رنگ و نور جلد نہم

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر439

استغفار کے فوائد…اہم علمی نکتہ اور تمثیل

خالق کا شکر… اعمال جمعہ کی مہم کو کامیاب فرمایا۔

مخلوق کا شکریہ…اس مہم کے پیغام کو اپنایا اور غفلت کی چادر اُتار پھینکی۔

شہید افضل گورو کی کرامت… اجتماع کی ناقابل یقین کامیابی…

ہندوستان میں ہائی الرٹ اور اجتماع کے بعد سے مسلسل اچھی خبریں…

کشمیری قوم کا عاشقانہ مزاج اور جہاد سے ان کا عشق…

مفید عام نکات پر مشتمل تحریر…

 

شہید کی کرامت

 اللہ  تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کومعاف فرمائے:

رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ

یہ قرآن مجید میں سکھائی گئی ایک بڑی قیمتی اور جامع دعاء ہے … اس میں تین چیزوں کا سوال ہے

١                    گناہوں کی مغفرت ہو جائے…

٢                    برائیوں کا کفارہ… یعنی برائیوں کے اثرات مٹ جائیں اور دنیا و آخرت میں اُن پر پردہ پڑ جائے…

٣                    حُسن خاتمہ نصیب ہو جائے…

 دل سے استغفار کے تین بڑے فائدے

 شیطان ملعون کا ایک بڑا حربہ یہ ہے کہ انسان کے دل کو گناہ پر نادم نہیں ہونے دیتا تب:

١                    بعض گناہوں کو انسان اپنی جہالت یا ضد کی وجہ سے نیکی سمجھنے لگتا ہے…

٢                    بعض گناہوں کو انسان اپنی مجبوری سمجھنے لگتا ہے کہ… کیا کریں مجبور ہوکر کیا…

٣                    بعض گناہوں کو انسان ہلکا سمجھنے لگتا ہے کہ یہ تو صغیرہ ہیں… یا لوگ تو ہم سے بھی بڑے بڑے گناہ کرتے ہیں…

ان تین شیطانی خیالات کی وجہ سے انسان کا دل… گناہ پر نادم نہیں ہوتا اور اس دن سے نہیں ڈرتا جب ہم ایک بہت لمبے ’’پُل‘‘ پر سے گذر رہے ہوں گے وہ پُل بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے…اور اُس کے نیچے جہنم ہی جہنم اور آگ ہی آگ ہے… اور انسان کے گناہ اُس پُل پر بڑے سانپوں کی طرح لپک لپک کر لوگوں کو نیچے گرا رہے ہوں گے…

یا  اللہ  مدد… یا  اللہ  مدد… یا  اللہ  امان…

ہر مسلمان کو چاہئے کہ… اپنے دل میں  اللہ  تعالیٰ کے لئے خشوع اور عاجزی بھرے تاکہ ہمارا دل ادھر اُدھر کی باتیں سوچنے کی بجائے…  اللہ  تعالیٰ کے ذکر میں لگے اور گناہوں کو یاد کر کے ڈرے اور روئے… دل سے استغفار کرنا، دل سے نادم ہونا اور دل کی گہرائی سے ’’ یا  اللہ  معاف فرما… یا  اللہ  معاف فرما‘‘ کہنا ایک مؤمن کے لئے بڑی سعادت ہے…

تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے…جو بندہ اپنے دل کو استغفار پر لگا لیتا ہے  اللہ  تعالیٰ اُسے یہ تین انعامات عطاء فرماتے ہیں…

١                    اُس کا رزق آسانی سے اس تک پہنچتا ہے…

٢                    اللہ  تعالیٰ اُس کے تمام کاموں میں آسانی فرما دیتے ہیں…

٣                    اللہ تعالیٰ اس کی شان اور قوت کو سلامت رکھتے ہیں… شان کا مطلب ہے انسان کی دینی حالت اور اچھی کیفیات…

خالق کا شکر

الحمدﷲ جمعۃ المبارک کے اعمال کی مہم دس ہفتہ تک مسلسل چلی… جن دنوں جماعت کے ساتھی، بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کے اجتماع میں مصروف تھے انہیں دنوں محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جمعۃ المبارک اور جمعۃ المبارک میں کثرت درود شریف کی آواز لگی… ابتداء میں اندازہ نہیں تھا کہ اس مہم میں  اللہ  تعالیٰ اتنی برکت عطاء فرمائیں گے… مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ بات محسوس ہوئی کہ اس مہم پر الحمدﷲ خوب نصرت نازل ہورہی ہے… جمعۃ المبارک کے فضائل قرآن مجید میں بھی موجود ہیں اور احادیث نبویہ میں بھی، کل تھوڑی سے کوشش کی کہ اُن احادیث کو شمار کیا جائے جن میں جمعۃ المبارک کے فضائل اور احکامات وارد ہوئے ہیں… ماشاء اللہ احادیث صحیحہ کی اچھی خاصی مقدار جمع ہو گئی… ہمارے زندہ دل اسلاف تڑپ تڑپ کر مسلمانوں کو جمعۃ المبارک کی طرف بلاتے رہے… مگر شیطانی قوتوں نے ’’جمعۃ المبارک‘‘ کے گرد اپنے ایسے ایسے مورچے کھود لئے ہیں کہ اکثر مسلمان ’’جمعۃ المبارک‘‘ کی حقیقت، امان اور لذت سے محروم رہتے ہیں… حالانکہ یہ مبارک دن مسلمانوں کی عید ہے اور عید الفطر اورعید الاضحی کے دنوں سے بھی افضل ہے… اور قیامت کے دن جمعۃ المبارک کو زندہ کرنے والے افراد کی شان ہی الگ ہو گی… اُن کے چہرے برف سے بھی زیادہ حسین سفیدی سے چمک رہے ہوں گے… اورجمعہ کا دن خود اُن کو اپنے ساتھ بڑے امن، امان اور اکرام کے ساتھ جنت میں لے جائے گا… ہمارے حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے جمعۃ المبارک کا دن پانے کا سب سے اہم وظیفہ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ… ہم جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت کریں… ہم جمعہ کے غسل کا اہتمام کریں… ہم جمعہ نماز کے لئے جلد مسجد پہنچیں… ہم جمعہ کے خطبہ کو توجہ سے سنیں اور ہم جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت اور دعاء کا اہتمام کریں…

الحمدﷲ دس ہفتے تک مکتوب کا سلسلہ جاری رہا اور ماشاء  اللہ  بہت سے افراد تک دین کا یہ اہم پیغام پہنچا… اور یوں کئی مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے فتنوں سے بچنے کی ’’کہف الایمان‘‘ واضح ہو گئی… ہم  اللہ  تعالیٰ کے اس احسان اور نعمت پر اُس کا شکر ادا کرتے ہیں…

اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتْ

مخلوق کا شکریہ

الحمدﷲ! مسلمان مردوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اس مہم، اس یاد دہانی اور اس دعوت کو قبول فرمایا… کار گذاری لینے کا کوئی مستقل نظام نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت تھی مگر… الحمدﷲ مختلف ذرائع سے بہت قابل شکر کار گذاری آتی رہی… جمعۃ المبارک کی نماز کے لئے جلدی مسجد پہنچنے کے معاملہ میں… مسلمان کافی غفلت اور سستی کرتے ہیں… الحمدللہ اب کئی افراد نے اپنی اس عادت کو تبدیل کیا ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں تاحیات اس پر استقامت عطاء فرمائے… جبکہ درود شریف کی کثرت کی طرف ماشاء اللہ مسلمانوں کی بہت توجہ ہوئی…

یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا انعام ہے کہ اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے… مہم کے اثرات ملک سے باہر دوسرے ممالک تک بھی پہنچے… اور گھروں میں جب درود شریف کی رحمت اتری تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی

اَللّٰھُمَّ صِلِّ عَلیٰ سَیَّدِنَا مُحَمَّدٍ

 کا ورد اور اس ورد میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگے… بعض گھرانوں میں یہ مقابلہ لاکھوں کے عدد تک پہنچا، جبکہ ہزاروں کے عددوالوں کی تعداد ماشاء اللہ بہت زیادہ رہی… مسلمانوں کی طرف سے اپنے سے زیادہ تعداد کی کارگذاریاں آتیں تو اپنا سر شرم سے جھک جاتا کہ دیکھو! ماشاء اللہ یہ افراد اس معاملہ میں کتنا آگے نکل گئے… تب ہاتھ خود بخود اُن سب افراد کے لئے دعاء کو اٹھ جاتے… چلیں ہم ان اہل ذوق کے لئے دعاء کریں گے تو ان شاء اللہ اُن کے عمل میں شریک ہو جائیں گے… مکتوب خادم کو قبول فرمانے والے اور اس پر عمل کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعاء کی سعادت تو الحمدللہ ملتی رہی… آج اُن سب کا باقاعدہ شکریہ بھی ادا کرتے ہیں…

جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین

شہید کی کرامت

کشمیری مسلمان شروع سے ’’عاشق مزاج‘‘ ہیں… صحراؤں اور پہاڑوں کے فطری ماحول میں رہنے والے افراد اکثر زندہ دل ہوتے ہیں… عاشق مزاج اور بہادر… اور عاشق مزاج افراد پر دین اسلام کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے… کیونکہ دین اسلام عشق ہی عشق ہے… اور یہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین دین ہے… کشمیر میں صوفیاء کرام کی آمد رہی… اورصوفیاء کرام قلوب پر محنت کرتے ہیں… کشمیری قوم کا جہاد میں آنا بھی اُن کے ’’ عاشق مزاج‘‘ ہونے کی بڑی دلیل ہے… یاد رکھیں! جہاد عشق الہٰی کا سب سے اونچا مقام ہے… وہ دیکھیں! ہمارے پیر جی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ  کیا فرماتے ہیں!!

مَنْ کَانَ یَخْضِبُ خَدَّہٗ بِدُمُوْعِہٖ

فَنُحُورُنَا بِدِمَائنَا تَتَخَضَّبُ

ارے بہتے آنسوؤں کے ذریعے اپنے عشق کا اظہار کرنے والے سچے عاشقو!

تمہارا عشق بھی بہت اونچا… عشق کے آنسو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے اس کے لئے بڑا سچا دل درکار ہوتا ہے… اکثر لوگ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اپنے شکوؤں، شکایتوں اور دکھوں کے آنسو بہاتے ہیں… عشق کے آنسو کسی کسی کو نصیب ہوتے ہیں… مگر اے عاشقو! ذرا ہمارے عشق کی گرمی اور گہرائی کا بھی اندازہ لگاؤ کہ… ہم تو عشق میں اپنی گردنوں کا لہو پیش کرتے ہیں… یعنی جان سے بھی گذر جاتے ہیں…

یہ جملہ انہوں نے شہداء اور مجاہدین کی طرف سے تحریر فرمایا تھا… اور زمانے کے بڑے ولی حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کی تصدیق فرمائی…

میں سوچتاہوں، جماعت میں الحمدللہ کئی مہمات چلیں… مگر درود شریف کی عاشقانہ مہم اُن دنوں اُتری جب ہم سب… بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب اوراُن کے اجتماع کی تیاری میں تھے… محمد افضل گورو… ایک سچا مسلمان، ایک سچا مجاہد، ایک سچا عاشق، ایک سچا شہید… اور ہمارے زمانے کا افتخار… کیا بعید ہے کہ بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ  کو ’’درود شریف‘‘ کا خاص ذوق ہو… اور اُن کی راتیں کثرت درود شریف سے مٹھاس پاتی رہی ہوں… ویسے بھی درود شریف کی کثرت کرنے والوں کے لئے شہادت زیادہ آسان اور میٹھی ہو جاتی ہے… بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ  کے اجتماع کی بہت سی ’’کرامات‘‘ تو سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لی ہیں… اس اجتماع کی خوشبو بھی دور دور تک پھیلی اور اس کے رعب کے جھٹکے بھی دشمنان اسلام کے لئے زلزلہ سے کم نہیں تھے… خبروںمیں آیا ہے کہ اجتماع کے بعد سے اب تک انڈیا دو بار مکمل ہائی الرٹ پر جا چکا ہے… آپ جانتے ہوں گے کہ ہائی الرٹ پر جانے کا معمولی خرچہ بھی اربوں میں ہوتا ہے… اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمعۃ المبارک اور درود شریف کی مہم بھی… اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھائی محمد افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک کرامت بن کر ہمیں نصیب ہوئی ہے…

والحمدللہ رب العالمین

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللّٰھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر440

کامل ترین چار خواتین میں سے ایک

عزم و ہمت اور ایمانی بلندی کی روشن مثال…

خواتین کے لئے بہترین عملی نمونہ سیّدہ آسیہ  علیہا السلام

اور اس زمانے میں سیّدہ آسیہ کی قربانی کا نمونہ محترمہ عافیہ صدیقی فکر اللہ اسراھا…

دجالی اور فرعونی سوچ کیا ہے؟…

امریکہ دجال اکبر نہیں دجل کا ایک نمونہ ضرور ہے…

فرعون کے مظالم اور سیّدہ آسیہ  علیہا السلام کا مثالی صبر…

امریکی نظام اور محترمہ عافیہ کی مثالی استقامت…

سیّدہ آسیہ بھی کامیاب اور بہن عافیہ بھی کامیاب…

لا الہ الا اللہ کی حقیقت اور بلندی سمجھاتی اور عزم و ہمت

کے راستے کو واضح کرتی ایک روشن تحریر

 

 

سیّدہ آسیہ سے بہن جی عافیہ تک

 اللہ  تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں ہم سب کا تذکرہ موجود ہے…

ارشاد فرمایا:

فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

’’ہم نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے‘‘

امریکہ کی جیل کے کسی تاریک سے سیل میں… میری اور آپ سب مسلمانوں کی پاکیزہ بہن عافیہ صدیقی… جب قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہوں گی تو انہیں کونسی آیات میں اپنا تذکرہ نظر آتاہو گا؟… دشمنوں کی قید میں قرآن مجید کی والہانہ تلاوت عجیب لذت بخش ہوتی ہے…

 سبحان  اللہ ! قرآن مجید میں تو  اللہ  تعالیٰ بولتے ہیں، جب قیدی قرآن مجید میں  اللہ  تعالیٰ کو سنتا ہے تو زخمی دل پر مرہم لگتا ہے… ہاں! میں سب سے کٹ گیا مگر میراپیارا رب میرے ساتھ ہے میرا عظیم رب میرے پاس ہے… دو چاردن مشرکوں کی قید ہم نے بھی دیکھی، قرآن مجید کی بعض آیات پڑھتے وقت انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں… یہ دراصل اُن آیات کی خاص روشنی ہوتی ہے جو دل پر پڑتی ہے… انسان اُس وقت صرف اُس روشنی میں کھوجاتا ہے مگر چند دن یا چند سالوں کے بعد وہ اُن آیات کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے… ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بہن’’ عافیہ‘‘ جیل میں اکیلی جب تلاوت کرتی ہو گی تو اُس پر کون کون سی آیات چمکتی ہوں گی؟… ہاں بے شک بہت سی آیات! عافیہ بہن نے ایمان، عزم اور عزیمت کا جوراستہ اختیار کیا… اُس کا مقام بہت اونچا ہے… یقیناً وہ قرآن مجید کی کئی آیات میں اپنا تذکرہ اور اپنا مقام پاتی ہوں گی… تب کتنے آنسو ٹپ ٹپ برستے ہوں گے… کان متوجہ ہوتے ہوں گے کہ

وَالْعادِیٰتِ ضَبْحًا

مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپیں کب سنائی دیں گی… اور

وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ

 پر دل بھر آتا ہوگا…مگر میں سوچتا ہوں کہ بہن جی عافیہ جب… حضرت سیّدہ آسیہ علیہا السلام کا تذکرہ پڑھتی ہوں گی تو اُن پر قرآن مجید کے انوارات کس تیزی سے برستے ہوں گے…

  اللہ  تعالیٰ ایمان والوں کی مثال کے طور پر… فرعون کی بیوی کو پیش فرماتے ہیں…

دیکھو!ایمان ہو تو ایسا… عزم ہو تو ایسا، قربانی ہو تو ایسی، شوق ہو تو ایسا، اور انجام ہو تو ایسا…

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

کیا اس زمانے کے فرعون کی قید میں ظلم سہتی ’’عافیہ‘‘ کو… پرانے زمانے کے فرعون کے مظالم سہتی ’’آسیہ‘‘ کے تذکرے سے سکون نہیں ملتا ہو گا…

امریکہ اور فرعون کے درمیان بہت سی مشابہتیں ہیں… قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے… اس کے حروف، الفاظ، اسماء اور زیر زبر تک میں بڑے بڑے راز اور بڑے بڑے نکتے پوشیدہ ہیں… فرعون کو بار بار ذکر فرمایا، بے کار ہر گز نہیں… بلکہ زمین پر فرعونوں نے بار بار آنا ہے… فرعون ایک شخص تھا مگر فرعونیت ایک سوچ ہے اور ایک مزاج ہے… آپ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فرعون کا تذکرہ ہے اُن کو الگ کاغذ پر لکھ لیں…پھر انہیں ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ کر فرعون کی سوچ، فرعون کا مزاج، فرعون کا طرز عمل… اور فرعون کا طریقہ حکمرانی لکھ لیں… پھر امریکہ کو دیکھتے جائیں آپ حیران ہوں گے کہ نوے فیصد باتیں، پالیسیاں اور طریقہ کار بالکل ایک جیسا ہے…مجھے آج اپنی بہن جی عافیہ صدیقی کا تذکرہ کرنا ہے… اُن کو امریکہ کی قید میں گیارہ سال بیت گئے… اُن کی قید اور اسارت ہمارے دلوں پر ایک سلگتے انگارے جیسا زخم ہے… اس لئے میں امریکہ اور فرعون کے درمیان مشابہتوں کو نہیں گنواتا کہ بات دوسری طرف نکل جائے گی… کچھ لوگ امریکہ کو’’دجال اکبر‘‘ کہتے ہیں… یہ لوگ غلطی پر ہیں…

ممکن ہے امریکہ نے خود یہ سوچ ان لوگوں میں پھیلائی ہو کہ… وہ’’دجال اکبر‘‘ ہے… نہیں بالکل نہیں… وہ دجّالی فتنہ ضرور ہے اور چھوٹا موٹا دجال بھی اسے کہہ سکتے ہیں مگر وہ’’دجال اکبر‘‘ نہیں… دجّال اکبر کی سوچ اس لئے پھیلائی جاتی ہے تاکہ مسلمانوںکے ہاتھ پاؤں خوف سے ڈھیلے ہو جائیں… اور وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ یہ دجال اکبر ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے بس میں نہیں… اسے ختم کرنے کے لئے حضرت سیّدنا عیسیٰ  علیہ السلام… اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں گے… اُن کے آنے تک ہم غلامی برداشت کریں…دجال کی ایک آنکھ والی تصویریں، خوف اور دہشت پھیلانے والی موویاں، سازشوں کے انکشاف کرنے والی خوف آلود کتابیں… یہ سب کچھ بالکل غلط بلکہ خود دشمنان اسلام کی چالیں ہیں… امریکہ اس زمانے کا فرعون ہے… فرعون کے پاس جادوگروں کی طاقت تھی… امریکہ کے پاس سائنسی ٹیکنالوجی ہے… فرعون کے جادوگر لوگوں کوہیبت زدہ کر دیتے تھے…

وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَآءُ وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ

امریکہ کی ٹیکنالوجی بھی بالکل وہی اثردکھاتی ہے… مگر ایک خشک لاٹھی نے اس جادو کا رعب توڑ دیا… جس طرح آج کے لاٹھی بردار مجاہدین اور فدائیوں نے امریکہ کی جنگی ٹیکنالوجی کا رعب خاک میں ملا دیا ہے… فرعون خاندانی منصوبہ بندی کا بانی تھا… مرد کم ہوں عورتیں زیادہ تو قوم کو غلام بنانا آسان… آج مسلمان ممالک میں اسی فرعونی تھیوری پر کام جاری ہے… فرعون کے پاس جنگی طاقت تھی، افرادی قوت تھی اور لوگوں کو اپنا غلام بنانے کا جنون… اس کی طاقت اپنے زمانے کے اعتبار سے امریکہ سے زیادہ تھی… کیونکہ اُس سے لڑنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا… بات دور نکل رہی ہے… خلاصہ بس اتنا ہے کہ امریکہ ختم نہیں ہوگا… جس طرح فرعون کا جسم آج تک موجود ہے… مگر اس کی فرعونیت ختم ہو گئی… اب وہ ایک بے جان لاشہ ہے… امریکہ بھی روئے زمین کے ایک خطے کا نام ہے… یہ خطہ موجود رہے گا مگر امریکہ کی امریکیت ختم ہو جائے گی… اس کے اندر غلام قوموں کا طوفان اٹھے گا… اور دوسری طرف سمندر اس پر چڑھ دوڑیںگے… اور یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ امریکہ کی حکومت اُس کے ’’رعب‘‘ پر قائم ہے… اسی رعب کو قائم رکھنے کے لئے وہ مسلمانوں میں اپنا خوف پھیلاتا ہے… مگر مجاہدین نے اس کے اس رعب کو پنکچر کر دیا ہے… یہ رعب جیسے جیسے گھٹتا جائے گا امریکہ میں موجود قومیں اپنے حقوق کے لئے سراٹھاتی چلی جائیں گی… یہ اچھاوقت ہم دیکھیں گے یا ہمارے بعد والی نسل… یااُن کے بعد والی نسل یہ تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے… ہم بہرحال اُس زمانے میں ہیں جب امریکہ اس زمین کے فرعونوں میں سے ایک بڑا فرعون ہے… اور ہم ’’نَبِیُّ الْمَلْحَمَہ‘‘  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کے اُمتی ہونے کے ناطے… اس فرعون کے مقابلے پر کھڑے ہیں… اور ان شاء اللہ اس مقابلہ میں مسلمان ہی کامیاب اور سرفراز ہوں گے… ہماری مظلوم اور عظیم بہن عافیہ صدیقی… اس زمانے میں حضرت آسیہ  علیہا السلام کی مثال ہیں… آسیہ فرعون کے گھر میں بہت راحت سے تھیں… بہت بڑا محل تھا ہزاروں باندیاں اورغلام خدمت پر مامور تھے… محل کے اندر پوری دنیا کی نعمتیں جمع تھیں… حتی کہ دریا کا رخ موڑ کر محل میں نہریں اور ساحل بنائے گئے تھے… ان سب نعمتوں کی وہ تن تنہا مالک تھیں… مگر پھر اچانک یہی ’’محل ‘‘اُن کے لئے قید خانہ اور عقوبت خانہ بن گیا… کیونکہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ

فرعون غصے سے پاگل ہو گیا… وہ خود کو ربّ اور سپر پاور کہلواتا تھا اور دنیا کو اپنے قدموں پر جھکاتا تھا… اس کی تویہ کوشش تھی کہ آسمانوں پر بھی اس کی حکومت قائم ہوجائے… اس نے اس کام کے لئے ایک بڑے ماہر تعمیر سائنسدان کی خدمات حاصل کیں… علماء لغت نے ’’ھامان‘‘ کے لفظ کی تحقیق کی ہے … ہامان جو فرعون کا وزیر تھا… ھامان کہتے ہیں ارضیات، تعمیرات اور سائنس کے ماہر کو… امریکہ بھی چاند کی طرف، مریخ کی طرف اور کائنات کے ذرہ اولیٰ کی طرف چھلانگیں لگا رہا ہے… کیونکہ زمین عجیب جگہ ہے… یہاں ہر مکھی اور مچھر کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ بس وہی سب کچھ ہے… اور اب اُسے خدائی کے رتبے تک (نعوذباللہ) پہنچ جانا چاہئے…یہی شبہ فرعون کو تھا یہی شبہ تاتاریوں کو تھا… یہی شبہ سوویت یونین کو تھا اور آج یہی شبہ امریکہ کو ہے… اور انڈیا بھی کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی شائد کچھ بن جائے… اللہ تعالیٰ کی تقدیر ان بیو قوفوں کی چھلانگیں دیکھ کر مسکراتی ہے… آسیہ کے لئے کفر پر رہنے میں ظاہری فائدہ ہی فائدہ تھا… اور ہر طرح سے عیش ہی عیش تھی… آج کل کئی لوگ بہن جی عافیہ کا موازنہ’’ملالہ‘‘ کے ساتھ کرنے بیٹھ جاتے ہیں… توبہ، توبہ، توبہ… ان دونوں میں نسبت ہی کیا ہے… ایک ایمان کی علامت ہے تو دوسری نفاق کا سمبل… ایک آزادی کا استعارہ ہے تو دوسری غلامی کا نشان… ایک ایمان و عزم کی خوشبو ہے تو دوسری گندے ڈالروں اور ناپاک ایوارڈوں سے لت پت… ایک غیرت اور حیاء کا پاکیزہ چشمہ ہے تو دوسری پوری اُمت مسلمہ کے لئے شرم اور عار کا باعث… ایک علم، تقویٰ، بہادری اور قربانی کاپیکر ہے تو دوسری جہالت، شرارت، حرص اور لالچ کا مجسّمہ… ایک وہ ہے کہ جس کا نام سنتے ہی گناہگاروں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں… اور دوسری وہ ہے جس کا نام مسلمانوں کو گالی اور طعنہ دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے… ایک وہ ہے کہ جس کی پاکیزہ عقیدت نے کتنے بدکار مسلمانوں کو… متقی مجاہد اور جانباز فدائی بنا دیا… اور دوسری وہ ہے کہ جس کے نام پر نفاق اور فسق پھیلایا جارہا ہے…

آج ملالہ کو جو کچھ ملا ہواہے، سیدہ آسیہ کو اس سے ہزاروں گنا زیادہ نعمتیں ملی ہوئی تھیں… وہ جب اُن آسائشوں میں تھیں تو کچھ بھی نہ تھیں… مگر جب انہوں نے اُن سب راحتوں اور عیش و آرام کو چھوڑا تو قرآن مجید کا کامیاب کردار بن گئیں… اب جس مسلمان نے قرآن مجید میں یہ سب کچھ پڑھ رکھا ہو وہ کس طرح سے ملالہ کو کامیاب اور عافیہ کو نعوذباللہ ناکام کہہ سکتا ہے؟… ملالہ جو کچھ کمارہی ہے یہ سب یہیں رہ جائے گا…اور عافیہ جو کچھ بنا رہی ہے وہ قیامت تک چلے گا… دیکھ لینا ملالہ تاریخ کے کوڑہ دان میں گم ہوجائے گی مگر عافیہ کے نام سے تاریخ ہمیشہ زندگی پائے گی… عافیہ بہن کا فرعون، امریکہ ہے… وہ پہلے وہاں گئیں تو آرام و راحت میں تھیں… تعلیم حاصل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری پائی… بڑی پرکشش ملازمتوں کی آفریں آئیں…مگر جب عافیہ نے پکارا:

لاالہ الااللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ

تو امریکہ غصہ سے پاگل ہو گیا… میرے ہاں پڑھنے والی،میری زمین پر پلنے والی ایک عورت… مجاہدین کی حامی، جہاد کی دیوانی، شہادت کی متوالی اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کی خدائی کاانکار کرنے والی؟… بس فرعون کی آنکھیں بدل گئیں… وہی امریکہ جو عافیہ کے لئے محل کی طرح تھا… آج اس کا قیدخانہ ہے… اور اس قید خانے میں رات کے آخری پہر میں ایک آواز ہلکی ہلکی… مگر گہری گہری، آنسوؤں میں بھیگی بھیگی…اٹھتی ہے:

رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃ

اے میرے رب! اپنے پاس جنت میں میرے لئے ایک گھر بنا دیجئے…

وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ

 اور مجھے فرعون اور اس کے کرتوتوں سے نجات عطاء فرمادیجئے…

وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ

اور مجھے ظالموں سے نجات عطاء فرما دیجئے…

فرعون نے سیّدہ آسیہ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے… وہ چاہتا تھا کہ یہ مجھے واپس مل جائے… یہ میرے خلاف سرکشی چھوڑ دے… یہ میری بن جائے… مگر سیّدہ آسیہ… اپنے رب کی بن چکی تھی… وہ جسم اور نفس کے تقاضوں سے بہت اونچی جا چکی تھی… اُس کی نظر میں دنیا اور اس کی ساری دولت ایک حقیرقطرے جیسی ہو چکی تھی… ہاں آسیہ

لاالہ الااللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ

 کے بلند مقام پر جا بیٹھی تھیں… ارے! جو مٹھائیوں اور ٹافیوں کی پانچ سو کمپنیوں کا مالک بن چکا ہے تو کوئی بیو قوف اُسے ایک ٹافی دکھا کر… اُن کمپنیوں کو چھوڑ دینے پر راضی کر سکتا ہے؟… جو اصل عیش دیکھ چکا ہو اُسے دنیا کے عیش بہت ہی حقیر لگتے ہیں… فرعون کا تشدد بڑھتا گیا، غصہ بڑھتاگیا… سیّدہ آسیہ کی آزمائش بھی بڑھتی گئی… وہ بڑے اونچے ذوق والی اور کامل ایمان والی خاتون تھیں… انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اصل بدلہ مانگا… فرعون نے حکم دیا کہ کھال اتارنا شروع کر دو… تب فرشتوں نے جنت کا محل بی بی آسیہ کے سامنے کردیا… ڈاکٹرایک ٹیکہ لگا کر مریض کوایسا بے ہوش اور مدہوش کر دیتے ہیں کہ اُسے آپریشن کی چیر پھاڑ کا درد نہیں ہوتا… ارے! جو جنت دیکھ رہا ہو اس کی مدہوشی کا کیا عالم ہوگا… کھال اترنے کا ذرہ برابر درد نہ ہوا… اور زمین تا آسمان ان کی روح کی خوشبو ایسی پھیلی کہ… کیا پوچھنے…

اور قسمت کا عروج دیکھو! دنیا میں قربانی دی، چند منٹ لگے، اور بدلہ اتنااونچا کہ جنت میں رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی زوجہ بن کر رہیں گی…

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم…

ہاں! بے شک جتنی بڑی قربانی اتنا بڑا مقام…

آسیہ  علیہا السلام  کامیاب… ہماری بہن جی’’عافیہ‘‘ بھی ان شاء اللہ کامیاب… وہ سیّدہ آسیہ کے راستے پر جارہی ہیں… انہوں نے ہمارے زمانے کی عورتوں کی لاج رکھ لی ہے کہ… اُمت مسلمہ کی بیٹیاں کیسی بہادر اور کیسی غیرت مند ہوتی ہیں… بعض لوگ خبروں میں اڑاتے ہیں کہ نعوذباللہ عافیہ بہن کی عصمت دری کی گئی… نہیں، نہیں، ہرگز نہیں… میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی عظیم خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لئے خاص ملائکہ اتارے جاتے ہیں… وہ لاکھ دشمنوں کے درمیان ہوں… اُن پر اور تو ہر ستم ہو سکتا ہے مگر ان کی پاکیزگی اور عفت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھ سکتا… لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ عافیہ بہن جب تک دشمنوں کی قید میں ہیں… پوری اُمت مسلمہ خود کو’’بے آبرو‘‘ محسوس کر رہی ہے…

یا اللہ! بے شمار جانیں حاضر ہیں… غیب سے نصرت فرما… بہن جی عافیہ کو باعزت رہائی عطاء فرما۔

آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر441

سورۃ الفاتحہ...نور، رحمت، شفاء اور ہدایت کا خزانہ...

سورئہ الفاتحہ کا نزول کیسے ہوا؟ ایمان افروز روایت...

سورۃ الفاتحہ کے ہوتے ہوئے مسلمان ہدایت

 سے دُور اور پریشانیوں میں مبتلا کیوں ہیں؟

آیئے! سورۃ الفاتحہ کو سمجھنے اور دل میں اُتارنے کا عہد کریں...

سورۃ الفاتحہ کا بنیادی نکتہ اور ہدایت...

ہدایت کی دُعاء توجہ سے کریں...

استخارہ کی تاکید...غیب کا حال بتانے والوں سے بچیں...

یہ ایمان کے قاتل ہیں...

اللہ والوں سے دعاء کرائیں انہیں غیب دان نہ سمجھیں...

سورۃ الفاتحہ میں ہر مسئلے کا حل...

بہت سے موضوعات کی جامع ایک مفید عام تحریر...

 

الفاتحہ

 اللہ  تعالیٰ نے اپنے ایک خاص فرشتے کو زمین پر بھیجا… اُس دن سے پہلے یہ فرشتہ کبھی زمین پر تشریف نہیں لایا تھا… اس فرشتے کے لئے آسمان کا ایک خاص دروازہ کھولا گیا جس سے وہ زمین پر اُترا… آسمان کا یہ دروازہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا… یہ فرشتہ اپنے رب کا پیغام لیکر ایک صحرائی زمین پر اُترا… وہاں دو عظیم شخصیات تشریف فرما تھیں…

١                    تمام جہان کے سردار حضرت آقا مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 

                        اور

٢                    تمام ملائکہ یعنی فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین  علیہ السلام

فرشتے نے آکر سلام عرض کیا اور فرمایا:

آپ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کو دو نوروں کی بشارت ہو جو پہلے کسی نبی کو عطاء نہیں کئے گئے…ان میں سے ایک نور ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ ہے اور دوسرا نور’’سورہ بقرہ‘‘ کی آخری آیات ہیں…

سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم وَالْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن

یہ جو کچھ اوپر لکھا ہے یہ ایک’’حدیث صحیح‘‘ کا مفہوم ہے، اور یہ حدیث’’مسلم شریف‘‘ میں موجود ہے… لیجئے نور مل گیا، روشنی مل گئی، راستہ مل گیا… آپ میں سے جو پاکی کی حالت میں ہوں… ابھی ایک بار دل کی توجہ سے سورۂ فاتحہ پڑھ لیں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں… امید ہے آپ نے پڑھ لی ہوگی… سبحان  اللہ ! قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت… ایسی سورت جس میں ہمارے ہر مسئلے کا حل موجود ہے… ایسی سورت جو نہ تورات میں نازل ہوئی اور نہ انجیل و زبور میں… ایسی سورت جو خاص طور پر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   اور آپ کی اُمت کو عطاء فرمائی گئی…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ…

ارے بھائیو! اوربہنو! اپنے مسلمان ہونے پر شکر ادا کرو… اگر کوئی صرف سورۂ فاتحہ کے نور کی ایک جھلک دیکھ لے تو اسے اندازہ ہو جائے کہ اسلام کتنی بڑی نعمت ہے اور کلمہ طیبہ کتنی عظیم نعمت ہے… کلمہ طیبہ کی برکت سے ہمیں سورۂ فاتحہ مل گئی…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ…

دیکھیں سورۃ فاتحہ میں ایک وسیع جزیرہ ہے… عبدیت اور طاقت کا شاندار پُرسکون جزیرہ… اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن… بس ایک کی غلامی میں آکر ہر غلامی سے آزاد ہو جائو… ایک کی بندگی میں آکر ہر ذلت اور ہر طاقت کی بندگی سے نجات پا جائو… اور ایک سے مدد مانگ کر ساری مخلوق کی محتاجی سے بچ جائو… دنیا بھر کے کافر مشرک اور منافق اس پُر کیف جزیرے سے محروم… ہر ذلت ہر غلامی اور ہر محتاجی میں جکڑے ہوئے… چلو وہ تو جدیدیت اور مادہ پرستی کے پجاری مگر ایمان والوں کو کیا ہوا… مسلمانوں کو کیا ہوا کہ سورہ فاتحہ سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے… سبحان  اللہ … الفاتحہ، الفاتحہ، الفاتحہ… کھولنے والی، رستہ دکھانے والی، تاریکیوں کو توڑنے والی… گمراہیوں کو شکست دیکر ہدایت کی فتح کے جھنڈے گاڑنے والی سورہ فاتحہ…تعجب ہے ہم پر کہ ہمارے پاس سورہ فاتحہ موجود ہے مگر ہم پھر بھی دھکے کھا رہے ہیں… اچھا ایک بات بتائیں! آج صبح سے اب تک آپ نے کتنی بار سورہ فاتحہ پڑھی ہے؟… نماز کی ہر رکعت میں تو ضرور پڑھی ہو گی، مگر یہ بتائیں کہ کتنی بار سمجھ کر توجہ سے پڑھی؟… ہاں! شاید ایک بار بھی نہیں… ہم تو نماز میں سورہ فاتحہ اتنی جلدی پڑھتے ہیں جیسے ہمارے پیچھے کوئی بھیڑیا لگا ہوا ہو اور ہم جان بچانے کو بھاگ رہے ہوں… آہ! افسوس، جس عظیم سورۃ کے ہر جملے پر بادشاہوں کے شہنشاہ حضرت رب العالمین خود جواب عطاء فرماتے ہیں، ہم اس سورت کو بھی جلدی جلدی بے توجہی سے پڑھ جاتے ہیں… نہ توجہ، نہ سمجھ، نہ شوق نہ ولولہ… نہ محبت نہ مناجات، نہ عظمت، نہ احترام… اور نہ اپنے محبوب رب سے گفتگوکرنے کی کیفیت اور حلاوت…

موبائل یاریاں کرنے والوں کو دیکھا ہو گا کہ ناپاک آوازوں میں کیسے کھوئے کھوئے ہوتے ہیں… اور ہم اپنے عظیم رب سے مناجات کرتے وقت… نہ اُن کی عظمت سے لرزتے ہیں اور نہ اُن کے شوق میں پگھلتے ہیں… ارے! سورہ فاتحہ کے ہر جملے پر  اللہ  رب العالمین خود جواب عطاء فرماتے ہیں:

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ…

آج سے نیت کر لیں کہ ہم ان شاء  اللہ … آئندہ جب بھی سورہ فاتحہ پڑھیں گے… رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر شوق اور توجہ سے پڑھیں گے… تب ہم پر اس عظیم ترین اور مبارک ترین سورت کے انوارات چھم چھم برسیں گے… تھوڑا سا سوچیں…

آج ہم پر جو سب سے بڑی بیماری مسلّط ہے… وہ ہے ناامیدی،مایوسی اور ناشکری کی بیماری… سورۃ فاتحہ کا پہلا لفظ’’الحمد‘‘… ہمیں شکر گزار بناتا ہے… ہم شکر گزار بن گئے تو تمام مایوسیاں، ناکامیاں اور ناشکریاں منہ چھپا کر بھاگ جائیں گی… ہم آج رزق، رہائش اور معیشت کے مسائل سے دوچار ہیں… سورہ فاتحہ میں’’ربّ العالمین‘‘ موجود ہے… جس کو ربّ مل جائے گا یعنی خوب دیکھ بھال کر کے محبت کے ساتھ پالنے والا… تو پھر اور کیا چاہئے؟…

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن…

آج ہم پریشان ہیں، دربدر ہیں، منتشر ہیں اور اس دنیا کے فریبوں میں پھنسے ہوئے مر رہے ہیں، لٹک رہے ہیں… سورہ فاتحہ میں ہمارا مالک موجود ہے جو ہمارے اصل دن کا مالک ہے… مالک مل جائے تو مملوک چیزیں ضائع نہیں ہوتیں… اور آخرت کی فکر نصیب ہو جائے تو دنیا کے مسائل بہت ہلکے ہو جاتے ہیں… دوسری طرف ہم اپنے گناہوں کی وجہ سے، اپنی شامت اعمال سے اور اپنے دشمن شیطان کی سازشوں کی وجہ سے ہر طرح کی زحمتوں اور مصیبتوں میں پھنسے ہوئے ہیں… سورہ فاتحہ میں رحمتوں کا وسیع سمندر موجود ہے… عام رحمتیں بھی اور خاص رحمتیں بھی… دنیا کی رحمتیں بھی اورآخرت کی رحمتیں بھی…

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم… مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن… الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن…

سوچئے اور غور کیجئے! سورۂ فاتحہ میں ہر وہ چیز مل جائے گی، جس کے ہم محتاج ہیں اور جس کے ہم آگے محتاج ہوں گے… سب سے بڑی چیز سیدھا راستہ ہے، منزل تک پہنچانے والا راستہ… اسی کو ہدایت کہتے ہیں… وہ بھی فاتحہ میں موجود ہے…

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

 اللہ  والے بندے تو بس اسی جملے سے ہی…  اللہ  تعالیٰ کی رہنمائی حاصل کر لیتے ہیں… یہ جملہ ایک طرف’’ ہدایت‘‘ کے لامتناہی دروازے کھولتا ہے تو دوسری طرف بندے کے دل میں’’الہام‘‘ کا دروازہ بھی کھول دیتا ہے … تب اُسے ہر معاملہ میں  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے سیدھی راہ اور ٹھیک راستے کا الہام ہونے لگتا ہے… کئی لوگ تو سورۂ فاتحہ سے ہی استخارہ کر لیتے ہیں… دو رکعت نماز ادا کی، استخارہ کی مسنون دعاء پڑھی… اور پھر سورۂ فاتحہ کے نور میں غوطے لگانے لگے… جب بھی کسی مسئلے نے الجھایا، جب بھی کسی مشکل نے تڑپایا… وہ سورۂ فاتحہ کے ذریعہ روشنی مانگنے لگے… ہمارے چاروں طرف تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے نا؟… شیطان کے اندھیرے، نفس کے اندھیرے، شہوات کے اندھیرے، کم فہمی اور بے علمی کے اندھیرے… روشنی ہو تو کمرے کی ہر چیز نظر آجاتی ہے… اسی طرح نور ہو تو سیدھا اور غلط سب نظر آجاتا ہے… اندھیرے میں گاڑی چلاؤ تو کسی کھائی میں گرے گی… اس کی لائٹیں جلا لو تو مزے سے سیدھی سڑک پر دوڑتے ہوئے منزل تک جا پہنچو… سورہ ٔفاتحہ کے ’’نور‘‘ ہونے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا… مگر نور کو روشن کرنے کے لئے دل کی توجہ اور اخلاص کا بٹن دبانا پڑتا ہے… اخلاص اور توجہ سے سورہ فاتحہ پڑھتے جارہے ہیں… اور جب ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم‘‘ پر پہنچتے ہیں تو… اسے بار بار پڑھتے ہیں…

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

تب نور چمکتا ہے اور ہر مسئلے کا حل اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ نظر آنے لگتا ہے… عرض یہ کر رہا تھا کہ اس میں استخارہ بھی ہے…اچھا:آج ایک بات کا وعدہ کر لیں… آپ یقین کریں آپ یہ وعدہ کرنے کے بعد نہ ان شاء  اللہ  دنیا میں پچھتائیں گے اور نہ آخرت میں…وعدہ یہ کریں کہ’’استخارہ‘‘ کو اپنا معمول بنائیں گے… اور کبھی بھی، جی ہاں! کبھی بھی کسی اور سے اپنے لئے استخارہ نہیں کرائیں گے… یاد رکھیں! استخارہ بہت اونچا اور مبارک عمل ہے… حضرات صحابہ کرام کو استخارہ یوں سکھایا جاتا تھا جس طرح سے قرآن مجید کی آیات سکھائی جاتی ہیں… استخارہ انسان کی زندگی کو خیر اور رحمت سے بھر دیتا ہے… صرف پانچ منٹ کا عمل اور فضائل و فوائد ہمیشہ ہمیشہ کروڑوں اور اربوں سالوں سے بھی زیادہ کے… مگر کسی اور سے اپنے لئے استخارہ کرانا اچھا کام نہیں… اوراس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوتا… کیا نعوذب اللہ  ہم یہ سمجھتے ہیں کہ…  اللہ  تعالیٰ ہماری نہیں سنتے اور فلاں کی سنتے ہیں؟… توبہ توبہ  اللہ  تعالیٰ سے ایسی بدگمانی… کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں استخارہ کا جواب سمجھ نہیں آتااس لئے دوسروں سے کراتے ہیں… یہ بھی غلط… استخارہ کا کوئی جواب ہوتا ہی نہیں… بلکہ استخارہ کے بعد خیر کاراستہ خود کھل جاتا ہے اور شر کا راستہ خود بند ہوجاتا ہے… نہ خواب، نہ الہام اور نہ کچھ اور… ہمارے ہاں کچھ لوگ نجومیوں سے مستقبل کے حالات پوچھتے ہیں…سفر ٹھیک ہے یا نہیں؟… فلاں تجارت نفع مند ہو گی یا نہیں؟ فلاں رشتہ اچھا ہوگا یا نہیں؟… نجومیوں کے ہاں جو جاتاہے وہ ایمان سے دور ہوجاتا ہے… حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے بہت سخت وعید فرمائی ہے… اور نجومیوں کی تصدیق کرنے کو کفر جیسا قرار دیا ہے… اب جو لوگ ان وعیدوں کی وجہ سے نجومیوں کے پاس نہیں جا سکتے… مگراُن کو بھی ہر وقت دنیا کے مسائل کی فکر اور خواہش لگی رہتی ہے… انہوں نے اس کا متبادل نکال لیا ہے کہ فلاں سے استخارہ کرالو… اور اس میں انداز بالکل نجومیوں والا ہوتا ہے کہ جی ہم نے فلاں سے استخارہ دکھلوایا ہے…

اِنَّالِلہِ وَاِنَّا اَلِیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّالِلہِ وَاِنَّااَلِیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّالِلہِ وَاِنَّااَلِیْہِ رَاجِعُوْن…

آہ مسلمان!  اللہ  تعالیٰ نے تیرے لئے اپنے ہاں ایک دروازہ کھولا اور تو دوسروں کی ڈیوٹی لگا رہا ہے کہ وہ اس دروازے پر جا کر تیرے مستقبل کے بارے میں  اللہ  تعالیٰ سے پوچھ آئیں… بھائیو! آپ جن سے استخارہ کرواتے ہیں، کبھی جا کر خود اُن کے حالات دیکھیں کہ وہ کیسی پریشانیوںمیں ہوتے ہیں… اگر اُن کے پاس عرش سے ہر ’’خیر‘‘ پوچھنے کا موبائل ہوتا تو وہ اپنے لئے ہر خیر جمع کر لیتے، نہ کبھی بیمار ہوتے نہ کبھی تکلیف پاتے، نہ کبھی ان کا حادثہ ہوتا… علم غیب تو  اللہ  تعالیٰ کا خاصّہ ہے… اور استخارہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں… بلکہ استخارہ تو بندگی کا ایک قرینہ ہے کہ  اللہ  تعالیٰ سے خیر کی دعاء مانگی جائے اور شر سے بچانے کی درخواست کی جائے…  اللہ  تعالیٰ نے اس عمل میں یہ تأثیر اور برکت عطاء فرما دی ہے کہ جو شخص اپنے معاملات میں استخارہ کرتارہے… یعنی اللہ تعالیٰ سے پوچھ پوچھ کر چلے تو  اللہ تعالیٰ اُسے ایک خاص قوت اور روشنی عطاء فرما دیتے ہیں… آپ سب اپنے معاملات کا ضرور استخارہ کیا کریں… مگر کبھی بھی کسی اور سے اپنے لئے ہرگز ہرگزاستخارہ نہ کرائیں… اس سے عقیدہ بھی بگڑتا ہے، عمل بھی خراب ہوتا ہے… اور انسان توہم پرست بن کر بالآخر نجومیوں اور غلط عاملوں کے ہاتھوں اپنا ایمان کھو بیٹھتا ہے…

ہاں، اللہ والوں اور نیک لوگوں سے مشورہ کیا کریں… اُن سے دعاء کرایا کریں اور اُن سے شرعی رہنمائی لیا کریں… مگر اُن کو غیب دانی، اور مستقبل کے خیر و شر کے فیصلے کرنے کی ڈیوٹی نہ دیں… کئی نیک لوگ اس لئے لوگوں کے ’’استخارے‘‘ کر دیتے ہیں کہ اگر ہم نے نہ کئے تو یہ باز نہیں آئیں گے بلکہ کسی نجومی یا غلط عقیدہ کے عامل کے پاس چلے جائیں گے… چنانچہ وہ دعاء کرکے کسی ایک پہلو کا فیصلہ سنا دیتے ہیں… حالانکہ انہیں بھی کچھ نظر نہیں آتا… اور نہ شریعت میں ایسے شعبدے موجود ہیں…بس جن میں کچھ روحانیت ہوتی ہے وہ اپنی دعاء، اپنے رونے دھونے اور اپنی عاجزی کے ذریعہ روشنی پانے کی کوشش کرتے ہیں… اور پھر ان کی طبیعت کا رجحان جس طرف ہو وہ بتا دیتے ہیں… ان کی نیت اچھی ہوتی ہے… مگر بہتر یہ ہوگا کہ وہ سامنے والے کو پوری حقیقت بتا دیا کریں…اورخود استخارہ کرنے کی ترغیب دیا کریں… آپ آج تو اس شخص کو نجومیوں اور غلط عاملوں سے بچالیں گے مگر… کل کیا ہوگا؟… اس کی عادت اگر یہی بن گئی کہ ہر سفر سے پہلے، ہر رشتہ سے پہلے اور ہرکام سے پہلے اسے مستقبل میں خیر کی گارنٹی درکار ہوئی تو یہ… ضرور نجومیوں اور غلط عاملوں کے ہاتھوں پھنسے گا… اس لئے اچھا ہے کہ اس کو خیر اور شر کی تقدیر، علم غیب کا مسئلہ اور استخارہ کی حقیقت آج ہی سمجھا دی جائے… تاکہ اگر اس کی قسمت اچھی ہو تو اس کا ایمان بچ جائے…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

بات سورۂ فاتحہ کی چل رہی تھی… بہت سی اہم باتیں رہ گئیں… مگر موضوع استخارہ کی طرف پھسل گیا، دراصل کافی عرصہ سے استخارہ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہے مگر وہ پورا نہیں ہورہا… ہر طرف’’استخارہ سینٹر‘‘ کھل رہے ہیں… سنا ہے ٹی وی پر بھی استخارہ کے پروگرام چل رہے ہیں…ایسے لوگ بھی دوسروں کے استخارے کر رہے ہیں جو خود قدم قدم پر بھٹکتے ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں… فیس لیکربھی استخارے کئے جارہے ہیں… آہ! افسوس استخارہ جیسا مقدس لفظ بھیڑیوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے… کاش! وہ اپنے ان نجومیانہ کاموں کا’’استخارہ‘‘ کے علاوہ کوئی اور نام رکھ لیتے… سورہ ٔفاتحہ میں الحمدللہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے… یہ سات آیات ہیں… جو سات آسمانوں اور سات زمینوں پر حاوی ہیں… یہ سات آیات جہنم کے سات دروازے بند کر دیتی ہیں… یہ سات آیات ہر روحانی اور ظاہری ترقی کو سات آسمانوں سے اوپر لے جانے کی طاقت رکھتی ہیں… آپ آج ارادہ کر لیں کہ…سورۂ فاتحہ کا ترجمہ یاد کریں گے، سورہ فاتحہ کو صحیح تلفظ سے پڑھیں گے… اور نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت ٹھہرٹھہر کر توجہ سے کریں گے… اور اپنے معاملات، بیماریوںاور پریشانیوںکے حل کے لئے… سورہ فاتحہ پڑھیں گے… باقی باتیں پھر کبھی ان شاء اللہ…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللّھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا  اللہ  محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر442

سچا یار... قرآن مجید عظیم الشان...

افسوس کہ اس کے حقوق سے غفلت عام ہے...

موبائل اور انٹرنیٹ قبر کا اندھیرا ہیں .... ان کے لئے وقت وافر...

قرآن مجید قبر کا سب سے بہترین ساتھی ہے.... اس کے لئے وقت نہیں...

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینکی قرآن مجید سے محبت...

محبت کی آئینہ دار دُعاء...

سورۃ فاتحہ پورے قرآن مجید کا خلاصہ...

سورۃ کے بارہ نام اور ان کے معارف...

سورۃ الفاتحہ جامع الاذکار...سورۃ الفاتحہ جامع الانوار...

سورۃ الفاتحہ کا جامع خلاصہ جودلوں کو اس سورت کے

ساتھ جوڑ دے اور اس سے فائدہ اُٹھانا آسان کر دے...

سچا یار

 اللہ  تعالیٰ کا اپنے بندوں پر عظیم احسان… القرآن، القرآن…

آہ! آج ہم مسلمانوں کا بہت سا وقت موبائل، نیٹ اور کمپیوٹر پر ضائع ہو جاتا ہے، جی ہاں! تباہ اور برباد ہو جاتا ہے…

اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

وہ کتنے خوبصورت اور حسین لمحات ہوتے ہیں جو کسی مسلمان کے ’’قرآن مجید‘‘ کے ساتھ گزرتے ہیں… بے شک کسی نے سچ کہا ہے کہ قرآن مجید اس دنیا میں’’جنت‘‘ ہے…پڑھنے کا الگ مزا، سننے کا الگ لطف، دیکھنے کی الگ حلاوت، سمجھنے کا الگ ذائقہ، سنانے کی الگ مٹھاس… عمل کرنے کی الگ شان… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہم مرنے والے ہوں گے اورہم سب سے جدا ہو رہے ہوں گے تو اگر ہم نے دنیا میں قرآن مجید کا حق ادا کیاتو… اُس وقت قرآن مجید تشریف لے آئے گا… روح نکلتے وقت بھی ساتھ، غسل اور کفن کے وقت بھی ساتھ… قبر میں بھی ساتھ… فرشتوں کے سؤال کے وقت بھی ساتھ… قبر کی تنہائی میں حشر تک ساتھ ساتھ… پھر میدان حشر میں بھی ساتھ، پل صراط پر بھی ساتھ… ہاں! جب تک جنت میں نہیں پہنچا دے گا اس وقت تک یہ سچا’’یار‘‘ ساتھ ساتھ رہے گا…

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…

ڈاک میں کوئی لکھتا ہے کہ تلاوت میں سستی ہوجاتی ہے… توبہ توبہ مسلمان اور تلاوت میں سُستی؟… کیا قبر میں اکیلے رہنے کا ارادہ ہے؟… یا اپنا موبائل سیٹ اور لیپ ٹاپ ساتھ دفن کرانا ہے… وہاں کوئی کمپنی سروس نہیں دے گی، قبر دیکھنے میں تو زمین پر ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بالکل الگ دنیا ہے اور الگ جہان… وہاں زونگ،موبی لنک اور وارد کی سروس نہیں چلتی… وہاں ڈالر، پونڈ، یورو، ریال اور روپے نہیں چلتے… وہاں بجلی، گیس وغیرہ سے روشنی نہیں ہوتی… وہ الگ جہان ہے کسی کے لئے بہت اونچا اور بہت کشادہ… تب اُس کا نام ہوتا ہے’’عِلِّیِّیْن‘‘ اور کسی کے لئے بہت گہرا، بہت تنگ اور تاریک تب اُس کا نام ہوتا ہے’’سِجِّیْن‘‘…

وہاں جو چیز بہت کام آتی ہے وہ ہے… قرآن مجید… یہ آج ہمارے پاس آسانی سے موجود ہے… آپ کے گھرمیں کئی قرآن مجید ہوں گے… آج اسے پڑھانے والے بھی دستیاب ہیں، اور سمجھانے والے بھی… اور وقت بھی ہمارے پاس بہت ہے… لیکن اگر یہ روٹھ جائے تو پھر… اس کی ایک آیت کوحاصل کرنے کے لئے کوئی ساری زمین کے خزانے لٹا دے تو وہ آیت نصیب نہیں ہوتی… یاد رکھیں! جس دن ہم میں سے کسی کی تلاوت رہ جاتی ہے… یہ وہ دن ہوتا ہے جس میں شیطان اس آدمی پر فتح پا لیتا ہے… کیونکہ اب یہ دن کبھی واپس نہیں آئے گا کبھی بھی… اور اس دن کی تلاوت اب کبھی نہ ہو سکے گی، کبھی بھی… اور نامہ اعمال میں یہ دن بغیرتلاوت کے لکھا جائے گا… آہ! افسوس ہم اپنے جسم کے تقاضے کسی دن نہیں بھولتے… جبکہ روح کی غذا اور آخرت کے سرمائے میں ہم سے سستی ہو جاتی ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین، قرآن مجید کے سچے عاشق اور قدر دان تھے… ان میں سے بعض حضرات یہ دعاء مانگتے تھے:

اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ بِالْکِتَابِ بَصَرِیْ

یا  اللہ ! قرآن مجید کے نور سے میری آنکھوں کو روشن فرما دیجئے…

وَاشْرَحْ بِہٖ صَدْرِیْ

اورقرآن مجید کے ذریعہ میرا سینہ کھول دیجئے…

وَاَطْلِقْ بِہٖ لِسَانِی

اور قرآن پاک کو میری زبان پر جاری فرما دیجئے…

وَقَوِّبِہٖ عَزْمِی

اور قرآن پاک کے ذریعہ میرے عزم اورایمان کو قوت دے دیجئے…

ان میں سے کوئی ساری رات تلاوت کرتا تھا، کوئی آدھی رات اور کوئی ایک تہائی رات… ان کی کم سے کم تلاوت سات پارے کی ہوتی تھی… وہ قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے میں محنت کرتے تھے… ایسا ہرگز نہیں کہ وہ فارغ تھے… نہیں وہ تو اپنی روزی بھی خود کماتے تھے… مشرق و مغرب میں جہاد کے لئے بھی جاتے تھے… دیگر عبادات میں بھی بھرپور وقت دیتے تھے… انسانوں کے حقوق بھی مکمل ادا کرتے تھے… ان کی شادیاں بھی تھیں اور بچے بھی… مگر قرآن مجید ان کی روح میں اُتر چکا تھا اس لئے… کوئی بھی عمل انہیں قرآن پاک سے غافل نہیں کرتا تھا… میدان جہاد میں ان کی تلاوت سے گھوڑے تک سکون پاتے تھے اور ان کی جہادی پہرے داری اور رباط کے دوران قرآن مجید ہی اُن کا واحد دوست اور رفیق ہوتا تھا…

رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین…

بات سورۂ فاتحہ کی شروع ہوئی تھی… یہ عظیم الشان سورۃ مبارکہ پورے قرآن مجید کاخلاصہ، بنیاد اور نچوڑ ہے… اس سورۃ میں نور، علم، رزق اور معرفت کے بڑے بڑے خزانے ہیں…  اللہ  تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ اس کے پیارے بندے یہ سورۃ بار بار پڑھیں اور زیادہ پڑھیں… اسی لئے نماز کی ہر رکعت میں اس کو لازم فرما دیا…اہل دل اور اہل علم نے اپنی زندگیوں کے سالہا سال اس مبارک سورۃ کی خدمت پر لگا دیئے… اور اُمت تک اس سورۃ کے معانی، فوائد، نکات اور معارف پہنچائے… اس مبارک سورۃ کے کس کس خادم کا نام لیا جائے… انسان تو کیا بے شمار فرشتے اس مبارک سورۃ کی خدمت پر مامور ہیں… آپ اندازہ لگائیں کہ دنیا میں کتنی مساجد ہیں؟… ان مساجد میں جب امام صاحب سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں… پھر وہ اور اُن کے مقتدی’’آمین‘‘ کہتے ہیں تو ہر جگہ ایسے فرشتے موجود ہوتے ہیں جو اُن کے ساتھ’’آمین‘‘ کہتے ہیں… پس جس کو فرشتوں کی آمین نصیب ہوجاتی ہے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں… امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس مبارک سورۃ کے بارہ نام لکھے ہیں… صرف اُن ناموں پر ہی غور کریں تو دل بے اختیار پڑھنے لگتا ہے…

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن

١                    الصلوٰۃ… رحمت والی، نماز والی، اللہ تعالیٰ سے براہ راست مناجات والی سورۃ…

٢                    سورۃ الحمد… حمد والی سورۃ… بندے کو ساری مخلوق سے کاٹ کر اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی سورۃ…

٣                    فاتحۃالکتاب… قرآن مجید کے آغاز والی سورۃ، پورے قرآن مجید کو کھولنے والی سورۃ…

٤                    اُم الکتاب… پورے قرآن مجید کی بنیاد، پورے قرآن مجید کی اصل، پورے قرآن مجید کا خلاصہ اور نچوڑ…

٥                    اُم القرآن… اس کا بھی وہی مطلب ہے جو اُم الکتاب کا ہے…

٦                    المثانی… بار بار پڑھی جانے والی سورۃ، جس کا بار بار پڑھا جانا مطلوب و مقصود ہے…

٧                    القرآن العظیم… یہ سورۃ گویا خود قرآن عظیم ہے… اور قرآن مجید کی سب سے عظیم سورۃ ہے…

٨                    الشفاء… یہ شفاء والی سورۃ ہے… روح کی بیماریوں کا علاج، عقیدے کی بیماریوں کا علاج… دل کی بیماریوں کا علاج، عمل کی بیماریوں کا علاج… گمراہی کی بیماریوں کا علاج، غضب کی بیماریوں کا علاج… جسمانی بیماریوں کا علاج… ناشکری اور مایوسی کی بیماری کا علاج… الغرض ہر طرح کے امراض سے شفاء کا ذریعہ ہے…

٩                    الرقیہ… یعنی ایسی سورۃ جس کے ذریعہ بیماروں کو دم کیا جاتا ہے…

١٠                الاساس… یعنی بنیاد… دین، دنیا، آخرت اور عقیدہ و عمل سب کی بنیاد اس سورۃ میں موجود ہے…

١١               الوافیہ… پورا پورا فائدہ دینے والی سورت، پورا بدلہ دلوانے والی سورۃ…

١٢               الکافیہ… کافی ہو جانے والی اور کفایت عطاء فرمانے والی سورۃ…

علّامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے اور بھی کئی ناموں کا اضافہ کیا ہے… اُن کے نزدیک اس سورۃ کے ناموں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے…

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…

امام رازی کی تفسیر دیکھیں تو انسان حیران ہو جاتا ہے… سورۂ فاتحہ کی تفسیر اتنی مفصل تحریر کی ہے کہ اگر اردو ترجمہ کیا جائے تو کئی سو صفحات کی کتاب بن جائے… ذکر کا شوق اور ذوق رکھنے والے اہل علم نے’’سورہ فاتحہ‘‘ کو سب سے بڑا اور جامع ذکر قرار دیا ہے… وہ فرماتے ہیں کہ بنیادی ذکر پانچ ہیں:

١                    سُبْحَانَ اللہ                                                                 ٢                    وَالْحَمْدُلِلہ

٣                    لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ                                        ٤                    اَللہُ اَکْبَر

٥                    وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم

اور سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی پانچ صفات کا ذکر ہے… اور ہر صفت میں الگ شان کا ذکر پوشیدہ ہے… اللّٰہ میں ’’ سُبْحَانَ اللہ‘‘ ہے، رَبِّ العَالَمِین میں اَلْحَمْدُ لِلہ ہے، اَلرَّحْمٰن میں ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ ہے، اَلرَّحِیْم میں ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ ہے… مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘ ہے…

اَلْحَمْدُ لِلِہ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلِہ رَبِّ الْعالَمِیْن…

وہ اہل علم جو قرآن مجید کے انوارات اور روشنیوں کو تلاش کرتے ہیں اور ان میں گم ہو کر بڑے بڑے راز تلاش کرتے ہیں…وہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کو پانچ طرح کے انوارات اور روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے…

اور یہ پانچوں اَنوارات سورۂ فاتحہ میں موجود ہیں…

ایک انسان کو کیا چاہئے؟

١                    اسے اللہ مل جائے…

٢                    اس دنیا کی خیر مل جائے…

٣                    اس دنیا کے شر سے حفاظت مل جائے…

٤                    آخرت کے شر یعنی جہنم سے نجات مل جائے…

٥                    آخرت کی خیر یعنی جنت مل جائے…

 سورۂ فاتحہ میں لفظ’’اللہ‘‘ موجود ہے… جسے اس لفظ کا نور نظر آجاتا ہے اس کی روشنی میں وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے اور پالیتا ہے…سورۂ فاتحہ میں’’ربّ العالمین‘‘موجود ہے… اس کی روشنی اگر کسی کو نظر آجائے تو وہ آخرت کی تمام خیریں مانگ اور پاسکتا ہے… سورۂ فاتحہ میں’’الرحمٰن‘‘ موجود ہے اس کا نور اگر نظر آجائے تو دنیا کے تمام مسائل کا حل مانگ سکتا ہے… سورۂ فاتحہ میں ’’الرحیم‘‘ موجود ہے اس کے نور سے آخرت کی تمام تکلیفوں سے بچنے کی راہ نظر آجاتی ہے… اور سورۂ فاتحہ میں ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ موجود ہے اس کی روشنی ظاہر ہو جائے تو دنیا کے ہر گناہ اور ہر آفت سے حفاظت مل سکتی ہے کیونکہ فکر آخرت ہی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے…

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…

سورۂ فاتحہ واقعی عجیب ہے… یہ سورت انسان کو مٹی سے اٹھا کر عرش کے نیچے لا کھڑا کرتی ہے…

ہمیں عدم سے وجودمیں لانے والا، پیدا کرنے والاکون؟ ’’اللہ‘‘… اَلْحَمْدُلِلہ…

پھرہمیںپالنے والا کون؟… رَبِّ الْعالَمِیْن …

دنیا میں ہمیں تھامنے اور چلانے والا کون؟…’’اَلرَّحْمٰن‘‘ …

آخرت میں ہم کس کے سہارے ہوں گے؟… ’’اَلرَّحِیْم‘‘…

ہمیںدارِ دنیا سے آخرت منتقل کرنے والا اور وہاں ہمیں انصاف دینے والا…’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘…

جب ہماری پیدائش سے لے کر ہمیں اگلے جہاں لے جانے والا… صرف اللہ تو بس پھر ہم اسی کے بندے اسی کے غلام …اِیَّاکَ نَعْبُدُ… جب غلامی اس کی اختیار کی تو اب مدد کے لئے بھی صرف اسی کے سامنے جھکیں گے…’’وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘…

مانگو کیا مانگتے ہو… اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ… یا اللہ! آپ سے آپ ہی کو مانگتے ہیں… وہ راستہ جو سیدھا آپ تک پہنچا دے… اور ہمیں انعام یافتہ افراد میں شامل کرادے… اور ہمیں گمراہی اور آپ کے غضب سے بچا دے…

وہ حضرات جو اوراد اور وظائف کاذوق رکھتے ہیں، انہوں نے سورۂ فاتحہ کے مجرّبات پر کتابوں کی کتابیں لکھ ڈالی ہیں… روحانی نعمتیں حاصل کرنی ہوں تو سورۂ فاتحہ کیسے اور کتنی بار پڑھیں… اور ظاہری نعمتیں حاصل کرنی ہوں تو سورۂ فاتحہ کو کب اور کتنی بار پڑھیں… ان میں سے بعض وظائف ان شاء اللہ اگلے کالم میں پیش کئے جائیں گے… آج بس وہی دعوت ہے کہ سورۂ فاتحہ کو درست پڑھیں، اچھی طرح سمجھیں، نمازوں میں توجہ سے پڑھیں، اور سورۂ فاتحہ اورقرآن مجید کی تمام مسلمان عموماً اور مجاہدین خصوصاً زیادہ تلاوت کریں…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر443

آیئے! سورۃ فاتحہ کے بے کنار سمندر سے چند موتی چنیں…

سورۃ فاتحہ کے منافع اور وظائف…

پورے قرآن مجید کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں کیسے ہے؟

سمجھانے کے لئے ایک زبردست تمثیل…

سمندر کے شکار اور اسفار میں سورۃ فاتحہ کے مشاہداتی تجرباتی فوائد…

سورۃ فاتحہ کا حفظ آسان ہے…

 بچوں کو خود یاد کرایئے اور زندگی بھر اَجر و ثواب پایئے! ایک اہم نکتہ

سورۃ فاتحہ: شرک سے نجات کا ذریعہ…

سورۃ فاتحہ: غیر اللہ کی تمناء و بندگی سے نجات کا وسیلہ…

سورۃ فاتحہ کے مفید عام وظائف…

سورۃ فاتحہ کے فوائد سے روشناس کراتی اہم تحریر اور موضوع کا اختتام…

موتی پا لیجئے

 اللہ  تعالیٰ … تمام مجاہدین اسلام کو’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی قوت عطاء فرمائے…

بے شک: سورۂ فاتحہ قوت و طاقت کا خزانہ ہے…

اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ؁

 اللہ  تعالیٰ…تمام اسیران اسلام کو’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی وہ تأثیر عطاء فرمائے جس سے ہر بند چیزکُھل جاتی ہے… ہر قید،ہرہتھکڑی، ہر تالا کھل جاتا ہے…

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ؁ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم؁

 اللہ  تعالیٰ… تمام بیماروں کو’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی ’’شفاء‘‘ عطاء فرمائے…

بے شک: سورہ ٔفاتحہ ہر بیماری کا علاج ہے… جسمانی بیماری ہو یاروحانی… کوئی زہر ہو یا پاگل پن… کوئی جادوہو یا نظر… کوئی دردہویا وبا…

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ؁

 اللہ  تعالیٰ… مالی تنگی میں مبتلا ہر مسلمان کو سورۂ فاتحہ کے’’رزق حلال‘‘ والے تحفے عطاء فرمائے… بے شک سورۂ فاتحہ قرضہ سمیت ہر مالی تنگی کا بہترین علاج ہے…

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ؁

 اللہ  تعالیٰ… ہر گناہ گار،گمراہ، مایوس اور بھٹکے ہوئے مسلمان کو سورۂ فاتحہ کی ہدایت والا نور اور فیض عطاء فرمائے… بے شک سورۂ فاتحہ ہر طرح کی’’ہدایت‘‘ اور روشنی سے لبریز ہے…

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ؁ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ

 سچی بات یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے فضائل، مناقب اور خواص کو کسی ایک مضمون یا کتاب میں سمیٹنا ناممکن ہے…  بالکل ناممکن… بس ایک مثال لے لیجئے…

ایک شخص کے پاس  اللہ  تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح کا وافر سامان موجود ہو… گندم کی ہزاروں بوریاں، گوشت کے لئے بکریوں کے ریوڑ… پہننے کے لئے کپڑوں کے انبار… علاج اور صحت کیلئے ہزاروں غذائیں اور دوائیں… خدمت کے لئے سینکڑوں نوکر، غلام اور خادم… رہنمائی اور تعلیم کے لئے بہترین علماء اور اساتذہ… تفریح کے لئے ہر طرح کا سامان…

مگر اچانک اس شخص کو بہت دور کا اور بہت لمبا سفرپیش آگیا… اور سفر بھی سالہا سال کا… اس عقلمند شخص نے سوچا کہ اتنا سامان ساتھ تو نہیں اٹھا سکتا… چنانچہ اس نے سارا سامان اور ساری جائیداد… سونے کے بدلے بیچ دی… اب اس کے پاس ایک من سونا ہو گیا… مگر اسے یہ بھی بوجھ لگتا ہے تو اس نے سارا سونا چند قیمتی موتیوں کے بدلے بیچ دیا… ایسے موتی جو ہر جگہ اور ہر ملک میں بیچے جا سکتے ہیں… اب یہ شخص ہلکا پھلکا ہو گیا، اس کی جیب میں چند موتی ہیں… مگر ان چند موتیوں میں… گندم اورآٹے کے ڈھیر بھی موجود، گوشت والے جانور بھی موجود، پہننے کے کپڑے بھی موجود… یہ جہاں بھی جائے گا موتی بیچ کر جو چاہے خریدلے گا… جیسے آج کل کے مالدار لوگ کروڑوں روپے اٹھانے کی بجائے ایک کریڈٹ کارڈ جیب میں ڈال لیتے ہیں… بس اسی سے’’سورۂ فاتحہ‘‘ کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں اگرچہ مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا … سورۂ فاتحہ کی سات آیات میں… پوراقرآن مجید موجود ہے… سورۂ فاتحہ کی سات آیات میں… سات آسمانوں اور سات زمینوں کے ہدایت والے، علم والے، روشنی والے، رزق والے، حفاظت والے اور برکت والے خزانے موجود ہیں… سورۂ فاتحہ اگر آپ کے پاس ہے تو آپ نہ کسی بادشاہ کے محتاج، نہ کسی فقیر کے… سورۂ فاتحہ آپ کے ساتھ ہے تو نہ آپ کو کسی انسان کی محتاجی، نہ کسی جن کی… آپ سورۂ فاتحہ کا انتہائی قیمتی موتی ساتھ لے لیں… یہ وہ موتی ہے جسے بیچنا بھی نہیں پڑتا بس دکھانا پڑتا ہے… اسے دکھاتے جائیں اور دنیا کے سارے مسئلے حل کراتے جائیں… یہ موتی آپ کے پاس ہی رہے گا… اورپھر یہی موتی دکھا کر آخرت کے مسائل حل کراتے جائیں… ایک بار کسی دوسرے ملک کا سفر تھا… واپسی کے وقت میزبانوں نے بطور اکرام ایک شخص کو ساتھ کر دیا… ہم جب پہلے گیٹ پر پہنچے تو تلاشی لینے والے آگے بڑھے، اس شخص نے جیب میں دو انگلیاں ڈال کر ایک کارڈ کو تھوڑا سا اونچا کیا… تلاشی لینے والے فوراً باادب ہو گئے اور راستہ چھوڑدیا… پھر سامان کی تلاشی کے وقت بھی یہی منظر… حتیٰ کہ جہاز کی طرف جانے والے آخری دروازے پر بھی یہی ہوا… یہ زندگی کا پہلا ایسا سفرتھا جس میں نہ سامان کی تلاشی ہوئی اور نہ جسم کی… ایک کارڈ میںاتنی طاقت تھی… اندازہ لگائیںکہ قرآن پاک کی سب سے عظیم اور افضل سورت کی طاقت کتنی ہوگی… اگر ہم سورۂ فاتحہ کو پالیں، اور سورۂ فاتحہ کاکارڈ ہمارے دل میں ہو، ہماری آنکھوں میں ہو اور ہماری جیب میں ہو تو… ہر منزل کتنی آسان ہو جائے…

کراچی میںقیام کے دوران کبھی کبھارلانچ کرائے پر لیکر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے چلے جاتے تھے… الحمدللہ اس حلال اور پرکشش تفریح میں کئی بڑے مجاہدین اور اولیاء کرام کی رفاقت نصیب ہوئی… جہاد کے ابتدائی رفقاء کمانڈر عبدالرشید شہید رحمۃ اللہ علیہ  اور بھائی اختر شہید رحمۃ اللہ علیہ … اور پھر برادرم حافظ کمانڈر سجاد شہید رحمۃ اللہ علیہ … بندہ ان سب کو سمندر پر لے گیا اور خوب خوشگوار مجالس رہیں… حتیٰ کہ حضرت مولانا جلال الدین حقانی مدظلہ العالی بھی ایک بار ساتھ تشریف لے گئے اور انہوں نے خود چندمچھلیاں شکار کیں… سمندر کا یہ سفر بار بار ہوا… اور اس میں سورۂ فاتحہ کے عجیب انوارات دیکھے… ایک طالب علم ساتھی جب بھی ڈور پھینکتے مچھلی آجاتی… انہوںنے بتایا کہ ڈور پھینکتے وقت وہ سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں… اس واقعہ کے بعدسمندری سفر کے ہر مرحلے میں سورۂ فاتحہ کام آتی… سمندر میں کبھی موسم بہت خراب ہو جاتا ہے سخت اندھیرا اور موجوں کے تھپیڑے…مگر الحمدللہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے ہر طرح کا طوفانی موسم کھل جاتا ہے … اور خوشگوار ہو جاتا ہے… آپ دیکھیں کہ ایک مسلمان کو سورۂ فاتحہ سے جوڑنے کے لئے… اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے انتظامات فرما دیئے ہیں… پہلا تو یہ کہ قرآنی ترتیب میں… سورۂ فاتحہ کو سب سے پہلے رکھا گیا… اب قرآن مجیدکھولتے ہی سورۂ فاتحہ سب سے پہلے سامنے آجاتی ہے… حالانکہ نزول قرآن کی ترتیب میں سورۂ فاتحہ سب سے پہلے نازل نہیں ہوئی… پھر اسلام کے سب سے اہم فریضے نماز میںسورۂ فاتحہ کو ہر رکعت میں لازمی قرار دے دیا گیا… آپ فرض نماز ادا کریں یا سنت اور وتر… ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ موجود ہے… پھر اس سورت کے الفاظ بھی بے حد آسان رکھے گئے کہ انتہائی آسانی کے ساتھ اسے یاد کیا جا سکتا ہے… اس لئے کسی نے یہ خوب دعوت چلائی کہ… اپنے بچوں کو سورۂ فاتحہ خود یادکراؤ… تاکہ یہ جب بھی سورۂ فاتحہ پڑھیں تو تمہیں اجرو ثواب ملے…

اورایک مسلمان بچہ… جوان اور بوڑھا ہونے تک لاکھوں بار سورۂ فاتحہ پڑھ لیتا ہے… اس لئے کوشش کرو کہ اس کی ساری زندگی کی ’’فاتحہ‘‘ تمہارے نامہ اعمال کو وزنی کرتی رہے… مگر اس سعادت کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ خود آپ کو’’سورۂ فاتحہ‘‘ آتی ہو…کیا ہی اچھا ہوگا کہ آپ کسی عالم یا قاری کو اپنی’’سورۂ فاتحہ‘‘ سنا دیں… وہ امریکی خلاباز جس نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا چند ماہ پہلے مر گیا…میں نے خبر پڑھی اور اگلی رات آسمان پر دیکھا کہ چاند اپنی جگہ موجودتھا… جب کہ وہ خلا بازاکیلا قبر میں جاپڑا… مگر جو مسلمان سورۂ فاتحہ کو پالیتا ہے سورۂ فاتحہ اس کے ساتھ قبر اور عالم برزخ میں جاتی ہے… ہر مسلمان کو چاہئے کہ سورۂ فاتحہ کا ترجمہ اچھی طرح یاد کر لے… اور اسے دل میں بٹھائے اور اس میں جو عقیدہ بیان کیا گیا ہے… اس عقیدے کو اپنائے… ہم مسلمان جب سے قرآن اور سورۂ فاتحہ سے دور ہوئے ہمارے اندر طرح طرح کے شرکیہ عقائد آگئے ہیں… بھائیو! اور بہنو! شرک سب سے بڑا ظلم ہے، شرک سب سے بڑا گناہ ہے… شرک سب سے بڑی نجاست اور گندگی ہے… اور مشرک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی ہے… سورۂ فاتحہ کی ساتوں آیات شرک کو توڑتی ہیں… اور بندے کو صرف اللہ تعالیٰ سے جوڑتی ہیں…تعریف کے لائق صرف اللہ، شکر کے لائق صرف اللہ، ربّ العالمین صرف اللہ… رحمتوں کا مالک صرف اللہ… قیامت کا مالک صرف اللہ… عبادت کے لائق صرف اللہ… اور مدد مانگنے کے لائق صرف اللہ…

ہمارے جدت پسندوں نے بندگی نما تعریف و ثنا کا حقدار ترقی اور ٹیکنالوجی کو قرار دے دیا ہے…

اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ 

ہم نے آج کے نقلی طاقتور کفار کو اس قابل سمجھ لیا ہے کہ ہم اُن کی غلامی اختیار کریں اور اُن سے مدد مانگیں… بڑی بے حیائی سے کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں اکیلے تو نہیں رہ سکتے… ہم ان کافروں کی مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے…اور پھر ہمارے حکمرانوں کے ماتھے ان طاغوتوں کے سامنے جھک جاتے ہیں…

اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ 

شرک کی اس بیماری نے ہمارے حکمرانوں… اورہمارے مالدار طبقے کو ایسا گھیر لیا کہ وہ ہر وقت ستاروں، پتھروں، نجومیوں اور پیشن گوئیوں کے تھپیڑے کھاتے رہتے ہیں… ہر حکمران کے پاس طرح طرح کے عامل ہیں… اور ان عاملوں میں سے کئی سی آئی اے، موساد اور را کے باقاعدہ ایجنٹ ہیں… ہمارے حکمران جب سورۂ فاتحہ میں موجود:

اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ

کی طاقت سے محروم ہوئے تو پھر… کٹی ہوئی پتنگ کی طرح کہیں کے نہ رہے… اب جو بھی اُن کو اچھی قسمت، اچھی صحت اور ہمیشہ کے اقتدار کی لالچ دے دے یہ اس کے ہاتھوں… اپنا ایمان اور اپنی غیرت سب لٹوا بیٹھتے ہیں… مسلمانو! اللہ کے لئے سورۂ فاتحہ کو سمجھو، سورۂ فاتحہ کو سیکھو اور سورۂ فاتحہ کو حاصل کرو… کم از کم ایک بار تو مکمل اخلاص کے ساتھ وضو کر کے دو رکعت ادا کریں… اور پھر دل کی توجہ اور گہرائی سے دعاء کریں کہ:

’’یا اللہ! … سورۂ فاتحہ سکھا دیجئے، سورۂ فاتحہ عطاء فرما دیجئے، سورۂ فاتحہ پر یقین نصیب فرمادیجئے، سورۂ فاتحہ کا نور میرے دل میں اتار دیجئے…‘‘

بس دعاء میں سورۂ فاتحہ پڑھتے جائیں… اور عاجزی، احتیاج اور آنسوؤں کے ساتھ سورۂ فاتحہ مانگتے جائیں… یا اللہ! سورۂ فاتحہ کی برکت سے سورۂ فاتحہ عطاء فرما دیجئے…

آمین یا ارحم الراحمین…

جہاں تک سورۂ فاتحہ کے مجربات کا تعلق ہے تو حسب وعدہ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:

١                    گھر میں داخل ہو کر ایک بار سورۂ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھ لیں تو فقر و فاقہ دور ہو جاتا ہے اور گھر میں برکت آجاتی ہے…

٢                    ہر بیماری کے لئے چالیس بار پڑھیں اور پانی پر دم کر کے پی لیں…

٣                    اسیری سے رہائی کے لئے ایک سو اکیس بار پڑھیں…

٤                    رزق، قرضہ کی ادائیگی اور حلال وافر مال کے لئے تین سو چونسٹھ بار پڑھیں… اور ساتھ اتنی ہی تعداد میں سورۂ اخلاص اور اتنی ہی تعداد میں درود شریف…

٥                    فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان چالیس دن تک روز چالیس بار یا اکتالیس بار پڑھنا ہر بیماری کا علاج ہے،خواہ کتنی بڑی بیماری ہو…

٦                    اگر اولاد نافرمان ہو، خاوند نشے اور گناہوں کا عادی ہو تو پانی پر سورۂ فاتحہ پڑھیں جب ’’اِھْدِنَا‘‘ کے  لفظ پر پہنچیں تو اسے ستر بار پڑھ کر سورت مکمل کریں اورپانی اولاد یا خاوندکوپلادیں…

٧                    نسیان یعنی بھولنے کی بیماری، عقل کی خرابی، سستی وغیرہ دورکرنے کے لئے کسی برتن پر سورۂ فاتحہ لکھیں، پھر اسے بارش کے پانی سے دھو لیں پھر اس پر سات بار سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے پی لیں…

٨                    سورۂ فاتحہ کا ایک خاص الخاص ورد… ’’الغزالی‘‘کہلاتاہے…اہل علم نے اس ورد کے فضائل پر اشعار اور نظمیں لکھی ہیں… یہ ورد ہر طرح کی حاجات،ہر طرح کی پریشانیوں اورہر طرح کی مصیبتوں سے چھٹکارے کا ذریعہ ہے…

کچھ عرصہ پابندی سے کریں تو انسان نہ کسی کامحتاج رہتا ہے اور نہ کوئی اسے ذلیل و رسوا کر سکتا ہے، اور قرضہ کی ادائیگی کے لئے بھی مجرب ہے… اس میں سورہ فاتحہ فجر کے بعد تیس بار، ظہر کے بعد پچیس بار، عصر کے بعد بیس بار، مغرب کے بعد پندرہ بار اور عشاء کے بعد دس بار پڑھیں… اور مزید دس بار کسی بھی وقت پڑھ لیں…

٩                    کوئی عزیز سفر پر گیا ہو اوراس کی بخیر واپسی مطلوب ہو تو اکتالیس بارسورۂ فاتحہ پڑھ کر دعا کریں…

١٠                سانپ، بچھو نے کاٹا ہو تو سات بار سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کریں، کسی کی صلح کرانے کے لئے جارہے ہوں تو چند بار پڑھ لیں، صلح آسان ہو جائے گی… کسی بھی حاجت کے لئے پڑھنا ہو توایک ہزار بار یاایک ہزار گیارہ بار پڑھ لیں… ویسے روزآنہ ایک ہزار بارکا وردرکھنا عجیب تأثیرات رکھتا ہے…

لا الہ الااللہ،لا الہ الااللہ،لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک سلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر444

رجب کی آمد پر استقبال رمضان کی دُعاء کی یاددہانی...

افغانستان اور انڈیا سے چند خبریں...

ہمارا سابق وزیراعظم ایک بھارتی تاجر کا ملازم...

دوسرے وزیراعظم کی بھارتی تاجر کے در پر حاضری.... انتہائی شرمناک صورتحال...

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی مثالی بہادری اور بے خوفی کا تذکرہ..... دو ایمان افروز واقعات...

آندھی، بادل اور بارش کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر خشیت الٰہی کی کیفیت...

ان مواقع پر ہماری بے خوفی اور غفلت...

ایک غفلت شکن موازنہ....

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء اللہ رحمہم اللہ  کا

باوجود اچھے اعمال کے شدید خوف کی کیفیت میں رہنا...

ہماری بداعمالیوں کے باوجود بے خوفی...

ایک اہم تنبیہ...

مقام خوف کی بلندیوں سے روشناس کراتی ایمانی تحریر...

مقامِ خوف

 اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ

صرف مجھ ہی سے ڈرو…

جی ہاں! صرف  اللہ  تعالیٰ سے ڈرو اور کسی سے نہیں…

آج کئی باتیں کرنے کا ارادہ ہے… ان شاء اللہ… مگر آغاز رجب کی دعاء سے کر لیتے ہیں… آئیے! پڑھ لیں اور دو ماہ تک پڑھتے اور مانگتے رہیں:

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان

سبحان  اللہ ! رمضان المبارک کی خوشبو اور مٹھاس ابھی سے محسوس ہونے لگتی ہے…

ایک نظر دنیا پر

خ…افغانستان میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے… دونوں امیدوار کافی خطرناک ہیں… اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مسلمان حکمران عطاء فرمائے…

خ…انڈیا میں انتخابات کا شور، مسلمانوں کا آسام میں بہتا ہوالہو… غلاظت بکتا ہوا نجس و ناپاک’’مودی‘‘… بڑھکیں مارتا ہوا سانپ کا بچہ’’راھل‘‘… مقبوضہ کشمیر میں بائیکاٹ…

وہاں بی جے پی آئے یا کانگریس… دونوں مسلمانوں کی دشمن ہیں… فرق اتنا ہے کہ بی جے پی زیادہ خطرناک نظرآتی ہے،جبکہ حقیقت میں کانگریس زیادہ خطرناک ہے…

خ…افغانستان میں بدخشاں کے ضلع میں ایک پہاڑ پورے گاؤں کو نگل گیا… ڈھائی ہزار افراد مارے گئے… تین سو مکانات ایک اجتماعی قبر میں تبدیل ہو گئے… معلوم نہیں کون کس حالت میں ہوگا، کون کس طرح کے منصوبوں میں ہوگا… اور کون کس طرح کی سوچوں میں ہوگا کہ اچانک پورا پہاڑ گاؤں پر آگرا اور سب اپنے اعمال اوراپنے ارادوں سمیت دفن ہو گئے…

یا اللہ! امان… یا اللہ! حُسن خاتمہ کی التجا ہے…

خ…ہم مسلمانوں کے وزیراعظم صاحب لندن گئے… وہاں اُن کے پڑوس میں انڈیا کا ایک ارب پتی تاجر رہتا ہے… نام اُس کا’’لکشمی متل‘‘ ہے… یہاں دو خبریں ہیں اور دونوںایسی کہ لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہورہی ہے…

پہلی شرمناک خبر یہ کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ’’شوکت عزیز‘‘ آج کل ’’لکشمی متل‘‘ کے ملازم ہیں… اور دوسری شرمناک خبر یہ کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف خود پیدل چل کر’’لکشمی متل‘‘ کے گھر حاضر ہوئے اور اُس سے ملاقات کی… ملاقات کے دوران میوزک بھی بجتا رہا… اور شایدپاکستان کے مسلمانوں کی قسمت پر ہنستا رہا… شوکت عزیز خود اربوں پتی ہے، اس کی صرف ایک بیوی اور دوبچے ہیں… دونوں بچے جوان، شادی شدہ،برسرروزگار اور باپ کی طرح سودی نوکریوں میں مال کما رہے ہیں… اب شوکت عزیز کے ذمے صرف دو پیٹ ہیں ایک اپنا اور ایک بیگم کا… جبکہ مال اتنا ہے کہ سونے کے نوالے کھائیں تو مرتے دم تک ختم نہ ہوں… مگر پھر بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کی ناک کٹوانے اوراپنے اندر کے حرص کی آگ بجھانے کے لئے… وہ اس عمر میں نوکری کررہا ہے… اور نوکری بھی ایک دشمن ملک کے سرمایہ دارکی… یا اللہ! حبّ دنیا سے بچائیے… یہ مرض انسان کو جانوروں سے بدتر بنا دیتا ہے… اب نواز شریف صاحب بھی’’لکشمی‘‘ کے درپر حاضر ہوئے تو خبر پڑھ کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا… کاش! کچھ تو ملک و قوم کی عزت کا پاس ہوتا… کاش! کچھ تو اپنے مسلمان ہونے اور مسلمانوں کے وزیراعظم ہونے کا لحاظ ہوتا… آج کل انڈیا کے تمام ہندو گجراتی اور مراٹھی سرمایہ کار… نریندر مودی کو انڈیا کا وزیراعظم بنانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں… اور مودی پاکستان پر حملے کی بات کر رہا ہے… اور پاکستان کے حکمران مشرکوں کے قدموں پر گرے جارہے ہیں… یا اللہ! اس ملک پر رحم فرمائیے…

ایک سؤال ہم سب سے

خ…ہم ایک الگ تھلک گھر میں ہوں… اچانک ہمارے کچھ دشمن کلاشنکوفوں سے مسلّح ہمارے گھر کا گھیرا کر لیں… مکمل لوڈ اور بھری ہوئی دس کلاشنکوفیں اور دشمن بھی بہت ماہر جنگجو… کیا ہمیں خوف اور ڈر محسوس ہوگا یا نہیں؟

اور اگر ایک سو افراد مکمل مسلّح ہو کر ہمارے گھر کا محاصرہ کر لیں تو ہماری کیا حالت ہو گی؟…

خ…ہم کسی بستی میں جائیں اور بستی والوں سے کوئی بات کریں، جس پر وہ تمام لوگ ناراض اور غصہ ہو جائیں… اور لاٹھیاں پتھر لیکر ہمارے پیچھے دوڑیں… کیا ہمیں خوف اور ڈر محسوس ہو گا یا نہیں؟…

خ…ہم سفر میں کسی جگہ اکیلے لیٹے ہوئے ہوں اور ہمیں نیند آجائے… اچانک آنکھ کھلے تو دیکھیں کہ ایک دشمن ہم پر اپنی بندوق تانے کھڑا ہے…

کیا ہمیں ڈر اور خوف محسوس ہو گا یا نہیں؟…

خ…کچھ لوگ ہمیں قتل کرنا چاہتے ہوں… وہ ہمارے پیچھے لگے ہوں، ہم اُن سے چھپ کر کسی مکان میں جا بیٹھیں… اور تھوڑی دیر بعد ہمارے دشمن اپنا اسلحہ لہراتے بالکل ہمارے سر پر پہنچ جائیں… اُس وقت خوف سے ہماری حالت کیا ہو گی؟…

سؤال سادہ سا ہے اور جواب بالکل واضح ہے کہ… ان تمام مواقع پر خوف اور ڈر کی وجہ سے ہمارے حواس تک کام کرنا چھوڑ دیں گے… مگر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کو دیکھیں… ہجرت کی رات آپ کے گھر پر ایک سو ماہر اور مسلّح جنگجو تلواریں لئے محاصرہ کر چکے تھے… اس زمانے کی تلواریں جن مضبوط بازوؤں میں ہوتی تھیں… اُن کا حال پڑھیں تو معلوم ہو کہ… کلاشن سے کم خطرناک نہ تھیں… مگر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کو ذرہ برابر خوف محسوس نہ ہوا…غزوہ حنین کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   چار ہزار تیراندازوں کے نرغے میں اکیلے رہ گئے… مگر خوف کی ایک دھڑکن دل مبارک تک نہ پہنچ سکی… طائف میں سینکڑوں افراد لاٹھیاں برساتے اور پتھر پھینکتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے پیچھے لگے…جسم سے لہو تو بہت گرا مگر نہ آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور نہ دل پر خوف، ڈر اور مایوسی کے جھٹکے لگے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ دشمن ننگی تلوار لیکر سر مبارک پر آکھڑا ہوا اور للکارنے لگا کہ کوئی ہے جو آپ کو بچا سکے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے سینہ مبارک میں خوف کی ایک لہر نہ اٹھی… اطمینان سے فرمایا… اللہ…

کس کس موقع کا تذکرہ کیا جائے… ایسی جگہیں جہاں شیر دل افراد کا دل دھڑکنے پر مجبور ہو جاتا ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے قلب مبارک میں ڈر اور خوف کی ہلکی سی لرزش بھی جگہ نہ پاتی تھی…

 صلی اللہ علیہ وسلم  ، صلی اللہ علیہ وسلم  ، صلی اللہ علیہ وسلم 

اب دوسرا سؤال

خ…ہمارے ہاں اکثر تیز ہوا چلتی ہے… کیا کبھی آندھی کے وقت ہمارے دل میں اتنا خوف آیا جتنا گلی میں دھماکے یا پٹاخے کی آواز سے آتا ہے؟

خ… کیا کبھی بادلوں کو دیکھ کر ہم اتنے خوفزدہ ہوئے جتنا ہم کسی بڑے کتے کو سامنے دیکھ کر ہو جاتے ہیں؟…

خ… کیا چاند گرھن اور سورج گرھن کے وقت ہمارے دلوں پر خوف کی کوئی ایسی لہر اٹھی جیسی امریکہ اور انڈیا کی دھمکیوں کو سن کر اٹھتی ہے…

جواب بالکل واضح ہے کہ… جی نہیں! آندھی، بادل اور سورج چاند گرھن کے وقت ہم اپنے دل میں کوئی خاص خوف اور ڈر محسوس نہیں کرتے…

اب دیکھئے اپنے محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کو…

حضرت امّاں عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ…

جب آندھی، بادل وغیرہ آتے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کے چہرہ انور پر اس کا اثر ظاہر ہوتا تھا اور چہرہ کا رنگ فق ہو جاتاتھا… خوف کی ایسی حالت طاری ہوتی کہ کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر تشریف لے جاتے…وجہ پوچھی جاتی تو ارشاد ہوتا کہ…

عائشہ! مجھے اس کا کیا اطمینان کہ اس میں عذاب نہ ہو…

سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کا خوف، اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف…

حضرت ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کا معمول تھا کہ جب آندھی چلتی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   گھبرائے ہوئے مسجد میں تشریف لے جاتے… حضرت انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے ذرا سی تیز ہوا چلتی تو ہم قیامت کے خوف سے مسجدوں کو دوڑ جاتے…مدینہ میں سورج گرہن ہو گیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   فوراًنماز کی طرف لپکے، بہت لمبی نماز پڑھی اور پھر روتے ہوئے عذاب سے بچنے کی دعاء اور استغفار میں مشغول ہو گئے… کس کس واقعہ کو لکھا جائے… غزوہ تبوک کے موقع پر قوم ثمودکی بستی سے گذر ہوا تو اللہ کے عذاب کے خوف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر گریہ طاری ہو گیا…چہرہ مبارک ڈھانپ لیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم فرمایا کہ یہاں سے روتے ہوئے، استغفار کرتے ہوئے تیزتیز گزریں…

اب تیسرا سؤال

بھائیو! اور بہنو!

