رنگ و نور جلد دہم
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 506
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ
امیر
المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ
اللہ علیہ کی رحلت…
غم
اور مشکل کا اندھیرا…
محبت
اپنی جگہ مگر!… امید کی روشنی…
بڑی
نسبتوں کے امین…
سیاسی
بصیرت کا عروج…
سالوں
میں صدیوں کا سفر کرنے والے…
حضرت
امیرالمؤمنین رحمۃ اللہ علیہ ، حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ…
حضرت
امیر المؤمنین رحمۃ اللہ علیہ ، ہر سعادت
پر قابض و متمکن…
مضبوط
اور عزم کے پکے انسان…
ایسے
انسان کروڑوں، اربوں میں ایک آدھ ہوتے ہیں…
حضرت
امیر المؤمنین رحمۃ اللہ علیہ سے ایک ملاقات کا حال…
حافظ
شیراز رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں…
حضرت
امیر المؤمنین رحمۃ اللہ علیہ کا عزم و ہمت اور ایمان و یقین سے بھر پور ایک
فرمان…
حضرت
امیر المؤمنین رحمۃ اللہ علیہ کے عشق و محبت میں ڈوبی… ان کی شخصیت و صفات کو
اجاگر کرتی… ان کے ناقدین کے منہ توڑتی… ان کی خدمات و احسانات یاد دلاتی…
ایک
روتی اور رلاتی… البیلی تحریر…
۲۴شوال۱۴۳۶ھ؍ ۰۹اگست۲۰۱۵ء
حضرت امیر المؤمنین رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ
اللہ
تعالیٰ انہیں ’’مغفرت کاملہ‘‘ اور اپنے قربِ خاص کا مقام عطاء فرمائے…
آہ!
حضرت امیر المومنین بھی چلے گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
غم
اور مشکل کا اندھیرا
حضرت
امیر المومنین جیسے افراد جب دنیا سے اٹھتے ہیں تو آسمان بھی روتا ہے اور زمین
بھی… اور ساری اچھی مخلوقات بھی… ہم تو انسان ہیں، بہت کمزور … پھر ان کے مامور
ہیں… اور ایک اللہ کی خاطر ان سے محبت کرنے والے…
وہ
ہمارے خواب بھی تھے اور خوابوں کی تعبیر بھی… وہ ہمارے رہنما بھی تھے اور محبوب
بھی… آج کا مضمون میرے لئے بہت مشکل ہے… بہت ہی مشکل کیونکہ!!
٭ ان سے
الحمدللہ سچی محبت تھی… اللہ تعالیٰ ہی اس محبت کا حال جانتا ہے… ایسے محبوب کے
بارے میں بار بار ماضی کا صیغہ استعمال کرنا کہ وہ ایسے تھے، اس طرح تھے… یہ بڑا
مشکل کام ہے…
٭ خود
کو کبھی اس بارے میں ذہنی طور پر تیار ہی نہیں کیا کہ… وہ ہم سے پہلے چلے جائیں
گے… حالانکہ وہ مستقل موت کے قریب تھے مگر دل کی خواہش تھی کہ… ہم ان سے پہلے ’’ان
کی زندگی میں چلے جائیں‘‘ ان تک خبر پہنچے اور وہ ہماری مغفرت کے لئے دعاء فرما
دیں… مگر وہ پہلے چلے گئے… دل پر جو گذر رہی ہے وہ بتانا آسان نہیں…
٭ وہ
ماشاء اللہ بہت اونچے اور باصفات انسان تھے… بلا مبالغہ ایک مثالی یعنی آئیڈیل
شخصیت… اور ہم بے کار اور بے صفت انسان… ہم میں اور ان میں زمین و آسمان کا فرق
ہے… اب زمین کس طرح سے آسمان کی بلندی بیان کرے… واقعی مشکل کام ہے… اپنے زمانے
کے بڑے انسانوں کو سمجھنا اور ان کے بارے میں دوسروں کو سمجھانا ہر کسی کے بس کی
بات نہیں ہے…
٭ ان کے
بارے میں ہمیشہ یہ ذہن رہا کہ وہ حکم دیں اور ہم اطاعت کریں… اللہ تعالیٰ کا شکر
ہے کہ ان کی اطاعت اور محبت میں نہ تو جان بوجھ کر کبھی کوتاہی کی… اور نہ اس بارے
میں کبھی کسی کی پرواہ کی… یہ تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے بارے میں کوئی تبصرہ
کرنے یا لکھنے کا جوکھم بھی اٹھانا ہو گا… کسی وفادار مامور کا مبصر بن جانا آسان
کام نہیں ہے…
بہرحال
غم ہے، صدمہ ہے، ذمہ داری ہے… اور لکھنا بھی ضروری ہے… وہ اس کے محتاج نہیں مگر ہم
تو محتاج ہیں… اب اس مشکل میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد کا سوال ہے…
٭ ان کے
کارنامے بے شمار ہیں… ان کی کرامات ماشاء اللہ کثیر ہیں… ان کی حصولیابیاں اور
کامیابیاں ایک شان رکھتی ہیں… ان کی صفات میں بہت روشنی ہے… ان سب باتوں کا خلاصہ
بھی ایک کتاب کی جگہ مانگتا ہے… ایک چھوٹے سے مضمون میں کیا لکھا جائے اور کیا
چھوڑا جائے؟… یہ انتخاب بھی مشکل کام ہے…
یا
اللہ ! صبر اور ہمت کا ایک جام پلا دیجئے… تاکہ یہ ساری مشکلات آسان ہو جائیں…
الا
یا ایھا الساقی ادر کأسا و ناولھا
کہ
عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلھا
شب
تاریک و بیم موج و گرداب چنیں ھائل
دل
افگندیم بسم اللہ مجرھا ومرسٰھا
محبت
اپنی جگہ مگر!!
ہماری
محبت اپنی جگہ مگر … اللہ تعالیٰ کے وہ مخلص بندے جو اللہ تعالیٰ کے لئے سخت محنت
اور مزدوری کرتے ہیں…آخر ان کا بھی حق ہے کہ… وہ اپنے محبوب رب سے اجر اور اجرت
پانے جائیں… جی ہاں! ان کا حق ہے کہ ان کی مشکل زندگی… آرام دہ عیش وعشرت میں
تبدیل ہو… جہاد والی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے… روپوشی بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے…
اتنے مشکل حالات میں اتنے بڑے لشکر کی کمان اور قیادت کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے…
جو شخص مسلسل تیرہ سال سے یہ ساری مشکلات جھیل رہا ہو… اس کا حق ہے کہ وہ راحت و
آرام کے پر سکون جزیرے پر اکرام کے لئے بلایا جائے… حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’جب حضرات انبیاء علیہم
السلام سے وہ کام لے لیا جاتا ہے… جو ان
کے دنیا میں تشریف لانے پر موقوف ہوتا ہے تو انہیں اس فانی،دکھ درد بھری، ناقص
دنیا سے اٹھا لیا جاتا ہے… کیونکہ یہ فانی دنیا ارواح مقدسہ کے رہنے کی جگہ نہیں
ہے… یہ مقدس روحیں تو اس ناقص گھر میں بعض ضروری کاموں کی تدبیر کے لئے بھیجی جاتی
ہیں… پس جیسے ہی وہ کام پورا ہوتا ہے ان ارواح کو بڑے آرام دہ گھر کی طرف بلا لیا
جاتا ہے۔‘‘ (مفہوم تفسیر عزیزی)
یہی
حال اللہ تعالیٰ کے اولیاء صدیقین اور مقربین کا ہے… حضرت امیر المومنین بھی جس
کام کے لئے اس دنیا میں آئے تھے وہ جب پورا ہو چکا تو وہ چلے گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
اُمید
کی روشنی
حضرت
الامیرؒ کی جدائی کا غم بڑا ہے… بڑا درخت گرتا ہے تو زمین دور دور تک اکھڑ جاتی
ہے، لرز جاتی ہے مگر اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور آخری دین ہے… اس دین کی
گود کبھی بانجھ نہیں ہوتی… ایک مخلص فرزند جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے… جہاد عزت
و عظمت کا کارخانہ ہے… یہ کارخانہ اپنے کاریگر اور کارکن بنانے میں خود کفیل ہے،
اور ماشاء اللہ آج تو جہاد اس قدر پھیل چکا ہے کہ… اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں
رہا… حضرت امیر المومنین کی محنت، تدبیر اور قربانی کی برکت سے جہاد پورے عالم
اسلام میں پہنچ چکا ہے… عالم کفر نے حضرت امیر المومنین کی وفات پر زیادہ خوشی
نہیں منائی… اس کی دو بڑی وجوہات ہیں… پہلی تو یہ کہ عالم کفر اپنی ہوشربا عسکری
طاقت اور سائنسی ٹیکنالوجی استعمال کر کے بھی حضرت امیر المومنین کو نہیں ڈھونڈ
سکا… بڑے بڑے انعامات کے اعلان اور منافقوں کی بھرتی کے باوجود وہ حضرت امیر
المومنین کی ہوا تک نہ پا سکا… یہ اس کے لئے ایک ایسی عبرتناک ذلت، رسوائی اور
شرمندگی ہے جو ہمیشہ اس کے دل کا زخم بنی رہے گی… اور دوسری وجہ یہ کہ حضرت امیر
المومنین آج سے دو سال دو ماہ قبل وفات پا گئے مگر پورے افغانستان میں جہاد مکمل
آب و تاب سے جاری رہا… جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت امیر المومنین رحمۃ اللہ
علیہ مستقبل پر نظر رکھنے والے ایک مدبر
اور صاحب بصیرت قائد اور امیر تھے… انہوں نے جہاد کو اپنی ذات کے ساتھ ایسا نہیں
باندھا کہ ان کے جانے سے جہاد بھی مٹی میں دفن ہو جائے… بلکہ انہوں نے خود کو کھپا
کر، مٹا کر جہاد کی تحریک کو منظم اور خود کار بنایا… انہوں نے جہادی دستوں کی
ایسی ترتیب بنائی کہ ان کی شہادت سے یہ کام رکنے کی بجائے اور زیادہ تیز ہو جائے…
انہوں نے مجاہدین کے لئے مستحکم نظام وضع فرمایا… اصل توجہ محاذوں پر رکھی اور
محاذوں کی آبادی اور آبیاری کے لئے تعلیمی، نشریاتی، تبلیغی، اعلامی، مالی، طبی
اور سیاسی شعبوں کا جال بچھا دیا… انہوں نے جہاد اور مجاہدین کو مال کا محتاج
بنانے کی بجائے… مال سے دوری اور مال میں احتیاط کا عادی بنایا… انہوں نے جماعت کو
شوریٰ اور احتساب کے نظام میں باندھ دیا… اور ہر شخص کو اس کی اہلیت کے کام پر لگا
کر اسے کسی کی نگرانی میں دے دیا… یوں وہ اپنا سب کچھ کام میں لگا کر اپنی ذات کو
ایک طرف کرتے چلے گئے… یہ سب کچھ صرف وہی انسان کر سکتا ہے جس کا ایمان بھی کامل
ہو اور اخلاص بھی مکمل ہو… خلاصہ یہ کہ وہ اپنی زندگی میں ایک ایسی مضبوط بنیاد
رکھ گئے ہیں کہ جس پر بہت وسیع اور عالی شان عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے… اللہ کرے
ان کی جماعت ان کی ڈالی ہوئی بنیادپر قائم رہے اور ان کے طریقہ کار اور نظریات پر
کاربند رہے… تب ان شاء اللہ کوئی خطرہ نہیں، کوئی اندیشہ نہیں…
ہاں!
کمی تو محسوس ہو گی کیونکہ ایسا بے غرض، بے لوث، مدبر اور مخلص رہبر چلا گیا…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
بڑی
نسبتوں کے امین
اللہ
تعالیٰ نے حضرت امیر المومنین کو سابقین اوّلین کی کئی نسبتیں عطاء فرمائیں… اہل
علم اگر انصاف سے غور کریں گے تو ضرور حضرت امیر المومنین کو پندرھویں صدی ہجری
کا’’ مجدِّد‘‘ مانیں گے… شہید اسلام حضرت اقدس مولٰنا محمد یوسف لدھیانوی قدس سرہ
نے جب افغانستان کا سفر فرمایا تو ان پر عجیب والہانہ کیفیات طاری رہیں… ایک بار
فرمایا قندھار سے کابل تک ایک آدمی بھی بغیر داڑھی کے نظر نہیں آیا… کوئی ایک
عورت بھی بے پردہ نہیں… یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟… ہم ساری زندگی محنت کر کے ایک گلی
یا ایک محلے میں یہ ماحول قائم نہیں کر سکتے… جو یہاں ہزاروں میل تک قائم ہو چکا
ہے… یہ سب باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک اور آنسو ایک ساتھ جمع ہو جاتے
اور وہ بے خودی کے عالم میں حضرت امیر المومنین کی تعریف کرتے رہتے… حالانکہ سب
جانتے ہیں کہ وہ کس قدر اونچے معیار کے عالم، بزرگ اور ولی تھے… اور مبالغہ آرائی
ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی تھی… حضرت اقدس مولٰنا محمد موسیٰ روحانی قدس سرہ نے
فرمایا کہ… امیر المومنین رحمۃ اللہ علیہ نے سو فیصد حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم
اجمعین کا دور زندہ فرما دیا ہے… بات نسبت
کی چل رہی تھی … حضرت امیر المومنینؒ کو اصل نسبت تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیب ہوئی… اس نسبت کی
تفصیل جاننی ہو تو حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی وہ تحریر پڑھ لیجئے جو انہوں نے حضرت سید
احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کے بارے
میں لکھی ہے… دنیا میں جب کچھ پتھروں کو جوڑ کر کوئی بت بنا لیا جاتا ہے تو یہ بت
بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پتھر وغیرہ سے بنتا ہے… اس لئے وہ انتظار کرتا ہے
کہ کوئی بت شکن آئے اور اسے توڑ ڈالے تاکہ… اللہ کے سوا اس کی پوجا نہ کی جا
سکے… بامیان کے بتوں کو دو ہزار سالوں سے
اپنے بت شکن کا انتظار تھا… اور ان بتوں کے محافظ اس زمانے میں بہت مالدار اور
طاقتور تھے… حضرت امیر المومنین کو اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم سعادت عطاء فرمائی کہ…
وہ بت شکن بنے جو کہ ان کی نسبت ابراہیمی کا ثبوت ہے… زمانے کا فرعون خود کو
ناقابل تسخیر سمجھ کر سپر پاور ہونے کے دعوے کر رہا تھا… نیو ورلڈ آرڈر اس کا
اعلان تھا…
﴿ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی… ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ
غَیْرِیْ﴾
حضرت
امیر المومنین نے اس فرعون کو شکست دے کر بے آبروئی کے سمندر میں گرا دیا… جو آپ
کی نسبت موسوی کی طرف واضح اشارہ ہے…
حضرت
امیر المومنین کا وصال اپریل ۲۰۱۳ء
میں ہوا… مگر وہ اس کے بعد بھی دو سال دو ماہ تک اپنے دشمنوں اور دوستوں کو زندہ
نظر آتے رہے… دوستوں کا لشکر ان کے نام، تعلق اور محبت سے چلتا رہا… جبکہ ان کے
دشمن ان کے رعب اور خوف کے ’’عذاب مھین‘‘ میں مبتلا رہے… یہ حضرت کی سلیمانی نسبت
کا اثر تھا…
آپکی
صدیقی نسبت بہت گہری تھی… صدیق کسے کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں؟… یہ ہم ان
شاء اللہ تھوڑا آگے چل کر عرض کریں گے… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
اَیَنْقُصُ
الدِّیْنُ وَاَنَا حَیٌّی
میری
زندگی میں دین کا حکم ختم ہو… یہ ممکن نہیں ہے… حضرت امیر المومنین نے بھی دین کے
ہر حکم کے احیاء کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں… حضرت امیر المومنین کی خاص نسبت
فاروقی تھی… نام سے لے کر کام تک… مزاج سے لے کر جلال تک آپ حضرت سیّدنا عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کی شاندار نسبت سے مالا مال تھے…
یاد
رکھیں!… اس اُمت میں حضرات انبیاء علیہم
السلام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نسبتیں قیامت تک
چلتی رہیں گی…﴿وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ﴾
آہ!
اس زمانے میں اتنی بڑی نسبتوں کا امین شخص چلا گیا، چلا گیا…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
سیاسی
بصیرت کا عروج
اخبارات
میں ایک جملہ پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ… نعوذ باللہ حضرت امیر المومنین سیاسی
بصیرت نہیں رکھتے تھے… ایک اور ظالمانہ جملہ بھی چل رہا ہے کہ نعوذ باللہ حضرت
امیر المومنین پاکستان کے خفیہ اداروں کے مہرے تھے… اس ظالمانہ، فاسقانہ جملے کا
جواب دینا بھی جائز نہیں… جو بھی ایسا کہہ رہے ہیں وہ بدترین غیبت اور بڑے گناہ کا
ارتکاب کر رہے ہیں… مگر پہلے جملے کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے… کیونکہ وہ
جملہ ایسے افراد لکھ رہے ہیں جو حضرت امیر المومنین کے اخلاص، شجاعت اور دیگر کئی
صفات کے بظاہر معترف ہیں… وہ کہتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین کی دیگر تمام صفات
بجا مگر ان میں سیاسی بصیرت نہیں تھی… اس لئے وہ بڑے اہم مواقع سے فائدہ نہ اٹھا
سکے… وہ اپنے فیصلوں کی وجہ سے خود بھی مشکلات کا شکار رہے… اور اپنے رفقاء کو بھی
مسلسل مشکلات میں ڈالتے رہے… حضرت امیر المؤمنین کے بارے میں یہ تجزیہ انتہائی
غلط… بلکہ ظالمانہ ہے… اندازہ لگائیں…
٭ بیس
سال تک دنیا کی سب سے بڑی جہادی جماعت کی مدبرانہ قیادت… کبھی آپ کی امارت پر
اختلاف نہ ہوا…
٭ چھ
سال تک افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر ایک عادلانہ، منصفانہ حکومت چلانا… آج جو
وزیر اعظم اپنے پانچ سال کسی طرح کاٹ لے اس کی سیاسی بصیرت کے گن گائے جاتے ہیں…
اسلامی حکومت کو تو آج کل کا قابض استعمار چھ ہفتے بھی نہیں چلنے دیتا…
٭ اپنے
ایک حکم کے ذریعے افغانستان جیسے معاشرے میں امن قائم کرنا، پوست کی کاشت روکنا
اور منصفانہ عدالتی نظام قائم کرنا سیاسی بصیرت نہیں تو اور کیا ہے؟… اعتراض کرنے
والے اپنا گھر اور اپنے چار ملازمین کو اس طرح چلا کر دکھا دیں…
٭ دنیا کے سب سے بڑے، طاقتور اور متحدہ لشکر کا تیرہ سال تک مقابلہ
کرنا اور بالآخر اس کو شکست سے دوچار کرنا… کیا یہ سیاسی بصیرت کے بغیر ممکن ہے؟…
٭ دنیا کا سب سے مطلوب شخص ہونے کے باوجود اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا
اور دشمن سے پوشیدہ رہ کر اتنے طویل عرصے تک اپنے لشکروں کی کمان کرنا… اس سے بڑھ
کر کسی بصیرت کا تصور بھی ممکن ہے؟…
٭ کسی بھی ملک اور ادارے کی امداد کے بغیر ایک بڑی جنگ لڑنا اور اس
میں با آبرو رہنا… ایسا شاید دنیا بھر کے تمام دماغ مل کر بھی نہ کر سکیں…
ہم
مانتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین انسان تھے، بشر تھے… وہ فرشتہ، پیغمبر، صحابی یا
تابعی نہیں تھے ان میں بھی کمزوری ہو گی مگر سیاسی بصیرت نہ ہونے کا دعویٰ بہت
فضول اور بے کار ہے… جس سیاسی بصیرت… اور مواقع سے فائدہ نہ اٹھانے کا رونا آپ رو
رہے ہیں… یہ بصیرت قذافی نے اختیار کی اور اسی کے نتیجے میں ذلت کی موت مارا گیا…
یہی بصیرت صدام حسین نے اپنائی تو پکڑا گیا اور پھانسی پر شہید ہوا… عالمی سامراج
کی سیاست یہی ہے کہ جو مسلمان حکمران ان کی غلامی میں نہیں چلتا اور اپنے موقف پر
آگے بڑھتا ہے تو وہ اس کے گرد جعلی دوستوں اور خیر خواہوں کا جال بچھاتے ہیں… یہ
دوست اس حکمران کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر … اور اچھی طرح ڈرا کر ایک قدم
پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتے ہیں… پھر جیسے ہی وہ قدم پیچھے ہٹاتا ہے تو اسے ذلت کی
موت مار دیتے ہیں… قذافی بہت دھاڑتا تھا، اسے مقبولیت کے سبز باغ دکھا کر پیچھے
ہٹایا گیا… پیچھے ہٹتے ہی وہ اپنے جذباتی حامیوں سے محروم ہوا تو اسے ذلت کی موت
مار دیا گیا… یہی صدام کے ساتھ ہوا… ان دونوں نے بظاہر سیاسی بصیرت کے تحت عالم
کفر کے بہت سے مطالبات مانے… اگر خدانخواستہ حضرت امیر المومنینؒ اپنی حکومت بچانے
کے لئے ایسا کرتے… بامیان کے بت نہ گراتے، شیخ اسامہ کو پکڑ کر حوالے کر دیتے…
انڈین طیارے کو نہ اترنے دیتے… این جی اوز کو بے لگام چھوڑ دیتے… تب بھی ان کو نہ
چھوڑا جاتا… ڈو مور، ڈومور بھونکتے ہوئے وحشی کتے پھر کسی بہانے ان پر حملہ آور
ہوتے کیونکہ ان کے لئے مسلمانوں کی خود مختار حکومت کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے…
حضرت امیر المومنین بھی اگر ایک قدم پیچھے ہٹا لیتے تو ان کو ذلیل کر کے مارا
جاتا… حضرت تو قابل رشک سیاسی بصیرت رکھتے تھے… وہ آگے بڑھتے رہے… تب قدرت نے ان
کی جھولی عزت، اکرام اور فتوحات سے بھر دی… ان کی بصیرت اور استقامت کی برکت سے یہ
تصور ختم ہوا کہ ہر مسلمان حکمران کو جھکایا اور دبایا جا سکتا ہے… الحمد للہ ان
کے اس عمل کی برکت سے ساری دنیا میں اسلام کو عزت ملی اور لوگ فوج در فوج اسلام
میں داخل ہوئے… اور دنیا کے کئی خطوں میں مجاہدین کے لشکر وجود میں آئے… اور یہ
تاثر ختم ہوا کہ امریکہ اور یورپ کو شکست نہیں دی جا سکتی…
ہم
کیوں اپنی طرز فکر چھوڑیںہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ
انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
ہاں!
اگر سیاسی بصیرت کا مطلب پسپائی، غلامی، مفاد پرستی اور جھوٹ ہے تو واقعی حضرت
امیر المومنینؒ اس نام نہاد بصیرت سے پاک تھے…
سبحان
اللہ! ہمارے حضرت الامیر! دنیا سے اس حال میں گئے کہ ان کے چہرے پر ذلت، ہزیمت،
خود سپردگی، شکست، حسرت اور پشیمانی کا ایک داغ بھی نہیں تھا… ماشاء اللہ وہ کامل
بصیرت رکھنے والے پورے اور سالم مسلمان تھے… اور وہ اپنا ایمان سالم لے کر اس دنیا
سے چلے گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
سالوں
میں صدیوں کا سفر
کیا
آپ کو معلوم ہے کہ… حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر کتنی تھی؟… انہیں پانچواں خلیفۂ راشد
کہا جاتا ہے… عالم اسلام کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ان کا نام پہلے دس افراد میں
آتا ہے… اہل علم ہوں یا اہل جہاد… اہل تاریخ ہوں یا اہل تصوف سب ان کے آج تک
قصیدے پڑھتے ہیں… ان کا انتقال چالیس سال کی عمر میں ہوا… کہا جاتا ہے کہ ان کو
زہر دیا گیا تھا… اکثرصدیقین کی شہادت اسی طرح ہوتی ہے… اور یہ شہادت عام شہادت سے
زیادہ بلند ہوتی ہے… وہ ۶۱ھ
میں پیدا ہوئے اور ۱۰۱ھ
میں وفات پا گئے… خلافت کا کل زمانہ دو سال پانچ ماہ چار دن بنتا ہے… مگر یہ دو
سال … برکت، اجر اور عمل میں صدیوں پر بھاری ہیں…
محمد
بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ جو فاتح سندھ اور
مغربی پنجاب تھے… انہوں نے تیئس (۲۳) سال
کی عمر پائی… ۷۲ھ
میں پیدا ہوئے اور ۹۵ھ
میں وفات پا گئے… آج تک کسی مصنف یا خطیب کا جہادی بیان ان کے تذکرہ کے بغیر مکمل
نہیں ہوتا… اسے کہتے ہیں صدیوں کی کمائی…
فاتح
بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ … آج تک امت مسلمہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں…
انہوں نے کل چون یا پچپن سال کی عمر پائی… مگر ان کا نام، کام، کارخانہ اور برکتیں
آج تک جاری ہیں… اسے کہتے ہیں صدیوں کو فتح کرنا… ویسے پچاس سے پچپن سال کی عمر
کے دوران وفات پانے والے اہل کمال بہت زیادہ ہیں…
حضرت
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ لیجئے…
پورے ایک مسلک اور اربوں مسلمانوں کے امام…
۱۵۰ھ
میں پیدا ہوئے اور ۲۰۴ھ
وفات پا گئے… زمانے کے ذہین ترین بابے بھی ان کی تقلید پر فخر کرتے ہیں… حضرت امام
غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تقریباً یہی
عمر پائی مگر اور کاموں کے ساتھ اتنی کتابیں لکھ گئے کہ… اگر کوئی ان کو نقل کرنے
بیٹھے تو اس کی عمر بیت جائے…
سالوں
میں صدیوں کو فتح کرنے والے ان افراد میں ایک نیا نام شامل ہو گیا اور وہ ہیں…
ہمارے حضرت امیر المومنین … سبحان اللہ ! اتنا کام، اتنے کارنامے، اتنا وسیع
کارخانہ اور اتنی برکت… اور عمر ہجری حساب سے یہی چون پچپن سال… حضرت سیّد احمد
شہید رحمۃ اللہ علیہ سے آٹھ نو سال بڑے
اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عمر… ملا محمد عمر مجاہد اخوند رحمۃ اللہ
علیہ چلے گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ
ایک
بات ’’مکتوبِ خادم‘‘ میں لکھ دی تھی… ممکن ہے وہ کسی کو مبالغہ لگی ہو… اس لئے
قدرے وضاحت کے ساتھ عرض ہے… حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ نے اپنے والد محترم مسند
الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ… وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھے… بندہ نے عرض
کیا تھا کہ ہمارے حضرت امیر المومنینؒ بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھے … چاند زمین سے
کافی فاصلے پرہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کی انگلی مبارک کے اشارے نے اس پر اثرا ڈالا اور وہ دوٹکڑے ہو گیا… یہ
معجزہ تھا… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور رہنمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چودہ سو سال دور ایک انسان کے دل کو ایسا کر
دے کہ وہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں جیسا ہو جائے… یہ بھی معجزہ ہے… آج کئی لوگ
کہتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کا زمانہ نہیں پایا… ہم آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانہ مبارک سے چودہ سوسال دور
ہیں اس لئے ہم دین میں اس قدر پختہ نہیں ہو سکتے… مگر ایک انسان کے دل میں آج بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اپنی مکمل رعنائی کے ساتھ اتر جاتی ہے…
اور اس کو مسلمانوں کا برحق امام اور قائد بنا دیتی ہے تو یہ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے…
ویسے
بھی اس اُمت کے تمام ’’صدیقین‘‘ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہیں …کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تربیت ان کو مقام’’ صدیق‘‘ تک پہنچاتی
ہے… صدیقین کون ہوتے ہیں؟ تفصیل کا مقام نہیں بس ان کی چار علامات عرض ہیں:
١ صدیق
وہ ہوتا ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو…
٢ صدیق
وہ ہوتا ہے جو اپنے عزم اور ارادے میں ہرگز تردد نہیں کرتا، یعنی جس نیک کام کا
عزم و ارادہ باندھ لے پھر اسے نہیں چھوڑتا…
٣ دین کے
کاموں میں خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کوشش کرتا ہے… اپنی خواہشات نفس کو بالکل دخل
نہیں دیتا…
٤ اپنی
عمر کے ابتداء سے جھوٹ … اور دو رنگی بات کہنے سے دور رہتا ہے۔ (مفہوم تفسیر
عزیزی)
آپ
حضرت امیر المومنین رحمۃ اللہ علیہ کے
حالات کا بغور مشاہدہ کریں … ماشاء اللہ ان میں یہ سب علامات موجود تھیں…
ہماری
خوش نصیبی ہے کہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کا یہ معجزہ ہم نے اپنی آنکھوں سے
دیکھا… اس سے فیض پایا… اس کی قیادت میں کام کیا… حضرت امیر المومنینؒ کو اللہ
تعالیٰ کے ساتھ سچا اخلاص اور عشق نصیب تھا… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ نعمت نصیب
فرمائے…جگرؔ مرحوم کے دو شعر جو حضرت امیر المومنینؒ کے عشق کی تصویر کھینچتے ہیں…
قدرے ترمیم کے ساتھ پیش ہیں؎
جنہیں
کہیے عشق کی وسعتیں، جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ
اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر
میں
رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہیے کیا ’’عمر‘‘
غم
یار ہے میرا شیفتہ، میں فریفتہ غم یار پر
آہ!
زمانے کا وہ صدیق چلا گیا…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
ہر
سعادت پر قبضہ
اکثر
لوگ اپنی آئندہ کل کے مفادات سوچ سوچ کر… اپنے آج کو ویران کرتے رہتے ہیں…
مصلحت، مصلحت، مصلحت کی رٹ لگا کر ہر سعادت سے محروم رہتے ہیں… مگر عقلمند لوگ
اپنے ’’آج ‘‘ کو قیمتی بناتے ہیں… اور جو سعادت اور نیکی سامنے آئے اس کو فوراً
حاصل کر لیتے ہیں… اور کل کے خوف، خطرے اور اندیشے میں اپنے آج کا نقصان نہیں
کرتے…
امیر
المومنین کے دور حکومت میں جب نائن الیون کا واقعہ ہو چکا تھا… اور افغانستان پر
غیر ملکی حملہ قریب تھا… پاکستان کے ایک قومی سیاستدان سے ملاقات ہوئی… انہوں نے
بطور شکوہ بتایا کہ میں نے طالبان کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کافی محنت کی… مگر
انہوں نے چیچنیا کی حکومت کو تسلیم کر کے اور کابل کا روسی سفارتخانہ چیچن مجاہدین
کو دے کر… اور سنکیانک کے کچھ مسلمانوں کو پناہ دیکر سب کو ناراض کر دیا ہے… اور
میری ساری محنت رائیگاں گئی ہے… ان کی یہ تنقید سن کر مجھے حضرت امیر المومنینؒ کے
ایمان پر رشک آیا کہ واقعی وہ ایسے سچے مسلمان ہیں… جن کی زندگی کا ایجنڈا کبھی
بھی اسلام اور مسلمانوں سے باہر نہیں جاتا…
وہ
اسلام اور مسلمانوں کی خاطر اپنا ہر ذاتی نقصان خوشی سے قبول کرتے ہیں… اور صرف
اسلام اور مسلمانوں کے لئے جیتے ہیں… آسمان، زمین اور تمام مسلمان صدیوں سے ایسے
مسلمان حکمران کے لئے ترس رہے تھے… جو اسلام اور مسلمانوں کا خادم ہو… اور انہیں
سب سے زیادہ فوقیت دیتا ہو… امیر المومنینؒ کا زمانۂ حکومت اتنا ہی تھا جتنا ان
کو نصیب ہوا… اور ان کی زندگی اتنی ہی تھی جتنی انہوں نے گذار لی… وہ اگر چیچن
مسلمانوں کو ذبح کر کے، اور سنکیانک کے مظلوموں کو حوالے کر کے روس اور چین کو
اپنا دوست بنا بھی لیتے تو ان کی حکومت اور عمر کے دنوں میں اضافہ نہ ہوتا… روس نے
صدام کو کونسا بچا لیا؟… چین نے قذافی کی کیا مدد کی؟… اگر امیر المومنینؒ ان کی
دوستی کی خاطر مسلمانوں کے مفادات ذبح کرتے تو ان کی حکومت اسلام کے کیا کام
آتی؟… تاریخ میں کیا تبدیلی ہوتی ؟ زمین پر کون سے بیج بوتی؟ ایسے مسلمان حکمران
تو ہزاروں آئے اور مر گئے… مگر عمر تو عمر تھے… انہوں نے اپنی ہر چیز اسلام اور
مسلمانوں کے لئے قربان کی… وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت
بنے… تب روس بھی ان کے قدموں پر جھکا… چین نے بھی بارہا ان کو امداد کی خفیہ
پیشکشیں کیں… اور وہ بڑی امتیازی شان کے ساتھ جئے اور بڑی امتیازی شان کے ساتھ چلے
گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
ایک
خاص طبقہ
انسان
عمومی طور پر کمزور پیدا ہوا ہے… جو خود کو مضبوط سمجھتے ہیں ان کی مضبوطی بھی…
کئی مقامات اور کئی حالات میں بالآخر کمزور پڑ جاتی ہے… خوف، بیماری، اولاد، موت،
آنسو، معاشی مجبوری… اور بہت کچھ مضبوط انسانوں کے عزم کو کمزور کرنے والی چیزیں
ہیں… مگر کچھ لوگ واقعی بے حد مضبوط ہوتے ہیں… ان پر جیسے بھی حالات آ جائیں وہ
اپنے عزم اور ہٹ سے پیچھے نہیں ہٹتے… کبھی بھی نہیں، کسی بھی حال میں نہیں… ایسے
لوگ کروڑوں اربوں میں ایک آدھ ہوتے ہیں…
مثال
لیجئے… مکہ مکرمہ میں اس خاص مزاج کے دو افراد تھے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا… جمعہ کی رات،
اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ ان دو میں سے ایک مجھے عنایت ہو… تاکہ اسلام اور
مسلمانوں کے لئے عزت کا ذریعہ ہو… دعاء حضرت سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول ہوئی… وہ اسلام اور مسلمانوں کی
عزت کا ناقابل شکست ستون بن گئے… جبکہ دوسرا ضدی محروم رہا موت کے وقت تک اور موت
کے دوران بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا… وہ تھا عمرو بن ہشام یعنی ابو جہل… بعد کے
زمانے میں بھی ایسے افراد آتے رہے… اچھے بھی اور ُبرے بھی… تفصیل لکھوں تو آپ
حیران رہ جائیں گے… مضمون کی جگہ کم ہے… ہمارے حضرت امیر المومنین اسی خاص مزاج کے
انسان تھے… سردی ہو یا گرمی، غربت ہو یا امیری، زندگی ملے یا موت، تخت ہو یا تختہ،
کوئی راضی ہو یا ناراض، فائدہ نظر آئے یا نقصان، بس جس حق نظریہ پر ڈٹ گئے… اس سے
ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… ایسے افراد فطرت کے مخدوم ہوتے ہیں… فرشتوں سے لے
کر ہواؤں اور پہاڑوں تک سب ان کی خدمت میں لگے رہتے ہیں… ایسے افراد اپنے نظریے
اور اپنی قوم کے لئے عزت کا سامان ہوتے ہیں… ہمارے امیر المومنین بھی اس زمانے میں
اسلام، جہاد اور دینی غیرت کی عزت و آبرو بنے رہے اور اسی عزت و آبرو کی سلامتی
کے ساتھ چلے گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
ایک
ملاقات کا حال
گرفتاری
کا پہلا سانس ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ میں لیا تھا… اللہ تعالیٰ کشمیر کو آزادی عطاء
فرمائے… مگر اس طویل گرفتاری کے بعد آزادی کا پہلا سانس… حضرت امیر المومنین کے سایۂ شفقت ’’قندھار‘‘
میں لیا… ہم بالکل ان کے پڑوس میں، ان کی میزبانی اور شفقت کے مزے لوٹ رہے تھے…
مگر زیارت سے محروم، شوق سے تڑپتے ہوئے…
اللہ
رے تیغ عشق کی برھم نوازیاں
میرے
ہی خون شوق نے نہلا دیا مجھے
ان
کے عالی مقام اور حالات کی نزاکت کے باعث عزم تھا کہ محبت کو ضبط کریں گے…ملاقات
کا اصرار نہ کریں گے… مگر ان کی دلنوازیاں… اللہ، اللہ… ایک بار پہننے کے لئے غریب مسافروں کو کپڑے
بھیج دئیے… کبھی ان کا چھوٹا بھائی آنکھوں میں پیغام محبت بھرے سامنے آ بیٹھتا
اور ہم اس کے چہرے میں… اپنے محبوب کے نقوش تلاش کرتے… ایک بار تو حد ہو گئی…
پیغام آیا کہ یہاں رہنا چاہو تو میرا ملک، میرا شہر حاضر ہے… جانا چاہو تو دعاؤں
کے ساتھ اجازت ہے…
دعویٰ
کیا تھا ضبط محبت کا اے جگر!
ظالم
نے بات بات پر تڑپا دیا مجھے
بالآخر
اسی تڑپ کو دل میں دبائے، پاکستان آ گئے… مگر دل وہیں چھوڑ آئے تھے… اس نے خوب
سفارتکاری کی یہاں تک کہ ملاقات کا بلاوا آ گیا…
کام
آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل
کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہمارا
قافلہ ایک بار پھر قندھار روانہ ہو گیا…
اوّل
اوّل ہر قدم پر تھیں ہزاروں منزلیں
آخر
آخر اک مقام بے مقام آ ہی گیا
التفات
چشم ساقی کی سبک تابی نہ پوچھ
میں
یہ سمجھا جیسے مجھ تک دور جام آ ہی گیا
عشق
کو تھا کب سے اپنی خشک دامانی کا رنج
ناگہاں
آنکھوں سے اشکوں کا سلام آ ہی گیا
جگر
مرحوم سے معذرت کے ساتھ:
بے
’’عمر‘‘ سُونا پڑا تھا مدتوں سے مے کدہ
پھر
وہ دریا نوش، رندتشنہ کام آ ہی گیا
ملاقات
کا منظر عجیب تھا… رعب اور اپنائیت، خوف اور محبت… احتیاط اور شوق… کیا کہیں گے؟…
کیا کہہ سکیں گے؟… نہیں نہیں صرف سنیں گے… ہاں! مگر آنکھوں سے جام بھریں گے… مگر
دیکھیں گے کیسے؟… نظریں کہاں ملا سکیں
گے؟… چلو قدم مبارک پر نظر جما لیں گے… مگر ملاقات ہوتے ہی سب دوریاں، قربتوں میں
بدل گئیں…
نظر
سے ان کی پہلی نظر یوں مل گئی اپنی
حقیقت
میں تھی جیسے مدتوں سے دوستی اپنی
اور…
حسن
کی سحرکاریاں عشق کے دل سے پوچھیے
وصل
کبھی ہے ہجر سا، ہجر کبھی وصال سا
گم
شدگان عشق کی شان بھی کیا عجیب ہے
آنکھ
میں اک سرور سا چہرے پہ ایک جلال سا
مصافحہ،
معانقہ، بہت مختصر حال احوال اور پھر خاموشی…
دل
بن گیا نگاہ، نگہ بن گئی زباں
آج
اک سکوتِ شوق قیامت ہی ڈھا گیا
جو
دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ
کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا
ویسے
جگر کی اس غزل کا ایک شعر تو حضرت امیر المومنینؒ پر خوب جچتا ہے…
اپنا
زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم
وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
ان
دنوں ہم جہاں جاتے… بہت طویل باتیں سنتے… مشورے، احکامات، اُمیدیں، تنبیہات… یہاں
سراپا گوش بنے بیٹھے تھے… مگر دلنواز خاموشی… نہ کوئی حکم نہ کوئی مشورہ… نہ
احسانات کی فہرست نہ کوئی مطالبہ… ہاں! وہ بہت کم بولتے تھے، مگر جب بولتے تو موتی
جھڑتے… تب مجبوراً ادب کے ساتھ زبان کھولی… کچھ حال سنایا، اپنے عہد و پیمان کو جو
جیل میں باندھا تھا تازہ کیا… کچھ رہنمائی لی… تب جچے تلے جوابات ملنا شروع ہوئے…
اور ایک حسین خواب کی طرح پہلی ملاقات ختم ہو گئی… کچھ عرصے بعد دوسری ملاقات
ہوئی… اس دن ایک حسّاس موضوع تھا تو خوب بولے… دل میں آرزو تھی کہ یہ لمحات زندگی
میں بار بار آئیں… ان کی روپوشی کے دوران کئی بار سوچا کہ اگر حالات ٹھیک ہو گئے
تو انہی کے قدموں میں جا بسوں گا… ان سے ان کے دفتر میں جھاڑو کی خدمت مانگوں گا…
نہ عہدہ، نہ منصب… نہ تقریریں نہ تحریریں…محبوب رب کی بارگاہ میں مقبول ایک انسان
کی نوکری، چاکری… اور اس کی زیارت… اپنے دل سے کئی بار سچ سچ پوچھا… اسے یہ نوکری
اور چاکری دنیا بھر کی بادشاہت سے زیادہ عزیز تھی… انہیں خیالوں اور خوابوں میں چل
رہے تھے کہ پتا چلا کہ… وہ تو چلے گئے…
رفت
ساقی بسوئے ساقی دست تہی میخانہ شد
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
حافظ
شیراز رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں
حافظ
شیراز رحمۃ اللہ علیہ سے پرانی یاری ہے…
وہ اپنے دیوان میں تشریف فرما آتے ہیں… کبھی رُلاتے ہیں، کبھی رقصاتے ہیں اور
کبھی زخموں پر مرہم رکھتے ہیں… اس عظیم صدمے کے موقع پر بھی آ گئے… شاید دل غمزدہ
کو پرُسا دینے، تعزیت فرمانے…
کپکپاتے
ہاتھوں سے دیوان کھولی تو حافظ کہنے لگے…
حال
ماو فرقت جاناں وابرام رقیب
جملہ
میداند خدائے حال گرداں غم مخور
ہمارا
حال اور محبوب کی جدائی اور دشمنوں کا ستانا… یہ سب کچھ اس اللہ تعالیٰ کے علم میں
ہے جو حال کا بدلنے والا ہے، اس لئے غم مت کھاؤ…
گرچہ
منزل بس خطرناک ست و مقصد ناپدید
ہیچ
راہے نیست کو را نیست پایاں غم مخور
اگرچہ
منزل بہت خطرناک ہے اور مقصود بھی حاصل نہیں۔ مگر کوئی راستہ ایسا نہیں جو ختم نہ
ہونے والا ہو اس لئے غم مت کھاؤ…
دور
گردوں گردو روزے بر مراد مانگشت
دائما
یکساں نماند کار دوراں غم مخور
آسمان
کی گردش اگر ایک روز ہماری مراد کے موافق نہیں ہوئی… مگر زمانے کا کام کبھی ایک
جیسا نہیں رہتا، غم مت کھاؤ…
حافظا
در کنج فقرو خلوت شبہائے تار
تابود
وِردت دعا ودرسِ قرآں غم مخور
حافظؒ
سے عرض کیا کہ… حضرت امیر المومنین کے حسب حال کچھ ارشاد ہو… فرمایا: ان کے اللہ
تعالیٰ کے ساتھ عشق، وفاداری… اور ان کی وسیع روحانی سلطنت پر عرض ہے…
عشقت
نہ سرسری ست کہ از سر بدرشود
مہرت
نہ عارضی ست کہ جائے دگرشود
تیرا
عشق ایسا سرسری نہیں کہ میرے سر سے نکل جائے… تیری محبت عارضی نہیں کہ کسی اور کے
ساتھ جڑ جائے…
عشق
تو در وجودم و مہر تو دردلم
باشیردر
دروں شد وباجاں بدرشود
تیرا
عشق میرے وجود میں اور تیری محبت میرے دل میں اتر چکی ہے۔ یہ ماں کے دودھ کے ساتھ
اندر گئی ہے اور جان کے ساتھ نکلے گی…
دردیست
درد عشق کہ اندر علاج او
ہر
چند سعی بیش نمائی بتر شود
عشق
کا درد ایسا درد ہے کہ اس کے علاج میں جس قدر کوشش کرو گے یہ بڑھتا ہی جائے گا…
اول
منم یکے کہ دریں شہر ہر شبے
فریاد
من بگنبد افلاک بر شود
اس
شہر میں جس کی فریاد ہر رات سب سے پہلے آسمانوں کے اوپر جاتی ہے وہ میں ہی ہوں…
اگلا
شعر بہت ہی عجیب ہے… توجہ سے ملاحظہ فرمائیں…
ور
زانکہ من سرشک فشانم بزندہ رود
کِشت
عراق جملہ بیکبار ترشود
اس
وجہ سے کہ جب میں ’’زندہ رود‘‘ پر آنسو
گراتا ہوں تو عراق کے کھیت سب یکبارگی تروتازہ ہو جاتے ہیں۔
’’زندہ رود‘‘ اصفہاں کا دریا ہے یعنی جب میں اپنے شہر میں آنسو
گراتا ہوں تو ان آنسوؤں سے دریاؤں میں ایسا زوردار سیلاب آتا ہے کہ… دور دور
تک کے خشک کھیت سیراب ہو جاتے ہیں… خاص طور سے عراق کے کھیت… حضرت امیر المومنین
کی آہوں اور آنسوؤں سے جہاد کا ایسا سیلابی ریلا اٹھا کہ… عراق میں بھی تحریک
کھڑی ہوئی… اور دجلہ اور فرات کے دریا… دشمنان اسلام کی لاشوں سے بھر گئے… اور
ایمان و جہاد کے خشک کھیت سرسبز ہو کر لہلہانے لگے… آج جو عراق و شام کے اتنے بڑے
لشکر نظر آتے ہیں … ان سب کے پیچھے ملا محمد عمر مجاہد کی آہیں، آنسو، محنت،
استقامت اور فکر ہے… آہ! وہ فاتح عالم چلا گیا…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
مِسْکُ
الخِتَام
ہمارے
لئے سعادت کی بات ہے کہ ہم اپنی آج کی مجلس کا اختتام اپنے ’’میر مجلس‘‘ حضرت امیر المومنینؒ کے ایک فرمان پر کر رہے
ہیں… یہ فرمان آپؒ نے افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کے حملے کے فوری بعد جاری
فرمایا… اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی بات کو سچا فرما دیا… ہم اس بیان کی
روشنی میں حضرت امیر المومنین کی شخصیت کے کئی پہلو سمجھ سکتے ہیں… حضرت امیر
المومنین نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ کے لئے امریکا اور
چیونٹی دونوں ایک برابر ہیں… امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ
’’امارت اسلامیہ‘‘ ایسا نظام نہیں کہ اس کا امیر ’’ظاہر شاہ‘‘ کی طرح روم چلا جائے
گا اور فوج تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دے گی… بلکہ یہ جہاد کا منظم محاذ ہے۔ اگر تم
شہروں اور دارالحکومت پر قابض ہو بھی جاؤ، اسلامی حکومت گرا بھی دو، تو ہمارے
مجاہدین دیہاتوں اور پہاڑوں میں چلے جائیں گے تب پھر تم کیا کرو گے؟… تم پھر
کیمیونسٹوں کی طرح ہر جگہ مارے جاؤ گے… تم جان لو کہ بد انتظامی اور جنگ بھڑکانا
آسان ہے، مگر اس بد انتظامی اور جنگ کا خاتمہ کرنا اور ایک نظام قائم کرنامشکل
ہے، موت برحق ہے، اور سب کو آئے گی… امریکا کی حمایت میں بے ایمانی اور بے غیرتی
کی حالت میں موت آئے یہ اچھا ہو گا؟ یا اسلام میں،ایمان کے ساتھ اور غیرت کی حالت
میں موت کا آنا زیادہ بہتر ہو گا۔‘‘
(خادم الاسلام ملا محمد عمر مجاہد)
آہ!
وہ اللہ کی تلوار، اسلام کا شیر اور دینی غیرت کا ستون چلا گیا…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ، اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ
اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 491
اِلیٰ
مغفرۃ!!(قسط۔۱)
’’مغفرت‘‘ کوئی معمولی چیز نہیں…
’’مغفرت‘‘ کی خاطر فرعون کے مظالم بھی قبول…
حضرات
انبیاء کرام علیہم السلام جیسی با برکت
اور معصوم ہستیاں بھی ’’مغفرت‘‘ کی خواہاں…
’’مغفرت‘‘ کا انعام ملنے پر سیّد الانبیاء و المرسلین صلی اللہ
علیہ وسلم کی دیدنی خوشی اور فرحت…
’’مغفرت‘‘ اور ’’استغفار‘‘ کا جوڑ…
قران
کریم میں موضوعات کو بکھیرنے کی ایک حکمت…
کیا
کسی ایک موضوع کی آیات کو الگ جمع کرنا جائز ہے؟…
جن
لوگوں پر اُمت کی اجتماعی ذمہ داریوں کا بوجھ ہو ان کے
وقت
اور راحت کا خیال رکھنا ضروری …
’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کیسے وجود میں آئی؟ اس کا ابتدائی قصہ…
ان
تمام حقائق سے پردہ اٹھاتی ایک چشم کشا تحریر…
٭٭٭
۲۵جمادی الثانی۱۴۳۶ھ؍۱۵اپریل۲۰۱۵ء
اِلیٰ مغفرۃ!!(قسط۔۱)
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو ’’مغفرت‘‘ مانگنے والا بنائے… اور ہم سب کو اپنے فضل سے ’’مغفرت‘‘
پانے والا بنائے…
حد
درجہ پُرکشش
’’مغفرت‘‘ کا لفظ بہت پُرکشش ہے…یہ لفظ سنتے ہی دل مچلنے لگتا
ہے،کبھی کبھار دھڑکنے لگتا ہے …’’مغفرت‘‘ کوئی معمولی چیز تو ہے نہیں … قرآن مجید
دکھاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…حضرت نوح علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…اور دونوں جلیل القدر
پیغمبر فرما رہے ہیں کہ…یا اللہ! اگر ہمیں ’’مغفرت‘‘ نہ ملی تو ہم تباہ ہو جائیں
گے … اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام ’’ مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…اللہ تعالیٰ کے کلیم
حضرت موسیٰ علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں …وہ دیکھیں! قرآن مجید میں
بہت عجیب منظر … فرعون اپنی مکمل فرعونیت کے ساتھ ایمان لانے والے جادوگروں کو
دھمکا رہا ہے…میں تمہیں کھجور کے درختوں سے اُلٹا لٹکا دوں گا… میں تمہارے بازو
اور ٹانگیں کاٹ دوں گا…میں تمہیں سولی اور پھانسی پر اُلٹا لٹکا دوں گا…میں تمہیں
سسکا سسکا کر سخت عذاب میں ماروں گا…ایمان لانے والے جادوگروں نے کہا… کوئی فکر
نہیں، تو یہ سب کچھ کر لے…ہماری لالچ بس اتنی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے
’’مغفرت‘‘ مل جائے…’’ مغفرت ‘‘کی تلاش میں تیرے مظالم قبول ہیں… ’’ مغفرت‘‘ کی
خاطر کٹ مرنا اور لٹک کر مرنا سب منظور ہے…وہ دیکھیں! حضرت داؤد علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں… حضرت سلیمان علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…یہ سب معصوم انبیاء
ہیں…کبیرہ گناہوں سے بھی پاک اور صغیرہ گناہوں سے بھی پاک…مگر وہ کس طرح تڑپ تڑپ
کر مغفرت مانگتے ہیں… کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کو جانتے ہیں…اتنا
عظیم رب ،اتنا عظیم،اتنا عظیم… اور ہم اتنے چھوٹے تو پھر اتنے عظیم رب کا حق کیسے
ادا کر سکتے ہیں؟…اس کی عظمت اور شان کے مطابق کہاں اس کی عبادت کر سکتے ہیں؟…یا
اللہ معافی، یا اللہ مغفرت…قرآن مجید نے اعلان فرمایا کہ… اللہ تعالیٰ نے حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’کامل مغفرت‘‘ عطاء فرما دی ہے… سبحان اللہ!
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کی حد نہ رہی…فرمایا: آج تو ایسی سورت
نازل ہوئی جو مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے … اور پھر مغفرت کے شکرانے میں عبادت
بڑھا دی، ریاضت بڑھا دی اور محنت بڑھا دی… کیا ہم گناہگاروں اور بے کاروں کو بھی
’’مغفرت‘‘ ملے گی؟…یہ سوچ کر دل دھڑکنے لگتا ہے… کبھی خوف سے ڈوبنے لگتا ہے تو
کبھی امید سے مچلنے لگتا ہے … مغفرت ، مغفرت ، مغفرت … اسی مغفرت کے مانگنے کو
’’استغفار ‘‘ کہتے ہیں … استغفار کا ترجمہ ہے مغفرت مانگنا،مغفرت چاہنا، مغفرت طلب
کرنا…مغفرت کی لالچ میں یہ خواہش تھی کہ قرآن مجید کی مغفرت،توبہ اور استغفار
والی آیاتِ مبارکہ کو جمع کیا جائے…قرآن مجید کی استغفار اور توبہ والی دعاؤں
کو جمع کیا جائے … سالہا سال تک یہ خواہش دل میں رہی…وہاں پلتی اور بڑھتی رہی…مگر
عمل میں نہ آ سکی…اس دوران توبہ اور استغفار کے موضوع پر چند مضامین کی توفیق
ملی…الحمدللہ نتائج بہت اچھے نکلے…پھر ’’استغفار‘‘ کی ایک مہم چلی،اس پر
’’مکتوبات‘‘ کی توفیق ملی…ماشاء اللہ نتائج حیرت انگیز تھے… بڑی خوشی یہ ہوئی کہ
استغفار مہم نے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو بہت فائدہ پہنچایا…مجاہدین میں اپنے لئے
اور دوسروں کے لئے’’استغفار‘‘ کا ذوق ایک جنون کی طرح ابھرا اور دور دور تک پھیل
گیا …اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تعریف فرماتا ہے …جو سحری کے وقت مغفرت مانگتے
ہیں…یعنی استغفار کرتے ہیں…
﴿وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ﴾
الحمد
للہ یہ کیفیت بھی مضبوط ہوئی…فدائی مجاہدین نے درخواست کی کہ…استغفار مہم بار بار
چلائی جائے…ایک دن میں تیس ہزار استغفار کا عمل بھی خوب رہا…اور روزانہ ایک ہزار
بار ’’ استغفار‘‘ بے شمار افراد کا وظیفہ بنا…فدائی مجاہدین کے دل آئینے کی طرح
ہوتے ہیں…اور استغفار کے مقام کو دل والے ہی سمجھتے ہیں…محبوب کو منانا ،محبوب سے
معافی مانگنا…محبوب سے بار بار معافی اور توجہ کی عاجزانہ التجا کرنا…اپنے کسی عمل
پر ناز نہ کرنا بلکہ معافی ہی مانگتے چلے جانا…یہ وہ عمل ہے جو دل کو مانجھ دیتا
ہے…جو نفس کو پاک کر دیتا ہے …جو پردوں کو ہٹا کر حقائق کا چہرہ صاف کر دیتا ہے…یہ
ساری صورتحال دیکھ کر شوق مزید بڑھا کہ…آیات استغفار کو جمع کیا جائے…
ایک
بات سمجھیں
قرآن
مجید کسی ایک موضوع کی آیات کو … اکٹھا جمع نہیں فرماتا… توحید کی آیات ہوں یا
نماز کی…جہاد کی آیات ہوں یا استغفار کی… قصص والی آیات ہوں یا فکر آخرت کی…یہ
پورے قرآن میں بکھری ہوئی ہیں…اور ایسا کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا
احسان فرمایا ہے… اگر قرآن مجید میں بھی مخلوق کی کتابوں کی طرح ہر موضوع کی
آیات اکٹھی ہوتیں تو…ہم بہت سی خیروں اور بہت سے علم سے محروم ہو جاتے… انسان کے
ذہن میں جب نئی بات آتی ہے تو پچھلی بات مدھم پڑ جاتی ہے…ہم پہلے توحید کی آیات
پڑھتے جو ہمارے دماغ میں روشن ہو جاتیں …مگر جب وہ باب ختم ہوتا اور ہم نماز کی
سینکڑوں آیات کو اکٹھا پڑھتے تو توحید کا سبق دماغ میں مدھم ہو جاتا…پھر جب جہاد
کی سینکڑوں آیات شروع ہوتیں تو نماز کا سبق کمزور ہونے لگتا…اللہ تعالیٰ نے احسان
فرمایا کہ قرآن مجید میں تمام ضروری باتوں کو… جگہ جگہ پر بکھیر دیا…اس سے ہر سبق
ہر وقت تازہ رہتا ہے… اور انسان اکتائے بغیر اپنے دماغ کو روشن کرتا ہے…اور مختلف
موضوع جب باہم جڑتے ہیں… اور ایک ایک آیت میں کئی کئی اسباق ملتے ہیں تو انسان کے
ذہن کی قوت اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے…اب آپ قرآن مجید کا کوئی بھی صفحہ کھولیں…آپ
کو صرف ایک موضوع نہیں ملتابلکہ ہر صفحہ پر انسانی ضرورت کی بہت سی ہدایات مل جاتی
ہیں…والحمد لله رب العالمین
یہ
تو صرف ایک حکمت عرض کی گئی… جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں بے شمار حکمتیں ہوتی
ہیں… انسان غورکرتا جائے تو حکمتوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں… اب دوسری بات
سمجھیں… کیا یہ جائز ہے کہ کوئی شخص محنت کرکے قرآن مجید میں سے ایک موضوع کی
آیات ایک جگہ جمع کر لے؟… پھر خود بھی ان سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی
فائدہ پہنچائے…جی ہاں! یہ جائز ہے، اچھا ہے،بہت مفید ہے…اور بہت نافع ہے …قرآن
مجید کے کسی بھی ایک حکم کی آیات جمع کریں… ان کو سمجھیں تو اس حکم کا پورا نظام
دل و دماغ میں اتر جاتا ہے…اور پھر جب انسان قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو …اس
میں اسے زیادہ لطف اور فائدہ محسوس ہوتا ہے…
خصوصاً
آج کل کے زمانے میں…جبکہ افسوس ہے کہ اکثر مسلمانوں کو قرآن پاک کا ترجمہ نہیں
آتا… یعنی ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے مالک و خالق نے ان کی ہدایت کے لئے جو
دستور نازل فرمایا ہے وہ کیا ہے؟…ان حالات میں کسی ایک موضوع کی آیات کو جمع کر
کے وہ موضوع مسلمانوں کو سمجھانا پھر دوسرے موضوع کی آیات جمع کر کے وہ موضوع
سمجھانا ایک مفید اور نافع خدمت ہے…یہ قرآن مجید کو ’’کاٹنا ‘‘ نہیں بلکہ
مسلمانوں کو قرآن مجید سے ’’جوڑنا‘‘ ہے…
روشنی
چمکی
آیات
توبہ و استغفار جمع کرنے کا شوق تھا مگر زندگی بے ہنگم…بے ساحل و بے کنارا… ہمت
کمزور اور وقت کی قلت…اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک روشنی کی کرن نظر آئی
…ہوا یہ کہ ایک مجاہد نے بہت متاثر کیا…اس کی قربانی،جانثاری اور شوق شہادت نے دل
پر بہت اثر ڈالا…وہ اپنی بات اور اپنی تشکیل منوا کر چلا گیا…اور جاتے جاتے میرے
لئے قرآن مجید کا ایک خوبصورت نسخہ ہدیہ بھیج گیا…ایسا ہدیہ تو ویسے ہی ’’متبرک
‘‘ہوتا ہے…اور پھر اتنی بڑی قربانی پیش کرنے والے ’’مرد مومن‘‘ کا ہدیہ…
بس
میں نے ارادہ کر لیا کہ ان شاء اللہ اسی ’’نسخہ مبارکہ‘‘ پر آیات استغفار جمع
کرتا ہوں … اس شہید نے ایسی کوئی وصیت یا فرمائش نہیں کی تھی …اس نے بس خاموشی سے
قرآن مجید بھیج دیا … معلوم نہیں اس نے کیا دعاء مانگی ہو گی…لاڈلوں کے تو اپنے
ناز ہوتے ہیں اور اپنے انداز…فدائی مجاہدین کا دل چونکہ روشن ہوتا ہے اس لئے وہ …
ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں جن کو دوسرے مسلمان آسانی سے نہیں سمجھ سکتے …مثلاً
کئی افراد بندہ سے عجیب وغریب فرمائشیں کرتے ہیں…کوئی لکھتا ہے کہ جب آپ کو میر
اخط ملے تو فوراً کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کریں اور میرے لئے دعاء کریں… کوئی
لکھتا ہے کہ آپ کو قسم ہے کہ آپ نے روز تہجد میں میرا نام لے کر میرے لئے یہ تین
دعائیں مانگنی ہیں…کوئی اصرار کرتا ہے کہ…میری بیوی خرچہ زیادہ کرتی ہے آپ اس
موضوع پر فوراً مکتوب جاری کریں…وغیرہ…حالانکہ ایسے افراد جن پر اُمت کے اجتماعی
معاملات کی ذمہ داری ہو…ان سے ایسے مطالبات کرنا درست نہیں ہے…ایسے افراد کا وقت
ضائع کرنا اجتماعی نقصان کرنا ہے…اور ایسے افراد کو راحت پہنچانا اجتماعی نیکی
ہے…یہ پورا معاملہ قرآن مجید نے نہایت تفصیل سے سمجھایا ہے…مگر چونکہ اپنی بات چل
پڑی ہے اس لئے فی الحال اس کو تفصیل سے عرض نہیں کیا جا سکتا… لوگوں کے مطالبات کی
ایک جھلک تو آپ نے پڑھ لی مگر آج تک کسی فدائی مجاہد نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں
کیا… جو تکلیف دِہ یا وقت ضائع کرنے والا ہو…وہ ہمیشہ آسان، مفید،اجتماعی اور نفع
مند فرمائشیں کر کے جاتے ہیں…اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے سے دل خوش ہوتا ہے…
یہ
شہید بہت قربانی والا تھا…اس نے خط میں لکھا کہ میں نے آپ کو کئی بار دیکھا
ہے…مگر آپ نے مجھے نہیں دیکھا… اور میں آپ سے ملاقات کی سخت خواہش کے باوجود آپ
سے اس کا مطالبہ نہیں کرتا… اور اپنی اس خواہش کو بھی اللہ کے لئے قربان کرتا
ہوں…بس مجھے اجازت چاہیے…وہ چلا گیا… قرآن مجید کا نسخہ دے گیا …اور اس کے چند دن
بعد میں نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ بیٹھ کر… دو طرفہ تلاوت کے دوران آیات توبہ و
استغفار پر نشانات لگا دئیے … ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس موضوع پر بھی سینکڑوں
آیات مبارکہ موجود ہیں…عمومی تلاوت اور عمومی تفسیر کے دوران اس کا اندازہ اکثر
نہیں ہو سکتا…آیات کی فہرست توقع سے بڑی تھی … اس لئے پھر ہمت جواب دے گئی…اور
میں سفر و حضر میں قرآن مجید کا یہ نسخہ ساتھ لئے پھرتا رہا … باقی داستان ان شاء
اللہ اگلے ہفتے…
مجموعہ
مقبول استغفار
رنگ
و نور کے گزشتہ دو کالموں میں…قرآن مجید کی بیان فرمودہ توبہ و استغفار والی
دعائیں جمع کی گئیں تھیں…بعض اہل ذوق کی فرمائش تھی کہ ان دعاؤں کو ترجمہ اور
تشریح کے بغیر اکٹھا چھاپ دیا جائے تاکہ …پڑھنے والوں کو آسانی ہو… چوبیس دعائیں
تو وہی ہیں جو دو کالموں میں تھیں … جبکہ پچیسویں دعاء…حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعاء ہے…یہ دعاء مفصل
ہے… عام طور پر اس کے پہلے اور آخری حصے کو ملا کر…ایک دعاء بنا دیا جاتا ہے…
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ
الْعَلِیمُ﴾ ( البقرۃ ۱۲۷)
﴿وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾ (
البقرۃ ۱۲۸)
اور
درمیانی حصہ کو ہٹا دیا جاتا ہے…چنانچہ اسی طریقہ پر اس دعاء کو بھی مجموعہ میں
شامل کر کے القلم کے اس شمارہ میں یہ تحفہ بھی قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے…
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ
الْعَلِیمُ… وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 492
اِلیٰ مغفرۃ!!(قسط۔۲)
١ کسی
مہینے کے محترم ہونے کا کیا مطلب؟…
٢ اور اس
کے احترام کا کیا تقاضا ہے؟…
٣ ’’الیٰ
مغفرۃ‘‘ کتاب کیسے تیار ہوئی…
اور
اس کی تیاری میں کتنے مراحل سے گزرنا پڑا؟
٤ قرآن
عظیم کی اڑھائی سو آیاتِ استغفار و توبہ کا دلنشین خلاصہ…
٥ آیاتِ
توبہ و استغفار سے ’’استغفار‘‘ کی مکمل ترتیب
اور
کامل نصاب سامنے آ جاتا ہے…
٦ ’’الیٰ
مغفرۃ‘‘ کی ترتیب و افادیت…
٧ اس
مخلص شہید بھائی کا شکریہ جو اس کارِ خیر کا باعث بنے…
٨ اور
دودعاؤں پر مشتمل…
ایک
دلنشین تحریر…
۳رجب۱۴۳۶ھ؍ 22اپریل۲۰۱۵ء
اِلیٰ مغفرۃ!!(قسط۔۲)
اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے…’’رجب‘‘ کا محترم اور معزز مہینہ شروع ہو گیا ہے…
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
کسی
مہینہ کے ’’محترم‘‘ اور معزز ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ…اس مہینہ میں نیکیوں کا
وزن بڑھ جاتا ہے…اس لئے نیکیوں کو بڑھا دیا جائے …اور اس مہینہ میں گناہوں کا بوجھ
اور وبال بھی بڑھ جاتا ہے…پس گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم نہ کیا جائے…جان بے چاری
اتنا بوجھ کیسے اٹھائے گی…
﴿فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ﴾
اصل
موضوع کی یاد دہانی
گذشتہ
کالم سے ہماری مجلس کا جو موضوع چل رہا ہے…وہ یاد کر لیں…قرآن مجید کی آیات توبہ
و استغفار جمع کرنے کا داعیہ تھا…ایک بڑی قربانی والے مرد مومن نے قرآن مجید کا
سرخ غلاف والا ایک نسخہ ہدیہ کیا…اس نسخے پر تلاوت کے دوران ’’آیاتِ مغفرت‘‘ کا
ابتدائی کام ہو گیا … الحمد للہ تقریباً اڑھائی سو آیات پر نشانات لگا دئیے
گئے…اب یہ خواہش اور کوشش تھی کہ ان آیات کی آسان اور مختصر تشریح لکھ دی
جائے…یہ کام اگرچہ ’’ فتح الجواد‘‘ کے کام کی طرح مشکل نہیں تھا …وہ بہت
علمی،احتیاط طلب اور تحقیقی کام تھا … اور بالکل نیا اور پیچیدہ…ویسے ’’فتح
الجواد‘‘ کو عام نظروں سے پڑھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ…وہ بھی معمول کا کام
ہے…آیت اور اس کا ترجمہ لکھ دیا…اور نیچے تفسیروں سے عبارتیں نقل کرتے چلے
گئے…مگر ایسا نہیں ہے…کوئی صاحب علم جس کی عمر کے سالہا سال تفسیر کے مطالعہ اور
تفسیر کی تعلیم و تدریس میں گزرے ہوں…وہ اگر ’’ فتح الجواد‘‘ کو دیکھے تو سمجھ
سکتا ہے کہ…یہ کتنا مشکل کام تھا … ایک موضوع کی آیات لانا…ان آیات کا ایک رخ
متعین کرنا…اس رخ کی تائید میں اسلاف کی شہادتیں جمع کرنا…اور پھر حال کو ماضی سے
جوڑنا اور… فتنہ انکار جہاد کی ہر دلیل کو غیر محسوس طریقے سے توڑتے چلے جانا…بس
اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کام ہو گیا …وہ نہ میرے بس کی بات تھی اور نہ اس میں
میرا واقعی کوئی کمال تھا…دور حاضر کے شہداء کرام کی قربانی پر اللہ تعالیٰ کا فضل
ہوا کہ…جہاد اس قدر ناقابل تردید دلائل کے ساتھ چمکا… والحمد للہ رب العالمین…
مگر
’’آیات استغفار‘‘ کا کام آسان تھا … کوئی بھی مسلمان ’’استغفار‘‘ کا انکار نہیں
کرتا … ہاں! اس بارے میں غفلت موجود ہے…انکار اور غفلت میں بڑا فرق ہے…غفلت دور
کرنے کے لئے دلائل سے زیادہ…دعوت اور یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے…کام آسان تھا
مگر پھر بھی ’’قرآن مجید‘‘ کا ہر کام… خاص آداب،خاص توجہ اور خاص وقت مانگتا
ہے…پس اسی خاص توجہ اور خاص وقت کی تلاش میں دو تین سال گزر گئے اور قرآن مجید کا
سرخ غلاف والا نسخہ سفر و حضر میں میرے ساتھ رہا…
استغفار
پر دوسری محنت
اس
دوران فکر تو تھی کہ…یہ کام جلد ہو اور اپنی مغفرت کا کچھ سامان ہو جائے…چنانچہ
استغفار اور توبہ کے موضوع پر…دیگر مواد جمع ہوتا رہا…ایک تو رنگ و نور کے بعض
مضامین…دوسرا مکتوبات استغفار…تیسرا صیغ استغفار کی احادیث …چوتھا توبہ کے متعلق
احادیث…پانچواں استغفار کی فضیلت پر احادیث… چھٹا استغفار کے بارے میں امام غزالی
رحمۃ اللہ علیہ کے علمی شہ پاروں کی تلخیص
اور تسہیل…اور ساتواں استغفار اور توبہ کے درمیان تعلق اور فرق کی تحقیق وغیرہ…
الحمد
للہ یہ سارا کام جمع ہوتا رہا…اس کی کتابت بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی…پھر اس کی ترتیب
بھی طے ہو گئی…ترتیب کے بعد بندہ نے اس سارے مسودے کو دوبارہ پڑھا تو دل میں شوق
بھڑک اٹھا…کتاب کا مسودہ اٹھا کر ایک دوردراز مسجد میں جا بیٹھا اور وہاں اللہ
تعالیٰ سے وقت متعین اور مقید کرنے کا عہد باندھ لیا…
اور
یوں الحمد للہ آیات پر کام شروع ہوا … اور ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں مکمل ہو گیا…
وَالْحَمْدُ
لِلہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ۔
دلنشین
خلاصہ
قرآن
مجید کی آیات توبہ، آیات استغفار اور آیات مغفرت کو پڑھا جائے تو دل میں ایک
عجیب سی روشنی چمکنے لگتی ہے…چند مضامین کا خلاصہ پیش خدمت ہے…
* اللہ
تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت کی طرف بلا رہے ہیں…آ جاؤ! میرے بندو آ جاؤ، میں
تمہیں معاف کروں، تمہیں بخش دوں…
* جو
اللہ تعالیٰ کا جتنا مقرب ہے وہ اسی قدر اللہ تعالیٰ کی ’’مغفرت‘‘ اور ’’معافی‘‘
کا لالچی اور حریص ہے… اور وہ اللہ تعالیٰ سے بار بار مغفرت مانگ رہا ہے،استغفار
کر رہا ہے…حالانکہ لگتا یوں ہے کہ ایسے لوگوں کو ’’استغفار‘‘ کی کیا ضرورت ؟؟ …وہ
تو بخشے بخشائے لوگ ہیں…
* جو
اللہ تعالیٰ سے جتنا دور ہے…جو جس قدر نفاق میں دفن ہے وہ اس قدر ’’استغفار‘‘ سے
دور ہے…اس کے دل میں ہر چیز کی لالچ ہے…مگر ’’مغفرت‘‘ کی لالچ نہیں …حالانکہ ایسے
لوگوں کو استغفار کی زیادہ ضرورت ہے…مگر وہ اپنے نفاق،اپنے گناہ اور اپنی حب دنیا
پر مطمئن ہیں… اسی لئے نہ وہ معافی مانگتے ہیں اور نہ مغفرت…
*
مسلمان کا ایسا کوئی بھی مسئلہ نہیں جو … استغفار سے حل نہ ہو سکتا ہو…ناممکن سے
ناممکن کام… استغفار کی برکت سے ممکن ہو جاتا ہے … مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلنے کا
واقعہ بطور دلیل موجود ہے… استغفار کی برکت سے شکست،فتح میں بدل جاتی ہے…استغفار
کی برکت سے فتح پکی ہو جاتی ہے… استغفار کی برکت سے پانی، ہوا ،مٹی اور آگ کا
نظام…انسان کے حق میں ٹھیک ہو جاتا ہے…خاندانی نظام درست ہو جاتا ہے… بانجھ پن دور
ہو جاتا ہے…اقتصادی نظام بہترین ہو جاتا ہے…اور معاشرہ میں باہمی محبت، معافی،
درگزر اور خدمت کا ماحول بن جاتا ہے…
* مومن
کے دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت پانے کی لالچ ہو تو…اس کو دو متضاد
فائدے ملتے ہیں…پہلا یہ کہ اس میں ’’تکبر‘‘ پیدا نہیں ہوتا وہ دل سے عاجز رہتا ہے
اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے…اور دوسرا یہ کہ اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے
اور وہ بہت طاقتور مومن بن جاتا ہے…
* مجاہدین
استغفار کریں تو ان کو قوت، ثابت قدمی اور فتح ملتی ہے…اور ان کا جہاد اور کام دور
دور تک پھیل جاتا ہے…علماء استغفارکریں تو ان کے علم میں روشنی اور برکت آ جاتی
ہے…اور ان کا علم خود ان کے لئے اور دوسروں کے لئے نفع مند بن جاتا ہے…
* کوئی
گناہ ایسا نہیں جو …توبہ اور استغفار سے معاف نہ ہوتا ہو…شرط یہ کہ توبہ زندگی میں
کرے اور سچی توبہ کرے…جب عذاب کی علامات شروع ہو جائیں…موت کی سکرات شروع ہو
جائے…یا جب موت آ جائے…تب توبہ قبول نہیں ہوتی…اس سے پہلے… ہر گناہ کی توبہ کا
دروازہ کھلا ہے…اور سچی توبہ پر یہ بھی بشارت ہے کہ…گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا
جاتا ہے…
* تم
دیکھو گے کہ…لوگ مال،اولاد، عورتوں،مویشیوں،گھوڑوں،زیورات اور زمینوں کے حاصل کرنے
میں…ایک دوسرے کو پیچھا دکھا رہے ہیں…ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے ہیں…ایسے وقت
میں تم ان فانی چیزوں کو چھوڑو…اور اپنے رب کی مغفرت اور اپنے رب کی جنت پانے کے
لئے…دوڑ لگا دو، محنت کرو، مقابلہ کرو اور ایک دوسرے سے سبقت کرو…
* کلمہ
طیبہ کو دل میں بٹھا لو…اس کو پکا کرو…خود بھی پڑھو،اوروں تک بھی پہنچاؤ… استغفار
خود بھی کرو…اس سے تمہارا کلمہ پکا اور مضبوط ہو گا…اور دوسرے ایمان والوں کے لئے
بھی استغفار کرو…اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور استغفار کی طرف بلاؤ…
* جو
اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچتا
رہے گا…اور جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرے گا وہی ہر جگہ مرے گا…اللہ تعالیٰ کا خوف
نعمت ہے…مگر ایسا خوف جس کے ساتھ اُمید بھی ہو…خوف اور اُمید دونوں کا مشترکہ
اظہار…سچے استغفار میں ہوتا ہے…ایک طرف ڈر کہ مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھ سے ظلم ہو
گیا، میں نے یہ کیا کر دیا…میں تو ہلاکت کی طرف جا پڑا…یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ…
ساتھ اُمید کہ معافی مل سکتی ہے…یا اللہ! معاف فرما دے…بخش دے، مغفرت عطا فرما…پس
جس کو یہ نصیب ہو گیا…اس کو ایمان کا بلند مقام مل گیا…جو گناہ کر کے اللہ سے ڈرے
ہی نہ…وہ سخت خطرے میں ہے… اور جو گناہ کر کے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے
مایوس ہو بیٹھے … وہ اس سے بھی زیادہ خطرے میں ہے…
* اسباب
مغفرت کون کون سے ہیں؟ … مغفرت سے محرومی کے اسباب کون کون سے ہیں؟… ’’مغفرت‘‘ ایک
مومن کے لئے سب سے بڑا انعام ہے…کس طرح؟
یہ
سب کچھ قرآن مجید میں…موجود ہے … بس اتنا خلاصہ عرض کر دیا تاکہ خلاصہ… خلاصہ ہی
رہے…
کتنی
آسانی ہو گئی
توبہ،مغفرت
اور استغفار کی جو آیات جمع کی ہیں وہ…اڑھائی سو سے کچھ زائد ہیں…ان آیات کی
تفسیر میں…نہ تو لمبی چوڑی تقریر لکھی ہے اور نہ تفاسیر کے حوالے…بس چند سطروں میں
اس آیت مبارکہ کا…توبہ،استغفار والا مضمون واضح کر دیا ہے…
اب
عام پڑھا لکھا مسلمان…جو اردو پڑھ لیتا ہو…آسانی سے ان آیات کا مفہوم سمجھ سکتا
ہے… اور تقریباً چار پانچ گھنٹے کے مطالعے یا تعلیم کے ذریعے…قرآن مجید کی
تقریباً تمام آیات مغفرت کو پڑھ سکتا ہے…اور جو دین کے طالبعلم اور عربی سے واقف
ہیں وہ اڑھائی تین گھنٹے میں ان تمام آیات کو پڑھ سکتے ہیں…ماشاء اللہ، لا قوۃ
الا باللہ …دیکھیں کتنی آسانی ہو گئی کہ…اتنا اہم مضمون اور اس کی اتنی زیادہ
آیات…چند گھنٹوں کی محنت سے سمجھی جا سکیں…آپ جانتے ہیں کہ… قرآن مجید بیماری
بھی بتاتا ہے اور علاج بھی… ’’گناہ‘‘ بیماری ہے…اور’’ توبہ و استغفار‘‘ علاج اور
شفاء ہے…علاج و شفاء کا مکمل نسخہ،مکمل نصاب، اور مکمل ترتیب…ان تمام آیات کو
سمجھ کر پڑھنے سے ہمارے سامنے آ جائے گی ان شاء اللہ…
الیٰ
مغفرۃ
آیات
توبہ اور آیات استغفار پر مشتمل اس کتاب کا نام…’’الیٰ مغفرۃ‘‘ رکھا ہے…یعنی
’’مغفرت کی طرف‘‘…اس کتاب کے دو حصے ہیں …پہلے حصے میں قرآن مجید کی’’ آیاتِ
مغفرت‘‘ اور قرآن مجید کی استغفار والی دعائیں…جبکہ دوسرے حصے میں…استغفار اور
توبہ کے موضوع پر احادیث مبارکہ…استغفار کے صیغے اور دعوت استغفار ہے…وہ بہت کچھ
جو آپ ’’آیات‘‘ میں پڑھیں گے اس کی تشریح آپ کو دوسرے حصہ کی احادیثِ مبارکہ
میں مل جائے گی…’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ نامی یہ کتاب تیاری کے مراحل میں ہے…اہل دل اس کی
جلد اشاعت کے لئے دعاء فرما دیں…
شکریہ
شہید بھائی!
قرآن
مجید کا نسخہ دینے والے شہید بھائی کا شکریہ…ان کی قربانی کا گہرا تاثّر اور ان کے
اخلاص کی گہری حرارت نے…خیال اور عزم کو تقویت دی…قرآن مجید کے نسخے ہدیہ میں
آتے رہتے ہیں… سب ہی بہت محترم اور بہت مبارک ہوتے ہیں…اکثر کچھ تلاوت کر کے آگے
بڑھا دیے جاتے ہیں…مگر یہ نسخہ کئی سال ساتھ رہا … اور الحمدللہ ایک ایسے کام کی
بنیاد بن گیا جس کی مجھے خود سخت ضرورت تھی…دل چاہا کہ اس شہید کا نام اور اس کے
حالات اور قربانی بھی لکھ دوں…مگر بہت سی وجوہات ایسی ہیں کہ نہیں لکھ سکتا…یہ بھی
شہید کی کرامت اور اخلاص ہے کہ…یوں چھپ کر آپ سب سے محبت اور دعائیں پا رہا ہے …
اے شہید بھائی! بہت شکریہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا
فرمائے…
دو
دعائیں
کتاب
کے اس تعارف کے موقع پر مسافر کا دل اپنے غفور اور مہربان رب سے دو دعائیں مانگ
رہا ہے…
پہلی
دعاء:یا اللہ! مجھے اپنی مغفرت کی ایسی شدید لالچ عطا فرما کہ میں اس کتاب سے
سوائے آپ کی مغفرت پانے کے…اور کسی بھی صلے کی کبھی بھی کوئی خواہش نہ رکھوں…یا
اللہ! کتاب کی تیاری میںمعاونت کرنے والے اور پھر کتاب چھاپنے والے عزیز و احباب
کو اپنی مغفرت کی ایسی شدید حرص عطاء فرما کہ وہ اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں
دل اور جان لگا کر حد درجہ مثالی محنت کریں اور اسے ہر طرح سے عمدہ تیار کریں…یا
اللہ ! اپنے بعض خوش نصیب بندوں کو اپنی مغفرت کی ایسی سخت لالچ عطاء فرما کہ…وہ
اس کتاب کو خود بھی پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ تقسیم بھی کریں…یا اللہ! اس کتاب کے
پڑھنے والے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنی مغفرت کی ایسی شدید لالچ عطاء
فرما کہ…وہ صبح و شام،رات دن آپ سے استغفار کریں یعنی آپ سے معافی اور مغفرت
مانگیں…خصوصاً سحری کے وقت استغفار کو اپنا پختہ معمول بنائیں…
دوسری
دعاء:یا اللہ! جن جن کا تذکرہ پہلی دعاء میں ہوا…ان سب کو مغفرت کی لالچ، مغفرت کا
حرص اور مغفرت کی شدید خواہش دینے کے بعد…ان کی اس لالچ،حرص اور خواہش کو پورا بھی
فرما دے…اور ان سب کو اپنی کامل مغفرت عطاء فرما دے…ایک بزرگ کا واقعہ پڑھا تھا…وہ
کتے کو روٹی کھلا رہے تھے…اور یہ اُمید رکھ رہے تھے کہ…میں نے اس کے حرص اور لالچ
کو پورا کیا ہے…
اللہ
تعالیٰ تو مجھ سے زیادہ کریم اور سخی ہے…میں اگرچہ کتے سے بھی بدتر ہوں…مگر اللہ
تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید کہ…مجھے معاف فرما دے اور میری لالچ پوری فرما دے اور
میری لالچ ایک ہی ہے کہ…اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، مجھے اپنی مغفرت عطاء فرما دے…
سُبْحَانَکَ
اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ
وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 493
اس نعمت کی قدر کریں!
ایک
شکر، ایک خطرہ…
ایران،
اسرائیل سے بڑھ کر مسلمانوںکا دشمن…
ایران
اہل کفر کی ’’ڈارلنگ‘‘… بی بی سی کا متضاد رویہ…
زلزلوں،
طوفانوں، شیطانوں کا حملہ…
عذابِ
الٰہی سے حفاظت کی دعا اور دو نسخے…
آسمانی
بجلی سے حفاظت کی دعائیں…
خدمتِ
قرآن و حفاظتِ قرآن کا مقام…
امام
احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے واقعات…
فتنہ
انکار جہاد اور دوراتِ تفسیر آیات الجہاد…
دوراتِ
تفسیر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت…
مفید
و مبارک ذرات… اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت…
ان
سب باتوں سے روشناس کراتی ایک تحریر…
۱۰رجب۱۴۳۶ھ؍29اپریل۲۰۱۵ء
اس نعمت کی قدر کریں!
اللہ
تعالیٰ ’’قلم‘‘ تحریر اور وقت میں اپنے فضل سے ’’برکت‘‘ عطاء فرمائے… آج چار
باتیں عرض کرنی ہیں…
١ ایک شکر،ایک خطرہ
شکر
اس بات کا کہ ’’یمن‘‘ کے بحران کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کے سامنے ’’ایران‘‘ کی
اصلیت واضح ہو گئی ہے…مسلمانوں کے لئے ’’ اسرائیل‘‘ سے بڑا خطرہ ایران…برطانیہ کی
خفیہ ایجنسیوں کی صد سالہ محنت سے وجود پانے والا ایرانی انقلاب…ہاں! بے شک
اسرائیل بھی بڑا خطرہ اور بڑا دشمن ہے…مگر وہ تو اپنے وجود کو بچانے کی فکر اور
خوف میں رہتا ہے…نہ اس نے افغانستان میں عالمی سامراج کا ہاٹھ بٹایا…نہ اس نے عراق
کی مسلم آبادی کا قتل عام کیا…نہ اس نے شام میں مسلمانوں کے خون سے دریا سرخ کیے
… نہ اس نے یمن میں مسلمانوں کے گلے کاٹے… مگر ایران نے یہ سارے کام کر ڈالے … آپ
صرف عراقی شہر تکریت میں…مسلمانوں کے بھیانک قتل عام کی لرزہ خیز داستان پڑھ لیں…
آپ یقین نہیں کریں گے کہ…کیا کوئی انسان اس قدر درندگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟…
دولتِ
اسلامیہ کے مظالم کی داستانیں اہلِ مغرب نے خود گھڑی اور اڑائی ہیں…مگر تکریت میں
ایرانی پاسبان نے جس طرح سے چنگیز اور ہلاکو کو شرمندہ کیا ہے…اس کی رپورٹنگ کے
لئے عالمی ذرائع ابلاغ کے پاس دو منٹ اور دو سطریں بھی نہیں…کیونکہ ایران اس وقت
اہل کفر کی ’’ڈارلنگ‘‘ ہے…بی بی سی لندن کے بارے میں اندھے بھی جانتے ہیںکہ…یہ
یہودیوں کے فنڈ سے چلنے والا ایک اسلام مخالف مؤثر ادارہ ہے … بی بی سی کو نہ
مولوی بھاتے ہیں اور نہ اسلامی حکومتیں… مگر ایران کے لئے اس کا انداز ہی الگ ہے …
وہاں کے ملاّ بھی برداشت،وہاں کی سخت گیر مذہبی حکومت بھی قبول…وہاں کی جارحانہ
سزائیں بھی برداشت اور پھر…یمن بحران پر ایران کی دل کھول کر حمایت…جی ہاں! دجّال
کا میدان تیار ہو رہا ہے … دجّال کا میدان
،ایران ہی ایران… اور اب اس عفریت کا پنجہ تہران سے بیروت تک پھیل چکا ہے…مگر آگے
کے خواب کچھ کڑوے ہیں…یمن کے بعد سعودیہ ضرور ہے …مگر مکہ،مدینہ پر پہرہ ہے…بہت
مضبوط پہرہ… وہاں دجال داخل نہیں ہو سکتا…ہاں! مسلمانو !ایران خطرہ ہے…ایران ہی اس
خطے میں اسرائیل…اور تمام اہل کفر کا محافظ ہے…مگر شکر ہے…اللہ تعالیٰ کا شکر کہ
اب ’’تقیہ‘‘ کے پردہ میں چھپا یہ دشمن…بے نقاب ہو رہا ہے…اگر اس نے اپنے قدم حرمین
یا پاکستان کی طرف بڑھائے تو بے آبرو بھی بہت ہو گا… ان شاء اللہ…
٢ زلزلوں،طوفانوں،شیطانوں کا حملہ
اگر
آپ نے روئے زمین کی تاریخ پڑھی ہو تو …آپ جانتے ہوں گے کہ…کبھی کبھار ایسا موسم
آتا ہے کہ زمین پر زلزلوں،طوفانوں…اور شیطانوں کے حملے بڑھ جاتے ہیں…
آج
کل کچھ ایسے ہی حالات نظر آ رہے ہیں …دنیا کی بلند ترین چوٹی ’’ایورسٹ‘‘زلزلے سے
لرزی ہے…اور ہزاروں میل تک زمین اندر سے کانپ اٹھی ہے…نیپال ٹوٹا پڑا ہے جبکہ…جگہ
جگہ آسمان گرج رہا ہے…اور زمین پر بجلی اور پانی گرا رہا ہے…
ایسے
وقت میں ’’عذابِ الٰہی‘‘ سے حفاظت کی دعاء اور تدبیر کرنی چاہیے…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکْ
عذابِ
الٰہی سے بچنے کا ایک بڑا نسخہ جو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے…وہ ہے ’’جہادِ فی
سبیل اللہ‘‘… جہاد میں نکل آؤ… عذاب سے بچ جاؤ …جہاں بھی شرعی جہاد کا محاذ ملے
اس کی طرف نکل پڑو…عذابوں کا رخ تم سے ہٹ جائے گا …جہاد میں جان لگاؤ…جہاد میں
مال لگاؤ… جہاد میں زبان لگاؤ…جنگ،تربیت،تجہیز، معاونت اور دعوت…اور پھر اللہ
تعالیٰ کی نصرت اور رحمت ہی رحمت…
اور
عذاب سے بچنے کا دوسرا بڑا نسخہ ’’استغفار‘‘ ہے…ایک مسلمان کے لئے استغفار کے بغیر
کوئی چارہ ہی نہیں…استغفار اس اُمت کی امان ہے اور استغفار ’’محافظ ایمان‘‘
ہے…اہلِ دل کے نزدیک ’’رجب‘‘ کے مہینے میں زیادہ استغفار بہت مفید ہے …گناہوں سے
پاکی ملے گی تو ان شاء اللہ ہر مسئلہ حل ہو گا اور عذاب سے حفاظت رہے گی …
زلزلوں،طوفانوں اور شیطانوں کے ان حملوں سے بچنے کے لئے استغفار بڑھا دیجئے…اپنے
محبوب رب سے معافی مانگتے جائیے اور اس کا قرب پاتے جائیے… استغفار کے وقت اللہ
تعالیٰ کے خوف سے نکلنے والے آنسو کا قطرہ اتنا طاقتور ہے کہ… جہنم کی آگ کو
بجھا دیتا ہے … دنیا کے طوفان اس کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں…
اَسْتَغْفِرُ
اللّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ
وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
جب
بارش اور طوفان آئے تو…جہاد کی نیت کریں،جہاد میں مال لگائیں…اور استغفار و نماز
میںمشغول ہو جائیں…آسمانی بجلی سے حفاظت کی دعاء آپ کو یاد ہو گی…
سُبْحَانَ
الَّذِی یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلَآئِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ۔
اور
دوسری دعاء:
اَللّٰھُمَّ
لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ
ذَالِکَ۔
٣ خدمت و حفاظت قرآن کا مقام
گذشتہ
کل تاریخ کی مایہ ناز کتاب … ’’البدایہ والنہایہ‘‘ کی دسویں جلد کے ساتھ کچھ وقت
گزارنا نصیب ہوا…یہ امام ابن کثیر الدمشقی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع تصنیف ہے اور اہل علم کے ہاں معتبر ہے …
بات اس میں اُمت مسلمہ کے ایک جلیل القدر امام …حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ
علیہ کی چل نکلی…ان کے فضائل،حالات،وفات
اور مناقب لکھنے کے بعد علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے…امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دیکھے گئے خوابوں کا تذکرہ چھیڑا
ہے…پہلے تو یہ ثبوت پیش کیا کہ سچے خواب معتبر ہوتے ہیں … اور یہ ایک مومن کے لئے…بشارت
اور رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں…
اس
پر صحیح احادیث بیان فرمائیں…اور آگے حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دیکھے گئے ’’مبشِّرات ‘‘ نقل
فرمائے…ایک بزرگ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے جب تعارف ہو گیا تو انہوں نے بتایا
کہ…میںنے آپ سے ملنے کے لئے چار سو فرسخ کا سفر کاٹا ہے… مجھے حضرت خضر علیہ السلام نے خواب میں حکم فرمایا کہ آپ کے پاس جاؤں اور
آپ کو بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے عرش کے ملائکہ سب آپ سے خوش ہیں…اسی طرح
ایک اور خواب کا تذکرہ ہے کہ امام صاحب جنت میں چل رہے ہیں…اور بتایا کہ مجھے اللہ
تعالیٰ نے بخش دیا ہے…میری تاج پوشی فرمائی ہے…مجھے سونے کے دو جوتے دئیے ہیں اور
فرمایا ہے کہ…تم نے جو یہ کہا تھا کہ … قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے…یہ سب اس کا
بدلہ ہے … امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے
زمانہ میں ایک فتنہ اٹھا تھا… اور وقت کے حکمران اس فتنہ کے محافظ تھے … یہ فتنہ
قرآنِ مجید کے خلاف تھا کہ …نعوذ باللہ قرآنِ مجید ’’مخلوق‘‘ ہے…حضرت امام صاحب
رحمۃ اللہ علیہ اس فتنہ کے خلاف ڈٹ گئے…اس
پر انہیں مارا گیا، قید میں ڈالا گیا…پابندیاں لگائیں گئیں…اور کوڑوں سے پیٹا
گیا…مگر آپ ڈٹے رہے اور بالآخر آپ کی استقامت نے اس فتنہ کی کمر توڑ دی …وہ
پہلے کمزور ہوا اور پھر الحمد للہ بالکل ختم ہو گیا… امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس محنت کا حتمی نتیجہ تو ان کی وفات کے بعد
آہستہ آہستہ ظاہر ہوا…مگر امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محنت اور استقامت…اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے
مقام کے ساتھ قبول ہوئی… ہمارے زمانے میں … قرآن مجید کی آیات جہاد کے انکار کا
فتنہ سرگرم ہے …حکمران اس فتنہ کے محافظ ہیں …اور یہ فتنہ بھی…خلق قرآن کے فتنہ
کی طرح زمانے کی دانشوری سمجھا جاتا ہے…اس فتنہ کے علمبردار مختلف طبقے ہیں…کوئی
کھلے انکار پر ہے تو کوئی تحریف کے راستے سے انکار تک آتا ہے … مقصد اور نتیجہ سب
کے نزدیک ایک ہی نکلتا ہے کہ …ان آیات کا نعوذباللہ اس زمانہ میں تلاوت کے علاوہ
اور کوئی مصرف نہیں ہے…اور مسلمانوں کو ان پر عمل کا تصور ہی چھوڑ دینا چاہیے…یہ
فتنہ پہلے بہت طاقتور تھا اور منہ زور بیل کی طرح کسی کے قابو میں نہ آتا تھا…مگر
اب الحمد للہ اس میں کمزوری آ رہی ہے…مگر آج بھی یہ فتنہ زندہ ہے…اور اسے زندہ
رکھنے اور طاقتور بنانے کے لئے … اداروں کے ادارے اور ملکوں کے ملک محنت کر رہے
ہیں …ایسے حالات میں چند دن بعد دیوانے آپ کے دروازے پر آئیں گے کہ…اے مسلمانو!
چلو سات دن قرآن مجید کی آیاتِ جہاد کی تفسیر پڑھ لو… آؤ! ان آیات کی تفسیر
پڑھو جن کی تفسیر کو مٹایا جا رہا ہے،چھپایا جا رہا ہے…آؤ! اپنے رب کی کتاب کی
اس خدمت میں اپنا حصہ ڈالو…آؤ! اپنے رب کی کتاب کی حفاظت میں اپنا حصہ ڈالو…اللہ
تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے…پھر وہ جن افراد کو اس کتاب کی
حفاظت کی خدمت پر کھڑا فرماتا ہے…ان کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی طرح اپنی مغفرت اور محبت سے مالا مال فرما
دیتا ہے…
آج
ہر ٹی وی چینل…ان آیات کے خلاف زہر اگل رہا ہے…آج ہر مغرب زدہ کالم نویس ان
آیات کے مفہوم و معنٰی کا انکار لکھ رہا ہے…آج غیر ملکی سفارتخانوں سے…ماہانہ
کروڑوں ڈالر کا فنڈ ان آیات کو مٹانے کے لئے جاری ہوتا ہے … آج قلم کاروں اور
نام نہاد اہل تحقیق کے کئی جتھے… غامدی اور وحید الدین جیسے ملحدین کی قیادت میں
ان آیات کے خلاف…اپنا پسینہ بہا رہے ہیں…
ان
حالات میں اٹھو اور آؤ!ہم سب مل کر ان آیات کی تلاوت کریں…ان آیات کا ترجمہ
پڑھیں،ان آیات کی تفسیر پڑھیں…ان آیات کی خوشبو سونگھیں اور اپنے دل و جان معطر
کریں…آؤ! ان آیات کے سائے میں شہداء بدر و احد سے ملاقات کریں…آؤ!ان آیات کی
روشنی میں… اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی بطور سپہ سالار زیارت کریں…آؤ!
