مواد لوڈ ہو رہا ہے... براہ کرم انتظار کریں

رنگ و نور جلد دوم

 

وفاق المدارس کا اعلانِ حق

 

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے قوم نے بہت عرصہ بعد… پھر گرجدار، کڑک دار طوفانی تقریریں سنیں ہیں… جذبے، ولولے اور غیرت سے بھرپور تقریریں…ان شاء اللہ… اس سے بہترین نتائج برآمد ہوں گے… اور روشن خیالی نام کی ’’کالی ماتا‘‘ کے دو تین دانت تو ضرور ٹوٹیں گے… ویسے بھی بہت عرصہ سے اہل حق کے اسٹیج پر خاک اڑ رہی تھی… اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ’’لال مسجد‘‘ والوں کو… انہوں نے اپنے عظیم و شہید والد کی مسند کو پھیکا نہیں پڑنے دیا… میرا دل چاہتا ہے کہ اس جرأتمند، خوبصورت… اور دین کے دیوانے خاندان پر ایک پورا کالم لکھوں… اور اگر مجھے راہ چلتے… حضرت مولانا عبداللہ شہیدؒ کا سچا جانشین… حضرت مولانا عبدالعزیز نظر آجائے تو اس کی پیشانی چوم لوں…ماشاء اللہ… کیا خوب ایمان ہے اور کیا خوب قربانی… اللہ پاک ’’نظر بد‘‘ اور ’’ شرِبد‘‘ سے بچائے… ان کے علاوہ ہر طرف کچھ خاموشی خاموشی سی نظر آتی تھی… سبحان اللہ… چند سال پہلے تک اہل حق کا اسٹیج کس شان کا ہوتا تھا… لوگ ابھی جلسہ سے اٹھے نہیں ہوتے تھے کہ… تقریروں کی کیسٹیں امریکی سفارت خانے تک جا پہنچتی تھیں… اور خود کو طاقتور سمجھنے والوں کے پائے ہلنے لگتے تھے… اس زمانے کے کس کس منظر کو یاد کروں… ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قرآن پاک کا مدنی روپ مسکرا رہا ہے… پھر اچانک خزاں کا موسم شروع ہو گیا… بہت سے گلے گھونٹ دیئے گئے… اور خوف و بزدلی کی بدبو نے مجمع منتشر کر دیا… اور تو اور تقریروں کا رنگ تک بدل گیا… کچھ مہینے پہلے بعض دوست بتا رہے تھے کہ ہم ایک مسجد میں جمعہ ادا کرنے گئے… کسی زمانے یہاں کے خطیب صاحب بہت عمدہ خطاب فرمایا کرتے تھے… اور دشمنان اسلام کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے… مگر اس دن ان کے خطاب کا رنگ بدلا ہوا تھا… خطیب صاحب صفائی دے رہے تھے کہ اسلام کا دہشت گردی سے کیا تعلق؟… اسلام دہشت گردی کا مخالف ہے، پھر اچانک وہ جوش میں آگئے… اور فرمانے لگے… لوگ اسلام اور علماء کو دہشت گرد کہتے ہیں حالانکہ ہم علماء کو تو بندوق چلانا بھی نہیں آتی… اور پھر انہوں نے فخر سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا آپ مجھے دیکھیں… میں نے بندوق تو دور کی بات کبھی پستول تک نہیں چلایا… بلکہ کبھی اپنے ہاتھ میں پسٹل اٹھایا تک نہیں… وہ اس بات کو پورے فخر، جرأت اور غرور کے ساتھ بار بار دہراتے رہے… اور ہمارے ساتھی حیرت سے انہیں تکتے رہے… یہ تو اچھا ہوا کہ کسی نے نعرہ نہیں لگا دیا … سربکف سربلند…… تیری جرأت کو سلام! … میں نے جب یہ واقعہ سنا تو کافی پریشان ہوا… اور مجھے ڈر لگنے لگا کہ کچھ عرصہ اگر مزید یہی حالت رہی تو… کئی لوگ اسٹیج پر اچھل اچھل کر… اور سینے پر ہاتھ مار کر کہیں گے… ہم وہ ہیں جنہوں نے کبھی چوہا تک نہیں مارا… ہم وہ ہیں جنہیں غلیل پکڑنا تک نہیں آتی… ہم وہ ہیں کہ اپنے سائے سے ڈرتے ہیں… اور ہر کتے کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں… اے لوگو! تم نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے… اے آسمان گواہ رہنا ہم نے کبھی جہاد کا نام نہیں لیا … ہم نے کبھی اسلحہ چلنے کی آواز نہیں سنی … اور ہم نے کبھی شہادت کا تصور تک نہیں کیا… اے کافرو آؤ ہمارے گلے لگ جاؤ… اور اے صحافیو! لکھ لو کہ خرگوش کی سوسالہ زندگی… شیر کی ایک روزہ زندگی سے بہتر ہے…

ہماری حکومت نے اسٹیج کا بدلا ہوا یہ رنگ دیکھا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی… ہر مسجد میں نگرانی، ہر مدرسہ میں نگرانی… اور ایسا بھونڈا دباؤ کہ جیسے حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو… اس کام کے علاوہ کوئی اور کام ہے ہی نہیں… میں نے خود دیکھا کہ ہر مسجد میں کئی کئی خفیہ اہلکار متعین تھے… اور علماء کرام کے گھروں اور دفاتر کے گرد… ان اہلکاروں کا ہالہ بنا رہتا تھا… عجیب صورتحال تھی… فن اور ثقافت کے نام پر جاسوسی کرنے والے آزاد، لسانیت کے نام پر ملک توڑنے والے آزاد، بے حیائی پھیلانے والے آزاد، غیر ملکیوں کے لئے ہر خدمت سرانجام دینے والے صحافی آزاد… اور افغانستان کے شمالی اتحاد والے آزاد… اور نگرانی صرف مجاہدین، علماء… اور مساجد و مدارس کی ہو رہی تھی… اسی دوران حضرت مفتی نظام الدین شامزیؒ شہید کر دیئے گئے… ان کے کچھ عرصہ بعد… حضرت مفتی جمیل احمدؒ خان کو خون میں نہلا دیا گیا… اور اس سے کچھ پہلے دینی جماعتوں کی موجودگی میں… جہادی تنظیموں پر نئی پابندی کے صدارتی حکم پر… سب وزراء اعلیٰ کا انگوٹھا لگوالیاگیا…

حالانکہ… اکثر جہادی جماعتیں… اہل حق کے گرد حفاظت کا مضبوط حصار تھیں… یہ لوگ مدارس کے خادم اور مساجد کے چوکیدار تھے… وہ علماء کے خادم اور مشائخ کے شیدائی تھے… ان لوگوں نے کبھی اپنے ان فرائض سے غفلت نہیں کی… اسی لئے… سب سے پہلے انہیں رستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی… اور پھر اچانک مدارس کے گرد پھندا سخت ہونے لگا… کچھ عرصہ پہلے… لندن کے بم دھماکوں کا ملبہ مدارس پر گرا کر یہ جذباتی اعلان کر دیا گیا کہ… تمام غیر ملکی طالب علم قرآن پاک کی تعلیم چھوڑ کر پاکستان سے نکل جائیں… سبحان اللہ!… وہ پاکستان جہاں پر ہر غیر ملکی مالدار کا… خواہ وہ بے حیائی کے لئے ہی کیوں نہ آیا ہو… پلکیں بچھا کر استقبال کیا جاتا ہے … اس میں یہ اعلان ہوا کہ… قرآن پاک پڑھنے والے تمام غیر ملکی فوراً نکل جائیں… کیا یہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کو ویران کرنے کی سازش نہیں ہے؟… کیا یہ دینی مدارس کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں ہے؟… دراصل حکومت کو بتایا گیا تھا کہ دینی مدارس کا چندہ غیر ملکوں سے آتا ہے… اور اس کا ذریعہ یہ غیر ملکی طلبہ بنتے ہیں… حکومت کے بد دین عناصر یہ بات کہاں برداشت کر سکتے تھے… لندن بم دھماکوں کے بعد انہیں موقع مل گیا… اور انہوں نے آنکھیں بند کرکے… دینی مدارس کے خلاف…یہ… اقتصادی توپ چلا دی… مال، دولت اور ڈالر کی پوجا کرنے والے… دانشوروں کا خیال یہی ہے کہ سب کچھ پیسے سے ہو رہا ہے… اور پیسے کے لئے ہو رہا ہے…اس لئے جیسے ہی ’’پیسہ‘‘ بند ہو گا… جہاد بھی بند ہو جائے گا… اور مدارس بھی… اس لئے سارا زور چندہ بند کرنے… اور اکاؤنٹ سیل کرنے پر لگایا جا رہا ہے… اگر ان لوگوں کا حافظہ ٹھیک ہوتا تو انہیں یاد رہتا کہ… طالبان نے جب بامیان کے بت گرانے کا اعلان کیا تو انہیں…دنیا بھر سے… اربوں ڈالر کی آفر ہوئی تھی… مدرسے کا ایک غریب مولوی… امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد… راتوں رات اربوں پتی بن سکتا تھا…پھر…کیا ہوا… سب نے دیکھا کہ بت اڑا دیئے گئے… اور ڈالروں پر تھوک دیا گیا… ۶سال پہلے جب کچھ کشمیری مجاہدین نے انڈین ائیر لائن کا طیارہ اغواء کر لیا تھا… اور… ان مسلمان رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا… جن کو انڈیا نے… غیر قانونی قید میں رکھا ہوا تھا… تو اس اغواء شدہ طیارے میں ایک ایسا غیر ملکی شخص بھی سوار تھا جسے اس کی مالداری کی وجہ سے… ’’کرنسی کنگ‘‘ کہا جاتا تھا… اب یہ بات کتابوں میں چھپ چکی ہے کہ… اس شخص نے بارہا ان ہائی جیکروں کو بہت موٹی رقم کی پیشکش کی… مگر… وہ اللہ کے بندے رقم لینا تو دور کی بات… اس کے ساتھ تفصیلی بات کرنے پر بھی راضی نہ ہوئے… وہ آٹھ دن تک… کروڑوں ڈالر کی چمک دکھاتا رہا… اور ہر لمحہ مایوس ہوتا رہا… آٹھویں دن یہ ہائی جیکر… تین مسلمانوں کی رہائی ملنے پر… اسی طرح خالی ہاتھ… اور پاکدامن اتر گئے… جس طرح وہ سوار ہوئے تھے… انہوں نے نہ کسی کو لوٹا… اور نہ کسی کی عزت کو پامال کیا… ایک ہندو نوجوان لڑکی نے… اپنے ایک خط میں لکھا کہ… یہ لوگ انسان نہیں بہت اونچی مخلوق تھے… ہمارے ملک میں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہتی…جبکہ… ان لوگوں نے آٹھ دن تک… ہماری بے بسی کے باوجود… ہم پر نگاہ تک نہیں اٹھائی… ملا محمد عمر مدظلہ کا واقعہ ہو…یا ہائی جیکروں کی ایمان افروز داستان …یہ سب کچھ یورپ اور امریکہ میں شائع ہو چکا ہے… اور اس کی برکت سے بے شمار لوگ ’’مسلمان‘‘ ہو رہے ہیں… مگر خود ہمارے دانشوروں کا دماغ اسی سوئی پر اٹکا ہوا ہے کہ چندہ بند تو جہاد بند… چندہ بند تو مدرسہ بند… اور یہ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ… چونکہ مدرسہ میں رہائش اور کھانا مفت ملتا ہے اس لئے غریب لوگ اپنے بچوں کو مدرسہ میں بھیج دیتے ہیں… حالانکہ… یہ بات اور سوچ بالکل جاہلانہ، ظالمانہ… اور حقائق کے برخلاف ہے… مال اور پیسوں کے لالچی لوگ تو اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں…تاکہ …کچھ بن کر پیسہ کما کر لائیں… اور اگر اسکول نہیں بھیج سکتے… تو مزدوری کراتے ہیں… اور بعض تو غیرت اور عزت کی حدود کو بھی بھول جاتے ہیں… ان میں سے کوئی بھی اپنے بچے کو مدرسہ میں نہیں بھیجتا… مدرسہ میں تو صرف ایماندار اور غیرت مند لوگ اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں… اور خود روکھی سوکھی پر گزارہ کرکے اپنے بچوں کو قرآن و سنت کے نور سے رنگتے ہیں… ہم ایسے غیور والدین کو سلام پیش کرتے ہیں… میں نے خود آٹھ سال تک مدرسہ میں پڑھا ہے… مجھے یاد نہیں کہ میں نے کوئی ایسا طالب علم دیکھا ہو جس کو… اس کے والدین نے اس لئے مدرسہ بھیجا ہو کہ… ان کے پاس اسے کھلانے کے لئے روٹی نہیں تھی… پھر جہاں تک چندے کا سوال ہے تو… بہت کم ایسے مدارس ہیں جنہیں غیر ملکی مسلمان چندہ بھیجتے ہیں… ننانوے فیصد مدارس مقامی چندے اور عطیات سے چلتے ہیں… اس لئے غیر ملکی طلبہ کو نکالنے سے مدارس بند ہو جائیں گے… اگر کسی نے ایسا سوچا ہے تو یہ غلط ہے… مدارس تو ان شاء اللہ بند نہیں ہوں گے… قرآن پڑھنے پڑھانے والے بھوکے نہیں مریں گے… ہاں یہ ملک… ضرور اپنا نقصان کرے گا…کیونکہ… وہ زمین جہاں اللہ کا نام لینے… اور اس کا قرآن پڑھنے سے لوگوں کو روکا جائے… خوف اور بدامنی کا تندور بن جاتی ہے… قرآن پاک سورہ بقرہ کی آیت (۱۱۴) میں اس کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے… اور ہزاروں سال کی تاریخ بھی… اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے… ہماری حکومت اس طرح کے فضول کاموں میں لگ کر… پہلے ہی ملک کا کافی نقصان کر چکی ہے… زلزلے کی آفت سے نمٹنے میں یہ حکومت بری طرح ناکام رہی ہے… اور اب قرآن پاک کی تعلیم کو روکنے کا ’’گناہ عظیم‘‘ قوم کے کندھوں پر لادا جا رہا ہے… مسلمانوں کو چاہئے کہ روز روز کے الیکشنوں… اور تماشوں سے سر اٹھا کر… حقائق کو دیکھیں… اور سیاست سے دامن جھاڑ کر ’’اسلامی غیرت‘‘ کے راستے پر چلیں… آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے… حضرات علماء کرام نے بیداری کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے… غیر ملکی مسلمانوں کو… پاکستان میں قرآن پاک کی تعلیم سے روکنا ایک بہت بڑا ظلم… اور گناہ ہے… حکومت ان لوگوں کو روکے جو یہاں… بد معاشی اور بے حیائی کے لئے آتے ہیں… حکومت ان لوگوں کو روکے جنہوں نے یہاں جاسوسی کے نیٹ ورک قائم کر رکھے ہیں… حکومت ان لوگوں کو روکے جو یہاں لسانیت پھیلانے آتے ہیں… حکومت ان لوگوں کو روکے جو یہاں کی جنگلی حیات کو ختم کرنے آتے ہیں…تب… ان شاء اللہ ساری قوم حکومت کا ساتھ دے گی… مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ… مسلمانوں پر بمباری کرنے والوں کو ملک کے باسٹھ اڈے پیش کر دیئے جائیں… اور قرآن پاک پڑھنے والوں سے کہا جائے کہ… فلاں تاریخ تک ملک سے نکل جاؤ… یہ ظلم نہیں چلے گا…

جنہوں نے ڈٹ جانے کا اعلان کیا ہے… انہیں مبارک ہو… وہ دین اور قرآن پاک کی حفاظت کا ذریعہ بنے ہیں… یقین کریں… اگر وہ ڈٹے رہے تو… فتح ان شاء اللہ انہی کی ہو گی… اور قوم انہیں… ان شاء اللہ… ہرگز ہرگز مایوس نہیں کرے گی… شہداء کے لئے جنت مہکانے والا رب… قوی، قادر… اور مقتدر ہے… اصل اقتدار اسی کا ہے… صرف اسی کا… اللہ اکبر… بسم اللہ الرحمن الرحیم یادائمُ بلا فناء ویا قائمُ بِلا زوال و یا میسر بلا وزیر… اللہ اکبر…

٭٭٭

باجوڑباجوڑ

  اللہ  تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے… بات باجوڑ سے شروع کریں یا ہری پور کے دفتر سے؟ چلیں پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ پڑھ لیتے ہیں… علامہ علی ابن برہان الدینؒ نے اپنی معروف و مقبول کتاب ’’سیرۃ حلبیہ‘‘ میں حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا ایک عجیب واقعہ لکھا ہے… اس کا خلاصہ یہ ہے کہ… ایک شخص سفر پر گیا پیچھے ایک طاقتور جن اس کی شکل اپنا کر اس کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا، وہ شخص واپس آیا تو اسے صورتحال کا علم ہوا جبکہ اس کی بیوی ’’جن‘‘ ہی کو اپنا خاوند سمجھتی رہی تھی۔ وہ شخص بہت غمگین اور پریشان ہوا مگر ’’جن‘‘ بہت طاقتور تھا اس نے کہا اگر تم نے مجھے اپنے گھر آنے جانے سے روکا تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ وہ شخص ڈر گیا اور اس نے ’’جن‘‘ سے معاہدہ کرلیا۔ اب دن کو یہ شخص گھر میں رہتا اور رات کو جن آکر قبضہ جمالیتا… ایک رات جن نے اسے کہا کہ آج میری ذمہ داری آسمان کے قریب جاکر فرشتوں کی خبریں سننے پر لگی ہے… اگر تم چاہو تو میں تمہیں ساتھ لے جاؤں… وہ شخص تیار ہوگیا اور ’’جن‘‘ کی پیٹھ پر اس کی گردن کے بال پکڑ کر بیٹھ گیا… جن اڑتا ہوا بہت اوپر آسمان کے قریب جا پہنچا … ابھی وہ اپنے بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ آواز آئی…

ماشاء  اللہ  کان ولا حول ولا قوۃ الا با للہ

وہی ہوتا ہے جو  اللہ  تعالیٰ چاہتا ہے اور ہر توفیق اور قوت  اللہ  تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے… یہ آواز سنتے ہی جن کو گویا آگ لگ گئی اور وہ نیچے کی طرف گرنے لگا… اور بالآخر زمین پر آگرا… اس شخص نے وہ الفاظ یاد کرلیے … ماشاء  اللہ  کان ولا حول ولا قوۃ الا با للہ … اگلی رات جب یہ جن حسب سابق اس کے گھر کی عزت برباد کرنے آیا تو اس شخص نے یہی دعاء پڑھی جسے سنتے ہی ’’شیطان جن‘‘ بھاگ گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا… اور یوں وہ گھر آزاد ہوگیا… قرآن پاک کی ’’سورۃ الجن‘‘ میں اس بات کی وضاحت وصراحت موجود ہے کہ حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات نے آسمان کے قریب مورچے قائم کر رکھے تھے اور وہ وہاں بیٹھ کر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے… (پھر یہ باتیں نجومیوں اور کاہنوں کو بتاتے تھے) حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد ان پر آسمانی گولے گرنے لگے اور  اللہ  پاک نے انہیں وہاں سے بھگا کر کفر وشرک کا ایک دروازہ بند فرمادیا… یوں آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی برکتوں نے زمین وآسمان سب کو پاک اور روشن کردیا… حضرت ابوالدرداء رضی  اللہ  عنہ کو حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم نے حفاظت کی جو دعاء سکھلائی اس میں بھی اس واقعہ والے الفاظ اس اضافے کے ساتھ موجود ہیں…

ماشاء  اللہ  کان وما لم یشاء لم یکن

ولا حول ولا قوۃ الا با للہ العلی العظیم

 اللہ  تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا اور ہر توفیق اور طاقت  اللہ  تعالیٰ بلند وبرتر ہی کی طرف سے ہے…

یہ دعاء کچھ مفصل ہے، صحابہ کرام اس کو بہت یقین کے ساتھ پڑھتے تھے ایک صحابی کو بتایا گیا کہ آپ کے گھر آگ لگ گئی ہے، فرمایا ہر گز نہیں … بعد میں ان کی بات درست نکلی لوگوں نے پوچھا آپ نے اس قدر یقین سے کیسے فرمادیا تھا؟ انہوں نے ارشاد فرمایا میں نے یہ دعاء پڑھ رکھی تھی… ان شاء  اللہ  کبھی موقع ملا تو یہ مفصل دعاء حوالے، ترجمے اور فضائل کے ساتھ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کی جائے گی… آج تو ہمارا موضوع یہ عقیدہ ہے کہ … جو کچھ  اللہ  تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے… یہ عقیدہ مسلمان کو چٹان کی طرح مضبوط بنادیتا ہے اور اس کے ہر دکھ اور درد پر مرہم رکھ دیتا ہے… باجوڑ میں جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں کو تڑپا رہا ہے اور اب ہری پور کے واقعہ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے… مگر ہم  اللہ  تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نصرت سے مایوس نہیں ہیں… وہ ہمارا مالک ہے اس کی مرضی جو چاہے کرے… اور ہم اس کے بندے اور غلام ہیں… ہمارا کام ہے کہ ہم راضی خوشی سب کچھ تسلیم کریں… اور اپنے پیارے، مہربان اورعظیم رب کے ساتھ جڑے رہیں… وہ ہمارے لیے ماں سے زیادہ مہربان ہے وہ جو کچھ کرتا ہے ہمارے بھلے اور فائدے کیلئے کرتا ہے… اس کی محبت عجیب ہے… اس کی محبت سب سے زیادہ اپنے خاص بندے اور محبوب حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ ہے… مگر  اللہ  تعالیٰ کے اس محبوب ترین بندے کی زندگی آپ نے دیکھی؟… کون سا دکھ ہے جو ان پر نہیں آیا؟… اور کون سی تکلیف ہے جو انہیں نہیں پہنچی؟… پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوگئے… بچپن میں غربت دیکھی… جوانی ہر طرح کے عیش وآرام سے دور گزری… مکہ کی گرم چٹانوں کے درمیان سخت دھوپ میں بکریاں چرائیں… کوئی وہاں کی گرمی جاکر تو دیکھے… پھر خلوت اور تنہائی کی لمبی لمبی ریاضتیں برداشت فرمائیں… کھانے میں صرف پانی اور ستو پر گزارا فرماتے تھے… پھر نبوت کا تاج ختم نبوت کی مہر کے ساتھ عطاء ہوا … اور ایک اکیلے انسان کو بتایا گیا کہ… آپ نے پورے عالم میں اسلام کو پہنچانا ہے… نہ اسباب، نہ وسائل نہ لشکر… اور نہ مال ودولت… سامنے قوم ایسی کہ بالکل پکی مشرک… بتوں کے نام پر جان دینے والی… مکہ کے مشرک ہزار زانی، ہزار شرابی مگر اپنے مذہب کے بہت پکے تھے… اور ان کو غرور تھا کہ وہ بیت اللہ  کے خادم اور حج کے منتظم ہیں… اور ان کو اکڑ تھی کہ وہ ’’عربی‘‘ ہیں اور کوئی ان کے سامنے ان کی فصاحت کی وجہ سے بول نہیں سکتا… ایسی قوم کے درمیان…  اللہ  پاک نے اپنے محبوب کو اکیلا کھڑا کرکے فرمایا کہ ان تک میرا وہ پیغام پہنچادیں جس سے ان کے کان نا آشنا ہیں… پھر کیا تھا… دعوت کا آغاز ہوا اور پتھر برسنے لگے… کیا ہم نے بھی کبھی دین کی خاطر پتھروں کی بارش دیکھی ہے؟… گلی سے گزرتے تو گالیاں پڑتیں… مکانوں کے نیچے سے گزرتے تو کوئی گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹتا اور کوئی… گندی اوجھڑی لاکر اوپر ڈال دیتا… ہائے میرے  اللہ ! عجیب وقت تھا، بس چند لوگ ہی ایمان لائے تھے… پھر طائف جانے کا حکم ملا… وہاں ظالموں نے بچے پیچھے لگا دئیے جو پتھر مارتے تھے اور دوڑاتے تھے، نہ رکنے کا موقع تھا نہ بیٹھنے اور سر چھپانے کی جگہ… چھ میل تک پتھر کھاتے رہے، ہائے میرے آقا… ہائے میرے آقا… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کے جوتوں میں خون بھر گیا… جوتے بھی مبارک اور خون بھی مبارک… اور ان سب سے بڑھ کر وہ دین مبارک، جس کی خاطر یہ عظیم تکلیفیں اٹھائی جارہی تھیں… آج یہ دین ہم جیسے تن آسانوں… اور نفس پرستوں کے ہاتھ آیا ہے… جن پر ذرا سی آزمائش آجائے تو دین اور جہاد سے بھاگنے لگتے ہیں… مکہ میں صبح شام لوگوں کو دعوت، ان کے دھکے، گالیاں، ظلم… پھر تین سال تک شعب ابی طالب کی نظر بندی… حضرت بلال رضی  اللہ  عنہ اپنی بغل میں کچھ چھپا کر لاتے تو میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کو کھانے کی کوئی چیز ملتی… ورنہ غم، فاقے اور تنگی… پھر ہجرت کا حکم ملا تو گھر پر مشرکین کا حملہ… غار ثور پر ان کا گھیراؤ… راستے کے سخت پتھر… قربان جاؤں صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ پر کہ انہوں نے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کو کندھے پر اٹھالیا… مدینہ منورہ پہنچے تو سترہ مہینے گزرتے ہی جہاد اور جنگ شروع … اور آزمائشوں کا ایک نیا دور… کبھی سفر، کبھی بھوک، کبھی زخم… کبھی فتح… اور کبھی ظاہری فتح سے دوری… بہت مشکل دور تھا بہت مشکل… روشن خیال منافقین دس دس گز کی زبانیں نکالے… صبح شام تکلیف دیتے تھے… ظالموں نے گھر کی عزت وحرمت پر بھی زبان چلائی… اور اماں عائشہ صدیقہ رضی  اللہ  عنہا پر تہمت لگادی… یہ مرحلہ بہت مشکل ہوتا ہے… گھر اور خاندان کی طرف اٹھنے والی انگلیاں انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہیں… مگر پیارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم استقامت کا پہاڑ بنے رہے… آپ کو بخار ہوتا تھا تو وہ بھی عام لوگوں سے زیادہ سخت… آپ کو کھانا ملتا تھا تو غریبوں کے کھانے سے بھی زیادہ معمولی اور کم… مگر رات کو جب عبادت کرتے کرتے پاؤں میں ورم پڑ جاتے تو اماں عائشہ رضی  اللہ  عنہا فرماتیں… آپ تو بخشے بخشائے ہیں پھر اتنی مشقت کیوں؟ ارشاد ہوتا :

’’افلا اکون عبداً شکورا ‘‘

کیا میں  اللہ  تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ …

اتنی تکلیفیں اور پھر شکر ہی شکر… آج ہم اپنے گریبان میں جھانکیں… ذرا سی مشقت آجائے… ذرا سی آزمائش آئے… فوراً کہتے ہیں ہمارے ساتھ یہ کیوں ہوا؟… ہم گرنے اور ڈگمگانے لگتے ہیں… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ہمیں شہادت کا مسئلہ سمجھایا… اور ہمارے مزے کرادئیے کہ… شہید ہوئے اور گناہ معاف… شہید ہوئے اور رب راضی … اور جنت پکی… قرآن پاک نے ایک بار نہیں بار بار اعلان کیا… کہ شہید زندہ ہیں… رب کے ہاں کھاتے پیتے ہیں… مزے کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں… ہمارے نبی نے ہمیں بتایا کہ شہداء نے  اللہ  تعالیٰ سے کہا ہمارے پیچھے رہ جانے والوں تک ہمارے اس شانداز اعزاز واکرام کی خبر پہنچ جائے … پھر کوئی بھی گھر نہیں بیٹھے گا اور کوئی بھی اس سے محروم ہونا گوارہ نہیں کرے گا… نبی کریم صلی  اللہ  علیہ وسلم نے یہ باتیں بتا کر… ہمارے لیے مرنا اور جینا دونوں آسان بنادئیے… اور ہمیں عزت اور کامیابی کا راز بتادیا… صحابہ کرام نے اس راز کو سمجھا وہ موت کے پیچھے دوڑے تو دنیا سے کفر ختم ہوتا گیا … روم وفارس بکھر کر رہ گئے… عرب وعجم پر دین کا غلبہ ہوگیا… وہ خود بھی کامیاب ہوگئے… اب مزے سے خوشیاں منا رہے ہوں گے… اور انہوں نے کروڑوں انسانوں کو بھی کامیابی کے راستے پر ڈال دیا… امریکہ کے پجاری کیا سمجھیں کہ شہادت کیسی لذیذ نعمت ہے… امریکہ کو خدا سمجھنے والوں کو کیا پتا کہ شہادت کتنی مزیدار اور حقیقی زندگی ہے… رب کعبہ کی قسم شہادت اتنی لذیذ ہے کہ جنت میں جاکر لوگ حکومت، عزت، مال ہر دنیاوی نعمت بھول جائیں گے… مگر شہادت کے مزے کو وہاں بھی یاد رکھیں گے… اے مسلمانوں کو شہادت سے ڈرانے والو! موت سے بچ کر دکھا دو… موت تو تم پر بھی آنی ہے… رب کعبہ کی قسم ضرور آنی ہے… موت کا وقت اٹل ہے… نہ ایک منٹ پہلے آسکتا ہے… اور نہ ایک منٹ مؤخر ہو سکتا ہے… اسی لیے تو مسلمان موت کے پیچھے دوڑتے ہیں… اور تم لوگ موت کے آگے دوڑتے ہو… اگر کوئی اس وہم میں ہے کہ… امریکہ جو چاہے گا وہی ہوگا… تو … وہ اپنا عقیدہ اور دماغ درست کرلے… نہیں ہرگز نہیں… صرف وہی ہوگا جو  اللہ تعالیٰ چاہے گا… امریکہ نے افغانستان پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا… وہ مسلمانوں کو ڈرانا چاہتا تھا… مگر کوئی نہیں ڈرا…چند نوجوان اٹھے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے جا ٹکرائے… کیا کسی نے سوچا تھا کہ مسلمان… کروز میزائلوں کے شہداء کا اتنا سخت قصاص لیں گے؟… پھر امریکہ افغانستان میں اتر آیا… اس کے ذہن میں زیادہ سے زیادہ مدت… ایک سال کی تھی… مگر آج پانچواں سال چل رہا ہے… کیا وہی ہوا جو اس نے چاہا؟… پھر وہ عراق میں جاگھسا… جہاں اسے مزاحمت کا خطرہ ہی نہیں تھا… عراق کے وردی والے محافظ تو پہلی رات نوٹوں پہ بک گئے… اور پکے ہوئے پھل کی طرح امریکہ کی گود میں جاگرے… اپنے لوگوں کو مارنے کاٹنے والے یہ ’’بہادرفوجی‘‘ کافروں کے سامنے دو منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتے… ان کا سارا غرور، سارا تکبر اور سارا زور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے خلاف چلتا ہے… وہاں ان کے ہاتھ ڈنڈوں کی طرح اور زبانیں قینچیوں کی طرح چلتی ہیں مگر… کافروں کے سامنے یہ لوگ حلوے کی پلیٹ اور شراب کا گلاس ثابت ہوتے ہیں…  اللہ  پاک انہیں ہدایت عطاء فرمائے اور ان میں سے کچھ کو مدینہ والے نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا سچا غلام بنائے… آج مسلمانوں کیلئے سب سے بڑی مصیبت یہی لوگ ہیں… عراق کی فوج کا دنیا میں ڈنکا تھا اور نیشنل گارڈز کے نخرے آسمانوں سے ٹکراتے تھے… مگر بغداد پر حملے کی رات نیشنل گارڈ کے سارے جرنل، اور افسر جہاز میں بیٹھ کر… امریکہ پہنچ گئے… اور امریکہ نے سمجھا کہ… اب عراق تر نوالہ ہے… مگر مدینہ منورہ سے شہادت کا پیغام آیا… اور پھر… عراق نے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کردیں… کیا وہی ہوا جو امریکہ نے چاہا؟… آج باجوڑ کے غیور مسلمانوں پر بمباری کی گئی… پانچ سالہ بچوں تک کی بوٹیاں اڑائی گئیں… امریکی طیارے ہمارے ملک کی حدود میں داخل ہوگئے تو یہاں کے ’’جدید راڈار‘‘ اندھے ہوگئے… ہماری ایجنسیاں جن کو مدرسے کے بچوں میں …چھپی دہشت گردی نظر آجاتی ہے… آرام سے سوئی رہیں… امریکی طیارے آئے اور بم برسا کر مسلمانوں کو شہید کرکے چلے گئے … سب مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکا معافی مانگے… ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے… نہ مسلمانوں کا خون اتنا سستا ہے… کہ کسی شرابی منہ کے دو بول اس کی قیمت بن سکیں… اس خون کی قیمت  اللہ  تعالیٰ جانتاہے… امریکا نے یہ بمباری اس لیے کی تاکہ … لوگ ڈر جائیں… اور جہاد سے توبہ کرلیں… نہیں ایسا نہیں ہوگا … امریکہ جو کچھ چاہتا ہے وہ نہیں ہوگا… بلکہ… وہی ہوگا جو  اللہ  تعالیٰ چاہے گا… تب … ظلم کے ساتھ ظالم کو بھی رونا پڑے گا… اسلام ایک زندہ دین ہے… یہ افراد کا محتاج نہیں ہے… ملا عمر نہیں رہیں گے تو کیا ہوجائے گا؟… اسامہ بن لادن نہیں رہیں گے تو کیا ہوجائے گا؟ کچھ بھی نہیں… جو شہادت پائے گا وہ زندگی کے امتحان میں کامیاب ہوکر مزے میں چلا جائے گا… اور پیچھے دوسرے لوگ دین اور جہاد کی امانت کو سنبھال لیں گے… یہ کوئی نوکری نہیں کہ چھوٹ جائے… یہ قرآن والا نظریہ ہے… جس نے باقی اور سلامت رہنا ہے… پوری قوم باجوڑ کے واقعہ پر رو رہی ہے اور غم وغصے سے سلگ رہی ہے جبکہ دوسری طرف خود کو ملک کا محافظ اور ٹھیکیدار سمجھنے والے خفیہ اہلکار… بیس پچیس گاڑیوں میں بھرکر ہری پور جا پہنچے رات کے سوا دو بجے … شور مچاتے، بندوقیں لہراتے اور گالیاں دیتے… انہوں نے بیس ساتھیوں کو گرفتار کرلیا… دفتر میں توڑ پھوڑ کی… اور بڑے فخر سے بیس نہتے علماء حفاظ … اور متقین کو باندھ کر اسلام آباد لے گئے… کیا اس طرح کے ظلم سے کسی خیر کی توقع کی جاتی ہے؟ کاش یہی بہادری ان امریکیوں کے خلاف دکھائی جاتی جو آپ کے ملک کے پندرہ افراد کو شہید کرکے بھاگ گئے… مگر کہاں؟… وہاں تو جھک جھک کر سلام کیے جاتے ہیں… ہم سرحد اسمبلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے دینی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے… امریکی سفیر کی ملک بدری کی قرارداد منظور کی ہے… چلیں غیرت کا ایک جملہ تو سننے کو ملا… باجوڑ کے شہداء قبروں میں مزے کر رہے ہیں… وہ دجال کی آگ سے گزرکر ان شاء  اللہ … رحمن کی جنت میں ہیں… ان کی زندگی کا بس اتناہی وقت مقرر تھا… ہاں وہ خوش نصیب رہے کہ ان کی زندگی کا اختتام ایک اور لذیذ، حسین اور خوبصورت زندگی پر ہوا… جس زندگی کے لئے کتنے مسلمان تڑپتے ہیں… اور راتوں کو  اللہ  تعالیٰ کے حضور آہ وزاری کرتے ہیں… باجوڑ کی قبریں اور اس کے خوش نصیب باسی بھلائے نہیں جائیں گے… ان کا خون… ضرور اپنا رنگ دکھائے گا… ان پر ہونے والا ظلم ضرور ظالم کی طرف واپس لوٹے گا… یہ دھمکی نہیں…  اللہ  تعالیٰ کا نظام قدرت ہے… اور  اللہ  تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتاہے…

ماشاء  اللہ  کان ومالم یشاء لم یکن ولا حول ولا قوۃ الا با للہ العلی العظیم

٭٭٭

کیا یاد آرہا ہے؟؟

 

 اللہ  تعالیٰ استقامت عطاء فرمائے… جب بھی ’’ایمان والوں‘‘ پر مشکل وقت آتا ہے… انہیں گمراہ کرنے اور بہکانے کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں… ایک روایت میں آیا ہے کہ جب مسلمانوں کو غزوہ احد میں ظاہری شکست ہوئی تو کچھ ’’یہودی‘‘ حضرت حذیفہ رضی  اللہ  عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی  اللہ  عنہ کے پاس آئے… مفسرین نے اس یہودی ٹیم کے دو افسروں کے نام بھی لکھے ہیں… ایک تھا ’’فنحاص بن عازوراء‘‘ اور دوسرا تھا ’’زید بن قیس‘‘ ان دونوں نے صحابہ کرام سے کہا… آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ اُحد کی لڑائی میں آپ کا کیا حشر ہواہے؟… اگر آپ لوگ حق پر ہوتے تو کبھی شکست نہ کھاتے… بس اب ’’اسلام‘‘ کو چھوڑو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ… (یعنی ’’عالمی برادری‘‘ کا حصہ بن جاؤ) … اس کے بعد انہوں نے اپنے مذہب کے حق ہونے پر تقریر کی… حضرات صحابہ کرام لمبی بحثوں میں نہیں پڑتے تھے… انہوں نے یہودیوں کے اس وفد کو جلد ہی نمٹا دیا… حضرت عمار رضی  اللہ  عنہ نے جواب دینے کی بجائے خود یہودیوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے مذہب میں عہد توڑنا کیسا ہے؟… انہوں نے کہا بہت بڑا گناہ ہے… حضرت عمار رضی  اللہ  عنہ نے فرمایا میں نے تو عہد کیا ہوا ہے کہ… مرتے دم تک حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم ہی کے ساتھ رہوں گا… یہودیوں نے یہ سن کر کہا یہ شخص تو ’’غلط آدمی‘‘ ہے… پھر وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے… تو اسلام کے اس سچے عاشق نے کڑک کر فرمایا…  اللہ  میرا رب، محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم میرے نبی، اسلام میرا دین، قرآن میرا امام، کعبہ میرا قبلہ اور مسلمان میرے بھائی… میں اسی پر راضی میں اسی پر پکا… یہودی ناکام ہو کر بھاگ گئے اور جب یہ قصہ آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے دونوں صحابہ سے فرمایا…

اصبتما خیرا وافلحتما… آپ دونوں نے کامیابی اور بھلائی پالی…

دنیا بھر کے عقوبت خانوں میں… مسلمان مجاہدین کو پہلے خوب مارا جاتا ہے… خوب ستایا جاتا ہے… پھر جب… کافروں اور ان کے یاروں کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ تھک گئے ہیں اور ماریں کھا کھا کر کمزور ہو گئے ہیں تو پھر… جہاد اور اسلام کے خلاف ذہن سازی اور ’’موٹی ویشن‘‘ کا عمل شروع ہوجاتا ہے… اچانک کچھ آفیسر اس جیل اور عقوبت خانے کا دورہ کرتے ہیں… یہ لوگ اچھے لباس اور مہذب انداز میں آتے ہیں… وہ مظلوم قیدیوں سے دعاء سلام کے فوراً بعد چلاّ کر کہتے ہیں… ارے یہ تو شریف لوگ ہیں خبردار اب اگر کسی نے ان کو ہاتھ لگایا… ساتھ ہی وہ ان لوگوں کو چند گالیاں بھی دیتے ہیں… جواب تک ان قیدیوں کو مارتے رہے تھے… اور پھر کرسیوں پر بٹھا کر… یہودیوں والی تقریریں شروع ہوجاتی ہیں… امن، محبت، انسانیت کی باتیں، ملک کے مفاد کی باتیں، اسلام کی باتیں… اور دنیا میں دولت اور عزت پانے کی باتیں… تشدد کے ستائے ہوئے بعض قیدی حکمت عملی کے تحت مار سے بچنے کیلئے… ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں … تب … ان ’’لوٹوں‘‘ کی خوشی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے… مگر کچھ قیدی بہت صاف اور سخت جواب دیتے ہیں، تب یہ مہذب لوگ واپس اپنی اصلیت پر آجاتے ہیں اور ان کے اندر چھپے ہوئے زہریلے سانپ پھنکارنا شروع کردیتے ہیں…

میں نے یہ منظر بہت بار دیکھا ہے… اور مجھے اس منظر سے اتنی نفرت ہے کہ… بس  اللہ  تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے… میں نے خوبصورت سوٹ پہنے آفیسروں کو میٹھی میٹھی باتیں کرتے بارہا سنا ہے… مگر جب میں نے انہیں صاف جواب دیا تو ان کی ساری تہذیب ایک طرف رہ گئی… اور وہ غصے اور بے بسی سے کانپنے لگے… میں نے ایسا سری نگر میں بھی دیکھا اور جموں میں بھی… اور پھر میں نے یہی منظر پاکستان میں بھی دیکھا… سری نگر کے ایک عقوبت خانے میں تو انڈین آرمی کا ایک کرنل باقاعدگی سے کشمیری مجاہدین کو … گمراہ کرنے کیلئے آتا تھا… وہ بہت نرمی اور محبت سے بولتا تھا اور کئی کئی گھنٹے تقریر کرتا تھا… ہم سب انسان ایک جیسے ہیں… ہم سب کے جسموں میں سرخ خون ہے… زندگی بھگوان کی بڑی نعمت ہے، آؤ مل جل کر شانتی اور پریم (امن و محبت) سے رہیں… وہ اپنے ساتھ انڈین فلموں کی ویڈیو کیسٹیں بھی لاتا تھا جو کشمیری مجاہدین کو دکھائی جاتی تھیں… کئی دن کی بھرپور محنت کے بعد اس کرنل کو شک گزرا کہ میں اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہوں… اور کشمیریوں کو دوسرا ذہن دیتا ہوں… چنانچہ… مجھ پر مزید سختی کردی گئی… اور میرا دروازہ چوبیس گھنٹے بند رہنے لگا… اسی عقوبت خانے میں ایک طرف محبت کا یہ راگ سنایا جاتا تھا جب کہ دوسری طرف… اتنا سخت تشدد اور ٹارچر ہوتاتھا کہ… اس سے  اللہ  کی پناہ… محبت کا درس دینے والے اپنے اصلی چہرے کو چھپا نہیں سکتے تھے… چنانچہ میں اس کرنل کی محنت پر کیا پانی پھیرتا… خود ان کی لاٹھیاں، ڈنڈے اور گالیاں ان کی حقیقت بتانے کے لئے کافی تھیں… مجھے آج بھی اس عقوبت خانے کے مناظر یاد آتے ہیں تو … میں سب کچھ بھول جاتا ہوں… اور مجھے صرف چیخیں سنائی دیتی ہیں… صرف چیخیں… ان بوڑھے کشمیری بزرگوں کی چیخیں جو پاکستان سے کشمیر کے الحاق کا خواب دیکھ رہے تھے… اور بڑھاپے میں اتنا خوفناک تشدد برداشت کر رہے تھے… میراتھن ریس کے پجاریو! … تم نے انہیں یاد رکھا یا بھلادیا؟… وہ بھی چاہتے تو بمبئی اور دہلی کی حسیناؤں کو اپنی بغل میں لیے پھرتے… مگر وہ اسلام اور پاکستان کے لئے ماریں کھا رہے ہیں… پاکستان کے تنخواہ خور محافظوں کو اس بات کی کیا فکر کہ ان عقوبت خانوں میں کتنی جوانیاں آگ میں جلا دی گئیں… اور کتنی زبانیں پاکستان زندہ باد کہنے کے جرم میں کاٹ دی گئیں… ہمارے عہدہ پرست، تنخواہ خور محافظوں کو تو بس اپنے اسٹارز کی فکر ہے کہ ترقی کب ہوگی؟… ان کے دماغ سوچ سے اور دل جذبے سے خالی ہیں… اوپر والے جو کیسٹ ان کے دماغ میں ڈال دیں وہ ان کی زبانوں پر… فر فر چلنے لگتی ہے… حکمران مسلمان ہو تو یہ اسلام کی تعریف میں بولتے نہیں تھکتے… اور حکمران کوئی بددین روشن خیال ہو تو پھر ان کی تقریریں بھی اسی کے ساتھ گھوم جاتی ہیں… ہاں مجھے چیخیں سنائی دیتی ہیں… چھوٹے چھوٹے بچوں کی چیخیں اور خوبصورت جوانوں کی چیخیں…

مجھے یاد ہے کہ عید کا مبارک دن تھا ساری دنیا کے مسلمان گوشت اور مٹھائیاں کھا رہے تھے… جبکہ سری نگر کے اس عقوبت خانے میں… تمام مسلمان قیدی صرف اپنے آنسو پی رہے تھے… اور اپنے بستروں میں ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے… اگر جہاد کشمیر کو روشن خیالی کے ناپاک بت پر ذبح کرناتھا تو پھر اتنی دیر کیوں لگائی؟… کون جواب دے گا ہزاروں جوانیوں کا جو خاک کا پیوند بن گئیں… کون جواب دے گا ہزاروں سہاگوں کا جو دن دہاڑے اجڑ گئے… لوگوں نے اپنے کندھوں کے اسٹار بڑھا لیے… کئی کو موٹی موٹی پینشنیں مل گئیں… کئی کو زمینیں اور پلاٹ الاٹ ہوگئے… کیا ان لوگوں کے سینے میں دل نہیں ہے؟…کیا انہوں نے مرنے کے بعد  اللہ  تعالیٰ کے دربار میں حاضری نہیں دینی؟… کیا امریکہ ان کو قبر کے عذاب سے بھی بچائے گا؟… معلوم نہیں یہ بے حس طبقہ کس مٹی سے بنا ہے… کاش ان میں تھوڑا سادردہوتا…

بات چل رہی تھی… ذہن سازی کی… کہ مظلوم مسلمانوں کو کس طرح سے گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے… ایک بار سری نگر میں کسی بڑے افسر یا حکمران کا دورہ تھا… انڈین آرمی نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے… تمام غیر ملکی قیدیوں کو اس کے سامنے پیش کرنا تھا… چنانچہ … قیدیوں کے بکھرے بال زبردستی سیدھے کیے گئے… ان کے منہ صابن سے دھلوائے گئے اور صاف کپڑے پہنا کر ایک کمرے میں بٹھادیا گیا… تھوڑی دیر بعد… خفیہ ادارے کا ایک افسر بہت مہذب طریقے سے اندر آیا … جب اس نے بات شروع کی تو ہم پہچان گئے کہ وہ … کشمیری پنڈت ہے… اس نے مجاہدین کا ذہن بدلنے کیلئے لمبی چوڑی تقریر کی… مجبور قیدی خاموشی سے سنتے رہے… ہماری خاموشی نے اس کی ’’خطابت‘‘ کو چار چاند لگادئیے… وہ بہت کچھ بکتا رہا اور ہمدردی کے پتے پھینکتا رہا… تب  اللہ  تعالیٰ نے مجھے ہمت اور توفیق دی… میں نے… چند باتیں بلند آواز سے کرلیں… بس پھر کیا تھا پنڈت غصے اور بے چینی سے بدحواس ہوگیا… تھوڑی دیر پہلے وہ ’’انسانیت‘‘ اور ’’ہمارا اور آپ کا خون ایک‘‘ کے موضوع پر خطاب کر رہا تھا… اور اب غصے میں گدھے کی طرح دھاڑ رہا تھا کہ تم لوگ دہشت گرد ہو… میرا دل چاہتا ہے کہ ابھی ابھی تمہیں فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردوں… وہ گولیاں مار کر تمہاری دھجیاں بکھیردے… چونکہ مجلس کا رنگ بدل چکا تھا اس لیے ایک مجاہد ساتھی نے کہا… پنڈت جی خالی ہاتھ مسلمانوں پر گرم ہو رہے ہو؟… ایک کلاشن میرے ہاتھ میں دو اور ایک خود پکڑو پھر دیکھو میں تمہاری بہادری کس طرح سے نکالتا ہوں؟… پنڈت یہ سن کر غصے میں کچھ بکتا ہوا باہر نکل گیا… میں اکثر اس طرح کے افسروں سے کہا کرتا تھا کہ آپ کی تو ’’نوکری‘‘ ہے اور ہمارا نظریہ ہے… آپ لوگ ہم پر اتنی محنت نہ کریں کیونکہ آپ کے بڑے لیڈروں نے اگر دہلی میں بیٹھ کر کوئی اور فیصلہ کرلیا تو پھر آپ کی اس محنت کا کیا بنے گا؟… اس لیے بس اپنی ڈیوٹی پوری کرو اور انسانیت وغیرہ کی باتیں چھوڑو … آپ لوگ تو روبوٹ ہیں… آپ کے اوپر والے آپ کو حکم دیں کہ دن کو رات اور رات کو دن کہو تو آپ پوری اطاعت کریں گے… جب آپ لوگوں کا کوئی ’’ایمان‘‘ اور ’’نظریہ‘‘ ہی نہیں ہے تو پھر اتنی لمبی تقریریں کر کے اپنا گلا خشک کیوں کرتے ہو… ممکن ہے آپ ایک موضوع پر تقریر کرو… اور اچانک اوپر کے افسر کا حکم آجائے کہ اب ہماری پالیسی اس کے بالکل الٹ ہے تو آپ کو فوراً اپنی تقریر بدلنی پڑے گی… جبکہ مجاہدین… اللہ پاک کے فضل سے ایک واضح اور مضبوط نظریہ رکھتے ہیں… تم ان کو مارو یا کاٹو… ان شاء اللہ ان کے نظریات نہیں بدلیں گے… اور اگر تم ان کے جسم کو پاؤں کے انگوٹھے سے کاٹنا شروع کرو… اور ان کی گردن تک کاٹتے چلے جاؤ تو… ان شاء اللہ ان کی ہر بوٹی اور ہڈی میں… تمہیں وہی نظریہ نظر آئے گا… یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو ماننے والے ہیں… یہ حضرت محمد ا کے امتی ہیں… یہ اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کو فروخت کر چکے ہیں… اور اب اپنا بیچا ہوا سامان حوالے کرنے کے لئے تڑپ رہے ہیں… ان لوگوں کو حوروں کے پیغام آتے ہیں… یہ لوگ جنت کی خوشبو سونگھتے ہیں… اور یہ لوگ… اس دنیا میں رہنا اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں… چودہ سو سال ہو گئے… ہر فرعون اور نمرود نے جہاد ختم کرنے کی کوشش کی… مگر… کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا…اب بھی… ان شاء اللہ… سب ناکام ہو جائیں گے… اور جہاد جاری رہے گا…جہاد کی بیعت وہ عزت کا جھنڈا ہے جس کی خاطر دونوں بازو… اور پھر گردن خوشی سے کٹائی جا سکتی ہے… یہ بیعت ہمارے لئے رب تعالیٰ تک پہنچنے… اور اسے خوش کرنے کا ذریعہ ہے… اس کی خاطر تو ساری دنیا سے دشمنی مول لی جا سکتی ہے…

حکمران آتے جاتے رہتے ہیں… بے نظریہ لوگوں کی تقریریں چلتی رہتی ہیں… جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم اگر طالبان کا ساتھ دیتے تو مر جاتے… ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر خود کو بچا لیا ہے… اللہ کی قسم یہ لوگ بھی اپنے وقت پر مر جائیں گے… تب انہیں معلوم ہو گا کہ… موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، موت اپنے مقررہ وقت پر ہی آتی ہے… پھر موت سے بچنے کے لئے کافروں کا زر خرید غلام بننے سے کیا فائدہ!… قرآن پاک اول تا آخر ہمیں یہی بات سمجھاتا ہے… اور طرح طرح کے سچے قصے سناتا ہے کہ… موت سے بھاگنے والے موت سے نہیں بچ سکتے… جنہوں نے کہا کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہمارا آملیٹ بنا دیتا اللہ پاک نے زلزلے کا ایک جھٹکا دے کر آملیٹ بنا دیا اور بستیوں کو اکھاڑ دیا… اب بلاؤ امریکہ کو کہ وہ تمہیں زلزلے سے بچائے… کاش مسلمان قرآن پاک کو سمجھتے… اور کاش مسلمان اس دنیا کی گندی اور تکلیف دہ زندگی کو اپنا مقصد نہ بناتے… زلزلے سے پہلے ملک کے محافظ… مجاہدین اور دینداروں کے خلاف آپریشن کی تیاری مکمل کر چکے تھے… ان عظیم لوگوں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں… مجاہدین کے گھروں، مسجدوں اور اداروں پر چھاپے مارنے تھے… جیلوں اور عقوبت خانوں میں ان روزے داروں اور شب بیداروں پر… ڈنڈے برسانے کی پوری تیاریاں کر لی گئی تھیں… غیر ملکی سفیروں کو خوشخبری کے اشارے دیئے جا چکے تھے… مگر زلزلہ آگیا… ہمارے حکمرانوں کو ایک لاکھ افراد کے مارے جانے کا افسوس نہیں ہوا…البتہ… انہیں مجاہدین کے بچ جانے کا بے حد دکھ ہوا… انہوں نے آہ بھر کر کہا کہ… اس زلزلے نے تو مجاہدین کی لاٹری نکال دی ہے… دل کی وہ حسرت اب رنگ لائی ہے اور اللہ کے بندوں کو ستانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے… قرآن پاک بتاتا ہے کہ ایسے حالات ہمیشہ سے حق والوں پر آتے رہے ہیں… ایسے مواقع پر وہ نہ کمزور ہوتے تھے، نہ بزدلی دکھاتے تھے… اور نہ جھکتے تھے… ہاں بس ایک ہی دعا مانگا کرتے تھے۔

ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنافی امرنا و ثبت  اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین  (اٰل عمران ۱۴۷)

اے ہمارے رب… ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے اور ہم نے اپنے کام میں جو غلطیاں کی ہیں وہ بھی معاف فرما دے اور ہمیں مضبوطی عطا فرما… اور کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما…

کسی زمانے میں ایک اللہ والے بزرگ تھے… خفیہ اداروں نے ان کی شکایت خلیفہ تک پہنچائی… خلیفہ نے ان کو بلوایا… وہ نہ گھبرائے اور نہ جھکے… خلیفہ نے کوڑے مارنے کا حکم دیا… کوڑے برسے تو ان کی زبان پر یہی دعاجاری ہو گئی… سبحان اللہ … اللہ تعالیٰ کے عاشق بھی عجیب ہیں… انڈین فوجیوں کو جب مار پڑتی ہے تو وہ انڈیا کو گالیاں دیتے ہیں… ایسے بے شمار واقعات مجھے معلوم ہیں… امریکہ کے فوجیوں پر مار پڑتی ہے تو وہ امریکہ اور اس کے صدر کو گالی دیتے ہیں کہ ہمیں مروا دیا… مگر جب اللہ کے عاشقوں کو مار پڑتی ہے تو تڑپ کر کہتے ہیں… یا اللہ قصور وار ہم ہیں… آپ ہمیں معاف فرما دیں… یا اللہ معاف فرما دے… یا اللہ معاف فرما دے… وہ بزرگ بہت بوڑھے تھے … اللہ پاک نے انہیں زیادہ نہیں آزمایا… اور فوراً شہادت عطاء فرما دی…

سبحان اللہ… کیسی خوش بختی کہ شہادت مل گئی… تکلیفوں والی زندگی سے نجات دے کر… مزے اور راحت والی زندگی عطاء ہو گئی… ان کو مارنے والے بھی چند دن بعد اپنے وقت پر مر گئے… آج وہ مردہ ہیں… اور جن کو مارا گیا وہ زندہ ہیں… یا رباّ! کتنی میٹھی ہے شہادت… کتنی پیاری ہے شہادت اور کتنی حسین ہے شہادت… اگر مجنوں شہادت کی ہلکی سی خوشبو سونگھ لیتا تو وہ لیلیٰ کو بھول جاتا… مگر ہم لوگ ذلت اور تکلیف کے ساتھ جینے کو شہادت پر ترجیح دیتے ہیں… اللہ پاک ہماری حالت پر رحم فرمائے… اور ہمیں زندگی، موت کا قرآنی عقیدہ سمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے… معلوم نہیں مجھے آج یہ بکھری ہوئی باتیں کیوں یاد آرہی ہیں؟… کیوں یاد آرہی ہیں؟… میرے کان کیوں چیخیں سن رہے ہیں؟… مجھے سجاد شہید کا گلابی چہرہ کیوں یاد آرہا ہے؟ مجھے ان کے جسم پر پڑے ہوئے نیلے نیلے داغ کیوں یاد آرہے ہیں؟

مجھے نہیں معلوم میرے دل میں ایک ’’شعلہ‘‘ بار بار کیوں ابھر رہا ہے؟ ہاں مسلمانو! مجھے نہیں معلوم کے میرے دل و دماغ پر کیا گزر رہی ہے؟ کیا گزر رہی ہے؟

ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنافی امرنا و ثبت اقدامناوانصرنا علی القوم الکافرین۔

٭٭٭

  

ہم شرمندہ ہیں

 

اللہ پاک کی قسم تم ہمارے سید اور آقا حضرت محمد ا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… تمہارے باپ دادا بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے… گندی نسل کے کیڑو! گالیاں دینے اور کارٹون بنانے سے تمہیں کیاملا؟… حسد کی آگ میں جلتے رہو رب کعبہ کی قسم تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے… تمہیں خوش فہمی تھی کہ مسلمان مٹ گئے… تم نے جشن منا لئے تھے… مگر اب تمہیں احساس ہوا کہ نہ اسلام مٹا ہے نہ مسلمان …تو اب تم نے غم و غصے کی آگ میں جل کر… ہمارے محبوب ا کوگالیاں بکنا شروع کر دیں… خبیث ظالمو! غم و غصے کی آگ میں جل کر مر جاؤ… تم آقا مدنی ا کے دین کو نہیں مٹا سکتے… کاش تم میں غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی… کاش تم میں بہادری اور ہمت ہوتی تو آقا مدنی ا کے غلاموں سے پنجہ لڑاتے… مگر غلاظت و خباثت کے غبارو! تم میںلڑنے کی طاقت کہاں ہے؟… تم تو ہمارے غیرت سے عاری حکمرانوں کے سہارے جی رہے ہو ورنہ… اب تک… مسلمان تمہیں تمہاری اصلیت دکھا چکے ہوتے… اپنے ایٹم بموں پر فخر نہ کرو… اپنے اسلحے اور بدکار فوجیوں پر ناز نہ کرو… یہ پانی کے بلبلے… اور مٹی کا ڈھیر ہیں… تم نے ہر جگہ مسلمانوں سے مار کھائی ہے… اور اب بھی الحمدللہ… ہر جگہ مار کھا رہے ہو… اسی لئے تو تمہیں اس پاک ہستی پر غصہ آتا ہے جو آج بھی دلوں پر راج کر رہی ہے… اور جس کا نام اور جس کی شان اللہ پاک نے آسمان سے بھی بلند کردی ہے… ورفعنالک ذکرک … ہمارے آقا ا نے ماں باپ کی گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے… ورنہ میں آج کارٹون بنانے والے منحوس سے اتنا ضرور کہتا کہ جا کر… اپنی ماں سے اپنے باپ کا نام تو پوچھ لو… شاید وہ چھانٹی کر کے بتا سکے… مگر میں یہ بات نہیں پوچھتا… البتہ… اتنا ضرور پوچھتا ہوں کہ… اب تم پر اور تمہارے دل پر کتنی لعنت برس رہی ہے؟ میرے آقا مدنی ا کے لئے تو یہ سب کچھ نیا نہیں ہے… وہ مکہ میں تھے تو تمہارے باپ دادا کا ان سے یہی رویہ تھا… وہ مدینہ پہنچے تب بھی تمہارے باپ دادا اسی طرح بکتے رہے… اسی طرح جلتے رہے… مگر کیا ہوا؟… تمہارے کلیسا کا راج دنیا کے اکثر حصہ سے ختم ہو کر ویٹی کن کے چھوٹے سے شہر… اور پوپ کی آدھی ٹوپی میں رہ گیا جبکہ… میرے آقا کا دین مشرق و مغرب میں پھیل گیا… تم نے گالیاں بکیں… اور تمہارے کلیسا اور چرچ بے حیائی کا مرکز بن گئے… اور ان پر ’’برائے فروخت‘‘ کے بورڈ لگ گئے… جبکہ… آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان پوری دنیا میں گونجنے لگی… تم نے کارٹون کیوں بنایا؟… کیا تمہیں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام خالد بن ولید رضی اللہ عنہ… اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ یاد آگیا تھا… ہاں ہاں جل مرو… آقا کے غلاموں نے تمہارے باطل کو توڑا تھا… تم نے کارٹون اس لیے بنایا کہ تمہیں سلطان صلاح الدین ایوبی یاد آگیا تھا… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ سا غلام … جس نے …تمہاری نسلوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا تھا… کیا تمہیں سلطان بایزید یلدرم اور محمد شاہ ثانی نے خواب میں آکر ڈرا دیا… او بزدل گیدڑ!… کیا تجھے قسطنطنیہ میں پاپا کے تخت کا ٹوٹا ہوا پایا یاد آگیا تھا؟… یا تجھے آج کے وہ فدائی یاد آگئے… جنہوں نے… ثابت کر دیا ہے کہ وہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کے سچے غلام ہیں… تمہارے بم، تمہارے ڈالر، تمہارے یورو، تمہارے فوجی اور تمہارے نام نہاد مسلمان ایجنٹ… ہر دن ناکام ہو رہے ہیں… اس لئے تمہیں غم پہنچا اور تم نے کارٹون بنا ڈالا… کاش تم نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہوتا تو کارٹون بنانے کی بجائے میدان میں نکل کر مسلمان فدائیوں کا مقابلہ کرتے… مگر کہاں؟ تم تو اب اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤ گے… مجھے یقین ہے کہ تم میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت نہیں بنا سکتے… ان جیسا تو اللہ پاک نے کسی کو نہیں بنایا… ہاں تم نے ظلم کیا، تم نے گستاخی کی، تم نے ہمارے دلوں پر خنجر کا وار کیا… اور تم نے بے حیائی میں خنزیر کو پیچھے چھوڑ دیا… تمہیں معلوم نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے جانثار کیسے لوگ ہیں؟… تم نے ٹی وی پر مسلمانوں کے حکمرانوں کو ناچتا گاتا… اور کافروں کے لباس میں مسکراتا دیکھ کر غلط اندازہ لگایا… تم نے ڈالروں اور نوٹوں کی خاطر کافروں کے بوٹ صاف کرنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر غلط اندازہ قائم کیا… نہیں رب کعبہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اپنی وفاداری… اور دیوانگی میں بے مثال ہیں… کاش تم تاریخ پڑھ کر دیکھتے… اور کاش تم آج کے حقیقی مسلمانوں کے حالات پر نظر دوڑاتے…آؤ… میں تمہیں چند مناظر دکھاتا ہوں… اور پھر ایک سچی بات… ہاں بالکل سچی بات بتلاتا ہوں…

چند مناظر

(۱)  بیعت رضوان کے موقع پر عرب کا مشہور دانشور عروہ بن مسعود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سے مذاکرات کے لئے آیا… گفتگو کے دوران اس نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ڈاڑھی مبارک پر لگایا تو اس کے بھتیجے حضرت مغیرہ رضی  اللہ  عنہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا کہ مشرک کا ہاتھ آقا صؒی اللہ علیہ وسلم  کی  ڈاڑھی مبارک کو نہ چھوئے… حالانکہ عروہ نے عربوں کی عادت کے مطابق ہاتھ لگایا تھا… گستاخی سے نہیں…

او کارٹون بنانے والے شیطان! کاش تیرا گستاخ ہاتھ ہمیں نظر آجائے…

(۲)  عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور ا کی مجلس میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی حکم دیتے تو ہر صحابی یہ چاہتا کہ سب سے پہلے وہ یہ حکم بجا لائے… جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لعاب مبارک نکالتے تو وہ زمین پر نہ گرتا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ہاتھوں میں لے کر چہروں پر مل لیتے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وضو فرماتے تو وضو سے گرنے والے پانی پر ہر کوئی اس طرح بڑھتا کہ قریب ہوتا کہ اس کی خاطر لڑائی ہو جائے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم سے کوئی بال گرتا تو وہ اسے سنبھال لیتے… اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گفتگو فرماتے تو ہر طرف سناٹا چھاجاتا…

او گستاخی کرنے والے ظالم… تو نے کس ذات پر انگلی اٹھائی ہے رب کعبہ کی قسم آج بھی امت کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے عشق میں قربانی دینے کا جذبہ اسی طرح موجزن ہے…

(۳) غزوہ احد کے موقع پر آپ ا پر مشرکین کا ہجوم ہو گیا اور آپ گھیرے میں آگئے تب انصار کے سات نوجوان ایک ایک کرکے آگے بڑھتے گئے اور اپنی تلواروں اور جسموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ڈھال بن کر کٹ گئے… ہاں وہ سب فدا ہو گئے… اور جنت پا گئے…

او گستاخ ظالمو!… ان سات خوش نصیبوں کے پیچھے دوڑنے والے آج بھی زندہ ہیں… ہائے کاش، ہائے کاش… اور سنو ان سات میں سے ایک زیاد بن سکنؓ بھی تھے… وہ طوفان بن کر ان لوگوں سے ٹکرائے جنہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  پر حملہ کیا تھا… حضرت زیاد نے ان کو مار مار کر پیچھے دھکیل دیا اور خود زخموں سے چور ہو کر گر گئے… پھر پتا ہے کیا ہوا؟… حضرت زیاد گھسٹ گھسٹ کر آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں تک پہنچے اور اپنا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں پر رکھ دیا… اور جان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دی… ہائے کتنی بڑی سعادت ہے، کتنی بڑی خوش نصیبی… اے میرے نبی پر حملہ کرنے والو!… حضرت زیاد رضی اللہ عنہ کے جانشین زندہ ہیں… نبی کے قدموں پر اپنا منہ رکھنے کی خواہش… ہر تمنا اور خواہش سے بڑھ کر ہے… قیامت کے دن کیا خبر کس کے بھاگ جاگ جائیں… کس کی قسمت چمک جائے… اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدموں کا ایک بوسہ نصیب ہو جائے… اس سعادت کو پانے کے لئے جسم کی ہر بوٹی کٹ جائے تو سودا سستا ہے، بہت سستا…

(۴) غزوہ احد کے دن آقا صلی اللہ علیہ وسلم  پر تیروں کی بوچھاڑ تھی… حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ پر تیر روکے… وہ ہاتھ ہمیشہ کے لئے شل ہو گیا… مگر آقا صلی اللہ علیہ وسلم  تک کوئی تیر نہ پہنچ سکا… اور سنو جب تیروں کی بوچھاڑ زیادہ ہو گئی تو حضرت ابود جانہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے کھڑے ہو گئے… انہوں نے چہرہ تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کر لیا اور پیٹھ دشمنوں کی طرف… آنکھوں سے محبوب کا دیدار کر رہے تھے اور پیٹھ پر تیر کھا رہے تھے… معلوم نہیں کتنے تیر جسم میں اتر گئے مگر… اس اندیشہ سے اپنی جگہ سے نہ ہٹے کہ کوئی تیر آقا صلی اللہ علیہ وسلم  تک نہ پہنچ سکے… ایک موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  گر گئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے خود کو سیڑھی بنا دیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان پر پاؤں رکھ کر اوپر محفوظ جگہ تک جا پہنچے…

یورپ کے سود خور شرابیو! کس کس منظر کو سناؤں… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی داستان کہوں کہ کس طرح سانپ سے ڈسے گئے… مگر آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خاطر پاؤں نہ ہٹایا… یا سلطان ایوبی کی بات سناؤں جس نے ایک عیسائی جرنیل کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گستاخی پر آرام چھوڑ دیا… اور بدلہ لے کر دم لیا…

او ظالمو! ہماری تاریخ تابناک ہے اور ہمارا حال بھی الحمد للہ عاشقوں اور جانثاروں سے خالی نہیں ہے… محلات میں رہنے والے ہمارے عیاش حکمرانوں کی بزدلی سے دھوکا مت کھاؤ… جھونپڑیوں اور کچے کمروں میں اسلام کے سچے عاشق تمہاری اس ظالمانہ حرکت پر راتوں کو اٹھ اٹھ کر رو رہے ہیں… میرے پاس مناظر کا ڈھیر ہے… جو میں تمہیں دکھا سکتا ہوں میرے پاس اونچے اونچے کردار ہیں… حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ… اور نابینا مجاہد اور عاشق رسول حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ و غیر ھم… ان سب نے گستاخانِ رسول سے اللہ تعالیٰ کی زمین کو پاک کیا… میں ان مناظر کا  تذکرہ روک کر ایک بالکل سچی بات کہنا چاہتا ہوں… میں زندہ رہا یا مرگیا… ان شاء اللہ… دنیا اس بات کی سچائی کا اعتراف کرے گی…

سچی بات

امریکہ اور یورپ کے لوگو!… اگر تم زمین پر امن چاہتے ہو… اور اپنی دنیا کی اس زندگی کے مزے لوٹنا چاہتے ہو تو پھر… حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گستاخی سے باز رہو… اور جن لوگوں نے یہ ظلم کیا ہے ان کو خود عبرتناک سزا دو… ورنہ رب کعبہ کی قسم یہ دنیا خون اور آگ سے بھر جائے گی اور ہر طرف خوفناک تباہی ہی تباہی ہو گی… ہم مسلمان اچھے ہیں یا برے؟، ہم امن پسند ہیں یا دہشت گرد؟… اس کا فیصلہ جب ہونا ہو گا ہو جائے گا… مگر ایک بات بالکل پکی ہے کہ… ہمیں وہ دنیا بالکل اچھی نہیں لگتی جس میں ہمارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی گستاخی کی جاتی ہو… یقین کرو ہمیں ایسی دنیا کا وجود تک گوارا نہیں… ہاں ہم اس بارے میں پاگل ہیں، ہم اس بارے میں مجبور ہیں… اے صبح کے وقت کی ہواؤ… اے اللہ کے فرشتو! حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے روضہ اطہر تک ہمارا سلام پہنچا دو… اور عرض کر دو کہ آقا! ہم بہت شرمندہ ہیں! بہت شرمندہ… آقا ہم بہت شرمندہ ہیں، بہت شرمندہ…آقا ہم بہت شرمندہ ہیں… آقا ہمیں معاف کر دیں… ہم اس خبیث دنیا کے پیچھے پڑ گئے… ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے کو چھوڑ دیا… ہم عزت ذلت اور کار کوٹھی کے چکر میں پھنس گئے… ہم عہدے بازی اور تفرقات میں ڈوب گئے… ہمیں زندہ رہنے کے شوق نے مکڑی کا جالا بنا دیا… ہمیں زمینوں اور پلاٹوں کے شوق نے مٹی کا ڈھیر بنا دیا… اور ادھر اے آقا آپ کی توہین کرنے کی کوشش کی گئی… آقا ہم شرمندہ ہیں… اور آپ کی حرمت پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہیں… آقا معاف فرمادیں… آقا ہم شرمندہ ہیں…

٭٭٭


ایسا بہت مشکل ہے

 

 اللہ  تعالیٰ ان کے شر سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے… گذشتہ رات ریڈیو پر ان کی باتیں سنیں تو دل غم میں… اور سر ’’درد‘‘ میں ڈوب گیا… وہ مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے… بی بی سی اردو سروس والوں نے برطانیہ میں مقیم ’’اسلامی اسکالر‘‘ ڈاکٹر غیاث الدین صدیقی صاحب کو اپنے پروگرام ’’ٹاکنگ پوائنٹ‘‘ میں دعوت دی تھی کہ وہ… شان رسالت مآب صلی  اللہ  علیہ وسلم کی گستاخی کے مسئلے پر لوگوں کے سوالات کے جواب دیں… میں نے سوچا کہ شاید وہ امت مسلمہ کے زخموں پر مرہم رکھیں گے مگر وہ تو پکّے ’’روشن خیال‘‘ نکلے… ان کو ناپاک کارٹونوں پر اتنا دُکھ نہیں تھا جتنا صدمہ انہیں مسلمانوں کے احتجاج پر تھا… وہ آخرت کے خوف سے بے نیاز ہو کر عجیب عجیب باتیں بولتے چلے گئے…

علامہ اقبالؒ نے غالباً اسی لیے فرمایاتھا:

میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ

نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

ڈاکٹر غیاث الدین اس بات پر دُکھی تھے کہ مسلمان اتنے سخت جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟… اس سے تو یورپ کو بہت غلط میسج جائے گا اور وہ سمجھیں گے کہ مسلمان واقعی ’’شدت پسند‘‘ ہوتے ہیں… واہ ڈاکٹر صاحب واہ!… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی گستاخی پر بھی آپ کا دل نہ رویا… معلوم نہیں کس مٹی سے آپ جیسے لوگ بنے ہیں… آپ نے جس قدر ظالمانہ باتیں کیں ان کا جواب کسی نہ کسی دن تو آپ کو دینا ہی پڑے گا … کیا برطانیہ کی شہریت اتنی قیمتی چیز ہے کہ اس کی خاطر ’’غیرتِ ایمان‘‘ بھی بیچی جاسکتی ہے؟… آپ نے کفر اور اسلام کو برابر قرار دے کر  اللہ  پاک کی کتاب سے منہ موڑا… آپ نے کہا جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں اور جب کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر کسی اور مذہب کو اختیار کرتا ہے تو ہم اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں… تو کیا ڈاکٹر صاحب! کفر اور اسلام آپ کی نظر میں ایک جیسے ہیں؟… کیا ماضی میں کسی مسلمان اسکالر نے اسلام کی ایسی خوفناک گستاخی کی ہے؟… اگر کفر اور اسلام ایک جیسے ہیں تو پھر صحابہ کرام نے اسلام کی خاطر ماریں کیوں کھائیں؟… اور  اللہ  کے نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم نے پوری دنیا کو اسلام کی دعوت کیوں دی؟… پھر آپ نے کہا کہ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے اور ہم مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں… ڈاکٹر صاحب دنیا کس چیز میں آگے نکل گئی ہے؟… کیایہ دنیا اور اس کی زیب وزینت انسان کا مقصود ہے؟… دنیا تو قوم عاد کے زمانے میں بہت آگے نکل گئی تھی… اور قرآنی الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ انہوں نے موجودہ زمانے کی ترقی سے بہت زیادہ ترقی کرلی تھی… اگر جناب کو عربی آتی ہو تو ’’لعلکم تخلدون‘‘ کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ قوم عاد کی ترقی موجودہ زمانے کی ترقی سے کئی ہاتھ آگے تھی… تب حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں آخرت کی یاد دلائی… توحید کی دعوت دی… تو کیا آگے بڑھتی قوم کو  اللہ  کے نبی نے پیچھے دھکیلا؟… اور پھر قوم عاد اپنی تمام تر ترقی کے ساتھ تباہ کردی گئی… یاد رکھنا ڈاکٹر صاحب! موجودہ ترقی بھی اسی طرح تباہ ہوگی… اور تب آپ جیسے لوگ جنہوں نے ’’گاڑی اور موبائل‘‘ کو ترقی سمجھ کر اسلام کو حقیر قرار دیا ہے… بہت پچھتائیں گے، بہت پچھتائیں گے… ہائے کاش آپ نبی کریم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے ان حجروں کو یاد کرلیتے جن میں آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے زندگی بسر فرمادی… ڈاکٹر صاحب! کیا حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم دنیا سے پیچھے رہ گئے تھے؟… اس زمانے میں روم وفارس کے بادشاہ آج کے حکمرانوں سے زیادہ قیمتی لباس پہنتے تھے اور اپنے محلات اور کرسیوں کو سونے، چاندی سے سجاتے تھے… اگر اس زمانے میں آپ اور وحید الدین خان جیسے اسکالر زندہ ہوتے تو نعوذباللہ اسلام کو اس لیے ’’حقیر‘‘ کہہ دیتے کہ اسلام کے پیغمبر صلی  اللہ  علیہ وسلم نے دنیا کی غلاظت کے ڈھیر اپنے پاس جمع نہیں کیے تھے؟…

ڈاکٹر صاحب… قرآن اور دین کو بدلنے سے کام نہیں چلے گا آپ جیسے لوگ ہی مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں… آپ لوگ دین کے نام پر دنیا کی طرف بلاتے ہیں… آپ لوگ مسلمانوں کو ’’مہذب گیدڑ‘‘ بننے کی دعوت دیتے ہیں… آپ لوگ برطانیہ اور یورپ کی روشنی سے مرعوب ہیں… آپ لوگوں کے دلوں سے اسلام کی عظمت نکل چکی ہے… آپ لوگوں کو ’’فقرِغیور‘‘ کے معنیٰ بھول چکے ہیں… آپ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ انگریزی علوم پڑھیں… تاکہ یورپ کے بوٹ پالش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو… آپ بار بار ایک ہی جملہ دہرا رہے  تھے کہ یورپ سیکولرازم کی زبان سمجھتا ہے اس لیے ہمیں اس کے ساتھ یہی زبان بولنی چاہئے… تُف ہو ایسی عقل مندی اور دانشوری پر… ہم مسلمان ہو کر سیکولر زبان بولیں؟… آخر کیوں؟… کیا یورپ کا بدکار معاشرہ ہماراخدا ہے؟… کیا یورپ کے ناپاک لوگ دنیا کے حکمران ہیں؟… کیا ہماری کامیابی اور ناکامی کی چابی یورپ کے ہاتھ میں ہے؟… ہاں یورپ کے لوگوں نے مذہب کو شکست دی ہے، ہم یہ بات مانتے ہیں… مگر انہوں نے جھوٹے اور باطل مذاہب کو شکست دی ہے… اسلام کو شکست دینا ان کے بس میں ہی نہیں ہے… اسلام کی گود ابھی ہری ہے… اسلام کادامن ابھی تک فدائیوں سے لبریز ہے… ہمیں ہمارے نبی صلی  اللہ علیہ وسلم نے ایک زبان سکھلائی ہے … ہم کمزور ہوں یا طاقتور… ان شاء  اللہ … وہی زبان بولتے رہیں گے…

ہمارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم … ان کے پاؤں کی خاک پر میں قربان… انہوں نے اپنے مُٹھی بھر جاںنثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ میں… ایک … اسلامی ریاست قائم کی … بہت چھوٹی سی ریاست… بہت سادہ سی ریاست… اور آپ جیسوں کی نظر میں… (نعوذباللہ) غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ ریاست… اور پھر پوری شان کے ساتھ اس ریاست سے کچھ وفود روانہ ہوئے… انہوں نے پھٹے ہوئے پیوند لگے کپڑے پہن رکھے تھے… ا ن کی تلواروں کے دستوں پر لتّے بندھے ہوئے تھے… مگر ان کے دل احساس کمتری سے پاک تھے… جی ہاں… وہ احساس کمتری جس نے آپ جیسے اسکالرز کو دین کی تحریف پر مجبور کر رکھا ہے… ان وفود کے پاس کچھ ’’خطوط‘‘تھے… سرور دوعالم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے خطوط… یہ خطوط کچی دیواروں اور کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ’’مسجد نبوی‘‘ میں بیٹھ کر لکھے گئے تھے… ان خطوط کا سب سے نمایاں جملہ… جس کے ذریعے دنیا کے بادشاہوں کو خطاب کیا گیا تھا… سیکولر زبان میں نہیں تھا… اس جملے کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے… أَسْلِم تَسْلَم … اسلام لے لاؤ، سلامت رہو گے… ڈاکٹر صاحب! آپ کو تکلیف تو ہو گی… مگر میں اس جملے کا اصل ترجمہ لکھتا ہوں…

اے دنیا کے بادشاہو! سلامتی چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو…

واہ مزہ آگیا… سبحان  اللہ  کتنی خوبصورت زبان ہے… رب کعبہ کی قسم مسلمان کو بس یہی زبان زیب دیتی ہے… نمرود کے پاس حکومت تھی ترقی تھی… حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ’’سیکولر ڈائیلاگ‘‘ نہیں کیا… کلہاڑا اٹھایا… اور بتوں کو توڑ دیا… ڈاکٹر صاحب آپ کو تو بُرا لگا ہوگا… اس طرح تو نفرت پھیلتی ہے نا؟… مگر مجھے تو یہ ادا ایسی پسند آگئی کہ ہر دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کئی کئی بار سلام بھیجتا ہوں… اور نمرود کا نام تک نہیں لیتا… یاد رکھنا ڈاکٹر صاحب!… دنیا ٹونی اور بش کو بھول جائے گی… مگر میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم اور ان کے جاںنثار امتی زندہ رہیں گے… ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کے نزدیک یورپ کا ویزہ ہی سب کچھ ہے… اگرآپ کے نزدیک دنیا کی ترقی کامیابی کا معیار ہے… اگر آپ کے نزدیک اسلام اور مسلمان (نعوذباللہ) حقیر ہیں ، تب تو آپ سے بات کرنا فضول ہے…  اللہ  پاک آپ کے خیالات اور نظریات سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے… اور آپ کو قارون سے زیادہ دنیا کی ترقی اور فرعون سے زیادہ اونچا مقام عطا فرمائے… ہم لوگ تو غریب مسلمان ہیں…

 فرعون کا بڑا معزز مقام تھا (آپ کی سوچ کے مطابق) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈرتے چھپتے پھرتے تھے (خائفا یتر قب) قارون مزے کر رہا تھا اور ترقی پر ترقی کرتا چلا جارہا تھا … اور حضرت موسیٰ الٰہی علم سیکھنے کیلئے… بھوکے پیاسے جنگلوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے… اور جہاد کی خاطر ریگستانوں کی دھوپ جھیل رہے تھے… انہوں نے فرعون سے ڈائیلاگ شروع نہیں کیا تاکہ ترقی میں شریک ہوجاتے… ڈاکٹر صاحب ہم غریب مسلمان ہیں… ہمارے نبی حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کبھی کبھار بھوک کی وجہ سے کمر کو سہارا دینے کیلئے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے… اس لیے آپ جیسے ترقی اور عزت کے دلدادہ دانشوروں سے ہم نے کوئی بات نہیں کرنی… لیکن اگر آپ واقعی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہیں… اور آپ یہی سمجھتے ہیں کہ انگریز بن کر انگریز کا مقابلہ کرنے سے اسلام کو فائدہ پہنچے گا… اور یہ کہ مسلمانوں کو اسلامی غیرت اور جذبات کسی برف خانے میں رکھ دینے چاہئیں… اس سے اسلام کو فائدہ پہنچے گا… تو پھر ہمت کیجئے… اور ہمارے ساتھ دلائل سے بات کیجئے… القلم کے صفحات حاضر ہیں… ہم آپ کی ہر بات شائع کریں گے… اور ان شاء  اللہ  اسی کالم میں جواب دیں گے… اگر یورپ سے بات چیت ہوسکتی ہے تو… ایک غریب مسافر ’’سعدی‘‘ سے بات چیت میں کیا حرج ہے؟ آپ دل کھول کر دلائل دیجئے اور ہم ان شاء  اللہ  دل کھول کر جواب عرض کریں گے… یہ گز ہے اور یہ میدان… اسلام آپ کابھی دین ہے اور ہمارا بھی دین ہے… قرآن ہمارا بھی ہے اور آپ کا بھی… دور بیٹھ کر لوگوں کو ’’جاہل‘‘ کہنے سے کام نہیں بنے گا… دور بیٹھ کر لوگوں کو ان پڑھ بتانے سے کام نہیں بنے گا… آئیے ہم اور آپ خود کو…  اللہ  تعالیٰ کی کتاب کے حوالے کردیں… ہم خود کو سنت نبوی کے حوالے کردیں… ہم اسلاف امت اور فقہاء اسلام کی تحقیقات سے فائدہ اٹھائیں… اور ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کریں… اور حق بات کو تسلیم کریں…

 کاش خود کو ’’روشن خیال، اعتدال پسند اور روادار‘‘ کہنے والے … خود کو بھی اعتدال پسند اور ’’روادار‘‘ بنالیتے… مگر ڈاکٹر صاحب! ایسا نہیں ہے، امریکہ اور یورپ کے ہاتھ پر ’’روشن خیالی‘‘ کی بیعت کرنے والے بہت ظالم ہیں… اور دلیل کی بجائے طاقت پر یقین رکھتے ہیں… کیونکہ … ان کا ’’پیر‘‘ بھی طاقت کے زور پر اپنے ’’گند‘‘ کو روشن خیالی بنا کر دکھاتا ہے… مجھے آج اسلام آباد کے ہوٹل کی ایک تقریب یاد آرہی ہے… بہت اصرار کے ساتھ مجھے اس میں بلایا گیا تھا… میں نے بار بار انکار کیا… مگر جب حضرت مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ بھی دعوت دینے والوں میں شامل ہوگئے تو میں اس ’’محفل‘‘ میں حاضر ہوگیا… پاکستان کے ایک سابق فوجی جنرل اور وزیر داخلہ عدم تشدد اور رواداری پر درس دے رہے تھے… اور اسلام، اسلام کر رہے تھے… میں نے گستاخی کی… اور عرض کردیا کہ جناب اسلام، اسلام کرنے کی بجائے خود اسلام سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط؟… وزیر داخلہ صاحب ٹائم نکالیں، میں قرآن پاک کی سینکڑوں آیاتِ جہاد ان کو سناتا ہوں… وہ بھی… اپنے دلائل پیش کریں… ہمیں خود کو اور مسلمانوں کے بچوں کو مروانے کا شوق نہیں ہے… اور نہ جہاد سے ہماری روٹی روزی وابستہ ہے… ہم تو اس لیے جہاد کا نام لیتے ہیں کہ یہ اسلام کا ایک لازمی رُکن اور فریضہ ہے… میں اسی طرح کی باتیں کرتا چلا گیا اور وزیر داخلہ صاحب … کے چہرے کا رنگ بدلتا چلا گیا… رواداری اوربرداشت کا درس دینے والے ’’جنرل صاحب‘‘ خود چند حق باتیں برداشت نہ کر سکے اور انتقام لینے پر اتر آئے…

 اللہ  اکبر … آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی ہو تو … یہ ’’روشن خیالے‘‘ برداشت برداشت کا سبق یاد دلاتے ہیں… مگر جب خود ان کی ذات کا مسئلہ ہو تو پورے ملک کی سرکاری طاقت… اپنے ذاتی انتقام کے لئے جھونک دیتے ہیں… ان کے اسی روییّ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ’’روشن خیالی‘‘ کسی نظرئیے کا نام نہیں ہے… بلکہ یہ ’’ہندوفلاسفی‘‘ ہے کہ اپنے سے طاقتور کو سجدہ اور سیلوٹ اور اپنے سے کمزور کو لات اورمُکّا…

آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں… آپ خود کو ’’روشن خیال، اعتدال پسند‘‘ کہلانے والے کسی حکمران سے پوچھیں… جناب! کوئی (نعوذباللہ)  اللہ  تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرے تو ہم کیا کریں؟… جواب ملے گا برداشت کرو… اگر کوئی اسلام کیخلاف کچھ کرے؟… جواب ملے گا، کرتا رہے تم برداشت کرو… جناب کوئی بدبخت حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام، آپ کی ازواج مطہرات پر کچھ بکے؟… جواب ہوگا ہر کسی کی اپنی سوچ ہے، جذبات میں نہ آؤ… پھر پوچھیں… جناب کوئی آپ کو یا آپ کی حکومت کو بُرا بھلا کہے… آپ کی ذات پر کیچڑ اچھالے، آپ کی پالیسیوں پر تنقید کرے… جواب ملے گا کہ اس کو پکڑ لو، ماردو… گرفتار کرو… اور ایسے لوگوں کو ختم کردو…

وحید الدین خان ہو یا ڈاکٹر غیاث الدین صدیقی… ان سب کی خدمت میں پورے اخلاص کے ساتھ… ’’علمی مباحثے‘‘ کی دعوت پیش کی جاتی ہے… اگر آپ کا موقف سچا ہوا تو ہم انشاء  اللہ  اسے ضرور تسلیم کریں گے… اور اگر ہمارا موقف آپ کو درست معلوم ہو تو…  اللہ  کیلئے… اسلام اور مسلمانوں کو مزید ذلیل اور رُسوا قرار دینے کے جرم سے توبہ کرلیں… اور اگر  اللہ  تعالیٰ توفیق دے تو اسلام کی خاطر جہاد فی سبیل  اللہ  بھی کریں… اور دین کی خاطر ’’دنیا کے مفادات‘‘ کی قربانی دیں… مجھے معلوم نہیں کہ… یہ حضرات ہماری اس دعوت کو قبول کریں گے یا نہیں؟… معلوم نہیں یہ مباحثہ ہوگا یا نہیں؟… ہاں مجھے اور بہت کچھ معلوم ہے… مجھے معلوم ہے کہ بعض ماؤں نے اپنے جوان بیٹوں کو سینے سے لگا کر… دعاء دی ہے کہ…  اللہ  پاک تمہیں آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں تک موت کا پیغام بن کر پہنچائے… ہاں مجھے معلوم ہے … ابھی چند دن پہلے ایک خوبصورت اور تکڑا… پاک صاف، سیدھا سادہ نوجوان سویا ہوا تھا… کمرے میں اندھیرا تھا اور وہ جوانی کی گہری نیند میں غرق تھا… اچانک کمرے میں روشنی چھا گئی… زبردست روشنی… اس نے آنکھ کھولی… دیکھا کہ دروازے کو کسی نے دو تین انگلیوں سے پکڑ رکھا ہے… اور ان انگلیوں سے روشنی ہی روشنی پھوٹ رہی ہے… یہ منظر چند لمحے رہا… اور دو چار دن بعد… وہ … نوجوان قربانی کے پل سے گزر کر ان انگلیوں والے روشن اور معطر ہاتھ کے پاس چلا گیا … رب کی مہمانی… رب کی محبتیں … اور رب کے بلاوے… جو نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم ہمیں ایسے مزے کرا گئے… ہماری موت کو زندگی بنوا گئے… ہمارے لیے بشارتوں کے دروازے کھلوا گئے… اور ہمیں اصل زندگی کا راز بتا گئے… اس نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو… اور ہم زندہ رہنے کے خواب دیکھتے رہیں… ایسا بہت مشکل ہے… ایسا بہت مشکل ہے…

٭٭٭

 

ایک بھولا ہوا سبق

 اللہ  تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے… اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل… یہ پیاری دعاء حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اپنی پیاری امت کو سکھائی ہے… میں جس شہر میں رہتا ہوں وہاں ایک معیاری اور قدیم انگریزی اسکول ہے… اس ’’اسکول‘‘ کی تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ جاگیرداروں، بڑے تاجروں اور رشوت خور سرکاری افسروں کے علاوہ کوئی اپنے بچے کو یہاں داخل نہیں کراسکتا… جس محلے میں میرا بچپن گزرا اس پورے محلے میں سے صرف ایک لڑکا اس اسکول میں داخلہ حاصل کرسکا… وہ انکم ٹیکس کے ایک انسپکٹر کا بیٹا تھا… چند سال پہلے میں اس اسکول کے باہر سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ اس کے وسیع وعریض میدان میں گھوڑے دوڑ رہے ہیں… میں نے مقامی ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟… انہوں نے بتایا کہ اسکول کے ’’طلبہ‘‘ پولو کھیل رہے ہیں… اسکول کی طرف سے بہترین گھوڑوں پر پولو سکھانے اور کھیلنے کا مکمل انتظام موجود ہے… ادھر کراچی شہر کے مضافات میں ایک ’’دینی مدرسہ‘‘ ہے… پہلے وہ ایک زرعی فارم اور بھینس باڑہ تھا… ویرانی کا فائدہ اٹھا کر… علاقے کے ڈاکو ساری بھینسیں بھگا کر لے گئے… تمام بھینسیں خاموشی سے چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ چلی گئیں… کیونکہ ’’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘‘… فارم کے مالک پر  اللہ  تعالیٰ نے نظر کرم فرمائی… اس نے بیس ایکڑ پر محیط یہ پوری زمین… دین کیلئے وقف کردی… دین کے جن خادموں کو یہ زمین دی گئی وہ بے چارے خالی ہاتھ تھے… چنانچہ فارم کے مالک نے ان کے ساتھ مزید تعاون کیا کہ پوری زمین کے گرد چار دیواری بنوادی… ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرادی… اور بھینسوں کی سابقہ رہائش گاہ میں کچھ ترمیم واضافہ کرکے اسے رہائشی کمروں کی صورت دے دی… اور یوں صدقہ جاریہ کا ایک میٹھا دریا جاری ہوگیا… فارم کے مالک نے دو گھوڑے بھی پال رکھے تھے… وہ گھوڑے بھی اس نے مدرسہ میں دے دئیے… مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ… کبھی کبھار ان گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنا بدن ہلکا کرتے اور باہر سے آنے والے مہمانوں کو… گھڑ سواری کی دعوت دیتے… کراچی سے باہر ایک بیابان میں واقع اس غریب مدرسہ کے غریب طلبہ گھوڑے کی پیٹھ پر کیا بیٹھے کہ ہر طرف خطرے کے الارم بجنے لگے… ہوشیار، خبردار! مولوی ٹریننگ کر رہے ہیں، مولوی ٹریننگ کروا رہے ہیں… چنانچہ جہاں تک سڑک نہیں پہنچ سکی وہاں تک حکومتی ایجنسیوں کے اہلکار پہنچنے لگے… کئی ادارے حرکت میں آگئے… پوری عالمی برادری کے کان کھڑے ہوگئے… اور مدرسہ کی انتظامیہ سے ’’پوچھ تاچھ‘‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا… معلوم ہوا ہے کہ اب وہ گھوڑے مدرسہ سے نکال دئیے گئے ہیں… لیکن تازہ معلومات کے مطابق انگریزی اسکول کے گھوڑے بدستور دوڑ رہے ہیں… اور ان پر کسی خفیہ ایجنسی یا سرکاری ادارے کو کوئی اعتراض نہیں ہے…

دیکھا آپ نے کتنی عجیب بات ہے؟… مدرسہ میں دو گھوڑے برداشت نہ ہوسکے اور انگریزی اسکول میں درجنوں گھوڑے سر آنکھوں پر… وجہ بالکل واضح ہے کہ دنیا کے لوگ… علماء، دینی مدارس کے طلبہ اور دیندار مسلمانوں کو سست اور کمزور بنانا چاہتے ہیں… آج پاکستان کے ہر اسکول میں پی ٹی ماسٹر ہوتا ہے… اسکولوں میں ورزش کا باقاعدہ انتظام ہے اور یہ ایک لازمی چیز ہے… لیکن کیا مدرسہ میں بھی ورزش ممکن ہے؟… آپ دودن طلبہ کو ورزش کرائیں، تیسرے دن ملک کے محافظ… اپنی مونچھوں کو تاؤدیتے ہوئے پہنچ جائیں گے… اور بتائیں گے کہ یہ کام آپ لوگ نہ کریں… اس سے پاکستان پوری دنیا میں ’’بدنام‘‘ ہوتا ہے… اور پوری دنیا کو یہ ’’میسج‘‘ جاتا ہے کہ دینی مدارس میں جہاد کی تربیت ہوتی ہے… چنانچہ ورزش بند…

اے مسلمان بھائیو! یہ صورتحال بہت خطرناک اور نقصان دہ ہے… دینی طبقہ اگر سست ہوگیا تو اس کا نقصان پوری امت کو اٹھانا پڑے گا… آج ساری دنیا میں ورزش کا دور دورہ ہے… برطانیہ اور یورپ کے لوگ گھڑ سواری کرتے ہیں… کشتی رانی کرتے ہیں… پیلی نسل کے لوگ جوڈو کراٹے کے فن میں خوب محنت کر رہے ہیں… بدھ مذہب کے بھکشو (مذہبی رہنما) اپنے مذہبی اداروں میں باقاعدہ لڑائی اور دفاع کا فن سیکھتے اور سکھاتے ہیں… اور اسے اپنے مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں… ہندوؤں میں جگہ جگہ یوگا کے مراکز اور پہلوانی کے اکھاڑے کھل گئے ہیں… اور تقریباً ہر قوم اپنے جسم کو سستی اور کمزوری سے بچانے کی محنت کر رہی ہے… اس سب کے باوجود ایک سوچی سمجھی ’’اسکیم‘‘ کے تحت دیندار مسلمانوں کو زبردستی سستی میں دھکیلا جارہا ہے… تاکہ… دین کی امانت اٹھانے والوں کو کمزور کیا جاسکے… اب جبکہ امریکا اور یورپ نے مسلمانوں کے خلاف ہر طرف ظلم، دل آزاری اور گستاخی کے محاذ کھول دئیے ہیں… مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق خود کو چٹانوں کی طرح مضبوط اور چیتے کی طرح چست بنانا چاہئے… اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس میں مذہبی طور پر ’’سستی‘‘ کو گناہ قرار دیا گیا ہے اور جس طرح کفر اور نفاق سے پناہ مانگی گئی ہے… اسی طرح سستی اور کم ہمتی سے بھی  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے… اسلام میں گھڑ سواری ایک اعلیٰ عبادت اور جہاد کے لئے گھوڑا پالنا ایک بڑی نیکی ہے… ہمارے آقا حضرت محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم … خود بہت زبردست اور ماہر گھڑ سوار تھے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم بہترین تیر انداز تھے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے کُشتی میں عرب کے نامور پہلوانوں کو شکست دی… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم خود دوڑ لگایا کرتے تھے … اور آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم اس زمانے کا ہر مروّجہ ہتھیار چلانا جانتے تھے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم تیر اندازی، گھڑ سواری… اور نیزہ بازی کی محفلوں میں شرکت فرماتے تھے… اور اس طرح کی محفلوں کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے… جبکہ… اس کے برعکس اگر آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کسی کا پیٹ بڑھا ہوا دیکھتے تو اس کو پسند نہیں فرماتے تھے… اور نہایت لطافت کے ساتھ اس پر تنبیہ فرماتے تھے… حضرات صحابہ کرام نے آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ان تمام اداؤں کو اپنا لیا… اور اپنے جسموں سے سستی کے آخری قطرے تک کو نچوڑ کر پھینک دیا… ان حضرات کے نزدیک ’’بزرگ‘‘ وہ نہیں ہوتا تھا جو عورتوں کی طرح ہر وقت لپیٹا لپٹایا رہے… نزاکت سے چلے اور سستی کا گودام ہو… بلکہ ان کے ہاں تقویٰ اور بزرگی کا معیار کچھ اور تھا…

حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ دوڑ لگا کر چھلانگ لگاتے اور گھوڑے کی پشت پر سوار ہو جاتے… آج کوئی عالم دین اس طرح کرے تو لوگ کہیں گے اس میں ’’تقویٰ‘‘ نہیں ہے… اور ممکن ہے اس کے کئی مقتدی اس کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیں… یہ لوگ چاہتے ہیں کہ علماء میں ’’نفاق‘‘ پیدا کردیں… اور ان کے جسموں کو بے کار اور بے ڈھنگا بنادیں… دارالعلوم دیوبند کے تمام پرانے فضلاء بتاتے ہیں کہ وہاں جسمانی ریاضت اور ورزش کا مکمل انتظام موجود تھا… فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور  اللہ  مرقدہ کو تو ہم نے خود دیکھا کہ بنوٹ وغیرہ کے کتنے ماہرتھے… کچھ عرصہ پہلے راولپنڈی میں دیوبند کے فاضل ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے بھی دیوبند میں لاٹھی سیکھی اور کئی دیگر امور حرب کی تربیت لی… دراصل کافروں نے ہماری ناک کاٹنے کیلئے ان چیزوں کے خلاف اتنا شور مچادیا ہے کہ ہم نے بھی… بدنامی سے بچنے کیلئے اپنے ہاتھوں سے اپنی ناک کاٹنی شروع کردی ہے… کیا ورزش جرم ہے؟… کیا کُشتی سیکھنا جرم ہے؟… دفاع تو ہر انسان کا بنیادی حق ہے پھر اس سے اسے کس طرح محروم کیا جاسکتا ہے… پھر ہمارا دین تو دعوت اور جہاد والا دین ہے… اس میں بیٹھنے کا تصور ہی نہیں ہے… صحابہ کرام چلتے رہے، لڑتے رہے، بڑھتے رہے تو دین پورے عالم تک پہنچا… ماضی میں ہمارے تمام اسلاف بہت مضبوط، بہت چست اور بہت بہادرتھے… حضرت امام بخاریؒ کی ورزش اور تلوار بازی مشہور ہے… حضرت عبد اللہ  بن مبارک کی تلوار بازی شہرۂ آفاق تھی… حضرت امام احمد سرماری لکڑی کی چوب سے تلواروں کا مقابلہ کرتے تھے… یہ حضرات بہت شوق سے گھڑ سواری کرتے تھے… یہ کونے سنبھال کر بیٹھ جانے کی ’’بدعت‘‘ تو علماء میں بہت بعد میں پیدا ہوئی ہے… اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ اپنے جسموں کو امراض کا ’’میڈیکل اسٹور‘‘ بنانے کی بجائے… چستی اور محنت کا خزانہ بنائیں… دیندار مسلمان اپنی ڈاڑھی اور دستار کو ورزش کے راستے کی رکاوٹ نہ سمجھیں کہ لوگ ہنستے ہیں… آپ پاگلوں کو ہنسنے دیں… اور ورزش کو معمول بنائیں … دینی مدارس کے طلبہ تو ورزش اورجسمانی ریاضت کو خود پر فرض قرار دیں تاکہ دین کی امانت کا درست حق ادا کرسکیں… اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ… ہم لوگوں سے اس سلسلے میں جو غفلت اور سستی ہونی تھی… اس کا انجام تو ہم طرح طرح کی ’’بیماریوں‘‘ اور ’’بے کاریوں‘‘ کے ذریعہ بھگت رہے ہیں… اب ہمیں… اپنی آئندہ نسل پر رحم کرنا چاہئے… آج سے ہی اپنے بچوں کے لئے جسمانی صحت… اور جسمانی قوت کا ایک بہترین نصاب بنائیں… اور پھر اسلام کے مستقبل کی خاطر عبادت سمجھ کر اس نصاب پر محنت کریں… آپ اپنا ذہن بنالیں کہ ایک مسلمان کو کیا ہونا چاہئے؟… بس پھر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ویسا بنانے کی محنت شروع کردیں… ہمارا بیٹا بہترین گھڑ سوار ہو… ہمارا بیٹا کُشتی اور کراٹے کا فن جانتا ہو… ہمارا بیٹا تیراکی کا ماہر ہو… ہمارا بیٹا جب پندرہ سال کی عمر میں پگڑی باندھ کر گھوڑے کی باگ پکڑے تو پتا چلے کہ کوئی مسلمان نوجوان آرہا ہے… ایسا نہ ہو کہ… اس کے کمزور جسم اور انگریزی بالوں کو دیکھ کر… یہ پہچاننا مشکل ہوجائے کہ یہ ہی ہے یا شی؟… چہرے پر ڈاڑھی… مسنون بال… سر پر عمامہ یا ٹوپی،… دین کا علم… مضبوط عقیدہ… پاکیزہ مزاج… سخت اور پھرتیلا جسم… عقابی آنکھیں … آفاقی عزائم… ذکرکی محبت… فکر آخرت … تمام مروّجہ ہتھیاروں کی مہارت، تیراکی… تیراندازی، کشتی رانی… خوشخطی… علم تجوید و قرأت میں مہارت… اور چیتے جیسی تیزی … کیا آپ امت مسلمہ کو ایک ایسا بیٹا دینے کو تیار ہیں؟… یا … کمزور، لاغر… بدنظر، میوزک کا شوقین… منہ چھیلا… فارمی انڈا… ایسا نوجوان مسلمانوں کے کس کام کا؟… یہ تو ’’بش اور بلیئر‘‘ کے کام آئے گا… اس لیے اب مزید دیر نہ کریں فوری طور پر اپنی اولاد کی طرف توجہ دیں…ان کی غذا پر غور کریں اور ا سے صحت مند اور سادہ بنائیں… ٹافیاں‘ بسکـٹ‘ چیونگم اور سافٹ ڈرنک بالکل بند کردیں… گندم، مکئی اور جوار کی روٹی کا عادی بنائیں… اور دودھ اورپھلوں پر لائیں… پھر ان کی جسمانی ورزش اور تربیت کا کوئی محفوظ اور پاکیزہ نظام بنائیں… پھر ان کے ماحول کو صحت مند رکھنے کیلئے … انہیں ٹی وی، ناول، ویڈیوگیمز، کمپیوٹر… اور بلیئرڈ سے بچائیں… اور برے لوگوں کی صحبت سے انہیں نفرت دلائیں… پھر ان کی دینی تعلیم کا بندوبست کریں… تجوید، حفظ اور دینی علوم… اور ساتھ ساتھ ان کے نظریات میں… ایمانی غیرت کی بجلی ابھی سے بھرتے جائیں… اور یہ کام بچوں کی مائیں، پھوپھیاں اور خالائیں بہترین انداز میں کرسکتی ہیں… ٹھیک ہے ہم لوگ خود کچھ نہ بن سکے… مگر… ہم مدینہ منورہ کی گود میں اپنے جوان اور کڑیل بیٹے تو ڈال سکتے ہیں… ٹھیک ہے ہمارے جسم بنانے کا وقت غفلت میں گزر گیا… مگر ہم … اپنے بچوں کو تو مضبوط چٹانیں بنا سکتے ہیں…

اے مسلمانو! … یہ دین کی پکار ہے… اور یہی ہمارے پیارے دین ’’اسلام‘‘ کاتقاضاہے!

آئیے پھر صدق دل سے ہم سب مل کر… سستی اورکم ہتی کے عذاب سے بچنے کی دعاء مانگتے ہیں…

اللہم انا نعوذبک من العجز والکسل…

آمین یا رب الشہداء والمجاہدین ویا رب العالمین

٭٭٭

 

سنو! غور سے سنو

 

اللہ تعالیٰ کے محبوب اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے معزز ،کتنے محبوب اور کتنے پیارے ہیں… ان جیسی عزت اور شان روئے زمین پر نہ کسی کو ملی … اور نہ مل سکتی ہے… اب دنیا بھر کے اسلام دشمن کافروں کو اس کا اندازہ ہونے لگا ہے… حالانکہ ابھی تو امت مسلمہ نے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کا پہلا قدم اٹھایا ہے… یورپ کے تاجر پریشان اور وہاں کے اخبارات حیران ہیں… ڈنمارک کے اخبارات اپنا تھوکا ہوا خود چاٹ رہے ہیں… یقین کیجئے صرف احتجاج کے پہلے مرحلے پر ہی دنیاء کفر لرز کر رہ گئی ہے… ہاں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور شان بہت اونچی ہے… انکی گستاخی کا جرم کرنے والوں پر زمین تنگ ہو جائے گی… وہ گیدڑ کی ذلت والی زندگی جئیں گے اور کتے کی عبرتناک موت مریں گے… حالانکہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا… یہ تو غم کی سسکیاں ہیں آنسو تو ابھی باقی ہیں… یہ تو محض دھواں ہے آگ تو ابھی باقی ہے… امریکہ اور یورپ نے ’’مسلمان حکمرانوں‘‘ کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ … کسی طرح سے احتجاج کا یہ سلسلہ بند کیا جائے… مگر کہاں؟… دنیا کے ساتوں بڑے سمندر اپنے ہر طرف احتجاج ہی احتجاج دیکھ رہے ہیں… مسلمان تو مسلمان اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق احتجاج کرنے کے لئے بے تاب ہے… اے ظالمو! تم نے کوئی چھوٹا گناہ تو نہیں کیا… محمد عربی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسے جانثار دیئے ہیں کہ تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے… تمہیں اطمینان تھا کہ افغانستان پر تمہارا قبضہ ہے… اور کرزئی سب کچھ سنبھال لے گا مگر وہاں سخت احتجاج ہوا اور بندوقوں نے گولیاں برسائیں… تمہیں اطمینان تھا کہ ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمان اب ٹھنڈے پڑ چکے ہیں… مگر وہاں تو احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا… میرٹھ کے مسلمانوں نے اعلان کیا ہے کہ جو کارٹون بنانے والے ناپاک سرکو کاٹے گا اسے اکیاون کروڑ روپے کا انعام دیا جائے گا… اور میرٹھ کے مسلمان اسے سونے میں تول دیں گے… میرٹھ والو! تمہارا جذبہ مبارک! مگر معاف کرنا اسلام کے مجاہدین کو تم سے پہلے کسی نے … بہت بڑی قیمت کے بدلے خرید لیا ہے… ہاں اکیاون کروڑ سے زیادہ اور وزن کے برابر سونے سے بہت زیادہ قیمت دیکر خرید لیا ہے… معلوم ہے کس نے؟… ہاں مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے خرید لیا ہے… یہ بکے ہوئے لوگ ہیں اسی لئے تو کسی اور کی نہیں سنتے… کسی اور کی نہیں مانتے…

 مسلمانو! پچھلے چار سال سے تو تم نے ان مجاہدین کو بھلایا ہوا تھا… اب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک نے قربانی دی تو تمہیں جہاد بھی یاد آ گیا اور مجاہدین بھی… اب ہر کوئی غازی علم الدین کو یاد کر رہا ہے… اب ہر مسلمان دل کی گہرائی سے الجہاد الجہاد پکار رہا ہے… ہندوستان کے ایک مسلمان وزیر نے بھی غیرت کی آواز بلند کی ہے… ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں… مگر پاکستان کے وزراء کو ابھی کسی اور زمانے کا انتظار ہے… مجھے حیرت ہے کہ … جن لوگوں کے نزدیک ’’نفرت پھیلانا‘‘ سب سے بڑا جرم تھا وہ ابھی تک خاموش ہیں… انہوں نے کارٹونوں کی نفرت کو محسوس نہیں کیا؟ …  ہاں انکی ڈیوٹی صرف مسلمان انتہا پسندوں کو ختم کرنے پر لگائی گئی ہے… اس لئے انہوں نے ڈنمارک کے انتہا پسندوں کے خلاف اپنے ہونٹوں کو حرکت نہیں دی… نصیب اپنا اپنا… اور قسمت اپنی اپنی… یہ دنیا تیزی سے گزر رہی ہے ہر آدمی موت کی طرف بھاگ رہا ہے… قبر ہر ایک کو روزانہ ایک گز اپنی طرف کھینچ رہی ہے… کوئی خوش نصیب عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھول اور روشنی جمع کر رہا ہے… کوئی خوش نصیب جان ہتھیلی پر رکھے رب سے شہادت کی فریاد کر رہا ہے… اور کچھ ’’بدنصیب‘‘ ظلم اور غفلت کے انگارے جمع کر رہے ہیں… موت آئے گی تو فیصلہ ہو جائے گا… معلوم ہوا ہے کہ یورپ کے ایک وزیر نے کارٹون والی شرٹ پہنی… پھر اسے استعفیٰ دینا پڑا… معلوم ہوا ہے کہ یورپ کے تمام ممالک کے حکمرانوں نے ڈنمارک کو تعاون کا یقین دلایا ہے… اور آزادی رائے کے حق پر زور دیا ہے… اظہار رائے کی آزادی کا جھوٹ بہت خوفناک ہے… انگریزوں نے دنیا پر اپنے اقتدار کے زمانے میں ’’زبان بندی‘‘ کا قانون نافذ کیا… اور ہم اب تک اس کالے قانون کی نحوست بھگت رہے ہیں… اگر سب کچھ بولنے کی آزادی ہے تو پھر ’’دعوتِ جہاد‘‘ پر پابندی کیوں لگائی جاتی ہے… ٹھیک ہے میدان میں آ کر بہادروں کی طرح مقابلہ کرو… تمہارے دل میں جو کچھ آئے تم بولو… اور ہمارے دل میں جو کچھ آئے ہم بولتے ہیں… پھر دیکھتے ہیں کہ دنیا کا رنگ کیا ہوتا ہے… کیا یورپ ایک مہینے کے لئے… ہاں صرف ایک مہینے کے لئے یہ چیلنج قبول کر سکتا ہے؟… کبھی نہیں… تم نے تو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلمانوں کی آواز بند کی ہوئی ہے… تم تو کروڑوں… اربوں ڈالر خرچ کر کے دعوتِ جہاد کے راستے بند کراتے ہو… تم نے جہادی جلسوں پر پابندیاں لگوائیں… تم نے جہادی کیسٹوں کو جرم قرار دیا… اب کس ناپاک منہ سے تم ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کی بات کرتے ہو… جب تمہارے نزدیک کارٹون بنانے سے کچھ نہیں ہوتا تو پھر… مدرسوں میں دین کی خالص تعلیم دینے پر… تمہارے پیٹ میں کیوں درد ہونے لگتا ہے؟ جب رائے کے اظہار کی آزادی ہے تو پھر مدارس والے جو کچھ پڑھا رہے ہیں انہیں پڑھانے دو… جہاد کی دعوت دینے والوں کو … اپنی بات کہنے دو… اسلام کا پیغام پہنچانے والوں کو … کھلم کھلا بات کرنے دو… مگر تم تو طاقت اور پیسہ استعمال کر کے… مسلمانوں کی زبان روکتے ہو… اور پھر یہ جھوٹا دعویٰ بھی کرتے ہو کہ تم جمہوریت اور سیکولر ازم کے علمبردار ہو… تم لوگوں نے آخرت سے غافل ہو کر… دنیا کے عیش کو اپنا مقصود بنایا… اور پھر اپنی دنیا کی زندگی کو عیش وآرام سے بھرنے کے لئے مادی ترقی کی… اب تم یہودیوں کی انگلیوں پر ناچ کر اپنے عیش و آرام کو کیوں برباد کرنا چاہتے ہو؟… آج کی نازک دنیا کا تباہ ہونا اتنا ہی آسان ہے جس طرح تیل پر آگ کا لگنا… اگر تم مذہبی لوگ ہو اور تمہیں آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اختلاف ہے تو … پھر بدکاروں کی طرح گالیاں دینے… اور کارٹون بنانے کی بجائے تم مناظرے کے میدان میں اترو… انشاء اللہ مسلمان علماء… تمہارے علمی غرور کا نشہ اتاردیں گے… اگر تم بے دین ہو تو پھر… مقدس دینی ہستیوں پر انگلیاں اٹھانے سے باز رہو… خنزیر کی طرح کھائو پیو… آزاد خر مستیاں کرو اور مر جائو… اگر تمہیں جنگ کاشوق ہے تو پھر کھل کر میدان میں اترو… اور سازشی گِدھوں کی طرح مردار کھانے کی بجائے شیروں کی طرح میدان میں مقابلہ کرو… انشاء اللہ اسلام کے فدائی دستے تمہاری نام نہاد طاقت کا غرور توڑ دیں گے… اور اگر تم امن پسند اور مہذب ہو تو پھر… دوسروں کے جذبات کا احترام کرو… اور اس بات کو مت بھولو کہ دوسرے لوگ تم سے اچھے انسان ہیں… تم نے خود کو ’’پہلی دنیا‘‘ اور غریبوں کو ’’تیسری دنیا‘‘ کہہ کر جو نظام دنیا پر مسلط کیا ہے اب اس کے ٹوٹنے میں زیادہ دن باقی نہیں رہے…

اے مسلمانو! … ہمارے آقا… ہمارے محبوب حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری جوانی کے زمانے میں… گستاخی کا نشانہ بنایا گیا ہے… اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو حوض کوثر پرکس منہ سے… حاضری دیں گے… اے مسلمانو! تم نے جن کا لباس پہنا انہوں نے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی اللہ کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اس لباس پر تھوک دو… اور اسے نفرت کا نشان بنا دو… اے مسلمانو! تم نے جن کو خوبصورت سمجھ کر انکی طرح ڈاڑھیاں منڈوائیں… انکی طرح بال رکھے… تم نے دیکھ لیا کہ وہ کتنے گندے… کتنے بدصورت اور کتنے ناپاک ہیں… اللہ کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ان ظالموں کی شکلوں پر تھوک دو… اور اپنا چہرہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے سجا لو… سر پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت والے بال رکھ لو اور عمامہ سجا لو… رب کعبہ کی قسم اگر کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک شکل و صورت اور سنت اختیار کر لیں تو یورپ کے گستاخانِ رسول کانپ اٹھیں گے… اور درد سے چیخنے لگیں گے… اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’خصوصی رعب‘‘ عطاء فرمایا ہے… اس رعب کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی ہے… اور کئی صحیح احادیث میں بھی… اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رعب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں پر ایک مہینے کی مسافت کی دوری سے بھی پہنچ جاتا تھا… حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ … امت میں سے جو سچا مسلمان ہو گا… اور جو آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پکا فرمانبردار ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو بھی یہ رعب عطا فرمائے گا… آج بعض فقیر ومسافر مسلمانوں کے رعب سے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں لرزہ براندام ہیں… اے مسلمانو! ہم کافروں کا لباس پہن کر… ہم کافروں کی شکل بنا کر … ہم جہاد کی تربیت چھوڑ کر… اس رعب سے محروم ہو گئے… تب کچھ بدنسل کافروں کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کا موقع مل گیا… ہم میلاد کے حلوے کی دیگیں بانٹتے رہ گئے اور دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دستار مبارک پر حملہ کر دیا… اب بھی موقع ہے کہ سنبھل جائو اور توبہ کر لو… اور سیفٹی… بلیڈ اور شیونگ کریم کو نالی میں پھینک دو… تمہارے چہرے کی ڈاڑھی… اور تمہارے سر کا عمامہ ڈنمارک کی ٹانگیں ہلا دے گا …

اے مسلمانو! ہر گھر میں فضائل جہاد کی تعلیم کو لازم کر لو… ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم غزوہ بدر کو پڑھیں… ہم غزوہ احد کو سمجھیں … اور ہم غزوہ تبوک کے درد کو محسوس کریں… ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد میں کس طرح سے زخمی ہوئے… اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کیا کیا؟… اے مسلمانو! ہم پر لازم ہے کہ ہم ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے… قرآن پاک کے حکمِ جہاد کو سمجھیں… قرآن پاک پانچ سو سے زائد آیتوں میں جہاد کا حکم سناتا ہے… جہاد کا حکم سمجھاتا ہے… ایسی کیسٹیں بازار میں ملتی ہیں جن میں… ان آیات جہاد کی تفسیر موجود ہے… اے مسلمانو!… عشق مصطفی کی شمع کا پروانہ بننے کے لئے جہاد کی تعلیم کو عام کرنا ہو گا… جب جہاد کی آیات کے بغیر قرآن مکمل نہیں ہو سکتا تو پھر… جہاد کے بغیر ایک مسلمان کس طرح سے مکمل مسلمان ہو سکتاہے… اللہ کرے مظاہرے ہوتے رہیں… بحر اوقیانوس سے لیکر بحر احمر تک شانِ مصطفی کے نعرے بلند ہوتے رہیں… اللہ کرے مسلمانوں کا یہ جذبہ مزید بیدار ہو… اللہ کرے مسلمان حکمرانوں کو بھی عشق رسول کا کوئی مبارک ذرہ نصیب ہو جائے… یہ سب کچھ اپنی جگہ… مگر وقت کا تقاضا کچھ اور ہے… ہاں ایسے مسلمان… جن کا من بھی مسلمان ہو… اور تن بھی مسلمان… جن کا ظاہر بھی مسلمان ہو اور باطن بھی مسلمان… جو خود کو مسلمان کہلوائیں اور پھر اپنے عمل … شکل اور کردار سے مسلمان نظر بھی آئیں جو اسلام ہی کو سب سے بڑی عزت سمجھیں اور دنیا کی ظاہری ترقی سے مرعوب نہ ہوں… ہاں ایسے مسلمان جو خود کو… اللہ تعالیٰ کے پاس بیچ دیں… اس کی پیاری رضا… اور اس کی حسین جنت کے بدلے… ہاں ایسے مسلمان جن کے خون میں… عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو ہو… اور جو فقیری کو شاہی پر ترجیح دیں…

ہاں ایسے مسلمان… جو پورے عالم کو مسلمان کرنے کا عزم اور جذبہ رکھتے ہوں… اور جن کے نزدیک زندگی کا مطلب… اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان ہونا ہو… ہاں ایسے مسلمان وقت کا تقاضا ہیں… اور ایسے مسلمان وقت کی ضرورت ہیں… مسجد نبوی کے میناروں سے آواز آرہی ہے… ہاں…  اللہ پاک کی قسم آواز آ رہی ہے… اشھد أَن محمد رسول اللّٰہ… میں گواہی دیتا ہوں… محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم… اللہ کے رسول ہیں… سبز گنبد مسلمانوں سے پوچھ رہا ہے… کیا اس آواز کو مانتے ہو؟… کیا اس آواز کو مانتے ہو؟… کیا اس آواز کو مانتے ہو؟… اگر مانتے ہو تو پھر خود کو اس کے مطابق ڈھالتے کیوں نہیں؟ … اس آواز کو ماننے والے ویسے تو نہیں ہوتے جیسے تم ہو… جائو دیکھو… اس آواز کے ماننے والے کیسے تھے… وہ دیکھو احد میں کٹے پڑے ہیں… وہ دیکھو بدر میں اپنے زخموں کے ساتھ موجود ہیں… وہ دیکھو… وہ دیکھو… وہ دیکھو… وہ کہاں کہاں تک جا پہنچے… مگر تم تو … رنگین فلموں… اور ناپاک ٹی وی چینلوں میں گم ہو چکے ہو… اٹھو اب توبہ کرو… غسل کرو اور پاک ہو جائو… گنبد خضراء بلا رہا ہے… گنبد خضراء پکار رہا ہے…

٭٭٭

 


 

بش کی بشیاں

 

 اللہ  تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ… فرعون اپنی ’’فرعونیاں‘‘ دکھا کر دنیا سے چلا گیا … وہ پانی میں ڈوب مرا… اور اب قرآن پاک کی آیت کے مطابق آگ میں جل رہا ہے… وہ خود کو نعوذباللہ ’’الہٰ العالمین‘‘ اور ’’بڑا رب‘‘ کہا کرتا تھا… مگر جب وقت آیا تو  اللہ  تعالیٰ کی ایک مخلوق ’’پانی‘‘ نے اس کو اُلٹا کردیا… اور مظلوموں کو اس کے ظلم سے نجات مل گئی…

 اللہ  تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ بش اپنی ’’بشیاں‘‘ دکھا کر جنوبی ایشیاء سے چلا گیا… فرعون کی ’’فرعونیاں‘‘ اور بش کی ’’بشیاں‘‘ آپس میں ملتی جلتی ہیں… حتیٰ کہ دونوں کی خارجہ پالیسی اور الفاظ بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں… فرعون کی ’’فرعونیاں‘‘ اور بش کی ’’بشیاں‘‘ کیا ہیں؟ اس کا تذکرہ ان شاء  اللہ  کچھ آگے چل کر… پہلے دو ایمان افروز واقعات پڑھ کر اپنے دل کو ہمت اور قوت کی ’’خوراک‘‘ دیتے ہیں…

حضرت آسیہ رضی  اللہ  عنہا کا واقعہ

فرعون کو جب آسیہؓ کے ایمان کی خبر ہوئی تو کہنے لگا شاید تجھے جنون ہوگیا ہے، آسیہؓ نے فرمایا مجھے تو جنون نہیں ہوا، لیکن یہ سچ ہے کہ میرا اور تیرا بلکہ تمام زمین و آسمان کا ایک ہی معبود ( اللہ  تعالی) ہے… جس کا کوئی شریک نہیں، اس پر اس نے آسیہؓ کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور نہایت سختی سے مارا اور میکے بھیج دیا اور کہلا بھیجا کہ اس پر پاگل پن سوار ہوگیا ہے۔ آسیہؓ نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ میرا اور تم سب کا رب بلکہ تمام آسمان اور زمین کا رب ایک ہی ہے… ان کے باپ نے کہا آسیہ! میں نے ’’الہٰ العالمین‘‘ سے تیرا نکاح کردیا تھا اور تو نہایت خوبصورت عورت ہے… (پس ایمان چھوڑ اور دنیا کی ترقی کے مزے اڑا) آسیہؓ نے جواب دیا ایسی باتوں سے  اللہ  کی پناہ! اگر تم دونوں سچے ہو تو مجھے ایک تاج تو پہنادو، جس کے سامنے سورج اور پیچھے چاند اور گرد اگرد ستارے جڑے ہوں… (مقصد یہ تھا کہ تمہاری دنیا کی حکومت اور ترقی  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے) اس پر فرعون نے آسیہؓ کو میخوں سے عذاب دینا شروع کیا… ہاتھ پاؤں میں میخیں گاڑ دیں… اور قصاب کو بلا کر حکم دیا کہ اس کے ساتھ اسی طرح پیش آ جس طرح تو ذبح کرنے کے بعد بکری کے ساتھ پیش آتا ہے، اس وقت فرشتے بولے کہ اے پروردگار! یہ عورت فرعون کی بلا میں پھنس گئی ہے…  اللہ  تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ یہ تو ہماری ملاقات کی مشتاق ہو رہی ہے، پھر جب نزع تک نوبت پہنچی تو  اللہ  تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا (حالانکہ وہ خود خوب علم رکھتا ہے) کہ میری بندی کے ہونٹ ہل رہے ہیں ذرا سنو! کہ کیا کہتی ہے… جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یا رب وہ تو یہ کہہ رہی ہے …

رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنۃ ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی من القوم الظالمین…

اے میرے رب! جنت میں اپنے پاس میرے لیے ایک گھر بنا دیجئے اور مجھ کو فرعون سے اور اس کے عمل سے محفوظ فرمادیجئے اور مجھ کو تمام ظالم لوگوں سے نجات دلا دیجئے!…

یہاں یہ قصہ گزر رہا تھا کہ قصاب کھال کھینچتا جاتا تھا اور ادھر  اللہ  تعالیٰ نے آسیہؓ کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا ان کی نظر ادھر لگی ہوئی تھی اور زبان پر ’’ اللہ   اللہ ‘‘ جاری تھا… چنانچہ اسی وقت ان کی نظر پڑی تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک سفید موتی کا بنا ہوا مکان ہے اور اسی حالت میں ان کی روح جسم سے نکل گئی… (نزہۃ المجالس)

آسیہؓ کامیاب ہو گئیں اور جنت کی ہمیشہ والی نعمتوں میں جا بیٹھیں، قیامت کے بعد ان کی شان اور زیادہ بلند ہو جائے گی… اور انہیں سرورکونین حضرت محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوگی… جبکہ فرعون دنیا کے عارضی مزے کرکے مر گیا… اب آگ میں جل رہا ہے اور قیامت کے دن اس کے عذاب کو اور سخت کردیا جائے گا… چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے…

(ترجمہ) اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آپڑا وہ صبح شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ (المومن۴۵،۴۶)

مسلمان خود فیصلہ کرلیں کہ کون کامیاب رہا اور کون ناکام؟

فرعون کی ملازمہ کا واقعہ

رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو براق زمین اور آسمان کے درمیان چلتا تھا، جہاں تک نظر جاتی تھی اس کا ایک قدم ہوتا تھا (اچانک) خوشبو آنے لگی آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ جنت کی خوشبو ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہاں سے جنت بہت دور ہے… واقعہ یہ ہے کہ فرعون کی ایک ملازمہ تھی جو اس کی بیٹی کو کنگھا کیا کرتی تھی… ایک دن وہ کنگھی کر رہی تھی کہ کنگھی اس کے ہاتھ سے گر گئی تو اس کے منہ سے کلمۂ توحید ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ نکل گیا… جب  اللہ  والے کی زبان سے بات نکلتی ہے تو پھر وہ چھپتی نہیں ہے بلکہ پہلے سے زیادہ پھیل جاتی ہے، فرعون کی بیٹی نے کہا میرے باپ کے سوا تیرا اور کوئی معبود ہے؟ اس نے جواب دیا میرا اور تیرے باپ کا معبود بلکہ تمام آسمان وزمین کا ایک ہی معبود ( اللہ  تعالیٰ) ہے… اس نے … فرعون کو خبر کردی، فرعون نے اس کو بلوا کر ماجرا دریافت کیا… ملازمہ نے کہا ہاں ایسا ہی ہے… میں اس  اللہ  کو مانتی ہوں جس نے مجھے پیدا کیا اس پر فرعون نے اس کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیئے، اس ملازمہ کی دو بیٹیاں تھیں ایک شیرخوار اور دوسری تین چار سال کی، فرعون نے بیٹیوں کے ذبح کرنے کی دھمکی دی ماں برابر ڈٹی رہی… اس پر فرعون نے بڑی بیٹی کو ذبح کر ڈالا اور چھوٹی بیٹی کو ماں کے سینے پر رکھ دیا، ماں گھبرائی، اس پر  اللہ  تعالیٰ نے شیرخوار بچی کو زبان دی، اس نے کہا امی جان! میری بہن جنت میں میرا اور آپ کا انتظار کر رہی ہے… ظالم نے ماں اور بیٹی کو ذبح کردیا… (جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا) آج یہ … اس کی قبر سے خوشبو آرہی ہے جو ساتویں آسمان تک پہنچتی ہے…(نزہۃ المجالس)

یہ واقعات اگرچہ ’’اسرائیلی‘‘ ہیں مگر میں تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سورۃ اٰل عمران کی آیت (۱۶۹) تا (۱۷۱) میں شہداء کے فضائل، ان کی شان، ان کے مزے، ان کے ٹھاٹھ پڑھ کر دیکھ لیں… تب معلوم ہوگا کہ یہ واقعات بھی اسی نوعیت کے ہیں… اللہ  پاک ’’شہداء‘‘ کو جو کچھ دیتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے… تفسیر کبیر میں امام رازیؒ نے ان آیات کی ایسی تفسیر لکھی ہے کہ جسے پڑھ کر دنیا کی حکومتیں… اور یہاں کی ترقی اور ٹھاٹھ ایک فضول کھیل اور مذاق معلوم ہوتے ہیں… شہادت کے انہی سچے اور پکے فضائل نے تو صحابہ کرام کو گھروں میں بیٹھنے نہ دیا… اور وہ روم وفارس سے ’’معاہدوں‘‘ کی بھیک مانگنے کی بجائے ان پر چڑھ دوڑے… اور پھر نہ دنیا میں قیصر رہا نہ کسریٰ… اللہ  پاک نے ان کو سمجھایا کہ تم دنیا میں اچھلتے پھرتے ان کافروں سے مرعوب نہ ہونا… بلکہ… ان تک اسلام کا پیغام پہنچانا… صحابہ کرام نے لبیک کہا اور پھر اسلام پورے عالم پر چھا گیا… اگر وہ بھی ظاہری ترقی پر نظریں گاڑ دیتے تو آج میں اور آپ اسلام کی نعمت سے محروم ہوتے… اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ فرعون کی فرعونیاں … اور بش کی بشیاں ملتی جلتی ہیں…

فرعونیاں اور بشیاں

(۱)

