجائے کہ کس کا دعویٰ سچا ہے اور کس کا جھوٹا، آیت (۴، ۳۱)
غزوہ
بدر اور غزوہ احد کی طرف اشارات
بعض
تفسیری اقوال کے مطابق سورۃ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی
آیت (۱) تا
(۳) میں
غزوہ بدر کے اور آیت (۵) اور
(۶) میں
غزوہ احد کے بعض واقعات کی طرف اشار ہ ہے…
بارہ
طریقوں سے جہاد کی دعوت اور ترغیب
پہلے
عرض کیا جاچکا ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کا ایک نام ’’سورۃ القتال‘‘ بھی ہے… اس میں
مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت اور ترغیب دی گئی ہے… کبھی جوش اور ہمت
دلا کر اور کبھی دنیا سے بے رغبتی دلا کر… کبھی جنت کا حسین منظر دکھا کر اور کبھی
جہنم اور نفاق سے ڈرا کر… ہم بطور خلاصہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سورۃ مبارکہ میں
بارہ طریقوں سے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی گئی ہے… اور انہیں اس فریضے کی طرف
بلایا گیا ہے…
۱ کفر کی مذمت بیان
کرکے، آیت ۔۱ (ودیگر
کئی آیات میں)
۲ مجاہدین اور
شہداء کے انعامات بیان کرکے، آیت۴۔۵ ۔۶
۳ دنیا کے فانی
ہونے کو سمجھا کے، آیت ۳۵
۴ اپنی نصرت، معیت
اور مد دکا وعدہ فرما کے، آیت ۷۔ ۱۱۔ ۳۵
۵ مجاہدین کے لیے
گناہوں کی معافی کا اعلان فرماکے، آیت ۲۔ ۴۔ ۳۵
۶ مجاہدین کو ’’
اللہ تعالیٰ کا مددگار‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے
دین کا مددگار قرار دے کر، آیت ۷
۷ یہ بیان فرما کر
کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے جہاد کی ضرورت نہیں ، اس میں خود
تمہارا اپنا فائدہ ہے، آیت ۴۔ ۳۸
۸ یہ وعید سنا کر
کہ جہاد نہیں کرو گے تو زمین ظلم، فساد قطع رحمی سے بھر جائے گی، آیت ۲۲
۹ جنت کی نعمتوں کا
تذکرہ فرما کر اور جہنم کے عذاب سے ڈرا کر، آیت ۱۵
۱۰ جہاد کو ایمان کی
علاُمت قرار دے کر، آیت ۳۱
۱۱ حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شوق جہاد کو بیان فرما کر، آیت ۲۰
۱۲ اور یہ فرما کر
کہ جہاد سے نفرت منافقین کی علاُمت ہے، آیت ۲۰ ۔ (ودیگر
کئی آیات)
(جہاد
کی دعوت دینے والوں کے لیے یہ بارہ رہنما اسلوب ہیں، جبکہ دعوت جہاد کے بعض اسلوب
دوسری سورتوں میں مذکور ہیں، مثلا مظلوم مسلمانوں کا تذکرہ کرکے جہاد کی دعوت دینا
وغیرہ)
کفر
کی مذمت
سورۃمحمد(صلی اللہ علیہ
وسلم)کا ایک خاص موضوع کفر کی مذمت اور اس کی قباحتوں کو بیان ہے، ملاحظہ فرمائیے
اس موضوع کی ایک جھلک:
۱ کافر خود کو اور
دوسروں کو دین اسلام سے روکنے والے ہیں، آیت(۱)
۲ کافروں کے نیک
اعمال بھی قبول نہیں، آیت(۱)
۳ کافروں کی اسلام
کے خلاف تدبیریں ناکام، آیت(۱)
۴ کافر شیطان کے
پیروکار اور غلط راستے پر چلنے والے، آیت (۳)
۵ کافروں کی جان
ومال کی کوئی حرمت نہیں (خصوصاً جب مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے اتر آئیں)، آیت(۱)
۶ کافروں کے لیے
تباہی اور بربادی ہے، آیت(۸)
۷ کافر قرآن پاک کے
مخالف ہیں اور یہی ان کی ناکامی کی وجہ ہے، آیت(۹)
۸ کافر کا انجام
ناکامی ہے، آیت(۱۰)
۹ اللہ تعالیٰ
کے مقابلے میں کافروں کا کوئی مددگار نہیں، آیت(۱۱)
۱۰ کافر جانوروں کی
طرح بے کار زندگی گزارنے والے، دنیا کے عیش وآرام، سرمایہ اور کھانے پینے کو مقصد
بنانے والے ہیں، آیت (۱۲)
۱۱ کافر جہنمی ہیں،
آیت (۱۲)
۱۲ کافروں کی
طاقت اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، آیت (۱۳)
۱۳ کافر اپنے برے
کاموں کو اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے بہت برائی پھیلاتے ہیں، آیت(۱۴)
۱۴ کافروں کے لیے
جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے، آیت(۱۵)
ایک
ضروری گذارش
سورۃمحمد(صلی اللہ علیہ
وسلم)کے مضامین کی چند فہرستیں آپ کے سامنے آگئیں… آپ سب سے تاکیدی گذارش ہے کہ
اکتائے بغیر ان کو غور سے پڑھیں… قرآن پاک پر ایمان لانا ہم سب کے
لیے لازم ہے… اور اسی سورۃمحمد(صلی اللہ علیہ
وسلم) میں سمجھایا گیا ہے کہ کافروں اور منافقوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ
… قرآن پاک کی باتوں کو پسند نہیں کرتے… اس لیے آپ دلچسپی، محبت اور توجہ کے ساتھ
ان تمام فہرستوں کو پڑھیں… اور پھر ان کو سامنے رکھ کر
سورۃمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سمجھنے کی کوشش کریں… اور
اس سورۃ اور پورے قرآن کے مطابق اپنا عقیدہ بنائیں…
رہنما
تفسیریں
سورۃمحمد(
صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مضامین کو سمجھنے کے لیے آپ مستند عربی تفاسیر کے ساتھ
ساتھ درج ذیل اردو تفاسیر سے بھی روشنی حاصل کرسکتے ہیں:
٭ موضح
قرآن… حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ
٭ بیان
القرآن… حضرت حکیم الامۃ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
٭ قرآن
عزیز محشّٰی … حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ
٭ تفسیر
عثمانی… حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
٭ معارف
القرآن… حضرت کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ
٭ معارف
القرآن… حضرت مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ
٭ انوارالبیان…
حضرت مولانا عاشق الٰہی رحمۃ اللہ علیہ
٭ معالم
العرفان… حضرت سواتی رحمۃ اللہ علیہ
٭ تفسیر
حقانی… حضرت مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ
٭ تفسیر
مظہری… (مترجم) حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی
پتی رحمۃ اللہ علیہ
ایک
دعاء
’’فتح
الجوّاد‘‘ کی جلد ثالث میں ’’سورۃمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )‘‘ کی مکمل تفسیر آگئی
ہے … اور اس میں ترتیب اور حوالوں کے ساتھ یہ تمام مضامین تفصیل کے ساتھ بیان کیے
گئے ہیں… تمام حضرات وخواتین دعاء فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ
کی توفیق سے ’’فتح الجوّاد‘‘ کی جلد ثالث جلد مکمل ہو کر شائع ہوجائے…
وما
ذلک علی اللہ بعزیز…
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ وصحبہ
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭٭٭
دورہ، دعاء، درد
اللہ تعالیٰ
ہی زندگی، موت، عزت، ذلت اور رزق کا مالک ہے… کاش اس بات کا یقین ہمارے دلوں میں
پوری طرح بیٹھ جائے اور اچھی طرح جم جائے… آج کل ہر طرف عجیب تماشے ہیں، کئی دنوں
کے بعد ’’اخبار‘‘ خریدا مگر ایک خبر بھی ایسی نہیں تھی جسے پڑھ کر دل کو راحت ملے…
مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، ایک دوسرے کو دبا رہے ہیں، ایک دوسرے کو بیچ رہے
ہیں… اور ایک دوسرے کو دھمکا رہے ہیں… ملک کے وزیر اعظم صاحب آج امریکی صدر کے
دربار میں حاضری دے رہے ہیں … گزشتہ کئی دنوں سے وہ اس ’’دل کے دورے‘‘ کی تیاری
میں تھے… صفائیاں، وضاحتیں اور مسلمانوں کو مارنے اور پکڑنے کے کارناموں کی فائلیں
تیار ہو رہی تھیں… صدر پرویز مشرف امریکہ کو اتنا کچھ بیچ چکے ہیں کہ اب موجودہ
حکومت کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں… اور وہ امریکہ کو اتنا کچھ دے چکے ہیں کہ اب ملک
میں دینے کے لیے بھی کچھ نہیں بچا… شاید آج شام تک پاکستان کے وزیر اعظم اور
امریکہ کے صدر کی ملاقات ہوجائے گی… اللہ پاک مسلمانوں پر
رحم فرمائے رجب کے مہینے کی برکت عطاء فرمائے اور اس ملاقات کے شر سے سب مسلمانوں
کی حفاظت فرمائے… سنا ہے کہ اس ملاقات میں گیلانی صاحب، صدر بش کو ایک عاجزانہ
درخواست بھی پیش کرنے والے ہیں… وہ درخواست یہ ہے کہ آپ ہم پر پورا اعتماد کریں،
ہم مکمل روشن خیال اور لبرل ہیں… ہم جہاد اور مجاہدین کے سخت دشمن ہیں… ہم طالبان
کے آپ سے بھی زیادہ مخالف ہیں… ہمارے سروں پر آصف زرداری اور رحمن ملک جیسے آپ کے
پسندیدہ لوگوں کا سایہ ہے… ہم آپ کی ہر خدمت کے لیے دل و جان سے حاضر ہیں… بس آپ
پرویز مشرف کو اپنے پاس بلالیں… ان کی موجودگی میں ہمارے لیے کام کرنا مشکل ہوتا
ہے… اور وہ ہمارے اور آپ کے درمیان دوستی نہیں ہونے دے رہے… وہ اپنا بڑھاپا قیمتی
بنانے کے لیے آپ کو ہمارے خلاف اور ہمیں آپ کے خلاف اکساتے رہتے ہیں… دیکھیں صدر
بش اس درخواست کا کیا جواب دیتے ہیں… ممکن ہے وہ پوچھیں گے کہ اگر ہم نے صدر پرویز
کے سر سے ہاتھ ہٹالیا اور آپ لوگوں نے ان کو ہٹادیا تو … چیف جسٹس افتخار چوہدری
بحال ہوجائیں گے وہ ہمیں بالکل پسند نہیں… اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان رہا ہوجائیں
گے، ہمیں وہ بالکل اچھے نہیں لگتے… اور آپ لوگ طالبان سے مذاکرات کریں گے، جو ہمیں
بالکل گوارہ نہیں… اس پر گیلانی صاحب کچھ وضاحتیں دیں گے اور کچھ وعدے کریں گے…
مبارک ہو پاکستان والو… ہمارے فیصلے ’’غیر‘‘ کرتے ہیں اور ہم پھر بھی ’’آزاد‘‘
ہیں…انا للہ وانا الیہ راجعون…
اچھا
چھوڑیں اس کڑوی بات کو… الحمدللہ ہمارے دل آزاد ہیں… ہمارے
دماغ آزاد ہیں… اور ہمارے جسم بھی انشاء اللہ جہاد کی برکت
سے آزادی کی طرف گامزن ہیں… یہ قرآن پاک کی اور جہاد کی برکت ہے کہ ہم کمزور
لوگ الحمدللہ ’’آزاد‘‘ ہیں جبکہ… ملک کے طاقتور لوگ امریکہ
اور یورپ کے غلام ہیں…
کئی
ماہ گزر چکے ہیں کہ میں نے ایک ’’طاقتور دعاء‘‘ پر نشان لگا رکھا ہے… آپ تو جانتے
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی
دعائیں کتنی طاقتور ہیں… اور یہ دعاء تو بہت ہی زیادہ قوت، تاثیر اور شان والی ہے…
یعنی ایسی دواء ہے کہ جو سینکڑوں بیماریوں کا علاج ہے… کئی بار اپنے اس کالم میں
یہ ’’دعاء‘‘ لکھنے کا ارادہ لیکر بیٹھا مگر قلم کا رخ کسی اور موضوع کی طرف مڑ
گیا… آج انشاء اللہ یہ ’’دعاء‘‘ عرض کرتا ہوں… اور آخر میں
’’نظربد‘‘ کے بارے میں چند باتیں پیش کرنے کا ارادہ
ہے… اللہ تعالیٰ آسان فرمائے… قبول فرمائے…
ایک
شاندار دعاء
ابوداؤد
کی روایت سے حدیث شریف میں آیا ہے کہ:
جو
شخص یہ دعاء صبح کے وقت پڑھ لے اس نے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جو شام کے وقت
پڑھ لے اس نے اس رات کا شکر ادا کردیا…
اَللّٰہُمَّ
مَا أَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ فَمِنْکَ وَحْدَکَ
لاَ شَرِیْکَ لَکَ فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ
ترجمہ: یا اللہ
! مجھ پر یا آپ کی مخلوق میں سے کسی پر صبح کے وقت جو بھی نعمت موجود ہے وہ صرف آپ
کی طرف سے ہے، آپ ایک ہیں، آپ کا کوئی شریک نہیں، پس آپ ہی کے لیے حمد ہے اور آپ
ہی کے لیے شکرہے۔
یہ
تو ہوئی ’’صبح‘‘ کی دعاء… شام کے وقت اس دعاء میں ’’اَصْبَحَ‘‘ کی جگہ اَمْسٰی
پڑھیں… یعنی اس طرح پڑھیں:
اَللّٰہُمَّ
مَا أَمْسٰی بِیْ مِنْ نِّعْمَۃٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ فَمِنْکَ وَحْدَکَ
لاَ شَرِیْکَ لَکَ فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ(ابوداؤد، عمل الیوم واللیلۃ،
ابن حبان)
سبحان اللہ
! کتنی عجیب اور شاندار دعاء ہے… ہم پر اللہ تعالیٰ کی
نعمتیں بے شمار ہیں… ان تمام کا شکر ادا کرنا محال ہے، مگر آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی اس دعاء کی برکت سے ہم … تمام
نعمتوں کے شکر کو ادا کرتے ہیں… اور ہم سب جانتے ہیں کہ نعمتوں کے شکر کے کتنے
فوائد ہیں، مثلاً:
۱ جن نعمتوں کا شکر
ادا کیا جائے ان کے بارے میں حساب کی نرمی ہوگی، انشا ء اللہ
۲ جس نعمت کا شکر
ادا کیا جائے وہ نعمت برقرار رہتی ہے، چھینی نہیں جاتی۔
۳ نعمت کا شکر ادا
کرنے سے اس نعمت میں اور اضافہ اور برکت ہوتی ہے۔
۴ نعمتوں کا شکر
ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
۵ نعمتوں کا شکر
ادا کرنے سے عذاب ٹل جاتا ہے اور انسان کی حفاظت رہتی ہے۔
اور
بھی بہت سے فوائد ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں کو
نصیب ہوتے ہیں… جبکہ اس دعاء میں ایک اور بہت بڑا فائدہ اور علاج ہے… اور وہ ہے
محرومی سے حفاظت…
محرومی
سے حفاظت
۱ آپ
جانتے ہیں کہ والدین کی مالی خدمت کرنا کتنا بڑا کام ہے؟ … بے شک یہ بہت بڑی سعادت
ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو مال دے اور پھر اسے اپنے
والدین پر خرچ کرنے کی توفیق دے… مگر شیطان کو یہ نیکی پسند نہیں ہے وہ اولاد کے
دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ… نعوذب اللہ تو اپنے والدین کی خدمت کر
رہا ہے، تو ان کو کھلا پلا رہا ہے… تو ان کو دے رہا ہے… پھر کبھی اس کے دل میں آتا
ہے کہ یہ سب کچھ مجھ پر بوجھ ہے… اور کبھی سوچتا ہے کہ اگر میں نہ دوں گا تو ان کا
کیا حال ہوگا… پس یہ باتیں اسے شدید محرومی کی طرف لے جاتی ہیں… یہ دعاء اس مرض کا
علاج ہے… یہ دعاء سکھاتی ہے کہ والدین کو ان کی اولاد نہیں دیتی…
بلکہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے… ہر کسی کو جو نعمت ملتی
ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے…
اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کسی تک رزق پہنچانے کا ’’واسطہ‘‘
بناتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا اس پر احسان ہے… بیٹا اگر
نہیں بھی دے گا تو والدین کی قسمت میں جو روزی لکھی ہے وہ ان تک پہنچ کر رہے گی…
پس اس کو چاہئے کہ نخرے نہ کرے، فخر نہ کرے… بلکہ شکر ادا کرتا رہے اور ڈرتا رہے…
۲ جہاد
میں خرچ کرنا کتنی بڑی نیکی ہے؟… اللہ اکبر! قرآن پاک نے
بار بار اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے… اور سورۂ محمد
(صلی اللہ علیہ وسلم) میں
تو اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ ایمان والوں کو پکارا ہے کہ جہاد
میں مال خرچ کرو… احادیث میں جہاد پر مال خرچ کرنے کے اتنے فضائل آئے ہیں کہ جب
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سنے تو سب کچھ لٹا دیا…
اور اللہ پاک نے بھی ان کو یہ سارا مال ہزاروں گنا بڑھا کر
دنیا وآخرت میں لوٹا دیا… مگر جب دل میں یہ آجائے کہ میں مجاہدین کو دے رہا ہوں…
میں مجاہدین کے لیے جمع کر رہا ہوں… میں مجاہدین کے لیے مال لا رہا ہوں… تو محرومی
کا دروازہ کھل جاتا ہے… اور انسان اتنی عظیم سعادت سے محروم ہوجاتا ہے… بلکہ ہم نے
تو یہ بھی دیکھا ہے کہ … اگر کوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ میں مجاہدین کے لیے اتنا
چندہ کرتا ہوں تو وہ بھی محرومی کی طرف جا گرتا ہے… یہ دعاء اس مرض کا علاج کرتی
ہے کہ یا اللہ میں کچھ نہیں… جس کو بھی جو نعمت پہنچ رہی ہے وہ سب آپ
کی طرف سے ہے… آپ نے میرے مال کو قبول فرمایا… یا مجھے مال جمع کرنے کی سعادت دی
یہ بھی آپ کا احسان ہے… مجاہدین کے نصیب میں جو ہے وہ تو ان کو مل کر رہے گا… مجھے
آپ نے قبول فرمایا یہ آپ کا فضل ہے… بس اس دعاء نے محرومی سے بچالیا…
۳ یہی
حال بیوی بچوں کو کھلانے کا ہے… بعض نادان لوگ اپنی غریب بیوی کے
سامنے فخر کرتے ہیں کہ تو میرے گھر میں آئی ہے اس لیے اتنا اچھا کھا
رہی ہے… اللہ کے بندے یہ اگر تیرے گھر نہ آتی تب بھی اس کی
یہ روزی ضرور اس تک پہنچ کر رہتی… اور ممکن ہے کہ تجھے بھی اس کی برکت سے روزی
ملتی ہو… بعض نادان بیویاں اپنے غریب خاوندوں کو کچھ دے کر فخر کرتی ہیں… اور حضرت
خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے طریقے کو بھول جاتی ہیں کہ
انہوں نے دین کی خاطر سارا مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال
دیا اور کبھی اس پر فخر کا احساس تک نہ کیا… اسی طرح کچھ لوگ کسی مہمان کو کھلا کر
سوچتے ہیں کہ ہم نے کھلایا… حالانکہ مہمان تو اپنی روزی کھاتا ہے… الغرض یہ دعاء
ہر قدم پر ہمیں پھسلنے سے بچاتی ہے کیونکہ انسان جنت سے آیا ہے… اب واپس جنت کی
طرف چڑھ رہا ہے… اور چڑھنے کے دوران جیسے ہی یہ اکڑے گا گر جائے گا… اس کو جھک جھک
کر چڑھنا ہوگا… اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی انسان کو دوسروں
کی روزی کا ذریعہ بنادیتے ہیں… پس ایسے انسان کو چاہئے کہ خوب شکر ادا کرے… اور
کبھی بھی دل کی تنگی کا شکار نہ ہو… یہ تو اس کے لیے سعادت ہی سعادت ہے… پس اس کو
چاہئے کہ ایک امانتدار خزانچی اور منشی کی طرح یہ روزی اس کے مستحقین تک پہنچاتا
رہے… اور کسی کو دے کر فخر نہ کرے… بینک کا کیشئر روزانہ لاکھوں روپے تقسیم کرتا
ہے مگر کبھی فخر نہیں کرتا… وہ جانتا ہے کہ یہ مال اس کا نہیں بینک کا ہے… پس
مسلمان کو بھی یقین رکھنا چاہئے کہ مال اس کا نہیں ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کا ہے…
اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے جو خرچ کرا رہے ہیں اس میں
اس کا فائدہ ہی فائدہ… اور اجر ہے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
سکھائی ہوئی یہ دعاء اگر ہمارا معمول بن جائے … اور ہم اس کو سمجھ کر یقین کے ساتھ
پڑھیں تو انشاء اللہ بے شمار محرومیوں اور غلطیوں سے بچے
رہیں گے…
ایک
اور ضروری پہلو
روزی
کے بارے میں اوپر جو کچھ عرض کیا گیا وہ تصویر کا ایک پہلو ہے… اب صرف اسی پہلو کو
سامنے رکھا جائے تو بھی ’’شکرگزاری‘‘ کا دروازہ بند ہوسکتا ہے… اس لیے اس کا دوسرا
پہلو بھی سامنے رہے… وہ یہ ہے کہ جس مسلمان تک کسی دوسرے مسلمان کے
ذریعہ سے روزی پہنچے تو وہ اس کا شکریہ ادا کرے اور اس کو دعاء دے اور
اس کے ساتھ خیر خواہی کرے… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم
دیا گیا کہ جب مسلمان جہاد وغیرہ کے لیے ’’صدقات‘‘ لائیں تو آپ ان کو دعاء دیں…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اس
نے اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا… خود
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خر چ کرنے والے مسلمانوں کو طرح طرح کی قیمتی
دعاؤں سے نوازتے تھے… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات پڑھ لیں یہ
بات کھل کر آپ کے سامنے آجائے گی… خلاصہ یہ ہوا کہ
۱ جس
کو اللہ تعالیٰ دینے اور خرچ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے وہ
اسے اپنا احسان نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا
احسان سمجھے اور دل کی تنگی میں مبتلا نہ ہو … اور جس کو دے رہا ہو اس کو حقیر نہ
سمجھے… اور اس بات کا یقین رکھے کہ ہر کوئی اپنی روزی کھا رہا ہے…
۲ اور جس کو دیا
جارہا ہو وہ دینے والے کا شکریہ ادا کرے اور اس کو دعاء دے… مگر اپنا
دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھے
اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا رازق نہ سمجھے…
اللہ تعالیٰ
مجھے اور آپ سب کو… اس دعاء کا یقین، اس کا اہتمام اور اس کے تمام فوائد نصیب
فرمائے… آج کڑوے درد ’’نظربد‘‘ کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا تھا مگر کالم مکمل ہو
رہا ہے… اس لیے صرف ’’نظربد‘‘ کا تھوڑا سا تعارف پیش خدمت ہے… باقی باتیں
انشاء اللہ پھر کبھی…
نظرِ
بد … کڑوا درد
۱ صحیح
حدیث ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نظر
حق ہے‘‘ (صحیح مسلم)
۲ حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے
’’نظرِبد‘‘ ’’بخار‘‘ اور پھوڑے پھنسی کے امراض میں جھاڑ پھونک (یعنی دم وغیرہ
کروانے) کی اجازت دی ہے۔ (صحیح مسلم)
۳ نظر
کی دو قسمیں ہیں: ۱ انسانوں
کی نظر ۲جنات
کی نظر… جنات کی نظر کافی سخت ہوتی ہے، امام حسین بن مسعودپ فرماتے ہیں کہ جنات کی
نظر نیزوں کی نوک سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے… حضرت ام سلمہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں ایک
باندی دیکھی جس کے چہرے پر پھوڑے پھنسیاں تھیں (جناتی نظر کے اثر کی وجہ سے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو دم کرو اس پر نظر کا اثر ہے۔
(بخاری، مسلم)
۴ نظر
دراصل وہ ’’تیر‘‘ ہیں جو نظر لگانے والے یا حسد کرنے والے کے مزاج اور طبیعت سے
نکلتے ہیں اور اُس کی طرف جاتے ہیں جس کو نظر لگائی ہو… پھر کبھی یہ تیر لگ جاتے
ہیں اور کبھی نہیں لگتے…
۵ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر
کوئی چیز تقدیر سے آگے نکل سکتی تو وہ ’’نظر‘‘ ہوتی۔ (مسنداحمد)
یعنی
’’تقدیر‘‘ تو بہت پختہ اور یقینی چیز ہے، تقدیر کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی… ہاں
اگر کسی چیزمیں تقدیر کو ٹالنے کی طاقت ہوتی تو ’’نظر‘‘ اتنی طاقتور چیز ہے کہ
تقدیر کو ٹال دیتی…
یہ
تو ہوا نظربد کا تھوڑاسا تعارف… آج کل لوگ، ہر چیز کو جادو بنا کر
عاملوں کے چکر لگاتے ہیں… کئی کئی تعویذ پیتے ہیں… (شاید کاغذ اسی لیے مہنگا ہو
رہا ہے) ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں کہ فلاں نے مجھ پر یہ کردیا وہ کردیا… اور ان کی
توجہ ’’نظربد‘‘ کی طرف نہیں جاتی… حالانکہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر بد
انسان کو قتل تک کرسکتی ہے… اس لیے گزارش ہے کہ جعلی عاملوں اور پیشہ ور بابوں کے
پاس نہ جائیں… قرآن و سنت سے ’’نظربد‘‘ کا علاج کریں… اور نظر سے بچنے کی مسنون
دعاؤں کا اہتمام کریں…
لطف
اللطیف جلّ شانہٗ نامی کتاب میں ’’نظربد‘‘ کے کچھ علاج مذکور ہیں وہ دیکھ لیں… اور
زندگی رہی تو اسی کالم میں ’’نظربد‘‘ کے علاج اور حفاظت کی مسنون دعائیں عرض کردی
جائیں گی… انشاء اللہ تعالیٰ
وصلی اللہ تعالیٰ
علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭٭٭
نظر کی تاثیر
اللہ تعالیٰ
کی پناہ پکڑتا ہوں ہر حاسد کے شر سے… اور ہر نظر لگانے والے کی ’’نظربد‘‘ سے…
’’نظربد‘‘
کے بارے میں چند باتیں پچھلے کالم میں عرض کردی تھیں… آج مزید کچھ روایات اور پھر
’’نظربد‘‘ کے علاج پر ایک نظر ڈالتے ہیں…
قبر
اور ہانڈی
حدیث
شریف میں آتا ہے:
ان
العین لتدخل الرجل القبر والجمل القدر
یعنی
نظر آدمی کو قبر میں اور اونٹ کو ہانڈی (دیگ) میں پہنچادیتی ہے۔ (زادالمعاد، ابن
عدی، ابونعیم)
مطلب
واضح ہے کہ نظر انسان کی موت کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اگر اونٹ کو لگ جائے تو وہ
گر جاتا ہے اور مالک کے لیے اس کو ذبح کرکے پکانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں
بچتا۔
نظر
سے موت
ایک
اور حدیث مبارکہ میں ہے:
’’اکثر
من یموت بعد قضاء اللہ وقدرہ بالنفس، قال الراوی یعنی
بالعین‘‘
مقصد
اس روایت کا یہ ہے کہ بہت سے لوگ نظر کی وجہ سے مرتے ہیں۔ (البزاز بسند حسن عن
جابر رفعہ)
نظر
قتل کردیتی ہے
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحابی حضرت سہل بن حنیف رضی
اللہ عنہ غسل فرما رہے تھے ان کو ایک صاحب عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا
اور ان کی جلد کی خوبصورتی کو نظر لگادی۔ (جن صحابی کو نظر لگی تھی وہ گر کر تڑپنے
لگے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر پر غصہ فرمایا اور ارشاد
فرمایا:
علام
یقتل احدکم اخاہ الا برکت اغتسل لہ
یعنی
تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو (نظر لگا کر) کیوں قتل کرتا ہے اور اس کے لیے
برکت کی دعاء کیوں نہیں کرتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر لگانے
والے کو حکم دیا کہ غسل کرے، تب انہوں نے غسل کیا اور اپنے غسل سے گرنے والا پانی
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ پر بہایا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔ (زادالمعاد، ابن حبان)
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نظر سے پناہ مانگتے تھے
حضرت
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
ان
النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یتعوّذ من الجانّ ومن عین الانسان
یعنی
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنات سے اور انسانوں کی نظر
سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتے تھے۔ (ترمذی، نسائی)
آنکھوں
کا زہر
بعض
اژدھے (بڑے سانپ) ایسے ہوتے ہیں جو اگر کسی کو غصہ اور دشمنی سے دیکھ لیں تو ان کی
آنکھوں سے زہریلی شعاعیں نکلتی ہیں جو سامنے کو ہلاک یا نابینا کر دیتی ہیں…یا
حاملہ عورتوں کا حمل گرادیتی ہیں… اسی طرح حاسد کی آنکھوں سے ایک غیر محسوس زہر
نکلتا ہے… اور جس کو وہ پسند اور حسد کے ساتھ دیکھ لے اس کی طرف منتقل ہوجاتا ہے…
پھر بعض انسانوں میں یہ زہر زیادہ ہوتا ہے اور بعض میں
کم… اللہ پاک نے انسان کی روح اور جسم میں عجیب ’’تاثیرات‘‘
رکھی ہیں جن کا کوئی بھی عقلمند انسان انکار نہیں کرسکتا… پھر اصل تاثیر ’’روح‘‘
سے نکلتی ہے اور آنکھوں کے ذریعے سامنے والے پر منتقل ہوتی ہے… بات کو سمجھنے کے
لیے آسان مثال یہ ہے کہ… جس شخص کی بہت عزت دل میں ہو وہ اگر آپ کو پیار سے دیکھے
تو آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے… کوئی ظالم کسی کمزور مظلوم کو گھور کر دیکھے تو وہ
بے چارہ پیلا پڑ جاتا ہے… اور اگر شیر کسی کو غصے سے دیکھے تو پورا جسم کانپنے
لگتا ہے… معلوم ہوا کہ تاثیر ہوتی ہے… اور اس کا انکار محض جہالت ہے… (زادالمعاد)
غیر
مرئی شعاعیں
بعض
اہل علم کا خیال ہے کہ نظر لگانے والے کی آنکھ سے … کچھ غیر مرئی شعاعیں نکلتی ہیں
جو سامنے والے کے جسم کے مساموں میں گھس جاتی ہیں اور اس کو نقصان پہنچاتی ہیں
(زادالمعاد)
نظر
کیسے لگتی ہے؟
نظر
لگنے کے لیے دیکھنا بھی ضروری نہیں… بعض لوگوں کا نفس بہت خبیث ہوتا ہے وہ اپنے
نفس اور روح کی توجہ سے بھی نظر لگادیتے ہیں… اندھے آدمی کے سامنے کسی کے اوصاف
بیان کیے جائیں… اور وہ اس پر توجہ کرکے حسد کا تیر پھینک دے تب بھی نظر لگ سکتی
ہے (زادالمعاد)
نظر
کے تیر
تیر
پھینکنے والا پہلے اپنے ’’ہدف‘‘ کو چنتا ہے… پھر تیر کو کمان میں جوڑتا ہے… اور
پھر نشانہ لیکر تیر چلا دیتا ہے… سامنے والا اگر نہتا اور کمزور ہو تو اُسے تیر لگ
جاتا ہے… اگر وہ زرہ پہنے ہوئے، چست اور بیدار ہوتو تیر سے بچ جاتا ہے… بعض اوقات
تیر واپس اپنے چلانے والے کی طرف بھی لوٹ آتا ہے… بس یہی حال نظر کا ہے… ایک شخص
کسی کو دیکھتا ہے یا کسی کی تعریف سنتا ہے تو اس کو وہ اچھا لگنے لگتا ہے… پھر اس
کے نفس کی خباثت اور حسد سے ایک تیر تیار ہوتا ہے… پھر وہ آنکھوں کے ذریعے اس تیر
یا زہر کو سامنے والے پر پھینکتا ہے… اب اگر سامنے والے نے اپنی حفاظت کا بندوبست
نہیں کر رکھا اور اس کی روح کمزور ہے تو تیر اس کو لگ جاتا ہے… اور اگر اس کی روح
مضبوط ہے اور اس نے حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا…
اور بعض اوقات یہ نظر خود نظر لگانے والے کو بھی واپس لوٹ کر نقصان پہنچادیتی ہے۔
اپنی
نظر بھی لگ جاتی ہے
بعض
اوقات انسان کو اپنی نظر بھی لگ جاتی ہے… حدیث شریف میں اس کا علاج ارشاد فرمایا
گیا ہے… ویسے آج کل تو ’’خودپسندی‘‘ کا زمانہ ہے ہر کوئی اپنے آپ کو ہی زیادہ پسند
کرتا ہے… اس لیے یہ نظر آج کل زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے…
موبائل
نظر
اللہ تعالیٰ
نے انسان کی روح کو بہت قوت عطاء فرمائی ہے… انسان کی روح سے مختلف اثرات نکل کر
ہواؤں کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہوتے ہیں… نفرت بھی منتقل ہوتی ہے اور محبت بھی…
نیکی بھی منتقل ہوتی ہے اور خباثت بھی… خیر بھی منتقل ہوتی ہے اور شر بھی… آپ
موبائل فون پر جو کچھ کہتے ہیں وہ ایک ملک سے دوسرے ملک ہواؤں کے ذریعے پہنچ جاتا
ہے… انسان کی روح موبائل کی فریکوئنسی اور ریڈیائی لہروں سے زیادہ طاقت ورہے…
آپ
ڈر تو نہیں گئے؟
پچھلے
ہفتے چند احادیث مبارکہ بیان کی تھیں کہ… نظر حق ہے، نظر بہت طاقتور ہے اور نظر
مہلک ہے… اور آج بھی چند روایات بیان کی ہیں … ان سب کو پڑھ کر آپ ڈر تو نہیں
گئے؟… ڈرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کا احسان
ہے کہ ہم حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا… اور نہ
حشر کے میدان میں اکیلا چھوڑیں گے… آپ نے میدان جنگ میں بھی اپنی اُمت کی حفاظت
فرمائی… اور ہر شیطان، جن اور مرض سے بھی اُمت کی حفاظت کے نسخے بیان فرمائے… نظر
جتنی طاقتور ہو… قرآن پاک کے سامنے کیا چیز ہے… قرآن پاک
تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے…
سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم… اور نظر جتنی بھی خبیث ہو وہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے سامنے کہاں ٹھہر سکتی ہے؟… اس لیے
ڈریں نہیں، البتہ احتیاط ضرور کریں … اور ہم سب اپنی روح کو طاقتور بنائیں…
ذکر اللہ سے، تلاوت سے، آنکھوں کی حفاظت سے، کم کھانا
کھانے سے، روزے رکھنے سے… اور کسی سے حسد نہ کرنے سے انسان کی روح طاقتور ہوجاتی
ہے… آپ نے مجاہدین میں سے بعض کو نہیں دیکھا کہ بے چارے چھپے چھپے پھرتے ہیں… مگر
ان کی روح اتنی طاقتور ہے کہ اس کی شعاعوں سے بش کی نیند اڑ جاتی ہے… ڈک چینی
بینکر میں جا چھپتا ہے… ایڈوانی کے ہوش اڑ جاتے ہیں… اور کرزئی پانی سے نکلی ہوئی
مچھلی کی طرح تڑپتا ہے… اور اپنے مخلص مسلمانوں تک ان مجاہدین کی روحیں محبت، سکون
اور ہمت کے لطیف اثرات پہنچاتی ہیں … کبھی تنہائی میں یہ مجاہد یاد آجاتے ہیں تو
دل پر سکون اور ہمت کی لہریں چلنے لگتی ہیں… بے
شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس نے روح کو خود
بغیر کسی کے واسطے کے پیدا فرمایا ہے :
’’ونفخت
فیہ من روحی‘‘
اللہ تعالیٰ
ہم کمزور لوگوں کی روحوں کو قوت عطاء فرمائے…
دفاع
اور علاج
احادیث
مبارکہ میں نظر سے ’’دفاع‘‘ کی دعائیں بھی آئی ہیں کہ آپ ان دعاؤں کو پڑھتے رہیں…
انشاء اللہ نظر نہیں لگے گی… اور وہ دعائیں اور طریقے بھی
بیان ہوئے ہیں کہ اگر نظر لگ جائے تو اس زہر اور تیر کو جسم سے کس طرح سے نکالا
جائے… مسلمانوں کو چاہئے کہ … دونوں کا اہتمام کرلیں… دفاع بھی مضبوط رکھیں اور
کبھی کبھار نظر ختم کرنے کا علاج بھی کرلیا کریں…
ایک
ارادہ تو کرلیں
اللہ تعالیٰ
ہم سب کا مالک اور رب ہے… وہ سب کی سنتا ہے…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے نبی اور آقا
اور سب کچھ ہیں… فداہ روحی وابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم … قرآن پاک ہم سب کے لیے
ہے… تو پھر ہم خود فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟… کراچی میں عجیب رواج ہے کہ پرچی پر
بچی اور اس کی والدہ کا نام لکھ کر کسی کو دے آتے ہیں کہ… آپ استخارہ دیکھ دیں… ہر
مسلمان خود استخارہ کیوں نہیں کرتا؟… میں نے ایک صاحب سے جو لوگوں کے لیے استخارے
کرتے تھے ان کا طریقہ پوچھا … انہوں نے جو کچھ بتایا مجھے تو اس میں کوئی جان اور
وزن نظر نہیں آیا… استخارہ کے معنیٰ اللہ تعالیٰ سے خیر
مانگنا، خیر چاہنا … تو کیا ہم خود اپنے لیے خیر کی دعاء کرنے سے شرماتے ہیں؟… سنا
ہے کہ ٹی وی پر ’’استخارے‘‘ کے پروگرام چل رہے ہیں… اس میں تو بہت کچھ دھوکا معلوم
ہوتا ہے… اب نظرکے بارے میں سنا تو سب لوگ عاملوں کے پاس دوڑیں گے کہ آپ دم کردیں…
ٹھیک ہے متقی، پرہیزگار اور صاحب علم عاملوں سے دم کرانا کوئی بری بات نہیں ہے …
مگر سوال یہ ہے کہ آپ خود کو دم کیوں نہیں کرتے… ڈاکٹر دوائی لکھ دیتا ہے تو خود
کھاتے ہیں… ورزش بتاتا ہے تو خود کرتے ہیں … ایسا نہیں ہوتا کہ کسی اور کو پیسے دے
کر اپنے لیے ورزش کرالیں… اسی طرح جب علماء کرام قرآن وسنت سے کسی بیماری کا علاج
بتادیں تو خود کرنا چاہئے… اس میں بہت فائدہ ہوتا ہے… استخارہ خود کرنے
سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے… میں خطیبوں کی طرح
دونوںہاتھ اُٹھوا کر وعدہ تو نہیں لیتا… مگر آپ سے ’’ارادہ‘‘ ضرور لیتا ہوں کہ…
نظر بد کے علاج میں جو دعائیں عرض کی جائیں گی… آپ خود ان سے اپنا علاج کریں گے…
اور خود ان دعاؤں کو مانگا کریں گے… ارادہ فرمالیا؟
خصوصاً
خواتین سے بہت منّت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ مرد عاملوں کے پاس نہ جایا کریں… آپ
خود اللہ تعالیٰ کی پیاری مسلمان بندیاں ہیں… آپ
خود اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں … اس سے آپ کے ایمان ویقین
میں ترقی ہوگی… اور انشاء اللہ آپ کو سکون ملے گا
ایک
نکتہ
’’روح‘‘
کی طاقت پر چند باتیں آپ نے پڑھ لیں… اب خود سوچیں کہ اگر ایک خبیث روح، حسد کی
کمان میں ’’نظربد‘‘ کا تیر ڈال کر کسی کو زخمی کرسکتی ہے تو پھر … ایمان والوں کی
روحیں کتنی طاقتور ہوںگی… اور ان کی آنکھوں میں کتنی ’’ایمانی تاثیر‘‘ ہوگی…
پس اللہ والوں کی توجہ بڑی چیز ہے… اس کا انکار کرنا حماقت
ہے… حضرت خواجہ مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرشد حکیم الامۃ حضرت
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اور توجہ پر عجیب اشعار کہے ہیں… دل چاہے تو ان کے
دیوان میں ملاحظہ فرمالیں… سعدی فقیر اس موضوع پر شروع ہوا تو کہیں اور نکل جائے
گا … اور اپنے محبوب شیخ حضرت مفتی ولی حسن رحمۃ اللہ علیہ کی بلّوری
آنکھوں میں کھو جائے گا… ؎
وہ
آنکھیں نشیلی وہ پلکیں نکیلی
سنبھالو
ارے ہم گرے جا رہے ہیں
بس
آج اتنا ہی ’’عرض‘‘ ہے… انشاء اللہ اگر زندگی رہی اور مالک
الملک نے توفیق عطاء فرمائی تو اگلے ہفتے نظر بد کے کئی علاج عرض کیے جائیں گے… اس
وقت تک اگر آپ اس موذی تیر سے بچنا چاہیں تو … قرآن پاک کی آخری دو سورتوں (الفلق،
الناس) کی کثرت کریں… اور سورۃ فاتحہ، آیۃ الکرسی اور سورۃ القلم کی آخری دو آیات
خود پر دم کرلیا کریں… ان قرآنی آیات کے سامنے کوئی نظر نہیں ٹھہر سکتی… آپ یقین
سے پڑھیں گے تو بہت سکون ملے گا… انشاء اللہ تعالیٰ
وصلی اللہ علیٰ
خیر خلقہ سیّدنا و مولانا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭٭٭
اے عافیہ!اے میری مسلمان بہن!
اللہ تعالیٰ
تمہیں ’’عافیت‘‘ کے ساتھ رہائی عطاء فرمائے… یا تمہیں ’’شہادت عظمیٰ‘‘ عطاء
فرمائے… اے میری بہن عافیہ!… اے مسلمان بہن عافیہ… اے اُمت مسلمہ کی بیٹی عافیہ…
آنکھیں رو رہی ہیں، دل زخمی ہے… اور دماغ میں آندھیاں چل رہی ہیں… بہن کافروں کی
قید میں اور بھائی آزاد… عافیہ بہن تم امریکیوں کی قید میں
ہو… اللہ پاک کی قسم شرم کی وجہ سے سر اٹھانا مشکل ہے… اے
بہن! تمہیں خود کو مسلمان کہلوانے والے بے غیرتوں نے پکڑا … ہائے پرویز مشرف تو
مسلمانوں کے لیے فرعون ثابت ہوا… ایک بے غیرت اغواء کار جو ملک کی مسلمان بچیوں کو
کافروں کے ہاتھوں فروخت کرتا رہا… اور بے حیائی کے ڈالر کماتا رہا… کیا وہ بھی
مسلمان تھے جنہوں نے عافیہ بہن کو گرفتار کیا… پھر اسے امریکہ کے حوالے کیا… پھر
اس کی والدہ کو دھمکیاں دیں کہ اپنی زبان بند رکھے… بے غیرتوں اور ظالموں کی یہ
نسل معلوم نہیں کہاں پیدا ہوئی؟ … اے ظالمو! لال مسجد کی بیٹیوں کی طرح عافیہ کو
شہید ہی کر ڈالتے… مگر کہاں؟ … تم نے تو ظلم کی حد کردی … بگرام ایئر بیس کی قیدی
نمبر ۶۵۰… عافیہ بہن… اماں عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا کی روحانی بیٹی… پانچ سال کی اذیت ناک
قید… اللہ پاک جزائے خیر عطاء فرمائے … برطانیہ کی نو مسلم
بہن مریم (ایون ریڈلی) کو… اس کی پاک روح عافیہ کو ڈھونڈ لائی… ورنہ مسلمانوں کو
تو پتہ ہی نہیں تھا… عمران خان کو بھی اللہ پاک جزائے خیر
دے انہوں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی… کیا معلوم یہی عمل بخشش کا ذریعہ بن جائے…
ہاں رب کعبہ کی قسم دین اسلام اس بارے میں بہت حساس ہے… ایک بہن کی کافروں کے
ہاتھوں ذلت کی خبریں پڑھنے کے بعد اب روٹی کے ٹکڑے ہضم کرنا مشکل ہیں… اور اب کوئی
عزت اچھی نہیں لگتی… پاکستان کے حکمرانو! اللہ تعالیٰ کے
عذاب سے ڈرو … اور مسلمان بہن کو امریکہ سے آزاد کراؤ… ایسا نہیں کر وگے تو سر سے
پاؤں تک ذلیل ہو جائو گے… اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام اور ان کی قوم کو فرعون کا انجام دکھا دیا… اور ان کی مظلوم آنکھوں کو
ٹھنڈا فرمایا… اللہ تعالیٰ عافیہ بہن اور ان کے گھر والوں
کی آنکھیں بھی ٹھنڈی فرمائے اور انہیں پرویز مشرف اور اس کے ٹولے کا عبرتناک انجام
دکھائے…
عافیہ
بہن!… میں نہ تو مسلمانوں کی بے بسی کا رونا روتا ہوں… اور نہ کسی اور پر کوئی وزن
ڈالتا ہوں … عافیہ بہن!… تم نے اسلام کی خاطر بہت بڑی قربانی دی ہے… تم نے پوری
اُمت مسلمہ میں غیرت کا ایک طوفان اٹھایا ہے… تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے… کلمہ پڑھنے
والے پیارے پیارے مسلمان بچے تم سے جدا ہیں… اے بہن!… تم تو ٹھیک طرح سے چل بھی
نہیں سکتی، بزدل امریکیوں نے تمہارے پاؤں میں گولی ماردی ہے… ایسی بزدل اور بے
غیرت قوم کبھی دنیا پر حکومت نہیں کرسکتی… اے بہن، اے عافیہ بہن، اے مسلمان بہن!
یاد رکھنا اسلام عظمت کی طرف اور امریکہ موت کی طرف دوڑ رہا ہے… مبارک ہو اے بہن
اس میں تمہارا حصہ بھی شامل ہوگیا… کاش سب مسلمان بہنیں اسلام کی خدمتگار بن
جائیں… زیورات، مکانات، فیشن، میک اپ اور گھریلو جھگڑوں کو بھول کر اس بات کو
سوچیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے… عافیہ بہن! باتیں بھی بہت ہیں اور آنسو بھی…
آج ہر کوئی تمہارا نام لے کر رو رہا ہے… ہر طرف دعائیں ہی دعائیں ہیں… ہماری دعائے
قنوت میں ’’اَللّٰہُمَّ اَنْجِ أُخْتَنَا عَافِیَۃ‘‘ کی گونج ہے…
مسلمانوں
کی بے حسی اپنی جگہ… کافروں کی طاقت اپنی جگہ… مگر اے بہن تم تو غیرت مند فدائی
بھائیوں کی بہن ہو… تم تو اندھیرے میں ذبح ہوتی رہی ورنہ اب تک تو زمین آسمان کئی
بار ایک ہو چکے ہوتے… اری دُکھی بہن ہمت نہ ہارو تم لاوارث تو نہیں ہو… میں
مسلمانوں کو بھی جانتا ہوں اور کافروں کو بھی… اور قرآن پاک کی آیتوں میں بھی غور
کرتا رہتا ہوں… اس لیے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر دو باتیں
کہتا ہوں… ہاں اپنے عزت وجلال والے رب کے بھروسے پر… اے بہن تمہارا ہمارا رشتہ
تو اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی نسبت سے ہے… پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی تو تمہیں
ہماری بہن بنایا… اس لیے اے بہنا! دو باتیں یاد رکھنا پہلی یہ کہ
انشاء اللہ امریکی اب تمہیں زیادہ عرصہ قید نہیں رکھ سکیں
گے… اور دوسری بات یہ کہ… تم پر ظلم کرنے والے بہت پچھتائیں گے… وجہ اس کی یہ ہے
کہ … اللہ اکبر، اللہ تعالیٰ سب سے
بڑا ہے… وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر … اور وہ ہر چیز پر قادر ہے…
جموں
کے ڈوگرے
اگر
آپ نے ایسے سانپ دیکھنے ہوں کہ جن کے سر سے لیکر دم تک زہر ہی زہر ہو تو آپ … جموں
کے ڈوگروں، ہندوؤں کو دیکھ لیں… ان ظالموں نے ہمیشہ مسلمانوں کو سخت نقصان
پہنچایا… پونچھ کی حسین و جمیل سرزمین ڈوگروں کے مظالم سے آج بھی روتی ہے… یہاں
مسلمانوں کو درختوں سے لٹکا کر زندہ ان کی کھالیں اتاری گئیں… ڈوگروں کا یہ ظلم آج
تک جاری ہے… مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں ڈوگرے افسر اور سپاہی مسلمان قیدیوں کو سخت
اذیتیں پہنچاتے ہیں… ابھی تازہ صورتحال یہ ہے کہ ڈوگروں نے سری نگر اور وادی کشمیر
کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے… اور جموں سری نگر شاہراہ کو بند کردیا ہے… ان کے اس
اقدام کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں… ایک روپے کی چیز سو
روپے میں بک رہی ہے… اور کشمیری تاجروں کے پھل گوداموں اور ٹرکوں میں پڑے سڑ رہے
ہیں… کشمیر میں اکثر غذائی اجناس جموں سری نگر شاہراہ کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں… اور
یہ شاہراہ کئی دنوں سے بند ہے… ایک وقت تھا کہ پاکستان کے مسلمان کشمیر کو اپنی شہ
رگ سمجھتے تھے… اور کشمیریوں کی ہر تکلیف پر بلک پڑتے تھے مگر… پرویز مشرف کے
پرویزی دور میں کشمیر بھی ہم سے کٹ کر رہ گیا… اور انڈیا کے ساتھ
گناہوں کا تبادلہ ملکی پالیسی ٹھہرا … کُل جماعتی حریت کانفرنس اور کشمیر کے
تاجروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے پھلوں اور میووں کو ٹرکوں میں لاد کر مظفر آباد
کی طرف کوچ کریں گے… ہم ان کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں… اور انہیں پاکستان
آنے کے لیے خوش آمدید کہتے ہیں… اور مجاہدین کشمیر سے عرض کرتے ہیں کہ… وہ اپنی
مسلح تحریک کو تیز اور وسیع کریں… جہاد کشمیر ’’غزوۃ الہند‘‘ کا ایک مبارک حصہ ہے…
یہ مشرکوں کے خلاف ایک اسلامی جہاد ہے… اور یہ جہاد برصغیر میں اسلام کے غلبے کی
ایک منزل ہے… جہاد کے شعلے وادی سے نکل کر جموں تک پہنچیں گے تو بزدل ڈوگروں کو
اپنی اوقات معلوم ہوجائے گی… جہاد کشمیر پھر سجاد افغانی رحمۃ اللہ علیہ اور غازی
بابا رحمۃ اللہ علیہ جیسے آفاقی شاہینوں کا منتظر ہے…
نظر
بد کا علاج
نظر
بد کے علاج کے بارے میں یہ چند بنیادی نکتے یاد رکھیں:
۱ ’’نظر بد‘‘ میں دو طرح کا زہر
شامل ہوتا ہے ایک شیطانی اور ایک انسانی۔ مسند احمد کی روایت ہے: العین
حق ویحضرہا الشیطان وحسد ابن آدم
یعنی
نظر حق ہے اس کے ساتھ شیطان موجود رہتا ہے اور آدمی کا حسد بھی۔ (مسند احمد عن ابی
ہریرۃ رفعہ)
اس
لیے علاج ایسا ہونا چاہئے جو شیطانی اور انسانی دونوں اثرات کو زائل کرسکے…
۲ ’’نظربد‘‘ ایک گرم زہر ہے اس لیے اس کا وہ علاج
زود اثر ہوتا ہے جس میں پانی کا استعمال ہو… پانی گرمی کو بجھا دیتا ہے اور زہر کو
دھو دیتا ہے… ویسے بھی اللہ پاک نے پانی میں زندگی کا اثر
رکھا ہے…
۳ ’’نظربد‘‘ انسان کے مساموں میں اور اس کے اعصاب
میں داخل ہوجاتی ہے… یہ سانپ کے ڈسنے کی طرح ہے… آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے حملے
میں اگر انسان ہمت ہار دے یا دل چھوڑ دے تو مرض اس پر چھا جاتا ہے… لیکن اگر انسان
اپنی قوت ارادی کو مضبوط رکھے تو بچ جاتا ہے… کینسر بھی یہ ایک زہر ہے… آپ نے
دیکھا ہوگا کہ جن لوگوں کو کینسر ہوتا ہے مگر ان کو پتہ نہیں چلتا کہ انہیں کینسر
ہے وہ کئی کئی سال تک جیتے پھرتے ہیں… مگر جیسے ہی کسی کو پتہ چل جائے کہ مجھے
کینسر ہے تو وہ ایک مہینے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے… کیونکہ وہ حوصلہ اور
ہمت ہار دیتا ہے… بالکل اسی طرح جن لوگوں کی قوت ارادی اور عقیدہ مضبوط ہوتا ہے ان
پر جادو، جن اور نظر کا زیادہ سخت اثر نہیں ہوتا… مگر جو لوگ وہمی، کمزور مزاج اور
کم حوصلہ ہوتے ہیں ان پر یہ چیزیں زیادہ اثر کرتی ہیں… اس لیے جب نظر کا علاج کریں
تو اپنے دل اور حوصلے کو بھی مضبوط رکھیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ… قرآن وحدیث
کے الفاظ کی تاثیر نظر لگانے والے کے زہر سے زیادہ طاقتور ہے… اب ملاحظہ فرمائیے
نظربد کے چند علاج:
اللہ پاک
کی پناہ مانگنا
ابوداؤد
کی روایت ہے:
حضرت
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ایک سیلابی علاقے سے گزرے میں نے اس میں
داخل ہو کر غسل کیا مگر باہر نکلتے ہی مجھے بخار ہوگیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابو ثابت سے کہو کہ وہ اعوذب
اللہ پڑھیں (یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں)
راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے ہمارے آقا کیا دم کرانا اچھی بات ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دم کرانا (جھاڑ پھونک کرانا)
صرف نظر، بخار اور ڈسے جانے میں ہے (زادالمعاد)
اللہ تعالیٰ
کی پناہ مانگنے کا سب سے بہترین طریقہ
قرآن
پاک کی آخری دو سورتوں (فلق اور ناس) کو کثرت سے پڑھنا، سورۃ فاتحہ اور آیۃ الکرسی
کی کثرت کرنا ہے۔ (زادالمعاد)
پس
جو مسلمان ان سورتوں کو کثرت سے پڑھتا رہے… پڑھ کر خود پر دم کرتا رہے… اور اپنے
ہاتھوں پر پھونک کے وہ ہاتھ پورے جسم پر ملتا رہے وہ
انشاء اللہ نظر بد سے محفوظ رہے گا… اور اگر نظر لگی ہوئی
ہوگی تو وہ بھی دور ہوجائے گی… ان سورتوں میں بے حد تاثیر ہے، آپ ایک بار یقین اور
توجہ سے پڑھ کر دیکھیں… اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے بھی کئی ’’تعوّذات‘‘ سکھائے ہیں، یعنی وہ دعائیں جن
میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے… نظر سے حفاظت کے لیے
یہ چند تعوّذات یاد کرلیں اور ان کو اپنا معمول بنالیں۔
۱ اَعُوْذُ
بِکَلِمَاتِ اللہ التَّآمَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ
وَّہَآمَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَآمَّۃٍ
ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ
کے مکمل کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور نظر
لگانے والی آنکھ سے۔ (بخاری)
یہ
وہ مبارک اور طاقتور دعاء ہے جس کا دم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے محبوب نواسوں حضرت سیّدنا حسن اور حضرت سیّدنا حسین
رضی اللہ عنہما پر فرمایا کرتے تھے، چنانچہ بخاری کی روایت
ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان دونواسوں کو ان کلمات کے
ذریعہ پناہ دیا کرتے تھے۔
اُعِیْذُ
کُمَا بِکَلِمَاتِ اللہ التَّآمَّۃِ مِنْ کُلِّ شَّیْطَانٍ
وَّہَآمَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَا ٓمَّۃٍ
ترجمہ: میں
تم دونوں کو ہر شیطان اور زہریلے جانور اور ہر لگ جانے والی نظر
سے اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کے ذریعہ پناہ میں دیتا ہوں۔
(بخاری)
اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم
خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی انہی کلمات کے ذریعہ
حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما الصلوٰۃ والسلام کو پناہ دیتے تھے۔ (بخاری)پس
یہ دعاء صبح شام تین بار پڑھ لی جائے یا زیادہ جس قدر دل چاہے… اور اپنے بچوں کو
بھی اس کادم کیا جائے… بچوں کے لیے دعاء کے پہلے لفظ میں تبدیلی ہوگی… مثلاً ایک
بچہ ہو تو ’’اُعِیْذُکَ‘‘ … دو ہوں تو ’’اُعِیْذُ کُمَا‘‘ اور زیادہ ہوں تو
’’اُعِیْذُکُمْ‘‘ پڑھ لیں…
اور
اپنے لیے اس طرح پڑھیں جیسے اوپر درج ہوا … اَعُوْذُ
بِکَلِمَاتِ اللہ … الخ
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خلقہ سیّدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
چلا گیا؟…
اللہ تعالیٰ
نے ایک اور ’’فرعون‘‘ کو غرق فرمادیا… و الحمدللہ رب العالمین…
ظاہری
طور پر ’’پرویزمشرف‘‘ زندہ ہے… مگر کیسی زندگی؟… ایک ایک لمحہ ذلت، ایک ایک لمحہ
عذاب… دنیا ہی میں سب یار، دوست ساتھ چھوڑ گئے… نہ کوئی یار رہا نہ کوئی مددگار…
اقتدار کے آخری زمانے میں اس نے کس کس کو پکارا… مگر کوئی مدد کے لیے نہ آیا۔
اب
دیکھیں ’’فرعون‘‘ کی لاش کا کیا بنتا ہے؟… مختلف باتیں ہیں اور مختلف قیاس آرائیاں
… عبرت، عبرت، عبرت… ظالموں کے لیے، کافروں کے یاروں کے لیے اور غیر
اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کے لیے… عبرت، عبرت عبرت ہے… کل جب وہ اپنے
استعفیٰ کی تقریر کر رہا تھا تو اس کے عبرتناک انجام پر دل خوف سے لرز گیا… کیسی
بے بسی تھی اور کیسی بے چارگی… اللہ پاک کا قہر اپنی ایک
جھلک دکھا رہا تھا… قیامت کے دن اس ’’قہر‘‘ کا کیا عالم ہوگا… جب ایک ہی آواز آرہی
ہوگی…
لمن
الملک الیوم… اللہ الواحد القہار… آج کس کی بادشاہت ہے؟… کسی کی نہیں …
ایک اللہ کی، ایک اللہ کی جو قہار
ہے… بہت قہر والا…
یا اللہ آپ
کے ’’قہر‘‘ سے آپ ہی کی پناہ چاہتا ہوں… اور آپ کی رحمت کا طلبگار اور بھکاری ہوں
… مبارک ہو اُمت مسلمہ کو… مبارک ہو پرویزی دور میں شہید ہونے والے مظلوموں کو…
مبارک ہو مجاہدین اسلام کو… مبارک ہو ان مظلوم قیدیوں کو جن کو بیچ دیا گیا… ہاں
بے شمار مبارک ہو… مبارک اس بات کی کہ دعائیں قبول ہوئیں ہیں،
اور اللہ تعالیٰ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے… معلوم ہوا کہ
دعائیں اس زمانے میں بھی اوپر جاتی ہیں، اور قبولیت کا تاج پہن کر واپس آتی ہیں…
اس لیے مایوسی کی گنجائش نہیں ہے… کافروں کی طاقت کے سامنے سر جھکانے کی گنجائش
نہیں ہے…
اللہ تعالیٰ
ایمان والوں کا یار ومددگار ہے… ملا محمد عمر الحمدللہ اسی
شان سے موجود ہیں مگر ’’پرویز‘‘ کے پر ٹوٹ گئے … جہاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہے جبکہ
جہاد کا دشمن منہ چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہا ہے… جیش محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کا قافلہ عشق ووفا کے راستے پر الحمدللہ مکمل وقار سے
چل رہا ہے… جبکہ اس پر پابندی لگانے والا ہر عزت اور وقار سے محروم ہوچکا ہے و
الحمدللہ رب العالمین…
بنی
قریظہ کے کٹتے سر
آج
سے چھ سا ت سال پہلے ایک ’’صاحب‘‘ مجھ سے ملنے آئے تھے… ہماری جماعت پر پابندی لگ
چکی تھی اور وہ مجھے ’’ٹھنڈا رہنے‘‘ کی تلقین کر رہے تھے… ان سے عرض کیا تھا کہ
ملک پر یہودی تنظیم ’’فری میسن‘‘ کا قبضہ ہوچکا ہے… یہ پاکستان کو ختم کرنے کا
کھیل ہے… عنقریب حکومت اور عوام کو لڑایا جائے گا… طارق عزیز (پرویز مشرف کا خاص
سیکریٹری) اور بیگم صہبا مشرف بہت مشکوک ہیں… معلوم نہیں ان میں سے ’’فری میسن‘‘
کا اصل نمائندہ کون ہے مگر پرویز مشرف اس کے ہاتھ کا کھلونا ہے… انہوں نے یہ باتیں
حیرت کے ساتھ سنیں اور شاید یقین نہیں کیا… پھر آہستہ آہستہ یہ ملک مسلمانوں کی
’’قتل گاہ‘‘ بنتا چلا گیا… وزیرستان سے جنگ شروع ہوئی اور پورے ملک میں پھیل گئی…
پاکستان کے کئی اداروں کے بڑے افسروں کو امریکہ کی باقاعدہ ملازمت میں دے دیا گیا…
سٹی بینک کے منیجر کو ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا… اور ایٹمی تنصیبات تک کا اس سے
معائنہ کرایا گیا… انڈیا کو پاکستان میں کھلا ہاتھ دے دیا گیا… بلوچستان کو میدان
جنگ بنادیا گیا… کراچی سے لیکر لال مسجد تک راسخ العقیدہ علماء اور مسلمانوں کا
قتل عام کیا گیا … دین اسلام کو بدلنے کے لیے ’’غامدی ازم‘‘ اور ’’صوفی ازم‘‘ کا پرچار
کیا گیا… ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو زندہ درگور کیا گیا… یہ ایک لمبی فہرست ہے، میں
نے وہ چند باتیں عرض کی ہیں جو بنیادی ہیں… اور جن کی بناء پر اس ملک کو توڑا
جاسکتا تھا… ’’فری میسن‘‘ اسی طریقے سے کام کرتی ہے… اور وہ پاکستان کے خلاف ساٹھ
سال سے برسرپیکار ہے… مگر اللہ تعالیٰ موجود
ہے… اللہ تعالیٰ ایک ہے وحدہ لاشریک لہ… اس نے شہداء کرام
کے خون کی لاج رکھی اور فری میسن کے مہروں کو کمزور کردیا…
بندہ
نے یہ کالم گذشتہ کل لکھنا تھا… القلم والے کہتے ہیں کہ ہمیں ’’پیر‘‘ کے دن تک
کالم دے دیا کریں… چنانچہ وہ کل گھنٹیاں بجاتے رہے… بندہ کے لیے بھی ممکن تھا کہ
نظربد کا علاج لکھ کر بھجوادیتا… مگر حالات تیزی سے بدل رہے تھے… آج کالم لکھنے سے
پہلے کچھ دیر کے لیے سو گیا… خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ غزوہ بنی قریظہ کا نقشہ
پیش کر رہے ہیں… وہ اوپر کی منزل سے اڑتے ہوئے نیچے میدان میں اترتے ہیں اور وہاں
کھڑے ہوئے یہودیوں کے سر تلواروں سے اڑاتے ہیں… معلوم نہیں یہ خواب تھا یا خیال
مگر دل خوش ہوا… یہودی ’’نیوورلڈآرڈر‘‘ کے ذریعہ مسلمانوں کے مکمل خاتمے کا خواب
دیکھ رہے ہیں… جبکہ سعدی فقیر ان کی اڑتی گردنوں کو خواب میں دیکھ رہا تھا… خواب
دیکھنے سے کون روک سکتا ہے؟… پرویز مشرف کا رُسوا ہو کر جانا… یہودیوں کی گردنوں
کا اڑنا ہے… اللہ کرے اب اہل پاکستان کو اچھے حکمران نصیب
ہوجائیں… ہمارے مسلمان دن رات اپنوں کی بمباری سے شہید اور بے گھر ہو رہے ہیں…
ہماری فوج دن رات ماری جارہی ہے… ہمارے خفیہ ادارے کافروں کے ملازم اور جاسوس بنے
ہوئے ہیں… الغرض جہنم کی آگ ہے جس کے کنارے پر اس ملک کو پرویز مشرف نے لا کھڑا
کیا ہے… مسلمان کو ناحق قتل کرنا ’’جہنم‘‘ ہے… کافروں کی خاطر جاسوسی کرنا
’’جہنم‘‘ ہے… امریکی مفادات کے لیے جان قربان کرنا ’’جہنم‘‘ ہے… علاقائیت اور
لسانیت کی خاطر مرنا اور مارنا ’’جہنم‘‘ ہے… یہی وہ آگ کی لکیر ہے جس پر پرویز
مشرف نے پاکستان کو کھڑا کردیا ہے… اب اگر ہم نے اسی پالیسی پر ایک قدم بھی آگے
بڑھایا تو یہ ملک یہودیوں کی ’’نظربد‘‘ کا شکار ہوجائے
گا… اللہ پاک کی امان… فوج کو، حکمرانوں کو اور عوام کو
سوچنا چاہئے… اور جہنم کی لکیر سے پیچھے ہٹ کر ایمان، اسلام، جہاد اور جنت کی طرف
چلنا چاہئے… نواز شریف، زرداری اور دوسرے لیڈران غیر ملکی دورے کم کریں… ایسا نہ
ہو کہ وہ بھی یہودیوں کے ہاتھوں خرید لیے جائیں…
اللہ تعالیٰ
پر توکّل
اللہ تعالیٰ
نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صرف اسی پر ’’توکّل‘‘ اور بھروسہ کریں… یہ حکم قرآن پاک
میں بار بار دیا گیا ہے… حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرعون اور پھر
’’جبابرہ‘‘ کے مقابلے میں بنی اسرائیل کو ’’توکّل علی اللہ ‘‘ کا حکم
دیا… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو باقاعدہ ’’توکّل‘‘ سکھایا اور اسلام کا پہلا معرکہ ’’غزوۂ بدر‘‘
توکّل ہی کے زور پر لڑا گیا… جی ہاں نہ افرادی طاقت تھی اور نہ جنگی سازو سامان
بس اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ تھا… اور اسی کو ’’توکّل‘‘
کہتے ہیں … پرویز مشرف چلا گیا… ممکن ہے اس کے بعد حالات میں بہتری ہو… اور یہ بھی
ممکن ہے کہ حالات فی الحال پہلے جیسے رہیں… بہرحال جو صورت بھی ہو
ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے رہیں… اور ہر حال میں اسی پر
توکّل کریں… اسرائیل ہو یا فری میسن یہ سب مچھروں کی طرح کمزور ہیں… اور امریکہ
’’بے چارہ‘‘ تو موت کی طرف تیزی سے دوڑ رہا ہے… ہم زندگی میں
بھی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور مرنے کے بعد
بھی اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں… امریکہ اور اسرائیل نہ تو
دنیا میں موت، زندگی اور عزت اور ذلت کے مالک ہیں… اور نہ یہ مرنے کے بعد ہمیں
کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں… امریکہ کے تمام ایٹمی میزائل مل کر بھی عذاب قبر کے
ایک سانپ یا بچھو کو ہلاک نہیں کرسکتے۔ اس وقت دنیا میں کافروں کی جو طاقت نظر
آرہی ہے وہ ان کی طاقت نہیں بلکہ مسلمانوں کی غفلت ہے… ہم اگر آج ایمان اور جہاد
کی طرف لوٹ آئیں تو صرف تیس سال کے عرصے میں دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ کسی کی
قابل ذکرحکومت ہی نہیں رہے گی… قرآن پاک نے ہمیں سمجھایا ہے کہ میدان جہاد میں
یہودی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتے… یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے… مسلمانوں نے
میدان جہاد تو چھوڑ دیا… اور ’’معیشت‘‘ کے میدان میں یہودیوں کا مقابلہ کرنے آگئے…
یقین جانیں اس میں مسلمانوں کو شکست ہوگی… یہ جو اسلامی بینک بنا بنا کر اسلام کی
خدمت کر رہے ہیں وہ بے چارے اسلام کو کچھ نہیں دے سکیں گے… یہودیوں نے امریکہ کے
زور پر ہر جگہ مسلمانوں کو دبا یا مگر جب جہاد کا میدان آیا تو یہاں سے یہودیوں
اور امریکیوں کے تابوت ان کے ملکوں میں روانہ ہو رہے ہیں …
اور الحمدللہ شرعی جہاد میں جڑنے والے مسلمان یہودیوں کی ہر
سازش سے محفوظ رہے ہیں… ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ پرویز مشرف کے زوال کو دیکھ کر
… اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں… اور اس کی قوت اور طاقت
پر دل سے ایمان لے آئیں… ایک ایسا شخص جس کے ساتھ امریکہ کی مکمل حمایت تھی… فری
میسن نے اس کو پروان چڑھایا تھا… دنیا بھر کے یہودی خزانے اس کے لیے کھلے ہوئے
تھے… درجنوں ممالک کا خونی اتحاد ’’نیٹو‘‘ جس کے ساتھ تھا… انڈیا نے جسے اپنی غیر
مشروط حمایت کا یقین دلایا ہوا تھا… اور صدر بش نے جس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ
میرا دوست ہے… وہ شخص کس قدر ذلت اور بے بسی کے ساتھ زندہ مارا گیا
ہے… اللہ اکبر کبیرا… کیا اب بھی
ہم اللہ تعالیٰ پر توکّل نہ کریں… بے شک ایمان
والے اللہ تعالیٰ ہی پر توکّل کرتے ہیں…
یاروں
کی لڑائی
ایک
شخص اپنی ’’محبوبہ‘‘ کے ساتھ جارہا تھا… ایک اللہ والا فقیر
اپنی لاٹھی لیے وہاں گھوم رہا تھا… معلوم نہیں اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے زمین
پر کھڑے پانی میں اپنی لاٹھی ماری… پانی اور کیچڑ کے چھینٹے اڑے اور ’’محبوبہ‘‘ کے
کپڑے خراب ہوگئے… اس کے عاشق کو غصہ آیا اور اس نے فقیر کو دوچار تھپڑ مار دیئے…
فقیر تو تھپڑ کھا کر ایک طرف ہوگیا مگر وہ شخص جس نے تھپڑ مارے تھے زمین پر گر کر
تڑپنے لگا… اس کے سینے اور پیٹ میں سخت تکلیف ہو رہی تھی اور وہ مچھلی کی طرح تڑپ
رہا تھا… لوگ جمع ہوگئے، اس کو سنبھالنے لگے تو ایک ’’قلندر‘‘ نے آواز لگائی… ارے
لوگو! ہٹ جاؤ یہ یاروں کی لڑائی ہے اس میں نہ پڑو… لوگوں نے پوچھا وہ کس طرح؟… اس
نے کہا اس شخص کی محبوبہ پر چھینٹے پڑے تو اسے غصہ آیا اس نے فقیر کو مارا… جب
فقیر کو مار پڑی تو اس کے محبوب کو غصہ آیا اس نے اس شخص کو لٹا دیا… اس لیے یاروں
کی اس لڑائی میں تم نہ پڑو… صدر بش نے کہا پرویزمشرف میرا یار ہے… پرویز مشرف نے
اپنے یار کی خاطر طالبان کو مارا، مجاہدین کو مارا، لال مسجد والوں کو مارا کہ یہ
بش کو تکلیف کیوں دیتے ہیں؟… جب مجاہدین کو مار پڑی تو ان کے محبوب مالک کو غصہ
آیا اس نے پرویزمشرف کو زندہ مار دیا اور بے وفا بش اپنے یار کی مدد کو بھی نہ
آیا… ویسے آ بھی جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی کیا
چلتی تھی… اللہ پاک نے ’’منافقین‘‘ کے بارے میں ارشاد
فرمایا:
قل
من ذا الذی یعصمکم من اللہ ان اراد بکم سوأً او اراد بکم
رحمۃ ولا یجدون لہم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا۔ (الاحزاب۱۷)
اس
آیت مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱ اگر
منافقین کا یہ گمان ہے کہ ان کے قلعے، محلات یا کافروں سے یاری ان کو بچا سکتی ہے
تو ان کو بتادیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور قوت کے
سامنے کسی کی کچھ نہیں چلتی وہ اگر تمہیں قتل، شکست یاذ لت میں ڈالنا چاہے تو کوئی
اس کو روک نہیں سکتا اور اگر تم پر اپنا فضل فرمانا چاہے تو کوئی اس میں رکاوٹ
نہیں ڈال سکتا۔ یاد رکھو جو اللہ تعالیٰ سے کٹ جائے گا وہی
بے یار ومددگار رہ جائے گا۔ (فتح الجوّاد جلد سوم غیر مطبوعہ)
۲ منافقین
کا ہر دور میں یہی نعرہ ہوتا ہے کہ ہم ساری دنیا سے کٹ کر کیسے زندگی گزاریں؟ اگر
ہم جہاد کریں یا جہاد کی بات کریں تو ہم کافروں کی عالمی برادری سے کٹ جائیں گے تو
پھر ہم دنیا میں کیسے رہیں گے؟… اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے
سمجھادیا کہ ساری دنیا کے کافروں سے کٹ کر زندہ رہنا اور زندگی گزارنا ممکن ہے
مگر اللہ تعالیٰ سے کٹ کر کامیاب ہونا ناممکن ہے… موت،
زندگی، نفع، نقصان اور عزت وذلت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے
اس لیے اللہ تعالیٰ سے جڑنے کی فکر کرو، وہی مددگار ہے، وہی
کارساز ہے… اور اللہ تعالیٰ سے کٹ کر ساری دنیا سے جڑنے کا
منافقانہ شوق دل سے نکال دو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو
ساری دنیا مل کر تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی… (فتح الجوّاد جلد سوم
غیر مطبوعہ)
اہل
وفا کو سلام
پرویز
مشرف نے سب سے پہلے جس جماعت کے خلاف بیان دیا وہ ’’جیش محمد
صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ تھی… اس وقت نائن الیون کا واقعہ نہیں
ہوا تھا… افغانستان پر امارت اسلامیہ قائم تھی اور ’’جیش‘‘ پر بھی کوئی پابندی نہ
تھی… ایک دن اخبار اٹھایا تو اس کی بڑی سرخی ’’پرویز مشرف‘‘ کا جیش
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بیان تھا کہ… جیش والے لڑکیوں کو نیکر
پہننے سے روکتے ہیں اور مردوں کو داڑھیاں رکھواتے ہیں… ان کا یہ طرز عمل غلط ہے…
پورا بیان تو یاد نہیں بس خلاصہ یہی ہے جو عرض کردیا… بندہ نے یہ بیان پڑھا تو
کافی غصہ آیا فوراً پرویز مشرف کے دفتر فون ملایا… وہاں اس وقت مرحوم جنرل غلام
محمد جنرل مشرف کے چیف آف اسٹاف تھے… ان سے بات ہوئی بندہ نے ان سے کہا کہ یہ
مسلمانوں کا ملک ہے جنرل صاحب کیسے الٹے بیانات دے رہے ہیں؟… انہوں نے کہا میں نے
بیان نہیں دیکھا، دیکھ کر جنرل صاحب سے بات کرتا ہوں… اور آپ کی بھی بات کراتا
ہوں… بندہ نے کہا مجھ سے بات کرانے کی ضرورت نہیں ہے بس ان کو اتنا بتادیں کہ
زیادہ دشمن نہ بنائیں اور اسلامی روایات کا خیال رکھیں…
یہ
تو تھا پہلا معرکہ… پھر وقت کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کی ’’جیش‘‘ کے ساتھ دشمنی
بڑھتی ہی چلی گئی… وہ جیش کی کیسٹیں منگواتے تھے ان کو سنتے تھے اور پھر سخت تبصرے
اور احکامات جاری کرتے تھے… ۲۰۰۲ء
میں انہوں نے ’’جیش‘‘ پر پابندی لگادی… اور اس کے کچھ عرصہ بعد یہ حکم جاری کیا کہ
اس جماعت کا نام ونشان مٹادیا جائے… انہیں دنوں ’’جیل‘‘ میں ایک فوجی افسر سے
ملاقات ہوئی… انہوں نے بتایا کہ اب آپ لوگوں کا کام کرنا اور باقی رہنا مشکل ہے…
ان سے عرض کیا گیا کہ انشاء اللہ پرویز مشرف بھی نہیں رہے
گا… آپ لوگ بھی چلے جائیں گے… جیش انشاء اللہ کام کرتی رہے
گی… انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کس طرح؟… عرض کیا کسی نے ابھی خواب دیکھا ہے کہ
مسجد نبوی شریف میں اعلان ہو رہا ہے کہ جیش کام کرتی رہے گی…
پھر الحمدللہ ایسا ہی ہوا…
صرف اللہ تعالیٰ کے بھروسے اور اس کی نصرت سے ’’جیش‘‘ گرتے
سنبھلتے آگے بڑھتی ہی رہی… پرویز مشرف نے تقریباً ہر حربہ استعمال کیا… قیادت کو
گرفتار کیا… آپس میں پھوٹ ڈلوائی… قیادت کو قتل کرنے کی کوشش ہوئی… اور بہت کچھ
ہوا، عجیب تفصیل ہے مگر یہاں بیان کرنے کی جگہ نہیں… صدر مشرف پر جب قاتلانہ حملے
شروع ہوئے تو اس کا الزام بھی انہوں نے ’’جیش‘‘ پر ڈالا… اور مزید سختی کردی… ادھر
یہ کوشش بھی رہی کہ ’’جیش‘‘ کو اس کے مقاصد سے ہٹا کر ملکی کارروائیوں میں جھونک
دیا جائے… یہ حملہ ’’غیرت‘‘ کے نام پر بار بار ہوا مگر الحمدللہ اہل
وفا اپنے شہداء کے خون کے قطروں پر آگے بڑھتے رہے… اور وہ اس ’’خط مستقیم‘‘ سے
دائیں بائیں نہیں پھسلے… اللہ تعالیٰ کے شکر کا حق ادا کرنا ممکن ہی
نہیں ہے… کیونکہ اسی پابندی کے عرصے میں ’’جیش‘‘
سے اللہ پاک نے وہ کام لیے جو حکومتی طاقت رکھنے والی
جماعتیں بھی نہیں کرسکتیں… الحمدللہ جہاد بھی مضبوط ہوا اور
نظریۂ جہاد بھی… ابھی اسی ماہ میں… پاکستان کے کئی شہروں میں سینکڑوں افراد نے
’’جیش‘‘ کے پیالے میں ’’تفسیر آیات الجہاد‘‘ کا شہد پیا ہے… ہندوستان کی جیلوں میں
دیکھا کہ اکثر قیدی وہ ہوتے ہیں جو اپنی بہوؤں کو کم جہیز لانے پر جلادیتے ہیں…
وہاں اخبار میں یہ خبر بھی چھپی تھی کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے جہیز میں مٹی کے
تیل کا ایک ٹین بھی دیا… لوگوں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا ممکن ہے اس کے سسرال
والوں کو جہیز پسند نہ آئے تو وہ اس کو جلائیں گے… میں نے ان کی آسانی کے لیے مٹی
کا تیل بھی د یدیا ہے… آج کل جہاد کے نام پر تنظیمیں کھڑی کرنے والوں کی یہی حالت
ہے کہ وہ مجاہدین کو تو آگے بھیج دیتے ہیں… مگر ان کی شہادت یا گرفتاری کے بعد ان
کے اہل خانہ کو زندہ جلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں… جماعتوں میں ہونے والی آئے دن کی
’’پھوٹ بازی‘‘ نے شہداء کرام کے اہل خانہ کی زندگی مشکل بنادی ہے… ’’جیش‘‘
کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی کہ ہر طرح کے حالات میں…
وہ شہداء کرام اور اسیران اسلام کے اہل خانہ کے دروازے تک روٹی اور پانی پہنچاتی
رہی… دفاتر سیل ہوئے … بینک اکاؤنٹ منجمد ہوئے… چھاپوں نے دفاتر کے ریکارڈ کو درہم
برہم کیا… مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام جاری
رہا… اللہ پاک اپنے فضل سے آئندہ بھی جاری رکھے…
بارک اللہ
، ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ …
اسی
پابندی کے دور میں… جیش نے محاذوں کو بھی پیاسا نہیں رہنے دیا… اور کاشف شہید جیسے
زمانے کے ابطال … جن کی خون آلود لاش دیکھ کر آسمان بھی جھوم اٹھا ہوگا… میدان
جہاد کے گرجتے بادل بنے رہے…
’’جیش‘‘
نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے… مسلمانوں کو فتح الجوّاد دی…
درجنوں مساجد دیں… دورہ تربیہ دیا… دورہ اساسیہ دیا… درجنوں مدارس دیئے… اور
پہاڑوں، صحراؤں اور وادیوں تک جہاد کی دعوت پہنچائی … یہ ایک عجیب تاریخ ہے… کوئی
انصاف کرے اور انصاف کے ساتھ غور کرے تو بے اختیار پکار اٹھے گا
کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور وہ ایمان
والوں کا مولیٰ اور مددگار ہے… یہ ایک عجیب داستان ہے کوئی دل سے پڑھے تو اس کے
آنسو نہ رکیں اور وہ ’’شہداء جیش‘‘ کی کراُمت کو سلام کرے… آخر حضرت لدھیانوی شہید
رحمۃ اللہ علیہ کی فراست نے ان کو کچھ دکھایا تھا تو انہوں نے اسی جماعت کی بیعت
میں اپنی جان اللہ تعالیٰ کے سپرد فرمائی…
یہاں
دو باتیں پورے یقین کے ساتھ عرض کرتا ہوں:
۱ ’’جیش‘‘ نے جو کچھ کیا اور جو
کچھ کر رہی ہے یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے… اس میں کسی
کی شخصیت کا کوئی دخل نہیں ہے… ہاں بے شک جن لوگوں
کو اللہ پاک نے اس کام کے لیے چنا ہے وہ سعادت مند لوگ
ہیں… اللہ پاک ان سب کی محنتوں کو قبول فرمائے
۲ ’’جیش‘‘ کی آٹھ سالہ تاریخ اپنی جگہ… حیرت انگیز
کامیابیاں اپنی جگہ… شہداء کرام کی عجیب کرامات اپنی جگہ… ان سب
پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر … مگر عجیب ترین
بات اللہ تعالیٰ کا وہ احسان ہے جو اس جماعت کے ’’اہل وفا‘‘
پر ہوا… ان فقیروں، دیوانوں کو توڑنے کے لیے کون سی کوشش ہے جو نہیں ہوئی…
الزامات،تہمتیں، دھکّے اور ہر طرح کا دباؤ… ایجنسیوں کے ایجنٹ… کیش والے، جہاد کے
نام پر مال بنانے والے… اور نعوذباللہ جہاد سے منہ موڑنے والے… جھوٹی
تحریریں، فتنہ انگیز پمفلٹ، نقلی آنسو… اور جعلی جذبات کے تھپیڑے… مگر اہل وفا ڈٹے
رہے… آج الحمدللہ ان کی جھولی بھری ہوئی ہے… دشمن پسپائی کی
طرف جارہا ہے… اور انشاء اللہ حوروں کی بانہیں ان کی منتظر
ہیں… پرویز مشرف کے جانے کی مبارکباد… انہیں اہل وفا کو دیتا ہوں… خاص مبارک… جن
کی استقاُمت نے فرعون کو ذلت کے سمندر میں لا پھینکا… قاتلانہ حملوں، طرح طرح کے
فتنوں، حکومتی چھاپوں اور شیطانی مکر وفریب کے مقابلے میں … ڈٹ کر جماعت، بیعت اور
جہاد کی آبرو رکھنے والو… اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا آخرت میں
کامیابی دے، عزت دے… اور تمہیں اپنی خاص محبت عطاء فرمائے… تم
نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اس دور میں… اسلام، جہاد، جماعت،
اور بیعت کی قدر کی… اللہ پاک تمہاری محنتوں کو قبول فرمائے
اور تمہیں دنیا، آخرت میں اتنا کچھ دے کہ تم یہاں بھی خوش رہو… اور وہاں بھی خوش
رہو… آمین یا ارحم الراحمین…
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭٭٭
نظربد کا علاج
اللہ تعالیٰ
کے نام اور کام میں مسلمانوں کے لیے کامیابی ہے… ہم دن
رات اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کے کام میں لگے رہیں تو
زندگی قیمتی بن جائے گی… نظربد کا علاج بھی انہیں دو چیزوں میں ہے… خوب دل کی توجہ
سے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے… اور خوب محنت
سے اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا کام کیا جائے تو… ہر پریشانی
انشاء اللہ دور ہوجائے گی… کئی ہفتے سے ’’نظربد‘‘ کا مضمون
ادھورا رہ جاتا ہے… آج انشاء اللہ اس کو مکمل کرنا ہے…
ملاحظہ فرمائیے ’’نظربد‘‘ کے چند علاج…
اللہ تعالیٰ
کی پناہ
اللہ تعالیٰ
کی پناہ پکڑنا… اللہ تعالیٰ کے طاقتور کلمات کے ذریعے
سے اللہ تعالیٰ کی امان اور پناہ میں آنا یہ سب سے اہم علاج
ہے… کچھ ’’تعوُّذات‘‘ کا بیان ہوچکا تھا آج مزید دو دعائیں بیان کی جارہی ہیں… یاد
رہے کہ احادیث مبارکہ میں ’’تعوّذ‘‘ کی بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں…
۱ أَعُوْذُ
بِکَلِمَاتِ اللہ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقْ
ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ
کے مکمل کلمات کے ذریعہ پناہ پکڑتا ہوں اس کی تمام مخلوق کے شر سے۔ (صحیح مسلم)
یہ
دعاء صبح شام تین تین بار پڑھ لی جائے…
۲ أَعُوْذُ
بِکَلِمَاتِ اللہ التَّآمَّاتِ الَّتِیْ لَا
یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ مِّنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ
وَمِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمِنْ شَرِّ مَا یَعْرُجُ
فِیْہَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِیْ الاَْرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا یَخْرُجُ
مِنْہَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمِنْ شَرِّ طَوَارِقِ
اللَّیْلِ اِلاَّ طَارِقًا یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمٰنُ
ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ
کے مکمل کلمات کے ساتھ جن سے کوئی نیک اور بد تجاوز نہیں کرسکتا پناہ مانگتا ہوں
ہر اس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا ،بنایا اور پھیلادیا اور ان چیزوں کے شر سے
جو آسمان سے اترتی ہیں اور چڑھتی ہیں اور ان چیزوں کے شر سے جو زمین پر پھیلتی ہیں
اور اس سے نکلتی ہیں اور رات دن کے فتنوں کے شر سے اور رات کو آنے والوں کے شر سے
مگر وہ جو بھلائی کے ساتھ آئے، اے بڑے مہربان… (زادالمعاد ص۱۳۳)
مسند
احمد میں اس سے ملتی جلتی دعاء کے بارے میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک رات شیاطین نے
پہاڑوں اور وادیوں سے نکل کر رسو ل اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم پر حملہ کردیا تھا… وہ آگ کے شعلوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کو تکلیف پہنچانا چاہتے تھے… اچانک حضرت جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعاء سکھائی… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے دعاء پڑھی تو تمام شیاطین بھاگ گئے اور ان کی آگ بجھ گئی…
علامہ
ابن قیمپ ان ’’تعوّذات‘‘ کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
جس
نے ان ’’تعوّذات‘‘ کا تجربہ کیا ہے وہی جانتا ہے کہ ان کے کتنے زیادہ فوائد ہیں…
اور ہم ان دعاؤں کے کتنے محتاج ہیں…
یہ
دعائیں نظربد سے حفاظت بھی کرتی ہیں… کہ ان کو پڑھنے والا نظر سے محفوظ رہتا ہے…
اور اگر نظر لگ چکی ہو تو یہ دعائیں اس کے اثر کو ختم کردیتی ہیں… ان دعاؤں کی
تأثیر میں اضافہ دعاء پڑھنے والے کی قوت ایمانی، مضبوطی، استعداد، دل کی طاقت اور
توکَل سے ہوتا ہے… کیونکہ یہ دعائیں ’’اسلحہ‘‘ کی طرح ہیں… اور اسلحہ کو چلانے
والا جس قدر ماہر، مضبوط اور طاقتور ہو اسی قدر وہ اسلحہ زیادہ مؤثر ہوجاتا ہے۔
(زاد المعاد ص۱۳۵)
پس
بہت یقین اور توجہ کے ساتھ ان تعوّذات کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔
حضرت
جبرئیل علیہ السلام کا دم
۱ صحیح
مسلم کی روایت ہے:
حضرت
جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س
تشریف لائے اور عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا
آپ تکلیف محسوس کر رہے ہیں؟
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں۔ تو حضرت جبرئیل ح نے یہ دعاء پڑھی:
بِسْمِ اللہ أَرْقِیْکَ
مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیْکَ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ وَّعَیْنِ
حَاسِدٍ اللہ یَشْفِیْکَ
بِسْمِ اللہ اَرْقِیْکَ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ
کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے اور ہر نظر حاسد کی
نظر کے شر سے، اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء
دے اللہ تعالیٰ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں۔
۲ صحیح
مسلم کی روایت ہے:
ام
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں
کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار
ہوتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس دعاء سے آپ پر دم کرتے تھے:
بِسْمِ اللہ یُبْرِیْکَ
وَمِنْ کُلِّ دَآئٍ یَشْفِیْکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ وَمِنْ شَرِّ
کُلِّ ذِیْ عَیْنٍ(صحیح مسلم)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ
کے نام سے مدد چاہتا ہوں، وہ آپ کو اچھا کرے گا، اور آپ کو ہر بیماری سے شفاء دے
گا اور ہر حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہر نظر لگانے والے کی نظربد سے (آپ کو
شفاء دے گا)۔
سبحان اللہ …
یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا ’’رُقیہ‘‘ ہے، یعنی
’’دَم‘‘ جس سے نظربد کو جھاڑا جاتا ہے… علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں روایات
سے یہ ثابت کیا ہے کہ دم کرنے اور کرانے میں کوئی عیب نہیں ہے…
نظر
بد کا ایک طاقتور علاج
زاد
المعاد میں ہے:
حضرت
ابوعبید اللہ الساجی رحمۃ اللہ علیہ حج یا جہاد کے سفر پر تھے ان کی
’’سواری‘‘ایک بہت عمدہ اونٹنی تھی… ان کے رفقاء سفر میں ایک نظر لگانے والا شخص
تھا… وہ جس چیز کو نظر لگاتا وہ اکثر خراب یا ختم ہوجاتی تھی… ساتھیوں نے ’’شیخ‘‘
سے کہا کہ اپنی اونٹنی کو اس شخص سے بچا کر رکھیں… شیخ نے فرمایا میری اونٹنی کا
کچھ نہیں بگاڑ سکتا… نظر لگانے والے کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ تاک میں لگ گیا کہ
شیخ اپنی اونٹنی سے کب دور ہوتے ہیں… پھر جیسے ہی اس کو موقع ملا اس نے اونٹنی کو
دیکھا تو نظر لگا دی… وہ اونٹنی تڑپ کر گرگئی… شیخ کو پتا چلا تو اس نظر لگانے کو
ڈھونڈا اور اس کے سامنے یہ دعاء پڑھی:
بِسْمِ اللہ حَبْسٌ
حَابِسٌ وَحَجَرٌ یَابِسٌ وَشِہَابٌ قَابِسٌ رَدْدْتُ عَیْنَ الْعَآئِنِ عَلَیْہِ
وَعَلٰی أحَبِّ النَّاسِ اِلَیْہِ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْر۔
ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرَ خَاسِئًا
وَہُوَ حَسِیْر۔
شیخ
کا یہ دعاء پڑھنا تھا کہ نظر لگانے والے کی آنکھیں باہر نکل پڑیں اور اونٹنی ٹھیک
ٹھاک ہو کر کھڑی ہوگئی (زادالمعاد ص۱۳۸ج۴)
نظربد
کا ایک قرآنی علاج
پاک
پانی پر سورۃ القلم کی آخری دو آیات سات بار پڑھیں اور ہر مرتبہ پڑھ کر دم کریں…
مریض اس پانی کے نو گھونٹ پیئے اور ہر گھونٹ پیتے وقت
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھے… باقی پانی کسی بالٹی یا
برتن میں ڈال کر اس میں اور پانی ملالے اور پورے جسم پر بہالے… انشا
ء اللہ سخت سے سخت نظر بھی دور ہو جائے گی… یہ دم جانوروں
پر بھی کیا جاسکتا ہے… جن لوگوں کو زیادہ نظر لگتی ہو وہ ان آیات کو روزانہ سات
بار پڑھ لیا کریں… اور اپنے اوپر دم کرلیا کریں…
نظر
بد دور کرنے والی ایک مسنون دعاء
حصن
حصین میں ہے:
جس
کو نظر لگ جائے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس قول مبارک سے جھاڑے:
بِسْمِ اللہ اَللّٰہُمَّ
أَذْہِبُ حَرَّہَا وَبَرْدَہَا وَوَصْبَہَا