ان آیات کی روشنی میں عزت، عظمت اور آزادی و شہادت کا راستہ ڈھونڈیں … اور اعلان
کر دیں…یا اللہ! ہم آپ کی کتاب پر ایمان لائے ہیں…ہم اس کتاب کی ایک ایک آیت
…اور ایک ایک حکم کومانتے ہیں… ارے کیسے خوش نصیب ہیں وہ افراد…جو چند دن بعد ان
مبارک آیات کا دورہ پڑھائیں گے…خود بھی چمکیں گے، سننے والوں کو بھی چمکائیں
گے…خود بھی روئیں گے اور سننے والوں کو بھی رلائیں گے… اور مسلمانوں کو سمجھائیں
گے کہ دین وہی ہے جو آقا صلی اللہ علیہ
وسلم دے گئے…جہاد وہی ہے جو آقا صلی اللہ
علیہ وسلم دے گئے…سبحان اللہ! خدمت
قرآن،حفاظتِ قرآن اور دعوت قرآن کی یہ پر نور محفلیں…بس سجا ہی چاہتی ہیں…
بھائیو!
ان محفلوں کے لئے محنت کرو…ان میں شرکت کرو…اور ان کی روشنی کا دائرہ وسیع کرو…
ہاں! سچ کہتا ہوں اس نعمت کی قدر کرو…
٤ مفید اور مبارک ذرات
چوتھی
بات کے لئے جگہ کم رہ گئی…مختصر عرض ہے کہ کھانا اور رزق ضائع نہ کریں…پلیٹ اور
برتن سنت کے مطابق صاف کریں…اجتماعی کھانا تو ہرگز ضائع نہ ہو…کھانے کے دوران جو
ذرات اور لقمے دسترخوان پر گر جاتے ہیں…انکو چن کر کھا لیں…یہ ہمارے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے… دراصل شیطان ہمارے کھانے میں سے مفید
اور برکت والے ذرات کو نیچے گراتا رہتا ہے … کیونکہ وہ دشمن ہے وہ نہیں چاہتاکہ ہم
صحت و برکت حاصل کریں … اس لئے ہم اپنے محبوب کی سنت کے مطابق وہ مفید اور بابرکت
ذرات چن کر شکر کے ساتھ کھا لیا کریں…چند دن اہتمام کریں تو فائدہ اور برکت اپنی
آنکھوں سے خود دیکھ لیں گے ان شاء اللہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 494
مدارس
اور رجب
مدرسہ
کسے کہتے ہیں؟…
مدرسہ
کے مختلف نام اور مدرسہ کی تاریخ…
امتحان
میں کامیابی کا وظیفہ…
دینی
تعلیم کے درجے…
مسلمانوں
کی دینی تعلیم سے غفلت…
ایک
اچھا رجحان… ایک برا رجحان…
عزت
صرف دین اور دینی تعلیم میں ہے…
مدارس
اور جدت پسندی کا فتنہ…
طلبہ
کرام چھٹیاں کیسے گزاریں؟…
ان
تمام موضوعات پر روشنی بکھیرتی ایک تحریر…
۱۷رجب۱۴۳۶ھ؍06مئی۲۰۱۵ء
مدارس اور رجب
اللہ
تعالیٰ ہر مسلمان کو ’’دین‘‘ کا لازمی اور ضروری ’’علم‘‘ عطاء فرمائے…
رجب
اور مدارس
اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے،ہمارے ملک میں خالص دینی تعلیم کے ادارے موجود ہیں…ان اداروں کو
’’مدارس‘‘ کہا جاتا ہے…مدارس یعنی درس کے مقامات…پہلے کئی صدیوں تک مسلمانوں کے
دینی مدارس ’’مساجد‘‘ میں آباد رہے…ان کی الگ عمارت نہیں ہوتی تھی…ہر مسجد میں
’’مدرسہ‘‘ لازمی تھا… پھر آبادی بڑھی،افراد زیادہ ہوئے تو مساجد کے پڑوس میں
’’مدارس‘‘ کی الگ عمارتیں بننے لگیں اور یہ مبارک سلسلہ آج تک جاری ہے …خالص دینی
تعلیم کے مدارس پاکستان ، ہندوستان،بنگلہ دیش…امریکہ ،یورپ اور کئی افریقی ممالک
میں موجود ہیں…اب کئی سالوں سے عرب ممالک میں بھی قائم ہو رہے ہیں … ورنہ وہاں
حکومت کی زیر نگرانی دینی و عصری تعلیم کے مخلوط ادارے تھے… اور عرب شیوخ اور طلبہ
اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے شام ،عراق،ہند اور پاکستان کے مشائخ سے استفادہ کرتے
تھے اور سند حدیث حاصل کرتے تھے…
ویسے
وہاں بھی نجی طور پر اہل علم کے مدرسے ان کی ذات اور ان کے گھروں میں ہمیشہ قائم
رہے ہیں…مدارس کو ’’دارالعلوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے… اب ’’جامعہ‘‘ کا لفظ زیادہ چل
نکلا ہے…کچھ عرصہ سے ’’معہد‘‘ یا ’’المعہد‘‘ کا لفظ بھی عام ہو رہا ہے …یہ عربی
میں ’’سکول ‘‘ کا ہم معنی لفظ ہے…ان مدارس کا تعلیمی سال رمضان المبارک کے بعد ’’
شوال‘‘ کے مہینہ میں شروع ہوتا ہے…اور اختتام رجب کے آخر یا شعبان کے شروع میں
ہوتا ہے …رجب کے مہینے میں مدارس کا ماحول بہت عجیب روح پرور بن جاتا ہے…طلبہ اپنے
سالانہ امتحانات کی تیاری میں رات دن ایک کرتے ہیں …رات کے دو بجے بھی یہ مدارس
اور ان سے ملحقہ مساجد کا ماحول جاگ رہا ہوتا ہے…علمی مذاکرے اور تکرار کی آوازیں
گونجتی ہیں…کچھ طلبہ پریشان ہوتے ہیں کہ امتحان میں کیا ہو گا؟ کچھ پرسکون ہوتے
ہیں کہ جیسا تیسا گزر ہی جائے گا… کم از کم ’’راسب‘‘ یعنی فیل ہونے کا خطرہ
نہیں…کچھ طلبہ مقابلہ کی کیفیت میں ہوتے ہیں کہ اچھی پوزیشن حاصل کریں…اور بعض
طلبہ ان دنوں میں باقاعدہ توجہ سے دعاء بھی مانگتے ہیں …ورنہ پورا سال وہ دعاء سے
دور رہتے ہیں…
لائق
اور ذہین طلبہ کے گرد ان دنوں مجمع رہتا ہے…وہ خود بھی پڑھتے ہیں اور دوسروں کو
بھی پڑھاتے ہیں…ذکر اور عبادت کے شوقین طلبہ ان دنوں اپنے معمولات کم کرنے پر
مجبور ہو جاتے ہیں… مگر دینی تعلیم میں مشغول ہونا خود ایک اہم عبادت ہے…تو وہ
تجدید نیت کے ذریعہ عبادت کا ذوق پورا کرتے رہتے ہیں…ہمارے حضرت شیخ مفتی ولی حسن
صاحب ٹونکی نور اللہ مرقدہ … امتحانات میں اچھی کامیابی کا وظیفہ ارشاد فرماتے تھے
کہ ’’سورۃ ابراہیم‘‘ پڑھ لی جائے…تعلیم کے آخری سالوں میں الحمد للہ اس کا معمول
رہا کہ صبح امتحان گاہ جانے سے پہلے پڑھ لیتے
تھے…الحمد للہ بہت فائدہ ہوا…اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیشہ اچھی کامیابی اور
درجہ ممتاز عطاء فرمایا…اللہ تعالیٰ آخرت کے امتحان میں بھی کامیابی عطاء فرمائے…
دینی
تعلیم کے درجے
دنیا
فانی ہے اور اس کی تعلیم بھی عارضی نفع ہے …جبکہ دینی تعلیم کا نفع دائمی ہے…شرط
یہ ہے کہ دینی تعلیم سے ’’دین‘‘ حاصل ہو جائے…دینی تعلیم کا ایک حصہ تو وہ ہے جو
ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے فرض عین ہے …افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اکثر مسلمان
دینی تعلیم کے اس’’فرض‘‘ حصے کو بھی حاصل نہیں کرتے … یوں وہ دین سے ’’جاہل‘‘ رہ
جاتے ہیں…نہ ان کو فرائض ادا کرنے کا طریقہ آتا ہے اور نہ وہ حلال و حرام کے
درمیان فرق کر سکتے ہیں…نہ ان کی زبان کلمات کفر سے محفوظ رہتی ہے اور نہ ان کو
نکاح اور طلاق کا پتا چلتا ہے … یہ لوگ بظاہر بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لگتے ہیں…
کوئی وزیر،کوئی لیڈر، کوئی بیوروکریٹ،کوئی سفارت کار، کوئی سائنسدان ،کوئی ڈاکٹر
…اور کوئی انجینئر… مگر یہ بے چارے ’’غسل‘‘ تک کا طریقہ نہیں جانتے اور ناپاکی میں
زندگی گذارتے ہیں… ان کے گھروں میں ’’قرآن عظیم الشان‘‘ کے نسخے موجود ہوتے ہیں
مگر محرومی کی حد دیکھیں کہ وہ قرآن پاک کی ایک سطر بھی درست نہیں پڑھ سکتے …کیا
کیمبرج کی ڈگریاں … اور کیا آکسفورڈ کی سندیں… یہ سب مل کر قرآن مجید کی ایک سطر
کے علم کے برابر نہیں ہیں…
دینی
تعلیم کا دوسرا درجہ وہ ہے جو ’’فرض کفایہ‘‘ ہے…کہ بعض مسلمان اسے حاصل کر لیں اور
وہ باقی مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہیں…دینی مدارس کا جو نصاب ہے وہ اسی ’’فرض
کفایہ‘‘ تعلیم پر مشتمل ہے… آج کل مسلمانوں کا رجوع عصری تعلیم کی طرف زیادہ ہے …
اور مدارس کی طرف آنے والے طلبہ ان کے مقابلہ میں کافی کم ہیں … اس لئے فرض کفایہ
بھی پورا نہیں ہو رہا… اور جو خوش نصیب طلبہ دینی مدارس کی طرف آ جاتے ہیں …ان کو
بھی بہت سے لوگ واپس سکولوں کالجوں کی طرف گھسیٹ کر لے جاتے ہیں کہ … معاشرہ میں
ان کا کچھ مقام ہو…یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے… دین اور دینی علم سے بڑھ کر اور
کیا ’’عزت ‘‘ ہو سکتی ہے؟ …بہرحال دینی مدارس اس اُمت کا فرض ادا کر رہے ہیں…یہ
زمین پر وحی الٰہی کی تعلیم و تبلیغ کے اسٹیشن ہیں…ان مدارس سے محبت رکھنا …ان کی
حتی الوسع خدمت کرنا … ان کی آبادی میں محنت کرنا اور ان کی قدر کرنا… یہ سب
ایمان کے تقاضے ہیں…
آج
ہر مسلمان کوشش کرے کہ…کم از کم ایک بچہ…اپنا ہو تو بڑی خوش نصیبی ورنہ کسی اور کا
…وہ اسے ضرور مدرسہ میں تعلیم دلائے گا…اس کے والدین کو دعوت دے کر…یا مالی تعاون
کے ذریعہ…یا کسی بھی طرح…
ایک
اچھا رجحان
الحمد
للہ تحریک جہاد کے طاقتور ہونے سے … اسلام اور مسلمانوں کو عالمی طور پر جو عزت
اور حیثیت ملی…اس کے نتیجہ میں بے شمار غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کیا…اور
الحمد للہ یہ سلسلہ زور و شور سے جاری ہے…دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو عصری
تعلیم حاصل کر چکے تھے…یا کر رہے تھے… ان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا
ہوا…ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ ہم نے جو کچھ پڑھا ہے یہ تو زیادہ سے زیادہ…موت
کے جھٹکے تک کام آنے کا ہے…مگر اس کے بعد آگے کیا ہو گا؟… قبر، حشر، پل صراط،
میزان … حساب و کتاب یہ سب کچھ بالکل برحق ہے اور یقینی ہے…ہمیں ان یقینی اور بڑے
مراحل کی تیاری کے لئے دینی علوم حاصل کرنے چاہئیں…آگے کے اندھیروں سے بچنے کے
لئے قرآن کی روشنی ساتھ لینی چاہیے…آگے کا راستہ سمجھنے کے لئے سنت کا رہنما
آلہ ساتھ لینا چاہیے…اس رجحان کے تحت بہت سے دنیا دار مسلمانوں نے مدارس و مساجد
کا رخ کیا…مدارس نے بھی انہیں خوش آمدید کہا…کئی آسان اور مفید نصاب مرتب
ہوئے…الحمد للہ ہماری جماعت نے دورہ اساسیہ اور دورہ خیر کے ذریعہ اس خیر میں اپنا
حصہ شامل کیا اور ہزاروں مسلمانوں کو دین کی لازمی اور بنیادی تعلیم دی… وہ افراد
جو کلمہ درست نہیں پڑھ سکتے تھے…وہ ان مختصر دوروں کی برکت سے نماز کی امامت کرانے
کے قابل ہوئے…یادرکھیں! درست اذان دینا اور امامت کرانا …یہ اتنا بڑا اعزازہے
کہ…اس کی عظمت کو اگر سر اُٹھا کر دیکھیں تو ٹوپی گر جائے… والحمد للہ رب العالمین
ایک
برا رُجحان
پاکستان
میں ’’فتنۂ پرویز مشرف‘‘ کے آنے کے بعد دینی مدارس کو جدید اور مولوی صاحب کو
’’لیپ ٹاپ‘‘ بنانے کا پروگرام ریاستی جبر کے ساتھ شروع ہوا…پرویز چلا گیا مگر بعد
کی حکومتیں بھی اسی کی پالیسی پر گامزن رہیں…
الحمد
للہ اکثر مدارس اور اہل مدارس ڈٹ گئے …ان کی استقامت پر اللہ تعالیٰ کی موعود نصرت
اتری اور فتنہ ٹھنڈا اور کمزور پڑ گیا …مگر کچھ لوگ اپنی بد نصیبی سے پھسل
گئے…شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ ’’جدت پسندی‘‘ اختیار کرنے میں دین کا تحفظ
ہے،مدارس کا تحفظ ہے وغیرہ وغیرہ…
حالانکہ
جو لوگ مدارس کی تاریخ جانتے ہیں…ان کے علم میں ہے کہ مدارس کا تحفظ کسی فرد،پارٹی
یا پالیسی کا مرہون منت نہیں ہے…مدارس الحمد للہ صدیوں سے قائم ہیں…داڑھی اور پگڑی
بھی ہمیشہ الحمد للہ اہل استقامت کے ہاں محفوظ رہی ہے …بڑے بڑے فتنے آتے ہیں مگر
اہل استقامت کے سامنے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں … پرویز مشرف کا فتنہ جب عروج پر
تھا اور اس کے منہ سے ہر دوسرا جملہ مدارس اور جہاد کے خلاف نکل رہا تھا…انہی دنوں
ایک بڑے بزرگ عالم دین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا…بات مدارس کے تحفظ کی چل نکلی تو
انہوں نے مسکرا کر قلندرانہ انداز میں فرمایا… مولانا ! کچھ بھی نہیں ہو گا کچھ
بھی نہیں …یہ خود ختم ہو جائے گا،مدارس اسی طرح قائم رہیں گے ان شاء اللہ، آپ
نوجوان ہیں، ایوب کا زمانہ آپ نے نہیں دیکھا ہو گا…وہ مدارس کے خلاف اس سے بھی
زیادہ سخت دھمکیاں اٹھاتا تھا …بالآخر اپنے کانوں سے اپنے خلاف گالیاں سن کر الٹا
جا گرا…مدارس کا اصل تحفظ یہ ہے کہ اپنی بنیاد پر قائم رہیں…اور دینی تعلیم کی عزت
و عظمت کا پاس رکھیں… بہرحال سیلاب آتا ہے تو بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے…پرویزی
فتنہ آیا تو یہ برا رجحان پڑ گیا کہ … دینی تعلیم حاصل کرنے والے کئی افراد …عصری
تعلیم کی طرف بھی جانے لگے … میٹرک، ایف اے،بی اے،ایم فل اور ایم اے کے امتحانات
دینے کا رجحان بڑھ گیا… مسلمان اگر دین کے علاوہ کسی اور چیز…میں عزت دیکھے تو اسے
ضرور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے …چنانچہ ایسے افراد پر بھی ذلت آئی کہ دینی تعلیم
کے رنگ، حلاوت اور مزاج سے محروم ہوئے…کئی ایک نماز تک سے دور ہو گئے…کئی ٹی وی
چینلوں کے بے حیا ماحول میں جا پھنسے…بعض نے دینی اور عصری مخلوط تعلیم کے ادارے
بنا کر شرعی حدود کی پاسداری نہ کرتے ہوئے …اور عصری تعلیم کو دینی تعلیم کے
اوپررکھتے ہوئے پردہ،تقویٰ اور اپنے دین کا جنازہ نکال دیا …اور کئی ایک مستقل طور
پر بری سیاست میں غرق ہو گئے…
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
انہوں
نے چٹائی پر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھانے کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ حقیر سمجھا تو
خود ایسے حقیر ہوئے کہ…دفتروں میں نوکریوں کے لئے دھکے کھاتے پھرے اور اذان کی
آواز پر مسجد جانے سے ان کے قدم بھاری ہو گئے… یہی وقت جو وہ عصری تعلیم کے
امتحانات کی تیاری میں گزارتے ہیں…قرآن مجید سیکھنے ،سمجھنے اور سکھانے پر لگا
دیتے تو کتنا عظیم خزانہ پا لیتے … علماء کے لئے عصری تعلیم ممنوع نہیں ہے مگر اس
کے لئے بہت سی شرائط ہیں…ان شرائط کو پورا کئے بغیر قرآن مجید پر سائنس کی کتاب
اور حدیث شریف پر کیمسٹری کی گائیڈ رکھ دینا…خطرہ ہے،نقصان ہے …بہت عظیم
نقصان…اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کے دل میں دین اور دینی علوم کی وہ عزت عطاء فرمائے
جو ہر مسلمان کے دل میں ہونا اس کے ایمان کے لئے لازمی ہے…
طلبہ
کی چھٹیاں
قرآن
مجید میں …دینی علوم کے طلبہ کی اپنے وطن واپسی کا تذکرہ موجود ہے…کہ وہ واپس جا
کر اپنی قوم،قبیلے کو، خاندان کو…اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں…ان کو دین سکھائیں
اور ان کی دینی رہنمائی کریں…کیا دینی مدارس کے طلبہ چھٹیوں میں گھر جا کر یہی کام
کرتے ہیں…جی ہاں! بعض طلبہ ضرور کرتے ہوں گے…قرآن مجید کے ہر حکم پر عمل کرنے
والے افراد ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں…مگر اکثر طلبہ ایسا نہیں کرتے…بلکہ اپنے
اعمال اور فرائض میں بھی مکمل طور پر مستعد نہیں رہتے…
ان
سے گزارش ہے کہ …چھٹیوں کو قیمتی بنائیں…اہم ترین کام جہاد کی تربیت ہے… اسی طرح
حافظ طلبہ قرآن مجید یاد کریں…آیات جہاد کا دورہ تفسیر…یا پورے قرآن مجید کا
دورہ ٔتفسیر پڑھیں…دعوتِ جہاد کا کام کریں…جماعت کا نصاب ماشاء اللہ دین کا جامع
ہے…بس آج ہی نیت کر لیں کہ…چھٹیوں میں غفلت سے توبہ … اور کام کا عزم…دین کا
کام…اللہ تعالیٰ کا کام… اور ہمیشہ کام آنے والا کام…ان شاء اللہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 495
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ
الْھَمِّ وَالْحُزْن
گستاخ
کارٹونیسٹوں کا جلسہ درہم برہم کرنے والے
دو
’’شہزادوں‘‘ کو سلامِ عقیدت…
اسلام
کا دواخانہ…
فکر
اور پریشانی کا علاج…
تین
سخت لہریں…
حُزْنْ،
غَمْ اور ھَم کی تشریح…
ھَم
یعنی فکر اور پریشانی کی اقسام…
ان
کے اثرات و نتائج… اور علاج…
بہت
طاقتور لشکر…
دو
خوشخبریاں…
خطرہ
ہے خطرہ…
ان
سب باتوں سے متعارف کراتی ایک روشن تحریر
۲۴رجب۱۴۳۶ھ؍13مئی۲۰۱۵ء
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ
الْھَمِّ وَالْحُزْن
اللہ
تعالیٰ کے ’’لشکر ‘‘ بے شمار ہیں…اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک بہت طاقتور
لشکر کا نام ہے ’’اَلْھَمّ‘‘…یعنی فکر،پریشانی،سخت اُلجھن… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں
میں سے جس پر چاہتے ہیں اِس لشکر کو مسلّط فرما دیتے ہیں… آئیے! دعاء مانگ لیں…جو
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے…
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ
یا
اللہ ! اپنی حفاظت اور پناہ دے دیجئے پریشانی اور صدمے سے…
اُن
دونوں کو سلام
آج
کی مجلس کا اصل موضوع…فکر اور پریشانی کا علاج ہے…مجھے معلوم نہیں کہ آپ میں سے
کون کون ’’پریشانی‘‘ کا شکار ہے؟ اور آپ کو علم نہیں کہ میں پریشان ہوں یا
نہیں؟…بس آپس میں مل کر اس بھاری اور خطرناک بیماری کا علاج ڈھونڈتے ہیں…
اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم سب الحمد للہ مسلمان ہیں…اور دنیا میں صرف ایک ’’دواخانہ‘‘
اور ہسپتال ایسا ہے جہاں ہر بیماری کی دواء اور علاج موجود ہے…وہ ہے ’’اسلام کا
دواخانہ‘‘…جی ہاں! اسلام کے پاس ہر مرض کا علاج اور ہر بیماری کی دواء دستیاب ہے
جبکہ باقی سب…صرف بیماریاں بیچ رہے ہیں صرف بیماریاں… ایڈز، کینسر،غم،فکر، خود
کشی،بے حیائی، ہالی وڈ،بالی وڈ… فیشن،سود، حرص، لالچ، جھوٹ … عیاشی، فحاشی،
بدمعاشی…کمیونزم، سیکولر ازم، سرمایہ داری،مغربی جمہوریت…اور نفس پرستی … بے شمار
بیماریاں…
آج
کا اصل موضوع چھیڑنے سے پہلے دو گمنام شہداء کو سلام کر لیں…اس فکر بھری دنیا میں
جن دو نوجوانوں کو…صرف ایک ہی فکر تھی کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں کا ایک جلسہ ہو رہا ہے… اس ناپاک
جلسہ پر لعنت برس رہی ہے اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھی حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے لئے نہ اُٹھا
تو… زمین و آسمان بھی شرمندہ ہوں گے اور لعنت کا وبال ہر طرف پھیل جائے گا… یہ
دونوں نوجوان…نہ شادی کی فکر میں تھے نہ مال بنانے کی… وہ ایسی تمام فکروں اور
پریشانیوں سے آزاد تھے جن فکروں میں آج کے اکثر مسلمان دن رات روتے ہیں…انہوں نے
بس ایک فکر کو اپنایا کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور ناموس کے لئے…جان دینی ہےاور ناپاک
و نجس کارٹون سازوں کو مارنا، ڈرانا اور بھگانا ہے…ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے
بھروسے پر عزم کیا اور نکل پڑے…امریکہ جیسے ملک میں وہ ہر سیکورٹی رکاوٹ کو روندتے
ہوئے…جلسہ گاہ تک جا پہنچے اور وہاں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے …اس لڑائی
کے دوران ناپاک کارٹون ساز چوہوں کی طرح کانپتے رہے… ان کا جلسہ اور مقابلہ درہم
برہم ہوگیا… وہ مار کھائے ہوئے گدھوں کی طرح وہاں سے بھاگ گئے…اور زمین و آسمان
اور ساری مخلوقات میں درود و سلام کا شور برپا ہو گیا…
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّد… اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّد…
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّد…
رجب
کے مہینے میں …عشقِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی معراج پانے والے دونوں شہدائِ
کرام کو دل کی گہرائی سے …عقیدت بھرا سلام
تین
سخت لہریں
انسان
کے دل پر جو تکلیف دِہ لہریں حملہ آور ہوتی ہیں…وہ تین طرح کی ہیں…
١
اَلْحُزْن
٢
اَلْغَمّ
٣
اَلْھَمّ
اگر
ماضی میں گزرے ہوئے زمانہ کی کوئی تکلیف…کڑوی یاد بن کر دل پر حملہ آور ہو تو اسے
عربی میں ’’حُزْن‘‘ کہتے ہیں…یعنی صدمہ … اردو میں غم بھی اسی معنی میں استعمال
ہوتا ہے…
اور
زمانہ حال کی کوئی تکلیف دل کو جلا اور پگھلا رہی ہو تو اسے عربی میں ’’غَمْ‘‘
کہتے ہیں… یعنی گھٹن، بے چینی…
اور
گر آگے یعنی مستقبل کی کوئی فکر دل کو رُلا رہی ہو ،تڑپا رہی ہو…خونی اندھیروں
میں نہلا رہی ہو… اور مایوسی کی کھائی میں گرا رہی ہو تو اسے ’’ھَم‘‘ کہتے
ہیں…یعنی فکر اور پریشانی…
ان
تینوں مصیبتوں کا حملہ دل پر ہوتا ہے … اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر دل پر ہوتا
ہے…کسی پر کم اور کسی پر زیادہ…کسی پر مفید اور کسی پر نقصان دِہ …ویسے علمی طور
پر ان تین الفاظ میں …مزید تشریح اور فرق بھی ہے مگر آج ’’ کتب خانہ‘‘ کا نہیں
’’دواخانہ ‘‘ کا قصد ہے…آئیے! پھر دعاء مانگ لیں…
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ، یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ ،اَللّٰہُمَّ اِنَّا
نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْغَمِّ…
بہت
طاقتور
لوہا
بہت طاقتور ہے مگر آگ اسے پگھلا دیتی ہے…آگ کی طاقت بہت مگر پانی اسے بجھا دیتا
ہے… پانی کی طاقت بہت مگر ہوا اُسے اڑا دیتی ہے…ہوا کی طاقت بہت مگر انسان ہوا کو
قابو کر لیتا ہے…انسان کی طاقت بہت مگر نیند انسان کو گرا دیتی ہے…نیند کی طاقت
بہت مگر فکر اور پریشانی نیند کوبھی بھگا دیتی ہے…معلوم ہوا کہ ’’اَلْھَمّ‘‘ یعنی
فکر اور پریشانی اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے بہت طاقتور لشکر ہے…یہ کسی دل پر
اُتر جائے تو دل زخموں اور اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے…دنیا بھر کی دوائیاں اس کو دل
سے نہیں نکال سکتیں…دنیا بھر کے کھانے اور مشروبات اس کا علاج نہیں کر سکتے… لوگ
نشہ کرتے ہیں تاکہ فکر اور پریشانی ختم ہو جائے مگر وہ اور بڑھ جاتی ہے اور دل میں
زیادہ گہری اتر جاتی ہے… چنانچہ نشے کرنے والے اپنا نشہ مزید بڑھاتے جاتے ہیں …مگر
مرتے دم تک فکر دل سے نہیں نکلتی…اگر نشہ سے نکل جاتی تو نشہ کرنے والے ایک بار
نشہ کر کے باز آ جاتے…یہی فکر اور پریشانی ہے جو انسان کو خود کشی پر آمادہ کرتی
ہے…یہی انسان کو بہت بڑے بڑے گناہوں میں ڈالتی ہے …یا اللہ! آپ کی پناہ…
اَللّٰہُمَّ
اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ… یَا فَارِجَ الْھَمِّ کَاشِفَ
الْغَمِّ، اَذْھِبْ عَنَّا الْھَمَّ وَالْحُزْنَ۔
خوشخبری
اگر
فکر اور پریشانی ’’آخرت ‘‘ کی ہو تو یہ بہت مبارک ہے…اس فکر اور پریشانی کی برکت
سے دنیا کی پریشانیاں اور فکریں ختم ہو جاتی ہیں… انسان کا دل غنی ہو جاتا ہے…اور
دنیا ناک رگڑ کر اس کے قدموں میں آتی ہے…اسے ’’ھَمُّ الْآخِرَۃْ‘‘ کہتے ہیں…دعاء
مانگا کریں …
اَللّٰہُمَّ
اجْعَلْ ھَمِّی الْآخِرَۃَ
’’یا اللہ! آخرت کو میری فکر بنا دے‘‘۔
اردو
میں جو ہم ’’اہمیت‘‘ کا لفظ بولتے ہیں وہ اسی ’’اَلْھَمّ ‘‘ سے نکلا ہے…کہ دل میں
آخرت کی اہمیت دنیا سے زیادہ ہو جائے…جس طرح کینسر کے مریض کو یہ فکر ہوتی ہے
کہ…میں اس بیماری سے مر نہ جاؤں…چنانچہ وہ اس کے علاج کو ہر چیز سے بڑھ کر اہمیت
دیتا ہے…اس علاج کی خاطر مال مویشی بیچنے پڑیں…گاڑی فروخت کرنی پڑے…مکان بیچنا پڑے
یا قرض لینا پڑے … وہ سب کچھ کر گزرتا ہے…پس اسی طرح ایک مسلمان کو آخرت کی فکر
لگ جائے کہ…میری موت ایمان پر آئے ،مجھے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت مغفرت اور
اکرام ملے…مجھے قبر کی تنہائی اور عذاب سے حفاظت ملے…حشر کے دن اور پل صراط اور
میزان پر میرا معاملہ ٹھیک رہے…ان سب باتوں کی فکر اور بہت اہمیت …اور پھر اس کے
لئے تیاری،قربانی اور محنت … اسے ’’ھَمُّ الْآخِرَۃْ‘‘ کہتے ہیں…جو اللہ تعالیٰ
معاف فرمائے ہم میں سے اکثر کو…نصیب نہیں ہے…ہم اپنے جسم کی ایک چھوٹی سی بیماری
پر لاکھوں خرچ کر سکتے ہیں…مگر آخرت کے لئے ہزاروں کا خرچہ بھی بھاری لگتا
ہے…بہرحال جن مسلمانوں کو یہ فکر اور ’’ھَمّ‘‘ نصیب ہے انہیں بہت بہت مبارک
ہو…اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے…
دوسری
خوشخبری
وہ
مسلمان جن پر اچانک کوئی ’’ھَمّ‘‘ یعنی فکر یا پریشانی مسلط ہو جاتی ہے…مگر وہ
فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں …وہ اللہ تعالیٰ سے ہی اس کا علاج اور حل
مانگتے ہیں…وہ اپنے جلے ہوئے دل سے اپنا ایمان یا دوسروں کا دل نہیں جلاتے…بلکہ اس
جلے ہوئے دل سے اپنے آنسوؤں کو گرم کر کے سچا اِستغفار کرتے ہیں …ایسے لوگوں کو
بھی بشارت اور خوشخبری ہو کہ…یہ پریشانی اور فکر کا یہ حملہ اُن کے گناہوں کو
مٹانے اور درجات کو بلند کرنے کا ذریعہ بنتا ہے…اس سے ان کے بڑے بڑے خطرناک گناہ
معاف ہو جاتے ہیں …اس سے ان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام مل جاتا ہے… کیونکہ
جسمانی تکلیف سہنا آسان ہے … مگر جب جسمانی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَجر
کے اتنے وعدے ہیں تو …قلبی اور روحانی تکلیف تو بڑی اذیت ناک ہوتی ہے…جو اسے صبر
اور ذکر کے ساتھ کاٹ لے اس کا مقام بہت اونچا ہوتا ہے…اسی لئے اللہ والے بزرگ ایسے
لوگوں کو ہمیشہ صبر کے نسخے بتاتے رہتے ہیں … حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ
ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اسی ’’ھَمّ‘‘
یعنی فکر و پریشانی سے تڑپ رہا تھا…آپ نے اس بندہ ٔمومن سے فرمایا … میں تم سے
تین باتیں پوچھتا ہوں :
١ کیا دنیا میں اللہ تعالیٰ کے چاہے بغیر کچھ ہو سکتا ہے؟
٢ اللہ
تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں جو رزق لکھ دیا ہے کیا اس میں سے کوئی ایک ذَرّہ کم کر
سکتا ہے؟
٣ اللہ
تعالیٰ نے تمہارے لئے جتنی زندگی لکھ دی ہے…کیا اس میں سے کوئی ایک لحظہ یعنی
سیکنڈ کم کر سکتا ہے؟…
اس
شخص نے تینوں سوالوں کے جواب میں کہا …نہیں، ہر گز نہیں…حضرت نے فرمایا: پھر فکر
اور پریشانی کس بات کی؟
خطرہ
ہے خطرہ
وہ
لوگ جن کے دل پر ’’ھَمّ‘‘ یعنی فکر اور پریشانی کا حملہ ہوتا ہے…مگر وہ اللہ
تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے…کچھ مایوس ہو کر گناہوں اور نشے میں جا پڑتے
ہیں…کچھ شرک ،کفر اور ٹونوں میں جا گرتے ہیں…کچھ دوسروں کو اِیذاء پہنچانے میں لگ
جاتے ہیں…اور کچھ خود کشی کر کے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر لیتے ہیں…ایسے لوگوں
کا دل…شیطان کا تخت ہوتا ہے …وہ اس پر بیٹھتا ہے،ناچتا ہے اور تباہی مچاتا ہے… ہم
سب مسلمانوں کو ایسی فکر اور ایسی حالت سے ڈرنا چاہیے…اور اس سے اللہ تعالیٰ کی
پناہ مانگنی چاہیے…دنیا بڑی عجیب جگہ ہے …اس کی جو جتنی زیادہ فکر کرے یہ اسی قدر
زیادہ کاٹتی ہے اور زیادہ دور بھاگتی ہے…ایک مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کہ کسی بات
کی فکر لگانے اور فکر کھانے سے کیا ہو گا؟…یہی وقت اللہ تعالیٰ سے مانگنے یا آخرت
کی تیاری میں لگا دوں…
علاج
’’ھَمّ‘‘ یعنی فکر اور پریشانی کا اصل علاج اللہ تعالیٰ پر توکل
اور بھروسہ ہے… کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے…وہ میری سنتا ہے…وہ میری ضرور مدد
فرمائے گا…اندازہ لگائیں… ایک شخص کے دل پر بیک وقت تینوں خطرناک لہروں کا حملہ
ہے… ماضی کا صدمہ بھی ہے یعنی حُزن…حال کا غم بھی جاری ہے…اور مستقبل کی فکر بھی
ہے…محبوب ترین بیٹا سالہا سال سے گم ہے اور اب دوسرا بیٹا بھی گم ہو گیا…مگر اس کی
زبان سے کیا نکلتا ہے؟
﴿فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ﴾
’’ہاں! صبر ہی اچھا ہے‘‘…اور ساتھ فرماتا ہے :
﴿لَا تَیْأَسُوْا مِن رَّوْحِ اللّٰہِ﴾
’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…اللہ کی رحمت سے صرف کافر مایوس
ہوتے ہیں‘‘…
دوسرا
بڑا علاج یہ کہ جس بارے میں فکر کا حملہ ہو اسی کے خلاف کوئی نیک کام کر لیا
جائے…مال کی فکر اور پریشانی دل کو رُلارہی ہے تو ہمت کر کے جیب سے پیسے نکال کر
صدقہ کر دیں…تھوڑی دیر میں فکر کا حملہ بھی ختم…اور ساتھ اِن شاء اللہ سکینہ بھی
شروع…ویسے بھی صدقہ اس بیماری کا بہترین اور بڑا علاج ہے…
تیسرا
علاج کثرتِ اِستغفار ہے…اور یہ اہلِ دل کا مجرب ہے…اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی…استغفار لازم پکڑنے والوں کو ہر فکر و
پریشانی سے نجات کی بشارت دی ہے…
چوتھا
علاج …’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ‘‘ کی کثرت ہے،جیسا کہ حدیث پاک
میں آیا ہے…
پانچواںعلاج…درود
شریف کی کثرت ہے …اس پر دلائل روایات میں موجود ہیں…
اور
بہت سے علاج اور بہت سی دعائیں حدیث شریف میں آئی ہیں…
جو
علاج چاہتا ہو…وہ تلاش کر لے…اور دنیا میں جس چیز کی فکر اور پریشانی حد سے زیادہ
مسلّط ہو…اگر انسان اُس کو چھوڑنے یعنی اُس کی قربانی دینے کا عزم کر لے تو
…پریشانی بھی دور ہو جاتی ہے اور نصرت بھی آ جاتی ہے…
اَللّٰہُمَّ
اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 496
مقدس ہستی،مبارک نام
آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیوں کا
تذکرہ…
’’اُم کلثوم‘‘ نام رکھنے میں مسلمانوں کی سستی اور غفلت…
ایک
غلط فہمی کا ازالہ…
’’اُم‘‘ کا مطلب… ’’اُم کلثوم‘‘ کا معنٰی…
بچی
کا نام ’’کلثوم‘‘ یا ’’اُم کلثوم‘‘؟…
ایک
دعاء…
بیٹی
کی پیدائش پر پریشان ہونے والے…
ایک
خاص نکتہ… ایک بری رسم…
کوکب
الاسلام حضرت اُم کلثوم رضی اللہ
عنہا کا محبت بھرا تذکرہ…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئے ملاحظہ کیجئے… یہ تحریر…
۲شعبان۱۴۳۶ھ؍20مئی۲۰۱۵ء
مقدس ہستی،مبارک نام
اللہ
تعالیٰ نے اپنے سب سے آخری اور سب سے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چار پیاری پیاری بیٹیاں عطاء فرمائیں…
١ حضرت
سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا
٢ حضرت
سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا
٣ حضرت
سیّدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا
٤ حضرت
سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
آج
مسلمانوں میں ان چار میں سے تین نام تو الحمد للہ بکثرت موجود ہیں…مگر ’’اُم
کلثوم‘‘ نام بہت کم ہے…کسی کو مشورہ دیں تو ہچکچا جاتا ہے … کہ بچی ’’اُم‘‘ کیسے
ہو گئی…وہ سمجھتے ہیں کہ ’’اُم‘‘ کا مطلب صرف ’’ماں‘‘ ہے…ایسا غلط ہے… حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی کا نام ’’اُم کلثوم‘‘ حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی کا نام
’’ اُم کلثوم‘‘ …حضرت علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ کی پیاری بیٹی کا نام ’’اُم کلثوم‘‘…حدیث کی روایت کرنے والی ایک عظیم
صحابیہ کا نام ’’اُم کلثوم‘‘… رضی اللہ عنہا
ایک
دعاء یاد کر لیں
بیٹی
کا تذکرہ چلا تو یاد آ گیا کہ…دو دن پہلے جماعت کے شعبہ تعارف نے اطلاع دی کہ
پشاور کی ایک مسلمان بہن نے بارہ تولے سونا اور تین لاکھ روپے جہاد میں دئیے
ہیں…اور دو فرمائشیں کی ہیں…
پہلی
یہ کہ ان کے لئے دعاء کی جائے…اور دوسری یہ کہ کچھ عرصہ پہلے’’رنگ و نور‘‘ میں
زکوٰۃ کے بارے میں جو کالم شائع ہوا تھا…ایک مسلمان کا اور کیا کام؟…وہ ماہنامہ
بنات عائشہ رضی اللہ عنہا میں
بھی شائع کیا جائے…
بندہ
نے دعاء کر دی…تمام قارئین بھی دل کی گہرائی سے ان کے لئے دعاء کریں…اور مضمون ان
شاء اللہ شائع کر دیا جائے گا…
ایک
بات بتائیں
جب
آپ کے ہاں ’’بیٹی‘‘ کی ولادت ہوتی ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں یا پریشان ؟اگر خوش
ہوتے ہیں تو بہت مبارک ہو…بہت مبارک… اور اگر پریشان ہوتے ہیں تو مشہور زمانہ
تفسیر ’’روح المعانی‘‘ کی یہ عبارت پڑھ لیں جو حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ النحل آیت (۵۸) کی تفسیر میں
لکھی ہے…فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں ہر اس شخص کی واضح مذمت ہے جو بیٹی کی خبر سن کر
غمگین ہوتا ہے …کیونکہ آیت مبارکہ بتا رہی ہے کہ یہ کافروں کا کام ہے…یعنی مشرک
اور کافر کا یہ طریقہ ہے کہ وہ بیٹی پیدا ہونے کی خبر سے غمگین ہو جاتا ہے‘‘…
ایک
خاص نکتہ
حدیث
شریف میں ایک دعاء کا حکم ہے:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَائِ
’’یا اللہ! عورتوں کے فتنہ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں‘‘۔
یہ
دعاء ( نعوذ باللہ) اکثر عورتوں کو پسند نہیں ہے…اسی لئے مرد حضرات اپنی ’’عربی
دان‘‘ بیویوں کے سامنے یہ دعاء نہیں پڑھتے کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں…پڑھنی بھی ہو
تو آواز آہستہ کر لیتے ہیں… اور خواتین تو اکثر اس دعاء کو نہیں پڑھتیں …حالانکہ
اس زمانہ میں عورتوں کے لئے یہ دعاء بہت ضروری ہے…کیونکہ آج کل عورتیں ہی دوسری
عورتوں کو زیادہ تکلیف اور نقصان پہنچاتی ہیں …آپ جب یہ دعاء پڑھیں گی تو دوسری
عورتوں کے شر اور فتنہ سے ان شاء اللہ حفاظت میں رہیں گی …یہ موضوع تو بڑا مفصل ہے
کہ عورتیں کس طرح سے دوسری عورتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں…بس ایک مثال لے لیں کہ
بیٹی کی پیدائش پر سب سے زیادہ تکلیف آج عورتوں کو ہی ہوتی ہے…ماں بھی پریشان کہ
بیٹا کیوں نہیں ہوا…ساس بھی دکھی کہ پوتا کیوں نہیں ہوا…اری بہنو! اگر ہر گھر میں
ہمیشہ بیٹا ہی ہوتا تو پھر نہ یہ ماں موجود ہوتی اور نہ یہ ساس…آپ خود تو پیدا ہو
گئیں…حالانکہ آپ بھی تو بیٹی تھیں…اب اگر آپ کے ہاں ’’بیٹی‘‘ پیدا ہوئی ہے تو
اسے بھی خوشی سے قبول کر لیجئے…بیٹا بیٹا کرتے کہیں خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ
پرویز مشرف یا پرویز رشید جیسا کوئی پیدا ہو جائے … ایسے بیٹوں سے کروڑ بار اللہ تعالیٰ
کی پناہ …زمین بھی ان کے وجود سے پناہ مانگتی ہے…
اُمّ
کا مطلب
کسی
بچی کے نام میں ’’اُم‘‘ کا لفظ آنا حیرت کی بات نہیں ہے…اُم ’’ماں‘‘ کو بھی کہتے
ہیں… اصل کو بھی کہتے ہیں…جڑ کو بھی کہتے ہیں…اُم ’’والی‘‘ کے معنٰی میں بھی آتا
ہے…اُم ایمن برکت والی…اُم کلثوم ریشم جیسے چہرے والی…ہمارے ہاں ’’اُم کلثوم‘‘ نام
نہیں رکھتے، ہاں بعض لوگ اپنی بچی کا نام ’’کلثوم‘‘ رکھ دیتے ہیں…عربی لغت کی
مشہور کتاب ’’لسان العرب لابن منظور ‘‘ میں لکھا ہے :
کلثوم
رجل وام کلثوم امرأۃ
’’کلثوم‘‘ مرد کا نام ہوتا ہے… اور اُم کلثوم عورت کا‘‘…
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قباء میں قیام فرمایا تو آپ کا قیام جن
صاحب کے گھر میں تھا…ان کا نام تھا کلثوم بن ھدم…اور بھی کئی مردوں کا نام
’’کلثوم‘‘ آیا ہے…اگرچہ ناموں میں کافی گنجائش ہوتی ہے…شاید اسی کا لحاظ رکھتے
ہوئے ہمارے ہاں عورتوں کا نام بھی ’’کلثوم‘‘ رکھ دیا جاتا ہے…مگر جن مبارک ہستیوں
کو دیکھ کر یہ نام اسلامی معاشرے میں آیا ہے…ان سب کا اسم گرامی’’ اُم کلثوم‘‘
تھا…بندہ سے کئی لوگ اپنے بچوں کا نام رکھنے میں مشورہ کرتے ہیں…الحمد للہ بعض
دوستوں کی بچیوں کا نام ’’اُم کلثوم ‘‘ رکھ دیا ہے …مگر انہیں سمجھانے میں محنت
کرنی پڑی…اللہ کرے یہ کالم کام کر جائے اور ہمارے گھروں میں میرا،وینا، پلوشہ،
ملالہ،گلالہ کی جگہ پیاری عائشہ،خدیجہ، فاطمہ ، اُم کلثوم، رقیہ، حفصہ، زینب،
صفیہ،جویریہ، میمونہ،آمنہ،امامہ…اور ان جیسے دوسرے پاکیزہ نام آ جائیں…
ایک
بری رسم
ہمارے
معاشرے میں بچوں کے برے نام ایک بری رسم کی وجہ سے آئے ہیں…وہ رسم یہ کہ جو نام
ایک بار کسی خاندان میں آ جائے…وہ اب دوبارہ کسی بچے کا نہیں ہو سکتا…خاندان
ماشاء اللہ بڑے ہیں تو اس لئے کئی لوگ نئے نئے نام ڈھونڈتے
ہوئے…کافروں،منافقوں،بتوں اور چڑیلوں کے ناموں تک پہنچ جاتے ہیں…اب بھلا پرویز بھی
کوئی نام ہے؟ ماضی کا ایک دشمن اسلام کافر… ارے بھائیو! اور بہنو! اپنے بچوں کے
بہت پیارے پیارے نام رکھو…یہ بچوں کا اپنے والدین پر لازمی شرعی حق ہے … بے شک ایک
ہی خاندان میں محمد ہی محمد… اور عائشہ ہی عائشہ ہر طرف نظر آئیں… سچی بات ہے بہت
بھلا لگتا ہے… بہت خوبصورت…
ویسے
اچھے ناموں کی بھی کمی نہیں ہے…بس اچھا نام رکھنے کی فکر ہو …ہزاروں صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابیات رضی
اللہ عنہن کے نام موجود ہیں…والحمد للہ رب
العالمین
کوکب
الاسلام
بات
ایک مقدس ہستی کی چلی تو کچھ ان کا مبارک تذکرہ بھی آ جائے کہ…ان کے تذکرے پر بھی
رحمت نازل ہوتی ہے…
سیّدہ
اُم کلثوم رضی اللہ عنہا …حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صاحبزادی…ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی… چھ
سال کی تھیں کہ والد مکرم کو نبوت اور ختم نبوت کا تاج پہنایا گیا…اپنی امی جی اور
بہنوں کے ساتھ فوراً کلمہ پڑھ کر سابقین الاولین میں جگہ پائی…ابو لہب کے بیٹے سے
رشتہ طے تھا … مگر اُس ملعون نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ طلاق دے دو…ابھی رخصتی
نہیں ہوئی تھی…پھر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب ابی طالب کی سخت مشقت کاٹی…والدہ
ماجدہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال فرما گئیں…بیٹیاں ماں کے بغیر رہ
گئیں…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا
نے تربیت فرمائی…پھر مدینہ کی طرف
ہجرت ہوئی …پہلے حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم تشریف لے گئے …پھر بیٹیوں نے
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے ساتھ ہجرت کی… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود استقبال فرمایا…ہجرت کے دوسرے سال بڑی
بہن حضرت سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا…ان کے خاوند حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غم سے نڈھال تھے کہ… حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا خود بڑے مقام والی تھیں…اور ان کے ذریعے سے
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی رشتہ تھا… ایسی بیوی کا انتقال تو کمر
توڑ دیتا ہے…تب جبرئیل امین عرش سے اللہ تعالیٰ کا حکم لائے کہ… سیّدہ اُم کلثوم
کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا جائے…رشتہ ہو گیا اور اس
رشتہ نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو
’’ذی النورین‘‘ بنا دیا…
اس
رشتہ سے پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ
عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی… حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
کا رشتہ پیش کیا … حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی… جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ غمگین تھے … تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…حفصہ کو عثمان سے اچھا
خاوند…اور عثمان کو حفصہ سے بہتر بیوی ملے گی…حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد مبارک میں آ گئیں… مگر سب حیران تھے کہ
حفصہ سے افضل اس وقت کون ہو گا؟ …جب سیّدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا
کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا تو سب نے جان لیا کہ…وہ افضل خاتون حضرت
سیّدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا ہیں
…بعض حضرات نے حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا
کو ’’کوکب الاسلام‘‘ کا لقب بھی
دیا ہے …ہجرت کے نویں سال شعبان کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیاری لخت جگر…اس دنیا فانی سے کوچ کر
گئیں…عمر ابھی تیس سال بھی نہیں ہوئی تھی…پیدا مکہ مکرمہ میں ہوئیں…جبکہ تدفین
مدینہ منورہ جنت البقیع میں ہوئی…کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گذری ہو گی جب آپ …سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا
کے پہلو میں سیّدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا
کو قبر میں اُتار رہے تھے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 497
آج ہی سے
شعبان،
رمضان اور کامیاب مجاہدین کا دستور…
مجاہد
کا قرآن مجید سے ’’تعلق‘‘ جتنا مضبوط، اتنا
اس
کا جہاد طاقتور اور کامیاب…
قرآن،
شعبان، رمضان… دو عجیب نقشے…
خدمت
قرآن کا وسیع اور دلکش میدان…
شعبان
میں ’’قرآنی منصوبہ‘‘ بنا لینا چاہیے…
خدمت
قرآن کی عظیم الشان نیتیں…
شعبان
کا مہینہ آیا… تو … حضرت سعدی دامت برکاتہم العالیہ
کو
قرآن کریم کی محبت نے گھیر لیا… تب انہوں نے مجاہدین کرام
اور
اہل اسلام کو… قرآن سے جڑنے کی پر سوز و پرزور دعوت دے ڈالی…
آپ
بھی ملاحظہ فرمائیے… یہ دعوت
۹شعبان۱۴۳۶ھ؍27مئی۲۰۱۵ء
آج ہی سے
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو ’’قرآنِ مجید‘‘ کا ساتھ نصیب فرمائے…دنیا میں بھی…مرتے وقت
بھی…قبر میں بھی،حشر میں بھی…اور جنت میں بھی…قرآن مجید نور ہے،ہدایت ہے،روشنی
ہے، رحمت ہے، امام ہے، رہنما ہے… بچانے والا ہے، بڑھانے والاہے،ساتھ نباہنے والا
ہے… چھڑانے والا ہے… دلکش،دلربا اور مونس ساتھی اور ہمسفر ہے… ہمیں سوچنا چاہیے
کہ…مرتے وقت ہم اپنے ساتھ کتنا ’’قرآن مجید‘‘ لے کر جاتے ہیں…
مجاہدین
کرام کے نام
کامیاب
مجاہدین کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ…جیسے ہی ’’رجب‘‘ کا مہینہ ختم ہوا، انہوں
نے قرآن اور جہاد کو تھام لیا…شعبان میں محنت کی اور رمضان المبارک میں فتوحات
پائیں …ماشاء اللہ، جہاد کا نور اب ہر طرف پھیل چکا ہے…جہاد کے دوست اور دشمن سب
نمایاں ہو کر سامنے آ چکے ہیں… جہاد کے بری،بحری اور پہاڑی محاذ کھل چکے ہیں…قدیم
اسلحہ اور گھوڑوں سے لے کر جہاز اور ٹینک تک مجاہدین کے پاس موجود ہیں…جہاد کا
مسئلہ اب چند سال پہلے کی طرح ’’اجنبی‘‘ نہیں رہا… جہاد کے موضوع پر کتابیں،
بیانات اور دیگر دستاویزات ہر جگہ مہیّا ہیں…دشمنانِ اسلام جہاں بھی مسلمانوں پر
حملہ کرتے ہیں…وہاں انہیں مجاہدین کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے…
اَقوامِ متحدہ نام کا ادارہ اب آخری ہچکیاںلے رہا ہے… سوویت یونین نام کا اِتحاد
بکھر چکا ہے… اور دہشت کا نشان امریکہ اب ’’اُبامہ‘‘ ہوتا جا رہا ہے… کمزور، رسوا،
بدنام، غیر مقبول…اور بے رُعب…اور یورپی اِتحاد اپنے وجود کو بچانے کی آخری
کوششیں کر رہا ہے…جہاد نے گذشتہ پندرہ سال میں دنیا کے حالات اور دنیا کے نقشے کو
بدل ڈالا ہے اور تبدیلی کا یہ عمل تیزی سے جاری ہے… مجاہدین کو چاہیے کہ قرآن
مجید کو مضبوط تھام لیں…پھر ان کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا… کیونکہ
قرآن مجید کا آغاز ہی سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے…ماضی کے کئی اسلامی لشکروں نے
سورۂ فاتحہ کی برکت سے بڑے بڑے شہر اور قلعے فتح کئے…اور اسی قرآن مجید میں سورۃ
’’الفتح‘‘ موجود ہے… یہ سورۃ مجاہدین کو ’’فاتح جماعت‘‘ بنانے کا طریقہ سکھاتی
ہے…اور اسی قرآن مجید میں سورۃ ’’النصر‘‘ موجود ہے…جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی
نصرت اُتارنے کا طریقہ بتاتی ہے…مجاہدین کے معاشی مسائل کے حل کے لئے سورۂ
’’اَنفال‘‘ موجود ہے…اور مجاہدین کو پہاڑوں جیسا حوصلہ دِلانے والی سورۂ توبہ بھی
ہمارے سامنے ہے…
’’مجاہد‘‘ جس قدر ’’قرآن‘‘ سے جڑے گا،اسی قدر اس کا جہاد کامیاب
اور شاندار ہو گا… شعبان شروع ہو چکا…قرآن مجید کو سینے سے لگا لیجئے… محاذوں کی
گرمی ہو یا ریاضت و تربیت کی سرگرمی… دعوت کی بھاگ دوڑ ہو یا کسی مہم کی محنت …
قرآن مجید آپ کے ساتھ رہے…جن کو درست پڑھنا نہ آتا ہو وہ فوراً سیکھنا شروع کر
دیں…جو پڑھنا جانتے ہوں وہ تلاوت میں اضافہ کردیں … جو حفاظ ہیں وہ حفظ کو پختہ کر
یں…اور سب مل کر قرآن مجید زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کریں…
قرآن،شعبان
،رمضان
قرآن
مجید کو اپنے ساتھ لینے اور قرآن مجید کی خدمت کرنے کا میدان بہت وسیع ہے…سب سے
پہلے اپنے دل میں ’’قرآن مجید‘‘ کی عظمت بٹھائیں کہ یہ کتنی بڑی اور کتنی ضروری
نعمت ہے … کوئی نعمت اس کے برابر نہیں کیونکہ باقی سب نعمتیں ’’مخلوق ‘‘ ہیں…جبکہ
قرآن مجید خود اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام ’’مخلوق‘‘ نہیں ہو
سکتا…
اس
کے لئے اچھا ہو گا کہ…آپ فضائل قرآن مجید کی احادیث کا ایک بار ضرور مطالعہ کر
لیں…دوسرا کام یہ کہ اپنے دل میں اس بات کا عزم باندھیں کہ میں نے ان شاء اللہ
قرآن مجید کو اپنے ساتھ لے جانا ہے… جب یہ فکر دل میں بیٹھ گئی تو ان شاء اللہ اس
کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا…
عجیب
نقشے
کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص تجوید کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا جانتا ہے…وہ بہت پختہ
حافظ بھی ہے…اور قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر بھی جانتا ہے…مگر مرتے وقت قرآن
مجید اس کے ساتھ نہیں جاتا… روح نکلتے وقت بھی قرآن مجید اس کے ساتھ کوئی تعاون
نہیں فرماتا…اور قبر و حشر میں بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا…بلکہ اُلٹا اس کے خلاف
گواہی دیتا ہے…یا اللہ! ایسی صورتحال سے آپ کی پناہ…
اور
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ…ایک شخص شرعی عذر کی وجہ سے درست قرآن مجید نہیں پڑھ
سکتا… وہ حافظ اور عالم بھی نہیں…تلاوت بھی زیادہ نہیں کر سکتا…مگر مرتے وقت قرآن
مجید اس کے ساتھ جاتا ہے…اور آگے کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا
ہے…
وسیع
اور دلکش میدان
دل
میں قرآن مجید کی عظمت ہو…قرآن مجید پر مکمل ایمان ہو…قرآن مجید کو ساتھ لینے
کی فکر، کڑھن اور حرص ہو…اور اسے اپنی اہم ضرورت سمجھتا ہوتو…خدمت قرآن کا میدان
بہت دلکش اور وسیع ہے…تلاوت سیکھنا، تلاوت کرنا…ادب کرنا، قرآن مجید کو سمجھنا،
سمجھانا … قرآن مجید پڑھانا… قرآن مجید کی تعلیم کے لئے سہولیات اور اَسباب
فراہم کرنا…قرآن مجید کی طرف لوگوں کو بلانا…قرآن مجید کی دعوت چلانا …قرآن
مجید چھاپنا، چھپوانا، تقسیم کرنا…قرآن مجید کی محبت عام کرنا… قرآن مجید پر عمل
کرنا… عمل کرانا…قرآن مجید کے احکامات کو خود پر ، معاشرے پر اور زیرِاختیار
اَفراداور علاقے پر نافذ کرنا…قرآنی تعلیم کی حفاظت کرنا…قرآن مجید کی تعلیم
دِلوانا… قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا، تفسیر لکھنا یا کوئی بھی علمی خدمت کرنا…
ماضی
میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں…جو قرآن مجید کے ادب کی بدولت کامیاب ہو گئے… اور ایسے
بھی گذرے ہیں کہ بظاہر قرآن مجید ان کے ساتھ تھا…مگر یقین،عمل اور ادب کے نہ ہونے
کی وجہ سے …وہ قرآن مجید کے ساتھ سے محروم رہے …ایک شخص قتال فی سبیل اللہ کا
منکر ہو اور تلاوت کر رہا ہو آیاتِ قتال کی…یہ تلاوت خود اُس کے خلاف حجت بن جائے
گی…
آج
ہی سے
الحمد
للہ شعبان شروع ہو چکا ہے…آپ آج سے ہی اپنی زندگی کا ’’قرآنی منصوبہ‘‘ طے کر
لیں… پھر اس کے لئے دعاء اور محنت شروع کر دیں …اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ
دیں…ایک آدمی ہر وقت یہ سوچتا ہے کہ میں نے ان شاء اللہ مرنے سے پہلے قرآن مجید
کے چار سو مکتب قائم کرنے ہیں… ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے ان شاء اللہ
محاذوں تک قرآن مجید کے نسخے پہنچانے ہیں…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے اول تا
آخر ایک بار قرآن مجید کی ہر آیت کو ان شاء اللہ ضرور سمجھنا ہے کہ میرا رب مجھ
سے کیا فرما رہا ہے…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے درست تلفظ کے ساتھ قرآن مجید
سیکھنا ہے، پھر روز تلاوت کرنی ہے اور اپنی ساری اولاد کو ان شاء اللہ حافظ بنانا
ہے…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے ایک ایسا پریس قائم کرنا ہے جو صرف قرآن مجید
چھاپے گا اور درست چھاپے گا اور مفت تقسیم کرے گا…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے
ایک بار قرآن مجید کا اس طرح مطالعہ کرنا ہے کہ…ہر آیت پر غور کروں گا کہ میرا
اس پر کتنا یقین ہے اور کتنا عمل ہے…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں ان شاء اللہ ایک
سو افراد کو قرآن مجید پڑھنا سکھا جاؤں گا…وہ پڑھتے پڑھاتے رہیں گے…اور میرا
کارخانہ چلتا رہے گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ…میں اپنی اولاد کو سورۂ فاتحہ خود حفظ
کراؤں گا…اولاد زندہ رہی اور بڑی ہوئی تو لاکھوں بار فاتحہ پڑھے گی جس کااجر ان
شاء اللہ میرے لئے جاری رہے گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں جلد سازی کی چھوٹی سی
دکان بنا لوں گا… چھٹی کے دن مساجد میں جاکر قرآن مجید کے ضعیف نسخے اٹھا لاؤں
گا اور ان کی جلد بنا کر واپس رکھ دوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ… میں کسی غریب
آدمی کے ایک بچے کی قرآنی تعلیم کا سارا بوجھ اپنے سر لے لوں گا…اور اس کی تعلیم
مکمل ہونے تک ان شاء اللہ خرچہ اٹھاتا رہوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں قرآن
پاک کے فضائل کی دس احادیث ٹھیک ٹھیک یاد کروں گا اور روز کچھ مسلمانوں کو سناؤں
گا…اور انہیں قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کی دعوت دوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ
روزانہ اتنا قرآن مجید حفظ کروں گا اور مرتے دم تک حفظ کرتا رہوں گا…ایک آدمی
سوچتا ہے کہ میں قرآن مجید کا ایک نسخہ لے کر…کسی مستند عالم یا مستند ترجمہ کے
ذریعے اس پر نشانات لگا دوں گا تاکہ…تلاوت کے وقت دھیان رہے کہ میں کیا پڑھ رہا
ہوں… پھر یہ نسخہ بعد والوں کے کام بھی آتا رہے گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں نے
خود بھی قرآن مجید حفظ کرنا ہے…اپنی بیوی اور اولاد کو بھی کرانا ہے اور اپنے
پورے خاندان کو بھی کرانا ہے ان شاء اللہ…
دیکھا
آپ نے کہ خدمت قرآن کا میدان کتنا وسیع ہے…اور اہل ہمت کے لئے اس میں کیسے کیسے
امکانات موجود ہیں…یہ اوپر جو چند نیتیں بغیر ترتیب کے لکھی ہیں …یہ بطورِ مثال
ہیں… اصل ترتیب درج ذیل ہے:
١ قرآن
مجید پر ایمان لانا…
٢ قرآن
مجید پر عمل کرنا…
٣ قرآن
مجید کی تلاوت سیکھنا اور کرنا…
٤ قرآن
مجید کی دعوت دینا…
٥ قرآن
مجید سمجھنا، سمجھانا، پڑھنا اور پڑھانا…
٦ قرآن
مجید کو حفظ کرنا،پھر حفظ رکھنا، اور قرآن مجید کا ادب کرنا…
اسی
طرح اوپر جو نیتیں لکھی ہیں…ان کے علاوہ بھی خدمت قرآن کے بے شمار طریقے ہیں… آپ
صرف تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اہل سعادت نے خدمتِ قرآن پر زندگیاں
قربان کر دیں… تفسیر الگ خدمت، ترجمہ الگ خدمت، الفاظ الگ خدمت، معانی الگ
خدمت،تجوید الگ خدمت، کتابت،اشاعت، دعوت الگ خدمت … اور بے شمار خدمات…ارے بھائیو!
شہنشاہِ اعظم، اللہ اکبر کا عظمت والا کلام ہے…اس لئے اس کے خُدّام بھی بے شمار،
خدمتیں بھی بے شمار اور ان خدمات کا اجر بھی بے شمار…اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک
کو توفیق عطا فرمائے …مگر ایک کام تو ابھی
سے کر لیں…شعبان آ گیا ہے آج سے ہی اپنی تلاوت میں کچھ اضافہ کر لیں…وقت بہت
قیمتی ہو جائے گا…بہت قیمتی …
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 498
اُمید کا چراغ
اللہ
تعالیٰ سے اُمید اور حسن ظن رکھنا بہت ضروری…
’’حسن ظن‘‘ ایک عظیم الشان قلبی عبادت…
اللہ
تعالیٰ سے ’’حسنِ ظن‘‘ جنت کی قیمت…
شیطان
گناہ کرا کر انسان کو ’’رحمتِ الٰہی‘‘ سےمایوس کرتا ہے…
اس
کا علاج اللہ تعالیٰ سے حسن ظن…
آخر
انسان اللہ تعالیٰ سے بد گمان ہوتا کیوں ہے؟… اس کی وجہ؟…
’’حسنِ ظن‘‘ کا معنٰی و مطلب…
سیّدہ
آسیہ رضی اللہ عنہا کا
’’حسن ظن‘‘…
غزوۂ
تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا
’’حسنِ ظن‘‘ اور اس پر ملنے والا مغفرت کا عظیم الشان انعام…
حسنِ
ظن اور اُمید کا چراغ روشن کرتی…
اللہ
تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے جوڑتی ایک ایمان افروز تحریر…
۹شعبان۱۴۳۶ھ؍03جون2015ء
اُمید کا چراغ
اللہ
تعالیٰ سے اس طرح دعاء مانگو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو…
یہ
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے…حدیث ترمذی شریف میں موجود ہے … اب دوسری حدیث شریف لیجئے!
حضرت
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں …میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین دن پہلے آپ سے یہ فرمان سنا …تم
میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ’’حسنِ ظن ‘‘ رکھتا ہو…
(صحیح مسلم)
اب
تیسری حدیث مبُارکہ سے اپنے دل کو روشن کیجئے…
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے…وہ موت آنے کی
حالت میں تھا…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم خود کو کیسے پاتے ہو؟اس نے عرض
کیا… یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی قسم میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں اور
اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب ایسی حالت میں کسی بندے کے
دل میں یہ دو چیزیں جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اسے وہ عطاء فرما دیتا ہے جس کی
اسے اُمید ہو اور اسے اس چیز سے بچا لیتا ہے جس کا اسے خوف ہو…( ترمذی)
ان
تین احادیث مبارکہ میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘
یعنی اچھا گمان اور اچھی اُمید رکھنا یہ ایک عظیم الشان عبادت ہے…حضرت سیّدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر
فرماتے ہیں کہ ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ نصیب ہونے سے بڑھ
کر بہتر چیز اور کوئی نہیں…مشہور زمانہ بزرگ حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا جب انتقال ہو گیا تو ایک محدث نے انہیں خواب
میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا : میں بہت گناہ لے کر
حاضر ہوا مگر مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو ’’حسنِ ظن ‘‘ تھا اس نے میرے تمام
گناہوں کو مٹا دیا…واقعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسنِ ظن‘‘ ایک بڑی نعمت،قلبی عبادت
اور جنت کی قیمت ہے…مگر افسوس کہ آج اکثر لوگ اس نعمت سے محروم ہیں…ہر کسی کو
اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے کہ …میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا
ہے؟ اور میری تو دعائیں سنی ہی نہیں جاتیںاور میں تو ہوں ہی بد نصیب… استغفر
اللہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ … افسوس کہ بعض لوگ تو یہاں تک بھی سوچتے ہیں کہ…
مجھ سے گناہ کروائے جا رہے ہیں تاکہ مجھے جہنم میں جلایا جا سکے…میں گناہوں سے
بچنے کی جتنی کوشش کرتا ہوں… نہیں بچ پاتا… بہت غلط سوچ،بہت غلط سوچ…استغفر
اللہ،استغفر اللہ، استغفر اللہ… خوب سن لیں…اللہ تعالیٰ سے بدگمانی رکھنے والے لوگ
کبھی کامیاب نہیں ہوتے…
بات
دراصل یہ ہے کہ شیطان پہلے ہاتھ پکڑ کر ہمیں گناہوں کی گلی میں لے جاتا ہے…اور پھر
ہمیں سمجھاتا ہے کہ تم اب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قابل نہیں رہے…اس لئے دو چار دن
کی زندگی ہے اس میں عیش عیاشی کر لو…نیکی کرنا اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا
تمہارے بس میں نہیں ہے … توبہ پر قائم رہنا تمہارے لئے ممکن نہیں ہے…کئی لوگ شیطان
کے اس دھوکے میں آ جاتے ہیں…اور پھر گناہوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں…کاش! ان
مسلمانوں کے کانوں تک …کوئی اُن کے رب کا یہ اعلان پہنچا دے… ’’اے میرے وہ بندو!
جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا ہے…تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…اللہ
تعالیٰ تو سارے گناہ بخش دیتے ہیں…وہ بہت بخشنے والے مہربان ہیں …بس موت سے پہلے
پہلے ہماری طرف متوجہ ہو جاؤ…ہم سے رجوع کرو…ہم سے معافی مانگ لو… اچانک موت آ
ئے گی تو پھر موقع نہیں رہے گا‘‘ …سبحان اللہ! …ایسی رحمت والا اعلان فرمانے والے
رب سے بھی اگر ’’حسن ظن‘‘ نہ ہو تو پھر کس سے ہو گا؟
دراصل
گناہوں پر توبہ،استغفار نہ کرنے کی وجہ سے دل سخت ہو جاتا ہے…انسان ایک خاص گھٹن
اور مایوسی کے پنجرے میں بند ہو جاتا ہے … اور شیطان اس پر مکمل قبضہ جما لیتا
ہے…لیکن اگر بندہ ہمت کرے…اور اللہ تعالیٰ سے بار بار معافی مانگے…بار بار استغفار
کرے اور اللہ تعالیٰ سے ’’حسنِ ظن‘‘ رکھے کہ وہ دعاء سنتے ہیں…قبول فرماتے
ہیں…توبہ اور استغفار سنتے ہیں… مغفرت اور معافی دیتے ہیں …اُن کی رحمت میرے
گناہوں سے بڑی ہے…وہ بار بار معاف فرمانے سے نہیں اُکتاتے…وہ اپنا دروازہ اپنے
بندوں کے لئے بند نہیں فرماتے…میں جتنا گندا ہوں پھر بھی اُنہی کا بندہ ہوں اور ان
کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے…تو ایسا بندہ شیطان کی قید سے آزاد ہو کر…بندگی
کی شاہراہ پر آ جاتا ہے … یاد رکھیں ! ’’حسنِ ظن‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نہ
فرائض ادا کرے…نہ حرام سے بچنے کی کوشش کرے…نہ وہ توبہ کرے اور نہ استغفار…نہ اپنے
گناہوں پر نادم ہو اور نہ اپنے گناہوں کو گناہ سمجھے…اور ساتھ یہ کہتا پھر ے
کہ…اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں…اور دین میں کوئی سختی اور پابندی نہیں ہے…یہ ساری
باتیں وہی لوگ کرتے ہیں …جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے کوئی محبت…کوئی تعلق اور
کوئی ’’حسنِ ظن‘‘ نہیں رکھتے…ان میں سے اکثر کو آخرت کا یقین نہیں ہوتا …وہ کہتے
ہیں کہ اگر کبھی آخرت برپا ہوئی اور حساب کتاب ہوا تو اللہ تعالیٰ ہمیں نہیں پکڑے
گا…کیونکہ ہم دنیا میںکامیاب ہیں…یہ ’’حسنِ ظن‘‘ نہیں، دھوکا ہے… اور نفس کی شرارت
ہے… ’’حسنِ ظن‘‘ تو اللہ تعالیٰ سے وفاداری اور محبت کا نام ہے…اللہ تعالیٰ کی
باتوں پر یقین اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اطمینان …
وہ
دیکھیں ! سیّدہ آسیہ رضی اللہ عنہا … ان کے چاروں طرف کے مناظر اللہ تعالیٰ سے
مایوسی کی دعوت دے رہے ہیں…وقت کا سب سے بڑا ظالم اُن کی کھال اُدھیڑ رہا ہے…مگر
وہ اللہ تعالیٰ پر یقین میں مستحکم ہیں…ایسے دردناک حالات میں بھی انہیں اللہ
تعالیٰ سے ’’حسنِ ظن‘‘ ہے کہ…وہ میرے لئے جنت کا گھر اپنے پاس بنا دیں گے … یہ ہے
یقین اور یہ ہے ’’حسنِ ظن‘‘ … آج ہماری دو تین دعائیں قبول نہ ہوں تو فوراً اللہ
تعالیٰ سے بدگمان ہو جاتے ہیں…اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دائیں بائیں جھکنے لگتے
ہیں…
یہ
دیکھیں! یہ تین صحابہ کرام جو غزوہ تبوک سے رہ گئے تھے…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قطع تعلق فرما لیا کہ جب تک اللہ
تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ آئے…آپ تینوں باقی مسلمانوں سے الگ رہیں…تینوں مدینہ
منورہ میں اکیلے اور تنہا… غموں کے تھپیڑوں پر تھے…زمین اُن پر تنگ… اور اُن کی
جانیں ان پر تنگ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بڑھ کر اور کیا غم اور صدمہ ہو
سکتا تھا…مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے جڑے رہے…اُسی کو مناتے رہے…اُسی
سے اُمید باندھتے رہے…ارشاد فرمایا:
﴿ وَظَنُّوْااَنْ لَّامَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ﴾
یعنی
اُن کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ بچا سکتی
ہے…پس اسی اُمید نے کام بنا دیا اور ان کی توبہ ایسی شان سے قبول ہوئی کہ…قرآن
عظیم الشان کی آیت مبارکہ بن گئی…
آج
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسنِ ظن ‘‘ رکھنے کی
دعوت دی جائے…انہیں توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…مایوسی کے اندھیروں میں
انہیں اُمید کا چراغ دکھایا جائے…حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں …جو اللہ تعالیٰ سے ’’حسنِ ظن ‘‘
رکھتا ہے وہ ہمیشہ اچھے اعمال کی طرف بڑھتا ہے… ماضی میں جھانکیں …توبہ،استغفار
اور اُمید کی روشنی نے چوروں، ڈاکوؤں اور بدکاروں کو…زمانے کا صف شکن مجاہد اور
ولی بنا دیا…مسلمانوں میں جب اللہ تعالیٰ سے اُمید پیدا ہو گی تو وہ مخلوق سے کٹ
کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں گے…اللہ تعالیٰ سے اُمید ہو گی تو جہاد کا
کامیابی والا راستہ سمجھ آئے گا … اور اللہ تعالیٰ کی نصرت پر یقین پیدا ہو
گا…اللہ تعالیٰ سے اُمید ہو گی تو مسلمان ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے
ساتھ لے سکیں گے…اُمید کا یہ چراغ روشن ہو…اُس کے لئے ایک ادنیٰ سی کاوش’’ الیٰ
مغفرۃ ‘‘ کی شکل میں پیش کی گئی ہے …الحمد للہ یہ کتاب شائع ہو چکی ہے…اور اگلے
آٹھ دن میں ملک کے چار شہروں میں ان شاء اللہ اس کی رونمائی کے اجتماعات ہوں گے
…یا اللہ! آسان فرما…یا اللہ! قبول فرما …یا اللہ!
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 499
الحمد
للہ، استغفر اللہ
’’حسنِ ظن‘‘ کے بارے میں منقول ایک اہم دعاء…
’’حسنِ ظن ‘‘ کے مقامات…
مسارعت
الی المغفرۃ اور مسابقت الی المغفرۃ کا
مطلب اور تشریح…
دنیا
مقابلے کی جگہ… مگر مقابلہ مغفرت اور جنت پانے میں…
’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب کا تذکرہ و تعارف…
وہ
چیزیں جو ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ میں نہ آسکیں…
ان
سب باتوں کا احاطہ کرتی ایک روشن تحریر…
۲۳شعبان۱۴۳۶ھ؍10جون2015ء
الحمد للہ، استغفر اللہ
اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے… ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب شائع ہوگئی اور بہت سے مسلمانوں تک پہنچ
گئی…
الحمد
للہ، الحمد للہ…
اس
کتاب میں مزید بھی بہت کچھ لکھنے کا ارادہ تھا…مگر کوتاہی ہوئی اور وہ سب کچھ نہ
لکھا جا سکا جس کا نقشہ دل و دماغ میں موجود تھا…اللہ تعالیٰ معاف فرمائے…
استغفر
اللہ، استغفر اللہ…
ایک
دعاء اپنا لیں
گذشتہ
کالم میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسنِ ظن‘‘ رکھنے کی اہمیت کا بیان تھا…انسان جس
نعمت کو پانا چاہے…اس کے لئے پہلا کام یہ کرے کہ اللہ تعالیٰ سے اس نعمت کو
مانگے…دعاء بہت بڑی چیز ہے…یہ اگر دل سے ہو تو بڑے بڑے دروازے کھلوا دیتی
تھی…مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر شہید رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دعاء منقول ہے…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّی اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ۔
’’یا اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے آپ پر سچا توکل اور
آپ کے ساتھ ’’حسنِ ظن‘‘ نصیب ہو جائے‘‘…
بڑی
اہم ،ضروری اور مؤثر دعا ہے…تجربہ میں آیا ہے کہ جب دل پر غم، مایوسی اور بے بسی
کے احساس کا حملہ ہو تو یہ دعا مانگی جائے…بہت فائدہ ہوتا ہے…
حسن
ظن کے مقامات
حضرت
ابو العباس القرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن کا مطلب اور اس
کے مواقع کو ایک جملے میں سمیٹنے کی کوشش فرمائی ہے…
اللہ
تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ…
خ دعاء
کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعاء سنتے ہیں اور قبول فرماتے ہیں…
خ توبہ کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ توبہ
قبول فرماتے ہیں…
خ استغفار کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مغفرت
عطا فرماتے ہیں…
خ نیک اعمال کو شریعت کے مطابق کرتے وقت یہ یقین
ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو رہے ہیں…
یہ
سارے یقین اس وجہ سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور اس کا فضل بے شمار
ہے… یعنی جب انہوں نے خود فرما دیا کہ ہم توبہ قبول فرماتے ہیں…بلکہ چاہتے ہیں کہ
تمہاری توبہ قبول فرمائیں…ہم استغفار کرنے والوں کو مغفرت عطا فرماتے ہیں…ہم دعاء
سنتے ہیں اور پوری فرماتے ہیں…ہم اپنے بندوں کے اعمال کی قدر کرتے ہیں…اور ہمارا
فضل بہت عظیم اور بہت بڑا ہے تو پھر بندے کو شک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو شک کرے
گا اپنا ہی نقصان کرے گا…فرما دیا کہ…ہمارا بندہ ہم سے جو گمان رکھے گا، ہم اس کے
ساتھ ویسا ہی معاملہ فرمائیں گے…
آئیے!
پھر دعاء مانگ لیں:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّی اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ۔
’’الیٰ مغفرۃ‘‘
آج
جس کتاب کی بات چل رہی ہے…اس کا نام ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ ہے…سورۃ آل عمران میں فرمایا
گیا:
﴿سَارِعُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ﴾
’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔‘‘
اور
سورۃ الحدید میں فرمایا گیا:
﴿سَابِقُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ﴾
’’سبقت کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف‘‘…
اس
میں چند باتیں سمجھنے کی ہیں…
پہلی
بات تو یہ کہ ان آیات سے ثابت ہوا کہ…ہم آج کل جہاں ہیں یہ ہماری جگہ نہیں…یہ
ہمارے رہنے کا مقام نہیں…یہ ہماری کامیابی کا میدان نہیں…ہمیں یہاں سے دوڑ کر کسی
اور طرف جانا ہے…جہاں ہمارے لیے راحت ہے اور بڑی کامیابی…
پس
ثابت ہوا کہ …سب سے پہلے ہمیں اس دنیا میں رہنے، یہاں فٹ اور سیٹ ہونے اور یہاں سب
کچھ بنانے کا خیال اپنے دل سے نکالنا ہو گا… اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں کہ…اس
میں یہاں رہنے اور بسنے کی فکر زیادہ ہے یا یہاں سے بھاگ کر کامیابی والے گھر کو
بسانے کی فکر زیادہ ہے؟…
دوسری
بات یہ معلوم ہوئی کہ…انسان کو بہت جلدی جلدی اور بہت تیز تیز وہ اعمال کرنے
چاہئیں جن سے مغفرت اور جنت ملتی ہو…بالغ ہونے کے بعد سستی عذاب ہے…وقت گزر رہا
ہے… انسان کو چاہیے کہ آرام اور طعام میں زیادہ وقت برباد نہ کرے… اپنے ذہن پر
ایک طرح کی جلدی سوار کرےیہ جلدی نیک اعمال میں ہو کیونکہ ہمارے رب نے حکم فرما
دیا کہ… آہستہ نہیں… بلکہ ’’سَارِعُوا‘‘ بہت تیز دوڑو…’’سَابِقُوا ‘‘ سبقت کرو…
جنہوںنے اس حکم کو مانا وہ تھوڑی سی عمر میں بڑے بڑے کام کر گئے …اور جنہوں نے اس
حکم کو نظر انداز کیا…وہ لمبی عمر پا کر بھی کچھ نہ کر سکے… حضرت سلطان صلاح الدین
ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے جب بیت المقدس کو آزاد کرانے کا عزم کیا تو…
اپنے اوپر بہت سے جائز اور حلال کام بھی ممنوع کر لئے…تاکہ مغفرت اور جنت والے کام
میں تاخیر نہ ہو جائے…
تیسری
بات یہ معلوم ہوئی کہ… دنیا مقابلے کی جگہ ہے…کھیلوں کے مقابلے، شکل و صورت کے
مقابلے…مال و دولت کے مقابلے… حسب و نسب کے مقابلے…دنیا کے اکثر لوگ ان مقابلوں
میں لگ کر برباد ہوتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ’’مقابلہ بازی‘‘ کا
شوق رکھا ہے… تو ان آیات میں سمجھا دیا کہ مقابلہ ضرور کرو…مگر کھیل کود اور مال
و دولت میں نہیں…بلکہ مغفرت پانے میں…جنت پانے میں… دین کے معاملے میں ہمیشہ اپنے
سے اوپر والوں کو دیکھو…اور مقابلہ کر کے ،دوڑ لگا کر ان سے آگے بڑھنے کی فکر
کرو…اور دنیا کے معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے کمزور افراد کو دیکھو… اور جو کچھ
تمہارے پاس ہے اسی کو کافی سمجھو…
حضرات
مفسرین رحمہم اللہ نے …ان دونوں آیات کی تفسیر میں لکھا ہے
کہ…مغفرت کی طرف دوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ …اُن اسباب کی طرف دوڑو جن سے مغفرت ملتی
ہے… ایمان، اخلاص،جہاد میں ثابت قدمی،سود سے توبہ کرنا…کثرت سے استغفار کرنا
…وغیرہ… مغفرت کے اسباب کون کون سے ہیں؟ آپ جب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب کا مطالعہ
کریں گے تو آپ کے سامنے ’’ اسبابِ مغفرت‘‘ کی پوری فہرست آ جائے گی…اور وہ کون
سے اسباب ہیں جن کی نحوست سے انسان مغفرت سے محروم ہو جاتا ہے… ان کی تفصیل بھی اس
کتاب میں موجود ہے…اس کتاب کا ایک بڑا مقصد یہی ہے کہ…مسلمانوں کو ’’مغفرت‘‘ کا
مقام اور اس کی ضرورت معلوم ہو…اُن میں مغفرت پانے کا جنون پیدا ہو…ان کو مغفرت
مانگنے کی عادت نصیب ہو… اور وہ مغفرت کی طرف بھاگ بھاگ کر لپکنے والے بن
جائیں…یاد رکھیں! …ایک مسلمان کو ’’مغفرت‘‘ مل جائے تو اسے سب کچھ مل گیا… اور وہ
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو گیا…
استغفر
اللہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ
یا
اللہ! آپ سے مغفرت کا سوال ہے… مغفرت کا سوال ہے…مغفرت کا سوال ہے…
رکاوٹوں
بھرا سفر
’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب لکھتے وقت خود اپنی ذات کو بڑا فائدہ ہوا…
الحمد
للہ، الحمد للہ…
پھر
جن ساتھیوںنے اس کتاب میں معاونت کی… انہوں نے بتایا کہ کتاب کی تصحیح اور ترتیب
کے دوران ان اوراق کو پڑھنے سے بہت فائدہ ہوا…یہ بات کئی افراد نے بتائی…
الحمد
للہ، الحمد للہ…
مگر
اس کے باوجود کتاب میں تاخیر ہوتی چلی گئی…یقیناً یہ میری سستی اور کم ہمتی تھی …
استغفر
اللہ، استغفر اللہ…
دراصل
کتاب شروع کرنے کے بعد سے لے کر…اس کی اشاعت تک بہت حوصلہ شکن رکاوٹیں آتی چلی
گئیں…دل بے چین تھا کہ یہ کتاب جلدی آ جائے مگر ہر قدم پر کوئی رکاوٹ سامنے آ
جاتی… اسی میں کئی سال بیت گئے…اسی دوران کئی افراد نے کتاب کا مسودہ پڑھ لیا اور
کتاب جلد تیار کرنے کی فرمائش کی…اللہ تعالیٰ ان تمام افراد کو اپنی مغفرت اور
جزائے خیر عطا فرمائے…جنہوں نے مختلف طریقوں سے اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں
معاونت کی…بندہ ان سب کا دل سے شکر گزار ہے… مگر آخری سیڑھی بہت اہم ہوتی ہے… یہ
سیڑھی انسان عبور کر لے تو پچھلا سارا سفر کامیاب ہو جاتا ہے… لیکن اگر اسی سیڑھی
پر اٹک جائے تو پچھلا سفر بھی ندامت اور حسرت بن جاتا ہے… اس لئے آخری سیڑھی پر
سہارا بننے والے کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے…برادر عزیز مولانا طلحہ السیف کی قسمت
میں یہ نیکی آئی اور انہوں نے آخری سیڑھی کے مرحلے پر …اللہ تعالیٰ کی توفیق سے
محنت،جانفشانی اور معاونت کا حق ادا کیا…کتاب کے بکھرے مواد کو مرتب کیا، بار بار
پڑھ کر تصحیح اور کتابت کے مراحل سے گذارا…اور ان کی اس محنت کو دیکھ کر مجھے ہمت
ملی کہ کتاب کے حصہ اوّل کو لکھنے بیٹھ گیا…اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت اور بہترین
بدلہ عطا فرمائیں…بندہ کے مکتب اور معاون نے بھی بہت محنت کی…اور آخر میں شعبہ
نشریات کے ذمہ داروں نے دل وجان لگا کر…کتاب کو تیار کیا…بندہ ان سب کے لئے …اور
وہ معاونین جن کا تذکرہ نہیں آ سکا…سب کے لئے دل کی گہرائی سے دعاء گو اور شکر
گزار ہے…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِی وَلَھُمْ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُم،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی
وَلَھُم
وہ
جو رہ گیا
ارادہ
تھا کہ کتاب میں یہ چند چیزیں بھی شامل کی جائیں…
١ قرآن
مجید میں آنے والے وہ اسماء الحسنی جن کا تعلق ،مغفرت،توبہ اور معافی سے ہے… ان
اسماء الحسنی کے تفصیلی معانی اور معارف لکھنے کا ارادہ تھا مثلاً …
اَلْغَفُوْرُ،
اَلْغَفَّارُ، اَلتَّوابُ، اَلْعَفُوُّ، وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ،اَہْلُ
الْمَغْفِرَۃِ، خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ۔
٢ حضرات
انبیاء علیہم السلام کے استغفار کو قرآن مجید نے بہت اہتمام سے بیان
فرمایا ہے…ان کی الگ فہرستیں بنا کر…ان کے معارف لکھنے کا ارادہ تھا… مثلاً حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لئے بار بار استغفار فرمایا…پھر
اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا تو اس سے رک گئے…مگر اس کے باوجود قرآن مجید بار بار
ان کے اس استغفار کو بیان فرماتا ہے… اس میں بڑے اہم نکتے ہیں… اگر ہر مسلمان بیٹا
اپنے والد کا ایسا خیر خواہ بن جائے تو وہ کتنے اونچے مقامات پا سکتا ہے… کاش!