فرعون کی پہلی ’’فرعونی‘‘ کہ وہ خود کو بہت کچھ سمجھتا تھا… اللہ  پاک کا ارشاد ہے

(ترجمہ) پھر فرعون نے سب کو جمع کیا پھر پکارا… پھر کہنے لگا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں (النازعات ۲۳۔۲۴)

آپ ’’بش‘‘ کے دعوے سن لیں… آج کل چونکہ بادشاہت کی جگہ ’’جمہوریت‘‘ کا دور ہے اس لیے وہ اپنے ملک کو ’’سپر پاور‘‘ کہتا ہے…

(۲)

فرعون کی دوسری ’’فرعونی‘‘…

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد ہے :

(ترجمہ) بے شک فرعون زمین پر (اپنی بڑائی قائم کر رہا تھا اور) سرکش ہوگیا تھا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا تھا (اس نے) ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کر رکھا تھا، ان کے لڑکوں کو قتل کرتاتھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا، بے شک وہ فسادیوں میں سے تھا (القصص۴)

فرعون کی ’’فرعونیوں‘‘ کا نشانہ… بنی اسرائیل تھے… اور بش کی ’’بشیوں‘‘ کا نشانہ ’’مسلمان‘‘ ہیں… افغانستان، عراق، فلسطین اور ہر جگہ… مسلمانوں کے بیٹے ذبح کیے جارہے ہیں … اور ان کی بیٹیوں کو یتیم اور بیوہ کرکے مشکل زندگی سے دوچار کیا جارہا ہے… فرعون نے لوگوں کو بانٹ دیا… بش نے بھی انسانوں کو بانٹ دیا… فرعون نے قبطیوں کو ہر ظلم کی آزادی دے دی، بش نے بھی مسلمانوں کے دشمنوں کو کھلی چھوٹ دے دی… فرعون نے ’’سبطیوں‘‘ کو تباہ کرنے کا اعلان کیا جبکہ بش ’’مجاہدین‘‘ کے خاتمے کی باتیں کرتا ہے…

(۳)

فرعون کی ایک اور ’’فرعونی‘‘ کو قرآن پاک یوں بیان فرماتا ہے

(ترجمہ) اور فرعون میخوں والے کے ساتھ ( اللہ  تعالیٰ نے کیا کیا) (الفجر۵)

 یعنی فرعون میخوں والا تھا… ایک معنیٰ یہ کہ اپنے مخالفین کو سخت اذیت پہنچاتا تھا… اور دوسرا معنیٰ یہ کہ بہت فوجی طاقت والا تھا…

معلوم نہیں فرعون کے عقوبت خانوں کا نام کیا تھا… مگر بش کے عقوبت خانوں میں سے بعض کے نام معلوم ہیں… ’’ابوغریب جیل‘‘، ’’گوانٹا ناموبے‘‘ کا ایکسرے کـیمپ… ’’بگرام ایئر بیس‘‘ کا ٹارچر سینٹر… اور بہت سے خفیہ عقوبت خانے… جہاں قیدیوں کے جسموں میں ظلم کی میخیں گاڑی جارہی ہیں… جہاں انہیں مارا جاتا ہے… جہاں انہیں جلایا جاتا ہے اور یہ سب قیدی مسلمان ہیں… صرف مسلمان…

(۴)

بش نے ابھی اپنے حالیہ دورے کے دوران… کابل میں کہا مٹھی بھر مجاہدین ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… ہم ان کو پکڑ لیں گے… ہماری طاقت کا ان کو اندازہ نہیں… بش کی یہ ’’بشیانہ‘‘ دھمکیاں فرعون کی ’’فرعونی‘‘ دھمکیوں سے ملتی جلتی ہیں… ملاحظہ فرمائیے قرآن پاک کی یہ آیات…

(ترجمہ)پھر فرعون نے شہروں میں اپنے نمائندے بھیجے کہ (موسیٰ اور ان کے ساتھی) یہ ایک تھوڑی سی جماعت ہے اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے اور ہم سب ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ (الشعراء ۵۳تا۵۶)

آج بش کے سفیر اور نمائندے دنیا بھر کے ملکوں میں… یہی اعلان کر رہے ہیں … اور ہر طرف سے مسلمانوں کے خلاف امداد اور تعاون مانگ رہے ہیں… اور انہیں اپنے اسلحہ پر ناز ہے… فرعون نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ’’اتحاد‘‘ بنایا… اور بش نے بھی مسلمانوں کے خلاف اتحاد بنایا ہے… قرآن پاک بار بار بتاتاہے کہ فرعون نے اپنے اتحادیوں کو بھی ذلیل وناکام کرایا… اب دیکھیں بش کے اتحادیوں کا … کیا بنتا ہے؟

(۵)

فرعون کی ایک ’’فرعونی‘‘ یہ تھی کہ وہ  اللہ  تعالیٰ کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نعوذب اللہ  ’’حقیر‘‘ سمجھتا تھا… چنانچہ قرآن پاک بتاتا ہے…

(ترجمہ) اور فرعون نے اپنی قوم میں اعلان کرکے کہا، اے میری قوم کیا میرے پاس مصر کی بادشاہت نہیں ہے اور کیا یہ نہریں میرے (محل کے) نیچے سے نہیں بہہ رہی ہیں کیا تم نہیں دیکھتے؟ کیا میں اس سے بہتر نہیں ہوں جو (نعوذباللہ) ذلیل ہے اور صاف بات بھی نہیں کرسکتا… (الزخرف۵۱۔۵۲)

آگے قرآن پاک بہت دلچسپ بات فرماتاہے…

(ترجمہ) پس اس نے اپنی قوم کو احمق بنادیا تو وہ اس کے کہنے میں آگئے کیونکہ وہ بدکار لوگ تھے… (الزخرف ۵۴)

آگے  اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے…

(ترجمہ) پس جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا…

ان تمام آیات کو بار بار پڑھیں… کیا فرعون کی ’’فرعونیاں‘‘ اور بش کی ’’بشیاں‘‘ ملتی جلتی نہیں ہیں؟…

قرآن پاک کے اٹھائیس پاروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ مذکور ہے… اور فرعون کی مزید ’’فرعونیاں‘‘ بھی بیان کی گئی ہیں… ہم نے صرف چند مثالیں پیش کردی ہیں جو سمجھنے والوں کیلئے انشاء  اللہ  … کافی ہیں…

فرعون نے بنی اسرائیل پر کیا کیا مظالم ڈھائے؟… فرعون نے ظلم کا کیسا بازار گرم کیا؟… فرعون کی طاقت اور ترقی کا کیا عالم تھا؟ فرعون نے کیسی کیسی حماقتیں کیں؟… فرعون کی کابینہ کے لوگ کون تھے اور کیسے تھے؟… فرعون ذاتی طور پر کیسا بزدل تھا؟… فرعون کا بدترین انجام کس طرح ہوا؟… یہ سب کچھ قرآن پاک میں موجود ہے… بش جی نے جنوبی ایشیاء کا دورہ کیا… افغانستان پر ہاتھ رکھا… پاکستان کو پاؤں دکھایا… اور باقی سب کچھ بھارت کے لئے وقف رکھا… ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے… کیونکہ قرآن پاک کا واضح اعلان ہے کہ… یہود ونصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں سے راضی نہیں ہوسکتے… اور جن مسلمانوں سے وہ راضی ہوتے ہیں وہ مسلمان… مسلمان نہیں رہتے… اس لیے ہمیں کوئی شکوہ نہیں کہ اس نے یہاں کم وقت کیوں دیا… اس نے کوئی معاہدہ کیوں نہیں کیا… اس نے یہاں کھانا کیوں نہیں کھایا… اس نے رہائش کیلئے اپنا سفارت خانہ کیوں منتخب کیا… مجھے معلوم ہے کہ بہت سے قلمکار ان تمام باتوں کا رونا روئیں گے… اور شکوؤں کی پٹاری کھولیں گے کہ… اس نے بھارت کو یہ دیا اور بھارت کو وہ دیا… اور ہمیں کچھ نہیں دیا… مگر سعدی کو کوئی شکوہ نہیں ہے…  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں بش کو راضی کرنے کیلئے پیدا نہیں کیا… بلکہ ہم اس کے راضی ہونے سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… بش نہ کسی کو زندگی دے سکتا ہے نہ موت… نہ وہ عزت کا مالک ہے اور نہ ذلت کا… اور نہ اس کی دوستی مرنے کے بعد کچھ کام آسکتی ہے… جب اصل دور شروع ہوگا… اور لمبی زندگی شروع ہوگی… ہم فقیروں کی خواہش اور تمنا ہے کہ…  اللہ  کرے ہم مسلمان رہیں… اور ہمارا رب  اللہ  تعالیٰ … ہم سے راضی ہوجائے… بے شک  اللہ  ایک ہے… اس کا کوئی شریک نہیں…

٭٭٭


 

ایک راز

 

 اللہ  تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے… اس وقت ’’عیسائیوں‘‘ نے امت مسلمہ کے خلاف جنگ کی کمان سنبھال رکھی ہے… وہ ہم سے ہر جگہ لڑ رہے ہیں… اور اب ’’ناپاک کارٹون‘‘ بنا کر اس جنگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں… قرآن پاک کی تیسری سورۃ کا نام ’’سورہ اٰل عمران‘‘ ہے… حضرات مفسرین کے نزدیک اس سورۃ کا اہم ترین موضوع… عیسائیوں کی اصلاح ہے… چنانچہ حضرت لاہوریؒ لکھتے ہیں…

’’سورۃ بقرہ میں یہود مخاطب بالذات تھے اور نصاریٰ بالتبع۔ ٰال عمران میں نصاریٰ کی اصلاح مقصود بالذات ہے اور یہود کی بالتبع، حضرت شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا یہی خیال ہے ‘‘ (حاشیہ حضرت لاہوریؒ)

حضرت دریا بادیؒ لکھتے ہیں…

سورۂ بقرہ میں خطاب جس طرح خاص طور پر یہود کی جانب تھا، کہا جا سکتا ہے کہ اسی طرح اس سورۃ میں ’’مسیحیوں‘‘ کی جانب ہے… (تفسیر ماجدی)

عیسائی اپنی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کرتے ہیں جو… اللہ تعالیٰ کے برحق رسول اور نبی ہیں… اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب ’’انجیل‘‘ نازل فرمائی… مگر ’’عیسائی‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے کچھ عرصہ بعد… حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل سے دور ہو گئے… تب وہ مال اور عیاشی کے پجاری بن گئے… اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ’’زھد‘‘ کو بھلا دیا… دنیا مانتی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس فانی اور بے کار دنیا کو کسی بھی طرح اپنے قریب نہ آنے دیا… وہ اس بھری دنیا میں ایک پیالے اور ایک تکیے کے مالک تھے… پھر انہوں نے ان دو چیزوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں دے دیا… آج فانی دنیا کے پیچھے پاگلوں کی طرح دوڑتے عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کیا رشتہ؟… ان لوگوں نے ’’انجیل‘‘ کو بھی بدل دیا… اور مسلسل بدلتے جا رہے ہیں… آج پاکستان سے لے کر مراکش تک ہر اسلامی ملک میں وہ ’’پیغام محبت‘‘ کے نام سے جو پمفلٹ اور کتابچے تقسیم کرتے ہیں… ان کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو مرتد بنانا ہوتا ہے… خیر اپنی اپنی قسمت ہے… مجھے آج کچھ اور عرض کرنا ہے… ورنہ ان کے ’’مشنری اداروں‘‘ پر کچھ عرض کرتا… اب تو ہمارے قومی اخبارات میں ان کے ’’ارتدادی لٹریچر‘‘ کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں… یعنی مسلمان مالکوں اور ایڈیٹروں کے اخبارات… مسلمانوں کو اسلام سے مرتد کرنے کی دعوت میں شریک ہو رہے ہیں… قسمت اپنی اپنی ہے… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کے لئے… اور تمام انسانیت کے لئے بھیجا ہے… آپ کی تشریف آوری کے بعد اب کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے… اور وہ ہے ’’دین اسلام‘‘… آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو دنیا میں یہودی بھی موجود تھے اور عیسائی بھی… مشرک بھی موجود تھے اور مجوسی بھی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو بتایا کہ سابقہ تمام مذاہب اور ادیان اپنی اصل پٹڑی سے اتر چکے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے ان کو منسوخ کر دیا ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز ’’مشرکین مکہ‘‘ سے کیا… ان میں سے کچھ مسلمان ہوئے… باقی نے پتھر مارے اور تلواریں نکال لیں… اللہ تعالیٰ قرآن پاک کی ’’متعدد سورتوں‘‘ میں انہیں سمجھانے… اور ان سے نمٹنے کے طریقے بتاتے ہیں… پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچ کر ’’یہودیوں‘‘ کو دعوتِ اسلام دی… ان میں سے چند خوش نصیب اسلام لے آئے… اور باقی ضد اور حسد پر اتر آئے… اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح… ان کے امراض، اور ان سے نمٹنے کے طریقے بیان فرمائے… سورۃ بقرہ اول تا آخر پڑھتے جایئے… دل عش عش کرتا ہے… اور زبان الفاظ کے بوسے لیتی ہے… ملک عرب میں ’’عیسائی‘‘ بھی موجود تھے اور ان کا ’’کلیسا‘‘ بھی قائم تھا… یعنی روم کے کلیسا کا نمائندہ… یمن کے شمال میں ایک علاقہ تھا ’’نجران‘‘… وہ عرب میں ان کا گڑھ تھا… اور ان کی مذہبی قیادت وہاں رہتی تھی… نجران کے عیسائیوں اور لاٹ پادریوں کا ایک بڑا وفد… حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے… مدینہ منورہ آیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفد کا بہت اکرام فرمایا… اور خوب توجہ اور تسلی سے انہیں دعوت دی… وہ اپنے ساتھ اعتراضات اور شبہات کی پوٹلیاں بھر کر لائے تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خندہ پیشانی سے ان کی باتیں سنیں… اور ان کو ایسے جوابات دیئے کہ قیامت تک کے لئے کافی ہو گئے… حقیقت یہ ہے کہ نجران والوں کو اسلام سمجھ آگیا تھا… ان کے دل جھک گئے تھے مگر… مال، ھائے مال… خبیث دنیا کے ٹھاٹھ نے انہیں اسلام کی دولت سے محروم رکھا… اس موقع پر وہ واقعہ یاد آرہا ہے جو… ’’رد عیسائیت‘‘ کے اسپیشلسٹ مفسر نے لکھا ہے… لیجئے آپ بھی اس واقعہ کا خلاصہ ملاحظہ فرمایئے تاکہ آپ کو ’’عیسائیت‘‘ کے سمجھنے میں مدد ملے…

’’ نجران سے جو وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اس میں ان کا بڑا پادری ’’ابو حارثہ بن علقمہ‘‘ بھی تھا… وہ ان میں ’’اسقف‘‘ کہلاتا تھا راستہ میں اس کے خچر نے ٹھوکر کھائی تو اس کے بھائی نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا الفاظ کہے… ابو حارثہ نے غصے میں وہ الفاظ خود اپنے بھائی کو کہہ دیئے، اس نے کہا بھائی صاحب! یہ کیوں؟ ابو حارثہ نے کہا واللہ وہ شخص جن کے پاس ہم جا رہے ہیں وہ نبی ہیں جن کا حضرت مسیح اور یوحنا کے عہد سے اب تک انتظار تھا… یہ سن کر اس کے بھائی نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر ان کے دین کو قبول کیوں نہیں کر لیتے، ابو حارثہ نے کہا بھائی! اگر میں ایسا کروں تو جو کچھ بادشاہوں نے ہمیں دے رکھا ہے سب واپس لے لیں، عزت جاتی رہے دنیا بھی رکھنی ضروری ہے… (ملخص از تفسیر حقانی)

دیکھا آپ نے؟… اصل بنیاد یہی ہے… دنیا اور اس کی محبت، باقی ساری باتیں اسی کی خاطر ہیں… اس لئے تو حدیث شریف میں دنیا سے محبت کرنے والے انسان کو ’’کتا‘‘ قرار دیا گیا ہے… اب کتے کو کیا فکر کہ آگے قبر ہے… اور پھر آخرت… کھانا، پینا، بھونکنا، کاٹنا… اور خواہش پوری کرنا… یہی کتے کا اول ہے اور یہی کتے کا آخر… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں سے مناظرہ فرمایا… وہ لاجواب ہو گئے… مگر ایمان نہ لائے تب… نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردہ دلوں کو جھنجوڑا تاکہ دنیا کی غلاظت نکل جائے… اور وہ ایمان لے آئیں… معلوم ہے آپ کو؟… کہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں ’’مباھلے‘‘ کی دعوت دی… اور فرمایا کہ آؤ تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں کو لے آؤ… میں بھی لے آتا ہوں… اور پھر جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجتے ہیں… عیسائی جانتے تھے کہ اس مباھلہ کے بعد اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر کیا ہو گا؟… تب وہ… ’’مباھلہ‘‘ سے بھاگ گئے… دعوتِ مباھلہ کی آیت قرآن مجید میں موجود ہے… اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھ کر دیکھ لیجئے… سورۃ اٰل عمران آیت ۶۰،۶۱۔

اس مفصل واقعے کا صرف ایک اقتباس یہاں پیش خدمت ہے…

’’ان آیات کے نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مباھلہ کے لئے تیار ہو گئے اور اگلے روز حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ہمراہ لے کر باہر تشریف لے آئے، نصارائے نجران مبارک اور نورانی چہروں کو دیکھ کر مرعوب ہو گئے… اور آپ سے مہلت مانگی کہ ہم آپس میں مشورہ کر لیں، اس کے بعد آپ کے پاس حاضر ہوں گے… علیحدہ جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے، سیدایہم نے عاقب عبدالمسیح سے کہا، خدا کی قسم تم کو خوب معلوم ہے کہ یہ شخص ’’نبی مرسل‘‘ ہے تم نے اگر اس سے مباھلہ کیا تو بالکل ہلاک اور برباد ہو جاؤ گے… خدا کی قسم میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ پہاڑ کے ٹلنے کی بھی دعاء مانگیں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں خدا کی قسم تم نے ان کی نبوت اور پیغمبری کو خوب پہچان لیا ہے… عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل قول فیصل ہے… خدا کی قسم کسی قوم نے کبھی کسی نبی سے ’’مباھلہ‘‘ نہیں کیا مگر ہلاک ہوئے لہٰذا تم مباہلہ کر کے اپنے کو ہلاک مت کرو، تم اپنے ہی دین پر قائم رہنا چاہتے ہو تو صلح کر کے واپس ہو جاؤ… بالآخر انہوں نے مباھلہ سے گریز کیا اور سالانہ جزیہ دینا منظور کیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عذاب اہل نجران کے سروں پر آگیا تھا… اگر یہ لوگ مباھلہ کرتے تو بندر اور سور بنا دیئے جاتے اور تمام وادی آگ بن کر ان پر برستی اور تمام اھل نجران ہلاک ہو جاتے، حتیٰ کہ درختوں پر کوئی پرندہ بھی باقی نہ رہتا…‘‘ (سیرت المصطفی جلد ۳)… جہاں خوش نصیب عیسائی… حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے بن دیکھے… آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کر لی… وہاں رومیوں کی روٹیوں پر اینٹھنے والے نجران کے بد نصیب عیسائی… خالی ہاتھ واپس چلے گئے… جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دی تب بھی… عیسائیوں میں کچھ نرمی آئی… مگر دنیا اور ہائے دنیا… نے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکے رکھا… حالانکہ ان کو اسلام کا حق ہونا معلوم ہو چکا تھا… دعوت کو ٹھکرانے کے بعد اسلام کے پرامن جھنڈے نے… مجاہدین کے کندھوں پر عیسائی دنیا کا رخ کیا… یہ ’’جھنڈا‘‘ مشرکین پر غالب آچکا تھا… اور اس جھنڈے نے ’’یہودیوں‘‘ کو پورا پورا سبق سکھا دیا تھا… عیسائیوں سے بہت خیر کی توقع تھی… اور وہ دور بھی تھے اس لئے ان کا نمبر دیر سے آیا… تب عیسائی دنیا نے مسلمانوں کا ایک ’’عظیم کردار‘‘ دیکھا… کبھی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، کبھی جعفر طیار رضی اللہ عنہ… اور کبھی عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ… عیسائی حیران تھے کہ سب کٹ رہے ہیں مگر کوئی نہیں جھکتا… تب… آسمان سے ایک نور چمکا، زمین نے ہلکی سی کروٹ لی… اور اللہ تعالیٰ کی تلوار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی صورت میں نیام سے ایسی باہر آئی کہ… دنیا پر راج کرنے والا کلیسا… ایک تنگ سے نیام میں بندہو کر رہ گیا… آج شاید ’’عیسائی‘‘ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ… ہم مسلمان صرف مدینہ منورہ میں تھے… اور ان کی حکومت مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی… تب ہماری بے سرو سامانی… اور ان کی قوت کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا… مگر ہم نے اس وقت بھی ان کے استقبال کے لئے سرخ قالین بچھا کر بھیک کا پیالہ ان کے سامنے نہیں پھیلایا تھا… ہم نے دعوتِ اسلام دی تھی اور ہم نے جہاد کیا تھا… کیا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی کڑک اور مثنی رضی اللہ عنہ کی سر فروشی کو بھول گئے؟… کیا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھول گئے… تم اس وقت بھی ’’ترقی‘‘ پر تھے… اور ہم اس وقت بھی پیوند زدہ کپڑے پہنتے تھے… ہاں البتہ اس وقت ہم میں دنیا کی غلاظت کو ’’ترقی‘‘ سمجھنے والے بے رنگ لفافے موجود نہیں تھے… کیا تمہاری تاریخ کی کتابوں میں ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ملتا؟…

پھر ہماری اور تمہاری آنکھ مچولی چلتی رہی… نہ ہم نے کبھی ہار مانی… اور نہ تم نے عیاری اور چالاکی چھوڑی… تم نے بیت المقدس چھین لیا تو زنگیؒ اور ایوبیؒ نے واپس لے لیا… ہم نے قرطبہ پر جھنڈے گاڑے اور تمہیں عزت سے رکھا… مگر تم نے جب واپس لیا تو خون کے دریا بہا دیئے… ہاں بزدل ایسا ہی کیا کرتے ہیں… ہم نے کبھی فتح کے وقت ہوش کا ساتھ نہیں چھوڑا… اور نہ کبھی شکست کو دل کا روگ بنایا ہے… وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس سورۃ اٰل عمران موجود ہے جو شکست سے ابھرنے اور سنبھلنے کا طریقہ سکھاتی ہے… اور ہمیں یہ اصول یاد کراتی ہے کہ تلک الایام نداولھا بین الناس… کہ جنگ میں فتح اور شکست آتی رہتی ہے… دن ادلتے بدلتے رہتے ہیں… اور حالات میں ’’ہیر پھیر‘‘ ہوتا رہتا ہے… میں مانتا ہوں کہ آج تم لوگ طاقتور ہو… مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ کی قسم ہم بھی ’’مغلوب‘‘ نہیں ہوئے… مسلمان تب مغلوب ہوتا ہے جب وہ کفر کے سامنے سر جھکا دے… اگر وہ سر نہ جھکائے تو ہر حال میں وہی غالب رہتا ہے… ہمارے کٹے ہوئے… اور تنے ہوئے سر بتا رہے ہیں کہ ہم الحمدللہ آج بھی غالب ہیں… بات کچھ دور نکل گئی… ہم مسلمانوں کے پاس قرآنی دستور موجود ہے… اس لئے کارٹونوں کی اشاعت کے بعد پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں… نہتے عیسائیوں پر کوئی حملہ نہیں ہوا… اور میری دعاء ہے کہ ایسا کبھی ہو بھی نہ… ہمیں مسلمانوں کے اس طرز عمل پر فخر ہے کہ… وہ جیسے بھی ہیں اسلام کے اہم اصولوں کے سامنے بچھ جاتے ہیں…

… آج کے اس کالم کا ’’اہم مقصد‘‘ صرف یہی ہے کہ مسلمان… خود کو خالی ہاتھ نہ سمجھیں… اور نہ بش اور انڈیا کی دوستی سے گھبرائیں… اور نہ بش کے دورے کی ناکامی کے مرثیے پڑھیں… بلکہ تمام مسلمان حکمران اور عوام… اللہ تعالیٰ سے مدد، رہنمائی اور ہدایت مانگیں… اور عیسائیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات سورۃ اٰل عمران میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ موجود ہیں… اور آج ہمیں جس ظاہری شکست اور پسپائی کا سامنا ہے… اس کا مکمل علاج بھی اس سورۃ مبارکہ میں موجود ہے… یہ سورۃ ہر مسلمان کو شہادت اور آخرت کا ایسا دیوانہ بنا دیتی ہے کہ… اس کی نظر میں دنیا کی چمک حقیر و ذلیل ہو کر رہ جاتی ہے… آپ جانتے ہیں کہ یہی ’’عیسائیوں‘‘ کا پہلا اور سب سے بڑا ہتھیار ہے… انہوں نے دنیا کی چمک دکھا کر ہی ہمارے حکمرانوں کو اپنا ’’حقیر غلام‘‘ اور چپڑاسی بنا رکھا ہے… جب مؤمن کے دل میں شہادت کا جنون ہو گا تو پھر یہ ہتھیار اس پر کارگر نہیں ہو گا… اور شہادت کے طلبگار مسلمان کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی… سورۃ اٰل عمران میں جہاد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے… جس میں اس طرف واضح اشارہ ہے کہ… مسلمانوں کو ان عیسائیوں سے لڑنا پڑے گا جو یہودیوں کے اشارے پر ناچتے ہیں… یہ سورۃ ان منافقین کے حالات بھی بتاتی ہے… جو مسلمانوں کی ظاہری شکست کے زمانے میں… ’’دانشور‘‘ بن جاتے ہیں اور مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جہاد چھوڑ دیں… اور کفر کی غلامی اختیار کر لیں… قرآن پاک سمجھاتا ہے کہ… یہ لوگ جھوٹے اور بزدل ہیں… اور اندر سے خود کافر ہیں… یہ کہتے ہیں کہ جہاد میں موت ہے تو ان کو بتا دو کہ تم بھی اپنے وقت پر مر جاؤ گے… اور موت اپنے وقت سے پہلے کسی پر نہیں آتی… اور بتا دو کہ جہاد کی موت تو بہت اونچی، بہت لذیذ، بہت میٹھی، بہت حسین، بہت مست، بہت البیلی… اور بہت ناز والی زندگی ہے… اور جو زخموں سے چور ہو کر بھی جہاد میں لگے رہتے ہیں… ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس اجر عظیم ہے… اے عیسائیو!… اب بھی ایمان قبول کر لو… اور اسلام کے سلامتی والے سائے میں آجاؤ… اور اس بات کو بھول جاؤ کہ تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کو مٹا دو گے… یا جہاد کی شمع کو بجھا دو گے… تم ڈیزی کٹر بم برسا سکتے ہو… تم ایٹم بم استعمال کر سکتے ہو،… تم ہماری حکومتوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتے ہو… تم ہماری افواج کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہو… ہاں تم یہ سب کچھ کر سکتے ہو… میں ان تمام باتوں کو تسلیم کرتا ہوں… مگر یاد رکھو… تم اسلام کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، تم مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتے، تم جہاد کے مبارک عمل کو بند نہیں کرا سکتے… ہاں تم قرآن پاک کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے… اور سنو! تم ہم سے سورۃ اٰل عمران نہیں چھین سکتے… یہ سورۃ ہمیں ایک راز بتاتی ہے… جی ہاں مسلمانوں کے عیسائیوں پر غالب ہونے کا راز… ہاں ہم یہ راز پڑھ کر پھر تم پر غالب آجائیں گے… اگر تم اس راز کو سمجھنا چاہتے تو… آج کے کالم کا آخری جملہ غور سے پڑھو…

’’ہاں تم مسلمانوں سے شہادت کی زندگی اور اس کی لذتیں نہیں چھین سکتے‘‘…

٭٭٭

 


دردناک خط اور اس کا جواب

 

 اللہ  تعالیٰ ہم سب کو نفس اور شیطان کے شر سے بچائے… افغانستان میں مجاہدین کے سابق رہنما جناب صبغت  اللہ  مجدّدی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے… مجدّدی صاحب کے حالات زندگی پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا… وہ کچھ عرصہ پہلے تک پشاور میں بہت ’’شان‘‘ سے گھومتے تھے… ادھر ’’سربیا‘‘ کا قابل نفرت درندہ ’’سلوبودان ملازوچ‘‘ ذلت کی موت مر گیا ہے… کچھ باتیں اس کی زندگی اور موت پر بھی کرنی تھیں… خبروں میں سنا… ہماری ایک بوسنیائی بہن کہہ رہی تھی کہ  اللہ  پاک نے اس ظالم سے ہمارا بدلہ لے لیا ہے… اس ’’مسلمان بہن‘‘ کا پورا گھر ’ملازوچ منحوس‘‘ نے برباد کر ڈالا تھا… مشرق وسطیٰ کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرنے والا… اسرائیلی صدر ’’ایریل شرون‘‘ نزع کی حالت میں موت کی تلخی اور سختی چاٹ رہا ہے… کچھ الفاظ اس کے بارے میں بھی لکھنے تھے کہ…  اللہ  تعالیٰ ’’دشمنان اسلام‘‘ کی صفوں کو کس طرح مٹا رہا ہے… بے چارے ’’لال کرشن ایڈوانی‘‘ کو اس کی پارٹی نے صدارت سے ہٹا دیا ہے… اور اب ’’ایڈوانی‘‘ رتھ یاترا کے ذریعے دوبارہ زندہ ہونے کیلئے مٹی چاٹ رہا ہے… اس بارے میں بھی بات کرنی تھی کہ مسلمانوں کو ’’ہسپانیہ‘‘ یاد دلانے والوں کو  اللہ  تعالیٰ ’’غزنوی‘‘ اور ’’سومنات‘‘ یاد دلا رہا ہے… مگر میری دائیں جانب ایک خط رکھا ہوا ہے… بڑے صفحات اور وہ بھی ایک دو نہیں پورے آٹھ… جی ہاں آٹھ صفحے کا روتا دھوتا خط… جو ہماری ایک ’’پڑھی لکھی‘‘ مسلمان بہن نے لکھا ہے… میں تمام باتیں چھوڑ کر اسی خط کے بارے میں کچھ عرض کرنے پر خود کو مجبور پا رہا ہوں… خط کا خلاصہ یہ ہے کہ ہماری یہ ’’بہن صاحبہ‘‘ انٹرنیٹ پر اسلام کی ’’خدمت‘‘ کرتی تھیں… ’’چیٹنگ‘‘ کے اس مبارک عمل کے دوران ان کا رابطہ ایک اور ’’خادم اسلام‘‘ سے ہوگیا… اس ’’خادم اسلام‘‘ نے بتایا کہ اس کا تعلق ’’جیش محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم‘‘ سے ہے… اور وہ مجاہد اور دین کا داعی ہے… پھر وہ شخص اس ’’بہن صاحبہ‘‘ کو دھوکا دے گیا… اور اس نے جھوٹ، فریب اور مکر کے بہت سے جال بچھائے… اور پھر ’’ایک اور جھوٹ‘‘ کا سہارا لیکر غائب ہوگیا… اب بہن صاحبہ نے فریاد کی ہے کہ ان کو انصاف دلایا جائے… یہ خط پڑھنے کے بعد انٹرنیٹ سے میری نفرت میں اور اضافہ ہوا… اس خط اور شکایت کے سلسلے میں ہماری جو ’’دینی ذمہ داری‘‘ بنتی ہے وہ تو… ان شاء  اللہ  ادا ہوجائے گی… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم اور آپ کی طرف منسوب جماعت کے نام پر دھوکا دینے والے… ہمیشہ نقصان ہی اٹھاتے ہیں… لیکن اگر انصاف کیا جائے تو پہلی گذارش ’’بہن صاحبہ‘‘ ہی سے کرنی ہوگی کہ… آپ کا انٹرنیٹ سے کیا تعلق ہے؟… آپ  اللہ  تعالیٰ کی بندی، … باپردہ، باشرع اور باحیاء بہن… آپ کا کمپیوٹر کی ’’ناپاک دنیا‘‘ سے کیا لینا دینا؟… کئی سال پہلے جب ’’انٹرنیٹ‘‘ نیا نیا آیا تھا تو اس ظالم کی ’’خطرناکی‘‘ محسوس کرتے ہوئے… بندہ نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا… جو بار بار شائع ہوا … اس کا عنوان تھا… ’’انٹرنیٹ کے ڈسے ہوئے‘‘… پھر کچھ عبرتناک حالات سامنے آئے تو ہماری قیادت نے اپنی جماعت میں کمپیوٹر کے عمومی استعمال پر پابندی لگادی… اور ضروری کاموں کے استعمال کیلئے کچھ لازمی شرائط مقرر کردیں… ہماری کوشش رہتی تھی کہ جماعت کے تمام کمپیوٹرز کا ڈیٹا وغیرہ مسلسل نگرانی کی زد میں رہے… اور وقتاً فوقتاً اس کی تفتیش اور نگرانی ہوتی رہے… پھر ایک اور فتنہ آیا… اور وہ تھا ’’جہادی سی ڈیز‘‘ کا فتنہ… اللہ  تعالیٰ کے بھروسے پر… اس سے بھی جماعت کو دور رکھنے کی کوشش کی گئی… حالانکہ استعمال کرنے والوں کے دلائل بہت ’’وزنی‘‘ اور ’’زوردار‘‘ تھے… مگر ہماری قیادت یہی کہتی رہی کہ ’’دعوت جہاد‘‘ کے لئے قرآن پاک کافی ہے… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے غزوات، احادیث اور صحابہ کرام کے واقعات کافی ہیں… کمپیوٹر اور تصویر کا استعمال جتنا عام ہوگا… اسی قدر فتنے اور فساد کا دروازہ کھلے گا… مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ… ایک بار مجھے تاشقند، سمرقند اور بخارا وغیرہ جانے کا موقع ملا… بخارا میں قیام کی ایک ٹھنڈی اور یادگار رات… وفد کے علماء کرام میں ٹی وی اور تصویر کے موضوع پر ’’مباحثہ‘‘ چھڑ گیا… بعض علماء کرام کی رائے تھی کہ… ٹی وی بہت برا مگر اس کے ہر استعمال کو حرام نہیں کہا جاسکتا… وہ اس پر دلائل دے رہے تھے… اور اس میں شک نہیں کہ وہ ’’اصحاب علم‘‘ اور ’’اصحاب تقویٰ‘‘ حضرات تھے… اور خود عملی طور پر ’’ٹی وی‘‘ اور ’’تصویر‘‘ سے دور تھے… اور ان کے دلائل صرف ’’شرعی مسئلے‘ کی وضاحت کیلئے تھے… اس موقع پر… حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ نے فرمایا… چھوڑیں جی! ان دلائل کو… ’’ٹی وی‘‘ نجس العین … یعنی بالکل ناپاک ہے… ایسا ناپاک جو کسی طرح سے پاک نہیں ہو سکتا… اب انٹرنیٹ، کمپیوٹر… اور ٹی وی کے جو فتنے ہماری آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں… ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ… حضرت لدھیانوی شہیدؒ کا موقف ہی درست تھا… ہمارے بعض دوست اس وہم کا شکار ہیں کہ وہ… انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز کے ذریعے دین کی خدمت کرلیں گے… میں نے ایک ایسا چیلنج کیا ہوا ہے… جو ابھی تک ’’ناکام‘‘ نہیں ہوا… حالانکہ میری دلی تمنا ہے کہ… وہ ’’ناکام‘‘ ہو جائے… میں نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کثرت سے استعمال کرنے والے حضرات وخواتین میں سے کوئی ایک فرد… مجھے خط لکھ کر بتا دے… کہ وہ اس استعمال کے دوران کسی غلطی کا شکار نہیں ہوا… یقین کریں مجھے اب تک کسی ایسے خط، ایسے فون، ایسے ایس ایم ایس کا انتظار ہے… مجھے یقین ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی اچھے اور سچے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی… ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں میں سے کچھ ایسے ضرور ہوں گے جنہوں نے… انٹرنیٹ یا کمپیوٹر کے گناہ بے لذت سے اپنی آنکھیں اور دل نہیں جلائے ہوں گے… مگر ایسے لوگ بہت ہی تھوڑے ہوں گے… ورنہ… سب کی انگلی کسی نہ کسی لمحے پھسل جاتی ہے… اور وہ بدنظری، بدسمعی اور ذہنی عیاشی کے کسی نہ کسی گناہ میں ضرور مبتلا ہوجاتے ہیں… اگر آپ نے انٹرنیٹ پر دو چار لڑکیاں مسلمان کر بھی لیں تو کیا آپ بھول گئے کہ… ہماری لاکھوں مسلمان بہنیں… اسی کے ذریعے کافرہ… اور بے حیاء بن رہی ہیں؟… کمپیوٹر کی دنیا میں ڈوبے ہوئے ہمارے مسلمان لڑکے… اور لڑکیاں اپنا کیا کچھ کھو چکے ہیں؟… کبھی آپ نے اندازہ کیا؟… ان کی آنکھیں کمزور، رنگ پیلے، ذہن بے کار… اور دل عشق نامراد کا شکار… اور ان کی قیمتی زندگیوں کے قیمتی اوقات… یوں برباد ہوتے ہیں … جس طرح آگ پر گھی پگھل جاتا ہے… ہائے جوانی کے یہ لمحات جہاد میں… یا مصلّے پر آہ وزاری میں گزرتے تو چہروں کا نور دیکھ کر… کافر مسلمان ہوجاتے …چند دن پہلے میں قرآن پاک کی مستند اور مقبول تفسیر … ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘… یعنی ’’تفسیر قرطبی‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا… اس میں ایک حدیث پاک نظر سے گزری… حدیث چونکہ ضعیف ہے… اس لیے میں نے کبھی اس کو نہ بیان کیا… اور نہ کسی مسئلے کی حجت یا دلیل بنایا… اس میں ارشاد تھا کہ اپنی خواتین کو لکھنا نہ سکھاؤ اور نہ انہیں چھتوں پر بنے مکانات میں ٹھہراؤ… مفسر نے وجہ یہ لکھی تھی کہ خواتین کمزور دل ہوتی ہیں اور جلد فتنے کا شکار ہوجاتی ہیں… چھتوں پر سے بے اختیار مردوں کو جھانک سکتی ہیں… ہماری بہنیں ناراض نہ ہوں… ہم سب  اللہ  تعالیٰ کے بندے ہیں… اور اسی کے غلام ہیں… عزت وہی ہے جو  اللہ  تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے ملتی ہے… کیا ایسا نہیں ہے کہ… ہماری خواتین کے نزدیک مردوں کو دیکھنا کوئی عیب ہی نہیں سمجھا جاتا…؟؟ خود تو ماشاء  اللہ  پورا پردہ کریں گی… ہاتھوں پر دستانے اور پاؤں میں موزے تک پہنیں گی… مگر مردوں کو دیکھنا اپنا حق سمجھیں گی… حالانکہ… قرآن پاک نے ایمان والے مردوں کو حکم دیا کہ… اپنی نظریں نیچی رکھو… اور اسی قرآن پاک نے ایمان والی عورتوں کو بھی یہی حکم دیا کہ… وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں… نابینا صحابی حضرت اقدس عبد اللہ  بن ام مکتوم رضی  اللہ  عنہ تشریف لائے تو آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو پردے میں جانے کا حکم دیا… اور فرمایا کہ… اگر وہ نابینا ہیں تو تم تو نابینا نہیں ہو… اس لیے ایسی چھتوں پر قیام سے روکا گیا جہاں سے جھانکنا تانکنا آسان ہو… تاکہ… امت کی پاکیزہ بہنیں کسی ادنیٰ فتنے کا شکار بھی نہ ہوں… ہاں اگر چھتیں ایسی ہوں جن کے گرد چار دیواری ہوتی ہے تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے… اور اگر ’’مسلمان بیٹی‘‘ خود اپنے مقام کو سمجھ لے… اور اپنی قیمت کو پہچان لے تو پھر اس کیلئے کسی بھی جگہ کوئی حرج نہیں ہے… تب … حدیث کا معنیٰ یہ  ہوگا کہ ایسی اونچی جگہوں پر قیام نہ ہو، جہاں پر وہ مردوں کو نظر آئیں… اور دوسری بات یہ فرمائی کہ ان کو لکھنا نہ سکھاؤ… اس کا مقصد بھی لکھائی، پڑھائی سے روکنا یا منع کرنا نہیں ہے… ماضی میں مسلمان خواتین نے اپنے قلم سے اسلام کی بے حد خدمت کی ہے… ہمارے زمانے میں… حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے مجاہد اور سید گھرانے کی خواتین نے… اپنے قلم کے ذریعے … مسلمانوں کو بہت فائدے پہنچائے ہیں… حضرت امام طحاویؒ کی بیٹی بہت بڑی، محدّثہ اور مصنّفہ تھیں… مقصد صرف اتنا ہے کہ… اس بارے میں خواتین جلد فتنے کا شکار ہوجاتی ہیں… اور ان میں سے اکثر کے قلم … پاکیزگی کا راستہ چھوڑ کر … لگ لگاؤ اور عشق ومحبت کی آگ برسانے لگتے ہیں… ’’پہلے سلام دعاء‘‘… پھر تعارف، پھر دینداری پھر اپنے فضائل… اور پھر معاملہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے… حالانکہ قلم ایک مقدس امانت ہے… اور لکھنا ایک بہت بڑی نعمت ہے… مگر جب ان نعمتوں کو غلط استعمال کیا جاتا ہے تو… پھر سزا اور عذاب بھی سخت ہوتا ہے…  اللہ  تعالیٰ ہمیں قلم اس لیے دیتا ہے کہ ہم اس کے ذریعے اُس سے تعلق جوڑیں… اور ہم  اللہ  تعالیٰ کو چھوڑ کر پھنسنے پھنسانے کے چکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں… ایسی خواتین اور لڑکیاں آخر میں رسوا ہوتی ہیں… اور پھر ساری زندگی روتی اور ناشکری کرتی ہیں… اے  اللہ  کی بندیو! … ذرا  اللہ  تعالیٰ سے محبت کرکے دیکھو… صرف ایک رکوع ایسا کرو کہ جو صرف اور صرف  اللہ  پاک کو راضی کرنے کیلئے ہو… یا  اللہ  میں تیری ہوں، یا  اللہ  میں تیری ہوں، یا  اللہ  میں تیری ہوں… قیام سے رکوع کی طرف جاتے ہوئے، دل کو محبت اور عظمت سے بھر کر… یا  اللہ  صرف تیرے لیے … صرف آپ کو راضی کرنے کیلئے رکوع کر رہی ہوں… اب آپ کے سامنے… صرف آپ ہی کیلئے سجدے میں گر رہی ہوں… ہر کسی سے دل لگانے کی بجائے… صرف  اللہ  تعالیٰ سے دل لگائیں… تو رب کعبہ کی قسم ان کا ہر مسئلہ خود حل ہوجائے… اور اسلام کا دامن مجاہدین سے بھر جائے… مگر اب تو مسلمانوں کے پاس سیٹیاں بجانے والے نوجوان… اور دل پھینک لڑکیوں کے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آرہا… تب ظالموں نے… ہمارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے کارٹون بنا ڈالے… سچی بات یہ ہے کہ خواتین نے  اللہ  تعالیٰ سے دل کو توڑا تو مسلمان معاشرے کی کمر ہی ٹوٹ گئی… یاد رکھیں ناجائز عشق ناجائز ہی ہوتا ہے… خواہ وہ کسی کرکٹر سے کیا جائے… یا کسی مجاہد سے… نکاح کے بغیر گپ شپ، خط بازی اور دل لگی حرام ہے خواہ کسی فلم ایکٹر سے کی جائے… یا کسی عالم یا بزرگ سے… مہربانی کرکے شیطان کے اس دھوکے میں نہ آئیں کہ… پگڑی باندھنے والوں سے ناجائز عشق اور فضول دل لگی جائز ہے… اور گانا گانے والوں سے نہیں… اور ایک بات خوب یاد رکھیں کہ… نفاق سے بچنا سب سے ضروری کام ہے… گناہ کرنا ہے تو اس کو گناہ سمجھ کر کریں اور اس پر نادم رہیں… کسی گناہ کو حلال بنانے کی غلطی نہ کریں، ورنہ کفر کا خطرہ ہوگا… دنیا داری کرنی ہے تو دنیا دار بن کر کریں… اگر دین کے لبادے میں ایسا کیا تو پھر بہت بڑا ظلم ہوگا… کسی سے غلط عشق کرنا ہے تو صاف بتا کر کریں… کسی کو بہن کہہ کر… پھر اس سے ناجائز لذت لیں گے تو زمین بھی لرز جائے گی… یاریاں کرنے کا شوق ہے تو عام نوجوان بن کر کریں… جہاد کے لبادے میں کریں گے تو پھر یہ دین سے دشمنی ہوگی… گناہگار بخشا جاتا ہے مگر منافق کو تو توبہ کی توفیق بھی بہت کم ملتی ہے… مسلمان عورت صرف  اللہ  پاک کے ساتھ جڑ جائے تو اسلامی معاشرہ اتنا طاقتور ہوجائے گا کہ… دنیا بھر کے کفر سے ٹکرا جائے گا… مگر آج تو شادی سے پہلے عشق اور شادی کے بعد خاوند کی نگرانی… ہماری عورتوں کا فرض منصبی ہے… حالانکہ ان کا کام  اللہ  تعالیٰ کو راضی کرنا تھا… وہ شادی کے بعد زیادہ عبادت کرتیں… زیادہ اپنے دل کو پاک کرتیں… اور زیادہ دین کا کام کرتیں… اور اپنے خاوندوں کو بتا دیتیں کہ… ہم  اللہ  تعالیٰ کے ہر حکم پر راضی ہیں… آپ گناہ سے بچیں خواہ چار شادیاں کریں… مگر گناہ کرکے گھر میں قدم نہ رکھنا… میں اپنے اوپر سوکن برداشت کرسکتی ہوں… مگر اپنے مالک کے نافرمان کو برداشت نہیں کرسکتی… اگر خواتین اسلام  اللہ  تعالیٰ کے حکموں پر سر جھکادیتیں تو ہمارا معاشرہ پاک ہوجاتا… مگر آج کی عورت کو… ایسا خاوند برداشت ہے جو بے نمازی ہو، بدنظر ہو، بیس عورتوں سے دوستی رکھتا ہو… مگر ایسا خاوند برداشت نہیں جو دوسری بیوی رکھتا ہو… خواہ وہ  اللہ  تعالیٰ کا مقرب ہی کیوں نہ ہو… جو مسلمان… مسلمان ہونے کے باوجود ایک سے زیادہ شادیوں کو برا کہتے ہیں… ان کے ایمان خطرے میں ہیں… کیونکہ وہ قرآن پاک کے حکم پر (نعوذبا للہ) انگلی اٹھاتے ہیں… وہ انبیاء علیہم السلام، خلفائے راشدین… اور صحابہ کرام کے عمل کو غلط سمجھتے ہیں… اور اپنی ذات کی خاطر دین کو برا جانتے ہیں… باقی یہ بھی درست ہے کہ… ہمارے معاشرے میں… زیادہ شادیوں کا فی الحال عمومی تحمل نہیں ہے… مرد ہوس پرست اور ظالم ہو چکے ہیں… اور بے انصافی ان کے خون کا حصہ بن چکی ہے… جبکہ عورتیں…  اللہ  تعالیٰ سے کٹ چکی ہیں… وہ نہ تو اللہ  تعالیٰ کو اپنا رازق ورزاق سمجھتی ہیں… اور نہ  اللہ  تعالیٰ کو اپنا معز ّ (عزت دینے والا) مانتی ہیں… وہ جنت کی بجائے دنیاکی طلبگار ہیں… اللہ  تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے… اور ہمارے دلوں کو مسلمان بنائے… اور اپنی ذات پاک کے ساتھ اخلاص والی محبت عطاء فرمائے… بات انٹرنیٹ سے چلی تھی اور بہت دور نکل گئی… ہماری جس بہن نے شکایت لکھی ہے… سچ یہ ہے کہ ان کو شکایت کا حق نہیں ہے… آپ انٹرنیٹ استعمال ہی نہ کرتیں تو کوئی آپ کو اس طرح سے تنگ نہ کرسکتا… اگر آپ نے انٹرنیٹ استعمال کیا بھی تھا تو صرف عورتوں سے رابطہ رکھتیں… آپ نے مردوں سے رابطہ نہیں کرنا تھا… اگر آپ نے کسی مرد سے دین سیکھنے کیلئے رابطہ کیا بھی تو… اپنی ذاتی زندگی سے اس کو آگاہ نہیں کرناتھا… اگر آپ نے اپنی ذاتی زندگی سے آگاہ کردیا… اور اس نے ایک جماعت کا نام لیکر آپ کو دھوکا دیا… تو جس طرح اب آپ نے خط لکھا ہے… دھوکا کھانے سے پہلے اس شخص کی تصدیق کیلئے بھی خط لکھ سکتی تھیں… اور پوچھ سکتی تھیں کہ… یہ شخص اعتبار کے قابل ہے یا نہیں؟… میری بہن! غلطی اصل میں آپ ہی سے ہوئی ہے… سچے دل سے توبہ کریں…  اللہ  پاک بہت معاف فرمانے والا ہے… مگر معافی اسی کے لئے ہے جو خود کو قصور وار سمجھے… اگر اپنے لیے عذر ڈھونڈے جائیں کہ یہ وجہ تھی یا وہ وجہ تھی… تو پھر توبہ نہیں ہوتی… ہم سب مجرم ہیں اور قصور وار ہیں… ہمیں اپنی گردن اپنے مالک کے سامنے جھکا دینی چاہئے… اور اپنے دل کو ’’تکبر‘‘ اور ’’میں‘‘ سے پاک کرلینا چاہئے… میری بہن! آپ کے دل میں دین کا درد ہے تو  اللہ  پاک آپ کی ضرور مدد فرمائے گا… بس رات کا آخری حصہ اس کے نام… صرف اس کے نام وقف کردیجئے… میری بہن! میں نے… آپ کا نام مضمون میں نہیں لکھا… نہ آپ کا پتا چھاپا ہے… اور نہ آپ کے راز کو فاش کرنے کی غلطی کی ہے… میرے پاس جتنے بھی خطوط آتے ہیں … میں ان کو ’’شرعی امانت‘‘ سمجھتا ہوں… اور کسی کے عیب کو… کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتا… مگر آپ کا قصہ مجھے اس لیے لکھنا پڑا… کہ جہاد کے نام پر دھوکا دینے والے… انٹرنیٹ کے کھلاڑی، ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں… اور ہماری بہت سی سادہ دل بہنیں… دین اور جہاد کے نام پر دھوکا کھا رہی ہیں … خود آپ نے بھی لکھا ہے کہ میں دوسری لڑکیوں کو بھی اس طرح کے دھوکے سے بچانا چاہتی ہوں… اس لیے آپ کا ’’بے نام‘‘ اور ’’ادھورا قصہ‘‘ مجھے لکھنا پڑا کہ شاید… کسی اور بہن کا ایمان بچ جائے… آپ پر لازم ہے کہ آپ ’’انٹرنیٹ‘‘ کو بالکل چھوڑ دیں… قرآن پاک موجود ہے… اسی سے رنگ، روشنی، اور رہنمائی حاصل کریں… اگر دینی رہنمائی در کار ہے تو امت کے مستند علماء کرام کو خط لکھیں… مگر پوری احتیاط کے ساتھ… کسی کو زیادہ القاب نہ لکھیں… اپنی زندگی کے اوراق نہ کھولیں… اور اصلاح کے علاوہ کسی تعلق کو مقصود نہ بنائیں… آخر میں ان تمام بھائیوں، اور بہنوں سے دردمندانہ گذارش ہے جو… انٹرنیٹ پر اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں کہ… اس موذی کو اپنے گھر سے نکال دیں… اور یہی وقت دین کی خدمت میں گزاریں… خود دین سیکھیں… اور دوسروں تک بھی  اللہ  تعالیٰ کا دین صحیح طریقے سے پہنچائیں… انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنی صحت اپنی آنکھیں… اور اپنا دماغ برباد نہ کریں… اور نہ اس کی دینی باتوں سے خود کو دھوکے میں رکھیں… فوائد تو ہر چیز میں موجود ہیں… سائنسدانوں کے مطابق پیشاب پینے میں بھی کچھ فائدے ہیں… حیوٰۃ الحیوان میں پاخانہ کھانے کو بعض بیماریوں کا علاج لکھا ہے… شراب کے بارے میں خود قرآن پاک کا اعلان ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ فائدہ موجود ہے… مگر اس کا گناہ اور نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے… گھروں کے وہ بزرگ جنہوں نے اپنے بچوں کو دین کے دھوکے میں کمپیوٹر خرید کر دے دیئے ہیں… ان سے گزارش ہے کہ … ہفتے میں ایک بار کسی ’’ماہر‘‘ کو بلوا کر چیک کیا کریں کہ… میاں صاحبزادے نے پورے ہفتے میں کمپیوٹر پر کتنی چڑیاں ماری ہیں؟ … اور کون کون سے کارنامے سر انجام دئیے ہیں؟… کمپیوٹر بھی اپنے استعمال کرنے والوں کا نامۂ اعمال محفوظ رکھتا ہے… اس لیے اسے ’’چیک‘‘ کیا جاسکتا ہے… اور وہ دینی ادارے، جماعتیں … اور افراد جو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو دینی کاموں کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں… وہ … اس کی ’’شرعی نگرانی‘‘ کا پورا نظام بنائیں… مثلاً … غلط ویب سائٹس جام کردیں… کمپیوٹر کو کوئی اکیلا استعمال نہ کرے… ڈیٹا چیک ہوتا رہے… کمپیوٹر بڑے کمرے میں ہو… چھوٹے کیبن نہ ہوں… وغیرہ وغیرہ… اے مسلمان بھائیو! اور اے مسلمان بہنو! شیطان نے قسم کھائی ہے کہ وہ ہمیں جہنم میں لے جانے کی پوری کوشش کرے گا… اور ہماری ہر طرف سے ہم پر حملہ کرے گا… ہم پر اپنے گھڑ سوار اور پیادے دستے بھیجے گا… اور ہمارے ہر ہر طرف دنیا کی چمک، دمک چکاچوند… شہوتیں اور لذتیں بھر دے گا… تب معلوم ہے…  اللہ  پاک نے کیا فرمایا؟…  اللہ  پاک نے فرمایا… (اے شیطان تو جو کچھ بھی کرلے) میرے مخلص بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا…

ہاں  اللہ  کے مخلص بندے… یعنی خالص بندے… ملاوٹ سے پاک بندے… صرف اسی کے، صرف اسی کے… جن کا جینا اسی کیلئے، جن کا مرنا اسی کیلئے… جن کی محبت اسی کیلئے… جن کی نفرت اسی کیلئے… نماز سے لیکر جہاد تک… اور وضو سے لیکر حج تک… ہر عمل وہ صرف  اللہ  تعالیٰ کیلئے کرتے ہیں … ان کا نکاح بھی اللہ  کی رضا کیلئے… اور ان کی طلاق بھی  اللہ  تعالیٰ کی رضا کیلئے… ہاں  اللہ  کے خالص بندے… مخلص بندے… ایسوں پر شیطان کا بس نہیں چلتا…

مگر… نفاق اور ریاکاری کی اس دنیا میں … جہاں کوئی عمل بھی لوگوں کو بتائے بغیر… لوگوں کو دکھائے بغیر نہیں ہوتا… اخلاص جیسی نعمت کہاں سے ملے؟… ہائے اخلاص جیسی نعمت… کہاں سے ملے؟… آئیے ادھر ہی چلیں… اور کہاں جائیں؟… اسی کی طرف چلیں جس کے ہم سب ہیں… اور اسی سے ’’اخلاص‘‘ مانگ لیں… یا  اللہ … اے ہمارے مالک ہم سب کو اپنا بنا… اور ہمیں اخلاص عطاء فرما…

٭٭٭


 

ایک جامع شخصیت

 

 اللہ  تعالیٰ ان کو آخرت کے اونچے مقامات عطاء فرمائے… وہ ذاتی اور اجتماعی دونوں میدانوں میں… عمدہ صلاحیتوں کے مالک تھے… آج کئی دنوں کے بعد اخبار خریدا تو اس میں کئی جگہ ان کا تذکرہ تھا… اخبار ہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ آج ڈیرہ اسماعیل خان کے… حق نواز پارک میں ان کی یاد میں اجتماع ہورہا ہے… بے شک ان کے نظریات، ان کے کارنامے… اور ان کے افکار یاد رکھنے کے لائق  ہیں… اور وہ امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ ہیں… وہ بہت پختہ اور جید عالم دین تھے… جی ہاں تمام قرأتوں کے قاری، صاحب فتویٰ مفتی… اور صاحب مسند استاذ حدیث… مگر اس کے باوجود منجھے ہوئے سیاستدان بھی تھے… سیاست کے ساتھ ساتھ… اپنے علم کی حفاظت کرنا اور اس سے رشتہ جوڑے رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے… وہ  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے اس ’’مشکل‘‘ کو نباہتے رہے اور سیاست کی گہماگہمی ان کے ’’علمی مقام‘‘ کو نقصان نہ پہنچا سکی…

ہماری یہ امت ’’کتابی‘‘ اور ’’تلواری‘‘ امت ہے… اس کا پہلا سبق ہی… ذلک الکتاب… سے شروع ہوتا ہے… ’’کتاب‘‘ کی تلاوت، ’’کتاب‘‘ کا علم… ’’کتاب‘‘ پر عمل اور ’’کتاب‘‘ سے رشتہ اس امت کی ’’خاص شان‘‘ ہے… اور جب بھی ’’امت‘‘ کی قیادت ان لوگوں نے کی جن کا ’’کتاب‘‘ سے رشتہ مضبوط تھا تو امت نے … بہت اونچی کامیابیاں حاصل کیں… حضرات علماء دیوبند کو  اللہ  پاک نے فولادی اعصاب عطاء فرمائے تھے… ان حضرات کیلئے ’’کتاب‘‘ سے رشتہ جوڑے رکھنا قطعاً آسان نہیں تھا… ملک کا حکمران ’’انگریز‘‘ اُن کا بدترین دشمن تھا… خانقاہ تھانہ بھون کے بعض دروازوں پر انگریزکی لگائی ہوئی آگ کے نشانات میں نے… خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں… حضرت مدنیؒ دن رات ریل اور جیل میں ہوتے تھے… مگر… دارالعلوم کی مسند پر بخاری اور مسلم جیسی مشکل کتابوں کا درس بھی جاری رہتا تھا… حضرت شیخ الہندؒ بڑھاپے میں مالٹا کے اذیت خانے میں ڈالے گئے… مگر ترجمہ اور تفسیر کا کام پوری آب وتاب سے جاری رہا… حضرت نانوتویؒ کی زندگی ’’سراسر تحریک‘‘ اور ’’سراسر جہاد‘‘ تھی مگر علم ایسا تھا کہ اس زمانے میں اور پھر بعد میں ان کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے… حضرت گنگوہیؒ جو فقہ کے امام تھے… خود شاملی کے جہاد میں شریک تھے… جہاد کا لفظ آسان ہے… مگر غاصب حکمرانوں سے ٹکر لینے والوں پرجو حالات آتے ہیں… ان کا تصور بھی تن آسانوں کیلئے مشکل ہے… انگریز تو ویسے ہی بہت ناپاک، بہت شاطر اور بہت ظالم قوم ہے… اس نے برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تاریخ کا ایک نہ بھلایا جانے والا ’’سیاہ باب‘‘ ہے… ہر قدم پر فتنے، ہر قدم پر فرقے …نئی نئی جھوٹی نبوتیں… الحاد اور بدعات کے خوفناک گٹر… لسانیت پرستی، علاقہ پرستی، جاگیرداری، نواب گیری… اور دلوں کو مسخ کردینے والا نظام تعلیم… ہائے اس ظالم کے کس کس ظلم کو یاد کیا جائے… پھر طرح طرح کے کالے قانون، عقوبت خانے، سی آئی ڈی… اور ہر وقت مسلمانوں سے آباد جیلیں… مگر آپ حیران ہوں گے کہ الحمدللہ… ان میں سے کسی جگہ بھی ’’درس قرآن‘‘ بند نہیں ہوا… ہمارے اکابر نے ’’کتاب‘‘ کو تھامے رکھا… اور اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا… دراصل ’’کتاب‘‘ کے علم کیلئے… امن اور فرصت کی شرط ہے ہی نہیں… یہ ’’کتاب‘‘ تو خود… ہجرت وجہاد… اور جنگ وقتال کے ماحول میں نازل ہوئی ہے… اس ’’کتاب‘‘ کے سب سے پہلے حاملین کو… حلوے اور پراٹھے نہیں، پتھروں اور تلواروں کا سامنا رہا ہے… مکہ مکرمہ کے تیرہ سال کون سا امن تھا… اور کون سی فرصت؟… طائف کے بازاروں اور باغات میں کون سا گوشۂ عافیت تھا؟… مدینہ منورہ کی طرف سفر کون سا آسان تھا؟… اور پھر مدنی زندگی میں… کتنی فرصت اور کتنا آرام تھا؟… مگر ان سخت حالات میں قرآن پاک برابر نازل ہورہا تھا…  اللہ  تعالیٰ کے نبی اور آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کے صحابہ… دعوت وجہاد کا کام بھی کر رہے تھے… اور ’’کتاب‘‘ کا بھی پورا پورا حق ادا کر رہے تھے… انہوں نے ’’کتاب‘‘ کی خاطر ایک دن کام سے چھٹی نہیں لی… اور نہ ہی… کام کو عذر بنا کر انہوں نے ایک دن ’’کتاب‘‘ سے غفلت برتی…

دراصل ’’کتاب‘‘ اپنا سینہ کھولتی ہی ’’کام‘‘ والوں کیلئے ہے… ان کی اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ… سارے صحابہ کرام عالم بھی تھے، مجاہد بھی تھے، اور دینی سیاستدان بھی تھے… ’’کتاب‘‘ اور ’’کام‘‘ دونوں کا حق ادا کرنے نے ان کو ایسا بنادیا تھا… چنانچہ حضرات خلفائے راشدین نے جب حکومتیں چلائیں تو ان کی… دینی اور ’’کتابی‘‘ سیاست کے سامنے دنیا کی تمام تر ’’سیاست‘‘ ناکام ہوگئی… سبحان  اللہ ! حضرات صحابہ بھی کیسے عظیم لوگ … اور مسلمانوں کیلئے کیسی عظیم مثال تھے… وہ مظلوم تھے تب بھی… ’’کتاب‘‘ سے جڑے رہے… وہ قید تھے تب بھی ’’کتاب‘‘ سے جڑے رہے… وہ مہاجر ہوئے تب بھی ’’کتاب‘‘ سے غافل نہ ہوئے… وہ مجاہد بنے تب بھی’’کتاب‘‘  ان کے ساتھ رہی… اور وہ ’’کتاب‘‘ کے ساتھ رہے… وہ حکمران بنے تب بھی ہر آئے دن’’کتاب‘‘  سے ان کا رشتہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا… وہ جانتے تھے کہ … دنیا اور آخرت میں کامیابی کا تمام تر راز اسی کتاب میں ہے… وہ جانتے تھے کہ یہی رب تک پہنچنے کی سیڑھی… اور جنت تک چڑھنے کی رسی ہے… وہ سمجھ گئے تھے کہ… دنیا فتنوں کی جگہ ہے… اور ان فتنوں کی ’’قابل نفرت حقیقت‘‘ صرف آسمان کی وحی یعنی ’’کتاب‘‘ ہی سمجھا سکتی ہے… ورنہ انسان اتنا کمزور ہے کہ… مال، ترقی اور زندہ رہنے کے شوق میں آسانی سے تباہ ہوسکتاہے… برصغیر پر پونے دو سو سال حکومت کے دوران… انگریز کی پوری کوشش یہی رہی کہ مسلمانوں کو ’’کتاب‘‘ سے کاٹ دے… دینی مدارس کا لفظ انگریز کو گالی کی طرح کیوں برا لگتا ہے؟… صرف اس لیے کہ ان مدارس میں ’’کتاب‘‘ پڑھائی جاتی ہے…  اللہ  تعالیٰ معاف فرمائے… انگریز جزوی طور پر اپنی کوشش میں کامیاب ہوا… اور اس نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو ’’کتاب‘‘ سے کاٹ دیا… چند دن پہلے ’’مینار پاکستان‘‘ پر جو جلسہ ہوا… اس میں خود کو مسلمان کہنے والے لیڈروں نے جو کچھ کہا… وہ اسی ’’انگریزی محنت‘‘ ہی کا کڑوا پھل ہے… نام مسلمانوں والے… مگر دل میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے ذرہ برابر جگہ نہیں… دنیا، صرف دنیا اور کافروں کی خوشنودی… کیا یہ کسی مسلمان کا منشور ہوسکتا ہے؟… انگریزی نصاب تعلیم نے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا ہے… جو ’’کتاب‘‘ سے بالکل جاہل اور نا آشنا ہے… یہ لوگ فخر سے مسلمان کہلاتے ہیں مگر… ان کے دل ’’کتاب  اللہ ‘‘ کے احکامات سے نفرت رکھتے ہیں… آپ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ جائیں… آپ کو قبر، حشر، آخرت کا کوئی تذکرہ یا دھیان نہیں ملے گا… بس دنیا، دنیا اور یہاں کی مجبوریاں اور غیر ملکی دباؤ… اور یہ کہ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے… اگر ان کو بتایا جائے کہ قرآن پاک قبر یاد دلاتا ہے… آخرت کی زندگی کو اصل بتاتاہے … دنیا کی زندگی کو فانی قرار دیتا ہے… اور کفار سے یاری کو پسند نہیں کرتا تو… وہ… حیرت اور نفرت سے اُلٹی سیدھی باتیں کرنے لگتے ہیں… اور قبر وآخرت کی باتیں کرنے والے کو پاگل سمجھتے ہیں… میانوالی جیل میں اسارت کے دوران مجھے ایک آفیسر نے کہا… آپ کی باتیں عجیب ہیں؟ … میں حیران ہوا کہ… سب لوگ مر رہے ہیں… سوسال پہلے کے تقریباً تمام لوگ مرچکے ہیں… معلوم ہوا کہ مرنا حقیقت ہے… اسی حقیقت کو یہ لوگ عجیب سمجھتے ہیں… اور ہر لمحہ فنا ہونے والی زندگی کی خاطر… اپنا دین، ایمان سب کچھ برباد کر رہے ہیں… ظالم انگریز نے کچھ مسلمانوں کو…ا نگریزی تعلیم دے کر… ان کے ہاتھوں سے ’’کتاب‘‘ چھین لی… کچھ کو قبروں اور مزاروں پر جا بٹھایا… اور ا ن کے دلوں سے کتاب کا نور چھن گیا… کچھ کو قادیانیت اور انکار حدیث کی ناپاک دلدل میں جاڈالا… جہاں ’’کتاب‘‘ سے وہ لوگ یکسر محروم ہوگئے… کچھ لوگوں کو لسانیت پرستی اور علاقہ پرستی کے بدبودار نعروں میں مبتلا کرکے… ’’کتاب‘‘ کی خوشبو سے محروم کردیا… اور کچھ لوگوں کو جمہوری سیاست، اور جاگیرداری کا ایسا چسکا لگایا کہ… وہ … ’’کتاب‘‘ سے دور ہوتے چلے گئے… اور کچھ لوگوں کو بے حیائی، نشے بازی اور بے کاری کے فتنوں میں ڈال کر… ’’کتاب‘‘ کے علم سے دور کردیا…

ان حالات میں ’’حضرات علماء کرام‘‘ نے اپنی جانوں پر کھیل کر… اور خود کو مٹی میں ملا کر… ’’کتاب‘‘ کے ساتھ اپنے تعلق کو جوڑے رکھا… لوگوں کے گھروں سے روٹیاں مانگ کر کچی مسجدوں میں قرآن پڑھنے والے… چوری اور ڈاکہ ڈال کر بھی روٹی کما سکتے تھے… مگر روٹی ان کا مقصود نہیں تھی… وہ ’’کتاب‘‘ چاہتے تھے… اور اسی کی خاطر یہ مجاہدے اور اذیتیں اٹھا رہے تھے… یاد رکھیں! ’’کتاب  اللہ ‘‘ کے علم سے محروم سیاستدان … مسلمانوں کو کبھی کامیابی نہیں دلا سکتے… اور ایسی قیادت جس کا ’’کتاب‘‘ سے تعلق نہ ہو… مسلمانوں کو سیدھے راستے کی طرف نہیں لے جاسکتی… بات کچھ دور نکل گئی… حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا ’’ذکر خیر‘‘ اخبار میں پڑھا تو بے ساختہ یہ باتیں… ’’نوک قلم‘‘ پر آگئیں… کچھ عرصہ پہلے تک ’’کتاب‘‘ اور ’’کام‘‘ کا یہ جوڑ… پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آتاتھا… حضرت مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا عبد اللہ  درخواستی  ؒ، حضرت مولانا عبدالحق حقانیؒ   اور بہت سے حضرات … ان حضرات نے بڑی محنتیں فرمائیں… اور اپنے لیے صدقات جاریہ کے انبار جمع فرمائے…

وہ نہ گوشہ نشین کتابی عالم بنے… اور نہ ’’کتاب‘‘ سے دور آزاد سیاستدان… انہوں نے سیاست کے گلیاروں میں… اپنی علمی ودینی شان کو ماند نہیں پڑنے دیا… اور نہ مدارس کی چار دیواری میں امت کے اجتماعی حالات سے غافل ہوئے… ختم نبوۃ کا مسئلہ آیا تو وہ کفن باندھ کر نکلے… اور بالآخر قادیانیوں کو… قانونی طور پر مرتد قرار دلوا کر دم لیا… پھر ان کے پڑوس میں ’’جہاد افغانستان‘‘ شروع ہوا تو … ان حضرات نے جہاد کا اوّلین فتویٰ… بغیر کسی خوف اور ترغیب کے جاری کیا… اور اپنے جیسے ایک کتابی عالم حضرت مولانا محمد نبی محمدیؒ… کی بھرپور مدد کی… افغانستان کے جہاد میں بڑے بڑے لوگوں نے شرکت کی… مگر… سیدھی راہ پر وہی رہے جن کا ’’کتاب‘‘ سے براہ راست رشتہ تھا… حضرت مولانا محمد نبی محمدیؒ، حضرت مولانا محمد یونس خالصؒ وغیرہم… جبکہ ’’کتاب‘‘ سے دوری نے… ’’استاذ سیاف، استاد ربانی، پیر گیلانی… اور صبغت  اللہ  مجددی کو غلط راستوں پر جا ڈالا… اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے ’’کتاب‘‘ سے تو تعلق رکھا مگر ’’کتاب‘‘ کے بتائے ہوئے ’’کام‘‘ میں نہیں لگے… وہ بھی امریکہ اور کرزئی کے جال میں تڑپ رہے ہیں…

دراصل  اللہ پاک نے امت کو ’’کتاب‘‘ بھی دی… اور لوہے کا استعمال بھی سکھایا… سورۃالحدید پڑھ کر دیکھ لیجئے… خود حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم ادھر ’’کتاب‘‘ لاتے تھے… اور ادھر ’’کام‘‘ میں لگ جاتے تھے…

پہلی ’’وحی‘‘ نازل ہوتے ہی ’’کام‘‘ شروع ہوا… اور آخری وحی نازل ہونے تک جاری رہا… علم وجہاد کا یہی جوڑ زمین پر خلافت قائم کرتاہے… اور علم وجہاد کا یہی تعلق… امت مسلمہ کو کامیاب ’’قیادت‘‘ فراہم کرتا ہے… امت کی قیادت ’’کتاب‘‘ کا پورا علم حاصل کرتی ہے… اور امت کے عوام… ان کی پوری اطاعت کرتے ہیں… مگر ’’کام‘‘ کے میدان میں علماء اور عوام سبھی مل کر محنت کرتے ہیں… اللہ  کرے امت مسلمہ میں یہ دونوں کام اکٹھے جاری رہیں… اور مزید زور پکڑیں… ورنہ ’’کام‘‘ اور ’’کتاب‘‘ کا الگ الگ کونے سنبھال لینا ان فتنوں کو آواز دے رہا ہے… جن کے آگے پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا ہے… آج ہی کے اخبار کی ایک بڑی خبر یہ تھی کہ… دینی جماعتوں کے بعض اراکین اسمبلی نے رشوت لیکر… سینیٹ کے انتخابات میں اپنے ووٹ فروخت کیے ہیں… اب ان کو پارٹی سے نکالا جارہا ہے… واضح بات ہے کہ اگر ان لوگوں کو روزانہ… ’’کتاب‘‘ کے نور سے سیراب کیا جاتا تو اتنی گھٹیا حرکت کرنے پر وہ موت کو ترجیح دیتے… مگر افسوس کہ ’’کتاب‘‘ اور ’’کام‘‘ کے بڑھتے فاصلے… ہرجگہ اور ہر مقام پر طویل ترین ہوتے جارہے ہیں… مجاہدین میں سے بہت سے افراد اور جماعتیں ان فاصلوں کا شکار ہیں… ان کے ہاں ’’کتاب‘‘ سے دوری کچھ عیب نہیں… تب … جہاد بہت آسانی سے فساد بن جاتا ہے… اور دشمنان اسلام کو اپنے کام میں آسانی ہوجاتی ہے… دین کا کام کرنے والے افراد اور جماعتوں کے لئے ’’کتاب‘‘ ہی کامیابی کی ضمانت ہے… محض وقتی جذبات، نعرے… اور وابستگی کافی نہیں ہے… آپ اور ہم نے بارہا دیکھا ہوگا… کہ کتنے لوگ دنیاداری اور گناہ چھوڑ کر دین سے وابستہ ہوتے ہیں… وہ پورے جوش کے ساتھ آتے ہیں اور خوب خوب کام کرتے ہیں… مگر پھر وہ اپنی زندگی کے کسی مرحلے پر… ’’کتاب  اللہ ‘‘ کی رہنمائی لینا بھول جاتے ہیں… وہ کسی ایسے کاروبار میں جاپڑتے ہیں جو ’’کتاب‘‘ کے خلاف ہوتا ہے… وہ کوئی ایسی شادی کرتے ہیں … جو … ’’کتاب  اللہ ‘‘ کے اصولوں کے خلاف ہوتی ہے… وہ کوئی ایسا طرز عمل اپناتے ہیں جو ’’کتاب‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتا… تب ان کی زندگی دین سے ہٹ کر… دنیا کی طرف گِر جاتی ہے… اور وہ دنیا کی غلاظت، اس کی زیب وزینت اس کی گندگیوں… اور اس کی ظاہری ٹیپ ٹاپ میں پڑ جاتے ہیں… میں نے ایسے مجاہدین بھی دیکھے ہیں… جو… اس ظالم دنیا کو بالکل چھوڑ چکے تھے اور اس دنیا کی ناپاک محبت سے پاک ہوچکے تھے… وہ ہر وقت شہادت کیلئے تڑپتے تھے… اور ان کے چہروں پر ایمان کا نور برستا تھا… مگر پھر انہوں نے غلطی کی… اور غافل دنیاداروں سے دوستی کرلی… تب… ان کو اپنا سادہ لباس برا لگنے لگا وہ کپڑوں اور جوتوں میں عزت ڈھونڈنے لگے… اپنے گھروں کے لئے صوفوں اور اعلیٰ فرنیچر کی فکر میں پڑ گئے… اور پھر اللہ  پاک کی پناہ… فرشتوں کے مقام سے گِر کر دنیا دار جانوروں کے درجے پر جاپڑے… کہاں  اللہ  تعالیٰ کے قرب کا عشق… اور کہاں جوتوں اور سامان کی ناپاک حرص… کہاں فرشتوں والی پیاری زندگی اور کہاں ریاکاری اور دکھاوے والی شیطانی زندگی…

 اللہ  تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے… اور ہمیں اپنے پاک نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی طرح ’’فقیری‘‘ سے محبت عطاء فرمائے … اے  اللہ کے بندو! کسی کی دولت اور کسی کی ظاہری چمک سے متاثر نہ ہو… ایمان کی حفاظت کرو… چاہے گردن کٹ جائے… اپنی اولاد کے رشتوں میں احتیاط کرو… جو لوگ صرف مال دیکھ کر رشتہ دیتے یا لیتے ہیں… ان سے رشتہ نہ کرو… بلکہ اگر اللہ  تعالیٰ نے مال دیا بھی ہو تو… ایسے لوگوں سے چھپا لو… اور انہیں بتاؤ کہ اگر دین کو دیکھ کر نکاح کرناہے تو کرو… ورنہ نہیں… ’’کتاب اللہ ‘‘ کو دیکھ کر… دوستی جوڑنی ہے تو ٹھیک… ورنہ نہیں… اے  اللہ  کے بندو!…  اللہ  پاک فرما رہا ہے کہ… تمہیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے… اور  اللہ  تعالیٰ سے غافل نہ کرے…

قبر قریب ہے… اور موت سر پر کھڑی ہے… ایمان، جہاد اور دینی غیرت بہت اونچی، بہت عالی شان اور بہت عزت والی نعمتیں ہیں… مال عیب ہے، مال فتنہ ہے… اور مال مصیبت ہے… مگر اس کے لئے نہیں جو اس کا شرعی حق ادا کرے اور اسے دین کے لئے لگائے… ہمیشہ غریبوں کی صحبت اختیار کرو… اپنے دل کو کار کوٹھی کی محبت سے پاک رکھو… اپنے عزت اور شان والے نبی کی زندگی کو یاد رکھو… اور دنیا کی چمک دمک میں اپنی جہادی شان کو رسوا نہ کرو… ہم لوگ کپڑوں پر پیوند لگاتے تھے تو… ہم تقریباً ساری دنیا کے حکمران تھے… اور اب ہم استری میں عزت ڈھونڈتے ہیں تو ہرجگہ ذلیل ہیں… اللہ  تعالیٰ کی نعمتیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے… مگر… دل دنیا کی محبت سے پاک رہے… بیت الخلاء میں قرآن پاک نہیں رکھا جاسکتا… جس دل میں دنیا کی محبت اور عظمت ہو اس میں  اللہ  تعالیٰ کی محبت جگہ نہیں پاتی… اگر اچھا پہننے، اچھا کھانے… اور اچھا استعمال کرنے سے کسی کے دل میں ’’تکبر‘‘ عُجبُ اور بڑائی پیدا نہیں ہوتی تو… اس کیلئے کچھ حرج نہیں… مگر دوسروں کو دکھانے کیلئے جو کچھ ہوگا وہ ہمیں…  اللہ  تعالیٰ سے دور کرکے محض ریاکار بنادے گا…  اللہ  تعالیٰ حضرت مفتی محمودؒ کے درجات بلند فرمائے… انہوں نے ختم نبوۃ تحریک کی قیادت فرمائی… انہوں نے جہاد افغانستان کا فتویٰ دیا اور اس جہاد کی نصرت فرمائی… انہوں نے وفاق المدارس جیسے عظیم ادارے کی تشکیل ومضبوطی میں اہم کردار ادا کیا… انہوں نے صوبہ سرحد میں نو ماہ تک وزارت علیاکی مسند پر… حتی المقدور دین کی خدمت کی… انہوں نے ہزاروں دینی فتاویٰ تحریر فرمائے… انہوں نے سالہا سال تک دینی مدارس کے طلبہ کو قرآن وحدیث کے علوم پڑھائے… انہوں نے بہت سے حج کیے… بار بار عمروں کی سعادت حاصل کی… اور پھر حج ہی کے سفر کے دوران… جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہمان خانے میں… آخرت کے سفر کی طرف روانہ ہوگئے… سعدی غریب بھی اس وقت وہاں تھا… اسے ان کی آخری مجلس بھی یاد ہے… اور ان کا ایمبولینس میں لٹایا جانا بھی … اور پھر ظہر کی نماز میں ان کی صحت کیلئے دعاء… مگر پھر فوراً انتقال کی خبر… پھر دارالحدیث میں… قطار لگا کر… بار بار ان کی زیارت… پھر حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی  ؒ کی امامت میں… ان کی نماز جنازہ… پھر ان کی ملتان… اور پھر عبد الخلیل منتقلی…  اللہ  پاک ان کے درجات بلند فرمائے…  اللہ  پاک نے انہیں بے شمار ذاتی صلاحیتوں… اور مفید اجتماعی صلاحیتوں سے نوازا… اور پھر ان سے خوب کام لیا… انہیں اچھی زندگی عطا فرمائی… اور انہیں سفر حج کی مبارک موت سے ہمکنار فرمایا…  اللہ  تعالیٰ قیامت تک ان کی حسنات کو جاری رکھے…

…آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭

 


 

ایک بیٹے کا یہ نام رکھیں!

 

 اللہ  تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پیارا نام محمدصلی اللہ علیہ وسلم  ہے… ہم جب بھی یہ نام لیتے ہیں… ہمارے ہونٹ دو بار خوشی سے ایک دوسرے کا بوسہ لیتے ہیں… آپ بھی محبت سے کہیں! محمدصلی اللہ علیہ وسلم … دیکھا آپ نے دل کتنا خوش ہوا اس میں سرور کی ایک لہر دوڑ گئی… اور ہونٹ کتنے خوش ہوئے وہ ایک دوسرے کو مبارک دینے کیلئے دوبار گلے ملے… ہاں  اللہ  کی قسم یہ بہت ہی پیارا نام ہے بہت ہی پیارا… میں، میرے ماں باپ اور میرے بچے اس پر قربان… آپ کو معلوم ہے یہ نام بھی آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا معجزہ ہے… علماء نے اس نام کے بہت خوبصورت ترجمے کیے ہیں… جس ترجمے کو دیکھیں تو دل سے آواز آتی ہے… سبحان  اللہ ! یہ نام بھی ایک عظیم اور پرکشش معجزہ ہے… صاحب قاموس نے لکھا ہے…

محمد الذی یحمد مرۃ بعد مرۃٍ

یعنی محمد وہ ہے جس کی بار بار تعریف کی جائے… یعنی جس کی تعریف کا سلسلہ ختم نہ ہو… مہینے سال بن گئے، سال صدیاں بن گئیں… مگر حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تعریف کا سلسلہ … اس طرح جاری ہے کہ بند ہو ہی نہیں سکتا… کیا اپنے کیا غیر… جو بھی عقل رکھتا ہے… تعریف کرتا چلا جاتا ہے… جس نے صورت دیکھی تو وہ حسن یوسف علیہ السلام کو بھول گیا … اور پھر تعریف کرتا چلا گیا… اور جس نے سیرت دیکھی تو پکار اٹھا کہ بس… یہی انسان کی ترقی کا سب سے آخری اور اونچا مقام ہے… نہ ان جیسا کوئی پہلے تھا نہ ان جیسا کوئی بعد میں آسکتا ہے… جو آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کو مسکراتا دیکھتا ہے وہ بھی تعریف میں ڈوب جاتا ہے… اور جو میدان میں لڑتا دیکھتا ہے تو وہ بھی عش عش کے قصیدے پڑھتا ہے… دنیا گدھے اور گھوڑے پر تھی تب بھی اسے رہنمائی… محمدصلی اللہ علیہ وسلم  کے در سے ملتی تھی… اور اب دنیا طیاروں اور سیارچوں میں ہے… مگر پھر بھی… وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم  کی محتاج ہے… انسانی مسائل جوں جوں بڑھتے جاتے ہیں… محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تعلیمات کی ضرورت اسی قدر بڑھتی جاتی ہے… تب ہر عقل والا تعریف کرتا ہے… اور تعریف کرتا چلا جاتا ہے … محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم … محمدصلی اللہ علیہ وسلم …

بعض اہل تحقیق اس پاک لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں… وہ ذات جس کی بہت تعریف کی جائے… جی ہاں  اللہ  تعالیٰ کے بعد پھر کس کی شان اور تعریف … میرے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم سے زیادہ ہوئی؟… اوپر عرش سے لیکر نیچے فرش تک تعریف ہی تعریف…تعریف کا آغاز تو خود رب تعالیٰ نے کیا… اور سورتوں کی سورتیں آیتوں کی آیتیں اپنے محبوب کی تعریف میں نازل کردیں… حضرت جبرئیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر آئے تو وحی بعد میں پڑھائی… پہلے بے اختیار گلے لگ گئے… فرشتوں کے جھرمٹ صبح سے شام تک زمین وآسمان کے درمیان درود شریف کے تحفے جمع کرتے ہیں… اور پھر روضۂ اطہر پر پہنچا آتے ہیں… کروڑوں انسان، صبح و شام کی ہر گھڑی… اللہم صل علی محمد… اللہم صل علی محمد… ہر کوئی الگ رنگ سے پڑھتا ہے، ہر کوئی الگ ترنگ سے پڑھتا ہے… ارے کیوں نہ پڑھے محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سب پر احسانات ہی اتنے ہیں کہ… ساری مخلوق مل کر ان کا بدلہ نہیں دے سکتی… کیا انسان کیا جنات… کیا سمندر کیا پہاڑ… کیا آسمان کیا زمین… سب پر میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے احسانات ہیں… اور سب کو ان احسانات کا اعتراف اور احساس ہے… مگر سب عاجز ہیں کہ… کیسے شکریہ ادا کریں، سب عاجز ہیں کہ کیسے تعریف کریں، سب عاجز ہیں کہ کس طرح سے محبت کا اظہار کریں… تب … ان کے دلوں سے آواز آتی ہے… اللہم … اے ہمارے رب آپ ہی یہ کام کرسکتے ہیں… صل علی محمد… آپ ہی نے ان جیسی کامل ومکمل اور محبوب ہستی پیدا کی… اور آپ ہی ان کو بدلہ دے سکتے ہیں… ان کا حق ادا کرسکتے ہیں… صبح سے لیکر شام تک کروڑوں، اربوں بار اس زمین پر درود شریف پڑھا جاتا ہے… جب عبدالمطلب نے اپنے یتیم… اور ظاہری طور پر بے آسرا پوتے کا نام محمد رکھا تھا تو کون سوچ سکتا تھا کہ … یہ سب کچھ ہوگا؟… پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ عبدالمطلب نے یہ نام خود نہیں رکھا… بلکہ… ان سے رکھوایا گیا … ان کے دل پر اس پاک نام کو اتارا گیا… ورنہ غریب اماں آمنہ کے یتیم بیٹے کو تو… اس وقت وہ دائیاں بھی نہیں لے رہی تھیں… جن کو زیادہ انعام کا لالچ تھا… اسی لیے تو حلیمہ کے بھاگ کھلے اور ان کی قسمت جاگی… ہاں… محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی برکات اسی کو ملتی ہیں… جو … ملعون دنیا کا لالچی نہیں ہوتا…

کچھ محققین نے محمد کا ترجمہ کیا ہے… خوبیوں والا… تمام اچھی صفات والا… الذی اجمعت فیہ الخصال المحمودۃ …وہ ذات جس میں تمام بھلائیاں اور اچھی صفات جمع ہوگئیں… اس ترجمے میں کوئی کافر بھی شک نہیں کرسکتا… مگر سچ یہ ہے کہ … محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم اس سے بھی اونچے ہیں… اس لیے تو سعدی فقیر کہتا ہے… خوبیاں ان میں جمع ہوگئیں یہ بات ٹھیک… مگر حق یہ ہے کہ جو چیز ان میں آگئی… وہی خوبی بن گئی… وہی خوبصورت بن گئی… خوبیوں نے انہیں خوبصورت نہیں بنایا… بلکہ انہوں نے خوبیوں کو خوبصورت بنایا… وہ نہ ہوتے تو کونسی چیز ہے جو خوبی کہلاتی… اور کونسی چیز ہے جو خوبصورت کہلاتی؟…

ہاں  اللہ  کی قسم… ذات محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی طرح نام محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم بھی بہت پیاراہے…

کیا ہم اس نام سے دور تو نہیں ہوتے جارہے؟… کیا ہم اس ذات سے دور تو نہیں ہوتے جارہے؟… عرب کا وباؤں زدہ شہر یثرب… کس کے دم قدم… اور کس کی برکت سے ’’مدینہ منورہ‘‘ … مدینہ طیبہ… طابہ اور طیبہ بنا… کہ آج  آسمان بھی جھک کر مدینہ کی زمین پر رشک کرتا ہے… حبشہ کا کالا غلام… حسن وعظمت کے اس مقام پر کیسے پہنچا کہ… کروڑوں انسانوں کی آنکھیں ہر دور میں اس کی زیارت کو ترستی ہیں… اور اس کی یاد میں عقیدت کے آنسو بہاتی ہیں… کہاں مدینہ کی کچی گلیاں… اور پھر کہاں روم و فارس کے لٹتے خزانے… کہاں اپنے اونٹوں اور مونچھوں پر لڑنے والے… اور پھر کہاں دنیا پر علم وحکمت کے خزانے لُٹانے والے… جس طرف دیکھتے جائیں… اور جس رخ پر سوچتے جائیں… بے اختیار آنسو مچلنے لگتے ہیں… اور زبان دل کو ساتھ لے کر پڑھتی ہے… اللہم صل علی محمد… اللہم صل علی سیدنا محمد

آج ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوئے تیسرا دن ہے… میں عید میلاد النبی نہیں مناتا… کیونکہ اگر میرا ایمان سلامت ہے تو میرا ہر دن عید میلاد النبی ہے… مجھے ہر دن آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کلمہ پڑھاتے ہیں، نماز سکھاتے ہیں… اور معلوم نہیں کیا کچھ سکھاتے ہیں… ایسا ہر مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے… ہم حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم سے جدا ہو کر… نہ مسلمان رہ سکتے ہیں اور نہ انسان… ہم ایک دن پیدائش مبارک کا جشن منائیں… اور پھر انہیں بھول جائیں… یہ ظلم ہوگا ظلم… ان کے ساتھ نہیں… اپنے ساتھ اور اپنی نسلوں کے ساتھ… مگر ہم غیروں کے کرسمس سے متاثر ہو کر… سچے عاشقوں کا طریقۂ محبت بھول جاتے ہیں… ارے محبت کوئی آسان کام تو نہیں ہے؟… پیٹ، معدے اور لالچ کے اس زمانے میں تو محبت ویسے ہی اس دنیا سے روٹھ کر میکے چلی گئی ہے… محبت سیکھنی ہے تو صحابہ کرام سے سیکھو… محبت سیکھنی ہے تو ازواج مطہرات سے سیکھو… محبت سیکھنی ہے تو اماں فاطمۃ الزہراء سے سیکھو… چند جلتے بجھتے بلب، دوچار رنگین جھنڈیاں ایک آدھ جلوس… اور پھر کھانے کی دیگ… ارے نہ تم نے محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی شان کو سمجھا اور نہ ان کی محبت کو… امام قرطبی ؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ … حضرت عبد اللہ  بن زید رضی  اللہ  عنہ کو خبر ملی کہ… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم نے وصال فرمالیا ہے … فوراً قبلہ رخ ہوکر پکارے… اے ربا! آنکھیں واپس لے لے… ان کا کام اب ختم ہوچکا ہے… دعاء ایسی سچی تھی کہ فوراً قبول ہوگئی… امام رازیؒ نے تفسیر کبیر میں… اور بعض دوسرے مفسرین نے بھی اپنی تفاسیر میں لکھا ہے… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم احد کے دن زخموں سے چور تھے… خون اتنا بہہ گیا تھا کہ غشی کے دورے پڑتے تھے… بی بی فاطمہ رضی  اللہ  عنہا… ابا حضور صلی  اللہ  علیہ وسلم کے زخم دھو دھو کر قربان ہورہی تھیں … اچانک آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اٹھ کر مشرکین کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا… اور اعلان ہوا کہ… جو اُحد کی لڑائی میں شریک تھا… صرف وہی میرے پیچھے چلا آئے… تب آسمان نے عشق ووفا کا وہ منظر دیکھا… جسے وہ کبھی نہیں بھلا سکے گا… کیسے بھلائے گا؟… جب عرش والے رب نے اس منظر کو قرآن پاک کی انمٹ آیت… اور اپنے قدیم کلام کا ازلی حصہ بنادیا ہے… بہتے زخموں اور کٹے جسموں کے ساتھ … تکبیر کے نعرے بلند ہوئے… اور مدینہ سے حمراء الاسد تک آٹھ میل کی زمین… اس زخمی، قافلے کے خون سے گل رنگ ہوگئی… قافلہ جارہا تھا ساٹھ ستر کے درمیان کی نفری تھی… اور ادھر دو عاشق اپنے زخموں سے کراہ رہے تھے… اور بے چینی سے تڑپ رہے تھے… او میرے یار آقا چلے گئے… وہ دیکھو… وہ جارہے ہیں… اور ہم پیچھے رہ گئے… آقا بھی تو زخمی تھے… وہ جائیں اور ہم ان کے ساتھ نہ ہوں… ہائے دل پھٹ رہے ہیں… سر سے پاؤں تک رستے زخم بھول گئے… شکست کا غم یاد نہ رہا … خون سے خالی جسم کے تقاضے دماغ سے نکل گئے… ارے یار! آقا تشریف لے جارہے ہیں… اور ہم یہاں؟… اٹھو ہمت کرو… مگر کہاں؟… آخر انسان تھے گوشت کٹ چکا تھا… خون نچڑ چکا تھا… تب ایک معاہدہ ہوا… یار میں ہمت جمع کرکے اٹھتا ہوں… اور تمہیں بھی اپنی کمر پر لاد تا ہوں… جتنی دیر چل سکا چلتا رہوں گا… جب گر جاؤں گا تو تم میرا بوجھ اٹھا لینا…

پھر وہ دونوں آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے پیچھے اسی شان سے روانہ ہوگئے… گرتے پڑتے، ایک دوسرے کو اٹھاتے… اور پھر آقا کے قدموں تک پہنچ گئے… مگر آسمان کی وحی ان سے پہلے… ان کی تعریف میں پہنچ چکی تھی… گویا اس منظر نے زمین وآسمان کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا… آؤ عید میلاد النبی منانی ہے تو اس شان سے مناؤ… جیسے ان دو حضرات نے منائی… آج بھی تو آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے دین کو… ایسے زخمی قافلوں کی ضرورت ہے… مگر کہاں؟… ہم تو بہت دور نکل گئے ہیں… بہت دور… آؤ واپسی کی کوشش کریں… ورنہ تباہ ہوجائیں گے، برباد ہوجائیں گے…

بات چل رہی تھی… نام محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی… یہ کتنا پیارا نام ہے… کتنا پیارا… امت مسلمہ نے جہاں… اس نام والے سے اپنا رشتہ مضبوط رکھا وہاں انہوں نے… اس نام کو بھی خوب مضبوطی سے تھامے رکھا… محدثین، مفسرین کے نام پڑھ لیجئے… کوئی محمد… کوئی احمد… میرے ارد گرد کئی کتابیں پڑی ہیں… اکثر مصنفین کے نام محمد یا احمد… سبحان  اللہ  امت نے ذات کی برکتیں بھی حاصل کیں… اور نام کے مزے اور برکتوں سے بھی پورا پورا حصہ لیا … مجوسیوں اور بدھ متوں کے علاقے بخارا کی ایک عورت نے پتہ نہیں کیا سوچ کر… اپنے… لخت جگر کا نام محمد رکھا… اور پھر یتیمی میں اسے پالا… آج اس عورت کے بارے میں پوچھو وہ کون ہے؟… ساری علمی دنیا کہتی ہے… وہ تو امام بخاریؒ کی ماں ہے… جی ہاں محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی ماں… یہ میرے ساتھ تفسیر قرطبی پڑی ہے… عجیب بلند پایہ تفسیر… میں سالہا سال سے اس کا دیوانہ ہوں اور اب تو کئی دن سے الحمدللہ روزانہ آٹھ گھنٹے میں اس کے قریب رہتا ہوں… آج سے پہلے مجھے کبھی خیال نہ آیا کہ مصنف کا پورا نام تو دیکھ لوں… بس اتنا پتا تھا کہ وہ ’’امام قرطبی‘‘ ہیں… جس آیت کی تفسیر سمجھنی ہوتی ہے… وہی صفحہ کھول لیتا ہوں… آج اسم محمد پر لکھنے بیٹھا تو کتاب پر غور سے نام دیکھا… یہ بھی ’’محمد‘‘ ہیں… ابو عبد اللہ  محمد بن احمد الانصاری القرطبی… یہ دیکھیں یہ شہرہ آفاق تفسیر… البحر المحیط میرے بائیں جانب رکھی ہے… ماشاء  اللہ  کمال کی تفسیر ہے… اور واقعی علم کا البحر المحیط یعنی سمندر ہے… اس کے مصنف کا نام بھی محمد ہے… محمد بن یوسف ابو حیان اندلسی… دیکھا آپ نے مسلمان کتنے شوق سے … اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے تھے… اور پھر کتنے اہتمام سے ان کو اس نام کی لاج رکھنے کے قابل بناتے تھے… آج جبکہ یورپ کے برے لوگوں نے… حضرت محمد صلی اللہ  علیہ وسلم کے خلاف… ایک نئی جنگ شروع کی ہے… اور کارٹونوں کا سہارا لیکر اپنے دل کا بغض نکالا ہے تو… ہمیں اس جنگ کاجواب تین طریقے سے دینا ہوگا… ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ… ہم اس مبارک نام کو اور زیادہ پھیلائیں… اور ہم میں سے ہر مسلمان مرد اور عورت… اس بات کی نیت کرلے کہ… ان شاء  اللہ … میں اپنے ایک بیٹے کا نام محمد رکھوں گا… تب کچھ عرصہ بعد… محمد نام کے لاکھوں بچے ایمان اور قرآن کے سائے میں پل کر… جوان بنیں گے… اور ایک ایک گھر، ایک ایک گلی میں… حافظ محمد… عالم محمد، مجاہد محمد… مفتی محمد اور… کمانڈر محمد ہوں گے… جب آپ اور ہم یہ مبارک نیت کریں تو ساتھ… اس بات کا بھی عزم کریں کہ… ہم اپنے محمد کو… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کا سچا امتی بنائیں گے… اسے قرآن پاک حفظ کرائیں گے… اسے تیراکی اور گھڑ سواری سکھائیں گے… اسے دین کا علم پڑھائیں گے… اور اسے جانباز وجری مجاہد بنائیں گے … آپ کو معلوم ہے… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کتنے بہادر تھے؟… امام رازیؒ نے سورۃ نساء کی آیت ۸۴ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ… پوری مخلوق میں سب سے بڑے بہادر حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم تھے… اور آپ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ جنگی امور کے ماہر تھے… کیا آپ کو معلوم ہے؟… آخری زمانے کے سب سے بڑے مجاہد کا نام کیا ہوگا؟… جی ہاں وہ بھی محمد ہوں گے جن کا لقب مہدی ہوگا… چونکہ وہ مسلمانوں کے امیر بھی ہوں گے اس لیے ان کو امام کہا جاتا ہے…یعنی حضرت امام مہدی… اب اگر ہم بھی ہر گھر میں… کم از کم ایک محمد… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق تیار کریں تو انشاء  اللہ … اس نام کا … ایک پورا مبارک لشکر وجود میں آجائے گا… ہمارے اندر عجمی رسم ورواج کی وجہ سے… نئے نئے نام رکھنے کا ایک غلط شوق رائج ہے… گھر میں بچے کا نام رکھتے ہوئے… اس بات کا پورا زور لگایا جاتا ہے کہ… یہ نام… پورے خاندان میں پہلے کسی کا نہ ہو… اور بالکل نیا ہو… اس بری رسم نے ہمیں پرویز جیسے … غلط ناموں پر ڈال دیا ہے… آپ حضرات صحابہ کرام اور صحابیات کے نام دیکھیں… ایک ہی گھر میں کئی بچوں کا ایک ہی نام رکھ دیا جاتا تھا… آج بھی عربوں میں یہ اچھا رواج موجود ہے… وہ اس فکر میں نہیں پڑتے کہ خاندان میں ایک نام کے کئی افراد نہ ہوں… بلکہ اس بات کی فکر کی جاتی ہے کہ بچے کا اچھے سے اچھا نام رکھا جائے… عربوں میں اکثر بڑے بیٹے کا نام اس کے دادا کے نام پر رکھا جاتا ہے… جبکہ ہمارے ہاں یہ اچھا خاصا عیب شمار ہوتا ہے… پورے خاندان میں ایک بچی کا نام ’’عائشہ‘‘ ہوگیا تو بس اب یہ بابرکت نام… پورے خاندان کیلئے ممنوع … ہمارے ایک محترم بھائی فرماتے ہیں کہ… ہر گھر میں ایک ’’عائشہ‘‘ ہونی چاہئے… ان کی دل سے نکلی ہوئی اس بات کا یہ اثر ہوا کہ اس وقت بعض گھرانوں میں ایک چار دیواری میں ماشاء  اللہ  تین تین ’’عائشہ بیبیاں‘‘ موجود ہیں… اسی طرح ہمارے ہاں لمبے چوڑے نام رکھنے کا رواج ہے… حالانکہ… نام اگر ایک لفظ پر مشتمل ہو تو بہتر ہے… جیسے محمد… احمد… عمر… مگر ایک رواج چل پڑا ہے کہ… شعر کے ایک مصرعہ کے برابر نام رکھا جاتا ہے… پھراس کے آگے پیچھے، ملک، چودھری، خان، حافظ، قاری، علامہ، سید، بخاری، کاظمی… معلوم نہیں کیا کیا لگا کر… نام کو پورا ایک کالم بنادیا جاتا ہے… بات کچھ دور نکل گئی… خلاصہ یہ ہے کہ… یورپ کی جنگ کا جواب دینے کیلئے جو تین اقدامات اس وقت ضروری محسوس ہورہے ہیں… ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ… ہم اس پاک نام کو خوب پھیلائیں… بعض لوگ یہ نام رکھنا بے ادبی سمجھتے ہیں… حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے… یہ بے ادبی نہیں محبت کی علامت ہے… بس پھر دیر کیسی … آج سے ہی یہ مہم شروع ہوجائے کہ اب جو بیٹا  اللہ  پاک دے گا… اس کا نام محمد ہوگا… اور اس کا کام ’’جہادِ محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم‘‘ ہوگا… اس مبارک بیٹے کے آنے سے پہلے… خود کو سیرتِ محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے مطابق بنالیں… اس کے استقبال کیلئے گھر کو ٹی وی سمیت تمام امراض سے پاک کرلیں… اور جب وہ آجائے تو پھر … اسے ایسا تیار کریں کہ جوان ہوتے ہی… حضرت امام مہدی کے لشکر کا جانباز سپاہی بن سکے… جب ہر طرف… لاکھوں خوبصورت، پاک سیرت اور تگڑے مضبوط جوان… اپنا نام محمد بتا رہے ہوں گے تو… یہ منظر اسلام کے لئے کتنا خوشگوار… اور دشمنان اسلام کیلئے کتنا عجیب پیغام ہوگا… کارٹون بنانے والے کی قبر پر… ایک کالا کتا پیشاب کر آئے گا… اور کہے گا اے مردار! اگر میرا مالک میرا نام تیرے نام جیسا رکھ دے… تو میں اسے اپنی توہین سمجھوں گا… اور دوسری طرف لاکھوں جانباز ’’محمد‘‘… ہاتھوں میں قرآن پاک اور تلوار اٹھائے… جھوم جھوم کر پڑھ رہے ہوں گے…

اللہم صل علی سیدنا محمد …

اللہم صل علی سیدنا محمد…

تب آسمان، زمین… مٹی پتھر، پھول پتے… اور بارش کے قطرے بھی پکاریں گے…

اللہم صل علی محمد…

اللہم صل علی سیدنا محمد…

 ہاں اس وقت بھی کائنات میں…  اللہ  تعالیٰ کے بعد حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کا نام چل رہا ہے… اور آئندہ بھی انہیں کا نام چلتا رہے گا…

ورفعنا لک ذکرک

اور اے محمد صلی اللہ  علیہ وسلم ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا… (القرآن)

جی ہاں  اللہ  تعالیٰ نے ان کا نام بلند کردیاہے… بہت بلند، بہت بلند… آئیں مل کر پڑھیں… اور جھوم کر پڑھیں

اللہم صل علی سیدنا محمد…

اللہم صل علی سیدنا محمد…

اللہم صل علی سیدنا محمد…

٭٭٭


نعمتیں چِھن نہ جائیں!

 

 اللہ  تعالیٰ نے ان کو ’’علم‘‘ تو بہت دیا تھا… مگر ظاہری خوبصورتی عطاء نہیں فرمائی تھی…  اللہ تعالیٰ کی مرضی … انسان کا کام ہے کہ بس خوب شکر ادا کرے… علامہ دمیریؒ نے ان کا قصہ بہت تفصیل سے لکھا ہے… وہ اپنے زمانے کے ’’امام‘‘ اور ’’محدّث‘‘ تھے… پوری اسلامی دنیا میں ان کے علم کی دھوم مچی ہوئی تھی… مشرق ومغرب کے مسلمان ان کی زیارت کیلئے آتے تھے… اور ان سے علم حاصل کرتے تھے… ان کے پاس علم تو بہت تھا… مگر وہ آنکھوں سے ’’چُندھے‘‘ تھے، پنڈلیاں بھی ٹیڑھی تھیں اور ظاہری طور پر ’’کم صورت‘‘ تھے… ایک بار خراسان کے ایک عالم ان سے علم حاصل کرنے آئے… اور بہت متاثر ہوئے… اور عجیب وغریب الفاظ میں ان کی تعریف کرنے لگے… امام صاحب نے جب اپنی ایسی تعریف سنی تو فرمانے لگے… میری بیوی کو میری قدر نہیں ہے تم چل کر یہ باتیں اس کے سامنے کرو تا کہ… اسے معلوم ہو کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں… خراسانی عالم نے کہا… بالکل! میں حاضر ہوں آپ مجھے ان کے پاس لے جائیں… امام صاحب اسے اپنے گھر لے گئے، اپنی بیوی کو دروازے کے قریب پردے میں بٹھایا… اور عالم سے کہا… میری بیوی سن رہی ہے تم بات شروع کرو… خراسانی عالم نے تقریر شروع کی… اے  اللہ  کی بندی! تم خوش نصیب ہو تمہارے خاوند کے مقام کو دنیا مانتی ہے… تم ان کے چہرے کی بدصورتی، آنکھوں کے چندھیاپن، اور ٹانگوں کے ٹیڑھا ہونے کو نہ دیکھو… خراسانی عالم کی تقریر یہاں تک پہنچی تھی کہ امام صاحب غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا… میں تمہیں اپنی برائیاں گنوانے تو نہیں لایا تھا… دفع ہوجاؤ میرے گھر سے… تم تو میری بیوی کو میرے وہ عیب بھی بتا رہے ہو جن پر پہلے اس کی نظر نہیں تھی… خیر یہ تو ایک قصہ ہے جو علامہ دمیریؒ نے ’’حیوٰۃ الحیوان ‘‘ میں لکھا ہے… اگر آپ نے تفصیل سے پڑھنا ہو تو وہاں پڑھ لیں… یہاں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب سے یہ دنیا بنی ہے… خاوند بیچارے اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح ان کی بیوی ان کی قدر اور مقام کو پہچان لے… اور اس کے لئے بعض اوقات وہ دوسروں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں… جس طرح اس قصے میں امام صاحب نے اپنے ایک خراسانی شاگرد کو استعمال کرنے کی کوشش کی… ابھی کل کی ڈاک میں مجھے ایک خط ملا… ایک صاحب نے اپنے محبت بھرے تعارف کے بعد حکم دیا ہے کہ میں ’’محکمہ بہبود آبادی‘‘ کے خلاف مضمون لکھوں… پھر ا نہوں نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ… اس موضوع پر لکھنا آپ کی ذمہ داری ہے… پھر انہوں نے مجھے مزید غیرت دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ… فلاں رسالے والے اس موضوع پر لکھ چکے ہیں… اور آخر میں انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ… ان کی اہلیہ محترمہ اس محکمے میں ملازمت کرتی ہیں… اس لیے یہ مضمون ضرور آنا چاہئے… ان کا یہ خط پڑھ کر مجھے ’’امام صاحب اور خراسانی شاگرد‘‘ کا قصہ یاد آگیا…  اللہ  کے بندے! جو بیوی مسلمان ہو کر اپنے خاوند کا کہنا نہیں مان رہی… میرا کالم اس پر کیا اثر کرے گا؟… مسلمان بیوی کے لئے  اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کے بعد خاوند سے بڑھ کر کس کا حکم ہو سکتا ہے؟ … ویسے بھی میں فرمائشی عنوانات پر مضمون نہیں لکھ سکتا… حالانکہ کوشش بھی کرتا ہوں… مگر لکھنا انسان کے اپنے بس میں تو نہیں ہے…  اللہ  تعالیٰ جس کی توفیق عطاء فرماتے ہیں… وہ ٹوٹی پھوٹی تحریر قلم پر آجاتی ہے…

کافی عرصہ سے مجھے ’’کیبل‘‘ کے خلاف مضمون لکھنے کی فرمائشیں آرہی ہیں… مگر میں اب تک نہیں لکھ سکا… ویسے فرمائش کرنے والے اتنا تو سوچ لیتے کہ میرے پاس نہ ٹی وی ہے نہ کیبل… آج میں نے ایک بھائی سے کہا کہ یار! کچھ دن کیلئے کیبل لگوادو… تاکہ … میں اس کی تمام برائیاں اچھی طرح دیکھ کر کالم لکھ سکوں… کچھ دن پہلے اخبار میں ایک خاتون کا خط شائع ہوا تھا کہ… فلاں ٹی وی چینل کا فلاں گندہ پروگرام اب ہماری برداشت سے باہر ہے… ہم ایسے پروگرام اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتیں… اب اس خاتون کو کون سمجھائے کہ… کس نے زبردستی آپ کے گھر میں ٹی وی رکھ دیا ہے؟… اور کس نے آپ کے ٹی وی میں مفت کیبل کی تار جوڑ دی ہے؟… خود ٹی وی خرید کے لاتے ہیں… خود کیبل کا کنکشن لگواتے ہیں… خود شوق سے دیکھتے ہیں اور پھر خود چیخیں مارتے ہیں کہ بے حیائی ہوگئی… بے حیائی ہو گئی… ٹی وی تو بنا ہی بے حیائی کے لئے ہے… ٹی وی کا مہذب سے مہذب ڈرامہ بھی نامحرم کی تصویر، موسیقی اور عشق بازی سے پاک نہیں ہوتا… کیبل کے بارے میں جو کچھ سننے میں آرہا ہے… اور اخبارات میں شائع ہوتا ہے وہ سب ناقابل بیان ہے… ہمت ہے ایسے مسلمان نوجوانوں کی… جو اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر رقص، موسیقی… عشق بازی اور لگ لپیٹ کے مناظر دیکھ لیتے ہیں… ایسا کرنے سے پہلے یہ خود مرگئے ہوتے… یا ان کی بہنیں مر گئی ہوتیں تو زیادہ اچھا ہوتا… مسلمان بھائی تو اپنی بہن پر غیر مرد کا سایہ نہیں پڑنے دیتے… اور اس کی حفاظت کیلئے جان تک قربان کردیتے ہیں… مگر یہ عجیب بھائی ہیں جو اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی چینل اور فلموں کے فحش مناظر دیکھتے ہیں… اپنے گھر میں ٹی وی اور کیبل چلانا… اور پھربے حیائی کے شکوے کرنا… بہت عجیب سا لگتا ہے…  اللہ  کرے یہ نفاق نہ ہو… کیونکہ اس میں سے ’’نفاق‘‘ کی بو صاف محسوس ہوتی ہے… ایک بزرگ کا خط اخبار میں آیا تھا کہ… اب تو ٹی وی پر ایسے پروگرام آرہے ہیں کہ… بعض مناظر دیکھ کر… ہمیں اپنی بیٹیوں کے سامنے آنکھیں نیچی کرنی پڑتی ہیں… سبحان  اللہ ! کیا تقویٰ ہے؟… ٹی وی خود خرید کر لائے، اس میں کیبل کی تار بھی خود لگوائی… پھر اپنی بیٹیوں کے ساتھ تشریف فرما ہو کر… باجماعت اس کو دیکھتے بھی رہے… اب پتا نہیں کس منظر پر… غیرت اسلامی جاگی کہ آنکھیں نیچی کرنی پڑیں…

اب تو کچھ لوگوں نے ’’اسلامی چینل‘‘ کھول کر معاملے کو زیادہ خراب کردیا ہے… اور لوگوں کو اپنے گھر میں ٹی وی رکھنے کا جواز مل گیا ہے… خیر میں نے بھی مزاحاً ایک بھائی سے کہا کہ ٹی وی اور کیبل لگاؤ تا کہ… پوری تحقیق کے ساتھ مضمون لکھ سکیں… اور ایک ایک برائی کا خوب کھل کر تذکرہ کر سکیں… اور جب کالم لکھ لیں تو پھر… سیاستدانوں کی طرح یہ سوچ کر ٹی وی رکھ لیں کہ خبریں سننا تو ضروری ہیں… اگر ہم نے نہ سنیں تو دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے…

ٹی وی اور کیبل کے موضوع پر لکھنے کی فرمائش کرنے والوں سے عرض ہے کہ… اس بارے میں ہم سب کا موقف بالکل صاف … اور ایمانداری پر مبنی ہونا چاہئے… گناہ کو گناہ سمجھنے ہی میں خیر ہے… تب … کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق مل جاتی ہے…  اللہ  تعالیٰ کی رحمت بہت بڑی اور بہت زیادہ ہے… اور اس کی رحمت اس کے غضب سے آگے ہے… وہ معاف فرمانے والا … اور معافی کو پسند کرنے والا ہے… اس کی بخشش کے خزانے بے انتہا اور بہت وسیع ہیں… وہ گناہوں کو معاف فرماتا ہے… اور ان کو بالکل مٹادیتا ہے… بلکہ… اگر استغفار اور توبہ سچی ہو اور مسلسل ہو تو وہ… گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے… اللہ  اکبر! … کتنی بڑی رحمت ہے کہ جرم کو عبادت میں بدل دیا جائے… وہ کون سا گناہ ہے جو اس کی رحمت کے سامنے ٹھہر سکے… مجھے بعض مسلمان بہنیں اور بھائی بہت مایوسی کا خط لکھتے ہیں کہ… ہمارے گناہ بہت زیادہ ہیں… بار بار توبہ کی ہے مگر پھر توبہ ٹوٹ جاتی ہے… اور اب بخشش کی کوئی صورت نظر نہیں آتی… میں ان کو جواب میں لکھتا ہوں …  اللہ کے بندو! ہمارے گناہوں کی کیا ہمت کہ مولیٰ کریم کی رحمت کے سامنے ٹھہر سکیں… ان گناہوں کی حیثیت ہی کیا ہے کہ  اللہ  تعالیٰ کی مغفرت کے سامنے رُک سکیں… بس ہمت نہ ہارو… اگر ہمت ہاردی تو پھر شیطان جیت جائے گا… شیطان کے ساتھ یہ جنگ مرتے دم تک رہنی ہے… جو ہمت کرکے سچی توبہ اور استغفار کرتا رہے گا وہ ان شاء  اللہ … جیت جائے گا اور شیطان پر فتح پالے گا… اور جو گھبرا کر اور مایوس ہو کر توبہ چھوڑ دے گا … اس کے لئے خطرہ ہے… اس لیے جب کبھی شیطان گرا دے فوراً اٹھ جاؤ… اور دل کے پورے عزم اور پوری ندامت کے ساتھ… آئندہ بالکل وہ گناہ نہ کرنے کی نیت کے ساتھ توبہ کرلو … اس طرح اگر شیطان ایک دن میں ستر بار گرادے… تو تم بھی اکہتر بار اٹھو، سنبھلو… اور رب کی چوکھٹ پر سر رکھ کے آنسو بہاؤ… اس دنیا میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اب وہ گناہوں سے بالکل محفوظ ہو چکا ہے… یہ جنگ مرتے دم تک جاری رہنی ہے… اس میں کامیابی توبہ کرنے والوں کی ہے… اور توبہ وہی کرتے ہیں جو گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں…

ٹی وی کی تقریباً ہر چیز ناپاک اور گناہ ہے… علماء کی تقاریر کیلئے ٹیپ ریکارڈ کافی ہے… خواتین کو ان کی زیارت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے… اور نہ اس میں کوئی دینی فائدہ ہے… اس لیے اس گناہ کو… گناہ سمجھ کر چھوڑ دیا جائے… ٹی وی کو گھر سے نکال دیا جائے… اور اس بحث کو ختم کردیا جائے کہ ٹی وی اور کیبل میں کیا فائدہ ہے اور کیا نقصان؟ اگر تھوڑے سے لوگ بھی مضبوط رہے تو ان شاء  اللہ  پورے معاشرے پر… ان کے اثرات پڑیں گے… باقی رہا محکمہ ’’بہبود آبادی‘‘ تو اس کے بارے میں کئی بیانات الحمدللہ… ماضی میں ہوچکے ہیں… اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی تو ان شاء  اللہ  مضمون بھی آجائے گا… جبکہ آج تو میرے سامنے دو بہت اہم موضوع تھے…

(۱)  ہماری حکومت نے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک تنظیم کو ’’کالعدم‘‘ قرار دے دیا ہے… اپنی برادری میں اضافہ ہو تو خوشی ہوتی ہے… ہم ایک بار بہت سخت جیل میں ڈالے گئے… جب … ابتدائی مہمان نوازی کے بعد سیلوں میں ڈالا گیا تو ایک پاکستانی قیدی نے گلے لگا کر کہا… یقین کریں! آپ کے آنے سے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے… کچھ عرصہ بعد جب ان صاحب سے دوستی ہوگئی تو ہم نے شکوہ کیا اور کہا… ہم مار کھا کر جیل میں ڈالے گئے اور آپ کو خوشی ہوئی؟ تو فرمانے لگے اپنی برادری میں اضافہ ہو تو خوشی ہوتی ہے… دینی جماعتیں بے چاری بار بار کالعدم ہورہی ہیں… جبکہ… قتل وغارت سے لیکر بھتے خوری تک میں ملوث سیاسی جماعتیں مزے سے حکومت کا حصہ ہیں… اور اب تک ان کے خفیہ عقوبت خانے چل رہے ہیں اور ان کے اسلحے کے ذخائر بھی محفوظ ہیں… مگر چونکہ امریکا ان سے ناراض نہیں ہے… اس لیے… ملک کو بھی ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے… اب پہلی بار ایک غیر دینی جماعت ’’کالعدم‘‘ ہوئی تو اپنی برادری میں اضافے پر خوشی ہوئی… ویسے سنا ہے حکومت نے اب بھی احتیاط سے کام لیا ہے… اور اصل سیاسی جماعت کی جگہ ایک ’’ہوائی جماعت‘‘ پر پابندی لگائی ہے… خیر پھر بھی برادری میں نام ہی کا سہی کچھ اضافہ تو ہوا…

ایک عاشق جس کا دل لُٹ گیا تھا باغ میں گیا… وہاں اس نے بلبل کو اُداس دیکھا… معلوم ہوا کہ بلبل سے پھول چِھن گیا ہے… تو اس نے بلبل کو پکار کر کہا… آ عندلیب! مل کے کریں آہ وزاریاں… میرا بھی ارادہ تھا کہ آج کالم لکھوں گا… آبلوچا! مل کر کریں آہ وزاریاں… عاشق نے بلبل سے کہا تھا … اے بلبل تو ہائے گل! پکار اور میں کہوں گا ہائے دل! … تیرا پھول چھن گیا اور میرا دل چھن گیا… میں نے بھی سوچا تھا کہ… سیاسی جماعت والوں کو کہوں گا بابا! تمہاری پارٹی چھن گئی… مگر ہمارا تو دل روندا گیا… وہ خوبصورت سفید پرچم جس کے پہلو پر تین سیاہ دھاریاں تھیں… جس میں سے نور کی شعاعیں برستی تھیں… ہاں وہ امت مسلمہ کے سرکا تاج… اور شہداء کی بہنوں کے سر کا آنچل تھا… اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا… ہاں کوئی جرم نہیں… وہ تو عزتوں کا محافظ… اور غیرت کا پاسبان تھا… وہ رات دن دشمنان اسلام سے لڑتا تھا… اور شہداء کے گھروں کے چولھے جلاتا تھا… ہاں مگر وہ مجرم تھا… کیونکہ وہ واشنگٹن کی بجائے ’’مدینہ منورہ‘‘ کی خاک کے بوسے لیتا تھا… اس لیے…

چلیں چھوڑیں! آج اس موضوع پر لکھنا تھا مگر معذرت! کہ فرمائشی خط کی وجہ سے یہ موضوع چھوٹ گیا…

(۲)  دوسرا جو موضوع ذہن میں تھا… وہ ایک دعاء تھی… ہم پر  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش ہر وقت برستی رہتی ہے… اتنی نعمتیں، اتنی نعمتیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا… مگر پھر اچانک …ہم ان نعمتوں سے محروم کردئیے جاتے ہیں… آخر کیا وجہ ہے؟… یقینا ناقدری اور ناشکری!… شیطان خود کفور ہے… بڑا کافر بڑا ناشکرا… وہ ہم پر تنگ دلی کے حملے کرتا ہے… اور ہم زبان سے ایک ایسا جملہ بول جاتے ہیں کہ… بہت اونچی نعمت چھن جاتی ہے… وہ ہمیں فخر میں مبتلا کرتا ہے… ہم اکڑتے ہیں اور نعمت چھن جاتی ہے… وہ ہمیں ناقدری کا زہر دیتا ہے… ہم اسے پیتے ہیں اور نعمت چھن جاتی ہے… یہ بہت تفصیل طلب مضمون ہے… نعمت کیوں چھنتی ہے؟… ان شاء  اللہ  کبھی موقع ملا تو اس پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کی جائے گی… اصل چیز تو  اللہ  تعالیٰ کی توفیق اور حفاظت ہے… اس لیے ہم ایک مسنون دعاء یاد کرلیں… اور اسے دل کی گہرائی سے مانگتے رہیں… وہ دعاء مقبول ہوگئی تو بہت ممکن ہے کہ… ہماری محرومیوں کا سلسلہ بند ہوجائے… اور بلندی سے ڈھلوان کی طرف گرنے والا ہمارا نصیب بلند ہوجائے…

دعاء یہ ہے…

اَللّٰہُمَّ لاَ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّلاَ تَنْزِعْ مِنِّیْ صَالِحَ مَااَعْطَیْتَنِیْ…

ترجمہ:  اے میرے پروردگار مجھے ایک پلک بھر بھی میرے نفس کے حوالے نہ فرما اور مجھ سے نہ چھین وہ اچھی چیز جو تو نے مجھے عطاء فرمائی ہے…

اگر اس دعاء سے پہلے یہ الفاظ بھی پڑھ لیں تو ان شا ء  اللہ  زیادہ فائدہ ہوگا…

یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَأنِیْ کُلَّـہٗ…

ترجمہ:  اے زندہ اے تھامنے والے تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تیری رحمت کے ذریعے فریاد کرتا ہوں، میرے تمام احوال کو درست فرمادے…

پہلی مسنون دعاء میں لفظ ’’ تَنْزِعْ‘‘ (زا پر زیر کے ساتھ) ہے میں نے بعض لوگوں کو ’’ تَنْزَعْ‘‘ (زا پر زبر کے ساتھ) پڑھتے سنا ہے جو غلط ہے… اس دعاء سے پہلا فائدہ یہ نصیب ہوتا ہے کہ… انسان  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے لگتا ہے… اور ان نعمتوں کے چھین لیے جانے سے ڈرنے لگتا ہے… اس کیفیت کا نصیب ہوجانا بہت مبارک ہے… چنانچہ حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم خود نعمتوں کے زائل ہوجانے سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے…

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ

کہ اے میرے پرودگار میں نعمتوں کے زوال سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں… (دعاء کا اتنا حصہ مناجات مقبول میں مذکور ہے اصل کتاب موجود نہ ہونے کی وجہ سے پوری دعاء اور حوالہ نہیں لکھا جاسکا) اسی طرح حضرت علی رضی  اللہ  عنہ کا استغفار کچھ عرصہ پہلے آپ اسی کالم میں پڑھ چکے ہیں… اس میں بھی یہ الفاظ تھے…

وَاغْفِرْلِیْ الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُغَیِّرُ النِّعَمْ

کہ اے  اللہ  میرے وہ گناہ بخش دے جو نعمتوں کے ختم ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں…

معلوم ہوا کہ اس فکر کا پیدا ہو جانا بھی سنت ہے… اور خود کو  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کا محتاج سمجھنا بندہ مؤمن کی شان ہے… پس یہ دعاء نعمتوں کی حفاظت کیلئے ہے… دیکھیں جہاد کتنی عظیم الشان نعمت ہے… آج لاکھوں مسلمانوں میں سے ایک آدھ  کو یہ نعمت نصیب ہوتی ہے… مگر ان میں سے بھی بعض سے یہ نعمت چھین لی جاتی ہے… اسی طرح ہر نعمت کا معاملہ ہے… اللہ  تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر نصیب فرمائے… اور ان نعمتوں کے زوال سے ہماری حفاظت فرمائے…

یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَأنِیْ کُلَّہٗ  ولاَ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّلاَ تَنْزِعْ مِنِّیْ صَالِحَ مَا اَعْطَیْتَنِیْ … اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ … اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُغَیِّرُ النِّعَمْ … آمین یا ارحم الراحمین…

وصل اللہم علی خیر خلقک سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

٭٭٭


 

کراچی کے دھماکے
اور چند واقعات

 

 اللہ  تعالیٰ امت مسلمہ پر رحم فرمائے… کراچی کے افسوسناک دھماکوں پر کچھ عرض کرنے سے پہلے چند واقعات پیش خدمت ہیں…

حضرت مفتی ولی حسن صاحبؒ کا واقعہ

حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب نور  اللہ  مرقدہ… سبق پڑھانے کیلئے دارالحدیث میں تشریف لائے… سبق ’’صحیح بخاری‘‘ کا تھا یا ’’جامع ترمذی‘‘ کا… سبق کے دوران حضرتؒ نے بہت غمزدہ لہجے میں فرمایا… ’’فلاں سیاسی لیڈر نے اپنی تقریر کے دوران مولانا شاہ احمد نورانی کی بطور توہین نقل اتاری ہے… یہ بہت افسوسناک واقعہ ہے کسی لیڈر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک عالم دین کی اس طرح توہین کرے…

حضرؒت کافی دیر تک اس افسوسناک سانحے پر غم کا اظہار فرماتے رہے… اور آپ نے اس لسانیت پرست سیاسی لیڈر کی کافی مذمت بھی فرمائی… ہم طلبہ کیلئے یہ منظر کافی حیران کن، عجیب اور چشم کشا تھا… حضرتؒ توحید وسنت کے سچے علمبردار… اور بدعات کے شدید مخالف تھے… مگر اس کے باوجود آپ کا ایک دوسرے مسلک کے عالم دین کے ساتھ اس طرح اظہار ہمدردی کرنا… ہمیں ’’اسلامی اعتدال‘‘ اور ’’دینی اخلاق‘‘ کا وہ سبق سکھا رہا تھا جس کی اس وقت امت مسلمہ کو شدید ضرورت ہے…

حضرت شیخ الہندؒ کا واقعہ

پہلے جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ اپنی آنکھوں کا دیکھا ہوا تھا… جبکہ یہ واقعہ کتابوں میں پڑھا ہے اور اپنے اکابر سے بارہا سنا ہے… حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی نور  اللہ  مرقدہ… جب ’’مالٹا‘‘ کے عقوبت خانے سے رہا ہو کر ہندوستان تشریف لائے تو ’’مسلمانان ہند‘‘ نے ان کا پرجوش والہانہ استقبال کیا… اور ہر جگہ لاکھوں افراد ان کی بات سننے اور زیارت کرنے کیلئے جمع ہوئے… حضرت شیخ الہندؒ کو  اللہ  پاک نے بہت اونچا علمی مقام… اور بہت اعلیٰ روحانی مقام عطاء فرمایا تھا… حضرت نے مسلمانوں کے اس ’’رجوع عام‘‘ کے وقت بس اسی بات پر زور دیا کہ… مسلمانوں کے مسائل کا حل دو چیزوں میں ہے…

(۱)  قرآن پاک کی طرف لوٹ آئیں

(۲) فرقہ واریت چھوڑ دیں…

حضرتؒ ہر جگہ یہی صدا لگاتے رہے اور ’’انگریزی اقتدار‘‘ سے برصغیر کی آزادی کی راہ ہموار فرماتے رہے…

حضرتؒ یہ سبق سکھا کر چلے گئے… معلوم نہیں مسلمانوں نے اس پر کتنا عمل کیا…

اکوڑہ خٹک کا واقعہ

افغانستان پر امریکی حملے سے کچھ پہلے… دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں… دفاع افغانستان کونسل کا اجلاس ہوا… اس بھرپوراجتماع میں تقریباً تمام ’’مکاتب فکر‘‘ کی بڑی قیادت موجود تھی… مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب… بریلوی مکتب فکر کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانی صاحب نے بغیر لگی لپٹی… بہت کھلے الفاظ میں طالبان کی بھرپور تعریف کی… اور انہیں والہانہ خراج عقیدت پیش کیا…

یورپ کا واقعہ

مجھے ایک بار یورپ کے ایک مرکزی ملک میں جانے کا اتفاق ہوا… ایک دن کچھ حضرات ملنے کیلئے تشریف لائے… اور پوچھنے لگے کیا آپ بریلویوں کی مسجد میں بھی تقریر کی دعوت قبول کرلیں گے؟… میں نے عرض کیا… ضرور ان شاء  اللہ … مجھے تو ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی آواز پہنچانی ہے… اگر آپ حضرات کو یہ موضوع ’’برداشت‘‘ ہو تو مجھے آپ کی مسجد میں جا کر بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے… وہ میرا ’’غیر متوقع‘‘ جواب سن کر بہت خوش ہوئے… اور میرے ’’میزبانوں‘‘ کے ساتھ بیان کا وقت ’’مقرر‘‘ کر گئے… بندہ اس دن اپنے رفقاء کے ہمراہ اس مسجد میں پہنچ گیا… نماز مغرب کا وقت قریب تھا اور ’’بیان‘‘ نماز مغرب کے بعد تھا… مجھے دعوت دینے والے مسجد کمیٹی کے حضرات کی خواہش تھی کہ نماز کی امامت بھی میں کراؤں… مگر میں نے اس میں زیادہ دلچسپی نہ دکھائی… اور صف کے ایک کونے میں جا بیٹھا… اذان کے بعد منقش جبے اور شاندار دستار میں ملبوس امام صاحب تیزی سے آگے بڑھے… اور انہوں نے میری امامت کے تمام امکانات کو ’’کالعدم‘‘ کردیا… اور میں بھی ایسا ہی چاہتاتھا… نماز کے بعد بیان شروع ہوا… امام صاحب تھوڑی دیر ’’شان بے رغبتی‘‘ کے ساتھ پہلو دے کر بیٹھے رہے… مگر پھر آہستہ آہستہ متوجہ ہوتے گئے… اور بالآخر پوری طرح متوجہ ہوگئے… مجنوں نے لیلیٰ ہی کی بات کرنی تھی… میں بھی مدینہ منورہ کی فضاؤں سے جہاد کے قصے چنتا اور سناتا رہا… اور عاشقان مصطفی صلی  اللہ  علیہ وسلم کو آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کے زخم مبارک اور آپ کا جہاد مبارک یاد دلاتا رہا… بیان کے بعد ایک صاحب کے گھر کھانا تھا… امام صاحب بھی تشریف لے آئے اور بہت تپاک سے ملے… اور فرمانے لگے میں ’’سندھی‘‘ اور پکا ’’بریلوی‘‘ ہوں… میری عمر چالیس سال ہوچکی ہے… آج زندگی میں پہلی بار کسی کے بیان میں رویا ہوں… ہم بریلوی لوگ جہاد سے بہت دورا ور بہت محروم ہوگئے ہیں… امام صاحب کا دل کھل چکا تھا اور آدمی بھی صاف گو تھے… خوب کھل کر بولے اور نماز کی امامت کا موقع نہ دینے پر معذرت کرتے رہے…