ہمارے اعمال زیادہ اچھے ہیں… یا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال زیادہ اونچے اور اچھے تھے؟…

جواب واضح ہے کہ… اُن کے اعمال کے مقابلہ میں ہمارے اعمال کچھ بھی نہیں… تو پھر کیا وجہ ہے کہ…

وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے، اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سن کر اُن پر غشی طاری ہو جاتی تھی…

جبکہ ہم ہر کسی سے ڈرتے ہیں… مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے… اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوف نہیں کھاتے…یقیناً یہ بڑی مصیبت ہے… اور اس مصیبت کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں…

پہلی یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت، قہر، جبروت اور شان کو نہیں پہچانتے… اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے خوف سے محروم ہیں… اور دوسری یہ کہ … ہم اپنے اعمال پر فخر میںمبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پر تو عذاب آہی نہیں سکتا…

اَسْتَغْفِرُاللّٰہ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہ…

اے مسلمانو!… دنیا کی طاقتوں کی عظمت اور خوف دل سے نکالو،  صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ڈرو… صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ڈرو…

جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے…اللہ تعالیٰ کی ذات غنی اور صمد ہے…ہمیں کبھی بھی اس کے عذاب سے بے پرواہ نہیں ہونا چاہئے…حضرات انبیاء علیہم السلام  معصوم ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں…یا اللہ مُعافی…یا اللہ رحم، یا اللہ مُعافی…

باقی رہے ہمارے اعمال… تو بس بھائیو اور بہنو!

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں قبول فرمائے…ورنہ ان میں قبولیت والی کوئی جان تو نظر نہیں آتی… اب آج کی آخری بات سنیں…

شیطان کہتا ہے … ہر کسی سے ڈرو، اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرو

اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَ ہُ

جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ

کسی سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو اگر ایمان والے ہو…

یا اللہ! اپنے خوف اور اپنی خشیت کا وہ آنسو مجھے اور تمام پڑھنے والوں کو نصیب فرما دیجئے… جو جہنم کی آگ کو بجھا دیتا ہے …

آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر445

اللہ تعالیٰ کے خوف کے ایک آنسو کا سوال ہے...

اللہ تعالیٰ کا خوف کن کو نصیب ہوتا ہے؟

خوف سے رونے والوں کا جہنم میں جانا کس طرح ناممکن ہے؟ ایک ایمان افروز مثال...

ہم فضول باتوں پر کتنا روتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے کیوں نہیں؟

ایک ایمانی مجلس کا ایمانی سبق...

دعویٰ مہدیت کی عام ہوتی بیماری اور نقلی مہدیوں کی حالت...

اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو قیمت والے دو قطرے...

سیّدالعلماء حضرت معاذ بن جبل اور ریحانۃ النبی حضرت حسن  رضی اللہ عنہ کی حالت خوف...

ایک بزرگ کی دُعاء..... ایک بصیرت افروز سبق...

اللہ تعالیٰ کا خوف ایمانی صفت...

اُونچے کام پر لگنے والوں کو خوف کی زیادہ حاجت ہے...

ایک اہم ایمانی سبق یاد دلاتی تحریر...

ایک آنسو کا سؤال

 اللہ  تعالیٰ کا’’خوف‘‘اُن خوش نصیبوں کو ملتاہے جنہوں نے جہنّم میں کبھی نہیں جلنا… کبھی نہیں جلنا…

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ

کبھی کباب والی دکان پر انگاروں پرپکتاہوا گوشت دیکھا ہے؟

کبھی سجّی کی دکان پر آگ کی تپش سے نرم ہوتی مرغیوں کو دیکھا ہے؟

دنیا کی آگ تو کچھ نہیں… وہ کیسا منظر ہوگا جب زندہ انسانوں کو زنجیروںمیں پرو کر جہنم کی خوفناک آگ پر رکھ دیا جائے گا:

ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ

 اللہ  تعالیٰ نے اعلان فرما دیا:

’’جواپنے رب سے ڈرے گا اُسے دو جنتیں ملیں گی‘‘

مگر دل کی سختی، دل کی قساوت، دل کا زنگ ہمیں…  اللہ  تعالیٰ سے ڈرنے نہیں دیتا اور ہماری آنکھیں اُن آنسوؤں سے محروم ہیں، جو آنسو جہنّم سے بچا لیتے ہیں…

ارشاد فرمایا:

 اللہ  کے ڈر سے رونے والا جہنم میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ دودھ تھنوںمیں واپس چلا جائے۔ (ترمذی)

جس طرح دودھ کا تھنوں میں واپس جانا ناممکن… اسی طرح اُس خوش نصیب کا جہنم میں جانا ناممکن… جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہو…

یا اللہ… اے عظیم ربّ! ایک آنسوکا سؤال ہے…

ویسے تو ہم بہت روتے ہیں،صبح شام اور دن رات روتے ہیں… خواتین تو فلموں میں جذباتی مناظر دیکھ کر بھی رو پڑتی ہیں… مگر کہاں ہیں وہ مقدس آنسو… جنہیں شہید کے خون کے ساتھ بیان فرمایا گیا؟… کہاں ہیں وہ گرم اورمیٹھے آنسو… جن کے برسنے سے پہلے دل میں حرارت آتی ہے؟

’’ یا اللہ! ایک آنسو کا سؤال ہے‘‘…

وہ آنسو جو یا اللہ! آپ کے لئے ہو… صرف آپ کے لئے… جو آپ کی عظمت کے اظہار میں آپ کے خوف اور آپ کی خشیت سے گرا ہو…

یہ دیکھیں ایک مجلس برپا ہے… دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کبھی ہمیں بھی آج کل ایسی کوئی مجلس ملتی ہے؟… ہماری مجالس میں یا غیبت ہے یا جھوٹ… یا چغل خوری ہے یا فخر… تکبر کا اظہار ہے یا بے حیائی…

’’ یا اللہ! ایسی مجالس سے بچا لیجئے‘‘

حضرت سیّدناانس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے خطبہ ارشاد فرمایا:

میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

(اے میرے صحابہ!) اگر آپ لوگ وہ جان لیں جو میں جانتا ہوں تو پھر بہت کم ہنسو گے اور زیادہ روؤ گے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان سن کر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے اپنے چہرے ڈھانپ لئے اور بلک بلک کر رونے لگے… (بخاری)

اللہ اللہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی مجلس تو صحابہ کرام کی قسمت میں تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے ورثاء تو موجود ہیں… وہ جو ڈراتے بھی ہیں اور امید بھی دلاتے ہیں… وہ جن کے اپنے دل پاک ہیں… ہائے کاش! کبھی کبھار ہی سہی… ہماری مجالس کا رنگ بھی ایسا ہو جائے… ہم تو اپنی ہر مجلس میں اپنے ٹوٹے پھوٹے اعمال کی بھری بوریوں کو بھی آگ لگا دیتے ہیں… ارے بھائیو اور بہنو!… ہمارے دل کالے ہو گئے… وہ دیکھو! جو اللہ تعالیٰ کو جتنا پہچانتا ہے…جو اللہ تعالیٰ کو جتنا جانتا اور جتنا مانتا ہے… اسی قدر وہ خوف سے تھر تھر کانپتا ہے… قرآن مجید میں دیکھو… فرشتے اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرز رہے ہیں… حضرات انبیاء علیہم السلام  اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے ہوئے سجدوں میں گرے پڑے ہیں… اور بالکل واضح سمجھا دیا کہ… جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں اس کے دل میں گویا ایمان ہی نہیں…

’’ یا اللہ! ایمان کا سؤال ہے… یا اللہ! آپ کے خوف سے بہنے والے آنسو کا سؤال ہے‘‘

آج کل عمل بہت کم اور دعوے بہت اونچے ہیں…اب حال ہی میں میلسی میں ایک ملعون نے نبوت کا دعویٰ کر دیا… ابھی جیل میں پڑا ہے… اللہ کرے جلد مُردار ہو کر زمین کے شکنجے میں جکڑا جائے… مہدی کادعویٰ کرنے والے تو اتنے ہو گئے جتنے گیس کے سلنڈر… ناپاک لوگ، صبح شام غلاظتوں میں اور دعوے امام مہدی ہونے کے… مصر میں ایک نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے… یمن میں ایک بڑا نقلی مہدی بیٹھا ہے… پاکستان میں ہر چوتھے روز اسی طرح کے دعوے… ہائے دلوں کی سختی! ہائے دنیا کی محبت!… جہاں دیکھو بس بیوٹی پارلروں کے بورڈ ہیں… جہاں دیکھو اندرونی بیرونی صحت کے راز ہیں… کوئی نہ اپنی شکل سے مطمئن نہ کوئی اپنے قد سے مطمئن… کبھی ایک منٹ بھی اس کی فکر ہوئی کہ آگے چل کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہے… اتنے عظیم شہنشاہ کے پاس لے جانے کے لئے ہمارے پاس کیا ہے؟

حضرت جبرئیل امین جیسا عظیم الشان فرشتہ… اللہ تعالیٰ کے خوف سے چڑیا کی طرح کانپتا ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   سے وعدہ تھا کہ آپ بخشے بخشائے ہیں مگر رات کو یوں روتے کہ سینہ اقدس سے ہانڈی ابلنے جیسی آواز آتی… اماں جی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں… ایک رات وضو اور نماز کے بعد حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   اتنا روئے کہ دامن مبارک آنسوؤں سے بھیگ گیا… پھر بھی گریہ جاری رہایہاں تک کہ داڑھی مبارک مکمل بھیگ گئی… مگر آنسو جاری رہے یہاں تک کہ سامنے والی زمین بھی بھیگ گئی…

’’ یا اللہ! دل کے نور کا سؤال ہے، یا اللہ! ایک آنسو کا سؤال ہے‘‘

اندھے دل کیا جانیں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کیا ہے… اللہ تعالیٰ کا جلال کیا ہے… اللہ تعالی کا قہر کیا ہے… اللہ تعالیٰ کا غضب کیا ہے… اللہ تعالیٰ کی رحمت کیا ہے… کبھی آپ نے قرآن مجید میں… سورۂ ابی لہب پڑھی؟… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا چچا آگ میں جل رہا ہے… ارے! مالک کا غضب آجائے تو پھر کون بچ سکتا ہے…

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار… اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار

دنیا کی محبت، فیشن کی محبت، دنیا داروں کی محبت… زیادہ جینے کا شوق، ظاہری ٹیپ ٹاپ… اور پروٹوکول کا شوق… یہ سب کچھ دل پر زنگ لگا دیتا ہے… اب زنگ آلود دل اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانے؟… ارے بھائیو اور بہنو! چھوڑو میک اپ، چھوڑو فیشن، چھوڑو مال جمع کرنا… اگر اپنے مالک کو راضی کرنا ہے تو بس دو قطروں کو حاصل کرنے کی فکر میں لگ جاؤ…

ارشاد فرمایا:

’’دو قطروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کوکوئی چیز محبوب نہیں… ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ٹپکا ہو… اور ایک خون کا قطرہ جو جہاد فی سبیل اللہ میں بہا ہو‘‘…(ترمذی)

’’ یا اللہ! دو قطروں کا سؤال ہے… ایک آپ کے خوف کا آنسو اور ایک آپ کے لئے شہادت کا خون‘‘…

دل سخت ہو جاتے ہیں تو شیطان کا اُن پر قبضہ ہو جاتا ہے…پھر شیطان طرح طرح کے دعوے کراتا ہے… تم ایسے ہو اور تم ویسے ہو…

کسی کو محقق ہونے کا زعم، کسی کو بڑا مجاہد ہونے کادعویٰ… کسی کو مجتہد ہونے کا وہم اور کسی کو مہدی ہونے کا شبہ…

 یا اللہ! ہمارے دلوں کو ایمان اور ہدایت دے دیجئے…

یاد رکھیں! جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ بلائے بلکہ… اپنی ذات کی طرف بلائے اس سے دور رہیں اور اُس سے کٹ جائیں… جو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے کی محنت نہ کرے بلکہ آپ کو غیبت اور دیگر گناہوں میں لگا کر آپ کے دل کو کالا کرے اُس سے کٹ جائیں، اُس سے دور ہو جائیں… جماعتوں میں اچانک شیطان کسی کو بہکاتا ہے اور پھر وہ موبائل اٹھا کر… دوسروں کے دل کالے کرنے لگتا ہے… پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ… یار میرا تو سر پھٹ رہا ہے… آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟… ہاں! جب تیرے سر سے ایمان نکلا اور اُس پر شیطان آبیٹھا تو اب اس سر نے پھٹنا ہی ہے… ہائے کاش! تو اس ظالم خنّاس کا شکار ہونے سے پہلے… اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑپڑتا… تو اپنے گناہوں کو یاد کرتا… تو دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے کالے گناہ یاد کر کے بلک بلک کر روتا تو تیرا سر نہ پھٹتا… آپ سے جوبھی اسی جملے سے بات شروع کرے، اُسے کہیں… ارے ظالم! تیرا سر پھٹ رہا ہے تو پھٹ جائے تو میرا ایمان کیوں پھاڑتا ہے؟… اسی طرح جو بھی اپنی ذات کے بارے میں اونچے اونچے دعوے کرتا ہو اُس سے دور رہیں… بڑائی،عظمت اور کبریائی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے… اللہ تعالیٰ کے سچے بندے دعوے نہیں کرتے بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے تھر تھر کانپتے رہتے ہیں…

اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء

یہ دیکھو! حضرت سیّدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  جیسے جلیل القدر صحابی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں…اُن سے عرض کیا گیا کہ کس بات پر اتنا رونا آرہا ہے… فرمایا!’’ اللہ تعالیٰ نے دو مٹھیاں بھریں… ایک مٹھی میں جو لوگ آئے اُن کو جنت میں داخل فرمادیا اور دوسری مٹھی میں جو آئے اُن کو جہنم میں ڈال دیا…مجھے کیا معلوم کہ میں کونسی مٹھی میں ہوں؟‘‘… یہ دیکھو! حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے محبوب نواسے حضرت سیّدنا حسن  رضی اللہ عنہ   رو رہے ہیں… وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:

’’میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجھے جہنم میں نہ پھینک دے اور پرواہ بھی نہ فرمائے…‘‘

’’ یا اللہ! ایک آنسو کا سؤال ہے‘‘

ایک بار جمعہ کے لئے مسجد جانا ہوا ، ابھی مسجد کھلی نہ تھی ایک معذور بزرگ سیڑھیوں میں بیٹھے تھے… ٹانگ سے بھی معذور اور بازو بھی ٹوٹا ہوا… دوسرے ہاتھ میں تسبیح تھی اور چہرے پر اطمینان اور زبان رواں دواں اپنے خالق کی یاد میں… بندہ بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گیا… وہ مسجد کھلنے کے انتظار میں تھے… تھوڑی دیر میں اُن سے کچھ تعلق بنا تو انہوں نے دعا دی…

’’اللہ تعالیٰ ایمان نصیب فرمائے‘‘

میں حیرانی اور سکتے میں آگیا… پہلے تو دل ڈرا کہ شائد اُن کو کشف ہوا کہ میں ایمان سے محروم ہوں…یہ سوچ کر ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے… اس سے پہلے کبھی زندگی میں یہ دعاء کسی نے اس طرح نہ دی تھی… تھوڑی دیر کی پریشانی کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ جس سے بھی شفقت فرماتے ہیں، یہی قیمتی دعاء دیتے ہیں… پھر یہ دعاء محبوب بن گئی… میں اُن کی تلاش میں رہتا اور ملاقات کے بعد دھڑکتے دل کے ساتھ اسی دعاء کا انتظار کرتا… اور پھر میں نے بھی اپنے اہل محبت کو یہی دعا دینا شروع کر دی… بے شک ایمان والوں کو یہی حکم ہے کہ وہ ایمان مانگا کریں اور مرتے دم تک مانگتے رہیں… بے شک ایمان ہی سب سے قیمتی اور سب سے اونچی نعمت ہے… ایمان مل جائے تو پھر اور کیا چاہئے؟…اور قرآن پاک ایمان والوں کی صفات بار بار سمجھاتا ہے کہ…وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں… وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے ہیں، صدقہ دیتے وقت بھی اُن کے دل اس خوف سے کانپ رہے ہوتے ہیں کہ کل انہوں نے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے…وہ قرآن پاک سن کر روتے ہیں اور جب اُن کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں… جی ہاں! اللہ تعالیٰ کی عظمت کے رعب سے اُن کے دل دب جاتے ہیں…

اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ

بھائیو! اللہ تعالیٰ نے کتنی اچھی دعوت اور کتنا اونچا کام اپنے فضل سے عطاء فرما دیا… ایمان کی دعوت، اقامت صلوٰۃ کی دعوت… اور جہاد فی سبیل اللہ… خود بھی عمل دوسروں کو بھی پکارنا… خود بھی محنت اور دوسروں کی بھی فکر… بس زندگی مختصر ہے… چندسانس باقی ہیں… اس کام کی قدر کرو، مایوسیاں، بے چینیاں،غیبتیں اور عدم تحفظ کے گندے خیالات جھٹک کر… اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ… اس کے خوف سے آنسو بہاؤ… اور اس کی رضاء کے لئے جان توڑ محنت میں لگ جاؤ…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا  اللہ  محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر446

ہندوستان میں حکومت کی تبدیلی، کانگریس کی رخصتی بی جے پی کی آمد...

عام خیال کے برعکس کانگریس کی اصلیت... اسلام دشمنی اور جرائم کی کچھ فہرست...

بی جے پی مسلمانوں کی کھلی دشمن...

شدت پسند ہندوئوں کا اقتدار میں آنا اسلام کے لئے نفع مند...

جہاد ترقی کرے گا...

ایک نام نہاد دینی جریدے کا جہاد کے بارے میں ’’جہالت نمبر‘‘...

حضرت امام اہلسنّت کا نظریہ جہاد اور ان کے پوتے کا نظریۂ انکارِ جہاد..

ایسے جرائد کا فتنہ دنیوی مفاد کیا ہے؟...

امام الاولیاء خواجہ عبیداللہ احرار نقشبند قدس سرہٗ کا عاشقانہ تذکرہ اور قیمتی اقوال...

جہاد مخالف دانش وروں کے علی الرّغم ملک بھر میں

 دوراتِ تفسیر آیات الجہاد کا پھیلائو اور عمومی نفع...

مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ایک مفید عام تحریر...

 

مسلمانوں کے لئے دردمندی

اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں رکھی ہیں…

موہن گیا مودی آیا

انڈیا میں انتخابات ہوئے…نتیجہ وہی آیا جس کا سب کو اندازہ تھا…جمہوری نظام حکومت میں لوگ ہر پانچ سال میں اپنی حکومت سے اکتا جاتے ہیں…کوئی حکومت گھسٹ گھسٹ کر دو باریاں بھی کھیل جاتی ہے…پھر عوام کا رخ کسی نئے تجربے کی طرف ہو جاتا ہے…حالانکہ انگریزی نظام حکومت میں اصل حکمران… بیوروکریسی،پولیس،عدلیہ اور خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں…سیاستدان کھانے کمانے آتے ہیں،کچھ لوٹ مار مچاتے ہیں…اپنی باری لوٹتے ہیں اور پھر دوسروں کو موقع دینے کے لئے،پیچھے ہٹ جاتے ہیں … کانگریس نے گذشتہ دس سال انڈیا پر مسلسل حکومت کی …ظاہر بات ہے لوگ تنگ آ گئے تو کانگریس والے خود’’پیچھے ہٹ‘‘ گئے کہ پانچ سات سال بعد لوگ پھر بی جے پی سے تنگ آ کر خود ان کو پکاریں گے…انڈیا میں کانگریس بہت تجربہ کار اور خطرناک پارٹی ہے…اسی پارٹی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے،اسی پارٹی نے کشمیر کا مسئلہ کھڑا کیا…اسی پارٹی نے حیدر آباد اور جوناگڑھ کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انہیں بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا…اسی پارٹی نے کشمیر پر جگموہن جیسے درندے کو مسلط کیا…اسی پارٹی نے محمد افضل گورو رحمۃ اللہ علیہ  کو شہید کیا…اسی پارٹی کے دور اقتدار میں بی جے پی نے بابری مسجد شہید کی اور کانگریس کی وفاقی حکومت درپردہ ان کی مدد کرتی رہی…لوگ انڈیا کی داخلی سیاست کو نہیں سمجھتے اسی لئے وہ ’’مودی‘‘کے آنے کو بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں…بے شک مودی بھی خطرہ ہے مگر کانگریس جیسا نہیں…وہ کم عقل،جذباتی اور آمرانہ طبیعت کا بے وقوف انسان ہے…

انڈیا کے ارب پتی اپنے تجارتی مفادات کے لئے اسے لائے ہیں…وہ مسلمانوں کا کھلم کھلا دشمن ہے مگر وزیر اعظم کی کرسی بڑی مجبورکرسی ہوتی ہے…اب وہ گجرات جیسی غنڈہ گردی نہیں کر سکتا…واجپائی اور ایڈوانی بھی مسلمانوں کے خطرناک دشمن تھے…مگر مسلمان کوئی کچی دیوار تو نہیںکہ جو چاہے گرا دے … انڈیا کے مسلمان ہندوستان کے حکمران تھے…ہزار سال انہوں نے حکومت کی … اب چھیاسٹھ سال سے غلامی میں ہیں مگر زندہ ہیں … کانگریس کی دشمنی ’’نفاقی‘‘ تھی،جبکہ بی جے پی کی دشمنی کھلم کھلا ہے…بی جے پی والے مسلمانوں کے خلاف جو کچھ بھی کریں گے… اس کا انہیں ان شاء اللہ بہت کرارا جواب ملے گا …جس لشکر کا سربراہ ابو جہل جیسا کھلم کھلا دشمن ہو مسلمان اس لشکر کو کسی اندھے کنویںمیں ڈالنے کا ہنر جانتے ہیں…اخبارات و رسائل میں ’’مودی‘‘ کے حوالے سے خوف کی جو فضا بنائی جا رہی ہے…وہ درست اور اچھی نہیں…کیا من موہن مسلمانوں کا دوست تھا ؟ …کیا راہول گاندھی سے خیر کی کوئی توقع تھی؟…مودی جب گجرات میں مسلمانوں کو کاٹ رہا تھا…تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی کانگریس کے دور اقتدار میں مظفر نگر اورآسام کے مسلمان ذبح ہو رہے تھے…اس لئے مودی کے آنے پر خطرے کی گھنٹیاں بجانے کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے…ہاں! رات دن کے آنے میں عقل والوں کے لئے بڑے سبق اور بڑی نشانیاں ہیں … انڈیا والوں نے مسلمانوں کے قاتل کو اپنا وزیر اعظم بنایا ہے…مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قاتلوں کا علاج کرنے والے فریضے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی طرف متوجہ ہوں…جہاد فی سبیل اللہ کے سامنے کوئی مودی اور کوئی موذی نہیں ٹھہر سکتا…جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف اس وقت سازشیں زوروں پر ہیں اور یہ منحوس کاوشیں اب ان لوگوں میں بھی گھس آئی ہیں جو ’’اپنے ‘‘ کہلاتے ہیں…حال میں گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ نے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ پر اپنا ایک ’’ضخیم نمبر‘‘ شائع کیا ہے…ایک دردمند عزیز نے یہ ’’جہالت نامہ‘‘ مجھے بھی بھیج دیا ہے…نام تو اس کا ’’جہاد فی سبیل اللہ نمبر‘‘ ہے مگر حقیقت میں یہ ’’انکار جہاد نمبر‘‘ ہے…اوّل تا آخر تقریباً شر ہی شر اور لفاظی کا فضول کھیل…اکثر لکھنے والے وہ ہیں جنہیں کبھی’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا مبارک غبار اور معطر جھونکا نصیب نہیں ہوا…اورنہ ان کی زندگی کے منشور میں ایک لمحہ کے لئے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ میں نکلنے کا ارادہ یا نیت شامل ہے…

 انہوں نے کتابوں کی ورق گردانی کی اور جو مواد انہیں مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کے لئے مل سکا اسے جمع کر دیا…اللہ تعالیٰ امام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز صفدر صاحب نور اللہ مرقدہ کو غریق رحمت فرمائے…انہوں نے چند صفحات پر مشتمل ایک رسالہ’’شوق جہاد‘‘ تحریر فرمایا تھا…اس رسالے کو جو بھی پڑھتا ہے کم از کم اس کے دل میں جہاد فی سبیل اللہ کا شوق ضرور ابھرتا تھا…اور ایک مومن کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کا شوق لوازم ایمان میں سے ہے…ایسا شخص جو نہ جہاد میں نکلے اور نہ اس کے دل میں جہاد کا شوق ہو وہ منافقت کے ایک شعبے پر مرتا ہے…یعنی نعوذ باللہ حسن خاتمہ سے محروم رہتا ہے…ماہنامہ الشریعہ کے مدیر صاحب حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ  کے پوتے ہیں…ان کا نسبی رشتہ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ  سے جبکہ فکری شجرہ ’’غامدی‘‘ سے جڑا ہوا ہے…اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے،وہ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے…فتنۂ غامدی جو اس وقت پاکستان میں سرگرم ہے…اس فتنے کا اصل مقصد مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے…انہیں کفار کی بدترین ذہنی غلامی میں دھکیلنا ہے…اس فتنے کی کئی شاخیں ہیں اور ان میں سے ایک شاخ کا کام اہل علم اور اہل عمل کو لفظی بحثوں میں الجھانا ہے…جہاد فی سبیل اللہ جیسے اسلام کے محکم اور قطعی فریضے پر یہ ’’خصوصی نمبر‘‘بھی اسی کوشش کا حصہ ہے…ممکن ہے کوئی بد نصیب انسان اسے پڑھ کر جہاد سے دور ہو…ورنہ اس میں نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی عقلی روشنی…جہاد فی سبیل اللہ کے تمام فضائل،احکامات اور طریقے قرآن مجید نے سکھا دئیے ہیں…حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کے مبارک غزوات، قرآن مجید کی دعوت جہاد کی عملی تفسیر ہیں…اب جو مسلمان سورۃ انفال پڑھ لیتا ہے یا سورۃ توبہ اور سورۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کو سمجھ لیتا ہے…اس پر کسی قادیانی،کسی غامدی یا کسی ناصری کا جادو کہاں چل سکتا ہے؟…

جو مسلمان غزوہ بدر،غزوہ احد اور غزوہ احزاب و تبوک کے پُرنور سمندر میں غوطہ لگا آتا ہے اس پر منکرین جہاد کی بدبودار تحریروں کا کہاں اثر ہوتا ہے؟…یہ بے چارے خود کو خوامخواہ تھکا رہے ہیں…جہاد کی شمع الحمد للہ ایسی روشن ہو چکی ہے کہ اب مشرق تا مغرب فدائی مجاہدین کے طوفانی ریلے ہیں…الشریعہ کے اس نمبر سے اس کے مدیران گرامی بس یہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ وہ اسے امریکن، برٹش یا انڈین سفارت خانے میں بھیج کر …وہاں سے شاباش،ویزے اور کچھ مراعات لے لیں گے… اور بس…اور شائد ان بے فکرے مفکرین کو اس دنیا میں یہی کچھ درکار ہے…انہیں نہ امت مسلمہ کا غم ہے اور نہ اسیران اسلام کا درد…وہ نہ عافیہ صدیقی کو اپنی بہن سمجھتے ہیں…اور نہ انہیں بابری مسجد اور مسجد اقصی کی کوئی فکر ہے…اس موقع پر مجھے امام العارفین حضرت خواجہ عبید اللہ احرار نقشبند رحمۃ اللہ علیہ  یاد آ رہے ہیں … سبحان اللہ…حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے خاندان سے امت مسلمہ کو کتنا نفع پہنچا…ابھی ہمارے ماہنامہ المرابطون کے حجۃ الاسلام نمبر میں آپ نے پڑھ لیا ہو گا کہ… حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے مبارک خاندان سے تھے…حضرت خواجہ عبید اللہ احرار نقشبند رحمۃ اللہ علیہ  کا سلسلہ نسب بھی حضرت سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ   تک پہنچتا ہے…آپ ۸۰۶؁ھ تاشقند میں پیدا ہوئے…آپ نے ثمرقند کو اپنا مسکن بنایا اور وہیں مدفون ہوئے…بندہ کو ان کی قبر پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و بیان میں عجیب تاثیر سے نوازا تھا…

آپ فرماتے تھے:

’’بزرگوں کی خدمت سے مجھے دو چیزیں عطاء ہوئیں، ایک یہ کہ جو کچھ لکھوں اس میں نیا پن ہو،دوسرا جو کچھ کہوں پسندیدہ ہو‘‘

آپ پہلے بہت غریب تھے…پھر اللہ تعالیٰ نے بے حد و بے حساب مال و دولت عطاء فرمایا…غربت میں تھے تب بھی امانت اور سادگی پر مضبوط رہے…اور جب بڑے مالدار ہو گئے تب بھی امانت و سادگی وہی رہی … البتہ سخاوت ایسی بڑھی کہ دین کا کام کرنے والے فقراء کے مزے ہو گئے…حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ  ان کی خدمت کرتے،ان کے تمام اخراجات اٹھاتے اور ان کے لئے دین کے کاموں میں آسانی کے لئے اسباب فراہم کرتے…آپ بڑی ہمت والا اس کو سمجھتے تھے جس کے پاس دنیا ہو مگر پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو اور دنیا کی محبت اس کے دل میں نہ اترے…

بندہ کو حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ  سے خاص عقیدت و محبت والا تعلق ہے…اس لئے ان کا تذکرہ آیا تو اب دل چاہتا ہے کہ اسی میٹھے تذکرے میں لگا رہوں…مگر آج موضوع کچھ اور ہے …اور اسی کی مناسبت سے حضرت خواجہ صاحب نوراللہ مرقدہ کا ایک فرمان سنانا ہے … آپ فرماتے ہیں:

’’اگر ہم پیری مریدی کرتے تو اس عہد (یعنی زمانے) میں کسی( اور) پیر کو کوئی مرید نہ ملتا،لیکن ہمارے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے محفوظ رکھیں‘‘

حضرات مفسرین کرام رحمۃ اللہ علیہ  نے جہاد کے مقاصد اور اہداف میں سے ایک یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ظالم دشمنوں سے حفاظت رہے…حضرت خواجہؒ اپنے زمانے کے مسلمان حکمرانوں کو اس طرف متوجہ فرماتے رہتے تھے…آپ نے اپنے ایک ارادتمند بادشاہ کو یہاں تک لکھا کہ…آپ کے لئے نماز کے بعد سب سے اہم کام یہ ہے کہ آپ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے پوری ہمت اور محنت صرف کریں اور ان کے دشمنوں کا مکمل طاقت اور سختی کے ساتھ مقابلہ کریں…

جہاد کے خلاف امریکی اور انڈین فنڈ سے چلنے والے اداروں،رسالوں اور افراد کے لئے…یہ ضروری اطلاع ہے کہ آج سے صرف چار دن بعد الحمد للہ پورے ملک میں…تقریباً تیس مقامات پر آیات جہاد کا دورہ تفسیر شروع ہو رہا ہے…تین مرحلوں میں مکمل ہونے والے اس دورے میں ان شاء اللہ ہزاروں مسلمان مرد اور خواتین شریک ہوں گی…اور یہ سب جہاد کے بارے میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے…غزوات النبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پُر کیف مناظر یاد کریں گے…اور عصر حاضر میں جاری جہاد کا ماضی کے ساتھ رشتہ سمجھیں گے…ان تفسیری اسباق کی صوتی ریکارڈنگ بھی ہوتی ہے…اور دنیا بھر کے مسلمان اسے سنتے،سمجھتے اور مانتے ہیں…اور الحمد للہ بہت سے مسلمان اس پُرتاثیر دعوت کی برکت سے عملی جہاد میں بھی شریک ہوتے ہیں…جماعت کے ذمہ داروں اور کارکنوں سے تاکیدی گزارش ہے کہ …اس سال ’’دورات تفسیر‘‘ کے لئے پہلے سے زیادہ محنت کریں…تاکہ ’’انکار جہاد‘‘ کا فتنہ اپنی ناکامی خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر447

چار چیزوں سے حفاظت کی نبوی دُعاء...

رجب کی رخصتی اور شعبان کی آمد...

اس مہینے کے بارے میں غفلت پر نبوی تنبیہ...

شعبان کو قیمتی بنانے اور غفلت سے بچانے کا ایک قیمتی نصاب...

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں اس مہینے کا خاص اہتمام...

انفاق فی سبیل اللہ مہم...

اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر... اس مہم کی قدر کریں...

دُعاء میں مذکور چار الفاظ کی تشریح...

یہ دُعاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا احسان عظیم ہے...

مختصر نصابِ شعبان

اللہ تعالیٰ ہم سب کی’’شماتتِ اَعداء‘‘ سے حفاظت فرمائے…آمین…

’’شماتتِ اَعداء‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ہم پر کوئی ایسی حالت یا مصیبت آئے کہ اسے دیکھ کر ہمارے دشمن خوش ہوں اور وہ ہمارا مذاق اڑائیں…اسے کہتے ہیں ’’شماتتِ اَعداء‘‘۔

ہمارے محسن حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں…یعنی یہ دعاء کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ اور امان میں لے کر ان چار چیزوں سے بچائے… وہ چار چیزیں یہ ہیں:

١                    جہد البلاء…

٢                    درک الشقاء…

٣                    سوء القضاء…

٤                    شماتۃِ الاعداء…

آج ان شاء اللہ کوشش ہو گی کہ ان چار مصیبتوں کی کچھ تشریح آ جائے…پہلے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا حکم پورا کریں اور یہ دعاء پڑھ لیں…

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَائِ وَدَرَکِ الشَّقَائِ وَسُوْئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاءْ

’’یااللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں…سخت آزمائش سے،بد بختی اور بد نصیبی سے، بری تقدیر اور غلط فیصلے سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے‘‘…

تشریح تھوڑا آگے چل کر …پہلے اسی حوالے سے ایک اہم بات…

رجب گیا شعبان آیا

آج ستائیس رجب کی رات ہے…یعنی شعبان کے آنے میں صرف دو یا تین دن باقی ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ…اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے شعبان کو پانے کا ایک مختصر سا نصاب عرض کر دیا جائے…

شعبان کے مہینہ کے بارے میں حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا ہے کہ…

’’لوگ اس مہینے سے غافل رہتے ہیں‘‘

ارشاد فرمایا:

ذٰلِکَ شَہْرٌ یَّغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبَ وَ رَمَضَانَ

’’یہ وہ مہینہ ہے رجب اور رمضان کے درمیان کہ لوگ اس سے غافل رہتے ہیں‘‘…

اب پہلی نیت تو ہم سب یہ کریں کہ ہم ان شاء اللہ اس مبارک مہینہ سے غفلت نہیں کریں گے بلکہ اسے مسنون اعمال کے ذریعہ قیمتی بنائیں گے…

لیجیے دعا پڑھ لیں:

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ

دوسری بات اس مبارک مہینہ کے بارے میں حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہ ارشاد فرمائی کہ اس مہینہ میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں:

تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

اس لئے ارشاد فرمایا:

فَاُحِبُّ اَنْ یُّرْفَعَ عَمَلِی وَاَنَا صَائِمٌ

’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں کہ میں روزے میں ہوں‘‘…(النسائی)

آپ حدیث شریف کی کوئی بھی بڑی اور مستند کتاب دیکھ لیں…آپ یہی فیصلہ کریں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان میں رکھتے تھے…

کبھی پورا مہینہ …اور کبھی اکثر مہینہ… بخاری اور مسلم میں روایات موجود ہیں…

تیسری بات اس مہینہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہ ارشاد فرمائی کہ اس مہینے کے نصف والی رات یعنی پندرہ شعبان کی رات،اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی عمومی مغفرت فرماتے ہیں… بس وہ لوگ مغفرت سے رہ جاتے ہیں جن کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے بغض اور دشمنی ہوتی ہے… حسد،بغض اور دشمنی رکھنے والوں کی مغفرت نہیں کی جاتی…یہ مضمون کئی احادیث مبارکہ میں آیا ہے…

چوتھی بات جو اس مہینہ کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے…وہ ہے پندرھویں شعبان کا روزہ اور اس سے پہلے والی رات کی عبادت…اس میں کئی علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس مضمون کی احادیث ضعیف میں…جبکہ کئی علماء کرام ان روایات کو قابل عمل قرار دیتے ہیں… (واللہ اعلم بالصواب)

اب ہمارے علم میں شعبان کے بارے میں کل چار باتیں آ گئیں…پہلی تین باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں جبکہ چوتھی بات میں اختلاف ہے…ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ…مسلمانوں کو اس مہینہ میں اپنے اعمال زیادہ بہتر کرنے چاہیں تاکہ وہ رمضان المبارک کو اچھی طرح سے کما سکیں…حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور ہمارے اسلاف شعبان آتے ہی چند باتوں کا اہتمام فرماتے تھے…ایک تو روزوں کی کثرت تاکہ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے روزوں کی حلاوت اور عادت پا لیں…دوسرا تلاوت کی کثرت…کئی حضرات کے بارے میں آتا ہے کہ شعبان آتے ہی گھروں کے دروازے بند کر کے قرآن مجید میں مشغول ہو جاتے…تیسرا زکوٰۃ اور صدقات میں اضافہ…تاکہ غرباء،مساکین تک رمضان المبارک سے پہلے رمضان المبارک کا سامان پہنچ جائے…اب ہمارے لئے نصاب آسان ہو گیا…

١                    ہم رجب اور شعبان میںبرکت والی دعاء کثرت سے مانگیں:

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ

٢                    ہم شعبان میں زیادہ روزے رکھیں یا کم از کم چار روزوں کا اہتمام کر لیں ایک تو یکم شعبان کا روزہ تاکہ مہینہ کا استقبال روزے سے ہو جائے اور ہمارے سال بھر کے اعمال جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو ہم روزے کی حالت میں ہوں…ایک مسلمان روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ اچھا لگتا ہے …اور تین روزے ایام بیض کے تیرہ،چودہ اور پندرہ شعبان…یہ روزے ہر ماہ مسنون ہیں…

٣                    جن کو صدقہ، خیرات،زکوٰۃ کی طاقت ہو وہ شعبان میں کچھ صدقہ اور زکوٰۃ نکال کر ان مسلمانوں تک سامان پہنچائیں جن کی مالی حالت کمزور ہے…اس انتظار میں کہ رمضان المبارک کا صدقہ ستر گنا اجر والا ہوتا ہے ، مال روک کر نہ بیٹھے رہیں…

اگر ایک مسلمان نے رمضان کا چاند اس حالت میں دیکھا کہ…آپ کے دئیے ہوئے مال یا سامان کی وجہ سے اسے مالی بے فکری حاصل ہوئی تو یہ… آپ کے لئے بہت بڑا ذخیرہ ہو گا…باقی کوئی بھی سارا پیسہ یا سامان ایک دن میں نہیں کھا سکتا…وہ رمضان میں آپ کے مال سے کھائیں گے تو آپ کو رمضان والا اجر بھی مل جائے گا…خصوصاً امت مسلمہ کا سب سے مقرب اور اونچا طبقہ حضرات مجاہدین جو محاذوں اور تربیتوں میں ہوتے ہیں ان تک رمضان المبارک کا سامان پہلے ہی پہنچا دینا چاہیے…

٤                    اپنی تلاوت میں کچھ اضافہ کریں…اسی طرح نمازوں کا باجماعت اہتمام کریں…

٥                    جو عید کی خریداری کا شوقین ہو وہ شعبان میں کپڑے وغیرہ سلوا لیں تاکہ رمضان المبارک کے آخری قیمتی دن بازاروں اور درزیوں کے پاس ضائع نہ ہوں…

بس یہ ہے پانچ نکاتی مختصر نصاب…خود بھی عمل کریں اور دوسروں تک بھی پہنچائیں…

انفاق فی سبیل اللہ مہم

الحمد للہ ’’جماعت‘‘ جہاد اور خیر کا وسیع کام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کر رہی ہے…چاروں طرف اندھیرے اور گمراہیوں کے سمندر ہیں…ان خوفناک سمندروں اور طوفانوں کے بیچ اللہ کے نام اور اللہ کے کام سے وفاداری کرنا…اور امت مسلمہ کو روشنی،عزت،غیرت اور ایمان کے جزیرے پر لانا ایک بڑا عظیم کام ہے…اس وقت بھی ماشاء اللہ دس مقامات پر دورہ تفسیر جاری ہے اور اگلے چند دنوں میں تقریباً تیس مقامات پر یہ دورہ ہو گا…محاذوں کی گرمی،کفالت شہداء کے ٹھنڈے سائے،دعوت کے برستے بادل،تعلیم و تعلم کے انوارات،اصلاح اور تزکیہ کے میٹھے جام… تصنیف و تالیف کی روشنیاں…اور دور دور تک اذانیں سناتیں مساجد…ماشاء اللہ ہر لمحہ خیر،ہر قدم خیر، اور ہر سانس خیر…

اپنی جماعت اور اس کام کی قدر کریں… اخلاص کے ساتھ محنت کریں اور خود اپنا مال اس مبارک کام پر شرح صدر کے ساتھ لگائیں…بیس شعبان سے یہ مہم شروع ہو کر یکم شوال کی مغرب تک جاری رہتی ہے…اللہ والے دیوانے اس مہم میں شعبان بھی پاتے ہیں ، رمضان بھی کماتے ہیںاور عید بھی لگاتے ہیں … آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں…اور آپ سب کو پیار بھرا سلام… اللہ تعالیٰ آپ کو امت مسلمہ کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے…

چار الفاظ کی تشریح

بخاری شریف میں سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے…نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ جَہْدِ الْبَلَآءِ وَدَرَکِ الشَّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدِاءِ

’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرو…جہد البلاء سے، درک الشقاء ہے، سوء القضاء سے اور شماتۃ الاعداء سے‘‘…

١                      جہد البلاء: ہر ایسی مصیبت،سختی اور تکلیف جس کی انسان میں طاقت نہ ہو… ایسے فتنے جن کے آنے پر انسان موت مانگنے لگے…ایسے امراض جو ناقابل برداشت اور ناقابل علاج ہوں…ایسے قرضے جو کمر توڑ دیں …ایسی خبریں جو غم میں ڈبو دیں…ایسے غم جو خون نچوڑ لیں یا اولاد کی کثرت اور ساتھ مال کی بے حدکمی…

٢                      درک الشقاء: شقاوت یعنی بد نصیبی،بد بختی … شقاوت ضد ہے سعادت کی اور شقاوت کی دو قسمیں ہیں…پہلی دنیوی شقاوت اور وہ یہ کہ انسان کا دل اور جسم گناہوں میں غرق ہو جائے اور نیک کاموں کی توفیق نہ ملے…اور دوسری اخروی شقاوت کہ کوئی انسان نعوذ باللہ جہنم میں ڈال دیا جائے…

٣                      سوء القضاء: بری تقدیر،برا فیصلہ…یعنی ایسے حالات من جانب اللہ پیش آئیں کہ جن سے انسان کو نقصان اور تکلیف پہنچے… یا انسان خود کوئی ایسے غلط فیصلے کر بیٹھے جن میں گناہ ہو، ظلم ہو اور دنیا و آخرت کا نقصان ہو… یا انسان کے بارے میں کوئی حاکم یا قاضی ظالمانہ فیصلہ سنا دے…

٤                    شماتۃ الاعداء: ہر آدمی کے دشمن بھی ہوتے ہیں اور حاسدین بھی…اگر اس انسان پر کوئی ایسی حالت اور مصیبت آ جائے جس سے اس کے دشمن اور حاسدین خوش ہوں اور وہ اس کا مذاق اڑائیں تو اسے ’’شماتۃ الاعداء‘‘ کہتے ہیں…

اندازہ لگائیے حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ’’احسانات‘‘ کا کہ کیسی عمدہ،جامع اور ضروری دعاء اپنی اُمت کو تعلیم فرما دی…

 صلی اللہ علیہ وسلم  … صلی اللہ علیہ وسلم  … صلی اللہ علیہ وسلم 

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ…اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَائِ وَدَرَکِ الشَّقَائِ وَسُوْئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاءْ

آمین یا ارحم الراحمین

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر448

اسلام اور جہاد کی عظیم فتح... پانچ طالبان رہنمائوں کی رہائی...

دُنیا کی سب سے بڑی طاقت کی تاریخ کی طویل

جنگوں میں سے ایک میں بدترین شکست ...

بالآخر اسے مجاہدین کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑے... ایک تاریخی منظر...

غامدی کے ایک شاگرد کا خبث باطن اور رسوائی...

امارتِ اسلامیہ کا سقوط، غزوئہ اُحد کے مناظر...

حضرت مفتی نظام الدین شامزئی قدس سرہٗ کا غم اور آنسو...

جنگ کے بدلتے مناظر... پہلے شدید مظلومیت اور اب عظیم فتوحات...

قربان ہونے والوں کوسلام...

ایک اہم دُعاء...

ہماری تین بنیادی ضروریات کے حصول کی ضامن دُعاء...

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی دُعائوں کے خزانے سے ایک مفید عام تحفہ...

 

اسلام اور جہاد کی فتح

اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں…بالکل سچے،بالکل پکّے…ان وعدوں کے بارے میں شک کرنا محرومی ہے… یا اللہ! ہمیں اپنے وعدوں پر ایمان اور یقین نصیب فرما…آمین

تاریخ کی طویل جنگ

ایک طرف دنیا کی بظاہر سب سے بڑی قوت تھی…اور یہ قوت بھی اکیلی نہیں…اس کے ساتھ دنیا کے تین درجن اور ممالک بھی تھے…جبکہ دوسری طرف اکیلی امارت اسلامیہ افغانستان…جی ہاں! طالبان…یہ جنگ چودہ سال سے جاری ہے…چودہ سال کی اس لڑائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟…

آپ نے خبروں میں پڑھ لیا ہو گا…

’’امریکہ نے اپنے ایک فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے‘‘

سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم…اَللہُ اَکْبَر کَبِیْراً

یہ ہے اسلام کی طاقت اور یہ ہے جہاد کی قوت…بظاہر تو یہ لگتا تھا کہ ’’طالبان‘‘ چودہ سال تو دور کی بات چودہ دن بھی مقابلہ نہیں کر سکیں گے…کونسا اسلحہ ہے جو اُن کے خلاف استعمال نہیں ہوا…اور کونسی سازش ہے جو اُن کے خلاف نہیں اُٹھائی گئی…دنیا بھر کے جنگی ماہرین…اور بڑے بڑے جرنیل ہر آئے دن نئے نئے پینترے بدل کر جنگ بھڑکاتے رہے،تدبیریں رچاتے رہے…اور سر کھپاتے رہے…سمندروں میں پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے بحری بیڑے    پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے تاک کر نشانہ لگانے والے جنگی جہاز…لمحوں اور ذروں کو شمار کر کے اپنے ہدف کو تہس نہس کرنے والے کروز میزائل…میلوں تک ہر چیز کو بھسم کرنے والے ڈیزی کٹر بم…فضاؤں میں راج کرنے والے نگران مصنوعی سیارچے…ہزاروں میٹر کی بلندی پر قائم پیٹرول اسٹیشن طیارے…اپنی مہارت پر ناز کرنے والے خفیہ ادارے…ملکوں کی بساطیں لپیٹنے والے جاسوسی ماہرین…اور وحشی جسم رکھنے والے کمانڈوز…یہ سب استعمال ہوئے اور ناکام ہو گئے…ایمان والوں کے ساتھ اللہتعالیٰ کی نصرت کا وعدہ تھا جو الحمد للہ پورا ہوا…اور چودہ سال کی جنگ سہنے والوں کو ایسی طاقت بخش گیا کہ انہوں نے ایک کے بدلے اپنے پانچ رہنما آزاد کروالئے…

سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم…اَللہُ اَکْبَر کَبِیْراً

فتح کے اس موقعہ پر کس کس کو مبارکباد دی جائے…کس کس پیارے فدائی کا تذکرہ مہکایا جائے…قرآن پاک کی کونسی کونسی آیات سنائی جائیں…بہت سی روشن آیات آنکھوں کے سامنے آتی ہیں اور دلنشین انداز سے مسکراتی ہیں…رب کعبہ کی قسم! وہ ہو گیا جو کسی دشمن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا…غامدی کے ایک شاگرد نے موجودہ افغان جہاد کے آغاز میں قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا (نعوذباللہ) مذاق اڑایا تھا … غامدی اور اس کے پرستاروں کی نظر امریکہ کی طاقت پر تھی…وہ نیٹو کی قوت پر توکل کر کے بار بار لکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب دنیا میں طالبان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی…وہ ’’بش‘‘ کو سلامیاں پیش کر رہے تھے کہ جلد ان فسادی مجاہدین کو مٹا دو…مگر بش خود مٹ گیا اور اب ابامہ جانے کو ہے…اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ

اُحد میں زخم کھانے والو! سست نہ پڑنا،غم میں نہ ڈوبنا، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان پر رہے…

غامدی کے شاگردوں نے اس آیت مبارکہ کو بار بار لکھا اور مذاق اڑایا…آج وہ شرم سے کیوں نہیں ڈوب مرتے؟…مگر طاغوت کے پجاریوں کو شرم کہاں؟…سبحان اللہ! اسلام کی شان دیکھیں،جہاد کی زندگی دیکھیں…موجودہ افغان جہاد شروع ہوا تو  ’’غزوہ احد‘‘ جیسے مناظر تھے…ہر طرف شہداء کے ٹکڑے، زخمیوں کی آہیں…دربدر بھٹکتے مہاجرین کے قافلے…اور غموں کی برسات… اُن دنوں تو اچھے خاصے لوگ بھی دل ہار گئے تھے… یہی شعبان تھا اور پھر رمضان…افغانستان پر طیارے آگ انڈیل رہے تھے…مجاہدین کے خط اور محاذ ایک ایک کر کے ٹوٹ رہے تھے…مجاہدین کی عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر صحراؤں اور پہاڑوں میں غم اور حیرت کا مجسمہ بنی آسمان کو تک رہی تھیں…طیاروں کی کارپٹ بمباری سے قافلوں کے قافلے خون میں ڈوب رہے تھے … شمالی اتحاد کا سیلاب کابل پر چھا چکا تھا…معصوم بچے ماؤں کی گود میں بھوکے پیاسے مر رہے تھے… مغربی میڈیا خونخوار شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا … اور مجاہدین کے رہنماؤں کا پتا نہیں چلتا تھا کہ کہاں چلے گئے…مجھے آج بھی ان دنوں کے بعض مناظر یاد آتے ہیں تو دل پر غم کی ضربیں لگتی ہیں…غزوہ احد کے بارے میں رب العالمین نے خود فرمایا:

فَاَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ

کہ تم پر غموں کی بارش ہو چلی تھی…ایک غم پر دوسرا غم اور دوسرے غم پر تیسرا غم…موجودہ افغان جہاد کے آغاز میں اس سے ملتی جلتی صورتحال تھی…حضرت مفتی نظام الدین شامزئی رحمۃ اللہ علیہ  بے چین ہو کر ہمارے مرکز تشریف لائے اور بیان کرتے ہوئے جگر مراد آبادی کے اشعار پڑھ کر رونے لگے    ؎

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعاء ہے

وہ بلند قامت،بلند ہمت اور زیادہ مسکرانے والے عالم دین تھے…مگر غم ایسا تھا کہ وہ کوہ ہمالیہ بھی آنسوؤں کی آبشار نہ روک سکا…اس وقت ہم سب کا واحد سہارا اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے تھے جو ہم نے قرآن مجید میں پڑھے تھے…خود بھی ان وعدوں کو یاد کرتے اور دوسروں کو بھی یہی وعدے سنا کر تسلّی دیتے…اور پھر رمضان المبارک میں خبر آ گئی کہ…امارت اسلامیہ افغانستان کا سقوط ہو گیا…آہ! امارت اسلامیہ افغانستان…مگر رب تعالیٰ کے وعدے مسکرا رہے تھے…اور قرآن مجید کی آیات جہاد چمک رہی تھیں…بے سروسامان مجاہدین نے اپنے بچے کھچے حواس کو سنبھالا اور جس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آیا وہ اسے لے کر ایک اندھیری جنگ میں کود گیا…فضائی بمباری کچھ تھمی اور دشمن زمین پر اترا تو …منظر حیران کن تھا…وہ جو قیمہ ہو چکے تھے اور لہو میں ڈوب چکے تھے…اُن کے فرزند زمین پر دشمن کا استقبال کرنے کو موجود تھے… تب ایک غیر متوازن جنگ شروع ہوئی… ہمارے روشن خیالوں نے اپنی گھڑیوں اور کیلنڈروں کو اُلٹا چلا دیا…یہ جنگ ایک ماہ چلے گی یا پندرہ دن…وہ ایک ایک دن گھٹاتے گئے مگر یہ کیا؟…ہر دن گھٹنے کے ساتھ ان کی اُمیدیں بھی گھٹنے لگیں…سبحان اللہ! مجاہدین نے ایسی جنگ لڑی کہ آسمان بھی جھانک کر دیکھتا ہو گا…سبحان اللہ! فدائیوں نے ایسا جہاد اٹھایا کہ حوریں بھی منظر دیکھنے آسمان پر تشریف لاتی ہوں گی…ایک سال،دوسال، تین سال…کئی جنرل بدل گئے…کئی قید خانے بھر گئے…کئی لشکر آئے اور چلے گئے…مگر کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کے بیٹے آگے ہی بڑھتے گئے…اور قندھار سے لے کر کابل تک…خوست سے لے کر غزنی تک…اور جلال آباد سے لے کر قندوز تک دنیا کے طاقت ور لشکر خود کو ایک تنگ اور اندھیری گلی میں بند محسوس کرتے گئے … ہائے کاش! کوئی اس عظیم اور مبارک جہاد کی تاریخ لکھے تو دنیا کا ہر عقلمند شخص مسلمان ہو جائے…اور الحمد للہ اس جہاد کی برکت سے لاکھوں افراد اب تک مسلمان ہو چکے ہیں…خود دشمن کے کئی فوجی مسلمان ہو کر گئے اور ان میں سے بعض آج اسلام کے مبلغ بنے ہوئے ہیں…وہ جہاد جس کا ابتدائی منظر نامہ ’’غزوہ ٔاحد‘‘ جیسا تھا آج چودہ برس بعد اس میں سے ’’غزوۂ احزاب‘‘ کی خوشبو آ رہی ہے…

دل چاہتا ہے پہلے غزوہ احد والی آیات لکھ دوں…اور پھر غزوہ احزاب والی…ان آیات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ…جہاد واقعی ایک زندہ عمل ہے…اور قرآن پاک کے جہادی واقعات بار بار…اپنا منظر دکھاتے رہتے ہیں…غامدی اور اس کے شاگردوں کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ جہاد کی اکثر آیات رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے کے ساتھ خاص تھیں… انکار ِ جہاد پر یہ دلیل تو مرزا قادیانی کو بھی نہ سوجھی… قرآن مجید قیامت تک کے لئے ہے اور تمام انس و جن کے لئے ہے…جب نماز والی آیات قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ہیں تو جہاد والی آیات بھی قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ہیں…آج کوئی بھی مسلمان غزوۂ احزاب والی آیات پڑھ لے اور پھر افغانستان کے حالات دیکھے تو اس کا دل ایمان اور نور سے بھر جائے گا… الحمد للہ اس وقت پندرہ شہروں میں ’’دورہ آیات جہاد‘‘ پڑھایا جا رہا ہے…ماشاء اللہ تین ہزار سے زائد افراد کراچی سے لے کر پشاور تک…اور بہاولپور سے لے کر قلات اور ژوب تک قرآن مجید کی زندہ آیات جہاد کو پڑھ اور سمجھ رہے ہیں…مبارک ہو ان تمام مسلمانوں کو جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا…انہیں بھی جنہوں نے اس مبارک جہاد میں جان لگائی اور ان کو بھی جنہوں نے اس جہاد میں مال لگایا…اور انہیں بھی جنہوں نے اس جہاد کے لئے دعائیں اور محبت کے پھول کھلائے رکھے… ماشاء اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں گئی…

آج وہ مظلوم شہید کتنے یاد آتے ہیں جنہیں شبرغان اور قندوز میں کنٹینروں میں بند کر کے شہید کیا گیا…اور وہ جو قلعہ جنگی کی جیل میں بمباری سے شہید ہوئے…آج ان شہداء کی ارواح کتنی خوش ہوںگی کہ…ان کے سپہ سالار حضرت ملا فضل اخوند فاتحانہ رہائی پا چکے ہیں…اس وقت کے دردناک اور خون آشام حالات میں کون اس فتح کا تصور کر سکتا تھا؟؟…مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں…اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ دنیا اور آخرت کے جو وعدے کئے ہیںوہ ضرور پورے ہوں گے…

ایک دعاء اپنا لیں

ہمیں ہر دن تین چیزوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے…یہ تین چیزیں مل جائیں تو ہمارا پورا دن کامیاب ہو جاتا ہے…اور اگر کسی دن ہم ان تین چیزوں سے محروم رہیں تو ہمارا وہ دن…یعنی زندگی کا زمانہ (نعوذ باللہ) نا کام ہو جاتا ہے…

ہمارے محسن اور آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں دعاء سکھا دی ہے اور ان تین چیزوں کی نشاندہی بھی فرما دی ہے…اور انہیں پانے کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیا ہے…اور طریقہ یہی ہے کہ ہم ہر صبح دل کی توجہ سے وہ تین چیزیں مانگ لیا کریں…

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلا

یا اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں…یعنی مانگتا ہوں نفع دینے والا علم…پاکیزہ رزق اور مقبول اعمال سبحان اللہ! کیسی جامع اورکتنی ضروری دعاء ہے…علم نافع، رزق طیب اور مقبول اعمال…ان تین الفاظ کی تشریح کی جائے تو ایک پورا کالم درکار ہو گا…علم، اللہ تعالیٰ کا نور ہے… اور نفع دینے والا علم انسان کو راستہ بھی دکھاتا ہے اور منزل تک بھی لے جاتا ہے…پاکیزہ رزق انسان کی اہم ضرورت ہے…اور رزق میں صرف کھانا پینا اور مال ہی شامل نہیں…بلکہ انسان کو ملنے والی ہر نعمت رزق ہے…یہ رزق پاکیزہ ہو تو انسان کی قسمت جاگ اٹھتی ہے…اور مقبول اعمال کے ہم سب محتاج ہیں…کتنے لوگ طرح طرح کی سخت محنتیں کر کے اعمال کرتے ہیں مگر ان کی محنت رائیگاں جاتی ہے اور کسی وجہ سے اعمال قبول نہیں ہوتے…

فجر کی نماز کے بعد اس دعاء کو دل کی توجہ سے ہم سب تین بار مانگ لیا کریں…

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلا

آمین یا ارحم الراحمین

لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر449

وردالسعادۃ... سورۃ فاتحہ کے بارے میں اہم نکات...

اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق...

ہم اس ملاقات کے شوق سے کیوں محروم ہیں؟ ایک دلنواز دعوت

سورۃ فاتحہ کی اہم تاثیر... اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچائو کا ذریعہ...

سورۃ الفاتحہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت بھرے جوابات...

اسلام کے فدائیوں کا عاشقانہ تذکرہ...

اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے شوق میں جینے والے سرفروش کتنے عظیم ہیں...

دشمنان اسلام کی فدائیوں کے مقابل بے بسی...

بدر و اُحد والے جوان آج بھی زندہ ہیں۔ جہاد آج بھی ممکن ہے...

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول سورۃ الفاتحہ کا خاص وظیفہ اور اس کے دس اہم خواص...

ورد السعادۃ

اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیںہیں:

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

کیا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ہے؟

مَنْ اَحَبَّ لِقَاءِ اللّٰہِ اَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَہٗ

جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے… اللہ تعالیٰ بھی موت کے وقت اُس سے محبت والی ملاقات فرماتے ہیں…

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

دن رات میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں… ان چوبیس گھنٹوں میں کیا صرف ایک لمحہ بھی ہمارے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم نے ضرور اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے؟

ارے بھائیو! اور بہنو!

اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی مہربان… اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی حسین، اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی محبت کرنے والا، اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی معاف کرنے والا… اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی قدر اور اکرام کرنے والا… پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے دلوں میں ہر کسی سے ملنے کا شوق ابھرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق نہیں ابھرتا… آخر یہ ساری نمازیں کس کے لیے ہیں؟… ساری محنتیں کس کے لیے ہیں؟… مزدور محنت کرتا ہے تاکہ مالک اُس سے خوش ہو اور اُسے اجرت دے… ہم بھی عبادت کرتے ہیں… کیونکہ معبود کے پاس جانا ہے… اگر ہم اپنے دلوں میں زندہ رہنے کا شوق کچھ کم کردیں… اور ہر نیکی اور عبادت کے بعد اللہ تعالیٰ سے مناجات کیا کریں کہ… یا اللہ! یہ سب آپ کے لیے ہے، آپ مجھے اپنی محبت والی ملاقات کا شوق نصیب فرما دیں… تو یقین کریں ہمارے لیے دنیا کی ہر تکلیف آسان ہوجائے… دنیا انہیں کو زیادہ کاٹتی ہے جو دنیا ہی میں رہنے کا شوق رکھتے ہیں… جو اس دنیا سے بے رغبت ہیں دنیا اُن کے پیچھے دوڑتی ہے…

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی تأثیرات رکھی ہیں… ان میں سے ایک تأثیر یہ بھی ہے کہ یہ سورۃ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچاتی ہے…

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

اللہ تعالیٰ کے غضب کے خوف سے ساری مخلوق تھر تھر کانپتی ہے… ایک مسلمان اگر اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ کر اسکی رحمت میں آجائے تو اُسے اور کیا چاہیے… اسی لیے بار بار آواز لگائی جارہی ہے کہ… سورۂ فاتحہ کو حاصل کرلیں، سورۂ فاتحہ کو پالیں… یہ جو اس زمانے کے فدائی مجاہدین ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو مزید کامیابیاں عطاء فرمائے… اور سورۂ فاتحہ کی برکت سے اُن کو اور زیادہ فتوحات عطاء فرمائے… سورۂ فاتحہ اور فدائی مجاہدین میں کیا جوڑ ہے یہی بات عرض کرنی ہے… سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہے… بندہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ سنتے ہیں… اور ہر جملے کا جواب عنایت فرماتے ہیں…

بندے نے کہا:… اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ… اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں: حَمِدَنِی عَبْدِی… میرے بندے نے میری حمد کی… یہ سلسلہ سورۂ فاتحہ کے آخر تک چلتا رہتا ہے… اُدھر فدائی مجاہدین ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں جیتے اور مرتے ہیں…

اللہ تعالیٰ کا ایک سچا بندہ کہہ رہا تھا… بس یہی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائوں اور میرے جسم کو جانور کھالیں… ہاں! وہ سچ کہہ رہا تھا اور آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہو گیا ہے… دیوانہ عاشق اپنے محبوب سے مل چکا ہے…

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

میں کبھی سوچتا ہوں کہ ان فدائی مجاہدین کا کتنا اونچا مقام ہے؟… اور ان حضرات کا پوری اُمتِ مسلمہ پر کتنا بڑا احسان ہے؟… یہ نہ ہوتے تو آج دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو کچھ بھی نہ سمجھتے… اور انہیں کافی حد تک مٹا دیتے… جس طرح تاتاریوں نے علاقوں کے علاقے مسلمانوں سے خالی کرا دئیے تھے… اور اُن کا سیلاب روکے نہیں رکتا تھا…

آج کے دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے خلاف ایسی جنگی طاقت بنا لی ہے کہ… بظاہر اُس کا مقابلہ ممکن نظر نہیں آتا… ایسے وقت میں تن آسان لوگ دینی کتابوں سے وہ عبارتیں ڈھونڈ لاتے ہیں کہ… جب مقابلے اور مقاومت کی طاقت نہ ہو تو جہاد فرض نہیں ہوتا… تب اللہ تعالیٰ کا ایک سچا عاشق، اللہ تعالیٰ کا فدائی بن کر اُٹھتا ہے اور ایسا کام کرتا ہے کہ… کفار کہنے لگتے ہیں کہ ہمارے پاس ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیںہے… سبحان اللہ! ایٹم بموں اور ہائیڈروجن میزائلوں کے مالک… سیاروں، سیارچوں اور بحری بیڑوں کے مالک خود کو… ایک فدائی مجاہد کے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں… تب قرآن مجید کی جہادی آیات مسکرانے لگتی ہیں کہ… اے مسلمانو! جان تو لگا کر دیکھو… جہاد تب بھی ممکن تھا جب بدر کے میدان میں تمہارے پاس مکمل تلواریں نہ تھیں… اور جہاد آج بھی ممکن ہے جب تمہارے پاس غزوہ بدر کے جوان اور کڑیل بیٹے موجود ہیں… ارے! جان تو لگائو، اپنے محبوب رب سے ملاقات کا شوق تو دل میں اٹھائو… یہ وہ شوق ہے جو تمہیں پاک کر دیتا ہے… یہ وہ جنون ہے جو تمہیں بہت طاقتور بنا دیتا ہے

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

سورۂ فاتحہ کا ورد جس کا تذکرہ چند کالم پہلے گذر چکا ہے… وہ ’’ورد الغزالی‘‘ حقیقت میں ’’ورد السعادۃ‘‘ ہے… اس ورد کے بارے میں لکھا ہے کہ اسے وہی خوش نصیب شخص اختیار کر تا ہے جو اہل مشاہدہ میں سے ہو… یعنی جس کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں… اچھا تو یہ ہے کہ یہ ورد ہمیشہ کیا جائے تاکہ قرآن مجید اور خاص سورۂ فاتحہ کے ساتھ مضبوط ربط اور تعلق نصیب رہے… مگر جن کے پاس فرصت کی کمی ہو وہ کم از کم چالیس دن اسے اپنا معمول بنا لیں… حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس ورد کے فضائل اور خواص پر چند اشعار لکھے ہیں… ان میں اس ورد کے جو خواص بیان فرمائے ہیں ان میں سے دس درج ذیل ہیں:

١                    رزق کی برکت…

٢                    تمام مقاصد کا حصول…

٣                    کسی سے بھی کوئی معاملہ ہو اسکا حل…

٤                    حوائج کا پورا ہونا…

٥                    دشمنوں اور مخالفوں کی سازشوں سے حفاظت…

٦                    عزت و مرتبے میں ترقی…

٧                    رعب کا نصیب ہونا، دشمنوں پر ہیبت طاری ہونا…

٨                    حفاظت کے پردے نصیب ہونا…

٩                    توفیق اور خوشیوں کا ملنا…

١٠                ہر طرح کے شر، تنگی، فقر وفاقہ، حکام کے ظلم سے حفاظت…

طریقہ وہی ہے کہ… سورۂ فاتحہ فجر کے بعد تیس بار، ظہر کے بعد پچیس بار، عصر کے بعد بیس بار، مغرب کے بعد پندرہ بار، عشاء کے بعد دس بار…

لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر460

جماعت کے اہل علم اہل سیرت بزرگ

حضرت مولانا عبدالعزیز کشمیری  رحمۃ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال اور چند دیگر مختصر خبریں...

دوراتِ تفسیر کی تین مرحلوں پر مشتمل سالانہ مہم کا کامیاب اختتام...

گزشتہ سالوں سے اضافہ...

حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب کا خاندانی تعارف...

ان کی جہادی قربانیاں اور بڑھاپے کی عمر میں ہجرت...

 جماعت کے ساتھ تعلق اور سرپرستانہ شفقت...

تحریک کشمیر کے ساتھ اپنوں کی بے وفائی اور اہل کشمیر کی استقامت...

کفر و اسلام کا معرکہ فیصلہ کن مرحلے میں...

کفار کوئی خوشی کی خبر نہیں پا سکے...

فتوحات سے محروم مہم کا ناکامی پر اختتام ، قریب ہے ان شاء اللہ...

دورِ حاضر کے ایک عظیم جہادی بزرگ کا محبت بھرا تذکرہ...

شرعی اصولوں پر مبنی دعوت جہاد کے پھیلائو کی ضرورت...

ایک ضروری دعوت

اللہ تعالیٰ ہی ’’غیب ‘‘کا علم رکھتے ہیں …انسان کاعلم بہت تھوڑا ہے

وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا

ہماری جماعت کے بزرگ اور صاحب علم مجاہد …حضرت مولاناعبدالعزیزصاحب کشمیری ابھی دو روز قبل انتقال فرماگئے…

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ

عراق کی طرف حالات نے حیرت انگیزکروٹ لی ہے …امریکہ سے لیکرایران تک تمام باطل طاقتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں …عراق وشام کے مجاہدین کے ایک مشترکہ لشکر نے صوبہ نینوامکمل فتح کرلیا ہے …اوربغداد کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے …جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھاتوکون جانتا تھا کہ …ایسا بھی ہوجائے گا …ہاں! بیشک جہاں ظلم آتاہے وہاں …جہادفی سبیل اللہ گرجنے برسنے لگتا ہے …

وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا

اس سال الحمدللہ آیات الجہاد کا دورہ تفسیر …بہت کامیاب،مفید اور منظم رہا …پڑھنے والوں کی تعداد بھی بڑھی اورپڑھانے والوں میں بھی اضافہ ہوا …یہ دورہ تین مراحل میں مکمل ہوا  …اورماشاء اللہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مرد اور خواتین نے قرآن مجیدکی آیات جہادکواس سال پڑھا…

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ

شمالی وزیرستان میں نیاآپریشن شروع ہوچکاہے …بہت عرصہ سے اس آپریشن کی تیاری تھی… اب جبکہ رمضان المبارک بالکل قریب ہے ،موسم سخت گرم اور زمینی مزاج شدید ہے … یہ آپریشن شروع کردیا گیا ہے …وہ جومسلمانوں کوباہم لڑاناچاہتے تھے ان کے لئے اس شعبان میں  …بس یہی ایک خوشی کی خبر ہے

اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ ہیں آج کی چار باتیں جن پر مختصر سی نظر ڈالنی ہے  …حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب نوراللہ مرقدہ کے انتقال پرملال کی خبراس وقت آئی جب  …بہاولپور میں جماعت کے ذمہ داروں کا اجتماع جاری تھا …پندرہ شعبان کے بابرکت دن اس میٹھے مزاج والے مہاجر فی سبیل اللہ بزرگ نے… اچانک رخت سفر باندھ لیا …ان کی صحت اچھی ہوتی تووہ ضروراجتماع میں تشریف لاتے… انہیں اپنی جماعت سے بہت محبت تھی اورجماعت کے اجتماعات میں وہ اہتمام سے شرکت کرتے تھے …وہ کشمیر کے اس معروف سلمان خیل خاندان سے تعلق رکھتے تھے …جس خاندان کی سیاحتی حکومت کشمیر،جموں ،لداخ سے لیکر بالاکوٹ کے پہاڑوں تک پھیلی ہوئی ہے …یہ سادہ طبیعت، باصلاحیت، بہادر اور صاف دل خاندان  …بڑے اللہ والے اولیاء کاقبیلہ ہے …۱۹۹۴؁ ء کے آغاز میں بندہ دہلی گیاتھاجہاں کشمیر کے دیگرعلماء کرام کے ساتھ حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب سے بھی ملاقات ہوئی… ان دنوں کشمیر کی تحریک عروج پر تھی اورمجاہدین کی صف بندی پہاڑوں سے اتر کر میدانوں کارخ کررہی تھی  …بندہ نے علماء کرام کے اس مختصر وفد کے سامنے ہجرت وجہاد کی بات رکھی… سب نے تائیداورحمایت فرمائی اور حضرت مولاناعبدالعزیزصاحب ؒ فوری ہجرت کے لئے آمادہ ہو گئے… وہ سری نگر میں مقیم تھے اوروہاں کے معروف ’’میرواعظ‘‘خاندان کے استاذتھے  …سری نگر کامیرواعظ خاندان طویل عرصہ تک کشمیرکابے تاج بادشاہ رہا ہے …آج بھی اس خاندان کااثر ورسوخ کافی حد تک قائم ہے … اگرچہ سیاست کی خاردار جھاڑیوں نے پہلے جیسی بات نہیں رہنے دی… حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ   کاہجرت کے لئے تیارہونابندہ کے لئے ایک خوشگوار خبر تھی… پھر یہ ہوا کہ میں تو وہاں رہ گیااوروہ اپنے وعدہ کے مطابق یہاں پاکستان تشریف لے آئے… انڈیا سے رہا ئی کے بعد ان سے دوسری ملاقات یہیں پاکستان میں ہوئی  … اور وہ ہماری جماعت میں محبت کے ساتھ شامل ہوگئے … ان کی ہجرت جہاد کے لئے تھی اس پر وہ تادم آخر ڈٹے رہے اورجہاد کی خدمت کے ساتھ ساتھ علم دین کی روشنی بھی پھیلاتے رہے  …ماشاء اللہ بہت اچھے مدرس اورسراجی کے ماہر عالم دین تھے …مجاہدین کوبہت درد کے ساتھ اتفاق واتحاد اوراطاعت امیر کاہمیشہ درس دیتے تھے …آج وہ ’’گڑھی حبیب اللہ ‘‘کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں …جبکہ تحریک کشمیر کومسکراہٹوں،ساڑھیوں اورسازشوں میں دفن کرنے کی کوشش ان دنوں تیزترہے …کتنے عظیم لوگ اس تحریک کی ہجرت گاہوں میں دفن ہوگئے  …کیسے کیسے البیلے جانباز اس تحریک میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے …کیسی کیسی رشک بتاں جوانیاں اس تحریک کے دوران سایوں میں ڈھل گئیں  …مگربے عزم اوربے ضمیر حکمرانوں نے کبھی بھی اس مبارک تحریک کے ساتھ وفاداری نہیں کی …ہاں! یہ ضرور ہے کہ… اس تحریک کے ساتھ غداری اور ظلم کا معاملہ کرنے والے  … خود قدرت کے انتقام کانشان بن گئے… اور آج جو غداری پر تلے ہیں ان کے دن بھی کچھ زیادہ باقی نہیں ہیں… مجھے یقین ہے کہ شہداء کاخون رائیگاںنہیں جاسکتا …ان شاء اللہ یہ تحریک  … کامیابی پائے گی،بلکہ ہماری توقع سے بھی زیادہ بہتر اس کے نتائج نکلیں گے …ہاں! شرمندگی ہے کہ ہم مولاناعبدالعزیزاوران جیسے مہاجرین فی سبیل اللہ کوان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی فتح کامژدہ نہ سنا سکے …مگر پہاڑوں کے اوپر سورج چمک رہا ہے… اور اس سے بھی اوپر شہداء کاخون چمک اور مہک رہا ہے … یہ افسانہ نہیں اور نہ ہی لفاظی… کل تک ہم جو کچھ عراق کے بارے میں کہتے تھے وہ مذاق کانشانہ بنایاجاتاتھا …مگرآج عراق کاکانٹاہردشمن اسلام کے حلق میں اٹکا ہوا ہے  …ممکن ہے مجاہدین کوپھروقتی طور پر پسپا ہونا پڑے… اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان کی پیش قدمی جاری رہے  …مگر یہ توسوچاجائے کہ اتنے سارے مجاہدین کہاں سے آگئے؟ …عراق میں عشروں تک جہادکانام لیناجرم تھا …اورپھربتیس ممالک نے مکمل طاقت کے ساتھ عراق کووحشی کتوں کی طرح بھنبھوڑا …اوروہاں اپنی پسند کی حکومت بٹھا دی… اور اس حکومت کوپیسے اور اسلحے سے لیس کردیا …توپھرمجاہدین کے اتنے بڑے لشکر کہاں سے آگئے؟… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم …جہاد ایک حقیقت ہے ،جہاد اللہ تعالیٰ کا نہ مٹنے والاحکم ہے… جہاد اللہ تعالیٰ کی ابدی اور دائمی کتاب قرآن مجیدکاموضوع ہے …جہاد میرے آقامدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا محبوب عمل ہے  …ارے! جس جہاد میں حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مبارک خون لگا ہو… اس جہاد کو کون روک سکتا ہے؟ …اس جہاد کو کون شکست دے سکتا ہے؟ …ہم ہوں گے یانہیں ان شاء اللہ وہ وقت ضرورآئے گا …جب جماعت کا کوئی دیوانہ مجاہد … گڑھی حبیب اللہ کے قبرستان جائے گا … اور حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ   کو فتح کشمیراورفتح ہند کی خوشخبری سنا کر کہے گا… حضرت مبارک ہو!

’’بڑھاپے میں کی گئی آپ کی ہجرت ضائع نہیں گئی ‘‘ …

اس وقت کفر و اسلام کا معرکہ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے …اور ان شاء اللہ اگلے دس سال میں جہادکامیدان بہت وسیع …اورجہاد کے محاذبہت دور تک پھیل جائیں گے …دشمنان اسلام نے تقریباًیہ تو طئے کرلیاہے کہ …اب خودمسلمانوں کے سامنے نہیں آنا …بلکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کرمارنا ہے …اسی منصوبے کے تحت طرح طرح کے مضحکہ خیز’’انتخابات‘‘ہورہے ہیں  … مصر کا دم کٹافرعون ’’السیسی ‘‘صرف آٹھ فیصدووٹ لیکر مصرکاصدر بن چکا ہے  … اورحیرت یہ کہ ساری دنیا نے اس کی حکومت اور صدارت کو تسلیم کرلیا ہے  … دشمنوں کا یہ قدم مصر ،وادی سینااوردور افریقہ تک جہاد کے نئے محاذ کھولنے کا ذریعہ بنے گا …ادھرشام کابھورادجال’’بشارالاسد‘‘ …اپنے سرکاری اہلکاروں کے ووٹ لیکر تیسری بار اس مقدس سرزمین پرطاعون کا چوہا بن کر ابھرا ہے  …امید ہے کہ ا ن شاء اللہ یہ اس کی آخری مدت ہوگی …اور شام کامحاذگولان کی پہاڑیوں سے اترتاہوا … مسجداقصیٰ کے مجاہدین سے جاملے گا …الحمدللہ… آج مسلمانوں کے وجود کوتسلیم کیاجارہا ہے  …دشمنان اسلام نے بے پناہ جنگی اورسائنسی طاقت بناکریہ سمجھ لیا تھا کہ  …وہ دنیا سے اسلام اورمسلمانوں کا خاتمہ کردیں گے…مگر جب وہ اس اُمت کے سامنے زمین پر اترے تو …ماشاء اللہ منظر ہی کچھ اور تھا…سبحان اللہ!بیس سال سے جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں  … اور حملے بھی اتحادی… مگرآج تک ایک فتح بھی ان کے کاغذوں میں جگہ نہ پاسکی …شکست جمع شکست جمع ذلت جمع ناکامی… نتیجہ بھاگواور مسلمانوں کو آپس میں لڑاؤ …اب مجاہدین اورعلماء کرام کا یہ کام ہے کہ ایک طرف تووہ خالص شرعی جہادفی سبیل اللہ کی دعوت تیز کردیں …کیونکہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں جانے کو ہے  …اوردوسراکام یہ کہ اپنی دعوت میں اس بات کو بھی بیان کریں کہ  … مسلمانوں کا خون ایک دوسرے پرحرام ہے …ہاں…! بیشک …مسلمان کے خون کی حرمت کعبہ شریف کی حرمت سے بھی زیادہ ہے …

لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ 

لاالہ الا اللّٰہ   لاالہ الااللّٰہ   لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

اللھم صل علیٰ سیدنامحمدوعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر451

دشمنان اسلام کا اعتراف شکست...

فرنیک گارڈنر کا درست تجزیہ...

ابامہ کی زبان سے پہلااعتراف شکست و بے چارگی...

ایران کی اسلام دشمنی اور عالمی طاقتوں کا دہرا معیار...

مسجد کا دلنواز موضوع...

ترکی کا ایمان افروز واقعہ...

مسجد نیکیوں کا مرکز... اجر و فضیلت کا حساب ناممکن ہے...

اخلاص کے ساتھ مسجد کی تھوڑی سی خدمت پر اَجر عظیم...

ایک حیران کن واقعہ...

جہاد اور مسجد کا اٹوٹ تعلق...

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا سفر جہاد میں مساجد کی تعمیر کا عمل...

مساجد کی متنوّع خدمات اوران میں شرکت کی دعوت...

جماعت کی تعمیر مساجد مہم اور عزم کا تعارف...

 

مسجد نامہ

 اللہ  تعالیٰ نے ایمان کی ایک بڑی علامت ارشاد فرمائی ہے:

’’مساجد تعمیر کرنا، مساجد آباد کرنا‘‘

 آج ان شاء اللہ اسی بارے چند اہم باتیں عرض کرنی ہیں… پہلے ایک نظر’’دنیا‘‘ پر…

حالات حاضرہ

١                    بی بی سی کے جنگی تجزیہ نگار… فرنیک گارڈنر نے ایک ’’قلم توڑ‘‘ بات لکھ دی ہے…

وہ کہتا ہے:

’’تیرہ سال سے دنیا کے تمام ممالک مل کر جہاد اور مجاہدین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… انہوں نے اس کی خاطرہر حربہ آزما لیا ہے… مگر تیرہ سال کی ان متحدہ کوششوں کے باوجود اُن کے لئے خوشی کی ایک خبر بھی نہیں ہے‘‘…

دیکھیں کیسی سچی بات اس کے قلم اور زبان پر آگئی… سب پڑھیں:

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہ، اَلْحَمْدُ لِلہ، اَللہُ اَکْبَر، سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم۔

٢                    اُبامہ جو صدر ہے امریکہ کا… اس کے منہ سے ایک’’زبان کاٹ‘‘ بات نکل گئی وہ کہتا ہے:

’’عراق میں ہم امریکیوں نے جو قربانیاں پیش کیں وہ عراق کی نا اہل حکومت کی وجہ سے سب ضائع اور رائیگاں چلی گئیں‘‘

بھائیو!دل سے پڑھیں:

اللہ اکبر کبیرا، اللہ  اکبرکبیرا

٣                    ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک جنرل… جس کا نام قاسم سلیمانی ہے وہ آج کل عراق میں ہے اور مجاہدین کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کی مدد کر رہا ہے… اس سے پہلے وہ شام میں تھا جہاں اُس نے مجاہدین کے خلاف بشار الاسد کے قاتلوں کی کمان کی… ایک ملک کا جنرل دوسرے ملکوں میں اس قدر کھلا کردار ادا کررہا ہے… مگر اس غیر ملکی مداخلت پر اقوام متحدہ خاموش، امریکہ خوش اور انڈیا مطمئن ہے… جبکہ پاکستان والے اگر اپنے کشمیر میں چلے جائیں تو غیر ملکی مداخلت کا شور بجنے لگتا ہے… اسے کہتے ہیں’’اسلام دشمنی‘‘ سب کہیں…

قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ

مرگ بردشمنان اسلام

مساجد کی طرف

مساجد کا موضوع بڑا دلکش اور بہت مفصل ہے… پہلے تین قصے سن لیں

١                    ترکی کی ایک مسجد میں ایک بزرگ چھوٹے بچوں کو سورۂ فاتحہ یاد کرا رہے تھے… بچے بس چھ سات سال کی عمر کے تھے… پوری مسجد میں سورۂ فاتحہ کا ترنم گونج رہا تھا … بزرگ کی عادت تھی کہ روزآنہ سبق کا امتحان لیتے اور اول آنے والے بچے اور بچی کو دس روپے انعام دیتے … اور سب بچوں کو کچھ نصیحت فرماتے…

سبق کا وقت ختم ہوا… بزرگ نے ایک ایک بچے سے امتحان لیا… اور اب بچے آنکھیں مٹکا مٹکا کر انتظار میں کہ… دس روپے کسے ملتے ہیں؟… بزرگ نے آج انداز بدل لیا… فرمایا! آج ایک اور امتحان…ہر بچہ بتائے کہ اگر اُسے دس روپے ملے تووہ اُن سے کیا خریدے گا؟… بچے جواب دینے لگے…

غبارے، کھلونا، گاڑی، آئس کریم وغیرہ… مگر’’فاطمہ‘‘ خاموش… بزرگ نے پوچھا اگر فاطمہ بیٹی انعام جیت گئی تو وہ کیا خریدے گی؟… فاطمہ تھوڑی دیر شرمائی پھر بولی ٹافیاں… بزرگ نے فرمایا: اب ایک قصہ سنو اس کے بعد بتاتا ہوں کہ آج کا انعام کسے ملے گا…

دیکھو! اس مسجد میں کتنے لوگ نماز ادا کرتے ہیں… وہ کتنے سجدے کرتے ہیں… کتنے رکوع… کتنی دعاء، کتنے آنسو… اس مسجد میں کتنا درس ہوتا ہے، کتنا دین کا کام اور کتنے لوگ یہاں توبہ کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنی تعلیم ہوتی ہے، کتنے بچے پڑھتے ہیں… رمضان میں کتنے لوگ اعتکاف کرتے ہیں، کتنے روزے دار افطاری کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنے جاہلوں کو علم ملتا ہے، کتنے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے… کتنا ذکر ہوتا ہے ، کتنی تلاوت ہوتی ہے…

کیا کسی کے بس میں ہے کہ ایک آباد مسجد میں چوبیس گھنٹے میں جتنی نیکیاں ہوتی ہیں اُن کو لکھ سکے؟ کتنی بار ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی،کتنی بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم‘‘… کتنا صدقہ، خیرات اور کتنی مناجات… مسجد کے تمام اعمال اگر لکھے جائیں تو صرف ایک دن کی نیکیوں کو ہزار صفحات پر بھی نہیں لکھا جا سکتا … پھر ایک سال میں کتنی نیکیاں ہوتی ہونگی؟…اور دس سال میں کتنی؟… کیا کسی کے بس میں ہے کہ شمار کر سکے؟… سب بچوں نے آواز لگائی کسی کے بس میں نہیں…

بزرگ نے فرمایا ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان تمام نیکیوں کا ثواب اُس ایک شخص کو ملتا ہے جس نے یہ مسجد تعمیر کی تھی…عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی… مگر مسجد بنانے والے کو اُن تمام اعمال کا پورا ثواب ملتا ہے جواُس مسجد میں ہوتے ہیں، جو اس مسجد سے اٹھتے ہیں… اور جو اس مسجد سے پھیلتے ہیں… مثلاًآپ نے آج سورۂ فاتحہ یاد کر لی… یہ آپ نے چونکہ اس مسجد میں بیٹھ کر یاد کی ہے… تو اس کا ثواب اور آپ لوگ پوری زندگی جتنی سورۂ فاتحہ پڑھیں گے اُس کا ثواب… اور آپ آگے جن کو سورۂ فاتحہ سکھائیں گے… اُس کا ثواب… یہ سب اس مسجد بنانے والے کے نامہ اعمال میں بھی شامل ہوتا جائے گا…کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جس نے یہ مسجد بنائی؟… اس کا نام’’خیر الدین‘‘ تھا… ایک غریب، متوسط آدمی، نہ عالم نہ مشہور بزرگ…بس اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ… اُسے شوق تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا گھر بناؤں… اُس نے ایک تھیلا سلوایا… یہ تھیلا وہ اپنے ساتھ رکھتا… بازار جب بھی جاتا توجو پھل اچھا لگتا اُسے دیکھ کر کہتا… لو بھائی !گویا کہ یہ میں نے کھالیا… پھر جیب سے اُس پھل کی قیمت برابر پیسے نکال کر تھیلے میں ڈال لیتا… کبھی گوشت کی دکان پر گوشت اچھا لگتا تو کہتا… لوبھائی! گویا کہ میں نے یہ گوشت خریدا، پکایا اور مزے سے کھا لیا… پھر اس گوشت کی قیمت تھیلے میں ڈال لیتا… سالہا سال تک اس محنت اور مجاہدے کے بعد اس نے تھیلا کھولا تو بڑی رقم جمع تھی… جس سے اُس نے یہ مسجد بنائی…

قصہ سنا کربزرگ نے کہا… اب آج کے انعام کا اعلان… آج کا انعام’’ فاطمہ‘‘ کا ہے اُس نے سورۂ فاتحہ سب سے اچھی یاد کی ہے… فاطمہ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا… اٹھ کر انعام وصول کیا… بزرگ نے پوچھا: فاطمہ ان پیسوں سے کیا لے گی… فوراً جواب آیا:کچھ بھی نہیں…

بزرگ نے کہا… تم نے تو ٹافیاں لینی تھیں… فاطمہ مسکرائی اور بولی… ٹافیاں گویا کہ میں نے کھا لیں… اب میں یہ پیسے جمع کروں گی اور مسجد بناؤں گی…

سبحان اللہ وبحمدہ… سبحان اللہ العظیم

٢                    دوسرا قصہ بھی قریبی زمانے کا ہے…

 ایک مالدار شخص نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائے… اپنے ملازموں سے کہا کوئی مناسب پلاٹ ڈھونڈو… چند دن کی کوشش سے ایک پلاٹ پسند کر لیا گیا… بہت مناسب جگہ پر تھا اور قیمت پینتیس لاکھ… جو اس مالدار کے لئے بہت آسان تھی… بات طیٔ ہو گئی…پتا چلا کہ یہ پلاٹ ایک غریب چوکیدار کا ہے… وہ اپنے پانچ چھ بچوں کے ساتھ سالہا سال سے غربت اور فقر و فاقہ کی زندگی کاٹ رہا تھا… اب کچھ خاندانی جائیداد تقسیم ہوئی تو اس کو یہ پلاٹ ملا جسے اُس نے فوراً ’’برائے فروخت‘‘ کر دیا تاکہ اس رقم سے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکے… خریدنے کے دن مالدار شخص بیس لاکھ کا چیک لیکرپہنچا… پلاٹ کے مالک نے کہا باقی پندرہ لاکھ؟… اُس نے کہا اوقاف سے جس دن منظوری آگئی اس دن باقی پندرہ لاکھ دے دوں گا؟ پلاٹ والے نے کہا اس میں اوقاف کا کیا کام؟… مالدار نے کہا میں نے یہاں مسجد بنانی ہے اس لئے اوقاف سے اجازت مانگی ہے…مسجد کا نام سن کر پلاٹ کا مالک رونے اور کانپنے لگا… اس نے چیک پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا: جائیے! میں یہ پلاٹ نہیں بیچتا… پوچھا کیوں؟… کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے پلاٹ خرید کر اللہ کا گھر بنائیں… پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جنت میں گھر بنائے… اور میں پلاٹ کا مالک ہو کر اس سعادت سے محروم رہوں… اب میں اس پلاٹ پر مسجد ہی بناؤں گا… کروڑ پتی مالدار نے اُس غریب چوکیدار کے سامنے سر جھکا کر کہا… زندگی گزر گئی میں نے آج تک کسی کے سامنے خود کو چھوٹا یا حقیرنہ سمجھا… مگر آج میں خود کو آپ کے سامنے بے حد حقیر سمجھ رہا ہوں…

٣                    تیسرا قصہ کچھ پرانے زمانے کا ہے…

 ایک بادشاہ نے ارادہ کیا کہ وہ ایک ایسی مسجد بنائے گا جس میں اس کے سوا کسی کا کوئی حصہ نہ ہو… اس نے پہلے جگہ خریدی،پھر اعلان کر دیا…خبردار! کوئی بھی اس مسجد میں کسی طرح کا اپنا حصہ شامل نہ کرے… نہ مال نہ خدمت… جس نے کام کرنا ہو مزدوری اور اجرت پر کرے… خیر: اسی شرط کے ساتھ مسجد تیار ہو گئی سارا مال بادشاہ کا لگا… مسجد کے دروازہ پر بادشاہ نے اپنا نام لکھوا دیا… اور مسجد میں نماز شروع ہو گئی… ایک رات بادشاہ نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترا اُس نے مسجد کے دروازہ سے بادشاہ کا نام کاٹ کر ایک عورت کا نام لکھ دیا… بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا مجھے اسی کا حکم ہے…صبح جب بادشاہ اٹھا تو بہت پریشان… اپنے کارندے بھیجے کہ جاکر دیکھو! میرا نام موجود ہے یا نہیں؟… انہوں نے جا کر دیکھا بادشاہ کا نام موجود تھا…مگر دوسری رات پھر وہی خواب… اور تیسری رات بھی…مگر جب جا کر دیکھتے تو بادشاہ کا کتبہ موجود ہوتا… بادشاہ نے خواب میں اس عورت کا نام یاد کر لیا تھا… اپنے لوگوں کو اس کی تلاش پر لگا دیا… وہ عورت مل گئی… اسے طلب کر لیا گیا… وہ بہت بوڑھی تھی اور رعشہ کی وجہ سے اس کا جسم کپکپاتاتھا… اور اس طلبی پر مزید بھی خوف سے کانپ رہی تھی… بادشاہ نے کہا…اے خاتون! آپ نے اس مسجد میں کیا حصہ ڈالا؟… اس نے کہا کچھ بھی نہیں… میں غریب کمزور بڑھیا… میری مجال کہ آپ کے اتنے سخت اعلان کے بعد کوئی جرأت کرتی… بادشاہ نے اس کو اللہ کا واسطہ دیا اور کہا آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا سچ بتا دیں… وہ بولی: بادشاہ سلامت کچھ بھی نہیں، بس اتنا کہ ایک گرمی کی دوپہر میں وہاں سے گزر رہی تھی… مزدور کاریگر سب اندر آرام میں تھے… ایک جانور جو مسجد کا سامان اٹھاتا تھا وہ باہر بندھا ہوا تھا… پیاس کی وجہ سے اس کا بُرا حال تھا… اس کے قریب ہی پانی کا بھرا برتن رکھا تھا مگر وہ اُس تک نہیںپہنچ سکتا تھا اور بار بار زور لگا کر ہانپ رہا تھا… میں نے وہ برتن اس کے قریب کر دیا اور اُس نے وہ پانی پی لیا… بس میں نے یہی خدمت کی… بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا…

اماں! آپ نے اتنا سا کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے ساری مسجد آپ کے نام کر دی… اور میں نے اتنا سارا کام اپنے نام کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسجد کے اجر میں مجھے شامل نہ فرمایا… پھر اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ جاکر مسجد سے میرا نام کاٹ دو اور اسی خاتون کا نام لکھ دو…

مقصد یہ کہ مسجد میں اخلاص کے ساتھ تھوڑی سی محنت کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے… دراصل مسجد ایمان کا قلعہ… اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین جگہ ہے…ارشاد فرمایا:

اَحَبُّ الْبِلَادِ اِلَی اللہِ مَسَاجِدُھَا وَاَبْغَضُ الْبِلَادِ اِلَی اللہِ اَسْوَاقُھَا

اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ مسجد اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہے…(صحیح مسلم)

آج بازار کتنے آباد ہوگئے… کیسی کیسی جدیدمارکیٹیں اور ان مارکیٹوں پر اُن سے بھی زیادہ پرفریب مارکیٹیں… جبکہ مساجد کی طرف مسلمانوں کی وہ توجہ نہیں ہے جو ایک حقیقی مسلمان کو ہونی چاہئے… جماعت نے الحمدللہ تین سو تیرہ مساجد تعمیر اور آباد کرنے کی نیت کر رکھی ہے… اللہ تعالیٰ کافضل دیکھیں کہ الحمدللہ اب تک اٹھاون مساجد تیار ہو چکی ہیں… ابھی حال ہی میں کراچی کے ایک خوش نصیب تاجرنے خود ایک مسجد تمام ضروریات کے ساتھ تیار کر کے جماعت کو دے دی ہے…اللہ تعالیٰ اُن کے اس عمل کو خاص قبولیت عطاء فرمائے…اور اب جماعت کے پاس جتنے پلاٹ موجود ہیں… ان میں سے مناسب مقامات پر رمضان المبارک کے بعد مساجد کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا…

دراصل جہاد اور مسجد کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے… اہل علم نے تو یہاںتک لکھا ہے کہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   مجاہدین کو مساجد کے ساتھ باندھ گئے ہیں تاکہ اُن کا جہاد مقبول اور کامیاب ہو… اسی لئے مسجد ہر جگہ مجاہد کے ساتھ چلتی ہے اور ہر قدم پر مجاہد کو نئی قوت، نیا جذبہ اور مضبوطی عطاء کرتی رہتی ہے… اہل سیر نے لکھا ہے کہ جہاد اور مسجد کے اس لزوم کی وجہ سے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی جہاد کے سفر پر نکلتے تو راستے میں مساجد بناتے جاتے یا مساجد بنانے کا حکم فرماتے جاتے… صرف ایک غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک قول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے سولہ مساجد… اور دوسرے قول کے مطابق بیس مساجد تعمیر فرمائیں… آپ سیر کی کتابوں میں دیکھ لیں… ان تمام مساجد کے نام اور مقامات تک محفوظ ہیں… مجاہد کے ساتھ مسجد رہتی ہے تو وہ کبھی ناکام نہیںہوتا… مگر جب وہ مسجد سے دور ہٹ جائے تو پھر طرح طرح کے فتنوں کا شکار ہو کر کمزور ہوجاتا ہے… دشمنان اسلام نے تعاون اور میڈیاوار کا دھوکہ دے کر اپنے لوگ مجاہدین میں گھسائے جنہوں نے مساجد سے کٹے ہوئے دفاتر قائم کر کے مجاہدین کو مساجد سے دور کر دیا…تاکہ ان میں حبّ دنیا اور حبّ الشہوات کے بیچ بو سکیں… پس جو دفاتر کے ہو کر رہ گئے وہ حقیقی جہاد سے کٹ گئے… مگر جو اس فتنے کا شکار نہیں ہوئے وہ کامیاب رہے… اور اللہ تعالیٰ نے انہیںشہادتوں اور فتوحات سے نوازا… ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو اُن مساجد کا مفصل تذکرہ القلم میں آجائے گا… جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسفارِ جہاد کے دوران قائم فرمائیں…

آج کی آخری بات

مسجد تعمیر کرنا، مسجد آباد کرنا، مسجد کی خدمت کرنا، مسجد میں خوشبومہکانا، مسجد کی حفاظت کرنا، مسجد کی صفائی کرنا… مسجد میں باادب رہنا… مسجد میں بیٹھ کر جہاد کی ترتیب بنانا… یہ تمام اعمال بہت فضیلت والے ہیں…جماعت کی توجہ الحمدللہ مساجد کی طرف بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تین سو تیرہ کے ہدف کی جانب گامزن ہے… اس رمضان المبارک میں’’مسلمان‘‘ مساجد کے لئے بھی دل کھول کر اموال نکالیں… اور جہاد فی سبیل اللہ میں بھی بڑھ چڑھ کر جان و مال لگائیں… جہاد میں جان و مال لگانا… کعبہ شریف کی تعمیر سے بھی زیادہ افضل ہے…

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول اللہ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

 لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ …

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر452

رمضان المبارک کی آمد... مرحبا...