مسلمان بیٹے اور بیٹیاں اپنے مسلمان والدین کے لئے اسی اہتمام سے استغفار کرنے
والے بن جائیں…
٣ توبہ
اور استغفار کے بارے میں آیات تو بہت ہیں…آپ ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کا مطالعہ کریں گے
تو تقریباً سب آیات سامنے آ جائیں گی… مگر ان میں سے بعض آیات …توبہ اور
استغفار پر بہت سے الٰہی قوانین اور نکات پر مشتمل ہیں…ارادہ تھا کہ ایسی دس آیات
کی تفسیر مفصل لکھ دی جائے۔
٤ توبہ
اور استغفار دونوں کا معنٰی ایک ہے…یا دونوں میں فرق ہے؟ یہ بات ’’الیٰ مغفرۃ‘‘
میں واضح کر دی گئی ہے… مگر اس میں اور بہت سی تفاصیل تھیں جو تیاری کے باوجود نہ
آ سکیں… دراصل رکاوٹیں زیادہ تھیں…اور کتاب میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی…اس لئے جو
کچھ تیار تھا اسی کو پیش کر دیا گیا…
اَلْحَمْدُ
لِلہِ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ، اَلْحَمْدُ لِلہِ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ
اللہ
تعالیٰ سے امید ہے کہ…اس کتاب سے مجاہدین کو جہاد میں ترقی اور استقامت کا راستہ
ملے گا… سلوک و احسان کا ذوق رکھنے والوں کو معرفت کا آئینہ نصیب ہو گا…مایوسی کے
گڑھوں میں سسکنے والوں کو اُمید کی سیڑھی ہاتھ آئے گی… گناہوں میں پھنسے اور
الجھے ہوئے مسلمانوں کو دلدل سے باہر نکلنے کی راہ نظر آئے گی… مصائب اور
پریشانیوں میں مبتلا مسلمانوں کو… روشنی اور راحت کا جزیرہ دکھائی دے گا… ان شاء اللہ… اور اہل دل کو دل کی غذا ملے گی…
کیونکہ یہ قرآن مجید کی دعوت ہے…یہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی ہے… اور یہ مسلمانوں
کی ایک اہم ترین ضرورت ہے…یا اللہ! قبول فرما…یا اللہ! مغفرت نصیب فرما…آمِیْن
یَا خَیْرَ الْغَافِرِیْنَ۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 500
مبارک مہینے کا نصاب
جھوٹ
کے سمندر…
بی
بی سی کا ایک دجل…
کیا
ایران، افغان طالبان کی مدد کرتا ہے؟…
رمضان،
مغفرت کا موسم…
رمضان
اور جہاد فی سبیل اللہ…
رمضان
المبارک کو پانے کا دس نکاتی آسان نصاب…
روزہ
افطار کرانا ایک عظیم الشان عمل…
تین
اوقات باندھ لیں…
یہ
سب کچھ جانیے… اس کے لئے ملاحظہ ہو یہ تحریر
۲۹شعبان۱۴۳۶ھ؍16جون2015ء
مبارک مہینے کا نصاب
اللہ
تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کو سمجھنے ، پانے،منانے…اور کمانے کی توفیق عطاء
فرمائے…
جھوٹ
کے سمندر
ہم
آج کل جس ماحول میں ہیں…وہ گویا کہ جھوٹ کا ایک ناپاک سمندر ہے… سیاست جھوٹ،
تجارت جھوٹ، تفریح جھوٹ… بس ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ…
جھوٹ
کوئی چھوٹا گناہ تو ہے نہیں…یہ تو لعنت ہے لعنت… محرومی ہے محرومی اور اندھیرا ہے
اندھیرا…فرمایا: مومن سے ہر گناہ ہو سکتا ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا… مگر اب
تو ہر ہاتھ میں کئی کئی موبائل اور ہر موبائل جھوٹ کا پہاڑ …ابھی چند دن پہلے عراق
کے ایک شہری نےجو برطانیہ میں مقیم ہے…فیس بک پر ایک جھوٹ چھوڑ دیا…’’شجوہ‘‘ نامی
قصبے سے دولتِ اسلامیہ پسپا… قصبے پر عراقی حکومت کا قبضہ مستحکم… علاقہ چھوڑ کر
جانے والے افراد واپس شجوہ کی طرف رواں دواں… دولتِ اسلامیہ کو ذلت آمیز شکست… اس
نے اس جھوٹی خبر کے ساتھ چند نقشے اور تصویریں بھی لگا دیں… بس پھر کیا تھا…لاکھوں
افراد اس خبر کو نشر کرنے لگے…کئی افراد نے تو اس جھوٹی دیگ میں مزید چاول بھی ڈال
دئیے کہ… شجوہ کی لڑائی میں اتنے مجاہدین مارے گئے…عراقی اور ایرانی شیعوں کی ویب
سائٹوں پر فوراً…فتح مبارک کے ہیش ٹیگ لگ گئے… کئی افراد نے اس جنگ میں شرکت کرنے
اور بہادری دکھانے کے دعوے بھی نشر کر دئیے… تین چار دن یہ طوفان برپا رہا… تب اس
عراقی شہری نے لکھا کہ میں آپ سب سے معذرت چاہتا ہوں… عراق میں شجوہ نام کا کوئی
شہر،قصبہ یا علاقہ ہے ہی نہیں… عراقی زبان میں شجوہ ’’پنیر‘‘ کو کہتے ہیں جو بہت
شوق سے کھایا جاتا ہے… میں نے مذاق میں یہ خبر گھڑی تھی… اب میں شرمندہ ہوں…ازراہ
کرام! یہ سلسلہ بند کیا جائے…
انداہ
لگائیں کہ …جھوٹ کہاں تک ترقی کر گیا… ابھی ایک کمپنی پکڑی گئی ہے…جو بڑی بڑی
تعلیمی سندیں اور ڈگریاں جاری کرتی تھی…معلوم ہوا کہ اس نے جو یونیورسٹیاں بنا
رکھی تھیں… ان کا روئے زمین پر وجود ہی نہیں ہے…وہ سب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر قائم
تھیں…اور سالہا سال سے تعلیمی اسناد جاری کر رہی تھیں… جی ہاں! وہی ڈگریاں جن کے
فخر میں قرآن و سنت کی تعلیم کا (نعوذباللہ) مذاق اڑایا جاتا ہے…
آج
کل کئی دن سے بی بی سی پر ایک خبر لگی ہوئی ہے…اور ایسی مضبوط لگی ہے کہ ہٹنے کا
نام ہی نہیں لیتی… حالانکہ جب کابل کے گیسٹ ہاؤس کو مجاہدین نے نشانہ بنایا تو وہ
خبر صرف چند گھنٹے رہی… پھر اڑا دی گئی… اسی طرح مجاہدین کی دیگر کارروائیوں والی
خبریں…یا تو لگتی ہی نہیں…اور اگر کسی مجبوری سے لگانی پڑیں تو…دو چار گھنٹوں میں
انہیں ہٹا دیا جاتا ہے…مگر یہ خبر کئی دن سے لگی ہوئی ہے کہ…ایران،طالبان کی مدد
کر رہا ہے…یہ خبر یہودی اخبار ’’وال سٹریٹ جنرل‘‘ نے گھڑی ہے… ایران، افغانستان کے
طالبان کو اسلحہ بھی دے رہا ہے اور پیسے بھی… اندازہ لگائیں…کیسی جھوٹی اور فتنہ
انگیز خبر ہے… ایران امارت اسلامی افغانستان کا ہمیشہ سے عملی دشمن رہا ہے…اور اب
بھی اس کی یہ دشمنی ٹھنڈی نہیں پڑی… مگر امارت اسلامیہ افغانستان کو بدنام
کرنے…اور افغانستان میں ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے جنگجو کھڑے کرنے کے لئے …یہ خبر بنائی
گئی ہے…تاکہ مجاہدین کو آپس میں لڑایا جا سکے… اور لوگوں میں یہ بات عام ہو کہ
امارت اسلامی افغانستان… ایران کی حامی ہے اس لئے اس کے خلاف بھی (نعوذباللہ) جہاد
کیا جائے…
الغرض
…ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے… ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ… سچائیوں
،رحمتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینہ رمضان المبارک تشریف لا رہا ہے…تاکہ ہم جھوٹ
کے سمندر سے بچ کر… سچ اور رحمت کے جزیرے پر آئیں…اور اپنے محبوب رب سے ’’مغفرت‘‘
کا انعام پائیں… اس لئے جھوٹ کے تمام آلات بند کر دیں…جھوٹ پڑھنا، جھوٹ دیکھنا،
جھوٹ سننا اور جھوٹ بولنا سب کچھ بند کر دیں… اپنے ٹچ موبائل بند کر کے تالوں میں
ڈال دیں… اخباروں،کالموں،ڈراموں اور ویڈیو… سب سے تعلق توڑ لیں… اور مغفرت کے موسم
سے… خوب خوب فیض یاب ہوں… کیا معلوم اگلا رمضان ملے گا یا نہیں…
رمضان
اور جہاد فی سبیل اللہ
رمضان
المبارک اور جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق اور رشتہ بہت گہرا ہے… غزوۂ بدر جیسا عظیم
معرکہ جو قرآن پاک کا خاص موضوع ہے… رمضان المبارک میں برپا ہوا… حج عمرے کی
سعادتیں ساری اُمت کو’’فتح مکہ‘‘ کی برکت سے ملیں… اور فتح مکہ کا غزوہ رمضان
المبارک میں ہوا… وہ بڑے بڑے بت جن سے …ایک دنیا گمراہ تھی…رمضان المبارک میں
گرائے گئے… اکثر مؤرخین کے نزدیک جہاد کا مبارک آغاز بھی رمضان المبارک میں ہوا…
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے …اپنے چچا جان محترم حضرت سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی کمان میں …اسلام کا پہلا سریہ روانہ فرمایا…
عصماء یہودیہ کے قتل کا واقعہ بھی… رمضان المبارک کا مبارک کارنامہ ہے…یہ دشمن دین
خاکہ پرست گمراہ عورت تھی… اسلامی غیرت کا شاہکار سریہ…’’ام قرفہ‘‘ بھی رمضان
المبارک میں پیش آیا اور سریہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ … جویمن کی طرف بھیجا گیا تھا…وہ
بھی رمضان المبارک میں لڑا گیا… اس سریہ کی خاص بات یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو ’’امیر لشکر‘‘ مقرر فرمایا اور پھر اپنے دست
مبارک سے ان کے سر پر عمامہ باندھا…
رمضان
اور جہاد کی ایک اور بڑی مناسبت…جو قرآن مجید کے الفاظ سے سمجھ آتی ہے…وہ یہ کہ…
دونوں کی فرضیت کے لئے ایک جیسے الفاظ استعمال فرمائے گئے …فرمایا:
﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾
’’تم پر روزہ فرض کر دیا گیا‘‘…
بالکل
اسی طرح فرمایا …
﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ﴾
’’کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا‘‘…
اہل تفسیر نے اس میں بہت
عجیب نکتے لکھے ہیں… اگر ہم وہ لکھنے میں مشغول ہوئے تو آج کا اصل موضوع رہ جائے
گا… بس اتنا یاد رکھیں کہ… قرآن مجید کی ایک ہی سورۃ…یعنی سورۃ بقرہ میں جہاد کی
فرضیت بھی موجود ہے… اور رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت بھی… پس دونوں اسلام کے
قطعی فریضے ہیں…اور کُتِبَ عَلَیْکُمْ کے لفظ سے بہت تاکیدی فرضیت معلوم ہوتی ہے…
﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ﴾کہ تم پر روزہ پورا کا پورا ڈال دیا گیا ہے کہ…یہ
روزہ دل سے بھی رکھو، زبان سے بھی…کانوں سے بھی…آنکھوں سے بھی…جسم سے بھی اور روح
سے بھی…
بہت
آسان نصاب
ہم
رمضان المبارک کو کیسے پا سکتے ہیں؟… بڑے لوگوں نے تو بہت محنتیں فرمائیں… ہم اپنے
اسلاف اور بزرگوں کے رمضان کا حال پڑھتے ہیں تو شرم اور ندامت سے پانی پانی ہو
جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اپنے نفس کو فائدہ پہنچائیں اور حضرت
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ
اللہ علیہ کا رسالہ… فضائل رمضان کا ایک بار ضرور مطالعہ کر لیں… اور کچھ نہیں تو
کم از کم رمضان المبارک کا احساس اور شعور
ضرور پیدا ہو جائے گا… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو موبائل اورنیٹ کی لعنت سے
بچائے…اور صرف اس کے ضروری اور مفید استعمال کی توفیق عطاء فرمائے… اس ظالم نے علم
اور مطالعہ کے اوقات کو برباد کر دیا ہے… رمضان المبارک کے بارے میں قرآنی آیات
…اور احادیثِ مبارکہ پڑھ کر بندہ نے ایک مختصر دس نکاتی نصاب نکالاہے… آپ ایک
کاغذ پر یہ نصاب لکھ لیں…اور روزانہ رات کو اپنا محاسبہ کریں کہ…ہم نے اس پر کتنا
عمل کیا…بے حد آسان اور ممکن نصاب ہے… پھر اللہ تعالیٰ جس کو توفیق عطا فرمائے وہ
مزید جو کچھ کر سکتا ہو…کرتا چلا جائے…
ہم
نے رمضان المبارک میں ان شاء اللہ یہ دس کام روزانہ کرنے ہیں…
١ روزہ…
یہ فرض ہے اور یہی رمضان المبارک کی اصل عبادت ہے…ساری زندگی کے نفل روزے رمضان
المبارک کے ایک فرض روزے کے برابر نہیں ہو سکتے…
٢ پانچ
نمازوں کا باجماعت تکبیر اولیٰ سے اہتمام… ویسے تو یہ ہمیشہ کرنا چاہیے مگر رمضان
المبارک میں اسے ایک لازمی سعادت کے طور پر دیکھا جائے کہ… جو ہر حال میں حاصل
کرنی ہے ان شاء اللہ… یہ عمل ہمارے لئے پورے رمضان کو پانے اور کمانے کا ذریعہ بن
جائے گا…
٣
تراویح… عشاء کی نماز کے بعد باجماعت بیس رکعات… یہ رمضان المبارک کا خاص تحفہ اور
انعام ہے… اور اس میں ایک قرآن پاک پڑھنا یا سننا ایک مستقل سنت ہے…
٤ قرآن
پاک کی تلاوت اور قرآن پاک سے خاص تعلق …یہ بڑا مبارک عمل ہے…آگے چل کر ہم اسے
کچھ تفصیل سے عرض کریں گے… اگر ہم اپنے ساتھ قبر اور آخرت میں پورا قرآن یا کچھ
قرآن لے جانا چاہتے ہیں تو رمضان المبارک میں یہ نعمت پانا آسان ہے…
٥ سحری
کھانے کا اہتمام… سحری کے بہت فضائل اور برکات ہیں یہ ہرگز نہیں چھوڑنی چاہیےمگر
سحری رات کے آخری حصے میں کریں اور زیادہ دبا کر نہ کھائیں کہ سارا دن ڈکار بجاتے
رہیں…
٦ افطار
کرانے کا اہتمام… یہ رمضان المبارک میں مغفرت کا خاص تحفہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو
افطار کرائیں …خواتین کے تو مزے ہیں ان کو اپنے گھر والوں اور بچوں کو افطار کرانے
کا اجر ملتا ہے… کیونکہ وہ اس قدر محنت سے افطار تیار کرتی ہیں…کسی روزے دار کو
افطار کرانے کی فضیلت بہت زیادہ ہے… جب دل میں یہ فضیلت حاصل کرنے کا جذبہ ہو…اور
یہ شعور ہو کہ اس عمل کی برکت سے مجھے مغفرت مل سکتی ہے تو… انسان خود ہی اپنی
استطاعت کے مطابق بہت سے طریقے نکال سکتا ہے… بعض لوگوں کو دیکھا کہ عین افطار کے
وقت کسی ویران جگہ جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں …چند کھجوریں،ٹھنڈا پانی یا شربت لے
کر…اور پھر اس وقت جو وہاں سے گزرتا ہے اسے افطار کراتے ہیں… آپ افطار کے موقع پر
…بعض لوگوں کی جو پُر تکلف دعوتیں کرتے ہیں… اگر اسی رقم سے عمومی افطاری تیار
کریں تو… درجنوں افراد کو افطار کرا سکتے ہیں… کئی لوگوں کو دیکھا کہ اس حرص میں
بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ کے پیارے مجاہدین کو محاذ اور تربیت گاہوں تک
افطار پہنچائیں …ہمارے کچھ دوست…جامع مسجد عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے معتکفین کے افطار اور سحر کا انتظام کرتے ہیں
تو سچی بات ہے ان پر رشک آتا ہے…
بہرحال
یہ ایک ایسا عمل ہے کہ… جو صرف رمضان المبارک میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے… عام
دنوں میں آپ کھانے کا پورا ٹرک تقسیم کر دیں تو رمضان المبارک میں کسی روزہ دار
کو کھلائی گئی ایک روٹی کے برابر نہیں ہو سکتا…عام دنوں میں بھی روزہ رکھنے والوں
کو…اگر آپ افطار کرائیں تو وہ بھی اجر کا کام ہے… مگر رمضان المبارک کی افطاری…
بہت بڑی چیز ہے… بہت مبارک،بہت خاص… یا اللہ! وسعت اور توفیق عطاء فرما…
٧ چار
چیزوں کی کثرت پہلی چیز …لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا ورد… دوسری چیزاستغفار… تیسری
چیز اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال… چوتھی چیز جہنم سے پناہ مانگنا…
٨ جہاد
میں وقت لگانا…یہ اوپر رمضان المبارک اور جہاد کے تعلق میں اِشارۃً آ چکا ہے…
جہادی محنت میں وقت لگانا… جہاد میں مال لگانا… صدقہ خیرات اور مسلمانوں کے ساتھ
غمخواری کرنا، ان کی حتی الوسع مدد کرنا…
٩ اپنے
ملازموں ،ماتحتوں ،گھر والوں پر کام کے معاملے میں نرمی، آسانی اور تخفیف
کرنا…کسی مسلمان پر بوجھ زیادہ ہو تو اس کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد کرنا…
١٠ شراب
خوری، والدین کی نافرمانی،رشتہ داروں سے قطع رحمی…مسلمانوں سے بغض رکھنا…جھوٹ
بولنا اور غیبت کرنا…ان چھ گناہوں سے خاص طور پر بچنا چاہیے کیونکہ یہ رمضان
المبارک میں روزہ کی خرابی اور مغفرت سے محرومی کا ذریعہ بن جاتے ہیں…
یہ
ہے وہ بہت آسان سا نصاب جو ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ممکن ہے…خواتین نمازوں
کو اہتمام سے اول وقت ادا کریں تو ان کا اجر باجماعت ادا کرنے والے مردوں کی طرح
ہے…باقی جو اہل ہمت ہیں…ان کے لئے رمضان المبارک کمانے کا سیزن ہے…اعتکاف،قیام
اللیل، نوافل،صدقات ،مجاہدے،ریاضتیں اور بہت کچھ…
تین
اوقات باندھ لیں
زندگی
کے لمحات چونکہ گنے چنے ہیں…اس لئے ان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے…بلکہ ترتیب سے
گزارنا چاہیے…اس رمضان المبارک میں تین اوقات باندھ لیں…یعنی اپنے پر یہ عہد لازم
کر لیں کہ فلاں تین اوقات میں بس یہ تین کام کرنے ہیں…ان شاء اللہ
١ تلاوت
کا وقت… اس میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھیں…جن کی تجوید کمزور اور غلط ہو وہ زیادہ
تلاوت کی جگہ اس سال اپنا تلفظ درست کریں…اور اسی وقت میں قرآن مجید کا کچھ حصہ
یاد بھی کر لیں…یہ وقت ایک گھنٹہ ہو یا کم ،زیادہ…
٢ قرآن
سمجھنے کا وقت…اس میں قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں…اچھا ہے کہ کسی عالم
سے…اگر اس کی ترتیب نہ بنے تو کسی مستند اردو تفسیر سے…اس عمل کی برکت سے آپ اللہ
تعالیٰ کے کلام کو اپنے دل پر آتا محسوس کریں گے…
٣ چار
کاموں کی کثرت کا وقت… اس میں کلمہ طیبہ ،استغفار،جنت کی دعاء اور جہنم سے پناہ…
یہ چاروں کام کم از کم تین سو بار سے تین ہزار بار تک…
اس
رمضان المبارک میں…بندہ فقیر و محتاج کو بھی اپنی دعاء میں کبھی کبھار یاد کر لیا
کریں…آپ کا احسان ہو گا…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 501
مرغوب اور مہنگی نعمت
سخت
گرمی کے روزے ایک قیمتی نعمت…
سخت
گرمی کے روزوں کے فوائد و انعامات…
سچے
مؤمن کی چھ صفات…
ایک
عجیب قصہ…
گرمی
کے روزے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل…
حضرت
ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا عمل…
حضرت
عامر بن عبد قیس رضی اللہ عنہ کا واقعہ…
گرمی
کے روزوں پر حور سے شادی…
گرمی
کے روزوں کی ترغیب دیتی… اور نام نہادمرجی
مفکرین
کی تلبیس کی دھجیاں اڑاتی… ایک تحریر
۷رمضان۱۴۳۶ھ؍24جون2015ء
مرغوب اور مہنگی نعمت
اللہ
تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو جو بہت قیمتی نعمتیں عطاء فرمائی ہیں…ان میں سے ایک
انمول نعمت ’’گرمی کے روزے‘‘ ہیں…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
اللہ
تعالیٰ کے ہاں جن عبادات کی قدر اور قیمت بہت زیادہ ہے…ان عبادات میں گرمی کے روزے
بھی شامل ہیں…
سخت
گرمی کے روزے
موت
کی سکرات کو ٹھنڈا کرتے ہیں … موت کے وقت کی گرمی سے اللہ تعالیٰ بچائے وہ دل اور
جسم کو پگھلا دیتی ہے…
سخت
گرمی کے روزے!
قیامت
کے دن کی شدید پیاس اور شدید گرمی کے وقت کا ٹھنڈا شربت ہیں…اُس دن سورج سر پر ہو
گا… بالکل قریب، نہ کوئی پردہ… نہ کوئی چھت، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبتے ہوں گے…
کھولتا ہوا گرم پسینہ…تب ان لوگوں کو ٹھنڈے جام پلائے جائیں گے…جو گرمیوں کے سخت
روزے خوشی خوشی برداشت کرتے تھے…
سخت
گرمی کے روزے!
ایمان
کی خصلت اور علامت ہیں…یہ ایمان کی چوٹی تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں…یہ ایمان کی
حقیقت کا حصہ ہیں…یعنی جو سچا مومن ہے وہ گرمی کے روزوں سے پیار رکھتا ہے…وہ گرم
ترین دن ڈھونڈتا ہے تاکہ اس میں روزہ رکھے … وہ گرمی کے دن روزہ رکھ کر دوپہر کا
انتظار کرتا ہے تا کہ… گرمی بڑھے تو پیاس زیادہ ہو…اور پھر وہ اس پیاس میں اپنے رب
کے پیار کو تلاش کرتا ہے…
سخت
گرمی کے روزے!
مومن
کو اس مقام پر لے جاتے ہیں … جہاں اللہ تعالیٰ اس پر فخر فرماتے ہیں اور فرشتوں سے
کہتے ہیں کہ… میرے بندے کو دیکھو! …اور اسی دن اللہ تعالیٰ جنت کی حور سے اس مومن
کا نکاح کرا دیتے ہیں…
سخت
گرمی کے روزے!
ان
نعمتوں میں سے ہیں کہ… جن کی خاطر اللہ تعالیٰ کے خاص بندے دنیا میں زندہ رہتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ…اگر یہ نعمتیں نہ ہوں تو ہم ایک منٹ زندہ رہنا گوارہ نہ کریں…
جہاد میں لڑنا… رات کو تہجد ادا کرنا…نماز کے لئے چل کر مسجد جانا… اور سخت گرم دن
کا روزہ رکھنا…
سخت
گرمی کے روزے!
ایک
مومن کو ’’صبر‘‘ کا اونچا مقام دلاتے ہیں…اس کے عزم اور ہمت کو مضبوط کرتے ہیں اور
اسے ایک کارآمد انسان بناتے ہیں…
اللہ
کرے! ہمیں بھی گرمی کے روزوں سے عشق نصیب ہو جائے…تاکہ ہم موت اور آخرت کی گرمی
سے بچنے کا انتظام کر سکیں…آئیے! چند روایات اور چند حکایات پڑھتے ہیں…کیا عجب!
ہم بھی اہل محبت کی یہ نشانی پا لیں…
سچے
مومن کی چھ صفات
حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے… ( یعنی حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے)
چھ
صفات جس شخص میں ہوں وہ حقیقی مومن ہے:
١
وضو پورا کرنا
٢
بادلوں والے دن نماز میں
جلدی کرنا
٣
سخت گرمی میں زیادہ روزے
رکھنا
٤
دشمنوں
کو تلوار سے قتل کرنا
٥
مصیبت پر صبر کرنا
٦
بحث
نہ کرنا اگرچہ تو حق پر ہو
( الدیلمی فی الفردوس)
دوسری
روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
چھ
خصلتیں خیر والی ہیں:
١ اللہ
تعالیٰ کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنا…
٢ گرم
دن کا روزہ رکھنا…
٣ مصیبت
کے وقت اچھا صبر کرنا…
٤ بحث
نہ کرنا اگرچہ تم حق پر ہو…
٥
بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا …
٦ سردی
کے دن اچھا ( یعنی پورا) وضو کرنا… ( البیہقی)
ایک
اور روایت میں ان صفات کو ایمان کی حقیقت قرار دیا گیا ہے کہ جس شخص کو یہ چھ صفات
نصیب ہو جائیں تو وہ ایمان کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔ ( رواہ المروزی)
ایک
عجیب قصہ
یہ
واقعہ حدیث شریف کی کئی کتابوں میں کچھ فرق کے ساتھ مذکور ہے… خلاصہ اس کا یہ ہے
کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو… سمندری جہاد کے سفر پر بھیجا، آپ اپنے
رفقاء کے ساتھ کشتی پر جا رہے تھے کہ …سمندر سے ایک غیبی آواز آئی… کیا میں
تمہیں وہ فیصلہ نہ سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے اوپر فرمایا ہے؟ …حضرت ابو موسیٰ رضی
اللہ عنہ نے کہا…ضرور سناؤ…آواز دینے
والے نے کہا…اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جو شخص خود کو کسی
گرم دن…اللہ تعالیٰ کے لئے پیاسا رکھے گا ( یعنی روزہ رکھے گا) تو اللہ تعالیٰ نے
اپنے اوپر لازم فرمایا ہے کہ …اس کو قیامت کے دن ضرور سیراب فرمائیں گے… حضرت ابو
موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے بعد گرم دنوں کی تلاش میں رہتے
تھے…ایسے گرم دن کہ جن میں لوگ مرنے کے قریب ہوں… آپ ایسے دنوں میں روزہ رکھتے
تھے… ( رواہ ابن المبارک وابن ابی شیبہ وعبد الرزاق وفی سندہ کلام)
حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
بخاری
اور مسلم کی ایک روایت کا خلاصہ ہے کہ:
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک گرم دن میں سفر پر تشریف لے گئے ( رمضان
المبارک کا مہینہ اور جہاد کا سفر تھا) گرمی اتنی شدید تھی کہ حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے ہاتھ اپنے
سروں پر رکھتے تھے…مگر اس حالت میں بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں تھے … اور بھی کئی روایات میں
سخت گرمی کے سفر کے دوران آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا روزہ رکھنا ثابت ہے…اتنی
گرمی کہ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنے اوپر پانی بھی ڈالا…تاکہ گرمی کی
شدت کچھ کم ہو…
حضرت
ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا عمل
حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تو مستقل یہ معمول تھا کہ:
’’گرمی کے موسم میں روزے رکھتے تھے اور سردیوں میں افطار
فرماتےتھے۔‘‘
یعنی
نفل روزوں کے لئے گرمی کے موسم کو منتخب فرما رکھا تھا…حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
کا بھی سخت گرمیوں میں روزے رکھنے
کا معمول تھا…حتیٰ کہ سفر میں جب گرم لو کے تھپیڑے آپ کو ایذاء پہنچا رہے ہوتے
تھے تو آپ روزہ کی حالت میں ہوتی تھیں…
جبکہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے قریب اپنے بیٹے ’’عبد اللہ‘‘
کو وصیت فرمائی کہ اے پیارے بیٹے… ایمان والی صفات کو لازم پکڑنا…انہوں نے عرض
کیا…اے پیارے ابا جی! وہ کونسی صفات ہیں…ارشاد فرمایا:
١ سخت
گرمی میں روزہ رکھنا…
٢
دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا ( یعنی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو)…
٣ مصیبت
پر صبر کرنا…
٤ سرد
دنوں میں پورا وضو کرنا…
٥
بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا…
٦ شراب
نہ پینا … ( ابن سعد فی الطبقات)
مجھے
گرمی لوٹا دو
حضرت
عامر بن عبد قیس رضی اللہ عنہ … حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر بصرہ سے شام منتقل ہو گئے… وہاں حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بار بار پوچھتے کہ کوئی حاجت، خدمت ہو تو
بتائیں… مگر حضرت عامر رضی اللہ عنہ کچھ نہ مانگتے …جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصرار بڑھا تو حضرت عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بصرہ کی گرمی لوٹا دیجئے تاکہ
مجھے سخت روزے نصیب ہوں… یہاں آپ کے ہاں روزہ بہت آسان گذر جاتا ہے… حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما …سخت گرمیوں میں نفل روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ
بعض اوقات بے ہوشی اور غشی طاری ہو جاتی …مگر روزہ نہ توڑتے … اور جب دنیا سے رخصت
ہونے کا وقت آیا تو فرمایا:اپنے پیچھے ایسی کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جا رہا کہ …جس
کے چھوڑنے کا افسوس ہو…سوائے دو چیزوں کے …ایک گرمی کے روزہ میں دوپہر کی پیاس اور
دوسرا نماز کے لئے چلنا… ( بس ان دو چیزوں کے چھوٹنے کا افسوس ہے)۔ ( ابن ابی
شیبہ)
اسی
طرح کی روایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ
عنہ سے بھی ہے کہ وہ اپنی وفات کے وقت اس
بات پر افسوس فرما رہے تھے کہ… اب گرمی کے روزے کی پیاس نصیب نہیں ہو گی…
میں
کب آپ کی دلہن بنی؟
امام
ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں…
جنت
کی حور اپنے اللہ کے ولی خاوند سے پوچھے گی …کیا آپ کو معلوم ہے کہ کس دن مجھے
آپ کے نکاح میں دیا گیا؟…یہ سوال و جواب اس وقت ہو گا جب وہ دونوں جنت میں… شراب
کی نہر کے کنارے شان سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے…اور حور جام بھر بھر کر اپنے
خاوند کو پلا رہی ہو گی…حور اپنے سوال کا جواب خود ہی دے گی … وہ ایک گرم دن تھا ،
اللہ تعالیٰ نے آپ کو روزہ کی سخت پیاس میں دیکھا تو فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر
فرمایا… میرے بندے کو دیکھو! اس نے میری خاطر اور میرے پاس موجود نعمتوں کی رغبت
میں… اپنی بیوی، لذت،کھانا اور پینا سب کچھ چھوڑا ہوا ہے…تم گواہ رہو کہ میں نے اس
کی مغفرت کر دی ہے…پس اس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت فرمائی …اور مجھے آپ کے
نکاح میں دے دیا…
آخری
بات
یہ
موضوع بہت میٹھا اور مفصل ہے…ابھی مزید کچھ قصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر رمضان کے
مبارک اوقات میں اختصار ہی بہتر ہے…آج کل ہم سب کو گرمی کے روزے نصیب ہیں…یہ بڑی
مہنگی نعمت ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی… اس نعمت کی قدر کریں…خوشی اور شکر
سے روزے رکھیں… جو تھوڑی بہت تکلیف آئے وہ خندہ پیشانی سے برداشت کریں…شیطان کے
اس جال میں کوئی نہ پھنسے کہ…یہ روزے میرے بس میں نہیں ہیں…کئی مرجی قسم کے مفکر
بھی یہی فتویٰ دیتے ہیں… یہ سب ہمیں اس انمول نعمت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں…اگر
گرمی کے روزے ہمارے بس میں نہ ہوتے …تو ہمارا رحیم و مہربان رب کبھی ہم پر یہ روزے
فرض نہ فرماتا… جب اللہ تعالیٰ نے یہ روزے فرض فرمائے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ روزے
ممکن ہیں… اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے سخت گرمی میں روزے بھی رکھتے ہیں اور مزدوری
بھی کرتے ہیں… اور ساتھ خوشی اور شکر بھی ادا کرتے ہیں…دین کے دیوانے گرمی کے
روزوں کے ساتھ ’’ مہم ‘‘ کی محنت اور حکمرانوں کے ’’جبر‘‘ کو بھی جھیل رہے
ہیں…اللہ تعالیٰ ہمت، قبولیت، استقامت اور بہت جزائے خیر عطا فرمائے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 502
اہم محنت
بخل
اور لالچ گندی بیماریاں…
بخل
کیوں پیدا ہوتا ہے؟… اس کی وجوہات…
ایک
سبق آموز قصہ…
سچے
شوق اور اخلاص کی طاقت…
صدقہ،
خیرات کے فوائد…
مال
کے بارے میں ’’شیطانی پیکج‘‘…
جہاد
میں مال خرچ کرنے کے فضائل…
تین
فتنے… ایک اہم اور مشکل محنت…
بخل
سے نفرت دلاتی… اور … فی سبیل اللہ…
مال
خرچ کرنے پر ابھارتی… ایک تحریر
۱۴رمضان۱۴۳۶ھ؍یکم
جولائی2015ء
اہم محنت
اللہ
تعالیٰ ’’بخل‘‘ اور ’’لالچ‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…
اَللّٰہُمَّ
اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ
بخل
یعنی کنجوسی کی بیماری تین وجوہات سے پیدا ہوتی ہے:
١ مال
کی محبت…
٢ زیادہ
زندہ رہنے کا شوق ،لمبی تمنائیں…
٣ بے
وقوفی…کم عقلی…
ایک
دلچسپ قصہ
ہمارے
ہی زمانے کا یہ قصہ کسی نے نقل کیا ہے … ایک صاحب کو انگور بہت پسند تھے… صبح اپنی
فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے…انہوں نے گاڑی روکی اور
دوکلو انگور خرید کر نوکر کے ہاتھ گھر بھجوا دئیے اور خود اپنی تجارت پر چلے گئے…
دوپہر کو کھانے کے لئے واپس گھر آئے…دستر خوان پر سب کچھ موجود تھا مگر انگور
غائب… انہوں نے انگوروں کا پوچھا… گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو بچوں نے کھا
لئے…کچھ ہم نے چکھ لئے…معمولی واقعہ تھا مگر بعض معمولی جھٹکے انسان کو بہت اونچا
کر دیتے ہیں… اور اس کے دل کے تالے کھول دیتے ہیں… وہ صاحب فوراً دستر خوان سے
اٹھے… اپنی تجوری کھولی، نوٹوں کی بہت سی گڈیاں نکال کر بیگ میں ڈالیں اور گھر سے
نکل گئے… انہوںنے اپنے کچھ ملازم بھی بلوا لئے …پہلے وہ ایک پراپرٹی والے کے پاس
گئے … کئی پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ منتخب کیا…فوراً اس کی قیمت ادا کی…پھر ٹھیکیدار
اور انجینئر کو بلایا … جگہ کا عارضی نقشہ بنوا کر ٹھیکیدار کو مسجد کی تعمیر کے
لئے… کافی رقم دے دی… اور کہا دو گھنٹے میں کھدائی شروع ہونی چاہیے…وہ یہ سب کام
اس طرح تیزی سے کر رہے تھے…جیسے آج مغرب کی اذان تک ان کی زندگی باقی ہو…ان کاموں
میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں… مگر جب دل میں اخلاص کی قوت ہو… ہاتھ بخل اور
کنجوسی سے آزاد ہو تو… مہینوں کے کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں…ایک صاحب ’’نو مسلم‘‘
تھے… ان کو نماز کی تکبیر اولیٰ پانے کا عشق تھا… ایک بار وضو میں کچھ تاخیر ہو
گئی… نماز کے لئے اقامت شروع ہوئی تو وہ وضو خانے سے دیوانہ وار شوق میں مسجد کے
صحن کی طرف بڑھے…جلدی میں وہ وضو خانے کی ایک دیوار کے سامنے آ گئے تو ان کا ہاتھ
لگتے ہی وہ دیوار اچانک بیٹھنے اور گرنے لگی… وہ تیزی سے ایک طرف ہو کر گزر
گئے…نماز کے بعد سب لوگ حیران تھے کہ اس دیوار کو کیا ہوا…وہ نو مسلم صاحب فرماتے
ہیں کہ جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے جا کر دیوار پر زور لگانا شروع کیا کہ …کسی
طرح سیدھی ہو جائے… مجھے خیال تھا کہ چونکہ میرے ہاتھوں سے یہ ٹیڑھی ہوئی ہے تو
میں ہی اس کو سیدھا کر سکتا ہوں…مگر بار بار زور لگانے کے باوجود دیوار سیدھی نہ
ہوئی… تب سمجھ آیا کہ…نماز کو جاتے وقت میرے اندر اخلاص اور شوق کی جو طاقت
تھی…اس نے اتنی مضبوط دیوار کو ہلا دیا تھا…اور اب وہ طاقت موجود نہیں ہے… یہی
صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی… اخلاص اور شوق کی طاقت نے …چند گھنٹوں میں
سارے کام کرا دئیے… بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا… اچھا انجینئر اور اچھا
ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا… اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام
بھی شروع ہو گیا …شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ
کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟… کہنے لگے… اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائش گاہ کا
انتظام کرنے…اور وہاں کھانے پینے کا نظام بنانے گیا تھا…الحمد للہ سارا انتظام ہو
گیا … اب سکون سے مر سکتا ہوں… آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی… انگور کے چار
دانے میرے لئے چھوڑنا گوارہ نہ کئے… اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لئے چھوڑ کر
جا رہا تھا … میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا؟ … اس لئے اب میں نے
خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے آگے بھیج دیا ہے…اس پر میرا دل بہت سکون
محسوس کر رہا ہے…
صدقہ
،خیرات کے فوائد
قرآن
مجید اور احادیث مبارکہ میں …صدقہ ،خیرات اور دین پر مال لگانے کے فضائل اس قدر
زیادہ ہیں کہ… انہیں پڑھ کر پتھر دل انسان بھی ’’بخل‘‘ سے توبہ کر لیتا ہے…مگر
شیطان پڑھنے نہیں دیتا… شیطان ہمارا دشمن ہے،اس نے ہمیں ذلیل کرنے کی قسم کھائی
ہے…اور وہ ہمیں مال کے ذریعے زیادہ ذلیل کرتا ہے… مال کے نوکر بنے رہو…مال کے غلام
بنے رہو… مال گن گن کر چھپا چھپا کر رکھتے رہو…دن رات مال جمع کرتے رہو…مال کی
خاطر چوری کرو، خیانت کرو… حرمتیں پامال کرو… مال کی حفاظت کے لئے مرتے رہو…مال کے
نقصان پر روتے رہو… شیطان نے مال کے بارے میں جو’’ پیکج‘‘ بنایا ہے…اس کا خلاصہ
ہے…
’’سانپ سے سانپ تک‘‘
یعنی
دنیا میں تم کالے سانپ کی طرح… مال کے اوپر چوکیدار بن کر بیٹھے رہو…اس مال سے کسی
کو فائدہ نہ اٹھانے دو…اور جب یہ سارا مال چھوڑ کر مرجاؤ تو اس مال کو سانپ بنا
کر تمہاری گردن میں لٹکا دیا جائے…اور وہ تمہارے چہرے پر کاٹتا رہے… آج کے کروڑ
پتی…ارب پتی اور سرمایہ دار کیا کر رہے ہیں؟… یہی سانپ والا کردار… غور کریں تو
آپ کو ان کی شکلیں بھی سانپ جیسی نظر آئیں گی…
صدقہ،خیرات
سے انسان کا نفس پاک ہو جاتا ہے… اس کا مال بھی پاک ہو جاتا ہے … آپ تجربہ کر
لیں…سخت پریشانی اور سخت بیماری کے وقت اگر اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے مال خرچ کر
دیا جائے تو… پریشانی دور اور بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے… دراصل مال کا وہ نوٹ یا
حصہ… خود ایک بیماری اور پریشانی تھی…وہ جب تک ہمارے پاس موجود رہتا ہمیں اسی طرح
تکلیف میں رکھتا مگر جب وہ چلا گیا… تو وہ خود بھی ہمارے لئے رحمت بن گیا …اور
اپنے پیچھے بھی ہمارے لئے … رحمت چھوڑ گیا…
جہنم
کی آگ کتنی سخت ہے… مگر صدقہ خیرات سے یہ آگ بجھ جاتی ہے… قیامت کے دن ہر شخص
اپنے صدقہ کے سایہ میں ہو گا…جس کا صدقہ زیادہ… اس کا سایہ بھی زیادہ… گناہوں کی
آگ کو بھی صدقہ اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو…دراصل انسان جو گناہ بھی
کرتا ہے اس گناہ کے برے اثرات اس کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں …مگر صدقہ کی برکت سے وہ
گرم اثرات ختم ہو جاتے ہیں … صدقہ میزان حسنات کو بھاری کر دیتا ہے…اور سب سے بڑھ
کر یہ کہ صدقہ کرنے والے کی… اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر ومنزلت بہت بڑھ جاتی ہے …
صدقہ انسان کو دنیا میں مالدار اور آخرت میں کامیاب بناتا ہے اور صدقہ ہی اصل میں
انسان کے دل کی خوشی ہے…
اہم
مگر مشکل محنت
اسلام
میں نیکیوں پر مال خرچ کرنے کی… بہت ترغیب ہے… مسجد پر خرچ کرو…والدین پر خرچ کرو
… اہل و اولاد پر خرچ کرو… دینی تعلیم پر خرچ کرو … غرباء مساکین پر خرچ کرو…کھانا
کھلانے اور افطار کرانے پر خرچ کرو… مصیبت زدہ لوگوں پر خرچ کرو… پانی کے انتظام
پر خرچ کرو… والدین کے ایصال ثواب پر خرچ کرو… وغیرہ… مگر سب سے زیادہ فضائل جہاد
پر خرچ کرنے کے ہیں…سب سے زیادہ اجر جہاد پر خرچ کرنے کا ہے… اور سب سے بڑا مقام
جہاد میں مال لگانے کا ہے… حتیٰ کہ کعبہ شریف پر …اور حجاج کرام کی خدمت پر خرچ
کرنے سے بھی زیادہ اجر جہاد پر خرچ کرنے کا ہے…جہاد چونکہ فرض ہے…اس لئے مال سے
جہاد کرنا بھی فرض کے درجے میں آتا ہے…
ہمارے
ساتھی اور رفقاء جو انفاق فی سبیل اللہ کی مہم میں شریک ہیں…وہ بہت اہم خدمت سر
انجام دے رہے ہیں… آج ایک طرف یہ فتنہ سرگرم ہے کہ مجاہدین کو لوگوں سے بھیک نہیں
مانگنی چاہیے… انہیں چاہیے کہ بینک لوٹیں،بھتہ لیں… لوگوں کو اغواء کر کے تاوان
وصول کریں… کئی افراد اس طرح کے نعروں میں گمراہ ہو گئے اور طرح طرح کی برائیوں
میں مبتلا ہو گئے… حالانکہ اسلام میں مسلمانوں کے مال کو اغواء وغیرہ کے ذریعے
حاصل کرنے کو…شرمناک قسم کا حرام قرار دیا گیا ہے…
دوسرا
فتنہ حکمرانوں کی طرف سے ہے کہ… وہ شرعی جہاد پر مال دینے سے لوگوں کو روکتے ہیں…
مجاہدین کو چندہ کرنے پر پکڑتے ہیں…اور طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں ڈالتے ہیں
… قرآن مجید کی ’’سورۃ المنافقون ‘‘ نے …یہ مسئلہ سمجھایا ہے کہ…کافروں اور
منافقوں کے نزدیک مال بڑی چیز ہوتا ہے… وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مجاہدین کے مالی
راستے بند کر دئیے جائیں تو ان کا جہاد اور ان کا دین ختم ہو جائے گا…حالانکہ ان
کی یہ سوچ غلط ہے…اور زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے…
تیسرا
فتنہ…کمزور دل مسلمانوں کی طرف سے ہے کہ… وہ اپنی مساجد اور اپنے منبروں پر… کفار
اور منافقین کے ڈر سے… جہاد فی سبیل اللہ کو بیان نہیں کرتے… اسی لئے مسلمانوں کو
جہاد کے وہ مسائل بھی معلوم نہیں ہیں…جو قرآن مجید میں نص قطعی کے طور پر صراحت
سے مذکور ہیں… مثلاً کئی مسلمان پوچھتے ہیں کہ کیا مجاہدین کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟…
یہ مسئلہ قرآن مجید نے صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے کہ… مجاہدین
زکوٰۃ کا مصرف ہیں… آج بدعات پر خرچ کرنے کی ترغیب دینے والے بہت ہیں… کروڑوں
اربوں روپے بدعات و خرافات پر دین کے نام سے خرچ کئے جاتے ہیں… آج نفل کاموں پر
خرچ کرنے کی ترغیب دینے والے بہت ہیں… کروڑوں اربوں روپے نفل عمروں، وہاں کی مہنگی
رہائشوں اور مدارس میں انگریزی تعلیم پر خرچ کئے جاتے ہیں… مگر جہاد پر خرچ کی
ترغیب سنانے کا کوئی سلسلہ مساجد اور منابر پر موجود نہیںہے…
اب
ان تین فتنوں کی موجودگی میں …جہاد کے لئے چندہ کس قدر مشکل ہو جاتا ہے؟… مگر
اخلاص اور شوق ہر مشکل کا علاج ہے…
اور
اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا جوش… ناموافق حالات میں مزید بڑھ جاتا ہے…اے دین کے
دیوانو! اللہ تعالیٰ آپ کو بہت جزائے خیر عطاء فرمائے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 503
آسان طریقہ
جنت
بہت دور… سات آسمانوں سے اوپر…
پر
بعض اوقات اور لمحات میں انتہائی قریب آ جاتی ہے…
ایک
تمثیل…
جنت
کب انسان کے قریب آتی ہے؟…
راہِ
جہاد… اور جنت دو قدم کے فاصلے پر…
حضرت
عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کا واقعہ…
بعض
جہاد صرف ’’شہادت‘‘ بانٹنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں…
جو
جنت کے قریب ہونا چاہے وہ کیا کرے؟…
غزوۂ
بدر کے معارف…
جہاد
کی ایک خاص تأ ثیر…
جہاد
اور شہادت کے معارف اجاگر کرتی ایک
ایمان
افروز تحریر…
۲۱رمضان۱۴۳۶ھ؍08جولائی2015ء
آسان طریقہ
اللہ
تعالیٰ سے شہادت کی دعاء وہی مسلمان کرتے ہیں…جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین
رکھتے ہیں… یا اللہ ! ہمیں مقبول ایمان بالغیب عطاء فرما…
دور
والی بہت قریب
جنت
ویسے تو ہم سے بہت دور ہے… کیونکہ جنت سات آسمانوں کے اوپر ہے… مگر بعض حالات
ایسے آ جاتے ہیں کہ… جنت کسی انسان کے بالکل قریب ہو جاتی ہے… مثلاً ایک غریب
آدمی ہے…مہینہ میں مشکل سے پانچ دس ہزار روپے کماتا ہے… تو شہر کی مہنگی کوٹھیاں
اس کی پہنچ سے کتنی دور ہیں؟… وہ اگر دس کروڑ کی ایک کوٹھی خریدنا چاہے تو اس کے
لئے اس کی سو سال کی تنخواہ بھی کافی نہیں… اسی طرح شہر کے شورومز میں موجود مہنگی
گاڑیاں اس سے کتنی دور ہیں؟… یقیناً بہت دور… وہ اگر دس سال بھی بچت کر کے پیسہ
جمع کرے تو اچھی گاڑی نہیں خرید سکتا… مگر ایک دن اچانک اسے بہت سی رقم مل
گئی…نوٹوں سے بھرا ایک بڑا صندوق… کم از کم پچاس ساٹھ کروڑ کی نقد رقم… اب اس لمحے
وہ بہت سی چیزیں جو اس سے سالہا سال دور تھیں ایک دم قریب آ گئیں… اب وہ ایک
گھنٹے میں ایک نئی گاڑی خرید سکتا ہے…
جنت
واقعی بہت دور ہے… لیکن جب ’’بندۂ مومن‘‘ ایمان اور اخلاص کے ساتھ جہادِ فی سبیل
اللہ میں نکلتا ہے تو…یہ کروڑوں اربوں سال کی دوری والی جنت…بالکل اُس کے قریب،
اُس کے سر پر آ جاتی ہے… اور اس میں اور جنت میں بس اتنا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ…وہ
مجاہد شہید ہواور فوراً جنت میں داخل ہو جائے… یعنی دو قدم کی مسافت… پہلا قدم
شہادت اور دوسرا قدم جنت… یہ بات اپنی طرف سے نہیں لکھی… اس پر بڑے مضبوط دلائل
موجود ہیں…بس یہاں صرف’’شہید بدر‘‘ حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کے مبارک الفاظ کافی ہیں:
’’ بَخٍ بَخٍ فَمَا بَیْنِی وَبَیْنَ اَنْ اَدْخُلَ الْجَنَّۃَ
اِلَّا اَنْ یَّقْتُلَنِیْ ھٰؤُلَاءِ‘‘
ترجمہ:
واہ، واہ میرے اور جنت کے درمیان فاصلہ ہی کیا رہ گیا ہے،بس صرف اتنا کہ یہ مشرکین
مجھے قتل کر ڈالیں…
وہ
اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے، یہ الفاظ فرما کر کھجوریں پھینک دیں اور تلوار لے کر
لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہو گئے…
یہ
اسلام کا پہلا بڑا معرکہ ’’غزوۂ بدر‘‘ تھا… غزوۂ بدر کے ہر منظر سے جہاد کی دلکش
دعوت ملتی ہے… اور جہاد کے فضائل،معارف،حکمتیں اور قوانین معلوم ہوتے ہیں… اسی لئے
غزوہ ٔبدر کو یاد رکھنا چاہیے… اس کو بار بار پڑھنا چاہیے… اور اسے آپس میں سنتے
سناتے رہنا چاہیے… کیونکہ یہ جہاد اور ’’علمِ جہاد‘‘ کا ایسا انمول خزانہ ہے…جو ہر
ملاقات اور ہر مطالعہ پر نئے راز ،نئے اسباق اور نئی حکمتیں سکھاتا ہے…
پس
وہ مسلمان جو جنت کے بہت زیادہ قریب ہونا چاہتا ہے…وہ جہاد میں نکلے… جہاد میں
نکلتے ہی جنت اس کے قریب آ جائے گی… پھر وہ جس طرح بھی مرے…اس کی موت کا کوئی
نتیجہ ظاہر ہو یا نہ ہو…ہر حال میں اس کے لئے جنت لازم ہے… علامہ ابن قیمؒ نے لکھا
ہے کہ… اللہ تعالیٰ بعض ’’جہاد‘‘اس لئے قائم فرماتا ہے تاکہ… اپنے بندوں میں سے
کچھ کو شہادت عطاء فرمائے…یعنی اس جہاد کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا… اور نہ اس
کا کوئی اور اثر زمین پر ظاہر ہوتا ہے… وہ جہاد بس اس لئے ہوتا ہے کہ… بعض خوش
نصیب مسلمان ’’شہادت ‘‘ کا بلند مقام …شہادت کی مزیدار اور پائیدار زندگی… اور
شہادت کا دائمی انعام پا لیں… اور یہ کوئی چھوٹا انعام یا مقصد نہیں ہے…ایک مسلمان
کو مرتے ہی شاندار زندگی… ہمیشہ ہمیشہ کا عیش و آرام …اور ہمیشہ کی کامیابی مل
جائے تو اسے اور کیا چاہیے…یہ تو ایسی نعمت ہے کہ… اگر اس کی خاطر سب کچھ بھی
قربان کرنا پڑے تو سودا بہت سستا اور بہت نفع والا ہے…
طاقتور
بہت کمزور
مکہ
کے مشرکین کس قدر طاقتور تھے؟…وہ تلواروں کے سائے میں پلتے تھے، گھوڑوں کی پیٹھ پر
جوان ہوتے تھے اور بہادری اور شجاعت میں ساری دنیا پر فائق تھے…ان کی جنگ
بازی،خونریزی اور بہادری کے واقعات جب ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی
ہے…
غزوۂ
بدر کے دن پورے قریش کی طاقت کا ’’مکھن‘‘ …میدان بدر میں موجود تھا…صرف ابوجہل کی
جنگی اور طبعی طاقت کا حال لکھا جائے تو آج کا کالم اسی میں لگ جائے… فرعون سے
بڑھ کر ضدی ابو جہل کی طاقت کا یہ حال تھا کہ…اس نے کئی مرتبہ عذاب کے فرشتے اور
عذاب کی جھلکیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں… مگر یہ نہ تو بے ہوش ہوا اور نہ قائل
ہوا… آج دنیا کے بڑے سے بڑے بہادر کو کسی پر حملہ کرتے وقت …اگر وہ مناظر نظر آ
جائیں …جو ابو جہل نے حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرتے وقت دیکھے
تھے تو…وہ فوراً خوف سے مر جائے…
ابو
جہل ظالم کہتا تھا کہ…جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہوں تو مجھے بتانا میں ان کی گردن پر
پاؤں رکھ کر …(نعوذ باللہ) گردن توڑ دوں گا…ایک بار اسی ناپاک ارادے سے آگے
بڑھا…مگر پھر اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر ایک دم پیچھے ہٹا… اسی طرح دو تین بار
آگے بڑھا اور پھر پیچھے ہٹا… لوگوں نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو کہنے لگا آگے
ایک خندق آگ کی بھری ہوئی سامنے آ گئی اور ایک بڑا اژدھا میری طرف لپکا…اگر میں
پیچھے نہ ہٹتا تو یا آگ میں جل مرتا یا وہ اژدھا مجھے نگل لیتا…
اندازہ
لگائیں…ایسا منظر دیکھنے کے باوجود وہ نہ دہشت سے مرا…نہ بے ہوش ہو کر گرا… نہ
وہاں سے بھاگا… بلکہ بار بار آگے بڑھ کر اپنے ناپاک ارادے کو پورا کرنے کی کوشش
کرتا رہا… غزوۂ بدر کے میدان میں ابو جہل موجود تھا اور اسی جیسے اور چوبیس نامور
سردار موجود تھے…ان میں سے ہر ایک کی مستقل جنگی اور عسکری داستان تھی…دوسری طرف
مقابلے میں بے سروسامان مسلمان تھے… تعداد بھی کم اور سامان حرب بھی قلیل …مگر یہ
جہاد کا میدان تھا…اور جہاد کے میدان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قوانین نرالے ہیں…یہاں
دور کی چیزیں قریب اور قریب کی چیزیں دور ہو جاتی ہیں…یہاں بہت سے بارعب…اپنا رعب
کھو دیتے ہیں…اور بہت سے مسکین بہت بارعب ہو جاتے ہیں…یہاں بہت سے طاقتور شہباز
’’چڑیا‘‘ بن جاتے ہیں…اور بہت سی ’’ابابیلیں‘‘ ہاتھیوں سے طاقتور…غزوۂ بدر میں
مقابلہ ہوا…کمزور اور قلیل مسلمان غالب آئے… ابو جہل اور اس کے ہم پلہ چوبیس
سردار بالوں سے گھسیٹ کر ایک ناپاک کنویں میں ڈال دئیے گئے… یہ سارا قصہ اکثر
مسلمانوں کو معلوم ہے… آج جو بات عرض کرنی ہے …وہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر
غزوۂ بدر فتح کر کے…مدینہ واپس آ رہا تھا… راستہ میں ’’مقام روحاء‘‘ پر کچھ
مسلمانوں نے لشکر کا استقبال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو فتح مبین کی مبارک باد دی… اس پر حضرت سلمہ
بن سلامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کس بات کی مبارک باد دیتے ہو…اللہ
تعالیٰ کی قسم! بوڑھی عورتوں سے پالا پڑا اور ہم نے ان کو رسی میں بندھے ہوئے
اونٹوں کی طرح ذبح کر کے پھینک دیا…
غور
فرمائیں…ابو جہل، عتبہ، شیبہ جیسے جنگ آزما ،سورما… جن کے خوف اور دہشت سے وادیاں
کانپتی تھیں… ان کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ…بوڑھی عورتیں تھیں…اور رسیوں میں
بندھے ہوئے جانور…
دراصل
جہاد میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ…وہ کافروں اور ان کی طاقت کو ’’بہت
چھوٹا‘‘ کر دیتا ہے… آج بھی ہمارے صاحب اقتدار مسلمان… کافروں سے بہت ڈرتے
ہیں…اور ان کے رعب سے کانپتے ہیں… اور ان کے خوف اور دباؤ میں آ کر غلط کام کرتے
ہیں… لیکن جہاد میں مشغول مسلمان… اپنے دل میں کافروں کے لئے کوئی خوف،کوئی رعب…
یا کوئی بڑائی نہیں پاتے… ان کے نزدیک… سارے اوبامے، مودی اور یہودی… بوڑھی عورتیں
اور رسی میں بندھے جانور ہیں…یاد رکھیں! ہر انسان نے اپنے وقت پر مرنا ہے…جو لوگ
کافروں کے رعب میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر مرتے ہیں…اور جو کافروں کے رعب سے
آزاد ہیں وہ بھی… اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتے… ہاں! یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے
کہ…کسی مسلمان کے دل میں کافروں کا رعب اور بڑائی نہ ہو…اور یہ نعمت جہادِ فی سبیل
اللہ کے ذریعے نصیب ہوتی ہے…
آسان
طریقہ
اگر
ہم چاہتے ہیں کہ… وہ جنت جو ہم سے بہت دور ہے…وہ ہمارے بہت قریب آ جائے… اگر ہم
چاہتے ہیں کہ… دنیا بھر کے اسلام دشمن کافر ہماری نظروں میں چھوٹے اور حقیر ہو
جائیں… اور ہمیں ان کی ذہنی غلامی سے نجات ملے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم
جہادِ فی سبیل اللہ کے راستہ کو اختیار کر لیں… جہاد میں کامیابی ہی کامیابی…اور
رحمت ہی رحمت ہے…
الرحمت
ٹرسٹ کے جانباز داعی… آج کل مسجد،مسجد اور گلی گلی جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت
دیتے پھرتے ہیں…یہ دیوانے اس اُمت کے محسن ہیں …ان کا ساتھ دیں…ان کی مہم کو
کامیاب بنائیں… اور آپ بھی ان کے ساتھ ’’قافلۂ جہاد‘‘ میں شامل ہو جائیں…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 504
ایمانی جھونکے
’’عید‘‘ کا دن خوشی اور فرحت کا دن…
کس
چیز پر خوشی؟… اور کس چیز پر فرحت؟…
’’عید‘‘ کا دن ’’تکبیر‘‘ اور ’’حمد‘‘ کا دن…
’’دوباتیں‘‘ جن کا دل میں بٹھانا ضروری ہے…
شیطان
کی تزیین اور دھوکہ…
’’سجین‘‘ والے…’’عِلیّین‘‘ والے…
ایک
صحابی رضی اللہ عنہ کا واقعہ…
’’عید‘‘ کا دن اور ایک غلط طرزِ عمل…
’’عید‘‘ کے دن کے دو کام…
’’رمضان المبارک‘‘ سے کیا سبق ملتا ہے؟…
’’رمضان‘‘ رحمت اور خوشی کا ذریعہ کس کیلئے؟…
’’جماعت‘‘ کا با برکت نصاب…
ان
تمام اہم نکات کو جاننے کےلئے ملاحظہ کیجئے… یہ تحریر
۲۸رمضان۱۴۳۶ھ؍15جولائی2015ء
ایمانی جھونکے
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
رمضان
المبارک جا رہا ہے…بس چار پانچ دن رہ گئے…اور عید کا دن آ رہا ہے تاکہ…اہل ایمان
خوشیاں منائیں…اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اسلام اور ہدایت کی نعمت عطاء
فرمائی … اُن کو ایمان اور جنت کے لئے چن لیا…اور اُن کو اپنے فضل سے کامیابی عطا
ء فرمائی…
﴿لِتُکَبِّرُوْااللہَ عَلیٰ مَا ھَدٰکُمْ﴾
تاکہ
تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت بیان کرو …اس نعمت کے شکرانے میں کہ اُس نے
تمہیں ہدایت عطاء فرمائی…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ
دو
باتیں دل میں بٹھانی ہیں…پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے…اور دوسری یہ کہ
ہدایت کی نعمت…یعنی اسلام کی توفیق ملنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے…
جس
کے دل میںیہ دونوں باتیں بیٹھ چکی ہیں …وہ شکر ادا کرے…لمبے لمبے سجدے کرے… اورجس
کے دل میں ابھی کچھ کھوٹ ہے…وہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا کہتا تو ہے مگر دل میں
اور بہت سے افراد کی…اور بہت سی چیزوں کی بڑائی بٹھا رکھی ہے…اور جو اسلام کو سب
سے بڑی نعمت کہتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں…تھوڑی سی مالی تنگی، تھوڑی سی جسمانی
آزمائش اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر گھبرا کر…اسلام کی نعمت کو بھول جاتا ہے… اس
نعمت پر شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے…وہ توبہ کرے،استغفار کرے،آنسو بہائے اور اپنے
دل کا علاج کرے…ارے! دنیا بھر کی ساری نعمتیں اسلام کے مقابلے میں خاک کے ایک ذرے
کے برابر بھی نہیں…اور دنیا بھر کی ساری طاقتیں اللہ تعالیٰ کے سامنے مچھر کے پر
کے برابر بھی نہیں…
دل
سے پڑھیں:
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ
شیطان
نے دنیا کی چیزوں کو…لوگوں کی نظر میں مزین، معزز اور خوشنما کر دیا ہے…طرح طرح کے
گھر اور بنگلے…طرح طرح کی گاڑیاں اور سواریاں…طرح طرح کے لباس اور ملبوسات… طرح
طرح کے رنگ برنگے لائف اسٹائل… لوگ انہی پر مر رہے ہیں…انہی پر جی رہے ہیں… اور
پھر موت کا جھٹکا آتا ہے تو…اندھیرا ہی اندھیرا چھا جاتا ہے…وہ جن کے پاس
’’اسلام‘‘ کی روشنی نہیں ہے…وہ مرتے ہی خوفناک اندھیروں میںڈوب جاتے ہیں…فرشتے اُن
کی ارواح کو لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے …اُن کی ارواح کو
وہاں سے دھکا دے کر گرا دیتے ہیں…اللہ، اللہ…اتنی اونچائی سے گرنے والوں کا حال
کیا ہو گا؟… وہ گرتے گرتے زمین پر آتے ہیں تو زمین بھی ان کو نیچے دھکا دے دیتی
ہے…کیونکہ زمین ان کے وجود سے تنگ ہوتی ہے…وہ بڑے حکمران ہوں یا بڑے بڑے سائنسدان…
وہ اربوں پتی سرمایہ دار ہوں یا سونے چاندی میں کھیلنے والے سیٹھ… وہ بڑے نامور
فنکار ہوں یا مشہور کھلاڑی یا اداکار… اسلام کی نعمت سے محروم مرے تو اب عذاب ہی
عذاب ہے… اور ایک ہی آواز ہے:
﴿فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا﴾
یہ
عذاب بھگتو اور یاد رکھو! اب ہم تمہارا عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے…اب اس عذاب سے
خلاصی کی کوئی صورت نہیں … گاڑیاں، بنگلے ، نوکر،ملازم اور سیلوٹ کرنے والے اب
تمہارے کسی کام کے نہیں…اور جو چیز کام کی تھی وہ تمہارے پاس موجود نہیں…پھر اُن
کی ارواح کو مقام ’’سِجِّیْن‘‘ پر لے جا کر قید کر دیا جائے گا…یہ ایک بڑا پتھر
ہے…جس سے ہر وقت دھواں نکلتا رہتا ہے…اور اس کے اردگرد گرمی ہے،آگ ہے اور عذاب
ہے… یا اللہ! آپ کی پناہ…یا اللہ! اسلام کی نعمت پر اربوں بار شکر…دل کی گہرائی
سے شکر…بے شمار شکر…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
اللہ
تعالیٰ نے زمین پر رزق اُتارا ہے… کسی کو زیادہ دیا اور کسی کو تھوڑا… جن کو اسلام
اور ایمان کی نعمت ملی…ان کو اگر رزق کم بھی ملا تو انہوں نے فکر نہیں کی…لوگوں کے
سامنے ہاتھ پھیلانے …اور کافروں کے سفارتخانوں پر لائن لگانے کی بجائے… انہوں نے
اپنی ضروریات کو محدود کر لیا … وہ اپنے اِسلام پر راضی رہے… تب ان کے فقر و فاقے
میں ایسا سکون رکھ دیا گیا جو بادشاہوں کو… خوابوں میں بھی نہیں ملتا…
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کو دیکھا کہ … فقرو فاقے
اور بیماری کی وجہ سے بہت سخت حالت میں ہیں…نہ مال تھا نہ صحت… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان کی ایسی خستہ حالت دیکھی تو
ایک وظیفہ ارشاد فرمایا کہ… یہ پڑھو گے تو حالت سدھر جائے گی… اُن انصاری کا ایمان
بہت بلند تھا … فرمانے لگے: میں ان دو چیزوں یعنی فقروفاقے اور بیماری کے بدلے بڑی
سے بڑی نعمت لینے کوبھی تیار نہیں…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی کہ…جو اپنی ایسی حالت پر
اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اس کا مقام بڑے بڑے اعمال کرنے والوں سے بھی بہت اونچا ہے…
آج
جس کے پاس عید کا نیا جوڑا نہ ہو وہ آہیں بھرتا ہے…جس کے پاس عید کا نیا جوتا نہ
ہو وہ آنسو بہاتا ہے…جس کے بچوں کو عید پر زیادہ عیش نہ ملے وہ شکوے برساتا ہے…یہ
نہیں سوچتا کہ… اصل نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہر غریب اور ہر امیر کو وافر عطاء
فرمائی ہیں…اسلام کی نعمت، ایمان کی نعمت، قرآن کی نعمت،رمضان کی نعمت… روزوں اور
تراویح کی نعمت… جہاد کی نعمت… ان نعمتوں کو ہر غریب سے غریب آدمی بھی حاصل کر
کے… آخرت کا بادشاہ بن سکتا ہے…
پھر
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
بھائیو!
اور بہنو! عید کا دن آ رہا ہے…خوشی اور مسکراہٹ کا دن…
اس
دن ایمان والوں کو دیکھ کر زمین بھی مسکراتی ہے…آسمان بھی مسکراتا ہے…فضائیں اور
ہوائیں بھی مسکراتی ہیں… ارے! زمین سے لے کر عرش تک جشن کا سماں ہوتا ہے کہ…ایمان
والوں کو پورے ایک مہینہ کے روزے نصیب ہوئے …ایک مہینہ کی تراویح نصیب ہوئی…ایک
مہینہ کی مقبول عبادت نصیب ہوئی… اور آج ان سب کو ’’انعام‘‘ ملنے والا ہے… سبحان
اللہ! سب سے بڑا انعام…جی ہاں! مغفرت کا انعام…اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو گی…
تقریب انعامات کا دن…اس سے بڑا جشن کیا ہو گا… اپنے محبوب رب کی رضا کا دن…اس سے
بڑی فرحت اور کیا ہو گی کہ اپنے رب کی تکبیر اٹھانے اور اپنے رب کا شکر ادا کرنے
کا دن…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
عید
کے دن پہلا کام یہ کہ… دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور زبان پر اس کی
’’تکبیر ‘‘ ہو…دنیا کی ہر طاقت کا رعب دل سے نکال دینا ہے… ارے! سائنس نے ایسی
کوئی ترقی نہیں کر لی کہ ہم نعوذباللہ اسے سجدے کرتے رہیں…جب بجلی نہیں تھی تو
لوگوں کے پاس روشنی کا انتظام آج کے زمانہ سے زیادہ اچھا تھا…کوئی اندھیرے میں
نہیں مرتا تھا…لوگ سفر کرتے تھے…اور بہت صحت مند تھے… وہ آج کے لوگوں کی طرح
پلاسٹک کی بوتلیں اور گیس کے سلنڈر نہیں تھے… منوں وزنی تلواریں ہاتھ کے پنکھے کی
طرح گھماتے تھے…اور بھاری کمانوں سے تیروں کی بوچھاڑ کرتے تھے… سائنس ہر زمانے میں
موجود رہی ہے…کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کا زمین پر خلیفہ ہے… اور اپنی ضرورت کے
مطابق سمندروں، پہاڑوں،ہواؤں اور عناصر کو اپنے کام میں لاتا رہتا ہے…آج کی
سائنس تو دہشت گردی ہے اور غلاظت …جس نے پورے خطۂ زمین کو زہریلی گیسوں سے بھر
دیا… اور انسان کو ایک بے وزن کھلونا بنا دیا … افسوس کہ مسلمانوں نے عمومی طور پر
جہاد کو چھوڑ رکھا ہے… اگر زمین پر جہاد ہوتا تو زمین کی حکومت عقلمند انسانوں کے
ہاتھ ہوتی جو…سائنس کو انسان کا غلام بناتے نہ کہ…انسان کو سائنس کا غلام…
اور
اب تو نعوذباللہ کئی بد عقل لوگ… دین اور قرآن کو بھی سائنس کا غلام بنانے پر تلے
ہیں… اپنے دل سے ان سب بے حیا اور بد کار کافروں کی عظمت نکالنی ہے…امریکہ اور
یورپ کی عظمت دل سے ختم کرنی ہے…یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے اڑتا ہوا غبار
بھی نہیں… اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور اللہ ایک ہے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
عید
کا دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ… اپنے دل کو … حقیقی نعمت یعنی اسلام کی یاد دلا کر
خوش کرنا ہے … عید کا دن رونے پیٹنے اور دنیا کے غموں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا
دن نہیں… یہ شکر اور خوشی کا دن ہے… اور شکر اور خوشی ان نعمتوں پر جو اصل اور
قیمتی نعمتیں ہیں… الحمد للہ! ہمارے پاس کلمہ طیبہ ہے… الحمد للہ! ہمیں رمضان
المبارک ملا…الحمد للہ! ہمیں روزوں کی توفیق ملی… الحمد للہ! ہمیں رمضان المبارک
میں جہاد میں نکلنے یا جہاد کی خدمت کی توفیق ملی… ہمیں زیادہ تلاوت،زیادہ صدقے
اور زیادہ عبادت کی توفیق ملی… ہمیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نبی ،قائد اور رہبر ملے…اللہ اکبر! یہ کتنی
بڑی نعمت ہے؟… دنیا بھر کے کافر ہزار دولت کے باوجود …حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم ہیں… آپ بتائیے! اس سے بڑی محرومی اور
کیا ہو سکتی ہے؟…حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کو جب حضور پاک صلی
اللہ علیہ وسلم مل گئے تو انہوں نے کیسی
عظیم قربانیاں دے کر…اس نعمت کی قدر کی… آج کوئی نظم پڑھ رہا تھا کہ …سیّدنا بلال
حبشی رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن مبارک میں دیکھا ہو گا تو… ان پر کیا
گزری ہو گی؟… یہ الفاظ سن کر دل تڑپنے لگا اور آنکھیں رونے لگیں… بلال نے تو بڑی
قربانیاں اٹھا کر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا… ہم نے کیا قربانی دی؟ … حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ
بھی نہ رہ سکے… محاذوں پر چلے گئے کہ کب شہادت ملے اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو… اور جدائی کا یہ بھاری زمانہ ختم
ہو … ہم جب چاہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں اور وہاں سے جواب
بھی آتا ہے… یہ کتنی بڑی نعمت ہے…
عید
کے دن ان بڑی بڑی عظیم نعمتوں کو یاد کر کے… اپنے دل کو خوشی پر اور اپنے ہونٹوں
کو مسکراہٹ پر لانا ہے…ہم لاکھ گناہگار سہی…مگر الحمد للہ مسلمان تو ہیں…حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی تو ہیں…یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور
احسان ہے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
رمضان
المبارک آیا…اور اب جا رہا ہے … مگر رمضان المبارک کا اختتام عید کی خوشی پر ہو
گا…بس اسی سے یہ سبق سیکھیں کہ…ہم بھی دنیا میں آئے اور ایک دن ضرور یہاں سے چلے
جائیں گے… کیا ہمارا اختتام بھی عید جیسی خوشی پر ہو گا؟ … جی ہاں! اگر ہم اپنی
پوری زندگی رمضان المبارک کی ترتیب پر گزاریں… خوشی خوشی شریعت کی پابندی برداشت
کریں…اور ان پابندیوں کو اپنے لئے نعمت سمجھیں… کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا…
کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا… ہر وقت نفس کی خواہشات پوری نہیں کرنی… ہروقت
لذتوں کی فکر میں نہیں رہنا… پس جو اس طرح پابندی والی زندگی گزارے گا…اس کی موت
کا دن،رمضان المبارک کے بعد والے دن کی طرح ہو گا… یعنی عید کا دن… خوشی کا دن…
پابندیاں اٹھ جانے اور عیش و عشرت ملنے کا دن… تب اس کی روح اس دن خوشیاں مناتی
ہوئی… تکبیر پڑھتی ہوئی مقام ’’عِلِّیِّیْن‘‘ کی طرف لے جائی جائے گی…یہ مقام
آسمانوں کے اوپر ہے …وہاں ایک کتاب رکھی ہوئی ہے…ہر مومن کی روح کو وہاں لے جا
کر… اس کتاب میں اس کا نام لکھ دیا جائے گا… اور پھر قیامت تک اس کے درجے کے
مطابق…کسی اچھی جگہ قیام کی ترتیب بن جائے گی…یا اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما
لیجئے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
رمضان
المبارک کی رات ہے…اس لئے اپنی آج کی مجلس بھی مختصر کرتے ہیں… بس آج کی آخری
بات یہ ہے کہ…تھوڑا سا سوچیں! رمضان المبارک تو سب پر آیا… کافروں پر بھی آیا
اور مسلمانوں پر بھی… اہلِ تقویٰ پر بھی آیا اور فاسقوں فاجروں پر بھی…مگر یہ
رمضان المبارک کس کے لئے…رحمت اور خوشی کا ذریعہ بنا؟… یقیناً مسلمانوں کے لئے اور
مسلمانوں میں سے بھی ان کے لئے جنہوں نے …رمضان المبارک کی قدر کی…اور اس میں
قربانی دی…روزہ کی حالت میں بھوک پیاس کی قربانی…راتوں کو جاگ کر نیند کی قربانی…
عبادت میں لگ کر راحت کی قربانی… صدقہ خیرات دے کر مال کی قربانی… جہاد میں نکل
کراور جہادی محنت میں لگ کر…جان و دل کی قربانی… جنہوں نے قربانی دی رمضان ان کا
ہو گیا…اور ان کے نامہ اعمال کی روشنی بن گیا… اور ان کے لئے آخرت میںمحفوظ ہو
گیا …مگر جنہوں نے نہ رمضان المبارک کو مانا…نہ اُس میں روزہ اور عبادت کی قربانی
دی… ان کے لئے رمضان جیسی نعمت بھی…کسی کام نہ آئی… بس اسی طرح ہم میں سے ہر ایک
کے پاس زندگی کی نعمت موجود ہے…جو اس میں قربانی دے گا وہ اس زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے پا لے گا… اور جو اس زندگی کی نعمت کو…فضول خواہشات میں ضائع کر دے گا…وہ مرتے
ہی زندگی سے اور ہر طرح کے آرام سے محروم ہو جائے گا…
الحمد
للہ! ہماری جماعت کے پاس…زندگی کو زندگی بنانے کا بہترین نصاب موجود ہے…
کلمہ
طیبہ…اقامت صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کی محنت…
یہ
ایک جامع نصاب ہے… یہ کامیابی والا عقیدہ،کامیابی والا ماحول…اور کامیابی والا
راستہ دیتا ہے…آئیے! اس عظیم محنت میں شامل ہو جائیے…تاکہ…زندگی کی انمول نعمت…
ہمارے لئے واقعی ہمیشہ کی نعمت بن جائے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 505
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ
اللہ
تعالیٰ سب سے بڑے… اَلعلی، اَلعظیم
انسان
بہت چھوٹا، کمزور، عاجز اور ظلم و جہالت کا پتلا…
اس
کے باوجود انسان اکڑتا ہے…
ساری
خوبیاں خود کو کمزور سمجھنے والے کے حصے میں…
خود
کو بڑا اور با کمال سمجھنے والا محروم…
مَنْ
عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرزِ عمل
تکبر،
نا شکری اور حرص کیوں پیدا ہوتے ہیں؟…
اور
ان کے مفاسد…
’’ذرائع‘‘ کی قدر و حفاظت کرنا ایمان والوں کی صفت…
’’معرفتِ نفس‘‘ کے مختلف گوشوں سے پردہ اٹھاتی
ایک
مفیدِ عام تحریر…
۱۳شوال۱۴۳۶ھ؍29جولائی2015ء
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ
اللہ
تعالیٰ سب سے بڑے ہیں…اللہ اکبر کبیرا…زمین سے بڑا آسمان ہے…اور سات آسمانوں میں
ہر دوسرا آسمان پہلے آسمان سے بڑا ہے…پھر ’’کرسی‘‘ ان سات آسمانوں سے بڑی ہے…
﴿وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾
اور
پھر اللہ تعالیٰ کا عرش…کرسی سے بھی بڑا ہے…اس کی صفت ’’عظیم ‘‘ ہے…’’العرش
العظیم‘‘ اور اللہ تعالیٰ عرش سے بھی بڑا ہے،سب سے عظیم ،اعظم
،الکبیر،العلی،العظیم …اور عظمت سے بھی بڑا مقام ’’جلال ‘‘ کا ہے…اور اللہ تعالیٰ
جلال والا ہے ذوالجلال والاکرام…
آئیے!
ہم پکارتے ہیں…
یَا
عَلِیُّ،یَا عَظِیْمُ ، یَا کَبِیْرُ، یَا ذَالْجَلَالِ
وَالْاِکْرَامِ…اِغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا
انسان
بہت چھوٹا ہے…بہت کمزور،بہت ضعیف،بہت عاجز…
﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾
انسان جہالت کے اندھیرے
اور ظلم کی تاریکی میں پڑا ہے…اور ظلم بھی سب سے زیادہ اپنی جان پر کرتا ہے…
﴿اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا﴾
انسان
گناہوں میں لتھڑا ہوا،غلاظت سے بھرا ہوااور فناء سے لرزتا ہوا اپنی زندگی گزارتا
ہے…
مگر
تعجب ہے ،پھر بھی فخر کرتا ہے،اکڑتا ہے ، اتراتا ہے اور میں میں کرتا ہے…
﴿ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ﴾
کاغذ
صاف اور خالی ہو تو اس پر ’’قرآن مجید‘‘ بھی لکھا جا سکتا ہے…برتن جتنا سستا کیوں
نہ ہو لیکن خالی ہو اور پاک ہو تو اس میں زمزم بھی بھرا جا سکتا ہے…اور شہد بھی…
پس
جو انسان خود کو کمزور سمجھے،عاجز سمجھے،بے کمال سمجھے،فانی سمجھے،جاہل سمجھے…وہی
اللہ تعالیٰ سے سب کچھ پاتا ہے…اسی کو روشنی ملتی ہے،قوت ملتی ہے،کمال ملتا
ہے،بقاء ملتی ہے،علم ملتا ہے … کیونکہ اس نے اپنے نفس اور دل کو…اپنے مالک کے لئے
خالی کیا…مالک نے سب کچھ بھر دیا ، سب کچھ عطاء فرما دیا…مگر جو ہر وقت اپنی
خوبیاں سوچے،اپنے آپ کو باکمال سمجھے ،اپنی طاقت پر نظر کرے…اپنے حسن اور عقل پر
نظر کرے…اپنی صلاحیتوں پرفخر کرے کہ میں ایسا ہوں…میں ویسا ہوں…میں فلاں سے اچھا
ہوں… میں عقل والا سمجھدار ہوں …میں بہت مقبول ہوں… میں بہت ذہین اور باصلاحیت
ہوں…میں نیک ہوں ، متقی ہوں… تو ایسے آدمی کو…کچھ بھی نہیں ملتا… کچھ بھی نہیں…
اس نے اپنے دل میں اپنی ذات کو بھر رکھا ہے…اس نے اپنے نفس میں… اپنی بڑائی کو بھر
رکھا ہے… ایسے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں آتی… اللہ تعالیٰ ایک ہے … وہ شرک
اور شرکت کو گوارہ نہیں فرماتا…اس لئے ایسے افراد کو نہ روشنی ملتی ہے،نہ نور ملتا
ہے،نہ نفع والا علم ملتا ہے… اور نہ وہ عزت…جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ہے… اس
لئے بہت عجیب بات فرمائی…
مَنْ
عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
جس
نے اپنے نفس کو پہچان لیا…اس نے اپنے رب کو پہچان لیا…
یہ
جملہ ’’حدیث ‘‘ ہے یا نہیں؟…علماء نے بڑی بحث فرمائی ہے… اکثر اہل علم کے نزدیک اس
کا حدیث ہونا ثابت نہیں… مگر سب کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ…یہ حدیث ہے یا اسلاف
میں سے کسی کا قول…مگر یہ ہے بڑے پتے کی بات،بڑے راز کی بات…اور بہت حکمت والی
بات… جس نے خود کو پہچان لیا کہ…میں کچھ بھی نہیں…وہی اپنے رب کو پہچانے گا کہ وہ
سب کچھ ہے…انسان سجدے میں جا کر بھی…یہ سوچے کہ میں ایسا ہوں،میرے اندر یہ کمال
ہے…میرا یہ مقام ہے…تو ایسے سجدے سے اس نے کیا پایا؟…
ایک
طرف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین تھے… جہاد جیسے عظیم عمل میں
مصروف…ایک سخت جنگ میں مشغول…اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت سے محظوظ… اتنے سارے فضائل جمع ہوں تو
کچھ نہ کچھ نظر اپنی ذات پر چلی جاتی ہے… مگر وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین تھے…خندق کھودتے وقت اشعار
پڑھ رہے تھے کہ…یا اللہ! اگر آپ کا فضل نہ ہوتا تو نہ ہم ہدایت پاتے…نہ نماز
پڑھتے نہ سجدے کر سکتے… آپ کا ہی خالص احسان ہے کہ … ہمیں ہدایت دی…ہمیں نماز کی
توفیق دی… ہمیں جہاد میں لگایا… ہمیں سجدے کا شرف بخشا… ہمیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم عطاء فرمائے… یعنی ہمارا کوئی کمال نہیں… ہم میں
جو خوبی بھی ہے یہ سب آپ نے عطاء فرمائی ہے… دیکھئے! یہ ہے اپنے نفس کی پہچان…
اور اس کے ذریعہ اپنے رب کی پہچان…حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھایا کہ… اپنے نفس کو کالا اندھیرا سمجھو
اور اس میں جو خیر ہے اسے اپنے رب کا نور سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کالی سلیٹ
پر…اپنے نور اور روشنی سے فلاں فلاں خیر لکھ دی ہے…جو اپنے نفس کو پہچان لے کہ میں
بہت کمزور ہوں…صرف پیشاب رک جائے تو میری ساری فوں فاں اور شان ختم ہو کر… نیم ذبح
شدہ جانور کی طرح تڑپنے لگتی ہے… وہی آدمی پہچان سکتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ کتنا
طاقت والا ہے… ہم تو تیز ہوا میں اپنے سر کی ٹوپی نہیں تھام سکتے …جبکہ اللہ
تعالیٰ نے اتنے بڑے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے تھام رکھا ہے… پس جو اپنے آپ کو
ناقص سمجھے، کمزور سمجھے،عاجز سمجھے،خالی سمجھے… وہی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ
تعالیٰ کی ذات کو پہچان سکتا ہے…شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ…ہم اپنی ذات کو
نہ پہچانیں…یعنی مٹی، گارے اور حقیر نطفے سے بنا ہوا انسان…تکبر میں مبتلا ہو
جائے…کسی انسان کا تکبر میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ…اس بے وقوف انسان نے
خود کو نہیں پہچانا…کیونکہ تکبر کا معنی ہے بڑائی … اور انسان میں ’’بڑائی‘‘ والی
کوئی چیز ہے ہی نہیں… کس قدر دھوکے میں ہے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال
میں سے … چند افراد کو کھانا کھلا کر خود کو نعوذ باللہ رازق اور سخی سمجھنے لگے
…جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے چند الفاظ سیکھ کر خود کو عالم و علامہ سمجھنے
لگے…جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تھوڑی سی شان کو دیکھ کر…خود کو عزت اور عبادت کے
لائق سمجھنے لگے…اسی لئے فرمایا… جہنم کی آگ کو سب سے پہلے…ریاکار عالم ،ریاکار
شہید اور ریاکار سخی کے ذریعے بھڑکایا جائے گا…ان لوگوں نے اپنے نفس کو نہ پہچانا
اور اپنی خوبیوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر…اس کے بدلے لوگوں سے اکرام چاہا تو…باوجود
اتنے بڑے اعمال کے برباد ہو گئے…اور فرمایا کہ…
جو
چاہے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں تو وہ ابھی سے جہنم میں اپنا ٹھکانا پکڑ لے…
ہاں!