گولڑہ شریف کا واقعہ

حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ نے فتنہ قادیانیت کے خلاف بڑا کام کیا… مرزا ملعون نے ان کے خلاف ایک رسالہ ’’تحفۂ گولڑویہ‘‘ بھی لکھا ہے… ایک دن مجھے خیال ہوا کہ پنڈی اسلام آباد تو آنا جانا رہتا ہے… کسی دن گولڑہ شریف بھی ہو آؤں… بالآخر ایک دن ترتیب بن ہی گئی… حضرت پیر صاحبؒ کے مزار پر لکھا تھا کہ خواتین کا آنا ممنوع ہے… یہ بورڈ دیکھ کر کافی مسرت ہوئی… فقہاء اسلام نے خواتین کے قبروں پر جانے کو بالاتفاق ممنوع قرار دیا ہے… اور چند کڑی شرطوں کے ساتھ بصورت مجبوری اسکی اجازت دی ہے… میں اپنے رفقاء کے ہمراہ ’’مرقد‘‘ پر فاتحہ وغیرہ پڑھنے لگا… کچھ لوگ تلاوت بھی کر رہے تھے… پھر اچانک ایک صاحب نے تلاوت مکمل کی… قرآن پاک کو ایک طرف رکھا اور قبر کو باقاعدہ سجدہ کیا… میں نے حسن ظن کے طورپر سوچا کہ قبلہ کی طرف سجدہ کیا ہوگا… مگر غور سے دیکھا تو قبلہ ان کی دائیں طرف تھا… یہ منظر بہت تکلیف دہ تھا… ایسے محسوس ہوا کہ دل پر مکا سا لگا ہے… مزید ایسے مناظر سے بچنے کیلئے ہم وہاں سے جلد روانہ ہوگئے…

واپسی پر حضرتؒ کے جانشینوں میں سے ایک صاحب علم، صاحب کلام مؤحد بزرگ سے ملاقات ہوئی… ہم نے ان کے ملفوظات سنے اور ان سے درخواست کی کہ … جہاد کا فریضہ ظلم اور لاپروائی کا نشانہ بن رہا ہے… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم سے کون بڑا بزرگ تھا اور کون بڑا مقامات والا؟… جب آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم خود جہاد میں لڑنے نکلے تو ان کے وارث کہلانے والوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟… آپ بھی مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دیا کریں… انہوں نے فرمایا میں ضرور دوں گا آپ کچھ ایسی کتابیں بھجوادیں جن میں جہاد کا مواد یکجا مل جائے… بندہ نے وعدہ کیا… انہوں نے مشروب پلایا اور دعا کرا کے رخصت کیا… کچھ دنوں بعد بندہ نے ان کی خدمت میں چند کتب بھجوادیں…

یہ چند واقعات کراچی کے بم دھماکوں کی وجہ سے… یاد داشت میں تازہ ہوگئے… میں نے خبروں میں سنا کہ ’’کچھ حضرات‘‘ جہادیوں پر ان بم دھماکوں کا الزام ڈال رہے ہیں… تب مجھے دکھ بھی ہوا اور حیرت بھی… جہاد کے ساتھ الحمدللہ… ’’فی سبیل  اللہ ‘‘ کا لفظ جڑا ہوا ہے… جو … مجاہدین کو ناجائز دہشت گردی سے روکتا ہے… مجاہدین افغانستان میں جہاد کیلئے گئے تو انہوں نے… افغانیوں سے ان کا مسلک نہیں پوچھا… بس جیسے ہی معلوم ہوا کہ سوویت یونین نے حملہ کیا ہے… اور مسلمانوں کے اس ملک میں… کیمونزم کے آنے کا خطرہ ہے … تو بس مشرق ومغرب کی پاکیزہ روحیں… فرشتوں کی طرح اڑتی ہوئی افغانستان میں جمع ہوگئیں… اور انہوں نے اپنے گوشت، ہڈیوں اور خون سے دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دیا… مجاہدین کشمیر میں جہاد کرنے گئے انہوں نے کشمیریوں سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ دیوبندی ہیں یا بریلوی؟… اور کشمیری ماؤں نے مجاہدین کی روٹیاں پکاتے وقت یہ نہیں پوچھا کہ… ان کا مسلک کیا ہے؟… مجاہدین کے ہاں مسلمانوں کے خون کی وہی قیمت ہے جو قرآن پاک نے بیان فرمائی ہے… اور وہ جانتے ہیں کہ کفر وشرک کے بعد سب سے خطرناک اور مہلک جرم… بے گناہ مسلمان کو قتل کرنا ہے… مجاہدین کو کیا پڑی ہے کہ وہ جنت کے راستے کو چھوڑ کر… اس طرح کی قتل وغارت میں الجھیں… اور دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر ہنسنے کا موقع دیں… آپ حضرات مجاہدین کے نظریات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو… ’’زادمجاہد‘‘ نامی کتاب پڑھ کر دیکھیں… جس میں جہاد کو فساد بننے سے بچانے کا مکمل نظام پیش کیا گیا ہے…

میں نہیں جانتا کہ کراچی کے بم دھماکے کس نے کرائے ہیں… مجھے تو ویسے ہی کراچی کے حالات پر دکھ ہوتا ہے… کراچی کے مسلمان جنازے اٹھااٹھا کر تھک گئے ہیں… اور بوری بند لاشوں کا تحفہ دینے والے درندوں کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی… ہاں میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دین کی خاطر… فریضہ جہاد ادا کرنے والے ’’مجاہدین‘‘ اس قسم کی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتے… اس لیے… بریلوی بھائیوں سے گزارش ہے کہ… آپ پر ظلم ہوا ہے اس کا سب کو افسوس ہے… مگر اب آپ ظلم پر ظلم نہ کریں … ایک طرف آپ حضرات نے… طویل عرصے سے خود کو مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے الگ رکھا ہوا ہے… اور جہاد جیسے عاشقانہ فریضے کو اپنی لغت تک سے نکال دیا ہے… افغانستان میں ’’جہاد وشہادت‘‘ کا بازار گرم رہا مگر آ پ حضرات اس سے دور رہے… کشمیر میں جہاد کا زمزمہ بلند ہوا مگر آپ حضرات کے کانوں تک ’’بدر‘‘ اور ’’احد‘‘ کا پیغام نہ پہنچ سکا… آخر میں نام کی ایک تنظیم وجود میں آئی… اور دیواروں کی چاکنگ کے بعد واپس گم ہوگئی… ہندوستان میں بابری مسجد کا مسئلہ اٹھا… مگر آپ حضرات نے کوئی کروٹ نہیں لی… فلسطین کے جہاد سے آپ دور رہے اور چیچنیا کی قیادت پاکستان میں آ کر بھی آپ کی مہمان نوازی کا لطف نہ اٹھا سکی… معلوم نہیں جہاد جیسے قرآنی فریضے سے ایسی بے پروائی آپ نے کیوں برتی؟… اور معلوم نہیں آپ کو آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کے زخموں کی یاد نے جہاد کیلئے بے چین کیوں نہیں کیا؟… خیر میں اس معاملہ میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ غم کے اس وقت میں اس کو بھی فرقہ واریت قرار نہ دے دیا جائے… اس سلسلے میں میری آپ سے اتنی گزارش ہے کہ قرآن پاک کی پانچ سو سے زائد آیات جہاد… اور حضور پرنور صلی  اللہ  علیہ وسلم کے ستائیس غزوات اور جہاد کے بارے میں آپ کی مبارک احادیث ایک بار ضرور پڑھ لیں … اور پھر اپنے عمل کا جائزہ لیں کہ… جہاد سے محروم ہو کر آپ کن راہوں پر نکل گئے ہیں… اور اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود آپ امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل سے کس قدر لا تعلق ہیں… آج تو میں آپ سے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ… چلیں آپ نے جہاد جیسا محکم اور قطعی اسلامی فریضہ چھوڑا… آپ نے غزوات النبی صلی  اللہ  علیہ وسلم سے چشم پوشی کی… وہ آپ جانیں اور آپ کی قیادت… مگر یہ تو مناسب نہیں ہے کہ آپ ان لوگوں کو ستانا بھی شروع کردیں… جو پوری امت مسلمہ کی طرف سے جہاد کا فریضہ ادا کر رہے ہیں… اور ان مشکل حالات میں بھی اسلام کے اس فریضے کا نام لے رہے ہیں… آپ کا ہر دن مجاہدین کے خلاف پریس کانفرنسیں کرنا… اسلام دشمن قوتوں کو خوش کر رہا ہے… اور آپ غیر محسوس طریقے پر ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں… مجاہدین تو پہلے ہی ظلم اور پابندیوں کا شکار ہیں… آپ ان پر مزید کونسی پابندیاں لگوانا چاہتے ہیں؟… اگر جہاد بند ہوگیا اور مجاہدین ختم ہوگئے تو کس کا نقصان ہوگا؟ آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم تو جہاد اور مجاہدین کا اتنا اکرام فرماتے تھے کہ سرورکونین ہونے کے باوجود… مجاہدین کو مدینہ منورہ کے باہر تک چھوڑنے جاتے تھے… آج امت مسلمہ کے دامن میں چند مجاہد رہ گئے ہیں… عشق مصطفی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا تقاضا تو یہ تھا کہ… آپ ان کی قدر کرتے، ان کے ساتھ شامل ہوتے اور ان کی تعداد بڑھاتے… مگر دشمنوں نے بزدلی اور حب دنیا کی ایسی ہوا چھوڑی ہے کہ … اب مسلمان خود جہاد کرنا تو درکنار… مجاہدین کی مخالفت تک کرنے لگ گئے ہیں… ہاں ایسا قرآن پاک سے ثابت ہے کہ… جو لوگ جہاد چھوڑ بیٹھتے ہیں وہ مسلمانوں سے لڑتے ہیں… ہاں ایسا حدیث پاک سے ثابت ہے کہ… ترک جہاد سے ذلت آتی ہے… اور مسلمانوں پر وہ وقت آئے گا جب وہ ایک دوسرے کو ماریں گے… اور ایک دوسرے کو پکڑیں گے… شیطان بھی سرگرم ہے… اور شیطانی قوتیں بھی سرگرم ہیں… ہر طرف طاغوت کے فتنے اور دجال کے شوشے نظر آرہے ہیں… ان حالات میں مسلمان ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوجائیں… یہ افسوسناک ہے… مگر ہم کیا کرسکتے ہیں… جو کچھ ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا… البتہ ہم دعاء اور کوشش تو کر سکتے ہیں کہ… ہم طاغوت، شیطان اور دجال کے حامی نہ بنیں… اور ہم دنیا کی فانی زندگی کی خاطر … اپنی آخرت کو تباہ نہ کریں… مدینہ منورہ میں بھی غزوۂ احد کی ظاہری شکست کے بعد… جہاد پر ایسے ہی حالات آئے تھے… جس طرح افغانستان سے امارت اسلامی کے سقوط کے بعد یہاں آئے ہوئے ہیں… بلکہ مدینہ منورہ والے حالات زیادہ سخت تھے… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم زخمی تھے… حضرات صحابہ کرام میں سے ستر بڑے حضرات شہید ہوچکے تھے … اور سینکڑوں حضرات زخمی تھے… منافقین نے جہاد کے خلاف ایک شور برپا کیا ہوا تھا… اور بزدل لوگ دانشور بن بیٹھے تھے… اگر یہ دین سچا ہوتا تو شکست کیوں ہوتی؟… اگر نبی سچے ہوتے تو زخمی کیوں ہوتے؟… مسلمانو! اب جہاد کا مزہ تم نے چکھ لیا ہے اب اس کا نام بھی مت لو ورنہ مارے جاؤ گے… اور ہمیں بھی مرواؤ گے… یہ نعرے ہر طرف گونج رہے تھے… اور منافقین اور یہود کے خیر سگالی وفد مشرکین مکہ کے پاس دورے کر رہے تھے… عجیب مشکل وقت تھا ہر کوئی جہاد کے خلاف بول رہا تھا… اور جہاد کو ہلاکت تباہی… اور بربادی بتا رہا تھا… اسی حالت میں ایک سال گزر گیا… اور وہ وقت آگیا جب ابوسفیان کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے… مسلمانوں نے پھر مقابلے کے لئے جانا تھا… مشرکین مکہ نے پیسے دے کر ایسے لوگ خریدے جو مسلمانوں میں خوف… اور جہاد کے خلاف نفرت پھیلا سکیں… ایک سال پورا ہوا… آسمان وفاداری کا منظر دیکھنے کیلئے زمین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا… عرش سے ایک حکم آیا… اے میرے پیارے نبی آپ مشرکین سے لڑنے کیلئے تشریف لے جائیے… کوئی ساتھ نہیں چلتا تو… پرواہ نہ کیجئے آپ اکیلے ہی نکل جائیے… اور مسلمانوں کو قتال پر ابھارئیے… جنگ تو  اللہ  تعالیٰ نے لڑنی ہے… کون اس کا مقابلہ کرسکتا ہے؟… حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم نے جہاد کی دعوت دی اور خود روانہ ہوگئے… تکبیر کے نعرے گونجے اور بہت سے مسلمان بھی ساتھ ہوگئے… آسمان جھوم اٹھا… کرائے پر چلنے والے دانشور بغلیں جھانکنے لگے … یہودیوں کی نیند اڑ گئی… اور مسلمانوں کا وفادار دستہ پھر ’’بدر‘‘ کی طرف روانہ تھا… ۳ ہجری کی تاریخیں اپنے سینے میں خوشی کی ٹھنڈک لے کر رخصت ہوگئیں… ابوسفیان وعدے کے باوجود نہ آئے… اور جہاد کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اپنی موت آپ مر گیا… اور پھر کیا تھا… مزے ہوگئے مزے… وہی قرآن پاک جو ’’احد‘‘ کی پسپائی پر ڈانٹ رہا تھا اب ’’بدرصغریٰ‘‘ میں جانے پر پیار کر رہا تھا… اور تعریف کے پھول نچھاور کر رہا تھا…  اللہ  تعالیٰ کی خاطر سب کچھ چھوڑ نے والے فقیروں کو اور کیا چاہئے تھا… قرآن نے ان کو شاباش دی اور وہ جہاد کے خوبصورت سینے سے چمٹ گئے… پھر کچھ ہی عرصہ بعد… احد کی شکست کے طعنے سہنے والے مظلوم مجاہدین… بنو نضیر، بنو قریظہ… اور بنو قینقاع کے قلعوں کے مالک بن گئے… خیبر کی زمین ان کو جزیہ دینے لگی… مکہ مکرمہ کے دروازے ان پر کھل گئے… اور طائف کے پہاڑوں نے ان کا استقبال کیا… تب… مکہ میں امیہ بن خلف کے پاؤں تلے کراہنے والا… سیدنا بلال رضی  اللہ  عنہ… کعبۃ  اللہ  کی چھت پر اذان دے رہا تھا… اور کچھ عرصہ بعد یہی بلال رضی  اللہ  عنہ دمشق کے ایک مورچے پر پہرہ دے رہا تھا… اے عشق مصطفی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا دعویٰ کرنے والو! جہاد کو گالی نہ دو… جہاد کو برا نہ کہو… ورنہ آسمان بھی روئے گا… اور زمین بھی تڑپے گی…

٭٭٭

 

عُمرؓ، عُمرؓ، عُمرؓ

 اللہ  تعالیٰ امت مسلمہ کو اچھے حکمران نصیب فرمائے… زخمی امت اس نعمت کی بہت محتاج ہے… دشمنوں کی پوری کوشش ہے کہ… مسلمانوں کو کوئی اچھا حکمران نہ ملنے پائے… ایسا حکمران جس کے سینے میں ’’مسلمان دل‘‘ ہو… افغانستان میں مسلمانوں کو ایک اچھا حکمران ملا… اس کے ’’انداز حکمرانی‘‘ میں ایمانی خوشبو تھی… اس لیے اقوام متحدہ نے اسے تسلیم نہ کیا… حالانکہ ملک کے نوّے فیصد حصے پر اس کی مضبوط حکومت تھی… اور تو اور اسلامی ممالک کی کانفرنس نے بھی… اس کو نشست نہ دی… بالآخر آگ اور بارود کی بارش میں اس کی حکومت گرادی گئی… اور مسلمان ایسے حکمران سے محروم ہوگئے… جو ان کی فکر رکھتا تھا… جو ان کیلئے روتا اور تڑپتا تھا… جو ان سے کم درجے کا لباس پہنتا تھا… اور جس کے شاہی دسترخوان پر عام غریبوں والا کھانا چُنا جاتا تھا… ہاں دنیا کا کفر، حضرت عمر فاروق رضی  اللہ  عنہ کے ایمان کی خوشبو سے آج تک لرز رہا ہے… وہ کہتے ہیں کہ ’’عُمرؓ‘‘‘ نہ ہوتے تو آج اسلام دنیا کے سات سمندروں تک پھیلا ہوا سب سے بڑا دین نہ ہوتا… اور وہ کہتے ہیں کہ عمرؓ جیسے حکمران جب بھی مسلمانوں کو ملیں گے… مسلمان چھا جائیں گے، مسلمان غالب ہوجائیں گے… اب فلسطین میں حماس والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے… سرفروشی اور خدمت ’’حماس‘‘ کے ایمان میں ’’خوشبوئے عمرؓ‘‘‘ پیدا کرتی ہے… ایک طرف شہداء کے قافلے ہیں… نو خیز جوانیاں جو دین کی خاطر کٹ گئیں… وہ نوجوان دولھے جو بارود کی جیکٹ پہن کر… حوروں کے جھرمٹ میں گم ہوگئے… اور اٹھارہ سے پچیس سال کی وہ جوان بیٹیاں… جنہوں نے مہندی لگا کر دنیا کی دلہن بننے کی بجائے… خوشبودار خون سے حسن پایا اور جنت کی حوریں بن گئیں… حماس کے فدائی قافلے عجیب تھے، بہت باہمت، بہت پرعزم اور بہت پاک صاف… یہودی اور ان کے سرپرست خواب میں بھی ان گرجتے، کڑکڑاتے اسلامی دستوں کو نہیں بھلا سکتے… حماس نے کئی بار اسرائیل کو شکست دی… اور اس کے جاسوسی نظام کو الٹ کر رکھ دیا… حماس نے اپنے قائد، بانی اور مرشد شیخ احمد یٰسینؒ کو بندوق کے زور پر… اسرائیل سے آزاد کرایا… حماس کے سامنے خسیس یہودیوں کو بارہا گھٹنے ٹیکنے پڑے… دنیا کے کفر کو سب کچھ یاد ہے… ہاں شیخ احمد یسین! کو کون بھول سکتا ہے… امت مسلمہ کا بوڑھا اور معذور جرنیل… مجاہدین کا قابل فخر امام… اور حماس کی کارکن وہ بوڑھی عورتیں… ہاں خوبصورت بوڑھی عورتیں جو شہیدوں کے گھروں میں راشن، کپڑے… اور دوائیاں پہنچا آتیں ہیں… وہ اس کام سے بالکل نہیں تھکتیں… وہ شہیدوں کے بچوں کو خود لوری دے کر رات کو سلا آتی ہیں… اور ان کے گھروں کا چولھا جلا آتی ہیں… شہید احمد یسینؒ نے اندھا جہاد نہیں کیا… انہوں نے جہاد کے پیچھے ’’خدمت‘‘ اور ’’جماعت‘‘ کے دو بازو جوڑ دئیے ہیں… حماس والے ایک طرف یہودیوں پر آگ برساتے ہیں تو دوسری طرف … اپنے لوگوں کے گھروں کا پانی بھی خود بھرتے ہیں… شیطان ’’جماعت‘‘ اور ’’اجتماعیت‘‘ کا دشمن ہے… وہ مسلمانوں کی کسی تنظیم کو ’’جماعت‘‘ نہیں بننے دیتا… اس کے وساوس اور اس کے شبہات جماعتوں کو توڑ دیتے ہیں… وہ جانتا ہے کہ … ’’جماعت‘‘ میں اس کی موت ہے… شیخ احمد یسین خود تو جسم سے معذور تھے مگر دل اور عقل سے معذور نہیں تھے… انہوں نے ’’جماعت‘‘ بنائی یہ تو ایک آسان کام تھا… مگر پھر انہوں نے اس ’’جماعت‘‘ کو چلایا… و اللہ  یہ بہت مشکل کام تھا… شیطان کا ڈسا ہوا ہر شخص ’’جماعت‘‘ کا دشمن ہوتا ہے… اس زمانے میں منظم جماعت چلانا… لوہے کے چنے چبانے سے زیادہ مشکل ہے… مگر شیخ پر  اللہ  تعالیٰ کا فضل رہا… وہ وہیل چیئر پر بھی ثابت قدم رہے… وہ یہودی عقوبت خانوں میں بھی ثابت قدم رہے… وہ خوش نصیب تھے ان کو اچھے رفقاء ملے… جنہوں نے ان کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کی… اور پھر اس ’’بیعت‘‘ کے تقاضوں کو نبھایا… ان کو آخری عمر تک عبدالعزیز رنتیسی جیسے مدبّر اور خالد مشعل جیسے ’’شیرصفت‘‘ ساتھی نصیب رہے… اور بالآخر شیخ کو ان کی محنتوں کا صلہ شہادت کی صورت میں مل گیا… نماز فجر کے بعد… اپنی وہیل چیئر پر، یہودیوں کے ہاتھوں… سبحان  اللہ ! کیا خوش نصیبی ہے کہ… شہادت خود ان کو ملنے اور چومنے آئی… اور سجا، سنوار کر اپنے ساتھ لے گئی… شیخ چلے گئے… مگر جماعت ’’منظم‘‘ تھی اور ’’بیعت‘‘ پر قائم تھی… یہاں افراد طاقتور نہیں تھے ’’نظام‘‘ طاقتور تھا… چنانچہ سرفروشی کا بازار بھی گرم رہا اور خدمت کا پھول بھی خوشبو بکھیر تا رہا… حماس نے فلسطینیوں کو سب کچھ دیا تھا تو اس بار فلسطینیوں نے ووٹ دے کر… ان کو ’’انتخابات‘‘ میں چن لیا… ہاں حماس والے اب حکمران بن گئے ہیں… ان کے حکمران بننے پر اکثر مجاہدین نے خوشیاں منائیں… مگر میرا دل دھک دھک کرنے لگا… القلم کے بعض عزیز دوستوں نے استقبالی مضمون لکھے تو جی چاہا کہ انہیں نہ لکھنے کا مشورہ دوں… کیونکہ اب حماس کو ’’خراج تحسین‘‘ نہیں ’’دعاؤں‘‘ کی ضرورت ہے… حماس والوں کو چلنے نہیں دیا جائے گا… ان کے اور فلسطینی عوام کے میٹھے رشتے کو کڑوا کیا جائے گا… حماس میں سے کمزور ایمان والوں کو عسکریت سے دور کھینچا جائے گا… اور بالآخر امت مسلمہ کے اس قابل فخر لشکر کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے گا…  اللہ  کرے ’’اسماعیل ہانیہ‘‘ ملا محمد عمر سے سبق سیکھیں… اور انہیں کی طرح غیرت اور غریبی کے ساتھ حکومت چلائیں… اور جب ’’عزت کی دستار‘‘ پر سودا کرنے کی فرمائش کی جائے تو حکومت کو تھوک دیں… اور پھر اپنے مورچوں میں لوٹ جائیں… دراصل دنیا کا سارا نظام، اسلام دشمنوں نے اسی ترتیب سے بنایا ہے کہ … مسلمانوں کو ’’اچھے حکمران‘‘ نصیب نہ ہوں… اور نہ ان میں ’’خلافت‘‘ قائم ہوسکے… ان شاء  اللہ  جہاد کے زور سے یہ نظام ٹوٹے گا تب… اچھے حکمرانوں کو برداشت کیا جائے گا اور مسلمانوں کو ’’مسلمان‘‘ حکمران نصیب ہوسکیں گے… فی الحال تو بس ظلم ہی ظلم ہے… اور زخم ہی زخم…

غیر مسلم ملکوں اور عوام کو ایسے حکمران تو مل گئے ہیں جو ان کے ہمدرد ہیں … جبکہ مسلمانوں کے حکمران… صرف مسلمانوں کے دشمن ہیں… افغانستان پر غیروں نے قبضہ کرلیا… کسی مسلمان حکمران نے آہ تک نہ کہی بلکہ… غیروں کے ساتھ شامل ہوگئے… عراق پر غیروں نے قبضہ کیا… مگر مسلمان حکمرانوں کے گلے سے کوئی آواز نہ نکلی… مسلمان مشرق ومغرب میں لٹ گئے… مگر مسلمان حکمران خود انہیں کا سودا کرتے رہے… اور مسلمانوں کو کافروں کے ہاتھوں فروخت کرتے رہے… ہمارے صاحب حال بزرگ، حضرت قاری محمد عرفان صاحب نور  اللہ  مرقدہٗ… بہت جوش کے ساتھ فرمایا کرتے تھے… قیامت کے دن اگر میری بخشش ہوگئی تو سب سے پہلی درخواست یہ کروں گا … یا  اللہ ! حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ سے ملاقات کرا دے… یہ کہتے ہوئے حضرت قاری صاحبؒ کی آنکھوں میں آنسو مچلنے لگتے تھے… ہاں امت مسلمہ کو ہر زمانے میں حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کی ضرورت پڑتی ہے… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ان کو  اللہ  تعالیٰ سے مانگا تھا نا! ہاں ان کو مانگا تھا… اسلام کیلئے مسلمانوں کیلئے امت مسلمہ کیلئے… آج مجاہدین کے گھروں کے چولھے بُجھتے ہیں تو حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ یاد آتے ہیں… وہ مجاہدین کے گھروں کا خود خیال رکھا کرتے تھے… اور ان کے گھروں کا سودا خرید کر لاتے تھے… جب مجاہدین کے خطوط آتے تو خود اُن گھروں پر دے آتے اور فرماتے جواب لکھ رکھنا… فلاں تاریخ کو قاصد محاذ پر جائے گا… اگر کسی مجاہد کی ماں، بیوی کہتی کہ ہمیں لکھنا نہیں آتا تو آدھی دنیا کا بادشاہ اس کی چوکھٹ کے باہر کاغذ قلم لیکر بیٹھ جاتا… وہ لکھواتی رہتی اور یہ لکھتے رہتے… ہائے سیدنا عمرؓ ! آپ کی کس کس ادا کو یاد کروں… آج جہاد کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں… آج مجاہدین کے ہاتھوں میں زنجیریں ہیں… آج مجاہدین کے گھروں پر چھاپوں کا خوف ہے… اور اللہ  کے رستے کے مجاہد اپنے بچوں سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں…

ہاں آج سیدنا عمر رضی  اللہ  عنہ موجود نہیں ہیں… اور نہ ان کی خوشبو والا کوئی حکمران موجود ہے… ملا محمد عمر میں حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کی خوشبو تھی… انہوں نے بعض غیر افغانی مجاہدین سے فرمایا تھا… آپ کے لئے میرا ملک حاضرہے یہاں رہنا ہو تو خوشی سے رہیں… زلزلہ آیا تو حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ یاد آئے… مدینہ منورہ میں قحط پڑا تو حضرت عمرؓ نے اس پورے عرصے میں گوشت، گھی وغیرہ کوئی لذیذ چیز نہ کھائی اور اکثر عاجزی کے ساتھ یہ دعاء کرتے تھے… یا  اللہ ! حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ فرما… آج پھر حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے… میں نے اخبار میں پڑھا کہ عراق میں بیس سے زیادہ ایسے افراد کی لاشیں ملیں جن کے نام ’’عمر‘‘ تھے… ہاں دنیا کا کفر ’’عمر‘‘ کو مٹانا چاہتا ہے… مگر اسلام اور مسلمانوں کو ’’عمر‘‘ کی ضرورت ہے… اور جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسلمان کمزور تھے تو…  اللہ  پاک نے عمرؓ کے ذریعے انہیں طاقت اور قوت بخشی تھی… اسی طرح اس زمانے میں بھی مسلمان کمزور ہیں… اب بھی انہیں قوت وطاقت ’’کردار عمر  ؓ ‘‘ کو اپنانے سے مل سکتی ہے… حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ جیسا مضبوط عقیدہ… حضرت عمرؓ جیسا طاقتور نظریہ… حضرت عمرؓ جیسا جہاد… اور حضرت عمرؓ جیسی سیاست… جو مسلمان چاہتا ہے کہ وہ اسلام اور قرآن کے قریب تر ہوجائے… اسے حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ سے روشنی لینی ہوگی… اس لیے کہ قرآن پاک ان کی رائے کی تصدیق فرماتا تھا… اور اسلام کا پورا نقشہ ان میں موجود تھا… دینی جماعتیں حضرت عمرؓ سے روشنی لیں اور ان سے نظام سیکھیں… طاقتور افراد حضرت عمرؓ سے طاقت کا استعمال سیکھیں… جن پر دوسروں کی ذمہ داریاں ہیں وہ حضرت عمرؓ سے ذمہ داری نبھانے کا طریقہ معلوم کریں… لباس اور جوتوں میں غرق عزت کے شوقین افراد… حضرت عمرؓ سے عزت کا اصل راز معلوم کریں… اور شعراء شعر کہنے سے پہلے حضرت عمرؓ سے آداب شاعری کا درس لیں… حکمران حکومت چلانے کیلئے حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کے اشاروں کو سمجھیں… اور فاتحین دنیا فتح کرنے کا راز حضرت عمرؓ سے معلوم کریں… تصوف اور فقیری کے دعویدار معرفت کے نکتے حضرت عمرؓ کی خانقاہ سے سیکھیں… جہاد کے دعویدار حضرت عمرؓ کے ٹریننگ کیمپ سے سچے مجاہد بن کر نکلیں… اور خود کو سیاست کے ماہر بتانے والے حضرت عمرؓ کے دربار عالی میں حاضری دے کر اسلامی سیاست کے اصل اصول معلوم کریں… ہاں اللہ  پاک کی قسم… ہم سب کو ’’عمر  ؓ‘‘ کی ضرورت ہے… اسلام کو سمجھنے کیلئے… قرآن پاک کو دل میں اتارنے کیلئے… جہاد کے مقام کو پہچاننے کیلئے… اور اپنی عزت رفتہ حاصل کرنے کیلئے… ہاں ہمیں اس سادہ انسان کی ضرورت ہے جو خود تجارت کرکے کماتا تھا… جی ہاں آج یہ کام دینی تقدس کے خلاف سمجھا جاتا ہے… ہاں ہمیں اس غیور انسان کی ضرورت ہے جو اپنے کپڑے خود سی لیتا تھا… اور ان پر پیوند لگاتا تھا… ہاں ہمیں اس سخت انسان کی ضرورت ہے جس کی ہیبت سے کسریٰ کے کنگرے ہل جایا کرتے تھے… ہاں ہمیں اس نرم دل انسان کی ضرورت ہے جو بوڑھی عورتوں کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کرکے ہچکیاں لے کر روتا تھا… ہاں ہمیں اس مست انسان کی ضرورت ہے … جس کی نظروں میں اسلام کے علاوہ عزت کا کوئی اور معیار نہیں تھا، ہاں ہمیں اس بیدار انسان کی ضرورت ہے جو خلافت کے زمانے میں راتوں کو قافلوں کا پہرہ دیا کرتا تھا… اے عمرؓ! آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں، میں آپ کی کس کس ادا کو یاد کروں… آج وزیرستان ظلم کی آگ میں جھلس رہا ہے … آج کشمیر ہم سے شکوہ کناں ہیں… آج کراچی خوف اور دہشت سے لرز رہا ہے… آج ہمارے حکمران… اجنبی لوگ ہیں… آج ہمارا اسلام لرز رہا ہے… اور دل بے چینیوں کا شکار ہے… آج امت مسلمہ کے قیدی مایوسی کے غار میں دھکیلے جارہے ہیں… آج اسلام پر تحریفات کا حملہ ہے… آج ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند ہے… اور مسلمانوں کے لئے سوچنے والے بہت کم لوگ باقی ہیں… آج ہماری سیاست ’’بددینی‘‘ اور ’’بے فکری‘‘ کا مجموعہ ہے… اور آج ہمارا جہاد ’’نظم وضبط‘‘ سے محروم ہے… اے عمرؓ! آپ پر  اللہ  تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں… شیطان آپ سے ڈرتا تھا جبکہ وہ ہم پر شیر ہے… فتنے آپ سے بھاگتے تھے جبکہ ہم پر حملہ آور ہیں… تب ہمیں آپ کی یاد ستاتی ہے… آپ ’’فاتح‘‘ تھے پہاڑ، سمندر اور ہوائیں آپ کے ایمان کی بدولت آپ کا ساتھ دیتی تھیں… آپ مسلمانوں کے لئے بہت ہمدرد اور بہت رقیق القلب تھے…  اللہ  تعالیٰ امت مسلمہ کی طرف سے آپ کو خوب خوب جزائے خیر نصیب فرمائے… اور ہمارے ایمان کو بھی آپ کے ایمان کی خوشبو کا کچھ حصہ نصیب فرمائے…

…آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭

  


بالکل ’’پالتو‘‘ نہیں

 

 اللہ  جلّ شانہٗ کی شان دیکھئے… انتہا پسندی کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والے اب خود… انتہا پسندوں کی زبان بولنے لگے ہیں… سلام ہو ان پاکیزہ روحوں پر جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنے جسموں کا کٹنا گوارہ کیا… جنہوں نے وقت کے دجّال سے ٹکر لی… جنہوں نے کروز میزائل اور بی باون B-52طیاروں کی پرواہ نہیں کی… وہ خود گرتے رہے مگر انہوں نے اسلام کا جھنڈا سر نگوں نہیں ہونے دیا… اور  اللہ  پاک کے ان فدائیوں نے صدر بش اور ٹونی بلیئر کا دامن شکست کے کانٹوں سے بھر دیا… سلام ہو شہداء قندوز پر… سلام ہو شہدائے مزار شریف پر… سلام ہو شہدائے تورا بورا پر… سلام ہو شہدائے بغداد و موصل پر… سلام ہو شہدائے فلوجہ اور تکریت پر… سلام ہو اسیران گوانٹا نامو بے پر… سلام ہو اسیرانِ ابوغریب جیل پر… سلام ہو… امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد، شیخ اُسامہ بن لادن… اور ابو مصعب الزرقاوی پر… سلام ہو شہادت کیلئے تڑپنے والے فدائی دستوں پر… ہاں! ان سب پر سلام ہو… جنہوں نے اسلام کی لاج رکھی… جنہوں نے قرآن پاک کی عظمت کا لوہا منوایا… اور جنہوں نے حالات کے بھاری پتھر کو… اپنے خون سے ایسا اُلٹ دیا کہ اب… انتہا پسندوں کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والے … خود انتہا پسندوں کی زبان بولنے لگے ہیں… ہم نے بہت پہلے  اللہ  تعالیٰ کے بھروسے پر کہا تھا کہ… ایسا ہوگا… تب لوگ ہنستے تھے اور مذاق اُڑاتے تھے… ایک کالم نویس نے لکھا تھا بھول جاؤ اب مجاہدین کو اور طالبان کو… یہ لوگ ماضی کا غبار بن چکے ہیں… چند دن بعد ان کا نام، پتا مٹ جائے گا… آج کوئی اس کالم نویس سے جاکر پوچھے کہ… او… ظاہری طاقت کے پجاری! دیکھ ماضی کا غبار مستقبل کا مینار بننے کو ہے… امریکہ جو کل تک چنگھاڑ رہا تھا اب تھکاوٹ اور ندامت سے چور ہے… بش جو دنیا پر گرج رہا تھا اب تیزی سے زوال پذیر ہے اور چند دن بعدماضی کا غبار بننے والا ہے… اور وہ جن کو امریکہ کی یاری پر ناز تھا اب پکاررہے ہیں… ہم امریکہ کے پالتو نہیں ہیں… ہم امریکہ کے ’’پالتو‘‘ نہیں ہیں…

ہاں! سلام ہو ان کو جو اندھیرے میں بھی … روشنی کے ساتھ رہے… سلام ہو ان پر جو بلاخیز طوفانوں میں بھی ڈٹے رہے… اور استقامت کے حسین گیسو سنوارتے رہے… ہاں وہ کٹ گئے‘ وہ لُٹ گئے … وہ قبروں میں جا سوئے‘ وہ سمندروں میں ڈبو دئیے گئے‘ وہ عقوبت خانوں میں آزمائے گئے ‘ وہ گھروں سے بے گھر ہوئے‘ وہ اپنوں سے جدا ہوئے… وہ مارے گئے… ستائے گئے … اور گالیوں اور بدنامیوں کا نشانہ بنے… مگر ان میں سے آج کوئی بھی نہیں پچھتا رہا… سب خوش ہیں … اور خود کو خوش نصیب سمجھ رہے ہیں… انہوں نے سب کچھ کھو کر بھی یہ بیان نہ دیا کہ … ہم  اللہ  تعالیٰ کے نہیں… ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے نہیں… ہم جہاد کے نہیں… ہم اپنے امیر کے نہیں… سبحان  اللہ  ! وہ اپنے کٹے جسموں اور ظاہری طور پر ویران زندگیوں کے باوجود… اپنی بات پر پکے ہیں اور اپنے نظرئیے پر ڈٹے ہوئے ہیں… جبکہ …ا ن کے خلاف قائم ہونے والا ’’عالمی اتحاد‘‘اب ’’عالمی انتشار ‘‘ بننے والا ہے… دنیا کے تیس ۳۰ ممالک اپنی لاکھوں فوج … اور اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود… ایک ’’فقیر مولوی‘‘ کو شکست نہ دے سکے… وہ ایک ’’عرب مسافر‘‘ کو نہ پکڑ سکے… وہ بوڑھے صدام کی گردن نہ جھکا سکے…

اور وہ اپنے طیاروں اور میزائلوں کے باوجود… سوکھی روٹی کھانے والوں کا مقابلہ نہ کرسکے…  اللہ  !  اللہ  ! کتنی اونچی ہے آپ کی شان اور کتنے سچے اور محکم ہیں آپ کے قوانین … پانچ سال پہلے کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ … طالبان امریکہ کے سامنے چالیس دن بھی ٹھہر سکیں گے؟… عراق کے عوام امریکہ کا ایک مہینہ تک مقابلہ کر سکیں گے؟…  اللہ  کی قسم! اب بھی کسی اندھے کو جہاد سمجھ نہیں آتا تو اس میں جہاد کا کیا قصور ہے؟… انڈیا خود کو منی سپر پاور سمجھتا ہے… اور وہ پاکستانی افواج کو دو سے زائد بار شکست دے چکا ہے… مگر چند ہزار نہتے اور کمزور مجاہدین کے سامنے وہ ’’بے بس‘‘ہے…

صدر بش کے دورۂ بھارت کے دوران … انڈیا کی حکومت نے ’’کشمیری مجاہدین‘‘ کا رونا رویا اور صدر بش سے مدد کی فریادکی… صدر بش نے پاکستانی حکمرانوں کی گردن دبائی اور نہایت سختی کے ساتھ ’’جہاد کشمیر ‘‘ کو روکنے کا حکم دیا… ابھی ’’صدر بش‘‘ پاکستان میں ہی تھا کہ یہاں کے حکمرانوں نے … جن کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کے پالتو نہیں ہیں… جہاد کشمیر کے خلاف عملی اقدامات شروع کر دئیے … اور ایک لاکھ شہداء کے خون سے گلرنگ تحریک سے بے وفائی کی… کیا یہ سب کچھ پاکستان کے مفاد میں ہے؟… جہاد کشمیر بھی ان شاء  اللہ  بند نہیں ہوگا مگر مسلمانوں کا مسلمانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ایک عذاب ہے… اور دنیا کا کفر زور زبردستی … اور دھمکی کے ذریعے مسلمانوں کو اس عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے… یہ بے غیرت لوگ خود تو مسلمانوں کا کسی بھی میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتے… چنانچہ وہ اپنے ’’غیر پالتو‘‘ وفاداروں کو ڈراتے ہیں… اور انہیں مسلمانوں کے مقابلے میں لاکھڑا کرتے ہیں…

امریکہ طالبان کی حکومت نہیں گرا سکتا تھا اگر پاکستان اس کی اتنی زیادہ مدد نہ کرتا … مگر اس کے باوجودآپ امریکہ کے پالتو نہیں ہیں کہ امریکہ نے تھوڑی سی امداد مانگی… اورآپ نے ایک ٹیلیفون پر اپنا سب کچھ اس کی خدمت میں پیش کردیا… بے شک سچ ہے کہ آپ امریکہ کے پالتو نہیں ہیں… ملک کے تریسٹھ فضائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دیے گئے … اور خوشیاں منائی گئیں کہ ہمیں ان اڈوں کا کرایہ مل رہا ہے … یعنی اپنی دھرتی اور اپنی عزت کرائے پر دے دی گئی… چھ سو سے زائد مجاہدین کو پکڑ کر شہید کر دیا گیا اور ان کی لاشیں دریائوں اور جنگلوں میں پھینک دی گئیں… گوانتاناموبے کا عقوبت خانہ آباد کرنے کیلئے چھ سو سے زائد مجاہدین کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا … گزشہ پانچ سال میں امریکہ کے حکم پر اپنے ملک میں اپنی عوام کے خلاف سینکڑوں خونی آپریشن کئے گئے… امریکہ اور یورپ کے حکم پر جہاد کشمیر کی کئی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی… امریکہ اور یورپ کے حکم پر دینی مدارس کے طلبہ کرام کو ستایا گیا … اور ان مدار س کے نظام میں بارہا بھونڈی مداخلت کی گئی…امریکہ اور یورپ کے حکم پر اپنے ملک کی کئی نامور ہستیوں کو پکڑا گیا‘ مارا گیا… اور ستایا گیا… امریکہ اور یورپ کے حکم پر ملک کے تعلیمی نظام کو بدلا گیا … اور بے حیائی کو عام کیا گیا… امریکہ اور یورپ کے حکم پر … ملکی وزارتیں تقسیم کی گئیں… اور غیروں کے پسندیدہ افراد کو ملکی اقتدار میں حصے دار بنایا گیا… امریکہ اور یورپ کے حکم پر ملک کے ایٹمی راز قربان کیے گئے … اور ایٹمی سائنسدانوں کو ’’مجرم ‘‘بنایا  گیا… پاکستان کا ہر ذرّہ گواہ ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں وہ حکم دیتے رہے… اور ہماری حکومت اسے پورا کرتی رہی… وہ شکایتیں کرتے رہے اور ہماری حکومت صفائیاں دیتی رہی… وہ دباتے رہے اور ہماری حکومت ذلت کے ہر مقام سے نیچے گر کر دبتی رہی… مگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہماری حکومت امریکہ کی نظر میں حامد کرزئی اور من موہن سنگھ جتنا مقام حاصل نہ کر سکی… اوراب ایٹمی معاملے سے لے کر … بحالی جمہوریت کے معاملے تک صدر بش نے … صدر پرویز مشرف کو ’’انگوٹھا ‘‘ دکھا دیا ہے… ان حالات میں ہماری حکومت کا امریکہ کے خلاف گرجنا… اس حسرت اور ندامت کی گھڑی کا آغاز ہے … جو مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے والوں پرمسلّط کی جاتی ہے… قرآن پاک نے ’’سورۃ المائدہ ‘‘میں اس مسئلے کو بہت تفصیل اور وضاحت سے بیان فرمایا ہے… بے شک قرآن پاک ایک زندہ اور ’’سدا بہار‘‘ کتاب ہے… اس کی کوئی آیت پرانی نہیں ہوتی اور نہ اس کا کوئی حکم اپنا اثر کھوتا ہے…

آپ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کا تازہ بیان پڑھیے… جس میں انہوں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ میں امریکہ اور یورپ کاپالتو نہیں ہوں… اور انہوں نے امریکہ کو پہلی بار صاف لفظوں میں پاکستانی حدود میں کارروائی سے روکا ہے … اور انہوں نے اپنے چھپے ہوئے ’’دانتوں‘‘سے بھی ڈرایا ہے …اور پھر آپ ’’سورۃ المائدہ ‘‘کی آیات پڑھئے… سبحان  اللہ  ! قرآنی صداقت کے سامنے دل جھک جائے گا…اور خوشی سے عش عش کر ے گا… کل رات بی بی سی کی خبریں سنتے ہوئے میں خوشی سے جھومتا رہا… میرا دل  اللہ  تعالیٰ کی عظمت اور محبت کے مراقبے سے بھر گیا … جہاد کی حقیقت دل کی گہرائیوں میں اور زیادہ پختہ ہوگئی … اور میرے خشک ہونٹ بار بار مسکراہٹ کے مزے لیتے رہے… واہ میرے  اللہ واہ!  آپ کی شان کتنی بلند ہیں… ملا عمر صاحب کا سب کچھ لٹ گیا… مگر وہ بالکل نہیں پچھتائے … اس طرح کا بیان خدانخواستہ ان کی طرف سے آتا تو میں جی بھر کر روتا…  اللہ  پاک ان کو مزید استقامت عطاء فرمائے… ملا فضل کا زخمی جسم گوانتاناموبے کے تندور میں جل رہا ہے… مگر ان کی طرف سے ایساحسرت بھرا بیان نہیں آیا… وہ سب تو اللہ  تعالیٰ کا شکر اد ا کر رہے ہیں… جبکہ وہ جنہیں اپنی پالیسی پر ناز اور اپنی قوت پر غرو رتھا… اب پچھتا رہے ہیں… اورصفائیاں پیش کررہے ہیں… ویسے یہ سب کچھ  اللہ  تعالیٰ کی نصرت ہی سے ممکن ہوا… چند دن پہلے حکومت کے ایک اہلکار نے امریکہ کو فرعون قرار دیا… اور اسے کسی ’’موسیٰ‘‘ کے ظاہر ہونے سے ڈرایا… میں یہ بیان سن کر خوش بھی ہوا اور حیران بھی … اس کے بعد ملک کے وزیر خارجہ قصوری صاحب نے امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا… تب بہت حیرانی ہوئی کہ … اتنے صابر شاکر لوگ اب آہ و زاری پر کس طرح اُتر آئے ہیں… امریکیوں نے پاکستان کو ’’کتا‘‘ قرار دیا… مگر یہ لوگ خاموش رہے… امریکہ نے پاکستانی حدود میں کئی بار پاکستانی شہریوں کو خاک و خون میں تڑپایا تب بھی یہ لوگ خاموش رہے… امریکہ نے پاکستان کے اندرونی اور دینی معاملات میں بار ہا مداخلت کی مگر یہ لوگ خاموش رہے… یورپ کی طرف سے کارٹونوں کا ظالمانہ فتنہ اُٹھا مگر یہ لوگ خاموش رہے… امریکہ نے عراق کو برباد کیا مگر یہ لوگ خاموش رہے …امریکی فوجیوں نے قرآن پاک کی شدید بے حرمتی کی… مگر یہ لوگ خاموش رہے… اب اچانک ’’صبر و وفا شعاری‘‘ کا پیمانہ لبریز ہوا ہے تو ایک ایک کرکے سب بول رہے ہیں اور چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں، ہم آزاد ہیں… جناب عالی! جو لوگ آزاد ہوتے ہیں انہیں اپنی آزادی بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی… اور جو لوگ پالتو نہیں ہوتے وہ ساری دنیا کو نظر آتے ہیں کہ پالتو نہیں ہیں… انہیں صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی… بات بالکل واضح ہے کہ ماضی میں ہماری حکومت نے بے انتہا غلطیاں کی ہیں… اور امریکہ کے ہاتھوں سخت دھوکا کھایا ہے… اور ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی خوشنودی کی خاطر وہ کام کیے ہیں… جو کسی بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتے… اور ان کاموں کی بدولت ہمارے حکمران نہ دنیا کے رہے ہیں اور نہ آخرت کے… وہ نہ اپنوں کیلئے قابل قبول ہیں اور نہ غیروں کیلئے … وہ اب امریکہ کو اپنی وفاداریاں یاد دلاتے ہیں مگر اسے کچھ یاد نہیں آرہا… وہ امریکہ کو بنیاد پرستوں سے ڈرا کر اپنی اہمیت سمجھانا چاہتے ہیں مگر وہ سمجھنے کے موڈ میں نہیں ہے… گذشتہ پانچ سالوں میں اسلام کے فدائی مجاہدین نے امریکہ کے چہرے پر شکست کی جو کالک ملی ہے… وہ یہ ساری کالک پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر ملنا چاہتا ہے… اور ان کو ہٹا کر ان سے زیادہ ’’وفادار‘‘ حکمران لانے کا خواہشمند ہے… ان حالات میں پاکستانی حکمرانوں نے … انتہا پسندوں کی زبان بولنا شروع کردی ہے تو اس میں حیرت کی کونسی بات ہے؟… تقریباً پانچ سال پہلے میں نے حکومت کے ایک بڑے عہدیدار کے سامنے ایسی ہی باتیں کی تھیں… تو انہوں نے گھبرا کر اپنی زبان دانتوں کے نیچے دبالی تھی… وہ فرما رہے تھے جناب! آپ کی باتیں جذباتی ہیں… ہم نے دنیا میں رہنا ہے تو ہمیں امریکہ کا ساتھ دینا ہوگا… ورنہ ہم تباہ ہوجائیں گے… اور ہمارا کچھ بھی نہیں بچے گا… میں نے ان کو ’’قرآنی آیات‘‘ سنائیں اور عرض کیا… آپ جو کچھ بھی کرلیں امریکہ آپ سے خوش نہیں ہوگا… اور روایات سے ثابت ہے کہ جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے…  اللہ  پاک اسی ظالم کو اس پر مسلط فر مادیتا ہے…

یاد رکھنا امریکہ آپ لوگوں پر مسلط ہوگا… اور وہ آپ سے مطمئن بھی نہیں ہوگا… قرآنی آیات سن کر وہ کچھ لمحے کیلئے ٹھٹکے… اور پھر حسرت بھرے لہجے میں کہنے لگے… ہمارے پاس ایسے میزائل نہیں ہیں جو امریکہ کا مقابلہ کرسکیں… میں نے کہا ہمارے پاس ایسے بے شمار میزائل ہیں جو دنیا کے ہر کفر کا مقابلہ کر سکتے ہیں… میری یہ بات سن کر وہ مجھے حیرانی سے اس طرح دیکھتے رہے… جس طرح کسی قابل احترام پاگل کو دیکھا جاتا ہے… آج صدر جنرل پرویز مشرف کہہ رہے ہیں کہ … میں امریکہ کا پالتو نہیں ہوں… میرے منہ میں بھی دانت موجود ہیں… کیا میں بھی انہیں اسی طرح دیکھوں… جس طرح پانچ سال پہلے مجھے دیکھا جا رہا تھا… کاش ہمارے حکمران اب بھی توبہ کرلیں… اور  اللہ  تعالیٰ سے رہنمائی اور مدد مانگ کر… عزت ، آزادی… اور عظمت کے راستے کو اختیار کریں… زندگی اور موت کا وقت مقرر ہے… امریکہ کی دوستی کسی کی زندگی میں اضافہ نہیں کرسکتی… عزت اور ذلت کا مالک صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ ہے…

امریکہ مسلمانوں کا کھلا دشمن اور زمانے کا طاغوت ہے… عزم وہمت سے کام لینے والوں کے ساتھ  اللہ  تعالیٰ کی مدد اترتی ہے… جو مصیبت قسمت میں لکھی ہو وہ امریکی حملے کی بجائے زلزلے سے بھی آسکتی ہے… ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر ہمارے حکمران قرآن پاک سے رہنمائی لیں… امریکہ سے اپنے تمام اڈے واپس لیں… امریکی جاسوسوں کو چوبیس گھنٹے کے اندر پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیں… شہداء کرام کی ارواح سے معافی مانگیں… مظلوم قیدیوں کو رہا کریں… اسلام اور ملک کے وفادار باکردار مسلمانوں کو تنگ کرنا چھوڑ دیں… دینی مدارس کی خود مختاری اور آزادی کو بحال کریں… خود پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کریں… جہاد کو اسلامی فریضہ مانیں… اور اپنے ملک کیلئے آزاد اور پروقار خارجہ پالیسی اپنائیں… تب صرف آپ ہی نہیں بلکہ… پوری دنیا اس بات کا اعلان کرے گی کہ آپ  اللہ  کے بندے اور اسلام کے بیٹے ہیں… اور آپ امریکہ کے بالکل ’’پالتو نہیں ہیں‘‘…

٭٭٭

 

عامر بھائی شادی مبارک!

 اللہ  تعالیٰ کے مخلص بندے… حضرت محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سچے عاشق … شہید ناموسِ رسالت… قابل فخر اور قابل رشک اسلامی بھائی محمد عامر چیمہ شہید  ؒ کو ہمارا سلام پہنچے… عقیدت بھرا سلام، محبت بھرا سلام، بہت پیارا بہت میٹھا دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا سلام… اگر کسی ’’پاگل‘‘ کو شک ہے کہ… عامر کی شہادت سے کوئی ڈر جائے گا… کوئی گھبرا جائے گا تو وہ اپنے دماغ کا علاج کرائے… کل میں عامر کے والد محترم کی آواز سن رہا تھا… یقین کریں ذرہ برابر افسوس کا اظہار نہیں تھا… بس فخر تھا جو چھلک رہا تھا اور خوشی تھی جو مہک رہی تھی… ہاں  اللہ  کے شیروں کے والدین ایسے ہی ہوا کرتے ہیں… بے شک عامر  اللہ  تعالیٰ کا شیر تھا جس کی ایک گرج نے ’’گوری نجاست‘‘ کو ہلا کر رکھ دیا… ہاں ایک کمزور سے نوجوان نے پورے یورپ کے گستاخان رسول پر لرزہ طاری کردیا… ہم تو عامر کی زیارت کو ترس رہے تھے مگر وہ آرام سے سو گیا… مجھے اس سوئے ہوئے دولھے پر وہ شعر یاد آرہا ہے … جو ہندوستان کے ایک شاعر نے ان بچوں کی لاشیں دیکھ کر کہا تھا… جو ایک ’’مسجد‘‘ کا تحفظ کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے…

شاعر نے ان معصوم پھولوں میں شہادت کی خوشبو مہکتے دیکھی تو تڑپ کر کہنے لگا  ؎

تعجب کیا جو ان بچوں کو یہ شوق شہادت ہے

یہ بچے ہیں انہیں کچھ جلد سو جانے کی عادت ہے

ہاں مجھے عامر کے مقام کو دیکھ کر وہ حدیث شریف یاد آرہی ہے… جو امام بخاریؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’صحیح بخاری‘‘ کی ’’کتاب الجہاد‘‘ میں لائی ہے کہ… ایک صاحب مسلمان ہوتے ہی میدانِ جہاد میں کود پڑے… انہوں نے ابھی تک ایک نماز بھی ادا نہیں کی تھی… کیونکہ نماز کا وقت ہی ان پر نہیں آیا تھا… اِدھر کلمہ پڑھا، مسلمان ہوئے اور اُدھر جنت کے میدان میں اتر پڑے… اور شہید ہوگئے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ان کا اونچا مقام دیکھ کرفرمایا:

عمل قلیل واجر کثیر

کہ تھوڑی سی دیر کا عمل کیا… اور بہت بڑا اجر پالیا… عامر یار! سچ بتاتا ہوں اس زمانے میں تم مجھے اس حدیث شریف کا مصداق نظر آتے ہو… اور تمہیں یہ مقام اس لیے ملا کہ تم نے سچا عشق کیا… اور سچا عشق انجام کی پرواہ نہیں کیا کرتا  ؎

جان دے دی ہم نے ان کے نام پر

عشق نے سوچا نہ کچھ انجام پر

تم تو یورپ میں ’’ڈگری‘‘ لینے گئے تھے… کس کو خبر تھی کہ… عشق کی پرواز تمہیں وہ ڈگری دلا دے گی… جس ڈگری کے بعد کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی… واہ عامر! تم تو عجیب انسان نکلے… یورپ جانے والے نوجوان واپسی پر اپنی بغل میں کسی ’’گوری خباثت‘‘ کو لے کر آتے ہیں… مگر تم جب منگل کو ہمارے پاس آؤ گے تو تمہاری ماں…(۷۲) بہتّر پاک، حسین اور معطر حوروں کی ساس بنی بیٹھی ہوگی…

ہاں سچے مسلمان جوان اپنی ماں کے لئے ایسی ہی ’’بہو‘‘ لاتے ہیں… عامر! سچ بتاؤ… عشق رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کا یہ سچا مقام تمہیں کیسے مل گیا؟… یورپ میں جا کر تو لوگ اندھے ہوجاتے ہیں… سارا دن بدنظری اور شہوت کی آگ میں جلتے ہیں… شراب کی پیپ سے اپنا معدہ ناپاک کرتے ہیں… نائٹ کلبوں میں اپنا دل اور دماغ بیچ آتے ہیں… اور انہیں تو ’’مدینہ منورہ‘‘ کی گلیاں تک بھول جاتی ہیں… پیارے شہید! اب بتا بھی دو کہ تمہیں عشق رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کا نور کیسے نصیب ہوگیا؟… کلمہ تو سبھی پڑھتے ہیں… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کا حسن اور مقام بھی سب کو معلوم ہے… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے زخموں کا بھی سب کو پتا ہے… مگر تمہارے دل پر یہ نور کیسے برسا؟… ہاں مجھے معلوم ہے تم یہ راز نہیں بتاؤ گے… ہاں! سچا عشق بہت خفیہ ہوتا ہے… حضرت زیاد بن سکنؓ زخموں سے چور تھے پھر بھی گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتے رہے… اور پھر اپنا رخسار آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے قدم مبارک پر رکھ دیا… اور روح نے جسم کو سلام کہہ دیا کہ… اب تو کام پورا ہوچکا ہے… عامر! ہمیں معلوم نہیں تم نے جاگتے ہوئے کچھ دیکھا یا سوتے ہوئے… اور پھر تمہارے لیے زندہ رہنا مشکل ہوگیا… ہاں دیکھنے کیلئے تو بہت کچھ موجود ہے مگر دنیا کی محبت نے آنکھوں کو اندھا… اور دل کے آئینے کو دھندلا کردیا ہے… اس لیے تو شہداء کی تعداد کم نظر آرہی ہے… ورنہ … آخرت اور شہادت کے مزے دیکھنے والوں کیلئے زندہ رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے… عامر بھائی! تم نے حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ کی سنت کو زندہ کردیا… وہ دونوں غزوہ بدر میں زخمی شیروں کی طرح بے چینی سے ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے تھے… اور ایک ایک سے پوچھتے تھے ابوجہل کہاں ہے؟… ابوجہل کون ہے؟… حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی  اللہ  عنہ سے بھی انہوں نے یہی پوچھا… انہوں نے فرمایا اے بچو!… کیوں پوچھتے ہو؟… فرمانے لگے ہم نے سنا ہے کہ وہ آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے … اور آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کو ستاتا رہا ہے… آج ہم اس کا حساب چکا کر اپنے دل کی اس آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں… جو معلوم نہیں کب سے ہمیں تڑپا رہی ہے… حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اشارہ کیا… اور وہ دونوں بچے یوں ابوجہل کی طرف بڑھے جس طرح کمان سے تیر نکلتا ہے… عامر بھائی! تم نے بھی جب سنا کہ ظالموں نے گستاخی کی ہے تو تم نے جینے کو حرام کرلیا… تمہارے پاس کچھ نہیں تھا مگر تم نے اپنے چاقو سے… وقت کے فرعونوں کو چیلنج کردیا… لوگ کہتے ہیں کہ طاقت نہ ہوتو جہاد نہیں ہوتا… مگر عشق نے کبھی اس بات کو نہیں مانا… نہ غزوۂ بدر میں… اور نہ صلیبی جنگوں میں… اور نہ تم نے اے عامر شہیدؒ اس بات کو سعادت کے رستے کی رکاوٹ بننے دیا… ایک چاقو لے کر تم نے سفر کا آغاز کیا… اور صرف ایک مہینے میں امت مسلمہ کی آنکھوں کا تارا، جنت کے مہمان، اور زمانے کے غازی اور شہید بن گئے… ہاں تمہارے ماں باپ کو حق ہے کہ تم پر ناز کریں… امت مسلمہ کو حق ہے کہ تم پر فخر کرے… اور نوجوانوں کا حق ہے کہ وہ تمہیں اپنا آئیڈیل بنائیں… عامر بھائی! میں نے تمہیں نہیں دیکھا… مگر مجھے یوں لگتاہے کہ میرے اور تمہارے درمیان صدیوں سے یاری ہے… اور ہم ایک دوسرے کے پرانے دوست ہیں… دراصل تم نے  اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم سے یاری کرکے ہم سب کے دلوں کو جیت لیا ہے… اب تم زندہ رہو گے… ان شاء  اللہ … اور تمہیں کوئی نہیں مار سکے گا… حوریں تمہارا استقبال کریں گی… فرشتے تم پر سلامتی بھیجیں گے، شہداء تم سے ملاقاتیں کریں گے… اور تم اپنے رب کے مزے دار قرب میں لذت والی روزی کھاؤ گے… امت مسلمہ کے علماء تمہارے لیے دعائیں مانگیں گے… اولیاء کرام رات کی آخری گھڑیوں میں تمہارے لیے دامن پھیلائیں گے… مجاہدین تمہارے نام کے شعلے دشمنوں کی طرف برسائیں گے، مائیں تمہیں پیار کریں گی… اور بہنیں رو رو کر تمہارے اونچے درجات کے لئے آنسو بہائیں گی… ہاں عامر! اب تم سب مسلمانوں کے بیٹے اور بھائی بن گئے ہو… شعراء تمہاری شان میں درد بھرے فخریہ قصیدے لکھیں گے… اور جوان عورتیں اپنے بچوں کو تمہارے جیسا بنانے کیلئے رب کے حضور سجدے والی دعائیں کریں گی… عامر بھائی ! ہم نے سنا ہے کہ تمہاری شہادت کو… خود کشی بتایا جارہا ہے… تا کہ… تمہاری بلند شان پر گرد وغبار ڈالا جا سکے؟… مگر… تمہارا خون تو مہک رہا ہے… شہیدوں کو کون بدنام کرسکتا ہے؟… خود کشی یورپ اور واشنگٹن کے پجاری کرتے ہیں… مدینہ منورہ کے بیٹے تو خود کشی کا نام تک نہیں لیتے… عامر! تو  اللہ  تعالیٰ کا شیر اور پاک نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا عاشق تھا… اس عشق میں ناکامی ہے ہی نہیں… پھر خود کشی کیسی؟…

ہاں عامر! ہم نہیں بھولیں گے کہ تمہیں بہت ستایا گیا… ہاں  اللہ  پاک کی قسم… ان سسکیوں اور آہوں کو نہیں بھلایا جائے گا جو تمہارے گلے سے بلند ہوئی ہوں گی… امت مسلمہ! جیسی بھی ہے… الحمدللہ بے حس نہیں ہے… ظالم لوگ تمہارے چاقو سے ڈر گئے… تمہارے بیانات اور عزائم نے ان کو ہلا کر رکھ دیا… تب … انہوں نے تمہیں ستایا… تمہیں تڑپایا… اور تمہیں تکلیف کا نشانہ بنایا… ہائے عامر! کاش زمین کے ایک چپے پر بھی اسلامی حکومت قائم ہوتی تو … تمہاری آہوں کا برسرِعام حساب مانگا جاتا… عامر! تمہارے جیسے نوجوان ہر جگہ اسی طرح ستائے جاتے ہیں… اسی طرح تڑپائے جاتے ہیں… مکہ کا ریگستان زمانے کے بلال پر ہمیشہ گرم رہتا ہے… اور زمانے کا اُمَیّہ ہمیشہ وقت کے بلال کی گردن پر پاؤں رکھتا رہتا ہے… مگر انجام بہت اچھا ہوتاہے… مکہ میں اذان گونجتی ہے… امیہ کا گلا ہوا جسم بدر کے اندھے کنویں میں ڈالا جاتا ہے… اور بلال مسجد نبوی کا مؤذن، بدر کا مجاہد، مکہ کا فاتح… اور کعبہ کا منادی بن جاتا ہے… عامر بھائی! جو کچھ تم پر بیتا ہے مجھے اس کا احساس ہے… کیونکہ… میں بے شمار بھیانک مناظر کا گواہ ہوں… اور میرا دل بہت سی تلخ یادوں کے ساتھ جینے پر مجبور ہے… میں نے بہت سی چیخیں سنی ہیں… میں نے تشدد سے شہید ہونے والوں کو دیکھا ہے… اور میں نے تشدد کرنے والوں کے منحوس تیور خود پڑھے ہیں…

مگر عامر! ایک بات سچی ہے کہ میں تم سے تعزیت نہیں کروں گا … ہاں تم اگر کسی گوری کافرہ کے عشق میں مبتلا ہوچکے ہوتے تو میں ضرور تعزیت کرتا… تم یورپ کی رنگینیوں کا چارہ بن چکے ہوتے تو میں ضرور تعزیت کرتا… تم کسی نائٹ کلب میں ناچ رہے ہوتے تو میں ضرورت تعزیت کرتا… تم اس گندی دنیا کو ترقی یافتہ سمجھ رہے ہوتے تو میں ضرورت تعزیت کرتا… مگر اب کس بات پر تعزیت کروں؟ تمہیں مارا گیا تو یہ مار تمہارے لیے آخرت کا تمغہ بن گئی… ہم کس طرح سے بھولیں کہ آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کو اس سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا… عامر! اگر تم پر تھوکا گیا تو یہ بھی تم سے ایک سنت زندہ ہوئی… عامر! تمہیں ڈرایا دھمکایا گیا تو تمہارے خوف کے ہر لمحے پر جنت نے تمہارے بوسے لیے… عامر! تمہیں تنہائی کی وحشت میں زخمی کیا گیا تو حوریں جنت سے اتر کر پہلے آسمان پر تمہاری زیارت کیلئے آبیٹھیں … اور جب تمہیں گرایا گیا… تو تم نے بلندیوں کی طرف سفر کا مزہ پایا… عامر! تم تو جان چکے ہوگے کہ کیسی تعزیت اور کس طرح کی تعزیت؟… تم تو ناموس رسالت کی موجودہ تحریک کے بانی بن گئے… تمہارا خون اور تمہارا جسم اس عمارت کی بنیاد بن گئے… جو عمارت ضرور بلند ہوگی… اے عامر! تم  اللہ  پاک کی طرف سے اتنی ہی زندگی لائے تھے مگر… تم خوش نصیب نکلے کہ تمہیں زندگی کے بعد زندگی مل گئی… اور تم امتحان میں ان شاء  اللہ  … کامیاب ہوگئے… عامر بھائی! ہم نے ایک صحابی کا قصہ پڑھا… ان کی شادی نہیں ہوئی تھی… شکل وصورت سے بھی غلاموں جیسے تھے… وہ شہید ہوگئے … کسی دوست نے آواز دے کر پوچھا! کتنی شادیاں ہوئیں؟ انہوں نے ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتادیا… عامر! تمہیں بھی شادی مبارک ہو… اگر میں شاعر ہوتا تو آج تمہارا ایسا ’’سہرا‘‘ لکھتا کہ… جوانیاں تڑپ کر رہ جاتیں… ہاں اصل دولھے تو تم ہو اور ’’سہرا‘‘ تمہارے ہی لیے لکھا جانا چاہئے… دنیا کی شادیاں تو تکلّفات اور رسومات کی آگ میں جل رہی ہیں… ان میں تو غفلت اور پریشانیاں زیادہ ہیں… ان میں تو فضول خرچے اور بے شمار رسوائیاں شامل ہوگئی ہیں… مگر تمہاری شادی بہت اچھی اور بہت مبارک ہے… ہاں میں شاعر ہوتا تو تمہارے لیے سو(۱۰۰) اشعار والا ’’سہرا‘‘ لکھتا… اور پھر اسے خوب مزے لے لے کر پڑھتا… عامر یار کیا کروں مجھے تو تم پر رشک آرہا ہے… اتنی جلدی اور اتنا آسان سفر… اور اتنی خوبصورت منزل…  اللہ پاک ہمیں شہادت سے محروم نہ فرمائے… عامر سچ بتاتا ہوں!… اگر یہ دعاء قبول ہوگئی تو پھرمیں تم سے ملوں گیا… تمہیں سینے سے لگاؤں گا… تمہاری پیشانی کا بوسہ لوں گا… اور تمہیں شادی پر مبارکباد دوں گا… عامر بھائی! شادی مبارک ہو!

٭٭٭

ہمارا شاندار زمانہ

 اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے کہ… عامر عبدالرحمن چیمہ شہیدؒ کے جنازے میں لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی… اس بابرکت جنازے میں شریک ہر مسلمان ہماری ’’مبارکباد‘‘ قبول فرمائے… گرمی کا موسم تھا، جنازہ بھی ایک غیر معروف گاؤں میں تھا… لوگوں کو وہاں تک پہنچانے اور لے جانے کا کوئی باقاعدہ انتظام بھی نہیں تھا… نماز جنازہ کا حتمی وقت بھی کسی کو معلوم نہیں تھا… مگر پھر بھی لاکھوں مسلمان وہاں پروانوں کی طرح جمع تھے… یہ سب کچھ اس قابل ہے کہ اس پر  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کہ… امت مسلمہ میں الحمدللہ… ایمان بھی موجود ہے اور جذبہ بھی… کیا بوڑھے کیا جوان، بسوں پر لٹکتے اور پیدل گھسٹتے عاشق کی بارات کا حصہ بننے کیلئے بے چین تھے… کتنے لوگ روزانہ معلوم کرتے تھے کہ عاشق کب آئے گا؟… عاشق کب پہنچے گا؟… وہ ایک ایک سے پوچھتے تھے عاشق کہاں اترے گا؟… غیرتمند غریب مسلمان جیب میں کرایہ لیے ایک ایک گھڑی گن کر گزار رہے تھے… پہلے اعلان ہوا کہ عاشق پنڈی، اسلام آباد آئے گا… مگر ایسا نہ ہوسکا… لوگ سارا دن دیوانوں کی طرح اس کے گھر اور جنازہ گاہ کے چکر کاٹتے رہے… پھر تاریخ ملتوی ہوتی گئی تاکہ… عشق کی آگ ٹھنڈی پڑ جائے… اور دھرتی کے فخر کو چپکے سے مٹی میں دبادیا جائے… مگر عاشق کا جنازہ ایسی دھوم سے نکلا کہ بادشاہوں کے جلوس اس کے سامنے شرمندہ ہوگئے… امام احمد بن حنبلؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا… اور ہمارے دشمنوں کا فیصلہ ’’جنازے‘‘ کریں گے… مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں نے امام احمد بن حنبلؒ کو قید کیا تھا… اور ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے تھے… امام صاحبؒ کا جب انتقال ہوا تو لاکھوں مسلمانوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی… وقت کے حکمران ’’متوکل باللہ‘‘ نے اپنے کارندے بھیجے کہ جنازہ گاہ کی پیمائش کرکے اندازہ لگاؤ کہ… کتنے لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی ہے… پیمائش سے اندازہ ہوا کہ کل پچیس لاکھ افراد نے نماز جنازہ ادا کی تھی… ورکانی جو امام احمد بن حنبلؒ کے پڑوسی تھے فرماتے ہیں کہ جس دن امام احمد بن حنبلؒ فوت ہوئے ہیں… اس دن بیس ہزار یہودی، نصرانی ومجوسی آپ کے جنازہ کی حالت دیکھ کر مسلمان ہوئے… میں عامر شہید کے جنازے پر اس لیے بار بار شکر ادا کر رہاہوں کہ … معلوم نہیں عشق مصطفی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا یہ عظیم مظاہرہ دیکھ کر کتنے لوگ مسلمان ہوئے ہوں گے… کہاں جرمنی کی وہ تاریک جیل اور اس کی قاتل کوٹھڑی… کہاں ایک اجنبی، گمنام مسافر… اور کہاں مسلمانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر… ہر شخص عامر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب تھا … ہاں جس کی محبت کے فیصلے آسمانوں پر ہوچکے ہوں… زمین پر اسے ایسی ہی محبت اور مقبولیت ملتی ہے… میں نے بار بار معلوم کیا… اور جنازے میں شرکت کرنے والوں سے پوچھا… کسی نے دولھے کی جھلک بھی دیکھی؟… معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے قبر میں اتارتے وقت عاشق کو دیکھ لیا… اور پھر اس کے چہرے کا نور دیکھ کر بے ہوش ہوکر گر پڑے … سبحان  اللہ ! کیا اعزاز ہے اور کیا اکرام… کئی دن پرانی میت چاند کی طرح چمک رہی تھی… اور گلاب سے بڑھ کر مہک رہی تھی… اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے زمانے کو… شہداء کے خون اور سچے لوگوں کی سچائی سے مہکادیا ہے… ہم خواہ مخواہ حالات کی خرابی کا شکوہ کرکے ہر وقت ناشکری کرتے رہتے ہیں… میں اس زمانے کے کس کس ’’صدیق‘‘ کو یاد کروں… کس کس ستارے کی بلندی کا ذکر چھیڑوں… اور کس کس پھول کی خوشبو کا حال سناؤں؟… اس زمانے کے عاشقوں نے تو قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کردی ہیں… مجھے بنگلہ دیش کا ابوعبیدہ یاد آرہا ہے… عالم، مفتی اور مجاہد… تہجد کے وقت قرآن پاک تلاوت کرنے والا… وہ افغانستان میں شہید ہوگیا… میں اس کی یادین سمیٹنے افغانستان گیا… افغان جہاد کا ’’درانتی توڑ‘‘ زمانہ آخری مرحلے میں تھا… افغان مجاہدین نے انگریزوں کا ہیٹ توڑا، کیمونسٹوں کی درانتی توڑی اور اب وہ ’’صلیب‘‘ کے مد مقابل ہیں… خیر اس زمانے کا جہاد ’’کیمونسٹوں‘‘ کے خلاف تھا… ’’ابوعبیدہ‘‘ ایک جنگ میں شہید ہوگیا… میں نے وہاں جاکر حالات معلوم کیے تو دل ٹھنڈا ہوگیا… کوئی اس کے خون کی خوشبو کو یاد کر رہا تھا… تو کوئی اس کے چہرے کی روشنی کے تذکرے کر رہا تھا… ایک افغان مجاہد نے بتایا… ہم نے ابوعبیدہ کو قبر میں لٹادیا… اندھیری رات میں اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا… میں مبارکباد کا پیغام لے کر بنگلہ دیش جا پہنچا… ایک کچے گھر کے غریب مالک کو اس کے سب سے بڑے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو اٹھ کر دوڑ پڑا… معلوم ہوا کہ مسجد میں شکرانے کے نوافل ادا کرنے گیا ہے… ایک چھوٹی سی بچی خوشی خوشی بتاتی پھر رہی تھی کہ میرا بھائی شہید ہوگیا ہے… وہ پورا خاندان میری اس طرح سے خدمت کر رہا تھا جیسے میں ان کے بیٹے کیلئے کار، کوٹھی، بنگلہ اور بیوی کی خبر لایا ہوں… کھانے میں کچھ چیزیں بہت اصرار سے کھلائی گئیں… بتایا گیا کہ شہید کی ماں نے خود پکائی ہیں… میں عجیب وغریب جذبات لے کر واپس ہوا… گاؤں میں سائیکل رکشہ کے سوا کوئی سواری نہیں تھی… میں رکشہ پر بیٹھا سوچوں میں گم اڈے کی طرف جا رہا تھا … خیال ہوا کہ عاشق کے گھر کا آخری دیدار کرلوں… پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہید کے والد آنکھوں میں آنسو لیے ننگے پاؤں رکشے کے پیچھے دوڑتے آرہے ہیں… میں نے رکشہ رکوالیا اتر کر پوچھا کیا حکم ہے؟… فرمایا بس محبت اور ثواب میں دوڑ رہا ہوں آپ سفر جاری رکھیں… میں نے منت سماجت کرکے ان کو واپس کیا… اور اپنے زمانے کی ترقی دیکھ کر حیران رہ گیا… ہاں یہ بہت خوش نصیب زمانہ ہے… اس میں جہاد اور شہادت کی فراوانی ہے… اس میں خوشبودار جنازے اور روشن قبریں ہیں… مجھے ایک افغان مجاہد نے بتایا کہ اس نے خود… ابوعبیدہ کی قبر سے کئی بار قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنی ہے… میرا دوست اختر جب شہید ہوگیا تو کراچی میں ایک ساتھی نے مجھے وہ رومال دکھایا جس پر اختر کا خون لگا تھا… میں نے خود اس میں سے عجیب خوشبو سونگھی حالانکہ ایک ہفتہ گزر چکا تھا … پشاور والوں کو عبد اللہ  عزام شہید اور ان کے دو جوان بیٹوں کا جنازہ یاد ہوگا… اکثر عرب مجاہدین… کرامات نہیں مانتے تھے مگر… شہیدوں کے جنازے نے ان کو سب کچھ ماننے پر مجبور کردیا… عبد اللہ  عزام شہید کے خون سے خوشبو ٹپک رہی تھی… تینوں جنازوں پر چادریں تھیں… مجاہدین بتاتے ہیں کہ ہر جنازے سے الگ خوشبو آرہی تھی… اور ہم پہچان رہے تھے کہ… کون سی چار پائی کس شہید کی ہے… کمانڈر سجاد شہیدؒ کا آخری دیدار میں نے جموں کے ایک ہسپتال میں کیا… وہ سردخانے میں رکھے ہوئے تھے… چہرے پر گہری مسکراہٹ تھی… تین دن گزر چکے تھے جسم ریشم کی طرح نرم تھا… میں نے اپنے یار کو سلام پیش کرنے کیلئے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو… پیشانی ابھی تک گرم تھی… میرے ہاتھوں میں ڈبل ہتھکڑی تھی… اور میرا دوست بالکل آزاد تھا… بالکل آزاد… اسی لیے تو مسکرا رہا تھا… اس سے دو دن پہلے وہ خواب میں آیا تھا… میں نیم غنودگی کی حالت میں تھا… مجھے کہنے لگا ’’مجھے معاف کردو! میں نے اوپر جانا ہے‘‘ … میں چونک کر اٹھ گیا… اس وقت تک ہمارے پاس اس کے صرف زخمی ہونے کی خبر تھی… کچھ دیر بعد شہادت کی خبر آگئی… مجھے ہسپتال لے جانے والا پولیس کا ڈی ایس  پی… عاشق کا چہرہ دیکھ کر حیران تھا… اور ایک ایک کو بتا رہا تھا… پوسٹ مارٹم کرنے والے بھی عجیب کرامات سنا رہے تھے…  اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے صدیقین اور شہداء کا یار بنایا… ہم ان سے پیار کرتے تھے اور وہ ہم سے پیار کرتے تھے… حدیث پاک میں آتا ہے… المرء مع من احبّ… آدمی قیامت کے دن انہیں کے ساتھ ہوگا… جن سے وہ پیار کرتا ہے… ممکن ہے آپ سوچیں کہ میں ’’صدیقین‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کر رہا ہوں… یہ تو بہت اونچا لفظ ہے…

آپ یقین کریں اس زمانے میں  اللہ  تعالیٰ نے… کئی حضرات کو یہ مقام نصیب فرمایا ہے… اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ…  اللہ تعالیٰ نے ان کی زبانوں کو سچا فرمادیا … اور انہیں شہادت سے پہلے… شہادت کی خوشخبری سنادی… میں کراچی میں تھا … اطلاع ملی کہ میرے استاذ محترم حضرت مولانا بدیع الزمان صاحبؒ کا انتقال ہوگیا ہے… میں جنازے میں شرکت کیلئے حاضر ہوا… مسجد کے محراب میں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ … تشریف فرما تھے… انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھالیا… اور شفقت ومحبت کا اظہار فرمانے لگے… وہ اردگرد بیٹھے لوگوں کو بتا رہے تھے: بھائی! ہم نے تو جہاد کی بیعت کرلی ہے…

واپسی پر مسجد ہی میں میرا ہاتھ پکڑ کر جوش سے فرمانے لگے… بھائی! میں نے جہاد کی رسمی بیعت نہیں کی… آزما کر دیکھ لو جہاں بھیجناہو بھیج دو…

میں شرمندہ شرمندہ ان کے ساتھ چل رہا تھا اچانک رک گئے… اور فرمایا… دیکھ لینا میں بستر پرنہیں مروں گا… بس چند ہی دن گزرے کہ وہ خون میں نہائے اور شہید ہوگئے… ایمان والی زندگی اور شان والی موت اس صاحب قلم عارف وعالم کو ملی جو روئے زمین کے چند بڑے لوگوں میں سے ایک تھے…

رب کعبہ کی قسم یہ وہ انعام ہے جو بہت خاص لوگوں کو ملتا ہے… ورنہ کسی کو کیاخبر اسکا انجام کیساہوگا؟… یہاں مجھے ایک سچا نوجوان یاد آگیا…  اللہ  تعالیٰ نے اس کی بات کو بھی اپنی رحمت سے سچا فرمادیا… پچیس سال کا حسین وجمیل… اور جانباز کشمیری مجاہد نوید انجم شہید…  اللہ  اکبر!… کتنا متقی، پاکیزہ، بہادر… اور باصلاحیت نوجوان تھا… جیل حکام نے ہمیں جیل سے نکال کر… دوبارہ ٹارچر سینٹر بھیجنے کا حکمنامہ جاری کیا… ادھر جیل سے خلاصی کیلئے سرنگ تیار ہورہی تھی… نوید انجم سرنگ بھی کھودتا تھا… ہمارا پہرہ بھی دیتا تھا… اور مستقبل کے جہادی عزائم کے خاکوں میں رنگ بھی بھرتا تھا… جیل حکام نے حکمنامہ بھیجا تو وہ شیر کی طرح گرجا کہ میرے بزرگوں کو تم اس وقت لیجاؤ گے جب میری لاش گرے گی… وہ نہتّا تھا اور ڈٹ گیا… دیوانوں کی طرح تکبیر کے نعرے لگاتا اور اپنے فرن میں خنجر چھپا کر پھرتا… وہ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا… ایک دن آکر کہنے لگا میں نے خواب دیکھا ہے تعبیر بتائیں گے… خواب سن کر میں نے کہاایسا لگتاہے کہ آپ کی ساری مشکلات دور ہونے والی ہیں… وہ ایک دم تڑپ گیا… کہنے لگا ایسا نہ کہیں ، بلکہ یوں کہیں کہ ہم سب کی مشکلات دور ہونے والی ہیں… یہ اس کی محبت کا عروج تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر اپنی مشکلات کاحل بھی نہیں چاہتا تھا… وہ ایک ایسے ’’حسن ظن‘‘ میں مبتلا تھا جس کی حقیقت موجود نہیں تھی… ایک رات وہ میرے پاس آیا میں کچھ لکھ رہا تھا… وہ واپس چلا گیا… میں نے دیکھا بہت بے چین ہے اور بار بار آتا ہے… اور جاتا ہے… پھر وہ قریب بیٹھ کر مجھے دیکھنے لگا… میں نے وجہ پوچھی کہنے لگا بس آپ کے پاس بیٹھنے کو دل چاہ رہا ہے… آپ اجازت دیں کہ میں آپ کو دباتا رہوں اور آپ لکھتے رہیں… میں نے کہا اس طرح تو لکھنے میں حرج ہوگا… آپ جاکر سوجائیں ان شاء  اللہ  کل تفصیل سے بیٹھیں گے… یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا… آنکھوں میں آنسو بھر کر چلا گیا… اگلے دن جیل میں ہمارا پولیس سے مقابلہ ہوا… سہہ پہر کے وقت ہم جیل حکام کی گرفت میں تھے… ہمیں ڈیوڑھی میں لے جاکر… خوب زخمی کیا جارہا تھا… میری آنکھیں ’’نوید دیوانے‘‘ کو ڈھونڈ رہی تھیں… اچانک خبر آئی کہ وہ تو دوپہر کو ہی شہید ہوگیا تھا… اور ہمیں اس کی لاش گرنے کے بعد ہی جیل سے باہر لایا گیا… ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان سے نکلی ہوئی بات…  اللہ  تعالیٰ پوری فرما دیتا ہے… یہ لوگ صدیقین ہوتے ہیں… اس وقت امت مسلمہ خوش نصیبی کے اونچے دور سے گزر رہی ہے… افغانستان میں شہداء، کشمیرمیں شہداء… عراق میں شہداء… فلسطین میں شہداء اور ہمارے اردگرد ہر طرف صدیقین اور شہداء… آج روزانہ بہت سی مائیں … اپنے فدائی بیٹے رخصت کرتی ہیں… تب آسمان انہیں جھانک جھانک کر دیکھتا ہے… شہادت کی خبر آنے کے بعد جب شہید کی ماں… مٹھائی بانٹ رہی ہوتی ہے تو بہت سے زمانے ہمارے زمانے کو رشک کے ساتھ دیکھتے ہیں… آپ حیران ہوں گے کہ مجھ سے بعض خواتین خطوط میں ’’شہادت‘‘ کے وظیفے پوچھتی ہیں…

میرے ایک بہت محترم استاذ کراچی میں شہید ہوگئے… میں ان کی شہادت کے وقت دوسرے ملک میں قید تھا… واپس آیا تو ایک دن ڈاک میں ان کی صاحبزادی کا خط ملا… فرما رہی تھیں کہ بھائی! میں نے ابو کی طرح شہید ہونا ہے… میری یہ تمنا پوری ہوجائے اس کیلئے کچھ وظائف بتادیں… میں نے ان کو لکھا کہ سورۃ یوسف کثرت سے پڑھا کریں… اور ’’یاشہید جل شانہ‘‘ کا ورد کیا کریں… ’’الشہید‘‘  اللہ  تعالیٰ کا نام ہے… میں جب مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا تو ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ کے سبق کے دوران ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا حبیب  اللہ  مختار شہیدؒ … نے فرمایاتھا… جو شخص کثرت سے سورۃ یوسف کا ورد کرے  اللہ  تعالیٰ اسے شہادت نصیب فرماتے ہیں… میں نے اپنی بہن کو یہی وظیفہ لکھ دیا… اور یہ وظیفہ اس لیے مجرب ہے کہ … وظیفہ بتانے والے کو بھی  اللہ  تعالیٰ نے شہادت کی نعمت عطاء فرمائی… حضرت مولانا حبیب  اللہ  مختارؒ ایک حملے میں شہید ہوئے… انہوں نے مشکوٰۃ شریف کی کتاب الجہاد کا اردو ترجمہ ’’جہاد‘‘ کے نام سے ترتیب دیا اور اسے شائع بھی کروایا تھا…  اللہ  تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے… کچھ عرصہ پہلے ہمارا راولپنڈی کا ایک کم عمر ساتھی شہید ہوا… مجھے ڈاک میں اس کی ہمشیرہ کا خط ملا… انہوں نے لکھا تھا کہ… انہوں نے اپنے گھر میں دورہ تربیہ کیا ہے اور تمام معمولات کے علاوہ کچھ وظیفے شہادت کی نعمت پانے کیلئے بھی کیے ہیں… جس زمانے میں مسلمان بچیاں ’’شہادت‘‘ چاہتی ہوں… جس زمانے کی گود میں عامر چیمہ شہید کی قبر بنی ہو… جس زمانے کی مٹی نے شہداء کے خون سے حسن پایا ہو… جس زمانے کے ’’اکابر‘‘ شہادت کی دعاء مانگتے ہوں… جس زمانے کے نوجوان فدائی قافلوں کے مسافر ہوں … اگر میں اس زمانے پر  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کروں تو یہ میرا فرض بنتا ہے… یہ میرا حق بنتا ہے… ناشکری کیلئے بہت سی خبریں موجود ہیں… تنقیدی کالم لکھنے کیلئے بہت سے بیانات سامنے ہیں… مگر گوجرانوالہ کے گاؤں ’’ساروکی چیمہ‘‘ کے کھیتوں میں لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع… قلم اور دل کے رخ کو شکر کی طرف موڑتا ہے… سورج قیامت تک نکلتا رہے گا، چاند اپنی روشنی پھیلاتا رہے گا… لوگ آتے رہیں گے اور مر مر کر قبروں میں اترتے رہیں گے… موسم کبھی گرم ہوگا کبھی ٹھنڈا… مگر  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے کسی مسلمان کو… شہادت کا مل جانا ایک ایسی نعمت ہے… جس کاکوئی بدل نہیں… امت مسلمہ کا ایک عاشق کے استقبال میں اس طرح نکلنا… ایک ایسی علامت ہے… جس کاکوئی جواب نہیں… شہید عامر کے چہرے پر نور کا برسنا… ایک ایسا واقعہ … جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں… قرآن پاک جہاد کی آیات سے بھرا پڑا ہے… قرآن وحدیث میں شہادت کی مٹھاس کو کھول کھول کر سمجھایا گیا ہے… ماضی کے قبرستان شہیدوں کے اونچے مقام کی داستان ہر لمحہ سناتے رہتے ہیں… میں خوش ہوں ہمارا زمانہ بانجھ نہیں ہے… میں خوش ہوں ہمارا دور بے آبرو نہیں ہے… اگر قرآن پاک سنا رہا ہے تو الحمدللہ… اس زمانے میں بھی سننے والے کان موجود ہیں… سمجھنے والے دل موجود ہیں… اگر اللہ  تعالیٰ خرید رہاہے … تو الحمدللہ اس زمانے میں بھی بکنے والی جوانیاں موجود ہیں… اگر حسن مصطفی صلی  اللہ  علیہ وسلم چمک رہا ہے تو الحمدللہ… اس زمانے میں بھی عاشق موجود ہیں … یا  اللہ  ہمیں بھی شامل فرما… یا  اللہ  ہمیں بھی قبول فرما…

٭٭٭

سات منٹ

 اللہ  تعالیٰ کی رضا کیلئے جو عمل کیا جائے… وہی عمل انسان کے کام آتا ہے… اور وہی عمل انسان کے کام آئے گا… تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کریں اور سوچیں… میرے پاس ایسے اعمال کتنے ہیں جو میں نے خالص  اللہ  تعالیٰ کیلئے کیے ہیں… ہمیں سب کچھ  اللہ  تعالیٰ دیتا ہے… اور آئندہ جو کچھ ملے گا وہ بھی  اللہ  تعالیٰ ہی دے گا… پھر اگر ہمارا ہر عمل بھی اسی کے لئے ہو تو کتنا مزہ آجائے…  اللہ  اکبر کتنا مزہ آجائے… ہاں بے شک وفاداری اور محبت میں بہت مزہ ہے… اچھا ہم سب آنکھیں بند کرتے ہیں… اور ایک بار خالص  اللہ  تعالیٰ کی رضا کیلئے کہتے ہیں… سبحان  اللہ … دیکھا آپ نے کتنا سکون ملا… اور زمین سے آسمان تک نور ہی نور بھر گیا… یہ نور ہمارا ہوگیا اب قیامت کے اندھیرے میں کام آئے گا… قرآن پاک نے بتایا ہے … قیامت کے دن ایمان والوں کا نور ان کے آگے اور دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا…  اللہ  اکبر کتنا مزہ آئے گا…  اللہ  پاک ہم سب کو نور عطاء فرمائے… دراصل دل کی دنیا کچھ اور ہے… اچھا آج آپ ایک کام ضرور کریں… تھوڑی دیر کیلئے سب سے الگ بیٹھ جائیں… کسی مصلے پر، کسی کرسی پریا جہاں دل چاہے… مگر ہوں بالکل اکیلے… پھر دماغ سے سارے خیالات نکال کر اپنی پوری توجہ اپنے سانس پر کرلیں… اور آنکھیں بند کرکے اپنے سانس کی نگرانی کریں… سانس اندر جا رہا ہے، سانس باہر آرہا ہے… یاد رکھیں آپ کا ذہن ادھر ادھر بھٹکے گا مگر آج ہمت کریں اور ذہن کو واپس لے آئیں… اور اپنے سانس کی نگرانی کریں… کہ سانس اندر جارہا ہے سانس باہر آرہا ہے… تھوڑی دیر کی نگرانی سے معلوم ہے کیا ہوگا؟ آپ کو اپنے اندر کی دنیا نظر آنے لگے گی… دل کی دنیا، روح کی دنیا، ایک نئی دنیا، ایک بڑی دنیا… جی ہاں ہمارے اندر بھی ایک دنیا قائم ہے… ہمیں اس دنیا کا بھی خیال رکھنا چاہئے… جس طرح ہم جسم کی دنیا کا خیال رکھتے ہیں… ہم پیٹ بھرنے کیلئے کھانا کھاتے ہیں… اور معلوم نہیں کتنی چیزیں کھاتے ہیں… جسم میں بیماری ہوجائے تو ڈاکٹر اور حکیم کے پاس جاتے ہیں… اور بہت سی دوائیاں کھاتے ہیں… جسم کی کھال خراب ہوجائے تو کریمیں اور لوشن لگاتے ہیں… جسم کی خاطر بیت الخلاء جاتے ہیں … اور معلوم نہیں کیا کیا کرتے ہیں… الغرض چوبیس گھنٹے ہم اپنے جسم کی خدمت میں لگے رہتے ہیں… ہمیں چاہئے کہ اپنی روح اور اپنے دل کیلئے بھی کچھ کریں… دل سفید بھی ہوتا ہے اور بیمار ہو کر کالا بھی ہوجاتا ہے… حدیث پاک میں آیا ہے کہ گناہ کی وجہ سے دل پر سیاہ نقطے لگ جاتے ہیں… اور اگر توبہ نہ کی جائے تو وہ پورے دل کو کالا کردیتے ہیں… اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ جس طرح آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں… اسی طرح اپنے دل کو بھی دیکھا کریں… آئینے میں نظر آئے کہ چہرے پر کالک لگی ہے تو منہ دھوتے ہیں… ایسے ہی دل کی بھی نگرانی کرنی چاہئے… اچھا آج تھوڑا سا وقت اپنے اندر جھانکنے کے لئے تو نکال لیں… ہمارے اندر والا انسان جاگے گا تو دنیا میں حالات اچھے ہوجائیں گے… ہمارے سینے میں دائیں طرف ہماری روح ہے… اورر بائیں طرف ہمارا دل… آنکھیں بند کرکے سر جھکائیں اور دائیں طرف سینے میں اپنی روح کو تلاش کریں… ہاں شروع میں وہ نظر نہیں آتی… کھانے، چائے سموسے، کوکاکولا اور گیس نے روح بیچاری کو چھپادیا ہے… روح تو بھوکا رہنے سے خوش ہوتی ہے… جسم تھکتا ہے دین کے کام میں تو روح کو تازگی محسوس ہوتی ہے… جسم بھوک برداشت کرتا ہے  اللہ  پاک کی خاطر تو روح طاقتور ہوجاتی ہے… اپنی روح کو ڈھونڈ کر دیکھیں کہ بے چاری کس حال میں ہے؟…

کہیں زخمی تو نہیں، بیمار تو نہیں، میلی کچیلی تو نہیں… اور دیکھیں کہ انسانی شکل کی ہے یا (نعوذباللہ) جانور بن چکی ہے؟… اپنی روح سے پوچھیں کہ کیاحال ہے؟… کیا تو مسلمان ہے؟… ہاں اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی روح کی نگرانی، دیکھ بھال اور خدمت کرنی ہوگی… اور ہمارے سینے میں بائیں طرف دل ہے… اسے دیکھیں وہ کیا کر رہا ہے؟… کہیں اس پر کالک اور میل تو نہیں لگی ہوئی؟ … وہ کس کو یاد کر رہا ہے؟… دل دنیا کا سب سے بڑا عاشق ہے… ہر وقت کسی کے عشق میں لگا رہتا ہے… اس لیے حکم دیا گیا کہ اسے…  اللہ  تعالیٰ کی محبت اور عشق سے بھردو… ہاں آنکھیں بند کریں… اور دل کو دیکھیں… پھر اسے پیار سے کہیں… اے دل! اس کا نام لے جس نے تجھے پیدا کیا …  اللہ   اللہ … اے دل! اس کو یاد کر جس کے پاس جانا ہے…  اللہ   اللہ …اے دل! اس سے پیار کر جس نے پیار کو پیدا کیا… اے دل! اس سے محبت کر جس نے محبت کو پیدا کیا… اللہ   اللہ  … اپنے دل کو  اللہ   اللہ  پر لگادیں… اور سوچتے رہیں کہ  اللہ  تعالیٰ کی محبت کا حسین نور میرے دل میں آرہا ہے… اللہ  اللہ …

چند دن اپنے سانس کی نگرانی کریں، صرف دو منٹ… چند دن اپنی روح کو ڈھونڈیں اور دیکھیں صرف دو منٹ… چند دن اپنے دل کو دیکھیں اور اس کی نگرانی کریں اور اسے ذکر میں لگائیں صرف تین منٹ…

کیا ہم اپنے اندر کی دنیا کو آباد کرنے کیلئے روزانہ سات منٹ دے سکتے ہیں؟… ناشتے، دو پہر کے کھانے اور رات کے کھانے پر کتنا وقت لگتا ہے؟… ہم ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں… اور بعض اوقات یہ آنکھیں  اللہ  تعالیٰ کو ناراض بھی کردیتی ہیں… تو کیا  اللہ  تعالیٰ کی رضا کیلئے سات منٹ اپنی آنکھیں بند کرنا مشکل ہے؟… میرے شیخ،  اللہ  تعالیٰ ان کی قبر کو اپنی رحمت اور سکون سے بھر دے، فرمایا کرتے تھے… قرب قیامت کا دور ہے اب صرف دل والا اسلام چلے گا عقل والا نہیں… حضرت کی یہ بات اب کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہے کیونکہ… دنیا جس رخ پر چل پڑی ہے اس میں عقل جلد گمراہ ہوجاتی ہے… اور کہتی ہے ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے… ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے… اب اگر دل میں دین ہو تو ایمان بچ سکتا ہے ورنہ بہت مشکل ہے… مجھے امیر المؤمنین ملا محمد عمر سے الحمدللہ بہت محبت ہے… میں نے انہیں دیکھا کہ وہ اپنے فیصلے عقل سے نہیں ’’دل‘‘ سے کیا کرتے ہیں… ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم نے ایسے دل والے انسان کی زیارت کی ہے…  اللہ  پاک ان کی حفاظت فرمائے اور ان کے فیض سے امت مسلمہ کو سیراب فرمائے… آج کل ’’جمہوری سیاست‘‘ کا دور ہے… اسلامی جماعتیں بھی اسلام نافذ نہیں کرسکتیں… ملا محمد عمر مدظلہ کا دل زندہ تھا انہوں نے اسلام کے احکامات کو نافذ کردیا… ان کی حکومت نہیں رہی تو کیا ہوا؟… اور بھی تو سب کی ختم ہوجائے گی… انسان کو زندگی اور حکومت ایک دن کی ملے یا سو سال کی… سوال اس پر ہوگا کہ  اللہ  تعالیٰ کے احکامات پر کتنا عمل کیا…بالغ ہونے کے بعد زندگی ایک دن کی ملی تو پانچ نمازوں کا سوال ہوگا… اور اگر دس دن کی ملی تو پچاس نمازوں کا… صرف اس لیے اسلام نافذ نہ کرنا کہ دینداروں کی حکومت ختم نہ ہوجائے یہ تو دل والی بات نہیں ہے… اگر بددین بھی موسیقی بجائیں اور دیندار بھی تو پھر… دینداروں کا حکومت پر بیٹھنا خود ان کیلئے قیامت کا سوال ہوگا… عقل اس بات کو نہیں سمجھ سکتی… مگر دل والے امیر المؤمنین نے یہ بات سمجھ لی… اور اپنی حکومت کو نہیں اسلام کی تنفیذ کو مقصد بنالیا… ان کے دور حکومت میں ریڈیو چلتا تھا مگر اس پر ساز گانے نہیں بجتے تھے… انہوں نے نماز کا نظام قائم کیا… انہوں نے حدود وقصاص کو نافذ کیا… انہوں نے اسلامی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور روس کو ناراض کرکے چیچنیا کی حکو مت کو تسلیم کیا… انہوں نے امریکہ کو ناراض کرکے اسامہ بن لادن کو پناہ دی… انہوں نے انڈیا کو ناراض کرکے بھارتی طیارے کے اغواء کرنے والے مجاہدین کو باحفاظت اپنے ملک سے گزارا… یہ سب کچھ صرف وہی انسان کرسکتا ہے جس کا دل زندہ ہو… جس کا دل مسلمان ہو… ان میں سے کوئی کام بھی آسان نہیں تھا… بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے بہت بڑی پیشکش کی تھی اس شرط پر کہ… طالبان طیارہ اغواء کرنے والے پانچ اور رہا ہونے والے تین مجاہدین کو پکڑ کر انڈیا کے حوالے کردیں… جسونت سنگھ کو جو جواب امیرالمؤمنین کی طرف سے ملا… اس پر آسمان بھی خوشی سے جھوم اٹھا ہوگا… ہاں مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کو بیچا نہیں کرتے… پھر بامیان کے دوہزار سالہ بت ایک اشارے سے بارود کا لقمہ بن گئے… ٹھیک ہے ملا عمر صاحب کی حکومت ساڑھے چھ سال رہی… مگر اس عرصے کے کارنامے صدیوں پر محیط ہیں… حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت تو ڈھائی سال رہی تھی… مگر دنیا آج تک ان کو یاد کرتی ہے اور انہیں روئے زمین کے کامیاب ترین حکمرانوں میں شمار کرتی ہے… باقی عقل کے ساتھ حکومت کرنے والے ساڑھے چھ سال بھی رہتے ہیں یا نہیں؟… اور جاتے وقت اپنی جھولی میں کیا لے جاتے ہیں… ملا محمد عمر کی جھولی تو عظیم کارناموں سے بھری ہوئی ہے… ہاں ان کے پاس دل والا اسلام تھا… اور میرے شیخ نے فرمایا کہ اب صرف دل والا اسلام ہی کام آئے گا… قرآن پاک بار بار مسلمانوں کو غزوہ بدر یاد دلاتا ہے… غزوہ بدر کے ایک ایک منظر کو یاد دلاتا ہے… اگر جہاد صرف قوت سے ہی ہوتا تو قرآن پاک غزوہ بدر کو بطور مثال پیش نہ کرتا… کل میں تفسیر مدارک دیکھ رہا تھا… سورۃ انفال کی آیت ۴۲ میں  اللہ  تعالیٰ نے بدر کے میدان جنگ کا نقشہ بیان فرمایا ہے… امام نسفیؒ لکھتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو میدان کا نقشہ معلوم تھا… پھر قرآن پاک نے اس کا ذکر کیوں چھیڑا؟… دراصل یہ سبق یاد دلانا مقصود ہے کہ فتح اسباب سے نہیں  اللہ  تعالیٰ کی نصرت سے ملتی ہے… میدان جنگ میں مسلمانوں کی صورتحال کمزور تھی… وہ میدان کے اس حصے میں تھے جو جنگ کے لئے موزوں نہیں تھا جبکہ مشرکین بہترین جگہ پر تھے… یہی بات امام زاریؒ نے بھی لکھی ہے… غزوہ بدر کی ہر ادا کو قرآن پاک نے محفوظ رکھا… اور بار بار یاد دلایا کہ مسلمان جب بھی غزوہ بدر کی ترتیب زندہ کریں گے… وہ فتح پائیں گے… غزوہ بدر کی فتح دل والے ایمان کی بدولت نصیب ہوئی… عقل کے مطابق تین سو تیرہ خالی ہاتھ افراد کا ایک ہزار مسلح جنگجو لشکر سے ٹکراجانا… مصلحت کے خلاف اور کھلی ہلاکت ہے… مگر قرآن پاک تو باقاعدہ منظر کشی کرتا ہے… نبی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا گھر سے نکلنا… راستے میں آپ کا صحابہ کرام سے مشاورت کرنا، اچانک دونوں لشکروں کا آمنے سامنے آجانا… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کا  اللہ  تعالیٰ کے حضور گڑگڑانا… آسمان سے بارش کا برسنا، اس خوفناک ماحول میں صحابہ کرام کا نیند سے جھومنا اور آرام پانا… فرشتوں کا اترنا… فرشتوں کی تربیت… مال غنیمت کے معاملات، قیدیوں کے معاملات… الغرض ہر بات قرآن پاک نے لکھ دی اور خاک کی اس مٹھی تک کا تذکرہ کر ڈالا جو آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے دشمنوں کی طرف پھینکی تھی… یہ سب کچھ کیا ہے؟… قرآن نے طاقت کے توازن کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا؟… اور بار بار بدر کے واقعات کیوں سنائے… چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی فتح حاصل کی بدر کی ترتیب پر حاصل کی… قوت کے توازن پر نہیں… مسلمان جب بھی دل سے مسلمان ہوئے تو  اللہ  پاک نے ان پر اپنے راستے کھول دئیے… قرآن پاک بتاتا ہے کہ صحابہ کرام کو غزوہ بدر میں دشمنان اسلام کا لشکر… کم تعداد میں نظر آتا تھا… گویا  اللہ  پاک نے آنکھوں کا نظام بھی ان دل والوں کیلئے بدل دیا … آنکھ ایک کو ایک اور دو کو دو دیکھتی ہے… مگر جہادکی برکت سے صحابہ کرام کو ایک ہزار مشرک ستر یا سو نظر آرہے تھے… بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جس مسلمان کے دل میں  اللہ  تعالیٰ کی عظمت ہو اسے اسلام کے دشمن کمزور اور حقیر وذلیل نظر آتے ہیں… امام احمد بن حنبلؒ کو گرفتار کرکے طرسوس لایا گیا ان پر ابراہیم بن مصعب نامی کوتوال مقرر تھا اس نے چند دن امام صاحب کو دیکھا تو کہنے لگا:

’’میں نے کسی انسان کو بادشاہوں کے آگے احمد بن حنبل سے بڑھ کر بے خوف نہیں پایا۔ یومئذٍ ما نحن فی عینیہ الا کامثال الذباب۔ یعنی ہم حکومت کے افسر اُن کی نظر میں مکھیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے…

جہاد کیلئے جنگی قوت ضرور بنانی چاہئے یہ قرآن پاک کا حکم ہے… مگر غزوہ بدر کو یاد رکھنا چاہئے اور گھر بیٹھ کر قوت نہ ہونے کو جہاد کے راستے کی رکاوٹ قرار نہیں دینا چاہئے… بات کچھ دور نکل گئی… آج کا سبق ہم سب کیلئے بہت اہم ہے…  اللہ  پاک کی رضا کیلئے ہم تمام اعمال کرنے والے بن جائیں… ہمارا ایمان، ہماری نماز، ہمارا جہاد… اور ہماری ہر محنت صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہو… ہمارے پاس  اللہ  تعالیٰ کے لئے خالص اعمال کا ذخیرہ ہو… اس لیے کہ قبر منہ کھول کر ہمارا انتظار کررہی ہے… اخلاص پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو ٹھیک کرنا ہوگا… اندر کی دنیا تک پہنچنے کے لئے اور وہاں کی صفائی اور ستھرائی کے لئے… سات منٹ کا نصاب عرض کیا ہے… مجھے معلوم ہے کہ… کھانے، پینے اور سونے پر دس گھنٹے خرچ کرنا آسان ہے… مگر  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے سات منٹ کا عمل مشکل ہے…

نفس کہے گا… یہ عمل کل سے شروع کریں گے… پھر یہ کل دور ہوتی جائے گی… اور شیطان کہے گا ان چیزوں سے کیا ہوتا ہے کام کرو کام… آپ اور ہم نہ شیطان کی مانیں… اور نہ نفس امّارہ کی… یہ دونوں ہمارے دشمن ہیں… اس لیے  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے، چپکے سے آج ہی سات منٹ کا عمل شروع کردیں… اور دل والا مسلمان بننے کی…  اللہ  تعالیٰ سے دعاء کریں…

٭٭٭

اب توآجا

 اللہ  تعالیٰ اپنے بعض بندوں پر اپنی رحمت کی ایسی نظر فرماتا ہے کہ وہ بندے … اللہ  والے بن جاتے ہیں…سبحان  اللہ ! کیسا میٹھا لفظ ہے  اللہ  والے ، اللہ  والے … ہماری خوش نصیبی ہے کہ  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں بعض ’’ اللہ  والوں ‘‘ کی صحبت نصیب فرمائی …ہاں افسوس بھی ہے کہ ہم ان کی پوری طرح قدر نہ کر سکے … اور مکمل فائدہ نہ اٹھا سکے … اللہ  پاک معاف فرمائے … اور جو ’’ اللہ  والے ‘‘ موجود ہیں انکی صحیح قدر کرنے کی ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے …حضرت بنوری ؒ بہت اونچے اور بہت عجیب انسان تھے ان کی نگاہیں دور تک دیکھتی تھیں … انہوں نے اپنے ادارے کیلئے معلوم نہیں کہاں کہاں سے ’’ اللہ  والے ‘‘ ڈھونڈے اور پھر مخلص ’’ اللہ  والوں ‘‘ کی ایک محفل بلکہ سلطنت سجا دی… یہ لوگ بہت عجیب تھے خالص  اللہ  والے ، دین کی غیرت رکھنے والے ، حب دنیا سے پاک اور جہاد کی محبت سے سرشار… ان میں سے ایک ایک کی ادائیں یاد آتی ہیں تو دل پر ایمان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے …میں نے انہیں جلوت میں بھی دیکھا اور خلوت میں بھی …بخدا انکی ’’خلوت ‘‘ انکی ’’جلوت‘‘ سے زیادہ ایمان والی تھی …بعض مناظر تو دل پر ایسے نقش ہیں کہ بھلائے نہیں بھولتے …ہم رات کے ایک بجے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کی مسجد کے باغیچے کی طرف والے برآمدے میں تکرارو مطالعہ کر رہے تھے … غالباً امتحانات کا زمانہ قریب تھا … اچانک ہم نے دیکھا کہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی ؒ … اپنے گھر سے اتر کر مسجد کی طرف تشریف لا رہے ہیں … سفید عمامہ، سفید لباس ، سفید داڑھی مبارک ، حسین چہرہ ، بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں اور مناسب بھاری بدن … انکی عمراسّی سال سے اوپر تھی مگر پاؤں جما کر بہت وقار سے چلتے تھے … وہ مسجد کے صحن میں داخل ہو کر سیدھے مسجد کے ہال کی طرف جا رہے تھے … وہ ہمیشہ امام صاحب کے دائیں طرف پہلی صف میں نماز ادا کرتے تھے … میں نے گیارہ سال کے عرصے میں انکو پہلی صف سے محروم ہوتے نہیں دیکھا …بہت توجہ والی اور لمبی نماز ادا کرتے تھے اور انہیں نماز سے خاص عشق تھا…مگر رات کے ایک بجے اس طرح سے مسجد میں آنا خلاف معمول تھا ۔میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا … ان سے سلام میں پہل کرنا بہت مشکل تھا …وہ ہر چھوٹے بڑے کو خود سلام کرتے تھے …ایک بار چند طلباء میں مقابلہ بھی ہوا کہ …کون حضرت کو ان کے سلام کرنے سے پہلے سلام کرتا ہے …سب نے کئی بار کوشش کی مگر ناکام رہے …جو بھی سامنے ہوتا حضرت کا پیار بھرا جلالی انداز کا سلام اسے نصیب ہو جاتا… اللہ  تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو جو ’’رعب‘‘ اور شان عطا فرماتا ہے وہ بھی انہیں حاصل تھی … طالب علم ان کے چہرے پر نظر ڈالتے تو جلال کی کیفیت محسوس کرتے … آپ حضرات آزما لیں جو شخص اپنی زبان کو فضول استعمال نہ کرتا ہو … اور بے حیائی کی فحش باتیں اس کی زبان سے نہ نکلتی ہوں تو اسکے چہرے پر ایمان کی ایک خاص شان اور رونق ہوتی ہے … حضرت مولانا محمد ادریس صاحب ؒ تو بہت کم بولتے تھے … انکی زبان ذکر میں مشغول رہتی تھی … گپ شپ نام کی کوئی چیز انکی زندگی میں نہیں تھی ۔بہرحال طالب علم شرارتی ہوتے ہیں … ان میں سے ایک چھپ کر راستے میں کھڑا ہو گیا … حضرت تشریف لائے تو اچانک نکلا اور سامنے آتے ہی اس نے سلام کر لیا … حضرت نے چلتے چلتے اسے پورا جواب دیا اور وہ فتح کی خوشیاں سمیٹ کر اپنے ساتھیوں میں آ بیٹھا…اے مسلمان بھائیو! اور بہنو ! سلام کے فضائل تو میں نے اور آپ نے بھی بہت پڑھے ہیں … مگر  اللہ  تعالیٰ اور اسکے رسول صلی  اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی قدر کسی کسی کو پوری طرح نصیب ہوتی ہے … ایسے حضرات ہی ’’ اللہ  والے ‘‘ ہوتے ہیں …اور ان کا مزاج شریعت کے عین مطابق بن جاتا ہے… خیر اس رات ایک بجے میں نے آگے بڑھ کر سلام کے بعد پوچھا …حضرت آپ ابھی سے مسجد تشریف لے جا رہے ہیں ؟… فرمانے لگے، بھائی ! فجر کی نماز ادا کرنے جا رہا ہوں …میں نے عرض کیا ابھی تو رات کے ایک بجے ہیں …فرمایا اچھا ! ہم نے سمجھااذان ہو گئی ہے …آج جب ہر طرف نماز میں سستی … اور نماز پر ظلم نظر آتا ہے تو مجھے بے اختیار وہ ’’ اللہ  والا‘‘ یاد آجاتا ہے … جس کی نماز کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ گویا وہ نماز ہی کیلئے جی رہے ہیں …بعض اوقات گھڑی خراب ہو جاتی اور کوئی وقت بتانے والا نہ ہوتا تو ایک نماز کو کئی کئی بار … پورے خشوع و خضوع سے ادا کرتے … اور اس عمل میں خوشی اور تازگی محسوس کرتے… حضرت عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نماز نہیں اسکا دین میں کچھ حصہ نہیں … حضرت ہمیں حدیث شریف کی مشہور کتاب صحیح مسلم شریف پڑھایا کرتے تھے … کئی بار سبق پڑھاتے ہوئے ان پر شدید گریہ طاری ہوا … تب ہم نے ان کے بعض نظریات کو سمجھا… بڑھاپے کی وجہ سے وہ سبق کی زیادہ تشریح نہیں کر سکتے تھے …بس عبارت پڑھی جاتی تھی اور وہ کبھی کبھار ایک دو جملے بول لیتے تھے …مگر بعض مقامات پر انکے آنسوؤں نے وہ کام کیا جو تقریریں اور تحریریں نہیں کر سکتیں …حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی  اللہ عنہا پر تہمت والی روایت آئی تو چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ … تھمنے کا نام نہ لیتے تھے … میں نے انکو اتنا زیادہ روتے کبھی نہیں دیکھا … وہ پوری حدیث پڑھی گئی جو کافی مفصل ہے … وہ مسلسل روتے رہے اور پھر بغیر کچھ بولے اٹھ کر چلے گئے … مگر تمام طلباء کے دل میں امہات المؤمنین کی عظمت اور محبت کا ایسا بیج بو گئے جو پچاس تقریریں بھی نہیں بو سکتیں… ایک بار حدیث شریف آئی کہ امانت اٹھ جائے گی(یعنی ہر طرف خیانت عام ہو جائے گی ) اور امانت پر قائم رہنے والا شخص اس طرح ہو گا جس طرح ہاتھ پر انگارہ رکھنے والا …وہ اس حدیث شریف کی عبارت سن کر بہت روئے…اور ہچکیاں لے لے کر امانت داری کی تاکید کرتے رہے …  آج جبکہ اکثر لوگوں کو اسکی کچھ فکر نہیں کہ مال کہاں سے آرہا ہے … اور کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ … اور اجتماعی مال ذاتی ملکیت بنتا جا رہا ہے …اور اموال میں خیانت عام ہو چکی ہے تو ہمیں حضرت کے آنسو اور آپ کی ہچکیاں یاد آتی ہیں …اور دل چاہتا ہے کہ آج پھر کوئی اسی طرح دل کو پگھلا کر آنسو بنائے … اور پھر مسلمانوں کو سمجھائے کہ  اللہ  کے لئے خیانت نہ کرو …  اللہ  کے لئے خیانت نہ کرو … ذکر  اللہ  سے غفلت ، اموال میں بے احتیاطی اور امیر اور جماعت کی ناقدری نے آج بش اور کرزئی کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے … کاش مسلمان ذکر  اللہ  کو اپنے دل میں اتار لیں ، اجتماعی اموال میں بہت احتیاط کریں اور جماعت کی دل سے قدر کریں تو … دنیا کا نازک کفر اپنے ایٹم بموں سمیت مجاہدین کے قدموں میں آگرے گا … خیانت کے ساتھ ذلت اور شکست لازمی ہے یہ قرآن پاک کا فیصلہ ہے …سورۃالانفال پڑھ کر دیکھ لیں بات انشاء  اللہ  دل میں اتر جائیگی… ایک بار سبق کے دوران اس بات پر رونے لگے کہ طلبہ نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہیں کرتے …اور نماز میں اپنا سبق اور اپنی کتابوں کی علمی بحثیں … اور حواشی سوچتے رہتے ہیں … فرمانے لگے تم نماز میں  اللہ  پاک کے سامنے کھڑے ہوتے ہو … اور پھر سوچتے ہو کہ ’’مختصر المعانی‘‘ کے حاشیے میں یہ لکھا ہے … ایسا نہ کیا کرو … یہ فرما کر رونے لگے اور درد سے فرمایا …  اللہ  کے بندو نماز میں  اللہ  پاک کو یاد کیا کرو…حضرت کی کس کس ادا کو یاد کروں… اور ان کے کس کس آنسو پر آنسو بہاؤں ؟…  اللہ  تعالیٰ انکی نصیحتوں پر ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے …بات یہ چل رہی تھی کہ کچھ لوگ ’’ اللہ  والے‘‘ہوتے ہیں ایسے ’’ اللہ  والوں‘‘ کی زیارت باعث اجرو ثواب ہے…اور انکی صحبت میں بیٹھنا بے ریا عبادت سے افضل ہے … اور انکی خدمت کرنا مستقل سعادت کا ذریعہ ہے …حضرت بنوریؒ نے اپنے ادارے میں دنیائے روحانیت کے جن بادشاہوں کو جمع فرمایا ان میں سے ایک حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ بھی تھے …اپنے زمانے کے کامیاب ترین اور ترقی یافتہ انسان … اللہ  تعالیٰ نے انہیں وہ نعمتیں عطا فرمائیں جو وہ کسی کسی خوش نصیب کو عطا فرماتا ہے …خلاصہ بس اتنا ہے کہ وہ ایک قابل رشک ہستی تھے اور دین کے ہر میدان میں اپنا  منفرد مقام رکھتے تھے … اللہ  تعالیٰ نے انکو ایسا قلم عطا فرمایا کہ وہ اپنے زمانے کے ’’شاہ قلم‘‘ بن گئے …آپ انکی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیں …ہر کتاب بہت مفید ، بہت وزنی ، بہت مؤثر … اور بہت سخی ہے … اس وقت امت مسلمہ کو جن فتنوں کا سامنا ہے ان سے حفاظت کے لئے … مسلمانوں کو حضرت لدھیانوی شہیدؒ کی کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے… آپ تجربہ کر لیں اور حضرت کی کوئی کتاب پڑھ کر دیکھ لیں وہ انسان کی پیاس بجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں … میٹھی زبان ، شائستہ انداز ، مثبت لہجہ ،دل نشین عبارت، آسان الفاظ اور مدلّل مضمون انکی ہر تحریر کا لازمی جزو ہوتے ہیں … انہوں نے جس موضوع کو ہاتھ لگایا اسکا پورا حق ادا کرنے کی مکمل کوشش فرمائی… اور یوں وہ الحاد ، زندقہ ، اور فسق کے طوفانوں کا رخ موڑنے میں ’’الحمدللہ‘‘ کامیاب رہے …انہوں نے امت کی موجودہ ضرورت کے تقریباً ہر موضوع پر لکھا اور مسلمانوں کے لئے ایک رہنما نصاب چھوڑ گئے … آپ نے پہلے علم میں رسوخ حاصل کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے علمی دنیا کے لئے ’’حجت‘‘ بن گئے … پھر آپ نے علوم معرفت کی طرف قدم بڑھایا اور کچھ ہی عرصہ میں اونچے مقام  کی ’’علامت ‘‘ بن گئے… ساتھ ہی آپ نے مشق قلم کا سلسلہ جاری رکھا اور اس میدان میں ’’سند‘‘ مانے گئے… آپ نے تحریک ختم نبوت کیلئے خود کو ہمیشہ وقف رکھا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور دینی غیرت کا ’’عَلَم‘‘ بنے رہے… اور زندگی کے آخری حصے میں آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کا دامن پکڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس اونچے عمل کی سب سے اونچی چوٹی ’’شہادت‘‘ کے مستحق بن گئے… ادارۂ القلم نے حضرت لدھیانوی شہیدؒ کے افکار اور انوار کو امت مسلمہ تک پہنچانے کیلئے ایک خصوصی شمارہ نکالنے کا ارادہ کیا ہے… حضرت کی زندگی… آپکی علمی خدمات… آپکی جہادی خدمات… اور خاص طور پر آپ کے قلمی مآثر یعنی آپکی تحریروں اور کتابوں کا تعارف… ’’القلم‘‘ کے تمام قارئین اور قارئیات اس خصوصی شمارے کی آسانی اور کامیابی کیلئے دعاء فرمائیں… اور اہلِ علم اور اہلِ قلم حضرات اس حسین بزم میں حصہ لینے کیلئے جلد از جلد اپنے مضامین ارسال کریں… اور جن حضرات نے حضرتؒ کی کسی کتاب سے استفادہ کیا ہو…وہ ضرور اپنے تاثرات قلم بند کرکے بھیجیں ،تاکہ… حضرتؒ کی عظیم دینی خدمات میں ہمارا حصہ بھی شامل ہوجائے…

فتح الجواد کامطالعہ

 آپ نے دیکھا ہوگا کہ الحمد للہ… ہفت روزہ ’’القلم‘‘ کے ’’صفحہ ہدایت‘‘ پر آیات جہاد کی تشریح کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ …کافی عرصہ سے قارئین اس کا تقاضا کررہے تھے… اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مکمل پابندی کے ساتھ یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے… معلوم ہوا ہے کہ قرآن پاک کی مدنی سورتوں کی پانچ سو اٹھاون آیات کے جہادی مضامین کوان شاء اللہ ’’فتح الجواد‘‘ میں پیش کیا جائیگا… جبکہ مکی سورتوں میں سے بھی ستر سے زائد آیات کے جہادی اشارات اس میں شامل ہیں… اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ… آیات جہاد کی مدلل تشریح حوالوں کے ساتھ تحریر کی جائے… اب تک ہزاروں مسلمان ’’دورہ تفسیر آیات الجہاد‘‘ کی کیسٹوں پر گذارہ کررہے تھے… ان کیسٹوں کی افادیت اپنی جگہ… الحمدللہ دنیا کے کئی ممالک کے مسلمانوں نے ان کیسٹوں کی بدولت قرآن پاک کے حکم جہاد کو سمجھا…اورانکار جہاد کے جرم سے توبہ کی… مگر تحریر بہرحال ایک الگ سند اور فائدہ رکھتی ہے… اب جبکہ آیات جہاد کی تشریح القلم میں شائع ہورہی ہے تو ہم سب کو چاہیے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں… آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد کے فریضے کا انکار کرتی ہے… گویا کہ وہ قرآن پاک کی ساڑھے پانچ سو سے زائد آیات کی منکر ہے… یہ صورتحال بہت خطرناک ہے… ہمیں اپنے اور اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ایمان کی فکر کرنی چاہیے… اور ان کو اتنی بات ضرور سمجھانی چاہیے کہ وہ اگر جہاد نہیں کررہے تو انکی مرضی… مگر فریضہ جہاد کا انکار کرکے اپنے ایمان کو خراب یا ختم نہ کریں… قرآن پاک پر ایمان لانے والا کوئی مسلمان بھی جہاد کے انکار کی جرأت اور ہمت نہیں کرسکتا… مگر… ظالم قادیانیوں اور دوسرے گمراہ فرقوں نے جہاد کے خلاف تاویلات کا ایسا طوفان اٹھایا ہے کہ مسلمان …جہاد جیسے فریضے کو چھوڑنے پر استغفار تک نہیں کرتے… بلکہ نعوذ باللہ اس عظیم قرآنی فریضے کو چھوڑنے پر فخر کرتے ہیں… قرآن پاک نے نہایت تفصیل کے ساتھ جہاد کے مسئلے کو سمجھایا ہے… اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا خون مبارک دے کر امت کی غفلت کو دور فرمایا ہے… آیات جہاد کی اس تشریح کا پابندی سے مطالعہ کریں… اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے قرآن پاک کا ایک نسخہ خرید  لیں… اور روزانہ کچھ وقت قرآن پاک کے حکم جہاد کو سمجھنے کیلئے مختص کرلیں… القلم کا شمارہ سامنے رکھ کر وہ آیت نکالیں جس کی تشریح بیان کی گئی ہے… پہلے ایک دوبار اس آیت کی تلاوت کریں…پھر اس کا ترجمہ دو، تین بار پڑھیں… اور پھر تشریح پڑھتے چلے جائیں اور کچی پینسل سے قرآن پاک کے حاشیے پر خاص خاص باتیں لکھتے چلے جائیں… پورے ہفتے میں یہ عمل تین بار کریں گے تو وہ آیت اور اسکی تشریح آپ کے دل و دماغ میں اتر جائیگی… اور نشانات لگانے کی وجہ سے آئندہ جب بھی آپ تلاوت کریں گے تو یہ آیات آپ کو… بھولا ہوا فریضہ یاد دلائیں گی… تب بہت ممکن ہے کہ آپ کو اللہ پاک جہاد کے میدان میں بلا لے… تب تو مزے ہوجائیں گے …یا اللہ پاک آپ کے مال میں سے کچھ حصہ جہاد کے لئے قبول فرمالے… یا اللہ پاک شہادت کی سچی تڑپ دل میں عطاء فرمادے… یعنی خون میں نہا کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق دل میں پیدا ہوجائے… اگر ایسا ہوگیا تو پھر تو بیڑہ ہی پار ہوجائیگا… ان شاء اللہ۔ بس یہ ہے مختصر سا طریقہ’’ فتح الجواد فی معارف آیات الجہاد‘‘سے فائدہ اٹھانے کا… اللہ تعالیٰ اس مجموعے کو قبول فرمائے… اسے مکمل کرنے کی مؤلف کو توفیق عطاء فرمائے …اور ہم سب کو اس سے فائدہ اور برکت عطاء فرمائے۔ آمین یا ارحم الراحمین…

دوسرا سبق

پچھلے ہفتے سات منٹ کا ایک نصاب عرض کیا تھا… اللہ کرے اس پر عمل ہوا ہو۔ اب اس نصاب کا دوسرا سبق سمجھ لیں… پہلے دو منٹ ہم اپنے سانس کی نگرانی کررہے تھے اور پوری توجہ اس کی طرف مرکوز کرکے… دیکھ رہے تھے کہ وہ اندر جارہا ہے اور باہر آرہا ہے… اگر آپ نے پچھلے سات دن یہ عمل کیا ہے تو ان شاء اللہ اپنی توجہ کو مضبوط کرنے اور دماغ کو قابو رکھنے کی کافی صلاحیت پیدا ہوگئی ہوگی… اب اس عمل کو اس طرح کریں کہ سانس اندر جاتے وقت بھی ’’ اللہ ‘‘ کہہ رہاہے اور باہر نکلتے وقت بھی ’’ اللہ ‘‘ کہہ رہا ہے… بس صرف دومنٹ تک اپنی توجہ سانس پررکھیں کہ وہ  اللہ  کا ذکر کرتے ہوئے اندر جارہا ہے… اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے باہر آرہا ہے… اگلے دو منٹ گردن جھکا کر… اور آنکھیں بند کرکے اپنی توجہ سینے کے دائیں طرف روح پر رکھیں… اور پورا اور یقینی تصور کریں کہ روح ’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘ کہہ رہی ہے… اور اگلے تین منٹ دل کو اسی طرح ’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘ کروائیں… یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑی چیزہے… نماز بھی  اللہ  تعالیٰ کے ذکر کیلئے ہے اور جہاد بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کی بلندی کیلئے ہے… قرآن پاک پکار پکار کر مجاہدین کو ذکر کی طرف بلارہا ہے تاکہ انہیں فلاح، غلبہ، فتح اور کامیابی ملے… ذکر زبان سے دل میں اترے گا تو پھر کھال اور بال بھی ’’ اللہ   اللہ ‘‘ کریں گے اور وہ کیفیت نصیب ہوگی جو احادیث شریف میں آئی ہے کہ ذکر سے زبان تررہے … اور تنہائی میں  اللہ  تعالیٰ کا ذکر کرکے آنسو بہانا نصیب ہوںگے… صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ایسے شخص کو  اللہ  تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا… بس اصل چیز  اللہ  تعالیٰ کاذکر ہے… باقی جو طریقے عرض کئے جارہے ہیں وہ تو بس ’’ورزش‘‘ کی طرح ہیں… آج کل کی مشینی زندگی نے انسان کے دل و دماغ کو بھی ’’موبائل فون‘‘ بنادیا ہے… ان پر ہر وقت گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں… اور طرح طرح کی کالیں آتی رہتی ہیں… اس لئے اس دل کو اور دماغ کو ذکر پر لانے کیلئے … کچھ طریقے بتائے جاتے ہیں تاکہ دل اور دماغ کو خیالات کی آندھی سے نجات ملے اور اس میں سے خواہشات نکل جائیں… اور آدمی کو  اللہ  تعالیٰ کے ذکر کیلئے اپنے دل اور دماغ میں تنہائی کاحسین ماحول نصیب ہوجائے … آپ سب جانتے ہیں کہ محبوب جتنا قریبی ہو اس سے ملاقات بھی اتنی ’’تنہائی‘‘میں اچھی لگتی ہے… اب خود سوچیں کہ جب ’’محبوب حقیقی‘‘ کو یاد کیا جائے تو کتنی تنہائی ہونی چاہیے… کمرے میں کوئی نہ ہو، دل میں بھی کوئی اور نہ ہو… اور دماغ میں بھی کچھ اور نہ ہو… اور ماحول یہ بن جائے    ؎