کیا دل خوش ہوا؟... ایک جھنجھوڑتا سوال...

دل گھبرا تو نہیں گیا؟... دوسرا سوال...

گرمی کے روزے کی فضیلت اور شوق...

 حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کا فرمان عالی شان اور ذوق...

رمضان المبارک کے اعمال... دس نکاتی نصاب...

رمضان المبارک مقبول ہے یا نہیں؟...

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی روشنی میں ایک جائزہ...

تین خاص صفات کا تذکرہ اور ترغیب...

رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے گر سکھاتی تحریر...

 

مقبول رمضان

اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان… ماہ رمضان، ماہ رمضان

دل خوش ہوا؟

کیارمضان المبارک کے تشریف لانے پر ہمارا دل خوش ہوتا ہے ؟؟

اگر خوش ہوتا ہے تو پھر مبارک ہو، صد مبارک

رمضان المبارک،اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے لئے بڑا انعام ہے… رمضان المبارک نہ آئے تو ہم نفس و شیطان کے ہاتھوں برباد ہوجائیں… رمضان المبارک کے روزے اسلام کے بنیادی اور لازمی فرائض میں سے ہیں… ایک مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بوجھ نہیں، نعمت سمجھتا ہے… اور اُن کی آمد اور ادائیگی پر خوش ہوتا ہے…

ہمارے آقا حضرت محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   رمضان المبارک کا خوشی سے استقبال فرماتے تھے اپنے صحابہ کرام کو رمضان المبارک کی خوشخبری دیتے تھے… اور رمضان المبارک کے آغازمیں علوم وحکمت کی بارش فرماتے تھے…یاد رکھیں! روزہ بوجھ اور مشقت نہیں… قوّت اور لذت ہے… ایسی قوت کہ مسلمانوں نے رمضان المبارک میں بدر بھی فتح کر لیا… اور مکہ مکرمہ پر بھی فتح کاجھنڈا لہرادیا…

مرحبا اے رمضان!… خوش آمدید اے رمضان!

دل گھبرا گیا؟

کیا رمضان المبارک کے تشریف لانے پر ہمارا دل گھبراتا ہے؟

اگر گھبراتا ہے تو ہم ابامہ کی رنگت والے اس’’کالے‘‘ دل کی اصلاح کر لیں…جی ہاں! ابھی موقع ہے… اگر خدانخواستہ اسی حالت میں جان نکل گئی تو یہ’’ابامہ‘‘ ہمارے ساتھ قبر میں چلا جائے گا… اللہ نہ کرے قبر تندور بن جائے… جیسے بلوچستان میں سالم بکرے کو سجّی بنانے کیلئے ایک گڑھا کھود کر اُسے دھکتے انگاروں سے بھر دیتے ہیں…

…یا اللہ !عذاب قبر سے بچا لیجئے…

روزہ نہ گرمی کا مشکل نہ سردی کا مشکل… روزہ صرف ’’نفس پرست‘‘ کا مشکل… ارے! محبوب کے لئے بھوکا، پیاسا رہنا… کمزوری سے خستہ حال ہوجانا یہ تو عشق کے مزیدار مراحل ہوتے ہیں… ایسے مراحل ہی میں اُن کی نظر خاص نصیب ہوتی ہے…

اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا أَجْزِی بِہٖ

ارشاد فرمایا: روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں خود دوں گا، خاص بدلہ، محبت والا بدلہ… بہت ہی بڑا بدلہ…

انسان جب تک اپنے محبوب کے لئے خستہ حال نہ ہو… کمزور اور زخمی نہ ہو، بھوکا اور پیاسا نہ ہو تو محبت دل میں کہاں اُترتی ہے؟

حضرت سیّدنا علی  رضی اللہ عنہ  اپنی محبوب ترین چیزوں میں سے ایک یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ:

اَلصَّوْمُ فِی الصَّیْف

سخت گرمی میں روزہ رکھنا…

معروف صاحب حکمت صحابی، حضرت سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں:

صَلُّوْافِی ظُلْمَۃِ اللَّیْلِ رَکْعَتَیْنِ لِظُلْمَۃِ القُبُوْر

رات کے اندھیرے میں دو رکعت ادا کیا کرو،قبر کے اندھیرے سے بچنے کے لئے…

صُوْمُوْا یَوْمًا شَدِیْدٌ حَرُّہٗ  لِحَرِّیَوْمِ النُّشُوْر

سخت گرمی کے دن روزہ رکھا کرو، قیامت کے دن کی گرمی سے حفاظت کے لئے

تَصَدَّقُوا بِصَدَقَہٍ لِشَرِّ یومٍ عَسِیْر

اور صدقہ دیا کرو، ایک مشکل دن کی آسانی کے لئے…

آج کل خوب گرمی ہے… سورج آگ برساتاہے اور لوڈ شیڈنگ پسینے نکالتی ہے… عاشقوں کے روزے اور زیادہ مزیدار ہوجاتے ہیں… اور عشق کی سرشاری سے بھیگ بھیگ جاتے ہیں… اے مسلمانو! خوش ہونا چاہئے، بہت خوش ہونا چاہئے کہ قرآن مجید کا موسم آگیا…مغفرت کا موسم آگیا… محبوب کے لئے روزے رکھنے اور بھوک پیاس اٹھانے کا موسم آگیا… ہم سب اپنے دل کو سمجھائیں کہ… بابا سیدھا ہوجا… ہروقت موٹا تازہ، ہٹا کٹا، بنا سنورا اور تروتازہ رہنا یہ عاشقوں کی شان نہیں… آگے قبر میں جانا ہے جس نے اس دنیا میں اپنے رب کے لئے جتنی مشکل اٹھائی، آگے اس کواتنی ہی آسانی نصیب ہوئی…

رمضان المبارک کے اعمال

رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں…ایک دروازہ بھی بند نہیں رہتا… اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں… اور ایک دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا… اس لئے یہ اعمال والا مہینہ ہے… شریعت نے بعض اعمال تو ایسے ارشاد فرمائے ہیں… جو صرف اسی مہینے میں ادا ہو سکتے ہیں… اور بعض ایسے اعمال بیان فرمائے ہیں کہ… جن کا اجر اس مہینہ میں بڑھا دیا جاتا ہے… قرآن وسنت میں رمضان المبارک کے جو اعمال بیان کئے گئے ہیں… ان کی ایک فہرست حاضر خدمت ہے… دیکھ لیں کہ ہم نے کون کون سے اعمال کمانے ہیں…

١                    روزہ… یہ سب سے اہم اور فرض ہے اور بڑی شان والا فریضہ ہے… اور یہی اس مہینہ کا اصل اور بنیادی عمل ہے…

٢                    جہاد فی سبیل اللہ… اسی مہینہ میں غزوہ بدر اور غزوہ فتح مکہ پیش آئے، فضیلت کا اندازہ خود لگا لیں

٣                    رات کا قیام… تراویح اور تہجد…

٤                    صدقہ… روایت میں آیا ہے کہ:

اَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ صَدَقَۃُ رَمَضَانَ

سب سے افضل صدقہ… رمضان المبارک کا صدقہ ہے…

٥                    تلاوت… یہ قرآن مجید کا مہینہ ہے…اسی میں تمام آسمانی کتب نازل ہوئیں اس مہینہ میں قرآن مجید خوب کھلتا ہے اور خوب رنگ جماتا ہے…

٦                    اعتکاف… یہ عبادت اسی مہینے کے آخری عشرے کے ساتھ بطور سنت مؤکدہ خاص ہے… البتہ واجب یا نفل اعتکاف کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے…

٧                    عمرہ… رمضان المبارک کا عمرہ فضیلت میں حج کے برابر ہوجاتا ہے…

٨                    لیلۃ القدر کو تلاش کرنا اور اسے زندہ رکھنا… یہ عظیم فضیلت اسی مہینہ کے ساتھ خاص ہے…

٩                    ذکر، استغفار، درود شریف اور دعاء کی کثرت کرنا… رمضان المبارک میں ذکر اور دعاء زیادہ قبول ہوتے ہیں… بہت مقبول ہوتے ہیں…

١٠                صلہ رحمی کرنا…

اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال کی توفیق عطاء فرمائے…

مقبول رمضان

ہمارا رمضان المبارک مقبول جارہا ہے یا نہیں؟… ہم میں سے ہر ایک کو خود اس کی فکر کرنی چاہئے… قبولیت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ… ہم حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی طرف دیکھیں کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا رمضان المبارک میں کیا رنگ اور کیا انداز ہوتاتھا…پھر اگر ہمیں اپنے اندر… اُس رنگ اور انداز کی کچھ خوشبو محسوس ہو تو ہم شکر ادا کریں… اسے قبولیت کی علامت سمجھیں اور مزید محنت کریں… حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   پر رمضان المبارک میں فرض روزہ کے علاوہ… تین باتوں کا رنگ غالب رہتا…

١                    قرآن مجید کی طرف توجہ…

٢                    بہت بہادری اور جذبۂ جہاد…

٣                    بہت زیادہ سخاوت…

ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی یہ تین صفات دائمی تھیں… مگر سیرت مبارکہ پر غور کریں تو یہی نظر آتا ہے کہ… رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر ان تین صفات کا گویا حال طاری ہوتا تھا… آپ قرآن مجید کی طرف متوجہ رہتے… حضرت جبریل امین  علیہ السلام بھی تشریف لاتے اور پھر ان دو عظیم ہستیوں کے درمیان قرآن مجید کا دور چلتارہتا… دوسرا حال جہاد کی طرف توجہ اور بے حد بہادری کاہوتا… بدر کی طرف نکلنا آسان نہ تھا… بے سروسامانی تھی اور چاروں طرف سے خطرات… مگر رمضان المبارک کا عشق ایسا چمکا کہ یہ خستہ حال لشکر…مشرکین مکہ کے تروتازہ اور پُرشوکت لشکر سے ٹکرا گیا… اور جہاد کو ناقابل تسخیر بنیاد فراہم کر گیا…

فتح مکہ کا معاملہ بھی آسان نہ تھا… وہ فتح اکبر اور فتح  اعظم تھی اور اسی سے دین اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے… ایک عظیم قوت اور مرکزیت ملی… اسی لئے کئی اہل علم رمضان المبارک کی خصوصیات میں جن دو بڑی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں… ان میں پہلی نزول قرآن… اور دوسری فتح مکہ ہے…خلاصہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم    کی رمضان المبارک میں… جہاد کی طرف خاص توجہ رہتی تھی…

تیسرا حال جو رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر زیادہ طاری رہتا… وہ تھا سخاوت… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے … آپ صلی اللہ علیہ وسلم   تو پہلے سے ہی سخیوں کے سخی بادشاہ تھے… مگر رمضان المبارک میںاس سخاوت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا… بس سب کچھ مالک کے لئے قربان اور ہر ضرورت مند کے ساتھ احسان… اور ہمدردی…

ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں:

کیا قرآنِ پاک کی طرف توجہ زیادہ ہوئی؟

اگر ہوگئی ہے تو…

اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

کیا سخاوت زیادہ ہوئی؟

اگر ہوئی ہے تو…

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝  اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

کیا بہادری بڑھی؟… اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینے کا جذبہ زیادہ ہوا؟… دل میں شوق جہاد بڑھا؟… اسلام کے لئے کچھ کر گزرنے کا جنون فراواں ہوا؟

اگرہواتو… اَلْحَمْدُ لِلهِ، ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلهِ… اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللّٰھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم                   سے نمبر453

معاف کیجئے - معافی پایئے!

رمضان المبارک کا ایک خاص عمل ...

رمضان المبارک کی مغفرت کا انعام پانے کا ضامن عمل...

معافی... انبیاء کرام، اولیاء عظام اور سچے مجاہدین کی صفت...

لفظ معافی کی درستگی...

قرآن و حدیث سے معافی کے آٹھ بیش بہا فضائل و فوائد...

جہاد اور معافی کا باہمی تلازم...

دشمنان اسلام کے لئے بددُعاء کی مشروعیت...

ایک شخص کا ایمان افروز واقعہ... معافی کا دائمی معمول...

دل سے ایک سوال اور اس کا جواب...

مسلمانوں کے معاشرے سے تیزی سے محو ہوتی ایک

 عظیم صفت کے فضائل و ترغیب پر مشتمل ایک مفید عام تحریر...

مُعَافی نامہ

اللہ تعالیٰ’’مُعافی‘‘ کو پسند فرماتے ہیں…

رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کا ایک اہم نسخہ’’مُعافی‘‘ ہے… آپ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو’’معاف‘‘ کریں… اللہ تعالی آپ کومعاف فرمائے گا…

وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ

ایک مشکل کام

جو آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرے … اس کے ساتھ برابر کا بُرا سلوک کرنا جائز ہے… جو آپ پر ظلم کرے اس پر اتنا ہی ظلم کرنا جائز ہے… جو آپ کو نقصان پہنچائے اس کے بدلے میں اُسے نقصان پہنچانا جائز ہے… مگراپنے ان جائز حقوق کو ذبح کرنا اور معاف کر دینا… یہ بڑا اونچا عمل ہے… مگر آسان نہیں، بہت مشکل ہے، بہت مشکل… یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کا ایمان سچا اور مضبوط ہو… جس کی روح پاک ہو… جس کا دل بہادر ہو… اور جس کے اخلاق اعلیٰ ہوں…مُعافی کا مطلب ہے… طاقت ہونے کے باوجود بدلہ نہ لینا… بہت سے لوگ مُعافی کااعلان کرتے ہیں مگر وہ مُعافی نہیں ہوتی کیونکہ جتناکچھ وہ کر سکتے ہیں وہ کر لیتے ہیں…غیبت ، چغلی، بدگوئی وغیرہ… مُعافی یہ ہے کہ… بس اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے معاملہ ختم کر لیا جائے اور کسی طرح کا بھی بدلہ نہ لیا جائے… یہ ایک سچے مجاہد کی شان اور ایک سچے ولی کی علامت ہے… اور یہ حضرات انبیاء علیہم السلام  کی مبارک صفت ہے…

مُعافی کا لفظ

پہلے’’مُعافی‘‘ کا لفظ درست پڑھنا سیکھ لیں… اس میں میم پر پیش (یعنی ضمہ) ہے اور عین پر زبر… عام لوگ میم پر بھی زبر پڑھتے ہیں جو درست نہیں …

معافی کے فضائل اور فوائد

مُعافی کے مسئلہ کو قرآن مجید نے بارہا بیان فرمایا ہے… سورۂ یوسف کو پڑھا جائے تو مُعافی کا مطلب بھی سمجھ آتا ہے … اور معافی کی فضیلت اور مقام بھی…حضرت یعقوب  علیہ السلام  کا اپنے بیٹوں کو معاف فرمانا… حضرت یوسف  علیہ السلام  کا اپنے بھائیوں کو معاف فرمانا… پورا منظر اور قصہ پڑھیں، اس کی باریکی میں جائیں… اور اُس کے نفسیاتی پہلوؤں کو دیکھیں تو یہی سمجھ آتا ہے کہ…

مُعافی بہت مشکل عمل ہے… مگر یہ بہت اونچااور بہت نفع مند کام ہے… اور اس عمل کے دنیا اور آخرت میں بڑے عمدہ نتائج حاصل ہوتے ہیں… اگر ہم سورۃ یوسف کی روشنی میں’’معافی‘‘ کے مسئلہ کو تفصیل سے لکھیں تو اسی میں کالم پورا ہوجائے گا… اس لئے صرف اشارہ عرض کر دیا… اب دیکھئے قرآن و سنت میںمُعافی کے فضائل کی ایک مختصر فہرست:

١                    اللہ تعالیٰ کی ایک صفت’’عفو‘‘ ہے… بہت معاف فرمانے والا… پس مُعافی کو اختیار کرنے والا مسلمان… اللہ تعالیٰ کی صفت کا تخلّق کرتا ہے… ’’تخلّق‘‘ کے معنیٰ اپنے اخلاق کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے تابع بنانا…

٢                    معافی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی بڑی صفت ہے… اور معافی حضرات انبیاء علیہم السلام  کی صفت ہے …

٣                    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے متقی بندوں کی صفات میں سے ایک ’’وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘ ہے… یعنی لوگوں کو معاف کرنے والے… ایسے متقی افرادکا بدلہ جنت ہے…

٤                    قرآن مجید میں معاف کرنے والوں سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ…اُن کا اجر اور بدلہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے…

فَأَجْرُہٗ عَلَی اللہِ

٥                    معافی کا بدلہ مغفرت ہے… یعنی جولوگوں کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے اپنی معافی اور مغفرت عطاء فرماتے ہیں…

٦                    اللہ تعالیٰ نے کچھ اعمال کو’’عزائم‘‘ کا درجہ دیا ہے… یعنی وہ بڑی عزیمت اور ہمت والے مسلمانوں کو نصیب ہوتے ہیں… قرآن مجید نے معاف کرنے کو بھی انہیں ’’عَزْمُ الْاُمُوْر‘‘میں شامل فرمایا ہے…

٧                    حدیث شریف میں آتا ہے:

جو اپنے غصے کو ایسی حالت میں دبا دے کہ وہ اُسے نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلا کر اس بات کا اختیار دیں گے کہ… وہ جس حور کو پسند کرے وہ اسے عطاء کر دی جائے گی…(ابو داؤد، ترمذی)

یعنی معاف کرنا، ایسا عظیم عمل ہے کہ… اس کے بدلے یہ سارے اعزازات ملیں گے…تمام خلق کے سامنے عزت افزائی… اللہ تعالیٰ کا انعام کے لئے خود طلب فرمانا… مرضی اور پسند کی حور عطاء فرماناوغیرہ…

٨                    معافی کی برکت سے اللہ تعالیٰ بندے کو دنیا کی عزت بھی عطاء  فرماتے ہیں… ارشادفرمایا:

مَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ اِلَّاعِزَّاً(صحیح مسلم)

کہ معافی سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ضرور بڑھاتے ہیں…

جہاد اور معافی

جہاد اور معافی کا آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں… یہ دونوں بہادر افراد کی صفات ہیں… اسلام کے دشمنوں سے جہاد کرنا… دین کے دشمنوں سے لڑنا… مسلمانوں کے دشمنوں سے قتال کرنا… یہ بھی بہادر انسان کا کام ہے…

بزدل کے بس میں نہیں کہ… وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اُترے…

اسی طرح مسلمانوں کو معاف کرنا… کمزوروں سے بدلہ نہ لینا… آپس کے معاشرے میں خود کو معافی کی علامت بنانا… یہ بھی بہادر انسانوں کاکام ہے…

بزدل آدمی کے بس میں نہیں کہ وہ کسی کو معاف کرسکے… وہ تو جو کچھ کر سکتا ہے ضرور کر گزرتا ہے… بلکہ برابری سے بڑھ کر بدلہ لیتا ہے…

ایک حدیث شریف پڑھیں تو… بات دل میں اُترے گی…

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے کبھی اپنے ہاتھ مبارک سے کسی عورت یا خادم کو بالکل نہیں مارا پیٹا مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   میدان جہاد میں ہوں… (یعنی میدان جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہاتھ مبارک سے جنگ فرمائی) اورکبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کو کسی نے ایذاء پہنچائی ہو اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس سے ذاتی انتقام لیا ہو… ہاں! اللہ تعالیٰ کے محارم کی بے حرمتی کرنے والوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   اللہ تعالیٰ کے لئے بدلہ لیتے تھے…(مسلم)

آج بہت سے لوگوں کا معاملہ الٹا ہو گیا ہے… وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں… اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ایذاء کا نشانہ بناتے ہیں…

یاد رکھیں!… کفار دشمنان اسلام کے لئے بددعاء کرنا… یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی سنت مطہرہ ہے… اس بارے تفصیل ان شاء اللہ پھر کبھی…

اللہ تعالیٰ روئے زمین پر موجود ہر انسان کو ہدایت عطاء فرمائے… مگر وہ جن کی قسمت میں ہدایت نہیں اور جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں، اُن پر مظالم ڈھاتے ہیں… ان کی بہنوں بیٹیوں کوقیدی بناتے ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو چن چن کر ہلاک فرمائے… اوراُن کو عذاب کا کالا دن دکھائے… اور اُن کا نام و نشان ختم فرمائے…آمین…

اللہ تعالیٰ کے دشمن جہنم میں جائیں یہ کوئی غم کی بات نہیں… خوشی کی بات ہے… دشمنان اسلام کے جہنم جانے پر غم منانے والے… کبھی محبت کی ایک نظر مسلمان مجاہدین پر بھی ڈال لیا کریں… آپ پر کافروں کا اگر اتنا حق ہے تو اپنے مسلمان بھائیوں کا بھی کچھ حق ضرور ہوگا… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی صفت قرآن مجید میں مذکور ہے:

اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ…

خلاصۂ موضوع

معاف کرنا ایمان والوں کی علامت ہے… یہ اہل عزیمت کا شعار ہے… یہ بہادر مسلمانوں کا طریقہ ہے… آپ نے معاف نہ کرناہو تو ہزاروں بہانے موجود ہیں… شرعی بھی اور غیر شرعی بھی… بہانے بھی بہت طاقتور… اورکئی بالکل جائز… ان سب کے ہوتے ہوئے اپنے اندر معافی کی صفت پیدا کرنا… یہ ایسا عمل ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی ’’معافی‘‘ کا مستحق بنا سکتا ہے…

اس لئے دعاء کریں، کوشش کریں کہ یہ صفت… ہمارے اندرپیدا ہوجائے… اور ہمارا معاشرہ معافی کے نور سے جگمگا کر…مضبوط اور طاقتور ہوجائے…

قصہ ایک شخص کا

آج جب’’مُعافی‘‘ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ بنا تو… معاف کرنے کے کئی واقعات سامنے آگئے… ان واقعات میں کافی نصیحت ہے… مگر بات کو مختصر کرنے کے لئے صرف ایک واقعہ پر اکتفا کرتے ہیں…ایک شخص نے معافی کے فضائل پڑھے تو معاف کرنے کی عادت اختیار کر لی… اس کا طریقہ تھا کہ روزآنہ یہ دعاء کرتا…

’’یا اللہ! جن مسلمانوں نے میری غیبت کی، کوئی حق تلفی کی، مجھے ایذاء یا نقصان پہنچایا میں نے اُن سب کو آپ کی رضا کیلئے معاف کردیا… آپ بھی انہیں معاف فرمادیں‘‘…

مگر پھر اُسے ایذاء دینے والے اتنی کثرت سے ہو گئے کہ… اس کی ہمت ٹوٹ گئی…

اس نے یہ دعاء بند کر دی… بس یہ کہتا کہ… یا اللہ! اُن سب کا معاملہ آپ کے سپرد… یوںایک سال گذر گیا… اچانک ایک دن اُسے خیال آیا کہ… وہ مسلمان جو تمہیں ایذاء پہنچاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوبھی گئے تو اس سے تمہیںکیا ملے گا؟… کیا اس سے تمہاری قبر اچھی ہو جائے گی، تمہاری آخرت بہتر ہو جائے گی… ؟

دل سے جواب آیا… کچھ بھی نہیں… اُن کے عذاب سے میراکیا فائدہ؟… تب دل میں روشنی آئی کہ… پھر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تم انہیں معاف کرو اور اس کے بدلے اللہ تعالیٰ سے مُعافی چاہو…

اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ…

بس اُس نے… اللہ تعالیٰ کی معافی پانے کی خواہش میں دوبارہ لوگوں کومعاف کرنے کا عمل شروع کر دیا…

اَللّٰھُمَّ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتْ، اَلأحْیَاءِ مِنْھُمْ وَالأ مْوَاتْ۔

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر454

ایک عزیز دوست کے انتقال پر غم میں ڈوبی تعزیتی تحریر...

اللہ تعالیٰ کے موفق بندے بھائی حبیب کا دلنواز تذکرہ...

ان کی نمایاں صفات...شکر گزاری کا خاص وصف...

بھائی حبیب کی زندگی اور رفاقت... خوشی اور غم کا استعارہ...

ان سے پہنچنے والی خوشیوں اور راحتوں کا ذکر...

ان کی اچانک جدائی کا شدید صدمہ...

بھائی حبیب رمضان کے شیدائی...

رمضان المبارک کے دنوں اور راتوں میں اعمال کا خاص اہتمام...

بھائی حبیب کی امانتداری...

بھائی حبیب کا شوق جہاد اور ان کی عظیم جہادی خدمات...

 بینائی جانے کے خطرے پر حفظ قرآن کا آغاز... ایک ایمان افروز واقعہ...

غم کے آنسوئوں سے لکھی گئی تحریر...

مہکتی یادیں

اللہ تعالیٰ بھائی حبیب کی مغفرت فرمائے…

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَ ارْحَمْہُ وَاَکْرِمْ نُزْلَہٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗ

آج اُن کے ایصال ثواب کے لئے یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں… یادوں اور باتوںکا ہجوم راستہ ہی نہیں چھوڑ رہا… جیسے وہ خود بہت متحرک … بلکہ خیر کا ایک ہنگامہ تھے، اُن کی یادیں اُن سے بھی زیادہ تیز ہیں، سانحہ بیتے آج پانچواں دن ہے… دماغ و دل کو بہت سمجھایا مگر وہ بھائی حبیب کی یادوں سے نہیں نکلتے…

آئی جب اُن کی یاد تو آتی چلی گئی

ہر نقش ماسواء کو مٹاتی چلی گئی

ہر منزلِ جمال دکھاتی چلی گئی

جیسے اُنہی کو سامنے لاتی چلی گئی

ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا

ہر شے حسین تر نظر آتی چلی گئی

وہ ایک سیدھے سادے سے انسان تھے… بشری کمزوریاں بھی ان میں عام انسانوں سے کم نہیں تھیں… نہ عالم تھے نہ علامہ… نہ شیخ تھے نہ بڑے بزرگ … لیکن کیا کریں وہ ہمارے یار تھے یار… اور جو یار ہوجائے وہ آسانی سے جان نہیں چھوڑتا… اور اگر وہ جان چھوڑ دے تو پھر جان اُسے نہیں چھوڑتی… اسی لئے تو رب تعالیٰ نے ’’یاروں‘‘ کے لئے قیامت کے دن اپنے عرش مبارک کا سایہ مقدر فرما دیا ہے …کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یاری پسند ہے… وہ یاری جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو… وہ زمین پر خیر کے باغات لگا دیتی ہے… بھائی حبیب پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا… اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی نعمتیں وافر مقدار میں عطاء فرمائیں… مثلاً!

١                    شکر گزاری…

٢                    اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن…

٣                    خدمت جہاد کا ولولہ…

٤                    انتھک محنت کی عادت…

٥                    رقت قلب…

٦                    خیر کے کاموں کی مثالی توفیق…

٧                    حرمین شریفین کا عشق اور بار بار حاضری کی سہولت…

٨                    خدمت فقراء…

٩                    تلاوت اور عبادت خاص طور پر رمضان اور نفلی روزوں کا ذوق…

١٠                سخاوت…

١١               دوسروں کے لیے دردمندی…

١٢               سیاحت فی الارض…

١٣               اچھی صحبت… وغیرہ

چلیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر … یادوں کی آندھی میں سے کچھ خوشگوار جھونکے منتخب کرتے ہیں… تاکہ پڑھنے والوں کو فائدہ ہو … اور بھائی حبیب صاحب کو ثواب پہنچے…

شکر گزاری

اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے کہ کسی کو ’’شکر گزاری‘‘ کی عادت نصیب فرما دے… اہل دل کا قول ہے…جسے شکر نصیب ہوگیا اُس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بارش کی طرح برستی رہتی ہیں… بھائی حبیب کو جب سے ہم نے دیکھا وہ تکلیف دہ بیماریوں میں مبتلا تھے… شوگر ایسی کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ! انسولین کے ٹیکے سفر و حضر میں اُن کے ساتھ رہتے تھے… ایک آنکھ کی بینائی مکمل ختم ہوچکی تھی جبکہ دوسری آنکھ ہمیشہ تکلیف میں رہتی تھی… بعض اوقات آنکھ سے خون بھی جاری ہو جاتا تھا… مگر اللہ تعالیٰ کا وہ شکر گزار بندہ… بیماریوں سے یوں کھیلتا تھا جس طرح کوئی بچہ گیند سے کھیلتا ہے… وہ علاج بھی کراتے مگر نہ بیمار بنتے نہ بیماری سناتے … بلکہ اگر کوئی انہیں صحت مند کہہ دیتا تو بہت خوش ہوتے… بھاگ دوڑ، محنت اور کام میں اُن کی جان تھی … وہ بیماریوں کو ساتھ اٹھائے اورکبھی اپنے پیچھے لگائے بھاگتے دوڑتے کام کرتے رہے… ہر بیماری نے اُن سے شکست کھائی … مگر کسی انسان نے اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا… جب اُن کی ٹانگ پر وار ہوا … وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوئے تو واقعی پریشان ہوگئے…

پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری … باربار آپریشن اور علاج کراکے دوبارہ بھاگ دوڑ کا میدان پانے کی جدوجہد میںلگے رہے …وہ خیر والی زندگی گزار رہے تھے اور کام کرنا چاہتے تھے… جب معذور ہوئے تو پھر زیادہ وقت بستر اور اس دنیا میں نہ رہے اور جلد ہی کھلی فضاؤں کی طرف پرواز کرگئے…

خوشی کا استعارہ، غم کا تیشہ

بھائی حبیب … جنہیں ہم محبت سے ’’دادا‘‘ کہتے تھے… ہماری زندگی میں اُس وقت آئے جب ہر طرف راستے بند تھے… ایسے دردناک حالات میں وہ خوشی کا استعارہ بن کر ایک دم زندگی میں شامل ہوگئے… اور پھر مسلسل اُنیس سال تک خوشی کا پیغام، راحت کا ذریعہ اور محبت کا عنوان بن کر ساتھ رہے… اندازہ لگائیں کہ تہاڑ جیل کے سخت اور تاریک ماحول میں … جہاں ہم پر کڑی نظر تھی… دادا ہمارے لئے بیرونی دنیا سے رابطے کی کھڑکی بن گئے… اب انہیں اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت کہا جائے تو کون سامبالغہ ہے… پہلے خط تک نہیں جاسکتا تھا اب وہاں سے کتابیں روانہ ہورہی تھیں… وہیں زادِ مجاہد وجود میں آئی… اور فتح الجواد کی بنیاد پڑی… اور خطوط کا ایک مفید سلسلہ شروع ہوا… ہمیں بس اتنا معلوم تھا کہ کوئی تاجر ہیں بھائی فرقان… وہ یہ سارا کام کرتے ہیں … پھر اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کے لئے موبائل کی سہولت بھی نصیب فرما دی… والدین سے، عزیز و اقارب سے اور مجاہدین سے خوب رابطے رہے… رابطے کے دوران ایک جگہ بات ختم ہونے کے بعد …دوسری جگہ ملانے کے وقفے میں داد اجلدی سے اپنا نام … فرقان بتا کر ’’دعاؤں کی درخواست ہے‘‘ کا جملہ بول دیتے… پھر کچھ سختی ہوگئی تو موبائل ضائع کردیا گیا… باہر والوں کو طلب ہوئی کہ جیل سے کوئی تازہ بیان آجائے… دادا نے ایک بہت چھوٹا ڈیجیٹل ٹیپ ریکارڈر بھیج دیا… میں نے اس سے پہلے اس حجم کا ٹیپ نہیں دیکھا تھا… اس ٹیپ پر بیان تیار کرکے کراچی بھجوادیا گیا… جیل میں ہمارے آس پڑوس بمبئی مافیا کے کئی ’ڈان‘ قید تھے… اُن کا جیل میں رہن سہن اور کھانا، پہننا اونچے معیار کا تھا… مگر جب دادا نے سامان کی بوچھاڑ کی تو یہ ’’ڈان‘‘ بھی حسرت سے ہماری چیزوں کو دیکھتے اور پوچھتے… پھر ہم نے دادا کو مزید سامان اور چیزیں بھیجنے سے روک دیا… اللہ تعالیٰ نے کوٹ بھلوال میں ’’فضائل جہاد‘‘ کی توفیق بخشی… ہم نے یہ کتاب باہر بھجوانے کے لئے جیل کے جس ہندو اہلکار کو پھنسایا… اُس کا دادا سے براہ راست رابطہ ہوگیا… بس پھر کیا تھا…

دادا نے اُسے ایسا خوش کیا کہ وہ مکمل وفاداری سے آخر تک کام کرتا رہا…پھر اللہ تعالیٰ نے رہائی عطافرمائی… کراچی پہنچنے تک دادا سے کئی بار فون پر بات ہوئی…مگر زیارت کا مرحلہ نہیں آرہا تھا… اور آنکھوں کو …اللہ تعالیٰ کی نصرت مجسم شکل میں دیکھنے کا اشتیاق تھا… خیال تھا کہ جب دادا ملیں گے تو دیگر پرانے دوستوں کی طرح بہت دیر تک گلے لگے رہیں گے… آنسو بہائیں گے… ہاتھوں اور پیشانی پر بوسوں کا تبادلہ ہوگا… دس پندرہ منٹ تک خاموشی ، سنجیدگی اور خوشی و غم کی درمیانی کیفیت میں مجلس پر سکتہ رہے گا…مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا وہ جلدی سے کمرے میں آئے، غیر جذباتی انداز میں تیزی سے گلے ملے اور سامنے بیٹھ کر … میرے لئے نیا موبائل سیٹ تیار کرنے لگے… میں نے میزبانوں سے پوچھا یہ کون؟… جواب ملا بھائی فرقان…

وہ دن … اور آج کا دن دادا ساتھ رہے… دوست رہے، بے تکلف یار رہے… جماعت کے کاموں میں معاون رہے… دین کے راستے میں ہمسفر رہے … مگر خوشیوں کے ساتھ… پھر ایک اور دن بھی آگیا…

پیغام آیا … دادا، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ… شاید لکھنے والے میں بھی اس سے زیادہ لکھنے کی ہمت نہیں تھی …اور پڑھنے والے کے دل پر غم کا تیشہ چل گیا … اب بس دادا کے لئے دعائیں ہیں اور ایصال ثواب … اور ان گنت یادوں کا طوفان… اچھا ہوا وہ معذوری کی تکلیف سے نکل کر اپنے محبوب رب کے پاس چلے گئے … اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ اکرام والا معاملہ فرمائیں … دادا! آپ کو بھولنا بہت مشکل ہے، بہت مشکل… ہاں! آپ ان شاء اللہ نہیں بھولیں گے … اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم جب تک زندہ رہیں …آپ کا حق ادا کرتے رہیں…

رمضان کے شیدائی

رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی ’’دادا‘‘ … ہر طرح کی تیاری شروع کردیتے… بندہ نے ایک بار ’’رنگ و نور‘‘ میں اُن کے شوق رمضان کا تذکرہ بھی …اُن کا نام لکھے بغیر کیا تھا… وہ شعبان سے دنوں کی گنتی سناتے رہتے کہ اب اتنے دن باقی ہیں… رمضان المبارک سے پہلے اُن کی فرمائش آجاتی:

’’بابا! رمضان المبارک کے معمولات بھیج دیجئے…‘‘

وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے مگر پھر بھی محبت سے ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے… میں جواب دیتا:

’’دادا پچھلے سال جو معمولات بھیجے تھے بس وہی اس سال بھی‘‘

اُن کا جواب آتا کہ … وہ پرچہ تو میں نے کسی کو دے دیا تھا بابا! واپس لکھ دیں… بہت معذرت وغیرہ… پھر رمضان المبارک میں وہ عمرہ پر چلے جاتے تو کبھی پیغام آتا:

بابا! کعبہ شریف کے سامنے بیٹھا ہوں فون ملاؤں دعا کریں گے؟

کبھی بتاتے کہ حطیم میں بیٹھا ہوں … کبھی اطلاع بھیجتے کہ مدینہ پاک جارہا ہوں وہاں کے معمولات بھیج دیں …  پھر پیغام آتا کہ روضۂ اطہر پر کھڑا ہوں آپ کا سلام عرض کردیا ہے… دوسرے عشرہ وہ دبئی چلے جاتے… وہاں ایک مسجد تھی وہ اس سال ضرور آنسو بہائے گی… حجم کے اعتبار سے مختصر مسجد… یہاں دادا کا ٹھاٹھ والا اعتکاف ہر سال چلتا تھا… خوب تلاوت، بھرپور رابطے… عبادت اور خدمت … اچانک تاکیدی پیغام آجاتا:

بابا ! لیلۃ القدر کے معمولات بھیج دیں…

وہ اسی لاڈ اور پیار میں مجھ سے وہ دعائیں اور وظائف بھی لے لیتے جو میں عموماً کسی کو نہیں بتاتا… اور نہ بتانے کی وجہ بخل نہیں کچھ اور ہے… بعد میں پتا چلتا کہ وہ بھی دادا نے آگے چلا دیئے ہیں… رمضان المبارک کا اختتام بھی بڑا عجیب کرتے… ایک عید دبئی میں … اور پھر بھاگتے دوڑتے دوسری عید کراچی میں کرلیتے…

یا اللہ! دادا کی مغفرت فرمادیجئے … اور اب ان کے لئے ہر دن عید کا دن بنا دیجئے… آمین…

ایک عجیب واقعہ

ایک بار آنکھ کے علاج کے لئے برطانیہ گئے… وہاں ڈاکٹروں نے کچھ اندیشہ ظاہر کیا کہ شاید آنکھ کی روشنی بالکل ختم ہو جائے… دادا واپس آگئے … نہ غم نہ پریشانی… جب رابطہ ہوتا قرآن پڑھ رہے ہوتے… کہنے لگے…

بابا ! حفظ کررہا ہوں ، تاکہ آنکھ نہ رہے تو زبانی پڑھتا رہوں…

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

امانت داری

کسی دن یا رات اچانک پیغام آتا کہ …

بابا! کوئی نصیحت کریں…

میرے دل میں جو آتا لکھ دیتا… میں اُن کو دنیاداری میں زیادہ پھنسنے سے ہمیشہ روکتا رہتا تھا… بندہ کے کہنے پر انہوں نے بعض کام چھوڑ بھی دیئے … وہ وضاحت کرتے کہ مجھے دنیا سے محبت نہیں ہے… اور آخرت میرا مقصود ہے…

نصیحت والے پیغام پر اُن کا جواب اور تبصرہ بڑا دلچسپ ہوتا تھا… دنیاداری کے بارے میں باہمی باتوں کے دوران انہوں نے … ایک بار بتایا:

بابا! دنیا سے محبت ہوتی تو بڑی دنیا مفت ہاتھ آگئی تھی، چھوڑ دی…

 دراصل دادا نے ایک شخص کو تجارت میں اپنا ’’استاد‘‘ بنایا تھا… تجارت کے یہ ’’استاد‘‘ ہزاروں سال سے اپنا فنی سلسلہ دنیا میں چلا رہے ہیں… یہ بہت عجیب و غریب لوگ ہوتے ہیں… یہ نہ مال سے زیادہ کھاتے ہیں ، نہ پہنتے ہیں … اور نہ محلات بناتے ہیں… ان میں سے اکثر عیاش بھی نہیں ہوتے… آپ ان کو مال کا ’’شکاری‘‘ سمجھ لیں… مال کمانا اور بہت زیادہ کمانا یہ ان کا شوق، مشغلہ اور فن ہوتا ہے… وہ خالی ہاتھ نکلتے ہیں اور گھنٹوں میں مہینوں کا مال کما کر اُسے جال کی طرح بکھیر دیتے ہیں… اور پھر اُن کے اس جال میں مزید مال پھنستا چلا جاتا ہے… جیسے مچھلی کے شکاری بمشکل ایک دو بوٹی مچھلی کھاتے ہیں… مگر ان کی خوشی اور فتح اس میں ہوتی ہے کہ اتنی بڑی مچھلی پکڑی… اتنی زیادہ مچھلی پکڑی … دادا کو بھی اسی مخلوق سے تعلق رکھنے والا ایک استاد مل گیا … دادا ابھی دنیاداری کی لائن میں مکمل نہیں جڑے تھے … استاد نے شاگرد کی تعلیم کے لئے پیسے کے جال پھیلانے شروع کئے… ان جالوں کا علم بس استاد اور شاگرد کو تھا … اچانک ایک دن استاد صاحب وفات پا گئے … یہ لوگ نہ کہیں مال کا حساب لکھتے ہیں اور نہ کہیں اس کا ریکارڈ رکھتے ہیں… وہ سارا مال دادا کے ہاتھ آگیا، اور روئے زمین پر دادا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ مال ’’استاد‘‘ کا ہے … مگر جن کی مٹی اچھی ، خمیر ایمان والا ہو … اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتے ہیں… دادا نے وہ سارا مال جمع کرکے اپنے استاد کے ورثاء تک پہنچا دیا…

بڑی سعادت

بات مختصر کرتے ہیں … دادا کی بڑی سعادت تھی کہ… اللہ تعالیٰ نے ان کو اس زمانہ میں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ جوڑ دیا… جہاد کے ساتھ جڑ جانا اور جہاد میں خدمت کرنا یہ ایک مسلمان کے مقبول ہونے کی بہت بڑی علامت ہے … تفسیر روح المعانی میں تمام دلائل جمع کرکے اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ … اگر کوئی مسلمان دین کے تمام فرائض ادا کرے اور تمام ضروری عبادات بجا لائے مگر جہاد میں اس کا حصہ نہ ہو تو کیا اس کی مغفرت ہوگی؟ …علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ  نے تمام دلائل کو مدنظر رکھ کر فتویٰ لکھا ہے کہ … اگر جہاد فرض عین نہ ہو … اور تمام عبادات بجا لانے والا شخص جہاد سے بغض نہ رکھتا ہو … بلکہ محبت رکھتا ہو مگر وہ عملی طور پر نہ نکل سکا ہو تو اس کی مغفرت کی امید ہے…

لیکن کوئی مسلمان … دین کے تمام احکام پورے کرے… تمام فرائض ادا کرے، تمام حرام کاموں سے بچے … مگر وہ جہاد فی سبیل اللہ سے بغض اور کھچاؤ رکھتا ہو تو … نعوذ باللہ … اس کی مغفرت نہیں ہے… کیونکہ وہ دین کے ایک محکم اور قطعی فریضے سے بغض، عناد اور کھچاؤ رکھتا ہے تو اس کے اصل ایمان ہی میں فرق ہے …ایک عام مسلمان بھی اگر غور کرے تو یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  خود کئی بار جنگ و قتال میں نکلے ہیں … تو جو انسان اس عمل کو نہیں کرتا وہ کیسے کامل و مکمل ہوسکتا ہے…

ہاں! کسی زمانے میں جہاد کی سہولت اور گنجائش ہی بعض علاقوں میں نہ رہی ہو تو اور بات ہے … وہاں بھی اہل دل کو ’’احیاءِ جہاد‘‘ کی دعا اور فکر میں رہنا چاہئے… ہمارے زمانے میں الحمدللہ جہاد فی سبیل اللہ کا میدان چار سو سجا ہوا ہے… جہاد میں شرکت کی ہر سہولت موجود ہے …ایسے حالات میں جہاد سے دور رہنا اور کٹا رہنا …کافی بڑا نقصان ہے…

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقبول بندوں کو …جہاد کی توفیق عطا فرماتے ہیں… دادا کی قبولیت اور مقبولیت کے لئے یہ بات بھی ان شاء اللہ کافی ہے کہ … انہوں نے جہاد میں شرکت کی، جہاد کی بھرپور خدمت کی… جہاد کے ساتھ محبت رکھی… اسیران اسلام کی بھرپور اعانت کی …امارتِ اسلامیہ  افغانستان کے کاموں کے سلسلے میں قیدکاٹی… اور عصرِ حاضر کے شرعی جہاد میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے… اللہ تعالیٰ ان ساری محنتوں کو قبول فرمائے… اور دادا کو مقبول شہداءِ کرام کے ساتھ وسیع، اونچا اور بہترین مقام عطاء فرمائے…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر455

 

اسلام کی دو عیدیں ہیں کوئی تیسری نہیں...

عیدالاضحی اور عیدالفطر کے ایام کا فرق... ایک غلط سوچ کا ازالہ...

عید کا دن یوم الجائزہ...

عید کے دن عبادات سے غفلت پر تنبیہ...

عید کا تعلق لباس جوتے سے نہیں... ایک غلط رویے کی اصلاح...

’’تہوار‘‘ اور ’’عید‘‘ کا فرق...

تہوار غفلت کا استعارہ...عید عبادت کا شعار ہے...

عید کو تہوار نہ بنائیں... ایک اہم نکتہ۔

عید کے دن رمضان المبارک کی فکر... ایک ولی اللہ کی ہدایت...

عید کی حقیقت امام التابعین کی زبانی...

عید کو حقیقی عید بنانے والے پانچ اسباق پر مشتمل ایک ایمان افروز تحریر...

اسلام مبارک ایمان مبارک

 اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو عیدیں عطاء فرمائی ہیں:

عید الفطر… عید الاضحیٰ

یہ سچی بات حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے مدینہ منورہ میں ارشاد فرمائی کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دو عیدیں عطاء  فرمائی ہیں… (ابوداؤد)

اب تیسری کوئی عید نہیں… چوتھی کوئی عید نہیں… قیامت تک مسلمانوں کی عیدیں دو ہی رہیں گی…

عید الفطر… عید الاضحیٰ

دوسری بات یہ کہ’’عیدالفطر‘‘ بس ایک دن کی ہوتی ہے… یکم شوال…یہ عید دو دن یا تین دن کی نہیں ہوتی… رمضان المبارک مکمل ہوا… اس سعادت کی خوشی میں عید آگئی… اور ایک دن رہ کر چلی گئی… اللہ کرے خیر سے آئے اورخیر سے جائے…

تیسری بات یہ ہے کہ… عید خود آتی ہے… اور خود جاتی ہے…

لوگ عید کریں یا نہ کریں… عید منائیں یا نہ منائیں… رمضان المبارک ختم ہوتے ہی عید آجاتی ہے… اپنے ساتھ خیر، خوشی، خوشخبری اور برکتیں لاتی ہے… بعض لوگ کہتے ہیں… اس سال ہمارے گھر میں وفات ہوئی ہے،ہم عید نہیں کر رہے… عید کرنے یا نہ کرنے کا کیا مطلب؟… عید نہ نئے کپڑوں کا نام ہے اور نہ ہلّا گُلّا کرنے کا… عید نہ کسی شور شرابے کا نام ہے اور نہ کسی خاص پکوان کا… عیدکادن، رمضان المبارک اچھی طرح گذارنے والے مسلمانوں کیلئے… ’’یوم الجائزہ‘‘ یعنی انعام کا دن ہے… عید کی صبح ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سب کی مغفرت کر دی جاتی ہے… اور انہیں اجر وثواب عطاء فرمایا جاتا ہے… اوریوں اُن کے لئے عید ہو جاتی ہے عید… کئی لوگ عید کے دن لاکھوں کا لباس پہنتے ہیں… لاکھوں کے پکوان کھاتے ہیں… مگر وہ عید کی رحمت اور برکت سے محروم رہ جاتے ہیں… جبکہ کئی لوگ عید کے دن اپنا پیوند زدہ دُھلا ہوا لباس پہنتے ہیں… گھر میں دال روٹی کھاتے ہیں… مگر ان کی ایسی عیدہوتی ہے کہ زمین تاآسمان… اور آسمان تا عرش اُن کی عید چمک رہی ہوتی ہے، دمک رہی ہوتی ہے… اور فرشتوں میں اُن کے تذکرے چل رہے ہوتے ہیں…

چوتھی بات یہ ہے کہ… عید کا دن’’یوم الجائزہ‘‘ انعام کا دن ہے… غلط رسومات کی وجہ سے اسے حسرت کا دن نہ بنایا جائے… آپ خود سوچیں اگر ایک بندہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے… عید کے دن بھی اللہ تعالیٰ سے(نعوذباللہ) ناخوش اور ناراض ہوگا… تو وہ کس منہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت مانگے گا…

ہائے میرے پاس نئے کپڑے نہیں… ہائے میرے پاس نیا جوتا نہیں… ہائے میرے بچوں کی اس سال کیا عید؟… فلاں سامان نہیں، فلاںشخص نہیں…

یہ سب محرومی والی سوچیں اور شیطان کے حربے ہیں… رمضان المبارک میں آپ نے محنت کی… روزے رکھے، رات کا قیام کیا… اب اُس ساری محنت کے انعام پانے کا دن ہے تو اپنے محبوب رب سے شکوے لیکر بیٹھ گئے… ذرا دماغ سے تو سوچو کہ آخر نئے کپڑوں سے کیا ہوتا ہے؟… کیا نئے کپڑوں سے کوئی غریب مالدار ہوجاتا ہے؟… کوئی بیمار تندرست ہو جاتا ہے؟… کوئی ذلیل عزت مند ہو جاتا ہے؟… کوئی قیدی رہا ہو جاتا ہے؟… کوئی مصیبت اور بلا ٹل جاتی ہے؟… کوئی قرضہ یا آفت اُتر جاتی ہے؟… کچھ بھی نہیں… کچھ بھی نہیں… بادشاہ پرانے کپڑے پہن کر بادشاہ ہی رہتا ہے… اور چپڑاسی نئے کپڑے پہن کر افسر نہیں بن جاتا … کائنات کے سب سے افضل اور سب سے شان والے انسان نے اکثر پیوند زدہ کپڑے پہنے… اس سے اُن کے مقام میں کوئی کمی نہیں آئی… دراصل مسلمانوں میں عید اور خوشی کا مطلب ہی تبدیل ہوتا جارہا ہے… وہ نعوذباللہ عید کے مقدس دن کو… کرسمس، ہولی، بسنت، دیوالی جیسا کوئی تہوار سمجھ بیٹھے ہیں… ایک مسلمان اور کافر کے درمیان جو فرق ہے وہ… بڑے دن منانے میںبھی ظاہر ہوتا ہے… کافروں کے ہاں تہوار کا مطلب شہوت، لذت، آزادی، غفلت، چھٹی، فخر، نمائش… اور درندگی ہے… اسی دن وہ دل بھر کے گناہ کی پیپ پیتے ہیں… اور اسی دن مالدار لوگ اپنے مال کی نمائش کر کے… غریبوں کا دل دکھاتے… اور اپنی نقلی شان بڑھاتے ہیں…

تہوار کے دن… آزادی ہوتی ہے، عقل، اخلاق اور ہرضابطے سے آزادی… اور انسان ایک ایسے جانور جیسا ہوتا ہے جسے پنجرے سے باہر نکال دیا گیا ہو… مگر عید تو عید ہے… سبحان اللہ! عبادت اور راحت کا شاندار امتزاج… خوشی اور خدمت کا بہترین جوڑ… اور برکت اور مسرّت کا حسین سنگم…اس میں نہ غفلت ہے نہ حرام کاری… نہ نمائش ہے اور نہ ایذاء رسانی… مگر کیا کریں، کافروں کی دوستی اور صحبت نے کئی مسلمانوں کو ڈس لیا ہے… اور انہوں نے ’’عید‘‘ جیسے پاکیزہ دن کو کافروں کے تہواروں جیسا سمجھ لیا ہے… اور اب عید کے دن ناشکری کے جملے اُٹھتے ہیں… کپڑے نہیں، جوتے نہیں… فلاںعزیز گھر نہیں… فلاں کیوں انتقال کرگیا… بس میری قسمت میں خوشیاں کہاں؟…

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ… وَاِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ

آئیے عزم کریں کہ… عید کے انعام والے دن… ہر حال میں اپنے عظیم رب تعالیٰ سے خوش اور راضی رہیں گے…

پانچویں بات یہ ہے کہ… عید کے دن اس بات کی فکر رہے کہ… ہمارا رمضان المبارک قبول ہوجائے… حضرت جبیر رحمۃ اللہ علیہ  بن نفیر فرماتے ہیں:

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  جب عید کے دن آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو یہ دعاء دیتے:

تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ

اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپ کے اعمال قبول فرمائے…

عید کے دن کوئی ایسی حرکت، غفلت اور گناہ نہ ہو جو رمضان المبارک کے اعمال کو بھی ضائع کر دے… خوشی کریں مگر حلال اور مباح اورایک مسلمان کے لئے حرام میں خوشی ہے بھی کہاں؟…

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں:

’’ہر وہ دن جس میں کوئی بندہ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے وہ اس کے لئے عید کا دن ہے… اور ہر وہ دن جو ایک مؤمن اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور شکر میں گزارے وہ اُس کے لئے عید کا دن ہے… ‘‘

بس آج یہی پانچ باتیں… آپ سب کو ’’رمضان‘‘ مبارک… عیدمبارک… اہل اعتکاف کو اعتکاف مبارک… اہل عزیمت کو جہاد فی سبیل اللہ مبارک… اہل سعات جیسے بھائی حامد اور اُن کے رفقاء… کو شہادت مبارک… اہل غزہ کو سرخ ر مضان اور صبر و استقامت مبارک… ساری اُمت مسلمہ کو… اِسلام مبارک، اِیمان مبارک

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر456

 

دنوں اور مہینوں میں کوئی نحوست والا نہیں...

ہندوانہ ذہنیت کی تردید...

منگل کے دن کے بارے میں غلط نظریہ...

مسلمانوں میں نجومیوں اور حساب دانوں کی کثرت...ایک لمحہ فکریہ...

شوال کی نحوست کا غلط نظریہ...آغاز کہاں سے ہوا؟

شوال میں ہونے والا بابرکت ترین نکاح...

شوال میں برپا ہونے والا غزوہ...اور...

اہل غزہ کی استقامت اور عزیمت کو سلام...

یہود کے لئے ہزیمت ہے ان شاء اللہ...

فجر کی نماز کے ترک کا گناہ اور وبال...

 رمضان المبارک کا اہم سبق فجر کی آسانی...

چھٹیوں کی نحوست اور اس کا تریاق...

شوال کے روزوں کی ایک اہم حکمت اور فائدہ...

درست عقیدے اور نظریے کے لئے رہنما تحریر...

 

ماہ شوال

برکت یا نحوست؟

اللہ تعالیٰ ’’شوال‘‘ کے مہینہ کو اُمتِ مسلمہ کے لیے برکت والا بنائے…

برکت اور نحوست

سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں… ان میں سے کوئی ایک بھی ’’منحوس‘‘ یا نحوست والا مہینہ نہیں… اس پر اپنا عقیدہ مضبوط کرلیں… مہینے میں اُنتیس یا تیس دن ہوتے ہیں… نہ اٹھائیس نہ اکتیس… ان اُنتیس یا تیس دنوں میں ایک بھی دن منحوس نہیں ہے… ہفتے میں کل سات دن ہوتے ہیں… جمعہ کا دن ان سات دنوں کا سیّد یعنی بادشاہ ہے… ان سات دنوں میں کوئی دن بھی منحوس نہیں… اس پر اپنا یقین پکّا کرلیں… آج طرح طرح کے نقصان دہ علوم لوگوں میں عام کئے جا رہے ہیں… ان میں سب سے خطرناک نجوم کا علم یا فن ہے… یہ فن خود بہت بڑی نحوست ہے… اسمیں پھنسنے والا انسان ہمیشہ بے چین رہتا ہے، بے قرار رہتا ہے… اور پریشان رہتا ہے… کسی نے نعوذباللہ منگل کے دن کو منحوس قرار دے دیا… ہندو اس دن شادی نہیں رچاتے، بال نہیں کٹواتے… اور منگل کے دن پیدا ہونے والے لڑکے یا لڑکی کو … منگلی یعنی منحوس کہتے ہیں… اگر اس کی شادی کرنی ہو تو… پہلی شادی بندر سے کراتے ہیں یا کیلے کے درخت سے… تاکہ نحوست کا اثر اس پر منتقل ہو جائے…

افسوس! کہ ہم مسلمانوں میں بھی… طرح طرح کے نجومی، عامل، حساب دان آبیٹھے ہیں… وہ منہ بھر کر جھوٹ بولتے ہیں، توہمات پھیلاتے ہیں… لوگوں کو وساوس کا غلام بناتے ہیں… اور پریشانیاں بانٹتے ہیں… ارے بھائیو اور بہنو!… مسلمانوں کو جو کلمہ طیبہ ملا ہے:

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

یہ ستاروں سے اونچا ہے… یہ آسمانوں سے اونچا ہے… یہ قسمت اور خوش نصیبی کی چابی ہے… یہ خوش بختی اور برکت کا راز اور خزانہ ہے… جو اس پر یقین کرلے ستاروں کی چالیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں… اور برجوں، حسابوں اور منتروں سے وہ بہت اونچا ہو جاتا ہے، بہت اونچا…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

شوال کی برکت

شوال کے مہینہ کوعرب لوگ… اپنے بعض نقصان دہ علوم کی وجہ سے ’’منحوس‘‘ سمجھتے تھے… ایک علم کا تعلق لغت سے تھا اور دوسرے علم کا تعلق تاریخ سے… شوال میں کبھی ’’طاعون‘‘ کا مرض آیا تھا جو عربوں کی بستیاں اُجاڑ گیا… کچھ پنڈتوں نے ان تاریخوں کو پکا د با لیا اور شوال کی نحوست کا پرچار کر دیا… جبکہ لغت میں بھی شوال کے بعض معنیٰ… زائل ہونے، کم ہونے کے آتے ہیں… تو اس سے یہ سمجھ لیا کہ اگر اس مہینے میں شادی ہوگی… یا رخصتی ہو گی تو زیادہ نہ چلے گی… میاں، بیوی میں جو ملاپ ہوگا وہ پائیدار اور محبت خیز نہ ہوگا… جب اسلام کی روشنی آئی تو ’’شوال‘‘ کی بدنامی بھی دور کر دی گئی… شوال کے چھ روزے رکھو اور پورے سال کے فرض روزوں کا ثواب پالو… کسی اور مہینے کے نفل روزوں کا یہ مقام نہیں ہے… فرما دیا کہ… جس نے رمضان کے پورے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے بھی ساتھ جوڑ دئیے تو وہ ایسا ہے جیسے ہمیشہ پوری زندگی روزہ دار رہا… یہ تو ہوئی ایک بہت بڑی اور زوردار برکت شوال کے مہینہ کی… اب دوسری برکت دیکھئے! کہ مسلمانوں کی کُل دو عیدیں ہیں… ان میں سے پہلی عید… یعنی عید الفطر شوال میں رکھ دی گئی… سبحان اللہ!… لوگ جس ماہ کو نحوست والا قرار دیتے تھے… اسلام نے اس مہینہ کو عید مبارک کا مہینہ بنادیا… اب اس سے بڑھ کر برکت کی دلیل اور کیا ہوگی؟؟… اب آتے ہیں تیسری فضیلت کی طرف… اس فضیلت نے تو شوال کو باقاعدہ ’’شوال شریف‘‘ بنا دیا ہے… اس مہینے میں ایک ایسا نکاح اور ایک ایسی رخصتی ہوئی کہ… اس نکاح کے موقع پر آسمان و زمین میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں… جی ہاں! خوشیاں ہی خوشیاں… ایسا نکاح نہ پہلے کبھی ہوا نہ قیامت تک آئندہ کبھی ہوگا… ایسا نکاح جس کی برکتیں چودہ سو سال سے جاری ہیں، ساری ہیں… اور قیامت تک جاری رہیں گی… ایسا نکاح جس نے میاں ، بیوی کی محبت کا وہ منظر سکھایا کہ لفظ محبت بھی… خوشی سے سرشار ہوگیا… ایسا نکاح کہ جس نے… علم کے دریاوں کو… اور روحانیت کے چشموں کو پورے عالم میں جاری کر دیا… ایسا نکاح کہ جس نے اُمتِ مسلمہ کو ایک ایسی عظیم ’’امی جان‘‘ دے دی کہ… جنہیں ’’امی امی‘‘ کہتے وقت مغفرت کی اُمید ہونے لگتی ہے… جی ہاں! حضرت رسول اقدس آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا… حضرت اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اسی شوال کے مہینہ میں ہوا اور رخصتی بھی اسی مہینہ میں ہوئی … جب لوگ کہتے کہ شوال کے مہینہ میں نکاح کرنے والی دلہنوں کا نصیب کم ہوتا ہے تو … حضرت امی جی فرماتیں… میرا نکاح شوال میں ہوا… رخصتی بھی شوال میں ہوئی… تمام ازواج مطہرات میں… مجھ سے زیادہ کس کو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا قرب ملا؟…

سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم

اسی شوال کے مہینے میں… غزوۂ احد برپاہوا… سبحان اللہ! ایک ایسی ظاہری شکست جس نے مسلمانوں کے لیے فتوحات کے سمندر اگل دئیے اور انہیں فتح کار از سمجھا دیا… اورسنیں!… شہداء کرام کی صدارت اور سیادت کا شرف جس ’’اُولِی الْمقَام‘‘ شہید کو ملا ہے… ان کی شہادت بھی شوال کے مہینے میں ہوئی… سیّد الشہداء حضرت سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ … اور اسلام کا قابلِ فخر اور قابلِ اعزاز غزوہ… غزوہ حمراء الاسد بھی شوال کے مہینے میں ہوا… اور مدینہ منورہ کو پاک کرنے والاغزوہ… غزوہ بنی قینقاع بھی شوال کے مہینے میں برپا ہوا… یہ غزوہ یہودیوں کے خلاف تھا اور یہودیوں کی بڑھکیںاور دعوئے، ہر سمت گونج رہے تھے… وہ کہتے تھے کہ… غزوۂ بدر کی فتح نے مسلمانوں کو خوامخواہ دھوکے میں ڈال دیا ہے… یہ جب ہم سے لڑیں گے تو انہیں پتا چل جائےگا کہ جنگ کیا ہوتی ہے… مگر جب مسلمانوں کا لشکر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی کمان میں سامنے آیا تو بزدل یہودی… قلعہ بند ہوگئے… اور بالآخر ذلت، شرمندگی، عار، شکست اور رسوائی کا داغ قیامت تک اپنے منہ پر لگائے… جلاوطن کر دئیے گئے…

آج بھی شوال ہے… اور مسلمانوں کے مدّمقابل بزدل، قلعہ بند یہودی ہیں… ۱۹۴۸ء؁ میں اسرائیل کی ناجائز مملکت بننے کے بعد اسرائیل نے جتنا نقصان موجودہ جنگ میں اُٹھایا ہے… اُتنا پہلے کبھی نہیں بھگتا… اہلِ غزہ کی جرأت، عزیمت، شہادت اور جانبازی کو سلام… اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی مزید نصرت نازل فرمائے… اور ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے کہ… ہم اس مبارک جہاد میں ’’کلمۂ طیبہ‘‘ کے جھنڈے تلے یہودیوں کو تہس نہس کر سکیں…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

چھٹی کی نحوست

بات دل میں بیٹھ گئی ہوگی کہ… کوئی دن منحوس نہیں، کوئی تاریخ منحوس نہیں، کوئی ہفتہ منحوس نہیں، کوئی مہینہ منحوس نہیں… نحوست جب بھی آتی ہے خود ہمارے اندر سے آتی ہے… مسلمان ہو کر فجر کی نماز قضاء کردی اب نحوست آگئی… خواہ دن جمعہ کا ہی کیوں نہ ہو… اور نحوست بھی ایسی زوردار کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ … فجر کی نماز مومن کے ایمان کا ہر دن پہلا امتحان اور ٹیسٹ ہے… اس لیے فجر کو وقت پر اہتمام سے ادا کرنے والوں کو… احباب الرحمن… اللہ تعالیٰ کے دوست کا لقب دیا جاتا ہے… یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن کے پہلے آغاز میں ہی… اپنے مومن ہونے کا بہترین ثبوت پیش کر دیا تو اب… اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ان پر رحمت اور امان کی بوچھاڑ ہوتی ہے… ایسے لوگوں کے لیے خاص فرشتے اُتارے جاتے ہیں جو اُن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں… اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن اور امان کی ضمانت دے دی جاتی ہے… خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… رمضان المبارک ختم ہونے کے بعد… کئی مسلمان پہلا جرم یہی کرتے ہیں کہ فجر کی نماز میں سست ہوجاتے ہیں… حالانکہ ہمارے مرشد ’’رمضان المبارک‘‘نے ہمیں انگلی پکڑ کر تیس دن تک یہی سکھایا کہ… دیکھو! فجر کتنی آسان ہے… بس ایک کام کرلو… تہجد کی عادت ڈال لو اور سحری کے وقت کچھ برکت والا طعام کھا پی لیا کرو… بس فجر آسان… رمضان المبارک آتا ہی ہمیں سکھانے اور ہماری تربیت کرنے کے لیے ہے… اس تربیت کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ… مسلمان فجر کی نماز کو مشکل نہ سمجھیں… شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ… فجر اور عشاء کو بھاری بنا دے… اور منافق کی علامات میں بھی یہ شامل ہے کہ… اس کے لیے فجر اور عشاء کی نماز بہت بھاری ہوتی ہے… رمضان المبارک کی عشاء اتنی بڑی ہوتی ہے کہ… ایک مومن کو پورا سال عشاء کی نماز آسان اور ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے… ارے واہ! آج تو بیس منٹ میں فارغ ہوگئے… رمضان المبارک میں دو گھنٹے لگتے تھے… اور فجر بھی ایسی آسان کہ مساجد میں جگہ نہیں ملتی… وجہ یہ کہ رمضان نے سکھایا کہ اچھا مسلمان وہ ہے جو فجر کے لیے نہیں… تہجد کے لیے اٹھتا ہے… صبح صبح برکت والا کچھ کھانا کھاتا ہے… اور پھر اہم ترین فرض… نماز فجر کے لیے مکمل چستی کے ساتھ حاضر ہو جاتا ہے… ہم اگر ہر روز فجر کے لیے جاگنے کی کوشش کریں گے تو … شیطان ہمیں گراتا رہے گا… لیکن اگر ہم تہجد میں جاگنے والے ہو گئے تو… ہماری فجر محفوظ ہو جائے گی… اور فجر کو محفوظ کرنا… ہر ایمان والے مرد اور عورت پر لازمی فرض ہے… اصل بات یہ عرض کرنی تھی کہ… شوال آتے ہی ساتھ ’’چھٹیاں‘‘ آجاتی ہیں… اور چھٹیوں میں مسلمانوں کے لیے اکثر نحوست ہوتی ہے… اسی لیے سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ… بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو صرف رمضان المبارک ہی میں مانتے اور پہچانتے ہیں… یعنی رمضان ختم تو اعمال بھی ختم … چھٹیوں کی جو عمومی نحوست… مسلمانوں کے ایمان اور اعمال پر اثر کرتی ہے اُسے دور کرنے کی ضرورت ہے… شوال کے روزے اس کا بہترین ذریعہ ہیں… ان چھ فضیلت والے روزوں کا موقع شوال کے آخر تک رہتا ہے خواہ اکٹھے رکھیں … یا الگ الگ… دوسرا یہ کہ اپنے دینی کام میں… دوبارہ جوش، جذبے اور محنت سے جڑ جائیں… اور تلاوت و نوافل کا جوذوق… مرشد جی رمضان المبارک کی صحبت میں پایا اس کو… ایک حد تک برقرار رکھنے کی ہم سب دعاء، فکر اور کوشش کریں…

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً کثیرا

 لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر457

نیکیوں کی طرف بلائیں اور گناہوں سے روکیں...

کراچی کے ایک مثالی داعیٔ جہاد کی یاد... قابل تقلید طرزِ عمل...

برطانیہ کے ایک مسلمان داعی کی فکر و عمل...

لوگوں کو نفع پہنچانا... اللہ تعالیٰ کا محبوب عمل...

دین کی دعوت دینے والوں کے علاوہ سب انسان خسارے میں ہیں...

دین پر استقامت اور ترقی کا راز...

داعی پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور مخلوق کی دُعائیں...

نیکیوں کے خزانے میں بے انتہاء اضافے کا نسخۂ اکسیر...

مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور امہات المؤمنین کی شباہت

 اختیار کرنا باعث عزت و فخر سمجھیں...

دعوت فکر سے لبریز مضمون...

 

 

مسلسل دعوت

اللہ تعالیٰ اُن ایمان والے مردوں… اور ایمان والی عورتوں پر ’’رحمت‘‘ فرماتے ہیں… جو نیکیوں کی دعوت دیتے ہیں… اور برائیوں سے روکتے ہیں… والحمدللہ رب العالمین

ایک صاحب یاد آگئے

کراچی میں دعوتِ جہاد کا کام شروع ہوا تو آغاز… چھوٹے چھوٹے رسائل اور چھوٹی چھوٹی نشستوں سے ہوا… چند مختصر رسالے تھے… آہ! بابری مسجد، میرا بھی ایک سوال ہے، اسلام اور جہاد کی تیاری، اللہ والے، بنیاد پرستی، جہاد رحمت یا فساد وغیرہ… پھر ایک ماہنامہ بھی شروع ہوا ’’صدائے مجاہد‘‘… اتوار کی شام ناظم آباد کی ایک دوکان میں دعوتِ جہاد کی نشست چلتی تھی… کبھی کبھار چھوٹے جلسے بھی ہو جاتے تھے… جہاد کے معاملے میں کافی اجنبیت اور بے رُخی تھی مگر… اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام آگے بڑھ رہا تھا… جہادی نظموں کی ایک کیسٹ بھی نہیں ملتی تھی… ایک رات عشاء تا فجر محنت ہوئی اور الحمدللہ کیسٹ تیار ہوگئی… خیر یہ سب کچھ اپنی جگہ… اصل بات یہ بتانی ہے کہ ایک دن ایک صاحب تشریف لائے… بڑی عمر کے تھے مگر چاک و چوبند… فرمانے لگے اب بس دعوتِ جہاد ہی اوڑھنا بچھونا ہے… کپڑے کا ایک تھیلا اُن کے پاس تھا اس میں جہادی کتابچے تھے… فرمانے لگے یہ تقسیم کرتا رہتا ہوں اور لوگوں کو دعوت دیتا رہتا ہوں… اپنی دعوت بھی انہوں نے سنائی، بندہ نے دعوت کی کچھ تصحیح اور اُن کی حوصلہ افزائی کی… اگر وہ انتقال فرما چکے تو اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے… اور حیات ہیں تو ایمانِ کامل اور حسن خاتمہ اُن کا مقدر بنائے… سائیکل پر چلتے تھے اور دن رات دعوت میں مگن رہتے تھے… بعد میں اُن جیسے کچھ اور حضرات بھی زندگی میں آئے… اُن سب کی عزیمت اور اُن سب کے ذوق کو سلام… جہاد کی بہاریں جہاں جہاں تک پھیلیں اور پھیل رہی ہیںاور جہاں تک ان شاء اللہ پھیلیں گی… اُن سب میں ان باذوق اور محنتی حضرات کا حصہ ہے… سبحان اللہ! ایک ایسا صدقہ جاریہ جس کی وسعت اور پھیلائو کا خود ان حضرات کو بھی کبھی اندازہ نہیں ہوگا… مگر جب اعمال کے دفتر کھلیں گے… تو ایسے لوگ کتنے خوش اور کتنے حیران ہوں گے… اور ان شاء اللہ کیسے جھوم جھوم کر جنت کے بالا خانوں میں جائیں گے… بے شک دعوت کا بڑا مقام ہے… بہت بڑا، بہت بڑا…

الحمدللہ اب بھی ہیں

ایک صاحب برطانیہ میں تھے… کیسٹ سن کر دین پر آئے اور پھر خود کو دعوت کے لیے وقف کر دیا… خود دعوت نہ دے سکتے تھے… زندگی ایک بُرا کلب چلاتے گذری تھی… انہوں نے کیسٹوں کا سہارا لیا… جدید مشینیں خریدیں اور اُس طبقے تک دعوت پہنچائی جس کے شرکے خوف سے شرفاء اُن تک پہنچ ہی نہیں سکتے… کیا معلوم کیسٹیں سنتے، سناتے اور تقسیم کرتے… اللہ تعالیٰ نے اُنکی زبان بھی کھول دی ہو… بعد میں اُن سے رابطہ نہ رہا… جماعت کے رفقاء میں… اس ’’محبوبانہ ذوق‘‘ والے چند افراد اب بھی ہیں… اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے اور اُن کے کام کو خصوصی قبولیت عطاء فرمائے… اس ذوق کو ’’محبوبانہ‘‘ اس لیے لکھا کہ حدیثِ صحیح ہے…

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

اَحَبُّ النَّاسِ اِلَی اللّٰہِ اَنْفَعُھُم

’’لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو دوسروں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو‘‘… زیادہ نفع تو صرف ’’دعوت الی اللہ‘‘ کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے… ایمان کی دعوت، نماز کی دعوت، جہاد کی دعوت… اور پورے دین کی دعوت کے ذریعہ… ہاں! کسی کو کھانا کھلانا، کپڑے دینا، علاج کرنا یہ بھی نفع ہے… مگر عارضی… جبکہ کسی کو اللہ تعالیٰ سے جوڑ دینا یہ ہمیشہ کا دائمی نفع ہے… کسی کو جہاد جیسے فلاح کے راستے پر لانا یہ ہمیشہ کا دائمی نفع ہے… پس جسے اللہ تعالیٰ یہ دھن اور فکر عطاء فرما دے… اُس کے محبوب الی اللہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟… کاش! ایسا ہو کہ … جماعت کے سب ساتھیوں کو یہ ذوق، یہ دُھن اور یہ فکر نصیب ہو جائے… کوئی انہیں کہے یا نہ کہے… مہم کے دن ہوں یا نہ ہوں… کوئی ان کی سنے یا انہیں دھتکارے… وہ غریب مزدوروں کے درمیان بیٹھے ہوں یا جہاز اور ائرپورٹ پر مالداروں کے درمیان… ہر حال میں ہر جگہ دعوت، دعوت اور دعوت… تب پتا ہے کیا ہوگا؟ایسے افراد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت چھم چھم برسے گی… خود اُن کا دین پختہ اور مضبوط ہو جائے گا… اور وہ ’’اہل خسارہ‘‘ میں سے نکال دئیے جائیں گے… فرمایا:

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ

بے شک تمام انسان خسارے اور نقصان میں جا رہے ہیں… مگر دین کی دعوت دینے والے… ان اہل خسارہ میں شامل نہیں… وہ تو ایسا نفع کما رہے ہیں… جس نفع کا کھاتہ قیامت تک کھلا رہے گااور بڑھتا رہے گا… افسوس! کہ بہت سے مسلمان دین کی دعوت دیتے ہوئے شرماتے ہیں… اور جہاد کی دعوت سے گھبراتے ہیں… اسی وجہ سے اُن کا اپنا معاملہ ایسا کمزور ہو جاتا ہے کہ… ذرا سا دنیاداروں کے ماحول میں جاتے ہیں تو اپنی پگڑی، اپنی ٹوپی اور اپنی پیاری داڑھی… انہیں بوجھ اور عار محسوس ہونے لگتی ہے… آہ افسوس… حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی شان والی، عزت و عظمت والی شباہت جب ایک مسلمان کو عار لگنے لگے تو وہ خود سوچ لے کہ وہ کیسا مسلمان ہے؟ یہی حال مسلمان بہنوں کا ہے… جو دعوت نہیں دیتیں وہ جب بے وقوف عورتوں کے ماحول میں جاتی ہیں تو ان کے طرح طرح کے … فیشنوں سے متأثر ہو جاتی ہیں… ایسے فیشن جن کو سوچ کر بھی الٹی اور ابکائی آتی ہے… ہاے کاش اے بہنا!… تیرے دوپٹے پر امی فاطمہ رضی اللہ عنہاکے دوپٹے جیسا پیوند ہوتا… تیرے کرتے پر امی عائشہ  رضی اللہ عنہاکے کرتے جیسا پیوند ہوتا… اور تیرے دل میں ایمان سورج کی طرح… اور تیرے دماغ میں شکر چاند کی طرح چمک رہا ہوتا… اور تو اپنی حالت پر خوش اور مسرور ہوتی… تب تجھ سے خیر کے قیامت تک جاری رہنے والے چشمے پھوٹتے…

استقامت اور ترقی کا راز

کئی لوگ دیندار تھے… پھر دین سے محروم ہوگئے… کئی نمازوں کے شان والے پکّے تھے پھر ان کی کمر پر شیطان نے تالے ڈال دئیے… کئی جہاد میں نامور تھے مگر پھر وہ جہاد سے اور جہاد اُن سے روٹھ گیا… ایسا کئی وجوہات سے ہوتا ہے… مگر اہم ترین وجہ دعوت نہ دینا ہے… دعوت دیتے رہو، پختگی پاتے رہو… دعوت دیتے رہو ترقی پاتے چلے جائو… دعوت دیتے رہو خیر کے باغات میں رہو… وجہ یہ ہے کہ … دعوت دینے سے انسان کا اپنا دل زندہ رہتا ہے… دعوت دینے سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… اور دعوت دینے والے کے لیے آسمانی رحمتوں اور نصرتوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے…

یہ دیکھیں حدیثِ صحیح… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

ان ﷲ عزوجل و ملائکتہ واھل السمٰوٰت والارض حتی النملۃ فی حجرھا وحتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر…

’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اور آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اور مچھلیاں… اُس شخص پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہو ‘‘…

اللہ تعالیٰ کا ’’صلوٰۃ‘‘ بھیجنا یہ ہے کہ … اللہ تعالیٰ اُس پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں… اور اپنے ملائکہ کے سامنے اس کی تعریف فرماتے ہیں… جبکہ مخلوق کا صلوٰۃ بھیجنا… استغفار ہے… کہ ساری مخلوق ایسے شخص کے لیے استغفار کرتی ہے… اور اُس کے لیے رحمت کی دعاء مانگتی ہے…

پس اسی لیے جو دعوت میں لگے رہتے ہیں… اُن کا دین اور ایمان محفوظ رہتا ہے اور وہ جہاد کے راستے میں ترقی کرتے ہیں… مگر جو دعوت چھوڑ دیتے ہیں خود اُن کے اندر کمزوری اور دنیا سے متاثر ہونے کا مرض آجاتا ہے، عبادت میں غفلت اور سستی آجاتی ہے…

ابھی وقت ہے

صرف صرف اپنے فائدے کے لیے… اپنے دین کی مضبوطی کے لیے… اپنی نسلوں میں دین کو جاری رکھنے کے لیے… اپنی قبر، حشر اور آخرت بنانے کے لیے … اور خود کو ملعون دنیا کے دھوکے میں پھنسنے سے بچانے کے لیے… دعوت کا کام شروع کر دیں… اپنے گھر میں تعلیم اور دعوت، اپنے آس پڑوس میں دعوت، دن دعوت، رات دعوت… یہ بڑا اونچا عمل ہے… آپ کی دعوت کے اثرات کہاں تک جائیں گے… آپ کو اندازہ بھی نہ ہوگااور حالت یہ ہوگی کہ… آپ مزے سے سو رہے ہوں گے اور آپ کے نامہ اعمال میں دھڑا دھڑ نیکیاں جمع ہو رہی ہوں گی… دعوت کے لیے نہ لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت… نہ سر پر قراقلی اور اونچی آواز کی ضرورت… نہ جلسے اسٹیج اور اعلان کی ضرورت… نصاب آپ کے پاس بہت اونچا اور جامع موجود ہے… کلمہ، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ…

سیدھے سادے الفاظ میں… درد کے ساتھ… اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت کرتے ہوئے… دل میں اُمت اور دین کی فکر گرماتے ہوئے… اہل اسلام کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ… دشمنان اسلام سے شدید نفرت شدید عداوت کے جوش کے ساتھ… مظلوم مسلمانوں کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کے رشتے کے ساتھ… دعوت دیتے جائیں، دعوت دیتے جائیں… آپ جس قدر اس میں محنت کریں گے… تکلیف اٹھائیں گے، اسی قدر راستے کھلتے جائیں گے، روشنی پھیلتی جائے گی… اور اندھیرے دور ہوتے جائیں گے… ان شاء اللہ، ان شاء اللہ…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً کثیرا…

 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر458

افغانستان میں امیرالمومنین کی فتح...اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے کھلی نشانی...

ہمارے حکمرانوں کا کشمیر کے بارے میں نفاق زدہ رویہ...

دشمنوں سے تحائف کے تبادلے...

ہنگامہ خیز خبروں کے بیچ امیرالمومنین کی یاد...

ان سے قلبی تعلق ذخیرئہ آخرت ہے..... ان جیسا باکمال نہیں دیکھا...

دُنیا بھر میں جاری جہادی تحریکات مبارک ہیں...

مجاہدین کی قربانیوں کا محبت بھرا تذکرہ...

علمی حلقوں میں خلافت کی بحث...

خلافت کا نفاذ اہم ذمہ داری لیکن بہت نازک موضوع...

افراط و تفریط کے رویوں کی نشاندہی...امارت اور خلافت کا فرق...

امیرالمؤمنین کی فراست ایمانی کا شاندار نمونہ...

داعش کے بارے میں نقطہ نظر کی وضاحت...

خلافت کے بارےمیں تشدد آمیز رویہ رکھنے والوںکو دعوت فکر...

انتہائی اہم موضوع پر اہم تحریر...

 

’’امیر المؤمنین‘‘ کی فراست

’’اللہ تعالیٰ‘‘ حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کی حفاظت فرمائے…اور انہیں اس وقت موجود پوری امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے…ماشاء اللہ انہوں نے تاریخ اسلام کی گود میں ایک بڑی فتح ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے…ایک ایسی فتح جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا… ایک ایسی فتح جو تاقیامت مسلمانوں کا عزم اور حوصلہ بڑھاتی رہے گی…

سبحان اللہ! کارنامہ ہو تو ایسا ہو…نہ سنانے کی ضرورت،نہ منوانے کی حاجت…ساری دنیا خود کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے…افغانستان میں ’’امیر المومنین‘‘ کی فتح اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے…یہ آیۃ من آیات اللہ ہے…وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے ہو گیا جو کل تک نا ممکن نظر آتا تھا…قارئین سوچتے ہوں گے کہ آج کے ماحول میں…جبکہ ہر طرف جلوس،لانگ مارچ اور دھرنوں کی گہما گہمی ہے…میں یہ کیا موضوع لے کر بیٹھ گیا ہوں…مگر آپ ہی بتائیں کہ دھرنوں اور لانگ مارچوں پر کیا لکھا جائے؟…سب کچھ خبروں میں آ رہا ہے… اخبارات،ٹی وی، اور نیٹ سب پر تازہ ترین صورتحال دستیاب ہے… موجودہ حکومت بھی اس قابل نہیں کہ اس کی حمایت یا وکالت کی جائے … ہندوستان میں مسلمانوں کے قاتل کو جس طرح ساڑھیاں بھیج کر…شہداء کشمیر…شہداء ہند کے مبارک اور معطر خون سے غداری کی گئی…اس کا فوری رد عمل زمین پر جلوہ افروز ہوا کہ…کل تک جو تکبر اور رعونت کا بت بنے بیٹھے تھے…آج وہ خوف،گھبراہٹ اور عدم تحفظ کے احساس میں گردن تک دفن ہیں…شہداء کا وارث اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنے ان وفادار عاشقوں کے کام،عمل اور اجر کی حفاظت فرماتا ہے…یہ حکمران بے چارے تو چار دن کھا پی کر… عیاشی کر کے،خزانے جمع کر کے مر کھپ جاتے ہیں…جبکہ شہداء کرام زندہ رہتے ہیں…اور زندہ رہیں گے…کشمیر میں تو ایسے ایسے اللہ والے صدیقین شہید ہوئے کہ وہ…اس زمانے میں اپنی مثال آپ تھے…حالیہ حالات میں اگر موجودہ حکومت ختم ہوئی تو اس کا اصل اور حقیقی سبب ایک ہی ہو گا…اور وہ ہے قاتل انڈیا کے ساتھ ناجائزیاری کا جذبہ…واقعی یہ جذبہ منحوس ہے،ناپاک ہے اور ناجائز ہے…اور آج کل حکومت اسی نحوست کے وبال میں ہے…یہ بات تو ہوئی حکومت کی…جبکہ دوسری طرف دھرنے والے جو دو حضرات ہیں ان کی تائید اور حمایت بھی بہت مشکل کام ہے…ایک تو ان میں کافروں کا چھوڑا ہوا غبارہ ہے…جبکہ دوسرا بالکل بے اعتبارا ہے … اسی لئے اس موضوع پر نہ کچھ لکھا ہے اور نہ ہی لکھنے کا فی الحال ارادہ ہے…اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ اللہ

اب سوال یہ ہے کہ حضرت ملا محمد عمر صاحب مدظلہ العالی آج کیسے یاد آ گئے؟…پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ آج یاد نہیں آئے ،روز یاد آتے ہیں اور بار بار یاد آتے ہیں…ان کے ساتھ ہمارا تعلق دنیا کے لئے نہیں آخرت کی کامیابی کے لئے ہے…اور جو تعلق آخرت میں کام آنے والا ہو وہ بہت قیمتی ہوتا ہے…

جی ہاں! بے حد قیمتی…ایسے تعلق کی حفاظت کے لئے انسان کو جو قربانی دینی پڑے خوشی سے دے دینی چاہیے … کیونکہ آخرت میں ہمیشہ رہنا ہے…حقیقی محبت کا جذبہ انسان کو اندر سے بے حد مضبوط کر دیتا ہے…اور یہ وہ محبت ہوتی ہے جو کسی دنیاوی نقصان سے کم نہیں ہوتی…محبوب سے ملاقات ہوتی ہے یا نہیں؟حقیقی محبت کو اس کی ضرورت نہیں؎

’’جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘

محبوب اس محبت کی قدر کرتا ہے یا نہیں؟…حقیقی محبت کو اس کی بھی ضرورت نہیں…محبت تو انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے…اور یہ محبت خود محبت کرنے والے کو طرح طرح کے فوائد عطا کرتی ہے… اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے اہل دل اور اہل کمال کو دیکھا…اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ میں سیاحت فی الارض بھی آسان فرما دی تھی…ملک ملک نگر نگر کا پانی پیا…اور اصحاب کمال سے ملاقاتیں نصیب ہوئیں… ماشاء اللہ …اللہ تعالیٰ کی زمین کبھی صادقین،صدیقین اور اولیاء کرام سے خالی نہیں ہوتی…

سب اہل دل اور اہل بصیرت کو سلام…مگر حضرت ملا محمد عمر مجاہد کی بات ہی کچھ اور ہے…

اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَاحْفَظْہٗ وَبَارِکْ لَہٗ

ان سے بہت کم ملاقات رہی…الحمد للہ ایسا تعلق بن گیا تھا کہ مزید صحبت کی اُمید بن چلی تھی کہ اچانک وہ بادلوں میں چھپ گئے…اپنی رائے کسی پر نہیں ٹھونستا مگر اس کا اظہار ضرور کرتا ہو ں کہ…اپنی زندگی میں ان جیسا باکمال کوئی اور نہیں دیکھا…

مَاشَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ وَبَارَکَ اللہُ عَلَیْہِ وَلَہٗ

اب وہ بادلوں کے پیچھے ہیں…مگر روشنی تو چھم چھم آتی ہے نا؟…وہ روشنی جو مایوسی کی رات نہیں پڑنے دیتی…یہ تو ہوئی پہلی بات…اب آئیے دوسری بات کی طرف کہ آج وہ خاص طور سے کیوں یاد آئے کہ ہماری محفل کو ہی مہکا دیا …دراصل شام و عراق میں مجاہدین کی جماعت…الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام…کے بارے آجکل دینی طبقوں میں طرح طرح کی بحثیں گرم ہیں… کچھ بحثیں تو بالکل فضول،لا یعنی اور ضرر رساں ہیں…ٹویٹر اور فیس بک پر لاکھوں مسلمان…ان لا یعنی بحثوں میں الجھ کر اپنے اعمال اور اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں…القلم کے صفحات پر عزیزم مولانا طلحہ السیف کا اس بارے مضمون بہت عمدہ اور نافع تھا…ان بحثوں میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفریق اور تفرقے میں اضافہ ہوتا ہے…اور آپس کی طعن تشنیع اور گالم گلوچ سے اعمال بھی برباد ہوتے ہیں…بہت سے افراد کو اپنی زبان کی خارش اور کھجلی دور کرنی ہوتی ہے… یہ لوگ قرآن مجید کا ایک پارہ تلاوت کریں تو تھک جاتے ہیں…جبکہ اس طرح کی بحثوں میں گھنٹوں تک بک بک کرنا یا کمپیوٹر سے جڑے رہنا ان کے لئے آسان ہوتا ہے…اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…شام کا جہاد بھی مبارک ہے… فلسطین کا جہاد بھی مبارک ہے… افغانستان کا جہاد بھی مبارک ہے … کشمیر کا جہاد بھی مبارک ہے…الغرض جہاں بھی شرعی شرائط کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہو رہا ہے وہ مبارک ہے…ہمیں اپنی مکمل استطاعت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگ جانا چاہیے…جہادی تربیت لینا،محاذوں پر جانا… جان سے جہاد کرنا،مال سے جہاد کرنا…زبان کے ذریعہ جہاد کی دعوت دینا وغیرہ…اور اس میں ترتیب یہ ہو گی کہ ہمیں جہاد کا جو محاذ میسر ہو ہم اس میں اپنی مکمل صلاحیتیں لگا دیں…نفس اور شیطان کا دھوکہ یہ ہے کہ قریب ہی جہاد موجود ہوتا ہے…اور شیطان بہکاتا ہے کہ نہ ابھی شرکت نہ کرو… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ   کی علامات قریب ہیں وہ تشریف لائیں گے تو ان کے ساتھ نکل کر لڑنا…بس اس انتظار میں عمر کٹ جاتی ہے،جسم اور عزائم کمزور ہو جاتے ہیں…اور جہاد میسر ہونے کے باوجود محرومی قسمت بن جاتی ہے…اسی طرح یہ خیال کہ…میں صرف فلاں جگہ جا کر لڑوں گا؟…اللہ کے بندو!جس جہاد کی کمان زمانے کا معتبر ترین مسلمان…ملا محمد عمر مجاہد کر رہا ہو…اس جہاد سے رکے رہنا اور دور دور کی تیاریوں میں اپنا وقت لگانا…یہ کون سی دانش ہے اور کونسا کارنامہ؟…قریب ہی غزوۂ ہند کی بہاریں ہیں جس میں حافظ سجاد خان شہید رحمۃ اللہ علیہ ، غازی بابا شہید رحمۃ اللہ علیہ … اور افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ  اونچی چوٹیوں سے مسکراتے ہیں… اسے چھوڑ کر بیٹھے رہنا کہ میں نے تو دور جا کر لڑنا ہے…پھر بتائیے کہ اگر یہ سوچ یہاں سب کی ہو گئی تو… ان دشمنان اسلام سے کون لڑے گا؟…اگر یہ سوچ سب کی ہو جاتی تو اسلام کی تاریخ میں اتنی بڑی فتح کیسے لکھی جاتی کہ…آج چالیس ملکوں کے لشکر زخمی زخمی شکست خوردہ اپنا سامان باندھ کر بھاگ رہے ہیں…اور افغانستان میں لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ  کا ڈنکا بج رہا ہے…خیر یہ بات تو درمیان میں آ گئی…عرض یہ کرنا تھا کہ اس وقت علمی طبقوں میں …مسئلہ خلافت اور مسئلہ امارت بہت شدت کے ساتھ زیر بحث ہے…اور یہ بحث لا یعنی بھی نہیں…کیونکہ زمین پر خلافت قائم کرنا…دین اسلام کے عظیم ترین مقاصد میں سے ہے…اس میں ایک یہ نکتہ سمجھ لیں تو ان شاء اللہ گمراہی سے حفاظت رہے گی…شادی صرف ’’دعویٰ‘‘ کرنے سے نہیں ہو جاتی…کوئی آدمی دعویٰ کر دے کہ میں فلاں حکمران کا داماد ہوں…کیا یہ کہہ لینے سے اسے ’’داماد‘‘ کے حقوق مل جائیں گے؟… جواب واضح ہے حقوق تو بالکل نہیں ملیں گے البتہ جوتے وغیرہ پڑ سکتے ہیں…بس اس طرح کوئی یہ دعویٰ کر دے کہ میں ’’خلیفہ‘‘ ہوں…اس دعوے کا کوئی وزن،کوئی اعتبار اور کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے…آج کل کئی لوگ ’’مہدی‘‘ ہونے کا دعوی کرتے ہیں…ارے اللہ کے بندو! مہدی کو کسی دعوے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی…وہ خود زمین پر چھا جائیں گے…اور ان کی خلافت و حکومت ہر کسی کو اپنی آنکھوں سے نظر آئے گی…دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اصل میں مسلمانوں کا خلیفہ ساری دنیا میں ایک ہوتا ہے…ایسا کئی صدیوں تک رہا…اور ان شاء اللہ قرب قیامت میں پھر ایسا ہو جائے گا…ایسی خلافت کو ’’خلافت کبریٰ‘‘ کہتے ہیں…تیسری بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں سے خلافت کبریٰ کی نعمت چھن گئی اور مسلمان کئی ملکوں اور ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ایسے حالات میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان حاکم کو زمین کے کسی خطے پر غلبہ نصیب ہو جائے…وہ وہاں قبضہ کر لے…اس کا حکم وہاں نافذ ہوتا ہو تو یہ شخص اس خطے کے مسلمانوں کا حاکم یا امیر ہو گا…اسلام اس کی حاکمیت اور امارت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے زیر انتظام مسلمانوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہے…شرط یہ ہے کہ وہ اسلامی حاکمیت کے اصول پورے کرے…اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   کے احکامات کے خلاف حکم نافذ نہ کرے … اب اگر اس علاقے کے مسلمان اپنے اس حاکم یا امیر کو ’’خلیفہ‘‘ کا لقب دے دیں تو یہ بھی جائز ہے…مگر اس کی امارت یا خلافت بس وہاں تک ہوگی…جہاں تک اس کا حکم نافذ ہوتا ہے…وہ دور کے مسلمان جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں…یہ نہ ان کا خلیفہ ہوگا اور نہ ہی امیر… کیونکہ خلیفہ وہ ہوتا ہے کہ جس کی کمان میں جہاد کیا جائے…جو دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتا ہو…جو مظالم میں انصاف دے سکے…اب جب آپ ایک ملک میں رہتے ہیں…اور خلیفہ دوسرے ملک میں ہے تو و ہ آپ کا حاکم اور خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے؟…جہاں اس کا حکم ہی نہیں چلتا تو وہ وہاں کا حاکم کیسا؟…اب حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد…دامت برکاتہم العالیہ کی دینی فراست اور زمینی حقائق پر نظر دیکھیں کہ جب انہوں نے…افغانستان میں قبضہ کیا تو وہاں جو حکومت قائم کی اس کا نام خلافت کی بجائے’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ رکھا…اپنے خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعوی نہیں کیا…افغانستان سے باہر کسی مسلمان کو اپنی اطاعت کا حکم نہیں دیا…یہ ہے ایمان اور یہ ہے اسلام کی سمجھ…چنانچہ کوئی فتنہ نہ اٹھا اور امارت اسلامیہ نے سات سال تک مسلمانوں کو…قرون اولیٰ کے مزے یاد کرا دئیے…اور پھر وہ ایک عظیم جہاد میں اتر گئی…اور اب الحمد للہ فاتح ہو گئی…عراق و شام کے مجاہدین نے خلافت اور خلیفہ کا نام استعمال کیا تو…ہر طرف سے شور پڑ گیا اور مسلمانوں میں طرح طرح کی بحثوں نے جنم لے لیا…واللہ اعلم آگے کیا ہو گا…فی الحال تو مسلمانوں کو وہاں برسرپیکار تمام مجاہدین کے ساتھ حسن ظن رکھنا چاہیے…ان کے لئے دل کی توجہ سے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں…اور ان کے لئے ہر طرح کے ممکنہ تعاون کا جذبہ دل میں رکھنا چاہیے…’’داعش‘‘ نے خلافت کبریٰ کا علان کیا ہو، ایسا ہمارے علم میں نہیں ہے…جن علاقوں پر ان کا قبضہ ہے وہاں ان کی شرعی حکومت اور امارت قائم ہو چکی ہے…مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے…ایران کا مجوسی عفریت…اور شام کا نصیری اژدھا جس طرح سے عراق و شام میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا تھا اسے سن کر دل خون کے آنسو روتا تھا…ان مجاہدین نے وہاں اس ظلم کا مقابلہ کیا ہے…اور کسی حد تک مسلمانوں کے قلوب کو ٹھنڈک پہنچائی ہے…تمام مسلمانوں کو ان کے اس کارنامے کی قدر کرکے ان کا ممنون ہونا چاہیے … داعش کے مجاہدین کے خلاف ساری دنیا کا کفر جمع ہو چکا ہے…ایسے حالات میں اہل ایمان کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے…اور خود داعش والوں کے لئے ضروری ہے کہ…وہ دعووں سے دور اور عمل میں مگن رہیں…زمین خود بتا دیتی ہے کہ اس کا حاکم اور خلیفہ کون ہے…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر459

ذکراللہ کی کثرت ... جہاد میں کامیابی کا بنیادی نسخہ...