بے شک… جو شخص اپنی ذات کو پہچانتا ہو…وہ کبھی بھی خود کو اس لائق نہیں سمجھے گا
کہ لوگ اس کی تعظیم میں کھڑے ہوں…بلکہ وہ چاہے گا کہ وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی
صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہوں…کیونکہ وہی تعظیم اور بندگی کا حقدار ہے…ہم میں
جو کچھ اچھا نظر آ رہا ہے سب اسی کا عطاء فرمودہ ہے… وہ جب چاہے چھین لے اور جب
چاہے اس اچھائی کو بڑھا دے…
آپ
نے کبھی غور کیا کہ… انسان میں نا شکری کیوں پیدا ہوتی ہے؟ وجہ بالکل سیدھی ہے کہ
وہ جب خود کو نہیں پہچانتا کہ… میں تو بندہ ہوں ، غلام ہوں، فانی ہوں… تو وہ خود
کو…طرح طرح کی چیزوں کا حقدار سمجھنے لگتا ہے کہ… مجھے یہ بھی ملے اور وہ بھی ملے
…پھر جب اس کے نفس کی یہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ…شکوے کرتا ہے،ناشکری کرتا
ہے،ناقدری کرتا ہے…اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے جھگڑے کرتا ہے…
یہ
اگر خود کو پہچان لے کہ…میں کچھ بھی نہیں ، کسی چیز کا مستحق نہیں تو یہ فوراً
اللہ تعالیٰ کو پہچان لے گا کہ… وہی حاجت روا ہے،فضل والا ہے،کرم والا ہے کہ اب تک
مجھے اتنا کچھ دیا… میرے اتنے گناہوں کے باوجود مجھے کھلایا، پلایا اور چھپایا… تب
اسے شکر نصیب ہو گا…اور شکر نعمتوں کی چابی اور نعمتوں کا محافظ ہے…آپ نے کبھی
غور کیا کہ …انسان میں حرص کیوں پیدا ہوتی ہے؟ …وجہ صاف ہے کہ انسان اپنی ذات کو
نہیں پہچانتا کہ میں ایک فانی زندگی کے چند سانسوں کے لئے دنیا میں آیا ہوں…اللہ
تعالیٰ نے مجھے یہاں جو نعمتیں عطاء فرمائی ہیں وہ آخرت کی تیاری کے لئے ہیں… اس
کی بجائے وہ یہ سوچتا ہے کہ …میرے اندر بڑے کمالات ہیں،بڑی عقل ہے… میری زندگی بہت
لمبی ہے… میری بڑی اونچی قسمت ہے کہ میرے پاس یہ یہ چیز آ گئی ہے…اب مجھے اور
آگے بڑھنا ہے… اور زیادہ سے زیادہ ان چیزوں کو حاصل کرنا ہے… تب وہ مزید کی حرص
میں مبتلا ہو کر ایسا جہنمی مزاج انسان بن جاتا ہے کہ…مزید کی خواہش اس میں بڑھتی
ہی چلی جاتی ہے… آپ آج دنیا کے کسی ارب پتی کے پاس جا بیٹھیں …وہ کوئی نئی چیز
بنانے یا خریدنے کی فکر میں اتنا پریشان ہو گا… جتنا کوئی غریب آدمی اپنی اکلوتی
جھونپڑی کے لئے بھی نہیں ہوتا… کیونکہ حرص جب آ جائے تو پھر قبر کی مٹی ہی اسے
ختم کر سکتی ہے …حکایت لکھی ہے کہ…ایک آدمی کے کھیت میں ایک جنگلی مرغی اڑ کر آ
گئی…اس نے پکڑ لی اور گھر لے آیا… وہ مرغی روزانہ سونے کا ایک انڈہ دیتی تھی… وہ
اگر اپنے آپ کو پہچانتا تو اسی انڈے کو…اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ کر شکر کرتا…مگر
اس میں حرص جاگ اٹھی … مجھے اور زیادہ مالدار ہونا چاہیے… اب روزانہ ایک انڈے پر
صبر اس پر بھاری پڑا… اور اس نے زیادہ انڈوں کی لالچ میں مرغی ذبح کر دی…تب اس کے
پیٹ سے ایک انڈہ بھی نہ نکلا…اور اس طرح وہ روزانہ کے رزق سے بھی محروم ہو
گیا…مشہور مسلمان بادشاہ …اور عالم اسلام کے قابل فخر ماہر فلکیات ’’الغ بیگ‘‘ نے
اپنے بیٹے کو بڑا مال اور اختیارات دے رکھے تھے …بیٹا نالائق نکلا… اپنی ذات کو نہ
پہچاننے والا …اس میں ’’مزید‘‘ کی حرص پیدا ہو گئی…اور باپ کا وجود اسے بھاری لگنے
لگا…حالانکہ اس کے پاس جو کچھ تھا اس کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کے باپ کو بنایا
تھا…ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ’’ذرائع‘‘
اور راستوں کی قدر کرتے ہیں… جس طرح ہمیں پانی اگرچہ زمین سے آتاہے… مگر پائپ
،ٹوٹیاں وغیرہ اس پانی کو ہم تک پہچانے کا ذریعہ ہیں تو ہم …ان کی قدر اور حفاظت
کرتے ہیں…اور یہ کہہ کر انہیں نہیں پھینک اور توڑ دیتے کہ تم کونسا ہمیں پانی دیتی
ہو؟… پانی تو ہمیں زمین سے آتا ہے… شیطان کی ایک بڑی صفت جو قرآن مجید نے بیان
فرمائی ہے …وہ اپنے ماننے والوں میں ہر وقت خوف پھیلاتا ہے…اللہ تعالیٰ کا نہیں
مخلوق کا خوف …اور پھر اس خوف کے ذریعہ وہ ان سے بڑے بڑے گناہ کرواتا ہے… وہ حریص
آدمی میں یہ خوف ڈالتا ہے کہ …دیکھو! جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں وہ تم سے چھن نہ
جائیں… اور فلاں فلاں آدمی تم سے تمہاری نعمتیں چھین سکتا ہے… پس ان افراد کو ختم
کر دو، ہٹا دو، ٹھکانے لگا دو تاکہ تمہاری نعمتیں سدا بہار ہو جائیں… حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ حرص سے بچو، اسی کی وجہ سے پہلے
لوگوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور حرمتوں کو پامال کیا …الغ بیگ کے بیٹے
کے دل میں یہ خوف آیا کہ …آج تو ٹھیک ہے لیکن اگر کل میرے باپ نے مجھے معزول کر
دیا …تو میرا کیا بنے گا… اسی خوف میں اس نے اپنے محسن باپ کو قتل کر دیا… امت
مسلمہ کو ایک قابل فخر رہنما سے محروم کر دیا…اور خود حکمران بن بیٹھا… مگر چھ ماہ
میں مارا گیا…دنیا بھی گئی اور آخرت بھی برباد…
اس
نے خود کو نہ پہچانا…اپنے رب کو نہ پہچانا …اپنی عقل کو اپنا رہنما بنایا اور اپنا
اور مسلمانوں کا اتنا بڑا خسارہ کر بیٹھا… اگر وہ معزولی کے خوف کی بجائے دل میں
یہ خوف لاتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت دے سکتے ہیں تو کبھی بھی یہ گناہ نہ کرتا…
اس لئے ضروری ہے کہ …ہم
اپنے نفس کی کمزوری ،عاجزی،تاریکی، فنا اور بے سمجھی پر…غور کریں…ہم اپنی خوبیوں
کواپنی محنت اور اپنی کمائی نہ سمجھیں… ہم اس بات کا یقین دل میں بٹھائیں کہ…ہم نے
جلد مر جانا ہے… ہم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں غور کریں کہ…کیسی کامل مکمل
اور عظیم ذات ہے…پھر اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں غور کریں اور اپنے اندر کی
ایک ایک تاریکی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھیک مانگیں…
دل
کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُوراً
بدن
کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی بَدَنِی نُوْراً
آنکھوں
کے لئے… اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی بَصَرِی نُوْراً
اسی
طرح مانگتے جائیں اور پاتے جائیں اور جب بھی شیطان بھٹکانے لگے… اللہ تعالیٰ کے
اسماء الحسنیٰ اور کلمہ طیبہ کے قلعہ میں آ جایا کریں کہ ظالم تو جو کچھ مجھے
سمجھا رہا ہے وہ غلط ہے…سچ یہ ہے کہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
اللہ
تعالیٰ ہی سب کچھ ہے…میں کچھ بھی نہیں… اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے… اور کوئی نہیں …
اللہ تعالیٰ ہی قادر اور باقی ہے… باقی سب کچھ فانی ہے…
الحمد
للہ…رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بہت کرم فرمایا… اتنے گرم اور مشکل
حالات میں ایسی دستگیری فرمائی کہ…تمام ساتھی دل و جان سے مہم میں لگے رہے…اس سے
اُمید ہوئی کہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رحمت ’’جماعت‘‘ کو نصیب ہے…اب
ہم نے اس نعمت کی کس طرح قدر اور حفاظت کرنی ہے… اس کے لئے ’’رنگ و نور‘‘ میں چند
اسباق کا یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے…آج کا پہلا سبق ’’معرفتِ نفس‘‘ آپ نے پڑھ
لیا…اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے… اگلا سبق اس بارے
میں ہے کہ …کام کی مضبوطی اور ترقی کے لئے اب انفرادی ملاقاتوں …اور اجتماعات کی
ضرورت ہے… ہماری دعوتی ملاقات کیسی ہو؟ … ہمارے دعوتی اجتماعات کیسے ہوں؟…اس کا
بیان اگلے ہفتے ان شاء اللہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 507
ایک مثبت اقدام
عقیدے
پر مشتمل ایک مسنون دعاء…
اس
دعاء کی فضیلت ، اہمیت اور ضرورت…
مشکل
و پریشان کن حالات اور یہ دعاء…
اللہ،
اللہ کے ورد کے فوائد…
گناہ
اور نیکی کے بارے میں ایک اہم نکتہ…
واجب
قربانی نہیں لیں گے…
نفل
قربانی مہم…
یہ
سب کچھ جاننے کیلئے ملاحظہ ہو… یہ تحریر…
۴ذوالقعدہ۱۴۳۶ھ؍19اگست
2015ء
ایک مثبت اقدام
اللہ
تعالیٰ ہی ہمارے ’’ربّ‘‘ ہیں…اللہ تعالیٰ کے سوا ہم کسی کو ’’ربّ‘‘ نہیں
مانتے…کوئی فرعون آئے یا دجّال…کوئی سائنسی طاقت آئے یا عسکری… اللہ تعالیٰ کے
سوا کسی کو نہیں مانتے… نہ موت کے ڈر سے، نہ مال کی لالچ میں … ہم زندہ رہیں یا مر
جائیں…مالدار ہوں یا بھوکے مریں… تخت پر بیٹھیں یا تختے پر لٹکیں… خوشحال ہوں یا
تنگدست… لوگ ہماری عزت کریں یا ہمیں ستائیں… ہر حال میں ہمارا معبود،ہمارا مالک،
ہمارا ’’ربّ‘‘ اللہ تعالیٰ ہے…
ہم
اپنے اس عقیدے پر خوش ہیں، راضی ہیں، سعادت مند ہیں…اور بے حد،بے حد شکرگزار ہیں…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا
اسلام
ہمارا دین ہے… اور کسی دین کو ہم نہیں مانتے… خواہ وہ کتنی چمک دکھائے، کتنے شعبدے
اٹھائے… لالچ اور حرص کے جتنے جال بچھائے…اسلام، اسلام اور صرف اسلام…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا
حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں، رسول ہیں ، قائد ہیں، رہنما ہیں…
کامیابی صرف ان کی اتباع میں ہے… اور ان کی تشریف آوری کے بعد… ان کے سوا کسی کے
دامن سے وابستہ ہونے میں کامیابی نہیں… ہم ان کی رسالت،نبوت اور ختم نبوت پر ایمان
لانا… اپنے لئے فرض، لازم اور بے حد لازم سمجھتے ہیں… اور اپنے اس عقیدے پر راضی
ہیں…اور اس پر اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار ہیں…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
یا
اللہ! ہمیں اسی عقیدے پر زندہ رکھ… اسی پر موت دے… اسی پر ہمیں ایسا راضی فرما کہ
اس رضا کے بدلے میں آپ کی رضا ملے…اور اس عقیدے پر ہر حال میں اور ہر لمحے ہمیں
استقامت عطاء فرما…
یہ
مبارک دعاء…جو ہمارے لازمی عقیدے پر مشتمل ہے… یہ جنت میں جانے کا ٹکٹ ہے… فرمایا:
جو اس عقیدے پر دل سے راضی ہو گا… اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لازم فرمایا ہے کہ… اسے
قیامت کے دن راضی فرما دیں گے… اور جو صبح شام تین تین بار یقین سے یہ دعاء پڑھے
گا… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اس
کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جائیں گے…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
ایک
تابعی بزرگ کا فرمان ہے کہ… جو یہ دعاء پڑھے ظالم حکمران اس کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتے…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا وَّ
بِالْقُرْآنِ حَکَمًا وَّ اِمَامًا
آج
بڑی سخت محنت جاری ہے…یہ جو ہر وقت گندے منہ اٹھا کر…اور ناپاک قلم چلا کر کافروں
کی ترقی کے قصیدے پڑھتے ہیں … صرف اس لئے کہ …ہمارا دل اسلام پر راضی نہ رہے… ہم
احساس کمتری کا شکار ہو جائیں… اور دنیا کی سب سے بڑی دولت پا کر بھی خود کو
محروم، فرسودہ، غیر ترقی یافتہ، ذلیل اور رسوا سمجھیں… استغفر اللہ، استغفر اللہ،
استغفر اللہ…
ارے
بھائیو! جس کو یہ مبارک عقیدہ نصیب ہو گیا… اور اس کا دل اس پر راضی ہو گیا تو
دنیا کے تمام ارب پتی کافر اس کے جوتے پر لگی ہوئی گندگی کے برابر بھی نہیں… باقی
رہے دنیا کے دکھ، سکھ… یہاں کے مسائل اور پریشانیاں… یہاں کے غم اور محرومیاں تو
یاد رکھیں اور یقین کریں کہ…ان سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے… دنیا میں سب سے زیادہ
خود کشی دنیا کے سب سے مالدار ملک جاپان کے لوگ کرتے ہیں… یا اللہ! کس طرح آپ کا
شکر ادا کریں کہ ایسی عظیم، ایسی شاندار اور ایسی قیمتی ترین نعمت عطاء فرمائی…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
ایک
معذرت
گذشتہ
سے پیوستہ کالم میں عرض کیا تھا کہ … اگلے ’’رنگ و نور‘‘ میں جماعت کے لئے
اجتماعات کی ایک جامع ترتیب پیش کی جائے گی…مگر سانحہ ہوگیا…وہ بھی معمولی
نہیں…حضرت امیر المومنین قدس سرہ کا سانحہ… اُمید نہیں تھی کہ ہاتھ دوبارہ قلم
اٹھانے کی طاقت پائیں گے…مگر اللہ تعالیٰ کے مبارک نام اور اس دعاء نے عجیب کام
کیا…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
الحمد
للہ! ہوش واپس آیا…حضرت اقدس امیر المومنین قدس سرہ کے بارے میں کالم لکھنے کی
توفیق ملی…خود کو اور رفقاء کو تسلی دینے کا بھی سامان ہوا… راضی ہونے کا معنٰی
ہوتا ہے… ایسا کافی ہونا کہ کوئی کمی محسوس نہ ہو… راضی ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ…
اس کے ہوتے ہوئے اور کچھ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
تب
ارادہ ہوا کہ…یہ دعاء تو الحمد للہ ہم پہلے بھی پابندی سے پڑھتے تھے… مگر ایسے
مواقع پر اس کی اتنی زبردست تاثیر ہو گی… یہ اب انکشاف ہوا…تو آپ سب کو اس کی یاد
دہانی کرا دی جائے … انسان کی زندگی میں…ہوش و حواس اڑانے والے، عزائم کی عمارت
گرانے والے…مایوسیوں کے گڑھوں میں گرانے والے…اور ایمان کو کمزور کرنے والے حوادث،
واقعات اور گناہ آتے رہتے ہیں… تب انسان اصل نعمت کی حفاظت میں لگ جائے تو وہ بچ
جاتا ہے…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
اور
اللّٰہ، اللّٰہ کا ورد… یا اللّٰہ ، یا اللّٰہ…
بے
شک ذکر اللہ سے دلوں کو سکون ملتا ہے … مگر ذکر بہت کثیر ہو…بہت زیادہ … یہ جو
ہمارے ہاں ’’دورہ تربیہ‘‘ میں…روزانہ پندرہ ہزار بار ’’ اللہ اللہ‘‘ کا ورد ہے… اس
کی بہت عجیب تاثیر ہے… دل والے جانتے ہیں… ایمان والے سمجھتے ہیں کہ…اس میں روحانی
عمل کا ایک خاص ’’چلہ‘‘ پورا ہو جاتا ہے … اس عمل کے دینی، روحانی اور اخروی فوائد
اپنی جگہ… دنیا میں بھی بڑے بڑے فوائد ہیں… ان فوائد کا تذکرہ اور مذاکرہ اس لئے
نہیں کیا جاتا کہ…نیت میں کمزوری نہ آئے… ورنہ جو شخص دورہ تربیہ میں …اہتمام سے
پندرہ ہزار کا یہ ورد روزانہ پورا کرے…وہ اگر بعد میں روزانہ تین سو یا ایک سو بار
’’یا اللہ ‘‘ کا ورد کر لیا کرے تو اسے… پوری زندگی مال اور رزق کی تنگی نہیں
آتی… اس کی دعاء قبول ہوتی ہے…وہ کسی کو دم کرے تواس میں تاثیر ہوتی ہے…
کیونکہ
اللہ ہی آسمان و زمین کا نور ہے…
﴿اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ﴾
جب
نور آ جائے تو پھر اندھیروں کا کیا کام؟ …روشنی کسے کہتے ہیں؟ اور اندھیرے کا کیا
مطلب ہے؟ اگر آپ یہ جانتے ہوں تو … آپ وہ نکتہ سمجھ گئے ہوں گے جو ابھی عرض کیا
ہے…آج بھی ارادہ تھا کہ ’’اجتماعات‘‘ کی ترتیب آ جائے… مگر ’’قربانی‘‘ کا ضروری
معاملہ سامنے آ گیا ہے … اس لئے معذرت کے ساتھ آج وہ عرض کیا جاتا
ہے…’’اجتماعات‘‘ اِن شاء اللہ اگلے ہفتے…
ایک
اہم نکتہ
بعض
گناہ جو دیکھنے میں زیادہ بڑے نہیں لگتے مگر ان میں… ایسی نحوست ہوتی ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی پناہ… ان گناہوں کی موجودگی میں انسان کے بڑ ے بڑے نیک اعمال قبول نہیں
ہوتے… ایسے گناہ کئی ہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب سے بچائے… مثال کے طور پر صرف ایک
گناہ دیکھ لیں …وہ ہے ’’خیانت‘‘ خصوصاً اجتماعی اموال میں ’’خیانت‘‘… یہ ایسا ظالم
گناہ ہے جو انسان کے فرائض ،نیکیوں اور محنتوں کو…بری طرح سے کھا جاتا ہے… قرآن و
حدیث میں اس پر محکم دلائل موجود ہیں…اسی طرح بعض نیکیاں ایسی ہیں …جو بظاہر زیادہ
بڑی نہیں لگتیں مگر ان میں ایسی برکت اور تاثیر ہے کہ…وہ بڑے بڑے خطرناک گناہوں کو
مٹا دیتی ہیں… ایسی نیکیاں کئی ہیں … اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب کی توفیق عطاء
فرمائے… مثال کے طور پر ایک نیکی دیکھ لیں…وہ ہے ’’کھانا کھلانا‘‘… یہ ایسی بابرکت
نیکی ہے…جو گناہوں کے زہر کو مٹاتی ہے…اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتی
ہے… شرط یہ کہ کھانا حلال مال سے کھلایا جائے…پھر اس نیکی کے درجے ہیں… کس کو
کھانا کھلانے کا اجروثواب کتنا ہے؟… بہت وسیع مطالعہ کے بعد ترتیب سے فہرست بنائی
جا سکتی ہے…یاد رکھیں! ’’کھانے‘‘ کے لفظ میں کھانا اور پینا دونوں شامل ہیں… گلی کے
کتے سے لے کر… چرند، پرند حیوانات تک اس میں شامل ہیں… ایک پیاسے اور بے بس کتے کو
پانی پلانے پر ایک فاحشہ عورت بخشی گئی…والدین کو کھانا کھلانا کبیرہ گناہوں کے
برے اثرات کو بھی دھو دیتا ہے… حضرات مجاہدین کو اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو
کھلانے کا اجر کیا ہو گا؟… بہت مفصل موضوع ہے… بس اشارہ عرض کر دیا…
واجب
قربانی نہیں لیں گے
صاحب
استطاعت مسلمانوں پر عید الاضحی کی قربانی واجب ہے…کئی سال سے یہ ترتیب تھی کہ ہم
یہ قربانیاں جمع کرتے تھے اور سخت محنت کر کے ان کو ادا کرتے اور بہت اچھی جگہوں
پر تقسیم کرتے تھے…
اس
مہم کے ان گنت فوائد تھے…حضرات شہداء کرامؒ کے اہل خانہ سے لیکر محاذوں تک… مدارس
سے لے کر مراکز تک… قربانی کا گوشت پہنچایا جاتا…مسلمانوں کو قربانی کے اجر کے
ساتھ ساتھ دعوتِ مجاہدین اور دعوتِ صلحاء و ابرار کا بھی اجر ملتا… مگر اس سال
استخارہ اور طویل مشاورت کے بعد یہ طے کیا ہے کہ… واجب قربانی جمع نہیں کی جائے
گی…وجہ یہ ہے کہ…یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے…قربانی کا وقت محدود ہوتا ہے… پاکستان
اور افغانستان میں چاند کا جھگڑا رہتا ہے… تمام ساتھی جماعت کی فرض محنت میں مشغول
ہوتے ہیں…ان حالات میں ان تمام واجب قربانیوں کو ادا کرنا…ان کی ادائیگی کی نگرانی
کرنا …اور ہر قربانی کو وقت کے اندر ذبح کرنا…بہت مشکل کام ہے… بالفرض ہم سات ہزار
قربانیاں جمع کرتے ہیں…اور تمام قربانیاں بروقت ادا کرتے ہیں…مگر درمیان کے کسی
فرد کی غفلت کی وجہ سے… کوئی دوچار قربانیاں رہ جاتی ہیں تو… اس کا وبال بڑا
خطرناک ہے… ہم نے ایک مسلمان کے واجب کو ضائع کر دیا…چونکہ سب قربانیاں اپنے سامنے
نہیں کی جا سکتیں… محاذوں وغیرہ کی طرف کچھ افراد کو وکیل بنا کر رقم دی جاتی ہے…
ان افراد سے بھی کوتاہی کا امکان رہتا ہے …بہرحال ایسا کام جو اللہ تعالیٰ نے ہم
پر لازم نہ فرمایا ہو…اور ہم اسے تطوعاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خود کرتے
ہوں…ایسے کام میں اگر گناہ کا خطرہ ہو تو اسے فوراً چھوڑ دینا چاہیے… ان تمام
وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے…اس سال جماعتی نظام کے تحت ایک بھی واجب قربانی جمع
نہیں کی جائے گی…جماعت کے اہل شوریٰ نے اللہ تعالیٰ کی رضا… اور اللہ تعالیٰ کے
خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
اگر
انتظام ہو گیا
عید
الاضحی کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ یہ فیصلہ ایک سال کے لئے ہے یا
ہمیشہ کے لئے…
اگر
کچا گوشت محفوظ کرنے کا پلانٹ اور… ایک بڑا مذبح خانہ مرکز کے قریب بن جائے…اور
تمام قربانیاں حضرات علماء کرام کی نگرانی میں… ایک ہی جگہ ذبح ہوں…اور پھر گوشت
کو محفوظ کر کے فوراً پورے ملک اور محاذوں تک پہنچانے کا انتظام …اللہ تعالیٰ کی
طرف سے میسر آ گیا تو ان شاء اللہ…یہ بابرکت سلسلہ دوبارہ شروع کیا جا سکتا
ہے…لیکن اگر ایسا انتظام نہ ہو سکا تو واجب قربانی جمع نہ کرنے کی ترتیب برقرار
رہے گی ان شاء اللہ…
نفل
قربانی ، قرب کا ذریعہ
الحمد
للہ بہت سے مسلمان عید کے موقع پر واجب قربانی کے علاوہ ’’ نفل قربانی‘‘ بھی کرتے
ہیں… کراچی کے بعض اہل ثروت کو ہر سال پانچ سو سے ایک ہزار تک قربانی کی توفیق
ملتی ہے … بعض غریب مسلمانوں کو بھی دیکھا کہ…قربانی کی بڑی فضیلت اور قربانی کے
مبارک ایام میں نیکی کمانے کے شوق میں…پورا سال اپنا خرچہ بچا کر …عید کے دن کئی
کئی قربانیاں کرتے ہیں… دراصل ذوالحجہ کے پہلے دس دن …اور عید کے ایام یہ دنیا کے
سب سے افضل دن ہوتے ہیں… یعنی انسانی عمر کے سب سے قیمتی دن…اور ان دنوں کے نیک
اعمال کی قیمت عام دنوں کے اعمال سے بہت زیادہ ہے، بہت ہی زیادہ… اور ان نیک اعمال
میں بھی سب سے افضل عمل قربانی ذبح کرنا ہے… اب جن مسلمانوں کو اس نکتے کا ادراک
ہو جاتا ہے تو وہ… خوب بڑھ بڑھ کر قربانی کرتے ہیں…اس لئے جماعت بھی اس سال
مسلمانوں سے ’’نفل قربانی‘‘ جمع کرے گی… اعلان یہ ہو گا کہ واجب قربانی آپ خود
کریں جبکہ نفل قربانی ہمیں دے دیں… ہم ان شاء اللہ مکمل محنت اور دیانتداری سے آپ
کی یہ دعوت… اُمت کے بڑے مسلمانوں تک پہنچائیں گے…حضرات شہداء و اسیران کے اہل
خانہ… مجاہدین ، مہاجرین فی سبیل اللہ اور جہاد، علم اور دینی کاموں میں مشغول
مسلمان…
اللہ
تعالیٰ سے دعاء ہے اور امید بھی کہ… اس مہم میں برکت ہو گی… مسلمان ان شاء اللہ
بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیں گے… نفل قربانی کی یہ مہم اگر جماعتی ضروریات کے لئے
کافی ہو گئی تو بہت اچھا… اگر کافی نہ ہوئی تو جماعت اپنے بیت المال سے…اللہ
تعالیٰ کی دعوت اپنے زیر کفالت خاندانوں اور افراد تک پہنچائے گی ان شاء اللہ …
آپ سب سے دعاء اور تعاون کی درخواست ہے…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ
دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 508
اجتماع اور جماعت
جماعت
میں برکت…
اجتماع
کا معنٰی و مطلب…
حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حرص…
اجتماع
کی فضیلت و افادیت کی ایک مثال…
دینی
و ایمانی اجتماع کے فضائل و فوائد…
جماعت
کے ’’پانچ اجتماعات‘‘…
بہت
سے قیمتی نکات سے پردہ اٹھاتی ایک تحریر…
۱۱ذوالقعدہ۱۴۳۶ھ؍26اگست
2015ء
اجتماع اور جماعت
اللہ
تعالیٰ نے ’’جماعت‘‘ میں برکت رکھی ہے …اور جماعت وہی کامیاب چلتی ہے جس میں
’’اجتماعات‘‘ ہوتے ہیں…
اجتماع
کا معنیٰ
چند
افراد کے کسی ایک مقصد پر جمع ہونے کو ’’اجتماع‘‘ کہتے ہیں…افراد زیادہ ہوں یا
تھوڑے ’’اجتماع‘‘ کا لفظ عام ہے…ہمارے ہاں یہ بات چل پڑی ہے کہ صرف بڑے مجمع کو
’’اجتماع‘‘ کہا جاتاہے…ایسا بعض جماعتوں نے اپنی ترتیبات کو منظم کرنے کے لئے کیا
ہے… وہ چھوٹے مجمع کو ’’جوڑ‘‘ اور بڑے کو ’’اجتماع‘‘ کہتے ہیں…
بہرحال
درست بات یہ کہ مجمع کم ہو یا زیادہ …جب کچھ افراد کسی ایک مقصد کے لئے جمع ہو
جائیں تو وہ ’’اجتماع ‘‘ بن جاتا ہے…لوگوں کو جمع کرنے والی کئی چیزیں
ہیں…مٹی،علاقہ، وطن، قبیلہ، قوم، زبان، خوشی کی تقریبات، گناہ کی کشش وغیرہ… مگر
اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کے بندے دین پر جمع ہوں…ان کا اجتماع ’’اللہ تعالیٰ‘‘
پر ہو … اللہ تعالیٰ کے لئے ہو…ایسے اجتماع میں ایمان والوں کے لئے مضبوطی ہے،
رحمت ہے، تازگی ہے، زندگی ہے اور برکت و کامیابی ہے … اسی لئے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کسی نے کہا ہے:
وَکَانَ
الصَّحَابَۃُ حَرِیْصِیْنَ عَلَی الْمَجَالِسِ الْاِیْمَانِیَّۃِ
یعنی
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمانی مجالس و اجتماعات کا حرص رکھتے تھے…
اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاعر، خطیب اور بہادر صحابی حضرت عبد
اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
یَرْحَمُ
اللّٰہُ ابْنَ رَوَاحَۃَ اِنَّہٗ یُحِبُّ الْمَجَالِسَ الَّتِیْ تَتَبَاھَیٰ بِھَا
الْمَلَائِکَۃُ۔
یعنی
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ابن رواحہ پر… وہ ایسی مجالس کو پسند کرتے ہیں جن مجالس پر
فرشتے بھی خوشی اور فخر فرماتے ہیں…دراصل حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ دوسرے صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین سے ملتے تو فرماتے
…آئیں! تھوڑی دیر ہم ایمان لے آئیں… یعنی ایمان کا مذاکرہ کریں… ایمان کو تازہ
کریں، ایمان کی تجدید کریں…وہ جانتے تھے کہ دو یا زیادہ مسلمان جب ایمان کی فکر لے
کر اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو تازگی، قوت اور
قبولیت عطاء فرماتے ہیں… ابو داؤد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ…حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایمان
والی مجالس کا ایسا شوق اور حرص تھا کہ جب اس میں بیٹھتے تو آخر تک موجود
رہتے…پھر یہ مجلس اور اجتماع جتنا بڑا ہو…یعنی اس میں جتنے زیادہ افراد ہوں… اسی
قدر اس کی تاثیر اور خیر بڑھ جاتی ہے…
حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُ
الْمَجَالِسِ اَوْسَعُھَا۔ ( ابو داؤد)
یعنی
زیادہ اچھی مجلس وہ ہے جو زیادہ بڑی ہو…
اہل
ایمان کے ’’اجتماع ‘‘ کی فضیلت کا اندازہ لگانا ہو تو …جماعت کی نماز کو دیکھ
لیں…بالکل وہی نماز ہے نہ اس میں کوئی اضافہ نہ کمی… مگر اکیلا انسان ادا کرے تو
ایک نماز اور اگر جماعت میں ادا کرے تو ستائیس نمازوں کے برابر… بعض اہل علم نے
ضرب لگا کر جماعت کی نماز کو اکیلی نماز پر کروڑوں گنا زیادہ فضیلت والا قرار دیا
ہے…مگر آپ صرف ستائیس کو ہی دیکھ لیں… کیا یہ معمولی اضافہ اور برکت ہے؟ … کسی
رات عشاء کے چار فرض ستائیس بار ادا کرکے دیکھیں خود اندازہ ہو جائے گا…معلوم ہوا
کہ مسلمانوں کے اجتماع پر اللہ تعالیٰ کی بہت رحمت اور بہت عنایت ہے… پس جو جماعت
’’دینی اجتماعات ‘‘ کا التزام کرتی ہے وہ عام جماعتوں سے کم از کم ستائیس گنا
زیادہ تیز ترقی کرتی ہے…
فضائل
ہی فضائل
اللہ
تعالیٰ کی خاطر جمع ہونا… اللہ تعالیٰ کے دین کی نسبت سے جمع ہونا…اللہ تعالیٰ کے
ذکر یعنی اس کی یاد کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت اور تدریس و
تعلیم کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ سے
پانے کے لئے جمع ہونا… اللہ تعالیٰ سے وفاداری کے لئے جمع ہونا… یہ وہ اجتماعات
ہیں جو ہر مسلمان کی لازمی ضرورت ہیں… ایسے اجتماعات میں شامل ہونے کا حکم قرآن
مجید میں بھی بار بار ہے… اور احادیث مبارکہ میں ایسے اجتماعات کے اتنے فضائل ہیں
کہ …اگر ان کو جمع کیا جائے تو مکمل ایک کتاب بن سکتی ہے… اللہ تعالیٰ نے خاص ایسے
سیّار فرشتے پیدا فرمائے ہیں …جو ایسے اجتماعات کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں … اور جب وہ
ایسا اجتماع پا لیتے ہیں تو فوراً اس میں شامل ہو جاتے ہیں… یعنی ان اجتماعات میں
فرشتوں کی صحبت کا ملنا ایک یقینی نعمت ہے… یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کر
گواہی دیتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے اجتماعات میں شریک مسلمانوں کے
لئے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے… اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اپنے
فرشتوں کے درمیان فخر کے ساتھ تذکرہ فرماتے ہیں…دراصل ان اجتماعات سے دین کو قوت
ملتی ہے…اسلام کی عظمت اور شوکت کا اظہار ہوتا ہے… قومیت، وطنیت، لسانیت اور
علاقیت کے بتوں کی نفی ہوتی ہے…اور اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا اظہار ہوتا ہے … اسی
لئے یہی اجتماعات دنیا میں جنت کے باغات ہیں…ان اجتماعات میں شریک ہونے والے اہل
سعادت ہیں… اور ان اجتماعات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینہ نازل ہوتا ہے… آج
ہمارے دل روشنی اور خشوع سے خالی ہیں پوری مسجد میں ایک نمازی بھی خشوع سے نماز
پڑھنے والا نہیں ہوتا… حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مَجَالِسُ
الذِّکْرِ مَحْیَاۃٌ لِّلْعِلْمِ وَتُحْدِثُ لِلْقُلُوْبِ خُشُوعًا
اللہ
تعالیٰ کے ذکر کی مجالس علم کو زندہ کرتی ہیں اور دلوں میں خشوع پیدا کرنے والی
ہیں…
’’ذکر اللہ ‘‘کی مجالس میں وہ بھی شامل ہیں جن میں چند افراد بیٹھ
کر ’’ اللہ، اللہ ‘‘ کرتے ہیں… شرط یہ ہے کہ دل سے کریں اور جس کا نام لے رہے ہیں
اسی کی یاد میں ڈوبے رہیں… اور وہ مجالس اور اجتماعات بھی ’’ذکر اللہ ‘‘ میں شامل
ہیں جن میں… دین بیان ہوتا ہے…علم دین سیکھا اور سکھایا جاتا ہے… دینی فرائض، دینی
احکامات کی دعوت دی جاتی ہے… اور ایمان اور ایمانیات کا مذاکرہ ہوتا ہے… یاد
رکھیں! شیطان ہمیشہ اکیلے فرد کو آسانی سے شکار کر لیتا ہے…اس لئے اپنے دینی کام
اوراپنی دینی جماعت میں… ’’اجتماع‘‘ کا ماحول بنانا ضروری ہے تاکہ… ہم شیطان کا
شکار نہ بنیں…
پانچ
اجتماعات
جماعت
کے ہر فرد کے لئے پانچ اجتماعات کی ترتیب ہے:
١
روزانہ کا اجتماع…
٢ ہفتہ
واری اجتماع…
٣
ماہانہ اجتماع…
٤ شش
ماہی اجتماع…
٥
سالانہ اجتماع…
اس
میں ایک وضاحت ضروری ہے کہ… بعض افراد ’’ہفتے‘‘ کی ترتیب کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار
دیتے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ ہفتہ اور ’’ویک‘‘ کی ترتیب یہود و نصاریٰ کی ہے…وہ مختلف
چیزوں کے ہفتے مناتے ہیں… مسلمانوں کو چاہیے کہ ’’عشرے‘‘ کی ترتیب بنایا کریں… یہ
بات درست نہیں… ہفتے کی ترتیب خود اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے کہ… دن کل سات ہی
بنائے… اور مسلمانوں کا سب سے مبارک اجتماع… یعنی جمعہ کا اجتماع بھی ہفتہ واری
ہے…
باقی
جہاں تک تعلق ہے کوئی خاص ہفتہ ’’ منانے‘‘ کا تو… اسلام میں اپنی طرف سے نہ دن
منانا درست ہے، نہ ہفتہ منانا اور نہ ہی عشرہ منانا … ہمارا دین کامل اور مکمل ہے…
جو دن منانے ہیں وہ بتا دئیے گئے ہیں…باقی دینی کاموں کی ترتیب کے لئے… ایک ہفتہ
کی مہم چلانا یا کم زیادہ دنوں کی…اس میں کوئی حرج نہیں … اس میں نہ ہفتہ ضروری،
نہ عشرہ ضروری …بس جتنے دن ’’اہل انتظام ‘‘ طے کر لیں…
روزانہ
کا اجتماع بہت ضروری ہے… یہ اپنے گھر کے افراد کے ساتھ ہو یا مسجد والے ساتھیوں کے
ساتھ… اس کا عید کے دن بھی ناغہ نہیں کرنا چاہیے… چند افراد کچھ وقت اللہ تعالیٰ
کی یاد میں اکھٹے بیٹھیں…ذکر کریں، دین کی بات کریں … یہ ترتیب ہماری زندگی کو
ایمانی ترقی کی طرف لے جاتی ہے… اور جو اس ترتیب کو اہمیت نہیں دیتا وہ بہت سی
غلطیوں، گناہوں اور گمراہیوں میں جا گرتا ہے… یا اللہ! آپ کی پناہ…
ہفتہ
واری اجتماع: یہ ایک ’’عصابہ‘‘ یا ایک محلہ یا ایک گاؤں یا شہر کے ساتھی باقاعدگی
سے کریں … یہ اجتماع جس قدر پابندی سے ہو…جماعت اسی قدر تیزی سے کامیابی اور ترقی
کی طرف بڑھتی ہے…
ماہانہ
اجتماع: یہ ایک تحصیل یا ایک ضلع کے ساتھی مستقل نظام کے تحت کریں…یہ اجتماع جماعت
کے لئے ہر طرح کی نصرت اور وسائل و اَفراد کی فراوانی کا ذریعہ بنتا ہے…
شش
ماہی اجتماع: یہ ایک ڈویژن کی سطح پر ہو… اور بہت پابندی اور تیاری سے ہو… اس
اجتماع سے جماعت کا داخلی نظم اور اس کی دعوت کو بے حد مضبوطی ملتی ہے…
سالانہ
اجتماع: یہ مرکز کی سطح پر ہو… اس اجتماع سے جماعت کو سب سے بڑی نعمت… یعنی
’’اجتماعیت‘‘ ملتی ہے… اور وہ فرقوں اور تفرقوں سے بچی رہتی ہے…
یہ
’’پانچ اجتماعات‘‘ کا اشاریہ ہے… جماعت کے ’’اہل بیعت‘‘ ساتھی مل بیٹھیں،فکر کریں
اور ان تمام اجتماعات کی تاریخیں، ترتیبیں اور ان کے لئے نگران مقرر کریں… اور
فوری طور پر اسے نافذ کریں… سالانہ مرکزی اجتماع کی ترتیب…ان شاء اللہ شوریٰ کے
مشورہ سے مستقل طے کر دی جائے گی…
باقی
چار اجتماعات کی ترتیب آپ اپنے شعبوں کے تحت طے کر لیں… ان اجتماعات میں کیا ہو
گا؟…بہت سی باتیں تو سامنے آ گئیں اور بعض اہم باتیں باقی ہیں جو جلد کسی اور
مجلس میںعرض کر دی جائیں گی، ان شاء اللہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 509
بابا! پیسے سے نہیں، شوق سے
’’حج‘‘ اسلام کا اہم ترین فریضہ…
’’حج‘‘ اور مسلمانوں کا غفلت بھرا رویہ…
ایک
سچی عاشقہ کا واقعہ…
ایک
معذور کا واقعہ…
حج
اور جہاد میں جوڑ و مناسبت…
حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان…
حضرت
علی رضی اللہ عنہ کا فرمان…
حج
پیسوں سے نہیں، سچے شوق سے…
سچا
شوق کیسا ہوتا ہے؟…
بیت
اللہ… بیت اللہ…
حج
میں جلدی کریں جلدی…
ایک
غلط سوچ اور اس کی اصلاح…دل اور روح کا حج…
حرمین
شریفین اور حج بیت اللہ کی محبت
میں
سر شار و سر مست ایک معطر تحریر…
۱۷ذوالقعدہ۱۴۳۶ھ؍یکم
ستمبر 2015ء
بابا! پیسے سے نہیں، شوق سے
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو حج بیت اللہ کا سچا شوق … اور ’’حج مقبول‘‘ نصیب فرمائے…
آہ
شوق! آہ دل ! محبوب کا گھر، مالک کا گھر …میرے رب کا گھر، میرے رب کا گھر… یا
اللہ! کب بلائیں گے؟ کب دکھائیں گے؟ کب بے تاب آنکھوں کو نور کا شربت پلائیں گے؟
سچا
قصہ لکھا ہے کہ ایک قافلہ حج کے لئے پہنچا…اس میں ایک سچی عاشقہ تھی… ہاں سچی
عاشقہ! گندی عاشقہ نہیں… مکہ مکرمہ پہنچ کر بار بار بے تابی سے پوچھتی تھی…
اَیْنَ
بَیْتُ رَبِّی؟ اَیْنَ بَیْتُ رَبِّی؟ اَرُوْنِیْ بَیْتَ رَبِّی؟
کہاں
ہے میرے رب کا گھر؟ کہاں ہے؟ دکھادو مجھے میرے محبوب کا گھر…
قافلے
والوں نے کہا بس تھوڑی دیر میں دیکھ لو گی… وہ اللہ والی معلوم نہیں کب سے دل میں
پیاس بھرے جی رہی تھی…لوگوں نے کہا وہ دیکھو! سامنے کعبہ شریف ہے… اللہ تعالیٰ کا
گھر…وہ یوں دوڑی جس طرح ماں اپنے بچھڑے ہوئے بچے کی طرف بھی نہ دوڑ سکے…جا کر کعبہ
شریف سے لپٹ گئی…پھر لپٹی رہی… کافی وقت گزرا تو قافلے کی دوسری عورتوں نے جا کر
دیکھا…وہ تو پہنچ چکی تھی… کعبہ سے لپٹ کر کعبہ کے رب کے پاس جا چکی تھی … ہاں! وہ
عشق میں جان دے کر سچے عاشقوں کے اونچے مقام پر جا چکی تھی…
بھائیو!
اور بہنو! ہم روز نماز کے آغاز میں کہتے ہیں…منہ قبلہ شریف کی طرف…رخ کعبہ شریف
کی طرف… جس کی روح زندہ ہو…وہ تڑپتی ہے کہ…کب تک دور دور سے رخ کرتے رہیں گے… ٹھیک
ہے ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے …مگر اس کا احسان کہ اس کے گھر کو تو دیکھ
سکتے ہیں…اس گھر میں لگا ہوا ’’حجر اسود‘‘ اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ کے قائم مقام
ہے… ارے! اسے تو جا کر چوم سکتے ہیں…چلو چل پڑتے ہیں…راستہ دور ہے تو کیا
ہوا؟…پاؤں پھٹ گئے تو کیا ہوا؟… بس چلتے رہیں گے، چلتے رہیں گے…ایک نہ ایک دن تو
پہنچ ہی جائیں گے…نہ پہنچ سکے تو راستے میں جان دے کر …جسم کو دفن کروا دیں گے …
اور روح اسی طرح کعبہ شریف کی طرف بڑھتی جائے گی…بالآخر پہنچ ہی جائے گی… ایک
بزرگ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ایک شخص کو دیکھا کہ دونوں ٹانگوں سے معذور
ہے…اور زمین پر گھسٹ گھسٹ کر تیزی سے آگے جا رہا ہے… اس کی آنکھوں میں شوق کی
چمک اور چہرے پر عشق کا جذبہ تھا…بزرگ نے پوچھا: جناب! کہاں اتنا تیز جا رہے ہیں؟…
بغیر رکے کہنے لگے… اپنے رب کے گھر جا رہا ہوں… بزرگ نے حیرت سے کہا… اس طرح؟ وہ
تو بہت دور ہے کیسے پہنچو گے…فرمایا! دس سال سے اسی طرح گھسٹ گھسٹ کر جا رہا ہوں …
کبھی تو پہنچ ہی جاؤں گا…
آہ
افسوس!… ہم مسلمانوں کے دلوں سے حج کا شوق… اور کعبہ کا اشتیاق جاتا رہا… حج بیت
اللہ اسلام کا محکم اور قطعی فریضہ…ان فرائض میں سے ایک جن پر اسلام کی بنیاد ہے…
حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا…
میں
سوچتا ہوں کہ تمام شہروں میں کچھ افراد بھیج دوں…وہ جا کر دیکھیں کہ …جن لوگوں کے
پاس حج کی استطاعت ہے اور انہوں نے فرض حج ادا نہیں کیا تو…ان پر جزیہ مقرر کر دیں
کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں …وہ مسلمان نہیں ہیں…
حج
اور جہاد
منظر
آنکھوں کے سامنے آتا ہے…ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکہ مکرمہ میں تھے…وہاں کے
مفتی اعظم شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے مجاہدین اور علماء کرام کی دعوت کی…دعوت سے
پہلے جلسہ تھا … عرب میں رواج ہے کہ اہم بیانات پہلے ہوتے ہیں …سب سے پہلا بیان
مہمان خصوصی کا ہوتا ہے …ہمیں بھی کسی کے طفیل اس مبارک جلسہ میں شرکت مل
گئی…چوتھا اہم بیان حضرت شیخ مولوی جلال الدین حقانی کا تھا…افغان لہجے میں جاندار
عربی بیان… فرمایا: حج اور جہاد میں بہت مناسبت ہے… دلیل یہ کہ قرآن مجید میں حج
کے فوراً بعد جہاد و قتال کا حکم موجود ہے…بعد میں شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی ’’حجۃ
اللہ البالغہ‘‘ میں دیکھا…انہوںنے حج اور جہاد کے درمیان بہت سی مناسبات ذکر
فرمائی ہیں… ویسے کوئی بھی غور کرے تو…دونوں فریضوں کے درمیان کئی رشتے ڈھونڈ سکتا
ہے… دونوںمیں سفر ہے، ہجرت ہے…مشقت اور تکلیف ہے…خون ہے، مار دھاڑ ہے… عشق
ہے،جدائی ہے، قربانی ہے… میل کچیل ،تھکاوٹ اور پراگندہ حالی ہے… پسینہ ہے، بھاگ
دوڑ ہے …جذبہ ہے، شوق ہے، والہانہ پن ہے…مار دھاڑ کا لفظ کئی افراد کو کھٹکے گا…
اللہ تعالیٰ ان کو روشنی دے تاکہ نہ کھٹکے… عبادت وہ نہیں جسے ہم عبادت سمجھیں…
عبادت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا حکم اور آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہو …ایک آدمی صاف سفید پاک کپڑے
پہنے…مصلیٰ پر سجدہ ریز ہے…اسے سب عبادت سمجھتے ہیں… دوسرا آدمی مٹی سے اٹا ہوا
…بھاگ بھاگ کر پتھر پھینک رہا ہے… جانور ذبح کر رہا ہے… یہ بھی چونکہ اللہ تعالیٰ
کا حکم … اس لئے یہ بڑی عبادت ہے… دشمنوں کے ناپاک خون سے کپڑے لت پت سر سے لے کر
پاؤں تک خون ہی خون…یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم…اس لئے بہت عظیم عبادت ہے…
ہمارے
شیخ…حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ جب جہاد کی طرف متوجہ ہوئے تو…دل کے شوق
نے آواز دی… اپنے جہادی قافلے کو سمندر کے راستے حرمین شریفین لے چلے… دو حج
کئے…پھر وہاں سے جہاد کا رخ کیا… اور ’’رَبُّ الْبَیْتِ‘‘ کے پاس سرخرو چلے گئے…
ہمارے مرشد حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک سال جہاد کی طرف دوڑتے تو دوسرے سال حج کی
طرف لپکتے…روح کا عشق ان دو حسین چیزوں کی طرف ہمیشہ بے قرار لپکتا ہے… جہاد کا
محاذ…اور حرمین شریفین…
کتنے
خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جن کو دونوں طرف سفر کی سہولت میسر ہے… حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بڑا اہم نکتہ سمجھایا…وہ نکتہ پڑھ کر روح نے
غم کی ہچکی لی…اور آنکھیں پانی میں ڈوبنے لگیں…فرمایا:
’’ اللہ کے گھر کا زیادہ سے زیادہ طواف کر لو …اس سے پہلے کہ
تمہارے اور اس کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں‘‘…
ہاں!
سچ فرمایا… بہت اونچی بات فرمائی … رکاوٹیں آ جاتی ہیں…پہاڑوں سے بھی زیادہ بڑی
اور رات سے بھی زیادہ تاریک…پھر آدمی نہیں جا سکتا…نہیں جا سکتا…
جو
خوش نصیب وہاں پہنچ چکے ہیں…وہ اس نکتے کی قدر کریں…بازاروں، خریداریوں، ملاقاتوں
اور فضولیات میں وقت ضائع نہ کریں… اپنے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنائیں…حرم شریف کی
ایک نماز …کسی انسان کے چوّن سال کی نمازوں کے برابر ہے… وہاں کا ایک ’’لا الٰہ
الا اللہ‘‘ ایک لاکھ ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے برابر… اور ایک بار کا ’’سبحان
اللہ‘‘ ایک لاکھ بار ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھنے کے برابر ہے…
بابا!
پیسے سے نہیں، شوق سے
ایک
اور منظر بے تابی سے دستک دے رہا ہے …ہمارا ’’جلالین‘‘ کا سبق تھا…یہ تفسیر کی
مشہور کتاب ہے…خوش نصیبی کہ حضرت کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید…حضرت مولانا محمد ادریس صاحب
میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ہمیں یہ کتاب پڑھا رہے تھے … پیرانہ سالی کی وجہ
سے نظر کمزور تھی، ان کی تشریف آوری سے پہلے ان کی تپائی پر کتاب کھول کر رکھ دی
جاتی اور ساتھ برقی لیمپ جلا دیا جاتا…اس لیمپ کا ان کو فائدہ تھا یا نہیں…انہیں
تو پوری کتاب زبانی یاد تھی مگر ہمیں فائدہ تھا کہ…ان کے چہرہ مبارک کو مزید چمکتا
دمکتا دیکھ لیتے… اس دن حج کا موضوع تھا اور وہ حج بیت اللہ کے شیدائی… اور حرم
شریف کے بے تاب عاشق تھے…ہر سال دو بار جانے کا معمول تھا…حج کا موضوع آیا تو
لیمپ کی روشنی میں ان کے چہرے پر آنسوؤں کی آبشار جاری ہو گئی …بار بار فرماتے
’’بابا! حج پیسے سے نہیں ہوتا شوق سے ہوتا ہے…‘‘آہ! ہم آپ طلبہ کے دلوں میں حج
کا اور حرمین شریفین کا شوق نہیں دیکھ رہے… بس یہ چند آنسو اور دو جملے دل کی
دنیا ہی بدل گئے… روح کا کبوتر بے قرار ہو کر حرمین شریفین کی طرف اڑنے لگا…ارے!
یہ کیا؟ اب تک روز زبانی تو ہم یہ کہتے کہ منہ قبلہ شریف کی طرف… تو دل قبلہ شریف
کو کیوں نہیں مچلتا؟… سبق کے بعد دروازے پر حضرت استاذ سے عرض کیا: حضرت شوق پیدا
ہو گیا ہے آپ دعاء فرما دیں…بہت جلال سے فرمایا: جب شوق پیدا ہو گیا تو ضرور جاؤ
گے… طالبعلمی کا زمانہ تھا…عمر ابھی اتنی نہیں تھی کہ پاسپورٹ بن سکے…جیب میں رقم
اتنی نہیں تھی کہ اس وقت کے پاسپورٹ کی فیس دو سو دس روپے ادا ہو سکے… مگر یقین
تھا کہ بس اب جانا ہے … ایک دن عصر کے بعد تسبیحات میں تھے کہ ایک دوست نے آ کر
سلام کیا…اور فوراً کہا کہ عمرے کی تیاری کیجئے… ٹکٹ خرچہ ہمارے ذمہ… نہ کبھی ان
کو اشارہ کیا تھا اور نہ کسی اور کو…بس اسی سال اللہ تعالیٰ نے اپنا عظیم گھر دکھا
دیا…پھر یہ نسخہ بانٹنے کی کئی سال تک عادت رہی…’’بابا! حج پیسے سے نہیں شوق سے
ہوتا ہے‘‘…جس کے دل میں اتر گیا وہ فوراً پہنچ گیا…اب یہ نسخہ آپ سب کو دے رہا
ہوں… شوق وہ ہوتا ہے جو دل اور دماغ پر حاوی ہو جائے…اور انسان کی طبعی طور پر
پہلی ترجیح بن جائے… اور اس شوق کی خاطر کسی بھی چیز کو قربان کرنا…بوجھ نہ لگے ،
بلکہ اچھا لگے…
ارے!
وہ گھر جو ہمارے رب کا ہے…جہاں ہمیشہ ہدایت برستی ہے…جہاں ہر نبی تشریف لے
گئے…جہاں جبرئیل امین علیہ السلام بار بار
اترے… جہاں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم
کا بچپن گزرا،جوانی گزری …جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی…جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود رکھا… جہاں ہمارے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار سجدے کئے … اور ان سجدوں میں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو اذیت کا نشانہ بنایا
گیا… وہ گھر جو انسانیت کی ترقی ہے…جو اسلام کا مرکز ہے…وہاں کبھی حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے…کبھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اس کی مزدوری فرمائی… جہاں سے اسماعیل علیہ السلام ذبح ہونے کو روانہ ہوئے… جہاں ابو بکر رضی اللہ
عنہ نے ماریں کھائیں…جہاں عمر رضی اللہ
عنہ کی شجاعت نے تالے کھولے… جہاں عثمان
رضی اللہ عنہ کی وفاؤں نے ڈیرہ ڈالا…
جہاں علی رضی اللہ عنہ نے بت گرائے … ارے!
وہاں کے کس کس مقام کو بیان کروں… وہاں کی کس کس فضیلت اور تاریخ کو عرض کروں…
زمین پر تو کیا آسمانوں پر بھی کعبہ اور زمزم جیسی بلند نعمتیں موجود نہیں ہیں…
جلدی کرو بھائیو! جلدی کرو… جلدی کرو بہنو! جلدی کرو… مکان پھر بن جائے گا…نہ بنا
تو کیا ہوا… شادیوں کے خرچے پھر آ جائیں گے نہ آئے تو کیا ہوا … حج کا فریضہ ادا
کر لو… حج کا فریضہ ادا کر لو … حج کا فریضہ ادا کر لو…
دیکھو!
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں:
تَعَجَّلُوا
اِلَی الْحَجِّ فَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَا یَدْرِی مَا یَعْرِضُ لَہٗ۔ ( احمد، ابوداؤد)
’’حج کے لئے جلدی کرو، کیونکہ تم میں کوئی نہیں جانتا کہ اسے کیا
حالت پیش آ جائے۔‘‘
دوسری
روایت میں فرمایا:
’’جو حج کرنا چاہے وہ جلدی کرے کیونکہ کبھی بیماری آ جاتی ہے، مال
گم ہو جاتا ہے یا کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے‘‘
( احمد، ابن ماجہ)
ذہن
درست کریں
ہر
مسلمان جانتا ہے کہ… حج بیت اللہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے…اور
فرائض ادا کرنے کے لئے ہی ہمیں پیدا کیا گیا ہے …اللہ تعالیٰ ہمیں جو قوت اور مال
عطاء فرماتے ہیں… وہ ہماری لازمی ضروریات کے بعد اس لئے ہوتا ہے تاکہ ہم فرائض ادا
کریں… فرائض ہی جنت کی ضمانت ہیں…اور یہ ہر انسان کی کامیابی کے لئے لازم ہیں…
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے…جو چیزیں ہم پر فرض کی گئی ہیں
وہ ہمارے ہی فائدہ اوربقاء کے لئے ضروری ہیں… آگے ہم نے ہمیشہ کی زندگی گزارنی
ہے… جب حج فرض ہے تو ضروری ہے کہ…مسلمانوں کو اس کا شوق ہو، اس کی قدر ہو… مگر
ہمارا عمومی رویہ کیا ہے؟… جب مال آ جائے گا تو حج کا سوچیں گے …جب شادی کر لیں
گے تو حج کا سوچیں گے… جب کاروبار سیٹ ہوجائے گاتو حج کا سوچیں گے … کوئی اور ہمیں
بھیج دے گا تو ہم حج کر لیں گے… یہ فکر کیوں نہیں کرتے کہ… ہم نے یہ فرض بھی اپنے
نامۂ اعمال میں ڈالنا ہے…ہم نے یہ عظیم کام ضرور کرنا ہے… جب یہ سوچ ہو گی تو
دعاء بھی کریں گے…مال آتے ہی حج کے لئے لپکیں گے… مگر یہ سوچ نہیں ہے…اس لئے مال
آتا ہے اور اڑ جاتا ہے… یا کہیں جم جاتا ہے…
آہ!
آج کتنے مسلمان حج سے محروم ہیں … حالانکہ ہمارے معاشرے میں حج آ جائے تو ہر طرف
خوشحالی کا دور دورہ ہو…اور ہم حرمین شریفین کا نور اپنے ساتھ لئے چلتے پھریں… حج
کے لئے کسی سے سوال نہ کریں…حج کے لئے کسی سے توقع نہ رکھیں کہ وہ مجھے لے جائے
گا… بس خود اپنے اندر اس کا شوق اور اہمیت لائیں …اور ’’ بیت‘‘ تک جانے کے لئے
’’رَبُّ الْبَیْت‘‘ سے ہی فریاد کریں…دیکھیں کہ ان شاء اللہ راستے کس طرح سے کھلتے
ہیں…
معذرت
آج
دل میں باتیں بہت ہیں…ارادہ بھی بہت مفصل لکھنے کا تھا…ابھی تومحبت کی سرزمین
مدینہ منورہ کا تذکرہ باقی ہے…حج کے فضائل کی بہت سی روایات بھی سامنے ہیں… اور حج
کے شوق کے قصے اور مناظر بھی دل میں مچل رہے ہیں … مگر مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں
رہی…وجہ شاید آپ سمجھ گئے ہوں گے… مگر ایک بات بڑی تسلی والی ’’اہلِ دل‘‘ نے لکھی
ہے…وہ فرماتے ہیں: ایک حج دل اور روح کا بھی ہوتا ہے…دل کعبہ شریف کا طواف کرتا
ہے،روح احرام باندھتی ہے … دونوں مل کر روضۂ اقدس پر جاتے ہیں…یہ ان لوگوں کا حج
ہے جن کا شوق کامل، جذبہ سچا … اور تیاری ایسی کہ موقع ملے تو اپنا سب کچھ قربان
کر کے اور بیچ باچ کے نکل پڑیں… مگر ان کو روک لیا جاتا ہے… ہاں! وہ نہیں جا سکتے…
ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ …فاصلے سمیٹ دیتے ہیں… اسلاف میں سے کئی افراد کے
قصے مذکور ہیں… ان کا شوق کامل تھا مگر عذر بہت سخت تھا…نہ جا سکے…حاجی واپس آئے
تو قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے…ہم نے آپ کو طواف کرتے دیکھا …کوئی کہتا ہم نے آپ
کو عرفات میں دیکھا… کوئی کہتا روضۂ اطہر پر آپ کو پایا… ایسے افراد کے لئے
فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو ان کی طرف سے وہاں حاضری دیتے ہیں… یہ ایک مستقل موضوع ہے
… مقصد یہ کہ کعبہ شریف ہر مومن کے دل کی بڑی اُمنگ ہے… اللہ کرے! ہر ایمان والے
کو یہ ایمانی اور پاکیزہ شوق نصیب ہو جائے… آمین یا ارحم الراحمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 510
مقامِ محبت
شوق
اور عزم سچا ہو تو… اللہ تعالیٰ بندے کی مدد فرماتے ہیں…
ایک
سچا واقعہ… نفل قربانی ایک عظیم عمل…
نفل
قربانی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
پیاری سنت…
سیّد
نا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا معمول…
ایک
وجد آفرین ’’حدیث قدسی‘‘…
اصل
ذمہ داری سے زائد محنت، مقبولیت و محبوبیت کا سبب…
سب
سے افضل نفل عمل ’’صدقہ‘‘…
جہادِ
فی سبیل اللہ کی مبارک کڑیاں…
نفل
قربانی اور نفل اعمال کے فضائل و ترغیب پر مشتمل ایک ایمان افروز تحریر…
۲۴ذوالقعدہ۱۴۳۶ھ؍08
ستمبر 2015ء
مقامِ محبت
اللہ
تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان کے سامنے رسوا نہیں فرماتے…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
ایک
سچا واقعہ
ایک
صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ’’قربانیوں‘‘ کا شوق نصیب فرمایا ہے… فرائض کے بعد نفل
عبادت کی کثرت یہ ’’محبت ‘‘ کی علامت ہے… ایک سال ایسا ہوا کہ پیسے کم پڑ گئے…جتنی
قربانیوں کا ارادہ تھا وہ تو بہت مشکل…اپنی واجب قربانی کے معاملہ میں بھی تنگی آ
رہی تھی…دل میں خوف آیا کہ اس سال عید کا موسم نہیں کما سکیں گے …مگر پھر بھی عزم
باندھے رہے کہ دینے والا بھی اللہ…قبول فرمانے والا بھی اللہ…ایک دن مغرب کی نماز
کے لئے مسجد میں حاضر ہوئے … امام صاحب نے ’’سورۃ الکوثر‘‘ پڑھی… جیسے ہی ’’
وَانْحَرْ‘‘ کا لفظ آیا ان صاحب کے دل پر اُتر گیا…
﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾
’’پس آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کریں ’’وَانْحَرْ‘‘ اور قربانی
کریں‘‘
’’وَانْحَرْ‘‘ کا لفظ اصل میں اونٹ کی قربانی کے لئے آتا ہے…ویسے
ہر قربانی اس میں شامل ہے… اونٹ کی ہو یا گائے، بھینس، بکری کی… ان صاحب کو لگا کہ
…انہیں اونٹ کی قربانی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے…نماز کے بعد ہاتھ پھیلا دئیے کہ…یا
اللہ ’’وَانْحَرْ‘‘ آپ کا حکم ہے… یہ حکم پورا کرنے کی توفیق عطاء فرما دیجئے… اب
شیطان نے قہقہے لگائے کہ…بکرے اور گائے کی رقم نہیں اور دعاء چل رہی ہے اونٹ کی…
طرح طرح کے وسوسے اور خیالات… مگر عزم اللہ تعالیٰ کے لئے تھا…جو عزم اللہ تعالیٰ
کے لئے ہوتا ہے اس کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ…بندہ اس کی توفیق صرف اللہ تعالیٰ سے
مانگتا ہے… ایسا نہیں کہ حج کا شوق ہوا تو اب ہر کسی کے سامنے آہیں بھرتے رہیں…
تاکہ کوئی بھیج دے… قربانی کا شوق ہوا تو ہر کسی کو بتاتے پھریں تاکہ کوئی کرا دے
…یہ شوق نہیں ہوتا، شوق فروشی ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے…
اب
ہر سال کی قربانیوں کے ساتھ…اونٹ بھی جوڑ لیا… اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوئی …
سارا انتظام فرما دیا…تمام قربانیاں بھی ہو گئیں اور اونٹ بھی قربان ہوا… بے شک
اللہ تعالیٰ کے خزانے بے شمار ہیں… اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان کے سامنے
رسوا نہیں فرماتے…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
نفل
قربانی
ایک
سے زائد جو قربانی کی جاتی ہے… وہ نفل قربانی ہے… اور نفل سے اللہ تعالیٰ کی قریبی
محبت نصیب ہوتی ہے…نفل قربانی کا عمل خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمایا…آپ ہمیشہ دو مینڈھے سینگوں والے
ذبح فرماتے تھے …حج کے موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹ قربان فرمائے…
حضرت
سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ … ہمیشہ دو دنبے ذبح فرماتے… ایک حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور
ایک اپنی طرف سے …کیا ہی اچھا ہو کہ مسلمانوں میں بھی اس کا ذوق پیدا ہو… اس سال
کوشش کریں کہ ایک بکرا، یا ایک حصہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربان کریں… ایک
منحوس ٹچ فون کی قیمت میں…یہ بابرکت کام ہو سکتا ہے… ہماری جماعت اس سال نفل
قربانی جمع کر رہی ہے … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو قربانی کریں… وہ جماعت میں دے دیں…
معلوم نہیں کہاں کہاں تک وہ پہنچے گی…حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی،جیشِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
ذریعہ… اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
خاص اَفراد تک…
مقامِ
محبت
یہ
ایک حدیث قدسی ہے… اسے ’’حدیثِ الٰہی‘‘ بھی کہتے ہیں… یعنی اللہ تعالیٰ کی بات…
اللہ تعالیٰ کا فرمان… یہ وہ حدیث ہوتی ہے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم …اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی طرف نسبت کے ساتھ
بیان فرماتے ہیں…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا… اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ
عَادٰی لِیْ وَلِیًا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ
جو
میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے… تو میں اس کے ساتھ دشمنی کا اعلان کرتا ہوں…
یعنی جو اللہ تعالیٰ کے کسی ولی …یا اولیاء سے بغض رکھے، انہیں ستائے تو ایسے بد
نصیب انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِعلان جنگ ہے…
وَمَا
تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ
میرا
بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے… ان چیزوں میں میرے نزدیک سب سے
محبوب ’’فرائض ‘‘ ہیں…یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اہم ذریعہ… فرائض کی
پابندی اور فرائض کا اہتمام ہے… اور فرائض کے برابر اور کوئی عمل نہیں ہو سکتا…
وَمَا
یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہٗ
اور
میرا بندہ نفل عبادت کے ذریعہ برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے…یہاں تک کہ میں اس
سے محبت فرمانے لگتا ہوں…یعنی فرائض کے بعد میرے مخلص بندے مجھے راضی کرنے کے لئے
… اور میرا قرب پانے کے لئے مستقل نوافل میں لگے رہتے ہیں…نفل نماز، نفل صدقہ، نفل
قربانی، نفل حج، عمرہ وغیرہ یہاں تک کہ وہ میرے محبوب بن جاتے ہیں…سبحان اللہ!
عجیب الفاظ ہیں… پڑھتے جائیں تو دل پر وجد طاری ہو جاتا ہے… اللہ تعالیٰ کی محبت
مل جائے تو انسان کو اور کیا چاہیے…
آگے
ارشاد فرمایا:
فِاِذَا
اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ
یَبْصُرُ بِہٖ، وَیَدَہُ الَّتِی یَبْطِشُ بِھَا، وَرِجْلَہُ الَّذِیْ یَمْشِیْ
بِھَا
جب
میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں میری خاص نگرانی
اور رہنمائی میں آ جاتے ہیں…یعنی اس کے لئے خیر کے بے شمار دروازے کھل جاتے
ہیں…اس کا سننا، دیکھنا، پکڑنا اور چلنا سب کچھ عبادت بن جاتا ہے …اور اس کے جسم
کے اعضاء گناہوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں…
آگے
ارشاد فرمایا:
وَاِنْ
سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ
وہ
اگر مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور عطا فرماتا ہوں…
وَلَئِنِ
اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ
اور
اگر کسی چیز سے میری پناہ مانگے تو میں اسے اس چیز سے ضرور بچا لیتا ہوں۔ ( صحیح
بخاری)
اندازہ
لگائیں کہ فرائض پورے کرنے کے بعد نفل عبادت کا کیا مقام ہے…اسی کو ہم ’’مقامِ
محبت‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں…زمانے میں جو بھی بڑے اور کامیاب لوگ گزرے انہوں نے
اسی مقامِ محبت سے بلندی حاصل کی… فرض نمازیں تو سب روزانہ پانچ ہی ادا کر سکتے
ہیں… کسی کو چھ کی اجازت نہیں… مگر جنہوں نے نفل عبادت کو اپنایا وہ…مقامِ محبت تک
جا پہنچے… عام حالات میں دیکھ لیجئے… جو ملازم اپنی اصل ملازمت سے زیادہ… پانچ دس
منٹ بھی محنت کرتا ہو تو مالک کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے… جو دکاندار پانچ دس
روپے کی معمولی رعایت دیتا ہو…اس کے ہاں گاہکوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے…
اپنی
اصل ذمہ داری سے زائد محنت انسان کو مقبول، محبوب اور قیمتی بنا دیتی ہے…
فرائض
ہماری اصل ذمہ داری ہیں… اس کو پورا کرنے کے بعد …نفل کے ذریعہ مقامات کا حصول
ہے…اور یہ نفل قیامت کے دن بڑے کام آئیں گے…جب اللہ جَلَّ شانُہ فرشتوں سے
فرمائیں گے:
میرے
بندے کے اعمال دیکھو! کیا ان میں نفل عبادت ہے؟ … اگر نفل عبادت ہو گی تو اس سے
فرائض کی کمی کوتاہی کا ازالہ کیا جائے گا…
ذوالحجہ
کا مہینہ شاندار ہے… عشرہ ذی الحجہ کے مقبول اعمال کا موسم ہے… اور نفل قربانی عام
صدقے سے بھی افضل ہے… مال آتا جاتا رہتا ہے… کیا معلوم دوبارہ یہ دن نصیب ہوں یا
نہ … سب سے پہلے اپنی واجب قربانی بہت شوق، خوشی اور اِخلاص سے ادا کریں…اورپھر
ایک،دویا زیادہ نفل قربانیوں کے ذریعہ ’’مقامِ محبت‘‘ حاصل کریں… دل میں ذوق اور
جذبہ ہو گا تو اسباب خود مہیا ہو جائیں گے ، ان شاء اللہ
مبارک
کڑیاں
نفل
اعمال میں سب سے افضل عمل ’’صدقہ‘‘ ہے… اور سب سے افضل صدقہ ’’کھانا کھلانا‘‘ ہے…
اور کھانے میں سب سے افضل گوشت اور اس کا شوربہ ہے… کبھی ہمت ہو تو ایک دنبے کے
بال شمار کریں… چلیں پورا دنبہ نہیں صرف
اس کے سر کے بال شمار کر لیں… قربانی میں ہر ایک بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے…
ضروری اعمال میں سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے… اب یہ نفل قربانی اگر
’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ میں لگ جائے گی تو اندازہ لگائیں… آپ نے کتنی عظیم
فضیلتوں کو پا لیا…
جہادِ
فی سبیل اللہ کا عظیم فریضہ …مختلف کڑیوں سے جڑتا ہے… اور ان میں سے ہر کڑی مبارک
ہے… اور بعض اَوقات اَفراد کے اِخلاص کی وجہ سے…کوئی کڑی زیادہ مقبولیت کے خاص
مقام پر ہوتی ہے… سب سے پہلے دعوت کی کڑی ہے… کچھ اَفراد… دوسرے مسلمانوں کو جہاد
کی دعوت دیتے ہیں… اب دوسری کڑی تعلیم و تربیت کی ہے… ایک مسلمان جماعت اور جہاد
سے متعارف ہو کر آ گیا…اب اس کو جہاد سے جوڑنا ہے، اسے جہاد سکھانا اور سمجھانا
ہے…دورہ تربیہ، اساسیہ اور تفسیر… اب اگلی کڑی ریاضت اور تربیت کی ہے… اس اللہ کے
بندے کو یہ تربیت دینی ہے کہ اس نے کس طرح سے لڑنا ہے… اب اگلی کڑی رباط کی ہے… اس
بندے کو محاذ تک پہنچانا ہے… اور اب آخری کڑی… خود محاذ کی ہے کہ…اس بندے کو اللہ
تعالیٰ کے دشمنوں کے سامنے لا کھڑا کرنا ہے…ہر کڑی بہت ضروری … اور ہر کام بہت
مبارک ہے…
بعض
اوقات پچھلی کڑیوں والے آگے کی کڑیوں سے زیادہ مقرب بن جاتے ہیں…بات اِخلاص اور
اِطاعت امیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے … جماعت کے بیت المال کی ’’ نہر‘‘ ان سب کڑیوں کو
سیراب کرتی ہے… انہیں چلاتی ہے … اب جس خوش نصیب نے اپنے پانی کی بالٹی اس نہر میں
ڈال دی…اسے سب کڑیوں میں شرکت کا اجر وثواب مل گیا… اور اگر اس کا اِخلاص کامل ہے
تو اس کا پانی… وہاں پہنچے گا جہاں قبولیت اُس وقت سب سے بڑھ کر ہو گی… نفل قربانی
کے ذریعہ…اس بابرکت نہر میں اپنا حصہ ڈالیں … اور قربانی کی کھالوں کے ذریعہ بھی
اس مبارک سلسلے کو مضبوط کریں…ان شاء اللہ بہت کام آئے گا … بہت کام، ان شاء
اللہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 511
بڑے دنوں کا نصاب
کعبہ
شریف میںبھی حادثہ ہو سکتا ہے…
بیت
اللہ شریف میں ہونے والے حوادث…
اور
ان کی مختلف وجوہات اور حکمتیں…
ایک
مفروضہ…
کعبہ
شریف پر ہونے والے چند حملے…
ماحول
بن رہا ہے…
عشرہ
ذو الحجہ کے فضائل…
عشرہ
ذو الحجہ کا مختصر نصاب…
ان
سب باتوں پر مشتمل ایک جامع تحریر…
یکم
ذوالحجہ۱۴۳۶ھ؍15
ستمبر 2015ء
بڑے دنوں کا نصاب
اللہ
تعالیٰ خالق ہے، مالک ہے، قادر ہے… باقی ہر چیز خواہ وہ کتنی افضل کیوں نہ ہو…
اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، مملوک ہے… کعبہ شریف بھی مخلوق، حجر اسود شریف بھی
مخلوق، حرم شریف بھی مخلوق … اور تمام حضرات انبیاء علیہم السلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق… اور حضرت
جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیہم
السلام جیسے عظیم ملائک بھی … اللہ تعالیٰ
کے بندے اور مخلوق…
حادثہ
ہو گیا
کعبہ
شریف میں بھی حادثہ ہو سکتا ہے… ماضی میں وہاں حادثات ہوتے رہے ہیں… اس سال بھی
وہاں ایک حادثہ ہو گیا… اسلام نے جھوٹے مذاہب کی طرح کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس
کے مقدس مقامات ہر طرح کے حوادث سے محفوظ ہیں…نہیں، بلکہ… مقدس ترین مقامات پر بھی
اللہ تعالیٰ کا حکم اور قانون چلتا ہے… وہاںسردی بھی آتی ہے اور گرمی بھی… بارش
بھی برستی ہے اور سیلاب بھی آ سکتے ہیں… وہاں رحمت تو ہر لمحہ برستی ہے مگر کبھی
کبھار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور قہر کے تھپیڑے بھی پڑ سکتے ہیں… کعبہ شریف
کے گرد طواف سے جہاں روزانہ لاکھوں افراد رحمت، نور اور ہدایت پاتے ہیں… وہیں بعض
افراد کو وہاں بلا کر سخت سزا بھی دی جاتی ہے… پھر بعض لوگوں کو سزا دے کر پاک کر
دیا جاتا ہے… اور بعض بد نصیبوں کے دلوں پر شقاوت اور بد بختی کی حتمی مہر لگا دی
جاتی ہے… وہاں کے حادثات بعض افراد کے لئے رحمت ہوتے ہیں ، بعض کے لئے عذاب اور
بعض کے لئے تنبیہ اور سبق… اس بارے میں بڑے عجیب واقعات ماضی میں سامنے آئے…وہ سب
سے بڑی جگہ ہے وہاں جو پا گیا اب وہ محروم نہیں ہو سکتا… اور وہاں جو محروم رہ گیا
وہ کسی اور جگہ پا نہیں سکتا… سوائے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت پھر ڈھانپ لے… ایک
اللہ والے بزرگ طواف کر رہے تھے ،شیطان نے حملہ کیا اور طواف کے دوران بد نظری کر
بیٹھے… کعبہ شریف سے ایک ہاتھ بلند ہوا اور ان کے چہرے پر ایسا تھپڑ لگا کہ ایک
آنکھ ضائع ہو گئی… آنکھ ضائع ہو گئی مگر ایمان بچ گیا… وہ اس تنبیہ اور معذوری
پر ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے کہ… دائمی اور سچی توبہ نصیب ہوئی…اور
گناہ کی سزا نقد ختم ہو گئی… تنبیہ نہ ہوتی اور طواف کے دوران یہ گناہ چلتا رہتا
تو سوچیں کہ کیا بنتا؟… جس گناہ کا گواہ کعبہ شریف ہو ، حجر اسود ہو، رکن یمانی
ہو، مقام ابراہیم ہو… مطاف ہو… ملتزم ہو… اس گناہ کو کوئی لے کر مرا تو کس قدر
خسارے کی بات ہے؟… مگر وہ صاحب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے اس لئے تنبیہ فرما دی
گئی… بہت سے لوگ کعبہ شریف کے گرد اس گناہ سے زیادہ بڑے گناہ کرتے رہتے ہیں… ان کو
تنبیہ نہیں کی جاتی… ہاں! بد نصیب ہمیشہ تنبیہ سے محروم رہ کر بڑی سزا کے مستحق بن
جاتے ہیں… یا اللہ ! آپ کی پناہ…
جو
لوگ اس حادثے میں… بحالت ایمان شہید ہوئے ان کو سلام… انہیں سفر حج کی موت ملی جو
کہ قیامت تک کا حج ہے… ان کو مطاف کی موت ملی…جہاں سے جنت بہت قریب ہے… ان کو جمعہ
کا دن ملا… جو عذابِ قبر سے نجات کی ضمانت ہے… اور ان کو حادثاتی موت ملی جو کہ
لاریب شہادت ہے… اب وہ پکے حاجی بن گئے … بغیر ویزے، پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ہر سال کا
حج… ان کو مبارک اور ان کے اہل خانہ سے قلبی تعزیت…
ایک
مفروضہ
اتفاق
کی بات ہے کہ حادثے کے دن کی تاریخ… گیارہ ستمبر بنتی ہے…یعنی’’ نائن الیون‘‘ …
ممکن ہے کہ بعض لوگ اس میں سازش کا پہلو ڈھونڈ یں کہ… امریکہ نے یہ حادثہ کرا کے
مسلمانوں سے انتقام لیا ہے… آج کل کی مہلک سائنس میں مصنوعی بارش، مصنوعی طوفان …
اور مصنوعی زلزلوں کا تذکرہ بھی کچھ عرصہ سے چل رہا ہے… مگر بظاہر اس میں کوئی
سازش نظر نہیں آتی … حرم شریف میں درجنوں بار سیلاب آ چکا ہے … تاریخ کی کتابوں
میں ستر سیلابوںکی تفصیلات موجود ہیں…بعض سیلاب تو ایسے بھی آئے کہ پورا مطاف
پانی میں ڈوب گیا اور کئی افراد نے تیر کر طواف کیا… کعبہ شریف پر دشمنوں کے حملوں
کی بھی ایک تاریخ موجود ہے… حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے کچھ پہلے
ابرہہ حبشی نے حملہ کیا…اس حملے اور حملہ آوروں کے انجام کا تذکرہ قرآن مجید میں
موجود ہے… ابرہہ سے پہلے بھی ایک یمنی بادشاہ ’’ازماع‘‘ نے کعبہ شریف پر حملہ کیا
تھا… اسلام کے بعد ۶۳ھ
میں حصین بن عمیر نے اور پھر حجاج نے حملہ کیا… ۳۱۷ھ میں قرامطہ نے
حملہ کیا …یہ فاطمی بھی کہلاتے تھے انہوں نے حجر اسود پر بھی قبضہ کیے رکھا…
ان
تمام حملوں میں…اللہ تعالیٰ نے ابتدائی آزمائش کے بعد اہل ایمان کو بڑی عظیم
خیریں اور فتوحات عطاء فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کے عظیم گھر کا… فیض آج بھی پورے
عالم میں جاری و ساری ہے… اس بار کا حادثہ اگر کسی کا حملہ ہے تو ان شاء اللہ…حملہ
آور چالیس دن یا چار ماہ کے عرصہ میں اس کی عبرتناک سزا بھگت لیں گے… مسلمانوں کا
یہ کام نہیں کہ وہ …کافروں کی طاقت کے تذکرے کر کے… اور ان کی سازشوں کے فرضی قصے
بنا کر مسلمانوں کو مرعوب کرتے رہیں… کافروں کی قوت اور شوکت کا جواب جہادِ فی
سبیل اللہ ہے… جہادِ فی سبیل اللہ کے سامنے نہ کوئی کفریہ طاقت ٹھہر سکتی ہے اور
نہ اس کا کوئی اسلحہ اور ٹیکنالوجی… حجاج کرام اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں… بہت سے
لوگ وہاں جا کر غافل ہو جاتے ہیں… کئی بازاروں میں پھنس جاتے ہیں… کئی گناہوں میں
غرق ہونے لگتے ہیں… اور کئی اپنے وقت کو ضائع کرنے والے بن جاتے ہیں… ایسے لوگوں
کے لئے اس طرح کے حوادث تنبیہ اور سبق کا کام کرتے ہیں … اس طرح کے حوادث مسلمانوں
کا عقیدہ مضبوط بناتے ہیں… اس طرح کے حوادث سے وہاں کی حکومت اور انتظامیہ کو بھی
اپنی بہت سی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے… اور وہ غلط اور مضر تعمیرات سے بچ جاتے ہیں…
بہرحال کعبہ شریف مرکزِ ہدایت ہے… وہ چادریں چڑھانے یا دنیا کی ہر جائز و ناجائز
حاجتیں پوری کرنے والا دربار نہیں ہے… وہاں جانا اسلام کے فرائض میں سے ہے… موت
برحق ہے… یہ ایمان والوں کے لئے ایک بڑی نعمت اور پل ہے… اور موت کسی بھی جگہ
آسکتی ہے… اگر کسی کو کعبہ شریف کے پاس ایمان کی حالت میں موت ملے تو اسے اور کیا
چاہیے… عقیدہ درست رکھیں…اور اپنے دل میں کعبہ شریف کی محبت بڑھاتے جائیں…
ماحول
بن رہا ہے
ہمارے
ہاں آج انتیس ذی القعدہ ہے… جبکہ حرمین شریفین میں آج ’’ذو القعدہ ‘‘ کی تیس
تاریخ ہے… یعنی دنیا میں…کل اور پرسوں اس دنیا کے سب سے افضل ایام شروع ہونے والے
ہیں… جی ہاں! ذوالحجہ کے پہلے دس دن…ہم نے اپنے بچپن اور اوائل جوانی میں دیکھا کہ
ہمارے ماحول میں… ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے بارے کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی تھی… نہ
روزے، نہ عبادات…نہ فضائل کامذاکرہ…اور نہ ذکراللہ کی کثرت…
مدارس
میں عید الاضحیٰ کے موقع پر چھٹیاں ہوتی ہیں تو… اساتذہ اور طلبہ گھر جانے، ٹرین
کا ٹکٹ کرانے…اور سفر کی تیاری میں لگے رہتے ہیں … علماء اور طلبہ جب تعطیل پر ہوں
تو ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے فضائل امت کو کون سنائے… الحمد للہ قربانی کا عمل نیک لوگ
اہتمام سے کرتے تھے اور کر رہے ہیں… اور عرفہ کے دن کا روزہ بھی عبادت گذار لوگ
رکھ لیتے تھے…اور بس…
حالانکہ
عشرہ ذی الحجہ کے فضائل جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں…ان کا اگر ٹھیک ٹھیک مذاکرہ
ہو جائے تو… ماحول کا رنگ ہی بدل جائے … یہ انسانی زندگی کے قیمتی ترین دن ہیں…
حجاج کرام کے لئے بھی اور غیر حجاج کے لئے بھی … حتیٰ کہ کئی ائمہ کرام رحمہم اللہ
نے ان دس دنوں کو رمضان المبارک کے آخری
دس دنوں سے بھی افضل قرار دیا ہے… خیر وہ ایک علمی بحث ہے…
مگر
ان ایام کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں… اور ان ایام میں ہر نیک عمل کی قدر و قیمت
بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے…اور ان دنوں کی عبادت اس جہاد سے بھی افضل ہے جس میں مجاہد
کی جان قربان نہ ہوئی ہو…یہ وہ دن ہیں جن کی راتوں کی قسم اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید میں کھائی ہے… اور ان دنوں میں خاص طور سے ذکر کا حکم قرآن مجید میں فرمایا
ہے … یہ وہ دن ہیں جن میں اسلام کے محکم فرائض میں سے ایک فریضہ…’’حج بیت اللہ‘‘
ادا ہوتا ہے…اور وہ ان دنوں کے علاوہ کبھی ادا نہیں ہو سکتا … ان دس دنوں میں
’’عرفہ‘‘ کا دن ہے جس دن سب سے زیادہ افراد کو جہنم سے نجات دی جاتی ہے… ان دس
دنوں میں ’’یوم النحر‘‘ یعنی عید کا دن ہے …جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا اور
سب سے عظیم دن ہے…
اللہ
تعالیٰ نے ان دنوں کو ’’ایام معلومات‘‘ کا بڑا لقب عطاء فرمایا ہے…اور ان دنوں
اللہ تعالیٰ کا فضل اپنے بندوں پر بہت زیادہ متوجہ ہوتا ہے… ان دنوں کی فضیلت میں
اتنی صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں کہ…اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک رسالہ بن سکتا
ہے…
الحمد
للہ ان فضائل اور احادیث کے مذاکرہ سے اب ماحول میں…کچھ تبدیلی نظر آ رہی ہے …
ماشاء اللہ بہت سے لوگ پورے نو دن کے روزے رکھتے ہیں… تکبیرات کا والہانہ اہتمام
ہوتا ہے… کئی افراد ان دنوں کو پانے کے لئے محاذوں کا رخ کرتے ہیں…حج بیت اللہ کا
شوق بھی الحمد للہ بڑھ رہا ہے… اور اس مبارک عشرے کو کمانے والے مسلمانوں کی تعداد
میں الحمد للہ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے…
عشرہ
ذی الحجہ کا مختصر نصاب
جو
مسلمان حج بیت اللہ پر نہیں گئے… ان کے لئے اس مبارک عشرے کو پانے اور کمانے کا
ایک آسان سا نصاب عرض کیا جا رہا ہے…اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ سب کے لئے یہ
نصاب آسان فرمائے… اور اسے اپنے فضل سے قبول فرمائے…
١
قربانی بہت ذوق و شوق اور اہتمام سے کریں…استطاعت ہو تو واجب کے ساتھ نفل قربانی
بھی کریں…
٢ یکم
ذی الحجہ تا ۹
ذی الحجہ…تمام نو دن یا کم از کم آخری تین دن روزے کا اہتمام کریں…
٣ تہلیل
یعنی ’’لا الہ الا اللہ‘‘، تکبیر اور تحمید کی کثرت کریں… آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر
دن اور ہر رات تین تین سو بار تیسرا کلمہ ان تمام دنوں میں پڑھ لیں… ان شاء اللہ
ایسا فائدہ ہو گا جو بیان سے باہر ہے… ساتھ اپنا بارہ سو بار کلمہ کا معمول جاری
رہے…ان دنوں کا اصل تحفہ ’’تکبیر‘‘ ہے… اس کی بہت کثرت…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ
٤ تلاوت
میں کچھ اضافہ کر دیں… اور یہ اضافہ عید کے دن بھی جاری رہے… مثلاً آدھے پارہ
والے ایک پارے پر… اور ایک پارے والے دو پارے پر چلے جائیں…
٥
روزانہ جہاد فنڈ دیں… خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہو… روز جمع کرانے کی سہولت ہو تو
جماعت کے بیت المال میں جمع کراتے جائیں … اگر یہ سہولت نہ ہو تو لفافہ بنا کر روز
اس میں ڈالتے جائیں، جب موقع ملے جمع کرا دیں…
٦ جہاد
کی محنت، جہاد کی دعوت، نفل قربانی اور کھالوں کی محنت میں اخلاص کے ساتھ وقت
لگائیں…
٧ سحری
پابندی سے کھائیں، یہ بڑا برکت والا کھانا ہے… اور جب سحری کو جاگیں تو تہجد کا
مزا بھی لوٹ لیں…
٨
والدین اور اہل و عیال کا خرچہ ان دنوں حسب استطاعت بڑھا دیں اور گھر میں عشرہ ذی
الحجہ کے فضائل کا مذاکرہ کرتے رہیں…اسی طرح صلہ رحمی،کھانا کھلانا اور صدقہ خیرات
کی کثرت…
٩ جنہوں
نے قربانی کرنی ہو وہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد… اپنے ناخن، بال وغیرہ نہ
کاٹیں جب تک کہ قربانی ذبح نہ ہو جائے…
١٠ ان تمام
دنوں میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز کا زیادہ التزام کریں…عید الاضحیٰ کی تیرہ
سنتیں یاد کر کے ان کو عمل میں لائیں… اور دوسرے مسلمانوں کو بھی عشرہ ذی الحجہ کے
اعمال کی طرف متوجہ کرتے رہیں…
وَمَا
تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 512
الکوثر
’’الکوثر‘‘ کیا ہے؟…
’’الکوثر‘‘ کے سات معانی…
’’الکوثر‘‘ کی تشریح…
تین
اسباق…
حوض
کوثر…
حوض
کوثر پر سب سے پہلے جانے والے…
عید
کی سنتیں…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئے ملاحظہ ہو یہ تحریر…
۷ ذوالحجہ۱۴۳۶ھ؍21
ستمبر 2015ء
الکوثر
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو ’’الکوثر‘‘ … میں سے حصہ عطا فرمائے…
الکوثر
کیا ہے
یہ
بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک سورۂ مبارکہ کا نام ’’سورۃ
الکوثر‘‘ ہے… حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’یہ سورۃ مکی ہے اور اس میں تین آیتیں، بارہ کلمے اور بیالیس حرف
ہیں …اس سورۃ کے نازل ہونے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
سے دو صاحبزادے تھے…قاسم اور عبد
اللہ… لقب ان کا طیب اور طاہر تھا… یہ دونوں صاحبزادے بچپن میں وفات پا گئے… تب
کفار نے طعنہ دیا کہ یہ پیغمبر ’’ابتر‘‘ ہے یعنی اس کی نسل ختم ہو گئی… ان کے بعد
ان کے دین کو قائم اور برپا رکھنے والا کوئی نہیں ہو گا… اور ان کا دین اور نام مٹ
جائے گا۔‘‘ ( تفسیر عزیزی)
اللہ
تعالیٰ نے سورۃ نازل فرمائی…﴿اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴾ … اے نبی! ہم نے
آپ کو اتنی زیادہ، اتنی وسیع اور اتنی بڑی خیریں عطا فرما دی ہیں…جو خیریں کبھی
ختم نہ ہوں گی… اور یہ تمام خیریں آپ کے دین اور آپ کے نام کے ساتھ جڑی رہیں گی…
اگر نرینہ اولاد نہیں تو کیا ہوا؟ … کبھی اولاد بہت ہوتی ہے مگر وہ نہ تو انسان کے
نام کو زندہ رکھتی ہے اور نہ اس کے کام کو… اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹوں کی نسل
نہیں دی…مگر آپ کو ’’الکوثر ‘‘ دی ہے… الکوثر کے معنٰی ’’بہت زیادہ خیر‘‘ … خیر
کثیر… اور ’’الکوثر‘‘ کا معنٰی وہ حوض کوثر جس کے قیامت کے دن سب نبی اور سب امتی
محتاج ہوں گے…اس حوض کا پانی دودھ سے سفید، شہد سے میٹھا اور برف سے ٹھنڈا ہو گا…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حوض کے مالک و مختار ہوں گے…اور ’’الکوثر‘‘
کا معنی بہت علم… اللہ تعالیٰ نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کو وہ
علوم عطا فرمائے جو پہلے کسی کو نہیں دئیے گئے …اور ’’الکوثر‘‘ کا معنٰی قرآن
مجید اور اس کا علم… قرآن مجید آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی امت کو عطا
ہوا اور اس کا علم بھی… یہ ایسی بڑی خیر ہے کہ جو اگر کسی کو مل جائے تو اسے کسی
اور چیز کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی… اور’’ الکوثر‘‘ کا معنیٰ …پانچ وقت کی نماز…
سبحان اللہ! نماز میں جو نور مومن کے دل پر اُترتا ہے… وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے…
اور نماز میں مومن کو اللہ تعالیٰ سے مناجات کی جو لذت ملتی ہے وہ شہد سے میٹھی
ہے… اور نماز میں ایمان والوں کو جو سکون ملتا ہے وہ برف سے زیادہ تسکین آور اور
ٹھنڈا ہے… اور ’’الکوثر‘‘ کا معنٰی …کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول
اللہ‘‘ … یہ بہت عظیم اور سب سے بڑی خیر ہے… جس کے پاس یہ خیر ہے وہ کامیاب ہے،
وہی برقرار ہے…اور جو اس خیر سے محروم ہے وہ ابتر ہے،بدتر ہے ، محروم ہے، بے نسل
ہے اور ناکام ہے…
اور’’
الکوثر‘‘ کا معنٰی…بہت زیادہ اولاد… حقیقی اولاد بھی اور مجازی اولاد بھی… دو بیٹے
وفات پا گئے مگر بیٹی سے اللہ تعالیٰ نے ایسی پاکیزہ اولاد کو کھڑاکر دیا جو…
لاکھوں کی تعداد میں پھیل گئی…اور روحانی اور مجازی اولاد تو… ماشاء اللہ اتنی
کثیر کہ… نہ کسی اورکو ملی اور نہ کسی اور کو مل سکتی ہے…
اللہ
تعالیٰ نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’الکوثر‘‘ یعنی بہت بڑی خیر عطا فرمائی… آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا دین مبارک آپ کے بعد زندہ رہا اور زندہ
ہے…اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک بھی… اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد سب
سے محبوب، مقبول اور اونچا نام ہے …حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل ظاہری اور باطنی قیامت تک رہے گی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے لوگ ممبروں اور مناروں پر چڑھ کر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا نام، اللہ تعالیٰ
کے نام کے ساتھ پکارا کریں گے اور پانچوں وقت کی نماز میں… اور اس کے علاوہ بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جانبازیاں کریں گے… اور ہزاروں عاشق
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہوئے ہر سال آپ کے روضہ مبارک کی
زیارت کو دوڑیں گے… پس ذکر خیر آپ کا جاری رہے گا اور آپ کا دشمن ایسا گمنام ہو
گا کہ…کوئی نام بھی اس کا نہ لے گا مگر لعنت اور پھٹکار کے ساتھ ۔‘‘
(مفہوم تفسیر عزیزی)
خلاصہ
یاد کر لیں…الکوثر کا مطلب
١ حوض
کوثر،نہر کوثر…
٢ کلمہ
طیبہ: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ…
٣ قرآن
مجید اور اس کا علم…
٤ پانچ
وقت کی نماز…
٥ کثرت
علم…
٦ کثرت
اولاد … حقیقی اور مجازی …
٧ خیر
کثیر…
ہم
نے آج کی مجلس کا آغاز اسی دعاء سے کیا کہ… اللہ تعالیٰ ہمیں ’’الکوثر‘‘ میں سے
حصہ عطاء فرمائے دنیا میں بھی… اور آخرت میں بھی… آمین یا ارحم الراحمین
ویسے
حضرت امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں ’’الکوثر‘‘ کے سولہ معانی لکھے ہیں…یعنی اس کے
معنیٰ اور مطلب میں مفسرین کے سولہ اَقوال ہیں …اہل ذوق تفسیر قرطبی میں ملاحظہ
فرما لیں…
تین
اَسباق
قرآن
مجید کی ہر آیت اور سورت کا ایک خاص نور ہوتا ہے… جب کوئی بندہ اس آیت کو اخلاص
سے تلاوت کرتا ہے تو وہ روشنی اور نور اس کے دل پر اُترتا ہے… آپ آیۃ الکرسی کا
ترجمہ سمجھ لیں… پھر توجہ سے آیۃ الکرسی کی تلاوت کرتے جائیں …ہرجملے کے ساتھ دل
پر ایک الگ روشنی، قوت، کیفیت اُترتی چلی جائے گی…
اس
سورۂ مبارکہ میں فرمایا…﴿اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴾ … معلوم ہوا کہ بڑی
خیر اور اصل خیر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاء فرمائی گئی ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد …اب اصلی خیر ، حقیقی خیر
اور بڑی خیر… صرف اسی کو مل سکتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہو گا… پس جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کٹے ہوئے ہیں…وہ بڑی خیر سے محروم ہیں…خواہ
دنیا بھر کے حکمران بن جائیں ، یا اَرب پتی سرمایہ دار یا بڑے سائنسدان …یہ سب
ناکام ہیں، محروم ہیں، ذلیل ہیں، نامراد ہیں،خاسر ہیں… مسلمانوں کو کبھی بھی ان سے
ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہیے…دنیا کی عارضی چمک دمک ایک وقتی تماشا ہے…
دوسرا
سبق یہ کہ …خیر کی چیزوں میں کثرت اچھی بات ہے… جبکہ دنیا کے معاملات میں کثرت کی
خواہش بری ہے… ایک طرف فرمایا:
﴿اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ﴾
تمہیں
کثرت کی خواہش نے غفلت اور ہلاکت میں ڈال دیا…
جبکہ یہاں فرمایا:
﴿ اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴾
ہم نے آپ کو کثرت عطاء
فرمائی…یعنی خیر کی کثرت… ’’خیر کثیر‘‘کی تمام چیزیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کو عطاء ہوئیں… حوض کوثر بھی، کلمہ طیبہ
بھی، قرآن مجید بھی، علم بھی، نماز بھی… اب اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا تعلق مضبوط بنا کر ان خیروں میں سے
زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ حاصل کر لیں… اور اپنے دل میں ان خیروں کو زیادہ سے زیادہ
کثرت کے ساتھ پانے کی تمنا اور خواہش بھی رکھیں…
تیسرا
سبق یہ کہ… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ…ہم نے آپ کو بہت
خیر عطاء فرما دی ہے…اس خوشخبری کے فوراً بعد فرمایا:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾
پس
آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کریں اور قربانی کریں…
یعنی
بڑی خیر پانے کے شکرانے میں… آپ نماز اور قربانی کا بہت اہتمام فرمائیں…اس میں
امت کے لئے یہ اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ…بڑی خیر میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کا
طریقہ نماز اور قربانی میں زیادہ محنت ہے… پس جو مسلمان نماز میں سے زیادہ حصہ
پائے گا…اور جو قربانی میں زیادہ اخلاص دکھائے گا…وہ بڑی خیر میں سے بھی ان شاء
اللہ زیادہ حصہ پائے گا…وہ بڑی خیر… جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ
وسلم کو عطاء فرمائی ہے…
الحمد
للہ عید الاضحی آ رہی ہے… قربانی کے ذریعہ مسلمان اللہ تعالیٰ کا قرب اور خیر
کثیر میں سے حصہ پا سکتے ہیں… اور ان لوگوں کے مقام کا تو پوچھنا ہی کیا جو اپنی
جان اللہ تعالیٰ کے لئے جہاد فی سبیل اللہ میں پیش کرتے ہیں…یہ لوگ تو ایسے قیمتی
ہیں کہ… اللہ تعالیٰ ان کا خریدار ہے…
فَطُوبیٰ
لَھُم
حوض
کوثر
قیامت
کے دن سب پیاس سے بے حال و بے تاب ہو رہے ہوں گے… اور وہاں صرف ایک حوض ہو گا…حوض
کوثر… یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض مبارک ہے… جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلائیں گے وہی اس سے پی سکے گا… اور پھر کبھی
پیاسا نہ ہو گا… حوض کوثر کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان کو مد نظر رکھ کر
حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’حاصل سب روایات کا یہ ہے کہ اس حوض کی مسافت سینکڑوں میل ہے، برف
سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور مشک سے بہتر اس کی خوشبو ہے، اس کے
پیالے آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں،جو اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا اس کے
بعد کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا، سب سے پہلے اس پر مہاجر فقراء آئیں گے کسی نے سوال
کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کا حال بتا دیجئے…ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں (دنیا
میں) جن کے سروں کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے ( بھوک اور محنت کے باعث) بدلے ہوتے
تھے ان کے لئے (بادشاہوں اور حاکموں) کے دروازے نہیں کھولے جاتے تھے… اور عمدہ
عورتیں ان کے نکاح میں نہیں دی جاتی تھیں اور ان کے ذمہ جو (کسی کا) حق ہوتا تھا
وہ پورا ادا کرتے تھے اور ان کا حق جو (کسی پر) ہوتا تھا تو پورا نہ لیتے تھے(
بلکہ تھوڑا بہت) چھوڑ دیتے تھے۔‘‘ (الترغیب والترہیب)
یعنی
وہ اہل ایمان جو دنیا میں خستہ حال اور نظر انداز تھے آخرت میں ان کا اعزاز یہ ہو
گا کہ حوض کوثر پر سب سے پہلے پہنچیں گے…
عید
کی سنتیں
گذشتہ
کالم میں عید کی سنتوں کا تذکرہ تھا… یہ سنتیں پہلے کئی بار بیان کی جا چکی ہیں…
مگر تقاضا آیا کہ انہیں پھر شائع کیا جائے…عید کے دن تیرہ چیزیں سنت ہیں:
١ شرع کے
موافق اپنی آرائش کرنا…
٢ غسل
کرنا…
٣ مسواک
کرنا…
٤ حسب
طاقت عمدہ کپڑے پہننا…
٥ خوشبو
لگانا…
٦ صبح کو
بہت جلد اٹھنا…
٧ عید
گاہ میں بہت جلد جانا…
٨ عید
الفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا اور عید
الاضحیٰ میں نماز عید کے بعد اپنی قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے۔
٩ عید
الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا…
١٠ عید کی
نماز عید گاہ میں پڑھنا، بغیر عذر شہر کی مسجد میں نہ پڑھنا…
١١ ایک راستے
سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا…
١٢ عید گاہ
جاتے ہوئے راستہ میں:
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ
اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
عید الفطر میں آہستہ
آہستہ کہتے ہوئے جانا اور عید الاضحی میں بلند آواز سے کہنا…
١٢ سواری کے
بغیر پیدل عید گاہ جانا…
(نور الایضاح …بارہ مہینوں کے فضائل و احکام)
رنگ
ونور کے تمام قارئین کو بندہ کی طرف سے قلبی ’’عید مبارک‘‘…
تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا
وَمِنْکُمْ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 513
اکیلے بالکل اکیلے
اللہ
تعالیٰ کے سامنے بالکل اکیلے پیش ہونا ہے…
ایک
قرآنی فیصلہ…
جو
دنیا میں ’’تنہا‘‘ ہے وہ گھبرائے نہ…
جو
دوستوں میں ’’گھِرا‘‘ ہے وہ اترائے نہ…
حق
و باطل کی ایک مثال…
’’ترقی یافتہ‘‘ کون؟…
ترقی
کی ایک مثال… استاد عدیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا گھرانہ…
ہندوستان
کی عجیب تاریخ…
آر
ایس ایس اور مودی…
ترقی
کی دوسری مثال… امارتِ اسلامیہ افغانستان…
ایک
ایمان افروز تحریر…
۲۲ ذوالحجہ۱۴۳۶ھ؍06
اکتوبر 2015ء
اکیلے بالکل اکیلے
اللہ
تعالیٰ کے سامنے ہر شخص نے ’’اکیلے‘‘ پیش ہونا ہے، جس طرح کہ ہر شخص’’اکیلا‘‘ پیدا
ہوا…
ارشاد
فرمایا:
﴿وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادٰی﴾
’’یقیناً تم ہمارے پاس آؤ گے الگ الگ جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی
مرتبہ پیدا کیا اورتم نے اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ دیا جو ہم نے تمہیں عطا ء کیا
تھا۔‘‘( سورۃ انعام، آیت: ۹۴)
دنیا
میں جو بھی آیا ،خالی ہاتھ آیا…نہ تن پر کپڑے تھے، نہ پائوں میں جوتا تھا… نہ
جیب تھی نہ مال… نہ کوئی لیڈر تھا نہ کوئی کارکن… نہ کوئی صدرتھا نہ وزیر اعظم… نہ
کوئی حضرت تھا نہ کوئی پیر… بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے میدان حشر میں
پیشی ہوگی، نہ جسم پر کپڑے ہوں گے نہ پائوں میں جوتے…نہ مال ساتھ ہوگا نہ نوکر،
خادم اور احباب… دنیا میں اکیلے آئے تھے اور قیامت کے دن اکیلے پیش ہوں گے… پس جو
یہاں ’’تنہا‘‘ ہے ،وہ نہ گھبرائے… ناشکری اور مایوسی میں مبتلا نہ ہو، اور جو یہاں
محبوب ہے اور ہروقت خادموں، نوکروں اور دوستوں میں گھرا ہواہے وہ نہ اِترائے، فخر
میں مبتلا نہ ہو… آدمی کے ساتھ بس وہی کچھ جائے گا جو اس نے دنیا میں رہتے ہوئے…
اللہ تعالیٰ کے لئے کیا اورآخرت کے لئے بھیجا…
حق
اور باطل کی حکایت
کسی
نے بات سمجھانے کے لئے حق اور باطل کی ایک تمثیل پیش کی ہے… حق سیدھا سادہ ہے، سچ
بولنے والا دنیا میں جیسے بھی ہو گذارہ چلانے والا… سختیاں اور پریشانیاں جھیلنے
والا… جبکہ باطل بہت چالاک ہے، مکار ہے، جھوٹ بولنے والا، دنیا کے ہر مفاد کو حاصل
کرنے والا… کہتے ہیں کہ… حق اپنے گھر سے اچھا لباس پہن کر سواری پر بیٹھا اور
روانہ ہوا… راستے میں اسے باطل مل گیا… باطل نے دھوکے کے ذریعہ حق سے اس کے کپڑے
لیکر خود پہن لئے، حق ایک خستہ حال چادر میں رہ گیا… پھر باطل نے ایک چال چلی اور
حق سے اس کی سواری چھین لی… اب وہ گھوڑے پر جا رہا تھا اور حق پیدل پیدل… دیکھنے
والے سمجھ رہے تھے کہ باطل کامیاب رہا اور حق ناکام… مگر آگے ایک جنگل تھا اس کے
وحشی درندوں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ… جو شخص جنگل سے سوار گذرے گااور اچھے لباس
میں ہوگا اس کو وہ کھا جائیں گے…اور جو پیدل پرانے لباس میں ہوگا اس کو گذرنے دیں
گے… حق اور باطل اس جنگل میں داخل ہوئے… باطل مارا گیا اور حق جنگل سے پار ہو کر
ہمیشہ ہمیشہ والی راحت میں پہنچ گیا… اہل باطل دنیا میں چند دن عیش آرام ، ظاہری
عزت پاکر… قبر کے جنگل میں مارے جاتے ہیں … جبکہ اہل حق دنیا میں چند دن کی تکلیف
اور اذیت سہہ کر… قبر کے راحت والے دروازے سے …’’عِلِّیِّیْن‘‘ کی پرواز میں جا