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی

اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

 اے اللہ تعالیٰ کے دین کے مجاہدو! تم زمین کی خوش قسمت ترین مخلوق ہو… تم اللہ تعالیٰ کے پیارے ہو… تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے… مگر یاد رکھو اگر تم اس نعمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہو…اور غزوہ بدر کی ترتیب پر فتح اور نصرت چاہتے ہو تو پھر… اپنے محبوب حقیقی سے سچا پیار کرو… تمہاری زبان بھی ’’اس کا نام لے اور تمہارا دل بھی‘‘ اسے یاد کرے… اور تمہاری کھال اور تمہار ے بال بھی  اللہ   اللہ  پکاریں… نکال دو سب چیزیں اور فضول خواہشیں دل سے اور پکار کر کہو… اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘’’ اللہ ‘‘…

٭٭٭


چراغ بجھادیا تھا

 اللہ  تعالیٰ کی شان دیکھئے… افغانستان میں ’’طالبان‘‘ نے حملے تیز کیے تو گویا کہ دنیا میں ’’زلزلہ‘‘ آگیا… اب ہر کوئی اس ’’موضوع‘‘ پر بول رہا ہے… اور ہر لکھنے والا اس ’’عنوان‘‘ پر لکھ رہا ہے… چار پانچ سال پہلے جب ایک مسافر نے یہ لکھا تھا کہ طالبان ختم نہیں ہوئے… وہ دوبارہ ابھریں گے اور انشاء  اللہ  سب کو نظر آئیں گے… اور یہ کہ افغانستان کے صحیح حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے… تب روشن خیال قلمکار مذاق اڑاتے تھے… کیونکہ انہیں امریکا کی طاقت پر مکمل بھروسہ تھا… چند دن پہلے بی بی سی کا نمائندہ پشاور کے ایک تجزیہ نگار سے بہت عجیب سوالات کر رہا تھا… طالبان تو ختم ہوگئے تھے اب دوبارہ کہاں سے آگئے؟… یہ وہی طالبان ہیں یا کوئی اور؟… ان کے پاس اسلحہ اور ہتھیار کہاں سے آئے ہیں؟… ان کی مالی مدد کون کرتا ہے؟… عوام میں ان کی حمایت ہے یا نہیں؟ … ان تمام سوالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور یورپ ابھی تک مسلمانوں کے حالات، نظریات اور طرز عمل سے واقف نہیں ہیں… یا وہاں کی حکومتوں نے اپنے لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے…

صدر بش کا دوسرا دور حکومت بھی آدھا گزر چکا ہے مگر ابھی تک… وہ اپنی ’’صلیبی جنگ‘‘ میں کچھ بھی حاصل نہیں کرسکا… ہاں ہزاروں امریکی فوجیوں کی تازہ قبروں پر صلیب کا نشان ضرور نظر آرہا ہے… صدر بش کہہ سکتے ہیں کہ اتنی ساری صلیبیں جو فوجیوں کی قبروں پر لگی ہوئی ہیں… اُن کا کارنامہ ہے کیونکہ یہ ساری صلیبیں ان کے دور حکومت میں لگی ہیں… صدر بش کی جھولی میں فخر کے جو دوچار کارنامے ہیں وہ بھی ان کے اپنے نہیں… یہ کارنامے بش کے مسلمان کہلانے والے نوکروں نے اس کی جھولی میں ڈالے ہیں… میں دنیا کو چیلنج کرکے پوچھتا ہوں کہ امریکی فوجیوں نے اب تک کونسی کامیابی حاصل کی ہے؟… مجھے صرف ایک ’’کامیابی‘‘ بتادیں…

کوئی نہیں، کوئی نہیں… تورابورا کا آپریشن بہت دھوم سے شروع کیا گیا اور بی باون طیاروں کی بمباری اور کروز میزائلوں کے خوفناک حملوں سے ان اونچی پہاڑیوں کو ریت بنادیا گیا… ڈیزی کٹر جیسا خطرناک بم کئی بار استعمال کیا گیا… زیر زمین بینکرز تباہ کرنے والے جدید بم بھی دل کھول کر برسائے گئے… جب ہر طرف خاموشی چھا گئی اور تورابورا میں سانس لینے والی ہر مخلوق مٹی میں مل گئی تو امریکہ کے بہادر فوجی افغان فوجیوں کی آڑ لیکر وہاں داخل ہوئے… امریکی صدر کے کان کسی بڑی خبر سننے کیلئے امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی نشان کے کان لگ رہے تھے… مگر کئی دن کی تفتیش، تحقیق اور ڈی این اے ٹیسٹوں کے بعد… امریکی فوجیوں کو صرف اتنا معلوم ہوسکا کہ مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہیں ہے… اپنے اور غیر سب مانتے ہیں کہ اسامہ بن لادن تورابورا ہی میں موجود تھے… مگر ’’سورۃ الانفال‘‘ ہر زمانے میں اپنی زندگی کا ثبوت دیتی ہے… کاش تمام مسلمان اس سورۃ سے رہنمائی حاصل کریں… یہ سورۃ بتاتی ہے کہ مکہ اور عرب کے تمام بڑے سردار سر جوڑ کر بیٹھے تھے… محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کو گرفتار کرنا چاہئے… نہیں، نہیں ان کے ساتھی جانثار ہیں وہ موت پر سوار ہو کر آئیں گے اور اپنے آقا کو چھڑا کر لے جائیں گے… محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا جائے، نہیں نہیں ان کی زبان میں اثر ہے جہاں جائیں گے وہاں کے لوگوں کو ساتھ ملا لیں گے… پھر کیا کیا جائے؟… کیا کیا جائے؟… طاقتور لوگ ایک ایسے انسان سے پریشان ہیں جو مکہ کے ایک کچے گھر میں خالی ہاتھ بیٹھا رب کا قرآن پڑھ رہا تھا… وہ جو صبح شام ستایا جارہا تھا، مارا جارہا تھا… میں ان کے قدموں کی مٹی پر قربان… پھر ایک اژدھا پھنکارا کہ محمد (صلی  اللہ  علیہ وسلم) کو قتل کردو… اور سارے قبائل مل کر قتل کرو… اس کے دلائل وزنی تھے … اور پھر آپریشن کی تیاری ہوئی… ایک فرد کو شہید کرنے کیلئے ایک سو جوان تیار ہوئے… ایک سو تلواروں کی دھار کو تیز کیا گیا… سورۃ انفال بتاتی ہے مسلمانو! جب وہ یہ سازش اور تیاری کر رہے تھے… تو ایک اور جگہ بھی تدبیر اور تیاری کا شور تھا… ادھر رات کو آپریشن شروع ہوا… کِلنگ آپریشن… ادھر آسمانوں پر ہلچل ہوئی… عرش سے لیکر فرش تک ایک غیبی نظام مقرر فرمادیا گیا… فرشتوں کے سردار جبرئیل امین علیہ السلام کچے گھر میں اتر آئے… حضرت علی رضی  اللہ  عنہ آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے بستر پر جا لیٹے… عمر پندرہ سال اور قربانی اتنی بڑی… ادھر صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ کے گھر کھانا پک گیا… ایک بچی ’’اسماء  ؓ ‘‘ پورے جذبے کے ساتھ اسے باندھ رہی ہے… اور کچھ نہیں ملا تو اپنے دوپٹے کو پھاڑ کر رسی بنالیا… باپ جارہا ہے، بیٹی اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن رہی بلکہ خود رخصت کر رہی ہے… پھر غارِ ثور… پھر صدیق اکبر کے کندھے جن پر انہوں نے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کو اٹھالیا… مشرکین کا آپریشن مکہ سے غارِثور تک پھیل گیا… پھر خبر آئی کہ پورا مدینہ آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے استقبال کے لئے نکلا ہوا ہے… تب ابوجہل کا چہرہ غم، حسرت اور افسوس سے لٹک گیا… میں نہیں جانتا کہ تورابورا کے آپریشن کے بعد بش کا کیا حال ہوا ہوگا… سورۃ انفال نے ایک جملے میں سارا مسئلہ سمجھادیا… وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللہ … وہ مشرک ظالم جب سازش کر رہے تھے تو  اللہ  پاک بھی تدبیر فر ما رہا تھا… وَ اللہ  خَیْرُ الْمَاکِرِیْن… اور  اللہ  تعالیٰ کی تدبیر کے آگے کس کی سازش چل سکتی ہے؟… میں نے بارہا جھولی پھیلا کر مسلمان قلمکاروں کی منّت سماجت کی…  اللہ  کیلئے کافروں کی طاقت اور سازش کا زیادہ ڈھنڈورا نہ پیٹا کرو… لوگوں کو  اللہ  تعالیٰ کی طاقت بتایا کرو…  یَمْکُرُ اللہ  اور وَ اللہ  خَیْرُ الْمَاکِرِیْن کے معنی سمجھاؤ تاکہ… مسلمان اپنے رب سے پوری طرح جُڑ جائیں… یہ اسلام کی کونسی خدمت ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی طاقت اور سازشیں بتابتا کر مسلمانوں کا حوصلہ ختم کیا جائے… ان کی ٹیکنالوجی  اللہ  تعالیٰ کی تدبیر کے سامنے ناکام ہوچکی ہے… اور ناکام ہوتی رہے گی… مجھے بتاؤ انہوں نے اپنے بدنصیب نو کروں کے تعاون کے بغیر کونسی کامیابی حاصل کی ہے؟… شاہی کوٹ کا آپریشن کئی ہفتے جاری رہا آخر میں معلوم ہوا کہ ’’سیف الرحمن منصور‘‘ کو  اللہ  تعالیٰ بچا کر لے گیا… حضرت امیر المؤمنین پر کئی یقینی آپریشن ہوئے مگر دشمنوں کو ہر بار خاک چاٹنی پڑی… اور سورۃ انفال مسکرا مسکرا کر سناتی رہی… اِنَّ  اللہ  مُوْہِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْن… ہاں یقینا  اللہ  تعالیٰ کافروں کی سازشیں، تدبیر اور تیاری کو کمزور بنانے والا ہے… اور گرج گرج کر اعلان کرتی رہی … وَاَنَّ  اللہ  مَعَ الْمُؤْمِنِیْن … اور  اللہ  تعالیٰ تو ایمان والوں کے ساتھ ہے… اب ہے کوئی جو مقابلے میں ٹھہر سکے؟… افغانستان میں پانچ سال کے دوران سوائے ناکامی، موت اور ذلت کے اور کیا ہاتھ لگا ہے؟… اب اگر کوئی کامیابی مل بھی گئی تو کیا فائدہ؟… قرآن پاک موجود ہے اور مسلمانوں کو زندگی کا راز بتاتا ہے… ملا محمد عمر صاحب مدظلہ بھی دنیا سے چلے جائیں گے… ہم سب نے بالآخر مرنا ہے مگر سورۃ انفال ایسے افراد پیدا کرتی رہے گی جو موت کا گریبان پکڑ کر زندگی حاصل کریں گے… اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ…

بی بی سی کا نمائندہ قرآن پاک پڑھ لیتا… یا مسلمانوں کی تاریخ دیکھ لیتا تو اسے طالبان کے دوبارہ کھڑے ہونے پر حیرت نہ ہوتی… طالبان مجاہدین پوری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ… اپنے بموں اور طیاروں کی طاقت کو نہ دیکھو… ہماری تاریخ کو دیکھو! کہ ہمیں مٹانا کسی کافر کے بس کی بات نہیں ہیں… ہمارے پاس غارِحراء ہے… وہ  اِقْرَاء کہہ کر ہمیں طالبعلم بناتی ہے… ہمارے پاس دار بنی ارقم ہے وہ فَذَکِّرْ کہہ کر ہمیں داعی بناتا ہے… ہمارے پاس غارِ ثور ہے… وہ ہمیں ہجرت سکھاتی ہے… ایک  اللہ  تعالیٰ کی خاطر گھر کو چھوڑ دینا، وطن کو سلام کہہ دینا… والدین اور بیوی بچوں سے کھڑے کھڑے جدا ہوجانا…  اللہ  اکبر… کیا عشق کی دیوانگی ہے معصوم بیٹی گلے میں ہاتھ ڈال رہی ہے… باپ آنسو روک کر اس کے ہاتھ نرمی سے الگ کرتا ہے… اور پھر ایک نامعلوم سفر … نہ آگے کا پتا نہ پیچھے کی خبر… یا  اللہ  میں آرہا ہوں… سب کچھ چھوڑ کر… اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو یتیم کرکے… میں آرہا ہوں… آسمان سے سورۃ انفال کا نور پھر چمکا… ہاں آجاؤ… یہ سودا گھاٹے کا نہیں… لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَرِیْم… کاش کافر اسلام کے ’’نظام ہجرت‘‘ ہی کو دیکھ اور سمجھ لیتے تو فضول میں اپنے ہزاروں جوان مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ مرواتے… ارے ظالمو! مسلمان صرف اس لیے ہجرت کرتا ہے کہ وہ…  اللہ  تعالیٰ کے دین کو مغلوب نہیں دیکھ سکتا… وہ دین کے فرائض پر پابندی برداشت نہیں کرسکتا… وہ کافروں کے سامنے گردن نہیں جھکا سکتا… یہی بات سارے مفسرین لکھتے ہیں… اور یہی بات حضرات فقہاء کرام نے لکھی ہے… شعراء کے قصیدوں میں وطن اور اہل وعیال کو چھوڑنا… موت سے مشکل قرار دیا گیا ہے… مسافری اور اجنبیت کے تھپیڑے انسان کو توڑ دیتے ہیں…

خدایا پیری و آوارگی درد دگر دارد

چوں مرغِ آشیاں گم کردہ وقت شام می لرزد

مگر ہجرت کی آواز لگی تو آسمان نے عجیب عجیب مناظر دیکھے… ابوسلمہؓ الگ بندھے پڑے ہیں… ام سلمہؓ الگ تڑپ رہی ہیں… اور دونوں کا بیٹا سلمہ ماں باپ کے لئے رو رہا ہے بلک رہا ہے… میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم مدینہ منورہ میں… اور زینبؓ بیٹی مکہ میں ابو ابو کہہ رہی ہیں… غزوۂ بدر کے بعد ہجرت کیلئے نکلیں تو ظالموں نے راستے بند کردئیے… پھر کئی سال بعد پیارے والد کا ہاتھ سر پر نصیب ہوا… کس کس کی ہجرت کا تذکرہ کیا جائے… ہجرت کی یہ سنہری کڑی… مکہ سے چلی اور آج افغانستان تک اس کا نور چمک رہا ہے… طالبان نے ہجرت کی اور اپنے آپ کو بخشوالیا… ہاں ہجرت پچھلے تمام گناہوں کو مٹادیتی ہیں… طالبان نے مغفرت اور پھر عزت کا مقام پالیا… آج کرزئی کے فوجی طالبان کمانڈروں سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کر رہیں ہیں… اور اپنے لیے پرچیاں لکھوا رہے ہیں… دنیا کے سارے کافر مل کر ’’اسلامی ہجرت‘‘ سے وجود پانے والی جماعت کا مقابلہ نہیں کرسکتے… پھر ہمارے پاس منیٰ کے میدان میں عقبہ کی گھاٹیاں ہیں… وہ ہمیں ’’نصرت‘‘ سکھاتی ہیں نصرت بھی ایسی کہ…  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کیلئے اپنے دل، گھر اور مال کے دروازے کھول دئیے… اور انہیں اس بات کا احساس تک نہ ہونے دیا کہ یہ کوئی اجنبی وطن ہے… سورۃ انفال نصرت کا تذکرہ چھیڑتی ہے تو مفسرین کے قلم ’’انصار‘‘ کی تعریف میں عربی گھوڑوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں… اور سمندر کی لہروں کی طرح اٹھکیلیاں کرنے لگتے ہیں… ان ’’انصار‘‘ نے اسلام کی فتح کی بنیاد ڈال دی… وہ خود بھوکے رہے مگر انہوں نے ’’مہاجرین‘‘ کو بھوکا نہیں سونے دیا… انہوں نے مہاجرین کو اپنے لیے  اللہ  تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھا اور پھر اس نعمت کی ایسی قدر فرمائی… کہ سب سے عظیم ہجرت فرمانے والے مہاجر فی سبیل  اللہ  نبی حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہی کو وطن بنالیا… حالانکہ آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کو مکہ سے پیار تھا… اور مکہ فتح بھی ہوگیا تھا… مگر آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے بعد انصار کے سامنے یہ اعلان فرمادیا … اے انصار لوگوں کو مال لے جانے دو اور تم مجھے لے جاؤ… یہ سنتے ہی انصار پر خوشیوں کی جو برسات برسی اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا… لوگ پوچھتے ہیں مجاہدین کو کھانا کہاں سے ملتا ہے؟ … وہ بینکوں کے اکاؤنٹ کھنگالتے ہیں … حالانکہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے چراغ بجھا دیا تھا…

وہ بجھا ہوا چراغ آج تک ہر سچے مسلمان کے گھر میں پوری شان سے موجود ہے… ہاں مدینہ منورہ میں آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے پاس مہمان آگیا تھا… آپ نے ایک صحابی کے حوالے فرمادیا کہ یہ خوش نصیبی آپ کے نام… وہ خوشی خوشی لے گئے… گھر میں جاکر بیوی سے کھانے کا پوچھا… انہوں نے بتایا تھوڑا سا کھانا ہے یا بچے کھا سکتے ہیں یا مہمان… اب دونوں سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کس طرح بچوں کو بہلا کر سلائیں… پھر کس طرح مہمان کو کھانا کھلائیں کہ سارا کھانا وہ کھالے… اور اسے پتہ بھی نہ چلے کہ ہم نے اس کے ساتھ نہیں کھایا… تھوڑی دیر کے مشورے میں پلان تیار ہوگیا… بیوی نے خوب محنت کرکے پھولوں جیسے معصوم بچوں کو بھوکا سلادیا… پھر کھانا لگایا گیا… سب نے کھانا شروع کیا تو کسی بہانے سے چراغ بجھادیا گیا… اب اندھیرے میں مہمان کھا رہا ہے… اور گھر والے خالی منہ ہلا کر کھانا کھانے کی آواز پیدا کر رہے ہیں… یہ سب کچھ اندھیرے میں ہوگیا… مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھالیا ہے… گھر والے سب بھوکے سو رہے ہیں… مگر اس اندھیرے میں کوئی دیکھ رہا تھا… ہاں جس کی خاطر یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ دیکھ رہا تھا… اگلے دن آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا… رات کو تمہاری مہمان نوازی  اللہ  تعالیٰ کو بہت پسند آئی… ہائے میں قربان …  اللہ  تعالیٰ کی پسند کی خاطر تو جسم کے ٹکڑے کروانا بھی آسان…

اے دانشورو!… وہ بجھا ہوا چراغ آج بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ… مال اور روٹی کس لیے ہوتی ہے… اسی لیے تو کشمیر کے غریب مسلمان سولہ سال سے مجاہدین کو کھلا رہے ہیں… اور اب افغانستان کی غریب مائیں طالبان کیلئے روٹیاں پکا رہی ہیں… امریکہ اور یورپ میں خاوند اور بیوی اکٹھے بیٹھ کر اپنا اپنا سگریٹ جیب سے نکالتے ہیں… پھر اگر کوئی ’’سخی خاوند‘‘ اپنے لائٹر سے بیوی کا سگریٹ سلگادے تو وہ خوشی سے شکریہ ادا کرتی ہے کہ… میرا خاوند تو حاتم طائی بن گیا… ورنہ ’’امریکن سسٹم‘‘ کا معنی ہی یہی ہے کہ گدھوں کی طرح ہر کوئی اپنی اپنی ’’کھرلی‘‘ سے کھائے… کراچی اور لاہور میں ہمارے کنجوس لوگ اپنی کنجوسی کو … ’’امریکن سسٹم‘‘ کا جدید نام دیتے ہیں کہ… ہر کوئی بس میں اپنے ٹکٹ خود خریدے اور اپنے کھانے کا بل خود ادا کرے… انہیں کیا معلوم کہ ’’ایثار‘‘ کیا ہوتا ہے… اور دوسرے کو روٹی کھلانے کا کیا مزہ ہے … ان کی مذہبی مشنریوں کے لوگ بھی سب تنخواہ دار ہوتے ہیں… جبکہ… ہمارے ہاں جان دینے والے مجاہد بھی بغیر کسی معاوضے کے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہیں… ہماری تبلیغی جماعت کے لاکھوں افراد اپنے خرچ پر ملک ملک بستی بستی گھومتے ہیں… اس لیے چندہ بند کرنے اور اکاؤنٹ سیز کرنے سے کچھ نہیں بنے گا… اس امت کا ’’اصل طبقہ‘‘ اور ’’اصل مکھن‘‘ ہی وہ افراد ہیں جو مال سے محبت نہیں کرتے… سورۃ انفال نے ان کی تربیت ہی ایسی کی ہے کہ ان کو ’’بے غرض سپاہی‘‘ بنادیا ہے… اور انہیں سمجھایا ہے کہ مال کا خیال دل سے نکال دو… تمہیں روزی دینا  اللہ  تعالیٰ کا کام ہے… تم اس کے کام میں مداخلت نہ کرو… اور حرام اور مشکوک مال کا تصور بھی نہ کرو… اے مجاہدو! اسلام کے بے غرض سپاہی بن کر تم اپنا کام کرو… اور خیانت کے نام سے بھی نفرت کرو… سورۃ انفال نے جہاد اور مجاہدین کو مال سے آزاد کردیا ہے… جو خوش نصیب اس سورۃ کو مانتے اور سمجھتے ہیں وہ مال سے ہر گز محبت نہیں رکھتے… اور اجتماعی اموال میں اس طرح احتیاط کرتے ہیں کہ… اس کی طرف رغبت سے دیکھتے تک نہیں … سورۃ انفال سمجھاتی ہے کہ مال اسی کو ملے گا جو مال کی محبت سے پاک ہوگا… زندگی اس کو ملے گی جو موت کو ڈھونڈے گا… اور دنیا اسی کے قدموں میں ڈھیر ہوگی جو دنیا کو چھوڑے گا… طالبان بتا رہے ہیں کہ ہمارے پاس بہت کچھ ہے… غارِ حرا، غارِ ثور، دارِ بنی ارقم… اور منیٰ کی گھاٹیاں… یہ چند مثالیں ہیں ورنہ خزانہ بہت بڑا ہے… ہمارے پاس بدر کا میدان ہے… ہمارے پاس صفہ کا چبوترہ ہے… ہمارے پاس احد کا پہاڑ ہے… اور ہمارے پاس حدیبیہ کا ایک درخت ہے… ہم مالا مال لوگ ہیں… کلمہ طیبہ نے ہم پر نعمتوں اور سعادتوں کے دروازے کھول دئیے ہیں… ہمارے لیے زمین پر  اللہ  تعالیٰ کا ایک الگ نظام ہے… اس نظام کی ہوائیں بھی اور ہیں… اور اس نظام کے اصول بھی اور ہیں… ہم موجود تھے اور انشاء  اللہ  موجود رہیں گے… سورۃ انفال ہمارے لیے مزید اچھے ساتھی بھرتی کرتی رہے گی… ہم میں سے کچھ چلے جائیں گے ان کی جگہ تازہ خون والے آئیں گے… ہم شخصیات کا نام نہیں نظریات کا نام ہیں… اور اس نظرئیے کا محافظ… ’’ اللہ  تعالیٰ‘‘ ہے… ہم سے لڑنے سے پہلے ’’غزوۂ بدر‘‘ کو یاد کرلیا کرو… ہمیں گھیرنے سے پہلے ’’غارِثور‘ ‘ کی تاریخ پڑھ لیا کرو… ہمیں ختم کرنے کی بکواس کرنے سے پہلے یرموک اور قادسیہ کے قصے دیکھ لیا کرو… غلبہ ہمارے لیے ہے… اور انشاء  اللہ  فتح ہمارا مقدّر ہے… ہم تمہارے سامنے تب شکست کھاتے ہیں… جب ہم ’’ہم‘‘ نہیں رہتے… یعنی اپنے ماضی سے کٹ جاتے ہیں… ہم مغلوب تب ہوتے ہیں جب ہمارے دل میں دنیا اور مال کی محبت آجاتی ہے… اب بہار کا موسم ہے دنیا اور مال کی محبت سے آزاد… کافی سارے مسلمان الحمد اللہ  موجود ہیں… ہاں اقتصادی پابندیاں لگانے سے پہلے پھر یاد کرلینا… ہم نے چراغ بجھادیا تھا…

٭٭٭

ایک خوش نصیب بادل

اس صدی کے ایک عظیم کردار، بطل اسلام الشیخ ابومصعب الزرقاوی کی شہادت پر… خراج تحسین…

ان کے کارناموں کا مختصر تذکرہ… اور

عیسائیوں کی قبریں Oجہاد افغانستان خوش نصیب روحوں کا عالمی اجتماع Oپاکستان کی وزارت خارجہO جہاد افغانستان میں شریک ہونے والے عرب مجاہدین Oمیدان جہاد کے بدلتے رنگ…

۱۹جمادی الاولیٰ ۱۴۲۷ھ بمطابق ۱۶ جون ۲۰۰۶ء

ایک خوش نصیب بادل

 اللہ  تعالیٰ نے ابومصعب الزرقاویؒ کی تمنا پوری فرمادی… اور ہم نے خبر سنی کہ وہ ماشاء  اللہ  شہید ہوگئے ہیں… ہمارے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ایک خاتون سے فرمایاتھا… تمہارے بیٹے کو شہادت کا دُہرا (ڈبل) اجر ملا ہے… کیونکہ اسے اہلِ کتاب کے کافروں نے قتل کیا ہے… اہلِ کتاب کے کافر یہی بدقسمت یہودی اور عیسائی ہیں… جن کی کتابوں میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی پیشین گوئی اور بشارت موجود تھی… مگر جب آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم تشریف لے آئے تو ان کی اکثریت نے ضد اور دنیا کی لالچ کی وجہ سے انکار کردیا… یہ لوگ پہلے اہلِ کتاب تھے… جب انکار کیا تو کافر بن گئے… اس لیے ان کو ’’کفارِ اہلِ کتاب‘‘ کہا جاتا ہے… یہ لوگ مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اوردن رات انہیں اذیتیں پہنچاتے ہیں… مسلمان ہی کیا؟ یہ لوگ تو زمین کو بھی اذیت اور تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں… امام غزالیؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ جس کا پورا نام ’’احیاء علوم الدین‘‘ ہے، میں لکھا ہے… عیسائیوں کی قبروں نے  اللہ  تعالیٰ کے دربار میں شکایت کی کہ ان کی بدبو کی وجہ سے ہم بہت تکلیف میں ہیں…  اللہ  تعالیٰ قبر کے عذاب سے بچائے ان عیسائیوں نے تو الٹا قبروں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے… ان کی زندگی بے حیائی کی بدبو اور تعفّن میں گزرتی ہے… مرنے کے بعد ان کی بدبو سے قبر کی زمین اورمٹی تک کو تکلیف پہنچتی ہے… کراچی پولیس نے کچھ عرصہ پہلے ایک یہودی مردے کی لاش زمین سے نکالی تھی…  اللہ  پاک کی پناہ! … اس قدر زیادہ بدبو تھی کہ پولیس کے آفیسر بھی بے ہوش ہونے کو تھے… منہ پر کپڑے باندھ کر وہ لاش کے ٹکڑے جمع کر رہے تھے اور اس پورے علاقے میں بدبو ہی بدبو پھیلی ہوئی تھی…

میرے ایک استاذ تھے حضرت مولانا عبدالرحیم منہاجؒ… ان کا پرانا نام ’’ڈیوڈ منہاس‘‘ تھا… وہ عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے… پھر مذہبی تعلیم حاصل کرکے عیسائیوں کے پادری بنے… اور پندرہ سال تک ’’پادری‘‘ کا منصب کماتے رہے… پھر  اللہ  پاک نے انہیں ہدایت عطاء فرمائی… وہ مسلمان ہوئے، کچھ عرصہ عام مسلمان رہے… اور پھر اصلی اور سچے، متقی اور صاحبِ علم مسلمان بن گئے…  اللہ  تعالیٰ نے انہیں دنیا سے بے رغبتی اور زُہد کی نعمت عطاء فرمائی تھی… اور ان کے ہاتھوں سے کئی کرامات بھی ظاہر ہوئیں… انہوں نے ہمیں چند دن تک ’’عیسائیت‘‘ کے بارے میں درس دیا… اور عیسائیوں کے خوب پول کھولے… ان کی باتوں میں سے ا یک یہ بھی تھی کہ خنزیر (سور) کا گوشت کھانے کے وجہ سے عیسائیوں کے مسام کھل جاتے ہیں اور ان سے شدید بدبو آتی رہتی ہے… وہ پوچھتے تھے کہ یورپ اور امریکہ کی گوری چٹی سرخ عورتوں کو اتنے پرفیوم، باڈی سپرے اور میک اپ کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟… وہ بتاتے تھے کہ یہ بدبو انتہائی سخت اور ناقابل برداشت ہوتی ہے… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے زمانے میں ان اہلِ کتاب کافروں نے ایک مسلمان کو شہید کیا تو حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اس شہید کی والدہ کو… شہید کے لئے دُہرے اجر کی بشارت سنائی… ہمارے تازہ شہید شہزادے ابو مصعب الزرقاوی نور  اللہ  مرقدہ وطاب  اللہ  وثراہ وکثر  اللہ  امثالہ… کو بھی اس بشارت کا پورا حصہ ملتا ہے کیونکہ… انہیں بھی اہلِ کتاب کافروں نے قتل کیاہے…

یہودیوں کی قیادت میں عیسائیوں کا ملک امریکہ… امریکہ کے زر خرید نوکر عراق کے موجودہ حکمران اور فوجی … اور اُردن کے خفیہ ادارے … واہ زرقاویؒ واہ… تیرے جیسے شیر جوان تو کسی کسی ماں کو نصیب ہوتے ہیں… ایک انتالیس سالہ غریب مسلمان کو مارنے کیلئے تین ملکوں کا مشترکہ آپریشن… اور چار سال کا طویل عرصہ… خود کو سپرپاور سمجھنے والے ملک کو چار سال تک زرقاویؒ نے انگلیوں پر نچایا… اور اس کے ایک سو سے زائد فوجیوں کو مٹی میں دبادیا… وہ چار سال تک اس ملک میں دندناتا پھرتا رہا جہاں ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی موجود تھے… جہاں دنیا کے تیس ممالک کے لشکر صلیبیں اٹھائے حملہ آور ہیں… زرقاویؒ ان کے درمیان زندہ رہا… اور انہیں ہر آئے دن تڑپاتا رہا… حقیقت میں زرقاویؒ اس قابل ہے کہ اس پر رشک کیا جائے… میں نے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ موت تو سب پر آنی ہے… اسے امریکہ کی فتح قرار نہیں دیا جاسکتا… ایک زرقاویؒ کیلئے چار سال لگ گئے جبکہ اس امت کی گود ایسے ’’زرقاوئیوں‘‘ سے بھری پڑی ہے… پھر جس تیزی سے یہ دنیا ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے اس میں ہر دو سال بعد جنگ کا طریقہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے… اب اگر ماضی کے کسی مشہور سپہ سالار کو زندہ کرکے لایا جائے تو وہ بے چارہ دور حاضر کی جنگ میں کیا کرسکے گا؟… اب نہ تو تلوار گھومتی ہے ،نہ نیزے لہراتے ہیں… پھر کچھ عرصہ پہلے تک بندوقوں کی آمنے سامنے والی جنگ ہوتی تھی… ہم نے افغانستان میں وہ جنگ دیکھی ہے… مگر اب اس میں بھی بہت تبدیلی آچکی ہے… پہلے طیاروں سے بمباری ہوتی تھی… اب کچھ مسلمان سائنسدانوں نے خود طیاروں کو بم بنادیا… نائن الیون کے موقع پر ان بموں کا تجربہ کیا گیا جیسا کہ ساری دنیا نے دیکھا… اب جدید مسلمان سائنسدانوں نے خود ’’انسان‘‘ کو ’’بم‘‘ بنانے کے تجربے شروع کر رکھے ہیں… ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جب ہم مسلمانوں کو ویسے ہی دن رات مارا جارہا ہے تو پھر ہم خود کیوں نہ مر جائیں… اور مرتے مرتے اور لوگوں کو بھی ساتھ لے جائیں… خلاصہ یہ ہے کہ اگر واقعی یہ دنیا ترقی کر رہی ہے تو پھر اس میں جنگ کا طریقہ بھی ہر سال اپنا ’’ماڈل‘‘ اور ’’اسٹائل‘‘ بدلتا ہے… افغانستان کے پرانے کمانڈروں کو جو جنگ آتی ہے اب وہ جنگ نہیں ہورہی … اس لیے پرانے کمانڈر اگر شہید ہوگئے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا… کیونکہ نئی جنگ کے نئے کمانڈر تیار ہوچکے ہیں… اور ہر دو سال بعد مزید نئے کمانڈر تیار ہوجاتے ہیں… عراق کی جنگ بھی طرح طرح کے پینترے اور اسٹائل بدل رہی ہے… زرقاوی شہیدؒ نے اپنے دور کے جہاد کی کمان کی… اور ان کو مبارک ہو کہ  اللہ  تعالیٰ نے انہیں بھرپور کامیابی عطا فرمائی… زرقاویؒ کا دورِجہاد انشاء  اللہ  یاد رکھا جائے گا… اور زرقاویؒ کا تخت بھی ایوبیؒ اور یلدرمؒ جیسے فاتحین کی صفوں میں بچھے گا… امریکہ آج ایک زرقاویؒ کی شہادت پر خوشی منا رہا ہے… تو زرقاویؒ نے چار سال تک تقریباً ہر دن امریکیوں اور ان کے نوکروں اور اتحادیوں کے مرنے کی خوشی منائی ہے… کشتی اور باکسنگ کے مقابلے میں فیصلہ ’’پوائنٹ‘‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے یا ’’ناک آؤٹ‘‘ کی بنیاد پر… ناک آؤٹ تو کوئی فریق ہوا نہیں کیونکہ نہ امریکہ نے عراق سے فوجیں نکالی ہیں… اور نہ عراق کی جہادی تحریک ختم ہوئی ہے… چنانچہ ثابت ہوا کہ دونوں فریق ابھی تک ’’رِنگ‘‘ اور اکھاڑے میں موجود ہیں… اب فیصلہ پوائنٹ کی بنیاد پر ہوگا… ساری دنیا مل کر گِن لے کہ امریکہ کے پوائنٹ زیادہ ہیں یا زرقاوی شہیدؒ کے… امریکہ نے زرقاویؒ، ان کے مرشد اور چھ ساتھی شہید کیے… جبکہ زرقاویؒ نے سینکڑوں امریکی اور اتحادی افسر اور فوجی مارے… امریکہ کو چار سال تک ناکامی اور اب ایک دن کامیابی ملی… جبکہ زرقاوی چار سال کے ہر دن کامیاب رہے کہ… پکڑے نہیں گئے… اور اب بھی کامیاب ہوئے کہ شہید ہوئے… امریکہ اور اس کے حواریوں کو زرقاویؒ کا ٹھکانہ معلوم ہوچکا تھا… مگر امت محمدیہ (علی صاحبہا الف تحیات) کے اس شیر پر زمینی حملے کی جرأت کسی کو نہ ہوسکی… امریکیوں نے ایک دن فتح کی خوشی منائی جبکہ… زرقاویؒ کو یہ خوشی ایک ہزار سے زیادہ دنوں تک نصیب ہوتی رہی… میں مزید پوائنٹ نہیں گِنتا… کل میں نے ایک ساتھی سے کہا… بھائی! مجھے زرقاویؒ کا شہادت کے بعد والا کوئی فوٹو دکھادو… وہ فوراً ایک اخبار لے آئے… مجھے ’’تصویر‘‘ اور ’’فوٹو‘‘ بالکل اچھے نہیں لگتے… اگر کسی جاندار کے ہوں… مگر کل دل نے مجبور کردیا… میں نے ایک نظر سکون سے سوئے ہوئے زرقاویؒ کو دیکھا… اور پھر میرے دل نے چٹکی بھر کر کہا … دیکھو! ہمارا زرقاویؒ جیت گیا ہے… معلوم نہیں کتنی راتیں زرقاویؒ نے شہادت مانگتے ہوئے گزاری ہوں گی… اس کی بے چین روح شہادت کی تلاش میں کس کس منزل سے نہیں گزری؟… وہ چھوٹی سی عمر میں افغانستان جا پہنچا… جہاں امت مسلمہ کی خوش نصیب ترین ’’روحوں‘‘ کا عالمی اجتماع تھا… کیا عرب کیا عجم، کیا گورے کیا کالے، کیا جوان کیا بوڑھے… افغانستان میں خوش بختی کا میلہ لگا ہوا تھا… میں نے خود وہاں اتنے ملکوں کے افراد دیکھے کہ یاد رکھنا مشکل ہے… وہ سب  اللہ  تعالیٰ سے شہادت مانگتے تھے… وہ زخموں پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے… وہ شہداء کے جنازوں کو رشک سے دیکھتے تھے… وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آخرت کی شفاعت کے وعدے لیتے تھے… وہ بڑی نوکریاں اور خوبصورت بیویاں چھوڑ آئے تھے… وہ عیش وآرام اور ظاہری عزت کے سارے دھندوں کو طلاق دے آئے تھے… وہ سچے لوگ تھے… ان میں سے کچھ اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہوئے تھے… ان کی یہ خواتین مردوں سے بڑھ کر ایمان اور حوصلے والی… اور شہادت وجہاد کی طلب گار تھیں… امت مسلمہ کا یہ ’’مکھن‘‘ افغانستان کی سرزمین پر جمع تھا… ان میں سے جوشہید ہوگئے… ان میں سے چند سو کی عجیب داستان ڈاکٹر عبد اللہ  عزام شہیدؒ نے ’’عشاق الحور‘‘ نامی کتاب میں جمع فرمادی ہے… خود مجھے ان میں سے کئی افراد یاد آتے ہیں تو دل کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے… یہ لوگ سب کچھ چھوڑ چکے تھے گویا کہ ہاتھ دھو کر  اللہ  تعالیٰ کی رضاء،جنت اور شہادت کے پیچھے پڑ گئے تھے… ان حضرات کا جہاد سچا تھا اس لیے اس جہاد کا نور پورے عالم میں پھیل گیا… افغانستان کے یہی جانباز بوسنیا پہنچے… افغانستان کے یہی سرفروش فلسطین پہنچے… افغانستان کے تربیت یافتہ کئی منور چہرے کشمیر پہنچے… ادھر افغانستان پورے عالم اسلام کا مرکز بن گیا… ساری دنیا کے مجاہدین وہاں آکر آرام کا سانس لیتے تھے… اور امیر المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے تھے… وہاں پہنچ کر سب کو معلوم ہوتا تھا کہ ہم مسلمانوں کے پاس بھی اپنی زمین… اور اپنا گھر ہے…

پرسوںجب پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان… زرقاویؒ شہید کی شہادت پر امریکہ کو مبارکباد دے رہی تھی تو دل سے آہ نکلی… پاکستان کو زرقاویؒ سے کیا تکلیف تھی؟… پاکستان تو مسلمانوں کا ملک ہے اور اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے… پاکستان اور کچھ نہیں کرسکتا تھا تو کم از کم خاموش ہی رہتا… مگر ہماری وزارت خارجہ مسلمانوں کے دلوں میں خنجر گھونپنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی… وہاں بیٹھے ہوئے ’’طوطے‘‘ اپنی بولی نہیں بولتے… وہ پاکستان کی عوام اور مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتے… وہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کا ایک حقیر سا حصہ ہیں… زرقاویؒ جیسے مسلمان مجاہد کے قتل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے… ان کی زبان نے کوئی شرم محسوس نہیں کی؟… کاش کوئی ان ظالموں سے پوچھے کہ ان کے اس بیان میں پاکستان کا کونسا مفاد چھپا ہوا تھا؟… دنیا کے کئی کافر ملکوں نے بھی زرقاویؒ کی شہادت پر ایسا بیان نہیں دیا کیونکہ… وہ خود کو امریکہ کا ’’رکھیل‘‘ اور نوکر نہیں سمجھتے… خیر ہماری وزارت خارجہ والے اپنے لئے انگارے جمع کرتے رہیں… مگر یاد رکھیں امریکہ کبھی بھی ان سے خوش اور مطمئن نہیں ہوگا…

 افغانستان میں دنیا بھر سے جو خوش نصیب ’’روحیں‘‘ جمع ہوئی تھیں ان میں ایک ’’الشیخ ابو مصعب الزرقاویؒ‘‘ بھی تھے… ایک گمنام اور چھوٹے سے سپاہی… افغانستان کے جہاد نے کفر کے ایک ستون کو شکست دی… تو زرقاویؒ سوویت یونین کو شکست دینے والے گمنام مجاہدین میں شامل تھے… افغانستان کا جہاد جو تکوینی طور پر پورے عالم اسلام کے فائدے کیلئے شروع ہوا تھا اگر سوویت یونین کی شکست کے بعد ختم ہوجاتا تو… بات نہیں بنتی تھی… افغانستان کی زمین میں دنیا بھر کے شہداء کرام کا خون موجزن تھا… چنانچہ  اللہ  تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمادئیے کہ… مجاہدین امریکہ کا گریبان پکڑ کر اسے افغانستان میں لے آئے… امریکہ نے افغانستان پہنچنے کے بعد حالات سے مجبور ہو کر … عراق میں فوج اتارنے کافیصلہ کرلیا… اور یوں کمپیوٹر کے ذریعہ دنیا پر راج کرنے والا امریکہ افغانستان کے پہاڑوں اور عراق کے صحراؤں میں مارا گیا… آج دنیا کے کئی آزاد بازاروں میں امریکی فوجیوں سے چھینا ہوا سامان فروخت ہورہا ہے… اور امریکی ٹیکنالوجی کا رعب مداری کے تماشا دکھانے والے سانپ جتنا رہ گیا ہے… خود امریکی عوام نے صدر بش کو ’’ناکام صدر‘‘ کا لقب دے دیا ہے… جبکہ ٹونی بلیئر کی کرسی اب زمین بوس ہونے کو ہے…

 زرقاویؒ ایک بادل کی طرح افغانستان سے اڑا اور عراق کے صحراؤں میں جہاد کی بارش بن کر برسا… چار سال تک اس بادل کی گرج، کڑک، چمک اور بجلی سے… امریکی آشیانے لرزہ براندام رہے… اور عالم اسلام کے فدائی سپاہی اس بادل کے سائے میں منظم ہوتے رہے… اپنی کامیاب ترین اور قابل رشک انتالیس سالہ زندگی… محاذوں، جنگوں، جیلوں… اور روپوشیوں میں گزار کر یہ بادل… اچانک جنت کی ہواؤں میں گم ہوگیا… آسمان کے کنارے پر سات رنگوں کی قوس قزح اس بادل کی رخصتی کا اعلان کر رہی ہے… ہاں سات رنگوں سے بالکل صاف لکھا ہوا ہے:

’’ اللہ  تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو مردہ گمان نہ کرو… وہ زندہ ہیں… اپنے رب کے قرب والے مقام پر کھا پی رہے ہیں… اور خوشیاں منا رہے ہیں‘‘…

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ  اللہ  اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْن… فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتٰہُمُ  اللہ  مِنْ فَضْلِہ…

اے خوش نصیب ہواؤ! اٹھو… اے خوش بخت بادلو اٹھو! جگہ خالی نہ ہونے دو… صحراؤں کی گرمی کو فنا کردو… ایسے گرجو کہ چور بھاگ جائیں… ایسے کڑکو کہ ڈاکو خوف سے لرزنے لگیں… اور ان پر بجلیاں برسادو جو انسانیت کے قاتل ہیں… ہاں اے خوش نصیب بادلو! آسمان تمہارا ہے، زمین تمہاری ہے… یہ سب کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے بنایا ہے… چھوڑ دو اپنی جگہیں اور آسمان پر مشرق سے مغرب تک پھیل جاؤ… اور پھر ایسا برسو کہ پیاسی زمین… تمہیں دعائیں دے … اس کی پیاس بجھ جائے اور وہ پاک ہوجائے…

٭٭٭


خوفناک رات

 

 اللہ  تعالیٰ قرآن پاک میں بعض ’’خاص دنوں‘‘ کا تذکرہ فرماتے ہیں… ان میں سے بعض دن تو وہ ہیں جن میں نافرمان لوگوں پر  اللہ  تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا… اور بعض وہ دن ہیں جن میں فرمانبردار لوگوں پر  اللہ  تعالیٰ کی خاص نصرت اور مدد نازل ہوئی…

میں اور آپ آج کل جس مٹی اور زمین پر چلتے ہیں… اس کے ایک ایک چپے میں بڑے بڑے انسان دفن ہیں… کچھ عرصہ بعد ہم بھی دفن ہوجائیں گے اور ہم پر کچھ اور لوگ چل پھر رہے ہوں گے… یہ سلسلہ جاری ہے اور جب تک  اللہ  تعالیٰ چاہے گا جاری رہے گا… انسان کو بھول جانے کی عادت ہے اس لیے اسے بار بار یاد دہانی کرائی جاتی ہے… قرآن پاک ’’تذکرہ‘‘ یعنی یاد دہانی کرانے والی کتاب ہے…  اللہ  تعالیٰ ہمیں اس پاک اور عظیم کتاب کے ساتھ پورا تعلق عطاء فرمائے… اور اسے ہمارے لیے دنیا اور آخرت کا ’’نور‘‘ اور ’’روشنی‘‘ بنائے…

خاص دنوں کی یاد دہانی ’’تذکیر با یّام  اللہ ‘‘ کہلاتی ہے… اور یہ یاد دہانی انسانوں کو بہت فائدہ دیتی ہے… خود ہماری زندگی کے بعض دن اور بعض راتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی یاد آتے ہی انسان کی کیفیت بدل جاتی ہے… آج کل جون کا گرم مہینہ چل رہا ہے… کسی وقت رات کو محلے کا چوکیدار سیٹی بجاتا ہے تو مجھے جون ۱۹۹۹ء کی ایک خوفناک… مگر بہت ہی عجیب رات یاد آجاتی ہے… سات سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ رات اور اس کے تمام مناظر مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں… جی ہاں وہ کافی گرم رات تھی… اور اس کا ایک ایک لمحہ بھاری تھا… کشمیر کی جہادی تحریک سے بے وفائی کرنے والوں کو کیا معلوم کہ اس تحریک کا دامن کتنی قربانیوں سے بھرا پڑا ہے… اس خوفناک رات نے ہمیں بہت سے سبق سکھائے… اس رات نے ہمیں تڑپایا… مگر شکر کے سجدوں میں بھی گرایا… میں ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ وہ رات ہمارے حق میں تھی یا ہمارے خلاف… وہ ہمارے لیے نعمت تھی یا تنبیہ؟… ہاں اس گرم رات میں سب کچھ تھا… وہ نعمت اور نصرت کا عجیب نمونہ بھی تھی… اور تنبیہ کی محبت بھری چٹکی بھی… وہ رات ہم سب ساتھیوں نے جاگ کر گزاری تھی… رات کے ایک بجے اچانک خوفناک سیٹیوں اور بیہودہ گالیوں کے شور نے پوری جیل کو جگادیا تھا…  اللہ  اکبر کبیرا… وہ منظر یاد آتا ہے تو دل بیٹھنے لگتا ہے… بس یوں سمجھئے کہ ایک طوفان تھا جو پوری قوت سے چنگھاڑ رہا تھا… خوفناک سیٹیاں، چیخیں، لاٹھیوں کے برسنے کی آوازیں، خوف، غصہ، حسرت، بے بسی، تذبذب… اور بے یقینی… پولیس والوں کی لاٹھیاں اس قدر زور سے برس رہی تھیں کہ کھال اور گوشت نے ہڈیوں کی حفاظت چھوڑ دی… کسی کا سر پھٹا، کسی کے گھٹنے ٹوٹے… کسی کا بازو بے جان ہوا… اور کوئی ٹانگ سے محروم ہوا… مارنے والے بوکھلاہٹ کا شکار تھے اور چیخ چیخ کر گالیاں بھی بک رہے تھے… جبکہ مظلوم قیدی درد اور غم کی شدت سے چیخ رہے تھے… اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر  اللہ  تعالیٰ کو پکار رہے تھے… مجھے اس رات حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی حدیث ’’ید اللہ  علی الجماعۃ‘‘ یعنی  اللہ  تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے… بہت اچھی طرح سمجھ آگئی… بے شک مسلمانوں کی کامیابی اور حفاظت ’’جماعت‘‘ اور اجتماعیت میں ہے… جب وہ ’’جماعت‘‘ کی صورت میں ہوتے ہیں تو  اللہ  تعالیٰ کا ہاتھ…  اللہ  تعالیٰ کی نصرت،  اللہ  تعالیٰ کی حفاظت… اور  اللہ  تعالیٰ کی خاص حمایت انہیں حاصل ہوتی ہے…

جب وہ ’’جماعت‘‘ کی صورت میں ہوتے ہیں تو ان کے ہر فرد میں… پوری جماعت کے افراد کی طاقت ہوتی ہے… اور زمین وآسمان کی تمام مخلوقات ان کی خدمت میں لگ جاتی ہیں… اسی لیے حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ’’جماعت‘‘ کی اس قدر اہمیت بیان فرمائی کہ… حضرات صحابہ کرام ’’جماعت‘‘ اور ’’اجتماعیت‘‘ کی حفاظت کو سانس لینے سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے… مکہ مکرمہ میں یہ ’’جماعت‘‘ قائم ہوئی… مدینہ منورہ اس جماعت کا مرکز بنا… اور جماعت میں رکنیت کی شرط… قوم، وطن، قبیلہ، یا مالداری نہیں تھی… بلکہ کل چار شرطیں تھیں… کوئی نیا ہو یا پرانا… گورا ہو یا کالا… عربی ہو یا عجمی… غریب ہو یا مالدار… جو بھی ان چار شرطوں میں سے تین کو پورا کرتا تھا وہ جماعت کا رکن بن جاتا تھا… ایمان، ہجرت، نصرت… اور جہاد… یہ کل چار شرطیں تھیں… ایمان اور جہاد تو لازمی تھا… جبکہ ہجرت اور نصرت میں سے ایک کا ہونا ضروری تھا… جو دارالکفر میں تھے ان پر ہجرت لازمی تھی اور جو مرکز میں تھے ان پر نصرت لازم تھی… یہ جماعت قائم ہوئی تو زمین نے اپنا رنگ بدل لیا… اور آسمان کے انداز بھی بدل گئے… یہ جماعت بدر کے میدان میں چند تلواریں، لاٹھیاں اور پتھر لے کر نکلی… جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے اور پاؤں میں جوتوں کی جگہ چمڑے اور کپڑے کے چیتھڑے …مگر یہ ایک جماعت تھی… اس کا ایک امیر تھا… وہ تین سو تیرہ تھے… مگر ان میں سے ہر شخص کے بازوؤں میں تین سو تیرہ کی طاقت تھی… اس لیے تو وہ طاقتور مشرکوں کو بھیڑوں بکریوں کی طرح باندھ لائے…  اللہ  اکبر! یہ جماعت جو  اللہ  تعالیٰ کے لئے بنی تھی… ایک جان ہو کر جب میدان میں اتری تو آسمان وزمین میں ہلچل مچ گئی… جبرئیل امین علیہ السلام ’’حیزوم‘‘ نامی گھوڑی پر بیٹھ کر زمین پر اتر آئے… حضرت میکائیل علیہ السلام بھی عمامہ باندھ کر میدان بدر میں آپہنچے… اور پھر فرشتوں کی ایک قطار تھی آسمان سے زمین تک…  اللہ  تعالیٰ کی اس پیاری جماعت کو پانی کی ضرورت پڑی تو ہوائیں مچل گئیں… اور بادل جھوم جھوم کر برسنے لگے… تھوڑا سا قرآن پاک پر غور فرمائیں… فرشتے اتر رہے ہیں اور جنگ میں شریک ہیں، بادل برس برس کر مجاہدین کی نصرت کر رہے ہیں… غیبی سکون اونگھ اور نیند کی صورت میں اس جماعت کے ذہنوں کو آسودہ کر رہا ہے… نصرت کی خاص ہوا جس کا نام ’’صبا‘‘ ہے خوب مزے کے ساتھ چل رہی ہے… عرب کے طاقتور ترین ایک ہزار مسلح جنگجو… تین سو تیرہ مجاہدین کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں… کہ اچانک آواز آتی ہے… جی ہاں عرش کے اوپر سے آواز آتی ہے کہ… نصرت ومدد کے یہ سارے مناظر تو بس دل کا سکون ہیں… اے مسلمانو! تمہاری اصل نصرت تو ہم نے کی ہے…

وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللہ

اصل نصرت تو  اللہ  تعالیٰ کی ہے… فرشتے بھی اس کے، بادل بھی اس کے، نیند بھی اس کی… مگر مسلمانوں کی جماعت ان چیزوں پر بھی نظر نہ رکھے… اصل مدد ہم خود فرما رہے ہیں… اور سنو یہ جنگ بھی ہم نے خود لڑی ہے…

فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلٰـکِنَّ  اللہ  قَتَلَہُمْ

اے مسلمانو! تم نے ان مشرکوں کو قتل نہیں کیا… بلکہ  اللہ  تعالیٰ نے انہیں قتل فرمایا ہے…

 اللہ  تعالیٰ کی یہ پیاری جماعت غزوہ بدر کی فاتح بن کر مدینہ منورہ آئی… مہاجرین کی قربانی… انصاری کی نصرت… اور قوم، قبیلے، وطن، زبان اور مال کی لالچ سے آزادی… یہ جماعت طاقت پکڑتی گئی… پھر غزوہ احد میں امیر کی نافرمانی کی سزا اس جماعت کو بھگتنی پڑی… انہوں نے اطاعت کا مزہ غزوہ بدر میں چکھا تھا… اب اس بات کی ضرورت تھی کہ نافرمانی کی سزا کو بھی دیکھ لیں… کیونکہ یہ جماعت قیامت تک کے لئے نمونہ تھی… اور آنے والے مسلمانوں کے لئے ’’مثال‘‘ تھی… غزوہ احد میں امیر کی نافرمانی کی سخت سزا ملی… مگر پھر انہیں معاف کردیا گیا… اب وہ ’’نافرمانی‘‘ کے لفظ سے ہی نفرت کرتے تھے… اطاعت کا جذبہ اور نافرمانی سے نفرت… اب اس جماعت کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی تھی… انہوں نے یہودیوں کے طاقتور قلعوں کی طرف رخ کیا… تو بنی اسرائیل کے خونخوار بھیڑئیے اپنی دم دبا کر گیدڑ بن گئے… کسی نے ہتھیار ڈالے تو کسی نے جان گنوائی… اب یہ جماعت واپس مکہ مکرمہ کی طرف جارہی ہے… اسے فتح کرنے نہیں صرف ’’عمرہ‘‘ کرنے… مشرکین نے راستہ روکا… جماعت کا ایک رکن مذاکرات کرنے گیا… خبر آئی کہ شہید ہوگیا… بس پھر کیا تھا چودہ سو مقدس ہستیوں نے بھی مرنے کا عزم کرلیا… ایک درخت کے نیچے چودہ سو ہاتھ… اپنے امیر اور آقا کے ہاتھ پر تھے… اچانک اوپر سے آواز آئی… جی ہاں عرش کے اوپر سے کہ…  اللہ  تعالیٰ کا ہاتھ بھی تمہارے ہاتھوں کے اوپر ہے… جماعت نے ’’اجتماعیت‘‘ دکھائی تو مکہ کا شرک لرزنے لگا… وہ جو مارنے پر تلے تھے مذاکرات اورصلح پر آمادہ ہوئے… اور مسلمانوں کا نمائندہ بھی زندہ سلامت واپس آگیا… یہاں ’’جماعت‘‘ اور ’’اجتماعیت‘‘ کے بیسیوں دلکش مناظر دیکھنے میں ملتے ہیں… مسلمانوں کے نمائندے حضرت عثمان غنی رضی  اللہ  عنہ … جب مکہ مکرمہ مذاکرات کے لئے گئے تو وہاں کے ایک سردار نے انہیں دعوت دی کہ… عثمان! تمہیں میری پناہ حاصل ہے کعبہ کا طواف کرلو… جماعت کے نمائندے نے کہا… اپنے امیر اور جماعت کے بغیر میں یہ سعادت حاصل نہیں کروں گا… تب دنیا میں کون تھا جو ایسی جماعت کے سامنے ٹھہر سکتا … جو اسلام ہجرت اور جہاد کے بنیاد پر ایک جسم اور ایک جان بن چکی تھی… یہ لوگ بڑھتے گئے… اور زمین ان کے قدموں تلے سمٹتی گئی… ایک وقت تھا کہ زمین پر ان کے رہنے کی جگہ نہ تھی… مگر پھر وہ وقت آیا کہ وہ زمینوں اور سمندروں کے حکمران بن گئے… دنیا کے طاقتور لشکر ان کے سامنے آکر لڑنا بھول جاتے تھے… اور بپھرے ہوئے سمندر کو یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ اس کا کام ڈبونا ہے… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم تشریف لے گئے… صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ نے جماعت کی کمان سنبھال لی… اور ان لوگوں کا صفایا کردیا جو جماعت میں رخنہ ڈال رہے تھے… فاروق اعظم رضی  اللہ  عنہ آئے تو مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست… آدھی دنیا تک پھیل گئی… آپ حضرت فاروق اعظم رضی  اللہ  عنہ کے زمانے کے حالات اور فتوحات پڑھ کر دیکھ لیں… انسان کی عقل حیرانی کے مارے سوچنا چھوڑ دیتی ہے… اور انسان کے حواس پر ہیبت چھا جاتی ہے… کہاں روم وفارس کی سپر طاقتیں اور کہاں اونٹ چرانے والے دیہاتی بدّو… حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کے زمانے میں ’’جماعت‘‘ اور ’’اجتماعیت‘‘ اس قدر طاقتور تھی کہ… ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے گورنر اور کمانڈر اپنے لباس اورکھانے تک کی اجازت… امیرالمؤمنین سے لیتے تھے… حضرت فاروق اعظم رضی  اللہ  عنہ نے عین جنگ کے دوران… عالم اسلام کے سب سے بڑے کمانڈر اور فاتح… حضرت خالد بن ولید رضی  اللہ  عنہ کو ان کے منصب سے معزول فرمادیا… یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے… حضرت خالد بن ولید رضی  اللہ  عنہ اپنے سپاہیوں کے دلوں پر راج کرتے تھے… اور وہ بلاشبہ  اللہ  تعالیٰ کی ’’تلوار‘‘ تھے… مگر ان کی معزولی کے واقعہ سے بھی ’’جماعت‘‘ پر کوئی فرق نہیں آیا بلکہ جماعت کا ہر فرد… شخصیت پرستی کی بجائے… جماعت کی حفاظت میں لگا رہا… خود حضرت خالد بن ولید رضی  اللہ  عنہ نے اس موقع پر جس نیک نفسی، عالی ہمتی، حق پرستی… اور ’’اجتماعیت‘‘ کا ثبوت دیا… دنیا اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی… جبکہ عام مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے بھی کسی طرح کے فتنے کو سر نہیں اٹھانے دیا… مؤرخین نے لکھا ہے:

’’حضرت خالد بن ولید رضی  اللہ  عنہ نے حمص پہنچ کر اپنی معزولی کے متعلق ایک تقریر کی… تقریر میں یہ بھی کہا کہ امیر المؤمنین عمر رضی  اللہ  عنہ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا اور جب میں نے تمام (ملک) شام کو زیر کرلیا تو مجھ کو معزول کردیا… اس فقرے پر ایک سپاہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے سردار چپ رہ، ان باتوں سے فتنہ پیدا ہوسکتا ہے، خالد رضی  اللہ  عنہ نے کہا ’’ہاں! لیکن عمر رضی  اللہ  عنہ کے ہوتے ہوئے فتنہ کا کیا احتمال ہے؟ ‘‘ (الفاروق ص۱۲۷)

چونکہ دونوں طرف سے نیت صاف تھی… اور مقصود اپنی ذات نہیں تھی اس لیے جلد ہی دل صاف ہوگئے… اور محبت واحترام میں پہلے سے بھی اضافہ ہوگیا… چنانچہ حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ نے حضرت خالد رضی  اللہ  عنہ سے مالی حساب لینے کے بعد فرمایا:

’’خالد! و اللہ  تم مجھ کو محبوب بھی ہو اور میں تمہاری عزت بھی کرتا ہوں‘‘

اس کے بعد اپنے تمام عہدیداروں کو خط لکھا کہ ’’میں نے خالد رضی  اللہ  عنہ کو ناراضی یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا… لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ لوگ ان کی وجہ سے فتنہ میں پڑتے جارہے تھے (کہ فتوحات ان کی بہادری اور جنگی حکمت عملی کی وجہ سے ہورہی ہیں) اس لیے میں نے ان کا معزول کرنا مناسب سمجھا تاکہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ کرتاہے  اللہ  تعالیٰ کرتاہے۔‘‘(ملخص از الفاروق)

اگر خدانخواستہ اس موقع پر کچھ لوگ… حضرت خالد رضی  اللہ  عنہ کو مظلوم قرار دے کر ان کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے… یا حضرت خالد رضی  اللہ  عنہ اس فکر میں پڑ جاتے کہ میرے بغیر ’’کام‘‘ کا کیا ہوگا… تو مسلمانوں کی جماعت میں رخنہ پڑ جاتا… فتوحات رک جاتیں… اور خود حضرت خالد رضی  اللہ  عنہ جیسے عظیم فاتح بھی تاریخ کا ایک متنازعہ کردار بن جاتے… مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا… مسلمانوں کی جماعت قائم رہی… حضرت خالد بن ولید رضی  اللہ  عنہ عام سپاہی بن کر جہاد کرتے رہے… ان کا کام، اجر اور نام سب کچھ محفوظ رہا… آج تاریخ انہیں سلام پیش کرتی ہے… اور ہرمؤرخ ان کے جوتوں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا ہے… یہ سب کچھ حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کی اس تربیت کا نتیجہ تھا… جو آپ نے ’’جماعت‘‘ کی حفاظت کے سلسلے میں بہت محنت سے فرمائی تھی… وقت گزرتا گیا اور اسلام میں نئے لوگ آتے گئے… اسلام، ہجرت اور جہاد کی جگہ قوموں، قبیلوں اور زبانوں کے نعرے بھی گونجنے لگے تب… زمین نے بھی اپنے تیور بدل لیے… اور آسمان کا انداز بھی بدل گیا…

ہم مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ… اس طرح کے کئی عروج و زوال… اور نشیب وفراز کی داستانوں سے بھری پڑی ہے…  اللہ  تعالیٰ کا قانون اٹل ہے… مسلمانوں نے جب بھی اسلام اور جہاد کی بنیاد پر جماعت قائم کی… اور ایک امیرکی اطاعت میں متحد ہوئے تو انہیں غلبہ ملا… اور کامیابی نے ان کے قدم چومے… اور جب بھی مسلمانوں کی جماعت ٹوٹی… وہ برباد ہوئے اور انسانوں کے جنگل میں بے سہارا مارے گئے… سات سال پہلے ایک گرم رات ہم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا… وہ خوفناک سیٹیاں آج بھی کانوں میں گونج رہی ہیں… خوف، پریشانی، اور بے بسی کے وہ مناظر آج بھی اچھی طرح سے یاد ہیں… ہم ایک جماعت تھے تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا… ہم سرنگ کھود رہے تھے،  اللہ  تعالیٰ نے دشمنوں کو اندھا فرمادیا تھا… تین چار مہینے تک وہ کچھ نہ دیکھ سکے… جبکہ ہم… ہر آئے دن  اللہ  تعالیٰ کی نصرت کے عجیب مناظر دیکھ رہے تھے…  اللہ  اکبر! بہت عجیب مناظر… اگر ان تمام مناظر کو بیان کروں تو ظاہر بین دنیا کے بہت سے لوگ ماننے سے انکار کردیں گے… ہم خوش تھے کہ…  اللہ  تعالیٰ کی یہ نصرت ہم پر نازل ہو رہی ہے… مگر جب جون کی گرم رات… لاٹھیاں برس رہی تھیں تو ہمیں پتہ چلا کہ… وہ غیبی نصرت ہم پر نہیں… جماعت پر تھی… ہاں بے شک ’’جماعت‘‘ پر تھی… کاش مسلمان سمجھیں! … کاش مجاہدین اسے اپنے خون کا حصہ بنائیں…

(اس قصے کی کچھ تفصیل اور باقی باتیں آئندہ ہفتے… ان شاء  اللہ  تعالیٰ…)

٭٭٭


نام تو سلامت ہے

 

 اللہ  تعالیٰ معاف فرمائے… پچھلے مضمون کی دوسری قسط لکھنے کا ارادہ تھا مگر… جناب عرفان صدیقی صاحب کے تازہ مضمون نے ’’خیال جی‘‘ کو بھڑکادیا… اس لیے اس ہفتے آپ ’’خیال جی‘‘ کی خیالی باتوں پر گزارہ کریں…  اللہ  تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا تو ’’خوفناک رات‘‘ کی دوسری قسط ان شاء  اللہ  اگلی بار پیش خدمت کی جائے گی…

خیال جی کا سفر نامہ امریکہ

میرا نام خیال جی ہے… میں آج امریکہ جارہا ہوں… کل میں نے ’’القلم‘‘ کے تازہ شمارے میں عرفان صدیقی صاحب کا کالم پڑھا… انہوں نے صدر بُش کے خلاف بہت سی باتیں لکھی ہیں… ایک روشن خیال یعنی بُش کا وفادار پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے سوچا کہ ’’حقِ نمک‘‘ ادا کروں … اور لگے ہاتھوں صدر بش سے اس مضمون کا جواب لے آؤں… کیونکہ اس مضمون میں صدر بش سے کہا گیا ہے … بادشاہِ عالم پناہ کچھ تو بولیں!…

امریکی سفارتخانے میں

میں نے اپنا پاسپورٹ اٹھایا اور ویزہ لگوانے کیلئے امریکی سفارت خانے جا پہنچا… امریکی سفیر کو جیسے ہی خبر ہوئی کہ ایک ’’پاکستانی‘‘ شہری ویزہ لینے آیا ہے تو وہ بھاگ کر اپنے دفتر سے باہر نکل آئے… گھٹنے چھو کر انہوں نے مجھے سلام کیا… اور کہنے لگے… زہے نصیب کیسے تشریف لانا ہوا؟… میں نے بتایا کہ امریکہ جانا چاہتا ہوں، ویزہ لینے آپ کے پاس آیا ہوں… میری بات سن کر امریکی سفیر کی چیخ نکل گئی… بڑی مشکل سے جذبات پر قابو پاکر کہنے لگے… ارے صاحب! آپ نے تو شرمندہ کردیا… آپ مجھے فون کر دیتے اور پاسپورٹ بھجوادیتے… میں ویزے کی مہر لگا کر خود آپ کے پاس پاسپورٹ لے کر آجاتا… آپ پاکستانیوں نے ہماری خاطر اپنا دین اور دنیا تباہ کی… آپ لوگوں نے ہماری خاطر اپنے سینکڑوں لوگوں کو ذبح کیا… آپ حضرات نے ہمیں اپنے فضائی اڈے دئیے… تو کیا ہم ایک معمولی سے ویزے کے لئے آپ کو لائن لگوائیں گے؟…

اے پاکستانی بھائی! آج تو آپ نے مجھے شرمندہ کردیا… چلیں آپ میرے دفتر میں تشریف رکھیں… میں خود آپ کا فارم پرُ کرتا ہوں… اور مہر لگواکے آتا ہوں… میں سفیر صاحب کے کمرے میں ٹھاٹھ سے بیٹھ گیا… انہوں نے میرے لئے کافی منگوائی… میں کافی پیتا رہا اور وہ بھاگ بھاگ کر ویزے کے مراحل طے کراتے رہے…

امریکن ائیرلائن کے جہاز میں

سفیر صاحب نے پاسپورٹ میرے حوالے کیا… اور ایک دوسرا لفافہ بھی… میں نے پوچھا اس میں کیا ہے؟… کہنے لگے امریکن ائیرلائن کا ٹکٹ ہے… آپ پاکستانی ہماری صلیبی جنگ کا ہراوّل دستہ ہیں… یہ ٹکٹ قبول فرمائیں… میں نے بورڈنگ بھی کرادی ہے… رات کو میں ائیرپورٹ پہنچا… امیگریشن کا مرحلہ منٹوں میں طے ہوگیا… جہاز کے عملے نے میرے لیے خصوصی سیڑھی لگائی… اور مجھے بزنس کلاس کی فرنٹ سیٹ پر بٹھایا… جہاز کے کپتان نے آکر مجھے خوش آمدید کہا… مرحبا اے پاکستانی! ہمارا جہاز خوش نصیب ہے کہ آپ اس پر بیٹھے ہیں… آپ نے ہمیں ابوزبیدہ پکڑ کر دیا… آپ نے ہمیں ابوالفرج اللّیبی گرفتار کرکے دیا… آپ نے چھ سو مسلمان زنجیروں میں باندھ کر ہمارے حوالے کیے…ہم امریکی لوگ اپنے آپ کو… پاکستان میں امریکہ سے زیادہ باعزت اور بااختیار دیکھتے ہیں… خوش آمدید اے غیرت مند پاکستانی… امید ہے آپ کا سفر ہمارے ساتھ خوشگوار گزرے گا… وہ سارا راستہ مجھے کھلاتے پلاتے گئے… اور بگرام، ابوغریب اور گوانٹا ناموبے کی دلکش کہانیاں سناتے رہے… انہوں نے مجھے بتایا کہ ان تمام کارناموں میں آپ کا حصہ اور ثواب بھی شامل ہے…

امریکی ایئرپورٹ پر

میں جہاز سے اُتر کر جیسے ہی لاؤنج میں پہنچا … پورا ائیرپورٹ خوفناک الارم سے گونج اٹھا… مجھے بتایا گیا کہ یہ الارم اور سرخ بتیاں معزز پاکستانی کا استقبال ہیں… امیگریشن کے عملے نے منٹوں میں مجھے فارغ کردیا… میں نے پوچھا تلاشی کہاں ہوں گی؟… جواب ملا ارے جناب! آپ کی تلاشی؟… کیا آپ پاکستانیوں نے کبھی ہم امریکیوں سے تلاشی لی ہے؟… جب آپ نہیں لیتے تو ہم کیوں لیں؟… آپ ہمارے محسن ہیں… ہمارے جہاز آپ کے اڈوں سے اڑ کر افغانستان کے دہشت گرد بچوں کا قیمہ بناتے ہیں… ہم ایسے بے وفا اور طوطا چشم نہیں کہ آپ کی تلاشی لیں… آپ وی آئی پی لاؤنج کا راستہ پکڑیں اور بے دھڑک امریکہ میں داخل ہوجائیں…

ایئرپورٹ کے باہر

معلوم نہیں کس نے یہ خبر اڑادی تھی کہ ایک پاکستانی… امریکہ تشریف لا رہا ہے… ایئرپورٹ کے باہر ہجوم ہی ہجوم تھا… سب سے پہلے اسکول کے بچوں نے مجھے گلدستے پیش کیے… اور ترانہ گایا:

 مرحبا اے پاکستانی…!

 اے وردی والے…!

 اے مرد میدانی…!

 قبائلی مسلمانوں کی لاشیں …

 اور فوجیوں کے چھلنی بدن…

 صرف ہماری خاطر…

 صرف ہماری خاطر…

 واہ واہ…!!

 کیسی ہے غیرت…

 اور کیسی جوانی…

 مرحبا! اے پاکستانی…!

 اس کے بعد مجھے این جی اوز کی عورتوں نے گھیر لیا… جب میں نے انہیں حسرت کے ساتھ بتایا کہ میں مختاراں مائی نہیں… خیال جی ہوں… اور افسوس کہ میرے حقوق بھی محفوظ ہیں تو وہ مایوس ہو کر چلی گئیں… شاید انہیں خبر تھی کہ مختاراں مائی تشریف لارہی ہیں… اس کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت ہوئی… وہ سب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے کردار پر تعریفیں کر رہے تھے… میں نے شکریہ، شکریہ… اور تھینک یو، تھینک یو کرکے ان سے جان چھڑائی… ورنہ وہ تو میری تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے تھے… ایک نے تو یہ تاریخی جملہ بھی کہہ دیا کہ… نیپال جیسا ملک بھی ہماری اتنی فرمانبرداری نہیں کرتا جتنی آپ پاکستان والے کر رہے ہیں… میں نے بے نیازی کے ساتھ اُس کی بات سنی اور فخر کے جذبات کو چھپاتا ہوا ٹیکسی میں آ بیٹھا…

وہائٹ ہاؤس میں

راستے میں جس امریکی کو پتہ چلتا کہ میں ٹیکسی میں جارہا ہوں… وہ محبت کے ساتھ گردن اٹھا کر مجھے دیکھتا ہی چلا جاتا… کئی ایک نے مجھے روک کر کچھ کھلانے پلانے کی بھی کوشش کی … مگر میرے پاس وقت کی کمی تھی… ڈرائیور نے بتایا کہ ازبکستان نے ہم امریکیوں کو ایک فضائی اڈہ دیا تھا… ہم نے اُن کے خلاف ایک بیان دیا تو انہوں نے وہ اڈہ واپس لے لیا… آپ پاکستانیوں نے ہمیں تریسٹھ اڈے دئیے… ہم نے آپ لوگوں کو ’’کتّا‘‘ بنایا… آپ لوگوں پر انڈیا کو ترجیح دی… مگر آپ نے اڈے خالی کرانے کی بات نہیں کی… ہم آپ لوگوں کی غیرت کو سلام کرتے ہیں… اس کی بات سن کر فخر کی وجہ سے مجھے اپنا سینہ پھولتا ہوا محسوس ہوا…

تھوڑی دیر میں ہم وہائٹ ہاؤس کے سامنے تھے …پروٹوکول افسر نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا… اور کہنے لگا… تشریف لائیے! مرحبا اے پاکستانی… آپ نے ہماری خاطر اپنے ملک کے چاروں طرف آگ لگادی… اور اپنے تمام بارڈر غیر محفوظ بنادئیے… آپ نے ہماری خاطر ہمارے سٹی بینک کے نائب صدر کو اپنے ملک کا وزیر اعظم بنادیا… آپ نے ہماری خاطر کشمیر کی تحریک سے ہاتھ دھولیے… اے پاکستانی! آپ کے کارنامے بہت بلند اور آپ کی غیرت کی داستان بہت طویل ہے… تشریف لائیے وہائٹ ہاؤس آپ کا منتظر ہے…

استقبالی نغمے

پروٹوکول افسر نے بتایا کہ ہم نے آپ کے استقبال کے لئے… رنگارنگ تقریب منعقد کی ہے… میں نے اسے کہا  یار! جلدی صدر بش سے ملاؤ… مجھ میں اپنی تعریف سننے کی مزید ہمت نہیں ہے… اس نے کہا چلیں بس اس تقریب کو مختصر کردیتے ہیں… ہمارے پاپ سنگرز اُچھل کود کر ایک نغمہ سنائیں گے… آپ اسے اپنے لیے اکّیس توپوں کی سلامی سمجھیں… وہ مجھے ایک ہال میں لے گیا… میرے داخل ہوتے ہی ہال تالیوں اور سیٹیوں سے گونجنے لگا… ہر کوئی گردن اٹھا کر میری زیارت کر رہا تھا… آفیسر نے بھاری آواز میں اعلان کیا… خواتین وحضرات! معزز پاکستانی کے پاس وقت کم ہے… بس وہ ایک نغمہ سنیں گے… اور صدر سے ملنے چلے جائیں گے… اس نے فنکاروں کو اشارہ کیا… لمبے بالوں والے مرد اور چھوٹے بالوں والی عورتیں ہاتھوں میں گٹار اٹھا کر اسٹیج پر آگئے… اور انہوں نے اُچھل اُچھل کر نغمہ گانا شروع کردیا… اس نغمے کا مفہوم کچھ یوں تھا:

واہ،واہ،واہ پاکستانی…!!

 واہ،واہ،واہ پاکستانی…!!

تم نے ہمیں کندھا دیا…

 تم نے ہمیں سب کچھ دیا…

 تم جیسا ہم نے دیکھا نہیں…

ہمارے لیے اتنا نرم…

 اور …

 اپنوں پر اتنا گرم…

ہمارے لیے پیار نچھاور…

 اپنوں پر بے دردی…

 ہمارے لیے سوٹ اور ٹائی…

اپنوں کے لئے وردی…

 واہ،واہ،واہ پاکستانی…!!

یہ نغمہ سن کر غرور کی وجہ سے میری گردن تن گئی… اور میں سوچنے لگا کہ ہمارے روشن خیال حکمرانوں نے اپنے کارناموں کی وجہ سے… ملک اور قوم کا نام کتنا بلند کردیا ہے… حالانکہ پاکستانی قوم کی اکثریت ویسی نہیں ہے … جیسے امریکہ والے سمجھ رہے ہیں…

پہلی ملاقات

پروٹوکول افسر مجھے ایک آراستہ کمرے میں لے گیا… یہاں ایک دردناک منظر میرا منتظر تھا… میرا جاننے والا پنجاب کا ایک کالا سا لڑکا… جو بس کا کنڈیکٹر ہواکرتا تھا… اس کمرے میں موجود تھا… مجھے یہ دیکھ کر صدمہ پہنچا کہ اس نے چھوٹی سی نیکر اور کالر والی ایک مختصر سی قمیض پہن رکھی ہے… میرے دل سے آہ نکلی کہ ہائے بیچارہ!… جب یہ پنجاب میں بس کا کنڈیکٹر تھا تو اس کے پاس پوری شلوار ہوتی تھی… اب امریکہ میں آ کر اتنا غریب ہوگیا کہ… ایک چھوٹی سی نیکر پہننے پر مجبور ہے… میں آگے بڑھ کر اس سے افسوس اور تعزیت کرنے ہی والا تھا کہ… پروٹوکول افسر نے مجھے بتایا… یہ ہمارے ملک کی وزیر خارجہ مس کونڈا لیزا رائس ہیں…

وزیر خارجہ سے ملاقات

مجھے افسوس ہوا کہ میں اتنی مشہور ہستی کو نہیں پہچان سکا… وہ آگے بڑھیں اور فرمانے لگیں مرحبا! اے پاکستانی! وہائٹ ہاؤس آپ کی آمد پر خوشی محسوس کر رہا ہے… آپ نے ہماری خاطر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید کیا… آپ نے ہماری خاطر جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی… آپ نے ہماری خاطر مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا بیڑہ اٹھایا… آپ نے ہماری خاطر وہ سب کچھ کیا جو ایک ذرہ برابر غیرت رکھنے والا انسان بھی کسی کی خاطر نہیں کرسکتا… میں آپ کا استقبال کرتی ہوں… صدر بش ابھی ابھی… مجھ سے پوچھ کر ٹوائلٹ تشریف لے گئے ہیں… وہ آتے ہی آپ سے ملاقات کریںگے…

چند نصیحتیں

پروٹوکول افسر مجھے ایک کونے میں لے گیا… اس نے رازداری کے انداز میں کہا… صدر بش کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ اُن کی ہر بات کی تعریف کریں… باقی ان کی زبان سمجھنے میں آپ کو کچھ دِقّت ضرور ہوگی… ان کے منہ سے بکثرت ہوا نکلتی ہے اور پھر وہ ’’ہوا‘‘ ان کے الفاظ میں شامل ہوجاتی ہے…چنانچہ وہ پاکستان کو ’’پھَیکِشْٹان‘‘ اور ٹوائلٹ کو ’’ٹھوائلٹ‘‘ کہتے ہیں… اسی طرح افغانستان ان کے منہ سے ’’اَفگِھینشٹان‘‘ بن کر نکلتا ہے اور کرزئی کو وہ ’’کھر زئی‘‘ کہتے ہیں…

صدر سے ملاقات

صدر صاحب ٹوائلٹ سے بہت ہشاش بشاش حالت میں نکلے… وہ یوں مسکرا رہے تھے جیسے ابھی کسی ملک پر بمباری کرکے آرہے ہوں… پروٹوکول افسر نے مجھے بتایا کہ… وہ کھانا کھڑے ہو کر کھاتے ہیں اور مصافحہ بیٹھ کر کرتے ہیں… اس لیے آپ ان کے برابر والی کرسی پر بیٹھ جائیں… میں نے ایسا ہی کیا… صدر بش اچانک میری طرف مڑے اور انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا… مصافحہ کے بعد گفتگو شروع ہوئی…

 انہوں نے پاکستان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادئیے… اور بتایاکہ ہمیں اتنے زیادہ تعاون کی بالکل امید نہیں تھی… آپ لوگوں نے تو اپنا دین، ایمان سب کچھ ہمارے لیے بیچ دیا… اور قیمت بھی بہت کم لی… اب سنا ہے کہ حدود آرڈیننس کا بھی خاتمہ کرنے والے ہیں…

صدر بش تعریفوں پر تعریفیں کرتے جار ہے تھے… اور میں ہر تعریف پر شعرا ء کی طرح آداب! آداب! کہہ رہاتھا… تعریفوں کا طوفانِ بدتمیزی تھما تو انہوں نے میرے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی… میں نے ’’القلم‘‘ نکال کر سامنے رکھ دیا کہ پاکستان کے ایک صحافی نے آپ سے جواب مانگا ہے… صدر بش نے کہا… میں پڑھنے لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں… تم یہ اخبار ڈاکٹر رائس کو دے دو… یہ پڑھ کر مجھے بتادیں گی … پھر میں میڈیا کے سامنے جواب دوں گا… مگر اس شرط پر کہ… ’’تالی مار‘‘ طبقہ موجود ہو جو میری ہر بات پر تالیاں پیٹے…

مضمون کا جواب

کانفرنس ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا… پوری دنیا کا میڈیا جمع تھا… کیمرے بجلیاں پھینک رہے تھے… اور ’’تالی مار‘‘ طبقہ تالیوں کے لئے بالکل تیار بیٹھا تھا… صدر بش اچانک نمودار ہوئے… پہلے خاموش کھڑے رہے، پھر اچانک مسکرانے لگے… کیمرے ان کی ادائیں محفوظ کر رہے تھے… اور ’’تالی مار‘‘ان کی ہر مسکراہٹ اور ٹھمکے پر تالیاں نچھاور کر رہے تھے… صدر نے کہا…

’’پھیکشٹان کے ایک صحافی نے مجھ سے جواب مانگا ہے… میں جواب فوراً دے دیتا… مگر میں ’’ٹھوائلٹ‘‘ میں تھا…‘‘

(تالیاں، زور دار تالیاں)

’’صحافی نے لکھا ہے کہ تم ’’فرعون‘‘ کا انجام یاد رکھو… مجھے ’’فرعون‘‘ کے بارے میں پتہ نہیں تھا… ڈاکٹر کونڈا نے بہت محنت کرکے اس کی اسٹوری اور انجام معلوم کرکے… مجھے بتایا… میرا خیال ہے کہ فرعون پاگل تھا کہ خود… پیغمبر موسیٰ  ؑ کے پیچھے نکل پڑا… میں ایسا پاگل نہیں ہوں… میں ہر جگہ اپنے فوجی بھیج کر انہیں مرواتا ہوں… اور خود زیرِ زمین بنکر میں چُھپ جاتاہوں… اب بتاؤ میرا انجام فرعون جیسا کس طرح ہوسکتا ہے؟ ‘‘

(تالیاں،زوردار تالیاں)

’’دوسری بات یہ کہ فرعون ڈوب کر مرا تھا… شاید اسے سوئمنگ (تیراکی) نہیں آتی تھی… میں اب تیراکی سیکھنا شروع کر رہا ہوں…‘‘

(تالیاں)

’’تیسری بات… ڈوب کر وہ مرتا ہے جس میں کچھ شرم ہوتی ہے… پھر میں کیسے ڈوب کر مر سکتا ہوں؟‘‘

(زوردار تالیاں)

’’اے پھیکشٹانی صحافی!… مجھے سمجھانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو… میں ملک کا صدر ہوں… مگر جب میری صدارت کی میعاد ختم ہوجائے گی تو میں ایک دن کے لئے بھی اس میں اضافہ نہیں کرسکتا…مگر تم… پندرہ کروڑ انسان ایک بوٹ کے نیچے دبے ہوئے ہو… اٹھاون سال ہوگئے تم سارے مل کر صرف یہ قانون بھی نہ بنا سکے کہ… ہر فوجی اور سرکاری افسر اپنے وقت پر ریٹائر ہوجائے… تمہاری تو یہ حالت ہے کہ … ایک شخص اپنی پینٹ کی جیب سے… دو روپے کا بال پین نکال کر… خود کو ملک کا تاحیات صدر… اور فوج کا تاحیات سربراہ لکھ سکتا ہے… اور تم پندرہ کروڑ انسان دو روپے کے بال پین کی لکیر کے نیچے دَب کر رہ جاتے ہو… ہم چاہتے ہیں تمہارے ہاں ایسا ہی ہوتا رہے… اور تم بھیڑوں بکریوں کی طرح ہانکے جاتے رہو… تم سب ایک بوٹ کے نیچے ہو… اور وہ بوٹ ہمارے نیچے ہے…‘‘

 (تالیاں، زور دار تالیاں)

’’اے صحافی! میں نے آپ کے مضمون کا دو ٹوک جواب دے دیا ہے… اب آپ میری بات کا جواب دیں… اور کچھ تو بولیں…‘‘

صدر بش فاتحانہ انداز میں پریس کانفرنس ختم کرنا چاہتے تھے کہ ایک صحافی کھڑا ہوگیا… اور کہنے لگا … جناب صدر! آپ نے مضمون کے آخری حصے کا جواب نہیں دیا…

صدر نے کہا وہ حصہ پڑھو… صحافی پڑھنے لگا…

’’آج تم زرقاوی کو شہید کرکے شادیانے بجا رہے ہو…

تمہیں شاید اندازہ نہیں…

کہ زرقاوی مرا نہیں کرتے!

شہادتوں سے ہمکنار قافلے لٹا نہیں کرتے…

ان کے ہر قطرۂ خون سے ایک چمن ایجاد ہوتا ہے…

کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ چمنستان چار سو لہلہانے لگے ہیں؟

کچھ تو بولو…!

کچھ تو کہو…!‘‘

مضمون کا یہ حصہ سن کر صدر کے چہرے کا رنگ بدل گیا… وہ تھوڑی دیر خاموش رہے… پھر پہلو بدل کر بلند آواز سے بولے:

’’لیڈیز اینڈ جنٹھلمین!

میں ٹھوائلٹ جا رہا ہوں‘‘

(تالیاں، زوردار تالیاں)

’’باقی باتوں کا جواب وزیر خارجہ دیں گی… ‘‘

صدر صاحب تیزی سے واپس چلے گئے… وزیر خارجہ کالج کی استانیوں کی طرح میٹھی زبان میں کڑوا لیکچر دینے لگیں… صحافی اُکتا اُکتا کر اٹھنے لگے… اسی اثناء میں میرا ’’خیال‘‘ بھی ٹوٹ گیا… میں نے دیکھا کہ میں ’’القلم‘‘ سینے پر رکھے اپنے کمرے میں لیٹا پڑا ہوں… جون کے مہینے کی گرمی میرا پسینہ نچوڑ رہی ہے… چھت کا … پنکھا گرم ہوا پھینک رہا ہے… اچانک میری آنکھوں میں آنسو رینگنے لگے… میں ابھی جس ’’خیال‘‘ میں گم تھا وہ مجھے یاد آنے لگا… اور یہ بات سوچ کر میرا دل بیٹھنے لگا کہ… کہیں ہمارے حکمران صدر بش کی خاطر… اس ملک کا نام ’’پھیکشٹان‘‘ ہی نہ رکھ دیں… ابھی اور کچھ نہیں تو چلیں…ملک کا نام تو سلامت ہے… مسلمانوں کا ’’پاکستان‘‘… علامہ اقبالؒ کا ’’پاکستان‘‘… علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا ’’پاکستان‘‘… لاکھوں شہداء کا ’’پاکستان‘‘…

یا  اللہ ! شہداء کرام کے اس ملک ’’پاکستان‘‘ کی حفاظت فرما… اور اسے اپنے ’’نظریۂ وجود‘‘ پر واپس آنے کی توفیق عطاء فرما (آمین)

٭٭٭

 


خوفناک رات کا سبق

 

 اللہ  تعالیٰ کبھی ہنساتا ہے… اور کبھی رُلاتا ہے… یہ بات قرآن پاک نے اس طرح بیان فرمائی ہے… وَاَنَّہ ٗ  ہُوَ  اَضْحَکَ وَاَبْکٰی… میں جب بھی ’’جیل‘‘ اور ’’قید‘‘ کے واقعات یاد کرنے بیٹھتا ہوں تو کبھی ہنستا ہوں… اور کبھی روتا ہوں…  اللہ  کرے ہمارا رونا اورہنسنا سب  اللہ  تعالیٰ کی رضا والا بن جائے… پہلے ایک بار جیل کی کہانی شروع کی تو پھر اچانک اسے ادھورا چھوڑ دیا… دل میں تمنا تھی کہ سارے ساتھی واپس آجائیں پھر یہ کہانی مکمل کروں گا… ابھی جون کے گرم مہینے کی ایک رات خواب میں برادر محترم کمانڈر سجاد خان شہید رحمہ  اللہ  سے ملاقات ہوئی تو … مجھے وہ ’’خوفناک رات‘‘ یاد آگئی… جس رات کے زخموں نے ’’سجاد شہید‘‘ کو حوروں کا دولھا بنایا تھا… اس رات کا قصہ بہت طویل اور بہت سبق آموز ہے مگر… شاید میں آج بھی اسے مکمل نہ کرسکوں…

قید سے رہائی کے بعد ایک  اللہ  والے بزرگ نے فرمایا تھا… جیل میں آپ پر ہر طرح کے حالات آئے ہوں گے آپ کوشش کریں کہ…  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کیا کریں جو اس قید اور رہائی کے دوران نصیب ہوئیں… اس سے  اللہ  تعالیٰ کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے… اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا تذکرہ نہ چھیڑیں… بے شک ان کی بات بہت اونچی اور سچی تھی… مسلمان کو ہر وقت  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا چاہئے… اور اپنے اوپر  اللہ  تعالیٰ کے احسانات کو محسوس کرنا چاہئے… اس خوفناک رات بھی  اللہ  تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہم پر ہوئے… بے شک وہ بہت مہربان، بہت کریم ہے… وہ رحمن اور رحیم ہے… اور اس کی صفتِ رحمت اس کے غضب سے آگے ہے… ہم نے ’’قید‘‘ کے دوران ہمیشہ اس کی رحمت کو اپنے سانس سے بھی زیادہ قریب پایا… ہم نے مجاہدین پر ظلم کرنے والوں کو بھیانک انجام سے دوچار ہوتے دیکھا… انڈین فوج کے خفیہ محکمے کا ایک میجر بہت ظالم تھا… وہ مجاہدین کی داڑھیوں پر اپنا بوٹ رگڑتا تھا… اور تشدّد کے ساتھ ساتھ ماں بہن کی گالیاں بھی بکتا تھا… حکومت نے اسے خاص طور پر میرے لیے مقرر کیا تھا چنانچہ وہ… اپنے دل کی نفرت اور بغض بھرپور طریقے سے نکالتا تھا… مجاہدین نے اپنے مولیٰ جلّ شانہٗ کے دربار میں اس کا شکوہ کیا… اور سجدوں میں گر کر دعائیں مانگیں… تب یکایک وہ غائب ہوگیا… وہ اپنے ہاتھ میں کرنٹ لگانے والا ایک برقی ڈنڈا رکھتا تھا… کئی دن ہوگئے ہم نے نہ اسے دیکھا اور نہ اس کے کرنٹ پھینکتے ڈنڈے کو… معلوم ہوا کہ وہ ایک دھماکے میں ’’مردار‘‘ ہوگیا ہے… اور اس کی لاش تک نہیں ملی…

مجاہد کے لئے موت خوشیوں کی شادی ہے جبکہ کافر کے لئے موت جہنم کا دروازہ ہے… کوٹ بھلوال جیل کا ایک ایس پی جس نے مجاہدین پر مظالم کے پہاڑ توڑے… ایک دم بدل گیا اور بجھ کر رہ گیا… ہم نے لوگوں سے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ… اس کے جواں سال بیٹے نے خود کشی کرلی ہے… اس لیے اب یہ ظلم سے پرہیز کرنے لگا ہے… مجاہدین پر ظلم کوئی چھوٹا گناہ نہیں ہے… مجاہدین اپنے آپ کو  اللہ  تعالیٰ کے پاس بیچ دیتے ہیں… وہ  اللہ  تعالیٰ کے سپاہی ہیں… اور  اللہ  تعالیٰ ان سے بہت پیار فرماتا ہے… پس جو بدبخت اور بدنصیب لوگ ان پر ظلم کرتے ہیں… وہ بہت جلد  اللہ  تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوجاتے ہیں… ہم نے بہت سے لوگوں کو اس عذاب میں تڑپتے دیکھا ہے… تب وہ راتوں کو چھپ کر آتے تھے اور مجاہدین سے معافیاں مانگتے تھے… سورۃ الانفال میں ا  اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے… اور یہ بات اچھی طرح سے سمجھائی ہے کہ… جو مسلمان  اللہ  تعالیٰ کے راستے ’’جہاد‘‘ میں نکل پڑتے ہیں… وہ  اللہ  تعالیٰ کے خاص اور مقر ّب بندے بن جاتے ہیں… اس لیے جو لوگ ان مجاہدین کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرتے ہیں… وہ لوگ  اللہ  تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں…  اللہ  تعالیٰ ان کے دلوں کا سکون چھین لیتا ہے… ان پر خوف اور رعب مسلط فرما دیتا ہے… اور پھر ان کے نیچے سے زمین بھی چھین لیتا ہے… یہ لوگ بہت دردناک موت مارے جاتے ہیں… موت کے وقت انہیں سخت تکلیف دی جاتی ہے…  اللہ  تعالیٰ کے فرشتے ان کے منہ اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے برساتے ہیں… اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ… یہ تو ابھی معمولی عذاب ہے جو تمہیں چکھایا جارہا ہے… اصل عذاب تو جہنم کی صورت میں تمہارے لیے آگے تیار ہے…  اللہ  اکبر کبیرا … کتنا خوفناک منظر ہوتا ہے ان ظالموں کی روح قبض کرنے کا جو مجاہدین کو ختم کرنے کے لئے نکلتے ہیں… قرآن پاک نے بالکل صاف الفاظ میں یہ سب کچھ بیان فرمادیا ہے… اور دنیا پرست مسلمانوں کو صاف تنبیہ کردی ہے کہ … تم کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لو… ورنہ … تمہارا انجام بھی اسی طرح خوفناک اور دردناک ہوگا… آپ تمام معتبر تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے… مکہ کے وہ کمزور دل، مصلحت پسند مسلمان… جو ابوجہل کے لشکر میں شامل ہو کر ’’بدر‘‘ آگئے تھے… ان کا خیال یہ تھا کہ جس طرف کا پلہ بھاری ہو گا اسی طرف مل جائیں گے… میدان میں انہوں نے مسلمانوں کی بے سروسامانی اور کم تعداد دیکھی تو چیخ پڑے… اور کہنے لگے… ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے… پھر وہ کافروں کی طرف سے لڑے اور مارے گئے… قرآن پاک کے بیان کے مطابق وہ سب جہنم کا ایندھن قرار پائے… یا  اللہ ! ہمارے ایمان، ہمارے خاتمے اور ہماری آخرت کی حفاظت فرما…

آج بھی زمانے کے ابوجہل کا لشکر بہت شان وشوکت والا ہے… اور مسلمانوں کے دنیا پرست جتھے اس لشکر کا حصہ بنتے چلے جارہے ہیں… یا  اللہ ! موت ابوجہل کے لشکر کا حصہ بننے سے کروڑ گنا افضل ہے… یا  اللہ ! ہر کلمہ گو مسلمان کی حفاظت فرما… مجاہدین پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ موت کے وقت جو کچھ ہوتا ہے… اسے تو سچی کتاب قرآن پاک نے بیان فرمادیا ہے… جبکہ دنیا میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اسے ہم نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے… یہ سب لوگ اپنی زندگی ہی میں ’’بے عز ّت‘‘ اور ’’ذلیل‘‘ ہوئے اور ’’نامُرادی‘‘ نے انہیں اپنے پنجوں میں دبالیا… بے شک  اللہ  تعالیٰ کا انتقام بہت سخت ہے … اور جو اس کے ’’اولیاء‘‘ اور ’’مجاہدین‘‘ کو ستاتا ہے وہ  اللہ  تعالیٰ سے اعلان جنگ کرتا ہے… اس ’’خوفناک رات‘‘ ظلم کرنے والے افراد میں سے بہت سے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں… اور باقی بھی خزاں کے پتوں کی طرح لرز رہے ہیں… ہم نے اس رات عملی طور پر یہ سبق سمجھا کہ…  اللہ  تعالیٰ ’’جماعت‘‘ کے ساتھ ہے…

حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب (مسند احمد)

ترجمہ: جماعت رحمت ہے اور علیحدگی عذاب

ہم جماعت تھے تو وہ سارے کام آسانی سے ہوتے چلے گئے جو بظاہر ناممکن تھے… مجھے یقین ہے کہ اگر میں وہ سارا واقعہ کسی ماہر فوجی افسر کو سناؤں تو وہ ماننے سے انکار کردے گا… چنانچہ جب ہماری سرنگ پکڑی گئی تو وہاں کی حکومت کے ماہرین نے بھی یہی کہا کہ… یہ کام انسانوں کا نہیں مشینوں کا ہے… اسی لیے جیل کا تمام عملہ تبدیل کردیا گیا… کیونکہ انہیں یقین تھا کہ جیل حکام کی مکمل معاونت کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا… حالانکہ  اللہ  رب العزت گواہ ہے کہ …ہمارے پاس اس کی نصرت کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا… یہ نصرت اس لیے تھی کہ ہم ایک جماعت تھے اور حدیث پاک میں حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان ہے:

ید اللہ  مع الجماعۃ والشیطان مع من خالفہم یرکض (نسائی)

ترجمہ:  اللہ  تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے اور شیطان جماعت کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ایڑ لگاتا ہے یعنی ان کو خوب اکساتاہے…

ستر مجاہدین نے ایک ’’امیر‘‘ چنا اور پھر اس کی امارت میں متحد ہوگئے تب ایک سو بیس فٹ کی غار بنتی چلی گئی… جو ناممکن کام تھا… ہزاروں من مٹی اور سینکڑ وں پتھر چھپا لیے گئے جو بالکل ناممکن تھا… باہر سے پیسے منگوالیے گئے جو بہت مشکل تھا… باہر موجود مجاہدین سے رابطہ بحال ہوگیا اور وہ مدد کے لئے مستعد ہوگئے… یہ تو بالکل عجیب تھا… جیل کے اندر چاقو، خنجر… اور دیگر اسلحہ بنالیا گیا… یہ سب کچھ حیرت انگیز تھا… تالوں کی چابیاں بنالی گئیں… جو ناممکن کام تھا… اور دیواروں کے شگاف اور سوراخ دشمن کی آنکھوں سے پوشیدہ رہے… جو صرف جہاد کی کرامت تھی… یوں لگتا تھا کہ  اللہ  تعالیٰ کی نصرت ایک مضبوط سائبان کی طرح ہمارے سروں پر ہے… چنانچہ سب کچھ آسانی سے ہوتا چلا گیا… ساتھ لے جانے کے لئے تھیلیاں بن گئیں… خشک میوے آگئے… پانی کی بوتلیں مہیا ہوگئیں… اور بوٹ خرید لیے گئے…

آپ یقین جانیں ان میں سے کوئی کام بھی… عام حالات میں آسان اور ممکن نہیں تھا… مگر جماعت کے سامنے تو سمندر بھی سر جھکا دیتا ہے… اور پہاڑ بھی بِچھ جایا کرتے ہیں… جماعت دلوں کے جوڑ اور ایک امیر کی اطاعت کا نام ہے… اور اصل اطاعت اس وقت ہوتی ہے جب فیصلہ ناگوار ہو… اس لیے حدیث پاک میں سمجھایا گیا…

من کرہ من امیرہ شیئا فلیصبر (بخاری)

ترجمہ: جس کو اپنے امیر کی کوئی چیز ناگوار گزرے تو وہ صبر کرے…

آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے حضرات انصار کو خاص طور پر سمجھایا کہ میرے بعد تم پر اور لوگوں کو ترجیح دی جائے گی مگر تم حق پر ہونے کے باوجود جماعت نہ توڑنا اور صبر کرنا… صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی جماعت کو جو لازوال مضبوطی عطاء ہوئی اس کی وجہ آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کا وہ فیصلہ تھا جو … اکثر صحابہ کرام کو سمجھ نہ آیا تھا… وہ بہت عجیب جذباتی منظر تھا… حضرت ابوجندل زنجیروں میں بندھے ہوئے مکہ سے بھاگ کر تشریف لائے تھے… وہ مسلمانوں سے مدد کی فریاد کر رہے تھے… مشرکین مکہ ان کو چودہ سو مسلمانوں کے سامنے گھسیٹ کر واپس لے جارہے تھے… مسلمان جذبات کی شد ّت سے کانپ رہے تھے اور خیموں میں چھپ چھپ کر رو رہے تھے… مگر کسی نے بھی آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کی… تب یہ لوگ سچے مجاہد قرار پائے… کیونکہ سچا مجاہد وہ ہوتا ہے کہ جب لڑنے کا حکم ملے تو بجلی کی طرح لڑائی میں کود جائے… اور جب نہ لڑنے کا حکم ملے تو سخت جذبات کے عالم میں بھی اپنی تلوار نیام میں ڈال لے… صحابہ کرام نے اس وقت مکمل فرمانبرداری کی تب اعلان ہوا کہ اب تم پر فتوحات کے دروازے کھل چکے ہیں… اچھے حالات میں تو سب لوگ امیر کی اطاعت کرتے ہیں… مگر جب حالات کا رُخ بدل جائے اور اطاعت کرنے میں ظاہری طور پر خسارہ ہی خسارہ نظر آئے تو تب حقیقی مسلمان کا پتہ چلتا ہے… اور اصل اطاعت اسی وقت ہوتی ہے… اس لیے آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بار بار اس بات کا حکم دیا کہ امیر کا حکم سنو اور عمل کرو… یعنی حکم کان میں پڑنے کے بعد اب دیر نہ کرو… اور اپنی مصلحتیں نہ دیکھو بلکہ… حکم پورا کرنے میں ہر طرح کی قربانی دو… خواہ اس میں اپنے جذبات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے… خواہ جان اور مال سب کچھ ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے…

آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

علیک السمع والطاعۃ فی عسرک ویسرک ومنشطک ومکرہک واثرۃ علیک (مسلم)

ترجمہ: امیر کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو، آسانی میں اور تنگی میں خوشی میں اور مشکل میں اور اس وقت بھی جب تم پر کسی کو ترجیح دی جائے۔

ہم نے تین مہینے تک ’’جماعت‘‘ اور اس پر  اللہ  تعالیٰ کی ’’نصرت‘‘ کے مزے چکھے اور ان واقعات کو… اپنی آنکھوں سے دیکھا جو دل میں  اللہ  تعالیٰ کی محبت بڑھاتے رہے… ہم نے صحابہ کرام کے نام پر کئی ’’مجموعے‘‘ بنائے… ہر مجموعہ کے ذمہ دار مقرر ہوئے… شام کو یہ مجموعے (گروپ) اپنا (اسلحہ اور سامان باندھ کر جب مشق کرتے تھے تو… زمین وآسمان کے تمام نظارے مسکراتے ہوئے محسوس ہوتے تھے… درمیان میں دو چار بار ’’شیطانی حملہ‘‘ بھی ہوا… کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی ذات اور ناک اسلام سے بھی اونچی ہوتی ہے… وہ اپنی عزت اور نام کی خاطر ’’جماعت‘‘ کو توڑنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں… ایسے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں… مگر  اللہ  تعالیٰ کا فضل ہوا اور شیطان کا ہر حملہ ناکام ہوا… اور الحمد اللہ  جماعت محفوظ رہی… مگر آخر میں جب بیرونی نصرت میں کچھ تاخیر ہوئی… اور امیر نے ’’صبر‘‘ کا حکم دیا تو کچھ ساتھی حالات کی مجبوری میں بہہ گئے… انہوں نے ’’صبر‘‘ کرنے سے انکار کردیا… سمجھانے کا وقت گزر چکا تھا … امیر نے سب کو جمع کرکے جماعت تحلیل کردی… کچھ دل والے رونے لگے… ایک سادہ سے نوجوان نے اوپر دیکھ کر کہا…  اللہ  پاک کی نصرت واپس جا رہی ہے… کچھ دیوانے امیر کے ساتھ چپکے رہے کہ… ہم تو الگ نہیں ہوں گے… افراتفری کے اس عالم میں… خوفناک رات آ پہنچی… اور  اللہ  پاک نے اپنے اٹل قانون کے مطابق… فیصلہ فرمادیا…

بے شک  اللہ  تعالیٰ کسی قوم کی اچھی حالت کو… خراب حالت میں نہیں بدلتا… جب تک اس قوم کے افراد اپنے دل کے ارادے اور نیت کو خراب نہیں کرلیتے… دل انسان کا بادشاہ ہے… جب یہ ٹھیک ہوتا ہے تو آسمان کو بھی زمین پر کھینچ لاتا ہے… اس لیے دل میں جب اخلاص ہو تو… انسان کا عمل آگ، پانی اور ہوا سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے… مگر جب انسان اپنے دل کو… ناپاک کرلے اور اس میں خود غرضی آجائے… اپنا مفاد آجائے تو پھر یہ دل… ایک لالچی جانور کا دل بن جاتا ہے… جس میں قوت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی… وہ دل جو ’’ اللہ ‘‘ کو دے دیا جائے … وہ اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ تمام زمین اور آسمان مل کر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے… اور وہ دل جو ’’لیلیٰ‘‘ کو دے دیا جائے وہ پیشاب کے قطرے سے بھی زیادہ حقیر ہوتا ہے… خود غرضی … اور مفاد پرستی انسان کو بے کار بنادیتی ہے… اور ایسا انسان شیطان کا آلہ کار بن جاتا ہے… اس لیے انسان کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ  اللہ  تعالیٰ ہی کا رہے… اور ہر کام  اللہ  تعالیٰ ہی کے لئے کرے…

یا  اللہ ! ہم سب کو اخلاص نصیب فرما…

کمانڈر سجاد شہید رحمہ  اللہ  جو ہمیشہ  اللہ  تعالیٰ کی رضاء کے طالب رہے… اور انہوں نے ہمیشہ اپنی ذات کو مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے لئے قربان کیا… اس موقع پر بھی ’’مجاہدین‘‘ کے کام آگئے… جیل حکام اتنی بڑی سرنگ دیکھ کر بپھرے ہوئے تھے… انہوں نے پہلے حملے ہی میں سترہ ساتھیوں کو شدید زخمی کردیا… اگلی صبح ان کا ارادہ باقی افراد کو تختہ مشق بنانے کا تھا… مگر فجر کے وقت کمانڈر سجاد شہید رحمہ  اللہ  نے آسمانوں کا رخ کرلیا… وہ زخموں سے چور شہید ہوگئے… جیل حکام پر ایک دم خوف اور کپکپی طاری ہوگئی… جیل نعروں سے گونجنے لگی… جیل کے آفیسر مجاہدین کی منتیں کرنے لگے… اگلے دن… جماعت کا امیر… اپنے زخمی ساتھیوں کی عیادت کے لئے لے جایا گیا… کئی ایک نے قدموں پر گر کر معافی مانگنے کی کوشش کی… اس نے کہا… میرے بھائیو!… میں آپ سب کو معاف کر چکا ہوں… مگر کاش ہماری جماعت نہ ٹوٹتی… اور اوپر سے اترنے والی نصرت ہم سب کو… نصیب رہتی… ہم  اللہ  تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہیں… آج وہ مسلمان اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں جن کے ہاں… حلف، بیعت اور عہد کی قیمت بس اتنی ہے کہ… اسے توڑ کر تین روزے رکھ لیے جائیں… حالانکہ حضرت ابن عباس رضی  اللہ  عنہما کا فرمان ہے:

’’ اللہ  تعالیٰ کی مخلوق میں کافر سب سے بدتر ہیں… اور کافروں میں سب سے بدتر وہ ہیں جو عہد توڑتے ہیں‘‘ (تفسیر قرطبی)

مفسرین نے لکھا ہے کہ… عام کافر بھی عہد نہیں توڑتے… یہ کام تو صرف بدترین کافروں کا ہے… تو پھر مسلمان عہد توڑنے کا جرم کس طرح سے کرسکتے ہیں؟… عہد توڑنے اور امیر کی نافرمانی کرنے والوں پر دشمن غالب آجاتے ہیں… تب جو پریشانی اور تکلیف آتی ہے وہ بہت عام اور بہت بھیانک ہوتی ہے… کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ غزوہ احد کے موقع پر جو آزمائش آئی اس میں خود… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کو بھی زخم پہنچے جو صحابہ کرام کے لئے اپنے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ تھے… افغانستان میں قائم ہونے والی امارت اسلامیہ بھی… اسی جرم کی بھینٹ چڑھ گئی… اور بہت سی مضبوط اسلامی تحریکیں بھی… اسی جرم نے چاٹ لیں… اطاعت امیر کا مسئلہ سمجھنا اس لیے مشکل ہے کہ… اس کا تعلق آخرت کی کامیابی سے ہے… اور شیطان مسلمانوں کو آخرت سے غافل کرتا رہتا ہے… آج پھر ’’مقابلے‘‘ کا وقت ہے کفر اور اسلام کے لشکر آمنے سامنے ہیں…

اے مسلمانو! اس وقت اسلام کی عزت کا سوال ہے اس لیے… اکیلی بکری بن کر کافروں کی پلیٹ کا کباب نہ بنو… بلکہ… بیعت کا راستہ اختیار کرو… جماعت میں شامل ہوجاؤ… اور اپنے ہر قدم اور ہر عمل سے جماعت کو مضبوط بناؤ… تب …  اللہ  تعالیٰ کی مدد تمہارے ساتھ ہوگی…  اللہ  تعالیٰ کی رحمت تمہارے ساتھ ہوگی…  اللہ  تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی… اور …  اللہ  اکبر کبیرا…  اللہ  تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا…

٭٭٭

 


جدائی ہے یہ آج کس دلربا کی

 

 اللہ  تعالیٰ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے… انا  اللہ  وانا الیہ راجعون… نمونۂ محبوبیت حضرت اقدس مفتی عبدالستار صاحب بھی تشریف لے گئے… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے… جب تمہارے حکمران تم میں سے بدترین لوگ ہوں… اور تمہارے مالدار لوگ بخیل ہوں… اور تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو پھر… زمین کا پیٹ تمہارے لیے زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے… حضرت مفتی صاحب نور  اللہ  مرقدہ بھی… ان شاء  اللہ  بہترین جگہ منتقل ہوگئے ہیں… اس یقین کے باوجود دل کو قرار نہیں مل رہا وہ آہستہ آہستہ سلگ رہا ہے… اور خاموشی سے رو رہا ہے…

مژہ تر ہیں نہ آنکھوں میں نمی معلوم ہوتی ہے

مجھے اس دل کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے

مجھے کئی مناظر ایک ایک کرکے یاد آرہے ہیں… اور ان کی بلند وبالا، پروقار اور پرسکون شخصیت دل کو کھینچ رہی ہے… حافظ شیرازی نے کہاتھا  ؎

شاہ شمشاد قداں خسرو شیریں دہناں

کہ بمژگان شکند قلب ہمہ صف شکناں

(شمشاد جیسے قد والوں کا بادشاہ، شیریں دہن والوں کا شاہ … جو اپنی پلکوں سے تمام صف شکنوں کا دل توڑ دے)

میں مبالغہ نہیں کر رہا… کیا آپ نے کبھی حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  کی زیارت کی ہے؟ … کیا آپ نے چند لمحے ان کی پرسکون صحبت کا لطف اٹھایا ہے؟… اگر آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے تو آپ حافظ رحمہ  اللہ  کے اس شعر کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں… ماضی میں ’’لغت‘‘ کی تحقیق کرنے والے حضرات دیہاتوں اور جنگلوں میں گھوما کرتے تھے تاکہ… بعض الفاظ کے حقیقی معنیٰ اور مُراد کو سمجھ سکیں… اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’الفاظ‘‘ کے پیچھے ایک پورا ’’ماحول‘‘ اور ایک مکمل ’’منظر‘‘ ہوتا ہے… جب تک انسان اس ماحول اور منظر کو نہ دیکھے وہ بعض الفاظ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا… جس نے ’’عید‘‘ نہ دیکھی ہو اس کو کیا معلوم ہے کہ… ’’عید‘‘ کے لفظ میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے؟… حضرت اقدس مفتی عبدالستار صاحب نور  اللہ  مرقدہ کی صحبت میں… صرف تین منٹ گزارنے سے ان تین اہم الفاظ کا مطلب انسان کو آسانی سے سمجھ آجاتا تھا… (۱)  وقار (۲)سکون (۳)محبت… ان کو پہلی نظر میں دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ… وقار کسے کہتے ہیں؟… وقار  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے جو حدیث شریف کے مطابق … ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے… جو حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کی مکمل اتباع کرتے ہیں…

وقار کی یہ عظمت حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  کی ایک ایک ادا سے چھلکتی تھی… ان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا… اور گفتگو فرمانا… ’’وقار‘‘ کے حسن میں رنگا ہوا ہوتا تھا… سچی بات یہ ہے کہ ’’وقار‘‘ کی اس حسین اور پرکشش ادا کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا… ’’وقار‘‘ کے بعد جو دوسری چیز حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  میں نظر آتی تھی وہ ’’سکون‘‘ تھا… میں نے انہیں صحت کی حالت میں بھی دیکھا… اور شدید بیماری کے عالم میں بھی… وہ دونوں حالتوں میں ’’پرسکون‘‘ نظر آئے… میں نے ان کا بیان بھی سنا… اور ان کی خاموشی بھی دیکھی… ماشاء  اللہ  ان کے بیان میں بھی ’’سکون‘‘ تھا اور خاموشی میں بھی ’’سکون‘‘… یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے… مگر حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  پر تو  اللہ  تعالیٰ کا بڑا احسان تھا وہ خود پرسکون تھے… اور جو کوئی ان کے پاس جا بیٹھتا تھا وہ بھی پرسکون ہوجاتا تھا… جس زمانے ہماری جماعت میں کچھ وقتی انتشار ہوا تھا… اکثر حضرات علماء کرام حالات پوچھتے تھے اور اعتراضات کے جوابات طلب فرماتے تھے… اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں تھی… حضرات علماء کرام کو ’’جماعت‘‘ سے محبت تھی… اور وہ اپنے دل کی تشفّی چاہتے تھے… اور الحمد اللہ  حالات اور حقائق سننے کے بعد اپنی سرپرستی اور دعاؤں سے نوازتے تھے… انہی ایام میں ایک روز جامعہ خیر المدارس جانا ہوا… پاکستان کا یہ نامور علمی ادارہ ہمارے لیے ہر اعتبار سے معزز، محترم اور محبوب ہے… وہاں پہنچ کر اطلاع ملی کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  تو سخت علیل ہیں… اور کئی دن سے کسی کے ساتھ ملاقات نہیں فرما رہے… مجھے یہ سن کر بہت رنج ہوا… ان کی چند منٹ کی مجلس کو میں نے ہمیشہ اپنے لیے غنیمت سمجھا… اور ان کی نگاہ محبت سے دل کو قوت اور ہمت نصیب ہوتی تھی… بہرحال میں جامعہ کے دیگر حضرات سے ملاقات میں مشغول ہوگیا… ملاقاتوں سے فارغ ہو کر طلبہ کرام کے پیار بھرے ہجوم سے دھکے کھاتے ہوئے جب میں گاڑی میں بیٹھا تو اطلاع ملی کہ … حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  اپنے گھر پر انتظار فرما رہے ہیں…

تشنہ لب مسافر کو ’’ساقی‘‘ کا بلاوا آجائے تو دل کتنا خوش ہوتا ہے… میں جلد ہی ان کے ’’دربار‘‘ میں حاضر ہوگیا… انہوں نے سینے سے لگایا اور پھر کافی دیر تک لگائے ہی رکھا…   ؎

خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شور تہنیت ہے

یہ وقت وہ ہے جگر کے دل کو وہ اپنے دل سے ملا رہے ہیں

مجھے تو اس بھرپور معانقے نے مکمل طور پر آسودہ کردیا… پھر انہیں سہارا دے کر بٹھایا گیا… تب معلوم ہوا کہ طبیعت کافی خراب ہے… مگر سر سے لے کر پاؤں تک سکون ہی سکون نظر آرہا تھا…

اس دن انہوں نے ہماری مہمان نوازی زبان سے کم اور آنکھوں سے زیادہ فرمائی… ہاں وہ مسکرا مسکرا کر ہمیں اپنی آنکھوں سے سکون اور محبت کے جام پلاتے رہے…

شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے نظر سے مستی ابل رہی ہے

چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پیئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں

ان دنوں ہماری مجلسیں کافی گرم ہوتی تھیں… سوال وجواب کا شور ہوتا تھا… دلائل اور وضاحتوں کا دور چلتا تھا… اور شکوے دور کرنے کی محنت ہوتی تھی… مگر یہاں کچھ بھی نہیں تھا… ہم وقار کے دروازے سے گزر کر سکون کے باغیچے میں بیٹھے آنکھوں کی شرابِ محبت پی رہے تھے… بقول حضرت مجذوب رحمہ  اللہ  اصل مے کشی تو یہی ہے   ؎

مے کشو! یہ تو مے کشی رندی ہے مے کشی نہیں

آنکھوں سے تم نے پی نہیں آنکھوں کی تم نے پی نہیں

پوری مجلس پر ایک عجیب سکون چھایا ہوا تھا… مجلس میں موجود ایک عالم نے تازہ حالات چھیڑنے کی کوشش کی تو … حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  نے انہیں مسکرا کر دیکھا اور خاموش کرا دیا… اور پھر محبت کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دئیے… اور آنکھوں سے محبت کے پھول برسانے لگے… مجھے اس قدر عنایت کی کہاں تاب تھی؟… وہ مجھے دیکھ رہے تھے اور میں سر جھکائے…  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا تھا اور ان کے پاکیزہ اور مبارک ہاتھوں کا لمس نور کی طرح میرے جسم میں دوڑ رہا تھا… اس موقع پر تائید اور ہمدردی کے چند جملے بھی ارشاد فرمائے… مجلس کے آخر میں ’’دورہ تفسیر آیات الجہاد‘‘ کا تذکرہ چھڑ گیا… کارگزاری سن کر بہت مسرور ہوئے… مجلس میں موجود ایک عالم نے مشورہ دیا کہ… اس دورے کا نام ’’دورہ تفسیر القرآن‘‘ رکھ دیا جائے… حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  نے فرمایا ’’مخالفت تو جہادی آیات کی ہو رہی ہے اس لیے دورہ آیات الجہاد زیادہ بہتر ہے‘‘… مجلس کا اختتام حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  کی دعاء پر ہوا… واقعہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ… حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  کو  اللہ  تعالیٰ نے ان کے علم، تقویٰ، عمل اور اخلاص کی بدولت ’’سکون‘‘ کی خاص نعمت عطاء فرمائی تھی… یہ سکون خود ان کے دل اور اعضاء پر بھی طاری رہتا تھا… اور ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بھی محسوس ہوتا تھا… سخت اور مشکل حالات میں بھی ’’سکون‘‘ کی یہ نعمت ان کے پاس محفوظ رہتی تھی… ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ… ایسا بہت کم ہوتا ہے… مصیبت، غصہ، شہوت، ریاکاری وغیرہ کے شیطانی حملے… دل کا سکون ختم کردیتے ہیں… اور انسان ہیجانی کیفیات کی آگ میں جلنے لگتا ہے… حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  کی تیسری صفت ’’محبت‘‘ تھی… محبت کی اس نعمت نے ان کو ’’محبوب‘‘ بنادیا تھا… اور ’’محبوبیت‘‘ کی یہ شان ان کی ایک ایک ادا سے مہکتی تھی… ابھی بھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرا دل ان کی یاد میں گم ہوجاتا ہے اور مجھ سے… الفاظ لکھنے میں غلطی ہوجاتی ہے…  اللہ  اکبر کبیرا… وہ  اللہ  تعالیٰ کے سچے عاشق تھے اور پکے وفادار… وقت کے ’’مفتی اعظم‘‘ ہونے کے باوجود وہ … عشق کی دکانوں پر عام خریداروں کی طرح قطار لگاتے تھے… اور اپنے علمی مقام اور فقہی شان سے بے پروا ہو کر اپنے سے کم تر لوگوں کے جوتے سیدھے کرتے تھے… حافظ رحمہ  اللہ  فرماتے ہیں   ؎

در کوئے عشق شوکتِ شاہی نمی خرند

اقرار بندگی کن و دعوائے چاکری

(عشق کے کوچہ میں شاہی دبدبہ نہیں خریدتے ہیں غلامی کا اقرار اور نوکری کا دعویٰ کر)

ان کی کوشش رہی کہ وہ اپنے ’’روحانی مقام‘‘ کے مزے خود ہی لوٹتے رہیں… اور لوگوں سے بچنے کے لئے اپنا شمار ’’مریدوں‘‘ میں کرتے رہیں… مگر کچھ لوگوں نے پہچان لیا اور ان کی طرف باقاعدہ رجوع ہونے لگا…   ؎

بنیئے بہت نہ پارسا آنکھیں تو دیکھئے ذرا

رندوں نے تاڑ ہی لیا نشہ ٔ مئے چھپا نہیں

ویسے بھی اب ’’روحانی دنیا‘‘ کے نئے دستور… اہل علم کے بس کا کام نہیں رہے… تعویذ، دھاگے، خلافتوں کی فراوانیاں، معیار کی ارزانیاں، دنیا پرستی کے مناظر، شریعت کے معاملے میں بے جا آسانیاں…  اللہ  تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ مگر اس سے ملاقات کا شوق ناپید… اونچے مقامات کی باتیں مگر دین کے لئے ادنیٰ سی قربانی کا تصور بھی محال… غریبوں کے لئے سخت قوانین اور مالداروں کے لئے دروازے کھلے… مساکین کی توہین اور اہل دنیا کا اکرام… اور جہاد سے بے رغبتی اور بعض اوقات جہاد کے معنی میں تحریف… (نعوذ باللہ  من ذلک)

 اللہ  تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے ان اہل علم اولیاء کرام کو… جو ا ب بھی احسان وسلوک کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں… اور ’’تزکیہ‘‘ کی اہم ذمہ داری نبھا رہے ہیں… اور ’’تصوف‘‘ کے اسلامی معیار کو بچانے کے لئے محنت کر رہے ہیں… ورنہ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ… خود کو مٹانا تو درکنار… خلافت پانا اور ’’حضرت‘‘ کہلوانا ہی پہلی اور آخری خواہش ہوتی ہے… خود سوچئے جب نیت اپنی پوجا کرانے کی ہوگی تو نفس کی اصلاح خاک ہوگی… حضرت مفتی صاحب رحمہ  اللہ  علم وسلوک کے جامع تھے اور اپنے زمانے میں ’’محبت‘‘ اور ’’محبوبیت‘‘ کا چلتا پھرتا نمونہ تھے… میں نے ان کے ساتھ گزری ہر مجلس میں یہی محسوس کیا کہ وہ… دنیا، یہاں کے مال اور یہاں کے نام سے بے غرض ہیں… اور  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں… اسی کیفیت کو ’’محبت‘‘ کہتے ہیں، اسی کا نام ’’اخلاص‘‘ ہے اور یہی انسان کی اصل ترقی ہے…  ؎

کسی کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہو کر

تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تخت سلیماں تھا

رمضان المبارک کے مہینے میں ایک اور بڑے ولی اور عالم کا انتقال ہوا ہے… یہ ’’روحانی دنیا‘‘ کے گمنام بادشاہ تھے… اور سوات کے علاقہ ’’جورا‘‘ کی ایک مسجد میں مقیم تھے… انہوں نے پوری زندگی دو تین افراد کے علاوہ کسی کو بیعت نہیں کیا… کچھ علماء کرام نے ان سے شکایت کی کہ آپ کے پاس اپنے بزرگوں کی ’’نسبت‘‘ ایک امانت کے طور پر ہے… آپ یہ ’’امانت‘‘ آگے منتقل کریں… انہوں نے فرمایا میرے پاس آگ میں گرم کیا ہوا لوہا ہے… اور لوگ کپڑے کی چادریں لے کر آتے ہیں… کیا میں یہ ’’لوہا‘‘ ان کی چادروں میں ڈال دوں؟… مجھے ان کا یہ جواب سمجھنے میں کچھ وقت لگا مگر پھر بات سمجھ میں آگئی… آج اکثر لوگ بزرگوں کے پاس کس لیے جاتے ہیں؟… میں بدگمانی نہیں کر رہا آپ خود جاکر کسی ’’ اللہ  والے‘‘ کے ہاں مشاہدہ کر لیں… اکثر لوگ دنیا کے مسائل حل کرانے آتے ہیں… غریب مالدار ہونا چاہتے ہیں، مالدار مزید مالدار بننا چاہتے ہیں… بیمار شفاء حاصل کرنا چاہتے ہیں، عاشق اپنی پسند کے محبوب کو پانا چاہتے ہیں… بے سکونی اور ٹینشن کے مریض سکون کی تلاش میں ہیں… کچھ لوگ خلافت لے کر خود ’’پیری‘‘ کرنا چاہتے ہیں… اور کچھ ایسی عزت چاہتے ہیں کہ جو بھی انہیں دیکھے ان کا غلام بن جائے… آپ جا کر تلاش کریں کہ  اللہ  تعالیٰ کو پانے کے لئے کتنے لوگ آتے ہیں؟…  اللہ  تعالیٰ کے لئے قربانی کا جذبہ لے کر کتنے لوگ آتے ہیں؟… جن مسائل کے لئے لوگ بزرگوں کے پاس جاتے ہیں… ان مسائل کو تو صرف  اللہ  تعالیٰ ہی حل فرما سکتا ہے… موت، زندگی، نفع، نقصان، بیماری، شفاء، غریبی، امیری اور عزت وذلت کا مالک تو صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ ہے… مخلوق میں سے کوئی کسی دوسرے کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون  اللہ  تعالیٰ کا مقرب اور  اللہ  تعالیٰ کا دوست (ولی) ہوسکتا ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام خود بیمار ہوئے… انہوں نے فاقے کاٹے، انہیں زخم پہنچے… انہیں قید میں ڈالا گیا… اور انہیں شہید کیا گیا… حضرات صحابہ کرام میں سے کئی حضرات اچھے خاصے کھاتے پیتے تھے مگر جب وہ ایمان لائے… اور انہوں نے حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم سے بیعت کی تو… سارا مال قربان کردیا اور ان کے گھروں میں فاقے ہونے لگے… اور انہیں اپنے معصوم بچوں کو بہلا کر بھوکا سلانا پڑا… مگر صحابہ کرام مطمئن تھے کیونکہ انہوں نے دنیا کی خاطر بیعت نہیں کی تھی… وہ تو  اللہ  تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے تھے… اب کون ہے ایسا جو  اللہ  تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ’’بیعت‘‘ کرے… اور پھر ہر طرح کی تنگی، مصیبت، فاقے اور خوف کو برداشت کرے… دنیا کا مال ودولت اور عزت حاصل کرنے کی غرض … اور  اللہ  تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کی نیت… یہ دریا کے دو کنارے ہیں… جو کبھی جمع نہیں ہوسکتے…

مجاہدین میں سے بھی جو  اللہ  تعالیٰ کی رضاء کے طالب ہوتے ہیں… ان کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے… ان پر ایک خاص نور نظر آتا ہے… اور یہ لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت اور راحت کو… کوئی وقعت نہیں دیتے… مگر جن کا دل بگڑ جائے… اور وہ جہاد کے نام پر اپنا نام چمکانے، یا دنیا بنانے میں پڑ جائیں تو وہ… برباد ہوجاتے ہیں… جس دنیا کی خاطر وہ محنت کر رہے ہیں وہ ایک ایکسیڈنٹ یا جھٹکے میں ختم ہوجائے گی… اور وہ آخرت شروع ہوجائے گی جس کے لئے ان کے پلے میں کچھ بھی نہیں ہوگا…

جورا (سوات) کے رہنے والے… حضرت اقدس مولانا محمد اکرم جنگی خیل نور  اللہ  مرقدہ… اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ہیں… ان کا اپنا ذوق تھا… جبکہ باقی اکابر اس معاملے میں نرمی فرماتے ہیں اورا پنا دروازہ سب کے لئے کھلا رکھتے ہیں… اس زمانے میں اسی کی زیادہ ضرورت ہے… لاکھوں پتھروں میں سے کوئی ایک ’’پارس‘‘ نکل ہی آتا ہے… کوئلے کی کان میں سے ’’قیمتی ہیرا‘‘ بھی نکل آتا ہے… آج جبکہ ہر طرف دنیا، دنیا اور دنیا کے طلبگار … جانوروں کی طرح مال اور نام کے پیچھے دوڑ رہے ہیں… ان میں سے کچھ …  اللہ  تعالیٰ کے طلبگار بھی نکل آتے ہیں… زمین کی گود ابھی بانجھ نہیں ہوئی… عشق کی محفلیں بے رونق سہی مگر ابھی ویران نہیں ہوئیں… زخموں کو سیڑھی بنا کر محبوب تک پہنچنے والے مجنوں کم سہی مگر الحمد اللہ … موجود ہیں… اس وقت زمین پر بدترین لوگوں کی حکومت ہے، مالدار مسلمان بے حد بخیل،کنجوس اور ظالم ہوچکے ہیں… مسلمانوں کے دل اور دماغ عورتوں کے قبضے میں ہیں… اور ان کے معاملات پر عورتوں کا کنٹرول ہے… ان حالات میں موت، زندگی سے افضل ہے… اور زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے…

وقت کے اولیاء تیزی سے جا رہے ہیں… فتویٰ کے تاجدار ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں… سلوک اور احسان کے مسند نشین قطار در قطار دنیاسے رخصت ہو رہے ہیں… زمانے کے نامور مجاہد رہنما… برق رفتاری سے دنیا چھوڑ کر اوپر کاسفر کر رہے ہیں… ان روشن چراغوں کے جانے سے اندھیرا مزید پھیل رہا ہے… اور ان میں سے ہر ایک کی جدائی پر وہی منظر ہوتا ہے جو حضرت خواجہ مجذوب رحمہ  اللہ  نے حضرت حکیم الامۃ رحمہ  اللہ  کے وصال پر کھینچا تھا   ؎