ترجمہ: اللہ تعالیٰ
کے نام پر، اے اللہ اس نظر بد کے گرم و سرد کو اور دکھ درد
کو دور کردے۔
اس
کے بعد کہے:
قُمْ
بِإِذْنِ اللہ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ
کے حکم سے کھڑا ہوجا۔(حصن حصین ص۲۳۱)
جانور
کو نظر بد لگنے کے وقت کی دعاء
حصن
حصین میں ہے:
اگر
کسی چوپائے کو نظر بد لگی ہو تو اس کے دائیں نتھنے میں چار مرتبہ اور بائیں نتھنے
میں تین مرتبہ یہ پڑھ کر پھونکے:
لاَ
بَأْسَ أَذْہِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، إِشْفِ أَنْتَ الشَّافِیْ لاَ یَکْشِفُ
الضُّرَّ اِلاَّ أَنْتَ
ترجمہ: کوئی
ڈر نہیں، دور کردے دکھ، بیماری اے لوگوں کے پروردگار، شفاء دیدے، تو ہی شفاء دینے
والا ہے تیرے سوا کوئی دکھ تکلیف کو دور نہیں کرسکتا۔ (حصن حصین ص۲۳۱)
اپنی
نظر سے حفاظت
مسند
احمد اور دیگر کتب میں یہ حدیث شریف مذکورہے:
ترجمہ: تم
میں سے کوئی شخص جب اپنے بھائی یا اپنی ذات یا اپنے مال میں سے کوئی ایسی چیز
دیکھے جو اسے اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعاء کرے کیونکہ نظر (لگ جانا) حق ہے۔
(مسند احمد، زادالمعاد)
معلوم
ہوا کہ برکت کی دعاء کرنے سے اپنی نظر خود کو یا کسی اور کو نہیں لگتی…
علامہ
جزری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
جب
اپنی ذات اور مال وعیال کی… یا کسی دوسرے کی کوئی اچھی اور پسندیدہ حالت دیکھے تو
کہے:
اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ فِیْہِ
یا اللہ تو
اس میں اور برکت دے۔ (حصن حصین ص۲۲۰)
جس
آدمی کو اپنی نظر لگنے کا خود یا کسی اور کو خطرہ ہو تو وہ ان الفاظ سے اپنی نظر
کے شر کو دور کرے:
اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ عَلَیْہِ
’’یا اللہ اس
پر برکت عطاء فرما‘‘
کیونکہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو
جب انہوں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو نظر لگادی، فرمایا کہ تم نے ان کے
لیے برکت کی دعاء کیوں نہیں کی؟ (زادالمعاد ص۱۳۵ ج۴)
پس
جس آدمی کو مثلا اپنے ناخن خوبصورت لگیں … یا شیشہ دیکھتے ہوئے اپنا چہرہ اچھا
لگے… یا اپنی کوئی صفت یا عادت اچھی لگے تو وہ فوراً برکت کی دعاء کرے… اسی طرح
اپنی اولاد کو اور دوسرے لوگوں کی خوبیوں کو دیکھ کر بھی یہی دعاء کرے:
اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ فِیْہِ … اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلَیْہِ
اور
اس دعاء کو مزید طاقتور بنانے کے لیے اگر یہ الفاظ بھی ساتھ ملا لے تو
انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا:
مَا
شَائَ اللہ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِ اللہ
حضرت
عروہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ کسی ایسی چیز کو دیکھتے جو انہیں
اچھی لگتی یا اپنے باغات میں تشریف لے جاتے تو کہتے:
مَا
شَائَ اللہ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِ اللہ (زاد
المعاد ص۱۳۵ ج۴)
نظر
کا خاص علاج
نظر
بد کا خاص اور تیر بہدف علاج وہ ہے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے
تلقین فرمایا کہ نظر لگانے والا غسل کرے اور اپنے غسل سے گرنے والا پانی اس پر ڈال
دے جس کو نظر لگائی ہے… علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس علاج کی افادیت پر بہت
تفصیل سے لکھا ہے اور فرمایا ہے کہ جو شخص اس علاج میں شک کرتاہے اس کو فائدہ نہیں
پہنچتا۔(زادالمعاد ص۱۳۶ج۴)
اس
کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نظر لگانے والا وضو کرے اور وضو سے گرنے والا
پانی جمع کرکے اس پر ڈال دے جس کو نظر لگی ہو…
رُقیہ
الٰہی
علامہ
ابن قیمپ نے نظربد کے علاج میں ایک مسنون دعاء لکھی ہے اور اس کو ’’رُقیہ
الٰہی‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھایا ہوا ’’دَم‘‘ قرار
دیا ہے…
حضرت
ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم
میں سے جس کو کوئی تکلیف ہو یا اس کا بھائی کسی تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو اسے
چاہئے کہ یہ دعاء پڑھے:
رَبَّنَا اللہ الَّذِیْ
فِیْ السَّمَآئِ تَقَدَّسَ أسْمُکَ أَمْرُکَ فِیْ السَّمَآئِ وَالأْرْضِ کَمَا
رَحْمَتُکَ فِیْ السَّمَآئِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِیْ الاَْرِضِ وَاغْفِرْلَنَا
حُوْبَنَا وَخَطَایَانَا اَنْتَ رَبُّ الطَّیِّبِیْنَ أَنْزِلْ رَحْمَۃً مِّنْ
رَحْمَتِکَ وَشِفَآئً مِّنْ شِفَآئِکَ عَلٰی ہَذَا الْوَجْعِ
ترجمہ: اے
ہمارے پروردگار ’’ اللہ ‘‘ جو آسمان میں ہے تیرا نام مقدس ہے تیرا حکم
آسمان اور زمین میں ہے جس طرح تیری رحمت آسمان میں ہے اسی طرح زمین میں اپنی رحمت
نازل فرما اور ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو معاف فرمادے تو ہی پاک لوگوں کا پروردگار
ہے، اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور اپنی شفاء سے شفاء نازل فرما اس تکلیف پر۔
پس
یہ دعاء پڑھتے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ مریض ٹھیک
ہوجائے گا ۔ (ابوداؤد)
کمالات
عزیزی میں ہے:
وَلَا
حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِ اللہ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
یہ
فقرہ نظربد اور جادو کا ردّ (یعنی توڑ) کرنے میں بہت تأثیر رکھتاہے اور پڑھنے والے
کے گناہ جھاڑ دیتا ہے اور اسی امر کا اشارہ ہے کہ حدیث شریف میںہے ’’لاَ حَوْلَ
وَلاَ قُوَّ ۃَ اِلاَّ بِ اللہ ‘‘ ایک خزانہ ہے جنت کے خزانوں میں سے۔(کمالات
عزیزی ص۱۶۷)
نظربدکا
ایک اور قرآنی علاج
جس
پر نظر لگی ہو اس پر یہ آیات پڑھ کر دم کریں
انشاء اللہ نظربد جاتی رہے گی:
لَخَلْقُ
السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ
النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ فَارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ
الْبَصَرَ خَاسِئًا وَّہُوَحَسِیْر۔
ایک
گذارش
الحمدللہ آج
یہ موضوع ایک حدتک مکمل ہوگیا ہے… پچھلے مضامین اور اس کو ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو
آپ کو… نظر بد کی حقیقت، اس کے برے اثرات، اس سے حفاظت کے طریقے… اور اس کے علاج
کے بارے میں انشاء اللہ کافی معلومات حاصل ہوجائیں
گی… اللہ تعالیٰ ’’نظربد‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور
ہمیں اپنی پناہ نصیب فرمائے…
مقبوضہ
کشمیر کے حالات ان دنوں کافی گرم ہیں… اہل عزیمت نے پھر انگڑائی لی ہے… روزانہ
شہادتیں ہو رہی ہیں… تحریک آزادی کے ایک نامور رہنما شیخ عبدالعزیز صاحب نے بھی
قربانی دی ہے… وہ عسکری کمانڈر تھے تو بچے رہے، اب سیاست میں آئے تو مشرکین کی
گولی سے شہید ہوگئے… بے شک موت کا وقت مقرر ہے اور جہاد میں موت اپنے وقت سے پہلے
نہیں آجاتی… ادھر جموں کے مشرکین مکمل شیطنت پر اترے ہوئے ہیں… پونچھ، ڈوڈہ، اور
کشتواڑ میں ’’مسلم کش‘‘ فسادات ہو رہے ہیں… انڈیا عجیب ملک ہے وہاں حکومت کی
سرپرستی میں ’’مسلم کش‘‘ فسادات ہوتے ہیں… حالانکہ پاکستان میں اب تک ایک بھی
’’ہندوکش‘‘ فساد نہیں ہوا… القلم پڑھنے والے تمام بزرگوں، بھائیوں اور بہنوں سے
درخواست ہے کہ ’’اسلامی بیداری‘‘ اور ’’اسلامی اخوت‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے کشمیر کے
حالات پر نظر رکھیں… اور وہاں کے مسلمانوں اور وہاں کی تحریک جہاد کے لیے دعاء
کریں… اور خصوصاً پونچھ، کشتواڑ اور ڈوڈہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے خاص دعاء کریں
کہ ان پر بہت بھیانک ظلم ہو رہا ہے… جبکہ ہمارے ملک کے بے فکرے لیڈران ’’سیاست
سیاست‘‘ کے کھیل میں مگن ہیں… ان کو اپنے مظلوم بھائی یاد نہیں…
یا اللہ اہل پاکستان کو پاک اور مسلمان حکمران عطاء فرما…
آمین یا ارحم الراحمین…
وصلی اللہ تعالیٰ
علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭٭٭
افاداتِ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ
اللہ تعالیٰ
دل کی سختی سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… گناہ کرنے سے، زیادہ بولنے سے اور
زیادہ کھانے سے انسان کا دل سخت ہوجاتا ہے… اور جن کے دل سخت ہوجائیں ان کے لیے
قرآن پاک نے ہلاکت اور تباہی کا اعلان فرمایا ہے… آج شعبان المعظم کی ۲۹ تاریخ
ہے… بہت امکان ہے کہ کل ’’رمضان المبارک‘‘ کا مہینہ شروع ہوجائے… اس بار ہم خوب
دعاء کرکے، خوب محنت کرکے اپنے دلوں کو ’’رمضان المبارک‘‘ میں ٹھیک کرنے کی بھرپور
کوشش کرلیں…
اندر
کی خبریں
ہم
لوگ ہمیشہ باہر کی خبروں کو معلوم کرنے میں زیادہ محنت کرتے ہیں… صدر کون بنے گا…
آصف زرداری، سعید الزمان صدیقی یا کوئی اور؟… پڑوس والے کیا کیا کرتے ہیں؟… فلاں
مرد ایسا ہے، فلاں عورت ایسی ہے… ہماری پوری زندگی باہر کی خبروں کو سننے، سمجھنے
اور جانچنے میں گزر جاتی ہے… ایک حد تک تو یہ جائز ہے… لیکن دوسروںکے حالات کا
تجسس کرنا … اور لوگوں کی برائیاں ڈھونڈنا اور ان کو بیان کرنا خطرناک ہے… کئی
اونچے اور مقرب لوگ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور بیان کرنے کی وجہ سے ناکامی، خسارے
اور گناہوں میں جاگرے… اس رمضان المبارک میں ہم ’’اندر کی خبریں‘‘ تلاش کرنے کی
کوشش کریں، مثلاً:
۱ قبر
کے اندر کیا کیا ہوتا ہے؟ یہ بات تو یقینی ہے کہ ہم نے مرنا ہے اور قبر میں جانا
ہے
۲ ہمارے
دل کی حالت کیا ہے؟… نرم ہے یا سخت؟ ذکر کرتا ہے یا غافل رہتا ہے؟ … بزدل ہے یا
بہادر؟… حریص اور لالچی ہے یا صابر اور سخی؟
۳ ہمارے
اندر کون کون سی برائیاں ہیں؟
پھر
اگر اپنی قبر سنوارنے اور دل کو سیّدھا کرنے اور اپنے اندر کو پاک کرنے کی فکر
پیدا ہوجائے تو علاج آسان ہے… اللہ پاک کے سامنے سب کچھ
کھول کھول کر بیان کریں… حالانکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے… مگر بندہ اپنے جرم کا
اعتراف کرکے معافی مانگے تو اس کی خاص رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں…
ہم
اپنی ہر بیماری اور کمزوری کی اصلاح کے لیے… اللہ پاک سے
خوب مانگیں، خوب مانگیں… روزہ کی حالت میں تو انسان ویسے
ہی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے…
حضرت
جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الصوم
نصف الطریقۃ
یعنی
روزہ سلوک واحسان کا آدھا حصہ ہے۔ (کشف المحجوب)
دل
کے وسوسوں کا ایک خاص علاج
ایک
یقین پختہ کرلیں کہ… اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے… ہمارے دلوں
میں جو خیالات آتے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ دیکھتا اور
جانتا ہے… اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں … قرآن پاک نے بار بار اعلان فرمایا ہے:
اِنَّ اللہ عَلِیْمٌ
بِّذَاتِ الصُّدُوْرِ (اٰل عمران)
اور
ارشاد فرمایا:
یَعْلَمُ
خَآئِنَۃَ الاَْعْیُنِ وَمَا تُخْفِیْ الصُّدُوْرُ (المؤمن)
ترجمہ:
وہ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے راز جانتا ہے…
بصرہ
کا ایک رئیس ایک روز اپنے باغ میں گیا… اس کی نظر اپنے کسان کی عورت پر پڑی تو اس
کے حسن وجمال کا عاشق ہوگیا… چنانچہ اس کسان کو کسی کام پر بھیج دیا اور عورت سے
کہنے لگا… تمام دروازے بند کردو… عورت نے کہا باقی سب دروازے تو بند کردوں لیکن
ایک دروازہ بند کرنے کی طاقت نہیں رکھتی… اس نے پوچھا وہ کونسا دروازہ ہے؟… عورت
نے کہا وہ دروازہ جو ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے…
یہ سن کر وہ رئیس شرمسار ہوا اور اس نے توبہ کی…
دل
میں جب برے خیالات آنے لگیں تو فوراً یہ آواز لگائیں کہ… اے بے شرم!…
دل اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے… پھر جب دوبارہ وسوسے شروع ہوں
تو اندر ہی اندر یہی آواز لگائیں… انشا ء اللہ دل پاک ہوتا
جائے گا… اور اس میں برائی کی بجائے نور آجائے گا…
اللہ ہو، اللہ ہو
، اللہ ہو
بھوک
روح کی غذاء ہے
انسان
کے جسم کو کھانے کی ضرورت ہے… جبکہ انسان کی روح بھوک سے طاقتور ہوتی ہے
الجوع
للنفس خضوع وللقلب خشوع
بھوک
نفس میں انکساری اور دل میں خشوع اور عاجزی پیدا کرتی ہے، اسی لیے فرمایا گیا ہیکہ
الجوع
طعام الصدیقین
بھوک
صدیقین کا کھانا ہے۔ (کشف المحجوب)
اسلاف
کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المبارک کا فائدہ اٹھا کر خود کو بھوک کی لذت سے
سرشار کرتے تھے… ان حضرات کے واقعات کو پڑھا جائے تو حیرت ہوتی ہے… جبکہ ہم لوگ
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی کھانے پینے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں… اور یوں دل کی
اصلاح کے ایک اہم موقع کو کھو دیتے ہیں… طرح طرح کی افطاری… اور طرح طرح کی سحری…
اللہ پاک
ہماری حالت پر حم فرمائے… اور اس رمضان المبارک کو ہماری بخشش کا ذریعہ بنائے…
روزہ
مکمل ہونا چاہئے
ہمارا
روزہ تب مکمل ہوگا… جب ہم اپنے تمام ’’حواس‘‘ کو قابو میں کریں گے… خلاف شریعت نہ
بولیں گے… نہ سنیں گے، نہ ہاتھ لگائیں گے، نہ چلیں گے… بلکہ اپنے دل اور اپنے تمام
اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی طاعت وعبادت میں لگائے رکھیں گے…
حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ (جن کے مزار کو لاہور والے داتا کا مزار
کہتے ہیں) فرماتے ہیں:
’’ہر
روزے کے لیے صحیح نیت اور سچی شرط ضروری ہے، تاہم نفس کو روکنے کی شرائط بہت سی
ہیں، چنانچہ کوئی شخص اسی وقت حقیقی روزہ دار ہوگا جب وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے
بچائے اور اپنی آنکھ کو شہوت کی نظر سے، کان کو غیبت کے سننے سے، زبان کو بیہودہ
اور فضول گفتگو کرنے سے اور جسم کو دنیا کی تابعداری اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ
رکھے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
شخص سے فرمایا تھا کہ ’’جب تو روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرا کان، تیری
آنکھ، تیری زبان، تیرا ہاتھ اور تیرا ہر عضو روزہ رکھے‘‘۔ اور نیز
فرمایا: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوکا اور پیاسا
رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘
اور
میں نے (یعنی شیخ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے) خواب میں سیّد دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی وصیت فرمائیے تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’احبس حواسک‘‘ یعنی اپنے حواس کو قابو میں
رکھو۔‘‘ (کشف المحجوب)
دشمنوں
کی پھرتیاں
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے… آپ کے صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کمزور تھے اور تین علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے… مدینہ
منورہ، مکہ مکرمہ اور حبشہ… مدینہ منورہ میں حضرات مہاجرین تشریف لے آئے تو غریب
انصار نے اپنے گھر اور اپنے اموال میں ان کو برابر کا شریک کرلیا… مدینہ منورہ کی
اقتصادیات پر یہودیوں کا قبضہ تھا وہ مسلمانوں کے یہاں آنے سے خوش نہیں تھے… یہ
چھوٹی سی اسلامی جماعت سب کافروں کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی… مشرکین کے باہم
اجلاسات ہو رہے تھے… یہودی دن رات سر جوڑے سازشیں کر رہے تھے… منافقین کا بغض بھی
اندر ہی اندر پل رہا تھا… ان حالات میں ۲ ہجری کا
رمضان المبارک آگیا… رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی خاص
رحمتیں ایمان والوں پر اترتی ہیں… دشمنوں کی پھرتیاں زوروں پر تھیں کہ اچانک حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو
جہاد میں نکلنے کا حکم فرمادیا … تین سو تیرہ کمزور اور نہتے مسلمان ٹوٹی تلواریں،
لاٹھیاں اور پتھر اٹھا کر روانہ ہوگئے… لشکر کی قیادت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے… عجیب جوش
تھا اور عجیب ولولہ … ابوسفیان کا قافلہ بچ نکلا… ابوجہل کا طاقتور لشکر سامنے
آپڑا… شیطان اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آبیٹھا… ابوجہل کہہ رہا تھا کہ بس
چند منٹ کی جنگ ہوگی، ان سب کو ماردیں گے اور کچھ کو باندھ کر لے جائیں گے… رات کے
آخری پہر آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گڑ گڑا رہے تھے… صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے… یا حی یا قیوم،
یا حی یا قیوم، یا حی یا قیوم… یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری
عبادت کرنے والا کوئی نہ بچے گا… پھر آسمان نے مسکرا کر زمین کو دیکھا … بارش
موسلا دھار برسی… جبرئیل علیہ السلام نے جہادی وردی پہنی… ان کے ساتھ ایک ہزار مجاہد
فرشتے اترے… اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گیا… اور ابوجہل کا غرور ایک مردار لاش
کی صورت میں بدر کے ایک اندھے کنویں میں جاگرا…
اللہ
اکبرکبیرا… وہ جماعت بچ گئی… اس نے محنت کی تو اسلام ہم تک آپہنچا… ہم میں سے کچھ
اس جماعت کی نسلی اولاد… اور کچھ روحانی اولاد ہیں… ہم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں… جو
وہ پڑھتے تھے…
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اب
ہمارے خلاف دشمنوں کی پھرتیاں ہیں… بڑے بڑے بحری بیڑے اور فضائی طاقت کا غرور ہے…
ماردو، ختم کردو اور باندھ دو کی آوازیں ہیں… کشمیر پر انڈیا… فلسطین پر اسرائیل
اور باقی مسلم ممالک پر اتحادی کافروں کے حملے ہیں… ہم جو مجاہد کہلاتے ہیں، ہمیں
ہمارے حکمران ہی بیچ کر اپنی کرسیاں پکی کر رہے ہیں… ہر کوئی جہاز پر بیٹھتا ہے
اور کسی ملک میں جاکر ہمیں مارنے، پکڑنے اور دبانے کا وعدہ کر آتا ہے… اور اس کے
بدلے عہدہ اور ڈالر کما آتا ہے… پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت
پر بم، میزائل اور گولیاں برس رہی ہیں… ان حالات میں رمضان المبارک آگیا ہے… یا حی
یا قیوم ، یا حی یا قیوم، یا حی یا قیوم… ہم تیرے بندے اور تیرے محبوب
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں…
ہمیں
معاف فرما… ہم پر رحم فرما… اور اس رمضان المبارک میں ’’غزوۂ بدر‘‘ جیسے مناظر اس
مظلوم اُمت کو نصیب فرما…
آمین
یا ارحم الراحمین…وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا
محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭٭٭
نام کی تبدیلی
اللہ تعالیٰ
کے ایک ولی گزرے ہیں، ان کا نام تھا ’’حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ … آج ان کی
ایک بات عرض کرنی ہے… حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ
اس اُمت کے ’’لقمان حکیم‘‘ ہیں…
وکان
یقال حاتم لقمان ہذہ الامۃ
یہ
’’تبع تابعی‘‘ تھے… بہت بڑے عالم ، بزرگ اور متقی امام تھے… آپ کا شمار بلخ کے بڑے
اکابر اور مشائخ میں ہوتا ہے… حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں
فرماتے ہیں:
’’صدّیق
زماننا حاتم اصم‘‘
کہ
ہمارے زمانے کے ’’صدّیق‘‘ حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ ہیں…
حضرت
حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ کی حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی
ملاقاتیں رہی ہیں… اور آپ مجاہد بھی تھے، باقاعدہ کئی معرکوں اور جنگوں میں آپ نے
شرکت فرمائی ہے۔
یہ
تو ہوا مختصر تعارف ’’حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ کا… وہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ہر
صبح شیطان مجھ سے کہتا ہے کہ آج تم کیا کھاؤ گے؟ کیا پہنو گے؟ اور کہاں رہو گے؟ تو
اسے جواب دیتا ہوں میں موت کو کھاؤں گا، کفن کو پہنوںگا اور قبر میں رہوں گا…‘‘
وعن
حاتم اصمپ: ما من صباح الا ویقول الشیطان لی ماتأکل؟ وما تلبس؟ واین تسکن؟ فاقول
لہ: أکل الموت، والبس الکفن واسکن القبر (الاستعداد لیوم المعاد)
اب
آئیے حضرت حاتم اصم پکی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں…
روٹی،
کپڑا اور مکان
یعنی
شیطان ہر صبح میرے سامنے ایک ہی نعرہ رکھتا ہے روٹی، کپڑا اور مکان… کیا کھاؤ گے؟
کیا پہنو گے؟ اور کہاں رہو گے؟ … شیطان چاہتا ہے کہ مجھے روٹی، کپڑے اور مکان کی
فکر میں ڈال کر… مجھ پر غالب اور مسلط ہوجائے… اور مجھے دین سے اور آخرت سے غافل
کردے…
ہمارے
ملک کی ’’پیپلزپارٹی‘‘ کا نعرہ بھی روٹی، کپڑا اور مکان ہے… اور ان تین چیزوں کی
فکر پیدا کرکے ’’پیپلزپارٹی‘‘ ملک کی حکومت حاصل کرلیتی ہے… حضرت حاتم اصم رحمۃ
اللہ علیہ کے واقعہ سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ نعرہ اصل میں کس نے سکھایا ہے…
اللّٰہم انا نعوذبک من الشیطان الرجیم…
بہترین
مہینے میں سیاسی باتیں
حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ بہترین
مہینہ کون سا ہے؟… آپ نے ارشاد فرمایا رمضان المبارک کا مہینہ… حضرت علی
کرم اللہ وجہہ تک جب یہ جواب پہنچا تو ارشاد فرمایا کہ یہ
جواب درست ہے… مگر میں یہ کہتا ہوں کہ سب سے بہترین مہینہ وہ ہے جس میں
تم اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرلو…
اب
اگر کوئی شخص رمضان المبارک ہی کے مہینے میں سچی توبہ کرلے تویہ کتنی بڑی سعادت
ہوگی… اللہ پاک مجھے اور آپ کو نصیب فرمائے… رمضان المبارک
کے تقدس اور عظمت کو دیکھتے ہوئے دل نہیں چاہتا کہ… پاکستانی سیاست پر کچھ لکھا
جائے… مگر حالات سے غافل رہنا بھی درست نہیں ہے اور ۵ رمضان
المبارک کے دن ملک میں دو بڑے واقعات پیش آئے:
۱ جناب
آصف زرداری صاحب پاکستان کے بارھویں صدر منتخب ہوئے۔
۲ ملک
کے کئی حصوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
اب
آپ ہی بتائیے کہ جس واقعہ پر زمین بھی ہل کر رہ گئی ہو اس واقعہ کو کس طرح سے نظر
انداز کیا جاسکتا ہے… شیطان نے آج تک کسی کو نہ روٹی دی ہے، نہ کپڑا دیا ہے… اور
نہ مکان… وہ تو بس ان چیزوں کا نعرہ لگاتا ہے تاکہ… انسان دنیا کی فکر میں پڑ
جائے… پھر جب انسان دنیا کی فکر میں پڑ تا ہے تو شیطان اس کو پکڑ لیتا ہے… اور اس
کی ایمانی دولت لوٹ کر بھاگ جاتاہے…
شیطان
کو منہ توڑ جواب
حضرت
حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ کو جب شیطان روٹی، کپڑا اور مکان کی فکر میں الجھا نے
لگتا تو آپ … اسے منہ توڑ جواب دیتے کہ میں موت کو کھاؤں گا… کفن پہنوں گا… اور
قبر میں رہوں گا… اس جواب میں بہت سی حکمتیں ہیں:
۱ آخرت
کی یاد انسان کو شیطان کے وار سے بچاتی ہے، موت، کفن اور قبر کی یاد آئی تو شیطان
کا جال ٹوٹ گیا۔
۲ جو
شخص موت، قبر اور کفن کو یاد رکھے… اور اسکی تیاری میں لگا رہے اس کو روزی کی تنگی
نہیں آتی… پس شیطان کو بتا دیا کہ میں اصل منزل کی طرف جا رہا ہوں … اور اصل منزل
کے راستے میں روٹی، کپڑا اور مکان ضرورت کے مطابق خود ہی مل جایا کرتا ہے… جس طرح
حاجیوں کے راستے میں لوگ کھانے، پینے اور رہنے کا انتظام کردیا کرتے تھے…
۳ مقدر
کی روٹی، کپڑا اور مکان… ہر انسان کو مل کر رہتا ہے جبکہ مسلمان کا کام آخرت کی
تیاری ہے… پس میں طالب دنیا نہیں آخرت کا طلبگار ہوں…
اصل
بات اور ہے
اصل
بات یہ ہے کہ… جس انسان کے دل میں دنیا کی عظمت جتنی زیادہ ہوتی ہے… وہ
انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا ہی ذلیل اور حقیر ہوتا ہے…
یوں سمجھ لیں کہ کیڑوں، مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہوتا ہے … اور ہم سب
جانتے ہیں کہ کیڑوں، مکوڑوں پر سانپ اور بچھو ہی حکمران بنتے ہیں… سانپ مر گیا تو
بچھو آگیا… بچھو چلا گیا تو سانپ آگیا… ہم لوگ اللہ تعالیٰ
سے تو بہت شکوے کرتے ہیں کہ اس نے ہماری سنی نہیں… مگر اپنی حالت کو نہیں دیکھتے
کہ ہم ’’دنیا پرستی‘‘ میں کتنے غرق ہوچکے ہیں… اور تو اور کئی مجاہد اور مولوی
اپنے ہاتھ میں قیمتی موبائل پکڑ کر اکڑنے لگتے ہیں… انا للہ وانا الیہ
راجعون… قوم کے افضل لوگوں کی یہ حالت ہوجائے کہ… موبائل فون کی نمائش کرنے لگیں…
قیمتی جوتا پہن کر فخر کرنے لگیں… ٹائم دیکھنے کی گھڑی کو فخر کا زیور بنالیں تو
پھر باقی قوم کا کیا حال ہوگا… کبھی آپ نے سوچا:
۱ کیا
عزت مالداری میں ہے؟
۲ کیا
عزت قیمتی موبائل، قیمتی جوتے اور کپڑوں میں ہے؟
۳ کیا
ضرورت کی چیزوں کی فخریہ نمائش کرنا جائز ہے؟
ٹھیک
ہے مان لیتا ہوں کہ یہ معمولی باتیں ہیں… مگر ان معمولی باتوں سے یہ تو معلوم
ہوگیا کہ ہمارے دلوں میں دنیا کی کتنی عظمت ہے… اور دین کی کتنی ناقدری ہے؟… یہ تو
معلوم ہوگیا کہ ہم ’’دنیا پرست‘‘ ہیں… جب ہم ’’دنیا پرست‘‘ ہوئے تو پھر
ہم کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر ہوئے… اللہ پاک تو چاند،
سورج اور آسمانوں کا مالک ہے… اس کے نزدیک موبائل، جوتے، چشمے اور کپڑے کی کیا
حیثیت ہے؟… اس نے ہمیں منی کے قطرے سے بنایا… اور پھر ہمیں اپنے نام اور اپنے دین
سے عزت دی… اب اگر ہم دین اسلام کے علاوہ کسی چیز میں عزت، عظمت اور بڑائی مانیں
گے تو ہم حقیر ہوجائیں گے… اور حقیر کیڑے ، مکوڑوں پر یا تو سانپ حکومت کرتے ہیں
یا بچھو… ان کے اوپر اللہ کے ولی حکمران تو نہیں آتے… خیر
چھوڑیں اس بات کو… میں یہ خبر عرض کر رہا تھا کہ پاکستان میں پرویز مشرف کے بعد…
آصف زرداری صاحب صدر منتخب ہوچکے ہیں…
تین
قلعے
جو
لوگ موت کی تلاش میں رہتے ہیں ان کو ’’زندگی‘‘ ملتی ہے… اور جو لوگ ’’زندگی‘‘ کی
فکر میں رہتے ہیں وہ بار بار مرتے ہیں… حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں
سمجھایا کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے شیطان سے بچنے کا طریقہ… موت
کی یاد اور آخرت کی تیاری ہے… پس ہمیں ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے… دنیاکے
حکمران بے اختیار ہوتے ہیں… یہ کسی کو اپنی طرف سے نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ
نقصان… پس ہم اپنے کام میں لگے رہیں… شہادت کی موت کو ڈھونڈتے رہیں… تب
انشاء اللہ کوئی بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا… جب موت سے
محبت اور قبر سے پیار ہوتو پھر کس بات کا ڈر؟… ڈرتے تو وہ ہیں جن کو شیطان روٹی،
کپڑا اور مکان کی فکر میں ڈال دیتا ہے… وہ مرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور کچھ چھننے سے
بھی ڈرتے ہیں… ہم مسلمانوں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک
باتوں کو بھلادیا… آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ’’زر‘‘ یعنی سونے
اور مال کی محبت میں پڑنے سے منع فرمایا… اور ہمیں سمجھایا کہ ’’زر‘‘ کی محبت ہر
آفت کی جڑ ہے… مگر ہم ’’زر‘‘ کے پیچھے بھاگتے رہے کہ ہم ’’زردار‘‘ یعنی سونے کے
مالک اور مال والے بن جائیںاب تو قوم خوش ہوجائے کہ … زرداری صاحب ان کے صدر بن
چکے ہیں…
حضرت
کعب الاحبار ؓ فرماتے ہیں کہ
مسلمانوں
کے لیے تین چیزیں حفاظتی قلعہ ہیں:
(۱)مسجد
(۲) اللہ تعالیٰ
کا ذکر (۳)قرآن
پاک کی تلاوت۔ (الاستعداد لیوم المعاد)
دعاء
میں نام بدلنا ہوگا
حکمران
کوئی بھی ہو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمے کچھ کام ہیں… ایمان لانے کے بعد
پانچ فرائض ہیں:
۱ نماز ۲ روزہ ۳ حج ۴ زکوٰۃ ۵ جہاد
ان
فرائض کو ماننا ضروری ہے … حکومت بش کی ہو یا کسی شریف آدمی کی… اور جب شرطیں پائی
جائیں تو ان فرائض پر عمل کرنا بھی ضروری ہے… حکومت کی تبدیلی سے ان فرائض کی
فرضیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا… ہاں مسلمان حکمرانوں پر لازم ہے کہ … وہ ان فرائض کو
قائم رکھنے کی ترتیب بنائیں… اور انہیں مضبوطی اور سختی سے نافذ کریں…
کتابوں
میں لکھا ہے کہ… جو مسلمان حکمران ’’فریضۂ جہاد‘‘ کو معطل کردیں… یعنی سال میں
ایک بار بھی جہاد کے لیے لشکر نہ بھیجیں تو ایسے حکمرانوں کو معزول کردینا چاہئے…
ہم پاکستان والے تو پرانے زمانے کے بادشاہوں والی شان رکھتے ہیں… ہمارے لیے ہر چیز
باہر ملکوں سے آتی ہے… گویا ساری دنیا ہماری نوکر بنی ہوئی ہے… ہماری گاڑیاں جاپان
بناتا ہے… ہمارے صابن اور شیمپو برطانیہ والے بنا کر بھیجتے ہیں… ہمارا عام سامان
تیار کرنا چین والوں کی ذمہ داری ہے… اور ہمارے لیے حکمران بھیجنا امریکہ والوں کی
نوکری ہے… پیپلز پارٹی اور امریکہ کے درمیان جو باتیں پچھلے دو سالوں میں ہوئیں ان
کا تمام ریکارڈ اخباروں میں چھپ چکا ہے… بی بی صاحبہ نے بہت محنت کی اور امریکہ کو
راضی کیا… پھر کافی مشقت کی اور پرویز مشرف کو راضی کیا… مگر ’’بی بی‘‘ کی ساری
محنت کا پھل… زرداری صاحب کو مل گیا… اب دیکھیں ’’زرداری صاحب‘‘ کیا کرتے ہیں…
ہمارے کئی مسلمان بھائی تو باقاعدہ پریشان ہوگئے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب
امریکی ایجنڈا پورا کریں گے… اور ماضی میں زرداری صاحب ایسے تھے اور ویسے تھے… مگر
ہم الحمدللہ مطمئن ہیں… کل بھی اللہ تعالیٰ
کے سہارے پر تھے… اور آج بھی اللہ تعالیٰ کے سہارے پر ہیں…
زرداری صاحب ٹھیک چلے تو بہت اچھا… اور اگر انہوں نے گڑبڑ کی تو ہم اپنی ایک دعاء
میں سے پرویز مشرف کا نام کاٹ کر … زرداری صاحب کا نام جوڑ دیں گے… ویسے بھی صبح
شام وہ دعاء بے ساختہ زبان پر آجاتی ہے… تب دل مسکرا کر کہتا ہے ارے بھائی بس کرو…
یہ دعاء تو کئی دن ہوئے قبول ہوچکی ۔
٭٭٭
قرض ادا کرنے کا طریقہ
اللہ تعالیٰ
تمام ’’مقروض مسلمانوں‘‘ کے قرض ادا فرمائے…
اور اللہ تعالیٰ قرضے سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے…
’’قرضہ‘‘ بہت مشکل اُمتحان ہے … حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اسے ’’کفر‘‘ کے ساتھ جوڑ کر بیان فرمایا ہے، حضرت ابوسعید
خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو یہ دعاء فرماتے سنا:
اَعُوْذُ
بِ اللہ مِنَ الْکُفْرِ وَالدَّیْنِ
’’یا اللہ میں
آپ کی پناہ چاہتا ہوں کفر سے ا ور قرض سے‘‘
ایک
شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کفر کو قرض کے برابر قرار دیتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں! (نسائی، حاکم، الترغیب)
اور
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قرض‘‘ کو ذلت کا نشان قرار
دیا ہے۔
اَلدَّیْنُ
رَأیَۃُ اللہ فِیْ الاَْرْضِ فَاِذَا
اَرَادَ اللہ اَنْ یُّذِلَّ عَبْدًا وَّضَعَہٗ فِیْ
عُنُقِہٖ
یعنی
قرض زمین پر اللہ تعالیٰ کا جھنڈا (یعنی ذلت کا نشان)
ہے اللہ تعالیٰ جس کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو یہ
(ذلت کا نشان) اس کے گلے میں ڈال دیتا ہے۔ (رواہ الحاکم وقال: صحیح علی شرط مسلم)
روایات
سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کے شر سے بہت
کثرت سے پناہ مانگتے تھے ان میں سے ایک ’’قرض‘‘ بھی ہے… روایات میں آتا ہے کہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء بہت کثرت سے مانگتے تھے…
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ
وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ
اے
میرے پروردگار میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں فکر اور غم سے، عاجز ہونے اور سستی سے،
بخل اور بزدلی سے اور قرض کے چڑھ جانے اور لوگوں کے غالب آجانے سے۔(بخاری)
بندہ
کو جو خطوط آتے ہیں ان میں بعض خطوط قرض کے بارے میں بھی ہوتے ہیں… کئی پریشان حال
مسلمان لکھتے ہیں کہ ان پر ’’قرض‘‘ چڑھ گیا ہے اس کی ادائیگی کے لیے کوئی وظیفہ
بتایا جائے… بندہ ان کی خدمت میں اکثر جو وظیفہ لکھ کر بھیجتا ہے وہ یہ ہے:
۱ جمعہ
کے دن ستر بار یہ دعاء
اَللّٰہُمَّ
اکْفِنِیْ بِحَلاَ لِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
اوّل
آخر سات بار درود شریف کے ساتھ پڑھیں… دعاء کا ترجمہ ذہن میں رکھ کر توجہ سے
پڑھیں۔
۲ جمعہ
کے دن گیارہ سو بار پڑھیں
یَا
مُغْنِیُ (جلّ شانہ)
اوّل
آخر سات سات بار درود شریف۔
الحمدللہ اس
’’وظیفے‘‘ سے بہت سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا ہے… اگر اخلاص، اہتمام ا ور توجہ سے
یہ عمل کیا جائے تو دوسرے جمعہ سے اس کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے… جبکہ
گیارھویں جمعہ تک روزی کی مستقل ترتیب بن جاتی ہے… بے شک اللہ تعالیٰ
ہر چیز پر قادر ہے… یہ وظیفہ دراصل حدیث پاک سے مأخوذ ہے…
ترمذی
شریف کی روایت ہے کہ ایک غلام نے جس کو اپنی آزادی کے لیے مال (بدل کتابت) کی
ضرورت تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مدد چاہی… آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا… میں تم
کو وہ کلمات نہ بتادوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے سکھائے تھے… اگر تم پر کسی پہاڑ کے برابر بھی قرضہ ہوگا
تو اللہ تعالیٰ وہ ادا فرمادے گا… (یعنی اس کی ادائیگی کی
صورت پیدا فرمادے گا) وہ کلمات یہ ہیں:
اَللّٰہُمَّ
اکْفِنِیْ بِحَلاَلِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
ترجمہ:
اے میرے پروردگار مجھے اتنا حلال دے کہ میرے لیے کافی ہوجائے اور مجھے حرام کی
ضرورت نہ پڑے اور مجھے اپنا فضل وکرم فرما کر اپنے سوا ہر کسی سے بے نیاز فرمادے۔
(ترمذی)
بات
دراصل نیت کی ہے… جو انسان صرف سخت مجبوری کے وقت قرضہ لیتے ہیں… اور قرضہ لیتے
وقت ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ہم اسے ضرور ادا کریں گے… اور پھر ادا کرنے کی کوشش
بھی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی اللہ پاک خاص مدد فرماتا ہے…
اور ایسے لوگوں کی دعائیں اور وظیفے بھی قبول ہوتے ہیں… مگر جو لوگ شوقیہ، یعنی
بلاضرورت قرضے اٹھاتے ہیں وہ خو د کو بہت بڑے نقصان میں ڈالتے ہیں… دنیا کا نقصان
بھی اور آخرت کا نقصان بھی… اور اگر ان کے دل میں قرضہ واپس کرنے کی نیت نہیں ہوتی
تو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’چور‘‘ لکھے جاتے ہیں… استغفر
اللہ استغفر اللہ … ملاحظہ فرمائیے ’’قرضے‘‘ کے
بارے میں چند روایات
قرضہ
’’خوف‘‘ ہے
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خود
کو امن کے بعد خوف میں نہ ڈالو، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا وہ
خوف کیا چیز ہے اے اللہ تعالیٰ کے رسول؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرضہ (احمد، ابویعلی، حاکم، الترغیب)
یعنی
جو شخص قرضے میں مبتلا ہوتا ہے وہ ’’امن‘‘ سے محروم ہوجاتا ہے… اور
’’امن‘‘ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے… اور وہ ’’خوف‘‘ میں
جاگرتا ہے جو ایک مصیبت ہے…
قرضہ
چھوڑ کر مرنا بڑا گناہ
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان
کبیرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے سب
سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اس حال میں مرے کہ اس پر قرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی
کا مال نہ چھوڑ گیا ہو۔(مسند احمد، ابوداؤد)
مقروض
کی روح لٹکی رہتی ہے
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مؤمن
کی روح لٹکی رہتی ہے، جب تک اس کا قرض ادا نہ کردیا جائے… (مسند احمد، ترمذی)
یعنی
اگر کسی مسلمان کا ایمان بھی ٹھیک ہے اور اعمال بھی اچھے ہیں… اور وہ جنت میں جانے
کے قابل ہے مگر وہ مقروض مرا ہے تو جب تک اس کا قرضہ ادا نہیں کیا جائے گا وہ جنت
میں داخل نہیں ہوگا… اس کی روح اٹکی اور لٹکی رہے گی… (العیاذباللہ )
اور
ایک روایت میں آیا ہے کہ اس کی روح کو وہاں تنہائی میں روک لیا جائے گا… چنانچہ
وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا…
سخت
ترین وعیدیں
اس
بارے میں احادیث اور بھی بہت ہیں… مگر سخت ترین وعیدیں دو ہیں:
۱ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مقروض کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا
جو ادائیگی کا مال چھوڑ کر نہیں مرا تھا… تب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
نے اس شخص کا قرضہ ادا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ ادا
فرمائی۔ (بخاری)
۲ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کئی بار شہید ہو… یعنی شہادت کے بعد پھر
زندہ کیا جائے پھر شہید ہو پھر زندہ کیا جائے پھر شہید ہو… ایسا بڑا شہید بھی اگر
مقروض حالت میں مرے گا تو اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوسکے گا جب تک اس کا قرض ادا
نہ ہوجائے۔(مسند احمد)
ان
تمام وعیدوں کو پڑھ کر ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بلاضرورت قرضہ لینے سے بچے… اور
اگر سخت مجبوری میں لینا پڑے تو واپسی ادا کرنے کی نیت کرے… اور اس کے لیے دعاء
اور محنت بھی کرے… اگر اس نے واپسی کی پختہ نیت کی… اور پھر اس کے لیے محنت بھی
کی… مگر پھر بھی ادا نہ کرسکا تو ایسے انسان کے لیے بہت گنجائش موجود ہے…
مال
برباد
جو
لوگ ’’شوقیہ‘‘ قرضے اٹھاتے ہیں… یعنی انہیں کوئی سخت مجبوری نہیں ہوتی… اور پھر
واپسی کی نیت بھی نہیں رکھتے، ایسے لوگوں کے لیے احادیث وروایات میں کئی وعیدیں
آئی ہیں، مثلا:
۱ ان
کے لیے اس مال میں کوئی برکت نہیں ہوتی … بلکہ اللہ تعالیٰ
اسے ضائع فرما دیتا ہے… (بخاری)
یعنی
لوگوں سے قرضے اٹھانے اور انہیں واپس کرنے کا ارادہ نہ رکھنے والا شخص کبھی خوشحال
نہیں ہوتا… اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی… اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں… بلکہ
دوسروں کا مال اپنے مال میں شامل کرنے کی وجہ سے اپنا مال بھی خراب اور بے برکت
ہوجاتاہے…
۲ قیامت
کے دن ان کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کا مال لیا تھا… پھربھی حساب
پورا نہ ہوا تو ان کے گناہ ان کے سر ڈال دیئے جائیں گے۔ (بیہقی)
۳ قیامت
کے دن ایسے لوگوں کو ’’چور‘‘ کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ)
قرض
ادائیگی کی نیت کرنے والے
جو
لوگ قرض لیتے ہیں… اور ان کے دل میں پختہ نیت ہوتی ہے کہ ہم ضرور واپس کریں گے…
اور پھر اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے کئی طرح کی بشارتیں آئی
ہیں مثلا:
۱ رسول اللہ صلی اللہ علہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس
نے لوگوں کا مال لیا اور اس کا ارادہ ادا کرنے کا ہے
تو اللہ تعالیٰ اسے ادا کرا دیتا ہے۔ (بخاری)
۲ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میری
اُمت میں سے کسی شخص نے قرض لیا، پھر ادا کرنے کی پوری محنت کی، پھر ادا کرنے سے
پہلے مرگیا تو میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (احمد، ابویعلی)
ایک
دردمندانہ گذارش
اللہ تعالیٰ
مجھے اور آپ کو ’’قرضے‘‘ سے بچائے… میری آپ سب سے دردمندانہ گذارش ہے کہ قرضہ لینے
سے بچیں… یہ بہت خوف، پریشانی، ذلت اور بے برکتی والا کام ہے… ہاں بہت سخت ضرورت
ہو تو قرضہ اٹھائیں… مگر یاد رکھیں کہ یہ آپ کا نہیں دوسرے مسلمان کا مال ہے جو آپ
کے لیے حلال نہیں ہے… اگر آپ نے واپس نہ کیا تو یہ چوری کی طرح ہوگا… اس لیے پوری
محنت کرکے واپس کریں… لوگوں کو مال کا شوق پڑ گیا ہے کہ مال آنے کے باوجود قرضہ
نہیں اتارتے … حالانکہ پیسہ ہاتھ میں آتے ہی پہلا کام یہی ہو کہ قرضہ اتار اجائے…
اے
میرے مسلمان بھائیو! دیندار طبقے کے لوگوں کو قرضے سے بہت بچنا چاہئے… قرضہ محبت
کی قینچی ہے… اور یہ انسان کی عزت کو مٹی میں ملا دینے والا کام ہے… آج دیندار
طبقے میں ’’قرضہ بازی‘‘ کی وجہ سے دینی کاموں کو بہت نقصان ہو رہا ہے… مالدار لوگ
اکثر بدقسمت ہوتے ہیں… دین سے اور جہاد سے محروم رہتے ہیں… سارا دن پیسے کے لیے بک
بک کرتے ہیں… سارا دن نوٹ گنتے ہیں… اور رات کو مال کا اور گناہوں کا بوجھ لے کر
گھر لوٹتے ہیں… وہ کھانا تو غریب لوگوں سے بھی کم کھا سکتے ہیں مگر بہت سے مال پر
سانپ بن کر دن رات پہرا دیتے ہیں… اللہ پاک ہم سب کی ایسے
دردناک عذاب سے حفاظت فرمائے…
یہ
توتھا اکثر مالداروں کا تذکرہ… مگر کچھ مالدار بہت خوش نصیب بھی ہوتے ہیں… وہ حضرت
عثمان غنیؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی روحانی اولاد ہوتے ہیں… وہ عزت سے مال
کماتے ہیں، اور اس مال سے آخرت اور جنت خریدتے ہیں… وہ جہاد میں بھی مال لگاتے
ہیں… اور لاکھوں مسلمانوں کی مدد بھی کرتے ہیں… ایسے خوش نصیب مالدار جب دین کے
کاموں میں آتے ہیں تو اگر دینی کاموں کے ذمہ دار ان پر قرضوں کے لیے حملہ آور ہو
جائیں تو وہ متنفر ہوکر بھاگ جاتے ہیں… دینی دعوت کا تو پہلا اصول ہی یہ ہے کہ میں
تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا… اب اگر دین کے داعی مال کے لالچی ہوں گے تو ان کی
دعوت میں اثر نہیں رہے گا… وہ لوگوں سے ذاتی فرمائشیں کریں گے… قرضے مانگیں گے تو
مالدار لوگ دین سے دور ہوجائیں گے… اس لیے دردمندانہ گذارش ہے کہ… اپنے دل کو
سنبھالیں، اس میں حرص نہ پیدا ہونے دیں… کسی مالدار کے مال پر نظر نہ
رکھیں… اللہ تعالیٰ کے خزانوں پر نگاہ رکھیں… اور قرضہ لینے
کی عادت سے بچیں…
رمضان
المبارک کا فائدہ
اگر
اب تک ہم سے یہ غلطی ہوتی رہی ہے تو… ابھی الحمدللہ توبہ
اور ازالے کا دروازہ کھلا ہے… رحمت اور بخشش والا رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا
ہے… وضو کریں اور مسجد کے کسی کونے میں جاکر دو رکعت توبہ کی ادا کریں… اور پھر
سجدے میں گر جائیں اور ’’قرض بازی‘‘ اور حرص سے خوب سچی توبہ کریں… اور پختہ نیت
کریں کہ آئندہ بلاضرورت قرضہ نہیں لیں گے… جس جس کا قرضہ ہمارے ذمہ ہے وہ ضرور ادا
کریں گے… یا اللہ اب تک کی غلطیاں معاف فرمادے… اور ہمیں
اپنے غیب کے خزانوں سے روزی عطاء فرمادے … اور ہمیں حرام سے بچا لے اور وسعت والا
حلال رزق عطاء فرمادے… اس کے بعد وہ وظیفہ کریں جو مضمون کے شروع میں عرض کیا گیا
ہے… اور اللہ تعالیٰ پر یقین رکھیں… قرض ادا کرنے کی کوئی
بہترین صورت جلد سامنے آجائے گی… انشاء اللہ تعالیٰ
وصلّ اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
اللہ تعالیٰ کی شان
اللہ تعالیٰ
کی شان دیکھئے کہ امریکی افواج کے سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ ہم افغانستان میں
جنگ نہیں جیت رہے… اللہ اکبر کبیرا… کہاں امریکہ کی فوجی
طاقت اور کہاں کمزور مجاہدین… مگر میرا رب ہر چیز پر قادر ہے… ادھر ’’صدربش‘‘ کی
آٹھ سالہ حکومت کا عبرتناک اور ناکام ’’انجام‘‘ ہونے والاہے… صرف ایک مہینہ اور
گیارہ دن باقی ہیں… بہاولپور کی ’’جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ‘‘ میں پونے چار سو
افراد اعتکاف میں بیٹھ گئے ہیں…و الحمدللہ رب العالمین… رمضان المبارک
کا آخری عشرہ شروع ہے… آج ۲۲رمضان
المبارک کی رات ہے… آخری عشرے میں زیادہ عبادت کرنی چاہئے… مگر نفس وشیطان کی
مشترکہ سازشیں جاری ہیں اور مسلمانوں کا رخ بازاروں کی طرف زیادہ ہونے لگا ہے… انا
للہ وانا الیہ راجعون… عید کی خوشی تو یہ ہے کہ اس دن مسلمانوں
کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا پروانہ مل جائے… مگر ہم
نے کھانے، پینے اور ملنے جلنے کو ہی اصل خوشی سمجھ رکھا ہے… حالانکہ یہ کام تو
پورے سال کے ہر دن اور ہر رات میں ہوسکتے ہیں… یہ ہیں وہ چند باتیں جو آج کی مجلس
میں عرض کرنے کا ارادہ ہے… اللہ پاک توفیق عطاء فرمائے…
شکست
کا اعتراف
سات
سال پہلے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ظاہر پرست لوگ کہتے تھے… یہ تو بس
چند دن کا کام ہے… جبکہ محتاط تجزیہ نگار کہتے تھے کہ ایک آدھ سال میں امریکہ
افغانستان کو فتح کرلے گا… ان دنوں لاہور جانا ہوا تو ’’غامدی‘‘ کے ایک شاگرد کا
کالم پڑھا… وہ افغانستان پر امریکہ کے حملے سے ایسے خوش تھا جس طرح بلی اپنی خالہ
کی شادی پر خوش ہوتی ہے… اس نے بہت زور دے کر لکھا کہ دیکھ
لینا اللہ تعالیٰ کی نصرت کی باتیں کرنے والے بیوقوفوں کو
چند دن میں پتہ چل جائے گا کہ… امریکہ سے لڑنا ناممکن ہے… اور میں پیشین گوئی کرتا
ہوں کہ ملا عمر اور دوسرے مجاہدین رہنما اب بہت پیچھے جاگریں گے اور مٹ جائیں گے…
مگر یہ کیا ہوا؟… سات سال کی جان توڑ کوشش کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی ابھی
تک مار ہی کھا رہے ہیں… اور اب تو امریکی افواج کے سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ ہم
یہ جنگ نہیں جیت رہے… اللہ اکبر کبیرا… یہ اس صدی کا ایسا واقعہ ہے کہ
جس نے مسلمانوں کے حسین ماضیکی یاد تازہ کردی ہے… اور
انشاء اللہ اس واقعہ سے
لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت، اسلام کی حقانیت اور جہاد کی
کراُمت کو سمجھیں گے… اور انشاء اللہ فوج در فوج مسلمان ہوں
گے… خوفناک فضائی طاقت اور دہشت ناک زمینی قوت کے باوجود … شکست کا اعتراف … کیا
اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اصل طاقت اللہ تعالیٰ کی
ہے… اور اللہ تعالیٰ جہاد میں ایمان والوں کی نصرت فرماتا ہے…
سلام
ہو ان شہداء کو… جنہوں نے خون دے کر توحید کا مسئلہ سمجھایا… اور سلام ہو ان
مجاہدین کو جنہوں نے اسلام کی عظمت کا ڈنکا بجایا…
اللہم
احشرنا فی زمرتہم… یا اللہ ہمارا حشر اپنے مقبول بندوں کے
ساتھ فرما…
چار
نومبر، پکوڑے شاہ
چار
نومبر کی تاریخ… ایک تیز دھار چھری کی طرح ’’بش‘‘ کی گردن کی طرف بڑھ رہی ہے… چار
نومبر۲۰۰۸ء
امریکہ میں نئے انتخابات ہوں گے اور بش کو اپنا بوریہ بستر چند ہی دن میں وہائٹ
ہاؤس سے اٹھانا ہوگا… ایک ظالم کا عبرتناک اختتام … جی ہاں چار نومبر کے بعد
امریکہ کے طاقتور صدر بش کی حیثیت ’’پکوڑے شاہ‘‘ سے بھی کمزور ہوجائے
گی… اللہ پاک جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے… اور جس سے چاہتا
ہے چھین لیتا ہے… صدر بش کے پاس کتنی طاقت تھی؟… دنیا کو تباہ کرنے والے ایٹمی
اسلحے کا بریف کیس اس کے ہاتھوں میں تھا… امریکہ کے بحری بیڑے اس کی انگلی کے
اشارے پر تھے… امریکہ کے ہزاروں جنگی جہاز اور لاکھوں فوجی اس کے ماتحت تھے… مگر
وہ ایک فقیر مسلمان کو شکست نہ دے سکا… چار نومبر کے بعد دنیا میں بش کو کوئی بھی
اپنا سربراہ نہیں مانے گا… جبکہ ملا محمد عمر کو لاکھوں مسلمان اپنا امیر تسلیم
کرتے رہیں گے… اللہ اکبرکبیرا… بش کے پاس سب کچھ تھا مگر اس کے
ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد نہیں تھی تو وہ شکست کے ہزاروں داغ اپنے چہرے
پر سجا کر جارہا ہے… اور جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے
وہ زندہ رہیں یا مرجائیں ہر حال میں کامیاب اور سرفراز ہیں…بش نے چند مسلمانوں کو
اپنا ’’ہدف‘‘ قرار دیا… اور پھر ان کو مارنے اور پکڑنے کے لیے بستیوں کی بستیاں
اجاڑ دیں… ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا… اور ظلم کی آگ پوری دنیا میں بھڑکا دی…
مگر اس کی اس ’’نمرودی آگ‘‘ میں بھی خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے فرزند مسکراتے رہے اور ’’ اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کرتے رہے… بالآخر
’’بش‘‘ ہار گیا اور اب وہ جارہا ہے… ابھی چار نومبر میں کچھ دن باقی ہیں… بش اپنے
چہرے سے کچھ داغ کم کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے… ہر طرف بمباری ہی بمباری ہے…
گھروں اور مدرسوں پر میزائل برس رہے ہیں… بش زخمی سانپ کی طرح مرنے سے پہلے اس
اُمت مسلمہ کو ڈسنا چاہتا ہے… اے مسلمانو! یہ وقت بہت نازک ہے… بش کو اپنی باقی
زندگی عزت سے گزارنے کے لیے کچھ مسلمانوں کے سروں کی ضرورت ہے… اس لیے تمام مسلمان
عموماً اور مجاہدین خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں…
جہادی قیادت کے لیے خاص دعاؤں کا اہتمام کریں… اور سوچ سمجھ کر جہاد کریں… ڈرنے کی
تو گنجائش نہیں ہے… کیونکہ ڈرے وہ جس نے مرنا نہ ہو… جبکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے
اور اس کا وقت مقرر ہے… اور مسلمان کے لیے موت خوشیوں کا دروازہ ہے… اس لیے ڈرنے
کی ضرورت نہیں… اور نہ ہی کوئی مجاہدین کو ڈرائے… البتہ ایک اور فرعون ذلت کے
سمندر میں غرق ہونے والا ہے… دعاء کریں کہ اس کوکوئی بڑی کامیابی نہ ملے… اور اس
کی حسرتوں میں کوئی کمی نہ آئے… بش سوچتا ہے کہ ابھی تو میں چھوٹی عمر کا ہوں… اور
میرا باپ ابھی تک زندہ ہے… تو میں اتنی لمبی عمر شکست کے داغوں کے ساتھ کس طرح
گزاروں گا… زندگی موت کا پتہ تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے… مگر
بش اپنے سر اتنا سارا خون لیکر کس طرح سے زیادہ عرصہ زندہ رہے گا… کیامظلوموں کی
چیخیں اور آہیں اس کو آرام کرنے دیں گی؟… اور تو اور خود ان امریکیوں کی بدروحیں
بھی اس کو ستائیں گی جو اس کے جنگی جنون کا شکار ہوگئے… مظلوموں کا خون ظالم کے
جسم میں کینسر بن جاتا ہے … اور معصوم بچوں کے ٹکڑے کبھی دنیا میں ہی اپنا حساب
مانگنے لگتے ہیں…
یا اللہ آپ
کے عذاب اور برے انجام سے ہم آپ ہی کی پناہ مانگتے ہیں…
ذکر
اور اعتکاف کی بہاریں
جنوبی
پنجاب میں ایک شہر ہے… اس کا نام ’’بہاولپور‘‘ ہے… بہاولپور کے ریلوے اسٹیشن سے
کچھ فاصلے پر آج سے چند سال پہلے ایک ’’کچی مسجد‘‘ تعمیر کی گئی… نہ کوئی چندہ ہوا
اور نہ تقریب… چند افراد جمع ہوئے، انہوں نے دعاء کے لیے ہاتھ پھیلائے اور پھر خود
ہی مسجد کی تعمیر میں لگ گئے… تعمیر کرنے والوں کی کوشش تھی کہ باوضو حالت میں ذکر
کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر کریں… الحمدللہ چند دن میں مسجد
تیار ہوگئی… ایک اللہ والے نے اس کا نام ’’جامع مسجد عثمانؓ
وعلیؓ ‘‘ تجویز فرمایا… اور بشارت دی کہ ایک سال میں اس مسجد سے خوشبو پھیل جائے
گی… پھر ایسا ہی ہوا لوگ دور دور سے اس مسجد میں آتے تھے… اور مکمل دین اسلام کو
سمجھنے کی کوشش کرتے تھے… پھر اس مسجد میں ذکر اور تلاوت کی آوازیں گونجنے لگیں
اور ہر مہینے میں سات دن کا دورہ تربیہ… مسلمانوں کے لیے سکون اور قرار کا نسخہ بن
گیا… پانچ سال پہلے ایک فقیر نے اس مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کیا… دس ساتھی
منتخب ہوئے جنہوں نے اعتکاف کی سنت ادا کرنی تھی… ابھی وہ مسجد میں بیٹھے ہی تھے
کہ اس مسجد کو گھیر لیا گیا… ہر طرف وردی والے اور بغیر وردی والے اس گلشن کو
اجاڑنے آپہنچے… اس غریب سے فقیر نے مسجد کی طرف الوداعی نگاہ ڈالی، چند آنسو بہائے
اور اپنا رومال کندھے پر ڈال کر کہیں گم ہوگیا… مسجد اس کی تو نہیں تھی کہ اجڑ
جاتی… جس کی تھی اس نے سنبھالے رکھی… جی ہاں
مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر اور کعبہ کی بیٹی ہوتی ہے… کل پتہ
چلا کہ ماشاء اللہ اس سال اس مسجد میں پونے چار سو افراد
اعتکاف کے لیے تشریف لائے ہیں… ان سب کے لیے دل کی گہرائی سے دعاء ہے
کہ… اللہ تعالیٰ ان پر خاص رحمت نازل فرمائے، ان سب کی بخشش
فرمائے… اور ان کے قلوب کو نور اور سکون سے بھر دے… واہ میرے مالک واہ… آپ کی شان
کس قدر بلند ہے… اور دین کے کاموں کے ساتھ آپ کی نصرت کس قدر وسیع ہے…
سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم… ماشاء اللہ لا
قوۃ الا ب اللہ ، بارک اللہ …
آخری
عشرے کے تقاضے
بعض
روایات میں آیا ہے کہ رمضان المبارک کی آخری
رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا خاص اعلان ہوتا ہے… اسی
طرح بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں… رمضان المبارک کے آخری عشرے میں
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لنگی کو مضبوط باندھ لیتے تھے، اور
راتوں کو جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے… معلوم ہوا کہ رمضان
المبارک کے آخری عشرے میں مسلمانوں کو زیادہ محنت اور عبادت کرنی چاہئے… مگر آجکل
ہم لوگ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں:
۱ کچھ
لوگ عید کمانے کے لیے بازاروں میں مستقل جا بیٹھتے ہیں
۲ کچھ
لوگ عید کی خریداری کے دھوکے میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں
۳ کچھ
لوگ اپنے گاؤں اور شہروں کی طرف لمبے لمبے سفر شروع کردیتے ہیں ۔ سفر کی وجہ سے
عبادت بھی چھوٹ جاتی ہے… اور بسوں والے دل کو کالا کرنے کے لیے گانے بھی خوب سناتے
ہیں۔
۴ کئی
لوگ تراویح میں قرآن پاک ختم کرکے … آخری راتیں تراویح بھی ادا نہیں کرتے اور
تھکاوٹ اتارنے میں لگ جاتے ہیں…
اے
مسلمان بھائیو! اور بہنو… کیا یہ سب کچھ نفس اور شیطان کا دھوکا نہیں ہے؟… محنت
اور مزدوری کا اصل معاوضہ تو رمضان المبارک کے آخر میں اور عید کے دن ملتا ہے… اور
ہم جوتوں، کپڑوں اور ملاقاتوں کے شوق میں اس سے محروم رہ جاتے ہیں… اور حد تو یہ
ہے کہ عید کے دن کئی لوگ تلاوت کا ناغہ کرتے ہیں… نماز باجماعت ادا نہیں کرتے… اور
دل بھر کر گناہ کرتے ہیں… ملاحظہ فرمائیے یہ روایت:
پھر
جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس رات کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی
رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ فرشتوں کو تمام
شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے
ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے
ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اس کریم رب کی (درگاہ) کی
طرف چلو جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے
والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہٗ فرشتوں سے دریافت
فرماتے ہیں: کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں
کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی
جائے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں
تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی
رضا اور مغفرت عطاء کردی ہے اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے
بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم آج کے دن اپنے اس اجتماع
میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطاء کروں گا اور دنیا کے بارے
میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، میری عزت کی قسم کہ جب تک
تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستّاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا
رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے
سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے
مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ (فضائل رمضان ص۶۴)
آپ
میرے لیے دعاء کریں… اور میں آپ کے لیے دعاء کرتا ہوں
کہ اللہ کرے ہمارا آخری عشرہ خوب گزرے … ہم دین کے کاموں
اور مقبول عبادت میں لگے رہیں… اور عید کا دن
بھی اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مطابق گزاریں… اور اللہ تعالیٰ
ہم سب کی مغفرت اور بخشش فرمادے… آمین یا ارحم الراحمین…
وصلّ اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ واصحابہٖ وبارک وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
ایک اللہ والے کی وصیت
اللہ تعالیٰ
حضرت ابو الفضل محمد بن حسن الختلی رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے… آپ علم
تفسیر اور حدیث کے بڑے عالم اور بہت اللہ والے بزرگ تھے… آپ
فرمایا کرتے تھے:
الدنیا
یوم ولنا فیہا صوم
ترجمہ:
یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم اس دن میں روزہ دار ہیں۔
یعنی
دنیا کی زندگی مختصر ہے اور ہم اس میں ایک روزہ دار کی طرح ہیں کہکھل نہیں رہتے …
بلکہ پابند رہتے ہیں… اور آپ فرمایا کرتے تھے:
’’جب اللہ تعالیٰ
کسی کو ولایت کا تاج اور حکومت دینے کا ارادہ فرماتے ہیں تو پہلے اس کو توبہ کی
توفیق نصیب فرماتے ہیں اور پھر اس کو اپنے کسی ’’دوست‘‘ کی خدمت میں بھیج دیتے ہیں
تاکہ اس کی یہ خدمت اس کے لیے کراُمت کا سبب بن جائے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ
کے ولی بننے کے دو دروازے ہیں … پہلا دروازہ توبہ اور دوسرا
دروازہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کی صحبت اور خدمت…
اس
مبارک تذکرے کو یہاں تھوڑا سا روکتے ہیں… آج رات مجھے حضرت ابوالفضل محمد بن حسن
رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بات نے بہت فائدہ دیا ہے… ہوا یہ کہ ہمارے ملک کے نئے صدر
صاحب نے ابھی حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے… اور اس دورے کے دوران انہوں نے جو
بیانات داغے ہیں ان سے دل میں کچھ رنج اور پریشانی تھی… آصف زرداری صاحب بہت شریف
آدمی ہیں اس بات کو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے… انہوں نے امریکہ میں امریکیوں کو
خوش کرنے کے لیے کھلی کھلی باتیں کہیں… کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا… ملک
سے جہاد کلچر کو بالکل مٹانے کا عزم ظاہر کیا… اور معلوم نہیں کیا کیا ارشاد
فرمایا… کسی عباسی خلیفہ کا واقعہ پڑھا تھا کہ ایک مرتبہ اس کی ایک باندی برتن
دھونے بیٹھی تو اچانک اونچی اونچی باتیں کرنے لگی… وہ برتن بھی مانجھ رہی تھی اور
جہاز بھی اڑا رہی تھی کہ میں یہ کردوں گی اور میں وہ کردوں گی… خلیفہ کو کسی نے
جاکر بتایا کہ آج یہ عجیب صورتحال پیش آئی ہے… خلیفہ عقلمند تھا اس نے کہا جس جگہ
یہ باندی بیٹھ کر برتن دھو رہی ہے، وہاں سے اسے اٹھا کر زمین کو کھودا جائے… شاہی
ملازمین نے ایسا ہی کیا… جب اس جگہ کو کھودا گیا تو وہاں سے بہت بڑا خزانہ نکلا… خلیفہ
نے کہا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ باندی کسی خزانے پر بیٹھی ہے اور اسی کا نشہ اس
کے دماغ تک پہنچ رہا ہے… آصف زرداری صاحب کے بیانات پڑھ کر یہ خیال آرہا ہے کہ
ہمارے ملک کے صدارتی محل کے نیچے کوئی خزانہ دفن ہے کہ جو بھی یہاں آکر بیٹھتا ہے
… فوراً اونچی اونچی باتیں شروع کردیتا ہے… ابھی آٹھ، نو سال صدر پرویز نے
’’میںمیں‘‘ کرکے قوم کے کان کھائے اور بالآخر ذلتوں اور ناکامیوں کا ٹوکرا سر پر
اٹھا کر چلے گئے… اور اب زرداری صاحب نے آتے ہی اپنے ملک کی آبادی کو ختم کرنے کے
اعلانات شروع کردیئے ہیں… معلوم نہیں انہوں نے کتنے روپے میں یہ ملک خرید لیا ہے…
خیر ان کے بیانات سے دل میں کچھ رنج اور پریشانی تھی کہ اچانک حضرت شیخ ابوالفضل
رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوگئی… اور انہوں نے ایک بات سمجھا کر دل کو مطمئن
کردیا… سبحان اللہ … یہ اللہ والوں کی عجیب
کراُمت ہے کہ اپنی زندگی میں بھی مخلوق کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور دنیا سے رخصت
ہونے کے بعد بھی ان کا فیض جاری رہتا ہے… اور لوگوں کو ان سے نفع پہنچتا رہتا ہے…
یہ حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ اس زمانے کے بزرگ
نہیں ہیں … بلکہ یہ تو حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مرشد
ہیں… جی ہاں حضرت شیخ ہجویری جن کو لاہور والے ’’داتا گنج بخش‘‘ کہتے ہیں… یعنی ان
بزرگوں کو دنیا سے رخصت ہوئے کم و بیش ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے… میں یہ
سوچ رہا تھا کہ… کتنی دعاؤں سے اور کتنی مشکل سے پرویز مشرف سے جان چھوٹی …
مسلمانوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی… کئی لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں… شکرانے
کے نوافل ادا کیے… مگر ہوا کیا کہ ان کی جگہ زرداری صاحب آگئے… پرویز مشرف جرنیلوں
کی طرح دھمکیاں دیتے تھے جبکہ زرداری صاحب کا لہجہ وڈیروں والا ہے… پھر آخر
پاکستان کے دیندار مسلمان کہاں جائیں؟… یہی بات سوچ کر دل میں گھٹن کا احساس ہوا
تو اپنے شیخ حضرت مفتی ولی حسن صاحبپ کی کتاب ’’تذکرہ اولیاء پاک و ہند‘‘ میں ایک
واقعہ مل گیا… حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہٗ کی
یہ ایمان افروز کتاب ’’ادارہ اسلامیات لاہور‘‘ نے شائع کی ہے…
اور الحمدللہ آسانی سے مل جاتی ہے… یہ دلوں کو ایمانی تازگی
بخشنے والی کتاب ہے… قارئین القلم سے گذارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ فرمالیں…
انشاء اللہ بہت فائدہ ملے گا… حضرت نے یہ واقعہ ’’کشف
المحجوب‘‘ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے… بندہ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں اس واقعہ کو
ڈھونڈا تو الحمدللہ زیادہ تفصیل کے ساتھ مل گیا…
حضرت
ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن رحمۃ اللہ
علیہ کی وفات کا وقت آیا تو آپ کا سر میری گود میں تھا… اور میرے دل میں ان کی
جدائی کے خیال سے شدید اثر اور رنج تھا… آپ نے مجھ سے فرمایا:
’’بیٹا
میں تجھے اعتقاد کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تو نے اپنے آپ کو اس کے مطابق درست
کرلیا تو ہر قسم کے رنج وغم سے آزاد ہوجائے گا۔ جان لے! کہ اچھے برے ہر طرح کے
حالات اور مقامات اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرماتے ہیں اس لیے
تمہیں اس کے کسی فعل پر نہ تو جھگڑا کرنا چاہئے اور نہ ہی دل میں رنج کرنا
چاہئے۔‘‘
اس
کے علاوہ آپ نے کوئی لمبی وصیت نہ فرمائی اور جان دے دی۔
اللہ اکبرکبیرا…
سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، ہم کون ہوتے ہیں کہ
اس کے کسی فعل پر اعتراض کریں کہ… ایسا کیوں ہوا؟… اور ایسا کیوں نہ ہوا؟
… اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کے ہر حکم میں کوئی حکمت ہوتی
ہے… حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی اس وصیت کو پڑھتے ہی مجھے کئی باتیں یاد آنے لگیں…
سب سے پہلے تو قرآن پاک کی یہ آیات ذہن میں آئیں:
وَاصْبِرْ
وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِ اللہ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلاَ تَکُ
فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَO اِنَّ اللہ مَعَ
الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُحْسِنُوْنَO(النحل ۱۲۷،۱۲۸)
ترجمہ: ’’اور
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) صبر کیجئے اور آپ کا صبر
کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ہے اور ان پر غم نہ کھائیے
اور ان کی سازشوں سے تنگ دل نہ ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان
کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں۔‘‘
حضرت
لاہوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
آپ
ان کی ایذاء دہی پر صبر کریں، آپ کا صبر اللہ تعالیٰ کے لیے
ہوگا اور ان کے حیلوں، بہانوں سے کبیدہ خاطر نہ
ہوں، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے پرہیزگار اور نیکوکار بندوں کا
ساتھ دیا کرتا ہے۔ (حاشیہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ)
مستدرک
حاکم کی ایک روایت کے مطابق یہ آیات غزوہ احد کے موقع پر نازل
ہوئیں… اللہ اکبر کبیرا… غزوہ احد جس دن پورا اسلامی منظر
نامہ خاک وخون میں تڑپ رہا تھا… آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم زخمی تھے،
خون مسلسل بہہ رہا تھا… صلی اللہ علیہ وسلم، صلی
اللہ علیہ وسلم … ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لاشے اس طرح پڑے تھے
کہ مشرکوں نے جسم کے اعضاء تک کاٹ ڈالے تھے… سینکڑوں مسلمان زخموں سے کراہ رہے
تھے… دار الاسلام مدینہ منورہ سخت خطرے میں تھا… مشرکین کا لشکر فتح کے نعرے بلند
کر رہا تھا… اور آسمان سے حکم آرہا تھا کہ اے نبی آپ اپنے دل میں رنج وغم نہ
لائیں… اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے… کوئی بدعقیدہ انسان وہاں
ہوتا تو یہی کہتا کہ… اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اس لیے ہم
زخموں اور خوف سے کراہ رہے ہیں؟ … نعوذ ب اللہ … مگر آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دل مضبوط رکھا… آپ کے
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی حالات کے غبار کو اپنے دل پر نہ آنے
دیا… اور تھوڑی دیر بعد ان زخمی مجاہدین کا لشکر ’’حمراء الاسد‘‘ کی طرف تکبیر کے
نعرے بلند کرتا ہوا روانہ ہوا تو آسمان بھی جھوم اٹھا… اور عرش کے اوپر سے محبت
بھری آیات نازل ہونے لگ گئیں… اور مشرکین کا لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کیے بغیر
واپس لوٹ گیا…
کیا
آج ہمارے حالات اس دن سے زیادہ سخت ہیں کہ ہم مایوس ہونے لگتے ہیں؟… حضرت شیخ رحمۃ
اللہ علیہ کی وصیت پڑھ کر ایک تو یہ آیات مبارکہ ذہن میں آئیں… اور دوسرا یہ ذہن
میں آیا ہے کہ الحمدللہ ماضی میں ہر وہ چیز جو ’’شر‘‘ نظر
آرہی تھی اللہ پاک نے اس میں خیر کے سامان پیدا فرمادیئے …
پرویز مشرف کا دور کتنا بڑا شر تھا… مگر اس دجالی زمانے میں جہاد خوب پھلا پھولا…
اور دنیا کے کئی حصوں میں پھیل گیا… امریکہ کا افغانستان پر حملہ کرنا کتنا تکلیف
دہ تھا… مگر اس غم کی کوکھ سے کئی فتوحات برآمد ہوئیں… اور امریکہ عراق میں جا
پھنسا … اور آج امریکہ کی سودی معیشت اپنی چھتوں اور دیواروں کے ساتھ زمین پر گرنے
جارہی ہے… ایمان، تقویٰ اور جہاد میں اللہ پاک نے بہت قوت
رکھی ہے… جن ایمان والوں نے پرویز مشرف کے دور میں ہار نہیں مانی وہ زرداری کو بھی
انشاء اللہ سہہ جائیں گے… جہاد کا تیر اب اپنی کمان سے نکل
چکا ہے اور وہ شخصیات کا محتاج نہیں رہا… اگر ایک ہی دن میں مجاہدین کے تمام
کمانڈروں کو قتل کردیا جائے تب بھی دوسرے دن جہاد پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر
سامنے آئے گا… ہاں شرط یہ ہے کہ مجاہدین اپنے جہاد کو شریعت کا تابع رکھیں… اور
جہاد کو فساد نہ بننے دیں… اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنا… اور شریعت کے
طریقے سے ہٹ کر لڑنا جہاد نہیں ہے… الحمدللہ جہاد کا نیا
دور شروع ہوئے تیس سال ہونے کو ہیں… سوویت یونین نے جہاد کو مٹانے کے لیے پورا زور
لگایا مگر وہ خود دنیا کے نقشے سے مٹ گیا… روس نے جہاد کو مٹانے کی بہت کوشش کی
مگر اب وہ مجاہدین سے اتحاد کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے… امریکہ نے
خوب زور لگالیا مگر جہاد پھیلتا اور امریکہ گرتا جارہا ہے… اسرائیل تو بنا ہی جہاد
اور مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ہے مگر وہ مجاہدین سے اپنا ایک قیدی تک رہا نہیں
کروا سکا۔ انڈیا نے سر توڑ کر کوشش کرلی مگر اب تو سری نگر کی طرح دہلی اور جے پور
میں بھی دھماکوں کی گونج ہے… اور انڈیا کو کابل میں بھی امن نصیب نہ ہوسکا… نیٹو
اتحاد نے پورا زور لگالیا مگر افغانستان کے پہاڑ ہر دن نئے طالبان کو اس کے سامنے
کھڑا کردیتے ہیں… آج ہی بی بی سی کی خبروں میں برطانوی جنرل کا بیان تھا کہ ہمیں
افغانستان میں کبھی بھی فیصلہ کن فتح حاصل نہیں ہوسکتی…
اللہ اکبر
کبیرا… بے شک ظاہری طور پر حالات خراب ہیں مگر ہمارے
لیے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے… وہ
حالات کو ایک خاص تدبیر سے اچھائی کی طرف لے جارہا ہے… خوش نصیب مسلمانوں کو شہادت
نصیب ہو رہی ہے… جہاد کی برکت سے گناہگاروں کی بخشش ہو رہی ہے… مسلمانوں میں
چھانٹی ہو رہی ہے… غفلت زدہ طبقے میں بیداری آرہی ہے… اور کفر کا کھوکھلا پن دنیا
پر آشکارہ ہو رہا ہے…
یا اللہ ہم
آپ کی تقدیر پر راضی ہیں… خوش ہیں … اور ایمان رکھتے ہیں… آپ ہمیں اپنی رضاء نصیب
فرمادیجئے … اور ہمارا خاتمہ ایمان اور شہادت مقبولہ پر فرما دیجئے… آمین یا ارحم
الراحمین…
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
موبائل سانپ
اللہ تعالیٰ
کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم… اپنے صحابہ
کراؓم کو اکثر ’’آخرت‘‘ کی یاد دلاتے رہتے تھے… جی ہاں ایک انسان کی کامیابی کے
لیے لازم ہے کہ اسے آخرت، قبر، جنت، جہنم اور حساب یہ ساری منزلیں یاد رہیں… ورنہ
تو دیندار لوگ بھی غافل ہوجاتے ہیں…
حضرت
ابوہریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ کسی چیز
کے گرنے کی آواز سنائی دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جانتے ہو یہ آواز کیسی تھی؟ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور
اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد
فرمایا: یہ وہ پتھر ہے جو ستر سال پہلے جہنم میں لڑھکایا گیا تھا وہ آج جہنم کی
تہہ تک پہنچا ہے یہ اس کی آواز تھی۔ (صحیح مسلم)۔
اللہ
، اللہ ! بس کچھ عرصہ بعد قیامت قائم ہوگی اور بدنصیب انسانوں کو اسی
طرح جہنم میں پھینکا جائے گا… معلوم نہیں اس دن ہمارا کیا بنے گا… ہمارے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے لیے تاکید فرما گئے کہ ’’
جہنم
سے بچنے کا سامان کرلو چاہے وہ ایک کھجور کے ٹکڑے سے ہی ہو۔ (صحیح بخاری)
مگر
سامان تو وہ کرے جس کو جہنم کی فکر ہو… مرنے کا یقین ہو… ابھی چند دن بعد ہم
مرجائیں گے تب ہم اپنے ساتھ کیا لے جائیں گے… اپنا موبائل فون؟… موبائل فون نے تو
ایسی خرابی مچائی ہے کہ صرف یہی ایک ’’فون‘‘ کسی انسان کے لیے خوفناک عذاب کا باعث
بن سکتا ہے… تصویریں، موسیقی، گیمز، ناپاک دوستیاں، فضول کالیں اور قیامت کے دن
وبال بننے والی گفتگو… مسلمانوں کو پہلے ہی ’’زیادہ بولنے‘‘ نے برباد کر رکھا تھا
اور اب تو موبائل فون پر باتیں ہی باتیں ہیں… کسی کو یاد نہیں رہتا کہ ان باتوں کو
لکھا جارہا ہے… ان باتوں کو اللہ تعالیٰ سن رہا ہے… ان
کالوں پر خرچ ہونے والے مال کا بھی حساب دینا ہوگا… ہر شخص کے کئی کئی نمبر ہیں
اور ہر نمبر کے ساتھ کئی کئی شرارتیں… انڈین آرمی کے عقوبت خانے میں ہمارے ساتھ
ایک صاحب تھے ان کو زیادہ بولنے کی بیماری تھی… کئی بار سمجھایا مگر وہ مجبور تھے…
ساتھیوں کی تلاوت اور ذکر اذکار میں حرج ہو رہا تھا… بالآخر قانون بنا کہ ان کے
ساتھ کوئی گپ شپ نہ کرے… وہ بیچارے سخت پریشان ہوئے… وہاں کھانا کم ملتا تھا تو وہ
اپنا کھانا بچا کر کسی ساتھی کے پاس لے جاتے کہ یار یہ لے لو اور میرے ساتھ گپ شپ
لگاؤ… ساتھی مذاق میں کہتے کہ ہم سو روپے لیں گے تب آپ کی بات سنیں گے تو وہ اس پر
بھی راضی ہوجاتے… حالانکہ وہاں پیسوں کی بہت تنگی تھی… موبائل فون نے تو ایسے
لوگوں کی موجیں کرادی ہیں … اب وہ بہت آسانی سے اپنا وقت بھی ذبح کرتے ہیں اور
دوسروں کا بھی… حالانکہ فضول باتوں سے بچنا ایمان کی علاُمت ہے… اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس
چیز کے متعلق میں اپنی اُمت پر سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ زبان ہے۔ (کشف المحجوب)
اور
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو
شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر
کی بات کہے یا خاموش رہے۔ (بخاری، مسلم)
احادیث
مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’زبان‘‘ کی حفاظت اسی طرح ضروری ہے جس طرح شرمگاہ کی
حفاظت… اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ
کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ
کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں دل کو سخت کردیتی ہیں اور لوگوں
میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت
ہو۔ (ترمذی)
ابھی
ہم نے جہنم میں پتھر گرنے والی روایت پڑھی… اب یہ روایت بھی پڑھیں جو ہمارے بڑے
خیر خواہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے فائدے کے لیے ارشاد
فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایک
شخص اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے جس میں وہ غور نہیں کرتا (مگر) وہ اس بات کی
وجہ سے جہنم میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنی دوری مشرق ومغرب کے درمیان ہے۔ (بخاری،
مسلم)
یہاں
ایک چھوٹی سی مگر ضروری بات یاد آگئی… ہم لوگ اپنی ہر بیماری کی فکر کرتے ہیں مگر
زبان کی بیماری کی اکثر ہمیں فکر نہیں رہتی… ہر آدمی بس بول رہا ہے اور خوب بول
رہا ہے… اور جس کو کم بولنے کا کہا جائے وہ ناراض ہوتا ہے… پہلے یہ غنیمت تھی کہ
موبائل فون موجود نہیں تھا تو گپ شپ کے مریضوں کو کچھ وقت خاموش رہنے کا موقع مل
جاتا تھا… مگر اب موبائل فون کی وجہ سے ان کو اتنی سہولت ہوگئی ہے کہ شاید مرنے سے
پہلے بھی آخری گپ شپ ان سے قضاء نہیں ہوگی… ہم نے کبھی سوچا کہ ہم کیا کچھ بولتے
ہیں؟
۱۔
کفر کی باتیں… ۲۔شہوت
کی باتیں… ۳۔غیبت
کی باتیں … ۴۔مسلمانوں
میں تفریق کی باتیں … ۵۔گناہ
کی باتیں… کیا ہم ان تمام باتوں کا حساب قبر اور آخرت میں دے سکیں گے؟…
حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک
صاحب وفات پاگئے تو ایک دوسرے صاحب نے فرمایا (ان کے لیے) جنت کی بشارت ہو، اس پر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں
کیا معلوم کہ شاید اس نے کوئی فضول بات کی ہو یا ایسی چیز میں بخل کیا ہو جو اس کے
پاس کم نہیں ہوتی تھی۔ (ترمذی)
ایسی
روایات کو پڑھ کر ہر شخص کہتا ہے کہ پھر تو زندگی بہت مشکل ہوجائے گی… اس بات کے
تین جوابات ہیں:
۱۔ایسی
روایات کا مقصد دل میں یہ فکر پیدا کرنا ہوتا ہے کہ زبان کی حفاظت کی جائے، جن
لوگوں کو اللہ پاک نے یہ فکر عطاء فرمادی… ان کے ایمان اور
اعمال میں ایسی برکت پیدا ہوگئی کہ سینکڑوں سال گزر چکے لوگ ان کے اعمال سے اب بھی
نفع حاصل کر رہے ہیں…
۲۔نیکی
کی باتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر انسان ان میں لگا رہے تو اسے کسی کمی یا خشکی کا
احساس ہی نہ ہو… ماضی کے جو لوگ جہاد بھی کرتے تھے، حکومتیں بھی چلاتے تھے اور
روزانہ قرآن پاک کا مکمل ختم اور ہزاروں بار درود شریف بھی پڑھتے تھے… اس میں بڑا
دخل زبان کی حفاظت کا تھا…
۳۔فضول
باتیں بعض اوقات کسی فتنے کا ذریعہ بنتی ہیں … ریاکاری کا ذریعہ بنتی ہیں… کسی
ناجائز دوستی کا ذریعہ بنتی ہیں… اور پھر یہ فتنہ، ریاکاری اور ناجائز دوستی
ہزاروں گناہوں کا ذریعہ بن جاتی ہے…
قید
کے زمانے میں ہم چند ساتھیوں نے زبان کی حفاظت کے اسلامی احکامات اور احادیث پڑھیں
تو دل میں بہت فکر پیدا ہوئی… اور کئی ساتھیوں
کو الحمدللہ فضول گپ شپ سے نفرت ہوگئی… آپ بھی یہ احادیث
مبارکہ پڑھنا چاہیں تو مکتبہ عرفان لاہور نے ایک کتاب چھاپی ہے… اس کا نام ہے
’’یہود کی چالیس بیماریاں‘‘… اس کتاب کے صفحہ ۳۰۷ پر یہ
عنوان ہے… ’’یہودیوں کی نویں بیماری، جھوٹ اور گناہ کی عادی زبانیں‘‘… آپ یہ پورا
باب پڑھ لیں … صرف اور صرف اپنی آخرت کے لیے… کیونکہ اپنی زبان کا سب سے زیادہ
نقصان خود زبان والے کو پہنچتا ہے… اور وہ ذلیل، خوار اور ناکام ہو جاتا ہے… اس
باب کے صفحہ ۳۴۴ سے
لے کر ۳۶۵ پر
زبان کی حفاظت کے بارے میں چالیس احادیث موجود ہیں… ان کو ضرور پڑھ لیں… اور ان کی
روشنی میں اپنی زبان کی اصلاح کی کوشش کریں… یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ ہم جب بھی
دین کی کوئی بات پڑھتے ہیں تو شیطان دو سوچیں دماغ میں ڈالتا ہے… پہلی یہ کہ فلاں
فلاں شخص تو ان باتوں پر عمل نہیں کر رہا… اور دوسرا یہ کہ میں خود تو عمل نہیں
کروں گا دوسروں کو سناؤں گا… چنانچہ خطیب مزاج لوگ جب بھی کوئی دینی بات سنتے یا
پڑھتے ہیں تو ان میں خود عمل کرنے کی نیت پیدا نہیں ہوتی بس اسی پر خوش ہوتے ہیں