دورئہ تربیہ کی دعوت کی اہمیت ... نورانی ماحول کے اثرات...

دشمنان دین کی سرگرمیاں ... ہر طرف فتنوں کا دَور دورہ...

موبائل فون کی تباہ کاریاں ... دلوں کی قساوت کا حال...

اہل دین کی اہم ذمہ داری ... لوگوں کو کھینچ کر دینی ماحول میں لائیں ...

دورئہ تربیہ اس کا آسان ذریعہ...

کسی کو تربیہ پر لانا آپ کو زندگی بھر کام آئے گا...

اہل برکت کی حالت، تھوڑے اوقات میں زیادہ اعمال...

دورئہ تربیہ کرنے والوں کے عمومی تاثرات... اہل پشاور کو مبارکباد...

ذکر اللہ - محبت الٰہیہ پانے کا انمول نسخہ...

محبت کی کیفیت کا بیان...

دلوں کی گرہ کھولنے والی تحریر...

 

مؤثر نسخہ

اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جہاد میں کامیابی کا نسخہ ارشاد فرما دیا ہے:

وَاذْکُرُواللّٰہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن

اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو…کامیابی یقینی ہے…

الحمد للہ پشاور میں دورہ تربیہ شروع ہو چکا ہے …اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ آگے چل کر ملک کے ہر ڈویژن میں یہ مبارک دورہ شروع ہو جائے گا…

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

دین کا درد رکھنے والے افراد کے لئے کتنی آسانی ہو گئی…ہر شخص خود نہ تو اچھی طرح دین سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں پھنسے ہوئے کسی مسلمان کا ذہن درست کر سکتا ہے…

اب آسانی ہو گئی کہ… دعوت دے کر،منت سماجت کر کے ’’دورہ تربیہ‘‘ میں لے آئے… یہاں ماشاء اللہ سب کچھ ہے…الف اللہ سے بات شروع ہوتی ہے…کلمہ دل میں اترتا ہے اور پھر دین کی سب سے اونچی چوٹی’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ تک بات پہنچ جاتی ہے…

ماحول میں نورانیت ہوتی ہے…خدمت اور رہنمائی کے لئے اہل محبت…اکرام اور محبت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں…اور گناہوں سے الحمد للہ دوری کا ماحول ملتا ہے…

آپ اندازہ لگائیں کہ …دین کے دشمن کیسے سرگرم ہوئے کہ…فتنوں اور گناہوں کو ہر مسلمان کے گھر میں داخل کر دیا…گھر تو اب بڑی بات ہر مسلمان کی جیب میں گناہوں اور فتنوں کا پورا سامان پہنچا دیا گیا ہے…ظالموں نے دن رات محنت کی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کریں…اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے دور کریں…یہ ان کی محنت ہے کہ آج ہر گناہ سستا ہو گیا،آسان ہو گیا، ہر کسی کو میسر ہو گیا…اور اللہ معاف فرمائے ہر کسی کی زندگی اور معاشرے کا حصہ بن گیا…اب کون کس کی نگرانی کرے…اور کون کس کو گناہ سے باز رکھے…سود کی لعنت ایسی عام کر دی کہ مسلمان حلال کو ترسے…ہر طرف جوا ہی جوا اور سود ہی سود ہے…

صرف ایک گھنٹے میں ہر کسی کو اس کے موبائل پر…پانچ بار گناہ کی دعوت ملتی ہے…لاٹری کھیل لو…گانے سن لو…بدمعاشی دیکھ لو…سودی انعامی مقابلے میں کود پڑو…میوزک بجا لو… آہ افسوس! اس ماحول نے دل کی مٹھاس اور چہرے کا پانی چھین لیا…

دل ایسے سخت اور قساوت زدہ ہوئے کہ دو آنسو بھی اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ٹپکتے…موبائل فون ہر کسی کے گلے میں بندھی ہوئی رسی ہے…یا یوں سمجھیں کہ ناک کی نکیل ہے… ایک منٹ فارغ نہیں چھوڑتا کہ انسان کچھ اپنے اندر جھانک لے…اپنی روح کو کچھ وقت دے…اپنے دین کو کچھ درست کرے…اپنی قبر کی کچھ فکر کرے…

موبائل نے انسان کو ایک بے وقوف مشین بنا دیا ہے…فلاں گر گیا،فلاں اٹھ گیا، فلاں بیمار ہے،فلاں کا ایکسیڈینٹ ہو گیا…فلاں آخری سانس لے رہا ہے…فلاں یہ کہہ رہا ہے …اب ہم فلاں،فلاں اور فلاں کے ہو گئے… اور ’’اپنے‘‘ نہ رہے…

اپنے لئے تو ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ کچھ اپنا بھی بنا لیں کہ…آگے جب اکیلی قبر میں ہوں گے تو وہاں ہمارے ساتھ جائے گا اور کام آئے گا…

خیر یہ ایک الگ موضوع ہے … بات یہ چل رہی تھی کہ اہل فساد اور اہل فتنہ نے دن رات محنت کی…اور ہر گناہ کو ہمارے گھر کے دروازے تک پہنچا دیا…کیا ’’اہل دین‘‘ کا فرض نہیں بنتا کہ وہ محنت کریں اور مسلمانوں کو گناہوں کے ماحول سے نکال کر …خالص دینی ماحول میں لے جائیں… ساز اور گانے کے شور سے نکال کر …اللہ، اللہ ، اللہ کی صداؤں میں لے جائیں… دنیا کی تنگی اور گھٹن سے نکال کر…آخرت کی وسعت یاد دلانے والی جگہوں پر لے جائیں… دنیا پرستی کے تعفن سے نکال کر…شوق شہادت کی خوشبوؤں میں لے جائیں…الحمد للہ دورہ تربیہ کا نصاب ایک مسلمان کو ایمان،ذکر ،جہاد ہر ایک کی لذت چکھاتا ہے…اور زندگی کو تنگ گلی سے نکال کر کھلی شاہراہ پر ڈالتا ہے…آپ اپنے بچوں پر بھی یہ احسان کریں کہ جو بالغ ہو چکے ان کو دورہ تربیہ میں بھیجیں اور بار بار بھیجیں…آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہ بڑی بھلائی کریں…وہ رشتہ دار مالدار ہوں یا غریب آپ ان کے پاس چل کر جائیں…اور انہیں منت سماجت کے ساتھ ترغیب دیں کہ…آپ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اپنی زندگی کا ایک ہفتہ دے دیں…ان شاء اللہ اس ایک ہفتہ کی روشن راتیں اور معطر دن آپ کے بہت کام آئیں گے…یہی دعوت اپنے پڑوسیوں کو بھی دیں…جماعت کے ذمہ دار دورہ تربیہ کی قدر کریں اور اس میں بڑھ چڑھ کر خود حصہ لیا کریں…اپنے اندر ایمانی کیفیات مضبوط ہوں گی تو ہماری دعوت میں بھی برکت ہو گی اور ہمارے اوقات میں بھی…

اہل برکت،بہت تھوڑے وقت میں سالہا سال کا کام کر لیتے ہیں…اپنے نفس کی اصلاح ہر مسلمان کے ذمہ لازم اور فرض ہے…دورہ تربیہ اصلاح نفس کا بہترین اور آسان نسخہ ہے…ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہے اور دورہ تربیہ ایمان کی تجدید کا بہترین ذریعہ ہے…اپنے گناہوں پراستغفار اور سچی توبہ کرنا یہ ہر مسلمان کے لئے لازم ہے…دورہ تربیہ سچی توبہ اور سچے استغفار کی بہترین مجلس ہے …جہاد کو ماننا فرض ہے اور جہاد میں نکلنا بھی فرض ہے… جہاد کو مانے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا… اور جہاد میں نکلے بغیر اعمال صالحہ کی بلند چوٹی نصیب نہیں ہوتی…دورہ تربیہ جہاد سمجھاتا ہے اور جہاد کی راہیں دکھاتا ہے…ذکر اللہ ہر عمل کی روح ہے… ذکر ہی میں مسلمانوں کی اصل ترقی ہے …اور ذکر ہی تمام اعمال کا سرتاج ہے…دورہ تربیہ ذکر اللہ کی شاندار محفل ہے…کئی لوگوں نے بتایا کہ ہم نے دورہ تربیہ کے سات دنوں میں جتنا ذکر کیا ہے…اتنا اپنی پوری سابقہ زندگی میں نہیں کیا تھا…

جب بندہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا ذکر فرماتے ہیں:

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

محبت پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے…

یُحِبُّھُمْ

یہ محبت دل میں اتر کر اس دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے محبت پیدا کرتی ہے

وَیُحِبُّوْنَہٗ

یعنی عرش کے اوپر سے محبت آتی ہے…اور مومن کے دل میں اتر جاتی ہے…پھر اس دل سے محبت بلند ہوتی ہے…اور عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتی ہے…

یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ

اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں…

ذکر اللہ اسی محبت کا پھل ہے…بہت میٹھا اور بہت لذیذ پھل…

اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ

نماز ایک مسلمان کے لئے…اس کی زندگی کا سب سے اہم کام اور اہم فریضہ ہے… دورہ تربیہ… نماز سکھاتا ہے،نماز سمجھاتا ہے اور فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا ذوق عطاء کرتا ہے…دراصل نماز اسی مسلمان کی محفوظ رہتی ہے جس کو نوافل کا ذوق ہو…تب فرائض ،واجبات اور سنن اس کے لئے بہت آسان ہو جاتے ہیں…الغرض دورہ تربیہ ایک مختصر سا نصاب مگر بہت انمول نعمت ہے…اہل پشاور کو مبارک کہ ان کے ہاں یہ ’’دورہ‘‘ پہنچ گیا…زندگی مختصر ہے اس دورہ سے خوب فائدہ اٹھائیں…یہ دورہ زندگی کو قیمتی اور کامیاب بنانے کا مؤثر نسخہ ہے…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر460

مختصر مگر مفید شذرے...

توبہ و استغفار نہ چھوڑیں...

شیطان کی طعنہ زنی کا شکار نہ ہوں، اس میں ہلاکت ہے...

مجاہدین کے بارے میں ایک جاہلانہ نظریہ...

دُنیا بھر کے کفر سے لڑنے والے محدود سوچ والے اور ...

پاکستان سے لڑنے والے عالمی سوچ کے علمبردار...

ایک تباہ کن نظر یے کی تردید...

داعش نے بہن عافیہ صدیقی کے لئے آواز اُٹھائی ... ان کا شکریہ...

مجاہدین میڈیا سے دُور رہیں، اس میں ان کی کامیابی ہے...

ایک اہم نصیحت...

لیبیا سے جہاد کی ٹھنڈی ہوائیں ... ایک اُمید افزاء خبر ... کفر و نفاق کی بے چینی...

جماعت کی مساجد مہم ترقی کی راہ پر ...

تین سو تیرہ میں سے پینسٹھ کی تکمیل ہوئی ... کلمات شکر ... رفقاء کار کو مبارکباد...

 

مختصر، مختصر

اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے…آج کچھ مختصر باتیں

توبہ، اِستغفار نہ چھوڑیں

اگر شیطان اور نفس کا غلبہ ایسا ہو چکا کہ گناہ نہیں چھوٹتے…بار بار ہو جاتے ہیں تو بس ایک ہمت کریں کہ توبہ کرنا نہ چھوڑیں…اِستغفار سے نہ بھاگیں …شیطان توبہ اور اِستغفار کے وقت طرح طرح کے وسوسے ڈالے گا…منہ چڑائے گا…منافق منافق کے نعرے لگائے گا…مگر آپ لگے رہیں…معافی مانگتے رہیں،معافی مانگتے جائیں…کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے بڑا نہیں…اور یہ سوچنا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہیں فرمائے گا…ہاں! بس گناہ کو گناہ سمجھیں، اس پر نادم ہوں اور اسے برا سمجھیں…’’اہل ھویٰ‘‘ اس لئے مارے جاتے ہیں کہ وہ اپنے گناہ کو نیکی سمجھ بیٹھتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے…

محدود اور وسیع

آج کل ایک نیا شوشہ میڈیا میں اُڑ رہا ہے… محدود نظریہ والے جہادی اور وسیع نظریہ والے جہادی…وہ جو افغانستان میں چالیس ملکوں کی فوج سے لڑ رہے ہیں…اور کشمیر میں بھارتی سامراج سے برسرپیکار ہیں…ان کو ’’محدود جہادی‘‘ اور ایجنسیوں کا غلام قرار دیا جا رہا ہے…اور جو صرف پاکستانی حکومت سے لڑ رہے ہیں وہ ہیں…عالمی جہادی، وسیع نظریہ والے جہادی…ایسی نابغۃ العصر جاہلانہ تشریح…زندگی میں پہلی بار سنی ہے…اکتالیس طاقتوں سے لڑنے والے محدود اور غلام… اور ایک طاقت سے لڑنے والے وسیع اور آزاد…بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ…کچھ لوگ سرے سے جہاد میں اُترے ہی نہیں… وہ صرف انٹرنیٹ پر ویڈیو چلانے اور انگلیاں گھمانے کا کام کرتے ہیں …مگر اُن کا خیال یہ ہے کہ…وہ ’’انٹرنیشنل مجاہد‘‘ اور بہت بڑے جہادی ہیں…

اللہ تعالیٰ نفس اور شیطان کے فریب سے تمام اہلِ اسلام اور تمام اہلِ جہاد کی حفاظت فرمائے…ہر مجاہد ایمان اور تقویٰ کی راہ چلے اور خود اپنے مال،جان، وقت کی قربانی دے…بس یہی بڑی کامیابی ہے…باتیں کرنا،تنقید کرنا،غیبت کرنا،فخر اور عجب میں مبتلا ہونا…کوئی کمال کی بات نہیں…

خوش آمدید

جہاد کی عمومی برکات ظاہر ہو رہی ہیں…اور الحمد للہ پوری دنیا میں اِسلام تیزی سے پھیل رہا ہے…یہ بڑا حوصلہ افزا اِتفاق ہے کہ جب بھی خبریں پڑھتے ہیں تو کسی نہ کسی معروف شخصیت کے مسلمان ہونے کی خبر دل کو باغ باغ کر دیتی ہے…ایسا پہلے نہیں تھا…یہ سب جہاد کے پھیلاؤ کے بعد ہوا کہ مسلمانوں کو مانا جا رہا ہے،دیکھا جا رہا ہے اور ان کے وجود کو تسلیم کیا جا رہا ہے…اور اُن دینی کاموں کو سرپر بٹھایا جا رہا ہے جن میں جہاد کی بات نہیں ہے…چنانچہ اسلام کی روشنی ہر طرف پہنچ رہی ہے…معروف شخصیات کے علاوہ …جو غیر معروف افراد مسلمان ہو رہے ہیں ان کی تعداد بے شمار اور ان کا اسلامی جنون قابل رشک ہے…موجودہ زمانے میں کامیابی کا سفینہ ایک ہی ہے…اور وہ ہے ’’سفینۂ اسلام‘‘ اس سفینے پر سوار ہونے والے نئے بھائیوں اور بہنوں کو …سلام اور خوش آمدید…

بے شک شہدائِ اسلام کا خون…خوب رنگ لا رہا ہے…

مجاہدین اور میڈیا

مجاہدین کی کامیابی اسی میں ہے کہ …وہ مروّجہ میڈیا سے دور رہیں،ہوشیار رہیں اور اس سے بچیں…اگر تمام مجاہدین مکمل عزم کے ساتھ یہ کام کر لیں تو جہاد کی منزل بہت قریب آ سکتی ہے…اس میڈیا نے مجاہدین کو لڑایا،گمراہ کیا، مروایا اور فتنوں میں ڈالا…مجاہدین کو چاہیے کہ خالص اسلامی اصولوں پر اپنا میڈیا فعال کریں…اپنی کتابیں،رسائل ،اپنے اخبارات…اور اپنا مواصلاتی نظام…اپنا سمعی بصری نظام…یاد رکھیں! دنیا بھر کا میڈیا آپ کا محتاج ہے…مگر جب آپ خود کو ان کا محتاج بناتے ہیں…اُن کے ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں…اور ان کے ہاں موجود رہنے کو ہی اپنی زندگی سمجھتے ہیں تو …ناکامیاں اور فتنے آپ کو گھیر لیتے ہیں…شہرت پسندی سے بچیں اور شہادت پسندی کو اپنا شعار بنائیں…اگر آپ زندہ نظر آنا چاہتے ہیں تو اپنے عمل سے نظر آئیں…نہ کہ اپنی تصویروں اور میڈیا بیانات کے ذریعے…

کسی کو یہ بات سمجھ نہ آئے تو…وہ مُردہ قذافی کی تصاویر،ڈرامے اور ناٹک شمار کر لے…

لیبیا سے ٹھنڈی ہوا

براعظم افریقہ کے تاریخی اسلامی ملک… لیبیا سے اسلامی جہاد کی ٹھنڈی ہوائیں چل پڑی ہیں…یہ اس پورے خطے کے لئے بہت اہم پیش رفت ہے…مصر وغیرہ کے طواغیت تو ابھی سے ایسے خوفزدہ ہیں کہ…وہ لیبیا کے مجاہدین پر بمباری بھی کر آئے ہیں…ان کے پڑوس میں غزہ دن رات ذبح ہوتا رہا…ڈھائی ہزار مسلمان شہید اور ایک لاکھ مسلمان زخمی ہو گئے…مگر مصر نے اسرائیل کی طرف ایک تھوک بھی نہ پھینکی…لیکن لیبیا کے مجاہدین پر بمباری کرنا انہوں نے ضروری سمجھا…لیبیا کے مجاہدین کو سلام…

تین سو تیرہ میں سے پینسٹھ

اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر’’ تین سو تیرہ‘‘ مساجد کا ارادہ ’’جماعت‘‘ نے کر رکھا ہے…الحمد للہ ’’اٹھاون‘‘مساجد تعمیر ہو چکی ہیں…اس سال ان شاء اللہ کوشش کریں گے کہ ان تمام مساجد کا تعارف اور تصاویر ڈائری میں آ جائیں…یہ اٹھاون مساجد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعمیر ہوئی ہیں…ورنہ ہم بے وسائل لوگوں کے بس میں ایک مسجد بھی نہ تھی…اس سال ان شاء اللہ سات مساجد مزید تعمیر کی جائیں گی…ان سات مساجد کی فہرست اور تعیین حتمی ہو چکی ہے…جس کا اعلان…ان شاء اللہ عید الاضحی کے فوراً بعد کر دیا جائے گا…اور کوشش ہو گی کہ رمضان المبارک تک ان تمام مساجد میں اذان گونجے،خطبہ جمعہ اور با جماعت نماز کا نور چمکے…تمام رُفقائِ کار کو مبارک…اللہ تعالیٰ سے نصرت اور قبولیت کی اِلتجا ہے…

لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

سعدی کے قلم سے نمبر461

فتنوں سے حفاظت کی مسنون دُعاء ... اسے نمازوں میں شامل کریں...

جہاد کے عروج کا زمانہ -شدت پسند غیر نظریاتی لوگوں کا غلغلہ...

ڈھولچی طبقہ ... امارت اسلامیہ کے عروج کے وقت ان کا خروج...

امتحان کے ساتھ ہی غائب...داعش کن حالات میں وجود میں آئی... عراق و شام میں ایرانی طبقہ کے ناقابل بیان مظالم... داعش کا ظہور اور غلبہ...اب ان کے نام پر متشدد طبقہ ہر جگہ نکل آیا ہے ... ان کے مقاصد کابیان ... ایرانی جنگ کے عالمگیر اثرات...

افغانستان میں امارت اسلامیہ کا مضبوط نظام...

تصویرو تشہیر سے پاک شرعی جہادی نظم...

بیعت پرقائم مربوط و مضبوط سیٹ اَپ...

انٹرنیٹ پر بیٹھے لوگ داعش کے حقیقی ترجمان نہیں...

داعش کے لئے تحریر...

خلافت کے مسئلے پر معتدل شرعی مؤقف...

غلط نظریے کی بناء پر جہادی نظم بگاڑنے والوں کا اعلان رجوع... کس منہ سے؟

اہم اور پیچیدہ معاملے کی گرہیں کھولتی رہنما تحریر...

 

 

مستحکم نظریات

اللہ تعالیٰ ’’فتنوں‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… فتنے ظاہری ہوں یا باطنی…

حضرت آقا محمد مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ…ہم فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں:

اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ

اس دعاء کو اپنی نمازوں میں شامل کر لیں… قعدہ اخیرہ میں سلام سے پہلے اور نوافل کے سجدوں میں…

الحمد للہ! اسلامی جہاد…اپنی شاندار فتوحات کے دور میں داخل ہو رہا ہے…یہ وہ دور ہوتا ہے جب شہرت پسند ریاکار طبقہ بھی جہاد اور مجاہدین کی حمایت میں نکل آتا ہے…اور فتوحات اور تنظیموں کا ناجائز وارث بن بیٹھتا ہے…آپ سب کو امارت اسلامیہ افغانستان کے عروج کا زمانہ یاد ہو گا؟…اس وقت پاکستان میں ہر طرف طالبان کے حمایتی،طالبان کے وارث،طالبان کے سرپرست،اور طالبان کے مشیر نظر آتے تھے…بہت سے لوگوں نے ان جیسی شباہت بھی اختیار کرلی تھی…وہی عمامے،وہی قندھاری کرتے…اور وہی انداز…پھر آزمائش کا دور آیا،امارت اسلامیہ کے سقوط کا دردناک لمحہ آیا تو یہ…ڈھولچی طبقہ ایک دم غائب ہو گیا…

طالبان کے بڑے بڑے رہنما ’’پناہ‘‘ کے لئے دربدر پھرتے تھے مگر انہیں…پاکستان کے اکثر دروازے اپنے لئے بند ملے…لوگوں نے پگڑیاں چھپا لیں،قندھاری کرتے غائب کر دئیے …اور لمبے بال کتروا لئے…اور طالبان کے لئے اپنے دروازے بند کر دئیے…کچھ لوگوں نے ابتداء میں چند زور دار جلوس اور چند بڑی ریلیاں نکالیں اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہو کر… طالبان کو اتحادی فورسز کے سامنے اکیلا ڈال دیا … مگر اہل استقامت اس وقت بھی امارت اسلامیہ کے ساتھ کھڑے رہے اور پھر جنگ و جہاد میں بھی ان کے ساتھ میدان میں موجود رہے…خیر یہ ایک مثال تھی امید ہے کہ منظر آپ کے ذہن میں تازہ ہو گیا ہو گا…اب آتے ہیں موجودہ حالات کی طرف…

عراق و شام میں مظلوم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اتری…اور ’’الدّولۃ الاسلامیہ‘‘ نامی جماعت جسے ’’داعش‘‘ بھی کہا جاتا ہے ایک دم چھا گئی…ایک زمانہ جس طرح مسلمانوں نے افغان جہاد کا رخ کیا تھا اور پشاور تا پل خمری دنیا بھر کے مجاہدین سے آباد تھا…یہی صورتحال عراق میں بھی پیش آئی…دنیا بھر کے اکیاسی ممالک کے مجاہدین ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ تنظیم میں شامل ہیں… صدام حسین شہید کے بچے کھچے رفقاء بھی اس جماعت کا حصہ ہیں…اور یورپ و امریکہ سے آئے ہوئے مجاہدین بھی اس جماعت میں موجود ہیں…جب کوئی علاقہ ظلم و ستم کی آگ میں جلتا ہے تو وہاں جہاد اور مجاہدین کے لئے راستے کھل جاتے ہیں… ترکی کی قدرے اسلام پسند حکومت نے شامی مہاجرین کو جگہ دی اور عراق و شام کے مجاہدین کو کچھ سہولیات دیں…قطر کی قدرے اسلام پسند حکومت نے مالی تعاون کیا…اور عرب دنیا میں موجود اہل خیر نے بھی دل کھول کر مجاہدین کی امداد کی…ادھر پاکستان میں مجاہدین کے لئے راستے بند ہوئے تو بہت سے چیچن اور عرب مجاہدین نے بھی عراق کا رخ کیا…عراق کے سنی قبائل جو ایران کے ظلم و ستم سے سخت اذیت میں تھے انہوں نے اپنے گھر اور دل مجاہدین کے لئے کھول دئے…اُدھر بشار الاسد کے مظالم نے شام کو جہاد کی چنگاری دی جو وہاں کے بہادر اور غیور مسلمانوں نے شعلوں میں بدل دی…ایران کا معاملہ صرف فرقہ پرستی کا نہیں ہے…یہ ملک اور اس کا نظام مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے…آپ نے تازہ خبروں میں سن لیا ہو گا کہ…اب ایران نے ’’سوڈان‘‘ کے مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنے کے لئے ایک نئے پلان پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے…اس سے پہلے یہ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں بھی اپنی نجاست پھیلا چکا ہے…افغان جہاد کے دوران بھی اس نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور نیٹو کا بھر پور ساتھ دیا…اور عراق اور شام کی جنگ تو باقاعدہ…ایران کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے … پاکستان میں بد امنی اور فرقہ واریت کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ ہے…مگر پاکستان میں ان کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ ایران کے خلاف دو لفظ لکھنے یا بولنے پر…خفیہ ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں اور فوراً فرقہ پرستی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے…ایران کے انڈیا کے ساتھ تو بالکل ویسے ہی گہرے مراسم ہیں جس طرح مشرکین اور مجوسیوں کے ہمیشہ سے رہے ہیں…آپ کبھی ایران کا ریڈیو سنیں…پچھتر فیصد خبریں اور تبصرے پاکستان کے خلاف ہوتے ہیں…مگر پاکستان کی ہر حکومت ایران سے یاری کو اپنا مقدس فریضہ سمجھتی ہے…ایران کے ان مظالم نے غیور مسلمانوں کو ایسا تڑپایا کہ وہ دیوانہ وار جہاد کی طرف دوڑے اور یوں…مسلمانوں کو امارت اسلامیہ افغانستان کے بعد ایک اور بڑی جہادی جماعت’’ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کی صورت میں مل گئی…بلاشبہ یہ ایک اسلامی اور جہادی جماعت ہے…اور افرادی قوت کے اعتبار سے یہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی جہادی تنظیم ہے…امارت اسلامیہ افغانستان کے پاس مقامی مجاہدین لاکھوں کی تعداد میں ہیں…اور ان کے معاونین پاکستانی مجاہدین بھی ہزاروں میں ہیں…جبکہ ’’داعش‘‘ کے پاس مقامی اور غیر مقامی تیس سے پچاس ہزار تک مجاہدین موجود ہیں…والحمد للہ رب العالمین

داعش کی فتوحات سامنے آنے کے بعد…ڈھولچی طبقہ بھی زمین پر اپنے بلوں سے باہر نکل رہا ہے…بس اسی سے ہوشیار کرنا مقصود ہے…داعش کا جہاد عراق اور شام میں ہے اور ان کے لئے وہاں ابھی کافی کام موجود ہے… افغانستان میں الحمد للہ امارت اسلامیہ افغانستان بر سرپیکار ہے…یہ ایک خالص اسلامی اور منظم جماعت ہے اور اس کے ’’امیر محترم‘‘ زمانے کے معتبر ترین شخص…حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ہیں…اور یہ جماعت باقاعدہ شرعی بیعت کے نظام پر قائم ہے…اور اس جماعت نے اسلام کے ’’نظام نصرت‘‘ کے لئے ایسی عظیم قربانی دی ہے کہ …صدیوں میں اس کی مثال نہیں ملتی…اس جماعت کا جہادی نظام اتنا مؤثر،جدید اور پائیدار ہے کہ…چالیس ملکوں کا اتحادی لشکر دنیا کا ہر اسلحہ اور ہر ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود…نہ اس جماعت کو توڑ سکا اور نہ اسے کمزور کر سکا… مگر طالبان کا نظام… شہرت پسندی اور کھلی بھرتی سے بہت دور ہے…

یہ حضرات نہ تو خواتین کو بھرتی کرتے ہیں اور نہ ان کی پریڈ لگاتے ہیں…اور نہ جہادی شادیوں کے اشتہار چلاتے ہیں…ان کا ویڈیو آڈیو نظام بھی چمک دمک سے دور اور جہاد کے قریب ہے…یہ اپنے لیڈروں کو میڈیا سے دور رکھتے ہیں اور روز روز نئے ’’ہیرو‘‘ نہیں بناتے…آج ساری دنیا میں جہاں بھی جہاد کی روشنی ہے وہ سب افغانستان سے ہی چمکی ہے…اور افغان جہاد اس زمانے کی تحریکوں کے لئے اصل مرکز اور منبع کی حیثیت رکھتا ہے…اور افغان جہاد کی یہ کامیابی… اخلاص، سادگی اور شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہے… ظاہر بات ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو شہرت پسند طبقے…اور انٹرنیٹ کے جہادیوں کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی کشش نہیں رکھتیں…چنانچہ اب افغانستان اور پاکستان میں بھی ’’داعش‘‘ کے خود ساختہ اور ناجائز ولی وارثوں نے…اپنا کام شروع کر دیا ہے… آپ چند دن تک ایسے افراد بھی دیکھیں گے جو یہ کہتے پھرتے ہوں گے کہ ہم…پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے نمائندے ہیں … کچھ لوگوں نے داعش کا لٹریچر بھی انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے چھاپنا شروع کر دیا ہے…اور کئی لوگوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ مستقل داعش کے رابطے میں ہیں…افغانستان اور پاکستان میں یہ ساری صورتحال…یقیناً تشویشناک ہے… داعش ایک جہادی جماعت ہے اور جہادی جماعت کی قیادت اس زمانے میں خفیہ ہوتی ہے…تو پھر یہاں موجود افراد کا داعش کی قیادت سے رابطہ کس طرح ممکن ہے؟

 داعش کی قیادت اگر فون اور انٹرنیٹ پر بیٹھی ہوتی تو کب کی شہید ہو چکی ہوتی…وہ حضرات تو ایک بڑی گھمسان کی جنگ میں مشغول ہیں… ہاں! ان کے بہت سے حامی انٹرنیٹ پر موجود رہتے ہیں… اور لوگ انہیں سے رابطے کو…قیادت کے ساتھ رابطہ قرار دے دیتے ہیں…

دوسری طرف امت میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو چکا ہے جو…خلافت کے نام پر مسلمانوں کو مسلسل تقسیم اور گمراہ کر رہا ہے…دیکھیں! کیسا ستم ہے کہ …خلافت ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کو جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے…مگر ان کم عقل لوگوں نے خلافت کے نام کو مسلمانوں میں مزید تقسیم اور تفریق کا ذریعہ بنا لیا ہے…یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلح جہاد نہیں کرتے مگر ہمارا عقیدہ ہمارا اسلحہ ہے اور ہم اسی کے ذریعے خلافت قائم کریں گے…یہ کافی خطرناک اور گمراہ کن نعرہ ہے اور اس تنظیم کی ساری قیادت امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھی ہوئی ہے…یہ لوگ جہاد اور خلافت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں…اور مسلمانوں کو ایک مقدس نام سے گمراہ کر رہے ہیں…جہاد و قتال کے بغیر خلافت کا قیام ایک غیر فطری بات ہے…افغانستان میں جب خالص اسلامی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے ایک پائی یا ایک گولی کی مدد نہیں کی…پھر یہ کون سی خلافت چاہتے ہیں…اب جب ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نے فتوحات حاصل کیں تو یہ لوگ ان کی صفوں میں گھس گئے اور وہاں سے ’’خلافت‘‘ کا اعلان کرا دیا… حالانکہ خلافت تو زمین پر ہوتی ہے…

اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً

زمین فتح ہی نہیں ہوئی تو اس پر خلافت کا کیا مطلب ؟ … ہاں! جتنی زمین فتح ہو چکی اس پر خلافت کی طرز سے ا سلامی امارت اور حکومت قائم ہوئی ہے…جو افغانستان میں طالبان نے …اور عراق و شام کے کئی علاقوں میں ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نے قائم کی ہے…اور مجھے یقین ہے کہ ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ اگر عراق کے بعد ایران کو فتح کر لے تب بھی وہ افغانستان میں …امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد سے بیعت کر کے…امارت اسلامیہ کا حصہ بن جائے گی…کیونکہ امارت اسلامیہ کا نظام زیادہ مستحکم،اور شریعت کے زیادہ قریب اور مطابق ہے…جبکہ داعش کو ابھی بننے اور سنبھلنے میں وقت لگے گا…اس میں ہر رنگ،ہر نسل اور طرح طرح کے نظریات کے افراد شامل ہیں…جنگ گرم ہونے کی وجہ سے سب کو قابو میں کرنا اور ایک عقیدہ اور نظام پر لانا آسان نہیں ہے…پچھلے دو ماہ میں داعش اپنے پانچ بڑے کمانڈروں کو معزول اور گرفتار کر چکی ہے…ایک کمانڈر تکفیری تھا…ایک کمانڈر انٹرنیٹ پر جماعت کو بدنام کر رہا تھا…اور باقی تین بھی اسی طرح کے جرائم میں ملوث تھے…

اچھا اب ایک اور بات سنیں…پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے کئی نمائندے اور ولی وارث وہ لوگ بنے ہوئے ہیں جو جمہوریت کے تحت انتخابات میں حصہ لیتے ہیں…جبکہ’’داعش‘‘ کے اعلان کردہ عقیدے کے مطابق جمہوری انتخابات میں حصہ لینا ’’کفر‘‘ ہے…اب اسی سے آپ ان کی نمائندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں…اے مسلمانو! جھوٹ،شہرت پسندی اور فضول کاموں سے بچو…قربانی والے فریضے جہاد کو مذاق نہ بناؤ…اللہ تعالیٰ امارت اسلامیہ افغانستان کو فتوحات اور اپنی نصرت عطاء فرمائے…اللہ تعالیٰ ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کو بھی فتوحات اور اپنی نصرت عطاء فرمائے…جہاد ایک خالص اسلامی فریضہ ہے جیسا کہ نماز…نماز وہی قبول ہوتی ہے جو شریعت کے مطابق ہو…جہاد بھی وہی قبول ہوتا ہے جو شرعی احکامات کے مطابق ہو…اپنے نظریات کو فتنوں سے بچائیں اور وقتی نعروں اور شور شرابوں سے اپنے نظریات تبدیل نہ کیا کریں…

مستحکم،مضبوط اور مستقل نظریات ہی… مقبول اور پسندیدہ ہوتے ہیں…

’’کل ہی خبروں میں پڑھا کہ …وہ لوگ جو ہمیں ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دے کر بھاگ گئے تھے…اورپاکستان فتح کرنے کا کہتے تھے…انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنی کارروائیاں افغانستان تک محدود کر رہے ہیں…پاکستان میں ہم صرف’’ تبلیغ دین‘‘ کا کام کریں گے…کس منہ سے؟ کس منہ سے؟…‘‘

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر462

 

پنجاب اور کشمیر میں لاکھوں افراد بے گھر...

وزیرستان والوں کی بددُعاء کا اثر تو نہیں؟

نائن الیون کی خاموش سالگرہ ...

جہاد کو مٹانے کی مہم نے کیا نتیجہ پایا؟

سیلاب کی تباہ کاریاں...

موت کو یاد رکھنا ضروری ہے...کس حال میں اور کس وقت آ جائے...

ایک مسنون دُعاء کی یاددہانی...

سورۃ الکہف کا اہم ایمانی سبق... نعمتوں کی حفاظت کا نسخہ...

’’ماشاء اللہ‘‘ کا درست مفہوم... ایک غلط فہمی کا ازالہ...

پانی کا غضب ٹھنڈا کرنے والے اسماء الحسنیٰ...

سیلاب سے تباہ ہونے والی قوم کا حال...

محبوب بندوں پر آزمائش کیوں آتی ہے؟

مصیبت زدہ مسلمانوں سے اظہار ہمدردی...

 

 

آزمائش

 اللہ  تعالیٰ اپنے غضب اور عذاب سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… پہلے وزیرستان کے مسلمان بے گھر ہوئے… ان کی آہ لگی یا کس کی… اب پنجاب اور آزاد کشمیر کے لاکھوں مسلمان بھی خیمہ بستیوں میں ہیں… مقبوضہ کشمیر میں صدی کا سخت ترین سیلاب ہے اور اوپر حکمران بھی کشمیری مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں…

حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل

نائن الیون کے واقعہ کو تیرہ سال بیت چلے… اس بار بہت خاموشی سے برسی منائی گئی… تیرہ سال پہلے مسلمانوںکے خلاف جو جنگ شروع کی گئی تھی… اور اُسے دہشت گردی کے خلاف آخری اور حتمی لڑائی کا نام دیا گیا تھا… اُس جنگ نے کیا نتائج حاصل کئے؟… آج صرف اسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا… اور خیال جی نے ایک دلچسپ کہانی کے ذریعہ اس موضوع کے ہر پہلو پر بات کی ہے… مگر سیلاب سے تباہ حال مسلمانوں کا درد ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی اورموضوع پر لکھنا اچھا نہیں لگ رہا … جس طرف بھی نظر اٹھائیں درد ہی درد ہے اور حقیقی دردناک کہانیاں… کہیں لوگ اپنے وفات پائے ہوئے عزیزوں کو اُٹھائے پھرتے ہیں کہ پانی نے تدفین کی جگہ ہی نہیں چھوڑی… اور کہیں اسی پانی نے ہنستے کھیلتے آباد علاقوں کو خود ہی قبرستان بنا دیا ہے… پانی میں غرق ہو کر مرنا کافر اور منافق کے لئے دردناک عذاب کا آغاز ہے… فرعون کے عذاب کی ابتداء پانی میں غرق ہونے سے ہوئی… پانی کی موت بڑی سخت ہوتی ہے، بہت تکلیف دہ اور بہت ہیبت ناک… مگر مؤمن کے لئے پانی میں غرق ہو کرمرنا شہادت ہے… جبکہ مجاہد کے لئے دورانِ جہاد پانی میں غرق ہونا… ایک ایسی نعمت ہے جو ساری دنیا کی تمام نعمتوں پر بھاری ہے… ایسے شہید کو دُگنا اجر ملتا ہے اوراس کی روح اللہ تعالیٰ… خود قبض فرماتے ہیں… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ خود استقبال فرماتے ہیں… درمیان میں فرشتوں کا واسطہ بھی نہیں رہتا…

کوئی انسان نہیں جانتا کہ اس کی موت کیسے آئے گی… ڈوب کر مریں گے یا آگ میں جل کر… چھت گرنے سے مریں گے یا سڑک کے حادثے سے… کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گایا گولی مار دے گا… سانپ بچھو کاٹے گا یا کوئی زہر دے ڈالے گا… کوئی پھانسی پر لٹکا دے گا… یا کوئی دواء اُلٹا اثر کر جائے گی… موت کے ہزاروں طریقے ہیں… بعض موتیں دیکھنے میں بڑی خوفناک نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں بہت میٹھی ہوتی ہیں… جبکہ بعض موتیں ظاہر میں بڑی پُرسکون نظر آتی ہیں مگر وہ حقیقت میں بہت تکلیف دِہ ہوتی ہیں… مرنے و الے پر جو کچھ بِیت رہا ہوتا ہے وہ اس دنیا میں رہنے والوں کو نہ نظر آتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے… ہاں! بعض علامات سے کچھ اَندازے لگائے جا سکتے ہیں مگر وہ اندازے بھی حتمی نہیں ہوتے… مثلاً ایک آدمی موت سے پہلے سخت تکلیف میں ہوتا ہے… بہت بے چین بہت بے قرار…لوگ اسے موت کا درد سمجھتے ہیں حالانکہ وہ موت کا درد نہیں ہوتا بلکہ دنیوی بیماری کا درد ہوتا ہے جو آخری لمحے تک اُس انسان کو پاک کرتا رہتا ہے… اور جب اس کی موت شروع ہوتی ہے تو وہ بڑی آسان ہوتی ہے… بس بھائیو! اور بہنو!… موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور ہمیشہ اچھی موت، اچھے خاتمے اور مقبول شہادت کی فکر اور دعاء کرنی چاہئے…

موت نے تو آنا ہے… اسے یاد کرتے رہو، اس کی تیاری کرتے رہو تو یہ ’’محبوبہ‘‘ بن کر آتی ہے… اور ایسی محبوبہ کہ جس کے آتے ہی سارے دکھ، درد اور تنہائیاں ختم ہوجاتی ہیں…اور موت سے غافل رہو تو موت ایک ایسی مصیبت بن کر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امان… اس دعاء کو روزانہ پچیس بار توجہ سے پڑھا کریں:

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِی فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوتْ

 دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو نعمتیں عطاء فرماتا ہے… ان نعمتوں کی حفاظت کا نسخہ قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں سکھا دیا ہے… مگر اکثر لوگ اُس سے غافل ہیں… نسخہ بہت آسان ہے کہ نعمتوں کو دیکھ کر یہ کلمات پڑھو…

مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

اپنے گھر میں داخل ہوئے تو فوراً

مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی عطاء فرمایا ہے… میرا اس میں کوئی ہنر، کوئی کمال نہیں… اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک منٹ میں ’’بے گھر‘‘ کر دے… اس زمانہ میں جبکہ دین پر عمل کمزور ہوچکا ہے کسی مسلمان کا بے گھرہونا ایک بڑی سخت آزمائش ہے…

دین پرعمل ہوتا تو… بے گھر مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کا گھر عزت، احترام اور حفاظت کے ساتھ کھلا رہتا… ناموس کی حفاظت اپنے گھر سے زیادہ دوسرے مسلمانوں کے گھروں میں ہوتی … بہن بیٹی کی عزت سلامت رہتی… اور پناہ دینے والے حقارت اور نفرت کی ایک نظر بھی نہ ڈالتے… مگر اب ماحول بدل گیا ہے… مسلمانوں کے نزدیک’’مہاجر‘‘ کا لفظ نعوذ باللہ، گالی… اور حقارت کا استعارہ بن گیا ہے…اور آنکھوں سے حیاء کی نعمت چھن گئی ہے… ایسے حالات میں اپنے گھر والوں سمیت بے گھر ہوجانا بڑی سخت آزمائش ہے… اس لئے جس کے پاس جیسا بھی مکان ہے… اپنا ہو یا کرائے کا… ذاتی ہو یا کسی نے رہنے کے لئے دے دیا ہو… کچا ہویا پکّا… ہمیشہ اسے دیکھ کر اور اس میں داخل ہوتے وقت دل کے یقین سے پڑھیں:

مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

یعنی یہ میرے اللہ نے مجھے دیا ہے یہ میرے اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کی مجھ پر نعمت ہے… والحمدللہ رب العالمین…

لوگ سمجھتے ہیں کہ’’ماشاء اللہ‘‘ کا مطلب ہے، بہت اچھا، بہت عمدہ… یہ درست نہیں… بلکہ ماشاء اللہ کا مطلب ہے… یہ میرا نہیں میرے اللہ تعالیٰ کا ہے… اور انہوں نے محض اپنے فضل سے مجھے عطاء فرمایا ہے… اور اس میں میرا کوئی ہنر اور کمال نہیں… یہی حال ہر نعمت کا ہے… وہ ایمان کی نعمت ہو یا دین کی… وہ صحت کی نعمت ہو یا مال کی… جو فخر کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے … جو اپنا کمال سمجھتا ہے وہ محروم رہ جاتا ہے… اورجو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھتا ہے وہ کامیاب رہتاہے…

مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے … سیلاب کے مسئلہ پر قرآن مجید کی ایک پوری سورت بائیسویں پارے میں سورۃ سبا کے نام سے موجود ہے… ایک قوم تھی جس کا نام’’قوم سبأ‘‘ تھا… ان کا ایک شہر تھا جس کا نام’’مأرب‘‘ تھا… یہ قوم پانی کی نعمت سے مالا مال تھی… اور پانی جس کو مل جائے اُسے ہر نعمت مل جاتی ہے کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ نے پانی کو… ہرنعمت کی بنیاد بنایا ہے… اس قوم سے کہا گیا کہ…

کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْالَہٗ

اپنے رب کی نعمتیں کھاؤ، خوب استعمال کرو… مگر شکر ادا کرتے رہو… ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھو… ان نعمتوں کو اپنا حق اور اپنا کمال نہ سمجھو… مگر قوم کے لوگوں نے اس نصیحت اور حکم کو بُھلا دیاا ور فخر میں پڑ گئے… وہ ان نعمتوں کو اپنا ہنر اوراپنا کمال سمجھنے لگے… دیکھو! ہم نے کس طرح سے پانی کو بڑا بند اور ڈیم بنا کر… اپنے قابو میں کر لیا ہے … اور اب یہ پانی ہم اپنی مرضی سے استعمال کر کے… باغات اور زمینوں کو آباد کرتے ہیں… دیکھو! ہم تجارت میں کتنے ماہر ہیں کہ بین الاقوامی راستوں پر… اپنا کاروبار چمکا چکے ہیں… اب ہر کوئی ہمارا محتاج ہے… اسی طرح اپنی پلاننگ، اپنی ٹیکنالوجی او ر اپنی تاجرانہ سوچ پر فخر… اللہ تعالیٰ نے پانی کو اشارہ فرمایا… پانی ایسا بپھرا کہ اُن کے بند اور ڈیم تنکوں کی طرح بہہ گئے… بڑے بڑے باغات اور کھیتیاں کھنڈر کھلیان بن گئے… اور تجارت تباہ و برباد ہو گئی… ایک مثال دے کر قرآن مجید نے پانی اور سیلاب کا سارا معاملہ سمجھا دیا… آج ہمارے حکمرانوں کے دماغ پر… صرف اور صرف تجارت سوار ہے… تجارت کی خاطر دین بیچنا پڑے، ضمیر بیچنا پڑے، ملک بیچنا پڑے یہ سب کچھ انہیں گوارہ ہے… تجار ت کی خاطر شہداء کرام کے مقدس خون سے دن رات غداری کی جارہی ہے… تب سیلاب ہی آئے گا کوئی رحمت تو نہیں برسے گی… تجارت کوئی بُری چیز نہیں مگر تجارت ہمیشہ وہی درست ہے جو شریعت کے تابع ہو…ورنہ تجارت محض خسارہ ہی خسارہ ہے… سیلاب کی آزمائش جن مسلمانوں پر نہیں آئی… وہ سیلاب زدہ مسلمانوں کی مدد کریں… اُن کے لئے مستقل دعائیں کریں… اور اُن کی عزت و حرمت کا خیال رکھیں… اور خود استغفار کرتے رہیں… اپنی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکریں اور کثرت سے پڑھیں…

مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ

اگر کبھی پانی سے واسطہ پڑے تو اسماء الحسنیٰ میں سے

یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ

کا ورد پانی کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے…

یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ

کتنے ہی مسلمان… ان دومبارک اسماء الحسنیٰ کی برکت سے ڈوبنے سمیت دیگر آبی آفات سے محفوظ رہے… بے شک اللہ تعالیٰ کے ’’ اسماء الحسنیٰ‘‘ میں بڑی تأثیر اور بڑی طاقت ہے… ہمیں ہمارے عظیم رب نے حکم دیا ہے کہ ہم ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں…

او ر وہ مسلمان جو سیلاب کی آفت کا شکار ہیں… وہ اس آفت کو اپنے لئے’’سعادت‘‘ بنا لیں… آزمائش اور ابتلاء اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے… اور یہ ایک مؤمن کو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب کرنے کا ذریعہ ہے…

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دنیا کی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں… تاکہ اُن کا مقام اور اونچا ہو جائے… ان کی منزل اور قریب ہو جائے… اُن کے گناہ معاف ہو جائیں… اُن کے لئے آخرت کا بوجھ بالکل ہلکا ہو جائے… اور اُن کے لئے آخرت کی دائمی نعمتیں پکی ہو جائیں… قرآن و سنت میں غور کریں تو ایک مؤمن مسلمان پر جو دنیوی تکلیفیں اور آزمائشیں آتی ہیں… اُن کے فوائد اور ثمرات بے شمار ہیں… ان میں سے چند یہ ہیں…

١                    گناہوں کا بالکل مٹ جانا اور معافی نصیب ہونا

٢                    آخرت کے اونچے اونچے درجات کا ملنا

٣                    اس بات کا شعور نصیب ہونا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کتنی کوتاہی کی ہے… اس پر اپنے نفس کو ملامت کرنے کی سعادت ملنا

٤                    اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، انکساری اورتواضع نصیب ہونا

٥                    توبہ اور استغفار کی زیادہ توفیق ملنا

٦                    دعاء کی زیادہ توفیق ملنا

٧                    بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہونا کہ… دنیا میں نعمت ملے یا نہ ملے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت قائم رہے…

٨                    محروم اور مصیبت زدہ لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کی استعداد پیدا ہونا

٩                    دنیا سے بے رغبتی نصیب ہونا اور دنیا کے فانی ہونے کا یقین مضبوط ہونا

١٠                اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کی قوت نصیب ہونا اور اس قوت کی برکت سے ایمان کا مضبوط اور اعلیٰ درجہ نصیب ہونا…

ہماری محبتیں، ہمدردیاں او ر دعائیں… تمام مصیبت زدہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں…آپ حضرات و خواتین… مکمل صبر اور رضا کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل یقین کے ساتھ متوجہ ہو جائیں…

دنیا کی طرح یہاں کی مصیبتیں اوریہاں کی نعمتیں سب فانی ہیں… اصل ایمان کی نعمت ہے … اسے زنگ نہ لگنے دیں… اللہ تعالیٰ آپ سب کی آزمائش دور فرمائے اور دنیا و آخرت میں نعمتِ عافیت عطاء فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر463

سب سے زیادہ فضیلت والے دنوں ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کی آمد...

اس نعمت کا شکر...ان ایام کو قیمتی بنانے کی فکر...

عقلمند افراد کا جنون ...

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، محدثین اور علماء ان ایام کو کیسے قیمتی بناتے تھے...

ایمان افروز اقوال و حکایات...ان ایام کے خاص اعمال...

روزے ، خاص تسبیحات، تکبیرات...جہاد کا عظیم عمل...

قربانی...قربانی کے منکرین کا رَد...

قرآن مجید سے ان ایام کے فضائل کا جامع خلاصہ...

دو پیاری احادیث...

سب سے قیمتی ایام کو خوب حاصل کرنے کا ایمانی نصاب...

 

افضل ایّام الدنیا

اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’فضیلت‘‘ عطاء فرماتے ہیں… وہ کوئی شخص ہو، مہینہ ہو، دن ہو یا عمل…ہم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ’’فضیلت‘‘ کا احترام کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں…

شکر کا مقام ہے

اللہ تعالیٰ نے پورے رمضان المبارک کو خاص فضیلت عطاء فرمائی ہے… اورپھر خصوصاً آخری عشرے کی راتوں کو… الحمدللہ مسلمانوں کو اس فضیلت کا شعور ہے… رمضان المبارک اور آخری عشرہ میں دنیا کا رنگ ہی بدل جاتا ہے… مساجدخوب آباد رہتی ہیں اور مسلمان رمضان المبارک کے فضائل سے وافر حصہ پاتے ہیں… یقیناً یہ شکر کا مقام ہے…

والحمدللّٰہ رب العالمین

فکر کی بات ہے

اللہ تعالیٰ نے’’ذوالحجہ‘‘ کے مہینہ کے پہلے دس دنوں کو خاص فضیلت عطاء فرمائی ہے…’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے فضائل قرآن مجید میں بھی ہیں… اور احادیث صحیحہ میں بھی… اور فضائل بھی ایسے کہ دل جھوم اُٹھے… حتیٰ کہ کئی اہل علم کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دن رمضان المبارک کے آخری دنوں سے بھی افضل ہیں… مگر فکر اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثرمسلمانوں کوان فضائل کا علم اور شعور نہیں ہے… اکثر کو تو پتا ہی نہیں چلتا کہ ذوالحجہ کا مہینہ کب شروع ہوا… اور اس مہینہ میں اعمال کی کیا قیمت ہے؟…

چنانچہ وہ زندگی کے یہ قیمتی ترین دن… جن کو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے ’’افضل ایام الدنیا‘‘ قرار دیاہے… ضائع کر دیتے ہیں… دنیا میں انسان کی عمر کے سب سے قیمتی دن… بغیر کچھ کمائے اور بغیر کچھ بنائے گزر جاتے ہیں…

یقیناً دُکھ، افسوس اور فکر کی بات ہے…

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون…

سمجھدار اور عقلمند افراد کا جنون

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین   اور ہمارے اَسلاف بہت سمجھدار اور بے حد عقل مند تھے… جی ہاں! آج کل کے سائنسدانوں سے بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ سمجھدار… انہوں نے قرآن و سنت میں جب ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے والہانہ فضائل دیکھے تو بس ان دنوں کوکمانے اور بنانے میں جان توڑ محنت لگا دی… چونکہ ان دنوں میں ہر عبادت کا اجر و ثواب عام دنوں کی عبادت سے بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے… چنانچہ حضرات اَسلاف نے اپنے اپنے رنگ میں ان اَیام کو پانے کی جستجو کی… چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:

*… حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں، ہمارے ہاں یعنی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس عشرہ کا ہردن… فضیلت میں ایک ہزار دنوں کے برابر ہے، جبکہ عرفہ(یعنی نو ذی الحجہ) کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے…

*…مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر شہید رحمۃ اللہ علیہ  کا طریقہ یہ تھا کہ جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوتا تو آپ عبادت میں ایسی سخت محنت فرماتے کہ… معاملہ بس سے باہر ہونے لگتا… اور آپ فرمایا کرتے تھے … لوگو! ان راتوں میں اپنا چراغ نہ بجھایا کرو… یعنی ساری رات تلاوت وعبادت میں رہا کرو…

*… حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  فرمایا کرتے تھے کہ… عشرہ ذی الحجہ کا ہر روزہ دو مہینوں کے روزوں کے برابر ہے…

* …بعض محدثین کرام کا طرز عمل یہ تھا کہ جیسے ہی عشرہ ذی الحجہ شروع ہوتا وہ اپنے اَسباق میں ضعیف احادیث بیان کرنا بالکل بند کر دیتے… حالانکہ ان احادیث کے ساتھ یہ بتایا جاتاتھا کہ یہ ضعیف ہیں… مگر ان ایام کے تقدس کا ایسااحترام کہ ضعیف حدیث زبان پر نہ لاتے…

*… بعض اَسلاف کا ان ایام میں عبادت کا یہ رنگ تھا کہ تعلیم و تدریس تک چھوڑ دیتے کہ اس میں کچھ نہ کچھ قیل و قال ہوجاتی ہے… بس خود کو ذکر و عبادت کے لئے وقف کر دیتے…

*… بعض اَسلاف ان ایام میں حاجیوں کی طرح احرام کی چادریں اوڑھ لیتے اور صبح شام تکبیرات بلند کرتے رہتے…

* …اِبن عساکر رحمۃ اللہ علیہ  جو مشہور محدث، مؤرخ اور بزرگ گزرے ہیں وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے… اور پھر عشرہ ذی الحجہ بھی پورا اعتکاف میں گزارتے…

* …حضرت امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ  کی پوری زندگی کا معمول ان ایام میں یہ تھا… یا تو جہاد پر ہوتے یا حج پر تشریف لے جاتے…

اور ان سب سے بڑھ کر ان دو جلیل القدر… اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کا عمل دیکھیں… یہ حضرت ابو ہریرہ … اور حضرت عبداللہ بن عمر  رضوان اللہ علیہم اجمعین  ہیں…

یہ دونوں حضرات ان ایام میں خاص طور پر صرف اس لئے بازار جاتے کہ… لوگوں کو’’تکبیر‘‘ کی طرف متوجہ کریں کہ… یہ ایام اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کے ہیں… چنانچہ آپ بازار تشریف لے جاتے اور زور زور سے تکبیرات بلند فرماتے… اس پر بازار والے بھی آپ دونوں کے ساتھ تکبیرات بلند کرنے میں مشغول ہوجاتے … اور حضرت عبداللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ  ان مبارک ایام میں پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ… ظہر تا عصر منبر پر جلوہ اَفروز ہوتے اورلوگوںکو حج کے اَحکامات تلقین فرماتے…

خلاصہ یہ ہے کہ… چونکہ یہ تمام حضرات ان دنوں کی قیمت کو جانتے تھے اس لئے وہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اَعمال کا ذخیرہ اور خزانہ اپنے لئے جمع کر لیتےتھے… اور ان ایام میں ان حضرات پر عبادت کا ایک خاص حال طاری رہتاتھا… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس میں سے کچھ حصہ نصیب فرما دے…

ہر عمل وزنی اور قیمتی

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل کو تفصیل سے لکھا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے ،رات اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی… قرآن مجید میں تھوڑا سا غور کیا تو اس عشرہ کے بارے آیات پر آیات سامنے آتی چلی گئیں… اس پر خود حیرانی ہوئی کہ اس موضوع پر اتنی زیادہ آیات مبارکہ کی طرف پہلے کبھی توجہ نہیں ہوئی تھی… پھر احادیث مبارکہ کو دیکھنا شروع کیا تو بالکل ممکن لگا کہ صرف اس عشرہ مبارکہ کی فضیلت پر… چالیس احادیث کا مجموعہ آسانی سے تیارکیاجا سکتا ہے… ارادہ بھی ہوا کہ آج کا’’رنگ ونور‘‘ عشرہ ذی الحجہ کی چہل احادیث پر آجائے… مگراس کے لئے جگہ زیادہ چاہئے… اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے کہ چہل حدیث کا یہ مجموعہ الگ کتابچے کی صورت میں آجائے… خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس دن بہت قیمتی ہیں… عام دنوںسے ہزار گنا زیادہ قیمتی… ان دنوں کا جہاد عام دنوں کے جہاد سے بہت افضل ہے…مبارک ہو انہیں جو یہ دن محاذوں پر… یا جہادی محنت میں گزارتے ہیں… ان دنوں کا روزہ عام دنوںکے نفلی روزے سے بہت زیادہ قیمتی ہے … مبارک ہو ان کو جو ان نو دنوں کے روزے کماتے ہیں… خود حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم   عشرہ ذی الحجہ کے نو روزوں کا مکمل اہتمام فرماتے تھے… کتب احادیث میں تفصیل موجود ہے…

ہاں! بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کا تذکرہ بھی’’حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا ‘‘ میں موجود ہے… ان دس مبارک ایام کی تہلیل، تکبیر اور تسبیح عام دنوں کے ذکر سے بہت افضل ہے… خاص طور پر’’ لا الہ الا اللہ‘‘ اور’’اللہ اکبر‘‘ کی کثرت… اور ’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘… اگر تیسرے کلمے کا اہتمام کر لیا جائے تو اس میں سب کچھ آجاتا ہے…

اسی لئے کئی اللہ والے… ان ایام میں صلوٰۃ التسبیح اداء کرتے ہیں…اس میں چار رکعت کے دوران تین سو بار یہ مبارک کلمات ادا ہو جاتے ہیں… ان دس مبارک ایام کی تلاوت عام دنوں کی تلاوت سے بہت افضل ہے… مبارک ہو ان لوگوں کو جو ان ایام میں قرآن مجید کو زیادہ وقت دیتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں… اسی طرح اس مبارک عشرے میں توبہ کرنا عام دنوں کی توبہ سے زیادہ افضل، زیادہ محبوب اور زیادہ قیمتی ہے…خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس عشرے میں گناہوں سے بچتے ہیں… اور توبہ، اِستغفار کی کثرت کرتے ہیں …اسی طرح اس مبارک عشرہ میں جہاد پر خرچ کرنا، صدقہ دینا، والدین کی مالی خدمت کرنا… عام دنوں کے خرچ سے بہت افضل اور بہت قیمتی ہے… خوش بخت ہیں وہ لوگ… جو ان ایام میں اپنی جیب ہلکی اوراپنا نامہ اعمال وزنی کر لیتے ہیں… جیب تو پھر بھی بھر جاتی ہے مگر ایسے قیمتی دن روز روز نہیں آتے… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دنوںکاحج فرض کے بعد سب سے افضل عمل قربانی ہے… عام دنوں میں کوئی ایک سو اونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ذبح کرے تو وہ دس ذوالحجہ یعنی عیدالاضحیٰ کے دن ایک بکرے کی قربانی کے برابر نہیں ہو سکتے… جی ہاں! عیدالاضحی کی قربانی بہت بڑا عمل ہے… اور مسلمانوں کو چاہئے کہ بہت شوق، بہت رغبت اور بہت کھلے دل کے ساتھ قربانی کیا کریں… شیطان اور اس کے کارندے… قربانی کے خلاف طرح طرح کے دلائل اور وساوس لاتے ہیں مگر ان کی ایک بھی نہ سنیں، بلکہ بہت اچھی اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں… اور اپنے گھر کے علاوہ ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کی وقف قربانی میں بھی اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالیں…آپ کی قربانی کا گوشت اُمت مسلمہ کے افضل ترین افراد تک پہنچے گا… کسی محترم شہید کے بچوں کا لقمہ بنے گا تویہ… کتنی بڑی سعادت ہوگی… مال تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ … اس سے جنت خریدی جائے، اس سے آخرت بنائی جائے… بس بھائیو! اور بہنو! عشرہ ذی الحجہ تشریف لارہا ہے… اس کے آنے سے پہلے ہی تیاری کر لیں کہ ہم نے اس عشرہ کو کس طرح سے کمانا ہے، کس طرح سے بنانا ہے اور کس کس طرح سے پانا ہے…اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگیں، جسم کو روزے اور عبادت کی مشقت کے لئے تیار کر لیں …جیب کا منہ کھولیں… جہاد میںمال اور جان لگائیں… قربانی کھلے دل سے کریں… اور یہ مبارک عشرہ اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کرنے کی ترتیب بنا لیں…

قرآن مجید سے ایک جھلک

١                    اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عشرہ کی راتوں کی قسم کھائی ہے… جوکہ ان ایام کے لئے بڑی فضیلت کی دلیل ہے… وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ

٢                    اللہ تعالیٰ نے حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام  سے حج کا اعلان کروایا… وَأذِّنْ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ… اور پھر اسی آیت میں عشرہ ذی الحجہ کو… ’’اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَات‘‘ کا لقب عطاء فرمایا…

٣                    قرآن مجید میں حج کے بارے میں جہاں آیات ہیں… وہاں ضمناً ان مبارک ایام کا تذکرہ موجود ہے…اسلام کا مقدس ’’فریضۂ حج‘‘ انہیں مبارک ایام میں ادا ہوتا ہے… اور حج کے تمام فرائض عشرہ ذی الحجہ میں ادا ہوتے ہیں… اور بعض مناسک ایامِ تشریق میں…

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

٤                    سورۃ الکوثرمیں… کئی مفسرین کے نزدیک :فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ میں دس ذی الحجہ کی نماز فجر، یا عید کی نماز اور قربانی کا تذکرہ ہے…

٥                    سورۃ ’’وَالصَّافَاتِ ‘‘میں حضرت سیّدنا ابراہیم  علیہ السلام  کے خواب… اور اپنے لخت جگر کی قربانی کا واقعہ ہے… یہ سب اسی مبارک عشرہ میں پیش آیا…

٦                    سیّدنا موسیٰ  علیہ السلام  کو تیس راتوں کی خلوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے طلب فرمایا… پھر دس دن مزید روک لیا… کئی مفسرین کے نزدیک یہ دس دن عشرہ ذی الحجہ کے تھے…

٧                    دین اسلام کے مکمل اور کامل ہونے کاعظیم قرآنی اعلان… اور اِتمامِ نعمت کا اعلان اسی مبارک عشرہ کے ایک دن… یعنی نو ذی الحجہ کو ہوا…اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ

مسک الختام

آج کی مجلس کا اختتام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی دو مبارک احادیث پر کرتے ہیں، یہ احادیث مبارکہ… اُن تمام باتوں کی واضح دلیل ہیں جو اوپر عرض کی گئی ہیں…

١                    صحیح بخاری کی روایت ہے، رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

’’کسی بھی دن کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا محبوب نہیں جتنا ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا ہے… صحابہ کرام نے عرض کیا… یا رسول اللہ! جہاد بھی نہیں؟ ارشاد فرمایا! جہاد بھی نہیں مگر یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کر جہاد میں جائے اور پھر ان میں سے کچھ بھی واپس نہ لائے… (یعنی شہید ہو جائے)‘‘(بخاری)

٢                    حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

 افضل ایام الدنیا ایام العشر یعنی عشر ذی الحجۃ

’’دنیا کے ایام میں سب سے افضل… یہ دس دن ہیں یعنی عشرہ ذی الحجہ‘‘…(صحیح ابن حبان، البزاز)

لاالہ  الااللّٰہ،لاالہ  الااللّٰہ،لاالہ  الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لاالہ  الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر464

 

اللہ اکبر ...اللہ اکبرتکبیرات کے دن اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی نشانیاں...

حج بیت اللہ...

حج اور بیت اللہ کو مٹانے کے خوفناک منصوبے اور ان کی ناکامی...

حج آج بھی باقی ہے... اللہ اکبر...عیدالاضحی...آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ قربانی

قربانی کے خلاف فکری سازشیں...قربانی آج بھی باقی ہے... اللہ اکبر...

عشرہ ذی الحجہ اور بعد کے ایام تشریق، تکبیر کا موسم...

اللہ تعالیٰ کو ہر آن یاد رکھو... بھلانے والا بھلا دیا جائے ... اللہ اکبر...

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینکا ذوق تکبیر... بتوں کی تحقیر اور توحید کی بڑائی...

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی بلند و بالا تکبیر...

سیّدنا ابوہریرہ اور ابن عمر  علیہ السلام  کا عمل تکبیر... اللہ اکبر...

تکبیر کی قوت اور بلندی...تکبیر کی برکات...

اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی دل میں بٹھانے والی عاشقانہ تحریر...

 

 

مجلسِ تکبیر

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

آج کیا کالم لکھنا… اور کیا تبصرے کرنا! چھوڑیں بس… تکبیر پڑھتے ہیں تکبیر، اپنے عظیم ربّ کی بڑائی اور عظمت پکارتے ہیں… ارے بھائیو! تکبیر کہنا، تکبیر پڑھنا بڑا اونچا کام ہے…

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

حج بیت اللہ کے دن قریب آگئے ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بار بار حج مبرور نصیب فرمائے… حج بیت اللہ کا اس عظمت کے ساتھ ہر سال قائم ہونا… یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے…بڑے بڑے فتنے کعبہ شریف کے خلاف اٹھے… کئی بار منحوس طیارے خطرناک بم اٹھائے روانہ ہوئے… کچھ ظالموں نے روضۂ اطہر اور مسجد نبوی کو ویران کرنے کی بڑی خوفناک سازشیں کیں… کئی فتنے حج کا معنیٰ مطلب بدلنے کو بھی اٹھے… کئی بہروپیوں نے حج کے منسوخ ہونے کے فتوے بھی دیئے…حجاز کا وہ خطہ جہاں کعبہ شریف ہے اسے مکمل طور پر سیلابوں میں گم کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں کہ… بس سمندر ہی سمندر نظر آئے… مگر ساری تدبیریں مکڑی کا جالا بن گئیں… وہ دیکھو! کعبہ شریف کس شان سے کھڑا ہے اور لاکھوں مسلمان اس کے گرد دیوانہ وار گھوم کر… اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کااور عظمت کا اقرار کر رہے ہیں… مسلمانو! شکر کرو کعبہ شریف بھی تمہارا… اور حج مبارک بھی تمہارا… تمہارے سوا نہ کسی کے پاس کعبہ نہ کسی کے پاس حج…

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

وہ دیکھو! عید الاضحیٰ بھی تشریف لارہی ہے… سبحان اللہ، سبحان اللہ! کیا مناظر ہیں… ہر مسلمان قربانی پیش کرنے کی فکر میں ہے… جانوروں کی منڈیاں ہر سو سجی ہیں… اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح ہونا بھی سعادت اور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا بھی سعادت… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی… ان میں سے اکثر کو اپنے ہاتھ مبارک سے نحر فرمایا… وہ اونٹ خود آگے بڑھ بڑھ کر… شوق اور بے تابی سے اپنی گردن پیش کرتے تھے… قربانی بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے… اسی لئے شیطان کے کارندے مسلمانوں کو قربانی سے روکتے ہیں… کوئی کہتا ہے گوشت ضائع جاتا ہے… کوئی کہتا ہے اس رقم سے غریبوں کا علاج کرالو… وہ اپنی عیاشیوں بدمعاشیوںمیں سے تو ایک پائی کی کٹوتی کو تیار نہیں… بس مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے قُرب سے دور کرنے کیلئے… درد بھری باتیں بناتے ہیں… بس اتنا یاد رکھیں… ہم بندے ہیں، ہمارا کام اُن کا حکم ماننا ہے… اگر اپنے ذہن سے اپنا دین بنائیں گے تو مارے جائیں گے…کیونکہ ذہن ناقص ہے… وہ تویہاں تک کہہ سکتا ہے کہ تم پیدا ہی نہ ہو… تاکہ ماں کو تکلیف نہ ہو… بس قصہ ہی ختم… قربانی کے مخالفین نے لاکھ زور لگا لئے… مزید بھی لگا رہے ہیں… مگر قربانی اللہ تعالیٰ کے’’شعائر‘‘ میں سے ہے… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کے خاص اور پسندیدہ ترین اعمال میں سے ہے… اسی لئے تو اتنی سازشوں کے باوجود ماشاء اللہ قربانی بڑھتی ہی جارہی ہے… وہ کونسی سازش ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت سے بڑی ہو… کوئی نہیں، کوئی نہیں… اللہ ہی بڑا ہے… اللہ تعالیٰ سب سے بڑاہے…

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

یہ جو دس دن عشرہ ذی الحجہ کے ہیں… اور پھر ان کے بعد تین دن ایام تشریق کے… ان میں ’’تکبیر‘‘ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے… بس یوں کہیں کہ یہ تمام دن’’تکبیر‘‘ کا سیزن ہیں… یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ’’تکبیر‘‘ کہنے کی توفیق عطاء فرمادے… ورنہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ، کیا حاجت؟… اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کسی کے کہنے ،سننے اور ماننے پر موقوف نہیں ہے… اتنا بڑا عرش، بڑے بڑے آسمان اور زمینیں، سمندر اور بادل… یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہیں… طاقتور حکمرانوں کا منٹوں میں ختم یا بے بس ہو جانا… بڑے جابر لوگوں کا کینسر کے درد سے کڑھنا اور تڑپنا… دن کی جگہ رات… اور رات کی جگہ دن کا آنا جانا… ان میں سے کچھ بھی انسان کے بس میں نہیں… ہر چیز اللہ ہی اللہ پکارتی ہے… خوش نصیب ہے وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے… اور یاد کرے… اور بڑا بد نصیب ہے وہ جو اللہ تعالیٰ کو بھلا دے… فرمایا: جو ہمیں بُھلا دیتا ہے ہم اسے بُھلا دیتے ہیں…

نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ

انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بُھلا دیا… تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بُھلا دیا…

اللہ تعالیٰ کا بُھلا دینا یہ ہے کہ… اب خیر کے دروازے بند، ہر طرف شر ہی شر… صبح شام کفر، گناہ، بدکاری… اور بُرائی…

نہ کوئی خیر… نہ کوئی نیکی… نہ کسی اچھے کام کی توفیق… نہ اجر و ثواب کا کوئی موقع… ایک جانور کی طرح جی کر مرگئے… اور مستقل جہنم کا ایندھن بن گئے… یا اللہ! امان… مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ یاد فرماتے ہیں…اُن کو تو ہر قدم پر خیر، ہر قدم پر بھلائی… اور ہر آن سعادتیں عطاء فرماتے ہیں… جب جس خیر کا موقع آیا… اُن کو اس کی توفیق عطاء فرمادی…تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے بادشاہ بن جائیں…اب ذی الحجہ آیا تواُن کو تکبیر پر لگا دیا کہ اپنے رب کا نام بلند کرتے جاؤ… اور خود اپنے رب کے قرب کی طرف بلند ہوتے جاؤ…

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو’’تکبیر‘‘ کا بڑا ذوق تھا… دراصل وہ بڑی محنتوں سے’’تکبیر‘‘ تک پہنچے تھے… وہ جس معاشرے میں اٹھے تھے اس میں… بہت سی چیزیں ’’بڑی‘‘ بن چکی تھیں… اور ایسی بڑی کہ اُن کو چھوٹا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیںسکتا تھا… بڑے بڑے بت تھے… اور اُن بتوں کے آستانے اور تیر… قبائلی روایات اور خاندانی فخر و غرور کے پہاڑ… خونریزی اور جھوٹی غیرت کی ناقابل تبدیل رسومات… شیطان کی صدیوں کی محنت کہ پورا معاشرہ ایک خاص رنگ پر پختہ ہو چکا تھا… اور تبدیلی کادور دور تک تصور بھی نہیں تھا کہ… اچانک کوہ صفا سے آواز آئی:

قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

کہہ دو… صرف اللہ، صرف اللہ، فقط اللہ ہی معبودہے…

کہہ دو… اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے… اللہ ایک ہے…

یہ کلمات جو ہم آج آسانی سے لکھ لیتے ہیں، بول لیتے ہیں… اُس وقت آسان نہ تھے… یہ کلمات اُس وقت سرخ موت اور کالے تشدّد کو پکارنے کے مترادف تھے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے ان مبارک کلمات کی بہت بھاری قیمت ادا کی … اور یہ کلمات اپنے خون کے بدلے میں حاصل کئے… چنانچہ انہیں… ان کلمات سے عشق تھا … وہ جب پڑھتے دل کے یقین… اور دل کی آواز سے پڑھتے… وہ چاہتے تھے کہ اور سب لوگ بھی ان کلمات تک پہنچ جائیں… اور ان کلمات کو پالیں…

حضرت سیّدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ … جب منیٰ میں ’’تکبیر‘‘ بلند فرماتے تو آواز بہت دور تک جاتی… پھراس سچی آواز کو سن کر دوسرے لوگ بھی تکبیر پکارتے تو وادی گونج اٹھتی… جی ہاں! ایسی بارعب، والہانہ گونج کا تصور آج لاوڈ سپیکر اور دیگر آلات کی موجودگی میں بھی نہیں کیا جا سکتا…اُدھر حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ … اور حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہماعشرہ ذی الحجہ… بازاروں میںنکل جاتے اور لوگوں کو تکبیر کہلواتے… اور یوں بازار تکبیر کی آواز سے گونجنے لگتے…

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

یاد رکھیں! تکبیر میں قوت ہے، تکبیر میں طاقت ہے، تکبیر میں سکون ہے… تکبیر میں سکینہ ہے… اور تکبیر میں عزت ہے…

اللہ اکبر… اللہ سب سے بڑا ہے… جی ہاں! دنیا کی اُن طاغوتی طاقتوں سے بھی بڑا ہے … جو خود کو ناقابل شکست سمجھ بیٹھی ہیں… اور ہمیں غلام بنانا چاہتی ہیں… اللہ اکبر، اللہ اکبر… اللہ تعالیٰ اُن فکروں، غموں اور پریشانیوں سے بھی بڑا ہے… جو ہمیں گھیر کر دنیا میں پھنسانا چاہتی ہیں…

اللہ اکبر، اللہ اکبر… اللہ تعالیٰ کی رحمت اُن گناہوں سے بھی بڑی ہے جن کو کرنے کے بعد بہت سے لوگ مایوسی کی کھائی میں جا گرے کہ… اب معافی نہیں… اور پھر سرتاپا گناہوں میں پھنس گئے…

الغرض…تکبیر جوں جوں دل میں اترتی ہے … یہ دنیا، اس کی طاقتیں، اس کے مسائل اور اس کی پریشانیاں… انسان کے دل میںچھوٹی ہوتی چلی جاتی ہیں… اور انسان آزاد ہو کر… اپنے رب سے قریب تر ہوتا چلاجاتا ہے…

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

دل تو نہیں چاہتا کہ’’مجلس تکبیر‘‘ ختم ہو… مگر اختصار مطلوب ہے… الحمدللہ عشرہ ذی الحجہ میں جہاد کی طرف مسلمانوں کا رجوع بڑھ رہا ہے… حج اور جہاد کا آپس میں بڑا جوڑ ہے… اہل علم نے خوب کھول کر حج اور جہاد کے جوڑ کو بیان فرمایا ہے … وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں… حج کے ساتھ جہاد کا تذکرہ جڑا ہوا ہے… پہلے اَشہر حرم میں جہاد کی چھٹی تھی… بعد میں عمومی اجازت دے دی گئی … جہاد اور تکبیر کا بھی آپس میں گہرا جوڑ ہے … جہاد’’تکبیر‘‘ سے قوت پکڑتا ہے… اور’’تکبیر‘‘ جہاد کی برکت سے دور دور تک گونجتی اور پہنچتی ہے… آج عالم کفر نے بھی الحمدللہ… جہاد کی طاقت کو مان لیا ہے… اور اب وہ اس طاقت کو مٹانے کی کوشش میں دن رات مِٹ رہے ہیں… ہماری طرف سے تمام حجاج کرام کو… مبارک… تمام غازیان اسلام کو مبارک…

اور تمام اُمت مسلمہ کو… عیدالاضحیٰ مبارک

اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ… وَ اللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلہِ الْحَمْدُ

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر465

 

بے چاری ملالہ پر نوبل انعام بھی لاد دیا گیا...

مسلمان بیٹیاں عافیہ جیسی ہوتی ہیں نہ کہ ملالہ جیسی...

مسلمان خاتون کا اسلامی کردار اور اصل قابل فخر باتیں...

کلمہ، نماز، جہاد، قرآن سے مسلمان عورت کا تعلق...

بے چارے کفار...فتوحات سے محروم اچھی خبروں سے محروم...

فلسطینی مجاہدین کی اسرائیل پر یلغار...عراق و شام میں جہادی شعلے...

کشمیر میں تحریک جہاد کی لپٹیں...یورپ میں اسلام کا فروغ...

مسلمان عورتوں کا جہادی رجحان...

کفار کا آخری سہارا... نفاق زدہ مسلمان اور ان کی پھیلائی ہوئی گمراہیاں...

ملالہ کو نوبل انعام کہاں امن قائم کرنے کی بناء پر ملا؟

ابامہ کس کارنامے کی وجہ سے اس کا حقدار ٹھہرا؟

ملالہ مسلمان بچیوں کی آئیڈیل نہیں بن سکتی...

ایک حقیقت پر مبنی تحریر...

 

امن کہاں اور کونسا؟

اللہ تعالیٰ ہمارا انجام اچھا فرمائے…اور ہمیں دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب سے بچائے…

اَللّٰہُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الآخِرَۃِ

بے چاری

بے چاری ’’ملالہ‘‘ پر صلیبیوں نے ’’نوبیل انعام ‘‘ بھی لاد دیا…اُس کا باپ عجیب طرح کی خوشی کا اظہار کر رہا تھا…توبہ توبہ! اللہ تعالیٰ کسی مسلمان بیٹی یا بہن کو ایسا باپ نہ دے…اس شخص نے اپنی بیٹی کو کافروں کا تماشہ اور آلہ کار بنا دیا… صرف مال اور شہرت کی ہوس میں…وہ اپنے انٹرویو میں کہہ رہا تھا ملالہ ہر پاکستانی ماں کی بیٹی ہے…بالکل غلط،بالکل جھوٹ…پاکستانی ماؤں کی بیٹیاں تو بڑی شان والی ہیں…کتنی ایسی ہیں جو قرآن مجید کی حافظہ ہیں…سبحان اللہ! …بس ایک آیت بتا دو تو وہ اللہ تعالیٰ کے عظیم کلام کو زبانی پڑھتی چلی جاتی ہیں…کئی کئی پارے،بغیر رکے ، بغیراٹکے …قرآن مجید کے انوارات ان کے پاکیزہ چہروں اور آنکھوں میں رچ بس جاتے ہیں …کاش! ملالہ کا باپ بھی اپنی بیٹی کو یہ عظیم الشان اور بے مثال نعمت حاصل کرواتا…مگر کہاں؟ وہ بد نصیب تو دن رات اپنی بیٹی کو رسوا کرا رہا ہے… پاکستانی ماؤں کی بیٹیاں تو بہن عافیہ جیسی ہوتی ہیں …با حیا، باغیرت، علم والیاں،دین والیاں… اور بہادر…پاکستانی ماؤں کی بیٹیاں تو…باپردہ ایمان والیاں ہیں…ان کے سر سے اُترا دوپٹا آسمان بھی نہیں دیکھ پاتا…وہ راتوں کی تنہائیوں میں سجدے کرتی ہیں اور سیّدہ مریم علیہا السلام کی دعاء ہی… ان کی سب سے بڑی امنگ ہے…

رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّۃِ

نوبیل انعام کا منحوس سلسلہ ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ سے شروع ہے…امن کا پہلا انعام… سرخ صلیب یعنی ریڈ کراس کے بانی کو ملا … اور اب تک کا آخری انعام… ایک انڈین ہندو کیلاش…اور ملالہ کو مشترکہ طور پر ملا ہے…ملالہ کے ابا کو افسوس تو ضرور ہو گا کہ اب…آدھی رقم ملے گی…مگر نوبیل کا نام بڑا ہے…اس پر مزید پیسہ بھی ملتا رہتا ہے…کاش! ملالہ اللہ تعالیٰ کے دین سے وفاداری کرتی…اللہ تعالیٰ کا انعام ہر انعام سے بڑا ہے…ساری دنیا کے نوبیل انعام مل کر بھی…استغفار کے ایک آنسو برابر نہیں ہو سکتے …یہ آنسو جہنم کی آگ کو بجھا دیتا ہے…نوبیل انعام سے نہ تو عمر بڑھتی ہے نہ موت ٹلتی ہے…نہ رزق بڑھتا ہے اور نہ صحت اچھی ہوتی ہے… الحمد للہ ہماری مسلمان بیٹیوں کے پاس جو کچھ موجود ہے…نوبیل انعام اس کے سامنے خاک سے بھی زیادہ حقیر ہے…

کلمہ طیبہ ،نماز، قرآن مجید،پردہ،حیا…ذکر اللہ،درود شریف،استغفار،جہاد کی خدمت… دین کی خدمت…اے مسلمان بہنو! یہ سب نعمتیں مبارک ہیں…ملالہ لندن،سویڈن،امریکہ،کینیڈا میں پھرتی رہے…اللہ تعالیٰ آپ کو مکہ شریف لے جائے…مدینہ منورہ لے جائے…اپنا عظیم گھر دکھائے… شکر کریں وہ بیٹیاں اور بہنیں…جن کو ایسے والدین اور بھائی ملے ہیں جو …انہیں قرآن مجید کی تعلیم دلواتے ہیں…جو انہیں پردہ اور حیاء کی بات سمجھاتے ہیں…جو انہیں ذکر اللہ اور جہاد کی بلندیوں سے آشنا کرتے ہیں…جو انہیں آخرت کی وسعتوں سے متعارف کرتے ہیں…اور جو ان کے دین،ایمان،غیرت اور شان کی حفاظت کرتے ہیں…

بے چارے

مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت ایسی ہمکنار ہوئی ہے کہ …ماشاء اللہ روز نئی فتوحات،روز نئی ترقی…اور روز نئی خوشخبریاں… یہ سب شہداء اسلام کے خون کی برکت ہے… اسلام کے لئے جانیں لگیں،خون لگا تو آج الحمد للہ مسلمانوں کے لشکر جس طرف کا رخ کرتے ہیں …فتوحات ان کے قدم چومتی ہیں…

فلسطینی مجاہدین نے اس رمضان المبارک میں …اسرائیل کی دم کاٹ دی ہے…عراق و شام میں دولت اسلامیہ نے ایک نئی دھوم اٹھا دی ہے…افغانستان میں طالبان نے اتحادی لشکر کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے…کشمیر میں مجاہدین کے حملوں اور یلغار نے مودی کے ایسے دانت توڑے کہ وہ…اب پاکستان پر بمباری اور گولہ باری کر کے اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہا ہے…سبحان اللہ! فتوحات ہی فتوحات…ہر دن سینکڑوں، ہزاروں لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں… یورپ چیخ رہا ہے،امریکہ چلا رہا ہے،انڈیا کراہ رہا ہے کہ…مسلمان عورتوں تک میں… بنیاد پرستی اور شدت پسندی بڑھ رہی ہے…اب یہ بدبودار پروپیگنڈہ ہے کہ …مسلمان لڑکیاں شادی کے لئے بھاگ بھاگ کر عراق اور شام جا رہی ہیں …کوئی تھوڑی سی عقل رکھتا ہو تو سوچ سکتا ہے کہ…جسمانی خواہشات کے لئے امریکہ اور یورپ سے بڑھ کر کھلا میدان اور کہاں مل سکتا ہے؟…کوئی بھی شادی کے لئے نہیں جاتا… جھوٹ سو فی صد جھوٹ…یہ اسلام کا نور ہے جو خوش نصیب افراد کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے…ان حالات کو دیکھ کر دشمنان اسلام سخت پریشان ہیں …ان کی صدیوں کی محنت خاک میں مل رہی ہے…وہ ہر میدان میں پے درپے شکست کھا رہے ہیں…اب ان کے آخری سہارے یہی رہ گئے ہیں کہ…مسلمانوں میں سے گمراہ افراد کو … پیسہ اور ظاہری عزت دیکر مسلمانوں میں بھیجا جائے تاکہ وہ…مسلمانوں کو دین اور جہاد سے دور کریں …اسی پریشانی اور بوکھلاہٹ میں انہوں نے ’’ملالہ‘‘ کو نوبیل انعام دیا ہے…آپ اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ کس قدر حواس باختہ اور پریشان ہیں…ملالہ کا امن کے نوبیل انعام سے کیا تعلق؟ کہاں کا امن اور کونسا امن؟ دنیا کے کس ملک، خطے، شہر یا محلے میں…اس سترہ سالہ لڑکی نے امن قائم کیا ہے؟…چلیں شہر اور محلہ چھوڑیں،اس گلی کا نام بتا دیں،جہاں ’’ملالہ‘‘ نے امن قائم کیا ہو…یا ان مسلح دستوں کا نام بتا دیں جن کے درمیان ملالہ نے صلح کروائی ہو…یا کم از کم وہ منصوبہ ہی بتا دیں جو ملالہ نے امن کے لئے کسی کے سامنے پیش کیا ہو؟…

اوبامہ کو امن کا نوبیل انعام ملا تھا…ہزار اختلاف کے باوجود بہرحال یہ تو سچ ہے کہ اس نے عراق سے امریکی فوج واپس بلائی تھی…اس کے اس اقدام سے امن قائم نہیں ہوا مگر یہ ایک بڑا اور مشکل قدم تھا…چلو اس پر اسے نوبیل انعام ملا…ملالہ نے کون سی فوج کس جگہ سے واپس بلائی ہے؟یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ ایک امن سمجھوتہ کیا تھا…وہ کوئی اچھا اقدام نہیں تھا بہرحال عام دنیا کی نظر میں وہ ایک مشکل اور بڑا فیصلہ تھا…اس پر اسے امن کا نوبیل انعام ملا…ملالہ نے کس کے ساتھ امن کا سمجھوتہ کیا ہے؟…ہاں! ممکن ہے اپنے ابو اور امی کے درمیان کوئی صلح کروائی ہو…وہ بھی آج تک میڈیا پر نہیں آئی…پھر آخر وہ کونسا کارنامہ ہے جس پر اسے دنیا کا اہم ترین سمجھا جانے والا ایوارڈ دے دیا گیا؟ … جواب واضح ہے کہ کوئی نہیں…بس اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے … زیادہ مؤثر اور زیادہ معتبر بنانے کی ایک فضول اور ناکام سی کوشش ہے…چنانچہ مغربی میڈیا کو حکم دیا گیا کہ وہ ملالہ کو انعام ملنے کی خبر اُچھالے… ساتھ ہی یہ دباؤ بھی ڈالا گیا کہ… پاکستان میں اس فیصلے پر خوشی منائی جائے …منافق قسم کے کالم نویسوں نے بی بی سی وغیرہ پر…طرح طرح کے مضامین لگائے اور اس بات کا رونا رویا کہ…آخر پاکستان میں ملالہ کو انعام ملنے کی خوشی کیوں نہیں منائی جا رہی …یہ سب کچھ تین چار دن تک چلتا رہا مگر الحمد للہ! پاکستان میں اس کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا…میڈیا پر ایک آدھ دن خبر چلی اور بس…حکمرانوں نے چند رسمی بیانات دئیے اور بس… کچھ بیوقوفوں نے خوشی کے کالم لکھے اور بس… الحمد للہ نہ یہاں کوئی جشن منایا گیا اور نہ ملالہ کی یاد میں کوئی آنسو گرا…نہ کسی نے ملالہ کو واپس آنے کی دعوت دی…اور نہ ائیر پورٹوں پر اس کے لئے سرخ قالین بچھے…نہ یہاں کی بچیوں نے ملالہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا… اور نہ لوگوں نے اس واقعہ کو کوئی خاص اہمیت دی …اور یوں…الحمد للہ بے چارے دشمنان اسلام کا…کروڑوں ڈالر کا منصوبہ خاک میں مل گیا… صرف سوشل میڈیا پر تھوڑی سی ٹائیں ٹائیں اور کائیں کائیں ہوئی…مگر جب سے پرویز مشرف کی سوشل میڈیا مقبولیت کا پردہ چاک ہوا ہے لوگ سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے نہیں لیتے…

اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں سمجھایا ہے کہ… یہ کافر لوگ دین اسلام کے خلاف مال خرچ کرتے ہیں…مگر پھر اس پر پچھتاتے ہیں…وجہ یہ کہ اتنا مال خرچ کر کے بھی وہ دین اسلام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے…

وہ جو سمجھ رہے تھے کہ…ملالہ کو نوبیل انعام دے کر اسے پاکستان کی مسلمان بچیوں کے لئے ’’ہیرو‘‘ بنا دیں گے…وہ آ کر دیکھ لیں ملالہ اب بھی زیرو ہے…زیرو پلس زیرو…یہاں کی غیرت مند مسلمان بچیوں کی دعاؤں،ارمانوں … اور آنسوؤں میں…ملالہ نہیں عافیہ مہکتی ہے…

محترم بہن جی…عافیہ صدیقی  حفظہا اللہ

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر466

 

انسانی کامیابی کا راز اپنے دامن میں رکھنے والی قرآنی سورت...

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینکا عجیب عمل...

امام شافعی کا اس سورت کے بارے میں مقولہ...

زمانے کی قسم...انسان خسارے میں کس طرح ہے؟

انسان کی زندگی... ٹائم بم کی مثال...

خسارے والوں کی بابت زمانے کی گواہی...

رحمت والا استثنیٰ - کون خسارے میں نہیں ؟

کامیابی کی پہلی بنیاد... ایمان...

کامیابی صرف چار چیزوں میں ہے... ایک عجیب نکتہ...

حضرت مریم علیہا السلام، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور نوح علیہ السلام کی بیوی کا فرق...

کامیابی کے چارنکاتی نصاب پر عمل کی ضمانت ... جماعت میں ہے...

’’جماعت‘‘ کی نعمت اور ’’تفرقہ‘‘ کی برائی کی ایمان افروز مثال...

حقیقی کامیابی کا راستہ دکھاتی ایک ایمان افروز تحریر...