یہ رحلت ہے کسی آفتاب ہدیٰ کی

یہ ہر سمت ظلمت ہے کیوں اس بلا کی

یہ کس قطب الارشاد نے منہ چھپایا

کہ دنیا ہے تاریک صدق وصفا کی

اٹھا کون عالم سے محبوب عالم

صدا کیوں ہے ہر سمت آہ وبکا کی

یہ کس کا ہے سوگ آج گھر گھر جہاں میں

احبّا کی قید اور نہ قید اقربا کی

یہ رہ رہ کے اف کس کی یاد آرہی ہے

یہ کیوں دل میں ٹیسیں ہیں اف اس بلا کی

کلیجے ہیں کیوں آج شق اہل دل کے

جدائی ہے یہ آج کس دل ربا کی

خواجہ صاحب رحمہ  اللہ  نے یہ نظم زندگی میں ایک بار کہی… جبکہ ہمیں گذشتہ چھ سالوں میں تیس سے زائد بار اس نظم کے منظر کا سامنا ہے…

حضرت مولانا ابوالحسن ندوی رحمہ  اللہ  سے جو بات شروع ہوئی… اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے… حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ  اللہ ، حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ  اللہ ، حضرت مفتی عبدالشکور ترمذی رحمہ  اللہ ، حضرت مفتی عبدالقادر رحمہ  اللہ  جیسے ارباب فقہ وفتویٰ کے بعد… اب حضرت مفتی عبدالستار صاحب رحمہ  اللہ  نے بھی اس مسند کو خیرباد کہہ دیا ہے…

ہم  اللہ  تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہیں… اس دنیا میں کسی نے نہیں رہنا…  اللہ  تعالیٰ کی مرضی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے… مگر… اس کے حکم کے مطابق ہمیں بھی … کچھ نہ کچھ کرنا ہے… وہ حالات جن میں زمین کا پیٹ … اس کی پیٹھ سے افضل بن جاتا ہے… اچھے حالات تو نہیں ہیں… کیونکہ حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے حکمران… تم میں سے بہترین لوگ ہوں… تمہارے مالدار سخی ہوں… اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہوں تو زمین کی پیٹھ (یعنی زندہ رہنا) … زمین کے پیٹ (یعنی دفن ہونے) سے بہتر ہے… آج زمین کی پیٹھ کیوں خراب ہے؟… اس لیے کہ اس دور میں زمین کے باشندے میں اور آپ ہیں… اگر ہم لوگ اچھے ہوتے تو زمین کے حالات بھی اچھے ہوجاتے… ہم اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل ہوئے تو برے لوگ ہم پر مسلط ہوگئے… ہم میں بخل عام ہوا تو مالدار طبقہ مزید بخیل بن گیا… ہم نے اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کیے تو بے چاری عورتیں اس بوجھ کو نہ اٹھا سکیں… وہ خود بھی برباد ہوئیں اور انہوں نے معاشرے کو بھی برباد کردیا… لیکن ابھی ہم مرے نہیں ہیں… ہم اب بھی اپنی اس زندگی کا فائدہ اٹھالیں… مال، نام اور قوم قبیلے سے بالا تر ہو کر ہم سچے مسلمان… اور  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے طالب بن جائیں… اور ہمیں  اللہ  تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے… مال، نام … اور صلاحیت… ہم یہ تمام چیزیں دین اسلام اور جہاد کے لئے وقف کردیں… حضرت مفتی عبدالستار صاحب نور  اللہ  مرقدہ کی رحلت پر… اگرہمیں یہ بات سمجھ آگئی اور ہماری نیت میں اخلاص پیدا ہوگیا تو گویا… ہم نے  اللہ  تعالیٰ کے اس عظیم ولی… اور امت مسلمہ کی دلربا شخصیت سے بھرپور فیض حاصل کرلیا…

اللہم اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منہا…

اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ…

آمین یا رب العالمین

وصلی  اللہ  تعالیٰ علی خیر خلقہ  سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمیعن

٭٭٭

 

کس ماں کا دودھ پیا ہے

 

 اللہ  تعالیٰ امت مسلمہ کو غلبہ عطاء فرمائے… ظالم یہودیوں کی نظر (نعوذباللہ )… مدینہ منورہ پر ہے… یہودیوں کے طیارے بمباری کر رہے ہیں… ان کے ٹینک آگ اُگل رہے ہیں… اور فلسطین ولبنان کے مظلوم مسلمان… بمباری سے گرنے والی عمارتوں کے نیچے بے بسی کے آخری سانس لے رہے ہیں… یہودی، انبیاء علیہم السلام کے قاتل… یہودی سونے کے بچھڑے کے پجاری… یہودی بندروں اور خنزیروں کی اولاد … دنیا کی سب سے بزدل… سب سے ذلیل … سب سے ناکام… اور سب سے گندی قوم … ناپاک، نجس، مرُدار… بدبودار… چوہوں سے زیادہ غلیظ اور کمزور… انسانیت کے نام پر ایک دھبہ… زمین پر بوجھ…

اب یہی یہودی… مدینہ منورہ پر قبضے کی بات کر رہے ہیں… ان کے منہ میں خاک اور آگ کے انگارے… مدینہ منورہ کا پاک نام ان کی ناپاک زبانوں سے سن کر… ہر مسلمان کا خون اس کی رگوں میں ’’جذبۂ جہاد‘‘ بن کر دوڑنے لگتا ہے… اے یہودیو! تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا… مدینہ منورہ نے سوا چودہ سو سال پہلے تمہیں نکال پھینکا تھا… تم مدینہ منورہ کی پاک زمین کے قابل نہیں تھے… تم نے وہاں بھی ’’سود‘‘ اور ’’لسانی عصبیت‘‘ کی لعنتیں عام کردی تھیں… اور ان دوچیزوں کے ذریعے وہاں کے مقامی لوگوں کو اپنا ذلیل غلام بنالیا تھا… مگر ’’مدینہ منورہ‘‘ کی قسمت میں ازل سے سعادت لکھی تھی… وہاں ہمارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ننھیالی قبیلہ آباد تھا… مدینہ منورہ والے میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے ’’پیارے ماموں‘‘ لگتے تھے… پھر وہ خود چل کر مکہ مکرّمہ گئے اور اسلام کے نور سے اپنے دل اور دماغ روشن کر آئے… پھر وہ کہنے لگے کیوں نہ ہم آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کو اپنے پاس لے آئیں… وہ جانتے تھے کہ وہ بہت بھاری پتھر اٹھا رہے ہیں… وہ جانتے تھے کہ وہ دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہے ہیں …وہ جانتے تھے کہ اب ان پر تلواریں برسیں گی… اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ’’یتیم‘‘ ہوجائیں گے … مگر اے یہودیو! تمہیں یاد ہے … وہ آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کو لے آئے… اور پھر واپس نہیں جانے دیا… وفاداری کا مطلب تم جیسے بے وفا اور خود غرض جانوروں کو کہاں سمجھ آسکتا ہے؟… تمہیں وہ دن یاد ہے… مدینہ منورہ کی گلیاں خوشی میں ڈوبی ہوئی تھیں… مدینہ منورہ کی پاکیزہ بچیاں ترانے پڑھ رہی تھیں… ایک جوش تھا، ایک سرور تھا اور ایک عجیب نورانی کیفیت… ارے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم تشریف لا رہے تھے… ہمارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم تو کسی کے خواب میں آجائیں تو اس کی نیند کو خوشبودار بنا دیتے ہیں… وہاں تو آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم خود تشریف لا رہے تھے… اے مسلمانو! اس عجیب منظر کو یاد کرو اور ہجرت کے معنیٰ سمجھو… اے یہودیو! اس عجیب دن کو یاد کرو اور اس بات سے مایوس ہوجاؤ کہ تم… اپنی مکاریوں اور سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو ختم کر دو گے… نہیں  اللہ  کی قسم نہیں… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے امتی تمہارے ہاتھوں سے ختم نہیں ہوں گے… تم لاکھ اپنے خزانوں کے منہ کھولو… تم لاکھ فری میسن کے گندے کیڑوں کو پالو… تم لاکھ اپنی شرمگاہوں کے ڈورے مسلمان حکمرانوں پر ڈالو… رب کعبہ کی قسم… تم اسلام اور مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے… ہاں بندروں اور سوروں کی اولاد! … اچھی طرح یاد رکھو… تم مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہو جاؤ گے… تمہاری نسل مٹ جائے گی… تمہارا نام ونشان ختم ہوجائے گا… اور زمین کا کوئی درخت اور پتھر تمہیں پناہ نہیں دے گا… کروڑوں ڈالر خرچ کرکے اپنا رعب قائم کرنے کی کوشش نہ کرو… تمہارے زر خرید دانشور مسلمانوں کو تم سے ڈراتے ہیں… ارے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی امت چوہوں سے نہیں ڈرا کرتی… تمہاری پر اسرار کہانیاں مشہور ہیں کہ… جو تمہاری خفیہ تنظیم ’’فری میسن‘‘ کے خلاف لکھتا ہے وہ… اچانک مار دیا جاتا ہے… تمہارے جاسوسی اداروں کے کارنامے بھی بڑھا چڑھا کر بیان کیے جاتے ہیں… مگر تم کچھ بھی نہیں ہو… کاش مسلمان تمہاری حقیقت کو سمجھ لیتے… اور سارے مسلمان مل کر تم پر تھوک دیتے تو تم… ان کی تھوک میں بہہ جاتے…

اگر تم واقعی طاقتور ہوتے تو دنیا کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر… ایک چھوٹی سی ’’کالونی‘‘ میں نہ رہ رہے ہوتے… تمہاری سازشیں کس کام کی؟… دنیا بھر میں تم خوف اور ذلت کی زندگی گزارتے ہو… اور سانس لینے کے بدلے رشوت دے کر جیتے ہو… تم ہرجگہ ’’نفرت‘‘ اور ’’سازش‘‘ کا نشان ہو… تم ہر جگہ دوسروں کے محتاج ہو… اور تمہارا اپنا کوئی وجود نہیں… تمہاری قوت اور طاقت کا ساراراز… مسلمان حکمرانوں کی ’’بے حمیتی‘‘ میں چھپا ہوا ہے… ان ظالموں نے فلسطین کے نہتے مسلمانوں کو تمہارے جبڑوں میں اکیلا چھوڑ دیا ہے… تم نے ’’احمدیٰسین‘‘ جیسے چند شیر مار کر خود کو کچھ سمجھنا شروع کردیا ہے … حالانکہ چوہے اگر بیماری پھیلا کر شیر کو مار دیں تو چوہے… چوہے ہی رہتے ہیں… شیر نہیں بن جاتے… تم نے مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر قبضہ کیا… اب مسلمانوں کا اجتماعی فرض تھا کہ وہ … مل کر تمہارے خلاف جہاد کرتے… اور تمہیں مقدس سرزمین سے نکال باہر کرتے… مگر مسلمانوں نے غفلت کی، وہ دنیا کی حقیر زندگی کو چمکدار بنانے میں مشغول ہوگئے… ان کی فوجیں کافروں کی نوکر اور غلام بن گئیں… ان کے حکمران غیرت سے بہت دور نیلامی کے کوٹھے پر جا بیٹھے… جہاں انہیں صرف اپنی اور اپنے اقتدار کی فکر ہے… مسلمان نوجوان ناچنے لگا… وہ ’’پب‘‘ اور ’’کلب‘‘ میں جاکر مدینہ منورہ کے نور سے محروم ہونے لگا… اس کو کمپیوٹر نے ’’پیلا‘‘ کردیا… اس کو ڈش اور کیبل نے ’’نیلا‘‘ کردیا… وہ عشق معشوقی کے چکر میں کھو گیا… تب… اے سوروں اور بندروں کی اولاد تم نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلیا… اور اب تمہارے طیارے بمباری کر رہے ہیں… مگر مسلمان حکمران خاموش دیواروں کی طرح… اپنے جبوں اور وردیوں میں جکڑے بیٹھے ہیں… مگریاد رکھو! وقت ایک جیسا نہیں رہتا… کسی دن مسلمانوں کے ضمیر پر لگے ہوئے یہ تالے ٹوٹ جائیں گے… ہاں مسلمانوں کے حکمران… مسلمانوں کے ضمیر پر لگے ہوئے تالے ہیں… یہی لوگ کافروں کے محافظ ہیں… یہی لوگ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے سے روکتے ہیں… یہی لوگ مسلمانوں کو ڈانس اور گانے پر لگا کر بزدل بناتے ہیں… ان لوگوں کے نزدیک امریکہ کی خاطر لڑنا ’’قومی مفاد‘‘ اور مسلمانوں کی خاطر لڑنا ٹھیکیداری اور ملک دشمنی ہے… وہ ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے ہر کسی کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا… ارے اگر تم نے مسلمانوں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا تو پھر … تمہیں مسلمانوں پر حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے… مسلمان ایک ’’امت‘‘ ہیں… مسلمان ایک ’’جسم‘‘ ہیں… مسلمان ایک ’’خاندان‘‘ ہیں… مسلمان ایک ’’جماعت‘‘ ہیں… جو اسے نہیں مانتا وہ قرآن پاک کو نہیں مانتا… وہ آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تعلیمات کو نہیں مانتا… دنیا کا کوئی بارڈر اور کوئی نقشہ… مسلمانوں کو تقسیم نہیں کر سکتا… اور انسانوں کی بنائی ہوئی لکیریں…  اللہ  تعالیٰ کے قوانین کو نہیں توڑ سکتی… قرآن پاک نے تمام مسلمانوں کو بھائی قرار دیا ہے … انما المؤمنون اخوۃ… قرآن پاک نے مسلمانوں کو ایک فریق… اور کافروں کو دوسرا فریق قرار دیا ہے… مسلمان کے نزدیک رنگ، نسل، قوم، قبیلہ… اور زبان کی ’’تعارف‘‘ سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں… انگریزوں نے اپنے ظالمانہ دور میں مسلمانوں کو تقسیم کیا… انگریزوں نے مسلمانوں کی ’’خلافت‘‘ کو ختم کیا… تب… افغان مسلمانوں نے امت مسلمہ کی لاج رکھی تھی… اور ۱۹۱۹ء میں ہزاروں انگریز فوجیوں کو کاٹ کر رکھ دیا تھا… ملکہ برطانیہ کا پرچم آدھی دنیا پر لہرا رہا تھا مگر… مسلمانوں کی سرزمین افغانستان اس منحوس، ذلیل… اور ظالمانہ پرچم سے محفوظ رہی… افغان مجاہدین نے پورے انگریزی لشکر کو… جہنم کی راہ دکھائی… اور ایک انگریز سرجن کو اس لیے زندہ چھوڑ دیا تاکہ وہ … برطانیہ جاکر اپنی فوج کی حالت بتا سکے… آج برطانیہ نے اسی شکست کا بدلہ لینے کے لئے پھر افغانستان میں… فوجیں اتار دی ہیں… دنیا میں کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ تمہارا افغانستان میں کیا کام ہے؟… کوئی پاکستانی مجاہد کشمیر میں نظر آجائے تو دنیا ’’کراس بارڈر ٹیرر ازم‘‘ کا شور مچادیتی ہے… کوئی عرب فدائی افغانستان میں نظر آجائے تو ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کا شور بلند ہو جاتا ہے… حالانکہ ہم مسلمان ہیں… اور ہم قرآن پاک کو اپنا پہلا اور آخری دستور مانتے ہیں… اور قرآن پاک نے ہمیں مسلمانوں کی مدد کا حکم دیا ہے… خواہ وہ کہیں بھی ہوں…

ہاں اے مسلمانو! وہ دن یاد کر نے کے قابل ہے جب آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم … مکہ مکرمہ چھوڑ کر ’’مدینہ منورہ‘‘ پہنچے تھے… ہر طرف خوشی تھی اور عجیب جذبات … اس منظر کا تصور تو کرو…  اللہ اکبر کبیرا … دل مچلنے لگتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں… مرنے کے بعد حوض کوثر پر…  اللہ  کرے ہمارے برے اعمال آڑے نہ آجائیں… ہمیں کتنی شدت سے اس لمحے کا انتظار ہے… ہماری گناہگار آنکھیں… اور آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ایک پاکیزہ جھلک… یا  اللہ  نصیب فرما… یا  اللہ  نصیب فرما… مگر اُس دن مدینہ منورہ والوں کے نصیب پوری طرح سے جاگے ہوئے تھے… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم خود تشریف لا رہے تھے… یاد کیجئے… دارالندوۃ میں مشرکین کا آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کے خلاف مشورہ… پھر (نعوذب اللہ ) شہید کرنے پر اتفاق… ایک سو خونخوار مشرک… ایک سو تیز تلواریں… گھر مبارک کا مکمل محاصرہ… آسمان سے جبرئیل امین علیہ السلام کی آمد… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی  اللہ  عنہ … مشرکین کے سر پر خاک… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم ان کے درمیان سے گزر کر صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ کے گھر… صدیق کی بیٹی کا کھانا باندھنا اور لقب پانا… غلام کا دو اونٹنیاں لے آنا… جو پہلے سے ہجرت کے لئے خریدی گئی تھیں… پھر غارثور… مشرکین کا دوبارہ محاصرہ… کبوتری کے انڈے، مکڑی کا جالا… کالے سانپ کا صدیق کے پاؤں پر کاٹنا… آنسوؤں کا آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے چہرے پر گرنا… پیارے، میٹھے اور شفاء بخش لعاب کا کمال… پھر لمبا سفر… کئی سو کلو میٹر… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زخمی…  اللہ اکبر کبیرا… صدیق اکبر کا آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کو کندھے پر اٹھا لینا… ام معبد اور ان کی بکری کے نصیب جاگنا… سراقہ کا دھنسنا… اور قبا والوں کی قسمت پر آسمان کا رشک کرنا… اور پھر مدینہ منورہ… صحابہ کرام اونٹنی کے گرد دیوانوں کی طرح دوڑ رہے ہیں… بچیاں ترانہ پڑھ رہی ہیں… چاند… ہاں چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہو رہا ہے… وداع کی گھاٹیوں سے یہ چاند روشن ہو رہا ہے…  اللہ  تعالیٰ کا شکر ہم پر واجب ہو چکا ہے… خواتین دروازوں کے پیچھے سے… ایک جھلک کے لئے… جی ہاں ایک نورانی اور پاکیزہ جھلک کے لئے دعائیں مانگ رہی ہیں… ہر شخص کے سینے میں دل زور زور سے دھڑک رہا ہے… بس ایک ہی تمنا ہے اور ایک ہی آرزو کہ… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم ان کے گھر کو اپنا گھر بنالیں… اے مسلمانو! کبھی کبھار اس دن کو یاد کرلیا کرو… ہمت اور معرفت کے نئے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے… اور یہودیو! تم بھی اس دن کو یاد رکھو… تمہارے باپ دادے اپنے قلعوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے… ان ہوس پرستوں اور دنیا کے غلاموں نے اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی… تب… مدینہ منورہ نے تمہیں باہر پھینک دیا… اب اس بات کو بھول جاؤ کہ تم واپس وہاں آجاؤ گے… تم ایک نہیں سارے مسلمان حکمرانوں کو خرید لو… تم ’’فری میسن‘‘ کی ممبر عورتوں کو اونچے ایوانوں تک پہنچا دو… تم جو کچھ بھی کرلو… انشاء  اللہ  تم کامیاب نہیں ہوسکو گے… تمہاری ساری دولت اپنی جگہ… تمہارا اثر ورسوخ اپنی جگہ… تمہارے خفیہ ادارے اپنی جگہ… تمہارے مسلمان ایجنٹ اپنی جگہ… تمہارے ایٹم بم اور اسلحے اپنی جگہ… ہماری تو بس اتنی دعا ہے کہ…  اللہ  تعالیٰ مسلمانوں کے لئے تم تک پہنچنے کے راستے کھول دے… پھر رب کعبہ کی قسم… تمہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ تم نے کس ماں کا دودھ پیا ہے…

٭٭٭


یا ارحم الر ّاحمین

 

 اللہ  تعالیٰ کے بہت سے پیارے نام ہیں… بہت اچھے، بہت حسن والے اور بہت نفع دینے والے… تم  اللہ  کہو یا رَحْمٰنُ کہہ کر پکارو… جس نام سے بھی پکارو… اس کے پیارے پیارے نام ہیں… ان شاء  اللہ  ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے زور پر مسلمان ترقی کریں گے اور فتح پائیں گے… ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ یعنی  اللہ  تعالیٰ کے پیارے پیارے ناموں سے انہیں ’’پیار‘‘ ہو جائے… اور پھر وہ عظمت، محبت اور ادب کے ساتھ ان ناموں کے ذریعہ  اللہ  تعالیٰ کو ہر گھڑی اور ہر وقت پکارنے لگ جائیں… میرا تجربہ یہ ہے کہ جس مسلمان مرد یا عورت پر  اللہ  تعالیٰ کا خاص فضل متوجہ ہوتا ہے…  اللہ  تعالیٰ اسے اپنے ’’پیارے نام‘‘ یاد کرنے اور پڑھنے کی توفیق عطاء فرما دیتا ہے… ننانوے نام یاد کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟… زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ… اور اگر کسی کا ’’دماغ‘‘ بدنظری میں پگھل چکا ہو تو دو گھنٹے… ہم میں سے ہر ایک کو ہزاروں چیزوں اور افراد کے نام یاد ہیں… کرکٹ کے تمام کھلاڑیوں کے نام بچے بچے کو یاد ہوتے ہیں… تو پھر ننانوے نام یاد کرنا کونسا مشکل کام ہے؟… یہ ننانوے نام تو ’’محبت‘‘ کے خزانے ہیں… قوت اور روحانیت کے خزانے… اور ’’نور‘‘ کے دریا… جی ہاں نور کے دریا… ان ’’دریاؤں‘‘ کے سامنے دنیا کے مال ودولت اور …دنیا کے دریاؤں اور سمندروں کی کیا حیثیت ہے؟… حضرات صحابہ کرام ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ پڑھتے تھے اور سمندروں پر پیدل چلتے ہوئے گزر جاتے تھے… ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ میں سے ایک ایک نام ایسا ہے جو سیدھا ’’عرش‘‘ تک پہنچتا ہے… اور آسمانوں میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے…  اللہ اکبر کبیرا…

آج یہ ساری باتیں ایک ’’خبر‘‘ سن کر میرے ذہن میں تازہ ہوگئیں… پچھلے چار سال میں یہ خبر ہمیں بار بار سننے میں ملتی ہے… چند سال پہلے میں نے  اللہ  تعالیٰ کے مخلص ولی حضرت اقدس مولانا قاری محمد عرفان صاحبؒ کو فون پر بتایا… حضرت! حکومت نے پھر مجاہدین اور ان کے حامیوں کے خلاف ’’آپریشن‘‘ کی تیاری مکمل کرلی ہے… حضرت نے فرمایا تمام ساتھیوں کو بتادیں… یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ… اور وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی  اللہ  اِنَّ  اللہ  بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ… کا کثرت سے ورد کریں… میں نے حضرت کا یہ پیغام فوری طور پر تمام مجاہدین تک پہنچا دیا… آپ دیکھیں کہ حکومت کے ظلم کا سنتے ہی  اللہ  تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے ولی کی توجہ فوری طور پر… ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کی طرف منتقل ہو گئی… یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ…  اللہ  تعالیٰ کے اس پیارے نام پر ایک خاص فرشتہ مقرر ہے… صرف تین بار پڑھنے سے قبولیت کا خاص دروازہ کھل جاتا ہے… حکومت کے ’’ظالمانہ آپریشن‘‘ سے حفاظت کے لئے اگر روزانہ باوضو… پانچ سو بار پڑھ لیا جائے تو  اللہ  تعالیٰ کی خصوصی رحمت نصیب ہوجاتی ہے… اور جس بندے پر  اللہ  تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ ہو زمانے کے فرعون اور دجال اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں… جبکہ… وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی  اللہ  اِنَّ  اللہ  بَصِیْرٌ بِّالْعِبَاد… قرآن پاک کی آیت ہے… یہ دعاء اٰل فرعون میں سے مسلمان ہونے والے شخص نے پڑھی تھی… تب…  اللہ  تعالیٰ نے اسے فرعون کے ہر ظلم اور سازش سے بچالیا… اور خود فرعون اور اس کے حواری ’’برے عذاب‘‘ میں مبتلا ہوگئے…  اللہ  تعالیٰ ہمیں ’’یقین‘‘ کی دولت عطا فرمائے… اور ملعون دنیا کی محبت ہمارے دلوں سے نکال دے… تب ہمیں معلوم ہوگا کہ ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کتنی بڑی نعمت ہے… حضرت قاری عرفان صاحبؒ کی زیارت کے لئے مجاہدین بکثرت ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے… حضرت قاری صاحبؒ لکڑی کی دراز کھولتے اور نوٹ نکال کر ان مجاہدین میں بانٹ دیتے… ان کا یہ پیار بھرا ’’ہدیہ‘‘ کئی بار مجھے بھی نصیب ہوا… ایک بار فرمانے لگے… معلوم ہے یہ پیسے کہاں سے آتے ہیں؟… یہ  اللہ  تعالیٰ کے نام ’’اَلْوَہَّابُ‘‘ کی برکت سے ہیں…  اللہ  تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس نام کی خاص برکت عطا فرمائی تھی… کیونکہ انہوں نے اسی نام کے ذریعہ  اللہ  تعالیٰ سے زمین کی ’’بے مثال حکومت‘‘ مانگی تھی…

رَبِّ ہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ

 اللہ  تعالیٰ نے انہیں ’’بے مثال حکومت‘‘ بھی عطاء فرمائی… اور جتنا مال دیا اس پر سے ہر طرح کا حساب بھی معاف فرمادیا…

ہٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکِ بِغَیْرِ حِسَابٍ

قاری صاحبؒ نے فرمایا…  اللہ  تعالیٰ نے مجھے بھی اس نام مبارک کی برکت عطاء فرمائی ہوئی ہے… پھر جوش سے فرماتے تھے… اب مجھ سے کوئی حساب کتاب پوچھنے والا نہیں ہے… ہم نے خود دیکھا کہ حضرت قاری صاحبؒ نے اپنی زندگی بے حد ’’زہد‘‘ میں گزاری مگر وہ… ہزاروں لاکھوں روپے ایک ایک مجلس میں تقسیم فرمادیا کرتے تھے…  اللہ  تعالیٰ کی وحدانیت پر ان کا یقین کامل تھا… اور یہی یقین انسان میں ’’قوت‘‘ پیدا کرتا ہے… قاری صاحبؒ کی خدمت میں جب بھی کسی پریشانی کا اظہار کیا جاتا تو جوش کے ساتھ فرماتے …  اللہ  ایک ہے…  اللہ  ایک ہے… ان پر  اللہ  تعالیٰ کے اسماء… اَلْوَاحِدُ، اَلاَْحَدُ، اَلْفَرْدُ، اَلْوِتْرُ… کا غلبہ تھا… وہ یقین رکھتے تھے کہ دنیا آخرت کے ہر مسئلے کا حل …  اللہ  تعالیٰ کو ’’ایک‘‘ ماننے میں ہے… بے شک جب پیشانی ایک کے سامنے جھکے… دل ’’ایک‘‘ ہی کی مانے… عقل ’’ایک ‘‘ ہی کی پیروی کرے… اور اس ’’ایک‘‘ کے سوا کسی سے کچھ بھی ہونے کا یقین دل سے ختم ہوجائے تو پھر… ہر مسئلہ فوراً حل ہوجاتا ہے… قاری صاحبؒ کی اس سخاوت اور فیاضی کو دیکھ کر… ان لوگوں کو شک ہوگیا جو امریکہ کو (نعوذبا للہ)  اللہ  تعالیٰ سے زیادہ طاقتور مانتے ہیں… یہ اس زمانے کی بات ہے جب امریکہ نے پاکستان کی ’’فوجی حکومت‘‘ کو… اپنی سرپرستی میں نہیں لیا تھا… اس وقت حکومت کے کچھ لوگوں نے… حضرت قاری صاحبؒ پر یہ ظالمانہ الزام لگادیا کہ وہ (نعوذباللہ ) امریکی ایجنٹ ہیں… ایک بڑے افسر نے جب میرے سامنے یہ الزام دہرایا تو غم وغصے سے… میرے آنسو بہنے لگے… میں نے کہا آپ نے یہ الزام لگا کر اپنی آخرت برباد کرنے کا قدم اٹھایا ہے… کاش آپ اس سچے  اللہ  والے مسلمان کو ایک نظر دیکھ لیتے… میں نے جب قاری صاحبؒ کے حالات سنائے تو وہ افسر صاحب گھبرا گئے… کچھ دن بعد وہ حضرت قاری صاحبؒ کو دیکھنے پہنچے تو ایمان اور فقر کی شان دیکھ کر دنگ رہ گئے… اور انہوں نے اپنے الزام سے توبہ کرلی… آج مسلمانوں میں مال کا لالچ عام ہے… اور مسلمان  اللہ  تعالیٰ کی معرفت اور اس کے پیارے پیارے ناموں سے غافل ہیں… اس لیے جب بھی انہیں کسی دیندار یا مجاہد کے پاس کچھ ’’پیسہ‘‘ نظر آتا ہے تو فوراً طرح طرح کے الزامات لگانے شروع کردیتے ہیں… میں نے ایک خطیب کی کیسٹ سنی وہ اپنی تقریر میں کہہ رہے تھے… جیش محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کو امریکہ سے ڈالر آتے ہیں… حالانکہ جیش محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کو امریکہ نے کبھی ایک دن کے لئے بھی برداشت نہیں کیا… مگر دنیا پرست لوگوں کے نزدیک کوئی جماعت امریکی تعاون کے بغیر ترقی کر ہی نہیں سکتی… ہم نے الحمد اللہ  جماعت کا مالیاتی نظام… اسلامی احکامات کے مطابق تقوے اور وقار پر قائم کیا… اور جہادی اموال کو  اللہ  تعالیٰ کی امانت سمجھ کر اس میں ہر طرح کی خیانت سے بچنے کی کوشش کی… مگر… پھر بھی دنیا پرست لوگوں نے طرح طرح کے الزامات لگائے… دراصل یہ لوگ خود مال سے عشق رکھتے ہیں… اور ان کا  اللہ  تعالیٰ کے پیارے نام ’’اَلْوَہَّابْ‘‘ پر یقین نہیں ہے… اس لیے وہ منہ بھر کر الزامات لگاتے ہیں… اور ماحول کو خراب کرتے ہیں… ابھی ایک تازہ خبر پڑھ کر ممکن ہے… الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے…

اس تازہ خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ… ۱۹۹۹ء میں جن مجاہدین نے انڈیا کا طیارہ اغواء کیا تھا… ان مجاہدین کو اور ان کے مطالبے پر رہا ہونے والے مجاہد رہنماؤں کو بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے ایک لال بیگ میں بیس کروڑ ڈالر بھی دئیے تھے… کانگریس پارٹی نے یہ الزام لگایا ہے اور پاکستان کے کئی اخبارات نے اس پر تبصرے اور تجزئیے بھی لکھ ڈالے ہیں… اس وقت جب کہ انڈیا کشمیری مجاہدین کے حملوں کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہے… اس کاخلائی سیارچہ اوندھے منہ گر کر تباہ ہوچکا ہے… اس کا میزائل تجربہ ناکام ہوچکا ہے… ان حالات میں مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے یہ آواز اٹھائی گئی ہے… بھارت جب سے بنا ہے… انڈین طیارے کے اغواء جیسی ذلت اور ناکامی اس کے حصے میں نہیں آئی… یہ ناکامی اس کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ اور ذلت کا نشان ہے… یوم آزادی کی تقریب کے موقع پر ہر سال بھارت کا ہر صدر ایک ہی مضمون کی تقریر کرتا ہے کہ… بھارت مہا شکتی (بڑی طاقت) ہے… بھارت نے پاکستان کے نوے ہزار فوجی پکڑ کر باندھ دئیے… بھارت نے اڑتالیس، پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ میں پاکستان کو ناکوں چنے چبوائے… اور اب کارگل کی فتح کا تذکرہ بھی اس تقریر کا حصہ بن چکا تھا… مگر  اللہ  تعالیٰ کے لئے قربان ہونے کا جذبہ رکھنے والے پانچ مجاہدین نے اس مہاشکتی (بڑی طاقت) کی… ناک زمین پر رگڑ دی اور مسلسل فتوحات کے غرور کو خاک میں ملادیا… انڈیا کی حکومت اور ایجنسیوں نے اس ذلت آمیز شکست کا داغ دھونے کی فوری طور پر کئی کوششیں کیں مثلاً:

(۱) وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے طالبان کو بڑی امداد کی پیشکش کی… اور مطالبہ کیا کہ ان تمام مجاہدین کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیا جائے… طالبان نے نفرت وحقارت کے ساتھ اس مطالبے کو مسترد کردیا

(۲) ہائی جیکروں کے مطالبے پر رہا ہونے والے مجاہدین کو قتل کرنے کے لئے طرح طرح کے جال بچھائے گئے اور پاکستان کی… بعض پارٹیوں سے بھی مدد لی گئی… مگر  اللہ  تعالیٰ نے ان کی ہر تدبیر کو ناکام فرمادیا

(۳) اسلام آباد کے بعض کم عقل اور نفس پرست صحافیوں کو خریدا گیا اور ان کے ذریعہ… یہ بات پھیلائی گئی کہ رہا ہونے والے مجاہدین (نعوذباللہ ) بھارتی ایجنٹ ہیں… اور بھارت نے ان کو بعض تنظیمیں ختم کرنے کیلئے بھیجا ہے… یہ پروپیگنڈا بھی اپنی موت آپ مر گیا

(۴)پاکستانی حکومت پر… بڑی طاقتوں اور پاکستان میں موجود انڈین ایجنٹوں کے ذریعے اس بات کا دباؤ ڈالا گیا کہ… وہ رہا ہونے والے مجاہدین کو ختم کرے… یا انہیں قید میں ڈالے … اور ان کی مقبولیت کم کرنے کے اقدامات کرے… پاکستانی حکومت اس دباؤ کا شکار ہوئی اور اس نے مسلمانوں اور پاکستان کی اس فتح کو… اپنے ظالمانہ اقدامات کے ذریعے دھندلا کرنے کی ہر کوشش کی…

بیس کروڑڈالر دینے کا الزام بھی ان شاء  اللہ  اپنی موت آپ مرجائے گا… البتہ ڈالروں کے لالچی اس موقع پر اپنے منہ سے جو رال ٹپکائیں گے…  اللہ  تعالیٰ اس کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے … باوثوق ذرائع سے جس بات کی تصدیق ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ… ہائی جیکر مجاہدین نے شروع میں تین مطالبات رکھے تھے…

(۱)  کمانڈر سجاد خان شہیدؒ کا جسد خاکی ان کے والدین کے حوالے کیا جائے… یاد رہے کہ… کمانڈر سجاد شہیدؒ جموں کے ایک قبرستان میں… آسودہ خاک ہیں

(۲) اڑتیس مسلمان قیدیوں کو رہا کیا جائے

(۳) دو سو ملین ڈالر فدیہ ادا کیا جائے

بعد ازاں قندھار کے اہل علم حضرات نے ’’ہائی جیکر مجاہدین‘‘ کو مطالبہ نمبر (۱) اور مطالبہ نمبر (۳) واپس لینے پر راضی کرلیا… چنانچہ کئی دن تک صرف مطالبہ نمبر (۲) یعنی اڑتیس مسلمانوں کی رہائی پر مذاکرات چلتے رہے… بالآخر تین مسلمانوں کی رہائی پر… فیصلہ ہوا… اور جمعۃ المبارک ۲۲؍رمضان المبارک… بمطابق ۳۱دسمبر ۱۹۹۹ء …انڈین حکومت نے تین مجاہدین کو… اور ہائی جیکر حضرات نے انڈین طیارے کو رہا کردیا… اور امت مسلمہ طویل عرصے کے بعد ’’فتح مبین‘‘ کا یہ منظر دیکھ کر…  اللہ  تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہوگئی… و اللہ  الحمد رب العالمین…

انڈین حکومت نے اگر تاوان میں کچھ رقم دی ہوتی تو وہ… اسی وقت مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے اس کا پرچار کرتی… اور عالمی ذرائع ابلاغ سے یہ خبر چھپی نہ رہتی… دراصل انڈیا اس وقت زخمی سانپ کی طرح… بے چینی سے بل کھا رہا ہے… اور کروٹ پر کروٹ لے رہا ہے… پاکستان میں موجود ایک ملک دشمن لابی نے اسے یقین دلا دیا تھا کہ… کشمیر کا مسئلہ ختم اور مجاہدین کا قصہ پاک… مگر…  اللہ  تعالیٰ نے جہاد اور مجاہدین کی لاج رکھ لی… سرینگر سے کپواڑہ تک… اور ڈوڈہ سے لے کر پونچھ اور راجوری تک… جہاد پوری سرمستی کے ساتھ جھوم رہا ہے… اور پوری قوت کے ساتھ گونج رہا ہے… کشمیر کی زمین کے ہر چپے پر… شہداء کا خون ہے… اس لیے غیروں کی جفاء… اور اپنوں کی بے وفائی کے باوجود کشمیر اب بھی للکار رہا ہے… اور کشمیر اب بھی گرج رہا ہے… انڈیا کی ناہموار حکومت کے مظالم نے… اس کے دشمن بڑھا دئیے ہیں… بمبئی کے بم دھماکے انہیں انڈین شہریوں کا کام ہے جو… ترشول کی نوکیلی سیاست سے تنگ آچکے ہیں… انڈیا جب زخمی اور بے چین ہوتا ہے تو… پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال دیتا ہے… اور امریکہ سے مزید دباؤ ڈلواتا ہے… پاکستانی حکومت جب دباؤ میں آتی ہے تو مردوں کی طرح مقابلہ کرنے کی بجائے… پاکستان کے دیندار طبقے پر ظلم کا آپریشن شروع کردیتی ہے… تب… وہ سفاکانہ مناظر نظر آتے ہیں کہ آسمان بھی… ہمارے حکمرانوں کی ’’بدنصیبی‘‘ اور سفاکیت پر روتا ہے… پولیس بوٹوں سمیت مسجدوں میں گھستی ہے…  اللہ  والوں کی داڑھیوں کو نوچا جاتا ہے… سادہ کپڑوں والے… بے وضواہلکار… مساجد کی پہلی صفوں میں تجسس کی بو پھیلاتے ہیں… گاڑیوں کے خوفناک ہارن اور بوٹوں کی دھمک سے معصوم بچوں کے دل دہل جاتے ہیں… بوڑھے ہاتھوں میں نوکیلی ہتھکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں… کئی گھر ویران ہوجاتے ہیں… کئی بچے والدین کے جیتے جی یتیمی کا مزہ چکھتے ہیں… دینی کتابوں کی بے حرمتی ہوتی ہے… مونچھوں والے ہونٹوں سے بدبودار گالیاں نکلتی ہیں… ایک شور، ایک ہنگامہ… اور ایک طوفان بدتمیزی… دو ہفتے میں تین ہزار ’’داڑھی والے مسلمان‘‘ جیلوں کے ’’قصوری وارڈز‘‘ میں ڈال دئیے جاتے ہیں… اخبارات میں داڑھی والے مجرموں کے فوٹو چھپتے ہیں … ایک آدھ نامور مجاہد رہنما گرفتار کرکے… خفیہ اداروں کے سیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے… ریڈیو، ٹی وی پر فخر سے یہ خبر سنائی جاتی ہے… تب … گورے ملکوں کے سفیر ٹیلیفون پر مبارکباد دیتے ہیں… دو چار کروڑ ڈالر قرضے کی کوئی قسط کھول دی جاتی ہے… کسی ملک کا کوئی بڑا اہلکار… ’’ویل، ڈومور‘‘… (شاباش ابھی مزید کرو) کی داد دیتا ہے… حکومت پر سے دباؤ کم ہو جا تا ہے… حکمران خوشی کا جشن مناتے ہیں … مگر… ایک معصوم بچہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے… امی! ابو کہاں ہیں؟… امی آپ مجھے کئی دن سے دودھ کیوں نہیں پلا رہیں؟… امی! یہ سوکھی روٹی تو مجھ سے چبائی بھی نہیں جارہی… امی ابوجان کب آئیں گے؟… اس بچے کی ماں آنسو روکتی ہے… ہچکی کو سینے میں دباتی ہے… ایک نقلی مسکراہٹ چہرے پر لا کر کہتی ہے… بیٹا ابو تو  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں گئے ہیں… تمہارے لیے ڈھیروں کھلونے لینے… وہ جلدی آجائیں گے… اتنا کہتے ہی اس کے آنسوؤں کا بند ٹوٹ جاتا ہے… وہ بچے سے آنسو چھپانے کے لئے جلدی سے باہر نکل جاتی ہے… تب اس کی ہچکی سے آسمان ہل جاتا ہے… آنسو ٹپ ٹپ برستے ہیں… اور دل سے آواز نکلتی ہے… یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ… یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ… یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ… حکومت والو! ان مسلمان بیٹیوں کی تربیت ہی ایسی ہے… وہ ’’یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ پکارتی ہیں… مگر یاد رکھو… جس دن انہوں نے… یَا قَہَّارُ، یَا قَہَّارُ، یَا قَہَّارُ… پکار لیا… رب کعبہ کی قسم… تمہاری راتیں بھی تاریک ہوجائیں گی… اور تمہارے بچے بھی… تمہاری زندگی میں یتیمی کا مزہ چکھ لیں گے… اور اصل بات یہ کہ ’’یوم حساب‘‘ بھی تو دور نہیں ہے…

لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ… لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ

٭٭٭


خالص بندہ

 

 اللہ  تعالیٰ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے… ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ’’حُرمت‘‘ والے ہیں… ان چار ’’حُرمت‘‘ والے مہینوں میں سے ایک یعنی ’’رجب‘‘ کا مہینہ شروع ہو چکا ہے… آئیے سب سے پہلے ’’رجب‘‘ کی مسنون دعا پڑھ لیں

اَلّٰلھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ…

یہ دعاء الحمد اللہ  ہر سال یاد کرائی جاتی ہے… دراصل یہ برکت اور رحمت کا ذریعہ ہے… حالات تو بدلتے رہتے ہیں مگر بندے کو ہر وقت  اللہ  تعالیٰ ہی سے مانگتے رہنا چاہئے… یا  اللہ  ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطاء فرما… اور ہمیں رمضان المبارک نصیب فرما… رؤیت ھلال یعنی چاند دیکھنے کے مسئلے پر جب طوفانی جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں تو … بعض مسلمان سوچتے ہیں… کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے مہینے بھی جنوری، فروری کی طرح سورج کے حساب سے ہوتے… تب کوئی جھگڑا نہ ہوتا اور نہ ہی ایک ملک کے مسلمان الگ الگ عیدیں مناتے… اور یوں اُمتِ مسلمہ ’’چاند ماری‘‘ سے بچ جاتی… یہ خیال ظاہری طور پر اگرچہ کافی دلکش ہے مگر درست نہیں… اس خیال کے درست نہ ہونے پر بہت سے دلائل دئیے جا سکتے ہیں یہاں صرف ایک دو آسان سی باتیں یاد رکھ لیں:

(۱)  محرّم، صفر وغیرہ قمری مہینوں کی ترتیب …  اللہ  تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل اور آخری نبی حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے لئے مقرر فرمائی ہے… ظاھر بات ہے آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کو جو نظام دیا گیا ہے وہی… انسانیت کیلئے زیادہ نفع مند اور افضل ہے۔

(۲)  مسلمان ہر سال ایک مہینہ روزے رکھتے ہیں… اور ہر سال ان کی ایک بڑی تعداد حج کرتی ہے… اگر اسلامی مہینے بھی جنوری، فروری کی طرح مقرر اور جامد ہوتے تو انسان مشقت میں پڑ جاتے… اور عبادت کا مزہ ختم ہو جاتا… ابھی رمضان کبھی گرمی میں آتا ہے، کبھی سردی میں … کبھی بہار میں آتا ہے اور کبھی خزاں میں … اس طرح دنیا کے ہر خطے کے انسان اپنا بہترین گزارہ کرلیتے ہیں… اور ہر موسم کے روزے کا مزہ چکھ لیتے ہیں… لیکن اگر رمضان المبارک ہر سال ایک ہی موسم میں آتا تو کچھ لوگ ہمیشہ کی مشقت میں… اور کچھ لوگ ہمیشہ کی تن آسانی میں مبتلا ہو جاتے…

(۳)  چاند کا معاملہ ہر گز پیچیدہ نہیں ہے… مگر چونکہ مسلمان حکمران دینی معاملات کو اہمیت نہیں دیتے اس لئے جھگڑے پیدا ہو رہے ہیں… عرب ممالک میں ھجری تاریخ… سرکاری طور پر جاری ہے… وہاں حکومت خود اس تاریخ کی حفاظت کاانتظام کرتی ہے… اس لئے وہاں کوئی جھگڑا نہیں ہوتا اور نہ دو عیدیں منائی جاتی ہیں… خیر کوئی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے… ہم مسلمان  اللہ  تعالیٰ کے بندے اور اس کے غلام ہیں… ہمارے ربّ نے ہمارے لئے جو مہینے مقرر فرمائے ہیں وہ چاند کے حساب سے ہیں… اور ان کے نام محرّم ، صفر وغیرہ ہیں… نہ کہ جنوری، فروری … اور ہمارے کیلنڈر کی ترتیب حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ہجرت مبارکہ سے شروع ہوتی ہے… اور آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ہجرت کا چودہ سو ستائیسواں سال چل رہا ہے… چنانچہ اس وقت جبکہ … مسلمانوں کے ملک افغانستان پر غیر ملکی فوجوں کا حملہ جاری ہے… اور تاریخ میں پہلی بار افغانستان کے چار صوبوں کا کنٹرول نیٹو کی افواج نے سنبھال لیا ہے… اس وقت جبکہ مسلمانوں کے ملک فلسطین پر … یہودی گیدڑ بمباری کر رہے ہیں… اس وقت جبکہ مسلمانوں کے ملک لبنان کو … یہودیوں کے ناجائز ملک اسرائیل نے اُدھیڑا ہوا ہے… اس وقت جبکہ مسلمانوں کے ملک عراق پر… امریکہ اور اس کے حواریوں کا قبضہ ہے… اس وقت جبکہ مسلمانوں کے حسین خطے کشمیر پر برھمنی سامراج ظلم کا رَقص کر رہا ہے… اس وقت جبکہ اُمتِ مسلمہ زخمی حالت میں … آسمان کی طرف دیکھ کر  اللہ   اللہ  پکار رہی ہے… دن کے بارہ بجنے والے ہیں رجب کی پانچ تاریخ ہے… اور سن ۱۴۲۷ھ کا سال رواں دواں ہے…  اللہ  پاک کا شکر ہے کہ اتنا عرصہ بیتنے کے باوجود ہم مسلمان زندہ ہیں… اور  اللہ  تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں… ہم نے ابوجہل کا فتنہ جھیل لیا… ہم بچ گئے اور ابوجہل بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا… صحیح بخاری کی روایت ہے کہ … آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اُسے پکار کر فرمایا… اے ابوجہل! ہمارے ربّ نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا ہے…

آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کا اعلان چودہ سو ستائیس برس کے بعد بھی گونج رہا ہے… اور ہر زمانے کے ہر ابوجہل کی گردن جھکارہا ہے… وہ کون سا فتنہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں اُٹھایا گیا؟… وہ کونسی سازش ہے جو شیطان کے پجاریوں نے مسلمانوں کے خلاف نہیں رچی؟… عبد اللہ  بن سبا کا فتنہ کتنا خطرناک تھا… تاتاریوں کا طوفان کتنا ہیبت ناک تھا… صلیبی جنگوں کا لشکر کتنا خونخوار تھا… مگر وہ سب ختم ہو گئے اور الحمد اللہ  ہم باقی ہیں… ہمارا وہی قبلہ وکعبہ ہے… ہمارا وہی کلمہ ہے… اور ہمارا وہی قرآن ہے… الحمد  اللہ  کچھ بھی تو نہیں بدلا… کعبۃ  اللہ  کے خلاف کتنی سازشیں ہوئیں… مگر وہ پوری شان سے کالی کملی اوڑھے سینہ تان کر کھڑا ہوا ہے… دنیا میں کسی اور کے پاس ایسا محفوظ اثاثہ … اور ایسا باوقار مرکز ہے؟ … بالکل نہیں، ہر گز نہیں… مسجد نبوی شریف اور پیارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کے خلاف کتنی بھیانک سازشیں رچی گئیں…  اللہ  اکبر کبیرا… ایسی خوفناک سازشیں کہ ان کا تذکرہ سن کر دل رونے لگتا ہے… مگر میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کا روضۂ مبارک پورے وقار کے ساتھ محفوظ ہے… زمانے کے بادشاہ وہاں کی مٹی کیلئے ترستے ہیں… اور زخمی دل مسلمان وہاں جا کر اس طرح سکون محسوس کرتے ہیں… جسطرح سالہا سال کا بچھڑا بچہ اپنی پیاری ماں کی گود میں … کیا دنیا میں کسی کے پاس عزت و سکون کا ایسا شاندار مرکز ہے؟…

روزانہ کروڑوں اربوں درود و سلام کے پھول اور موتی وہاں نچھاور ہوتے ہیں… آسمان سے لے کر زمین تک فرشتوں کا ہجوم … دنیا بھر کے درود و سلام جمع کر کے لاتا ہے… اور آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کے حضور پہنچاتا ہے… کافروں کے سازشی دماغ … ہزار مرزے قادیانی گھڑ لائیں… روضہ اقدس کا حسن و جمال… مسلمانوں کی نظروں میں کسی ’’دجّال‘‘ کو جچنے ہی نہیں دیتا… ہاں، الحمد اللہ  ہم زندہ ہیں… اور ہماری زندگی کا اعتراف ان کو بھی کرنا پڑتا ہے جو ہمیں مارنا چاہتے ہیں… افغانستان کا آپریشن زیادہ سے زیادہ ایک سال کا تھا… مگر آج پانچواں سال بیت گیا… افغانستان کے ہر پتھر سے طالبان نکل کر … اعلان کر رہے ہیں… ہم نے اپنے ربّ کے وعدے کو سچا پایا ہے…  اللہ  تعالیٰ درجات بلند فرمائے… حضرت مولانا یونس خالص صاحب ؒ کے … آج میں اُنہی کی یاد میں مضمون لکھنے بیٹھا تھا… مگر بات کا رُخ بدل گیا… اسرائیل کے تازہ حملوں نے مسلمانوں میں کسی قدر مایوسی کا ماحول پیدا کردیا ہے… حالانکہ یہ جوش اور ہمت کا موقع ہے… اور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مسلمان… الحمد اللہ  زندہ ہیں… اسرائیل کا آپریشن اپنی موت آپ مر رہا ہے… اور عرب کے غفلت زدہ ماحول میں… الحمد اللہ  ایمانی حرارت کا نور اُبل پڑا ہے… آخر کفر وظلم کا یہ جال اسی طرح تو ٹوٹے گا… زرقاوی ؒ کی شہادت کے بعد امریکیوں پر عراق میں جو تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے… ان کی خبروں کو چھپانا ظالموں کی اہم ترین ضرورت تھی… اب ریڈیو اور اخبار میں عراق کے تذکرے آخری کونے میں گم ہو چکے ہیں… امریکہ عراق کی جنگ سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ حاصل نہیں کر سکا… تب … ایک نیا دائو آزمایا جا رہا ہے… اور اس دائو کا وبال بھی انشاء  اللہ  … اسرائیل اور امریکہ پر ہی پڑے گا… مولوی یونس خالص ؒ… ان مسلمان فاتحین میں سے تھے جنہوں نے سوویت یونین کو عبرت ناک شکست دی… ایک زمانے میں افغانستان کی سات جماعتوں … اور ان کے سات لیڈروں کا چرچہ تھا… مولوی محمد نبی محمدیؒؒ ، مولوی محمد یونس خالصؒ، گلبدین حکمتیار ، عبدالربّ رسول سیاف، استاد ربّانی ، صبغت  اللہ  مجددی، پیرگیلانی…

مولوی محمد یونس خالصؒ ان سب میں ایک منفرد شان کے جہادی رہنما تھے… میں نے چند دن اُن کے ساتھ گذارے … اور انہیں قریب سے سمجھنے کی سعادت حاصل کی… مجھے لاہور کا وہ جلسہ اچھی طرح سے یاد ہے جس میں مولوی یونس ؒ کی تقریر پر پاکستان کے علماء کرام جھوم اُٹھے تھے… اور ایک عالم دین نے بے ساختہ کہاتھا… خالصؒ واقعی خالص ہے… سوویت یونین کے خلاف جہاد کے زمانے میں… طورخم سے لے کر پُل چرخی تک… اور اُدھر خوست سے لے کر میدان تک مولوی خالصؒ کی رزم گاہ آباد تھی… وہ  اللہ  تعالیٰ کو یاد کرنے والے، اس کے احکامات کی بجا آوری کرنے والے… اور جہادی اموال میں حد درجہ امانت اور احتیاط قائم کرنے والے رہنما تھے… انہوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع کیا اور پھر فتح کا دلکش منظر بھی… اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا… اب جبکہ… افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کیا تو کئی جہادی رہنما… اپنے عقیدے اور عمل کو نہ بچا سکے… استاد ربانی تو پہلے ہی… لسانیت پرستی کی ٹھوکر کھا کر اونچی منزل سے … تاریک کھائیوں میں گر چکے تھے… جبکہ سیاف، مجددی اور گیلانی نے بھی… وقت کے دجّال کے سامنے گردن جھکا دی… مولوی محمد نبی محمدّی الحمد اللہ  اپنے ایمان اور عمل کی سلامتی کے ساتھ… اس دنیا سے رُخصت ہوگئے… گلبدین حکمتیار نے بھی امریکہ کے سامنے سر نہیں جھکایا… مگر سخت آزمائش مولوی محمد یونس خالصؒ کے لئے تھی… ان کے اہم ترین کمانڈر اور رفقاء … امریکی چمک میں کھو گئے تھے… کمانڈر عبدالحق نے خود کو …’’پہلے کرزئی‘‘ کے طور پر پیش کر دیا… اور فوراً ہی مارے گئے… حاجی عبدالقدیر خان بھی ننگرہار کی گورنری پر اپنا ماضی چھنوا بیٹھے… اور پھر کابل میں مارے گئے… مولوی دین محمد بھی استقامت نہ دِکھا سکے… مولوی یونس خالصؒ خود ننگر ہار کے تھے… اور وہاں ان کے تمام رفقاء نے پھیکے پن کا مظاہرہ کیا… طبعی غیرت کی وجہ سے مولوی یونس خالصؒ نے پاکستان کا رُخ بھی نہ کیا… اب دنیا انتظار میں تھی کہ… عزت، غیرت اور بہادری میں گوندھا ہوا یہ بوڑھا عالم، مجاہد، صحافی… اور شاعر کیا قدم اُٹھاتا ہے… کابل کی اونچی کرسیاں مولوی خالصؒ کو… ’’ھیت لک‘‘ کہہ رہی تھیں… ان کے معمولی کمانڈر وفاقی وزارتوں پر براجمان تھے… اور ان کے ساتھی مجددی وغیرہ… اپنے بڑھاپے کی راحت پر اپنے اچھے انجام کو قربان کر چکے تھے… اب مولوی خالصؒ کیا کرتے؟… امریکہ میں صدر رونالڈریگن کو اسلام کی دعوت دینے والا مولوی خالصؒ… جو … پچاس سال سے ایک گردے پر جی رہا تھا… بڑھاپے کے عالم میں اس سخت آزمائش سے دوچارہوا… مجھے انتظار تھا کہ مولوی خالصؒ کیا قدم اُٹھاتے ہیں… کابل کی حسین اور خوبصورت ’’جہنم‘‘ کی طرف جاتے ہیں… یا … جہاد کی سنگلاخ چٹانوں میں ’’جنت‘‘ کا راستہ ڈھونڈتے ہیں… تب …  اللہ  تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور اس بوڑھے فاتح کے ایمان اور عمل کو بچا لیا… مولوی خالصؒ نے …ا مریکہ کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا… اور سوویت یونین کے بعد… دنیا کی دوسری بڑی طاقت امریکہ کے خلاف بھی جہاد کا اعلان کر دیا… اور بڑھاپے کے مشکل ایام میں … روپوشی کی سخت زندگی کو اختیار کر لیا… مبارک باد، صد ہزار مبارک باد… سلام، ہزاروں سلام… اس استقامت پر، اس جرأت پر… اور اس کارنامے پرکہ… کم عقل کمیونسٹوں کو شکست دینے والا فاتح… نفس پرست امریکیوں کے خلاف بھی جہاد میں شامل ہو گیا… اور اپنی جھولی سعادتوں سے بھر گیا… میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں… مولوی محمد یونس خالص رحمۃ  اللہ  علیہ کے خراجِ عقیدت کا حق ادا کر سکوں…  اللہ  اکبر کبیرا…  اللہ  تعالیٰ کی شان دیکھئے… مولوی خالصؒ کے قریبی رفقاء… ان کا ساتھ چھوڑ گئے… مگر… ان کے ایمان اور نظریے نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا… اور بالآخر انہیں صحیح سلامت  اللہ  تعالیٰ کے حضور لے گیا…  اللہ  تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے… ان کے درجات بلند فرمائے… انہیں اپنے شہداء ساتھیوں کے ساتھ ملائے… اُمتِ مسلمہ کو اُن کا نعم البدل عطاء فرمائے… اور  اللہ  تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے… اخبارات نے لکھا ہے کہ … مولوی یونسؒ خالص کو ان کی وصیت کے مطابق … کسی گمنام جگہ پر سپرد خاک کر دیا گیا ہے… اتنا بڑا اور اتنا معروف لیڈر … اور پھر گمنام قبر… واقعی سچ ہے کہ … خالصؒ ، خالص تھا…

٭٭٭

 

آؤ ! آزادی کا دن منائیں

 

 اللہ  تعالیٰ نے بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد ملک عطا فرمایا… اس ملک کا نام ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا… یعنی پاک ملک، پاک سرزمین… آج سے ٹھیک آٹھ دن بعد ۱۴؍اگست کے دن یہ ملک انسٹھ سال کا ہوجائے گا… جب چودہ ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷ء کو یہ ملک بنا تھا تو رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنا نور بکھیر رہا تھا… ہر طرف ایک جوش تھا اور خوشی کی عجیب لہر… مسلمانوں کے قافلے پاکستان کی طرف یوں بڑھ رہے تھے جس طرح شمع کی طرف پروانے بڑھتے ہیں… لوگ ذبح ہو تے رہے، کٹتے رہے اور لٹتے رہے مگر پاکستان سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ… جب ان میں سے کسی کی گردن کاٹی جاتی تھی تو کٹا ہوا سر اپنا رخ پاکستان کی طرف کرلیتا تھا… وہ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ پاکستان اسلام کی سرزمین ہے… پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے…

ہاں اس زمانے میں آزادی کا مطلب ’’اسلام کی آزادی‘‘ تھی… اور پاکستان کا مطلب ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ سمجھا جاتا تھا… ہر طرف بس ایک ہی نعرہ گونجتا تھا… پاکستان کا مطلب کیا… لا الہ الا  اللہ … برصغیر پر انگریز کی حکومت تھی تو ’’خالص اسلام‘‘ کے علاوہ کسی چیز پر پابندی نہیں تھی… آج کے بڑے جاگیردار جن زمینوں کا خون چوس رہے ہیں… یہ زمینیں ان کے باپ دادا کو انگریز نے اپنی خدمت کے عوض بخشی تھیں… آج جو پولیس ہمارے گلی کوچوں پر راج کر رہی ہے… یہ پولیس اور اس کا پورا نظام انگریزوں نے قائم کیا تھا… اس زمانے میں بھی مسلمان ایس پی، ڈی ایس پی اور انسپکٹر ہوتے تھے… اور انگریز کی طرف سے ملنے والے ’’اوپر کے حکم‘‘ پر سب کچھ کر گزرتے تھے… وہ فوج جو انسٹھ سال سے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے یہ بھی انگریز نے قائم کی تھی… ہمارے سابق صدر ایوب خان برٹش آرمی کے کرنل تھے… برصغیر تقسیم ہوا تو ہماری قسمت کی آرمی ہمیں دے دی گئی… اور اس کا نام پاکستان آرمی ہوگیا… اور پاکستان آرمی کے پہلے چیف آف اسٹاف ایک انگریز افسر ’’جنرل گریسی‘‘ مقرر ہوئے… انگریز کے زمانے میں شراب پینے کی آزادی تھی… کلب جانے اور ناچنے کی آزادی تھی… لڑکیاں آزادی سے نیکر پہن سکتی تھیں… اور موسیقی پر کوئی پابندی نہیں تھی… پھر لاکھوں مسلمان اپنے لیے الگ وطن کیوں مانگ رہے تھے؟… اور سینکڑوں قافلے پاکستان کی طرف لپک لپک کر کیوں کٹ رہے تھے؟… وہ کونسی آزادی تھی جسے وہ حاصل کرنا چاہتے تھے؟… اس وقت چودہ اگست آیا تھا تو ہر طرف ایمان وعزیمت اور شہداء کے خون کی خوشبو پھیل گئی تھی… اور آج چودہ اگست آرہا ہے تو ہر طرف کفر و بے حیائی… اور شراب وبدکاری کی بدبو دماغ کو ہلا رہی ہے… فائیو اسٹار ہوٹل بک ہوچکے ہیں … غیر ملکی شراب کے کنٹینر مہنگے داموں بک چکے ہیں… اور پولیس کو بتادیا گیا ہے کہ ہاتھ ہلکا رکھے کیونکہ… زنا وشراب سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے… ناچ گانے اور رقص وموسیقی سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے… پاکستان کو تو صرف مسجد کی اذان، تقریر اور لاؤڈ اسپیکر سے خطرہ ہے… اور پاکستان کو تو صرف اسلام اور خالص مسلمانوں سے خطرہ ہے… ہماری حکومت ہر سال شراب وکباب میں ڈوب کر جشن آزادی مناتی ہے… اور ہمارا ملک آہستہ آہستہ پگھلتا جارہا ہے… ۱۹۷۱ء میں آدھا ملک الگ ہوگیا… نہ کسی کو ذرہ برابر شرم آئی… اور نہ کوئی پچھتایا… اور اب بھی ’’لسانیت پرستی‘‘ کا کالا سانپ عیاش حکمران خود اپنی گود میں پال رہے ہیں…

زمین بدلی، زمانہ بدلا، مگر نہ بدلے تو وہ نہ بدلے

جو تنگ وتاریک ذہنیت تھی، وہی ہے برروئے کار اب بھی

اگر انگریزوں سے آزادی اس لیے لی گئی تھی کہ… ہم آزادی سے ’’بے حیائی‘‘ کر سکیں تو ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے یہ ’’بڑا کام‘‘ زیادہ سہولت سے ہوسکتا تھا… یقینا ’’بمبئی‘‘ بے حیائی میں لاہور سے آگے ہے…

جگر مراد آبادی مرحوم نے آزادی کے کچھ عرصہ بعد ایک نظم کہی تھی… اس نظم کا ہر شعر آج بھی پوری طرح سے زندہ محسوس ہوتا ہے… ملاحظہ فرمائیے اس نظم کے چند اشعار…

اگرچہ آزادیٔ وطن کو گزرچکا ایک سال کامل

مگر خود اہل وطن کے ہاتھوں فضا ہے ناساز گار اب بھی

خود اپنی بدنیتی کے ہاتھوں برے نتائج بھگت رہے ہیں

صداقتوں سے، حقیقتوں سے وہی ہے لیکن فرار ا ب بھی

زمین بدلی، زمانہ بدلا، مگر نہ بدلے تو وہ نہ بدلے

جو تنگ وتاریک ذہنیت تھی وہی ہے بر روئے کار اب بھی

کوئی یہ چپکے سے ان سے پوچھے، کہاں گئے آپ کے وہ وعدے؟

نچوڑتا ہے لہو غریبوں کا دستِ سرمایہ دار اب بھی

سفارشیں ظالموں کے حق میں پیام رحمت بنی ہوئی ہیں

نہیں ہے شائستہ سماعت دکھے دلوں کی پکار اب بھی

اسی کا ہے نام اگر ترقی، تو اس ترقی سے باز آئے

کہ خون مخلوق سے خدا کی زمین ہے لالہ زار اب بھی

ہمیں ملا کر بھی خاک وخوں میں نہیں ہیں وہ مطمئن ابھی تک

ہماری خاک لحد کے ذرے ہیں ان کے دامن پہ بار اب بھی

جو محو جشن نظام نو ہیں، پکار کر ان سے کہہ رہا ہوں

یہ جان ہے سو گوار اب تک، یہ دل ہے ماتم گسار اب بھی

منافقت کی ہزار باتیں وہ سنتے رہتے ہیں اور خوش ہیں

 مگر صداقت کی صاف وسادہ سی بات ہے ناگوار اب بھی

نہ وہ مروّت، نہ وہ صداقت، نہ وہ محبت، نہ وہ شرافت

رہین خوف وخطر ہیں یعنی، سکون امن وقرار اب بھی

زبان ودل میں نہ ربط صادق، نہ باہمی وہ خلوص کامل

جو تھے غلامانہ زندگی میں، وہی ہیں لیل ونہار اب بھی

یہ جشن آزادی وطن ہے، مگر اسی جشن وسرخوشی میں

بہت ہیں سینہ فگار اب بھی، بہت ہیں بے روز گار اب بھی

یہی جو سادہ سے قہقہے ہیں یہی جو پھیکے سے ہیں تبسم

انہیں کی تہہ میں بہت سے اشکوں کے ہیں رواں آبشار اب بھی

گرانیاں اس طرف وہ ارزاں، ادھر یہ افلاس وتنگ دستی

مگر حکومت کا ہے یہ عالم، ذرا نہیں شرمسار اب بھی

یہ نظم کافی طویل ہے … ہم نے چند اشعار جو موجودہ حالات کے عین مطابق ہیں پیش کردئیے ہیں… اگر اس موضوع کو مزید طول دیا جائے تو ایک عبرتناک کتاب بن سکتی ہے… یہ  اللہ  تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس قدر سازشوں، شرارتوں… اور حماقتوں کے باوجود پاکستان ابھی تک محفوظ ہے… مگر صرف تنقید کرنے اور عیب گننے سے بات نہیں بنے گی… صرف ماتم کرنے اور شکوؤں کی فہرست بنانے سے بھی کام نہیں چلے گا… گورنر جنرل غلام محمد سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی ذاتی زندگیوں کی جھاگ اڑانے سے بھی ہماری ذمہ داری پوری نہیں ہوگی… بلکہ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ خود ہم میں سے ہر ایک نے اب تک کیا کیا ہے؟ اور آئندہ ہم نے کیا کرنا ہے؟… یہ بات درست ہے کہ ہم پر انگریز کے غلاموں کی حکومت چلی آرہی ہے… یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی کسی حکومت نے بھی اسلام کے ساتھ وفاداری نہیں کی… یہ بات درست ہے کہ پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے محافظ اور نمائندہ ملک نہیں بن سکا… یہ بات درست ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے خلاف کافروں کے کام آرہا ہے… یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے حکمران اپنی ذات اور اپنے اقتدار کے پجاری ہیں… یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں بے حیائی کو سرکاری طور پر پھیلایا جارہا ہے… یہ بات درست ہے کہ پاکستان امریکا کی صلیبی جنگ میں اس کا دست راست بنا ہوا ہے… یہ بات درست ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام ذلت اور ابتری کا شکار ہے… یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ رکھی ہے… یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے بچے اور شہری چند نوٹوں کے عوض دنیا بھر میں فروخت ہو رہے ہیں… یہ سب کچھ درست … اور بھی بہت کچھ درست… مگر سوال یہ ہے کہ میں بھی تو ایک پاکستانی ہوں… میں نے اب تک کیا کیا ہے؟… اور مجھے آئندہ کیا کرنا ہے؟… آئیے اس سال چودہ اگست کے دن ’’خود احتسابی‘‘ کا جشن مناتے ہیں… ہاں! ہم اپنا احتساب کرتے ہیں صرف اپنا… وہ بھی گھر یا بازار میں نہیں کسی پاک مسجد میں جاکر… پاک کپڑے پہن کر، باوضو ہو کر… دو رکعت میں محبت والے چار سجدے کرکے… ہم خود سے پوچھیں کہ ہم نے اب تک آزادی کا کیا فائدہ اٹھایا ہے؟… اور ہم آئندہ کیا کرنے کا عزم رکھتے ہیں… مہنگائی پھیلانے والی مخلوق آسمان سے تو نہیں اتری… ہم میں سے جو تاجر ہیں، دکاندار ہیں… وہ اسلامی احکامات کے مطابق تجارت شروع کردیں… رب کعبہ کی قسم ہمارے بازار کی شکل ہی بدل جائے گی… آج کا بازار تو یوں لگتا ہے جیسے سانپوں کا جنگل ہو… لوگوں کو لوٹنے والے، دھوکا دینے والے، ملاوٹ کرنے والے… اور ظلم کرنے والے سانپ ہر دکان میں پھن پھیلائے بیٹھے ہیں… رکشہ اور ٹیکسی چلانے والے… انسانوں کو لوٹنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے… اور حکمت، ڈاکٹری اور علاج کے نام پر جو ظلم وگناہ عام ہو رہا ہے اسکی داستان تو بہت دردناک ہے… بے حیائی پھیلانے والی مخلوق زمین سے نہیں نکلی… ہم میں سے ہر ایک ’’بے حیائی‘‘ کے ہر کام سے توبہ کرلے… ناجائز دوستیاں، یاریاں، عشق بازیاں… بدنظری، موسیقی، گانا، ناچ… ٹی وی، وی سی آر، انٹرنیٹ، سب کچھ چھوڑ دے… اور گڑگڑا کر  اللہ  تعالیٰ سے دعاء مانگے… اے میرے رب مجھ سے بے حیائی کو دور فرما دے اور مجھے اپنے مخلص بندوں میں شامل فرمالے… اسی طرح ہم ہر معاملے میں اپنے عمل کو درست کرتے جائیں… اور ماضی میں جو غلطیاں ہم سے ہوئی ہیں… ان سے سچی توبہ کرتے چلے جائیں… یاد رکھیں صرف حکمرانوں کی غلطیاں گننے سے کام نہیں بنے گا… ہم میں سے ہر شخص اپنی طاقت کو درست استعمال کرے ہم میں سے ہر شخص اپنی شہوت کو درست استعمال کرے… ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کو درست استعمال کرے… ہم میں سے ہر ایک اپنی عزت کو درست استعمال کرے… اور ہم آزادی کا فائدہ اٹھا کر خود کو پکا اور سچا مسلمان بنالیں… یہ تو ہوا ہمارا ذاتی معاملہ… اب آئیے اپنی خارجہ پالیسی کی طرف … ہماری حکومت کی خارجہ پالیسی اگر کفر اور ظلم کے حق میں ہے تو ہم… اپنی خارجہ پالیسی اسلام اور انصاف کے حق میں کردیں… یہ ملک اسلام کے لئے بنا ہے اور یہ مسلمانوں کا ملک ہے… ہم آزادی سے اپنی خارجہ پالیسی بنا سکتے ہیں… اگر اس پالیسی کی وجہ سے ہمیں کوئی جیل میں ڈالے تو ہم آزادی سے ’’سنت یوسفی‘‘ پوری کرسکتے ہیں… اس پالیسی پر کوئی ہمیں قتل کرے تو ہم آزادی سے مقام شہادت پاسکتے ہیں… اور اگر کوئی ہمیں پھانسی پر لٹکا دے تو ہم… آزادی سے موت کے میٹھے ہونٹ چوس سکتے ہیں… ہم میں سے ہر ایک اپنی خارجہ پالیسی یہ بنالے کہ ہم… دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ہیں… اور ہم ہر مظلوم مسلمان کی مدد اپنا فرض سمجھتے ہیں… اور ہم مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کو اپنا ذاتی دشمن مانتے ہیں… ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا اصول ’’ اللہ اکبر‘‘ ہے کہ…  اللہ  تعالیٰ سب سے بڑا، سب سے طاقتور اور سب سے عظیم ہے… ہم اسی سے ڈرتے ہیں، اسی کی عبادت کرتے ہیں… اور اس کی وحدانیت، اطاعت اور عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہیں مانتے… ہم  اللہ  تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت کو مچھر کے پر اور مکڑی کے جالے جتنا بھی نہیں سمجھتے… اس لیے ہم کسی مچھر کے پر سے ڈر کر… یاکسی مکڑی کے جالے کے خوف سے اپنی کوئی پالیسی نہیں بناتے… ہمیں  اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں مارسکتا… ہمیں  اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی عزت یا ذلت نہیں دے سکتا… اور  اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی ہماری روزی میں تنگی یا کشادگی نہیں کرسکتا…  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں مسلمانوں کی مدد کا حکم دیا ہے وہ ہم کرتے رہیں گے… اس سے کوئی گورا ناراض ہو یا کالا…  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں ظالموں کی قوت توڑنے کا حکم دیا ہے… وہ ہم توڑتے رہیں گے ہمارے ہاتھ میں پتھر ہو یا بم… ہم فلسطینی مجاہدین کے ساتھ ہیں… ہم افغان مجاہدین کے ساتھ ہیں… ہم کشمیری مجاہدین کے ساتھ ہیں… ہم لبنانی مجاہدین کے ساتھ ہیں… ہم فلپائنی مجاہدین کے ساتھ ہیں… ہم برمی مجاہدین کے ساتھ ہیں… ہم دنیا بھر کے ہر اس سچے مجاہد کے ساتھ ہیں جو شریعت کے مطابق جہاد کر رہا ہے… ہمارا مال  اللہ  تعالیٰ کا ہے… اور اس کے لئے حاضر ہے… ہماری جان  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہے… اور اس کی خاطر حاضر ہے… ہماری اولاد… اور ہمارا خاندان سب کچھ  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے… اسلام کی سربلندی کی خاطر حاضر ہے…  اللہ  پاک نے ہمیں ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا کیا ہے… ہم دنیا کی کسی طاقت کے غلام نہیں ہیں… ہم امن چاہتے ہیں مگر ایمان کے ساتھ… ہم سلامتی چاہتے ہیں مگر اسلام کے ساتھ… ہم اخلاق کے علمبردار ہیں مگر عزت کی تلوار کے ساتھ… ہم انسانی خون کا احترام کرتے ہیں مگر مساوات اور وقار کے ساتھ… ہم نے کلمہ ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ پڑھنے کے بعد…  اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرلی ہے… اب دنیا کا کوئی فرعون اور دجال ہمیں اپنا غلام نہیں بنا سکتا… ہم نے اپنی جان ومال  اللہ  تعالیٰ کو بیچ دی ہے… اب ہم دنیا کے کسی فرعون وقارون کے ہاتھوں نہیں بک سکتے… ہم حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سپاہی ہیں… ہم دنیا کی کسی کفریہ طاقت کے سپاہی بن کر اس کی خواہشات کا مکروہ چارہ نہیں بن سکتے… ہم نے انسٹھ سال پہلے انگریز سے آزادی حاصل کی… اب دوبارہ اسکی چوکھٹ پر سر نہیں رکھ سکتے… ہم آزاد ہیں… ہم آزاد ہیں… ہم آزاد ہیں… زمین ہماری ہے… اوپر کے حصے پر ہمیں نہ رہنے دیا گیا تو ایک طوفان اٹھا کر ہم زمین کے اندر کے حصے میں اپنا محل بنالیں گے… میرے پیارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے…

 اللہ  کے صالح بندے جب قبر میں دفن کیے جاتے ہیں تو…  اللہ  تعالیٰ حکم فرماتا ہے… میرے اس بندے کے لئے جنت کے دروازے کھول دو… تب قبر خوب کشادہ ہوجاتی ہے… جہاں تک نظر جاتی ہے وہاں تک وہ کشادہ ہوجاتی ہے… اور اس میں جنت کی ہوائیں اور لذتیں بھر جاتی ہیں… سبحان  اللہ … اتنی بڑی جاگیر، اتنی خوبصورت اور وسیع کوٹھی… اور قرآن پاک جیسا حسین ومعطر ساتھی… ارے کیا بتاؤں… مزے ہی مزے ہوتے ہیں… مزے ہی مزے ہوتے ہیں… آئیے اس چودہ اگست کو کسی مسجد کی چٹائی پر… سجدوں اور آنسوؤں کے ساتھ ’’جشن آزادی‘‘ منائیں… شیطان سے آزادی کا جشن… نفس امّارہ سے آزادی کا جشن… انگریزوں سے آزادی کا جشن… کافروں اور منافقوں سے آزادی کا جشن… حرص اور لالچ سے آزادی کا جشن… زنا اور گناہ سے آزادی کا جشن… غلام حکمرانوں سے آزادی کا جشن… خوف اور بزدلی سے آزادی کا جشن… ایسا زبردست جشن، ایسا شاندار جشن جو ہمیں اصل آزادی دلا دے… جو ہماری قبر کو کشادہ بنادے… جو ہمیں اندلس کے ساحل پر کھڑا ہوا… طارق بن زیاد بنادے… اے القلم کے پڑھنے والے… بھائیو! اور بہنو!… ایسا جشن آزادی… آپ سب کو مبارک… ہم سب کو مبارک…

٭٭٭


اسیر مالٹا کی خوشبو

 

 اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ہمیں مسلمان بنایا… اسلام کی اس عظیم الشان بے مثال نعمت کا اصل فائدہ تو آخرت کی اصل زندگی میں معلوم ہوگا… اس وقت دنیا کے بڑے بڑے کافر رو رو کر چیخ چیخ کر حسرت کے ساتھ کہہ رہے ہوں گے… کاش ہم بھی مسلمان ہوتے… کاش ہم بھی مسلمان ہوتے… قرآن پاک نے یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:

رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ

آخرت تو آنے والی ہے اس سے پہلے دنیا ہی میں کافروں کی… ذلت کا زمانہ شروع ہوچکا ہے… ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی… ایک رسوائی کے بعد دوسری رسوائی… اور ہر بڑی سازش… بحمد اللہ …ذلیل اور ناکام… اور ہر جوتا الٹا اپنے ہی سر… ابھی اسرائیل کو دیکھ لیجئے اس کے ساتھ کیا ہوا؟… چھ ہفتے کا آپریشن اپنی موت آپ مرگیا… خود اکثر یہودیوں کی رائے یہی ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی ہے… تاریخ گواہ ہے کہ یہودی جب ہارتا ہے تو پھر ہارتا ہی چلا جاتا ہے… جبکہ دوسری طرف عالم اسلام میں بیداری اور جذبے کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے… عمارتیں بنتی اور گرتی رہتی ہیں… سڑکیں دوبارہ تعمیر ہوجاتی ہیں… بجلی کے کھمبے واپس لگائے جاسکتے ہیں… اور شہید ہونے والوں کے غم کو تسلیم ورضا کی خوشی سے دھویا جاسکتا ہے… مگر شکست کے زخم کو سینا اور پسپائی کی ذلت کو برداشت کرناآسان نہیں ہوتا… لبنان نے اپنی سڑکیں، عمارتیں اور چند افراد کھوئے ہیں جبکہ… اسرائیل نے اپنی عزت کھوئی ہے… اپنا رعب کھویا ہے… اپنی دہشت کھوئی ہے… اپنی بدمعاشی حیثیت کھوئی ہے… اور اپنا مورال کھویا ہے… اسرائیل کے بہت سے فوجی بھی مارے گئے… جو بدقسمتی سے ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے… اسرائیل کے بہت سے شہری بھی مارے گئے جو… خود کو محفوظ سمجھتے تھے کہ… امریکہ اور یورپ کی چھتری ان کے سر پر ہے… اب اسرائیلی سیاست اور اسرائیلی معاشرہ سخت انتشار کا شکار ہے… اور یہودی غنڈے ایک دوسرے کا گریبان کھینچ رہے ہیں… اس وقت دو خبریں آپس میں کندھا ملا کر ساتھ ساتھ چل رہی ہیں… پہلی خبر اسرائیل کی شکست اور دوسری خبر برطانیہ میں طیارے تباہ کرنے کی سازش کا انکشاف… اور زمین پر بیٹھے ’’ہائی جیکروں‘‘ کی گرفتاری… ان دونوں خبروں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے… آئیے اس کھچڑی کے اجزاء، دال، چاول، نمک،… اور کالی مرچ وغیرہ کو الگ کرکے دیکھتے ہیں… اور یوم آزادی کے موقع پر… عالم اسلام کی فتح کا ’’شکر‘‘ بھی مناتے ہیں…

عراق کے شعلے

امریکا نے ایک نقشہ بنایا تھا… بالکل نیا نقشہ… ایک نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ…  اللہ  اکبر کبیرا… عرب حکمرانوں نے امریکہ کی نوکری، چاکری میں اپنا سب کچھ لگادیا… مگر امریکہ اب بھی راضی اور مطمئن نہیں ہے… کاش امریکہ کا ساتھ دینے والے ’’عقلمند‘‘ کچھ عبرت حاصل کریں… نئے ’’مشرق وسطیٰ‘‘ کی خاطر عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا گیا… یہ کام تو آسانی سے ہوگیا کہ… عراق کے شیعہ پکے ہوئے پھل کی طرح امریکہ کی گود میں جاگرے… اور انہوں نے امریکہ کا اس طرح سے ساتھ دیا کہ… عقل حیران … اور ناطقہ سر بگریبان ہے… صرف ’’مقتدی صدر‘‘ کے لوگوں نے چند گولیاں… امریکہ کے خلاف چلائیں… بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی ’’نوراکشتی‘‘ تھی… اور دوسرے شیعہ گروپوں سے نمایاں ہونے کی ایک کوشش… اور بس… مگر عراق کے ’’مسلمان‘‘ بہت سخت جان نکلے… اور انہوں نے جہاد کے ایسے شعلے بھڑکا دئیے جنہوں نے… امریکی نقشے کا ایک حصہ جلا کر راکھ کردیا… اس پوری بات کا قدرے باریکی سے جائزہ لیں… بہت سے پراسرار راز کھل جائیںگے…

یہودیوں کی بے تابی

نئے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں نے… عراق، بحرین، کویت وغیرہ اپنے حامی شیعوں کے سپرد کرنے تھے… کیونکہ عراق میں ’’شیعہ‘‘ بہت کام آئے… ان کے مذہبی رہنما واشنگٹن اور نیویارک جا بیٹھے… اور ان کے مسلح دستوں نے چن چن کر عراق کے سنیوں کو قتل کیا… فرقہ واریت کی یہ آگ امریکہ نے بھڑکائی اور بدقسمتی سے شیعہ اس کا شکار ہوگئے… انہوں نے صدام حسین سے نجات ہی کو سب کچھ سمجھا… اور اپنے پرانے نعرے بھول گئے… امریکہ چاہتا تھا کہ… عراق، بحرین… اور کویت اسی طرح کے شیعوں کو دے دے… ایران اور شام بھی شیعوں کے پاس رہیں مگر حکومتیں تبدیل کردی جائیں… سعودی عرب پر سیکولر سنیوں کی حکومت ہو… اور یوں ’’مشرق وسطیٰ‘‘ میں اسلام کے لئے کوئی جگہ… اور امریکہ کے لئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے… اسرائیل امریکی قلعہ… اور امریکہ کی یہودی کالونی ہے… عراق کے فوراً بعد… اسرائیل کو اجازت ملنی تھی کہ وہ… اپنے دشمنوں حماس، اسلامی جہاد… اور حزب  اللہ  کی صفائی کردے… امریکہ بے چارہ عراق میں پھنس گیا… ادھر حماس والے حکومت تک پہنچ گئے… اور لبنان سے شامی افواج کے نکلنے کے باوجود… حزب  اللہ  کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا… اسرائیل بے تاب تھا اور تین سال سے … حملہ کرنے کے لئے تڑپ رہا تھا… اب جا کر امریکہ نے اسے اجازت دی … تاکہ… حماس اور حزب  اللہ  کی کمر ٹوٹ جائے… اور دنیا کی توجہ عراق سے ہٹ جائے…

خواب الٹا ہوگیا

امریکہ اور اسرائیل کا خیال تھا کہ… حزب  اللہ  کا کوئی بھی ساتھ نہیں دے گا… عراق کے شیعوں نے جس طرح عراق کے سنیوں کا قتل عام کیا ہے… اس کی وجہ سے عرب دنیا میں شیعوں کے لئے ہمدردی باقی نہیں رہی… اب حزب  اللہ  اکیلی ہوگی… اور ایک آدھ ہفتے میں اس کا دم نکل جائے گا… مگر یہ خواب الٹا ہوگیا… عالم اسلام کے سنی عوامی حلقے لبنان کے ساتھ کھڑے ہوگئے… مصر سے سعودی عرب تک سروں پر کفن باندھے ’’فدائی دستے‘‘ شیروں کی طرح دھاڑنے لگے… لوگوں نے چلتی گاڑیاں سڑک پر روک کر … لبنان کے امدادی فنڈ میں دے دیں… مسلمان خواتین نے زیورات کے ڈھیر لگادئیے… شاہ عبد اللہ  نے پہلی بار شاہ فیصل کی یاد تازہ کرکے… اپنی آخرت کے لئے آسانی کا سامان کیا… مسلمان حکمران اپنی بے حسی کے ساتھ الگ تھلگ جا پڑے… اور اسرائیل کو اپنی طرف سروں پر کالے اور سرخ رومال باندھے… فدائی نوجوان بڑھتے ہوئے نظر آئے… تب اسرائیل کا حسین خواب… بھیانک بھوت بن گیا… اسرائیل نے آج تک ’’اقوام متحدہ‘‘ کی کوئی بات نہیں مانی… مگر… اب اس نے فرمانبردار بچوں کی طرح جنگ بندی کی قرارداد پر سر جھکادیا… ساری دنیا اس بات پر حیران ہے… اور طاقت کے پجاری دانشور کوئی بات بنا نہیں پا رہے… تل ابیب سے لے کر مکہ مکرمہ تک ایک ہی شور ہے… اسرائیل ہار گیا… اسرائیل کو شکست ہوگئی… کاش عراق اور ایران کے شیعہ عراق میں… آنکھیں بند کرکے امریکہ کی حمایت نہ کرتے تو آج… مشرق وسطیٰ تو کیا دنیا کا نقشہ بھی کچھ اور ہوتا…

پرانے مکار دشمن کی چال

تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کے لئے… شکست لکھی جانی تھی… یہ بات ٹونی بلیئر اور بش کو گوارہ نہیں تھی… اس لیے دونوں مل بیٹھے… اپنی رہی سہی ناک… اور عزت بچانے کے لئے… تب ایک نیا ڈرامہ دنیا بھر کے میڈیا پر چھا گیا… جی ہاںاسرائیل کی طرف سے جنگ بندی قبول کرنے سے دو دن پہلے… فضا کو دھویں سے بھرنے کے لئے… ایک مضحکہ خیز ڈرامہ رچایا گیا… تاکہ اسرائیل اس دھویں اور گرد کا فائدہ اٹھا کر… اپنے اترے ہوئے کپڑے سنبھالے… اور چپکے سے بھاگ جائے…

لبنان جل رہا تھا… بیروت پر اسرائیلی میزائل آگ بن کر گر رہے تھے… حیفہ میزائلوں سے لرز رہا تھا… اقوام متحدہ کے دفاتر میں ایک قرارداد پر سودے بازی جاری تھی… مگر دنیا بھر کے میڈیا پر ایک اور خبر چھائی ہوئی تھی… چند پاکستانی مسلمان نوجوان پکڑے گئے ہیں… انہوں نے امریکی جہازوں کو فضا میں ہی مار گرانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا… منصوبہ کامیاب ہونے والا تھا… امریکی جہاز گرنے والے تھے کہ برطانوی پولیس نے دہشت گردوں کو پکڑ لیا… امریکہ نے اس قوالی میں آواز ملائی کہ … ارے ہم بھی پکڑنے والوں میں ساتھ تھے… اچانک ڈھول کی تھاپ پر… پاکستان کے قوال نے سُر لگائی… ارے سب کچھ ہم نے کیا… یہ دہشت گرد ہم نے پکڑے ہیں… ہمیں شاباش دو… ہمیں شاباش دو…

صحافیوں نے… پاکستانی قوال سے پوچھا آپ نے کب یہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا… جواب ملا یہی کوئی ایک ہفتہ پہلے… صحافیوں نے… برطانیہ والوں سے پوچھا کہ یہ کارنامہ آپ نے کب سر انجام دیا… انہوں نے کہا سات مہینے سے ہم تاک میں تھے… کوئی ایک بم برآمد نہیں ہوا… کیمیکل کی کوئی بوتل نہیں پکڑی گئی… کوئی پستول، چھری چاقو… ان دہشت گردوں کے پاس نہیں تھا… مگر ہر طرف شور ہے… دہشت گردی کاعظیم منصوبہ ناکام… خطرناک دہشت گرد پکڑے گئے… ہر طرف ہائی الرٹ…

 اللہ  اکبر کبیرا… سرائیکی کی ایک مشہور نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے… بہرے نے کہا مجھے ڈھول کی آواز سنائی دے رہی ہے… اندھے نے کہا فوراً چل کر دیکھ لیتے ہیں… گنجے نے کہا! نہ بابا میں نہیں جاتا وہ لوگ بال پکڑ کر گھسیٹیں گے… لنگڑے نے کہا ارے ہم بھاگ جائیں گے… اے پیرفریدا!یہ سب تھوک کے حساب سے سچ بول رہے ہیں… ہم ان میں سے کس کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں…

مسلمان دہشت گرد پکڑے گئے… ان کے پاس اسلحہ، بارود… اور کوئی سامان نہیں تھا… یہ خطرناک منصوبہ بالکل آخری مرحلے میں تھا… برطانوی پولیس سات مہینوں سے ان کی نگرانی کر رہی تھی… پاکستان والوں نے ایک ہفتہ پہلے… برطانوی پولیس کو ان کی خبر دی… امریکی پولیس بھی برطانوی اہلکاروں کے ساتھ تھی… ٹونی بلئیر نے نیند سے جگا کر صدر بش کو یہ خوشخبری سنائی… تمام کے تمام دہشت گرد پکڑے گئے… خطرہ اب بھی باقی ہے… اس گروپ کا کوئی آدمی گرفتاری سے نہیں بچ سکا… جہاز تباہ ہوسکتے ہیں اس لیے ڈیڑھ سو پروازیں منسوخ… پیر فریدا… ان خبروں میں سے تم کس کو جھوٹا کہو گے…

ڈرامے کا پس منظر

کچھ دن پہلے برطانوی حکومت نے ایک سروے کروایا… اس سروے سے معلوم ہوا کہ… برطانیہ کے بیس فی صد مسلمان ابھی تک… مکمل انگریز نہیں بنے… یہ لوگ مجاہدین کو اپنا ہیرو مانتے ہیں… اور جہاد کو ایک اسلامی فریضہ اور حکم… ٹونی بلیئر اس سروے پر سخت جھنجلائے میں نے بی بی سی پر ان کا انٹرویو سنا… وہ ڈرے ہوئے سانپ کی طرح پھنکار رہے تھے… انہوں نے کہا… روشن خیال مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ … اس بیس فیصد طبقے کو ٹھیک کریں… ان کے دل سے مغرب اور برطانیہ کی مخالفت نکالیں… اور انہیں سچا برطانوی بنائیں… ٹونی بلیئر کی اس بات پر ’’روشن خیال‘‘ برگر خور مسلمان کچھ ناراض تھے… ان کا کہنا تھا کہ… ہم سچے اور ’’محب انگریز‘‘ برطانوی ہیں… وزیر اعظم خواہ مخواہ ہم پر شک کر رہے ہیں… پھر ہم روشن خیالی کے تقاضوں میں اتنے مصروف ہیں کہ… بنیاد پرستوں کو سمجھانے کے لئے ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں… تب ٹونی بلیئر اور ان کے ساتھیوں نے یہ دلچسپ منصوبہ بنایا… اب صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ وغیرہ ملکوں میں اسکولوں کی چھٹیاں ہیں … ان دنوں اکثر پاکستانی اور انڈین مسلمان واپس اپنے ملکوں میں آتے ہیں… یہاں ان کے لیے شادیوں اور دعوتوں کی تاریخیں طے ہوتی ہیں… وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور یہاں آ کر ادبی نشستوں کی صدارت کرتے ہیں… اور کانوں میں بالیاں پہنے ہوئے نوجوان ہر جگہ یہ کہہ کر… اپنا رعب جھاڑتے ہیں کہ… ہم برٹن سے آئے ہیں… ہم برٹن سے آئے ہیں… ادھر اسرائیل کو کپڑے پہننے کے لئے دھویں کی ضرورت تھی… اور ادھر امریکہ اور برطانیہ کے ائیر پورٹوں پر مسلمانوں کا ہجوم تھا… تب اچانک جہاز تباہ کرنے والے دہشت گرد پکڑے گئے… فلائٹیں منسوخ ہوئیں… ہر پانچ منٹ بعد جوس پینے والے… اور ہر پندرہ منٹ بعد ٹوائلٹ جانے والے روشن خیال… ائیر پورٹوں پر پھنس گئے… ان سب کو یہ تکلیف ’’مسلم شدت پسندوں‘‘ کی وجہ سے ہوئی ہے… وہ بڑی قطاروں میں کھڑے کھڑے تھک گئے ہیں… ان کی شادیاں اور دعوتیں کینسل ہورہی ہیں… ٹونی بلیئر کا خیال ہے کہ… اب یہ روشن خیال لوگ… ٹونی کو دعائیں دیں گے کہ تم نے ہمیں بچالیا… اور شدت پسندوں کو گالیاں دیں گے کہ تم نے ہمیں تھکادیا… یوں بنیاد پرستی کا خطرہ کم ہو جائے گا… اور مجاہدین کی مقبولیت کا گراف گر جائے گا… اسی لیے دہشت گردوں کے پکڑے جانے کے باوجود خطرہ قائم ہے… فلائٹیں منسوخ ہو رہی ہیں… اور ائیرپورٹوں پر ہجوم ہی ہجوم ہے… مگر نتیجہ یہ نکلا کہ… اسلامی شدت پسندوں کے خلاف تو کسی کا ذہن بنا نہیں… خود برطانیہ کی حکمران لیبر پارٹی کے تیس لیڈروں نے ٹونی کو خط لکھ دیا ہے کہ… تمہاری اور بش کی پالیسیوں نے دنیا کو غیر محفوظ بنادیا ہے… تم دونوں نے لوگوں کو اتنا تنگ کیا کہ اب وہ… جہاز گرانے پر اتر آئے ہیں…

دلچسپ حمایت

ٹونی بلیئر کے ایک دوست ہیں… ان کا صحافیوں میں بول بالا ہے… اس مالدار اور پڑھے لکھے انگریز نے عزم کیا ہوا ہے کہ وہ… ٹونی کے چہرے وغیرہ سے بدنامی کا ہر داغ دھو دیں گے… گذشتہ دنوں لبنان کے مسئلے پر ٹونی بلیئر… صدر بش سے ملنے گئے… ان کا ہمدرد، عقلمند اور مالدار دوست بھی ساتھ تھا… اس نے امریکی صحافیوں سے ٹونی بلیئر کی ملاقات رکھوائی… اور اس میں ٹونی بلیئر کی صفائی ان الفاظ میں دی… ’’یہ بات غلط ہے کہ ٹونی بلیئر بش کی ران پر بیٹھنے والا کتا ہے… ایسا ہر گز نہیں… بلکہ میرا دوست ٹونی… وہ تربیت یافتہ کتاہے… جو صدر بش کی رہنمائی کرتا ہے… (تالیاں، زور دار تالیاں)…

شیخ الہند کی خوشبو

جیش محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم پر دنیا میں سب سے پہلے پابندی ’’برطانیہ‘‘ نے لگائی… حضرت مفتی جمیل خان شہید رحمہ  اللہ  کو برطانیہ میں… گرفتار کرکے کہا گیا کہ… آپ کا جیش سے تعلق ہے… اور شکوہ کیا گیا کہ… جیش والے ہم سے بہت نفرت رکھتے ہیں… ان کا رہنما ہمیں سخت برا بھلا کہتا ہے… حضرت مفتی شہید رحمہ  اللہ  کو بعد میں چھوڑ دیا گیا… انہوں نے واپسی پر بتایا کہ برطانیہ کی ’’جیش‘‘ پر گہری نظر ہے… اور وہ اس کے خلاف سخت محنت کر رہا ہے… پھر برطانیہ نے انڈیا کے ساتھ مل کر بھی جیش کے خلاف طرح طرح کے طوفان اٹھائے… پچھلے سال برطانیہ میں بم دھماکے ہوئے تو ٹونی کی انگلی جیش کی طرف اٹھی… اب اس ڈرامے میں جن بیچارے مسلمان نوجوانوں کو پکڑا گیا ہے … ان کا رشتہ بھی جیش سے جوڑا جا رہا ہے… آخر اس کی کیا وجہ ہے؟… میرے ہمسفر دوست خیال جی نے کئی دن تک اس ’’راز‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کی … آج وہ برطانیہ والوں کو پڑھ سمجھ کر واپس آیا تو اس سے پوچھا… بابا! یہ راز سمجھ آیا؟ … خیال جی نے الٹا سوال کردیا… یہ شیخ الہند رحمہ  اللہ  کون تھے… اور مولانا حسین احمد مدنی رحمہ  اللہ  کس شخصیت کا نام تھا؟… میں ان دونوں بزرگوں کے حسین تذکرے میں کھو گیا… اسیر مالٹا، مجاہدین شاملی کے جانشین… مسند علم کے صدر نشین… جہاد وخلافت کے داعی… دعوت رجوع الی القرآن کے علمبردار… اسلامی سیاست کے امین… انگریز کے سامنے جنہوں نے سر نہیں جھکایا… نو سال جیل کاٹی… ایک بار ارشاد فرمایا مجھے جلا کر میری خاک اڑاؤ تو وہ بھی… اس طرف نہیں جائے گی جہاں انگریز ہوگا… وہ جن کو موت کی سزا انگریز جج نے سنائی … وہ جنہوں نے انگریز کی فوج میں بھرتی کو حرام قرار دیا … وہ عظیم لوگ، وہ وقت کے قطب… میں ان دونوں کے تذکرے میں ڈوبتا چلا گیا… خیال جی نے چٹکی بھر کر مجھے حضرت شیخ الہند رحمہ  اللہ  اور حضرت مدنی رحمہ  اللہ  کی حسین یادوں سے واپس کھینچا … اور کہنے لگا کہ بس بس… اب بات سمجھ آگئی… برطانیہ والے کہہ رہے تھے ہمیں ’’جیش والوں سے شیخ الہند رحمہ  اللہ  اور حضرت مدنی رحمہ  اللہ  جیسے اپنے باغیوں کی بو آتی ہے… یہ لوگ ہمیں انہیں کے فکری، علمی اور عملی جانشین معلوم ہوتے ہیں… یہ ویزے کے لئے ہمیں درخواست نہیں دیتے… اور نہ ہمارے گورے رنگ اور ترقی سے متاثر ہوتے ہیں … اور انہوں نے ان مسلمان علماء کو بھی نہیں بھلایا جنہیں ہم نے… تندوروں میں جلا کر مارا تھا… یہ لوگ شیخ الہند رحمہ  اللہ  کے دماغ سے سوچتے ہیں… اور ہمیں ان سے شیخ الہند رحمہ  اللہ  کے نظریات کی ’’بو‘‘ آتی ہے… میں نے خیال جی کی گردن پر ہاتھ مارا… اور کہا ’’بو‘‘ نہیں خوشبو کہو… ہاں پیارے شیخ الہند رحمہ  اللہ  کی خوشبو… اسیر مالٹا کی خوشبو… سچے اسلام کی خوشبو…

٭٭٭

 

بیان اپنا اپنا

  اللہ  تعالیٰ حرص، لالچ اور طمع سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… نفس کی یہ بیماریاں انسان کو ذلیل ورسوا کردیتی ہیں… اور جو  اللہ  تعالیٰ کی رحمت کی بدولت… ان بیماریوں سے بچ جاتا ہے… وہ کامیاب ہوجاتا ہے… عرب میں ایک بہت لالچی اور حریص شخص ’’اشعب بن جبیر‘‘ نامی گزرے ہیں… ان کو اپنی اس بیماری کا علم اور احساس بھی تھا… ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ … تمہاری طمع، لالچ اور حرص کی شدت کا کیا عالم ہے؟… وہ کہنے لگے… میں جب کسی جنازے کے ساتھ چلتا ہوں… اور دیکھتا ہوں کہ دو آدمی آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہیں تو مجھے گمان ہوتا ہے … مرنے والا ضرور اپنے مال سے میرے لیے کچھ وصیت کر گیا ہے… اور یہ دونوں اسی کا تذکرہ کر رہے ہیں… اسی طرح جب کسی شخص کو جیب میں ہاتھ ڈالتے دیکھتا ہوں تو گمان ہوتا ہے، یہ اب مجھے کچھ نہ کچھ ضرور دے گا… حدیث پاک میں آیا ہے کہ انسان کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے… اس میں بھی لالچی اور حریص انسان کی خصلت کاذ کر ہے کہ… دنیا میں اس کی خواہشات بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں… اشعب بن جبیر تو دنیا سے گزر گئے…  اللہ  پاک ان کی مغفرت فرمائے… مگر ہمارے زمانے کے حریص اور لالچی… اشعب سے کئی قدم آگے ہیں… پاکستان کی سابقہ وزیر اعظم شریمتی بے نظیر زرداری صاحبہ ہی کو لے لیجئے… وہ اس وقت اقتدار اور کرسی کی لالچ میں بہت شدت سے غوطے کھا رہی ہیں… کہتے ہیں بلی بہت دور سے دودھ کی خوشبو سونگھ لیتی ہے… بالکل اسی طرح محترمہ نے بھی اپنی ناک کو پوری طرح سے کھول رکھا ہے… جیسے ہی پاکستان کے حالات کچھ خراب ہونے لگتے ہیں… محترمہ کو ’’اقتدار‘‘ اور ’’کرسی‘‘ کی خوشبو ’’بے حال‘‘ کردیتی ہے… تب انہیں نہ اپنی زبان پر قابو رہتا ہے اور نہ سوچ پر… ان دنوں پاکستان پھر غیر ملکی دباؤ میں ہے… برطانیہ میں ان پاکستانی نژاد ہائی جیکروں کا شور ہے جنہوں نے امریکی جہاز گرانے تھے… جبکہ انڈیا میں بمبئی کے بم دھماکوں کا شور ہے… اور من موہن سردار جی کافی روٹھے روٹھے سے لگ رہے ہیں… برطانیہ کے واقعہ کی وجہ سے پاکستان پر سفید کوّوں کی یلغار ہے… جبکہ انڈیا کے واقعہ کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے ہیں… محترمہ نے ان حالات کو اپنے لیے سنہری موقع سمجھا… اور ایک بار پھر اپنی وہ زبان کھولی… جس زبان کے شرسے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ… محترمہ کے تازہ بیانات کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے!

٭ صدر مشرف پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں، انتہا پسندی سے نمٹنے اور مذہبی جماعتوں اور جنگجو گروپوں کا اثر ورسوخ محدود کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

٭ میرے دور میں دینی مدارس کو قاعدے اور قانون کا پابند بنایا گیا تھا، آج ضیاء دور کی طرح دینی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

٭ جہاں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں ان میں لازمی طور پر کوئی پاکستانی ملوث ہوتا ہے۔

٭ پاکستان کی فوجی حکومت جمہوریت پسند اور میانہ رو طبقوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے اور انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

بے نظیر بھٹو کے اس پورے بیان… اور انٹرویو سے صرف ایک ہی چیز ٹپک رہی ہے… اور وہ ہے کرسی کی ہوس… باقی ’’جمہوریت‘‘ وغیرہ کے دعوے تو عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہیں… یہ کیسی ’’جمہوریت‘‘ ہے کہ… اپنے ملک کے ایک معزز طبقے کے خلاف غیروں کو خوش کرنے کے لئے… ہرزہ سرائی کی جائے… کیا پاکستان کے دینی مدارس اور ان سے وابستہ لاکھوں افراد… اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟… محترمہ کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا ایجنڈا بھی صدر مشرف کی طرح امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کا ہے… چنانچہ وہ بار بار اس بات کی دُہائی دے رہی ہیں کہ… صدر مشرف امریکی اور مغربی مفادات کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں… اس لیے اب اس ’’خادمہ‘‘ کو موقع فراہم کیا جائے… اس لیے کہ ’’خادمہ‘‘ صدر مشرف سے زیادہ لبرل، زیادہ روشن خیال اور زیادہ مغرب پسند ہے… پھر سب سے دلچسپ یا عبرتناک بات یہ ہے کہ… اس بیان میں پاکستان کی فوجی حکومت سے ایک بار پھر درخواست کی گئی ہے کہ وہ… بے نظیر اور زرداری جیسے روشن خیالوں کی حوصلہ افزائی کرے… اور اقتدار میں انہیں حصہ دے…

دیکھا آپ نے یہ ہے وہ جمہوریت جو بے نظیر پاکستان میں لانا چاہتی ہے… امریکی تائید سے… یورپ کی مدد سے… یا پاکستانی فوج ہی کے تعاون سے… الغرض کسی بھی طرح اقتدار کی کرسی پر… بے نظیر کا پہنچ جانا ہی جمہوریت ہے… یا  اللہ  ہم مسلمانان پاکستان کی ایسی ملعون جمہوریت سے حفاظت فرما… جس جمہوریت میں ہماری حکمران بے نظیر بھٹو ہو… بے نظیر بھٹو کے ماضی کو دیکھتے ہوئے… اور ان کے اس حالیہ بیان پر نظر رکھتے ہوئے… متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ(ن) کو چاہئے کہ وہ بے نظیر بھٹو سے اپنے راستے ابھی سے الگ کرلیں… ورنہ یہ ’’مغرب زدہ‘‘ عورت وہی کچھ کرے گی… جو صدر مشرف کی حکومت مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کر رہی ہے… اور ستم یہ ہوگا کہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا جائے گا… وہ جمہوریت جسے دنیا میں بدقسمتی سے ’’مقدس گائے‘‘ سمجھا جاتا ہے…

اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے… فوج کا اقتدار سے دور ہونا از حد ضروری ہے… کیونکہ حکومت کرنے والی فوجیں کبھی بھی ملکوں کا دفاع نہیں کرسکتیں… فوج کا کام سیاست نہیں جہاد اور دفاع ہے… اور فوج کے سیاست میں آنے کی وجہ سے ملک اور فوج دونوں کا شدید نقصان ہورہا ہے… اور اس بات میں بھی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بے حد کمزور ہوچکی ہے… اور عوام میں اس حکومت کی جڑیں کسی بھی جگہ مضبوط نہیں ہیں… ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود… یہ بات برداشت نہیں کی جاسکتی کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں… بے نظیر کو اپنے کندھے پر بٹھا کر کرسی تک پہنچادیں… بے نظیر بھٹو نے ماضی میں اس ملک کو نظریاتی طور پر بے حد نقصانات پہنچائے ہیں… اورانہوں نے اپنے خاوند نامدار کے ساتھ مل کر دونوں ہاتھوں سے اس ملک کا خون نچوڑا ہے… اور اب تو سنا ہے کہ دونوں خاوند بیوی نے اپنے ’’معدے‘‘ کا بھی علاج کروالیا ہے… اور اب ان کو خوب کھل کر بھوک لگتی ہے…

جنرل ضیا ء الحق جب ایک فضائی حادثے میں چل بسے تو اس وقت بھی بے نظیر صاحبہ ملک سے باہر تھیں… جنرل کے جانے کے بعد… انہوں نے وطن واپسی کا اعلان کیا… لاہور میںان کا شاندار استقبال ہوا… اور ملک کا رخ اسلام سے کفر کی طرف مڑ گیا… یہ بات میں نہیں کہہ رہا… بلکہ عالم اسلام کے نبّاض مفکّر… حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے بے نظیر کی حکومت آنے سے پہلے ہی یہ بات فرمادی تھی… وہ کراچی میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوریؒ ٹاؤن کے دارالحدیث میں خطاب فرما رہے تھے… انہوں نے نہایت غم اور درد کے ساتھ اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ… ایک مغرب زدہ عورت کا اس طرح سے استقبال… میرے خیال میں پاکستان درست سمت کی طرف نہیں جارہا… اور اب اس ملک کا ’’نظریاتی تشخص‘‘ شدید خطرے میں ہے…  اللہ  تعالیٰ کے اس عظیم ولی کا خدشہ درست نکلا اور پاکستان نے الٹا سفر شروع کردیا… اور جیسے ہی اردگرد کی فضاء کفر کے لئے سازگار ہوئی… پاکستان کافروں کی فوج کا ہر اول دستہ بن گیا… اس وقت ملک کی عجیب صورتحال ہے… جو لوگ حکومت کر رہے ہیں… وہ امریکہ اور مغرب کو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ ہم… آپ کے سچے وفادار ہیں… ہم اسلامی جہاد کی تمام تحریکوں کو فنا کر دیں گے… ہم مدارس کو ماڈرن کلب بنادیں گے… ہم مساجد کو نکیل ڈال دیں گے… ہم آپ کی جنگ کا سب سے آگے رہنے والا دستہ ہیں… ہم نے اتنے مجاہدین مارے، اتنے پکڑے، اتنے ذبح کیے… اور ہم نے آپ کی خاطر اپنے اتنے فوجی مروائے… دوسری طرف بے نظیر جیسے لوگ دن رات امریکہ… اور یورپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ… جناب آپ کے ساتھ فراڈ ہورہا ہے… صدر مشرف اندر اندر سے مجاہدین اور مولویوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں… وہ پاکستان میں جہادی کیمپ چلا رہے ہیں… القاعدہ والوں کو بھی انہو ںنے چھپا رکھا ہے… طالبان بھی ان کی پناہ میں بیٹھے ہوئے ہیں… اس لیے آپ فوری طور پر صدر مشرف کو ضیاء الحق والے طیارے میں بٹھائیں… اور مجھ روشن خیال، مادر پدر آزاد، ڈبل لبرل کو پاکستان میں حکومت کا موقع دیں… میں چند ہی دن میں سارے مجاہدین کو پکڑ کر ختم کردوں گی… مولویوں کو جیلوں میں ڈال دوں گی… القاعدہ کا نام ونشان مٹادوں گی… اور طالبان کو پاکستان سے نکال دوں گی…

 اللہ  اکبر کبیرا… عجیب دور آگیا ہے… گویا کہ مجاہدین، علماء ،مساجد اور مدارس ان ظالم لوگوں کے لئے وہ ’’شکار‘‘ ہیں… جسے وہ اپنے آقا امریکہ کی خدمت میں پیش کرکے… اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں … یعنی پاکستان کی کرسی امریکہ کے ہاتھ میں ہے… اور اس کرسی کا اصل حقدار وہی ہے جو… اسلام اور جہاد کو نقصان پہنچائے… اندر کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ… امریکہ موجودہ حکومت اور بے نظیر میں صلح کا ’’روڈمیپ‘‘ تیار کرچکا ہے… چنانچہ جب اپوزیشن کی تحریک واقعی سنجیدہ اور گرم ہوگی تو… بے نظیر بھٹو چھلانگ لگا کر حکومت کی طرف ہوجائیں گی… اور تب روشن خیال جرنیل… اور روشن خیال سیاستدان مل کر اس ملک کو امریکہ کی پسندیدہ کالونی بنائیں گے… و اللہ  اعلم…  اللہ  پاک ہی بہتر جانتا ہے کہ آگے کیاہونے والا ہے…

گورنر جنرل غلام محمد… منہ سے جھاگ پھینک کر کہتا تھا کہ کون مائی کا لال میری حکومت گرا سکتا ہے؟… مگر اچانک ایک دن چند فوجی افسر آئے… انہوں نے تھپڑ مار کر دستخط کرا لیے اور گھر بھیج دیا… سکندر مرزا نے حکومت سنبھالی تو وہ ’’شاہ ایران‘‘ والے ناز اور نخرے میں مبتلا ہوئے… ہر رات شباب وکباب اور رقص کی محفل سجتی تھی… غیر ملکوں سے کھانے آتے تھے… اور حکومت مضبوط تھی… اچانک ایک رات چند ماتحت فوجی افسر آئے… انہوں نے گریبان سے پکڑا، گالیاں دیں، استعفیٰ کے کاغذ پر دستخط کرائے… اور صدر صاحب کو کہیں اٹھا کر لے گئے… ایوب خان تشریف لائے فرماتے تھے دل چاہتا ہے تمام مولویوں کو سمندر میں پھینک دوں… پھر ان کے اپنے گھر میں ان کے خلاف نعرے گونجے… اور یحییٰ خان کا عذاب ملک پر مسلط ہوگیا… وہ دین اور علماء کے شدید دشمن تھے… انہوں نے آدھا ملک اپنی شراب کی بوتل سے توڑا… اور گمنامی میں مر گئے… بھٹو کی گرج چمک کو کون بھولے گا… ایک رعب تھا اور طمطراق … مگر تارا مسیح نے گردن میں پھندا ڈال دیا… ضیاء الحق آئے تو مسکرا مسکرا کر اپنے اقتدار کے رسے کو مضبوط کرتے چلے گئے… پھر کمند وہاں ٹوٹی جہاں… کسی کی نہیں چلتی… پھر بے نظیر بھٹو… اور نواز شریف نے دو دو باریاں لگائیں یہ دونوں خود ہی اپنی ذاتی طاقت… اور ذاتی انتقام کے لئے فوج کو پچکارتے ہشیارتے رہے… خفیہ ایجنسیوں کا استعمال بے دریغ ہوا… اور آمروں جیسے طور طریقے اپنے لیے پسند کیے گئے… پھر ایک کالی رات صدر مشرف آگئے… اس وقت ان کے ارد گرد کے افراد اور حالات ان جیسے نہیں تھے… انہوں نے صبر اور حکمت عملی سے کام لیا… نائن الیون نے حالات ان کے حق میں کردئیے… اور افراد انہوں نے خود ادھر ادھر کردئیے… ان کی تمنا تھی کہ قوم کتوں سے کھیلے… لڑکیاں نیکر پہنیں… عورتیں مردوں سے ہاتھ ملائیں… اور ملک عیاشی اور موسیقی میں ڈوب جائے… حالات نے ان کا ساتھ دیا… ان کے دل کی بہت سی تمنائیں پوری ہوگئیں… مولوی کا اسپیکر بند ہوگیا… اور موسیقار کا اسپیکر گونجنے لگا… مجاہد چھپنے پر مجبور ہوئے… اور مخلوط میراتھن دوڑ سڑکوں پر آگئی… اب تک سب کچھ صدر صاحب کی خواہش کے مطابق ہوتا جارہا ہے… مگر یہ دنیا ان کی تو نہیں…  اللہ  تعالیٰ کی ہے… اور  اللہ  تعالیٰ کی ڈھیل کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے… ہم نہیں جانتے کہ آگے کیا ہوگا… صدر مشرف کو مزید وقت ملے گا یا … ملک پر بے نظیر کا عذاب آئے گا… مگر مساجد اور مدارس کو ’’تماشہ گاہ‘‘ سمجھنے والے… کسی بھول میں نہ رہیں… زمین پر ہر وقت ’’چالیس ابدال‘‘ موجود ہوتے ہیں… زمین پر ہر وقت کم از کم… ایک جماعت  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والی موجود ہوتی ہے… زمین پر  اللہ  تعالیٰ کے … اولیاء اور مخلص بندے موجود ہوتے ہیں… رب کعبہ کی قسم… میں نے اب بھی مساجد میں جہاد کے وعظ سنے ہیں… کون بند کر سکتا ہے جہاد کو؟… بے نظیر صاحبہ! آپ بھی زور لگالیں… کافروں کو خوش کرنے کے لئے… اقتدار کی کرسی پر ٹکنے کے لئے… آپ بھی جہاد، مجاہدین، مدارس… اور مساجد کے خلاف زور لگالیں… رب کعبہ کی قسم سوائے ناکامی اور حسرت کے … آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگے گا…بلکہ مٹی میں دفن ہونے سے پہلے… آپ کا منہ خاک سے بھر جائے گا… مساجد میں  اللہ  تعالیٰ کا نام بلند ہوتا ہے… مدارس میں  اللہ  تعالیٰ کا دین پڑھایا جاتا ہے… مجاہدین  اللہ  تعالیٰ کے سپاہی ہیں… ان سے ٹکر لینا کچھ آسان کام نہیں ہے… آپ نے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر… امریکہ کو خوش کرنے کے لئے… جو بیان دینا تھا دے لیا… اب میں بھی… شہادت کی تمنا میں…  اللہ  تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے… یہ بیان دے رہا ہوں کہ… ہمارا خون… اسلام کی حفاظت کے لئے… مساجد ومدارس کی حفاظت کے لئے… دین کی سربلندی کے لئے حاضر ہے… بے نظیر صاحبہ!… مساجد ومدارس کی مقدس دیواروں سے پہلے… اس خون کو عبور کرنا پڑے گا…

٭٭٭


مدرسہ اور کالج

 

  اللہ  تعالیٰ جس کا بھلا چاہتا ہے اسے… اپنے پیارے دین کی سمجھ عطاء فرمادیتا ہے… یعنی دین کا علم… اور دین کا طریقہ اسے سکھا دیتا ہے… سمجھا دیتا ہے… تب دماغ پر بھی ’’دین اسلام‘‘ کی حکومت ہوتی ہے… دل کو بھی ’’دین اسلام‘‘ ہی کی ہر بات اچھی لگتی ہے… اور عمل پر بھی ’’دین اسلام‘‘ کی مکمل چھاپ آجاتی ہے… آج ایسے مسلمان کہاں ہیں؟… جن کا دل بھی مسلمان ہو، دماغ بھی مسلمان ہو… عقیدہ بھی مسلمان ہو… نیت بھی مسلمان ہو… اور ان کا عمل بھی مسلمان ہو… کیا ایک مسلمان چند نوٹوں کی خاطر کافروں کے مفادات کے لئے استعمال ہوسکتا ہے؟… کیا ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے گردے بیچ کر مال کما سکتا ہے؟… کیا ایک مسلمان اپنے افسر کے حکم کو  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے اونچا مان سکتا ہے؟… ہائے کاش! دین کا علم اور اس کی سمجھ ہوتی تو… امت مسلمہ آج اس طرح سے بے حال… اور بدحال نہ ہوتی… بلوچستان میں کس نے کس کو مارا؟… مرنے والے بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور مارنے والے بھی… کسی کو ’’تنخواہ‘‘ کی مجبوری ہے… اور کسی کو ’’ناک‘‘ کی… ان سب کے نزدیک (نعوذباللہ ) …  اللہ  تعالیٰ کا حکم ’’تنخواہ‘‘ اور ’’ناک‘‘ کے برابر بھی نہیں… کسی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بتایا جاتا ہے… اور کسی کے پیچھے انڈیا کا … ہائے مسلمان! تو تو صرف  اللہ  تعالیٰ کا تھا… مگر آج دنیا کے کافر جو تیرے لونڈی، غلام بننے تھے … تیرے مالک بنے ہوئے ہیں… اور تو ان کا حقیر ایجنٹ… کاش ایسا نہ ہوتا… چند سال پہلے ’’بنگال‘‘ میں مسلمانوں نے مسلمانوں کو کاٹا… تب انڈیا کے مشرک اپنے پیلے دانت نکال کر… قہقہے لگاتے رہے… قبروں پر قبریں بنتی چلی گئیں… قاتل بھی مسلمان… مقتول بھی مسلمان… یہاں تک کہ مسلمان بیٹیوں کی عزتیں… انہوں نے پامال کیں… جن کو وہ اپنا مسلمان بھائی اور باپ سمجھ رہی تھیں… بالآخر ملک ٹوٹ گیا… جنوبی ایشیاء کے مسلمان مزید کمزور ہوگئے… آج پھر بلوچستان سے وزیرستان تک وہی منظر ہے… اونچے محلات میں شراب کے جام چھلک رہے ہیں… اور غریب مسلمان مر رہے ہیں… کوئی تنخواہ کی خاطر… اور کوئی ناک کی خاطر… خود سوچئے اگر دین کا علم اور اس کی سمجھ ہوتی تو یہ سب کچھ ہوسکتا تھا؟… اسی لیے تو ’’مدرسے‘‘ کی مخالفت کی جاتی ہے… امریکہ کے وہائٹ ہاؤس سے لے کر تل ابیب کے ’’یہودی خانوں‘‘ تک… ’’مدرسے‘‘ کے خلاف ایک شور برپا ہے…

مدرسہ بند کرو… مدارس کو قابو کرو… مدارس کے نصاب کو بدلو… مدارس کے علماء کو جدید بناؤ… سب جانتے ہیں کہ… مدارس کے خلاف شور مچانے والے ہمارے ’’خیرخواہ‘‘ نہیں ہیں… ان کا یہ شور اور مشورے ہمیں فائدہ پہنچانے کے لئے نہیں ہیں… دراصل وہ اس نسل کو ختم کرنا چاہتے ہیں… جو قرآن پاک کو ’’حرف آخر‘‘ سمجھتی ہے… وہ اس قبیلے کو ختم کرنا چاہتے ہیں… جن کے نزدیک مدینہ منورہ کے کچے حجروں کی قدر… وہائٹ ہاؤس سے زیادہ ہے… وہ اس خاندان کو ختم کرنا چاہتے ہیں… جو دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے… شعبان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے…  اللہ  تعالیٰ اس مہینے کی برکتیں ہم سب مسلمانوں کو عطاء فرمائے … اور ہمارے ’’ایمان وعمل‘‘ کو اس مہینے میں ایسی خوبصورتی عطاء فرمائے کہ ہم… رمضان المبارک کو منہ دکھانے کے قابل ہوسکیں… شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان، ہندوستان… اور بنگلہ دیش کے مدارس میں تعلیمی سال مکمل ہوجاتا ہے… علوم نبوت… اور علوم قرآن کے ’’طالب‘‘ اپنا تعلیمی سال مکمل کرکے گھروں کا رخ کرتے ہیں… اب سوا دو مہینے تک وہ فارغ ہوتے ہیں… اور چھٹیاں مناتے ہیں… جبکہ بعض ’’طالبعلم‘‘ چھٹیوں کے ان دنوں کو بھی… قیمتی بنانے کی ’’جدوجہد‘‘ میں لگے رہتے ہیں… گویا کہ مدارس کی سالانہ چھٹیاں ہوتے ہی دینی مدارس کے طلبہ کرام … دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں… ایک وہ جو چھٹیوں کو غنیمت جان کر… خوشی خوشی اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں… والدین اور بہن بھائیوں سے ملتے ہیں… رمضان المبارک میں اپنے محلے اور علاقے میں قرآن پاک سنتے اور سناتے ہیں… اور رشتہ داروں کے بیچ رہ کر پورے سال کی تھکاوٹ دور کرتے ہیں… دوسرے وہ طالبعلم جو چھٹیوں میں بھی دین کو سمجھنے اور علم کو پانے کی محنت جاری رکھتے ہیں… ان میں سے بعض اعلاء کلمۃ  اللہ  کی اعلیٰ اور مشکل محنت میں جڑ جاتے ہیں… بعض دورہ تفسیر، دورہ صرف ونحو… اور دورہ میراث کا فائدہ اٹھاتے ہیں… جبکہ بعض تبلیغی جماعت میں چلہ لگا آتے ہیں… اس موقع پر گھر جانے والے طلبہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ… وہ مدارس کے لئے چلتے پھرتے ’’نورانی اشتہارات‘‘ بن جائیں… پورا سال انہوں نے جو کچھ پڑھا ہے اس پر عمل کریں… ان کا لباس، رہن سہن… اور چلنا پھرنا دین کے مطابق ہو… ان کے تمام ’’معاملات‘‘ پر دین ہی کی چھاپ نظر آئے… اور وہ اپنے علاقے میں جاکر… ٹی وی، انٹرنیٹ… موبائل بازی… اور فضول دوستیوں سے دور رہیں… ان کو چھٹیوں کے دوران بھی… اس بات کا مکمل احساس رہنا چاہئے کہ وہ مسلمان… اور دین کے طالبعلم ہیں… اور اس وقت ساری دنیا کا کفر… دینی مدارس کے طلبہ کو ’’نیم انگریز‘‘ اور ’’جدید لفافہ‘‘ بنانے کے لئے سرگرم ہے… ایک ’’طالبعلم‘‘ کے لئے سب سے خطرناک چیز مال کی محبت … اور اس گندی دنیا کو ’’ترقی یافتہ‘‘ سمجھنا ہے… یہ دنیا ترقی یافتہ نہیں ’’فسادزدہ‘‘ ہے… اور یہ دنیا فانی ہے… یہاں کی ترقی صرف ایک ہی ہے کہ… انسان یہاں پر  اللہ  تعالیٰ کا بندہ… اور غلام بن کر رہے … باقی جو کچھ نظر آرہا ہے وہ ظاہری چمک، فتنہ، شیطانی جال… اور دھوکا ہے… نام کی اس ترقی نے… انسان کو ’’مصیبت زدہ مشین‘‘ بنادیا ہے… لوگ اب بھی پہلے کی طرح مر رہے ہیں… فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے آسانی سے مرجاتے تھے… اب مہنگے ہسپتالوں میں اپنی پوری جائیداد خرچ کرکے مرتے ہیں … لوگ اب بھی بیمار ہوتے ہیں… فرق اتنا ہے کہ پہلے دو روپے کا ’’مربہ آملہ‘‘ کھانے سے ٹھیک ہوجاتے تھے… اب پانچ لاکھ کی ہارٹ سرجری کرا کے بھی… ٹھیک نہیں ہوتے… قبریں اب بھی آباد ہو رہی ہیں… فرق اتنا ہے کہ پہلے قبروں پر اتنا بوجھ نہیں تھا… اب دنیا کی غلاظت اور محبت نے قبرستانوں کو آگ لگادی ہے… نہ انسان کی عمر بڑھی… نہ انسان کو صحت ملی… نہ انسان کے سر سے موت ٹلی… پھر یہ کیا ترقی ہے؟… ہاں انسان سے انسانیت چھن گئی ہے… انسان سے اس کا ذہنی اور قلبی سکون چھن گیا ہے… اور انسان سے آخرت کی اصل زندگی کی فکر چھن گئی ہے… آج دنیا کو ’’جہازوں‘‘ پر فخر ہے… کوئی سوچے ان جہازوں نے انسانوں کا کیا دیا ہے؟… وہ کونسی خوشی ہے جو ان جہازوں سے پہلے… انسان کی گود میں نہیں تھی… اور اب کونسا وہ غم ہے… جو ان جہازوں کی وجہ سے انسان پر مسلط نہیں ہے… گیارہ ستمبر کے جہازوں نے تو دنیا کو وحشت اور دہشت میں ڈال دیا ہے… اب بوڑھی عورتیں ہاتھوں پر کریم لگاتی ہیں تو… جہاز فضا سے زمین پر آبیٹھتا ہے… میں ان ایجادات کا مخالف نہیں ہوں… مگر ان چیزوں کو کمال سمجھنا… مسلمانوں کے ایمان کے لئے… کینسر کی طرح خطرناک ہے… حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم نے یہی آواز لگائی کہ… دنیا فانی ہے… دنیا مردار ہے اور اس کے طلبگار کتوں کی طرح ہیں… دنیا کی زیب وزینت پر نظر نہ ڈالو… غریب، امیر سے افضل اور اعلیٰ ہے… سادہ کھاؤ… سادہ پہنو… سادہ رہائش اختیار کرو… تب ان آوازوں کو سن کر… چند لوگ ’’اصل انسان‘‘ بن کر ابھرے… ایسا انسان جو لالچ اور خود غرضی سے پاک ہو… ان چند انسانوں نے چند سالوں میں دنیا کو امن اور انصاف سے بھر دیا…

مجھے اسکول کالج کی تعلیم سے… پہلا اختلاف یہی ہے… وہاں سب سے پہلی بات جو دل میں بٹھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ… دنیا نے اب بہت ترقی کرلی ہے… اور مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں… اسکول کالج کے تعلیم یافتہ ننانوے فیصد حضرات کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوچکی ہے… اور یہ نظریہ خون کی طرح ان کی رگوں میں رچ بس گیا ہے… چنانچہ پھر وہ دیندار بنیں یا دنیا دار… ان کی سوچ اسی نظرئیے کی غلام رہتی ہے… وہ یہی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اگر کافروں کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ … سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کریں… ان کی اس ظاہری طور پر وزنی بات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟… کبھی آپ نے غور فرمایا!… اعلیٰ سائنس اور اونچی ٹیکنالوجی تو اسی وقت ملتی ہے جب … ہم اپنے نوجوانوں کو کافروں کے تندور میں ڈالیں… جب یہ آٹا… پکتا ہی کافروں کے تندور میں ہے تو پھر … وہ روٹی بھی انہیں کے کام آتی ہے… اصل بات تو یہ ہے کہ پہلے چند لوگ سچے مسلمان بنیں… ان کا دل، دماغ … اور عمل مسلمان ہو… پھر یہ لوگ ’’نبوی محنت‘‘ کے رستے قربانی دے کر ’’مسلمان معاشرہ‘‘ بنائیں… پھر مسلمان اپنے زیراثر جو سیکھنا چاہیں سیکھیں… اور جو بنانا چاہیں بنائیں… مگر اب تو ان تعلیم یافتہ لوگوں کی نظر میں نعوذباللہ  یورپ کی ناپاک رنگینی… معبود اور خدا کا درجہ رکھتی ہے… میرا تجربہ یہ ہے کہ آپ اپنی تحریر وتقریر میں… اگر اسلام کے کسی حکم کو سائنس کے مطابق ثابت کردیں تو… ان حضرات کے چہروں پر رونق آجاتی ہے… استغفر اللہ ، استغفر  اللہ … یعنی  اللہ  تعالیٰ اور رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے احکامات کو بھی… اسی وقت خوشی سے مانتے ہیں جب… یہ احکامات ’’موجودہ سائنس‘‘ کے مطابق ہوں… ایک بار ایک صاحب نے مجھ سے فرمایا… آپ اپنی تقریر میں اس بات کا حوالہ دیا کریں کہ… اسلام کے فلاں حکم کی اب سائنس نے بھی تائید اور توثیق کردی ہے … میں نے عرض کیا… آپ اس بات کو بھول جائیں کہ میں اپنے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کی کسی بات پر… حقیر سائنسدانوں کی ’’مہرتصدیق‘‘ لگوانے جاؤں گا… میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان… کسی کی تصدیق وتائید کا محتاج نہیں ہے… سائنس کے اصول اور نتائج بدلتے رہتے ہیں… مشینیں جھوٹ بول جاتی ہیں … رپورٹیں غلط ثابت ہوتی ہیں… جبکہ… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم نے جو کچھ فرمادیا وہ ہر زمانے میں اٹل ہے… ناقابل تردید ہے… ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے… دنیاداروں کو سمجھ آئے یا نہ آئے… مگر افسوس کہ آج مسلمان… انگریز اور انگریزی کے رعب تلے دبا ہوا ہے… اس کی ناک مدینہ منورہ کی خوشبو کو سونگھنے سے قاصر ہے… وہ تقریر میں انگریزی کے دوچار الفاظ بولنے کو علم کی معراج سمجھتا ہے… اور اس کے نزدیک موجودہ بیمار دنیا ترقی یافتہ ہے… اسکول کالج کی تعلیم نے یہ غلط ذہنیت مسلمانوں میں پیدا کی ہے… اور اب کافروں کی خواہش ہے کہ… مدرسہ والے بھی اسی ذہنیت کو اپنالیں… اسی لیے نصاب میں تبدیلی کا شور مچایا جارہا ہے…