کہ ہم یہ بات دوسروں کو سنائیں گے تو ہماری واہ واہ ہوگی… میں اور آپ آج ہی ان
احادیث پر خود عمل کرنے کی نیت کرلیں … تب انشاء اللہ مدینہ
منورہ کا دروازہ ہم پر کھل جائے گا… اور کعبہ شریف کی ہدایت کا نور ہم پر برسے گا…
جیل کے رفقاء میں جب اس خوفناک بیماری کے بارے میں شعور پیدا ہوا تو ہم نے… آپس
میں اپنی استطاعت کے مطابق اپنی اصلاح کے لیے کئی طریقے اختیار کیے… ہم میں زبان
کے بیمار کئی طرح کے تھے:
۱۔
زیادہ گپ شپ کرنے اور بولنے والے
۲۔
کثرت سے جھوٹ بولنے والے
۳۔
معلومات حاصل کرنے اور تجسس کے شوقین کہ ہر کسی کی ہر بات ان کو معلوم ہو
۴۔
فحش اور بے ہودہ باتیں کرنے والے
۵۔
ہر وقت فتنے اور اختلاف کی باتیں ڈھونڈنے اور کرنے والے
۶۔
سخت بولنے والے
۷۔
ادھر ادھر کی اڑانے والے، افواہیں پھیلانے والے
الغرض
یہ بہت بڑا جنگل ہے… انسان کی زبان جب سانپ بن جائے تو ایمان سمیت ہر چیز کو ڈستی
ہے… ایک ہی لفظ ادا کرنے سے نکاح جیسا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے… اور کلمہ کفر بکنے سے
سالہا سال کا ایمان اور اعمال سب ضائع ہوجاتے ہیں… ان تمام بیماریوں کی اصلاح کے
لیے جو نصاب اختیار کیے گئے ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔
کچھ دن کی مکمل خاموشی اختیار کرائی جاتی تھی… اکثر رمضان المبارک کے آخری عشرے
میں یہ کام آسان ہوتا تھا… کیونکہ انسان ویسے ہی تلاوت، ذکر، تراویح اورعبادت میں
مشغول ہوتا ہے… بعض ساتھی جو بہت بولتے تھے خاموشی کے ان ایام میں ان کے چہروں پر
’’نور‘‘ صاف نظر آتا تھا… کیونکہ زیادہ بک بک سے چہرے اور آنکھوں کا نور ختم
ہوجاتا ہے… مگر بعض ساتھیوں پر یہ عمل بہت بھاری ہوتا تھاو ہ غلطی سے یا چھپ کر
اپنی پیاس بجھالیتے تھے… اس پر بعض دفعہ دلچسپ لطیفے بھی ہوجاتے تھے…
۲۔ جھوٹ
بولنے والوں کو ایک چھوٹی سی ڈائری دی جاتی تھی کہ … روزانہ جب جھوٹ بولیں اس کا
اندراج کرلیں… رات کو سوتے وقت گنیں کہ کتنے جھوٹبولے ہیں… پھر اتنی بار توبہ
کرلیں… ایک ساتھی نے یہ عمل شروع کیا پہلے دن رات کو ان کے پاس تیس جھوٹ بولنے کا
ریکارڈ تھا… مگر احساس اور استغفار کی برکت سے ان کو فائدہ ملا تو چند دن بعد بندہ
نے پوچھا تو انہوں نے بتایا آج صرف چار ہوئے ہیں…
۳۔ تجسس
کے مریضوں کا علاج مشکل تھا… وہ جن دو افراد کو آپس میں باتیں کرتا دیکھ لیتے ان
کی خواہش ہوتی کہ انہیں اس بات چیت کی پوری تفصیل معلوم ہونی چاہئے… اپنے اس شوق
کی خاطر کافی ذلت اٹھاتے اور دوسروں کی برائیوں کا گند اپنے سر لیتے… ان کو سورۃ
حجرات میں اللہ تعالیٰ کا حکم کہ تجسس نہ کرو… اور تجسس کی
بے شمار خرابیاں بتائی جاتیں… الحمدللہ کچھ فائدہ ہوجاتا
تھا… اور جس کو یہ خیال نصیب ہوجاتاکہ زیادہ معلومات میرے ایمان اور آخرت کے لیے
نقصان دہ ہیں… اور مجھے اپنا حساب دینا ہے اسی کی فکر کروں تو اس کی جان اس بیماری
سے چھوٹ جاتی…
باقی
رہی غیبت تو وہ بہت خطرناک بیماری ہے… اس کے علاج کے لیے غیبت کے بارے میں وارد
ہونے والی احادیث مبارکہ کا آپس میں مذاکرہ مفید ہے… اور ذمہ دار ساتھیوں نے باہم
یہ وعدہ کرلیا کہ جو کوئی ان کے سامنے کسی کی غیبت کرے گا وہ ان دونوں کو آمنے
سامنے کرا دینگے… الحمدللہ اس عمل سے بہت فائد ہوا… حضرت
اقدس تھانوی پ یا کسی اور بزرگ کا واقعہ ہے کہ ان کی اہلیہ نے ان کے
سامنے کسی خاتون کی غیبت کی… وہ فوراً اپنی اہلیہ کو لیکر اس خاتون کے گھر چلے گئے
اور بتایا کہ میری اہلیہ صاحبہ آپ کے بارے میں یہ بات کرتی ہیں کیا آپ نے ایسا
کہاہے؟… اس پر اہلیہ کو کافی شرمندگی ہوئی اور آئندہ کے لیے غیبت سے مکمل پرہیز
ہوگیا… خیر یہ ایک مفصل موضوع اور ایک پھیلی ہوئی بیماری ہے… بندہ نے کتاب کا نام
عرض کردیا ہے اس باب کو پڑھ لیں … اور عمل کی نیت سے پڑھیں تو
انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا… کم از کم اتنا تو معلوم ہوجائے
گا کہ فلاں باتیں گناہ ہیں پھر ان پر توبہ کی توفیق مل جائے گی… اگر کوئی انسان
گناہ نہیں چھوڑ سکتا تو اتنا تو کرسکتا ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اس پر توبہ
کرتا رہے… اور اس سے نفرت رکھے…
بات
موبائل فون کی چل رہی تھی… آج کل موبائل فون کا جس قدر غلط، فضول اور حرام استعمال
ہو رہا ہے تو اگر کسی کا ایک سیٹ اور سم ہی نامہ اعمال میں رکھ دی جائے تو (نعوذب
اللہ ) بربادی کے لیے کافی ہوجائے… میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ امریکہ اور یورپ
مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے… مجاہدین کو موبائل فون، کمپیوٹر اور ٹی وی شکست
دیتے ہیں… مجاہدین کی باہم نا اتفاقی، ذاتی عزت کا شوق، اجتماعی اموال میں بے
احتیاطی… اور زبان کا غلط استعمال ان کو پستیوں میں ڈال دیتاہے… کیمرے والے موبائل
سے بے دھڑک اپنے چھوٹے بچوں اور بچیوں کی تصویریں ہر کوئی بنا
رہاہے… اللہ کے بندو! اپنی بیٹی کو بھی کوئی کیمرے کے سامنے
لاتا ہے؟ … کیا غیرت کا ایسا جنازہ نکل گیا ہے کہ معصوم بچے اور بچیاں تک تصویروں
کی زد میں ہیں… ظالموں نے ایک کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب جارہے ہیں کہ گناہ کا
احساس اور خوف مسلمانوں کے دل سے نکل جائے… پہلے بھی مسلمان گناہگار تھے مگر وہ
احساس رکھتے تھے کہ یہ کام گناہ کا ہے چنانچہ روتے بھی تھے… توبہ استغفار بھی کرتے
تھے اور اپنی اصلاح کی فکر اور دعاء بھی کرتے تھے… مگر اب نہ ٹی وی گناہ، نہ ویڈیو
گناہ، نہ کیمرہ گناہ، نہ بے پردگی گناہ… اور نہ فلم بازی اور تصویر سازی گناہ… انا
للہ وانا الیہ راجعون…
ایک
نیا فتنہ
یہودیوں
اور قادیانیوں نے امن کے حق میں بڑے بڑے اشتہار بنائے ہیں… اور ہر اخبار پیسے کے
لالچ میں ان اشتہارات کو چھاپ رہا ہے… جہاد اسلام کا ایک قطعی فریضہ ہے… اور قرآن
پاک کا حکم ہے… یہ تمام اشتہارات جہاد کے خلاف ہیں… مگر کسی اخبار کے مالک میں
جرأت نہیں کہ وہ حرام کے نوٹ ٹھکرا کر ان اشتہارات کو نہ چھاپے… اہل علم اور اہل
دل سے گزارش ہے کہ ان ناپاک اشتہارات کے خلاف محنت کریں… اور موبائل فون سمیت ہر
نئی ایجاد کے بارے میں شرعی احکامات اُمت تک پہنچائیں… تاکہ ان چیزوں
کو حلال کے دائرے میں استعمال کیا جائے… اور ہم میں سے کسی کا موبائل فون اس کے
لیے قبر کا موبائل سانپ یا آخرت کا عذاب نہ بنے… یا ارحم الراحمین معاف فرمائیے،
رحم فرمائیے، نصرت فرمائیے…
…
آمین یا ارحم الراحمین…وصلّی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ
سیّدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
ایک کلو میٹر اونچی بلڈنگ
اللہ تعالیٰ
توفیق عطاء فرمائے آج چند متفر ّق باتیں عرض کرنی ہیں…
نقصان
دینے والا علم
ایک
صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ… آجکل اخبارات میں جہاد کے خلاف بہت کالم شائع ہو رہے ہیں…
انہوں نے کچھ کالم کاٹ کر بھی بھیجے ہیں… اور مشورہ دیا ہے کہ ہم ان کالموں کوغور
سے پڑھا کریں اور ان کے جوابات لکھا کریں… میں نے وہ کالم پڑھے تو ان میں کوئی نئی
بات نہیں تھی… جہاد اور مجاہدین کے خلاف وہی پرانے الزامات تھے جو صدیوں سے چلے
آرہے ہیں… البتہ ہر لکھنے والا اپنے مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ
نمک مرچ کا اضافہ کرتا رہتا ہے… بندہ کے خیال میں ان لوگوں کے کالم پڑھنا گناہ کا
کام ہے… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان لوگوں کی
مذمت فرمائی ہے جو غیر مفید اور نقصان دہ چیزوں کو پڑھتے اور سیکھتے ہیں…
ویتعلمون
ما یضرھم ولا ینـفعھم (البقرۃ۱۰۲)
ترجمہ:
وہ لوگ ایسا علم سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دیتا ہے اور کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
اسی
طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ’’علم‘‘ سے پناہ مانگا کرتے تھے جو نفع
نہ دے…
اللھم
انی اعوذبک من علم لا ینفع۔
یہ
کالم نویس حضرات کافروں اور منافقوں کے باقاعدہ ملازم ہیں… اور ان میں سے جو جہاد
کے خلاف جتنا زیادہ لکھتا ہے اسی قدر اس کا معاوضہ بڑھتا ہے… تو ایسے لوگوں کو
پڑھنے کی مسلمانوں کو کیا ضرورت ہے؟… یہ لوگ نہ تو ہمارے دینی پیشوا ہیں اور نہ ہی
یہ کوئی باعمل لوگ ہیں… ان میں سے ہرشخص کی زندگی دنیاداری اور عیش پرستی میں
لتھڑی ہوئی ہے… وہ حکمرانوں پر مال جمع کرنے کے اعتراضات تو کرتے ہیں مگر خود
کھانسنے کے بھی پیسے لیتے ہیں… جہاد کے خلاف لکھنا ان کی بہت بڑی بدقسمتی اور
بدبختی ہے تو ایسے لوگوں کی باتیں پڑھنے سے بدنصیبی کے سوا اور کیا ہاتھ آئے گا؟ …
ان لوگوں کے کالم پڑھنے سے جو نقصانات پہنچتے ہیں ان کی فہرست تو بہت طویل ہے… چند
موٹے موٹے نقصانات یہ ہیں:
۱۔ عقیدہ
خراب ہوتا ہے
۲۔ وقت
ضائع ہوتا ہے
۳۔ غلط
معلومات دماغ میں بیٹھ جاتی ہیں
۴۔ مایوسی
پیدا ہوتی ہے
۵۔ دنیا
کی محبت بڑھتی ہے
اور
دل و دماغ پر تاریکی چھا جاتی ہے… الحمدللہ ہمارے پاس قرآن
پاک موجود ہے… جتنا پڑھتے جائیں دل سیر نہیں ہوتا اور دل نور اور سکون سے بھر جاتا
ہے… ہمارے پاس
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،
افعال اور سنتوں کا ذخیرہ موجودہے… اور ہمارے پاس دینی، اصلاحی اور تاریخی لٹریچر
کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو کسی مذہب والوں کے پاس نہیں ہے… اس لیے اچھی اور
مفید چیزیں پڑھیں… اور نقصان دہ باتوں کو نہ پڑھیں… وہ اہل علم جنہوں نے جواب
لکھنا ہو ان کے لیے تو گنجائش ہے… باقی جو بھی پڑھے گا اپنا نقصان کرے گا…
حسبنا اللہ ونعم
الوکیل
حضرات
صحابہ کرام ڑکو ڈرایا گیا کہ… کافروں نے آپ لوگوں کے خاتمے کی مکمل تیاری کرلی ہے…
اور آپ لوگوں کے خلاف تباہ کن آپریشن شروع ہونے والا ہے… اس لیے آپ لوگ ڈر جائیں…
احتیاط سے کام لیں، بہت فکر کریں، بہت فکر کریں… حضرات صحابہ کرام ڑنے جب یہ سنا
تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوگیا اور انہوں نے فرمایا:
حسبنا اللہ ونعم
الوکیل : کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے… اور
وہ بہترین کارساز ہے۔
یہ
واقعہ قرآن پاک کی سورۃ آل عمران کی آیت ۱۷۳ میں موجود
ہے… مسلمانوں میں خوف پھیلانے والے عناصر کچھ عرصہ کی چھٹی گزار کر ان دنوں پھر
سرگرم ہیں… وہ ہر کسی کو بتاتے پھر رہے ہیں کہ … اس بار مجاہدین کے خلاف بہت سخت
آپریشن ہونے والا ہے… اب کی بار کوئی نہیں بچے گا… زرداری صاحب امریکہ کو
’’پکاوعدہ‘‘ دے چکے ہیں… اور (عبد) رحمن ملک صاحب تو مکمل فہرستیں بنا چکے ہیں…
آئی ایس آئی والے بھی بدنامی کا داغ دھونے کے لیے مجاہدین کو ختم کرنے کا عزم
رکھتے ہیں… اور اس بارے میں نواز شریف صاحب کو بھی شہباز شریف کے ذریعے اعتماد میں
لیا جاچکا ہے… بس اب مجاہدین کی خیر نہیں ہے… ماضی میں کئی بار اسی طرح کی خبریں
اڑیں… لوگوں نے طرح طرح کے خواب بھی دیکھے… اور ان خوفناک خبروں کو سن کر کئی
افراد نے جہاد کو چھوڑ دیا… اور بعض نے اعلان کیا کہ ہم نے جہاد چھوڑا تو نہیں ہے
مگر ہم نے خود کو ’’فریز‘‘ کرلیا ہے… کہ جب حالات ٹھیک ہوں گے تو ہم پھر جہاد کرنے
نکل آئیں گے… اللہ ، اللہ ، اللہ … آج پھر خوف
کی ہوائیں ہیں… ہمارے لیے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل
کامیابی کی ضمانت ہے… اس لیے سب دل سے پکار کر کہیں
حسبنا اللہ ونعم
الوکیل
زرداری
صاحب اور کیا کرسکتے ہیں؟… زیادہ سے زیادہ مار ہی سکتے ہیں اور جہاد کے راستے میں
مرجانا شہادت ہے… مگر مارنے والے خود کہاں جائیں گے؟… انہوں نے بھی تو مرنا ہے…
سات سال پہلے کہا گیا کہ مجاہدین کا بیج ہی ختم کردیں گے… مگر کیا ہوا؟… بیج تو
کیا ختم ہوتا مجاہدین کے جنگل اُگ گئے… بلکہ بعض جگہ تو معاملہ شرعی حدود سے بھی
آگے بڑھ گیا…
انشاء اللہ اب
بھی کچھ نہیں ہوگا… اللہ پاک جہاد اور مجاہدین کا مددگار
ہے… باقی ہر شخص نے اس دنیا کو تو چھوڑنا ہے … ممکن ہے… کچھ افراد کو شہادت نصیب
ہوجائے… مگر شرعی جہاد کو ماننے والی جماعتوں کو ختم کرنا حکومت کے بس میں نہیں
ہے… پرویز مشرف نے غلطی کی اور ان مسلمانوں کو جو افغانستان میں لڑنا چاہتے تھے
مارا اور ستایا تو پاکستان کا ایک پورا علاقہ جنگ کا شکار ہوگیا… اب اگر حکومت کی
یہ خواہش ہے کہ کشمیری مجاہدین کو بھی یہاں مصروف کیا جائے تو حکومت اپنا شوق پورا
کرلے… مجاہدین کو ڈرا کر منظم جماعتوں کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں سے عرض ہے کہ…
ڈرا ہوا شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے… اسلام کا کلمہ پڑھنے
والو… اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور کافروں کے دوست اور آلہ کار
نہ بنو… ورنہ اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟…
قیامت
کی علامت
حضرت
جبرئیل امین ح… ایک طالبعلم کی صورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں تشریف لائے… انہوں نے حضرات صحابہ کرام ڑتک دین کی
بنیادی باتیں پہنچانے کے لیے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات
کیے… اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان سوالوں کے جوابات ارشاد فرمائے… ان سوالات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ…
یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے قیامت کی علامات بتائیے…
قال
فاخبرنی عن امارتہا قال ان تلد الامۃ ربتہا وان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء
الشاء یتطاولون فی البنیان
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (قیامت کی علامت یہ ہے) کہ لونڈی اپنی مالکہ کو
جنے گی (آج کل کی لڑکیوں کو اپنی ماؤں پر زبان چلاتے اور غصہ کرتے دیکھ لیں)… (اور
دوسری علامت یہ ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور جسم میں کپڑا نہیں
ہے اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے
اور اس میں ایک دوسرے پر سبقت (اور فخر) کریں گے… (صحیح مسلم)
ابھی
پرسوں ایک خبر دیکھی کہ… سعودیہ کا ایک شاہزادہ ’’جدّہ‘‘ میں دنیا کی سب سے اونچی
عمارت بنوا رہا ہے… یہ عمارت ایک کلو میٹر اونچی ہوگی…
انا
للہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک
ان شہزادوں کو ’’عقل سلیم‘‘… اور فکرآخرت عطاء فرمائے… ایک بار مکہ مکرمہ کے بازار
میں بندہ کو ایک شخص ملا… وہ عرب تھا اور مکہ مکرمہ کا رہائشی تھا… باتوں باتوں
میں پتہ چلا کہ اس نے ابھی تک حج ادا نہیں کیا تھا… جبکہ اس کی عمر چالیس برس کے
قریب تھی… یہ اللہ پاک کی تقسیم ہے کہ چاہے تو قریب والوں
کو محروم کردے اور دور والوں کو نواز دے… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
جو دین لائے وہ تمام انسانوں اور جنات اور تمام عالم کے لیے ہے… یہی اس دین کی
حقانیت کی ایک بڑی دلیل ہے کہ… یہ کسی قوم، قبیلے تک محدود نہیں… عرب ممالک میں
ایسے شخص کو بڑا علامہ سمجھا جاتا ہے جو پوری ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘
پڑھ لے… جب کہ عجم میں ان کتابوں کے حفاظ موجود ہیں… قرآن پاک کے حفظ کا زیادہ
اہتمام بھی عجم میں ہے جبکہ عربوں میں حافظ بہت کم ہیں… یہ دین سب کا ہے سب کے لیے
ہے… اللہ پاک عربوں کو بھی اچھی دینی قیادت عطاء فرمائے…
بدلتی
دنیا
بالآخر اللہ پاک
کی نصرت آہی گئی… اور اب دنیا کا نظام اور نقشہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے… گذشتہ
چند ہفتوں میں لاکھوں امریکی شہری اپنے اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں… ان کو
چاہئے کہ انڈیا کے غریبوں سے ریل کی پٹڑی پر رہنے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلیں… سات سو
ارب ڈالر کا جھٹکا تو اس معاشی زلزلے کا آغاز ہے… ’’بارک اوبامہ‘‘ اور ’’جان
مکین‘‘ پریشان ہیں کہ وہ جس امریکہ کے صدر بنیں گے وہ کیسا ہوگا؟… ایک کے بعد ایک
بینک دیوالیہ ہو رہا ہے… بیمہ کمپنیوں کا قیمہ نکل گیا ہے… اور امریکہ کا سپر پاور
رہنا اب شدید خطرے میں ہے… کاش اب بھی دنیا سمجھ لے کہ مسلمانوں کا خون زمین پر
جتنا بھی سستا کردیا جائے آسمانوں پر اس کی بہت قیمت ہے… مظلوموں اور شہیدوں کا
خون بالآخر اپنا رنگ دکھا رہا ہے… ممکن ہے کچھ عرصہ بعد ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم…
روٹی اور آٹے کے بدلے فروخت کرنے پڑیں… کیونکہ دنیا کے ان پاگلوں نے جو کچھ ایجاد
کیا اس کی انسانوں کو قطعاً ضرورت نہیں تھی… مگر وہ فضول ایجاد کرتے چلے گئے،
فیکٹریاں بناتے چلے گئے… اور ان فیکٹریوں کی آلودگی نے انسانی ضروریات کو تباہ
کرکے رکھ دیا… بے شک لوگوں کے برے اعمال نے خشکی اور سمندر ہر جگہ فساد پھیلا دیا
ہے… اے انسانو! اے مسلمانو! ایمان میں کامیابی ہے، اعمال صالحہ میں کامیابی ہے…
اور جہاد وشہادت میں کامیابی ہے…
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
مٹھی بھر
اللہ تعالیٰ
کے پیغمبر حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے والے افراد بہت تھوڑے تھے…
جی ہاں مٹھی بھر… قرآن پاک نے خود بتایا ہے:
وَمَا
آمَنَ مَعَہُ اِلاَّ قَلِیْلٌ (ہود۴۰)
ترجمہ:
اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔
بعض
مفسرین فرماتے ہیں کہ کم وبیش اسّی مرداور عورتیں ایمان
لائے… اللہ تعالیٰ ان مٹھی بھر لوگوں سے راضی ہوا… وہ ایک
کشتی پر بیٹھے اور عذاب سے بچ گئے… اور قیامت تک ان کی نسل جاری ہوگئی… جبکہ
’’اکثریت‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے تباہ وبرباد کردیا… یا
اللہ ہم انہیں ’’مٹھی بھر‘‘ لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو حضرت نوح علیہ
السلام پر ایمان لائے تھے… اور اس ’’اکثریت‘‘ سے ہم بری ہیں جنہوں نے آپ کے پیغمبر
کو جھٹلایا اور آپ کے عذاب کے مستحق ہوئے۔
قرآن
پاک سمجھاتا ہے کہ فرعون نے بھی… حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان پر ایمان
لانے والوں کو یہی طعنہ دیا تھا کہ یہ ’’مٹھی بھر‘‘ لوگ ہیں… یہ اکثریت کو غلام
بنانا چاہتے ہیں… ہم طاقت کے زور پر ان کو کچل دیں گے… قرآن پاک ہمیں یہ آیات
سناتا ہے… غور سے سنیں…
فَاَرْسَلَ
فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآئِنِ حَاشِرِیْنَO اِنَّ ھٰؤُلآئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیْلُوْنَO وَاَنَّہُمْ لَنَا لَغَائِظُوْنَO وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حَاذِرُوْنَO (الشعراء ۵۳تا۵۶)
ترجمہ:
پھر فرعون نے شہروں میں چپڑاسی (اعلان کرنے والے) بھیجے کہ یہ ایک تھوڑی سی جماعت
ہے اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے اور ہم سارے ان سے خطرہ رکھتے ہیں۔ (یاہم
سب مسلح ہیں)
حضرت
شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(فرعون
نے کہا) ان تھوڑے سے آدمیوں نے تم کو تنگ کر رکھا ہے حالانکہ ان کی ہستی (اور
حیثیت) کیا ہے جو تمہارے مقابلہ میں عہدہ بر آ ہوسکیں۔ یہ باتیں قوم کو غیرت اور
جوش دلانے کے لیے کہیں۔(تفسیر حقانی)
قرآن
پاک یہ بھی سمجھاتا ہے کہ فرعون اپنی قوم کو ڈرا رہا تھا کہ یہ ’’مٹھی بھر‘‘ لوگ
ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں… پھر کیا ہوا؟… اللہ پاک کو یہ
’’مٹھی بھر‘‘ لوگ پسند آئے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے
پیغمبر کی بات کو مانا تھا… اللہ تعالیٰ نے ان کو سمندر میں
رستے بنا کر نجات دے دی اور فرعون کو اس کی اکثریت کے ساتھ غرق کردیا… اے القلم کے
پڑھنے والو! سچ بتاؤ کہ آپ لوگ نجات پانے والی اقلیت کے ساتھ ہیں… یا غرق ہونے
والی اکثریت کے ساتھ؟ قیامت کے دن آپ کن کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں؟… قرآن
پاک اعلان فرماتا ہے کہ
حضرت
ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے والد اور قوم کو دعوت دی مگر اکثر لوگ ایمان
نہ لائے…
وَمَا
کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (الشعراء۱۰۳)
اور
ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔
حضرت
نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال قوم کو اللہ تعالیٰ کی
توحید کی طرف بلایا… مگر اکثر لوگ ایمان نہ لائے۔ (مفہوم الشعراء ۱۲۱)
حضرت
ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی مگر اکثر لوگ ایمان
نہیں لائے… یہی حال حضرت لوط علیہ السلام کی روشن خیال قوم کا تھا … ان کی بھی
اکثریت ایمان نہیں لائی… اور یہی حال حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہما السلام کی
قوموں کا رہا… قرآن پاک نے یہی سمجھایا کہ … مٹھی بھر لوگ ایمان لائے اور وہی
کامیاب ہوگئے… معلوم ہوا کامیابی کا مدار کثرت اور قلت پر نہیں ایمان… اور دین پر
ہے… مکہ مکرمہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال محنت
فرمائی… قوم کو خوب دعوت دی… مگر بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے… ابوجہل بھی کہا کرتا
تھا کہ یہ ’’مٹھی بھر‘‘ لوگ ہیں… حتیٰ کہ غزوہ بدر میں بھی وہ مسلمانوں کے لشکر کو
’’مٹھی بھر‘‘ کہہ رہا تھا… عربی زبان میں اس کے لیے ’’اکلۃ الرأس‘‘ کا لفظ
استعمال ہوتا ہے… مگر یہ مٹھی بھر لوگ سچے تھے… ایمان والے تھے… اللہ پاک
نے ان کو کامیابی عطاء فرمائی… اور ابوجہل اپنی اکثریت کا ناز دماغ میں لیکر جہنم
میں جاگرا…
پاکستان
کے حکمرانوں کا شاید فرعون اور ابوجہل سے قریبی رابطہ رہتا ہے… ان کو بھی پاکستان
کا دیندار طبقہ ہمیشہ ’’مٹھی بھر‘‘ نظر آتا ہے…
آنجہانی
پرویز مشرف نے جب ’’روشن خیالی‘‘ کی قیادت سنبھالی تو ان کا پہلا بیان یہ تھا کہ…
پاکستان میں داڑھی اور برقع کی حمایت کرنے والے صرف ایک فیصد لوگ ہیں… اور اس ایک
فی صد طبقے کو حق نہیں ہے کہ وہ ننانوے فی صد افراد پر اپنی رائے مسلط کرے… مگر
کچھ عرصہ بعد ان کے اعداد وشمار میں تبدیلی ہوئی… اور انہوں نے فرمایا کہ یہ بنیاد
پرست لوگ پاکستان میں پندرہ فی صد ہیں… آنجہانی پرویز مشرف دنیا کے غیر مقبول ترین
انسان تھے… ان کو چند جرنیلوں نے صدر بنایا تھا… مگر پھر بھی وہ پاکستان کے دیندار
طبقے کو تھوڑا ہونے، اقلیت ہونے اور مٹھی بھر ہونے کے طعنے دیتے رہے… آج وہ اپنے
گھر میں اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں… جبکہ پاکستان کے ہر مدرسے میں داخلہ لینے والے طلبہ
کا ہجوم ہے… اور الحمدللہ ہر دینی مرکز اور دینی کام آباد
ہے… پرویز مشرف کی پوری زندگی عبرتناک ہے… مگر وہ جاتے جاتے ایک ایسا کام کر گئے
جو شاید ان کی بدنامی کو کم کردے… ایک علاقے میں ایک ڈاکو تھا لوگ اس سے بہت تنگ
تھے… اور جھولیاں پھیلا پھیلا کر اس کے لیے بددعائیں کرتے تھے… وہ ڈاکو جب بوڑھا
ہوگیا تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مرنے کے بعد لوگ اس کی تعریف کریں…
اور اس کو اچھے الفاظ سے یاد کریں… اس نے اپنے مشیروں سے مشورہ کیا… ہر ایک نے کہا
! یہ ناممکن ہے… کیونکہ ہر گھر آپ کے ظلم سے جل رہا ہے…اور علاقے کا ہر شخص آپ سے
تنگ ہے…یہ لوگ پاگل تو نہیں کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کو اچھے الفاظ سے یاد رکھیں…
ڈاکو کا ایک مشیر عقلمند تھا… اس نے کہا میرے پاس تدبیر ہے… آپ مرنے سے پہلے اس
علاقے کا چارج فلاں ڈاکو کو دے جائیں… وہ اتنا لالچی، حریص اور ظالم ہے کہ لاشوں
کے اعضاء تک کاٹ کے بیچ آتا ہے… وہ جب اس علاقے میں اپنے مظالم شروع کرے گا تو لوگ
آپ کو اچھے الفاظ سے یاد کریں گے کہ… پرانا ڈاکو اچھا آدمی تھا کم از کم قتل کرنے
کے بعد لاش کو تو بے حرمت نہیں کرتا تھا… پرویز مشرف نے بھی یہی تدبیر اختیار کی
ہے… اور ان لوگوں کو اقتدار دے کر گیا ہے جنہوں نے چند دن میں… قوم کو پرویز مشرف
کی تعریف پر مجبور کردیا ہے… کھانے کے لیے آٹا نہیں، روشنی اور دیگر ضروریات کے
لیے بجلی نہیں… اور بجلی کے بل دیکھ کر دن میں تارے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں… اور
امریکہ کی فرمانبرداری میں پورے ملک کو جنگ میں جھونکا جارہا ہے… اور اب حکومت کے
ہر فرد کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ… ہم ’’مٹھی بھر‘‘ لوگوں کی نہیں چلنے دیں گے…
ہم ان کو ختم کردیں گے… یہ ’’جمہوریت‘‘ بھی مسلمانوں کے لیے عجیب و غریب مصیبت بنی
ہوئی ہے… اگر بد دین طبقے کو زیادہ ووٹ مل جائیں تو وہ اپنی اکثریت کے ناز میں
دیندار مسلمانوں کو ستاتا ہے… اور اگر کسی جگہ دیندار لوگ زیادہ ووٹ حاصل کرلیں تو
فوراً فوج اقتدار سنبھال لیتی ہے… الجزائر کی اسلامی پارٹیوں نے مل کر ایک اتحاد
بنایا تھا… اور اس کا نام ’’سالویش فرنٹ‘‘ تھا… اس نے انتخابات میں پچاسی فیصد
سیٹیں جیت لیں… ان دنوں بندہ کو ’’جدہ‘‘ جانا ہوا تو اس فرنٹ کے رہنماؤں کا ایک
شور برپا تھا… برہان الدین ربانی ان دنوں مجاہد کہلاتے تھے مگر دل میں ’’رام‘‘ بسا
ہوا تھا… ایک جلسے میں فرمانے لگے کہ الجزائر والے ہمیں بھی انتخابات کے ذریعے
اسلام کے غلبے کا طریقہ سکھائیں… مگر پھر کیا ہوا؟… امریکہ کی طرف سے ایک اشارہ
آیا اور فوج نے فوراً اقتدار سنبھال کر انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا… اور فرنٹ
کے سب لیڈر جیلوں میں ڈال دیئے گئے… پچھلے انتخابات میں ’’مجلس عمل ‘‘ نے کافی
سیٹیں جیت لیں… صوبہ سرحد میں ان کی حکومت بھی بنی… مگر کیا ہوا؟… تھانوں کے ایس
ایچ او تک صوبائی وزیروں کی بات نہیں مانتے تھے… اب پیپلز پارٹی کو ناز ہے کہ ہم
اکثریت میں ہیں… اگر آپ اکثریت میں ہیں تو عوام سے پوچھ لیں کہ وہ کیا چاہتی ہے؟…
امریکہ کی غلامی؟ مہنگائی؟ اور قومی بے عزتی؟… ہماری کرنسی کی قیمت بنگلہ دیش کی
کرنسی سے ڈھائی گنا اور افغانستان کی کرنسی سے پانچ گنا کم ہو چکی ہے… کیا ملک کی
اکثریت یہی چاہتی ہے؟… اسلامی، دینی اور جہادی جماعتوں پر پابندی اور چھاپے ہیں
جبکہ ہم نے سات سال پہلے عرض کردیا تھا کہ… یہ پابندیاں ملک کو کالی آندھی کے
حوالے کردیں گی… اس وقت نہ وزیرستان میں جنگ تھی نہ سوات میں… پرویز مشرف کی حکومت
نے امریکہ کو اپنی وفاداری دکھانے کے لیے ہر جگہ خود بڑھ کر مظالم کیے… ان مظالم
کے ردعمل میں بہت سے لوگ کھڑے ہوگئے… اور یوں ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور
مسلمان ایک دوسرے کو ذبح کرنے لگے… اُس وقت ہم نے حکومت کے کئی بڑے اہلکاروں کو
سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ہنس کر کہتے تھے کہ… آپ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں ہم
حالات سے نمٹنا جانتے ہیں… ہماری جماعت پر پابندی سے چند دن پہلے بندہ کو گرفتار
کیا گیا… حکومت کے کئی بڑے اہلکار رعب ڈالنے کے لیے پہنچے… بندہ نے عرض کیا کہ آپ
شرعی جہاد پر پابندی لگائیں گے تو غیر شرعی جنگ شروع ہوگی… مجاہدین آزاد ہوجائیں
گے… ان کو کوئی سنبھالنے اور سمجھانے والا نہیں ہوگا… اور پھر آپ کے مظالم کے ردّ
عمل میں یہ بھی اسلحہ اٹھا لیں گے… اس پر ایک بڑے افسر نے کہا آپ بے فکر ہو کر قید
کاٹیں ہم حالات کو سنبھالنا جانتے ہیں… ایک اور صاحب نے فرمایاآپ شاید حکومت کو
ڈرا کر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں… مگر پھر کیا ہوا؟… پاکستان کی داخلی جنگ میں اب
تک بیس ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں… کیا ملک کی اکثریت یہی چاہتی ہے؟…
اے
حکمرانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو… اور کچھ فکر اپنی قبر اور
آخرت کی بھی کرو… پورا ملک جل رہا ہے اور تمہاری زبان پر صرف ’’مٹھی بھر‘‘، ’’مٹھی
بھر‘‘ کا نعرہ ہے… کیا تم نہیں جانتے کہ ایک ’’مٹھی بھر‘‘ بارود پوری عمارت کو گرا
دیتا ہے… تو پھر قوم میں امن اور محبت کی خوشبو کیوں نہیں پھیلاتے اور قرآن پاک سے
روشنی کیوں نہیں لیتے؟… اور امریکیوں سے احکامات لینا بند کیوں نہیں
کرتے؟… اس وقت دنیا اسلام کے غلبے کی طرف بڑھ رہی ہے… اور کفر کے بڑے بڑے ستون
گرنے والے ہیں… کیمونزم کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام کا بت بھی پاش پاش ہونے والا
ہے… اس لیے خود کو کافروں کے لشکر سے الگ کرلو… کافروں کے
لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے… اور ایمان
والوں کی صفوں میں شامل ہوجاؤ اور قرآن پاک کی اس آیت کو دل میں بٹھاؤ
قاَلَ
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہ کَمْ
مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً
بِاِذْنِ اللہ وَ اللہ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔
(البقرۃ ۲۴۹)
ترجمہ:
جن لوگوں کو خیال (یعنی یقین) تھاکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ
سے ملنا ہے وہ کہنے لگے بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی ہے بڑی جماعت
پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے
اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
یاد
رکھنا! قرآن پاک جو کچھ فرماتا ہے وہ سچ ہوتا ہے… بالکل پکا سچ…
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
٭٭٭
باادب
اللہ تعالیٰ
مجھے اور آپ سب کو ’’بے ادبی‘‘ سے بچائے… سب سے بڑھ کر ’’ادب‘‘ اللہ
جلّ شانہٗ کا ہے… شیطان اس بارے میں انسانوں سے بڑی بڑی غلطیاں کراتا ہے… کافروں
اور منافقوں کو تو چھوڑیں وہ تو اپنے خالق اور رازق کو پہچان ہی نہ سکے… خود
مسلمان اس بارے میں کمزور ہوتے جارہے ہیں… بعض عبارتیں اور خطوط پڑھ کر اور بعض
باتیں سن کر تو دل زخمی ہو جاتا ہے کہ بے ادبی اور وہ
بھی اللہ تعالیٰ کی… آپس میں مذاق کر رہے ہوتے ہیں، لطیفے
سنا رہے ہوتے ہیں اور اس میں الحمدللہ ،
انشاء اللہ اور ماشاء اللہ کے الفاظ
بے تکلف استعمال کرتے ہیں… مزاح اور جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور اس میں ’’ الحمدللہ
‘‘ کا کلمہ استعمال کر جاتے ہیں… آپ کو معلوم ہے کہ ’’ الحمدللہ ‘‘ کتنا بڑا کلمہ
ہے؟… اللہ تعالیٰ نے اسی سے سورۃ فاتحہ کا آغاز فرمایا اور
اسی سے قرآن پاک شروع ہوتا ہے… بندہ کبھی کبھی ’’فلکیات‘‘ کی کوئی کتاب اٹھا لیتا
ہے اور پھر اپنی ذات کو دیکھتا ہے تو چیونٹی سے بھی چھوٹی اور حقیر نظر آتی
ہے… اللہ پاک نے کتنے ستارے اور سیارے پیدا فرمائے؟ … یقینا
کوئی بھی نہیں جانتا… انسان نے اپنے محدود علم سے جو کچھ دیکھ لیا ہے وہ بھی یہی
بتاتا ہے کہ ستاروں کی تعداد اربوں کھربوں میں ہے جو ہمیں نظر آرہے ہیں… اور
کائنات میں کئی ایسے تاریک گڑھے موجود ہیں کہ اگر چاند، سورج اور زمین اس میں ڈال
دیئے جائیں تو اس طرح سے گم ہوجائیں جس طرح بڑے گٹر میں چھوٹی سی گیند گم ہوجاتی
ہے… اللہ اکبر کبیرا… ان تمام چیزوں
کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا… تو پھر
خود اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کا کون اندازہ لگا سکتا
ہے…
کیا
ہمارے لیے جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام بے ادبی سے لیں…
دعاء قبول نہ ہونے پر اللہ تعالیٰ سے شکوے کریں اور الٹی
سیدھی باتیں بنائیں… یا ہنسی مذاق میں اللہ تعالیٰ کا عالی
شان نام استعمال کریں… یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس
نے ساری مخلوقات کے درمیان اس چھوٹے سے انسان کو بہت فضیلت بخشی ہے… اور کائنات کی
چیزوں کو انسان کی خدمت پر لگا دیا ہے… ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ
کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ
مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا
تَفْضِیْلاً۔ (بنی اسرائیل۷۰)
ترجمہ: اور
ہم نے آدم (علیہ الصلوٰۃالسلام) کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور سمندر میں اسے
سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر
انہیں فضیلت عطاء کی۔
انسان
کے ’’مخدوم‘‘ ہونے کا تو یہ حال ہے کہ ایک روٹی جب کسی انسان کے سامنے رکھی جاتی
ہے تو اس میں تین سو ساٹھ افراد کی خدمت اور محنت شامل ہوتی ہے…
سب
سے پہلے حضرت میکائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے
پانی اتارتے ہیں … پھر فرشتے بادلوں کو چلاتے ہیں… اسی طرح سورج، چاند، ستارے،
افلاک، فرشتے اور زمین کی کئی مخلوقات اس میں اپنا اپنا کام کرتی ہیں… اور پھر یہ
روٹی انسان تک پہنچتی ہے… ایک چھوٹے سے بچے کی خدمت اس کے ماں باپ جس طرح سے کرتے
ہیں آپ صرف اسی کو دیکھ لیں تو کچھ اندازہ ہوجائے
کہ… اللہ پاک نے انسان کو کتنی عزت بخشی ہے… تو کیا اس
انسان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اس کی عظمت اور ادب
کا پورا پورا خیال رکھے۔ مگر انسان بھول جاتا ہے اور سجدے میں
بھی اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا… بلکہ اور باتیں سوچتا
رہتا ہے… ہم نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ دعاء کے لیے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور
پھر دعاء میں بھی اشارۃً دوسرے لوگوں پر طنز اور تنقید کرتے ہیں…استغفر اللہ ، استغفر
اللہ ، استغفر اللہ … دعاء میں تو انسان اللہ تعالیٰ کے
سامنے ایک عاجز بھکاری کی طرح بیٹھا فریاد کرر ہا ہوتا ہے… مگر نفس کا تکبر بعض
لوگوں کو اس حالت میں بھی ’’مسلمان‘‘ نہیں بننے دیتا… وہ ظاہری طور
پر اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہوتے ہیں جبکہ اصل میں اپنے دل
کا بغض اور عناد نکال رہے ہوتے ہیں… ان کو کسی کی کوئی بات بری لگتی ہے تو زور زور
سے اسی چیز کے بارے میں دعاء کرتے ہیں تاکہ سننے والوں پر طنز بھی ہوجائے… اور
اپنے دل کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوجائے… یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو
نعوذب اللہ اپنے برے مقصد کے لیے آڑ اور ڈھال بنا تے ہیں…
اے
دعاء کرنے والو… دعاء مانگنا بڑی خوش نصیبی ہے… ایسی خوشی نصیبی کے
وقت اللہ جل شانہ کا ادب ملحوظ رکھو… کسی پر طنز، تنقید اور نشانہ نہ
کھینچو… ایسا نہ ہو کہ یہ حرکت تمہیں بہت نیچے پھینک دے… اگر کسی کی کوئی بات بری
لگتی ہے تو اس کو صاف صاف سمجھاؤ… یا اس کے لیے چپکے سے دعاء کرو… یا اپنے دل کو
ذاتی غرض سے پاک کرکے اس برائی کے خاتمے کی اجتماعی دعاء مانگو… یہاں ایک اور بات
سمجھنا بھی ضروری ہے… دعاء کرنے والے، وعظ کرنے والے اور مضمون لکھنے والے کو
چاہئے کہ کسی پر ذاتی اشارہ نہ کرے… بلکہ اپنے دل کو ذاتی تنقید سے پاک رکھے… ورنہ
بات میں اثر نہیں رہے گا… دوسری طرف سننے اور پڑھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ
ہر بات کو اپنے لیے اشارہ یا ذاتی تنقید نہ سمجھا کریں… یہ عادت انسان کو بہت بڑی
محرومی میں ڈال دیتی ہے… بعض لوگ اس بارے میں حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں… کوئی بھی
اچھی بات سن کر ان کا ذہن عمل کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اسی طرف گھوم جاتا ہے کہ
مجھ پر تنقید ہوئی ہے… اور کسی نے میری شکایت پہنچائی ہے…
طالبعلمی
کے زمانے میں بندہ ایک بار ’’جمعۃ المبارک‘‘ کا بیان کر رہا تھا… بیان میں اتفاقاً
یہ بات چل پڑی کہ کچھ لوگ ’’جادو‘‘ کے بارے میں وہمی ہوتے ہیں… جیسے ہی بیمار ہوتے
ہیں کہتے ہیں کہ مجھ پر فلاں نے جادو کیا… فلاں نے جادو کیا… کبھی اپنے ’’چاچا‘‘
پر الزام لگاتے ہیں تو کبھی کسی پر… حالانکہ بغیر دلیل کے کسی پر الزام لگانا جائز
نہیں ہے وغیرہ وغیرہ… بیان ختم ہوگیا … مجھے نہ تو مجمع میں سے کسی کے ذاتی حالات
کا علم تھا نہ ان میں سے کسی پر اشارہ کرنے کی ضرورت… مگر ایک عمر رسیدہ شخص نے
بیان کے بعد گھر جاکر رونا پیٹنا شروع کردیا… اور کہا کہ آج کسی نے ’’امام صاحب‘‘
کو میری شکایت کی تو انہوں نے بھرے مجمع میں میرے خلاف بیان کردیا… روتے روتے
انہوں نے اپنا دل پکڑ لیا کہ مجھے درد ہو رہا ہے… ان کے کچھ نوجوان متعلقین مجھ سے
لڑنے مسجد آگئے مگر جب سامنے ہوئے تو لڑائی سے باز رہے… بعد میں معلوم ہوا کہ وہ
صاحب غالباً اپنے رشتہ داروں پر جادو کا الزام لگاتے رہتے تھے… اور بندہ کی زبان
سے جو الفاظ نکلے تھے وہ بھی ان کے دعوؤں سے ملتے جلتے تھے… یہ واقعہ تو ایک آغاز
تھا… اس کے بعد اس طرح کی ’’مخلوق‘‘ سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے جن کو میرے بیان
یا مضمون سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ میں ان پر طنز کر رہا ہوں… ابھی ’’موبائل فون‘‘ کے
بارے میں مضمون لکھا تو کئی افراد ’’پھیکے پھیکے‘‘ ہو رہے تھے کہ شاید ان کے بارے
میں لکھا ہے… جیل میں ہمارے ایک ساتھی تھے، ان کی زندگی کافی بے ترتیب اور بے ڈھنگ
سی تھی… بندہ نے ان کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’آداب زندگی‘‘ پڑھنے
کے لیے دی… پوری کتاب پڑھ کر کہنے لگے… حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب
میرے خلاف لکھی ہے…
کراچی
کے ایک محلے میں بندہ کا کئی سال تک خواتین میں درس ہوتا رہا… ایک بار والدہ
محترمہ بھی کراچی تشریف لائیں تو درس میں شریک ہوئیں… ان سے کئی خواتین نے کہا کہ
آپ کے بیٹے کو ہمارے گھروں کی خبریں کون پہنچا دیتا ہے… جب بھی بیان میں آتی ہیں
تو یہ ہمارے گھروں کی کوئی نہ کوئی بات ضرور سناتے ہیں… ایسے واقعات بہت زیادہ
ہیں… حالانکہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ بیان اور تحریر میں کسی کی طرف ذاتی اشارہ اور
تنقید نہ ہو… اور ویسے بھی اگر کسی ایک فرد کو کوئی بات کہنی ہو تو براہ راست اس
کو کہنے کی ہمت موجود ہے… تو پھر ایک فرد کے لیے مجمع میں تقریر کرنا یا لاکھوں
لوگوں کے لیے پڑھے جانے والے اخبار میں اس پر اشارۃً تنقید کرنا ایک فضول حرکت ہی
ہوسکتی ہے… اللہ تعالیٰ ایسی بے کار اور لا یعنی حرکت سے ہم سب کی
حفاظت فرمائے… پڑھنے اور سننے والوں سے عرض ہے کہ … وہ ذاتی تنقید کی بجائے ’’ذاتی
اصلاح‘‘ کی باتیں ڈھونڈا کریں… ہمارے اکابر کے ہاں یہ طریقہ رہا ہے کہ بیان کرنے
والا اور مضمون لکھنے والا یہ دعاء کرکے بیٹھتا ہے کہ
یا اللہ اپنی رضاء والا بیان اور مضمون عطاء فرما… سب سے
پہلے مجھے اس سے فائدہ عطاء فرما… اور مجمع کی ضرورت کے مطابق میرا شرح صدر فرما…
جبکہ سننے اور پڑھنے والے یہ دعاء کرکے بیٹھیں کہ
یا اللہ سب سے زیادہ اس بیان سے مجھے فائدہ عطاء فرما… جو
کمی کوتاہی میرے اندر ہو اس کے ازالے کی تدبیر مجھ تک پہنچا… اور مجھے اس بیان اور
تحریر سے اپنی رضا اور اپنا راستہ نصیب فرما… اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ہربیان
اور ہر تحریر سے اپنے فائدے کی بات لے کر خوب نفع حاصل کرتے
ہیں… اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس قسم کے لوگوں کا خاص
طور سے تذکرہ فرمایا ہے اور ان کو عقلمند لوگ قرار دیا ہے… ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَبَشِّرْ
عِبَادِO الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ
فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہُ اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ
ہَدَاہُمُ اللہ وَاُوْلٰئِکَ ہُمْ اُوْلُوْ الْاَلْبَابِO (الزمر۱۷،۱۸)
ترجمہ: پس
میرے بندوں کو خوشخبری دے دو، جو توجہ سے بات کو سنتے ہیں اور پھر اچھی بات کی
پیروی کرتے ہیں یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطاء
فرمائی ہے اور یہی عقل والے ہیں۔
بات
یہ عرض ہو رہی تھی کہ دعاء کے دوران کسی کی طرف ذاتی تنقید کے اشارے نہیں کرنے
چاہئیں… یہ بات اللہ تعالیٰ کی بے ادبی والی ہے… دعاء کرنے
والا، بیان کرنے والا… اور مضمون لکھنے والا ہرشخص ان آداب کو ایک بار پڑھ لے جو
حضرت شیخ سیّد ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ کے شروع میں
بیان فرمائے ہیں… کبھی موقع ملا تو انشا ء اللہ اسی کالم
میں ان اداب کا خلاصہ عرض کردیا جائے گا… ہم اللہ تعالیٰ کے
ہر قدم پر محتاج ہیں ہمیں دعاء سے پہلے بھی دعاء مانگنی چاہئے کہ
یا اللہ اپنی رضا کے مطابق ادب کے ساتھ ٹھیک ٹھیک دعاء
مانگنے کی توفیق عطاء فرما… اسی طرح ’’استخارہ‘‘ کو اپنا معمول بنانا چاہئے…
استخارہ پانچ منٹ کا عمل ہے جو انسان کو کروڑوں میل سے بھی زیادہ کی بلندی عطاء
کردیتا ہے… افسوس کہ ہمارے زمانے میں ’’استخارہ‘‘ بھی ایک پیشہ بن چکا ہے … عام
لوگ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف خاص لوگ کرسکتے ہیں… اور استخارہ میں آسمان سے
باقاعدہ کوئی جواب آتا ہے… دنیا دار لوگ شادی، کاروبار اور دیگر دنیاوی معاملات کے
لیے عاملوں کے پاس جاکر استخارے کرواتے ہیں… حالانکہ استخارہ ہر مسلمان کی ذاتی
ضرورت اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت
ہے… آپ اچھی طرح وضو کریں… دو رکعت صلوٰۃ الاستخارہ کی نیت سے پڑھیں اور پھر اوّل
آخر سات سات بار درورد شریف پڑھ کر بیچ میں تین بار استخارہ کی دعاء مانگ لیں… یہ
دعاء بہت ہی لذیذ اور مزیدار ہے… اسکے پڑھتے ہی دل کو سکون ملنے لگتا ہے… اور
ہمارے آقا اور مولیٰ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت عطاء
فرمائی ہے کہ جو استخارہ کرے گا وہ بعد میں نہیں پچھتائے گا… آپ نے سفر کرنا ہے تو
استخارہ کرلیں… رشتہ کرنا ہے تو استخارہ کرلیں… کچھ لکھنا ہے تو استخارہ کرلیں…
کوئی اہم ملاقات ہے تو استخارہ کرلیں… کوئی چیز خریدنی ہے تو استخارہ کریں…
استخارہ کے معنیٰ اللہ تعالیٰ سے خیر چاہنا … کہ
یا اللہ جو کچھ خیر ہو وہ ہوجائے اور جو کچھ شر ہو اس سے
مجھے بچالے… وہ مسلمان مرد اور عورتیں جو اپنے اکثر معاملات میں اللہ تعالیٰ
سے استخارہ کرتے ہیں ان کے پردے جلدی ہٹ جاتے ہیں اور ان کا مقام اونچا ہوجاتا ہے…
دراصل بندے اور غلام کا کام ہی یہی ہے کہ پوچھ پوچھ کر چلے، مانگ مانگ کر لے… مگر
اب ایک پرچی پر لڑکے، لڑکی کا نام لکھتے ہیں اور کسی کو دے آتے ہیں کہ آپ استخارہ
دیکھ لیں… کسی زمانے میں بندہ کے پاس بھی کافی لوگ اس کام کے لیے آتے تھے اور میرے
لیے ان کو یہ بات سمجھانا کافی مشکل ہوتا تھا کہ آپ خود استخارہ کریں… اکثر لوگ
نہیں مانتے اور پرچی لیکر کسی کے پاس پہنچ جاتے ہیں… چنانچہ بعض لوگوں کے پاس ایک
ایک دن میں دس دس استخارے جمع ہوتے ہیں… اور وہ اپنی عزت اور ناک رکھنے کے لیے
’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ میں جواب دیتے رہتے ہیں… اور لوگ ان کے جواب کو ’’دینی مشورہ‘‘
نہیں آسمانی فیصلہ سمجھتے ہیں… بندہ کے پاس ایک بار ایک بزرگ دوست تشریف فرما تھے…
وہ ’’سفید ریش‘‘ تھے مگر ان سے بے تکلفی تھی… وہ عملیات کا بھی شوق رکھتے تھے… اسی
دوران ایک صاحب پرچی لیکر تشریف لائے کہ بچی کے لیے رشتہ آیا ہے استخارہ دیکھ دیں…
بندہ نے ان بزرگوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان سے بات کرلیں… انہوں نے بزرگوں سے
استخارہ کا کہا تو وہ مان گئے اور فرمایا کل تک دیکھ کر بتا دوں گا…
اگلے
دن وہ بزرگ میرے پاس بیٹھے تھے کہ استخارے والے صاحب بھی آگئے انہوں نے جواب پوچھا
تو بزرگ نے فرمایا:
رشتہ
تو اچھا ہے
اگر
کسی اور جگہ ہوجائے تو بہتر ہے
اور
میاں
بیوی میں چپقلش کا امکان ہے…
وہ
صاحب حیران تھے کہ جواب اتنا مفصل، مبہم اور جامع ملا ہے… اب وہ اس کی کس شق پر
عمل کریں؟…
اللہ تعالیٰ
معاف فرمائے… ہم مسلمانوں نے ہر چیز کو ’’فن نجوم‘‘ بنانا شروع کردیا ہے… نجومی
اور کاہن اتنی تفصیل سے جھوٹ نہیں بولتے… جتنی تفصیل سے ہمارے عامل حضرات اپنی قبر
اور آخرت کو بھول کر جھوٹ بولتے ہیں… یہ بات درست ہے کہ ’’اولیاء اللہ
‘‘ کو کشف ہوتا ہے… یہ بھی درست ہے کہ اللہ والوں کے
استخارے میں برکت ہوتی ہے… مگر غیب کی بات کسی کو پتہ نہیں
چلتی… اللہ والوں سے استخارہ کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے
عرض کیا جائے… حضرت! فلاں کام میں تردّد ہے دعاء فرمائیں خیر والی صورت نصیب
ہوجائے… یا عرض کیا جائے کہ فلاں کام کا ارادہ ہے خیر کی دعاء فرمادیں… یا ان سے
مشورہ کیا جائے کہ فلاں کام میں تردّد ہے مجھے مشورہ عنایت فرمائیں… اب وہ یقینا
استخارہ کریں گے کہ یا اللہ میں کیا مشورہ دوں میرے لیے خیر
کا مشورہ دینا آسان فرمادیجئے… یا وہ اپنے ’’نورفراست‘‘ سے مشورہ دیں گے… بہرحال
بزرگوں کے ساتھ نجومیوں، کاہنوں اور دست شناسوں والا معاملہ نہ کریں اور نہ ہی غیب
کی خبروں کے پیچھے پڑیں… بات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن
ادب‘‘ سے چلی تھی اور بہت دور نکل گئی… اللہ پاک کے نام کا
ادب، اللہ تعالیٰ کی کتاب کا
ادب، اللہ تعالیٰ کے گھر کا
ادب، اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کا
ادب… اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کا ادب… بے شک ادب بہت بڑی چیز
ہے… دیکھیں قرآن پاک کیا سنا رہاہے:
اِنَّمَا
الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہ وَجِلَتْ
قُلُوْبُہُمْ۔ (الانفال۲)
ترجمہ: ایمان
والے تو وہی ہیں کہ جن کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کا نام آئے
تو ان کے دل ڈ ر جائیں۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ
کے ساتھ ادب کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ دل میں جتنا
ڈر اللہ تعالیٰ کا ہو اتنا کسی کا نہ ہو… نہ براک اوبامہ کا
نہ جان مکین کا… نہ کسی کالے کا نہ کسی گورے کا… نہ امریکہ کا اور نہ یورپ کا اور
نہ ہی موت کا… آج ۳نومبر
کا دن ہے کل امریکہ میں انتخابات ہیں… بہت سے دلوں پر رعب ہے… کچھ اندیشے اور
خطرات ہیں… ایسے حالات میں مکمل ادب اور پورے توکّل کے
ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر… اور اس کی عظمت کا مراقبہ ہمیں
رعب اور پریشانی سے بچا سکتا ہے…
لا
الہ الا اللہ … لا الہ الا اللہ …لا الہ الا
اللہ محمد رسول اللہ
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
نقلی خلیفے… بچیوں کے رشتے
اللہ تعالیٰ
’’حکیم‘‘ ہے… اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فیصلے میں حکمت
ہوتی ہے… ’’کینیا‘‘ افریقہ کا ایک ملک ہے… اس میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے…
اس ملک کے بعض علاقوں میں عربی زبان بھی بولی جاتی ہے… حکومت اگرچہ عیسائیوں کی ہے
مگر ’’حلال گوشت‘‘آسانی سے مل جاتا ہے… کیونکہ گوشت کے کاروبار پر مسلمانوں کا
قبضہ ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے افریقہ میں اسلام پہنچایا
تو یہ ’’عظیم دین‘‘ وہاں پھیلتا ہی چلا گیا… افریقہ کی اکثر آبادی مسلمان ہوئی اور
اسلامی جہاد میں افریقہ نے بہت بڑا حصہ ڈالا… یہ ’’کالے لوگ‘‘ فطری طور پر بہت سی
خوبیوں کے مالک ہیں… یہ صابر اور قناعت پسند ہیں… مگر پھر یورپ سے استعمار کی
’’نیلی آندھی‘‘ چلی اور افریقہ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا… گورے بندروں نے اس براعظم
میں عیسائیت، بے حیائی اور بیکاری پھیلائی… اور افریقہ کے ’’حجراسود‘‘ جیسے حسین
رنگ کو میلا کردیا… بے شمار لوگوں کو عیسائی بنایا گیا… شراب اور جوا عام کیا گیا…
اور بے شمار لوگوں کو باندھ کر بحری جہازوں میں ڈال کر یورپ اور امریکہ لے جایا
گیا اور غلام بنادیا گیا… اور آج کل ’’قادیانی‘‘ افریقہ کو فتح کرنے کی کوشش میں
ہیں… ایک بار نیروبی (جو کینیا کا دارالحکومت ہے) جاتے ہوئے بندہ کی ایک ’’قادیانی
مربی‘‘ سے بحث بھی ہوئی… وہ جہاز میں بیٹھا قادیانیت کی ’’ایڈز‘‘ پھیلا رہا تھا…
میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر اس کے سر کے پاس کھڑا ہوگیا… اس کو سمجھایا مگر وہ دلائل
میں الجھنے لگا تو میں نے اس کی تقریر سننے والے نوجوانوں سے کہا… بھائیو! یہ آپ
لوگوں کو آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاٹ رہا ہے… یہ آپ لوگوں کو
مدینہ پاک سے توڑ رہا ہے… آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی
سنتے ہی وہ چار پانچ نوجوان تڑپ اٹھے اور اٹھ کر دوسری سیٹوں پر جا بیٹھے… جہاز میں
کافی نشستیں خالی تھیں… سفر بہت لمبا تھا آٹھ نو گھنٹے کا… باقی پورا سفر اس
قادیانی پوپ نے اکیلے کاٹا … اور سعدی فقیر کو اس کی تنہائی اور بے بسی دیکھ کر
مزہ آگیا… نیروبی پہنچ کر دیکھا کہ اس کے استقبال کے لیے کئی بدنصیب جمع تھے… وہ
ان کو میری طرف اشارے کر کے کچھ بتا رہا تھا… اور وہ سب جنگلی جانوروں کی طرح مجھے
سرخ آنکھوں سے گھور رہے تھے… ف اللہ خیر حافظا وہو ارحم الراحمین … آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس پر جس موت نے کل آنا ہو وہ آج
ہی آجائے… ہاں مگر یہ موت نما زندگی قسمت والوں کو ملتی ہے… نیروبی میں قتل وغارت
عام ہے اور چوری تو دن کے اجالے میں ہوتی ہے… اسی ’’کینیا‘‘ کے ایک مسلمان باشندے
جن کا نام ’’حسین‘‘ تھا امریکہ پڑھنے آئے اور یہاں انہوں نے ایک مقامی خاتون سے
باقاعدہ شادی کرلی… جب شادی کرلی تو نتیجہ تو نکلنا ہی تھا… اور وہ نتیجہ امریکہ
کے نئے صدر باراک ابامہ کی صورت میں نکل آیا… حسین صاحب نے بچے کا نام اپنے ایک
خاندانی بزرگ کے نام پر رکھا… بڑے ’’بارک اُبامہ‘‘ کی قبر کینیا میں ہے اور وہ
مسلمان تھے… پھر حسین تو واپس کینیا چلے گئے… میاں بیوی میں طلاق ہوگئی… اکیلی
عورت اور ساتھ ایک بچے کا بوجھ بیچاری نے انڈونیشیا کے ایک مسلمان سے شادی کرلی
اور انڈونیشیا جابسی… ابامہ وہاں ایک مدرسہ میں پڑھتے رہے… پھر یہ رشتہ بھی فانی
نکلا… ماں بیٹا امریکہ واپس آگئے… ادھر حسین صاحب تو ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال کر
گئے… جبکہ ان کا بیٹا پہلے وکیل بنا، پھر مظلوموں کے حقوق کا ترجمان… اور پھر
سینیٹر اور اب وہ ’’صدر‘‘ بن گیا ہے… روایات میں آیا ہے کہ تمہارے حکمران تمہارے
اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں… اور ابامہ تو ویسے بھی ایک مسلمان کے عمل کا نتیجہ ہے…
کچھ لوگ خوش ہیں کہ چلو مسلمان خود نہ سہی ان کا ایک بچہ تو امریکہ کا صدر بن گیا
ہے… کراچی کے ایک صاحب جو دیکھنے میں عالم لگتے تھے ان سے کسی نے پوچھا آپ
’’عالم‘‘ ہیں؟… فرمایا عالم کیا میں تو علماء کا باپ ہوں بعد میں پتہ چلا کہ ان کے
چند بیٹے عالم تھے… کچھ لوگ خوش ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا دنیا میں ایک بڑی تبدیلی
آئی… اب دنیا مزید تبدیل ہوگی اور انشاء اللہ اس میں پھر
خلافت قائم ہوگی… کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گوروں نے خود ’’کالے ابامہ‘‘ کو آگے کیا ہے
تاکہ وہ اپنی صفائی کے طور پر مسلمانوں کو زیادہ ستائے… اور امریکہ کے مالیاتی
بحران کا بوجھ بھی اس پر پڑے… ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ایمان، تقویٰ… اور
جہاد پر قائم رہے تو سب کچھ اچھا ہی اچھا ہے… اور
اگر اللہ نہ کرے ہم ایمان، تقویٰ اور جہاد سے محروم رہے تو
سب کچھ برا ہی برا ہے… ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں
کہ ’’بش‘‘ جارہا ہے… اس نے ۲۰۰۱ء
کی اپنی سالانہ تقریر میں بعض تنظیموں کو ختم کرنے کاعزم ظاہر کیا
تھا… اللہ پاک کی شان دیکھیں کہ وہ اسلامی تنظیمیں موجود
ہیں… ماشاء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ ،
بارک اللہ فیہم… اور بش جارہا ہے… اگر ابامہ آرہاہے تو کیا
ہوا اللہ تعالیٰ موجود ہے… اسی نے ہمیں زندہ رکھنا ہے، اسی
نے مارنا ہے… اور مر کے ہم نے اسی کے پاس جانا ہے… پھر ہمیں کسی اور کی کیا فکر…
اور کیا پروا…
پیاسے
مسلمانوں پر ایک اور مصیبت
مسلمان
آجکل اسلام کے پیاسے ہیں… دنیا میں کسی بھی ملک میں اسلام نافذ نہیں، قرآن پاک
نافذ نہیں… اسلامی قانون اور اسلامی نظام ایک عظیم الشان نعمت ہے… اور ہم اس نعمت
سے محروم ہیں… دوسری طرف ظلم اور گناہ قوت کے ساتھ نافذ ہیں… آپ کسی کو نماز،
جہاد، داڑھی اور پردے کا سختی سے حکم نہیں کرسکتے… آپ دینی احکامات کو ذبح ہوتے
دیکھتے ہیں مگر کچھ نہیں کرسکتے… اس صورتحال نے مسلمانوں کو پریشان کردیا ہے… بے
شمار مسلمانوں کی تمنا ہے کہ اسلام نافذ ہوجائے اور سنت کا نظام قائم ہوجائے …
مسلمانوں کی اسی پیاس کو دیکھتے ہوئے اب نقلی ’’امام مہدی‘‘ ’’نقلی امام‘‘ اور
نقلی خلیفے ہر گلی میں پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں… اور کچھ لوگ بہت ’’کم ظرف‘‘ بھی
ہوتے ہیں… وہ دو چار دن ظاہری گناہ چھوڑ دیں تو شیطان ان کے کان میں کہتا ہے کہ…
تم کوئی بڑی چیز ہو… چنانچہ وہ ’’مہدی‘‘ یا ’’امیرالمومنین‘‘ ہونے کا دعویٰ کردیتے
ہیں… اور چند پیاسے مسلمان ’’اسلامی عظمت‘‘ کی تڑپ میں ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں…
حقیقت میں یہ ایک بھیانک ظلم اور خطرناک مصیبت ہے… خود میرے پاس ایسے خطوط آتے ہیں
جن میں کئی لوگ اپنے بارے میں طرح طرح کے دعوے کرتے ہیں… ایک صاحب تشریف لائے اور
فرمایا میں ’’حارس الحراس‘‘ ہوں… انہوں نے ایک روایت دکھائی کہ امام مہدی سے کچھ
پہلے ایک شخص آئے گا وہ حارس الحراس ہوگا… فرمانے لگے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا
ہوں آپ مجھے حارس الحراس ہونے کی تصدیق لکھ دیں… بندہ نے مزاحاً عرض کیا کہ اگر آپ
حارس الحراس ہیں اور مجھ سے بیعت کر رہے ہیں تو میں کیا ہوں؟ … کچھ جید علماء کرام
میرے ساتھ تھے ان سے عرص کیا کہ ان کی تحقیق کریں… انہوں نے تحقیق کے بعد تصدیق سے
انکار فرمادیا… ایک اور صاحب آئے انہوں نے گھر کے نیچے لگے انٹرکام پر مجھ سے بات
کی اور فرمایا فوراً میرے پاس آجاؤ… عرض کیا رات کافی ہوچکی ہے کیا حکم ہے؟…
فرمایا امام مہدی آرہے ہیں اور میں نے ان کی طرف سے تمہیں ایک اہم عہدہ دینا ہے…
عرض کیا کہ آپ جاکر سوجائیں حضرت امام جب تشریف لائیں گے… ہم ان
شاء اللہ سر کے بل دوڑ کر خود ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی
محنت کریں گے… ایک بار برطانیہ جانا ہوا وہاں کچھ عرب دوست ملنے آئے… ان کو ملاقات
کا بے حد اشتیاق تھا… فرمایا اسلامی خلافت کے بارے میں کچھ بتائیں… اس وقت طالبان
کی امارت اسلامیہ قائم نہیں ہوئی تھی… بندہ نے کچھ باتیں عرض کیں تو فرمانے لگے
عجیب بات ہے آپ کے پڑوس میں ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ظاہر ہوچکا ہے… اور آپ جیسے لوگوں
نے بھی ابھی تک بیعت نہیں کی… پھر انہوں نے ’’نورستان‘‘ کے ایک خلیفہ کا تعارف
کرایا اور ان کے پمفلٹ اور خطوط دکھائے اور بتایا کہ ہم نے تو ان سے بیعت کرلی ہے…
بندہ نے کاغذات دیکھے نورستانی خلیفہ نے دنیا کے تمام حکمرانوں کے نام خطوط لکھے
تھے… ان میں درج تھا کہ میں تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہوں… تم سب پر میری اطاعت فرض
ہے… اسلموا تسلموا… اسلام لے آؤ تو بچ جاؤ گے وغیرہ وغیرہ… بندہ نے عرض کیا کہ آپ
کے خلیفہ محترم کبھی لندن تشریف لائے ہیں؟ … کہنے لگے جی ہاں ایک بار آئے تھے… عرض
کیا گھوڑے پر آئے تھے، پیدل تشریف لائے تھے یا سائیکل پر؟… وہ حیران ہوئے کہنے لگے
یا شیخ بالطائرہ بالطائرہ… کہ ہوائی جہاز پر آئے تھے… عرض کیا… انہوں نے سفر ٹیکس،
ائیرپورٹ ٹیکس، انٹری ٹیکس بھرے تھے؟… کہنے لگے وہ تو ضروری ہیں… عرض کیا کہ ہمیں
ایسے خلیفے کو کیا کرنا ہے جو کافروں کو بیس قسم کے ٹیکس دے کر سفر کرتا ہے… اور
ساری دنیا کو اپنی اطاعت کی طرف بلاتا ہے… یہ بات سنتے ہی ان کی آنکھیں کھل گئیں
اور وہ اس نئے فتنے سے تائب ہوئے… کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ایک ’’امام مہدی‘‘ ظاہر
ہوا پھر بھاگ گیا… انا للہ وانا الیہ راجعون… بندہ نے
ایسے اللہ والوں کو دیکھاہے جن کی عبادت پر رشک آیا اور جن
کے علم کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوا… مگر وہ خود
کو اللہ پاک کا عاجز بندہ قرار دیتے تھے… اور دیتے ہیں…
بندہ نے ایسے مجاہدین کو دیکھا جنہوں نے جہاد کے عمل میں قرونِ اولیٰ کی یادیں
تازہ کردیں مگر ان کو اللہ پاک کے خوف سے روتے ہوئے پایا…
میں نے ایسے عابدوں کو دیکھا ہے جو روزانہ قرآن پاک کا ایک ختم کرتے تھے اور کچھ
ان میں سے روزانہ پچھتر ہزار بار درود شریف پڑھتے تھے… مگر ان کو ڈر تھا کہ مرنے
کے بعد ان کا کیا ہوگا… جبکہ دوسری طرف یہ کم ظرف دعویدار کسی خواب کی بنیاد پر…
یا اپنی تھوڑی سی نیکی کے زعم میں اونچے اونچے دعوے کرتے ہیں… اور ان کو اتنی سمجھ
نہیں کہ جس اسلام کے وہ امام بن رہے ہیں اسی اسلام میں خود امارت کا دعویٰ کرنے سے
منع کیا گیاہے… حضرت امام مہدی علیہ السلام کی علامات احادیث مبارکہ میں اتنی واضح
ہیں کہ ادنیٰ علم رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ … ان کے ظاہر ہونے کی جگہ مکہ
مکرمہ ہے… اور ان کے اماُمت سنبھالتے ہی اسلام کے غلبے کا دور شروع ہوجائے گا… اور
یہ کہ وہ خود لوگوں سے چھپتے پھرتے ہوں گے زمانے
کے اللہ والے، اہل علم ان کو تلاش کریں گے… اور یہ کہ امام
صاحب جہاد کے عمل کو پوری قوت سے جاری فرمائیں گے…
حیرت
کی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں کچھ روشن خیال مہدی بھی ظاہر ہوئے… جن کا
دعویٰ تھا کہ ہم جہاد کو بند کردیں گے اور امریکہ کو راضی کرکے مسلمانوں کو عزت
دلائیں گے… انا للہ وانا الیہ راجعون … سمجھ نہیں آتی کہ یہ فتنے
مسلمانوں کو مزید کتنا ستائیں گے… آج ہر شہر میں امام مہدی ہے، ہر محلے میں امیر
المؤمنین ہے… ہر علاقے میںغیب دانی کے دعویدار پروفیسر ہیں… اور اس کے باوجود کفر
کاغلبہ ہے حالانکہ … اصلی امام مہدی کے تشریف لانے کے بعد کفر کو سر چھپانے کی جگہ
تک نہیں ملے گی… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے… اہل علم اور
مجاہدین کو چاہئے کہ مسلمانوں میں شعور پیدا کریں اور انہیں ان نقلی اماموں،
امیروں اور خلیفوں سے ہوشیار کریں… اور ان کو بتائیں کہ ان کے نقلی ہونے کی ایک
واضح نشانی یہ ہے کہ … یہ اپنے امام، امیر اور خلیفہ ہونے کا خود دعویٰ کرتے ہیں…
اور ان کو زمانے کے مستند اہل اللہ ، اہل علم اور اہل جہاد کی تائید
حاصل نہیں ہوتی… ان لوگوں نے اگر دین کی خدمت کرنی ہوتی تو خلافت، امامت اور امارت
کے دعوے کے بغیر بھی کرسکتے تھے… یا کم از کم اتنا ہی صبر کرتے کہ چند افراد مل کر
ان کو اپنا امیر مان لیتے… تب ان کی تنظیم کے نظام کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکتا
کہ یہ شرعی تنظیم ہے یا نہیں… مگر یہ تو خود کو خود ہی امیر منتخب کرلیتے ہیں اور
پھر چند افراد کو پھنسا کر ایک نئے فتنے کا آغاز کرتے ہیں… اللہم ارحم امۃ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم
عازمین
’’حج بیت اللہ ‘‘ کے نام
ایک
ساتھی نے پوچھا کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ حج
بیت اللہ کے لیے جارہے ہیں کچھ ایسے اعمال بتادیئے جائیں…
جن سے فائدہ ہو… ان کی خدمت میں چار اعمال عرض کیے… ممکن ہے کسی اور کو بھی فائدہ
ہو تو یہاں ان کو مختصر درج کیا جارہا ہے:
۱ مکہ
معظمہ قیام کے ایام میںطواف اور تیسرے کلمے کی کثرت کریں۔
سبحان اللہ و
الحمدللہ ولا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
ایک
لاکھ کا ہدف رکھیں… تاکہ کثرت سے یہ خزانہ نصیب ہوجائے…
۲ مدینہ
منورہ قیام کے ایام میں درود شریف کی کثرت کریں… ایک لاکھ کا ہدف رکھیں… اور زیادہ
ہوجائے تو بہت اچھا ہے…
ان
دو اعمال کی فضیلت اور فوائد نہیں لکھتا… جو ان پر عمل کرے گا وہ انشا
ء اللہ کھلی آنکھوں سے دیکھے گا … اور محسوس کرے گا اور
زندگی بھر محسوس کرتا رہے گا
۳ رہائش
اور کھانے پینے میں کچھ تنگی ہو تو ’’حیادار مہمان‘‘ کی طرح برداشت کریں… جنہوں نے
احسان کرکے بلایا ہے وہ جہاں رکھیں، جو کھلائیں بس شکر ہی کرتے رہیں…
۴ وہاں
رشتہ داروں کو ڈھونڈنے، عام ملاقاتیں کرنے اور دوستوں کو تلاش کرنے سے اپنی حفاظت
کریں… جنہوں نے بلایا ہے ان کی طرف متوجہ رہیں، انہیں کو ڈھونڈیں اور انہیں کی رضا
کے لیے ہرعمل کریں… بلاتشبیہ ایک مثال سے اسکو یوں سمجھیں کہ… اگر کوئی بڑی شخصیت
آپ کو ملاقات کے لیے بلائے اور آپ ان کے سامنے بیٹھ کر موبائل نکال کے ادھر ادھر
گپ شپ کرنے لگیں تو کیسا لگے گا؟…
یہ
تو چار اہم باتیں ہیں… باقی جو چیزیں ضروری ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱ حلال
مال سے حج کریں اور وہاں بھی حلال مال لے جائیں
۲ حج،
عمرے اور زیارت روضۂ اطہر (علیٰ صاحبہا الف صلوٰت وتحیات) کا طریقہ سیکھ کر جائیں
۳ نیت
درست رکھیں، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو
۴ حضرات
اکابر کے حج، عمرے کے سفر نامے پڑھ لیں… اس سے بہت فائدہ ہوگا
انشاء اللہ
۵ جانے
سے پہلے ہر روز صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر ’’حج مبرور‘‘ کی دعاء کرتے رہیں
۶ حرمین
شریفین کے آداب پڑھ لیں یا کسی سے معلوم کرلیں… وہ بہت ادب کے مقامات ہیں
۷ اپنے
قرضے اور حقوق ادا کرکے جائیں اور مالی معاملات لکھ کر کسی ’’امین‘‘ کو دے جائیں
۸ جاتے
اور آتے وقت ریا، دکھلاوے اور نام و نمود کے کاموں سے بچیں، دعوتیں اور جلسے کرنے
کی بجائے جہاد میں مال دیکر جائیں یا غریبوں کو صدقہ کردیں
۹ سفر
وغیرہ کی سہولت کے لیے رشوت نہ دیں
۱۰ خود
کو ’’حاجی‘‘ کہلوانے کے شوق میں اتنی عظیم جگہ کا سفر نہ کریں
بلکہ اللہ پاک کی رضاء کے لیے یہ سفر کریں
اللہ تعالیٰ
تمام مسلمان عازمین حج کو ’’حج مبرور‘‘ نصیب فرمائے… ہم جیسے ’’محصورین‘‘ آپ کی
دعائوں کے متمنی ہیں…
بچیوں
کا رشتہ
نکاح اللہ تعالیٰ
کی ایک بڑی نعمت ہے… آج کل بچیوں کے لیے اچھے رشتے نہیں ملتے جس کی وجہ سے ماں،
باپ اور وہ بچیاں سخت پریشانی اور اذیت کا شکار ہوجاتی ہیں… مسلمانوں کو آج کل یہ
سمجھانا تو بہت مشکل ہے کہ نکاح سادگی کے ساتھ، شریعت کے مطابق کریں… اکثر لوگ
نہیں مانتے… اللہ تعالیٰ اسلامی خلافت قائم فرمائے تو
مسلمانوں کا خلیفہ ہی مسلمانوں کے نکاح اور طلاق کے معاملات کو قانون کے زور سے
ٹھیک کرسکتا ہے… ہندوانہ رسومات اور سوچ نے برصغیر کے مسلمانوں کے نکاح اور طلاق
پر قبضہ کر رکھا ہے… و اللہ المستعان… مسلمانوں سے عرض ہے کہ جناب رسول
پاک آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کے نکاح وطلاق کے واقعات کو پڑھتے رہا کریں… ممکن ہے بہت سے غلط
نظریات اور کاموں سے نجات مل جائے… بندہ کے پاس جو ڈاک آتی ہے اس میں اچھے رشتے کے
لیے دعاء اور وظائف کے تقاضے بھی ہوتے ہیں… بندہ خط پڑھنے کے فوراً بعد ایسے
خواتین اور حضرات کے لیے اچھے دیندار رشتوں کی دعاء کردیتا
ہے… اللہ تعالیٰ قبول فرمائے… آج چند وظائف بھی عرض کیے
جارہے ہیں… ان سے پہلے دو ضروری باتیں ذہن میں رکھ لیں:
۱ کسی
’’بے نمازی‘‘ مرد یا عورت کے ساتھ اپنی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ ہر گز نہ کریں…
خصوصاً بیٹی کا رشتہ بے نمازی مرد کے ساتھ کرنے والے والدین مجرم ہوں گے… بے نمازی
کفر کے کنارے پر کھڑا ہوتا ہے کسی بھی وقت (خدانخواستہ) اس میں گر سکتا ہے… بے نمازی
اسلامی معاشرے کے لیے کینسر ہوتا ہے… اپنی بیٹی کو سونے کی زنجیر سے اس جانور کے
ساتھ نہ باندھیں…
۲ مسلمان
بیٹیاں، اخبارات، رسالے وغیرہ پڑھ کر اپنے ذہن میں کوئی رشتہ متعین نہ کریں… یہ
چیز ان کے رشتے کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہے… اپنا دل، دماغ اور ذہن بالکل پاک صاف
رکھیں… کسی نیک آدمی کو دل میں بسانا بھی ٹھیک نہیں… کیونکہ اس دور میں فساد عام
ہوچکا ہے… بس اللہ پاک سے دعاء کرتی رہیں کہ…
یا اللہ جہاں میرے لیے دین، دنیا اور آخرت کی خیر ہو وہ
رشتہ مجھے نصیب فرما…
اگر
آپ کے ذہن میں کوئی متعین فرد نہ ہوا تو آپ کی دعاء جلد قبول ہوگی… یاد رکھیں ہر
نیک نظر آنے والا نیک نہیں ہوتا… اور ’’خیر‘‘ کس میں ہے اس
کو اللہ پاک کے سوا کوئی نہیں جانتا…
ان
دو باتوں کے بعد اب بعض وظائف درج کیے جاتے ہیں:
۱ جن
بچیوں کا وقت ہوچکا ہو اور ان کے لیے اچھا دیندار رشتہ نہ آتا ہو تو وہ روزانہ
عشاء کی نماز کے بعد قبلہ رخ تشھد کی حالت میں بیٹھ کر اکتالیس بار ’’یا فتاح‘‘
پڑھا کریں… اوّل آخر سا ت بار درود بشریف اور آخر میں اپنے مقصد کے لیے دعاء کریں…
(نماز سے ناغے کے دنوں میں بھی یہ عمل جاری رکھیں)
۲ جن
بچیوں کی شادی نہ ہو رہی ہو وہ جمعہ کے دن تین سو تیرہ بار یہ آیت مبارکہ پڑھ کر
دعاء کیا کریں:
رَبَّنَا
اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمِ لاَّرَیْبَ فِیْہِ
اِنَّ اللہ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۔ (اٰل عمران۹)
۳ جن
لڑکیوں کا رشتہ نہ ہو رہا ہو وہ اکیس دن تک روزانہ ایک ہزار بار یہ آیت مبارکہ پڑھ
کر دعاء کریں، انشاء اللہ کامیابی ہوگی:
وَہُوَ
الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ
رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ (الفرقان۵۴)
۴ وہ
بچیاں جن کے رشتے نہ آرہے ہوں وہ گیارہ دن تک یہ عمل کریں:
’’دو
رکعت صلوٰۃ الحاجۃ کی نیت سے ادا کریں پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی
اور دوسری میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پڑھیں سلام پھیر کر سو بار ’’یاہادی‘‘
اور ایک ہزار بار ’’یا اللہ ‘‘ پڑھیں اور پھر اپنے مقصد کے لیے دعاء کریں… اوّل
آخر سات سات بار درود شریف
۵ اچھے
رشتے کے لیے ایک مفید اور طاقتور عمل یہ ہے کہ دو رکعت نفل پڑھیں پہلی رکعت میں
سورہ فاتحہ کے بعد دس بار قل یا ایہا الکافرون (مکمل) اور دوسری رکعت میں سورہ
فاتحہ کے بعد قل ہو اللہ احد (مکمل) گیارہ بار پڑھیں، سلام
کے بعد سجدہ میں جائیں اور اس میں دس بار درود شریف اور دس بار تیسرا کلمہ اور دس
بار ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار پڑھیں اور اپنی
حاجت کے لیے دعاء کریں… انشاء اللہ حاجت پوری ہوگی…
یہ
پانچ عمل عرض کردیئے ہیں… کوئی بھی دعاء اور عمل بغیر درود شریف کے پورا نہیں ہوتا
اس لیے ہرعمل سے پہلے اور بعد میں زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھ لیا کریں… ہمارے
غیر شادی شدہ بھائی اعتراض کریں گے کہ آپ نے بچیوں کے لیے تو وظائف لکھ دیئے… اور
ہمیں فراموش کردیا تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ تو زبانی بھی پوچھ سکتے ہیں…
اور لکھ کر بھی جبکہ مسلمان بچیاں تو حیاء کا پیکر ہوتی ہیں وہ نہ کسی سے پوچھ
سکتی ہیں اور نہ لکھ سکتی ہیں… اس لیے خاص طور سے ان کے لیے وظائف عرض کردیئے ہیں…
باقی یہ وظائف خواتین کے لیے خاص نہیں ہیں… یہ تو رشتہ ملنے اور رشتہ ہونے کے
وظائف ہیں… مرد بھی کریں گے تو ان کو بھی انشاء اللہ پورا
فائدہ ہوگا…
القلم
پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ ان تمام مسلمان بچیوں کے لیے اچھے رشتے اور نکاح کی
دعاء کریں… جن کی شادی نہیں ہورہی… انشاء اللہ اخلاص کے
ساتھ دعاء کرنے والوں کو بہت اجر ملے گا… اور ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لیے
غائبانہ دعاء بہت قبول ہوتی ہے… اور یہ مسئلہ دنیاوی نہیں دینی ہے… اور بہت اہم
مسئلہ ہے… اللہ پاک ہمیں اس کی سمجھ اور شعور عطاء فرمائے…
ایک
عاجزانہ گذارش
خطوط
لکھنے والوں سے عاجزانہ گذارش ہے کہ… بندہ کو جب بھی خط لکھیں ’’مختصر‘‘ لکھا
کریں… یہ گذارش پہلے بھی کئی بار کی ہے مگر بعض خطوط بہت مفصل ہوتے ہیں… ایسے خطوط
کو دیکھتے ہی دل پر چوٹ لگتی ہے… ان کو اگر نہ پڑھا جائے تو خیال رہتا ہے کہ خیانت
ہوگی… اور اگر پڑھا جائے تو اتنا وقت کہاں سے لایا جائے… بعض خطوط تو بیس تا تیس
صفحات کے ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو اتنا لکھنے
کی استطاعت دی ہے تو وہ القلم، بنات عائشہ اور مسلمان بچے وغیرہا میں لکھے… میرے
پاس اس قدر مفصل خط بھیجنے کا کیا فائدہ… میں ایسے خطوط کو الگ رکھ دیتا ہوں باقی
خطوط کا جواب لکھنے کے بعد ان خطوط کو کئی دنوں میں پڑھتا ہوں… اور حیران ہوتا ہوں
کہ اکثر ان میں ایک بات بھی لکھنے یا پڑھنے والے کے کام کی نہیں ہوتی… اب ارادہ ہے
کہ وقت بچانے کے لیے زیادہ مفصل خطوط کو نہ پڑھا جائے اور نہ ہی ان کا جواب بھیجا
جائے… اس واضح اعلان کے بعد امید ہے کہ خط نہ پڑھنے کی صورت میں خیانت، حق تلفی یا
گناہ نہیں ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
اللہ اللہ یہ کمالِ اجتماعِ حسن و عشق
نے
’’القلم‘‘ کو یہ سعادت بخشی ہے کہ وہ حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب
نور اللہ مرقدہ پر اپنا یہ خصوصی شمارہ پیش کر رہا ہے۔
الحمدللہ الذی
بنعمتہ تتم الصالحات
’’فقیہ
الاسلام نمبر‘‘ میں حضرت الشیخ مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیات طیبہ کی
محض ایک جھلک پیش کی گئی ہے… آپ کی پوری زندگی ’’حسن و عشق‘‘ سے عبارت ہے… آپ کا
اسم گرامی ’’ولی حسن‘‘ تھا … اور آپ اسم با مسمّٰی تھے… بے شک آپ حسن وخوبیوں کا
مجموعہ اور اپنے زمانے میں ’’ولایت‘‘ کی آبرو تھے… ہم نے کوشش کی ہے کہ القلم کے
اس شمارے میں … آپ کی داستانِ حسن و عشق کا کچھ حصہ آجائے…
کوئی
حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی
سناتا
جارہا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے
حضرت
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیض اللہ تعالیٰ نے خوب
پھیلایا… کئی جہتوں سے پھیلایا… اور دنیا کے کئی خطوں میں پھیلایا… علم حدیث کا
فیض، علم فقہ کا فیض، علم ادب اور دیگر علوم کا فیض، تحریر کا فیض، تقریر کا فیض،
سلوک واحسان کا فیض… شخصیت سازی اور دینی غیرت کا فیض… خدمت خلق اور غم انسانیت کا
فیض… اور سب سے بڑھ کر ’’عرفانِ محبت‘‘ کا فیض… اور پھر یہ فیوض عرب، عجم، امریکہ،
افریقہ… اور ایشیاء میں پھیل گئے … اور یوں میرے محبوب حضرت سکی ’’داستانِ حسن
ومحبت‘‘ دور دور تک بکھر گئی ؎
کچھ
طوطیوں کو یاد ہیں کچھ بلبلوں کو حفظ
عالم
میں ٹکڑے ٹکڑے میری داستاں کے ہیں
فقیہ
الاسلام نمبر میں آپ کو ’’حسن وعشق‘‘ کی اس داستان کے چند اوراق مل جائیں گے… اور
مزید اوراق ڈھونڈنے اور پانے کا شوق… انشاء اللہ … آپ کے دل
میں پیدا ہوجائے گا… حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کئی تلامذہ نے اس خصوصی
شمارے کے لیے اپنے قیمتی مضامین بھجوائے ہیں… ہم ان سب کے ممنون اور شکر گزار ہیں…
خصوصاً میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین مخدوم مکرم حضرت مولانا سجاد حسن
صاحب مدظلہ العالی نے ہم پر احسان فرمایا اور ’’فقیہ الاسلام نمبر‘‘ کے لیے اپنی
خصوصی تحریر ارسال فرمائی۔
فجزاہم اللہ احسن
الجزاء فی الدارین
حضرت
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چند نامور تلامذہ کے پرانے مضامین بھی اس
خصوصی شمارے کا حصہ ہیں… اور آپ تو جانتے ہیں کہ ’’داستانِ محبت‘‘ کبھی پرانی نہیں
ہوتی… آپ جب اس شمارے میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کے مضامین
پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ … میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض اور
آپ کی محبت کس طرح سے تازہ اور تابندہ ہے… میرے حضرت بیک وقت آنسوؤں اور مسکراہٹوں
والے انسان تھے… ان کی داستان میں بھی آپ کو ہر جگہ یہ دو چیزیں ضرور ملیں
گی ؎
دلِ
عاشق بھی کیا مجموعۂ اضداد ہوتا ہے
اُدھر
آباد ہوتا ہے اِدھر برباد ہوتا ہے
میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ گمنامی اور خلوت کو پسند فرماتے تھے… اسی کا
اثر ہے کہ ان کی رحلت کے بعد ان کے بارے میں زیادہ کچھ نہ لکھا گیا… حالانکہ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں زمانے کے بڑے محدّث، بڑے فقیہ، بڑے
مجاہد… اور بڑے اہل قلم موجود ہیں… آپ ان میں سے کسی کی مجلس میں جائیں تو انہیں
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا دیوانہ وار تذکرہ کرتے ہوئے پائیں گے… مگر اس
کے باوجود میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں زیادہ کچھ
تحریری طور پر دنیا کے سامنے نہ آسکا… یہ سب اللہ تعالیٰ کا
نظام ہے… کچھ لوگ روح اور خوشبو کی طرح ہوتے ہیں… روح جسم میں دوڑتی ہے… مگر نظر
نہیں آتی… اور یہی حال خوشبو کا ہے… آپ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کسی بھی
شاگرد کے پاس جاکر ان سے گھنٹوں تک حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں سن
سکتے ہیں… وہ بخاری پڑھانے بیٹھتے ہیں تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نکتے
دہراتے ہیں… وہ ترمذی اُٹھاتے ہیں تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علمی نکات
میں گم ہوجاتے ہیں… وہ ہدایہ کا درس شروع کرتے ہیں تو بار بار
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں… وہ جب جرأت
وعزیمت کی باتیں کرنے بیٹھتے ہیں تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے واقعات کو
دہراتے ہیں… تب آپ ان میں سے کسی سے کہیں کہ جناب! یہ ساری باتیں آپ لکھ کیوں نہیں
دیتے؟… تب وہ سر جھکا کر کہیں گے کہ دل تو بہت چاہتا ہے مگر… جی ہاں یہی ’’مگر؟‘‘
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اکثر شاگردوں کو بے بس کیے ہوئے ہے… دراصل میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ’’استغناء‘‘ کے پہاڑ تھے… وہ آج
بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی سے مستغنی ہیں… وہ زندگی میں
بھی کم بولتے تھے… مگر بہت قیمتی بولتے تھے… سفر میں ہم گھنٹوں اس انتظار میں رہتے
کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے لبوں سے کوئی بات نکلے… آج بھی ان کی معطر یادوں
کا یہی عالم ہے ؎
تصور
میں ہے کچھ ایسا تری تصویر کا عاَلم
کہ
جیسے اب لبِ نازُک سے کچھ ارشاد ہوتا ہے
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کا درس ترمذی شہرۂ آفاق تھا… مگر ابھی تک وہ مطبوعہ شکل میں نہیں آسکا…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا درس بخاری بہت جامع تھا مگر وہ بھی شائع نہیں
ہوا… اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا درس ہدایہ تو اپنے زمانے میں خود اپنی
مثال آپ تھا… شکر ہے کہ وہ چند ماہ قبل چھپ چکا ہے… مگر صرف ہدایہ ثالث کا…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد نے آپ کی سوانح بھی لکھی ہے… مگر
کافی مختصر… بقول حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب اسکندر کہ یہ کتاب اس سلسلے کا
پہلا پتھر ہے…
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کے بعض مضامین اور مقالات پر مشتمل ایک کتاب ’’انتخاب مضامین مفتی ولی
حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ بھی… الحمدللہ منظر
عام پر آچکی ہے… استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان رحمۃ اللہ
علیہ شہید مستقل اس کوشش میں لگے رہے کہ… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ
علیہ کے افادات اور افاضات ان کی شان کے مطابق چھپ جائیں… انہوں نے کئی بار اس کا
تذکرہ بھی کیا… مگر ابھی تک میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا
’’استغناء‘‘ اپنارنگ دکھا رہا ہے ؎
اب
آگے جو کچھ بھی ہو مقدّر رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم
اُن کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں
اللہ تعالیٰ
کے ہاں ہر چیز کی ایک ’’اجل مسمّی‘‘ (وقت مقرر) ہے… حضرت مخدوم ہاشم ٹھٹھوی
نور اللہ مرقدہٗ کے علوم ان کی رحلت کے تین سو سال بعد شائع
ہونا شروع ہوئے… انشاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علوم وفیوض بھی تحریر کی قید میں آجائیں گے…
کسی خوش نصیب کی قسمت تو جاگے گی… اور انشاء اللہ ضرور جاگے
گی…
اللہ تعالیٰ
نے میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو بے پناہ محبوبیت عطاء فرمائی
تھی… آپ کی عمر گیارہ برس کی تھی کہ آپ ’’یتیم‘‘ ہوگئے… ہمارے آقا مدنی حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا بچپن یتیمی میں گزرا… اُس وقت
سے ’’یتیمی‘‘ اِس امت کے افراد کے لیے ایک ’’اعزاز‘‘ بن گئی ہے… میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرات اولیاء کرام کی سیرت پر ایک کتاب لکھی
ہے… ’’تذکرہ اولیاء پاک و ہند‘‘ آپ نے اس کتاب میں جن اولیاء کرام کا تذکرہ فرمایا
ہے ان میں سے اکثر بچپن میں یتیم ہونے والوں کی ہیں… مثلاً
۱ خواجہ
معین الدین اجمیری چشتی رحمۃ اللہ علیہ
۲ حضرت
خواجہ بختیار الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ
۳ حضرت
شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ
۴ حضرت
شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ
۵ حضرت
شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
۶ حضرت
سید محمد گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ
۷ خواجہ
امیر خسرو دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
۸ حضرت
شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ
ان
آٹھ یتیم اولیائے کرام کے تذکرے کے بعد جب میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ
علیہ نویں یتیم ولی حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ
علیہ تک پہنچے تو آپ کے قلم سے یہ الفاظ نکلے۔
’’آپ
کی عمر مشکل سے گیارہ سال کی ہوگی کہ دیگر اولیاء کرام کی طرح آپ کے سر سے بھی
والد ماجد کا سایہ اُٹھ گیا اور آپ کی تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری والدہ ماجدہ
کے سر آپڑی‘‘ (تذکرہ اولیاء ص۱۶۴)
میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے گویا کہ یہ الفاظ خود اپنے بارے میں
لکھے… آپ کے والد محترم حضرت مفتی انوارالحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ عالم
اور مفتی تھے… حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد محترم کے پاس ہی ابتدائی
کتابیں پڑھ رہے تھے کہ… حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس
دنیا سے کوچ فرما گئے… اور یوں میرے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو ’’یتیمی‘‘
کا اعزاز بھی نصیب ہوگیا… جو ظاہری طور پر ایک مصیبت مگر خاص لوگوں کے لیے ایک
’’کرامت‘‘ ہے… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ
کو اللہ تعالیٰ نے اسلاف کی نسبتوں کا امین بنایا تھا…
زمانے کے علماء آپ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کا عکس بھی پاتے
تھے… علمی فقاہت، مالداروں سے استغناء، حکومتی عہدوں کومسترد کرنا اور اپنی والدہ
محترمہ کی مثالی خدمت کرنا اسی نسبت کا اثر تھا… آپ کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ
علیہ سے بھی خاص نسبت تھی… انہیں کی طرح یتیمی کی زندگی بسر کی، طبیعت میں بے حد
پاکیزگی تھی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ تھا…
والد محترم کا سایہ تو اٹھ گیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ پر
نسبتوں اور محبتوں کی بارش برسادی… آپ کے والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کے چچا حضرت
مولانا حیدر حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ…
بڑے اللہ والے اور دینی علوم کے علامہ تھے… وہ حضرت حاجی
امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ مجاز بھی تھے… ان کے شاگرد
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’پرانے چراغ‘‘ میں
ان کا مفصل تذکرہ لکھا ہے… (ملاحظہ فرمائیے پرانے چراغ جلد اوّل ص۱۸۳ تا ۲۰۶) حضرت
مولانا حیدر حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے بھتیجے کے انتقال پر
تعزیت کرنے تشریف لائے تو انہوں نے… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے
چہرے پر سعادت کا نور پہچان لیا اور آپ کی دادی محترمہ سے اجازت لے کر آپ کو اپنے
ساتھ دارالعلوم ندوہ لکھنؤ لے گئے… اس وقت آپ ندوہ کے شیخ الحدیث اور مہتمم تھے…
میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کئی سال ان کی خصوصی سرپرستی میں
تعلیم حاصل کی… اور یوں ماشاء اللہ علم کی مضبوط بنیاد نصیب
ہوگئی… کچھ عرصہ بعد جب حضرت مولانا حیدر حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ …
دارالعلوم ندوہ چھوڑ کر واپس ٹونک آنے لگے تو میرے محبوب حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کی محبوبیت نے عجیب رنگ پیدا کردیا… دارالعلوم ندوہ کے اساتذہ اصرار کر
رہے تھے کہ اس ’’دُرّ یتیم‘‘ کو یہاں چھوڑ جائیں … جبکہ حضرت مولانا حیدر حسن
ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے تھے کہ نہیں! میں نے ان کو پرانے طرز کا عالم بنانا
ہے… جی ہاں اسلاف اور اکابر کی نسبتوں کا امین پرانے طرز کا عالم
… اللہ اکبر کبیرا…
اس
کے بعد میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ جہاں گئے… محبتیں اور نسبتیں
سمیٹتے چلے گئے… آپ کو دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الاسلام
مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور … حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ
اللہ علیہ… کی خصوصی محبتیں ملیں… تعلیم کے بعد ٹونک پہنچے تو اس اسلامی ریاست کے
ایک ضلع کے مفتی وقاضی مقرر ہوئے … پاکستان بننے کے بعد ’’ہجرت‘‘ کی سعادت حاصل
ہوئی… یہاں کچھ ہی عرصہ بعد اہل علم نے پہچان لیا… پہلے حضرت مولانا نور محمد
صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کو دارالعلوم لے گئے… حضرت مفتی
محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا… اور پھر حضرت
بنوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے پاس لے آئے اور اپنا علمی جانشین بنا کر
چھوڑ گئے… آپ کی محبوبیت کا یہ عالم تھا کہ طلبہ آپ کی زیارت اور درس کا بے چینی
سے انتظار کرتے تھے… اور آپ کی وقتی جدائی بھی ہر کسی پر شاق گزرتی تھی
جس
نے بچشم نکتہ چیں دیکھ لیا وہ مہہ جبیں
اُس
کی نظر میں پھر کہیں کوئی حَسیں جچا نہیں
اے
مرے ترُک نازنیں تجھ پہ ہزار آفریں
بچھ
گئی صف کی صف وہیں ہاتھ جہاں اٹھا نہیں
اللہ تعالیٰ
نے آپ کو ظاہری حسن بھی خوب دیا تھا… مگر باطن کے تو کیا کہنے… فیصلہ کرنا مشکل ہے
کہ آپ کا چہرہ زیادہ خوبصورت تھا یا آپ کا دل… یقینی بات ہے دل زیادہ خوبصورت
ہوگا… مگر چہرے پر عجیب سا نور اور کشش تھی اور آنکھیں تو ماشاء اللہ بہت
خاص تھیں… بندہ نے کبھی بھی آپ کی آنکھوں میں خفت اور پھیکا پن نہیں دیکھا… وہ ہر
وقت چمکتی تھیں اور ان کی تاب لانا بہت مشکل تھا… حضرت رحمۃ اللہ علیہ
جب کسی کو مسکراکر دیکھتے تو سامنے والا بس ایک لمحہ نظریں ملا لیتا اور پھر اس کی
نظریں خود ہی پسپا ہو کر جھک جاتیں… اللہ تعالیٰ نے آپ کی
نگاہ اور نظر میں خاص تاثیر رکھی تھی ؎
کب
وہ وہیں گرا نہیں جس کو ذرا تکا نہیں
تیری
نظر کا تیر بھی جس پہ پڑا بچا نہیں
ہو
نہ خفا تو بے سبب، ضبط نہ ہو تو کیا عجب
آنکھیں
ہی تیری ہیں غضب، دل کی مرے خطا نہیں
بعض
حضرات فرماتے ہیں کہ میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھنے کی
صلاحیت ہونے کے باوجود بہت کم لکھا ہے… بات دراصل یہ ہے کہ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ قلم سے کم اور آنکھوں سے زیادہ لکھتے تھے… ان کی آنکھوں میں ایمان، علم
اور دینی غیرت کی روشنائی بھری تھی… قلم سے کتابیں لکھی جاتی ہیں جو صدیوں تک صدقہ
جاریہ رہتی ہیں… مگر آنکھوں سے ایسے افراد تیار کیے جاتے ہیں جو دنیا کا نقشہ ہی
پلٹ دیتے ہیں اور صدقات جاریہ کے انبار لگادیتے ہیں… قلم کاغذ پر لکھتا ہے جبکہ
آنکھیں دلوں پر لکھتی ہیں اور بہت گہرا لکھتی ہیں… قلم علوم کی حفاظت کرتا ہے جبکہ
آنکھوں کا لکھا ہوا حرف حیات زندگی کو جگا دیتا ہے ؎
یہ
راز ہم پر ہوا نہ افشا، کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
کہ
تھی ہماری ہی کم نصیبی، ہمیں تھے کچھ بے خبر سے پہلے
کہاں
تھی یہ روح میں لطافت، کہاں تھی کونین میں یہ وسعت
حیات
ہی جیسے سورہی تھی، کسی کی پہلی نظر سے پہلے
میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نشیلی، پرنور اور روشن آنکھوں سے
بہت کچھ لکھا… اور بے شمار افراد کو تیار فرمایا… آج آپ کے تلامذہ کی دینی خدمات
سے پورا عالم معطر ہے… آپ کے شاگردوں میں مدرس بھی ہیں، مجاہد بھی ہیں، مصنف بھی
ہیں اور مبلغ بھی… اور دینی غیرت کے اونچے اونچے مینار بھی… قلم سے لکھے ہوئے کو
مٹانا قدرے آسان ہے جب کہ آنکھوں کی تحریریں بہت مضبوط اور انمٹ ہوتی ہیں… اسی لیے
تو ’’اہل قلم‘‘ گھٹنے ٹیک کر ’’اہل نظر‘‘ کے قدموں میں جا بیٹھتے ہیں… مگر یہ بھی
ایک حقیقت ہے کہ آنکھوں سے لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے… یہ بہت مشکل کام ہے
بے حد مشکل… اس کے لیے خاص دل چاہئے اور خاص آنکھیں… میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھیں اتنی پاکیزہ تھیں کہ ان کے ساتھ چلنے
والوں کی آنکھیں بھی ٹھیک ہوجایا کرتی تھیں… بندہ نے کئی بار ان کے ہمراہ سفر کی
سعادت حاصل کی… جہازوں پر بھی بیٹھے، ائیرپورٹوں سے بھی گزرے مکہ مکرمہ بھی گئے
اور لاہور بھی… الحمدللہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے
ساتھ چلتے ہوئے یہ پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ ’’بدنظری‘‘ کسے کہتے ہیں…
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کی فطرت بھی سلیم تھی اور آپ نے محنت بھی بہت کی تھی… چنانچہ شریعت آپ
کا مزاج بن چکی تھی… اور محبت کے چشمے آپ کے دل میں رواں تھے… آپ نے عشق کے پیمانے
نہیں پورے پورے مے خانے اپنی آنکھوں سے پی رکھے تھے… اور اب دوسروں کو پلا رہے
تھے ؎
تو
ساقیء مے خانہ ہے میں رند بلانوش
میرے
لیے مے خانہ کو پیمانہ بنادے
حضرت
مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
مَے
کشو! یہ تو مَے کشی رندی ہے مَے کشی نہیں
آنکھوں
سے تم نے پی نہیں آنکھوں کی تم نے پی نہیں
اور
جگر مرحوم فرماتے ہیں ؎
شراب
آنکھوں سے ڈھل رہی ہے نظر سے مستی اُبل رہی ہے
چھلک
رہی، اُچھل رہی ہے، پیے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
اللہ تعالیٰ
نے میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو حرص سے بچایا ہوا تھا… ان کی
آنکھوں میں ذرہ برابر حرص یا طمع کی خفت نہیں تھی… لالچ اور حرص آنکھوں کے نور کو
بجھا دیتے ہیں… یہ لالچ مال کی ہو یا عزت اور عہدے کی… میرے محبوب حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کی نظر کسی کے مال پر نہیں تھی… اور نہ آپ لوگوں سے کسی عزت، احترام اور
عہدے کی خواہش رکھتے تھے… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں
میں دھوکا، خیانت اور حد سے بڑھی ہوئی چالاکی کا نام ونشان تک نہیں تھا… آپ کی
آنکھیں آپ کے دل سے جڑی ہوئی تھیں… اور دل اللہ تعالیٰ سے
جڑا ہوا تھا… اسی لیے آپ جب خوش ہوتے تو ہونٹوں سے پہلے آنکھیں مسکراتی تھیں… اور
جب آپ کے دل پر کوئی صدمہ پہنچتا تو آنکھیں فوراً آنسوؤں سے وضو کرلیتیں… کیونکہ
غم کے وقت وضو اور نماز کا حکم ہے… ہم نے آخری زمانے میں اپنے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو زیادہ آبدیدہ
دیکھا ؎
مری
طبیعت کو حسنِ فطرت سے ربطِ باطن نہ جانے کیا ہے
مری
نگاہیں کبھی نہ اُٹھیں طہارتِ چشم تر سے پہلے
میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنی ذات کو چھپاتے تھے… اور خود کو ’’چھوٹا
آدمی‘‘ کہتے تھے مگر ان کی زبان سے بعض ایسی باتیں نکلیں جن سے واضح اشارہ ملا کہ
وہ… اپنی روشن آنکھوں سے امت کے لیے افراد تیار فرما رہے ہیں… ایک بار ارشاد
فرمایا:
’’استاذ
سبق کی تقریر کرے یا نہ کرے وہ جب کتاب کا صفحہ الٹتا ہے تو اس کے دل کی نسبت
شاگردوں میں منتقل ہوتی ہے۔‘‘
یہ
بات غالباً مدینہ منورہ میں ارشاد فرمائی تھی… دراصل حضرت رحمۃ اللہ
علیہ کو اطلاع ملی کہ بعض بڑے اساتذہ کرام نے اس سال اپنے اسباق بہت اہتمام سے
’’ریکارڈ‘‘ کروالیے ہیں… اور آئندہ سال وہ خود تقریر کرنے کی بجائے طلبہ کو اپنی
کیسٹیں سنائیں گے… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ اسلاف کی پرانی
نسبتوں کے امین تھے یہ خبر ان کے دل پر چوٹ بن کے لگی… انہوں نے اس کے خلاف زبانی
مہم چلائی اور بالآخر ان کی محنت کامیاب ہوئی… حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
اسی موقع پر فرمایا کہ علم تو نسبت سے آتا ہے تو یہ طلبہ جو ٹیپ ریکارڈر سے پڑھیں
گے اپنی سندکیا بیان کریں گے… کیا وہ ’’حدّثنی ٹیپ‘‘ کہا کریںگے؟…
تدریس
کے آخری سال آپ نے بخاری اور ترمذی دونوں کتابیں پڑھائیں… اور آپ پورا سال اپنی
’’روشن آنکھوں‘‘ سے پڑھاتے رہے… طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے زیادہ تقریر نہیں فرما
سکتے تھے… ایک بار فرمایا کہ ایک عالم نے اپنے بیٹے کو دیوبند پڑھنے بھیجا اور
ساتھ یہ نصیحت فرمائی کہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اب بوڑھے ہوگئے ہیں
وہ زیادہ تقریر نہیں کرسکیں گے وہ صرف ’’حدّثنا‘‘ ہی فرما سکیں گے… بس تم اسی کو
غنیمت سمجھنا کیونکہ ان کا ’’حدّثنا‘‘ فرمانا ہی تمہیں ان کی اونچی نسبت کے ساتھ
جوڑ دے گا‘‘…
میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے گویا اس واقعہ سے اپنی حالت بیان فرمائی…
آپ سبق کے لیے تشریف لاتے… کئی کئی صفحات کی عبارت پڑھی جاتی، آپ نہ ترجمہ فرماتے
نہ تقریر… بس کسی حدیث پاک کو سن کر رو پڑتے تو دارالحدیث کا رنگ ہی بدل جاتا… اور
بعض اوقات مختصر تقریر فرماتے تو طلبہ کی خوشی دیکھنے لائق ہوتی… اب ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ امتحان میں یہ تمام طلبہ ناکام ہوجاتے… مگر ایسا نہیں ہوا ہم میں سے
کئی طلبہ نے بخاری اور ترمذی میں پورے سو سو نمبر حاصل کیے… اور جب بھی ان دو
کتابوں کو اٹھایا تو سمجھنے میں دقّت نہیں ہوئی… اسی آخری سال کے طلبہ میں سے کئی
اب ماشا ء اللہ شیوخ الحدیث اور اساتذۃ الحدیث ہیں… یہ میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی مضبوط نسبت کا کمال ہے… اور یہ سب حضرات
میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی روشن آنکھوں سے لکھی ہوئی زندہ
کتابیں ہیں… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اگر کسی کے ہاتھ میں
تحریر کا قلم دیا تو اس قلم سے کتابوں کی کتابیں نکلتی چلی گئیں… آپ نے کسی کو
حدیث شریف پڑھانا سکھایا تو یہ مبارک علم آگے منتقل ہوتا چلا گیا… آپ نے کسی کو
فتویٰ لکھنا سکھایا تو آپ کے کئی شاگرد ’’صاحب فتاویٰ‘‘ بن گئے…
الغرض
میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت میں ایک خاص برکت تھی… اس کا
اندازہ آپ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کو دیکھ کر آسانی سے لگا سکتے ہیں… ہم
یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے چند شاگردوں کے اسماء گرامی تحریر کر رہے ہیں…
۱ حضرت
مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ
۲ حضرت
مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار صاحب رحمۃ اللہ
علیہ
۳ حضرت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
۴ حضرت
مولانا محمد رفیع عثمانی
۵ حضرت
مولانا مفتی عبدالسلام صاحب چاٹگامی
۶ حضرت
مولانا مفتی محمد نعیم صاحب
۷ حضرت
مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ
۸ حضرت
مولانا مفتی عبدالسمیع شہید رحمۃ اللہ علیہ
۹ حضرت
مولانا محمد اعظم طارق شہید رحمۃ اللہ علیہ
۱۰ حضرت
مولانا مفتی زرولی خان صاحب
۱۱ حضرت
مولانا عبدالعزیز صاحب (خطیب لال مسجد اسلام آباد)
یہ
تو چند شاگردوں کے نام ہیں جن کے گرد دینی خدمات کے ادارے اور پوری پوری تحریکیں
گھوم رہی ہیں… اگر اس فہرست کو مکمل کیا جائے تو یہ حیرت انگیز ہوگی… کیونکہ جن
طلبہ نے آپ سے فیض پایا ہے ان کا تعلق دنیا کے بیس سے زائد ممالک سے ہے… اور اسے
پڑھ کر یہ اعتراض ختم ہوجائے گا کہ میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
کتابیں کم کیوں لکھیں؟… قرآنی تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ ’’اقراء روضۃ الاطفال‘‘
میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی روشن آنکھوں… اور طاقتور نسبت کا
فیض ہے… یہ ادارہ ملک کے طول و عرض میں چار سو سے زائد مدارس چلاتا ہے … میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس ادارے کے پہلے ’’سرپرست‘‘ تھے… اور اس
ادارے کے تینوں ستون یعنی مفتی محمد جمیل خان شہیدس، مفتی خالد محمود صاحب اور
مفتی مزمل حسین کپاڈیا… حضرت کے خاص شاگردوں میں سے ہیں… ایسا لگتا ہے کہ جگر
مرحوم کا یہ شعر میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کے لیے
ہے ؎
اللہ اگر
توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضانِ
محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں
میرے
محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ’’عرفان محبت‘‘ کے جام چلتے تھے… اسی
لیے آج علم کی مسندوں اور دینی غیرت کے محاذوں پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ
کے تربیت یافتہ افراد کا غلبہ ہے… کراچی کی ایک عدالت میں میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کی عزت اور دینی غیرت کا جو محاذ شروع
فرمایا… وہ آج جگہ جگہ پوری گرمی کے ساتھ برپا ہے
چلے
جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گِر گِر کر
حضور
شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
بندہ
آج بہت کچھ لکھنے کا ارادہ لیکر بیٹھا تھا… مگر جس طرح حضرت رحمۃ اللہ
علیہ… کے سامنے زبان بند ہوجاتی تھی اسی طرح اب بھی ان کے رعب کا وہی عالم ہے…
مجھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا سوانحی خاکہ بھی لکھنا تھا… اور آپ کے
اساتذہ کرام کا کچھ تذکرہ بھی… میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ
کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص صفت عطاء فرمائی تھی جو اس دور
میں بہت کم پائی جاتی ہے… اور وہ یہ کہ آپ دوسرے مسلمانوں کے غم سے پریشان ہوتے
تھے اور دوسروں کی پریشانیوں پر روتے تھے… اور ان پریشانیوں کو دور کرنے کی پوری
محنت کرتے تھے… ہم نے اپنے غموں اور پریشانیوں پر رونے والے تو بہت دیکھے ہیں مگر
دوسروں کے غموں اور پریشانیوں پر رونے والا بس اپنے محبوب حضرت رحمۃ
اللہ علیہ ہی کو دیکھا ہے ؎
اس
نفع وضرر کی دنیا سے میں نے یہ لیا ہے درسِ جنوں
خود
اپنا زیاں تسلیم مگر اوروں کا زیاں منظور نہیں
جب
تک کہ غمِ انساں سے جگر انسان کا دل معمور نہیں
جنت
ہی سہی دنیا لیکن جنت سے جہنم دور نہیں
اللہ تعالیٰ
توفیق دے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی اس صفت پر خوب لکھا جائے تاکہ… خود
غرضی کا بت ٹوٹے اور مسلمانوں میں باہمی ایثار، اخوت اور ہمدردی کے صالح جذبات
پیدا ہوں… اسی طرح اپنے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ’’حساس دینی
غیرت‘‘ پر بھی لکھنے کا ارادہ تھا… اور عبادات میں آپ کی مدہوشی اور فنائیت پر بھی
کچھ عرض کرنا تھا… اللہ تعالیٰ نے میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو عجیب وغریب ’’استغناء‘‘ عطا فرمایا تھا… دنیا
میں کسی کے مال اور عہدے پر آپ کی نظر نہیں تھی… اور نہ آپ کسی کی مالداری اور
عہدے سے ذرہ برابر متاثر یا مرعوب ہوتے تھے…بلکہ آپ غریبوں کو مالداروں پر ترجیح
دیتے تھے اور غریب طلبہ سے مالدار طلبہ کی بنسبت زیادہ محبت فرماتے تھے… آجکل
علماء، مجاہدین اور دینداروں میں اس صفت کا ہونا بے حد ضروری ہے… ورنہ دنیا اور
دنیا والوں کی محبت دین والوں کو برباد کردے گی… میرے محبوب حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے دین والا دل دیا اور پھر اس کی
قدر بھی نصیب فرمائی ؎
جائیے
کس واسطے اے درد مے خانہ کے بیچ
کچھ
عجب مستی ہے اپنے دل کے پیمانہ کے بیچ
اللہ تعالیٰ
اسی طرح ہر عالم، ہر مجاہد اور ہر دیندار کو دین، علم اور جہاد کی قدر نصیب
فرمائے… تاکہ ان آفاقی نعمتوں کو ذلیل دنیا کے بدلے کوئی نہ
بیچے ؎
قیمت
خود ہر دو عالم گفتہ ای
نرخ
بالا کن کہ ارزانی ہنوز
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کا ’’استغناء‘‘ ایک مستقل موضوع ہے جس پر ایک کتاب لکھی جاسکتی
ہے… اللہ کرے کہ لکھی جائے… خصوصی شمارے میں دیگر حضرات کے
مضامین بھی آنے ہیں، اس لیے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ایک عظیم ذاتی
احسان یاد کرکے اجازت چاہتا ہوں… بندہ پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بے حد
احسانات ہیں، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے کہ صحیح قدر نہ
ہوسکی… حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ نے دوبار اصلاحی بیعت کی سعادت دی…
پہلی بار جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کی مسجد میں… اور دوسری بار مسجد نبوی
شریف (علیٰ صاحبہا الف صلوٰت وتحیات) میں… حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
بخاری اور ترمذی جیسی کتابیں پڑھائیں… حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کئی بار
سفر میں خدمت کا موقع دیا… یہ تمام احسانات بہت اونچے ہیں… مگر میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا مجھ پر ایک اور بڑا احسان ہے… ہوا یہ کہ ’’دورہ
حدیث‘‘ کے سال مجھے یہ خیال آیا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی دشمن
تکلیف نہ پہنچادے… ان دنوں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک فتوے اور تحریک
سواد اعظم کی دھوم تھی… اور میرے محبوب حضرت رحمۃ اللہ علیہ اتنے
دشمنوں کے باوجود اکیلے اور پیدل گھر سے مدرسہ تشریف لاتے تھے… بندہ نے ایک روز
خلوت میں عرض کیا کہ حضرت اگر اجازت دیں تو میں ایک پستول خرید لوں اور حضرت کے
ساتھ لیکر چلا کروں… حضرت رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر بہت خوش
ہوئے اور اجازت مرحمت فرمائی… اس زمانے میں اسلحہ کی آج کل جیسی بھرمار نہیں تھی…
بندہ نے ابھی تک جہادی تربیت بھی حاصل نہیں کی تھی اور نہ افغانستان جانا ہوا تھا…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد بندہ نے ایک افغان
طالبعلم سے چھوٹا سا پستول پندرہ سو روپے میں خرید لیا… اور اُسی سے کھولنا جوڑنا
اور چلانا بھی سیکھ لیا… اور چند دن تک یہ پستول جیب میں رکھ کر … اپنے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی پہرے داری کی… یہ میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی جہادی نسبت تھی… حضرت رحمۃ اللہ
علیہ کے خاندان کے بارے میں ڈاکٹر حافظ محمد عبدالمغیث لکھتے ہیں:
آپ
کے آباء و اجداد داغستان سے ہندوستان تشریف لائے اور ریاست جے پور کے ایک پر گنہ
پر بزور شمشیر قبضہ کرکے اسلامی ریاست قائم کی، جہاں کلی طور پر شرعی حدود پر عمل
کیا جاتا تھا۔ (یہ عجیب دنیاص۱۳۰)
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کے خاندان کے بارے میں بعض دیگر روایات بھی ہیں… مگر یہ روایت دل کو
زیادہ اس لیے لگی کہ جب کچھ عرصہ پہلے داغستان اور چیچنیا کے مجاہدین پاکستان
تشریف لائے… تو زیلم خان شہیدس اور بعض دیگر افراد کی شکل وشباہت میرے محبوب حضرت رحمۃ
اللہ علیہ سے بہت ملتی جلتی تھی… اللہ تعالیٰ میرے محبوب
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے صدقات جاریہ کو
تاقیامت جاری و تابندہ رکھے…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
منیٰ، عرفات سے کاٹنے والے
کا
بے حد شکر اور احسان ہے کہ اس نے القلم کے خصوصی شمارے ’’فقیہ الاسلام نمبر‘‘ کو
قبولیت سے نوازا… الحمدللہ ہر طرف سے خوشی، مسرت اور دعاؤں
کے پیغامات آرہے ہیں… یہ شمارہ ’’حسن و عشق‘‘ کی داستان تھی… پڑھنے والوں نے بتایا
کہ یہ داستان ان کے لیے آنکھوں کے نور اور دل کے سرور کا ذریعہ بنی…
و
الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات
دعاء
فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ’’القلم‘‘ کے دینی، نورانی، روحانی…
اور جہادی فیض کو اور زیادہ پھیلائے اور اپنی بارگاہ عالی میں قبول فرمائے… آج کی
مجلس میں چند ضروری باتیں مختصر طور پر عرض کرنی ہیں…
ایک
خوش قسمت خاتون
ہمارے
ایک محبوب مجاہد ساتھی تھے… ان کا اصل نام تو ’’لیاقت کمبوہ‘‘ تھا مگر تمام ساتھی
اور ان کے شاگرد ان کو ’’استاذ ابوطلحہ‘‘ کے نام سے جانتے تھے… انہوں نے افغانستان
کے جہاد میں حصہ لیا اور ماشاء اللہ خوب لیا… انہوں نے
جہادی تربیت حاصل کی اور ماشاء اللہ خوب حاصل کی… پھر انہوں
نے مجاہدین کو جہادی تربیت دی اور ماشاء اللہ خوب دی… وہ
جہادی نظمیں اور ترانے بھی پڑھتے تھے اور ماشاء اللہ خوب
پڑھتے تھے … دراصل وہ ’’خوبصورت‘‘ اور ’’خوب سیرت‘‘ نوجوان تھے…
پھر اللہ پاک نے ان کو ایک بڑی مہم اور عظیم مشن کے لیے قبول
فرمایا… وہ کعبہ کی ایک بیٹی کو چھڑانے نکلے اور شہید
ہوگئے… اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے… ان کی والدہ
محترمہ اور والد صاحب نے اس صبر آزما خوشخبری کو خوشی سے قبول کیا… ان دنوں میں
بھی ان کے گھر حاضر ہوا اور والدین کا صبر دیکھ کر متاثر ہوا… ان کی والدہ نے اپنے
شہید بیٹے کی نشانی اپنی بہو کو دل سے لگائے رکھا اور کچھ عرصہ بعد خود اپنے چھوٹے
بیٹے سے اس کا نکاح کرادیا… مجھے ان کی اس ترتیب سے ان کی ایمانی فراست کا اندازہ
ہوا… ابھی چند دن ہوئے یہ خاتون انتقال فرما گئی ہیں… انا للہ وانا
الیہ راجعون… شہید کی اماں دنیا سے رخصت ہوگئی… اور پتا ہے جاتے جاتے کیا وصیت
فرما گئی؟… وہ وصیت کر گئی کہ میری سونے کی بالیاں… جماعت میں دے دی جائیں… زندگی
میں بیٹا دے دیا اور جاتے وقت سونا بھی دے گئیں… میرے پاس ان کو خراج عقیدت پیش
کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں… ہاں چند آنسو ہیں اور ڈھیروں دعائیں… شہید کی
اماں! اللہ تعالیٰ آپ کو اتنا سکون دے اتنی خوشی دے کہ آپ
راضی ہوجائیں…
مَنْ
کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الآْخِرۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ
حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَالَہٗ فِی الآْخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ
ترجمہ: جو
کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں برکت دیں گے اور جو
دنیا کی کھیتی کا طالب ہو اسے (بقدر مناسب)دنیا میں دے دیں گے اور آخرت میں اس کا
کچھ حصہ نہیں ہوگا۔ (الشوریٰ۲۰)
اے
مجاہدین کرام!… خود کو دنیا کی محبت سے بچاؤ… اور دنیا کے مال، عہدے، عزت اور زیب
وزینت کو اپنا مقصود نہ بناؤ… ورنہ ایسی ماؤں کو کیا منہ دکھاؤ گے… کچھ عرصہ کام
کرنے اور قربانی دینے کے بعد اِسی دنیا میں اُس کے بدلے کی خواہش رکھنے والے … بہت
بڑے خسارے میں جاگرتے ہیں… اللہ پاک ہم سب کو اس بڑے خسارے
سے بچائے … آمین یا ارحم الراحمین
با
ادب ہوشیار
’’مسجد‘‘
پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں برستی ہیں… مگر یہ خاص
رحمتیں ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں… جو دل و جان سے ’’ادب‘‘ میں ڈوبے رہتے ہیں…
پرانے زمانے کے بادشاہوں اور اس زمانے کے جرنیلوں کو دیکھ لیں… ان کے درباری اور
فوجی کس طرح ان کے سامنے با ادب، ہوشیار ہوتے ہیں… مگر آج کل جس مسجد میں جائیں …
تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ وہ کس کے گھر میں ہیں اور کس کے
دربار میں… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو علامات بیان
فرمائی ہیں ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ’’مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی‘‘ …
یعنی لوگ بے ادب اور بے پرواہ ہو کر مساجد میں زور زور سے اونچی آواز میں باتیں
کریں گے… ہمیں چاہئے کہ خود کو قیامت کی بری علامت نہ بنائیں… اور مسجد کے آداب کا
بہت خیال رکھیں … علامہ ابن حجرس نے لکھا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہونے والے کے لیے یہ دس آداب ارشاد فرمائے ہیں:
۱ اپنے
جوتوں یا موزوں کا خیال رکھے (یعنی ان کو حفاظت سے رکھ دے)
۲ پہلے
دایاں پاؤں مسجد میں رکھے
۳ داخل
ہوتے وقت یہ دعاء پڑھے
بِسْمِ اللہ وَسَلاَمٌ
عَلٰی رَسُوْلِ اللہ وَعَلٰی
مَلٓائِکَۃِ اللہ اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لَنَا اَبْوَابَ
رَحْمَتِکَ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ
۴ اہل
مسجد کو سلام کرے اور اگر مسجد میں کوئی نہ ہو تو یہ کہے:
اَلسَّلاَمُ
عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہ الصَّالِحِیْنَ
۵ اور
یہ (کلمہ ) پڑھے:
اَشْہَدُ
اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ وَاَنَّ مُحَمَّدًا
رَّسُوْلُ اللہ
۶ کسی
نمازی کے آگے سے نہ گزرے
۷ کوئی
دنیاوی کام نہ کرے اور نہ دنیاوی باتیں کرے
۸ جب
تک دو رکعت ادا نہ کرلے مسجد سے نہ نکلے
۹ مسجد
میں باوضو داخل ہو
۱۰ جب
(نکلنے کے لیے) اٹھے تو کہے :
سُبْحَانَکَ
اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ
وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ
(الاستعداد
یوم المعاد ۱۰۸)
مسجد اللہ تعالیٰ
کی حفاظت میں آنے کا قلعہ … اور اس کی رحمتوں کو پانے کا مرکز ہے… جو مسلمان ان دس
آداب کا خیال رکھے گا وہ انشاء اللہ رحمتوں سے اپنی جھولی
بھرے گا… مسجد میں داخل ہونے کی دعاء روایات میں کئی الفاظ سے آئی ہے… جو الفاظ
یاد ہوں پڑھ لے… اور اعتکاف کی نیت کرلے… اور بدبودار کپڑے یا کوئی بدبودار ناپاک
چیز مسجد میں نہ لے جائے… اور مسجد میں اپنی آواز پست رکھے… اور اس دھیان میں رہے
کہ میں مسجد میں ہوں اور میرے دل اور جسم پر اللہ تعالیٰ کی
رحمتیں نازل ہو رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ
مجھے اور آپ کو مکمل آداب کے ساتھ مسجدیں آباد کرنے والا بنائے… آمین یا ارحم
الراحمین
قربانی
اور رحمت
حکمرانوں
اور مالداروں کے گناہوں نے ملک کو بدامنی اور مہنگائی سے بھر دیا
ہے… اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَاِذَا
اَرَدْنَا اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَ فِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا
فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْرًا (بنی اسرائیل۱۶)
حضرت
لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
’’یہ
بھی یاد رہے کہ بستیاں ہمیشہ آسودہ حال (یعنی مالداروں) کی شامت اعمال سے تباہ ہوا
کرتی ہیں‘‘
اس
موضوع پر بہت سی قرآنی آیات اور احادیث پیش کی جاسکتی ہیں… ہمارے حکمران جب ملک
میں ’’بدامنی‘‘ کا رونا روتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے… بدامنی تو خود ان کے اعمال
واقوال کی وجہ سے ہے… ان کی اکثریت شرابیں پیتی ہے… ان کے محلات میں رات گئے تک
ناچ گانے کی مجلسیں چلتی ہیں… دنیا کا کوئی ایسا گناہ نہیں جسے یہ فخر کے ساتھ نہ
کرتے ہوں… ملک کی دولت لوٹ کر انہوں نے غیرملکی بینکوں میں جمع کر رکھی ہے… جس سے
صرف کافروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے… یہ لوگ کتے پالتے ہیں اور انسانوں کو مارتے
ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں ہدایت نصیب فرمائے…
اب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے… اور بدامنی اور مہنگائی کو
دور کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ہم کثرت سے استغفار کریں… اور زیادہ سے زیادہ نیک
اور وزنی اعمال کریں… صدقات اور خیرات کی کثرت سے رزق عام ہوتا ہے اور مصیبتیں دور
ہوجاتی ہیں… اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمارے لیے ’’اعمالِ
خیر‘‘ کا ایک ’’موسم‘‘ آنے والا ہے… ذوالحجہ کا چاند نکلتے ہی اعمال کی قیمت
آسمانوں تک پہنچ جاتی ہے… روزے قیمتی، نمازیں قیمتی اور قربانی تو سب سے بڑھ کر
قیمتی… ہمیں چاہئے کہ ہم اس موسم اور سیزن کی قدر کریں اور اپنی آخرت کے لیے بہت
کچھ کما لیں… اس کے لیے میں اور آپ پہلے دو کام کرلیں
۱ مکمل
اخلاص اور اہتمام کے ساتھ دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ ادا کرکے دعاء کریں کہ
یا اللہ ! ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں اور راتوں میں آپ نے جو برکتیں اور
رحمتیں رکھی ہیںوہ مجھے نصیب فرمادیجئے… پوری امت مسلمہ کو نصیب فرمادیجئے… اور ان
دنوں اور راتوں میں مجھے زیادہ سے زیادہ مقبول اور نیک اعمال کی توفیق عطاء فرما
دیجئے…
۲ ’’تحفۂ ذی الحجہ‘‘ کتابچے کا ایک بار مطالعہ
کرلیجئے … اگر پہلے مطالعہ کیا ہو تو دوبارہ تازہ کرلیجئے … یہ کتابچہ القلم کے اس
شمارے میں بھی شائع کیا جارہاہے…
ان
دو کاموںسے انشاء اللہ ہمارے لیے توفیق کا دروازہ کھل جائے
گا… اور ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا… اپنی آخرت
کی کھیتی کو بڑھانے کے لیے آپ اس سال کی قربانی کو اور زیادہ وزنی بھی بنا سکتے
ہیں… الرحمت ٹرسٹ کے مخلص کارکن آپ کی قربانی کے گوشت کو…
ماشاء اللہ بہت دور دور تک پہنچاتے ہیں… آپ اگر ان کے ساتھ
’’اجتماعی قربانی‘‘ میں شریک ہوں گے تو آپ کو… جہاد میں خرچ کرنے، شہداء کرام کے
اہل خانہ کی کفالت کرنے… اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت
کرنے والے مسلمانوں کی خدمت کرنے کا موقع مل جائے گا… اس سال اگرچہ مہنگائی زیادہ
ہے… اکثر لوگوں کے مالی حالات بھی اچھے نہیں ہیں… مگر سب مسلمان ہمت سے کام لیں
اور قربانی میں بخل یا کوتاہی نہ کریں… ہم اللہ تعالیٰ کے
لیے اپنا مال قربان کریں گے تو حالات بہتر ہوں گے… حکمرانوں اور مالداروں نے مال
کے ذخیرے جمع کیے تو دنیا فساد سے بھر گئی… خود یہ لوگ خو ف اور ذلت کی زندگی گزار
رہے ہیں… اور دوسروں کو بھی بھوکا مار رہے ہیں… اب اگر دیندار مسلمان بھی بخیل اور
کنجوس ہوجائیں گے تو پھر تباہی میں کسر نہیں رہے گی… اس لیے خوب محبت کے ساتھ
قربانی کریں… مرد بھی اور مسلمان خواتین بھی… قربانی کے لیے اگر اپنا موبائل سیٹ
بیچنا پڑے تو کوئی حرج نہیں … کیمرے والے موبائل کی قیمت میں آسانی سے قربانی
ہوجائے گی… اور کیمرے سے بھی جان چھوٹ جائے گی… اس سال بھی کچھ لوگ قربانی کے خلاف
مہم چلائیں گے… وہ آپ سے کہیں گے کہ قربانی کے پیسوں سے آپ کسی غریب کو دوا خرید
دیں… اسکول کے بچوں کو کتابیں لے دیں… یا کسی بچی کے جہیز کے لیے کپڑے خرید دیں…
ایسے لوگوں سے آپ کہیں… ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم کے
پابند اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے
تابع ہیں… جبکہ آپ لوگ اپنی عقل اور نفس کے غلام ہیں… آپ کی ان حرکتوں سے نہ تو
مسلمانوں کی غربت دور ہوگی… اور نہ ان کے مسائل حل ہوں گے… البتہ جو آپ کی باتوں
میں آجائے گا وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی اس سنت سے محروم ہوجائے گا… جس سنت میں نور ہی نور، رحمت ہی رحمت… اور
اجر ہی اجر ہے… ہمیں، منیٰ، عرفات اور مکہ مکرمہ سے کاٹنے
والو… اللہ تعالیٰ تمہارے شر سے ہماری حفاظت فرمائے… آمین
یا ارحم الراحمین
وصلّی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
قابل تو نہیں …مگر
اللہ
تعالیٰ کے ’’خلیل‘‘ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’مکہ مکرمہ‘‘ کے لیے
دعائیں مانگیں… اور اللہ تعالیٰ کے ’’حبیب‘‘ سید الانبیاء
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مدینہ منورہ‘‘ کے لیے دعائیں
مانگیں… اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’خلیل‘‘ کی دعاؤں کو بھی قبول
فرمایا اور اپنے ’’حبیب‘‘ کی دعاؤں کو بھی قبولیت سے نواز دیا… اور یوں مکہ مکرمہ
اور مدینہ منورہ روئے زمین کے سب سے افضل شہر بن گئے… بہت پیارے شہر، نور اور سرور
سے بھرپور شہر، محبوب اور دلکش شہر… برکتوں اور رحمتوں والے شہر… حقیقت یہ ہے کہ
ان دو شہروں کی فضیلت اور مقام کی اصل کیفیت کو الفاظ سے نہیں سمجھا جاسکتا
… اللہ تعالیٰ مجھے بھی لے جائے اور آپ سب کو بھی… اور
ایمان، محبت اور ادب کے ساتھ ان شہروں کی مقبول حاضری نصیب فرمائے تو… پھر کچھ کچھ
پتا چلے گا کہ نور کے یہ سمندر کتنے پرکیف ہیں… اللہ اکبر
کبیرا… وہاں جانے کی دعاء جب بھی دل سے اٹھ کر زبان پر آتی ہے تو ایک سوال بھی
ساتھ ابھرتا ہے کہ… کیا ہم وہاں جانے کے اہل اور قابل ہیں؟ … تب سر جھک جاتا ہے
اور خوف طاری ہوجاتا ہے… ہاں مگر اللہ تعالیٰ ’’کریم‘‘ ہے…
الکریم جلّ شانہٗ الکریم جلّ شانہٗ … کریم وہ ہوتاہے جو نا اہلوں کو بھی ’’اہل‘‘
بنادیتا ہے… مدینہ منورہ کی ایک خاتون کا نکاح مدینہ منورہ سے دور کسی شہر میں
ہوگیا… وہ اپنے خاوند کے ہمراہ وہاں چلی گئیں… ایک دن اپنے گھر میں تھیں کہ کسی نے
’’مدینہ منورہ‘‘ کی یاد میں چند اشعار پڑھ دیئے… خاتون کی آنکھوں سے آنسو گرے، دل
مدینہ منورہ کے لیے ایسا تڑپا کہ دھڑکنا بھول گیا… لوگوں نے دیکھا کہ انتقال فرما
گئی ہیں… ہاں بے شک مدینہ منورہ بہت ہی پیارا ہے… وہ ’’طیبہ‘‘ اور ’’طابہ‘‘ ہے… وہ
آسمانوں سے اونچا اور جنت کا حصہ ہے… آج کل ماشاء اللہ …
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ’’حجاج کرام‘‘ کا ہجوم جمع ہے… مشرق، مغرب اور شمال
وجنوب کے مسلمان… کالے، گورے، سانولے ہر رنگ کے … مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچ
رہے ہیں… حجاج کرام کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے… مگر یہ دونوں شہر پوری
محبت اور فیاضی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کا استقبال
کرتے ہیں… ۸ ذوالحجہ
کو تمام حجاج کرام مِنیٰ کا رخ کریں گے… اور تب ’’منیٰ‘‘ میں ایک بہت بڑا عارضی
شہر آباد ہوجائے گا… حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے یہاں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیری تھی… اور شیطان کو کنکریاں ماری
تھیں… تمام ’’حجاج کرام‘‘ اخلاص والے ان اعمال کی نقل اتارتے ہیں… ۹ ذوالحجہ
کے دن میدان عرفات میں حج کا سب سے بڑا فرض ادا ہوتا ہے… کفن جیسا لباس پہنے ننگے
سر مسلمان کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر اپنے رب کو پکارتے ہیں…
یا اللہ ، یا اللہ ، یا اللہ … آنسوؤں کے دریا اور مغفرتوں
کے سمندر ساتھ ساتھ بہتے ہیں… اور پھر مزدلفہ کی طرف واپسی … جی ہاں مزدلفہ کی
وادی میں ایک خوبصورت اور یادگار رات کا قیام اور صبح وہاں کچھ دیر کا وقوف … اور
پھر منیٰ واپسی… قربانی، حلق، جمرات… اور پھر کعبۃ اللہ کے
گرد طواف زیارت … لبیک اللّٰہم لبیک کی صدائیں… اس وقت دنیا بھر کے ائیرپورٹوں پر
بلند ہو رہی ہیں… فضاؤں میں حجاج کرام روانہ ہیں… اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ
جانے والی سڑکوں پر حجاج کرام کے لمبے لمبے قافلے ہیں… کئی ممالک کے حجاج گاڑیوں
پر آتے ہیں … اور آس پاس کے بہت سے لوگ پیدل رخت سفر باندھتے ہیں… پراگندہ بال،
غبار آلود چہرے، بہتے آنسو… اور دنیاوی تمناؤں سے پاک دل ؎
ہر
تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب
تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
وہ
کونسی طاقت ہے جو اب تک مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں ہوئی؟… مگر
مسلمان الحمدللہ ختم نہیں ہوئے… حجاج کے قافلے چیخ چیخ کر
بتا رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا
معبود، اللہ اور رب نہیں مانتے… وہ کونسی سازش ہے جو اسلام
کے خلاف نہیں ہوئی… مگر آج بھی الحمدللہ ہمارا ’’قبلہ‘‘ ایک
ہے… ہماری کتاب ایک ہے… ہمارے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ایک ہیں… ہم مسلمان کمزور سہی مگر اب تک ہم نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں
کیا… اور نہ ہی کسی میدان میں سر جھکایا ہے… اے مکہ مکرمہ جانے والو!… کعبہ شریف
کو ہمارا سلام کہہ دینا … اور بتانا کہ ہم نماز میں آپ ہی کو قبلہ بناتے ہیں …
جیسا کہ ہمارے رب نے ہمیں حکم دیا ہے… ہماری آنکھیں آپ کی زیارت کے لیے ترستی ہیں…
اور یاد میں چھلکتی ہیں… اللہ تعالیٰ آپ کی عزت وشرافت کو اور بڑھائے…
اور آپ کی عظمت کو اور اونچا کرے… آپ کے ایک کونے میں حجر اسود شریف ہے… معلوم
نہیں ہمارے ہونٹوں کو اس کا بوسہ کب نصیب ہوگا… اللہ اکبر
وہ کتنا پیارا تحفہ ہے… ایک پتھر ہے مگر جنت سے لایا گیا ہے… جی ہاں ایک پتھر ہے
مگر توحید کی دعوت دیتا ہے… تمام انبیاء علیہم السلام نے اس کو چوما ہے…
سبحان اللہ وبحمدہٖ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم
کے میٹھے ہونٹوں نے اس کا بوسہ لیا ہے… حجر اسود کے ساتھ ملتزم کا مقام ہے… ہمار
اسینہ وہاں چمٹنے کے لیے بے تاب ہے … اللہ اکبر! اسے سینے
سے لگانے کا تو عجیب لطف ہے… اے کعبہ! آپ کی ہر چیز یاد آتی ہے، ہر بات یاد آتی
ہے… کیسے یاد نہ آئے جبکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آپ
کا تذکرہ کیا ہے… اور آپ کو تمام جہان والوں کی ہدایت کا مرکز بنایا ہے… اور آپ
میں کھلی کھلی نشانیاں رکھی ہیں… اور مقام ابراہیم بھی آپ کے سامنے ہے… اے حجاج
کرام! کعبہ شریف کو تمام ان مسلمانوں کا سلام پہنچانا جو وہاں نہیں جاسکتے… محاذوں
پر برسرپیکار مجاہدین جو کعبہ شریف والے دین کے تحفظ اور عظمت کی جنگ لڑ رہے ہیں…
دشمنانِ اسلام کی جیلوں میں قید اسیران اسلام… اور مظلوم مسلمان مرد اور عورتیں جو
مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں…
اور
ہاں اے حجاج کرام… مدینہ منورہ کی ہر گلی، ہر پہاڑ اور ہر راستے کو ہمارا سلام عرض
کردینا… اور روضۂ اقدس پر بہت سلام عرض کرنا، بہت سلام، بہت سلام… اور نہایت ادب
سے عرض کرنا ہم آپ کے قابل تو نہیں … مگر ہیں تو صرف آپ ہی کے… اے رحمۃ للعالمین…
اے شفیع المذنبین…
اللہم
صلّ علیٰ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
آئو امن کی طرف
جس
سے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں… کیا ’’دین اسلام‘‘
جہاد کے بغیر مکمل ہے؟… نہیں، ہرگز نہیں… جو دین قرآن پاک ہمیں سکھاتا ہے اس میں
جہاد و قتال کا واضح حکم موجود ہے… جو دین رسولِ پاک صلی اللہ علیہ
وسلم نے اُمت تک پہنچایا اس میں جہاد کا حکم اہمیت کے ساتھ موجود ہے…
جس دین پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عمل کرکے کامیابی حاصل کی اس میں جہاد
کا حکم نماز، روزے اور حج زکوٰۃ ، کی طرح ہے… پھر یہ کون لوگ ہیں جو
خود کو مسلمان کہتے ہیں اور جہاد کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں؟… بمبئی میں ایک
چھوٹا سا واقعہ ہوگیا اور ہر طرف سے جہاد کے خلاف ’’بکواسات‘‘ شروع ہو گئیں… جی
ہاں میں بالکل صاف الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ بمبئی کا واقعہ بہت معمولی نوعیت کا
ہے… کیا اس کاروائی کا جہاد سے تعلق ہے؟… مگر پاکستان کے حکمران اور صحافی انڈیا
کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے… ارے کیسے مسلمان ہو جو مشرکین سے ڈرتے ہو؟… اپنے
ناموں کے ساتھ ’’محمد‘‘ ’’علی‘‘ ’’سید‘‘ شاہ اور گیلانی جیسے اونچے القاب بھی
لکھتے ہو اور گائے کا پیشاپ پینے والوں سے ڈرتے ہو؟… بے فکر رہو انڈیا پاکستان پر
حملہ نہیں کرے گا… وہ تو بغیر لڑے پاکستان کو فتح کرتا جا رہا ہے…
پاکستان میں انڈین لابی بہت طاقتور ہو چکی ہے… انڈیا نے یہاں کے حکمرانوں کی مدد
سے کشمیر کے بارڈر پر باڑ لگائی… پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کیا… اور تجارت اور
فنکاری کی آڑ میں اس ملک پر اپنے پنجے گاڑ دئیے… پرویز مشرف کا آٹھ
سالہ دور پاکستان پر انڈیا کے قبضے کا دور تھا… اور اب بھی وہ سلسلہ جاری ہے… وہاں
کا وزیر خارجہ ہمارے صدر کو دھمکی دیتا ہے تو اگلے دن صدر صاحب کے خفیہ ایلچی من
موہن سنگھ کے پائوں پکڑنے پہنچ جاتے ہیں ؎
حمیت
نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے
ٹھیک
ہے میں مانتا ہوں کہ غلط دہشت گردی ’’اسلام‘‘ نہیں ہے… مگر یہ تو بتائو کہ بے
غیرتی اور بے عزتی کی اجازت کونسا’’اسلام‘‘ دیتا ہے… ؟
اس
وقت بھی پاکستانی حکمرانوں کے کم ازکم دو خفیہ وفد ’’انڈیا‘‘ پہنچ کر اُن کو ٹھنڈا
کرنے کی کوشش میں ہیں… اور خفیہ طور پر انڈیا کو طرح طرح کی یقین دہانیاں الگ
کرائی جارہی ہیں… آخر یہ سب کیا ہے؟… ملک کی اتنی بڑی فوج کس کام کے لئے ہے؟…
اسلحے کے اتنے ذخیرے کس لئے جمع کئے گئے ہیں؟… ملک کا ساٹھ فی صد بجٹ دفاع پر کس
لئے خرچ ہو رہا ہے؟… جب ہمارے حکمرانوں نے ہر کسی کے نیچے لگ کر رہنا ہے… غیروں کے
دبائو پر اپنوں کی گردنیں دبانی ہیںتو پھر ’’دفاع ‘‘پر اتنی رقم خرچ کرنے کی کیا
ضرورت ہے؟… کوئی ہے جو مسلمانوں کا سوچے؟… کوئی ہے جو دین ِاسلام کے بارے میں
سوچے؟… عراق میں بمبئی جیسے واقعات ہر دن میں دس بار ہوتے ہیں… اور اب تک دس لاکھ
افراد مارے جا چکے ہیں… افغانستان کے طالبان کا اس کے سوا کیا قصور تھا کہ وہ اصلی
اور سچے مسلمان تھے… آخر طالبان نے دنیا کا کیا بگاڑہ تھا کہ نائن الیون سے پہلے
بھی کوئی ملک اُن کی جائز حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا؟… امریکہ کو یہ حق کس نے
دیا کہ وہ دن رات ہمارے قبائلی علاقوں پر بمباری کر رہا ہے… انڈیا کو اس کی اجازت
کس نے دی کہ وہ افغانستان کے ہر بڑے شہر میں قونصل خانے، جاسوسی کے اڈے اور مسلمانوں
کے خلاف کیمپ قائم کر رہا ہے… دنیا تو اس وقت مسلمانوں کے خون سے بھری پڑی ہے…
کشمیر میں سیاسی احتجاج کا جواب بھی گولی سے دیا جاتا ہے… اور فلسطین کے
مسلمانوںکو زندہ رہنے کا حق تک حاصل نہیں… ہر طرف ظلم، بربریت اور دہشت ہے… ظالموں
نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا… اور اب بمبئی کے واقعہ کی آڑ میں اسے مزید کھوکھلا
کرنے کی کوشش جاری ہے… پاکستان کی عوام اور فوج ایک دوسرے کو مار رہی ہے… آخر
کیوں؟… یہ سب کچھ غیر ملکی کافروں کے دبائو کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے… انہوں نے
آکر دبائو ڈالا اور ہم نے فوراً اپنے کسی فرد پر ظلم شروع کر دیا… اور پھر اس ظلم
کا بدلہ آیا… اور یوں مسلمان ایک دوسرے کے قاتل بن گئے… بمبئی کے دس حملہ آور
اگر پاکستان حکومت نے بھیجے ہوتے تو وہ اتنا ڈرتی اور گھبراتی؟… ہماری حکومت تو
انڈیا کے بدمعاشوں کے لئے اداکارہ ’’میرا‘‘ کو بھیجتی ہے… جبکہ انڈیا یہاں ’’کشمیر
سنگھ‘‘ اور ’’سربجیت سنگھ‘‘ کو بھیجتا ہے… ہر ملک کے باشندے غیر قانونی طور پر
دوسرے ملکوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں… وہ دوسرے ملکوں میں جرائم بھی کرتے ہیں اور
سزا بھی پاتے ہیں… انڈیا کی تہاڑ جیل میں ہر وقت پانچ سو سے زیادہ غیر ملکی قیدی
ہوتے ہیں… اپنے ملک کی سرحدوں کو مضبوط رکھنا ہر ملک کی داخلی ذمہ داری ہوتی ہے…
اگر چند پاکستانی بمبئی میں گھس گئے تو انڈیا کا کام تھا کہ اُن کو روکتا… جب
انہوں نے وہاں جنگ برپا کی تو انڈیا کا کام تھا کہ اُن کا مقابلہ کرتا… انڈیا کے
ہزاروں فوجیوں نے ساٹھ گھنٹے تک بہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے نو جنگجو مار دیئے اور
ایک پکڑ لیا… بس بات ختم ہوگئی… مگر ہمارے حکمران معلوم نہیں کس مٹی کے بنے ہیں…
فوراً ہی منّت، ترلے، وفود، پابندیاں اور صفائیاں شروع ہو گئیں… ابھی معلوم نہیںکہ
ذلت اور رسوائی کے اور کون کون سے قدم اٹھائے جائیں گے… دوماہ قبل ہندئوں کی مسلح
تنظیم ’’بجرنگ دل‘‘ نے کئی عیسائیوں کو قتل کر دیا… اور عیسائیوں کے گھرو ں کو جلا
دیا… دنیا بھر سے شور اُٹھا کہ ’’بجرنگ دل‘‘ پر پابندی لگائی جائے… انڈین حکمرانوں
نے جواب دیا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ لوگ دیش (ملک) کے وفا دار ہیں… اٹل بہاری
واجپائی کے دور حکومت میں ایک غیر ملکی صحافی نے اعتراض اٹھایا کہ آپ فلاں شدت
پسند رہنما سے ملے ہیں… واجپائی نے کہا! میں اُس سے ملا ہوں، آئندہ بھی ملوں گا
وہ بھارتی ہے اور ہمیں اپنے لوگوں سے ملنے کا حق ہے … مگر پاکستان کے حکمران احساس
کمتری کی رسوائی میں مبتلا ہیں… یہ اول تو کسی بھی ایسے مسلمان سے ملتے نہیں جو
جہاد کو مانتا ہو اور اگر کبھی مجبوری سے مل لیں تو آخر میں درخواست کرتے ہیں کہ
یہ ملاقات میڈیا پر نہ آئے ہمیں کافروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے… انڈیا اس
وقت چاروں طرف سے پاکستان کو گھیر چکا ہے… بلوچستان پر حکومتی مظالم نے وہاں کے
کئی لوگوں کو انڈیا کی گود میں ڈال دیا ہے… کراچی کا ایک بڑا طبقہ لندن سے آنے
والے ایک اشارے پر پاکستانی پرچم پھینک کر انڈین ترنگا اٹھانے کی مکمل تیاری میں
ہے… اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہندئوں کی سرگرمیاں مکمل تیزی سے جاری ہیں…
پاکستان کے کئی صحافی انڈیا سے باقاعدہ اجرت اور تنخواہ لیتے ہیں… اسلام آباد میں
انڈین لابی بہت مضبوط ہو چکی ہے… افغانستان میں انڈیا نے جگہ جگہ اپنے عسکری اور
جاسوسی اڈے کھول لئے ہیں… کشمیر کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کے حکمران
تیار بیٹھے ہیں… امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے اگلے بیس سال میں بھارت کے سپر پاور
بننے کی پیشین گوئی بھی کردی ہے… جی ہاں پاکستان جسے کسی زمانے میں مسلمانوں کا
اسرائیل کہا جاتاتھا اپنے نظریات سے ہٹ کر انڈیا کے گھیرے میں ہے… انڈیا کا مطالبہ
ہے کہ پاکستان اپنے بعض شہریوں کو اغوا کرکے انڈیا کے حوالے کرے… تاکہ پاکستان میں
ایک اور جنگ بھڑک اُٹھے… پاکستان کے جاگیرداروں اور پلاٹوں، پلازوں کے عاشق
آفیسروں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کے حکمران ہندو ہوں یا مسلمان…
اُنہیں بس پیسہ چاہیے اور عیاشی… جی ہاںمیں پھر کہہ رہا ہوں کہ پاکستان پوری طرح
انڈیا کے گھیرے میں آچکا ہے… بس کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو… یہ لوگ جہاد کی
بات کرتے ہیں… اب انہیں لوگوں کا گلا دبایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان پر انڈیا کے
قبضے کی آخری رکاوٹ ختم کی جاسکے… اب پاکستان میں ایسی کوئی ’’مسلم لیگ‘‘ باقی
نہیں ہے جو انڈیا کی چالوں کو سمجھتی ہو… کچھ پرانے مسلم لیگی پرانی باتیں کرتے
رہتے ہیں مگر وہ بھی جہاد کے نام سے چڑتے ہیں… جبکہ نئی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل
مشاہد حسین اسوقت بھی بھارت کے خفیہ دورے پر ہیں… یہ وہ صورتحال ہے جو سب کو نظر
آرہی ہے… مگر یادرکھیں کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے… خراسان کی طرف سیاہ جہادی پرچم
لہرانے کا وقت تیزی سے قریب آرہاہے… ہندوستان کی زمین پر مسلمان فاتحین کا خون
اور مسلمان اولیاء کی قبریں ہیں… یہ پورا خطہ مسلمانوں کا تھا… اور پھر انشاء اللہ
مسلمانوں کا ہو جائے گا… میں خواب نہیں دیکھ رہا حقیقت عرض کر رہا ہوں… وہ مسلمان
جن کا ایمان جہاد کی حرارت سے مضبوط ہو چکا ہے اُن کو اب زندہ رہنے کی فکر نہیں
رہی… ہر بزدلی اور ہر بے غیرتی کی بنیاد زندہ رہنے کی فکر ہے… کون سپر پاور ہے اور
کون منی پاور مجاہدین نے سب کے نقشے پھاڑ دئیے ہیں… قرآن پاک کے اوراق سے جہاد کی
آیتیں ایک نور کی طرح ساری دنیا پر چھارہی ہیں… دنیا کے ملکوں کے پاس آگ ہے اور
آگ تو پانی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتی چہ جائیکہ وہ جہادی نور کا مقابلہ کرسکے…
شہداء کا خون ہر اسلحے کا توڑہے … اور پوری دنیا کی ہلاکت کا سامان خود اس دنیا
میں موجود ہے… ہم نہ کسی کو دھمکی دیتے ہیں اور نہ خوف پھیلاتے ہیں… ہم تو امن کے
بھوکے اور محبت کے علمبردار ہیں… ہم ساری دنیا کو ایمان، اسلام اور استسلام کی طرف
بلاتے ہیں… ہم ساری دنیا سے کہتے ہیں کہ اس دنیا کی رحمت حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے دامن میں ہے… آئو اس دامن کی پناہ میں آجائو امن
اور رحمت مل جائے گی…
مگر
ہم کیا کریں ظلم و شہوت کے پجاری ہمیں زندہ رہنے ہی نہیں دیتے… سب کو بولنے کی
اجازت ہے مگر ہماری باتوں پر پابندی ہے… گدھوں اور کتوں کی طرح بدکاری کی اجازت ہے
جبکہ حیاء کی بات پر پابندی ہے… ہر چور ڈاکو اور مافیا سرغنہ آزاد ہے جبکہ ہم یا
جیلوں میں ہیں یا دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں…
ہم
کہتے ہیں کہ ہماری بات سنو تو جواب میں گالیاں دی جاتی ہیں… ہم کہتے ہیں کہ ہم سے
بات کرو تو گولی اور ہتھکڑی سے جواب ملتا ہے… ملا محمد عمر مجاہد کا کیا جرم تھا؟…
عرب ممالک کے شرابی حکمرانوں کے ستائے نورانی چہرہ مہاجرین کا کیا جرم تھا؟…
پابندیوں کے ستائے ہوئے اللہ اللہ پکارنے والے جیش محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کے دیوانوں کا کیا جرم تھا؟… ہاں اگر آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کے دین کی بات کرنا جرم ہے تو یہ جرم انشاء اللہ مرکر
بھی نہیں چھوڑیں گے… ہاں! اگر آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے خیمے کی پہرے داری کرنا جرم ہے تو ہماری یہی خواہش ہے کہ اس
مبارک خیمے کی پہرے داری میں جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے… شراب، ڈانس اور جاگیر کے
عاشقو تمہیں کیا پتا؟ اس پہرے داری میں کیا مزہ ہے… ہر ظلم ہم پر، ہر پابندی ہم پر
، ہر طعنہ ہم پر… تب مرنے کے سوا اور کیا کیا جائے؟… ان حالات میں اگر مجاہدین کو
موت لذیذ معلوم ہوتی ہے تو اُن کا کیا قصور ہے؟…
اُمت
ِ مسلمہ کی طرف سے دنیا بھر کے ظالموں سے ایک اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر صاف صاف
کہتا ہوں کہ… بالآخر تم ہار جائو گے اور اسلام جیت جائے گا… اسلام غالب آئے گا…
آجائو امن کی طرف… اور امن ایمان میں ہے… آجائو سلامتی کی طرف… اور سلامتی اسلام
میں ہے… آجائو محبت کی طرف… اور محبت مدینہ پاک میں ہے… بیشک دن اور رات کے آنے
جانے میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
مطلوب ملزم
اللہ تعالیٰ
کے تمام ’’انبیاء علیہم السلام‘‘ پر ایمان لازم ہے… کسی ایک ’’نبی‘‘ کا انکار بھی
کفر ہے… قرآن پاک نے کئی انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں… یہ زندہ
واقعات ہر زمانے میں ’’اہل ایمان‘‘ کی رہنمائی فرماتے ہیں… انبیاء علیہم السلام نے
دین کی خاطرجہاد بھی فرمایا، ہجرت بھی کی، روپوشی بھی اختیار فرمائی… اور خوف والے
لمحات بھی گزارے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے دین کی خاطر قربانی دی اور کبھی
کسی ظالم و جابر کے سامنے گردن نہیں جھکائی… ابھی موجودہ حالات میں قرآن پاک کی
کئی آیات اور حضرات انبیاء علیہم السلام کے کئی مقدس واقعات ہماری رہنمائی کرتے
ہیں… مکہ کے مشرکوں نے خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم کو پکڑنے، جلا وطن کرنے اور شہید کرنے کی خوفناک سازش کی… قرآن
پاک نے مختصر الفاظ میں پورا منظر دکھا دیا… غزوۂ احزاب کے موقع پر مشرکین نے ایک
بڑا اتحادی لشکر لا کر مدینہ منورہ کا گھیرا کیا… اور اہل مدینہ پر دبائو ڈالا کہ
(نعوذ باللہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حوالے
کردیں… ورنہ پورے مدینہ کو پامال کر دیا جائے گا… قرآن پاک نے پوری سورۃ ’’الاحزاب‘‘
نازل فرمائی… ہجرت کی رات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطرے کی راتیں گزاریں… قرآن پاک نے پورا منظر
محفوظ کر لیا… حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری ہوا اور پھر
گرفتاری کے بعد سزائے موت کا فیصلہ سنا کر آگ میں ڈال دیا گیا… قرآن پاک نے بار
بار یہ منظر دکھایا اور سنایا ہے… حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کا فیصلہ
فرعون کے محل میں ہوا… جلّاد کی تلوار بھی تیارتھی مگر ایک خیر خواہ نے حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو مصر سے نکل جانے کا مشورہ دیا… آپ وہاں سے نکل کر ’’مدین‘‘ تشریف
لے گئے… مصر سے آپ کی اس ہجرت اور روپوشی کا عرصہ بعض مفسرین دس سال اور بعض بیس
سال بیان فرماتے ہیں…
حضرات
انبیاء علیہم السلام کے واقعات بہت عجیب ہیں…لیکن ہم ایمان تو انبیاء علیہم السلام
پر لاتے ہیں مگر زندگی بہت ’’پر امن‘‘ گزارنا چاہتے ہیں… حقیقت یہ ہے کہ ہم گھریلو
مخلوق بن کر ہجرت، جہاد اور قربانی کا تصور ہی اپنی زندگیوں سے نکال چکے ہیں… بس
یہی وجہ ہے کہ کفر اور کافر طاقتور ہوتے جارہے ہیںاور ہم دن بدن کمزور اور مغلوب …
قرآن پاک میں انبیاء علیہم السلام کے قصے صرف مزے لینے اور آنسو بہانے کے لئے تو
نہیں ہیں… بیشک ان قصوں میں روحانی مزہ بھی ہے اور جذبات کے آنسو بھی… مگر ان
قصوں کا اصل پیغام ’’عمل‘‘ ہے… حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مفسرین نے لکھا
ہے کہ جب جوان ہوئے تو ماشاء اللہ بہت طاقتور، توانا اور بارعب نکلے۔ اللہ تعالیٰ
نے آپ کو قوت فیصلہ اور حکمت بھی عطاء فرمائی… اور علم بھی خوب دیا… حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے دیکھا کہ مصر کے قبطی اسرائیلوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں تو آپ نے
’’مظلوموں کی مدد‘‘ کا فیصلہ فرمالیا… جوانی میں مظلوموں کی مدد کا فیصلہ کوئی
’’جذباتی‘‘ فیصلہ نہیں… انبیاء علیہم السلام کی سنت اور ایمانی فیصلہ ہے… ایک بار
ایک قبطی کو دیکھا کہ ایک اسرائیلی کو بیگار کے لئے گھسیٹ کر لے جارہا ہے… مظلوم
نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا… آپ اُسکی مدد کو پہنچے اور قبطی
کو سمجھایا، مگر وہ باز نہ آیا تو آپ نے ایک مکّا اُسے لگا دیا… وہ مرگیا اور
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر امتحانات کا زمانہ شروع ہوگیا… جب فرعون نے آپ کی
گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تو فرعون کے محل کا ایک شخص دوڑتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے پاس آیا
وَ
جَآ ئَ رَ جُلٌ مِّنْ اَقْصَاالْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی قَا لَ یٰمُوْ سٰٓی اِ نَّ ا
لْمَلَأَ یَاْ تَمِرُوْ نَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ فَاخْرُ جْ اِ نِّیْ
لَکَ مِنَ النَّاصِحِیْنَ (القصص ۲۰)
ترجمہ:
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، کہا اے موسیٰ دربار میں تیرے
متعلق مشورہ کرتے ہیں کہ تجھ کو مار ڈالیں پس آپ نکل جائیں بے شک میں آپ کا خیر
خواہ ہوں…
ہجرت
کرنا، روپوشی اختیار کرنا اور ظالموں سے چھپنا اور بھاگنا آسان کام نہیں ہے…
قرآن پاک کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے… خوف ، نگرانی ، نامعلوم منزل
اور تنہائی…
فَخَرَ
جَ مِنْھَا خَآ ئِفًا یَّتَرَقَّبُ قَا لَ رَ بِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْ مِ
الظّٰلِمِیْن (القصص ۲۰)
ترجمہ:
پس حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے نکلے ڈرتے ہوئے، راستہ دیکھتے ہوئے، (اور) بولے
اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے بچا لے۔
حضرت
شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں یہ عجیب نکتہ بیان فرماتے
ہیں۔
’’یہ
سنایا ہمارے پیغمبر کو کہ لوگ اُنکی جان لینے کی فکر کریں گے اور وہ بھی وطن سے
نکلیں گے، چنانچہ کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں، اُسی رات آپ
وطن سے ہجرت کرگئے‘‘ (موضح القرآن)
تاریخ
کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سفر میں اکیلے تھے، نہ آپ کے
پاس زاد راہ تھا اور نہ آپ کے ساتھ کوئی رہنما۔ اور تیز چلنے کی وجہ سے جوتا بھی
رہ گیا… برہنہ پا چلے جارہے تھے… راستے میں درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا اور
ننگے پائوں چلنے کی وجہ سے پائوں کے تلووں کی کھال تک اُڑ گئی… بس اسی پریشان حالی
میں آپ ’’مدین‘‘ جا پہنچے… آزمائش کا ایک مرحلہ پورا ہوا… اللہ تعالیٰ کی نصرت
آگئی اور زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوگیا… اور پھر کئی سال بعد مصر واپسی ہوئی
تو راستے میں نبوت و پیغمبری کا تاج پہنا کر… اُس کام کی تکمیل کے لئے
بھیجے گئے جس کا آغاز نوجوانی ہی میں فرما دیا تھا…
اگر
آپ نے پورا قصہ پڑھنا ہو تو قرآن پاک کی ’’سورۂ قصص‘‘ کا کسی مستند تفسیر کے
ذریعے مطالعہ فرما لیں… مجھے تو اس وقت قرآن پاک کا ایک اور منظر اپنی طرف کھینچ
رہا ہے… اللہ تعالیٰ اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد
فرماتے ہیں:
وَإِذْ
یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ
یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْْرُ
الْمَاکِرِیْن (الانفال ۳۰)
ترجمہ:
اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب کافر آپؐ کے متعلق سازش کر رہے تھے کہ آپ کو قید
کرلیں یا قتل کر دیں یا مکہ سے نکال دیں وہ اپنی سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور اللہ
تعالیٰ اپنی تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ۔
دراصل
دین اسلام کے غلبے کے لئے جہاد کی ضرورت تھی… اور جہاد بغیر ہجرت کے قائم نہیں
ہوتا، مضبوط نہیں ہوتا… تو اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کو ہجرت کا حکم عطاء فرمایا… اُس وقت مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی
تعداد بہت ہی کم تھی… اکثر مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت صدیق اکبر، حضرت علی
المرتضی اور چند صحابہ کرام رہ گئے تھے رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین… اُس وقت
مکہ مکرمہ کے مشرکین کا ایک خطرناک اجلاس ’’دارالندوہ‘‘ میں ہوا… یہ گھر سردارانِ
قریش کا ’’جنیوا‘‘ تھا اور عتبہ، شیبہ ، ابوجہل جیسے لوگ اس کے ویٹو پاور رکن تھے…
یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازش کو حتمی شکل دی
جارہی تھی… اور بالآخر ’’قتل کرنا‘‘ طے پا گیا… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا محاصرہ ہوگیا… مگر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اس محاصرے کے درمیان سے گذر کر… پہلے اپنے ’’ صدیق ذ‘‘
کے گھر اور پھر وہاں سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے… قرآن پاک نے اس واقعہ کے
کئی مناظر کو عجیب کیفیات کے ساتھ بیان فرمایا ہے… ہجرت کے لئے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو دعا بھی اللہ تعالیٰ نے خود سکھائی
وَقُل
رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ
وَّاجْعَلْ لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً
ترجمہ:
اور کہیے! اے میرے پروردگار مجھ کو داخل کر (مدینہ میں) اچھا داخلہ اور نکال مجھ
کو (مکہ سے) عزت کے ساتھ اور میرے لئے اپنی جانب سے زبردست نصرت و مدد عطاء
کر (بنی اسرائیل ۸۰)
اور
مشرکین مکہ کو بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ
مکرمہ سے تشریف لے جانا تمہاری ہلاکت کا پیغام ہوگا۔
وَإِن
کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّونَکَ مِنَ الأَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْہَا وَإِذاً لاَّ
یَلْبَثُوْنَ خِلَافَکَ إِلاَّ قَلِیْلاً
ترجمہ:
اور وہ تو آپ کو اس زمین سے دھکیل دینے کو تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں پھر وہ
بھی آپ کے بعد بہت کم ہی ٹھہرتے (بنی اسرائیل ۷۶)
اور
غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی ہجرت کا واقعہ ان مبارک الفاظ میں یاد دلایا…
إِلاَّ
تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
ثَانِیَ اثْنَیْْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ
تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْْہِ
وَأَیَّدَہٗ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ
حَکِیْمٌ (التوبہ ۴۰)
ترجمہ:
اگر تم رسول کی مدد نہیں کرو گے تو اُنکی اللہ تعالیٰ نے مدد کی ہے جس وقت انہیں
کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرے تھے جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ
اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے غم نہ کھائو بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے پھر اللہ
تعالیٰ نے اپنی طرف سے اُن پر تسکین اتاری اور اُن کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں
جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات کو نیچے کر دیا اور بات
تو اللہ تعالیٰ ہی کی بلند ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست (اور) حکمت والا ہے
اے
انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھنے والو… اے حضور پاک صلی اللہ علیہ
وسلم کے پیارے اُمتیو! تم نے ہجرت اور جہاد کو اپنی زندگی سے کیوں نکال
دیا؟… کیا آج کافروں کی بات کو نیچا دکھانے کی ضرورت نہیں ہے… حضرات انبیاء علیہم
السلام پر ایمان رکھتے ہو تو اُن کے طریقے پر چلنے کی محنت اور کوشش کرو… انبیاء
علیہم السلام میں سے بعض شہید کر دیے گئے… جیسے حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت
یحییٰ علیہ السلام… انبیاء علیہم السلام نے جیلیں کاٹیں… تنہائیاں جھیلیں، تشدّد
کا نشانہ بنے… اور دین کی خاطر سخت آزمائشوں میں ڈالے گئے… قرآن پاک میں ایک
پوری سورۃ انبیاء علیہم السلام کے نام سے ہے… سورۃ الانبیاء… اور کئی پیغمبروں کے
نام سے الگ الگ سورتیں… سورۂ محمد، سورۂ ابراہیم، سورۂ نوح، سورۂ ھود، سورۂ
یوسف… اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ تو قرآن پاک کے اٹھائیس پاروں میں موجود
ہے… آج انچاس کروڑ دیوتائوں کو سجدہ کرنے والے ’’ہندو‘‘ آخر ہمیں کیوں دھمکیاں
دے رہے ہیں… اور افسوس کہ پورا پاکستان خوف سے لرز رہا ہے… چند دن پہلے اخبارات
میں ایک ہی شور اور واویلا تھا کہ امریکی بحری بیڑہ آرہا ہے… کالم نویس خوف اور
بزدلی کی بو پھیلا رہے تھے اور حکومت کو جھکنے، دبنے اور بے غیرت بننے کے مشورے دے
رہے تھے… اور آج جس اخبار کو اٹھا ئیں ایک ہی شور ہے کہ انڈیا آرہا ہے… قرآن
پاک نے منافقین کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ جہاں سے شور کی آواز سنتے ہیں
تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہم پر ہی کوئی مصیبت آنے والی ہے…
یَحْسَبُونَ
کُلَّ صَیْْحَۃٍ عَلَیْْہِمْ (المنافقون ۴)
ترجمہ:
وہ ہر آواز کو اپنے ہی اوپر خیال کرتے ہیں
حضرت
شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یعنی
بزدل، نامرد، ڈرپوک، ذرا کہیں شور و غل ہو تو دل دہل جائیں، سمجھیں کہ ہم ہی پر
کوئی بلا آئی (تفسیر عثمانی)
اسی
طرح قرآن پاک نے منافقوں کی یہ علامت بھی بیان کی ہے کہ وہ زمانے کی مصیبتوں سے
بچنے کے لئے بھاگ بھاگ کر… یہود و نصاریٰ کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائے… مسلمانوں سے خلافت کیا چھنی کہ ہم یتیم
بچوں کی طرح بے سہارا ہوگئے… اب ہم میں سے بعض کافروں کو مطلوب ہیں اور بعض کافروں
کے محبوب ہیں… آخر اتنا بڑا فرق ہمارے معاشرے میں کس طرح ہوگیا؟… جو لوگ کافروں
کو ’’مطلوب‘‘ ہیں اُن کو تو مبارک ہو وہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی سنت زندہ کر
نے کی سعادت حاصل کر رہے تھے… کل کا فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ڈھونڈ رہا
تھا… اور کل کا ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی تلاش میں تھا… جبکہ آج کے فرعون اور ابوجہل آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے چند افراد کو مانگ رہے
ہیں… تاکہ وہ انہیں پکڑ کر لے جائیں… اُنکی داڑھیوں پر پیشاب کریں، اُن کے جسموں
پر نیلے داغ ڈالیں… اور اُن پر اپنے کتے چھوڑیں… اور انہیں الٹا لٹکا کر پوچھیں کہ
کہاں ہیں تمہارے مسلمان بھائی؟… اور کہاں ہے تمہارا مدد کرنے والا رب؟… وہ چاہتے
ہیں کہ ان چند سر پھرے مسلمانوں کو پکڑ کر لے جائیں تاکہ اسلام کا نام نیچے ہوجائے
اور مسلمانوں میں سے آئندہ کوئی بھی دینی عزت اور غیرت کی بات نہ کرے… وہ چاہتے
ہیں کہ ان چند مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکا دیں اور پھر پوری اُمت مسلمہ کو اپنا
غلام بنا لیں۔ اُنہیں تکلیف ہے کہ ان چند لوگوں نے اُنکی خدائی کو چیلنج کیا ہے…
اور اُنکی اکڑی ہوئی گردنوں کو بارہا جھکایا ہے… ہاں مبارک ہو اُن چند مسلمانوں کو
جو آج خوف اور خطرے کی زندگی جی رہے ہیں مگر اپنے عمل سے قرآن پاک کی آیات دنیا
کو سمجھا رہے ہیں… مگر وہ مسلمان غور کریں جو کافروں کو مطلوب نہیں بلکہ اُن کے
محبوب ہیں… یہ آخر کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوں گے…
مجھے
معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے مگر دل میں ایک تمنا ضرور ہے کہ … کاش ہر
مسلمان اس بات کی کوشش کرے کہ وہ کافروں کو مطلوب ملزم بن جائے… ان ظالموں نے ہم
سے سب کچھ چھین لیا… یہ ظالم ہمارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن
ہیں… اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کا دشمن
ہے… فَأِ نَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ (بقرۃ ۹۸)… تو پھر ہم کیوں
نہ ان سے دشمنی کریں… اور کیوں نہ ان کو اپنا دشمن بنائیں… زندگی چند دن کی ہے، ہر
جگہ گزر جاتی ہے… مگر بے ایمانی، بے غیرتی اور بے عزتی کی ہزار سالہ زندگی… ایمان
اور دینی غیرت والی ایک دن کی زندگی کے مقابلے میں وہ حیثیت بھی نہیں رکھتی… جو
حیثیت ایک ناپاک قطرہ پاک سمندر کے مقابلے میں رکھتا ہے… یا اللہ معاف فرما دے،
رحم فرما دے، نصرت فرما دے اور ثابت قدمی عطاء فرما دے
رَّبِّ
أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ
مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً
ربَّنَا
اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِیْ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا
وانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ… آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
مظلوموں کا اتحاد
فلسطین
کے مسلمانوں کی خصوصی نصرت اور حفاظت فرمائے… ظالم اور بزدل یہودیوں نے ’’غزّہ‘‘
پرپھر حملہ کر دیا ہے… صرف دو دن میں مسلمانوں کی دو سو اسّی لاشیں… اور سینکڑوں
کراہتے زخمی… بھوک، خوف اور پیاس سے بلکتے پیار ے پیارے مسلمان بچے… اور دہشت زدہ
نظروں سے خلائوں کو گھورتی ہوئی پیاری پیاری مسلمان بچیاں… یہودیو! اللہ تعالیٰ
تمہیں غارت کرے تم تو بہت کمینے، رذیل اور بدبخت ہو… جہنم کے کیڑے، زمین کا کینسر،
حرام خور اور حرام کار یہودیو! تمہیں تو بہادروں کی طرح جنگ کرنے کا طریقہ بھی
نہیں آتا… ہائے کاش، ہائے کاش فلسطین تک کا راستہ کھلا ہوتا… اقوام متحدہ سے کوئی
شکوہ نہیں، اُسے مسلمانوں کے خون سے کیا غرض… عالمی برادری سے کوئی شکوہ نہیں وہ
تو خود خونِ مسلم کی پیاسی ہے… مسلمان حکمرانوں سے کوئی شکوہ نہیں اُن بے چاروں کو
امریکہ اور یورپ کی پوجا سے فرصت ہی کہاں کہ اپنے دین، اپنے ایمان اور مسلمانوں کی
فکر کرسکیں… کسی سے کوئی شکوہ نہیں… مسلمان تو مسلمانوں کو پکڑ کر انعام لے رہے
ہیں، پلاٹ خرید رہے ہیں، حرام جائیدادیں بنا رہے ہیں… اور کافروں کو خوش کر رہے
ہیں… ہاں فلسطین کے بھائیو! ہاں فلسطین کی بہنو!… کسی سے کوئی شکوہ نہیں… تم بھی
مظلوم ہو اور ہم بھی مظلوم… ایسا کرتے ہیں کہ ہم تمہارے لئے گڑگڑا کر دعائیں
مانگیں اور تم ہمارے لئے دعا مانگو… ہم نیت رکھیں اور کوشش کریں کہ تمہاری مدد کو
پہنچیں گے اور تم بھی یہی نیت اپنے دلوں میں بسالو… آئو ہم سب مل کر مظلوموں کی
اپنی ایک ’’اقوام متحدہ‘‘ بنالیں… آئو ہم تم مل کر مظلوموں کی ایک اپنی عالمی
برادری جمالیں… ظالموں کے پاس پیسہ اور تیل ہے تو… الحمدللہ ہمارے پاس ایمان ہے
اور خون ہے… ظالموں کے پاس اسلحہ ہے تو ہمارے پاس اپنے رب کا عظیم نام ہے… اور
انشاء اللہ آخری فتح تو ہماری ہی ہونی ہے… خون دینے میں کوئی حرج نہیں یہ خون رب
نے پیدا فرمایا ہے اُس کی راہ میں بہہ جائے تو پاک ہے ورنہ ناپاک رہتا ہے… جانیں
کھونے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ عرش بہت بڑا ہے اور جنت بہت وسیع ہے… اور شہداء
تو فرشتوں کے ساتھ اُڑتے پھرتے رہتے ہیں…
انڈیا
کے مشرک، اسرائیل کے یہودیوں سے اتحاد کر چکے ہیں… آئو مظلومو! ہم بھی اتحاد
بنالیں… دعائوں والا اتحاد، محبتوں والا اتحاد… اور ہجرت و نصرت والا اتحاد…
فلسطین کے شہیدو! ہمارا سلام قبول کرو… فلسطین کے غازیو! ہماری دعائیں تمہاری طرف
روانہ ہیں… اور ان دعائوں کے پیچھے الحمدللہ عمل کا جذبہ بھی زندہ ہے… رنگ و نور
پڑھنے والے بھائیو! اور بہنو!… آئو جہادِ فلسطین کی بھی نیت کرلیں… اگر نیت سچی
ہوئی تو انشاء اللہ یہودیوں پر زلزلہ آجائے گا… نیت کرنے کے بعد وہاں کے مجاہدین
اور مظلوموں کے لئے دعا کرو… اور اللہ پاک سے مانگو کہ وہ راستے کھول دے… جس طرح
ظالم ایک دوسرے کی مدد کو فوراً پہنچ جاتے ہیں… ہمارا مالک ایسی نصرت فرمائے کہ ہم
مسلمان بھی ایک دوسرے کی نصرت کو پہنچ سکیں… اور اس کے لئے ہماری ایک نسل کو
قربانی دینا ہوگی… جی ہاں موجودہ ظالمانہ عالمی نظام کو توڑنے کے لئے قربانی… اے
مسلمانو! اس نظام میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے… اس نظا م میں خود کو فٹ کرنے کی
سوچ ختم کرو… اور ایک ہی سوچ بنالو کہ اس نظام کو توڑنا ہے… پاش پاش کرنا ہے… وہ
دیکھو! ہماری نسل کے شہداء کے ہر اول دستے نے اس نظام کی جڑوں کو کھود ڈالا ہے…