بیٹھتے ہیں…اس لئے ’’ترقی یافتہ ‘‘ وہ ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے آگے کی تنہائی
ختم کرنے کا سارا سامان آخرت میں بھیج دے… یہاں اس کو جو مال ملے اس سے وہ آخرت
خریدے،یہاں جو عزت ملے اس سے آخرت بنائے… یہاں جو دوست احباب ملیں ان کو بھی…
آخرت کا سرمایہ بنائے… وہ آخرت کہ دنیا کے سب دوست اس میں سخت دشمن ہوں گے…
سوائے ان کے…جن کی دوستی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگی… دین پر ہوگی اور دین کے
مطابق ہوگی…
ترقی
کی ایک مثال
کل کی بات ہے کہ خبر آئی…
مقبوضہ کشمیر میں ہمارے جانباز اور مخلص کمانڈر استاذ عدیل’’جام شہادت‘‘ نوش
فرماگئے …ان کا اصلی نام’’غلام مصطفیٰ‘‘ تھا… عباس پور آزاد کشمیر کے رہائشی تھے
… سالہا سال تک وادی میں مشرکین کے خلاف جہاد کی کمان کرتے رہے… خبر آئی تو دعاء
اور ایصال ثواب کے بعد ارادہ تھا کہ ان کے اہل خانہ کو مبارک و تعزیت کا پیغام
بھیجا جائے… شہادت کی مبارک اور طبعی صدمے پر تعزیت…ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ … شہید
کے والد گرامی کا پیغام آگیا… اور میں ایمان کی ترقی دیکھ کر حیران رہ
گیا…فرمایا:
’’ عدیل کی شہادت مبارک ہو… ایک اور بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے
وقف کردیا ہے… جہاں چاہیں بھیج دیں…‘‘
سبحان اللہ ! عدیل کا ایک
بھائی پہلے شہید ہوچکا ہے… اور اب ایک اور بھائی بھی وقف ہوچکا … اور والد محترم
اپنی قسمت پر مسرور ہیں کہ… اللہ تعالیٰ نے ان کا سرمایہ اپنے پاس محفوظ فرمایا،
قبول فرمایا… آج کتنے لوگ اپنے بیٹوں کی وجہ سے جہنم کی طرف دوڑ رہے ہیں… اور ایک
یہ خاندان ہے کہ… باپ بیٹے سب اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی طرف دوڑ رہے ہیں… اسے
کہتے ہیں ترقی… اسے کہتے ہیں بلندی…
القلم
کے تمام قارئین سے… عدیل شہید رحمۃ اللہ علیہ … اور اُن کے پورے خاندان خصوصاً والدین کے لئے
خصوصی دعاء کی درخواست ہے…
ہندوستان
کی تاریخ بھی عجیب ہے… وہاں شرک ہی شرک تھا… پھر اللہ تعالیٰ کے مخلص اولیاء نے
ہندوستان کا رخ فرمایا… اور انہوں نے مسلمان فاتحین کو جہاد کے لئے بلایا…
افغانستان کی طرف سے مسلم فاتحین نے یلغاریں کیں…ان مجاہدین میں بڑے بڑے نامور
اولیاء بھی شامل تھے… لکھا ہے کہ… محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے لشکر کو جب سومنات میں کچھ مشکل کا سامنا ہوا
تو… ایک بزرگ ولی ،جن کی عمر ایک سو بیس سال کے لگ بھگ تھی… تلوار لے کر میدان میں
اترآئے…اُن کے مریدین نے اپنے شیخ کو اس حالت میں دیکھا تو وہ بھی جنگ میں دیوانہ
وار کودپڑے اور یوں غزنوی کا لشکر فتح یاب ہو گیا… سلسلہ چشتیہ کے نامور بانی…
حضرت سلطان الہند السیّد معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے القاب میں… ایک لقب ’’قاتل الکفار‘‘ بھی لکھا
ہے…اہل ایمان کو چاہیے کہ حضرت خواجہ چشتی قدس سرہ کے ملفوظات غور سے پڑھیں تاکہ
اُن کے نام اور مزار کے ساتھ جو بدعات وخرافات جوڑی جاتی ہیں… ان کی حقیقت معلوم
ہو… وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے اور عقیدۂ توحید سے سرشار… اسلام کے داعی
تھے…کہا جاتا ہے کہ نوّے لاکھ اَفراد نے اُن کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا…جہاد اور
دعوت کی برکات بھی بہت عجیب ہیں…انسان دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اس کے عمل کا
کارخانہ چلتا رہتا ہے… خصوصاً گمنام مجاہدین کا بہت بڑا مقام اور بہت بڑا کارخانہ
ہے… زمین پر ہونے والی ہر نیکی اور ہر خیر، ہر نماز اور ہر اذان، ہر عمرے اور ہر
حج میں اُن کا اجر شامل ہوتا ہے اور نام نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجر اور زیادہ بڑھ
جاتا ہے…مسلمان فاتحین اور اولیاء و علماء کی محنت سے پورا ہندوستان اسلام کے رنگ
میں آگیا…وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی جو کئی صدیوں تک چلتی رہی…مگر اب پھر
پورے ہندوستان کو…شرک کی سیاہی میں ڈبونے کی کوشش جاری ہے… آر ایس ایس اور وشوا
ہندو پریشد اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں…یقینی بات ہے کہ عروج کے بعد زوال
کی کھائی ہے…سو سال کی جان توڑ محنت کے بعد آج ہندوستان میں ایک قاتل ہندو متعصب
کی حکومت ہے…رنگ برنگے کپڑے پہننے کا شوقین، کیمرے کے سامنے رہنے کا حریص… اور ہر
کسی کے گلے میں بانہیں ڈالنے کا مشتاق ایک ہیجڑا…نریندر مودی…
آر
ایس ایس سمجھ رہی ہے کہ…مودی اس کے خوابوں کی تعبیر ہے…بے شک وہ ٹھیک سمجھ رہی ہے
مگر یہ تعبیر بہت بھیانک ہے…خوابوں کی دنیا عجیب ہے…جو خواب اچھے اور سہانے نظر
آتے ہیں ان کی تعبیر اکثر خطرناک اور بھیانک ہوتی ہے، مثلاً خواب میں خوبصورت
عورتیں دیکھنا اس کی تعبیر اچھی نہیں…جبکہ وہ خواب جو بڑے خطرناک نظر آتے ہیں… ان
کی اکثر تعبیر اچھی ہوتی ہے… مثلاً بیٹے یا بھائی کا مرنا وغیرہ… مودی آر ایس ایس
کے خوابوں کی تعبیر ضرور ہے مگر یہ تعبیر بہت بھیانک ہو گی… کیونکہ جہاد کا دور
زندہ ہوچکا ہے، کشمیر کے مسلمان اس قدر غیرتمند ہیں کہ… وہاں اب گلی گلی میں گائے
ذبح ہورہی ہے…کیونکہ حکومت نے گائے ذبح کرنے پر سخت پابندی لگادی ہے۔ ہندوستان کے
جنوب اورشمال میں آزادی کی تحریکیں پل رہی ہیں اور ہندوستان کے مسلمان عزم اور
جذبے سے سرشار ہیں…مودی اگر جنگ پر اُتراتو وہ ابتدائی کامیابی کے بعد…بہت بڑی
شکست کھائے گا…اور ہندوستان میں ان شاء اللہ حضرت اجمیری، حضرت ہمدانی، حضرت غزنوی
اور حضرت غوری رحمہم اللہ کا زمانہ…زندہ
ہوجائے گا…
ترقی
کی ایک اور مثال
یہاں
ایک اور بات یاد آگئی…آپ میں سے کئی حضرات کو ۲۰۰۱ کے وہ خونی دن
یاد ہوں گے… جب افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کے آخری دن تھے…صلیبی خونخواری کا
سب سے بھیانک واقعہ قندوز میں پیش آیا…مجاہدین کے قافلوں پر ڈیزی کٹر بم برسائے
گئے…ہزاروں مجاہدین نے وہاں جامِ شہادت نوش فرمایا…ان میں اسّی سے زائد ہمارے
ساتھی بھی تھے…پھر شبرغان کی خیانت اور ظلم کا واقعہ ہوا…اور اِمارت اسلامیہ کا
سورج وقتی طور پر پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا…
اُن
واقعات کو سامنے رکھیں اور آج کل کی یہ خبر پڑھیں کہ…طالبان نے قندوز پر قبضہ
کرلیا ہے تو دل اور زبان سے بے ساختہ تکبیر بلند ہوتی ہے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ
اَکْبَرُ کَبِیْرًا…
سبحان
اللہ! وہ جن کو آتشیں بموں سے جلاکر ریزہ ریزہ کردیا گیا تھا وہ آج پھر فاتح بن
کر ابھرے ہیں…بے شک شہداء نہیں مرتے…بے شک شہدا نہیں مرتے…
اور
وہ جو کل تک فاتح اور قابض تھے…آج ذلیل ورسوا اور ایسے بدحواس ہیں کہ…اپنے
ہسپتالوں پر بمباری کررہے ہیں…اے مسلمانو! جہاد کی صداقت کے لیے اور کیا دلیل
چاہیے…؟ آج ہمارے ہاتھ میں جو کچھ ہے اسے دین پر اور جہاد پر لگادیں یہ سب کچھ
محفوظ ہوجائے گا…اور کل ہمارے کام آئے گا…اس لیے کے کل اللہ تعالیٰ کے حضور اکیلے
پیش ہونا ہے…بالکل اکیلے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور …سعدی کے قلم سے 514
آئینے جیسے دل
اہلِ
فلسطین کے لئے دعاء…
’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب کی مقبولیت و افادیت…
’’فدائی دیوانے‘‘ اور استغفار…
نفل
قربانی مہم اور چرم مہم کی کامیابی…
’’چرم مہم‘‘ کے اغراض و مقاصد…
انسان
کا وہی وقت اور مال قیمتی جو رضائے الٰہی
میں
خرچ ہو جائے…
بھائی
محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ …
اور…
ان
کی روحانی سلطنت…
’’آئینہ‘‘ کتاب کی مقبولیت و افادیت…
ایک
رسم کی اصلاح…
جماعتی
جلسوں اور اجتماعات کے لئے ایک لازمی ادب…
دینی
جلسوں کا مقصد…
اسلام
میں خطیب کا مقام… ایک روشن تحریر
۲۹ ذوالحجہ۱۴۳۶ھ؍13
اکتوبر 2015ء
آئینے جیسے دل
اللہ
تعالیٰ ’’فلسطین‘‘ کے جانباز اور مظلوم مسلمانوں کی نصرت اور حفاظت فرمائے…وہاں اس
وقت معرکہ گرم ہے…ظالم یہودیوں کی پشت پر دنیا بھر کا ’’کفر‘‘ ہے…جبکہ فلسطینی
مسلمان اکیلے ہیں…صرف ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے اور یہی سہارا سب سے مضبوط ہے…اسی
لیے وہ نہتے ہوکر بھی فاتح ہیں…وہ پتھروں سے مسلح ہوکر ایک ایٹمی طاقت سے لڑرہے
ہیں مگر پھر بھی سرفراز ہیں…
اَللّٰھُمَّ
انْصُرْھُمْ، اَللّٰھُمَّ اَیِّدْھُمْ…
الیٰ
مغفرۃ
آج
کل ہماری جماعت میں ’’ترقی مہم‘‘ چل رہی ہے…اخبار کا یہ شمارہ آپ تک پہنچتے یہ
مہم قریب الاختتام ہوگی…اس لیے مہم کے بارے زیادہ کچھ نہیں لکھا جارہا…الحمدللہ
روزانہ مکتوبات کے ذریعہ آپ سے ملاقات رہتی ہے…بس اتنا عرض کرنا ہے کہ…’’الیٰ
مغفرۃ‘‘ کتاب کو مہم میں شامل کرنے کی وجہ یہ بنی کہ…الحمدللہ مسلمانوں کو اس کتاب
سے کافی فائدہ پہنچ رہا ہے…اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی مخلص اور ’’مُسْتَغْفِر‘‘
بندوں کو اس کتاب کی خدمت پر لگادیا ہے… ہمارے پروفیسر صاحب نے کراماتی رفتار کے
ساتھ کتاب کا انگریزی میں ترجمہ…رمضان المبارک کی آخری راتوں میں مکمل کرلیا…اللہ
تعالیٰ ان کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے…اب انگریزی ترجمہ شائع ہونے کی
تیاری میں ہے…بعض مخلص اور توّاب بندے زیادہ سے زیادہ افراد تک یہ کتاب پہنچانے کی
مستقل محنت میں لگے ہوئے ہیں…کئی احباب نے القلم اور دیگر قومی اخبارات میں اس
کتاب پر مخلصانہ کالم لکھے…اور کئی اَفراد سوشل میڈیا پر مستقل اس کتاب کو چلارہے
ہیں، پھیلا رہے ہیں… اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی مغفرت کاملہ اور جزائے خیر عطا
فرمائے…الحمدللہ اس کتاب سے دعوت جہاد اور جہاد کے کام کو ایک نئی قوت اور تازگی
ملی ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص فدائی مجاہدین اس پر بہت خوش
ہیں…اللہ تعالیٰ کے یہ وفادار بندے جماعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محبت پر
دیکھنا چاہتے ہیں…انہیں جماعت میں کوئی دینی ترقی نظر آتی ہے تو بے حد خوش ہوتے
ہیں…اور جب وہ جماعت کے افراد میں کوئی دینی کمزوری دیکھتے ہیں تو بے چینی سے تڑپ
اٹھتے ہیں…یہ خوش نصیب جو اپنی جان بیچ چکے ہیں ان کو اپنے جماعتی ساتھیوں کا
موبائل اور نیٹ سے مشغول ہونا…دنیا داری کے دھندوں میں پھنسنا…اور عبادات میں سستی
کرنا، بہت تکلیف دیتا ہے… وہ حیران ہوتے ہیں کہ…ایک مجاہد کس طرح ان معاملات میں
الجھ سکتا ہے…
جب
بھی جماعت میں توبہ اور استغفار کی تازہ ہوا چلتی ہے تو …یہ فدائی دیوانے مسرت سے
جھومنے لگتے ہیں…اور خوشی و مبارکباد کے پیغامات بھیجتے ہیں…’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب
کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں مسلمانوں کو رحمت ، امید اور عزم کا پرنور راستہ
عطا فرمایا ہے…جو رفقاء ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھ سکے وہ ہمت کرکے پڑھ لیں…اور پھر
دوسروں تک بھی…اللہ تعالیٰ کا معافی، مغفرت اور رحمت والا پیغام پہنچاتے رہیں…
جَزَاکُمُ
اللہُ خَیْرًا
الحمدللہ
عیدالاضحیٰ کے موقع پر جماعت کی تمام مہمات پر…اللہ تعالیٰ کا فضل رہا…نفل قربانی
کی مہم کا یہ پہلا سال تھا…کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ مہم اس قدر کامیاب ہوگی…مگر
مشورے میں روشنی، اجتماعیت میں قوت اور اخلاص ومحنت میں کامیابی رکھ دی گئی
ہے…الحمدللہ یہ نصاب مکمل تھا…پہلے بہت جامع مشورہ ہوا تو روشنی آگئی…پھر اجتماعی
ترتیب بنی تو ہمت وقوت آگئی…پھر اخلاص کے ساتھ دیوانوں نے محنت کی تو کامیابی
آگئی…الحمدللہ تمام تقاضے پورے ہوئے اور اس مشق کی برکت سے آئندہ کے لیے بھی
راستے کھل گئے…محنت کرنے والے رفقاء کرام کا شکریہ…اور نفل قربانی وقف کرنے والے
مسلمانوں کا بھی شکریہ…
اللہ
تعالیٰ آپ سب کو ایمان کامل اور خوب جزائے خیر عطا فرمائے…عیدالاضحیٰ کی اہم
’’مہم‘‘ چرم قربانی کی ہوتی ہے…الحمدللہ نہ کھال مقصودہے، نہ مال مقصود…مقصد یہ
ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھی دین اور جہاد کی خدمت میں لگیں…اور مسلمانوں کا مال دین
اور جہاد کی خدمت پر لگ جائے… اس میں لینے والوں کا بھی فائدہ…اور دینے والوں کا
بھی فائدہ…انسان کا وہی وقت قیمتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا میں لگ جائے…اور انسان
کا وہی مال قیمتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا میں خرچ ہوجائے…اس مہم کی برکت
سے…جماعت کے ساتھیوں کا وقت قیمتی بنتا ہے…اور مسلمانوں کا مال ایک عظیم کام پر
خرچ ہوتا ہے…جہاد سے محرومی کی سزا ’’ذلت‘‘ ہے…دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی…یہ
بات قرآن وسنت میں بالکل واضح ہے…اور دنیا میںچاروں طرف ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر
آرہی ہے…پس جس کا وقت جہاد پر لگ جاتا ہے، وہ بھی خوش نصیب اور جس کا مال جہاد پر
لگ جاتا ہے وہ بھی خوش نصیب…بدبختی، بدنصیبی اور ذلت سے بچنے کے لیے اور اللہ
تعالیٰ کی رضا اور خوش نصیبی پانے کے لیے…یہ ’’مہمات‘‘ چلائی جاتی ہیں…
اس
سال حالات کی وجہ سے بظاہر اندھیرا تھا…مگر الحمدللہ…اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نصاب
پورا تھا…مشورہ اور اجتماعیت…اخلاص اور محنت…حکومت نے بہت کوشش کی کہ پاکستان میں
امن ورحمت کے یہ چراغ بھی بجھ جائیں…مگر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل رہا اور چرم
قربانی کی مہم بہت کامیاب رہی…اس مہم میں محنت اور تعاون کرنے والے…رفقاء اور اہل
اسلام کا شکریہ…
یَغْفِرُاللہُ
لِیْ وَلَکُمْ وَجَزَاکُمُ اللہُ خَیْرًا…
آئینے
جیسے دل
ایک
عارف باللہ فقیر نے دلی کی تہاڑ جیل میں بیٹھ کر…ایک ’’آئینہ‘‘ تیار کیا اور ہمیں
بھجوا دیا… پھر وہ خود ایک شفاف ’’آئینہ‘‘ بن کر…اونچی پروازوں پر چلا گیا…اس کا
تیار کردہ ’’آئینہ‘‘…یہ ساحرانہ تاثیر رکھتا ہے کہ…سخت اور کالے دلوں کو بھی…روشن
اور شفاف ’’آئینہ‘‘ بنادیتا ہے… آئینہ کتاب کی پہلی تقریب رونمائی دہلی کے
پھانسی گھاٹ پر ہوئی…جہاں مسکراتے ہوئے افضل نے اپنی کتاب پر…سب سے پہلے عمل کرتے
ہوئے…ایک عجیب روشن زندگی پالی…پھر دوسری تقریب…مظفرآباد کے ایک وسیع و عریض
میدان میں…ہزاروں مجاہدین کے درمیان ہوئی…وہ دن ہے اور آج کا دن…یوں لگتا ہے
کہ…ولی کامل مجاہد ِاسلام حضرت شیخ محمد افضل گورو قدس سرہٗ کی روحانی سلطنت…دہلی
سے کوہالہ تک قائم ہوچکی ہے…
جہادِ
کشمیر کی تحریک نے اس آئینے سے روشنی لے کر…ایسی کروٹ لی کہ کفر کے ایوانوں میں
بھونچال آگیا…اب الحمدللہ شہید افضل کی روحانی سلطنت کا دور ہے…اور مخلص مجاہدین
تیزی سے جہاد کشمیر کی صفوں میں آرہے ہیں…گزشتہ دو سالوں میں کشمیر کے اس طبقے نے
بندوق اٹھائی ہے… جس کے بارے میں…کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ…یہ طبقہ بھی
جہاد پر آئے گا…ہاں! بے شک شہید ولی کی سلطنت بہت وسیع ہوتی ہے…یوں لگتا ہے کہ
جیسے دلی قیام کے دوران تہاڑ جیل کی تاریک راتوں میں…حضرت خواجہ قطب الدین بختیار
کاکی رحمۃ اللہ علیہ …حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ … اور حضرت
سلطان التمش رحمۃ اللہ علیہ نے خوابوں میں
آکر افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر
اپنی روحانی طاقت کے تاج رکھ دیئے ہیں… بے بسی، آہ و زاری اور آنسوئوں والی ان
راتوں میں…افضل نے معلوم نہیں کون کون سے مقامات طے کر لیے…اسی لیے تو وہ ہر وقت
مسکراتا نظر آتا تھا … لوگ چار دن اپنے ملک کی قید پر…چیخ چیخ کر آسمان سر پر
اٹھا لیتے ہیں…مگر افضل تو ہر وقت مسرور تھا…کسی اندرونی نشے سے مخمور تھا…ہم سے
اس کے بارے میں کئی کوتاہیاں ہوئیں…مگر اس نے کوئی شکوہ نہیں کیا…اس کو وہ سب کچھ مل
چکا تھا…جو ایک مسلمان کی سب سے بڑی خواہش اور بڑی ضرورت ہے…ہاں! اللہ تعالیٰ کا
قرب، اللہ تعالیٰ کی معرفت، اللہ تعالیٰ کی محبت …اور اللہ تعالیٰ کی رضاء…
الحمدللہ ’’آئینہ‘‘ کتاب دور دور تک پھیل چکی ہے…افضل کے دشمن افضل کی روشنی اور
خوشبو کو پھیلنے سے نہیں روک سکے…اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوچکے
ہیں…مقبوضہ کشمیر کی گلی گلی میں یہ آئینہ چمک رہا ہے… جیش والو! اب تمہارا کام
ہے کہ…ولی شہید کی سلطنت کا ثمر سمیٹو…زیادہ سے زیادہ افراد تک ’’آئینہ‘‘
پہنچائو…ہندوستان، پاکستان اور کشمیر سے زیادہ سے زیادہ مجاہدین اٹھا کر افضل کے
زیرِکمان لشکر میں کھڑا کرو…اب تمہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ حکومت افضل کی ہے
… بہت اچھا موقع ہے کہ اپنے تمام شہداء کا بھر پور انتقام لو… اگلے، پچھلے سارے
قرضے چکادو… اور غزوۂ ہند کو اس کی معراج تک لے جائو…
ایک رسم کی اصلاح
حضرت آقامدنی صلی اللہ
علیہ وسلم سے بڑھ کر… مخلوق میں کوئی
’’محبوب‘‘ نہیں… کوئی محترم نہیں…اور حضرات صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا … اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کا احترام کرنے والا … اور کوئی نہیں …
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم جب
خطبہ ارشاد فرمانے مسجد میں تشریف لاتے تو… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اجازت نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھڑے ہوجائیں… وہ احترام کے ساتھ بیٹھے
رہتے… اور ایسی توجہ اور ادب سے خطبہ سنتے کہ جیسے سراپا گوش ہوں… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعد آپ کے جانشین خلفاء
راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پھر
حضرات محدثین رحمہم اللہ کا بھی یہی
طرزِعمل رہا ہے… ابھی کچھ عرصہ سے دینی جلسوں میں یہ رسم پڑگئی ہے کہ… خطباء کرام
اور مہمانوں کے آنے پر مجمع کو زبردستی کھڑا کیا جاتا ہے…یہ غلطی ہماری جماعت کے
جلسوں میں بھی…غیر شعوری طور پر داخل ہوگئی… اور اب اس کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا
ہے… خطباء،علماء اور کمانڈروں کے لئے… مسلمانوں کو کھڑا کیا جاتا ہے… اگرچہ وہ
خطباء علماء اور کمانڈر نہ بھی چاہتے ہوں… اس عمل میں کئی خرابیاں ہیں… مثلاً…
١ اسیٹج
پر اور جلسہ گاہ میں بزرگ حضرات، علما ء کرام اور اولیاء عظام بھی ہوتے ہیں… ایسے
قابل احترام حضرات کو کسی کے لیے کھڑا کرنا … اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ذریعہ بن
سکتا ہے …
٢ کسی
کے احترام میں کھڑا ہونا جائز ہے… مگر اس وقت جب کھڑا ہونے والا اپنی مرضی اور
خوشی سے کھڑا ہو… اجتماع یا جلسہ میں چونکہ اعلان کر کے اور حکم دے کر لوگوں کو
کھڑا کیا جاتا ہے تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون اپنی خوشی سے کھڑا ہوا… اور کون
اپنی عزت بچانے کے لئے…
٣ اس عمل
کی وجہ سے اگر کسی کے دل میں یہ شوق پیدا ہوگیا کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوا کریں تو
یہ بڑاخطرناک اور نقصان دہ شوق ہے… جو انسان کے بڑے بڑے اعمال کو اکارت کردیتا ہے…
دینی جلسوں کا مقصد… اللہ
تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی بیان کرنا … اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا … اسلامی احکامات
اور جہاد کی دعوت دینا ہے…ان جلسوں اور اجتماعات کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے
سامنے جھکانا اور دین کی خدمت کے لئے کھڑا کرنا ہوتا ہے… اس لئے ان اجتماعات کو
ایسی رسومات سے پاک رکھا جائے … جو ان اجتماعات کے بنیادی مقاصد کے خلاف ہوں…
بندہ
کا ارادہ تھا کہ … جب اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور خود کسی اجتماع میں شرکت کا
موقع ملا تو… جماعتی اجتمامات میں اس ’’بری رسم‘‘ کے خاتمے کا اعلان کروں گا… مگر
انتظار طویل ہوگیا … یہ بھی معلوم نہیں کہ مجھے موقع ملے گا یا نہیں … اور موت کا
کچھ علم نہیں… اس لئے ماضی میں اس بارے ہم سے جو غلطی ہوئی اس پرتمام مسلمانوں سے
معذرت کرتا ہوں… اور آج سے جماعتی اجتماعات اور جلسوں میں اس رسم پر پابندی کا
اعلان کرتا ہوں… ہمارے جلسوں میں جو مسلمان تشریف لاتے ہیں ہم ان کا بے حد احترام
کرتے ہیں… ہم ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں… اور اب ہم ان کو اپنے لئے یا کسی
کے لئے کھڑا نہیں کریں گے… اسی طرح جماعتی خطباء حضرات سے بھی تاکیدی گذارش ہے کہ
… وہ مسلمانوں کے مجمع کا احترام کریں… بار بار ان کے ہاتھ اٹھوانا، ان کو کھڑا
کرنا ان کی ناقدری ہے یہ کام ہرگز نہ کریں… بار بار وعدے نہ لیں… بس آخری خطیب
اگر کسی جہادی محاذ یا تحریک کے لئے تشکیل کا اعلان کرنا چاہتا ہو تو وہ… کہہ سکتا
ہے کہ جو تیار ہو وہ ہاتھ اٹھائے یا کھڑا ہو کر نام لکھوائے… اسلام میں ’’خطیب‘‘
کا بہت اونچا مقام ہے… حضرات انبیاء علیہم
السلام سارے کے سارے ’’خطباء‘‘ تھے… قرآن
مجید نے اُن کے ’’خطبات‘‘ کا جابجا تذکرہ فرمایا ہے… جو ’’خطیب‘‘ اللہ تعالیٰ کی
رضا کے لئے خطاب کرتا ہو اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہو تو… اس کا اجر
اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر بڑا ہے کہ… عام لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے… بس
شرط ایک ہی ہے کہ… خطیب میں اخلاص ہو… اور وہ خود باعمل ہو… بندہ نے کچھ عرصہ قبل
خطیب کے عظیم مقام اور خطابت کے شرعی آداب پر ایک مضمون لکھا تھا… وہ ابھی تک
شائع نہیں ہوا… موقع ملا تو ان شاء اللہ رنگ ونور میں شائع کردیا جائے گا… خطبا ء
کرام کو اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا چاہئے… تواضع اختیار کرنی چاہئے…
اور اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے خطاب سے پہلے… استغفار اور دعاء کا بہت اہتمام کرنا
چاہئے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 515
اَسْلِمْ تَسْلَمْ
ساری
دنیا ’’سلامتی اور امن‘‘ کو ترساں…
یہود،
عیسائی، ہندو سب ’’سلامتی‘‘ کے خواہاں…
مگر
’’سلامتی‘‘ دور، دور… آخر کیوں؟…
جہاد
و مجاہدین کو مٹانے کے لئے… ہر ہتھکنڈا
آزما
لیا گیا… بموں کی برسات سے… ڈالروں کی لالچ تک…
مگر…
جہاد… روز افزوں… مجاہدین رواں دواں…
دنیا
پریشان… اہل کفر لرزہ براندام… آخر کیوں؟…
کیا
اسلام کے بغیر سلامتی مل سکتی ہے؟…
کیا
جہاد و مجاہدین کو ختم کیا جا سکتا ہے؟…
ان
سب سوالات کے جوابات لے کر حاضر ہیں…
ہنستے
مسکراتے اور ہنساتے… جناب ’’خیال جی‘‘…
ملاحظہ
فرمائیے…
۸ محرم۱۴۳۷ھ؍21 اکتوبر
2015ء
اَسْلِمْ تَسْلَمْ
اللہ
تعالیٰ معاف فرمائے… آج کا کالم ’’خیال جی‘‘ کی ’’خیالیات‘‘ پر مشتمل ہے…
میری
دکان
بے
روزگاری سے تنگ آکر سوچا کہ… روزی اور کمائی کا کوئی ذریعہ کیا جائے… آپ تو
جانتے ہیں کہ میں یعنی مسمیٰ ’’خیال جی‘‘ نہ سیاستدان ہوں نہ سائنسدان… نہ ڈاکٹر
نہ انجینئر…اب کہاں سے کمائوں اور کہاں سے کھائوں…بالآخر اپنے استاد ’’درویش جی‘‘
کی خدمت میں حاضر ہوا …انہوں نے سمجھایا کہ کیوں فکر کرتے ہو… مشوروں، تعویذوں اور
عملیات کی دکان کھول لو … چند ہی دنوں میں مالا مال ہوجائو گے…اور سنو! آج کل
دنیا بھر کے حکمران انتہاپسندی، شدت پسندی اور جہاد سے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں… تم
اسی موضوع کے دانشور، عامل اور ڈاکٹر بن کر بیٹھ جائو… اور پھر ملالہ یوسف زئی کے
باپ کی طرح صبح شام نوٹ ہی نوٹ گنتے رہو…درویش جی کا مشورہ معقول تھا، سیدھا میرے
معدے کو لگا… عرض کیا یامرشد! کچھ قرضہ عنایت ہوتاکہ دکان کرائے پر پکڑ سکوں…انہوں
نے تین روپے عطا کئے اور فرمایا! ایک روپیہ دکان کا کرایہ…ایک روپیہ بورڈ کی
لکھائی…اور ایک روپے سے چھوٹا موٹا جہاز خرید لو…میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں بڑے
بڑے سفر درپیش ہوں گے… تین روپے بریف کیس میں بھر کر میں درویش کی جھگی سے نکلا …
جاتے ہی مارکیٹ میں ایک دکان پکڑی…ایک خوبصورت بورڈ لکھوایا…جس کا عنوان تھا…انتہا
پسندی کا مکمل خاتمہ، شدت پسندی کا تیر بہدف علاج اور مجاہدین سے بچنے کے نادر
طریقے… حضرت حکیم، ڈاکٹر، عامل کامل، دانشور، تھنک ٹینک خیال جی…فون نمبر…
کالوں
کا تانتا
اگلے
دن خان جی کے ہوٹل سے اُدھار کی چائے پی کر میں اپنی دکان کو جانے لگا تو…خان جی
نے پیسے مانگے…میں نے فخر سے مسکرا کر کہا …اب فکر نہ کرو سارے قرضے جلد چکا دوں
گا… دکان جاکر بیٹھا ہی تھا کہ فون پر کالوں کا تانتا بندھ گیا…میں پریشان کہ سب
سے پہلے کس کی کال سنوں؟ پھر فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے ایک کالے کی کال سنتا
ہوں…بٹن دباکر فون کان سے جوڑا تو چرسیوں جیسی اُکھڑی ہوئی، اُبھری ہوئی آواز
آئی …آئی ایم ابامہ…آریو خیال جی؟…میں نے کہا ہاں! بولو…کہنے لگا: خیال جی ہم
مر گئے … کئی ٹریلین ڈالر خرچ کردئیے…مگر مجاہدین ختم ہوئے نہ جہاد رُکا…مسلمانوں
کے ہر ملک میں ہم نے اپنے زرخرید ایجنٹ حکمران بٹھا دئیے…مگر جہاد ہر طرف پھیلتا
جارہا ہے…اب تو ہماری اپنی سلامتی خطرے میں ہے…خیال جی! کوئی مشورہ دو، کچھ
سمجھائو…کوئی تعویذ دو…افغانستان، عراق، شام سے لے کر افریقہ کے آخری کونے تک
جہاد ہی جہاد ہے، مجاہدین ہی مجاہدین ہیں…یہ کہہ کر ابامہ ہچکیاں لے کر رونے
لگا…میں نے کہا: ابامہ تمہیں میری فیس معلوم ہے؟ کہنے لگا نہیں تم بتادو…میں ایک
دو دن گانجا اور چرس نہیں پیئوں گا…تمہاری فیس ادا کردوں گا…میں نے کہا …ساڑھے
پانچ روپے…ابامہ گڑ گڑانے لگا کہ کچھ رعایت کرو… ہمارا ملک معاشی خسارے میں جارہا
ہے…خود امریکہ میں بغاوتیں پھوٹ رہی ہیں…اُدھر روس بھی دوبارہ پَر پرزے نکال رہا
ہے…چین اور شمالی کوریا بھی ہاتھ نہیں آرہے … اور یہ مجاہدین اُف توبہ…روز بوریاں
بھر کر ڈالر خرچ کرنے کے باوجود…اور اتنی بمباری کے باوجود کسی بھی طرح کم نہیں
ہورہے…معلوم نہیں زمین سے اُگ رہے ہیں یا آسمانوں سے برس رہے ہیں…خیال جی! کچھ
رعایت! کافی بات چیت کے بعد پانچ روپے میں سودا طے ہوگیا … اور میں نے ابامہ سے
امریکہ کے دورے کا وعدہ کرلیا کہ…جلد واشنگٹن کا چکر لگاتا ہوں اور تمہیں مشورے سے
نوازتا ہوں…تھینک یو تھینک یو کی گردان کے ساتھ یہ کال ختم ہوئی تو فون پھر بجنے
لگا…گھنٹی کی آواز سے لگ رہا تھا کہ کال قریب کی ہے…بٹن دبا کر سنا تو کانوں میں
ڈھول کی آواز آئی…میں حیران ہونے ہی والا تھا کہ آواز آئی …میں نریندر مودی
بول رہی ہوں…ارے خیال جی! تمہاری پڑوسن مودی…میں نے کہا! ہاں مودی سنائو کیسی
ہو…کہنے لگا…بس ابھی درزی کے پاس سے آرہی ہوں…وہ جو اس نے یوم آجادی پر میرا سوٹ
بنایا تھا…ارے! نیلے رنگ کا چھمک چھلو…اس کی شلوار پر بھی موئے نے آگے پیچھے ہر
طرف لکھ دیا تھا…مودی، مودی … ہائے بے سرم کہیں کا… وہ سوٹ تو میں نے بیچ ڈالا…اب
آٹھ جوڑوں کا آرڈر دے آئی ہوں…موئے کو تاکید کری ہے کہ کپڑوں میں گھنگھرو ضرور
لگایا کرے …پھر راستے میں پھوٹو گرافر کے پاس گئی…کچھ نئے پھوٹو بنوائے…بہت مصروف
ہوں…ابھی کئی ملکوں کا دورہ کرنا ہے…ہر جگہ نئے کپڑے پہن کر پھوٹو بنوانے ہوتے
ہیں…میں تو ہر راشٹر پتی کے گلے میں بانہیں ڈال کر …اپنے دیش کے لیے ساری باتیں
منوالیتی ہوں…مودی کی باتوں سے تنگ آکر میں نے کہا…چھوڑو ان باتوں کو…مجھے کیوں
فون کیا؟ کہنے لگا…
وہ
ہمارے دیش میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے…کشمیر کی طرف پھر مجاہدین اکٹھے ہورہے ہیں…اور
افغانستان سے بھی کافی کھترا لگ رہا ہے…ہائے! میں تو بہت ڈر رہی ہوں، دل دھک دھک
کررہا ہے…امریکہ والے بھی بتار ہے ہیں کہ انڈیا بہت کھترے میں ہے…ہمیں مسورہ دو،
کوئی تعویج منتر بتائو…مودی سے چار روپے میں فیس طے ہوئی اور میں نے دورے کا وعدہ
کر لیا … مگر یہ کیا فون پھر بجنے لگا…اب روسی صدر ’’پوٹن‘‘ کی کال تھی…وہ بھی بہت
چیخ رہا تھا کہ ہمارے ہاں تو سائبیریا سے تاجکستان تک…اور قفقاز سے آمو تک
مجاہدین ہی مجاہدین نظر آرہے ہیں… روس اور وسطی ایشیاء کے چودہ ہزار افراد بھاگ
کر شام اور عراق چلے گئے ہیں…اور وہ مجاہدین بن گئے ہیں…ان میں تاجکستان کے خفیہ
ادارے کا سربراہ بھی شامل ہے…ہم پہلے ہی افغانستان میں مار کھا چکے ہیں…یہ کہہ کر
پوٹن رونے لگا اور بولا …میں ان مجاہدین کی تصویریں دیکھتا ہوں تو خوف سے میری
پوٹی نکلنے لگتی ہے…اب ہم شام میں بمباری کررہے ہیں مگر خود اپنی زمین ہمارے نیچے
سے سرک رہی ہے…آخر یہ جہاد ہے کیا؟ … ہماری سلامتی خطرے میں ہے…خیال جی کچھ
بتائو، کچھ سمجھائو، پوٹن سے ساڑھے تین روپے میں بات طے ہوئی اور میں نے ماسکو کا
چکر لگانے کا وعدہ کرلیا…
کل کی بات تھی کہ میں بے
روزگار تھا مگر آج میرے پاس تین ملکوں کے آرڈر تھے …اور میں خیالات ہی خیالات
میں… ضیاء الدین یوسفزئی کی طرح… نوٹ ہی نوٹ گن رہا تھا…
سفرکی تیاری
میرے
فون پر مزید کالیں بھی آرہی تھیں… ایک کال ایران سے تھی… فون بہت دھوکے سے بج رہا
تھا میں نے کال کاٹ دی… ایک اور کال برطانیہ سے تھی… یہ کال بھی کاٹ دی… اکیلا
آدمی کس کس کی کال وصول کرے؟ … سوچا پچھلے تین آرڈر نمٹالوں پھر… باقی لوگوں سے
بات کر لوں گا… قریب ہی ایک کھوکھے سے جا کر نیا جہاز خریدا… چاچا رحیم بخش کی
دکان سے اس کے ٹائروں میں ہوا بھروائی…اور امریکہ ،انڈیا اور روس کے دورے کے لئے
تیار ہو گیا… مگر فون تھاکہ چپ ہی نہیں ہو رہا تھا ایک کال بار بار آرہی تھی… غصے
اور بے دلی کے ساتھ ریسیو کی تو… دوسری طرف بنیامین نیتن یا ہو تھا… اس نے تڑپ کر
کہا خیال جی ،خیال جی… اور پھر ہچکیاں لے کر رونے لگا… وہ اس طرح رورہا تھا جیسے
رات کے اندھیرے میں بلی روتی ہے… میں نے بڑی مشکل سے چپ کرایا… وہ کہنے لگا: یہ
فلسطینی مجاہدین، یہ حماس والے… یہ کہہ کر پھر دھاڑیں مارنے لگا… ہم نے ہر اسلحہ
استعمال کرلیا… مگر وہ چاقو اور چھری لے کر ہمارا مقابلہ کررہے ہیں… خیال جی! خوف
ہی خوف ہے اور بہت پریشانی… جتنا تشدد اور اسلحہ ہم نے فلسطینیوں پر چلا یا… اتنا
اگر کسی اور قوم پر چلاتے تو وہ کبھی کی مٹ گئی ہوتی … مگر یہ تو بڑھتے ہی جارہے
ہیں… ہر دن جنگ کا نیا طریقہ… اور ہر دن الجہاد الجہاد کے نئے نعرے…ہائے! قوم یہود
ماری گئی… تباہ ہوگئی … نہ امریکہ کی یاری سے کچھ کام بن رہا ہے اور نہ عربوں کی
فلسطین سے غفلت کا ہمیں کوئی فائدہ مل رہا ہے… ہمیں مصر میں ’’محمد مرسی‘‘ سے خطرہ
تھا ہم نے اسے ہٹوا کر اپنا ’’سیسی‘‘ بٹھا دیا مگر وہ توہمارے لئے پیشاب
کی’’شیشی‘‘ نکلا… ہائے! ہماری سلامتی، ہائے ہماری سلامتی… خیال جی! کچھ بتائو، کچھ
سمجھائو…میں نے کہا… دیکھونیتن! میں بہت مصروف ہوں…ابھی امریکہ جانا ہے، پھر روس
اور انڈیا کا چکر ہے… ایسا ہے کہ تم مجھے پھر کال کرلینا… یہ سن کر وہ باقاعدہ
گڑگڑانے لگا… خیال جی! میں تمہارے پائوں پڑتا ہوں… اس بار بڑا خطرناک انتفاضہ
ہے ہمارے لئے بھی وقت نکالو… اس کے رونے
دھونے پر ترس کھا کر میں نے تل ابیب کے دورے کا وعدہ بھی کرلیا اور ڈھائی روپے فیس
بھی پکی طے کرلی…
جہاز
حادثے سے بال بال بچا
گھروالوں اور دوستوں سے
رخصت ہو کر میں اپنے جہاز پر آبیٹھا… جہاز کی بریکیں،پیڈل اور ہینڈل چیک کر کے
میں نے اپنا جہازروس کی طرف اُڑادیا… ارادہ تھا کہ پہلے ماسکو جاؤں گا … پھر واپس
انڈیا… وہاں سے اسرائیل اور آخر میں امریکہ… وجہ یہ تھی کہ امریکہ سے غذائی قلت
کی خبریں آرہی تھیں… انڈیا کا وزیر اعظم پھر ڈھول لے کر پڑوسی ملکوں کی شادیوں
میں چلا گیا تھا … اور اسرائیل میں میرے جہاز کے لئے رن وے کی تعمیر کا کام جاری
تھا… چنانچہ روس کی طرف پہلے جانا طے پایا… میرا جہاز فضا میں بلند ہوا… ابھی
تھوڑا سا سفر طے ہوا تھا کہ ایک بڑا ساجہاز لڑ کھڑاتا ہوا، ہانپتا ہوا میرے جہاز
کے قریب آنے لگا… میں نے دوربین لگا کر دیکھا تو اس جہاز کی چھت پر بڑی بڑی دیگیں
رکھی تھیں… اور ان کے بوجھ کی وجہ سے وہ ٹھیک طریقے سے اڑنہیں پاتا تھا… میں نے
غور سے دیکھا تو… دیگوں پر کھانوں کے نام درج تھے… قورمہ، سری پائے، بریانی، مچھلی
کڑی،نہاری وغیرہ وغیرہ… وہ جہاز جس طرح سے ڈگمگا رہا تھا خطرہ تھا کہ میرے جہاز سے
اس کی ٹکر ہوجائے … میں نے فوراً کنڑول ٹاور کے ذریعہ اس جہاز کے پائلٹ سے رابطہ
کیا… پوچھا یہ کس کا جہاز ہے ؟ جواب آیا وزیراعظم پاکستان کا جہاز ہے وہ اس میں
خود سوار ہیں اور امریکہ کے دورے پر جارہے ہیں… پوچھا کہ یہ اتنی بھاری دیگیں کیوں
لاد رکھی ہیں؟کہنے لگا امریکہ والوں نے وزیراعظم صاحب کو چھ دن کے لئے بلایا تھا…
پھر جب ان کے کھانے کا مینیو معلوم ہوا تو ڈر کے مارے یہ دورہ تین دن کا کردیا… مگر
ہمارے وزیر اعظم صاحب کو خطرہ تھا کہ… امریکی بڑے کنجوس ہیں وہ ان تین دنوں میں
…روزانہ صرف تین وقت کا کھانا دیں گے… تو باقی روزانہ تین وقت کا کھانا وہ اپنے
ساتھ لے جارہے ہیں… ملک اور قوم کے مفاد میں… انتہا پسندی اور شدت پسندی کو ختم
کرنے کے لئے… ایسی قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں… قربانی کی دیگوں کے وزن سے جہاز
ڈگمگا رہا ہے … تم اگر حادثے سے بچناچاہتے ہو تو اپنا جہاز ایک طرف کرلو… میں نے
فوراً اپنا جہاز ایک طرف دور کر کے کھڑا کردیا کہ… پہلے دیگوں والا جہاز گزرجائے…
اب میرا جہاز ایک سائیڈمیں کھڑا تھا… مجھے خیال آیا کہ… میں اپنے مرشد سے کچھ
مشورہ کرلوں…
اَسْلِمْ
تَسْلَم
میں
نے جہاز کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا ہوا اپنا تھیلا اُتارا… اور فون نکال کر درویش جی
کا نمبر ملالیا… دوسری طرف میٹھی سی آواز آئی…ہاں خیال جی! عرض کیا… حضرت! آپ
کی دعائوں سے جہاز کی گدی پر بیٹھا ہوں…پوٹیوں والے صدر پوٹن کے پاس جا رہا ہوں
…بس ایک بات سمجھا دیں… یہ بڑے بڑے ملک،جن کے پاس ایٹم بموں کے کارخانے اور زمین
کے خزانے ہیں… یہ سب’’ سلامتی‘‘ کو کیوں ترس رہے ہیں؟ اور دوسری بات یہ کہ جہاد کے
خلاف کھربوں ڈالر،ٹنوں اسلحہ، منوں بارود، دھاروں فوجیں استعمال ہو رہی ہیں… مگر
جہاد کیوں ختم نہیں ہو رہا؟… درویش جی نے فرمایا … خیال جی! درود شریف پڑھو… میں
درود شریف پڑھنے لگا… فرمایا! درودشریف میں کتنے نام آئے… میں نے عرض کیا… دو نام
آئے… فرمایا کونسے؟ عرض کیا… اللہ اور محمد… فرمانے لگے ان دونوں سے کوئی بڑا ہے؟
عرض کیا نہیں… فرمایا ان دونوں سے زیادہ کوئی سچا ہے؟ عرض کیا نہیں… فرمایا… ان
دونوں کا ارشاد ہے…یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ مخلوق کو
سنایا ہے کہ… سلامتی صرف اسلام میں ہے… اور جہاد اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہے… اور اللہ
تعالیٰ کے کلمات کو کوئی مٹا نہیں سکتا… سنو خیال جی سنو… حضرت آقا محمدمدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے چند
خطوط لکھوائے اور ساری دنیا کے حکمرانوں کو بھجوائے… ان خطوط میں یہ جملہ مبارکہ
بھی تھا…
اَسْلِمْ
تَسْلَمْ… تم اسلام لے آئو تمہیں سلامتی مل جائے گی… بس فیصلہ ہو گیا کہ اسلام کے
بغیر سلامتی کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں… نہ دل کی سلامتی، نہ روح کی سلامتی، نہ
ظاہر کی سلامتی، نہ باطن کی سلامتی،نہ دنیا کی سلامتی، نہ آخرت کی سلامتی…اسلام
سے محروم کافر… بظاہر جس امن اور سلامتی میں نظر آتے ہیں وہ بھی حقیقت میں کوئی
سلامتی نہیں تم ان کے دلوں کو جاکر دیکھو ! تو تمہیں ترس آئے گا کہ وہ کس قدر ذلت
، خوف، لالچ اور بے یقینی کے زخموں سے چور چور ہیں… اور اب تو وہ مجاہدین کی برکت
سے ظاہری سلامتی سے بھی محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں… اور باقی رہا جہاد تو سرور
کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا اٹل فرمان
ہے… اور ان کے فرمان کا یقینی ہونا سورج سے بھی زیادہ روشن ہے کہ… جہاد کو کوئی
نہیں روک سکتا: لَایُبْطِلُہٗ جَوْرُجَائِرٍ وَّلَا عَدْلُ عَادِلٍ…
جہاد
پہلے بھی تھا مگر کم تھاکیونکہ… دعوت میں کمزوری تھی اور میدان تنگ تھے… اب ماشاء
اللہ دعوت کی برسات ہے اور میدان وسیع ہیں… اس لئے اب جہاد طوفانوں کی طرح بجلی کی
رفتار سے بڑھ رہا ہے… درویش جی نے سلام کر کے فون بند کردیا…میں نے دور بین
آنکھوں سے لگائی تو دیگوں والا جہاز کافی دور جا چکا تھا… مگر فضا میں اب بھی
نہاری، بریانی اور قورمے کی خوشبو آرہی تھی … اس خوشبو کو سونگھ کر میری بھوک چمک
اٹھی… میں نے موبائل تھیلے میں ڈالا اور اسی تھیلے سے بھنے ہوئے چنوں کا شاپر نکال
لیا… چنوں کی پوری ایک مٹھی بھر کر میں نے منہ میں ڈالی…کِک مار کر جہاز کو اسٹارٹ
کیا… اور یہ جا وہ جا…استغفر اللّٰہ… استغفر اللّٰہ… استغفر اللّٰہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
خ…خ…خ
رنگ
و نور 516
بڑی
زندگی
اماں
جی سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ
عنہا کا مختصرتذکرہ…
سیّدنا
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ اور فرمان…
موت
سے یاری… پھر کوئی فکر نہیں، کوئی پرواہ نہیں…
موت
کی مختلف شکلیں… اور اصل فکر کی چیز…
ہر
لمحہ… ایمان ہمراہ… اور موت کی تیاری ضروری…
زلزلہ
کیوں آتا ہے؟…
زلزلے
سے مرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت نہیں…
زلزلے
سے بچ جانے والوں کو کیا کرنا چاہیئے؟…
زلزلہ
ایک ’’لشکر الٰہی‘‘…
زلزلہ
کے مختلف مقاصد و حکمتیں…
ان
سب باتوں کا احاطہ کرتی ایک جامع تحریر…
۱۴ محرم۱۴۳۷ھ؍27 اکتوبر
2015ء
بڑی
زندگی
اللہ
تعالیٰ کا ’’سلام‘‘ اور بے شمار رحمتیں ہوں … حضرت سیّدہ ’’فاطمہ‘‘ رضی اللہ عنہا
پر…
حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری اور لاڈلی لخت جگر… خواتینِ جنت
کی سردار … کائنات کی کامل ترین اور مقدس ترین ہستیوں میں سے ایک…حضرت سیّدنا حسن
اور حسین رضی اللہ عنہما کی امی جان… ہم سب کی محترم اور مکرم امی
جان…حضرت سیّدہ ،قدسیہ، منورہ، طاہرہ، طیبہ … برکتوں کا خزینہ ’’فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا
‘‘…
تفسیر
عزیزی رحمۃ اللہ علیہ میں لکھا ہے:
’’میدان حشر میں سب کو حکم دیا جائے گا کہ اپنی آنکھیں بند کر لو
تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا
پل صراط پر سے تشریف لے جائیں…‘‘
اے
مسلمان بہنو! اندازہ لگاؤ کہ حیاء کتنی عظیم نعمت ہے…اپنی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ
سے ’’حیاء‘‘ کی نعمت مانگا کرو…حیاء کی نعمت ملی تو حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
کی نسبت پانے کا پہلا دروازہ کھلے
گا… آج کی مجلس کا موضوع حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
سیرت مبارکہ کا بیان نہیں ہے… ان کا تذکرہ بطور برکت اور ایک واقعہ کی تمہید کے
لئے ہوا ہے…حضرت سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ ،حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بڑے
صاحب زادے ہیں…وہ ایک جنگ میں اپنے والد گرامی حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے… جنگ گھمسان کی تھی مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہ تو زرہ پہنی اور نہ سر پر آہنی ٹوپی… آپ
نے عام سا کرتہ پہنا ہوا تھا اور اس کے باوجود اپنے گھوڑے کو جنگ کی صفوں کے
درمیان کوداتے تھے …بیٹے کے دل میں فطری محبت جاگی… بے قرار ہو کر عرض کیا:
اے
والد محترم! یہ لڑائی کا لباس نہیں جو آپ نے پہن رکھا ہے…
مقصد
یہ تھا کہ…جب آپ نے اتنا اندر گھس کر ہی لڑنا ہے تو زرہ ، بکتر زیب تن فرما لیجئے
… آپ کی جان ہم سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے بے حد قیمتی ہے…
مگر
حضرت سیّدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
یَا
بُنَیَّ لَا یُبَالِی اَبُوْکَ، عَلَی الْمَوْتِ سَقَطَ أَمْ سَقَطَ عَلَیْہِ
الْمَوْتُ۔
’’اے پیارے بیٹے! تیرا باپ اس کی پرواہ نہیں رکھتا کہ وہ موت پر
گرے یا موت اس پر گرے‘‘… ( تفسیر عزیزی)
کل
جب پاکستان میں ایک اور زوردار ’’زلزلہ‘‘ آیا تو مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان یاد آ گیا…واقعی موت نے تو آنا
ہے… اور جو موت سے دوستی اور یاری کر لے اسے اس کی فکر نہیں رہتی کہ وہ موت پر گرے
یا موت اس پر گرے … کوئی اپنی روحانی محبوبہ کو گلے لگائے یا اس کی محبوبہ اسے گلے
لگائے… بات تو ایک ہی ہے… زلزلوں اور حادثات کے موقع پر مسئلہ یہ نہیں کہ … کون مر
گیا اور کون بچ گیا…ایک مومن کے لئے اصل فکر والی بات یہ ہے کہ…اسے جیسے بھی موت
آئے وہ اسلام اور ایمان کی حالت میں ہو… ایمان کی حالت میں بظاہر بھیانک اور
خوفناک نظر آنے والی موت بھی بہت میٹھی ہے…مثلاً زلزلے سے مرنا …جلتے تیل کی دیگ
میں جل کر مرنا…شدید بمباری سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مرنا… یہ سب کچھ دیکھنے میں خوفناک
نظر آتا ہے…حالانکہ ایمان و شہادت کی صورت میں یہ سب ’’موتیں‘‘ شہد سے زیادہ
میٹھی ہیں…لیکن اگر موت ایمان کی حالت میں نہ ہو تو بظاہر وہ جتنی پُرسکون ہو اسی
قدر زیادہ کڑوی ہے…جیسے لندن میں کسی بڑے عالیشان ہسپتال کے قیمتی بیڈ پر… ڈاکٹروں
اور نرسوں کے جھرمٹ اور جدید مشینوں کی نگرانی میں مرنا وغیرہ…
زلزلہ
کیا ہے؟ یہ کیوں آتا ہے؟ اور اس کے آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے… یہ سب باتیں
قابل غور ہیں…ویسے زلزلے میں جو لوگ مر جاتے ہیں انہیں تو غور کا موقع ملتا ہی
نہیں…البتہ جو بچ جاتے ہیں وہ لمبی لمبی بحثیں اور باتیں کرتے ہیں …ہو سکتا ہے کہ
آج یا کل یا کبھی پھرزلزلہ آئے اور ہم بھی مرنے والوں میں شامل ہوں…اس لئے ضروری
ہے کہ ایمان کو ہر وقت ساتھ رکھیں … آئندہ کل کے لئے کسی گناہ یا ظلم کا ارادہ نہ
رکھیں…اپنے کمپیوٹر اور موبائل میں گناہ جمع کر کے نہ رکھیں… جو گناہ ہو گئے ان پر
ندامت اور استغفار… اور آگے کے لئے گناہوں کی نیت، ارادہ،تیاری یا عزم نہ ہو…
ضروری نہیں کہ زلزلہ ہی ہمیں لینے آئے… چھت بھی گر سکتی ہے… یورپ کا ایک بڑا
سائنسدان اس طرح مرا کہ اس کے سر پر چیل نے کوئی چیز پھینک دی…وہ زمین پر چل رہا
تھا اوپر چیل اپنے منہ میں کوئی شکار لے کر جا رہی تھی وہ اس سے گر گیا…اور
سائنسدان صاحب کی کھوپڑی ٹوٹ گئی… اسلام نے اسی لئے ہمیں ہر موقع پر ایمان ساتھ
رکھنے کے طریقے سکھائے ہیں…آپ بیت الخلاء جا رہے ہیں… ظاہر ہے وہاں حالت اچھی
نہیں ہوتی اور کوئی مسلمان اس حالت میں مرنا پسند نہیں کرتا… مگر بیت الخلاء جاتے
وقت دعاء پڑھی لی… اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لیا…سر ڈھانپ لیا…سنت کے مطابق داخل
ہوئے… اب کوئی فکر نہیں…وہاں موت آتی ہے تو آ جائے…ویسے یہ الگ بات ہے کہ … اچھی
جگہ اور اچھی حالت میں موت کی دعاء مانگتے رہنا چاہیے…
ایک
آدمی اپنی بیوی سے مل رہا ہے…ظاہر ہے کہ یہ ایسی حالت نہیں جس میں مرنا اچھا نظر
آتا ہو… بے ستری بھی ہے اور ناپاکی بھی…مگر جس نے لباس ہٹانے سے پہلے ’’بسم اللہ
‘‘ پڑھ لی… اس کے لئے فکر کی کوئی بات نہیں…وہ اس حالت میں مر گیا تو ایمان پر مرے
گا… تفسیر ِعزیزی میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ جو شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے سے پہلے ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھ لے
تو فرشتے اس کے لئے غسل کرنے کے وقت تک مسلسل نیکیاں لکھتے رہتے ہیں‘‘ ( تفسیر
عزیزی)
خلاصہ
یہ کہ زلزلے سے مرنا…اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضی کی علامت نہیں…ہاں! گناہ کی
حالت میں، گناہ کے عزم میں اور بے ایمانی میں مرنا یہ بڑے نقصان اور عذاب کی بات
ہے… اللہ تعالیٰ ایسی بری موت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…باقی رہے وہ لوگ جو زلزلے
سے بچ جاتے ہیں…انہیں چاہیے کہ زلزلے کے بارے میں زیادہ باتیں اور تبصرے نہ
کریں…بلکہ خود بھی استغفار کریں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی استغفار کی طرف بلائیں…
اور زلزلے سے متاثر ہونے والے افراد کی حتی الوسع دلجوئی اور مدد کریں… بس ان دو
کاموں کے علاوہ باقی سب کچھ یا تو بے کار ہے یا وبال… کئی لوگ ایسے مواقع پرگناہوں
کی فہرستیں لکھنے لگتے ہیں کہ…فلاں فلاں گناہوں کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے…اس میں
کوئی شک نہیں کہ گناہوں کے وبال سے زلزے اور آفتیں آتی ہیں…مگر زلزلے کے موقع پر
طعنہ زنی اور لفاظی کی نہیںتوبہ استغفار کی ضرورت ہوتی ہے… ویسے بھی اللہ تعالیٰ
معاف فرمائے ہمارے معاشرے میں ہر گناہ پوری قوت اور نحوست کے ساتھ مسلط ہے… ہمیں
ہر وقت ان گناہوں کے خلاف محنت کرتے رہنا چاہیے…کچھ لوگ زلزلے کے وقت یہ انکشاف
ضرروی سمجھتے ہیں کہ…یہ زلزلہ ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے آیا ہے…اس میں شک نہیں کہ
حکمرانوں کے برے اعمال سے اجتماعی آفات نازل ہوتی ہیں…مگر ہمارے حکمران تو خود ہی
ہر زلزلے سے منحوس زلزلہ اور ہر آفت سے بڑی آفت ہیں… یہ نام کے مسلمان …کافروں
کے سامنے سر جھکا کر جاتے ہیں اور وہاں ان سے اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے کے
وعدے کر آتے ہیں…ان کے کس کس جرم اور گناہ کا تذکرہ کیا جائے…مگر زلزلے کے وقت ان
حکمرانوں کے برے اعمال کی جامع فہرستیں شائع کرنا…کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا…
ان
ظالم حکمرانوں کا تو ایک ایک عمل ایسا خطرناک ہے کہ…اگر اس کے بدلے میں اللہ
تعالیٰ پوری زمین کو الٹ دے تو یہ بھی اس کا حق ہے… مگر اللہ تعالیٰ حلم اور عفو
والے ہیں کہ… ہر عمل پر فوری پکڑ نہیں فرماتے…زلزلے میں زمین اندر تک ہلتی ہے
تاکہ…ہم بھی اپنے اندر تک جھانکیں اور اپنے اندر جلد اچھی تبدیلیاں لائیں… ممکن ہے
ایک شخص زلزلے کے موقع پر سب کے گناہ اور سب کے عیب گنوا رہا ہو… حالانکہ خود اس
کے گناہ اس زلزلے کا اصل سبب ہوں… زلزلہ اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر
ہے… اور اللہ تعالیٰ کے لشکروں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ…وہ کتنے
ہیں اور کتنی طاقت رکھتے ہیں…
زلزلے
کے اس لشکر کے ذریعے …اللہ تعالیٰ کئی سرکشوں کی اکڑی گردنیں توڑتا ہے…کئی مجرموں
کو سزا میں دھنساتا ہے…کئی غافلوں کو عبرت کا مقام بناتا ہے…
اس
زلزلے کے لشکر کے ذریعہ …اللہ تعالیٰ اپنے کئی بھٹکے ہوئے بندوں کو توبہ کا راستہ
دکھاتا ہے… کئی مجرموں کو معافی مانگنے کے لئے ایک اور موقع دیتا ہے… اور اپنے کئی
مخلص بندوں کو حادثاتی موت کے ذریعہ شہادت کا مقام عطاء فرماتا ہے…زلزلے کا الٰہی
لشکر… ہم سب مسلمانوں کو توبہ کی طرف بلاتا ہے…موت اور استغفار کی یاد دلاتا ہے…
اور ہمیں سمجھاتا ہے کہ… زمین پھٹنے کے انتظار میں گھر نہ پڑے رہو…بلکہ اٹھو ،
نکلو، زمین کو کفر سے پاک کرو… اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کی سربلندی کے لئے موت کے
پیچھے دوڑو… تب تمہیں زندگی ملے گی…بڑی زندگی…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 517
ھادیاً وَّ نصیراً
اللہ
تعالیٰ ’’ھادی‘‘ ہیں… راستے دکھانے والے…
اللہ
ٰتعالیٰ ’’نصیر‘‘ ہیں… مدد اور غلبہ عطا فرمانے والے…
جہادِ
کشمیراور اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کا برستا نور…
آیتِ
مبارکہ کا شان نزول اور پس منظر…
ایک
خواب اور اس کی تعبیر…
سخت
سیکیورٹی کے باوجود… دنیا بھر کے محاذوں پر مجاہدین کیسے پہنچتے ہیں؟…
ملک
کے دینی طبقے پر پڑے مشکل حالات… اور…
اس
آیت کریمہ سے راہنمائی لینے کی ضرورت…
مشکل
حالات میں… جب ہر طرف راستے بند ہو چکے ہوں
اُمید
کی کرن دکھاتی ایک روشن تحریر…
۲۲ محرم۱۴۳۷ھ؍ 04نومبر 2015ء
ھَادِیًا وَّ نَصِیراً
اللہ
تعالیٰ ’’ھادی‘‘ ہے راستہ دکھلانے والا…اللہ تعالیٰ ’’نصیر‘‘ ہے مدد فرمانے والا…
﴿وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا﴾
آپ
کسی ماہر سائنسدان اور انجینئر کو بٹھا دیں… اُس کے سامنے نقشہ، تصویریں اور ویڈیو
رکھ دیں… اور پوچھیں کہ…اتنی فوج، اتنی سیکيورٹی اور اتنی رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے
کیا مجاہدین… آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوسکتے ہیں؟ وہ چیخ پڑے گا کہ
بالکل نہیں، ہرگز نہیں…مگر اللہ تعالیٰ ’’ھادی‘‘ ہے مجاہدین کو راستے دکھاتا
ہے…اُن کے لیے راستے بناتا ہے اور وہ ’’نصیر‘‘ ہے ان کی مدد فرماتا ہے…چنانچہ وہ
چھ سات لاکھ آرمی کی موجودگی کے باوجود کشمیر میں داخل ہوجاتے ہیں… سری نگر تک
بھی پہنچ جاتے ہیں…ابھی حال ہی میں ’’اہلِ کشمیر‘‘ نے عقیدت اور جذبات کے ساتھ دو
شہداء کرام کے جنازے اٹھائے…ان پر آنسو اور پھول نچھاور کئے…اور انہیں اپنے
ہاتھوں سے لحد میں اتارا…ان میں سے ایک مجاہد… عباس پور کا عدیل شہید تھا…اور
دوسرا کراچی کا عبدالرحیم برمی شہید… یہ دونوں نہ اُڑ کر کشمیر پہنچے اور نہ زمین
پھاڑ کر…پہلے ایک طرف رکاوٹ تھی اب دونوں طرف پہرے ہیں…مگر قرآن مجید نے دو لفظوں
میں کفر کی ہر طاقت کا توڑ سمجھا دیا…ھادی اور نصیر… اللہ تعالیٰ ’’ھادی‘‘ ہے…اس
لیے اہل حق اور اہل ہمت کے لیے دنیا کی کوئی طاقت راستے بند نہیں کرسکتی…اور اللہ
تعالیٰ ’’نصیر‘‘ ہے…بہت بڑی نصرت فرمانے والا…جیل میں ایک بار خواب دیکھا تھا کہ
ایک گاڑی میں چند طالبعلم جا رہے ہیں…اچانک غیر ملکی شکل کے دشمنوں نے انہیں گھیر
لیا اور گاڑی پر شدید فائرنگ شروع کردی …وہ گاڑی کے چاروں طرف کھڑے تھے اور گاڑی
پر موسلا دھار فائرنگ کررہے تھے…گمان بلکہ یقین ہوا کہ کوئی طالبعلم نہیں بچا
ہوگا، بلکہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گئے ہوں گے…دشمن چلے گئے تو میں گاڑی کے پاس
گیا…سارے طالبعلم صحیح سلامت تھے…خواب کی تعبیر پر ہر پہلو سے غور کیا…مگر کچھ
مطلب سمجھ نہ آیا…علامات ساری سچے خواب کی تھیں اس لیے وہ دل ودماغ میں رہا…پھر
رہائی ہوئی، افغانستان پر عالمی کفر کا حملہ ہوا…بے انتہا شدید بمباری ہوئی…مگر
طالبان اس بمباری کی گرد سے مسکراتے ہوئے اُٹھے اور آہستہ آہستہ پورے افغانستان
پر پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ چھا گئے تو خواب کی تعبیر سمجھ آگئی…
﴿وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا﴾
آپ
کو معلوم ہے کہ…یہ آیتِ مبارکہ کس موقع پر نازل ہوئی؟…مکہ مکرمہ میں مشرکین مکہ
نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر
طرح سے ناکہ بندی کر دی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید سناتے تو مشرکین شور مچاتے، تالیاں
پیٹتے، مذاق اُڑاتے…اور نعوذباللہ ہر طرف یہی کہتے کہ یہ بے ہودہ بکواس نہ سنو…
پھر وہ اس سے بڑھ کر تشدد پر بھی اُتر آئے…
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن مجید کی دعوت
دیتے تو وہ پتھر مارتے…گریبان پکڑتے، گالیاں بکتے… آپ کے رفقاء پر شدید تشدد
کرتے…ایک بار تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ کو اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہوگئے اور
آپ کا چہرہ اس قدر سوج گیا کہ قریبی لوگ بھی آپ کو نہیں پہچان سکتے تھے… مشرکین
کی ٹولیاں ہر وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف موجود رہتیں جو مسلمان آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا چاہتا اس کو
پکڑلیتے…اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سننے کے لیے آتا اس کو روک دیتے…
مشرکین کی یہ ناکہ بندی بہت سخت تھی …پرویز مشرف کی مجاہدین کے خلاف ناکہ بندی سے
زیادہ سخت… نواز شریف اور شہباز شریف کی ناکہ بندی سے بھی بہت زیادہ سخت…
اس
ناکہ بندی کے دوران کئی مسلمانوں کو شہید کردیا گیا…تقریباً سارے مسلمان تشدد کا
نشانہ بنے… کئی مسلمان گرفتار کرلئے گئے… تمام مسلمانوں کا معاشی اور سماجی مقاطعہ
یعنی بائیکاٹ کیا گیا… اس موقع پر زمین نے وہ خوفناک، دردناک اور ہیبت ناک منظر
بھی دیکھا جب… ابوجہل ملعون نے ننھی معصومہ خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا
کو تھپڑ مارا…مکہ مکرمہ کے تمام
راستوں کو سیل کردیا گیا …مسلمانوں کو ذلیل بناکر معاشرے سے الگ تھلگ پھینک دیا
گیا…ان مسلمانوں پر ایسے حالات آئے جو کسی بھی پہاڑ کا حوصلہ توڑنے کے لیے کافی
تھے…ایسے وقت میں عرش سے ایک آیت مبارکہ مسکراتی ہوئی تشریف لائی:
﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّامِّنَ
الْمُجْرِمِیْنَ﴾
اے
نبی!… صلی اللہ علیہ وسلم … یہ کوئی نئی بات نہیں ہے…جو نبی بھی تشریف لاتے ہیں تو
مجرم لوگ اُن کے ساتھ اس طرح دشمنی کرتے ہیں…سبحان اللہ! عجیب بات سمجھائی کہ دشمن
نہ ہوں تو زندگی کا کیا مزا؟… دشمن نہ ہوں تو دعوت کا کیا مزا؟…مجرم نہ ہوں تو
رہبر کی کیا ضرورت؟ مخالف نہ ہوں تو ترقی کیسے ملے؟… اگر رکاوٹیں نہ ہوں تو قوت
کیسے بنے؟…اگر سختیاں نہ ہوں تو عزیمت کہاں پلے؟… اے نبی! دشمن تو آپ کے ضرور ہوں
گے… ہر مجرم، ہر ظالم، ہر مشرک، ہر کافر، ہر منافق… آپ کا دشمن ہوگا… یااللہ! جب
اتنے دشمن ہوں گے تو کام کیسے چلے گا؟ وہ تو تمام راستے بند کردیں گے تو قافلہ
کیسے آگے بڑھے گا؟ ارشاد فرمایا:
﴿وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا﴾
اے
نبی! آپ کے لیے آپ کا رب کافی ہوگا اور وہ ’’ھادی‘‘ ہے، راستے دکھانے، راستے
بنانے اور راستے پر چلانے والا…اور ’’نصیر‘‘ ہے، بہت شاندار نصرت فرمانے والا…
یہ
آیت اس وقت اُتری جب نہ راستے نظر آرہے تھے…اور نہ مدد کا دور دور تک نشان تھا …
مدد سے مُراد وہ نصرت جو دشمنوں پر غالب کردے …خدشہ تھا کہ جو چالیس پچاس افراد
مسلمان ہوئے ہیں، یہ بھی کہیں اتنے خوفناک تشدد کے سامنے…جان یا حوصلہ نہ ہار
دیں…مگر پھر راستے عجیب طرح کھلتے گئے…مدینہ والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک
پہنچنے کا راستہ ملا…مکہ کے مسلمانوں کو حبشہ کا راستہ ملا…پھر مدینہ کا راستہ
کھلا …اور پھر ہر طرف ’’ھادی‘‘ رب کی طرف سے راستے ہی راستے… اور ساتھ ساتھ
نصرت…اور نصرت بھی ایسی کہ کچھ عرصہ بعد مکہ مکرمہ کے مظلوم …بدر کے فاتح تھے… اور
ظالم اور مجرم ایک کنویں میںبغیر کسی پروٹوکول کے ایک دوسرے پر اوندھے پڑے تھے…
﴿وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا﴾
آپ
نے کبھی غور کیا کہ تاجکستان کے کئی مسلمان کس طرح سے شام اور عراق تک پہنچ گئے؟…
درمیان میں کتنے ملک پڑتے ہیں… ہر ملک کی سرحد پر سخت پہرے ہیں… چلیں مان لیا کہ
وہ تاجکستان سے افغانستان … افغانستان سے ایران… اور ایران سے عراق میں پہنچ گئے…
یہ بھی آسان نہیں مگر جو بوسنیا میں تھے… وہ کیسے شام جا پہنچے؟… درمیان میں پورا
یورپ پڑتا ہے … خلا میں سیارچوں کا اور زمین پر کمپیوٹروں کا زمانہ ہے… وہ دوردراز
آسڑیلیا اور برفوں میں دبے سائبیریا کے لوگ کس طرح ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے
ہر محاذ تک پہنچے؟… بے شک اللہ تعالیٰ ہادی ہے ہادی… عالَم کفر سرحدیں بنا کر…
باڑیں لگا کر، ظالمانہ قوانین اور حدبندیاں بنا کر مطمئن ہو گیا تھا کہ… جناب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اب الگ
الگ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے… اب ان میں سے کوئی دوسرے کی مدد کو نہیں
پہنچ سکتا … اب ان کو ایک ایک کر کے ختم کرتے جاؤ… مگر ’’رب ہادی‘‘ اور ’’رب
نصیر‘‘ نے ان کے تمام اندازے غلط ثابت فرمادئیے… اور ان کی تمام تدبیروں کو
توڑدیا… سب سے پہلے مجاہدین کا عالمی اجتماع…افغانستان میں ہوا…پھر کچھ عرصہ
تاجکستان نے بہت خوبصورت مناظر دیکھے…اور پھر بوسنیا پر جہادی ابابیلوں کی یلغار
ہوئی… اس کے بعد چیچنیا نے ہجرت، نصرت، اور جہاد کے روحانی نقشے دیکھے… اور اب
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کی سرزمین عراق و شام میں… دنیا بھر
کے مجاہدین کا اجتماع جاری ہے… خود مقبوضہ کشمیر کے مقبرۂ شہداء میں کئی ممالک سے
تعلق رکھنے والے مجاہدین آسودئہ خاک ہیں…یہ دوردراز علاقوں کے مجاہدین کس طرح سے
سرحدیں روند کر… کیمروں ،سیاروں اور خفیہ ایجنسیوں کو دھول چٹا کر … اپنے اپنے
محاذوں تک پہنچ جاتے ہیں؟… جواب بس ایک ہی ہے…
﴿وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا﴾
ہمارے
ملک میں اس وقت دینی اور جہادی طبقے پر جو مشکل حالات آئے ہوئے ہیں… انہیں اسی
مبارک آیت کے دونوں حصوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے… پہلاحصہ یہ کہ اگر آپ اپنے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہیں
تو… زمانے کے مجرم ضرور آپ کے دشمن ہوں گے… اس لئے جو حق کے راستے پر رہناچاہتا
ہے… وہ ان مجرموں کی دشمنی جھیلنے کے لئے تیار رہے… یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ قرآن
مجید کو پوراکا پورا بیان کریں اور مجرم آپ کے دشمن نہ بنیں… ابھی چند دن پہلے
ایک قومی اخبار کے کالم نویس نے نہایت غم اور حیرت کے ساتھ لکھا کہ… ملتان کے ایک
کالج میں جہادی حلیے والے چند افراد بلاروک ٹوک داخل ہوئے … انہوں نے وہاں کالج کے
چند طلبہ کو جمع کیا… اور انہیں قرآن مجید کی آیات جہاد سنائیں…یہ کالم نویس
حکومت سے شکوہ کرتا ہے کہ… جب ہمارے کالج بھی ایسے لوگوں سے محفوظ نہیں تو پھر اس
ملک کا کیا بنے گا؟…یعنی کالج ان کے باپ انگریز کی جاگیر ہیں اور وہاں قرآن مجید
کی آیاتِ جہاد سنا نا جرم ہے… بندہ نے اس اخباری کالم کے بارے میں چند باتیں
وضاحت کے ساتھ ماہنامہ المرابطون میں لکھ دی ہیں… جو چاہے وہاں ملاحظہ فرما
لے…یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصودہے کہ… جب آپ قرآن مجید کے تمام احکام بیان کریں
گے تو… زمانے کے ’’مجرمین‘‘ ضرور آپ کے دشمن بنیں گے… چنانچہ آپ کو اس صورتحال
کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے … یہ دشمن آپ کے راستے بند کرنا… اور آپ کو
اور آپ کے کام کو ختم کرنا چاہیں گے تب…
﴿وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا﴾
اللہ
تعالیٰ موجود ہے… اور وہ ’’ہادی‘‘ بھی ہے… اور نصیر بھی…
اَللّٰھُمَّ
یَاہَادِیُٔ اِھْدِنَا… اَللّٰھُمَّ یَانَصِیْرُاُ نْصُرْنَا…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 518
بلند مگر آسان
حضرت
اقدس مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ ’’سیّد بادشاہ‘‘ تھے…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کی کامیاب اور محنت بھری
زندگی…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کا فقید المثال جنازہ… اور
ایک صحافی کا تبصرہ…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی سے ملتا ایک اہم سبق…
جمعۃ
المبارک کی موت… اس بارے چند احادیث…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ جہاد و مجاہدین کے عاشق زار…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کی دو تفسیریں…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کی خوبیاں اور صفات…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ ’’آسان بزرگ‘‘…
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مکتوب گرامی…
حضرت
ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں
اور
ان کی صفات و خوبیوں سے پردہ اٹھاتی ایک تحریر…
۲۸ محرم الحرام۱۴۳۷ھ؍
10نومبر 2015ء
بلند مگر آسان
اللہ
تعالیٰ ’’مغفرتِ کاملہ ‘‘ اور ’’درجاتِ عالیہ‘‘ نصیب فرمائے… ہمارے زمانے کے ایک
بڑے آدمی چلے گئے…
حضرت
اقدس مولانا ڈاکٹر سیّد شیر علی شاہ صاحب المدنی رحمۃ اللہ علیہ …
﴿ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ﴾
وہ
خاندان سادات سے تھے…یعنی ’’سیّد بادشاہ‘‘ تھے…اور اب تو ’’سیّد العلماء‘‘ بھی
تھے… دور دور تک ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا… اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھیں کہ…اکوڑہ
خٹک کے اس فقیر مزاج ’’سیّد بادشاہ‘‘ کو وفات کے لئے ’’سیّد الایام‘‘ یعنی جمعہ کا
دن عطاء فرما دیا… جگرؔ مرحوم نے بڑی عجیب بات کہی ہے:؎
یہ
حسن ہے کیا، یہ عشق ہے کیا، کس کو ہے خبر؟ اس کی لیکن
بے
جام ظہور بادہ نہیں،بے بادہ فروغ جام نہیں
یہ
شعر بہت گہرا ہے…تفصیل مانگتا ہے اور تشریح بھی…بس ایک اشارہ کرتا ہوں… حسن ہو مگر
اسے عشق اور عاشق نہ ملے تو ایسا حسن گھٹ مرتا ہے…مرجھا جاتا ہے… اور اگر عشق ہو
مگر اسے حسن نہ ملے تو وہ جل مرتا ہے…اور ناکامی سے بکھر جاتا ہے… کتنے افراد ایسے
ہوتے ہیں کہ ان کے پاس علم بہت ہوتا ہے مگر ان کے علم سے کام نہیں لیا جاتا…کئی با
صلاحیت افراد…ساری زندگی اس میدان کوترستے ہیں…جہاںان کی صلاحیتو ں کا سورج چمکے…
یہ
اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوتا ہے کہ…کسی کو ’’قدر ‘‘ بھی عطاء فرمائے اور ساتھ
’’قدر دان‘‘ بھی… قیمتی بھی بنائے اور ساتھ خریدار بھی عطاء فرمائے …حسن بھی بخشے
اور حسن کے قدر دان بھی…
حضرت
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ …کی کامیاب اور
محنت بھری زندگی پر غور کرنے کی ضرورت ہے…تاکہ بہت کچھ سیکھاجاسکے…یہ کامیاب اور
محنتی حضرات بڑے کام کے ہوتے ہیں…زندگی میں بھی آپ کو بہت کچھ سکھاتے ہیں… اور
مرنے کے بعد بھی بہت مفید اسباق سکھاتے رہتے ہیں… ایک صحافی نے حضرت شاہ صاحب رحمۃ
اللہ علیہ کا اکوڑہ خٹک میں جنازہ دیکھا
تو بے اختیار بول اٹھا کہ… میڈیا کی طاقت کا شور مچانے والے جھوٹے ہیں…ہاں! واقعی
کسی اخبار میں اس جنازے کا اعلان نہیں چھپا… کسی ٹی وی چینل پر جنازے کے وقت اور
مقام کی تشہیر نہیں ہوئی… اور تو اور حضرت کی وفات کی خبر میڈیا پر جنازے سے پہلے
نہیں آئی… تو پھر یہ لاکھوں افراد کیسے آ گئے؟… انسانوں کا یہ سیل رواں کہاں سے
امڈ آیا؟…
آج
کل تو جو عالم میڈیا پر نہ آئے لوگ اسے عالم نہیں سمجھتے… جو مجاہد میڈیا پر نہ
آئے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ یا تو مر گیا ہے…یا اس کا کام ختم ہو چکا ہے… میڈیا پر
آنے کی دوڑ میں لوگ معلوم نہیں کیا کیا کرتے ہیں؟…بہت کچھ غیر شرعی اور بہت کچھ
باعث ندامت… مگر حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ میڈیا سے دور ہو کر بھی لوگوں کے دلوں کے قریب
تھے… انہوں نے جاتے جاتے یہ سبق مجاہدین کو بھی دیا اور علماء کو بھی کہ…میڈیا کے
سحر سے نکلو… کام کرو کام… محنت کرو محنت… شہرت اور تشہیر کسی مومن کے کام نہیں
آتی… نہ دنیا میں نہ آخرت میں…اخلاص کام آتا ہے اور محنت کام آتی ہے… اللہ
تعالیٰ کا حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر بڑا فضل رہا…اور اس فضل کا سلسلہ موت کے دن
پر بھی نظر آیا… ’’جمعہ ‘‘ کو وفات پانا…ایک مومن کے لئے ’’حسنِ خاتمہ‘‘ کی ایک
علامت ہے … ترمذی کی روایت ہے، ارشاد فرمایا:
مَا
مِنْ مُّسْلِمٍ یَمُوْتُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ اَوْ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ اِلَّا
وَقَاہُ اللّٰہُ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ۔
جو
مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات وفات پاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ قبر کے فتنے سے
بچا لیتے ہیں… (ترمذی)
جمعۃ المبارک کے دن یا رات
کی وفات پر اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ:
١ جمعہ
کے دن کی موت عذاب قبر سے بھی حفاظت ہے اور سوال قبر سے بھی۔
٢ جمعہ
کے دن مرنے کا فائدہ ایک مسلمان کو قیامت کے دن بھی ہو گا۔
٣ جمعہ
کے دن مرنے والے مسلمان قیامت کے دن ایک خاص علامت کے ساتھ آئیں گے۔
حکیم
ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ… جو مسلمان جمعہ کے دن مرتا ہے تو
اس سے وہ پردے ہٹا لیے جاتے ہیں جو اس کے اور اُن نعمتوں کے درمیان ہیں جو اللہ
تعالیٰ نے اس کے لئے تیار فرمائی ہیں … کیونکہ جمعہ کے دن جہنم کی آگ نہیں
بھڑکائی جاتی… اس لئے آگ کی طاقت جمعہ کے دن وہ کام نہیں کر سکتی جو باقی دنوں
میں کرتی ہے… اللہ تعالیٰ جب کسی مومن کی روح جمعہ کے دن قبض فرماتے ہیں تو یہ اس
مومن کے لئے سعادت اور اچھے انجام کی علامت ہے…
یہ
تمام احادیث اگرچہ سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں…مگر اہلِ تحقیق اور اہلِ علم
نے انہیں قابلِ اعتبار اور قابلِ اعتماد قرار دیا ہے…جمعہ کے دن کی موت انسان کے
اپنے اختیار میں نہیں… مگر یہ کونسا ضروری ہے کہ… سعادت وہی ہوتی ہے جو اپنے
اختیار سے حاصل کی جائے … اللہ تعالیٰ ’’شکور‘‘ ہے’’ قدر‘‘ فرمانے والا… وہ جب
اپنے کسی بندے یا اس کے اعمال کی قدر فرماتا ہے تو… پھر اس کی جھولی ہر طرح کی
سعادتوں سے بھر دیتا ہے… اختیاری بھی اور غیر اختیاری بھی…
حضرت
ڈاکٹر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ باوجود اس
کے کہ ایک…محقق،مفسر، محدث، اور مصنف تھے اور آپ کا اصلی میدان تعلیم اور تدریس
تھا…آپ جہاد اور شہادت کے عاشق زار تھے… چنانچہ ’’رب شکور جلّ شانہ‘‘ نے آپ کو
اپنی ملاقات کے لئے ’’جمعہ‘‘ کا مبارک دن عطا فرمایا جو کہ خود ایک طرح کی’’ مقبول
شہادت‘‘ ہے… حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دو تفسیریں تحریر فرمائیں…دونوں عربی میں ہیں
… ایک بار ’’سورۃ الکہف‘‘ پر ان کی تفسیر پڑھتے ہوئے ایسا وجد اور مزا آیا کہ…اس
تفسیر کے اردو ترجمہ کا خیال آنے لگا… اللہ کرے مجھے توفیق مل جائے یا کسی کو
بھی… زیادہ مشکل کام نہیں ہے … مگر علم،تذکیر اور تحقیق سے لبریز ہے…دوسری تفسیر
حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کے
تفسیری اقوال کی جامع ہے…یہ آدھی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جمع فرمائی ہے اور آدھی ان کے ایک عرب رفیق
نے… حضرت حسن بصری کو ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ لکھتے ہیں… اگرچہ وہ تابعی ہیں مگر پلے
بڑھے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ہیں… اور علمی روحانی مقام
بھی ان کا بہت اونچا ہے… وہ جہادِ فی سبیل اللہ کے شیدائی تھے… حضرت ڈاکٹر شاہ
صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے کئی قیمتی
سال حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے
احوال و اقوال کی معطر مجالس میں گذرے… اس صحبت کا اثر تھا کہ …جہادِ فی سبیل اللہ
کی محبت آپ کے رگ و پے میں اتری ہوئی تھی… وہ ہمارے زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ
کی حقانیت اور دعوت کی بہت ثقہ دلیل تھے…انہیں جہاد اور مجاہد کے لفظ سے ہی اتنا
پیار تھا کہ ہر مجاہد کی معاونت اور تائید کے لئے ہمیشہ تیار ہو جاتے… انہوں نے
بڑے عظیم المرتبت مشائخ کی صحبت پائی تھی… قرآن مجید کی تفسیر حضرت اقدس مولانا
احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی…
حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک
قرآنِ مجید کا موضوع ’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ تھا… وہ آیاتِ جہاد کی بہت والہانہ
تفسیر فرماتے اور اپنے طلباء کے دلوں میں جہادِ فی سبیل اللہ کی پاکیزہ محبت کا
بیج بو دیتے تھے… حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تعلیم کے دوران حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ
علیہ کی ملاقات حضرت اقدس مولانا عطاء
اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے
بھی ہوئی … ان کی صحبت، ان کے بعض اشعار اور ان کے جوتے اٹھانے کا واقعہ بہت مزے
لے کر سنایا کرتے تھے…
حضرت
ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو
اللہ تعالیٰ نے بہت سی نمایاں خوبیوں اور صفات سے نوازہ تھا … بندہ نے الحمد للہ
ان کی خدمت میں کافی وقت گزارہ ہے…بہت لمبے اور طویل سفر ان کی باشفقت رفاقت میں
نصیب ہوئے… ان کی سرپرستی میں جہاد کی محنت اور دعوت کی بھی بارہا توفیق ملی… ان
کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا اور ان کی مہمانی کا بھی… اس لئے ان کی صفات اور
خوبیوں پر مکمل تفصیل اور شرح صدر سے لکھ سکتا ہوں مگر صرف ایک بات پر اکتفا کرتا
ہوں … جو ہمارے لئے سبق آموز بھی ہے اور مفید بھی… وہ یہ کہ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ
اللہ علیہ اتنے بلند مقام ہونے کے باوجود
بہت ’’آسان ‘‘بزرگ تھے اور دوسری بات یہ کہ وہ سستی یعنی ’’کسل‘‘ سے بہت دور تھے…
آسان
ہونا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت اور اس کا بڑا فضل ہے… ان کے ساتھ سفر بھی آسان تھا
اور حضر بھی…ان کے ساتھ بولنا بھی آسان تھا اور بیٹھنا بھی… کسی کا قول ہے…ہر
انسان ’’نوکدار ‘‘ ہوتا ہے کوشش کر کے خود کو دوسروں کے لئے آسان بناتے رہو اور
اپنی ’’نوکیں‘‘ گول کرتے رہو…
ایک بار تو بہت سخت محنت
تھی،تقریباً دس دن تک … بندہ ان کا ہم سفر بھی تھا اور ڈرائیور بھی…نہ کھانے پینے
کا کوئی باقاعدہ نظم اور نہ نیند کے لئے پورا وقت…مگر ان کی صحبت نے ہر معاملہ میں
آسانی پیدا کی… وہ جب جاگتے جاگتے تھک جاتے تو نیچے سر جھکا کر آنکھوں میں سرمہ
لگاتے…اس سرمے کے ساتھ ان کی آنکھوں سے چند بوندیں ٹپکتیں اور وہ اگلے کئی گھنٹوں
کے لئے تروتازہ ہو جاتے…
الحمد
للہ دس دن کی محنت کامیاب رہی…اور کراچی میں حضرت مولانا جلال الدین حقانی کا مفصل
دورہ ہوا… اور جہاد کی دعوت اونچی فصیلوں تک جا پہنچی… اور رکاوٹوں کے کئی قلعے
فتح ہو گئے… ’’محبت‘‘ بہت لذیذ چیز ہے مگر اس کی لذت تب دو آتشہ ہو جاتی ہے جب
کسی مرحلے پر اس میں ’’تلخی‘‘ ’’ستم‘‘ اور کچھ ’’ناراضی‘‘ آ جائے… وہ ’’تلخی‘‘ جب
دور ہو تی ہے تو …محبت ہمیشہ کے لئے پائیدار ہو جاتی ہے…
زندگی
میں کبھی اس بات کا ’’وہم ‘‘ اور ’’وسوسہ ‘‘ بھی نہ گذرا تھا کہ…حضرت ڈاکٹر صاحب
رحمۃ اللہ علیہ سے کبھی ’’دوری‘‘ ہو
گی…مگر محبت کو پائیدار ہونا منظور تھا…کراچی میں بندہ پر مظالم کا ایک سلسلہ شروع
ہوا…بہت تکلیف دہ، مکروہ اور سخت مظالم…ان سب کو الحمد للہ سہہ لیا مگر… ایک ظلم
بڑا بھیانک ہوا…وہ یہ کہ غلط فہمیوں کا ایک جال بچھا کر …حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ
اللہ علیہ اور ہمارے درمیان کچھ دوری اور
تلخی کا بندوبست کر لیا گیا… ہاں! وہ دن اور راتیں بہت اذیت ناک تھے… یہ اذیت نہ
تو اس بدنامی کے خوف سے تھی… جس کو بہت محنت سے پھیلایا جا رہا تھا…اور نہ ہی اپنی
حمایت اور جماعت کے کم اور کمزور ہونے کا خوف تھا… یہ خوف تب ہوتا جب لوگوں کو
اپنی ذات کی طرف دعوت دی ہوتی… یا اپنی ذات کے لئے کوئی دعویٰ گھڑا جاتا… الحمد
للہ… محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے …ہمیشہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا ہے… ہمیشہ جہادِ فی سبیل اللہ کی
دعوت دی ہے… اور ہمیشہ دین کی طرف آنے کی آواز لگائی ہے… پریشانی اور رنج کی بات
یہ تھی کہ… حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ تک اصل صورتحال نہ پہنچ سکی اور وہ خفا ہوئے… یہ
میرے لئے بڑا صدمہ تھا بلکہ کراچی کے اس پورے سانحے کا واحد صدمہ اور واحد نقصان
تھا… باقی جو کچھ ہو رہا تھا وہ سب برداشت تھا…اور جو لوگ الگ ہو رہے تھے ان کی
علیحدگی میں ہمارے لئے دکھ، نقصان یا افسوس کی کوئی بات نہیں تھی… اس سانحہ کے کچھ
عرصے بعد بندہ نے حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک خط بھیجا… معافی نامہ، محبت
نامہ اور وضاحت نامہ…
اللہ
تعالیٰ کی رحمت دیکھیں …اور حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت ظرفی دیکھیں کہ… عین اسی دن اس خط کا
ایسا جواب آیا کہ…دل کے زخم دور ہو گئے اور محبت کی مٹھاس کو اس وقتی تلخی نے دو
آتشہ بنا دیا… اس وقت بندہ نے حضرت کے اس خط کو نہ ہی شائع کیا اور نہ عام
کیا…کیونکہ مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا نہیں…ایک ولی بزرگ کی ناراضی دور کرنا
تھا…جو الحمد للہ دور ہو گئی…
پھر
الحمد للہ باہمی محبت و سلام و پیام کا غائبانہ سلسلہ چلتا رہا…ایک بار انہوں نے
فرطِ محبت میں ایک پرچی پر فارسی شعر بھی لکھ بھیجا…تلاش بسیار کے باوجود وہ معطر
پرچی نہ مل سکی…مگر ان کا والا نامہ مل گیا ہے… آج کی مجلس کا اختتام حضرت شاہ
صاحب نور اللہ مرقدہ کے اسی نوازش نامے پر کرتے ہیں…
بسم
اللہ الرحمن الرحیم
بگرامی
خدمت، مخدومی المکرم، صاحب المجد والہمم، بارک اللہ فی حیاتکم الغالیہ، وتقبل
جہدکم الطیبۃ فی سبیل الاسلام والمجاہدین
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مکتوب
گرامی باعث صد مسرت و ابتہاج ہوا۔ ذرہ نوازی کا تہہ دل سے سپاس گذار ہوں۔ مجھے خود
ان ناگفتہ حالات کی وجہ سے حد درجہ قلق و اضطراب لاحق ہے۔ الحمد للہ آں محترم کے
والانامہ سے تمام رنج و غم دور ہوا، زندگی کاپتہ نہیں،میری صحت بہت کمزور ہے، کمر
میں شدید درد کی وجہ سے آپریشن کیا۔ اب تک درد باقی ہے، نماز کرسی پر پڑھتا ہوں،
نیچے بیٹھنے سے قاصر ہوں۔
حاملین
مکتوب سامی کے ذریعے آپ کی صحت و سلامتی کا علم ہوا۔ للہ الحمد ولہ المنۃ کہ
آنجناب بخیر و عافیت ہیں اور آپ کے والدین کرام دامت برکاتہم اور اخوان کرام
سلمہم اللہ تعالیٰ بخیر و عافیت ہیں۔ القلم کا موقر جریدہ موصول ہو رہا ہے، آں
محترم سے بھی یہی استدعا ہے کہ صمیم قلب سے عفو و درگزر فرما کر اپنی مستجاب
دعاؤں میں یاد فرمائی سے نوازا کریں۔ آپ کے والدین کرام ، اہل بیت اور اخوان
وخلان کی خدمت میں طلب عفو و درگزر کا مضمون واحد ہے۔
زادکم
اللّٰہ مجدا و شرفا ورزقکم سعادۃ الدارین وحفظکم من الآفات والعاھات وایدکم بنصر
من عندہ ویکلؤکم بعین حمایتہ۔
ولکم
منی جزیل الشکر وفائق الاحترام
شیر
علی شاہ
۲۲/۵/۱۴۲۷ھ
اللہ
تعالیٰ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو
اپنے اکرام، ضیافت، مغفرت کاملہ اور علیین کا مقام عطاء فرمائے… آمین یا ارحم
الراحمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 519
اللہ تعالیٰ کی شان
اللہ
تعالیٰ کی ہر دن نئی شان، نئی آن…
فرانس
پر حملہ بھی… اللہ تعالیٰ کی شان اور فیصلہ…
فرانس
کے مظالم اور جرائم…
ظلم،
ظالم پر پلٹتا ہے…
خوف،
خوف بانٹنے والوں پر پلٹتا ہے…
فرانس،
کمینہ دشمن…
فرانس
کی اسلام دشمنی کی تاریخ…
آیتِ
مبارکہ ’’ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘ کی تفسیر…
بھائی
اشفاق شہید اور ان کے رفقاء کی شہادت…
ایک
وزیر اور غلام کا واقعہ…
یہ
سب کچھ جانیئے… اس کے لئے ملاحظہ ہو یہ تحریر…
۵ صفر المظفر۱۴۳۷ھ؍
17نومبر 2015ء
اللہ تعالیٰ کی شان
اللہ
تعالیٰ کی ہر دن نئی شان ہے… کسی کو عزت دیتا ہے، کسی کو ذلت… کسی کو صحت دیتا ہے
کسی کو بیماری…اس کی ہر دن نئی شان ظاہر ہوتی ہے…مالداروں کو بیٹھے بیٹھے فقیر بنا
دیتا ہے… اور فقیروں کو بادشاہ…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
(الرحمن :۲۹)
ہر
روز وہ کام میں مصروف رہتا ہے…ہر دن وہ نئی شان میں ظاہر ہوتا ہے…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
ہماری
آج کی مجلس بس اسی آیت مبارکہ کے اردگرد ہے… یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ
آج ہمیں اپنے عظیم کلام کی ایک آیت مبارکہ کو سمجھنے، سمجھانے پر بٹھا دیا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
ایک
منظر دیکھیں
افغانستان
کی بستیوں پر فرانس کے میراج طیارے بھاری بم برسا رہے ہیں… آگ، بارود اور زہریلی
گیس کے بم… گویا کہ اس ملک میں انسان نہیں بستے…وہ دیکھو! عراق کی آبادیوں
اور مساجد پر فرانس کی ائیر فورس شدید
بمباری کر رہی ہے… عمارتیں ریزوں میں اور جسم لوتھڑوں میں اڑ رہے ہیں…عراق والوں
نے فرانس کا کیا بگاڑا تھا؟…
اور
وہ ملک شام، آہ! وہ برکت والی سر زمین … اس پر فرانسیسی فضائیہ کے بمبار طیارے
کلسٹر اور ڈیزی کٹر بموں سے حملے کر رہے ہیں…ہنستے مسکراتے جنگی پائلٹ…شراب کے
آخری گھونٹ بھرتے، آپس میں گپیں ہانکتے خنزیر کے گوشت کے برگر منہ میں ٹھونستے…
سگریٹ کے بدبودار بھبھکے اڑاتے… گناہوں سے لتھڑے ناپاک سفید بدن …برائلر مرغی کے
چھلے ہوئے جسم جیسے چہرے… آنکھوں میں رعونت…جہازوں میں اڑتے، بم برساتے، قہقہے
اڑاتے…مسلمانوں کے جسموں کا قیمہ جلاتے… ہر دن بمباری ، خوفناک بمباری … خود امن
میں مگر دوسروں میں خوف بانٹتے… مگر پرسوں سب کچھ الٹ دیا…اس نے جو حالات کو الٹنے
کی طاقت رکھتا ہے… پیرس خوف سے لرز رہا تھا… ہر شخص بدکے ہوئے گدھے کی طرح دوڑ رہا
تھا… حکمرانوں کے سانس پھولے ہوئے تھے… سیکیورٹی والوں کی آنکھیں ابل رہی تھیں…بس
خوف تھا اور دہشت… دھماکے تھے اور چیخیں… افراتفری تھی اور بھگدڑ… خون تھا اور
لاشیں… خوف بانٹنے والوں پر خوف پلٹ آیا… موت تقسیم کرنے والوں پر موت ٹوٹ پڑی…
حملہ رکا تو گھنٹوں بعد حواس بیدار ہوئے… اب رونا ہے اور ماتم… صدمہ ہے اور شکوے…
فیس بک پر جھنڈے ہیں اور منافقوں کے تعزیتی انڈے … آخر کیوں؟…
جن
پر تم سالہا سال سے بم برسا رہے ہو … کیا وہ انسان نہیں؟… وہ جن ماؤں کے بچے تم
بے قصور مار رہے ہو…کیا ان ماؤں کے سینے میں دل نہیں؟… وہ ہنستی کھیلتی بستیاں جو
تم نے جلا ڈالیں… وہ کیا پیرس سے کم تھیں؟… اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ تمہیں
مہلت دی، چھوٹ دی… مظلوم انتظار میں تھے کہ… اللہ تعالیٰ کا دوسرا فیصلہ کب آتا
ہے…وہ آ گیا اور تم لرز اٹھے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
ہر
دن اللہ تعالیٰ کی نئی شان ہے۔
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
حضرت
عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ہر وقت اس کا الگ کام اور ہر روز اس کی نئی شان ہے، کسی کو
مارنا، کسی کوجِلانا ( یعنی زندہ کرنا)… کسی کو بیمار کرنا، کسی کو تندرست کر
دینا، کسی کو بڑھانا، کسی کو گھٹانا‘‘… (تفسیر عثمانی)
تفسیرِ
حقانی میں ہے:
’’عبد اللہ بن منیب رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ہم نے پوچھا۔ حضرت! شان سے کیا
مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ گناہ بخشتا ہے اور غم دور کرتا ہے
اور کسی قوم کو بلند اور کسی کو پست کرتا ہے…یعنی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور
آئندہ ہو گا اور جو کچھ قیامت میں ہو گا وہ سب اس کی ایک ایک شان کا جلوہ ہے… وہ
بے کار نہیں کہ دنیا کو پیدا کر کے آپ بے کار بن بیٹھا جیسا کہ بعض غلط مذاہب
خصوصاً فرنگی فلسفیوں کا خیال ہے۔‘‘ ( مفہوم حقانی)
پس
اے ظالمو! اکڑنے کی ضرورت نہیں… اے مظلومو! مایوس ہونے کا مقام نہیں… معلوم نہیں
کس وقت مالک کی کونسی شان ظاہر ہو…وہ دیکھو! کل کا فرعون بش آج ذلیل ہے…کل کا
نمرود ’’ٹونی‘‘ آج رسوا ہے… کل کا سرکش ’’پرویز مشرف‘‘ آج بے بس ہے…کیونکہ :
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
ہر
دن اللہ تعالیٰ کا نیا کام ہے…نئی شان ہے…
کمینہ
دشمن
آپ
نے کبھی فرانس کی تاریخ دیکھی؟… آج ہمارے روشن خیال دانشور اسے ایک مظلوم بھیڑ
بکری بنا کر پیش کر رہے ہیں …مسلمان فاتحین کو سلام… انہوں نے اسلامی حکومت کو ۱۰۲ہجری
ہی میں فرانس تک پہنچا دیا تھا…صلیبی جنگوں میں …دو سو سال تک فرانسیسی فوجیں
مسلمانوں کے خلاف سب سے آگے لڑتی رہیں…وہ کونسا ظلم ہے جو اہل فرانس نے مسلمانوں
پر نہیں ڈھایا… مگر وہ ’’اسلام کے بیٹوں‘‘ کے سامنے بے بس تھے… پھر مسلمانوں نے
جہاد چھوڑا… خلافت کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹا تو صلیبی قومیں پاگل کتوں کی طرح
ان پر پل پڑیں… اور ہر ایک نے اپنے حصے بانٹ لئے… فرانس کے صلیبیوں نے براعظم
افریقہ کا رخ کیا…مالی سے الجزائر تک مسلمانوں کے ممالک اپنے قبضے میں لے لئے…
خلافتِ عثمانیہ کے خلاف فرانس سب سے آگے لڑا … عرب اسرائیل جنگ میں فرانس نے عرب
مسلمانوں کی دھجیاں بکھیریں… اور پھر عہد حاضر میں تو اس کمینہ خصلت قوم کے مظالم
مسلمانوں پر بے شمار ہیں…اور افسوس یہ کہ بے جواز ہیں… اس دور میں نہ فرانس پر
مسلمانوں کا کوئی حملہ ہوا اور نہ فرانس کے کسی بدکار کتے کا کوئی دانت مسلمانوں
نے توڑا… مگر ہر جنگ میں وہ سب سے بڑھ کر مسلمانوں پر بم برساتا رہا…اللہ تعالیٰ
کے ہاں مہلت کا ایک وقت ہے… اور ظلم ضرور ظالم پر لوٹتا ہے… کوئی ہمیں بنیاد پرست
کہے یا شدت پسند … مگر ہمیں افغانستان کی مٹی کے گھر پیرس کے شیشے والے محلات سے
زیادہ عزیز ہیں…وہ جو پیرس کو خوابوں کی سرزمین سمجھتے ہیں…اور وہاں جا کر اپنی
راتیں رنگیں اور قبر تاریک کرتے ہیں…وہ کبھی افغانستان ،عراق اور شام جا کر بھی دو
آنسو بہا آتے … ان مظلوم شہداء پر جن کو فرانسیسی طیارے نے ٹکڑوں میں بکھیر
دیا…پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا بدبودار طوفان اٹھا تو… فرانس اس
میں سب سے آگے تھا…مسلمان خواتین پر حجاب کی پابندی کا فتنہ اٹھا تو قیادت فرانس
کے ہاتھ میں تھی… کیا انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ زمین کے مالک بن چکے؟… وہ جو
کچھ کریں گے اس کا انجام ان تک نہ پہنچے گا؟…مگر اللہ تعالیٰ موجود ہے…وہ ’’حی
قیوم‘‘ ہے… وہ ظالموں کی گردنیں توڑنے والا ہے…وہی زمین کا مالک ہے … اس کی ڈھیل
کو اپنا کمال نہ سمجھو… چارلی ایبڈو پر حملے کے بعد…یہ تم پر دوسرا حملہ ہے…اور یہ
آخری نہیں… کیونکہ… ظلم ظالم کی طرف لوٹ آتا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
ہر
دن اللہ تعالیٰ کا الگ کام ہے…
اب
اس کے اگلے کام کا انتظار کرو… تمہارے ایٹم بم اور تمہاری سیکیورٹی اللہ تعالیٰ کو
عاجز نہیں کر سکتی…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
حضرت
کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ہر روز اللہ تعالیٰ کی ایک شان ہے… کسی کو بڑھانا،کسی کو
گھٹانا،کسی کو عزت دینا،کسی کو پست کرنا اور ذلیل کرنا…کسی کو انعام و اکرام سے
نوازنا، کسی کو اس کے برے اعمال کی بدولت مصائب و آفات میں مبتلا کرنا…کسی کو
نیکی اور رجوع الی اللہ کی توفیق دینا اور کسی کو اس کی بد نصیبی سے خیر اور نیک
اعمال سے دور کر دینا… کبھی کسی کو تندرست رکھنا اور کبھی بیمار کر دینا… کسی کو
مارنا، کسی کو زندگی عطا فرمانا… خلاصہ یہ کہ کبھی جمال والی شان اور کبھی جلال
والی شان… مخلوق کے حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے…اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی
نعمت اور رحمت ہے‘‘… ( مفہوم معارف القرآن)
حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ہر
دن اللہ تعالیٰ کی نئی شان ہے… وہ گناہ کو بخشتا ہے، مصیبت کو دور فرماتا ہے اور
دعاء کو قبول کرتا ہے…(القرطبی)
یہ
آیت مبارکہ ذہن میں ہو تو دعاء مانگنے والے کبھی نہ تھکیں… ہمیشہ مانگتے رہیں کہ
کب قبولیت والی شان ظاہر ہو جائے…مصیبت زدہ مایوس نہ ہوں کہ کب حاجت روائی والی
شان ظاہر ہو… اور استغفار کرنے والے اس لالچ اور سچی اُمید میں معافی مانگتے رہیں
کہ کب معافی والی شان ظاہر ہو اور پہاڑوں جیسے گناہ ایک لمحے میں بالکل ختم ہو
جائیں…
حضرت
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ…اللہ تعالیٰ کی ہر دن نئی شان ہے
وہ کسی قوم کو اونچا کرتا ہے اور کسی کو گراتا ہے…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
دہرے
اجر والے
ہمارے
پیارے ساتھی بھائی محمد اشفاق… اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے …کوہاٹ کے
ڈویژن منتظم بن کر گئے تو مجھے مسلسل خطوط لکھتے تھے…جماعت کا رشتہ بھی تھا اور
بیعت کا بھی… انہوں نے گرتے کام کو سنبھالا اور فتنے میں روشنی کے مینار بنے… بار
بار شہادت کی تشکیل مانگتے تو عرض کیا جاتا کہ… وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں
ہے…اس کی شان کہ جیسے عطاء فرما دے… پھر وہ محاذ پر تشکیل کرانے میں کامیاب ہوئے
اور اپنے دس عزیز رفقاء کے ہمراہ…صلیبی ڈرون کا نشانہ بنے… وہ شہداء کس قدر خوش
نصیب ہیں…جن کے لئے صلیبیوں کے ہاتھوں شہید ہونے کی وجہ سے دہرے اجر کی بشارت ہے…
ان رفقاء میں باہمی محبت کیسی ہو گی؟ …وہ فتح کی خوشی میں سرشار کس طرح ذکر و شکر
میں ڈوبے واپس جا رہے ہوں گے؟… اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی مہمانی اور اس کے قرب
کی زندگی کیسی ہو گی؟… اللہ کی شان دیکھیں کہ کچھ لوگ زندہ ہیں مگر مر چکے ہیں…
اور یہ شہداء مر چکے ہیں مگر زندہ ہیں… ان خوش بختوں کے والدین اور عزیز و اقارب
کو قلبی مبارکباد… اور جدائی کا جو طبعی صدمہ پہنچا اس پر قلبی تعزیت ہے … اللہ
تعالیٰ کی ہر دن نئی شان ہے…ایک دن ہم میں سے ہر ایک کے لئے اس کی شان کا ظہور اس
طرح ہو گا کہ…اس دن وہ ہمیں موت دے گا… ہاں! سب نے مرنا ہے…بس دعاء کریں کہ… اس دن
محبوب کی جو شان ظاہر ہو وہ رحمت والی، مغفرت والی اور ستاری والی ہو… اے شہداء
اسلام! شان والے رب کی طرف سے شاندار انجام مبارک ہو…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
آج
کل کوشش ہوتی ہے کہ ’’رنگ و نور‘‘ مختصر لکھا جائے…مگر آج اس آیت مبارکہ کے جلوے
قلم کو رکنے ہی نہیں دے رہے… اردگرد کئی عربی اور اردو تفسیریں بھی رکھی ہیں جو
دعوت دے رہی ہیں کہ…ان کے موتی بھی اس ہار میں پرو دیے جائیں…پھر بھی اختصار کی
کوشش کرتا ہوں… حضرت امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں یہ
قصہ لائے ہیں:
ایک
مسلمان حاکم نے اپنے وزیر سے پوچھا:
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾
اس
آیت مبارکہ کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ وزیر نہ سمجھا سکا اور اس نے بادشاہ سے ایک دن
کی مہلت مانگی…مہلت ملنے پر وہ سخت غمزدہ حالت میں گھر لوٹا…اس کے ایک کالے حبشی
غلام نے پوچھا… آپ اس قدر پریشانی کی حالت میں کیوں ہیں؟ اس نے وجہ بتائی تو غلام
نے کہا…مجھے حاکم کے پاس لے چلیے میں اس آیت کی تفسیر ان کو سمجھا دوں گا…وزیر نے
جا کر حاکم کو بتایا تو حاکم نے غلام کو بلوا لیا…غلام نے کہا…’’اے امیر محترم!
اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے…اور دن کو رات میں
داخل فرماتا ہے… زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور مردہ سے زندہ کو… وہ بیماروں کو
شفاء دیتا ہے، اور تندرستوں کو بیماری… وہ عافیت میں پڑے لوگوں کو مصیبت میں مبتلا
فرماتا ہے اور مصیبت زدہ لوگوں کو عافیت عطاء فرماتا ہے…وہ ذلیل کو عزت دیتا ہے
اور عزت والوں کو ذلت… وہ محتاج کو غنی بناتا ہے اور غنی کو محتاج‘‘…بادشاہ نے یہ
سن کر کہا…تم نے مجھے راحت دی ، اللہ تعالیٰ تمہیں راحت دے…پھر اس نے حکم دیا کہ
’’وزیر‘‘ کا وزارتی لباس اتار کر اسے معزول کر دیا جائے اور یہ لباس اس غلام کو
پہنا کر اسے وزیر بنا دیا جائے… غلام نے وہ لباس پہنا اور کہا… اے میرے آقا! یہ ہے
اللہ تعالیٰ کی شان… (القرطبی)
سبحان
اللہ ! وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کی شان یقین سے بیان کر رہا تھا اور اس آیت کی
تفسیر سنا رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسی لمحہ خود اسے اس آیت کی تفسیر بنا دیا… ہم
اپنی زندگی میں غور کریں کہ بعض لمحوں میں زندگی کا رخ کیسا بدلا…وہ رمضان المبارک
کی رات تھی میں نے جیل میں ایک کپ چائے سے سحری کی… اور میری زندگی ایک چار دیواری
تک محدود تھی… مگر اسی روزے کی افطاری میں نے قندھار میں تازہ کھجور اور اچھے
کھانے کے ساتھ آزادی کی حالت میں کی…پھر ایک رمضان تھا میں نے روزے کی افطاری
اپنے والدین، اہل خانہ اور رفقاء کے ہمراہ کی…مگر یکایک ایسا کچھ ہوا کہ سحری کے
وقت اکیلا تھا اور دربدر…زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی… اللہ تعالیٰ کی شان کا
نظام ’’غیبی‘‘ ہے… جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں وہ کبھی مایوس اور
بدیقین نہیں ہوتے… مثلاً زکوٰۃ، صدقے ،خیرات پر مال میں برکت کا وعدہ ہے… اب یہ
نہیں ہو گا کہ آپ نے دس دئیے تو آپ کو بتا کر ستر واپس کیے جائیں… یہ ستر ضرور
ملیں گے مگر کس طرح؟ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے…وہ آج دیں یا کل؟… نقد عطاء
فرمائیں یا کسی چیز کی صورت میں …کوئی بیماری ٹال کر اس کے علاج کی رقم بچا دیں یا
کوئی اور دور کی نعمت دے کر انسان کو مالا مال فرما دیں… بعض بیماریاں ایسی ہوتی
ہیں کہ انسان کے سارے مال کو کھا جاتی ہیں…ایک بار ٹیکسی میں سفر کے دوران ڈرائیور
نے بتایا کہ میرے والد بہت عرصہ بیرون ملک کماتے رہے…بڑی جائیداد بنائی…مگر پھر
بیمار ہو کر آئے تو علاج میں سب کچھ بیچنا پڑا…اور جب وہ مرے تو ان کے بیس تیس
سال کی ساری کمائی علاج پر لگ چکی تھی… بے شک اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے… ساری
مخلوق اس کی محتاج ہے…اور اللہ تعالیٰ کی ہر دن ایک نئی شان ہے… کامیابی یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ سے پُر امید رہو اور اللہ تعالیٰ سے جڑے رہو… اللہ تعالیٰ سے جڑے رہو…
اے
شان والے رب! ہماری حالت دنیا اور آخرت میں بہتر فرما دے…
یَا
حَیُّ یَا قَیُّوْمُ! اَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا کُلَّہْ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 520
أَصْلِحْ لِی شَأْ نِی کُلَّہ
’’شأ ن‘‘ کا مطلب و معنٰی…
ہر
دن نئی خیر…
ڈرانے
والوں کے نام، ایک پیغام…
حکمرانوں
کے مظالم… اور اہل حق کی ذمہ داری…
حجاج
بن یوسف کی دھمکی… اور حضرت محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کا جواب…
اپنی
راحت و حفاظت کی خاطر دین، مدرسہ و مسجد قربان کرنا،
دھوکے
اور خسارے کا سودا…
ہماری
’’شأ ن‘‘ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ رہے تو سب کچھ ٹھیک…
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم
الشان تحفہ…دو دعائیں…
آیت
مبارکہ پر غور نہ کرنے کے نقصانات…
کُلَّ
یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأنٍ کی تفسیر سمجھاتی… اور اللہ تعالیٰ کی
’’شا ن‘‘ کا نور بکھیرتی ایک پر نور تحریر…
۱۲ صفر المظفر۱۴۳۷ھ؍
24نومبر 2015ء
أَصْلِحْ لِی شَأْ نِی کُلَّہ
اللہ
تعالیٰ سے سب اپنی ’’حاجتیں‘‘ مانگتے ہیں، آسمان والے بھی اور زمین والے بھی…سب
اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں… وہ سب کی سنتا ہے… اور سب کی حاجتیں ان کی
مصلحتوں کے مطابق پوری فرماتا ہے…ہر دن اس کی نئی شان ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
’’شأن‘‘ کا معنی سمجھ لیں…
اس
آیت مبارکہ کے جلوے آج بھی دل و دماغ پر حاوی ہیں…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
سب
سے پہلے ’’شأن‘‘ کا معنی سمجھ لیں…
شأن
کہتے ہیں…حالت، کام اور فکر کو … جب کسی سے پوچھیں…
مَا
شَأْنُکَ؟
اس
کا مطلب ہو گا… تیرا کیا حال ہے…
اَلشَّأن
بڑا کام ، معاملہ ،حالت… یا اللہ میری شأ ن ٹھیک فرما دے… یعنی میری حالت اچھی
فرما دے، میرے کام درست فرما دے،میرے معاملات کی اصلاح فرما دے…أَصْلِـحْ لِی
شَـأْنِـی…
اس
کی جمع آتی ہے ’’شئون‘‘ آپ نے یہ لفظ سنا اور پڑھا ہو گا… ’’شُئُون الحرمین‘‘
حرمین شریفین کے کام کاج اور معاملات…وہاں عرب میں ایک پوری وزارت اس نام سے موجود
ہے…
اسی
طرح ’’شأ ن‘‘ کا لفظ اچھی حالت، اور قدر و منزلت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے
… اور مصروفیت کے معنٰی میں بھی آتا ہے… اب ترجمہ آسان ہو گیا…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
ہر
دن اللہ تعالیٰ کے نئے نئے کام ہیں، اور وہ نئے حالات ظاہر فرماتا ہے…قیدیوں کو
رہائی دیتا ہے… اور آزاد لوگوں کو قید…وہ ہر دن تین بڑے لشکر روانہ فرماتا ہے…ایک
لشکر ان افراد کا جن کو دنیا سے قبر کی طرف بھیج دیتا ہے… دوسرا لشکر ان افراد کا
جن کو ماں کے پیٹ سے دنیا میں بھیجتا ہے… اور تیسرا لشکر ان افراد کا جن کو ماؤں
کے رحم میں منتقل فرماتا ہے… مانگنے والے مانگ رہے ہیں اور وہ دے رہا ہے… کھانے
والے کھا رہے ہیں اور وہ کھلا رہے ہیں…پینے والے پی رہے ہیں اور وہ پلا رہا ہے…
مگر اس کے خزانوں میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی…اور نہ آئے گی…وہ جو دنیا میں قوت
والے تھے آج قبروں میں بے بس پڑے ہیں…قوموں کی قومیں مٹ گئیں…اللہ تعالیٰ کا کام
چلتا رہا، اللہ تعالیٰ کا نظام چلتا رہا اور چلتا رہے گا…یہ کام، یہ نظام کسی کا
محتاج نہیں…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
ہر
دن اللہ تعالیٰ کی نئی شان ہے…
ہر
دن نئی خیر
حضرت
سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی
تفسیر میں فرماتے ہیں:
ہر
دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی خیر اس کے بندوں کو ملتی ہے…
حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
اللہ
تعالیٰ نے موتی سے ایک تختی بنائی… اس تختی کے دونوں پٹھے سرخ یاقوت کے بنائے… اس
کا قلم نوری ہے اور اس کی تحریر بھی نوری ہے … اللہ تعالیٰ ہر دن تین سو ساٹھ
مرتبہ اس تختی پر نظر فرماتا ہے اور ہر نظر پر کسی کو زندگی دیتا ہے، کسی کو موت…
رزق دیتا ہے، عزت عطا فرماتا ہے، ذلت میں ڈالتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے وہ کرتا
ہے…﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ﴾ کا یہی مطلب ہے‘‘… ( بغوی، ابن کثیر، مظہری)
حضرت
حسین بن فضل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر لکھ دی ہے،
روزانہ اس کو اپنے وقت پر نافذ فرماتے ہیں‘‘…(مظہری)
سبحان
اللہ! اللہ تعالیٰ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے…اور وہ ہر وقت سنتا ہے، ہر وقت دیتا
ہے اور ہر وقت ہر کام کی قدرت رکھتا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
ڈرانے
والوں کے نام
آج
کل پاکستانی حکومت بہت سرکشی اور تکبر کی حالت میں ہے…وہ پاکستان کو لبرل، سیکولر
اور ہندو مملکت بنانے کے دعوے کر رہی ہے…مدارس کے خلاف شدید کریک ڈاؤن جاری ہے…
سنا ہے کہ اب مساجد پر بھی چھاپوں اور قبضوں کی تیاری چل رہی ہے…ساتھ ساتھ یہ
اعلان بھی کیا جا رہا ہے کہ…جہاد کے ہر حمایتی کو ختم کر دیا جائے گا، مٹا دیا
جائے گا… حکومت کے یہ تمام بیانات سن کر ذہن میں یہی آیت مبارکہ آتی ہے کہ:
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
اللہ
تعالیٰ ہر دن نئے حالات ظاہر فرماتے ہیں…
معلوم
نہیں کل نواز شریف رہے گا یا نہیں؟ …معلوم نہیں شہباز شریف ہر دفعہ لندن سے علاج
کرا کے واپس آ سکے گا یا نہیں… آج جن کے پاس طاقت ہے کل ان کی کوئی سنے گا بھی
یا نہیں؟… یہودی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ چھ دن تو کام اور فیصلے فرماتے ہیں مگر
ہفتہ کے دن کوئی کام یا فیصلہ نہیں فرماتے…
ان
کو جواب دیا گیا کہ…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
اللہ
تعالیٰ ہر دن کام اور فیصلے فرماتے ہیں…
آج
جو وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں …کل اللہ تعالیٰ ایسے حالات لائیں گے کہ خود ان کے اپنے
اعضاء بھی ان کا کہنا نہیں مانیں گے…اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت شیخ
ابواللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت
ہمت افزاء قصہ تحریر فرمایا ہے …وہ لکھتے ہیں:
’’حجاج بن یوسف نے حضرت محمد ابن الحنفیہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور اس میں انہیں دھمکیاں دیں کہ میں
آپ کا برا حشر کروں گا وغیرہ… حضرت محمدابن الحنفیہ رضی اللہ عنہ ( جو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے) نے جواب میں تحریر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ہر دن تین سو ساٹھ بار لوح محفوظ پر نظر فرماتے ہیں،
اور ہر دن عزت دیتے ہیں اور ذلت، عطا فرماتے ہیں اور روکتے ہیں…پس میں اُمید کرتا
ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی کوئی نظر عطاء فرمائیں گے اور تجھے مجھ پر قدرت نہیں
دیں گے‘‘…
حجاج
نے حضرت محمد ابن الحنفیہ رضی اللہ عنہ کا یہ خط عبد الملک بن مروان کو بھیج دیا… عبد
الملک نے یہ خط اپنے پاس خزانے میں محفوظ رکھ لیا… کچھ عرصہ بعد روم کے بادشاہ نے
عبد الملک بن مروان کو دھمکی آمیز خط بھیجا تو اس کے جواب میں عبد الملک نے… حضرت
محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ
لکھ کر بھیج دئیے…اس پر رومی بادشاہ نے کہا…یہ الفاظ تو خاندان نبوت کا خزانہ
معلوم ہوتے ہیں…
( تفسیر السمرقندی ص ۳۶۲ ج ۲)
پاکستان
کے اہل ایمان، اہل جہاد ، اہل مساجد…اور اہل مدارس … حکومت کی موجودہ دھمکیوں اور
پھرتیوں سے نہ گھبرائیں…وفاق المدارس کے محترم اور مکرم منتظمین خود سپردگی اور
پسپائی کا طرزِ عمل اختیار نہ کریں … اللہ تعالیٰ کسی کو قوت اور طاقت دے کر …خود
ایک طرف نہیں ہو گئے… وہ جس طرح حکومت دینا جانتے ہیں اسی طرح حکومت چھیننا بھی
جانتے ہیں…ہر دن ان کے نئے کام ہیں…وہ سرکشوں کی گردنیں توڑتے ہیں…جابروں کو خاک
چٹاتے ہیں…متکبروں کو مٹی میں ملاتے ہیں…قوت والوں کو بے بسی میں گراتے ہیں …اور
حکمرانوں کو ذلت چکھاتے ہیں…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
ہر
دن وہ اپنی قدرت کے نئے نئے نمونے دکھاتے ہیں…اس لئے اے مسلمانو! آج کے حکمرانوں
کی طاقت دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ وہ ہمیشہ اسی طرح رہیں گے…اور آج اپنی راحتوں کو
دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ یہ راحتیں ہمیشہ رہیں گی…اپنی راحتوں کی خاطر مسجد قربان
نہ کرو، مدرسہ کو غلام نہ بناؤ… جہاد سے محرومی نہ پاؤ… اگر کوئی اپنی راحت اور
حفاظت کی خاطر اپنا دین قربان کرے گا تو ممکن ہے… دین سے بھی جائے اور راحت اور
حفاظت بھی چھن جائے…اور جو اپنی راحت اور حفاظت خطرے میں ڈال کر اپنے دین کو بچائے
گا تو … بہت ممکن ہے کہ دین بھی نصیب رہے اور راحت و حفاظت بھی سلامت رہے…اس لئے
اپنے حق مؤقف پر ڈٹ جاؤ… اور اللہ تعالیٰ سے اچھے حالات اور اس کی نصرت مانگو…
وہ ہر دن اپنے بندوں کی بہت عجیب طرح سے نصرت فرماتا ہے…
ہماری
شان
’’ہماری شان‘‘… یعنی ہمارے کام، ہمارے حالات اور ہمارے معاملات پر
جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہو تو…سب کچھ ٹھیک رہتا ہے…لیکن جب ہمارے کاموں
اور ہمارے حالات پر ہمارے’’ نفس‘‘ کا سایہ ہو تو سب کچھ بگڑ جاتا ہے… انسان کا نفس
اس کا سب سے بڑا دشمن ہے…وہ ہمارے ہر کام کو بگاڑتا ہے… اور ہمیں گناہوں ،برائیوں
، ذلتوں اور رسوائیوں میں ڈالتا ہے…اسی لئے ہمیں سکھایا گیا کہ…ہم اپنی ’’شان‘‘
ٹھیک کرانے کے لئے …’’شان‘‘ والے رب سے فریاد کیا کریں…اور اس کی رحمت والی
’’شان‘‘ مانگا کریں…
لیجئے
’’شان‘‘ ٹھیک کرانے کے لئے یہ اہم تحفہ…
اور تحفہ بھی معمولی نہیں…بلکہ یہ وہ عظیم تحفہ ہے جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے لاڈلی، پیاری اور چہیتی لختِ
جگر…حضرت سیّدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ
عنہا کو عطاء فرمایا… اور ان کے ذریعہ سے امت تک
پہنچایا…
اپنی
عزیز ترین اور افضل ترین بیٹی کو یہ تحفہ دیتے وقت حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کے جو الفاظ ارشاد فرمائے ان کو پڑھ کر
دل وجد میں آ جاتا ہے کہ…اولاد کے ساتھ اصل خیر خواہی کسے کہتے ہیں…ارشاد فرمایا:
مَایَمْنَعُکِ
اَنْ تَسْمَعِی مَا اُوْصِیْکِ بِہٖ
اے
فاطمہ! میری وصیت غور سے سنو…کوئی چیز تمہیں یہ نصیحت سننے سے نہ روکے…
تم
صبح اور شام یہ الفاظ کہا کرو:
یَا
حَـیُّ یا قَیُّـومُ بِـرَحْمَـتِکَ أَسْتَـغِـیْثُ ، أَصْلِـحْ لِی شَـأْنـی
کُلَّـہٗ ، وَلا تَکِلْـنِی إِلٰی نَفْـسِی طَـرْفَۃَ عَـینٍ۔ (نسائی، مسند احمد)
یا
اللہ، اے زندہ ، اے تھامنے والے! میں آپ کی رحمت سے فریاد کرتا ہوں میرے سارے
کام، میرے سارے حالات ٹھیک فرما دیجئے اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر…یعنی ایک
لمحہ بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجئے…
اور
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مکروب
کی دعاء یہ ہے:( مکروب کہتے ہیں شدید غم، پریشانی، تکلیف اور تنگی میں مبتلا شخص
کو)
اَللّٰہُمَّ
رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِی إِلٰی نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ، وَأَصْلِحْ
لِی شَأْنِی کُلَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ۔
’’یا اللہ! آپ ہی کی رحمت کا امیدوار ہوں … (کسی اور کی طرف نہیں
دیکھتا) …مجھے ایک لمحہ بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجئے ، میرے سارے کاموں کو سیدھا
فرما دیجئے ، آپ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘… ( ابو داؤد، احمد)
یہ
دونوں دعائیں بڑی قیمتی ہیں… ہماری ’’شان‘‘ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ’’شانِ رحمت‘‘
کی محتاج ہے…جاگتے ہوئے بھی سوتے ہوئے بھی …دن میں بھی رات میں بھی…دنیا میں بھی
اور قبر ،حشر میں بھی… رزق کے بارے میں بھی… اور عزت کے باب میں بھی… صحت کے بارے
میں بھی… اور حفاظت کے لحاظ سے بھی… ہم اپنے حالات، اپنی ضروریات اور اپنے کاموں
کے لئے اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا سہارا پکڑیں تو وہ ہمیں پورا نہیں پڑ
سکتا… آخر اس نے بھی مرنا ہے، سونا ہے اور دوسرے کاموں میں لگنا ہے…مگر اللہ
تعالیٰ ’’حی‘‘ ہے ہمیشہ زندہ …’’قیوم‘‘ ہے سنبھالنے والا، تھامنے والا… اور وہ ہر
وقت سنتا ہے، قبول فرماتا ہے، عطا کرتا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
آیت
پر غور نہ کرنے کے نقصانات
یہ
آیت مبارکہ…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
ہمارے
ایمان، عقیدے اور عزم کو مضبوط فرماتی ہے… وہ لوگ جنہوں نے اس آیت مبارکہ پر غور
نہیں کیا اور اسے نہیں سمجھا وہ طرح طرح کی گمراہیوں اور غلطیوں میں جا ڈوبے…
یہ’’غامدی‘‘
یہ جدت پسند مفکر… انہوں نے امریکہ اور یورپ کی چمک دمک کو دیکھا تو دل ہار
بیٹھے…انہوںنے سمجھا کہ بس اب یہ سب کچھ اسی طرح رہے گا…اس لئے احساس کمتری میں
مبتلا ہو کر یہ ان کے تلوے چاٹنے لگے… ان کی نظروں میں کلمہ طیبہ پھیکا پڑ گیا…ان
کی نظروں میں مدینہ طیبہ اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے چھوٹے پڑ گئے…انہوں نے سمجھا کہ بس اب
حالات ہمیشہ اسی طرح رہیں گے تو ہمیں بھی عالمی برادری کا حصہ بن جانا چاہیے…انہوں
نے نہ ماضی کو دیکھا نہ مستقبل کو سمجھا اور نہ اس آیت مبارکہ میں غور کیا…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
اللہ
تعالیٰ ہر لمحہ، ہر لحظہ اور ہر دن نئے نئے حالات لاتے ہیں… اور بڑی بڑی قوموں کو
گراتے ہیں… اول تو دنیا کی چمک دمک… کوئی ترقی نہیں…لیکن اگر اسے ترقی مان لیا
جائے تو بھی یہ جلد ختم ہو جائے گی…امریکہ اور یورپ تیزی سے تباہی کی طرف جا رہے
ہیں…ان کے آلات، ان کی سائنس اور ان کی تہذیب… یہ تینوں چیزیں خود ان کے لئے موت
اور ذلت کا پیغام بن جائیں گی…
تب
یہ ’’جدید انڈے‘‘ پچھتائیں گے…مگر ایسے پچھتانے کا کیا فائدہ؟…
اسی
طرح وہ مسلمان جو حرام کی کمائی میں پڑ گئے ہیں… ان کو توبہ کا خیال آتا ہے مگر
سوچتے ہیں کہ کھائیں گے کہاں سے؟ … وہ اس آیت میں غور کریں تو… رب تعالیٰ کی رزق
والی شان کو پہچان جائیں کہ…وہ ہر دن اور ہرلحظہ ہمیں کن کن طریقوں اور راستوں سے
رزق دیتا ہے اور دے سکتا ہے…تو پھر ہم حرام کو اپنی مجبوری کیوں بنائیں…
اسی
طرح وہ پریشان حال مسلمان… جو بیماری، قرضے،تکلیف، رشتہ نہ ہونے وغیرہ کے مسائل سے
دوچار ہیں…وہ اس آیت مبارکہ میں غور کریں تو مایوسی سے بچ جائیں…اور وہ سمجھ
جائیں کہ ہم سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ…مصیبت کے وقت ہم نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور
سہاروں کی طرف دیکھا… حالانکہ حالت بدلنے ، شان بدلنے کا اختیار اور کام صرف اللہ
تعالیٰ کے قبضے میں ہے…اس لئے ہر مصیبت کا حل صرف یہی ہے کہ…صرف اور صرف اللہ
تعالیٰ کی طرف رجوع کیاجائے…اپنے ایمان کی تجدید کی جائے… عقیدۂ توحید کی تجدید
کی جائے اور بار بار اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے کہ… مالک آپ کے سوا کوئی نہیں کر
سکتا… آپ کے سوا کسی کی رحمت پر میری نظر نہیں …آپ کے سوا کسی کے پاس شان بدلنے
کی طاقت نہیں…
لَا
إِلٰہَ إِلَّاأَنْتَ،لَا إِلٰہَ إِلَّاأَنْتَ، بِرَحْمَتِکَ
أَسْتَغِیْثُ،أَصْلِـحْ لِیْ شَـأْنِـی کُلَّـہ
یَا حَـیُّ یا قَیُّـومُ
بِـرَحْمَـتِکَ أَسْتَـغِـیْثُ ، أَصْلِـحْ لی شَـأْنِـی کُلَّـہٗ ، وَلا
تَکِلْـنِی إِلٰی نَفْـسِی طَـرْفَۃَ عَـینٍ۔آمین یا ارحم الراحمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 521
اپنا بنا لے
اللہ
تعالیٰ ہر دن نئے افراد لاتے ہیں…
اللہ
تعالیٰ ہر دن نئے احوال بناتے ہیں…
ایک
سبق آموز واقعہ…
شان
صرف ان کی محفوظ جو اپنی شان کو اپنا کمال نہ سمجھیں…
’’یوم‘‘ سے مراد ہر گھڑی، ہر لمحہ اور وقت…
کامیاب
بندہ…
اجتماعات
کی ترتیب…
اجتماعات کا نصاب…
ایک
شاندار دعاء…
’’شان‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی تجلیات…
پردے
والی شان…
آیت
کا ترجمہ و تفسیر…
ایک
خاص تفسیری قول…
حضرت
ابو یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ…
ایک
با برکت و معطر مضمون…
۱۹ صفر المظفر۱۴۳۷ھ؍
یکم دسمبر 2015ء
اپنا بنا لے
اللہ
تعالیٰ ہر دن نئے افراد پیدا فرماتا ہے… پرانے لوگوں کی جگہ نئے افراد لاتا ہے…پس
کوئی خود کو لازوال نہ سمجھے…کوئی اپنے عہدے، منصب اور مال کو مستقل نہ سمجھے… جو
کل عزت مند تھے آج ذلیل پھرتے ہیں…جو کل مالدار تھے آج ان کا بھیک پر گذارہ
ہے…وہ جو کل زمین پر اکڑ کر چلتے تھے وہ آج دو قدم اٹھانے سے معذور ہیں…وہ جو کل
آپس میں محبت کرتے تھے آج ایک دوسرے کے دشمن ہیں…اللہ تعالیٰ کی ہر دن نئی شان
ہے…
یُحْدِثُ
اَشْخَاصًاوَیُجَدِّدُاَحْوَالًا…
وہ
روز نئے افراد لاتا ہے اور ہر گھڑی نئے احوال بناتا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
آنکھوں
دیکھا واقعہ
مدرسہ
سے تعلیمی فراغت کے بعد جب جہاد میں قدم رکھا تو بیانات کا سلسلہ شروع ہوا…ایک بار
پنجاب کے ایک شہر سے دعوت آئی…میرا قیام کراچی میں تھا…جلسہ میں پہنچا تو ایک بڑے
خطیب صاحب بھی مدعو تھے اور آخری بیان ان کا تھا…وہ بڑی شان سے تشریف لائے…پورے
مجمع کو کھڑا کیا گیا…بہت شور شرابا ہوا، جس کا بیان ہو رہا تھا …اسے بیان کافی
دیر تک روکنا پڑا… چند سال بعد پھر ایک جلسہ تھا وہ خطیب صاحب اپنی پارٹی چھوڑ چکے
تھے…مسکینوں کی طرح اسٹیج پرآ بیٹھے… نہ کوئی نعرہ گونجا نہ شور… پھر تھوڑی دیر
بعد ان کے نام کا اعلان ہوا کہ وہ تقریر کے لئے تشریف لائیں مگر وقت کم ہے اس لئے
پانچ منٹ میں اپنی بات ختم کریں…وہ بیان کے لئے اُٹھے تب بھی کسی نے توجہ نہ
کی…انہوں نے خطاب شروع ہی کیا تھا کہ انہیں پرچی بھیج دی گئی کہ بس کریں…وہ خاموشی
سے اُتر آئے اور بیٹھ گئے … صرف چند سال میں اتنا بڑا نام … بے نام ہو گیا…یہی ہر
جگہ ہوتا ہے…صرف ان لوگوں کی شان اللہ تعالیٰ سلامت رکھتے ہیں جو…شان کے زمانے
اللہ تعالیٰ سے جڑے رہتے ہیں…اور اپنی شان کو اپنا کمال نہیں سمجھتے…اور اپنی شان
کا ناجائز استعمال نہیں کرتے… اللہ تعالیٰ شان والا ہے… وہ جس کو چاہتا ہے شان دیتا
ہے…اور جس سے چاہتا ہے شان چھین لیتا ہے… پس آج جو صحتمند ہیں وہ اپنی صحت کا
دینی، اخروی فائدہ اٹھا لیں … وہ جو عزت مند ہیں اپنی عزت کے ذریعہ اپنی آخرت بنا
لیں…وہ جو مالدار ہیں اپنے مال کے ذریعے آگے کا سامان خرید لیں…کیا معلوم کس لمحہ
اللہ تعالیٰ کی کونسی شان ظاہر ہو جائے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ ﴾
مفسرین
فرماتے ہیں کہ دن سے مراد ہر گھڑی، ہر لمحہ اور ہر وقت ہے… اللہ تعالیٰ نے آگ کو
جلانے کی طاقت دی… اب یہ نہیں کہ آگ اپنی مرضی سے جلائے گی… بلکہ اللہ تعالیٰ جب
چاہے گا تب وہ جلائے گی… اور جس کو جلانے کا حکم دے گا اسی کو جلائے گی…دنیا کی ہر
آگ، ہر لمحہ جلانے میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کی محتاج ہے…یہی حال پانی کا
ہے…اور یہی حال دواء کا ہے… اللہ تعالیٰ ہر لمحہ ،ہر وقت، ہر گھڑی فیصلے فرماتے
ہیں…آگ کو فرماتے ہیں جلا دے تو جلا دیتی ہے… فرماتے ہیں ’’ نہ جلا‘‘ تو وہ نہیں
جلاتی… پانی کو فرماتے ہیں کہ پیاس بجھا تو وہ بجھاتا ہے…جب یہ حکم نہیں ہوتا تو
بعض افراد گھڑے پی جاتے ہیں مگر پیاس نہیں بجھتی… اللہ تعالیٰ ہر روز اپنی مخلوق
کی طرف تین سو ساٹھ بار نظر فرماتے ہیں… خاص نظر… کیونکہ ویسے تو وہ ہر وقت ہر کسی
کو دیکھتے ہیں…اس خاص نظر میں وہ اپنی مخلوق کو نئی نئی نعمتیں عطا فرماتے ہیں…بعض
افراد کو ان کی چھنی ہوئی نعمتیں واپس دیتے ہیں… اور بعض لوگوں کو نعمتوں سے محروم
فرماتے ہیں… مقصد یہ کہ… کامیاب وہی بندہ ہے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے جڑا رہے…
اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے … اللہ تعالیٰ سے اُمیدوار رہے…اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر
پر راضی رہے… اور یقین رکھے کہ…اللہ تعالیٰ حالات بدلنے پر قادر ہیں…اور وہ نئے
حالات لاتے ہیں…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
اجتماعات
کی ترتیب
جماعتی
اجتماعات کی ترتیب الحمد للہ منظم ہوتی جا رہی ہے… ان اجتماعات کا نصاب کیا
ہو؟…کئی ہفتوں سے اس پر لکھنے کا ارداہ ہے…مگر آیت مبارکہ… ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ
فِیْ شَاْنٍ﴾ کے انوارات اپنی طرف بلاتے ہیں تو سعادت سمجھ کر انہیں کو لکھنے بیٹھ
جاتا ہوں… کئی اہل دل مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’شان‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی
’’تجلیات ‘‘ ہیں… جو ہر لمحہ نئے نئے انداز سے اس کے بندوں کے دل پر اترتی ہیں…
سبحان اللہ! کبھی نعمتیں یاد دلا کر دل پر شکر کی تجلی فرما دی… اب دل خوش ہے،
جھوم رہا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے بے قرار ہے… کبھی گناہ یاد دلا کر
توبہ کی تجلی دل پر برسائی تو اب دل رو رہا ہے، بلک رہا ہے، معافیاں مانگ رہا ہے…
ڈر رہا ہے ، شرما اور پچھتا رہا ہے…
اللہ
تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل کو بڑی طاقت عطاء فرمائی ہے…یہ دل جیسا ہو گا اللہ
تعالیٰ کا نور اسی کے مطابق اس دل پر برسے گا… معافی مانگنے والے دل کو رحمت ملتی
ہے… اور تکبر میں اکڑے دل پر اللہ تعالیٰ کا غضب برستا ہے… ویسے آج اس آیت
مبارکہ پر یہ آخری کالم ہے … کوشش ہو گی کہ آج اس موضوع کو کسی حد تک سمیٹ لیا
جائے… اللہ تعالیٰ کے کلام کی مکمل تفسیر کوئی نہیںکر سکتا… جس طرح اللہ تعالیٰ کی
ہر وقت نئی شان ہے…اس کے کلام کی بھی ہر دور اور ہر زمانے میں نئی شان ہے…قرآن
مجید کا ہر لفظ ہر زمانے میں سمجھا جا سکتا ہے… اور قرآن مجید ہر زمانے کے مطابق
ہر انسان کی رہنمائی فرماتا ہے… سوچا تھا کہ اس آیت مبارکہ پر تین مضامین ہو
جائیں گے تو پھر اجتماعات کے نصاب پر بات ہو گی…اب بھی ان شاء اللہ یہی ارادہ ہے…
مگر اتنی سی بات یاد کر لیں کہ مقبول اجتماعات میں تین چیزیں ضروری ہیں… جن
اجتماعات میں یہ تین چیزیں ہوتی ہیں… ان میں شرکت کرنے والوں کو… مغفرت بھی ملتی
ہے اور رحمت بھی… اور ان اجتماعات کا اثر زمین و آسمان میں دور دور تک پھیل
جاتاہے… اور ایسے اجتماعات میں وقت آنے کے ساتھ ترقی اور برکت ہوتی چلی جاتی ہے…
وہ تین چیزیں یہ ہیں…
١ ذکر
اللہ…
٢ دعوت
الی اللہ…
٣ التوبہ
الی اللہ…
بس
یہ ہے مقبول اور کامیاب اجتماعات کا نصاب… اس کی تفصیل ایک پورے مضمون کی طلبگار
ہے… خلاصہ یہ کہ…ان اجتماعات میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو…
یعنی تلاوت، کلمہ طیبہ، استغفار ،درودشریف وغیرہ… کوئی اخلاص کے ساتھ تلاوت
کرے…مجمع سے بھی کچھ تلاوت کرائے… اور کچھ وقت ذکر کی مجلس توجہ کے ساتھ ہو… ایسی
مجالس کی فضیلت قرآن و حدیث میں بہت ہے… دوسرا کام دعوت الی اللہ…اس میں بیانات
آتے ہیں…اور ہمارا نصاب موجود ہے… کلمہ طیبہ، اقامت صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل
اللہ…تیسرا اور ضروری کام یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ، اللہ تعالیٰ کی طرف
فرار، اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت… اور اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ… یعنی اپنے ماحول سے
نکل کر ایسے ماحول کی طرف جانا جہاں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضا پانا آسان
ہو…اس تیسرے کام کے لئے ایک ساتھی کھڑا ہو اور لوگوں کو دعوت دے کر … ان کے ارادے
لکھ لے…محاذ، تربیت ،دورہ تربیہ، دورہ اساسیہ کے لئے نقد پکے ارادے… یہ آخری کام
بھی اسی طرح جم کر کیا جائے جس طرح بیانات جم کر ہوتے ہیں… آخر میں دعاء ہو جائے
یا صرف استغفار… اور پھر منتظمین بیٹھ کر جائزہ لیں کہ اجتماع میں کیا ٹھیک رہا
اور کیا غلط… اور جن مسلمانوں نے ’’التوبۃ الی اللہ‘‘ میں نام لکھوائے ان کو الگ
بٹھا کر ان کے ارادوں پر عمل کی ترتیب بن جائے…ابتداء میں ممکن ہے یہ سب کچھ اجنبی
لگے مگر کامیابی کا نصاب بہرحال یہی ہے جو اہل ہمت کو اپنانا ہو گا…ان تین چیزوں
کے بغیر بھی جلسے ہو جاتے ہیں… چند دن خوب زور شور بھی رہتا ہے مگر پھر سب کچھ ہوا
میں تحلیل ہو جاتا ہے… جبکہ ان تین چیزوں کے التزام سے ان اجتماعات میں مستقل ترقی
ہوتی چلی جاتی ہے… اللہ تعالیٰ کی ہر دن نئی شان ہے… فرمایا کہ اگر تم جہاد نہیں
کرو گے تو ہم اور لوگ لے آئیں گے او روہ تمہارے جیسے نہیں ہوں گے… ہر دن نئے
افراد ، نئے کردار اور نئے اہل عمل لانا اللہ تعالیٰ کے لئے آسان ہے…کیونکہ ہر
لمحہ وہ کام میں مصروف ہے، ہر لمحہ وہ فیصلے فرماتا ہے اور ہر لمحہ اس کی نئی شان
کے مناظر ظاہر ہوتے ہیں…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
بڑی
شاندار دعاء
سورۃ’’
الرحمٰن‘‘ کی جس آیت پر ہم بات کر رہے ہیں…وہ اس سورۃ کی انتیسویں آیت ہے…تھوڑا
سا غور فرمائیں… اس سے پچھلی آیت میں فرمایا گیا کہ جو بھی زمین پر ہیں وہ سب فنا
ہو جائیں گے… صرف اللہ تعالیٰ باقی رہے گا جو ’’ذوالجلال والاکرام ‘‘ ہے… پھر اس
آیت میں فرمایا کہ…زمین و آسمان کی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ سے مانگتی ہے…اور
اللہ تعالیٰ ہر لمحہ نئے کام میں ہے…اللہ تعالیٰ جلال اور اکرام کا مالک ہے… تم سب
فانی ہو…اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی شان میںہے… اور تم اس کی شان اور فیصلوں کے محتاج
ہو…اب ان دونوں آیتوں کو جوڑ کر… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعاء مانگی… سبحان اللہ…عجیب شان والی
دعاء ہے… اور انسان کی شان کو درست کرانے والی دعا ہے…
اس
دعاء میں اللہ تعالیٰ کو ان کے اسم ’’ذوالجلال والاکرام‘‘ کا واسطہ دیا گیا …اور
اپنی محتاجی بیان کی گئی…دعاء یہ ہے:
یَا
حَیُّی یَا قَیُّومُ، یَا بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، یَا ذَاالْجَلَالِ
وَالْاِکْرَامِ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ، بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ، اَصْلِحْ
لَنَا شَأنَنَا کُلَّہٗ… وَلَا تَکِلْنَا اِلٰی اَنْفُسِنَا طَرْفَۃَ عَیْنٍ ،
وَلَا اِلٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ…
ترجمہ:
یا اللہ ! اے ہمیشہ زندہ ، اے تھامنے والے… اے زمین و آسمان کے موجد…اے جلال و
اکرام والے … آپ کے سوا کوئی معبود نہیں…ہم آپ کی رحمت سے فریاد کرتے ہیں… ہمارے
سارے حالات درست فرما دیجئے اور ہمیں ایک لمحہ بھی ہمارے نفس کے سپرد نہ کیجئے اور
نہ ہمیں اپنی مخلوق میں سے کسی کے سپرد کیجئے…
پردے
والی شان
یہ
بڑی عمر کے لوگ جنہیں ہم ’’بابا ‘‘ کہتے ہیں…ان میں سے بعض بڑے کام کے ہوتے ہیں…
ان کے پاس سالہا سال کے تجربہ کا نچوڑ کامیابی کے نسخے ہوتے ہیں… ایسے چند معمر
افراد سے بعض چیزیں سیکھنے کی سعادت ملی ہے… کسی زمانے ایک معمر بزرگ سے سلام دعاء
رہی… وہ عالم نہیں تھے نہ ہی پیریا مرشد…ہاں! نماز کے بہت پابند، وہ پہلی بار ملے
تو سلام کے فوراً بعد دعاء دی…اللہ تعالیٰ پردہ رکھے اور کبھی بے پردہ نہ فرمائے…
میں دعاء سن کر سوچ میں پڑ گیا… ایسی دعاء کافی اجنبی لگی پہلے کبھی کسی نے نہ دی
تھی… بعد میں ان سے ملنا جلنا ہوا تو وہ ہمیشہ یہی دعا ء دیتے…اور جس سے بھی ملتے
اسے یہی دعاء دیتے… ایک دن مسجد ہی میں غور و فکر کا موقع ملا تو میں ’’بزرگ‘‘ کی
فراست کا قائل ہوا کہ… اس نے اللہ تعالیٰ کی وہ شان مانگنے کا معمول بنا رکھا ہے
جس شان کا ہر انسان ہر لمحہ محتاج ہے… وہ ہے اللہ تعالیٰ کی شان ستّاری…
ہمارے
ہاں اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ پر دہ رکھے تو اس سے… بس ایک دو بے حیائی والے
کام ذہن میں آتے ہیں…حالانکہ اللہ تعالیٰ کے پردے کے بغیر ہم ایک لمحہ بھی عزت
مند نہیں رہ سکتے… ہر انسان عیب، گندگی ،گناہ اور آلائشوں سے بھرا ہوا ہے… جب کسی
کو فالج ہوتا ہے تو کس طرح اس کے پردے ہٹتے ہیں…اب پیشاب استنجا بھی دوسرے لوگ
کراتے ہیں وہ جو ساری زندگی ستر میں رہے…اب ایک ایک کے سامنے ان کا ستر کھلا پڑا
ہے…
اور
بہت سی مثالیں دیکھ لیں… اللہ تعالیٰ جب تک پردہ رکھتا ہے انسان کی عزت و آبرو
رہتی ہے… لیکن جیسے ہی وہ اپنا پردہ کھینچ لے تو انسان کس قدر بے ناموس ہو جاتا
ہے… انسان کے پیشاب کا نظام اس کی خلوتوں کا نظام…اس کے جسم کی گندگیوں کا نظام،
اس کے دل کے وساوس و خیالات کا نظام… اس کی بری نیتوں اور ارادوں کا نظام… اس کے
جھوٹ اور خیانت کا نظام… اس کی کمزوریاں،اس کے عیب…
اللہ
تعالیٰ جب پردے والی شان فرماتے ہیں تو یہ سب کچھ چھپا رہتا ہے… اسی لئے فرمایا
گیا کہ…اللہ تعالیٰ کے پردے کی قدر کرو، جو اس کی ناقدری کرتا ہے… اور اپنی عزت کو
اپنا کمال سمجھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے پردہ ہٹا لیتے ہیں… جب پردہ ہٹا تو اب
گند ہی گند ہے،کمزوری ہی کمزوری اور عیب ہی عیب… دعاء سکھا دی کہ… اللہ تعالیٰ سے
اس کی پردے والی شان مانگا کرو…
اَللّٰھُمَّ
اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا
’’یا اللہ! ہمارے عیبوں پر پردہ فرما اور ہمیں خوف سے امن نصیب
فرما۔‘‘
اَللّٰھُمَّ
اسْتُرْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ
’’ یا اللہ! مجھے اپنی عافیت کا پردہ دنیا اور آخرت میں عطاء
فرما‘‘…
اسی
لئے ہمیں حکم دیا گیا کہ… اپنے گناہ دوسروں کو نہ بتاؤ… اور دوسروں کے پردے چاک
نہ کرو… جو دوسروں کے پردے اتارے گا اللہ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے رسوا فرما دیں
گے…انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے رزق کا، اللہ تعالیٰ کے پردے کا، اللہ تعالیٰ کی
رحمت کا محتاج ہے…اور اللہ تعالیٰ ہر لمحہ، ہر وقت اپنی مخلوق کی حاجتیں پوری
فرماتا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
پوری
آیت کا ترجمہ اور تفسیر
مجلس
کے آخر میں یہ پوری آیت اور اس کا ترجمہ اور مختصر تفسیر پڑھ لیتے ہیں…
﴿یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ، کُلَّ یَوْمٍ
ھُوَ فِی شَأنٍ﴾ ( الرحمن ۲۹)
ترجمہ:
سب آسمان و زمین والے اسی ( اللہ تعالیٰ) سے مانگتے ہیں… ہر دن اس کے نئے نئے کام
ہیں…
یعنی
آسمان و زمین کی ساری مخلوقات … اللہ تعالیٰ کی محتاج ہیں…اور یہ سب اللہ تعالیٰ
سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں… اتنے سارے مانگنے والوں کی کثرت…پھر ہر ایک کی الگ الگ
حاجتیں … الگ الگ ضرورتیں… مگر اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر کسی کی سنتا ہے… اور اپنی
حکمت کے مطابق ان کی حاجت پوری کرتا ہے… انسان کو سانس لینے کے لئے ضروری ہے کہ …
اسے ہوا ملے…اور مچھلی کو سانس لینے کے لئے ضروری ہے کہ اسے پانی ملے… اللہ تعالیٰ
ایک ہی لمحے میں انسان کو الگ نعمت اور مچھلی کو الگ نعمت ان کی ضرورت کے مطابق
دیتا ہے… فرشتے بھی اس سے مانگ رہے ہیں… اور انسان بھی… جنات بھی اس سے مانگ رہے
ہیں اور پرندے اور نباتات بھی… کوئی مغفرت مانگ رہا ہے، کوئی رزق…کوئی صحت مانگ
رہا ہے، کوئی عافیت… کوئی رشتہ مانگ رہا ہے اور کوئی اولاد… کوئی مال مانگ رہا ہے
کوئی گھر… کوئی نیک اعمال کی توفیق مانگ رہا ہے… اور کوئی نورانی تجلیات اور برکات
…کوئی فتح مانگ رہا ہے کوئی شہادت… کوئی آزادی مانگ رہا ہے تو کوئی حفاظت… وہ ہر
لمحہ ہر کسی کی براہ راست سنتا ہے اور ہر دعاء پر اپنا فیصلہ صادر فرماتا ہے…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
ایک
قول
بعض
اسلاف جیسا کہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک… کائنات میں کل دو دن ہیں… ایک دن
دنیا…اور ایک دن قیامت…اب ہر دن اللہ تعالیٰ کی نئی شان ہے…یعنی دنیا میں اس کی
شان الگ ہے… یہاں وہ اپنے منکروں اور دشمنوں کو بھی دیتا ہے …بلکہ زیادہ دیتا ہے…
مگر آخرت میں اس کی الگ شان ہو گی کہ… صرف اپنے ماننے والوں کو نوازے گا اور
منکروں کو درد ناک عذاب میں ڈالے گا…دنیا میں اس کی شان یہ ہے کہ حکم دیتا ہے اور
منع فرماتا ہے… آخرت میں صرف وہ فیصلہ فرمائے گا…دنیا میں وہ اپنوں کو آزماتا
ہے، امتحانات میں ڈالتا ہے… مگر آخرت میں وہ ان کو اعزازات دے گا اور اپنے دشمنوں
کو سخت سزائیں… اس لئے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی شأن دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ
مالدار کافر کامیاب ہیں… یہ دنیا ختم ہو جائے گی… اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی
نئی شان ظاہر ہو گی جس میں کفار کو ہمیشہ کی سزا اور ناکامی میں ڈال دیا جائے گا…
﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ ﴾
مگر
ابو یزید
اللہ
تعالیٰ سے ہر کوئی مانگتا ہے… مگر ہر ایک کا مانگنا اس کی ہمت اور مقام کے اعتبار
سے ہوتا ہے… اسی لئے کوئی کام کی چیزیں مانگتے ہیںاور کوئی بے کار…کوئی ہمیشہ کام
آنے والی نعمتیںمانگتے ہیں اور کوئی عارضی اور فانی نعمتیں… کوئی دعائیں مانگتے
ہیںاور کوئی بد دعائیں… کوئی نیکی مانگتے ہیں اور کوئی گناہ… اللہ تعالیٰ سے
مانگنے والے بنو، اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہو… اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا سلیقہ
سیکھو…اللہ تعالیٰ سے وہ مانگو جو ہمیشہ کام آئے… مانگنے سے نہ تھکو… اور مانگنے
میں غلطی نہ کرو… غلط دعائیں بہت نقصان پہنچاتی ہیں…اللہ تعالیٰ کی معلوم نہیںکب
کو نسی شان ظاہر ہو اور دعاء قبول ہو جائے… سوچ کر مانگو، سمجھ کر مانگو، عاجزی
اور ادب سے مانگو…جھلا کر، اکتا کر،سٹپٹا کر شکوے والے انداز میں نہ مانگو…بد
دعائیں صرف اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے مانگو… سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت
اور مغفرت مانگو… اور اگر سچا عشق نصیب ہو جائے تو سب کچھ چھوڑو، اللہ تعالیٰ سے
خود اسے مانگو… اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو… یا اللہ! میں تجھ سے تجھی کو
مانگتا ہوں، تو میرا بن جا اور مجھے اپنا بنا لے…تفسیر روح البیان میں لکھا ہے:
خواجہ
احمد بن ابی الجواری رحمۃ اللہ علیہ نے
خواب میں اللہ جلّ شانہ کی زیارت کی…ان سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یَا
اَحْمَد! کُلُّ النَّاسِ یَطْلُبُوْنَ مِنِّی اِلَّا اَبَا یَزِیْدَ فَاِنَّہٗ
یَطْلُبُنِیْ
’’اے احمد! سب لوگ مجھ سے مانگتے ہیں مگر ابو یزید وہ مجھے مانگتا
ہے‘‘…
(مراد حضرت ابو یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو صاحب علم و معرفت بزرگ گذرے ہیں)
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 522
بابری مسجد شریف
بابری
مسجد کی یاد…
بابری
مسجد دوبارہ ضرور تعمیر ہوگی، ان شاء اللہ…
اسلام
میں ’’خطابت‘‘ کا مقام…
’’خطیب‘‘ کون ہوتا ہے؟…
نظریہ
و قوم کی بقاء میں’’خطیب‘‘ کا کردار…
اللہ
تعالیٰ کی عطا فرمودہ صلاحیت کو غلط استعمال کرنے والے…
عرب
کا زورِ خطابت…
اسلام
اور خطابت…
خطیب
کی بات ’’احسن القول‘‘
نعمت
خطابت کی حفاظت کن چیزوں سے؟…
خطیب
کے لئے تین ضروری چیزیں…
دینی
اجتماع اور شیطان…
جماعتی
اجتماعات کو ’’جامع الخیرات‘‘ بنانے والا نصاب…
اور
بہت کچھ…
یہ
سب جاننے کے لئے ملاحظہ ہو یہ مؤقر تحریر…
۲۶ صفر المظفر۱۴۳۷ھ؍
08 دسمبر 2015ء
بابری مسجد شریف
اللہ
تعالیٰ اپنے اُس بندے پر ’’خاص رحمت‘‘ فرماتے ہیں… جو لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا
ہو… نیکی کی طرف بلاتا ہو…مبارک ہو دین کی دعوت دینے والوں کو…مبارک ہو جہاد کی
طرف بلانے والوں کو…
اللہ
تعالیٰ اپنے اُس بندے سے ’’خاص محبت‘‘ فرماتے ہیں… جو دوسروں کو زیادہ نفع پہنچانے
والا ہو…
زیادہ
نفع پہنچانا یہ ہے کہ…کسی کو ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے ساتھ جوڑ دیا جائے… دین کا راستہ
سمجھادیا جائے…جہنم کی آگ سے بچایا جائے…اے ایمان والو! خود کو اور اپنے اہل
وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائو…
اِس
بار کا چھ دسمبر
اسلام
میں نہ کوئی سالگرہ ہے نہ برسی…نہ عُرس ہے نہ ماتم…نہ تاریخِ ولادت کا جشن ہے اور
نہ تاریخِ وفات کا غم…پھر بھی اس بار چھ دسمبر کو ’’بابری مسجد شریف‘‘ بہت یاد
آئی…چھ دسمبر ۱۹۹۲ء
بابری مسجد کو شہید کیا گیا… دل بہت چاہا کہ اپنے غم اور درد کو بانٹا جائے، کم از
کم ایک مکتوب ہی چل پڑے…سائیں حذیفہ شہید بھی یاد آئے وہ ’’بابری مسجد‘‘ کو اپنی
ماں کہتے تھے…وہ دراز قد سجیلا پاملا شہید بھی یاد آیا جو بابری مسجد کو ’’امی‘‘
کہا کرتا تھا…اور وہ حسین وجمیل استاذ طلحہ بھی… بابری مسجد کے یہ بیٹے اپنی ماں
کی طرح شہید ہوکر ماں کے قدموں میں جا بسے…ہر مسجد حقیقت میں کعبہ شریف کا ٹکڑا
اور جنت کا حصہ ہوتی ہے…
قیامت
کے دن ہر مسجد کی زمین کو کعبہ شریف کی مسجد کے ساتھ جوڑ کر…جنت میں شامل کردیا
جائے گا… ہر مسجد کی ایک روحانی سلطنت ہوتی ہے… جو چیز مسجد کے ساتھ جڑ جائے اُس
کی قیمت اور قدر بڑھ جاتی ہے…
ہماری
دعوت جہاد…جب بابری مسجد کے ساتھ جڑی تو…یہ پاکیزہ درد پورے عالم اسلام میں پھیل
گیا…یہ ’’بابری مسجد‘‘ کی کھلی کرامت تھی کہ…اس پر ہونے والے بیان نے ہزاروں
لاکھوں مسلمانوں کی زندگی بدل دی اور سنوار دی …بے شمار مسلمان دین پر آئے، جہاد
پر آئے… بڑی عجیب داستان ہے…میں سوچتا ہوں اُن شہداءِ کرام کا کیا مقام ہوگا جو
’’بابری مسجد‘‘ پر جان نچھاور کر گئے…مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ بابری مسجد ضرور
دوبارہ تعمیر ہوگی…وہاں کے میناروں سے ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی صدا گونجے گی…
نمازیوں کی لمبی قطاریں بابری مسجد کے باہر لگیں گی… شہدائِ بابری مسجد کی
ارواح…ان نمازیوں کا استقبال کریں گی…اور وہاں اہل ایمان اور اہل توحید کا مجمع
اتنا ہوگا کہ اندر پہنچ کر سجدہ کرنے والے خود کو خوش نصیب محسوس کریں گے…ان شاء
اللہ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ یہ سب کچھ ہوگا…بابری مسجد کا قاتل ’’ہنس راج‘‘
مرچکا… ایڈوانی مرنے والا ہے… اور جیتے جی بھی مرچکا ہے… بابری مسجد کو گرانے والے
کئی افراد دردناک عذابوں کا شکار ہوگئے… اور کئی ایک مسلمان ہوچکے… جہاد تیزی سے
بڑھ رہا ہے…غزوۂ ہند کا سورج پھر آنکھیں کھول رہا ہے…سلام ہو پیاری بابری
مسجد!…سلام، بہت سلام…
خطابت
کا مقام
بات
جماعت کے ’’اجتماعات‘‘ کی چل رہی ہے… الحمدللہ پورے ملک میں ’’اجتماعات‘‘ کی ترتیب
منظم ہوتی جارہی ہے… اس بار جو کار گزاری کل اور پرسوں آئی…اس میں روشنی محسوس
ہوئی…اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا…
مَاشَآءَ
اللہَ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ…اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِی بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ
الصَّالِحَاتُ…
اللہ
تعالیٰ نے انسان کو بولنے کی طاقت عطا فرمائی ہے…کسی کو زیادہ، کسی کو کم…وہ جو
اپنی بات مکمل یقین سے کرتے ہیں…اور سننے والوں کے حواس پر چھا جاتے ہیں…ان کو
’’خطیب‘‘ کہا جاتا ہے…کسی بھی نظریے اور کسی بھی قوم کی کامیابی میں…خطیب کا کردار
سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے…
فرعون
بھی ایک ماہر خطیب تھا…اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ صلاحیت عطاء فرمائی تھی کہ…جب
بولتا تھا تو سننے والوں کو اپنے رنگ میں اور اپنے اثر میں لے آتا تھا…مگر اس نے
اپنی اس ’’صلاحیت‘‘ کا غلط استعمال کیا…
اللہ
تعالیٰ کی دی ہوئی کسی بھی خاص صلاحیت کو…غلط استعمال کرنے والے ’’عذابِ الٰہی‘‘
کا شکار ہوجاتے ہیں… قرآن مجید نے اس کی عبرتناک مثالیں بیان فرمائی ہیں…کبھی
موقع ملے تو ضرور دیکھ لیجئے گا…دعاء اور اسم اعظم کی صلاحیت والا بلعم بن
باعوراء…انفرادی اور امتیازی صلاحیتوں والا ولید بن مغیرہ…معاشی صلاحیتوں سے مالا
مال قارون وغیرہم…فرعون نے اپنی خطابت کے زور سے کئی سو سال تک اپنی قوم پر بلا
شرکت غیرے حکومت کی… وہ جب کسی بات یا نظریے کو بیان کرتا تو سننے والے…خود کو اور
اپنی رائے کو حقیر سمجھنے لگ جاتے اور فرعون کی بات کے قائل ہوجاتے…اسی صورتحال کو
دیکھ کر اس نے ’’ربّ اعلیٰ‘‘ ہونے کا دعویٰ کردیا…
پھر
عربوں میں خطابت کا بڑا زور تھا… عربوں کا سارا فخر، غلبہ اور احساس برتری
’’خطابت‘‘ کے ستونوں پر کھڑا تھا…خود کو بڑا سمجھنا، عظیم سمجھنا، دوسروں کو حقیر
سمجھنا… اور دشمنوں سے مقابلے کے لیے اپنے اندر عزم اور جوش رکھنا…یہ تین عناصر
تھے…اور ان تینوں کو قائم رکھنے کے لیے دماغ اڑانے والے ’’خطباء‘‘ کی ضرورت
تھی…ایسے خطباء جو قوم کو ان کی عظمت کا احساس دلاسکیں… جو دوسری قوموں کی حقارت
اُن کے دلوں میں بٹھا سکیں…اور اپنی قوم کو عزت کی خاطر لڑنے مرنے اور مارنے پر
اُبھارسکیں… تفاخر، تحقیر اور تحریض …اپنے لیے فخر، دوسروں کے لیے حقارت… اور
جذبات ابھارنا… عرب خطباء نے صدیوں تک …یہ تینوں کام بہت مہارت سے کئے… پھر اللہ
تعالیٰ کا فضل ہوا اور اسلام آگیا…اسلام نے ’’خطابت‘‘ کی حوصلہ افزائی کی…نصاب
بھی وہی رکھا مگر اس کی اصلاح فرمادی…
تفاخر…اسلام
پر، ایمان پر شکر… تحقیر … کفر کی، شیطان کی اور گناہوں کی… اور تحریض… جہاد فی
سبیل اللہ کی، ہجرت کی…اور قربانی کی…
سبحان
اللہ! اسلام نے ’’خطیب‘‘ کو وہ زبان دی…جو نہ فرعون کے پاس تھی اور نہ جاہلی عربوں
کے پاس… اسلام نے ’’خطیب‘‘ کو وہ مقام دیا کہ…ساری مخلوق اس کی ممنون اور شکر گزار
ہوئی … اور اسلام نے ’’خطیب‘‘ کو…قومی تفاخر اور فخر بازی سے ہٹاکر…شکر پر
لگادیا…اسلام اور ایمان پر شکر…قوموں، قبیلوں، اورعلاقوں کی تحقیر اور مذمت سے ہٹا
کر…کفر، شیطان اور گنا ہ کی مذمت اور تحقیرپر لگادیا …اور اپنی قوم، قبیلے اور نام
پر لڑنے مرنے کی ترغیب کو… اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینے کی دعوت میں تبدیل
فرمادیا…اسلام میں’’خطیب‘‘ کا جو اجر، مقام اور رُتبہ ہے، دوسرے لوگ اس کا تصور
بھی نہیں کر سکتے… ’’خطیب‘‘ کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا وعدہ ہے، فرشتوں کی
طرف سے خصوصی دعائیں اور استغفار… اور تمام مخلوق کی طرف سے اس کے لئے خصوصی
دعائوں اور استغفار کی بشارت ہے… خطیب کی بات کو’’ اَحْسَنُ الْقَول‘‘(یعنی سب سے
بہترین بات قرار دیا گیا)… اور خطیب کے اجر کا سلسلہ قیامت تک پھیلا دیا گیا… خطیب
اللہ تعالیٰ کے دین کا ناصر ہے… اور خطیب اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے… بس شرط یہ کہ
…خطیب… واقعی خطیبِ اسلام ہو … اللہ تعالیٰ کے لئے بولتا ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف
بلاتا ہو… اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں جگاتا ہو… اللہ تعالیٰ کے دین کی غیرت
اُبھارتا ہو… علم کے ساتھ بولتا ہو… یقین کے ساتھ بولتا ہو… سلیقے اور تاثیر کے
ساتھ بولتا ہو…اور خود بھی دین پر عمل کرتا ہو…اہل یونان نے’’خطابت‘‘ کو ایک فن
قرار دے کر اس کے طریقے اور اسلوب مقرر کئے ہیں… مگر اسلام میں خطابت کوئی
باقاعدہ’’ فن‘‘ نہیں ہے… یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرمودہ ایک وہبی نعمت ہے…
اور اس نعمت کی حفاظت تین چیزوں سے ہوتی ہے…
١ علم…
٢ عمل…
٣ توجہ
الی اللہ…
مطلب
یہ کہ آپ جو کچھ بیان کر رہے ہیں اس کا آپ کو مکمل علم ہو… دوسرا یہ کہ آپ خود
بھی اس پر عمل کرتے ہوں… اور تیسرا یہ کہ بیان اور خطابت سے پہلے اور اس کے دوران
آپ کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو… اللہ تعالیٰ سے مانگ کر بیان کرنے جائیں اور…
بیان کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں… خطیب کے لئے نہ کوئی خاص ٹوپی
ضروری ہے… اور نہ کوئی خاص لباس… نہ کسی خاص لہجے کی ضرورت ہے اور نہ بلند آواز
کی… بس ضرورت ہے تو صرف تین چیزوں کی…
١ اخلاص…
٢ یقین…
٣ تاثیر…
اخلاص
یہ کہ …خطیب کی نیت، اللہ تعالیٰ کی رضا ہو… اور کچھ بھی نہیں… یقین یہ کہ وہ جو
کچھ کہہ رہا ہے او ر سمجھا رہا ہے خود اس کے دل میں… اس کا کامل یقین ہو… اور
تاثیر یہ کہ حقیقت کو دلوں کا مزاج بنا سکے… اس کی مثال یہ کہ ہر کلمہ گو مسلمان
کو معلوم ہے کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے … مگر پھر بھی بہت سے لوگ نماز ادا نہیں
کرتے … خطیب وہ ہے جو نماز کی فرضیت کو ایسے طریقے سے بیان کرے کہ یہ فرضیت لوگوں
کے دلوں کا مزاج اور رنگ بن جائے تب ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہوگا کہ… ایک نماز بھی
چھوڑ سکیں…
جیسے
خنزیر کے گوشت کی حرمت… ہم مسلمانوں کے دل کامزاج اور رنگ بن چکی ہے… کوئی گناہ
گارمسلمان بھی یہ گوشت نہیں کھا سکتا … آج دین اسلام کو…مخلص،مؤثر اور باعمل
’’خطباء‘‘ کی ضرورت ہے…جویہ ضرورت پوری کرے گا وہ بڑا مقام پائے گا… اور دنوں میں
صدیاں کمائے گا، ان شاء اللہ…
اِجتماعات کا سہ نکاتی
نصاب
جب
چند مسلمان … اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جمع ہوں… اور وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی
باتیں کریں… وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں… وہ کتاب اللہ کی تلاوت اور تعلیم و تدریس
کریں… وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک دوسرے کو بلائیں، تو ایسے اجتماعات … اللہ تعالیٰ
کو بہت محبوب ہیں… ان اجتماعات سے دل زندہ ہوتے ہیں، ایمان جڑ پکڑتا ہے… نفس کا
تزکیہ ہوتا ہے… ہمت بڑھتی ہے… اور شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… شیطان لوگوں کو ہر وقت
گناہ پر جمع کرنے کی محنت کرتا ہے… وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بغاوت پر اکٹھا
کرتا ہے… شیطان جانتا ہے کہ اجتماعی گناہ… انفرادی گناہ سے کم ازکم ستر گنا زیادہ
خطرناک ہوتے ہیں… کیونکہ دلوں کی سیاہی ایک دوسرے کی طرف جلدی منتقل ہوتی ہے اور
اجتماعی گناہ کے نقصانات تیزی سے پھیلتے ہیں… سینما، کلب، پارٹیاں، شراب خانے اور
معلوم نہیں کیا کیا… حتیٰ کے شادی بیاہ کی گناہ آلود مجالس اور بدعات و خرافات کی
مجلسیں… اس لئے جب چند مسلمان اس پورے شیطانی نیٹ ورک سے کٹ کر… خالص اللہ تعالیٰ
کے لئے جمع ہو تے ہیں تو اس سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… دلوں کی روشنی ایک دوسرے کی
طرف منتقل ہوتی ہے … اور اجتماعی محنت کا اثر زمین میں دور دور تک … اور زمانے میں
دور دور تک پھیل جاتا ہے… زمانے میں اثر پھیلنے کا مطلب یہ کہ… اگلی نسلوں تک بھی
اس مبارک محنت کے آثار پہنچتے ہیں…
اب
قرآن وسنت میں غور کریں… ایک طرف مجالس ذکر کے فضائل ہیں… دوسری طرف دعوت الی
اللہ کے فضائل ہیں… اور تیسری طرف توبہ الی اللہ کے فضائل ہیں… ان تمام فضائل کی
آیات اور احایث کو جمع کریں تو…انہیں پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے… اور انسان کی
روح خود ان مبارک مجلسوں اور اجتماعات کی طرف دوڑتی ہے… قرآن و احادیث پر غور و
فکر کے بعد اپنے ’’اجتماعات‘‘ کو ’’جامع الخیرات‘‘ بنانے کے لئے یہی تین نکاتی
نصاب طے کیا گیا ہے…
١ ذکر
اللہ…
٢ دعوت
الی اللہ…
٣ توبہ
الی اللہ…
الحمد
للہ اس ہفتہ سے جماعتی ’’اجتماعات‘‘ میں یہ تینوں عمل شروع ہوچکے ہیں… خصوصاً
تیسرا کام کمزور تھا… الحمد للہ اس کی طرف محنت کا رخ ہوا ہے… اُمید ہے کہ بہت
اچھے نتائج و اثرات سامنے آئیں گے… ان شاء اللہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 523
اجتماعات کا نصاب
’’جماعت‘‘ کے اجتماعات کا تین رکنی نصاب…
١ ذکر
اللہ ٢ دعوت
الی اللہ ٣ توبہ الی اللہ…
’’ذکر اللہ‘‘ کی اہمیت، افادیت اور اجتماعات میں اس کی ترتیب…
’’دعوت الی اللہ‘‘ کی اہمیت، فضائل اور آداب…
’’دعوت الی اللہ‘‘ کا جامع نصاب… کلمہ طیبہ، نماز، جہاد…
’’توبہ الی اللہ‘‘ یعنی ’’رجوع الی اللہ‘‘ کتنا ضروری اور کتنا
اہم؟…
ان
سب باتوں کو جاننے کے لئے… ملاحظہ فرمائیے!…
ایک
فکر انگیز تحریر
۳ ربیع الاوّل۱۴۳۷ھ؍
15 دسمبر 2015ء
اجتماعات کا نصاب
اللہ
تعالیٰ کا ذکر ’’دل‘‘ کے لیے ایسا ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی…مچھلی بغیر پانی کے
مرجاتی ہے… اسی طرح ’’دل‘‘ بھی ذکر کے بغیر مرجاتا ہے، سخت ہوجاتا ہے، اکڑ جاتا
ہے…اور تباہ ہوجاتا ہے… مجاہدین کو دوباتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا گیا…ایک ثابت
قدمی اور دوسرا کثرتِ ذکر… پھر کامیابی یقینی ہے…
﴿ فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ﴾
ہمارے
اجتماعات کا پہلا اور ضروری کام… اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے…اللہ تعالیٰ کی یاد، اللہ
تعالیٰ کا نام… اجتماع چھوٹا ہو یا بڑا اول تا آخر…کہنے والے اور سننے والے سب
اللہ تعالیٰ کی یاد میں ڈوبے رہیں…کیمرے بازی نہیں، ریاء کاری نہیں، غفلت نہیں،
فخر نہیں…صرف اللہ ہی اللہ …ہم سب اللہ تعالیٰ کے ہیں، ہم سب کو اللہ تعالیٰ دیکھ
رہا ہے، ہم سب نے اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے…ہم سب نے اللہ تعالیٰ کو منانا ہے…ہم
سب نے اللہ تعالیٰ کو پانا ہے…ہمارا جینا مرنا سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے… بس
بھائیو! ہمارے اجتماعات ایسے ہوں کہ جو بھی ان میں شرکت کرکے جائے…اس کا دل
’’اللہ، اللہ‘‘ کررہا ہو…
اللہ
تعالیٰ کے ذکر کے فضائل اور فوائد بے شمار ہیں…علامہ ابنِ قیمؒ نے ’’الوابل
الصیب‘‘ میں سو سے زیادہ فضائل و فوائد قرآن و سنت سے جمع فرمائے ہیں اور ہمارے
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے
رسالہ ’’فضائل ذکر‘‘ میں ’’ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ کے ذکر کردہ اناسی(۷۹) ترتیب
وار فوائد کو تہتر(۷۳) نمبرات
میں بیان فرمایا ہے…میرا آپ سب کو مشورہ ہے کہ یہ پورا رسالہ ایک بار پڑھ لیں…اگر
ہمت نہ ہوتو چار صفحات پر مشتمل یہی تہتر(۷۳) فوائد ہی پڑھ
لیں… ہاں بے شک ذکر اللہ کے بغیر نہ زندگی میں کچھ مزا ہے…اور نہ کوئی عبادت بغیر
ذکر کے عبادت ہے…
پھر
اگر چند مسلمان اکٹھے ہوکر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں تو اس ذکر کی تاثیر اور شان
مزید بڑھ جاتی ہے… حضرت امام غزالیؒ نے ’’اِحیاء العلوم‘‘ میں ایسی مجالس کی شان
بیان فرمائی ہے جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے… ان کی چند باتیں بطور خلاصہ
ملاحظہ کریں…
١ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو ان
کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کا
ذکر اپنے پاس والے فرشتوں یعنی ملاء اعلیٰ میں فرماتے ہیں۔
٢ جو لوگ اکٹھے ہوکر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں…اور اس ذکر سے
اُن کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے تو اُن کو آسمان کا ایک منادی
پکارتا ہے کہ اٹھو! تمہاری مغفرت ہوگئی اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں…
٣ حضرت دائود علیہ السلام نے دعاء فرمائی …یاالٰہی! جب تو مجھ کو دیکھے کہ
میں ذکر کرنے والوں کی مجلس سے غافلوں کی مجلس کی طرف بڑھا جاتا ہوں تو ان تک
پہنچنے سے پہلے میری ٹانگ توڑ دے، یہ بھی تیرے احسانوں میں سے مجھ پر ایک احسان
ہوگا…
٤ ایمان والے کے لیے نیک مجلس … اس کی بیس لاکھ بُری مجلسوں کا
کفارہ ہوتی ہے…
٥ سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں…جب چند لوگ اکٹھے ہوکر اللہ تعالیٰ
کا ذکر کرتے ہیں تو شیطان اور دنیا اُن سے الگ ہوجاتے ہیں…اور شیطان دنیا سے کہتا
ہے کہ دیکھتی ہے یہ کیا کررہے ہیں؟ دنیا کہتی ہے کہ کرلینے دو…یہ جب اس مجلس سے
جدا ہوں گے تو اُن کی گردنیں پکڑ کر تیری طرف لے آئوں گی…
٦ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسی مجلسوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں جن
میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے… جب انہیں ایسی مجلس ملتی ہے تو اس میں شریک
ہوجاتے ہیں۔
(خلاصہ از: احیاء العلوم، جلد اوّل)
اپنی
مجالس میں ’’ذکراللہ‘‘ کے اِحیاء کو معمولی کام نہ سمجھیں…اور نہ ہی اس کو رسمی
کام سمجھ کر نمٹائیں…ابتداء میں تھوڑی سی تلاوت ہوئی اور بس…
آج
کل ہمارے دینی اجتماعات کو میڈیا، صحافیوں اور کیمروں نے ویران کردیا ہے…دینی
اجتماع تو وہ ہوتا ہے جو دلوں کو پاک کردے…مگر بُری چیزوں نے ان اجتماعات کی روح
فنا کردی ہے… پہلے مائیکل جیکسن ناچتا تھا اور مجمع والے اس پر کیمروں کے فلش
مارتے تھے… اب موبائل فون کے کیمروں نے ہر دینی اجتماع کو اسی ’’نحوست ‘‘ میں ڈال
دیا ہے…نہ ذکر اللہ ہوتا ہے اور نہ آنسو… خطیبوں کو فکر کہ ویڈیو اچھی بنے اور
اُن کے چہرے تصویروں میں خوب چمکیں…اور سننے والوں کے دل غافل اور موبائل متحرک…جس
طرف کیمرے کا رخ ہوتا ہے اس طرف ریاکاری ناچنے لگتی ہے…یہ درست ہے کہ دینی بیان
بھی ذکر اللہ میں آتے ہیں…مگر مزید خالص ذکر بھی ہو … کچھ جاندار تلاوت، مجمع سے
بھی تلاوت کرائی جائے…کلمہ طیبہ ، استغفار اور درود شریف… ساتھ ذکر کے فضائل بھی
بیان ہوتے جائیں… دل نرم ہوں گے تو دعوت جہاد اثر کرے گی… شیطان مجلس سے بھاگے گا
تو دینی دعوت جمے گی …دل میں ’’اللہ‘‘ ہوگا تو اللہ کی بات دل میں اُترے گی…
اجتماعات
میں دوسری اہم چیز…’’دعوت اِلی اللہ‘‘ ہے…اللہ تعالیٰ کی طرف اللہ تعالیٰ کے بندوں
کو بلانا یہ بہت اونچا اور افضل عمل ہے…آپ قرآن مجید کو کھولیں…یہ عظیم کتاب بار
بار دعوت اِلی اللہ کے عمل کو جاری کرنے کا حکم فرماتی ہے… قرآن مجید بار بار
بتاتا ہے کہ…دعوت الی اللہ معمولی کام نہیں، یہ تمام انبیاء اور رُسل کا کام ہے
…تمام رسول اور نبی…اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کا کام کرتے
تھے… قرآن مجید ہمیں انبیاء علیہم السلام
کے خطبات سناتا ہے…ایک خطیب کے لیے ضروری
ہے کہ وہ قرآن مجید میں حضرات انبیاء علیہم السلام کے خطبات کو غور اور توجہ سے پڑھے…وہ حضرات روئے
زمین کے سب سے بڑے اور سب سے مقبول خطبائِ کرام تھے…جو اپنی خطابت کو حضرات انبیاء
علیہم السلام کی خطابت کے نقش قدم پر چلائے گا…وہی مقبول اور
مؤثر خطیبِ اسلام ہوگا اور اُس کی خطابت دلوں کا رنگ بنے گی…اللہ تعالیٰ نے اپنے
بندوں کو حکم فرمایا…
﴿کُوْ نُوْا اَنْصَارَاللّٰہِ﴾…
اے میرے بندو! تم میرے مددگار بن جائو…
اللہ
تعالیٰ کے مدد گار یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کے مدد گار،پس جو جہاد میں جان ومال
لگاتا ہے…وہ اللہ تعالیٰ کی اس پکار پر لبیک کہتا ہے… اور جودین کی دعوت دیتا ہے
وہ بھی…اس پکارپر لبیک کہہ کر اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگار بن جاتا ہے …ایسے
لوگوں کی قیامت کے دن اور جنت میں بہت اونچی شان ہوگی…سب لوگ حساب دے رہے ہوں گے
جب کہ یہ اپنی بے حساب نیکیوں کے اجر میں غوطے لگارہے ہوں گے…
حضرت
سیّدنا لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں فرمائیں…ان میں خاص
طور پر فرمایا: اے بیٹے نماز قائم کرو، نیکیوں کا حکم کرو اور برائیوں سے روکو…
اور جو مصیبت آئے اس پر صبرکرو… اس آیت مبارکہ سے حضرات اہل علم نے یہ نکتہ
سمجھادیا ہے کہ… بہترین داعی اور خطیب وہ ہے جو دعوت کے راستے میں آنے والی
تکلیفوں کو برداشت کرسکے… حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ جہاں جاتے تھے لوگوں کا ہجوم ان کی دعوت سننے کے
لئے اُمڈ پڑتا تھا… ایک بڑے عالم دین نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا عمل کررکھا
ہے؟… کوئی تسخیر کا عمل یا کوئی اور ڈھونگ؟کہ ہر طرف سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں…
فرمایا: بھائی نہ کوئی تسخیر کا عمل کیا ہے اور نہ کوئی وظیفہ… بس جہاں بیان ہو
اپنے خرچے سے جاتا ہوں… بیان پر کسی سے کچھ نہیں لیتا… اور نہ کسی اکرام و اعزاز
کا تقاضا کرتا ہوں… ہاں! بے شک جنہوں نے دعوت اور خطابت سے اللہ تعالیٰ کی رضا
کمانی ہو… ان کو اس کی کیا فکر کہ جہاز پر جاتے ہیں یا کسی ادنیٰ سواری پر … نہ وہ
کھانے کے معاملہ میں کسی پر بوجھ بنتے ہیں اور نہ آرام کے معاملہ میں… وہ دعوت
الی اللہ کو اپنے اوپر اسی طرح فرض سمجھتے ہیں جس طرح نماز کو … نماز ادا کرنے کے
کوئی کسی سے پیسے نہیں لیتا … اور نہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ میں تب نماز پڑھوں گا جب
مجھے فلاں فلاں ڈشیں کھلاؤ گے…
دعوت
الی اللہ نہ ہو تو…اپنا دین بھی کمزور ہوجاتاہے اور زمین کفر اورفساد سے بھر جاتی
ہے… جہاد کی دعوت کمزور ہوئی تو دنیا میں ہر طرف کفر کے جالے تن گئے… اب اگر جہاد
کی دعوت دینے والے بھی … مروّجہ نخروں اور ریاکاریوں میں پڑ جائیںتو …مسجد اقصیٰ
سے لے کر بابری مسجد تک… اشک ہوں گے اور حسرتیں اور کفار کی جیلوں میں عافیہ بہن
سے لیکر کشمیر کی بیٹیوں تک… دلخراش داستانیں ہوں گی…اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے
اجتماعات میں عمل کی دعوت ہو اور یہ اجتماعات مسلمانوں کو میدان عمل تک لانے کا
ذریعہ بنیں… ان اجتماعات میں سیاسی جماعتوں کی نقل کرنے اور ان کی اصطلاحات اپنانے
کی ضرورت نہیں… بلکہ ضرورت ہے بھرپور اور جاندار دعوت کی…اور ایسے خطباء کی جو خود
باعمل ہوں… اور اپنے نظریات پر دل سے یقین رکھتے ہوں… ایسا نہ ہو کہ جہاد پر شعلہ
بیانی کریں… مگر جب کوئی آزمائش آئے تو جہاد کے مخالف بن جائیں… یاکوئی دنیوی
ترغیب آئے اور پھر جہاد کا نام ہی نہ لیں … ہمارے اجتماعات میں دعوت الی اللہ کا
جامع نصاب وہی ہے جو ہماری جماعت کا سہ نکاتی نصاب ہے… کلمہ طیبہ، اقامت صلوٰۃ اور
جہاد فی سبیل اللہ… اس میں توحید بھی آجاتی ہے’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ اور رسالت بھی’’محمد
رسول اللہ‘‘…اس میں عقیدہ بھی آجاتا ہے اور عمل بھی… اس میں فکر بھی آجاتی ہے
اور نظریہ بھی اور اس میں راستہ بھی مل جاتا ہے اور میدان اور منزل بھی… جماعت کے
سب خطباء خالص رضائِ الٰہی کے لئے … اس نصاب کو ہی اپنا بیان بنائیں…محنت کر کے
مطالعہ کریں، کلمہ سمجھیں ، نماز سمجھیں، جہاد سمجھیں… پھر ان تینوں کواپنے دل میں
اتار کر… اپنی زبانوں پر لائیں اور اپنے لئے ہمیشہ ہمیشہ کا صدقہ جاریہ قائم کریں…
ہمارے
اجتماعات کا تیسرا اہم کام … توبہ الی اللہ ہے… الحمدللہ اجتماعات میں شریک افراد
کا ذہن خوب بن جاتا ہے… مگر ان افراد کو فوراً وصول نہ کرنے کی وجہ سے… اس مبارک
کام میں اَفراد کی قلت رہتی ہے… ہمارے اِجتماعات ماشاء اللہ خوب جم کر چلتے ہیں
مگر ان کا اختتام ہنگامہ خیز ہوتا ہے… دلوں کو نرم کر کے واپس دنیا کی ٹھنڈی ہوا
میں بھیج دیا جاتا ہے… اجتماع کے آخر میں آپا دھاپی سے سارا ماحول بگڑجاتا ہے…
عجیب
بات ہے کہ…وہ جماعت جس کے ہر مہینے اوسطاً تین ہزار بیانات ہوتے ہیں … وہ پورے
مہینے میں تین سو افراد بھی وصول نہیں کر سکتی … آپ نے روایات میں پڑھا ہوگا کہ…
بنی اسرائیل کا وہ قاتل جو سوافراد کو قتل کر چکا تھا… اس کو توبہ کا طریقہ یہ
بتایا گیا کہ ماحول بدل لے… اور اچھی صحبت کی طرف سفرکرے… اس نے سفر کیا راستے میں
مر گیا مگر کامیاب ٹھہرا… آپ نے تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو فتح مکہ کے وقت
یابعد میں مسلمان ہوئے… انہوں نے سابقین اولین مسلمانوں کے مقام تک پہنچنے کے لئے
گھر چھوڑے اور محاذوں کا رُخ کیا… وہ سمجھ گئے تھے کہ ماضی کی کمی کوتاہی پوری
کرنے کا بہترین راستہ یہی ہے… ایک مسلمان کو ہجرت کی ابتدائی شکل پر لانا ہوگا…
کیونکہ ماحول کی تبدیلی بہت سے گنا ہوں سے جان چھڑا دیتی ہے…اور اچھا ماحول چند دن
میں سالوں کا سفر طے کرادیتا ہے …جماعت کے پاس دورہ تربیہ کی نعمت ہے… خود اس شعبہ
کے رفقاء بھی اگر محنت کریںاور اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر …تربیہ میں آنے والے
ہرفرد کو داعی بنا کر واپس بھیجا جائے تو چند ماہ کے اندر پورے ملک میں جگہ جگہ یہ
مبارک سلسلہ شروع ہوجائے… اجتماعات میں دورہ تربیہ کے لئے نقد ارادے لئے
جائیں…دورہ اساسیہ،ریاضت … اورمیدان عمل کے لئے لوگوں کو نقد نکالا جائے تو… ان
اجتماعات کا اصلی مقصد پورا ہوجائے… بھائیو! اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑی عالمی
جنگ شروع ہوچکی ہے… کفر نے بہت طاقت بنا لی ہے… مسلمانوں کی زمینیں اور مقدسات
کافروں کے قبضے میں ہیں… کروڑوں مسلمان غلامی اور لاکھوں مسلمان قید میں ہیں… ان
حالات میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ… بھرپور محنت کریں…بہت سنجیدہ محنت… بہت منظم
محنت… وہ دیکھو! سچاوعدہ فرمایا جارہا ہے کہ تم اگر پوری محنت کروگے تو ہم تمہارے
راستے کھول دیں گے… لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ … لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ
لَبَّیْکَ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 524
ایک پہلو
حضرت
سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا تلقین فرمودہ ایک وظیفہ…
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا
ایک اہم پہلو…
’’کم کھانا‘‘…
سیرت
کے اس پہلو کو اپنانا بہت ضروری…
خاص
طور پر مجاہدین کے لئے…
لذت
پرستی، ذائقہ پرستی ایک فتنہ…
مجاہدینِ
کرام کی تربیت ’’سیرتِ طیبہ‘‘
کے
اصولوں پر کرنا انتہائی ضروری…
یہ
سب کچھ… اور مزید بہت کچھ جاننے
کے
لئے پڑھیے یہ تحریر…
۱۱ ربیع الاوّل۱۴۳۷ھ؍
23 دسمبر 2015ء
ایک پہلو
اللہ
تعالیٰ اپنے بعض مخلص بندوں کو ان کی ’’موت‘‘ کے وقت ’’سلام ‘‘ فرماتے ہیں… اور
جنت میں سب اہل جنت کو ’’سلام ‘‘فرمائیں گے…سلام یعنی سلامتی کی پکی ضمانت…
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
یہ
سورہ یٓس کی آیت مبارکہ ہے…بعض اہل تجربہ اسے ’’اسم اعظم ‘‘ قرار یتے ہیں…
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
ہمارے
مرشد حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ …کئی افراد کو اس آیت مبارکہ کے ورد کی
تلقین فرمایا کرتے تھے…
کسی
کو ایک سو بار…اور کسی کو ایک ہزار بار… یا کم زیادہ کہ وہ روز پڑھا کرے…
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
کئی
لوگ روزی کی تنگی کا بتاتے…کئی بیماریوںکا، کئی غموں اور پریشانیوں کا…حضرت سید
احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ بڑے مضبوط پیر
تھے…جوانی میں ہی نسبتوں میں رنگے گئے تھے…عملیات بھی بھرپور جانتے تھے…کیمیاگری
کا نسخہ بھی ان کو حاصل تھا …مگر نہ خانقاہ چلائی، نہ عملیات میں لگے اور نہ سونا
بنایا… سیدھے دوڑتے ہوئے ایمان اور اسلام کی سب سے اونچی چوٹی پر چڑھ گئے…اور اگلے
چار سو سال کے وسیع جہاد کا اجر اپنے نام کر لیا… بے شک بڑی عقلمندی فرمائی اور
بہت نفع کا سودا کمایا…
سات
سال کی جہادی محنت…مگر صدیوں کا اجر اور ہمیشہ کا صدقہ جاریہ…
حضرت
سیّد صاحب نے ’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ کا مبارک راستہ پکڑا …برصغیر کی سب سے بڑی
خانقاہ کو چھوڑا…لاکھوں عقیدتمندوں کو چھوڑا… اور چند سو مجاہدین کو ساتھ لے کر
نکل پڑے… ملنے جلنے والے لوگ اپنے مسائل بتاتے تو حضرت سید صاحب …اپنے مجرب وظائف
بتا دیا کرتے … جو وظیفہ آپ زیادہ بتایا کرتے تھے …وہ یہ آیت تھی…
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
ابھی
چند دن سے اس آیت کے انوارات بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں تو ارادہ تھا کہ
آج اس آیت کی تفسیر بھی ہو جائے…اور اس کے کچھ خواص اور مجربات بھی عرض کر دئیے
جائیں…
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
مگر
آج سیرتِ طیبہ کے موضوع پرکچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے… توفیق ملی تو اس آیتِ
مبارکہ پر کسی اور نشست میں بات چیت کریں گے ان شاء اللہ…
حضرت
سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا جہادی
لشکر… بہت چھوٹا تھا مگر بے حد قیمتی اور معتبر… اس میں راسخ علم والے علماء بھی
تھے محدثین بھی… صاحب نسبت اولیاء بھی تھے اور تارک الدنیا زاہدین بھی… ماشاء اللہ
ایک مثالی لشکر تھا…چھوٹی سی جماعت مگر مکمل جماعت… اس تحریک کے فوری نتائج زیادہ
ظاہر نہیں ہوئے مگر برصغیر میں ’’فریضۂ جہاد‘‘ کا احیاء ہو گیا… وہ وقت ہے اور
آج کا دن… اس خطے میں جہاد بھی روشن ہے اور مجاہدین بھی موجود ہیں…آج سیرت کے
حوالے سے یہ بات عرض کرنی ہے… کہ ’’مجاہدین ‘‘ کی تربیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں ہونی چاہیے…آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے جہاد فرمایا …بار بار
جنگوں میں نکلے، اپنے صحابہ کرام کو ہر طرف جہاد کے لئے بھیجا… اس پورے جہاد میں
…مجاہدین کے کھانے پینے کا نظام کیا تھا؟… آپ باریکی سے مطالعہ کر لیں…کہیں کوئی
لوٹ مار، دھمکی، یا حرص کا ایک منظر بھی نظر نہیں آتا… سات غزوات تو ایسے تھے کہ
پورا لشکر ٹڈیاں کھا کر چل رہا تھا… ایک غزوہ میں کھجور کی گٹھلیاں چوس کر گزارہ
تھا … ایک غزوہ میں سب کے پیٹ پر پتھر بندھے تھے…
معلوم
ہوا کہ اس پورے مبارک جہاد میں …کھانے کی لالچ، کھانے کی حرص، اچھا کھانا کھانے کی
خواہش … زیادہ کھانے کا شوق… کچھ بھی نظر نہیں آتا… یعنی یہ جہاد ’’پیٹ کی شہوت‘‘
سے آزاد تھا…اسی لئے یہ آگے بڑھتا گیا اور تیس سال کے عرصے میں اس نے دنیا بھر
کے کفر کو روند ڈالا… آپ غور کریں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک جہاد میں… زیادہ کھانے اور اچھے
کھانے کا آسانی سے انتظام ہو سکتا تھا… عرب خانہ بدوش تھے…ہر راستے پر ان کے
قافلے پڑے رہتے تھے…مدینہ منورہ میں غیر مسلم اقلیتیں موجود تھیں…مگر یہ جہادِ فی
سبیل اللہ تھا…داداگیری،بھتہ خوری اور فساد نہیں… ان سب سے کھانا وصول کیا جا سکتا
تھا… مگر نہیں کیا گیا… کیونکہ کھانے کو مقصود بنانے والے کبھی آگے نہیں بڑھ
سکتے… اچھا کھانا تو دور کی بات وہاں پورا کھانا بھی پسندیدہ نہیں تھا… انسان پیٹ
سے آزاد ہوتا ہے تو اس کا ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے… اسی لئے نصاب یہ مقرر تھا
کہ… اپنے پیٹ کے تین حصے کرو… ایک حصہ کھانے کا، ایک پینے کا…اور ایک سانس لینے
کا… اور فرمایا: مؤمن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں سے… اور اپنا
عمل یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی کبھی مکمل پیٹ بھر کر کھانا تناول
نہ فرمایا…
یہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا وہ اہم پہلو تھا… جس نے جہاد
کو بے انتہا ترقی عطاء فرمائی … کہتے ہیں کہ ایک مسلمان فاتح نے کافروں کے ایک شہر
پر حملہ کیا… اہل شہر مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے… وہ
فاتح شہر میں داخل ہوا تو اسی شہر کے قائدین نے اس کی پرتکلف دعوت کی…طرح طرح کے
کھانے، ہر طرح کے کھانے… وہ دستر خوان پر بیٹھا تو اپنے خادم سے کہا… ہمارا کھانا
لاؤ… اس نے چمڑے کا تھیلا پیش کر دیا… فاتح نے اسے دستر خوان پر الٹ دیا، اس میں
خشک روٹیاں تھیں…وہ مزے لے لے کر کھانے لگا… عمائدین نے عرض کیا…یہ سب کھانے ہم نے
آپ کے لئے تیار کرائے ہیں… آپ یہ بھی تناول کریں…وہ کہنے لگا…اگر میں بھی تمہاری
طرح ان کھانوں کا عادی ہو گیا تو پھر تمہاری طرح ذلیل ہو کر ہتھیار ڈالوں گا… حضرت
سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے
لشکر کی یہی تربیت کی… یہ بڑے بڑے علماء، خطباء ، مشائخ اور امیر زادے… طرح طرح کے
مرغن کھانوں کو چھوڑ کر اس لشکر میں شامل ہوئے اور پھر انہوں نے سادہ کھانے کو ہی
اپنا طریقہ بنا لیا… مگر ہر جماعت میں ہر طرح کے لوگ گھس جاتے ہیں… سیّد صاحب کی
جماعت میں بھی بعض ’’پیٹو، معدہ پرست، دعوت خور‘‘ شامل ہو گئے … اور حضرت کی تحریک
کو جو سب سے بڑا اور پہلا نقصان پہنچا وہ انہی افراد کی وجہ سے پہنچا …
حضرت
سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت اور
حکومت کئی علاقوں میں تسلیم کر لی گئی تھی… وہاں کے مسلمان نہایت خوشی سے اپنی
زکوٰۃ اور عشر وغیرہ… سید صاحب کو دیتے تھے… سب معاملات ٹھیک چل رہے تھے کہ…ان
دعوت خور پیٹو مجاہدین نے لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا…وہ جس علاقے میں جاتے
وہاں طرح طرح کے اچھے کھانوں کی فرمائش کرتے… حالانکہ ان کا کام اتنا تھا کہ جاتے
اور زکوٰۃ و عشر وصول کر کے واپس آ جاتے … مگر یہ پیٹ کے چکر میں پڑ گئے… پھر جو
لوگ اچھا کھانا نہ کھلاتے یہ ان کو دھمکیاں دیتے اور تنگ کرتے… اور یوں بالآخر یہ
بدنامی ایسی پھیلی کہ ان چند افراد کے پیٹ کی آگ نے …اتنی بڑی تحریک کو خون میں
ڈبو دیا… یقینی بات ہے کہ … زکوٰۃ وصولی کے لئے جانے والے سب افراد ایسے نہ تھے…
سیّد صاحب کا لشکر تو اولیاء اور زاہدین کا لشکر تھا…فتح پشاور کے موقع پر جب سیّد
صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ اسماعیل شہید
رحمۃ اللہ علیہ کو …سلطان سے مذاکرات کے
لئے بھیجا تو سلطان نے انہیں کھانا پیش کیا…شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ہم اپنے امیر سے کھانے کی اجازت لے
کر نہیں آئے اس لئے ہم نہیں کھا سکتے… حالانکہ وہ اور ان کے تمام رفقاء دن بھر کے
بھوکے تھے… مگر کھانا نہ کھایا… سلطان نے وہ کھانا ساتھ باندھ کر دے دیا کہ واپس
جا کر اگر اجازت مل جائے تو کھا لیں…واپس آئے تو رات کے دو بج چکے تھے تو حضرت
سیّد صاحب کو نہ جگایا …صبح جب اجازت ملی تب وہ کھانا کھایا…
یعنی
لشکر کے سب لوگ ایسے نہیں تھے…بس چند ایک اس بری عادت میں پڑے تو شیطان اور
مخالفین نے بدنامی پھیلا دی…ہر طرف یہی بات چل پڑی کہ مجاہدین زکوٰۃ اور عشر لینے
آتے ہیں تو لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں… زبردستی کھانے پکواتے ہیں اور نہ کھلانے
والوں کو مارتے پیٹتے ہیں … یہ بدنامی اس قدر بڑھی کہ بغاوت کی بنیاد بن گئی… اور
بھی کئی عوامل جمع ہوئے تو لوگوں نے ایک رات فساد برپا کر دیا اور سیّد صاحب کے
مجاہدین کو سینکڑوں کی تعداد میں شہید کر دیا…
ربیع
الاوّل کا مہینہ شروع ہے…اس مہینہ میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت بیان کی جاتی ہے… ضرورت اس بات کی
ہے کہ …اس مبارک اور کامیاب سیرت کو ہم اپنی زندگیوں میں لائیں… ہر سال کم از کم
اس سیرت مبارکہ کے مطب سے اپنی ایک بیماری کا علاج کروائیں … مثلاً اس سال ہم یہ
عزم کر لیں کہ…کھانے پینے کے معاملہ میں ہم سیرتِ طیبہ سے مکمل روشنی لیں گے… پھر
تحقیق کریں کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کے کھانے پینے کے بارے میں کیا
نظام تھا… اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی ہدایات کیا ہیں… اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوق مبارک کیا تھا…پھر ہم اللہ تعالیٰ سے دعاء
مانگ کر…اسی نظام کو حتی الوسع اپنانے کی کوشش کریں…کیونکہ کامیابی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہے… آج کل جو کفر کا فتنہ… اہل
اسلام کے خلاف سرگرم ہے…اس کا ایک وار یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں زیادہ کھانے،
جدید کھانے اور مہنگا کھانے کا شوق ابھارا جائے… جب یہ شوق پیدا ہو جائے گا تو اس
شوق کو پورا کرنے کے لئے مال کی ضرورت ہو گی…اور جب یہ شوق پورا کر لیں گے تو کئی
اور خواہشات بھڑک اٹھیںگی… اور یوں ہر مسلمان دنیا کی غلامی میں پڑ جائے گا… یا
پھر جرائم کا راستہ اختیار کرے گا…وہ جو جدید کھانے کھائے بغیر زندہ نہ رہ سکے وہ
کہاں جہاد کرنے جائے گا… زیادہ کھانے سے بزدلی بھی پیدا ہوتی ہے اور بیوقوفی بھی…
جب تک کوئی انسان روزانہ کچھ وقت بھوکا نہ رہے وہ عقلمندی اور حکمت کو نہیں پا
سکتا… ذائقہ پرستی انسان کو حرام کی طرف لے جاتی ہے… پرسوں کی خبروں میں تھا کہ
میکڈونلڈ کے ایک برگر سے چوہے کا سر برآمد ہوا ہے…
بہرحال یہ ایک بہت اہم
موضوع ہے… ہم سب کو ایمانداری کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے اس پہلو کا مطالعہ کرنا
چاہیے… اور پھر اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر حتی الوسع اسے اپناناچاہیے… خصوصاً
مجاہدین کے لئے یہ پہلو بہت زیادہ اہم ہے… آپ جب کہیںدورہ کرنے جائیں…بیان کرنے
جائیں… تو اپنے اصل کام کو مقدم رکھیں اور دعوت خوری کے فتنے میں نہ پڑیں… اجتماعی
اموال میں سخت احتیاط کریں … یہ مال ایک دوسرے کی دعوتیں کرنے کے لئے نہیں… خصوصاً
حساب کے لئے جانے والوں کو تو کبھی ان لوگوں کی دعوت نہیں کھانی چاہیے جن سے وہ
حساب لے رہے ہیں…بھائیو! شریعت کے اصولوں میں خیر ہے، برکت ہے، عزت ہے اور راحت و
کامیابی ہے…
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 525
ایک مؤمن، پانچ شدائد
ہر
سچے مؤمن کو پانچ سختیوں اور پانچ دشمنوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے…
١…حاسدین ٢…منافقین ٣…کفار
٤…شیطان ٥…
نفس
ان
پانچ دشمنو ں کی اصل دشمنی ’’ایمان‘‘ سے ہے…
تو
کیا مؤمن ان دشمنیوں سے گھبرا کر ’’ایمان‘‘ چھوڑ دے؟…
اگر
نہیں… تو پھران دشمنوں اور دشمنیوں کا مقابلہ کیسے ہوگا؟…
جواب:
’’ایمان‘‘ سے ہوگا…
وہ
کیسے؟…
ورق
الٹیے… اور پڑھیے… یہ ایمان افروز تحریر…
۱۷ ربیع الاوّل۱۴۳۷ھ؍
29 دسمبر 2015ء
ایک مؤمن، پانچ شدائد
اللہ
تعالیٰ پر جو بھی سچا ایمان لائے گا…اس کو پانچ مخالفین کا سامنا ضرور کرنا پڑے
گا…
پانچ
سختیاں،پانچ امتحانات ،پانچ دشمن، پانچ مقابلے، پانچ میدان…پانچ شدائد…
پہلی
سختی: حسد کا سامنا…خود کئی مسلمان اس سے حسد کریں گے اور اسی حسد میں مبتلا ہو کر
اسے ایذاء پہنچائیں گے…
دوسری
سختی: بغض اور نفرت کا سامنا…جتنے بھی منافقین ہیں وہ سب اس سے بغض رکھیں گے، اس
سے نفرت کریں گے اور اپنے اسی بغض اور نفرت کی وجہ سے اسے ستائیں گے ، تکلیف
پہنچائیں گے…
تیسری
سختی: قتال اور جنگ کا سامنا…جتنے بھی اسلام اور ایمان کے دشمن کفار ہیں وہ اس سے
لڑیں گے، اس کو مارنے ، قتل کرنے اور پکڑنے کی ہر کوشش کریں گے اور ہر وقت اس کو
نقصان پہنچانے کی تاک میں رہیں گے…
چوتھی
سختی: گمراہی اور فتنوں کا سامنا… شیطان ہمیشہ اس کے پیچھے پڑا رہے گا…وہ اسے
گمراہ کرنے کی ہر کوشش کرے گا…وہ اسی پر اپنے لشکر دوڑائے گا…وہ اسے مال، عہدے،
عورت، شہوت اور عزت کے ہتھیاروں سے ’’بے ایمان‘‘ بنانے کی جدوجہد کرے گا… وہ اسے
مایوسی،بد دلی،ناشکری اور خیانت کے وساوس میں ڈالے گا…
پانچویں
سختی: مزاحمت اور جھگڑے کا سامنا …خود اس مومن کا نفس اس سے جھگڑے کرے گا… تم کیوں
اتنی عبادت کرتے ہو…تم کیوں اتنے دشمن بناتے ہو… تم کیوں حلال حرام میں اتنی
باریکی کرتے ہو…تم کیوں کم کھاتے ہو… تم کیوں غربت میں پڑے ہو…تم کیوں مجھے اتنا
تھکاتے ہو… تم کیوں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اتنی مشقت میں ڈالتے ہو…آزاد
ہو جاؤ ، مزے کرو، عیش کرو، حلال حرام سب کھاؤ… زندگی کا لطف اٹھاؤ…آخرت کی
فکر میں نہ پڑو…دنیا بناؤ…
اب
کیا کرنا ہے؟
اگر
سچے دل سے کلمہ طیبہ پڑھا ہے:
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اور
اس کلمہ کو دل میں اُتارا ہے… اور کلمے کے سب احکامات کو مانا ہے…تو آپ ’’مومن ‘‘
ہیں…مگر آپ جیسے ہی سچے پکے مومن ’’بنے‘‘ تو پانچ سختیوں نے ایک دَم حملہ کر
دیا…حاسدین پیچھے پڑ گئے…منافقین نے زہریلے پھن اٹھا لئے … کافر قتل کرنے اور
پکڑنے کو دوڑے…شیطان نے مورچہ قائم کر لیا…اور نفس دن رات تنگ کرنے لگا…
تو
اب کیا کرناہے؟ …ایمان ایسی چیز نہیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے…ایمان چھوڑ دیا تو
ہمیشہ کا عذاب ہے، ہمیشہ کی ناکامی اور ہمیشہ کی ذلت …مگر ایک وقت میں پانچ
مخالفین کا مقابلہ کرنا بھی آسان نہیں… تو پھر کیا کریں؟… حاسد تو اپنے مسلمان
ہیں…مگر ذرا بھی رحم نہیں کھاتے…اتنا ستاتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے… منافق اس
زمانے میں بہت طاقتور ہو چلے، وہ حکومتوں کے مالک ہیں… وہ ہمیں نفرت، ذلت اور
دشمنی کا نشانہ بناتے ہیں… وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ ان کو اپنا نفاق چھپانے کی
بھی ضرورت نہیں پڑتی… دھڑلے سے شرابیں پیتے ہیں…سؤر کا گوشت کھاتے ہیں… دن رات
طوائفوں میں رہتے ہیں …کافروں سے یاریاں باندھتے ہیں… مسلمانوں کو پکڑ کر کافروں
کے حوالے کرتے ہیں … کافروں، مشرکوں کی پگڑیاں سر پر سجاتے ہیں…کفر کے لئے لڑتے
ہیں…مسجد سے نفرت کرتے ہیں، مدرسہ سے گھن کھاتے ہیں…جہاد کے سخت دشمن ہیں… مگر خود
کو مسلمان کہلواتے ہیں … وہ ہمارا وجود تک برداشت نہیں کرتے…
اور
کافر …اللہ معاف فرمائے وہ تو آج پوری دنیا کے حکمران بن بیٹھے… ہم نے جہاد کیا
چھوڑا کہ کافروں کو کھلی چھٹی مل گئی… انہوں نے ایٹم بم بنا لئے، انہوں نے فضاؤں
اور سمندروں پر قبضہ کر لیا…انہوں نے ہوش رُبا عسکری قوت بنا لی… وہ ہمیں ختم کرنا
چاہتے ہیں…
اور
شیطان …وہ تو آج کل کافی فارغ ہے… اور اس کی پوری توجہ ’’اہل ایمان‘‘ کی طرف ہے
کہ ان سرپھروں کو کیسے گمراہ کروں… دن رات نئے فتنے اور دن رات نئے وساوس… وہ ظالم
قہقہے لگاتا ہے کہ…دنیا کہاں تک پہنچ گئی… بل گیٹس کہاں تک پہنچ گیا… مارک زکر برگ
( نعوذ باللہ) کامیاب ہو گیا… تم کہاں کھڑے ہو…آؤ! عالمی برادری کا حصہ بنو…یعنی
تم بھی میرے یار بنو… جنت جہنم بعد کی باتیں ہیں…دنیا کو بہتر بناؤ… غربت سے جان
چھڑاؤ … اپنے بچوں کو غریبی کے طعنے سے بچاؤ… ترقی کرو…گناہ کرو…
اور
نفس…وہ دن رات طعنے دیتا ہے کہ… تم بڑے آئے مسلمان… چھوڑو ان سختیوں اور پابندیوں
کو…مجھے بھی آرام دو اور خود بھی آرام سے رہو…
ایک
مومن…اور پانچ دشمن …ایک مومن اور پانچ میدان… ایک مومن اور پانچ سختیاں … اب کرنا
کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ پانچ دشمن… جس وجہ سے ہمارے دشمن بنے ہیں… وہ ہے ’’ایمان
‘‘ … معلوم ہوا کہ ان کی دشمنی ہم سے نہیں، ’’ایمان ‘‘ سے ہے… اور ایمان سے ان کی
دشمنی اس لئے ہے کہ…ایمان کے سامنے یہ ٹھہر نہیں سکتے… ایمان ان کی موت ہے…ایمان
ان کی شکست ہے…ایمان ان کی ذلت ہے… ایمان ان کی اصلاح ہے …اس لئے ہم ایمان پر ڈٹے
رہیں…ایمان پر مضبوط رہیں … ایمان میں ترقی کریں …ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہیں…
تب یہ سارے ناکام ہو جائیں گے… ان کی ہر کوشش اور ان کی ہر طاقت ناکام ہو جائے گی…
یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے… یہ قرآن مجید کا اعلان ہے…یہ اٹل حقیقت ہے… ایمان کے
سامنے حاسد نہیں ٹھہر سکتے… وہ نادم ہو جاتے ہیں ناکام ہو جاتے ہیں… حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی… حسد کی آگ برساتے رہے مگر آخر میں
کیا ہوا؟… ایمان کے سامنے منافق نہیں ٹھہر سکتے… خواہ وہ کتنے طاقتور ہو جائیں…عبد
اللہ بن اُبی مدینہ کا بے تاج بادشاہ تھا…اس کے ساتھ طاقتور قبائلی منافقین سردار
تھے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہر سے آئے ہوئے مہاجر تھے… اور آپ کے حامی
غریب کسان تھے… سورۃ المنافقون پڑھ لیں… وہ بتا رہی ہے کہ ’نفاق‘‘ جتنا بھی طاقتور
ہو جائے …وہ ایمان کے سامنے ذلیل اور شکست خوردہ ہے… کفار بھی … ایمان کے سامنے
نہیں ٹھہر سکتے…قرآن زمانہ نوح علیہ
السلام سے بات شروع کرتا ہے… اور فتح مکہ
تک کی داستان سناتا ہے… طاقت میں کوئی توازن ہی نہیں تھا… کفار ہمیشہ طاقتور
تھے…مگر ایمان نے انہیں شکست دی… ایک بار نہیں بار بار دی… اور ہمیشہ دی…اور ہمیشہ
دیتا رہے گا… شیطان بھی ’’ایمان‘‘ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا … اس نے جب اللہ تعالیٰ
سے کہا کہ…میں تیرے بندوں کو ایسا گمراہ کروں گا کہ وہ ہر طرف سے گِھر کر میرے ہو
جائیں گے تو ’’رب العالمین‘‘ نے فرمایا…نہیں…
’’ جو میرے مخلص ہیں ان پر تیرا زور نہیں چلے گا‘‘
ایسے
لوگوں کو شیطان ایک قدم پیچھے دھکیلتا ہے تو وہ… دوڑ کر چار قدم اور آگے نکل جاتے
ہیں… شیطان ان سے ایک گناہ کرواتا ہے تو وہ سو بار استغفار کر کے… گناہ بھی معاف
کروا لیتے ہیں… اور اپنے گناہوں کو بھی نیکیاں بنوا لیتے ہیں…شیطان ان کو خواہشات
میں دھکیلتا ہے تو وہ… اپنے آنسوؤں کے ذریعہ ایمان کی ترقی تک پہنچ جاتے ہیں…اور
نفس بھی ایمان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا… ایمان اس سرکش نفس کو ایسا لوّامہ اور
مطمئنہ نفس بنا دیتا ہے کہ…پھر فرشتے بھی اس نفس پر رشک کرتے ہیں…
مثال
سے سمجھیں
ایک
شہر یا گاؤں میں پانچ چور رہتے ہیں… دھوکے باز لٹیرے… آپ اس گاؤں میں داخل ہوئے
تو وہ آپ کو لوٹنے آ گئے… مگر آپ کے ہاتھ میں تیز تلوار یا میگزین بھری
کلاشنکوف ہے… ان چوروں کے پاس نہ تلوار ہے نہ کلاشن … وہ آپ کے دشمن بن گئے… اب
وہ ہر حیلہ بہانہ بنا رہے ہیں کہ…کسی طرح آپ یہ تلوار یا کلاشن رکھ دیں …اگر آپ
نے ان کے ستانے سے تنگ آ کر یہ کلاشن رکھ دی تو پھر… نہ جان بچے گی نہ مال … نہ
آبرو سلامت رہے گی اور نہ عزت… لیکن اگر آپ نے کلاشن تھامے رکھی اور حسب ضرورت
اس کا استعمال کیا تو… آپ اس بستی سے سلامتی اور آبرو کے ساتھ گذر جائیں گے… ہم
دنیا کی بستی میںآئے ہیں… اور ہمیں آگے آخرت کی منزل پر جانا ہے… دنیا چوروں
اور لٹیروں سے بھری پڑی ہے…کوئی ہمیں کافر بنانا چاہتا ہے تو کوئی منافق… کوئی
ہمیں فاسق بنانا چاہتا ہے تو کوئی نفس پرست… ایسے میں سلامتی کا راستہ صرف ایک ہے…
اور وہ ہے ’’ایمان ‘‘ …مگر ’’ایمان ‘‘ پرآتے ہی… سب دشمن ہو جائیں گے… حسد، نفرت،
حملے، وسوسے اور تکلیف کا سامنا ہو گا… ان سب چیزوں کا سامنا…ہمیشہ رہے گا…مرتے دم
تک یہ ’’مقابلہ‘‘ جاری رہے گا… یہ ایک دو دن کی جنگ نہیں…موت کے وقت بھی شیطان کی آخری
کوشش یہ ہو گی کہ ایمان پر نہ مرنے دے …نفس کی آخری کوشش ہو گی کہ… آل و اولاد
کے مفادات سمجھا کر اس وقت بھی کوئی گناہ کر الے… کفار کی کوشش ہو گی کہ …ہماری
موت، ذلت ناک، عبرتناک ہو جائے… ہاں! یہ جنگ ’’کلمہ طیبہ ‘‘دل سے پڑھتے ہی شروع
ہوتی ہے… اور مرتے دم تک جاری رہتی ہے…اگر ہم ’’ایمان‘‘ چھوڑ دیں گے تو ہم بری طرح
شکست کھا جائیں گے … موت تب بھی آئے گی… بیماری تب بھی آئے گی … پریشانی تب بھی
آئے گی… یہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ…ایمان چھوڑ دو تو مزے ہی مزے ہیں… حقیقت یہ ہے
کہ …کوئی مزے نہیں… بس دوسروں کو مزے نظر آتے ہیں… اندر آگ ہی آگ ہے… ہالی ووڈ
کے فنکار کیوں خود کشی کر کے مرتے ہیں؟ … بالی ووڈ کے ایکٹر کیوں دن رات زہر کھانے
کا سوچتے ہیں؟ …اس لئے ان دشمنوں سے گھبرا کر ’’ ایمان‘‘ کو نہیں چھوڑنا…ایمان ہی
میں ہماری کامیابی ہے… اور ایمان ہی میں ان سب دشمنوں کی شکست ہے… دیکھو! سچے رب
نے واضح اعلان فرما دیا…
﴿ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾
مناظر
دیکھیں
آج
غزوۂ بدر کا دن ہے… ابو جہل کا طاقتور لشکر ’’ایمان ‘‘ پر حملہ آور ہے… ایمان
والے نہتے ہیں… مگر فتح ایمان کی ہوئی…
آج
غزوہ احد ہے… ایمان خون میں لت پت ہے… زخمی ہے… لاشوں اور ٹکڑوں میں نظر آ رہا
ہے… کفر ’’ایمان ‘‘ کے خاتمہ کا جشن منا رہا ہے…مگر یہ کیا… ایمان اٹھا اور تھوڑی
دیر میں ’’حمراء الاسد‘‘ کا فاتح بن گیا… وہ جو مار کر جا رہے تھے ان کے بارے میں
آواز آئی کہ یہ سب مر چکے… اور وہ جو مرے پڑے تھے ان کے بارے میں اعلان ہوا کہ
وہ زندہ ہیں …خبردار جو ان کو مردہ کہا …اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ واقعی وہ زندہ
تھے…اور مکہ سے لے کر قیصر و کسریٰ تک کو فتح کر رہے تھے…
آج
غزوہ خندق ہے…ایمان آج مکمل محاصرے میں ہے… اندر سے بھی اور باہر سے بھی… اتحادی
لشکروں کا طوفان اسے ہر طرف سے گھیر چکا ہے… اور داخلی دشمنوں کا سیلاب اسے بہانے
کے لئے کروٹیں بدل رہا ہے… آج شاید ایمان کا دنیا میں آخری دن ہو گا…مگر یہ کیا؟
یہ کون بھاگ رہے ہیں؟ محاصرہ کرنے والے… یہ کون مر رہے ہیں… داخلی سیلاب اٹھانے
والے … اور ’’ایمان‘‘ ایک شان سے مسکرا کر کہہ رہا ہے… آج کے دن سے دستور بدل
گیا… اب مجھ پر یہ کبھی حملہ نہیں کر سکیں گے… اب حملہ میں ہی کروں گا…اور میرے
حملے کو کوئی روک نہیں سکے گا…
یہ
تین مناظر… بہت سے فتنوں کا علاج ہیں… بدر کے دن ایمان پر جمے رہنا آسان نہیں
تھا… بہت مشکل تھا بہت مشکل… مگر ایمان والے ایمان پر ڈٹے رہے تو ایمان نے اپنی
طاقت دکھا دی… ہم پر اپنی زندگی میں ایسے حالات بھی آ سکتے ہیں …
اُحد
کے دن ایمان پر ڈٹے رہنا…حد درجہ مشکل تھا، بے حد مشکل… مگر ایمان والے ایمان پر
ڈٹے رہے … تو ایمان نے اپنی قوت دکھا دی … اور غزوہ احزاب تو … دل و دماغ کو ہلا
دینے والا اور اندر تک بنیادوں کو لرزا دینے والا امتحان تھا … مگر ایمان والے
ایمان پر مضبوط رہے تو ایمان نے اپنی شان دکھا دی… ہم پر احد والے حالات بھی آ
سکتے ہیں اور احزاب والے بھی …
بس
بھائیو! امریکہ ، برطانیہ کے چنگھاڑنے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں…مودی کے آنے
جانے سے پریشان ہونے کی حاجت نہیں … یہودیوں کے عسکری اور معاشی طوفان کو دیکھ کر
دل ہارنے کی گنجائش نہیں…اور اپنے حکمرانوں کی شرک پرستی اور سختی دیکھ کر گھبرانے
کی اجازت نہیں… ’’ایمان‘‘ ان سب سے بھاری ہے تول کر دیکھ لو …
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
یہ
کلمہ ایک آن میں…فرش سے عرش تک کا سفر کرتا ہے… کالے کافر آئے مر گئے… گورے کافر
آئے مٹ گئے… کلمہ کل بھی تھا، آج بھی ہے… اور ہمیشہ رہے گا… ایمان کی مضبوطی…
ایمان کے فرائض میں ہے… سب سے پہلے عقیدہ درست ہو…اور پھر اسلام کے فرائض سے محبت…
اور مضبوط تعلق…
نماز،
روزہ، حج ،زکوٰۃ… اور جہادِ فی سبیل اللہ
بھائیو!