ایک پاکدامن آدمی… ایک فتنہ پرور حسینہ سے ہمیشہ بچ جاتا تھا… حسینہ کی سہیلیاں اسے طعنے دیتیں کہ… تمہارے اندر کچھ کمی ہے… اسی لیے یہ ’’مرد‘‘ تمہارے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوتا… حسینہ نے کہا … میرا سارا فتنہ میری آنکھوں میں ہے… اور یہ سنگدل شخص… میری آنکھیں نہیں دیکھتا… جس دن … اس نے میری آنکھیں دیکھ لیں… یہ میرے قدموں میں کتے کی طرح لوٹے گا… آج امریکہ اور یورپ کی کافرانہ تہذیب کو یہی شکوہ ہے کہ … مدرسہ والے ہماری حسین آنکھوں کو نہیں دیکھتے… دیکھ لیں تو ہمارے قدموں کے کتے بن جائیں… اور جہاد وغیرہ کا نام ہی بھول جائیں… اگر ان کو برگر، پیپسی کا چسکہ پڑ جائے، فائیواسٹار کلچر کی رنگینی ان کی ضرورت بن جائے… ٹھنڈے کمرے اور نرم گاڑیاں ان کی مجبوری بن جائیں… دکھاوا اور فیشن ان کی عورتوں کا فخر بن جائے… ایئرہوسٹس اور نرس ان کی حاجت بن جائے تو پھر… کہاں مدینہ منورہ کے کچے حجرے… کہاں حضرت عمر کا پیوند والا کرتہ… کہاں خالد کی تلوار… اور کہاں ایوبی کا استغناء… دنیا کی چمک انسان کو کمزور، حقیر، ذلیل… اور بے کار جانور بنادیتی ہے…

ایک چھوٹا سا سوال

جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ… مسلمان جب تک عصری علوم اور سائنس میں ترقی نہیں کریں گے… اس وقت تک موجودہ کفریہ طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے… میں ان حضرات سے … ادب کے ساتھ ایک سوال کرنا چاہتا ہوں… اس وقت دنیا میں … جن مسلمانوں نے عصری علوم اور سائنس میں کچھ نہ کچھ ترقی کرلی ہے… وہ کافروں کا مقابلہ کر رہے ہیں یا ان کے کام آرہے ہیں؟… وہ دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں یا دنیا کماتے کماتے کفر سے قریب تر ہوگئے ہیں؟… ارے جناب! کافروں کا مقابلہ تو… نہتے اور غریب مسلمان کر رہے ہیں… اور ہر میدان میں انہیں کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہے… باقی تو سب کافروں کے تندور کی لکڑیاں بنے ہوئے ہیں… اور کھانے پینے سے لے کر سوچ اور عقیدے تک کافر بن رہے ہیں… مضمون کی ابتداء میں جو تمہید عرض کی تھی… اب اس کی طرف لوٹتے ہیں …  اللہ  تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں… اس کو دین کی سمجھ عطاء فرمادیتے ہیں… دینی مدارس میں چھٹیاں ہوچکی ہیں… رمضان المبارک کے سات دن بعد… یعنی سات شوال سے ملک کے تمام دینی مدارس میں… نیا سال شروع ہوتا ہے… داخلے کی شرائط سادہ… اور طریقہ کار بالکل آسان ہوتا ہے… میری مسلمان بھائیوں… اور بہنوں سے درخواست ہے کہ… وہ رمضان المبارک میں… خوب دعاء کریں کہ…  اللہ  تعالیٰ ہمارے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ فرمادے… اور پھر شوال میں اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کروائیں…  اللہ  کرے آپ کے بچے کامیاب حافظ، عالم، مجاہد… اور دین کے خدمت گار بنیں… اگر یہ نہ ہوسکا… تو ان شاء  اللہ  اتنا تو ضرور ہوگا کہ وہ… چھ ہزار تنخواہ کی خاطر کافروں کے سپاہی اور مسلمانوں کے قاتل تو نہیں بنیں گے… فلموں میں ناچنے گانے والے جانور تو نہیں بنیں گے… صحافت کے نام پر کافروں کی دلاّلی اور خدمت کرنے والے ایجنٹ تو نہیں بنیں گے… گردے اور دیگر انسانی اعضاء فروخت کرنے والے معالج تو نہیں بنیں گے… انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے بھیانک ڈاکو تو نہیں بنیں گے… مال کے عوض ہر خدمت سرانجام دینے والا بکاؤ مال تو نہیں بنیں گے… آپ آٹھ نو سال کے لئے ان کو مدرسے بھیج دیں… مدرسے کا انتخاب سوچ، سمجھ کر… اور استخارے کے بعد کریں… جن مدارس میں دنیاداری اور مادّہ پرستی زیادہ ہو… ان سے اپنے بچوں کو دور رکھیں … نوسال بعد جب ان کو دین کی سمجھ آجائے تو پھر… آپ کی مرضی… ان کو دین کی خدمت پر لگادیں یا ڈاکٹر، انجینئر، صحافی… یا کچھ اور بنائیں…

ایک ضروری گزارش

دینی مدارس کے موضوع پر ایک بار بیان ہوا… میرے ایک دوست اپنے موبائل فون پر یہ بیان… کسی مغربی ملک کے مسلمانوں کو سنا رہے تھے… ظاہر بات ہے تفصیلی بیان سنانے پر ان کا کافی خرچہ ہوا… بیان کے بعد آنکھوں میں آنسو لے کر فرمانے لگے… آپ کی باتیں سر آنکھوں پر… مگر آپ ہم ’’انگریزی تعلیم یافتہ‘‘ مسلمانوں کے لئے بھی کچھ گنجائش چھوڑ دیا کریں… میں نے انہیں تفصیل سے اپنا موقف سمجھایا تو خوش ہوگئے… دراصل ’’انگریزی تعلیم یافتہ‘‘ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلانے کی سخت ضرورت ہے کہ… ان سے کیاکچھ چھین لیا گیا ہے… ان سے قرآن پاک چھینا گیا… ان سے رسول پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی سنت کا علم چھینا گیا… ان سے فقہ اسلامی کا علم چھینا گیا… ان سے اسلامی سوچ چھینی گئی … سب سے پہلے وہ اپنے اندر اس بات کا احساس پیدا کریں کہ… ان سے کتنی عظیم الشان نعمتیں چھینی گئیں ہیں… اور انہیں محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی بجائے دنیا کے ناکام لوگوں کی باتیں پڑھنے پر مجبور کیا گیا ہے… اس احساس کے پیدا ہوتے ہی… انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان… اسلام کے لئے اتنا قیمتی ہوجاتا ہے کہ وہ… بعض اوقات علماء کرام سے زیادہ دین کی خدمت کر گزرتا ہے… ’’ترقی‘‘ کا معنیٰ ہے بلندی اور اوپر چڑھنا… اگر آپ کافرانہ تہذیب کو بلند سمجھیں گے تو آپ کا… راستہ ہی غلط ہے… اور جب آپ کے دل نے مان لیا کہ… مدینہ منورہ کی سادہ اور غریب تہذیب ترقی یافتہ تھی… اور نیویارک اور یو کے کی تہذیب فساد زدہ ہے تو… اب آپ کا راستہ ٹھیک ہوگیا… پھر عصری تعلیم کی وجہ سے دنیا کے معاملات کی سمجھ زیادہ ہوتی ہے… اس لیے… کام کرنے میں آسانی رہتی ہے… اور چونکہ ’’علمی قیل وقال‘‘ کم ہوتی ہے… اس لیے قربانی دینے کا جذبہ… عصری تعلیم یافتہ مسلمانوں میں… دینی مدارس کے طلبہ سے زیادہ ہوتا ہے… اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ… عصری تعلیم والوں کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے… ان کے لئے تو بہت گنجائش ہے… علماء اگر موتی ہیں تو عصری تعلیم والے مسلمان ایسے جوہری بن سکتے ہیں… جو موتی کی قدر منواتا ہے… علماء اگر اسلام کی تلوار ہیں تو عصری تعلیم یافتہ مسلمان… اسلام کے بازو بن سکتے ہیں… بس شرط ایک ہی ہے کہ… اپنی نیت میں اخلاص پیدا کریں… اور موجودہ ترقی کی عظمت دل سے نکال کر… اپنا راستہ درست کرلیں… پھر منزل ان شاء  اللہ … دو قدم کے فاصلے پر ہے…

٭٭٭

 

دل کی خوشی سے

 

 اللہ  تعالیٰ ہمیں دل کی خوشی اور رغبت کے ساتھ… تمام ’’فرائض‘‘ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا… یہ بھی ایک اسلامی فریضہ ہے… بہت اہم اور ضروری فریضہ … بہت مبارک اور پیارا فریضہ… دل اور مال کو پاک کرنے والا فریضہ… مصیبتوں کو دور کرنے اور خوشیوں کو قریب لانے والا فریضہ…  اللہ  پاک کو راضی کرنے… اور مخلوق کی خدمت کرنے والا فریضہ…  اللہ  تعالیٰ ہمیں دل کی خوشی کے ساتھ یہ فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… آئیے چند باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں…

حج پر خوشی، زکوٰۃ پر دل کی تنگی

حج بھی  اللہ  تعالیٰ نے فرض فرمایا ہے… اور زکوٰۃ بھی اسی رحمت والے پیارے رب نے فرض کی ہے… مگر دیکھا گیا ہے کہ … مسلمان ’’حج‘‘ سے بہت خوش ہوتے ہیں… اور زکوٰۃ کے نام سے بھی گھبراتے ہیں… خصوصاً عورتیں… اپنے ’’زیورات‘‘ کی زکوٰۃ کا مسئلہ سن کر… غم اور کنجوسی سے مرنے لگتی ہیں… آخر یہ فرق کیوں ہے؟… قرآن پاک میں زکوٰۃ کا مسئلہ… حج سے زیادہ بیان ہوا ہے… سترّ سے زائد مقامات پر تو… زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم نماز ادا کرنے کے حکم کے ساتھ بیان ہوا ہے…  اقیموا الصلوٰۃ وآتوا الزکوٰۃ

یعنی نماز قائم کرو… اور زکوٰۃ ادا کرو… زکوٰۃ حج سے پہلے فرض ہوئی… اور فرائض کی ترتیب میں اس کا تذکرہ… حج سے پہلے آیا ہے… مگر پھر بھی زکوٰۃ کو رغبت، شوق، محبت… اور اہتمام سے ادا نہیں کیا جاتا… حالانکہ زکوٰۃ کا تعلق ہماری غذا کے ہر لقمے سے ہے… مال کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی تو سارا مال ناپاک… اور نقصان دہ ہوجاتا ہے… تب ہر لقمہ زہر بن کر جسم کے اندر اترتا ہے… تعجب ہے کہ مسلمان شوق سے ’’عمرے‘‘ کرتے ہیں…  اللہ  کرے کرتے رہیں… مگر عمرہ فرض نہیں ہے… جبکہ زکوٰۃ اسلام کا ایک قطعی، لازمی… اور محکم فریضہ ہے… اور جب مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی تو… زمین فساد اور حرام سے بھر جاتی ہے… اور انسان کا مال بھی گندا ہوجاتا ہے اور اس کا دل بھی ناپاک…

اے مسلمان! بہنو… خوشی اور سرور کے ساتھ اپنے زیورات اور مال کی زکوٰۃ ادا کرو… اگر ایک ماں اپنے بچے کو ایک ہزار روپے دے… اور پھر مامتا کا پیار اپنی آنکھوں اور آواز میں بھر کر کہے… اے میرے پیارے بیٹے!… اے میرے لال!… اس ایک ہزار میں سے پچیس روپے… مجھے تو دے دے… بیٹا ماں کی پیار بھری آواز پر تڑپ جاتا ہے… اور کہتا ہے… امّاں اے میری پیاری امّاں!… میرا سب کچھ آپ کے لئے حاضر ہے… اور پھر خوشی سے جھومتے ہوئے پچیس روپے ماں کی خدمت میں ادب سے پیش کردیتا ہے… اب خود سوچیں ماں کی محبت زیادہ ہے یا  اللہ  تعالیٰ کی…  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں مال دیا… جبکہ ہم ماں کے پیٹ سے خالی ہاتھ آئے تھے… پھر اس نے اپنے بندے کوحکم دیا کہ… اے میرے بندے… اس مال میں سے چالیسواں حصہ مجھے دے دو… صرف چالیسواں حصہ… اور وہ بھی پورے سال میں ایک بار… جی ہاں ایک ہزار روپے میں سے صرف پچیس روپے… اور پھر یہ وعدہ بھی کہ… اس کا اجر دنیا آخرت میں ملے گا… اور یہ بشارت بھی کہ… زکوٰۃ دینے والوں کا مال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے… بڑھتا ہی چلا جاتا ہے… اے پیارے بندے… تیرا پیارا رب! تجھ سے مانگ رہا ہے… حالانکہ وہ غنی ہے اور تو محتاج… اب خود سوچئے ایک مسلمان کو کتنی خوشی سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے… مگر ہماری مسلمان بہنیں کہتی ہیں… ہائے میرا زیور… اور مسلمان بھائی کہتا ہے… ہائے میرا کاروبار… استغفر اللہ … استغفر اللہ  … استغفر اللہ … یہ عجیب مسلمانی ہے… کاش ہم سب مسلمان… زکوٰۃ ادا کرنے میں بھی وہی خوشی محسوس کریں… جو ہم حج ادا کرنے میں کرتے ہیں…

ایک شخص دیکھا

 اللہ  تعالیٰ کی زمین پر اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے… مگر میں نے اکثر مسلمانوں کو زکوٰۃ کے معاملے میں … غفلت اور سستی کرتے دیکھا ہے…  اللہ  تعالیٰ معاف فرمائے… یہ وہ فتنہ ہے جس نے رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے وصال کے بعد… سب سے پہلے سر اٹھایا تھا… کئی لوگ زکوٰۃ کو بوجھ سمجھ کر اسلام سے مرتد ہونے لگے… بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا… حضرت صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ نے ان لوگوں سے جنگ فرمائی… صحابہ کرام کی ایک جماعت شروع میں اس جنگ کی قائل نہیں تھی… وہ فرماتے تھے کہ یہ لوگ… کلمہ پڑھتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں، توحید ورسالت کا اقرار کرتے ہیں… مگرحضرت صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ کی نظر بہت دور تک دیکھتی تھی… انہوں نے اس فتنے کو پہچان لیا… جو فتنہ لوگوں کو بخیل جانور… اور مال کا پجاری بنادیتا ہے… اور آج اسی فتنے کی وجہ سے … مسلمانوں کا مال امریکہ اور سویئٹزرلینڈ کے بینکوں میں گل سڑ رہا ہے … زکوٰۃ کے بغیر کیسا اسلام ؟… اور کیسا مسلمان؟… حضرت صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ نے جب اپنا عزم دکھایا … اور اپنا موقف سمجھایا تو تمام صحابہ کرام کا… اس مسئلے پر ’’اجماع‘‘ ہوگیا… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے وصال کے بعد… صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر یہ پہلا ’’اجماع‘‘ تھا… تب حضرت صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ نے تلوار کی نوک سے اس فتنے کی جڑ کاٹ دی… اور اسلام کا نظریاتی نور… اپنی اصل شاہراہ پر آ کر… روم و فارس کی طرف بڑھنے لگا… معلوم ہوا کہ… زکوٰۃ کو بوجھ اور جرمانہ سمجھنا… مسلمان کا کام نہیں ہے… مسلمان کو تو اگر یہ حکم ملے کہ وہ اپنا سارا مال دے دے تو… اس کو ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں کرنی چاہئے… کیونکہ مسلمان…  اللہ  تعالیٰ کے فرمانبردار کو کہتے ہیں… مگر شیطان مال والوں کو ڈراتا ہے کہ… اگر تم نے زکوٰۃ دی تو تمہارا مال کم ہوجائے گا… تم غریب ہو جاؤ گے… عورتوں کو ڈراتا ہے کہ… اگر تم زیور سے زکوٰۃ ادا کرتی رہی تو چند سال میں… تمہارا سارا زیور ختم ہوجائے گا… حالانکہ شیطان کی باتیں جھوٹی ہیں…

قرآن پاک کا اعلان ہے کہ… زکوٰۃ سے مال بڑھتا ہے… کیا قرآن پاک کی بات میں شک کیا جاسکتا ہے؟… حدیث شریف میں آیا ہے کہ… صدقہ (زکوٰۃ وغیرہ) سے مال کم نہیں ہوتا… کیا حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کے فرمان میں شک کی گنجائش ہے؟… پھر خود سوچیں کہ ہم نے جو کچھ زکوٰۃ اور صدقے میں دیا… وہ تو ہمارے لئے آخرت میں محفوظ ہوگیا… اور جو کچھ ہم بچا کر رکھ رہے ہیں… یہ تو ضائع ہوجائے گا… بہرحال قسمت کی بات ہے …  اللہ  تعالیٰ ہماری قسمت اچھی فرمادے … اور ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمادے…

 میں یہ عرض کر رہا تھا کہ… اکثر لوگ زکوٰۃ وغیرہ کے معاملے میں خوشدلی کا مظاہرہ نہیں کرتے… اکثر لوگ تو دیتے ہی نہیں… جو دیتے ہیں وہ تنگ دلی… اور تنگی کے ساتھ دیتے ہیں… البتہ میں نے ایک شخص دیکھا… وہ زکوٰۃ دینے میں ایسے خوش ہورہا تھا… جس طرح کوئی جوان آدمی اپنی شادی پر خوش ہوتا ہے… وہ بتا رہا تھا کہ میں نے اپنے خزانچی (کیشئر) سے کہا کہ… سارے مال کا حساب کرکے… ابھی سے اگلے دو سالوں کی زکوٰۃ ادا کردو… میرے خزانچی نے ایسا ہی کیا… اور سارے مال کا حساب کرکے اگلے دو سالوں کی زکوٰۃ بھی ادا کردی… مگر  اللہ  تعالیٰ نے عجیب معاملہ فرمایا… اور میرے مال اور کاروبار میں اتنی برکت عطاء فرمائی کہ… چھ مہینے میں وہ مال کئی گنا بڑھ گیا… اور اگلے دو سالوں کی زکوٰۃ… اسی ایک سال کی زکوٰۃ بن گئی…  اللہ  اکبر کبیرا…

مجھے ایک ’’عارف‘‘ کی بات یاد آگئی… انہوں نے بہت وجد کے عالم میں فرمایا تھا … ’’تم  اللہ  تعالیٰ کو نقد دو اور وہ تمہیں ادھار پر ٹالتا رہے… نہیں نہیں ایسا نہیں ہوتا…  اللہ  تعالیٰ بہت غیرت والا ہے… وہ نقد بھی دیتا ہے… اور ادھار کا سچا وعدہ بھی فرماتا ہے… حضرت صدیق اکبر رضی  اللہ  عنہ نے اپنے گھر کا سارا مال دے دیا… حتی کہ… سوئی اور دھاگہ بھی… مگر میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ… اگلے دن ان کو بھیک مانگنی پڑی ہو… ہم اخلاص کے ساتھ  اللہ  تعالیٰ کو دیں… اور وہ ہمیں لوگوں کا محتاج کردے… ایسا نہیں ہوتا… ایسانہیں ہوتا…

کروڑوں کی دولت، ورثاء کی پریشانی

 اللہ  تعالیٰ ہر گناہگار کو معاف فرمائے… ایک بار کچھ حضرات تشریف لائے… وہ ساٹھ لاکھ روپے کی رقم اٹھائے پھرتے تھے… اور کسی خیر کے کام میں لگانا چاہتے تھے… ان سے جب اس رقم کی ’’مد‘‘ پوچھی گئی تو بتانے لگے… ہمارے ایک بھائی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے… یہ ان کے نمازوں کے کفارے اور زکوٰۃ کی رقم ہے… یعنی وہ صاحب کروڑوں روپے کما کر… اور پھر انہیں دنیا میں چھوڑ کر انتقال کر گئے… انہوں نے اس مال کے کمانے پر کتنی محنت کی ہوگی… اس کے سنبھالنے کی کتنی فکر کی ہوگی… اس کو بڑھانے کے کتنے جتن کیے ہوں گے… اسی محنت اور فکر میں نمازیں بھی چھوٹ گئیں… زکوٰۃ بھی ادا نہ ہوسکی… اب ورثاء اس ڈر سے کہ… یہ مال مرنے والے پر قبر میں کتنا ظلم کر رہا ہوگا… کفارہ ادا کرنا چاہتے تھے… ہائے کاش… زیورات والی مسلمان عورتیں… اور مال والے مسلمان بھائی… کم از کم یہ حدیث پاک ہی پڑھ لیں… امام بخاریؒ اپنی سند سے… حضرت ابوہریرہ رضی  اللہ  عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ… رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس آدمی کو  اللہ  تعالیٰ نے مال عطاء فرمایا پھر اس نے اس مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن یہ مال ایک ایسے زہریلے، گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے۔ یہ سانپ اس مال دار شخص کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا۔ (یعنی اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا) پھر وہ سانپ اس شخص کی دونوں باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں… میں تیرا خزانہ ہوں… (بخاری)

یا اللہ  آپ کی پناہ… یا  اللہ  آپ کی پناہ… یا  اللہ  آپ کی پناہ…

تھوڑا سا سوچیں

جب ہم نے مر ہی جانا ہے تو اتنا مال… جمع کرنے کا کیا فائدہ؟… عالم اسلام آج … مالداروں کی کنجوسی کی وجہ سے… کافروں کا محتاج ہے… اے مسلمانو!… اپنے طرز عمل کو تبدیل کرو… جان لو … زکوٰۃ تو فرض ہے… تم زکوٰۃ کے علاوہ بھی  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرو… بلکہ جب بھی کوئی روزی یا مال ملے اس میں سے پہلے  اللہ  تعالیٰ کے نام کا حصہ نکالو… پھر اسے اپنے استعمال میں لاؤ…  اللہ  کرے یہ جذبہ اور کیفیت ہم سب کو نصیب ہوجائے… فی الحال ضروری کام یہ ہے کہ… زکوٰۃ کی فرضیت کامسئلہ… اپنے دل کو… اور اپنے اردگرد رشتہ داروں اور دوست واحباب کو سمجھایا جائے… زکوٰۃ کے مسائل بھی لوگوں تک پہنچائے جائیں… کیونکہ اکثر لوگ ان مسائل سے ناواقف ہیں… مسلمانوں کو بتایا جائے کہ جو مال تم زکوٰۃ میں دو گے وہ تمہاری راحت بن جائے گا… اور جس مال کی زکوٰۃ نہیں دو گے اس مال سے قیامت کے دن تمہارے لیے… آگ کے انگارے بنائے جائیں گے… جن سے… چہرے، پیٹھ اور پہلو کو داغا جائے گا… مسلمانوں کو سمجھایا جائے کہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے سے ان کا دل ناپاک… اور مال گندا ہوجاتاہے…

دن مقرر کرلیں

زکوٰۃ جب ایک اسلامی فریضہ ہے تو… مال والے مسلمانوں کو… اس فرض کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے… ان کو چاہئے کہ … زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے انتظامی طور پر کوئی ایک اسلامی تاریخ مقرر کرلیں… اور ہر سال اسی تاریخ پر اپنے تمام مال کا حساب کرکے زکوٰۃ ادا کردیا کریں… اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ… زکوٰۃ کا نصاب سونے اور چاندی میں سے… اُس کے حساب سے ہوگا جس کی قیمت کم ہو… ظاہر بات ہے کہ آجکل چاندی سستی ہے… اور چاندی کا نصاب… ساڑھے باون تولہ… یعنی 612.35 گرام ہے… جس کی قیمت آج کل گیارہ ہزار روپے کے لگ بھگ بنتی ہے… وہ خواتین جن کے پاس… تھوڑا سا سونا ہو اور کچھ نقد رقم… خواہ وہ پانچ روپے ہی کیوں نہ ہوں… اگر ان کے سونے کی قیمت گیارہ ہزار روپے تک ہوگی تو… ان کے ذمہ زکوٰۃ لازم ہوگی… وہ مسلمان جو جانور پالتے ہیں… ان کو چاہئے کہ… جانوروں کی زکوٰۃ کا نصاب اور حساب معلوم کریں… اور پابندی کے ساتھ ہر سال زکوٰۃ ادا کریں… ہم کوشش کریں گے کہ انشاء  اللہ  …ہفت روزہ القلم میں… زکوٰۃ کے اہم مسائل چھاپ دئیے جائیں…

اصل بات

ابتداء میں جو بات اپنی اور آپ کی نصیحت کیلئے عرض کی تھی… وہ بات اصل یاد رکھنے اور عمل کرنے کی ہے کہ… ہم دل کی خوشی، محبت ، رغبت اور شوق کے ساتھ… زکوٰۃ ادا کریں… اور اسے اپنے لئے ایک نعمت اور سعادت سمجھیں… اور بے چینی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنے کے دن کا انتظار کیا کریں… اور کھلے ہاتھ اور خوشدلی کے ساتھ… اصل مقدار سے کچھ اضافہ کرکے زکوٰۃ ادا کیا کریں… یہ کیفیت جس کو نصیب ہوجائے گی … اسے ایمان کی ایک خاص حلاوت اور مٹھاس ملے گی… اور اس کا دل سکون سے بھر جائے گا… ان شاء  اللہ …

 

 اللہ  تعالیٰ کی غیرت

ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ… اگر کوئی ہمیں مال دے تو چھپا کر دے… اور کسی کو نہ بتائے… بلکہ… بعض لوگ تو دینے والوں سے ’’وعدے‘‘ بھی لیتے ہیں کہ… کسی کو بتانا نہیں… مگر یہی لوگ جب کچھ بھی…  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں دیتے ہیں تو … ضرور لوگوں کو بتاتے ہیں… یہ عجیب معاملہ ہے… یعنی اپنی غیرت تو اتنی زیادہ کہ ہماری ناک نیچی نہ ہو… اور ہمیں چھپا کر دیا جائے… اور  اللہ  تعالی کی عظمت کا اتنا بھی دھیان نہیں کہ… اس کے راستے میں دے کر… لوگوں کو بتاتے پھریں…

اے مسلمانو!… یاد رکھو، بہترین صدقہ وہی ہے جو چھپا کر دیا جائے… اور اپنے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو… باقی قرآن پاک میں اس بات کی اجازت ہے کہ… لوگوں کے سامنے بھی مال خرچ کیا جاسکتا ہے… صدقہ دیا جاسکتا ہے… بلکہ زکوٰۃ وغیرہ تو کھلم کھلا ّ دینے سے یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ… دوسروں کو ترغیب ملتی ہے… بہرحال اصل چیز ’’اخلاص‘‘ ہے… اور سب سے خطرناک چیز شرک ہے… اور ریاکاری شرک کی چھوٹی بہن ہے… زکوٰۃ اور صدقہ چھپا کر دیں… یا کھلم کھلا… نیت  اللہ  تعالیٰ کی رضا کی ہونی چاہئے…

بس  اللہ  تعالیٰ راضی ہوجائے… بس  اللہ  تعالیٰ خوش ہوجائے… بس  اللہ  تعالیٰ قبول فرمالے…

اس کے علاوہ کوئی نیت نہ ہو… یا  اللہ ! ہم سب کو اخلاص عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین

اگر زندگی رہی… اور توفیق ملی تو اس موضوع پر باقی باتیں آئندہ ہفتے…

ان شاء  اللہ  تعالیٰ…

٭٭٭


ماہنامہ الخیر

 

اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے ان کو… جنہوں نے میرے پا س ماہنامہ’’الخیر‘‘ کا تازہ شمارہ بھجوایا ہے… دو سو اڑتالیس (۲۴۸) صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت رسالہ… فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحبؒ… کی یاد میں نکالا گیا ’’خصوصی شمارہ‘‘ ہے…’’ یاد‘‘ بھی عجیب چیز ہے… جب آتی ہے تو انسان کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے… خصوصاً جب یہ ’’یاد‘‘ اپنی کسی محبوب شخصیت کی ہو…

آئی جب انکی یاد تو آتی چلی گئی

ہر نقشِ ماسوا کو مٹاتی چلی گئی

ہر منظرِ جمال دکھاتی چلی گئی

جیسے انہی کو سامنے  لاتی چلی گئی

ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا

ہر شئے حسین تر نظر آتی چلی گئی

بے حرف و بے حکایت و بے ساز و بے صدا

رگ رگ میں نغمہ بن کے سماتی چلی گئی

جتنا ہی کچھ سکون سا آتا چلا گیا

اتنا ہی بے قرار بناتی چلی گئی

 دل بھی عجیب چیز ہے… معلوم نہیں کہاں کہاں بھٹکتا رہتا ہے… اور ساتھ مجھے بھی بھٹکاتا رہتا ہے    ؎

جا رہے ہیں بس جدھر ہم کو لئے جاتا ہے دل

میرا مصمم ارادہ تھا کہ انشاء اللہ… زکوٰۃ کے موضوع کو مکمل کروں گا… اور اپنے مسلمان بھائیوں… اور بہنوں سے عرض کروں گا کہ… ہم سب مل کر  دین کے تمام فرائض اور سنتوں کو زندہ کرنے کی محنت کریں… پچھلے ہفتے ’’فریضۂ زکوٰۃ‘‘ کے موضوع پر چند باتیں عرض کی تھیں… اس ہفتے اسی موضوع پر … کچھ مبارک حدیثیں اور چند عبرتناک واقعات سنانے تھے… مگر میرے ہاتھ میں ایک کتاب آ گئی… میں نے اس کے چند صفحات پڑھے تو دل اس کتاب کے مصنف کی یاد میں کھو گیا… میں انہیں گزشتہ سترہ سال سے جانتا ہوں… اور کئی بار ان کی کتابوں سے فیض حاصل کر چکا ہوں… وہ علم اور جہاد کا ’’رنگ و نور‘‘ تھے… اور بالآخر اپنے کام میں کامیاب ہوئے… اور شہادت کی حسین وادیوں میں کھو گئے… میں ان کے ثواب میں شریک ہونے کے لئے… انکی باتیں لکھنے لگا… اگر اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا اور وہ مضمون مکمل ہو گیا تو… انشاء اللہ جلد ہی قارئین کرام کی ملاقات اس عجیب و غریب کامیاب انسان سے ہو جائے گی… مگر اس وقت تو ہمارے سامنے’’ماہنامہ الخیر‘‘ کا خصوصی شمارہ ہے… یہ شمارہ کل میرے ہاتھ لگا… میں نے جلدی جلدی مختلف مقامات سے پڑھ ڈالا… کچھ ضروری کام سامنے تھے اس لئے دل بھر کر… استفادہ نہ کر سکا… دن کٹ گیا تو رات آ گئی… اور رات کا کٹنا… اور بیداری جھیلنا خود ایک عجیب کام ہے جگر مرحوم نے فرمایا تھا   ؎

نازک ترے مریض محبت کا حال ہے

دن کٹ گیا تو رات کا کٹنا محال ہے

جگرؒ کا ہی دوسرا شعر بالکل حسبِ حال ہے… وہ فرماتے ہیں   ؎

دنیا یہ دکھی ہے پھر بھی مگر، تھک کر ہی سہی سو جاتی ہے

تیرے ہی مقدر میں اے دل! کیوں چین نہیں آرام نہیں

رات کے ڈیڑھ بجے پھر ماہنامہ الخیر میرے ہاتھ میں تھا… اور اب کی بار میری ملاقات حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ ہو گئی… جی ہاں ملاقات… بہت لذت بھری ملاقات… بہت لطف بھری ملاقات… اور وہ بھی کئی دنوں کے بعد    ؎

مدت میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالَم

خاموش ادائوں میں وہ جذبات کا عالَم

نغموں میں سمویا ہوا وہ رات کا عالَم

وہ عطر میں ڈوبے ہوئے لمحات کا عالَم

اللہ رے، وہ شدتِ جذبات کا عالَم

کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی بات کا عالَم

عارض سے ڈھلکتے ہوئے شبنم کے دو قطرے

آنکھوں سے جھلکتا ہوا برسات کا عالَم

وہ نظروں ہی نظروں میں سوالات کی دنیا

وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالَم

نازک سے ترنم  میں اشارات کے دفتر

ہلکے سے تبسم میں کنایات کا عالَم

وہ عارضِ پر نور وہ کیف نگہِ شوق

جیسے کہ دمِ صُبح مناجات کا عالَم

شرمائی لجائی ہوئی وہ حسن کی دنیا

وہ مہکی ہوئی بہکی ہوئی رات کا عالَم

 حضرت مفتی صاحبؒ سے ملاقات ہو گئی… اور وہ وقار ، سکون اور محبت کے ساتھ اپنے حالاتِ زندگی سناتے چلے گئے… پاکیزہ بچپن، قابل رشک جوانی… اور شرابِ محبت سے مخمور بڑھاپا… حفظِ قرآن اور تحصیل علم کی منزلیں… اساتذہ کے معطر تذکرے… اور رب تعالیٰ کے انعامات کا والہانہ ذکر… جی ہاں! ماھنامہ الخیر کے اس خصوصی شمارے میں صفحہ ۲۷ تا ۴۲… حضرت مفتی صاحبؒ کی خود نوشت سوانح حیات ہے… اس میں ایک بڑے آدمی نے خود کو چھوٹا دکھانے کی کوشش کی ہے… ایک شمشاد قد حسین نے اپنے حسن پر تواضع کے پردے ڈالے ہیں… مگر یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی… قد اونچا ہوتا ہی چلا گیا… اور حسن مزید نکھرتا ہی چلا گیا… حضرتؒ کا یہ مضمون اپنی مثال آپ ہے… ہم نے قارئین القلم کے لئے… اسی شمارے میں اسے چھاپ دیا ہے…اب ہمارے قارئین بھی حضرت مفتی صاحبؒ سے ملاقات کا یک گونہ شرف حاصل کر سکیں گے…’’ ماھنامہ الخیر‘‘ کے مدیر اعلیٰ حضرت مولانا محمد حنیف صاحب جالندھری مدظلہ العالی… اور ’’ مدیر‘‘ حضرت مولانا محمد ازھر صاحب مدظلہ العالی… ڈھیروں دعائوں اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ … انہوں نے اسقدر جلدی… اتنے بہترین ’’خصوصی شمارے‘‘ کی اشاعت کا اہتمام فرمایا… جزا ھم اللہ احسن الجزاء فی الدارین… ان دونوں حضرات کے … وقیع مضامین بھی اس خصوصی شمارے کی زینت ہیں… حضرت مولانا محمد حنیف صاحب جالندھری نے حضرت مفتی صاحبؒ کا وہ خط بھی… اپنے مضمون میں شائع کر دیا ہے… جس خط میں حضرت مفتی صاحبؒ نے انہیں دورانِ اسفار نماز اور ذکر کے اہتمام کی تلقین فرمائی ہے… حضرت قاری صاحب کا مضمون… اور اس مضمون میں شامل اس خط کو پڑھ کر مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ… قاری صاحب اپنے ظاہر کی طرح اپنے باطن کو بھی سنوارنے…  اور سجانے کی پوری محنت کرتے ہیں… ان کے مقام کا کوئی اور آدمی ہوتا تو ’’تہمت‘‘ کے ڈر سے… اس اصلاحی خط کو اپنے مضمون کا حصہ نہ بناتا… حضرت مفتی صاحبؒ کا یہ اصلاحی خط بھی ’’القلم‘‘کے اس شمارے میں شائع کیا جا رہا ہے… اللہ کرے دین کا کام کرنے والے… اور جہاد کی دعوت دینے والے… اس پر بڑھ چڑھ کر عمل کریں… حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ نماز باجماعت کا مکمل اہتمام نہیں کرتے… ان کے دین کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا… بغیر ستون کے کونسی عمارت ہے جو قائم رہ سکے؟… مجھے جب دین اور جہاد کے کسی خادم کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ… فجر کی نماز بلاعذر گھر میںادا کرتا ہے تو… میرے دل پر غم اور صدمے کا ایک مکا لگتا ہے… یا اللہ تمام مسلمانوں کو عموماً اور دین کا کام کرنے والوںکو خصوصاً… نماز باجماعت کا اہتما م کرنے کی توفیق عطاء فرما… اور ہمارے دلوں کو نماز کی اصل اہمیت سمجھا…آپ دیکھیں جہاد کتنا مقدس اور کتنا مبارک عمل ہے؟… قرآن پاک نے اعلان کیا ہے کہ… کعبۃ اللہ کی خدمت بھی جہاد کے برابر نہیں ہے… پھر جہاد میں فتح پانا کتنی بڑی نعمت ہے؟… اس فتح کی برکت سے زمین پر دین قائم ہوتا ہے… اور فاتح کے لئے ہر اس نیک عمل کا اجر لکھا جاتا ہے… جو اس  کی فتح کردہ زمین پر جاری ہوتا ہے… اس زمین پر جتنی اذانیں ہونگی، جتنی نمازیں ادا ہونگی، جتنا علم پڑھا پڑھایا جائے گا… اللہ اکبر کبیرا… یہ اجر کا کتنا بڑا خزانہ ہے… کیا دنیا کا کوئی کیلکولیٹر اس کا حساب کر سکتا ہے؟… نہیں ہر گز نہیں… لیکن اس ’’فاتح‘‘ کے لئے اتنے بڑے اجر کے باوجود… نماز میں غفلت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے… اگر کوئی فاتح پورا امریکہ فتح کر کے وہاں اسلام قائم و نافذ کر دے… تب بھی اس کو ایک نماز معاف نہیں ہو گی… نماز تو بڑی بات ہے اس کے لئے فرض نماز کا ایک سجدہ بھی معاف نہیں ہو گا… دراصل اسلام کی عمارت نماز کے ستون پر قائم ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں نماز کی اس اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے… اور نماز کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بنائے… اور ہمیں مساجد کا اس سے زیادہ عشق عطاء فرمائے… جتنا عشق مجنوں کو لیلیٰ کے گھر سے تھا کہ… کبھی اس دیوار کو چومتا تھا… اور کبھی اُس دیوار کو… ’’ ماھنامہ الخیر‘‘ کے اس شمارے میں… حضرت مفتی صاحبؒ  کے بارے میں مختلف اہل قلم حضرات کے چالیس سے زیادہ مؤقر مضامین موجود ہیں… ان میں سے بعض مضامین بہت دلچسپ، مفید اور اثر انگیز ہیں… خود حضرت مفتی صاحبؒ کے دو بیانات بھی نقل کئے گئے ہیں… جبکہ ایک مضمون خالص آپ کے ملفوظات پر مبنی ہے… حضرت مفتی صاحبؒ کے جانشین… اور خلف الرشید حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب نے حضرتؒ کے حالاتِ زندگی کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے… جبکہ حضرت کے دو پوتوں… اور ایک بہو صاحبہ کے مضامین بھی پڑھنے لائق ہیں… اس خصوصی شمارے میں کل پانچ نظمیں ہیں… جن میں سے ایک نظم ملک کے سکہّ بند شاعر حافظ محمد ابراہیم فانی مدظلہ کی فکرِ رسا کا نتیجہ ہے… یہ خصوصی شمارہ چھپ کر منظرِ عام پر آ چکا ہے… ہم نے ’’القلم‘‘ کے تین صفحات اسی خصوصی شمارے کے تعارف کیلئے وقف کئے ہیں… تاکہ… اللہ پاک راضی ہو کہ اس کے ایک مخلص اور پیارے بندے کا ذکر خیر… اس لئے عام کیا جا رہا ہے تاکہ … مسلمانوں میں دین کی محبت بڑھے… وہ علم اور تقوے کے مقام کو سمجھیں… وہ اہل حق کو پہچانیں… وہ اپنی نمازوں کو جاندار بنائیں… اور ان میں… اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا جذبہ پیدا ہو…ہمارے ایک عزیز ساتھی نے اس خصوصی شمارے پر یہ تبصرہ فرمایا کہ … اس میں حضرات اکابر کے مضامین بہت کم ہیں… ان کے اس ہمدردانہ اشکال کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتاہے مثلاً… (۱) حضرت مفتی صاحبؒ ماشاء اللہ خود وقت کے اکابر میں سے تھے… اس وقت جو دو چار بڑے حضرات بحمد اللہ… حیات ہیں… حضرت مفتی صاحبؒ  ان میں سے ایک تھے…

(۲) دو ماہ سے کم عرصے میں یہ خصوصی شمارہ تیار کیا گیا… ظاہر بات ہے… اتنے کم عرصہ میں… اس سے بہتر’’شمارہ‘‘ منظر عام پر لانا بظاہر ناممکن معلوم ہوتا ہے… سنا ہے کہ کئی اکابر حضرات کے خدّام… ان کے خصوصی شمارے تیار کر رہے ہیں… مہینوں پر مہینے گزرتے جا رہے ہیں… مگر ابھی تک آنکھیں… حضرت چنیوٹیؒ جیسے اکابر کے مفصل حالاتِ زندگی پڑھنے کے لئے ترس رہی ہیں…

(۳) رجب سے لیکر پندرہ شوال تک… حضرات علماء کرام سے ملنا… ان سے مضامین لینا… کافی مشکل ہوتا ہے… سال کا اختتام… اور پھر نئے تعلیمی سال کا آغاز… سبھی حضرات مصروف… اور منتشر ہوتے ہیں…

(۴) کئی بڑے حضرات جو لکھا کرتے تھے… گذشتہ چار پانچ سال میں… خود تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں… آہ! کس کس کو یاد کیا جائے بس چند حضرات موجود ہیں… اور ان میں سے بھی بعض بے حد علیل… اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ پر رحم فرمائے…

(۵) حضرات اکابر کے حالاتِ زندگی… اور ان کے دینی کارنامے … ان کی وفات کے بعد جتنا جلد منظر عام پر آ جائیں… اسی قدر زیادہ مفید… اور نافع ہوتے ہیں… انکی یاد دلوں میں تازہ ہوتی ہے… محبت کے جذبات بھی زندہ ہوتے ہیں… تب… انکی تعلیمات کا منظرِ عام پر آ جانا انسان کو جلد نفع پہنچاتا ہے… اور سیدھے راستے پر ڈالتا ہے… بہر حال کچھ بھی ہو… ماھنامہ الخیر کا یہ خصوصی شمارہ وقت کی ضرورت تھی… امید ہے کہ انشاء اللہ … اس سے اُمت مسلمہ کو فائدہ پہنچے گا… ہم اس شمارے کے چیدہ چیدہ تحفے… حضرت مفتی صاحبؒ کی خود نوشت سوانح حیات… اور آپ کا ایک مؤثر بیان… القلم کے اس شمارے میں شامل کر رہے ہیں… یا اللہ قبول فرما… یا اللہ نافع بنا… آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭

 

رومی پاپے سے چند باتیں

 

 اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی… اور ’’روم‘‘ کی وسیع عیسائی سلطنت ختم ہو گئی… اب قیامت تک کوئی بھی ’’قیصرروم‘‘ نہیں بن سکتا… حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنادی تھی کہ… روم کی سلطنت ختم ہونے والی ہے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کے اس فرمان کو چند برس ہی ہوئے تھے کہ … مسلمان مجاہدین کے قافلے… ایمان اور انصاف کی شمعیں اٹھائے ملکِ روم کی طرف بڑھے… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے روم کی عظیم سلطنت… یوں پگھل گئی… جس طرح پانی میں نمک… اور پھر آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا جب مسلمانوں نے… قسطنطنیہ بھی فتح کرلیا… والحمد اللہ  رب العالمین… سچی بات یہ ہے کہ عیسائی مذہب عملی طور پر کبھی کا… دنیا سے ختم ہوچکا ہے… اب عیسائیت نام ہے اسلام دشمنی کا… سرمایہ داری کا… ظلم اور زیادتی کا … اور کھلی بے حیائی کا… اسی لیے تو عیسائی اکثریت کے ممالک نے خود کو ’’عیسائی‘‘ کہلانے کی بجائے ’’سیکولر‘‘ کہلانا پسند کیا ہے… ہاں یہ سچ ہے کہ عیسائیت ختم ہوچکی ہے… مگر ’’عیسائی تعصب‘‘ باقی ہے… اور عیسائیت کا نام باقی ہے… جو شخص چاہے کہ وہ جانوروں کی طرح آزاد زندگی گزارے وہ عیسائی ہوجائے … نہ شراب کی ممانعت نہ سور کے گوشت کی… نہ بغیر شادی تعلقات پر کوئی قدغن… اور نہ ہم جنس پرستی پر… جو مرضی کھاؤ، جو مرضی پہنو، جو مرضی بولو، جو مرضی کرو… کیا کوئی آسمانی دین اس طرح کا ہوسکتا ہے؟… کتا ایک جانور ہے مگر پھر بھی سوچ سمجھ کر … اور موقع محل دیکھ کر بھونکتا ہے… مگر عیسائیت میں… ان کے ’’پوپ‘‘ سمیت ہر کسی کو کھلا بھونکنے کی اجازت ہے… یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا بے حیائی سے بھر جائے… اور اسلام بھی اسی طرح ختم ہوجائے جس طرح قیصرِروم کی سلطنت ختم ہوئی… یہ اپنی ’’تاریخی شکست‘‘ کا بدلہ لینا چاہتے ہیں… مگر یہ کامیاب نہیں ہوںگے…

پاپے کا تعارف

ایک عیش پرست شخص جو پاپائے روم کہلاتا ہے… عیسائی بیچاروں کا اصل ’’پاپا‘ ‘ تو ختم ہو گیا… انہوں نے اس کی یاد گار کے طور پر … اپنے لیئے ایک نیا ’’پاپا‘‘ (باپ) بنالیا ہے… وہ مسلمانوں کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ… دیکھو! روم کا ’’قیصر‘‘ اب بھی موجود ہے… اور ’’اسقف اعظم‘‘ اب بھی زندہ ہے… مگر دنیا اتنی بے وقوف نہیں ہے کہ… اسے ’’ویٹی کن‘‘ کا چھوٹا سا، حقیر شہر نظر نہ آئے… عیسائیوں نے ’’ویٹی کن‘‘ کے چھوٹے سے شہر کو ایک پوری ریاست اور ملک کا درجہ دے دیا ہے… ’’پوپ‘‘ اس ریاست کا بادشاہ ہوتا ہے… اور چند گلیوں کے اس ملک پر اس کی باقاعدہ حکومت قائم ہوتی ہے… پاپائے اعظم، پاپائے روم اور اسقف اعظم جیسے اونچے الفاظ کی کھال میں… جو بھوسا بھرا ہوتا ہے… اسے ایک واقعہ سے سمجھنے کی کوشش کریں…

جیل میں ایک بار ہمارے وارڈ میں… نشے کے عادی ایک قیدی کو ڈالا گیا… ہمارا وارڈ ہائی سیکورٹی بلاک تھا… وہاں بڑے ملزم اور خطرناک قیدی رکھے جاتے تھے… نشے کا عادی ہونا تو کوئی بڑا جرم نہیں ہے… مگر اس قیدی نے جیل حکام سے جھگڑا کیا تھا… اس بڑے جرم میں اسے چند دن کے لئے ’’قصوری‘‘ قرار دے کر ہمارے ساتھ رکھا گیا… یہ شخص پچیس سال سے جیل آجا رہا تھا… اور وہ ’’جیل مینوئل‘‘ اور ’’جیل معلومات‘‘ کا انسائیکلوپیڈیا تھا… ہمارے وارڈ کے ساتھی کبھی کبھار مزاح کے موڈ میں ہوتے تو اس کو کرسی پر بٹھا کر… وزیر جیل خانہ جات قرار دے دیتے… اور خود صحافی بن کر سوالات پوچھتے… آپ یقین جانیں وہ شخص گردن اونچی کرکے باقاعدہ وزیر بن جاتا… اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیتا… دنیا بھر کے عیسائیوں نے… مذہب سے تو اپنی گردن چھڑالی… مگر اپنے مذہب کی نشانی کے طور پر… کراچی کے ’’لالوکھیت‘‘ جتنے ایک شہر کو… رومی سلطنت کا پایہ بنا کر وہاں ایک ’’پاپا‘‘ بٹھا دیا ہے… یہ عجیب ’’پاپا‘‘ اور مذہبی رہنما ہے… جو سونے اور جواہرات کا جڑاؤ تاج پہنتا ہے… ہیرے کی انگوٹھی ہاتھ میں ڈالتا ہے… کروڑوں روپے کے زرق برق کپڑے پہنتا ہے… اس کے گرد درجنوں جوان لڑکیاں سیکرٹری کے فرائض انجام دیتی ہیں… اس کو نہلانے، دھلانے کے لئے بھی خادم اور خادمائیں مقرر ہیں… اس کے گرد ہر وقت مسلح دستے پہرہ دیتے ہیں… اس کو باقاعدہ سیلوٹ کیا جاتا ہے… اس کا ایک مسلح شاہی دستہ اس کے محل کے گرد ساکت وصامت بتوں کی طرح… متعین رہتا ہے… یہ ’’پاپا‘‘ جہاں جاتا ہے… سربراہ مملکت کا ’’پروٹوکول‘‘ لیتا ہے… مذہب کے بارے میں اس کی کوئی نہیں سنتا… البتہ سیاسی طور پر وہ ایک ’’نمائشی بت‘‘ ہے… جس کی پوجا کی جاتی ہے… وہ اپنے پیروکاروں کو کسی جنگ سے روک نہیں سکتا… ہاں کبھی کبھار کوئی ایسا تنقیدی بیان جھاڑ دیتا ہے… جس کی اہمیت بوڑھے کی کھانسی جتنی بھی نہیں ہوتی… اس کو عبادت اور روحانیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا… اس کی سیکرٹریاں سارا دن اس کے کپڑے بدلواتی رہتی ہیں… اور اس کے سیکرٹری اس کی طرف سے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں… یہ ’’پاپا‘‘ مرجاتا ہے تو اسے آبنوس کے صندوق میں ڈال کر… سونے کی کیلیں گاڑ کر… ایک تہہ خانے میں دفنا دیا جاتا ہے… یہ ہے وہ ’’پاپا‘‘ جو ابھی چند روز قبل آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بکا ہے…  اللہ  پاک اسے جلد آبنوس کا تابوت اور سونے کی کیلیں اور چرچ کا تہہ خانہ نصیب فرمائے…

پاپے! ایک بات تو بتا

تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ پچھلا ’’پاپا‘‘ مرگیا… وہ پولینڈ کا رہنے والا تھا… چونکہ ’’پاپا‘‘ کا عہدہ… عبادت، ریاضت، تقوے اور جفا کشی والا کام تو ہے نہیں… یہ تو بادشاہی ہے، عیاشی ہے اور مزے… اس لیے اس کا جانشین بننے کے لئے ’’پاپوں‘‘ کی ایک لائن لگی ہوئی تھی… اس لائن میں آگے آگے نائجیریا کا ایک ’’پادری‘‘ تھا… مگر نام کے عیسائیوں کو ’’کالاپاپا‘‘ کہاں گوارہ تھا… وہ جرمنی کے اس گورے پادری کو آگے لائے… جو آجکل ’’پاپا‘‘ ہے… آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ … یہ ’’پاپا‘‘ پہلے فوجی تھا… انٹی ایئر کرافٹ گن چلاتا تھا… یعنی جہاز گراتا تھا… پھر فوج سے بھاگ کر پادری بن گیا… اب اس کے پیچھے پچھتر ’’پادری‘‘ ’’پاپا‘‘ بننے کیلئے اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں… خلاصہ یہ ہے کہ ’’پاپوں‘‘ کی کوئی کمی نہیں ہے… مگر یہ ’’پاپا‘‘ اپنی حقیر سی جان کی حفاظت کے لئے… کروڑوں ڈالر خرچ کرتا ہے… ہر وقت مسلح پہرے داروں میں رہتا ہے… جہاں جاتا ہے… وہاں بھی زمینی اور فضائی سیکورٹی مانگتا ہے… مجھے پوچھنا صرف یہ ہے کہ … اے پاپے! تو اپنی حقیر سی جان کے لئے… تلواریں ہی تلواریں اٹھائے پھرتا ہے… اور دوسری طرف تو اعتراض کرتا ہے … حضرت آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تلوار پر… جن کی تلوار نے دنیا سے ظلم اور شرک کا خاتمہ کیا…

کچھ تو شرم کر! یا تو اپنے ارد گرد سے تلواریں ہٹالے… یا اعتراض کرنا چھوڑ دے… مجھے معلوم ہے تو تلواریں نہیں ہٹائے گا… حالانکہ نہ تیرے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ ہے… اور نہ تیرے مرنے کا کوئی نقصان… جبکہ آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تلوار نے تو انسانیت کو صرف فائدہ ہی پہنچایا ہے…

اے پاپے! ہمیں معلوم ہے

’’پاپے‘‘ نے اس موقع پر اپنی زبان کیوں نکالی ہے؟… اور آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی تلوار کو کیوں یاد کیا ہے؟… دراصل ’’پاپا‘‘ بہت غمگین ہے… ’’پاپا‘‘ کے ’’بیٹے‘‘ اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو مارنے کیلئے… افغانستان میں آئے ہوئے ہیں… اور وہاں ’’پاپا‘‘ کے ان طاقتور بیٹوں کو حیرتناک شکست کا سامنا ہے… چھبیس طاقتور ملکوں پر مشتمل نیٹو اتحاد کے فوجی… افغانستان میں بری طرح پھنس چکے ہیں… انہوں نے اپنے رکن ممالک سے … پچیس سو مزید فوجیوں کی مانگ کی ہے… مگر کوئی ملک پچیس فوجی دینے کو بھی تیار نہیں ہے … صرف پولینڈ نے ایک ہزار کا وعدہ کیا ہے مگر وہ بھی آئندہ فروری تک… امریکی وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ… اگر نیٹو ممالک نے مزید فوجی نہ بھیجے تو حامد کرزئی کی ’’جمہوری حکومت‘‘ گِر جائے گی… نیٹو افواج کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ… ہمیں غلط معلومات دے کر بھیجا گیا… اور طالبان کے بارے میں ہمارے اندازے غلط تھے…  اللہ  اکبر کبیرا… اے انسانو! اب تو اسلام کی صداقت پر ایمان لے آؤ… ایک طرف اکیلے اور نہتے طالبان… اور دوسری طرف امریکہ اور چھبیس ترقی یافتہ ممالک… طالبان مطمئن ہیں… اور اتحادی فوجی چیخ رہے ہیں… یہ سب کچھ کیا ہے؟… اسلام کی صداقت کے لئے اس زمانے میں… اور کونسی نشانی درکار ہے؟… نیٹو ممالک کے فوجی اونچی اور بڑی تنخواہوں کے باوجود میدان میں آنے کے لئے تیار نہیں… اور دوسری طرف الزام ہے کہ… طالبان کے حامی سرحد عبور کرکے تیزی سے آرہے ہیں… امریکی وزیر خارجہ کے کہنے پر پچیس سو فوجی ہاتھ نہیں آرہے جبکہ… ملا محمد عمر حفظہ  اللہ  تعالیٰ آج اعلان فرمادیں… اور حکومت پاکستان راستہ کھول دے تو… انشاء  اللہ  ایک ہفتے میں ایک لاکھ فدائی افغانستان میں… دنیا بھر کے مختلف علاقوں سے پہنچ جائیں گے…  اللہ  اکبر کبیرا… افغانستان کے تازہ حالات نے مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط کردیا ہے… اور اسلام کی حقانیت کا نور… دنیا بھر کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے رہا ہے… روم کا ’’پاپا‘‘ اسی صورتحال کو دیکھ کر پریشان ہے… اور اسی بدحواسی میں اس کی زبان قابو میں نہیں رہی… اور اس نے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بک دی ہے… اور دل کی جلن نکالنے کے لئے… اس نے تلوار کا طعنہ بھی دیا ہے… تاکہ… مسلمانوں کے نام نہاد شرابی، وکیل فوراً شور مچادیں کہ… اسلام کا تلوار سے کوئی تعلق نہیں… اور تلوار کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں … یوں پاپا! ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے… ایک طرف وہ لوگوں کو اسلام کے خلاف بھڑ کا رہا ہے… اور دوسری طرف ’’انکار جہاد‘‘ کا شور برپا کرانے کے لئے… جاہل وکیلوں کو دانہ ڈال رہا ہے… اے پاپے! ہمیں معلوم ہے تو کیا چاہتا ہے… مگر تیری یہ سازش… انشاء  اللہ … کامیاب نہیں ہوگی… تو ہماری تلواروں کا رونا رونے سے پہلے اپنے ’’بیٹوں‘‘ کے اسلحہ خانے میں جھانک کر دیکھ… اگر تو آنکھیں رکھتا ہے…

پاپے کے بیٹے

عیسائی لوگ پاپے کو فادر یعنی باپ مانتے ہیں… اس اعتبار سے ’’پاپا‘‘ کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے بیٹے… کیا کیا خرمستیاں کر رہے ہیں… پاپا کے بیٹے عراق میں روزانہ بستیاں اجاڑ رہے ہیں… اور ہزاروں بے گناہوں کو قتل کررہے ہیں… پاپا کے بیٹے افغانستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نظریاتی جنگ میں… معصوم بچوں کا قیمہ بنا رہے ہیں… پاپا کے بیٹے اریٹریا میں مسلمانوں کی عزتیں پامال کر رہے ہیں… پاپا کے بیٹے ایتھو پیا میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں… پاپا کے بیٹے جنوبی سوڈان میں… ایک اسلامی ملک کو تقسیم کرنے کے لئے سر توڑ جنگ لڑ رہے ہیں… پاپا کے بیٹے نائجیریا میں اقتدار پر قبضے کے لئے ہر سازش رچا رہے ہیں… پا پا کے بیٹے ساری دنیا میں… سرمایہ داری کے ذریعہ غربت پھیلا کر… لوگوں کو مرتد اور اپاہج بنا رہے ہیں… پاپا کے بیٹے دنیا بھر میں ایڈز پھیلا رہے ہیں… پاپا کے بیٹے دنیا کی ہر بے حیائی کے اصل ٹھیکیدار ہیں… پاپا کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن یہودیوں کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں… پاپا کے بیٹے انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں…

اے پاپا! اپنے بیٹوں کو سنبھال… اگر تو نہیں سنبھال سکتا تو پھر تو ’’نقلی پاپا‘‘ ہے… اور اگر تو ان کے ان کارناموں پر خوش ہے تو پھر… تو ’’پاپا‘‘ نہیں دنیا میں بدی پھیلانے والا شیطان ہے…

٭٭٭

ایک نصاب ایک خوشبو

 

 اللہ  تعالیٰ کا رحمت والا مہینہ رمضان المبارک… الحمد اللہ  ہمیں پھر نصیب ہوگیاہے…  اللہ  تعالیٰ اس مہینے میں اپنا خاص فضل فرما کر … میری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے… اور ہمیں ان ’’ہلاکت زدہ‘‘ لوگوں میں شامل نہ فرمائے… جو رمضان کا مہینہ تو پاتے ہیں مگر اپنی بخشش نہیں کراتے… رمضان المبارک میں ہماری بخشش ہوجائے… اور یہ مہینہ ہمارے لیے قیمتی بن جائے… یہ صرف  اللہ  تعالیٰ کے فضل ہی سے ممکن ہے… البتہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم محنت اور کوشش کریں… رمضان المبارک کو حاصل کرنے کا مختصر نصاب حاضر خدمت ہے…

ادب، احتیاط اور عاجزی سے رہیں

رمضان المبارک کا پورا مہینہ… عبادت اور رحمت والا ہے… اس مہینے کے دن بھی بابرکت… اور اس کی راتیں بھی پرنور… اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے… اس لیے اس مہینے کے داخل ہوتے ہی… ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے… ادب، عاجزی اور احتیاط کی کیفیت… ایسا نہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہی… نفس کا جن بوتل سے باہر آجائے… اور گناہ کے کام اور شرارتیں شروع ہوجائیں… بلکہ… دن ہو یا رات ہر مسلمان رمضان المبارک کے نور کو محسوس کرے… اپنے ہر معاملہ میں شریعت کی پاسداری اور احتیاط کرے… اور ہر لمحہ اس فکر میں لگا رہے کہ… رمضان المبارک گزر رہا ہے… میں نے اپنی بخشش کرانی ہے… اس وقت میں نیکی کا کونسا کام کروں؟… ہر وقت نیکی کی جستجو میں لگا رہے… اور جائز لذت اور ضرورت کے اوقات میں بھی اپنے دل کو ذکر  اللہ  سے غافل نہ کرے…

اس کیفیت کے حاصل کرنے کے لئے… رمضان المبارک کے فضائل کی روزانہ تعلیم مفید رہے گی… خواہ چند منٹ ہی کیوں نہ ہو…

الٹی چھلانگ سے بچنا چاہئے

انسان کا ’’نفس ِ امارہ‘‘ اور شیطان… اس کو الٹی راہ پر ڈالتا ہے… رمضان المبارک کا اصل مطلب ہے قربانی… یعنی کم کھانا، کم پینا، کم سونا… زیادہ مال خرچ کرنا… اور خوب جہاد کرنا… اب شیطان نے انسانوں کو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے… خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے… خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے… خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آجائے… اور خوب مال کمانا کہ ہر وقت بازار کے فسادزدہ ماحول میں بیٹھنا پڑے… دراصل شیطان رمضان المبارک سے بہت ڈرتا ہے… وہ اتنی محنت کرکے انسانوں کو گناہ کرواتا ہے… مگر رمضان المبارک میں تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں … اور عبادات کا اجر بڑھادیا جاتا ہے… اور خود شیطان کو باندھ دیا جاتا ہے… اس لیے شیطان… رمضان المبارک سے پہلے ہی نفس کو خوب پٹی پڑھاتا ہے… چنانچہ رمضان المبارک کے آتے ہی… اکثر لوگ کھانے، پینے اور کمانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں…  اللہ  تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے…

کچھ کام بڑھا دیں

رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ… عبادات میں محنت کرنی چاہئے… اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے… رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر… آخری دن سورج غروب ہونے تک محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے… چنانچہ فوری طور پر یہ کام بڑھادینے چاہئیں… 

(۱) نماز: یعنی فرائض وواجبات کا خوب اہتمام اور نوافل کی کثرت… رمضان المبارک میں ’’تراویح‘‘ بہت بڑی نعمت ہے… کوئی مسلمان اس نعمت سے محروم نہ ہو… اور تہجد کا بھرپور اہتمام کیا جائے…

(۲)۔ تلاوت: کم از کم تین پارے اور زیادہ جس قدر ممکن ہو…

(۳)۔ صدقات: یعنی خوب سخاوت کی جائے… خوب مال خرچ کیا جائے… ان مسلمانوں تک افطار اور کھانا پہنچایا جائے جو دشمنان اسلام سے ٹکر لے رہے ہیں… یا اپنے گھروں سے محروم ہجرت پر مجبور ہیں…

(۴)۔ جہاد: رمضان المبارک جہاد کا مہینہ ہے… غزوہ بدر اسی مہینے میں پیش آیا… اس لیے غزوہ بدر کی ہر یاد تازہ کرنی چاہئے… جان کی قربانی، مال کی قربانی… جہاد کی دعوت… مجاہدین کے لئے ضروریات کی فراہمی… یا جس کام پر تشکیل ہوجائے…

(۵)۔ آخرت کی فکر: ہم نے اس دنیا میں نہیں رہنا… اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے… یہ فکر اور عقیدہ انسان کی اصلاح کے لئے لازمی ہے… اس کا زیادہ سے زیادہ محاسبہ اور مذاکرہ کیا جائے… تب فضول کوٹھیاں بنانے، مال جمع کرنے اور اس دنیا کی خاطر ذلیل ہونے کے عذاب سے … نجات مل جائے گی… اور اعمال میں اخلاص پیدا ہوگا…

یہ پانچ کام زیادہ کرنے ہیں… مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ… ہر عمل کی جان اخلاص اور ذکر میں ہے… یعنی ہر عمل  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے اور ہر عمل میں  اللہ  تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد کا نور بھرا ہوا ہو… تب وہ عمل قبول ہوتا ہے…

کچھ کام بند کردیں

(۱)۔ بدنظری… اپنی آنکھوں کی خوب خوب حفاظت کرنی چاہئے … ورنہ رمضان المبارک کا نور حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا…

(۲)۔ ٹی وی… بالکل بند کردیں، نہ خبریں نہ کچھ اور

(۳)۔ گناہ والی مجلسیں… وہ مجالس جن میں بے حیائی کی باتیں… غیبت اور جھوٹ کا چلن ہو… ان مجالس میں بیٹھنا بند کردیں…

چند کام کم کردیں

(۱)۔ کھانا

(۲)۔ پینا

(۳)۔ سونا

(۴)۔ جائز لذت حاصل کرنا

(۵)۔ گفتگو کرنا

(۶)۔ دنیوی اخبارات ورسائل پڑھنا

 یہ تمام کام عام دنوں سے کم کردینے چاہئیں…

افطار پارٹیوں سے بچیں

رمضان المبارک میں شیطان کا ایک پھندا… غفلت زدہ افطار پارٹیاں ہیں… ان پارٹیوں میں کھانے کی حرص، فضول گپ بازی… اور قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہے… نہ آپ کسی کو پارٹی دیں نہ کسی کی پارٹی میں جائیں… ہاں کوئی دینی اجتماع ہو تو اس میں شرکت کرسکتے ہیں… افطار کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے… اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے… غریبوں کے گھر، شہداء کرام کے ورثاء کے گھر، علماء اور دین کے خدمتگاروں کے گھر افطاری… اور کھانا بھجوادیں… افطاری کی رقم مجاہدین اور مہاجرین کو بھجوادیں… اگر کسی کو افطاری پر گھر بلائیں تو فضائل اعمال… اور فضائل جہاد کی تعلیم کا اہتمام کریں… ایک دوسرے کے مقابلے پر دعوتیں نہ کریں… بلکہ… اپنے وقت کو قیمتی بنائیں… اور افطاری کا کھانا بھجوادیا کریں…

اعتکاف عجیب عبادت ہے

رمضان المبارک کا ایک خاص تحفہ ’’اعتکاف‘‘ کا عمل ہے… جن مسلمانوں کو  اللہ  تعالیٰ توفیق عطاء فرمائیں… وہ محبت، احترام، خوشی… اور مکمل آداب کے ساتھ اعتکاف کی عبادت کو غنیمت سمجھیں…

ہم امۃ محمد ا کے فرد ہیں

جب کسی انسان کو  اللہ  تعالیٰ… عبادت، خلوت اور ذکر کی توفیق عطاء فرماتا ہے تو… اس انسان کو عجیب مزہ آنے لگتا ہے… تب خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوجائے… اس لیے بھرپور عبادت وتلاوت کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے کہ… ہم رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے امتی ہیں… ہمارے رسول حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم خود میدانوں میں نکل کر… تلوار اٹھاتے اور جہاد فرماتے تھے… اس عظیم اور بہترین امت کا فرد ہونے کی وجہ سے… ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں… اور ہم پرانی امت کے صوفیوں کی طرح… صرف خلوت، عبادت اور تنہائی کے مزے نہیں لوٹ سکتے… اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمارا دل فلسطین، افغانستان، عراق، کشمیر… اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرے… ہم ان مجاہدین کے لئے دعاء کریں جو ہمارے سرکا تاج ہیں… اس لیے کہ وہ میدانوں میں لڑ رہے ہیں… ہم ’’دشمنانِ انسانیت‘‘ کی جیلوں میں قید ’’اسیرانِ اسلام‘‘ کے لئے بلک بلک کر دعائیں مانگیں… ہم حضرت امیر المؤمنین، شیخ اسامہ اور ان تمام مجاہدین کے لئے دعائیں مانگیں… جن پر دین کی خاطر زمین تنگ کردی گئی ہے… ہم مجاہدین کے غلبے، اور دشمنانِ اسلام کی ناکامی کے لئے رو رو کر دعائیں کریں… اور ہم اپنے دل کو… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سچے امتی کا دل بنائیں…

روزانہ کا سوال

ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو… اگر ہم نے اس میں بھی اپنی بخشش نہیں کرائی تو پھر کب کرائیں گے؟… مگر اپنی بخشش کرانا ہمارے اپنے بس میں تو نہیں ہے… اس لیے روزانہ بلاناغہ… دو رکعت نماز صلوٰۃ حاجت پڑھ کر دعا کیا کریں… یا  اللہ  اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے رحمت، مغفرت، جہنم سے نجات اور عافیت والا مہینہ بنا… ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن پر تیرا فضل ہے… اور جن کی بخشش ہوئی ہے… اور ہمیں اپنی پناہ عطاء فرما… ان لوگوں میں شامل ہونے سے… جو رمضان تو پاتے ہیں مگر ان کی بخشش نہیں ہوتی…

یہ صلوٰۃ الحاجۃ… اور یہ دعاء پورے رمضان المبارک میں … کسی دن ناغہ نہ ہو… ہم بار بار مانگتے رہیں گے… تڑپ تڑپ کر مانگتے رہیں گے تو… ہمارا مہربان رب اپنا فضل فرمادے گا… انشاء  اللہ

آخری عشرے کی حفاظت

رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت قیمتی ہوتا ہے… عید کے لئے نیا جوڑا بالکل ضروری نہیں ہے… اور نئے جوتے کے بغیر بھی عید کی خوشیاں پوری طرح سے مل جاتی ہیں… رمضان المبارک کا آخری عشرہ بازاروں میں ضائع کرنا افسوسناک ہے… اس عشرے کا تو ایک ایک لمحہ کروڑوں اربوں روپے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے… اگر  اللہ  تعالیٰ پردے ہٹادیں… اور لوگ آخری عشرے کی عبادت کا اجر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو… دکانیں اور مارکیٹیں چھوڑ کر بھاگ آئیں…  اللہ  تعالیٰ کے پاک اور سچے نبی حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ہمیں جو کچھ بتادیا ہے… وہ … آنکھوں دیکھے سے زیادہ یقینی ہے… اس لیے جس طرح بھی بن پڑے… آخری عشرے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے… اور اس عشرے کے دن اور رات قیمتی بنائے جائیں… افسوس کہ عید کی خریداری کے نام پر… اپنی اصل خوشیوں کو برباد کرنے کا رواج… مسلمانوں میں عام ہوچکا ہے… ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہمارا آخری رمضان ہو… اس لیے ہم اسے قیمتی بنالیں… ہم اسے پالیں… یا ارحم الراحمین توفیق عطاء فرما!…

کچی مسجد کی خوشبو

بھاولپور میں واقع… جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ کی داستان بھی عجیب ہے… ماشاء  اللہ  لا قوۃ الاّ باللہ … اس کی بنیاد باوضو رکھی گئی… اور  اللہ  تعالیٰ کے فدائیوں نے باوضو… اور بے اجرت اس کے کام میں حصہ لیا… اس کا گارا اٹھانے والے بہت سے نوجوان… اب انشاء  اللہ  حوروں کے دولھے ہیں… جی ہاں ! وہ شہید ہوچکے ہیں… اکثر مساجد میں جگہ زیادہ اور نمازی کم ہوتے ہیں… مگر اس مسجد پر  اللہ  تعالیٰ کا احسان رہا… بارہا یہ اپنے نمازیوں اور مہمانوں کے لئے چھوٹی پڑ گئی… یہ مسجد الحمد اللہ  جب سے بنی… آباد رہی… اس میں مسجد نبوی والے اعمال زندہ کرنے کی پوری کوشش ہوتی رہی… اذان، نماز، تلاوت تو ہر مسجد کی شان ہے… تعلیم تعلم… ذکر اذکار، دعوت… اور جہاد کے نعرے… تعلیم قرآن، تلاوت قرآن… تعلیم حکمت اور تزکیہ… اور دور دور کی تشکیلیں… اور کبھی کبھار زوردار نعرے… الحمد اللہ  رب العالمین… جب اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو… ہم نے حضرت اقدس قاری محمد عرفان صاحب ؒ سے نام تجویز کرنے کی درخواست کی… فرمانے لگے اس کا نام ’’جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ  ‘‘ ہوگا… پھر فرمایا میں نے چاروں خلفاء راشدین کے نام پر مسجد بنانے کا ارادہ کیا تھا… پہلے دو حضرات کے نام کی بنا چکا ہوں… اور اب میرے جانے کا وقت قریب ہے… اس لیے باقی دو حضرات کے نام کی یہ مسجد ہوگئی… پھر خوشخبری سنائی کہ… دیکھ لینا ایک سال بعد اس مسجد میں سے خوشبو آنے لگے گی… حضرت کی بشارت درست ثابت ہوئی… اور ایک سال کے عرصے ہی میں اس مسجد کے فیض کی خوشبو… دور دور تک پھیل گئی… اور ’’دورہ تربیہ‘‘ کی پاکیزہ مہمان نوازی بھی اسی مسجد کے حصے میں آئی… بے شک اس مسجد کے در و دیوار نے… تھوڑے سے عرصے میں جتنا ذکر سنا ہے… اور جتنی تلاوت کو جذب کیا ہے… وہ سب  اللہ  تعالیٰ کا فضل ہے… والحمد اللہ  رب العالمین…

الحمد اللہ  کچی مسجد میں اذان گونجتی رہی… دنیا بھر کے کفر کے نہ چاہنے کے باوجود… اور الحمد اللہ  آج تک گونج رہی ہے…  اللہ  تعالیٰ تا قیامت اسے ایمان وجہاد کے ساتھ آباد رکھے… تعلیم، تزکیہ اور جہاد کے قافلے اس مسجد میں اترتے رہے…  اللہ  کرے تا قیامت اترتے رہیں… اب ضرورت تھی کہ اس مسجد کو کشادہ کیا جائے …  اللہ  تعالیٰ نے غیب سے انتظام فرمادیا… اور اب سنا ہے کہ کچی مسجد ماشاء  اللہ  پکی ہوچکی ہے… کل رات پکی مسجد میں تراویح کا آغاز ہوا… خوب رونق تھی… اور خوب دعائیں مانگی گئیں… خوش نصیب ہیں وہ مسلمان… جنہیں اس مبارک مسجد کی تعمیر اور خدمت کا موقع ملا… دین کا یہ مرکز جب تک آباد رہے گا… اس کی خدمت کرنے والوں کے اجر میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا… دنیا میں ایسی جگہیں کم ہیں… جن کا نور ایک پورے عالم کو روشن کرتا ہے… اور جن کی ’’دھمک‘‘ کالے اور سفید عالمی ایوانوں تک میں سنائی دیتی ہے…

یا  اللہ  ! یا ارحم الراحمین… یہ سب آپ کا ہے، آپ کی طرف سے ہے، اور آپ کے لئے ہے… قبول فرما، قبول فرما، قبول فرما…

معلوم نہیں کیوں… اس مسجد شریف کا تذکرہ آتے ہی میری آنکھیں بھیگ رہی ہیں… ہاں میں اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہوں… اس کی رحمت سانس سے زیادہ قریب ہے… اور کامیاب ہے وہ …جو  اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو…

٭٭٭


موت کا دامن

 

 اللہ  تعالیٰ کے پُر اسرار بندے کیسے اونچے اونچے کام کر گئے…  اللہ  اکبر کبیرا… انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے… اور ماضی کے قصوں کی تصدیق ہوجاتی ہے… ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ… تین ہزار مجاہدین نے ایک لاکھ کا مقابلہ کیا… سات سو مجاہدین تین لاکھ کے لشکر سے ٹکرا گئے… وہ قادسیہ وہ یرموک اور وہ اندلس کا ساحل… یہ سب سچے واقعات ہیں … اور موجودہ زمانے کے باہمت مسلمانوں نے اپنے تازہ کارناموں سے… ان تمام واقعات کی تصدیق کردی ہے… بے شک خواجہؒ نے سچ فرمایا    ؎

اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں

یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے

آئیے آج ہم رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں… چند سال پہلے کے ایک مبارک رمضان کا ایک ایمان افروز قصہ یاد کرتے ہیں… دراصل تین دن پہلے انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا ہے… آج کل مقبوضہ کشمیر میں اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف… زوردار احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں… انڈیا کی حکومت بیس اکتوبر کا انتظار کر رہی ہے تاکہ وہ… ایک مسلمان کشمیری نوجوان کو پھانسی کے تختے پر شہید کرسکے… اور ادھر مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے… آئیے روزے کی حالت میں… رمضان المبارک کی معطر گھڑیوں میں ایمان وعزیمت کے اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں…

وہ تاریخ یاد رکھنے کے لائق ہے

۲۷؍رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ … ۱۳دسمبر۲۰۰۱ء

جمعرات کا دن… خود کو منی سپر پاور کہنے والا ہندوستان… اور ہندوستان کا سب سے اہم مقام یعنی پارلیمنٹ ہاؤس… لوک سبھا یعنی قومی اسمبلی کا جاری اجلاس… ہزاروں مسلح پہرے دار… سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات… حفاظتی دستوں کے پانچ حصار… یعنی ایسی جگہ جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی… آرمی، سی آر پی ایف، پولیس… اور بلیک کیٹ کمانڈوز… تاریخ یاد رکھیں… ستائیس رمضان المبارک جمعرات کا دن… معلوم ہے کیا ہوا تھا؟… انسانی تاریخ کا ایک یاد گار واقعہ… جب پانچ افراد … سیکورٹی کے پانچوں حصار توڑ کر… پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہوگئے… تب پہلی بار … امن کے گھونسلے میں بیٹھ کر جنگ کے فیصلے کرنے والے کوّوں نے خوفناک دھماکوں کی آوازیں سنیں… ملک کے نائب صدر کی گاڑی… ایک دھماکے کے ساتھ اڑ گئی… اور پانچ شاہین گولیاں برساتے ہوئے… اندر کے ہال کی طرف بڑھے… اور ان میں سے آخری تو… اندر کے دروازے تک جا پہنچا… ساری دنیا حیران… مشرکین کے لیڈر گم سم… میڈیا پر بس ایک ہی خبر کا شور… اور بی جے پی کے لیڈر اپنی کرسیوں کے نیچے… یوں لگا کہ… کئی سو سال کے بعد کسی غزنوی نے پھر انڈیا فتح کرلیا ہے… کئی گھنٹے بعد ہندوستانی حکمرانوں کے سانس واپس آئے… سیکورٹی کے افراد اندر گھسے… لیڈروں کو باہر نکالا گیا… یہ سب کیا تھا؟… صرف پانچ مسکراتی لاشیں… مہکتی لاشیں… مسلمانوں سے پوچھ رہی تھیں… ارے تم کروڑوں کی تعداد میں ہو کر… ان بزدلوں سے مار کھا رہے ہو؟… اور یہی پانچ لاشیں… مشرکین کو بتا رہی تھیں کہ … کشمیر میں گرنے والے ’’مسلمان خون‘‘ کے چند چھینٹے… اب تمہاری پارلیمنٹ تک بھی پہنچ چکے ہیں… ظلم کرنے والو!… مظلوموں کا خون بہت طاقتور ہوتا ہے… بہت طاقتور… بہت طاقتور…

زمین لرز اٹھی

اس وقت ہندوستان پر بی جے پی کی حکومت تھی… ایڈوانی جیسا متعصب لیڈر ملک کا وزیر داخلہ تھا… یہ لوگ آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے عادی تھے… کشمیر میں نہایت بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا لہو بہہ رہا تھا… اور عزتیں پامال ہورہی تھیں… بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا نے کی تیاری آخری مراحل میں تھی… اور ’’نائن الیون‘‘ سے جنم لینے والے حالات کی وجہ سے… ہندو حکمران بہت سہانے خواب دیکھ رہے تھے… قارئین کو یاد ہوگا کہ… افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے وقت… ہندوستانی حکمرانوں نے کتنی خوشی کا اظہار کیا تھا؟… واجپائی نے اپنی کھنکھناتی آواز میں کہا تھا کہ اب… پاکستان کے حالات بھی افغانستان کی طرح تبدیل ہوجائیں گے… ہر طرف سے ایک ہی آواز تھی کہ اب جہاد ختم… تحریک کشمیر ختم… تحریک طالبان ختم… اور اب مسلمانوں کو ہتھیار ڈال دینے چاہئیں… ایسے وقت میں… انڈین پارلیمنٹ دھماکوں سے لرز اٹھی… ’’جہادختم‘‘ کے نعرے لگانے والے منہ پھٹے رہ گئے… واشنگٹن سے لے کر دلّی تک … زمین لرز اٹھی… اور دشمنانِ اسلام اندر تک کانپ اٹھے… کئی گھنٹے بعد جب دنیا کے اوسان واپس آئے… اور ہندوستانی حکمرانوں کے دل کی دھڑکن درست ہوئی تو… خوفزدہ گیدڑ گرجنے لگے… بس اب بات چیت نہیں ہوگی… اب آر پار کی جنگ ہوگی… اب دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا… پہلے خوف کی کوئی انتہا نہیں تھی… اور جب پانچ شیر شہید ہوگئے تو پھر شور کی کوئی انتہا نہیں تھی… اخبارات غرّانے لگے… ریڈیو بھونکنے لگا… اور جنگ کا ایسا طبل بجا کہ برصغیر ایک بار پھر ہل کر رہ گیا…

وہ پانچ کون تھے

دنیا حیران تھی کہ یہ پانچ افراد کون تھے؟… انسان تھے یا جنّات؟… گوشت پوست کے بنے ہوئے تھے یا لوہے پتھر کے؟… ان کے اعصاب فولاد کی تاروں سے بنے تھے یا اسٹیل سے؟… ان کی تربیت کس نے کی تھی؟… کیونکہ امریکی کمانڈوز بھی دنیا بھر میں مار کھا رہے ہیں… ہندوستانی اور پاکستانی کمانڈوز اتنی بڑی کارروائی کا خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتے… پھر یہ کس ملک کے باشندے اور کس تربیت گاہ کے تیار کردہ لڑاکو تھے؟… ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ یہ پانچوں مسلمان تھے ٹھیک ہے ہم یہ دعویٰ تسلیم کرتے ہیں… والحمد اللہ  رب العالمین… ہاں انہیں کے باپ دادا نے یرموک اور قادسیہ کی جنگیں لڑی تھیں… ہاں انہیں کے بڑوں نے اندلس کے ساحل پر سمندر کو حیران کردیا تھا… ہاں انہیں کے آباء واجداد نے قسطنطنیہ میں خشکی پر کشتیاں چلائی تھیں…  اللہ  اکبر کبیرا… مسلمان بھی عجیب ہیں… جب دل چاہے سمندر میں کھڑی کشتیوں کو آگ لگادیں… اور جب دل چاہے خشکی پر کشتیاں دوڑا دیں… یہ قوم رب کی پیاری قوم ہے… اور اس قوم کے باہمت افراد… پیٹ اور معدے سے آزاد ہو کر… جب عرش والے کو خوش کرنے پر اتر آتے ہیں تو پھر… ان کے کارناموں پر آسمان بھی جھوم اٹھتا ہے…

ہندوستان جیسے بڑے ملک کی سب سے محفوظ ترین جگہ پر… حملہ آور ہونے والے افراد بھی اسی مسلمان قوم کے فرد تھے… آپ ان دنوں کے اخبارات اٹھاکر دیکھیں… عسکری ماہرین کے تجزئیے سنیں… سب حیران تھے اور ششدر… اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا… کاش وہ لوگ بھی غور فرمائیں… جو ایٹم بم کے مالک ہو کر ’’جنس بازار‘‘ بنے ہوئے ہیں… وہ لوگ بھی غور فرمائیں جو لاکھوں مسلح افواج رکھنے کے باوجود… خوف سے تھرتھر کانپ رہے ہیں… اور کافروں کے اجرتی قاتل بنے ہوئے ہیں… ہندوستانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پانچوں مسلمان تھے… ہم ہندوستانی حکومت کے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ… ایسا عظیم کارنامہ مسلمان بیٹے ہی سرانجام دے سکتے ہیں… امت مسلمہ کے ان سپوتوں کو سلام… ایک نہیں… ہزاروں سلام… ان کو دودھ پلانے والی ماؤں کو سلام… یقینی بات ہے انہوں نے کوئی دہشت گردی نہیں کی… انہوں نے اصل قاتلوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالا… انہوں نے مظلوموں کی آہ وپکار کا بدلہ لیا… انہوں نے کسی بے قصور سویلین کو نہیں مارا… انہوں نے فوجیں چلانے والے ہاتھوں پر لرزہ طاری کیا… انہوں نے عزم وہمت کی داستان کو نئی تازگی بخشی… ان کی روحوں کو امت مسلمہ کا سلام پہنچے…

ظالموں کے نقصانات

اٹل بہاری واجپائی نے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ… پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا… انڈیا کی دس لاکھ فوج… اپنے جدید ہتھیاروں کے ساتھ بارڈر پر آبیٹھی… ہندوستان کی پگڑی زمین پر گر چکی تھی… وہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے بے چین تھا… پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کا از سر نو جائزہ لیا گیا… بہت سے لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے… کروڑوں اربوں روپے کے نئے انتظامات کیے گئے… فوج پر روزانہ کے اخراجات میں کروڑوں روپے کا اضافہ ہوا … سفارتی کوششوں پر بھی پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا… پانچ غریب نوجوانوں نے اپنے خون سے انڈین خزانوں کے بند توڑ دئیے… کل تک ہندوستان مسلمانوں کے قتل عام پر مال خرچ کر رہا تھا… کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام… ہندوستان میں آٹھ ہزار سے زائدمسلم کش فسادات… اجودھیا اور بمبئی کے ہنگامے… آسام میں بنگالی مسلمانوں کا قتل عام… مگر اب انڈیا کو اپنے تحفظ پر بہت موٹا مال خرچ کرنا پڑا… ان بھاری اخراجات نے انڈیا کی کمر بٹھادی… اور اگلے الیکشن میں بی جے پی منہ کے بل گری… اور سنگھ پریوار کا ساٹھ سال تک حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا…

کاش ادھر کوئی باہمت ہوتا

اس وقت انڈیا کسی صورت میں بھی جنگ نہیں کرسکتا تھا… اگر اس نے جنگ کرنی ہوتی تو اس سے بڑھ کر اور کونسا موقع ہوسکتا تھا؟… اس نے اپنی قوم کا حوصلہ… اور اپنی ناک بچانے کے لئے… پاکستان کے بارڈر پر فوج لا بٹھائی… یہ وقت مسئلہ کشمیر کے حل کا بہترین موقع تھا… پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان نے نہیں کیا تھا… اور نہ پاکستان میں قائم کسی جماعت نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی… انڈین حکومت بھی جانتی تھی کہ حملے کی وجہ کشمیر کے مظالم ہیں… ان حالات میں اگر پاکستان میں کوئی باہمت حکومت ہوتی تو… دو ماہ کے اندر مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا تھا… مگر پاکستان پر تو روشن خیالی کی مرگی کا دورہ پڑا ہوا تھا… اسلام آباد میں انڈین ایجنٹ حکمرانوں کے ارد گرد جگہ بنا چکے تھے… انہوں نے حکمرانوں کو خوب ڈرایا… چنانچہ مضبوط موقف اپنانے کی بجائے پاکستان نے کمزوری دکھائی… ملک کے صدر نے بلاوجہ کشمیر کی دو جہادی تنظیموں پر پابندی لگادی… اور بھی چند ذلت آمیز اقدامات کرکے… بھارت کو اپنی فوجیں واپس لے جانے کا بہانا فراہم کردیا گیا… چنانچہ ایک سال گزرنے پر انڈیا نے… اپنی فوجیں واپس بلالیں… اربوں ڈالر کا نقصان، بی جے پی کی شکست… اور بے سود محاصرہ… ہاں ایک فائدہ ضرور ہوا… جن سرحدی علاقوں میں… انڈین فوج تعینات تھی… وہاں ان کے جانے کے بعد فصل خوب اگی… کیونکہ یہ فوجی پورے ایک سال تک ان زمینوں کو… وافر کھاد فراہم کرتے رہے… مگر ہماری فوج اور ہمارے حکمرانوں نے… پیچھے ہٹنے اور شکست کھانے کی گویا قسم کھا رکھی ہے… انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کا ایک نادر موقع… گنوادیا… اور اس موقع پر بھی انڈیا کو فتح کا جشن منانے دیا… فیا للاسف…

بزدلوں کا انتقام

وہ پانچوں جانباز تو شہید ہوگئے… اخباری اطلاعات کے مطابق انہیں دہلی کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک کردیا گیا… مگر انڈیا کی حکومت اس بات کا سراغ نہ لگا سکی کہ… یہ ہیبت ناک حملہ کس طرح سے ہوا؟… کئی دن تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد… ظلم کی تان پھر مظلوم کشمیریوں پر ہی ٹوٹی… ایک بزرگ کشمیری پروفیسر، ایک کشمیری نوجوان تاجر… اور اس کی اہلیہ کو ملزم قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا… دہشت گردی کی بہری عدالت نے تینوں کو سزا سنادی… یہ قانونی جنگ جب سپریم کورٹ تک پہنچی تو… بزرگ پروفیسر اور مسلمان بہن کو رہائی مل گئی… جب کہ… نوجوان کشمیری تاجر محمد افضل گورو کو سزائے موت سنائی گئی… دراصل انڈیا کی حکومت اور وہاں کی عدالتیں… اپنی ذلت ناک شکست کا بدلہ لینے پر… ہر حال میں تلی ہوئی ہیں… فدائی مجاہدین تو بدلے کی جگہ باقی چھوڑتے ہی نہیں… چنانچہ… اب کسی نہ کسی کو تو سولی پر لٹکانا ہے تاکہ… دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی کٹی ہوئی ناک کو… مرہم لگایا جاسکے… اگر یہ کیس واقعی سچا اور مضبوط ہوتا تو… پروفیسر صاحب اور مسلمان بہن کس طرح سے رہا ہوجاتے؟… پروفیسر صاحب کی رہائی کے بعد ان پر خفیہ ایجنسیوں نے قاتلانہ حملہ بھی کیا… مگر  اللہ  پاک نے انہیں بچالیا… اب انڈیا کی عدالت نے محمد افضل گورو کی سزائے موت کی تاریخ مقرر کردی ہے… جی ہاں ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء انڈیا اپنی پارلیمنٹ پر حملے کا انتقام… ایک بے قصور مسلمان نوجوان کو… پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر لینے کا ارادہ رکھتا ہے… ہاں بزدلوں کا انتقام اسی طرح کا ہواکرتا ہے…

سزائے موت یا انعامِ موت

ہر آدمی نے مرنا ہے… من موہن سنگھ بھی مرجائے گا… اور اٹل بہاری واجپائی بھی… ایڈوانی بھی موت سے نہیں بچے گا اور بال ٹھاکرے بھی… اور ہم سب بھی اپنے اپنے وقت پر مرجائیں گے… اگر محمد افضل کی  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات ۲۰؍اکتوبر کو لکھی ہے تو پھر… اسے کوئی نہیں ٹال سکتا… اور اگر محبوب کے وصال میں مزید کچھ وقت باقی ہے تو محمد افضل کو … اس وقت تک کوئی نہیں مار سکتا… موت کے بارے میں بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے… موت کا وقت اٹل ہے… نہ آگے ہوسکتا ہے نہ پیچھے… البتہ اس موقع پر مجھے دو باتیں عرض کرنی ہیں… پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے وہ موت جو  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں آئے… ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے… اس لیے اگر انڈیا کے بت پرست مشرک… کلمہ توحید پڑھنے والے محمد افضل کو پھانسی پر لٹکاتے ہیں تو… یہ سزائے موت نہیں… انعامِ موت ہے… جی ہاں موت کا انعام… جو دنیا کی ہر تکلیف سے جان چھڑا کر آخرت کی راحتوں کا مستحق بنا دیتا ہے… اسی لیے شہید کو مردہ کہنے سے منع فرمادیا گیا ہے  ؎

موت کیا آئے گی ہم عشق کے دیوانوں کو

موت خود کانپتی ہے نام سے دیوانوں کے

یہ تو ہوئی پہلی بات… اور دوسری بات یہ ہے کہ… اگر محمد افضل کو پھانسی دے دی گئی… اور اس بے گناہ نوجوان کو شہید کردیا گیا تو پھر… ظلم اور موت کا دامن اپنا ہاتھ پھیلا دے گا… میں دھمکی نہیں دے رہا… بلکہ مسلمانوں کا مزاج بتا رہا ہوں… جی ہاں!… اگر اس بے قصور مسلمان نوجوان کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو… رب کعبہ کی قسم اس کے پاک خون کا قصاص لیا جائے گا… ہاں سن لو! اس کے گرم اور جوان خون کا قصاص ضرور لیا جائے گا…  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے…  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے…انشاء  اللہ  … انشاء  اللہ … انشاء  اللہ …

٭٭٭

جنین سے پشاور تک

 

ماشاء  اللہ  کا نور

 اللہ  تعالیٰ کا وہ پیارا بندہ… فلسطین میں پیدا ہوا… اور… پشاور کے مضافات میں ’’مدفون‘‘ ہوا… جی ہاں اس کی قبر ’’پبی‘‘ کے ایک قبرستان میں ہے… اس کے ساتھ ’’محمد‘‘ اور ’’ابراہیم‘‘ دو شہید نوجوان بھی… آرام فرما ہیں… ’’محمد‘‘ کی عمر بیس سال… اور ابراہیم پندرہ سال کا ہے… یہ دونوں اس کے اپنے بیٹے ہیں… یہ تینوں ’’پشاور‘‘ میں اکٹھے شہید ہوئے… جمعۃ المبارک کے دن ۲۴نومبر ۱۹۸۹ء…

پشاور کے لوگ مہمانوں کا استقبال کرنے… انہیں ٹھکانا دینے… انہیں راحت پہنچانے… پھر انہیں شہید کرنے… اور قبر کے لئے جگہ دینے میں کمال رکھتے ہیں… یہ سلسلہ صحابی رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم… حضرت سنان بن سلمہ الھذلی رضی  اللہ  عنہ سے شروع ہوا… اور شہید عبد اللہ  بن عزامؒ تک آ پہنچا… اور ’’ماشاء  اللہ ‘‘ ابھی  تک جاری ہے… حضرت سنان رضی  اللہ  عنہ کی قبر مبارک… ان کے تیس سے زیادہ شہداء ساتھیوں کے ہمراہ… پشاور کے مضافات ’’چغرمٹی‘‘ میں ہے… وہ اسی جگہ شہید ہوئے… اور اسی جگہ انہیں قبر کی مٹی نصیب ہوئی… اس علاقے میں اب بھی ان کے مبارک گھوڑوں کی ٹاپیں… اور ان ’’ٹاپوں‘‘ کی بازگشت محسوس ہوتی ہے…

ہاں بے شک ’’پشاور‘‘ خوش نصیب ہے… اس نے صحابہ کرام کی پیاری، میٹھی اور دلآویز آوازیں سنی ہیں… اس نے فاتحین کے قدم چومے ہیں… وہ سید احمد شہیدؒ کا میزبان رہا ہے… اس نے عبد اللہ  عزامؒ کی روح پرور تقریریں سنی ہیں… اس نے شیخ تمیم عدنانیؒ کو کندھا دیا ہے… وہ ’’سوویت یونین‘‘ کی شکست کا ’’بیس کیمپ‘‘ رہا ہے… اور اس نے عبد اللہ  عزامؒ اور ان کے دو بیٹوں کو فراخ دلی سے… قبریں دی ہیں…  اللہ  کرے پشاور کی اس خوش نصیبی کو… چار چاند لگے رہیں… اور ’’ماشاء  اللہ  لاقوۃ الا باللہ ‘‘ کا نور اسے… ہر ’’نظر ِ بد‘‘ سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ میں رکھے…

جہاد …  اللہ  تعالیٰ کا خاص فضل

شیخ عبد اللہ  عزامؒ کی پیدائش ۱۹۴۱ء میں… فلسطین کے علاقے ’’جنین‘‘ کے ایک گاؤں ’’السیلۃ الحارثیہ‘‘ میں ہوئی… ۱۹۶۶ء میں انہوں نے… دمشق کی اسلامی یونیورسٹی سے … بی اے کے مساوی… ’’لیسانس‘‘ کی ڈگری حاصل کی… اور پھر اردن کے شہر عمان کے ایک اسکول میں… مدرس مقرر ہوگئے… ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ اور غرب اردن پر قبضہ کیا تو… مستقبل کا شہید حال کا مجاہد بن کر میدان میں کود پڑا… اردن میں مجاہدین کی ایک تنظیم ’’قواعدالشیخ‘‘ کے نام سے قائم ہوئی… شیخ اس تنظیم کے ایک جبہے کے کمانڈر مقرر ہوئے… اس دستے کا نام ’’قاعدۃ بیت المقدس‘‘ تھا… یہ سرفروش نہتے مجاہدین …  اللہ  تعالیٰ کا نام بلند کرکے… اسرائیل پر حملے کرتے تھے… شیخ کو بھی ان ’’مبارک معرکوں‘‘ میں شرکت کی سعادت ملی… بے شک جہاد  اللہ  تعالیٰ کا فضل ہے… وہ جسے چاہتا ہے عطاء فرماتاہے…

’’القاعدہ‘‘ کا معنیٰ

ہم نے پڑھ لیا کہ شیخ  ؒاردن میں… جس جماعت میں شامل تھے اس کا نام ’’قواعدالشیوخ‘‘ تھا… اور جس گروپ کے کمانڈر تھے اس کا نام ’’قاعدۃ بیت المقدس‘‘ تھا… آجکل دنیا میں جو جہادی تنظیم سب سے زیادہ معروف ہے… اس کا نام بھی ’’القاعدۃ‘‘ ہے… عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے عام لوگ… اس لفظ کا معنیٰ نہیں سمجھتے… ایسے حضرات کی آسانی کے لئے عرض ہے کہ… ’’القاعدۃ‘‘ کے لفظ کا اصل ’’قَعَدَ قُعُودًا‘‘ ہے… جس کا معنیٰ ہے بیٹھنا… پھر جب اس لفظ کے ساتھ ’’حرب‘‘ یعنی جنگ کا لفظ مل جائے تو اس کا معنیٰ ہوتا ہے … جنگ کے لئے جنگجو افراد مہیا کرنا… چنانچہ مصباح اللّغات میں ہے… قعدللحرب جنگ آزما لوگوں کو مہیا کرنا… جبکہ القاعدہ کا اصل معنیٰ عمارت کی بنیاد … اور اڈّہ… چنانچہ عربی زبان میں فوجی اڈے کو ’’القاعدۃ العسکریۃ‘‘ کہتے ہیں… اب عام طور پر ’’القاعدۃ‘‘ کا لفظ جنگی اڈے، جہادی مرکز… اور عسکری مورچے کے لئے استعمال ہوتاہے…امید ہے کہ ان شاء  اللہ  اب آپ کو… القاعدۃ کا معنیٰ سمجھنے میں… کوئی دشواری نہیں ہوگی… مسلمان اپنے لئے ایک جنگی مرکز … اور فوجی اڈہ قائم کریں… یہ بات عالم کفر کو کہاں برداشت ہے… اس لیے ’’القاعدۃ‘‘ کا لفظ ان کے لئے ’’ناقابل ہضم‘‘ ہوچکا ہے… ویسے شیخ عبد اللہ  عزامؒ نے… افغانستان میں جو جہادی اور رفاہی تنظیم قائم کی تھی… اس کا نام ’’مکتب الخدمات‘‘ تھا… شیخ اسامہ بن لادن نے اسی تنظیم کے زیر اہتمام… جہادی تربیت حاصل کی… اور اسی تنظیم کے ایک گروپ ’’کتیبۃ الغربا‘‘ کے ساتھ ’’خوست‘‘ کے جہاد میں بھیجے گئے… بعد میں شیخ اسامہ نے اپنی ایک تنظیم ’’القاعدۃ‘‘ کے نام سے بنائی… جو افغانستان کے علاوہ یمن، الجزائر، صومالیہ میں بھی جا پہنچی… جہاد افغانستان کے دوران عرب مجاہدین کی بہت سی نئی تنظیمیں وجود میں آئیں… ان میں سے کم وبیش سولہ تنظیمیں خالص ’’جہادی‘‘ تھیں… جبکہ بعض تنظیموں کے اپنے دوسرے مقاصد تھے… کچھ بدعقیدہ عربوں نے ان غیر جہادی تنظیموں کی آڑ میں غلط عقائد اور نظریات پھیلانے کا دھندہ بھی شروع کر رکھا تھا… مگر اکثر پر خیر غالب تھی… ان تمام تنظیموں کے دفاتر کسی زمانے میں پشاور میں تھے… پھر کچھ قندھار منتقل ہوگئے… اور چند ایک جلال آباد اور کابل…

گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء جب امریکہ پر ’’جہازی حملہ‘‘… ہوا… اور پھر امریکہ نے ۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء افغانستان پر حملہ کردیا تو یہ تمام تنظیمیں… اور ان کے افراد منتشر ہوگئے… اور پھر دنیا نے ان سب کا نام ’’القاعدہ‘‘ رکھ دیا… پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے گرفتار ہونے والے ’’ابوزبیدہ‘‘ کا ’’القاعدہ‘‘ سے کوئی تعلق نہ تھا… مگر وہ بھی گرفتار ہوتے ہی ’’القاعدہ‘‘ کے کمانڈر قرار پائے… یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے… یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ… جہاد افغانستان میں شرکت کرنے والے عرب مجاہدین کے پہلے امیر، مربیّ اور مرشد… حضرت شیخ عبد اللہ  عزامؒ تھے…  اللہ  تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے…

علم اور جہاد کا حسین سنگم

عبد اللہ  عزام شہیدؒ… ایک مستند عالم دین، اصول فقہ کے ماہر فقیہ، صاحب طرز مصنف… دل کی زبان سے بولنے والے خطیب، عابد شب بیدار اور مثالی مجاہد تھے… انہوں نے علم اور جہاد کے رشتے کو ساری زندگی نبھایا… انہوں نے علم اور جہاد کی خاطر ہجرتیں کاٹیں… جب حالات نے ساتھ دیا تو انہوں نے بندوق اٹھائی، جب ان سے بندوق چھینی گئی تو انہوں نے … کتاب اٹھالی… جہاد میں رہ کر وہ علم کی دوستی نبھاتے رہے… اور علم میں مشغولیت کے دوران اپنے لیے محاذ ڈھونڈتے رہے… فلسطین کے حالات نے انہیں اردن میں لا بٹھایا تو وہ دینی علوم حاصل کرنے لگے… ۱۹۶۷ء میں جہاد کا بازار گرم ہوا تو انہوں نے ایک لمحہ تاخیر نہیں کی… اور فوراً یہودیوں کے خلاف برسرپیکار ہوگئے… ۱۹۷۰ء کے سال اردن کے حالت بدل گئے… جہاد کے لئے کوئی راستہ باقی نہ رہا تو شیخ نے پھر کچھ عرصہ کتاب اٹھالی… اور دینی علوم میں ’’ڈاکٹریٹ‘‘ کی ڈگری تک جا پہنچے… انہوں نے مصر کے ’’جامعہ ازہر‘‘ سے علم کا فیض حاصل کیا… مگر وہاں کے جمود اور مداہنت کو اپنے دل میں جگہ نہ دی… اب وہ محاذ کے مجاہد تو نہ رہے تھے بلکہ… اردن کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے مگر جہاد کی دعوت… ان کے ہر سبق میں گونجتی تھی… اسی کی پاداش میں وہ… اردن یونیورسٹی سے فارغ کردئیے گئے… ملک کی فوجی حکومت نے ان کی معزولی کا فرمان جاری کیا… گویا کہ وہ ’’کالعدم‘‘ قرار پائے… پھر ان کی بے چین روح ان کو سعودی عرب لے گئی… وہاں تھوڑا عرصہ جدہ کی ایک یونیورسٹی میں استاذ رہے… ادھر افغانستان میں ’’شہادت کا بازار‘‘ کھل چکا تھا… ابھی ابتدائی دن تھے… اور جہاد کا زیادہ چرچہ نہ ہوا تھا… مگر جو پیدا ہی جہاد کی خدمت کے لئے ہوا تھا وہ کہاں بے خبر رہ سکتا تھا؟… سعودی عرب کی پر تعیش زندگی اس کے لئے… بوجھ بن گئی… کسی طرح اپنا تبادلہ… سعودی یونیورسٹی کے ’’مبعوث‘‘ کے طور پر اسلام آباد کرالیا… اب مجاہد اور جہاد کے درمیان صرف ڈھائی گھنٹے گاڑی کے سفر کی مسافت تھی… اور شہید اور اس کے مقام شہادت کے درمیان صرف ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ… اسلام آباد سے اٹھ کر شیخ پشاور آ بیٹھے… ایک بڑے استاذ اور مقبول پروفیسر کی بجائے عام مجاہد بننے کو انہوں نے ترجیح دی… اب کی بار قسمت ان کے ساتھ تھی… پابندیوں کا اذیت ناک دور ختم ہو رہا تھا… ماہر تیراک کو جی بھر کر تیرنے کے لیے میٹھا سمندر ملنے کو تھا… حق گو خطیب کے لئے شان والا منبر اور جان فدا کرنے والے سامعین منتظر تھے… اور امت مسلمہ کے بے چین اور پابند جرنیل کو… طور خم سے لے کر پل چرخی… اور چترال سے لے کر سالانگ تک کا محاذ جنگ پکار رہا تھا… شیخ عبد اللہ  عزامؒ پشاور تشریف لائے… اور کچھ ہی عرصہ بعد ان کی دعوت جہاد… عرب وعجم کے کانوں سے ٹکرانے لگی… ان کے شاہوار قلم نے جب پھریری لی تو… امریکہ اور یورپ سے… عرب جہادیوں کے قافلے افغانستان کی طرف لپکنے لگے… واہ ری قسمت… مرد میدان کو کھلا میدان مل گیا… شیخ کی تقریریں ہوا کے دوش پر سفر کرنے لگیں… ان کی تحریروں نے بدمست عربوں کو… حوروں کا عاشق بنادیا… اور شیخ کی یہ حالت تھی کہ… بولتے بھی تھے، لکھتے بھی تھے… افغانستان جا کر لڑتے بھی تھے… اور دنیا بھر کے اسفار کرکے جہادی دعوت کو بھی عام کرتے تھے… باوفا بیوی نے پوچھا سیدی! بچوں کا بھی کچھ حق ہے؟… فرمانے لگے تمہیں ایسے ہی دنوں کے لئے تو اتنے عرصہ سے تیار کر رہا تھا… اب تم بچوں کو دین سکھاؤ… مجھے بہت کام ہے… مجھے بہت کام ہے… واہ میرے رب واہ… جس کو تو پسند فرماتا ہے اپنے کام میں لگادیتا ہے… اور خوب کام دیتا ہے… خوب کام لیتا ہے… تیری شان جلَّ جلا لُہ…

مکتب الخدمات

شیخ عبد اللہ  عزامؒ نے فلسطین اور اردن کے برے حالات دیکھے تھے… اب  اللہ  پاک نے ان کو کھلے کام کا موقع دیا … یہ بات ’’تاریخی جھوٹ ہے کہ افغان جہاد کے لئے… سی آئی اے نے بھرتی مراکز کھولے تھے… ہاں اتنا ضرور تھا کہ… سوویت یونین کے خوف میں جکڑا ہوا امریکہ اور یورپ… افغان جہاد سے خوش تھا… اس لیے اس کی طرف سے وہ رکاوٹیں نہیں تھیں… جو آج ہیں… نہ عبد اللہ  عزامؒ کو امریکہ لایا… اور نہ اسامہ بن لادن کو… ان سب کو قرآن پاک کی آیات… رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے غزوات… اور شہداء افغانستان کی خوشبو… افغانستان کھینچ لائی… مسلمان اگر واقعی مسلمان ہو تو وہ جہاد کے لئے ترستا ہے… آسمانوں کے اوپر سے عرش والے رب نے جہاد کے عالمی احیاء کا فیصلہ فرمایا تو… دشمنان اسلام کی عقلیں ماری گئیں… وہ اس جہاد کے حامی اور موافق بن گئے… رب تعالیٰ نے عبد اللہ  عزام کی آواز کو… سوز اور اثر بخشا… اور ان کے قلم میں غیب سے تاثیر عطاء فرمائی… شیخ کی صرف ایک کتاب ’’آیات الرّحمٰن فی جہاد الافغان‘‘… کئی لاکھ کی تعداد میں شائع اور تقسیم ہوئی… اس کتاب کو پڑھ کر ہزاروں افراد نے میدان جہاد کی طرف دیوانہ وار دوڑ لگائی… جہاد کا کام پھیلا تو شیخ نے… ۱۹۸۴ء میں… اپنے بعض عرب ساتھیوں کے ساتھ مل کر… ’’مکتب الخدمات‘‘ کی بنیاد ڈالی… اور افغانستان میں دو بڑے معسکر قائم کئے… اس زمانے جہاد کے زمزمے ایسے بلند ہوئے کہ… شیخ کے جہادی مراکز… افراد کی کثرت سے چھلکنے لگے… عرب مجاہدین بااسباب تھے… اور وسائل سے مالا مال… مگر وہ یہاں آتے ہی اپنا سب کچھ لٹا دیتے تھے… پشاور سے افغانستان تک عربی لہجے کی تلاوت گونج رہی تھی… معسکرات گولیوں اور گولوں کی گھن گرج میں جھوم رہے تھے… مصلّوں پر آنسو اور پتھروں پر خون ٹپک رہاتھا… شہیدوں کے قافلے رواں دواں تھے… اور آسمان جھک کر… زمین کی قسمت کو رشک سے دیکھ رہا تھا… ’’مکتب‘‘ کی شان تو شیخ کے بعد باقی نہ رہ سکی مگر… ان کی دعوت گونجتی رہی… ان کا پیغام دلوں کو گرماتا رہا… اور ان کی تحریریں… امت مسلمہ میں روح پھونکتی رہیں…

پندرہ کتابیں

شیخ عبد اللہ  عزامؒ بلند پایہ مصنف تھے… انہوں نے مستقل طور پر کئی کتابیں تصنیف فرمائیں… ان تصانیف میں سے سولہ کتابیں ان کی زندگی میں شائع ہوئیں … اور عالم اسلام میں پھیل گئیں… البتہ ۹۱۱ بڑے صفحات پر مشتمل ان کا ’’ڈاکٹریٹ‘‘ کا رسالہ ’’دلالۃ الکتاب والسنۃ علی الاحکام من حیث البیان والاجمال او الظہور والخفا‘‘ اشاعت پذیر نہیں ہوسکا…

آخری زمانے میں وہ اپنے نائب اور رفیق خاص شیخ تمیم عدنانی شہید کے حالات زندگی پر کتاب لکھ رہے تھے… جو مکمل نہ ہوسکی… ان مستقل تصانیف کے علاوہ وہ باقاعدگی کے ساتھ کئی جہادی رسالوں میں… اداریئے اور مضامین لکھا کرتے تھے… ان کی شہادت کے بعد ان کے ساتھیوں نے … ان کے تحریری کام کو خوب بڑھایا… پشاور میں ایک مستقل ادارہ ’’مرکز الشہید عزام الاعلامی‘‘ کے نام سے قائم ہوا… اس ادارے نے شیخ  ؒ کے بکھرے ہوئے مضامین کو… کتابوں کی صورت میں ڈھالنا شروع کیا… اور شیخ کے خطبات کو بھی… کیسٹوں سے نقل کرکے کتابیں بنادیا… یوں شیخ  ؒ کی تصانیف کی تعداد…  اللہ  تعالیٰ کے فضل وکرم سے خوب بڑھ گئی… مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ… شیخ کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد… جب مجھے ان کی تصانیف جمع کرنے کا… شوق پیدا ہوا تو میں نے پشاور میں ان کے مکتب سے رابطہ کیا… مجھے یہ تمام تصانیف آسانی سے مل گئیں… اور ایک پورا کارٹن ان چھوٹی بڑی کتابوں سے بھر گیا… اس دوران شیخ  ؒ کی کتابوں کے ترجمے بھی اردو اور دیگر زبانوں میں شائع ہوئے…  اللہ  تعالیٰ شیخ کے ان مآثر کو ان کے لئے… قیامت تک کا صدقہ جاریہ بنائے… شیخ  ؒ نے اپنے قلم سے بھی چومکھی جنگ لڑی… ان کا ایک ہاتھ افغانستان میں تھا تو دوسرا فلسطین میں… وہ ایک طرف ’’السرطان الأحمر‘‘ میں کیمونسٹوں کا گریبان پکڑتے تھے تو دوسری طرف ’’حماس الجذور التاریخیۃ والمیثاق‘‘ میں یہودیوں کو للکارتے تھے… ’’آیات الرّحمٰن‘‘ میں وہ افغان جہاد کے قصے سناتے تھے تو ’’العقیدۃ واثرھا فی بنائِ الجیل‘‘ میں مجاہدین کی نظریاتی تربیت کرتے تھے… شیخ پر ان کی مقبولیت کے کچھ عرصہ بعد ہی… مختلف طبقات کی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی تھی… ان پر اعتراضات کرنے والے افراد… ظاہری طور پر توحید اور اخلاص میں ڈوبے ہوئے لوگ تھے… بعض کا کہنا تھا کہ شیخ کا عقیدہ درست نہیں ہے… وہ سلفی طرز عمل کو نہیں اپناتے اور تقلید ائمہ کی وکالت کرتے ہیں… بعض کا اعتراض تھا کہ افغانستان کے مسلمان حنفی اور مشرک ہیں… ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنا جائز نہیں… بعض کا دعویٰ تھا کہ شیخ نے جہاد کے نام پر خوب دولت جمع کرلی ہے… جبکہ بعض کے نزدیک جہاد کا وقت نہیں آیا تھا… ابھی امت کو مزید تیاری اور کاموں کی ضرورت ہے… عرب ممالک کے گمراہ فرقوں نے شیخ پر الزامات کی بارش کردی… کوئی اور ہوتا تو جلد گھٹنے ٹیک دیتا… مگر شیخ ڈٹے رہے… اور مناسب الفاظ میں… ہر اعتراض کا جواب دیتے رہے… انہوں نے اپنی تصانیف میں فرضیت جہاد کا مسئلہ تفصیل سے بیان کیا… وہ اس پر خوشی کا برملا اظہار کرتے تھے کہ… افغانستان کے مسلمان حنفی ہیں… اور سب ایک مسلک پر قائم ہیں… وہ عرب مجاہدین کو بھی تلقین کرتے تھے کہ… افغانوں کے ساتھ جہاد کے دوران ان جیسی نماز ادا کرو… اور فروعی مسائل میں ان مجاہدین کو نہ الجھاؤ… وہ توحید کے نام پر تکفیر کرنے والوں کا بھی خوب آپریشن کرتے تھے… اور سلفیوں کی شدت پسندی کو بھی نکارتے تھے… دوسری طرف شیخ کی نظر عالمی حالات اور سیاست پر بھی تھی… وہ مسلمانوں کو کافروں کے ملکوں میں آباد ہونے سے روکتے تھے… اور انہیں وہاں سے ہجرت کی تلقین فرماتے تھے… وہ امریکہ کے تیور بھی اچھی سمجھتے تھے… اور برملا امریکہ کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے تھے… الغرض شیخ نے زمانے اور وقت کی ضرورت کے مطابق… ہر موضوع پر قلم اٹھایا… اور مسلمانوں کی رہنمائی کی… وہ حماس اور اخوان المسلمون کے حامی تھے… اور ان کی وکالت کرتے تھے… وہ اسلامی ملکوں کی داخلی سیاست پر بھی نظر رکھتے تھے… شیخ کی چند کتابوں کے نام پڑھنے سے قارئین کو معلوم ہوگا کہ… ان کی تصانیف کی کیاقدر وقیمت ہے…

عرض حال

اوپر کی سطروں میں آپ نے جو تحریر ملاحظہ فرمائی ہے وہ… میرے اس مضمون کا ابتدائی حصہ ہے جو… رمضان المبارک سے پہلے شروع کیا تھا… یہ مضمون ابھی مکمل نہیں ہوا… ابھی تک جتنے صفحات لکھے گئے ہیں ان میں سے ’’بارہ ابتدائی صفحات‘‘ آپ نے پڑھ لیے… دعا فرمائیں کہ  اللہ  تعالیٰ اس مضمون کو جو دراصل ایک چھوٹی سی کتاب ہے مکمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… اس مضمون میںجہاں تک آپ نے پڑھ لیا ہے اس کے بعد شیخ  ؒ کی کتابوں کا تعارف ہے… ان کی تین سو کیسٹوں کا تذکرہ ہے… ان کے دو رسالوں کا ذکر ہے… ان کی جماعت کے تیرہ شعبوں کا بیان ہے… ان کی شہادت اور ان کے آخری دن کا تذکرہ ہے… اور پھر شیخ  ؒ کی اپنی بہت سی باتیں ہیں… رمضان المبارک کا آخری عشرہ آنے والا ہے…  اللہ  تعالیٰ میری بھی بخشش فرمائے اور آپ سب کی بھی… ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک پایا اور اپنی بخشش نہیں کرائی… یہ دعاء حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مسجد نبوی میں فرمائی… اور حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اس پر آمین فرمائی… رمضان المبارک کی گھڑیاں تیزی سے گزر رہی ہیں… دنیا کی دھوکے والی عارضی زندگی کی فکر… آخرت کی ابد الآباد… ہمیشہ والی زندگی سے غافل کر رہی ہے… رمضان المبارک گزر گیا اور ہماری بخشش نہ ہوئی تو ہمارا کیا بنے گا؟… اب جن چیزوں پر محنت ہو رہی ہے وہ تو… یہاں رہ جائیں گی… اس لیے بہت فکر کی ضرورت ہے بہت فکر کی… فدائی مجاہدین کو  اللہ  پاک معلوم نہیں کیا دکھا دیتا ہے کہ وہ ایک منٹ میں… دھوکے کی دنیا سے نجات پا جاتے ہیں… ہاں جو لوگ پہچان جاتے ہیں، سمجھ جاتے ہیں… اور لذتِ آشنائی سے سرشار ہوجاتے ہیں… ان کے لئے دکھوں سے بھری اس دنیا کو…  اللہ  تعالیٰ کے لئے قربان کرنا آسان ہوجاتا ہے… حقیقت سے آشنا ان نیک لوگوں کا تذکرہ… انسان کے دل میں ہمت پیدا کرتا ہے… حضرت شیخ عبد اللہ  عزام شہیدؒ بھی ’’عارف با للہ ‘‘ تھے… لذتِ آشنائی سے سرشار … دنیا کے فانی ہونے کا یقین رکھنے والے… خوب کام کرنے والے… سعادت اور شہادت سے اپنی جھولی بھرنے والے… اپنا سب کچھ لٹا کر سب کچھ پانے والے…  اللہ  تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے… اور ہم سب پر رحم اور اپنا فضل فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭

  

عید کا تحفہ

 

 اللہ  تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق ’’عیدالفطر‘‘ منانے کی توفیق عطاء فرمائے… عید منانے کا ایک مختصر سانصاب… حاضر خدمت ہے…

رمضان المبارک کے آخری لمحات

رمضان المبارک کو بہت اچھی حالت … اور کیفیت میں الوداع کہنا چاہئے… یہ محبوب مہینہ جب جارہا ہو تو وہ ہمیں با وضو حالت میں… تلاوت کرتے، استغفار کرتے… یا دین کا کوئی کام کرتے ہوئے دیکھے… اور ہم تشکر، ندامت اور محبت کے آنسوؤں کے ساتھ … بہت ہی پیارے رمضان المبارک کو رخصت کریں… وہ سحری کے وقت کا نور، وہ افطار کے وقت کی برکت… وہ تراویح کے وقت کی خوشبو… اور وہ محبوب کی خاطر بھوکے پیاسے رہنے کا مزہ… وہ رحمتوں کی بارش… وہ مغفرتوں کی بوچھاڑ… وہ خوفناک جہنم سے آزادی کے پروانے… وہ تلاوت کی لذت… وہ نمازوں کا سرور… اور وہ فرشتوں کے میلے…  اللہ اکبرکبیرا… یہ سب کچھ جا رہا ہے… جی ہاں پیارا رمضان المبارک جا رہا ہے… مجاہدین پر خصوصی نصرت کے نازل ہونے کا مہینہ… وہ بدر والا مہینہ… وہ فتح مبین والا مہینہ… الوداع، الوداع… الوداع…

دلوں کے مریض… ہوشیار!