آگے بڑھو… اسی دستے کے بعد والوں میں نام لکھوا لو… بس ایک نسل کی قربانی… اور
پھر انشاء اللہ دین اسلام کی بہاریں اور قرآن پاک کی بہاریں… اللہ اکبر کبیرا…
المساجد
ڈائری
اللہ
تعالیٰ نے ایک دعاء قبول فرمائی، ایک تمنا پوری ہوئی… اور ’’مساجد اللہ‘‘ کی پکار
اپنے صفحات پر لئے ’’المساجد ڈائری‘‘ چھپ کر آچکی ہے… اور الحمدللہ اس وقت میرے
سامنے رکھی ہے…
آپ
نے کبھی ’’مسجد‘‘ کی طرف غور سے دیکھا ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟… سبحان اللہ و بحمدہ
سبحان اللہ العظیم… آپ نے کبھی ’’مسجد‘‘ کی طرف جاتے ہوئے سوچاکہ آپ کس کے بلاوے
پر کہاں جارہے ہیں؟… رب کعبہ کی قسم ’’مسجد‘‘ جاتے وقت جو سرور ایک مسلمان پر طاری
ہوتا ہے اگر وہ اسے محسوس کرے تو عاشق لوگ محبوب کی گلیوں کا تذکرہ بھول جائیں… دل
چاہتا ہے رو رو کر چیخ چیخ کر مسلمانوں کو بتائوںکہ مسجد کتنی عظیم جگہ ہے، کتنی
رحمت والی جگہ ہے… وہاںاللہ تعالیٰ ملتا ہے یعنی اُسکی خاص رحمت نصیب ہوتی ہے…
ہسپتالوں، بازاروں، اور سڑکوں پر لوگوں کارش ہے… ہر شخص سکون کی تلاش میں بے سکون
ہو رہا ہے… اور گناہوں کی خارش بڑھتی ہی جارہی ہے… حالانکہ مسجد میںہر مسئلے کا حل
موجود ہے اور وہاں تو سکون کے دریا بہتے ہیں… ہمارا دین ’’مسجد‘‘ والا دین ہے…
ہمارے دادا حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’کعبۃ اللہ‘‘ کے پاس
ہمارے خاندان کو لا بسایا… اس لئے ہم جب تک مسجد کے نزدیک رہتے ہیں آباد رہتے ہیں
اور جب مسجد سے کٹ جاتے ہیں تو برباد ہو جاتے ہیں… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کو مسجدوں سے ایسا عشق تھا کہ سفر کے دوران اگر مسجد نظر آجاتی تو سفر کو
بھول جاتے اور فوراً مسجد میں حاضر ہوکر… دو رکعت کی ’’ملاقات‘‘ اور ’’معراج‘‘
حاصل کر لیتے… جی ہاں جن سے پیار ہوتا ہے اُن کو اپنے ’’گھر‘‘ بلایا جاتا ہے…
مسلمانوں
کو مسجد کی طرف بلانے کے لئے یہ خیال آیا کہ… مساجد کے فضائل، احکام اور آداب پر
ایک ڈائری تیار کی جائے… اللہ تعالیٰ نے نصرت فرمائی، ساتھیوں نے محنت کی اور
الحمدللہ یہ ڈائری تیار ہوگئی… اس میں قرآنی آیات بھی ہیں وہ آیات جو مساجد،
نماز اور جہاد کے متعلق ہیں… اور بہت سی معطر احادیث بھی ہیں… یہ احادیث مساجد کی
اہمیت، حقیقت اور فضیلت سمجھاتی ہیں اور مسلمانوں کو باجماعت نماز کے لئے مسجد کی
طرف بلاتی ہیں… حضرات فقہاء کرام نے قرآن و سنت سے ’’مساجد‘‘ کے جو احکام اور
مسائل بیان فرمائے ہیں وہ بھی اس ڈائری میں موجود ہیں… اور بہت سی تاریخی مساجد کا
تعارف بھی اس ڈائری میں شامل ہے… اور ساتھ ساتھ مساجد کی تصاویر کی ایک پوری
کہکشاں اس ڈائری میں بکھری پڑی ہے… آپ اس ڈائری کا جو صفحہ بھی کھول کر پڑھ لیں
وہ آپ کے علم میں اضافہ کرتا ہے… اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے… میری تمام
قارئین سے گذارش ہے کہ اس ڈائری سے فائدہ اٹھائیں اور اسے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں
تک پہنچائیں… اس ڈائری کا ناشر ’’مکتبہ عرفان‘‘ ایک وقف ادارہ ہے جو کسی کی ذاتی
ملکیت نہیں ہے… یہ ادارہ دینی کتابیں چھاپتا ہے… اگر اُسے کچھ منافع ہو تو اُس سے
مزید دینی لٹریچر چھاپا جاتا ہے یا اُس رقم کو دین کے اہم اجتماعی کاموں میں لگایا
جاتا ہے… اس ادارے کا بہت شکریہ کہ اُس نے ہمیں… اس سال یہ خوبصورت اور ایمان
افروز تحفہ دیا ہے… اس ڈائری میں محنت کرنے والے تمام رفقاء کو اللہ تعالیٰ اپنی
شایانِ شان بدلہ نصیب فرمائے…
آئیں
آخرت کی مزدوری کریں
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے موقع پر پہلے ’’قباء‘‘ میں
فروکش ہوئے۔ آپ نے وہاں ’’مسجد قبا‘‘ تعمیر فرمائی… سورہ التوبہ میں ’’مسجد
قُبا‘‘ کا تذکرہ موجود ہے… پھر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپؐ نے سب سے پہلے ’’مسجد‘‘ کی فکر
فرمائی… جب مسجد تعمیر ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے خود تعمیر میں حصہ لیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے
عشق میں جھوم جھوم کر مزدوری فرمائی… مساجد کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
اجمعین کے عشق کا عجیب عالم تھا… حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اللہ تعالیٰ نے زمین
کی حکومت عطا فرمائی تو انہوں نے مشرق و مغرب میں مساجد کا نور پھیلادیا اور چار
ہزار سے زائد مساجد تعمیر فرمائیں… خیر یہ تو ایک مستقل اور الگ داستان ہے بہت
میٹھی داستان… اسوقت تو اس داستان کو سنانے کا نہیں بلکہ دہرانے کا موقع ہے… انشاء
اللہ چند دن کے بعد ’’تعمیر مساجد‘‘ مہم شروع ہونے والی ہے… اللہ اکبر کبیرا… آج
ہر شہر کی ہر گلی میں لوگ اپنے اپنے مکانات بنانے میں لگے ہوئے ہیں… مگر کچھ اللہ
تعالیٰ کے عاشق، دین کے دیوانے سروں پر رومال باندھ کر ’’اللہ تعالیٰ کا گھر‘‘
یعنی مساجد کی تعمیر کے لئے نکلنے والے ہیں… اپنا گھر آباد کرنے کے لئے تو اپنوں
ہی کو بلایا جاتا ہے… واہ میرے مالک کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ نوجوان جو اس مہم میں
شرکت کریں گے… کچھ تو خود کو مزدوری کے لئے وقف کردیں گے اور مزدوری کی اجرت اپنے
رب سے لیں گے… وہ جب پتھر، اینٹیں اور مٹی اٹھا رہے ہوں گے اور انہیں یاد آئے گا
کہ ہمارے آقا اور محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
بھی مسجد کی تعمیر میں خود کام کیا تھا تو اُن کو کیسی خوشی اور سرشاری نصیب ہوگی…
اور کچھ ساتھی چندہ جمع کرنے کے لئے نکلیں گے اور کچھ انتظامی کاموں میں لگ جائیں
گے… چالیس دن یا دو مہینے کی زوردار مہم اور پچیس مسجدیں… اللہ اکبر! جب اس رمضان
میں ان پچیس مساجد سے اذان کی آواز گونجے گی تو کتنا مزہ آئے گا… ہمارے خوش قسمت
ساتھیوں نے مسجدیں تو انشاء اللہ بہت بنانی ہیں… مگر فی الحال تین سو تیرہ کی نیت
کی ہے… ان میں سے کچھ بن چکی ہیں… اور پچیس انشاء اللہ اس سال بنیں گی اور باقی
انشاء اللہ آئندہ… دین اسلام کا قافلہ اسی طرح زمین پر پھولوں کو سجاتا ہوا آخرت
کی طرف چلتا ہے۔ قیامت کے دن تمام مسجدوں کو اٹھا کر کعبہ شریف کے ساتھ جوڑ دیا
جائے گا… اور پھر کعبہ شریف اور ان تمام مساجدکو جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا… تب
محنت کرنے والے خوشیاں منائیں گے اور اُن کا حق ہوگا کہ خوب خوشیاں منائیں…
ہوشیار!
تیار! میرے پیارے بھائیو!… مہم قریب آرہی ہے…
دعا
کی درخواست ہے میری مائوں اور بہنو!… بہت دعاء کی درخواست…
ایک
مفید اور مؤثر دعاء
حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے:
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو
شخص کسی مریض کی عیادت کرے اور اُس مریض پر موت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں اور
عیادت کرنے والا اُس مریض کے پاس یہ دعاء سات بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اُس مرض سے
اُسے ضرور شفاء عطاء فرمائے گا
أَسْئَلُ
اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أَنْ یَّشْفِیَکَ
ترجمہ:
میں اللہ تعالیٰ عظمت والے سے سوال کرتا ہوں جو عرش عظیم کا رب ہے کہ وہ تجھے شفاء
نصیب فرمائے۔ (ابو دائود)
اگر
مریض کوئی خاتون ہو تو یَشفِیَکِ پڑھے اور اگر یہ دعاء اپنی صحت کے لئے پڑھے تو
یَشْفِیَنِی پڑھ لے…
اللہ
تعالیٰ ہمیں اور تمام بیماروں کو شفاء کاملہ عاجلہ عطاء فرمائے
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
ڈھال کو مضبوط کریں
پر
ایمان رکھنے والے ایک شخص نے ’’فرعون‘‘ کو سمجھایا کہ … حضرت موسیٰ علیہ السلام کو
قتل نہ کرو… پھر اُس اللہ کے بندے نے یہ بھی کہا
’’اے
میری قوم آج بے شک ملک پر تمہاری حکومت ہے اور تم غالب ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ
کا عذاب آگیا تو ہمیں کون بچائے گا‘‘… (المؤمن ۲۹)
قرآن
پاک نے یہ واقعہ ’’سورۃ المومن‘‘ پارہ ۲۴ میں بیان
فرمایا ہے… یہ شخص فرعون کے دربار کا کوئی اہم عہدیدار تھا… اور فرعون ہی کی قوم
سے تعلق رکھتا تھا اور خفیہ طور پر ایمان قبول کر چکا تھا… اُس نے جب دیکھا کہ
فرعون حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شہید کرنا چاہتا ہے تو اُس نے اپنا
ایمان ظاہر کر دیا اور خوب ڈٹ کر فرعون اور اُس کی کابینہ کو سمجھانے کی کوشش کی…
مگر وہ بدنصیب لوگ نہ مانے اور الٹا اُس شخص کو مارنے پر تُل گئے… تب اللہ تعالیٰ
کی نصرت آئی اور اُس شخص کو بچا لیاگیا… یہ پورا قصہ بہت ایمان افروز ہے… اُس
اللہ والے نے فرعون اور اُس کے ساتھیوں کو سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ یہ دنیا
فانی ہے اور اصل زندگی آخرت کی ہے… اے میری قوم میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں
اور تم مجھے آگ اور شرک کی طرف بُلا رہے ہو… یاد رکھو ہم سب نے اللہ کی طرف لوٹ
کر جانا ہے… آخر میں اُس اللہ والے نے فرمایا
فَسَتَذْکُرُوْنَ
مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ
بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ (المومن ۴۴)
یعنی
میں نے جو باتیں کی ہیں آگے چل کر تم ان کو یاد کرو گے، میں اپنا معاملہ اللہ
تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے…
قرآن
پاک اگلی دو آیات میں اس قصے کا یہ انجام بیان فرماتا ہے
فَوَقٰہُ
اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوٓئُ الْعَذَابِO اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا
غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃ اَدْخِلُوٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ
اَشَدَّ الْعَذَابِ (المومن ۴۵، ۴۶)
پس
اللہ تعالیٰ نے اُس بندے کو اُن (دشمنوں) کی سازشوں کے شر سے بچا لیا اور فرعون کے
لوگوں کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ یہ آگ کا عذاب ہے جس میںوہ صبح شام ڈالے جاتے ہیں
اور جس دن قیامت آئے گی تو کہا جائے گا کہ فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کردو…
مرنا
تو سب نے ہے ظالم نے بھی مظلوم نے بھی… مگر ظالم مرنے کے بعد سیدھا عذاب میں
جاگرتا ہے… جبکہ ایمان والے مظلوم مرنے کے بعد اللہ پاک کی نعمتوں اور رحمتوں میں
ڈوب جاتے ہیں… کیاآج کے حکمرانوں کے دربار میں کوئی اللہ کا بندہ ہے جو انہیں
سمجھا سکے کہ جہاد کے خلاف کارروائی ’’قرآن پاک‘‘ کے خلاف کارروائی ہے… اور قرآن
پاک کے دشمن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے… اس وقت کئی دانشور اور صحافی
حکومت کو سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان سے جہاد کا نام و نشان ہی مٹا دو… ورنہ بھارت
کھا جائے گا، امریکہ بھی ڈالے گا… گویا کہ وہ یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان والے
اپنے بچائو کے لئے اپنے’’کافر‘‘ ہونے کا اعلان کردیں… قرآن پاک کا منکر ہونے کا
اعلان کردیں… ایسے لوگوں سے قرآن پاک پوچھتا ہے: (مفہوم) اگر تم جہاد سے ہٹ کر
ظاہری طور پر آج بچ بھی گئے تو کتنے دن زندہ رہ لوگے… موت تو اپنے وقت پر آہی
جائے گی تب تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہوگا… وہاں کیا جواب دوگے… ملاحظہ
فرمائیے ان مضامین کے لئے قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب… تعجب ہے کہ فرعون جیسے ظالم
کے دربار میں توایک ایمان والا مرد موجود تھا… جبکہ آج کے مسلمان حکمرانوں کی
پوری کابینہ میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو قرآن پاک کی یہ واضح باتیں اپنے
ساتھیوں اور حکمرانوں کو سمجھا سکے… اور اُن کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کی
کوشش کرے… افسوس صد افسوس کہ آج امریکہ اور انڈیا سے ڈرانے والے تو بے شمار ہیں
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والا کوئی نہیں حالانکہ… ایک منٹ کا ’’عذاب قبر‘‘
روس اور امریکہ کے پچاس ہزار ایٹم بموں کی آگ سے زیادہ دردناک ہوگا… یا اللہ ہم
آپ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور آپ کے عذاب سے آپ ہی کی پناہ چاہتے ہیں…
دعوت
ِجہاد کی ایک اور کرامت
بی
بی سی لندن کو بھی یہودیوں، مشرکوں اور صلیبیوں کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی
ہے کہ … وہ پاکستان سے جہاد کا نام و نشان مٹانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے… گذشتہ
دو دنوں میں بی بی سی کے ایک نمائندے ’’احمد رضا‘‘ (کراچی) نے پاکستان میں جہادی
تنظیموں کی کارکردگی پر ایک رپورٹ نشر کی ہے… پوری رپورٹ کا خلاصہ یہی ہے کہ حکومت
اب آخری وار کرے اور جہاد کا نام لینے والی ہر زبان کو کاٹ دے… دیکھیں بی بی سی
والوں کے دل کی یہ آرزو پوری ہوتی ہے یا نہیں… مگر دعوتِ جہاد کی ایک اور کرامت
ظاہر ہوگئی… بی بی سی نے اپنی اس رپورٹ میں کئی جہادی تقریریں اور نظمیں اور نعرے
سنا دیئے… یقین جانیں مزہ آگیا… جن آوازوں کو سنے ایک عرصہ بیت گیا تھا وہ
آسانی سے سن لیں اور لاکھوں مسلمانوں نے سن لیں… میرے رب کی قدرت عجیب ہے کہ ’’بی
بی سی‘‘ پر جہادی تقریریں، نعرے اور نظمیں گونجتی رہیں… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان
اللہ العظیم… اس موقع پر بس اتنی سی بات عرض کرنی ہے کہ … جب تک قرآن پاک زمین پر
موجود ہے اور پڑھا جاتا ہے اور قیامت کی بڑی علامتیں ظاہر نہیں ہو جاتیں… پاکستان
تو کیا کسی بھی ملک سے جہاد کا نام اور کام ختم نہیں ہوسکتا… قرآن پاک کی ’’آیات‘‘
جہاد کی محافظ ہیں اور قرآن پاک بہت طاقتور ہے… ہمارا تجربہ ہے کہ جب سے جہاد کو
مٹانے کی کوششیں تیز اور سخت ہوئی ہیں اُسی وقت سے جہاد نے زیادہ قوت پکڑی ہے…
ہم
نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ مجاہدین کے جلسوں میں بہت کم لوگ ہوتے تھے، اُس وقت
جہاد پر کوئی پابندی نہیں تھی… مگر پھر جب ظلم آیا تو جہاد بھی طاقتور بن گیا…
اور مجاہدین کے اجتماعات میں ہزاروں ، لاکھوں لوگ شریک ہونے لگے… کافر مزید زور
لگا کر دیکھ لیں نتیجہ انشاء اللہ یہی نکلے گا… اس لئے ’’بی بی سی‘‘ سمیت تمام اُن
لوگوں اور اداروں سے ہم پیشگی ’’تعزیت‘‘ کرتے ہیں… جو اس بات کی آس لگائے بیٹھے
ہیں کہ وہ اپنی آنکھوں سے جہاد کا خاتمہ دیکھ لیں گے… نہیں جناب! آپ تمام
بدنصیبوں کو اپنی یہ تمنا قبر میںاپنے ساتھ لے جانا پڑے گی… اگر میری بات پر یقین
نہ آئے تو گذشتہ بیس سال میں جہاد کے عروج کی کہانی پڑھ لیجئے…
آپ
جیسے بد نصیبوں سے تعزیت ہی کی جاسکتی ہے… کیونکہ آپ سخت ’’مصیبت زدہ‘‘ ہیں…
ناکامی
سے بچنے کا نصاب
یہ
ایک چھوٹا سا نصاب ہے مگر افسوس کہ کافی عرصہ ہوا ہم مسلمان اس سے محروم ہو چکے
ہیں… اگر ہم اس نصاب پر عمل کرلیں تو انشاء اللہ ڈھائی سال کے عرصہ میں ’’خلافت‘‘
قائم ہوسکتی ہے… اور زمین پر اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہوسکتا ہے… مگر کون عمل
کرے؟…
’’جہاد
اور جماعت‘‘… یہ ہے کامیابی کا نصاب… اس وقت الحمدللہ ’’جہاد‘‘ تو چل پڑا ہے… اور
جہاد کے اس ’’احیاء‘‘ کے پیچھے بہت بڑی قربانی … اور بہت بڑی محنت ہے…
مگر
مسلمان شرعی طرز کی عالمگیر جماعت سے محروم ہیں… اگر کوئی جماعت شریعت کے مطابق
بنتی ہے تو چند دن میں ہی ترقی کر جاتی ہے بلکہ صدیوں کا فاصلہ طے کر جاتی ہے…مگر
پھر وہ جماعت یا تو ٹوٹ جاتی ہے یا شرعی نظام سے ہٹ کر… جمہوری یا اخوانی نظام کی
طرف چلی جاتی ہے… دراصل صدیوں کی شیطانی، یورپی محنتوں نے مسلمانوں کو
’’اجتماعیت‘‘ اور اُسکی ’’ برکات‘‘ سے محروم کر دیا ہے… یہ ایک بہت دردناک داستان
ہے… خصوصی طور پر مسلمانوں کو قومیتوں، زبانوں، علاقوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا
گیا… اور پھر تقسیم کی یہ عادت ایسی پختہ ہوئی کہ اب ایک گھرانے میں بھی ’’اتفاق‘‘
ناممکن نظر آتا ہے… کل تک ’’اجتماعیت‘‘ مسلمان کے خون میں رچی ہوئی تھی… اب
’’انفرادیت‘‘ اور ’’اختلافات‘‘ ہی اس کی عادت بن چکے ہیں… حضرت امام مہدی رضی اللہ
عنہ کے آتے ہی خلافت کیوں قائم ہو جائے گی؟… حالانکہ وہ پہلے سے نہ حکمران ہوں گے
اور نہ کوئی بڑے سردار… مگر اُن کے آتے ہی مسلمان مشرق و مغرب پر چھا جائیں گے…
وجہ یہ ہوگی کہ اُنکی صورت میں مسلمانوں کو ایک متفقہ ’’امیر‘‘ مل جائے گا… جب
متفقہ امیر ملے گا تو ’’شرعی جماعت‘‘ بن جائے گی… یہ جماعت جہاد کرے گی تو فوراً
خلافت قائم ہوجائے گی… طالبان کو دیکھ لیں انہوں نے ایک سال میں نوے فیصد
افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا… وجہ یہی تھی کہ ایک امیر تھا اور شرعی جماعت… اب
بھی طالبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا یہ عالم ہے کہ امریکہ اور نیٹو کا
اتحاد اُن کے سامنے بے بس ہے … مگر طالبان میں بھی کئی لوگ وقتاً فوقتاً ’’امیر‘‘
کی نافرمانی پر اٹھتے رہتے ہیں… ان میں سے کوئی احتساب کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی
اختیارات کا… اور کسی کو شیطان اس پر کھڑا کرتا ہے کہ ’’ون مین شو‘‘ ٹھیک نہیں…
ابھی تک تو یہ عناصر کمزور اور ناکام ہیں لیکن… اگر یہ فتنے نہ اُٹھتے تو اب تک
افغانستان پر دوبارہ امارتِ اسلامیہ قائم ہوچکی ہوتی… شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ
دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں ہر سال اربوں ڈالر صرف مجاہدین کو توڑنے پر خرچ کرتی
ہیں… دراصل کافروں کو علم ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اُن کے لئے موت ہے… ابھی کچھ
عرصہ پہلے جب ’’ریاض گوہر شاہی‘‘ کا فتنہ اٹھا تو آپ حیران ہونگے کہ امریکہ کی
طرف سے ایک ادارے نے اُسے ایک ارب ڈالر کی رقم دی… اُن کو اندازہ تھا کہ یہ شخص
مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے… کیونکہ اُس کے نظریے کی بنیاد ہی
’’جہاد کا انکار‘‘ تھا… قرآن پاک کی سورۂ ’’محمد‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے کفر
اورایمان کے درمیان فرق کو جہاد کی وجہ ارشاد فرمایا ہے… گوہر شاہی نے اسی بنیاد
پر وار کیا تو اُسے ایک دن میں ایک ارب ڈالر مل گئے… ہم مسلمان چونکہ ’’انفرادیت‘‘
اور ’’اختلافات‘‘ کے عادی ہو چکے ہیں اس لئے ہمیں ’’اجتماعیت‘‘ بوجھ محسوس ہوتی
ہے… اس وقت پاکستان میں جہاد کو ماننے والی جماعتوں پر زمین پھر تنگ کی جارہی ہے…
ہم اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعائیں مانگ رہے ہیںتاکہ ملک مزید خانہ جنگی کا شکار نہ
ہوجائے… باقی الحمدللہ کسی سے کوئی ڈر نہیں ہے… ہم جانتے ہیں کہ موت کا وقت مقرر
ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اٹل ہے… پھر ڈرنے اور گھبرانے کی کیا گنجائش ہے؟… ہم
تو سارا کام اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کر رہے ہیں… تو پھر کیا ڈر؟ کیا غم؟
اور کیا اندیشہ؟… ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے جسے پورا کرنے کی ہم فکر رکھتے
ہوں… ہمیں تو قرآن پاک نے بلایا تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم نے لبیک کہی…
ہماری خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہوجائے… مگر امن کی اس خواہش میں ہم ایمان سے
ہاتھ نہیں دھو سکتے… اس وقت حکومت بہت گہرے مشوروں میں ہے… کافروں کا ایک وزیر ان
سے مل کر جاتا ہے تو فوراً اُس کی جگہ کوئی گورا جرنیل ان کی آخرت برباد کرنے
پہنچ جاتا ہے… حکومت کو جو کچھ کرنا ہے وہ کرتی رہے… جہاد کے داعیوں کو چاہیے کہ
اگر کامیابی چاہتے ہیں تو… اجتماعیت کو مضبوط کریں اور کبیرہ گناہوں سے بچیں… جب
بھی حالات خراب ہونے لگتے ہیں شیطان بعض لوگوں کو پریشان اور خوفزدہ اور بعض کو
جذباتی کر دیتا ہے… یہ لوگ اسی پریشانی اور خوف میں یا تو اجتماعیت توڑتے ہیں… یا
گناہوں میں سکون ڈھونڈتے ہیں… اس وقت دنیا بھر کا تمام کفر ان مجاہدین کے خلاف
متحد ہے… یہ بات مجاہدین کے لئے بہت بڑا اعزاز اور کامیابی کا تمغہ ہے… اب اس
کامیابی کو پختہ کرنے کے لئے اپنی ’’اجتماعیت‘‘ کو شرعی بنیادوں پر مضبوط بنائیں…
اور گناہوں سے بہت بچیں… اگر گناہ ہو جائے تو سچے استغفار میں تاخیر نہ کریں… اور
خوف، پریشانی اور بددلی کو تو اپنے قریب بھی نہ آنے دیں… اگر کوئی یقینی خبر دے
کہ کل آپ کو قتل کر دیا جائے گا تو کل تک کا وقت کام ہی میں گذاریں… اور ذرہ
برابر اپنے ’’حق کام‘‘ میں سستی یا کوتاہی نہ کریں… اگر ہم اطاعت امیر میں رہے…
اجتماعیت میں رہے… اور گناہوں سے بچتے رہے تو یقین کریں کہ ہمارا کام ضائع نہیں
ہوگا… اور ہم انشاء اللہ ناکام نہیں ہوں گے… آپ قرآن و سنت میں گہرائی سے غور
کریں تو آپ بے ساختہ اس بات کی تصدیق کریں گے… دیکھو! ہمارے خیر خواہ محبوب ،
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیا ارشاد فرماتے ہیں
۱۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں
تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں، امیر کا حکم سننے کا، اُسکی اطاعت کا، جماعت کے
ساتھ مل کر رہنے کا، ہجرت کا اور جہاد کا (السنن الکبریٰ ، بیہقی)
صحابہ
کرام نے ان پانچ احکامات پر عمل کیا تو دنیا پر چھا گئے… اور آخرت میں کامیاب
رہے… ہم بھی عمل کریں گے تو انشاء اللہ یہ دونوں ثمرات پائیں گے۔
۲۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جماعت
رحمت ہے اور علیحدگی عذاب ہے (مسند احمد)
رحمت
ایسی چیز ہے کہ دنیا کا کوئی ایٹم بم بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا
۳۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اللہ
تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے اور شیطان اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو
جماعت کی مخالفت کرتے ہیں وہ ایڑ لگاتا ہے (نسائی)
یعنی
اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت فرماتا ہے، اُنکی نصرت فرماتا ہے… جبکہ جماعت کی
مخالفت کرنے والوں کے ساتھ شیطان ہوتا ہے جو اُن کو اور اُکساتا ہے۔
۴۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس
شخص نے میری اطاعت کی اُس نے یقینا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری
نافرمانی کی اُس نے یقینا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی
اُس نے یقینا میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے یقینا میری
نافرمانی کی اور امیر ڈھال ہے ‘‘ (مسلم)
یعنی
امیر کی اطاعت میں حفاظت ہے اور اُسکی نافرمانی سے دشمن غالب ہوجاتے ہیں… ڈھال
ہونے سے یہ بات واضح ہوتی ہے…
۵۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اے
عبدالرحمن! امارت و منصب کی طلب نہ کرنا کیونکہ اگر منصب بغیر طلب کے ملا تو اللہ
تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد ہوگی اور اگر مانگ کر عہدہ لیا تو عہدہ کے حوالہ کر
دیے جائو گے (اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں ہوگی) (بخاری)
جماعت
میں اکثر فتنے اسی سے ہوتے ہیں کہ بعض افراد کو اپنی اطاعت کرانے اور منصب پانے کا
شوق پیدا ہوجاتا ہے تو وہ … اجتماعیت کو توڑتے ہیں…
اے
مسلمان بھائیو!… ہم کسی کے دبائو میں آکر ، یا کسی سے ڈر کر ’’ایمان‘‘ تو نہیں
چھوڑ سکتے… جہاد بھی ایمان کا حصہ ہے، کیونکہ وہ قرآن کا حصہ ہے… ہم نماز نہیں
چھوڑ سکتے کیونکہ وہ فرض ہے… تو جہاد بھی تو فرض ہے… اس لئے اپنے ایمان پر ڈٹے رہو
زندگی چند دن کی ہے، ہر حال میں گزر جاتی ہے… اصل مسئلہ آخرت کا ہے… اس دنیا کے
تھوڑے سے امن کی خاطر آخرت خراب کرنا عقلمندی نہیں ہے… مگر اسوقت اپنے جہاد کو
بچانے کیلئے لازمی ہے کہ ہم… جماعت اور تقویٰ کا التزام کریں… بیعت کے شرعی نظام
پر قائم جماعت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے… ہم اس نعمت کی حفاظت کے لئے دعا بھی کریں…
اور جان توڑ محنت بھی…
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
میدان سعادت
ہم
سب کو ’’مساجد مہم‘‘ میں شرکت کی توفیق اور سعادت نصیب فرمائے… یہ بہت ہی فائدے
والا کام ہے… آئیے پہلے ماضی کے چند حسین مناظر کو یاد کر لیتے ہیں۔
حضرت
آدم علیہ السلام اور جنت کی یاد
ہم
سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں… ہمارے والد حضرت آدم علیہ السلام ’’جنت‘‘
کے رہنے والے تھے… اللہ تعالیٰ نے اُن کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا تو اُن
کے دل و دماغ میں جنّت کی یادیں رچی بسی ہوئی تھیں… ہمارے والد بہت ذہین تھے…
انہوں نے زمین پر ’’جنت کا نشان‘‘ حاصل کرنے کی تدبیر سوچی… جنت تو بہت بڑی ہے،
بہت اونچی ہے، اور بے مثال نعمتوں سے بھری پڑی ہے۔ اس لئے زمین پر رہتے ہوئے جنت
کی پوری حقیقت سمجھنا ایسے ہی مشکل ہے، جس طرح ماں کے پیٹ میں اس دنیا اور زمین کی
حقیقت سمجھنا مشکل ہے… مگر ہمارے والد محترم نے کمال فرمایا اور زمین پر جنت کے
سکون کا نمونہ حاصل کرنے کی ایک بہترین صورت نکال لی… حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ
اللہ علیہ اپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
’’حضرت
آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر لائے گئے تو آپ نے التجا کی: یا اللہ آسمان
کی طرح یہاں بھی کوئی گھر ہو جہاں تسبیح و تہلیل کی گونج رہے یہ درخواست مقبول
ہوئی اور نشان دہی فرما دی گئی اور اسی نشان پر بنیاد رکھی گئی‘‘ (تفسیر عزیزی
تسہیل)
زمین
کی پہلی مسجد بن رہی ہے… نشان اللہ تعالیٰ نے لگائے، تعمیر حضرت آدم علیہ السلام
نے فرمائی… اور انسانوں کو زمین پر ’’بیت اللہ‘‘ مل گیا… کبھی مسجد میں آنکھیں
بند کرکے وہاں کے انوارات کو محسوس کریں… ہر مسجد کعبہ کی بیٹی ہے… اللہ اکبر ایسا
سکون ملتا ہے کہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا… کبھی مسجد کی طرف جاتے ہوئے سوچا
کریں کہ اللہ پاک نے اپنے گھر بلایا ہے… اور پھر کہا کریں اے میرے مالک اے میرے
اللہ! میں حاضر ہوں، میں آرہا ہوں… میں حاضرہو رہا ہوں… مسجد آباد کرنے والو
مبارک ہو، بہت مبارک ہو… تمہاری محنتوں، قدموں اور سجدوں کے نشان محفوظ رہیں گے…
قیامت کے دن سب مسجدیں کعبہ شریف کے ساتھ ملا کر جنت کا حصہ بنا دی جائیں گی…
قربانیوں
کا ثمرہ
حضرت
ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے بڑی قربانیاں دیں… بس یوں سمجھیں پوری زندگی
’’قربانی‘‘ اور امتحانات ہی میں گذری… قرآن پاک نے اُن کی عزیمتوں کو بیان فرمایا
ہے… آخر میں جب وہ تمام امتحانات میں کامیاب ہوگئے تو فرمایاگیا… اب آپ
کوانسانوں کی ’’امامت‘‘ کا ایک خاص مقام دیا جا رہا ہے… حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ’’کعبہ شریف‘‘ کی دوبارہ
تعمیر فرمائی… آسمان سے ایک سکینہ اترا… حضرت جبریل علیہ السلام نے اُس کی مدد سے
کعبہ کے نشانات لگائے… حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
کھدائی شروع کی… تب انہیں حضرت آدم علیہ السلام والی بنیادیں مل گئیں… پھر تعمیر
شروع ہوئی… خلیل اللہ علیہ السلام معمار تھے اور ذبیح اللہ علیہ السلام مزدور… پھر
جبریل امین حجر اسود لے آئے… کعبہ کی تعمیر کا منظر ایسا دلکش اور نور بھرا تھا
کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لبوں سے دعائیں جاری ہوگئیں… جی ہاں مسجد تعمیر
کرتے وقت دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں… حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں
ایک عظیم الشان رسول بھیجنے کی دعا فرمائی… اور اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرلی…
ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ
السلام کی اولاد میں سے ہیں… اور یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قربانیوں کے
بدلے سعادتوں کا عروج مل گیا…
تعمیر
کے دوران جو پتھر کام آیا وہ ’’مقام ابراہیم‘‘ بن گیا مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت
اسماعیل علیہ السلام سہارا دیتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اوپر چڑھ کر
تعمیر فرماتے تھے مبارک ہو کعبہ شریف کی زیارت کرنے والو مبارک ہو کعبہ کی بیٹیاں
مسجدیں بنانے والو! آباد کرنے والو !بہت مبارک ہو اس کام کی عظمت کا اندازہ اس سے
لگائو کہ جبریل علیہ السلام بھی اُترے اور اتنے بڑے رسولوں نے خود محنت
فرمائی خود مزدوری فرمائی … اللہ اکبر کبیرا…
سب
سے پہلے مسجد
مسلمانوں
کو اللہ تعالیٰ نے جب پہلی آزاد زمین عطاء فرمائی تو ہمارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام ’’مسجد‘‘ کی تعمیر کا فرمایا… اور مدینہ
منورہ پہنچنے سے پہلے ہی اسکی ترتیب بن گئی… ’’قبا‘‘ نام کی بستی مدینہ منورہ سے
تین میل کے فاصلے پر تھی… ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے وہاں
رکے… انصار مدینہ نے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
استقبال فرمایا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلثوم بن ہدم کے
مکان پر رونق افروز تھے… انصار ہر طرف سے جوق درجوق آرہے تھے… ہر طرف محبت اور
عقیدت کا جوش تھا اور خوشیاں ہی خوشیاں… جی ہاں زمین و آسمان میں ہر طرف خوشیاں
تھیں… گہما گہمی کے اس ماحول میں بھی محبوب آقا صلی اللہ علیہ
وسلم کی توجہ اپنے اُس کام کی طرف تھی جس کے لئے اللہ پاک نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا… اور اُس کام کے لئے ’’مسجد‘‘ بے حد ضروری
ہے… بے حد لازمی ہے… چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فوراً وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی… اس مسجد کا پہلا پتھر آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا… دوسرا پتھر حضرت صدیق
اکبررضی اللہ عنہ نے… اور تیسرا پتھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے…
اور پھر تعمیر شروع ہوگئی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کی
تھکاوٹ میں آرام فرماتے مگر کہاں؟… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم تو ایک عظیم الشان کام کیلئے تشریف لائے تھے… چنانچہ خود پتھر
اُٹھا اُٹھا کر لاتے رہے… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عرض کرتے کہ یارسول
اللہ! آپ رہنے دیجئے… ہم اٹھا لیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اس بات کو قبول نہ فرماتے… یہ مسجد تیار ہوگئی… ماشاء اللہ اُس
وقت سے لیکر اب تک آباد ہے… قرآن پاک کی سورۃ التوبۃ میں اس کا تذکرہ ہے… حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے میںایک بار اس میں تشریف لے
جاتے تھے… حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہفتے میں دوبار اس میں اُس وقت جاتے تھے جب آپ
لاکھوں مربع میل زمین کے حکمران تھے…
اور
یہ بات تاریخ کے اوراق میں… اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نامۂ اعمال میں چمک رہی
ہے کہ آپ نے ’’مسجد قبا‘‘ میں جھاڑو دیا اور صفائی فرمائی… کہاں آج کے پروٹو کول
میں سڑے ہوئے ’’پلاسٹکی حکمران‘‘ اور کہاں حضرت سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ…
آج فلسطین میں ہمارے بچے اپنی مری ہوئی مائوں کے گرد سسک رہے ہیں… اور ہمارے
حکمرانوں کو میک اپ کرانے کے لئے پورا پورا عملہ مقرر ہے… یا اللہ! حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ کے قدموں کی دھول جیسی عزت رکھنے والا کوئی ایک حکمران مسلمانوں
کو نصیب فرما دے… ہاں! مساجد مہم میں شرکت کرنے والے سعادتمندو! حضرت فاروق اعظم
کو مساجد سے بہت عشق تھا… اے جہاد کے دیوانو! مساجد کے خادمو! تمہیں ’’نسبتِ
فاروقی‘‘ مبارک ہو…
واہ
صدیق رضی اللہ عنہ! آپ کی قسمت
مدینہ
منورہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’اونٹنی‘‘ جہاں
بیٹھی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں مسجد تعمیر کرنے کا
فیصلہ فرما لیا… یہ جگہ ’’مِربَد‘‘ تھی یعنی کھجور خشک کرنے کا میدان… یہ انصار کے
دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی… اُن کو بلا کر بات کی گئی تو وہ ’’سعادتمند‘‘ یہ زمین
مفت دینے پر اڑے رہے… مگر صدیق اکبرذ کی قسمت میں ایک اور بڑے موتی کا اضافہ ہونا
تھا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جگہ خریدنے کا فیصلہ
فرمایا… اور مفت قبول کرنا مناسب نہیں سمجھا… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ کی طرف اشارہ ہوا… اور انہوںنے زمین کی پوری قیمت ادا فرمادی…
سبحان اللہ، سبحان اللہ… اے میرے مالک آپ بہت کریم ہیں… جسے نوازنے پر آجائیں تو
اُس کے وارے نیارے کرا دیتے ہیں… ابھی تو صدیق اکبرذ کو ہجرت میں رفاقت اور غار
والی رات ملی تھی… اور اب وہ مسجد نبوی کی زمین کا اجر بھی لوٹ گئے…
اے
ربّ کریم آپ نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ پر احسان فرمایا… ہم مسکینوں پر بھی
احسان فرمائیے… ہمیں بھی مساجد کے لئے جگہ خریدنے، اُن جگہوں پر مسجدیں بنانے… اور
مسجدوں کو آباد کرنے کی توفیق عطا فرما دیجئے… اے صدیق اکبرذ کے ربّ، اے ہم سب کے
ربّ… آسان فرما دیجئے قبول فرما لیجئے… تین سو تیرہ مسجدیں بنوا دینا، انہیں
آباد کروادینا اور پھر قبول فرما لینا آپ کے لئے کیا مشکل ہے… یا ارحم الراحمین…
بہت
مزید ار بوجھ
مسجد
نبوی شریف کی تعمیر شروع ہوگئی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
کام تقسیم فرما دیئے… میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جیسا
نظم و ضبط نہ کسی نے پہلے دیکھا اور نہ کوئی آئندہ دیکھ سکے گا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچی اینٹیں بنانے کا حکم فرمایا…
اور بعض صحابہ کرام کو گارا بنانے اور بعض کو دوسرے کاموں پر لگا دیا… تعمیر شروع
ہوگئی کائنات کی سب سے افضل ہستی… حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم خود اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے ہیں… اور یہ شعر پڑھ رہے ہیں
ھذا
الحمال لا حمال خیبر
ھذا
ابرّ ربنا و اطہر
یعنی
یہ خیبر کی کھجوروں کا بوجھ نہیں… یہ تو اے میرے رب! بہت پیارا اور پاکیزہ بوجھ
ہے… جی ہاں نیکی والا بوجھ… لوگ تو اپنے پیٹ کے لئے بوجھ اٹھاتے ہیں… میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے لئے بوجھ اٹھا رہے
تھے… اور ساتھ ساتھ اسکی لذت بھی محسوس فرما رہے تھے… اللہ اکبر کبیرا!… چند دن
بعد ’’مساجد مہم‘‘ شروع ہوگی… کئی خوش قسمت نوجوان، اور بوڑھے حضرات مساجد کی
تعمیر کے لئے نکلیں گے… ان میں سے کچھ یہ بوجھ بھی اٹھائیں گے… واہ خوش بختی! واہ
خوش نصیبی!… یا اللہ ہم پر بھی رحم فرما ہمیں بھی اس سعادت میں سے حصہ عطا فرما…
اور کچھ نہیں کم از کم اتنا تو ہو کہ ایک بار تیری کسی مسجد کی اینٹیں اٹھا کر یہ
شعر پڑھ سکیں… جو تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد
نبوی کی اینٹیں اٹھا کر پڑھا تھا… ’’فتح الباری‘‘ میں لکھا ہے کہ اُس وقت صحابہ
کرام بھی کام کے دوران اشعار پڑھ رہے تھے… جی ہاں بہت جذبے اور خوشی کا منظر تھا…
وہ فرما رہے تھے
لئن
قعدنا والنبی یعمل
لذاک
منا العمل المضلّل
یعنی
اگر ہم بیٹھ جائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کام
کریں تو ہمارا یہ بیٹھ جانا بہت ہی برا کام ہوگا…
صحابہ
کرام تو حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم
ڈھونڈتے تھے… آج دین کا کام مسجدوں سے ہٹ کر کرنے والوں سے اکثر عرض کیا جاتا ہے
کہ… مسجدوں کی طرف لوٹ آئو… یہی ’’نبوی ترتیب‘‘ ہے… ہوٹل، ہال، دفاترکو اہمیت نہ
دو… مگر ظلم دیکھیں! اب تو یہ شور سنائی دے رہا ہے کہ اسٹوڈیو میں جا کر دین کا
کام کرو تاکہ مقابلہ خوب جمے…
انّا
للّٰہ و انّا الیہ راجعون
محبت
بھری دل لگی
حضرات
صحابہ کرام بڑے ’’زندہ دل لوگ‘‘ تھے… وہ دین کا ہر کام ذاتی دلچسپی اور بشاشت سے
کرتے تھے… ایسے مواقع پر آپس میں کچھ ’’دل لگی‘‘ بھی ہو جاتی تھی… ہوا یہ کہ ایک
صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ طبعی طور پر زیادہ ’’نظافت پسند‘‘ تھے… وہ
بھی پورے جذبے سے اینٹیں اٹھا رہے تھے… مگر ساتھ ساتھ اپنے کپڑوں کو بھی بچا رہے
تھے… یعنی اینٹیں ذرا احتیاط سے اٹھاتے تھے کہ کپڑوں کو مٹی نہ لگے اور اگر مٹی لگ
جاتی تو اسے جھاڑ تے تھے… حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ صورتحال دیکھی تو یہ اشعار
پڑھے ؎
لا
یستوی من یعمر المساجد ا
ید
أب فیھا قائما و قاعدا
یعنی
وہ شخص جو اٹھتے بیٹھتے مسجد کی تعمیر میں لگا ہوا ہے… اور وہ شخص جو اپنے کپڑوں
کو مٹی اور غبار سے بچاتا ہے… دونوں برابر نہیں ہیں…
مطلب
یہ کہ ایسے مواقع پر جان لگا کے کام کرنا چاہیے… اور اپنے طبعی تقاضوں اور نفاستوں
کو بھلا دینا چاہیے… صفائی اور نظافت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تو جب اللہ تعالیٰ
کے لئے غبار آلود ہونے کا وقت آجائے تو انسان کو اس میں ڈوب جانا چاہیے… ’’مساجد
مہم‘‘ میں غبار آلود ہونے والو!، تھکنے والو! بھاگ دوڑ کرنے والو! تمہیں بہت
مبارک ہو… تمہارا وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قیمتی بنا دیا… اللہ تعالیٰ قبول
فرمائے…
ایک
عجیب صورتحال
مسجد
نبوی شریف بہت سادہ تھی… کچی اینٹوں کی دیواریں تھیں اور کھجور کے تنوں کے ستون…
اور چھت بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں کی تھی… بعد میں اُسے گارے سے لیپ دیا گیا…
یہ تو ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’عمل مبارک‘‘… جبکہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو سادہ رکھنے کی قولی
تاکید بھی فرمائی ہے… اور یہ بھی فرمایا کہ مسجدوں کے بارے میں فخر کرنا قیامت کی
علامتوں میں سے ہے… ( ابو دائود)
اور
ارشاد فرمایا
’’جب
کسی قوم کے حالات خراب ہونے لگتے ہیں تو وہ اپنی مسجدیں سجانے لگتے ہیں‘‘ (ابن
ماجہ)
اور
ارشاد فرمایا
’’
میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد تم مسجدوں کو اس طرح سجائو گے جس طرح یہود و نصاریٰ
اپنے گرجوں کو سجاتے ہیں‘‘ (ابن ماجہ)
اور
ارشاد فرمایا
عنقریب
لوگوں پر ایسا وقت آئے گاکہ… اُنکی مسجدیں (ظاہری طور پر) آباد ہوں گی مگر ہدایت
سے (خالی اور) ویران ہوں گی… (بیہقی)
ان
تمام ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے… ارادہ ہے کہ مساجد ظاہری طور پر سادہ تعمیر کی
جائیں… اور انہیں مسجد نبوی والے اعمال سے انشاء اللہ آباد کیا جائے… لوگ آپس کی
دیکھا دیکھی میں ظاہری طور پر شاندار اور مہنگی مسجدیں بنانے پر زور دیتے ہیں…
ماضی میں کئی بار یہ مہم شروع کرنے کی کوشش کی مگر ’’سادہ مسجد‘‘ بنانے پر کوئی
تیار نہیں ہوتا… اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی اصلاح فرمائے… اب الحمدللہ چوبیس مساجد
بنانے کی مہم شروع ہو رہی ہے… کل خرچہ ڈھائی کروڑ روپے ہے… یعنی صرف اتنا کہ جتنا
آج کل لوگ ایک مسجد پر لگا دیتے ہیں… میں نے اندازہ لگایا کہ اگر ’’القلم‘‘ پڑھنے
والے حضرات و خواتین میں سے ہر ایک… صرف تین سو روپے اس مہم میں لگا دے تو ’’ڈھائی
کروڑ‘‘ روپے پورے ہو سکتے ہیں… دیکھیں کس کی قسمت میں کتنی سعادت لکھی ہے…
آسان
جنت
اللہ
تعالیٰ نے عورتوں کو اس اعتبار سے مردوں پر سبقت عطا فرمائی ہے کہ… ان کے لئے
کامیابی اور جنت کا نصاب بہت آسان ہے… وہ کسی بھی کام میں تھوڑ ا سا حصہ ڈال کر
مردوں کے برابر یا اُن سے زیادہ اجر کی مستحق بن جاتی ہیں… جن خواتین کو اللہ
تعالیٰ نے بڑے گھر دئیے ہیںوہ گھر کا ایک کمرہ… ’’مسجد البیت‘‘ یعنی گھر کی مسجد
بنائیں… اس کو پاک صاف رکھا کریں، وہاں خوشبو مہکایا کریں… اور وہاں نماز، تلاوت
اور ذکر کے لئے جایا کریں… اسی طرح آپ حالیہ ’’مساجد مہم‘‘ میں بھی شریک ہو سکتی
ہیں…
۱۔ مالی
تعاون کے ذریعے ۔
۲۔ اپنے
بیٹے، خاوند یا اور رشتہ داروں کو مہم میں بھیج کر۔
۳۔ دوسری
خواتین کو مہم میں تعاون کی دعوت دے کر
۴۔ اور
خوب توجہ سے دعائیں کرکے …
یا
اللہ، یا ارحم الراحمین ہم سب پر رحم فرما، اور اس مہم کی کامیابی اور قبولیت
آسان فرما… آمین یا رب المستضعفین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
فتح الجوّاد جلد۳
نے
’’رحمت‘‘ فرمائی، بہت عظیم احسان فرمایا… اللہ تعالیٰ کا بے
حد شکر ہے کہ ’’فتح الجوّاد‘‘ کی تیسری جلد شائع ہوکر ہمارے ہاتھوںمیں آچکی ہے…
جہاد ہمیشہ مشکل حالات میں پھلتا پھولتا ہے …دشمنوں نے دشمنی تیز کی
تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور نصرت مظلوموں کے ساتھ اتر آئی…
ان حالات میں ’’فتح الجوّاد‘‘ کا شائع ہونانہایت ہمت دلانے والی بات ہے…
دشمن’’مؤلف‘‘ کو مانگ رہے تھے، تاکہ اُسے ماردیں
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنی ’’مبارک آیات‘‘ کے کام میں
بٹھادیا… بے شک جب اللہ تعالیٰ ’’خیر‘‘پہنچانے پر آئے تو
اُس کو کوئی نہیں روک سکتا… کافروں کی زبان پر ایک ہی شور ہے کہ ہمارے حوالے
کرو،ہمارے حوالے کرو… جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی رحمت فرمائی
کہ’’مطلوب ملزم‘‘ کے ہاتھوں سے’’فتح الجوّاد‘‘ امت کے حوالے کروادی…
اَللّٰھُمَّ
لَامَانِعَ لِمَااَعْطَیْتَ وَلَامُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ
ذَاالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ
موت
تو ضرور آئے گی… اور اپنے وقت پر آئے گی… اللہ کرے’’خیر‘‘
والی ہو،’’شہادت‘‘ والی ہو…گرفتاری بھی قسمت میںلکھی ہے تو اسے بھی کوئی نہیں ٹال
سکتا… اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال ہے… مگرجہاد کی محنت تو انبیاء
علیھم السلام والی محنت ہے… جہاد کا کام تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم والا کام ہے… اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس کام
میں لگائے رکھے، جوڑے رکھے… یہ تو’’دیہاڑی والی‘‘ مزدوری ہے کہ کام کرتے جاؤ،اجر
ملتا رہتا ہے… اور مرجاؤ تو کام بند نہیںہوتا اللہ تعالیٰ
دوسرے مزدوروں کو کھڑا فرما دیتا ہے… جہاد قیامت تک چلتا رہے گا یہ میرے آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلمکا فرمان ہے … اس مبارک فرمان کی صداقت
کو اپنے خون سے روشن رکھنے والے لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں… اور تو اور’’دجال‘‘ کے
زمانے میں بھی جہاد بند نہیں ہوگا حالانکہ وہ بہت سخت زمانہ ہوگا… دجال تو بس ہر
اُس شخص کو قتل کرتا جائے گا جو اس کی ’’کفریہ دعوت‘‘ نہیں مانے گا… آجکل کے
’’کفار‘‘ تو دجال کے مقابلے میں بہت کمزور اور بہت مجبور ہیں…
سبحان اللہ
! میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجاہدین کی شان دیکھیں
کہ وہ دجال سے بھی ٹکرا جائیں گے… تو پھر اس زمانے کے کالے پیلے چوہے یہ کیسے سمجھ
بیٹھے ہیں کہ وہ جہاد کو روک دیں گے… تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ زندگی موت کا
معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں اور جہاد کی حمایت میں کھڑے
ہو جائیں… یاد رکھیں جہاد کی دعوت ہمارے پیارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے ’’مبارک خون‘‘ سے دی ہے… جو مسلمان اس دعوت کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ
اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالتا ہے…
’’فتح
الجوّاد‘‘ کی تیسری جلد بہت اہم ہے… اس میں قرآن پاک کی سو(۱۰۰) آیات کے جہادی
مضامین کا بیان ہوا ہے…گذشتہ تین سو سال میں شیطان نے اور سامراج نے جہاد کے خلاف
جتنے بھی اعتراضات گھڑے اور پھیلائے ہیں اُن تمام کا مدلل جواب اس’’تیسری جلد‘‘
میں الحمدللہ آگیا ہے… اور مجاہدین کی اصلاح کا
مکمل نصاب بھی اس میں موجود ہے… لوگ کہتے ہیں کہ جہاد سے اسلام غالب ہوتا ہے تو
موجودہ دور کا جہاد اگر شرعی ہوتا تو اسلام غالب آچکا ہوتا… حالانکہ سوچنے کی بات
یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان جہاد کر رہے ہیں؟…یقینابہت تھوڑے بلکہ بہت ہی تھوڑے… اور
اس تھوڑے سے جہاد سے بھی الحمد اللہ بہترین نتائج سامنے آرہے ہیں…اسلام کے مقابلے
میں اٹھنے والا’’کمیونزم‘‘ کا سیلاب دم توڑ چکا ہے… اور اب سرمایہ دارانہ نظام کی
کمر بھی جھٹکے کھا رہی ہے…اگر زیادہ مسلمان جہاد پر آجائیں تو
انشاء اللہ اسلام کے ظاہری غلبے میں بھی دیر نہیں لگے گی…
اس لئے ہر مسلمان تک جہاد کی دعوت پہنچانا ضروری ہے تاکہ کوئی جہاد کا منکر نہ ہو…
حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تمام عبادات کا پابند ہو… نماز با
جماعت اورتلاوت کا اہتمام کرتا ہو… تہجد اور ذکر کا شوقین ہو… گناہوں سے بچتا ہو…
مالی معاملات میں مکمل شرعی احتیاط رکھتاہو… اور نیکی کے کاموںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتا ہو مگر… وہ ’’فریضہ ٔجہاد‘‘ یعنی قتال فی سبیل اللہ سے
بغض رکھتا ہو تو اُس کے لئے کامیابی نہیں ہے… اسے آخرت کی کامیابی تبھی مل سکتی
ہے جب وہ ’’فریضۂ جہاد‘‘ سے محبت رکھے اور اس میں شرکت کے لئے تیار ہو… اس لئے
امت مسلمہ کا ایمان بچانے کے لئے ’’دعوت ِجہاد‘‘ کو عام کرنا ضروری ہے…دشمنانِ
اسلام نے بھرپور محنت کر کے ’’مجاہدین‘‘ کو بدنام کیاہے… مگر وہ ’’قرآنی آیات‘‘
کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے … اس لئے ’’فتح الجوّاد‘‘ صرف قرآن پاک کی آیات کے
ذریعہ جہاد کی دعوت دیتی ہے… اوریہ بات بھی سمجھاتی ہے کہ ہر قتل و غارت کا
نام’’جہاد‘‘ نہیں ہے…
’’فتح
الجوّاد‘‘ کی تیسری جلد میں سورۃ التوبہ کی انہتر (۶۹) آیات کے جہادی
مضامین بہت آسان الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں… پھرایک ضمیمہ ہے جس میں زکوٰۃ کے
مصرف ’’فی سبیل اللہ ‘‘ پر ایک عالم دین کی تحقیق درج ہے… اس کے
بعد’’سورۃ الحج‘‘ کا بیان شروع ہوتا ہے… پہلے سترہ(۱۷) آیات کے مضامین
جہاد کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے… اور اس کے بعد ان سترہ (۱۷)آیات کے جہادی
نکات کو قدرے تفصیل سے لایا گیا ہے… پھر’’سورۃ النور‘‘شروع ہوتی ہے… اس کے
ابتدائیہ میں چار(۴) آیات
کے مضامین جہاد کا خلاصہ ہے اور آگے ان آیات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے… اس کے
بعد ’’سورۃ الاحزاب‘‘ کی پرنور محفل شروع ہو جاتی ہے اس میں بائیس (۲۲) آیات
جہاد کا خلاصہ بھی ہے اور ان آیات کی دلنشین تشریح بھی… اور غزوہ احزاب اور غزوہ
بنی قریظہ کے دلچسپ اور سبق آموز حالات بھی… اور آخر میں ’’سورۃ
محمد‘‘(صلی اللہ علیہ وسلم) کا مفصل بیان ہے… اول تا آخر
یعنی تمام اڑتیس(۳۸) آیات
کی واضح تشریح… اور علمی نکات اور دلائل سے بھرپور ایک مفصل ابتدائیہ… ’’فتح
الجوّاد‘‘ کی تیسری جلد چار سو اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس
میں الحمدللہ جہاد کے تقریباً ہر پہلو کا بیان موجود ہے… وہ
مسلمان جو ابھی تک جہاد کو نہیں سمجھے ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ’’فتح
الجوّاد‘‘ جلد ثالث کا مطالعہ فرمالیں تاکہ مرنے سے پہلے اپنے ایمان کو ٹھیک اور
مکمل کر سکیں…
بے
شک قیامت کا دن برحق ہے اور ہم سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور
پیش ہونا ہے… بے شک مجاہدین سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگرجہاد تو غلط نہیں ہے… پھر
جہاد کے انکار اور مخالفت کا کیا فائدہ ہے؟…غلطیاں تو نمازیوں سے بھی ہوتی ہیں…
مگر ہم ’’نماز‘‘ کا انکار نہیں کر سکتے…غلطیاں’’حاجیوں‘‘ سے بھی ہوتی ہیں… مگر
ہم’’حج‘‘ کا انکار نہیں کر سکتے… غلطیاں مسلمانوں سے بھی ہوتی ہیں مگرہم ’’اسلام‘‘
کا انکار نہیں کر سکتے… لیکن کیا کیا جائے… جہاد کے خلاف ہزاروں ادارے کام کر رہے
ہیں… ہزاروں این جی اوز کا ایجنڈا جہاد کی مخالفت ہے…اور ہزاروں نام نہاد مذہبی
اسکالر اور دانش ور جہاد کے خلاف سرگرم ہیں… مرزا قادیانی کی تحریک ہو یا انکار
حدیث کا فتنہ… وحیدالدین خان کا’’الرسالہ‘‘ہو یا غامدی کی تحریفات… مزار پرستوں کے
دعوے ہوں یا حقوق انسانیت کے ادارے یہ سب جہاد کے نام سے بدکتے ہیں… ان لوگوں کی
محنت کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دن رات کمزور ہوتے جارہے ہیں… جب ’’ایمان‘‘ نہیں ہوگا
تو کمزوری تو ضرور آئے گی… اور ایمان’’جہاد‘‘ کو مانے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا…
ساری دنیا کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کی ایک آیت کا انکار کفر ہے…
جبکہ فریضۂ جہاد توقرآن پاک کی سینکڑوں آیات میں بیان ہوا ہے… بات نہ تو ضد کی
ہے نہ مناظر ے کی…بلکہ اس وقت مسلمانوں کے ایمان کا مسئلہ ہے… یہ جھوٹ ہے کہ جہاد
کی تحریک امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے کھڑی کی… رب کعبہ کی قسم یہ
جھوٹ ہے بالکل کالا جھوٹ…ہاں اس وقت جہاد کی یہ کرامت ظاہر ہوئی کہ امریکہ کو
مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنا پڑا… ہاں ایسا ہوتاہے اور آئندہ بھی ہوگا… قرب قیامت
میں بھی ایک بڑی جنگ میں عیسائی، مسلمانوں کا ساتھ دیں گے… اور ماضی میں بھی کئی
بار ایسا ہو چکا ہے… اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ جہاد غربت کی وجہ سے پھیل رہا ہے…
بالکل جھوٹ سیاہ جھوٹ… حضرت ملامحمد عمر مجاہد نے اتحادی افواج کے خلاف اس وقت
جہاد کا فیصلہ کیا جب نوے فیصد افغانستان کے خزانے ان کے پاؤں میں پڑے تھے… اور
شیخ اسامہ کو حوالے کرنے کے بدلے ان کو سونے کے قالین اور اربوں ڈالر کے خزانے مل
سکتے تھے… اوریہ بھی جھوٹ ہے کہ مجاہدین زمین پر فساد چاہتے ہیں، وہ انڈیا اور
پاکستان کو لڑانا چاہتے ہیں… اوروہ مسلمان کی ترقی کے دشمن ہیں…
نہیں
ہرگز نہیں… مجاہدین تو’’امن‘‘ چاہتے ہیں… اور ایک ایک مسلمان کے خیر خواہ… اور
پوری دنیا کے ہمدرد ہیں… ہاں وہ قرآن پاک کے راستے پر چل رہے ہیں… اس لئے ان کو
وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو قرآن پاک کو سمجھتا اور مانتا ہو… ہمارے آج کے
اکثرمسلمان قرآن پاک کو نہیں سمجھتے… وہ اسے چومتے ہیں، پڑھتے ہیں اور ادب سے
غلاف میں رکھتے ہیں… مگر ان کو معلوم نہیں کہ قرآن پاک ان سے کیا فرما رہا ہے…
’’فتح الجوّاد‘‘ نے قرآن پاک کے اس حصے کو بیان کیا ہے جسے سب سے زیادہ چھپایاجا
رہا تھا… اور جس پر تاویل اور تحریف کے پردے ڈالے جارہے تھے… الحمدللہ
’’فتح الجوّاد‘‘ کی اس ادنیٰ سی محنت نے شیطان اور سامراج کے کئی سو سالہ ’’شیطانی
جال‘‘ کو توڑ ڈالا ہے…
مجاہدین
کو چاہئے کہ وہ خود اس کتاب کا دل کی گہرائی سے مطالعہ کریں…خصوصاً ’’سورۃمحمد‘‘
اور ’’سورۃ الاحزاب‘‘ کو اپنے دل میں بٹھالیں… تب وہ اپنی زبان اور اپنے بازوؤں
میں نئی قوت اور نئی بجلیاں محسوس کریں گے… ان کے دل میں’’ایمان‘‘ کی قدر پیدا ہو
گی اور انہیں’’کفر‘‘ کی حقیقت سمجھ میں آئے گی… اور انہیں’’شرعی جہاد‘‘ کی توفیق
ملے گی انشاء اللہ … اور پھر ہر مسلمان مرد اور عورت تک اس کتاب کو
پہنچانے کی کوشش کریں… اور انہیں بتائیں کہ ٹھیک ہے آپ ہماری بات نہ مانو مگر
اپنے رب تعالیٰ کی بات تو مان لو… خواتین میں بھی انکارِ جہاد کا فتنہ بہت سخت ہے…
ان میں جو’’بددین‘‘ ہیں وہ تو کھلم کھلا جہا دکے خلاف کام کرتی ہیں… مغرب کی تمام
این جی اوز انہیں بے پردہ ، بدنصیب مسلمان عورتوں کے دم سے چل رہی ہیں جو اپنے رب
کو بھول چکی ہیں… اور دیندار عورتوںمیں بھی ہمت کی کمزوری ہے… وہ ہجرت سے گھبراتی
ہیں موت سے ڈرتی ہیں… اور طرح طرح کے فیشنوں اور رسومات میں مبتلا ہو کر مردوں کو
جہاد سے روکنے کا ذریعہ بنتی ہیں…’’حب دنیا‘‘ یعنی دنیا پرستی کی محبت میں مبتلا
کوئی عورت جہاد اور ایمان کی حقیقت کو کہاں سمجھ سکتی ہے… اُس کی تو بس یہی خواہش
ہوتی ہے کہ ُاسے خوب مال ملے… وہ دھوم دھام سے شادیاں کرے… اورکافروں کی ہر رسم کو
پورا کرے… اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی ماں اس کی خادمہ اور نوکرانی… اور اس کا
خاوند اس کاغلام بن کر رہے… جب سوچ اور فکر اتنی پست ہو گی تو دین کہاں سے سمجھ
آئے گا؟… جہاد کی محبت کہاں پیدا ہوگی…
مگر
یہ بات بھی سچ ہے کہ خواتین کو جہاد جلدی سمجھ میں آتا ہے… اور جب کوئی ’’مسلمان
عورت‘‘ جہاد کو سمجھ لیتی ہے تو پھر پورے کا پورا گھرانہ دین پر آجاتا ہے… بد
قسمتی سے آج مسلمان مردوں کی عقلیں اور جیبیں ان کی عورتوں کے قبضے میں ہیں… اس
لئے خواتین میں زیادہ محنت کی ضرورت ہے… اے مسلمان بہنو! قبر کا عذاب بہت سخت ہے…
اورآخرت کی منزلیں بہت مشکل ہیں… اس پر فخر نہ کرو کہ تمہارا خاوند تمہارا
فرمانبردار ہے… بلکہ اس پر فخر کرو کہ تم دین کی اور خاوند کی فرمانبردار ہو… اس
پر فخر نہ کرو کہ میری ماں میری ہر بات مانتی ہے… یہ خطرناک چیز ہے اور قیامت کی
نشانی ہے… ہاں اس پر شکر کرو کہ تم اپنی ماں کی ہرجائز بات مانتی ہو… اے مسلمان
بہنو! ساری امت مسلمہ عزت کی محتاج ہے… تم اپنی ذاتی ناک کو اتنا بڑا نہ بناؤ کہ
امت مسلمہ کے کسی کام ہی نہ آسکو…’’فتح الجوّاد‘‘ مردوں کی طرح مسلمان خواتین کے
لئے بھی ایمان کی حفاظت اور آخرت کی کامیابی کا تحفہ ہے… مسلمان بہنوں کو چاہئے
کہ وہ اسے خوب توجہ سے پڑھیں اور دوسروں تک بھی
پہنچائیں… الحمدللہ ’’المساجد مہم‘‘ بھی شروع ہوچکی ہے… یا
ارحم الراحمین آپ کی نعمتیں بے شمار ہیں…
ہمیں
’’شکر گزار‘‘ بنا دیجئے… قدر دان بنا دیجئے
آمین
یا رب العالمین
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
گنتی
اپنے
بندوںپر ظلم نہیں فرماتا…
وَمَآ
اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق ۲۹)… خوش نصیب ہیں وہ
لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ’’تقدیر‘‘ پر خوش اور راضی رہتے ہیں… انسان سخت بیماری اور
پریشانی کے وقت بھی اگر یہ سوچ لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور اس میں میرے
لئے خیر ہے تو اُسی وقت دل سکون سے بھر جاتا ہے … بیشک جنّت تو شکر گزاروں کی جگہ
ہے… دنیا میں مسلمانوں کے حالات اچھے نہیں ہیں… مگر کفار بھی تو طرح طرح کی
پریشانیوں کا شکار ہیں… اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
وَلَا
تَھِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ
یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ
(النساء۱۰۴)
ترجمہ:
اور ان (کافروں) کا پیچھا کرنے سے ہمت نہ ہارو اگر تم درد اٹھاتے ہو تو وہ بھی
تمہاری طرح درد اٹھاتے ہیں حالانکہ تم اللہ تعالیٰ سے جس چیز کے امیدوار ہو وہ
نہیں ہیں۔
اسی
لئے جب غزوہ اُحد میں مشرکین نے یہ نعرہ لگایا کہ… ہمارا اور تمہارا معاملہ برابر
ہوگیا، بدر میں ہمارے ستّر افراد مارے گئے تھے اور اب اُحد میں تمہارے ستّر افراد
مارے گئے ہیں… تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کوئی برابری نہیں ہے ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین جہنم میں…
اور
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اِنْ
یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ط وَتِلْکَ
الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (آل عمران ۱۴۰)
ترجمہ
: اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو انہیں (یعنی کفار کو) بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے
اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں
ان
آیات سے معلوم ہوا کہ کفار کے زخموں کو گنتے اور دیکھتے رہنا چاہیے… اس سے
مسلمانوں کا حوصلہ بڑھتا ہے… اور ان میں شکر گزاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے… آئیے
آج کفار کے کچھ موٹے موٹے زخموں کو دیکھتے ہیں…
حسرتوں
کا قبرستان
امریکہ
کے صدر ’’بش جوتی والے‘‘ چھ دن پہلے رخصت ہوگئے… دنیا کے اس طاقتور ترین سمجھے
جانے والے شخص نے کیا پایا؟… اُس کی خواہش تھی کہ وہ افغانستان پر قبضہ کرلے اور
پھر وسط ایشیا کی ریاستوں میں چھپے خزانوں اور تیل کا مالک بن جائے… اُسکی خواہش
تھی کہ وہ عراق پر قبضہ کرکے ’’عربی تیل‘‘ کا مالک بن جائے… اُسکی خواہش تھی کہ وہ
شیخ اسامہ بن لادن کو پکڑ لے یا مار دے… اُسکی تمنا تھی کہ وہ طالبان کا نام و
نشان ہی مٹا دے… وہ چاہتا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اٹھا کر امریکہ لے جائے…
اُسکی چاہت تھی کہ کشمیر کی تحریک ختم ہوجائے… اُس کا عزم تھا کہ وہ حماس اور جیش
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کردے گا… وہ چاہتا تھا کہ
یہودیوں کے ناپاک سر پر یروشلم کا تاج رکھ دے گا… مگر کیا ہوا؟… اسکی تمام خواہشیں
حسرتوں میں تبدیل ہو گئیں… اور اُس کے دل کا کانٹا بن گئیں… ہزاروں امریکی مارے
گئے، امریکی ٹیکنالوجی کی ناک ’’سربازار‘‘ کٹ گئی… امریکی معیشت کا پیالہ الٹ
ہوگیا… اور امریکہ بھوکوں اور معذوروں سے بھر گیا… امریکہ کی یہ حالت دیکھ کر یورپ
پھر انگڑائی لے رہا ہے… اور روس نے بھی اپنی آنکھیں سرخ کرنا شروع کر دی ہیں… دنیا
اب ایک اور جنگ کے لئے تیار ہے… ایک بڑی اور عالمی جنگ جس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ
’’سپر پاور‘‘ کون ہے… مگر جنگ کے بعد معلوم ہوگا کہ ان میں سے اب کوئی بھی سپر
پاور کہلانے کے قابل نہیں بچا… تب اپنے اور غیر سب ہی ’’اللہ اکبر‘‘ کا اقرار کریں
گے کہ … سب سے بڑی طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے… سلام ہے اسلام کے فدائی مجاہدینپر
جنہوں نے اپنے خون کی روشنائی سے دنیا کے نقشے کا رنگ ہی بدل دیا ہے… سلامٌ علیہم
و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
خوشی
محمد کی تقریر
کراچی
ہفت روزہ ختم نبوۃ کے دفتر میں ایک کاتب صاحب تھے… وہ رسالے کی پیسٹنگ اور سرخیاں
لکھنے کے ماہر مگرتقریباً ان پڑھ تھے… اللہ تعالیٰ کی دَین ہے کہ جس کو جو صلاحیت
نصیب فرما دے… اُن کا نام ’’خوشی محمد‘‘ تھا… اُن دنوں کمپیوٹر پر کتابت شروع نہیں
ہوئی تھی،چنانچہ ہاتھ سے لکھنے والے ’’کاتبوں‘‘ کا بازار گرم تھا… ہم نے ماہنامہ
’’صدائے مجاہد‘‘ نکالا تو ہم بھی ’’خوشی محمد‘‘ کے مجبوروں میں شامل ہوگئے… اُن کے
پاس کام کا رش تھا اور وہ غوطہ دینے اور ٹرخانے کے ماہر تھے… ہم نے صدائے مجاہد کا
ایک خصوصی شمارہ ’’کمانڈر عبدالرشید شہیدس‘‘ کی یاد میں نکالنے کا اعلان کیا…
مضامین دیکھ دیکھ کر ’’خوشی محمد‘‘ کا جذبہ بھی زندہ ہوگیا… ایک دن بڑی ترنگ سے
پنجابی میں فرمانے لگے
جی
ساڈا مجمون وی لائو گے؟
یعنی
کیا آپ ہمارا مضمون بھی اس خصوصی شمارے میں لگائیں گے؟… مجھے بہت حیرت ہوئی… ایک
تو یہ کہ وہ کمانڈر شہیدس کو جانتے ہی نہیں تھے تو اُن کے بارے میں کیسے لکھیں
گے؟… اور دوسرا یہ کہ اُن کو لکھنا بالکل نہیں آتا تھا… وہ تقریباًان پڑھ تھے…
میں نے اپنے یہ اشکالات پیش کئے تو فرمانے لگے… یہ باتیں چھوڑیں مضمون لگائیں گے
یا نہیں؟… عرض کیا کہ اگر معیاری ہوا تو ضرور لگائیں گے… دو چاردن بعد ’’خوشی
محمد‘‘ نے مضمون میرے حوالے کر دیا… وہ تو بہت رقت آمیز ، مؤثر اور جاندار مضمون
تھا اور ’’خوشی محمد‘‘ نے خود اپنی قینچی سے کاٹ کر ترتیب دیا تھا… ہوا یہ کہ
انہوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے کئی پرانے رسالوں سے وہ مضامین جمع کئے جو بڑی شخصیات
کے انتقال پر لکھے گئے تھے… پھر ان مضامین سے طرح طرح کے ادیبانہ جملے کاٹے اور
اُن کو جوڑ کر مضمون بنا لیا… بعد میں جس نے بھی یہ مضمون پڑھا وہ بہت متاثر ہوا…
اور یوں ’’خوشی محمد‘‘ اپنی ’’قینچی‘‘ کے زور پر ’’مصنف‘‘ بن گئے… بیس جنوری
امریکہ کے نئے صدر براک اُبامہ کی تقریر سن کر مجھے ’’خوشی محمد‘‘ کا مضمون یاد
آگیا… ’’اُبامہ‘‘ ایک مسلمان کا بیٹا ہے ممکن ہے بچپن میں اس کے کان میں اذان بھی
دی گئی ہو… اس لئے وہ تقریر تو اچھی کر لیتا ہے… مگر اپنی حلف برداری والی تقریر
کا اُس کے دماغ پر بہت بوجھ تھا… خبروں میں آرہا تھا کہ وہ کئی ہفتے سے تقریر
تیار کر رہا ہے… شاید امریکہ میں شریف الدین پیر زادوں کی کمی ہے… ابامہ کی حلف
برداری میں بیس لاکھ افراد شریک ہونے تھے اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے ٹی وی
پر تقریر سننی تھی… مجمع جب اتنا بڑا تھا تو ’’مقرر‘‘ پر دبائو تو ہوناتھا … دوسری
طرف اُبامہ کے پاس کوئی بھی ’’اچھی بات‘‘ نہیں تھی… پچھلے دوسال سے امریکہ نے ترقی
کی چوٹی سے زوال کی طرف پھسلنا شروع کر دیا ہے… اُبامہ کے پاس نہ تو کوئی جنگی
کامیابی تھی نہ کوئی سیاسی… اُس کے پاس نہ تو روشن مستقبل کی کوئی نوید تھی… اور
نہ دنیا کے لئے کوئی مثبت پیغام… امریکہ تو اس وقت زخموں سے چور ہے… فلوجہ، موصل،
ہلمند، قندھار اور کابل نے امریکہ کی اصلیت کھول دی ہے… اور امریکہ کا نظام اندرونی
طور پر درہم برہم ہو رہا ہے… خود اُبامہ کا آنا اس بات کی علامت ہے کہ … امریکہ
بدل رہا ہے اور دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے… پچاس ساٹھ سال پہلے تک کوئی سیاہ
فام امریکی گوروں کی بس پر سوار نہیں ہو سکتا تھا… ’’گورے‘‘ امریکہ کے برہمن اور
’’سیاہ فام‘‘ وہاں کے ’’اچھوت‘‘ تھے… اب ایک سیاہ فام شخص امریکہ کے گوروں کی گردن
پر پائوں رکھ کر وائٹ ہائوس جا چڑھا ہے تو کیا یہ گورے سامراج کی شکست کا آغاز
نہیں ہے؟…
صدر
اُبامہ نے کئی ہفتے محنت کی… ماضی کے خطیبوں کے کئی جملے زبانی یاد کئے… کچھ
افسانوی طرز کی مبہم باتیں بھی ساتھ جوڑلیں… اور یوں خوشی محمد کا مضمون اور
اُبامہ کی تقریر تیار ہوگئی… اگر آپ کو میری بات پر شبہ ہو تو ابامہ کی تقریر
دوبارہ سن لیں… مگر اس کے باوجود اُبامہ کو یہ شبہ ہے کہ وہ بہت بڑا خطیب ہے اور
اپنی تقریروں سے دنیا کے حالات بد ل سکتا ہے… اُس نے اعلان کیا ہے کہ میں عنقریب
مصر یا انڈونیشیا کسی ایک اسلامی ملک میںتقریر جھاڑوں گا… اور میری اس تقریر سے
امریکہ کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے ہو جائیں گے… ارے اُبامہ جی! مسلمانوں میں
بڑے بڑے خطیب پڑے ہوئے ہیں، یہاں آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا… آج بھی الحمدللہ
اسلامی دنیا میں ایسے خطباء موجود ہیں کہ اگر آپ ان کو سُن لیں تو بولنا بھول
جائیں… مدینہ منورہ میں ایک مسجد ہے… آپ مسلمان ہوتے تو اُس نور سے بھری ہوئی
مسجد میں جانے کی سعادت پاتے… اس ’’مسجد نبوی شریف‘‘ کے منبر کا فیض مسلمانوں کو
ہر زمانے میں ملتا رہتا ہے… اس لئے مسلمانوں کی تقریریں مردہ دلوں کو زندہ کرنے کا
کمال رکھتی ہیں… اور اُنکی تقریروں میں ’’قرآن پاک‘‘ کا جلال و جمال اپنا رنگ
جماتا ہے… مسلمان آپ کی تقریرسے مطمئن نہیں ہوں گے… آپ تقریرکی بجائے ’’عمل‘‘ کر
کے دکھائیں… مسلمانوں پر حملے بند کریں، مسلمانوں کا تیل لوٹنا چھوڑ دیں… اور
یہودیوں سے اپنے دامن کو آزاد کرائیں… اور مذاکرات صرف اُنہی مسلمانوں سے کریں جو
حقیقی مسلمان ہیں… انشاء اللہ مسئلہ حل ہو جائے گا… لیکن اگر ’’بش جوتی والے‘‘ کے
طریقے پر آپ نے بھی ’’اسلام دشمنی‘‘ جاری رکھی تو… حالات مزید خراب ہوجائیں گے…
اور امریکہ کے ’’گورے‘‘ کہیں گے کہ ایک ’’کالے‘‘ نے ہمارا ملک تباہ کروا دیا…
اُبامہ
جی!… کالوں کی عزت کا خیال رکھیں…
حصار
نہ توڑیں
امریکہ
کے حکمرانوں نے پاکستان کے خلاف جو ’’پلان‘‘ ترتیب دیا تھا اُس کی ترتیب کچھ یوں
تھی کہ… پاکستان کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ’’پاکستانی مجاہدین‘‘ کے خلاف
کارروائی کرے اور ان کو ختم کردے… اس پالیسی کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ جب مجاہدین
ختم ہو جائیں گے تو پھر دینی مدارس پر ہاتھ ڈالا جائے گا… دینی مدارس کے بعد مذہبی
سیاسی جماعتوں کو برابر کیا جائے گا… پھر کشمیر کی تحریک کا تمام ملبہ دفن کر دیا
جائے گا… پاکستان کے حکمران جب فرمانبردار بچوں کی طرح یہ ساری خدمات سرانجام دے
دیں گے تو پھر اُن سے پوچھا جائے گا کہ … تمہیں اپنا ملک چاہیے یا ایٹم بم؟… ظاہر
بات ہے کہ ملک کے وفا دار حکمران کہیں گے کہ ہمیں تو ملک چاہیے ہم نے ایٹم بم کا
کیا کرنا ہے… تب یہ ایٹم بم نہایت حفاظت کے ساتھ امریکہ منتقل ہو جائے گا… اور پھر
پاکستان کی تھوڑی سی تقسیم کر دی جائے گی… بلوچستان الگ ملک… سرحد افغانستان میں
شامل… اور باقی ملک کے ساتھ انڈیا جو چاہے کرے… کافروں کے پاس طاقت بہت تھی… اور
یہاںبھی صدر مشرف اُن کے مکمل فرمانبردار تھے اور ہر طرح سے بااختیار تھے… اس لئے
اندازہ یہ تھا کہ صدر بش کے ہوتے ہوئے یہ سارے مرحلے طے ہو جائیں گے… امریکہ سات
آٹھ مہینے یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں طالبان کو ختم کر دے گا… اور پاکستانی
حکمران دو تین سال میں پاکستان کو امریکہ اور بھارت کا پسندیدہ ملک بنانے میں
کامیاب ہو جائیں گے… مگر اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے، بہت عظیم ہے اور وحدہ لاشریک لہ
ہے… اس پلان کو پہلے مرحلے پر ہی ایسی بریک لگی کہ دنیا بھر کے کافروں کی حسرتیں
خاک میں مل گئیں… ہمارے حکمران تو کشمیر کو بریف کیس میں اور ایٹم بم کو ڈبے میں
ڈالے بیٹھے تھے کہ ملک بچانے کے لیے کسی بھی وقت یہ دو قربانیاں دینی پڑ سکتی ہیں…
حالانکہ کشمیر اور ایٹم بم نہ رہے تو پاکستان بھی ’’مرغی کا چوزہ‘‘ بن جائے گا اور
قدموں تلے روندا جائے گا… اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے افغانستان کے طالبان
کو… جنہوں نے مثالی ہمت جرأت اور جانبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس زمانے کا عظیم
جہاد جاری فرمایا… اور کفریہ طاقتوں کو پاکستان پر حملے سے اب تک روکے رکھا…
پاکستان
کی فوجی قیادت اور حکمران دل کی آنکھیں کھول کر حالات کا تجزیہ کریں… تب انہیں
سمجھ میں آجائے گا کہ اگر افغانستان پر ’’صلیبی کافروں‘‘ کا مکمل قبضہ ہو گیا تو
پاکستان زیادہ دن اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا… افغانستان کی تحریک پاکستان
کا حفاظتی حصار ہے، اللہ کے لئے اس حصار کو نہ توڑو… یہ ٹوٹ گیا تو بہت کچھ ٹوٹ
جائے گا…
٭٭٭
بکھرے موتی
کے
پیارے بندے بھی عجیب ہیں… ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں… ہر حال میں
اللہ تعالیٰ سے راضی رہتے ہیں… اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں
لگے رہتے ہیں… یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں… مسجد نبوی کے محراب میں زخمی
پڑے ہوئے ہیں… خون ہے کہ رُک نہیں رہا مگر جیسے ہی ہوش آتا ہے بس یہی پوچھتے ہیں
کیا میں نے نماز ادا کر لی ہے؟… یہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ ہیں… اُحد کے میدان
میں زخموں سے چور پڑے ہیں… پورا جسم چھلنی ہے اور روح جسم سے جدا ہو رہی ہے مگر
اپنا کام کر رہے ہیں… اے میرے انصاری ساتھیو! اگر تم آرام سے رہو اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچے… ایسا کبھی
نہیں ہونا چاہیے… ہزاروں مثالیں ہیں اور لاکھوںواقعات… یہ دنیا ایسے ہی لوگوں سے
خوبصورت اور آباد ہے… ایک بزرگ گزرے ہیں حضرت بشّار بن بُردس … وہ نابینا ہوگئے…
فرمانے لگے مجھے تین چیزوں کی ضرورت تھی … اللہ پاک نے تینوں کا انتظام فرما دیا…
مجھے اجر چاہیے تھا، مجھے آخرت کے لئے کوئی نیکی چاہیے تھی… اور مجھے نظر کی
حفاظت چاہیے تھی… اب نابینا ہوگیا ہوں تو تینوں چیزیں مل گئیں ہیں… الحمدللہ… وہ
فرماتے ہیں
رأیت
العمی اجرا و ذخرا و عصمۃ
وانی
الی تلک الثلاث فقیر
یعنی
میں نے پایا کہ نابینا ہونے میں اجر ہے، آخرت کا ذخیرہ ہے اور گناہوں سے حفاظت
ہے، بے شک میں تو ان تینوں چیزوں کا محتاج تھا… حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو
پائوں میں تکلیف ہوئی تو علاج کے طور پر پنڈلی کاٹ دی گئی… اور وہ شکر ادا کر رہے
تھے کہ یااللہ دونوں ہاتھ اور ایک ٹانگ تو سلامت ہے… حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ
علیہ زندگی کی آخری گھڑیاں گزار رہے تھے… حضرت ابراہیم بن جراح رحمۃ اللہ علیہ اُن
کی عیادت کے لئے آئے… امام ابو یوسف پر غشی طاری تھی… تھوڑا سا ہوش آیا تو
ابراہیم بن جراح کے ساتھ ایک فقہی مسئلے کا مذاکرہ کرنے لگے… اور پھر اسی حالت میں
اس فانی دنیا کو علم کی خوشبو پھیلاتے پھیلاتے چھوڑ گئے… آج بھی اُن کا علم زندہ
ہے … اور اجر و ثواب کے خزانے جاری ہیں… حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
آخری عمر میں آنکھوں سے معذور ہوئے تو فرمایا
ان
یأ خذ اللّٰہ من عینی نورھما
ففی
فؤادی و قلبی منھما نور
یعنی
اگر اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی روشنی لے لی تو کوئی بات نہیں میرے دل میں تو روشنی
موجود ہے… بے شک دل کی روشنی بہت بڑی نعمت ہے…
دنیا
سے کامیاب کون لوگ گئے:
حضرات
انبیاء کرام… حضرات صحابہ کرام، صدیقین، شہداء… یہ سب اللہ تعالیٰ کے شکر گذار
بندے تھے… اور سب نے اپنی زندگی کو آخرت کی تیاری سے قیمتی بنایا… زندگی قیمتی
بنتی ہے اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے… اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرنے سے… اور اللہ
تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں لگے رہنے سے… غزوہ اُحد میں رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم خود بھی زخمی… اور صحابہ کرام بھی زخموں سے نڈھال… اور
چاروں طرف شہداء کے جسموں کے ٹکڑے… اُسوقت دربار نبوت سے اعلان ہو رہا ہے
’’میرے
پیچھے صفیں باندھ لو تاکہ میں اپنے رب کی حمد و ثناء کروں‘‘
تقدیر
میں جو لکھا ہوتا ہے وہ تو ہو کر رہتا ہے… ایسے میں انسان اگر شکر کرلے، صبر کر
لے… اور ڈٹا رہے تو اجر ہی اجر… اور اگر ہائے واویلا اور ناشکری کرنے لگے تو مصیبت
بھی آگئی… اور اجر بھی نہ ملا… کسی شخص نے ایک عالم سے پوچھا حدیث پاک میں آتا
ہے
لا
یقضی اللّٰہ للعبد قضائً الا کان خیرالہ
کہ
اللہ تعالیٰ بندے کے لئے جو مقدر فرماتا ہے اُسی میں اُس بندے کے لئے خیر ہوتی ہے
… تو کیا اگر گناہ ہو جائے تو اس میں بھی خیر ہوتی ہے؟ عالم نے فرمایا ہاں اگر اُس
کے ساتھ توبہ، استغفار، ندامت اور عاجزی نصیب ہو جائے…
حضرت
آدم علیہ السلام سے ایک لغزش ہوئی… جی ہاں لغزش، گناہ نہیں… حضرات انبیاء علیہم
السلام تو معصوم ہوتے ہیں… اُس لغزش پر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام خوب روئے،
خوب توبہ کی اور خوب ندامت فرمائی… اس توبہ، ندامت اور انکساری کی برکت سے اُن کا
مقام پہلے سے بھی اُونچا ہوگیا… اور اُن کی اولاد میں انبیاء علیہم السلام پیدا
ہوئے… ایک انسان پر کوئی پریشانی آتی ہے … وہ دعاء کرتا ہے، بار بار دعاء کرتا
ہے… مگر دعاء قبول نہیں ہوتی… دراصل اس کو ایک بڑی نعمت ملنے والی ہوتی ہے… دعاء
کرتے کرتے جب کافی عرصہ گذر جاتا ہے تو اُسے یقین ہو جاتا ہے کہ… میرے اندر کوئی
کمی ہے جس کی وجہ سے دعاء قبول نہیں ہورہی… میرا رب تو بہت کریم، بہت رحیم اور
دعائوں کو سننے والا ہے… دراصل میں ناقص ہوں اور اس قابل نہیں کہ میری دعاء قبول
کی جائے… بس وہ توبہ استغفار کی طرف متوجہ ہوتا ہے… اور اُس کے نفس میں انکساری،
تواضع اور خود کو ناقص سمجھنے کی جو روشنی پیدا ہوتی ہے وہ اُسے بلندیوں تک لے
جاتی ہے… بے شک جو تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلندی عطاء فرماتا ہے…
مگر شرط یہ ہے کہ لگا رہے، جُڑا رہے… اگر مایوس ہوگیا تو تباہ ہو جائے گا… حضرت
یونس علیہ الصلوٰۃ والسلام مچھلی کے پیٹ میں جاکر بھی مایوس نہیں ہوئے…
لَآ
اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّالِمِیْنَ (الانبیاء:۸۷)
اُن
کا دل اس احساس سے بھر گیا کہ قصور میرا ہے… اور اللہ تعالیٰ بہت قدرت والا ہے… تب
اللہ تعالیٰ کی نصرت سمندر کی گہرائی میں… مچھلی کے پیٹ کے اندر بھی پہنچ گئی…
ظاہری طور پر کون سا سبب موجود تھا؟… کوئی بھی نہیں، کوئی بھی نہیں… اللہ تعالیٰ
وحدہ لاشریک لہ وہ اسباب کا محتاج نہیں… اسی لئے کہتے ہیں کہ امید کا دامن ہاتھ سے
نہ چھوڑو
اذا
اشتد علیک الامر وضاق بک الکرب و جاء ک الیأس فانتظر الفرج
جب
حالات بہت سخت ہوجائیں اور پریشانی بہت بڑھ جائے اور مایوسی حملے کرنے لگے تو اُس
وقت اچھے حالات کی امید رکھو…
معلوم
نہیں لوگ سعادت کے میدانوں کو چھوڑ کر کیوں بھاگ جاتے ہیں؟… ہم اللہ تعالیٰ سے جنت
مانگتے ہیں مگر اُس جنت کی محنت نہیں کرنا چاہتے… صحابہ کرام میں سے مدینہ منورہ
کے انصار نے کچھ عرصہ ’’جہاد‘‘ سے ’’چھٹی‘‘ لے کر اپنے گھر بار کی اصلاح کا ارادہ
کیا… قرآن پاک نے کڑک کر فرمایا…
وَ
لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ: ۱۹۵)
کہ
خود کو اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کرو… جہاد چھوڑ کر گھر بار میں مشغول ہوجانا
بربادی اور ہلاکت بتایا گیا… حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم ’’عمرہ‘‘ پر تشریف لے جار ہے ہیں… خطرہ تھا کہ ’’جنگ‘‘ بھی ہوسکتی
ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے آس پاس کے
قبائل کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی… مگر اُنکی قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ نہ گئے…
واپسی پر انہوں نے معافی مانگی اور وجہ یہ بتائی کہ… گھر بار کی مشغولیت تھی…
پیچھے گھروں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا… قرآن پاک نے اُن سے پوچھا کہ
کیا گھروں اور گھر والوں کی قسمت تمہارے ہاتھ میں ہے؟… اگر اللہ تعالیٰ تمہیں
نقصان پہنچانا چاہے تو گھروں میں بیٹھ کر اُس سے بچ سکتے ہو؟… اور اگر اللہ تعالیٰ
تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہاری غیر موجودگی میں بھی پہنچ سکتا ہے…
تو
پھر سعادت کا راستہ چھوڑنے سے کیا ملا؟… بہت سے مجاہد لمبی چھٹی پر گئے اور پھر
چلے ہی گئے ابھی تک واپس نہیں آئے… دنیا کی قیمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر
کے برابر بھی نہیں… مگر دنیا جب کسی کو گھیر لیتی ہے تو پھر دانے دانے کے لئے ذلیل
کرتی ہے اور گھونٹ گھونٹ کے لئے ترساتی ہے… اُبامہ کہتا ہے کہ میں افغانستان میں
بش کی شروع کی ہوئی ’’صلیبی جنگ‘‘ کو جیتوں گا… تو پھر اُمت محمدیہ کے مجاہدین
اپنی چھٹیاں منسوخ کیوں نہیں کردیتے؟… گھر بار کے بارے میں ’’توکل علی اللہ‘‘ کیوں
نہیں کرتے… اور للکار کر جواب کیوں نہیں دیتے کہ فتح انشاء اللہ ہماری ہوگی… خوش
نصیب لوگ تو شہادت پاگئے… اور پیچھے والوں کا امتحان جاری ہے… جو ڈٹا رہے گا وہ
انشاء اللہ اونچی منزل پائے گا… اور جو اِس ملعون دنیا کے پیچھے بھاگ جائے گا… وہ
اپنے شہداء ساتھیوں کو کیا جواب دے گا… یا اللہ استقامت کا سوال ہے…
حضرت
نوح علیہ السلام کامیاب ہوئے مگر وہ ساڑھے نو سو سال تک ستائے گئے… قوم کے ظالم
اُن کو مارتے تھے یہاں تک کہ دادا بھی مارتا تھا اور اُس کا پوتا بھی… سبحان اللہ!