 

انسان کی کامیابی کا راز

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک مختصر سورۃ نازل فرمائی ہے…ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  میں سے جب بھی دو افراد آپس میں ملتے تو وہ پہلے ایک دوسرے کو یہ سورۃ سناتے…پھر سلام دعاء ہوتی…حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں…اگر لوگ قرآن مجید کی صرف اسی ایک سورۃ میں غور کریں تو یہ اُن کی ہدایت اور اصلاح کے لئے کافی ہو جائے…یہ کونسی سورۃ ہے؟آپ سب جانتے ہوں گے یہ ’’سورہ ٔوالعصر‘‘ ہے…

وَالْعَصْرِ۝ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ۝

العصر،وقت،زمانہ،عمر

’’والعصر‘‘ کے شروع میں جو ’’واو‘‘ ہے اس کا ترجمہ ہے:

’’ میں قسم کھاتا ہوں‘‘

اور ’’العصر‘‘ کہتے ہیں زمانے کو…وہ وقت اور زمانہ جس میں انسان کوئی خیر کا کام کرتا ہے یا گناہ کا کام کرتا ہے…اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں … میں زمانے کی قسم کھاتا ہوں کہ انسان یقیناً خسارے میں ہے…خسارہ یعنی نقصان…وقت گیا، انسان گیا، وقت ختم انسان ختم …نہ بادشاہ،بادشاہ رہا نہ افسر،افسر…نہ کوٹھی کا مالک اپنی کوٹھی کا مالک رہا…اور نہ جائیداد کا مالک اپنی جائیداد کا … ایک منٹ پہلے جو سب کچھ تھا وقت ختم ہوتے ہی کچھ نہ رہا…وہ جو بڑا باخبر تھا اب خود ’’خبر‘‘ بن گیا…وہ جو ہر طرف اڑتا پھرتا تھا اب ایک ’’قبر‘‘ بن گیا…جو کچھ بنایا تھا وہ سارا ’’اِدھر‘‘ رہ گیا…

آہ! جن چیزوں پر اپنی عمر لگائی،اپنا زمانہ لگایا…وہ سب کچھ ایک منٹ میں ہاتھ سے نکل گیا…ارشاد فرمایا:

’’میں قسم کھاتا ہوں زمانے کی کہ بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘…

ٹائم بم

ایک بم ہوتا ہے جسے ٹائم بم کہتے ہیں…اس میں گھڑی یا کوئی آلہ لگا کر ایک وقت مقرر کر دیتے ہیں…چند منٹ یا چند گھنٹے یا چند دن… وہ مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو دو تاریں آپس میں ٹکراتی ہیں اور بم پھٹ کر ختم ہو جاتا ہے…اللہ تعالیٰ نے انسان میں بھی ایک گھڑی ایک آلہ لگا دیا ہے…کسی میں چند منٹ کا…کسی میں چند گھنٹوں کا …کسی میں چند مہینوں اور چند سالوں کا… جب مقررہ وقت آ جاتا ہے تو…روح کو جسم کی ڈبیا میں روکنے والی پن ہٹا دی جاتی ہے…اور پھر قصہ ختم… اب ایک منٹ کے لئے بھی مہلت نہیں ملتی کہ انسان کچھ کر سکے…دھماکہ ہوا اور بم پھٹ گیا… معلوم ہوا کہ انسان نام ہے کچھ وقت کا…اس وقت میں سے جتنا وقت کم ہوتا جاتا ہے… انسان بھی اسی قدر کم ہوتا جاتا ہے…کوئی ساٹھ سال کی عمر لایا تھا اب چالیس گذر گئے تو یہ اب بیس سال کا رہ گیا…کوئی دس ہزار دن لایا تھا آج اس کے نو ہزار نو سو نناوے دن گذر گئے ہیں تو اب یہ ایک دن کا انسان رہ گیا ہے…کھا رہا ہے،پی رہا ہے،ہنس رہا ہے،بڑے بڑے سودے کر رہا ہے…بلڈنگ خرید رہا ہے،زمین اور باغ خرید رہا ہے…کسی کو پھنسا رہا ہے،کسی سے وعدے کر رہا ہے… کسی سے جھوٹ بول رہا ہے …کسی کو دھوکہ دے رہا ہے…کسی سے دس سال کا قرضہ لے رہا ہے… کسی سے بیس سال کا ٹھیکہ لے رہا تھا… جب کہ اس کی سوئی آخری دن کی گنتی کر رہی ہے… اگلے دن وہ گنتی پوری ہو گئی…اور یہ قبر میں جا لیٹا…سارے کھیل تماشے ختم…

مالک نے ارشاد فرمایا…

’’میں زمانے کی قسم کھاتا ہوں انسان گھاٹے میں ہے‘‘…

زمانہ گواہ ہے

اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر…یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ …انسان کے گھاٹے اور خسارے کی کہانی تمہیں اگر سمجھ نہیں آتی تو…زمانے سے پوچھ لو…آج جو زندہ ہے اسے تو ایک ’’لمحہ ‘‘مرنے کا خیال نہیں آتا…مگر تھوڑا سا پیچھے تو جھانک کر دیکھو…جن مکانوں میں تم بیٹھے ہو ان کے نیچے تم جیسے بلکہ تم سے زیادہ بھر پور زندگی گزارنے والوں کی لا تعداد لاشیں خاک بن چکی ہیں…بڑے بڑے منصوبہ ساز عقلمند گذرے وہ بھی مر گئے… بڑے نامور حکمران آئے وہ بھی مر گئے…اپنی خاطر دوسروں کو قتل کرنے والے جابر آئے وہ بھی مر گئے…اپنے جادو سے زمین ہلانے والے جادوگر آئے وہ بھی مر گئے…ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے ماہرین فلکیات اور سائنس دان بھی مر گئے…مسیحا کا لقب پانے والے حکیم، طبیب اور ڈاکٹر بھی مر گئے…اپنے ناز اور انداز سے دوسروں کو مارنے والے حسین بھی مر گئے…فخر و تکبر میں گردن نہ جھکانے والے سرکش بھی مر گئے…ہر طرف موت ہی موت ہے،ڈیڑھ دو سو سال پرانا کوئی شخص زندہ نظر نہیں آ رہا…اور اگلے سو پچاس سال میں…آج موجود سب لوگ بھی خاک ہو جائیں گے…

اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا…

’’میں زمانے کی قسم کھاتا ہوں کہ انسان سراسر نقصان میں ہے‘‘…

نقصان اور خسارے کا معنی ہے ’’کمی‘‘…ہر منٹ گذرنے کے ساتھ انسان کم ہو جاتا ہے … اس کی عمر کم ہو جاتی ہے…یہ نقصان نہیں تو اور کیا ہے؟…

رحمت والا اِلّا

عربی زبان میں ’’اِلّا‘‘ کے معنی ہیں ’’مگر‘‘ … اللہ تعالیٰ صرف یہی فرماتے کہ سب انسان خسارے میں ہیں تو …بس اتنے الفاظ سن کر ہی لوگوں کے دل پھٹ جاتے مگر رحمت والے رب نے نہایت رحمت کے ساتھ… ’’اِلّا‘‘  فرما دیا …کہ ہاں! مگر کچھ لوگ خسارے میں نہیں ہیں … وہ ہرگز گھاٹے میں نہیں ہیں…وقت کا گذرنا ان لوگوں کو ’’کم‘‘ نہیں کرتا…زمانے کا گذرنا ان لوگوں کا کچھ نہیںبگاڑ سکتا…حتیٰ کہ پوری عمر کا ختم ہو جانا بھی ان لوگوں کے لئے خسارے کی کوئی بات نہیں ہے…بلکہ یہ لوگ کامیاب ہیں، کامران ہیں…ان کا جینا بھی نفع والااور ان کا مرنا بھی نفع والا…وقت کے سال تو کیا صدیاں بھی انہیں پرانا نہیں کر سکتیں…ہاں! بے شک سب لوگ خسارے میں ہیں مگر یہ لوگ جن کا تذکرہ ’’اِلّا‘ ‘ کے بعد آیا ہے یہ نفع ہی نفع میں ہیں…انہوں نے تھوڑا لگا کر زیادہ پا لیا…انہوں نے ادنیٰ قربان کر کے اعلیٰ حاصل کر لیا…انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے زمانے کی قدر کی…اور اس مختصر زمانے کی مختصر محنت کے ذریعے …ہمیشہ ہمیشہ کے عیش و آرام اور کامیابی کو پا لیا…

یہ خوش نصیب کون؟

فرمایا: ’’وَالْعَصْرِ‘‘ میں قسم کھاتا ہوں زمانے کی ’’اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ‘‘ یقیناً انسان خسارے میں ہے…سارے انسان خسارے میں ہیں…’’اِلَّاالَّذِیْنَ‘‘ مگر وہ لوگ ہرگز خسارے میں نہیں ’’اٰمَنُوْا‘‘ جو ایمان لائے’’ وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ‘‘ اور انہوں نے نیک اعمال کئے ’’وَتَوَاصَوا بِالْحَقِّ‘‘ اور انہوں نے حق کی دعوت دی ’’وَتَوَاصَوا بِالصَّبْرِ‘‘ اور صبر کی دعوت دی…سبحان اللہ! خسارے سے بچنے کا نصاب معلوم ہو گیا…

ایمان لے آؤ…ایمان لانے کے بعد جن اچھے کاموں کا حکم ہے ان میں لگے رہو…دوسروں کو حق کی دعوت دو…حق پر ڈٹے رہو،مضبوط رہو،ثابت قدم رہو اور دوسروں کو بھی مضبوطی اور ثابت قدمی کی دعوت دیتے رہو…

سب سے پہلے ایمان کو سمجھنا ہے…دل میں اتارنا ہے…اعمال صالحہ معلوم کرنے ہیں اور اپنا وقت ان میںلگانا ہے…حق کی دعوت کو ہر کسی تک پہنچانا ہے… اب تکلیفیں آئیں گی،آزمائشیں آئیںگی…وساوس آئیں گے … مجبوریاں آئیں گی…بڑھاپا آئے گا…مایوسیاں آئیں گی…فتنے آئیں گے…تب بھاگ نہیں جانا، بیٹھ نہیں جانا،گھبرا نہیں جانا…بلکہ خود بھی ڈٹے رہنا ہے اور دوسروں کو بھی استقامت کی طرف بلانا ہے…

بس یہ ہے کامیابی کا نسخہ…جو اس پر اپنا وقت لگائے گا وہ کامیاب ہو جائے گا…اور جو اس میں کمی کرے گا اس کی کامیابی بھی کمزور ہو جائے گی…اور جو اس نسخہ کو نہیں اپنائے گا…وہ دنیا میں جتنا بھی کامیاب سمجھا جائے وہ ناکام ہے…بالکل ناکام ہے…یا اللہ ناکامی سے بچا…

ایک عجیب نکتہ

کامیابی بس ان چار چیزوں ہی میں ہے…اور کسی چیز میں نہیں…

فرعون کی اس دنیا میں ہر خواہش پوری ہوئی …مگر وہ ناکام…اور حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی کوئی خواہش بھی پوری نہ ہوئی…حتیٰ کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے میں ہونے کے باوجود ایسی مجبوری آئی کہ …حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے دیدار سے محروم رہے…مگر کامیابی کا نسخہ مکمل تھا…ایسے کامیاب ہوئے کہ حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے فرمایا کہ… اویس سے ملنا اور ان سے دعاء کروانا…

حضرت نوح  علیہ السلام  کی بیوی کی شادی ہوئی…خاوند بھی ایسے کامل مکمل انسان ملے … اللہ کے جلیل القدر نبی اور رسول…حضرات انبیاء علیہم السلام  روحانی حسن کے ساتھ ساتھ جسمانی حسن میں بھی کامل ہوتے ہیں…مگر یہ عورت ناکام ہو گئی، جہنم میں جا گری…جبکہ حضرت مریم  علیہا السلام  کی شادی ہی نہ ہوئی…مگر کامیابی کا نسخہ مکمل تھا تو آج بھی ان کی کامیابی کے ہر طرف چرچے ہیں…اس پر کسی نے یہ عجیب جملہ لکھا ہے…

آج کی مسلمان لڑکیوں نے شادی کو ہی کامیابی سمجھ لیا ہے…اور اسی کی فکر میں روتی کڑھتی رہتی ہیں…کیا انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام  کو نہیں دیکھا…کامیابی ایمان، اعمال صالحہ،حق کی دعوت اور صبر میں ہے…کاش آج کی ہر مسلمان لڑکی اپنا وقت انہیں چار کاموں میں لگائے…شادی میں خیر ہو گی تو خود دروازے پر آ جائے گی…خیر نہیں ہو گی تو ایسی شادی عذاب ہے…کتنی شادی شدہ عورتیں شادی کے بعد برباد ہو گئیں…اور جن کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے وہ بھی…نا شکری،بے صبری نہ کریں… خود کو بد نصیب نہ سمجھیں… حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاسالہا سال سے بیوہ بیٹھی تھیں… صبر کا پھل ان کو ایسا ملا کہ حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی زوجہ مطہرہ بنیں…اور آج تک زمانہ ان پر رشک کرتا ہے…

جماعت کی نعمت

کامیابی کے چار نکاتی نصاب پر عمل ’’جماعت‘‘ کی برکت سے آسان ہو جاتا ہے…

حدیث شریف میں آیا ہے

اَلْجَمَاعَۃُ بَرَکَۃٌ

جماعت برکت ہے…

ہم الحمد للہ اس برکت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ …جو کام انسان صدیوں میں نہیں کر سکتا وہ جماعت کی برکت سے ہفتوں اور مہینوں میں ہو جاتا ہے…کیونکہ جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے…ارشاد فرمایا

یداللّٰہ مع الجماعۃ

اللہ تعالیٰ کا ہاتھ…یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے…دوسری روایت میں ’’یداللّٰہ علی الجماعۃ‘‘ کے الفاظ ہیں…جن کا مطلب یہ کہ جماعت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتی ہے…اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں…

’’فان الفرقۃ ھلکۃ والجماعۃ نجاۃ‘‘

تفرقہ ہلاکت ہے اور جماعت ’’نجات‘‘ ہے…ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی برکت سے انسان،خیانت،دل کے کینے اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے،جماعت کی دعوت کلمہ طیبہ ہے…جو ایمان ہے…نماز کی اقامت یہ اعمال صالحہ کا سرتاج ہے…اور جہاد فی سبیل اللہ جو اعمال صالحہ کی بلند چوٹی،حق کی عملی دعوت اور صبر کا اصل میدان ہے…جماعت ہمیں ان کاموں میں لگائے رکھتی ہے اور یوں ہماری زندگی کا زمانہ اور وقت قیمتی بنتا ہے…وگرنہ یہی وقت گناہ، غیبت، سازش، جھوٹ اور فتنے میں ضائع ہو سکتا ہے…

یا اللہ ہم سب کی ’’خسارے‘‘ سے حفاظت فرما…آمین یا ارحم الراحمین

لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر467

 

ہجری تقویم کا آغاز ... سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اُمت پر احسان...

نبوت کے چھٹے سال کی یاد اور ایک دُعاء...

حضرت سیّدنا حمزہ اور سیّدنا عمر علیہ السلام  کا قبول اسلام... قوت و شوکت کے سفر کا آغاز...

دونوں کے کفر شکن وار...چالیس مسلمانوں کا قافلۂ حرم...

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام سے وفات تک... ہر دن غلبے اور شوکت کااضافہ...

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا مناقب عمررضی اللہ عنہ پر چہل احادیث کا مجموعہ...

عمر رضی اللہ عنہ اور حق... لازم و ملزوم...

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے خط سے دریا جاری...

بے مثل دورِ خلافت...شوق شہادت اور اس کی تکمیل...

مدینہ سےعشق...

اسلام کی عزت، سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا عاشقانہ والہانہ تذکرہ ....

 ایمانی جذبات سے بھرپور تحریر...

 

اسلام کی عزت

اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور سلام نازل ہوں،حضرت سیّدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب پر… رضی اللہ تعالیٰ عنہ…سلام اللّٰہ علیہ ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ…جزاہ اللّٰہ خیر الجزاء عنا وعن امۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم…

لیجئے! نیا اسلامی ہجری سال شروع ہو چکا ہے …اس کا نام ہے 1436؁ھ…

ہجری سال اور ہجری تقویم یعنی کیلنڈر کا آغاز…حضرت سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے فرمایا… اس سال 1436؁ھ میں جب ’’چھ‘‘ کا ہندسہ نظر آیا تو نبوت کا چھٹا سال یاد آ گیا…دل نے خوش فالی لی کہ جس طرح 6؁ نبوی میں مسلمانوں کو ایک عظیم خوشی ،طاقت اور فتح ملی تھی…تو ان شاء اللہ 1436؁ھ بھی مسلمانوں کے لئے خوشی اور فتوحات کا سال ہو گا…یہ کوئی پیشین گوئی نہیں بلکہ ایک آرزو ہے، ایک دعاء ہے…

’’یا اللہ! اس نئے سال کو امت مسلمہ کے لئے خوشی اور فتوحات کا سال بنا دیجئے‘‘

نبوت کے چھٹے سال صرف تین دن میں مسلمانوں کو دو بڑی خوشیاں اور کامیابیاں ملیں… پہلی یہ کہ عرب کے مثالی بہادر شہسوار،حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے حسین و جمیل اور با کمال چچا محترم…حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  نے اسلام قبول فرمایا…

اس وقت مسلمان مردوں کی تعداد چالیس تک بھی نہیں پہنچی تھی…بس مظلومیت تھی اور صبح شام کا دردناک تشدد…حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوئے تو یہ جماعت یکایک ایک طاقت بن گئی…آغاز اس قوت کا اس وار سے ہوا جو حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  نے ابو جہل کے سر پر کیا اور اس ملعون کو لہولہان کر دیا…مسلمان مکہ میں بھی اپنی طاقت اور بساط کے مطابق لڑتے تھے…کئی واقعات سیرت کی کتب میں موجود ہیں…مگر عمومی حکم ہاتھ روکنے اور نماز قائم کرنے کا تھا…باقاعدہ جہاد کی اجازت نہ تھی…ہاں! دفاع کا حق اسلام نے کسی مسلمان سے ایک دن کے لئے بھی نہیں چھینا…حضرت سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ  کے مسلمان ہونے پر حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   اور آپ کے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کو جو خوشی ہوئی ہو گی…اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا…اللہ کی شان دیکھیں! اس خوشی کو تین دن ہوئے تھے کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ …حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے زیر اقامت گھر کے دروازے پر پہنچ گئے…اندر موجود صحابہ کرام نے یہ سمجھا کہ حملہ کرنے آئے ہوں گے تب حضرت حمزہ  رضی اللہ عنہ  کی تلوار چمکنے لگی کہ آنے دو…نیت اچھی ہے تو مرحبا! اور اگر کوئی اور ارادہ ہے تو پھر آج زندہ واپس نہ جائیں گے…حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  اس وقت ستائیس سال کے ایک دراز قد،معاملہ فہم ،عزتمند اور بے حد بہادر نوجوان تھے…اتنی سی عمر میں سرداران قریش میں ان کا شمار ہو تا تھا… رعب ، وجاہت،فصاحت اور ذہانت ایسی تھی کہ…اس وقت وہ اہل مکہ کے باقاعدہ سفیر تھے…باہر سے آنے والے حکام اور سفراء سے مذاکرات آپ کی ذمہ داری تھی…طبیعت شروع سے مضبوط تھی… اپنے آباء و اجداد کے دین پر پکے تھے اور اسلام سے سخت دشمنی تھی…روایات میں آیا ہے کہ حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے…ایک جمعہ کی رات آپ کو اللہ تعالیٰ سے مانگ لیا…سبحان اللہ! کیسی عظیم سعادت ہے…اسلام کی عزت کے لئے سیّدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کو مانگا گیا…

دعاء قبول ہوئی…کچھ حالات و واقعات ایسے بنے کہ دل پر اسلام کا نور چمکا…وہ دل جو ازل سے بناہی اسلام کے لئے تھا فوراً کلمہ طیبہ کے لئے مچل اٹھا…بارگاہ نبوت میں حاضری ہوئی…اسلام قبول کرنے کا اعلان فرمایا تو مظلوم مسلمانوں نے بے اختیار ایسا بلند آہنگ نعرہ لگایا کہ پورا مکہ گونج اٹھا…

اَللہُ اَکْبَر کَبِیْراً…اَللہُ اَکْبَر کَبِیْراً…اَللہُ اَکْبَر کَبِیْراً…

اسلام قبول کرتے ہی عرض کرنے لگے کہ…جب ہم حق پر ہیں تو پھر کعبہ شریف میں کھلم کھلا سب کے سامنے نماز ادا کریں گے…چالیس مسلمانوں کا قافلہ گھر سے دو صفوں کی صورت میں نکلا…ایک صف کی کمان حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  اور دوسری صف کی قیادت حضرت سیّدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  فرما رہے تھے…

سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے جانثاروں کا پہلا باضابطہ قافلہ سوئے حرم جا رہا تھا… حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی امارت اور امامت میں جب یہ قافلہ حرم شریف کو بڑھ رہا ہو گا تو …یقیناً آسمان بھی جھک جھک کر زمین کو شوق سے دیکھتا اور اس کی قسمت پر رشک کرتا ہو گا…حرم شریف میں روئے زمین کے قدسیوں کا یہ قافلہ داخل ہوا تو مشرکین مکہ ہکّے بکّے رہ گئے…وہ پریشان ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ … یہ سب کیسے ممکن ہوا؟…معلوم ہوا کہ عمر بن خطاب مسلمان ہو چکے ہیں…تب مشرکین مکہ دل پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آج اسلام اور مسلمانوں نے ہم سے عبرتناک بدلہ لے لیا ہے…اس دن سے لے کر یکم محرم 24ھ؁ کا وہ دن جب حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی روضہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   کے قرب میں تدفین ہو رہی تھی…اسلام بڑھتا گیا،اسلام بلندیوں کی طرف چڑھتا گیا… اسلام طاقتور ہوتا چلا گیا…اور اسلام دنیا میں پھیلتا چلا گیا…حضرت سیّدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اسلام کی اس عزت اور ترقی میں اپنا عظیم حصہ ہر دن اور ہر رات پاتے چلے گئے…وہ کون سی سعادت ہے جو آپ نے حاصل نہ کی…وہ کون سا مقام ہے جسے آپ نے پیچھے نہ چھوڑا…اور وہ کون سی خیر ہے جس میں آپ کا حصہ شامل نہ ہوا…اے مسلمانو! سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  کے احسان کو سمجھو،دیکھو اور تسلیم کرو…اللہ تعالیٰ نے ’’حق‘‘ اور ’’عمر‘‘ کو لازم ملزوم بنا دیا…اور حق کو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی زبان اور آپ کے دل پر ڈال دیا…اب جہاں ’’عمر ‘‘ ہوتے ہیں حق بھی وہیں ہوتا ہے…اور جہاں حق ہوتا ہے ’’عمر‘‘ بھی وہیں ہوتے ہیں…جو اسلام قبول کرنے کے بعد سیّدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے جڑ گیا اس نے حق کے راستے کو پا لیا…اور جو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے کٹ گیا وہ حق سے بہت دور جا گرا…اللہ تعالیٰ حضرت علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  کو جزائے خیر عطاء فرمائے…آپ نے حضرت سیّدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  کے مناقب پر چالیس احادیث کا ایک مجموعہ مرتب فرمایا ہے…ہر مسلمان کو یہ مجموعہ پڑھنا چاہیے تاکہ ہم حق کے ساتھ دل کی محبت سے جڑے رہیں…علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے کمال یہ فرمایا ہے کہ اس مجموعے کی پہلی حدیث حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے لائے ہیں…

عن علی کرم اللّٰہ وجہہ ان رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم   قال: ابو بکر و عمر سیدا کہول اہل الجنۃ من الاولین والآخرین ما خلا النبیین والمرسلین

حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

’’ابو بکر و عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین جنت کے تمام پکی عمر والوں کے سردار ہیں…انبیاء اور رسولوں کے علاوہ تمام اولین و آخرین کے‘‘…

اس مجموعہ میں ایک روایت یہ بھی ہے:

عمر منی وانا من عمر والحق بعدی مع عمر حیث کان

ارشاد فرمایا:

 ’’عمر مجھ سے ہیں اور میں عمر سے ہوں اور میرے بعد حق ہرحال میں عمر کے ساتھ ہے‘‘…

حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں…آپ روحانی دنیا کے بادشاہ اور تاجدار ہیں…شیطان ہمیشہ آپ کے نام تک سے ڈرتا ہے…روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے مسلمان ہونے کے بعد شیطان جب بھی آپ کے سامنے آیا تو فوراً منہ کے بل زمین پر جا گرا… حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہاں تک فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عرفات کے دن فرشتوں کے سامنے تمام اہل عرفہ پر فخر فرمایا… اور پھر خاص طور پر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ   پر فخر فرمایا…اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر فخر فرماتے ہیں تو مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ… ان سے محبت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں…اور اگر کسی مسلمان کے دل میں…حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے کچھ دوری ہو تو وہ استغفار کرے…توبہ کرے…اپنے دل کو شیطانی اثرات سے پاک کرے…حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:… ’’جو عمر سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے…‘‘

حضرت سیّدنا عمر  رضی اللہ عنہ …حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کے جلیل القدر صحابی،حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمین پر وزیر…حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کے محترم سسر اور…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کے اہل بیت میں سے ہیں…آپ سابقین اوّلین مہاجرین میں سے ہیں…آپ اصحاب بدر میں سے ہیں…آپ ان میں سے ہیں جو احد کے دن پسپائی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ ڈٹے رہے…آپ اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں…آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں…آپ الہام و کشف کی دنیا کے امام…اور فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی رضامندی والے کاموںکی سمجھ رکھنے والے ہیں…آپ امیر المومنین اور اسلام کے نامور فاتح ہیں…مصر کی عورتیں آپ کے ایک مختصر خط کی برکت کو …آج بھی یاد کرتی ہیں…ورنہ دریا چلانے کے لئے ان کو زندہ دریا برد کیا جاتا تھا…ہر عفت مآب خاتون جب پردے کے انوارات پاتی ہے تو سیّدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  کو دعائیں دیتی ہے…

آپ نے زمین پر ایسی خلافت قائم کی کہ…چودہ سو برس سے زائد کا عرصہ گذر گیا کوئی بھی ایسی حکومت قائم نہ کر سکا…آپ کی روحانی قوت کا حال یہ تھا کہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنے لشکروں کو خود چلاتے اور ان کے لئے راستے ہموار کراتے اور انہیں خطرات سے آگاہ کرتے تھے…آپ نے جس شخص کو بھی کوئی عہدہ دیا اس سے صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ عہد لیا کہ…وہ عیاشیوں اور دنیا داریوں میں نہیں پڑے گا…سواری اور کھانے پینے تک میں سادگی اختیار کرے گا…اور اس کا دروازہ ہر وقت رعایا کے لئے کھلا رہے گا…آپ روئے زمین کے بادشاہ تھے مگر جب خطبہ دینے کھڑے ہوتے تو کُرتے پر کئی کئی پیوند نظر آتے…ان تمام فضائل و اعمال کے باوجود…اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کا یہ عالم تھا کہ زیادہ رونے کی وجہ سے چہرے پر آنکھوں کے نیچے باقاعدہ آنسوؤں کے نشانات پڑ چکے تھے…اسلام قبول کرنے کے بعد سے آپ کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ…آپ کو شہادت کی موت نصیب ہو…شہادت کی فضیلت کی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ حضرت سیّدنا عمر  رضی اللہ عنہ  جیسے عظیم صاحب علم اس کی شدید خواہش اور تمنا رکھتے تھے…غزوہ احد کے دن آپ نے اپنی زرہ اپنے بھائی کو دینا چاہی تو انہوں نے فرمایا…بھائی! آپ اپنے لئے جو چاہ رہے ہیں مجھے بھی اسی کی خواہش ہے…یعنی شہادت پھر دونوں بھائی بغیر زرہ میدان میں اتر گئے…آخری حج اپنی محترم ماؤں یعنی امہات المومنین کو بھی کرایا…واپسی پر گڑگڑا کر شہادت مانگی مگر ساتھ یہ بھی کہ…مدینہ منورہ میں یہ نعمت ملے…مدینہ منورہ امن کا گہوارہ…اور ہر طرف سے محفوط تھا بظاہر وہاں شہادت ملنے کی کوئی صورت نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انتظام فرما دیا…اللہ تعالیٰ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی برکات ہم سب کو اور اُمتِ مسلمہ کو وافر عطاء فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد والہ

وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ  محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

 

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر468

 

دُنیا کے حالات پر ایک نظر اور کچھ خاص خبریں...

ہر طرف ماتم ہی ماتم... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  تو ماتم کو ختم کرنے کیلئے تشریف لائے تھے...

واقعہ کربلا... حسینی قافلے کو سلام ... حسینی قربانی کو سلام...

سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے والے ظالم...

تاریخ کا سچ اور جھوٹ... کیا تاریخ کی جھوٹی روایات

کی بناء پر حسینی مؤقف کو جھٹلایا جائے گا؟ حق نظریے کی نشاندہی...

ایبولا نامی جان لیوا بیماری...خطرناک بیماریوں سے بچائو کی مسنون دُعائیں...

فالج کی وباء... فالج سے حفاظت کا مسنون عمل...

امریکہ کے وسط مدتی انتخابات... اُبامہ کی گرتی مقبولیت...

ابامہ کے جرائم اور بدنصیبی ... دنیا کی عزت کی ناپائیداری...

اصل عزت اسلام و ایمان میں ہے...

مودی نے کشمیر کا رُخ کیا... انتخابات کے ذریعے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ...

جہاد کشمیر کے نئے دور کا آغاز ہوگا... ان شاء اللہ...صبر کے تین اجزاء...

صبر کی صفت کو اپنا کر اپنا عمل جاری رکھیں... عمل خالص کی ایک علامت...

 

اپنا عمل جاری

اللہ تعالیٰ ’’صبر‘‘کرنے والوں کے ساتھ ہے…

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ

اللہ تعالیٰ ’’صبر‘‘ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں…

وَاللّٰہٗ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ

ایک نظر دنیا پر

خ                 خبروں پر نظر ڈالی تو ہر طرف ماتم ہی ماتم نظر آیا…زندگی مفلوج،موبائل بند،سیکورٹی الرٹ اور ماتم رواں دواں…حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   اور آپ کے آل و اصحاب دنیا سے ماتم ختم کرنے کی کوشش فرماتے رہے…مشرکین ’’ماتم‘‘ کے عادی تھے اسلام نے پابندی لگا دی…اسلام نے شہادت کو اعزاز اور تمغہ قرار دیا…شہداء کا مقام ایسا اونچا فرمایا کہ ہر مخلص مسلمان شہادت کا طلبگار ہوا…مگر پھر کچھ لوگ ماتم لے آئے…اس ماتم کا اسلام سے کچھ تعلق نہیں…

خ                 واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے…حضرت سیّدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کو سلام،تمام شہداء کربلا کو سلام،قافلہ سیّدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کی عظیم پاکیزہ خواتین کو سلام…بہت بڑی قربانی ہے،بہت ہی بڑی…اور یہ قربانی خالص دین اسلام کے لئے ہے…اس قربانی کا تصور کرتے ہی دل روتا ہے اور ان عظیم ہستیوں کو کانپتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتا ہے…اس واقعہ میں ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں اور بس اتنا جاننے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں کہ…حضرت سیّدنا حسین  رضی اللہ عنہ ’’حق‘‘ پر تھے…آپ کا موقف سچا اور برحق تھا…اور آپ نے جو کچھ کیا وہ سب ٹھیک اور درست تھا…ہم حضرت سیّدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کو…مشکوک تاریخی تحقیقات کے کٹہرے میں کھڑا کرنا جرم گستاخی اور بے ادبی سمجھتے ہیں…بلکہ اس موضوع پر ہر روز نئی تحقیق، نئے مطالعہ اور نئے انکشافات کو بھی ایک مرض اور فتنہ سمجھتے ہیں…جو لوگ اس مرض اور اس فتنے کا شکار ہیں وہ آل رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   کے مقام کو نہ سمجھ سکے…انہیں چاہیے کہ توبہ کریں، اپنے دل پاک کریں، ایسی عظیم پاکیزہ ہستیوں کے لئے اپنے دل میں بغض اور اعتراضات لے کر مریں گے تو …قیامت کے دن کیا منہ لے کر حاضر ہوں گے…تاریخ بہت جھوٹ بکتی ہے…واقعات کو ہر انسان اپنے تناظر سے نقل کرتا  ہے…ہماری آنکھوں کے سامنے بے شمار ایسے واقعات ہیں جنہیں ہر انسان اپنی سوچ کے مطابق بیان کرتا ہے…ہم پر لازم ہے کہ ہمیں ان سے پیار ہونا چاہیے جن سے ہمارے محبوب آقا محمد مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کو پیار ہے…اور ہم ہر ایسی بات سے دور رہیں جو اس پیار اور محبت کو پھیکا یا کمزور کرنے والی ہو…واقعہ کربلا پر لکھنے والے بھی احتیاط سے لکھا کریں ہمیں تو ابھی تک اس واقعہ پر کچھ لکھنے کی ہمت ہی نہیں ہو سکی…

خ                 دنیا میں اس وقت ’’ایبولا‘‘ نامی ایک مہلک بیماری ’’وبا‘‘ کی شکل اختیار کر رہی ہے… افریقہ میں ہزاروں افراد اس بیماری کا لقمہ بن چکے ہیں…اور اب یہ مرض امریکہ تک جا پہنچا ہے…یہ ہے آج کی ترقی اور میڈیکل سائنس کا عروج کہ …ہر روز نئی بیماری اور نئی مصیبت…یہ دنیا ترقی نہیں خود کشی کی طرف بڑھ رہی ہے…انسانوں کی بے صبری نے زمین کو دھوئیں،کثافت اور ایٹمی شعاعوں سے بھر دیا ہے…حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں دعاء سکھا دی ہے کہ …ہم اسے مانگا کریں اور برے امراض سے محفوظ رہیں…

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَسَیِّیِٔ الْاَسْقَام

یا اللہ! مجھے اپنی پناہ دے دیجیے کوڑھ، برص، پاگل پن اور ہر بری بیماری سے…

آج کل فالج کا مرض بہت عام ہے… خبروں میں آیا ہے کہ پاکستان میں روزآنہ چار سو افراد فالج سے وفات پا رہے ہیں…حدیث شریف میں فالج سے حفاظت کا وظیفہ ارشاد فرمایا ہے…

صبح اور شام …یعنی فجر اور مغرب کے بعد تین بار پڑھیں…

سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

یقین کے ساتھ جو دعاء پڑھی جائے وہ ضرور اثر کرتی ہے…اس دعاء میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں…

سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ

کتاب اس وقت ساتھ نہیں وگرنہ مکمل روایت حوالہ کے ساتھ لکھ دی جاتی…ان شاء اللہ اگلے کالم میں آ جائے گی…مگر معمول میں ابھی سے شامل کر لیں تو اچھا ہے…

خ                 امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہو رہے ہیں…اور وہاں بس ایک ہی بات کا شور ہے کہ صدر اوبامہ کی ’’ریٹنگ‘‘ گر رہی ہے…مطلب یہ کہ صدر اوبامہ کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے اور وہ امریکہ کا ایسا بے عزت اور ذلیل شہری بن چکا ہے کہ…ہر کوئی اس سے اپنا دامن بچا رہا ہے…گذشتہ دنوں اسے گولف کھیلنے کا شوق ہوا تو اس کے عملے کے افراد جگہ ڈھونڈتے رہ گئے مگر کسی گولف کلب نے اسے اپنے ہاں آنے کی اجازت نہ دی…

اسے کہتے ہیں:

خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ

نہ دنیا ملی نہ آخرت…اس نے ایک مسلمان کے گھر آنکھ کھولی…پھر کفر کی گود میں گرا، جان توڑ محنت کی اور امریکہ کا صدر بنا…مسلمانوں پر مظالم کئے،نامور ہستیوں کو شہید کیا کہ ہیرو بن جائے مگر آج جب زندگی بھی اختتام پر ہے وہ محض ایک ’’زیرو‘‘ ہے…

بس بھائیو! یہی حال ہے دنیا کی عزت کا…جو بھی دنیا کی عزت کے چکر میں پڑتا ہے اور لوگوں میں محبوب و مقبول ہونے کو ہی اپنا ہدف بناتا ہے وہ بالآخر اسی دنیا میں ذلت پاتا ہے…اوبامہ تو ایک کافر ہے…بہت سے مسلمان رات دن مقبولیت و محبوبیت کے چکر میں پڑے رہتے ہیں…اس کے لئے طرح طرح کے وظیفے کرتے ہیں…طرح طرح کے پتھر اپنی انگوٹھیوں میں ڈالتے ہیں…ہرن کی کھال پر نقش بنواتے ہیں…اور معلوم نہیں کیا کچھ کرتے ہیں…اللہ تعالیٰ ایسی فکر سے ہماری حفاظت فرمائے…اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہو…اصل عزت دین کی عزت ہے…کبھی نہ ختم ہونے والی عزت،کبھی نہ پرانی ہونے والی عزت…یہ عزت اہل اخلاص کو ملتی ہے…جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کے لئے اعمال کرتے ہیں…جو دین کی خاطر قربانی دیتے ہیں…جو خود کو مٹاتے ہیں…جو مخلوق کی خدمت کرتے ہیں…اور جو آخرت کے طلبگار ہوتے ہیں…

خ                 قاتل مودی کا رخ اس وقت کشمیر کی طرف ہے…وہ کشمیر میں انتخابات جیتنا چاہتا ہے اور پھر کشمیر اسمبلی کے ذریعہ…کشمیر کو انڈیا کی مکمل غلامی میں لانا چاہتا ہے…اس کے لئے اس نے بھر پور انتظامات کر لئے ہیں…مگر ’’مودی‘‘ جو کچھ سوچ رہا ہے وہ ان شاء اللہ ہر گز نہیں ہو گا…کشمیر میں انتخابات وہ جیت سکتا ہے کیونکہ اکثر کشمیری مسلمان ووٹ ہی نہیں ڈالتے…مگر وہ نہ تو کشمیریوں کے دل جیت سکتا ہے اور نہ ہی آزادی کی سوچ کشمیریوں کے ذہنوں سے کھرچ سکتا ہے…ہاں! اس کے مظالم البتہ تحریک کو پھر گرم کر دیں گے…اور ان شاء اللہ جہاد کشمیر کا ایک نیا دور دہلی کے ایوانوں کو لرزا دے گا…

مودی یاد رکھنا! یہ دھمکی یا لفاظی نہیں…زمینی حقیقت ہے جسے ان شاء اللہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے گی…

نیکی جاری رکھیں

آج ’’صبر‘‘ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا…صبر ایمان کا آدھا حصہ اور کامیابی کی چابی ہے… صبر وہ سب سے بھلی اور وسیع نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطاء فرماتے ہیں… اور صبر کا اجروثواب بے حساب ہے…قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نوّے(90) مقامات پر صبر کا تذکرہ فرمایا ہے،صبر کا حکم دیا ہے …اور صبر کے فضائل،فوائد اور مناقب بیان فرمائے ہیں…صبر کے تین اجزاء ہیں:

١                    نیکیوں پر ڈٹے رہنا…

٢                    مصیبتوں سے نہ لڑکھڑانا…

٣                    گناہوں سے خود کو روکنا…

اس میں سب سے پہلا اور اہم درجہ یہ ہے کہ …انسان ایمان پر اور نیک اعمال پر مضبوط ہو…حالات جیسے بھی ہوں…نتائج جیسے بھی سامنے آئیں…مسلمان اپنی نیکی اور اپنے عمل کو جاری رکھے…آج ہمارے اندر اس بارے میں بے حد کمزور آ چکی ہے…وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے شروع کئے جاتے ہیں…اچانک کسی پریشانی،مایوسی یا حالات کی خرابی کی وجہ سے چھوڑ دئیے جاتے ہیں…جو اس بات کا ثبوت بن جاتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں تھا…اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا تو پھر کیوں چھوڑا جاتا؟

ذرا سی تکلیف آئی تو عمل بند…لوگوں نے ذرا سی ناقدری کی تو عمل بند…ذرا سا وسوسہ کسی شیطان نے دل میں اتارا تو عمل بند…دنیاوی نتائج میں تھوڑی سی تاخیر ہوئی تو عمل بند دعاء بند…یہ وفاداروں کا طریقہ نہیں…کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ہر طرح کے حالات میں لگے رہتے ہیں،ڈٹے رہتے ہیں…اور نتائج سے بے فکر ہو کر اپنی نیکی اور اپنے عمل کو جا ری رکھتے ہیں…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر469

 

عزت، ذلت، رزق، زندگی اور موت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ...

 باقی سب وساوس...

کسی کے جانے اور چھوڑ دینے سے کسی پر فرق نہیں پڑتا...

اصلی مصیبت کیا ہے؟... میاں، بیوی کا ایمان افروز واقعہ...

مصائب میں پوشیدہ نعمتیںاور فضائل...

اصل فکر کیا ہونی چاہیے... رزق یا آخرت؟

عارضی مسائل اور اصل مسائل کی نشاندہی...

نماز میں دعائوں کی قبولیت... اس عمل سے عمومی غفلت...

نماز میں قبولیت دُعاء کے خاص مقامات...

خاص حاجات کے لئے خاص دُعائیں...

فالج سے حفاظت کا خاص عمل... ایک صحابی کا واقعہ...

ایک دُعاء... چار مہلک امراض سے حفاظت...

ایک بہت اہم اور مفید مگر متروک عمل کی طرف توجہ دلاتی

مفید عام تحریر جو قبولیت اور سہولت کے بہت سے دروازے کھول دے گی...

عمل کر کے دیکھئے!

مقاماتِ دعاء

اللہ تعالیٰ جسے عزت دینا چاہیں…اُسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا…اللہ تعالیٰ جسے رزق دینا چاہیں اسے کوئی رزق سے محروم نہیں کر سکتا…بس یہی بات حقیقت ہے…باقی جو کچھ دل میں آتا ہے وہ سب جھوٹ ہے وہ سب وسوسہ ہے…فلاں مر گیا تو میرا کیا بنے گا؟…فلاں نے مجھے چھوڑ دیا تو میں کہاں جاؤں گا؟…

کسی کے مر نے سے کسی کی روزی بند نہیں ہوتی…کیونکہ رازق اور رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے… وہی ’’رب‘‘ ہے پالنے والا…رب العالمین…کسی کے آنے جانے سے کسی کی ’’عزت‘‘ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عزت کا مالک بھی اللہ…اور ذلت کا فیصلہ فرمانے والا بھی اللہ…

وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ

کلمہ طیبہ پر یقین …کلمہ طیبہ کا وِرد یہ آخری سانس تک کا وظیفہ ہے…کلمہ طیبہ میں ہم جتنا غور کریں گے،اس کلمہ کو ہم جتنا سمجھیں گے،جتنا پڑھیں گے…اور اس کلمہ کی ہم جس قدر دعوت دیں گے…اسی قدر ہمارا تعلق…اپنے مالک اور خالق سے مضبوط ہو گا…اور ہم مخلوق کی محتاجی سے آزاد ہوں گے

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

کوئی خط میں لکھتا ہے کہ نماز میں سستی ہو رہی ہے…انا للہ وانا الیہ راجعون…کوئی لکھتا ہے کہ کلمہ طیبہ کے ورد میں سستی ہو رہی ہے…انا للہ وانا الیہ راجعون…کوئی کہتا ہے کہ جہاد کا شوق دل میں کمزور ہو رہا ہے…اناللہ واناالیہ راجعون… ہاں! اصل مصیبتیں یہی ہیں اور ان پر دل سے… انا للہ وانا الیہ راجعون… پڑھنا چاہیے…پرانے زمانے کا قصہ لکھا ہے کہ ایک صاحب گھر میں داخل ہوئے بے حد پریشان وہ بار بار کہہ رہے تھے…مصیبت آ گئی بڑی مصیبت… ہائے مصیبت…ان کی بیوی بڑے کامل ایمان اور علم والی تھی اس نے خاوند کو تسلی سے بٹھایا اور عرض کیا…میرے سرتاج! آپ اس قدر پریشان ہیں اور مصیبت مصیبت پکار رہے ہیں… کیا مسلمانوں کے امیر کا انتقال ہو گیا؟امیر المومنین وفات پا گئے…خاوند نے کہا… نہیں…بیوی نے کہا: کیا مسلمانوں کے کسی علاقے پر کافروں نے قبضہ کر لیا ہے؟ … خاوند نے کہا: نہیں …بیوی نے پوچھا…کیا کچھ مسلمانوں کو کافروں نے گرفتار کر لیا ہے؟…خاوند نے کہا: نہیں…بیوی نے پوچھا: کیا کسی محاذ پر مسلمانوں کو کفار سے شکست ہوئی ہے؟خاوند نے کہا: نہیں…بیوی نے پوچھا: کیا کچھ دیندار مسلمانوں نے دین پر عمل چھوڑ دیا ہے؟خاوند نے کہا: نہیں…بیوی نے اطمینان کا سانس لیا اور کہنے لگی…اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو پھر کوئی مصیبت نہیں… غم ،بیماری،مالی پریشانی کئی بار انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے…جسم میں کینسر بن رہا تھا اچانک ایکسیڈنٹ ہوا ٹانگ میں سخت چوٹ لگی اور اس چوٹ کے درد نے کینسر کو جسم سے اکھاڑ کر نکال دیا…جسم میں شوگر بن رہی تھی…اچانک کہیں شدید درد ہوا اور اس درد کی کڑواہٹ نے شوگر کو جسم میں جمنے سے پہلے نکال پھینکا…کچھ مالی پریشانی آئی تو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا…دن رات کی دعاء اور عبادت نے گناہوں کے گودام کو جلا کر دل کو پاک کر دیا…ہم جن چیزوں کو مصیبت سمجھتے ہیں…ان میں سے اکثر مصیبت نہیں، نعمت ہوتی ہیں…جبکہ اصل مصیبت تو یہ ہے کہ…ابھی سانس جاری ہے اور نماز میں سستی شروع ہو گئی…توبہ توبہ…کیا ایک مسلمان اپنی زندگی میں نماز سے بھی سست ہو سکتا ہے؟…مصیبت ہے،مصیبت…سچ پوچھئے تو کینسر اور شوگر سے بڑی مصیبت کہ مسلمان فرض میں بھی سستی کرنے لگے…کلمہ نہیں تو کیا زندگی…نماز نہیں تو کیا زندگی…جہاد نہیں تو کیا زندگی…امانت نہیں تو کیا زندگی…کوئی ہے جو اپنی نماز درست کرنے کے لئے اتنی فکر کرے جتنی اپنی بیماری کے علاج کی کرتا ہے؟…کئی اللہ والوں کے ہاں بیٹھنا ہوا،دل کو بڑا صدمہ لگا کہ لوگوں کا ہجوم ان سے بھی صرف دنیا کے مسائل حل کرنے کے لئے رجوع کر رہا ہے…کوئی نہیں دیکھا کہ رو رہا ہو کہ…حضرت! خاص دعاء کر دیں کہ مرتے وقت ایمان سلامت رہے،مجھے قبر میں عذاب نہ ہو… میری نماز آخری سانس تک پختہ رہے…ہر کوئی بس دنیا کے مسائل کے لئے پریشان ہے،رو رہا ہے…اور اللہ والوں سے اللہ کا راستہ پوچھنے اور سمجھنے کی بجائے…مال کی کثرت کے تعویذ مانگ رہا ہے…

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

اس میں کوئی شک نہیں کہ…مال بھی انسان کی اہم ضرورت ہے…رزق حلال کے لئے دعاء کرنا اور دعاء کروانا بھی نیکی ہے…رزق حلال کے لئے مسنون اور مشروع وظائف کرنا بھی اچھی بات ہے…اللہ تعالیٰ سے وہی مانگتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ’’رب العالمین‘‘ مانتا ہے…مگر ہمارے اصل مسائل کچھ اور ہیں…بہت اہم،حد سے زیادہ اہم…ہمیں ان کی فکر بھی کرنی چاہیے… ایمان پانا،ایمان کو سلامت رکھنا،فرائض کی پابندی نصیب ہونا…دین کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق ملنا… موت،قبر اور آخرت کی تیاری کرنا …اسلام کی عظمت اور امت مسلمہ کے تحفظ کی فکر کرنا… امت مسلمہ میں دین پھیلانے کی فکر کرنا …اگر ہمیں یہ نعمتیں نصیب ہو جائیں تو پھر دنیا بھر کے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں…خود سوچیں …ایک مسلمان اس مقام پر ہے کہ وہ …شہادت کے لئے ایک ایک لمحہ گن کر گزار رہا ہے…دن رات شہادت مانگتا ہے…خود کو دین کے فدائی کے طور پر پیش کرتا ہے…جبکہ دوسرا مسلمان نماز تک میں غفلت اور سستی کر رہا ہے اور خود کو گلے تک دنیا میں پھنساتا جا رہا ہے…کیا یہ مصیبت زدہ نہیں ہے؟…یہ خود کو مصیبت میں سمجھے گا تبھی اپنا علاج کرائے گا… اپنے روحانی علاج کے لئے دو رکعت نماز ادا کرے گا…اللہ تعالیٰ کے سامنے روئے گا…بار بار بے چین ہو کر دعاء مانگے گا… دل کے درد کے ساتھ اللہ،اللہ پکارے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت… اس کی مصیبت کو دور کر دے گی… یہاں ایک اور بات بھی سمجھ لیں …نماز میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہے…اور نماز ہمارے مسائل کا حل ہے…نماز میں جو دعائیں مانگی جائیں وہ جلد قبول ہوتی ہیں…مگر آج اکثر مسلمانوں کی نماز میں کوئی دعاء ہوتی ہی نہیں…بس آٹو میٹک نماز…’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر خیالوں میں گم ہوئے اور ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ پر دنیا بھر کی سیر کر کے واپس آ گئے… اب ایسی نماز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا اور کیا لیا؟…ابھی بالکل تازہ واقعہ ہے کسی نے بتایا کہ اسے سخت مالی پریشانی آ گئی…قریب تھا کہ وہ قرضہ کی مصیبت میں جکڑا جاتا…اس نے فوراً نماز کی طرف توجہ کی…دو رکعت نماز اور اس میں جو دعاء کے مقامات ہیں…ان میں یہ دعا:

اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ

رکوع میں تسبیح پڑھنے کے بعد دس بار یہی دعاء…پھر رکوع سے کھڑے ہو کر ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ربنا لک الحمد‘‘ کے بعددس بار یہی دعاء…پھر سجدے میں دس بار،سجدے سے اٹھ کر دس بار اور دوسرے سجدے میں دس بار … اور التحیات کے آخر میں دس بار…یوں یہ مسنون دعا ء ایک سو دس بار ہو گئی…نماز میں توجہ بھی رہی اور یہ خیال بھی کہ میں اپنا مسئلہ اپنے رب کو پیش کر رہا ہوں…الحمد للہ دو چار دن میں مسئلہ حل ہو گیا…

ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ایک مصیبت میں پھنس گئے…انہوں نے نماز میں دعاء کے مقامات پر استغفار شروع کر دیا…دو رکعت نماز میں دو سو بار تین سو بار استغفار…

اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَاَتُوبُ اِلَیہِ

اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا اور مصیبت سے نجات عطا فرما دی…

نماز میں دعاء کے مقامات سات ہیں…مگر یہ نفل اورسنتوںمیں زیادہ بہتر ہے…

١                    پہلی رکعت میں تکبیر اولیٰ کے بعد قراء ت شروع کرنے سے پہلے…

٢                    رکوع میں…

٣                    رکوع سے کھڑے ہو کر یعنی قومہ میں…

٤                    سجدہ میں…

٥                    سجدہ سے اٹھ کر جلسہ میں…

٦                    دوسرے سجدہ میں …

٧                    آخری قعدہ میں درود شریف کے بعد…

اب جس کو جو حاجت ہو وہ اس کی دعاء ان مقامات پر توجہ اور کثرت سے کر لیا کرے…مثلاً کوئی اپنے اندر حرص اور لالچ محسوس کر رہا ہے… بڑا خطرناک اور ذلیل کرنے والا مرض ہے…وہ دو رکعت نماز میں ان سات مقامات پر حرص اور لالچ سے حفاظت کی دعاء مانگے:

اَللّٰھُمَّ قِنِی شُحَّ نَفْسِی

’’یا اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص اور لالچ سے بچا لیجئے‘‘…

اور پھر اس وقت تک یہ عمل کرتا رہے جب تک دل پاک نہ ہو جائے…کوئی اپنے اندر سستی اور بے کاری محسوس کر رہا ہے تو وہ یہ دعاء پڑھے…

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ

کوئی اپنے اندر نفاق محسوس کر رہا ہے تو نفاق سے حفاظت کی دعاء پکڑ لے… کوئی بیمار ہے تو شفاء کی دعاء اپنا لے…کسی کو عذاب قبر کا خوف ہے تو وہ عذاب قبر سے حفاظت کی دعاء تھام لے … یوں ہماری نماز بھی جاندار ہوتی جائے گی،دعاء بھی قبول ہو گی…اور ان شاء اللہ مسائل بھی حل ہوں گے…مجاہدین کو خاص طور پر فتنوں سے حفاظت کی دعاء کو اپنانا چاہیے…

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ

مجاہدین اس امت کے خاص اور برگزیدہ لوگ ہیں…سچے امانت دار اور مخلص مجاہدین ہی اس اُمت کے اولیاء صدیقین ہیں…مجاہدین ہوں گے اور ان کا جہاد جاری رہے گا تو دین کی حفاظت اور عظمت رہے گی…اس لئے شیطانی قوتیں اور ان کے انسانی آلہ کار مجاہدین کو فتنوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں…نماز اور نماز میں مانگی گئی دعاؤں سے مجاہدین کو مضبوطی حاصل کرنی چاہیے…اِسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ

فالج سے حفاظت کا نسخہ

گذشتہ کالم میں فالج سے حفاظت کا نسخہ عرض کیا گیا تھا…فجر اور مغرب کو تین بار…

سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

یہ عمل ایک…مرفوع حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے…یہ حدیث کئی کتابوں میں موجود ہے… مثلاً(المعجم الکبیر للطبرانی،مسند احمد،اسد الغابہ لابن الاثیر،عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی)…

یہ ایک بزرگ صحابی ہیں…حضرت قبیصہ بن المخارق الہلالی  رضی اللہ عنہ

یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ننہیال میں سے تھے … بعد میں ان کے ایک صاحبزادے مسلمانوں کے بڑے کمانڈر اور سجستان کے گورنر بھی بنے…

انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں بہت بڑھاپے اور کمزوری کی حالت میں حاضری دی…آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان کا اکرام فرمایا اور ان کے علم اور دین سیکھنے کے جذبہ کی تعریف فرمائی… انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے عرض کیا:

 یارسول اللّٰہ! علمنی شیئا ینفعنی اللّٰہ بہ فی الدنیا والآخرۃ

’’یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجیے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ مجھے دنیا اور آخرت میں نفع عطا فرمائے‘‘…

ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ…مختصر عمل ہو کیونکہ میں بہت بوڑھا ہوں،زیادہ بھول جاتا ہوں…

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے انہیں دو دعائیں تلقین فرمائیں …پہلی یہی کہ صبح کی نماز کے بعد تین بار پڑھا کریں:

سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

اس کی برکت سے چار بیماریوں سے حفاظت رہے گی…

١کوڑھ       ٢پاگل پن                      ٣اندھا پن                     ٤ فالج

دراصل بڑھاپے میں انہیں چار امراض کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے…

اہل علم نے حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے…مگر ان کلمات کی برکت اور فضیلت کا سب کو اعتراف ہے کیونکہ کئی اور روایات بھی ان مبارک کلمات کے فضائل پر موجود ہیں…

ایک روایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ… جو شخص نماز کے بعد تین بار یہ کلمات پڑھ لے وہ ایسی حالت میں وہاں سے اٹھتا ہے کہ…اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے…

سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر470

 

نصرت الٰہی کے ایمان افروز مناظر...

غزوئہ حنین کے دن سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کا اہل بیعت کوآوازہ...

بیعت نبھانے والوں کی یلغار اور میدان کے بدلتے مناظر...

شام کے جہاد میں سیّدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی پکار...

نصرت کا نزول اور فتح یابی...

سیّدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے کچھ حالات...

چھوٹےمجموعے کی بڑے لشکر پر فتح کا قرآنی منظر...

 واقعہ طالوت و جالوت...دو طبقے...

’’مُثَبِّتِیْن‘‘ اور ’’مُثَبِّطِیْن‘‘ کا فرق...

 ’’مُثَبِّطِیْن‘‘ کا بدعمل...

مسلمانوں میں بزدلی اور بددلی پھیلانے والے شیطان کے پیروکار...

غزوئہ اُحد سے آج کی جہادی تحریک تک ان کا طرزِعمل...

 ’’مُثَبِّتِیْن‘‘ کا اُونچا عمل... نور اور اخلاص سے بھرے چہرے...

ان کی ایمانی دعوت اور اس کے اثرات...

ایمانی اور شیطانی طرز عمل کو واضح کرتی ایک قرآنی افادات سے مزین تحریر...

آپ کون سا راستہ اختیار کریں... ایک دَرد بھری دعوت...

 

 

 

 

 

 

جنتی پھول

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’ایمانِ کامل‘‘…’’ایمانِ دائم‘‘ اور ثابت قدمی عطا فرمائے!

اس وقت کئی اِیمان افروز مناظر میری آنکھوں کو روشن اور نم کر رہے ہیں…لیجئے! آپ بھی اس کیفیت میں شریک ہو جائیے…

اے بیعت کرنے والو!

اسلامی لشکر پر کفار نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ…باوجود کثرت کے مسلمانوں کے پاؤں اُکھڑ گئے…دشمن کے چار ہزار تیر اَنداز موسلا دھار بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے…یہ اسلامی لشکر کے راستے میں چھپے بیٹھے تھے،انہوں نے اچانک بیس ہزار تلواروں سے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا…بارہ ہزار افراد کا اِسلامی لشکر ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو گیا…میدان میں مسلمانوں کے سپہ سالار اکیلے رہ گئے، ان کے اردگرد صرف دس بارہ پروانے دیوانے مجاہدین تھے…وہ اپنے محبوب قائد اور سپہ سالار کو تیروں اور تلواروں کی بارش سے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے…سپہ سالار پوری استقامات کے ساتھ ہزاروں کفار کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے اور اپنے لشکر اور مجاہدین کو دوبارہ جمع اور منظم ہونے کے لئے پکار رہے تھے…اچانک ایک بلند قامت پُر نور بابا جی تلوار لے کر سپہ سالار کے گھوڑے کے قریب کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی بلند آواز سے پکارا…

یا معشر الانصار! یا اصحاب السمرۃ!

’’اے گروہِ انصار! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!

سبحان اللہ ! آواز بلند تھی،جذبے سے لبریز اور خوشبو سے معمور تھی…انصار کے لفظ میں وعدۂ نصرت کی یاد دہانی تھی…اور کیکر کے درخت ’’السمرۃ‘‘ کے لفظ میں ’’بیعت‘‘ نبھانے کی تلقین تھی… دو تین بار یہ آواز گونجی تو خوف کے بادل چھٹ گئے، اِنتشار کا سیلاب تھم گیا…اور دیوانے مجاہدین بجلی کی تیزی سے واپس پلٹے…اپنے سپہ سالار کے گرد جمع ہوئے اور دشمن پر ایسا جاندار حملہ کیا کہ شکست فتح میں تبدیل ہو گئی…اور مسلمان غالب ہو گئے…

یہ غزوہ حنین کا واقعہ ہے…مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   تھے… اور ایمان کو زندہ کرنے والی آواز لگانے والے ’’بابا جی‘‘…حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ  تھے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے ’’چچا جی‘‘…سلام ہو…حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ  پر اور انکی مسلمان آل پر…

یَا نَصْرَ اللّٰہ!

یہ ایک اور منظر ہے…پہلے منظر سے کسی قدر ملتا جلتا…یہاں بھی میدان جہاد ہے اور کفار کا لشکر…مسلمانوں کے لشکر سے بہت بڑا ہے…جنگ پڑی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے…یہاں بھی ایک بابا جی لمبی سی لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے …ان کی عمر اسّی سال کے قریب تھی… ایک آنکھ سے معذور تھے…ان کی یہ آنکھ ایک غزوے میں شہید ہو گئی تھی… وہ میدان کے کنارے پر کھڑے تھے…اور پکار پکار کر مسلمانوں کو ثابت قدمی اور جنت کی یاد دلا رہے تھے…کبھی وہ اپنا رخ آسمان کی طرف کرتے اور پکارتے…

یَا نَصْرَ اللّٰہِ اقْتَرِبْ!

’’اے اللہ کی مدد…قریب آ جا، قریب آ جا‘‘

اور کبھی اپنی لاٹھی سے ان مسلمانوں کو مار مار کر میدان کی طرف دھکیلتے جو پسپائی کو دوڑ رہے تھے…اس دوران وہ بابا جی خود بھی تلوار تھام کر جنگ میں شامل ہوتے رہے…یہ اسلام کا اہم معرکہ جنگِ یرموک تھا…اور بابا جی کا نام…حضرت ابو سفیان بن حرب  رضی اللہ عنہ …قریش کے نامور اور متفقہ سردار…

فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ دو غزوات میں شرکت فرمائی… غزوہ طائف میں تیر لگا تو آنکھ ضائع ہو گئی…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے اختیار دیا… آپ چاہیں تو دعاء کر دوں،اللہ تعالیٰ آنکھ واپس عطاء فرما دے…یا آپ صبر کریں تو اس کے بدلے جنت ملے گی…فرمایا: جنت چاہیے،آنکھ نہیں…سلام ہو!…امی جی اُم حبیبہ اُم المومنین  رضی اللہ عنہا پر… ان کے والد حضرت ابو سفیان  رضی اللہ عنہ  پر…ان کے بھائی حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  پر…

قرآنی منظر

آپ نے قرآن مجید میں اس جہادی لشکر کا قصہ پڑھا ہو گا…جس کے امیر حضرت طالوت  رحمۃ اللہ علیہ  تھے…اور اس لشکر کے ایک سپاہی حضرت سیّدنا داؤد  علیہ السلام  تھے…جب یہ لشکر امتحانات کی چھلنیوں سے گذر کر بہت تھوڑی تعداد میں رہ گیا تو اس کا سامنا جالوت کے اس لشکر سے ہوا جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا…تب مایوسی کی سرد لہر ان الفاظ میں دوڑا دی گئی…

لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ

آج ہمارے بس میں ہی نہیں کہ ہم جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کر سکیں…مایوسی کے الفاظ…ہڈیوں کا گودا جما دیتے ہیں…مایوسی کے کلمات جذبوں کی آگ کو بجھا دیتے ہیں…مایوسی کی باتیں…انسانوں کے جسم کی قوت سلب کر دیتی ہیں…اور مایوسی کے جملے ہر طرف بزدلی کی بدبو اور ناکامی کا اندھیرا پھیلا دیتے ہیں…ایسے میں اچانک کسی اللہ والے نے ایک آواز لگائی…اس اللہ والے کے ساتھ چند اور اللہ والوں نے بھی اپنی آواز شامل کر دی…

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً

ارے!…فتح و غلبے کا مالک… اللہ تعالیٰ ہے، وہ جب چاہتا ہے مٹھی بھر افراد کو بڑے بڑے لشکروں پر غالب کر دیتا ہے…

بس اس ایک جملے نے…جذبات کو قوت دے دی…نظر کو زمین سے اُٹھا کر آسمان کی طرف پھیر دیا…اور اُمید کی خوشبو ہر سو مہکنے لگی…اس خوشبو میں ڈوب کر جب ایمان والوں نے حملہ کیا تو جالوت کا لشکر…جھاگ کی طرح پھٹ گیا اور بکھر گیا…

دو طبقے

قرآن مجید میں ’’جہاد‘‘ کو پڑھ لیجیے…ماضی کے جہادی واقعات پر نظر ڈال لیجیے آپ کو اسلامی لشکر میں دو طبقے ضرور نظر آئیں گے…

١                    مُثَبِّتِینْ

٢                    مُثَبِّطِینْ

دوسرے لفظ کا مطلب پہلے سمجھ لیجئے…’’مثبطین‘‘ وہ لوگ جو مایوسی پھیلاتے ہیں…جذبوں کو سرد کرتے ہیں…خود بھی بھاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھگاتے ہیں…ان کو ’’مخذلین‘‘ بھی کہا جاتا ہے…بزدلی،مایوسی ،بددلی،بد اطمینانی پھیلانے والے…مسلمانوں کو رسوائی اور شکست کے راستے پر ڈالنے والے…جمے ہوئے قدموں اور دلوں کو اُکھاڑنے والے…دراصل ’’جہاد‘‘ بہت اونچے مقام والی عبادت ہے…یہ اسلام کا اہم فریضہ ہے…یہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہترین وسیلہ ہے… یہ تمام اعمال سے افضل عمل ہے…یہ مسلمانوں کو عزت اور غلبہ دلانے والا عمل ہے…یہ اسلام کو قوت اور غلبہ دلانے والا عمل ہے…یہ گناہوں کو مٹا کر جنت میں جلد لے جانے والا عمل ہے…جب کوئی مسلمان اس عمل میں لگ جاتا ہے تو شیطان…اس مسلمان کا نام اپنے دشمنوں کی سب سے اہم فہرست میں لکھ دیتا ہے…ایسے آدمی کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان اپنے خاص اور ماہر شاگردوں کو متعین کرتا ہے… اور چھ طرف سے اس مجاہد پر حملہ آور ہوتا ہے…وہ جہادی لشکروں اور جماعتوں میں …ایسے افراد چھوڑ دیتا ہے جو ہر وقت مایوسی،بد دلی اور پریشانی پھیلاتے رہتے ہیں…بے اطمینانی جب کسی دل میں آ جاتی ہے تو پھر…ایسے دل کا جہاد پر جمے رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ…جہاد تو اللہ تعالیٰ کو دل دینے،جان دینے،مال دینے…اور سب کچھ دینے کا نام ہے…ایک بے اطمینان شخص کس طرح سے قربانی دے سکتا ہے؟…آپ غزوہ احد سے شروع ہو جائیں اور آج کے ’’شرعی جہاد‘‘ تک کی تاریخ پڑھ لیں…ہر اسلامی لشکر کے ساتھ مثبطین اور مخذلین کا یہ ٹولہ ساتھ ساتھ بندھا نظر آتا ہے…غزوۂ احد میں یہ ٹولہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کے ساتھ نکلا…پھر راستے میں تین سو افراد رُوٹھ کر ٹوٹ کر بھاگ گئے…آپ خود سوچیں کہ جب کسی لشکر کا پورا ایک تہائی حصہ ٹوٹ جائے تو… اس سے کس قدر مایوسی پھیلتی ہے…آج کل کے دور میں تو ایسا ایک جھٹکا کسی بھی جماعت یا لشکر کو مکمل ختم کرنے کے لئے کافی ہے…مگر وہ لشکر بڑا عظیم تھا…انہوں نے ان تین سو کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا…ہمارا بھاگنے والوں سے کیا تعلق؟ہم نے اپنا ہاتھ حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ مبارک میں دیا ہے…وہ جب لشکر میں موجود تو پھر ہمارے بھاگنے کا کیا جواز؟…تین سو ’’مُخَذِّلین‘‘ بھاگ گئے…مگر چند ایک اسلامی لشکر میں موجود رہے کہ آگے چل کر جب لڑائی شروع ہو گی تو اس وقت مایوسی اور بد دلی پھیلائیں گے…انہوں نے اپنا کام آگے چل کر کیا…آپ نے واقعہ احد میں پڑھا ہو گا…مگر الحمد للہ ان کی بھی ایک نہ چلی…یہ تو ہوئی مثبطین کے لفظ کی تشریح…اب دوسرے لفظ کا مطلب سمجھیں…

’’مثبتین‘‘…یہ وہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں…جو اسلامی لشکر کو ہمیشہ ثابت قدمی کی طرف بلاتے رہتے ہیں…وہ خود بھی ڈٹے رہتے ہیں…اور اپنے قول اور عمل سے دوسروں کو بھی ڈٹا رہنے کی ہر وقت دعوت دیتے رہتے ہیں…دوسرے الفاظ میں ان کو ’’مُحَرِّضِینْ‘‘ بھی کہتے ہیں…اصل مثبت یعنی ثابت قدمی عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے یہ مخلص بندے اللہ تعالیٰ کے مُنادی ہوتے ہیں…یہ وہ جنتی پھول ہوتے ہیں…جن کا ایمان کبھی نہیں مرجھاتا…یہ لشکروں کو جوڑتے ہیں… ان کا رخ سیدھا رکھتے ہیں…اور عین جنگ اور آزمائش کے وقت یہ ثابت قدمی کی آوازیں لگا کر… مایوسی اور شکست کو دور بھگاتے ہیں…ہم نے اپنی زندگی میں ایسے بعض افراد دیکھے ہیں… سبحان اللہ! نور ان کے چہروں سے برستا ہے،اخلاص کی خوشبو ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے… یہ اللہ تعالیٰ کے دیوانے بندے ہر لشکر اور ہر سچی جماعت کی جان ہوتے ہیں…افغانستان میں جب امارت اسلامیہ کا سقوط ہو رہا تھا…ہر طرف غم تھا اور خون…تب ایک مجلس میں ایک ایسا دیوانہ دیکھا…وہ کھانے کے دوران بلند آواز سے قرآنی آیات پڑھتا، ثابت قدمی کے فضائل سناتا…اور وفاداری کے گیت گاتا…اس کی مجلس میں ایک منٹ کے لئے بھی…دل میں یہ خیال نہ گذرا کہ مسلمانوں پر اتنا بڑا ظلم ہو گیا ہے…اور ہمیں بظاہر ایک بڑی شکست ہوئی ہے…وہاں تو جتنی دیر موجود رہے دل…عرش کے نیچے شکر کے سجدے کرتا رہا کہ…ایمان والوں کی فتح…ایمان کی سلامتی میں ہے…آزمائش اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں پر آتی ہے…اللہ تعالیٰ راضی تو مسلمان کی جیت…اللہ تعالیٰ ناراض تو مسلمانوں کی شکست…حالات کی خرابی سے منافق…اپنا نظریہ بدلتا ہے…مسلمان تو آزمائش کی آگ میں کود کر پکا مومن بن کر نکلتا ہے…دنیا میں نفع،نقصان اور رات دن کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے…بس اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہو…اس کے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرو…اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنی پیٹھ اور بزدلی نہ دکھاؤ…

ماضی کے قصوں میں ہم یہی پڑھتے ہیں کہ…بعض پورے پورے لشکروں کو ایک بوڑھے شخص نے…ثابت قدمی کی آواز لگا کر مایوسی سے بچا لیا…اور بعض شکست کھاتے لشکروں کو …کسی چھوٹے سے بچے نے بلند آواز سے چند قرآنی آیات سنا کر…فتح کے راستے پر ڈال دیا…

جنتی پھول بنیں!

وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وفادار ہیں…وہ مسلمان جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا یقین رکھتے ہیں… وہ ہمیشہ ثابت اور مُثَبِّتْ رہتے ہیں…خود بھی ثابت قدم اور دوسروں کو بھی ثابت قدمی کی طرف بلانے والے…مگر وہ لوگ جو دنیا کے ادنیٰ اور حقیر مفادات کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں…وہ جہاد میں آ کر بھی… ثابط اورمُثَبِّطْ  رہتے ہیں…خود بھی بے اطمینان اور دوسروں کو بھی مایوس کرنے والے… یہ افراد قربانی دینے سے ڈرتے ہیںاور اگر ان پر تھوڑی سی تکلیف آ جائے تو فوراً بدک جاتے ہیں…

اس وقت اسلامی لشکروں اور …مجاہدین کو ’’مُثَبِّتینْ‘‘ کی ضرورت ہے…جو خود صابر ہوں اور صبر کی دعوت بھی دیتے ہوں…جو خود بھی مشکلات میں جمے رہتے ہوں…اور دوسروں کو بھی جمائے رکھتے ہوں…یہ لوگ بڑے مقام والے ہوتے ہیں…ایسے افراد سے اللہ تعالیٰ بہت عظیم کام لیتا ہے…اور ان کے لئے مغفرت،رحمت اور توفیق کے دروازے کھول دیتا ہے…آپ چاہیں تو اپنے ایک جملے سے پوری جماعت میں مایوسی اور بد دلی پھیلا دیں…اور اگر آپ چاہیں تو اپنے ایک جملے سے جماعت میں جذبوں کی بجلی چلا دیں…

اپنی اپنی قسمت…اپنا اپنا کام …دعاء کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ…ہم ثابت اور مُثَبِّتْ بنیں…کیونکہ یہ لوگ جنت کے پھول ہوتے ہیں…کبھی نہ مرجھانے والے…کبھی نہ مٹنے والے…

اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِی اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلیٰ الْقَوْمِ الْکَافِرِینْ…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر471

 

اللہ تعالیٰ کا نام... ہر برکت کی کنجی... ہر نحوست کا توڑ...

جہاد کے ساتھ مال بڑھتا رہے... اللہ تعالیٰ کے نام کی عجیب تاثیر...

صفر کی نحوست کا غلط عقیدہ...’’صفر‘‘ کی وجہ تسمیہ... صفر ’’الخیر‘‘ ہے...

صفر میں اسلامی جہاد کا آغاز... سریہ حمزہ رضی اللہ عنہ  ...

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کی عجیب شان... ان کا سفر جہاد اور شہادت...

شہادت کی دُعاء کی ضرورت...

اسلام کا پہلا غزوہ بھی صفر میں... غزوئہ ابواء کا مختصر واقعہ...

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی جہادی شان... ایک عاشقانہ نکتہ...

صفر کے مہینے کا بڑا غزوہ ...غزوئہ خیبر ... اسلام کی عظیم الشان فتح...

موبائل فون کی ایک بڑی آفت... کتاب سے دُوری...

شرکیہ عقیدے کی تردید...صفر میں واقعہ رجیع اور بیئر معونہ...

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کا آغاز...

جو مسلمان جہاد سے دُور ہیں صفر سے جہادی سفر کا آغاز کریں... ایک پراثر دعوت...

 

آغاز ِغزوات

اللہ تعالیٰ کا نام مبارک…ایسا بابرکت کہ اس کی ’’برکت‘‘ سے ہر ’’نحوست‘‘ دور ہو جاتی ہے…

ہم اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں …نئے ہجری مہینے ’’صفر المظفر‘‘ کو…

’’بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ شَہْرِ صَفَرْ‘‘

ایک صحابی نے عرض کیا…یا رسول اللہ! میں جہاد میں مصروف رہتا ہوں،میرا مال نہیں بڑھتا…

ارشاد فرمایا: صبح صبح پڑھ لیا کرو…

بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ نَفْسِیْ ،بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ اَہْلِیْ وَمَالِی

’’اللہ تعالیٰ کا نام…میری جان پر…اللہ تعالیٰ کا نام میرے مال اور میری اہل اولاد پر‘‘…

اللہ تعالیٰ کا نام آیا تو مال خود بخود بڑھنے لگا…وہ جہاد میں لگے رہے اور مال کو ’’بسم اللہ‘‘ کی برکت بڑھاتی رہی…آج اسلامی سال کے دوسرے مہینے ’’صفر‘‘ کی پہلی تاریخ ہے…اس مہینہ کو کئی لوگ نعوذ باللہ نحوست والا مہینہ سمجھتے ہیں …اور بعض لوگ اس مہینہ کے آخری بدھ کو نحوست والا قرار دیتے ہیں… اسی لئے ابتداء ہی میں نحوست سے حفاظت کا عمل عرض کر دیا کہ…اللہ تعالیٰ کا نام ہر نحوست کو بھگا دیتا ہے…آپ ایک بار نہیں ہزار بار تجربہ کر کے دیکھ لیں…آپ کو ہر اس چیز میں ’’برکت‘‘ اپنی آنکھوں سے نظر آئے گی جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لے لیا جائے…ویسے یاد رکھیں کہ صفر کے مہینے میں کوئی نحوست نہیں…یہ مشرکین کا عقیدہ اور نظریہ تھا …حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   نے واضح الفاظ میں اس کی تردید فرما دی… حدیث بخاری شریف میں موجود ہے…صفر کے معنی ’’خالی‘‘ مگر خیر سے خالی نہیں… دراصل عرب لوگ اس مہینہ میں جنگوں پر نکل جاتے اور ان کے گھر اور علاقے خالی رہ جاتے تو مہینے کا نام ’’صفر‘‘ پڑ گیا…پچھلے تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں وہ جنگ نہیں کرتے تھے…مگر جیسے ہی محرم ختم ہوتا وہ فوراً نکل پڑتے…دوسرا یہ کہ عرب کے بہادر قبائل جس پر بھی حملہ کرتے اسے مال و اسباب سے ’’خالی‘‘ کر چھوڑتے…اس مناسبت سے مہینے کا نام صفر پڑ گیا…اللہ تعالیٰ اس مہینہ کو مسلمانوں کے لئے …ہر آفت اور شر سے ’’خالی‘‘ صفر بنا دے…ہم تو اس مہینہ کو اس لئے بھی برکت والا سمجھتے ہیں کہ اسلام کا پہلا ’’غزوہ‘‘اس مہینہ میں ہوا…یہ بات یاد کر لیں کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا عملی آغاز حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کی ہجرت مبارکہ کے سات ماہ بعد ہی ہو گیا…اسلام کا پہلا جہادی لشکر حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  کی کمان میں حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   نے روانہ فرمایا…اسی مناسبت سے اسے ’’سریہ حمزہ رضی اللہ عنہ ‘‘ کہا جاتا ہے…جبکہ سب سے پہلا غزوہ ہجرت کے بارہویں مہینے میں ہوا… اس غزوہ کا نام…’’غزوہ ابواء‘‘ ہے اور اسے ’’غزوہ ودّان‘‘ بھی کہتے ہیں…ابواء اور ودان دو قریب قریب علاقوں کے نام تھے…

یہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کا پہلا غزوہ ہے جبکہ آخری غزوہ تبوک ہے…غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں مسلمانوں کے لشکر کی کمان حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے خود فرمائی…حسن اتفاق دیکھیں… اور خوش بختی کا عروج کہ اسلام کے پہلے ’’سریہ‘‘ کی کمان حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  فرمارہے تھے… اوراسلام کے پہلے غزوہ میں لشکر کا جھنڈا حضرت سیّدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ میں تھا…اس زمانے کی جنگوں میں جھنڈے کی بڑی اہمیت تھی … جب تک لشکر کا جھنڈا بلند رہتا لشکر غالب رہتا … اسی لیے جھنڈا بہت ہی بہادر اور ثابت قدم شخص کے ہاتھ میں دیا جاتا تھا…اور اس کے آس پاس بھی ایسے مضبوط افراد موجود رہتے جو ’’علمبردار‘‘ کی شہادت کی صورت میں فوراً جھنڈا تھام لیتے… حضرت حمزہ  رضی اللہ عنہ  راہ جہاد کے ابتدائی مسافر تھے اور آپ کا یہ باسعادت سفر ہجرت کے تیسرے سال غزوہ اُحد میں…بصورت شہادت مکمل ہوا…

جی ہاں! مزہ تو تبھی ہے جب سفر جہاد کا اختتام مقبول شہادت پر ہو…اس لئے ہر مجاہد کو…دن رات مقبول شہادت کی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے…جو مسلمان دل کے یقین کے ساتھ شہادت مانگتا ہے… اسے شہادت کا مقام ضرور ملتا ہے خواہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرے…پس جب بھی کوئی مقبولیت کی گھڑی دیکھیں…فوراً دل کے شوق سے شہادت مانگ لیں…جب صدقہ دیں تو اس کے بعد شہادت مانگ لیں…جب کوئی ذکر یا وظیفہ کریں تو اس کے بعد اخلاص کے ساتھ شہادت مانگ لیں… یہ بار بار مانگنے کی چیز ہے…یہ مل جائے تو سارے مسئلے حل…اسلام کا پہلا غزوہ ’’صفر المظفر‘‘ کے مہینے میں برپا ہوا…حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے ساٹھ جانثاروں کے ساتھ قریش کے ایک قافلہ پر حملہ فرمانے تشریف لے گئے…یہ قافلہ پہلے ہی نکل گیا تھا تو لشکر کا رخ اپنے دوسرے ہدف بنو ضمرہ کی طرف ہوا… بنوضمرہ نے جنگ نہ کی بلکہ صلح اور معاہدہ پر آمادہ ہوئے…یہ جہادی سفر پندرہ دن کا تھا…پندرہ دن بعد یہ لشکر بخیر و خوبی مدینہ منورہ لوٹ آیا…اچھا! یہاں ایک بات بتائیں…آپ جب کسی ایسے اسلامی لشکر کا حال پڑھتے ہیں جس کی کمان خود حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   فرما رہے تھے… توآپ کے دل کا کیا حال ہوتا ہے؟سچی بات ہے کہ دل پر جو کیفیت گذرتی ہے وہ زبان اور قلم سے بیان نہیں ہو سکتی…  ؎

کسی کو کیا خبر دل پر ہمارے کیا گذرتی ہے

کتنے خوش نصیب تھے وہ مجاہدین جو حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کی قیادت میں …جہاد پر نکلتے تھے… اور خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے جنگی اور جہادی لباس میں کیسے لگتے ہوں گے؟…سر مبارک پر جنگی خود، جسم اطہر پر سجے ہوئے ہتھیار …ہاتھ مبارک میں چلتی تلوار…ہائے! وہ ’’تلوار ‘‘ بھی اپنی قسمت پر ناز کرتی ہو گی…میرے محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس گیارہ تلواریں تھیں…اور ہر تلوار دوسری سے بڑھ کر تیز اور قیمتی…ایک عام مجاہد کا قدم جب جہاد میں مٹی پر پڑتا ہے تو یہ مٹی…جنت کی زمین بن جاتی ہے…تو اس مٹی کا کیا مقام ہو گا جس پر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے جہادی قدم مبارک پڑتے ہوں گے…وہ مٹی تو اپنی افضلیت پر آسمانوں کو چیلنج کرتی ہو گی…اور جیت جاتی ہو گی… ہجرت کے ساتویں مہینے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے جہاد کا جو پرچم مسلمانوں کے حوالے فرمایا…وہ پرچم ان شاء اللہ قیامت تک لہراتا رہے گا…امت کے خوش نصیب افراد اس پرچم کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیں گے… اے وہ مسلمانو! جنہیں اس زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق نصیب  ہے… اپنی خوش نصیبی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو…جہاد کے منکر کبھی مسلمان نہیں ہو سکتے…بے شک ساری رات عبادت میں گذاریں…اور سارا دن دینی کتابوں کی ورق گردانی کریں…کل مینار پاکستان پر کسی نے جہاد و قتال کی بات کر دی تو …مسلمانوں میں گھسے ہوئے فرنگی انڈے چٹخنے لگے… ایک طرف یہ منظر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   خود تلوار اٹھائے جہاد پر تشریف لے جا رہے ہیں…اور دوسری طرف یہ منظر کہ خود کو مسلمان کہلوانے والے افراد کوجہاد کا نام سننا بھی گوارا نہیں…یہ مسلمان ہیں یا انگریزی فارمی انڈے؟…یہ اُمتِ محمدیہ کے افراد ہیں یا امریکی پالتو چوہے؟…

صفر کے مہینے میں ایک اور بڑا اسلامی غزوہ بھی ہوا…یہ ہے ’’غزوہ خیبر‘‘ اس میں روانگی تو محرم کے آخر میں ہوئی مگر جنگ اور فتح صفر الخیر کے مہینے میں ہوئی…غزوۂ خیبر یہودیوں کے خلاف تھا اور اس غزوہ نے مسلمانوں کو بہت مستحکم کر دیا…اُمید ہے کہ آپ نے غزوہ خیبر کے واقعات پڑھ رکھیں ہوں گے… نہیں پڑھے تو آج ہی سیرت کی کسی کتاب یا فتح الجواد میںپڑھ لیں…موبائل کی آفتوں میں سے ایک آفت یہ بھی ہے کہ مسلمان ’’کتابوں‘‘ سے کٹتے جا رہے ہیں…

اب ہر چیز کانوں سے سنی جاتی ہے…اور کانوں کے ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کا ہجوم ہے… کتاب کو پڑھنے سے علم ملتا ہے…آنکھیں تیز ہوتی ہیں…دماغ کو قوت ملتی ہے…اور انسان کے اندر مضبوطی آتی ہے…جبکہ کمپیوٹر اور موبائل کی شعاعوں سے آنکھیں اور دماغ کمزور ہوتے ہیں اور بدن بھی پگھلنے لگتا ہے…ابھی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹی وی،موبائل اور کمپیوٹر کی سکرین اگر پندرہ بیس منٹ تک مسلسل دیکھی آئے تو اس سے آدمی کی عمر میں ایک دن کی کمی ہو جاتی ہے…عمر کا مسئلہ تو خیر متعین ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے…کتابیں خریدا کریں،کتابیں پڑھا کریں اور اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے کا عادی بنائیں تاکہ …علم سے تعلق مضبوط ہو… مشرکین ، صفر کے مہینے کو ’’نحوست والا‘‘ کہتے تھے…اسلام نے پُر زور تردید کی اور بتایا کہ اس مہینہ میںکوئی نحوست نہیں…مگر دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو ’’شیطانی نظریات‘‘ کے لئے دلیل بن سکتے ہیں…یہ ایک مسلمان کے عقیدے اور توکل کا امتحان ہوتا ہے کہ …کون ثابت قدم رہتا ہے اور کون پھسل جاتا ہے…مثلاً آپ نے کوئی بہت اجر والا کام شروع کیا…اسی اثنا میںکوئی مصیبت آ گئی… اب شیطان کو دلیل مل گئی وہ فوراً آپ کے کان میں پھونکے گا کہ یہ مصیبت اس نیک عمل کی وجہ سے آئی ہے…یا یوں کہے گا کہ یہ عمل تو اچھا ہے مگر بہت بھاری ہے تمہارے بس کا نہیں…آئندہ بھی کرو گے تو ایسی ہی مصیبت آئے گی…چنانچہ بہت سے لوگ ایسے حالات میں عمل چھوڑ دیتے ہیں… حالانکہ اس مصیبت کا اس نیک عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا … بلکہ اگر یہ نیک عمل نہ ہوتا تو وہ مصیبت اپنے ساتھ مزید مصیبتوں کو بھی لے آتی…

حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانہ میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جنہیں شیطان اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ…’’صفر‘‘ کا مہینہ نعوذ باللہ نحوست والا مہینہ ہے…پہلا واقعہ ’’رجیع ‘‘ کا ہے اس میں کئی مسلمان دھوکے سے شہید کئے گئے اور حضرت خبیب بن عدی  رضی اللہ عنہ  گرفتار ہوئے اور انہیں سولی دے کر شہید کیا گیا…دوسرا واقعہ ’’بیئر معونہ‘‘ کا پیش آیا اس میں بڑے اونچے مقام والے ستر حفاظ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کو دھوکے سے شہید کیا گیا…اور تیسرا یہ کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کے وصال پر ملال کی بیماری صفر سے شروع ہوئی…حالانکہ ان تین واقعات کا نحوست کے ساتھ دور دور کا بھی تعلق نہیں…واقعۂ رجیع اور بئر معونہ کے شہداء کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا…اسے پڑھ کر دل دھڑکنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ کاش! ہمیں بھی اس مقام کا کچھ حصہ نصیب ہو …حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ ہمارے پاس آئیں یا دنیا میں رہیں …آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو اختیار فرمایا…پھر یہ بھی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کا وصال ’’ربیع الاول‘‘ میں ہوا تو کیا ’’ربیع الاول‘‘ کو بھی منحوس قرار دیں گے… حالانکہ یہ مبارک مہینہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی پیدائش کا مہینہ ہے…واقعہ رجیع اور بئر معونہ جیسے حادثات دوسرے مہینوں میں بھی پیش آئے…فتح اور شکست،بیماری اور موت یہ ہر انسان کے پیچھے لگے رہتے ہیں…اور کسی بھی وقت آ سکتے ہیں…ایک مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ہر وقت نحوست وغیرہ کی فکر اور چکر میں پڑا رہے…صفر کے مہینے میں اسلامی غزوات کا آغاز ہوا…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسی مہینہ سے اپنے جہاد مبارک کا آغاز فرمایا…وہ مسلمان جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کے امتی ہیں… اور قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت کے طلبگار ہیں…مگر وہ ابھی تک جہاد سے دور ہیں… ان سب سے درد مندانہ گذارش ہے کہ آپ بھی اسی ’’صفر‘‘ کے مہینے سے …اپنے جہادی سفر کا آغاز کر دیں…

کامیابی حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کی اتباع میں ہے …اور جہاد کے بغیر ’’کامل اتباع‘‘ نصیب نہیں ہو سکتا…فریضۂ جہاد کو دل سے قبول کیجئے،جہاد کی تربیت حاصل کیجئے…جہاد میں مال لگائیے،جہاد میںجان لگائیے…اور جہاد کی ہر طرح سے خدمت کیجئے…مگر وہی مبارک جہاد…جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے صفر ۲ھ؁ غزوہ ابواء کی طرف سفر فرمایا… پھر بدر و اُحد سے غزوہ خندق…سے گذرتے ہوئے فتح مکہ اور پھر حنین سے غزوۂ تبوک تک…یہی حقیقی جہادِ فی سبیل اللہ ہے اور یہی اسلام کا محکم فریضہ ہے…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر472

 

تکبر کی مذمت...اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند عمل...

کوئی مالدار، عہدیدار، منصبدار ، کسی سے بڑا نہیں...

تکبر کی تباہ کاری اور اس پر سخت وعید...تواضع کی بلندی اور فضیلت...

خواتین کے لئے کامیابی والے دو اہم کام...

نماز بر وقت اداکریں...

نماز کے آداب اور اہتمام کی ترغیب...

اپنا پردہ مضبوط کریں... لباس اور زینت کی حدود...

جہاد کی تربیت... ایک اہم اور مستقل واجب... اس میں تاخیر نہ کریں...

خرید و فروخت میں فضول گوئی اور جھوٹ سے پرہیز...

مساجد کے خادم بنیں ٹھیکیدار نہیں...

عبادت میں خلل اندازی کی بری عادت...

نامناسب طرزِعمل کی نشاندہی اور سدِباب...

انتہائی اہم دینی امور کی طرف رہنمائی کرتی ایک روشن تحریر...

 

مفید مشورے

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں فرماتے…جو تکبر کرتے ہیں،اکڑتے ہیں اور فخر کرتے ہیں… آج کی مجلس میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں چند مشورے عرض کرنے ہیں…

خود کو دوسروں سے بڑا نہ سمجھیں

اللہ تعالیٰ نے کسی کو مالدار بنایا…اور کسی کو غریب…مگر کوئی مالدار کسی غریب سے ’’بڑا‘‘ نہیں جو مالدار خود کو غریبوں سے بڑا اور افضل سمجھے گا…اور اس پر اکڑے گا وہ ہلاک وبرباد ہو جائے گا… اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں سے نفرت فرماتے ہیں…

اللہ تعالیٰ نے کسی کو اچھی شکل والا بنایا…اور کسی کو کم صورت…مگر کوئی خوبصورت انسان اپنی خوبصورتی کی وجہ سے…کسی کم صورت انسان سے ’’بڑا‘‘ اور افضل نہیں…جو ایسا سمجھے گا وہ مارا جائے گا…اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والوں… کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسا حقیر بنا دیں گے…

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی کو بڑا عہدہ اور منصب دیا…اور کسی کو عہدہ و منصب نہیں دیا … مگر کوئی عہدیدار اپنے عہدے کی وجہ سے کسی سے بڑا نہیں…

جو عہدیدار اپنے مامورین اور ماتحتو ں کو حقیر سمجھے گا…اورخود کو بڑا سمجھے گا وہ تباہ ہو جائے گا… اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ’’تکبر‘‘ ہو گا…بڑائی ہو گی…

پس کامیاب زندگی اور کامیاب آخرت پانے کے لئے ضروری ہے کہ…ہم جو بھی ہیں،جیسے بھی ہیں…خود کو ’’انسان‘‘ سمجھیں…مٹی سے بنا ہوا اللہ تعالیٰ کا بندہ…

جو مسلمان جس قدر تواضع اختیار کرے گا… وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی قدر اونچا ہو گا… تکبر، بڑائی، خود نمائی اور عجب یہ سب ’’بدبودار‘‘ صفات ہیں…

جماعت کے ذمہ دار جو مختلف عہدوں پر ہیں …ان کو خاص طور سے ’’تواضع‘‘ کی صفت اپنانی چاہیے…اپنے ماتحت مجاہدین اور ساتھیوں کو ہرگز حقیر یا چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے…ہاں! جماعتی معاملات میں مضبوطی سے ’’اطاعت‘‘ کروائیں …مگر ذاتی معاملات میں ان کو اپنے سے بہتر یا کم از کم برابر سمجھیں…

خواتین دو کام ضرور کر لیں

جو مسلمان خواتین کامیابی چاہتی ہیں… کامیاب زندگی اور کامیاب آخرت …وہ دو کام ضرور کر لیں…پہلا یہ کہ نماز ہمیشہ اول وقت ادا کریں…اپنے پاس اوقات نماز کا نقشہ رکھیں، جیسے ہی وقت داخل ہو فوراً ’’اللہ اکبر‘‘… آپ یقین کریں کہ اس عمل کی برکت سے آپ کی زندگی بدل جائے گی…اس عمل کے فوائد اور فضائل لکھوں تو آج کا پورا کالم اسی میں لگ جائے گا …خود سوچیں کہ جب نماز کا وقت داخل ہوتا ہے تو فرمایا جاتا ہے…اٹھ میری بندی! میرے لئے نماز قائم کر…اب جو پہلی آواز پر ہی دوڑ کر حاضر ہو جائے…اس کا مقام کتنا اونچا ہو گا؟…جو بیوی خاوند کی پہلی آواز پر دوڑتی چلی آئے وہ خاوند کا دل جیت لیتی ہے…نماز کی آواز نماز کا وقت داخل ہوتے ہی آنا شروع ہوتی ہے…اور نماز کا وقت ختم ہونے تک آتی رہتی ہے…جن کو اپنے محبوب رب تعالیٰ سے سچی محبت ہے وہ تو پہلی آواز پر ہی بے تاب ہو کر دوڑتے ہیں…اور پھر وہ اپنے رب کی خاص نعمتوں کو پا لیتے ہیں…

عزیز بہنو! آپ کے پاس بہت علم ہو مگر نماز میں سستی ہو تو یہ علم بھی وبال بن جائے گا…نماز میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہے…اس مدد کو آپ ساتھ لیں گی تو کس کی مجال ہے کہ آپ کی ناقدری کرے… آپ کو ستائے…

فجر کا وقت داخل ہوا’’اللہ اکبر‘‘ عصر کا وقت داخل ہوا ’’اللہ اکبر‘‘…یہ وہ دو نمازیں ہیں جو خواتین کا امتحان ہیںکہ …انہیں اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت ہے…

جب فجر میں سستی ہوتی ہے تو چہرے بے نور ہو جاتے ہیں…اور جب عصر میں سستی ہوتی ہے تو ہر مصیبت لپک کر آتی ہے…خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی نمازوں کا معاملہ ٹھیک کر لیں… آپ کا ہر مسئلہ ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا…

نماز کے لئے بہترین اور پاکیزہ کپڑوں کا جوڑا…نماز کے لئے اچھی سے اچھی خوشبو… نماز کے لئے بہترین مسواک…نماز کے لئے سفید عمدہ جائے نماز…نماز کے لئے توجہ سے کیا ہوا وضو… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کی بندی اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا عہد وفا کرنے کے لئے اول وقت حاضر…اور پھر اطمینان سے پوری نماز اور آخر میں دل کی توجہ سے دعاء…یاد رکھیں! اسی سے آپ کی دنیا اور آخرت کے مسائل حل ہوں گے…نماز کا اہتمام کیے بغیر تعویذوں، گنڈوں، دھاگوں، دوائیوں،چالاکیوں سے کوئی کام نہیں بنتا …بالکل نہیں بنتا بلکہ الٹا پریشانیاں بڑھتی ہیں…

دوسرا کام یہ کہ…اپنا پردہ مضبوط کر لیں… نہ کسی غیر محرم کو دیکھیں اور نہ خود کو کسی غیر محرم کے سامنے لائیں…برقع فیشن والا بالکل نہ پہنیں …ایسے برقع کا کیا فائدہ جو غلیظ اور ناپاک نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہو…ایمان والی عورت جب بازار سے برقع منگواتی ہے تو پہن کر اپنی بہنوں اور سہیلیوں سے پوچھتی ہے کہ…یہ مجھے کیسا لگ رہا ہے؟…اگر وہ کہیں کہ بہت اچھا بہت خوب صورت…تو فوراً وہ برقع واپس کر دیتی ہے کہ یہ تو خود کو چھپانے کے لئے پہنا جاتا ہے نہ کہ خود کو دکھانے کے لئے…تنگ اور چست کپڑے ہرگز نہ پہنیں اور پردے کو اپنے لئے رحمت سمجھیں…

جہاد کی تربیت میں تاخیر نہ کریں

ہر وہ مسلمان جو کلمہ طیبہ ’’لا الہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ‘‘ پڑھتا ہے اور اس کلمہ پر یقین رکھتا ہے… اس کے لئے لازمی نصیحت ہے کہ وہ جہاد کی عملی تربیت حاصل کر لے…اور ہر وہ مسلمان جس کی نرینہ اولاد یعنی بیٹے بالغ ہو چکے ہیں اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو جہاد کی تربیت فوراً دلوا دے … جو مسلمان ان دو معاملات میں سستی کرے گا… یعنی خود جہاد کی تربیت نہیں لے گا یا اپنی اولاد کو تربیت نہیں دلوائے گا…وہ اپنے ایمان اور اپنے دین کو خطرے میں ڈال دے گا…جہاد مسلمانوں کے لئے نماز اور روزے کی طرح فرض ہے…اور جہاد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا عمل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی تاکیدی وصیت ہے…قرآن و حدیث میں جہاد کی اتنی تاکید کے باوجود… ایک مسلمان کو جہاد کرنا ہی نہ آئے تووہ کیسا مسلمان ہے؟…اللہ کے لئے اپنا ایمان بچائیں اور سچے مسلمان بنیں…چند دن فضائل جہاد کا عمل کی نیت سے مطالعہ کریں ان شاء اللہ آنکھیں کھل جائیں گی…

خرید و فروخت میں کم گوئی

امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والے …اس امت کے تاجروں کا حشر ’’صدیقین‘‘ کے زمرے میں ہو گا…ایسی کامیاب تجارت کا ایک اہم راز یہ ہے کہ…آپ خرید و فروخت کے وقت بہت کم بولیں…زیادہ بولنے میںجھوٹ، مبالغہ ، دھوکہ اور نہ معلوم کیسے کیسے گناہ ہو جاتے ہیں…بڑا دکھ ہوتا ہے کہ دکاندار اپنے مال اور سامان کو بیچنے کے لئے قسمیں تک کھا جاتے ہیں…قسمیں کھانا نہ تو مال کو بڑھاتا ہے اور نہ رزق کو…آپ کوئی چیز بیچ رہے ہیں وہ گاہک کے سامنے کر دیں قیمت بتا دیں… اور پھر ذکر میں لگ جائیں اس نے خریدنی ہو گی تو ضرور لے جائے گا اگر اس کی قسمت میں نہیں تو آپ فضول گفتگو سے بچ جائیں گے…ملمع سازی اور لفاظی کی مارکیٹنگ جو آج ایک فن بن چکی ہے… وہ مسلمانوں کے لئے زہر قاتل ہے… ہاں! اگر اپنے سامان کا عیب بتا دیں تو آپ کی تجارت خوب نکھر جائے گی…زیادہ خوبیاں گنوانا ، گاہک کو پھنسانے کے لئے لچھے دار گفتگو کرنا … اور بولتے ہی چلے جانا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا …جو لوگ اسے اپنی عقلمندی سمجھتے ہیں وہ بیچارے عقلمند نہیں بیوقوف ہیں…کیونکہ جو کچھ ان کے نصیب کا ہے وہ انہیں یہ سارے گناہ کئے بغیر بھی ضرور مل جائے گا…ماضی کے ان کامیاب مسلمان تاجروں کے حالات پڑھیں جن کی تجارت ان کے لئے جنت کا ذریعہ بن گئی…

خدمت ٹھیک،ٹھیکیداری غلط

ایک منظر دیکھیں! ایک صاحب مسجد کے کونے میں بیٹھے کسی کو چیخ کر بتا رہے ہیں کہ… پنکھے کا بٹن بند کر دو…یار یہ بٹن نہیں اوپر سے تیسرا بٹن…ہاں پانچواں بھی آف کر دو…وہ اپنے گمان میں بڑی نیکی کر رہے ہیں کہ مسجد کی بجلی بچا رہے ہیں…مسجد کی خدمت کر رہے ہیں… حالانکہ وہ اپنے اس شور شرابے کی وجہ سے ایک ’’قبیح گناہ‘‘ میں مبتلا ہو رہے ہیں…پہلا گناہ یہ کہ مسجد میں شور شرابا…دوسرا گناہ یہ کہ نماز پڑھنے والوں کی نماز خراب کرنا…اور تیسرا گناہ یہ کہ اپنے گناہ کو نیکی سمجھنا…اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ’’مساجد‘‘ کے یہ خادم آج کل ہر مسجد میں زیادہ ہو گئے ہیں…مگر حقیقت میں یہ خادم نہیں ٹھیکیدار ہوتے ہیں… جب چاہتے ہیں مائک پکڑ کر طرح طرح کے اعلانات شروع کر دیتے ہیں… نہ کسی کی نماز کا خیال رکھتے ہیں اور نہ کسی کی تلاوت کا…مسجد کے بارے میں تو یہ حکم ہے کہ وہاں کسی کو آواز دے کر پکارنا بھی درست نہیں…مسجد میں ایسی بلند آواز سے ذکر کرنا کہ کسی کی نماز میں خلل ہو جائز نہیں … جب ذکر اللہ کا یہ حکم ہے تو عام باتوں کا کیا حکم ہو گا؟ …ایسے افراد کی چندے کی اپیل بھی بہت جارحانہ ہوتی ہے وہ نمازیوں کو بہت شرمندہ کرتے ہیں … گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کو رسوا کرتے ہیں… آپ مسجد ضرور جائیں، بار بار جائیں مگر جیسے ہی مسجد میں سیدھا قدم رکھیں… اب مکمل طور پر با ادب ہو جائیں…اپنے فون کے ساتھ اپنے گلے کو بھی سائلنٹ (خاموش) کر دیں… اپنے دل میں مسجد کی عظمت کو محسوس کریں…احتیاط سے چلیں …کسی کو ایذاء نہ پہنچائیں… باجماعت نماز میں کھجلی،خارش یا کسی اور کام کے لئے ہاتھ نہ ہلائیں …اس سے دوسروں کی نماز خراب ہوتی ہیں… خود صف میں سیدھے کھڑے ہو جائیں دوسروں کو سیدھا کرنے کی فکر میں شور نہ کریں…یہ آپ کا کام نہیں امام صاحب کا کام ہے…اقامت شروع ہوتے ہی ایسے ہو جائیں جیسے جسم میں حرکت اور جان نہیں مکمل طور پر قبلہ رخ اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ…کئی لوگ اقامت شروع ہونے کے بعد آڑھے ترچھے کھڑے ہو کر کسی کو آگے بلاتے ہیں، کسی کو پیچھے دھکیلتے ہیں… غفلت کی انتہا دیکھیں کہ …اقامت کی آواز سن کر وہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے… سلام کے بعد اپنا رخ قبلہ کی طرف رکھ کر دعائیں پڑھیں…کئی لوگ اس وقت گردن دائیں،بائیں گھما کر دعائیں پڑھتے ہیں تو ان کی دعائیں…دائیں ،بائیں والے نمازیوں کے کان میں سپیکر بن جاتی ہیں… مقصد یہ کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی…بس ایک اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں… کسی دوسرے نمازی کو ایذاء یا خلل نہ پہنچائیں…اور مسجد کی خدمت کرنی ہو تو… ادب،تواضع اور خاموشی سے خدمت کریں …ٹھیکیداری نہ کریں… مسجد بہت اونچی جگہ ہے… یہ دنیا میں جنت کے باغات ہیں …اس لئے مکمل احتیاط سے کام لیں…

یہ ہیں…اپنے لئے اور آپ سب کے لئے چند مفید مشورے…دو مزید باتیں بھی تھیں مگر جگہ مکمل ہو گئی…اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے ان مشوروں پر عمل کریں اور دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچائیں…خاص طور پر جہاد فی سبیل اللہ کی تربیت کا ’’حکم الہٰی‘‘ ہر مسلمان تک پہنچا دیں تاکہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں تھا…

لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر473

 

ایک گمنام ’’مجاہد‘‘ کا چشم کشا بصیرت افروز خط...شوق شہادت...