رمضان المبارک میں جن لوگوں نے…  اللہ  تعالیٰ کو راضی کیا… وہ لوگ بخشے گئے… پاک ہوگئے… اور اہل جنت میں شامل ہوگئے… یہ کتنی بڑی خوشی ہے؟… بہت بڑی،… بہت بڑی…

آپ ذرا قرآن پاک میں جنت کا حسن تو پڑھ کر دیکھیں…  اللہ  پاک بار بار جنت کی فضائیں… اور جنت کی ادائیں یاد دلاتا ہے… ساری دنیا کی چمک، دمک … جنت کی ایک گز زمین کے حسن تک نہیں پہنچ سکتی… آپ ٹی وی چینلز پر دنیا کے حسن کو دیکھ کر متاثر نہ ہوں… جنت کے مقابلے میں یہ سب کچھ ’’نمائشی کھیل تماشا‘‘ ہے… محض دھوکہ، جی ہاں ایک فانی اور عارضی چمک… ارے جنت تو بہت اونچی ہے، بہت پیاری ہے، بہت حسین ہے… بہت میٹھی ہے… ذرا سورۃ الرحمن میں جھانک کر دیکھیں… نیویارک اورسوئٹزرلینڈ کا حسن ویران کھنڈرات کی طرح نظر آئے گا…  اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں… اس جنت کی طرف دوڑو… یہ میں نے اپنے لوگوں کے لئے تیار کی ہے…  اللہ  تعالیٰ کے لوگ…  اللہ  تعالیٰ کے بندے… اب آپ خود سوچیں … جن لوگوں کے لئے جنت کی ہمیشہ ہمیشہ والی… ابد الآباد والی زندگی کا فیصلہ ہوجائے… ان کے لئے کتنی بڑی خوشی ہے… اب اس خوشی کو منانے کا آغاز عید کی رات سے ہی کردینا چاہئے… عید کی رات… یعنی عید کے دن سے پہلے والی رات… جو لوگ عبادت کرتے ہیں…  اللہ  تعالیٰ ان کے دلوں کو خاص زندگی عطاء فرماتا ہے… لیجئے ’’زندہ دل‘‘ بننے کا طریقہ معلوم ہوگیا… اور دل کے مریضوں کو خوشخبری مل گئی…  اللہ  اکبر کبیرا… آخرت کی اصل زندگی سے غافل لوگ… عید کی رات بازاروں میں مگن… سینماؤں میں مست… اور دنیا کی رسموں میں مصروف … جبکہ دل والے… اس رات بھی  اللہ  تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر، محنت… اور جستجو میں…

اب آپ بتائیں… عید کس کو نصیب ہوئی؟… ان کو جو محبوب حقیقی سے غافل ہو گئے… یا ان کو جو آج بھی محبوب حقیقی کے ساتھ ہیں… اور اس کی یاد میں ڈوبے ہوئے ہیں… ہوسکے تو اس رات زیادہ عبادت کی جائے… رمضان المبارک کی یادوں کو تازہ رکھا جائے… وگرنہ اتنا تو ضرور رہے کہ… عشاء اور فجر کی نماز… مسجد میں باجماعت ادا ہو… اور رات کا دامن گناہوں سے پاک رہے…

من قام لیلتی العیدین محتسبا لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب

(رواہ ابن ماجہ)

من احیا لیلۃ الفطر ولیلۃ الاضحیٰ لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب 

(رواہ الطبرانی فی الاوسط)

دوخوشیاں

عید الفطر کے دن… مسلمانوں کے لئے دو بڑی خوشیاں ہیں… ایک یہ کہ… اس دن  اللہ  تعالیٰ ’’صدقۃالفطر‘‘ قبول فرماتا ہے… یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ…  اللہ  تعالیٰ ہمیں مال عطاء فرما کر… پھر اس میں سے کچھ اپنے نام پر قبول فرمالے… اور اسے ہماری آخرت کے لئے محفوظ فرمادے… اس لیے عید کے دن پہلا کام ’’صدقۃ الفطر‘‘ ادا کرنا ہے… دل کی خوشی کے ساتھ خوب زیادہ سے زیادہ ’’صدقۂ فطر‘‘… اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ادا کریں… اور  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے… ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائی… دوسری خوشی… مسلمانوں کے اجتماع میں…  اللہ  تعالیٰ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرنے کی ہے…  اللہ  اکبر کبیرا…

رمضان المبارک میں محبوب کی خاطر… بھوکے پیاسے رہنے والے عاشقوں کو… آج ایک خاص ملاقات پر بلایا گیا ہے… یہ خاص ملاقات ہے عید کی نماز… اس لیے صبح اٹھ کر خوب اچھی طرح نہالیں… پاک صاف ہوجائیں… اپنے لباس میں سے جو اچھا ہو وہ زیب تن کریں… خوشبو لگائیں… مسواک کرکے منہ کو معطر کریں… جو عطر میسر ہو وہ لگائیں… سرمہ اور عمامہ سے زینت حاصل کریں… الغرض محبوب سے خصوصی ملاقات کی خوب اچھی طرح تیاری کرکے … جلدی جلدی… عید گاہ پہنچ جائیں… پہلی صف میں امام صاحب کے بہت قریب… کیونکہ آج خاص نماز ہے… اور خاص ملاقات… ایسا نہ ہو… بچوں کی انگلیاں پکڑتے …قیمتی جوتیاں سنبھالتے… اور لوگوں کی خاطر پہنے گئے کپڑوں کو سنوارتے… ہماری عید کی نماز سڑک پر ادا ہو رہی ہو…

تیرہ سنتیں

’’عیدالفطر‘‘ مسلمانوں کی ایک ’’دینی خوشی‘‘ ہے… یہ کرسمس، دیوالی، ہولی… اور بیساکھی جیسا کوئی بدمست تہوار نہیں ہے…  اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوںکو پوری دنیا میں ایک ’’امتیازی شان‘‘ عطا فرمائی ہے… اس لیے مسلمانوں کی عبادات بھی امتیازی شان رکھتی ہیں… اور ان کی خوشیاں بھی… شیطان نے ہر مذہب کی عبادات میں ڈھول باجے… اور دوسری خرافات شامل کردی ہیں… مگر اسلامی عبادات شیطان کی ملاوٹ سے محفوظ ہیں… نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ… اور جہاد… ہر عبادت خالص ہے… باوقار ہے اور اخلاق کی تعمیر کرنے والی ہے…  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک سچا اور برحق دین… صرف ’’دین اسلام‘‘ ہے… اور حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کی بعثت کے بعد… اسلام کے علاوہ اور کوئی راستہ مقبول نہیں ہے… دنیا بھر کے دشمنان اسلام مسلمانوں کی ’’امتیازی شان‘‘ کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں… آپ نے سنا ہوگا کہ آج کل برطانیہ میں… مسلمان خواتین کے ’’اسلامی پردے‘‘ پر طوفان اٹھایا جارہا ہے… آخر کیوں؟… کیا انسانی حقوق کی آزادی اس کی اجازت نہیں دیتی؟… دراصل یہ لوگ مسلمانوں کی ہر امتیازی شان کو مٹانا چاہتے ہیں… کچھ نادان مسلمانوں نے… اپنی عید کو بھی… کافروں کے تہواروں کی طرح… لباس کی نمائش، ہلڑ بازی، شور شرابے… اور بدمستی کا دن سمجھ لیا ہے… کاش مسلمانوں کو یاد رہے کہ وہ ’’خیر امت‘‘ ہیں… اور انہیں پوری انسانیت تک ’’پیغامِ ہدایت‘‘ پہنچانے کیلئے بھیجا گیا ہے… مسلمان کبھی بھی شیطان اور وقت کا پجاری نہیں ہوسکتا… مسلمان دراصل ان نظریات کا نام ہے… جو آسمانوں کے اوپر سے… انسانوں کے رب نے نازل فرمائے ہیں… عبادت کا وقت ہو تو مسلمان تب بھی… مدینہ منورہ کی طرف دیکھتا ہے… اور حضرت آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم سے طریقہ پوچھتا ہے… اور جب خوشی کا وقت ہو تب بھی… مسلمان مدینہ منورہ ہی سے خوشی منانے کا طریقہ سیکھتا ہے… مدینہ منورہ سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں حضرات علماء کرام نے… عید کے دن کے لئے تیرہ سنتیں ذکر فرمائی ہیں… ایک ایک ’’سنت شریف‘‘ کو گنتے جائیے اور عمل کی نیت کرتے جائیے…

۱   شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا

۲  غسل کرنا

۳  مسواک کرنا

۴  حسب طاقت اچھے کپڑے پہننا

۵  خوشبو لگانا

۶  صبح کو بہت جلد اٹھنا

۷  عیدگاہ میں بہت جلد جانا

۸  عیدالفطر میں صبح صادق کے بعد عیدگاہ میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا اور عیدالاضحی میں نماز عید کے بعد اپنی قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے

۹  عیدالفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطراداکرنا

۱۰  عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنا بغیر عذر شہر کی مسجد میں نہ پڑھنا

۱۱  ایک راستہ سے عید گاہ میں جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا

۱۲  عیدگاہ جاتے ہوئے راستہ میں  اللہ  اَکْبَرْ  اللہ  اَکْبَرْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ  اللہ  وَ اللہ  اَکْبَرْ  اللہ  اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ… عیدالفطر میں آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا اور عیدالاضحی میں بلند آواز سے کہنا

۱۳  سواری کے بغیر پیدل عیدگاہ میں جانا…

شکر کریں احتجاج نہیں

بعض لوگ خصوصاً خواتین… عید کے دن احتجاج کا موڈ بنالیتی ہیں… وہ گھرانے جن میں کسی کا انتقال ہوگیا ہو… یا گھر کا کوئی عزیز فرد جیل یا مصیبت میں ہو… ایسے گھرانوں کی خواتین عام طور سے کہتی ہیں… اس سال ہم عید نہیں منا رہے… اور پھر پرانے کپڑے پہن کر… بھوت کی صورت بنا کر… احتجاج کرتی ہیں… خود بھی روتی ہیں، دوسروں کو بھی رلاتی ہیں… یہ طریقہ ناشکری… اور تکبر والا ہے… عید تو ایک ’’دینی خوشی‘‘ ہے… رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کی خوشی… پس جس کی رمضان المبارک میں بخشش ہوگئی… اس کی عید تو خود ہی ہوجاتی ہے… اور جو رمضان المبارک میں محروم رہا… وہ لاکھ خوشیاں اور مستیاں کرلے… اس کی کوئی عید نہیں… عید کا دن شکر اور شکرانے کا دن ہے… اگر آپ کے کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے تو… آپ تلاوت کرکے اور نوافل ادا کرکے… اس کے لئے خوب ساری دعائیں کریں… اگر آپ کے عزیز جیل میں ہیں تو… تلاوت اور نوافل کے بعد ان کی رہائی کے لئے دعاء مانگیں… مگر احتجاج والا ماحول نہ بنائیں… ہم  اللہ  تعالیٰ کے بندے ہیں… ہم خدا نہیں کہ سب کچھ ہماری مرضی سے ہو…  اللہ  پاک کی مرضی جس کو چاہے زندہ رکھے… اور جس کو چاہے موت دے… ہمارا کام اس کی تقدیر پر راضی ہونا ہے… اور اس سے صبر کی دعاء کرنا ہے… اگر ہم اکڑیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟… تو یہ تکبر کی علامت ہے… مسلمان کو چاہئے کہ  اللہ  تعالیٰ کا بندہ اور غلام رہے… اور خود کو کچھ نہ سمجھے…

وہ تو مزے میں ہیں

وہ خواتین جن کے بیٹے یا خاوند…  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں ہیں… ان کو تو عید کے دن بہت خوشی کرنی چاہئے… اور بہت شکر ادا کرنا چاہئے… یہ سعادت تو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے… بدقسمتی دیکھئے کہ وہ عورتیں… جن کے بیٹے یا خاوند کافروں کے ملکوں میں… مال کمانے کیلئے گئے ہوئے ہیں… وہ تو عید کے دن خوش ہوتی ہیں… حالانکہ ان کے لئے پریشانی، خطرے اور نقصان والی بات ہے… جبکہ وہ عورتیں جن کے بیٹے، خاوند یا بھائی…  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں ہوتے ہیں… وہ غم کرتی ہیں… حالانکہ ان کے تو مزے ہی مزے ہیں…  اللہ  تعالیٰ توفیق دے تو… قرآن پاک میں جہنم کا تذکرہ پڑھیں… اور شمار کریں کہ جہنم کا تذکرہ کتنی بار ہے… اور جہنم کتنی خوفناک ہے… اور وہاں ایک منٹ گزارنا کتنا بڑا عذاب ہے… یقین جانیں یہ جہنم حق ہے… اور وہ  اللہ  تعالیٰ کے نافرمانوں کے لئے بھڑک رہی ہے… چیخ رہی ہے… اور چنگھاڑ رہی ہے… اگر آپ کا بیٹا اور خاوند … اس جہنم سے بچنے کے لئے اور جنت کو پانے کے لئے… جہاد میں نکلے ہیں تو… یہ بہت خوشی کی بات ہے… دنیا تو چند روزہ ہے… کبھی قبرستان جاکر قبروں کو گنیں… سب لوگ مر رہے ہیں… اور سب لوگ مر جائیں گے… جن کے بیٹے اور خاوند حقیقی مستقبل کو سنوارنے کے لئے نکلے ہیں… وہ شکر کریں اور خوشیاں منائیں… تلاوت کریں، نوافل ادا کریں اور ان کی کامیابی کیلئے دعا مانگیں…

غریبوں کا دل نہ دکھائیں

 اللہ  تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو… اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ… غریبوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوجائے… بہت قیمتی چیزیں اپنے بچوں پر نہ لادیں…بانٹ کر کھائیں…… اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں… اور تو اور… کسی غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں… اور پھلوں کے چھلکے تک نہ ڈالیں… کہیں ایسا نہ ہوکہ … اس کے بچے بھی گوشت اور پھل مانگنے لگیں… اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے…

قناعت کا تاج پہنیں

 اللہ  تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے… وہ مالداروں سے افضل ہیں… وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے… اور وہ انبیاء علیہم السلام کے طریقے پر ہیں… وہ اپنی آنکھوں میں لالچ، محرومی… اور سوال کی ذلت نہ بھریں… اپنے سر پر قناعت کا تاج رکھیں… عید کے دن نئے کپڑے… بالکل ضروری نہیں ہیں… بچوں کے لئے نئے جوتے ہر گز ہرگز ضروری نہیں ہیں… اس لیے ان چیزوں کا غم نہ کھائیں… اور نہ اپنے دل میں  اللہ  تعالیٰ سے شکوہ لائیں… پیوند لگے کپڑوں میں جو عزت اور شان ہے… وہ ریشم کے لباس میں نہیں ہے… کسی کو اس بات پر نہ کوسیں کہ وہ ہمیں… کیوں نہیں دیتا… اور نہ اپنے بیوی بچوں کو… کسی کے مال پر نظر کرنے دیں… قناعت اور استغنا کا تاج پہنیں… اور قبر کی مٹی کو یاد رکھیں… رب کعبہ کی قسم… دنیا انہیں لوگوں کو ستاتی ہے جو موت اور قبر کو بھول جاتے ہیں… اور جو لوگ موت اور قبر کو یاد رکھتے ہیں… یہ دنیا ان کے قدموں پر گرتی ہے… عید کا ایک دن بھی گزر جائے گا… چاروں طرف دنیا کے میلے دیکھ کر اپنی غریبی اور فقیری کو داغدار نہ ہونے دیں…

وہ بھی ہمارے اپنے ہیں

آج کل کی مہذب دنیا میں… کچھ ایسی جگہیں بھی ہیں… جہاں ’’تہذیب جدید‘‘ اپنے عروج پر ہے … کس کس جگہ کا نام لوں… گوانٹاناموبے، ابوغریب جیل، بگرام ایئربیس کا عقوبت خانہ… تہاڑ جیل کا پھانسی گھاٹ… تالاب تلو جموں… پاپاون پاپاٹو سری نگر… اور بہت سی جگہیں … ان تمام جگہوں پر مسلمانوں کا گوشت جل رہا ہے… مسلمان جوانیاں فولادی سلاخوں میں پگھل رہی ہیں… اور قرآن پاک کے اوراق بے حرمتی کے نشانوں پر ہیں… گرم آنسو… تڑپتی آہیں… بے تاب سجدے… اور غم کے سمندر… مگر  اللہ  تعالیٰ کے شیر وہاں بھی ڈٹے ہوئے ہیں… وہاں بھی مسکرا مسکرا کر عیدیں گزارتے ہیں… عید کے دن شکرانے کے نفل پڑھتے ہیں… اور کہتے ہیں… ربا! ہم خوش ہیں… ربا! ہم راضی ہیں…

اے مسلمان بھائیو! اور بہنو!… وہ سب ہمارے اپنے ہیں… عید کے دن ان کو بھی یاد رکھیں… اور ان کے مشن کو بھی اور اپنی مقبول دعاؤں میں انہیں نہ بھولیں…

اے اسلام کے جانبازو!… سعدی فقیر تمہیں سلام کہتا ہے… تم سب کو عید مبارک … عیدمبارک…

٭٭٭


قصہ ایک مہینے کا

 

 اللہ  تعالیٰ کا کس طرح سے شکر ادا کیا جائے… یہ رمضان المبارک تو بہت عجیب تھا… بہت مبارک بہت شاندار بہت پرسکون… اور فتوحات کا تو گویا بند ہی ٹوٹ گیا تھا… دن راتوں سے زیادہ حسین تھے… اور راتیں دنوں سے زیادہ روشن… ہر طرف نور ہی نور تھا… اور خوشبو ہی خوشبو… اور تو اور… تھوڑی دیر کے لئے ریڈیو کو کھولتے تو وہ… ایسی خبریں سناتا کہ سر کے ساتھ دل بھی سجدے میں گر جاتا… بس یہ سب کچھ اپنے پیارے حبیب صلی  اللہ  علیہ وسلم کی امت پر…  اللہ  تعالیٰ کا احسان اور فضل تھا… ہم کس طرح سے اس نعمت پر…  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کریں… خوشی سے مر جانے پر دل چاہتا ہے…

اللہم لک الحمد کما ینبغی لجلال وجہک وعظیم سلطانک…

اللہم لا نحصی ثنائً علیک انت کما أثنیت علی نفسک…

بالکل حق بات ہے کہ… اے ہمارے عظیم مالک ہم آپ کی ثناء اور تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتے… آپ تو ویسے ہیں جیسے آپ نے خود کو بیان فرمایا ہے… شکر ہے اے پیارے مالک شکر ہے… وقت کا فرعون بش… اسی رمضان المبارک میں پہلی بار بولا کہ… عراق ہمارے لیے دوسرا ویت نام ہے… بات منہ سے نکل گئی… اگلے دن وہائٹ ہاؤس والے لوٹے بھر بھر کر… صفائی کرتے رہے… مگر آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کے روزے دار غلاموں نے تو سن لیا کہ… رب کے فدائی جیت گئے اور بش ہار گیا… ادھر برطانیہ کی فوج کے سربراہ نے اسی رمضان المبارک میں جھنجلا کر کہا… ہم نے عراق جا کر غلطی کی ہے… ہمیں وہاں سے فوراً واپس آجانا چاہئے… اس بیان نے رب کی خاطر بھوکے پیاسے رہنے والے روزہ دار مسلمانوں کے دل جہاد کی عظمت سے بھر دئیے… مگر برطانیہ کی حکومت کو گویا سانپ سونگھ گیا… ایک رات تک جوڑ توڑ کے بعد… چند بالٹیاں پانی ڈال کر… شکست کے اس اعتراف کو… دھونے کی کوشش کی گئی… مگر کہاں؟…  اللہ اکبرکبیرا… مسلمان زندہ باد… رمضان المبارک زندہ باد… اچھا پھر ایک اور کمال ہوا… امریکہ کے ایک بڑے اہلکار نے… الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیا… اور وہ بات کہہ ڈالی… جو ایک زمانے تک صرف مجاہدین کہتے اور لکھتے تھے… اور دنیا والے ان پر ہنستے تھے… امریکی اہلکار نے کہا… ہم نے عراق میں آ کر حماقت کی ہے… اس بیان نے امریکہ کے ایوانوں میں… خفت اور ذلت کی ہوا چھوڑ دی… صفائیوں پر صفائیاں آنے لگیں کہ… یوں نہیں کہا تھا… یہ نہیں کہا تھا… تب بی بی سی والوں نے خود اس کی آواز میں پورا بیان دوبارہ سنادیا… اے روزہ دار مجاہدو! مبارک ہو… اے فدائیو! مبارک ہو… تمہارا خون مہک رہا ہے… تمہارا لہو گرج رہا ہے… میں تمہاری عظمت کو سلام کرنا چاہتا ہوں… مگر تم تو بہت اونچے ہو…  اللہ  پاک تم تک ہمارا سلام پہنچائے… ابھی عالم کفر نے زرقاوی شہید کی خوشی کا جشن منایا ہی تھا کہ… ایک مہینے میں چھیانوے امریکی فوجیوں کے لاشے گرے… اور تڑپے… جی ہاں وہی بہادر فوجی … جو ملا عبدالسلام ضعیف جیسے مسلمان قیدیوں کو باندھ کر… انہیں لاتیں اور مکے مارتے تھے… اور نہتے مسلمانوں کو مار مار کر خوشی سے ناچتے تھے… ملا عبدالسلام ضعیف نے بھی عجیب کتاب لکھ دی ہے… ہر مسلمان کو وہ کتاب پڑھنی چاہئے… اور ہم پاکستانی تو اس کتاب کو پڑھ کر… سر سے پاؤں تک شرم میں ڈوب جاتے ہیں… ادھر افغانستان میں بھی رمضان المبارک خوب مہکا… خوب برسا اور خوب گرجا… بس عراق اور افغانستان میں صرف اتنا فرق ہے کہ… افغانستان میں خبریں دب جاتی ہیں… عالمی ذرائع ابلاغ کے آزاد نمائندے وہاں موجود نہیں ہیں… پاکستانی حکومت بھی اپنی دینی اور اسلامی ذمہ داریوں سے غافل ہے… اور طالبان  اللہ  والے لوگ ہیں… میڈیا کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے… ورنہ افغانستان میں بھی… امت مسلمہ کی عظمت پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہی ہے… چھبیس ملکوں کے فوجی اتحاد نیٹو کے فوجی سربراہ نے… رمضان المبارک میں اپنی شکست کا اعتراف کیا… کابل جیسے شہر میں جہاں سیکورٹی کے چھتیّ ہی چھتیّ ہیں… اسلام کے روزہ دار فدائیوں نے برطانیہ کا کانوائے الٹ دیا… اور ان علاقوں میں کارروائیاں کیں… جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی… ہاں سچ ہے… چڑیا پر نہیں مار سکتی مگر شاہینوں …اور شہبازوں کو کون روک سکتا ہے؟… پورے رمضان المبارک میں… ملا محمد عمر کا قندھار… کافر فوجوں اور ان کے منافق میزبانوں کیلئے… بھڑکتا ہوا تندور بنا رہا… اور پھر ہمارے کانوں نے وہ خبر بھی سنی… جس کے سننے کا کوئی ظاہری امکان ہی نہیں تھا…  اللہ  اکبرکبیرا… برٹش رائل آرمی کے بہادر سپاہی… ایٹمی طاقت رکھنے والے نیٹو فوجی… قلعہ موسیٰ میں شکست کھا کر طالبان سے معاہدہ کر آئے… اپنی جان کی امان لے آئے… اور اپنی کٹی ہوئی ناک … کے ساتھ اس علاقے سے بھاگ آئے… واہ اسلام واہ… واہ جہاد واہ… واہ رمضان واہ… یا  اللہ  کس طرح سے آپ کا شکر ادا کریں… انٹرنیٹ کے کھلاڑی جب امریکہ اور نیٹو کی طاقت کو تولتے تھے… زمین لرزنے لگتی تھی… اور دوسری طرف… بے بس طالبان … غریب، نہتے بھوکے… مگر غیرت مند مسلمان… اور پھر ماہ رمضان… کاش کوئی قلمکار اٹھے اور صرف اس واقعہ پر… ایک پوری کتاب لکھ ڈالے… ایک ایسی فتح کی داستان جو دلوں کو زندہ کرنے والی ہے… جو قرآن پاک کی آیات جہاد کو سمجھانے والی ہے… کل تک کون مانتا تھا… اور آج کون انکار کرسکتا ہے کہ… اس رمضان المبارک میں مجاہدین نے خوست کی چھاؤنی فتح کی… اور وہاں اسلام کا جھنڈا لہرایا… کل تک کون مانتا تھا… اور آج کون انکار کرسکتا ہے کہ… افغانستان کے ایک قابل قدر حصے پر طالبان کی حکومت ہے… وہ لینڈکروزر گاڑیوں میں آزادانہ گھوم رہے ہیں… اور ان کے بڑے اپنے چھوٹوں کے درمیان… مختلف علاقے اور مال غنیمت تقسیم کر رہے ہیں… ہائے رمضان اس بار تو تیری ادائیں ایسی تھیں کہ… تو بہت یاد آئے گا… بہت یاد آئے گا … کیا یہ بات بُھلائی جاسکتی ہے کہ… انیس اکتوبر کے دن… تہاڑ جیل دہلی کی جیل نمبر تین کے پھانسی گھاٹ میں… ایک شخص… ہاں بالکل اکیلا شخص اپنے سیل میں… قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا … اور جیل حکام… اس کو طنزیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے… پھانسی کا پھندا لٹکادیا گیا تھا… تختہ بھی درست کردیا گیا تھا… جیل حکام بار بار اس پر نقلی مشق کر رہے تھے… تاکہ… بیس اکتوبر کی صبح چھ بجے… کوئی غلطی نہ رہ جائے… پھر ماموں نام کے ایک ماہر جلاد کو لایا گیا… اس نے دور سے … اور پھر قریب آکر افضل کو دیکھا… جی ہاں محمد افضل کو… روزے دار افضل کو… جلاد کی نظریں اس کی گردن پر تھیں… اور محمد افضل کی نظریں… عرش کی طرف تھیں… عین اسی وقت… افضل سے بہت دور… بہت دور… ایک مسجد میں ایک سو اسّی روزے دار… اپنے دامن پھیلائے بیٹھے تھے… یہ سب رب کے دروازے پر اعتکاف میں پڑے ہوئے تھے… وہ ’’بسم  اللہ  الرحمن الرحیم‘‘ کا ورد کر رہے تھے… ان میں سے کسی کو افضل کی ماں نے نہیں جنا تھا… مگر وہ یوں بے تاب تھے جیسے کل ان کا سگا بھائی… پھانسی پر لٹکنے والا ہے… وہ رو رہے تھے اور رب سے فریاد کر رہے تھے… افضل کو تو خبر بھی نہیں تھی کہ… اس کے کتنے بھائی رو رہے ہیں… بلک رہے ہیں… اور سجدوں میں اس کے لئے رب کے حضور فریاد کر رہے ہیں… ادھر آنسوؤں کا سیلاب تھما… ادھر میناروں سے اذان گونجی… روزہ داروں کے منہ نے دعاء کے ساتھ… کھجوروں کا بوسہ لیا… اسی لمحے تہاڑ جیل کے آئی جی کو حکمنامہ ملا کہ… کل محمد افضل کو پھانسی نہیں ہوگی…  اللہ  اکبرکبیرا… اسلامی رشتہ… محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا قائم فرمودہ رشتہ… جہاد اور بیعت کا رشتہ… اب بھی الحمد اللہ  زندہ ہے… موت کا وقت… اور طریقہ کار اٹل ہے… مگر اس پورے واقعہ میں بہت کچھ مہک رہا ہے…  اللہ  تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ… آگے کیا ہوگا… محمد افضل کو پھانسی کے ذریعے رب کی ملاقات نصیب ہوگی… یا فی الحال یہ معاملہ ٹل جائے گا؟… محمد افضل کو پھانسی ہوئی تو اس کے بعد کیا ہوگا؟… یہ سب کچھ صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ ہی جانتا ہے… مگر ایک بھائی کی خاطر… سینکڑوں بھائیوں کا تڑپنا… امت مسلمہ کے لئے ایک خوشخبری… اور عالم کفر کے لئے ایک پیغام ہے…

اے پیارے رمضان المبارک … تیری کس کس خوشبو کو یاد کروں… ہم تیرا حق ادا نہیں کرسکے… اس پر ہم شرمندہ ہیں…  اللہ  تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے… مگر تو نے تو اس بار امت مسلمہ کو…  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے بہت کچھ دیا… جہاد کی دعوت دینے والوں نے جس طرف کا رخ کیا…  اللہ  تعالیٰ کی نصرت کو اپنے سامنے پایا… یوں لگتا تھا کہ… ہوائیں بھی ان دیوانوں کے ساتھ جہاد کی دعوت دے رہی ہیں… کراچی سے خیبر تک اسلام اور جہاد کی دعوت کا ایک نورانی سیلاب تھا… خود مجاہدین حیران تھے کہ… یہ سب کچھ کس طرح سے ہورہا ہے… حکومتی جبرسے سہمی ہوئی مسجد کمیٹیوں کو کئی سال بعد یاد آیا کہ… مساجد میں دعوت جہاد کو روکنا ایک جرم اور عظیم گناہ ہے… انہوں نے توبہ کی… اور منبر ومحراب سے… مسجد نبوی والی دعوت گونجنے لگی… مجاہدین پر اعتراضات کرنے والا طبقہ… معلوم نہیں اس سال کہاں غائب تھا… ان سے ملاقات نہ ہوسکی… اور دعوت جہاد کو ہتھکڑیاں ڈالنے والوں نے بھی الحمد اللہ  مسلمانوں کا کردار ادا کیا… صرف ایک دو بدنصیبوں نے مجاہدین پر پرچے کاٹ کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا… جبکہ باقی پر رمضان المبارک کا پورا اثر رہا…  اللہ  تعالیٰ اس پر شکر کی توفیق عطاء فرمائے… اور تکبر، ناز اور ’’میں‘‘ سے بچائے… کام وہی مقبول ہوتاہے جو  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہو… جب نام، فخر اور ’’میںمیں‘‘ شروع ہوجائے تو نصرت ہٹ جاتی ہے… اور عمل ضائع ہوجاتا ہے…

اس رمضان المبارک کے پیارے قصے بے شمار ہیں… پوری دنیا میں خوب تلاوت گونجی… خوب سجدے ادا ہوئے… مساجد آباد رہیں… شیطان کے اڈوں پر بھیڑ میں کچھ کمی واقع ہوئی… پانے والوں نے بہت کچھ پالیا… فدائیوں نے سب سے بڑھ کر قربانی دی… اور رمضان المبارک پوری طرح سے کمالیا…

الوداع اے رمضان… اے نورانی محبوب الوداع… شکریہ اے رمضان… زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا… معذرت اے رمضان … تیرا حق ادا نہ کرسکنے پر… بے حساب شکر…  اللہ  تعالیٰ کا… اپنے مالک، محبوب حقیقی… اور معبود برحق کا… جو ایک ہے… اس کا ہر گز ہرگز … کوئی شریک نہیں… اور آخر میں پھر یہ سچی بات کہ… یا  اللہ  ہم آپ کے شکر کا حق ادا نہ کرسکے… معاف فرما، معاف فرما، معاف فرما… اے معافی سے پیار کرنے والے معاف فرما… اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنا…

…آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭


احد سے باجوڑ تک

 

 اللہ  تعالیٰ نے ظلم کو حرام فرمایا ہے… وہ خود بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا… اور نہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ… مخلوق میں سے کوئی بھی دوسرے پر ظلم کرے…  اللہ  تعالیٰ ظالموں سے نفرت فرماتا ہے… چنانچہ ہم اس کے بندے بھی ظالموں سے نفرت کرتے ہیں… اس وقت صورتحال بہت عجیب ہے… باجوڑ کے زخم خوردہ مسلمانوں کا اصرار ہے کہ…  اللہ  تعالیٰ کے گھر مسجد پر بمباری… نیٹو کی کافر فوجوں نے کی ہے… مگر خود کو مسلمان کہنے والے پاکستانی حکمرانوں کا اصرار ہے کہ نہیں یہ ’’نیک کام‘‘ ہماری اپنی ’’مسلمان فوج‘‘ نے سرانجام دیا ہے… باجوڑ والے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ…  اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کی تعلیم کے مدرسے کو کافروں نے تباہ کیا ہے… مگر ہمارے حکمران یہ ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر ڈال رہے ہیں… باجوڑ والوں کا دعویٰ ہے کہ رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے مہمانوں … یعنی قرآن وسنت کے طالبعلموں کو غیر مسلم امریکی فوجیوں نے ذبح کیا ہے… مگر ہمارے فوجی ترجمان کا دعویٰ ہے کہ یہ عظیم کارنامہ اور نیک عمل بھی ہم نے ادا کیا ہے… اناللہ  وانا الیہ راجعون… یا  اللہ ! اگر واقعی یہ گندا اور بدکام ہمارے حکمرانوں نے کیا ہے تو… ہم ان کے عمل سے بری ہیں… ان کے اس جرم عظیم کا وبال… پورے ملک پر نہ ڈال… بلکہ ان کی گردن توڑ… جنہوں نے اس ’’گناہ عظیم‘‘ کا فیصلہ کیا… جنہوں نے اذان کی آواز کو دبانے کی منحوس کوشش کی… جنہوں نے مسلمانوں کو اسّی سے زائد بچوں اور نوجوانوں کی لاشوں کا غم دیا… قرآن پاک کا علم حاصل کرنے والے طلبہ کو تو فرشتے بھی رشک سے دیکھتے ہیں… اور ان کے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھاتے ہیں… معلوم نہیں وہ ظالم کس کی اولاد تھے… جنہوں نے قرآن پاک کے طالبعلموں پر بم برسادئیے… اب ان ظالموں کو امریکہ … انعام کے طور پر سور کا گوشت دے گا… جسے وہ اور ان کی اولادیں کھا کھا کر مریں گی… ہائے بدبختی تیری بھی کوئی انتہا ہے؟… حضرت ابو الدرداء رضی  اللہ  عنہ بیان کرتے ہیں کہ… میں نے خود سنا کہ رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کُلُّ ذَنْبٍ عَسَی  اللہ  اَنْ یَّغْفِرَہٗ اِلاّ الرَّجُلَ یَمُوْتُ مُشْرِکًا اَوْ یَقْتُلُ مُؤمِنًا مُّتَعَمَِدًا (ابوداؤد، ابن حبان)

یعنی امید ہے کہ  اللہ  تعالیٰ ہر گناہ کو معاف فرما دے گا مگر اس شخص کو جو مشرک مرا ہو یا جس نے جان بوجھ کر کسی مؤمن کو قتل کیا ہو…

ہاں زور سے کہو تم نے خود یہ بمباری کی ہے… زور زور سے اپنی یہ نیکی اور کارنامہ بیان کرو … اور سنو رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یَأتِی الْمَقْتُوْلُ مُتَعَلِّقًا رَاْسَہٗ بِاِحْدٰی یَدَیْہِ مُتَلَبِّیًا قَاتِلَہٗ بِالْیَدِ الْاُخْرٰی تَشْخَبُ اَوْ دَاجُہٗ دَمًا حَتّٰی یَاْتِیَ بِہِ الْعَرْشَ، فَیَقُوْلُ الْمَقْتُوْلُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ: ہَذَا قَتَلَنِیْ فَیَقُوْلُ  اللہ  عَزَّوَ جَلَّ لِلْقَاتِلَ: تَعَسْتَ، وَیُذْہَبَ بِہٖ اِلَی النَّارِ (ترمذی)

یعنی قیامت کے دن مقتول اس حال میں آئے گا کہ… اس کے ایک ہاتھ میں اپنا سر لٹک رہا ہوگا… اور دوسرے ہاتھ سے اس نے قاتل کو پکڑ رکھا ہوگا… اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا… اسی حالت میں وہ قاتل کو پکڑ کر عرش تک آئے گا اور رب العالمین سے کہے گا اس نے مجھے قتل کیا تھا… اس پر  اللہ  تعالیٰ قاتل سے فرمائے گا کہ تو ہلاک ہوگیا… پھر قاتل کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا…

ہاں اس حدیث پاک کو بار بار پڑھو… باجوڑ کے دینی مدرسے کے حفاظ قیامت کے دن… عرش تک جائیں گے… انہوں نے اپنے سر اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہوں گے… ہاں وہی سر جو تم نے کاٹ دئیے… ہاں وہی سر جن سے قرآن پاک کی آواز آتی تھی… ہاں وہی سر جو امریکہ کے سامنے نہیں جھکتے تھے… اور ان کے دوسرے ہاتھ میں تمہاری گردن ہوگی… تب  اللہ  تعالیٰ ڈالر کے پجاریوں کے خلاف… فیصلہ فرما دے گا … عجیب بات ہے… صحافیوں کو بتایا گیا کہ… مدرسہ میں صبح چار بجے جہاد کی ٹریننگ ہوتی تھی… پھر ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں چند طلبہ ورزش کر رہے ہیں…اگر ورزش کرنے کی سزا قتل ہے تو اسکولوں پر بمباری کرو… جہاں ہر روز پی ٹی ماسٹر ورزش کراتے ہیں… کھلم کھلا دن دہاڑے… ان کالجوں پر بمباری کرو … جہاں خود تمہارے گوریلے سول ڈیفنس کی ٹریننگ دیتے ہیں… اس میں ورزش بھی کرائی جاتی ہے اور فائرنگ بھی… کیا پاکستان کے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ورزش‘‘ کی سزا ’’موت‘‘ ہے؟… ٹھیک ہے مان لیا کہ وہ جہاد کے لئے ورزش کرتے تھے…  اللہ  کرے ہر مسلمان ایسا کرتا ہو… تو کیا جہاد کیلئے ورزش کرنے کی سزا موت ہے؟… کوئی قانون تو بتاؤ؟… کوئی جواز تو فراہم کرو… ہاں ایک جواز ہے کہ امریکہ کا حکم تھا… اور ہم اس کے غلام ہیں… اور وہ ہمیں انعام میں ڈالر دیتا ہے… کیا اسلام کا کلمہ پڑھنے والا کوئی انسان وہ تمام باتیں… اپنے منہ سے نکال سکتا ہے… جو باتیں ہمارے حکمران کھلم کھلا بول رہے ہیں؟… یوں لگتا ہے کہ… کسی بھی لمحے زمین پھٹ جائے گی… اور آسمان ٹوٹ گرے گا… آخر ظلم اور بے غیرتی کی کوئی انتہا تو ہو؟… رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنْ عِنْدَ  اللہ  مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ (رواہ مسلم)

یعنی پوری دنیا کا ختم ہوجانا  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک… ایک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں معمولی چیز ہے…

ہاں رب کعبہ کی قسم مسلمان کا قتل… بہت بڑا جرم ہے… بہت عظیم جرم… بہت خطرناک گناہ… حضرت لدھیانویؒ شہید کردئیے گئے… پھر مفتی شامزئیؒ کو خون میں نہلایا گیا… پھر مفتی جمیلؒ کے حسین سراپے کو چھلنی کیا گیا… پھر کبھی وانا اور کبھی شکئی… اور اب باجوڑ… پہلی مرتبہ نہیں دوسری مرتبہ… شاید یہ لوگ دنیا کو تباہ کروانا چاہتے ہیں… کیونکہ زمین اتنے ظلم شاید اب نہ اٹھا سکے… دنیا بھر میں جگہ جگہ ایٹم بم بکھرے پڑے ہیں… ہائیڈروجن بموں کے اسٹاک بھی جگہ جگہ موجود ہیں… مسلمانوں کا خون خود مسلمان کہلانے والے بیچ رہے ہیں… آسمان رو رہا ہے… زمین لرز رہی ہے… ایسے میں صرف ایک جھٹکا… زمین کو پتھر سے بھی پہلے کے زمانے میں دھکیل دے گا… ڈالر، مال، گاڑیاں… اور حرام کے بنگلے… سب کچھ یہاں رہ جائے گا… مسلمانوں کو قتل کرنے والے حجاج بن یوسف کا انجام کتنا خوفناک ہوا؟… حضرت عثمان غنی رضی  اللہ  عنہ کو شہید کرنے والوں کا انجام کتنا عبرتناک تھا؟… کرائے کے قاتل بھی خوفناک انجام سے نہیں بچ سکیں گے… جب موت کا وقت آئے گا تو امریکہ… ان کو نہیں بچا سکے گا… کاش یہ چند لمحے کیلئے مسلمان بن کر سوچتے… تو ایسا کبھی نہ ہوتا… رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَوْ اَنَّ اَہْلَ السَّمٰوٰتِ وَاَہْلَ الْاَرْضِ اِشْتَرَکُوْا فِیْ دَمِ مُّؤمِنٍ لَاَکَبَّہُمُ  اللہ  فِی النَّارِ (ترمذی)

یعنی اگر آسمانوں اور زمین کے رہنے والے تمام لوگ ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوجائیں تو  اللہ  پاک ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا…

بے شک ایک مسلمان جو ایمان والا ہو… اس کی حرمت اور عزت  اللہ  پاک کے نزدیک… کعبہ شریف کی حرمت اور عزت سے زیادہ ہے… اس لیے مومن کا قتل… کفر وشرک کے بعد…  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے…

آج باجوڑ خون سے رنگین ہے… اسّی سے زائد نئی قبریں بن چکی ہیں… سرخ کفن پہن کر… دینی مدارس کے طلبہ … اپنی اس منزل تک پہنچ چکے ہیں جس کی تلاش میں وہ نکلے تھے… حضرت مولانا لیاقت  اللہ  شہیدؒ کا صدقہ جاریہ… قیامت تک کے لئے جاری ہوگیا… ان کے بچے خوش ہیں کہ… ہمارے بابا ہمارے لیے جنت میں محل بنانے گئے ہیں … دوسری طرف یہ خوشی ہے کہ… اسّی سے زائد دہشت گرد مارے گئے… اب امریکہ زیادہ محفوظ ہوچکا ہے… ہمارے جوانوں نے امریکی وفاداری کا حق ادا کردیا ہے… شاباش کے غلغلے ہیں… اور ڈالر گنے جارہے ہیں… ہم خوشی اور غم کے اس شور میں صرف دو باتیں عرض کرتے ہیں… جی ہاں صرف دو حقیقی باتیں… پہلی بات تو مولانا لیاقت  اللہ ؒ اور اس مدرسے کے تمام شہید طلبہ سے عرض کرنی ہے کہ… اے خوش نصیب  اللہ  والو! تمہیں شہادت کا تاج اور منزل کا ملنا مبارک ہو… تمہارا ’’انجام‘‘ دیکھ کر ہم نے کوئی ’’عبرت‘‘ نہیں پکڑی… بلکہ ہمارا ’’شوق جہاد‘‘ الحمد اللہ  اور زیادہ بڑھ گیا ہے… آپ حضرات کو شہادت بھی ملی… اور بہت سے مزید انعامات بھی… آپ حضرات کا پڑھنا پڑھانا اسی لیے تھا کہ… انجام اچھا ہو جائے خاتمہ ایمان پر ہوجائے… اور  اللہ  پاک راضی ہو جائے… انشاء  اللہ … یہ سب چیزیں آپ کو نصیب ہوگئیں… بہت سے بچے ’’کتاب  اللہ ‘‘ حاصل کرنا چاہتے تھے… اب ان کو خود ’’ اللہ ‘‘ مل گیا… اور یوں راستہ مختصر ہوگیا… اے شہداء کرام! آپ شہادت کے وقت مسجد… اور مدرسہ میں تھے… تہجد اور فجر کی تیاری میں تھے… اور باوضو تھے… آپ نماز میں  اللہ  تعالیٰ سے باتیں کرنا چاہتے تھے… مگر اس نے آپ کو خود اپنے پاس ہی بلالیا… یوں آپ کو جلد منزل مل گئی… اے شہداء کرام! اگر آپ واقعی جہاد کی تیاری اور ورزش کرتے تھے تو آپ کو… پوری امت کی طرف سے سلام… اور خراج تحسین…  اللہ  کرے ہر مدرسہ میں جہاد کی ورزش ہو… اور ہر دینی ادارہ جہاد کے دینی فریضے کو یاد رکھے… کیونکہ یہ سب کچھ ’’جرم‘‘ نہیں ’’فرض‘‘ ہے… اور فرض کو ادا کرتے ہوئے آپ کا شہید ہوجانا… ایک ایسی سعادت ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے محنت کرنی چاہئے…

اے باجوڑ کے شہداء…  اللہ  تعالیٰ تمہاری ارواح تک ہمارا سلام پہنچائے… ہم اس واقعہ سے ڈرے اور سہمے نہیں… بلکہ… پھولوں کی طرح بکھرے ہوئے آپ کے جسم دیکھ کر… ہمیں رشک آرہا تھا… اور ہمارا ایمانی جذبہ مضبوط ہو رہاتھا… ایک مسلمان کے لئے شہادت سے بڑا کوئی انعام نہیں ہے… ہمارے تمام دینی کام اسی لیے تو ہیں کہ…  اللہ  پاک راضی ہوجائے… خاتمہ ایمان پر ہوجائے… اور جنت الفردوس میں جگہ مل جائے… تو پھر… شہادت اور قتل سے ڈرنے کی کیا گنجائش ہے؟… اے شہداء کرام! آپ ہم سے پہلے چلے گئے…  اللہ  پاک آپ کی بخشش فرمائے… آپ کی شہادت کو قبول فرمائے… آپ کو اونچے اونچے مقامات عطاء فرمائے… وإنّا انشاء  اللہ  بکم لاحقون… اور ہم بھی انشاء  اللہ  آپ سے آ ملیں گے… دوسری بات باجوڑ کے غمزدہ، زخم خوردہ غیور مسلمانوں سے ہے کہ… وہ اس موقع پر ’’غزوہ احد‘‘ کویاد کریں… ستر صحابہ کرام کی لاشیں… شہداء کے جسموں کے ٹکڑے… غم پر غم… اور مصیبت پر مصیبت… کافروں کا اعلان کہ اب یہ لوگ ٹوٹ چکے ہیں… آگے بڑھو اور ان کا مکمل خاتمہ کردو… منافقین کے قہقہے، طعنے، سازشیں… اور پیلے پیلے دانت…  اللہ  اکبر کبیرا… کتنا مشکل وقت تھا… مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے تھے… ایک پسپائی کا راستہ جس میں ظاہری امن تھا… اور وقتی عافیت … اور دوسرا سنبھلنے اور ڈٹ جانے کا راستہ تھا… جس میں سوائے زخموں اور ہلاکت کے اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا… اس وقت  اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرمایا… اور انہیں پسپائی سے بچالیا… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کے فرمان پر… مسلمانوں نے ڈٹ جانے اور مقابلہ کرنے کا عزم کیا… تب سات آسمانوں کے اوپر سے آواز آئی کہ… بس فیصلہ ہوگیا ہے… اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِیْنَ… اے مسلمانو! جب تمہارا ایمان سلامت ہے تو پھر تم ہی غالب ہو… جان کا کیا ہے وہ تو ویسے ہی جسم سے نکلنی ہے… اصل تو ایمان ہے… بس ادھر مسلمان غزوہ احد کے امتحان میں کامیاب ہوئے تو اُدھر… ان کے لئے فتوحات کے راستے کھل گئے… اور پھر وہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے… غزوہ احد کا امتحان بہت سخت تھا… مگر اس میں کامیابی کا انعام بھی بہت بڑا تھا… آج باجوڑ کے پہاڑ غزوہ احد والی استقامت دیکھنے کے منتظر ہیں… قرآن پاک کے واقعات زندہ اسباق ہیں… اور تاریخ اپنا پیغام دہراتی رہتی ہے… اے باجوڑ کے غیور مسلمانو!… اس وقت متحد ہونے، مضبوط ہونے، حوصلہ قائم رکھنے… اور آگے بڑھنے کا وقت ہے… حالات کے تندور میں منافقین کو اپنے مفادات کی روٹیاں نہ پکانے دو… بلکہ… شہداء کرام کے سرخ خون کے پیغام کو سمجھو… غزوہ احد کو ایک بار پھر قرآن پاک میں جھانک کر دیکھو… اور زخمی حالت میں بھی…  اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کے فرمانبردار رہو… تب… فطرت کا قانون اپنا فیصلہ سنائے گا… اور تم …  اللہ  تعالیٰ کے فضل و کرم سے غالب رہو گے…

٭٭٭


وہ گدھے اچھے رہے

 

 اللہ  تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین ’’اسلام‘‘ کا خود محافظ ہے… اسلام کے فرائض میں سے سب سے مشکل ’’جہاد فی سبیل  اللہ ‘‘ کا فریضہ ہے…  اللہ  تعالیٰ اس فریضے کی حفاظت کے لئے جن افراد کو منتخب فرماتا ہے وہ روئے زمین کے بہترین افراد ہوتے ہیں… یہ بات قرآن مجید سے بھی ثابت ہے… اور احادیث رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم سے بھی… اصل حفاظت تو خود  اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے… مگر وہ قرآن اور جہاد کی حفاظت کے لئے اپنے بہترین بندوں کو استعمال فرماتا ہے… اور پھر اپنی باقی مخلوقات کو ان بندوں کے کام پر لگادیتا ہے… میرا گمان تھا کہ … محترم جاوید چوہدری صاحب بھی…  اللہ  تعالیٰ کے ان بہترین بندوں میں سے ایک ہیں… جو فریضہ جہاد کی خدمت، اشاعت، وکالت اور حفاظت کے لئے چن لیے گئے ہیں… وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے تھے تو ان کے بعض کالم پڑھ کر دل جھوم اٹھا… پھر وہ یاسرمحمدخان کے نام سے ایک اسلامی اخبار میں بھی لکھنے لگے… ان کا ایک مضمون پڑھ کر میں نے انہیں تہنیتی خط بھی لکھا… میرے سامنے شہداء کرام کی ایک لمبی قطار ہے… کمانڈر عبدالرشید شہید سے لے کر عزیزم عدنان تک… اور اختر شہید سے لے کر کمانڈر سجاد تک… اور کس کس کا نام لوں… مجھے وہ سب اچھی طرح یاد ہیں… اور پھر ان سے پہلے کے شہداء… احد اور بدر کے شہداء تک… اور پھر آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا مبارک اور مقدس لہو… آپ کا دانت مبارک… اور … اور … حضرت جبرئیل علیہ السلام کے دانتوں پر لگا ہوا جہاد کا غبار… پھر قرآن پاک کی جہاد والی سورتیں اور پانچ سو سے زائد آیتیں… اور پھر فدائیوں کے محبت نامے… اس لیے جو لکھنے والا بھی جہاد کے حق میں لکھتا ہے وہ ہمیں پیارا لگتا ہے… ہم اپنے دل میں اس کا بے حد احترام پاتے ہیں… پاکستان کے قومی اخبارات میں جہاد کے خلاف لکھنے والوں کی تو بہتات ہے… جبکہ جہاد اور مجاہدین کے لئے کلمہ خیر کہنے والے کالم نویس بہت کم ہیں… ہائے افسوس کہ اب ان کی تعداد بھی مزید کم ہوتی جارہی ہے… ہاں بے شک جہاد ایک مشکل فریضہ ہے… اور اس پر استقامت صرف  اللہ  تعالیٰ کے خصوصی فضل سے ہی ممکن ہے… ماضی میں بھی محترم جاوید چوہدری صاحب کے بعض مضامین سے مجھے اختلاف ہوا… میں نے ان کے مضمون ’’وراثت‘‘ کا جواب ’’تورابورا‘‘ کے نام سے لکھا… مگر دل میں ان کا احترام کم نہیں ہوا… مجھے احساس تھا کہ ان کے پاس جو ’’تعلیم‘‘ ہے … اور ان کے ارد گرد جو ’’ماحول‘‘ ہے… اس کے اعتبار سے ان کا جہاد کے حق میں لکھنا… امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کو خراج تحسین پیش کرنا… حضرت مفتی شامزئی  ؒ کو سلام عقیدت کہنا… ایک بڑی غنیمت اور قابل رشک توفیق ہے… میں اپنے حالات کی وجہ سے مستقل کوئی اخبار نہیں پڑھ سکتا… اس لیے میرے سامنے چوہدری صاحب کے صرف وہی کالم آتے رہے جو مختلف دینی رسائل میں… اشاعت مکرر کے طور پر شائع ہوئے… ہر کالم خوبصورت تھا… اور کافی حد تک مدلل بھی… مگر بروز منگل ۱۴؍شوال بمطابق ۷نومبر ۲۰۰۶ء روزنامہ ایکسپریس… مجھے خبر ملی کہ… چوہدری صاحب نے جہاد افغانستان کے خلاف کالم لکھا ہے… مجھے اعتبار نہ آیا… یہ خبر نجم سیٹھی، راجہ محمد انور، خالد احمد، ارد شیر کاؤس جی جیسے کالم نویسوں کے بارے میں ہوتی تو کوئی حیرت ہوتی نہ پریشانی… بعض رفقاء نے کہا کہ ہم اس کالم کا جواب لکھ رہے ہیں… میں نے ان سے عرض کیا کہ ہاتھ ہلکا رکھیں… اور ذاتی حملے سے گریز کریں… مجھے توقع تھی کہ چوہدری صاحب نے کوئی ایک آدھ ادیبانہ چٹکی بھری ہوگی… اوربس… مگر جب شام کو یہ اخبار میرے ہاتھ لگا تو اس مضمون کے بارے میں… میرا تمام تر ’’حسن ظن‘‘ اپنی موت آپ مرگیا… چوہدری صاحب نے اپنے شوخ اور چنچل انداز میں… سولہ لاکھ شہداء پر چھری چلائی ہے… مجھے یوں لگا کہ ایک شخص کچھ عرصہ تک بلندیوں کی طرف سفر کرنے کے بعد… واپس ’’زیروپوائنٹ‘‘ پر آ کھڑا ہوا ہے… جی ہاں انسان کے بعض جملے اس کے تمام اونچے اعمال کو اکارت کردیتے ہیں… حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ایک شخص اپنے اعمال کی برکت سے جنت کے دروازے تک جا پہنچتا ہے… تب اس کی زبان سے ایک ایسی بات نکلتی ہے جو اسے جنت کی بلندیوں سے اتار کر… جہنم کی کھائیوں میں لا گراتی ہے… معلوم نہیں روزنامہ ایکسپریس کا اثر ہے… یا کوئی اور مجبوری؟… چوہدری صاحب نے اپنے قابل رشک ماضی سے ایک دم ہاتھ دھو لیے…  اللہ  تعالیٰ ہمارے اور ان کے اعمال کی حفاظت فرمائے… دراصل آج کل صحافت کا ماحول پرآشوب ہے… اسلام آباد میں فلیٹ… لاہور میں کوٹھی… غیر ملکوں کے اسفار… وی آئی پی پروٹوکول… اور بے شمار خواہشات… جب سبھی لوگ ان چیزوں کی طرف دوڑ رہے ہوں تو پھر… بنیاد پرستی کی تہمت سہہ کر… جہاد پر ڈٹے رہنے والے لوگ بہت کم رہ جایا کرتے ہیں… چوہدری صاحب کے اس مضمون میں بعض باتیں بچگانہ ہیں… بعض باتیں ظالمانہ ہیں… اور بعض لا علمی کا نتیجہ … ان باتوں کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے چوہدری صاحب کے مضمون سے بعض اقتباسات پیش خدمت ہیں… ان کے اس مضمون کا نام ہے… وہ گدھے کہاں ہیں؟… مضمون کا آغاز ایک سعودی شہزادے ’’بندربن سلطان‘‘ کے تعارف سے ہے… اس سعودی شہزادے کی آپ بیتی ان کے ایک کلاس فیلو ’’ولیم سمپن‘‘ نے لکھی ہے… اس کتاب کا نام ’’دی پرنس‘‘ ہے… جاوید چوہدری صاحب نے اس کتاب کو پڑھا… اور اسی کے تناظر میں اپنا یہ کالم تحریر فرمایا ہے… وہ لکھتے ہیں:

(۱)  ’’شہزادہ بندر بن سلطان کی اس کتاب نے افغان جہاد کے بارے میں میرے تمام تصورات جڑوں سے ہلا دئیے اور مجھے پہلی بار یہ جہاد کی بجائے انا اور مفادات کی جنگ لگی، شہزادے نے انکشاف کیا ’’امریکہ نے یہ جنگ ڈالروں کے بل بوتے پر لڑی تھی اور ڈالروں کی مدد ہی سے جیتی‘‘

(۲)’’شہزادے نے گورباچوف کو سمجھایا، جناب صدر آپ کی ایجنسیاں آپ کو غلط اطلاعات دے رہی ہیں سعودی عرب افغانستان میں ۲۰۰ ملین ڈالر کی بجائے ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے‘‘

(۳) ’’میری نظر میں شہزادہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز السعود کی یہ کتاب ڈیٹرجنٹ پاؤڈر کی حیثیت رکھتی ہے اس کتاب نے افغان جہاد کے بارے میں میرے سارے تصورات دھو کر رکھ دئیے، میری نسل افغان جہاد کے دوران پل کر جوان ہوئی تھی لہٰذا ہم اسے کفر اور اسلام کی جنگ سمجھتے تھے اور اس جنگ میں کام آنے والے مجاہدین کو شہید اور زخمیوں کو غازی کہتے تھے لیکن مجھے شہزادہ بندر بن سلطان کی کتاب پڑھ کر معلوم ہوا یہ جنگ جہاد نہیں تھا‘‘…

جاوید چوہدری صاحب کے اس مضمون کا مرکزی کردار ’’گدھے‘‘ ہیں… ان کے بقول شہزادے نے لکھا ہے کہ ہم نے اور امریکہ نے … پوری دنیا سے دھڑادھڑ گدھے خرید کر… افغان مجاہدین کو دئیے تاکہ وہ ان گدھوں پر اپنا جنگی سازو سامان منتقل کرسکیں… مضمون کے آخر میں… چوہدری صاحب نے اپنی شدید تشویش کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے…

’’جب سے میں نے یہ کتاب پڑھی ہے میں گدھوں کے بارے میں شدید تشویش کا شکار ہوں اور میرا دل چاہ رہا ہے میں جنرل حمید گل صاحب سے رابطہ کروں اور ان سے پوچھوں ان گدھوں کا کیا بنا تھا اور وہ تمام گدھے اس وقت کہاں ہیں؟‘‘…

چوہدری صاحب سے چند سوالات

محترم چوہدری صاحب! آپ کے اس مضمون کی روشنی میں آپ سے چند سوالات ہیں…

(۱) سچ بتائیں یہ ساری معلومات آپ کو صرف اسی کتاب سے ملیں؟ کیا آپ اس سے پہلے ان باتوں اور الزامات کو نہیں جانتے تھے؟…

چوہدری صاحب ! میں نے جب سے افغان جہاد کا نام سنا ہے… اس وقت سے یہ تمام اعتراضات بھی سن رہا ہوں… پاکستان کا ایک پورا طبقہ اسے روس امریکہ کی جنگ کہتا تھا… امریکی امداد کا آنا بھی کوئی خفیہ راز نہیں تھا … پاکستانی ایجنسیوں کا تعاون بھی کوئی زیر زمین نہیں تھا… کیا آپ کسی جنگل میں گوشہ نشین تھے یا کسی پہاڑ پر بکریاں چرا رہے تھے کہ آپ کو ان تمام باتوں کا علم نہ ہوسکا… اور آپ غلط فہمی میں افغان جنگ کو ’’جہاد‘‘ سمجھتے رہے… اور اب یکایک آپ جنگل سے تشریف لائے اور آپ نے شہزادے کی کتاب پڑھی… اور آپ کو احساس ہوا کہ آپ کے ساتھ تو دھوکا ہوا ہے… چوہدری صاحب! ہم سب نے  اللہ  تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے… ہزاروں مائیں افغان جہاد میں اپنے لخت جگر شہید کروا چکی ہیں… ایک مسلمان ہر گناہ کرسکتا ہے… مگر جھوٹ نہیں بول سکتا… آپ نے اپنے مضمون کو چٹ پٹا بنانے کے لئے… اتنا بڑا جھوٹ کس لیے بولا؟…

(۲) سچ بتائیں… آپ افغان جنگ کو ’’جہاد‘‘ کیوں سمجھتے تھے ؟ اور اس میں کام آنے والوں کو شہید کیوں مانتے تھے؟… اگر قرآن پاک کی آیات جہاد کی وجہ سے… تو پھر ان میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی… اپنی اسلامی غیرت اور جذبہ اخوت کی وجہ سے… تو پھر اس میں کمی کی کیا وجہ ہے؟… یا صرف اس وجہ سے کہ کسی نے آپ کو… کسی غار میں چھپ کر یہ بتادیا تھا کہ افغان جہاد میں امریکی ڈالر نہیں آئے… افغان جہاد میں سعودی امداد نہیں آئی…

(۳) جن گدھوں کا آپ نے بار بار ذکر کیا ہے … سچ بتائیں ان گدھوں سے آپ کی مراد کیا ہے؟… واقعی بار برداری والے گدھے؟… تو پھر شدید تشویش کی کیا حاجت ہے؟… وہ جہاں ہوں گے کھاپی رہے ہوں گے… لید پیشاب کر رہے ہوں گے… آپ کو ان سے کیا کام ہے؟… کیا شدید تشویش کا لفظ بناوٹی جھوٹ نہیں ہے؟… اور اگر ان گدھوں سے آپ کی مراد مجاہدین یا مہمان مجاہدین ہیں تو… آپ کی ہمت اور حوصلے کو داد کہ آپ نے کتنی اونچی ہستیوں کو گالی دی… ہوسکے تو اپنی آخرت کی خاطر روزانہ ایک بار اپنے اس غیر مہذب جملے کو پڑھ لیا کریں… بے شک آپ نے بڑا ظلم کیا ہے… کاش آپ ایسا نہ کرتے… معلوم نہیں آپ کے اس جملے پر کتنے ملحد، کیمونسٹ اور زندیق خوش ہوئے ہوں گے… معلوم نہیں کتنے لوگوں نے اس جملے کا اثر لیا ہوگا… مگر یہ بات واضح ہے کہ… جن لوگوں نے افغان جہاد کے شہداء کے خون کی خوشبو خود سونگھی ہے… جنہوں نے ان کی قبروں سے تلاوت کی آواز سنی ہے… جنہوں نے جنگ کے دوران مجاہدین کو سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے… ان پر ان جملوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا… آپ کسی کو شہید سمجھیں یا نہ سمجھیں… کسی کو غازی قرار دیں یا نہ دیں… اس کا تعلق آپ کے نامہ اعمال سے ہے… جبکہ شہداء اور غازی تو کالم نویسوں کی ’’سند‘‘ اور خراج تحسین کے محتاج نہیں ہیں…

(۴) چوہدری صاحب! حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کے زمانے میں جو جہاد ہوا تھا… اس میں بعض جنگوں کے دوران عرب کے عیسائیوں نے مجاہدین کا ساتھ دیا تھا… اور ان کے فوجی دستے باقاعدہ جنگ میں شریک ہوئے تھے… دنیا کا کوئی مؤرخ اس کا انکار نہیں کرسکتا… جناب عالی آپ کے نزدیک ان جنگوں کا کیا حکم ہے؟… کیا آپ (نعوذباللہ ) ان کے جہاد ہونے کا بھی انکار کردیں گے؟…

چوہدری صاحب! احادیث کی کتابوں میں… نہایت صراحت کے ساتھ قرب قیامت کی جن جنگوں کا تذکرہ ہے… ان میں سے ایک بڑی جنگ مسلمان اور عیسائی مل کر تیسرے فریق کے خلاف لڑیں گے… تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ جنگ… جہاد فی سبیل  اللہ  ہوگی… آپ اس جہاد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟…

چوہدری صاحب! جہاد کو قرآن پاک سے سمجھنے کی کوشش کریں… یہ کھیل نہیں ایک اہم اور مقدس فریضہ ہے… جہاد کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں سمجھیں… تب آپ کو اس طرح کے اشکالات پیدا نہیں ہوں گے… جہاد کو فقہ کی کتب میں سمجھیں… تب آپ کو معلوم ہوگا کہ… کس سے تعاون لینا جائز ہے اور کس سے ناجائز؟… اپنے ہر کام میں ’’سورس‘‘ ڈھونڈنے والے لوگ بھی جب مجاہدین پر انگلیاں اٹھاتے ہیں تو معاملہ بہت عجیب سا لگتا ہے…

ایک بچگانہ کہانی

چوہدری صاحب کے اس مضمون میں ایک بات تو بہت عجیب ہے… سوویت یونین جیسا بڑا ملک… تیس ہزار ایٹم بموں کا مالک… جرمنی سے افغانستان تک پھیلی ہوئی ایک جابرانہ ریاست… پانچ کروڑ انسانوں کے خون پر تعمیر ہونے والا ایک انقلابی اتحاد… اس سوویت یونین کے صدر گورباچوف کو ایک سعودی شہزادے نے… اپنے دلائل سے ڈرادیا… اور گورباچوف اپنی فوجیں نکالنے پر آمادہ ہوگیا… واہ چوہدری صاحب واہ… یہاں مجھے ایک بات یاد آگئی… ہمارے مدرسے میں ایک  اللہ  والے بزرگ محدث تھے … جوانی میں انگریزی تعلیم کے زبردست حامی… مگر پھر ان کا رخ بدل گیا… اور انہوں نے خود کو قرآن وسنت کی تعلیم اور عبادت کے لیے وقف کردیا… عمر کے آخری کئی سال وہ عملاً گوشہ نشین رہے… بس عبادت کرتے تھے اور اسباق پڑھاتے تھے… اور حج عمرے کے سفر کے علاوہ مدرسہ سے باہر نہیں نکلتے تھے… البتہ حالات سے باخبر رہنے کے لئے چند لمحے اخبار پر نظر ڈال لیتے… یا بعض علماء سے حالات پوچھ لیتے تھے… تفصیلی گفتگو سے ان کو پریشانی ہوتی تھی اس لیے بہت مختصر کلام… کرتے اور سنتے تھے… ان کا خیال تھا کہ ان کے طلبہ بھی ان کی طرح گوشہ نشین ہیں … اس لیے سبق میں کبھی کبھار اخبار کی کوئی خبر سنادیتے… اور پھر معصومیت کے ساتھ ہنس کر فرماتے ارے تمہیں کیا پتہ تم تو طالب علم ہو … ایک بار سبق کے دوران فرمایا… بھائی آج کل پاکستان میں صدر ضیاء الحق کی حکومت ہے… ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی… کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ… ضیاء نے بھٹو سے حکومت کیسے چھینی؟… ارے بھائی ایک رات وہ چپکے سے بھٹو کے گھر کی پچھلی طرف سے اندر گھس گیا… پہلے اس نے ٹیلیفون کی تار کاٹی اور پھر بھٹو کو باندھ دیا… اور گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر چلانے لگا کہ… میں صدر ہوں… میں صدر ہوں… یہ قصہ سنا کر حضرت خوب ہنسے اور فرمایا ارے تمہیں کیا پتہ… تم تو طلبہ ہو… چوہدری صاحب آپ نے بھی خوب کہانی سنائی… اگر اس طرح کی ملاقاتوں سے اتنے بڑے فیصلے ہوتے ہیں تو مہربانی فرمائیے… دوچار اور بندر بن سلطان کھڑے کردیجئے جو … سپر طاقتوں کے صدور کو ڈرا دھمکا کر شکست دے دیں… جناب والا! سوویت یونین کے پاس بھی تیل کی کمی نہیں تھی… وسطی ایشیا ء کی ریاستیں تیل پر تیر رہی تھیں… یہ جہاد تھا جہاد… اور مجاہدین کے ساتھ  اللہ  تعالیٰ کی نصرت کہ… سعودیہ جیسے کمزور ملک کے سفیر کو… سوویت اتحاد کے صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت ہوئی… ورنہ آپ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی جانتے ہیں… اور ان کے شہزادوں کوبھی…

پانچ سو ملین اور کئی ٹریلین

آپ اور آپ کے مرشد شہزادہ بندر بن سلطان کے نزدیک… پانچ سو ملین ڈالر سالانہ کی وجہ سے سوویت یونین یہ جنگ ہار گیا… چوہدری صاحب! آپ تو اعداد وشمار کے ماہر ہیں… پچھلے تین چار سال میں امریکہ… عراق میں کئی ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے… مگر اس کے باوجود نہتے عراقی مجاہدین کے سامنے اسے پسپائی کا سامنا ہے… کچھ تو انصاف فرمائیں… اب آپ نے اگرچہ اپنی باتوں کا رخ پاکستانی ایجنسیوں کی طرف پھیر دیا ہے… مگر پہلے مضمون میں تو آپ نے صراحۃً ’’شہداء کی شہادت‘‘ اور اس جنگ کے جہاد ہونے کا انکار کیا ہے… آپ خود اپنے دوسرے مضمون میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ… افغان جہاد میں کوئی جرنیل یا اس کا بیٹا کام نہیں آئے… عام غریب مسلمان شہید ہوئے… اب آپ کی کس بات کو سچا مانا جائے؟… اگر دل میں کچھ ندامت پیدا ہوئی تھی تو کھل کر معذرت کرنے میں آپ کا اعزاز تھا… نہ یہ کہ امریکی حکام کی طرح سامعین اور قارئین پر نزلہ ڈال دیا جائے کہ انہوں نے ہمارے بیان کو سمجھانہیں…

ایک دعاء

آپ کے نظریات تو ایک سعودی شہزادے کی کتاب نے جڑوں سے ہلا دئیے… ہم نے سنا تھا کہ نظریات خون کے ساتھ جسم وجان میں بستے اور دوڑتے ہیں… مگر آپ نے پاؤڈر ڈال کر نظریات کو دھو ڈالا… گزارش یہ ہے کہ… ایسا صرف افغان جہاد کے بارے میں ہوا ہے یا پوری دنیا کی تمام جہادی تحریکات آپ کی نظر میں مشکوک ہوگئی ہیں؟… اس لیے کہ فلسطینی مجاہدین کی امداد اب تک سعودی عرب کرتا ہے… کشمیری مجاہدین پر ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے کا دعویٰ ہے… چیچن مجاہدین کو ترکی کی سیکولر حکومت امداد دیتی ہے… دراصل  اللہ  تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے ان کے دشمنوں کو بھی مسخر فرمادیا ہے … ان حالات میں اگر کوئی صحیح جذبے اور سچی نیت سے جہاد کرے تو… بے شک اس کا جہاد مقبول ہے… مگر آپ نے جو نظریہ قائم کیا ہے وہ تو ہر تحریک بلکہ ہر شخص کو مشکوک بنانے والا ہے… میری دعاء ہے کہ  اللہ  تعالیٰ آپ کو واپس لے آئے… زندگی مختصر اور موت سامنے ہے… اور آخرت کی منزلیں بہت دشوار ہیں…  اللہ  تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے… اگر ہم ان سطحی باتوں کو مستند سمجھ کر… عزیمت کی داستانوں پر مٹی ڈالتے رہے تو خود ہم اپنے ماضی سے کٹ جائیں گے… رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کی بشارت صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ… جہاد مسلسل جاری رہے گا… اور امت کی (کم از کم) ایک جماعت ہر زمانے میں حق کی خاطر قتال فی سبیل  اللہ  کرتی رہے گی… اگر ہم ڈالروں کی برسات کے شوشے چھوڑتے رہے تو ہم سے پوچھا جاسکتا ہے کہ… وہ جماعت کہاں ہے؟… کیا نبی اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان غیر واقعی ہوسکتا ہے؟… نہیں… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان بلاشبہ حق اور سچ ہے … اور ہر زمانے میں قتال فی سبیل  اللہ  جاری رہتا ہے… اور الحمد اللہ  اس زمانے میں بھی جاری ہے… اور موجودہ زمانے میں جہاد کے عالمی احیاء کا سہرہ افغان جہاد کے سر پر چمک رہا ہے… اس مبارک جہاد میں  اللہ  تعالیٰ کی نصرت کھل کر زمین پر اتری… اور روئے زمین کا نقشہ بدل گیا… باقی ہر انسان کا عمل اس کی نیت پر ہے… اگر کسی نے مال اور نوکری کی خاطر کچھ کیا تو وہ یقینا جہاد نہیں… اور اگر کسی نے نوکری کے ساتھ نیت بھی ٹھیک کرلی تو نوکری جہاد کی قبولیت کے راستے میں رکاوٹ نہیںہے…

افغان جہاد اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب بن کر… مکمل اعزاز کے ساتھ محفوظ ہوچکا ہے… اس جہاد کے خاتمے کے کئی سال بعد اس پر سوالات اٹھانا سمجھ سے بالاتر ہے… باقی رہے وہ گدھے جو مجاہدین کا سازوسامان اٹھاتے تھے… تو محترم چوہدری صاحب! وہ گدھے ان لوگوں سے اچھے رہے جو مسلمان کہلاتے ہیں… اور جہاد فی سبیل  اللہ  کو نہیں مانتے…

٭٭٭


ہماری وفاداری

 اللہ  تعالیٰ کے حضور فریاد ہے… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ … ہمارے گناہوں اور ہماری بدنصیبی نے زمین کو آگ سے بھر دیا ہے… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

پاکستان کی قومی اسمبلی نے  اللہ  تعالیٰ کے غضب کو آواز دے دی ہے… ایک اسلامی ملک کی پارلیمنٹ نے ایک ایسا قانون پاس کردیا ہے… جس پر ہر کافر اور ہر ظالم خوش ہے… بے پردہ، بے حیا عورتیں خوشی سے مٹھائیاں بانٹ رہی ہیں… جبکہ  اللہ  والے رو رہے ہیں… زمین سسک رہی ہے… امریکہ اس قانون پر خوش ہے جبکہ… کعبہ ناراض ہے… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

زنا کرنے والے پہلے بھی یہ گناہ کرتے تھے… اور جنہوں نے کرنا ہے وہ اب بھی کریں گے… پھر کچھ لوگ توبہ کرکے اس داغ کو دھو لیتے ہیں… اور کچھ اپنے ساتھ اسے قبر میں لے جاتے ہیں…  اللہ  تعالیٰ ہر مسلمان کی زنا اور لواطت سے حفاظت فرمائے… ہر طرف ننگی تصویریں ہیں… ہر طرف گندی فلمیں ہیں… ٹی وی، کیبل، سی ڈی… اور انٹرنیٹ … ہر طرف بدکاری کی دعوت ہے… ہر طرف بے حیائی کا پرچار ہے… بے پردہ عورتیں… ان کے رنگ برنگے کپڑے… شیطان کے میلے… آنکھوں کی خیانت… مال کی ہوس… جسموں کے سودے… ہر دل پر ناپاکی کے حملے… ہر آنکھ میں طرح طرح کے اشارے… جہنم کی آگ بھڑک اٹھی ہے… جنت شرما کر دور ہو رہی ہے… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

مسلمان گھر سے نکلتا تھا تو پہلی دعا یہی ہوتی تھی… یا  اللہ  نظروں کی حفاظت فرمانا… اپنی نافرمانی سے بچانا …  بسم  اللہ  توکلت علی  اللہ  … ولا حول ولا قوۃ الاّ با للہ … مگر اب تو آنکھیں کتوں کی طرح بھونکتی ہیں… جہاں سے عورت گزرتی ہے… ہر گردن اسی طرف مڑتی ہے… عورتوں نے بھی ظلم کی حد کردی … مسلمان ہو کر بے پردہ گھومتی ہیں… مسلمان ہو کر خوشبو لگا کر نکلتی ہیں… اور برقع پہننے والیوں کو بھی شیطان نے ورغلایا… وہ برقعے پر طرح طرح کے پھول بوٹے اور ڈیزائن بنا کر نکلتی ہیں… تاکہ غلیظ نگاہیں ان پر بھونکتی رہیں… گندی گردنیں ان کی طرف گھومتی رہیں… ہائے حضرت حوّا کی بیٹیاں… ہائے حضرت فاطمہ کی بیٹیاں… ہائے اماں عائشہ کی بیٹیاں … کیا ہو گیا ہے انہیں… ہر طرف ناپاک بو پھیل رہی ہے… پاکستان کی قومی اسمبلی میں… بے پردہ ننگے سر عورتیں مرد سیاستدانوں کے منہ میں مٹھائیاں ٹھونس رہی ہیں… یا اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

ہم کس کو الزام دیں… ہر کسی پر نفس وشیطان نے برف ڈال دی ہے… جی ہاں ہر کوئی دوسروں کو مشورے دے رہا ہے… اور خود کچھ کرنے کو تیار نہیں… ہر کوئی حالات کا رونا روتا ہے… اور پھر خود حالات کا حصہ بن جاتا ہے… دانشور سیاستدانوں کو کُوس رہے ہیں… اور خود مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں… اور سیاستدان بے چارے… ایک دوسرے پر جوتیاں برسا رہے ہیں… مجاہدین کو سب سے پہلے توڑا گیا… اور اب ان کو مزید ٹکڑیوں میں بانٹا جارہا ہے… دلوں پر ایک خوف مسلط ہے… اور بزدلی کی بارش موسلا دھار برس رہی ہے… جہاد پر پابندی لگادی گئی… مدارس پر بم برسادئیے گئے… مہمانوں کو ذلیل کیا گیا… ملکی راز فروخت کردئیے گئے… عزت والے رُسوا کیے گئے… اور اب علماء کے لئے اسمبلیوں کے دروازے بھی بند ہونے والے ہیں… حکمت، حکمت اور مصلحت، مصلحت کے نعروں نے کیا دیا؟ … سب کچھ چھن گیا… نصاب بدل دئیے گئے… حدیث وفقہ کی کتابوں پر کمپیوٹر رکھ دئیے گئے… مولوی کی چٹائی چھین کر اسے کرسی پر لٹکادیا گیا… سیاستدانوں کو جہاد سے توبہ کرا کے اسمبلیوں میں آنے دیا گیا… اور اب پھر انہیں نکالا جارہا ہے… معلوم نہیں اس ملک کا کیا بنے گا؟… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

ہمارے گناہوں کی شامت دیکھئے… ہماری بدنصیبی کی انتہا دیکھئے… اسلام ہر جگہ جیت رہاہے… اور صرف پاکستان میں ہار رہا ہے… اسلام امریکہ میں جیت گیا وہاں بش پارٹی کی شکست اسلام اور جہاد کی فتح ہے… اسلام عراق میں جیت رہا ہے کل ہی ٹونی بلیئر نے کہا… عراق ہمارے لیے عذاب بن چکا ہے… اسلام افغانستان میں جیت رہا ہے… جہاں کئی صوبے اور کئی علاقے پھر شریعت کی خوشبو سے مہک اٹھے ہیں… جی ہاں اسلام ہر جگہ جیت رہا ہے… ہر طرف ترقی کر رہا ہے… جبکہ پاکستان میں… اسلام پر شدید حملے ہورہے ہیں… کھلے عام یہ کہا جارہا ہے کہ… اس ملک کو اسلام سے پاک کردیا جائے گا… کھلے عام بے حیا لوگوں کو… مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی جارہی ہے… اخبارات میں اسلام اور جہاد کے خلاف کھلم کھلا لکھا جارہا ہے… جہاد کا نام پاکستان میں جرم بن چکا ہے… آخر اس کی ہمارے گناہوں کے علاوہ اور کیا وجہ ہے؟… بزدلی کا گناہ … حبّ دنیا کا گناہ… باہمی نزاع اور جھگڑے کا گناہ… ان گناہوں نے پاکستان کے دینی طبقے کو کمزور کردیا ہے… شاطر حکومت نے دینی طبقے کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے… سیاستدان مجاہدین کو حکومت کا ایجنٹ کہہ رہے ہیں… جبکہ مجاہدین سیاستدانوں کو حکومت کا آلۂ کار سمجھ رہے ہیں… حکومت نے سب کے دامن پر بدنامی کے چھینٹے ڈال دئیے ہیں… اور ہر ایک کو دوسرے سے ایسا بدگمان کردیا ہے کہ… اب مل بیٹھنا مشکل ہے… یہ سب گناہوں کی شامت نہیں تو اور کیا ہے؟… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

اس وقت پورے ملک میں ’’علاقہ پرستی‘‘ کا طوفان سر اٹھا رہا ہے… جی ہاں ایک امت کو مختلف زبانوں اور علاقوں میں بانٹا جارہا ہے… پہلے صوبائی تقسیم… پھر لسانی تقسیم… اور پھر ہر قبیلہ دوسرے کا مخالف … کراچی ظلم اور بدامنی سے سلگ رہا ہے… اس سال پچاس ہزار سے زائد تو صرف موبائل فون چوری ہوئے… ہر طرف اغواء عام ہے اور قتل وغارت… بلدیاتی الیکشنوں نے ملک کو ’’غنڈہ مافیا‘‘ سے بھر دیا ہے… اب ہر علاقے کے الگ بدمعاش ہیں… اور ہر طرف ان کے چیلے… ملک کی پولیس بے لگام ہوچکی ہے… ہر نمازی اور ہر داڑھی والا ان کا آسان شکار ہے… خفیہ ایجنسیاں ملک کی بے تاج حکمران ہیں… پشاور سے کراچی تک ان کے عقوبت خانوں میں سسکیوں بھری تلاوت گونج رہی ہے… مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے… دال، پیاز اور آلو تک غریب کی پہنچ سے باہر ہیں… پورے ملک میں ایک ہی قانون نافذ ہے کہ… موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ کو صدر تسلیم کرو… اور پھر جو دل میں آئے کر گزرو… تب کوئی جرم گناہ نہیں… حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب بندے  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں تو…  اللہ  تعالیٰ ان کے حکمرانوں کے دل عذاب کی طرف موڑ دیتا ہے… تب وہ انہیں سخت تکلیفیں پہنچاتے ہیں… ہاں ہمارے گناہ حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں… شیطان نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا… اسی لیے تو حکمران ہمیں صبح شام ستا رہے ہیں… رات دن تنگ کر رہے ہیں… یا  اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

پاکستان میں اچھے مسلمانوں کی کمی نہیں ہے… مگر ہر ایک تنہا ہے… اور ہر کوئی اکیلا… کوئی بھی اپنے بازوؤں میں جماعت کی طاقت نہیں پاتا… یہ  اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی علامت ہے… الامان الامان… آپ نے تبلیغی اجتماع دیکھا… اس میں لاکھوں اچھے مسلمان تھے… ہمارے روشن خیال حکمران… ملک کا پورا خزانہ خرچ کر کے بھی… اتنے ’’روشن خیال‘‘ کسی ایک جگہ جمع نہیں کرسکتے… ملک کے ایک صوبے میں دینی جماعتوں کی اپنی حکومت ہے… ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے… ملک کے ایک اور صوبے کی حکومت دینی جماعتوں کے دم سے قائم ہے… قومی اسمبلی میں دینی جماعتوں کے اراکین کی تعداد… پینسٹھ ۶۵ کے قریب ہے… یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے… دینی مدارس میں طلبہ کی تعداد… ماضی کے تمام سالوں سے زیادہ ہے… اور اب ماشاء  اللہ  یہ تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے… دینی خانقاہوں پر بھی لوگوں کا ہجوم پہلے سے زیادہ ہے… ہر طرف رش ہی رش ہے اور بھیڑ ہی بھیڑ… مگر انہیں حالات کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا… جو پہلے کبھی نہیں ہوسکا تھا… پاکستان مجاہدین کے خلاف جنگ کا ہر اوّل دستہ بن گیا… پاکستان نے مجاہدین کو قتل کیا… اور انہیں امریکہ کے سپرد کیا… پاکستان کے ذریعہ دنیا کی واحد اسلامی حکومت ’’امارۃ اسلامیہ افغانستان‘‘ ختم کردی گئی… پاکستان میں جہادی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا… پاکستان دنیا بھر کی بے حیائی کا مرکز بن گیا… ان دنوں لاہور کا عالمی فلمی میلہ عروج پر ہے… پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لئے قید خانہ بن گیا… پاکستان میں ناموس رسالت کے قانون کو چھیڑا گیا… پاکستان میں پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ غائب کرنے کی کوشش کی گئی… پاکستان میں کئی بڑے علماء کو سرکاری سرپرستی میں شہید کردیا گیا… پاکستان کے عقوبت خانوں کو مجاہدین سے بھر دیا گیا… اور پاکستان میں وہ ٹی وی چینل چلادئیے گئے جو انسانیت کے نام پر عار ہیں… حالانکہ ماضی میں جب صرف دو چار علماء کرام اسمبلیوں میں ہوتے تھے… اور مدارس میں طلبہ کی تعداد کم تھی… یہ سارے اقدامات کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آتے تھے… معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی شامت نے ہمیں بری طرح سے گھیر لیا ہے… ترک جہاد کا گناہ… انکار جہاد کا گناہ… مداہنت کا گناہ… حبّ جاہ کا گناہ… یا اللہ  معافی یا اللہ توبہ…

 اس وقت سب سے پہلے دو چیزوں کی ضرورت ہے… پہلی چیز توبہ اور دوسری چیز عمل کا عزم… توبہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کو ذبح کردے… تمام گناہوں کو چھوڑ دے… سچے دل سے توبہ کرلے… اور تین کاموں کو اپنالے… تلاوت، تعلیم، تزکیہ… قرآن پاک کی تلاوت… قرآن وسنت کی تعلیم… اور نفس کی اصلاح… اور ایک راستے کو اختیار کرلے… اور وہ ہے جہاد فی سبیل  اللہ  کا راستہ… طاغوت سے ٹکرانے کا راستہ… جان اور مال کی قربانی دینے کا راستہ… یہ تو ہوئی توبہ … اور دوسری چیز ہے عمل کا عزم… کہ میں خود جو کچھ کرسکتا ہوں کر گزروں… وقت تیزی سے گزر رہا ہے… حکمرانوں نے حدود  اللہ  کو پامال کیا ہے… اولیاء  اللہ  کو قتل کیا ہے… اور شعائر  اللہ  کا کھلم کھلا مذاق اڑایا ہے… ان حالات میں زندگی بے معنیٰ ہو کر رہ جاتی ہے… ہمارے حکمران اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ…  اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کرسکیں… یا اس کے مخلص بندوں کے سامنے ٹھہر سکیں…

ان لوگوں کو صرف ہمارے گناہوں نے سہارا دیا ہوا ہے… اور ہماری آپس کی نا اتفاقی نے ان کو… جنگل کا شیر بنایا ہوا ہے… ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ ناچنے گانے والے عیاش لوگ کتنے بہادر ہیں… کاش پاکستان میں ایک… جی ہاں! صرف ایک ایسا شخص کھڑا ہوجائے… جس کا ایمان حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ کے ایمان جتنا نہ سہی… ملا محمد عمر کے ایمان جیسا ہو… تب اس ملک میں بھی اسلام جیت جائے گا… مسلمان جیت جائیں گے… یا  اللہ  گواہ رہنا… ہم اپنی کمزوری کے باوجود تجھے حاضر وناظر جان کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ… حکومت نے قرآن وسنت کے خلاف جو قانون منظور کیا ہے… ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے… آزمائش کے اس موقع پر ہماری وفاداری…  اللہ  تعالیٰ کے ساتھ ہے… اس کے رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ ہے… اور اسلامی شریعت کے ساتھ ہے… یا  اللہ  ہمارے گناہوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا … ہمیں معاف فرمادے… یا اللہ  معافی… یا  اللہ توبہ…

٭٭٭

 

اپنے پونڈ سنبھال رکھو

 

 اللہ  تعالیٰ ان کو بھی بلا لے جو جانے کے لئے تڑپ رہے ہیں… مگر جا نہیں سکتے… آمین یا ارحم الرّاحمین … آپ کو معلوم ہے زمین پر ایک بڑا عاشق گزرا ہے … بہت بڑا عاشق، پکاّ عاشق، سچاّ عاشق… اس نے عشق کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی… اور اپنے محبوب سے وفاداری کا حق ادا کردیا… اس سچے عاشق کی کہانی بہت عجیب ہے… وہ چھوٹا سا تھا تب بھی سچا عاشق تھا… اس نے اپنے محبوب کے علاوہ ہر کسی سے تعلق توڑ دیا … اس نے دیکھا کہ لوگ اصلی محبوب کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کے سامنے سر جھکا رہے ہیں… وہ یہ منظر برداشت نہ کرسکا… لوگوں نے اس کے سامنے ستارے، چاند اور سورج کو پیش کیا کہ… یہ فائدہ دینے والی بڑی بڑی چیزیں ہیں تم ان کے سامنے سر جھکا دو… اس نے کہا نہیں ہر گز نہیں… یہ ڈوبنے اورفنا ہونے والی چیزیں ہیں… اور یہ سب میرے محبوب کے غلام ہیں… میرا محبوب ایک ہے… میرا محبوب ایک ہے… لوگوں نے کہا یہ پاگل ہوگیا ہے… مجنون ہوچکا ہے… ہمارے پاس اتنے بڑے بڑے خوبصورت بُت ہیں… یہ بُت ہماری حاجتیں پوری کرتے ہیں… اور یہ ان بتوں کو برُا بھلا کہتا ہے… اے نوجوان! دنیا کے ان طاقتور بتوں کے سامنے گردن جھکادے… تجھے سب کچھ ملے گا… امن، عزت، عیش، آرام اور عہدے… نوجوان نے کہا… میرا محبوب ایک ہے… گھر میں باپ چچا نے سمجھایا… مگر نوجوان ڈٹا رہا کہ… میرا محبوب ایک ہے… پھر کشمکش بڑھ گئی… ملک کے حکمران اور طاقتور لوگ اس نوجوان کے دشمن بن گئے… کوئی اور ہوتا تو ڈر جاتا… مگر یہ نوجوان تو ’’حنیف‘‘ تھا… حنیف کہتے ہیں… پکے، سچے، مخلص عاشق کو… جو ’’ایک‘‘ کے عشق میں باقی سب کو بھلا دیتا ہے… اور اس ’’ایک‘‘ کی خاطر سب کچھ لٹا دیتا ہے… جب قوم دشمنی پر اتری تو وہ بھی مقابلے پر آگیا… وہ أحد أحد ’’ایک‘ ایک‘‘ کا نعرہ لگاتا تھا … اور خود بھی ابھی تک اکیلا تھا… اس کا محبوب ایک تھا… اور پورے ملک میں اس محبوب کا سچا عاشق بھی ایک تھا… ایک طرف پوری قوم، پورا ملک، پورا قبیلہ اور پوری برادری… اور دوسری طرف ایک کمزور سا اکیلا نوجوان… مگر جب عشق سچا ہو تو ظاہری آنکھیں لذت کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں… وہ ظاہری آنکھیں… جو لوگوں کی طاقت دیکھتی ہیں… جو عقل کے ترازو پر حالات کو تولتی ہیں… اس نوجوان کی بھی ظاہری آنکھیں بند ہوگئیں تھیں… اور وہ دل کی آنکھوں سے دیکھتا تھا… اور دل کی تو دنیا ہی الگ ہے… نوجوان نے ہاتھ میں کلہاڑی لی… قوم کے لوگ کسی میلے پر شہر سے باہر تھے… نوجوان شہر کے بڑے بت خانے میں گھس گیا… حنیف اپنے محبوب کے علاوہ کسی کا خود کو خدا کہلوانا برداشت نہیں کرتا… اس نے کلہاڑی کے ایسے ہاتھ چلائے کہ بتوں کو کاٹتا چلا گیا… انہیں توڑتا چلا گیا… اسے عشق کی آبرو بچانی تھی… اپنی جان نہیں… جان نے تو جانا ہی جانِ جاناں کے پاس ہے… اس جان کو بچانے کی فکر کرنا سب سے بڑی غلطی ہے… تھوڑی دیر میں بتکدہ بتوں کی لاشوں سے بھر گیا… قوم والے واپس آئے… انہوں نے بتوں کا یہ حشر دیکھا تو غصے سے چیخنے لگے … ان کا غضب اور جوش عروج پر تھا… وہ گدھوں کی طرح چیخ رہے تھے… بالکل اسی طرح جس طرح نائن الیون کے بعد امریکہ والے… ماردو، پکڑ لو، ختم کردو، مٹا دو… اس نوجوان کا نام ونشان بھی ختم کردو… تب آگ کا بہت بڑا الاؤ جلایا گیا… یہ آگ ایسی خوفناک تھی کہ فضا میں پرندہ تک نہیں گزر سکتا تھا… اگر لوہا بھی اس آگ میں ڈالا جاتا تو پگھل جاتا… مگر وہ نوجوان مسکرا رہا تھا… اسے محبوب سے ملاقات کی امید ہوچلی تھی… ارے سچے حنیف کو تو محبوب ملنا چاہیے… آگ سے گزر کر ملے یا کسی بھی طرح ملے… قوم والے سوچ رہے تھے کہ… اب معافی مانگ لے گا… سر جھکا دے گا… سمجھوتہ کرلے گا… بات چیت کا دروازہ کھول دے گا … مگر کہاں؟ … وہ تو آگ کو یوں دیکھ رہا تھا جس طرح دولہا… اپنی سہاگ رات کو دیکھتا ہے… ادھر عاشق کی موت قریب نظر آئی تو زمین وآسمان میں ہلچل مچ گئی… محبوب کے خادم آسمانوں سے اڑ کر آئے… اور کہنے لگے… ہم بھی اسی ’’ایک‘‘ کے غلام ہیں جس کا تو عاشق ہے… اجازت دے کہ ہم اس آگ کو بجھا دیں… عاشق نے مسکرا کر کہا… میں اس ’’ایک‘‘ کے سوا کسی کی مدد نہیں لیتا… میں تو حنیف ہوں حنیف… یعنی یکسو، یکجہت، بنیاد پرست، متطرّف… حنیف کبھی بھی حالات کا غلام نہیں ہوتا… پھر عاشق کو آگ میں ڈال دیا گیا… اس کے محبوب نے آگ کو حکم دیا کہ… اے آگ میرے عاشق کے لئے ٹھنڈی ہوجا… اور سلامتی بن جا… کئی دن تک آگ بھڑکتی رہی… عشق کا ایک امتحان پورا ہوا… پھر دوسرا امتحان آیا کہ… اپنا علاقہ چھوڑ دو… عاشق کی کوئی قوم نہیں ہوتی… کوئی وطن نہیں ہوتا… اس نے ہجرت کا امتحان بھی پورا کیا… اور محبوب کی خاطر وطن چھوڑ دیا… اب ایک اور امتحان آیا کہ… اکیلے رہو… نہ اولاد ہوگی نہ کوئی ابا کہے گا… عاشق نے کہا میں تو حنیف ہوں… مجھے ابا نہیں بندہ بننے پر ناز ہے… جوانی اور بڑھاپا بغیر اولاد کے گزر گئے… مگر حنیف اپنے محبوب کا شکر ہی ادا کرتا رہا… وہ محبوب کو راضی کرنے کے ہر جتن کرتا… خوب عبادت ، خوب ذکر… اور خوب مہمان نوازی… رات کو گھر کے قریب آگ جلادیتا کہ… کوئی مہمان دیکھے تو گھر پر آجائے… اور میں اپنے محبوب کی خوشی میں اسے کھلاؤں… اسے پلاؤں… جب بڑھاپا پوری طرح حاوی ہوگیا تو محبوب نے فرمایا… اب تجھے اولاد ملے گی… مگر اسے بھی میرا بنانا… عاشق نے کہا میں حاضر ہوں… پھر اولاد مل گئی… اب حکم ملا کہ توکّل کا امتحان دو… اپنی ایک بیوی اور ایک بچے کو فلاں جگہ چھوڑ آؤ جہاں نہ پانی ہے نہ سبزہ… عاشق نے نہ پوچھا کہ وہ کیا کھائیں گے کیا پئیں گے؟… حنیف ان باتوں کو نہیں سوچا کرتے… ادھر حکم ملا اور ادھر بیوی بچے کو لے کر روانہ… ایک لق دق صحرا کی گرمی میں ان دونوں کو چھوڑ کر واپس… یہ امتحان بھی کامیابی سے گزر گیا… محبوب نے اس کے بیوی بچے کو طرح طرح کی نعمتیں دے دیں… اب بچہ چلتا ہے… معصوم لہجے میں ابا ابا کہتا ہے… باپ آتا ہے تو انگلی پکڑ کر اس کے ساتھ دوڑتا ہے… باپ کا دل خوشی سے لبریز ہے… تب محبوب نے اپنے حنیف سے کہا… اس بچے کو ہمارے لیے ذبح کردو… اس نے چھری اٹھائی… بچے کی انگلی تھامی اور ذبح کرنے کے لئے روانہ ہوئے… راستے میں ایک دانشور نے تین بار گمراہ کرنے کی کوشش کی… تینوں بار عاشق نے اسے پتھر مار کر بھگا دیا… اب بچہ زمین پر ہے… عاشق نے اس کی گردن پر چھری چلادی… اور اپنے گمان میں اپنا پیارا بیٹا ذبح کردیا… مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا… زمین پر ایک دنبہ ذبح شدہ موجود تھا… اور بیٹا صحیح سالم مسکرا رہا تھا… اور عرش سے آواز آرہی تھی… اے عاشق تو سچا نکلا… اب تیرے سارے امتحان پورے ہوگئے… اب تو میرا گھر تو بنا… اور پھر اس گھر کے گرد چکر لگا… اور دنیا میں اعلان کردے کہ… اے لوگو آؤ میرے محبوب کے گھر پر آؤ… اے عاشق تیری آواز سب سنیں گے… اور جو لبیک کہے گا وہ میرے گھر ضرور آئے گا… اب تو عاشق کے مزے ہوگئے… ارے عشق کی اصل لذت تو محبوب کے گھر پہنچ کر ہی پوری ہوتی ہے… اور اب تو عاشق خود محبوب کا گھر بنا رہا ہے… بیٹا بھی اس کے ساتھ ہے… اور پھر جنت سے دو پتھر لائے گئے… ایک کا نام حجر اسود پڑا… اور دوسرے کا نام مقام ابراہیم رکھا گیا…  اللہ  اکبر کبیرا… حج کے دن قریب آرہے ہیں… خوش نصیب مسلمان  اللہ  پاک کے گھر کی طرف دوڑ دوڑ کر جارہے ہیں… سعدی فقیر کو وہ عاشق یاد آگیا… جس کے عشق کی اداؤں کو  اللہ  تعالیٰ نے زندہ رکھا… ہاں کروڑوں درود و سلام ہوں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر… اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام پر… ان دونوں نے کعبۃ  اللہ  کی تعمیر کی… اور قرآن پاک نے ان کی اس تعمیر کا نقشہ کھینچا… سورۃ البقرۃ… اور سورۃ الحج میں ملاحظہ فرمالیجئے…

حج اسلام کے محکم اور قطعی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے… یہ زندگی میں ایک بار فرض ہوتا ہے… جب اس کی شرائط پائی جائیں… اور سال میں ایک مرتبہ ادا ہوتا ہے… جس مسلمان کا حج قبول ہوجائے اس کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں… اور حاجی  اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں… حج کے اس فریضے کی جہاد کے فریضے کے ساتھ بہت مشابہت ہے… شاہ ولی  اللہ  محدث دہلویؒ… اور دیگر حضرات نے اسے تفصیل سے بیان فرمایا ہے… جہاد کی طرح حج میں بھی ہجرت ہے… جہاد کی طرح حج میں بھی مال کی قربانی ہے… جہاد کی طرح حج میں بھی بھاگ دوڑ اور تھکاوٹ ہے… جہاد کی طرح حج میں بھی دشمنوں کو مارنا ہے… جہاد کی طرح حج میں بھی خون بہانا ہے… جہاد کی طرح حج میں بھی محبوب کی خاطر سب کچھ چھوڑنا ہے… اور بھی بہت سی مشابہتیں ان دونوں فریضوں کے درمیان ہیں…  اللہ  تعالیٰ کی قدرت دیکھیں کہ… جہاد نے حج کا راستہ صاف کیا… کعبۃ  اللہ  مشرکوں کے قبضے میں تھا… جہاد نے اسے آزاد کرایا… تب حج فرض ہوا اور اس کا راستہ صاف ہوا… اور پھر حج نے جہاد کو ترقی دی… مسلمانوں کے خلفاء حج میں حاضر ہوتے تھے… اور حج کے فوراً بعد اسلامی لشکروں کو ترتیب دے کر دنیا بھر کے محاذوں کی طرف بھیجتے تھے…

ابھی کچھ عرصہ پہلے مجاہدین کے ایک امام شیخ احمد یٰسین شہیدؒ… حج کے موقع پر منیٰ میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کر رہے تھے… میں نے وہ تصویر دیکھی تو مجھے حج اور جہاد کا پرانا اور لا زوال تعلق یاد آگیا… امت مسلمہ کے حکماء نے فریضہ حج کی عجیب عجیب حکمتیں بیان کی ہیں… بعض کا کہنا ہے کہ … حج عشق والی عبادت ہے… ایک بندۂ مومن کو…  اللہ  تعالیٰ سے جو سچا عشق ہے حج اسی کے اظہار کا ذریعہ ہے… گھر چھوڑ نا، کپڑے اتار کر دو کفن نما چادریں پہن لینا… میلا کچیلا رہنا… ناخن نہ کاٹنا… جمرات پر پتھر برسانا… محبوب کے گھر کے گرد دیوانہ وار چکر کاٹنا… اس گھر کے ایک کونے کو چومنا… اس کی بعض دیواروں سے بچوں کی طرح چمٹنا اور لپٹنا… صفاء مروہ کے درمیان دوڑنا… محبوب کی خاطر جانور اور بال قربان کرنا… الغرض ایک سچا عاشق جو کچھ کرتا ہے… حج میں وہ سب کچھ موجود ہے… لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ… میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں… کئی دن تک یہی پکار صبح شام اور ہر آن… لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ… اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ… اسی لیے استاذ محترم حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھیؒ فرمایا کرتے تھے… بابا! حج پیسوں سے نہیں شوق سے نصیب ہوتا ہے… حضرت مولاناؒ نے غالباً تئیس یا اس سے زیادہ حج ادا کیے تھے… ایک دن جب وہ ہمیں تفسیر جلالین کا سبق پڑھا رہے تھے… حج کا تذکرہ کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے… اور فرمایا تم لوگ سمجھتے ہو حج پیسوں سے ہوتا ہے… نہیں بابا! حج تو سچے شوق سے نصیب ہوتا ہے… اور میں تمہارے اندر یہ شوق نہیں دیکھ رہا… حضرت کے عشق نے پوری جماعت میں…  اللہ  تعالیٰ کے گھر کے شوق کی آگ لگا دی… کئی طلبہ آبدیدہ ہوگئے… سبق کے بعد حضرت باہر نکلے تو میں نے عرض کیا… حضرت آج دل میں سچا شوق پیدا ہوگیا ہے آپ دعاء فرمادیں… حضرت نے جلال کے ساتھ فرمایا… جب شوق پیدا ہوگیا ہے تو ضرور جاؤ گے… اس بات کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ… مجھ جیسا غریب طالبعلم احرام باندھ کر… لَبَّیْکَ اَللّٰہمَّ لَبَّیْکَ پکارتا ہوا حرمین کی طرف دوڑ رہا تھا… بعد میں ہم نے جب بھی حضرتؒ کی اس بات پر غور کیا… تو اس کی حقیقت مزید واضح ہوتی چلی گئی… لوگ شادیوں پر کتنا مال خرچ کرتے ہیں؟… مکانوں اور دکانوں کی خواہش پر کتنا مال اینٹوں اور پتھروں کو کھلا دیا جاتا ہے؟… مگرحج کی طرف توجہ نہیں جاتی… اور جس کو  اللہ  پاک اپنے گھر کا پتہ بتا دیتا ہے… اور شوق عطاء فرمادیتا ہے تو غریب سے غریب انسان بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں… بات یہ عرض ہورہی تھی کہ… علماء اور حکماء نے فریضۂ حج کی بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں … اس مختصر سے مضمون میں ان سب کا احاطہ تو ممکن نہیں ہے… ایک حکمت یہ عرض کردی کہ اس میں مؤمن کی ’’شانِ عشق‘‘ کا اظہار ہے… اور ایک حکمت یہ ہے کہ… مسلمان فریضۂ حج کو زندہ کرکے… یہ پیغام دیتے ہیں کہ… ہمارا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہے… ہم انہیں کی ملت میں سے ہیں… اور ہم انہیں کے طریقے پر قائم ہیں… ہم نہ مشرک ہیں نہ یہودی… ہم نہ ستارہ پرست ہیں نہ عیسائی… ہم نہ بتوں کے سامنے جھکنے والے ہیں… اور نہ ظالم حکمرانوں کے سامنے… ہم ’’ایک‘‘ کے ہیں… صرف ’’ایک‘‘ کے… اور ہم سے دین کے بارے میں… کسی طرح کی مداہنت اور غداری کا تصور بھی نہ کرو… ہم ابراہیم حنیف کے بیٹے ہیں… اور ہم خود بھی ’’حنیف‘‘ ہیں… ہم نہ دنیا کی چمک پر گرتے ہیں… اور نہ موت کی آگ سے ڈرتے ہیں…  اللہ تعالیٰ کی خاطر وطن چھوڑنا… بیوی بچے چھوڑنا… اور جان ومال کی قربانی دینا ہمارا محبوب کام ہے… ہم ایک گھر کے ہیں… اس گھر کے سوا کسی طرف اپنا رخ نہیں پھیرتے… قیصر کے محلات ہوں یا کسریٰ کے کنگرے… وائٹ ہاؤس کا رعب ہو… یا بیکھنگم پیلس کی چمک… ہم ان میں سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے… آج جبکہ پوری دنیا کا کفر مسلمانوں کو دین سے ہٹانے کے لئے… کبھی مال کی چمک دکھاتا ہے تو کبھی ایٹم بموں… اور بمباری کی آگ سے ڈراتا ہے… ان حالات میں آٹھ ذوالحجہ کے دن تیس لاکھ سے زائد مسلمان… ایک جیسا لباس پہن کر… ننگے سر  اللہ تعالیٰ کی طرف… اس سال بھی… لَبَّیْکَ اَللّٰہمَّ لَبَّیْکَ  کہتے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے… اور اعلان کر رہے ہوں گے… اے بش! ہم سے مایوس ہوجا… اے ٹونی اپنے پونڈ سنبھال رکھ… ہم کبھی تمہارے غلام نہیں ہوسکتے… ہم ایک  اللہ  کے ہیں… دیکھو ہم ’’حنیف‘‘ ہیں… ہم ’’حنیف‘‘ ہیں… لَبَّیْکَ اَللّٰہمَّ لَبَّیْکَ … لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ … اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ… لَاشَرِیْکَ لَکَ…

 اللہ  تعالیٰ ان کو بھی بلالے … جو جانے کے لئے تڑپ رہے ہیں… مگر جا نہیں سکتے…

…آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭


محمد یوسف کی سنچریاں

 

 اللہ  تعالیٰ نے جب کرکٹ کے مشہور کھلاڑی ’’یوسف یوحنّا‘‘ کو… ہدایت عطاء فرمائی تو دل کو اتنی خوشی ہوئی جو بیان سے باہر ہے… پھر  اللہ  تعالیٰ نے مزید فضل فرمایا کہ ’’محمد یوسف‘‘ نے باقاعدہ نماز شروع کردی… اور اپنے چہرے پر ’’سنت رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم‘‘ کا نور سجا لیا… دراصل اسلام کا پورا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب کوئی انسان… پورا مسلمان بن جائے… اور اسلام کو اپنے دل وجان میں اتارلے… تب اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں… اور اسے  اللہ  تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یعنی ’’ایمان‘‘ نصیب ہوجاتا ہے… ملاحظہ فرمائیے حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی یہ دو حدیثیں… ان کے بعد ہم عرض کریں گے کہ کیا اب کرکٹ کوئی مقدس کھیل بن گیا ہے؟…

پہلی حدیث

امام مسلمؒ اپنی سند کے ساتھ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ… حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا: جب  اللہ  پاک نے اسلام قبول کرنے کا خیال میرے دل میں ڈالا تو میں رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا، آپ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں، پس آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے فرمادیا۔ تب میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ اس پر آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمرو! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: میں (اسلام قبول کرنے سے پہلے) ایک شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: یہ شرط کہ میرے گناہ بخش دئے جائیں۔ آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنا پچھلے سب گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور حج بھی پچھلے گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ (صحیح مسلم)

دوسری حدیث

امام بخاریؒ نے سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ : جب بندہ اسلام قبول کرلیتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہوتا ہے تو  اللہ  تعالیٰ اس کی ان تمام برائیوں کو معاف فرمادیتا ہے جو اس نے پہلے کی ہوتی ہیں… اور اسلام قبول کرنے کے بعد قانون یہ رہتا ہے کہ ایک نیکی پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ثواب دیا جاتا ہے اور ہر برائی پر ایک برائی کا گناہ ہوتا ہے مگر یہ کہ  اللہ  تعالیٰ اسے بھی معاف فرمادے۔ (بخاری)

صاحب معارف الحدیث لکھتے ہیں:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ  اللہ  کے دین (اسلام) کو اپنا دین بنانے سے اور مسلمان ہوجانے سے پچھلے گناہ معاف ہونے کی یہ شرط ہے کہ اسلام کا حسن بھی زندگی میں آجائے یعنی اس کا قلب وباطن نور اسلام سے منور اور قالب وظاہر  اللہ  تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے مزین اور آراستہ ہوجائے۔ ’’فحسن اسلامہ‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ پس اگر کسی شخص کی زندگی اسلام میں آجانے کے بعد بھی نورِ اسلام اور اسلام کے حسن سے خالی رہی اور اس کے ظاہر وباطن پر اسلام کا رنگ نہیں چڑھا تو پچھلے سب گناہوں سے معافی کا یہ اعلان اس کے لئے نہیں ہے۔ (معارف الحدیث ص۱۱۹ج۱)

 اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے کہ یوسف کو  اللہ  تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یعنی ’’ایمان‘‘ کی توفیق ملی… اور پھر اسلام کے اچھے اثرات ان کے اعمال… اور شکل وصورت پر ظاہر ہوئے… درخت کی جڑیں ٹھیک ہوں تو اس پر اچھی شاخیں… پھول پتے اور پھل ظاہر ہوتے ہیں… ایمان اگرچہ ایک عقیدے اور اقرار کا نام ہے … مگر اس کی بہت سی شاخیں بھی ہیں… انہی شاخوں اور اعمال کے ذریعے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے … اور انسان پر اس کا رنگ چڑھتا ہے… ہمارے ملک پر آج کل ایک ’’عذاب‘‘ مسلط ہے… اور روشن خیالی کے ناپاک بھوت نے ملک کو گندا کیا ہوا ہے… اس لیے ہمارے حکمرانوں نے محمد یوسف کے مسلمان ہونے پر نہ تو خوشی کا اظہار کیا… اور نہ انہیں مبارکباد دی… البتہ انہوں نے کھلاڑیوں کے باجماعت نماز پڑھنے پر… اپنی تکلیف کا اظہار ضرور کیا کہ … اس کی وجہ سے پاکستان عالمی برادری کی نظر میں بدنام ہورہا ہے… اور اس کا امیج خراب ہو رہا ہے… یقینی بات ہے کہ ’’محمدیوسف‘‘ نے حکمرانوں کی خوشی اور شاباش کے لئے اسلام قبول نہیں کیا… انہوں نے تو  اللہ  تعالیٰ کو راضی کرنے اور اپنی زندگی اور آخرت کامیاب بنانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے… اس لیے حکمرانوں کی مبارکباد کی انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے… اسلام میں نئے اور پرانے مسلمان کی کوئی تفریق نہیں ہے… جو شخص بھی سچے دل سے مسلمان ہوتا ہے وہ اسلامی برادری میں برابر کا درجہ پالیتا ہے… مگر نئے مسلمان کے لئے بھی کچھ چیزیں ضروری ہوتی ہیں… پہلی چیز یہ کہ وہ اسلام کو اچھی طرح سے سیکھے، سمجھے اور پہچانے… اور دوسری بات یہ کہ دنیا کی ظاہری کامیابی یا دنیا کے ظاہری امتحان کو… اسلام کے حق ہونے کامعیار نہ بنائے… اسی طرح اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ… وہ اپنے غیر مسلم رشتہ داروں سے تعلقات میں اسلامی احکامات کو مدّنظر رکھے… ماضی میں کئی نومسلم حضرات کے ساتھ بڑے بڑے حادثات ہوچکے ہیں … اور بعض سے تو شیطان نے بالآخر ایمان کی نعمت چھین ہی لی… یا  اللہ  رحم فرما… یا  اللہ  رحم فرما… ہمارے قارئین نے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ  کا نام سنا ہوگا… یہ خاندان شرک جیسے سب سے بڑے جرم اور گناہ سے تائب ہو کر مسلمان ہوا… مگر دین کو اچھی طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے… اور کافروں سے میل جول نہ چھوڑنے کی وجہ سے شیطان نے اس خاندان کو الٹا پٹک دیا… آج فاروق عبد اللہ  کے بیٹے نے ایک عیسائی لڑکی سے… اور اس کی بیٹی نے ایک ہندو لڑکے سے شادی کرلی ہے… اور فاروق عبد اللہ  خود بھی اکثر وبیشتر کفریہ کلمات بکتا رہتا ہے… چند دن پہلے اس نے کہا کہ میں… اگلے جنم میں عورت بن کے پیدا ہونا چاہتا ہوں… دراصل جو لوگ مسلمان ہوتے ہیں وہ شیطان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں… تب شیطان بھی ان کے خلاف پوری پلاننگ سے حملہ آور ہوتا ہے… اور اسلام قبول کرنے والے کے کافر رشتہ دار بھی پورا زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح… اسے واپس کافر بنادیں… یا کم از کم پختہ مسلمان نہ بننے دیں…  اللہ  تعالیٰ ہر مسلمان کے ایمان کی حفاظت فرمائے… خود ہماری آنکھوں دیکھے واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کہ… نومسلم حضرات کو شیطان دنیاداری اور اپنے پرانے رشتے داروں کی محبت میں پھنسا کر اسلام سے دور کردیتاہے…

خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… اس وقت تو بات چل رہی ہے … ہمارے نئے مسلمان بھائی ’’محمدیوسف‘‘ کی… جنہوں نے حال ہی میں کرکٹ کے کئی نئے عالمی ریکارڈ قائم کرکے دنیا کو حیرانی میں ڈال دیا ہے… اس موقع پر میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں… اپنے اندر اس بات کی ہمت نہیں پا رہا کہ میں محمدیوسف کو ان کے ’’کرکٹی ریکارڈوں‘‘ پر مبارکباد دوں… معذرت، بہت معذرت… بلکہ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ… داڑھی والے محمد یوسف کو کرکٹ کھیلتا دیکھ کر… اب ہمارے نوجوان مسلمانوں نے کرکٹ کو بھی ایک مقدس کھیل سمجھنا شروع کردیا ہے…

یہ بات خطرناک بھی ہے اور اصلاح طلب بھی … آج اگر محمدیوسف کا سنچریاں بنانا اسلام کا کمال بتایا جارہا ہے تو کیا کل … اس کے صفر پر آؤٹ ہونے کو بھی نعوذبا للہ اسلام سے جوڑا جائے گا؟… اسلام کا کرکٹ سے کیا تعلق؟…

کرکٹ ایک برا کھیل… اور فضول لہو ولعب والا گناہ ہے… اس کھیل نے مسلمانوں کو کافی نقصانات پہنچائے ہیں… اور انہیں مفلوج قوم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے… کرکٹ میں مال کا اسراف ہے… کرکٹ میں وقت کی بربادی ہے… کرکٹ میں بے حیائی اور بے کاری کا فروغ ہے… کرکٹ میں مسلمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کا جنازہ ہے… اور کرکٹ میں جوا، سٹہ اور قیمتی زندگی کی تباہی ہے… کیا مسلمان کا یہی کام ہے کہ وہ سارا دن ایک گیند پھینکتا رہے… اس کو مارتا پیٹتا رہے… اس کے پیچھے بھاگتا رہے… اسے اپنی پتلون پر رگڑتا رہے… اور قوم کا وقت اور کروڑوں کا سرمایہ برباد کرتا رہے… آج اگر پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز سے جیت گئی ہے تو کل یہی ٹیم… انڈیا میں ہار کر آئی تھی… تو کیا نعوذبا للہ اسلام ہار گیا تھا؟… پاکستان ہار گیا تھا؟… داڑھی اور نماز نے اثر نہیں دکھایا تھا؟… آج اگر محمد یوسف کے ریکارڈ داڑھی کی برکت سے ہیں تو کیا سعیدانور کو نعوذبا للہ داڑھی لے ڈوبی؟… وہ پاکستان کا مشہور سلامی بلے باز تھا… جب  اللہ  پاک نے اسے سچا مسلمان بنایا تو وہ ایک دن بھی جم کر نہ کھیل سکا… تو کیا نعوذبا للہ داڑھی اور نماز نے اسے نقصان پہنچایا۔ وہ کھیل جو ہزاروں مسلمانوں کی نمازیں برباد کرتا ہے… اور مسلمانوں کے قیمتی اوقات کو تباہ کرتا ہے… اس کھیل کو اسلام کے ساتھ جوڑنا کسی بھی طرح زیب نہیں دیتا… آج اگر ہم نے… محمدیوسف کی سنچریوں پر بغلیں بجائیں… اور قرآن پاک کی تلاوت چھوڑ کر کمنٹری سننے میں اپنا وقت تباہ کیا تو… کل کوئی بھی منفی واقعہ برے لوگوں کی زبانیں کھول دے گا… اور وہ کسی شکست کی ذمہ داری اسلام اور داڑھی پر ڈال دینگے… مجھے یقین ہے کہ ’’محمدیوسف‘‘ جیسے جیسے اسلام سیکھتے جائیں گے اسی طرح انہیں کرکٹ سے دوری اور نفرت ہوتی جائے گی کیونکہ حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے…

من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ

یعنی آدمی کے اسلام کی خوبی اور حسن میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں کو چھوڑدے۔ (ترمذی)

صاحب معارف الحدیث اس روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

انسان اشرف المخلوقات ہے اور  اللہ  تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے اور  اللہ  تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کو وقت کا اور صلاحیتوں کا جو سرمایہ دیا گیا ہے وہ اس کو بالکل ضائع نہ کرے بلکہ صحیح طور سے اس کو استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ ترقی اور  اللہ  تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرے۔ یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور لُبّ لباب ہے اور یہی ایمان واسلام کا مقصد ہے۔ اس لیے جو خوش نصیب یہ چاہے کہ اس کو ایمان کا کمال حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ دھبہ نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ کھلے گناہوں اور بداخلاقیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھے، اور اپنے وقت اور اپنی تمام خداداد قوتوں اور صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو، یعنی معاد یا معاش کے لحاظ سے ضروری یا مفید ہوں۔ یہی اس حدیث کا مطلب ہے۔ جو لوگ غفلت سے لا یعنی باتوں اور بے حاصل چیزوں میں اپنا وقت اور قوتیں صرف کرتے ہیں وہ نادان جانتے نہیں کہ  اللہ  نے ان کو کتنا قیمتی بنایا ہے اور وہ اپنے کیسے بیش بہا خزانہ کو مٹی میں ملاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جس نے سمجھ لیا ہے بس وہی دانا اور عارف ہیں۔ (معارف الحدیث ص۱۴۶ج۱)

یقین جانیں اسلام کی عزت یا بدنامی کا تعلق ان دنیا کی چیزوں سے ہر گز نہیں ہے…  اللہ  تعالیٰ نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کے لئے… اپنے فرمانبردار ترین بندوں کو دنیا کی آزمائش میں مبتلا فرمایا… چنانچہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ… سب سے زیادہ تکلیف انبیاء پر آتی ہے پھر ان پر جو ان کے بعد  اللہ  تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتے ہیں… حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ایک اونٹنی دوڑ میں سب سے آگے نکل جاتی تھی… تب  اللہ  تعالیٰ نے اسلام کی بنیادوں کو ان باتوں سے بچانے کے لئے ایک بار اسے روک دیا… اور وہ ایک یہودی کی اونٹنی سے ہار گئی… بعض صحابہ کرام کو غصہ آیا تو آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ… ان معاملات میں ہار جیت دنیا کے عام معمولات کا حصہ ہے… حضرات صحابہ کرام جب ایمان لائے تو انہیں مال ودولت اور وطن سے محروم ہونا پڑا… اور اپنے باپ بھائیوں سے جنگیں کرنی پڑیں… کرکٹ تو ایک نامراد اور برا کھیل ہے… کسی اچھے کھیل یا مقابلے میں بھی فتح وشکست… اسلام کے حق وباطل ہونے کا معیار نہیں ہے… ہاں بعض صورتوں میں ان چیزوں سے اسلام کو… بطور معجزہ یا کرامت فائدہ پہنچایا جاتا ہے… جس طرح آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے رکانہ نامی ایک نامور پہلوان کو کشتی میں تین بار پچھاڑا…

اس وقت کرکٹ کا ماحول بہت تباہ شدہ ہے… تمام کھلاڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ’’مشہوری ماڈل‘‘ ہیں… ان کے سینوں پر پیپسی کا بیج ہوتا ہے… کرکٹ میں سٹہ، جوا، بے حیائی… اور مال کی حرص کا مکمل قبضہ ہے… کرکٹ کے تمام بڑے اور نامور کھلاڑی غیر مسلم ہیں… کرکٹ کا چیمپئن بھی ایک غیر مسلم ملک ہے… کرکٹ سے کسی مسلمان کو ایک ذرہ برابر اسلامی یا دینی فائدہ نہیں ہے… اس لیے براہ کرم… محمد یوسف کی محبت میں کرکٹ کو مقدس کھیل سمجھ کر… اس میں اپنا وقت برباد نہ کریں… مجھے معلوم ہے کہ… کرکٹ کا چسکہ نشے کی طرح بہت گہرے جراثیم رکھتا ہے… اچھے خاصے دیندار لوگ کمنٹری سننے میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں… اور کئی سمجھدار لوگ بھی تازہ اسکور معلوم کرنے کے لئے بے قرار رہتے ہیں… ان کا یہ عمل اپنی جگہ… مگر اس ظلم سے تو سب کو بچنا چاہئے کہ… کرکٹ کو اسلام اور دین کے ساتھ جوڑنے کا گناہ کربیٹھیں… اور محمدیوسف کی بیٹنگ کو ثواب سمجھ کر… ٹی وی کے سامنے باوضو جا بیٹھیں… اور صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر فتح وشکست کی دعائیں مانگیں… عراق کے فدائی اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں… فلسطین میں روزانہ بیس نوجوانوں کے جنازے اٹھتے ہیں… کشمیر میں روزانہ تیس مسلمان خون میں نہلا کر دفنائے جاتے ہیں… افغانستان میں مسلمانوں کے اصل ہیرو اسلام کے لئے اپنے جسموں کے چیتھڑے اڑا رہے ہیں… آپ ان سب کی خبریں زیادہ شوق سے ڈھونڈا کریں… اور ان کی کامیابی کے لئے صلوٰۃ الحاجۃ پڑھا کریں… اور اپنی دعاؤں کو ان کرکٹ کھلاڑیوں پر رسوا اور شرمندہ نہ کریں جو… رشوت لے کر میچ فکس کرلیتے ہیں… اور ٹی وی پر شراب کی ماڈلنگ کرتے ہیں… کرکٹ ٹیم میں دینداری کا آنا ایک خوش آئند اقدام ہے… سناہے فلموں کے کچھ اداکار بھی دیندار ہو رہے ہیں… اور کچھ پاپ سنگرز بھی اب توبہ تائب ہو رہے ہیں… یہ سب کچھ بہت اچھا… مگر اس سے نہ تو کرکٹ مقدس ہوگئی ہے… اور نہ فلمیں حلال ہوگئی ہیں… اور نہ میوزک اور موسیقی کو جواز کا فتویٰ مل گیا ہے…  اللہ  تعالیٰ ہر مسلمان کو سچا مسلمان بنائے… اور ہم سب مسلمانوں کو گناہ کا ہر کام چھوڑنے کی توفیق عطاء فرمائے… ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ برائی کو دل سے برا سمجھا جائے… جو ایمان کے اس درجے پر بھی نہیں ہے وہ (نعوذباللہ ) ایمان سے بالکل محروم ہوسکتا ہے… کرکٹ اور اس کا ماحول بھی ایک ’’منکر‘‘ یعنی گناہ ہے… اور کچھ نہیں تو اسے دل سے ہی برا سمجھ لیں… اگر ہمارے پیارے بھائی محمدیوسف کو کسی عقلمند نے یہ بتا دیا ہے کہ… دعوت کی نیت سے کرکٹ کھیلتے رہو… تاکہ … دیندار طبقہ بھی کرکٹ کی لت میں مبتلا ہوجائے تو… محمدیوسف کو چاہئے کہ… ایسا مشورہ نہ مانے… بلکہ… سارا دن ایک مسکین سی گیند کو مارنے پیٹنے کی بجائے… یہی وقت قرآن پاک پڑھنے میں گزارے… اپنے رشتہ داروں تک اسلام کا پیغام پہنچائے… دینی علوم سیکھے… اور  اللہ  تعالیٰ توفیق دے تو…  اپنے مضبوط بازوؤں سے ان کی پٹائی کرے جن کی پٹائی کرنے میں اجرہی اجر ہے… اور ثواب ہی ثواب…

(آخر میں چند مبارک احادیث جن کا تعلق آج کے مضمون سے ہے)

(۱)  ایمان کے لئے ایک ضروری عمل

رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے جہاد کیا اور نہ اپنے دل میں اس کی تمنا کی تو وہ نفاق کی ایک صفت پرمرا۔(مسلم)

(۲) ظاہری ترقی نافرمان کو بھی مل سکتی ہے

رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تم کسی نافرمان (کافر یا فاسق) کی کسی نعمت کی وجہ سے ہر گز اس پر رشک نہ کرنا۔ تم کو معلوم نہیں ہے کہ مرنے کے بعد اس پر کیا کیا مصیبتیں پڑنے والی ہیں،  اللہ  تعالیٰ کے پاس اس کے لئے ایک ایسا قاتل ہے جس کو کبھی موت نہیں۔ (یعنی جہنم) (پس ایسے جہنمی شخص پر رشک کرنا بہت بڑی غلطی ہے)۔ (شرح السنہ)

(۳) بعض لوگ دنیا سے محروم مگر  اللہ  تعالیٰ کے مقرب

رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

بہت سے پراگندہ بالوں والے، گردوغبار میں اٹے ہوئے جن کو دروازوں پر دھکے دئیے جائیں (وہ  اللہ  تعالیٰ کے ایسے مقرب ہوتے ہیںکہ) اگر وہ  اللہ  تعالیٰ پر کسی بات کی قسم کھا لیں تو ان کی قسم کو  اللہ  تعالیٰ ضرور پورا فرمائے۔(صحیح مسلم)

اس موضوع پر قرآنی آیات، احادیث رسول… اور تاریخی واقعات بہت ہیں… اسلام کا مجموعی مزاج سمجھنے کے لئے انشاء  اللہ … یہ تین احادیث کافی ہیں!