عزت والے رسولوں نے دین کی خاطر کیسا رویّہ برداشت فرمایا… ہاں اللہ پاک کی رضاء
کے لئے یہ سب کچھ بہت سستا ہے… حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی تکلیفوں کو ہم
کتابوں میں پڑھتے ہیں تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے… ہم میں سے کوئی
ہوتا تو کتنے دن استقامت دکھاتا؟… ہم تو پلاسٹک کے بنے ہوئے لوگ ہیں، تھوڑی سی
تکلیف آئی تو ساری جرأت ختم … وہاں تو صبح و شام خوفناک تکلیفیں تھیں… عرب کا
تپتا صحراء ،دوپہر کے وقت اُسکی ریت پر گوشت رکھا جائے تو پک جاتا ہے… سیّدنا بلال
رضی اللہ عنہ وہاں روز لٹائے جاتے تھے… سینے پر پتھر ، گلے میں رسّی، لاتیں، مکّے
اور گالیاں… مگر زبان پر اَحَدٌ اَحَدٌ… اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے… اُس وقت تو اس
بات کا امکان ہی نہیں نظر آتا تھا کہ کبھی حالات ٹھیک ہوں گے… خیر اللہ پاک کی
مدد آئی حالات اچھے ہوگئے… اور بالآخردنیا سے رخصت ہوئے اللہ پاک نے جنت دکھائی
تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اپنی تمام قربانیاں جنت کے مقابلے میں بہت کم اور
حقیر نظر آنے لگیں… سبحان اللہ جنت اتنی قیمتی ہے… معلوم نہیں ہم اپنے ساتھ کیا
لے جائیںگے، سیدنا بلال حبشیذ کے پاس تو قربانیوں اور سعادتوں کے أنبار تھے… حضرت
ابراہیم علیہ السلام کامیاب ہوئے مگر پوری زندگی اول تا آخر امتحان ہی امتحان…
آزمائشیں اور سختیاں… نمرود کی آگ اور پھر بیٹے کے گلے پر چھُری… حضرت موسیٰ
علیہ السلام کامیاب ہوئے مگر بچپن سے لیکر وفات تک امتحان ہی امتحان… حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کامیاب ہوئے… یہودیوں نے اُن کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا… بالآخر قتل
کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا… حضرات خلفائے راشدین کامیاب
ہوئے… ایک نظر اُن کی زندگیوں پر ڈال لیں… اللہ اکبر امتحان ہی امتحان… اور
قربانیاں ہی قربانیاں… اور ان سب سے بڑھ کر میرے آقا حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں اور محنتیں
تو اتنی ہیں کہ گننے والے گنتے گنتے رو پڑتے ہیں اور اُنکی آنکھیں حیرت سے پھٹنے
لگتی ہیں… مگر آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر اللہ
تعالیٰ سے راضی رہے تب جواب آیا
وَلَسَوْفَ
یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی (الضحی:۵)
کہ
عنقریب آپ کارب بھی آپ کو راضی کردے گا
اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کام میں لگے رہے… یہی محنت اور
استقامت تھی کہ دشمن مغلوب ہوتے گئے… اور ان میں سے بہت سے آپؐ کے وفادار غلام بن
گئے… رات چھٹ گئی اور دن آگیا اور اسلام کی روشنی پورے عالم کو جگمگانے لگی… ہاں
یہ دنیا اور آخرت شکر گزاروں اور محنت کرنے والوں کی ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی
شکر گزاروں میں سے بنا دے اور ہمارے دلوں کو مضبوط فرما دے اور ہم سے بھی دین کا
مقبول کام لے لے… (آمین یا ارحم الراحمین)
شکریہ
تُرک مسلمان کا
الحمدللہ
’’ترکی‘‘ کے حالات بد ل رہے ہیں… جی ہاں’’ترکی‘‘ کمال اتاترک کے باطل نظریات سے
آہستہ آہستہ ابھر رہاہے… ’’ترکوں‘‘ نے ماضی میں اسلام کی بہت خدمت کی ہے… یہ
بہادر قوم ایک زمانے میں مسلمانوں کی جائز حکمران رہی ہے… مسلمانوں کی آخری خلافت
اسی قوم کے پاس تھی… ’’خلافت عثمانیہ‘‘ آہ خلافت عثمانیہ… جس کے ختم ہونے کے بعد
ہم مسلمان زندہ لاش کی طرح مُردار خور جانوروں کے قبضے میں ہیں… سامراج نے محنت کی
اور ترکوں کو توڑ دیا… اور یہ عظیم مسلمان قوم بکھر گئی… پھر کمال اتاترک کا عذاب
آیا جس نے اس قوم کا اسلامی تشخص چھیننے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی… مگر
اسلام تو اسلام ہے، اُسکی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہوتی ہیں… لوگ آج لینن، مارکس
اور اسٹالن کے نام تک کو بھولتے جا رہے ہیں جبکہ سرزمین فرغانہ سے لے کر چیچنیا
اور قفقاز تک… اور آگے سائبریا اور منگولیا تک اسلام کی اذان الحمدللہ پھر گونج
رہی ہے… لوگ آج کریملن کو بھول رہے ہیں جبکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر
پروانوں کی طرح گِر رہے ہیں… ترکوں کی رگوں میں بھی اسلامی فاتحین کا خون ہے… کچھ
عرصہ سے وہاں ایک نسبتاً اسلامی پارٹی کی حکومت ہے… جناب طیّب اردگان دوسری بار ملک
کے وزیر اعظم بنے ہیں… وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو دوپٹہ (اسکارف) پہناتے ہیں…
ترکی میں کسی وزیر اعظم کے لئے اس کا تصور بھی محال تھا… انہوں نے اپنی ایک نظم
میں ’’جہاد‘‘ کا بھی تذکرہ کیا تھا جس کی پاداش میں اُن پر طویل مقدمہ چلا… ابھی
تازہ کارنامہ یہ ہوا کہ ایک عالمی اجلاس میں انہوں نے اسرائیل کے صدر کو تقریر کے
دوران ٹوک کر کھری کھری سنا دیں… اللہ تعالیٰ اُن کو خوب جزائے خیر عطاء فرمائے…
غزہ کے مظلوم بچوں کے حق میں اُٹھنے والی یہ آواز ایک روشن مستقبل کی طرف واضح
اشارہ ہے… ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ہیں… اور ماضی میں یہ دونوں
ملک آپس میں بہت قریب رہے ہیں… اس لئے ترکی سے اتنے طویل عرصے بعد مسلمانوں کے حق
میں آواز کا بلند ہونا ایک ’’قابل شکر‘‘ نعمت ہے… اللہ تعالیٰ ترکوں میں دوبارہ
سلطان بایزید یلدرم رحمۃ اللہ علیہ جیسے جری جانباز پیدا فرمائے آمین یا ارحم
الراحمین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
کتنا فاصلہ؟
ایمان
والوں سے راضی ہوا، جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے درخت
کے نیچے بیعت کر رہے تھے … پھر اللہ تعالیٰ نے جان لیا جو
کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انعام میں ان کو
ایک قریبی فتح دی اور بہت سی غنیمتیں جن کو وہ لیں گے
اور اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے(القرآن) …
یہ
قرآن پاک کی دو آیات کا ترجمہ ہے… سورۃ الفتح کی آیات ۱۸ اور ۱۹ کا
… اور اس میں تذکرہ ہے ایک ’’بیعت‘‘ کا… بیعت رضوان، بیعت علی الجہاد اور بیعت علی
الموت کا… اللہ اکبر کبیر!…کتنا عجیب منظر تھا… ایک درخت کے
نیچے بیعت اور اُس پر اللہ تعالیٰ کی رضا کا اعلان… اور پھر
فتوحات ہی فتوحات اور غنیمتیں ہی غنیمتیں…
آئیے
ماضی کے اس سچے واقعہ کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں… شاید ہماری قسمت بھی اچھی
ہوجائے۔
یادگار
لمحات کی منظر کشی
جب
وہ ’’درخت‘‘ کے نیچے بیعت کر رہے تھے… یہ ان یادگار لمحات کی خوبصورت منظر کشی ہے
جب راہِ حق کے مسافروں نے اپنی منزل کو پالیا… ایک مؤمن کی سب سے اونچی اور آخری
منزل اللہ تعالیٰ کی رضا ہے… وہ درخت کے نیچے بیعت کر رہے
تھے اور اعلان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا…
’’بیعت علی الجہاد‘‘ کا عمل کتنا عظیم اور مبارک عمل ہے… اور دین کی خاطر اپنی جان
قربان کرنے کا عزم ایمان کا کتنا اونچا درجہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں اپنی رضا کا اعلان کردیا…
سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم…
مسلمان
کی قیمت اور طاقت
ایک
مسلمان کے خون کی قدر ومنزلت دیکھیں… حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت
کی خبر سنتے ہی البیعۃ البیعۃ کا اعلان ہوگیا کہ اے مسلمانو! جلدی آؤ، بیعت کرو…
روح القدس بھی زمین پر اتر آئے ہیں… حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تیزی
سے لپکے، بیعت شروع ہوگئی… ہم بیعت کرتے ہیں کہ مرتے دم تک لڑیں گے… ہم بیعت کرتے
ہیں کہ میدان جہاد سے پیٹھ نہیں پھیریں گے… چودہ پندرہ سو افراد
نے اللہ تعالیٰ کی خاطر مرنے کا عزم کیا تو زمین و آسمان
میں ہلچل مچ گئی… اور مشرکین مکہ اپنے گھر میں مرعوب اور خوفزدہ ہوگئے … وہ سمجھ
گئے کہ یہ مسلمان تھوڑے ہیں مگر ایک جسم ہیں، ایک جان ہیں… اور انہیں زندہ رہنے کا
شوق نہیں ہے… تب وہ خود’’صلح‘‘ کا پیغام لے کر پہنچ
گئے… اللہ اکبر کبیرا… بے شک مسلمان جب جان دینے پر آجائے
تو وہ بہت طاقتور ہوجاتا ہے… اور بہت قیمتی بن جاتا ہے… دراصل ’’بیعت علی الجہاد‘‘
کرنے والا مسلمان خود کو اللہ تعالیٰ کے پاس بیچ دیتا ہے…
وہ اللہ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے… اور
جو اللہ تعالیٰ کا ہوجائے اس کی قوت، قیمت اور طاقت کا کون
اندازہ لگاسکتا ہے؟…
زخمی
دلوں کا سکون
اللہ تعالیٰ
راضی ہوگیا… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زخمی دلوں کو قرار
آگیا… اللہ تعالیٰ کی رضاء ہی کے لیے ان کی تمام محنتیں
تھیں اور تمام قربانیاں… انہوں نے ماریں کھائیں، وطن سے نکالے گئے، دنیا کی ہر
گالی اور ہر ظلم نے ان پر رستہ بنایا… بھوک، پیاس، زخم، خوف اور حالات کے تھپیڑے…
ہر دن نئی آزمائش اور ہر رات نیا خوف… یہ سب کچھ کس کی خاطر تھا؟…
دنیا
کے مال و دولت کی خاطر؟… یہاں کے آرام، عیش اور عزت کی خاطر؟ نہیں ہر گز نہیں … یہ
سب کچھ تو وہ چھوڑ کر آئے تھے… بے شک ان کے جسموں اور دلوں پر جو ان گنت زخم تھے
ان کا بدلہ دنیا کی کوئی چیز بن ہی نہیں سکتی تھی… ان کے دلوں کا سکون بس یہی چیز
تھی جس کا اعلان اس آیت مبارکہ میں ہوا لقد
رضی اللہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی
ہوگیا… زخمی دلوں کے سکون کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مرہم نہیں
تھا… اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا… یہی تو ان کی آخری تمنا تھی…
یہی تو ان کی سب سے بڑی چاہت تھی اور یہی وہ منزل تھی جس کی خاطر ان کا مرنا اور
جینا تھا… اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا… یہ اعلان اُنہیں کس موقع
پر سنایا گیا؟… ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کے موقع پر… وہ گھر سے عمرہ کرنے نکلے تھے مگر
اب ان کو بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جان دینی ہے… اور
ایک مسلمان کے خون کا بدلہ لینا ہے… اور مرتے دم تک لڑنے کی بیعت کرنی ہے… اس وقت
وہ ذرہ برابر نہ ہچکچائے … اور نہ کسی خوف اور شک میں مبتلا ہوئے… وہ بیعت کے لیے
کیکر کے درخت کی طرف دوڑ پڑے جہاں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے
رہے تھے… انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر
اپنی قیمتی زندگیاں بیچ دیں… اور گھروں کو واپسی کا خیال ہی دل سے نکال دیا…
جب
زندہ رہنے کا خیال دل سے نکلا اور جان دینے کا عزم پختہ ہوا تو عرش سے پیغام آگیا
:
(ترجمہ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ بیعت کرنے والوں سے راضی ہوگیا‘‘
(القرآن)
درخت
کے نیچے
قرآن
پاک کے ہر لفظ میں حکمتوں کے خزانے ہیں… کیونکہ یہ ’’رب حکیم‘‘ کا حکمت والا کلام
ہے… ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) اللہ تعالیٰ
ایمان والوں سے راضی ہوا جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے
درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے۔
سبحان اللہ
! درخت کے نیچے: ایک تو اس تذکرے میں عجیب مٹھاس ہے کہ وہ
منظر اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اس کی کیفیت تک اپنی مبارک کتاب
میں محفوظ فرمادی… محبت کے خصوصی لمحات کا تذکرہ اسی طرح ہوتا ہے کہ جگہ اور مقام
بھی یاد رکھا جاتا ہے… بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس واقعہ کی مزید تاکید کے لیے
فرمایا کہ یہ وہ بیعت ہے جو درخت کے نیچے ہوئی تھی… اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے کسی خوف کی وجہ سے نہیں… بلکہ جذبہ جہاد کے تحت یہ بیعت ایک درخت کے
نیچے کھلم کھلا لی تھی…
تحت
الشجرۃ: اشارۃ الی مزید وقع تلک المبایعۃ وانہا لم تکن عن خوف منہ علیہ
الصلوٰۃ والسلام (روح المعانی)
اللہ تعالیٰ
سے بیعت
سبحان اللہ
… ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کرنے والوں کی قسمت ایسی جاگی
کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ)
’’بے شک جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیعت کر رہے ہیں
وہ اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں
پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے پس جو اس (بیعت اور عہد) کو توڑ
دے گا تو اس توڑنے کا وبال خود اُس پر ہوگا اور جو وہ عہد پورا کرے گا جو اس
نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے تو
عنقریب اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطاء فرمائے گا۔‘‘
(الفتح۱۰)
حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خوش نصیبی دیکھیں… ایک طرف تو ان کے ہاتھوں
کو آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کا مصافحہ اس بیعت میں
نصیب ہو رہا تھا… بجائے خود یہ بہت بڑی سعادت تھی…
مگر اللہ پاک جب نوازنے پر آئے تو اس کی رحمت بہت وسیع ہے،
چنانچہ فرمایا کہ یہ بیعت خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ
ہے… اللہ اکبر کبیرا… اس جملے کی لذت اور کیفیت کا اندازہ
لگانا بھی مشکل ہے کہ ایک انسان کو حق تعالیٰ جلّ شانہٗ سے بیعت کی سعادت مل رہی
ہے… پھر اس پر اور اضافہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان
کے ہاتھوں پر ہے… اللہ ، اللہ ، اللہ … عجیب
فضیلت ہے اور عجیب سعادت … اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کی کیا
کیفیت ہے یہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے…
کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر مشابہت سے پاک ہے…
لیس
کمثلہ شیء :
مگر
اس جملے کی کیفیت کا خاص سرور اور مقام حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کو نصیب ہوا کہ… بیعت کے وقت اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت، محبت
اور نصرت ان پر متوجہ تھی… حضرات صحابہڑ کو یہ انعام بیعت علی الجہاد کے عمل کے
وقت نصیب ہوا جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیعت علی الجہاد کا
عمل اللہ تعالیٰ کو کتنا محبوب ہے… دوسرے مسلمان بھی جب اس
عمل کو شرعی شرائط کے مطابق زندہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ
کی طرف سے طرح طرح کے انعامات اور فتوحات پاتے ہیں…
بیعت
علی الجہاد کے عظیم الشان فوائد
حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ’’حدیبیہ‘‘ کے موقع پر جب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر … جہاد
کی بیعت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے انعامات کی
بارش فرمادی… ان انعامات کو تفصیل سے لکھا جائے تو ایک پوری کتاب بن جائے… جو
مسلمان اس موضوع پر دلچسپی رکھتے ہوں وہ قرآن پاک کی ’’سورۃ الفتح‘‘ کا… مستند
تفاسیر کی روشنی اور علماء کرام کی رہنمائی میں مطالعہ فرمالیں… تب انہیں اندازہ
ہوگا کہ مسلمانوں نے ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کا عمل چھوڑ کر اپنا کتنا عظیم نقصان کیا
ہے… اس مختصر سے کالم میں ہم صرف ان انعامات کا خلاصہ عرض کر رہے ہیں جو اس بیعت
پر حضرات صحابہ کرام ڑکو عطاء فرمائے گئے…
۱ اللہ تعالیٰ
کی رضاء : لقد رضی اللہ عن المؤمنین
۲ اللہ تعالیٰ
سے بیعت کرنے کا اعزاز: انما یبایعون اللہ
۳ اللہ تعالیٰ
کی خصوصی توجہ اور نصرت: ید اللہ فوق ایدیہم
۴ اجر
عظیم یعنی جنت: فسیوتیہ اجرا عظیما
۵ ان
کے اخلاص کی قبولیت: فعلم مافی قلوبہم
۶ سیکنہ
کا نازل ہونا: فانزل السکینۃ علیہم
۷ فتوحات
ہی فتوحات: واثابہم فتحا قریبا
۸ معاشی
استحکام اور غنیمتوں کی کثرت: ومغانم کثیرۃ
۹ دشمنوں
کے دلوں پر ایسا رُعب طاری ہونا کہ وہ نقصان نہ پہنچا سکے : وکف ایدی
الناس عنکم
۱۰ صراط
مستقیم: ہدایت کے پھیلنے کا ذریعہ بننا: ویہدیکم صراطا
مستقیما ۔
امام
ابن کثیرس لکھتے ہیں کہ اس بیعت کے بعد مسلمانوں پر فتوحات، غنیمتوں اور مقامات کی
بوچھاڑ ہوگئی… سب سے پہلے تو یہ فتح ملی کہ مشرکین مکہ جنگ نہ کرسکے، صلح پر مجبور
ہوئے… پھر خیبر فتح ہوا اور مسلمان مالا مال ہوگئے پھر مکہ مکرمہ فتح ہوا… اور پھر
ملکوں کے ملک فتح ہوتے چلے گئے اور حضرات صحابہ کرام ڑکو دنیا وآخرت کے بلند
مقامات اور درجات مل گئے۔ (مفہوم تفسیر ابن کثیر۔۱)
اللہ تعالیٰ
کا دین قیامت تک کے لیے ہے… مسلمان جب بھی ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کے عمل کو اپناتے
ہیں اور سچے دل سے بیعت کرکے اسے نباہتے ہیں تو… بے شمار فوائد اپنی آنکھوں سے
دیکھتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی رضا سے بڑھ کر اور کیا چیز
ہوسکتی ہے… ہر مسلمان اس نعمت کا بے حد محتاج ہے اور آج امت مسلمہ کو فتوحات کی
ضرورت ہے… اللہ تعالیٰ کی نصرت کی حاجت ہے… اور معاشی
استحکام کی ضرورت ہے… ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کا عمل قرآن پاک میں اسی لیے مذکور ہوا
کہ ہم مسلمان اسے اپنائیں… اور ان فوائد کو حاصل کریں جو اس ’’بیعت‘‘ کی صورت میں نصیب
ہوتے ہیں…
رسمی
بیعت دین کا مذاق
اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے:
فعلم
مافی قلوبہم کہ اللہ تعالیٰ نے جان لیا اس کو جو اُن کے دلوں
میں تھا… یعنی صحابہ کرام ڑکی بیعت محض رسمی بیعت نہیں تھی بلکہ وہ سچے دل سے جہاد
کرنے اور دین کی خاطرجان قربان کرنے کے لیے بیعت کر رہے تھے…
۱ ان
کے دلوں میں جو سچائی، وفاداری، حکم سننے اور ماننے کا جذبہ تھا
وہ اللہ تعالیٰ نے جان لیا۔
ای
من الصدق والوفاء والسمع والطاعۃ (ابن کثیر)
۲ ان
کے دلوں میں بیعت کو نباہنے کا جو سچا جذبہ تھا کہ ہم ہرگز میدانِ جہاد سے پیٹھ
نہیں پھیریں گے وہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے جان لیا اور پسند
فرمایا کہ وہ واقعی سچے دل سے ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کر رہے تھے۔
وقال
ابن جریج وقتادۃ: من الرضا بأمر البیعۃ علی الا یفروا (القرطبی)
معلوم
ہوا کہ صرف اسی ’’بیعت علی الجہاد‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی رضا
اور دیگر نعمتیں ملتی ہیں جس کو نباہنے کا سچا اور پکا جذبہ دل میں ہو… اگر ایسا
نہ ہو تو ’’بیعت‘‘ ایک مذاق بن جاتی ہے… اور دین کے کسی کام کا مذاق بنانے والے
بالآخر خود ایک بھیانک مذاق بن جاتے ہیں۔ (العیاذ باللہ )
یہودی
کانپ اٹھے
بیعت
تو حدیبیہ میں ہو رہی تھی مگر اس کے اثرات دور دور تک پہنچ رہے تھے … سب سے پہلے
جہاں اس بیعت کی روشن کرنیں پہنچیں وہ ’’خیبر‘‘ کا زرخیز اور شاداب علاقہ
تھا… اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آچکا تھا کہ ’’خیبر‘‘ پر
حملے کے لیے صرف وہی افراد جائیں گے جنہوں نے ’’بیعت رضوان‘‘ میں حصہ لیا تھا… یہی
چودہ پندرہ سو افراد جب ’’خیبر‘‘ پہنچے تو اس زمانے کا ’’اسرائیل‘‘ ایک پکے ہوئے
پھل کی طرح ان کی گود میں آگرا… حالانکہ خیبر کے قلعے اپنی مضبوطی میں… اور وہاں
کے دس ہزار جنگجو اپنی بہادری میں ایک مثال مانے جاتے تھے… مگر ’’بیعت علی
الجہاد‘‘ اپنا رنگ دکھا رہی تھی اور یہودی بغیر لڑے اپنے قلعے چھوڑ کر بھاگ رہے
تھے… کئی مقامات پر لڑائی بھی ہوئی مگر مسلمان غالب رہے
اور اللہ پاک کے وعدوں کا پہلا حصہ ’’خیبر‘‘ کی شاندار فتح
کی صورت میں مسلمانوں کو نصیب ہوگیا… اور مسلمانوں کی معاشی تنگی دور ہوگئی… آج جب
اسرائیلی طیارے گرجتے ہیں اور ان کے گنجے حکمران مسلمانوں کی بے بسی پر قہقہے
لگاتے ہیں… اور جب غزہ کے معصوم بچوں کی گردنوں سے خون اور ماں کا دودھ ایک ساتھ
بہتا ہے تو … معلوم نہیں مجھے کیوں… غزوہ خیبر یاد آجاتا ہے… اور وہ درخت جس کے
نیچے جہاد کی بیعت ہوئی تھی…
’’
بیعت علی الجہاد … اور غزوہ خیبر میں کتنا فاصلہ تھا؟‘‘… کوئی ہے جو اس بکھری ہوئی
امت کو یہ نکتہ سمجھا سکے؟…
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
سچّے اُمَّتِی
غنی
ہے، بے نیاز ہے… وہ نہ ہماری نماز کا محتاج ہے اور نہ صدقے کا… وہ جس کو چاہے بخش
دے اور جس کو چاہے عذاب دے… وہ جس کو چاہے روزی میں وسعت دے اور جس کو چاہے تنگی
دے… اُس سے کوئی کچھ نہیں پوچھ سکتا… یہ تو اُس کی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کوبعض
کاموں کا حکم فرماتا ہے اوربعض کاموں سے روکتا ہے… اُس کو تو اِسکی ضرورت نہیں…
ساری دنیا نافرمان ہو جائے اُسے کیا پرواہ… اُسکی اطاعت کرنے والی مخلوق بے شمار
ہے… اتنے بڑے بڑے فرشتے اُسکی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں کہ اگر وہ فرشتے اپنا ایک پر
پھیلا دیں تو تمام انسان اور جنات اُس کے اندر چھپ جائیں… اللہ اکبر کبیرا… یہ
فرشتے ڈر ڈر کر کانپ کانپ کر اُس کا حکم مانتے ہیں اور ذرہ برابر نافرمانی کا
تصور بھی نہیں کر سکتے… وہ جلال والا اور اکرام والا رب ہے… آسمان
زمین اور سورج، چاند ستارے سب اُس کے جلال اور غضب سے ڈرتے ہیں… اُس نے ایک بے جان
قطرے یعنی نطفے سے اتنا خوبصورت انسان بنادیا… وہ قطرہ تو ایک جیسا ہوتا ہے مگر اس
میں سے کسی سے مرد کو بنایا اور کسی سے عورت کو… اب یہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے
اکڑتا ہے اور نخرے کرتا ہے… اور اپنی حیثیت کو بھول جاتا ہے… حکمرانوں کی تقریریں سنیں
تو حیرانی ہوتی ہے وہ تھوڑی سی فوج اور پولیس کے سہارے خود کو خدا سمجھ بیٹھتے
ہیں… اور پھر چند دنوں کے بعد مٹی میں مل جاتے ہیں… جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے
وہ کبھی تکبّر میں مبتلا نہیں ہو سکتا… اور نہ ’’خودپسندی‘‘ کی بیماری اُسے برباد
کر سکتی ہے… مگر کیا کیا جائے گناہوں اور نافرمانیوں نے ہمارے دل سخت کر دیئے ہیں…
یہ دل اب نور اور روشنی کو محسوس نہیں کر سکتے… اسی لئے تو ہر طرف فساد ہی فساد
ہے… قرآن پاک نے کچھ لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ اُن کے گناہوں نے اُن کو گھیر لیا
ہے… حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گناہوں کے
گھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کرتا ہے اور شرمندہ نہیں ہوتا… ایک مسلمان کو قتل
کرنے سے بڑا گناہ شرک و کفر کے بعد اور کونسا ہو سکتا ہے؟… آج پاکستان میں یہ
گناہ سرکاری اور مذہبی فیشن بن گیا ہے… آج پاکستان میں روز آنہ خیبر سے کراچی تک
درجنوں مسلمان بے گناہ مارے جاتے ہیں… حکومتی سطح پر تو یہ کام بہت عرصہ سے جاری
ہے… ہر حکمران ایسی خفیہ ایجنسیاں اور فورسز بناتا ہے جو اُس کے حکم پر مسلمانوں
کو قتل کرتی ہیں… ایک مسلمان کے قتل پر زمین خون اور کانٹوں سے بھر جاتی ہے… کہا
جاتا ہے کہ جب زمین پر پہلا ناحق خون ہوا تو اُس کے بعد زمین پر کانٹے اُگے اور
پھل کھٹے ہوگئے… قرآن پا ک فرماتا ہے کہ جو ناحق
کسی مسلمان کو قتل کرے گا وہ ہمیشہ جہنم میں جلے گا… مگر کسی کو اسکی پرواہ نہیں…
اور اب تو ندامت بھی نہیں… ہر غنڈہ دوسرے افراد کو قتل کی دھمکی دیتا ہے… کسی کی
کوئی بات بری لگی تو قتل… کسی کا مضمون پسند نہیں آیا تو قتل… اور کسی نے تھوڑی
سی گستاخی کردی تو قتل… اللہ اکبر! ایک مسلمان کی جان کی قیمت تو زمین و آسمان
نہیں بن سکتے… اسی لئے اللہ پاک نے اپنے خاص ایمان والوں کی جان کو جنت کے بدلے
خرید لیا ہے… آپ خود سوچیں جس چیز کا خریدار اللہ تعالیٰ ہو وہ چیز کتنی بڑی اور
کتنی قیمتی ہوتی ہے… ’’حدیبیہ‘‘ کے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنا قاصد بنا کر مشرکین کے
پاس بھیجا… وہاں سے خبر آگئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردئیے گئے ہیں… تب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو صحابہ کرام سے موت
اور جہاد کی بیعت لی… اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا ہاتھ تمہارے ہاتھوں کے اوپر
ہے اور یہ بیعت خود اللہ تعالیٰ سے ہے… پھر جب بیعت ہوگئی تو مشرکین پر رعب پڑ
گیا… آج کے حکمران تو اپنے ملک کے لوگوں پر مقدمے چلا کر انڈیا کے مشرکین کو راضی
کر رہے ہیں… عجیب شرمناک اور دردناک صورتحال ہے کہ انڈیا کے مجرموں پر پاکستان میں
مقدمہ چل رہا ہے… جبکہ انڈیا میں اُن لوگوں کو تمغے اور اعزازات دیئے جاتے ہیں جو
پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں… پاکستان کو توڑتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی
سرگرمیاں کرتے ہیں… دراصل جو شخص مسلمانوں کو قتل کرتا ہے اُسکی اللہ تعالیٰ کے
ہاں کوئی قیمت باقی نہیں رہتی… اور وہ ذلیل و خوار لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے…
ہمارے حکمران چونکہ مسلمانوں کو ناحق قتل کرتے ہیں اسی لئے انکی کسی بھی جگہ کوئی
عزت نہیں ہے… امریکہ ان کے ساتھ لونڈیوں جیسا سلوک کرتا ہے… اور انڈیا ان کو اپنے
جوتے کی نوک پر رکھتا ہے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرات صحابہ کرام سے ’’بیعت علی الجہاد‘‘ لی تو مشرکین خود صلح کا پیغام لے کر
آگئے… اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی چھوٹ گئے… مگر اہلِ ایمان کا خون گرم ہو
چکا تھااور وہ مکہ مکرمہ کو فتح کرنا چاہتے تھے… مشرکین میں سے بھی بعض لوگ یہی
چاہتے تھے کہ جنگ ہوجائے اُن کا گمان تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیںاور مسلمان اپنے
علاقے سے بہت دور ہیں… اس لئے مسلمانوں کے خاتمے کا یہ بہترین موقع ہے… تب انہوں
نے مختلف شرارتیں کرکے مسلمانوں کو بھڑکانے کی کوشش کی… مگر اہلِ اسلام کی جماعت
مضبوط تھی… وہ جانتے تھے کہ جب لڑنے کا حکم ہو تو لڑنا ایمان ہے… اور جب نہ لڑنے
کا حکم ہو تو نہ لڑنا ایمان ہے… وہ ایمان کے تقاضوں کو خوب جانتے تھے… اُس وقت
مشرکین نے اُن کے صبر اور اُنکی اطاعت کو توڑنے کی بہت کوشش کی… انہوں نے معاہدے
کی شرائط بہت سخت رکھیں جو مسلمانوں کو ناگوار تھیں… انہوں نے مکہ سے بھاگ کر آنے
والے مسلمان حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کی واپسی کا مطالبہ کیا… انہوںنے صلح نامہ
میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کٹوائے… یہ سب
کچھ ناقابل برداشت تھامگر مسلمانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ ابھی لڑنے کا حکم نہیں
ہے… چنانچہ مسلمان سب کچھ برداشت کرتے چلے گئے بعد میں اُن کو بتایا گیا کہ دراصل
مکہ مکرمہ میں کچھ مظلوم مسلمان ایسے تھے جن کو تم نہیں جانتے تھے… اس بار اگر جنگ
ہو جاتی تو وہ مسلمان تمہارے ہاتھوں سے پیسے جاتے… بس اُن کی حفاظت کے لئے
مسلمانوں کو اس موقع پر لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی… تفسیر کی کتابوں میں لکھا ہے
کہ … اُن مسلمانوں کی تعداد نو یا بارہ تھی… اللہ اکبر کبیرا… نو مسلمانوں کی خاطر
اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ پر اُس وقت حملے سے روک دیا… اس روکنے میں اور بھی بہت
سی حکمتیں تھیں… مگر ایک بڑی حکمت ان چند مسلمانوں کا دفاع تھا… آج کوئی ہے جو
مسلمانوں کے خون کی قیمت کو سمجھتا ہو… کافر تو ویسے ہی دشمنی پر اُترے ہوئے ہیں…
غزہ ہو یا کشمیر، افغانستان ہویا عراق ہر جگہ مسلمان ذبح ہو رہے ہیں… مگر خود
مسلمانوں کے ہاں ایک مسلمان کے خون کی کتنی قیمت ہے؟… جس کے پاس بھی تھوڑی سی طاقت
ہے وہ ہر کسی کو قتل کی دھمکی دیتا پھرتا ہے… اور یوں مسلمانوں کے معاشرے میں سے
جان نکلتی جا رہی ہے… ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں، سر کٹی لاشیں اور لاوارث لاشیں…
اور ہر طرف قاتل ہی قاتل ہیں بے رحم اور سفّاک قاتل… اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ
وہ قتل و غارت کا سلسلہ اور بڑھائے گی اور اپنے مخالفوں سے آکسیجن تک چھین لے گی…
یعنی کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گی… انا للہ و انا الیہ راجعون… یہ کیسی مسلمانی ہے
اور کیسی حکمرانی… جب ایک طرف سے قتل و غارت بڑھے گی تو دوسری طرف والے بھی یہ
سلسلہ بڑھائیں گے… اور یوں ہمیں مزید لاشیں ملیں گی اور مزید قاتل… اور ہمار پورا
ملک قاتلوں اور مقتولوں سے بھر جائے گا… ہاں جس زمین پر علماء کو قتل کیا گیا ہو،
معصوم طلبہ اور طالبات کو قتل کیا گیا ہو… اسلام کے فریضے جہاد فی سبیل اللہ پر
پابندی لگا کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی ہو… جہاں لوگ سود لیتے اور دیتے وقت
نہ شرماتے ہوں… جہاں فحاشی اور عریانی کی باقاعدہ سرپرستی کی جاتی ہو… جہاں
جاگیردار،غریبوں کا خون اور عزت چوستے ہوں… وہاں ایسا ہی ہوتا ہے… بے شک اللہ
تعالیٰ نے کوئی ظلم نہیں فرمایا… اُسے ظلم کرنے کی کیا ضرورت ہے… وہ تو غنی اور بے
نیاز ہو کر بھی رحمت برساتا ہے… اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے… اُن کے صدقات
کو قبول فرماتا ہے… اگر وہ شرعی جہاد میں نکلیں تو اُن کی نصرت فرماتا ہے… وہ سچے
دل سے دعاء کرنے لگیں تو زمین کارنگ ہی بدل دیتا ہے… وہ بہت عظیم ہے وہ بہت مہربان
ہے… اگر مسلمان اپنے دل سے شیطان کو نکال دیں… اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں بسا
لیں تو اُسکی رحمت آج بھی اُمت مسلمہ کے حالات بدل سکتی ہے… اگر دل میں شیطان اور
بدنیتی کا زہر نہ ہو تو بڑے سے بڑا گناہ اور بڑی سے بڑی غلطی بھی معاف ہو جاتی ہے…
اور اُلٹے کام بھی سیدھے ہو جاتے ہیں… اصل مسئلہ اور معاملہ دل کا ہے… جہاد کرنے
والے اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھیں کہ اس میں کیا ہے؟… اگر اللہ تعالیٰ کے کلمے کو
بلند کرنے کی نیت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کا جنون ہے تو پھر وہ بے فکر ہو کر
اپنا کام کریں دنیا کی کوئی طاقت اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی… وہ زندہ رہیں گے
تب بھی کامیاب اور مر جائیں گے تو تب اُس سے بھی بڑے کامیاب… لیکن اگر دل میں
اخلاص نہیں ہے اور شیطان گھس گیا ہے… ذاتی عزت کا شوق، گاڑیوں اور باڈی گارڈوں کا
شوق… سیکرٹری رکھنے اور پروٹوکول کا شوق… لوگوں سے اپنی اطاعت کرانے کا شوق… علاقے
میں نام اور حیثیت بنانے کا شوق… رشتہ داروں میں اور معاشرے میں سرداری کا شوق… تو
ایسے لوگوں کو جہاد سے کچھ بھی نہیں ملے گا… وہ جنت اور شہد چھوڑ کر ذلت اور پیشاب
کے طلبگار ہیں… انہوں نے بہت اونچی چیز کو گھٹیا چیزوں پر برباد کر دیا … پس اُنکی
تجارت بہت گھاٹے اور خسارے والی ہے… ایسے ہی نام کے مجاہدین مسلمانوں کو ناحق قتل
کرتے ہیںاور جہادی اموال میں بھی خیانت کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ عادل ہے، وہ غنی اور
انصاف فرمانے والا ہے… پس جو جس چیز کا طلبگار ہے اُس کو وہی چیز عطاء فرما رہا
ہے… اکثر مسلمان اگر دینی عزت اور کلمۃ اللہ کی بلندی کے طلبگار ہوتے تو اللہ پاک
زمین کی حکومت ظالموں اور فرعونوں کو عطاء نہ فرماتا…
اے
مسلمانو!… اے اللہ کے بندو!… اپنے دل سے شیطان کو نکال دو… تم قارون جتنا مال نہیں
بنا سکتے… بنا بھی لو تو قارون کونسا کامیاب مرا؟… تم فرعون جتنا پروٹوکول نہیں لے
سکتے ہو، لے بھی لو تو کیا یہی چاہتے ہو کہ فرعون جیسا انجام ہو؟… اللہ کے مجاہدو!