غربت کو عیب یا گالی نہ سمجھو… اپنی عمر کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی بڑھاؤ…
اور
زمانے کے ساتھ چلنے کی بجائے … زمانے کو اپنے ساتھ چلاؤ…
بس
دنیا میں مختصر سا قیام ہے… اور پھر اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اللہ تعالیٰ کی
مہمانی… ان شاء اللہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 526
اَمَّا
مِنَ ا لْاَرضِ فَلَا
* وہ حسین لمحہ… جب فدائیانِ
اسلام کی یلغارسے…
انڈیا
کا پٹھان کوٹ ائیر بیس گونج اٹھا… انڈیا کا ناک
خاک
آلود ہوا… اللہ تعالیٰ کی نصرت چمکی… اور
وَيُخْزِهِمْ
وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ کا وعدۂ الٰہی پورا ہوا…
* سیّدنا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ایک ایمان افروز واقعہ…
* پاکستان کے حکمرانوں کا ایک
غلط طرز عمل…
* معاشی ترقی کے جھانسے میں آ
کر مشرکین سے دوستی کرنا…
خود
کشی کے مترادف…
* ایک مؤمن پانچ شدائد… کے
موضوع کا خلاصہ…
* پانچ دشمنوں سے جنگ کا طریقۂ
کار… اور نصاب…
پڑھیے
اور عمل کیجئے…
۲۴ ربیع الاوّل۱۴۳۷ھ؍
05 جنوری 2016ء
اَمَّا مِنَ الْاَرضِ فَلَا
اللہ
تعالیٰ نے ایک بڑی ’’کرامت‘‘ دکھا دی …ہمارے زمانے کے مجاہدین کی کرامت … ایمان کو
قوت اور دلوں کو شفا دینے والی کرامت… حوصلہ،ہمت اور جذبہ بڑھانے والی کرامت… چار
مجاہدین نے انڈیا کے پٹھان کوٹ فضائی اڈے پر حملہ کیا… جمعہ شریف کے بعد والی رات
تہجد کے وقت… جی ہاں! تین بجے کے آس پاس…وہ وقت جب زمین ، آسمان کے قریب ہو جاتی
ہے… جب دعاؤں اور آہوں کے نالے عرش کو چھوتے ہیں… جب رحمت کا مالک آسمانِ دنیا
پر تجلی فرماتا ہے… جب معافی مانگنے والوں کو فوراً معافی دے دی جاتی ہے… جب رزق
مانگنے والوں کے لئے خزانوں کے منہ کھول دئیے جاتے ہیں… جب نفس روندا جاتا ہے اور
زبان سیدھی چلتی ہے… یہ اللہ والے مجاہدین …اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے، اللہ تعالیٰ
کو اپنی جان بیچنے… مظلوموں کا بدلہ لینے… اور زمین کو فساد اور نجاست سے پاک کرنے
کے لئے…انڈین فضائیہ کے مضبوط ترین اڈے میں گھس گئے… سبحان اللہ! کیا کیفیت ہو گی
اور کیا منظر… کیا جذبے ہوں گے اور کیا نعرے… کیا کیفیت ہو گی اور کیا سرمستی…
اللہ اکبر کبیرا… حملے کو اڑتالیس گھنٹے بیت چکے…مشرکین ابھی تک نہ ان مجاہدین کی
درست تعداد سمجھ سکے اور نہ ان کے آنے کے راستے… ہاں! بے شک وہ فرشتے جنہوں نے
اللہ تعالیٰ کے حکم سے غزوہ بدر میں جہادی وردی پہنی تھی…وہ قیامت تک کے بر حق
مجاہدین کے لئے اترتے رہتے ہیں…خبریں سنتے ہوئے کون یقین کر رہا ہو گا کہ… اتنی
سردی اور اتنے سخت موسم میں کوئی بغیر سوئے ، بغیر کھائے اڑتالیس گھنٹے لڑ سکتا
ہے… آپ چوبیس گھنٹے مسلسل جاگ کر دیکھ لیں دماغ لرز جائے گا… آپ چوبیس گھنٹے
بھوکے رہ کر دیکھ لیں چکر آ جائیں گے… مگر یہاں ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور ہیلی
کاپٹروں کا سامنا تھا…مگر وہ ایمانی شان کے ساتھ تازہ دم لڑتے رہے اور دشمنوں،
قاتلوں کی لاشیں گراتے رہے…ان کے خلاف ہر اسلحہ ، ہر قوت اور ہر عسکری ٹیکنالوجی
استعمال ہوئی مگر…ان کو آسمان سے مدد بھی آ رہی تھی… اور رزق بھی… حضرت سیّدنا
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بار ایک چھوٹے سے لشکر کے ساتھ دشمنوں کے
بہت بڑے لشکر کے سامنے ہوئے… دشمنوں نے کہا ہتھیار ڈال دو… مٹھی بھر افراد ہو ،
ہمارے سامنے چند منٹ بھی نہ ٹھہر سکو گے…جواب میں فرمایا : تم اسلام قبول کر لو…یا
ہتھیار ڈال کر جزیہ دو یا مرنے کو تیار ہو جاؤ… دشمنوں کے سالار نے حیرت سے
پوچھا… کیا تمہارے لئے کوئی بڑی کمک اور مدد آنے والی ہے؟ فرمایا:
اَمَّا
مِنَ الْاَرْضِ فَلَا
زمین
سے تو کسی مدد اور کمک کے پہنچنے کا امکان نہیں…مگر آسمان سے ضرور ہے…
اور
پھر وہی ہوا جو ان کا گمان تھا…بالکل واضح اور سچا ارشاد ہے…
اَنَا
عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ
میرا
بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے…میں اس کے گمان کے مطابق اپنی شان دکھاتا ہوں
﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ﴾
ہر
دن اللہ تعالیٰ کی ایک نئی شان ہے
چند
دن پہلے انڈین فوجی… کشمیر کے نہتے مسلمانوں کی لاشیں گرا رہے تھے… مگر دو جنوری
سے وہ اپنے قابل فخر سورماؤں کی لاشیں گھسیٹ رہے ہیں… این ایس جی، بلیک کیٹ
کمانڈو کا ماہر کرنل نرنجن…نشانہ بازی میں سونے کا تمغہ جیتنے والا عالمی شہرت
یافتہ صوبیدار فتح سنگھ… اور معلوم نہیں کون کون… سب کھیت ہو گئے، بری طرح مارے
گئے… پہلے اعلان کیا کہ مجاہدین چھ ہیں اور ہم نے سب مار دئیے ہیں…پھر اعلان ہوا
کہ ایک اور بھی ہے وہ زندہ ہے اور لڑ رہا ہے… پھر بتایا گیا کہ نہیں! دو اور بھی
زندہ ہیں…اور جنگ کر رہے ہیں…
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾
یہ
سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نصرت نہیں تو اور کیا ہے؟… یہ واضح کرامت نہیں تو اور کیا
ہے؟… یہ جہاد اور مجاہدین کی حقانیت نہیں تو اور کیا ہے؟… یہ مظلوم اور مقرب محمد
افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی
اور جہادی سلطنت نہیں تو اور کیا ہے؟… اب اتنا بڑا ملک رو رہا ہے اور بزدلوں کی
طرح الزامات لگا رہا ہے… پاکستان کے حکمران انڈیا کے الزامات کے سامنے…معلوم نہیں
کیوں جھکتے ہیں، کیوں شرماتے ہیں؟… انڈیا نے مشرقی پاکستان کاٹ ڈالا … انڈیا نے
بلوچستان کو آگ کی بھٹی بنا دیا… انڈیا نے کراچی کو مسلمانوں کا مذبح خانہ بنا دیا
… انڈیا نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف اڈے کھول لئے… انڈیا نے پیارے کشمیر کو
لہو لہو کر دیا…انڈیا نے بابری مسجد سمیت بے شمار مساجد کو ویران کیا… انڈیا نے
کبھی پاکستان کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا… پھر ایسے مکار دشمن کے دباؤ میں آنا
کون سی عقلمندی ہے اور کونسی غیرت؟… یہ حکمرانوں کی بھول ہے کہ انڈیا سے یاری
پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنا دے گی…نیپال والوں سے جا کر پوچھو! انہیں انڈیا
کی یاری اور غلامی نے کیا دیا… سری لنکا سے پوچھو! اسے انڈیا نے کہاں کا چھوڑا…
پاکستان کا تو وہ ہمیشہ سے دشمن ہے… وہ تمہیں ترقی کے نام پر نچوڑ لے گا…کاش! تم
مشرکین کے مزاج کو سمجھتے…اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے…
﴿اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ﴾
کہ
ہر مشرک سراسر نجاست ہے، گند ہے اور خرابی ہے…
پھر
قرآن مجید نے بہت عجیب نکتہ سمجھایا … اے مسلمانو! معاشی ترقی کے دھوکے میں
مشرکین سے یاری نہ کر بیٹھنا…
﴿وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ﴾
اللہ
تعالیٰ تمہیں غنی فرما دے گا…تم ان مشرکوں کو اپنے حرم کے قریب نہ آنے دو…دل کے
قریب لانے کا تو سوال ہی نہیں… کون کلمہ گو مسلمان اپنے دل کو نجاست سے آلودہ کر
سکتا ہے؟ …تجارت، ترقی سب دھوکہ ہے… حکمرانو! اگر ہماری نہیں سنتے تو نہ سنو…اللہ
تعالیٰ کے فرمان کو تو مانو، اللہ تعالیٰ کے فرمان کو تو سنو… نہیں سنو گے تو اپنا
ہی نقصان کرو گے…ہاں! صرف اپنا… ایمان والوں کا اور مجاہدین کا تم کچھ نہیں بگاڑ
سکتے … وہ جن کی نصرت کے لئے فرشتے اترتے ہیں اور وہ جو رب تعالیٰ سے سودا کر چکے
ہیں…ان کو ستا کر تم کہیں کے نہیں رہو گے…
جانباز
سرفروش فدائیوں کی پاکیزہ ماؤں کو سلام …شہداء اسلام کی عظمت اور کرامت کو سلام…
ایک
مومن پانچ شدائد
گذشتہ’’
رنگ و نور‘‘ میں عرض کیا تھا …ایک خالص اور سچے مومن کو پانچ مخالفین ، پانچ
امتحانات اور پانچ شدائد کا سامنا ہوتا ہے… مسلمان اس سے حسد کرتے ہیں… منافق اس
سے بغض رکھتے ہیں…کافر اس سے قتال کرتے ہیں… شیطان اس کو گمراہ کرتا ہے… اور نفس
اس سے جھگڑے کرتا ہے…
ایک
مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ…
٭ وہ ان
پانچ سختیوں سے نہ گھبرائے بلکہ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرے…
’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ وہ ایمان کا اعلان کریں گے اور
پھر انہیں آزمایا نہیں جائے گا۔‘‘( القرآن)
ان
آزمائشوں سے ہی سچے مومن کی پہچان ہوتی ہے…جو ڈٹا رہتا ہے وہی مومن ہوتا ہے…
٭ ان پانچ امتحانات اور سختیوں کا مقابلہ یہ ہے کہ…مومن اپنے ایمان
پر قائم رہے، ایمان کو مضبوط کرتا رہے…ایمان میں ترقی کرے … ایمان ہی کے ذریعے وہ
ان تمام مخالفین پر غالب ہو سکتا ہے…
٭ ایمان
کی بنیاد ہے کلمہ طیبہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اس
کلمہ سے اپنا تعلق اور رشتہ مضبوط کیا جائے تو ایمان سلامت رہتا ہے اور ترقی کرتا
ہے…کلمہ طیبہ کا مفہوم سمجھیں، اسے دل میں اتاریں …کلمہ طیبہ کو سیکھیں اور
سکھائیں… کلمہ طیبہ کے حقوق ادا کریں…کلمہ طیبہ کے لئے قربانی دیںاور کلمہ طیبہ کا
کثرت سے وِرد کریں…
٭ دل میں اگر ایمان اچھی طرح اتر چکا ہو تو وہ خود سکھاتا ہے
کہ…پانچ امتحانات اور پانچ سختیوں میں سے ہر ایک کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے… ایمان کا فیض ہر موقع پر خود حاضر ہو جاتا
ہے اور… مومن کی رہنمائی کرتا ہے… جس طرح ڈرائیوری کا فن اگر کسی کے دل و دماغ میں
اتر چکا ہو تو اب گاڑی چلاتے وقت یہ مہارت آٹو میٹک اس کے پاؤں، ہاتھوں اور دیگر
اعضاء میں موقع کے مطابق حاضر ہو جاتی ہے… کب بریک لگانی ہے…کب ریس چھوڑنی ہے اور
کب کیا کرنا ہے…
اس
لئے اللہ تعالیٰ سے ’’ایمان کامل‘‘ اور ’’ ایمان مباشر بالقلب‘‘ مانگتے رہنا
چاہیے…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّی اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا یُّبَاشِرُ قَلْبِی
یا
اللہ! آپ سے ایسے ایمان کا سوال ہے جو ایمان میرے دل میں اترا ہوا ہو…
ایمان
کو سمجھیں، ایمان کو سیکھیں، ایمان کا مذاکرہ کریں ،ایمان کو مانگیں ، ایمان کی
قدر کریں اور ایمان ہی کو اپنا سب سے اصل اور اہم سرمایہ سمجھیں…
٭ ایمان سکھاتا ہے کہ…
حاسد مسلمانوں کا مقابلہ تحمل اور برداشت کے ذریعہ ہو سکتا ہے… حاسدین کے شر سے
اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہیں…مسلمانوں میں سے جو آپ سے حسد کرے آپ اس کے
پیچھے نہ پڑیں، بدلہ نہ لیں … تحمل کریں، معاف کریں…تب یہ حسد آپ کا نقصان نہیں
کر سکے گا…یہ حسد واپس لوٹ جائے گا…آپ کا یہ طرز عمل بہت سے حاسدین کو آپ کا
گہرا ہمدرد دوست بنا دے گا… اور آپ کی صلاحیتیں محفوظ رہیں گی… لیکن اگر آپ بدلہ
چکانے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر اتر آئے تو …آپ اپنا ہی نقصان کریں گے…
آپ بغض اور کینے کے بیمار بن جائیں گے… آپ کی صلاحیتیں ضائع ہو جائیں گی…اور آپ
ایمان میں ترقی نہیں کر سکیں گے… دلائل قرآن مجید میں بھی موجود ہیں اور احادیث و
سیرت میں بھی… موضوع بہت طویل ہے اس لئے خلاصہ اور اشارہ عرض کر دیا…
٭ ایمان سکھاتا ہے کہ
منافقین کے بغض اور شر سے حفاظت… ایمان والوں کی ’’جماعت ‘‘ کے ذریعہ ہو سکتی
ہے…منافقین سے ہمیں دو بڑے خطرے ہیں…پہلا خطرہ یہ ہے کہ وہ ہمیں بھی(نعوذ باللہ)
منافق بنا ڈالیں…وہ حب دنیا کا بیج ہر وقت ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں… جان بچاؤ،
مال بناؤ ، دنیا میں مستقبل سنوارو، عیش کرو، آرام کرو، امن سے رہو وغیرہ… یہ سب
پُرکشش دعوتیں ’’منافقین ‘‘ کے ساتھ چلتی ہیں… انسان کمزور ہے دنیا میں اپنے
تقاضوں اور خواہشات کی خاطر ان باتوں کا شکار ہو سکتا ہے… دوسرا خطرہ منافقین سے
یہ ہے کہ وہ ہمیں جانی، مالی اور عزت کا نقصان پہنچائیں، ہمیں کافروں کے سپرد
کریں…کافروں کو ہم پر چڑھا لائیں…
قرآن
مجید نے ’’فتنۂ نفاق‘‘ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے… اور اہل ایمان کو منافقین کے
ان دونوں خطروں سے مکمل آگاہ کیا ہے… آپ قرآن مجید میں وہ آیات پڑھ لیں جن میں
منافقین کا تذکرہ ہے… تو آپ ان دونوں خطرات کو اچھی طرح سمجھ لیں گے… اب علاج کیا
ہے؟… سورہ توبہ میں علاج بیان فرما دیا… ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں…
ایمان والی جماعت بن کر رہیں… خالص دینی جماعت… جہاد ، اقامت صلوٰـۃ ، امر
بالمعروف، نہی عن المنکر، زکوٰۃ… اللہ و رسول کی اطاعت…والی جماعت… اس جماعت کی
برکت سے وہ خود بھی ’’منافق‘‘ ہونے سے بچیں گے اور منافقین کے شر سے بھی محفوظ
رہیں گے… شرط یہ کہ جماعت خالص دینی ہو… جماعت میں آنے اور رہنے کا مقصد بھی صرف
دین ہو، دنیا نہ ہو… جماعت کے کاموں میں شرکت ہو …اور اطاعت امیر ہو…تب جماعت کی
برکات حاصل ہوں گی…
٭ ایمان
سکھاتا ہے کہ کفار کے قتال کا علاج …زوردار جہاد و قتال اور دعوت جہاد ہے … اسی
لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا:
’’آپ خود بھی قتال کریں، آپ پر آپ کے نفس کی ذمہ داری ہے اور
آپ ایمان والوں کو قتال پر ابھاریں‘‘… ( القرآن)
قتال
اور دعوت قتال…ان دو کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
﴿عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾
اس
کی برکت سے اللہ تعالی کافروں کی جنگ توڑ دے گا… ان کی آپ کے خلاف لڑائی کو روک
دے گا… وہ کمزور پڑیں گے، پیچھے ہٹیں گے اور صلح کے لئے جھکیں گے…
یہ
بھی کافی مفصل موضوع ہے… اس آیت مبارکہ سے اس کا پورا خلاصہ سمجھا جا سکتا ہے…
٭ ایمان
سکھاتا ہے کہ…شیطان کا مقابلہ ’’ذکر اللہ‘‘ کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے… کلمہ طیبہ
اور استغفار سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… اور سچا ذکر شیطان کو کمزور اور مضمحل کر
دیتا ہے…جس دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہو، اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو اس دل پر شیطان
اپنا قبضہ نہیں جما سکتا… اسی لئے ذکر اللہ ہر عبادت کی جان اور ہر عبادت کی
قبولیت ہے… ذکر میں بہت محنت کرنی چاہیے تاکہ… شیطان ہمارے دل پر ڈاکہ نہ ڈال سکے…
٭ ایمان
سکھاتا ہے کہ…نفس امارہ کے جھگڑوں اور شرارتوں کا مقابلہ… ’’مجاہدہ‘‘ یعنی نفس کی
مخالفت کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے… انسان اپنے نفس کی تمام جائز خواہشات پوری کرے تو
یہ فوراً ناجائز خواہشات کا مطالبہ کر دیتا ہے… اور نفس کی خواہشات کبھی ختم نہیں
ہوتیں… اس لئے اگر اس کو لگام دی جائے… اور اسے خواہشات سے روکا جائے تو یہ درست
ہونے لگتا ہے اور بالآخر یہ بھی نفس لوّامہ اور نفس مطمئنہ بن جاتا ہے… جہاد کی
مشقتیں ، روزے کی بھوک، عبادت کی تھکاوٹ… کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا… اچھی
صحبت… یہ سب نفس کی اصلاح کے ذریعے ہیں…
معذرت
ایک
مومن پانچ شدائد کا مضمون… بہت تفصیل مانگتا ہے…گذشتہ کالم میں یہ موضوع شروع کرنے
کے بعد احساس ہوا کہ…بہت مفصل موضوع چھیڑ بیٹھا ہوں… اب اسے کس طرح سمیٹا
جائے…اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر یہ خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے…کمی ،
کوتاہی اور اختصار پر معذرت… اللہ تعالیٰ اسے میرے لئے اور آپ سب کے لئے نافع
بنائے… ہم سب کو ایمان کامل ، ایمان کی سلامتی اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے…
آمین یا ارحم الراحمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 527
اَجَل مُسَمیّٰ
اللہ
تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کا ایک ’’وقت مقرر‘‘ ہے…
اس
وقت مقرر کو ’’اجل مسمیّٰ‘‘ کہا جاتا ہے…
قرآن
کریم بڑی تفصیل اور وضاحت سے ’’اجل مسمیّٰ‘‘ کا
مسئلہ
سمجھاتا ہے…
زندگی،
موت، قید، جیل، رہائی، آزادی سب کا تعلق ’’اجل مسمیّٰ‘‘ سے ہے…
انسان
کو ’’اجل مسمیّٰ‘‘ کی حقیقت سمجھ آ جائے تو…
بہت
سی الجھنوں، غموں، پریشانیوں اور کمزوریوں سے نجات مل جائے…
قرآن
کریم کے اہم موضوع ’’اجل مسمیّٰ‘‘ کی حقیقت سمجھاتی…
ہمت
دلاتی… ڈھارس بندھاتی… ایک روشن تحریر
۳ ربیع الثانی۱۴۳۷ھ؍
13 جنوری 2016ء
اَجَل مُسَمیّٰ
اللہ
تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے ایک ’’وقت ‘‘ مقرر فرما دیا ہے… قرآن مجید اسے ’’اجل
مسمیّٰ ‘‘ کہتا ہے… ایک مقرر شدہ وقت… جسے کوئی نہیں بدل سکتا… جس سے کوئی نہیں
بھاگ سکتا…مثلاً ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے… وہ وقت آنے سے پہلے ساری دنیا
مل کر بھی اسے نہیں مار سکتی…اور جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ساری دنیا مل کر بھی اسے
نہیں بچا سکتی… قرآن مجید نے ان افراد کے واقعات سنائے ہیں…جن کو مارنے کی ہر
کوشش ہوئی مگر وہ ان کوششوں سے نہ مرے… آگ کے جلتے آلاؤ میں…مسلح فوجوں کے نرغے
میں…تیز چھری کی دھار کے نیچے… وہ جیتے رہے اور اپنی ’’اجل مسمیّٰ‘‘ کی طرف بڑھتے
رہے … پھر وہ ’’اجل مسمیّٰ‘‘ آ گئی تو وہ چلے گئے… قرآن مجید بار بار ’’اجل
مسمیّٰ‘‘ کا مسئلہ سمجھاتا ہے…تاکہ بے صبروں کو صبر ملے کہ…محنت کا نتیجہ وقت پر
ہی ظاہر ہو گا … تاکہ خوفزدہ لوگوں کو چین ملے کہ …وقت سے پہلے کوئی مصیبت نہیں آ
سکتی…تاکہ بے ہمتوں کو حوصلہ ملے کہ… موت اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں نہیں… جو
کام تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے تم وہ کرو… باقی جو کچھ ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہی ہو
گا… وقت کو آگے پیچھے کرنے کی کوشش میں اپنی زندگی برباد نہ کرو… اپنے عمل کو تباہ
نہ کرو…کام کرو کام… اپنی ذمہ داری ادا کرو… اپنے فرائض پورے کرو… جو وقت تمہارے
پاس ہے اسے قیمتی بناؤ…
گرفتاری
دور، دور
ہمارے
ایک استاذ محترم تھے…بہت عبادت گذار ، اللہ والے اور با اصول…لوگوں سے کم ملتے تھے
اور بہت کم بولتے تھے…خود سچے تھے تو دوسروں کو بھی سچا سمجھتے تھے… ان کو کسی نے
بتایا کہ جو لوگ عمرہ پر جاتے ہیں، جب ان کے ویزے کی تاریخ ختم ہو جائے اور وہ
واپس نہ جائیں تو سعودی پولیس… یعنی شرطہ انہیں فوراً گرفتار کر لیتے ہیں…بات درست
تھی مگر اس میں ’’فوری‘‘ کا لفظ غلط تھا… ان دنوں ویزے سے چند دن اوپر نیچے ہو
جاتے تو حکومت برداشت کرتی تھی… مگر حضرت استاذ محترم نے فوری گرفتاری والی بات
سچی مان لی… بندہ ان کے ساتھ مدینہ منورہ میں تھا… انہوں نے پوچھا تمہارا ویزہ کب
ختم ہو گا؟ …بندہ نے تاریخ بتا دی…میرا ویزہ ان کے ویزے سے پہلے ختم ہو رہا تھا…وہ
پریشان ہوئے مگر خاموش رہے…ماشاء اللہ قوت حافظہ اسّی سال کی عمر میں بھی بھرپور
تھی… تاریخ انہوں نے یاد کر لی… معمول یہ تھا کہ میں ان کو وہیل چیئر پر مسجدِ
نبوی لے جاتا تھا… اور ان کے قدموں کے پاس بیٹھ کر معمولات کرتا تھا… ایک دن مجھے
تلاوت کرنی تھی تو قرآن مجید کے احترام میں ان سے کچھ فاصلے پر جا بیٹھا… ان کو
یاد آیا کہ میرے ویزے کی تاریخ ختم ہو چکی ہے… دور سے ہی بلند آواز میں میرا نام
پکار کر فرمایا…کیا تمہیں ابھی تک ’’شرطہ ‘‘ پکڑنے نہیں آئے؟… اردگرد کے سب لوگ
متوجہ ہو گئے، میں گھبرا کر تیزی سے اٹھا اور ان کے پاس جا کر عرض کیا… حضرت آپ
کی دعاء کی برکت سے خیر ہو گئی ہے…کچھ گنجائش ہے میں ان شاء اللہ آپ کے ساتھ واپس
جاؤں گا… وہ مطمئن اور خوش ہو گئے… اس وقت میرے لئے قید اور گرفتاری کی ’’اجل
مسمیّٰ‘‘ شروع نہیں ہوئی تھی… خیال تک نہ آتا تھا کہ کبھی ’’گرفتاری ‘‘ ہو گی…
حالانکہ ایسے کئی مواقع آئے کہ گرفتاری یقینی تھی مگر… گرفتاری دور دور بھاگتی
رہی… کئی بار تو خود ہی ’’گرفتاری‘‘ پر حملہ کیا… مگر وہ صاف بچ کر نکل گئی…
واقعات سناؤں تو بہت سے لوگ شاید یقین ہی نہ کریں… دنیا کے کئی ممالک گھوم لئے …
ایسی ایسی جگہ جہاد کے بیانات کئے جہاں ایسے بیانات کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر
سکتا تھا … ایک عرب ملک میں پولیس نے گھیر بھی لیا اور پھر دعاء کا وعدہ لے کر
چھوڑ دیا… کئی جگہ پکڑنے والے آئے مگر بغیر پکڑے چلے گئے… اس وقت واقعات کی ایک
پوری لڑی میرے ذہن میں چل رہی ہے…کراچی میں کرفیو کی کئی بار خلاف ورزی کی…اور بہت
کچھ… یوں لگتا تھا کہ میں گرفتاری کے پیچھے بھاگ رہا ہوں اور وہ مجھ سے اپنی جان
بچا رہی ہے… یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ ابھی ’’وقت مقرر ‘‘ نہیں آیا تھا… اور
گرفتاری اسی وقت مقرر کے انتظار میں اپنی چھریاں تیز کر رہی تھی…اور پھر وہ وقت آ
گیا…اور ایسا آیا کہ مکمل طور پر چھا گیا…پہلے ایک طویل گرفتاری ہوئی… گویا کہ
گرفتاری نے پچھلے عرصے کی اپنی ساری پیاس بجھا ڈالی… پھر اللہ تعالیٰ نے رہائی عطا
فرمائی…مگر رہا ہوتے ہی گرفتاری مجھ پر اپنے دانت تیز کرنے لگی… رات کو سوتے تو
یہی لگتا کہ کسی جیل میں ہوں گے… اور دن چڑھتا تو یہی لگتا کہ رات کسی کال کوٹھڑی
میں گزرے گی… گرفتاری نے دو مہینے کی آنکھ مچولی کے بعد …پھر دبوچ لیا… چند ہفتے
مسلط رہی…پھر ایسی رہائی ملی جو نیم رہائی تھی اور نیم گرفتاری… تین ماہ تک ایک ہی
شہر میں رہنا تھا… ٹول پلازہ سے آگے جانے کی اجازت نہ تھی… پھر اللہ تعالیٰ نے
فضل فرمایا، رہائی ملی مگر کچھ عرصہ بعد گرفتاری پھر تشریف لے آئی اور ایک سال تک
قابض رہی… اور یہ سلسلہ چل نکلا… ایک وہ وقت تھا گرفتاری دور دور تھی…اور پھر وہ
وقت آ گیا کہ…گرفتاری بہت قریب آ گئی… بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کے لئے
ایک ’’اجل مسمیّٰ‘‘ یعنی وقت مقرر ہے…انسان جس حال میں بھی ہو… اللہ تعالیٰ سے جڑا
رہے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہے…
گرفتاری
ہی گرفتاری
گرفتاری
جب دور دور تھی تو … باوجود کوشش کے بھی قریب نہ آتی تھی…تعلیم کے زمانے ہمارے
جامعہ کے مہتمم …حضرت اقدس مفتی احمد الرحمن صاحبؒ اور کئی محبوب اساتذہ کرام
گرفتار ہو گئے… اس وقت گرفتاری بہت مرغوب لگتی تھی کہ ان اساتذہ کرام کی خدمت کا
موقع ملے… مگر نام نہ نکلا… میں اکثر جیل جاتا اور جالیوں کے پیچھے سے اپنے اساتذہ
کرام کی زیارت کرتا… ایک اور بار استاذ محترم حضرت مفتی عبد السمیع صاحب شہید رحمۃ
اللہ علیہ ایک مسجدکی آزادی کے لئے
گرفتار ہوئے…میں نے بھی کوشش کی مگر گرفتاری نہ ملی… پھر جب ’’گرفتاری‘‘ کی ’’اجل
مسمیّٰ‘‘ آ گئی تو میرے ساتھ ’’گرفتاری‘‘ نے وہ کیا جو شائد کسی کے ساتھ کم ہوا
ہو… جو شخص بھی قید یا گرفتاری میں ہوتا ہے تو اسے یہی فکر رہتی ہے کہ… رہائی کب
ملے گی؟ … جبکہ مجھے اپنی قید کے دوران کئی بار اس فکر سے گذرنا پڑا کہ…گرفتاری کے
دوران مزید گرفتاری نہ آ جائے … کوٹ بھلوال جیل میں کچھ راحت ملی تو… حکومت نے
ہمیں وہاں سے نکال کر ایک عقوبت خانے میں بھیجنے کی تدبیر کی…جیل میں اس بات پر
لڑائی ہو گئی… اب حکومت ہمیں اپنی ہی جیل میں دوبارہ گرفتار کرنا چاہتی تھی…مگر
کشمیری مجاہدین آہنی دیوار کی طرح رکاوٹ بن گئے… ایک ماہ سے زائد کا عرصہ اس طرح
گذرا کہ جیل میں دن رات… مزید گرفتاری کا خطرہ مسلط رہا…حکومتی فورسز دوبار ناکام
ہوئیں… تیسری بار انہوں نے سی آر پی ایف کی سات کمپنیوں کے ساتھ حملہ کیا … جیل
میں شدید فائرنگ ہوئی… بھائی نوید انجم جام شہادت نوش فرما گئے… مزید ساتھیوں کے
شہید ہونے کا اندیشہ تھا تو ہم نے گرفتاری دے دی… گرفتاری ہی گرفتاری…پھر یہ سلسلہ
چل نکلا… جب بھی باہر کوئی بڑا واقعہ ہوتا … فوری طور یہ خبریں شروع ہو جاتیں کہ…
اس واقعہ میں میرا ہاتھ ضرور ہو گا… چنانچہ پھر مزید گرفتاری ، تفتیش، تشدد اور منتقلی
کی تلوار سر پر لٹکنے لگتی…
گرفتار
آدمی ویسے ہی مظلوم اور بے بس ہوتا ہے… بڑی مشکل سے جیل میں سونے جاگنے کی ترتیب
درست ہوتی ہے… ایسی حالت میں پھر اگر مزید گرفتاری اور تفتیش کا خطرہ آ جائے تو
دل و دماغ پر کیا گذرتی ہو گی… اس کا تصور آسان نہیں ہے… دہلی کی تہاڑ جیل میں
قیام کے دوران وہاں یو پی میں کچھ مجاہدین پکڑے گئے…فوراً میرا نام اخبارات میں
آنے لگا…آس پاس سے بھی اطلاعات ملیں کہ اب ’’یو پی‘‘ منتقل کیا جائے گا… دل پر
پریشانی کا حملہ ہوا تو اسے دبانے کے لئے قرآن مجید لے کر بیٹھ گیا…مرنا ہے تو
مرنے سے پہلے کچھ کام ہی کر لو… الحمدللہ سات دن رات محنت کر کے قرآن مجید کی
آیات جہاد کو جمع کیا… ان کا ترجمہ اور مختصر تشریح لکھی… اور یوں تعلیم الجہاد
کی چوتھی جلد تیار ہو گئی…امن کی حالت ہوتی تو شائد یہ کام مہینوں میں بھی نہ
ہوسکتا…
یہود
کی چالیس بیماریاں بھی اسی طرح کے ایک اور خطرے کے دوران لکھی گئی…جیل سے کچھ
مجاہدین باحفاظت فرار ہو گئے…جن میں کمانڈر خالد شہید رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے… اس کا الزام بھی مجھ پر لگا کہ ماسٹر
مائنڈ اور سہولت کار میں ہوں…دہلی سے سی بی آئی کی خصوصی ٹیم تفتیش کے لئے پہنچ
گئی … پاکستان کی حکومت کا میں نے کچھ نہیں بگاڑا تھا …مگر غیروں کے دباؤ میں
انہوں نے بھی مجھ پر گرفتاری مسلط کی… اور پھر گرفتاری میں بھی مزید گرفتاری کی
کوشش جاری رہی… بہاولپور سینٹرل جیل میں تھا تو وہاں کی انتظامیہ پر خوف مسلط ہو
گیا کہ…میرے رفقاء ان پر حملہ نہ کر دیں…چنانچہ وہ دن رات اسی کوشش میں رہے کہ کسی
طرح دوبارہ گرفتار کر کے …ڈیرہ غازیخان منتقل کر دیں… ان کو بار بار سمجھایا کہ یہ
میرا اپنا ملک ہے…یہاں ہم نے کسی کو کنکر تک نہیں مارا… مگر پھر بھی ان کا خوف کم
نہ ہوا… اللہ تعالیٰ نے آسانی فرمائی تو گھر کو سب جیل قرار دے کر وہاں بند کر
دیا گیا… مجھے گرفتاری کی اس وفاداری پر حیرت ہوئی…کہ جب دور تھی تو افریقہ جیسے
ملکوں میں بھی قریب نہ آئی…جہاں ایک قادیانی مبلغ نے بہت سے غنڈے جمع کر لئے تھے…
اور جب قریب آئی تو اپنے گھر میں بھی مجھے آزاد نہ رہنے دیا… آٹھ ماہ تک یہ
گرفتاری میرے ساتھ میرے گھر پر مقیم رہی … جہاں اپنے بوڑھے والدین کی زیارت بھی
ہفتے میں دو بار نصیب ہو سکتی تھی… حالانکہ پورے پاکستان کے کسی تھانے میں مجھ پر
کوئی ایک مقدمہ نہیں تھا… ملک میں کسی تخریب کاری کا کبھی سوچا تک نہیں تھا… بلکہ
اس ملک پر آنے والے کئی طوفانوں کو اپنے سینے پر روکا… مگر ایک ہی جواب ملتا کہ
کیا کریں… عالمی دباؤ ہے…
اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے
جب
گرفتاری دور تھی تب بھی اللہ تعالیٰ کا شکر… اور جب گرفتاری قریب آئی تب بھی اللہ
تعالیٰ کا شکر… اللہ تعالیٰ نے گرفتاری کے دوران بہت فضل فرمایا… ہر گرفتاری میں
کوئی نہ کوئی قیمتی نعمت عطاء فرمائی…گرفتاری کے دوران خدمت دین کی توفیق بھی بخشی
اور رزق بھی عطاء فرمایا… اور الحمد للہ اپنے سوا کسی کا محتاج نہیں فرمایا…ہم
اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں… وہ ہمارا مالک اور رب ہے… اس کی مرضی ہمیںآزاد رکھے یا
قید رکھے … پرویز مشرف کو شوق تھا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ قیدمیں رکھے…پھر وہ بھی
گرفتار ہوا ، قید ہوا اور اب تک نیم گرفتاری کی زندگی گزار رہا ہے… دین کی خاطر
قید ہونا نعمت اور عبادت ہے… ہر مسلمان کو ذہنی طور پر اس کے لئے تیار رہنا چاہیے
کیونکہ… حضرات انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دین کی خاطر جیلیں اور قیدیں کاٹی ہیں…وہ جو
دین کا کام کر رہے ہیں، جہاد کی محنت کر رہے ہیں اور وہ آزاد ہیں…وہ جیل اور قید
کے ڈر سے اپنا کام نہ روکیں… اگر ان کی قسمت میں جیل اور قید لکھی ہے تو وہ دینی
کام کے بغیر بھی آ جائے گی… آپ کسی بھی جیل جا کر دیکھیں … ہزاروں افراد وہاں
قید ہوں گے…کیا یہ سب جہاد کا کام کر رہے تھے؟… زرداری نے آٹھ سال جیل کاٹی… وہ
دین یا جہاد کا مبلغ تو نہیں تھا… بس قسمت میں جو قید لکھی ہو وہ کاٹنی پڑتی ہے…
یہ قید اگر دین کی نسبت سے مل جائے تو انسان کے لئے بڑی سعادت ہے… قید کی طرح
رہائی کا وقت بھی مقرر ہے…وہ وقت جب آ جائے تو کوئی نہیں روک سکتا…ایک مومن کو
قید اور رہائی کے بارے میں زیادہ سوچنے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ …وہ دنیا میں
کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے؟ … اس سے قبر میں کیا سوالات ہونے ہیں… اور اس نے عالم
برزخ کے قید خانے ’’سجین‘‘ اور آخرت کے قید خانے ’’جہنم‘‘ سے کس طرح بچنا ہے…
یہ
باتیں کیوں یاد آئیں
یہ
ساری باتیں آج اس لئے یاد آئیں کہ … بھارت سے ہمارے بارے میں ایک ہی شور آ رہا
ہے… پکڑو، مارو ، پکڑو، مارو… اور یہاں اپنے ملک کے حکمرانوں کو یہ صدمہ ہے کہ…
شاید ہم نے ان کی یاری میں خلل ڈالا ہے… یہ چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن یہ مودی اور
واجپائی کے یاروں، دوستوں میں اٹھائے جائیں… ہمیں اپنے مرنے یا پکڑے جانے کی الحمد
للہ کوئی فکر نہیں… ہمارے مرنے سے ہمارے دوستوں کو کوئی کمی محسوس ہو گی اور نہ
ہمارے دشمنوں کو… الحمد للہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ تھوڑا سا لکھا ہے اور جو
تھوڑا سا بولا اور بنایا ہے وہ ان شاء اللہ دوستوں کو فائدہ پہنچاتا رہے گا… اور
دشمنوں کے لئے الحمد للہ ایک ایسا لشکر تیار ہے جو موت سے عشق رکھتا ہے…اور اس
لشکر کی جڑوں تک پہنچنا کسی دشمن کے بس میں نہیں ہے… ان شاء اللہ یہ لشکر دشمنوں
کو زیادہ دن خوشی نہیں منانے دے گا… اور کمی تو بالکل محسوس نہیں ہونے دے گا…
الحمد للہ دنیا کے بارے میں کوئی تمنا نہیں کہ…مرنے پر اس کی حسرت رہ جائے…
باقی
رہے گھر والے اور بچے… تو ان کو آج بھی اللہ تعالیٰ پال رہے ہیں…اور کل بھی اللہ
تعالیٰ ہی پالنے والے ’’رب العالمین ‘‘ ہیں… ہم نے پاکستان کے لئے ہمیشہ امن اور
خیر خواہی کی سوچ رکھی ہے…اپنی جان اور چمڑی بچانے کے لئے نہیں… بلکہ اُمتِ مسلمہ
اور جہاد کے مفاد میں …افسوس کہ یہاں کے حکمرانوں نے اس کی قدر نہیں کی… یہ غیروں
کے اشاروں پر چلتے رہے …اور اپنے ہی ملک کو… آگ اور بارود کے ڈھیر میں تبدیل کرتے
گئے… ان میں سے ہر ایک آتا ہے ملک میں آگ لگاتا ہے…اور پھر باہر بھاگ جاتا ہے…
ہم نے بہت پہلے ’’کالی آندھی‘‘ کے نام سے ایک مفصل مضمون لکھ کر …حکومت اور عوام
دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی… مگر سمجھتا تو وہ ہے جو اپنے فیصلے خود کرتا ہو…
مودی کو کیا ہمت تھی کہ وہ ان کو بہتّر گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دیتا … کوئی غیرتمند
انسان کس طرح سے یہ لہجہ برداشت کر سکتا ہے… حکمران جس راستے پر جا رہے ہیں وہ…اس
ملک کے لئے سخت خطرناک ہے…ترقی تو دور کی بات ہے… مساجد، مدارس اور شرعی جہاد کے
خلاف ان کے اقدامات…ملک کی سا لمیت کے لئے بھی خطرہ ہیں… الحمد للہ اسلام کا ماضی
بھی تابناک ہے اور مستقبل بھی روشن… مؤمن کی دنیا بھی کامیاب ہے…اور قبر اور آخرت
بھی… موجودہ شور شرابے سے اہل دل ہرگز خوفزدہ نہ ہوں…بلکہ اپنی فرض اور مثبت محنت
کو اور زیادہ بڑھا دیں …ایمان پر رہیں… ایمان پر جئیں اور ایمان پر مریں…رب کعبہ
کی قسم! کامیابی آپ کے لئے ہے…میں نہیں کہہ رہا … بلکہ آسمان و زمین کا مالک
اللہ تعالیٰ اعلان فرما رہا ہے…
﴿ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 528
یٰسٓ،یٰسٓ
سورۂ
یٰس اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت…
سورۃ
یٰس سکینت سے بھر پور ایک خزینہ…
حروفِ
مقطعات علم، قوت، تاثیر اور رازوں کے خزانے…
پٹھان
کوٹ حملے کے بعد پیش آمدہ حالات… اور ایک تجزیہ…
یہ
حالات اور مصائب آخر کیوں آئے؟…
جہاد
میں مشکل حالات آنا فطری بات… کیونکہ…
جہاد…
اوّل تا آخر نام ہی قربانی کا ہے…
لیکن
ان کے اسباب مختلف ہوا کرتے ہیں…
ان
سب حقائق سے پردہ اٹھاتی ایک تحریر…
۱۰ ربیع الثانی۱۴۳۷ھ؍
20 جنوری 2016ء
یٰسٓ،یٰسٓ
اللہ
تعالیٰ نے ’’سورۂ یٰس‘‘ کی نعمت عطاء فرمائی ہے … جن کو یہ نعمت نصیب ہے وہ اللہ
تعالیٰ کا شکر ادا کریں…
اَلْحَمْدُ
لِلہِ، اَلْحَمْدُ لِلہِ، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
اگرسائنسدانوں
نے کوئی ایسی مشین ایجاد کی ہوتی… جو دل کے ’’سکون‘‘ کو ناپ سکتی… پھر وہ دیکھتے
کہ ایک مسلمان کو اخلاص کے ساتھ سورہ یٰسٓ شریف پڑھنے پر کیسا سکون ملتا ہے… کوئی
اُبامہ، کوئی مودی…کوئی بل گیٹس کوئی یہودی اس ’’سکون‘‘ کا تصور بھی نہیں کر سکتے…
اور نہ اپنی ساری طاقت اور دولت خرچ کر کے یہ ’’سکون‘‘ حاصل کر سکتے ہیں… کاش!
مسلمان ایسی نعمتوں کی قدر کریں… اور ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں…
کچھ
عرصہ پہلے دل پر وار ہوا …بس وہ ڈوبنے کو ہی تھا …جب خبر ملی کہ حضرت امیر
المومنینؒ چلے گئے … اس وقت…’’یا اللہ، یا اللہ ‘‘ کے ذکر…اور اس دعاء نے تھام
لیا…
رَضِیْتُ
بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا
ذکر
بڑھتا گیا اور یہ دعاء رنگ دکھاتی گئی تو الحمد للہ…دل بچ گیا…
یہ
ذکر اور یہ دعاء بھی تو صرف مسلمانوں کے پاس ہی ہے…اور تو سب اس طرح کی حقیقی
نعمتوں سے محروم ہیں… سائنس کبھی ایسا آلہ ایجاد نہیں کر سکتی جو موت کی سکرات کو
آسان کر دے … آج کی سائنس انسان کو کمزور کر رہی ہے ،ذلیل کر رہی ہے اور مشقت
میں دھکیل رہی ہے…یہ تاثیر سورۂ یٰسٓ میں ہے کہ وہ موت کی سکرات کو آسان بناتی
ہے… اب جبکہ ’’پٹھان کوٹ ‘‘ کے واقعہ کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو اس موقع
پر سورہ یٰس شریف نے اپنا کمال دکھایا… بس روز پانچ ، سات بار پڑھ لی اور دل سے ہر
کافر اور ہر منافق کا خوف نکل گیا… کسی زمانے ایک مسجد میں جانا ہوتا تھا وہاں ایک
دیوانہ تھا…اسے مجھ سے اور مجھے اس سے خاص ’’انس‘‘ ہو گیا تھا … عقلمند لوگ
عقلمندوں سے ’’انس ‘‘ رکھتے ہیں…اور دیوانے دیوانوںسے…وہ عجیب و غریب نماز پڑھتا
تھا…قیام میں کھڑا ہوتا اور پھر فوراً سجدے میں گر جاتا اور پھر سجدے ہی سجدے،
سجدے ہی سجدے… معلوم نہیں ایک رکعت میں کتنے سجدے کر لیتا تھا…مرفوع القلم تھا…
ایسے لوگوں پر تو نماز فرض ہی نہیں…مگر وہ پابندی سے ادا کرتا تھا … اللہ تعالیٰ
اسے اپنے اکرام کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائے… ایک دن مسجد میں ہم دونوں اکیلے تھے
…میں اپنے معمولات پورے کر رہا تھا اور وہ اپنے سجدے … اچانک اس پرکوئی حال طاری
ہوا اور وہ بار بار پڑھنے لگا…
یٰسٓ،یٰسٓ
،یٰسٓ ،یٰسٓ
بعض
لوگوں کی آواز بھی عجیب ہوتی ہے … فوراً اپنی طرف ساری توجہ کھینچ لیتی ہے…
کتابوں
میں لکھا ہے کہ… ملائکہ یعنی فرشتوں میں سے حضرت اسرافیل علیہ السلام کی آواز بہت دلکش اور پیاری ہے…وہ جب بلند
آواز میں خوش الحانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہوتے ہیں تو باقی
فرشتے… اپنے اَذکار چھوڑ کر ان کی تسبیح سننے لگتے ہیں… میرے دیوانے دوست کی آواز
بلند، پاٹ دار تھی… میں اپنے معمولات بھول کر اس کی تلاوت سننے لگ گیا … انتظار
تھا کہ وہ کچھ آگے بھی پڑھے مگر وہ ایک ہی کلمہ پڑھ رہا تھا…
یٰسٓ،
یٰسٓ،یٰسٓ
اس
کی یہ آواز میرے دل و دماغ میں اُتر گئی … اب جب بھی سورہ یٰسٓ کی تلاوت شروع
کرتا ہوں تو ’’یٰسٓ‘‘ کا لفظ پڑھتے ہی دل چاہتا ہے کہ بس اسی کو پڑھتا رہوں…
یٰسٓ،
یٰسٓ ،یٰسٓ
عجیب
مٹھاس ہے اور عجیب تاثیر … یہ جو سورتوں کے شروع میں حروف مُقَطَّعَات ہیں… الٓمٓ
، حمٓ ، یٰسٓ وغیرہ… یہ علم، قوت ، تاثیر اور راز کے خزانے ہیں… اللہ تعالیٰ مجھے
اور آپ سب کو اپنے فضل سے جنت میں لے جائے تو وہاں معلوم ہو گا کہ ان مبارک الفاظ
میں… کیا کیا خزانے رکھے ہیں… الحمد للہ یہ مبارک ’’الفاظ‘‘ بھی صرف مسلمانوں کے
پاس ہیں…وہ اگرچہ نہیں جانتے کہ ان ’’الفاظ ‘‘ میں کیا کیا چھپا ہے مگر وہ اِن
الفاظ کی تلاوت اور تکرار سے وہ تمام خزانے پالیتے ہیں… بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ
بڑے مسلمان فاتحین جنگوں کے وقت ان حروف کو پڑھا کرتے تھے اور ان کی برکت سے قوت
اور فتح پاتے تھے… حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں بھی ظالم حکمرانوں سے حفاظت کے
لئے …حروف مُقَطَّعَات کا عمل مجرب تھا… کھیعٓصٓ، کُفِیْتُ، حمٓعٓسٓقٓ حُمِیْتُ…
اس عمل کی تفصیل آپ مناجات صابری میں دیکھ سکتے ہیں…سورہ یٰسٓ کا آغاز ’’یٰسٓ ‘‘
کے وجد آفریں اور طاقتور کلمے سے ہوتا ہے…کئی مفسرین اس کے مختلف معانی بھی بیان
کرتے ہیں… آج اس تفصیل میں جانے کا موقع نہیں…ابھی تو میرے ذمہ آپ سب کا قرضہ
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
کی تفسیر بھی ہے… پٹھان کوٹ کے واقعہ نے ایسا ہنگامہ برپا کیا ہے کہ … کسی کو پتا
نہیں چل رہا کہ وہ کیا کرے اور کیا کہے… ایک طرف انڈیا ہے وہ زخمی کتے کی طرح کوک
رہا ہے… اور زخمی سانپ کی طرح پھنکار رہا ہے… انڈیا میں چونکہ ’’فلموں ‘‘ کا راج
ہے… اس لئے وہاں کے حکمران ، وہاں کے صحافی اور وہاں کے سیاستدان … سبھی ’’ایکٹر‘‘
بننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں… حالانکہ جنگ الگ چیز ہے اور فنکاری الگ چیز… فلموں
کے وہ ہیرو جو فلموں میں کئی کئی لوگوں سے بیک وقت لڑتے ہیں…وہ عام زندگی میںچوہے
کو دیکھ کر بھی بیت الخلاء میں بھاگ جاتے ہیں… جنگ میں تو یہ ہوا کہ چار مجاہدین
کا مقابلہ ہزاروں فوجیوں نے مشکل سے کیا… کئی مارے گئے کئی زندگی بھر کے لئے معذور
ہوئے اور کئی زخمی… جبکہ میڈیا پر انڈین شیر دھمکیاں دینے سے نہیں تھک رہے… ادھر
ہمارے حکمرانوں نے انڈیا کے درد کو اپنا درد بنا کر ظالمانہ حرکتیں شروع کر دی
ہیں… اور ہمارا میڈیا بھی اس موقع پر نہایت اَفسوسناک کردار ادا کر رہا ہے…جہاد
اور مجاہدین پر ایسے حالات آتے رہتے ہیں …یہ حالات جہاد کے لوازمات میں سے ہیں…جو
مسلمان بھی جہاد فی سبیل اللہ کے مبارک عمل کو اختیار کرتا ہے… وہ جانتا ہے کہ اس عمل
میں شہادت بھی مل سکتی ہے اور زخم بھی… گرفتاری بھی ہو سکتی ہے اور معذوری بھی…
پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں اور بدنامیاں بھی… اسے معلوم ہوتا ہے کہ ’’بدر ‘‘ والے
حالات بھی آ سکتے ہیں اور ’’اُحد ‘‘والے بھی… غزوۂ احزاب والی صورت بھی بن سکتی
ہے اور غزوۂ حدیبیہ والی بھی… تبوک بھی آ سکتا ہے اور موتہ بھی… جہاد کا تو مقصد
ہی یہی ہوتا ہے کہ… قربانی دو تاکہ اللہ تعالیٰ کا دین اور کلمہ بلند ہو…جان اور
مال دو اور جنت لو… جہاد دنیا میں عیاشی اور ظاہری پُر امن زندگی کا نام تو ہے
نہیں… یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری کمزوریوں پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں طرح
طرح کی آسانیاں عطاء فرمائی ہیں…ورنہ جہاد میں تو بس قربانی ہوتی ہے اور مشقت…
کٹنا ہوتا ہے اور مرنا…ہجرت ہوتی ہے اور زخم … اس لئے موجودہ حالات ہمارے لئے
حیرانی یا صدمے کا باعث نہیں ہیں… بس ضرورت صرف ایک بات کی ہے… وہ یہ کہ دیکھا
جائے کہ سخت حالات ہمارے جہاد کی وجہ سے آئے ہیں…یا ہمارے کسی گناہ یا نافرمانی
کی وجہ سے غزوۂ احد میں مسلمانوں پر جو سخت صدمات اور تکلیفیں آئیں… ان کی وجہ
بعض افراد کی ’’نافرمانی ‘‘ تھی… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی ہوئی… اور پھر میدان الٹ
گیا… صرف ایک نافرمانی نے فتح کی خوشی کو کراہتے زخموں میں… بڑھتے ہوئے طوفانی
لشکر کو لاشوں میں… اور للکارتے جذبات کو غموں میں بدل دیا… پھر تو مسلمانوں کی
ایسی حالت ہوئی کہ ہر کتا ان پر بھونک رہا تھا… اور ہر گیدڑ ان پر دھاڑ رہا تھا…
شیطان کو بھی موقع ملا اور اس نے مسلمانوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا…اور منافقین
بھی ڈیڑھ گز کی زبانیں چلانے لگے… جہاد کے معاملات میں امیر کی نافرمانی سے یہی
ہوتا ہے… اور یہی ہوتا رہے گا …مامورین کی فرمانبرداری سے امیر کو کچھ نہیں
ملتا…خود مامورین کا سر بھی سلامت رہتا ہے اور تاج بھی… لیکن جب امیر کے حکم کو
پاؤں کی جوتی بنا دیا جائے تو…پھر مامورین خود بے وزن ہو جاتے ہیں…صرف فخر ہوتا
ہے کہ ہم کسی کی نہیں مانتے، اندر طاقت ختم ہو جاتی ہے… ابھری ہوئی جھاگ کی طرح…
اڑتے ہوئے غبار کی طرح … جماعت کے رفقاء کو بار بار روکا گیا کہ… تصویر بازی اور
ویڈیو بازی سے دور رہیں… خصوصاً عسکری شعبوں میں یہ زہر قاتل ہے… ذمہ دار افراد
دوسرے ذمہ داروں کی غیبت نہ کریں …کل وقتی وقف ساتھی خود کو دنیاوی کاروباروں میں
نہ لگائیں اور اسی طرح کے دیگر جماعتی احکامات … ان سب باتوں پر کون کتنا عمل کر رہا
ہے … اور کون نہیں… اور عمل نہ کرنے کی وجہ سے کیا کیا نقصانات سامنے آ رہے
ہیں…ان سب پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے… اور وہ جن سے غلطیاں ہو چکیں…استغفار اور
سچی توبہ کا دروازہ کھلا ہے اس میں داخل ہو کر اپنے جہاد کو عند اللہ مقبول بنا
سکتے ہیں…
جہاد
شریعت کا حکم ہے…اور شریعت کا حکم شریعت کے طریقے سے ہی ادا ہو تو مقبول ہوتا ہے…
اس وقت کچھ مناظر احد والے ہیں اور کچھ مناظر احزاب والے… ان حالات اور مناظر میں
مایوسی اور پسپائی جرم ہے… ایمان پر مضبوطی … جہاد پر ثابت قدمی …کثرتِ استغفار
اور سچی توبہ … یہ چار ڈھالیں ہیں…ان کو تھام کر اس چومکھی حملے کو روکا جا سکتا
ہے…اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے فتح حاصل کی جا سکتی ہے… ان شاء اللہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 529
اَلَمْ تَرَ
’’ذکر‘‘ کسے کہتے ہیں؟…
’’ذکر‘‘ کا کیا مطلب ہے اور کیا حقیقت؟…
افضل
الذکر… ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہے…
انسان
اللہ تعالیٰ کی سب سے افضل اور اشرف مخلوق…
انسان
کی ایک طاقتور صلاحیت… ’’انکار‘‘…
یہ
طاقت اور صلاحیت جتنی مضبوط، انسان اتنا ہی طاقتور اور مضبوط…
’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ انسان کی اسی ’’قوتِ انکار‘‘ کا عروج…
’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ تک پہنچنے کا راستہ’’محمد رسول اللہ‘‘…
کلمہ
طیبہ کے فضائل، معارف اور طاقت سمجھاتی ایک والہانہ تحریر
۱۷ ربیع الثانی۱۴۳۷ھ؍
27 جنوری 2016ء
اَلَمْ تَرَ
اللہ
تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں…لا الٰہ الا اللہ…یہ ہو گیا سب سے افضل ذکر…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
’’ذکر اللہ ‘‘کہتے ہیں …اللہ تعالیٰ کی یاد کو…اللہ تعالیٰ کی یاد
کا سب سے بہترین اور افضل طریقہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہے…یہ سوچ کر پڑھیں تو دل
نور سے بھر جاتا ہے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
یاد
کسے کہتے ہیں ؟ یاد کہتے ہیں ’’دل جوڑنے‘‘ کو… ہمارے دل پر جب کوئی چھا جائے …دل
پر جب کوئی ٹک جائے …دل پر جب کوئی رُک جائے تو کہتے ہیں کہ فلاں مجھے بہت یاد آ
رہا ہے… اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی سچی یاد چاہیے تو زبان کے ساتھ دل بھی پڑھے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
ذکر
یعنی ’’یاد‘‘ ایک خفیہ چیز ہے… ایک آدمی آپ کے سامنے بیٹھا ہے وہ آپ کو دیکھ
رہا ہے، آپ سے بول رہا ہے…مگر اس کے دل پر کوئی اور سوار ہے…آپ دوربین لگا کر
بھی نہیں دیکھ سکتے کہ وہ کس سے دل کوجوڑے بیٹھا ہے…اسی لئے تو ’’ذکر‘‘ سب سے افضل
عبادت ہے کیونکہ اس میں رازداری ہے…یہ خفیہ تعلق ہے…یہ اندر کی دوستی اور یاری ہے…
اس میں دکھاوا ہو ہی نہیں سکتا… یہ بڑا گہرا عمل ہے…کبھی دل و دماغ کو سب سے کاٹ
کر ایک اللہ تعالیٰ سے جوڑ کر تو دیکھیں پھر تو کوئی اور نظر ہی نہیں آئے گا…صرف
اللہ، صرف اللہ، صرف اللہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
آپ
جس کو پوری توجہ سے یاد کریں گے … اس کا اثر آپ پر آ جائے گا…تجربہ کر کے دیکھ
لیں…اچھے لذیذ کھانوں کی یاد سے بھوک چمکتی ہے… منہ میں پانی آتا ہے…حرص بڑھ جاتی
ہے… کوئی گندی غلیظ اور بدبودار چیز کو یاد کریں تو دل متلانے لگتا ہے…کبھی الٹی
آنے لگتی ہے اور طبیعت پر گھن چھا جاتی ہے… شہوت والی چیزوں کو یاد کریں تو طبیعت
اُکھڑنے لگتی ہے…گیتوں، نغموں اور گانوں کو یاد کریں تو طبیعت بہکنے لگتی ہے…
’’یاد ‘‘ کا مطلب یاد رہے کہ… دل کی مکمل توجہ…دل پر مکمل چھا
جانا…
اب
اندازہ لگائیں کہ…اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے انسان پر کیسے اثرات پڑتے ہوں گے؟
نہ
ان جیسا کوئی حسین …نہ ان جیسا کوئی عظیم، نہ ان جیسا کوئی سخی، نہ ان جیسا کوئی
محسن … نہ ان جیسا کوئی محبوب… اسی لئے تو ’’ذکر اللہ‘‘ کرنے والے بھی حسن میں
رچائے جاتے ہیں، عظمتوں میں بسائے جاتے ہیں…سخاوتوں میں نہلائے جاتے ہیں، احسان
میں چمکائے جاتے ہیں …اور محبتوں میں مہکائے جاتے ہیں…یہ ان کا اپنا کمال نہیں
ہوتا… یہ ذکر اللہ جو ان کے دل میں اُترتا ہے…وہ یہ سارے رنگ جما دیتا ہے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
انسان
کوئی معمولی چیز نہیں ہے… یہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات میں سب سے افضل اور
سب سے اشرف ہے… اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کتنی ہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا…اور نہ کوئی
جان سکتا ہے …اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوقات جو نظر آ رہی ہیں… اور وہ مخلوقات جو ہم
سے پوشیدہ ہیں… ان سب میں بڑے رتبے والا… ’’انسان ‘‘ ہے… ساری دنیا مل کر بھی ایک
’’انسان‘‘ نہیںبنا سکتی… سائنسدان بہت زور لگا رہے ہیں… طرح طرح کے روبوٹ بنا رہے
ہیں… جو کچھ نہیں بنا سکتے ان پر فلمیں بنا کر دل کو تسلی دے رہے ہیں… مگر یہ ایک
عام سا انسان نہیں بنا سکتے… انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خفیہ اور بہت سی
ظاہری طاقتیں عطا فرمائی ہیں … انسان کی ایک بڑی طاقت … ’’انکار‘‘ کی طاقت ہے…
میں
نہیں مانتا، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا … انسان جس چیز کی دل سے نفی کر دے وہ
چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی… کوئی انسان شیر کے سامنے کھڑے ہو کر اگر شیر کی
نفی کر دے…یعنی دل میں اس کا خوف نہ آنے دے تو شیر بھی اس کے پاؤں چاٹنے لگتا
ہے… ایسا تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے… جو لوگ سانپ کا خوف دل سے نکال دیتے ہیں…سانپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… کتنے
لوگ ستاروں سے ڈرتے ہیں… کوئی سورج سے ڈرتا ہے اور کوئی چاند سے… یہ ہر وقت طرح
طرح کے حساب اور زائچے بنا کر خوف سے کانپتے رہتے ہیں… مگر جو ان چیزوں سے نہیں
ڈرتے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا… انسان کی یہ ’’قوتِ انکار‘‘ جس قدر بڑھتی جاتی ہے
وہ اُسی قدر طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے… ذکر اللہ… اللہ تعالیٰ کو سب کچھ مان کر اس
کی یاد میں ڈوب جانا… یہ انسان کی قوت اور طاقت کا اصل راز ہے …
حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھ لیں… دریاؤں اور سمندروں میں گھوڑے
ڈال دئیے… ہواؤں کے رخ پھیر دئیے… آگ کو متّبع بنا ڈالا… ان کی طاقت کیا تھی؟…
یہی انکار کی طاقت… اور اس طاقت کو پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
’’لا الٰہ‘‘ہم نہیں مانتے کسی بھی معبود کو…کسی بھی طاقت کو ’’الا
اللہ‘‘ سوائے ایک اللہ کے … ’’غار حرا‘‘ سے یہ کلمہ اترا تو بالکل ’’اکیلا ‘‘تھا…
ہر طرف اس کلمے کے دشمن تھے…اگر حکم یہ ہوتا کہ آپ یہ کلمہ پڑھتے رہیں تو مشکل
کام نہ تھا…روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ سے یہی کلمہ پڑھ رہی تھی… مگر حکم تھا
اب اس کلمہ کا ’’اعلان ‘‘ کرنا ہے…اور یہ کلمہ مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلانا ہے،
چلانا ہے … یہ بہت بھاری ذمہ داری تھی… اگر کسی اور پر ڈالی جاتی تو وہ سنتے ہی
بوجھ سے مر جاتا… اور اس کا سینہ پھٹ جاتا مگر یہ سینہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا… پسینے میں تو ڈوب گیا مگر مرجھایا نہیں…
مشرکین کے لئے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ایک ایسی گالی تھی جسے وہ ہرگز برداشت نہ کر
سکتے تھے… ان کے نزدیک ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا موت سے کم
کوئی نہ تھی… مگر مشرک کیا کرتے؟ … جو شخص کلمہ پڑھ رہا تھا… کلمہ اس کے دل میں
اُترا ہوا تھا… اور جس دل میں کلمہ اُترا ہوا ہو… اس دل کو شکست نہیں دی جا سکتی…
اللہ تعالیٰ کے حکم سے ’’کلمہ‘‘ کا اعلان شروع ہوا…ہر طرف اندھیرا تھا… مگر کلمہ
ہر اندھیرے کی نفی کرتا ہے… جب نفی ہوئی تو اندھیرے بھاگ گئے…ہر طرف مایوسی تھی…
مگر کلمہ ہر مایوسی کی نفی کرتا ہے… جب نفی ہوئی تو مایوسی بھاگ گئی…شیطان کی
حکومت کا زمانہ ختم ہو رہا تھا… ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ میدان میں اُتر آیا تھا…اور
اب وہ ہمیشہ کے لئے مکمل ہو چکا تھا… اس کے ساتھ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کو لازمی طور
پر جوڑ دیا گیا تھا… تاکہ اگر کوئی پوچھے کہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ تک ہم کیسے
پہنچیں گے تو فرمایا گیا ’’ محمد رسول اللہ ‘‘ کے ذریعے… اللہ تعالیٰ کو پانے کا
بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ اور ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو
پانے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے’’ محمد رسول اللہ‘‘…
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ… لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰہِ… لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
یہ
مبارک کلمہ …خود ایک طاقت ہے…اسی لئے ’’ابو جہل ‘‘ کی شرکیہ حکومت اس کو نہ روک
سکی… کلمہ بڑھتا گیا…کچھ عرصہ صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ یہ اپنا راستہ بناتا گیا…
اور پھر جب ’’کلمہ والے ‘‘ گھروں کو چھوڑ کر وفا کے امتحان میں کامیاب ہو گئے تو…
کلمہ طیبہ… جہاد فی سبیل اللہ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
اُمِرْتُ
اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مجھے
حکم دیا گیا ہے کہ… لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو
قبول کر لیں…اب کلمہ تھا اور جہاد… سبحان اللہ! زمین کا رنگ بدلنے لگا… کلمہ چار
سو گونجنے لگا… بدر، اُحد سے لے کر تبوک اور موتہ تک… اب کلمہ مکہ مکرمہ میں
فاتحانہ داخل ہوا… اور آج تک وہ وہاں فاتح ہے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ… لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰہِ… لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
مسلمان
جس قدر اس کلمہ کے قریب آتا ہے …اسی قدر بلندی پاتا ہے… عزت و مرتبہ پاتا ہے… فتح
و سعادت پاتا ہے… اور جس قدر اس کلمہ سے دور ہوتا ہے اسی قدر ذلتوںمیں گرتا ہے …
قرآن مجید نے ہمیں کلمہ طیبہ کے ذریعے قوتِ انکار سکھائی… فرعون کا تذکرہ کیوں
فرمایا؟… قارون کا انجام کس لئے بیان فرمایا؟ … مشرکین مکہ کا نقشہ کس لئے
کھینچا؟… اسی لئے تاکہ ہم ہر فرعون کا انکار کریں…فرعون کوئی بھی نام رکھ کر آ
جائے… وہ کوئی بھی کھال اوڑھ کر آ جائے… ظلم کے جو بھی تیشے اُٹھا کر آ جائے…
فرعون روئے زمین کی ایک کفریہ ایٹمی طاقت کا نام تھا… قرآن مجید میں جھانک کر
دیکھ لیجئے… مگر ہمیں یہ نہیں سکھایا گیا کہ ہم فرعون کو مان لیا کریں… فرعون کے
اتحادی بن جایا کریں… فرعون کی بندگی کیا کریں … قارون روئے زمین کی کفریہ اقتصادی
اور معاشی طاقت کا نام تھا… حکم دیا گیا کہ نہ اس جیسا بنو اور نہ اسے کامیاب
سمجھو… ہر قارون اپنی دولت سمیت اسی طرح تاریخ کے غار میں دفن ہو گیا … جس طرح
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا قارون ہوا…
’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ والے کل بھی کامیاب رہے … اور ہمیشہ کامیاب
رہیں گے…
’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘
کلمہ
سکھانے اور سمجھانے کے لئے قرآن مجید نازل ہوا… انسان کی آنکھیں کمزور ہیں…
ظاہری مناظر دیکھ کر وہ دھوکے میں پڑ جاتا ہے… تب قرآن پاک آتا ہے اور آنکھوں
سے دھوکے کی پٹی نوچ کر پھینک دیتا ہے…مکہ کے طاقتور مشرک سازش کر رہے تھے کہ…حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کو ختم کر دیں… چالیس، پچاس
افراد ہیں … عربوں کے اصول کے مطابق زیادہ سے زیادہ خون بہا یعنی دیت ہی دینی پڑے
گی… یہ مشورے روز ہوتے… روز تلواریں اور دانت تیز کئے جاتے… روز خوفزدہ کرنے والی
خبریں اُڑائی جاتیں… روز راستوں میں رکاوٹیں اور کانٹے بچھائے جاتے… ظاہری آنکھیں
یہ دیکھ رہیں تھی کہ … اسلام اور مسلمان دونوں کا بچنا بالکل بالکل ناممکن ہے… بس
پانچ دس منٹ کی تلوار بازی ہو گی اور پھر کلمہ پڑھنے والا ایک بھی نہ بچے گا… ہر
تجزیہ نگار یہی تجزیہ پیش کر رہا تھا اور کچھ لوگ مسلمانوں کو ڈرانے میں مشغول تھے
کہ… اسلام چھوڑو تو جان بچے گی ورنہ مارے جاؤ گے…تب آسمان سے وحی کڑکی…
اَلَم
تَرَ…اَلَم تَرَ…اَلَم تَرَ…
کیا
تم نے نہیں دیکھا…کیا تم نے نہیں دیکھا …کیا تم نے نہیں دیکھا…
سبحان
اللہ! عجیب الفاظ ہیں… آنکھوں کی چربی پگھلانے والے…آنکھوں کا دھوکہ دھونے والے…
آنکھوں کا رخ حقیقت کی طرف پھیرنے والے… ارے تم! ابھی ابو جہل کی طاقت دیکھ رہے
ہو… تم صرف مکہ والوں کی عسکری قوت ناپ رہے ہو…تم ابھی قریش کے جنگی جنون کو دیکھ
رہے ہو…تم ابھی مسلمانوں کی قلت اور کمزوری دیکھ رہے ہو…چھوڑو ان سب چیزوں کو …
آؤ
دیکھو! آؤ دیکھو! آؤ دیکھو…
﴿كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ﴾
تمہارے
رب نے ہاتھی والے لشکر کے ساتھ کیا کیا تھا…
سبحان
اللہ! آنکھوں کا رخ زمین سے آسمان کی طرف ہو گیا… دھوکے سے حقیقت کی طرف ہو
گیا…اندھیرے سے روشنی کی طرف ہو گیا… مایوسی سے امید کی طرف ہو گیا… اب ہاتھی نہیں
بلکہ ابابیل طاقتور نظر آ رہے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر طاقت کی نفی دل میں
اُتر رہی ہے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
آج
کچھ اور لکھنے کا ارادہ تھا…محبوب مالک کا شکر کہ ’’افضل الذکر‘‘ کی شان لکھنے میں
لگا دیا … اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ کلمہ نصیب فرمائے…اور اسی پر موت دے اور آپ سب
کو بھی یہ کلمہ ہمیشہ کے لئے نصیب فرما دے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور530
محبت کا زمانہ آگیا ہے
فتح
کسے کہتے ہیں؟…
فتح
و نصرت کا الٰہی معیار کیا ہے؟…
سب
کچھ پا لینا فتح… یا سب کچھ وار دینا فتح؟…
ظاہری
نتائج اور حکومت و غلبہ فتح… یا…
رضائے
الٰہی پر ان سب کو قربان کر دینا فتح؟…
سورۃ
الفتح کن حالات میں نازل ہوئی؟…
سورۃ
الفتح نے ’’ فتحِ مبین‘‘ کس چیز کو قرار دیا؟…
حکومت
پاکستان نے انڈیا کو خوش کرنے لئے مجاہدین کرام
کو
تنگ کرنا شروع کیا… مجاہدین پر الزامات اور طعنے برسنے لگے…
گرفتاریوں
اور چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا… تو ایک ’’مردِ قلندر‘‘ صلح حدیبیہ
اور
سورۃ الفتح کے زمزمے چھیڑ بیٹھے… تاکہ زخمی دلوں کو قرار ملے…
اور
عزائم کو بلندی…
آپ
بھی ملاحظہ فرمائیے… یہ ایمان افروز تحریر
۲۴ ربیع الثانی۱۴۳۷ھ؍
03 فروری 2016ء
محبت کا زمانہ آگیا ہے
اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں ’’شفاء ‘‘ رکھی ہے… مگر کس کے لئے؟ فرمایا: ایمان والوں
کے لئے…قرآن مجید شفاء بھی ہے اور رحمت بھی…
آج
روزانہ کی تلاوت کے دوران سورۂ ’’الفتح ‘‘ آ گئی… سبحان اللہ! پوری سورۃ بشارتوں
سے بھری ہوئی ہے…اچانک خیال آیا کہ یہ سورۃ کس ماحول میں نازل ہوئی تھی؟… کیا
غزوۂ بدر کے وقت؟ جب مسلمان ایک واضح فتح سے سرشار تھے…مشرکین مکہ کے ستّر نامور
سردار…مردار ہوئے پڑے تھے… اور ستّر افراد مسلمانوں کی قید میں تھے… نہیں اس موقع
پر یہ سورۂ فتح نازل نہیں ہوئی… تو کیا یہ فتح مکہ کے شاندار موقع پر نازل ہوئی؟…
جب مسلمانوں کا عظیم لشکر مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہو رہا تھا اور مشرکین کو
لڑنے کی تاب تک نہ تھی… جواب یہ ہے کہ فتح مکہ کے پُر مسرت موقع پر بھی یہ سورۃ
نازل نہیں ہوئی…پھر یہ کونسی فتح کا موقع تھا؟… فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو بڑی
واضح فتح دی ہے…اور آپ کو مغفرت کاملہ کا وہ مقام دے دیا ہے جو آپ سے پہلے کسی
کو نہیں ملا… اور نہ آپ کے بعد کسی کو ملے گا…اور آپ کے رفقاء کے لئے بھی بڑے
بڑے انعامات کا اعلان ہے…اللہ تعالیٰ کی رضا ، نصرت ، فتوحات کے وعدے، مغفرت کے
وعدے… اور فوز عظیم یعنی بڑی کامیابی…
تلاوت
کے دوران ہی میرے دل و دماغ پر وہ ماحول چھانے لگا…جس ماحول میں یہ سورۃ مبارکہ
نازل ہوئی تھی… ایک تھکا ماندہ خاموش لشکر جو واپس جا رہا تھا… ٹوٹے دل، زخمی
کلیجے اور غموں کے بادل…عمرہ کرنے نکلے تھے وہ ہو نہ سکا… قربانی کے جانور ساتھ لے
کر گئے تھے وہ راستے میں ذبح کرنے پڑے… آنکھیں کعبہ شریف کے دیدار کو لپکتی تھیں
مگر دیدار ہو نہ پایا…قدم طواف کو مچلتے تھے ان کی امنگ پوری نہ ہوئی… منافقین کو
بتا کر نکلے تھے کہ عمرہ کر کے ہی آئیں گے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب مبارک سچا ہے…مگر اب منافقین کی تیز
نگاہوں اور گندی زبانوں کا سامنا کیسے کریں گے؟… وہاں حدیبیہ کے قیام کے دوران کچھ
مسلمان قیدی بھاگ کر آ گئے تھے…مگر معاہدہ کی وجہ سے ان کو بھی اپنے ساتھ نہ لا
سکے … وہ روتے، آہیں بھرتے واپس بھیج دئیے گئے… اندازہ لگائیں اس ماحول میں یہ
لشکر واپس آ رہا تھا کہ عرش سے آواز آئی…
﴿اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا﴾
مبارک
ہو…فتح مبارک ہو…معمولی فتح نہیں، فتوحات کی چابی مبارک ہو… مغفرت مبارک ہو
…معمولی مغفرت نہیں… مغفرت کاملہ مبارک ہو… نصرت مبارک ہو…معمولی نصرت نہیں غلبے
سے بھرپور نصرت مبارک ہو… صرف آپ کو نہیں آپ کے تمام رفقاء کو…بڑی کامیابی مبارک
ہو…اور جنہوں نے موت کی بیعت کی تھی ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا مبارک ہو… ان کو
اللہ تعالیٰ کا ہاتھ مبارک ہو… اس پورے لشکر کو بار بار ’’سکینہ ‘‘ مبارک ہو…
اللہ
تعالیٰ کے پاس بے شمار لشکر ہیں…اسے نہ کسی کے ایمان کی ضرورت ، نہ کسی کے جہاد کی
حاجت… وہ چاہے تو سارے کافروں کو ایک لمحے میں خود مٹا دے…
اس
لئے فتح وہ نہیں ہوتی جسے تم فتح سمجھو… فتح وہ ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ فتح قرار
دے… کامیابی وہ نہیں جسے تم کامیابی سمجھو، کامیابی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کامیابی
قرار دے…اس سفر میں تم اپنے ایمان پر قائم رہے…تم اپنے جہاد پر ڈٹے رہےاور تم حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر
قائم رہے… بس یہ ہے فتح…بلکہ فتوحات کی چابی… اور یہ ہے کامیابی بلکہ بڑی کامیابی…
تمہیں چلنے کے لئے کہا گیا تم چل پڑے… تمہیں رکنے کے لئے کہا گیا تم رک گئے…تمہیں
ہاتھ روکنے کا فرمایا گیا تم نے ہاتھ روک لئے… تمہیں جان دینے کے لئے بلایا گیا تم
نے موت کی گردن میں ہاتھ ڈال دئیے… پھر تمہیں دوبارہ لڑنے سے روکا گیا تم رک
گئے…ریس بھی طوفانی اور بریکیں بھی سلامت… اے نبی!…آپ کی تربیت نے ایسا لشکر کھڑا
کر دیا ہے…یہ آپ کی عظیم فتح ہے، اب یہ لشکر کہیں رکنے کا نہیں… اب مشرق تا مغرب
فتوحات ہی فتوحات ہوں گی… یہ بیج جو آپ نے بویا تھا آج اس کا پودا اپنی پنڈلی پر
کھڑا ہو گیا ہے … اب یہ ایسا مضبوط تنا بنے گا…جسے صدیاں بھی پرانا اور کمزور نہیں
کر سکیں گی… اس سفر میں بار بار منزل بدلی گئی… بار بار فیصلے تبدیل ہوئے… بار بار
جذبات کچلے گئے…بار بار آزمائش آئی… مگر آفرین اس لشکر پر کہ ایک فرد بھی نہیں
ٹوٹا… ایک فرد بھی نہیں بپھرا… ایک فرد بھی نہیں کٹا… طبعی غم اپنی جگہ وہ انسان
ہونے کے ناطے معاف ہے… چپکے چپکے آنسو اپنی جگہ وہ ان کے زندہ دلوں کی شبنم تھی…
مگر مجال ہے کہ کوئی قدم اطاعت سے ڈگمگایا ہو؟… کسی کی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازسے بلند ہوئی ہو… یہ ہر بات مانتے گئے
اور رب مہربان ہوتا گیا… ان کے دل اس بھاری اطاعت سے زخمی ہوتے گئے اور ان دلوں
میں اللہ کا نور بستا گیا… رات کا سناٹا تھا…خاموش تھکا ماندہ لشکر آہستہ آہستہ
مدینہ منورہ کی طرف بڑھ رہا تھا… ٹوٹے دلوں کے رِستے زخم آہستہ آہستہ بہہ رہے
تھے کہ …حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آ گئے… اور ’’سورۃ الفتح ‘‘ سنا دی… پورا لشکر
خوشی کے نور میں ڈوب گیا… سواریاں ناز سے دوڑنے لگیں… دل مسرت میں جھوم جھوم کر
عرش کے نیچے سجدے کرنے لگے…اللہ تعالیٰ نے محبت ، رحمت اور فضل کی ایسی بارش
برسائی کہ اس لشکر سے پہلے…شاید کسی پر برسی ہو… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ سورۃ ان تمام چیزوں سے زیادہ
محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے… سورۃ کے آخر میں وعدہ فرمایا گیا کہ حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بے شک سچا ہے تم ضرور عمرہ کرو گے…اور
فرمایا گیا کہ …یہ دین دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے… اور سورۃ کے آخر میں…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھرپور تعریف کی گئی اور ان سے مغفرت اور اجر
عظیم کا وعدہ فرمایا گیا…
ایمان
پر رہو، جہاد پر رہو…اطاعت پر رہو …یہی فتح ہے اور یہی کامیابی …وقتی اور فوری
نتائج کو نہ دیکھو… یہ دنیا کی زندگی ایک صبح یا ایک شام کے برابر ہے…اس میں کبھی
دن آتا ہے اور کبھی رات… کبھی گرمی کبھی سردی…کامیابی ایمان میں ہے اور جہاد میں…
وہ جو صحیح بخاری شریف کا ایک کامیاب کردار ہے…ایمان لایا …اور فوراً جہاد میں
شہید ہو گیا…نہ ایک نماز ملی نہ ایک سجدہ… نہ کوئی ظاہری فتوحات دیکھیں …اور نہ
زمین پر اسلام کا غلبہ…مگر کیسی زبردست کامیابی پائی…ہاں! اس کی کامیابی پر واقعی
رشک آتا ہے…
آج
پاکستان میں حکومت جو کچھ کر رہی ہے…اس کی وجہ سے بہت سے دل ٹوٹے ہوئے ہیں، کچھ
کلیجے زخمی بھی ہیں…جہاد کا نام لینے والوںکو یوں پکڑا جا رہا ہے جیسے یہ حکومت
قرآن مجید کو مانتی ہی نہ ہو… معلوم نہیں یہ انڈیا کو اس کے کس احسان کا بدلہ
دینا چاہتے ہیں؟…اس نے پاکستان توڑ ڈالا… دریاؤں پر قبضہ کر لیا…شہ رگ پر اپنے
پنجے گاڑ لئے… شاید ہمارے حکمران انڈیا کے ان تمام اقدامات کو اس کا احسان مانتے
ہیں… ہم جموں کی ایک جیل میں تھے… ایک بار تشدد کا بازار گرم کیا گیا… انڈین
اہلکار ہم پر لاٹھیاں، مکے اور لاتیں برسا رہے تھے…اور بار بار یہی مطالبہ کر رہے
تھے کہ پاکستان کو گالی دو… پاکستان کی ماں کو گالی دو… وہ پاکستان کو غلیظ گالیاں
بکتے اور پھر قیدیوں سے مطالبہ کرتے کہ وہ بھی یہی گالیاں دہرائیں… ہمارے حکمرانوں
کی بزدلی نے انڈیا کو شیر بنایا ہوا ہے ورنہ تو… اس کے فوجی لڑنے کے قابل بھی
نہیں…
بہرحال
جو کچھ بھی ہو جائے… ایمان نہیں چھوڑا جا سکتا… جہاد نہیں چھوڑا جا سکتا… اللہ
تعالیٰ حالات بدلنے پر قادر ہے…ایک وہ دن تھا کہ ہم چند ساتھیوں کو کوٹ بھلوال جیل
کے ایک کھلے کمرے میں بند کر دیا گیا تھا…ہمارے کپڑے ہمارے لہو سے بھیگے ہوئے تھے…
چہرے زخمی اور جسم نیل آلود تھے… سلاخوں سے بنا ہوا یہ کمرہ جیل کے اندر جیل خانہ
تھا…چوبیس گھنٹے ہتھکڑی لگی رہتی اور اس کی زنجیر کمرے کی سلاخ سے باندھ دی
جاتی…نماز بھی اسی حالت میں جھک کر پڑھتے تھے…وہاں میں نے ساتھیوں کی دلجوئی کے
لئے کچھ اشعار بھی کہے تھے…ایک شعر یہ بھی تھا :
بدن
زخمی کڑی ہاتھوں میں ہر دم
محبت
کا زمانہ آگیا ہے
دین،
ایمان اور جہاد کے راستے میں … محبت کے یہ زمانے آتے رہتے ہیں… پھر اللہ تعالیٰ
نے نصرت فرمائی… اور آج وہی مارنے والے خود چیخ رہے ہیں اور رو رہے ہیں… اس لئے
موجودہ حالات میں مایوس نہ ہوں بلکہ …سورۃ الفتح اور اس کے ماحول پر غور کریں… اور
پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں… کیسا عظیم راستہ عطاء فرمایا
ہے…والحمد للہ رب العالمین۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور531
اَللہُ أَحَدْ
اللہ
تعالیٰ ایک ہے… اللہ احد…
سورۂ
اخلاص بہت بڑی طاقت اور خزانہ…
سورۂ
اخلاص کو سورۂ اخلاص کہنے کی وجہ…
ھو
اللہ احد کا ورد…
ایک
راز… ایک غلط نظریہ…
دنیوی
شوق پورے نہیں، قربان کرنے چاہئیں…
حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ اور فرمان…
حضرت
علی کرم اللہ وجہہ کا واقعہ…
مشکل
حالات… چھاپے اور گرفتاریاں…
مگر
جماعت کے کام میں تیزی اور بہار… واقعی…
اَللہُ
أَحَدْ…اَللہُ أَحَدْ…
بہت
سے معارف کا احاطہ کیے ہوئے ایک تحریر…
یکم جمادی الاولیٰ۱۴۳۷ھ؍ 10 فروری
2016ء
اَللہُ أَحَدْ
اللہ
تعالیٰ ’’ایک‘‘ ہیں…اللہ احد…اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں…
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي
كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ﴾
ایک
بات بتائیں: اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ تم کہو…ہُوَ اللّٰہُ أَحَد
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾
کیا
آپ نے کبھی پوری محبت اور توجہ کے ساتھ یہ کہا؟
هُوَ
اللّٰهُ اَحَدٌ
دل
میںجب خوف آئے کہ فلاں یہ کر دے گا … فلاں وہ کر دے گا…دل میں جب حرص آئے کہ
فلاں مجھے یہ دے اور فلاں مجھے وہ دے… جب دنیا کی طاقتوں کا رعب دل کو ناپاک کر
رہا ہو تو کہہ دو اور کہتے چلے جاؤ…
هُوَ
اللّٰهُ اَحَدٌ
آپ
یقین کریں کہ اگر اخلاص کے ساتھ سو بار بھی کہہ دیا تو دل ایمان اور نور سے بھر
جائے گا… اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی طاقت نظر ہی نہیں آئے گی…
اَللّٰہُ
أَحَد،اَللّٰہُ أَحَد،اَللّٰہُ أَحَد
سچی
بات ہے سورہ ٔاخلاص بہت بڑی طاقت ہے… کبھی تہجد کے وقت ایک رکعت میں سو بار یا کم
از کم بیس بار پڑھ کر دیکھیں دل پر کیسے کیسے راز کھل جائیں گے…راز کی بات تھوڑا