شہادت کے متوالوں کی شان... ساری دُنیا سے نرالے لوگ...

اللہ تعالیٰ کے اولیاء شہداء کرام کے مختلف احوال اور ان کی حکمتیں...

مقبول شہداء کی خاص کرامت... ایک اہم نکتہ...

شیخ عبداللہ عزام شہید کے احوال...ان کے کام کا دُنیا بھر میں احیاء...

ایک کھلی کرامت...

سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قافلے کی محنت آج تک جاری...

گمنام شہید کی ایک خاص رات اور اس رات کا ایمانی سبق...

جماعت کی برکات... جماعت کے کام میں غفلت پر تنبیہ...

ایک انتہائی اہم سبق...

ایک شہید کے خط پر مشتمل ایمان افروز تحریر جو غفلت کے

پردوں کو چاک کر کے ایمان کے راستے کو واضح کرتی ہے...

میر مجلس گمنام

اللہ تعالیٰ اپنے اُس ’’مجاہد‘‘ اور ’’شہید‘‘ بندے کی مغفرت فرمائے… جو آج ہماری اس مجلس رنگ ونور کا ’’مہمان خصوصی‘‘ ہے… اُس نے اپنے وصیت نامہ میں لکھا ہے کہ اس کی شہادت کے بعد نہ ہی اُس کی یاد میں کوئی جلسہ کیا جائے… نہ مضمون لکھا جائے اور نہ ہی کوئی اور تشہیر کی جائے…لاڈلے شہید کا ہر حکم سر آنکھوں پر…ان شاء اللہ نہ جلسہ ہوگا اور نہ مضمون…نہ شہرت ہوگی نہ تشہیر…آج بھی آپ رنگ ونور میں ایک روشنی کے ہالے کی طرح لطیف پردوں کے پیچھے بیٹھ کر ہی مجلس کی صدارت کریں گے…آپ کا نام نہیں لکھوں گا…وہ تو خود مجھے بھی پوری طرح یاد نہیں… کیونکہ آپ کا خط پڑھنے کے بعد آنکھوں پر اتنا پانی تھا کہ نام ٹھیک طرح سے پڑھا ہی نہیں گیا…ہاں! نام نہیں لکھا جائے گا مگر آپ کی روشنی اور آپ کی خوشبو کو چھپانا، نہ ہی میرے بس میں ہے اور نہ کسی اور کے…

اِس لاڈلے شہید نے دو خط لکھے ہیں…ایک مختصر اور دوسرا مفصّل…مختصر خط میں بس ایک درخواست تھی… دعا کریں کہ شہادت کے وقت میرے جسم کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے ہوں…میرا اللہ مجھ سے راضی ہوجائے…اور بس…

کتنی عجیب خواہش ہے… آج جو بھی صبح اٹھتا ہے وہ رات کو سونے تک جسم بنانے، جسم سنوارنے، جسم مہکانے اور جسم بھرنے کی ہزاروں فکروں میں لگا رہتا ہے… طرح طرح کی خوراکیں،طرح طرح کے ڈاکٹر، طرح طرح کی دوائیاں، طرح طرح کے لباس، طرح طرح کے میک اپ… اور معلوم نہیں کیا کچھ…

جسم کی حرص… جس قدر بڑھائی جائے… بڑھتی ہی چلی جاتی ہے…جسم کی خواہشات جس قدر پوری کی جائیں ان میںاضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے…جبکہ ایک دیوانہ اس تمنا میں ہے کہ اس کے جسم کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے اللہ تعالیٰ کی راہ میں نچھاور ہوں…

سلام ہو تم پر اے گمنام مسافر…اے عقلمند مسلمان!!

اللہ تعالیٰ کے اولیاء الگ الگ شان والے ہوتے ہیں… بعض یہ وصیت کرجاتے ہیں کہ اُن کی شہادت کے بعد اُن کے شہر میں…جہاد کا عظیم الشان جلسہ ہو…مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُن کے علاقے اور شہر میں جہاد کا پیغام عام ہو… زیادہ سے زیادہ مجاہدین وہاں سے نکلیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کو اَفرادی قوت ملے…یہ اپنے شہر اور علاقے کے ساتھ خیر خواہی کا ایک انداز ہوتا ہے… نہ شہرت پسندی نہ ریاکاری…جبکہ بعض شہداء ’’فنا فی اللہ‘‘ ہوتے ہیں…یہ بھی ولایت کا ایک مقام ہے…یہ حضرات حتیٰ الوسع کوشش کرتے ہیں کہ گمنام رہیں…یہ دل کے بادشاہ ہوتے ہیں…سرجھکاکر اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے ہیں… لوگوں میں بیٹھے ہوں تو بھی دل کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ٹوٹنے دیتے…جلوت میں خلوت کے مزے لوٹتے ہیں…لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ سوچ رہے ہیں… حالانکہ وہ اپنے رب سے مناجات میں مشغول ہوتے ہیں… اُن کا دل ان کی زبان بن جاتا ہے… اور جب ان کو حقیقی خلوت اور تنہائی ملے تب اُن کی آنکھیں، ان کی زبان اور ان کے آنسو اُن کے اَلفاظ بن جاتے ہیں…

یہاں پر ایک بڑا اہم نکتہ یاد آگیا…مقبول شہداء کرام کی شہادت ضائع نہیں جاتی…یہ اوپر کا فیصلہ ہے… جسے کوئی بدل نہیں سکتا…کسی شہید کا جلسہ ہو یا نہ ہو…کسی شہید کا تذکرہ ہو یا نہ ہو… کسی شہید پر کوئی مضمون یاکتاب لکھی گئی ہو یا نہ… کسی شہید کو لوگ جانتے ہوں یا نہ …شہداء ہر حال میں زندہ ہیں… ہر حال میں زندہ رہتے ہیں… اُن کا کام زندہ رہتا ہے…اُن کے آثار طیبہ زندہ رہتے ہیں… اُن کا اجر زندہ رہتا ہے… اُن کی فکر زندہ رہتی ہے… وہ چونکہ دینِ اسلام کے لیے مر مٹتے ہیں… تو اس لیے ان کی زندگی اسلام کی آغوش میں آنکھ کھول لیتی ہے… ہر اذان کا اجر انہیں ملتا ہے، ہر نماز،ہر حج اور ہر اسلامی حکم میں ان کے لیے اجر کا حصہ مقرر ہوجاتا ہے…اور پھر ان کی زندگی کو ثابت کرنے کے لیے… قدرت ایسی ایسی کرامات سامنے لاتی ہے کہ انسانوں کی عقل حیران رہ جاتی ہے… ابھی حال ہی کا واقعہ دیکھیں کہ شہید عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ  جو افغان جہاد کے پہلے مرحلے کے دوران پشاور میں شہید ہوئے۔

اُن کی شہادت کے وقت بھی کئی کرامات ظاہر ہوئیں… مثلاً خون سے مہکتی خوشبو کااُٹھنا، گاڑی کے تین ٹکڑے ہونے کے باوجود جسم کا سلامت رہنا وغیرہ … مگر پھر یہ ہوا ہے کہ ان کی جماعت اور ان کا کام مکمل طور پر بکھرگیا… وہ ادارہ جو اِن کی کتابیں اور کیسٹیں بناتا اور تقسیم کرتا تھا ختم ہو گیا…اُن کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھی… عرب مجاہدین کی جو جماعت طاقت وربن کر اُبھری وہ شیخ سے ذہنی طور پر دور تھی… پھر پاکستان میں آپریشن شروع ہوا اور شیخ ؒ کے بنائے ہوئے تمام ادارے ختم ہوگئے… کسی دورمیں حالت یہاں تک پہنچی کہ وہ شخص جس کی کتابیں اور بیانات کسی دور میں مشرق تامغرب پھیل چکے تھے… اب اس کی ایک کتاب بھی کہیں سے ملنا محال تھی…بس یوں سمجھیں کہ ظاہری طور پر … قصہ ختم، کام ختم… مگر قرآن مجید کا محکم فیصلہ ہے… ’’بل احیاء‘‘ کہ شہداء کی زندگی یقینی ہے… آج پھر آپ کو عراق وشام کے جہاد میں شہید عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ  کے قلم کا جہادی گھوڑا… پوری شان سے دوڑتا ہوا نظر آرہا ہے… اور اسکی ٹاپوں سے اڑنے والی چنگاریاں آنکھوں کو خیرہ کررہی ہیں…

حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ  کا مختصر ساجہادی قافلہ …جن جن راہوں سے گذرا…وہاں دو صدیاں بیت جانے کے باوجود …ان کے مبارک آثار صاف محسوس ہوتے ہیں … اور شہدائِ بالاکوٹ جس کام کے لئے اٹھے اور مٹے… وہ آج الحمدللہ پورے عالم اسلام میں جاری و ساری ہے… بات کچھ دور نکل رہی ہے واپس اپنے ’’صدرِ مجلس‘‘ کی خدمت میں آتے ہیں… یہ ہمارے ایک گمنام بھائی اور شہید… انہوں نے ایک مفصل خط بھی لکھا ہے… اس خط کے کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے زیادہ روشن ہے… ایک طرف وہ اپنی عفت مآب نشانِ غیرت بہن… عافیہ صدیقی کا تذکرہ کرتے ہیں… ایک دردناک تذکرہ مگر امید کی خوشبو سے مہکتا تذکرہ…وہ کہتے ہیں کہ بہن جی کو جہاد کے عمل کی برکت سے ان شاء اللہ آزادی ملے گی… اور میری شہادت کے بعد ان شاء اللہ آپ لوگ بہن جی… کی آزادی کی خبربھی کسی دن سن لیں گے…

’’اے باوفا شہید! اللہ تعالیٰ تمہارے الفاظ کو مبارک فرمائے۔‘‘

اس مفصل خط میں ’’گمنام مؤمن‘‘ نے ایک رات کا تذکرہ بھی کیا ہے…اللہ تعالیٰ مجھے اور القلم کے تمام قارئین کو بھی … آنکھیںکھولنے والی ایسی ’’رات‘‘ نصیب فرمائے… آہ! مسلمانوں کی راتیں کتنی تاریک، کتنی بدبودار اور کتنی غفلت زدہ گزرتی ہیں… یا اللہ! رحم، یااللہ! معافی…

وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک رات تھی …غالبا ًپچیسویں شب… وہ گمنام بندہ، جامع مسجد عثمان و علی رضی اللہ عنہمابہاولپور میں معتکف تھا کہ… اس رات اُس کو خصوصی توجہ عنایت فرمادی گئی…ہاں! اللہ تعالیٰ کی محبت اسی طرح کسی دل پر چپکے سے دستک دیتی ہے… اور پھر سودا ہوجاتا ہے، وہی سودا جس کا قرآن مجید میں والہانہ تذکرہ ہے… اللہ تعالیٰ خریدار بن کرآگیا… دل پر دستک دی… ارے! جان دے دو، ہماری رضا لے لو… ہماری جنت لے لو…ہمارا پیار لے لو… ہماری محبت لے لو…ارے! جان دے کر زندگی لے لو… ہمیشہ کی زندگی… اور پھر اس سودے اور اپنی قسمت پر ناز کرو، خوشیاں منائو…

فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہ

وہ گمنام مومن ہوشیار ہوگیا… اس نے دل پر آنے والی دستک محسوس کرلی… اسے یاد آیا کہ میرے ماضی کی زندگی…کس قدر غفلت میں گذری تھی…پھر کچھ لوگ میری زندگی میں آئے… یہ دیوانوں کی جماعت ’’جیش‘‘ کے لوگ کے تھے… وہ مجھے اس مرکز میں لے آئے… جس مرکز کے ہر چپے پر کسی شہید کے والہانہ ذکر اللہ کی گواہی لکھی ہے… اور پھر میرارخ ’’اللہ تعالی‘‘ کی طرف ہو گیا… ایک جماعت جس نے چند دن میں مجھے ایسی جگہ لا کھڑا کیا کہ آج مجھ جیسے گناہگار کے دل پر محبت کی دستک آرہی ہے…

ہائے کاش! جماعت کے ذمہ دار… جماعت کے ساتھی اور پاکستان کے مسلمان اس جماعت کی قدر کریں…وہ درد کے ساتھ لکھتا ہے:

ْْ’’مجھے اس رات دعا مانگتے مانگتے اور شکر کرتے کرتے یہ بات محسوس ہوئی کہ اس جماعت کی قدر نہ خود جماعت والے ٹھیک طرح سے کررہے ہیں اور نہ پاکستان کے مسلمان مگر میرا عزم ہے کہ اسی جماعت کے پرچم تلے…اپنے جسم کے ٹکڑے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردوں تاکہ عافیہ بہن رہا ہوجائے اور میری جماعت کی حفاظت ہوجائے‘‘…

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمْ…سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمْ

میں خط کے یہ الفاظ پڑھ رہا تھا تو سر شرم سے جھک گیا… مجھے بھی جماعت کے دینی، روحانی اِحسانات یاد آنے لگے اور ساتھ یہ بھی کہ میں بھی تو کبھی کبھار جماعت کے کاموں میں سستی یا تاخیر کرجاتا ہوں… تب اسی وقت تمام رکے ہوئے کام یاد کئے اور ایک ایک کو نمٹانا شروع کیا اور بار بار اُس گمنام شہید کا شکر یہ بھی ادا کرتا رہا کہ:

اے سچے عاشق…غفلت کے پردے چاک کرنے کا شکریہ!

یااللہ! ہماری آج کی اس مجلس کا پورا ثواب اس گمنام شہید اور اس کے تینوں رُفقاء کو عطا فرما دیجئے… اور ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمادیجئے، جنہوں نے اس جماعت سے اپنا دین بنایا اور آپ کی محبت اور مقبول شہادت کو پایا…آمین یاارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ و صحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

 

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر474

 

صرف اللہ سے مانگنے والے خاص بندے...’’دُعا‘‘...

اہم ترین عبادت... انبیاء کرام، اولیاء اور مجاہدین کا خاص عمل...

قرآن مجید کی دُعائیں اور ان کی برکات...دُعاء کے حقوق و لوازمات... اہم سبق...

ہماری زندگی میں موجود تین اہم طبقات اور ان کے حقوق...

ناشکری کا جرم... احسان فراموشی کی بری خصلت...

 اور اس کی مذمت... احسان کرنے والوں کی حق شناسی...

اہل احسان کے لئے دُعاء کی ترغیب...ہم پر ظلم کرنے والے ہمارے محسن ہیں...

ان کی وجہ سے ملنے والی نعمتوں اور خیروں کا تذکرہ...

ان کے لئے دُعاء کی ضرورت اور فوائد... اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم...

ہم پر حقوق والے... جن کے حقوق ادا نہ ہو سکے...

ہم نے جن پر زیادتی کی اور ظلم کیا...

ان کے لئے دُعاء کی اہمیت... فکر آخرت کی علامت...

اہم عبادت ’’دُعاء‘‘ کے متعلق اہم اسباق پر مشتمل سبق آموز تحریر...

 

ایک سبق

اللہ تعالیٰ ہمیں اُن خوش نصیبوں میں سے بنائے جو صرف ’’اللہ تعالیٰ‘‘ سے مانگتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں مانگتے…

اَللّٰہُمَّ اَغْنِنَا بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ

یا اللہ! اپنا فضل فرما کر ہمیں اپنے سوا ہر کسی سے غنی فرما دیجئے…

قرآنی نقشہ

’’دعاء‘‘ کتنی بڑی چیز ہے…اور کتنی ضروری چیز ہے اسے سمجھنا ہو تو قرآن مجید میں جھانک کر دیکھیں…بڑے بڑے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام  اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگ رہے ہیں…بڑے بڑے مجاہدین دعاء مانگ رہے ہیں…بڑے بڑے بادشاہ دعاء مانگ رہے ہیں…فاتحین بھی دعاء مانگ رہے ہیں…اور مظلوم بھی دعاء مانگ رہے ہیں…اور جو بھی اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگ رہا ہے وہ کامیاب ہو رہا ہے…

قرآن مجید کی دعائیں پڑھتے جائیں…ان دعاؤں کے آس پاس والا قصہ پڑھتے جائیں… آپ کے دل میں دعاء کی اہمیت اچھی طرح بیٹھ جائے گی…افسوس! کہ آج مسلمانوں نے دعاء بہت کم کر دی ہے…اکثر مانگتے ہی نہیں…اور جو مانگتے ہیں وہ توجہ اور یقین سے نہیں مانگتے…

آج کا سبق

آج کئی باتیں عرض کرنی تھیں مگر ایک ضروری بات جس کا تعلق دعاء کے ساتھ ہے وہ ہر بار رہ جاتی ہے…آج کوشش کرتے ہیں کہ اس کا کچھ تذکرہ ہو جائے…دعاء کے بارے میں ہم پر کچھ حقوق ہیں…کچھ لوازمات ہیں اور کچھ قرضے…بس یہی ایک نکتہ آج کا سبق ہے…

تین طبقے

ہم میں سے ہر مسلمان کی زندگی میں تین طبقے ضرور موجود ہوتے ہیں:

١                    ہم پر احسان کرنے والے…ہمارے ساتھ بھلائی کرنے والے مسلمان…

٢                    ہم پر ظلم کرنے والے…ہمیں ستانے والے مسلمان…

٣                    وہ مسلمان جن پر ہم کوئی ظلم کر بیٹھتے ہیں…کوئی زیادتی،غیبت،حق تلفی وغیرہ…

آپ کو اپنی زندگی میں یہ تین طبقے ضرور نظر آئیں گے…اور مرتے دم تک یہ تینوں ہمارے ساتھ رہتے ہیں…ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزانہ کی دعاء میں ان تین طبقوں کو ان کا پورا حق دیں…جو مسلمان یہ حق ادا کرتا ہے وہ بڑی بڑی نعمتیں پا لیتا ہے…

پہلا طبقہ

ناشکری بہت خطرناک گناہ اور جرم ہے … ناشکری انسان کو کفر تک لے جاتی ہے…اسی لئے عربی زبان میں ناشکری کو ’’کفران‘‘ کہتے ہیں … اور یہ مقولہ مشہور ہے کہ کفران بڑھ جائے تو انسان کو کفر میں گرا دیتا ہے…اور فرمایا کہ جس نے لوگوں کی ناشکری کی…یعنی ان کے احسان کو نہیں مانا، ان کے احسان کو محسوس نہیں کیا وہ انسان…اللہ تعالیٰ کا بھی ’’ناشکرا‘‘ ہوتا ہے…حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مایہ ناز اصلاحی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں ہر مسلمان کو یہ نکتہ سمجھانے کے لئے بہت زور لگایا ہے… اللہ تعالیٰ توفیق دے تو وہاں ضرور پڑھ لیجئے گا…اللہ تعالیٰ ہماری زندگی میں ایسے افراد کو لاتا ہے جو ہم پر ’’احسان‘‘ کرتے ہیں… اوران کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں بڑی انمول نعمتیں عطاء فرماتا ہے مگر شیطان کی پوری کوشش رہتی ہے کہ …ہم ایسے افراد اور ان کے احسانات کی ناقدری کریں، ناشکری کریں… ایسے افراد کے لئے روزانہ دعاء کو اپنا معمول بنانا چاہیے…دعاء بھی شکر گزاری اور احسان کا بدلہ دینے کا ایک بہترین ذریعہ ہے… کسی نے ہم پر دینی احسان کیا،کسی نے ہم پر روحانی احسان کیا…کسی نے ہم پر دنیاوی احسان کیا… کسی نے ہم پر علمی احسان کیا…یا اللہ! جس مسلمان نے بھی ہمارے ساتھ کوئی احسان کیا،ہمیں کوئی بھی خیر یا بھلائی پہنچائی اسے اس کا بہترین بدلہ… جزائے خیر دنیا وآخرت میںعطافرما دیجئے …ایسے تمام افراد کی مغفرت فرما دیجئے!انہیں وافر رزق حلال عطاء فرما دیجئے …اور انہیں جہنم کی آگ اور دھوئیں تک سے بچا لیجئے … یا اللہ! آپ کے علم میں جو افراد ہمارے لئے خیر والے ہیںہمیں ان کی قدر دانی نصیب فرما دیجئے …

یہی دعاء کر لیجئے یا اس سے ملتے جلتے اپنے حسب حال الفاظ استعمال کیجئے…یقین کریں اگر آپ نے اس دعاء کو اپنا معمول بنا لیا تو …ان شاء اللہ آپ کے بہت سے قرضے اُتر جائیں گے… بہت سے حقوق ادا ہو جائیں گے…اور آپ بہت سی محرومیوں سے بچ جائیں گے…آپ کے ’’اہل احسان‘‘ وفات پا چکے ہیں یا زندہ ہوں…دونوں کے لئے دعاء کو اپنا معمول بنا لیں…

دوسراطبقہ

وہ مسلمان جو ہمیں ستاتے ہیں،تنگ کرتے ہیں…ہم پر ظلم یا زیادتی کرتے ہیں…ہماری غیبت کرتے ہیں…ہماری حق تلفی کرتے ہیں… ہمیں ایذاء پہنچاتے ہیں…یہ حضرات بھی دراصل ہمارے ’’محسن‘‘ ہیں…یہ اگر ہماری زندگی میں نہ آئیں تو ہم کبھی ترقی نہ کر سکیں …یہ افراد نہ ہوں تو ہم ہمیشہ کمزور رہ جائیں…یہ افراد نہ ہوں تو ہماری زندگی بہت سی اچھی تبدیلیوں سے محروم رہ جائے… یہ ہمارے محسن ہیں…جس طرح پہلے طبقے والے ہمارے محسن ہیں…فرق اتنا ہے کہ… پہلے طبقے والے ہمارے ساتھ بھی بھلا کرتے ہیں اور اپنے ساتھ بھی بھلا کرتے ہیں…جبکہ دوسرے طبقے والے وہ لوگ ہیں جو اپنا نقصان کر کے ہمارا بھلا کرتے ہیں…مثلاً اگر وہ ہماری غیبت کرتے ہیں تو اس میں ان کا شدید نقصان ہے مگر ہمارا بھلا ہے کہ…ہمارے گناہ اب ان کے سر چلے جائیں گے… وہ ہمیں ستاتے ہیں تو اپنا نقصان کرتے ہیںکیونکہ مسلمانوں کو ستانا جرم ہے…مگر ان کے ستانے کی وجہ سے ہمارے اندر مضبوطی اور اچھی تبدیلی آتی ہے…اورہماری اصلاح ہوتی ہے… اس لئے جو مسلمان جس قدر زیادہ کام والا ہوتا ہے اس کو ستانے والے بھی اس قدر زیادہ ہوتے ہیں… لوگوں کے ستانے اور ایذاء پہنچانے سے ہمیں کون کون سی نعمتیں ملتی ہیں…یہ قرآن مجید نے کئی جگہ بہت لطیف انداز میں سمجھایا ہے…آپ خود اپنی زندگی میں غور کریں…ماضی کے واقعات یاد کریں… اگر بہت سے ستانے والے اور ایذاء پہنچانے والے افراد آپ کی زندگی میں نہ آتے تو آپ کتنی نعمتوں سے محروم ہو جاتے…خیر یہ ایک بڑا وسیع موضوع ہے…آج یہ عرض کرنا ہے کہ اس طبقے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر ہم روز اسے معاف کریں …اور روز ان کے لئے دعاء کریں تو دو نعمتیں ملنے کا قوی امکان ہے…پہلی نعمت یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل جائے گی جس کے ہم بے حد محتاج ہیں…اور دوسری نعمت یہ کہ رزق میں ایسی برکت ہو گی کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی…

یا اللہ! ہر وہ مسلمان جس نے ہماری غیبت کی، حق تلفی کی…ہم پر کوئی ظلم کیا،زیادتی کی…ہمیں ایذاء پہنچائی …یا اللہ! ہم نے اسے آپ کی رضا کے لئے معاف کر دیا…آپ اسے معاف فرما دیجئے اور اپنی مغفرت اور رحمت اسے عطاء فرما دیجئے ‘‘…

یہ دعاء اگر دل کی موافقت کے ساتھ نصیب ہو جائے …اور ہمارا عمل بھی اس کے مطابق ہوجائے تو… پھر ان شاء اللہ توفیق، مغفرت اور رزق کے دروازے ہم پر کھل جاتے ہیں…

یہ وہ طبقہ ہے کہ اگر ہم اسے معاف نہ کریں تو یہ بھی جائز ہے… اگرہم اُس سے برابر کا بدلہ لیں تو یہ بھی جائز ہے…اور اگر ہم ان کے لئے کچھ شرائط کے ساتھ بددعاء کریں تو وہ بھی جائز ہے…

مگر جو مسلمان …اپنے آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے حکم پر سر جھکا کر اپنے یہ تمام جائز حقوق چھوڑ دے…ظلم کرنے والوں کو معاف کرے اور برائی کرنے والوں کے ساتھ اچھائی کرے…

وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ اَسَائَ اِلَیْکَ

تو ایسا مسلمان …اپنے عظیم آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے مبارک اخلاق کی پیروی کرتا ہے…آپ ایسے مسلمان کے اونچے مقام کا خود اندازہ لگا لیجئے…

تیسرا طبقہ

دعاء کے باب میں یہ طبقہ سب سے زیادہ ’’اہم‘‘ اور ’’ضروری‘‘ ہے…یہ وہ مسلمان ہیں جو ہمارے ’’ اہل حقوق‘‘ اور ’’اہل مظالم ‘‘ ہیں…ہم پر ان کے حقوق لازم تھے جو ہم نے ادا نہیں کئے … اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کی ہم نے غیبت کر ڈالی…گویا ان کا گوشت کھا گئے…

بعض ایسے ہیں جن پر ہم نے کوئی ظلم کر ڈالا …اور قیامت کے دن اپنی گردن ان کے ہاتھ میں دے دی…بعض ایسے ہیں کہ ہم نے انہیں کوئی ایذاء یا تکلیف پہنچا کر …مسلمان کی جگہ ’’موذی‘‘ ہونے کا کردار ادا کیا…یہ لوگ اگرہمیں معاف کئے بغیر دنیا سے جا چکے ہیں تومعاملہ زیادہ خوفناک ہے… اور اگر زندہ ہیں تو پھر کچھ کم خوفناک ہے …ہم پر لازم ہے کہ ہم دعاء اور نفل عبادات کے ایصال ثواب کے ذریعے اس معاملہ میں اپنی جان کا بھلا کریں…

’’یا اللہ! وہ تمام مسلمان جن کی ہم نے غیبت کی، حق تلفی کی، ایذاء رسانی کی…انہیںکوئی تکلیف پہنچائی… یا اللہ! ہمیں اور انہیں اپنی معافی عطا فرما دیجئے…یا اللہ! انہیں اس کے بدلے بہترین نعمتیں،اپنی رحمتیں اور برکتیں عطا فرما دیجئے…یا اللہ!انہیں توفیق دیجئے کہ وہ ہمیں معاف کر دیں… یا اللہ! آئندہ اس طرح کے گناہوں سے ہماری حفاظت فرما دیجئے‘‘…یہ الفاظ یا اپنے حسب حال جو بھی الفاظ ہوں ان میں دل کی توجہ سے…اور اپنی اہم ضرورت سمجھ کر اس دعاء کو اپنا معمول بنائیں…

ہم نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے جو …فکرِ آخرت رکھتے تھے، وہ ہمیشہ اپنے اس تیسرے طبقے کے معاملہ میں بہت فکر مند رہتے اور سخت محنت کرتے …میں نے خود ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ روزانہ سات پارے تلاوت کر کے اپنے ’’اہل حقوق‘‘ اور ’’اہل مظالم‘‘ کو ایصال ثواب کرتے تھے …یعنی وہ افراد جن کی انہوں نے کبھی حق تلفی کی اور جن پر ان سے کوئی ظلم ہوا…اس طبقے کے لئے دعاء کے فوائد بے شمار ہیں…انسان کو اپنے گناہوں کا احساس رہتا ہے…اپنے بشر اور کمزور ہونے کا احساس رہتا ہے…اور دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی اہمیت بھی دل میں رہتی ہے …اور بہت سا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے…

اے مسلمانو! دعا کو اپنا لو…آپس میں رحم کرنے والے بنو…اللہ کے دشمنوں کے لئے سخت بنو… مسلمانوں کے حقوق ادا کرو…اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جہاد کرو…دیکھو! کامیاب ترین طبقے کی یہی صفات قرآن مجید نے بیان فرمائی ہیں…

اَشِدَّائُ عَلیٰ الْکُفَّارِ،رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر475

 

زندگی موت کا مالک ... اللہ صرف اللہ تعالیٰ...

زندگی کا پوشیدہ نظام...موت اور زندگی کا ضروری توازن ...

موت نہ ہوتی تو زندگی تباہ ہو جاتی... ایک چشم کشا حقیقت...

اچھی موت کی دُعاء...اتفاقی نظام...

اتفاقی واقعات کلیات نہیں ہوتے... ایک اہم علمی نکتہ...

غیب کے خزانے سمیٹنے کا نسخہ...دسمبر کے کچھ دردناک واقعات...

پاکستان کے حالات کا قصور وار کون؟... ایک حقیقی تحریر...

ایک خوفناک حقیقت کا اظہار... قرآن و حدیث کی روشنی سے اخذ کردہ سچائی...

آزاد گروپوں اور حکومت کی حدود میں فرق...

غصے سے بپھرے امریکہ کا انجام... حکمرانوں کے لئے ایک سبق آموز مثال...

ڈر اور خوف سے بچیں...پاکستان کے نائن الیون کے بعد دھمکیاں اور ان کے اثرات...

جوابی طرزِ عمل کیا ہو؟

مشکل حالات سے نمٹنے کا درست نہج اور شرعی اصول سمجھاتی ایک رہنما تحریر...

 

اصلی خطرہ

اللہ تعالیٰ ہی زندگی اور موت کا مالک ہے…

ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ

زندگی کا پوشیدہ نظام

زندگی ہر وقت جاری رہتی ہے…مگر آپ نے کبھی یہ جملہ نہیں سنا ہو گا کہ…فلاں جگہ زندگی رقص کر رہی ہے…حالانکہ روزانہ ہزاروں، لاکھوں افراد پیدا ہوتے ہیں…کتنی نئی روحیں روزانہ زمین پر اُترتی ہیں…ہمیشہ نئے پیدا ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے …اسی لئے زمین کی آبادی ہر دن بڑھ رہی ہے …مگر زندگی کا نظام خاموش ہے…جبکہ موت کا نظام کافی ہنگامہ خیز ہے…جہاں چند افراد زیادہ مرے…وہاں شور پڑ جاتا ہے کہ موت رقص کر رہی ہے…

دراصل موت انسانوں کو اچھی نہیں لگتی… اس لئے اس کا اثر،صدمہ اور شور زیادہ ہوتا ہے… لیکن اگر صرف ایک دن کے لئے موت کا نظام بند کر دیا جائے تو سمندر زمین پر اُبل پڑے…اور زمین پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے…ظاہری اسباب کے درجہ میں ’’موت‘‘ ہی نے ’’زندگی‘‘ کو تھام رکھا ہے…اصل تھامنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے …لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین پر ایک نظام اتار دیا ہے…اس نظام میں اگر موت نہ ہو، تو زندگی… زندہ نہ رہ سکے…موت نے بہرحال آنا ہے… بس دعاء کرنی چاہیے کہ اچھے وقت،اچھے حالات، اچھے طریقے سے اچھی موت مل جائے…موت کے بعد ایک نیا سفر ہے،ایک نیا جہان اور ایک نئی دنیا…موجودہ دنیا سے بہت بڑی،بہت وسیع… اور ایمان والوں کے لئے بہت لذیذ…خود کو اور آپ کو پھر یاد دلاتا ہوں…یہ دعاء پڑھا کریں:

اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوتْ

اتفاقی نظام

دنیا میں بعض چیزیں محض اتفاقی ہیں…وہ ہمیشہ کا قانون نہیں ہوتیں…مگر وہ ’’اتفاق‘‘ ایسی ترتیب سے بار بار ہوتا ہے کہ …لوگ اسے ہمیشہ کا قانون سمجھ لیتے ہیں…مثلا بعض لوگ کہتے ہیں… میری زندگی میں منگل کا دن بڑی مصیبت والا ہے…پھر وہ منگل میں اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات کی فہرست سنا دیتے ہیں… اور زندگی بھر وہم اور غلط عقیدے میں مبتلا رہتے ہیں… اسی طرح بعض لوگ کسی مہینے کو اپنے لئے ’’منحوس‘‘ کہہ کر…اللہ تعالیٰ کی بجائے اس مہینے کی نحوست سے خوفزدہ رہتے ہیں…یہ بڑا خطرناک اور قابل اصلاح مرض ہے…

اوّل تو ہم یہ نہیں جانتے کہ…کون سی چیز مصیبت ہے اور کون سی چیز نعمت…ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے مصیبت کو نعمت…اور نعمت کو مصیبت سمجھتے رہتے ہیں…

مثلاً ایک شخص قید ہو گیا،گرفتار ہو گیا…وہ سمجھتا ہے کہ یہ ’’مصیبت ‘‘ ہے…حالانکہ اسے اس قید میں توبہ کی قبولیت اور ترقی نصیب ہونا ہوتی ہے…ایک دوسرے شخص کو بہت قیمتی موبائل تحفے میں ملا… وہ سمجھا کہ نعمت ہے…حالانکہ وہ بعد میں اس موبائل کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہو گیا… دوسری بات یہ ہے کہ محض چند واقعات ہی کا نام تو زندگی نہیں…زندگی کے چند واقعات اتفاقاً کسی خاص دن یا مہینے میں ہوئے جبکہ ان گنت واقعات …دوسرے دنوں اور مہینوں میں ہوئے…مگر انسان نے چند واقعات کا اثر لیا اور کسی دن یا مہینے کی ’’نحوست‘‘ یا ’’بھاری‘‘ ہونے کا عقیدہ بنا لیا…یہ غلط ہے…جو اس میں مبتلا ہو وہ توبہ کرے…اپنا دل درست کرے…وہم اور بدفالی کے وقت پڑھی جانے والی مسنون دعائیں پڑھے…اور اللہ تعالیٰ کے عرش والے مخفی خزانے کی طاقت پکڑے وہ مخفی خزانہ ہے…لاحول ولا قوۃ الا باللہ…بس یقین اور کثرت سے پڑھے…

لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ

پاکستان کا دسمبر

اتفاقاً چند سالوں سے ’’دسمبر‘‘ کا مہینہ خونی اورخوفناک جا رہا ہے…یہ زمین کا کوئی اٹل قانون نہیں…دسمبر کڑوے بھی آتے ہیں…اور میٹھے بھی…ویسے بھی ہم مسلمانوں کے نزدیک ہجری قمری مہینوں کا اصل عتبار ہے…محرم صفر وغیرہ … اس لئے ہمارے ہاں تو دسمبر کبھی کس مہینے میں آتا ہے اور کبھی کس میں…ہم نے وہ چھ دسمبر بھی دیکھا جس میں پیاری بابری مسجد شہید کی گئی…بڑا عظیم سانحہ تھا ’’بہت دردناک‘‘…اور پھر اکتیس دسمبر بھی دیکھا جب اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو ایک بڑی خوشی اور فتح عطاء فرمائی…آج کل چند سالوں سے دسمبر خونخوار آ رہا ہے…اس ظاہری شر میں معلوم نہیں کیا کیا ’’خیریں‘‘ پوشیدہ ہوں گی… پشاور کا سانحہ ہوا…پورا ملک لرز کر رہ گیا…پھول جیسے بچے ذبح کر دئیے گئے…اور پھر خونخواری اور خونریزی کا ایسا دور چلا کہ…آج کئی دن گذرنے کے بعد بھی فضا میں خون ہی خون نظر آ رہا ہے…ہاں! جب حکومتیں بھی توازن کھو بیٹھیں تو حالات کبھی درست نہیں ہو سکتے کبھی بھی … بس اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعاء ہے:

اَللّٰہُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ  صلی اللہ علیہ وسلم 

اپنا ہی قصور ہے

نہ امریکہ پر کوئی الزام ہے نہ انڈیا سے کوئی گلہ شکوہ…وہ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں…ان کا کام ہی مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے…اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب یہاں کے اپنے لوگوں کا ہی بویا ہوا ہے…پرویز مشرف پاکستانی تھا…اس نے پاکستان کو ایک حرام جنگ میںدھکیلا…وہ اپنا کام کر کے اپنے آقاؤں کے پاس چلا گیا…مگر بعد کے حکمرانوں نے اسی کی پالیسیوں کو جاری رکھا…امریکہ کی چاپلوسی اور انڈیاسے یاری …غیروں کی غلامی اور اپنوں پر مظالم…اور ایک اندھی جنگ میں بے دریغ تعاون …تب پاکستان میں بھی ایک ایسی قوت وجود میں آ گئی جو ریاست سے جنگ میں الجھ گئی…اور پھر پاکستان خود میدان جنگ بن گیا…اس جنگ کو روکا جا سکتا ہے…اسے امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے…مگر اب دونوں طرف امن کی خواہش ختم ہو چکی ہے…اور جنگ ان کی مجبوری بن چکی ہے …دونوں فریق اب اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں رہے…دونوں پر شدید دباؤ ہے کہ بس لڑتے رہو، مرتے رہو…اگر ایک قدم بھی پیچھے ہٹے تو ہم تمہاری گردن دبا دیں گے…اب اگر تم نے صلح یا مذاکرات کی بات کی تو ہم تمہارا سب کچھ بگاڑ دیں گے…چنانچہ دونوں فریق لڑ رہے ہیں…جبکہ پاکستان مر رہا ہے…مسلمان مر رہا ہے…بے قصور مر رہا ہے…اور دشمن اوپر سے جعلی اشک اور اندر سے قہقہے برسا رہے ہیں…کوئی ہے جو حکومت  پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کو سمجھا سکے کہ…آپ دونوںیہ جنگ نہیں جیت سکتے… ہاں! جنگ سے آپ ایک دوسرے کو ختم نہیںکر سکتے …اب یہ جنگ اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ… آپ دونوں میں سے کوئی فریق مکمل طور پر اسے نہیں جیت سکتا…اور نہ ہی کوئی فریق اس جنگ سے اپنے ’’مقاصد‘‘ حاصل کر سکتا ہے…ہاں! اس جنگ میں صرف مارا جا سکتا ہے اور مرا جا سکتا ہے …اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی مرنے میں شریک کیا جا سکتا ہے…میں جانتا ہوں…ان حالات میں یہ بات لکھنا کتنا خطرناک ہے…مگر میرے دل میں مسلمانوں کا درد ہے…اسلام کا درد ہے اور پاکستان کا درد ہے اس لئے میںاپنا فرض ادا کر رہا ہوں…میں جنگوں اور ان کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتا ہوں…میں نے جنگ کا پورا نظام ’’قرآن مجید‘‘ سے سمجھا ہے…اس لئے دنیا کی کسی بھی جنگ کو غور سے دیکھ کر اس کے حالات اور نتائج آسانی سے سمجھ سکتا ہوں…افغانستان،عراق اور بہت سی جنگوں کے بارے میں قرآن مجید کی روشنی سے جو کچھ دیکھا…وہی بعد میں سامنے آیا…یہ کوئی علمی یا کشفی دعویٰ نہیں…اور نہ ہی دعووں کا وقت یا شوق ہے…ہر مسلمان کو قرآن مجید سے روشنی لینی چاہیے… اسی روشنی سے یہ نظر آ رہا ہے کہ …پاکستان میں حالیہ جنگ کے دونوں فریق …ایک لاحاصل ،بے کار اور خونریز جنگ میں الجھ چکے ہیں…اور اب دنیا بھر کے اسلام دشمن عناصر پورا زور لگا رہے ہیں کہ یہ جنگ مزید بھڑک جائے …اور پاکستان صومالیہ بن جائے…

خطرناک لوگ

آزاد گروپ، آزاد ہوتے ہیں… مگر حکومت پر لازم ہے کہ وہ قانون کی پابند رہے…اسے فلمی ڈائیلاگ، انتقامی جملے اور غیر قانونی کارروائیاں زیب نہیں دیتیں…اور جو حکومت اور ملک کسی موقع پر جذبات میں آ کر اپنا توازن کھو بیٹھے…اور قانون کے دائرے سے نکل جائے تو اس ملک کا حال بہت برا ہوتا ہے…پھانسیاں دینی تھیں تو اس ترتیب سے دی جاتیں جس کا تقاضا قانون کرتا ہے نہ کہ بد حواس ہو کر …پھانسیوں کو بھی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ بنا دیا جائے…اور خوف کی فضا پھیلا کر مزید ہلاکت خیز واقعات کی راہ ہموار کی جائے…

امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا…امریکہ غصے اور جذبات میں اپنا توازن کھو بیٹھا…کوئی حقیقت کی نظر سے دیکھے کہ امریکہ نے جن مقاصد کو حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا،ان میں سے کتنے اس نے پا لئے…جواب یہ ہے کہ ایک بھی نہیں…یہ میرا جواب نہیں خود امریکہ اس کا اعتراف کرتا ہے…جبکہ امریکہ نے کیا کیا کھویا اس کی فہرست بہت طویل ہے…پچاس ہزار فوجیوں کی ہلاکت… ہزاروں فوجیوں کی معذوری،خود کشی اور دماغی بیماری…ساری دنیا سے رعب کا خاتمہ… کھربوں ڈالر کا نقصان…داخلی سیاست کی تباہی …اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن کو مٹانے نکلا تھا وہ کئی گنا زیادہ بڑھ گئے…اور اب ساری دنیا میں امریکی فوجی اور عوام دھڑا دھڑ مر رہے ہیں…عدم تحفظ کا شکار ہیں…اور امریکہ اس جنگ سے نکلنے کے لئے بے قرار ہے جس میں وہ بڑے فخر سےداخل ہوا تھا…پشاور کے واقعے کو پاکستان کا ’’نائن الیون‘‘ قرار دے کر جو لوگ حکومت کو مزید اندھی جنگ میں دھکیل رہے ہیں…وہ پاکستان کے دوست ہرگز نہیں ہیں …پاکستان کے لئے اصل خطرناک یہی لوگ ہیں…

ڈر اور خوف کی ضرورت نہیں

کسی شاعر نے کہا تھا:

ہے مقصد زندگانی کا کہ کچھ دنیا میں کر جانا

خیال موت بے جا ہے وہ جب آئے تو مر جانا

بعض لوگ ہر موقع پر ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں…اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی باجماعت خوفزدہ کرتے ہیں…پاکستان میں دینی طبقہ پر ہمیشہ سے شدید دباؤ رہا ہے…اور یہاں موجود سیکولر،ملحد اور بد دین لوگ…اس جنگ کی آڑ میں پاکستان کے دینی طبقے کو ختم کرانا چاہتے ہیں…وہ مدارس اور مساجد کے دشمن ہیں…اور شرعی جہاد کی بات کرنے والی جماعتیں ان کا اصل ہدف ہیں…

نائن الیون کے بعد …اس سیکولر طبقے کو امید تھی کہ…اب پاکستان میں نہ کوئی مدرسہ بچے گا نہ کوئی دینی جماعت…مگر الحمد للہ سب کچھ بچ گیا بلکہ بڑھ گیا…پھر بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور پاکستان پر غیر ملکی دباؤ پڑا تو سیکولر چوہے فوراً بلوں سے نکل آئے…اس بار ان کو کچھ کامیابی ملی اور پرویز مشرف نے جہادی جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر …اور ان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کر کے …تحریک طالبان پاکستان بننے کے مواقع کھڑے کر دئیے…اور پاکستان کو ایک داخلی جنگ میں جھونک دیا…مگر پھر بھی پاکستان کے دینی مدارس اور جماعتیں بچ گئیں…پھر بمبئی کا واقعہ ہوا…تو خوب شور ہوا اور دباؤ پڑا…مگر اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت عقلمند لوگوں پر مشتمل تھی …اور انہوں نے اس دباؤ میں اپنے ملک کو تباہ نہیں ہونے دیا…اسی طرح جب بھی کوئی سانحہ اور واقعہ ہوتا ہے تو…یہ امریکی چوہے اور انڈین انڈے فوراً باہر نکل آتے ہیں کہ…بس مار دو،جلا دو ،لٹکا دو…کسی مولوی کو نہ چھوڑو، کسی مدرسہ کو نہ چھوڑو…کسی مجاہد کو نہ چھوڑو…ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی داخلی جنگ یہاں کی ایک ایک گلی میں پھیل جائے…مسلمانوں کا یہ ملک ختم ہو جائے اور ان ظالموں کی تنخواہ پکی ہو جائے…ان حالات میں دینی طبقوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد ،ہر موقع پر بہت خوفزدہ ہو جاتے ہیں…اور وہ دوسروں کو بھی خوفزدہ کرتے ہیں…جو اچھا کام نہیں…قرآن مجید میں منافق کی علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ہر مصیبت کا رخ اپنی طرف سمجھتا ہے …یعنی ہمیشہ بوکھلا کر پریشان ہو جاتا ہے… پشاور کے سکول کی قتل وغارت سے…پاکستان کے مدارس کا کیا تعلق؟…پاکستان کی مساجد کا کیا تعلق؟…شرعی جہاد کی دعوت دینے والوں کا کیا تعلق؟…جب کوئی تعلق نہیں تو پھر ڈرنے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟…حکومت اگر ظلم اور غلطی کر کے آپ کا رخ کرے گی تو خود ہی اپنا اور ملک کا نقصان کرے گی…اور مزید جنگ بھڑکائے گی…آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا شرعی،مثبت اور دینی کام کرتے رہیں…پاکستان میں جو رہا سہا امن موجود ہے وہ آپ کے اسی کام کی برکت سے ہے…آج کے حکمرانوں کو اگر غیر ملکی دباؤ کی وجہ سے آپ کے کام کی افادیت نظر نہیں آ رہی تو …نہ نظر آئے…

وہ اگر آپ کی طرف ظلم کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں تو بڑھا لیں…اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و محافظ ہے…پرویز مشرف نے کون سا ہتھیار اور ہتھکنڈا آپ کو ختم کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا؟… زرداری کون سا آپ کا خیرخواہ تھا؟…موجودہ حکمران بھی اگر ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو انہی جیسے نتائج پائیں گے…آپ کا دینی کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے…آپ کا شرعی جہاد اُمتِ مسلمہ کی فلاح کے لئے ہے…

بس اپنے کام میں لگے رہیں…اللہ تعالیٰ کے راستے پر جمے رہیں…اس راستے کی زندگی بھی پیاری ہے…اور اس راستے کی موت بھی میٹھی ہے…

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ

حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیل

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر476

 

آقا  صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات کا دن اور مہینہ...

سیرت طیبہ... امتحانات بھری زندگی...

امتحانات پر صبر اور اسلام کا عروج...

دُنیا میں آنے کا مقصد اور مقربین کا طرزِ عمل...

سیرت طیبہ کی عجیب تاثیر... ہمارے لئے اس کا مطالعہ اور اسے اپنانے کی اہمیت...

ڈرانا شیطان کا کام ہے... مسلمان کا نہیں...

اللہ تعالیٰ کا اعلان اور تسلی...موت سے کوئی نہیں بچا سکتا...

یہود کا امتحان محبت... موت کی تمنا کا مطالبہ اور ان کا فرار...

نیپال کے بادشاہ کا قتل...حادثات میں مرنے والوں کی تعداد...

جہاد کا کام کرنے والے نہ ڈریں...

سیرت طیبہ کا اہم سبق...

حضور صلی اللہ علیہ وسلم، صدیق اکبررضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کی جانفشانی اور بے خوفی...

آج کے اہل عزیمت کو سلام... عافیہ بہن کو سلام...

سیرت طیبہ کی روشنی میں خوف کے پردے چاک کرتی ہمت افزاء تحریر...

مدنی سیرت سچی ہے

اللہ تعالیٰ کے محبوب اور آخری نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   کی ولادت باسعادت ’’پیر‘‘ کے دن ہوئی … یہ بات حتمی ہے کیونکہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے خود ارشاد فرمائی ہے…

’’سلام ہو آپ پر اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر‘‘

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی ولادت مبارکہ کا مہینہ ’’ربیع الاوّل‘‘ ہے…اور یہی وفات مبارکہ کا مہینہ ہے…اسی میں تشریف لائے اور اسی میں تشریف لے گئے…جب تشریف لائے تو عالم جگمگا اُٹھا… اور جب تشریف لے گئے تو سارا عالم سکتے میں آ گیا…غموں کے پہاڑ آل رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   اور اصحاب رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   پر ٹوٹ پڑے…

صلوٰۃ وسلام ہو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   پر…

زندگی مبارک جسے ’’سیرت طیبہ‘‘ کہا جاتا ہے…اول تا آخر آزمائشوں میں بسر ہوئی… ان آزمائشوں میں سے ہر آزمائش اتنی بھاری ہے کہ اگر ہم میں سے کسی پر آئے تو وہ ٹوٹ پھوٹ جائے… مگر حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   ان آزمائشوں کو سہتے رہے اور آگے بڑھتے رہے…اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کو زمین پر جماتے گئے… جب یہ دین جم گیا…اور ناقابل شکست ہو گیا تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   …اپنے محبوب حقیقی کے پاس تشریف لے گئے…کیونکہ دنیا بہت ادنیٰ جگہ ہے …یہ حضرات انبیاء، صحابہ، مقربین اور اولیاء کے رہنے کی جگہ نہیں ہے…یہ حضرات تو یہاں ایک خاص ذمہ داری کے لئے بھیجے جاتے ہیں…جیسے ہی ان کی ’’ذمہ داری‘‘ پوری ہوتی ہے تو انہیں یہاں کی پُرمشقت زندگی سے…آزادی دے کر اللہ تعالیٰ کے قرب میں…بلا لیا جاتا ہے…جہاں سکون ہے، آرام ہے،راحت ہے اور بہت وسعت ہے…زمین تو بہت چھوٹی اور بہت تنگ جگہ ہے…جی ہاں! آخرت کے مقابلے میں بہت چھوٹی…

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت مبارکہ میں یہ عجیب تاثیر ہے کہ…یہ سیرت ہر گرنے والے انسان کو سنبھال کر دوبارہ کھڑا کر دیتی ہے…یہ ہر دکھی انسان کے لئے بہترین مرہم ہے…آپ کو یقین نہ آئے تو آج ہی سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم   کے چند صفحات پڑھ لیجئے…دل سے مایوسی،خوف اور پریشانی یوں دور ہوجائے گی جیسے صابن سے ہاتھ دھو لینے سے…ہاتھوں کی میل دور ہو جاتی ہے…

ویسے آج کل ہم سب کو ضرورت ہے کہ…سیرت طیبہ کا دل کی آنکھوں سے مطالعہ کریں…کیونکہ شیطان نے فضاء کو خوف اور بے یقینی سے بھرنے کے لئے…اپنے لاکھوں کارندے سرگرم کر دئیے ہیں…کوئی بھی اخبار اٹھا لیں…بس خوف ہی خوف کی دعوت ہے کہ … اے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کے دیوانو! ڈر جاؤ،ڈر جاؤ…

قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَہٗ

یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ وہ…اپنے یاروں سے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے … تاکہ شیطان کے یار غالب آ جائیں اور اہل اسلام مغلوب ہو جائیں…عالمی سامراج سے ڈر جاؤ… وہ تمہیں بالکل تباہ کر دے گا…امریکہ سے ڈر جاؤ وہ سپر پاور ہے تمہیں مٹا دے گا…انڈیا سے ڈر جاؤ وہ بہت بڑی طاقت ہے تمہیں ختم کر دے گا … عالمی برادری سے ڈر جاؤ وہ ناراض ہو گئی تو تم دنیا میں اکیلے رہ جاؤ گے…موت سے ڈر جاؤ…قید سے ڈر جاؤ ، بس ڈرجاؤ اور ڈر جاؤ…یہ ہے شیطانی آواز…

جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے :

فَلَا تَخْشَوُوْاالنَّاسَ

اے مسلمانو! کسی انسان سے نہ ڈرو…اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے بھی نہ ڈرو…ہرگز نہ ڈرو … موت نام ہے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا…ارے! محبوب کے وصال سے بھی کوئی ڈرتا ہے؟…آج تو دل چاہتا ہے کہ وہ آیات لکھتا چلا جاؤں جن میں اللہ تعالیٰ نے …ایمان والوں کو تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو…کوئی بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا…ایک نعرہ مستانہ لگاؤ … حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل…حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل…اور یہ اعلان کر دو کہ:

قُلْ لَن یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا

ارے! ہمیں کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچ سکتی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں لکھ دی ہے… اور بلند آواز سے کہہ دو:

ہُوَ مَوْلَانَا

بس اللہ تعالیٰ ہی ہمارا مولیٰ ہے…وہی ہمارا مالک ہے، وہی ہمارا ناصر ہے…وہی ہمارا محافظ ہے…وہی ہمارا سب کچھ ہے…اور وہ دنیا بھر کے کافروں اور منافقوں کی طاقت کو مکڑی کے جالے کی طرح کمزور فرما دیتا ہے…

ذٰلِکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْہِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ

آج تو موقع نہیں بن رہا …ان شاء اللہ کسی فرصت کے وقت ان آیات کو اپنے لئے اور آپ کے لئے جمع کر دوں گا…جو آیات ہر کافر،ہر منافق،ہر سازش،ہر سختی اور ہر طاقت کا خوف ہمارے دلوں سے نکال دیتی ہیں…

قرآن مجید سمجھاتا ہے کہ…موت جب آ جائے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا…مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ موت سے بچتا پھرے اور موت سے بچنے کے لئے اپنا ایمان اور اپنی آخرت خراب کرتا رہے… اور موت کے خوف سے ہر دن مرتا رہے … موت تو محبت کی علامت ہے…یہودیوں نے محبت کا دعویٰ کیا توفرمایا گیا اگر سچے ہو تو موت کی تمنا کرو…مگر وہ بھاگ گئے کیونکہ جھوٹے تھے…وہ نہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے تھے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے محبوب تھے…قرآن سمجھاتا ہے کہ…جب موت کا وقت آ جائے تو دنیا بھر کے حفاظتی اقدامات انسان کو نہیں بچا سکتے…ابھی کچھ عرصہ پہلے نیپال کا بادشاہ مارا گیا…اس کے خاندان کی حکومت ڈھائی سو سال سے جاری تھی…ملک کے لوگ اپنے بادشاہ کے دیوانے تھے…حفاظت کا نظام اور انتظام بھی بھرپور تھا…اور آس پڑوس کسی ملک سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی…وہ اپنے اُس محل کے ایک محفوظ کمرے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا…جس محل کا حفاظتی نظام ناقابل شکست تھا …اب بتائیے کہ اس زمین پر ’’امن‘‘ کے لئے اور کیا چاہیے؟…تب اسی لمحے اس کا اکلوتا بیٹا اندر داخل ہوا اور اس نے فائرنگ کر کے…بادشاہ اور اس کی بیوی کو ہلاک کر دیا…اور پھر خود کو بھی گولی مار دی…امن کے ایسے انتظامات کے بیچ … ڈھائی سو سالہ بادشاہت کا بت پاش پاش ہو گیا … نہ پہرے دار کچھ کر سکے…اور نہ باڈی گارڈ بچا سکے…

دنیا میں ایسے واقعات بے شمار ہیں…کاش! یہ ان مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں جن کو کوئی کان میں کہہ دے کہ حالات سخت خراب ہیں تو وہ دین کا کام چھوڑ دیتے ہیں،جہاد کا کام چھوڑ دیتے ہیں…

آپ کبھی شمار کریں کہ…روزانہ ٹریفک حادثات میں کتنے افراد مرتے ہیں؟…کتنے زخمی ہوتے ہیں؟کتنے معذور ہوتے ہیں؟ اور کتنے جیل جاتے ہیں؟ آپ حیران ہوں گے کہ…یہ تعداد روزانہ لاکھوں کے عدد تک پہنچ جاتی ہے…مگر اس کے خوف سے کوئی بھی…سفر نہیں چھوڑتا…پھر موت،گرفتاری اور تشدد کے خوف سے لوگ… دین کا کام اوردین کا نام کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟… حالانکہ دین کے کام کااصل مزہ ہی تب ہے جب حالات سخت ہوں، حالات خطرناک ہوں …اور فضاء میں شیطانی خوف پھیلایا جا رہا ہو … سوچنے کی بات یہ ہے کہ قسمت میں اگر جلدی موت لکھی ہو تو ہم دین کا کام کریں یا نہ کریں وہ ضرور آ جائے گی…قسمت میں اگر قید لکھی ہو تو …ہم جہاد کا کام کریں یا نہ کریں وہ ضرور آ جائے گی … قسمت میں اگر پھانسی لکھی ہو تو ہم دین پر رہیں یا دنیا پر وہ بھی ہر حال میں آ جائے گی…کاش! مسلمان میلاد کی دیگیں کھانے کی بجائے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت مطہرہ سے روشنی حاصل کریں…مکہ مکرمہ میں کیسی خوفناک اور دہشت ناک فضاء تھی…ہر شخص قاتل تھا، دشمن تھا اورموذی تھا…ایسے حالات میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   اور چند حضرات صحابہ کرام اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھے…دین کے کام میں مشغول تھے…دن رات ماریںکھاتے، زخمی ہوتے اور پھر اسی حالت میں اپنے کام پر نکل کھڑے ہوتے…آج ہر شخص کی زبان پر یہ جملہ ہے کہ…ہماری ہڈیوں میں مار کھانے کی طاقت نہیں ہے…ایسے مسلمان کس منہ سے اپنی نسبت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کی طرف کر سکتے ہیں…جن کو اتنا مارا گیا کہ قریبی رشتہ دار بھی ان کو نہیں پہچان سکتے تھے…یعنی مار اور تشدد کی وجہ سے چہرہ مبارک پر اتنے زخم اور اتنی سوجن آئی کہ حلیہ مبارکہ تک تبدیل ہو گیا…سلام ہو ہمارے زمانے کے اُن اہل عزیمت کو! جن کی قربانیوں نے آج زمین کا رنگ ہی بدل دیا ہے…سلام ہو اس پاکباز نہتی بہن !کو…جسے ہم عافیہ صدیقی کے نام سے یاد کرتے ہیں…سلام ہوگوانٹاناموبے،تہاڑ جیل، شبرغان،پل چرخی، فلوجہ،ابوغریب،غرب اُردن …اور دور دور کی جیلوں میں قربانیاں پیش کرنے والے اہل ایمان کو!…ان کی عزیمتوں نے آج وقت کا دھارا بدل دیا ہے…نائن الیون کے وقت عالمی سامراج جتنا طاقتور تھا…آج وہ اس قدر طاقتور نہیں…اسے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ مسلمانوں سے نہیں لڑ سکتا…اسے گذشتہ پندرہ سالوں میں…تین بار بڑی شکست کا سامنا ہوا ہے… اور اب وہ صرف مسلمانوں کو …مسلمانوں سے لڑانے کی فکر اور محنت میں ہے…اور اس کے انڈے اور کارندے آج کل…مسلمانوں میں خوف،دہشت اور انتشار پھیلانے کے لئے … میڈیا پر سوار ہیں…

مگر یہ سب سن لیں کہ…دین اسلام کو نہیں مٹایاجا سکتا…مسلمانوں کو نہیں مٹایا جا سکتا … جہادِ فی سبیل اللہ کو نہیں مٹایا جا سکتا…

یہ بات قرآن مجید نے بتائی ہے… اور قرآن مجید سچا ہے…اور یہ بات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت مبارکہ نے سمجھائی ہے…اور سیرت مبارکہ سچی ہے…والحمد للہ رب العالمین

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الااللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللّٰہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر477

 

اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت... بڑی بدنصیبی...

غزوئہ احزاب کا منظر... سخت سردی، محاصرہ... پانچ دشمنوں کا بیک وقت حملہ...

مار دو مار دو کی آوازیں... صحابہ کرام کا اعلان وفاداری۔

سخت زلزلے جیسے حالات میں سیرت طیبہ کی رہنمائی ...

مشکلات میں دین کا کام کیسے ہو؟نصرت کی انمول دُعاء...

ملک کی عجیب صورتحال...

چوروں لٹیروں کا دینی قوتوں کے خلاف اتحاد اور اعلان جنگ... ان کا انجام کیا ہوگا؟

مشکلات کے وقت اُبھرنے والے دو طبقے... سورئہ احزا ب میں دونوں کا ذکر...

احزاب کے چند دلنواز مناظر...

شعر پڑھنے کا اصل وقت... صحابہ کرام کے والہانہ اشعار...

کفر کی قوت و شوکت کے سامنے ’’ابیناا بینا‘‘ کی صدائیں...

نظریاتی بلندی سے ہم آہنگ کرتی ایک خوبصورت تحریر...

 

اَبَیْنَا اَبَیْنَا

اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں … اگر ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں تو بڑے ہی بدنصیب ہیں…اللہ تعالیٰ کیا ہی اچھا ربّ ہے…اور اُس کا دین کیا ہی اچھا دین ہے…

آپ سمجھے؟

اُوپر جو الفاظ لکھے ہیں…کیا ان کو پڑھ کر آپ وہ واقعہ سمجھے جس کی طرف اِشارہ کرنا مقصود ہے؟…یہ سخت سردی کا موسم تھا،جیسے آج کل ہمارے ہاں چل رہا ہے…مدینہ منورہ سخت محاصرے میں تھا…دس ہزار کا مسلح لشکر مدینہ منورہ کو گھیر چکا تھا…مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں نے بھی خونخوار دانت نکال لیے تھے…اور منافقین کی زبانیں قینچیوں کی طرح چل رہی تھیں…

بس یوں سمجھیں کہ مسلمانوں پر پانچ دشمنوں نے ایک ساتھ حملہ کر دیا تھا:

١                    مشرکین کا لشکر

٢                    مدینہ کے یہودی

٣                    داخلی منافقین

٤                    سردی

٥                    فاقہ

اللہ اکبر کبیرا…حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   اور حضرات صحابہ کرام نے بھوک اور فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے…ایسا خوفناک،ہولناک اور دہشت ناک ماحول مسلمانوں کے خلاف بن گیا تھاکہ… کلیجے منہ کو آ رہے تھے اور آنکھیں دہشت سے پتھرا جاتی تھیں…سارا منظر قرآن مجید نے سورۃ اَحزاب میں کھینچ ڈالا ہے…واقعی بہت سخت آزمائش تھی…یوں لگتا تھا کہ بس اسلام کا قصہ ختم، مسلمانوں کا قصہ ختم…

ہر طرف سے آوازیں تھیں کہ…مار دو،ختم کر دو، مٹا دو، جڑ سے اکھاڑ دو…ایک کو بھی نہ چھوڑو…ایسا موقع پھر شاید نہ ملے،اس موقع کا فائدہ اٹھاؤ اور ان کی بنیاد ہی ادھیڑ دو…ایسے حالات میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر خندق کھود رہے تھے…اور ان اشعار کو اپنی خوبصورت آواز سے عزت بخش رہے تھے…

بِسْمِ اللّٰہِ وَبِہِ بَدَیْنَا

وَلَوْ عَبَدْنَا غَیْرَہُ شَقِیْنَا

بسم اللہ…ہم اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں…اگر ہم اس کے سوا کسی کی عبادت کریں تو بڑے ہی بد نصیب ہیں…اللہ تعالیٰ کتنا اچھا ربّ ہے اور اس کا دین کتنا اچھا دین ہے…سبحان اللہ! ایسے خوفناک حالات میں ایسی مضبوطی،ایسی استقامت…اور دشمنوں کو یہ پیغام کہ… ہم اپنے دین پر مضبوط ہیں،مطمئن ہیں …اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ…موت اور خوف کی دہشت پھیلا کر ہمیں ہمارے دین اور ہمارے راستے سے ہٹا دو گے تو یہ تمہاری بھول ہے …ان حالات میں بھی ہم اپنے رب کے وفادار اپنے دین کے وفادار…اور اپنے رب سے راضی ہیں…

اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْراً، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْراً وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً

ایسا وقت بھی آتا ہے

حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت مبارکہ … ہر مسلمان کی ہر موقع پر رہنمائی فرماتی ہے… مسلمان خوش نصیب ہیں کہ ان کے پاس اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کی مکمل سیرت محفوظ ہے…اس وقت پاکستان میں جو خوفناک حالات چل رہے ہیں اگر ہم صرف انہیں پر غور کریں تو …دل بیٹھ جائیں اور حوصلے پست ہو جائیں…مگر ہمارے پاس زندہ سیرت موجود ہے…جو ہمیں فوراً۵ھ کے شوال کی سردیوں میں لے جاتی ہے…تب مدینہ منورہ مکمل محاصرے میں تھا اور ظاہری اسباب کے درجے میں مسلمانوں کا مکمل خاتمہ یقینی تھا…عربوں کا اتحادی لشکر مکمل تیاری اور عزم کے ساتھ آیا تھا اور لشکر کی تعداد ایسی تھی کہ …مدینہ منورہ اس کے سائے میں گم ہو سکتا تھا…پھر داخلی طور پر بھی حالات بگڑ گئے تھے اور یہودی اپنا معاہدہ توڑ کر مقابلے پر آ گئے تھے…ایسے حالات میں ’’منافقین‘‘ کے میلے ہو جاتے ہیں…وہ خوف پھیلانے والے دانشور بن کر اُبھرتے ہیں…اپنی عقلمندی کے گیت گاتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ بس چند دن کا ہے…اب ان کو خاتمے سے کوئی نہیں بچا سکتا…وہ کمزور مسلمانوں کو ڈرا ڈرا کر کہہ رہے تھے کہ اسلام چھوڑ دو، واپس اپنے پرانے دین پر آ جاؤ…ادھر موسم بہت سخت تھا…سردی تھی،اور مسلمانوں کے پاس خوراک کی شدید کمی تھی… اب مسلمان کیا کرتے؟…باہر سے حملہ آور لشکر کا مقابلہ کرتے یا اندر یہودیوں سے اپنی عورتوں اور بچوں کو محفوظ کرتے…منافقین کی زبانوں کو پکڑتے یا لشکر کے لئے خوراک کا انتظام کرتے… قرآن مجید نے فرمایا:

وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا

یعنی ایسے سخت حالات تھے کہ مسلمانوں پر گویا ہر طرف سے زلزلہ ہی زلزلہ تھا…ایسا زلزلہ جو جسموں کے ساتھ روحوں کو بھی لرزا دے…

سیرت مبارکہ کا یہ پورا منظر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ… دین کا کام کرنے والوں اور جہاد کی محنت کرنے والوں پر…ایسے حالات بھی آتے ہیں جو بے حد خوفزدہ کرنے والے ہوتے ہیں…اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ بس اب سارا کام ختم…اب کچھ بھی نہیں بچ سکتا…سیرت مبارکہ کا یہ منظر اہل ایمان کو طرح طرح کی حفاظتی دعائیں ،حفاظتی تدابیر اور عزیمت کے اسباق سکھاتا ہے…غزوہ احزاب کے اسی منظر نے ہمیں وہ دعاء عطاء فرمائی جو دل سے خوف کو نکال کر اطمینان نصیب کرتی ہے…

اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا

یا اللہ! ہمارے عیبوں کو چھپا دیجیے اور ہمارے خوف کو دور فرما دیجیے…

صحابہ کرام نے محاصرے کی شدت اور سختی کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہی دعاء سکھائی:

اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا

 اور یہ وجد آفریں دعاء بھی تلقین فرمائی:

اَللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَ مُجْرِیَ السَّحَابِ وَھَازِمَ الاَحْزَابِ ۔ اِھْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ

یا اللہ! کتاب کو نازل فرمانے والے … بادلوں کو چلانے والے…لشکروں کو شکست دینے والے…انہیں شکست دیجیے اور ان کے مقابلے میں ہماری نصرت فرمائے…

عجیب صورتحال

ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمران خود کسی ایسے واقعہ کے انتظار میں تھے…جسے وہ نائن الیون قرار دے کر پاکستان کے دینی طبقے کو ختم کر سکیں… امریکہ،یورپ اور انڈیا کا ہمیشہ سے ہمارے حکمرانوں پر دباؤ ہے کہ وہ…پاکستان کے دینی طبقے کو مٹا دیں…

پشاور سکول کا واقعہ پیش آیا تو …حکومت کو موقع مل گیا…اورمنافقین کے میلے ہو گئے… اب صبح،شام متحدہ اجلاس طلب ہو رہے ہیں… ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہورہی ہیں… مدارس اور دینی جماعتوں کے خلاف زبانیں گرم ہورہی ہیں … گلی گلی میں حفاظتی دستے ہر داڑھی والے اور پگڑی والے کو پکڑ رہے ہیں ،ستا رہے ہیں…اور فوجی عدالتوں کے بارے میں صاف اعلان ہے کہ… ان میں نہ کسی ڈاکو کا مقدمہ سنا جا سکے گا…نہ کسی چور کا…ڈاکو جب کسی کو قتل کرتے ہیں تو مقتول کی ماں کو اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے جتنی کسی سکول کے مقتول بچے کی ماں کو…مگر حکومت کے نزدیک مذہب سے تعلق رکھنا،چوری ڈاکے اور بدکاری سے بڑاجرم ہے…وہ لسانی تنظیمیں جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں تک کو ہلا دیا ہے…اور ہزاروں افراد کو قتل کر دیا ہے…ان کا مقدمہ بھی ان فوجی عدالتوں میں نہیں سنا جا سکے گا…کیونکہ لسانیت کے نام پر ساٹھ ہزار افراد کو قتل کرنا حکومت کے نزدیک جرم نہیں ہے…جبکہ قرآن پاک کی آیاتِ جہاد کو بیان کرنا جرم ہے…

ملک کے سارے سیاسی مگرمچھ پارلیمنٹ ہاؤس میں جمع ہوئے…اور سب نے دینی جماعتوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر اتفاق کر لیا …کیا ان کو اپنے جرائم یاد نہیں ہیں…ان میں سے کون ہے جو بد عنوانی اور کرپشن میں ملوث نہیں؟…ان میں سے کون ہے جو ناجائز قتل و غارت میں ملوث نہیں؟…ان میں سے کون ہے جو اپنی پارٹی کے عسکری ونگ نہیں رکھتا؟ … پاکستان کے اربوں ڈالر لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے والے …ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کرنے والے یہ سیاستدان…کس منہ سے پاکستان کے مدارس اور دینی جماعتوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں…مگر ہاں! آج کل یہ خوش ہیں، ان کے میلے لگے ہوئے ہیں…ان کو اپنے ارمان پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں…ان کو اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی مل رہی ہے…

مگر یہ سب کچھ فانی ہے…یہ سب کچھ وقتی ہے…یہ سارا ظلم واپس خود ان کی طرف لوٹے گا… وہ جہادی جماعتیں جنہوں نے پاکستان کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا یہ اگر ان جماعتوں پر شب خون ماریں گے تو…اللہ تعالیٰ کے انتقام سے نہیں بچ سکیں گے…اور مخلص فدایانِ اسلام کی آہیں اور بددعائیں ان کے گھروں اور دلوں کو آگ لگا دیں گی…ان شاء اللہ

دو طبقے

سیرت مبارکہ کا یہ منظر جو شوال ۵ھ؁ میں سامنے آیا ایک اور بڑی اہم بات سمجھاتا ہے…وہ یہ کہ جب اہل ایمان،اہل جہاد پر حالات سخت ہوتے ہیں تو دو طبقے سامنے آجاتے ہیں…

١                    ایمانی، تسلیمی…یہ وہ لوگ ہیں جن کو جس قدر بھی ڈرایا جائے وہ اپنے ایمان اور اپنے کام پر ڈٹے رہتے ہیں…بلکہ ان کا ایمان بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کی ثابت قدمی بھی بڑھ جاتی ہے… وہ اللہ تعالیٰ سے جڑے رہتے ہیں…اور اللہ تعالیٰ کے کام میں لگے رہتے ہیں…دشمنوں کی کثرت اور حالات کی خرابی…ان کے عزم کو اور مضبوط کر دیتی ہے…اور وہ کہتے ہیں کہ…یہی اصل وقت ہے وفاداری کا اور قربانی کا…

وَمَا زَادَھُمْ اِلَّا اِیْمَاناً وَّتَسْلِیْمًا

اس طبقے کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے سورۃ احزاب آیت:۲۲

٢                    فراری…دوسرا طبقہ ان لوگوں کا سامنے آتا ہے جو برے حالات دیکھ کر فورا بھاگ جاتے ہیں… یہ لوگ بڑے عجیب بہانے بناتے ہیں اور دین کے کام سے کٹ جاتے ہیں…کوئی ان کے کان میں کہہ دے کہ اب حالات ٹھیک نہیں رہے تو فوراً…فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں… اور اپنے بچاؤ کے لئے جنت کے راستے کو چھوڑ دیتے ہیں…یار! ہم سے قید برداشت نہیں ہوتی… یار! دین کا کام تو ٹھیک ہے مگر ڈنڈے کھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے…یار! ڈر تو نہیں ہے مگر کچھ گھر کی دیکھ بھال بھی کرنی ہے…

قرآن مجید فرماتا ہے:

اِن یُّرِیْدُوْنَ اِلَّافِرَارًا

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ بھاگنا چاہتے ہیں، باقی سب بہانے ہیں…اس طبقے کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورۃ احزاب آیت ۱۳

اَبَیْنَا اَبَیْنَا

غزوۂ احزاب کے مناظر میں ایک بڑا حسین، بہت دلکش اور بے حد ولولہ انگیز منظر بھی آتا ہے… اس منظر کے دو حصے ہیں، پہلے چھوٹا حصہ دیکھتے ہیں پھر بڑا حصہ…

١ خوف،بھوک،فاقے اور شدید خطرے کے دوران…حضرات صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے…اور ساتھ ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے:

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوا مُحَمَّداً

عَلیٰ الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَداً

’’ہم ہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے…حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   سے بیعت کی ہے کہ ہم مرتے دم تک جہاد کرتے رہیں گے‘‘…

سبحان اللہ!…یہ شعر پڑھنے کا اصل وقت ہی تب ہے جب جہاد کا نام لینے پر پابندی ہو…اور جہاد کا علَم تھامنے پر موت سامنے نظر آتی ہو…کون ہے جو موجودہ حالات میں بھی دل کے یقین کے ساتھ یہ شعر پڑھے اور پھر اس پر سچا رہے،پکا رہے … خواہ قید آئے یا موت!

٢                    دوسرا منظر جو پہلے والے سے بھی زیادہ دلکش ہے…

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   غزوہ خندق کے موقع پر خود بنفس نفیس مٹی ڈھو رہے تھے…اس مٹی نے جسم مبارک کو بھی گرد آلود کر دیا تھا…مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   یہ اشعار پڑھ رہے تھے:

وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اھْتَدَیْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا

فَاَنْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا

وَثَبِّتِ الاَقْدَامَ اِن لَّاقَیْنَا

’’اللہ کی قسم!…اگر اللہ تعالیٰ توفیق نہ دے، تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے،نہ نماز پڑھتے…یا اللہ! ہم پر سکینہ نازل فرمائیے اور جنگ میں ہمیں ثابت قدمی عطاء فرمائیے‘‘

اب آخری شعر ملاحظہ فرمائیں…جو اس منظر کی ’’جان ‘‘ ہے

اِنَّ الْاُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا

اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَۃً اَبَیْنَا

’’یہ ہمارے دشمن ہم پر ظلم کرنے کو چڑھ آئے ہیں…یہ اگر ہمیں فتنہ میں ڈالنا چاہتے ہیں… یعنی ہمیں اپنے دین سے ہٹانا چاہتے ہیں تو ہماری طرف سے صاف انکار ہے‘‘…

شعر کے آخری الفاظ…اَبَیْنَا اَبَیْنَا کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بلند آواز سے پڑھتے کہ…اے دین کے دشمنو! ہم تمہارے دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہیں…انکار کرتے ہیں…انکار کرتے ہیں … ہم دین چھوڑنے اور فتنہ میں پڑنے سے انکار کرتے ہیں…انکار کرتے ہیں…اے دین کے دیوانو! کہہ دو: اَبَیْنَا اَبَیْنَا

سبحان اللہ! کیسا عزت و غیرت والا منظر ہے…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیراکثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر478

 

خاکے بنانے والوں کے غرور کی اُڑتی خاک...

’’مَنْ لِی بِھٰذَا الْخَبِیْث‘‘ کی نبوی صدا...

ایک بدنصیب بدفطرت بڈھا یہودی گستاخ اور اس کا انجام...

سیّدنا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ کا لبیک اور اُونچی قسمت...

آج بھی صدا آتی ہوگی... کوئی ہے لبیک کہنے والا؟

یورپ کی اڑیل گدھوں والی ضد... سعید و شریف کا بلند نصیب...

سیّدنا عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز تذکرہ...

عمیر رضی اللہ عنہ نابینا نہیں بصیر ہیں... دربار رسالت سے انعام...

گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی سزا... اُمت کا اجماعی مؤقف ... ایک بہت عظیم نیکی...

اسلام کی لاج رکھنے والے فدائین کو سلام...

حالات کے علی الرغم نعرئہ جہاد... جو ہوتا ہے ہوتا رہے...

عشق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر لکھی گئی والہانہ تحریر...

 

مل گئے خاک میں

وہ خاکے بنانے والے

اللہ تعالیٰ کا سلام اور بے شمار رحمتیں…اُن شہداء کرام پر جنہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم   کا حق اَدا کر دیا…پیرس میں اِسلامی غیرت اور عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کی شمع اپنی جان سے روشن کرنے والو!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

قلم ہاتھ سے چھوٹتا ہے

سبحان اللہ ! کیسا تاریخی واقعہ ہے اور وہ تینوں شہداء کتنے عظیم ہیں…سچ کہتا ہوں جوش ،جذبے اور عقیدت سے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور قلم ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے…گستاخانہ خاکے بنانے والوں پر تڑ،تڑ گولیاں برسانے والے…بڑا اونچا مقام لُوٹ گئے… جس کے دل میں بھی ایک ذرہ برابر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم   ہو گا وہ ضرور…ان شہداء کرام کو خراج تحسین پیش کرے گا…ان کے لئے دعاء مانگنا اپنی سعادت سمجھے گا…مجھے تو اس ولولے اور خوشی کے موقع پر ایک شعر بھی سوجھا ہے…

میرے آقا کی محبت کا یہ منظر دیکھو

مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے

مَنْ لِی بِھٰذَا الْخَبِیْث

ہم جب اپنے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی زندہ سیرت پڑھتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ اَلفاظ ملتے ہیں:

’’مَنْ لِی بِھٰذَا الْخَبِیْث‘‘

کون ہے؟کون ہے، جو میرے لئے… یعنی محض میری عزت و حرمت کے لئے اس خبیث کو ختم کر دے…کون ہے اس خبیث کے مقابلے میں میری نصرت کرنے والا؟…یہ ۲ھ کا واقعہ ہے…ایک یہودی تھا ’’ابو عفک‘‘ … بہت بڈھا… بہت ناپاک اور بہت منہ پھٹ…یعنی اس زمانے کا ’’چارلی ایبڈو‘‘…وہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی گستاخی میں اَشعار بکتا تھا…گویا کہ اللہ تعالیٰ کو گالیاں بکتا تھا…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی گستاخی …دراصل اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی گستاخی…ہزاروں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ خطرناک جرم ہے…کیونکہ یہ جرم انسانوں کے لئے جہنم اور ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی کے دروازے کھولتا ہے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی شان اَقدس میں گستاخی پورے پورے شہروں کو آبادیوں سمیت جلا دینے سے بھی زیادہ مہلک اور نقصان دِہ گناہ ہے…یہ گناہ ایک ہستی کے خلاف نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے خلاف ہے… ابو عفک یہودی کی گستاخی جب حد سے گذر گئی تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے انسانیت کی حفاظت کے لئے نہایت درد کے ساتھ فرمایا:

’’مَنْ لِی بِھٰذَا الْخَبِیْث‘‘

’’کون ہے میرا مددگار،اس خبیث کے بارے میں؟‘‘

سبحان اللہ ! سعادت کا قرعہ حضرت سیّدنا سالم بن عمیر  رضی اللہ عنہ  کے حق میں نکلا…انہوں نے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے اَلفاظ مبارک سنے تو تڑپ اُٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   ! میں نے پہلے ہی منت مانی ہوئی ہے کہ ’’ابو عفک ‘‘ کو قتل کر دوں گا یا خود مر جاؤں گا… پھر فوراً تلوار لے کر نکلے اور اس ظالم ،موذی،کینسر، ایڈز، ایبولا کو ختم کر دیا… چارلی ایبڈو رسالے نے جب حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم   کی شان عالی مقام کی گستاخی کا ارتکاب کیا…کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر خنجر چلایا… احتجاج کے باوجود اَڑیل گدھوں کی طرح اپنی ضد پر اَڑے رہے…اور اپنی سکیورٹی پر ناز کرتے ہوئے اپنی گستاخی پر قائم رہے تو میں سوچتا ہوں…گنبد خضراء سے آواز آتی ہو گی…

’’مَنْ لِی بِھٰذَا الْخَبِیْث‘‘

’’کون ہے؟ کون ہے،میرا عاشق،میرا جانباز اس خبیث رسالے کے مقابلے میں؟ ‘‘

آہ! چار سال تک یہ آواز آتی رہی…ہم مسلمان روتے رہے، بلکتے رہے، شرم میں ڈوبتے رہے…کئی دیوانے چاقو چھریاں لے کر روانہ بھی ہوئے مگر پکڑے گئے یا مارے گئے… کئی دیوانے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر روئے بھی… ہر ایک چاہتا تھا کہ پکار کر کہے:

اَنَا یَا رَسُوْلَ اللہ، اَنَا یَا رَسُوْلَ اللہ

’’میں ہوں، میں ہوں…اے اللہ کے رسول! آپ کی عزت و حرمت کا بدلہ لینے والا‘‘…

 مگر قسمت جاگی تو شریف اور سعید کی…وہ مکمل تیاری کے ساتھ اپنے ہدف پر پہنچے اور ایسی جنگ لڑی کہ آسمان بھی جھک جھک کر دیکھتا اور سلام کرتا ہو گا… چارلی ایبڈو کا غرور اور گستاخی خاک میں مل گئی…کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر شفاء کا مرہم لگا…سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم … دنیا نے دیکھ لیا کہ اسلام کی گود ابھی بانجھ نہیں ہوئی…اور حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی محبت کا سورج آج بھی…الحمد للہ نصف النہار پر ہے…

میرے آقا کی محبت کا یہ منظر دیکھو

مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے

انصارِ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم 

ہم جب اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت مبارکہ پڑھتے ہیں تو اس میں ایک ایسا خوش نصیب ،خوش بخت، عالی مقام اور قابل رشک شخص بھی نظر آتا ہے جو آنکھوں سے معذور تھا مگر …اس کے دل کی آنکھیں روشن تھیں…

اُن کا اسم گرامی تھا…حضرت سیّدنا عمیر بن عدی  رضی اللہ عنہ

سب پڑھنے والے جھوم کر والہانہ دعا کریں:

رضی اللہ عنہ، رضی اللہ عنہ، رضی اللہ عنہ واَرضاہ

مدینہ منورہ میں ایک بدبخت عورت تھی…عصماء یہودیہ… یہ بھی حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کی شان مبارک میں گستاخانہ اَشعار بکتی تھی…حضرت عمیر بن عدی  رضی اللہ عنہ  نے قسم کھا لی کہ اس نجاست کو ضرور ختم فرمائیں گے…اور پھر رمضان المبارک کی ایک رات انہوں نے یہ سعادت حاصل کر لی…

ارے ! یہ تو ایسی عظیم عبادت اور عظیم سعادت ہے کہ…کوئی شخص سو سال تک کعبہ شریف میں عبادت کرتا رہے اور نہ تھکے…اور کوئی شخص سو سال تک مسجد نبوی شریف میں اِعتکاف کرے اور ہر نماز پہلی صف میں اَدا کرے…اور روز لاکھوں بار مواجہہ شریف پر… درودشریف پیش کرے… تب بھی وہ اس عاشقِ رسول کے برابر تو کیا قریب بھی نہیں ہو سکتا …جو کسی گستاخِ رسول کا خاتمہ کر دے… حضرت کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

’’ پیغمبر برحق  صلی اللہ علیہ وسلم   کی شان میں گستاخی کرنے والے کا قتل اَعظمِ قربات اور اَفضل عبادت میں سے ہے…‘‘

حضرت عمیر بن عدی  رضی اللہ عنہ  نے جب یہ عظیم کارنامہ سراَنجام دے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   بے حد مسرور ہوئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی‘‘

’’اگر آپ لوگ ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو‘‘

اب ایک اور بہت مزے کی بات سنیں… عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم   تک پہنچ جانا کتنی بڑی سعادت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ…حضرت عمیر بن عدی  رضی اللہ عنہ  ’’نابینا‘‘ تھے… لوگ انہیں ’’اَعمیٰ‘‘ یعنی نابینا کہتے تھے…آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے پابندی لگا دی کہ اِن کو اَعمیٰ یعنی نابینا نہ کہو یہ تو ’’بصیر‘‘ یعنی خوب دیکھنے والے ہیں…

سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم

ہاں ! اصل اَعمیٰ یعنی نابینا تو وہ ہیں جو … حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کے مقام کو نہیں دیکھ سکتے… وہ اَندھے جو اپنی آنکھوں سے دنیا بھر کی طاقتوں کو دیکھتے ہیں… دنیا بھر کے گناہوں کو دیکھتے ہیں… مگر کائنات کی سب سے روشن ہستی کو نہیں پہچانتے… ہاں! وہ اندھے ہیں جنہیں پاکستان میں ناموس رسالت کا قانون بُرا لگتا ہے… ہاں! وہ اَندھے ہیں جو گستاخانِ رسول کا تحفظ کرتے ہیں… اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم   کو نعوذ باللہ مجرم اور دہشت گرد سمجھتے ہیں… اَرے! وہ آنکھیں کس کام کی جو جمالِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کو نہ دیکھ سکیں… جو شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کا اِدراک نہ کر سکیں… سلام ہو! ان گرم خون نوجوانوں کو جنہوں نے ہمارے زمانے کی لاج رکھ لی… اور خاکے والوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا… ہاں ! وہ اللہ تعالیٰ کے ’’اَنصار ‘‘ ہیں… ہاں ! وہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے ’’اَنصار ‘‘ ہیں… دنیا لاکھ اُن کی مذمت کرے… ہم اُن سے محبت رکھتے ہیں…اُن کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں… اگر اُن کی تعریف کرنا جرم ہے…تو ایسا جرم بھی سعادت… اگر میں شاعر ہوتا تو آج ایک پورا قصیدہ…ان سچے جانباز عاشقوں کی شان میں لکھ دیتا…فی الحال تو…میرا دل ان کے ساتھ خوشی کا رقص کر رہا ہے…

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں

بصد سامان رُسوائی سرِ بازار می رقصم

جو ہونا ہے، ہوتا رہے

یورپ والے بڑے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں…ہر ملک اپنی سیکیورٹی سخت کر رہا ہے… یہ بیوقوف اتنا نہیں سوچتے کہ نائن الیون کے بعد سے تم سب یہی کچھ تو کر رہے ہو… مار رہے ہو،پکڑ رہے ہو، بمباری کر رہے ہو،…پھانسیاں دے رہے ہو…سیکیورٹی سخت کر رہے ہو…دھمکیاں دے رہے ہو،ڈرا رہے ہو… مگر تمہارے ان تمام اِقدامات کا کیا نتیجہ نکلا؟… سوچو، سوچو! کہ جہاد کمزور ہوا یا طاقتور… قتال فی سبیل اللہ محدود ہوا یا وسیع؟… اِسلام کی خاطر لڑنے والے کم ہوئے یا زیادہ؟… اب تم مزید بھی یہی اِقدامات کرو گے تو نتیجہ پہلے جیسا ہی نکلے گا…جب تم گستاخانہ خاکے بناؤ گے تو کیا حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   کے دیوانے عاشق…ہاتھ میں چوڑیاں پہن کر بیٹھے رہیں گے؟… فرانس کو بڑا شوق ہے بمباری کا…افغانستان ہو یا لیبیا یا عراق…اس کے میراج طیارے ہر جگہ سب سے پہلے مسلمانوں پر بم برسانے پہنچ جاتے ہیں… تم بم برساؤ گے تو کیا مدینہ منورہ کے بیٹے تم پر پھول نچھاور کرتے رہیں گے؟… اَرے مان لو! کہ اسلام ایک حقیقت ہے… جہاد ایک حقیقت ہے… اور حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   کی محبت ایک بہت بڑی حقیقت ہے… تم جس قدر جنگ کی آگ بھڑکاتے جاؤ گے…سختیاں کرتے جاؤ گے…مسلمان اسی قدر مضبوط اور جنگجو ہوتے چلے جائیں گے…کل جب تم نے خاکے بنائے تو ہم نے کہا تھا…

خاک ہو جائیں گے خاکے بنانے والے

اور آج الحمد للہ ہم یہ کہنے کے قابل ہو گئے کہ…

مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے

یاد رکھو! مسلمان کے لئے موت…کوئی ڈراوے کی چیز نہیں … بلکہ یہ تو وہ حسینہ ہے جس کے اَنگ اَنگ میں لذت اور راحت ہے…مسلمان اپنے دین کا… اپنے اللہ کا اور اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   کا وفادار ہی رہے گا…اِن شاء اللہ…

اُسے یہ پرواہ نہیں کہ… کیا ہو گا؟…جو ہوتا ہے، ہوتا رہے…ہمارے لئے کل بھی اَللّٰہ… آج بھی اَللّٰہ… حسبنا اللّٰہ …اَللّٰہ ہی اَللّٰہ …اَللّٰہ ہی اَللّٰہ

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر479

 

مال میں برکت کی کنجی... زکوٰۃ کی ادائیگی...

کئی مسلمان زکوٰۃ سے غافل...بجھے دل سے زکوٰۃ دینے والے...

حج پر خوشی زکوٰۃ سے تنگی... ایک غلط طرزِ عمل...

زکوٰۃ کے بارے میں ایک مرد مومن کا ایمانی عمل...

ایک ایمان افروز واقعہ...

مغلیہ خاندان کے قاضی کا حیلۂ بد... عبرتناک انجام...

مسلمان کی ایمانی فکر...مال بنانا کس کا مقصد حیات ؟

اللہ کے لئے خرچ کئے جانے والے مال کی قیمت...

پرویز مشرف کی جہاد دشمنی...یورپ میں جہاد کا فروغ...

اہل کفر پر مجاہدین کا رُعب اور خوف...

احیاء فرائض کے سلسلے میں ایک رہنما تحریر...