اپنے اندر تواضع، سادگی اور عمدہ اخلاق پیدا کرو… تم صحابہ کرام کے لشکروں کو
دیکھو اور پھر اُن جیسی صفات اپنائو… کامیابی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے
طریقے میں ہے… اپنے دل سے اپنی ذات کو اور شیطان کو نکال دو… اپنی ہستی کو دین کی
خاطر فنا کرو… اور دنیا کی بڑائی اور زیب و زینت کا شوق دل سے نکال دو… تم جانتے
ہو کہ جب لڑائی کا بگل بج جائے … اور دشمنوں کی صفیں سامنے آجائیں تو جہاد فرض
عین ہو جاتا ہے… ایسے حالات میں جو پیٹھ پھیرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق
ہو جاتا ہے… وہ دیکھو، یہود، نصاریٰ اور مشرکین کے لشکر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے مبارک خیمے کی طرف بڑھ رہے ہیں… یہودیوں کے ٹینک
مسجد نبوی سے اسّی کلومیٹر کے فاصلے پر صف بنا چکے ہیں… امارتِ اسلامیہ افغانستان
زخمی زخمی کرکے گراد ی گئی… خلافت اسلامیہ کو ذبح کر کے زمین میں دفن کر دیا گیا… کشمیر
کے چناروں کی کمر فاتحین کے انتظار میں جھکنے لگی ہے… اور وہ زمینیں جہاں ہمارے
اسلاف کی اذانیں گونجتی تھیں ناپاک میوزک سے کانپ رہی ہے… ہاں امت محمدیہ کے
نوجوانو! مقابلہ شروع ہو چکا ہے… صفیں آپس میں ٹکرا چکی ہیں… اور ہماری فتح میں
صرف ایک قدم باقی ہے… اور وہ ہے دلوں کا اخلاص، مضبوط جماعت اور پہاڑوں جیسی
استقامت… آج ہی ہم سب اپنے دل ٹھیک کرلیں… اس میں سے دنیا کی ہر خواہش نکال کر
پھینک دیں… اور اللہ پاک کی رضا کا جنون اپنے دل اور خون میں بھر لیں… پھر زمین
بھی دیکھ لے گی اور آسمان بھی… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے سچّے اُمتی کیسے ہوتے ہیں…
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
بجلی
رحمت
فرمائے تو گناہوں سے بچا لیتا ہے… اور اسباب نہ ہونے کے باوجود بڑے بڑے کام لے
لیتا ہے… آج کئی لوگوں کے پاس اربوں کروڑوں روپے ہیں مگر اُن کو یہ توفیق نہیں
ملتی کہ اس مال کو اپنے لئے کام کا بنا لیں… اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ
کرکے اسے اپنے لئے محفوظ کرلیں… جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کیا
حال تھا… ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کی اس روایت میں
حضرت
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بعض لوگ بازاروں
میں جاکر باربرداری (مزدوری) کرتے تو انہیں ایک مُدّ مزدوری ملتی (اس میں سے صدقہ
کرتے) آج انہیں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم و دینار) ہیں (بخاری)
اللہ
پاک نے اُن کے صدقات کو قبول فرمایا… اور دنیا میں بھی اُن کو بڑے بڑے خزانوں کا
مالک فرمادیا… اور اصل اجر تو آخرت کا اُن کو عطاء فرمایا… معلوم ہوا کہ اللہ
تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کے لئے انسان کو محنت کرنی چاہیے… آج ہم مسلمانوں میں
محنت اور قربانی کا جذبہ کم ہوتا جارہا ہے… اور اکثر غریب لوگ تو اللہ تعالیٰ کے
راستے میں مال خرچ کرنے کا سوچتے ہی نہیں…
بے
چاری حکومت کی پریشانی
اُدھر
حکومت کا یہ حال ہے کہ… انہوں نے ہر کسی کے سامنے دامن پھیلا رکھا ہے… اب تو انہوں
نے امریکہ کو درخواست دے دی ہے کہ … دہشت گردی کے خلاف اُنکی کارروائیوں کا کرایہ
ہر ماہ نقد ادا کیا جائے… کیا جب قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ کیا کرتے تھے؟…
جواب دیں گے امریکہ کو راضی رکھنے کے لئے مسلمانوں کو مارتے تھے، مجاہدین پر حملے
کرتے تھے… پوچھا جائے گا مال کہاں سے کماتے تھے؟… جواب دیں گے مسلمانوں کو مارنے
کے بدلے امریکہ سے جو امداد ملتی تھی اُس پر گزارہ تھا… پوچھا جائے گا کہ اس مال
کو کہاںخرچ کرتے تھے؟… جواب دیں گے کہ واپس امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں جمع کرا
آتے تھے کہ جب حکومت نہیں رہے گی تو اُس وقت کام آئے گا… کسی زمانے میں ایک مفکر
نے کہا تھا کہ اگر کسی انسان کے پاس تین سو ساٹھ روٹیاں… ایک مٹکا تیل اور ایک
ہزار چھ سو کھجور کے دانے ہوںتو دنیا کی کوئی طاقت اُس کو اپنا غلام نہیں بنا
سکتی… یعنی اگر ایک آدمی روزانہ پچاس روپے تک کما لیتا ہے تو پوری دنیا مل کر اُس
کو غلام نہیں بنا سکتی… شاید ہمارے حکمرانوں کے پاس یومیہ پچاس روپے بھی نہیں… اس
لئے غیرت اور عزت بیچ کر امریکہ سے اپنی ’’خدمات‘‘ کا صلہ مانگتے ہیں… یااللہ رحم
فرما…
سوکھی
روٹی اور پانی کی قیمت
کہتے
ہیں کوفہ کی ایک مسجد میں ایک بار دو قبیلوں میں جھگڑا ہوگیا… دونوں طرف سے
تلواریں نکل آئیں… نیزے سیدھے کر لئے گئے اور کھوپڑیاں جسموں سے الگ ہونے کے لئے
اکڑنے لگیں… کچھ لوگ چپکے سے وہاں سے کھسک گئے… اُن کا خیال تھا کہ مشہور اللہ
والے بزرگ حضرت احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ ہی اس جنگ کو ٹال سکتے ہیں…
وہ اُنکی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت اپنی بکریوں کا دودھ نکال رہے تھے… کمزور سا
جسم اور معمولی سے کپڑے… مسجد کا واقعہ سن کر اطمینان سے بیٹھے رہے فرمایا انشاء
اللہ خیر ہوگی… اسی دوران اُن کے افطار کا وقت ہوگیا… گھر والوں نے خشک روٹی کا
ایک ٹکڑا، تھوڑا سا تیل اور نمک سامنے رکھ دیا… انہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام لیکر
خوشی سے کھایا پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا… فرمانے لگے سبحان اللہ عراق کے
آٹے کی روٹی… شام کے زیتون کا تیل اور مرو(علاقے) کا نمک… میرے رب نے مجھے کیسی
کیسی نعمتیں کھِلا دیں… پھر اپنا عصا اٹھایا اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے… مجمع نے
انہیں دیکھا تو سارا فتنہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا… چلتی زبانیں خاموش ہو گئیں اور
چمکتی تلواریں نیاموں میں جا چھُپیں… انہوں نے آپس میں اتفاق کی نصیحت فرمائی تو
ہر گردن جھک گئی… اور لڑنے والے باہم دوست بن کر گھروں کو لوٹے… بے شک جس کی نظر
میں دنیا حقیر ہو… اللہ تعالیٰ اُس کو ایسا ہی رعب، قوت اور وجاہت عطاء فرماتے
ہیں… جبکہ ہمیں تو دنیا کی محبت نے رسوا کر دیا ہے… بنی اسرائیل کے ایک طبقے کو
اللہ تعالیٰ نے صرف ہفتے کے دن دنیا کمانے سے منع کیا… وہ رک تو گئے مگر مال کی
لالچ نے انہیں حیلے بہانوں پر لگا دیا… تب معلوم ہے کیا ہوا؟… اللہ پاک نے اُن کو
خنزیر اور حقیر بنا دیا… جی ہاں مال کی محبت انسان کو اتنا ذلیل اور حقیر بنا دیتی
ہے… ہم اور ہمارے حکمران اسی ذلّت کا شکار ہیں… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے… آپ نے
کبھی جمعہ کے دن کا منظر دیکھا؟… اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو جمعہ کے دن چند
گھنٹے دنیا کمانے سے روکاہے مگر ہم سینہ تان کر… دکانیں کھولتے ہیں، چیزیں بیچتے
اور خریدتے ہیں اور مال میں مگن رہتے ہیں… اس لئے تو اب دلوں کی حالت خراب ہے،
چہرے انسانوں جیسے اور دل درندوں جیسے
جمعہ
کے دن کا اہتمام
کئی
ائمہ کرام کے نزدیک جمعہ کے دن کا غسل واجب ہے… صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری
رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن کاغسل ہر بالغ پر واجب ہے… ہمارے
احناف کے ہاں ابتدائے اسلام میں واجب تھا مگر اب بھی سنت ہے اور بہت مبارک سنت ہے…
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ … اسلاف کے زمانے میںجمعہ کا وقت داخل
ہونے کے بعد مسجدوں میں جگہ نہیں ملتی تھی اور آج کل کے وقت کے مطابق گیارہ بجے
تک لوگوں کے رش سے راستے بند ہو جاتے تھے… مگر آج کیا صورتحال ہے؟… دیندار لوگ
بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے… اور ایک بڑی خیر سے محروم ہوجاتے ہیں… کوئی ہے جو
مسلمانوں کو سمجھائے… ایک صاحب جمعہ کا وقت داخل ہوتے ہی مسجد کی طرف اللہ تعالیٰ
کے ذکر کے لئے دوڑے… مسجد پہنچے تو دروازہ بند تھااور امام صاحب اپنی گاڑی صاف
کرنے میں مگن … وہ دروازہ کھول کر اندر جانے لگے تو امام صاحب نے حیرت سے پوچھا
کیا کام ہے؟… بتایا کہ جناب وقت داخل ہو چکا ہے … تب امام صاحب کو خیال آیا اور
وہ غسل کے لئے تشریف لے گئے…
جمعہ
کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ایک طوفانی مہم کی ضرورت ہے … ورنہ تو دجّالی فتنے
مسلمانوں کو کھاجائیں گے… اور صبح کی نیند تو ایک عذاب ہے… جس نے جسموں کو کمزور ،
دماغوں کو عاجز اور زندگیوں کو بے برکت کر دیا ہے… اس نیند کا اثر جمعہ پر بھی
پڑتا ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے… ہم پورے دین کی بات تو کرتے ہیںمگر یہ
سوچتے بھی نہیں کہ پورا دین کیا ہے؟… ہم اپنے مریدین کو بزرگوں کا یہ قول سناتے
ہیں کہ مرید اپنے شیخ کے ہاتھ میں اس طرح ہو جیسے مردہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں
… یہ بات اپنی جگہ مگر اس میں یہ بھی تو ہے کہ پیر اپنے مرید کو اپنے لئے مردہ
سمجھے… مُردہ سے کوئی بھی کوئی فائدہ اٹھانے کا خیال نہیں رکھتا… اسی طرح سچا پیر
وہی ہوگا جسے اپنے مرید سے کسی مال، کسی ہدیے اور کسی تعظیم کی خواہش نہ ہو…
(علماء و مشائخ کے ادب و احترام کا انکار نہیں ہم اکثر اس موضوع پر عرض کرتے رہتے
ہیں)
مخلوق
سے طمع رکھنا بڑی خرابی
اگر
علماء، مشائخ اور مجاہدین کے رہنما… مخلوق سے مال، ہدیے اور تعظیم کی خواہش رکھیں
گے تو وہ دین کی دعوت کیسے دیںگے؟… وہ کسی کی اصلاح کیسے کریں گے؟… وہ جہاد کی بات
کیسے سمجھائیں گے؟… دعوت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
فیض سے نصیب ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
منشور تھا… ان اجری الّا علی اللّٰہ… کہ میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے
پاس ہے… جس شخص کا دل حرص اور طمع سے پاک ہو اُسی کی دعوت میں جان ہوتی ہے اور
اُسی کی بات میں وزن ہوتا ہے… ایک شخص اصلاح کے لئے آیا تو یہ مُردہ ہے اصلاح
کرنے والے کا کام یہ نہیں کہ اُس کی جیب کاٹے یا اُسے صرف اپنی تعظیم کے آداب
سکھاتا رہے… آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اُس کو اللہ تعالیٰ سے جوڑیں… آپکی جو
عزت مقدّر ہے وہ خود اُس کے دل میں آجائے گی… لیکن اگر سار ازور ’’آداب شیخ‘‘ پر
رہا تو کچھ عرصہ بعد وہ نہ اللہ تعالیٰ کا رہے گا… اور نہ شیخ کا… بلکہ کسی سے
خلافت لوٹ کر خود اپنے شیخ بننے کا اعلان کردے گا… اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم
فرمائے… اور ہمارے دلوں کی نیتیں ٹھیک فرمائے… دراصل ’’اخلاص‘‘ ہی وہ بجلی ہے جس
سے عمل کی ہر مشین چلتی ہے… مثلاً کئی لوگ کہتے ہیں کہ… ہم نے قرض سے خلاصی کے
وظائف کئے مگر قرضہ ادا نہیں ہورہا…
قرض
ادا کرنے کا طریقہ
ایسے
حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ … یقینا دوباتوں کی کمی ہوگی… پہلی یہ کہ ہر وظیفہ
اور عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے نہ کہ قرض سے چھٹکارے کے لئے… اس لئے
کہ جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نہ ہو وہ بے جان ہے… تو بے جان چیز سے کیسے
فائدہ ہوگا؟… دوسرا یہ کہ اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھیں کیا آپ کے دل میں قرض ادا
کرنے کی… سچی نیت ہے؟… کئی لوگ قرض ادا کرنے کی نیت ہی نہیں رکھتے وہ تو قرضے کو
مالِ غنیمت سمجھتے ہیں… اُن کے دل کی آواز یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح قرضہ معاف
ہوجائے… یا اور کسی حیلے بہانے سے جان چھوٹ جائے… اُن کے پاس اگر کچھ رقم آبھی
جائے تو اُس کو قرض کی ادائیگی پر خرچ نہیں کرتے… توآپ بتائیے کیا ایسی بد نیتی
کے ہوتے ہوئے کوئی وظیفہ اثر کر سکتا ہے؟… احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ جو شخص قرض
ادا کرنے کی پکّی نیت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی غیبی اعانت کی
جاتی ہے… دوسروں کا مال بغیر اُن کی اجازت کے حرام ہے… قرضہ بھی تو دوسروں کا مال
ہے جو ہم نے اُن سے واپس کرنے کا وعدہ کرکے لے لیا ہے … اب اگر ہم واپس نہیں کرنا
چاہتے تو یہ غصب، چوری اور لوٹ مار ہوگی… اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے بعض صحابہ کرام سے باقاعدہ اس پر بیعت لی کہ ہم لوٹ مار نہیں
کریں گے… ایک آدمی پستول دکھا کر کسی سے مال لے آئے… اور دوسرا قرضے کے نام پر
لوٹ آئے اور واپسی کی نیت نہ رکھے تو دونوں نے اپنے مسلمان بھائی کو لوٹ لیا… ایک
نے ڈرا کر اور دوسرے نے دھوکے سے… مقروض لوگ آج ہی مکمل اخلاص کے ساتھ قرضیے کی
ایک ایک پائی ادا کرنے کی سچی نیت کریں… پھر اخلاص کے ساتھ وظیفہ کریں تو انشاء
اللہ پہاڑ برابر سونے کا قرضہ بھی اتر جائے گا… مالک الملک کے خزانوں میں کیا کمی
ہے… اور نیت کے سچّا ہونے کا ثبوت یہ ہوگا کہ جیسے ہی کچھ مال آئے فوراً اس سے
قرضہ اتاریں… اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے… مجاہدین کو خاص طور سے احتیاط کرنی
چاہیے… اس وقت ایک بہت بڑی جنگ شروع ہے اور مجاہدین کے لئے بشارتیں ہی بشارتیں
ہیں… بس خود کو مال میں بے احتیاطی سے بچائیں… اگر آپ نے اجتماعی مال سے اپنا
ہاتھ آلودہ نہ کیا تو انشاء اللہ زمین کے خزانے آپ کے ہاتھوں میں ہوں گے… جو بھی
حرام مال سے… اور مال کی لالچ سے بچتا ہے اُسکی قدر و قیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت
بڑھ جاتی ہے… آپ مسلمانوں کو اغوا نہ کریں… اور نہ اغوا کرکے کسی سے مال لیں…
مسلمانوں کا مال مالِ غنیمت نہیں بن سکتا… اور کسی آزاد انسان کی قیمت وصول کرنا
اسی طرح حرام ہے جس طرح جادو کر کے مال کمانا حرام ہے… بس شریعت کے مطابق جہاد
کرتے رہیں اور لوگوں کے اعتراضات کی پرواہ نہ کریں۔
ان
بحثوں میں نہ اُلجھیں
کئی
مجاہدین کہتے ہیں کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ… آپ لوگ پاکستان میں جنگ کیوں نہیں
کرتے؟… عرض کیا اُن سوال کرنے والوں سے پوچھیں آپ لوگ کشمیر، افغانستان اور عراق
میں جنگ کیوں نہیں کرتے؟جواب ملا وہ کہتے ہیں پہلے قریب کے کافروں سے لڑو اللہ
تعالیٰ کا یہی حکم ہے… عرض کیا اُن سے پوچھیں کہ عبداللہ بن ابی منافق کے کفر میں
کیا شبہ تھا؟ وہ مسجد نبوی میں پہلی صف میں بیٹھا ہوتا تھا… اور حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو چھوڑ
کر کبھی بدر جاتے تھے… کبھی مکہ مکرمہ جاتے تھے… اور کبھی خیبر اور طائف جاکر لڑتے
تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کو زیادہ سمجھتے
تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب والوں کو چھوڑ کر کئی بار
دور لڑنے تشریف لے گئے… یہودیوں کے قلعے مدینہ منورہ میں تھے مگر اُن کے ساتھ جہاد
بعدمیں ہوااور اُن سے پہلے مدینہ منورہ سے باہر کئی معرکے لڑے گئے… حدیبیہ کے مقام
پر مشرکین بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھے مگر حکم ملا کہ نہیں لڑنا… اور خیبر بہت
دور تھا حکم ملا کہ وہاں جا کر لڑیں… پھر خود کو مسلمان کہلانے والوں میں سے کون
کافر ہیں اور کون کافر نہیں اس کا فیصلہ بھی مشکل ہے… آپ کے نزدیک بھی چند دن
لڑنا جائز ہوتا ہے اور پھر چند دن حرام ہو جاتا ہے… اس کے باوجود ہم نے کسی پر
کوئی اعتراض نہیں کیا… قرآن پاک سے رہنمائی لے کر اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے جہاد مبارک سے روشنی لے کر ہمیں جو سمجھ میں آتا ہے
کرتے ہیں… اور کوشش کرتے ہیں کہ جہاد بھی زندہ ہو اور شریعت کے مطابق بھی ہو… اللہ
تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہماری رہنمائی فرمائے… بے شک اللہ تعالیٰ رحمت
فرمائے تو گناہوں سے… اور غلطیوں سے بچا لیتا ہے اور اسباب نہ ہونے کے باوجود بڑے
بڑے کام لے لیتا ہے… ہم اللہ تعالیٰ سے اُسکی رحمت کا سوال کرتے ہیں اور اُس کے
فضل اور رضاء کے طلبگار ہیں… یا اللہ نصیب فرما… آمین یا ارحم
الراحمین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
غارِ ثور کی صداء
نے
اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سات
اولادیں عطاء فرمائیں… چار بیٹیاں اور تین بیٹے… آہ! میرے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان سات میں سے چھ کے انتقال کا صدمہ اپنی مبارک
آنکھوں سے دیکھا… اور اپنے پاک دل پر جھیلا… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی سیرت مبارکہ کے اس پہلو پر تھوڑا سا غور فرمائیں… آپ میں سے
بیٹوں والے بھی سوچیں… اور بیٹیوں والے بھی تصور کریں… اولاد کی موت، جوان اولاد
کی میتیں… پھولوں کی طرح معصوم اولاد کے جنازے… کتنا مشکل کام ہے کتنا مشکل… مگر
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غم کو صبر اور رضا کے
ساتھ برداشت فرمایا… ننھے منّے پیارے اور خوبصورت بیٹے ابراہیم نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دم توڑا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری اور بڑی بیٹی زینبز
کو خود قبر میں اتارا اور قبر کی وسعت کی دعاء فرمائی… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو غزوہ بدر میں عظیم فتح کی خوشی ملی، ابھی آپ واپس بھی نہ
لوٹے تھے کہ پتا چلا کہ پیاری لخت جگر حضرت سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا دُنیا سے
رخصت ہو چکی ہیں… پر نور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، گھر جانے سے پہلے بیٹی کی قبر
پر تشریف لائے… اللہ اکبر کبیرا… آہ میرے آقا صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس دنیا میں بہت دُکھ اُٹھائے… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی تیسری پیاری بیٹی سیّدہ اُم کلثوم ز صرف بائیس سال کی عمر میں
انتقال فرما گئیں…
میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے
تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پاکیزہ بیٹیوں نے دین کے
راستے میں اپنے عظیم ’’بابا جان‘‘ کا پورا ساتھ نبھایا… مگر دنیا فانی ہے… یہ ایسی
جگہ نہیں کہ یہاں دل لگایا جائے… حیرانی ہوتی ہے کہ لوگوں نے آجکل ’’مشکل کشائی‘‘
کو دین سمجھ رکھا ہے… اللہ معاف فرمائے ہم مسلمانوں پر ہندئووں کا اثر ہوگیا ہے…
بس ہر مسئلہ حل ہونا چاہیے، ہر حاجت پوری ہونی چاہیے… اور ہرخواہش ملنی چاہیے…
خواہ اسکی خاطر کفر کرنا پڑے، شرک کرنا پڑے، بے عزت ہونا پڑے… ارے اللہ کے بندو
حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی لو…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشیوں میں بھی روشنی ہے اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غموں میں بھی روشنی ہے… دنیا کا
کون سا دُکھ ہے اور کون سا غم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے برداشت نہ فرمایا ہو… ہے کسی میں ہمت کہ اُن غموں اور تکلیفوں
کی فہرست بنا سکے؟… میں لکھنا چاہتا ہوں مگر قلم ٹوٹنے لگتا ہے… اور دل پھٹنے لگتا
ہے… ہم میں سے آج جس کے عیب اللہ پاک چھپا دے اور اُسے دو چار لوگوں میں عزت عطاء
فرما دے… وہ بھرے مجمع میں اپنے چہرے پر تھپّڑ برداشت کر سکتا ہے؟… آہ، آہ، آہ
کہاں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اونچی اور اصلی عزت…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بے عیب تھے… آج دنیا میں جس کی
بھی کچھ عزت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری کی وجہ سے ہے… مگر آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود، خاص عزت سے
نوازا… بہت اونچی عزت اور بہت اعلیٰ عزت
وَرَفَعْنَا
لَکَ ذِکْرَکَ (الشرح ۴)
اور
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک چہرہ… نہ کوئی حُسن
اُس جیسا، نہ کوئی جمال اُس جیسا… جبریلؑ بھی زیارت کو حاضر ہوتے تھے… اور کہاں
ایک ناپاک مشرک عقبہ بن ابی معیط کا ہاتھ… ہاں ان ہاتھوں نے آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے کو تکلیف پہنچائی…
مگر نہ کام میں فرق آیا، نہ خیالات بدلے… نہ عبادت میں کمی ہوئی اور نہ محنت میں
کوئی خلل آیا… کوئی نہیں کرسکتا اس طرح، کوئی بھی نہیں…
ہاں
کوئی بھی نہیں… کسی ظالم نے پتھر مارے… طائف میں پتھر برسے تو آسمانوں میں آہ و
بکا کا شور اٹھا اور فرشتے اجازتیں مانگ کر زمین پر اُتر آئے کہ حکم فرمائیں… ان
پہاڑوں کو آپس میں ملا کر اُن لوگوں کا نام و نشان تک ختم کر دیا جائے جنہوں نے
یہ ظلم کیا… مگر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب
ربّ سے جُڑے رہے… اور اُسی بات پر رہے جو رب تعالیٰ کو راضی کرنے والی تھی…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ مکرمہ میں شفقت کی ایک
چھتری تھی… چچا ابو طالب… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو
مرتے دیکھا… وہ وفا شعار، خدمت گذار، بے حد سمجھداراہلیہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی
اللہ عنہا … جن کے احسانات کی پوری اُمت مقروض ہے… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اُن کو مکہ مکرمہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوتے دیکھا… اور
مشرکین کی گالیاں… اللہ تعالیٰ کی پناہ… مشرک تو نجاست اور گندگی کا ڈھیر ہوتا ہے…
سب کو پیدا کرنے والا رب فرماتا ہے…
اِنَّمَا
الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (التوبہ ۲۸)
کہ
مشرک تو سراسر نجاست اور گندگی کا ڈھیر ہیں… ہاں خود مجھے مشرکین کی گالیوں کا
تجربہ ہے… یہ قوم تو ایذا پہنچانے میں بہت ماہر ہے… جب آج کے مشرکوں کا یہ عالم
ہے تو مکہ کے بڑے مشرک کیسے ہوں گے… ابو جہل ناپاک کیسا ظالم اور موذی ہوگا… اور
اُمیہ بن خلف کتنا بڑاشیطان ہوگا… آپ نے ایڈوانی کو دیکھاہے کیسے زہر اگلتا ہے…
آپ نے نجاست کے ڈھیر نریندر مودی کو دیکھا کس طرح سے غلاظت بکتا ہے… آپ نے پرناب
مکھر جی کو دیکھا، وہ اپنے قد سے بڑے حملے کرتا ہے… آپ نے کبھی اوما بھارتی کی
تقریر سنی؟… ہاں یہ سب لوگ بہت موذی، بد زبان اور زمانے کے مشرک ہیں… ان کی
حکمرانی کے خلاف جہاد… بہت بڑا جہاد ہے… جی ہاں! قرآن پاک کی اُن بہت سی آیات
والا جہاد جو مشرکین سے لڑنے کا حکم فرماتی ہیں… آپ خود سوچیں کہ ہمارے زمانے کے
مشرک ایسے ہیں تو ابو لہب کیسا ظالم ہوگا؟… اُسکی بیوی کتنی خطرناک مشرکہ ہوگی؟…
اور ان سب بھیڑیوں کے درمیان میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم اکیلے… اللہ اکبر کبیرا… جموں شہر میں انڈیا کا ایک عقوبت خانہ
ہے… اُسے ’’تالاب تلّو جے آئی سی‘‘ کہا جاتاہے… مجھے یاد ہے، ہاں اچھی طرح سے یاد
ہے… آٹھ دس مشرک ایک قطار میں کھڑے ہو جاتے… پھر کسی مجاہد کو برہنہ کرتے… اور
پھر اُس کے ساتھ یوں کھیلتے، جس طرح وہ حقیر سا فٹ بال ہو… ایک تھپڑ مار کر دوسرے
کی طرف پھینکتا تو دوسرا لات مار کر تیسرے کی طرف دھکیل دیتا… کوئی گالی دیتا تو
کوئی تھوکتا… کوئی اپنے بوٹ سے جسم پر نشان ڈالتا تو کوئی داڑھی پکڑ کر گھسیٹتا…
میں نے کمانڈر سجاد خان شہید اور بہت سے مجاہدین کو… اسطرح سے تکلیف اٹھاتے دیکھا
ہے… اس لئے میرا دل اُن لوگوں سے نفرت کرنے پر مجبور ہے جو جہاد کشمیر کو ایجنسیوں
کا جہاد کہتے ہیں… حالانکہ میں اپنے دل کو ہر مسلمان کی نفرت سے پاک کرنا چاہتا ہوں…
اللہ کے بندو! خود جہاد نہیں کرسکتے ہو تو دوسروں کو تو کرنے دو… ابھی کراچی سے
ایک صاحب نے خط لکھا اُن کو الجھن ہے کہ جہاد فرض عین یا فرض کفایہ… اپنے گمان میں
بہت تحقیقی خط لکھا ہے… مگر یوں لگتا ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کے اس فریضے کا ایک
تنکے برابر شوق نہیں… اللہ کے بندو! جہاد کو سنت ہی سمجھ لو، مستحب سمجھ لو مگر
نکل کر تو دیکھو… یہ عملی فریضہ ہے کتابوں سے نہیں سمجھا جاسکتا… جہاد کی اکثر
آیات دوران سفر نازل ہوئیں… کیونکہ جہاد عملی مشق سے سمجھا جاتا ہے… اللہ تعالیٰ
کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بدر کے میدان
میں لے کر گئے تو… حضرات صحابہ کرام نے جہاد کو سمجھ لیا اور پھر زندگی کے آخری
سانس تک نہیں چھوڑا… کوئی محقق عالم اُمت پر احسان فرمائے اور حضرات صحابہ کرام کی
مبارک قبروں کے پتے اور علاقے اردو زبان میں شائع کردے… اور ساتھ یہ بھی لکھتا
جائے کہ یہ صحابی اس علاقے میں کس کام کے لئے تشریف لے گئے تھے… حضرات صحابہ کرام
نے لفظی بحثوں میں الجھے بغیر جہاد کیا… آج ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے
صرف چند ہزار نے جہاد کو اپنا یا ہے تو دنیا میں بھونچال آگیا ہے… سوویت یونین
ختم ہوگیااور اب سرمایہ دارانہ نظام موت کی ہچکیاں لے رہا ہے… ایسے وقت میں الفاظ
سے کھیلنے والے لوگوں کو ان مسائل کی کیا پریشانی ہے کہ جہاد فرض عین ہے یا فرض
کفایہ؟… آپ کو یہ پریشانی تب ہوتی جب سارے مسلمان ہی جہاد میں نکل کھڑے ہوتے اور
آپ اپنے گھر میں اکیلے رہ گئے ہوتے… والدین کی اجازت ضروری ہے یا نہیں؟… آپ کو
اس مسئلے کی کیا فکر ہے؟… آجکل کی اولاد نے والدین کے اور والدین نے اولاد کے
حقوق جس طرح سے پامال کئے ہوئے ہیں اُسکی فکر کیوں نہیں کرتے؟… جہاد میں تو چند
لوگ گئے ہیں اور ان میں سے اکثرکے والدین بھی خوش ہیں… اگر سب لوگوں کے بچے اپنے
والدین کو ہسپتالوں میں اکیلا چھوڑ کر جاچکے ہوتے تو آپ اس مسئلے کی فکر کرتے…
موجودہ حالات میں تو ان مسائل کو اٹھانے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ … جو تھوڑے
بہت مسلمان جہاد میں نکلے ہیں وہ بھی میدان چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں… اور پھر
دشمنانِ اسلام مسلمانوں کی بیٹیوں کو بازارو ں میں فروخت کریں… اور اللہ تعالیٰ کی
مساجد ویران کریں… تالاب تلّو کے مناظر میری آنکھوں کے سامنے ہیں… میں سوچتا ہوں
مکہ کے مشرک کیسے ہوں گے… یقینی بات ہے آجکل کے مشرکوں سے زیادہ سخت، زیادہ بد
زبان اور زیادہ فحش گو… تیرہ سال تک میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ
وسلم ان ظالموں کے نرغے میں تھے… مگر کیا صبر تھا… کیا جرأت تھی… اور
کیا حوصلہ… کہ کبھی کسی واقعہ سے نہ کام میں فرق آیانہ مزاج میں تبدیلی ہوئی… اور
نہ کبھی حالات سے مایوس ہوئے بلکہ ہر دن نیا عزم اور ہر شام ایک نئی
ہمت… صلی اللہ علیہ وسلم ، … صلی اللہ علیہ وسلم
میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی غم دیکھے… اپنوں کے
جنازے، ہجرتیں، زخم اور محبوب گھر والی اُمّ المومنین سیّدہ عائشہز پر تہمت… میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے رفقاء کے غم دیکھے، آپ کے صدیق
نے آپ کے ساتھ ماریں کھائیں اور آپ کے یاروں نے آپ کے قدموں میں آخری ہچکیاں
لیں… میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی غم بھی دیکھے…
دانت مبارک شہید ہوا، چہرہ اطہر و انور زخمی ہوا… بخار ہوتا تھا تو عام لوگوں سے
زیادہ سخت اور کبھی آدھے سر کا درد…غموں اور تکلیفوں بھری اس دنیا میں اپنی اُمت
کو زندہ رہنے کا طریقہ سکھلانا تھا تو ہر غم آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے سہہ کر دکھایا… ہم میں سے شاید اکثر لوگوں کو علم ہی نہیں کہ
وہ بھوک کیسی ہوتی ہے جو آدمی پر غشی اور بے ہوشی طاری کردے… ہم تو ہاضمے کی
گولیاں اور معجون کھانے والے لوگ ہیں… مگر میرے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم نے بارہا بھوک کی تکلیف اٹھائی… اور کام نہیں چھوڑا… پیٹ مبارک پر
دو پتھر بندھے تھے اور جہاد کا کام اس شان سے جاری تھا کہ کئی میل لمبی خندق
کھودنے میں خود مشغول تھے… آج آمدن بند تو دین کا کام بند… تھوڑی سی تکلیف تو
کام بند… تھوڑی سی مشقت تو کام بند… پیٹ پر پتھر کی نوبت تو بہت دور ہے اگلے دن
وقت پر کھانا نہ ملنے کا امکان ہو تو کام بند… اسی لئے کام میں جان نہیں… اور
تحریکوں میں برکت نہیں… جہاد اُٹھ جائے تو عزت ختم ہوجاتی ہے… اور جب مجاہدہ اُٹھ
جائے تو برکت ختم ہوجاتی ہے… میرے آقا صلی اللہ علیہ
وسلم کے تمام چچوں میں سے اُحد کے وقت صرف ایک چچا مسلمان تھے… جی ہاں
ہمارے سردار سیّدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو بہت محبوب تھے… چچا تو ویسے ہی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے فرمان کے مطابق باپ کی جگہ ہوتا ہے… اور پھر حضرت سیّدنا حمزہ
رضی اللہ عنہ جیسا چچا… یتیمی میں پرورش پانے والے حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی اُن سے محبت کا اندازہ آپ لوگ خود لگا سکتے ہیں…
عرب میں اُنکی بہادری ضرب المثل تھی… ابوجہل جیسے فرعون کو ایک ہاتھ پر خون آلود
کر دیا تھا… اپنے یتیم بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی خاطر… اور پھر مسلمان ہوگئے تو مسلمانوں کی خوشی دیکھنے لائق
تھی… بنی عبدالمطلب میں سے وہ پہلے سردار تھے جو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے شریکِ سفر بنے… مگر آپ نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ… اُحد کے
دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنکی لاش مبارک کے ٹکڑے تلاش
فرمائے، جمع فرمائے… اور پھر دفن فرمائے… اور زندگی بھر اُن کے پاس تشریف لاتے
رہے… ایک بڑا غم مگر وہی عزم، وہی صبر اور وہی سفر… صلی اللہ علیہ وسلم
،… صلی اللہ علیہ وسلم ،… صلی اللہ علیہ وسلم
شعب
ابی طالب کا قید خانہ… نظر بندی اور قیدِ تنہائی… طائف کا سفر اور لہو لہو واپسی…
صحابہ کرام کی آہ و بکا اور اُن پر پڑنے والے مصائب اور آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہی فرمانا… صبر کرو جنت میں بدلہ ملے گا… اور پھر ہجرت،
ترک وطن، مکان کا محاصرہ… خوف بھری راتیں اور سنگلاخ چٹانوں پر نوکیلے پتھروں کے
زخم… وہ غار ثور کی یادیں… صرف ایک غارِ ثور کا واقعہ… اسلام کو سمجھنے کے لئے
کافی ہے… آج اگر دیندار لوگوں کو تھوڑی سی تنگی آجائے تو حیران ہوتے ہیں کہ ہم
نے تو گناہ چھوڑ دئیے ابھی تک دنیا کے خزانے کیوں نہیں ملے… اللہ کے بندو
’’غارِثور‘‘ کے غم اور وہاں کی راتوں کو یاد کرو… جب صدیق اکبر جیسے صدیق بھی ایسے
تڑپے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا
تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ ۴۰)
صدیق
غم نہ کرو، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے… سمجھا دیا کہ ہم غار میں دو نظر آرہے ہیں
مگر ہم تین ہیں… جس کی خاطر ہم نکلے وہ موجود ہے… اور وہی حفاظت فرمارہا ہے… صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کا غم خوشی سے بدل گیا… اُنکی تڑپ یہ تھی کہ دشمن سر پر پہنچ
چکے ہیں اور اب وہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان
پہنچائیں گے… ہاں یہ سوچ ہی صدیق کو تڑپانے والی تھی… آج کوئی ہے، کوئی ہے جو
سوچے کہ حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو نقصان نہ
پہنچے… حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو نقصان نہ
پہنچے… اور پھر وہ اپنا پائوں اُن سوراخوں پر رکھ دے… جہاں سے کالے کالے، زہریلے
سانپ نکل کر اُمت مسلمہ کو ڈس رہے ہیں… وہ دیکھو توپیں گولے برسا رہی ہیں… اور
مسلمان مر رہے ہیں… وہ دیکھو ٹینکوں نے ہمارے بچوں کو روند ڈالا ہے… وہ دیکھو
طیارے بم برسا رہے ہیں… اور مسلمان مر رہے ہیں… ہر طرف سانپ ہی سانپ ہیں… اور
مسلمانوں کی لاشیں… اور چند مجاہدین، زخمی، تھکے ہارے ہر طرف ڈٹے کھڑے ہیں… تھکو
نہیں یارو!… رب تعالیٰ کے طلبگار اور آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے اُمتی تھکا نہیں کرتے، ہارا نہیں کرتے… ہمت کرو ہلکی ہلکی
روشنی تو نکل آئی ہے… اپنا پائوں زمانے کے سانپوں پر رکھے رہو… وہ دیکھو غارِ ثور
سے آواز آرہی ہے…
لَا
تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ ۴۰)
غم
نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
انوکھا واقعہ
اللہ
تعالیٰ غالب ہے اُس کے فیصلوں کو کوئی نہیں روک سکتا… پاکستان کی تاریخ کا ایک
’’انوکھا واقعہ‘‘ کہ جناب چیف جسٹس صاحب کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے… یہ
’’بحالی‘‘ ہوگی یا ’’بے حالی‘‘ یہ تو ابھی چند دن تک پتا چلے گا… فی الحال تو ہم
خوش ہیں کہ بہرحال ایک انوکھا واقعہ پیش آہی گیا… آئیے اس واقعہ کے چند پہلوؤں
پر ایک نظر ڈالتے ہیں…
گردن
جلد ُجھکی
صدر
آصف زرداری کے لئے حالات اتنی تیزی سے سازگار ہوتے چلے گئے… کہ خود وہ اس وہم میں
مبتلا ہوگئے کہ وہ کوئی ’’خاص چیز‘‘ ہیں… کچھ ہی عرصہ پہلے وہ ایک ملزم کے طور پر
قید تھے… اُن پر قتل، اقدام قتل، ہیرا پھیری، دھوکہ، فراڈ، منشیات فروشی جیسے کئی
مقدمات درج تھے… روز اخبارات میں آتا تھا کہ آج وہ فلاں عدالت میں حاضر… اور کل
فلاں ہسپتال میں داخل… انہوں نے جیل میں خود کشی کی بھی کوشش کی… اور تھوڑا بہت
مطالعہ بھی کیا… اور بالآخر مونچھیں چھوٹی کرائیں اور نوائے وقت والوں سے یاری
لگاکر ’’مرد حُر‘‘ کا خطاب پایا… پھندا اُنکی گردن کے قریب اور اُن کی اہلیہ اور
بچے اُن سے دور بیرون ملک تھے… وکیلوں کی ایک پوری ٹیم اُن کو سزائوں سے بچانے میں
سرگرم تھی… پھر یکایک موسم بدل گیا… اور حکومت نے اُن کو چھوڑ دیا… وہ طوفانی لیڈر
بن کر گرجنے ہی لگے تھے کہ حکومت نے پھر آنکھیں دکھائی… تب وہ پہلے دبئی اور پھر
امریکہ جا بسے… اور گوشہ نشین ہوگئے… اُدھر پرویز مشرف کی مجبوریوں اور کمزوریوں
نے اُس کو بے نظیر صاحبہ کے ساتھ مفاہمت پر لٹکا دیا… اسی مفاہمت کے تحت آصف
زرداری بھی مقدّمات سے پاک ہوتے چلے گئے… بے نظیر صاحبہ پاکستان آگئیں مگر آصف زرداری
نہ آسکے… حکومت کے لوگ اُن کو پوری طرح سے قبول کرنے پر تیار نہیں تھے… مگرپھر بے
نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا… اور زرداری صاحب کو ایسا جیک لگا کہ… وہ چڑھتے چلے
گئے، چڑھتے چلے گئے… مخدوم امین فہیم سمیت اُن کے راستے کی ہر رکاوٹ ریت کی
دیوارثابت ہوئی… تب انہیں احساس ہونے لگا کہ وہ … جیل کی کوٹھڑی سے صدارت کی کرسی
پر پہنچے ہیں… یقینا وہ کوئی ’’خاص چیز‘‘ہیں… اب وہ جو چاہیں گے کریں گے… اُدھر
امریکہ اور بھارت نے بھی اُن کو اپنا پسندیدہ دوست قرار دیا… چنانچہ اُنکی ہمت
اتنی بڑھی کہ وہ لہک لہک کر بولنے لگے… اور ہر کسی پر آوازیں کھولنے لگے… اُن کا
خیال تھا کہ اب وہ جو چاہیں گے وہی ہوگا… امریکہ اُن کے ساتھ ہے، انڈیا اُن کا یار
ہے، اور کرزئی اُن کا ہمرازہے… اور ملک کی فوج بھی اُن کے ہمراہ ہے… مگر یہ کیا
ہوا؟… دو دن ہوئے اُن کا کوئی بیان ہی سامنے نہیں آرہا… یہ گردن اتنی جلدی جھکے
گی ایسا تو اُن کے دشمنوں نے بھی نہیں سوچا تھا… مگر اللہ تعالیٰ غالب ہے وہ لوہے
سے زیادہ مضبوط گردنیں بھی جھکا دیتا ہے… اُس کے سامنے کیا روس اور کیا امریکہ… وہ
’’فعّال لما یرید‘‘ ہے جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم…
انوکھا
واقعہ
ہمارے
پیارے ملک پاکستان پر … غیر ملکی جنّات اور بھوتوں کا قبضہ رہتا ہے… اس ملک میں دو
طرح کے افراد کے لئے کوئی جگہ نہیں… ایک فاتح اور دوسرا انصاف پسند…
یہاں
وہ لوگ اطمینان اور سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں… جو دشمنوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر
اپنا آدھا ملک دے آئیں… ایسے لوگوں کے لئے نہ کوئی پابندی ہے نہ پریشانی… لیکن
اگر آپ نے دشمنوں کو شکست دی ہے تو پھر آپ اپنی خیر منائیں… ڈاکٹر عبدالقدیر
صاحب نے دشمنوں کو شکست دی… اب وہ اس ملک میں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں… اور کچھ
مسلمانوں نے انڈیا کو عبرتناک شکست دی… وہ بھی اس ملک میں دربدری کی ٹھوکریں کھاتے
پھرتے ہیں… اور خطرات میں جیتے ہیں… ملک کی افسر شاہی پائوں سے لیکر سر تک کرپشن،
رشوت اور بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے… اور یہ لوگ یہاں پورے اطمینان کے ساتھ رہتے
ہیں… لیکن اگر آپ انصاف پسند ہیں، اور امانتدار ہیں تو پھر ساری زندگی دھکّے
کھائیں… چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی انصاف پسند آدمی ہیں… ملک کے قانون کے
مطابق اُن کو پوری زندگی دھکّے کھانے چاہئیں… مگر وہ پھر بحال ہو گئے ہیں… یقینا
یہ اس ملک کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے… اور اس واقعہ نے ہمارے ملک کے کئی بڑے
سیاستدانوں کی سیاست کا مستقبل ہی ختم کر دیا ہے… اور سرکاری آفیسر خوفزدہ ہیں کہ
انہیں پھر عدالت میں کھڑا ہونا پڑے گا… اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ
اس ملک کی روایات بدلنے کا آغاز ثابت ہوگا۔ فی الحال تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ
واللہ اعلم بالصواب… مگر ایک بات تو پکّی ہے کہ … اس واقعہ سے دل کو خوشی ملی…
والحمدللہ ربّ العالمین
تبدیلیوں
کا موسم
ویسے
کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات حقیقت ہے کہ… دنیا میں بہت تیز رفتار تبدیلی آرہی
ہے… ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھیں… پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ارکان یوں پھر رہے تھے
جس طرح ببر شیر جنگل میں پھرتا ہے… اچانک عدالتی فیصلہ آیا اور یکا یک سلمان
تاثیر پنجاب کا راجہ بن گیا… تب ایک ہی دن بعد جنگل کا ماحول بدل گیا… ن لیگی
روپوشی کی غاریں ڈھونڈنے لگے… اور ق لیگی مونچھوں پر تائو دیکر پورے پنجاب کے شیر
بن گئے… اور اب حالات پھر بدل رہے ہیں… اُدھر امریکہ میں گوروں کا سامراج ٹوٹا…
اور اِدھر صرف پچھلے ہفتے افغانستان میں تیرہ غیر ملکی فوجی مارے گئے… ابھی تھوڑا
سااور انتظار کریں… طالبان کا کوئی منحرف لیڈر کابل کا حکمران بن سکتا ہے… ہیلری
کلنٹن نے جال ڈال دیا ہے… کرزئی کافی پریشان ہے… اللہ تعالیٰ طالبان کی صفوں کی
حفاظت فرمائے… پس ان تیز رفتار تبدیلیوں کو دیکھ کر… یہ کہنا کوئی مشکل نہیں کہ دو
چار بٹن دبیں گے اور دنیا جہاز سے اُتر کر واپس گھوڑے اور گدھے پر آبیٹھے گی… اس
لئے ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کام کریں جو آخرت میں کام آئے… دنیا تو بس کبھی
اِدھر اور کبھی اُدھر… اگر ہم نے اسے اپنا مقصود بنا لیا تو تباہ ہو جائیں گے… یہ
عارضی مسافر خانہ ہے… آگے قبر کا اسٹیشن قریب ہے… یا اللہ ہمیں اپنی رضاء کے
کاموں میں لگادے… اور اپنی رحمت فرما کر غفلت سے بچا دے…
خطرات
بھی ہیں
حکومت
لانگ مارچ کے سامنے جھک تو گئی ہے… مگر وہ اتنا جلدی شکست نہیں مانے گی… ممکن ہے
چیف صاحب آئیں مگر اُن کی مدت ملازمت کم کر دی جائے… یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی
حملے کا شکار ہو جائیں… اور پھر اُنکی شہادت کا الزام مجاہدین پر ڈال کر… ایک ٹکٹ
میں دوگناہ کر لئے جائیں… پاکستان میں سرکاری قتل بہت عام ہیں… قدرت اللہ شہاب نے
اپنے ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھا ہے کہ … جنرل یحییٰ خان نے اُن کو قتل کرانے کی
باقاعدہ کوشش کی… اور چوہدری شجاعت صاحب برملا اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کے والد
چوہدری ظہور الٰہی کو قتل کرنے کے لئے… بھٹو صاحب نے اکبر بگٹی کو حکم دیا مگر
بگٹی صاحب نہیں مانے… خیر بعد میں کسی اور نے یہ کام کر دیا… یہ تو دو مستند اور
زندہ مثالیں ہیں… جبکہ جو لوگ قتل ہوگئے اُن کی تعداد تو کسی کے علم میںنہیں…
قاتلوں کو بھی یاد نہیں رہتا کہ یہ کافرانہ گناہ انہوں نے کتنی بار کیا ہے… اللہ
تعالیٰ چیف صاحب کی اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے… اور یہ بھی امکان ہے کہ
حکومت چیف صاحب کی بحالی کی ایسی شرطیں رکھ دے جن کو وہ خود منظور نہ کریں… اور
پھر حکومت ذرا تسلّی کے ساتھ وکلاء تحریک سے نمٹنے کی تیاری کر لے… اس بار تو سب
کچھ اچانک ہوگیا… اور قدرتی طور پر لوگوں کا ایک سیلاب وجود میں آگیا… نہ تو
حکومت کو اس کی توقع تھی اور نہ وکلاء اور اپوزیشن نے اس کا تصور کیا تھا… اس لئے
ممکن ہے کہ حکومت نے اس سیلاب سے بچنے کے لئے ابھی عارضی پسپائی اختیار کی ہو… اور
ایک دو روز بعد وہ دوبارہ سیاست کے میدان میں کود آئے… اور ماضی کے وعدوں کی طرح
اب بھی انکار کر دے… کوئی ہے جو ان سیاستدانوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف
متوجہ کرے… کوئی ہے جو ان سیاستدانوں کو آخرت اور قبر کی یاد دلائے…
ماضی
کے بادشاہ اسی طرح سازشیں کرتے اور اپنی حکومتیں بچاتے بچاتے مرگئے… اب اُنکی
قبریں تک گم ہوچکی ہیں… اور اُن کی روحیں اب تک چین نہیں پا سکیں…
اللہ
تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان فرمایا کہ … ہمیں عزت اور سکون والا دینِ اسلام دیا اور
ہم کتنے غافل ہیں کہ… جمہوری سیاست کے شور میں اسلام سے دور دور ہوتے جارہے ہیں…
یا اللہ رحم فرما، ہمارے دلوں کو ایمان پر ثابت قدمی نصیب فرما
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
دو نقشے
اللہ
تعالیٰ معاف فرمائے… آج کا کالم ’’خیالی‘‘ ہے اور لکھنے والے ہیں خیال جی…
میری
بحالی
خیال
جی آپ کی خدمت میں حاضر ہے… بات یہ ہے کہ آج پیر کا دن ہے اور مجھے معلوم تھا کہ
آج سعدی صاحب نے کالم لکھنا ہے… میں نے اُن سے کہا کہ آج ’’دل جی‘‘ کی چھٹی
کرائیں… وہ خود بھی روتا ہے اور دوسروں کو بھی رُلاتا ہے… آپ مجھ خادم کو موقع
دیں… پچھلی بار جب چیف جسٹس صاحب بحال ہوئے تھے تو آپ نے مجھے کالم لکھنے کا موقع
دیا تھا… اب وہ دوبارہ معزول ہوکرپھر بحال ہوگئے ہیں… اور کیا پتا پھر کب معزول ہو
جائیں… انہوں نے معزولی کے دوران جو عزت دیکھی ہے وہ اُن کو چین سے تو نہیں بیٹھنے
دے گی… پھر کسی این آر او کو چھیڑیں گے… یا کسی حکمران کی مونچھ پر ہاتھ ڈالیں گے
تو معزول ہو جائیں گے… خیر فی الحال تو وہ بحال ہیں… آج خیال جی کو بھی بحال کیا
جائے تاکہ وہ القلم کے قارئین کو ’’خیالی دنیا‘‘ کی سیر کراسکے… سعدی جی مان گئے
اور اب خیال جی آپ کی خدمت میں حاضر ہے… پیار بھرا سلام قبول کریں…
ایک
مفید مشورہ
مجھے
خیال آیا کہ کالم لکھنے سے پہلے کسی ’’کالم نویس‘‘ سے مشورہ کر لوں… ممکن ہے اس
سے میرا کالم جاندار ہو جائے… القلم کے دفتر پہنچا تو ہمارے دوست قاری نوید مسعود
ہاشمی صاحب اپنی کرسی پر انگڑائیاں کھینچ رہے تھے… اور کرسی بے بسی کے ساتھ چرچرا
رہی تھی… سلام دعاء کے بعد قاری صاحب سے عرض کیا… آپ اتنے عرصہ سے کالم لکھ رہے
ہیں کوئی ایسا مشورہ دیں کہ میرا کالم بھی چمک اٹھے… فرمانے لگے! کالم کا آغاز اس
جملے سے کریں کہ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی… میں (یعنی خیال جی) نے عرض کیا اس
سے کیا ہوگا؟… کہنے لگے قارئین پر رعب پڑ جائے گا کہ کالم نویس کے پاس موبائل فون
بھی ہے… اور لوگ اُس کو کالیں بھی کرتے ہیں… اور سسرال والے بھی کالم پڑھیں گے تو
اُن پر بھی رعب ہوگاکہ… ہمارا داماد عام آدمی نہیں موبائل فون کا مالک ہے… اور
اُس کے فون پر گھنٹیاں بھی بجتی ہیں… ہم نے قاری صاحب کے مفید مشورے کو رومال میں
باندھا اور دفتر سے باہر نکل آئے… اور اب اپنے کمرے میں کالم لکھنا شروع کر رہے
ہیں…
ایک
نہیں دو گھنٹیاں
اچانک
ہمارے موبائل فون کی گھنٹی بجی… ہم نے باقاعدہ بٹن دبایا اور فون کو کان سے جوڑ
لیا… دوسری طرف سے بھاری آوازآئی…
آئی
ایم مسٹر اُبامہ! ہائو آر یو مسٹر خیال جی!
ہم
ابھی جواب دیا ہی چاہتے تھے کہ ہمارے دوسرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی… ہم نے
اُبامہ سے کہا
پلیز
ویٹ!… اور دوسرا فون کان سے لگا لیا… ایک مست سی آواز آئی…
السلام
علیکم یا خیا ل جی انا اخوکم فی اللّٰہ اُسامہ! کیف حالک؟…
اب
تو ہم باقاعدہ پریشان ہوگئے… اُبامہ سے بات کریں تو ایمان کا خطرہ اور اُسامہ سے
بات کریں تو جان کا خطرہ… ہم تو آج اُبامہ اور اُسامہ میں پھنس گئے… تب ہم نے
سوچا۔
ہم
نے سوچا
ہمارے
ساتھ جیل میں ایک ساتھی تھے انصاری صاحب… وہ پہلے سمگلر تھے پھر تائب ہوئے اور
مجاہد بنے… بہت نیک آدمی تھے مگر مفصل گفتگو کے عادی… جب کوئی واقعہ سناتے تو اس
میں ’’ہم نے سوچا‘‘ کہہ کہ بات کو بہت لمبا کردیتے اور یوں پانچ منٹ کا واقعہ ایک
گھنٹے میں پورا ہوتا… شروع شروع میں ہم نے برداشت کیا مگر کب تک؟… چنانچہ عزم کر
لیا کہ اُنکی سوچوں سے جان چھڑائی جائے… ایک بار اُن کو سپرنٹنڈنٹ نے دیوڑھی میں
بلایا… وہ واپس آئے تو واقعہ سناناشروع کیا… ہمیں آج جیل ملازم نے بُلاوے کی
پرچی لا کر دی تو ہم نے سوچا تین باتیں ہو سکتی ہیں… پروگرام کے مطابق سب ساتھیوں
نے کہا کہ انصاری صاحب وہ تینوں باتیں چھوڑیں آگے بتائیں… وہ تھوڑے شرمندہ ہوئے
اور پھر اسٹارٹ… ہم اُس کے ساتھ چل پڑے مگر ہم نے سوچا… ساتھیوں نے کہا کہ سوچ کو
گولی ماریں آگے بتائیں… انصاری صاحب نے کہاکہ ہم جیل کی دیوڑھی میں جیسے ہی داخل
ہوئے ہم نے سوچا… ساتھیوں نے کہا سوچ کو چھوڑیں آگے بتائیں… اُس دن کے بعد سے
انصاری صاحب کی کچھ اصلاح ہوگئی اور ہمارا وقت بھی اُنکی سوچوں کو سننے سے محفوظ
ہوگیا… مگر ایک ہی وقت میں ٹیلیفون کی دو کالیں آتے ہی ہم انصاری صاحب بن گئے… ہم
نے سوچا کہ آج ہمیں فون کرنے والے دونوں اپنے اپنے اعتبار سے بڑے آدمی ہیں… اُبا
مہ کی چار سال یا آٹھ سال تک بڑی عزت ہے… جبکہ اُسامہ تو مستقل عزت کے مالک ہیں…
اُبامہ کی کال نہ سنیں تو حکومت پاکستان غدار قرار دے گی… اور اُسامہ کی نہ سنیں
تو اپنا ضمیر تنگ کرے گا… ہم نے فیصلہ کر لیا کہ دونوں سے بات کرتے ہیں… مگر طریقہ
یہ نکالتے ہیں کہ اپنے سامنے چاول کی پلیٹ رکھ لیتے ہیں… اور اس کا ایک لقمہ منہ
میں ڈال کر دونوں سے کہتے ہیں کہ ہم چاول کھا رہے ہیں، اس لئے وقفے وقفے سے بات
ہوگی… اور ہم مسلسل نہیں بول پائیں گے… اور یوں ہم اُبامہ اور اُسامہ دونوں کی
کالیں ایک ساتھ نمٹا لیں گے…
بات
چیت شروع
ہم
نے اُبامہ والا فون کان سے لگایا اور کہا…
مسٹر
اُبامہ آئی ایم ویل بٹ آئی ایم ویری ویری بِزّی آئی ایم ایٹنگ رائس…
یس
اونلی رائس ، ناٹ کونڈا لیزا رائس…
اُبامہ
نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے… ٹھیک ہے آپ چاول بھی کھائیں اور وقفے وقفے سے مجھ
سے بات بھی کرتے رہیں… ہمارے ہاں تو لوگ قضائے حاجت کے دوران بھی برگر کھاتے رہتے
ہیں… اور کھڑے ہو کر پیشاب کرتے وقت ایک ہاتھ سے کیلا کھاتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے
فون کان سے لگائے رکھتے ہیں…
پھر
ہم نے اُسامہ والا فون اُٹھایا اور کہا
وعلیکم
السلام یا شیخ انا بخیر ولکن مشغولٌ جدّا جدّا انا آکل الرزّ فلا استطیع ان اکالم
متتابعًا…
شیخ
نے خوشدلی سے کہا بارک اللہ! حیّاک اللہ! آج پہلی بار رابطہ ہوا ہے آپ رک رک کر
بات کرتے رہیں…
یہاں
ایک ضروری بات یہ عرض کردیں کہ اسامہ عربی بول رہے تھے اور اُبامہ انگریزی… ہمارے
بعض قارئین کو عربی نہیں آتی اور بعض کو انگریزی… اور ہمارے کئی قارئین کو تو خیر
سے اردو بھی نہیں آتی… اس لئے اب ہم اُن دونوں کا اردو ترجمہ کرتے جائیں گے…
بہت
پریشان
ہم
نے اُبامہ سے پوچھا! سنائیے کیا حال ہے؟ ہمیں کیسے یاد کیا؟… کہنے لگا…
خیال
جی کیا بتائوں… بہت پریشان ہوں… مسائل کا ایک سمندر ہے اور ہر مسئلہ سانپ کی طرح
پھن اُٹھائے کھڑا ہے… دہشت گردی، اقتصادی بحران اور داخلی بے چینی… کچھ سمجھ نہیں
آرہاعراق سے ہم نکل رہے ہیں مگر دل کو اطمینان نہیں… اُس پورے علاقے میں ہمیں صرف
اپنے خفیہ دوست ایران کا سہارا ہے… مگر چاروں طرف عرب مجاہدین ہمارے نکلنے کا
انتظار کر رہے ہیں… اور افغانستان تو ہمارے گلے کا کانٹا بن گیا ہے… ابھی نئی
افغان پالیسی بنانے کا ارادہ ہے… پچھلی پالیسی تو طالبان نے ناکام بنا دی… کرزئی
کو چھٹی دینا چاہتے ہیں مگر اُسکی جگہ کس کو لائیں… افغانوں کا پتا ہی نہیں چلتا
کہ کون ہمارا ساتھی ہے اور کون ہمارا دشمن؟… سوچا کہ آپ سے کچھ مشورہ کرلوں… بہت
پریشانی ہے… ہمارا خوبصورت امریکہ لولے لنگڑے فوجیوں سے بھرتا جارہا ہے… سات سال
کی جنگ میں ہم نے ایک کامیابی بھی حاصل نہیں کی… آپ کچھ مشورہ دیں… ہم نے کہا
اُبامہ! میں تھوڑے سے چاول کھالوں پھر بتاتا ہوں… اُس نے کہا ’’اوکے‘‘
بہت
خوش
ہم
نے اُسامہ والا فون اُٹھایا اور پوچھا کیا حال ہے؟ کیسے آج یاد کیا؟… کہنے لگے…
الحمدللہ ربّ العالمین… مزے ہی مزے ہیں اور خوشیاں ہی خوشیاں… ہم نے کہا! کیسے
مزے؟… کہنے لگے ماضی میں بہت مصروف زندگی گزاری… اب فراغت ہی فراغت ہے… سال چھ
مہینے کے بعد بس ایک آدھ آڈیو یا ویڈیو کیسٹ بھرنی پڑتی ہے… جب دیکھتا ہوں کہ
حالات کچھ ٹھنڈے ہو رہے ہیں تو پندرہ منٹ کی تقریر کر لیتا ہوں… ہر طرف شور مچ
جاتا ہے اور میں اپنی غار میں جاکر عبادت میں مشغول ہو جاتا ہوں… وضو، نماز اور
تلاوت کے مزے ہیں… نہ کوئی شور ہے نہ شرابا… ادھر اُدھر سے جو خبریں ملتی ہیں اُن
سے حالات کا پتا بھی چل جاتا ہے… آج معمولات سے فارغ ہوا تو سوچا آپ سے بات
کرلوں اور پوچھوں کہ حالات کس رخ پر جارہے ہیں؟… آپ صحافی لوگوں کی نظر ہوتی ہے…
میں
نے کہا یا شیخ میرے چاول… کہنے لگے تھوڑے سے کھا کر پھر جواب دیں مجھے جلدی نہیں
ہے…
تعجب
کا اظہار
ہم
نے دوسرا فون اُٹھایا تو اُبامہ بے چینی سے انتظار میں تھے… ہم نے کہا… آپ کے تو
مزے ہوگئے اتنے بڑے ملک کے صدر بن گئے… کہنے لگے… بش بھی تو صدر تھا آخر جوتے کھا
کر گیا… مجھے جلدی مشورہ دو… ہم نے کہا… وہائٹ ہائوس آپ کے قدموں کے نیچے ہے…
ہزاروں افراد کا آپ کے پاس عملہ ہے… آپ کو نہلانے، دھلانے اور آپ کی ٹیوننگ
سروس کے لئے مستقل عملہ مقرر ہے… آپ کے پاس زمین کی سب سے بڑی جنگی طاقت ہے… کئی
مسلمان آپ کے ٹھاٹھ اور آپکی طاقت کو دیکھ کر ایمان سے ہاتھ دھو رہے ہیں… جبکہ
آپ کہہ رہے ہیں کہ میں بہت پریشان ہوں… اُبامہ نے کہا… میں امریکہ کا پہلا کالا
صدر ہوں… گورے میرے قابو میں نہیں آرہے… اور اگر میں بھی ناکام گیا توآئندہ سو
سال پھر کوئی کالا صدر نہیں بن سکے گا… مجھے تو وہائٹ ہائوس ایک سولی کی طرح نظر
آرہا ہے… کس کس کو سنبھالوں… روس پھر جگہ جگہ اپنے میزائل لگا رہا ہے… ہمارے ملک
کے بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں… ہماری خفیہ ایجنسیاں جھوٹ پر جھوٹ بولتی ہیں… اور
ہماری عوام بہت بے چین ہے… آخر اس افغان مسئلے کا کچھ تو حل بتائو… ہم نے کہا
پلیز ویٹ۔
حیرت
کا دریا
ہم
نے اُسامہ والا فون اٹھایا سلام کیا… مگر کوئی جواب نہیں… البتہ کوئی آواز آرہی
تھی… ہم گھبرائے کہ کچھ ہوگیا… مگر جب غور سے سنا تو خراٹوں کی آوازتھی… ہم نے
زور سے بول بول کر شیخ کو جگایا… وہ کہنے لگے عفواً یا شیخ… آپ چاول کھا رہے تھے
مجھے نیند آگئی… بتائیے حالات کس رخ پر جا رہے ہیں… ہم نے کہا اسامہ ! آپ نے
دنیا کی نیند تو اڑائی ہوئی ہے اور خود فون پکڑ کر بھی سوجاتے ہیں؟… کیا آپ کو ڈر
نہیں لگتا؟… لاکھوں فوجی آپکی تلاش میں ہیں… کوئی بھی میزائل آپ کو کسی وقت
نقصان پہنچا سکتا ہے… کوئی بھی مخبر آپ کو پکڑوا سکتا ہے … شیخ نے قہقہہ لگایا…
اور کہنے لگے… ڈرکس کا؟… موت کا وقت میرے پیدا ہونے سے پہلے مقرر ہو چکا ہے… تقدیر
لکھنے والا قلم سارے فیصلے لکھ کر خشک ہو چکا ہے… میں ڈر کر رہوں تب بھی اپنے وقت
پر مروں گا… اور خوش رہوں تب بھی موت اپنے مقررہ وقت پر آئے گی… میں جھک کر اور
بِک کر زندگی گذاروں تب بھی… وہی رزق کھائوں گا جو مقدّر ہے… اور عزت و سربلندی سے
رہوں تب بھی میرے حصے کا لقمہ میرے منہ میں آکر ہی ٹوٹے گا… سات سال ہوگئے … کون
مجھے بچا رہا ہے؟… صرف میرا اللہ، صرف میرا اللہ… اور اللہ جب تک چاہے گا مجھے بچائے
گا… اور جب وہ بچانا نہیں چاہے گا تو میں بھی بچنے کا خیال دل سے نکال دوں گا…
غاروں، پہاڑوں، صحرائوں اور آبشاروں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا مزہ ہی کچھ اور
ہے… میں جب کہتا ہوں ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو زمین کے پتھر بھی ساتھ بول پڑتے ہیں…
کیونکہ واقعی میرا تو اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں… ہر طرف دشمن اور ایمان والوں
کے سوا ہر کوئی دشمن… میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ایمان پر ہوں… اور مجھ سے
بڑے خوش نصیب تو امیر المومنین ملّا عمر مجاہد ہیں… جنہوں نے اسلام کی خاطر حکومت
چھوڑی، کرسی چھوڑی اور اقتدار چھوڑا… وہ قابلِ رشک ہیں… ہم نے اُسامہ سے کہا آپ
دو چار اور خراٹے لے لیںاور ہم چاول کھاتے ہیں…
نئے
منصوبے
ہم
نے اُبامہ والا فون اٹھایا تو ہیلو ہیلو کی بھاری آواز گونج رہی تھی… ہم نے کہا
!ہم تو آپ کو بعد میں مشورہ دیں گے… کیاآپ نے اپنے پرانے حکمرانوں سے مشورہ نہیں
کیا؟… وہ ہنس کر بولے… پرانے حکمران؟ جناب وہ تو پورے ملک کو آگ میں دھکیل کر
بھاگ گئے… کونڈا لیزا رائس کو ہی دیکھ لیں… اب ساری دنیا میں اپنے لئے رشتہ
ڈھونڈتی پھرتی ہے… حالانکہ پہلے ایسے بیانات دیتی تھی جیسے
کالی ماتا ہو اور وہ ساری دنیا کو کھا جائے گی … مگر اب اُس کا ایک ہی
کام ہے کہ … ہروقت شادی کے دفتروں میں فون کرتی رہتی ہے کہ کوئی رشتہ آیا؟… سنا
ہے کچھ دن پہلے پاکستان سے غلام مصطفی کھر نامی لڑکے نے اُس سے رابطہ کیا ہے… اب
بے چاری کی عمربھی کافی ہوگئی ہے… پچپن سال کی لڑکی کو آسانی سے تو رشتہ نہیں
ملتا… اور بش تو اکثر غمگین رہتا ہے… سارا دن اپنے گھر میں بطخوں کے ساتھ کھیلتا
رہتا ہے… مگر جب اُسکی نظر ’’جوتے‘‘ پر پڑتی ہے تو اپنے کمرے میں جاکر چھپ جاتا
ہے… اس لئے ہم نے نئی افغان پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا ہے… ابھی آپ کے وزیر خارجہ
قریشی صاحب کو بلوایا تھا… وہ ہمارے لئے ملتان کا مشہور سوہن حلوہ بھی لائے تھے…
ہم نے اُن سے مشورہ مانگا تو کہنے لگے… پیسے دو پیسے دو… پھر ہم نے افغانستان سے
کرزئی کو بلوایا اُس سے مشورہ مانگا تو کہنے لگا… پیسے دو پیسے دو… پھر ہم نے چپکے
سے پاکستان کے کئی قبائلی رہنمائوں کو بلوایا اُن سے مشورہ مانگا تو کہنے لگے…
پیسہ دو پیسہ دو… اب ہم کس کس کو پیسہ دیں… کیا دنیا کی سپر پاورہونے کا مطلب یہ
ہے کہ ہم رشوت دے دے کر عزت بچاتے رہیں… پرویز مشرف کو ہم نے کتنا پیسہ دیا؟… اُس
نے چک شہزاد میں محل بنالیا اور ہمارا کام پورا نہیں کیا… کرزئی کو ہم نے کتنا
کھلایا وہ سارا پیسہ جرمنی میں جمع کرتا رہتا ہے… عجیب بات ہے کہ ملّاعمر کے پاس
پیسہ نہیں مگر کتنے مسلمان اُنکی عزت کرتے ہیں… اور ایک ہم ہیں کہ جس کو ڈالر نہ
دیں وہ ہمیں گالیاں دیتا ہے… ہائے کاش کوئی ہمارے دکھ درد کو سمجھتا کہ ہم طاقتور
ہو کر بھی بے بس ہیں… اور مالدار ہو کر بھی غریب ہیں… آج آپ سے مشورہ کرنا تھا
تو میں ڈر رہا تھا کہ آپ بھی فوراً کہہ دو گے کہ پہلے مجھے سو روپے والا جاز کارڈ
بھیجو تو جواب دیتا ہوں… مگر خیال جی آپ نے کمال کیا کہ ابھی تک مجھ سے مفت بات
کر رہے ہیں… اور ساتھ ساتھ اپنے پیسوں سے بریانی بھی کھا رہے ہیں… ورنہ کرزئی
وغیرہ کو تو چاول بھی ہمیں اپنی جیب سے کھلانے پڑتے ہیں… ہائے ہماری بے بسی… خیر
ہم نے قریشی صاحب سے وعدہ کر لیا ہے کہ آپکی امداد ہم تین گنا بڑھا رہے ہیں… وہ
بہت خوش گئے ہیں اور انہوں نے زرداری صاحب کو جب یہ خوشخبری سنائی تو اُنکی خوشی
دیکھنے لائق تھی… وہ تو اس خوشی میں چیف جسٹس اور لانگ مارچ کا غم بھی بھول گئے
ہیں… کیا خیال ہے ہمارا یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟… ہم نے کہا آپ تھوڑا
سا انتظار کریں… ہم پانی پی کر جواب دیتے ہیں…
پرانے
ارادے
ہم
نے اُسامہ سے کہا… شیخ جی! حالات تو آپ کے علم میں آتے رہتے ہیں… آپ اپنا
بتائیں کہ اب کیا ارادے ہیں؟ کوئی مذاکرات، مصالحت یا کوئی سمجھوتہ… شیخ نے قہقہہ
لگایا… اور کہا میرے تو وہی پرانے ارادے ہیں… اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب
عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے… مگر اُسی مجاہد کا جہاد محبت کا تمغہ حاصل کرتا ہے جو
ثابت قدم ہو اور مرتے دم تک شہادت کے پیچھے بھاگتا رہے… ہم نے کہا… شیخ جی آپ
مارے گئے تو؟… کہنے لگے شہید ہو جائوں گا، مزے کروں گا، آخرت کی روزی پائوں گا…
ہم نے کہا آپ پکڑے گئے تو؟… کہنے لگے قید ہونا انبیاء کی سنت ہے… مؤمن کے لئے
دنیا ویسے ہی قید خانہ ہے… ہم نے کہا آپ کی تحریک کا کیا بنے گا؟… شیخ نے کہا وہ
تو میری تحریک نہیں… میرے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا… مسلمانوں کی مائیں مجاہد
بچے جنتی رہیں گی… قرآن پاک کی آیتیں مسلمانوں کے خون میں جہاد کا نور بھرتی
رہیں گی… میرے جانے سے بس اتنا ہوگا کہ اب میں چھپا ہوا ہوں شہادت کے بعد سامنے
آجائوں گا… اور دشمنوں کے لئے زیادہ خطرناک بن جائوں گا… ہم نے کہا شیخ آپ ہیں
کہاں؟ اور ملا محمد عمر صاحب کہاں ہیں… آپ آہستہ سے بتادیں تاکہ فون ٹیپ نہ ہو
جائے… شیخ نے کہا… ہم دونوں اللہ تعالیٰ کے بندے ، اللہ تعالیٰ کی زمین پر ہیں…
اللہ تعالیٰ کا رزق کھاتے ہیں… اللہ تعالیٰ کے بندوں کے درمیان رہتے ہیں… اللہ
تعالیٰ پر توکّل رکھتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے… خیال جی اسی
مٹی سے ہم پیدا ہوئے… اسی پر رہتے ہیں اورا سی میں دفن ہوکر برزخ کی وسعتوں میں گم
ہوجائیں گے… وہائٹ ہائوس والوں نے بھی مر جانا ہے اور ہم نے بھی مرنا ہے… کوئی موت
سے نہیں بچے گا… مگر ہمارے لئے انشاء اللہ آگے بہت آسانی ہے… تو پھر ہمیشہ کی
راحتوں کو سودے بازی کرکے کیوں قربان کریں… اچھا میرا کھانا آگیا ہے… وہ دیکھو!
یہاں بھی آج چاول پکے ہیں اور اوپر دنبے کا چربی والا گوشت مہک رہا ہے… خیال جی!
بہت موٹی موٹی بوٹیاں ہیں… اورساتھ دہی کی لسّی بھی ہے اور قہوے کی دو کیتلیاں…
اچھا میں تو کھانا کھانے لگا ہوں… والسَّلام علیکم…
ہم
نے اپنے منہ میں آنے والا پانی چوسا اور حیرانی سے فون ایک طرف رکھ دیا اور
اُبامہ والافون اٹھالیا…
ایسی
باتیں نہ کرو
اُبامہ
نے چھوٹتے ہی پوچھا… تو کیا ہماری نئی پالیسی کامیاب ہوگی؟… ہم نے کہا سچ بولیں تو
آپ کو بُرا لگے گا… اور جھوٹ بولیں تو اپنے منہ میں بدبو پیدا ہو جائے گی… ابامہ
نے کہا پھر سچ بولو… ہم نے کہا سچ بولیں تو غیر ملکی سفروں پر پابندی لگ جائے گی
اور جھوٹ بولیں تو اپنی قبر خراب ہوگی… ابامہ نے کہا اب سچ بول بھی دو میرے کھانے
کا وقت ہو رہا ہے پتا نہیں آج کیا پکا ہوگا؟… ہم نے کہا آپ کے ابو جی مسلمان تھے
آپ بھی مسلمان ہو جائیں تو پھر ہماری بات سمجھ سکیں گے… ورنہ آپ کو یہ باتیں
فضول کے خواب نظر آئیں گی… ابامہ نے کہا یہ بات چھوڑو! آپ کے مسلمان حکمران یہاں
آکر جس طرح میرے قدموں پر گرتے ہیں وہ دیکھ لو تو پھر اسلام کو بھول جائو گے… ہم
نے کہا وہ بیچارے تو قرآن پاک سے دور ہو گئے ہیں اس لئے ذلیل ہوتے ہیں… حقیقی
مسلمان تو کبھی بھی ایسا نہیں کرسکتے… آپ حقیقی اسلام قبول کر لو… ابامہ نے کہا…
اس بات کو چھوڑو، میری بات کا جواب دو… ہم نے کہا اُبامہ جی آپ کی پالیسی ناکام
ہوگی… اگر آپ واقعی اپنی قوم کے لئے اور پوری دنیا کے لئے امن چاہتے ہیں تو ہر
اسلامی ملک سے اپنی فوجیں نکال لیں… اور ملا عمر اور اُن جیسے مسلمانوں سے بات کریں
جو اُمت مسلمہ کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں… ابامہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر کہا…
گڈ بائی میرا کھانا آگیا ہے… ارے خوب آج تو سور کے گوشت کا برگر … اور افریقہ کے
سانپ کے کباب اور ساتھ میں برانڈی کی بوتل بھی ہے… گڈ بائی… ہم نے فون ایک طرف
پھینکا اور بھاگ کر باتھ روم میں جاکر بیسن کے سامنے جھک کر کھڑے ہوگئے… ابامہ جی
کے کھانے کا تصور کرکے ایسی اُلٹی آئی کہ تمام بریانی باہر نکل گئی… ہمیں اپنے اس
مالی خسارے کا افسوس ہوا اور ہم وضو کرکے مصلّے پر آبیٹھے…
قرآن
پاک کی روشنی
اب
ہم نے قرآن پاک اٹھایا ہوا ہے… اور ادب کے ساتھ پوچھ رہے ہیں کہ اُبامہ نے اپنی
دولت کے خزانے کھول دئیے ہیں اب کیا ہوگا؟…
سورۃ
الانفال کی آیت ۳۶ سامنے
آگئی… اللہ ربّ العالمین فرما رہے ہیں
اِنَّ
الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ
اللّٰہِ ط فَسَیُنْفِقُوْنَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْھِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ
یُغْلَبُوْنَ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ۔
ترجمہ:
بے شک جو لوگ کافر ہیں وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکیں
پس ابھی وہ اور بھی خرچ کریں گے پھر وہ اُن کے لئے حسرت ہوگا پھر وہ مغلوب کئے
جائیں گے اور جو کافر ہیں وہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے… (الانفال ۳۶)
پھر
ہم نے اسامہ کی خیالی باتیں سوچیں تو سورۃ التوبہ کی آیت ۵۱، ۵۲ سامنے
آگئی… ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ
لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّامَاکَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰنَا وَعَلَی اللّٰہِ
فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی
الْحُسْنَیَیْنِ ط وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ
بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْبِاَیْدِیْنَا فَتَرَبَّصُوْآ اِنَّا
مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ۔
ترجمہ:
کہہ دو ہمیں ہرگز نہیں پہنچے گا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا وہی
ہمارا کارساز ہے اور اللہ تعالیٰ ہی پرچاہیے کہ مؤمن بھروسہ کریں… کہہ دو تم
ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظرہو (فتح یا شہادت) اور ہم تمہارے حق
میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہاں سے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا
ہمارے ہاتھوں سے… تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں …
(التوبہ ۵۱، ۵۲)
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
پیٹ کا سانپ
نصرت
فرمائے… فوجوں سے لڑنا آسان ہے مگر سازشوں کا مقابلہ کرنا تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے…
میدانوں میں شکست کھانے والے اب سازشوں کے جال پھینکنے کی تیاری کر رہے ہیں… مگر
اللہ تعالیٰ ’’ایک‘‘ ہے اور ایمان والوں کے ساتھ ہے… ڈرنے، گھبرانے کی ضرورت نہیں…
ڈرنے والے ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں…
ایک
چالاک عورت کا واقعہ
تفسیر
حقانی کے مصنف نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے…
ایک
عورت اپنے سوتیلے بیٹے کو مارنا چاہتی تھی مگر مار نہیں سکتی ہے… اُس نے ایک تدبیر
سوچی کہ بچے کو ڈرا کر مار دیا جائے… ایک بار اُس لڑکے کے پیٹ میں کچھ درد اور گیس
کی گڑگڑاہٹ ہوئی… سوتیلی ماں نے اُسے گود میں لے لیا اور رونے لگی… کہا! پیارے
بیٹے چند دن پہلے تم نے جو پانی پیا تھا تو پیالے میں سانپ کا ایک چھوٹا سا بچہ
تھا… میں اُس کو نکال کر مارنے والی تھی کہ اچانک کوئی کام پڑ گیا، میں تو اُس کام
کے لئے چلی گئی… واپس آئی تو تم پانی پی چکے تھے… اب سانپ کا وہ بچہ جو پانی کے
ساتھ تمہارے پیٹ میں چلا گیا تھا… اندر ہی بڑا ہورہا ہے… اب پتا نہیں
زیادہ بڑا ہوگیا تو کیا کرے گا… ماں نے ڈر اور خوف کا تیر پھینکا جو اُس لڑکے کے
دل پر لگا… اب اُسے ہر وقت اپنے پیٹ میں سانپ محسوس ہوتا… ڈر، خوف اور اندیشے نے
اُس کو بیمار کردیا اور چند دن کے اندر ہی وہ بستر سے لگ گیا… لڑکے کا باپ اُسے
ایک دم کرنے والی عورت کے پاس لے گیا… وہ سوتیلی ماں سے بھی بڑھ کر افلاطون تھی…
وہ پوری بات سمجھ گئی اور تسلّی دی کہ بس چند دن دم کروں گی ، سانپ یا تو مر جائے
گا یا باہر نکل آئے گا… فیس طے ہوگئی، علاج شروع ہوگیا… دو چار دن بعد اُس عورت
نے سانپ کا ایک بچہ کسی جگہ سے لیا اور اُس کا زہر نکال لیا… دم کرنے کے دوران کسی
طرح وہ سانپ لڑکے کی شلوار میں چھوڑ دیا… اور پھر کچھ اداکاری کرکے دم کیا اور کہا
ایسا لگتا ہے کہ پیٹ والا سانپ نکل آیا ہے… شاید شلوار میں ہو… لڑکے نے ڈر کے
مارے شلوار اُتار دی تو اُس میں سانپ موجود تھا… جس کو مار دیا گیا… اور چند دنوں
بعد وہ لڑکا بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگیا…
اُمت
مسلمہ کو اس وقت اُس کے سوتیلے خیر خواہوں نے کافروں سے اتنا ڈرا دیا ہے کہ … وہ
بستر سے لگی پڑی ہے… اور اب اُبامہ کی نئی پالیسی کے حوالے سے اور ڈرایا جا رہا
ہے… حالانکہ ڈرنے کی کوئی بات ہے ہی نہیں… اس اُمت مسلمہ کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ
نے وعدہ فرما رکھا ہے… اور مسلمانوں کو ختم کرنا، جہاد کو بند کرنا اور اسلام کو
مٹانا کسی کے بس میں نہیں ہے… جی ہاں دجّال کے بس میں بھی نہیں ہے… البتہ مسلمانوں
کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن پاک سے سیکھیں کہ فوجوں کا مقابلہ کس طرح سے کیا جاتا
ہے… اور سازشوں کا مقابلہ کس طرح سے کیا جاتا ہے… قرآن پاک نے سب کچھ سکھا دیا
ہے… اور وہ مسلمان جو کافروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ سے
بہت ڈرنا چاہیے… وہ اُس اندھیرے کنویں میں گر رہے ہیں جس کی تہہ
میں آگ کا سمندر ہے… اسلام تو دشمنانِ اسلام کے ساتھ ادنیٰ سے عسکری
تعاون کو بھی برداشت نہیں کرتا…
مالی
مفاد کی خاطر بے ضرر تعاون پر وعید
امام
قرطبیس نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘ ‘میں لکھا ہے:
مدینہ
منورہ کے کچھ غریب مسلمان یہودیوں کے پاس جاتے تھے اور اُن کو مسلمانوں کی کچھ
خبریں وغیرہ بتا دیتے تھے (یہودی اس بات سے خوش ہوتے اور اُن کو مزدوری کا کام دے
دیتے) اور یوں اُن مسلمانوں کو کچھ کھجوریں وغیرہ مل جاتی تھیں اس پر قرآن پاک کی
آیت نازل ہوئی… اور اُن مسلمانوں کو اس کام سے سختی کے ساتھ روک دیا گیا… یہ ایک
بے ضرر سا تعاون تھا… اور مسلمان بھی بہت غریب اور محتاج تھے… مگر جو آیت نازل
ہوئی اُسے پڑھ کر جسم تو کیا روح بھی کانپ جاتی ہے… ملاحظہ فرمائیے سورۃ الممتحنہ
کی آخری آیت
یٰٓاَیُّھَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ قَدْ
یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ۔
( الممتحنہ۱۳)
ترجمہ:
اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا وہ تو آخرت
سے ایسے نا اُمید ہوگئے کہ جیسے کافر اہل قبور سے ناامید ہوگئے…
آیت
مبارکہ کا جامع خلاصہ
اے
مسلمانو! کفار سے ہرگز دوستی مت رکھو… ان کفار پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا
ہے… جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا اُن سے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے کس طرح سے
دوستی کرسکتے ہیں؟ یہ کفار آخرت سے بالکل مایوس ہیں… جس طرح مر جانے والے کافر
اپنی قبروں میں آخرت کا عذاب دیکھ کر اب ہر طرح کی خیر سے مایوس ہو چکے ہیں… یا
جس طرح کفار قبروں میں دفن ہوجانے والے لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے سے مایوس
ہیں… (فتح الجوّاد)
آیت
مبارکہ کے پر اثر مضامین
۱ سورۃ
الممتحنہ کے شروع میں کفار سے دوستی سے منع فرمایا تھا… اور اب سورت کے آخر میں
اسی مضمون کو عجیب تاکید کے ساتھ پھر بیان فرمایا ہے…
۲ کفار
سے دوستی نہ کرو… کیونکہ اُن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے… اور وہ آخرت کو نہیں
مانتے… اور وہ آخرت کی ہر خیر سے محروم ہیں… اور اُن کا سارا کھیل اُن کے دفن
ہونے تک کا ہے… بس جیسے ہی مر کر قبروں میں گئے تو ہر طرح کا عذاب ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے شروع…
۳ یہ
کتنی عجیب اور پُر اثر تاکید ہے… ’’اللہ تعالیٰ کا غضب‘‘ اتنا سخت لفظ ہے کہ اسے
سن کر روح کانپ جاتی ہے… اور ایک مؤمن کو دو باتیں سوچنے پر مجبور کر تی ہے
(الف) اگر
میں اللہ تعالیٰ کا وفا دار ہوں تو اُن لوگوں کو منہ نہ لگائوں جن پر میرے محبوب
رب کا غضب ہے اور وہ اُن سے ناراض ہے
(ب) ایسے
لوگوں کی صحبت جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے مجھے بھی اس غضب کا مستحق بنا سکتی ہے
(العیاذ باللہ)
۴ پھر
فرمایا وہ کفار آخرت سے بالکل نااُمید ہیں… یہ بات سنتے ہی مؤمن کے دل میں فوری
طور پر دو باتیں آتی ہیں
(الف) اصلی
زندگی تو آخرت کی زندگی ہے… یہ کفار چونکہ اُس زندگی سے مایوس ہیں تو کہیں ایسا
نہ ہوکہ انکی دوستی مجھے بھی آخرت سے غافل کرکے دنیا پرستی میں لگادے… اور میں
ناکام ہو جائوں
(ب) جو
آخرت کو نہ مانتا ہو اس کی زندگی میں ’’انسانیت‘‘ نہیں آسکتی کیونکہ جب آگے کی
پوچھ تاچھ اور حساب کتاب کا خطرہ نہیں… تو پھر صرف وقتی مفادات ہی رہ جاتے ہیں… تو
ایسے کافروں سے دوستی بالآخر ذلّت کا باعث ہی بنے گی کیونکہ وہ اپنا مفاد حاصل کرکے
مجھے تنہا چھوڑ دیں گے…
۵ اور
آخر میں فرمایا… جس طرح قبروں میں مدفون کافر اب آخرت کی ہر خیر سے مایوس ہو چکے
ہیں… اس میں بڑی عبرت ہے کہ کافروں کی طاقت، اُنکی شان و شوکت اور اُن کے تماشے…
سب فانی ہیں… ایک مسلمان کو ان سے متاثر نہیں ہونا چاہیے… کافر جیسے ہی مرتا ہے
ہمیشہ کے عذاب میں جاگرتا ہے… تو اُس کے چند روزہ شور شرابے کو دیکھ کر اُس سے
دوستی جوڑنا کونسی عقلمندی ہے؟ (فتح الجوّاد)
نئی
پالیسی کے دو بنیادی ستون
مسلمانوں
کے خلاف اب جس نئی پالیسی کا اعلان ہوا ہے اُس کے دو بنیادی ستون ہیں…
۱ فوج
اور اسلحہ کی جگہ پیسہ استعمال کرو
۲ مسلمانوںسے
خود لڑنے کی بجائے ان کو آپس میں لڑائو…
اب
بہت سے شکاری ڈالروں کے سوٹ کیس بھر کر… مسلمانوں میں سے اپنے لئے نئے دوست اور
نئے ایجنٹ ڈھونڈنے نکل پڑے ہیں… اور حکومتِ پاکستان کو یہ ذمہ داری سونپی جارہی ہے
کہ… خون دو اور پیسہ لو… یعنی جتنے مسلمان مارو گے اتنا مال بنائو گے…
اور
اس پالیسی کا تیسرا ستون ایک نیا اتحاد ہے… جی ہاں مسلمانوں کے خلاف ایک چار رکنی
اتحاد… امریکہ، روس، بھارت اور ایران… اس اتحاد کو بنانے اور جوڑنے کے لئے ترتیب
طے کرلی گئی ہے… ظاہری طور پر یہ خطرناک پالیسی ہے… شروع شروع میں ممکن ہے چند
دنوں اس میں کامیابی ملے… کچھ بڑے بڑے مجاہدین مارے جائیں… کچھ پکڑے جائیں… اور
کچھ پرانے مجاہدین اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دے کر کفار کے ساتھ مل جائیں… مگر
زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد یہ پالیسی بش کی جنگجو یانہ پالیسی سے بھی زیادہ ناکام
ہو جائے گی… اور پیٹ والا سانپ باہر نکل آئے گا اور انشاء اللہ مارا جائے گا…
پالیسی
کیوں ناکام ہوگی
قرآن
پاک کے واضح اشارات بتارہے ہیں کہ… یہ پالیسی ناکام ہوگی… ہم نہ تو ایگزٹ پول
کراتے ہیں… اور نہ بیوقوف قسم کے تھنک ٹینک بٹھاتے ہیں… ہمارے پاس ’’قرآن پاک‘‘
موجود ہے… جو بالکل سچ سچ ہر بات بتاتا ہے… اور یہ زندہ کتاب ہر زمانے میں اپنے
ماننے والوں کی رہنمائی فرماتی ہے… میں چاہوں تو ابھی قرآن پاک کی کئی آیات
مبارکہ کی روشنی میں ’’نئی پالیسی‘‘ کا تجزیہ عرض کر سکتا ہوں… مگر یہ کام انشاء
اللہ کسی اور دن… فی الحال تو چند سوالات…
۱ جو
لوگ ابھی تک طالبان اور القاعدہ کا فرق نہیں سمجھے… وہ ان دونوں سے لڑنے کی ٹھیک
پالیسی کیسے بنا سکتے ہیں؟…
۲ اس
پالیسی کا بنیادی ہدف ’’القاعدہ‘‘ کی ’’کمر‘‘ کو قرار دیا گیا ہے… یعنی ہمارا اصل
کام القاعدہ کی کمر توڑنا ہے… اب جو چیز ہو ہی نہ اُس کو کیسے توڑیں گے؟… القاعدہ
کی کمر نہ تو افغانستان میں ہے اور نہ پاکستان میں… اگر القاعدہ کی کمر ان دوملکوں
میں ہوتی تو یہ تنظیم یہاں کی بڑی طاقت بن جاتی… حالانکہ القاعدہ کابل سے لے کر
قندھار اور تک پشاور سے لے کر کراچی تک کہیں نظر نہیں آتی… عرب شعراء میں مقابلہ
چل رہا تھا کہ اپنے محبوب کی کمر کی باریکی کو بیان کریں… ایک نے کہا… ومُھَفْھَفٍ
کَاالغُصْنِ الخ… کہ میرے محبوب کی کمر تو درخت کی شاخ اور ٹہنی کی طرح ہے… دوسرے
نے اپنی محبوبہ کی کمر کو اُسکی زلفوں سے باریک قرار دے دیا… موٹی بیویوں والے
شاعر تو پہلے ہی مقابلے سے آئوٹ ہو چکے تھے… زلفوں کے ساتھ تشبیہ نے ٹہنی اور شاخ
والوں کو بھی پریشان کر دیا… مگر مقابلہ پتا ہے کون لوٹ گیا؟… جی ہاں وہ شاعر جس
نے اعلان کیا کہ میں نے اپنے محبوب کی کمر ڈھونڈی تو وہ ملی ہی نہیں… جان ہی چھوٹی
اور مقابلہ ختم… القاعدہ کی کمر افغانستان میں ہوتی تو وہ وہاں کوئی بڑی کارروائی
کرتی… پاکستان میں ہوتی تو یہاں کوئی کارروائی کرتی… القاعدہ نے کارروائی تو
نیویارک میں کی… گیارہ ستمبر کے حملوں میں القاعدہ کی تمام تیاری اور محنت امریکہ
اوریورپ ہی میں ہوئی… اس کارروائی میں نہ تو افغانستان اور نہ پاکستان کا کوئی
مجاہد تھا… اور نہ یہاں سے ایک گولی یا ایک روپیہ بھیجا گیا…
اب
اسی سے اندازہ لگا لیں کہ القاعدہ کی کمر کہاں ہے… پھر تھوڑا سا غور کریں… عراق
میں شیخ ابو مصعب الزرقاوی نے القاعدہ میں شمولیت کا اعلان کیا تو وہاں القاعدہ
نظر آنے لگی… افغانستان میں القاعدہ کا کمانڈر کون سا ہے؟… یہ لوگ چھپ کر کبھی
بھی نہیں لڑتے ایک کاندھے پر بندوق اور دوسرے پر کیمرہ رکھتے ہیں… اورمیڈیا پر
دشمنوں کو ڈرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں… تو پھر افغانستان میں القاعدہ کا ’’کمانڈر‘‘
ابھی تک کیوں نظر نہیں آیا؟…
۳ میں
نے ایک آدمی سے پوچھا کہ جوگی لوگ ’’کوبرا سانپ‘‘ کس طرح سے پکڑ لیتے ہیں؟… کالا
کوبرا تو بہت پھرتیلا اور طاقتور ہوتا ہے… اُس نے کہا کئی طریقے ہوتے ہیں… ایک
مؤثر طریقہ یہ ہے کہ وہ سانپ کے بالکل سامنے جاکر اُسے اپنے اوپر حملہ کرنے کے لئے
اکساتے ہیں… جب سانپ گرم ہو جاتا ہے اور غصے میں بے قابو … تو یہ اپنا ہاتھ زمین
کے قریب کرکے اُس کے نزدیک کرتے ہیں… سانپ بہت زور سے اُس پر اپنا منہ مارتا ہے تو
ہاتھ ہٹا لیتے ہیں… سانپ کا منہ پتھر سے ٹکراتا ہے اور وہ زخمی ہوجاتا ہے …
(قارئین سے عرض ہے کہ وہ ایسا تجربہ نہ کریں، یہ ماہر لوگوں کا کام ہوتا ہے… عام
لوگ تو سانپ کے سامنے جاکر اتنی چالاکی نہیں کر سکیں گے اور پھر ہم سے ناراض ہوں
گے) اب جبکہ ’’القاعدہ‘‘ کی کمر افغانستان اور پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے… اور
امریکہ کالے کوبرے کی طرح اُسی کمر پر منہ مارنے جا رہا ہے… تو آپ ہی بتائیں کہ
نتیجہ کیا ہوگا؟…
ایسا
لگتا ہے کہ… امریکہ کے مشیروں میں طالبان کا کوئی آدمی گھسا ہوا ہے… جو امریکہ کو
پکڑ کر اس نئی کھائی میں لا رہا ہے… بندہ نے جہادی تنظیموں کے بارے میں لکھنے والے
کئی ماہرین کے کالم پڑھے ہیں… ان میں سے کسی کو بھی ’’الحمدللہ‘‘ ان تنظیموں کی
حقیقی صورتحال کا علم نہیں ہے… مگر یہ لوگ اپنی غلط معلومات کے زور پر امریکہ اور
یورپ سے کافی مال کما لیتے ہیں… یعنی جھوٹ بیچ کر ناپاک مال حاصل کرتے ہیں…
۴ تمام
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے سات سال میں طالبان اتنے مضبوط ہوئے ہیں … جتنے
وہ اپنے دورحکومت میں بھی نہیں تھے… اگر کوئی کافر انصاف کے ساتھ قرآنی وعدوں کو
دیکھے اور پھر اس صورتحال کو دیکھے تو وہ فوراً اسلام قبول کرلے… اب سوال یہ ہے کہ
صرف ایک پالیسی کے بدلنے سے ’’طالبان‘‘ کیسے ختم ہو جائیں گے؟… جبکہ اس وقت افغان
قوم سے زیادہ سمجھدار قوم شاید ہی دنیا میں کوئی ہو… یہ قوم اپنی سادگی کے لبادے
میں بڑے سے بڑے چالاک دشمن کو بری طرح سے بیوقوف بنانے کی طاقت رکھتی ہے… اگر
طالبان نے مال سے بکنا ہوتا تو بامیان کے بتوں کو کیوں گراتے؟… اُس وقت اُن کو
اربوں ڈالر مل رہے تھے… طالبان نے اگر مال کے سامنے جھکنا ہوتا تو وہ اسامہ بن
لادن کو حوالے کرکے… اپنی حکومت بھی بچا سکتے تھے اور مال بھی بنا سکتے تھے… گذشتہ
سات سالوں میں کئی بار اُن کو مذاکرات کی دعوت دی گئی مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے
نظرئیے اور اپنی شرطوں کو مقدّم رکھا… ثابت ہوا کہ مال والی پالیسی تو کامیاب نہیں
ہوگی… باقی رہی مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کی پالیسی تو اس پالیسی کے نتیجے
میں ہمیشہ مسلمانوں میں ’’عسکریت پسند‘‘ ہی زیادہ ہوتے ہیں… اسلحہ عام ہوتا ہے اور
اس لڑائی سے خالص جہادی گروپ بھی وجود میں آجاتے ہیں… اور جہاں تک چار رکنی اتحاد
کا تعلق ہے تو یہ اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے… روس اور بھارت پہلے ہی مسلمانوں سے
لڑنے کے نتائج بھگت رہے ہیں… اب وہ امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوکر بھی دیکھ لیں…
بس
ایک اندیشہ
اس
پوری پالیسی میں بس ایک بات اندیشے اور فکر والی ہے… اور وہ یہ کہ اس پالیسی میں
پاکستان کے لئے بہت بڑ اخطرہ چھپا ہوا ہے… امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی ہمیشہ سے
پاکستان کی زیادہ دشمن رہی ہے… اور اب اس تازہ پالیسی میں بھی پاکستان کو میدانِ
جنگ اور امریکہ کی ڈھال بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے… آپ جانتے ہیں کہ میدان جنگ کا
کیا حال بنتا ہے… اور ڈھال کس طرح سے ماری جاتی ہے… اللہ تعالیٰ خاص رحمت فرمائے…