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا

وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب

آمین یا ارحم الراحمین

٭٭٭


ایک مراقبہ، ایک نصاب

 اللہ  تعالیٰ امت مسلمہ کو خوشیوں والی عید نصیب فرمائے… ذو الحجہ کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے… حجاج کرام کے قافلے بیت  اللہ  شریف کے گرد جمع ہو رہے ہیں… عید الاضحی کا دن تیزی سے قریب آرہاہے… اور ہماری موت کا وقت بھی جلدی جلدی ہماری طرف بڑھ رہاہے…

ایک صاحب نے رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم سے دریافت کیا… اے  اللہ  کے نبی! لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار کون ہے؟… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَکْثَرُہُمْ ذِکْرًا لِّلْمَوْتِ وَاَکْثَرُہُمْ اِسْتِعْدَادًا اُوْلٰٓئِکَ الْاَکْیَاسُ

یعنی لوگوں میں زیادہ عقلمند وہ ہے… جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے… اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے…

پھر آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا :

ذَہَبُوْا بِشَرَفِ الدُّنْیَا وَکَرَامَۃِ الْاٰخِرَۃِ

یعنی جو لوگ موت کو زیادہ یاد رکھتے ہیں اور اس کی زیادہ تیاری کرتے ہیں… یہی لوگ دنیا میں عزت پاتے ہیں اور آخرت کا اکرام بھی انہیں نصیب ہوتا ہے… معلوم ہوا کہ ’’موت کی یاد‘‘ دنیا کی بہت سی بیماریوں اور ذلتوں کا علاج… اور دنیا کے بہت سے مسائل کا حل ہے… اسی لیے حدیث پاک میں فرمایا گیا…

مَنْ کَانَتْ نِیَّتُہٗ طَلَبَ الْاٰخِرَۃِ جَعَلَ  اللہ  غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَجَمَعَ لَہٗ شَمْلَہٗ وَاَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ وَمَنْ کَانَتْ نِیَّتُہٗ طَلَبَ الدُّنْیَا جَعَلَ  اللہ  الْفَقْرَ بَیْنَ عَیْنَیْہٖ وَشَتَّتَ عَلَیْہِ اَمْرَہٗ وَلاَ یَاْتِیْہٖ مِنْہَا اِلاَّ مَاکُتِبَ لَـہٗ (ترمذی)

یعنی جس شخص کی نیت ’’آخرت کی طلب‘‘ کی ہوتی ہے  اللہ  تعالیٰ اس کے دل کو غنی فرما دیتے ہیں… اور اس کی حالت کو درست فرمادیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر ناک رگڑتی ہوئی آتی ہے… اور جس شخص کی نیت دنیا کی طلب کی ہوتی ہے  اللہ  تعالیٰ اس کی پیشانی اور چہرے پر محتاجی کے آثار ڈال دیتا ہے اور اس کی حالت پراگندہ کردیتا ہے، اور اسے دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے…

ہمارے حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور  اللہ  مرقدہ سے ایک شخص نے شکایت کی کہ میں ایک لڑکی کے عشق میں پھنس چکا ہوں… اور اب زندگی بہت مشکل ہو چکی ہے… بہت کوشش کی، بہت دعائیں مانگیں، بہت وظیفے کیے مگر جان نہیں چھوٹتی…  اللہ  کے لئے میرا علاج فرمادیجئے… حضرت نے فرمایا موت کا مراقبہ کیا کرو … چند دن تو دل نہیں لگے گا مگر کچھ دن پابندی سے کرنے کے بعد موت اپنے قریب محسوس ہوگی… تب تمہارا علاج ہوجائے گا… اس شخص نے محنت کے ساتھ چند دن مراقبہ کیا تو  اللہ  پاک نے اسے ذلت اور رسوائی والی اس بیماری سے نجات عطاء فرمادی… موت کا مراقبہ تھوڑا سا مشکل ہے… اور جو لوگ اس کا سچا مراقبہ کرتے ہیں ان پر سے ہر طرح کی مالی تنگی ہٹالی جاتی ہے… اور زیادہ سامان، مکان ، کپڑوں اور جائیداد کا شوق تو خود بخود دل سے نکل جاتا ہے… موت کا مراقبہ اس لیے مشکل ہے کہ… ہم مرناہی نہیں چاہتے… اور ہمارے دلوں میں  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا شوق بہت کم ہے… اور موت کا مراقبہ اس لیے بھی مشکل ہے کہ… یہ مراقبہ انسان کو شیطان کے جال سے بچاتا ہے… اور انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے… کل ۱۰؍دسمبر کے دن پوری دنیا میں انسانی حقوق کا دن منایا گیا… میں نے اخبارات میں… ظالم اور جابر حکمرانوں کے عجیب وغریب بیانات پڑھے… اور تو اور افغانستان کا قاتل صدر کرزئی بھی… تقریر کرتے ہوئے رو پڑا… کافروں کے ہاتھوں بکنے والے کرائے کے اس قاتل کو اگر موت یاد ہوتی… اور وہ موت کی تیاری کی فکر رکھتا تو کبھی بھی امریکیوں کا آلہ کار نہ بنتا… زندگی انسان کی مجبوری ہے اس کی خاطر انسان بکتا ہے، فروخت ہوتا ہے، ظلم کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، غفلت کرتا ہے… اور طرح طرح کے گناہ کرتا ہے… جبکہ موت انسان کی نجات ہے… اس کی تیاری کرنے والے ہمیشہ دنیا کے اوپر رہتے ہیں… اور دنیا ان کے نیچے اور پیچھے بھاگتی اور ذلیل ہوتی ہے… انسانی حقوق کا احترام بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کو موت کا خیال ہوتا ہے… اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے آگے جاکر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے…

موت کا مراقبہ کئی طرح کا ہے…مثلا… قرآن پاک کی ان آیات کو پڑھیں جن میں موت اور اس کے منظر کو بیان کیا گیا ہے… اور پھر ان آیات کا یقین اپنے دل میں بٹھا کر سوچیں کہ میں نے بھی بہت جلد مرجانا ہے… اور میں آج بھی مرسکتا ہوں… کیا میں نے آج مرنے کی تیاری مکمل کی ہوئی ہے؟ کیا میں آج  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کے قابل ہوں؟…

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ … باوضو آنکھیں بند کرکے موت کے تمام مراحل کا تصور کریں… جان نکل رہی ہے… پہلے پاؤں سے نکلی پھر پنڈلیاں ٹھنڈی ہوئیں… اسی طرح گردن تک روح نکل گئی… گھر والے رو رہے ہیں… سارا سامان یہاں رہ گیا… بہت کچھ بولنا تھا مگر زبان نہیں چلتی… پھر لوگ اٹھا کر قبر میں ڈال آئے… اور واپس آگئے… اب اکیلی اور اندھیری قبر ہے، فرشتوں کی پوچھ تاچھ ہے… اور تنہائی ہی تنہائی ہے… خوبصورت بدن گل سڑ کر بدبودار ہو رہا ہے… برے اعمال ایک ایک کرکے سانپ اور بچھو کی شکل میں آرہے ہیں… اب کوئی عمل نہیں بس بدلہ ہی بدلہ ہے… اچھے اعمال کا اچھا بدلہ اور برے اعمال کا برا بدلہ…

موت کے مراقبے کا تیسرا طریقہ جو قدرے آسان… اور زیادہ مؤثر ہے وہ یہ کہ کسی بھی مستند کتاب میں سے روزانہ ان احادیث مبارکہ کو پڑھ لیا جائے جو موت، قبر اور آخرت کے بارے میں آئی ہیں… اور ہفتے میں ایک دو بار ان احادیث مبارکہ کی کسی کے ساتھ تعلیم… یعنی مذاکرہ بھی کرلیا جائے…

جبکہ موت کے مراقبے کا چوتھا طریقہ یہ ہے کہ… سچے دل سے شہادت کی دعاء مانگیں اور پھر شہادت کے راستے کو اختیار کرکے چل پڑیں… یہ طریقہ سب سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ہے اور اس طریقے کی برکت سے مکانات، کاریں، زمینیں اور کوٹھیاں تو درکنار… کپڑوں کے تین جوڑے بھی اپنی ملکیت میں اچھے نہیں لگیں گے… اور انسان کا دل چاہے گا کہ… دنیا کی ہر میل کچیل اس سے دور ہوجائے… میں نے یہ چار طریقے بطور مثال کے عرض کردئیے… باقی جس کو جس طریقے سے موت اپنے اتنے نزدیک محسوس ہو کہ اسے دنیا کی لذتوں کا خیال اس وقت بھول جائے… وہ اس طریقے کو اختیار کرے… کیونکہ یہ ہمارے سچے ہمدرد آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کا حکم ہے… آپ نے اپنے بعض صحابہ کرام کو زیادہ ہنستے دیکھا تو فرمایا… لذتوں کو دور کرنے والی چیز یعنی موت کو یاد کرو… اس لیے چوبیس گھنٹے میں ایک بار موت کو اس طرح یاد کرنا کہ… اس وقت تمام لذتیں فنا ہوجائیں اور موت دل کے قریب محسوس ہو انسان کے لئے ضروری عمل ہے…  اللہ  تعالیٰ مجھے بھی اس کی توفیق عطاء فرمائے اور آپ سب کو بھی اگر ہم موت کو یاد نہیں رکھیں گے… اور اس کی تیاری نہیں کریں گے تب بھی موت نے تو آنا ہے… وہ ہمارے اردگرد روزانہ آتی ہے ایک دن ہمارے پاس بھی آجائے گی…  اللہ  کرے اچھی اور خوبصورت موت آئے… اللہم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت…

مضمون کے آغاز میں یہ بات عرض ہوئی تھی کہ عیدالاضحی کا دن قریب آرہا ہے… اب ہم نیکیوں کے اس سیزن کو بھی اچھی طرح کمالیں تاکہ دنیا میں بھی خوشی نصیب ہو اور مرنے کے بعد بھی مزہ آجائے تو اس کے لئے ایک مختصر سا نصاب عرضِ خدمت ہے…

آخرت کے لئے نوٹ گن لیں

مالدار مسلمانوں کو چاہئے کہ ابھی سے حساب کتاب کرلیں… اور سوچ لیں کہ اپنی آخرت کے لئے میں نے کتنا مال خرچ کرنا ہے… ہو سکے تو چند نوٹ الگ کرکے رکھ لیں کہ میں ان سے  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کروں گا… پھر اپنے گھر بھی قربانی کریں، شہداء کرام کے گھروں میں بھی بھجوائیں… اور مجاہدین تک بھی  اللہ  تعالیٰ کی دعوت یعنی حلال گوشت بھجوانے کی کوشش کریں… میرے بھائیو! اور بہنو! یہ سارا پیسہ یہاں رہ جائے گا… ابھی سے ایک لفافہ الگ کرلو وہ بہت کام آئے گا… بہت کام آئے گا… ان شاء  اللہ

غریب حضرات مسئلہ پوچھ لیں

جو مسلمان مرد اور عورتیں غریب ہیں وہ بھی اپنے مال اور زیورات کا حساب لگوا لیں… گھر میں ضرورت سے زائد بھی بہت قیمتی قیمتی چیزیں ہوتی ہیں ان کو بھی ایک نظر دیکھ لیں… قربانی بہت فضیلت والا عمل ہے… یہ ہمارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے… قربانیاں پل صراط پر کام آنے والی سواریاں ہیں… قربانی گناہوں کی معافی کابہت بڑا ذریعہ ہے… اس لیے کسی مستند عالم دین سے پوچھ لیں کہ مجھ پر قربانی واجب ہے یا نہیں… اگر وہ واجب بتادیں تو بالکل کوئی حرج نہیں کہ اپنے موبائل سیٹ کو بیچ دیں…  اللہ  تعالیٰ اور عطاء فرما دے گا موبائل فون اور زیورات بہت ہیں… جبکہ قربانی کا دن تو قسمت سے آتا ہے… اور  اللہ  تعالیٰ اپنے پیاروں سے قربانی قبول فرماتا ہے…

چاند پر نظر رکھیں

ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں بہت مبارک ہیں …  اللہ  تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان راتوں کی قسم کھائی ہے… ان راتوں میں کچھ نہ کچھ عبادت کا اہتمام کرنا چاہئے… اسی طرح ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں میں نفل روزے کی بھی کافی فضیلت آئی ہے… اور نو ذی الحجہ کا روزہ تو بہت قیمتی ہے… اسی طرح ایک سنت یہ بھی ہے کہ جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے تو وہ لوگ اپنے بال اور ناخن وغیرہ نہ تراشیں جنہوں نے قربانی کرنی ہو… اسی طرح نو ذی الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک… ہر فرض نماز کے بعد تکبیر تشریق کا پڑھنا بھی واجب ہے…

الغرض ذوالحجہ کا چاند اپنے ساتھ نیکیوں اور لذتوں کا ایک پورا پیکج لے کر آتا ہے اس لیے پورے اہتمام سے چاند پر نظر رکھیں… اور جس رات چاند نکلنے کا اعلان ہوجائے اسی رات سے اعمال شروع کردیں… ویسے بھی ہر اسلامی ہجری مہینے کے چاند پر نظر رکھا کریں تاکہ… چاند کی پہلی رات ان مسنون دعاؤں کا لطف اٹھا سکیں… جن کی چاند دیکھنے پر پڑھنے کی ترغیب آئی ہے… ذوالحجہ کے تمام اعمال معلوم کرنے کے لئے مکتبہ ابن مبارک لاہور سے شائع شدہ کتاب ’’تحفۂ ذی الحجہ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں…

چھریاں تیز کروالیں

قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنی چاہئے… اور اگر کسی اور سے کرائیں تو یہ بھی ٹھیک ہے… اس لیے چھریاں تیز کرالیں تاکہ جانور کو راحت رہے… عید کے لئے اپنے کپڑے پاک صاف دھلوا کر ابھی سے الگ رکھ لیں… ذوالحجہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے اپنے ناخن تراش لیں… مونچھیں ٹھیک کرلیں… اگر جانور کو اکرام کے ساتھ کھڑا کرنے اور کھلانے پلانے کا انتظام ہو تو ابھی سے جانور خرید لیں… اور استطاعت ہو تو ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ والوں کے پاس بھی قربانی کی رسید کٹوالیں… عید کی نماز کے لئے جلدی نکلیں اور پہلی صف میں نماز ادا کریں… عید کے دن کی تمام سنتوں کو زندہ کریں… اور مجاہدین، شہداء کرام اور امت مسلمہ کے لئے دعاؤں کا خاص اہتمام فرمائیں…

گھر میں گتا لٹکادیں

ہماری خواتین اکثر تکبیرات تشریق بھول جاتی ہیں… اس لیے نو ذی الحجہ سے پہلے والی رات… ایک گتے پر یہ عبارت لکھ کر اس کمرے کی دیوار پر لٹکادیں جس میں خواتین نماز ادا کرتی ہوں…

( اللہ  اَکْبَرْ  اللہ  اَکْبَرْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ  اللہ ، وَ اللہ  اَکْبَرْ  اللہ  اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ… آج فجر کی نماز کے بعد سے لے کر ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک بار آہستہ آواز سے تمام خواتین یہ تکبیرات پڑھ لیا کریں…)

شکر مولیٰ بے حد و بے حساب

آج جب یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو مجھے اطلاع ملی کہ… الحمد اللہ  القلم کا یہ تازہ شمارہ… اس مبارک اخبار کا سوواں شمارہ ہوگا…

الحمد اللہ  رب العالمین… الحمد اللہ  الذی بنعمتہ تتم الصالحات… اللہم لک الحمد کما ینبغی لجلال وجہک وعظیم سلطانک۔ اللہم لا نحصی ثنائً علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔ الحمد اللہ  رب العالمین الرحمٰن الرحیم قبل کل شیء والحمد اللہ  بعد کل شیء والحمد اللہ  علی کل حال سبحان  اللہ  لم یزل سبحان الحی القیوم یا ستار یا ستار برحمتک یا ارحم الراحمین…

یہ اخبار  اللہ  تعالیٰ کے بھروسے پر شروع کیا گیا تھا… یہ اخبار محض  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے جاری کیا گیا تھا … اور یہ اخبار  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے ہی چلتا رہا…  اللہ  تعالیٰ اسے ’’نظربد‘‘ اور ’’شربد‘‘سے اپنی حفاظت میں رکھے…

ماشاء  اللہ  لا قوۃ الا باللہ

 اللہ  تعالیٰ اسے مزید ترقی اور قبولیت عطاء فرمائے… اور اسے ہم سب کے لئے صدقہ جاریہ اور ذخیرۂ آخرت بنائے…

دل جب خوشی سے لبریز ہو تو قلم کے پھسلنے کا خطرہ ہوتا ہے… اس لیے شکر اور دعاء پر ہی بس کرتا ہوں … اور اس اخبار کا حق ادا کرنے میں ہم سے جو کوتاہی رہ گئی ہے… اس پر  اللہ  تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں…

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم وبحمدہ استغفر اللہ  واتوب الیہ

وصلی  اللہ  تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ

سیدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین۔

٭٭٭


کٹے ہوئے سر

  اللہ تعالیٰ اہل پاکستان کو ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کے حادثے سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… اتفاق سے آج بھی ۱۶ دسمبر کا دن ہے اور پاکستان کے مسلمان… ڈھاکہ کے ساتھ ساتھ سری نگر کے سقوط کا رونا بھی رو رہے ہیں… چند دن پہلے پاکستان کے فوجی صدر نے اعلان کیا کہ ہم کشمیر کی آزادی نہیں چاہتے… پھر وزارت خارجہ کی ترجمان خاتون نے ارشاد فرمایا کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے… ان دو بیانات کے بعد سے اخبارات میں ایک شور برپا ہے… کئی کالم نویس حضرات نے اچھے اچھے… اور درد بھرے کالم لکھے ہیں… اور بعض ابھی تک لکھ رہے ہیں…  اللہ  تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے… ہم نے اس موضوع پر خاموشی اختیار کی… کیونکہ ہمارے لیے نہ تو صدر پاکستان کا بیان نیا ہے اور نہ وزارت خارجہ کا شوشہ… پاکستان کی کشمیر پالیسی تو طالبان کی گردن پر چھری چلانے کے ساتھ ہی تبدیل ہوگئی تھی… یہ تو کشمیر کی جہادی قیادت اور وہاں کے مجاہدین کا حوصلہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ’’تحریک ِ کشمیر‘‘ کی گاڑی چلا رہے ہیں… انہوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر… اور جان توڑ مشکلات سہہ کر ’’جہادِ کشمیر‘‘ کے شعلوں کو بلند رکھا ہوا ہے… بعض کالم نویس حضرات تو اس موضوع پر ایک آدھ مضمون لکھ کر اینٹھنے بھی لگے ہیں… اور انہوں نے حسبِ عادت خود کو غازی قرار دے کر مجاہدین کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا ہے کہ… اس موقع پر وہ تنظیمیں اور جماعتیں کہاں گئیں جو مجاہدین کو کشمیر بھجوایا کرتی تھیں… جناب والا! وہ تنظیمیں اور جماعتیں اب بھی سری نگر سے کپواڑہ تک اپنے خون سے گلشنِ جہاد کو سینچ رہی ہیں… اور حالیہ بیانات نے ان کے حوصلوں پر مایوسی کی راکھ نہیں ڈالی … آج ۱۶دسمبر کے دن یہ موضوع چھڑ ہی گیا ہے تو آئیے… اس کو چند حقائق اور واقعات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں…

ایک شہر کی پرُاسرار کہانی

وہ بدھ کا دن تھا… بہت ٹھنڈا بہت برفیلا… فروری کی نو تاریخ اور سال ۱۹۹۴ء کا تھا… اس دن میں سری نگر ائیرپورٹ پر اترا تو ہر منظر دیکھ کر حیران رہ گیا… جہاز جب ائیرپورٹ پر رُکا تو میں نے کھڑکی والے شیشے سے باہر جھانکا… ائیرپورٹ میں ہر طرف فوج ہی فوج نظر آرہی تھی… مسلح اور ہوشیار فوجی اپنے بینکروں میں مستعد کھڑے تھے… جہاز کی سیڑھی سے نیچے اترے تو سیڑھی کے دونوں جانب خفیہ اداروں کے اہلکار ہر مسافر پر نظریں گاڑے گھُور رہے تھے… جیسے ہی ہم لاؤنج میں داخل ہوئے تو یہاں بھی ریت کی بوریوں کے بینکر اور مورچے اور ان میں مسلح فوجی… ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو فوجی دستوں کی تعداد عام شہریوں سے زیادہ نظر آئی… ہر سڑک پر ہر چند گز کے فاصلے پر بینکر اور مورچے… میں نے دنیا کے کئی جنگ زدہ علاقے دیکھے ہیں… اور بارہا کرفیو کا منظر بھی دیکھا ہے مگر… سری نگر جتنی فوج میں نے کسی جگہ نہیں دیکھی… ہر دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر فوجی جوان مستعد کھڑے تھے… اور انہوں نے اپنی رائفلیں زنجیر کے ذریعہ اپنی پیٹی (بیلٹ) سے باندھ رکھی تھیں… میں نے اپنے میزبان سے اس کی وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ مجاہدین پستول کا فائر یا بٹ مار کر فوجی کو گرا دیتے تھے اور اس کی گن لے بھاگتے تھے اس لیے اب ہر فوجی اپنی گن جسم سے باندھ کر رکھتا ہے… شہر میں سفر کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہر فوجی بینکر پر خاکی رنگ کے جال ڈلے ہوئے تھے… جنگ کے دوران ایسے جال مورچوں کو کیموفلاج کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں تاکہ… دشمن کا جہاز ان مورچوں کو نہ دیکھ سکے… میں نے میزبان سے پوچھا کہ سری نگر پر کس کی بمباری کا خطرہ ہے؟… (پاکستان کے جہاز تو اب دوسرے ملکوں پر بمباری نہیں کرتے)… انہوں نے بتایا کہ مجاہدین کے گرینیڈ حملوں سے حفاظت کے لئے یہ جال ڈالے گئے ہیں… الغرض سری نگر کا ہر منظر حیرت کا ایک نیا باب تھا… پھر ہماری گاڑی ایک گلی میں داخل ہوئی… اس گلی کے آغاز پر بھی مورچہ موجود تھا… اسی گلی میں چند گز کے فاصلے پر وہ مکان تھا جہاں مجھے ٹھہرایا گیا… اس دن سری نگر میں کڑا کے کی سردی پڑ رہی تھی… میرے میزبانوں نے مجھے کانپتا دیکھا تو ہر طرح کے کپڑے مجھ پر ڈال دئیے اور کمرے کو بھی گرم کرنے لگے… میں کئی کمبلوں کے بوجھ میں دبا یہی سوچ رہا تھا کہ مجاہدین سے ملاقات کیسے ہوگی؟… وہ اتنی سیکورٹی کے درمیان سے گزر کر کس طرح سے یہاں پہنچیں گے؟… کیا ان کے پاس اسلحہ بھی ہوگا؟… مجاہدین اس شہر میں کارروائیاں کس طرح سے کرتے ہیں؟… یہاں تو ہر سڑک، ہر راستہ، ہر گلی اور ہر موڑ پر فوجیوں کے جتھے ہیں… ایک اندازے کے مطابق صرف سری نگر میں سیکورٹی دستوں کے کم و بیش ایک لاکھ افراد موجود ہیں… کسی کو میری ان باتوں میں مبالغہ نظر آئے تو وہ خود سری نگر دیکھ آئے… وہاں اب بھی تحریک جاری ہے… ممکن ہے کچھ عرصہ بعد حالات بدل جائیں مگر ابھی تک… صورتحال جوں کی توں ہے… اور انڈیا اپنے ہزاروں فوجی مروا کر… اور ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کرکے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکا… اس وقت پاکستان میں انڈیا کے کئی چہیتے لوگ بہت اونچی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں… آپ نے سری نگر دیکھنا ہو تو ان سے ایک پرچی لکھوا لیں… تب انڈین سفارتخانہ آپ کو فوراً ویزہ جاری کردے گا… لاہور کے نجم سیٹھی صاحب… پنجابی کانگریس کے فخرالزماں صاحب… کراچی کے ایم کیو ایم والے… بعض پختون اور سرائیکی قوم پرست… آپ ان میں سے کسی سے پرچی لے کر آسانی سے انڈیا جاسکتے ہیں… پہلے جو لوگ سری نگر جاتے تھے وہ جان پر کھیل کر وہاں پہنچتے تھے… طرح طرح کے روپ بدل کر اور جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر… مگر اب تو روشن خیالی کے راستے کھل گئے ہیں… اب جان سے نہیں ایمان سے ہاتھ دھونے والوں کو وہاں کا ویزہ آسانی سے مل جاتا ہے… مجھے وزارت خارجہ کی ترجمان کے بیان سے تو ذرہ برابر حیرت نہیں ہوئی… پاکستان کے روشن خیال بھوت چار سال سے ننگا ناچ رہے ہیں… اور طالبان کے ساتھ ساتھ کشمیری مجاہدین کا خون بھی پی رہے ہیں… البتہ مجھے اس بات پر کچھ حیرت ہوئی کہ… پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے دوست انڈیا سے کشمیر میں اس کے ہزاروں فوجی مارے جانے پر ہمدردی کا اظہار کیوں نہیں کیا… حالانکہ وزارت خارجہ اور اس سے پہلے صدر پاکستان کے بیان سے چار باتیں تو ثابت کردی گئی ہیں (۱)کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں ہے (۲)کشمیری بھی پاکستان کے نہیں ہیں (۳)انڈیا پاکستان کا بہت گہرا دوست ہے (۴)من موہن سنگھ بہت مخلص انسان ہیں… اب ان چار باتوں سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ… گذشتہ سولہ سال میں پاکستان کے دشمن کشمیریوں نے … پاکستان کے دوست انڈیا کے ہزاروں فوجی… اسلام اور پاکستان کے نام پر مار دئیے… چنانچہ اب پاکستان پر لازم ہے کہ وہ… انڈیا کی حکومت اور مردار فوجیوں کے اہل خانہ سے تعزیت اور اظہار ہمدردی کرے… دیکھیں آسمان کب یہ منظر بھی دیکھتا ہے… یہی آسمان آج سے پینتیس سال پہلے… نوّے ہزار پاکستانی فوجیوں کو ڈھاکہ میں… انڈین فوج کے ساتھ ہتھیار ڈالتے … اور ان کا قیدی بنتے پہلے ہی دیکھ چکا ہے… یہ آسمان ہماری ’’عزّت مندی‘‘ اور غیرت کے ایسے مناظر دیکھنے کا عادی ہوچکا ہے…

عرض کر رہا تھا کہ… میں سری نگر کے ایک گھر میں کمبلوں کے بوجھ تلے دبا یہ سوچ رہا تھا کہ… مجاہدین کیسے آئیں گے؟… اور وہ اس شہر میں کارروائیاں کس طرح سے کرتے ہیں… ظاہری طور پر اس کا امکان مجھے تو نظر نہیں آرہا تھا… مگر تھوڑی دیر بعد مجاہدین کا تانتا بندھ گیا … پہلے امجد بلال… مگر اس کمانڈر نے اپنی ہیئت بدلی ہوئی تھی… اس کے بعد… کمانڈر سجاد خان شہیدؒ کے حارسین… جن کے جسموں سے اسلحے کی جھنکار صاف سنائی دے رہی تھی… خوب جوان، صحت مند، موٹے تازے، سرخ سفید، مضبوط… اور پرُنور مجاہدین… وہ مجھ سے ملتے تو خوشی کی وجہ سے اور زیادہ سرخ ہوجاتے… اور ان کے چہروں کا عزم اور حسن یہی بتاتا کہ … کشمیر انڈیا کا حصہ نہیں ہے…

ان میں سے ہر ایک مکمل طور پر مسلح تھا… کلاشنکوف، پسٹل، وائرلیس، کئی زائد میگزین… اور ڈھیروں گرینیڈ… سالہا سال سے بخاری شریف پڑھانے والے ایک شیخ الحدیث صاحب نے… کشمیر میں ایک مجاہد کو جب اس پورے سامان کے ساتھ مسلح حالت میں دیکھا تو فرمانے لگے… میرا ایمان آج مکمل ہوا ہے… اب یہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ گورا چٹا، سنہری داڑھی والا کمانڈر صوبہ سرحد کے ضلع دیر سے تعلق رکھتا تھا… کیونکہ وہ اب شہید ہوچکا ہے…  اللہ  تعالیٰ اس کے درجات بلند فرمائے… جہاد کشمیر کو ایجنسیوں کا جہاد کہنے والے بھی کتنے ظالم ہیں… کاش وہ کشمیر کے کسی غازی کو لڑتا یا کسی شہید کو مہکتا دیکھ لیتے تو اپنی زبان کو ضرور لگام دیتے… اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں… کعبہ شریف تک بھی بعض منافق پہنچ جاتے ہیں… مثبت منفی واقعات ہر تحریک کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں… مگر حقیقت بین نگاہیں… سب کچھ دیکھ لیتی ہیں… حارسین کے بعد خود کمانڈر سجاد خان شہید ؒ بھی تشریف لے آئے… انہوں نے پستول باندھ رکھا تھا… یہ پوری بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ … جہاد کشمیر بہت سخت جان ہے… اسی سری نگر میں مجاہدین روزانہ کارروائیاں کرتے ہیں جس سری نگر کی سیکورٹی کا تذکرہ میں نے ابھی کیا ہے… اسی سری نگر کے لال چوک میں ہر سال مجاہدین پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں… اسی سری نگر میں انڈین آرمی کی مایہ ناز چھاؤنی بادامی باغ کی فول پروف سیکورٹی کو… ایک سولہ سال کے نوجوان آفاق شہیدؒ نے تہس نہس کردیا… اسی سری نگر کی گلیوں میں غازی باباؒ کئی سال تک انڈین آرمی کے لئے ہیبت کا نشان بنے رہے… ہتھیار ڈالنے کے عادی لوگوں کو کیا خبر… اور وزارت خارجہ والوں کو کیا پتہ کہ کشمیر کی تحریک کیا ہے؟… اور اس تحریک کی گود میں کیسے کیسے حسین جوانوں کے ٹوٹے ہوئے پھول جیسے لاشے پڑے ہیں…

کشمیر سے پسپائی کا آغاز

ایک بڑی دکان میں ڈاکو گھس آئے… دکان کے منیجر کے پاس ان سے لڑنے کا سامان اور افراد وافر تعداد میں موجود تھے… مگر جب ایک موٹے ڈاکو نے اسے دھمکی دی تو منیجر ڈر گیا… اس نے ڈاکو کی مطلوبہ تجوری اس کے حوالے کردی… دکان کے مالک اور ملازموں نے اس سے کہا کہ تم نے بزدلی اور بے غیرتی کی ہے… یہ ڈاکو ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے … وہ تو پڑوس کی دکان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے یہ سارا ڈرامہ کر رہے تھے… اور تم نے انہیں پڑوس پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے اپنی دکان سے راستہ بھی دے دیا… جب لعنت ملامت کا شور زیادہ ہوا تو منیجر نے سب کو جمع کرکے … اور ڈاکوؤں کی موجودگی میں ایک تقریر کی… اس تقریر میں اس نے کہا… میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے… اور میں نے ایک تجوری اور ساتھ والی دکان پر ڈاکے کا راستہ اس لیے دیا ہے … تاکہ … میرے دائیں طرف جو الماری رکھی ہے وہ بچ جائے… اس میں بہت قیمتی مال ہے… اور وہ الماری بھی بچ جائے جو میرے بائیں طرف رکھی ہے… اس میں تو بہت ہی قیمتی چیزیں ہیں… دکان والوں نے جب یہ تقریر سنی تو دل پکڑ کر رہ گئے… وہ سمجھ گئے کہ اب کوئی الماری بھی نہیں بچے گی… اور ہمارے اس منیجر نے ڈاکو کو تمام الماریاں خود ہی دکھا دی ہیں…

اب آئیے ایک اور تقریر کی طرف… آج سے پانچ سال پہلے اکتوبر کی ایک نیم ٹھنڈی شام ریڈیو پر ایک آواز سنی جا رہی تھی… میرے ہم وطنو! ہم نے پاکستان کے مفاد میں امریکہ کو… افغانستان پر حملے میں تعاون (لاجسٹک سپورٹ) دینے کا فیصلہ کیا ہے… اور اس میں پاکستان کے تین مفاد ہیں… (۱) ہماری کشمیر پالیسی محفوظ رہے گی (۲)ہمارا ایٹمی اثاثہ محفوظ رہے گا (۳)ہماری معیشت مضبوط ہوگی… اسی دن عقل والوں نے کہہ دیا تھا کہ اب نہ … ایٹمی اثاثے بچیں گے اور نہ کشمیر پالیسی… اور نہ ہی ہماری معیشت کو کچھ سہارا ملے گا… بلکہ… ہمارا ملک داخلی انتشار میں مبتلا ہو کر کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا… آج پانچ سال بعد صورتحال یہ ہے کہ… ہماری کرنسی بنگلہ دیش اور افغانستان کی کرنسی سے بھی گر چکی ہے… ہمارا ایٹمی فخر بیمار اور نظر بند ہے… اور ہمارے ایٹمی اثاثے مسلسل نگرانی میں ہیں… اور کشمیر پالیسی پر ہمارے حکمرانوں نے اپنا پستول جنرل من موہن سنگھ کے قدموں میں ڈال دیا ہے… عجیب اتفاق ہے … ۱۹۷۱ء جس بھارتی جنرل کے سامنے ہماری فوج نے ہتھیار ڈالے تھے وہ بھی سکھ تھا… اور جہلم سے تعلق رکھتا تھا… اور اب کشمیر پالیسی کے ہتھیار بھی ایک سکھ اور سرزمین جہلم کے ایک سابق فرزند من موہن سنگھ کے سامنے ڈالے جا رہے ہیں… راجہ انور صاحب کو چاہئے کہ وہ بھارت اور جہلم کی اس شاندار فتح پر بھی ایک کالم لکھیں… جس طرح انہوں نے بھارتی جنرل اروڑہ کی شان میں ایک کالم لکھا تھا…

سب سے پہلے پاکستان

جس دن سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ گونجا تھا… اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ اب… کچھ بھی نہیں بچے گا… صرف پاکستان بچ جائے گا… ظاہر بات ہے پورے ملک میں کسی بھی جگہ کا نام پاکستان نہیں ہے… کشمیر کا نام کشمیر ہے… اس لیے کشمیر کے الگ ہونے سے پاکستان کا کیا نقصان ہوگا؟… اس سے پہلے پاکستان کی خاطر بنگال کو الگ کیا گیا… وہ بھی بنگال تھا پاکستان تو نہیں تھا… بلوچستان والوں کو خوب ستایا جارہا ہے… اگر وہ دردِ سر بنے تو ان کو بھی الگ کردیں گے… کیونکہ وہ بلوچستان ہے پاکستان تو نہیں… صدر کرزئی نے ظاہر شاہ کے اشارے پر امریکہ سے صوبہ سرحد مانگ لیا ہے کہ… یہ صوبہ دراصل افغانستان کا ہے… اور افغانستان میں امریکہ کی حفاظت کے لئے اس صوبے کو افغانستان کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے… امریکہ اگر اس بات پر راضی ہوگیا تو وہ رچرڈ آرمٹیج کو دوبارہ بھیج دے گا… ظاہر بات ہے پاکستان کو بچانے کے لئے سرحد کا صوبہ دینے میں کیا حرج ہوگا؟… سرحد تو سرحد ہے پاکستان تو نہیں… ادھر پنجابی کانگریس والے ماضی کے کافرانہ رشتے ڈھونڈ کر واہگہ بارڈر توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں… اگر دونوں پنجاب ایک ہو جائیں اور من موہن سنگھ جیسے ’’مخلص‘‘ کے ہاتھوں میں چلے جائیں تو یہ بھی ٹھیک ہے… کیونکہ پنجاب پنجاب ہے پاکستان تو نہیں… باقی رہ گیا کراچی اور سندھ تو ایم کیو ایم … اور جئے سندھ تحریک والوں کا قارورہ بھی بھارت سے ملتا ہے… اگر وہ لوگ الگ ’’جناح پور‘‘ بنالیں تو کیا حرج ہے؟… کراچی پاکستان تو نہیں ہے… سبحان  اللہ … ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کیا خوب نعرہ ہے… ممکن ہے اٹک شہر میں کپڑے اتار کر ناچنے والا جوان بھی یہی نعرہ لگا رہا ہو… کیونکہ اس نعرے نے مسلمانوں کے ملک پاکستان کو بے آبرو اور بے لباس کر دیا ہے…

کٹے ہوئے سر

عراق اور افغانستان ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ… جہادی تحریکوں کو ختم کرنا آسان کام نہیں ہے… بے وفا حکومتیں جب مجاہدین کا تعاون چھوڑ دیتی ہیں تو… زمین کے اونچے پہاڑ اور گھنے جنگلات مجاہدین کے لئے اپنا سینہ کھول دیتے ہیں… شہداء کا خون زندہ رہتا ہے… اور اپنے مشن کی تکمیل کے لئے پکارتا ہے… ہم نے پانچ سال پہلے افغانستان کے آئندہ حالات پر جب مضمون لکھا تھا … تو کئی لوگوں نے کہا کہ یہ ہمیں دھمکی دی جارہی ہے… ہم حالات سنبھالنا جانتے ہیں… میں نے عرض کیا تھا کہ… دھمکی نہیں قرآن پاک کے آئینے سے سمجھا ہوا ایک تجزیہ ہے… اور آپ حالات نہیں سنبھال سکیں گے… چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا… آج حکومت خود مذاکرات اور جرگوں کی بات کر رہی ہے… جبکہ اُس وقت صرف گولی اور ہتھکڑی کی بات کی جاتی تھی… اب کشمیر کے بارے میں جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے وہ بھی مستقبل میں اچھے حالات کی خبر نہیں دے رہا… آئندہ کل کیا ہوگا یہ  اللہ  تعالیٰ ہی جانتا ہے… مگر سچے مجاہد کبھی ہتھیار نہیں ڈالا کرتے… وہ  اللہ  تعالیٰ کے سامنے ایسے ’’تسلیم‘‘ ہو چکے ہیں کہ اب کسی اور کے سامنے تسلیم (سرنڈر) ہونے کا تصور بھی نہیں کرتے…  اللہ  تعالیٰ انہیں استقامت عطاء فرمائے… ابھی پانی ان کی گردن تک پہنچا ہے… مگر جب پانی سر سے اونچا ہونے لگے گا تو بہت سے سر… اپنے جسموں سے الگ ہو کر پانی کے اوپر آجائیں گے… اور ان کٹے ہوئے سروں سے بہنے والا خون پانی کو سرخ کر دے گا…

مایوسی گناہ ہے

جن کے بچے جہاد کشمیر میں شہید ہوئے ہیں وہ مایوس نہ ہوں… ایمان کے بعد شہادت سب سے بڑی نعمت ہے… اور شہادت کی قبولیت کے لئے فوری نتیجہ شرط نہیں ہے… ماضی کی کئی مبارک تحریکیں ظاہری طور پر کوئی فوری نتیجہ نہ دے سکیں… شہداء بالاکوٹ بھی تو بے کسی کے ساتھ شہید کردئیے گئے… مگر حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا خون رائیگاں تو نہیں گیا… یہ خون آج بھی مہکتا ہے تو کئی دلوں میں ایمان وجہاد کا نور چمک اٹھتا ہے… اس لیے شہداء کے ورثاء وزارت خارجہ کے ایک زنانہ بیان کو دل کا بوجھ نہ بنائیں… وہ شکر کریں شکوہ نہیں… اور ’’لطف اللطیف‘‘ کتاب میں مذکور… بارہ ہزار بار ’’بسم  اللہ  الرحمن الرحیم‘‘ والا عمل کرکے تحریک کشمیر کی کامیابی کے لئے دعاء کریں… اسی طرح جہاد کشمیر کے مجاہدین، معاونین اور ہمدرد بھی مایوس نہ ہوں… اس وقت عالم کفر کا مشترکہ پلان یہ ہے کہ… کسی طرح سے مجاہدین میں مایوسی پھیلائی جائے… آپ نے سنا ہوگا … عراق اور افغانستان میں مار کھانے والے اتحادی ممالک… اپنی فوجیں واپس بلانے کے لئے دور دور کی تاریخوں کا اعلان کر رہے ہیں… کوئی ۲۰۰۹ء بتا رہا ہے تو کوئی ۲۰۱۲ء … تاکہ مسلمان مایوس ہو کر پسپا ہوجائیں… کہ اتنی لمبی جنگ ہم کیسے لڑیں گے… یہ بیانات ’’پالیسی‘‘ نہیں بلکہ جنگی چال ہوتے ہیں… چند دن پہلے امریکی جنرل جان ابی زید نے تیسری عالمی جنگ کی دھمکی دے کر… چوراہے پر کھڑے کالم نویس حسن نثارکے طوطے اڑا دئیے… اس دن اتفاقاً بدقسمتی سے میں نے ’’چوراہا‘‘ کالم پڑھ لیا… قرآن پاک نے سمجھایا ہے … جو شخص مسلمانوں میں گھس کر انہیں اپنے کافر یاروں سے ڈراتا ہے وہ شیطان ہے… ارشاد باری تعالیٰ ہے:

انما ذلکم الشیطان یخوف اولیائہ فلا تخافوہم وخافون ان کنتم مؤمنین (آل عمران۱۷۵)

یقین کریں اس دن وہ کالم پڑھ کر مجھے یہی آیت یاد آئی… حسن نثار نے مسلمانوں کو اپنے اس کالم میں اتنا ڈرایا… اتنا ڈرایا کہ یقینا کئی کمزور دل مسلمانوں کے دل بیٹھ گئے ہوں گے… یہ کالم کیا ہے بزدلی کی چھوڑی ہوئی مکروہ ہوا ہے… اس میں مجاہدین کا تذکرہ بدتمیزی کے ساتھ کیا گیا ہے… اور مسلمانوں کو اکسایاگیا ہے کہ وہ ان مجاہدین سے تعلق چھوڑ دیں… ورنہ… امریکہ یہ بم مار دے گا… وہ بم مار دے گا… اور فلاں ٹیکنالوجی استعمال کرے گا… اور ہم میں سے کوئی نہیں بچے گا… اور ابھی تک امریکہ نے اصل بم تو مارے ہی نہیں ہیں… میرا دل چاہا کہ میں اس خوفزدہ شخص سے پوچھوں… امریکہ نے اب تک تمہارے پسندیدہ بم کیوں نہیں مارے؟… کیا تم نے اسے روک رکھا ہے؟… اگر کل وہ مار بھی دے گا تو ہر شخص نے اپنے وقت پر ہی مرنا ہے… لوگ بغیر بموں کے بھی تو مرر ہے ہیں… تو کیا بموں کی موت سے بچنے کے لئے کافروں کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟… مجھے حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر… جو موت کے قرآنی فلسفے کو نہیں سمجھتے… ارے زندگی چھوڑنا کسی کے لئے مشکل تھا تو وہ حضرات صحابہ کرامؓ تھے… کیونکہ ان کی زندگی جنت کی طرح حسین تھی… انہیں آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی زیارت کے جام نصیب تھے… وہ صبح شام آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کی حسین صحبت میں جنت کے مزے لوٹتے تھے… ان کی موت کا مطلب تھا حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم سے جدائی… مگر شہادت پانے کی خاطر وہ اتنی حسین زندگی کو چھوڑنے کے لئے بے قرار رہتے تھے… جبکہ… ہماری زندگیوں میں رکھا ہی کیا ہے؟… ہر طرف ظلم، پریشانیاں، بیماریاں… اور دھوکے بازی… صحابہ کرامؓ کے لئے دنیا زیادہ حسین تھی کیونکہ آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم یہاں موجود تھے… جبکہ ہمارے لیے آخرت زیادہ حسین ہے کیونکہ… ہماری سب سے محبوب ہستیاں تو وہاں ہیں… اور سب سے بڑھ کر  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات… مگر پھر بھی صحابہ کرامؓ شہادت مانگتے تھے… اور ہم دنیا کی زندگی کی خاطر ہر جرم کرتے ہیں… جب مدینہ منورہ میں کچھ منافقین نے حضرات صحابہ کرام  ؓ کو ڈرایاکہ… جہاد میں نہ نکلو ورنہ زمانے کے طاقتور کافر تمہیں مار دیں گے… تب قرآن پاک نے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم سے فرمایا… ان سے کہہ دیجئے کہ تم تو جہاد میں نہیں نکل رہے… تم اپنے آپ کو موت سے بچالو…

قل فادرء وا عن انفسکم الموت ان کنتم صادقین۔ (اٰل عمران ۱۶۸)

میں بھی ایٹمی حملے سے ڈرانے والوں سے یہی عرض کرتا ہوں کہ… آپ ساری زندگی بش اور بلیئر کی پوجا کریں… بے شک آپ جہاد میں نہ نکلیں… بے شک آپ مجاہدین کی حمایت بھی نہ کریں… بے شک آپ اپنے امن کی خاطر ہر چڑھتے سورج کو سجدہ کریں… مگر پھر بھی موت آپ کو آدبوچے گی… جب صورتحال یہ ہے تو پھر موت سے بچنے کے لئے اپنے ایمان اور اپنی آخرت کو کیوں برباد کیا جائے… اور کیوں نہ شہادت جیسی کامیابی کو اپنی تمنابنایاجائے…

خلاصہ اس گزارش کا یہ ہے کہ اس وقت جو بیانات آرہے ہیں وہ مسلمانوں میں مایوسی پھیلانے کے لئے… جان بوجھ کر دئیے جارہے ہیں… اس لیے اپنے حوصلے کو بچائیں اور ہمت سے کام لیں… تمام گناہوں کو چھوڑ کر  اللہ  تعالیٰ کی طرف رجوع کریں… اور اس طرح کے بیانات سن کر مایوس نہ ہوں… ہر اچھا کام  اللہ  تعالیٰ کی مدد سے پورا ہوتا ہے نہ کہ… مخلوق کے تعاون سے…

٭٭٭


قصہ ایک قافلے کا

 

 اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں کو شاندار ماضی عطاء فرمایا ہے… آج ماضی قریب کی چند ایمان افروز جھلکیاں یاد کرتے ہیں…

نہ رکنے والا قافلہ

مکہ کے مشرکوں نے کچھ مسلمانوں کو قید کر رکھا تھا… وہ انہیں مارتے تھے اور ستاتے تھے… مار تو مکہ کے مسلمانوں کو پڑ رہی تھی جبکہ اُس کا درد… مدینہ منورہ میں آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کو پہنچ رہا تھا… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اس درد سے تڑپتے تھے… وہ آسمان کی طرف دعاء کی جھولی پھیلاتے تھے… اور زمین پر ان قیدیوں کو آزاد کرانے کی تدبیریں بناتے تھے… بالآخر دعائیں قبول ہوئیں… تدبیریں کارگر ثابت ہوئیں… اورتمام قیدی چھوٹ گئے… سوا چودہ سو سال پہلے کا یہ منظر… اسلام اور مسلمانوں کا مزاج بن گیا… مسلمان اپنے قیدی بھائیوں کے بارے میں بہت حساس ہوگئے… اور ان کی اس ’’حساسیت‘‘ نے تاریخ اسلام کے سینے کو فتوحات سے بھر دیا… آج سے ٹھیک سات سال پہلے بالکل انہیں دنوں میں قندھار ائیرپورٹ پر… انڈیا کا ایک طیارہ مجاہدین کے قبضے میں تھا… اور مطالبہ صرف ایک تھا کہ ہمارے مسلمان قیدی بھائیوں کو رہا کرو… چودہ صدیاں پہلے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم نے مسلمان قیدی چھڑانے کی جو مہم جاری فرمائی تھی… وہ مہم ۱۹۹۹ء میں بھی جاری نظر آرہی تھی… پانچ مجاہدین جن کو دنیا ’’ہائی جیکر‘‘ کہتی تھی… آسمان کی طرف جھولی پھیلا کر بلک رہے تھے… یا  اللہ  ہمارے بھائیوں کو رہا فرمادے… اور یہی پانچ مجاہد دشمنوں کی طرف اسلحہ لہرا کر گرج رہے تھے… او ظالمو! ہمارے بھائیوں کو رہا کردو… حال کی کڑیاں ماضی کی سنہری زنجیر کے ساتھ مل رہی تھیں… قیدی چھڑانے والوں میں… آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم… آپ کے صحابہ کرام خصوصاً حضرت ابو جندلؓ، حضرت ابو بصیرؓ… پھر فاروق اعظم ؓ… پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ… پھر محمد بن قاسمؒ… معتصم ب اللہ ؒ… بے شک جس قافلے کے سالار خود آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم ہوں… وہ قافلہ چلتا ہی رہتا ہے… کبھی نہیں رُکتا، کبھی نہیں رُکتا…

پانچ بمقابلہ پچیس لاکھ

کشمیر کی جہادی تحریک کے حوالے سے انڈیا نے بہت سے مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے… ان قیدیوں کو خوب مارا جاتا ہے… اور بے حد ستایا جاتا ہے… ان قیدیوں کی آہ وپکار جب آزاد مسلمانوں تک پہنچتی ہے تو وہ روتے ہیں، تڑپتے ہیں… اور بلکتے ہیں… آج سے سات سال پہلے چند نوجوانوں نے ارادہ کرلیا کہ ہم… اپنے قیدی بھائیوں کو چھڑائیں گے… یہ چند نوجوان آپس میں مل بیٹھے… انہیں دنوں انڈیا میں قید ایک مسلمان نے قیدیوں کے حالات پر ایک مضمون لکھ کر بھجوایا تھا… یہ چند نوجوان جن کا  اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہیں تھا… اپنی مجلسوں میں اس مضمون کو پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے تھے… ایک بار یہی مضمون پڑھتے ہوئے غم کی وجہ سے ان کی چیخیں نکل گئیں… اور ان کے ذمہ دار پر بیہوشی طاری ہوگئی… جموں کے عقوبت خانوں میں داڑھیوں پر پیشاب کیا جارہا ہے… ہائے ربا ہم زندہ ہیں… آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی مسلمان قیدی کو کافروں سے چھڑائے گا اس نے گویا کہ مجھے قید سے رہا کروایا (او کما قال) … مضمون کی ایک ایک سطر بجلی بن کر ان کے خون اور آنسوؤں میں مچلتی رہی… تب انہوں نے ایک حتمی فیصلہ کرلیا… جی ہاں مرنے کا فیصلہ… ہم جان دے دیں گے مگر یہ کام کرکے رہیں گے… مسلمان جب مرنے کا فیصلہ کرلے تو وہ ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے… ان سب نے موت کی بیعت کے لئے اپنا ہاتھ اپنے ذمہ دار کے ہاتھ پر رکھ دیا… بس پھر کیا تھا… حالات کی برف پگھلنے لگی… یہ سب خالی ہاتھ تھے…  اللہ  پاک نے اسباب عطاء فرمادئیے… ان کے سامنے اندھیرا تھا…  اللہ  پاک نے روشنی کا نور عطاء فرمادیا… آسمان نے زمین کو جھانک کر دیکھا… محمد بن قاسم کا کردار محض ماضی کا افسانہ بننے سے محفوظ رہا… آج کی مائیں اپنے بچوں کو جب پرانے قصے سناتی ہیں تو وہ پوچھتے ہیں… امی جان اب ایسے مسلمان کیوں پیدا نہیں ہوتے… کیا معاذ  ؓ اور معوذ  ؓ صرف ماضی کا کردار تھے؟… ایک بار چند بہت چھوٹے بچوں نے مجھ سے کہانی سنانے کی فرمائش کی… میں نے تھوڑا سا سوچا اور پھر ان معصوم بچوں کو سات سال پہلے انڈین جہاز کے اغواء کا قصہ سنانے لگا… معصوم بچے کھانا چھوڑ کر پورے انہماک سے سننے لگے… ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں… تب میں نے  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کیا اے مالک! آپ کا عظیم احسان کہ… آج بھی امت مسلمہ کے پاس کہنے اور سننے کے لئے بہت کچھ موجود ہے… چند نوجوان انڈیا سے ٹکر لینے کا ارادہ کر چکے تھے… وہ انڈیا جس کے سیکورٹی دستوں کی تعداد پچیس لاکھ کے لگ بھگ ہے… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کا لشکر اور اس کے سپاہی بھی عجیب ہیں… پانچ افراد پچیس لاکھ سے ٹکرانے جا رہے ہیں… اور کہتے ہیں کہ ہم… ان کی قید سے اپنے مسلمان بھائی چھڑا کر لائیں گے… اگر نہ چھڑا سکے تو جان ہی دے آئیں گے… ایک ایٹمی طاقت، بری، بحری، فضائی فوج کے لاکھوں سپاہی… لاکھوں نیم فوجی دستے… دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت… اور دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ملک… وہ چند افراد تھے… ان چند میں سے پانچ کا انتخاب ہوا… فتح یا شہادت…  اللہ  اکبر… سوا چودہ سو سال بعد بھی ایک قافلہ چل پڑا… انہیں راہوں پر… جی ہاں پرانی راہوں پر…

سلام ہو امت مسلمہ تیری عظمت کو… اور سلام ہو ان کو جو اپنی جانوں پرکھیل کر امت مسلمہ کی لاج رکھتے ہیں…

ایک جھگڑا اور قسمت کا قرعہ

اپنے ماں باپ، بیوی بچوں… الغرض ہر چیز کو چھوڑ کر یہ پانچ مسلمان نیپال جا پہنچے… انہوں نے سارا کام خود ہی کیا… اور پھر جہاز پر سوار ہونے کا دن مقرر ہوگیا… وہ جہاز پر اسلحہ لے جانا چاہتے تھے… طے یہ پایا کہ ایک فرد سارا اسلحہ لے جائے گا… اگر وہ بحفاظت گزر گیا تو باقی چار کو اطلاع کرے گا تب وہ بھی آجائیں گے… اور اگر وہ پکڑا گیا تو باقی بچ جائیں گے… اب ہر ایک نے خود کو قربانی کے لئے پیش کردیا… آج کے دانشور کو  اللہ  پاک کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی سمجھ نہیں آرہی… مگر عشق کے دیوانے اپنی جان کی قربانی کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں… ان پانچ میں سے ہر ایک زور لگا رہا تھا… اور اپنے حق میں دلائل دے رہا تھا… پھر طے پایا کہ ’’قرعہ اندازی‘‘ کرلیتے ہیں… قرعہ اندازی ہوئی اور ان کا نام نکل آیا جو ان پانچ کے ’’امیر‘‘ تھے… اب یہ قافلہ پھر رو رہا ہے… سب اپنے امیر کی منتیں کر رہے ہیں کہ آپ نہیں… مگر وہ ڈٹا ہوا ہے کہ اب تو میرا نام نکل آیا ہے… عاشقوں کا یہ قافلہ دراصل ایمانی آنسوؤں کا قافلہ تھا… ان سب کی عمریں غفلت کے قہقہے لگانے کی تھیں… مگر وہ ہر قدم پر رو رہے تھے… صرف ایک رب کی خاطر… صرف اپنے مقصد کی خاطر… قرعہ کا فیصلہ درست نکلا… اسلحہ حفاظت سے جہاز میں پہنچ گیا… اور باقی چار بھی جہاز پر سوار ہوگئے… دنیا کرسمس کی مستی میں تھی… زمانے کے ظالم اپنی طاقت کے غرور کے ساتھ… اکیسویں صدی میں داخلے کا پروگرام بنا رہے تھے… اور ایک جہاز نیپال کے ائیرپورٹ سے اڑ کر… کہیں جارہا تھا… دور بہت دور

پانچ ایئرپورٹ

پائلٹ نے چائے منگوائی تھی… ایئرہوسٹس نے چائے پیش کرنے کے لئے کاک پٹ کا دروازہ کھولا… مگر چائے سے پہلے ایک نقاب پوش مجاہد پائلٹ کے سر پر جا پہنچا… شیروں جیسی ایک گرج… اور ہاتھ میں گرینیڈ… پائلٹ پہلے ہی جھٹکے میں فرمانبردار بن گیا… جہاز کے مسافروں نے ایک آواز سنی… ایک دراز قد نوجوان… اعلان کر رہا تھا… خواتین وحضرات یہ جہاز ہائی جیک کرلیا گیا ہے… آپ آرام سے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں… کنٹرول ٹاور سے ہوتی ہوئی یہ خبر انڈیا کے ایوانوں سے ٹکرائی… ہر طرف ایک شور ایک افراتفری… جہاز کھٹمنڈو سے اڑا تھا… پائلٹ نے چالاکی کی اور تیل ختم ہونے کا بہانہ بنا کر… امرتسر ائیرپورٹ پر اس نے جہاز کو اتار لیا… بس پھر کیا تھا… جہاز کے ہر طرف کالی وردیوں والے بلیک کیٹ کمانڈوز… خاکی وردی والے پولیس دستے… اور سبز وردی والے فوجی سپاہی…  اللہ  تعالیٰ کے پانچ بندے… ہر طرف سے گھیر لیے گئے… مگر انہیں کیا ڈر… فتح نہیں تو شہادت سہی… گھبراتا اور ڈرتا وہ ہے جس کا زندہ رہنے کا ارادہ ہو… ادھر پائلٹ اپنی چالاکی پر مسرور… ادھر فوجیوں کے دستے اور گاڑیاں جہاز کی طرف بڑھتے ہوئے…  اللہ  اکبرکبیرا… پائلٹ کو انتظار اس گولی کا جو جہاز کا ٹائر اڑا دے… اور مجاہدین کو انتظار اس آسمانی نصرت کا جو جہاز کو دوبارہ اڑا دے… پائلٹ کو انتظار اس گاڑی کا جو رن وے کا راستہ روک دے… اور مجاہدین کو انتظار اس ’’نفحہ ربانیہ‘‘ کا جو ان کے لئے فتح کا راستہ کھول دے… مجاہدین نے جہاز کو رکنے نہیں دیا… وہ اسے مسلسل گھماتے رہے اور پائلٹ کو گرج گرج کر دھمکاتے رہے… جب ہر طرف ہزاروں مسلح فوجی پھیل گئے تو پھر… مجاہدین نے مرنے کا عزم کرلیا… انہوں نے پائلٹ کو گرینیڈ پھاڑنے کی آخری دھمکی دی…اور گنتی شروع کردی… جیسے ہی الٹی گنتی ایک تک پہنچے گی… تمام گرینیڈ پھٹ جائیں گے… گنتی کا ہر عدد پائلٹ پر کوڑے کی طرح برس رہا تھا… وہ سمجھ چکا تھا کہ دھمکی کھوکھلی نہیں ہے … ابھی گنتی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے جہاز اڑا دیا… پانچ مسلمان پچیس لاکھ فورسز کو شکست دے کر لاہور ایئرپورٹ پر اترے… لاہور ائیرپورٹ کے کنٹرول ٹاور سے دھمکی دی گئی کہ… ہم میزائل ماردیں گے… جواب آیا خوشی سے ماردو… لاہور سے تیل لے کر… جہاز دبئی جا اترا… یہاں زخمیوں اور کمزوروں کو رہا کردیا گیا… پائلٹ نے جان بوجھ کر جہاز بہت زور سے زمین پر اتارا تاکہ وہ خراب ہوجائے… مگر جہاز تو  اللہ  تعالیٰ کی حفاظت میں تھا… پائلٹ نے ہاتھ جوڑ کر مجاہدین سے کہا آپ لوگ انسان نہیں… کوئی بہت اونچی مخلوق ہیں… کیونکہ آپ پر غیبی مدد آتے میں خود دیکھ رہا ہوں… دبئی سے جہاز کابل پہنچا… ایئرپورٹ حکام نے اسے اترنے نہیں دیا اور رن وے کی لائٹیں بند کردیں… تب جہاز نے قندھار کا رخ کیا… اور اس پانچویں ائیرپورٹ نے اپنا سینہ کھول دیا…

ہر طرف سے امداد کے ٹرک روانہ

پانچ مجاہدین اکیلے تھے… ان کے مقابلے میں پوری دنیا کا کفر تھا… مگر اچانک صورتحال بدل گئی… اور ان پانچ مجاہدین کو ہر طرف سے امداد کے ٹرک پہنچنا شروع ہوگئے… دراصل ہوا یہ کہ… پہلے پہل تو کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے… خبروں میں بھی قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں… مگر جب مجاہدین نے پہلی بار انڈیا سے رابطہ کیا… اور مسلمان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو ہر کسی کو صورتحال معلوم ہوگئی… بس پھر کیا تھا… یار جلدی سے عمرے کا احرام باندھو… حرم شریف چل کر دعا کرتے ہیں کہ  اللہ  پاک ان مجاہدین کی مدد فرمائے… بھائی وضو کرو جلدی مسجد نبوی شریف چلتے ہیں… چند مجاہدین نے طیارہ پکڑا ہے  اللہ  پاک ان کی نصرت فرمائے… نمازوں کے بعد مساجد میں اعلان… امام صاحب دعاء فرمائیں  اللہ  تعالیٰ ان سرفروشوں کو کامیاب کرے… بوڑھی مائیں… ربا ہمارے ان بچوں کو سرفراز فرما… میں ہزار رکعت نفل پڑھوں گی… ربا میں ایک مہینے کے روزے رکھوں گی… یا  اللہ  میں ایک سو رکعت نوافل ادا کروں گی… جوان بہنیں… یا ارحم الراحمین ہمارے بھائیوں کو فتح دے… میں سو روزے رکھوں گی… میں شرعی پردہ شروع کردوں گی… میں صدقہ کروں گی… میں قرآن پاک کے اتنے ختم کروں گی… ہر طرف دعائیں… ہر طرف مچلتے آنسو… داڑھی رکھنے کی نیتیں… ادھر رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوگیا… ہزاروں لاکھوں مسلمان اعتکاف میں جا بیٹھے… اور پھر سجدوں کے آنسوؤں سے مصلے گیلے ہونے لگے… معتکف حضرات ہر گھنٹے بعد خبریں معلوم کر وا رہے تھے… حرم شریف میں طواف اور عمرے جاری تھے… تراویح کے بعد اکثر لوگوں کی زبانوں پر ایک ہی موضوع تھا…

الغرض… پانچ افراد پہلے تنہا تھے مگر اب ان کے دامن میں بہت کچھ جمع ہوچکا تھا… دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ٹرک اور کنٹینر ہر طرف سے روانہ تھے… اور ادھر وہ قیدی جن کی رہائی کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا تھا… خوشی اور رنج کی کیفیت میں غوطے کھا رہے تھے… اس کے بعد کیا ہوا… ابھی اس واقعہ کی کئی جھلکیاں باقی ہیں… اگر زندگی رہی اور توفیق ملی تو انشاء  اللہ  پھر کبھی ان کا تذکرہ ہوگا… دسمبر کے آخر میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے تکلیف دہ بیانات کی بھرمار ہے… اخبارات ہاتھ میں اٹھاتے ہی دل رونے لگتا ہے… کفر اور سیکولرازم کی وکالت میں زبانیں قینچیوں کی طرح چل رہی ہیں… اندھیرے کی اس گھٹن کو دور کرنے کے لئے دسمبر ہی کا ایک واقعہ عرض کردیا ہے…  اللہ  تعالیٰ قبول فرمائے… ہمارے حضرت قاری محمد عرفان صاحب نور  اللہ  مرقدہ فرمایا کرتے تھے… جب مجاہدین پر کوئی مشکل آئے تو وہ اس واقعہ کو سامنے رکھ کر یوں دعاء کیا کریں… یا  اللہ  جس طرح تو نے جہاز والے واقعہ میں مجاہدین کی نصرت فرمائی تھی… اسی طرح اب بھی ہماری نصرت فرما… آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭


ان کا مطلوب…ہمارامحبوب

 

 اللہ  تعالیٰ ان کو ’’شہداء‘‘ کا بلند مقام نصیب فرمائے… آہ ! ملا اختر محمد عثمانی بھی شہید ہوگئے…

ان اللہ  وانا الیہ راجعون

اللّٰہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ…

بے شک یہ دنیا فانی ہے… کیسے کیسے محبوب لوگ جدا ہوتے جارہے ہیں…    ؎

اے خدا باقی ہے تو، اپنی محبت دے مجھے

دیکھ لی فانی ہے دنیا اس سے نفرت دے مجھے

تیرے در کا ہو رہوں اب ایسی قسمت دے مجھے

چھوڑ دوں دنیا کو بالکل ایسی ہمت دے مجھے

دیکھ لی بس دیکھ لی یہ سخت بے بنیاد ہے

ملا عثمانی کون تھے؟… ایک مؤمن، ایک سچے مسلمان… مہمان نواز اور بہادر جوان… خوبصورت، خوب سیرت، سادہ مگر باوقار انسان… تحریک اسلامی طالبان کے مرکزی رہنما… امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد زید قدرہٗ کے وفادار ساتھی، قریبی معتمد اور بے تکلف دوست… قندھار کی مرکزی فوجی چھاؤنی کے سابق سربراہ… مزار شریف کے سابق کور کمانڈر… طالبان کی موجودہ مرکزی شوریٰ کے رکن… طالبان تحریک کی طرف سے قبائل کے ذمہ دار… ایک مخلص، ذہین، معاملہ فہم اورنرم مزاج عالم دین… امریکہ اور اس کے حواریوں کو مطلوب… مسلمانوں کے بے حد محبوب… اپنے نام کی طرح خوش مزاج… مضبوط بھاری بدن… ابھرے ہوئے کندھے… ذہانت اور حیاء سے مخمور موٹی موٹی نشیلی آنکھیں… ملاحت سے بھرپور گول چہرہ… غصے پر مسکراہٹ غالب… امریکہ اور اس کے اتحادی خوش ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ستون گر گیا… ایک مینارہ ٹوٹ گیا… ایک دلکش گنبد مسمار ہوگیا… جبکہ اہل ایمان آزمائش کی اس گھڑی میں…  اللہ  تعالیٰ کو یاد کر رہے ہیں…  اللہ  اکبر کبیرا…   ؎

ہے یہ اے دل امتحان کا وقت رہ ثابت قدم

صبر کر حق کی مشیت پر نہ ہر گز مار دم

سہہ خوشی سے جو بھی پیش آئے تجھے رنج والم

یہ نہیں رنج و الم اسکو سمجھ فضل وکرم

شکر کر یہ خار غم بھی نشترِ فصّاد ہے

………

عیش دنیا ہیچ ہے دنیائے فانی ہیچ ہے

ہیچ ہے وہ چیز جو ہو آنی جانی ہیچ ہے

ذکر فانی بھی عبث ہے یہ کہانی ہیچ ہے

جس کا ہو انجام غم وہ شادمانی ہیچ ہے

عیش میں ہے بس وہی، دنیا سے جو آزاد ہے

 ملا اختر محمد عثمانی  ؒ… تحریک اسلامی طالبان کے بانیوں میں سے تھے… وہ تواضع کا پیکر تھے… مگر  اللہ تعالیٰ نے انہیں رعب بھی خوب عطاء فرمایا تھا… قندھار طالبان حکومت کا دار الخلافہ تھا… اور ملا عثمانی اس قندھار کے نظامی کمانڈر تھے… امیرالمؤمنین کا طریقہ تھا کہ اپنے ذمہ داروں کے عہدے اور منصب بدلتے رہتے تھے… انہوں نے ملا عثمانی کو مزار شریف بھیجا تو وہ اپنی چادر کندھے پر ڈال کر فوراً روانہ ہوگئے… مگر کچھ عرصہ بعد ان کو واپس بلوا لیا گیا… وہ اپنے امیر کی محبت، وفاداری اور دوستی میں اپنی مثال آپ تھے… امیر المؤمنین ان سے مزاح بھی کرتے تھے اور کبھی کبھار زور آزمائی بھی… کشمیری مجاہدین نے جب انڈیا کا طیارہ قندھار لا اتارا تو کابل کے طالبان حکام… سخت غیر ملکی دباؤ کا شکار ہوئے… تب امیر المؤمنین نے اپنے یار عثمانی کو بلا کر یہ معاملہ ان کے سپرد کردیا… ملا عثمانی نے فراست، سیاست اور تدبّر کا وہ منظر پیش کیا کہ… دنیا کے نام نہاد مہذب حلقے حیران رہ گئے… آٹھ دن بعد مسئلہ حل ہوگیا… اور ملا عثمانی کی عزت مند دستار میں کامیابی اور سعادت کا ایک نیا موتی جگمگانے لگا… اس وقت بہت سے دوستوں نے انہیں ’’میزبان صاحب‘‘ کا پیارا نام دے دیا… اب ’’میزبان صاحب‘‘ کا لفظ زبان پر آتا ہے تو دل ایک جھٹکے کے ساتھ … چند آنسو آنکھوں کی طرف دھکیل دیتا ہے… یقین نہیں آتا کہ ’’میزبان صاحب‘‘ بھی چلے گئے… خبر سننے کے بعد انتظار تھا کہ ابھی تردید آجائے گی… ابھی وہ خود بول پڑیں گے… مگر ایسی خبریں اکثر سچ ہی نکلا کرتی ہیں… جی ہاں یہ خبر اب یقینی ہوچکی ہے کہ… وہ ہنستا مسکراتا، خوبصورت انسان بھی شہیدوں کے جھرمٹ میں گم ہوچکاہے…

اللہم اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منہا

امریکہ اور نیٹو کے بم اسی لیے تو بنے تھے کہ اسلام سر نہ اٹھا سکے… مسلمان اپنے دین کو نافذ نہ کرسکیں… اقوام متحدہ بھی اسی لیے بنی تھی کہ مسلمان ’’خلافت‘‘ قائم نہ کرسکیں… نیٹو کا اتحاد بھی اسی لیے وجود میں آیا تھا کہ مسلمان ایک ’’امت‘‘ کے طور پر دوبارہ کھڑے نہ ہوسکیں… آپ باریکی سے جائزہ لیجئے… آپ کو اسلام دشمنی کا یہ جال اچھی طرح سے نظر آجائے گا… مگر  اللہ  تعالیٰ ’’غالب‘‘ ہے… اور امت مسلمہ بہت سخت جان ہے… دنیا بھر کے کافرانہ معاشی نظام اور ظالمانہ فوجی نظام کے درمیان… شہداء کا خون چمکا… اور افغانستان میں ’’امارت اسلامیہ‘‘ کا اعلان ہوگیا… اقوام متحدہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا… او آئی سی نے طالبان کو اپنی رکنیت نہیں دی… بیرونی امداد تو درکنار کوئی ملک قرضہ دینے… اور افغان سفارتخانہ استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہ تھا… مگر اس کے باوجود سات سال تک یہ حکومت چلتی رہی… حالانکہ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ… ایسی حکومت تو چند ماہ بھی نہیں چل سکتی… سات سال کے اس عرصے میں پوست کی کاشت پر پابندی لگادی گئی… جبکہ آج ساری دنیا مل کر بھی پوست کی کاشت کو نہیں روک پا رہی… طالبان کے زمانے میں لوگوں سے اسلحہ لے لیا گیا تھا… اور پورے ملک میں مثالی امن قائم ہوگیا تھا… جبکہ آج بدامنی ہی افغانستان کی اصل حکمران ہے… کفر اور ظلم کی تیز ہواؤں کے درمیان طالبان ایک شمع کی طرح… خود کو جلا کر روشنی پھیلا رہے تھے… تب دنیا بھر کے کفر نے ان پر حملہ کردیا… امارت اسلامیہ ختم ہوگئی… مگر طالبان باقی رہے… اور آج پھر افغانستان کے ایک قابل قدر حصے پر ان کی حکومت قائم ہے… وہ جہاد بھی کر رہے ہیں… اور عوام کی خدمت بھی… وہ دین پر عمل بھی کر رہے ہیں… اورغیر ملکی غاصبوں کا مقابلہ بھی… وہ زخمی بسمل کی طرح روز ایک نیازخم کھاتے ہیں مگر عجیب بات ہے کہ… ہر زخم کے ساتھ ہی ان میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے…   ؎

آج تو ہر وار پر اک تازہ دم بسمل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

طیارے اڑ رہے ہیں، ٹینک گرج رہے ہیں… طوفانوں جیسی بمباری علاقوں کے علاقے ملیامیٹ کر رہی ہے… ہیلی کاپٹر زہریلی گیس پھینک رہے ہیں… بکتر وزرہ بند فوجی اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں… انڈیا بھی مجاہدین کے خلاف ہتھیار بھیج رہا ہے… پاکستان والے بھی طالبان کو پکڑ رہے ہیں… بحری بیڑوں سے تاک تاک کر میزائل مارے جارہے ہیں… سیٹلائٹ سیارچے ایک ایک پتھر کی نگرانی کر رہے ہیں… مگر ان سب کے درمیان میں سے… ہر دن ایک ’’طالب‘‘ سجدے سے سر اٹھاتا ہے … دعاء کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے… اور پھر بارود سے بھری گاڑی میں بیٹھ کر نیٹو کے کسی فوجی دستے سے جا ٹکراتا ہے… ملا اختر محمد عثمانی کے نصیب بھی اچھے تھے… وہ ایک اسلامی حکومت کے کار آمد عہدیدار رہے… انہیں استقامت کا اجر بھی ملا… اور ہجرت اور جہاد کا بھی… اور پھر وہ ایک بھرپور ایمانی زندگی گزار کر… اپنے حقیقی محبوب اور دوست کی طرف روانہ ہوگئے… ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ… عَاشَ سَعیدًا ومَاتَ شَہیدًا… یعنی زندگی سعادت کی پائی… اور موت شہادت کی حاصل کی… گویا کہ مزے ہی مزے ہوگئے… ایسے لوگوں کی ’’روانگی‘‘ کا منظر خواجہ شیراز یوں بیان کرتے ہیں   ؎

بخت ار  مدد کند کشم رخت سوئے دوست

گیسوئے حور گرد فشاند ز مفرشم

یعنی اگر میرا نصیب مدد کرے اور میں دوست کی طرف روانہ ہوجاؤں تو حوروں کے بال میرے فرش کی جگہ کو جھاڑ دیں…

حافظ  ؒ فرماتے ہیں…   ؎

مژدہ وصل تو کو کز سر جاں بر خیزم

طائر قد سم واز دام جہاں بر خیزم

یعنی تیری ملاقات کی خوشخبری کہاں ہے؟ تا کہ اس کی خاطر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو لوں… میں عالم قدس کا پرندہ ہوں اور دنیا کے جال سے نکل جاؤں…

ملا عثمانی  ؒ بھی عالم قدس کا پرندہ تھا… ان کے ساتھ راتیں گزارنے والوں نے بتایا ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر… کسی کی یاد میں رویا کرتے تھے اور دن کو قرآن پاک ہاتھ میں لے کر… کسی کی باتوں کو دہرایا کرتے تھے… جی ہاں  اللہ  تعالیٰ کی یاد… اور  اللہ  تعالیٰ کی باتیں… یہی قرآن پاک تو ہے جس نے طالبان کو کھڑا رکھا ہوا ہے… ورنہ ظاہری حالات تو بالکل موافق نہیں ہیں… لوگ پوچھتے ہیں کہ… یہ لوگ امریکہ سے کب تک لڑیں گے؟… امریکہ بہت بڑی طاقت ہے… اگر امریکہ چلا بھی گیا تو اس کی بمباری تو باقی رہے گی… طالبان اگر جیت بھی گئے تو ان کو حکومت کون بنانے دے گا؟… اس حکومت کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا… دور سے میزائل مار کر طالبان حکمرانوں کو ختم کردیا جائے گا… چھوٹے ایٹم بم استعمال کرکے آدھے ملک کو جلا کر راکھ کردیا جائے گا… اسی طرح کے اور سوالات، ایسے ہی خدشات اور اژدھوں جیسے خوفناک وسوسے…

انہیں خدشات اور اندیشوں نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو جہاد سے دور کردیا ہے… ماضی میں جہاد کے حامی ایک دانشور کو امریکہ والوں نے اپنے ملک بلا کر اپنی طاقت دکھائی تو وہ… کانپتے ہوئے واپس آئے اور فرمانے لگے… ہم جس دریا میں رہتے ہیں امریکہ اس دریا کا مگرمچھ ہے… اس لیے اس سے لڑ کر ہم زندہ نہیں رہ سکتے… ماضی میں طالبان کے کئی حامی اب طالبان کو ’’بے وقوف‘‘ سمجھ رہے ہیں… ہمارے ملک کی طاقتور فوج کا ہر بڑا افسر بس ایک ہی بات کہتا ہے کہ… امریکہ سے لڑنا ناممکن ہے… اس لیے اس کی فرمانبرداری کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے… یہ تمام باتیں بہت مضبوط ہیں مگر … طالبان نے اپنی آنکھیں، اپنے کان اور اپنے دل قرآن پاک کے ساتھ جوڑ رکھے ہیں… اسی لیے وہ کٹ کٹ کر اٹھ رہے ہیں… اور اٹھ اٹھ کر کٹ رہے ہیں… وہ کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں… اور کچھ پا کر بھی بے آرام ہیں…    ؎

حاصل عشق یہی ہے کہ نہ ہو کچھ حاصل

اس کو حاصل ہی نہ سمجھو کہ جو حاصل ہوجائے

قرآن پاک ان کو نقشے دکھاتا ہے… نمرود، اس کا ملک ، فوج، لشکر بمقابلہ اکیلے حضرت ابراہیم علیہ السلام… نتیجہ نمرود ختم ابراہیم علیہ السلام کامیاب… فرعون اس کا ملک اور لشکر بمقابلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام… نتیجہ بالکل واضح… قوم عاد، قوم ثمود… حضرت نوح علیہ السلام کی عالمگیر قوم… اور پھر طوفان… اکیلے محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم… دوسری طرف پورے عالم کا کفر… قتل، گرفتاری اور ملک بدری کے منصوبے … بھونڈا تشدّد… عجیب جنگیں… نتیجہ بالکل واضح… ہم اگر قرآن پاک سے ہٹ کر دنیا کے حالات دیکھیں تو ہر طرف… امریکہ ہی امریکہ نظر آتا ہے… اور اگر قرآن پاک کی رہنمائی میں حالات دیکھیں تو ہر طرف  اللہ  ہی  اللہ  نظر آتا ہے… اور اب تو امریکہ کی بے بسی ظاہری طور پر بھی صاف دکھلائے دینے لگی ہے… ملا اختر محمد عثمانی شہیدؒ بھی قرآن پاک سے روشنی لیتے تھے… اور اپنی راتوں کو آباد رکھتے تھے… ایسے ہی لوگ عشق کے تقاضوں کو بھی سمجھتے ہیں… اور عشق کی وسعت کو بھی پہچانتے ہیں…   ؎

در عاشقی گریز نباشد ز سوز و ساز

استادہ ام چوں شمع مترساں ز آتشم

یعنی عاشقی میں سوز و ساز کے سوا کوئی چارہ نہیں، میں شمع کی طرح کھڑا ہوں مجھے آگ سے نہ ڈرا…

مجاہدین پر اعتراضات کرنے والے لوگ… اپنے پیٹ، معدے اور مفادات کے غلام ہیں… ان کے دل میں مسلمانوں کا درد نہیں ہے… اس لیے وہ کفر کی طاقت کا رونا رو کر… عشق کے تقاضوں سے غافل ہوچکے ہیں… جگر  ؒ فرماتے ہیں     ؎

وہ عشق کی وسعت کیا جانیں محدود ہے جن کی فکر و نظر

وہ درد کی عظمت کیا سمجھیں بے درد جو انساں ہوتے ہیں

یہ فیصلہ اپنے دل سے کر‘ ہونا ہے تجھے کس صف میں شریک

ہمدرد بھی انساں ملتے ہیں بے درد بھی انساں ہوتے ہیں

اس میں شک نہیں کہ اس وقت دنیا میں… مسلمانوں کے لئے کافی مشکلات ہیں… امریکہ اور اس کے حواریوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے… مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں… ایمان کا دروازہ کھلا ہے… اسلام کا راستہ کھلا ہے… اور شہادت کا باغ بھی مہک رہا ہے… ملا اختر محمد عثمانی  ؒ بھی تو کافروں کو مطلوب تھے مگر وہ… ٹھاٹھ کے ساتھ جیتے رہے اور جب وقت آیا تو شہادت کی چوٹی پر جا بیٹھے… اب کوئی ان کو نہیں پکڑ سکتا… دنیا والے تو ابھی چاند تک پہنچے ہیں… جبکہ شہید کا گھر اور مقام تو چاند کیاآسمانوں سے بھی بلند ہے … ہم ملا اختر محمد عثمانی  ؒ سے محبت رکھتے تھے… اور اب اس محبت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے… اور یہی محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ… ہم ان کے ایصال ثواب کے لئے تلاوت کر رہے ہیں… دعائیں کر رہے ہیں… ان کی یاد میں اشک اور جدائی کے آنسو بہارہے ہیں… سچے مسلمان تو دجال جیسے خوفناک فتنے میں بھی ثابت قدم رہیں گے… تو پھر ہم موجودہ چھوٹے دجالوں سے ڈر کر اپنی زبان کیوں بند کریں… ملا اختر محمد عثمانی شہیدؒ… اگر امریکہ کو مطلوب تھے تو ہوتے رہیں… ہمیں تو وہ محبوب تھے… بہت محبوب… امریکہ نے اپنے مطلوب مجرم پر بم برسائے… تو ہم اپنے محبوب مجاہد پر خراج تحسین کے پھول کیوں نہ نچھاور کریں… یا  اللہ … یاارحم الراحمین! ہمارا محبت بھرا سلام امت مسلمہ کے قابل رشک شہید… حضرت اقدس ملا اختر محمد عثمانی شہید تک پہنچادے…

السلام علینا وعلی عباد اللہ  الصالحین

آمین یا رب الشہداء والمجاہدین

٭٭٭


اعلانِ فتح ٹھیک نہیں

 

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا (الزلزال۴)

یعنی قیامت کے دن زمین اپنی خبریں بیان کردے گی… زمین اپنی کون سی خبریں بیان کرے گی؟ یہ بات حضرات صحابہ کرام سے حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم نے پوچھی…

اَتَدْرُوْنَ مَا اَخْبَارُہَا؟

کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ زمین کی خبریں کیا ہیں؟… حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا:

 اللہ  وَرَسُوْلُــہٗ اَعْلَمُ

 اللہ  تعالیٰ اس کے رسول صلی  اللہ  علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں… تب آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فَاِنَّ اَخْبَارَہَا اَنْ تَشْہَدَ عَلٰی کُلِّ عَبْدٍ اَوْ اَمَۃٍ بِمَا عَمِلَ عَلٰی ظَہْرِہَا اَنْ تَقُوْلَ عَمِلَ عَلَیَّ کَذَا وَکَذَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا۔ (مسنداحمد ، ترمذی)

’’زمین کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد اور عورت کے بارے میں گواہی دے گی کہ اس نے فلاں دن مجھ پر فلاں کام کیا تھا اور فلاں دن فلاں کام کیا تھا‘‘…

لاہور کی زمین کو میراتھن دوڑ کی تاریخ یاد رہے گی… اس میں شرکت کرنے والوں کے نام بھی یاد رہیں گے… اور اسے منعقد کراکے بش اور بلیئر کی نظروں میں ’’پاک صاف‘‘ بننے والے بھی یاد رہیں گے… مردوں عورتوں کی مخلوط میراتھن دوڑ سے پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے… ہاں  اللہ  پاک کی زمین کو یہ اور اس طرح کے دوسرے ظالمانہ بیانات بھی یاد رہیں گے… چند نیم برہنہ مرد اور عورتیں ایک شہر میں جمع ہوئیں… حکومت وقت نے عوام کے کروڑوں اربوں روپے ان کی حفاظت پر جھونک دئیے… ملک کی حفاظت پر مامور فوجی جوان بینڈ لے کر نغمے بجاتے رہے… صوبے بھر کی فورسز ان ننگے لوگوں کے لئے سردی میں ٹھٹھرتی رہیں… ملک کا صدر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر آیا… اس نے اس ننگے مظاہرے کو اپنی فتح قرار دیا… پھر لوگ دوڑنے لگے… آخر میں انعامات تقسیم ہوئے… اور حکومت کے بقول پوری دنیا میں پاکستان کی عزت بڑھ گئی… یعنی اس ملک کی عزت کپڑے اتارنے سے بڑھتی ہے… یا  اللہ  خیر فرما! اور اس ملک کو عمومی عذاب سے بچا…

مخلوط میراتھن کی مستی میں حکمرانوں نے بسنت منانے کا اعلان بھی کردیا ہے… یہ لوگ اب گناہوں کو سڑکوں پر لا رہے ہیں… یاد رکھیں کسی دن جہاد بھی سڑکوں پر آجائے گا… تب معلوم ہو گا کہ کون جیت رہا ہے… اور کون ہار رہا ہے…

ہمارے حکمران بھی عجیب ہیں … یہ لوگ کھاتے اس ملک کا ہیں… اور گیت غیروں کے گاتے ہیں… یہ لوگ حکومت اپنی عوام پر کرتے ہیں… اور خوشی غیروں کی چاہتے ہیں… میراتھن دوڑ کی تقریروں سے بھی بس یہی رال ٹپک رہی تھی کہ اب… دنیا کی نظروں میں پاکستان کا امیج بہتر ہوجائے گا … کیاپاکستان کسی بکاؤ عورت کا نام ہے… جو اپنے گاہکوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی شکل ٹھیک کرتی رہتی ہے… کاش تھوڑی سی شرم اور غیرت ہوتی تو ایسے الفاظ اپنے منہ سے نکالنے سے پہلے موت آجاتی…

برما جیسے ملک کو فکر نہیں ہے کہ دوسری دنیا میں ہمارا امیج بہتر ہو… نیپال کو اس کی پروا نہیں ہے کہ دنیا اس کے بارے میں کیا کہتی ہے… بھوٹان اور مالدیپ جیسے چھوٹے ملکوں کے حکمران بھی ایسی ذلت آمیز باتیں نہیں کرتے… مگر ہمارے حکمرانوں پر تو غیروں کو خوش کرنے کا دورہ پڑا ہوا ہے… ہائے ہمارے برے اعمال!… اور ہائے ان کی شامت!…

حدیث پاک میں آتا ہے کہ جو لوگ کسی گناہ کو روک نہ سکیں… لیکن زبان سے اس کو برا کہیں… اور دل میں برا سمجھیں تو وہ… اس گناہ سے بری الذمہ ہوتے ہیں… یا  اللہ  ہم زبان سے بھی ان مجرمانہ تماشوں کی مذمت کرتے ہیں… اور دل میں بھی ان سے نفرت رکھتے ہیں… یا  اللہ  ہمیں توفیق عطاء فرما کہ ہم … زندگی کے آخری سانس تک کلمۂ حق کہتے رہیں… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے…

سَیِّدُ الشُّہَدَآئِ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَ رَجُلٌ قَامَ اِلٰی اِمَامٍ جَآئِرٍ فَاَمَرَہٗ وَنَہَاہٗ فَقَتَلَہٗ (الترمذی والحاکم وقال صحیح الاسناد)

یعنی شہداء کے سردار حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی  اللہ  عنہ ہیں اور وہ شخص ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اس کے سامنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے لگا جس پر حکمران نے اسے قتل کردیا…

حضرت مفتی نظام ا لدّین شامزئی  ؒ اسی جرم میں شہید کیے گئے… مفتی محمد جمیل خان شہید  ؒ کو اسی جرم میں ذبح کیا گیا… مگر یہ جرم تو ہوتا رہے گا اس لیے کہ… مسلمانوں نے حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر جن باتوں کی بیعت کی ہے… ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے…

وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا (بخاری،مسلم)

یعنی ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر بھی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے…

حق کہنے کا یہ سلسلہ اگر رک جائے تو آسمان سے عمومی عذاب نازل ہوتا ہے… تب کوئی بھی نہیں بچتا… حدیث صحیح میں حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے…

اَنَّ الْقَوْمُ اِذَا رَاَوُا الْمُنْکَرَ فَلَمْ یُغَیِّرُوْہٗ عَمَّہُمُ  اللہ  بِعِقَابٍ۔

(نسائی،ابن حبان)

یعنی جب لوگ کسی منکر (گناہ) کو دیکھیں … اور اس کو نہ روکیں تو پھر  اللہ  تعالیٰ ان سب کو عمومی عذاب میں پکڑتا ہے … گناہوں سے یہ روکنا اپنی اپنی استطاعت کے مطابق تین طریقے سے ہوسکتا ہے… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان ہے…

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَغَیَّرَہٗ بِیَدِہٖ فَقَدْ بَرِیَٔ، وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یُّغَیِّرَہٗ بِیَدِہٖ فَغَیَّرَہٗ بِلِسَانِہٖ فَقَدْ بَرِیَٔ، وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یُّغَیِّرَہٗ بِلِسَانِہٖ فَغَیَّرَہٗ بِقَلْبِہٖ فَقَدْ بَرِیَٔ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔(نسائی)

یعنی جو شخص کسی گناہ کو دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روک دے تو وہ بری الذمہ ہوگیا… اور جو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو مگر زبان سے روکے تو وہ بھی بری ہوگیا… اور جو زبان سے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دل سے روکے تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ ایمان کا (آخری اور) کمزور ترین درجہ ہے…

حکومت اپنی طاقت اور دباؤ کے ذریعے… امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ روکنا چاہتی ہے… جماعتوں پر پابندی، اخبارات پر پابندی… علماء کرام کی گرفتاری… خطباء کی زبان بندی سب اسی سلسلے میں ہے… کچھ کمزور لوگ ڈر بھی گئے ہیں… مگر  اللہ  پاک کے مخلص بندوں کو ڈرنے کی کیا ضرورت؟… وہ مارے جائیں تو شہید… زندہ رہیں تو رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سچے، حق گو، مجاہد امتی… ان کو راحت ملے تو نعمت… اور تکلیف پہنچے تو مغفرت… اس دنیا میں دین کی خاطر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے… اور اس قربانی میں سعادت اور کامیابی ہے… جماعتوں کے نام قربان… خوبصورت نورانی پرچم قربان… بھرے بھرائے دفاتر قربان… خوب چلتے ہوئے رسائل اور اخبارات قربان… اپنا امن، چین اور سکون قربان… اور وقت آنے پر جان بھی قربان… یہ ساری قربانیاں سستی ہیں… مگر دین کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا…

میراتھن دوڑ پر اپنی فتح کا اعلان کرنے والے بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں… ابھی حالات اتنے گدلے نہیں ہوئے کہ وہ خوشیاں منانے میں حق بجانب ہوں… اگر چند ہزار افراد میراتھن دوڑ میں نیکر پہن کر آگئے تو کیا ہوا؟… اسی لاہور کی بغل میں ڈیڑھ مہینہ پہلے بیس لاکھ مسلمان ایک تبلیغی اجتماع میں جمع تھے… اور وہ سب انتہا پسندوں کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے… آپ کا دل خوش کرنے کیلئے عرض ہے کہ… تبلیغی اجتماع کے شرکاء نے تین دن میں جتنا پیشاب اور پاخانہ کیا… وہ بھی میراتھن دوڑ کے شرکاء سے زیادہ تھا… اس لیے ابھی فتح کی خوشی منانے میں جلدی نہ کریں… ملک کے دینی مدارس میں چوبیس لاکھ سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں… یہ سب پورا لباس پہنتے ہیں اور چہروں پر داڑھیاں رکھتے ہیں… آپ کو تکلیف تو پہنچتی ہوگی مگر  اللہ  تعالیٰ کی مرضی ہے صبر سے کام لیں… مدارس کے یہ بچے جب سڑکوں پر آجاتے ہیں تو آپ چلاّنے لگتے ہیں کہ… ان کو گمراہ کرکے لایا گیا ہے…

ابھی دو دن پہلے کی بات ہے… باجوڑ کے صدر مقام خار میں دسیوں ہزار افراد جمع تھے… وہ سب امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے… اور بی بی سی پر ہم نے خود سنا کہ وہ ایک اور پیارا نعرہ بھی لگا رہے تھے… سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد… یہ سب لوگ اپنے خرچ پر آئے تھے… ان کو چوہدری پرویز الٰہی نے ملکی خزانے کے زور پر گھروں سے نہیں نکالا تھا… ان کی حفاظت کے لئے سلامتی دستے بھی موجود نہیں تھے… پھر چند ہزار ننگے لوگ ان دسیوں ہزار داڑھی والوں کا مقابلہ کس طرح سے کرسکتے ہیں… ان سب باتوں کو چھوڑئیے… ایک طرف آپ کھڑے ہوجائیے… اور لوگوں کو اپنی بات سننے کے لئے بلائیے… اور دوسری طرف کوئی ایک غریب سا مولوی کھڑا ہوجاتا ہے… یقین جانیئے… آپ کے جلسے میں کوّے بولنے لگیں گے… جبکہ علماء میں ایسے بھی ہیں کہ… جہاں اپنا بوریہ اور چٹائی ڈال دیں وہاں لاکھوں مسلمان پروانہ وار جمع ہوجاتے ہیں… پھر فتح کی اتنی اونچی اونچی باتیں کرنا اچھا تو نہیں لگتا… ہم جانتے ہیں زمانہ فساد کی طرف جارہا ہے… اور قرب قیامت کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں… مگر اس دین کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اپنی امت کے لوگوں کو پہلے سے سمجھادیا کہ ایک وقت آئے گا… جب ہر طرف فتنے ہوں گے… اور ہر طرف فساد… مگر اس وقت بھی کچھ لوگ حق کے ساتھ چمٹے رہیں گے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے اپنے ان امتیوں کے فضائل سوا چودہ سو سال پہلے بیان فرمادیئے…  اللہ  تعالیٰ کا نور ہدایت حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے ذریعے امت تک پہنچ چکا ہے… اب جو لوگ بھی اس پاکیزہ نورانی سینے سے چمٹے رہیں گے وہ کبھی… گمراہ نہیں ہوں گے… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے زمانے کے فساد کے وقت دین کو زندہ کرنے والے حضرات کے لئے… سو شہیدوں کے اجر کی فضیلت سنائی ہے… اور ایک حدیث صحیح میں آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم کا فرمان ہے…

عِبَادَۃٌ فِیْ الْہَرَجِ کَہِجْرَۃٍ اِلَیَّ۔(مسلم)

’’فتنوں کے زمانے میں عبادت کرنا… (یعنی  اللہ  تعالیٰ کی فرمانبرداری اور غلامی کے کاموں میں لگے رہنا) ایسا ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا‘‘…

خود سوچئے جن لوگوں نے اپنا سینہ… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے سامنے… بھیک کے پیالے کی طرح پھیلایا ہوا ہے تاکہ … ہدایت، رحمت، برکت… اور کامیابی کا فیض نصیب ہوجائے … وہ جب ایسی احادیث سنتے ہیں کہ… اس زمانے میں دین پر استقامت اختیار کرنا ایسا ہے… جیسے کوئی شخص حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر جائے… تو اس کے لئے دین پر ثابت قدم رہنا آسان ہوجاتا ہے… ایسی احادیث مبارکہ سن کر… سچے مسلمان میراتھن دوڑ پر بھی تھوک دیتے ہیں… اور بسنت پر بھی… وہ ٹی وی چینلوں کی رنگینی میں بھی نہیں کھوتے… اور زمانے کے ظالموں سے امن اور زندگی کی بھیک بھی نہیں مانگتے… آپ نے خبروں میں بارہا سنا ہوگا کہ عراق وافغانستان میں متعین امریکی فوجی… اپنی حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں… ہم نے خود کشمیر میں انڈین فوجیوں کو اپنے ملک اور اپنی حکومت کو گالیاں دیتے سنا ہے… جبکہ دوسری طرف ستر سال کا ایک بوڑھا شخص… اپنے باوقار قدموں پر چل کر پھانسی کے تختے پر آتا ہے… وہ اپنی کڑک دار آواز میں پورا کلمہ شہادت پڑھتا ہے… وہ خود پر طعنے کسنے والوں کو کھرے کھرے جوابات دیتا ہے… خود سوچئے اس عمر کا آدمی تو شادی کی تقریب میں بھی … لنگڑا کر، کراہ کر یا سہارا لے کر جاتا ہے… مگر بوڑھا صدام… صدام حسین بن چکا تھا… اپنے ماضی سے تائب ایک مجاہد… ایک عجیب حوصلہ مند شخص… موت کی رسی آنکھوں کے سامنے جھول رہی ہو تو آواز پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے… آپ آنکھیں بند کرکے اپنی پھانسی کا منظر سوچیں… جسم پر پسینہ آجائے گا… مگر توبہ قبول کرنے والے رب نے صدام حسین پر رحم فرمایا… معلوم نہیں رب کائنات کو اس کا کونسا عمل پسندآگیا… ایک کہاوت ہے… دھوبی کا کتا بھونکتا گدھے پر ہے اور کاٹتا بکری کو ہے… اسی طرح ایران… امریکہ کے خلاف بہت بولتا ہے… مگر وہ کام ہمیشہ امریکہ ہی کے آتا ہے… افغانستان سے لے کر عراق تک امریکہ کے اصل مفادات کو ایران نے ہی پورا کیا ہے… ایران کا انقلاب… اپنے گمان میں پورے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے لئے تھا… ایران کی پہلی نظر نجف پر اور دوسری کعبہ شریف پر تھی… تب صدام نے اس فرقہ واریت کا راستہ روک کر… امت مسلمہ کو مزید ٹوٹنے سے بچایا تھا… اور زندگی کے آخری سالوں میں… صدام باقاعدہ ایک مجاہد تھا… اس کا آخری وقت میں پڑھا ہوا کلمہ شہادت… ابھی تک کانوں میں رس گھول رہا ہے… کسی زمانے میں جب صدام بعث پارٹی کا صدر تھا… حزب البعث العربی الاشتراکی… تب دل میں آتا تھا کہ… کاش یہ قوم پرست عرب رہنما سچا مسلمان بن جائے… لاشرقی ولا غربی…  اللہ  پاک نے رحم فرمایا… اور صدام کو جہاد کی بارش میں دھو کر صاف ستھرا کردیا… چنانچہ اس نے شہادت کے وقت  اللہ  تعالیٰ کا کلمہ پڑھا… جو عرب وعجم سب کا رب ہے… اور صدام نے آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی… جو قیامت تک سب انس وجن کے لئے نبی، رسول… اور کامیابی کی واحد ضمانت ہیں…

اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ  اللہ  وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

صدام حسین مر کر بھی جیت گیا… اور اس کو مارنے والے بچ کر بھی ہار گئے… اصل بات یہ عرض کی جارہی تھی کہ… دنیا میں اسلام اور مسلمان ابھی اس حالت تک نہیں پہنچے کہ… چند ہزار ادھ ننگے افراد کے سڑکوں پر آجانے سے… کوئی مغرب پرست لیڈر اپنی فتح کا اعلان کردے…

اے امت مسلمہ کے سعادت مند بھائیو اور بہنو! … اپنے سر اور چہرے  اللہ  وحدہ لاشریک لہ کی طرف متوجہ رکھو… اپنی گردن اسی کے سامنے جھکاؤ… روشن خیالی کے ان ہیبت ناک مناظر کو دیکھ کر حوصلہ نہ ہارو… لوگ تو گوانٹا نامو بے کے خوفناک عقوبت خانوں میں بھی حق کو نہیں بھولے… وہ اپنے دین اور نظریات پر قائم ہیں… اور اپنی محنتوں کا کچھ نہ کچھ صلہ اس دنیا میں بھی وصول کر رہے ہیں… بوسنیا کے ایک عالم جن کا تذکرہ ملا عبدالسلام ضعیف نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے… گوانٹا ناموبے میں خوفناک تشدد کا شکار ہیں… مگر وہ خوش ہیں… ان کو بارہا خواب میں رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوچکا ہے… وہ اپنے آپ کو سعادت مند سمجھتے ہیں… زمانے کا ظالم امیہ سارا دن… زمانے کے اس بلال کو مارتا ہے، گرم ریت پر جلاتا ہے… مگر جب رات کو یہ بلال آنکھیں بند کرتا ہے تو اسے… مقصود کائنات محبوب عالم حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ملاقات اور زیارت نصیب ہوجاتی ہے… مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو ہاتھ کے زخم بھول گئیں… بوسنیا کا یہ عالم ان کو دیکھتا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی حسن میں آگے ہیں… اچھے برے حالات چلتے رہتے ہیں… مگر دنیا اور آخرت انہی کی ہے جو  رَبُّنَا  اللہ  ُ ( اللہ  تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے) کہہ کر پھر ڈٹ جاتے ہیں…

ہاں سن لو القلم پڑھنے والو!… یہ دنیا اور آخرت ان لوگوں کی ہے جو دین پر استقامت رکھتے ہیں… جو دین پر ڈٹ جاتے ہیں… اور جو اس فانی دنیا کو اپنا مقصود نہیں بناتے… القلم یہی سچا پیغام پہنچانے کی وجہ سے خود بھی آندھیوں کی زد میں رہتا ہے… آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے…

٭٭٭

خوش آمدید ۱۴۲۸ھ

اسلامی سال کا آغاز ہوگیا… چاند دیکھتے ہوئے اذان کی آواز نے ایک خوبصورت نکتہ سمجھا دیا… مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کو اپنائیں… محرم الحرام کے مسنون اعمال… اور اس بات کی وضاحت کہ محرم الحرام فضیلت اور شان والا مہینہ ہے… غم اور نحوست والا نہیں…

۵ محرم الحرام ۱۴۲۸ھ بمطابق ۲۶ جنوری ۲۰۰۷ء

خوش آمدید ۱۴۲۸ھ!

 

 اللہ  تعالیٰ اس نئے سال کو امت مسلمہ کے لئے… اور تمام انسانیت کے لئے خیر وبرکت والا سال بنائے… آپ کو معلوم ہوگا کہ الحمد اللہ  نیااسلامی ہجری سال شروع ہوچکا ہے… آئیے نئے سال کے موقع پر آپس میں چند باتوں کا مذاکرہ کر لیتے ہیں…

بابرکت نورانی آغاز

ہفتہ کے دن مغرب کی اذان سے کچھ پہلے… نئے مہینہ اور نئے سال کا چاند دیکھنے کے لئے میں گھر کے صحن میں آبیٹھا… میری نظریں آسمان پر مغرب کی طرف تھیں… دل میں کافی امید تھی کہ آج انشاء  اللہ  چاند نظر آجائے گا… جی ہاں محرم الحرام کا چاند… نئے اسلامی سال کا پہلا چاند… ۱۴۲۸ھ کا آغاز… ہاں میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ہجرت مبارکہ کا چودہ سو اٹھائیسواں سال شروع ہوجائے گا… مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان پر دور دور تک کوئی بادل نظر نہیں آرہا تھا… میری نظریں آسمان کی طرف تھیں کہ اچانک پوری فضاء ایک خوشبودار اور نورانی شور سے بھر گئی…  اللہ  اکبر،  اللہ اکبر…  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر… یہ مغرب کی اذان کا شور تھا… ہر طرف سے خوبصورت آوازیں آرہی ہیں… مختلف لہجے اور مختلف طرزیں … مگر الفاظ ایک، معنیٰ ایک، پکار ایک اور پیغام ایک… تب میں تھوڑی دیر کے لئے چاند کو بھول کر آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کی یاد میں کھو گیا… میرا دل زبان کو ساتھ لے کر درود شریف پڑھنے لگا… واہ میرے آقا واہ… مرحبا صد مرحبا! آپ نے اپنی امت کے لئے  اللہ  تعالیٰ سے کیسا پیارا دین لایا… کیسا پاک کتنا پرنور… دیکھیں اس دین میں نئے سال کا آغاز خود بخود  اللہ  اکبر کے نعرہ سے ہورہا ہے… ایک مؤمن نے نیا سال داخل ہوتے ہی کیا عمل کیا؟… اس نے اذان دی یا اذان کا جواب دیا…  اللہ  اکبر  اللہ  اکبر… اس نے وضو کیا… اس نے مغرب کی نماز ادا کی… اس کا دل پاک اس کی زبان پاک… اس کا لباس پاک… اور اس کا جسم پاک… میں سوچ رہا تھا کہ یہ دین کتنا پیارا ہے کتنا پاک ہے… ابھی نئے سال کی پہلی گھڑیاں ہیں… کئی مسلمانوں کو معلوم ہوگا کہ چاند نظر آیا ہے جبکہ اکثر کو یہ بات معلوم نہیں ہوگی… مگر آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم کی ترتیب نے آٹو میٹک طور پر سب کو عبادت میں لگا کر سب کا آغاز اچھا کردیا… غیر مسلموں کی نیو ائیر نائٹ کتنی گندی ہوتی ہے… کتنی غلیظ کتنی ناپاک… آدھی رات کا خمار… شیطانی میوزک کا شور… منی، مذی اور پیشاب میں لتھڑے ہوئے ناپاک کپڑے… دلوں میں شہوت کی پیپ… اور ہر طرف غفلت کے سیاہ اندھیرے… عجیب بات ہے جب عید وغیرہ کے دن پر مسلمانوں میں کچھ اختلاف ہوجاتا ہے تو… ہمارے کئی دانشور فوراً یہ تجویز پیش کردیتے ہیں کہ… مسلمانوں کو بھی جنوری، فروری کی ترتیب اختیار کرلینی چاہئے… اس شمسی ترتیب میں دن اور مہینے آسانی سے معلوم ہوجاتے ہیں … اور کوئی اختلاف نہیں ہوتا… ایسا مشورہ دینے والے دانشور ان تمام برکتوں کو بھول جاتے ہیں جو ہجری قمری تقویم کی برکت سے مسلمانوں کو نصیب ہیں… میں اس موضوع پر پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اس لیے آج اسے چھوڑتے ہیں… جنوری، فروری والے اپنے نئے سال کا آغاز آدھی رات کو بارہ بجنے پر کرتے ہیں… جبکہ مسلمان نئے سال کا آغاز ذوالحجہ کے آخری سورج کے غروب ہونے پر کردیتے ہیں… چاروں طرف فضاء میں اذانیں گونج رہی تھیں… باوضو مسلمان مسجدوں کی طرف دوڑ رہے تھے… چھوٹے بچے اذان کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر توتلی زبانوں میں  اللہ  اکبر  اللہ  اکبر پکار رہے تھے… پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی مکمل اہتمام کے ساتھ پاک، صاف اور عبادت کے لئے مستعد تھے… میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم پر کروڑوں اربوں درود وسلام… اس وقت ۱۴۲۸ھ کا سال دنیا میں اپنی آنکھیں اور کان کھول رہا تھا… اس نے سب سے پہلے اذان کی آواز سنی… اس نے مسلمانوں کو نماز کے لئے تیار دیکھا… اور یوں نئے سال نے اپنا سفر شروع کردیا… اے نئے ہجری سال ہم تجھے خوش آمدید کہتے ہیں… تو گواہ رہنا کہ ہم  اللہ  تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ مانتے ہیں… ہم حضرت محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم کو اللہ  تعالیٰ کا بندہ اس کا رسول اور آخری نبی مانتے ہیں … اور اسلام ہی ہمارا دین ہے… رضینا باللہ  ربا وبالاسلام دینا و بمحمد صلی  اللہ  علیہ وسلم رسولا ونبیا…

یہ سخت جان قافلہ

پچھلے سال کا چاند اپنے ساتھ کئی ستاروں کو افق کے اس پار لے گیا… جہاں ایک بڑی دنیا آباد ہے… الشیخ ابو مصعب الزرقاویؒ، حضرت مفتی عبدالستارؒ، ملا اختر محمد عثمانی، ہمارا یار ببَّن میاں… بھائی عدنان… بھائی سیف  اللہ ، صدام حسین… اور بہت سے… کس کس کا نام لوں… اب دیکھیں اس سال کس کس کا نمبر لگتا ہے… اور ۱۴۲۸ھ کا سال کس کس کی تاریخ وفات کا حصہ بنتا ہے… یہ سب اپنی جگہ… مگر سوچنے کی ایک اور بات کافی اہم ہے… ایک خوبصورت علاقہ تھا ہرا بھرا… ہر طرف باغات تھے سر سبز… اور موسم بھی تھا وہاں کا دلکش… وہاں ایک شخص پہنچا… اکیلا اور پیدل… وہ شخص ایسا کہ جو اسے دیکھے بس دیکھتا ہی رہ جائے… اتنا حسین کہ اس کے حسن کو بیان کرنے کے لئے الفاظ میسر نہیں ہیں… اور آواز اتنی خوبصورت کہ فضائیں اپنا ترنم بھول جائیں… اس شخص نے خوبصورت علاقے کے لوگوں کو ایک بات بتلائی… بہت سچی بات بہت اونچی بات… مگر وہ نہ مانے اور اکڑ گئے… انہوں نے گالیاں دیں، دھکے دئیے… تشدد کیا اور پھر علاقے کے لڑکوں سے کہا کہ اس شخص کو مارو… ہائے  اللہ  ہائے  اللہ … اب پتھروں کی بوچھاڑ ہے… اور ایک اکیلا شخص… سر چھپانے کی جگہ نہیں… کوئی انسان بچانے والا نہیں… پاگل بچوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں… وہ مار رہے ہیں اور یہ دوڑ رہا ہے… ہائے  اللہ  ہائے  اللہ … ایک قدم؟ دو قدم؟… نہیں نہیں کئی میل کئی کلو میٹر… پاگل لڑکے کہاں تھکتے تھے ان کو تو ایک کھیل… اور بڑوں کی طرف سے کھلی ڈھیل مل گئی تھی… زمین تڑپ رہی تھی… آسمان رو رہا تھا… فرشتے مچل رہے تھے… چاروں طرف سے پتھر اور گالیاں… کبھی اٹھ جاتے کبھی گر جاتے… کبھی چلتے، کبھی بھاگتے اور کبھی لڑکھڑا جاتے… سر سے پاؤں تک خون ہی خون… جوتا خون سے بھر گیا… اور ظلم کا یہ چکر کئی میل تک گھومتا رہا… اے دین کی خدمت کے نام پر مزے دار دفاتر میں بیٹھنے والو… تمہیں یہ منظر یاد ہے؟… تھوڑی سی آزمائش پر… جہاد کے کام سے استعفے پیش کرنے والو جانتے ہو… وہ شخص کون تھے؟… روشن خیالی کے نام پر دین کے احکامات کو ذبح کرنے والو… تم نے کبھی سوچا کہ تم بھی اس شخص کے کچھ لگتے ہو… فرشتے اس بستی کو کچل کر سرمہ بنادینا چاہتے تھے… مگر پتھر کھانے والے کو اپنے دین کی فکر تھی… اپنی امت کی فکر تھی… آج سوا چودہ سو سال بعد… اس اکیلے شخص کا نام لینے والوں کی تعداد… ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے… اس شخص کے ماننے والوں کے پاس زمین کے ایک بڑے حصے کی حکومت ہے… اس شخص کا نام آج بھی عزت اور راحت کی چابی ہے… میں ٹیکنالوجی کے پجاریوں سے پوچھتا ہوں… کس چیز نے اس اکیلے اور نہتے شخص کے پیغام کو پورے عالم میں عام کردیا؟… وہ جو پتھر کھانے کے بعد گرتے تھے تو کوئی اٹھانے والا نہیں ہوتا تھا… آج ان کے نام پر کروڑوں چھتیں… کروڑوں انسانوں کو سایہ دیتی ہیں… ان کے نام پر مدرسے ہیں، ادارے ہیں، جماعتیں ہیں، تنظیمیں ہیں… اور آج بھی ان کا نام  اللہ  تعالیٰ کے نام کے بعد سب سے مقدس اور محترم ہے… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ… ایک اور سال بیت گیا مگر نہ اسلام ختم ہوا اور نہ محمد عربی صلی  اللہ  علیہ وسلم کے امتی… یہ سخت جان قافلہ آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے… اور ہر طوفان کا رخ موڑ رہا ہے… اس لیے مایوس ہو کر کافروں کو سجدے کرنے کی ضرورت نہیں ہے… تھک ہار کر جہاد چھوڑنے کی گنجائش نہیں ہے… اور دین بچانے کے دھوکے میں دین کو بدلنے کی اجازت نہیں ہے… ۱۴۲۸ھ خوش آمدید…  اللہ  تعالیٰ تجھے بھی… حضرت محمد صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سچے امتی دکھائے… تو گواہ رہنا کہ ہم… اُسی شخص کے غلام ہیں… جنہوں نے خوبصورت وادی میں… بدسیرت لوگوں کے تشدد کو برداشت کیا تھا… مگر اپنا کام نہیں چھوڑا تھا… اپنا پیغام نہیں چھوڑا تھا… یا  اللہ  میرے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم پر بے شمار درود و سلام… بے شمار درود وسلام…

محرم الحرام کا مطلب

اسلامی ہجری سال کے پہلے مہینے کا نام ہے… محر ّم … اس کا معنیٰ ہے مُعَظَّم… یعنی عظمت والا، حرمت والا، شان والا، فضیلت والا، احترام والا مہینہ… آج جس وقت میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں محرم ۱۴۲۸ھ کی دوسری تاریخ ہے… محرم کے ساتھ ’’الحرام‘‘ کا لفظ بھی لکھا جاتا ہے… یعنی ’’محرم الحرام‘‘… یہ لفظ اس لیے لکھا جاتا ہے کہ …  اللہ  تعالیٰ نے ’’ملّت ابراہیمی‘‘ میں چار مہینوں کو خاص عزت وحرمت عطاء فرمائی ہے… ان چار مہینوں میں پہلا محرم ہے… دوسرا رجب، تیسرا ذوالقعدہ اور چوتھا ذوالحجہ… یعنی اسلامی سال کا آغاز بھی حرمت والے مہینے سے ہوتا ہے… اور اس کا اختتام بھی حرمت والے مہینے پر ہوتا ہے… عرب کے لوگ اسلام سے پہلے بھی ان مہینوں کی تعظیم کیا کرتے تھے… کیونکہ ان میں ملت ابراہیمی کی بعض اچھی باتیں زندہ تھیں… اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والے دوسرے ادیان میں بھی… محرم اور اسکی دس تاریخ (عاشوراء) کی خاص اہمیت تھی… صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہود ونصاریٰ بھی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے… اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی چاند کے مہینوں کا اعتبار ہوتا تھا… مگر پھر وہ اپنی کتاب اور دین کی ہر بات سے اسی طرح منحرف ہوتے گئے… جس طرح آج کل کے روشن خیال مسلمان… اسلام نے حرمت والے چار مہینوں میں جنگ بندی کا حکم نازل فرمایا… مگر پھر اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے اس کی اجازت مرحمت فرمادی… اسلام میں کسی دن، رات یا مہینے کے افضل ہونے کا مطلب یہ ہے… کہ اس دن اس رات یا اس مہینے میں  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر خاص انوارات… خاص رحمتیں اور خاص تجلیات نازل ہوتی ہیں… اور ان دنوں میں رحمت اور بخشش کے عمومی بازار سجائے جاتے ہیں… ظاہر بات ہے کہ ہم خود  اللہ  تعالیٰ کے انوارات وتجلیات کو نہیں دیکھ سکتے… یہ بات تو  اللہ  تعالیٰ ہی بتا سکتے ہیں… اور  اللہ  تعالیٰ اپنے پیغمبر کو وحی کے ذریعے بتاتے ہیں… پس خلاصہ یہ ہوا کہ… اسلام میں کسی بھی دن یا مہینے کی اہمیت اور فضیلت صرف حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے بتانے اور سمجھانے سے ہی معلوم ہوسکتی ہے… اس لیے مسلمان طرح طرح کے دن اور عیدیں نہیں مناتے … یہ اسلام کا ڈسپلن اور نظم وضبط ہے کہ… ہمارے آقا نے ہمارے لیے جو ترتیب مقرر فرمادی ہے ہم بس اسی کے تابع ہیں… انہوں نے جس دن کو عید کہا بس وہی عید ہے… اور جس مہینے کو حرمت والا کہا وہی مہینہ حرمت والا ہے… ہمارے آقا صلی  اللہ  علیہ وسلم نے محرم الحرام کو حرمت والا مہینہ قرار دیا… آپ نے اس کی دس تاریخ کو روزہ رکھا… اور اپنے صحابہ سے بھی رکھوایا… آپ نے زندگی کے آخر میں اعلان فرمایا کہ ہم آئندہ سال دو روزے رکھیں گے… محرم الحرام کی یہ فضیلت بتا کر آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے… حجۃ الوداع کے موقع پر آسمان سے اعلان آیا کہ اب دین مکمل ہوچکا ہے… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد… اس دین میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے… اور نہ کوئی اضافہ… مسلمان محرم کو خوشی کا مہینہ سمجھتے تھے کہ… یہ عبادت والا مہینہ ہے… حاجی حج کے مزے لوٹ کر واپس آتے تھے… عرب قربانی کا گوشت سُکھا کر کھاتے تھے… مسلمان روزے رکھتے تھے… اس مہینے میں نکاح اور شادیاں کرتے تھے… اور زندگی کے معمولات کو خوب نبھاتے تھے… مگر معلوم نہیں… کس شیطان کی نظر لگ گئی کہ… یکایک… محرَّم کا مہینہ مسلمانوں کے لئے غم کا مہینہ قرار دے دیا گیا… استغفر اللہ ، استغفر اللہ … اب لوگ اس مہینے میں شادیاں نہیں کرتے… اور ہر طرف فرقہ واریت کا شور مسلمانوں کے سال کے آغاز کو گدلا کردیتا ہے…

کربلا کا سانحہ بہت اندوہناک … مگر حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم کا وصال ہوا… مسلمانوں نے ربیع الاول کو کالا نہیں کیا… خلفاء راشدین کے وصال ہوئے، شہادتیں ہوئیں مسلمانوں نے ان کے وفات کے مہینے کالے نہیں کیے… اسلام کے افضل ترین شہداء… رمضان اور شوال میں بدر واحد کے دوران کٹے… مگر مسلمانوں نے رمضان اور شوال کو کالا نہیں کیا… ہاں کافروں نے مسلمانوں کی خوشیاں برباد کرنے کے لئے… شہادت کو ماتم بنادیا… شہادت اور وہ بھی نواسۂ رسول کی… اور نواسۂ رسول بھی ایسے کہ جنت کے جوانوں کے سردار… ان کی شہادت پر یہ سب کچھ؟؟… ہاں رب کعبہ کی قسم یہ سب کچھ سمجھ سے بالاتر اور اسلام کے مزاج سے بہت دور ہے… مگر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس فرقہ واریت کا شکار ہوچکا ہے… چنانچہ دس محرم کا دن… جو آسمان سے  اللہ  تعالیٰ کے خاص انوارات وتجلیات کے نزول کا دن ہے… مسلمانوں کے لئے غم اور گناہ کا دن بنادیا گیا ہے… اناللہ  وانا الیہ راجعون… انا ا للہ وانا الیہ راجعون…

محرم الحرام کے دو اعمال

عاشوراء یعنی دس محرم الحرام کا روزہ تو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے… اور اس نفل روزے کی بہت فضیلت ہے… یہود ونصاریٰ کی مشابہت سے بچنے کے لئے… علماء امت نے دو روزے رکھنے کی تلقین کی ہے… نو اور دس محرم کے روزے… یا دس اور گیارہ محرم کے روزے… بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ… اب چونکہ یہود ونصاریٰ محرم کا روزہ رکھتے ہی نہیں… بلکہ اب تو انہیں محرم کا پتہ ہی نہیں اس لیے… اب ان کی مشابہت کا خطرہ ختم ہوچکا ہے… چنانچہ ایک روزہ بھی کافی ہے… مگر اکثر اہل علم کے نزدیک دو روزے رکھنے چاہئیں… جیسا کہ بعض احادیث کے مفہوم سے ثابت ہوتاہے…

یہ تو ہوا محرم کا ایک عمل… دوسرا عمل جو بعض روایات سے ثابت ہے… وہ ہے دس محرم کے دن اپنے گھر والوں پر کھانے پینے اور روزی میں فراخی کرنا… اس عمل کی برکت سے  اللہ  تعالیٰ… پورا سال روزی میں فراخی فرماتے ہیں… یہ احادیث اگرچہ سند کے اعتبار سے کمزور ہیں… مگر کئی طرق (یعنی سندوں) سے یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے… جس سے کچھ نہ کچھ فضیلت تو بہرحال معلوم ہوجاتی ہے … یہ تو ہوئے دو اعمال جن کا ان شاء  اللہ  ہم سب  اللہ  تعالیٰ کی رضاء کے لئے اہتمام کریں… اور تیسرا عمل یہ کہ اس مہینے میں بھی عبادت کا اور گناہوں سے بچنے کا خوب اہتمام کیا جائے جیسا کہ… حرمت والے کسی بھی مہینے میں کیا جاتا ہے…

ایک گزارش

مسلمان بھائیوں… اور بہنوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ… اسلامی ہجری سال کو اپنائیں… اور ہر مہینے کا چاند دیکھ کر پہلی رات کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کیا کریں… میری گزارش ہے کہ آپ ایک بار کوئی مستند کتاب منگوا کر وہ دعائیں پڑھ کر دیکھیں… جو چاند دیکھ کر پڑھنا مسنون ہیں… ان دعاؤں میں وہ تمام خیریں اور برکتیں ہیں جن کی ہمیں پورا مہینہ ضرورت پڑتی ہے… آج ہی  اللہ  تعالیٰ کے بھروسے پر چند کام کرلیں… معلوم نہیں کل ہم زندہ ہوں گے یا نہیں…

۱   اسلامی سال کے بارہ مہینوں کے نام یاد کرلیں

۲  اپنے گھر کے لئے ایک ہجری کیلنڈر خرید کر لے آئیں اور اسے مناسب جگہ پر آویزاں کردیں

۳  بچوں کو ان مہینوں کے نام یاد کرانا شروع کردیں

۴  حِصْنِ حصین یا معارف الحدیث منگوا کر ان دعاؤں کو ایک نظر دیکھ لیں جن کو چاند رات میں پڑھنا مسنون ہے

۵  نیت کرلیں کہ ہر مہینے کا چاند دیکھنے کی کوشش کریں گے اور دعاؤں کا اہتمام کریں گے

چند احادیث مبارکہ

۱   عن ابن عباس رضی  اللہ  عنہما ان رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم صام یوم عاشوراء وامر بصیامہ ۔(بخاری، الترغیب والترہیب)

یعنی رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم نے عاشوراء (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا۔

۲  عن ابی قتادۃ رضی  اللہ  عنہ ان رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم سئل عن صیام یوم عاشوراء فقال یکفّر السنۃ الماضیۃ۔(مسلم، الترغیب)

یعنی عاشوراء کا روزہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

۳  عن ابن عباس رضی  اللہ  عنہما انہ سئل عن صیام یوم عاشوراء فقال ما علمت ان رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم صام یوما یطلب فضلہ علی الایام الا ہذا الیوم۔(مسلم، الترغیب)

یعنی رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ عاشوراء کے روزے کو سمجھتے تھے۔

(اور بعض روایات میں ہے کہ اس دن کے روزے کا خاص اہتمام فرماتے تھے)

۴  عن ابی ہریرۃ رضی  اللہ  عنہ ان رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم قال من اوسع علی عیالہ واہلہ یوم عاشوراء اوسع  اللہ  علیہ سائر سنتِہ

(رواہ البیہقی وغیرہ من طرق وعن جماعۃ الصحابۃ وقال البیہقی: ہذہ الاسانید وان کانت ضعیفۃ فہی اذ ضمّ بعضہا الی بعض اخذت قوۃ و اللہ  اعلم ’’الترغیب والترہیب‘‘)

یعنی جو کوئی عاشوراء کے دن اپنے عیال اور گھر والوں پر روزی کی وسعت کرتا ہے  اللہ  تعالیٰ پورا سال اس پر وسعت فرماتا ہے۔

۵  عن ابن عباس ان رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم قدم المدینۃ فوجد الیہود صیاماً یوم عاشوراء فقال لہم رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم ماہذا الیوم الذی تصومونہ فقالوا ہذا یوم عظیم انجی  اللہ  فیہ موسیٰ وقومہ وغرّق فرعون وقومہ فصامہ موسیٰ شکراً فنحن نصومہ فقال رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم فنحن احق واولی بموسیٰ منکم فصامہ رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم وامر بصیامہ (بخاری)

یعنی آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو وجہ دریافت فرمائی، انہوں نے کہا: یہ عظیم دن ہے  اللہ  تعالیٰ نے اس میں فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی، تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا… آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم فرمایا…

ان پانچ روایات سے محرم الحرام کے دو خاص اعمال کی فضیلت اور تاریخ معلوم ہوگئی… اہل علم نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ عاشوراء ملت ابراہیمی میں بھی عظمت وتعظیم والا دن تھا… جبکہ بعض اہل علم کی رائے ہے کہ… رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا پھر رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے اور عاشوراء کا روزہ نفل رہ گیا…

 اللہ  تعالیٰ اس نئے سال کو امت مسلمہ کے لئے خیر وبرکت… اور فتح ونصرت والا سال بنائے…

آمین یا ارحم الراحمین…

٭٭٭

یہ مسجدیں… یہ بیٹیاں

 اللہ  تعالیٰ ان بیٹیوں کی حفاظت فرمائے… جو مساجد اور مدارس کی حفاظت کے لئے … اپنی جانیں، ہتھیلی پر رکھ کر… ظالموں کو للکار رہی ہیں… اور غیرتمند مسلمانوں کو پکار رہی ہیں… ہائے کاش ان بیٹیوں کو نہ نکلنا پڑتا… قرآن پاک کی یہ ’’حافظات‘‘ یہ امت مسلمہ کی پیاری بیٹیاں… یہ اماں عائشہؓ اور اماں حفصہؓ کی روحانی بیٹیاں… ہائے کاش ان کو اتنا مجبور اور اتنا دکھی نہ کیا جاتا… قرآن پاک نے تو پہلے ہی سمجھا دیا کہ مساجد کی حرمت سے کھیلنے والے… بہت ظالم ہیں بہت ظالم…

’’اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جو  اللہ  تعالیٰ کی مسجدوں میں ذکر  اللہ  کو بند کرادے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے ان لوگوں کو تو کبھی بے باک ہو کر ان میں قدم بھی نہ رکھنا چاہئے ان (ظالم) لوگوں کی دنیا میں رسوائی ہوگی اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔‘‘ (البقرہ ۱۱۴)

مساجد کے خلاف ظلم کا یہ تازہ دور… ٹونی بلیئر کے دورے سے شروع ہوا ہے… وہ ناکام اور جابر انگریز پاکستان آیا ہی اسی کام کے لئے تھا… اس نے مساجد اور مدارس میں اصلاح کے نام پر اس ملک کے ظالموں کو خطیر رقم دی… اب اسی ’’انگریزی مال‘‘ کو خرچ کیا جارہا ہے… سب سے پہلے… عصر کی اذان اور جماعت پر ڈاکہ ڈالا گیا… اس دن ٹونی بلیئر خود فیصل مسجد کے آس پاس منڈلا رہا تھا… عصر کی نماز… پانچ نمازوں میں سب سے زیادہ اہم ہے… یہ صلوٰۃ الوسطیٰ کہلاتی ہے… مکہ کے مشرک رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ عصر کی نماز مسلمانوں کو اپنی جان اور اولاد سے زیادہ محبوب ہے… ظالموں نے سب سے پہلا ڈاکہ عصر کی اذان اور جماعت پر ڈالا… تحفظِ مساجد کی تحریک تو اسی دن شروع ہوجانی چاہئے تھی… دل کی روشنی سے لکھنے والے قلمکار… جناب عرفان صدیقی نے تڑپ تڑپ کر دُھائی دی کہ ظالمو! مجھے میری اذان لوٹا دو… ہاں ’’تحفظِ مساجد‘‘ کی تحریک اسی وقت سے شروع ہوجاتی تو آج مسجد امیر حمزہؓ کے پتھر ہماری بدنصیبی پر آنسو نہ بہاتے… اذان بند کرانا اور جماعت نہ  ہونے دینا یہ بھی تو مساجد کو ویران کرنا ہے… کاش جس وقت ٹونی بلیئر نے مساجد اور مدارس کی اصلاح کے لئے فنڈ کا اعلان کیا تھا تو اسی وقت تحریک شروع ہوجاتی… اگر ایسا ہوتا تو آج ہماری معصوم بیٹیاں ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا کر… تیز ہواؤں میں جلنے والے چراغ کی طرح نہ لرز رہی ہوتیں… شریعت یا شہادت کا نعرہ تو مسلمان مردوں کے لئے تھا… ایک بیٹی نے کہا کہ مردوں نے چوڑیاں پہن لی ہیں تو ہمیں ڈنڈے اٹھانا پڑے ہیں… نہیں بیٹی نہیں… رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کی امت ابھی اتنی بے حس نہیں ہوئی… تمہارے بھائی زندہ ہیں اور ہر طرف ان کے دَم سے زندگی کے شعلے نظر آرہے ہیں… کل جو عراق میں تین سو شہید ہوئے… کل جو افغانستان میں بیس شہید ہوئے… کل جو کشمیر میں پانچ شہید ہوئے…

ہاں بیٹی! کبھی ایسا وقت آجاتا ہے کہ… فاصلے بڑھ جاتے ہیں… اور اسلام کی بیٹی کو بھی بیٹا بننا پڑ تا ہے… ایسا صدیوں سے ہورہا ہے… اے بیٹی! تو نے خود کو اکیلا سمجھ لیا ہے… نہیں ہر گز نہیں… تجھے معلوم نہیں کہ تیرے اس طرح میدان میں اتر آنے پر … کون کون تڑپ رہا ہے… کون کون رو رہا ہے… ہاں اس وقت جبر کا دور ہے… ہاں اس وقت امت میں تفرقے کاد ور ہے… یہ سچ ہے کہ ہزاروں لاکھوں نوجوان تیرے گرد بھائیوں کا حصار نہیں بنا سکے… مگر یاد رکھ بجلیاں… ہاں ایمان اور غیرت کی بجلیاں ہر طرف دوڑ پڑی ہیں… مجھے معلوم ہے کہ … حکومت کے بد دماغ لوگ تجھ پر حملے کا پروگرام بنا رہے ہیں … مگر یاد رکھ … قسم ہے رب کعبہ کی کہ… ایسا کوئی بھی حملہ ملک کی تاریخ کو سیاہ کرکے رکھ دے گا … میں میدانوں اور پہاڑوں میں جذبات کا تلاطم دیکھ رہا ہوں… میں دور سمندر کے کنارے تک مچلتی بجلیاں دیکھ رہا ہوں… مساجد… تو کعبہ کی بیٹیاں ہیں… اور تو اے بہن!… اسلام کی بیٹی ہے… تو نے کعبہ کی بیٹی کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھی ہے … اب اسلام کے سپاہی تیری عزت، تیری حرمت اور تیرے تقدس کو کس طرح سے فراموش کر سکتے ہیں؟… اے اسلام آباد کے حکمرانو!…  اللہ  کے لئے مسلمان بنو… مساجد گرانا مسلمانوں کا کام نہیں ہے… قرآن پاک کی حافظات بیٹیوں پر ہاتھ اٹھانا… مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے… کافروں کے حرام لقمے کھانے والے ایجنٹوں کی باتوں میں نہ آؤ… اور اس ملک کو مزید تباہی میں مت دھکیلو…  اللہ  کے لئے  اللہ  کے لئے… کچھ تو اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت بھی دو… یاد رکھو… تاریخ گواہ ہے کہ مساجد کو ویران کرنے والوں سے حکومت چھین لی جاتی ہے… ان پر دنیا کی ذلت اور آخرت کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے… ڈرو  اللہ  پاک کے عذاب سے… اور خود کو بچاؤ دنیا کی خوفناک رسوائی سے…  اللہ  کے لئے کچھ تو غیرت کھاؤ… ادھر ٹونی بلیئر نے تم سے حساب مانگا… اور ادھر تم نے مسجد امیر حمزہ پر بلڈوزر چڑھا دئیے… مسجد کی دیوار سسکتی رہی… اس کی چھت روتی رہی… اس کے پتھر حیرت سے تمہیں دیکھتے رہے… مگر تم نے ذرہ برابر حیا نہ کی… ہائے کاش تمہیں مسجد کا مقام معلوم ہوتا… اس جگہ تو فرشتے بھی جھک کر اترتے ہیں… مسجد  اللہ  کا گھر ہے… اے ظالمو! … میرے  اللہ  کا گھر… ہاں ظالمو!…  اللہ  تعالیٰ کا گھر… معلوم نہیں تمہارے سینے میں دل ہے یا کوئی چیز… پھر اسی پر بس نہیں… تم نے مزید مساجد اور مدارس گرانے کا اعلان کردیا ہے… تمہاری زبان ایسا اعلان کرنے سے بھی نہیں رُکی… تب امت مسلمہ کی بیٹیاں روتی تڑپتی باہر نکل آئیں… اب تم ان پر حملے کے پروگرام بنا رہے ہو… کیا ایسا کرنے کے بعد تم  اللہ  تعالیٰ کے غضب سے بچ جاؤ گے… کیا تمہارے گھر میں ’’بیٹیاں‘‘ نہیں ہیں… کیا تمہیں ’’بیٹی‘‘ کے لفظ کی حرمت کا اندازہ نہیں ہے؟…  اللہ  کے لئے خود کو اور اس ملک کو ویران ہونے سے بچاؤ… یاد رکھو… جب تک اس ملک نے باقی رہنا ہے… اس وقت تک تو یہاں مساجد کے تحفظ کے لئے… اسلام کے دیوانے اسی طرح میدانوں میں نکلتے رہیں گے … پاکستان کی سرزمین کو حضرت مفتی ولی حسن ؒ جیسا مرد درویش یاد ہے… جب مساجد کے خلاف ایک عدالت نے فیصلہ دیا تو… وقت کا یہ ولی اور شیخ الحدیث کفن باندھ کر … میدان میں نکل آیا… تب صوبہ سرحد کے غیور قبائل اور کراچی کے جری نوجوان… ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتر آئے… اور حکومت وقت کو ایک بند کمرے میں اپنی تھوک کو چاٹنا پڑا… لال مسجد کا خطیب اور امام… مولانا عبدالعزیز بھی کوئی دنیا پرست لیڈر نہیں ہے کہ… کسی لالچ یا دھمکی سے دب جائے گا… وہ مفتی ولی حسن… کا شاگرد ہے… اے حکمرانو!… کسی بند کمرے میں ہی سہی اس کی بات سن کر… اپنے ظالمانہ احکامات واپس لے لو… اسی میں سب کی خیر ہے… اور اسی میں سب کا بھلا ہے… اب آخر میں چند بکھری ہوئی باتیں عرض خدمت ہیں… شاید ان باتوں سے اس مسئلے کا کچھ تعلق نکل آئے… اور کچھ راستے کھل جائیں…

امام رازی کا نکتہ

آپ نے چھٹے پآرے کی آخری آیت تو پڑھی ہوگی… اور بار بار سنی بھی ہوگی… جی ہاں سورۃ مائدہ کی آیت  ۸۲ جس میں  اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں کے دشمنوں کی تفصیل بیان فرمائی ہے…

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الْیَہُوْدَ …الآیۃ…

یعنی مسلمانوں کے سخت ترین دشمن یہودی ہیں اور مشرک… جبکہ عیسائی مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں… اور اس کی وجہ یہ ہے کہ… عیسائیوں میں علماء اور تارک دنیا راہب موجود ہیں… اور عیسائیوں میں تکبر نہیں ہے… حضرات مفسرین فرماتے ہیں کہ… عیسائیوں کا مسلمانوں کے لئے ہمدرد ہونا انہیں تین اسباب کی وجہ سے تھا… اب جبکہ ان میں نہ توعلماء ہیں اور نہ تارک دنیا راہب… اور نہ ان میں تواضع ہے… اس لیے ان میں ہمدردی بھی باقی نہیں رہی… خیر یہ ایک الگ اور مفصل بحث ہے… یہاں جو بات عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ امام رازیؒ نے ایک سوال اٹھایا ہے… اور پھر اس کا عجیب جواب بھی ارشاد فرمایا ہے… سوال یہ کہ عیسائی عقیدے کے اعتبار سے یہودیوں سے زیادہ بدتر تھے… کیونکہ عیسائیوں کا عقیدہ  اللہ  تعالیٰ کے لئے بھی نعوذباللہ  تثلیث کا تھا… اس لیے عیسائی توحید کے بھی منکر تھے اور رسالت آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم کے بھی… جبکہ یہودی عقیدے کے اعتبار سے عیسائیوں سے کم بُرے تھے کیونکہ وہ توحید کے بہرحال قائل تھے… پھر کیا وجہ تھی کہ عیسائی مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور یہودی سخت دشمن؟… امام رازیؒ فرماتے ہیں وجہ یہ تھی کہ یہودیوں میں ’’حبّ دنیا‘‘عیسائیوں سے زیادہ تھی… پس جس قوم میں دنیا اور مال کی محبت جتنی زیادہ ہوگی وہ قوم اسلام اور مسلمانوں کی اتنی زیادہ دشمن ہوگی…

آج پاکستان پر کن لوگوں کی حکومت ہے… سر سے لے کر پاؤں تک دنیا، مال، سود، جائیداد میں لتھڑے ہوئے لوگ … جن کا اوّل بھی دنیا جن کا آخر بھی دنیا… آخرت سے غافل ان لوگوں کے نزدیک دنیا کی خاطر سب کچھ جائز ہے… یہاں تک کہ امریکہ کے ہاتھوں خود کو اور اپنے ضمیر کو بیچ دینا بھی… یاد رکھئے… دنیا پرست لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں… اب ان لوگوں کا مقابلہ صرف اور صرف ایک طریقے سے کیا جاسکتا ہے اور وہ طریقہ ہے اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنا… اس میں  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا شوق بھرنا… اور اسے شہادت کا مشتاق بنانا… اگر ظالم بھی دنیا پرست ہو… اور مظلوم بھی دنیا کی ہوس کا شکار تو پھر ظالم کی رسی کو ڈھیل ملتی رہتی ہے… یہی ہمارے حکمرانوں کی کامیابی ہے کہ… وہ ہم جیسے دنیا پرست دینداروں کے حکمران ہیں… یا  اللہ  ہمیں حبّ دنیا سے نجات عطاء فرما…

صدیوں کا تجربہ

مشرکین مکہ کے ارادے خطرناک تھے… حضور اکرم صلی  اللہ  علیہ وسلم اور آپ کے چودہ سو صحابہ کرام ان کے نرغے میں تھے… اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو جڑ سے ختم کرنے کا موقع ان کے دروازے تک خود آ پہنچا تھا… جی ہاں حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم مدینہ منورہ سے بہت دور مکہ مکرمہ کے قریب ’’حدیبیہ‘‘ کے مقام تک تشریف لے آئے تھے اور آپ عمرہ فرمانا چاہتے تھے… مشرکین مکہ نے فیصلہ کن حملے کا ارادہ کرلیا … تب آقا مدنی صلی  اللہ  علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے صحابہ کرام سے موت کی بیعت لے لی… صحابہ کرام کی بیعت جذباتی نہیں حقیقی تھی یعنی وہ واقعی موت کے لئے تیار ہوگئے … اور ذہن بنالیا کہ بس اب یہ زندگی ختم اور آج ہم نے مرنا ہے… تب ان کے رعب سے زمین لرز اٹھی… اور مکہ کے جنگجو مشرک اپنے گھر کے دروازے پر صلح کے لئے آمادہ ہوگئے… دراصل مؤمن کی کمزوری زندہ رہنے کا شوق … اور مؤمن کی قوت  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ہے… اگر ہم زندہ رہنے کا ہی ذہن بنائیں تو امریکہ تو کیا تھوڑا سا بخار، سر کا درد اور ایک چوہا بھی ہمیں خوب تنگ کرسکتا ہے… لیکن اگر ہم مرنے کا ذہن بنالیں تو آسمان وزمین بھی راستے میں نہیں ٹھہر سکتے… قرآن پاک نے حضرت طالوت کے لشکر کا قصہ بیان فرمایا تو اس میں بھی یہی نکتہ سمجھایا کہ… جالوت کے بڑے لشکر کو دیکھ کر جب حضرت طالوت کے لوگ حوصلہ ہارنے لگے تو وہ لوگ… جو دل سے شہادت کے لئے تیار تھے آگے بڑھے اور انہوں نے پورے لشکر کو تھام لیا… جموں کی جیل میں ایک بار مشرکین نے ایک عالم دین مجاہد کی داڑھی کی توہین کی… اس دن ہم نے مرنے کا پکا عزم کرلیا…  اللہ  اکبر کبیرا… دل کو ایسا سکون ملا کہ الفاظ سے بیان نہیں کیا جاسکتا… آخری نماز ادا کی تو پتہ چلا کہ نماز کیا ہوتی ہے… اور پھر جیل کے بلاک پر قبضہ… مگر مشرکین جلد ہی جھک گئے انہوں نے توہین سنت کے جرم پر معافی مانگ لی… اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے… حالانکہ ان کے پاس بندوقیں اور مجاہدین کے پاس پتھر تھے… یہ مسلمانوں کا صدیوں کا تجربہ ہے… مگر دل کو اس پٹاخے باز دنیا سے ہٹا کر آخرت اور شہادت کی طرف مائل کرنا آسان کام نہیں ہے… انسان چاہتا ہے بس زندہ رہے خواہ دونوں آنکھیں، دونوں ہاتھ اور دونوں ٹانگیں بھی نہ ہوں… خواہ دن رات بیماریوں میں کراہنا پڑے… خواہ فوجی بوٹوں کی ذلت کے نیچے رہنا پڑے… خواہ عزت اور ضمیر کو فروخت کرنا پڑے… خواہ آنکھوں کے سامنے مساجد گرتی رہیں… خواہ جسم کے ایک ایک حصے سے بیماری کا خون بہتا رہے… زندگی کا یہ شوق مؤمن کی پرواز کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے… قرآن پاک کی دل سے تلاوت کرنے اور حضور پاک صلی  اللہ  علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام کے حالات پڑھنے سے … یہ رکاوٹ دور ہوجاتی ہے…

ایک عجیب دعاء

امام احمد بن علی بونی  ؒ اپنی مشہور کتاب ’’شمس المعارف الکبریٰ‘‘ میں لکھتے ہیں…

رُوِیَ عَنْہُ دُعَائٌ مُجَرَّبٌ کَانَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَمُ یُحْیِیٖ بِہِ الْمَوْتٰی

یعنی حضرت امام مقاتل بن سلیمانؒ سے ایک مجرب دعاء منقول ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی دعاء کے ذریعہ مردوں کو زندہ فرماتے تھے… آخر میں لکھتے ہیں…

واسئل ما شئت فان لم یستجب لک فالعن مقاتلا

یہ دعاء پڑھ کر جو چاہو مانگو (ان شاء  اللہ  دعا قبول ہوگی) اور اگر تمہاری دعاء قبول نہ ہو تو مجھے یعنی (امام مقاتلؒ) کو برا بھلا کہو…

(عربی دان حضرات فالعن کا معنیٰ سمجھتے ہیں)

وہ مجرب وظیفہ جو اب تک بے شمار مواقع پر مجاہدین کے کام آچکا ہے… یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے (کوئی بات کرنے یا قبلہ سے رخ پھیرنے سے پہلے) یہ دعاء ایک سو مرتبہ پڑھیں اور آخر میں اپنے مقصد کے لئے دعاء مانگیں…

بِسْمِ  اللہ  الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ  الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ یَا قَدِیْمُ یَا دَائِمُ یَا فَرْدُ یَا وِتْرُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ  اللہ  لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ (شمس المعارف عربی ص۱۴۸)

ہر دعاء کی طرح اس کے اوّل آخر بھی چند بار درود شریف پڑھ لیں… یہ بہت نازک وقت ہے… مسلمان بہنیں خطرے میں ہیں… ’’مساجد  اللہ ‘‘ خطرے میں ہیں… حکومت نے بہنوں پر ہاتھ اٹھایا تو مسلمانوں کی ذمہ داری بڑھ جائے گی… مسلمان آپس میں لڑیں اس کا کبھی بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلتا… مساجد کا تحفظ بہرحال ’’مسلمانوں‘‘ کا فرض ہے… ان تمام باتوں کو مدّنظر رکھ کر… آپ کل صبح ہی فجر کی نماز کے بعد مذکورہ بالا دعاء کا وظیفہ کریں… یہ دعاء اسماء الحسنیٰ اور ایک قرآنی آیت پر مشتمل ہے… الفاظ بہت اونچے اور شریعت کے عین مطابق ہیں… ایک سو بار یہ دعاء پڑھ کر… جامعہ حفصہؓ کی بیٹیوں کی حفاظت اور مقصد میں کامیابی کے لئے دعاء کریں… مساجد کے تحفظ کی دعاء کریں… ہماری اس بارے میں کیا ذمہ داری بنتی ہے… اس ذمہ داری کو سمجھنے اور ادا کرنے کی دعاء کریں… اور امت مسلمہ کے لئے اور تمام مجاہدین کے لئے دعاء کریں… خوب دل کھول کر مانگیں، خوب تڑپ کر مانگیں… پورے یقین کے ساتھ مانگیں…  اللہ  تعالیٰ ہم سب کی دعائیں قبول فرمائے… وہ بیٹیاں جو اسلام اور مساجد کے تحفظ کے لئے… کئی دن سے مشقت برداشت کر رہی ہیں وہ بھی… اس عمل کو پورے اخلاص کے ساتھ کریں… اور کثرت سے بسم  اللہ  الرحمن الرحیم کا ورد رکھیں…

 اللہ  تعالیٰ نے میدان عمل میں نکلنے والوں کو زیادہ ذکر کرنے کا حکم دیا ہے… اس لیے مصر اور بخارا وسمرقند کی مثالیں نہ دی جائیں کہ ختم بخاری اور وظائف سے کچھ نہیں ہوتا… ایک مشہور صحابی فرمایا کرتے تھے کہ … اگر میں رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے فلاں کلمات نہ پڑھوں تو یہودی مجھے اپنے جادو سے گدھا بنا دیں… میدان عمل میں نکلنے والوں کو تو ذکر  اللہ  سے بہت زیادہ نفع ملتا ہے اس لیے اس کا خوب اہتمام کرنا چاہئے…

یا  اللہ  رحم فرما… یا  اللہ  معاف فرما… یا  اللہ  نصرت نازل فرما… یا  اللہ  ان بیٹیوں کی حفاظت فرما… یا  اللہ  مساجد کی حفاظت فرما… یا  اللہ  ہمیں اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی توفیق عطاء فرما… قبول فرما، قبول فرما، قبول فرما…

آمین یا رب المستضعفین یا ارحم الراحمین

وصلی  اللہ  تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین

٭٭٭