مسلمان کا اس دنیا میں اور کیا کام؟

اللہ تعالیٰ نے ’’زکوٰۃ‘‘ میں برکت بھی رکھی ہے اور رحمت بھی… مسلمان جب خوشی،جذبے اور شوق کے ساتھ ’’زکوٰۃ‘‘ ادا کرتے ہیں تو ان کا مال خوب پاک ہو جاتا ہے اور بہت بڑھ جاتا ہے … اور آسمان سے برکت والی بروقت بارش ہوتی ہے … ایسی بارش جو قحط،بیماری اور نحوست کو دور کر دیتی ہے…مگر افسوس کہ مسلمان ’’زکوٰۃ‘‘ کے بارے میں بہت ظلم کرنے لگے ہیں…بہت سے مسلمان زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتے…کتنا بڑا جرم ہے،کتنا بڑا …اسلام کے ایک محکم اور قطعی فریضے کو چھوڑ دینا… واقعی بڑا دردناک جرم ہے…

اور بہت سے مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں … مگر رو رو کر،ناپ ناپ کر اور بجھے دل کے ساتھ … ہائے! افسوس کہ اتنی بڑی خوشی کے موقع کو اپنے لئے غم بنا دیتے ہیں…زکوٰۃ تو فرض ہے…اور ایک مسلمان فرض ادا کرتے وقت اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے ایک ایک بال پر لذت طاری ہو جاتی ہے…اور اس کا دل خوشی سے رقص کرتا ہے کہ…الحمد للہ، الحمد للہ مجھے اپنے رب کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق ملی…اللہ والے تو مال ملنے پر پہلی خوشی ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ہم ایک اسلامی فریضہ ادا کرنے کے قابل ہو گئے…سبحان اللہ! اب ہم زکوٰۃ ادا کریں گے…یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان الحمد للہ حج پر تو خوش ہوتے ہیں…اچھی بات ہے…مگر زکوٰۃ پر خوش نہیں ہوتے…شاید شیطان کی محنت کا اثر ہے…ورنہ غریب سے غریب مسلمان کے لئے مال میں پہلی خوشی یہ ہوتی تھی کہ …اس میں سے زکوٰۃ ادا کریں گے … ارے بھائیو! اور بہنو! ساری دنیا کی نفل عبادت مل کر ایک فرض کے برابر نہیں ہو سکتیں…اور اسلام کی پوری عمارت ’’فرائض‘‘ پر کھڑی ہے…فرائض کے برابر نہ کوئی سنت ہو سکتی ہے اور نہ کوئی اور غیر فرض نیکی…ہم نے اپنی زندگی میں خوشی خوشی حج کرنے والے تو بہت مسلمان دیکھے ہیں…مگر دل کے شوق اور مزے کے ساتھ زکوٰۃ نکالنے والے بہت کم دیکھے ہیں… ایک صاحب کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی…ان کو زکوٰۃ نکالنے کا ایسے شوق تھا جس طرح کسی چیز کے عادی انسان کو اس چیز کا شوق ہوتا ہے…وہ سال پورا ہونے سے پہلے اپنے سارے مال کی زکوٰۃ ادا کر دیتے…مگر ان کا دل نہیں بھرتا تھا…پھر اپنے منشی کو بلا کر کہتے کہ یار اگلے سال کی زکوٰۃ بھی حساب کرکے نکال دو…یوں ہر وقت اگلے کئی کئی سالوں کی پیشگی زکوٰۃ ادا کرتے رہتے…مگر ان کا مال اتنا بڑھ جاتا کہ سال کے آخر میں انہیں حساب کر کے مزید زکوٰۃ ادا کرنا پڑتی…جس پر ان کی خوشی اور بڑھ جاتی…بس اس اللہ کے بندے کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ …فرائض اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں…فرائض کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ کا خصوصی قرب ملتا ہے…اور فرائض سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں…چنانچہ اس کے دل میں فرائض کی محبت بیٹھ گئی…وہ فرائض سے عشق کرنے لگا… فریضہ نماز خود بھی ادا کرتا اور دوسروں کے لئے مسجدیں بھی بناتا…جماعت کی ایک بڑی مسجد اس نے اکیلے ہی بنا کر دے دی…زکوٰۃ کا اسے حرص تھا،اس کا بس چلتا تو روز اپنا مال گن کر ہر دن چالیسواں حصہ زکوٰۃ نکال دیتا…ہاں! واقعی مال کا اصل فائدہ ہی یہ ہے کہ اس سے اپنے محبوب کی محبت حاصل کی جائے…حج بھی وہ پابندی سے کرتا اور اپنے ساتھ بہت سے غریب مسلمانوں کو بھی حج کراتا…اور فریضہ جہاد میں بھی اس نے دل کھول کر مال لگایا…اللہ کرے وہ جہاں بھی ہو…اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہو…زکوٰۃ کی وجہ سے اس کے مال میں بے حد برکت تھی…ایک بار بتا رہے تھے کہ میں نے سال کے شروع میں سارا مال شمار کر کے دو سال کی زکوٰۃ ادا کر دی…سال کے آخر میں جب حساب ہوا تو مال اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ دو سال کی زکوٰۃ …ایک سال کے لئے بھی پوری نہ ہوئی… چنانچہ مزید زکوٰۃ نکالی…یعنی اس سال ان کے مال میں سو فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا…مگر وہ کبھی بھی اس نیت سے زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے کہ مال میں برکت ہو…بلکہ ہمیشہ یہی نیت کہ اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو…اللہ تعالیٰ کا فرض ادا ہو…اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت نصیب ہو…جبکہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو طرح طرح کی تاویلیں کر کے…زکوٰۃ سے اپنی جان بچاتے ہیں…یعنی اپنی جان کو نعمت زکوٰۃ سے محروم رکھتے ہیں…مغلیہ خاندان کے دور اقتدار میں ایک قاضی تھے…ان کے علمی مقام کی وجہ سے ان کو بادشاہ سے بڑے بڑے انعامات اور ہدایا ملتے تھے مگر ان پر بخل کا کینسر حملہ آور تھا…وہ گیارہ مہینے مال اپنے پاس رکھتے اور بارہویں مہینے وہ سارا مال اپنی بیوی کو ہدیہ کر دیتے…زکوٰۃ کے وجوب کے لئے مال پر ایک سال گزرنا شرط ہے تو وہ کہتے کہ…میرے پاس تو یہ مال ایک سال رہا نہیں اس لئے مجھ پر زکوٰۃ نہیں ہے…اور بیوی بھی خاوند جیسی تھی، وہ گیارہ مہینے بعد سارا مال خاوند کو ہدیہ کر دیتی…یوں دونوں نے پوری زندگی زکوٰۃ ادا نہ کی…ان کی اولاد بھی نہیں تھی…دونوں سارا مال چھوڑ کر مر کھپ گئے اور بادشاہ نے وہ مال اٹھوا کر شاہی خزانے میں جمع کرا دیا…اکثر عورتیں اس مرض کا شکار ہیں کہ … زیور کی زکوٰۃ ادا کرنے سے ڈرتی ہیں کہ وہ کم ہو جائے گا…اری مسلمان بہن! ایسے مال اور ایسے زیور کا کیا فائدہ جس سے تم اسلام کے ایک اہم فریضے کو ادا نہ کر سکو…مسلمان تو دنیا میں آیا ہی … ایمان پر قائم رہنے،فرائض ادا کرنے،دین پر عمل کرنے،دین کیلئے غیرت کھانے،مخلوق کے شرعی حقوق اداکرنے اور ایمان پر مرنے کے لئے ہے …مسلمان کا اس دنیا میں اور کیا کام؟…کھانا،پینا،خواہشات پوری کرنا … اور جائیدادیں بنانا؟یہ کسی مسلمان کا مقصد زندگی نہیں ہو سکتا…یہ تو جانوروں اور کافروں کا مقصد حیات ہے…مسلمان تو اس تاک میں رہتا ہے کہ کب وقت داخل ہو تو میں فرض ادا کروں …کب مال ملے تو میں زکوٰۃ ادا کروں اور اس مال سے جنت خریدوں…کئی غریب لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ شرعاً ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی مگر ان کو سو روپے بھی ہاتھ آ جائیں تو فوراً ڈھائی روپے نکال کو زکوٰۃ ادا کر دیتے ہیں کہ…چلو ایک فرض کی مشابہت اور صدقہ کا اجر تو مل جائے گا…سو روپے میں سے ڈھائی روپے نکالنے سے کیا کمی آتی ہے؟ …کچھ بھی نہیں …مگر یہی ڈھائی روپے جب نکال دئیے جائیں تو وہ کروڑوں سے بھی زیادہ قیمتی بن جاتے ہیں…کیونکہ ایک فرض کو زندہ کرنے کے لئے نکالے گئے ہیں…اور فرائض پرہی دین قائم ہے… اور فرائض پر ہی دنیا قائم ہے…آج ہمارے ملک میں بارش کا بحران ہے…اس سال کئی علاقوں میں خوفناک قحط پڑا ہے…ہر طرف خشک سالی ہے…اور حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی نحوست بھی… ان حالات کو دیکھ کر خیال آیا کہ مسلمانوں کو…زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی جائے…اور زکوٰۃ کا شوق دلایا جائے…اسی مقصد کے تحت یہ چند سطریں لکھی ہیں…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…خود بھی عمل کریں اور دوسرے مسلمان تک بھی یہ پیغام پہنچائیں … ہمارا ملک اس وقت بہت خطرناک دور سے گزر رہا ہے…پرویز مشرف کے جن اقدامات کی وجہ سے اس پُر اَمن ملک میں ’’بد امنی ‘‘ آئی…موجودہ حکومت انہی اقدامات کو زیادہ شدت کے ساتھ نافذ کر رہی ہے…عجیب بات ہے کہ کلمہ پڑھنے والے اور خود کو مسلمان کہلانے والے حکمران … اسلام کے ایک قطعی فریضے ’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ کو نعوذباللہ گالی اور جرم بنا کر پیش کر رہے ہیں …

توبہ،توبہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ

کیا ان لوگوں نے قرآن مجید نہیں پڑھا؟ … کیا ان لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت مبارکہ نہیں پڑھی؟…یہ جن کافروں کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں…وہ کافر ان کے کسی کام نہیں آئیں گے…الٹا یہ ملک زیادہ بد امنی کا شکار ہو جائے گا…کیونکہ حکمران جو دہشت پھیلا رہے ہیں…یہی بعد میں دہشت گردی بن جاتی ہے…یقین نہ آئے تو پاکستان کے گذشتہ بیس سال کے حالات کو سامنے رکھ لیں…اب تو امریکہ اور یورپ سے خود مجاہدین…اٹھ رہے ہیں… حالانکہ وہاں نہ تو کوئی مدرسہ ہے…اور نہ کوئی ’’جہادی تنظیم‘‘ …وہاں نہ تو عورتوں پر کوئی پابندی ہے… اور نہ لاؤڈ سپیکر کھلے ہیں…مگر ہزاروں یورپین مسلمان…جہاد کے لئے شام و عراق پہنچ چکے ہیں… اور ابھی حال ہی میں تین چار مجاہدین نے…پیرس کے گستاخانِ رسول کو خاک میں ملا دیا ہے…جمعۃ المبارک کے مقدس دن شہید ہونے والے…شریف کواچی شہید اور سعید کواچی شہید کی تدفین خفیہ مقامات پر کر دی گئی ہے…اندازہ لگائیں کہ خود کو ایٹمی پاور اور سپر پاور کہلوانے والے ممالک… مجاہدین کی لاشوں تک سے ڈرتے ہیں…ابھی تیسرے مجاہد احمدی شہید کی تدفین باقی ہے… یقیناً ان کی خوشبودار،کشادہ اور پُرتعیش قبر بے چینی سے ان کا انتظار کر رہی ہو گی کہ… کب محبوب آئے گا تو اسے لذتوں اور مزوں سے سرشار کر دوں گی…

اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو…شہدائے ناموسِ رسالت پر…اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو تمام شہدائے اِسلام پر…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللّٰہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر480

 

ایک سچا واقعہ... ایک روشن سبق...

گرفتاری کے ابتدائی ایام کا ذکر...دُنیا کے دھوکے اور امتحان...

کفر کے گھروں میں شادیانے اور اہل ایمان پر تنگیاں...

پاکستان کی حکومت کے ظالمانہ اقدامات...عذاب آنے کو ہے...

دُنیا بھر میں مجاہدین کے لئے امتیازی قوانین...

پرویز مشرف کے کیس میں انصاف کا خون...

جیل تبدیلی کیلئے بھوک ہڑتال کا حربہ... ایک ایمانی داستان...

آزمائش کے آٹھ سخت دن اور ان کا تشدد...

تکلیف کا آخری دن اور آزمائش کی شدت...

آخری گھنٹوں کا کرب... صبر و استقامت پر ملنے والا انعام...

نہتے مجاہدین کی کامیابی اور کفر کی ذلت آمیز شکست...

تنگ جیل سے کھلی جیل منتقلی...

شکست خوردہ کفر کی پاکستان کے لئے حکمت عملی...

آخری گھنٹوں کے خوفناک کھیل کا آغاز...

ماضی کو حال سے ملاتی ایک رہنما تحریر...

 

آخری گھنٹے

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مغفرت،ثابت قدمی اور نصرت عطاء فرمائے…

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ

ایک سچی کہانی

آج کی مجلس میں ایک سچی کہانی عرض کرنی ہے…اور اسی کہانی کی روشنی میں موجودہ حالات پر چند باتیں…اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے…

گیارہ فروری 1994؁ء…کشمیر کے علاقہ ’’اننت ناگ‘‘ سے ہماری گرفتاری ہوئی…پہلے کچھ دن کھندرو کیمپ میں رکھا گیا…اور پھر بادامی باغ کے ’’آرمی عقوبت خانے‘‘ آر آر سینٹر منتقل کر دیا گیا… یہ کہانی بادامی باغ سری نگر کے اسی عقوبت خانے کی ہے…

دنیا دھوکے اور امتحان کی جگہ

دنیا ہر انسان کا عارضی گھر ہے…اور یہ امتحان گاہ ہے… اللہ کے دشمن کرسیوں پر اور اللہ کے دوست سولیوں پر…اللہ کے دشمن ہنستے دمکتے …اور اللہ کے دوست روتے بلکتے درد سے کراہتے… اللہ کے دشمن حکمران اور اللہ کے دوست قید میں …یہ سب کچھ امتحان ہے کہ…کون اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہتا ہے اور جنت خریدتا ہے…اور کون دنیا کے یہ رنگ دیکھ کر گمراہ ہو جاتا ہے… آج 26جنوری تھی اس زمانے کا ابرہہ یعنی اُبامہ اور اس زمانے کا ابو جہل یعنی مودی…کس قدر خوش تھے… ان کے گرد بڑی فوج،بڑے پہرے تھے …انڈیا میں یوم آزادی کی پریڈ تھی…کافروں نے اپنی شان و شوکت دکھانے کی ہر کوشش کی … منافقین منہ میں رال لئے اُن کو دیکھتے رہے کہ… کاش! ہمیں بھی ایسی عزت ملے… جبکہ اہل ایمان پر آج کا دن بھی آزمائش والا گزرا… چھاپے ، گرفتاریاں،غم، آنسو…اور ایک دوسرے کو دلاسے…پاکستان کی موجودہ حکومت نے تو ظلم اور کفر نوازی میں سابقہ تمام حکومتوں کو مات دے دی ہے…مگر ظلم کا انجام بھی بھیانک ہوتا ہے…یہ حکومت اور اس کے حکمران بھی…بد دعاؤں کی زد میں آنے کو ہیں…انہوں نے تو چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بھی روند ڈالا ہے…اور یہ دنیا کی واحد اسلامی حکومت ہے جو نعوذ باللہ جہاد جیسے مقدس اسلامی فریضے کو ’’جرم‘‘ قرار دے کر عذابِ الٰہی کو آوازیں دے رہی ہے…دنیا امتحان کی جگہ ہے یہاںموٹی اور تنی ہوئی گردنوں والے حکمرانوں کو…ایک وقت تک ڈھیل دی جاتی ہے…اور پھر رسی کھینچ لی جاتی ہے… دوسری طرف اہل ایمان ہمیشہ آزمائے جاتے ہیں…انبیاء علیہم السلام  اور ان کے بعد سچے ایمان والے…طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالے جاتے ہیں…اور یہ آزمائشیں ان کے لئے حقیقی کامیابی کی ضمانت اور جنت کا ٹکٹ بن جاتی ہیں…جبکہ کافروں اور منافقوں کو جو کچھ دینا ہوتا ہے اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے…اور آخرت میں ان کے لئے عذاب کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہوتا…آج دنیا بھر کی جیلوں میں اہل ایمان…اپنی ایمانی آزمائش کے دن کاٹ رہے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سچے اہل ایمان میں شمار فرمائے…ہم نے بھی چند سال جیل کاٹی…اس قید کا پہلا سال سری نگر کے بادامی باغ میں گذرا…

قانون بدل جاتے ہیں

غزوۂ بدر سے لے کر جہاد افغانستان تک … ہر جہاد میں کافروں کو ایسی مار پڑی کہ جہاد کے نام سے ان کی روحیں کانپتی ہیں…اسی لئے وہ منافق حکمرانوں کو استعمال کرتے ہیں کہ…جہاد کے خلاف کام کرو… آج دنیا کی ہر جیل میں خواہ وہ مسلمانوں کے ممالک کی ہو یا کفار کے ملکوں کی… مجاہدین کے لئے الگ سیل ہوتے ہیں،الگ طرح کا تشدد ہوتا ہے …اور ان کے لئے ملک کا ہر قانون تبدیل کر دیا جاتا ہے…

پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں …کئی مسلمان پھانسی پر لٹکا دیئے گئے…ان کا کیس لڑنے والا ایڈووکیٹ چیختا رہا کہ… پرویز مشرف خود زندہ ہے توپھر کوئی اس کا قاتل کیسے بن گیا؟…مگر یہ لوگ داڑھیوں والے تھے،دین سے نسبت رکھتے تھے تو انہیں بے دردی سے لٹکا دیا گیا… یعنی زندہ مقتول کے قاتل مار دیئے گئے… جبکہ صولت مرزا نے ایک سو قاتلانہ وارداتوں کا اقرار کیا…مگر چونکہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ ابھی تک زندہ ہے…معلوم نہیں یہ حکمران کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے…بادامی باغ کا آر آر سینٹر کوئی جیل نہیں تھا…وہ ایک تفتیشی مرکز تھا…قانون کے مطابق وہاں کسی بھی قیدی کو صرف نوے دن تک رکھنے کی اجازت تھی…پھر یا تو اسے رہا کر دیا جاتا تھا یا کیس بنا کر جیل بھیج دیا جاتا تھا…یہ بہت تنگ اور اذیت ناک جگہ تھی… وہاں نوے دن رہنا بھی آسان کام نہیں تھا…مگر جب ہمارا معاملہ آیا تو یہ قانون بھی تبدیل ہو گیا اور ہمیں ایک سال کے لگ بھگ غیر قانونی طور پر اس سینٹر میں رکھا گیا…مقامی کشمیری مجاہدین آتے اور چلے جاتے مگر ہم پاکستانی اپنے تنگ اور تاریک سیلوں میں پڑے رہ جاتے…اور ہمیں کہا جاتا کہ تم نے بس یہیں رہنا ہے، یہیں مرنا ہے…اسی دوران کسی خیرخواہ نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ لوگ یہاں سے نکلنے کے لئے کچھ کریں…کیونکہ یہاں رہتے ہوئے نہ تو آپ کا اپنے گھروں سے رابطہ ممکن ہے …اور نہ ساتھیوں سے…اور چونکہ آپ لوگوں کو یہاں غیر قانونی طور پر رکھا گیا ہے تو اس لئے جب …معاملہ اوپر تک جائے گا تو شاید قانون کے مطابق آپ کو جیلوں میں شفٹ کر دیا جائے…مشورہ معقول تھا اور آپس کے مشورے میں طے پایا کہ بھوک ہڑتال کی جائے…ایسی بھوک ہڑتال جس میں جان نہ جائے کہ خود کشی ہو …مگر حکام پر کچھ دباؤ آ جائے…ہم بارہ افراد تھے…اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ہم نے بھوک ہڑتال شروع کر دی…اور مطالبہ یہ رکھا کہ ہمیں بھی جیل منتقل کیا جائے…

آزمائش کے آٹھ دن

ہم پہلے ہی عقوبت خانے کی آزمائش میں تھے …اب ساتھ بھوک ہڑتال بھی چل پڑی… ابتداء میں مقامی حکام نے سمجھانے کی کوشش کی …مگر ہم مضبوط رہے…پھر انہوں نے زور زبردستی شروع کی…مگر ہم ڈٹے رہے…وہ ہمیں اپنی سیلوں سے نکال کر باہر برآمدے میں بٹھا دیتے اور ہمارے سامنے ابلے ہوئے چاولوں کی پلیٹیں رکھ کر…بھاشن دیتے کہ آپ لوگ کھانا کھا لو…کھانا نہ کھانے سے آپ کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں…کھانا نہ کھانے میں آپ لوگوں کا اپنا ہی نقصان ہے…اور آپ کا دھرم(دین) بھی بھوک ہڑتال کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ…اس وقت ہم اپنا مطالبہ دہراتے کہ نہیں ہم نے ہرگز کھانا نہیں کھانا…آپ لوگ کم از کم اپنے قانون کا تو احترام کرو وغیرہ…

یہ سلسلہ چار دن چلا …ہمارے بعض ساتھی کمزور ہو گئے اور بعض بیمار…مجبوراً مقامی حکام کو اوپر بتانا پڑا…تب ویڈیو کیمرے لا کر ان کے سامنے وہی سب کچھ کیاگیا جو روز ہوتا تھا…پھر بعض ساتھی بیمار ہو گئے تو انہیں آرمی کے ہسپتال لے جایا گیا…جہاں ان کی داڑھیاں کاٹ دی گئیں اور زبردستی ان کی بھوک ہڑتال ختم کرا دی گئی… باقی جو ساتھی رہ گئے ان کو روز ڈرایا دھمکایا جاتا… مختلف طریقے سے خوف پھیلایا جاتا…اور بعض ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا…

آخری دن

بالآ خر وہ دن آ گیا جس میں ہمارے لئے فتح اور آسانی مقدر تھی…مگر انسان کہاں جانتا ہے کہ کون سا دن فتح والا ہے اور کون سا دن شکست والا …اس دن کا آغاز بہت مشکل تھا مگر اختتام بہت پیارا…صبح سے ہی ہمیں ڈرانے،دھمکانے کا عمل تیز ہو گیا…بعض ساتھیوں کو میڈیکل روم لے کر جا کر سخت مارا گیا…اور پھر انہیں نڈھال حالت میں لا کر ہمارے سامنے گھسیٹتے ہوئے اپنے سیلوں میں ڈال دیا گیا…حکام اس دن سرخ آنکھوں کے ساتھ آتے اور طرح طرح کی گالیاں بکتے…اور کہتے کہ آج اگر تم نے بھوک ہڑتال نہ توڑی تو ہم تمہیں ’’بی ایس ایف‘‘ کے ٹارچر سیل ’’پاپا ٹو‘‘ میں ڈال دیں گے…’’پاپاٹو‘‘ کے تشدد کی داستانیں وہاں بہت عام اور بہت دردناک تھیں…

جب دو ساتھیوں کو بہت مارا گیا تو …ان کی حالت دیکھ کر اکثر ساتھیوںکا غم سے برا حال ہو گیا…انسان اپنی تکلیف سہہ لیتا ہے مگر اپنے عزیز ساتھیوں کی تکلیف سے دل زخمی ہو جاتا ہے… ایک معزز ساتھی کسی طرح میرے سیل پر آئے اور کہنے لگے …اب ہمیں بھوک ہڑتال توڑ دینی چاہیے…اور ساتھیوں کو کھانے پینے کی اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ…ظلم اور تشدد بہت بڑھ گیا ہے…اور اگر ہماری قسمت میں اسی عقوبت خانے کا دانہ پانی ہے تو …اپنے مقدر کو قبول کر لینا چاہیے…اب ساتھیوں کو مزید مار کھاتے دیکھنا میرے بس میں نہیں…آپ اس پر ہمدردی سے سوچ لیں… میں ان کی بات سے متاثر ہوا اور کہا کہ میں دو رکعت پڑھ کر استخارہ کرتا ہوں…پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں…اللہ اکبر کبیرا…وہ عجیب دردناک لمحات تھے…کمزوری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز ادا نہیںکر سکتا تھا…اب دل پر مزید بوجھ کہ اگر ہم بھوک ہڑتال توڑیں تو…مشرکین کے سامنے اہل اسلام کی پسپائی اور ظاہری شکست ہے…اور اگر بھوک ہڑتال جاری رکھیں تو…مظلوم اور مسافر مجاہدین پر مزید تشدد کے ہم ذمہ دار بنتے ہیں… اس وقت جو حالت تھی،کیفیت تھی،درد تھا اور بے بسی تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے… بیٹھے بیٹھے دو رکعت نماز ادا کی اور دعاء میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی…ذہن اسی طرف جا رہا تھا کہ ساتھیوں کو تشدد سے بچایا جائے اور بھوک ہڑتال ختم کر دی جائے…دعاء کے دوران بوٹوں کی زور دار آواز آئی…ایک سپاہی تیزی سے میرے سیل کے سامنے آیا بلند آواز سے مجھے برا بھلا کہا…کھانا کھانے کا اصرار کیا اور اسی درمیان چپکے سے منہ قریب کر کے کہا…آپ کا مسئلہ حل ہونے والا ہے …چند گھنٹے ہیں، مضبوط رہنا…یہ آہستہ سے یہ کہہ کر پھر بلند آواز سے بھوک ہڑتال توڑنے کا کہتا ہوا تیزی سے واپس چلا گیا…اور یوں …غریب ،مسافر،بے بس،نڈھال اور کمزور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت آ گئی…اس نے چند گھنٹوں والی جو بات کہی تھی وہ فوراً سب ساتھیوں کو بتا دی گئی…اور سب کے جذبے دوبارہ جوان ہو گئے…

آخری گھنٹے

غالباً اوپر کے حکام نے نیچے والوں کو اب یہ آخری تین چار گھنٹے دئیے تھے کہ ان میں …جو کر سکتے ہو وہ کر کے بھوک ہڑتال ختم کراؤ…ورنہ ہمیں مجبورا ًان کو جیل میں منتقل کرنا پڑے گا… بس پھر کیا تھا…

عقوبت خانے کے حکام نے ہم پردباؤ کی حد کردی… ایسا سخت دباؤ کہ اگر ہمیں پہلے سے اطلاع نہ مل چکی ہوتی تو یقینا ہم ٹوٹ جاتے… آخر گوشت پوست کے بنے کمزور انسان تھے… ان آخری چار گھنٹوں میں ایسا خوفناک اور دہشت ناک ماحول بنایا گیا کہ…کبھی کبھار دل مکمل طور پر بیٹھ جاتا اور یہ خیال آتا کہ شاید وہ اطلاع بھی جھوٹی ہے…اور ہمیں پھنسانے کے لئے خود ہی غلط اطلاع دی گئی ہے…مگر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی …اور ہم ان کی سختی کے مقابلے میں پہلے سے بھی زیادہ سختی،مضبوطی اور عزیمت دکھانے لگے… بالآخرچار گھنٹے بعد یہ خونی تماشا ختم ہوا…سرخ آنکھوں والے چہرے مسکراتے ہوئے آئے… کچھ نئے لوگ بھی ساتھ تھے…ہمیں مبارک باد دی کہ ابھی گاڑیاں پہنچ رہی ہیں…آپ کوٹ بھلوال جا رہے ہیں …چلو ہمارا آخری کھانا کھا لو…ہم نے کہا: ہم کوٹ بھلوال جا کر کھا لیں گے …تھوڑی دیر میں گاڑیاں آ گئیں اور ہم تنگ جیل سے ایک کھلی جیل کی طرف روانہ ہو گئے…

موجودہ حالات

الحمد للہ کفر کے اتحادی لشکر عبرتناک شکست کھا چکے ہیں…زمانے کا مؤرخ حیران ہے کہ اس واقعہ کو کیسے لکھے کہ…چالیس ملکوں کے مشترکہ اتحادی لشکر نے افغانستان میں اکیلے طالبان سے شکست کھائی ہے…ایٹمی طاقتوں کا غرور ٹوٹ چکا ہے…اور وہ جس جہاد کو مٹانے نکلے تھے وہ جہاد خود ان کے ملکوں میں داخل ہو چکا ہے…اور مجاہدین کے بڑے بڑے نئے لشکر وجود میں آ چکے ہیں…افغانستان سے غیر ملکی افواج تیزی سے نکل رہی ہیں…مگر وہ جاتے جاتے آخری لمحات میں ایسا خوف، ایسا ظلم اور ایسی دہشت مچانا چاہتے ہیں کہ…شاید اس کی وجہ سے وہ مجاہدین سے اپنی شکست کا بدلہ لے سکیں…اور اپنی شرمندگی کو کچھ کم کر سکیں…ساتھ ہی وہ ’’ پاکستان‘‘ کو اپنی شکست کا بڑا ذمہ دار سمجھتے ہیں …اور چاہتے ہیں کہ … جاتے جاتے اس ملک کو کھنڈر بنا جائیں…

بس اب آخری گھنٹوں کا خونی کھیل شروع ہے…پاکستان میں ہر طرف مارو،پکڑو، لٹکاؤ کی آوازیں ہیں…اور یہ ملک ایک نئی خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے…اور مجاہدین پر ہر طرف سے دباؤ ہے،تشدد ہے اور سخت پابندیاں ہیں…ہاں! شکست کھانے والا کفر ہمیشہ آخری گھنٹوں میں … یہی حرکت کرتا ہے…مگر اے مجاہدین اسلام!

یہ تو سوچو کہ…گذشتہ چودہ سال تم کس کی نصرت سے ’’فتح یاب‘‘ ہوئے؟…ہاں! صرف ایک اللہ کی نصرت سے…صرف اللہ تعالیٰ کی نصرت سے…

تو پھر ان آخری گھنٹوں میں بھی…اللہ تعالیٰ موجود ہے…وہ ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا… حوصلہ رکھو، ایک دوسرے کو حوصلہ دلاؤ…تشدد سے نہ گھبراؤ…پابندیوں اور بیانات سے نہ ڈرو… اللہ تعالیٰ کل بھی موجود تھا، آج بھی موجود ہے… اللہ تعالیٰ کل بھی ناصر تھا…آج بھی ناصر ہے… اسی کی طرف رجوع کرو…اور اسی کو پکارو…

اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر481

 

حکیم العصر حضر ۃمولانا عبدالمجید لدھیانوی کا والہانہ تذکرہ...

اہل حق کے جنازوں کی شان... امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کا مقدمہ...

امام کا چیلنج... اللہ تعالیٰ نے ان کی لاج رکھی...

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے کچھ احوال...نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک جامع دُعاء...

پانچ بنیادی ضروریات کا سوال...

جنازے میں شرکت اور تدفین میں حاضری کی فضیلت...

انبیاء اور شہداء کی حیات بعدالموت...بعض جنازوں کی خاص شان...

ان میں شرکت پر مغفرت کا انعام...

پاکستان میں اہل حق پر ابتلاء کادَور...

حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی قدس سرہٗ کے اوصاف...

خیر کا تذکرہ .... ختم نبوت کے جری سالار... قافلہ سیّد احمد شہید کے حدی خواں...

دَور حاضر کی ایک تاریخ ساز شخصیت کا ذکر خیر لئے روشن تحریر...

 

ایک تاریخ ساز شخصیت

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو ایمان اور راحت والی موت عطاء فرمائے…

ہمارے زمانے کے ایک بڑے عالم… بزرگ اور اللہ والے…شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا عبد المجید لدھیانوی صاحب گذشتہ کل انتقال فرما گئے…

 اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ؁…اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہُ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہْ

آج ’’ کہروڑپکا ‘‘ میں اُن کا جنازہ بڑی شان سے اُٹھا…اہلِ اسلام کا ایسا ہجوم تھا کہ شمار کرنا مشکل…علماء، مجاہدین، طلبہ اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد،دور اور قریب ہر جگہ سے کھنچے چلے آ رہے تھے…واقعی تاریخی جنازہ تھا بلکہ تاریخ کو زندہ کرنے والا جنازہ تھا…

آپ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں…اہل حق کے جنازے عجیب شان سے اُٹھے…حضرت امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے تو اپنی زندگی میں فرما دیا تھا کہ …اے حکمرانو! اے دین میں تبدیلیاں کرنے والو!

’’ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْجَنَائِز‘‘

ہمارااور تمہارا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے…اللہ والوں کے جنازوں میں مخلوق ہر طرف سے اُمڈتی ہے…اللہ تعالیٰ کے ملائکہ بھی ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں…اور حضرات شہداء کرام کی ارواح بھی بعض خاص جنازوں میں حاضر ہوتی ہیں… گویا کہ دین کے ان خادموں کے جنازے ’’یوم مشہود ‘‘ ہوتے ہیں…وہاں حاضری ہی حاضری ہوتی ہے… فرشتے، اولیاء، خواص،عوام اور معلوم نہیں کون کون سی مخلوقات حاضرہوتی ہیں…اور ان جنازوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے… حکمران بے چارے حیرانی، حسرت،حسد اور تعجب کے ساتھ ان جنازوں کو دیکھتے ہیں…کیونکہ ان کو تو اپنے جلسوں کے لئے سرکاری ملازمین زبردستی لانے پڑتے ہیں…جبکہ ان کے جنازوں میں بے وضو افراد زیادہ ہوتے ہیں…جو دعائے مغفرت کے لئے نہیں، اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے لئے جنازے میں شریک ہوتے ہیں…

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے…دنیا کے حکمرانوں اور اہل بدعت کو یہ چیلنج کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فقیر بندے کے قول کی لاج رکھی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کا ایسا شان والا جنازہ اٹھا کہ… صرف اس جنازے کے مناظر دیکھ کر اُسی دن بیس ہزار یہودی اور عیسائی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے…وقت کے حاکم نے جنازہ گاہ کی زمین ناپ کر اندازہ لگایا تو…جنازہ کے شرکاء کی تعداد سترہ لاکھ سے زائد بن رہی تھی…اس زمانے نہ جہاز تھے نہ گاڑیاں…نہ موٹروے تھے اور نہ اطلاع دینے کے برقی آلات…مگر پھر بھی اتنے مسلمان جنازہ میں حاضر ہوئے…اور پھر جو لوگ نماز جنازہ سے رہ گئے انہوں نے تدفین کے وقت قبرستان میں نماز جنازہ ادا کی…مگر پھر بھی لوگوں کا سلسلہ جاری رہا اور ایک بڑی تعداد نے ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی…ایک محدث لکھتے ہیں کہ مجھے شہر میں داخل ہونے کے بعد حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کی قبر تک پہنچنے میں پورے سات دن لگ گئے…یعنی اتنا ہجوم تھا کہ تھوڑا سا فاصلہ بھی سات دنوں میں طے ہوا…اور بعد میں مسلمانوں کا جم غفیر ان کی قبر پر حاضری دیتا رہا…حضرت امام بخاریؒ کا انتقال دربدری کی حالت میں ہوا لیکن نماز جنازہ میں مسلمانوں کا ایسا ہجوم تھا کہ اہل اقتدار حیران رہ گئے…موت ایک لازمی حقیقت ہے

کل نفس ذائقۃ الموت

اور اس دنیا میں رہنا کوئی اعزاز و اکرام کی بات نہیں…اگر موت ،عذاب ہوتی تو حضرات انبیاء علیہم السلام  پر نہ آتی…اور دنیا میں رہنا ہی اِعزاز ہوتا تو تمام انبیاء کرام علیہم السلام  اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  آج بھی زمین کی پشت پر موجود ہوتے…دنیا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے… جبکہ موت ایک دروازہ ہے…ہر انسان نے اس دروازے سے گذرنا ہے…اور اس دروازے کے بعد یا تو راحت ہی راحت ہے یا عذاب ہی عذاب…

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک بہت ہی پُر تاثیر اور جامع دعاء سکھلا دی ہے:

اَللّٰہُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِی ہُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِی وَاَصْلِحْ لِیْ آخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِی،وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِّیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ

اس دعاء میں پانچ چیزوں کا سوال ہے…

١                    یا اللہ! میرا دین ٹھیک فرما دیجئے…دین ہی سب سے بڑی حفاظت ہے…

٢                    یا اللہ! میری دنیا ٹھیک فرما دیجئے … اس دنیا میں میرا معاش اور رہنا سہنا ہے…

٣                    یا اللہ! میری آخرت ٹھیک فرما دیجئے …اُسی آخرت کی طرف میں نے جانا ہے…دین کی اصلاح، دنیا کی اصلاح، آخرت کی اصلاح

٤                    یا اللہ! میرے لئے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ فرما دیجئے…یعنی میں جتنے دن زندہ رہوں، زیادہ سے زیادہ خیریں اور نیکیاں اپنے نامہ اعمال میں بڑھاتا جاؤں…

٥                    یا اللہ! موت کو میرے لئے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا دیجئے…یعنی موت کے دروازے میں داخل ہوتے ہی میرے لئے راحت ہی راحت ہو جائے…نہ غم، نہ پریشانی…نہ تنگی، نہ عذاب…نہ افسوس، نہ حسرت…

یہ دعاء حدیث صحیح میں آئی ہے… اللہ کرے ہر مسلمان کو یہ یاد ہو اور وہ اسے سجدے میں بھی مانگے اور رکوع میں بھی …اور اہم اوقات میں بھی اور قبولیت کے لمحات میں بھی…اس دعاء کے آخری الفاظ میں ’’حسن خاتمہ‘‘ کا سوال ہے…

وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ

ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ موت ’’عذاب ‘‘ نہیں ہے…بلکہ اہل ایمان کے لئے یہ راحت کا ذریعہ ہے…آرام،سکون،چین،عافیت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے میزبانی …اور اگر یہ موت شہادت والی ہو تو پھر اس میں ایک طاقتور ، زندگی بھی ہے…ایسی زندگی جو دنیا کی زندگی سے زیادہ مضبوط، زیادہ پُرتعیش اور زیادہ لذیذ ہے… جبکہ حضرات انبیاء علیہم السلام  کو موت کے بعد جو زندگی عطاء فرمائی جاتی ہے وہ شہداء کی زندگی سے بھی زیادہ طاقتور اور وسیع ہوتی ہے…

اسلام نے ہم مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ … جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تو دوسرے مسلمان اس کی نماز جنازہ ادا کریں…یہ ایک مسلمان بھائی کا اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں پر حق ہے…اور نماز جنازہ ادا کرنے کی بہت فضیلت ہے…اگر کوئی صرف نماز جنازہ ادا کرے تو اس کے لئے ایک ’’قیراط‘‘ اجر کا وعدہ ہے…اور جو تدفین تک شریک رہے اس کے لئے دو ’’قیراط‘‘ کا اعلان ہے…اور قیراط کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک بڑے پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا اجر کا ذخیرہ ہوتا ہے…اُحد پہاڑ سے بھی بڑا…شاید میدانی اور شہری علاقوں کے رہنے والے افراد نہ جانتے ہوں کہ ایک پہاڑ اپنی لمبائی اور چوڑائی میں میلوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے…اور قیراط سے مراد عام پہاڑ نہیں بلکہ بڑا پہاڑ ہے…اسی لئے روایت میں آیا ہے کہ…ایک صحابی نے جب پہلی بار یہ حدیث دوسرے صحابی سے سنی تو افسوس کے ساتھ زمین پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہائے! ہم نے اب تک کتنے قیراط کا نقصان کر ڈالا…یعنی اگر یہ حدیث پہلے سن لیتے تو اور زیادہ محنت اور اہتمام کے ساتھ جنازوں میں شرکت کرتے…

پھر بعض جنازے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ … ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور مغفرت چھم چھم برس رہی ہوتی ہے…جب اس جنازے کے شرکاء نماز جنازہ میں دعاء کرتے ہیں …اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا…یا اللہ ! ہمارے زندوں کی بھی مغفرت فرما اور ہمارے وفات پانے والوں کی بھی مغفرت فرما…

تو اس دعاء کے ساتھ ہی…سب سے پہلے خود اُن کی مغفرت کر دی جاتی ہے…

چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ بعض جنازے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں اخلاص کے ساتھ شرکت کرنے والے تمام افراد کی مغفرت فرما دی جاتی ہے…

بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے…اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بہت اکرام فرمانے والے ہیں…پاکستان میں اس وقت اہل حق پر آزمائش کا دور چل رہا ہے…صرف اہل حق کو ہی ہدف بنا کر ایک اندھا آپریشن جاری ہے…اور اب تک تیس ہزار سے زائد افرادگرفتار کئے جا چکے ہیں…کئی بے گناہ افراد کو گرفتاری کے بعد سخت تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے…اس وقت ہر مسجد اور ہر مدرسہ خوفناک نگرانی کی زد میں ہے…ایسے حالات میں امت مسلمہ کے ایک غمخوار قائد کا اٹھ جانا مزید بڑا سانحہ ہے…لیکن ان کے وصال پر مسلمانوں نے جس پُر وقار اور عظیم الشان ’’اجتماعیت ‘‘ کا ثبوت دیا ہے…اور لاکھوں افراد اس مردِ درویش کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں…اس سے حکمرانوں کو یہ سبق ضرور مل چکا ہو گا کہ…علماء اور مجاہدین اس ملک کی ایک حقیقت ہیں…اور انہیں کمزور یا قلیل سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش…مزید بدامنی کا ذریعہ بنے گی…کیونکہ یہ لوگ ایک قلبی نظریاتی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں…اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمزور نہیں ہیں…حضرت اقدس مولانا عبد المجید صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ…ہمارے اکابر میں سے تھے… آپ ایک مایہ ناز محدث، محقق اور زمانہ ساز مدرس تھے … آپ جہاد کے پُرجوش داعی اور تحفظ ختم نبوت کے جری سالار تھے…آپ حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ  کی تحریک کو پرکھنے والے اُن گنے چنے اہل تحقیق میں سے تھے کہ…جنہوں نے اس تحریک کو مکمل گہرائی کے ساتھ سمجھا…اور اس تاریخی جہادی سفر کے چپے چپے کی داستان کو یاد کیا…حضرت لدھیانویؒ جب کبھی حضرت سیّد احمد شہیدؒ کے مزار پر حاضر ہوتے تو جہاد بالاکوٹ کا ایسا مدلل اور مفصل نقشہ بیان فرماتے کہ سننے والے ششدر رہ جاتے … انڈیا سے رہائی کے بعد جب پاکستان آنا ہوا تو حضرت ؒ نے بندہ کے ساتھ کئی بار بہت مثالی شفقت کا معاملہ فرمایا…وہ سارے مناظر آج بھی یاد آتے ہیں…اللہ تعالیٰ حضرت ؒ کو مغفرت ،رحمت اور اکرام کے اعلیٰ مراتب عطاء فرمائے…آمین

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر482

قرآن مجید کے اہم نکتے کی عالمانہ وضاحت...

نکتہ کئی جگہ... کفر کی طاقت کو نہ دیکھو...

پسندیدگی اور مرعوبیت کی نظر سے ممانعت...

نوح علیہ السلام کے زمانے سے کفر و شرک کا آغاز...

تب سے آج تک ایک ہی منظر نامہ...

کفر کی طاقت دیکھنے والوں کا انجام...

نہ دیکھنے والوں کی کامیابی...

لا الہ الا اللہ کی محمدی دعوت اور کفر کی شوکت...

دیکھنے والے مارے گئے... ایک اہم نکتہ...

منافقین کا طرزعمل... اللہ و رسول کے وعدوں میں شک...

کفر کی قوت پر یقین... انجام کیا ہوا؟

سوویت یونین کا انجام... نہ دیکھنے والوں کی عظیم فتح...

اپنی طاقت کا جھوٹا پرچار... کفر کی پرانی عادت...

میڈیا... شیطان کا ہتھیار ... کفر کی طاقت سے ڈرانے والا...

سرینگر اور پیرس کی سکیورٹی اور ان پر جہادی یلغاریں...

قرآنی نکتے کا عام فہم خلاصہ... استقامت حاصل کرنے کا نسخہ...

ایک اہم قرآنی پیغام لئے ایک نظریہ ساز تحریر...

 

 

اے ایمان والو! نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو!

اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے…آج ایک بہت ہی اہم ’’نکتہ‘‘ عرض کرنا ہے…ایک بہت مفید قرآنی نکتہ

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ

نکتہ کی اہمیت

اس قرآنی نکتہ کی اہمیت یہ ہے کہ جس نے اسے سمجھا،دل میں بٹھایا اوراس پر عمل کیا وہ ہمیشہ سیدھے راستہ پر رہا…اور فتنوں سے بچا رہا … اور جس نے اس نکتے کو نظر انداز کیا وہ طرح طرح کے فتنوں میں پھنس گیا،ناکام ہو گیا، گمراہی میں جا گرا…اور گمراہی اور ناکامی کا سوداگر بن گیا…

صرف ایک آیت نہیں

قرآن مجید کا یہ نکتہ صرف کسی ایک آیت میں بیان نہیں ہوا…بلکہ یہ نکتہ بہت سی آیات میں نہایت تفصیل کے ساتھ سمجھا کر بیان فرمایا گیا ہے …قرآن مجید کی بعض پوری پوری سورتوں کا مرکزی موضوع یہی نکتہ ہے…پس خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو اسے سمجھ لیتے ہیں،اپنا لیتے ہیں …اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ان میں شامل فرمائے…(آمین)

نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو

قرآن مجید کا یہ نکتہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ … ’’نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو‘‘…یعنی پسند کی نگاہ سے نہ دیکھو! توجہ نہ کرو…متاثر ہونے والے انداز سے نہ دیکھو…اگر دیکھو گے تو گر جاؤ گے،تباہ ہو جاؤ گے…کہیں کے نہیں رہو گے…

کیا نہ دیکھیں؟

قرآن مجید نے سمجھایا کہ…کافروں کی طاقت کو نہ دیکھو…اُن کے مال و دولت کو نہ دیکھو! ان کی چمکتی دمکتی زندگیوں کو نہ دیکھو!…ان کی سلطنت کو نہ دیکھو!…ان کے اُڑنے پھرنے کو نہ دیکھو!…ان کی عسکری قوت کو نہ دیکھو! … منافقین کے مال اور اولاد کی کثرت کو نہ دیکھو! … یہ نہ دیکھنے والے جتنے جملے میں نے لکھے ہیں…یہ لفاظی نہیں …ہر ایک جملے کے پیچھے قرآن مجید کی کوئی آیت یا کئی آیات اور قرآن مجید کے سچے قصے موجود ہیں…آپ میں سے جنہوں نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رکھا ہے وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے…جنہوں نے ترجمہ نہیں پڑھا ان کے لئے ان آیات کی طرف اشارہ عرض کر دیا جائے گا…

چند اشارے

حضرت سیّدنا نوح  علیہ السلام  کے زمانہ سے کفر و شرک شروع ہوا…اور ساتھ یہ آزمائش بھی کہ کافروں اور مشرکوں کو اس فانی زندگی میں قوت، شوکت،مال،اولاد ،ترقی اور اقتدار دیا جاتا ہے … ان کافروں ،مشرکوں اور منافقوں کے لئے آخرت میں کچھ نہیں ہے…ان کے لئے آخرت میں عذاب ہی عذاب ہے…یہ وہ درخت اور لکڑیاں ہیں جن کو جلانے کیلئے پیدا کیا گیا ہے…البتہ دنیا میں ایمان والوں کی آزمائش کے لئے…اور بعض دیگر وجوہات سے اللہ تعالیٰ کافروں،مشرکوں اور منافقین کو…ظاہری قوت ،طاقت اور مال و دولت عطاء فرماتے ہیں…مگر یہ سب کچھ وقتی اور فانی ہوتا ہے…کافر ،مشرک اور منافق ہر زمانے میں یہی سمجھتے ہیں کہ …ان کا اقتدار ،ان کا مال، ان کی ترقی اور ان کی طاقت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے … مگر کچھ ہی عرصہ بعد میدان صاف ہو جاتا ہے اور اس میں دھول اُڑنے لگتی ہے…

حضرت نوح  علیہ السلام  کے زمانے سے لے کر آج کے دن تک کی تاریخ پڑھ لیں…ہمیشہ یہی ہوا اور آئندہ بھی ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا… قرآن مجید نے جالوت کا قصہ اٹھایا…عسکری طاقت کا وہ امریکہ تھا…مسلمانوں میں سے جس نے اس کی طاقت پر نظر ڈالی وہ سہم کر رہ گیا کہ اس سے مقابلہ ناممکن ہے…مگر جنہوں نے حکم مانا کہ …نہ دیکھو! انہوں نے زمین کی بجائے آسمان کی طرف دیکھا اور تھوڑی دیر میں جالوت کو شکست دے ڈالی…قرآن مجید نے قارون کا قصہ سنایا …اس کی معاشی اور اقتصادی طاقت ہر کسی کو فتنے میں ڈالنے کے لئے کافی تھی… جنہوں نے اس طاقت کی طرف دیکھا تو…قارون جیسا بننے کی فکر اور تمنا میں ڈوبنے لگے مگر جنہوں نے حکم مانا کہ … نہ دیکھو! …انہوں نے قارون کی طرف تھوک دیا کہ ایسا محروم شخص جس کے پاس آخرت کی اصل زندگی کے لئے ایک نیکی بھی نہیں…ہم اس جیسا بننے کی تمنا اور فکر کیوں کریں؟…یہ تو ایک ناکام انسان ہے…بظاہر ان کا یہ موقف ایسا تھا کہ … ان کا مذاق اڑایا جا سکے،مگر چند دن بعد جب قارون اپنی معاشی طاقت سمیت زمین میں دھنس رہا تھا تو …قارون جیسا بننے کی خواہش رکھنے والے تھر تھر کانپ رہے تھے…اور قارون کی دولت کی طرف ’’دیکھنے‘‘ کے اپنے جرم پر شرمندہ اور خوفزدہ تھے …قرآن مجید نے فرعون کا واقعہ سمجھایا…اس کی سلطنت ناقابل شکست تھی…اس سے مقابلے اور آزادی کی بات کرنا ایک طرح کی ظاہری بیوقوفی سمجھی جاتی تھی…اس کے اقتدار کے خاتمے کی دور دور تک کوئی اُمید نہیں تھی…مگر حکم تھا کہ یہ سب کچھ نہ دیکھو!…چند افراد نے حکم مانا اور طاقت کو دیکھنے سے انکار کر دیا اور مقابلے پر اتر آئے…ان میں سے چند ایک کو شہادت ملی اور باقی کو فتح…اور پوری قوم آزاد ہو گئی…اور ایسی سلطنت جس کے خاتمے کا اگلی کئی صدیوں تک وہم بھی نہیں تھا … مکمل طور پر مٹ گئی…اس طرح کی قرآنی مثالیں اور بھی ہیں…مگر ہم تیزی سے آگے بڑھ کر اس دور میں آتے ہیں…جب ساری دنیا پر کفر و شرک کا راج تھا…اکیلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم   مکہ مکرمہ کی پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا اعلان فرما دیا…

اس مبارک کلمہ کا آغاز ہی یہ تھا کہ…’’لا الہ‘‘  اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت ،قوت سلطنت اور ظاہری خدائی کو نہ دیکھو…اگر دیکھو گے تو اس کلمہ کو اور کامیابی کو نہیں پا سکو گے…چنانچہ جو مسلمان ہوتا گیا وہ ’’لا الہ‘‘ کے حکم کو اپناتا گیا کہ اب کسی کو نہیں دیکھنا…حالانکہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے تھا …ابو جہل کی جاہلانہ عسکری طاقت…قریش کی خوفناک قبائلی طاقت…بنو امیہ کی سحر انگیز معاشی طاقت…اور چاروں طرف پھیلے ہوئے کفر کی سمندری قوت…اگر حضرات صحابہ کرام ان طاقتوں اور قوتوں کو دیکھتے…ان سے متاثر ہوتے …ان سے اپنا موازنہ کرنے بیٹھ جاتے تو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتے…مگر وہ ’’نہ دیکھو،نہ دیکھو ،ہرگز نہ دیکھو‘‘ کی ترتیب پر مضبوط رہے … اور آگے بڑھتے گئے…اور یہ تمام طاقتیں موم کی طرح پگھلتی گئیں…مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹتی گئیں…صحابہ کرام آگے بڑھتے گئے…اور قرآن انہیں بار بار یہی نکتہ یاد دلاتا رہا…اپنی نظریں ان کافروں کے مال و اسباب کی طرف نہ پھیرو…تمہیں ان کا زمین میں اڑنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈالے…تمہیں ان کے مال و اولاد کی کثرت متاثر نہ کرے…تمہیں ان کی عسکری اور اقتصادی قوت کمزوری میں نہ ڈالے…یہ سب کچھ وقتی تماشا ہے،عارضی دھوکہ ہے اور آزمائش کے پھندے ہیں…ایک آیت، دو آیت،تین آیت…قرآن مجید بار بار یہ نکتہ سمجھاتا رہا…اور صحابہ کرام اسے دل میں اُتارتے چلے… پھر منافقین کا گروہ وجود میں آ گیا…

ہٹے کٹے،تروتازہ،چمکیلے، بظاہر عقلمند، چرب لسان…دانشوری کے دعویدار اور ہر طرح کے مفادات کو جمع کرنے والے…فرمایا ان کو بھی نہ دیکھو! یعنی ان کی اس ظاہری ٹیپ ٹاپ سے متاثر نہ ہونا…پوری ’’سورۃ المنافقون ‘‘ نازل ہو گئی اور ’’نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو!‘‘ کا نکتہ ایمان والوں کے دلوں میں بٹھا گئی…پس پھر کیا تھا نہ روم ان کے سامنے ٹھہر سکا نہ فارس…نہ ترک ان کے سامنے جم سکے نہ بربر…نہ عرب ان کا مقابلہ کر سکے اور نہ عجم…اسلام بڑھتا گیا اور کفر سمٹتا گیا…

دیکھنے والے مارے گئے

’’نہ دیکھو، ہرگز نہ دیکھو‘‘ کے حکم پر جنہوں نے عمل نہیں کیا…وہ ہمیشہ مارے گئے اور ناکام ہو گئے…یہ وہ لوگ ہیں جو کلمہ تو کسی وجہ سے پڑھ لیتے ہیں…مگر اس کے پہلے حکم ’’لا الہ‘‘پر عمل نہیں کرتے…یہ ہمیشہ کافروں کی طاقت، قوت، مالداری اور ترقی کو دیکھتے ہیں…اور متاثر ہوتے ہیں…اور ہر زمانے میں یہی سمجھتے ہیں کہ کافروں کی اس طاقت کا مقابلہ مسلمانوں کے بس میں نہیں ہے… یہ لوگ کافروں کے مال اور ترقی کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ اصل کامیابی یہی ہے …ہم تو پیچھے رہ گئے…یہ لوگ کافروں کی عسکری قوت کو ہر وقت ناپتے تولتے رہتے ہیں … اور اس سے متاثر ہو کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ…ہمیں ان کی غلامی میں آ جانا چاہیے…کیونکہ یہ ناقابل شکست ہیں…یہ آج کی بات نہیں…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے مبارک زمانہ سے یہ ’’گندی آنکھوں ‘‘ والا طبقہ موجود ہے…غزوہ خندق کے موقع پر جب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک پتھر کو توڑتے وقت اس سے نکلتے شعلوں کو دیکھ کر…مسلمانوں کو روم و فارس کی فتح کی خوشخبری عطاء فرمائی تو یہ ظالم…منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے تھے کہ…پیٹ پر بھوک سے پتھر بندھے ہیں اور باتیں ہیں روم و فارس فتح کرنے کی… ایک ظالم جو بڑا دانشور کہلاتا تھا یہاں تک بک گیا کہ…ہم آج آسانی سے بیت الخلاء تو جا نہیں سکتے…چاروں طرف کفار کا محاصرہ اور تیروں کی بوچھاڑ ہے…اور ہمیں دھوکا دیا جا رہا ہے روم و فارس فتح کرنے کا…اُحد کے موقع پر بھی اس طبقے کے یہی تبصرے تھے…اور حنین کے موقع پر جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑے تو…ایسے ایسے ظالمانہ تبصرے ہوئے کہ انہیں لکھنا بھی محال ہے… پھر ہر موقع پر یہی ہوتا رہا…زیادہ دور نہ جائیں ابھی قریب ہی کا واقعہ ہے کہ…جب سوویت یونین نے ہر طرف چڑھائی شروع کی تو …مسلمانوں میں موجود یہ طبقہ ان کی طاقت اور پیش قدمی دیکھ کر…فوراً ان کے سامنے سجدے میں گر گیا…اور افسوس یہ کہ صرف خود نہیں گرا … بلکہ مسلمانوں پر بھی ان کا بھرپور اور جارحانہ دباؤ تھا کہ…اگر بچنا ہے تو سوویت یونین کی پناہ میں آ جاؤ …آپ اُس زمانے کے اخبارات اور کالم اٹھا کر دیکھیں…ایک ہی شور تھا کہ اب سوویت یونین ہی سب کچھ ہے…اسی کو مان لو اسی کی غلامی میں آ جاؤ…اور اب صدیوں تک سوویت یونین کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا…مگر ہوا کیا؟…وہ لوگ جو ’’نہ دیکھو،ہرگز نہ دیکھو!‘‘ کے حکم پر تھے وہ سوویت یونین سے ٹکرا گئے…اور آج سوویت یونین نام کا کوئی ملک یا جانور دنیا میں موجود نہیں ہے…تب ان دانشوروں نے فوراً قبلہ بدل لیا اور اب انہوں نے ایک اور ’’الٰہ‘‘ کی پوجا شروع کر دی…اور مسلمانوں کو بھی چیخ چیخ کر اس کے سامنے جھکنے کا کہنے لگے کہ…امریکہ اور یورپ ناقابل شکست ہیں…ان کو مان لو…ان کی ہر بات مان لو … ان کے سامنے گر جاؤ…کیونکہ ان کا قدم اب اگلی کئی صدیوں تک پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے…نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ

قرآنی نکتے کا اعجاز

بات دراصل یہ ہے کہ انسانی حواس بہت کمزور ہیں…مثلاً آپ آج انٹرنیٹ، اخبارات اور چند رپورٹیں سامنے رکھ کر امریکہ،یورپ، اسرائیل یا انڈیا کی طاقت کو دیکھنے لگیں…تھوڑی دیر میں آپ کا دل بیٹھ جائے گا…اور آپ کا نظریہ بن جائے گا کہ ان ملکوں نے زمین کے ہر چپے … ہوا کے ہر جھونکے…سمندر کے ہر قطرے،فضا کے ہر گوشے پر مکمل قبضہ کر لیا ہے…یہ جس کو چاہیں …ایک بٹن دبا کر مار سکتے ہیں…دنیا میں کوئی فون کال ان سے چھپی نہیں رہ سکتی…زمین کا کوئی گھر،کوئی کونہ گوگل ارتھ،ناسا رینج اور میزائل مار سے محفوظ نہیں ہے…یہ ممالک چاہیں تو زمین کو پورا الٹ دیں…موسموں کے رخ بدل دیں … سمندروں کو خشکی پر چڑھا دیں…اور منٹوں میں خطہ زمین کو تباہ کر دیں…

آپ مزید مطالعہ کرتے جائیں تو آپ کو ان کی طاقت کا ہوشربا طلسم…نا اُمیدی کے اندھیروں میں پھینکتا جائے گا…مگر آپ تھوڑا سا سر اٹھا کر دیکھیں…عراق میں ایک نوجوان مجاہد ایک امریکی کے سر پر خنجر لئے کھڑا ہے…چوبیس گھنٹے کا وقت دیتا ہے…اور پھر چوبیس گھنٹے بعد امریکی کو قتل کر دیتا ہے…آخر ناسا، پینٹاگون، گوگل ارتھ اور میزائل کہاں چلے گئے…ریڈیائی لہروں کا نظام کہاں مر گیا؟… دس سال تک امریکہ کے سب سے مطلوب مجاہد شیخ اُسامہ … آرام سے زندگی کے دن پورے کرتے رہے … اور بالٓاخر اپنوں کی غداری سے ان کا سراغ لگا نہ کہ …عسکری اور سائنسی طاقت سے…افغانستان کے محاذ پر امریکہ کو شکست ہوئی…اسرائیل نے اسی رمضان حماس سے شکست کھائی…عراق و شام میں مجاہدین کے بڑے بڑے لشکر وجود میں آئے…اگر آپ صرف کفر کی طاقت دیکھیں تو یہ سب کچھ ممکن نظر نہیں آتا…مگر زمین پر دیکھیں تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہر دن ہو رہا ہے…معلوم ہوا کہ جنہوں نے حکم مانا کہ…’’نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو!‘‘ …اللہ تعالیٰ نے ان کو قوت بھی دی اور کامیابی بھی…فتح بھی عطاء فرمائی اور عزت بھی…مگر جنہوں نے حکم نہیں مانا اور اپنی آنکھوں کو گندا کر لیا…کافروں کی طاقت و قوت کو دیکھ لیا وہ ذلت ،غلامی اور ناکامی میں جا گرے… یہ جاوید غامدی کا فتنہ کیا ہے؟…یہ وحید الدین کا فتنہ کیا ہے؟…یہ وہ لوگ ہیں جو کافروں کی طاقت و قوت اور مال و دولت کو دیکھتے ہیں، ان سے متاثر ہوتے ہیں…ان کو کامیاب اور ناقابل شکست سمجھتے ہیں …اور ان کی غلامی میں اپنی کامیابی دیکھتے ہیں … یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی روم کو اسی طرح سمجھتے تھے… فارس کو اسی طرح سمجھتے تھے…تاتاریوں کو اسی طرح سمجھتے تھے…فاطمیوں کو اسی طرح سمجھتے تھے …خوارج کو بھی اسی طرح سمجھتے تھے…انگریزوں کو اسی طرح سمجھتے تھے…سکھوں کو اسی طرح سمجھتے تھے…منافقین کا یہ ایڈیشن شیطان کی طرف سے ہر چند سال بعد شائع ہوتا ہے…اور آج کل جو ایڈیشن چل رہا ہے اس کا نام غامدی،وحید الدین وغیرہ ہے…آج اگر امریکہ ختم ہو جائے تو یہ کسی اور کافر طاقت کو دیکھ کر اس کی غلامی کا درس دینا شروع کر دیں گے…ان لوگوں کو صرف اللہ کی طاقت اور اسلام کی قوت نظر نہیں آتی…باقی سب کچھ نظر آتا ہے…جی ہاں! وہ سب کچھ …جس کو نہ دیکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی آخری کتاب میں…بار بار دیا ہے…

شیطان کی چال

ابھی آج کل جو حالات پاکستان میں…اور دنیا کے میڈیا پر چل رہے ہیں…اگر آپ صرف انہیں کو دیکھیں تو یہ سمجھیں گے کہ…پاکستان سے دین ختم، جہاد ختم، دیندار ختم، داڑھی والے ختم، پگڑیوں والے ختم…گلی گلی ناکے، قدم قدم پر چھاپے اور مارو،پکڑو کی صدائیں…مگر ان سب کو نہ دیکھتے ہوئے کراچی کے دیوانوں نے اللہ تعالیٰ کے توکل پر محنت کی اور جہاد کشمیر کا ایسا اجتماع کر ڈالا کہ…اچھے حالات میں بھی ایسا اجتماع ممکن نظر نہیں آتا…ان دیوانوں نے حالات،اخبارات اور بیانات کو نہ دیکھا…اپنے رب کی طرف دیکھا تو رب تعالیٰ نے ان کی نصرت فرما دی اور اپنی حفاظت کے مضبوط حصار ان پر ڈال دئیے اور الحمد للہ اجتماع ہو گیا…اگر یہ دیوانے حالات کو دیکھتے تو کیا…ایسے حالات میں پانچ سو افراد بھی جمع کر سکتے تھے؟…

آنکھوں دیکھا واقعہ

آج سے اکیس سال پہلے مجھے ’’سری نگر‘‘ جانے کا موقع ملا…ائیر پورٹ سے لے کر اپنے میزبان کے گھر تک جو کچھ نظر آ رہا تھا وہ انتہائی خوفزدہ اور مایوس کرنے والا تھا…پاکستان کے رہنے والے شائد اس پورے منظر کو نہ سمجھ سکیں … ہر طرف آرمی ہی آرمی تھی…ہزاروں کی تعداد میں مسلح دستے…ہر چند میٹر کے فاصلے پر فوجی بینکر …سڑکوں کے کنارے ہر چند گز کے فاصلے پر مسلح فوجی…عمارتوں کی چھتوں پر ہیوی مشین گنیں … سڑکوں کے درمیان فٹ پاتھوں پر بھی فوجی دستے …جہاں کہیں کوئی گلی، یا موڑ آتا تو وہاں بھی فوجی مورچے… صرف سری نگر شہر میں فوجی دستوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی…حیرت کی بات تھی کہ ایسے شہر میں مجاہدین کہاں رہتے ہوں گے … کیسے چلتے ہوں گے اور کیسے کارروائیاں کرتے ہوں گے…جبکہ ان دنوں تحریک عروج پر تھی اور سری نگر میں ہر ہفتہ دو چار کارروائیاں ضرور ہو جاتی تھیں …ہم ایک گھر میں پہنچے ابھی کچھ آرام کیا تھا کہ مجاہدین آنا شروع ہو گئے… اور ماشاء اللہ تمام کے تمام مکمل طور پر مسلح تھے…کلاشنکوفیں، راکٹ، گرینیڈ، ہر طرح کا اسلحہ ان کے پاس تھا…یہ ’’نہ دیکھو،ہرگز نہ دیکھو ‘‘کا حکم ماننے والے افراد تھے …اللہ تعالیٰ نے انہیں راستے بھی سجھا دیے اور اپنی نصرت بھی انہیں عطاء فرما دی…ایک لاکھ آرمی کے بیچ وہ مسلح گھوم پھر رہے تھے…اگر یہ لوگ صرف دشمن کی طاقت کو دیکھتے اور اس کا اثر لیتے تو…شائد ایک چاقو لے کر بھی نہ گھوم سکتے…

ابھی حال کا واقعہ

آپ انٹرنیٹ اور عسکری معلومات کا کوئی میگزین پکڑ کر بیٹھ جائیں…فرانس کے دارالحکومت پیرس کی سیکورٹی کا جائزہ لیں… وہاں لگے ہوئے سی سی کیمرے شمار کریں…تیز رفتار پولیس کی تفصیل معلوم کریں…پولیس کی جائے واردات پربروقت پہنچنے کی صلاحیت بارے معلومات لیں…خفیہ اہلکاروں کی نقل و حرکت کی رپورٹیں لیں…اُس علاقے کی سیکورٹی کا جائزہ لیں،جہاں گستاخ رسالے چارلی ایبڈو کا دفتر ہے …یقیناً آپ یہ فیصلہ دیں گے کہ ان تمام انتظامات کی موجودگی میں…رسالے کے دفتر کو کوئی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا…مگر تین چار افراد نے ’’نہ دیکھو،ہرگز نہ دیکھو‘‘ کا حکم مانا اور چل پڑے …ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ بھاری ہتھیاروں سمیت پہنچ گئے…اپنا کام اطمینان سے نمٹا گئے…اور بحفاظت وہاں سے نکل گئے…اور دو تین دن تک پورے ملک کو تگنی کا ناچ نچا کر بالآخر شہید ہو گئے…بے شک جو ’’نہیں دیکھتے‘‘ ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں خود بخود دور ہو جاتی ہیں…

آخری گزارش

آج بات کچھ لمبی ہو گئی مگر کیا کروں، قرآن مجید کا اہم نکتہ سمجھنے اور سمجھانے سے ابھی دل نہیں بھرا…مزید بہت سی باتیں اور مثالیں ذہن میں ہیں…مگر امید ہے کہ آپ اس نکتے کو ان شاء اللہ سمجھ چکے ہوں گے،اسی لئے مزید تفصیل میں نہیں جاتے…بس آج کی آخری گزارش سن لیں … شیطان کوشش کرتا ہے کہ ہماری آنکھیں اس طرف لگا دے جس طرف دیکھنے سے ہمارے مالک نے ہمیں منع فرمایا ہے…ایک شخص اچھا خاصا دین اور جہاد کا کام کر رہا ہے…اچانک شیطان نے اسے اکسایا کہ دیکھو تو سہی حالات کتنے خراب ہیں … ذرا آنکھیں تو کھولو کہ کفر و نفاق کی طاقت کتنی بڑھ گئی ہے…اب تم مقابلہ نہیں کر سکتے…خوامخواہ پکڑے جاؤ گے، مارے جاؤ گے،تشدد ہو گا… کہیں کوئی پر امن جگہ دیکھو…پرسکون گھر،امن والا ماحول…اور بے خطر زندگی…آخر کب تک دھکے کھاتے رہو گے…یہ شخص نہیںجانتا کہ اس کی زندگی میں اب صرف چند دن ہی باقی ہیں … اور وہ شیطان کے دھوکے میں آ کر دین کا کام چھوڑ دیتا ہے…اور پھر چند دن بعد مر جاتا ہے … بھائیو! اندازہ لگاؤ کہ کتنے نقصان میں جا پڑا…اگر چند دن اور ’’نہ دیکھو‘‘ کے حکم پر ڈٹا رہتا اور کام میں جڑا رہتا تو کتنی اچھی حالت میں موت آتی… دوسری بات یہ کہ اگر ہم خدانخواستہ اپنی آنکھیں گندی کر لیں…یعنی کافروں اور حکمرانوں کی طاقت دیکھ کر اور اسے مان کر اللہ تعالیٰ کا راستہ چھوڑ دیں تو ٹھیک ہے…ہم نے خود کو بظاہر اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے محفوظ کر لیا…اب وہ ہمیں خطرہ سمجھ کر نہ پکڑیں گے نہ ماریں گے…

مگر ہم اپنے باقی دشمنوں کا کیا کریں گے … ہارٹ اٹیک،کینسر،گردے فیل ہونا، ایکسیڈنٹ… گھریلو قتل وغارت…چور،ڈاکو،کرائے کے قاتل…

یہ سب تو اب بھی کسی وقت ہمیں مار سکتے ہیں …تو پھر اللہ تعالیٰ کا راستہ چھوڑنے سے ہمیں کیا ملا؟…موجودہ حالات میں شیطان بہت سرگرم ہو کر وساوس پھیلا رہا ہے کہ…دیکھو، دیکھو!… اے ایمان والو! شیطان کی نہ مانو…اور کہہ دو … ’’نہیں دیکھتے،ہرگز نہیں دیکھتے‘‘…ہم نے تو ایک دن وہ آزمائشیں نہیں دیکھیں جو حضرت سیّدنا نوح  علیہ السلام نے…ساڑھے نو سو سال تک روزانہ دیکھیںوہ ڈٹے رہے کامیاب ہو گئے …حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  ڈٹے رہے کامیاب ہو گئے…

بس کامیابی کا نسخہ یہی ہے…استقامت، استقامت اور استقامت…اور ’’نہ دیکھو…ہرگز نہ دیکھو‘‘…جن کو وساوس کا سامنا ہے وہ روزانہ سو سو بار سورۃ فلق اور سورۃ الناس پڑھیں…اور کافروں،مشرکوں، حکمرانوں اور منافقوں کی طاقت ،قوت،وقتی جبر و ستم کو نہ دیکھیں…ہرگز نہ دیکھیں…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر483

 

دوسرا قرآنی نکتہ...دیکھو! ضرور دیکھو...

کفار کا انجام... مشرکین کا انجام... مجرمین کا انجام...

مفسدین اور منکرین کا انجام... ضرور دیکھو...

کافروں کی ترقی نہ دیکھنے کا حکم...کافروں کا انجام دیکھنے کا حکم...

چند عبرتناک تاریخی مناظر...ابرہہ کے ہاتھیوں کا بھوسہ...

کفر کی طاقت کا انجام کیا ہوگا؟  طوفان نوح کا جواب...

پرویز مشرف کا تکبر اور اس کا انجام...انجام کا فرق...

مومن کے لئے زمین و آسمان کا رونا...

کافر پر کوئی نہیں روتا...موت سے انجام کا آغاز...

گزشتہ تحریر کا تکملہ... ایک اہم قرآنی نکتے کا اہتمام...

 

 

 

 

اے ایمان والو! دیکھو، دیکھو،

غور سے دیکھو!

اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں… اے ایمان والو! اے تمام دنیا والو!

سرکش ظالموں کے انجام کو دیکھو!

ضدی کافروں کے انجام کو دیکھو!

فسادیوں کے انجام کو دیکھو!

اُنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ …کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ  الْمُجْرِمِیْنَ…

کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ…کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ  الظَّالِمِیْنَ…کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ  الْمُنْذِرِیْنَ…

دیکھو، دیکھو! اُن کا انجام جو بڑے تکبر سے دین کو جھٹلاتے تھے… اور وہ جو اپنی عقل اور طاقت پر ناز کھاتے تھے… دیکھو! ان کا انجام جو دین کے مقابلے پر اپنی طاقت لائے تھے… اور جنہوں نے اہل ایمان پر مظالم ڈھائے تھے…

دیکھو! دیکھو! غور سے دیکھو! ان کا انجام جو دنیا کی ترقی کو سب کچھ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے منکر ہو گئے… وہ جن کو اپنی تعلیم، ترقی اور معیشت پر ناز تھا… دیکھو تو سہی ان سب کا کیسا بُرا اور حسرتناک انجام ہوا…

یاد رکھو! یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے…

اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ

یہ گھومنے والی، بدلنے والی، دفنانے اور مٹانے والی زمین صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے…

یُوْرِثُھَا مَن یَّشَائُ

اللہ تعالیٰ کچھ وقت کے لئے جسے چاہتے ہیں یہ زمین دے دیتے ہیں… مگر اصل کامیابی اور اچھا انجام صرف اور صرف ایمان والوں کو عطاء فرماتے ہیں…

وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ

ہاں! اصل کامیابی، بہترین انجام صرف ایمان والوں کے لئے ہے… وہ ایمان والے جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں…

عبرتناک مناظر

اللہ تعالیٰ ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ… ہم کافروں کی ظاہری طاقت اور ترقی دیکھ کر متاثر نہ ہوں… اور ان کو کامیاب نہ سمجھیں… اور پھر ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ… ہم ان سرکش کافروں کے انجام کو اچھی طرح دیکھیں… اور اس سے عبرت حاصل کریں… چنانچہ قرآن مجید بہت سے عبرتناک مناظر ہمیں دکھاتا ہے…

وہ دیکھو! ذلت اور حسرت کے ساتھ ڈوبتا ہوا فرعون… دیکھو تو سہی… روئے زمین کا جابر ترین حکمران کس بے بسی سے ڈوب رہا ہے… وہ دیکھو! قومِ عاد کے بڑے بڑے لاشے اوندھے منہ پڑے ہیں… ان کے کارخانے، ان کی ایجادات اور ان کے مضبوط محلات سب مٹ چکے ہیں… وہ دیکھو! دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار ’’قارون‘‘ اپنی معیشت سمیت ذلت، عبرت اور بے بسی کی تصویر بنا… زمین میں دھنس رہا ہے…

وہ دیکھو! ابرہہ کا خوفناک عسکری لشکر… اپنے ہاتھیوں سمیت بھوسہ بنا پڑا ہے… وہ دیکھو! قوم ثمود ایک ماہر، فنکار اور ہنر مند ترقی یافتہ قوم… اپنی ترقی سمیت زمین بوس پڑی ہے… دیکھو، دیکھو، غور سے دیکھو! عبرت پکڑو یہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم… آزاد، لبرل، عیاش، جدت پسند، بے باک اور خوبصورت قوم… اسے اوپر اٹھا کر زمین پر دے مارا گیا… وہ جو حسن و خوشبو میں ہر وقت سنورتے تھے… اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے وبال سے بدبودار، مردار کیچڑ بن گئے … اور ان کے گناہوں کے اثرات نے زمین اور پانی تک کو بے کار بنا دیا…

وہ دیکھو! تجارت اور بزنس کی ماہر… حضرت شعیب  علیہ السلام کی قوم… وہ اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ تباہ کر دی گئی… اے کافرو! اپنے کفر پر ناز کرنے والو! تم بھی ’’سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ زمین میں چل پھر کر دیکھو!…

 اور اے اہل ایمان! تم بھی دیکھو…

کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ

کہ مجرموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوا…

طوفان جواب دیتا ہے

وہ دیکھو! روئے زمین کا سب سے خوفناک طوفان… ایک پوری انسانی نسل کو ختم کرنے والا طوفان… پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا طوفان…ایک ہزار سال سے قائم ایک بڑی تہذیب کو ملیامیٹ کرنے والا طوفان… ایسا طوفان کہ… آسمان سے پانی برس نہیں رہا تھا بلکہ گر رہا تھا… اور زمین سے بھی پانی ہی پانی ابل رہا تھا … حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم پر آنے والا طوفان… ساڑھے نو سو سال وہ اکڑتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے نبی کو ستاتے تھے… ان کو ناز تھا کہ ہم عقل والے، دانش والے، طاقت والے، اور حکومت والے ہیں… طوفان آیا تو اتنی بڑی قوم کا نام و نشان تک باقی نہ رہا… آج کسی کو وہ احادیث مبارکہ سنائیں جن میں آخری زمانے مسلمانوں کے مکمل غلبے کی بشارت ہے تو سوالات کی بوچھاڑ لگ جاتی ہے… یہ ایٹم بم کہاں جائیں گے؟ … یہ امریکہ، یورپ، انڈیا اور کفر کے بڑے بڑے ممالک اور لشکر کہاں جائیں گے؟… یہ کفار کی فضائی قوت اور عسکری ٹیکنالوجی کہاں جائے گی؟ … اس کا مقابلہ کیسے ہو سکے گا؟…

قرآن مجید ’’ طوفانِ نوح‘‘ کا قصہ سنا کر… ان تمام سوالات کا جواب دے دیتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ سب کچھ بدلنے اور سب کچھ اکھاڑنے کی طاقت رکھتا ہے… اور زمین پر ایسے حالات لاتا ہے کہ جن کا مقابلہ… کوئی مخلوق نہیں کر سکتی… اور بڑی بڑی تہذیبیں اور قومیں اس طرح سے مٹا دی جاتی ہیں کہ… ان کے آثار اور کوئی آہٹ تک باقی نہیں رہتی…

ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزاً

یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے… طوفانِ نوح اس کی ایک مثال ہے… وہ جو زمین پر کروڑوں کی تعداد میں تھے وہ ختم ہو گئے … اور وہ جو درجنوں کی تعداد میں تھے وہ زمین کے مالک، حاکم اور اگلی نسل کے معمار بنا دئیے گئے … اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس طریقے سے چاہے ایسا کر سکتا ہے… اور وہ ایسا بارہا کر چکا ہے… یقین نہ آئے تو دیکھو، دیکھو، غور سے دیکھو!… بڑی بڑی سلطنتوں کا انجام…

اپنے آس پاس دیکھیں

اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں… قریب زمانہ کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں یہی نظر آئے گا کہ… ایمان والے ہمیشہ اچھے انجام سے سرفراز ہوتے ہیں… اور اہل کفر، اہل نفاق اور اہل ظلم کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے… پاکستان پر ایک مصیبت بن کر گرنے والے پرویز مشرف کے دور اقتدار کو دیکھیں … ’’ میں میں ہوں، میں میں ہوں‘‘ کی منحوس گونج تھی… اور جہاد کو جڑ سے ختم کرنے کے دعوے … آج وہ کس حالت میں ہے اور جہاد کس حالت میں… ہر شخص بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے… ہمارے لئے قرآن مجید کا یہ حکم تھا کہ ہم اس کی طاقت اور جبر کو ’’نہ دیکھیں، ہرگز نہ دیکھیں‘‘… اس کے خوفناک اقدامات سے نہ ڈریں… اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنا حق کام کرتے رہیں…

جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو مانا… اور اس کے نوسالہ اقتدار کے دوران ’’نہ دیکھو، ہر گز نہ دیکھو‘‘ کی ترتیب پر رہے… اُن سے اللہ تعالیٰ نے بڑا اور مقبول کام لیا… اور آج پرویز مشرف اس حالت میں آ پہنچا ہے کہ… ہمارے لئے قرآن کا حکم ہے… ’’دیکھو، دیکھو، غور سے دیکھو!‘‘ کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوتا ہے… یہ ایک مثال ہے… آپ غور کریں گے تو ہر طرف بہت سی مثالیں نظر آ جائیں گی… مومن اپنے ایمان اور کام پر رہے تو اس کے لئے مرنے میں بھی ناکامی نہیں… اور کافر و منافق کے لئے ناکامی اور ذلت کا سفر اس کی موت سے پہلے یا موت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے…

انجام کے فرق کی ایک جھلک

ایک بہت ایمان افروز نکتہ ہے… تھوڑا سا غور کریں…

سورۃ الدخان کی آیت (۲۹) دیکھیں… اللہ تعالیٰ سمجھاتے ہیں کہ… فرعون اور اس کی قوم غرق ہو گئی… اپنی تمام بڑی بڑی نعمتیں اور عیاشیوں کا سارا سامان یہاں چھوڑ گئی…

مگر اس قوم کے ہلاک ہونے پر نہ آسمان رویا نہ زمین روئی…

فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَائُ وَالْاَرْضُ (الدخان)

غور فرمائیے! نہ آسمان رویا نہ زمین روئی… اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اتنا بڑا بادشاہ… اور اتنی بڑی قوم غرق ہو گئی… مگر پھر بھی زمین کا نظام چلتا رہا… آسمان کے نظام میں بھی کوئی فرق نہ آیا… یعنی ان لوگوں کی کوئی کمی کسی بھی طرح محسوس نہ کی گئی… حالانکہ جب وہ جیتے تھے تو گویا زمین کے مالک تھے اور آسمان کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کرتے رہتے تھے… اور ان کا یہ دعوی تھا کہ زمین کو ہم نے آباد کیا ہے… اس کو ہم نے سنوارا ہے… اور اس کو ہم نے اپنی عقل سے ترقی دی ہے… جس طرح آج کل امریکہ اور یورپ کا دعوی ہے کہ… ان کی ایجادات نے زمین اور انسان کو بہت آگے کر دیا ہے… نعوذ باللہ، استغفر اللہ…

ارشاد فرمایا: نہ اُن پر آسمان رویا اور نہ زمین روئی… کئی مفسرین حضرات فرماتے ہیں کہ… آسمان و زمین کا یہ رونا اور نہ رونا اپنے اصلی معنیٰ پر ہے… جب کوئی ایمان والا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی موت پر آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی روتی ہے… جبکہ کافر کی موت پر نہ آسمان روتا ہے اور نہ زمین روتی ہے بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں… حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ…

’’ہر مومن کے لئے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں… ایک دروازہ سے اس کا رزق نیچے اترتا ہے… اور دوسرے دروازہ سے اس کا عمل اور اُس کا کلام اوپر جاتا ہے… جب یہ مؤمن انتقال کر جاتا ہے تو وہ دونوں دروازے اس کی کمی محسوس کرتے ہیں اور روتے ہیں‘‘… (تفسیر ابن کثیر)

حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سے کسی نے پوچھا… کیا آسمان و زمین بھی کسی پر روتے ہیں؟… ارشاد فرمایا:’’ ہر مومن کے لئے زمین پر وہ جگہ روتی ہے جس پر وہ نماز ادا کرتا ہے… اورآسمان میں ہر مومن کے لئے ایک راستہ ہوتا ہے جس سے اس کا عمل اوپر جاتا ہے‘‘… فرعون کی قوم کا نہ زمین میں نماز والا ٹکڑا تھا اور نہ ان کا کوئی نیک عمل تھا جو آسمان کے راستہ اوپر جاتا… اس لئے ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین روئی…

اسی طرح کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ہے… جس  سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے وہ حصے جن پر کوئی مومن اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے… نماز اور سجدہ ادا کرتا ہے… ذکر و تلاوت کرتا ہے… یا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا کوئی بھی عمل کرتا ہے…تو اس کی وفات کے بعد زمین کا وہ حصہ… اس کی کمی اور یاد میں روتا ہے… اس طرح آسمان کا وہ دروازہ جس سے مومن کا رزق اترتا ہے اور اس کا نیک عمل اوپر جاتا ہے… یہ دروازہ اس کی وفات پر بند کر دیا جاتا ہے تو آسمان روتا ہے… حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں… ’’زمین ایک مومن کے انتقال پر چالیس دن روتی ہے‘‘… اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں… ’’جب کوئی مومن انتقال کر جاتا ہے تو اس پر زمین اور آسمان چالیس دن تک روتے ہیں‘‘… ان سے پوچھا گیا کیا زمین بھی روتی ہے؟… فرمایا: ’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟… زمین ایسے شخص پر کیوں نہ روئے گی جو اسے رکوع اور سجود سے آباد رکھتا تھا…اور آسمان ایسے شخص پر کیوں نہ روئے گا جس کی تکبیر و تسبیح سے آسمان میں شہد کی مکھیوں جیسی آواز گونجتی تھی‘‘…

اندازہ لگائیں… موت سے انجام کا آغاز ہوتا ہے… اور اس آغاز میں کتنا فرق ہے… مومن کی موت بہت میٹھی ہے،کافر کی موت بڑی دردناک ہے… مومن کی موت پر زمین و آسمان روتے ہیں… کافر کی موت پر زمین و آسمان خوشیاں مناتے ہیں… پھر ایک مومن کے لئے کہاں جائز بنتا ہے کہ… وہ ظالموں،کافروں اور منافقوں کی ظاہری طاقت اور ترقی کو دیکھ کر متاثر ہو… اور خود کو اور اپنے ایمان کو حقیر سمجھے… یا اللہ تعالیٰ سے مایوس ہو… یا یہ سمجھے کہ حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے… ارے ایمان والو! … ان ظالموں اور کافروں کے انجام کو دیکھو… خوب دیکھو، غور سے دیکھو! وہ دیکھو! مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر وحشی کتے کی طرح غرانے والا ’’ابو جہل‘‘… بدر کے ایک اندھے کنویں میں مردار پڑا ہے…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر484

 

کلمہ طیبہ کی عظمت و اہمیت...

موجودہ حالات میں رہنمائی فراہم کرتا ایک قرآنی نکتہ...

کلمہ طیبہ کے ورد کی یاد دہانی... 1200 مرتبہ کا نصاب...

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مختصر احوال...

اہل وظیفہ اور ورد... کلمہ طیبہ...ایک وعدہ ایک تلقین...

سورۃ الفتح کے نکتے کا خلاصہ...دشمنوں کی ضد کا مقابلہ ایمان پر مضبوطی سے...

حدیبیہ کا واقعہ اور کفار کی جاہلانہ ضد...

کفار کی وقتی خوشی... کلمہ پر استقامت کی برکت سے ملنے والی فتح عظیم...

آیت کا ترجمہ اور خلاصہ...استقامت کا اصل وقت...

حکمرانوں کی بدعملی اور اتاترک بننے کا شوق...

اتاترک کا انجام کیا ہوا...

قرآنی نکتے کے مطابق صبر و برداشت ان سب کا علاج...

 

اے ایمان والو!جمے رہو، جڑے رہو

اللہ تعالیٰ کو پانے کا واحد راستہ

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

مومن کے اعمال کو عرش تک پہنچانے کا واحد ذریعہ

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

دنیا میں کامیابی کی چابی

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

قبر میں آسانی اور راحت کا نسخہ

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

افضل ترین نیکی جو گناہوں کو مٹا دیتی ہے

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

ایمان کی جڑ…دین کی بنیاد …سب سے افضل ذکر…اور آخرت میں کامیابی کی پہلی شرط

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

بہت اہم نکتہ

آج کی مجلس میں ایک بڑا ’’اہم نکتہ‘‘ عرض کرنا ہے…یہ نکتہ قرآن مجید کی سورۃ الفتح کی آیت (۲۶) میں بیان فرمایا گیا ہے…بہت بڑا خزانہ ہے،رب کعبہ کی قسم! بہت بڑا خزانہ…اللہ تعالیٰ کا شکر جس نے ہمیں ’’قرآن مجید‘‘ جیسی نعمت عطاء فرمائی ہے…قرآن مجید جیسی اونچی اور اعلیٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن) اور کوئی نہیں…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا احسان کہ ہم تک قرآن مجید پہنچایا…

الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلوٰۃ والسلام علی خاتم النبیین

پہلے ایک بات بتائیں

آج کے نکتے کا تعلق پاکستان اور دنیا کے موجودہ حالات سے ہے…اور اس نکتہ میں کلمہ طیبہ کا بیان بھی ہے…یہ نکتہ سمجھنے سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے وِرد کا معمول جاری ہے یا نہیں؟… الحمد للہ بارہ سو بار کلمہ طیبہ کے وِرد کی آواز لگی تو ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے اسے قبول کیا اور اپنا لیا…مگر کلمہ طیبہ اور استغفار سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے تو وہ…مسلمانوں کو اس سے غافل کرنے کا زور لگاتا ہے…اب معلوم ہواہے کہ کئی مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے…کلمہ طیبہ کے ورد سے غفلت شروع کر دی ہے…استغفر اللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ…حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  کا جب انتقال ہو رہا تھا تو کسی نے انہیں ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کی…حضرت نے فرمایا اس کلمہ کو تو میں کسی وقت بھی نہیں بھولا…یعنی اسے یاد دلاؤ جو کبھی اس کلمہ سے غافل رہا ہو…میں تو الحمد للہ اس کلمہ سے کبھی غافل نہیں ہوا…سبحان اللہ! ایک وہ حضرات تھے جنہوں نے اس کلمہ طیبہ سے ایسا مضبوط تعلق جوڑا…اور ایک ہم ہیں کہ صرف بارہ سو بار کا ورد بھی بھاری لگتا ہے…حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ  کو اللہ تعالیٰ نے بہت نفع اور برکت والے علوم عطائے فرمائے…آپ علم اور حکمت میں اپنے زمانے کے بادشاہ تھے…تفسیر و حدیث سے لے کر سیاست و مدنیت تک ہر علم میں آپ امام کا درجہ رکھتے تھے… یہ سارا کمال ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی برکت سے نصیب ہوا…بہت چھوٹی عمر میں اس کلمہ کے ساتھ جڑ گئے… ایک سانس میں دو سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا وِرد فرمایا کرتے تھے… یہ کلمہ تو ایسا ہے کہ اس کی شاخیں آسمان تک جاتی ہے…چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر علم و حکمت کے خزانے کھول دئیے…

ارے بھائیو! یہ کلمہ طیبہ ہی اصل میں کلمہ توحید ہے…اور کلمہ توحید سے بڑھ کر اور کوئی حفاظت نہیں…اور یہی کلمہ طیبہ ہی کلمۂ اِخلاص ہے… اور اِخلاص سے بڑھ کر کوئی قوت نہیں…آج کے مسلمانوں کا رجحان بس اس طرف ہے کہ روزی کے وظیفے کرو…حفاظت کے وظیفے کرو…ترقی کے وظیفے کرو…عزت کے وظیفے کرو…جو تھوڑا بہت وقت ذکر کے لئے نکالتے ہیں وہ سارا ان وظیفوں میں لگ جاتا ہے…اور اصل وظیفہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ رہ جاتا ہے…ارے بھائیو اور بہنو! یہ کلمہ طیبہ نصیب ہو گیا تو حفاظت،عزت،ترقی ،روزی اور کامیابی سب کچھ خود بخود مل جائے گا…کلمہ طیبہ کے بغیر نہ تو کوئی عمل قبول ہوتا ہے اور نہ کوئی وظیفہ کام کرتا ہے…آپ اپنے علاج کے لئے عاملوں کے دروازے پر نہ جائیں…آپ کے پاس سب سے بڑا عمل موجود ہے…اور وہ ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ…کسی عامل کا کوئی تعویذ اس کلمہ کے برابر نہیں…کسی عامل کا کوئی پراسرار عمل اس کلمہ سے زیادہ طاقتور نہیں…یہی کلمہ …قول ثابت یعنی سب سے پکی بات ہے…یہ کلمہ سات آسمانوں اور سات زمینوں سے بھاری ہے…دنیا کا کوئی جادو اس کلمہ سے زیادہ طاقتور نہیں…دنیا کی کوئی نحوست…اس کلمہ کی برکت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی…کلمہ طیبہ کو دل میں اُتاریں … اُس کے نور کو سمجھیں…اُس کے معنیٰ کو دل و دماغ میںبٹھائیں… اوراس کا وِرد ایسی پابندی،ایسے اہتمام…اور ایسے ذوق و شوق سے کریں کہ یہ کلمہ ہماری روح میں اتر جائے…ہماری ہڈیوں اور گوشت میں سرایت کر جائے اور ہمارے خون میں شامل ہو جائے…

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

وعدہ کرتے ہیں؟

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو مرتے وقت ’’کلمہ طیبہ‘‘ نصیب فرمائے…اور ہمیں موت کے وقت خوف اور دہشت سے بچائے…بس موت آیا ہی چاہتی ہے…آج کا قرآنی نکتہ پڑھنے سے پہلے…آپ سب سچا وعدہ کریں کہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کا روزانہ ورد کبھی نہیں چھوڑیں گے…کبھی بھی نہیں…

صحت مند ہوں یا بیمار…مالدار ہوں یا غریب…آزاد ہوں یا قید…فائدہ محسوس ہو یا نہ ہو…کیفیت بنے یا نہ بنے…کسی بھی حال میں کلمہ طیبہ کا ورد ناغہ نہ ہو…اللہ نہ کرے بڑے بڑے گناہ ہو جائیں تب بھی کلمہ طیبہ کا ورد ناغہ نہ ہو…شیطان کہے گا کہ اب تمہارا منہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے قابل نہیں رہا اس لئے پڑھنے کا کیا فائدہ؟ … تب شیطان کی نہ مانیں اور کلمہ طیبہ کے ورد میں لگ جائیں…کلمہ طیبہ بڑے بڑے گناہوں کو نیست و نابود کرنے کی طاقت رکھتا ہے…بارہ سو بار تو ابتدائی سبق ہے…جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی وہ تعداد میں اضافے کرتے جائیں … اضافہ نہ کرسکیں تو بارہ سو بار کو ہی پکا بنالیں…کھانا پینا اتنا ضروری نہیں……انسان آرام سے آٹھ دس دن بھوکا رہ سکتا ہے…نیند کرنا اتنا ضروری نہیں… انسان کافی وقت جاگ سکتا ہے اپنے ٹچ فون پر زندگی ضائع کرنا ضروری نہیں…بلکہ نقصان ہی نقصان ہے…جبکہ کلمہ طیبہ میں فائدہ ہی فائدہ ہے…فائدہ ہی فائدہ…تو پھر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر وعدہ کر لیجئے کہ ان شاء اللہ…کلمہ طیبہ کے ورد کی پکی پابندی کریں گے…اور ہاں! کبھی کبھار کچھ وقت…آنکھیں اور زبان بند کر کے دل سے بھی پڑھا کریں

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

قرآنی نکتے کا خلاصہ

سورۃ الفتح میں جو نکتہ بیان فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے …

اگر تمہارے دشمن مکمل جہالت پر اتر آئیں …اور کسی وجہ سے ان سے لڑنے کی اجازت نہ ہو… تو ایسے وقت میں تم ضد اور جہالت پر نہ اترو …بلکہ کلمہ طیبہ کے ساتھ مضبوطی سے جڑ جاؤ … تب کچھ ہی عرصے بعد تمہارے لئے فتوحات کے ایسے دروازے کھلیں گے کہ…تم خود حیران رہ جاؤ گے…اور جہالت پر اترنے والا تمہارا دشمن … ذلیل و خوار ہو جائے گا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اصل مفہوم

آیت مبارکہ…غزوہ حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی…مسلمان ،حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کی قیادت مبارکہ میں عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تھے…مشرکین مکہ نے انہیں حرم شریف میں داخل ہونے سے روک دیا…راستے میں جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے کئے…اور اپنی جنگی طاقت سے انہیں مرعوب کرنے کی بھرپور کوشش کی…مسلمان کم تعداد میں تھے…اسلحہ اور لڑائی کا سامان بھی بہت قلیل تھا…اور علاقہ بھی دشمنوں کا تھا … ایسے وقت میں پہلا حملہ خوف اور بزدلی کا ہوتا ہے …مگر ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پر مضبوطی کی برکت سے وہ اس حملہ کی زد میں نہ آئے…اب مشرکین نے انہیں ضد اور غیرت دلانے کے لئے جاہلانہ حرکتیں شروع کر دیں…پہلی حرکت یہ کہ انہیں حرم شریف سے روکا…دوسری یہ کہ معاہدہ نامہ میں مسلمانوں کے مقدس الفاظ کاٹنے پر اصرار کیا اور اپنی مرضی کے نام لکھوائے…تیسرا یہ کہ معاہدہ میں ایسی شرطیں رکھیں جن سے مسلمانوں کو ذلت کا احساس ہو…یہ سارا شیطانی چکر اس لئے تھا کہ مسلمان بھی …ضد پر اتر آئیں…دوسری طرف حکم یہ تھا کہ یہاں اس موقع پر کسی بھی حال میں جنگ نہیں کرنی…ایک تو حرم شریف کے تقدس کا مسئلہ تھا…اور دوسرا یہ کہ اس وقت یہاں جنگ ہوئی تو مکہ میں پھنسے ہوئے چند مظلوم مسلمان شہید کر دئیے جائیں گے…اب بڑا سخت امتحان تھا…مشرکین بار بار جاہلانہ حرکتیں کر کے مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کر رہے تھے…ان کی اکڑ اور ان کا طرز عمل ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر دل غصے سے پھٹنے لگیں…حضرات صحابہ کرام کے ضمیر پر ہتھوڑے برس رہے تھے کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ …اگر ہم حق پر ہیں تو پھر اس طرح دبنے اور براشت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟…یہ بتوں کے پجاری کس طرح سے ہمیں ستا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس تلواریں اور جان دینے کا جذبہ موجود ہے…اسی دوران…ایک مسلمان قیدی جو مکہ مکرمہ سے بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر پہنچ چکے تھے…مشرکین نے انہیں بھی واپس لے جانے کے ضد کی…یہ مرحلہ بڑا نازک تھا…غم،غصے اور غیرت سے کلیجے پھٹ رہے تھے…مگر ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی طاقت کام کر گئی…اور حضرات صحابہ کرام اس کلمہ سے جڑ کر جذبات میں بہنے سے بچ گئے … ایک امتحان تھا جو گذر گیا…مشرکین کے لئے ایک وقتی خوشی تھی جو چند دن میں بیت گئی…اور پھر ان کا ہر قدم،ذلت و زوال کی طرف اور مسلمانوں کا ہر قدم فتح اور عزت کی طرف بڑھتا چلا گیا…اور تھوڑے ہی عرصے میں مسلمان حرم شریف کے مالک بن گئے…اور وقتی ضد اور اکڑ دکھانے والے مشرکین کا قصہ ختم ہو گیا…

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

آیت مبارکہ کا ترجمہ

دیکھئے سورۃ الفتح کی آیت:۲۶

ترجمہ: جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد بٹھا لی اور ضد بھی جاہلیت کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر اپنی طرف سے تسکین (یعنی سکون، تحمل یا خاص رحمت) نازل فرمائی اور ان کو تقویٰ کے کلمہ پر جمائے رکھا اور وہی اس (تقوی کے کلمہ) کے مستحق اور اہل تھے…اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے…

کلمہ طیبہ پر جمنے کا وقت

وہ جو مسلمان کہلاتے ہیں…مگر کام ان کے سارے کافروں والے ہیں…نہ نماز کے پابند… نہ دین سے کوئی تعلق…قرآن مجید کی تعلیم کے دشمن اور کافروں کی غلامی میں اپنی کامیابی دیکھنے والے…وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اللہ کرے وہ مسلمان ہوں…ہمیں کسی کی تکفیر کا ہرگز ہرگز شوق نہیں…مگر وہ اہل ایمان کو …ستا رہے ہیں،دبا رہے ہیں…اور خود کو ’’اتاترک‘‘ بنا رہے ہیں … کمال اتاترک کسی زمانے آیا تھا پھر مر گیا…اب اس کا نام بھی ترکی میں مرنے کو ہے…وہ ایک بد نصیب انسان تھا…خود اس کے دور اقتدار میں اہل ترکی کہتے تھے…کسی ماں نے کمال اتاترک سے زیادہ منحوس بچہ نہیں جنا…اس نے مساجد کو ویران کیا…اذان پر پابندی لگائی…بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا…دینی تعلیم ممنوع قرار دی… عربی رسم الخط پر پابندی لگائی…مگر آج ترکی میں یہ سب کچھ دوبارہ بحال ہو رہا ہے…خلافت عثمانیہ ماشاء اللہ پانچ صدیوں تک قائم رہی جبکہ کمال اتاترک کا کفری نظام سو سال بھی نہ کاٹ سکا…

پاکستان میں دین کے دشمن…آج اپنے دل کی زہریلی امنگیں پوری کرنے کے لئے کمال اتاترک کو آوازیں دے رہے ہیں…مگر بے فکر رہیں…کمال اتاترک مر گیا ہے…وہ واپس نہیں آئے گا اور نہ پاکستان کی سرزمین پر ایسے کسی بے عقل زندیق کے لئے کوئی گنجائش ہے…اب تو ساری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے…اور جہاد فی سبیل اللہ کے محاذ چاروں طرف کھل چکے ہیں … پاکستان کے اہل دین کی کوشش ہے کہ …سیکولر طبقے اور حکمرانوں کے جاہلانہ مظالم…اس ملک کومکمل خانہ جنگی میں نہ دھکیل دیں…اس لئے صبر ہے…برداشت ہے…اور قرآنی نکتے کے مطابق…کلمہ طیبہ سے جڑنے اور کلمہ طیبہ پر جمنے کا وقت ہے…پس اے ایمان والو! کلمہ طیبہ پر جمے رہو،کلمہ طیبہ سے جڑے رہو …اے دین کے دیوانو! کلمہ طیبہ دل میں اتارو …یہی دل کی زندگی ہے…کلمہ طیبہ میں غور کرو یہی عقل اور خیال کی روشنی ہے…کلمہ طیبہ کی دعوت دو…یہی امر بالمعروف کا سب سے اہم درجہ ہے …کلمہ طیبہ کا دل و جان اور زبان سے ورد کرو … یہی کامیابی، خیر اور نصرت کی ضمانت ہے…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر485

 

اللہ تعالیٰ کو منانے اور پانے کا انمول نسخہ... انمول موقع...