ہمارے ملک کے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ امریکی امداد
پر تھوک دیں اور خود کو امریکہ کی ڈھال اور صلیبی جنگ کا میدان نہ بننے دیں… بس
تھوڑی سی ہمت اور تھوڑے سے ایمان کی ضرورت ہے… اب امریکہ میں اتنی جان نہیں کہ وہ
پاکستان پر حملہ کرسکے… البتہ ہمارے حکمرانوں میں اتنا ایمان ہونا چاہیے کہ وہ
ناپاک لقموں کو ٹھکرا سکیں… تمام اہل اسلام سے گذارش ہے کہ دعاء کریں… اس وقت ہمت
اور دعائوں کی ضرورت ہے… نئی پالیسی کا سانپ انشاء اللہ کامیاب نہیں ہو سکے گا…
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
ایک بڑی فکر
اللہ
تعالیٰ ہرچیز کا علم رکھتے ہیں… جبکہ انسان کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے…
سوات کی ویڈیو کے مسئلے پر کافی لوگ رسوا ہور ہے ہیں… جب یہ ویڈیو آئی تو ہر کسی
نے قلم کھینچ کر لکھا… مگر اب سنا ہے کہ یہ ویڈیو جعلی تھی… ’’ویڈیو‘‘ کے مسئلے پر
اتنا زیادہ جو شور اُٹھا… اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف
شرارتیں اب اپنے عروج تک پہنچ چکی ہیں… امریکہ میں روزانہ سینکڑوں افراد قتل ہوتے
ہیں اور مردوں کے گروپ عورتوں کو گھیر کراور عورتوںکے گروپ مردوں کو گھیر کر ہر
طرح کے تشدّد کا نشانہ بناتے ہیں… برطانیہ میں میں نے خود دیکھا کہ یورپین اور
ایشین نوجوان ایک دوسرے کو گھیر گھیر کر مارتے تھے… ان واقعات میں سے بعض کی ویڈیو
بھی بنتی ہے… مگر نہ امریکہ بدنام ہوتا ہے اور نہ برطانیہ… یورپ کے سفر کے دوران
میں جب بھی گاڑی میں بیٹھتا تو میزبان فوراً اُس کا دروازہ لاک کر دیتے… اسکی وجہ
پوچھتا تو ایسے ایسے واقعات سناتے کہ عقل حیران ہو جاتی کہ… جنگل میں بھی انسان اس
سے زیادمحفوظ ہوتا ہے… ابھی یورپ کا جو تازہ واقعہ سامنے آیا ہے کہ… ایک باپ نے
تیس سال تک اپنی بیٹی کو تہہ خانے میں قید رکھا… اس عرصہ میں اُسے بدکاری اور
تشدّد کا نشانہ بنایا اور اُس سے سات بچے پید ا کروائے… اور ایک بچے کو قتل کر
دیا… اتنا بڑا واقعہ نہ تو مختاراں مائی بنا اور نہ سوات کی ویڈیو … کراچی میں
لسانی فسادات کے دوران لاشوں کے اعضاء تک کاٹے گئے… ہمارے ایک محترم استاذ کے بیٹے
کو دن دیہاڑے مار دیا گیا… وہ بے چارے حیران تھے کہ اُن کا قصور کیا ہے… ایک ایک
دن میں ساٹھ بوریاں ملتی رہیں اور ہر بوری میں لاش ہوتی تھی… ابھی چند دن پہلے
روٹیاں پکانے والے ایک شخص کو اُسی کے تندور میں جلایا گیا… مگر سوات کی ویڈیو پر
کراچی کے قاتلوں نے بھی جلوس نکالا… اور ایک صاحب نے تقریرمیں فرمایا کہ میں ان
لوگوں کو مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں سمجھتا… ہزاروں مسلمانوں کے قاتل ایک ویڈیو
پر اتنا شور مچا رہے ہیں… معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شرارتیں
عروج پر ہیں… اور جو چیز اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے تو اس کا زوال بھی شروع ہو
جاتا ہے…
عربی
کا ایک مقولہ ہے کہ عروج کی آخری منزل… زوال کا آغاز ہوتی ہے… دنیا میں ایک نہ
ختم ہونے والی جنگ شروع ہو چکی ہے… اس جنگ کو روکنا تو اب ناممکن نظر آتا ہے…
قدرت اور فطرت زمین والوںسے ناراض ہو چکی ہے… ہر شخص پکار پکار کر عذاب کو دعوت دے
رہا ہے… اوپر نیچے، دائیں اور بائیں ہر طرف گناہ ہی گناہ ہیں… کفر، شرک، بدعات،
سود، بے حیائی… خیانت، دھوکہ، قتل و غارت، نفس پرستی، دنیا پرستی… کیبل، نیٹ،
موبائل… اور نشے… انسانوں کے دل گناہوں کی حرص سے ایسے بھرے ہیں کہ کسی کا دل ہی
نہیں بھرتا… ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ اور پھر اُس سے بھی آگے… یا اللہ رحم
فرما… اب دنیا کو جنگ سے کون بچائے… حرص اور لالچ کی آگ ’’جنگ‘‘ بن کر دنیا کو
کھا رہی ہے… سرمایہ دارانہ نظام ہو یا کمیونزم سب کے پیچھے حرص ہے یا لالچ… زمین
والوں نے زمین کو گناہوں سے بھر دیا تو اب زمین پھٹنے کے لئے تیار ہو چکی ہے… پہلے
تو کافروں میں سنتے تھے اب مسلمانوں میں بھی یہ واقعات عام ہو چکے ہیں کہ بھائی کے
ہاتھ سے بہن کی… اور باپ کے ہاتھ سے بیٹی کی عصمت محفوظ نہیں ہے… ہاں اب زمین
غفلت، گناہ اور تباہی سے بھر چکی ہے… ان حالات میں تو جنگ ہوتی ہے اور وہ بھی
اندھی جنگ… اس اندھی جنگ میں یہ فیصلہ مشکل ہوتا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل
پر… جہاں بھی مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں وہاں دونوں طرف کے حالات کافی خراب ہیں…
کسی کو بھی شریعت کی پرواہ نہیں… بس غصّہ ہے، ضد اور انتقام… ایسا لگتا ہے کہ…
دنیا کی ایک بڑی آبادی جنگ کا شکار ہو کر ماری جائے گی… اور دورحاضر کی ٹیکنالوجی
آپس میں ٹکرا کر دم توڑ دے گی… اب ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟… ایک مختصر
سا نصاب پیش خدمت ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس پر عمل کی توفیق عطاء
فرمائے…
۱۔
ایمان کی حفاظت
ہمارا
سب سے قیمتی سرمایہ ’’ایمان‘‘ ہے… ہم صبح شام اور رات دن اسکی حفاظت کی فکر کریں…
لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ… پر کامل یقین رکھیں… اس مبارک کلمہ کے مطلب کو
سمجھیں… اس کے تقاضوں کو سمجھیں… اور اسی کلمہ کی سب سے زیادہ حفاظت کریں… اور
اپنی جان، اولاد، مکان سے بڑھ کر اس کلمے سے محبت کریں… اس کلمے کو کثرت سے پڑھیں
اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے اس کلمے پر ایمان اور استقامت کی دعاء مانگیں…
۲۔
جہاد فی سبیل اللہ سے وفاداری
قرآن
پاک نے ایمان کے سچا ہونے کی جو علامات بیان فرمائی ہیں… ان میں سے بڑی علامت جہاد
فی سبیل اللہ ہے… قرآن پاک بار بار بتاتا ہے کہ جہاد کے ذریعہ پتا چلتا ہے کہ کون
سچا مؤمن ہے… اور کون دنیا پرست اور منافق… جہاد فی سبیل اللہ کو قرآن پاک خود
سمجھاتا ہے… ’’فتح الجوّاد‘‘ قرآن پاک کی آیات جہاد کا ترجمہ اور تشریح کرتی ہے…
اپنی آخرت اور قبر کی خاطراُس کا ایک بار مطالعہ کرلیں… اور پھر شرعی جہاد میں جس
قدر ممکن ہو حصّہ ڈالیں… یہ عمل ایمان پر خاتمے کے لئے انشاء اللہ بہت کام آئے
گا…
۳۔
جہالت سے نجات
علم
سے روشنی ملتی ہے… اور شیطان انسان کو جہالت کے اندھیروں میں لے جاکر ذبح کرتا ہے…
بہت سے لوگ دینداروں کی شکل و شباہت تو اختیار کرلیتے ہیں… مگر انہیں دین کا علم
نہیں ہوتا… میں گذشتہ کئی سالوں سے دینداروں کی زبان سے ایسے مسائل سن رہا ہوں جن
کا دین کی کتابوں میں وجود تک نہیں ہے… مگر انہیں مسائل کی بنیاد پر انسانوں کو
قتل تک کر دیا جاتا ہے… حالانکہ مسلمان کا ناحق قتل کفر کے قریب قریب کا گناہ ہے…
ابھی چند دنوں پہلے کتابوں میں’’جاسوس کی سزا‘‘ کا مسئلہ ڈھونڈ رہا تھا… احناف میں
سے کوئی فقیہ اور امام مسلمان جاسوس کے قتل کی مطلق اجازت دینے کو تیا ر نظر نہیں
آتا… مگر آپ کسی بھی جہادی حلیے والے شخص سے پوچھ لیں اُس کو بس یہی پتا ہے کہ
جاسوس کی سزا موت ہے… حالانکہ فقہا ء کرام نے جاسوس کی تین قسمیں لکھی ہیں… (۱) حربی
جاسوس (۲) مستأمن
جاسوس (۳) مسلم
جاسوس… اور پھر ان تین قسم کے جاسوسوں کے الگ الگ احکامات بیان فرمائے ہیں… مگر
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اب فطرت ہمارے بد فطری کاموں کی وجہ سے ناراض ہے… اسی
وجہ سے جنگ ہی جنگ ہے اور خون ہی خون… قتل کرنے والوں کو مسائل کا بھی علم نہیں ہے
کہ کس کو مارنا ہے اور کس کو نہیں… ورنہ جہاد تو ایک عبادت ہے اور اس میں ایسی جنگ
ہوتی ہے جس میں نور ہی نور ہوتا ہے… ایسا نور جو فرشتوں کو بھی زمین پر اُتارلاتا
ہے… جہاد میں نفس پرستی کا کوئی دخل نہیں ہوتا… جہاد اس لئے کسی کو قتل نہیں کرتا
کہ اُس نے ہماری تنظیم کے لیڈر کو گالی دی … جہاد میں مسلمان ایک دوسرے پر لیڈری
نہیں چمکاتے… جبکہ آج کل تو بڑے عہدے والے چھوٹے عہدوں والوں کو انسان تک نہیں
سمجھتے… قرآن مجید نے پورا جہاد سمجھایا اور مجاہدین کو آخری سبق ’’سورۃ النصر‘‘
میں یہ دیا کہ… فتح کے بعد تکبر اور اکڑ نہیں بلکہ توبہ، عبادت اور استغفار میں لگ
جائو… اے مسلمانو!… جہاد کے بغیر ایمان کامل نہیں … مگر جہاد صرف شرعی جہاد ہو…
اور اس میں اپنے نفس کا کوئی دھوکہ نہ ہو… اس لئے دین کا ضروری علم حاصل کرنے کی
ترتیب کام کے ساتھ ساتھ جاری رہے…
۴۔
اجتماعیت کی چھت
مسلمان
اجتماعی ماحول میں ٹھیک رہتا ہے… اس لئے اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اچھے اجتماعی
ماحول کا ہم سہارا لیتے رہیں… ریاکاری کے وسوسے سے کچھ نہیں ہوتا… انسان نیکی دیکھ
کر نیکی اور برائی دیکھ کر برائی کرتا ہے… اور جن کا تقویٰ مضبوط نہ ہو اُن کے لئے
تنہائی ایک زہر کی طرح ہوتی ہے… اس لئے اجتماعی ماحول میں جڑے رہیں… تعلیم کی
مجلس، نصیحت کی مجلس، ذکر و تلاوت کی مجلس کا اہتمام کریں… اور خود کو اور اپنے
نفس کو گناہوں کے لئے موقع نہ دیں… شیطان لاکھ کہتا رہے کہ ریاکاری ہو رہی ہے… آپ
اُسکو جواب دیں ٹھیک ہے ہوتی رہے… میں نیک اعمال اور نیک صحبت کا محتاج ہوں… اگر
آپ نے خود کو ایسی تنہائیاں دیں جن میں نفس کو گناہ کا موقع ملا تو یہ چیز سخت
نقصان دہ ہوگی… اگر اتفاقاً ایسی تنہائی ملے تو فوراً دینی کتب کے مطالعے… یا ذکرِ
قلبی میں لگ جائیں… اللہ تعالیٰ ہم سب کو غفلت کی موت سے بچائے…
۵۔
محاسبہ اور استغفار
گناہ
جب انسان کو گھیر لے تو پھر توبہ مشکل ہو تی ہے… اور گناہ انسان کو تب گھیرتا ہے
جب دل سے ندامت اور شرمندگی نکل جائے… اورندامت دل سے تب نکلتی ہے جب انسان دوسروں
سے بدگمانی کرتا ہے… وہ سوچتا ہے کہ فلاں میں بھی تو یہ گناہ ہے اگر میں نے کر لیا
تو کیا ہوا؟… حالانکہ کسی کے گناہ کرنے سے آپ کے لئے تو گناہ حلال نہیں ہوجاتا…
اور آپ کو کیا معلوم کہ فلاں نے ممکن ہے توبہ کر لی ہو… یا اُس کے نیک اعمال غالب
ہوں… اس لئے گناہ کے بارے میں صرف خود کو دیکھنا چاہیے دوسروں کو نہیں… ہمیشہ اپنا
محاسبہ کریں… اور جو گناہ نظر آئے اُس پر استغفار کریں… یہ عمل کبھی نہیں چھوڑنا
چاہیے… یہ عمل دھلائی کی طرح ہے… ہم روز برتن دھوتے ہیں… کپڑے دھوتے ہیں… گھر صاف
کرتے ہیں… اگر صرف دو مہینے تک برتن نہ دھوئیں، کپڑے نہ دھوئیں اور گھر صاف نہ
کریںتو… ہمارا پورا ماحول گندگی، بدبو اور نجاست سے بھر جائے گا… یہی حال دل کی
صفائی کا ہے اگر ہم نے اس کی دُھلائی اور صفائی چھوڑ دی تو اس میں… بدبو اور نجاست
اپنا گھر بنا لے گی… اللہ تعالیٰ ایسی حالت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… (آمین)
۶۔
ایک خاص فکر
ہمارا
خاتمہ ایمان پر ہو… یہ وہ فکر ہے جو ہم سب کو اپنے اوپر سوار کر لینی چاہیے… آپ
میرے لئے دعا کریں اور میں آپ کے لئے کہ یہ فکر ہم سب کے سروں پر سوار ہو جائے…
اوراس کے علاوہ ہر فکر بہت کم ہو جائے… کیونکہ جب ہم مرجائیں گے تو اگر… خاتمہ
ایمان پر ہوا تو پھر برزخ، حشر اور آخرت سب کامیاب… اور اگر خدانخواستہ کچھ اور
ہوگیا تو پھر کتے اور خنزیر بھی ہم سے اچھے رہیں گے… اُن کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے
عذاب میں تو نہیں رہنا ہوگا…
اللّٰھُمَّ
اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَ اَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ
الدُّنْیَا وَ عَذَابِ الْآخِرَۃِ
یا
ارحم الراحمین… حبّ دنیا سے بچا، فکر آخرت عطا فرما… اور ہمارا خاتمہ ایمان پر
فرما… اپنے راستے کی مقبول شہادت نصیب فرما… اسلام اور مسلمانوں کو پوری دنیا میں
غلبہ نصیب فرما… آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہٖ وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا
کثیرا
٭٭٭
اللہ،اللہ، اللہ
اللہ،اللہ،
اللہ… دل چاہتا ہے کہ بس یہی ایک نام لکھتا جائوں… پڑھتا جائوں… اللہ،اللہ، اللہ…
حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا… اگر میرا محبوب راضی ہو جائے تو میں اُس کے
رخسار کے تِل پر سمرقند اور بخارا قربان کردوں… دراصل حافظس سمجھا رہے ہیں کہ محبت
وہ ہوتی ہے جس میں قربانی ہو… اللہ،اللہ، اللہ… دنیا میں کیسے کیسے حسین لوگ ہیں…
تو پھر میرے ربّ کے جمال کا کیا عالم ہوگا؟… اللہ،اللہ، اللہ… اللہ پاک نے حضرت
یوسف علیہ السلام کو حُسن دیا… اور پھر حسینوں کے امام اور حُسن کی آبرو… میرے
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے بنایا…
خود اللہ تعالیٰ کے جمال کا کیا عالم ہوگا… اللہ،اللہ، اللہ… حضرت دائود علیہ
السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسی آواز عطاء فرمائی کہ جب… وہ اللہ تعالیٰ کا کلام
پڑھتے تو پہاڑوں میں بھی جان آجاتی… اور پتھروں میں بھی گُداز پیدا ہو جاتا… تب
پتھر بھی اُن کے ساتھ پڑھتے… اللہ،اللہ، اللہ… میں اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان…
اِس عظیم نام کی آن پر قربان، اس کے حسن پر قربان… بخارا، سمرقند کیا! دو عالَم
قربان… محبوب مل جائے، محبوب مل جائے، محبوب مل جائے… ہاں حقیقی محبوب مل جائے…
اللہ،اللہ، اللہ… محبوب مل جائے تو سب کچھ قربان… قطرے کو دریا مل جائے تو وہ اس
میں فنا ہو جاتا ہے… سچے عاشق کو محبوب مل جائے تو وہ اپنے جسم اور اپنی جان کو
بھُلا دیتا ہے… مٹا دیتا ہے… اللہ،اللہ، اللہ…
ایک
ہی نام
ایک
ہی نام نے ہر چیز کو تھام رکھا ہے… اللہ،اللہ، اللہ… القلم پڑھنے والو… اپنے اوپر
اللہ تعالیٰ کے احسانات تو یاد کرو… آنکھیں بھیگ جائیں گی، اور دل محبوب کی یاد
میں ڈوب جائے گا… اللہ،اللہ، اللہ… رب کو کیا ضرورت تھی میری اور آپ کی… پھر بھی
ایک پانی کے قطرے سے ہمیں بنایا… ایک ایک ہڈی، ایک ایک رگ اور ایک ایک بال کو
ترتیب سے جوڑا… گوشت کے کسی ٹکڑے میں بولنے کی، کسی میں سننے کی اور کسی میں
دیکھنے کی طاقت رکھی… اور پھر ہماری کمزور سی زبان پر اپنا اتنا بڑا نام جاری
فرمادیا… اللہ،اللہ، اللہ… حسینوں کے پیچھے دوڑنے والو… اللہ تعالیٰ کی
تلاش میں نکلو… ہر حُسن اُس نے خود پیدا فرمایا ہے… سکون کی تلاش میں مارے مارے
پھرنے والو… اُس کو تلاش کرو جس کے نام میں سکون ہے… جس کی یاد میں سکون ہے… جس کے
تصور میں سکون ہے… جس کی محبت میں سکون ہے… اور جس نے سکون کو پیدا فرمایا ہے…
اللہ،اللہ، اللہ… ایک بار تو دل سے کہہ دو اللہ،اللہ، اللہ… ہاں ساری مخلوق یہی
نام پکار رہی ہے… مگر ہم اُس کے پکارنے کو نہیں سمجھتے… پانی ہوں یا پتھر… درخت
ہوں یا پودے سب کہہ رہے ہیں اللہ،اللہ، اللہ… ہم بھی اپنے دل کو زبان سے جوڑیں اور
پھر دل، دماغ، زبان اور پورے جسم سے پکاریں… اللہ،اللہ، اللہ… وہ دیکھو سات آسمان
کہہ رہے ہیں اللہ،اللہ، اللہ… اور زمین کا ایک ایک ذرہ پکار رہا ہے… اللہ،اللہ،
اللہ… ہماری روح نے اوپر جانا ہے وہ بھی پکارے اللہ،اللہ، اللہ… اور
ہمارے جسم نے مٹی میں دفن ہونا ہے وہ بھی پکارے اللہ،اللہ، اللہ… آئو آج ہر نام
بھول جاتے ہیں… ہاں تھوڑی دیرکے لئے… ’’لا الہ الّا اللّٰہ‘‘… کی کیفیت مانگتے
ہیں… اللہ کے سوا کوئی نہیں… لا موجود الاّ اللہ… الاّ اللہ، الاّاللہ… ہاں بس ایک
اللہ،اللہ، اللہ…
جان
کی جان
کہتے
ہیں ہر چیز کی ایک جان ہوتی ہے… تو پھر جان کی بھی جان ہوگی… روح کی بھی کوئی روح
ہوگی… جی ہاں ہر جان کی جان اللہ تعالیٰ کا نام ہے… اللہ،اللہ، اللہ… ہم اسی جان
سے دور ہوتے ہیں تو گِر جاتے ہیں… ایک دم جانور بن جاتے ہیں… اور جب اس جان کو پا
لیتے ہیں تو فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں… فرعون کا لشکر پیچھے اور پہاڑوں
جیسی موجیں اچھالتا سمندر سامنے… کون بچائے گا؟… حضرت موسی علیہ السّلام کی زبان
سے نکلا… اللہ،اللہ، اللہ… فرعون اور سمندر ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے… اور موسیؑ
اپنی اُمت کے ساتھ پار… اللہ،اللہ، اللہ… غارثور کی تنہائیوں اور محاصرے میں…
اللہ،اللہ، اللہ… مجاہد نے اسلحہ تولا، گھوڑے پر چھلانگ لگائی… آنکھوں میں
چنگاریاں بھریں… اوردشمن پر ٹوٹ پڑا… جنت کی حوریں تڑپ اُٹھیں… اجازت لے کر زمین
پر آگئیں… مجاہد کی زیارت کے لئے… مگر مجاہد آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا… اُس کی
تلوار بجلی کی طرح چل رہی ہے… اور قدم زلزلے کی طرح بڑھ رہے ہیں… حوریں بے تاب
ہوکر سامنے آئیں تو چیخ پڑا… اے حورو! سامنے سے ہٹ جائو میں تو بس اُس کا دیدار
چاہتا ہوں… جس کی خاطر نکلا ہوں… اللہ،اللہ، اللہ… حقیقی محبوب کا دیدار، حقیقی
محبوب کا دیدار… کہاں سڑکوں پر گھومنے والی بے پردہ عورتیں… غلاظت ونجاست کا ڈھیر…
کہاں انٹرنیٹ اور موبائل کے ناپاک فوٹو… اور کہاں جنّت کی پاکیزہ اور حلال حوریںجو
صرف اُسی کے سامنے آتی ہیں جس کی ہوتی ہیں… میٹھے ہونٹ، موٹی آنکھیں، اور حُسن
کا پیکر… مگر مجاہد کی توجّہ اُنکی طرف بھی نہیں… اللہ تعالیٰ مل گیا تو سب کچھ مل
گیا… محبوب کے سامنے کسی اور کی طرف توجّہ؟؟ توبہ، توبہ… معاف فرما دے محبوب… معاف
فرما دے، اللہ،اللہ، اللہ
بلندی
اور اونچائی
ایک
بندہ ذکر کر رہا تھا… اللہ،اللہ، اللہ… اچانک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے… وجہ
پوچھی… کہنے لگا میرا محبوب مجھے اوپر لے گیا… بلندی پر، اونچائی پر… ہاں اپنے
قریب… وہ تو ہے ہی قریب… مگر محبت والا قُرب تو ہر کسی کو نہیں ملتا… اللہ،اللہ،
اللہ… ربّ جب کسی کو اونچا لے جاتا ہے تو بہت بلندی عطاء فرما دیتا ہے… جب دل میں
سے ہر خواہش نکل جائے… اور بس ایک ہی سرمستی سوار ہو جائے کہ محبوب راضی ہو جائے…
تب سمجھ لو کہ محبوب نے بلندی عطاء فرما دی… اونچے لوگ اونچی چیزوں کے طلبگار ہوتے
ہیں… اللہ،اللہ، اللہ… جب دل میں تمنا ہو کہ… ربّ کے لئے قربان ہو جائوں… رب کے
پیغام کو پورے عالم تک لے جائوں… رب کے دین کو ہر جگہ غالب کرنے کی محنت کروں… رب
کے دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں… سمجھ لو کہ رب نے بلندی عطا فرمادی ہے… ورنہ انسان
جب گرتا ہے تو جانوروں سے بھی زیادہ گرتا ہے… کوئی لڑکی مجھے چھت سے جھانک کر دیکھ
لے… کوئی گندی فلم مجھے دیکھنے کو مل جائے… فلاں شخص میرا تابع ہوکر میری عزت کرے…
میرے فون پر کوئی حرام کال آجائے… استغفراللہ… رب چاہے تو فاروق اعظمذ کو شام،
عراق اور ایران فتح کرنے کی فکر دے دے… اور رب ناراض ہو تو سارا دن کسی لڑکی کو پھنسانے
پر لگادے… اے میرے محبوب مالک… ہم میں سے کوئی بھی خود کچھ نہیں… جس میں جو خیر یا
فضیلت ہے آپ کی عطا فرمودہ ہے… پھر اپنا کرم فرمائیے نا! ہمیں اپنے پاک نام کا
ذکر نصیب فرما دیجئے نا!… آپ تو غنی اور بے نیاز… مگر ہم تو ہر سانس میںآپ
کے محتاج… اللہ،اللہ، اللہ… اللہ،اللہ، اللہ…
پاکی
کا ذریعہ
یااللہ…
جس حلال جانور کو آپ کا نام لیکر ذبح کیا جائے… وہ حلال اور پاک ہو جاتا ہے… ہر
چیز کی پاکی… آپ کے نام سے ہے… جس چیز پر آپ کا نام نہیں… آپ کے غیر کا نام
آگیا… وہ حرام، ناپاک اور نجس… یا اللہ ہم اپنے دل پر آپ کا نام لیتے ہیں
اللہ،اللہ، اللہ… ہم اپنے دماغ پر آپ کا نام لیتے ہیں… اللہ،اللہ، اللہ… یا اللہ
ہم اپنی روح پر آپ کا نام لیتے ہیں اللہ،اللہ، اللہ… یا اللہ ہم اپنے جسم پر آپ
کا نام لیتے ہیں اللہ،اللہ، اللہ… یا اللہ ہم اپنے ارادوں پر آپ کا نام لیتے ہیں…
اللہ،اللہ، اللہ…
یا
اللہ ہمیں پاک فرمادیجئے… اپنے نام کی معرفت ہم پر کھول دیجئے… ہاں اسی نام کے جام
پینے میں حقیقی سرمستی ہے… اسی نام میں کھو جانا عقلمندی ہے… اسی نام پر قربان
ہونا زندگی ہے… اللہ،اللہ، اللہ… جو بھی اپنی دنیا، آخرت، قبر، حشر پاک کرنا
چاہتا ہے… اُسکو اس نام کا سہارا لینا ہوگا… پاکی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے… یہ
نور کا دریا ہے، نور کا سمندر… دل میں نور… ش، ش… جسم میں نور ش، ش… آگے، پیچھے،
دائیں، بائیں… اوپر نیچے نور ش، ش… ش، ش… یا اللہ ہر سانس کے ساتھ جاری فرما
دیجئے… اللہ،اللہ، اللہ… فضل فرما دیجئے، کرم فرما دیجئے… اس نام سے دور جا کر ہم
بہت گرتے جارہے ہیں… تھام لیجئے یا حیّ یا قیّوم تھام لیجئے… آپکی رحمت بے حدّو
حساب… آپکی مغفرت ہمارے گناہوں سے بہت زیادہ… اور آپ تو فضل عظیم والے ہیں… فضل
فرما دیجئے… اور ہمارے دل کو اپنے ذکر کے کام پر لگا دیجئے اللہ،اللہ، اللہ…
اللہ،اللہ، اللہ
غفلت
سے توبہ
گناہوں
میں بڑا گناہ… گناہوں کا باپ… بلکہ گناہوں کا گناہ… اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت
ہے… ہائے ہلاکت ہے اُن کے لئے… جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سخت ہو چکے ہیں… یہ
قرآن پاک کا اعلان ہے… دل جب سخت ہو جاتے ہیں… پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کر
سکتے… ہر وقت پیسہ، شہوت، عزت اور شرارت سوچتے ہیں… یا اللہ توبہ، یا اللہ توبہ…
اور قرآن پاک معلوم ہے کیا فرماتا ہے؟… قرآن پاک فرماتا ہے کہ جس انسان پر شیطان
غالب آجاتا ہے… اُسکو وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کر دیتا ہے… وہ نماز جس میں
اللہ تعالیٰ کی یاد نہ ہو نماز نہیں… اور وہ جہاد جس میں اللہ تعالیٰ کی یاد نہ ہو
جہاد نہیں… اللہ تعالیٰ کی یاد ہر چیز کی جان ہے… پوجا پاٹ تو مشرک بھی کرتے ہیں…
اور لڑائی امریکی اور انڈین فوجی بھی لڑتے ہیں…
ذکر
اللہ… یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد، اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت اور اللہ تعالیٰ کے
احکامات کی پیروی… یہ چیزیں ہر عبادت کو عبادت بناتی ہیں… شیطان چاہتا ہے کہ نمازی
کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردے… شیطان محنت کرتا ہے کہ مجاہد کو اللہ تعالیٰ
کے ذکر سے غافل کردے… نماز اور جہاد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نہ ہوں تو وہ کس
کام کے؟… اس لئے پہلا سبق… اور آخری سبق ہر کام میں ایک ہی ہے اور وہ ہے
اللہ،اللہ، اللہ… مگر یاد رہے کہ اللہ،اللہ، اللہ کہنا بھی… اللہ تعالیٰ کی رضا کے
لئے ہو… اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو… تب یہ کام آئے گا… کوئی فرض نماز چھوڑ
دے اور اُس وقت اللہ،اللہ، اللہ کرنے بیٹھ جائے تو… وہ اس عظیم نام کی
توہین کر رہا ہے… نماز کے وقت نماز… جہاد کے وقت جہاد… زکوٰۃ کے وقت زکوٰۃ… حج کے
وقت حج… مگر ان سب میں جاری رہے اللہ،اللہ، اللہ… یعنی اللہ تعالیٰ کا نام… اللہ
تعالیٰ کی یاد… اُس کو راضی کرنے کی نیت… اور اُس کے احکامات کی پیروی… اللہ،اللہ،
اللہ…
ہم
راضی
اللہ،اللہ،
اللہ… ہم آپ کے ہر حکم اور ہر تقدیر پر راضی… زندہ رکھیں تب بھی راضی… مار دیں تب
بھی راضی… خوشحال رکھیں تب بھی راضی… آزمائش میں ڈالیںتب بھی راضی… ہم کون ہیں
شکوہ کرنے والے… آپ مالک ہم غلام… مالک کا کام چلانا غلام کا کام چلنا… آگ میں
ڈال دیا… ابراہیمؑ بندہ راضی… اللہ،اللہ، اللہ… چھُری کے نیچے لٹا دیا… اسماعیلؑ
بندہ راضی… اللہ،اللہ، اللہ… بیماری نے بے بس کر دیا… ایوبؑ بندہ راضی اللہ،اللہ،
اللہ… جیل خانے میں ڈال دیا… یوسفؑ بندہ راضی اللہ،اللہ، اللہ… اپنی ہی قوم نے قتل
کر ڈالا… زکریاؑ اور یحییؑ بندہ راضی… اللہ،اللہ، اللہ… یہ سب ہدایت یافتہ تھے…
اور ان سب کے امام… ہر مصیبت، ہر تکلیف کے باوجود محمدؐ بندہ راضی… اللہ،اللہ،
اللہ… قرآن پاک فرماتا ہے بس انہی کے راستے پر چلو تو ہدایت پالوگے… پھر یہ صبح
ناشکری، شام ناشکری… کس بات کی؟ رب سے ناراض وہی ہوتا ہے جو دنیا کا
طلبگار ہوتا ہے… اور دنیا کا طلبگار ہمیشہ ناکام ہوتا ہے… رب نے سمجھا دیا اور پکا
وعدہ دیا کہ تمہارے لئے دنیا نہیں آخرت ہے… تو پھر دنیا کے اترتے چڑھتے حالات کی
وجہ سے… اپنے محبوب ربّ سے ناراضی… اللہ توبہ، اللہ توبہ… اللہ،اللہ، اللہ…
اے
ہمارے مالک فضل فرمائیے… ہم محتاج ہیں… آپ غنی ہیں… ہمیںاپنی ہر تقدیر پر راضی
فرما دیجئے… اللہ،اللہ، اللہ…
ربّ
راضی
اللہ،اللہ،
اللہ… یا اللہ ہم پر آپ کا احسان ہوگیا کہ ہم آپ کا نام لے رہے ہیں… اللہ،اللہ،
اللہ… کہاں ہم اور کہاں آپ کا عظیم نام… واقعی بہت بڑا فضل ہوگیا کہ ہم آپ کا
نام لے رہے ہیں… اللہ،اللہ، اللہ… اگر آپ کرم نہ فرماتے تو ہم بھلا اتنا عظیم نام
کیسے لے سکتے تھے… معلوم ہوگیا کہ آپ نے محبت اور نظرِ کرم فرمائی ہے… اللہ،اللہ،
اللہ… اور آپ کے سچے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ہے… بندہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے، اُسکو یاد
کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُسکو یاد کرتے ہیں… اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر…
مالک آپ کے ہاں ہم حقیروں کا تذکرہ… قربان ہو جائوں، آپ کی چوکھٹ پر ذبح ہو
جائوں… آپ کے نام پر کٹ مروں… اللہ،اللہ، اللہ… بہت بڑا احسان، بہت بڑا فضل کہ
آپ کا نام زبان پر آگیا… اللہ،اللہ، اللہ… اسی نام کی برکت سے اور اسی نام کے
وسیلے سے ایک التجاء ہے… یا اللہ آپ اپنا نام لینے والوں کو عذاب دیں ایسا آپ کی
رحمت سے بعید ہے… بس ہم سب کو بخش دیجئے… ہم چھوٹے چھوٹے حقیر لوگوں کو عذاب سے
بچا لیجئے… آپ نے خود ارشاد فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا
اگر تم ایمان لے آئو اور شکر گزار بنو… (مفہوم آیت)… یا اللہ ہم ایمان لاتے ہیں…
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اور
آپ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں… اور اب تک جو ناشکری ہوگئی… اُس سے توبہ کرتے
ہیں… اب تو معاف فرما دیجئے… پیارے رب، پیارے رب، پیارے رب… اللہ،اللہ، اللہ… یا
اللہ، یا اللہ، یا اللہ… ہم پر رحم فرمائیے… آمین یا ارحم الراحمین
اللّٰھمّ
صل علیٰ حبیبک محمد واٰلہ و صحبہ وسلم یا اللّٰہ، یا اللّٰہ، یا
اللّٰہ۔
٭٭٭
پانی سونا اور جھاگ
کے
نیک، مقرّب اور صالح بندوں کا تذکرہ کیاجائے تو
… اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ آج کی مجلس میں
ہم اللہ تعالیٰ کے ایک خاص مقرّب بندے کا تذکرہ کریں گے…
یقینی بات ہے کہ اتنے بڑے انسان کے تذکرے کے لئے یہ چھوٹا سا مضمون ناکافی ہوگا…
بے شک اُن کا حق تو ادا نہیں ہو سکے گا مگر… ہمیں تو انشاء اللہ
’’رحمت‘‘نصیب ہو جائے گی۔ جی ہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت… جس
کے ہم سب بہت محتاج ہیں…بہت محتاج…
پیاری
امیّ جی کی ایک بات
ہم
سب مسلمانوں کی پیاری امیّ جی… ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدّیقہ
رضی اللہ عنہا کو اللہ پاک نے جتنا
اونچا مقام دیاتھا… اُتنی ہی ذہانت اور فراست بھی عطاء فرمائی تھی… اُن کو کسی نے
بتایا کہ بعض لوگ… حضرات صحابہ کرام حتی کہ حضرت صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم
رضی اللہ عنہ تک پر تنقید کرتے ہیں… حضرت ام المؤمنین
رضی اللہ عنہا نے عجیب جواب ارشاد فرمایا… فرمانے لگیں…
’’اُن
حضرات کی وفات کے بعد ان کے (جسمانی) اعمال تو بند ہو گئے
مگر اللہ پاک نے چاہا کہ اُن کے اجر بڑھنے کا سلسلہ جاری
رہے‘‘…
یعنی
جب کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کی بے حرمتی کرتے ہیں
تو… اس کے بدلے اُن اللہ والوں کا اجر اور مقام اور بڑھ
جاتاہے…
یہ
سلسلہ جاری ہے… اور جاری رہے گا… لوگوں نے حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیھم اجمعین کو معاف نہیں کیا… ان قدسی صفات
ہستیوں پرذاتی حملے کئے اور تنقید کے تیر
پھینکے
تو پھر… اورکون بچ سکتا ہے…؟
غم
کی ضرورت نہیں، یہ دنیا کا نظام ہے… اللہ والوں کے درجات کی اس سے اور
بلندی ہوتی ہے… اور ایمان والوں کے دل میں ان کی محبت اور بڑھ جاتی ہے…
مثالی
شخصیت
حضرت
مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ…
ماشاء اللہ بہت بڑے آدمی تھے… استاذ محترم حضرت مولانا
مصباح اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ’’طحاوی
شریف‘‘ کا سبق پڑھاتے ہوئے ایک بار فرمانے لگے…بھائی ہم نے حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی تھی… اُن کے بعد اُن جیسا اب تک کوئی
نظر نہیں آیا، اس لئے دوبارہ کسی سے بیعت نہیں کی… ان جیسا کوئی نظر آئے تو بیعت
کریں… حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب رحمۃ
اللہ علیہ عالم نہیں علاّمہ تھے… بعد میں اُن کے اس فرمان کی بہت اونچی تصدیق مل
گئی… امام الاولیاء حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا… میں نے حرم
پاک میں موجود اولیاء کرام کو دل کی آنکھوں سے دیکھا تو کسی کو حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ہم پلہ نہیں پایا… حضرت حاجی
امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے
حرم پاک میںہروقت تین سو ساٹھ اولیاء کرام موجود رہتے ہیں…
حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات کو شمار کرنا بہت مشکل کام ہے… وہ بیک
وقت بڑے عالم، بڑے بزرگ، بڑے مجاہد، بڑے سیاسی رہنما… اور تاریخ ساز شخصیت تھے…
تیرہ سال تو مدینہ منورہ مقیم رہے اور مسجد نبوی شریف میں دنیا بھر سے آنے
والے طلبۂ علم کو قرآن و حدیث پڑھاتے رہے… اُس زمانے انگریزوں نے
اپنے باغیوں کے لئے ایک’’گوانتا ناموبے‘‘ بنایا تھا… اُس کا نام’’قید خانہ مالٹا‘‘
تھا… حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کئی سال تک وہاں قید رہے… اور یہ قید
صرف اپنی محبت اور وفاداری کی وجہ سے کاٹی… جی ہاں اُن کو رہا کر دیا گیاتھا مگر
وہ تیز رفتار خچر پر اڑتے ہوئے جدّہ اپنے استاذ اور شیخ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ
علیہ کے پاس جاپہنچے… اور خود کو اُن کے ساتھ گرفتاری کے لئے پیش کردیا… حضرت شیخ
الہند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بھی کہ… آپ لوگ رہائی لے لیں مگر چاروں شاگردوں
نے کہا کہ جان جا سکتی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ
آپ
کا ساتھ چھوڑدیں… مالٹا کی قید بہت اذیت ناک تھی مگر حضرت مدنی رحمۃ
اللہ علیہ نے وہاں اپنے استاذ محترم کی وہ خدمت کی… جس کی اس زمانے میں مثال
ڈھونڈنا ناممکن ہے…
حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ جتنا عرصہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے آپ وہاں دو
کام کرتے تھے… درس وتدریس اورترغیب جہاد… آپ نے جہاد کی خوب زور دار ترغیب جاری
رکھی…جس کی بدولت بہت سے رضاکار مجاہد ترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچانے کے
لئے…میدانوں میں اُترے… آپ نے پچاس سال سے زائد عرصہ تک…مدینہ منورہ اور
دارالعلوم دیوبند میں طلبۂ کرام کو قرآن وسنت کی تعلیم دی… آپ کے اپنے بلاواسطہ
شاگردوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے… اسی دوران گیارہ کتابیں بھی تصنیف
فرمائیں… روحانیت کے چاروں سلسلوں میں کامل تھے… بے شمار لوگوں نے بیعت کی… جن میں
ایک سو اڑسٹھ(۱۶۸) نے تکمیل کی اور آپ کے خلیفہ ہوئے… آپ انگریز
کے دور حکومت میں انگریزسے بھرپور دشمنی کرتے رہے… چنانچہ باربار جیل جاتے رہے…
زندگی کے کئی سال جیلوں میں گزرگئے… حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کی
آزادی اورقیام خلافت کا جو منصوبہ بنایا تھا… اس میں حضرت مدنی رحمۃ
اللہ علیہ اعلیٰ قیادت میں سے تھے… آپ خفیہ طور پر اس تحریک کے باقاعدہ’’لیفٹیننٹ
جنرل‘‘ تھے…ابھی کچھ عرصہ پہلے حکومت برطانیہ نے اپنی بعض پرانی خفیہ رپورٹیں ظاہر
کی ہیں… اُن رپورٹوں میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو انگریز کا بڑا
مجرم قرار دیا گیا ہے… اور لکھا ہے کہ…مولوی حسین احمد مدنی لوگوں کو جہاد پر
بھڑکاتا ہے… حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مایہ ناز شاگرد… جو بعد
میں خود بھی ’’شیخ الحدیث‘‘ کے منصب تک پہنچے… ان الفاظ میں حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کی شخصیت کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں…
’’امام
المسلمین… امیر المؤمنین فی الحدیث… پیکر شجاعت… مجسم عبادت… میر قافلۂ زہد و
قناعت… فرنگی اقتدار کے لئے موت کا سناٹا… غیر ملکی استبداد کے لئے قیامت… جس کا
دن قال اللہ و قال الرسول سے مصروف… اوائل شب مہمانوں کی
خدمت میں… انتہا شب بحضور رب العالمین… سپیدۂ سحر انہیں مصروف بکاء پاتا… آفتاب
کی
کرنیں
طلوع کے لئے باتاب ہوتیں تو وہ خانۂ خدا میں سجدہ ریز… جمعیۃ العلماء ہند کے صدر…
دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین…ہندوستان کی متعدد جیلیں اس وجود مقدس سے نکلے
ہوئے کلمۂ ہووحق کی امین… مہمان نوازی میں اُسوۂ ابراہیمؑ پر مستقیم… اعلاء کلمۃ
الحق میں جلالِ فاروقی کے مظہر… فرنگی اقتدار سے نفرت ووحشت اکابر نے اُن کے آتش
دانِ سینہ میں منتقل کردی… پھر وہ خود ہی فرنگیوں کے خلاف کوہِ آتش بن گئے…۱۹۴۷ء
میں جب وہ شباب سے نکل کر شیب(یعنی بڑھاپے) میں داخل ہوئے تو یورپ کے اقتدار کا
آفتابِ نیم روز ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا… اس طرح وہ اُن خوش بخت لوگوںمیں تھے
جنہوں نے اپنی’’جُہد‘‘ کی کامیابی اپنی زندگی ہی میں دیکھ لی…
پانی،
سونا اور جھاگ
قرآن
پاک نے ایک بہت عجیب اور دلکش مثال بیان فرمائی ہے… یہ مثال بہت سی باتوں کو
سمجھاتی ہے… مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ… آسمان سے پاک صاف پانی برستا ہے… وہ پانی
زمین کے ندی نالوں میں بہتا ہے… اس بہنے کے دوران پانی میں مٹی بھی مل جاتی ہے
اورکچھ کوڑا کرکٹ بھی… جب پانی تیز چلتا ہے تو مٹی اورکوڑے سے ایک جھاگ سا بن کر
پانی کے اوپر چھا جاتا ہے… ایسے لگتا ہے کہ وہ جھاگ پانی پر غالب آگیا ہے… مگر
ایسا نہیں ہوتا… کچھ وقت بعد وہ جھاگ ختم ہوجاتاہے… اور صاف پانی باقی رہتا ہے…
اور یہ پانی لوگوں کو نفع دیتا ہے…اسی طرح سونا اور چاندی کو جب زیور بنانے اور
صاف کرنے کے لئے… آگ میں ڈالا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ چھا جاتا ہے… مگر کچھ
وقت کے بعد جھاگ ختم ہوجاتا ہے… اور خالص سونا، چاندی باقی رہ جاتا ہے… قرآن پاک
فرماتا ہے کہ… یہی مثال حق اور باطل کی ہے… جب حق اور باطل ٹکراتے ہیں تو… باطل
جھاگ کی طرح چھا جاتا ہے اور دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ بس اب حق ختم ہو گیا … اور
باطل ہی باطل رہ گیا… مگر کچھ وقت بعد باطل جھاگ کی طرح بیٹھ جاتاہے… اور حق خالص
ہو کر غالب آجاتا ہے…
یہ
کتنی عجیب مثال ہے… حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ اس مثال سے
جہاد
کا مسئلہ سمجھایا گیا ہے… جہاد کے آغاز میں باطل بہت قوت میں نظر آتاہے…مگر وقت
گزرنے کے ساتھ وہ جھاگ کی طرح گم ہوتا جاتا ہے… اسی طرح اس مثال سے اور بھی بہت سی
باتیں سمجھی جا سکتی ہیں… اہل حق علماء اور مجاہدین کی مثال فائدہ پہنچانے والے
پانی کی طرح ہے… اور اُن کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے جھاگ کی طرح ہیں… یہ جھاگ
پانی کے جھاگ کی طرح شروع میں تو خوب چھا جاتا ہے… مگر کچھ وقت کے بعد اُس کا نام
و نشان بھی نہیں رہتا… اور اہل حق کا نفع لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے… میں القلم کے
قارئین سے پوچھتا ہوں… جس حکمران نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کوآخری وقت تنگ
کیا تھا اُس کا نام کیا تھا؟… مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کسی کو بھی یاد نہیں ہو
گا… جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آج بھی موجود ہیں… اس وقت بھی میرے قریب
بخاری شریف کانسخہ رکھا ہے… اور روزانہ ہزاروں لوگ امام بخاری کے علمی چشمے سے
پانی پیتے ہیں… اور اُن کے تحقیقی سونے سے اپنے زیور بناتے ہیں… امریکہ میں ایک
بڑے کالم نویس تھے… وہ اتنے مقبول تھے کہ… اُن کا کالم دنیا بھر کے چھ سو اخبارات
میں شائع ہوتا تھا۔ اور یہ تمام اخبارات اُن کو معاوضہ دیتے تھے… انہوں نے اپنے
آخری کالم میں لکھا کہ… میرے مرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ تین سال تک لوگ مجھے یاد
رکھیں گے اور پھر بس… اُن کی یہ بات بالکل سچ نکلی… آج اُن کے مرنے کو تین سال گزر
چکے… اور لوگ اُن کو تقریباً بھول چکے ہیں…
قرآن
پاک سمجھاتا ہے کہ… باقی صرف وہی چیز رہتی ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے… حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے انسانوں کو نفع پہنچایا… غیر مسلموں کو اسلام
کی دعوت دی… مسلمانوں کو دین سمجھایا اور پڑھایا… اور سیاسی میدان میں مسلمانوں کی
دیندارانہ قیادت فرمائی… چنانچہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کا
فیض زندہ ہے… اس وقت کم از کم دو لاکھ علماء ایسے ہیں جو اپنی حدیث شریف کی سند
بیان کرتے ہوئے … حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا سہارالیتے ہیں… آپ
دورنہ جائیے… اسی زمانے اور ماضی قریب میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے
جاری فیض کو دیکھ لیں… یقیناً آپ سمندر اور سیلاب کو بھول جائیں گے…
آپ
حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد شمار کریں… جی ہاں
میرے شیخ مفتی ولی حسنس حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے… آپ
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی حضرت عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ
کے شاگردوںکو شمار کریں… وہ بھی حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردتھے…
آپ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہ اور حضرت مولانا
سرفراز صاحب صفدر مدظلہ… اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمۃ
اللہ علیہ کے شاگردوں کو شمار کریں… آپ بنگلہ دیش جائیں… وہاں آپ کو حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کے ایسے مینار نظر آئیں گے کہ… انہیں
دیکھتے ہوئے سر سے ٹوپی گر جاتی ہے… روس، چین، افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیا…
کون سی ایسی جگہ ہے جہاں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا علم اور آپ کی
روحانیت نہیںپہنچی… اللہ اکبر کبیرا… اللہ تعالیٰ
جس کو نوازتا ہے خوب نوازتا ہے… ایک بار حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سفر
فرما رہے تھے، آپ کے سیاسی مخالفین نے… کالج کے اوباش لڑکوں کو جمع کیا… انہوں نے
ایک اسٹیشن پر حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کی… آپ کی طرف انڈے
اور ٹماٹر پھینکے… آج کسی کو اُن طلبہ کا نام یاد ہے؟… جبکہ آج بھی روزانہ
ہزاروں لوگ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے دعا کرتے ہیں… اور اُن کے
علوم و معارف سے فیض یاب ہوتے ہیں… قرآن پاک فرماتا ہے کہ… جھاگ خشک ہو کر ختم ہو
جاتا ہے… جبکہ لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیز زمین پر موجود رہتی ہے…
الحمدللہ
… حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ زمین پر موجود ہیں… جبکہ پرانے جھاگ کی طرح
نیا جھاگ بھی بیٹھ جائے گا… سوکھ جائے گا…
بڑا
کارنامہ
حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کرنے والے طلبہ نے یقیناً اپنے ساتھیوں
کے سامنے بڑا فخرکیا ہوگا… مگر وہ سب گم ہو گئے… نہ خود کو کچھ دے سکے نہ کسی اور
کے کام آسکے… جبکہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو
تو اللہ تعالیٰ نے قبر بھی ایسی دی ہے کہ وہاں جاکر دل میں
سکون اور نورانیت محسوس ہوتی ہے… ایک مکھی نے اپنی سہیلیوں کے درمیان فخر
سے
کہا… میں نے آج کمال کر دیا… سہیلیوں نے پوچھا کیا کیا؟ کہنے لگی بادشاہ کے ناک
اور منہ پر کئی بار بیٹھ کر آئی ہوں… اور میں نے اُس کے سر پربیٹھ کر اپنی غلاظت
بھی ڈال دی… یہ بات سن کر ایک سمجھدار مکھی نے کہا… بہن جی! ان تمام کارناموں کے
باوجود تم اب بھی مکھی ہو… اور وہ اب بھی بادشاہ ہے…
حضرت
مدنی رحمۃ اللہ علیہ آج بھی حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ہیں…
شیخ العرب و العجم، محبوب اور منور … اور ایک ایسی شخصیت جن کے نام میںبھی ایک
عجیب سی کشش اور محبوبیت ہے… طلبہ علم سے درخواست ہے کہ… حضرت اقدس مولانا قاضی
زاہد الحسینی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’چراغ محمد‘‘ کا مطالعہ
کرلیں… اور اپنے ہم عمر… اور اپنے سے کم عمر علماء کرام سے عاجزانہ گزارش ہے کہ…
آج کل میڈیا ایک زہریلا سانپ ہے… اللہ کیلئے بہت احتیاط
کیجئے… اور ایک شوق تو دل سے نکال دیجئے… اگرہم نے یہ شوق دل سے نکال دیا تو
انشاء اللہ بہت سے فتنوں سے بچ جائیں گے… اور ہم پر توفیق
کے راستے کھل جائیں گے… اور یہ شوق ہے’’شہرت پسندی‘‘ کا…
شہرت
پسندی کا رسواکن شوق اگر اہل دین اور اہل علم و جہاد کے دل سے نکل گیا تو
انشاء اللہ … اس امت کے لئے بہت بڑی خیر ہو جائے گی… اور ہمیں میڈیا کا
محتاج بھی نہیں ہو نا پڑے گا… وہ میڈیا جس کی ہر خیر کے پیچھے بھی ایک سو شر چھپے
ہوتے ہیں…وما علینا الا البلاغ
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭٭٭
تازہ نعمت
اللہ
تعالیٰ کی نعمتیں بے شمارہیں… جامع مسجد عثمان رضی اللہ عنہ وعلی رضی اللہ
عنہ بہاولپور میں ڈھائی سو مسلمان دورۂ تربیہ میں’’ اللہ اللہ
‘‘ کر رہے ہیں… اب ماشاء اللہ یہ دورہ ہر مہینے میں دو (۲)بارہوتا
ہے… اورہر ماہ اس میں سینکڑوں افراد شریک ہو رہے ہیں… اُدھر ’’مساجد مہم‘‘ کا کام
زوروں پر جاری ہے… ماشاء اللہ ہر ہفتے کسی نہ کسی مسجد کی
چھت یا لینٹر پڑنے کی خبر دل کو سکون پہنچاتی ہے… تقریباً تمام مساجد کا کام تیزی
سے مکمل ہو رہا ہے… اور مختلف علاقوں سے مزید مساجد بنانے کے تقاضے موصول ہو رہے
ہیں… اسی دوران علم کا نور پھیلانے کے لئے ایک چالیس روزہ تعلیمی دورے کا آغاز
ہواہے… اس دورے کا نام’’دورۂ خیر ‘‘ہے… حدیث پاک میں آتاہے
کہ اللہ تعالیٰ جس سے ’’خیر‘‘ کا ارادہ فرماتے ہیں اُسے دین
کی سمجھ عطاء فرماتے ہیں…اسی حدیث پاک سے بطور برکت ’’دورۂ خیر‘‘ کا نام رکھا گیا
ہے… ماشاء اللہ اس دورے سے کافی فائدہ پہنچ رہا ہے … چالیس
دن میں اسلامی عقائد، اسلامی اصول، اور اسلامی احکامات اور تجوید قرآن کا کافی
حصّہ پڑھایا جاتا ہے… اور آخر میں امتحان بھی ہوتا ہے… یہ دورہ دوبار مکمل ہو
چکاہے اور اب تیسری بار کی تیاری ہے…فی الحال تو اپنے ذمہ دار ساتھی کر رہے ہیں،
آگے چل کر اسے عوام کے لئے بھی انشاء اللہ جاری کردیا جائے
گا… مہینے میں ایک بار دورۂ تفسیر آیات الجہاد بھی ماشاء اللہ پابندی
سے جاری ہے… اور کافی مسلمان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں… و الحمدللہ رب
العالمین… اُدھر شعبۂ دعوت کے جانثار، جانباز اور وفادار ساتھی ’’مساجد مہم‘‘ سے
فارغ ہو کر زمین پر’’عُشر مہم‘‘ کی برکات کے نازل ہونے کا ذریعہ بن رہے ہیں… الحمد
اللہ ہر طرف نعمتیں ہی نعمتیں ہیں…ہمیں چاہئیے
کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا
کریں… اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچیں اور خوب توبہ
استغفار کریں… اس وقت جو تازہ نعمت سامنے ہے وہ ہے’’ فتح الجوّادفی معارف آیات
الجہاد‘‘ کی چوتھی اور آخری جلد… اللہ تعالیٰ کی توفیق اور
فضل وکرم سے یہ جلد اب اشاعت کے مراحل میں ہے… اور اس جلد کے ساتھ’’فتح الجوّاد‘‘
کا کام بھی الحمدللہ مکمل ہو چکا
ہے…ماشاء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ …ظاہری طور پر تو اس کام
کے حالات اور اسباب نظر نہیں آرہے تھے…مگر اللہ تعالیٰ نے
خاص فضل فرمایا… اور اہل اسلام کی دعائیں رنگ لائیں… چنانچہ صرف تین ماہ کے عرصہ
میں چوتھی جلد مکمل ہوگئی… اس جلد میں سورۃ الفتح سے لیکر سورۃ النصر تک کی مدنی
آیات کے معارف الجہاد کو بیان کیا گیا ہے…آج کی مجلس میں فتح الجوّاد کی آخری
جلد کی بعض خصوصیات کے بارے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں…
کلام
برکت
اس
جلد میں کلام برکت کے عنوان سے ایک مستقل باب ہے… اس باب میں حضرت شاہ عبدالقادر
رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کی روشنی میں چند مدنی آیات کے معارف الجہاد کو بیان کیا
گیا ہے… یہ آیات اُس فہرست سے زائد ہیں جو فتح الجوّاد میںمدنی آیات کی پیش کی
گئی ہے… اہل علم کے لئے یقیناً یہ کام کی چیز ہے…
مکی
سورتوں کے اشاراتِ جہاد
جہاد
تو مدینہ منورہ میں فرض ہوا… مگر مکی سورتوں میں ایسی آیات ملتی ہیں جن میں
مستقبل کے جہاد کی بشارت اور فتوحات کے وعدے… اور دیگر جہادی اشارات موجود ہیں…
فتح الجوّاد جلد چہارم میں ایک مستقل باب میں ترانوے (۹۳) مکی آیات کے
اشارات جہاد کو بیان کیا گیا ہے… اور ماضی کے جہادی قصوں پر مشتمل آیات کو بھی
اسی باب میں ذکر کیا گیا ہے… غالباً مکی سورتوں کے اشارات جہاد پر یہ اپنے انداز
کا ایک منفرد کام ہے… جس سے طلبۂ علم کو انشاء اللہ بہت
فائدہ پہنچے گا اور اُن کے لئے تحقیق کی راہیں کھلیں گی…
بیعت
علی الجہاد
سورۂ
الفتح میں’’بیعت علی الجہاد‘‘ اور اُس کے فوائد کا تذکرہ ہے… ’’فتح الجوّاد‘‘ میں
اس موضوع پر کافی محنت کی گئی ہے… اور دلچسپ انداز میں ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کے
معنٰی، مفہوم، فوائد اور نتائج کو بیان کیا گیا ہے… اور عصر حاضر میں اِس کی ضرورت
پر بھی قدرے روشنی ڈالی گئی ہے… نیز بیعت رضوان اور بیعت علی الجہاد کے موضوع پر
چالیس احادیث کا ایک مجموعہ بھی پیش کیا گیا ہے…
نفاق
سے حفاظت
ویسے
تو’’فتح الجوّاد‘‘ کا اساسی موضوع’’ جہاد‘‘ ہر مسلمان کو نفاق سے بچنے کی دعوت
دیتا ہے… اورنفاق سے حفاظت کے طریقے بھی بتاتاہے… مگر جلد چہارم میں’’سورۃ
المنافقون‘‘ کے معارف الجہاد اہل ایمان کے لئے ایک تحفہ
ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب کی نفاق سے حفاظت فرمائے… سورۃ
المنافقون کے آخرمیں قرآنی آیات کی ایک فہرست بھی پیش کی گئی ہے… تقریباً دوسو
آیات پر مشتمل یہ فہرست اُن آیات کا پتا بتاتی ہے جو نفاق اورمنافقین کے بارے
میں نازل ہوئی ہیں…
خواتین
اور جہاد
خواتین
اگردل سے جہاد کی حامی ہوں تو اُن کے لئے کیا کیا انعامات ہیں… اورجہاد سے خواتین
کو کیا فائدے پہنچتے ہیں… سورۃ الفتح اور سورۃ الممتحنہ میں ان موضوعات پر بھی بات
کی گئی ہے۔
احادیث
مبارکہ
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جہادی اسلحہ سے محبت فرماتے تھے… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے جہاد کیلئے بہت سا اسلحہ تیار فرمایا… سورۃ الحدید میں
لوہے کی بات آئی تو جہادی اسلحے تک پہنچی… جہادی اسلحے اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلحے کے
بارے میں کئی احادیث مبارکہ… اور بہت سی روایات… جلد چہارم کا حصہ ہیں…اسی طرح
جہاد اور مجاہدین کے فضائل وغیرہ پر احادیث کے مجموعے بھی اس جلد میں شامل کئے گئے
ہیں۔
کفار
سے دوستی کی ممانعت
یہ
بے حد اہم اور خاص موضوع قرآن پاک کی کئی سورتوں میں بیان ہوا ہے…فتح الجوّاد کی
آخری جلد میں اس پر بہت مفصل اورمدلّل بات کی گئی ہے… اورکفار سے دوستی اور
تعلقات کی شرعی حیثیت کو دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے…
انفاق
فی سبیل اللہ
سورۂ
الحدید کا ایک خاص موضوع جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے… یہ موضوع قرآن پاک
کی اور بھی کئی سورتوں میں بیان ہوا ہے… فتح الجواد کی آخری جلداس موضوع پر
دلنشین دعوت دیتی ہے… اور یہ بات سمجھاتی ہے کہ جہاد میں مال خرچ نہ کرنے کی وجہ
سے مسلمان کن کن ذاتی اور اجتماعی نقصانات کا شکارہیں… نیزجہاد میں مال خرچ کرنے
کی فضیلت پر کئی احادیث و روایات کوبھی بیان کیا گیا ہے…
آٹھ
سو پینسٹھ آیات
فتح
الجوّاد کی آخری جلد تک کل جن آیاتِ جہاد کے معارف یااشارات بیان کئے گئے ہیں
اُن کی تعداد… آٹھ سو پینسٹھ (۸۶۵) بنتی ہے… ان میں سے چھ سو پچپن مدنی آیات اور
دوسو دس مکّی آیات ہیں… ان تمام آیات میں سے اکثر کے معارف یا اشارات ’’فتح
الجوّاد‘‘ میں آگئے ہیں… جبکہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے بعض
اشارات کو ذکر نہیں کیا گیا… کیونکہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا
ترجمہ اور حاشیہ الحمدللہ آسانی سے دستیاب ہے… الغرض حضرت
لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے اشارات کو بھی شامل کر لیا جائے تو آیات کی
کل تعداد آٹھ سو پینسٹھ بن جاتی ہے…
ایک اللہ والے
کا فرمان
ہمارے
حضرت قاری محمد عرفان نور اللہ مرقدہ نے ایک بار بہت جذب اور جوش کے
ساتھ فرمایا تھا کہ قرآن پاک میں جہاد کی ایک ہزار آیات موجود ہیں یہ بات انہوں
نے آیات جہاد کی فہرست دیکھ کر فرمائی تھی اب اگر کوئی عالم دین مکی سورتوں میں
خوب تحقیق کے ساتھ غور کرے تو انشاء اللہ حضرت قاری محمد
عرفان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات آسانی سے پوری ہو سکتی ہے ’’فتح
الجوّاد‘‘ میں اصل محنت مدنی سورتوں پر کی گئی ہے۔
اصل
خصوصیت
فتح
الجوّاد کی آخری جلدکی اصل خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عصر حاضر کو سامنے رکھ کر
قرآنی دعوتِ جہاد کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اللہ کرے
یہ کوشش کامیاب ہو اورمسلمانوں کوجہاد سمجھ آجائے اور مجاہدین قرآن پاک کی روشنی
میں اپنے جہاد کو شریعت کے مطابق بنائیں… اورجاری رکھیں… نیز فتح الجوّاد جلد
چہارم میں بہت سے عسکری نکتے بھی جمع کئے گئے ہیں…
ما
شاء اللہ لا قوۃ الاب
اللہ …بارک اللہ فیہ
تیرہ
سال
’’فتح
الجوّاد‘‘ویسے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بہت کم عرصہ میں
تیار ہوئی… مگر درمیان میں کام کے ناغے بہت ہوئے… اور حادثات بھی کئی پیش آئے…
فتح
الجوّاد کا کام تقریباً سواتین سال پہلے شروع کیاگیا تھااور درمیان میں یہ کام کئی
بارمکمل طور پر رک گیا بلکہ ایک مرتبہ تو پورے ایک سال تک یہ کام رکارہا ویسے
آیات جہاد کا کام تیرہ سال پہلے شروع ہواتھا اُس وقت صرف آٹھ دس دن کی مسلسل
محنت سے آیات جہاد کی پہلی فہرست اور ان آیات کا ترجمہ اور مختصر فوائد لکھنے کی
ترتیب بنی تھی اُس وقت چار سو سولہ آیات کی فہرست تیار ہوئی تھی یہ فہرست
اورآیات کاترجمہ تعلیم الجہاد حصہ چہارم کے نام سے کئی بار شائع ہوا کئی بڑے اہل
علم نے اس فہرست پر خوشی اور حیرت کا اظہار فرمایاتھاگویا کہ تیرہ سال پہلے جو کام
شروع ہوا تھا وہ ابھی چندروز قبل اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک کنارے تک
جا پہنچا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور اُمت مسلمہ کے
لئے نافع بنائے۔ ( آمین یا ارحم الراحمین)
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭٭٭
حرام فیصلے کی آگ
رحم
فرمائے… تقریباً پورا پاکستان اس وقت جل رہا ہے… بمباری، آگ، موت، لاشیں اورپناہ
گزینوں کے لمبے لمبے قافلے… روزانہ سینکڑوں افراد مرتے ہیں اور ہزاروں بے گھر ہوتے
ہیں… مگر امریکہ سے ایک ہی صد اآتی ہے کہ مزید کچھ کرو، مزید مسلمان مارو، مزید
آپس میں لڑو…ڈو مور، ڈومور… نو سال پہلے ایک ناجائز، حرام اور غلط فیصلہ کیا
گیا…آج پورا ملک اُس فیصلے کی آگ میں جل رہا ہے…پاکستان کی عوام مر رہی ہے… فوج
مر رہی ہے… پولیس مر رہی ہے… جی ہاں پوراپاکستان سسک سسک کر مر رہا ہے…
آئیے’’ماضی‘‘ کے کچھ واقعات یاد کرتے ہیں… اور پھر اپنے’’حال‘‘ پر استغفار کرتے
ہیں…
امریکہ
پر حملہ
منگل
کا دن تھا اور ستمبر کی گیارہ تاریخ…۲۰۰۱ء جب امریکہ پر
عرب مسلمانوں نے حملہ کر دیا… چار جہاز اغواء ہوئے… ان میں سے دو جہاز نیویارک کے
ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے جا ٹکرائے… ایک جہاز پینٹاگون پر گرا… جبکہ چوتھا جہاز اپنے
ہدف کو نہ پا سکا… ’’القاعدہ‘‘ عرب مجاہدین کی ایک چھوٹی سی تنظیم ہے… اُس نے اس
حملے کی ذمہ داری قبول کی… اور وجہ یہ بتائی کہ امریکہ نے عرب ممالک کے وسائل پر
قبضہ کر رکھا ہے… چنانچہ انہو ں نے اپنے اسلامی ممالک کو آزاد کرانے کے لئے یہ
حملہ کیا ہے… اُنیس افراد کے اس گروپ کے ذمہ دار ایک مصری نوجوان تھے… دو افراد کا
تعلق کویت اور امارات سے تھا…جبکہ باقی تمام حضرات سعودی شہری تھے…اس حملے سے
القاعدہ نے کیا فائدہ حاصل کیا یہ تو القاعدہ والے حضرات ہی بتا سکتے ہیں… اچھا
ہوتا کہ یہ حضرات اگر امریکہ سے لڑنا چاہتے تھے تو کسی فوجی ہدف کو نشانہ بناتے…
بہرحال جو مقدّرمیں لکھا تھا وہ ہو گیا… اوردیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا رنگ ہی بدل
گیا۔
القاعدہ
والے کہتے ہیں کہ ہم نے … اس کارروائی کے لئے سعودی علماء کرام سے فتویٰ حاصل کیا
تھا… یاد رہے کہ… جس وقت یہ کارروائی ہوئی تھی… اُس وقت افغانستان میں امارتِ
اسلامیہ قائم تھی… صدیوں بعد مسلمانوں نے اور روئے زمین نے کوئی خالص اسلامی حکومت
دیکھی تھی… عراق پر صدام حسین کا راج تھا… جبکہ پاکستان کی بدنصیبی پرویز مشرف کی
صورت میں موجود تھی…
القاعدہ
نے ٹھیک کیا یا غلط… اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے… مگر
قرآن پاک یہ ضرور سمجھاتا ہے کہ … کفار پر اس طرح کی مصیبتیں اُن کے اعمال کی
بدولت نازل ہوتی ہیں…
ارشادباری
تعالیٰ ہے:
وَلَا
یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ اَوْ
تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِھِمْ حَتّٰی یَأْتِیَ وَعْدُ
اللہ اِنَّ اللہ لَایُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (
الرعد،۳۱)
ترجمہ:
اور کافروں کو اُن کے اعمال کے بدلے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ مصیبت پہنچتی رہے گی، یا
اُن کے گھروں کے قریب اُترے گی، یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ کا
وعدہ آپہنچے بے شک اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا…
مفسرین
نے لکھا کہ ان مصیبتوں سے مُراد… کفار پر مسلمانوں کے جہادی حملے بھی ہیں… قرآن
پاک قیامت تک کے حالات بتاتا ہے… امریکہ پر اُس کے گھر میں ایک مصیبت نازل ہوئی…
اُسے چاہئے تھا کہ عبرت پکڑتا… اللہ تعالیٰ کے سامنے جُھک
جاتا… مسلمانوں پر اپنے توسیع پسندانہ مظالم بند کر دیتا… مگرایسا نہیں ہوا… بلکہ
وہ بپھر گیا اور پورے عالم اسلام کو ختم کرنے کے لئے دجّال کی طرح نکل کھڑا ہوا…
ایک
حرام فیصلہ
پاکستان
پر پرویز مشرف کی حکومت تھی… وہ طبعی طور پر اسلام سے بیزار اور کافروں سے محبت
کرنے والا شخص تھا… وہ کتوں کا شوقین اور اتاترک کے سیکولر نظام کا عاشق تھا… اُسے
شہرت اور مقبولیت کا بے حد شوق تھا… امریکہ نے جب افغانستان پر حملے کا ارادہ
کیاتو پاکستان کو دھمکی دی… اور اُس سے ہر طرح کی مدد مانگی… پرویز مشرف تو پہلے
سے ہی مجاہدین اور امارتِ اسلامیہ کا دشمن تھا… فوجی ڈسپلن کی وجہ سے مخالفت کی
کوئی آواز بھی نہ اُٹھی… اور پاکستان نے امریکہ سے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کر
لیا… یہ وہ منحوس لمحہ اور حرام فیصلہ تھا جس کی سزا معلوم نہیں کتنی صدیاں اور
کتنی نسلیں بھگتیں گی…
آپ
یقین کریں پاکستان کی جگہ اگر ہندوؤں اور عیسائیوں کا کوئی ملک ہوتا تو وہ بھی
امریکہ سے اس طرح کا معاہدہ نہ کرتا… ملک کے کئی ائیر بیس امریکہ کو دے دیئے گئے…
کراچی سے کوئٹہ اور پشاورتک امریکہ کے درجنوں فوجی اورجاسوسی اڈے قائم ہو گئے…
پاکستانی اداروں کے کئی آفیسر امریکہ کی ملازمت میں دے دیئے گئے… اور امریکہ کو
اپنے ملک سے بھی زیادہ محفوظ علاقہ افغانستان پر حملے کے لئے مل گیا…
پاکستانی
حکمرانوں کا یہ فیصلہ غلط تھا… ناجائز تھا، شرعی طور پر حرام تھا اور اخلاقی طور
پر ظالمانہ تھا… آج پاکستان اسی فیصلے کے زہر سے مر رہا ہے… مگر حکمرانوں میں سے
کسی کے اندر اتنا ایمان اور جرأت نہیں کہ وہ یہ فیصلہ اب بھی واپس لے لیں… بلکہ
ہر کوئی اسی فیصلے کی دلدل میں زیادہ دھنستاجا رہا ہے…
کوئی
ہے جو سوچے
افغانستان
کی امارتِ اسلامیہ نے پاکستان کا کیا بگاڑا تھا کہ پاکستان نے اُس کے خاتمے کے
لئے… امریکہ کو ہرطرح کا تعاون فراہم کر دیا؟…کیا پاکستان کے لئے جائز تھا کہ وہ
افغان مسلمانوں کے قتل عام کے لئے امریکہ کو چند ڈالروں کے عوض اڈے فراہم کرے؟…
اُس وقت پاکستان کے کالے افسر بس یہی کہتے تھے کہ ہم پاکستان کو بچا رہے ہیں… کیا
پاکستان کو بچانے کے لئے ہزاروں افغانوں کا مظلومانہ خون درکار تھا؟…
یاد
رکھیں افغانستان میں اسلامی حکومت کے ختم ہونے کا گناہ… سینکڑوں مساجد و مدارس کی
تباہی کا وبال… اور ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا خون… پاکستان کے سر ہے اور آج
پاکستان اسی خون کی قیمت چکا رہا ہے… لاہور سے لیکر سوات تک… اور کراچی سے لیکر
وزیرستان تک خون آلود جنازے اور یتیم ہونے والے بچوں کی سسکیاں ہیں… جبکہ امریکہ
کا دورہ کرنے والے پاکستانی حکمران… فون کر کے یہی پوچھتے ہیں کہ آج کتنے مسلمان
مارے… میری آج بہت اہم میٹنگ ہے… اور میں نے امریکہ والوں کو مطمئن کرنا ہے…
’’انا
للہ وانا الیہ راجعون‘‘
ایک
افسردہ لمحہ
امریکہ
نے امارت اسلامیہ افغانستان سے مطالبہ کیا کہ… شیخ اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے
کرو… حضرت امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد نے مسلمانوں کی لاج رکھی اور یہ
مطالبہ ماننے سے انکار فرما دیا… ۷،اکتوبر۲۰۰۱ء
شام کے وقت امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملہ شروع کر دیا… اِدھر پاکستان میں
پرویز مشرف نے فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اُن افراد کو بٹھادیا جو مکمل امریکہ نواز
تھے… امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر
امریکہ کا مقابلہ شروع کیا… امریکی فوجی زمین پر آنے سے گھبرا رہے تھے انہوں نے
شمالی اتحاد کو بھاری رقومات دیکر خرید لیا… اور انہیں اپنا سپاہی بنادیا…ایک ماہ
تک امارتِ اسلامیہ کے مجاہد ڈٹے رہے… مگرکب تک؟… اِدھر پاکستان کی امریکہ کے ساتھ
اندھی امداد تھی… اور اُدھر شمالی اتحاد کے دستے تھے… بالآخر طالبان کا بڑا لشکر
قندوز میں محصور ہو گیا… دوستم نے اُنہیں دھوکہ دیا اور ہتھیار ڈالنے پر امن کی
پیشکش کی… اچھا ہوتا کہ طالبان ہتھیار نہ ڈالتے مگر وہ افسردہ لمحہ بھی مسلمانوں
کی قسمت میں تھا کہ…دوستم پر اعتماد کر کے ہتھیار ڈال دیئے گئے… اور پھر امریکہ
اور دوستم کے مظالم سے آسمان کا کنارا سرخ ہو گیا… ہزاروں مجاہدین کنٹینروں میں
بند کر کے شہید کر دیئے گئے… سینکڑوں جانباز قلعہ جنگی کے قید خانے میں بمباری کا
نشانہ بنے… اور دور حاضر کا اسلامی لشکر خاک وخون کی خوراک بن گیا… شہید ہونے والے
تو اونچا مقام پا گئے… زخمیوں نے بھی جنت کے تمغے حاصل کئے… مگر ایک روشن مستقبل
اپنی جھلک دکھا کر کہیں گم ہوگیا… دور بہت دور…
’’انا
للہ وانا الیہ راجعون‘‘
نئی
بھرتی
پاکستان
میں اُس وقت کئی جہادی تنظمیں موجود تھیں… کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی… ان سب کی ہمدردی
امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ساتھ تھی… چنانچہ پاکستانی مجاہد افغانستان جانے لگے…
پاکستانی حکومت کو اُس وقت عقلمندی سے کام لینا چاہئے تھا کہ وہ ان مجاہدین کو
افغانستان جانے سے نہ روکتی… مگر پاکستان تو بد نصیبی کے آخری کنارے پر کھڑا تھا…
اور امریکہ بُری طرح سے پاکستان میں گھس چکا تھا…چنانچہ حکمرانوںنے پاکستانی
مجاہدین کو بھی تنگ کرنا شروع کیا… اس وقت کسی مجاہدکے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ وہ
پاکستان میں کارروائیاں کرے… مگر حکمرانوں کے طرز عمل نے ایسے مجاہدین بھی کھڑے کر
دیئے جنہوں نے پاکستان میں جہاد کرنے کا اعلان کر دیا… دراصل پاکستانی عقوبت خانوں
کو جو سیکورٹی اہلکار چلا رہے ہیں وہ پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں… یہ بد اخلاق،
بد شکل اور بد مزاج آفیسر قیدیوں پر ایسے مظالم کرتے ہیں… اور انہیں ایسی فحش
گالیاں دیتے ہیں کہ جن کا تصور بھی محال ہے… اب جو بھی دیندار قیدی یہ طرز عمل
دیکھتا ہے تو اُس کو یقین ہو جاتا ہے کہ … پاکستان کے حکمران کافروں سے کم نہیں
ہیں… چنانچہ اسی طرز عمل نے پاکستان میں وہ طبقہ کھڑا کردیا ہے جو پاکستان میں لڑنے
کو… زیادہ اہمیت دیتا ہے… پھر حکومت نے منظم جہادی تنظیموں پر پابندیاں لگائیں تو
اُ ن سے بھی کئی چھوٹے چھوٹے گروپ پیدا ہوئے… بعض بڑی جہادی تنظیموں کو کمزور کرنے
کے لئے حکومت نے خود بھی کئی چھوٹے گروپ ان تنظیموں سے نکالے جو بعد میں آزاد ہو
گئے… اُدھر مجاہدین پر مسلسل چھاپوں کی وجہ سے کئی افراد دربدر ہوئے اور اُن کے
لئے زندہ رہنا مشکل ہو گیا… پھر حکومت نے انڈیا سے یاریاں بڑھائیں اور جہاد کشمیر
کو کمزور کیا تو اس سے بھی کئی افراد حکومت کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہوئے… اور
پھرحکومت نے مسجدیں گرائیں، لال مسجد والا اندوہناک حادثہ کر بلائی انداز میں پیش
آیا جس نے پورے ملک میں بے چینی کی لہردوڑا دی… خلاصہ یہ کہ حکومت ہر آئے دن اُن
لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے جو پاکستان میں لڑنے پر مجبور ہوتے ہیں… اور یوں
افغانستان کی لڑائی پاکستان میں منتقل ہو گئی… اور یہاں کے مسلمان ایک دوسرے کو
مارنے لگے…
’’انا
للہ وانا الیہ راجعون‘‘
امریکہ
کی خواہشیں
امریکہ
دراصل پاکستان کو ہی اپنا اصل دشمن سمجھتا ہے… اور وہ پاکستان کو مکمل طور پر ختم
کرنا چاہتا ہے… اس سلسلے میں وہ بھارت کے ساتھ اور بھارت اُس کے ساتھ پورا تعاون
کر رہا ہے… اور بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران امریکہ اور بھارت دونوں کے ساتھ
تعاون کر رہے ہیں… امریکہ چاہتا تھا کہ افغانستان میں اُس کے خلاف لڑنے کیلئے
پاکستان سے مجاہدین نہ آئیں… چنانچہ اُس نے پاکستان میں ایسے محاذ جنگ کھول دیئے
کہ اب واقعی افغانستان جا کر لڑنے والوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے… اُدھر امریکہ
نے پاکستان کو اس کی خدمات کا صلہ یہ دیا کہ بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں کو…
اور سندھ میں ایم کیو ایم کو مکمل طور پر مسلّح کر دیا… بلوچستان میں تو لڑائی
شروع ہے اور وہاں پاکستان کے خلاف عمومی فضا بن چکی ہے… جبکہ ایم کیو ایم اشارے کا
انتظار کر رہی ہے… فی الحال اُس کی ذمہ داری حکومت میں رہ کر امریکہ اور بھارت کے
مفادات کا تحفظ ہے… ان حالات میں اگر حکمرانوں میں کسی کو پاکستان کی فکر ہوتی تو
وہ امریکہ سے اپنا دامن چھڑا لیتا…مگر بے فکرے حکمرانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں…
انہیں جب تک موقع ملاپاکستان میں رہ کر ملک کو لوٹیں گے… اور جب حالات خراب ہوئے
تو شوکت عزیز کی طرح پاکستان سے باہر چلے جائیں گے… اِس وقت کے حکمرانوں میں سے
اکثر کے ذاتی مکانات امریکہ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور دبئی میںموجود ہیں… دوسری طرف
پاکستان کے دینی طبقے کا بھی فرض تھا کہ وہ افغان جہاد کی طرف زیادہ توجہ کرتا…
کیونکہ اصل مقابلہ وہاں ہے اور وہاں کی فتح اور شکست پر پوری اُمتِ مسلمہ کے
مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے…مگر ایسا نہیں ہوا… بلکہ پاکستان کا دینی طبقہ یا تو
جمہوریت کی کیچڑ میں پھنس گیا… یا پھر اُس نے پاکستان ہی میں جنگی محاذ کھول کر…
امریکہ اور نیٹو کے لئے افغانستان کا کام آسان کر دیا… اور اُدھر انڈیا ہے کہ وہ
اندر اور باہر ہر طرف سے پاکستان کو کھاتا جا رہا ہے…
انا
للہ وانا الیہ راجعون
صرف
رحمت الٰہی کا سہارا
بظاہر
تو پاکستان کے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی… حکومت کے بہت اندر تک امریکہ اور
انڈیا کے ایجنٹ گھس چکے ہیں… اور یہ لوگ اتنے بااثر ہیں کہ وہ حکومت کو کوئی بھی
سیدھا کام نہیں کرنے دیتے… ابھی سوات کا معاہدہ ہوا تو اسی بااثر طبقے نے اس
معاہدے کو ختم کرادیا… یہ لوگ ہر وقت حکومت کو اُن کارروائیوں پر اُکساتے رہتے
ہیں…جن سے ملک میں مزید انتشار پھیل سکتا ہو… آج کل اس طبقے نے یہ شور اٹھایا ہوا
ہے کہ صوبہ سرحد کے بعد جنوبی پنجاب میں مزاحمت شروع ہونے والی ہے… ان لوگوں کی
خواہش ہے کہ حکومت جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور الرحمت ٹرسٹ وغیرہ
پر مظالم شروع کرے… تاکہ وہ بھی حکومت کے مظالم کے مقابلے میں ہتھیار
اٹھالیں…اوریوں چاروں صوبوں میں جنگ شروع ہو جائے…ا ب ان حالات میں پاکستان کو
صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی بچا سکتی ہے… چنانچہ ہم سب اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کریں… اور استغفار کر کے اللہ تعالیٰ سے اُس کی
رحمت کا سوال کریں… اور نمازوں کے بعد چند دعاؤں کا بہت اہتمام کریں(۱) گناہوں
سے معافی کی دعاء یعنی استغفار(۲) صراط
مستقیم کی رہنمائی کی دعاء کہ یا اللہ اس وقت جو کچھ حق ہو
اور آپ کو پسند ہو ہمیں اُس کی توفیق عطاء فرما(۳) اُمتِ مسلمہ کے
لئے معافی کی دعاء یعنی ساری امت کی طرف سے استغفار(۴) اُمتِ مسلمہ کے
لئے رحمت کی دعاء (۵) جہاں
جہاں شرعی جہاد ہو رہا ہے وہاں کے مجاہدین کے غلبے اور فتح کی دعاء (۶) گمراہی،فسق
و فجور اور سوء خاتمہ سے حفاظت کی دعاء (۷) پاکستان کے لئے
اچھے، ایمان والے ،صالح حکمران نصیب ہونے کی دعاء(۸) افغانستان میں
امارتِ اسلامیہ بحال ہونے کی دعاء (۹) اللہ تعالیٰ
کے راستے کی مقبول شہادت کی دعاء (۱۰) اللہ تعالیٰ
کی نعمتیں سلب ہونے سے حفاظت کی دعاء…
اللہ تعالیٰ
ہم سب پر رحم اور رحمت فرمائے آمین یا ارحم الراحمین
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭٭٭
فساد کیوں بھڑکتا ہے؟
کی
رضاء کے لئے زکوٰۃ ادا کی جائے تو مال محفوظ ہو جاتا
ہے… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے صدقہ دیا جائے تو بیماریاں
اور بلائیں دور ہو جاتی ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے سامنے
عاجزی کے ساتھ گڑ گڑا کر دعاء کی جائے تو مصیبتوں سے نجات مل جاتی ہے…
سبحان اللہ و
بحمدہ سبحان اللہ العظیم…
ارشاد
فرمایا
حصّنوا
اموالکم بالزکوٰۃ
اپنے
اموال کی حفاظت کرو زکوٰۃ کے ذریعہ
و
داووَمرضاکم بالصدقۃ
اور
اپنے مریضوں کا علاج کرو صدقہ کے ذریعہ سے
واستقبلو
ا امواج البلاء بالدّعاء والتضرّع
اور
مصیبت کی موجوں کا مقابلہ کرو دعاء اورعاجزی کے ذریعہ سے
(
رواہ ابو داؤد، الطبرانی، البیہقی مرسلاً)
اس
وقت تو مسلمانوں کا کچھ بھی’’محفوظ‘‘نہیں ہے… جب سے پاکستان بنا ہے یہاں مسلمان
ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، لوٹ رہے ہیں… مشرقی پاکستان کس طرح سے ’’بنگلہ دیش‘‘ بن
گیا … اور اب پھر لاکھوں مہاجرین کے قافلے ہیں… اور ہر قافلے میں مظلومیت کی ان
گنت د استانیں… اب تو دعائیں بھی لڑ کھڑاگئی ہیں کہ… کس کی فتح مانگیں اور کس کی
شکست…مگر ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ ’’خیر‘‘ہو گی… اور
بالآخر اسلام کو غلبہ اور حکومت ملے گی… اسلام تو دنیا میں غالب ا ورنافذ ہونے کے
لئے آیا ہے… مگر صدیاں بیت گئیں کہ مسلمان مغلوب چلے آرہے ہیں… اب
انشاء اللہ حالات بدل رہے ہیں… اور بہت تیزی سے بدل رہے
ہیں… ہم مسلمان اگرچہ اس وقت پریشان ہیں… مگر یاد رکھیں کہ دشمنان ِ اسلام ہم سے
بھی زیادہ پریشان ہیں… اور اب یہ زمین آہستہ آہستہ اُن کے قدموں سے کھسک رہی ہے…
ہم مسلمانوں کو ایمان کی برکت سے یہ تو امید ہے کہ موت آتے ہی
انشاء اللہ آسانی ہو جائے گی… جب کہ کافروں کو تو اس کی
بھی کوئی امید نہیں… یہ دنیا اُن کے لئے سب کچھ ہے اور اب یہاں بھی اُن کو چین
نہیں ہے…
امریکی
نادانی
بندہ
ایک بار مسلمانوں کی ایک جیل میں قید تھا… اُن دنوں کراچی میں ایک امریکی صحافی
لاپتہ ہو گیا… اُسی کی تلاش میں امریکن خفیہ اداروں کے اہلکار مجھ سے بھی تفتیش
کرنے آئے… وہ مجھ سے بہت کچھ پوچھتے رہے مگر میں نے بھی ایک بات پوچھ لی… ’’کیا
امریکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنا دشمن بنا کر محفوظ رہ لے گا؟‘‘… اُن کے پاس
کوئی جواب نہیں تھا… ایک افسر نے کہا ہمارے حکمران بیوقوف ہیں… میں نے کہا مرنے کے
بعد نہ کوئی امریکی رہتا ہے نہ پاکستانی… دنیا کے ممالک، یہاں کی حکومت، یہاں کی
بلڈنگیں… سب مرنے کے بعد یہیںر ہ جاتے ہیں… آپ لوگ بھی مرنے کے بعد کی زندگی کا
کچھ سوچو…یہ دنیا اُسی وقت امن او رسکون پاتی ہے جب یہاں کے رہنے والے آخرت کی
فکر رکھتے ہیں… آج امریکہ چاروں طرف سے پھنس چکا ہے… اُس کی معیشت لڑکھڑا گئی ہے…
اس کی سیاست کا رنگ بدل چکا ہے… اور اُس کا اسلحہ خود اُسے گھور رہا ہے… ہم سات
سال پہلے بھی یہی بات کہتے تھے مگر اُس وقت… اکثر لوگ نہیں مانتے تھے… مگر اب تو
ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ… امریکہ عراق اور افغانستان میں اپنی عزت اور طاقت ہار
چکا ہے… لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ
بزدلی
کا انجام
سات
آٹھ سال پہلے جب امریکہ اور پاکستان نے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ شروع نہیں کی
تھی… اُس وقت بے چاری دہشت گردی بہت کمزور اور بہت مہذّب تھی…مگر جب اس کے خلاف
امریکہ، نیٹو اور پاکستان نے جنگ شروع کر دی تو یہ طاقتور ہوتی چلی گئی… آخر یہ
سب کچھ کیا ہے؟… سات سال پہلے وزیرستان کے ہر پتھر پر پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ
کا راج تھا… سات سال پہلے سوات میں پولیس، ایف سی اور لیوی کے سپاہی دندناتے پھرتے
تھے… پورے پاکستان میں صوبہ سرحد کی پولیس اپنی بداخلاقی اور سخت رویّے کی بناء پر
بدنام تھی… وہ لوگوں کو گریبان سے پکڑ کر گاڑی سے اتارتے تھے… اور معمولی سے
معمولی بات پر پٹائی شروع کردیتے تھے… مہمند ایجنسی،خیبر ایجنسی اور پارا چنار تک
سب لوگ حکومت کی رٹ تسلیم کرتے تھے… مگر پھر کیا ہوا ؟آج سرحد پولیس کے اہلکار
اخبار میں اشتہار دیتے ہیں کہ ہمارا پولیس سے کوئی تعلق نہیں… وزیرستان میں
پولیٹیکل ایجنٹ چڑیا گھر کا جانور بن چکا ہے… اور صوبہ سرحد کے اڑتیس فیصد سے زائد
علاقے پر سے حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے… سات سال پہلے بندہ نے ’’کالی آندھی‘‘ کے
نام سے ایک مضمون لکھاتھا… یہ مضمون خاص طور سے حکومت کے لوگوں کو بھی پڑھایا گیا…
مگر حکومت پر بزدلی اور بہادری کا مشترکہ دورہ پڑا ہوا تھا… امریکہ کے سامنے بزدلی
اور اپنی عوام پر بہادری… چنانچہ کسی نے کچھ نہ سنا اور کالی آندھی آگئی… ہم نے
عرض کیا تھا کہ جہادی جماعتوں پر پابندی لگاؤ گے تو ’’آزادجہاد‘‘ وجود میں آئے
گا… جو کسی کے بھی قابو او ر کنٹرول میں نہیں ہو گا… مگر حکومت کے لوگ امریکہ سے
تھر تھر کانپ رہے تھے… اور اسی بزدلی میں انہوں نے اپنے ملک کا ستیاناس کر دیا…
جنگ
اور پھیلے گی
یہ
نہ کوئی دھمکی ہے اور نہ نجومیانہ پیشین گوئی… بلکہ یہ ایک یقینی اور فطر ی بات ہے
کہ… حکومت جس رُخ پر چل پڑی ہے اُ س کے نتیجے میں جنگ اور پھیلے گی… سوات کے
جنگجوؤں کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا… اس کی وجہ خود اُن کا رویّہ ہے کہ انہوں نے
ہر کسی سے دشمنی مول لی… مگر حکومت جس انداز میں اس جنگ کو آگے بڑھا رہی ہے تو
اُس کا شدید ردّعمل ہو گا… وقتی طور پر کسی ایک جگہ حالات درست ہو بھی گئے تو
دوسری جگہ خراب ہو جائیں گے… جب لڑائی اس مسئلے کا حل ہے ہی نہیں تو پھر لڑائی سے
یہ مسئلہ کس طرح سے حل ہو سکتا ہے؟… کیا اہلِ پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے
رہیں گے؟… سوات کے بعد حکومت کسی اور علاقے پر جنگ شروع کرے گی…پھر اُس کے بعد کسی
اورعلاقے پر؟… علاقے تو بہت ہیں اور دشمنوں کا مطالبہ بھی بہت زیادہ ہے…
اللہ تعالیٰ
حکومت کے لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے… یا اپنی رحمت سے اس ملک کو اچھے حکمران عطاء
فرمائے…
حقیقت
کا انکار
کیا
یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں
دیندار مسلمان بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں؟… کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں
لاکھوں مساجد اور ہزاروں دینی مدرسے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دیندار مسلمانوں نے
دین کی خدمت اور دین کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں… ہاں یہ سب کچھ حقیقت ہے مگر ہمارے
حکمران ان حقائق کو تسلیم نہیں کرتے…چنانچہ اسی وجہ سے ملک میں فتنہ اور فساد ہوتا
ہے… کوئی بتا سکتا ہے کہ
(۱)حکومت
نے اُن جہادی جماعتوں پر کیوں پابند ی لگائی جنہوں نے پاکستان میں کسی کو ایک پتھر
بھی نہیںمارا تھا؟
(۲) حکومت
نے جمعہ کے خطبات اور مساجد کے لاؤڈ سپیکرز پر کیوں پابندی لگائی؟… جبکہ شادی
ہالوں اور موسیقی بازوں کو کھلی چھوٹ دی
(۳) حکومت
نے سرکاری املاک کا بہانہ بنا کر مساجد کو کیوں گرانا شروع کیا؟ کیا حکمرانوں کے
لئے رہنے کی جگہ کم پڑگئی تھی؟
آج
بہت سے عسکری کمانڈر وہ ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک اپنی مساجد میں بیٹھے درس قرآن
دیتے تھے… مگر حکومت نے اُن کو اتنا تنگ کیا کہ وہ مسجد چھوڑ کر اسلحہ اٹھا کر
میدانوں اور پہاڑوںمیں چلے گئے…
ابھی
سوات کے متاثرین کا مسئلہ ہے… ہر مغرب زدہ این جی اوز کو اجازت ہے کہ وہ کیمپ
لگائے اور غیورمسلمانوں میں بے غیرتی پھیلائے… لیکن جیسے ہی الرحمت ٹرسٹ یا دوسرے
دینی اداروں نے خدمت کا کام شروع کیاتو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے… اورپھر
نگرانیاں گرفتاریاں اور پریشانیاں… آج سوات میں لڑنے والے کئی کمانڈر وہ ہیں جو…
جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمانی، روحانی اور اخلاقی دستور میں
جکڑے ہوئے تھے… اُن کو کسی مسلمان پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی… مگر جب حکومت
نے پابندی اور بدنامی کی تلوار چلائی تو … یہ مجاہدین جماعت کے دستور سے آزاد ہو
گئے اور پھر وہ علاقائی عسکریت پسند بن گئے… حکومت کو چاہئے کہ وہ’’حقائق‘‘ کے
انکار سے باز آئے… پاکستان میں مساجد اور مدارس کے کردار کو تسلیم کرے… دین کا
کام کرنے والوں کو آزادی سے کام کرنے دے… دین کا مذاق اڑانے اور طاقت کے زور پر
گناہ پھیلانے سے پرہیز کرے…
تب
حالات تیزی سے ٹھیک ہو جائیں گے… مگر حکومت تو غیروں کی پابند ہے… وہ حالات کیوں
ٹھیک کرے گی؟…
اللہ
تعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر نہیں
ہر
انسان کے پیدا ہونے سے پہلے اُس کی موت کا وقت لکھ دیا گیا ہے… انسان جب تک اپنی
روزی کا آخری لقمہ نہیں کھا لیتا اُس وقت تک نہیں مر سکتا… ماضی کے تمام لوگ مر
چکے ہیں… ہم نے بھی مر جاناہے… اور حکمرانوں نے بھی مرنا ہے…بزدلی اور بے ایمانی
کرنے سے زندگی کے دن نہیں بڑھتے… جب مساجد گرانے والے نہیں ڈرتے تو ہم مساجد بنانے
والے کیوں ڈریں… امریکہ کی نوکری کرنے والے نہیں ڈرتے توہم رب تعالیٰ
کے غلام رب تعالیٰ کے سوا کسی اور سے کیوں ڈریں… ہمیں ڈرایا جار ہا ہے کہ … اب
مزید پابندیاں لگیں گی… ہم کہتے ہیں کہ شوق سے لگاؤ،نقصان تمہارا ہی ہو گا… ہمیں
ڈرایا جارہا ہے کہ تمہارے مراکزا ور مساجد پر قبضہ کر لیا جائے گا…ہم کہتے ہیں کہ
شوق سے کرو انشاء اللہ ہمارا کام بند نہیں ہوگا… البتہ لال
مسجد پر حملہ کرنے والوں کی طرح تمہاری سیاست بھی ختم ہو جائے گی… ہم الحمدللہ
مسلمان ہیں… نہ مسجد سے ہٹ سکتے ہیں اور نہ شرعی جہاد سے … تم اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف جو قدم بھی اٹھاؤ گے اُس کا وبال دنیا و آخرت میں تمہارے گلے پڑے گا… ہم
نے پاکستان کوہمیشہ مسلمانوں کاملک سمجھا… اس ملک کو اللہ تعالیٰ
کی ایک نعمت سمجھ کر اس کی قدر کی… اور ہر طرح کا ظلم برداشت کیا مگر اس ملک میں
کوئی کارروائی نہیں کی… ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اس موقف پر
استقامت مانگتے ہیں… دراصل ہم مسلمانوں کو اس ملک کی ضرورت ہے… ہمارے مکانات نہ تو
امریکہ میں ہیں نہ برطانیہ میں… ہماری کوٹھیاں نہ دبئی میں ہیںاور نہ سوئٹزر لینڈ
میں… ہم’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کا اقرار اور ’’محمدر
سول اللہ ‘‘ کا اعلان کرنے والے لوگ ہیں …اس لئے دنیا کا کوئی کافر
ہمیں پناہ بھی نہیں دے سکتا… اس ملک کی مٹی میں ہمارے اکابر کا خون اور پسینہ
مہکتا ہے… اس لئے ہم اس ملک کے خیرخواہ ہیں… مگر دوست اور دشمن سب ایک بات یاد
رکھیں کہ … ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے… کوئی چیز نہیں ہے… کوئی چیز نہیں
ہے… خدارا اس ملک کو ایمان کا دشمن اور مدّمقابل نہ بناؤ… تم لاکھ سیکولر بنو مگر
اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کی حقیقت تسلیم کرو… اور اُنہیں اسلام کے تقاضوں پر
عمل سے نہ روکو…
یاد
رکھو حقائق کے انکار سے ہی… فساد جنم لیتا ہے…
وصلی اللہ تعالیٰ
علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭٭٭