مسجد کی عظمت اور محبوبیت...سب سے اُونچی جگہ...

اصل ترقی اور بلندی کا راز...

مؤذن کی فضیلت... عمل اذان کی عظمت...

سات نئی مساجد کی تعمیر کا آغاز... خاص خوشی کا دن...

جماعت کی مساجد پر محنت اور اس کے اہداف...

کار خیر میں شرکت کی ترغیب...

کھانے پینے میں کمی کر کے مساجد میں مال لگائیں... ایک ایمانی دعوت...

مہم میں مساجد کی حاضری کی دعوت...سچے مومن کا عشق...

مساجد میں مال لگانے کی عظمت و اہمیت...

توبہ کی قبولیت کی علامات...ایک اہم نکتہ...

مساجد کی محنت کا ایک عظیم انعام...

جنت میں گھر بنانے کی دعوت لئے ایک روشن تحریر...

انمول موقع

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مساجد آباد کرنے والا بنائے…سبحان اللہ…کتنا پیارا…اور میٹھا لفظ ہے…

مسجد،مسجد، مسجد…محبوب رب سے سجدے میں مناجات کی جگہ،ملاقات کی جگہ… واہ! مسجد…پیاری مسجد…میٹھی مسجد…دنیا کے ہر غم،ہر فکر اور ہر گناہ سے آزادی کی جگہ…

مسجد،مسجد،مسجد…

سب سے اُونچی جگہ

چاند پر جانا ترقی نہیں…مریخ پر پہنچ جانا ترقی نہیں… مچھر مکھیاں اُڑتی رہتی ہیں…اِنسان بھی اُڑتے پھرتے رہتے ہیں…ہاں! ایک مسلمان کا مسجد کو پا لینا واقعی ترقی ہے…بڑی ترقی…

کوئی میری اس بات پر ہنستا ہے، تو ہنستا رہے…ترقی کہتے ہیں بلندی کو…اللہ تعالیٰ کے گھر سے بلند جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے؟…مسجد کا براہ راست تعلق ’’جنت‘‘ سے ہے…

قیامت کے دن ساری زمین،چاند،ستارے تباہ ہو جائیں گے …مگر مسجد کی زمین کو جنت لے جا کر جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا…مسجد کی زمین قیامت کے دن اُن اِیمان والوں کے لئے گواہی دے گی…جنہوں نے اس مسجد کو آباد کیا…وہاں رکوع اور سجدے کئے…اندازہ لگائیں مسجد کتنی طاقتور ہے اور مسجد کی سلطنت کتنی وسیع ہے…دنیا سے لے کر آخرت تک…زمین سے لے کر آسمان تک…اور آسمان سے لے کرجنت تک…ہائے! دل چاہتا  ہے کہ دنیا بھر میں مسجدیں بناتے چلیں جائیں…ان مسجدوں میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی اذانیں گونجیں…حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے مسجد میں اَذان بلند کرنے والوں کو تین بار دعا دی:

اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِینْ

’’یا اللہ! اَذان دینے والوں کی مغفرت فرما دیجئے‘‘

حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا…یا رسول اللہ! آپ نے اذان کی ایسی فضیلتیں بیان فرمائیں کہ…آپ کے بعد مسلمان اذان کی خاطر ایک دوسرے پر تلواریں برسائیں گے…یعنی ہر شخص یہ چاہے گا کہ میں اذان دوں…ظاہر بات ہے کہ سب تو اذان نہیں دے سکیں گے…مگر دینا ہر کوئی چاہے گا تو آپس میں لڑائی ہو گی اور اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر تلواریں نکالی جائیں گی…حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

کَلَّا یَا عُمَرْ!

’’اے عمر ! ایسا نہیں ہو گا‘‘

انہ سیأتی علی الناس زمان یترکون الاذان علی ضعفائھم

لوگ تو ایسے ہو جائیں گے کہ اذان کا کام اپنے کمزور لوگوں پر چھوڑ دیں گے…اللہ، اللہ، اللہ… آج مؤذن کا لفظ کتنا ہلکا ہو گیا…استغفرا للہ، استغفر اللہ… کمزور بوڑھے…اور وہ جن کو بے کار سمجھا جاتا ہے، اذان کا کام اُن کے سپرد کر دیا جاتا ہے…چلیں،ان کمزورں کے مزے ہو گئے کیونکہ حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

وتلک لحوم حرمھا اللّٰہ عزوجل علی النار

’’یہ وہ گوشت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم پر حرام فرما دیا ہے‘‘

لحوم المؤذنین

اذان دینے والوں کے جسم کا گوشت…جہنم کے لئے حرام…جہنم کی آگ اس کو چھو بھی نہیں سکتی…یہ فضیلت نہ کسی سائنسدان کے لئے ،نہ ڈاکٹر، انجینئر کے لئے…اور نہ چاند پر چڑھنے والوں کے لئے…یہ فضیلت مسجدوں کو اَذان سے آباد کرنے والوں کے لئے ہے…اندازہ لگائیں کتنی بڑی ترقی ہے،کتنی بڑی…ایک مسلمان کو جہنم سے نجات مل جائے…اس سے بڑی ترقی اور کیا ہو سکتی ہے؟… اے دین کے دیوانو! مسجدیں بناؤ، مسجدیں آباد کرو…مسلمانوں کو مسجدوں سے جوڑو… اور جہاد کو مسجدوں سے قوت دو…

خوشی کا دن

الحمد للہ! دو دن بعد…ایک اور خوشی کا دن آ رہا ہے…۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۶؁ھ بمطابق ۵ مارچ بروز جمعرات …سات نئی مساجد کی تعمیر کا آغاز…

الحمد للہ رب العٰلمین، الحمد للہ رب العٰلمین

دل کی تڑپ ہے کہ جماعت کم از کم تین سو تیرہ مساجد بنائے اور آباد کرے…دل کا درد ہے کہ جہاد اور مسجد آپس میں اسی طرح جڑ کر چلیں…جس طرح مسجد نبوی اور غزوۂ بدر کا جوڑ تھا… مساجد،دین اِسلام کا شعار اور علامت ہیں…مساجد ایک مسلمان کے ایمان کا ٹیسٹ ہیں… ہر شخص اپنے دل کو دیکھے اگر دل مسجد کی طرف لپکتا ہے…وہاں جا کر سکون پاتا ہے…تو سمجھ لیں کہ دل زندہ ہے اور اس میں اِیمان موجود ہے…لیکن اگر دل مسجد سے بھاگتا ہے…مسجد کو بوجھ سمجھتا ہے…اور مسجد میں جا کر بے چین ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ دل موت کے جھٹکوں پر ہے…اور کسی بھی وقت اِیمان سے خالی ہو سکتا ہے…آج کل جس طرح جسم اور خون کے میڈیکل ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں…ایک مسلمان کو چاہیے کہ…اپنے ایمان کی اپنے جسم سے زیادہ فکر رکھے…جسم نے تو ویسے گل سڑ جانا ہے… جبکہ ایمان کے بغیر کوئی گذارہ نہیں…

الحمد للہ! ملک کے مختلف شہروں میں مزید سات مساجد تعمیر کرنے کی ترتیب بن چکی ہے…جس دن ہم ان مساجد کے لئے اپنی جیب سے کچھ مال نکالیں گے…وہ کتنا خوشی کا دن ہو گا…ہاں! واقعی عید جیسی خوشی کہ…اللہ تعالیٰ اپنے گھر کے لئے ہمارے مال کو قبول فرما لے…بندہ نے الحمد للہ ارادہ باندھ لیا ہے…اور ان شاء اللہ جمعرات کو مہم شروع ہوتے ہی اپنا ’’عطیہ‘‘ جمع کرانے کی سعادت حاصل کرے گا…آپ بھی نیت پکی کر لیں…اگر دو چار دن گوشت اور مرغی نہ کھائی تو کیا نقصان ہو گا؟…ویسے بھی آج کل ہر شہر میں حرام گوشت فروخت ہو رہا ہے…اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں مُردار اور نجس گوشت کھلایا جا رہا ہے…مسلمان جب تک کھانے پینے کے شوقین نہیں تھے تو کوئی انہیں حرام میں نہیں ڈال سکتا تھا…مگر جب سے چٹخارہ بازی مسلمانوں پر مسلط ہوئی ہے تو کوئی ان کو…خنزیر کے اَجزاء کھلا رہا ہے، تو کوئی ان کو کتے اور گدھے کا گوشت…کھانا پینا ایک ضرورت ہے مگر جب عادت یہ بن جائے کہ سامنے سادہ کھانا رکھا ہو تو …ہاتھ روک کر بیٹھے رہیں گے کہ کہیں اس پاک کھانے سے ہمارا پیٹ نہ بھر جائے…ہم نے تو ضرور کسی ہوٹل جا کر کسی نئی ڈش سے پیٹ بھرنا ہے تو پھر…مسلمانوں کے دشمن اِن کو حرام تک کھلا دیتے ہیں…آپ صرف زندگی کا ایک ہفتہ اس طرح گذاریں کہ کھانے کو صرف اپنی ضرورت سمجھیں…خواہش نہیں…دال ساگ جو ملے اس سے ضرورت پوری کر لیں…اور سنت کے مطابق پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں، تو آپ اپنی زندگی کو آزاد اورپُر سکون محسوس کریں گے…بڑی بڑی بیکریاں، بڑے بڑے ہوٹل اور طرح طرح کے مشروبات… آپ خود کو ان سے آزاد پائیں گے…کھانے کا کوئی اِشتہار…بوفے کا کوئی بورڈ اور ذائقے کا کوئی پوسٹر آپ پر اَثر انداز نہ ہو گا…اور آپ کو سادہ کھانے میں وہ مزہ آئے گا جو پانچ ستارہ ہوٹلوں کے کھانوں میں بھی نہیں ہوتا…مساجد کی تعمیر و آبادی کے لئے جو مال ہم لگائیں گے…وہ خوشبودار اَمانت بن کر ہمارے لئے محفوظ ہو جائے گا…جمعرات کے دن ہم مسلمانوں کے سامنے اللہ کے لئے جھولی بھی پھیلائیں گے…اپنی ذات کے لئے نہیں…اللہ تعالیٰ کے گھر اور دین کے لئے… تو یہ بھی خوشی اور سعادت کا موقع ہو گا…اسی مہم کے دوران ہم چندے کے ساتھ ساتھ… مسلمانوں کو مسجد حاضری کی دعوت بھی دیں گے…یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کے گھر کی طرف بلائیں گے…یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہو گی…اور ہم اس مہم کے دوران…اپنے محبوب رب کے گھروں یعنی مساجد کے فضائل بھی سنائیں گے…سبحان اللہ! محبوب کے گھر کے قصیدے… اور محبوب کے گھر کی دیواروں کے والہانہ بوسے…یہ بھی بڑی خوشی اور مسرت کا موقع ہو گا ان شاء اللہ…

آج منگل کا دن ہے…پرسوں جمعرات ہے…یہ رحمتوں اور خوشیوں بھری مہم آ رہی ہے… خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے سجدے اور اپنے مال سے اس مہم کا آغاز کرنا ہے… ان شاء اللہ…مکمل تیاری باندھ لیں…

اَنمول موقع

اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو اکیلے…پوری مسجد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بنا لیتے ہیں…اُن پر ہمیں رشک آتا ہے…کبھی دل سے دعا بھی نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی توفیق عطاء فرمائے… ایک سچے مومن کا عشق یا تو محاذ کے ساتھ ہوتا ہے یا مسجد کے ساتھ…ہاں! ایک بات ضرور پوری زندگی مدنظر رہے…بعض لوگ اللہ تعالیٰ سے مال مانگتے ہیں…یا اللہ! مال دے ہم جہاد پر لگائیں گے، مساجد بنائیں گے…کھانے کھلائیں گے…ان کی دعا قبول ہو جاتی ہے…اور مال مل جاتا ہے اب وہ اپنے تمام عزائم اور ارادے بھول کر…اس مال کے مرید بن جاتے ہیں…اسی کی خدمت میں زندگی برباد کرتے ہیں…اسے جمع کرنے،بڑھانے،سنبھالنے اور محفوظ رکھنے کی فکر میں دن رات کاٹتے ہیں…ایسا مال دراصل وبال ہوتا ہے…بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے…اور قرآن مجید میں منافق کا حال مذکور ہے کہ…وہ اسی طرح مال مانگتا ہے کہ…یا اللہ! مال دے تاکہ تیری راہ میں لگاؤں …جب مال مل جاتا ہے تو وہ بگڑ جاتا ہے…اس لئے جب بھی دین کی خاطر مال مانگیں تو ساتھ توفیق بھی مانگیں…یا اللہ! دین پر خرچ کرنے کے لئے مال عطاء فرما اور ساتھ اس مال کو دین پر خرچ کرنے کی ہمت ،صلاحیت اور توفیق بھی عطاء فرما…یا اللہ! ایک مسجد بنانے کی خواہش ہے… خالص آپ کی رضا کے لئے پوری مسجد…یا اللہ! مال عطاء فرما…اس مال سے مسجد بنانے کی توفیق عطاء فرما… اور اسے قبول فرما…اس طرح دعاء ہو تو پھر ان شاء اللہ وبال اور عذاب سے حفاظت رہتی ہے… جماعت کی طرف سے جب اس طرح کی کسی مہم کا اعلان ہوتا ہے تو…یہ ہمارے لئے بہترین موقع ہوتا ہے کہ… ہم اپنی آخرت بنا لیں…اہل علم نے لکھا ہے کہ… اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں…توبہ کے فضائل بے شمار ہیں…مگر توبہ کس کی قبول ہوتی ہے؟…

لکھا ہے کہ …توبہ قبول ہونے کی بڑی علامات تین ہیں:

١                    دل اچھی صحبت کی طرف مائل ہو جائے…اور برے لوگوں کی صحبت سے دور بھاگنے لگے…

٢                    نیک اَعمال کی توفیق ملنے لگے…

٣                    دنیا کی محبت کم ہو جائے یا ختم ہو جائے…

اسی طرح اَحادیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ…گناہوں کے فوراً بعد کوئی نیکی کر لی جائے تو وہ نیکی ان گناہوں کو مٹا دیتی ہے…

ہم سب الحمد للہ توبہ،استغفار کرتے رہتے ہیں…اور اس طرح کی مہم ہمارے لئے انمول موقع ہوتی ہے کہ…ہم اپنی توبہ کو مقبول بنا لیں…

مساجد کی محنت میں پہلا اِنعام اچھی صحبت ہے…ہم خود مساجد میں جائیں گے…مسلمانوں کو مساجد کی طرف بلائیں گے…مساجد کے تعاون کی مجالس سجائیں گے تو…یہ سب اچھی صحبت کے مقامات ہمیں نصیب ہو جائیں گے…دوسری علامت نیک اعمال کی توفیق…تو وہ بھی ان مہمات سے حاصل ہو جاتی ہے… ہر مہم میں الحمد للہ جانی اورمالی نیک اَعمال جمع ہوجاتے ہیں… اور جب ہم خود اپنا مال بھی لگاتے ہیں…اور مسلمانوں کو بھی مال لگانے کی ترغیب دیتے ہیں تو اس سے…دنیا کی محبت کم ہو جاتی ہے…اللہ تعالیٰ اس مہم کو کامیاب فرمائے…قبول فرمائے…اور اس میں ہمیں زیادہ سے زیادہ مقبول حصہ عطاء فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر486

 

اہم ترین کام... الصلوٰۃ الصلوٰۃ...

نماز کا ترک... کفر جیسا عمل...

بے نمازکا اسلام میں حصہ نہیں ... سخت وعید پر مبنی روایات...

تارک نماز کے بارے میں ائمہ اسلام کا سخت مؤقف...

مرتد تک قرار دیا جانا... العیاذباللہ...

نماز کی دعوت... مسلمان کے لئے اس کی اہمیت اور ضرورت...

جہنم سے بچانے کے لئے نماز پرلانا ہوگا...

نماز کے لئے آنا... اُمت پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کا حق...

اُمت میں نماز کا ذوق... ایک عجیب و غریب واقعہ...

آج کے مسلمان کی حالتِ زار...

ترک نماز شراب نوشی اور بدکاری سے بڑا گناہ...

کلمہ طیبہ کی سچائی کی دلیل...قیامت میں سب سے پہلا سوال...

فجر کی نماز سے غفلت کا عمومی مرض...مسلمان خواتین کو دعوتِ نماز...

ایک اہم ترین موضوع پر اہم تحریر...

 

اہم ترین کام

اللہ تعالیٰ نے ہر عاقل،بالغ مسلمان مرد…اور مسلمان عورت پر ’’نماز ‘‘ کو فرض فرمایا ہے…

وَاَقِیْمُو الصَّلوٰۃ

حضور اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم   نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا اور نماز چھوڑنے کو کفر قرار دیا…

فرمایا:

فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَر

’’جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوا‘‘

حضرت سیّدنا عمر  رضی اللہ عنہ  نے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح اعلان فرمایا:

لَا حَظَّ فِی الْاِسْلَامِ لِمَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ

’’جو نماز چھوڑے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں‘‘…

آپ بتائیں! جو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہو…جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم   کو مانتا ہو…کیا وہ جان بوجھ کر ایک نماز بھی چھوڑ سکتا ہے؟…نماز اسلام کا سب سے بڑا اور لازمی فریضہ…ایک تابعی فرماتے ہیں…حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے مگر نمازکے چھوڑنے کو کفر قرار دیتے تھے…

آہ امت مسلمہ! آج اکثر مسلمان نماز کے تارک ہو گئے…سچی بات ہے دل خون کے آنسو روتا ہے…قرآن مجید نے کافروں کی صفت بیان کی :

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُونْ

’’جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو وہ رکوع نہیںکرتے‘‘…

کیا روز مسجد سے نہیں بلایا جاتا…حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلوٰۃ

آؤ نماز ادا کرو…آؤ اپنے رب کے لئے رکوع،سجدے کرو…یہ آواز سن کر جو ٹس سے مس نہیں ہوتے…وہ آخر کس عقیدے پر ہیں؟کس دین پر ہیں؟ …تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ…جو شخص نماز کی فرضیت کا منکر ہو وہ بالکل پکا کافر ہے…اور جو شخص نماز کو حقیرسمجھے یا معمولی چیز سمجھے اور چھوڑ دے وہ بھی کافر ہے…

صرف اس شخص کے بارے میں حضرات ائمہ کرام کا اختلاف ہے…جو نماز کو فرض سمجھتا ہو مگر اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے ادا نہ کرتا ہو…احناف کے نزدیک وہ فاسق ہے، اسے کوڑے مارے جائیں اور توبہ کرنے تک قید رکھا جائے…شوافع اور مالکیہ کے نزدیک وہ فاسق ہے اسے قتل کر دیا جائے…کیونکہ نماز کاچھوڑنا بڑا جرم ہے…اور اس کی سزا موت ہے…حنابلہ کے نزدیک وہ کافر،مرتد ہے…اسے مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جائے…اللہ کے بندو! یہ سب کچھ نہ سختی ہے اور نہ شدت…یہ سب شفقت ہی شفقت ہے…بے نمازی کی موت بڑی دردناک ہوتی ہے…یا اللہ! امان، یا اللہ! امان…بے نمازی کے جسم کا ہر بال اور ہر خلیہ ناپاک اور نجس ہو جاتا ہے…یا اللہ! امان…یا اللہ! امان…بے نمازی کی قبر آگ کا تندور اور عذاب کی بھٹی ہوتی ہے…یااللہ! امان، یا اللہ! امان… اور بے نمازی کے لئے آخرت میں آگ ہی آگ ہے…اور عذاب ہی عذاب…

اب ایک مسلمان کو ان تمام دردناک سزاؤں اور بُرے انجام سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ… اسے نماز پر لایا جائے…آخر کلمہ پڑھنے کا کچھ تو مطلب ہو…جو اللہ تعالیٰ کی پہلی بات ہی نہ مانے اس نے اللہ تعالیٰ کو کہاں مانا؟…جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے سب سے تاکیدی حکم کو نہ مانے…اُس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی آخر کیا حیثیت ہے؟…دل میں جن کا احترام ہو اُن کے حکم کا بھی اِحترام ہوتا ہے…اور یہاں نماز کے بارے میں ایک حکم نہیں…بلکہ بار بار تاکید ہے… بہت سخت تاکید ہے…حتیٰ کے بستر وفات پربھی یہی فکر اور کڑھن ہے کہ…مسلمانو! نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو…مسلمانو! نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو…سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر نماز ادا نہیںکرتے…وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو تکلیف پہنچاتے ہیں…کوئی والد اپنے بیٹے کو آٹھ، دس بار کوئی کام بتائے…بیٹا اپنی جگہ سے ہلے بھی نہ تو والد کے دل پر کیا گذرے گی؟…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کا حق والد سے بہت زیادہ ہے بہت زیادہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اپنے ہر امتی کو بار بار نماز کی طرف بلایا…سینکڑوں ہزاروں بار بلایا…فضائل سنا کر بلایا…وعیدیں سنا کر بلایا…اور نماز کو دین کے لئے ستون اور سر کی طرح قرار دیا… مگر کوئی شخص یہ سب کچھ سن کر بھی نہ اٹھے تو …اس نے کتنا بڑا ظلم کیا…شیطان نے لوگوں کو بازار کی طرف بلایا…بازار کھچا کھچ بھر گئے…شیطان نے لوگوں کو سینما اور کلبوں کی طرف بلایا…کھیل اور بے حیائی کے مقابلوں کی طرف بلایا تو وہاں جگہ ملنا مشکل ہوگئی…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   نے مسلمان کو مسجد کی طرف بلایا تو…مسجدیں خالی خالی نظر آئیں…کیا یہ تکلیف پہنچانا نہیں؟…ہائے کاش! کوئی مسلمانوں کو سمجھائے…ایک وقت تھا کہ …ملکِ مغرب کے علماء کا ایک اِجلاس ہوا…مسائل پر گفتگو تھی…ایک عالم نے تجویز دی کہ…تارکِ صلوٰۃ یعنی نماز چھوڑنے والے مسلمان کے بارے گفتگو ہو جائے…آیا وہ مسلمان ہے یا کافر؟…اُس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی یا نہیں؟اس سے کسی مسلمان عورت کا نکاح جائز ہے یا نہیں؟اس کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں؟…چونکہ ائمہ کرام کا اختلاف ہے اس لئے علماء کی یہ مجلس اپنے ملک کے لئے…کسی ایک فتویٰ پر اتفاق کر لے…یہ تجویز سن کر باقی علماء نے فرمایا…ملک میں یہ طبقہ موجود ہی نہیں…نماز چھوڑنے والے کسی مسلمان کا یہاں تصور ہی نہیں…تو ایک فرضی مسئلہ پر ہم اپنا وقت کیوں لگائیں…یہی وقت کسی اور مسئلہ پر گفتگو کر لیتے ہیں جس کا ہمارے ہاں وجود ہو…سبحان اللہ! پورے ملک میں ایک بھی نماز چھوڑنے والا نہیں تھا…کہتے ہیں کہ یہ ساتویں صدی ہجری کا قصہ ہے…اور آج…ہر طرف بے نمازی ہی بے نمازی…حکمران بے نمازی، عوام بے نمازی…اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا فریضہ چھوڑنے پر نہ کوئی شرم، نہ کوئی ندامت…نہ کوئی خوف، نہ کوئی دکھ…حالانکہ نماز چھوڑنا…چوری،شراب نوشی اور زنا سے بڑا گناہ ہے…مگر اب ہماری اشرافیہ میں اسے گناہ نہیں سمجھا جاتا…حالانکہ قرآن مجید نہایت صراحت کے ساتھ سمجھاتا ہے کہ نماز چھوڑنا کافروں کا کام…مشرکوں کا طریقہ ہے اور منافقوں کی عادت ہے…ایک آیت نہیں…سینکڑوں آیات میں نماز کا حکم موجود ہے… اور نہایت تاکید کے ساتھ موجود ہے…آہ! مسلمانوں کی حالت دیکھ کر دل روتا ہے کہ …نماز تک سے محروم ہو گئے…نماز ہی تو کلمہ طیبہ کے سچا ہونے کی پہلی دلیل ہے…اب معلوم نہیں کہ دل میں کلمہ بھی باقی ہے یا وہ بھی رخصت ہو چکا…وہ مسلمان جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز ادا کرتے ہیں وہ اس نعمت پر بہت شکر ادا کریں…آج جب مسجد جائیں اور نماز ادا کر لیں تو …دل کی گہرائی سے آنسو بہا بہا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ… یا اللہ! اتنی عظیم نعمت عطا فرما دی…جس کے والدین نمازی ہوں وہ اس پر شکر ادا کرے… جس کی بیوی نمازی ہو وہ اس پر شکر ادا کرے…جس کی اولاد نمازی ہو وہ اس پر شکر ادا کرے… ہر نماز کے بعد والہانہ شکر اور جو نمازیں رہ گئیں ان کی قضاء…اور اگلی نمازوں کے لئے دعاء کہ یا اللہ! جتنی رہ گئی ہیں …وہ سب آسان فرما ،قبول فرما…مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نصیب فرما… قیامت کے دن پہلا سوال نماز کا ہو گا…نماز ٹھیک نکلی تو باقی پرچہ آسان ہو جائے گا… اور اگر نماز ہی میں فیل ہو گئے تو پھر آگے سوائے ناکامی کے اورکوئی بات نہ ہو گی…ارے! بنیادی سوال ہی حل نہ کیا تو کوئی لاکھ خوشخطی دکھا دے کوئی نمبر ملنے والے نہیں…نماز کی محنت کا آغاز اپنی ذات سے کریں…نماز سمجھیں،نماز سیکھیں،نماز درست کریں…اور نماز سے سچا عشق کریں… خواتین خاص طور پر فکر کریں…اور ہر نماز اول وقت میں ادا کریں…بنات کے جامعات بن گئے مگر نماز کا معاملہ کمزور پڑ گیا…فجر میں سستی عام ہو گئی…اے مسلمان بہن! کیا نماز کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے؟…کیا نماز کے بغیر بھی کوئی کامیابی ہے؟…اپنی ذات پر محنت کے بعد پھر اپنے گھر پر محنت کریں…جو کچھ بھی کرنا پڑے کر لیں کہ گھر میں کوئی بے نمازی نہ رہے… کسی کے پاؤں پکڑنے پڑیں تو پکڑ لیں…کسی کے سامنے رونا پڑے تو دریا بہا دیں…کسی کے بیٹے کو پھانسی کی سزا ہو جائے… وہ اس سزا کو ختم کرانے کی کتنی کوشش کرتا ہے؟…حالانکہ پھانسی دو منٹ کی تکلیف ہے…جبکہ بے نمازی کے لئے …بہت بڑی آگ ہے،بہت طویل عذاب اور بہت سخت لعنت…جو اپنی اولاد کو اس آگ، اس عذاب اور اس لعنت سے نہ بچا سکا…اس نے اولاد کے ساتھ کیا خیر خواہی کی؟…اپنے گھر کے بعد پھر عام مسلمانوں میں نماز کی دعوت ہے…بہت درد بھری، بہت جاندار، اوربہت تڑپتی ہوئی دعوت…یہ دعوت چل پڑی تو سب سے پہلا فائدہ خود دعوت دینے والے کو پہنچے گا…حضرات مجاہدین…نماز کا بہت خیال رکھیں…جاندار نماز کے بغیر جہاد میں جان نہیں پڑتی…اپنے مراکز میںنماز کا بہت اہتمام کرائیں…اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان دنوں سات مساجد کی مہم چل رہی ہے…اسی مہم کی روشنی میں اقامت صلوۃ کی محنت بھی کر لیں…کیا معلوم آپ کی دعوت…آپ کے نامہ اعمال میں کسی مسلمان کے ہزاروں سجدے ڈال دے…اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت پیارا نصاب عطاء فرمایا ہے…

کلمہ طیبہ، اقامت صلوۃ…اور جہاد فی سبیل اللہ…یا اللہ! آپ کا شکر ہے…بے حد شکر…

الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ

لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور..... سعدی کے قلم سے نمبر487

اللہ تعالیٰ کے پیارے ناموں اور صفات کا تذکرہ...

چھ نام اور اُن کے معانی...

غافر، غفور اور غفار... قرآن مجید میں تعداد اور اُن کا معنی...

چار سب سے بڑے گناہ...

فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماکا فرمانِ عالی شان...

گناہوں کے بعد مایوسی کا وبال...

اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت اور اس کی وسعت...

گناہ گاروں کے تین درجات... ان کے مقابل اللہ تعالیٰ کی تین صفات...

ایک اہم قرآنی نکتہ...

مرشد کامل کی ضرورت... مرشد نہ ملے تو کیا کرنا چاہیے؟

حضرت سیّدنا عثمان  رضی اللہ عنہ کا قبر سے خوف ...

گناہوں کا مخلوق کے سامنے ذکر نہ کرو... سیّدہ عائشہ  رضی اللہ عنہاکا سبق آموز واقعہ...

گناہوں سے بنجر ہو چکے قلوب پر مغفرت اور رحمت کی بارش برساتی ایک عظیم تحریر...

 

 

مغفرت کی بارش

اللہ تعالیٰ ’’غافر‘‘ ہے، ’’غفور‘‘ ہے اور ’’غفّار‘‘ ہے…

بخشنے والا…مکمل بخشش اور مغفرت فرمانے والا…اور بار بار بخشنے والا…

اللہ تعالیٰ ’’سَاتِرْ‘‘ ہے، ’’سَتِّیر‘‘ ہے اور ’’سَتَّار ‘‘ ہے…

عیبوںپرپردہ ڈالنے والا…برائیوں اور کمزوریوں کو چھپانے والا…عیب دار انسانوں پر اچھائی کے پردے ڈالنے والا…

یہ اللہ تعالیٰ کے چھ اسماء الحسنی…پیارے پیارے نام ہمارے سامنے آ گئے…

اَلْغَافِرُ…اَلْغَفُوْرُ…اَلْغَفَّارُ…اَلسَّاتِرُ، السَّتِّیْرُ، اَلسَّتَّارُ…

اب نہایت ادب، بے حد توجہ اور عاجزی سے پکاریں…

یَا غَافِرُ…اے بخشنے والے…

یَاغَفُوْرُ…اے مکمل مغفرت فرمانے والے…

یَا غَفَّارُ…اے بار بار بخشش اور معافی دینے والے…

اِغْفِرْلِیْ…اِغْفِرْلِیْ…اِغْفِرْلِیْ…

میری مغفرت فرما…مجھے بخش دے … مجھے مغفرت عطاء فرما…

یَا سَاتِرُ…اے چھپانے والے…

یَا سَتِّیْرُ…اے پردہ ڈالنے والے…

یَا سَتَّارُ… اے ہر طرح کی کمزوریوں اور عیبوں کو ڈھانپنے والے…

اُسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا

ہماری کمزوریوں پر اپنا پردہ ڈال دے اور ہمارے خوف پر اپنا امن ڈال دے…

پہلے تین نام قرآن مجید میں آئے ہیں…

١                    الغافر…    یہ ایک مقام پر آیا ہے ( غافر الذنب)…

٢                    الغفور…  یہ قرآن مجید میں اکیانوے (۹۱) بار آیا ہے…

٣                    الغفّار…   یہ قرآن مجید میں پانچ بار آیا ہے…

گویا قرآن مجید میں مغفرت کا یہ نور … مسلمانوں پر ستانوے بار برسا…اگر ایک بار بھی برستا تو تمام اہل ایمان کی مغفرت کے لئے کافی تھا …مگر یہاں تو’’ربّ غفور‘‘ کی مغفرت کا سمندر ہے،پورا سمندر…اسی لئے تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے مایوس ہونا…بہت بڑا گناہ ہے،جی ہاں! اللہ تعالیٰ بچائے کبیرہ گناہ ہے…حضرت امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں وہ احادیث اوراقوال جمع فرمائے ہیں، جن میں ’’کبائر‘‘ یعنی کبیرہ گناہوں کی تفصیل ہے…سات سے لے کر سات سو تک…مگر حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کا ایک فرمان یہ ہے کہ …کل کبیرہ گناہ چار ہیں…

١                    اَلْیَأسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ… اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مدد سے مایوس ہو جانا…

٢                    اَلْقَنُوْطُ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ…اللہ کی مغفرت اور رحمت سے نا امید ہو جانا…

٣                    وَالْأمْنُ مِنْ مَکْرِ اللّٰہِ…اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو جانا…

٤                    وَالشِّرْکُ بِاللّٰہِ…اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا…

کچھ لوگ گناہ کرتے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں…پھر جب خود کو ہر طرف سے گناہوں میں لتھڑا ہوا پاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مکمل طور پر مایوس ہو کر…نہ استغفار کرتے ہیں اور نہ توبہ…وہ کہتے ہیں کہ ہم تو گناہوں سے نکل ہی نہیں سکتے…زبانی توبہ کا کیا فائدہ؟…ہمیں استغفار سے شرم آتی ہے کہ بار بار توبہ توڑ تے ہیں…بظاہر یہ اچھی سوچ ہے مگر حقیقت میں شیطانی نظریہ اور سوچ ہے…یہ اللہ تعالیٰ سے مکمل طور کٹ کر شیطان کی گود میں گرنے کا اعلان ہے…یہ اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت اور قوت مغفرت کا انکار کرنا ہے…کون سا گناہ اللہ تعالیٰ سے بڑا ہے…کون سا گناہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے زیادہ وسیع ہے؟…اللہ تعالیٰ جب مغفرت دینے پر آ جائے تو ایسی قوت والی مغفرت دیتا ہے کہ…گناہوں کے تمام اثرات تک مٹ جاتے ہیں…اگر کسی کے گناہوں کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا…گناہوں کے انڈے بچے دور دور تک پھیل گئے…تب بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت جب آتی ہے تو اُن تمام گناہوں اور ان کے اثرات کو ختم کر دیتی ہے…اور جو حقوق گناہگار کے ذمہ لوگوں کے ہوتے ہیں…وہ بھی ادا کروا دیتی ہے…اور جن گناہوں کا داغ بہت گہرا ہو… ان کی جگہ گہری نیکیوں کی توفیق لے آتی ہے…

ایک آدمی کروڑوں روپے کی خیانت کر کے …سچی توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو اربوں روپے دے دیتے ہیں کہ وہ کروڑوں کی خیانت بھی واپس کر آئے اور مزید کروڑوں کے صدقات جاریہ بھی چھوڑ آئے…اللہ تعالیٰ کوئی معمولی معافی دینے والے نہیں…غفور ہی غفور…غفّار ہی غفّار … حضرت وحشی  رضی اللہ عنہ  جنہوں نے حضرت سیدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  کو قتل کرنے کا جرم کیا تھا…توبہ کرنے اور توبہ قبول ہو جانے کے باوجود غم میں کڑھتے تھے تو …ربّ غفور نے انتظام فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے ایک بڑے دشمن کو قتل کرنے کی سعادت عطا فرما دی… تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے…ارے! سچے دل سے معافی تو مانگو،سچے دل سے توبہ کے دروازے پر تو آؤ…اللہ تعالیٰ غافر و غفور ہے…مغفرت کے اصل معنیٰ پردہ ڈالنے،ڈھانپنے اور چھپانے کے آتے ہیں… پرانے زمانے کی جنگوں میں سرپر جو لوہے کی ٹوپی پہنی جاتی تھی…اسے ’’مغفر‘‘ کہتے تھے…وہ سر کو حفاظت سے ڈھانپ لیتی تھی…اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت انسان کو گناہوں کے ہر شر سے … دنیا اورآخرت میں محفوظ کر دیتی ہے…ڈھانپ لیتی ہے…اہل دل فرماتے ہیں کہ…گناہ ایک ظلم ہے جو انسان اپنی ذات پر ڈھاتا ہے…پھر گناہگار تین قسم ہیں:

١                    ظالم…یعنی عام گناہگار

٢                    ظلوم…بڑے سخت گناہگار

٣                    ظلّام…یعنی بار بار گناہوں میں گرنے والے

مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھیں کہ …جو بندے ’’ظالم‘‘ ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ’’غافر‘‘ ہے…بخشنے والا…جو ’’ظلوم‘‘ ہیں یعنی سخت گناہگار…ان کے لئے اللہ تعالیٰ ’’غفور‘‘ ہے…یعنی ’’ٹھاٹھ‘‘ کی مغفرت دینے والا…اور جو ’’ظلّام ‘‘ ہیں بار بار گناہ کرنے والے ان کے لئے اللہ تعالیٰ ’’غفار‘‘ ہے…بار بار بخشش فرمانے والا…تم دل سے بخشش مانگو تو سہی…مغفرت مانگنے اور بخشش طلب کرنے کو ہی استغفار کہتے ہیں …دل کی ندامت کے ساتھ استغفار…بات یہ چل رہی تھی کہ… اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے نا امید ہونا یہ بڑا سخت کبیرہ گناہ ہے…دوسری طرف کچھ لوگ (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہو جاتے ہیں…وہ دنیا میں تکلیفیں اور مصیبتیں دیکھ دیکھ کر شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں کہ…اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) نہیں سنتا…اللہ تعالیٰ مدد نہیں فرماتا… تو ایسا نظریہ بنا لینا بھی سخت کبیرہ گناہ ہے…اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے اور وہ نصرت بھی فرماتا ہے…مگر جلد باز انسان اس کی نصرت کے انداز کو ہمیشہ نہیں سمجھ سکتا…وہ سمجھتا ہے کہ نصرت نہیںآ رہی…حالانکہ نصرت آئی ہوئی ہوتی ہے…اگر وہ نہ آتی تو معلوم نہیں انسان کا کیا حشر ہوتا…یہاں ایک ضروری بات یاد رکھیں … اگر اپنے ایمان کی سلامتی چاہتے ہیں تو …غیر مسنون وظیفے اور عملیات زیادہ نہ کریں…عامل بننے کا شوق دل سے نکالیں …مومن اور تائب بننے کا شوق دل میں بسائیں…اگر کوئی مرشد کامل نصیب ہے تو پوچھ پوچھ کر وظائف کریں…اگر مرشد کامل نصیب نہیں تو… تلاوت قرآن پاک …نوافل…نفل روزے،صدقہ…کلمہ طیبہ، استغفار، درودشریف… اور تیسرے کلمہ میں لگے رہیں…یعنی فرض عبادت کے بعد جو وقت ملے …ان میں بس یہی اعمال کریں اور مسنون دعاؤں کا اہتمام…ان کے لئے نہ کسی مرشد کی اجازت ضروری… اور نہ ان میں کوئی خطرہ … باقی وظائف یا تو آخر میں مایوسی کی طرف کھینچ لیں گے…یا نعوذ باللہ اپنی ذات کا تکبر دل میں آ جائے گا جو تمام بیماریوں کی جڑ…اور مہلک کینسر ہے…

حضرت سیّدنا عثمان  رضی اللہ عنہ …ذی النورین تھے، جنت کی پکی بشارت رکھتے تھے …  آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم   کے محبوب تھے…سخاوت کے تاجدار تھے…صدقات جاریہ کے امام تھے … حیاء میں اپنی مثال آپ تھے…مگر قبر پر جاتے تو زاروقطار روتے اور عذاب قبر کے خوف سے تھر تھر کانپتے… پھر ہمیں یہ کیفیت کیوں نصیب نہیں ہوتی؟…ہمیں قبر کا خوف ایک آنسو تک نہیں رلاتا… معلوم ہوا کہ دل اور نفس میں خرابی اور تکبر ہے …اسی لئے حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ…اللہ تعالیٰ کی دنیا اور آخرت میں پکڑ سے بے خوف ہو جانا بھی کبیرہ گناہ ہے…یہ حالت بری صحبت سے بھی بن جاتی ہے… اور زیادہ غیر شرعی وظائف سے بھی کہ…انسان کو اپنے اصل مسائل موت، قبر،حشر اور آخرت کی فکر نہیں رہتی…اسی لئے جو وقت وظائف میں لگتا ہے…وہ سچے استغفار میں لگ جائے… استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ انسان کی حالت تبدیل فرما دیتے ہیں…حضرت سیّدہ مطہرہ اماں عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک عورت آئی …اور مسئلہ پوچھنے کے انداز میں اپنے گناہ کا تذکرہ کر گئی…شاید کسی نے احرام کی حالت میں اس کی پنڈلی کو پکڑا یا چھوا تھا…اس نے جیسے ہی یہ بات بتائی…حضرت اماں عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہانے فوراً چہرہ پھیر لیا اور فرمایا:

’’رک جاؤ، رک جاؤ، رک جاؤ‘‘

اور پھر ارشاد فرمایا:’’ اے ایمان والی عورتو! اگر تم میں سے کسی سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ دوسروں کو نہ بتائے…بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرے … یاد رکھو!بندے عار میں ڈالتے ہیں بدل نہیں سکتے …جبکہ اللہ تعالیٰ بدلتا ہے…عار میں نہیں ڈالتا‘‘… یعنی تم اپنے گناہ لوگوں کو بتاؤ گی تو لوگ تمہارے اس گناہ کو مٹا نہیں سکتے…نہ تمہاری حالت کو تبدیل کر سکتے ہیں…اور نہ گناہ کے شر اور نقصانات سے تمہیں بچا سکتے ہیں…ہاں! البتہ وہ تمہیں عار اور شرمندگی میں ضرور ڈال سکتے ہیں… جب بھی اُن کو موقع ملا وہ تمہیں اس گناہ کی وجہ سے رسوائی،شرمندگی اور بدنامی میں مبتلا کر سکتے ہیں …جبکہ اللہ تعالیٰ نہ شرمندہ کرتے ہیں،نہ بدنام فرماتے ہیں اور نہ عار دلاتے ہیں…بلکہ وہ تمہاری بری حالت کو اچھی حالت میں تبدیل فرما دیتے ہیں …وہ تمہیں گناہ کے نقصانات سے بچا لیتے ہیں …وہ ’’العفو‘‘ ہیں…معاف فرمانے والے… کہ اس گناہ کو مٹا دیتے ہیں… اور ’’الغفور‘‘ ہیں کہ اس گناہ کو چھپا لیتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسی رحمت اور تبدیلی فرماتے ہیں کہ …خود گناہگار بندے کو بھی…اپنا گناہ یاد نہیں رہتا…گویا کہ گناہ کا ہر طرف سے نام و نشان ہی مٹ گیا…نہ وہ نامۂ اعمال میں باقی رہا، نہ وہ لکھنے والے فرشتے کو یاد رہا…نہ وہ اُس زمین کو یاد رہا جس پر وہ ہوا تھا …نہ وہ اُن اعضاء کو یاد رہا جن سے وہ گناہ کیا تھا … اور نہ خود گناہگار بندے کو یاد رہا… ایسا فضل اور ایسی مغفرت اور کون کر سکتا ہے؟…زندگی کے سانس چل رہے ہیں…سورج مشرق سے طلوع ہو رہا ہے…توبہ کا دروازہ کھلا ہے…بھائیو! کثرت استغفار، بہت استغفار، سچا استغفار…

اچھی توبہ،خالص توبہ،سچی توبہ ،پکی توبہ

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ،نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور …سعدی کے قلم سے 488

 

شرک سے براء ت…

اللہ تعالیٰ میرا رب ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا…

دل کی گہرائی سے ہر طاقت کا انکار کریں…

ہر طاقت بے اثر ہو جائے گی…

ایک مفید عام قرآنی نکتہ

حکمرانوں کے بندوں کی بہت چلتی ہے…

اللہ تعالیٰ کے بندوں کی کتنی چلتی ہو گی…

اللہ تعالیٰ تو سب سے بڑے ہیں…

پریشانی کا علاج… مصیبت کا حل… ایک مسنون مختصر دعاء

اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت…

دل میں توحید کو مضبوط کیجئے شیاطین کے اثرات بے کار ہو جائیں گے…

ہر ستارے، ہر شخصیت، ہر شرک سے براء ت…

ہر کرب و غم کا علاج… یہی مسنون دعاء…

مشہور محدث کا واقعہ اور اس دعاء کی قوت…

مخلص بندوں پر آنے والی مصیبتیں مبارک ہوتی ہیں…

مخلصین پر مصائب قرب الہی کا ذریعہ…

ایک مسنون دعاء سے متعلق ایمان افروز اور سبق آموز تحریر

 

 

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

اللہ، اللہ…اللہ تعالیٰ میرا رب ہے…میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

دو باتیں

آج کی مختصر سی مجلس میں بس دو باتیں ہیں…

پہلی یہ کہ ایک بہت قیمتی اور طاقتور دعاء یاد کر لیں…یہ دعاء رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے خاص طور پر اپنے گھر والوں کو سکھائی…اور پھر ساری امت کو سکھائی…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

’’اللہ اللہ میرا رب ہے…میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا‘‘

دوسری بات یہ کہ…بہت اہم نکتہ دل میں بٹھا لیں کہ…جب ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ہر طاقت کا انکار کر دیں گے تو…ساری طاقتیں خودبخود ’’ بے طاقت‘‘ ہو جائیں گی…حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے فرمایا… میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں…نمرود کو نہیں…بس جیسے ہی دل کی گہرائی سے نمرود کی طاقت کا انکار فرمایا…نمرود، اس کی حکومت اور اس کی آگ… سب بے طاقت ہو گئیں…ارے! ہر کسی کو مانو تو ہر کوئی نقصان پہنچاتا ہے…اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ مانو تو کوئی بھی کچھ نہیںبگاڑ سکتا…

اللہ کا بندہ

آپ نے اپنے اردگرد یہ جملہ بہت سنا ہو گا کہ …فلاں آدمی کی بہت چلتی ہے…وہ وزیر اعظم کا بندہ ہے…فلاں آدمی کو پولیس کچھ نہیں کہتی وہ کور کمانڈر کا بندہ ہے…فلاں شخص سے تو انتظامیہ بھی ڈرتی ہے وہ گورنر کا بندہ ہے…بہت پہلے کی بات ہے کہ حج ویزہ کے سلسلہ میں ایک سرکاری دفتر جانا ہوا تھا…وہاں موجود وزیر صاحب نے ایک شخص کو ملاقات کے لئے جلد بلا لیا…وجہ یہ تھی کہ وہ کسی جنرل کا بندہ تھا…اندازہ لگائیں…کسی طاقتور کا بندہ ہونا کتنے کام کی چیز ہے…

اب جو شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو…بلکہ صحیح معنی میں وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بن جائے تو اس کی طاقت کتنی ہو گی؟…وزیر اعظم کے بندے کو وزیر اعظم سے چھوٹے عہدیدار کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے … جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوگا اسے اللہ تعالیٰ سے چھوٹے افراد کس طرح کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں؟…اور اللہ تعالیٰ سے تو سب چھوٹے ہیں…وزیراعظم سے بڑے بہت سے ہو سکتے ہیں…مگر اللہ تعالیٰ سے بڑا کوئی بھی نہیں…اللہ اکبر، اللہ اکبر…اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے…

اس لئے دعاء کا پہلا حصہ ہی یہی ہے…’’ اللہ اللہ ربی‘‘…اللہ تعالیٰ میرا رب ہے…اور میں اس کا بندہ ہوں…سبحان اللہ…اللہ کا بندہ …اللہ کا بندہ… اللہ کا بندہ

جب کوئی شدت،پریشانی ،مصیبت آئے

حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

اِذَا اَصَابَ اَحَدَکُمْ ھَمٌّ اَوْلَاْوَاءٌ فَلْیَقُلْ:

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

جب تم میں سے کسی کو کوئی پریشانی یا سختی پیش آئے تو وہ کہے:

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

’’ ھَمّ‘‘ کہتے ہیں فکرمندی، پریشانی … الجھن،بے چینی…یا آج کل کے الفاظ میں تفکرات اور ٹینشن…

’’لَاْوَاء ‘‘ کا معنی ہے…شدت، سختی، مصیبت… رزق یا زندگی کی تنگی…ان دو تکلیفوں کا علاج یہ فرمایا کہ…اعلان کر دو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں…اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں مانتا … دراصل ہمارے اندر توحید کی کمی آتی ہے تو ساتھ خوف،غم،پریشانیاں اور مصیبتیں لاتی ہے…دل میں توحید موجود ہو تو دل اپنے مرکز کے ساتھ جڑا رہتا ہے…اور اس میں کسی کا خوف نہیں آتا … مثال لے لیجئے… جو لوگ امریکہ سے ڈرتے ہیں …وہ دن رات امریکہ کی غلامی اور ذلت کا خوف اٹھاتے ہیں… اور جو نہیں ڈرتے ان کے لئے گویا امریکہ موجود ہی نہیں ہے…آپ کبھی محاذ جنگ پر جا کر وہاں موجود مجاہدین کی خوشی، بے فکری اور اطمینان دیکھ لیں تو حیران رہ جائیں گے…اس سے بھی زیادہ عام سی مثال لے لیں…جو لوگ جنات کو حد سے زیادہ مانتے ہیں…ان سے ڈرتے ہیں،ان کو طاقتور سمجھتے ہیں…وہی بتاتے ہیں کہ جنات ان کو ہر وقت چمٹے رہتے ہیں…ان کو ستاتے ہیں… ان کے گھروں پر حملے کرتے ہیں…لیکن جو جنات کو نہیں مانتے…نہ ماننے کا مطلب یہ کہ ان کو کوئی بڑی طاقت یا مؤثر قوت نہیںمانتے…آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کوئی جن ان کے قریب بھی کبھی آیا ہو…ارے بھائیو! اور بہنو!اللہ کے سوا کسی پتھر کو بھی مانو تو وہ بھی … خدا بننے کی کوشش میں سیدھا سر پر آ لگتا ہے…کسی کتے کو بھی طاقتور مانو تو وہ اچھل اچھل کر بھونکتا ہے اور کاٹنے کو دوڑتا ہے…اس لئے ضروری ہے کہ …دل میں توحید کو مضبوط کیا جائے…بس صرف ایک اللہ کو مانو…اور باقی سب سے کہہ دو کہ … نہیںمانتے،نہیں مانتے…لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ…اللہ ہی خالق، اللہ ہی نفع و نقصان کا مالک …باقی سب مخلوق،باقی سب فانی…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

کوئی لاکھ اچھلے،کودے،چیخے،دھاڑے کہ مجھے مانو…مجھے مانو…اس کو صاف بتا دیں کہ… جی بالکل نہیں مانتے…بالکل نہیں مانتے … بالکل نہیں مانتے…نہ کسی پتھر کو نہ مورتی کو…نہ کسی ستارے کو نہ کسی سیارے کو…نہ کسی طاقت کو نہ کسی قوت کو…نہ کسی جن کو نہ کسی سائے کو…نہ کسی قبر کو نہ کسی آستانے کو…نہ کسی پنڈت کو نہ کسی نجومی کو…نہ کسی مہاراج کو، نہ کسی گوروگھنٹال کو … نہ کسی ٹونے باز کو نہ کسی جادوگر کو…نہ ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا وجود ہی نہیں…وجود تو ہے …مگر مؤثر نہیں…نفع و نقصان کا مالک نہیں … شر اور خیر کا فیصلہ کرنے والا نہیں…یہ سب محتاج یہ سب کمزور یہ سب فانی…میں تو اللہ کا بندہ ہوں …صرف ایک اللہ کا…اسی کے سامنے جھکتا ہوں…اسی سے مانگتا ہوں…صرف اسی کو مانتا ہوں…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

کرب اور خوف کے وقت

حضرت اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہاسے روایت ہے…کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

اَلَا اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ تَقُوْلِیْھِنَّ عِنْدَ الْکَربِ اَوْ فِی الْکَربِ

’’کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو تم مصیبت کے وقت ،یا مصیبت میں کہا کرو؟‘‘

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

’’اللہ،اللہ ہی میرا رب ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتی‘‘

سبحان اللہ! جو انسان توحید خالص کے قلعہ میں پہنچ جائے…اسے کون تکلیف پہنچا سکتا ہے؟…

الکرب یعنی غم،مصیبت،تنگی…ہر وہ حالت جو انسان کو تکلیف اور پریشانی میں ڈال دیتی ہے…

ایک عجیب واقعہ

ایک مشہور محدث گزرے ہیں…عبد الرحمن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ …یہ اپنے رفقاء کے ساتھ سمندری سفر میں تھے کہ رومیوں نے انہیں قید کر لیا…مسلمانوں اور رومیوں کی جنگیں چلتی رہتی تھیں…چنانچہ یہ بھی جنگی قیدی بنا لئے گئے…اسی قید کے دوران رومیوں کا تہوار آیا تو بادشاہ کے حکم سے ان مسلمان قیدیوں کو بھی اس دن…اچھا کھانا دیا گیا اور وہ بھی زیادہ مقدار میں…بادشاہ کی مقرب ایک عورت دربار میں پہنچی اور چیخنے چلانے لگی کہ…ان مسلمانوں نے میرے بیٹے،خاوند اور بھائی کو قتل کیا ہے اور تم ان قاتلوں کی دعوتیں کر رہے ہو…اس نے اپنے بال نوچ کر ایسا غمناک ماتم کیا کہ بادشاہ بھی غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا کہ…ان تمام قیدیوں کو لاؤ اور ایک ایک کر کے میرے سامنے قتل کرو…قیدی لائے گئے اور جلاد نے انہیں قتل کرنا شروع کیا…جب وہ حضرت عبد الرحمن بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا:

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

’’اللہ،اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا‘‘

سبحان اللہ! سزائے موت کا وقت جب لوگ جان بچانے کے لئے ہر سہارا ڈھونڈتے ہیں … ہر ظاہری طاقت کے قدموں میں گرتے ہیں…ہر صاحب اختیار کی منتیں کرتے ہیں…اور ہر کسی کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں…حضرت عبد الرحمن فرما رہے تھے کہ…اس وقت بھی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی طاقت کو نہیں مانتا…اس وقت بھی میںاللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طرف نہیں دیکھتا… اس وقت بھی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا…میں تو اللہ کا بندہ ہوں … زندہ رہوں تب بھی اس کا بندہ…اور مر جاؤں تب بھی اس کا بندہ…وہ مجھے ان کافروں کے ہاتھوں موت دے تب بھی وہ میرا رب…وہ مجھے بچا دے تب بھی وہ میرا رب…یہ جہان بھی اس کا اور وہ جہان بھی اس کا…زندگی بھی اس کا عطیہ … اور موت بھی اس کا تحفہ…ہماری زندگی میں بھی وہی سب کچھ…اور ہمارے مرنے کے بعد بھی وہی سب کچھ…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

انہوں نے جیسے ہی توحید کے یہ عاشقانہ الفاظ پڑھے،بادشاہ نے فوراً جلاد کو روک لیا اور کہا مسلمانوں کے اس عالم کو میرے پاس لاؤ … خلاصہ یہ کہ ان کو اور ان کے باقی رفقاء کو باعزت رہا کر دیا گیا…غور کریں…جس وقت بادشاہ کی طاقت اندھا ناچ ناچ رہی تھی…اور بادشاہ کے جلاد کی تلوار گردنیں کاٹ رہی تھی…رسیوں میں بندھے ہوئے ایک مرد مؤمن نے…بادشاہ کی طاقت کا انکار کر دیا کہ…میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا…تو اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو ان کے لئے ’’ بے طاقت‘‘ فرما دیا…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

مبارک مصیبتیں

مسلمان پر تکلیف اور مصیبت اس لئے آتی ہے تاکہ اس کے گناہ معاف ہو جائیں اور وہ خالص ایک اللہ کی طرف رجوع کر کے…ایمان اور کامیابی کے بڑے بڑے درجات حاصل کر لے… ایک بزرگ کا فرمان ہے:

’’اے ابن آدم! تمہاری وہ حاجتیں اور مصیبتیں کتنی برکت والی ہیں جن میں تم بار بار اپنے مالک کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہو‘‘…

ایک اور اللہ والے فرماتے ہیں:

’’جب مجھے کسی تکلیف اور مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے مناجات کی لذت ملتی ہے…اور ایک اللہ سے مانگنے کی حلاوت دل میں اترتی ہے تو …میں چاہتا ہوں کہ کاش یہ مصیبت جلد دور نہ ہو …یہ حاجت جلد پوری نہ ہو…تاکہ مجھے اپنے مولیٰ، اپنے مالک اور اپنے محبوب کے دروازے پر اور زیادہ دیر بھیک مانگنے کی لذت ملتی رہے‘‘…

اسی لئے یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ … مصیبت،مخلص بندے کو اللہ تعالیٰ سے ملا دیتی ہے …کیونکہ مخلص بندہ…نہ حکومتوں کے سامنے جھکتا ہے…نہ مخلوق میں سفارشیں ڈھونڈتا ہے…نہ پتھروں اور آستانوں سے مدد مانگتا ہے…اور نہ دنیا کے طاقتور لوگوں کو سہارا بناتا ہے…وہ تو بس ایک مالک،ایک خالق ،ایک مولیٰ…یعنی اللہ تعالیٰ سے مانگنے میں مشغول ہو جاتا ہے…اور مانگتے مانگتے اپنے مالک کے قریب ہوتا جاتا ہے…ارے! محبوب مالک کا قرب مل جائے تو اور کیا چاہیے … سب بھائی اور بہنیں…اس دعا کو یقین کے ساتھ یاد کریں…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

 اور موجودہ حالات میں وجد کے ساتھ پڑھا کریں…

اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

 

رنگ و نور …سعدی کے قلم سے 489

 

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر…

انسان پر ناشکری کا حملہ…خطرناک وقت…

استغفار اس کیفیت کا علاج ہے…

’’ مائدۃ الصابر‘‘

رنگ و نور کے مجموعے کا نیا نام…

حضرت ابا جی نور اللہ مرقدہ کے احسانات…

استغفار کی قرآنی دعائیں… مقبول ترین استغفار…

استغفار سے متعلق ایک اہم ترین نکتہ… چار ضروری باتیں…

وفاداری کا اعلان اور استغفار…

معافی و نصرت کی طلب اور استغفار…

منعم بندوں کا استغفار…

جہادی آزمائشوں میں استغفار…

اہل عقل کا استغفار…

استغفار کے اہم موضوع پر دلنواز تحریر

 

مقبول استغفار اور مائدۃ الصابر (قسط اوّل)

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…الحمد للّٰہ رب العٰلمین…اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں…انسان کے نفس پر پریشانیوں اور وساوس کا حملہ ہو جاتا ہے …اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت نہیں ہے…میں دنیا کا سب سے مظلوم ،سب سے بد حال اور سب سے زیادہ غمزدہ انسان ہوں …یہ بڑا خطرناک وقت ہوتا ہے…اکثر لوگ بڑی بڑی غلطیاں ایسے ہی لمحات میں کر بیٹھتے ہیں …اور پھر ساری زندگی پچھتاتے ہیں…ان کو یہاں تک یاد نہیں رہتا کہ ان کے پاس ’’کلمہ طیبہ‘‘ جیسی قیمتی نعمت ہے…وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جو سانس لے رہے ہیں وہ کتنی بڑی نعمت ہے…ان کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ ان کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی غذا ہے…ان کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے دل و دماغ میں قرآن مجید کی کتنی آیات ہیں…وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے کتنے پردے ہیں…ایسے پردے کہ اگر وہ اتار لئے جائیں تو ان کا سارا غم و غصہ شرمندگی میں بہہ جائے…وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس وقت وہ جس غم و پریشانی کو محسوس کر رہے ہیں…یہ بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بعض قوتوں کے بل بوتے پر ہے…ورنہ ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ…انسان بے بسی کے جال میں پھنس جاتا ہے … تب وہ مار کھاتا ہے مگر غصہ نہیں کر سکتا …تب وہ ایسا تشدد دیکھتا ہے کہ جسم میں کچھ محسوس کرنے کی سکت تک نہیں رہتی…اس لئے جب بھی نفس پر پریشانیوں اور وساوس کا شدید حملہ ہو …اس وقت کوئی فیصلہ نہ کریں…اس وقت صرف اور صرف استغفار میں لگ جائیں…اپنے گناہ یاد کریں،ان پر روئیں…ان کی معافی اللہ تعالیٰ سے مانگیں…اور اپنے دل کو سمجھائیں کہ …اس وقت جو کچھ مجھ پر بیت رہی ہے وہ حقیقی باتیں نہیں…محض شیطان کا حملہ ہے…اور شیطان ذکر اور استغفار سے بھاگتا ہے…فیصلے کرنے ، دوسروں کو الزام دینے… اور زیادہ سوچنے سے نہیں…

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْن

مائدۃ الصّابر

الحمد للہ رنگ و نور کے عاجزانہ مضامین سے اب تک آٹھ کتابیں بن چکی ہیں…سات جلدیں رنگ و نور کے نام سے اور آٹھویں کتاب ’’مقامات‘‘ کے نام سے…آج کے کالم پر الحمد للہ نویں کتاب بھی ان شاء اللہ مکمل ہو جائے گی…اس کتاب کا نام ’’مائدۃ الصّابر‘‘ تجویزکیا ہے…بندہ نے اس کتاب کا ثواب ’’حضرت صابر رحمۃ اللہ علیہ  ‘‘ کے لئے ہدیہ کیا ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اسے حضرت ابا جی محترم اللہ بخش صابر نور اللہ مرقدہ کے لئے ’’صدقہ جاریہ‘‘ بنائے…

حضرت ابا جی رحمۃ اللہ علیہ  کے بندہ پر اور جماعت پر بہت احسانات ہیں…ان کے جانے سے ہم نے جوکچھ کھویا ہے وہ واپس ہاتھ نہیں آیا…اللہ تعالیٰ اس کتاب کی عاجزانہ خدمت اور محنت کا مکمل ثواب حضرت ابا جی رحمۃ اللہ علیہ  کو عطا فرمائے…اور انہیں اپنی مغفرت اور اپنے فضل سے مقامِ صدیقین نصیب فرمائے…اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ’’مائدۃ الصّابر‘‘ سے ان شاء اللہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا …یہ کتاب کافی اہم مضامین پر مشتمل ہے اور ان پر رنگ و نور کے باقی تمام مضامین سے زیادہ محنت ہوئی ہے

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّااِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔وَتُبْ عَلَیْنَااِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ

مقبول استغفار

’’مائدۃ الصّابر‘‘ کا آخری مضمون استغفار کی ان دعاؤں پر مشتمل ہے جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہیں…اور اُمت کو سکھائی ہیں…قرآن مجید…اللہ تعالیٰ کا کلام ہے…قرآن مجید حضرات انبیاء علیہم السلام  کا استغفار سناتا ہے کہ … فلاں نبی نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی…فرشتے اس طرح سے ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں…ماضی کے مقبول مجاہدین نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا …اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں…آج کے کالم میں ان شاء اللہ قرآن مجید کے تیس پاروں میں موجود استغفار کی تمام دعاؤں کو جمع کرنے کا ارادہ ہے … تاکہ ایک ہی مجلس میں یہ نعمت ہم سب کے سامنے آ جائے اور ہم سب کو نصیب ہو جائے…استغفار خود ہی بہت مقبول عبادت اور افضل ترین دعاء ہے …پھر اگر یہ دعاء اور عبادت…قرآن مجید کے محکم اور مبارک الفاظ میں ہو تو…وہ قبولیت کے بہت زیادہ قریب ہو جاتی ہے…ان تمام دعاؤں کو سمجھ لیں،یاد کر لیں اور اپنے پاس لکھ لیں…پھر تہجد کے وقت، جمعہ کی رات…جمعہ کے دن عصر کے بعد…اور عموماً فرض نمازوں کے بعد ان دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا کریں …یعنی مغفرت اور معافی مانگا کریں…امید ہے کہ ان شاء اللہ بہت کچھ ہاتھ آ جائے گا…

اہم نکتہ

قرآن مجید کے پر نور، پرکیف، پرسکون سمندر میں سے،استغفار کے موتی چننے سے پہلے چند باتیں دل میں بٹھا لیں…

١                    استغفار کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگنا…چنانچہ حقیقی استغفار وہی مسلمان کرتا ہے جو خود کو گناہگار اور مغفرت کا محتاج سمجھتا ہے…

٢                    معافی مانگنے، مغفرت طلب کرنے اور خود کو گناہگار سمجھنے کی کیفیت ہرکسی کو نصیب نہیںہوتی…جو لوگ شیطان اور نفس کی غلامی میں آ جاتے ہیں ان کو نہ اپنے گناہوں پر ندامت ہوتی ہے اور نہ وہ اپنے گناہوں کو گناہ سمجھتے ہیں…اس لئے استغفار کا نصیب ہونا بڑی نعمت ہے…

٣                    استغفار،بندے کو اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے…اور یہ اُمید کا وہ دروازہ ہے جو کسی بندے کو اللہ تعالیٰ سے ٹوٹنے نہیں دیتا…اسی لئے قرآن مجید نے ’’استغفار‘‘ کی دعوت دی… حضرات انبیاء علیہم السلام  نے ’’استغفار‘‘ کی دعوت دی … ہم مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ دوسرے مسلمانوں کو ’’استغفار‘‘ کی دعوت دیا کریں…

٤                    استغفار کرنے والا مسلمان چند باتوں کا دل سے اعتراف کرتا ہے…پہلی بات یہ کہ میرا ایک رب ہے جسے میں نے منانا ہے…دوسری بات یہ کہ گناہ کی معافی صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مل سکتی ہے،کسی اور سے نہیں…تیسری بات یہ کہ میں گناہگار ہوں مگر اپنے گناہ پر خوش نہیں ہوں اور اس گناہ کے وبال سے خلاصی چاہتا ہوں…اندازہ لگائیں یہ تینوں باتیں کس قدر اہم اور وزنی ہیں… اسی لئے ایک بار ’’استغفر اللّٰہ‘‘ کہنا بہت بڑی عبادت اور دعاء ہے کہ اس میں…ایک ساتھ ایمان والی اتنی باتوں کا اقرار آ جاتا ہے…

اَسْتَغْفِرُا للّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِی لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوبُ اِلَیْہ

آئیے اب ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر قرآن مجید کی استغفار والی دعائیں ایک ایک کر کے سمجھتے اور پڑھتے ہیں…

١ وفاداری کا اعلان اور استغفار

سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیرْ ( البقرۃ:۲۸۵)

ترجمہ: ہم نے ( اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کرنے کی نیت سے ) سنا…اور ہم نے مان لیا… اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش ( مغفرت) چاہتے ہیں اور ( ہم نے ) تیری طرف لوٹ کر جانا ہے…

اس دعاء میں اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام احکامات سے وفاداری کا اقرار بھی آ گیا اور استغفار یعنی مغفرت کا سوال بھی آ گیا…وہ افراد جن کا دل گمراہی کی طرف بار بار بھٹکتا ہو ان کو اس دعاء کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے…

٢معافی،مغفرت، نصرت، رحمت،

آسانی کے سوال پر مشتمل جامع استغفار

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِن نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَاتُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔ ( البقرۃ:۲۸۶)

ترجمہ: اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ، اے ہمارے رب! ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا،اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرما دے،اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا کارساز ہے،کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد فرما…

استغفار پر مشتمل یہ قرآنی دعا ایک ’’نور ‘‘ ہے …جو انسان کسی بھی دشمنی یاحالت سے مغلوب ہو… وہ اسے زیادہ مانگے…کئی افراد جن کی شہوت بے قابو تھی انہوں نے اس استغفار کو اپنایا تو برائی ، بے تابی اور بے چینی سے نجات پائی…الغرض کوئی بھی برا دشمن،بری عادت یا بری حالت انسان کودبا رہی ہو تو یہ مبارک دعا یقین اور توجہ سے پڑھے … تو ان شاء اللہ اس دعاء کا نور مددگار بن کر پہنچ جائے گا…اس دعاء کے لئے ’’نور‘‘ کا لفظ حدیث پاک میں آیا ہے…

٣ ہمیشہ کی نعمتوں کے مستحق بندوں کا استغفار

رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ( آل عمران:۱۶)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم ایمان لاتے ہیں پس ہمارے لئے ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

فرمایا کہ لوگ عموماً دنیا کی چیزوں پر فریفتہ ہوتے ہیں…دنیا کی چیزیں مثلاً عورتیں،بیٹے ، سونا چاندی کے ڈھیر، قیمتی گھوڑے،مویشی، کھیت وغیرہ… حالانکہ یہ وقتی فائدے کی چیزیں ہیں ہمیشہ کی کامیابی نہیں…جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لئے جو کچھ آخرت میں تیار فرمایا ہے وہ بہت بہتر ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی رضا، جنت،حوریں وغیرہ… یہ دائمی نعمتیں جن بندوں کو ملیں گی ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہیں،اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور جہنم سے پناہ مانگتے ہیں…وہ کہتے ہیں

رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

٤جہاد میں آزمائشیں اور مشکل حالات کے وقت کا مؤثر استغفار

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (آل عمران:۱۴۷)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور جو ہمارے کام میں ہم سے زیادتی ہوئی ہے (وہ بھی بخش دے) اور ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں مدد عطاء فرما…

قرآن مجید نے بتایا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام   اور ان کے اللہ والے رفقاء نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کیا…اس جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے دوران جب ان پر کوئی تکلیف،آزمائش یا ظاہری شکست آئی تو وہ نہ گھبرائے،نہ انہوں نے ہمت ہاری اور نہ دشمن کے سامنے د بے…بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر استغفار کرنے لگے…

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ

جب انہوں نے یہ طرز اپنایا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت کا بہترین اجر عطاء فرمایا … استغفار کی یہ دعاء بہت مقبول اور نافع ہے اور ہر زمانہ میں مجاہدین اور دین کی خاطر آزمائش اٹھانے والوں نے اسے اپنا کر اللہ تعالیٰ کی مغفرت، رحمت اور نصرت حاصل کی ہے…

٥ عقل والوں کا استغفار

رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ( آل عمران:۱۹۳)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے۔

قرآن مجید کی ان آیات میں ’’اولوالالباب ‘‘ کا تذکرہ ہے…عقل مند،عقل والے،روشن فکر، روشن خیال ، سمجھدار،دانشور اور ذہین لوگ کون ہیں؟ قرآن مجید نے ان کی علامات بیان فرمائی ہیں… سورۃ آل عمران کے آخر میں ملاحظہ فرما لیں …ان عقل والوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں … اپنی برائیوں کے وبال سے بچنا چاہتے ہیں … اور ان کی بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ…ان کو ’’ حسن خاتمہ‘‘ یعنی ایمان پر موت نصیب ہو جائے… اس لئے وہ دعاء مانگتے ہیں…

رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ

معذرت

ارادہ یہی تھا کہ آج کی مجلس میں قرآن مجید کی تمام استغفار والی دعائیں اکٹھی آ جائیں…مگر کالم کی جگہ پوری ہو گئی اور ابھی تک صرف پانچ دعائیں آئی ہیں…جبکہ بندہ نے جو دعائیں شمار کر رکھی ہیں وہ چوبیس کے لگ بھگ ہیں…اس لئے آپ سب سے معذرت…آج کے کالم کو پہلی قسط بنا کر باقی دعائیں آئندہ قسط میں ان شاء اللہ…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭

رنگ و نور …سعدی کے قلم سے 490

علم اور دعوت … ایک دلنواز قرآنی نکتہ

مقبول دعوت کی نشانی…

استغفار کی دعوت … دعوت کے نصاب  کا اہم رکن…

استغفار کی بقیہ دعائیں…

انبیاء کرام علیہم السلام  کی استغفار پر مبنی دعائیں…

صلہ رحمی والا استغفار…

اجتماعی مشکلات پر استغفار…

توبہ اور توکل…

کسی کو معاف کرتے ہوئے استغفار…

مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار…

گذشتہ مضمون کا ایمان افروز تتمہ و تکملہ…

 

 

 

مقبول استغفار اور مائدۃ الصابر

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی خیر کا ہر کام ہوتا ہے…

وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیبُ

انسان جاہل ہے،بلکہ جہول ہے، اللہ تعالیٰ اسے جو علم سکھائیں ،بس وہی حقیقی علم ہے…

سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیمُ

علم کے ساتھ اگر اس علم پر یقین…یعنی شرح صدر بھی نصیب ہو جائے تو ایسا علم ’’دعوت‘‘ بن کر صدقہ جاریہ ہو جاتا ہے…شرح صدر بھی اللہ تعالیٰ عطاء فرماتے ہیں اور دعوت کے لئے زبان و قلم بھی…

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ ، وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ

بارش چلتی رہے تو دریا اور ندی ،نالے آباد رہتے ہیں…بارش رک جائے تو دریا بھی سوکھ جاتے ہیں…مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ملتا رہے تو علم و دعوت کا گلشن آباد رہتا ہے، اور علم میں اضافہ اللہ تعالیٰ ہی عطاء فرماتے ہیں…

رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا

مقبول دعوت وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف امید بھی…اللہ تعالیٰ مغفرت والے بھی ہیں اور عذاب والے بھی …اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان مقبول بندوں نے بھی…لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف بلایا… جن کی دعوت کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے…

وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ

مغفرت اور اُمید کی طرف دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ کے بندوں کو توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…ان گناہوں سے بھی جن کو معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے…اور ان گناہوں سے بھی جو بہت خطرناک ہیں مگر ان کو گناہ نہیں سمجھا جاتا…اور ان پر توبہ نہیں کی جاتی…

دعوت کا یہ ایک مکمل نصاب ہے …اسی نصاب کا ایک حصہ ’’قرآن مجید‘‘ کی وہ دعائیں ہیں… جن میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی گئی ہے … استغفار کی یہ دعائیں…اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں…اسی لئے قرآن مجید کا حصہ ہیں…اور جنہوں نے ان دعاؤں کو پڑھا ان کو ماضی میں مغفرت اور کامیابی ملی…ان دعاؤں کی یہ تاثیر اب بھی برقرار ہے…الحمد للہ گذشتہ کالم میں پانچ دعائیں آ گئیں…آج اللہ تعالیٰ کی توفیق سے باقی دعائیں بیان کرنی ہیں…

٦حضرت سیّدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استغفار

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف:۲۳)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے…

یہ وہ استغفار ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود حضرت آدم  علیہ السلام  کو تلقین فرمایا…یہ وہ استغفار ہے جس سے حضرت آدم  علیہ السلام  کی توبہ قبول ہوئی …یہ انسان کا پہلا استغفار اور روئے زمین کا ابتدائی استغفار ہے…بہت جامع، بہت مؤثر، بہت پُرکیف اور مقبول استغفار…

٧ حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی تسبیح اور توبہ

سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ(الاعراف:۱۴۳)

’’یا اللہ ! آپ کی ذات پاک ہے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں…‘‘

 حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے شوق و محبت سے بے تاب ہو کر درخواست کی…یا اللہ! اپنی زیارت کرا دیجئے…فرمایا! وہ (یہاں دنیا میں) ہرگز نہیں ہو سکتی…سامنے والے پہاڑ پر نظر رکھیں ہم اس پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں…اگر وہ سہہ گیا تو آپ بھی زیارت کر لینا…پہاڑ پر تجلی آئی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ  علیہ السلام  بے ہوش ہو گئے …جب ہوش آیا تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح تھی…اور اس بات پر توبہ کہ ایسی درخواست کیوں پیش کی…حضرات انبیاء علیہم السلام   ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں…ان کا استغفار اور ان کی توبہ اُن کے بلند مقام کے لحاظ سے ہوتی ہے…کوئی بات یا کام اس مقام سے تھوڑا سا ہٹا تو فوراً استغفار اور توبہ میں لگ گئے…ہم جب ان الفاظ میں استغفار کریں تو ’’اوّل المومنین ‘‘ کی جگہ ’’من المومنین‘‘ کہہ لیا کریں…

سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ

ویسے ’’اوّل‘‘ کا ایک معنی آگے بڑھ کر ایمان لانا ہے… جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے ایمان قبول کرتے وقت کہا تھا…اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنْ

٨ شدید ندامت والا استغفار

لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(الاعراف:۱۴۹)

ترجمہ: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو بے شک ہم تباہ ہو جائیں گے…

حضرت سیّدنا موسیٰ  علیہ السلام  تورات لینے گئے …پیچھے قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنے ایمان کا جنازہ نکال دیا…جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام  واپس تشریف لائے اور قوم کو سمجھایا اور انہیں اس نقصان کا اندازہ دلایا جو وہ کر بیٹھے تھے…تب ان کی آنکھیں کھلیں ،باطل کا جوش ٹھنڈا پڑا…اور آگے ہمیشہ ہمیشہ کی آگ نظر آئی…اور یہ کہ کفر و شرک کر کے اپنی پوری زندگی کے عمل برباد کر ڈالے تب تو ان کے جسموں اور ہاتھوں تک کی جان نکلنے لگی…انتہائی شرمندگی،ندامت،بے قراری اور گہرے پانی میں ڈوبتے انسان کی طرح چلائے…

لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ

یہ اگرچہ دعاء کے الفاظ نہیں …مگر اظہار ندامت اور طلب مغفرت میں دعاء جیسے ہیں … تب رحمت الٰہی متوجہ ہوئی اور توبہ کا حکم نامہ اور طریقہ عطاء فرما دیا گیا…

٩ صلہ رحمی والا استغفار

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (الاعراف:۱۵۱)

ترجمہ:اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما دیجئے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمائیے اور آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں…

حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اپنے پیچھے اپنے بھائی حضرت ہارون  علیہ السلام  کو چھوڑ گئے تھے…واپس آ کر قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا تو آپ پر شدید دکھ ، رنج اور غم و غصہ طاری ہو گیا…اسی دینی غصہ میں حضرت ہارون  علیہ السلام  کو بھی پکڑ لیا اور جھنجھوڑا کہ …آپ نے جانشینی کا حق ادا نہیں کیا… حضرت ہارون علیہ السلام  نے اپنا عذر بیان فرمایا کہ میں نے قوم کو بہت سمجھایا…مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی الٹا مجھے قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے…اب آپ مجھ پر سختی کر کے قوم والوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں… اپنے بھائی کا عذر سن کر حضرت موسیٰ  علیہ السلام  … ان سے مطمئن ہوئے اور فوراً اپنے لئے اور ان کے لئے استغفار کرنے لگے…اس میں دو باتیں تھیں … ایک یہ کہ دعاء کرنے سے یہ اشارہ دیا کہ میں آپ سے مطمئن ہوں…اور دوسری یہ کہ سخت رویے کی وجہ سے بھائی کو جو تکلیف پہنچی اس کا بھی ازالہ ہو جائے … کسی کے لئے استغفار کرنا یعنی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت مانگنا…بہت بڑا تحفہ،ہدیہ اور احسان ہے …پھر اس میں یہ بھی اشارہ ملا کہ اپنے کسی بھی قریبی عزیز سے کوئی رنجش ہو جائے تو صلح کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے…قرآن مجید کے الفاظ موجود ہیں…بھائی سے رنجش اور صلح ہو تو یہی الفاظ اور اگر کوئی اور ہو تو ’’اخی‘‘ کی جگہ اس کا نام… مثلاً بیوی سے رنجش پھر صلح ہوئی تو…

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِزَوجَتِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن

والدین سے تو رنجش ہونی ہی نہیں چاہیے … ان کے لئے بھی انہی الفاظ میں استغفار کر سکتے ہیں

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَبِیْ…رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاُمِّیْ…’’یا‘‘… رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن

١٠ اجتماعی مصیبت اور قومی مشکل کے وقت کا استغفار

اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ (الاعراف:۱۵۵)

ترجمہ: یا اللہ! تو ہی ہمارا تھامنے والا ہے، پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے…

حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اپنی قوم کے ستر نمائندہ افراد کو اپنے ساتھ ’’طور ‘‘ پر لے گئے … وہاں ان سب نے اللہ تعالیٰ سے کلام سنا مگر یقین کرنے کی بجائے اَڑ گئے کہ…جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں ہم یقین نہیں کر سکتے…اس پر سخت زلزلہ آیا،بجلی کڑکی اور وہ سب کانپ کر مر گئے…حضرت موسیٰ  علیہ السلام  بہت پریشان ہوئے کہ واپس جا کر قوم کو کیا بتائیں گے؟ وہ تو یہ سمجھیں گے کہ ان کے نمائندوں کو میں نے مار دیا تب خوب عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے دعاء مانگی،استغفار کیا تو وہ سب دوبارہ زندہ کر دئیے گئے…معلوم ہوا کہ اجتماعی مشکلات اور قومی مصیبتوں کا حل بھی ’’ توجہ الی اللہ‘‘ اور ’’استغفار‘‘ ہے…دعاء کے شروع میں ’’ اَللّٰھُمَّ‘‘  لگا لیں…

(اَللّٰہُمَّ) اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن…

١١ ربّ غفور کے سہارے

بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا، اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(ہود:۴۱)

ترجمہ: اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا، بے شک میرا رب ہی بخشنے والا مہربان ہے۔

جب طوفان آ گیا تو حضرت نوح علیہ السلام  نے اپنے ایمان والے ساتھیوں سے فرمایا! اللہ کے نام سے کشتی پر سوار ہو جاؤ، کچھ غم ،فکر اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے … اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے لئے ’’غفور‘‘ یعنی بخشنے والا اور ’’رحیم‘‘ یعنی مہربان ہے…اللہ تعالیٰ کی شانِ مغفرت اور شانِ رحمت ہی ایمان والوں کو ہر طوفان ،ہر مصیبت اور ہر آزمائش سے پار لگاتی ہے …کشتی یا کسی بھی سواری پر…سوار ہوتے وقت یہ والہانہ دعاء پڑھ لینی چاہیے…

١٢حضرت نوح  علیہ السلام  کا مؤثر استغفار

رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ، وَاِلَّاتَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(ہود:۴۷)

ترجمہ: اے میرے رب! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے سوال کر وں اس چیز کا جس کا مجھے علم نہیں…اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا…

طوفان میں حضرت نوح  علیہ السلام  کا بیٹا غرق ہو رہا تھا…حضرت نوح  علیہ السلام  نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی…اے میرے رب! میرا بیٹا بھی میرے ’’ اہل ‘‘ میں سے ہے…جن کو بچانے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے… حکم آیا کہ …اے نوح! وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے…اس کے اعمال خراب ہیں آپ کو اس کے بارے ہم سے سوال نہیں کرنا چاہیے…اس تنبیہ پر حضرت نوح علیہ السلام  کانپ اُٹھے اور فوراً توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے…اگر کسی مسلمان سے دعاء میں کوئی غلطی، بے ادبی…یا تجاوز ہو جائے…تو ان الفاظ میں استغفار ان شاء اللہ مفید رہے گا…

١٣ کسی کو معاف کرتے وقت کا استغفار

یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(یوسف:۹۲)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے…

حضرت یوسف علیہ السلام  کے بھائیوں نے اپنی غلطی تسلیم کی،ندامت کا سچا اظہار کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام  سے معافی چاہی…حضرت یوسف  علیہ السلام  نے معافی دیتے وقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار فرمایا…پس کسی کو معاف کرتے وقت اس کے لئے استغفار کرنا خوبصورت سنت یوسفی ہے…

یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِینْ

١٤ اللہ تعالیٰ پر توکل…اور اللہ تعالیٰ ہی سے توبہ

ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ (الرعد:۳۰)

ترجمہ: وہی ( اللہ تعالیٰ) میرا رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے…

حکم دیا گیا کہ…آپ کہہ دیجئے…

ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ  عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ

١٥ اپنے لئے، والدین کیلئے اور سب ایمان والوں کے لئے استغفار

رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(ابراہیم:۴۱)

اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ایمان والوں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے…

یہ دعاء حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے مانگی …یہ بہت جامع اور نافع استغفار ہے…

١٦ اسم اعظم والا استغفار

لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ  اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن(الانبیاء:۸۷)

ترجمہ: آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ بے عیب ہیں بے شک میں گناہگاروں میں سے تھا…

یہ حضرت یونس علیہ السلام  کی تسبیح ہے…اس میں تہلیل بھی ہے یعنی لا الہ الا انت اور تسبیح بھی ہے ’’سبحانک ‘‘ اور استغفار بھی ہے…اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِین…

اس استغفار کے بہت فضائل احادیث و روایات میں آئے ہیں… یہ ہر غم ،مصیبت، مشکل اور پریشانی کا حل ہے…اُمتِ مسلمہ نے ہمیشہ اس تسبیح و استغفار سے بڑے بڑے منافع حاصل کئے ہیں… بندہ نے استغفار کے موضوع پر اپنی زیر طبع کتاب میں اس ’’آیت کریمہ‘‘ کے فضائل و خواص پر کئی روایات جمع کر دی ہیں…

١٧ مقبولین کا استغفار

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن (المؤمنون:۱۰۹)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے،تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو بہت بڑا رحم فرمانے والا ہے…

دنیا میں کافر اور منافق خود کو عقلمند سمجھتے ہیں … اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ (نعوذ باللہ) بیوقوف لوگ ہیں…ان کو دنیا کی سمجھ ہی نہیں …قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سامنے ان ایمان والوں کی کامیابی کا اعلان فرمائیں گے…اور ساتھ ان کے اِس استغفار کا بھی تذکرہ فرمائیں گے…کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ کہتے تھے…

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ

تو تم کفار ان کا مذاق اڑاتے تھے…

آج دیکھنا کہ میں ان کو کیسی کامیابی، بدلہ اور مقام دیتا ہوں…

١٨ مغفرت اور رحمت مانگو

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ (المؤمنون:۱۱۸)

ترجمہ: اے میرے رب معاف فرما اور رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے…یہ بہت مؤثر اور میٹھا استغفار ہے…اور قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا ہے کہ… کہو!

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ

وہ جو کچھ دینا چاہتے ہیں اسی کو مانگنے کا حکم  فرماتے ہیں…مغفرت اور رحمت مل جائے تو اور کیا چاہیے…

١٩ مقرب فرشتوں کا تائب ایمان والوں کے لئے استغفار

 رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَا بُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ۝ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ وَقِهِمُ السَّيِّاٰتِ ۭ وَمَنْ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ       ۭ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ(المؤمن:۷تا۹)

ترجمہ! اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم سب پر حاوی ہے پس جن لوگوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے… اے ہمارے رب! انہیں ہمیشہ کی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میںسے نیک ہیں۔ بے شک تو غالب حکمت والا ہے اور انہیں برائیوں سے بچا اور جس کو تو اس دن برائیوں سے بچائے گا پس اس پر تو نے رحم کر دیا اور یہ بڑی کامیابی ہے…

یہ بڑی اہم دعاء ہے مکمل تفصیل تو یہاں ممکن نہیں چند اشارات لے لیں…

١                    یہ دعاء عرش اٹھانے والے اور عرش کے گرد طواف کرنے والے مقرب فرشتوں کا وظیفہ ہے…اندازہ لگائیں کیسی برکتوں والی دعاء ہو گی…

٢                    اس دعاء میں اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں کے لئے استغفار ہے… ہم جب ایسے بندوں کے لئے دعاء اور استغفار کریں گے تو اس سے خود ہمیں بہت نفع ملے گا…

٣                    جب ہم یہ دعاء اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں اور ان کے متعلقین کے لئے کریں گے تو حدیث شریف کے وعدے کے مطابق فرشتے یہی دعاء ہمارے لئے کریں گے…

٢٠ مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار

رَبِّ اَوْ زِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ  اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف : ۱۵)

ترجمہ: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں… جسے تو پسند کرے اور میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں…

یہ سعادتمند اور مقبول انسان بننے کا ایک قرآنی نصاب ہے…

١                    اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق مانگنا…ان نعمتوں پر جو اپنے اوپر اور اپنے والدین پر ہوں…

٢                    اللہ تعالیٰ سے نیک اور مقبول اعمال کی توفیق مانگنا …

٣                    اپنی اولاد کی اصلاح اور نیکی کی دعاء مانگنا…

٤                    اللہ تعالیٰ سے توبہ،استغفار کرنا…

٥                    اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اقرار کرنا…

اگلی آیت میں ان افراد کا جو یہ پانچ کام کرتے ہیں،بدلہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرماتے ہیں …ان کے گناہ معاف فرماتے ہیں …اور انہیں اہل جنت میں شامل فرماتے ہیں…

بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں نازل ہوئی… پس یہ بہت قیمتی دعاء ہے…توجہ اور یقین سے مانگنی چاہیے…

٢١ بڑے مقام والا استغفار

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (الحشر:۱۰)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ قائم نہ ہونے پائے… اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان،نہایت رحم والا ہے…

یہ بہت نافع،مؤثر اور جامع استغفار ہے… قرآن مجید میں سمجھایا گیا کہ بعد والے مسلمان جو دل کے یقین کے ساتھ یہ دعاء مانگتے ہیں…وہ انعام میں اپنے سے پہلے والوں کے ساتھ ملحق کر دئیے جاتے ہیں…اس دعاء میں اپنے اسلاف کے لئے بھی استغفار ہے…جو بڑا فضیلت والا عمل ہے… وہ افراد جن کے دل میں مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ زیادہ پیدا ہوتا ہو وہ اس دعاء کا بہت اہتمام کریں …بے حد نافع ہے…

٢٢ دشمنوں سے حفاظت والا استغفار

رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ، رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الممتحنۃ:۴۔۵)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم رجوع ہوئے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے اے ہمارے رب! ہمیں کفار ( کے ظلم و ستم ) کا تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے…

حضرت ابراہیم  علیہ السلام  اور ان کے ایمان والے رفقاء نے استغفار پر مشتمل یہ دعاء مانگی … اور کافر حکمرانوں اور کفر کی طاقت سے کھلم کھلا براء ت کا اِعلان فرمایا…

٢٣ اہل ایمان کا آخرت میں استغفار

رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ(التحریم:۸)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارا نور پورا فرما اور ہمیں بخش دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے

اہل ایمان یہ دعا آخرت میں مانگیں گے… دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے نور اور مغفرت مانگتے رہنا چاہیے…

٢٤ حضرت نوح  علیہ السلام  کا جامع استغفار

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتْ

(نوح:۲۸)

ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان والا میرے گھر میں داخل ہو جائے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو (بخش دے)

الحمد للہ

الحمد للہ! قرآن مجید کے بیان فرمودہ چوبیس استغفار آ گئے… حضرت سلیمان  علیہ السلام کا استغفار اور ملکہ بلقیس کا استغفار شامل نہیں کیا گیا …کیونکہ وہ ایسی دعاؤں پر مشتمل ہے جو کسی اور کو مانگنے کی اجازت نہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ اور سچا استغفار اور اپنی مغفرت نصیب فرمائے…

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

 ٭٭٭