آگے چل کر کرتے ہیں …ابھی تو ’’اَللّٰہُ أَحَد‘‘ کی بات چل رہی ہے… اگر کسی کو
کسی وقت بہت تنہائی اور وحشت محسوس ہو…میرا تو کوئی دنیا میں ہے ہی نہیں … مجھے تو
سب نے پھینک دیا…میرے تو سارے دشمن ہیں وغیرہ وغیرہ… یہ شیطانی آوازیں ہوتی
ہیں…شیطان ان آوازوں کے ذریعہ ہمارے دل کو کمزور کرتا ہے…ایسے وقت میں سورۂ
اخلاص کا ورد شروع کردیں…یا پڑھیں…
هُوَ
اللّٰهُ اَحَدٌ،هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ،هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ
اگر
توجہ سے پڑھا تو تھوڑی دیر بعد یوں لگے گا جیسے آپ بادشاہ ہیں، بادشاہ… اکیلی ذات
صرف ’’اللہ ‘‘ کی اور یہ اکیلا ہونا اس کی شان ہے…اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں…باقی اس
نے کسی کو اکیلا نہیں چھوڑا…
ہر
کسی کو بے شمار چیزیں عطا فرمائی ہیں…جو خود کو اکیلا اکیلا کہہ کر روتے ہیں، کبھی
غور کریں تو شکر میں ڈوب جائیں …اور پھر پڑھتے جائیں…
هُوَ
اللّٰهُ اَحَدٌ،هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ،هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ
اوپر
راز کھلنے کی بات آئی…جی ہاں! بہت چھوٹے چھوٹے راز اگر کسی پر کھل جائیں تو اسے
صدیوں کا علم عطا کر جاتے ہیں…مثلاً مال کے بارے میں ایک راز ہے…وہ یہ کہ مال خرچ
کرنے کے لئے ہوتا ہے جمع کے لئے نہیں… الفاظ کی حد تک تو سب کو یہ بات شاید معلوم
ہو مگر اس بات کی اصل روح جب کسی کے دل میں اتر جاتی ہے…یا کمپیوٹر کی زبان میں
کسی کے دل میں یہ بات ’’انسٹال‘‘ ہو جاتی ہے کہ مال خرچ کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے
جمع کرنے کے لئے نہیں…تو ایسا شخص دنیا اور آخرت کی ہر سعادت اور خوشی کو حاصل کر
سکتا ہے…لیکن اگر کسی کے دل میں یہ راز نہیں اترا تو اب وہ شخص مال کا غلام ہے،
مال کا نوکر ہے اور مال کا چوکیدار ہے…مال اس کے کام نہیں آئے گا مگر اسے ہمیشہ
اپنے کام میں لگائے رکھے گا… خوب تھکائے گا، خوب ذلیل کرے گا، بہت رلائے گا، بہت
تڑپائے گا اور موت کے وقت یا پہلے ہی ساتھ چھوڑ جائے گا… اس حقیقت پر تھوڑا سا غور
کریں… مال جمع کرنے والے لوگ کتنی مشقت میں ہیں…لیکن کیا ’’رنگ ونور‘‘ میں یہ بات
پڑھنے سے یہ راز دل میں اتر جائے گا؟… بالکل نہیں… قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے
مال کا یہ مسئلہ کتنی بار سمجھایا ہے… مگر لوگ نہیں مانتے… بلکہ کئی لوگ تو یہی باتیں
خود اپنی زبان سے کرتے ہیں کہ مال جمع نہ کرو…مال کو نیکی کے راستے پر لگاؤ…مال
سے دنیا اور آخرت کی سعادتیں خریدو … مال کو آخرت کا سرمایہ بناؤ… مگر خود ان
کے دل میں یہ راز اترا ہوا نہیں ہوتا تو جب بھی مال ملتا ہے تو جمع کرتے ہیں… اور
دن رات اس کو بڑھانے اور بچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں… اور بڑی بڑی سعادتوں سے
محروم ہو جاتے ہیں… یہ راز دل کو کیسے سمجھ آئے گا؟…یہ دل میں تب اترے گا جب دل
میں نور ہو گا، روشنی ہو گی…راز کو پڑھنے، سمجھنے اور دل میں انسٹال کرنے کے لئے
…روشنی، بتی اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے… اور یہ طاقت ذکر اللہ سے آتی ہے…اللہ
تعالیٰ کو پکارنے سے آتی ہے…
ہُوَ
اللّٰہُ أَحَد،ہُوَاللّٰہُ أَحَد،ہُوَاللّٰہُ أَحَد
آپ
پوری سورۂ اخلاص پڑھ لیں…اس میں کہیں ’’اخلاص‘‘ کا لفظ نہیں ہے…پھر اسے سورۂ
اخلاص کیوں کہتے ہیں؟…سورۃ البقرہ میں ’’البقرۃ ‘‘ کا تذکرہ ہے…آل عمران میں ’’
آل عمران ‘‘ کا ذکر ہے… مگر سورۂ ’’اخلاص‘‘ میں … اخلاص ایسے ہی چھپا ہوا ہے جس
طرح اصل ’’اخلاص‘‘ کسی بندے کے دل میں
چھپا ہوتا ہے …اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان ایک خفیہ رابطہ… ایک خفیہ
تعلق…اسے عربی زبان میں ’’سِرّ‘‘ یا ’’سریرہ ‘‘ کہتے ہیں…یہ تعلق جس کو نصیب ہو
جائے بس اس کا کام بن جاتا ہے… اندر ہی اندر اللہ تعالیٰ سے یاری، اللہ تعالیٰ سے
دوستی…اللہ تعالیٰ کی بندگی…ایسے لوگوں کے اعمال بڑے وزنی ہوتے ہیں…اور ان کے
چھوٹے سے چھوٹے عمل میں بڑی تاثیر ہوتی ہے …دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل
ہو اور یہ نعمت ہمیں بھی نصیب ہو جائے… دینے والا تو وہی ایک ہی ہے…
ہُوَاللّٰہُ
أَحَد،ہُوَاللّٰہُ أَحَد،ہُوَاللّٰہُ أَحَد
کچھ
لوگوں نے ایک غلط نظریہ اپنا رکھا ہے … وہ کہتے ہیں کہ سورۂ اخلاص اور سورہ الفلق
وغیرہ کو جب وظیفہ کے طور پر پڑھیں تو شروع میں ’’قل ‘‘ ہٹا دیں…
﴿اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ… اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
بلکہ لیبیا کے سابق صدر
قذافی نے اس پربہت فتنہ بھی اٹھایا اور پورے قرآن میں سے قُلْ کا لفظ ہٹانے کی
بات کی…وہ کہتا تھا کہ ’’قُلْ ‘‘ کے معنٰی کہو ، کہہ دو… اصل بات اس کے بعد شروع
ہوتی ہے جس کو کہنے کا حکم دیا جا رہا ہے…اس نے قرآن پاک کا نسخہ بھی اسی طرح کی
تحریفات کے ساتھ بڑی تعداد میں شائع کرا دیا تھا…اس وقت اہل علم نے اس فتنے کا سخت
توڑ کیا علمی طور پر بھی اس کی بات کو غلط ثابت کیا…اور عملی طور پر اس کے شائع
شدہ نسخے کو خرید خرید کر حوالہ سمندر کرتے رہے… حکمرانوں کی بد دماغی بڑی خطرناک
ہوتی ہے… یہ چند دن کے لئے حکومت میں آتے ہیں مگر ان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ وہ
ملک کے مالک ہیں…گویا کہ انہوں نے ملک اور عوام دونوں کو خرید لیا ہے… پھر ان کے
گرد ایسے خوشامدی اور چاپلوس لوگ جمع ہو جاتے ہیں جو ان کی ہر بات کی تعریف کرتے
ہیں… تب انہیں یہ غلط فہمی بھی ہونے لگتی ہے کہ وہ عقلمند ہیں… یہ پوری بات عرض
کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے کالم میں بار بار ’’هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ پڑھ کر
آپ کو یہ شبہ نہ ہو کہ نعوذ باللہ… میرا بھی یہی نظریہ ہے کہ ‘‘قُلْ ‘‘ کو ہٹا کر پڑھا جائے…
قُلْ
تو قُلْ ہے…چابی ، پاس ورڈ، آغاز… ’’قُلْ‘‘ میرے رب کا فرمان عالی شان ہے… حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی
ان سورتوں کی تلاوت فرمائی ’’قُلْ ‘‘ کے ساتھ فرمائی…بس بات ہی ختم… آج کے کالم
میں تو ’’ذکر اللہ‘‘ کی بات ہو رہی ہے…تو قرآن مجید کی کئی آیات سے اہل دل نے
کئی اذکار سمجھے اور حاصل کئے ہیں…مثلاً اللہ الصمد وغیرہ…
قرآن
مجید ذکر بھی سکھاتا ہے اور دعائیں بھی…جس طرح ہم دیگر اسماء الحسنیٰ کا ورد کرتے
ہیں مثلاً اللہ القادر… اللہ الغفار تو اسی طرح ’’ اللہ احد ‘‘ بھی ایک ذکر ہے اور
ساتھ یہ قرآن مجید کے مبارک الفاظ کے بھی مطابق ہے تو اس میں مزید قوت اور تاثیر
آ جاتی ہے… ویسے وہ لوگ جو خوف، لالچ اور وساوس کا زیادہ شکار ہوں وہ سورۂ اخلاص
کا بہت ورد کیا کریں… ان شاء اللہ دل پر کامیابی کے راز کھلیں گے…دل کے دھوکے دور
ہوں گے… یہ دنیا دھوکے اور فریب سے بھری پڑی ہے… چند دن پہلے ایک صاحب کا کالم
پڑھا… وہ ترغیب دے رہے تھے کہ اپنا ہر شوق پورا کرو…اور ہر شوق کے لئے ایک عمر
مقرر کر لو کہ فلاں شوق فلاں فلاں عمر میں پورا کرنا ہے…اس بات کو وہ ’’بھر پور‘‘
زندگی کا راز قرار دے رہے تھے …حالانکہ یہی بات ’’بدترین‘‘زندگی کا راز ہے… شوق کے
بارے میں کامیابی کا اصل راز یہ ہے کہ… اگر شوق کو پورا نہ کیا جائے اور اسے حتی
الوسع دبایا جائے …تو اس سے انسان کو عجیب و غریب قوت ملتی ہے…ایسے لوگ بے حد
طاقتور ہو جاتے ہیں…اور ساتھ ساتھ یہ کہ اگر شوق کی قربانی … اللہ تعالیٰ کی رضا
کے لئے ہو تو ہر قربانی پر… آخرت کی نعمتیں ملتی ہیں …حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے کیسی عظیم قوت عطاء فرمائی
تھی… وہ ہواؤں کو حکم دیتے تھے تو وہ بھی مانتی تھیں… اور پہاڑوں کو حکم فرماتے
تھے تو وہ بھی تسلیم کرتے تھے… یہ باتیںمبالغہ نہیں ہیں …بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قوت کا اعتراف ان کے دشمن بھی کرتے ہیں…
مدینہ منورہ میں بیٹھ کر اتنے بڑے خطے پر حکمرانی کرنا…صرف جسموں پر نہیں روحوں پر
بھی حکومت کرنا… یہ کسی عام طاقت والے انسان کے بس میں نہیں ہے… ایک بار دستر خوان
پر آپ کے ساتھ کچھ مہمان تھے …انہوں نے جب اتنا سادہ کھانا دیکھا تو حیران رہ
گئے… اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑا عجیب نکتہ ارشاد فرمایا … فرمانے لگے
کہ…تم یہ نہ سمجھو کہ میں نرم اور اچھے گوشت کی لذت سے نا واقف ہوں، ایسا ہرگز
نہیں…مگر میں روزانہ جو اونٹ ذبح کرتا ہوں اس کا نرم گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے
اور ’’آلِ عمر‘‘ کے حصہ میں گردن کا یہ سخت گوشت آتا ہے… آپ کے اس فرمان میں یہ
اشارہ تھا کہ ہم وہ لوگ نہیں جو اپنی غربت اور محتاجی کی وجہ سے سادہ کھانے کے
عادی ہو جاتے ہیں …بلکہ ہمیں اچھے کھانے کا ذوق نصیب ہے… اور اب اس ذوق اور شوق کی
جان بوجھ کر قربانی دے رہے ہیں…بات سورۂ اخلاص کی چل رہی تھی…جو کثرت سے یہ پوری
سورۃ نہیں پڑھ سکتے وہ اسمِ الٰہی ’’الاحد ‘‘ کا ورد کر لیا کریں…اس سے بھی ان کے
دل کو روشنی ملے گی ان شاء اللہ …
اللّٰهُ
اَحَدٌ، اللّٰهُ اَحَدٌ، هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ
ذکر
اللہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ…انسان کی نظر اللہ تعالیٰ پر رہتی ہے…اور اللہ
تعالیٰ ہی حالات، افراد اور زمانے کا مالک… اور مالک الملک ہے…وہ سردی میں گرمی
اور گرمی میں سردی لانے پر قادر ہے… امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’خصائص ‘‘ میں ایک عجیب روایت
لائی ہے…
ایک
تابعی فرماتے ہیں کہ …حضرت امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سخت گرمیوں میں ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ نے
سردیوں کا لباس پہنا ہوا تھا… اور سردیوں کے موسم میں تشریف لائے تو آپ نے گرمیوں
کا لباس پہنا ہوا تھا…عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد سے پوچھا کہ… امیر
المومنین کا یہ کیا طریقہ ہے …سردیوں میں گرمیوں کا لباس پہن کر اور گرمیوں میں
سردیوں کا لباس پہن کر ہمارے پاس تشریف لائے…ان کے والد نے ان کا ہاتھ پکڑا اور
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے…اور اپنے بیٹے کا سوال
عرض کیا… حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار مجھے طلب فرمایا اس وقت میری آنکھوں
میں سخت تکلیف تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب میری آنکھوں پر ڈالا اور ارشاد
فرمایا: اپنی آنکھوں کو کھولو… میں نے آنکھیں کھول لیں اور اس کے بعد اب تک مجھے
آنکھوں میں تکلیف نہیں ہوئی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعاء فرمائی:
اَللّٰھُمَّ
اَذْھِبْ عَنْہُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ۔
یا
اللہ! ان سے گرمی اور سردی کو دور فرما دیجئے…
اس
کے بعد آج تک مجھے گرمی یا سردی محسوس نہیں ہوتی…
(خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص: ۹۲)
یہ
واقعہ اس پر یاد آیا کہ ان دنوں جماعت پر جو مشکل حالات آئے ہیں…ہر طرف چھاپے ہی
چھاپے…ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے کام میں کیسی ترقی عطاء فرمائی… کچھ عرصہ پہلے
جب حالات میں استقرار تھا تو نہ دورہ تربیہ میں اتنے زیادہ افراد آ رہے تھے …اور
نہ دیگر ترتیبات میں…
اور
اب ماشاء اللہ ہر طرف ، ہر کام میں ، بہاریں ہی بہاریں نظر آ رہی ہیں…محاذ ہوں یا
مساجد، تربیہ ہو یا اجتماعات…جلسے ہوں یا ریلیاں … خدمت ہو یا الحجامہ…اسے کہتے
ہیں گرمی میں سردی اور سردی میں گرمی… اور یہ سب صرف وہی کر سکتا ہے جو ’’ایک
ہے‘‘…اور وہ ہر چیز پر قادر ہے…اکیلا ہر چیز پر قادر…
اللّٰہُ
أَحَد،اَللّٰہُ أَحَد،ہُوَ اللّٰہُ أَحَد
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور532
اصل مالدار
اصل
مالدار کون؟…
زیادہ
مال و دولت رکھنے والا… یا کوئی اور؟…
کیا
زیادہ مال جمع کر لینا ہی عقلمندی کی علامت ہے؟…
کیا
جدید ایجادات ہی ’’ترقی یافتہ‘‘ ہونے کی دلیل ہیں؟…
اصل
کامیابی کیا ہے؟…
اصل
دولت کیا ہے؟…
اصل
ترقی کیا ہے؟…
اصل
عزت کیا ہے؟…
مال
دینے سے بڑھتا ہے لینے سےنہیں…
ایک
پیارا اور تاریخی جھگڑا…
شہدائے
اسلام کو خراج تحسین…
ان
سب موضوعات کا احاطہ کرتی… ایک دلنشین تحریر…
۸ جمادی الاولیٰ۱۴۳۷ھ؍ 17 فروری
2016ء
اصل مالدار
اللہ
تعالیٰ کے تین مخلص بندے ایک ’’بچی‘‘ پر جھگڑ رہے تھے…
چھوٹی
سی ،پیاری سی…حور جیسی بچی… جھگڑا اس بات پر تھا کہ کون اس کو پالے گا؟… اس کے
’’ابا جانی ‘‘ تو شہید ہو چکے ہیں…کتنا دکھ ہوتا ہے جب آج سگے بھائی ’’جائیداد‘‘
پر لڑتے ہیں… زمین، پلاٹ اور مال پر لڑتے ہیں… بھائیوں میں اگر لڑائی ہو تو اس بات
پر ہونی چاہیے کہ…بھائی میرا حصہ تم لے لو… دوسرا کہے میں کیوں لوں؟ آپ میرا حصہ
لے لو… مال دینے سے ہی بڑھتا ہے اور پھر بھائی کا تو بہت حق ہوتا ہے …مگر یہاں جو
سچا قصہ عرض کرنا ہے اس میں لڑائی جائیداد پر نہیں اور جھگڑا کرنے والے دو سگے
بھائی ہیں… اور ایک رشتہ داری کے اعتبار سے غیر ہے… یہ پیاری لخت جگر تھی حضرت
سیّدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی… اور جھگڑنے والے تین حضرات کے نام تھے…
حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت زید… رضوان اللہ علیہم اجمعین …
اللہ
کرے ہمارے اندر بھی شہداء کرام کے بچوں کی کفالت کا یہی جذبہ پیدا ہو جائے… حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بڑھ کر بچی کو اُٹھا لیا…اور اپنی
اہلیہ محترمہ کے سپرد کر دیا کہ ہم نے اسے پالنا ہے… یہ میرے چچا جان کی بیٹی
ہے…مگر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فوراً آگے بڑھے اور فرمایا! نہیں اس کو پالنا
میرا حق ہے…یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری اہلیہ ہے …جھگڑا ان دو میں
رہتا تو خاندان کی داخلی بات تھی…مگر اس خوش نصیب بچی کے تو ہر طرف چچا ہی چچا
تھے…ایمان کا رشتہ، اُس زمانے میں خاندان کے رشتہ سے طاقتور تھا… حضرت زید رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور فرمایا… نہیں اس بچی کو پالنے کا
حق میرا ہے…یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے …تینوں بڑے حضرات تھے، جنگجو، مجاہد، بہادر،
معزز اور بات کے پکے… کوئی اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا… معاملہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
پیش ہوا کہ اب فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم ہی فرما سکتے ہیں… معاملہ بچی کا تھا
اور بچی کو باپ سے زیادہ ماں کی ضرورت ہوتی ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ فرما دیا…اور فرمایا :
’’اَلْخَالَۃُ بِمَنْزَلَۃِ الْاُمِّ‘‘
خالہ
ماں کے قائم مقام ہوتی ہے…
گویا
کہ فیصلہ ان تینوں حضرات کے حق میں ہونے کی بجائے…خالہ کے حق میں چلا گیا… کیونکہ
اصل میں ’’بچی ‘‘ کی مصلحت مقصود تھی… پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعادت پر جھگڑا کرنے والے ان تینوں حضرات کو
انعامات سے نوازا… حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اَنْتَ
مِنِّی بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ وَاَنَا مِنْکَ۔
آپ
میرے لئے اس طرح ہیں جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون…اور میں آپ سے ہوں…
(دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ … آپ میرے لئے اس طرح ہیں ، جس طرح
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام …لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا…)
اور
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اَشْبَھْتَ
خَلقِیْ وخُلُقِی۔
کہ
آپ شکل و صورت اور اَخلاق میں میرے مشابہ ہیں…
اور
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
یَا
زَیْدُ! اَنْتَ اَخُوْنَا وَمَوْلَانَا۔
اے
زید! آپ ہمارے بھائی اور دوست ہیں…(مسند احمد ، ابوداؤد)
سبحان
اللہ! ایک شہید کی بچی کے لئے خیر خواہی کرنے والے… تینوںحضرات کو کیسے کیسے
القابات اور انعامات ملے… اور ان تینوں کو اللہ تعالیٰ نے شہادت بھی عطا فرمائی…کل
رات کو ایک صحافی کا کالم پڑھ لیا…کالم کیا تھا، کالک تھی کالک… گوگل ویب سائٹ نے
اپنے ایک ہندو ملازم کو بیس کروڑ ڈالر کا چیک دیا ہے کہ…یہ اس ملازم کی سالانہ
تنخواہ ہے… ساتھ یہ اعلان بھی کر دیا کہ یہ دنیا میں سب سے بڑی تنخواہ ہے… بس یہ
خبر اور چیک کی رقم پڑھتے ہی ہمارے مسلمان کالم نویس پر ’’حال ‘‘ طاری ہو گیا… جس
طرح اولیائِ کرام پر اللہ تعالیٰ کا کلام سن کر حال طاری ہوتا ہے اور پھر وہ
’’اللہ، اللہ‘‘ کے ذکر میں گم اور مدہوش ہو جاتے ہیں…اسی طرح یہ ’’کالم نویس ‘‘بیس
کروڑ کی رقم پڑھ کر مدہوش ہو گیا… چھوٹے سے کالم میں بار بار بیس کروڑ، بیس کروڑ،
بیس کروڑ کی قوالی کی … خیالات اور تصورات میں کئی بار بیس کروڑکے چیک کو چوما اور
چاٹا اور پھر اس ہندو ملازم کی شان میں پورا شاہنامہ لکھ ڈالا… اور اس کو ’’عقلمند
‘‘ قرار دے کر باقی لوگوں کو ’’بیوقوف ‘‘ ہونے کی گالی دے ڈالی… اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ
خود
کومسلمان کہنے والے شخص کا یہ کالم…کم از کم مجھے تو شدید اَذیت میں مبتلا کر گیا
…بہت دیر تک نیند نہ آئی… کیا کل قارون کی شان میں بھی ایسے قصیدے لکھے جائیں
گے؟… کیا بہت سے ڈالروں کا گند سر پر اُٹھا لینا ہی کامیابی اور عقلمندی ہے؟… دل
پر جب تکلیف کا حملہ شدید ہوا تو … توجہ ہٹانے کے لئے ذہن کو کامیاب لوگوں کی طرف
متوجہ کیا… ہمارے زمانے کے کامیاب لوگ… تب شہدائِ کرام کے باوقار، مستغنی چہرے
مسکرانے لگے… بیس کروڑ کا محتاج ہونا کامیابی ہے یا بیس کروڑ کو تھوک کے برابر نہ
سمجھنا کامیابی؟…
فقیر
عطاء اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ ایسی شان
سے مسکراتے تھے…جس طرح پوری دنیا کے بادشاہ ہوں… اور بادشاہ بھی ایسا جس کی ہر
حاجت پوری ہو چکی ہو… آج کل کے بادشاہ بھی اپنی کئی ضرورتوں کے بارے میں پریشان
اور بے چین رہتے ہیں…کسی کو صحت نہیں ملتی تو کسی کو محبت میں ناکامی رہتی ہے…
جبکہ ان شہدائِ کرام کے اطمینان کا یہ حال ہے کہ …کوئی ان کے قدموں میں بیس کروڑ
نہیں بیس ارب ڈالر بھی ڈال دے تو وہ اس پر ایک نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کریں… فرعون
مر گیا، قارون دھنس گیا… تعمیرات کی ماہر قومِ ثمود غارت ہو گئی… جسمانی اور عسکری
قوتوں کی سپرپاور قومِ عاد تباہ ہو گئی… وہ جن کو اپنی معیشت پر ناز تھا بے نشان
ہو گئے… روشن خیالوں کی آئیڈیل لوط علیہ
السلام کی قوم ملیامیٹ ہو گئی…آج جن کے
پاس اربوں ڈالر ہیں یہ بھی خزاں کے زرد پتوں کی طرح گمنامی کی مٹی میں دفن ہو
جائیں گے… اللہ تعالیٰ بار بار فرماتے ہیں: ماضی کے لوگوں کا انجام دیکھو،اس سے
عبرت پکڑو … مال کے حریص اور لالچی نہ بنومگر ہم پھر بھی ایک ہندو مشرک کے بیس
کروڑ دیکھ کر … بیس کروڑ بیس کروڑ کی دھمال ڈال دیں…تو اس سے بڑی بیوقوفی، بد
نصیبی ،بدبختی اور بد عقلی اور کیا ہو سکتی ہے؟
لوگ
دنیا میں آتے ہیں… طرح طرح کی ایجادیں کرتے ہیں…یہ ہمارے زمانے کے لوگوں کی غلط
فہمی ہے کہ وہ ترقی یافتہ ہیں…ماضی کے لوگوں اور تہذیبوں نے بھی بہت کچھ بنایا…
آج پلاسٹک پہننے والے اُس زمانے کو کیوں بھول جاتے ہیں جب لوگ سونے چاندی سے… نرم
کپڑے بنا لیتے تھے… اور پہاڑوں کے اندر محلات کھڑے کر دیتے تھے…یہ سب کچھ دنیا میں
چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا…اصل کامیابی ایمان میں ہے…اصل دولت کلمہ طیبہ کی دولت
ہے… اصل ترقی نماز میں ہے… اور اصل عزت اور سربلندی جہاد فی سبیل اللہ میں ہے…
روزی اور مال اللہ تعالیٰ نے مقدر فرما دیا ہے…اور انسان کو حکم فرمایا ہے کہ…وہ
حلال روزی کے لئے مناسب محنت کرے…اسلام نے نہ تجارت سے روکا ہے نہ زراعت سے…نہ
سائنس سے روکا ہے نہ ٹیکنالوجی سے… نہ مال کمانے سے روکا ہے اور نہ محنت کرنے سے…
مگر
کامیابی اسی کو سمجھ لینا کہ کلمہ ہو یا نہ ہو بس مال زیادہ ہونا چاہیے یہ بدترین
ملحدانہ سوچ ہے… میں جب مسجد جاتا ہوں اور
وہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو قرآن مجید پڑھتے دیکھتا ہوں تو … دل خوشی اور محبت سے
بھر جاتا ہے… یہ خوش نصیب بچے کتنی عظیم دولت حاصل کر رہے ہیں … ان کو جو چیک مل
رہا ہے وہ قیامت تک… اور جنت میں بھی کیش ہوتا رہے گا… یہ جو سورۂ فاتحہ، سورۂ
اخلاص اور سورۃ الکوثر جیسے خزانوں کے مالک بن رہے ہیں…ایسے خزانے جن کا مال کبھی
ختم نہیں ہوتا… ان بچوں کے والدین کو سلام! جنہوں نے اپنے بچوں پر احسان کیا کہ…ان
کو قرآن مجید کی تعلیم کے لئے بھیجا… آج آپ کو ایسے کروڑوں مسلمان مل جائیں گے
جو سورۂ فاتحہ درست تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے… ان کے والدین نے ان پر ظلم
کیا…اُن کو صرف انگریزی سکھائی جو وقتی ضرورت ہے…اور سورۂ فاتحہ نہ سکھائی جو
ہمیشہ کی ضرورت ہے… مسجد اور مدرسہ کے مسکین نظر آنے والے بچے …جو چندے کی روٹی
کھا کر قرآن مجید اپنے سینوں میں محفوظ کر رہے ہیں… یہ مجھے بل گیٹس، مارک
زکربرگ…اور لکشمی متل سے زیادہ مالدار نظر آتے ہیں…بیماریوں سے بھرے ،پریشانیوں
سے اَٹے اور ہمیشہ کی ناکامی کی طرف دوڑتے اَرب پتی… اگر ان بچوں کی خوشی، آسودگی
اور اطمینان کو دیکھیں تو حسد سے مر جائیں … میں جب ان والدین کو دیکھتا ہوں جن کی
اولاد جوان ہو چکی ہے… اور ان کی اولاد میں تین صفات موجود ہیں…کلمہ طیبہ، نماز کی
پابندی اور جہادِ فی سبیل اللہ… تو حقیقت میں مجھے اُن پر رشک آتا ہے… اللہ کرے
میری اولاد بھی جب جوان ہو تو ان تین صفات سے مالا مال ہو… کلمہ طیبہ اُن کے دلوں
میں ایسا اُترا ہوا ہو کہ… کوئی خوف یا کوئی لالچ انہیںکلمہ طیبہ سے نہ ہٹا سکے…
اور نماز کے وہ ایسے پابند ہوں کہ… کسی ایک نماز کو قضا کرنے کا تصور نہ کریں… اور
جہادِ فی سبیل اللہ کے وہ شیدائی ہوں… جہاد ہی انسان کے دل کو ایسا خوبصورت بناتا
ہے کہ…اللہ تعالیٰ خود اُس دل کا خریدار بن جاتا ہے… ذکر، فکر، مراقبے بھی بڑی
نعمت ہیں… اُن سے دل شیشے کی طرح صاف ہو جاتا ہے… انسان روحانی سیریں کرتا ہے…اس
کے تصورات کی دوربین دور دور تک دیکھتی ہے… مگر جہاد انسان کے دل کو ’’بہادر‘‘
بناتا ہے… اور بہادر دل ہی اسلام اور اُمت مسلمہ کے کام آتا ہے … حضرت اقدس
مولانا حاجی عبد الرحیم صاحب ولایتی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی تھے… صاحبِ خواب اور صاحبِ کشف،
صاحبِ توجہ اور صاحبِ حال… پھر وہ حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قافلے میں شامل ہوئے…دل پاک اور صاف تھا تو
انہوں نے جہاد کے مقام کو جلد دیکھ لیا…تب فرماتے تھے کہ … جہاد کا ایک لمحہ…میرے
ماضی کے سالہا سال کی محنت اور ریاضت سے اَفضل ہے… بے شک انہوں نے سچ فرمایا… مگر
جہاد اور جہادی محنت کے مقام کو ہر کوئی نہیں سمجھتا… حتیٰ کہ بہت سے مجاہدین کو
بھی یہ مقام معلوم نہیں… جہاد اور جہادی محنت کا حقیقی مقام معلوم ہو جائے تو پھر…
جان دینا بھی آسان … جیل کاٹنا بھی آسان…اور اس راستے کی ہر ہجرت اور ہر قربانی
برداشت کرنا آسان ہو جائے…
اے
شہدائِ اسلام…آپ کی عظمت… اور آپ کے مقام کو دل کی گہرائی سے سلام… اصل مالدار
آپ ہو…اصل دولت مند، اصل کامیاب…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور533
اسلام،گھر،کشتی
قرآن
کریم کے قصے، سبق و عبرت سے بھر پور زندہ قصے…
اللہ
تعالیٰ کا ایک مبارک نام ’’السلام‘‘…
سلام
و سلامتی کا مطلب…
سلامتی
کیسے نصیب ہو؟…
حضرات
انبیاء کرام علیہم السلام پر سلام بھیجنا حکم قرآنی…
تمام
انبیاء کرام علیہم السلام پر سلام بھیجنے کا ایک جامع طریقہ…
فتنۂ
غامدیت کی اصلی جڑ اور بنیاد کیا ہے؟…
اس
فتنے کا لب لباب، تاریخ اور پس منظر…
سیّدنا
نوح علیہ السلام کے بیٹے ’’کنعان‘‘ کا قصہ…
اور
اس قصے کی روشنی میں ایک تجزیہ…
اسلام
سے وفاداری کا اعلان…
اور
ایمان کی نعمت پر شکر…
ملاحظہ
کیجئے… یہ تحریر
۱۵ جمادی الاولیٰ۱۴۳۷ھ؍ 24 فروری
2016ء
اسلام،گھر،کشتی
اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو ’’قصے ‘‘ بیان فرمائے ہیں…وہ زندہ قصے ہیں…قیامت تک
ان قصوں سے ملتے جلتے مناظر سامنے آتے جائیں گے… اس لئے قرآن مجید کے تمام ’’
قصص‘‘ کو بہت غور سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے…اور ان سے سبق، عبرت اور روشنی لینی
چاہیے…بات آگے بڑھانے سے پہلے حضرات انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں سلام عرض کر لیتے ہیں …تاکہ ہماری
اس مجلس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور سلامتی نازل ہو…ایک نبی تو ایسے ہیں کہ
جن پر سلام بھیجنے کا تاکیدی حکم ’’اللہ تعالیٰ ‘‘ نے خود فرمایا ہے…وہ ہیں ہمارے
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم … ہم اپنی
ہر نماز کے ’’قعدہ‘‘ میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجتے ہیں:
اَلسَّلَامُ
عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
یہ
بڑا مبارک ’’سلام‘‘ ہے…نماز کے علاوہ بھی اسے پڑھنا چاہیے…
اَلسَّلَامُ
عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
فرشتے
یہ سلام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچاتے ہیں…اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب ارشاد فرماتے ہیں…محبت سے پڑھیں…
اَلسَّلَامُ
عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
’’السلام ‘‘ کہتے ہیںسلامتی کو…ظاہری آفات سے بھی سلامتی اور
باطنی آفات سے بھی سلامتی… ظاہری آفات وہ ہیں جو انسان کے جسم ، مال ، گھر ،
اولاد وغیرہ پر آتی ہیں…اور باطنی آفات وہ ہیں جو انسان کے دل اور روح پر آتی
ہیں…کفر، شرک،حسد، تکبر ، ریاکاری وغیرہ…سلامتی کی دعاء دراصل جنت میں جانے کی
دعاء بھی ہے… کیونکہ مکمل سلامتی ’’جنت ‘‘ میں ملے گی…وہاں نہ بڑھاپا آئے گا اور
نہ بیماری، نہ ذلت آئے گی نہ محتاجی …نہ زخم آئیں گے نہ موت،کوئی بوڑھی عورت جس
کا چہرہ جھریوں کی وجہ سے شکن آلود لٹھے کی طرح ہو چکا ہو…وہ اگر اسی ’’دنیا ‘‘
کو جنت قرار دے تو یہ عجیب مضحکہ خیز جھوٹ ہے…جنت تو سلامتی کا گھر ہے اور وہاں
اہل جنت کو اللہ تعالیٰ خود ’’سلامتی ‘‘ کا انعام دیں گے…
﴿سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ﴾
اللہ
تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ’’السلام ‘‘ ہے…کیو نکہ اللہ تعالیٰ ہر عیب
، ہر کمزوری اور ہر آفت سے سالم ہیں، پاک ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ’’سلامتی ‘‘
عطاء فرمانے والے ہیں…اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارکہ میں سے ’’یا سلام ‘‘کا وِرد بہت
تاثیر رکھتا ہے… ہمارے ایک بزرگ یہ وِرد اس طرح کرتے تھے:
’’ اَللّٰھُمَّ یَا سَلَامُ سَلِّمْ ‘‘
ترجمہ:
یا اللہ!اے سلام! سلامتی عطاء فرمائیے…
پانچ
انبیاء علیہم السلام ایسے ہیں کہ…ان پر ان کے نام کے ساتھ ’’سلام ‘‘
قرآن مجید میں مذکور ہے… اور یہ ایمان والوں کا وظیفہ ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام پر سلام بھیجتے رہتے ہیں…
١ حضرت
سیّدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام …آج کے کالم میں حضرت نوح علیہ السلام کے ایک بیٹے کا قصہ ہمارا موضوع ہے…ارشاد
فرمایا:
﴿سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ﴾۔ (سورۃ الصافات:۷۹)
اہل
تجربہ کہتے ہیں کہ…جو روزانہ صبح شام تین بار یہ سلام پڑھ لے اسے سانپ بچھو وغیرہ
نہیں ڈس سکتے…
٢ حضرت
سیّدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام
﴿سَلَامٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ﴾ (سورۃ الصافات: ۱۰۹ )
٣ حضرت سیدنا موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام ٤ حضرت سیّدنا ہارون علیہ
الصلوٰۃ ولسلام
﴿سَلَامٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ﴾ (سورۃ الصافات:۱۲۰)
٥ حضرت سیّدنا الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام
﴿سَلَامٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ﴾ (سورۃ الصافات:۱۳۰)
اور
قرآن مجید کی دو آیات ایسی ہیںکہ… ان کو پڑھنے سے تمام حضرات انبیاء علیہم
السلام پر ’’سلام‘‘ ہو جاتا ہے…
١ ﴿
سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی﴾ (سورۃ النمل:۵۹)
٢
﴿وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾
(سورۃ الصافات:۱۸۱۔۱۸۲)
بندہ
کی کوشش رہتی ہے کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے یہ سارے ’’سلام ‘‘ ان مبارک ہستیوں
پر بھیج دے…
وظیفہ
یوں بن جاتا ہے:
اَلسَّلَامُ
عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ ( چند بار )
﴿سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی﴾ ( تین بار)
﴿وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾( تین
بار)
﴿سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ﴾ ( تین بار)
﴿سَلَامٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ﴾ ( تین بار)
﴿سَلَامٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ﴾ (تین بار)
﴿سَلَامٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ﴾( تین بار )
﴿سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ ( چند بار)
ہماری
یہ دنیا فتنوں، گمراہیوں ، شیطانوں ، جادوگروں اور دھوکوں سے بھری پڑی ہے…اگر کوئی
اپنا ایمان بچانا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ …حضرت انبیاء علیہم السلام سے جڑا رہے… تمام انبیاء علیہم السلام کے نبی ہونے پر پختہ ایمان لائے …تمام انبیاء علیہم السلام سے سچی اور قلبی محبت رکھے… تمام انبیاء علیہم السلام کے سچے واقعات اور قصوں سے روشنی لے…حضرت آدم علیہم السلام کو پہلا نبی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانے …اور احکامات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے… کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی
ہیں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
بعثت سے پہلے یہودیت، نصرانیت اور رہبانیت وغیرہ میں کامیابی مل سکتی تھی…مگر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد…اب
کامیابی صرف ’’اسلام ‘‘ میں ہے…دین کی ’’دعوت ‘‘ بھی اسی لئے ہے…اور جہاد و قتال
بھی اسی لئے ہے… مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو گئے ہیں جو اصل میں… دین
اسلام کی دعوت روکنا چاہتے ہیں…جو ’’جہادِ فی سبیل اللہ ‘‘ کے دشمن ہیں… ان لوگوں
نے یہ نعرہ لگایا ہے کہ… حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر بھی
یہود و نصاریٰ کامیاب ہو سکتے ہیں… پاکستان میں اس فتنے کی لگام ’’غامدی‘‘ کے ہاتھ
میں ہے…جب کہ مصر میں’’عَبْدرَبِہٖ ‘‘ اور ہندوستان میں ’’وحید الدین خان ‘ ‘ وغیر
ہ …
یہ
لوگ دراصل …نہ غامدی ہیں، نہ خانی اور نہ عبدی… یہ سارے حقیقت میں ’’کنعانی‘‘ …اور
’’یامی‘‘ وغیرہ ہیں…اس پورے فتنے کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید کے ایک زندہ قصے میں
غور کرنا ہو گا… یہ قصہ ہے حضرت سیّدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ’’بیٹے ‘‘
کا… حضرت سیّدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کل چار بیٹے تھے…سام ، حام ، یافث…
یہ تین حضرات ’’مومن ‘‘ تھے … اپنے والد محترم کے ہم دین ، ہم سفر اور خادم …
چوتھا بیٹا جس کا نام بعض مفسرین نے ’’کنعان ‘‘ اور بعض نے ’’یام ‘‘ لکھا ہے …وہ
کافر تھا…بس اسی بیٹے سے وہ مزاج شروع ہوتا ہے جو لوگوں کو ’’غامدی ‘‘ بناتا ہے…
اپنے گھر کی ہدایت کو حقیر سمجھنا اور باہر کی عالمی برادری کو معزز سمجھنا…اپنے
گھر کو تنگ سمجھنا اور باہر کے دشمنوں کو ترقی یافتہ سمجھنا… اپنے گھر کی روشنی کو
ذلیل قرار دینا اور باہر کی چکا چوند کو للچائی نظروں سے دیکھنا…’’کنعان ‘‘ کی
نوجوان آنکھیں یہ دیکھ رہیں تھیں کہ…اس کا گھر باہر کی دنیا سے بالکل کٹا ہوا
ہے…اس کا گھر باہر کی دنیا میں بہت رسوا اور بدنام ہے…اس کا گھر باہر کی دنیا سے
بالکل الگ اور فرسودہ ہے… اس گھر کو باہر والے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں…اس گھر
کو باہر والے اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں …باہر کے لوگ دنیا آباد کر
رہے ہیں جبکہ اس گھر میں دنیا ویران نظر آتی ہے…ایک ’’بابا جی‘‘ اس گھر سے نکلتے
ہیں اور لوگوں کو ایک پیغام سناتے ہیں… ان کے پیغام کو کوئی نہیں سنتا… لوگ ان کا
مذاق اڑاتے ہیں…ان کے گلے میں رسیاں ڈال کر ان کو گھسیٹتے ہیں…چھوٹے بچے ان کے
پیچھے تالیاں بجاتے بھاگتے ہیں…شہر کے معزز لوگ ان کو دیکھتے ہی کانوں میں انگلیاں
ٹھونس کر راستہ بدل لیتے ہیں…اور شہر کے طاقتور لوگ ان پر پتھر برساتے ہیں… وہ
’’بابا جی‘‘ صبح سے رات تک…لوگوں میں پھرتے، ماریں کھاتے، لہولہان ہو جاتے اور رات
کو گھر واپس آتے اور مصلیٰ بچھا کر…رب تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری میں لگ جاتے…
یہی
روز کا معمول تھا…دس سے بارہ سال کی شبانہ روز محنت کے بعد کوئی ایک آدھ آدمی ان
کے پیغام کو تسلیم کرتا… اور وہ تسلیم کرنے والا عالمی برادری کا کوئی معزز، تاجر
، مفکر یا صنعت کار نہیں… کوئی معمولی مزدوری کرنے والا غریب آدمی ہوتا…
یوں
کنعان کا گھر…معاشرے کے غریب اور معمولی افراد کی بیٹھک بن گیا…عالمی برادری ترقی
پر ترقی کر رہی تھی… اور اس گھر میں صرف یہ بات ہوتی کہ…اللہ تعالیٰ کو ایک
مانو…تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کی جنت ملے گی…ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ملے گی…اللہ تعالیٰ
سے استغفار کرو، معافی مانگو… تمہیں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات
ملے گی… اس گھر میں نہ دنیا بسانے کی باتیں ہوتیں…اور نہ ترقی کے منصوبے … اب
کنعان کے لئے دو راستے تھے…ایک یہ کہ وہ اپنے تین بھائیوں کی طرح اپنے والد محترم
کی بات مان لیتا… اور دنیا سے کٹ کر ایک الگ مکان کا حصہ بن جاتا…اور دوسرا راستہ
’’غامدیت ‘‘ کا تھا کہ… وہ عالمی برادری کا حصہ بنے…دنیا میں رہنا ہے تو اہل دنیا
کو کامیاب سمجھے…زمین پر رہنا ہے تو زمین بسانے والوں سے کندھے جوڑے… آپ کہیں گے
کہ …غامدی تو اس وقت تھا نہیں تو ’’غامدیت ‘‘ کہاں سے آ گئی؟…
جواب
یہ ہے کہ …یہی ’’کنعانیت‘‘ ہر زمانے میں اُبھرتی ہے اور اپنا کوئی اچھا سا نام رکھ
لیتی ہے…آپ جاوید غامدی صاحب کے نظریات دیکھیں ، وحید الدین خان کے نظریات پڑھیں…
عبدربہ کا فلسفہ دیکھیں …ان سب کی سوچ میں بس ایک بات مشترک ہے…وہ یہ کہ یہ حضرات
اسلام کے گھر میں پیدا ہو گئے…مگر ان کو اسلام کا گھر حقیر لگتا ہے…اور اسلام سے
باہر کی برادری نعوذ باللہ عزت یافتہ… پھر یہ اسلام سے نکلنے اور باہر کی برادری
کا حصہ بننے کے سفر پر نکل پڑتے ہیں…آپ کو کوئی دو غامدی دنیا میں ایسے نہیں ملیں
گے جن کے نظریات ایک جیسے ہوں…خود غامدی اور وحید الدین کے بقول ان کے باہمی
نظریات میں …اَسّی فیصد اختلاف ہے …مگر ان سب کا راستہ اور سوچ ایک ہے…اور وہ ہے
’’کنعانی ‘‘پریشانی… یہ جس چیز کو عزت اور ترقی سمجھتے ہیں وہ انہیں اپنے گھر میں
نظر نہیں آتی … اور اس گھر سے باہر کی ساری دنیا ان کو اچھی لگتی ہے…چنانچہ وہ
گھر کی حدود سے آزاد ہونے اور باہر کی برادری کا حصہ بننے کی کوشش میں لگ جاتے
ہیں… اس کوشش میں پھر وہ اپنے نئے نئے نظرئیے اور طریقے گھڑتے ہیں…وہ چاہتے ہیں کہ
اسلام کے گھر کی محفوظ عمارت کو عالمی برادری کا کوٹھا بنادیں… اسی لیے وہ اسلامی مسلّمات
اور اسلامی امتیازات کا انکار کرتے ہیں… تاکہ اسلام کا اصلی گھر مکمل طور پر تبدیل
ہوجائے… حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک قوم کو دعوت دیتے رہے…ان کے
گھر سے ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کا کامیابی والا پیغام بلند ہوتا رہا… ان کے گھر پر
رحمت اور فرشتے دن رات اُترتے رہے… مگر ’’کنعان ‘‘ تو زمین دیکھ رہا تھا… معاشرہ
دیکھ رہا تھا ، دنیا دیکھ رہا تھا…زمانے کے معزز کہلانے والے لوگوں کے ساتھ اٹھ
بیٹھ رہا تھا… چنانچہ اسے اپنے والد پر بھی شرمندگی ہوتی اور اپنے گھر پر بھی … جب
ملک میں قحط پڑتا تو ملک کے دانشور مل بیٹھتے… طرح طرح کے آبپاشی اور زراعت کے
منصوبے بناتے… کنعان گھر آتا تو ’’ابا جی‘‘ فرماتے… قوم اگر ’’استغفار ‘‘ پر آ
جائے تو قحط ختم ہو جائے…پھر ’’ابا جی ‘‘ یہ دعوت لے کر شہر کے گلی کوچوں میں نکل
جاتے…لوگ مذاق اڑاتے کہ ’’استغفار ‘‘ کا آبپاشی یا زراعت سے کیا تعلق؟… کنعان کو
بڑی شرم آتی کہ واقعی…میرا باپ پورے خاندان کو شرمندہ کر رہا ہے… زراعت و تجارت
کے ماہرین کے سامنے استغفار،استغفار کی دعوت دیتا ہے…حالانکہ دنیا بہت آگے نکل
چکی ہے… بس اسی شرم اور شرمندگی نے کنعان کو کفر کی راہ پر ڈال دیا…جب کہ باقی تینوں
بھائی… اپنے ’’ابّا جی‘‘ کی تصدیق کرتے رہے اور انہیں ہمیشہ یہ فخر رہا کہ ہم جس
گھر میں ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے… اس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے
اترتے ہیں… ہمیں اپنے خالق کو راضی کرنا ہے نہ کہ…فانی مخلوق کو…
پھر
اس پوری قوم کی تباہی کا فیصلہ ہو گیا … تین بیٹے باپ کے ساتھ نجات کی کشتی بنانے
میں مصروف ہو گئے…عالمی برادری نے اس کشتی کا مذاق اڑانا شروع کردیا…’’کنعان‘‘ اس
شرمندگی سے بچنے کے لئے عالمی برادری کا حصہ بنا رہا … پھر طوفان آ گیا…عالمی
برادری ڈوب گئی… کنعان بھی غرق ہو گیا…اور وہ گھر جو روئے زمین پر سب سے الگ تھلگ
، سب سے کٹا ہوا…سب سے فرسودہ سمجھا جاتا تھا…ایک کشتی میں بیٹھ کر پورے روئے زمین
کا مالک بن گیا…
آج
وہی گھر ’’اسلام ہے‘‘ …وہی کشتی ‘‘دین اسلام ‘‘ ہے…اور اس کے چاروں طرف اس گھر اور
کشتی کا مذاق اڑانے والی چمکتی دمکتی عالمی برادری… وہ جو اسلام کے گھر میں پیدا
ہو گئے … مگر ان کی سوچ اور فکر کنعانی ہے…وہ اس گھر کو نعوذ باللہ حقیر سمجھ کر
اس سے کھسکتے جا رہے ہیں … یہ سارے لوگ طوفان اور آگ کی طرف جا رہے ہیں…اور وہ جن
کو اس گھر پر فخر ہے…ایمان ہے، اعتماد ہے… وہ کامیابی اور جنت کی طرف جا رہے
ہیں…بے شک اسلام کا ہر حکم بڑا ہو یا چھوٹا … اسی میں عزت ہے ، اسی میں کامیابی
ہے… واشنگٹن اور لندن کی ساری چمک دمک میرے نزدیک…میری جیب میں رکھی ہوئی اس مسواک
کے برابر بھی نہیں…جو مسواک حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو عطا فرمائی ہے…جہادِ فی سبیل اللہ
تو بہت بڑا حکم ہے…ہمیں نہ اسلام پر کوئی شرمندگی ہے نہ جہاد پر…ہمیں نہ داڑھی پر
شرمندگی ہے اور نہ شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے پر…ارے! یہی تو عزت، حسن ،کامیابی
اور ترقی کے نقشے ہیں…
یا
اللہ ! ایمان اور اسلام کی نعمت پر آپ کا شکر…بے حد شکر…الحمد للہ رب العالمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور534
اب بس کرو
فریضۂ
حج کی ترغیب…
حج
و عمرہ پر جانے والوں کو ایک قیمتی نصیحت…
ایک
مبارک دعاء …
طاعون
کے چوہے…
حکومت
کے ظالمانہ اور دین دشمنانہ اقدامات…
دین
دشمن سیکولرز کی خوشی…
ایک
افسوسناک حقیقت…
پاکستان
سے دین و مذہب کا خاتمہ کرنے کی گھناؤنی سازش…
حکمرانوں
کی غلط فہمی…
حکمرانوں
کو تنبیہ…
حکومت
نے اہل حق پر ظلم کا بازار گرم کیا… اور دین دشمنی
میں
ساری حدیں پار کر گئی… تو ملک کا دیندار طبقہ… دل گرفتہ
اور
مایوس ہونے لگا… تب حضرت ’’سعدی‘‘ دامت برکاتہم العالیہ…
کا
قلم جنبش میں آیا… اور تاریخ کے سینے پر نقش کر گیا…
ایمان
و جرأت اور عزم و ہمت سے لبریز… یہ تحریر
۲۲ جمادی الاولیٰ۱۴۳۷ھ؍ 02 مارچ 2016ء
اب بس کرو
اللہ
تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے… مکہ کے مشرک اس ’’غار‘‘ تک پہنچ چکے تھے… جس
’’غار‘‘ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ موجود تھے… مشرکین ہاتھوں میں ننگی تلواریں لئے
اس غار کے سر پر کھڑے تھے… وہ اگر تھوڑا ساجھک کر دیکھتے تو غار میں موجود اَفراد
انہیں نظر آ جاتے… مگر غار کے اندر اطمینان تھا اور فرمایا جا رہا تھا…
﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾
بے
شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے… مشرکین اندھے ہوگئے، ناکام ہوگئے اور نامراد لوٹ
گئے… سامنے خوفناک سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا بھیانک لشکر… مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرما رہے تھے…
﴿اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ﴾
بے
شک میرا رب میرے ساتھ ہے… چنانچہ رب نے اپنا ساتھ نبھایا… دودشمن ایک دوسرے سے
گتھم گتھا ہوگئے…سمندر کی لہروں نے فرعون اور اس کے لشکر کو نگل لیا…اور وہ جن کے
ساتھ ’’اللہ‘‘ تھا، صحیح سالم نکل گئے…
آج
کا موضوع
آج
کئی باتیں لکھنے کا ارادہ بنا…حج بیت اللہ کے داخلے شروع ہورہے ہیں… ارادہ تھا کہ
’’فریضۂ حج‘‘ کا مذاکرہ اور حرمین شریفین کی دلکش یادیں آجائیں… ممکن ہے بہت سے
مسلمانوں کا دل متوجہ ہو…لوگوں کے پاس فضول پلاٹ، فضول زیورات اور فضول بینک بیلنس
موجود ہوتا ہے… فریضۂ حج کا مزا ہی تب ہے جب اس کے لئے پلاٹ بیچے جائیں، زیورات
فروخت کئے جائیں… اور بینک بیلنس خالی کیا جائے… پلاٹ، زیورات تو پریشان کرتے رہتے
ہیں جبکہ …حج بیت اللہ بہت کام آتا ہے… اور بہت کا م آئے گا…
وہ
مسلمان مرد اور خواتین جنہوں نے’’ فریضۂ حج‘‘ اداء نہیں کیا… وہ دعاء کریں،
فکرکریں، قربانی دیں اور یہ نعمت حاصل کرلیں…کسی زمانے جب میں حج پر بیان کرتا تھا
تو لوگوں سے کہتا تھا کہ… آپ اپنا سب کچھ خرچ کر کے چلے جائیں… اللہ تعالیٰ آپ
کو سب کچھ لوٹا دے گا…بخل کرکے اپنی جان کا نقصان نہ کریں… حج کئے بغیر مر گئے تو
زندگی ادھوری رہ جائے گی… اپنا مال اپنے بچوں کے لئے بچا کر اگر آپ فریضۂ حج سے
محروم رہے تو آپ نے خود بھی ظلم کیا ور اپنی اولاد پر بھی ظلم ڈھایا… ممکن ہے آپ
کے بعد آپ کی اولاد یہ سارا پیسہ چندراتوں کی عیاشی میں اُڑا دے… لیکن اگر آپ
پلاٹ، زمین بیچ کر حج پر گئے… اور وہاں اپنی اولاد کے لئے دعاء کی تو…مال بھی واپس
مل جائے گا… اور آپ کی اولاد کو حرمین کی قیمتی دعائیں بے حد نفع دیں گی… کل کچھ
لوگ ’’عمرہ‘‘ پر جارہے تھے انہوں نے حکم دیا کہ انہیں کچھ نصیحت عرض کی جائے… اللہ
تعالیٰ کی توفیق سے چند باتیں ان کے سامنے عرض کردیں…ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی
کہ… وہاں حرم شریف کی ایک دعاء ایک لاکھ دعائوں کے برابر ہے…آپ جو وقت بازار میں
جا کر اپنی اولاد کے لئے تحفے خریدیں گے…یہی وقت آپ حرم میں بیٹھ کر ان کے لئے
’’دعاء‘‘ کردیں… تحفے، سامان ہر جگہ مل جاتے ہیں… مگر حرم شریف کی دعاء تو ہر جگہ
نہیں ملتی… مثلاً آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد کو قرآن مجید نصیب ہو… آپ یہاں
رہتے ہوئے ایک لاکھ بار اگر یہ دعاء کریں تو قبولیت کی کتنی امید ہوجائے گی… مگر
ایک لاکھ بار دعاء کرنے میں کئی دن لگ جائیں گے…لیکن حرم شریف میں آپ نے یہ دعاء
ایک بار کردی تو یقیناً ایک لاکھ بار ہوگئی… اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا تو ان شاء
اللہ… فریضۂ حج پر یاد دہانی کا کالم آجائے گا… اگر نہ آسکا تو انہی الفاظ کو
کافی سمجھ کر اس سال… اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب کر اپنا داخلہ جمع کرادیں…
دوسرا
جو موضوع سامنے تھا…وہ حضرت سیّدنا نوح علیہ السلام کی بعض نصیحتیں اور تلقین فرمودہ قیمتی دعائیں
تھیں…گذشتہ کالم میں حضرت سیّدنا نوح علیہ
السلام کا کچھ مبارک تذکرہ آیا تھا تو
ارادہ بنا کہ یہ باقی باتیں بھی آجائیں…مگر ہمارے ملک کے حالات اس درجہ خراب
ہوچکے ہیں کہ… اب ’’اہل دل‘‘ باقاعدہ مایوسی اور پریشانی محسوس کررہے ہیں… اس لئے
آج ملک کے تازہ حالات پر چند گذارشات کا ارادہ ہے… اللہ تعالیٰ شرح صدر اور توفیق
عطاء فرمائیں…
﴿ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ﴾
پہلے
ایک تحفہ
حضوراقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب امتی،
شاگرد، داماد اور معتمد حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:
یَا
عَلِیُّ! اَلَا اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتِ الْفَرَجِ؟
’’اے علی!کیا میں آپ کو حالات کی بہتری لانے والے’’کلمات‘‘ نہ
سکھائوں‘‘…
’’اَلْفَرَج‘‘ کہتے ہیں کشادگی کو… غم کادور ہونا، پریشانی کا ختم
ہونا، بند راستے کھلنا، مسائل کا حل ہونا، دل کا بوجھ اُترنا…ان سب کو عربی میں’’
اَلْفَرَج‘‘ کہتے ہیں… پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تلقین فرمائے:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ
الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ (خصائص للنسائی)
یہ
بڑے مبارک اور طاقتور کلمات ہیں… آج کے غم زدہ حالات میں ہمارے لئے یہ اَلفاظ بہت
بڑا ’’تحفہ‘‘ ہیں…
طاعون
کے چوہے
کسی
زمانے ’’طاعون‘‘ کا مرض ایک وباء کی طرح پھیلتا تھا… غلاظت میں پلنے والے ’’
چوہوں‘‘ کے ذریعہ سے یہ مرض شروع ہوتا اور پھر شہر کے شہر اور بستیوں کی بستیاں
اجاڑ دیتا تھا… غلیظ چوہے اپنی غلاظت سے یہ مرض اٹھاتے اور پھر یہ سمجھتے کہ بس اب
دنیا پر ہماری حکومت ہوگی… اور دنیا سے سارے انسان ختم ہوجائیں گے… طاعون کے عروج
کے زمانے بظاہر یہی نظر آتا کہ… واقعی انسان ختم ہونے والے ہیں…
ایک ایک گھر سے کئی کئی
جنازے اُٹھتے… لوگ ابھی تدفین سے فارغ نہ ہوتے کہ پیچھے مزید لاشوں کا ڈھیر جمع
ہوجاتا… لوگ اتنی تیزی اور کثرت سے مرتے کہ زندہ رہنے والوں کے دل بھی برُی طرح
بجھ جاتے… یہاں تک کہ آنکھوں کے آنسو بھی ختم ہوجاتے… کسی کے مرنے پر رونے کا تو
کیا غم ہوتا یہ فکر پڑجاتی کہ کس کس کو دفن کریں اور کہا ں دفن کریں… ان حالات میں
’’چوہے‘‘ بڑے خوش ہوتے … وہ اپنی خوشی کا جشن مناتے… اور دل کھول کر دانت بجاتے…
مگر
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے … انسان کے لیے ہی یہ زمین بنائی
گئی ہے چنانچہ انسان سنبھل جاتے اور چوہوں کو بھاگنا پڑتا … ایسے ’’طاعون‘‘ ہزاروں
آئے اور ہر بار بلآخر چوہوں کو بھاگنا پڑا … پاکستان میںآج کل بد دینی کا طاعون
آیا ہوا ہے …شرابوں، بدکا ریوں، بے حیائیوں میں پلنے والے چوہے ، کافروں کے حرام
مال سے طاقت پانے والے ’’چوہے‘‘ اس ملک کو بد دینی ،بدکا ری اور بے حیائی کی دلدل
میں اتارنے کی محنت میں لگے ہوئے ہیں …
کچھ
دن سے ایسے حالات سامنے آرہے ہیں جن کی وجہ سے… یہ طاعونی چوہے، بہت خوش ہیں اور
وہ سمجھ رہے ہیں کہ… اب اس ملک میں اسلا م ختم ، دین ختم ، جہاد ختم… نون لیگ کی
موجودہ حکومت ان کے وہ ’’ ارمان‘‘ بھی پورے کردے گی … جو پر ویز مشرف بھی پورے نہ
کرسکا … حکومت نے بھارتی دباؤ میں … یا ہندو دوستی میں … پٹھان کوٹ کا مقدمہ
پاکستان میں درج کیا …پھر فوراً ایک گندی فلم اور اس کی گندی ہدایت کا رہ کو اس کی
اوقات سے بڑھ کر… وزیر اعظم ہاؤس میں پذیرائی ملی … پھر فوراً ہی پنجاب حکومت نے
’’تحفظ نسواں‘‘ نامی ایک ’’بل‘‘ کھود ڈالا… اور پھر اُس کے بعد عاشق رسول غازی
ممتاز قادری رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کر
دیا گیا…
یہ
تما م اقدامات اس قدر تیزی سے پئے در پئے ہوئے کہ … طاعونی فرقے کی ’’دیوالی‘‘
ہوگئی … وزیر اعظم کی قلبی خواہش یہ بھی سامنے آئی کہ … وہ مشرکوں کا مقدس تہوار’
’ہولی ‘‘ خود منایا کریں… اور اس تہوار پر ہندو ان پر رنگ پھینکا کریں … مگر ہولی
میں کچھ دیر تھی اور اپنے اوپر کا فروںکا رنگ ڈالنے کی جلدی … اس لیے مسلمانوں کے
خون سے ہولی کھیلنے کی تدبیر کر لی گئی …طرح طرح کے پولیس مقابلے ،پھانسیاںاور
خفیہ قتل غاریاں … اب رنگ ہی رنگ ہے … خون کا سرخ رنگ… حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم کے پیارے اُمتیوں کے خون کا رنگ…
یہ رنگ جیسے ہی موجودہ حکومت کے چہرے پر پڑا… فوراً مودی کے بھی خوشی سے دانت نکل
آئے … اب وہ جلد ہی ہمارے وزیر اعظم کو اپنی ملاقات کا شرف بخشنے والا ہے …
امریکہ نے بھی خوشی سے تالیاں بجائیں کہ … یہ حکومت ہمارے بہت کا م آرہی ہے… اور
پاکستان کا بے دین طبقہ تو خوشی سے مرے جا رہا ہے … ہر طرف طاعون کے چوہے … دم
اٹھائے، دانت نکالے جشن منارہے ہیں …اور دوسری طرف اہل ایمان کے ہاں غم ہے،
پریشانی ہے …جنازے ہیں اور صدمے ہیں …
آئیے!
مل کروہ نعرہ لگاتے ہیں جو غار ثور میں گونجا تھا :
اِنَّ
اللّٰہَ مَعَنَا… اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا… اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا
آئیے!
وہ دعاء پڑھتے ہیں… جو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو سکھائی:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ
الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔
افسوس
ناک منظر
پاکستان
کی ترقی اور حفاظت کا دعویٰ کرکے …اہل پاکستان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے
والے یہ حکمران کون ہیں؟… آپ ان حکمرانوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں دل غم سے
پھٹنے لگے گا … پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر …کتنے پاکستانی
شہید کر دیئے … کتنے پاکستانی فروخت کردیئے … آج خود اس کی یہ حالت ہے کہ ہر وقت
پاکستان سے بھاگنے کی فکر میں لگا ہے ،اب سب سے پہلے پاکستان کیوں یاد نہیں آتا
؟… اس وقت وہ کہتا تھا کہ قانون کا احترام کرو … آج وہ خود قانون کے سامنے کیوں
پیش نہیں ہوتا؟ … کئی سال تک پاکستانیوں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ’’شوکت عزیز
‘‘آج ایک ہندو صنعت کا ر کا ملازم ہے … کئی ماہ تک پاکستان کے سفید وسیاہ کا مالک
’’ معین قریشی‘‘ آج بھی غیر ملکیوں کی نوکری کررہاہے … کئی سال تک پاکستانیوںکو
لوٹنے والا ’’زرداری‘‘ آج امریکہ میں بیٹھا ہے … کئی سال تک پاکستانیوں کو وفا
داری یا غداری کے سر ٹیفکیٹ جاری کر نے والا ’’حسین حقانی ‘‘آج سامراج کا پا
کستان کے خلاف سب سے بڑا جا سوس ہے … مگر موجودہ حکومت… ان سب کو پیچھے چھوڑ چکی
ہے … اور وہ پاکستان کو اس غارکی طرف دھکیل رہی ہے … جہاں صرف خون ہی خون ہے اور
اندھیر ا ہی اندھیرا…
پاکستان میں دہشت گردی نا
م کی کوئی چیز مذہب کی طرف منسوب نہیں تھی … دہشت گردی یہاں کے وڈیرے ، جاگیر
داراور سیاسی پارٹیا ں کرتے تھے… پرویز مشرف کے دور میں خود مذہبی دہشت گردی کو
اُٹھا یا گیا … مقصد یہ تھا کہ اس کی آڑ میں ملک سے دین اور مذہب کا صفایا کردیا
جائے گا… دراصل یہ حکمران نہ پاکستان کو جانتے ہیں اور نہ یہ پاکستان کے زمینی
حقائق کو سمجھتے ہیں … یہ لوگ اونچی اور بند کوٹھیوں میں پیدا ہوئے … ان کی پرورش
غیر ملکی دودھ سے ہوئی … تعلیم انہوں نے غیر ملکی یونیورسٹیوں میںحاصل کی … اور یہ
ہمیشہ نوکروں اور غلاموں کے حصار میںرہے …یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام صرف
مسجدوں اور مدرسوں تک محدود ہے… اس لیے جب یہ مسجدوں اور مدرسوں کو فتح کر لیں گے
تو… پاکستان ایک لبرل ملک بن جائے گا… میں ابھی یہ کالم لکھ رہا ہوں اور میرے قریب
ہی … ایک شہید’’ ممتاز قادری ‘‘کی زیارت جاری ہے … کل سے ابھی تک لاکھوں افراد اس
کے ایک دیدار کے لیے میلوں لمبی لائنوں میں کھڑے ہیں … یہ نہ مدارس کے طلبہ ہیں
اور نہ مسجدوں کے مؤذن اور امام … اسلام پاکستان کی جڑوں میں اُترا ہو ا ہے…
شکر کرو کہ پاکستان کا
مسلمان… کا فی اَمن پسند اور اعتدال پسند ہے … اسی لیے تم اس کے سینے پر کئی وار
کر لیتے ہو… لیکن جس دن پاکستان کے ’’دیندار‘‘ نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ… اس ملک
میں اس کے لئے سانس لینا مشکل ہے…اس دن تم چھاپے اور فورتھ شیڈول سب بھول جائو گے…
ہاں! سچ کہتا ہوں… تم خود ہی پاکستان کے مسلمانوں کو ’’داعش‘‘ بننے پر مجبور کررہے
ہو… کیا قرآن مجید کی تعلیم جرم ہے؟…تم کس منہ سے ہر مدرسے میں گھس جاتے ہو اور
وہاں پڑھنے والے عظیم المرتبہ طالب علموں سے ان کی عفت مآب بہنوں کے نام تک
پوچھتے ہو؟… دینی مدارس کے یہ طلبہ جس دن صرف بارہ گھنٹے کے لئے سڑکوں پر آگئے تو
تمہیں…قبرستانوں میں بھی سرچھپانے کی جگہ نہیں ملے گی… یہ غیر ملکی این جی اوز کے
پھنکارتے سانپ اس دن کیچووں سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہوں گے… جس دن قوم نے ان سے
ان کی دین دشمنی اور ملک دشمنی کا حساب مانگ لیا… یہ شراب اور سگریٹ کے ذریعہ
بدبودار کالم لکھنے والے نام نہاد دانشور…جو سائنس، سائنس کا شور مچا کر… ہر وقت
اسلام اور علماء کی توہین کرتے رہتے ہیں… قوم نے جس دن ان کا محاسبہ کیا تو ان
کو…خود ان کے گھر والے بھی پناہ نہیں دیں گے…کوئی ان جاہلوں سے پوچھے کہ… تم نے اب
تک کیا ایجاد کیا ہے؟… تم نے اب تک مسلمانوں کے لئے کونسی ٹیکنالوجی بنائی ہے؟…تم
نے اب تک قوم کو سوائے نفرت، حقارت اور ذلت کے اور کیا دیا ہے؟ خود تو تم اپنے
قلموں میں ناپاکی بھر کر اسی سے مال کماتے ہو اور طعنے علماء اور مجاہدین کو دیتے
ہو کہ… انہوں نے قوم کو ترقی سے روک رکھا ہے… تم نے کبھی اپنے گریبان میں بھی
جھانکا؟…یہ انسانی حقوق کے علمبردار… کوئی ان کی زندگی قریب سے دیکھے تو اسے متلی
اور قے آجائے گی…یہ نہ اپنے ملازموں کو انسانی حقوق دیتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو
… نہ اپنے غریب پڑوسیوں کو انسان سمجھتے ہیں اور نہ اپنے غریب رشتہ داروں کو… ان
کے انسانی حقوق صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے تک محدود ہیں…
ہاں!
آج پاکستان میں حالات بہت افسوسناک ہیں… بہت افسوسناک… مگر ہمیں نہ کوئی مایوسی
ہے، نہ پریشانی… طاعون کے چوہوں کا یہ کھیل زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا… ہاں! افسوس
صرف اس بات کا ہے کہ… وہ اہل ایمان جو اب تک صبر، برداشت اورتحمل کا درس دیتے رہے
ہیں…ان کو تم ایسے راستے پر جانے کے لئے مجبور کررہے ہو… جس راستے میں بہرحال کسی
کے لئے خیر نہیں ہوتی… بے صبری کی آگ جب بھڑکتی ہے تو پھر وہ انصاف نہیں کرسکتی…
انتقام اور بے چینی کا لاوا جب پھٹتا ہے تو پھر…درست اور غلط کی تمیز نہیں رہتی…
اَب
بس کرو
موجودہ
حکومت جو کچھ کررہی ہے… اس سے نہ ملک کو کوئی فائدہ ہوگا اور نہ حکومت کو… ممکن ہے
حکومت اپنے ان ظالمانہ اقدامات میں… مزید کچھ کامیابیاں حاصل کرلے… اور اسلام
دشمنوں سے مزید کچھ شاباش کمالے… ممکن ہے ملک کے مسلمانوں کو مزید کچھ غم دیکھنے
پڑیں… مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے… پاکستان کے مسلمانوں کی دینی
وابستگی نہ کسی ’’مدرسہ‘‘ تک محدود ہے نہ کسی شخصیت تک… دوچار سومدارس بند کرنے…
اور اُمت مسلمہ کے دوچار قائدین کو مارنے سے یہ قوم نہ ہی’’بددین‘‘ ہو جائے گی…
اور نہ ہی ٹھنڈی… اس قوم کی مائوں کے دودھ میں کلمہ، جہاداور نماز کے مبارک اَثرات
ہیں …اس قوم کی بہنوں کے آنسو ایمانی جذبات کی تاثیر رکھتے ہیں… اس زمین کی مٹی
میں شہداء کے جذبے پَل رہے ہیں… غیر ملکی دشمنوں کی خوشنودی کے لئے اپنے ملک کو
صومالیہ اور لیبیا نہ بنائو… کمال اتاترک نے جو اقدامات کئے تھے ان میں اس کی
کامیابی… ایک عارضی موسم تھا… اس وقت ترکی کا دیندار طبقہ اندر سے دنیا پرست ہوچکا
تھا… پھر بھی کمال اتاترک کا جادو پچاس سال ہی میں ٹوٹ گیا… ا س کے بعد کون سا
سیکولر حکمران اس طرح کے اقدامات میں کامیاب ہوا؟… امریکہ، اسرائیل اور انڈیا
تمہیں استعمال کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ… تمہارے انہی اقدامات سے یہ ملک
تباہ ہوگا…
بہت
ظلم ہوچکا… اب بس کرو… اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ… تمہارے ان اقدامات سے پاکستان
کے مسلمان خوفزدہ ہیں… نہیں، ہرگز نہیں …حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی
پھانسیوں اور سولیوں سے نہیں ڈرتے… یہ ان کے لئے کھیل کے جھولے ہیں… گرفتاری،قید
اور نظر بندی ہمیشہ جہاد کو طاقتور بناتی ہے… شہادت اپنے پیچھے زندگی کی ایک نئی
لہر چھوڑ جاتی ہے…تم جن کو گھروں میں ستاؤ گے ان کو جنگل اور پہاڑ اپنا شیر بنا
لیں گے … وہ جن کو تم دربدر کروگے وہ مورچوں کو اپنا گھر بنالیں گے، تم دہشت
پھیلائو گے تو ہشت گردی پھیل جائے گی… تم موت بانٹو گے تو موت کے بازار سج جائیں
گے…تم صرف غیروں کو ہی خوش کرتے رہوگے تو پھر… اپنے روٹھ جائیں گے اور غیر تمہیں
استعمال شدہ ٹشو کی طرح کچرادان میں ڈال دیں گے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور535
اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ
بیت
اللہ جنت کا ٹکڑا…
انسان
جن کاموں کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ان میں سے
ایک
اہم ترین کام… حج بیت اللہ…
نو
ذوالحجہ کا خاص منظر…
ساری
دنیا کا حقیقی حسن مکہ و مدینہ میں…
اہل
علم کی محبت بھری لڑائی…
حج،
اسلام کی عمارت کا لازمی ستون…
حج
کے فضائل و فوائد…
عِلِّیِّیْن
کے مراکز…
تلبیہ
کی فضیلت… ایک وظیفہ…
حضرت
نوح علیہ السلام کا تحفہ…
حرمین
شریفین کی محبت میں ڈوبی… دل کے تار ہلاتی…
آنکھوں
کو آنسوؤں میں ڈبوتی… حج کی طرف بلاتی…
ایک
عشق بھری تحریر
۲۹ جمادی الاولیٰ۱۴۳۷ھ؍ 09 مارچ 2016ء
اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ
اللہ
تعالیٰ کے پیارے بندو! حج کر لو، حج کر لو،حج کر لو…
اللہ
تعالیٰ کی پیاری بندیو! حج کر لو، حج کر لو، حج کر لو…
ہم
دنیا میں جن ضروری کاموں کے لئے بھیجے گئے ہیں…ان کاموں میں سے اہم ترین کام ’’حج
بیت اللہ ‘‘ ہے…
’’بیت اللہ‘‘ سبحان اللہ…اللہ تعالیٰ کا گھر … دل چاہتا ہے رو رو
کر لکھتا جاؤں…بیت اللہ، بیت اللہ، بیت اللہ، اور آپ رو رو کر پڑھتے جائیں …بیت
اللہ، بیت اللہ، بیت اللہ…
پلاٹ
اور زیور کا ہم نے کیا کرنا ہے؟… بیت اللہ تو جنت کا ٹکڑا ہے… مالک کا احسان کہ
ہمیں دنیا میں یہ عطاء فرما دیا…آہ! آنکھیں کتنی پیاسی رہ جاتی ہیںاگر وہ ’’بیت
اللہ ‘‘ کو نہ دیکھ سکیں…
کتنی
محرومی کی بات ہے کہ…شادیوں کی دعوتیں کرتے رہو اور بیت اللہ کو نہ جا سکو…تھوڑا
سا سوچو ہم نے زندگی میں کتنی بار اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا؟…کتنی بار ایسے کام
کئے جن کو دیکھ کر محبوب مالک کو غصہ آتا ہے… تو کیا ہم ایک بار ایسا نہیں کر
سکتے کہ …اللہ تعالیٰ خوشی سے ہم پر فخر فرمائیں اور اپنے فرشتوں سے کہیں…دیکھو!
میرے بندوں کو …یہ خاص لمحہ اور خاص منظر نو ذی الحجہ کے دن ’’عرفات‘‘ کے میدان
میں نصیب ہوتا ہے…صحیح حدیث میں آیا ہے کہ …جب عرفات میں حجاج جمع ہوتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ ان کے قریب ہو کر … فرشتوں کے سامنے ان پر فخر فرماتے ہیں…
عرفات
ہم سے کتنا دور ہے؟ … ارے! اپنی جان بیچ کر جانا پڑے تو آدمی چلا جائے کہ کبھی تو
اپنے رب کو اپنے اوپر خوش کر لوں…ایک جہاد کا محاذ…اور دوسرا حج کا میدان…دنیا میں
کوئی جگہ ان کے برابر نہیں… معلوم نہیں لوگ کہاں کہاں گھومتے رہتے ہیں…اور کہاں
کہاں گھومنا چاہتے ہیں… اس پاک زمین پر جانے کے لئے نہیں تڑپتے… جہاں ہدایت برستی
ہے، جہاں نور ٹپکتا ہے… جہاں ملائکہ اترتے ہیں…جہاں مغفرت بٹتی ہے… جہاں حسن چمکتا
ہے… جہاں رحمت مہکتی ہے…سبحان اللہ…وہ کعبہ شریف …اللہ اللہ اللہ… وہ اس کی حطیم
شریف… وہ سامنے مقامِ ابراہیم… وہ پیارا حجر اسود… بہت پیارا، بے حد پیارا… میرے
اللہ! حجر اسود کے ایک بوسے کا سوال ہے…وہ رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان کی
مقبول دعاء… وہ کعبہ کی چھت پر لگا پرنالہ… وہ صفا،وہ مروہ… وہ عرفات کے انوارات،
وہ منیٰ کی پُر کیف وادی… وہ مزدلفہ کی روحانی ٹھنڈک …وہ مکہ مکرمہ…وہ مدینہ
منورہ…
ساری
دنیا کا حقیقی حسن ان دو شہروں میں سمٹ آیا ہے… اہل علم محبت کے ساتھ لڑتے رہے کہ
مکہ افضل ہے یا مدینہ…فیصلہ کوئی بھی نہیں کر پاتا … مکہ تو ماشاء اللہ مکہ ہے…عزت
و وقار میں بے مثال…اور مدینہ تو ماشاء اللہ مدینہ ہے …حسن و جمال میں بے مثال…
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے بے حد پیار تھا…جب مکہ چھوڑنا پڑا تو
دل مبارک رو رہا تھا…اور میرے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ سے بے حد
پیار تھا… ایسا پیار کہ اسے قیامت تک چھوڑنے سے انکار فرما دیا…مکہ جاکر بیٹھو تو
مکہ مکرمہ پیار سے پوچھتا ہے…کیا تم نے مدینہ دیکھا ہے؟ تم مدینہ کب جاؤ گے اور
وہاں سے واپس میرے پاس کب آؤ گے؟ مجھے اُن سے پیار ہے جو مدینہ سے آتے ہیں…اور
مدینہ منورہ جا بیٹھو تو وہ پوچھتا ہے کیا تم نے مکہ کی زیارت کی ہے؟… کب میری
سرحد سے احرام باندھ کر مکہ جاؤ گے… اور پھر مکہ سے کب لوٹ کر واپس میرے پاس آؤ
گے … مجھے ان سے پیار ہے جو مکہ سے آتے ہیں … سبحان اللہ! حاجی کے مزے ہو جاتے
ہیں…عمرہ کرنے والے کی موج ہو جاتی ہے… کبھی اس کا جسم مکہ میں تو روح مدینہ
میں…اور کبھی روح مکہ میں تو جسم مدینہ میں…سچی بات ہے نہ مکہ شریف سے دل بھرتا ہے
اور نہ مدینہ پاک سے…کسی کی عمر ہزار سال ہو اور وہ روزانہ ایک بار مکہ جائے اور
ایک بار مدینہ تب بھی دل کی پیاس نہیں بجھتی… روح پھر بھی مکہ اور مدینہ کی طرف
یوں لپکتی ہے جس طرح شیرخوار بچہ اپنی ماں کی طرف… اے مسلمانو! سنو! اللہ تعالیٰ
نے ہمیں حج کی طرف بلایا … اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام نے انسانوں کو حج کی طرف بلایا… اللہ تعالیٰ نے
کلمۂ طیبہ کی دولت سے مالا مال ایمان والوں پر پانچ چیزیں لازمی فرض فرمائیں…یہ
پانچ چیزیں زندگی کا مقصد اور زندگی کی ضرورت ہیں…ان پانچ میں سے ایک حج بیت اللہ
ہے…اسلام کی عمارت کا ایک لازمی ستون… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ…حج کی استطاعت کے باوجود
نہیں جاؤ گے تو خطرہ ہے کہ یہودی ہو کر مرو گے یا نصرانی … حج کی برکت سے گناہ
سارے معاف ہو جاتے ہیں…اور حج کا بدلہ جنت ہے… حج کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا
میں غنی فرما دیتے ہیں…اور حج کے اعمال پوری زندگی انسان کے ساتھ رہتے ہیں… اور
مرنے کے بعد اس کے ساتھ قبر اور حشر میں جاتے ہیں…شیطان ہمیشہ حج سے روکتا ہے…وہ
حج سے ڈراتا ہے…وہ خرچے گنواتا ہے …وہ جانتا ہے کہ یہ حج پر چلے گئے تو خطرہ ہے
کہ…میرے ہاتھ سے نکل جائیں… یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی عدالت میں پکی توبہ کر
آئے تو میری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا… شیطان کو تو ہمارے ایک سجدے سے بھی
تکلیف ہوتی ہے …جبکہ حرم شریف کا ایک سجدہ ایک لاکھ سجدوں کے برابر ہے…ایسا سجدہ
تو شیطان کی کمر توڑ دیتا ہے… شیطان کو ہمارے ایک بار ’’الحمد للہ‘‘… ’’سبحان
اللہ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے سے درد ہوتا ہے… جبکہ حرم شریف میں ایک بار کا
الحمد للہ، سبحان اللہ، اللہ اکبر …ایک لاکھ بار پڑھنے کے برابر ہے…شیطان کہتا ہے
پیرس جاؤ وہاں عیش کرو… لندن جاؤ وہاں عیاشی کرو…واشنگٹن جاؤ وہاں ترقی دیکھو…
یعنی بیت اللہ نہ جاؤ… بیت الخلاء میں جا بیٹھو… آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو حج
بیت اللہ کے فریضے کی طرف بلایا جائے …تاکہ یہ اپنے اصل مرکز سے جڑے رہیں…آج
ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے سامنے مکہ اور مدینہ کے حقیقی حسن کو بار بار بیان کیا
جائے… تاکہ یہ کفر کے اڈوں کی طرف نہیں، ایمان کے مرکز کی طرف دوڑیں …اے مسلمانو!
شوق کے اس قافلے کو دیکھو جو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں…احرام باندھے، تلبیہ پڑھتے مکہ
مکرمہ جا رہا تھا…مگر اسے حدیبیہ پر روک دیا گیا… پھر اس قافلے کے شوق کا ایک ذرہ
اللہ تعالیٰ سے مانگ لو…بس جیسے ہی دل میں شوق آیا…راستے کھلنا شروع ہو جائیں گے
… اور روح اُڑنے لگ جائے گی… ارے! کعبہ اور روضۂ اطہر یہ اس دنیا کی جگہیں نہیں
ہیں…
اہل
دل نے لکھا ہے کہ …مرنے کے بعد ایمان والوں کے لئے ’’عِلِّیِّیْن ‘‘ کے جو آٹھ
مراکز بنائے گئے ہیں… ان میں سے بعض زمزم کے کنویں کے پاس ہیں اور بعض مدینہ منورہ
روضۂ اطہر کے پاس…یہ تو عظیم مالک کا اس امت پر احسان ہے کہ…دنیا میں یہ مقامات
ہمارے لئے کھول دئیے…تاکہ ہم ان سے فیض پا کر مرنے کے بعد اونچے محلات پا سکیں…
ارے بھائیو! اور بہنو! مکہ اور مدینہ سے یاری لگاؤ ، دوستی لگاؤ، تعلق بناؤ…
مرنے کے بعد روح کو ان کے پڑوس میں کوئی جگہ مل گئی تو جنت کے دروازے پر جا بیٹھو
گے…یہ شہداء کرام کے مزے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد … ان دو مقامات پر جگہ پالیتے ہیں
…بے شک وہ زندہ ہیں اور زندہ کہلاتے ہیں… مکہ اور مدینہ میں زندگی ملتی ہے زندگی…
شیطان زور لگاتا ہے کہ مسلمان وہاں نہ جائیں… اور اگر چلے بھی جائیں تو وہاں کے
بازاروں میں کھو جائیں… وہاں کے بازار بڑے خطرناک ہیں… جو بھی جائے نیت باندھ کر
جائے کہ…بازاروں سے حتی الوسع بچنا ہے…
بھائیو!
اور بہنو! حج کی آواز لگ چکی ہے … اُٹھو نیت باندھ لو…تلبیہ یاد کر لو…
لَبَّیْکَ
اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ
وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ
حدیث
شریف میں آتا ہے کہ…جب کوئی مسلمان ’’تلبیہ ‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں
کے تمام پتھر، درخت اور عمارتیں بھی تلبیہ پڑھتی ہیں…دائیں طرف زمین کے آخری
کنارے تک اور بائیں طرف بھی زمین کے آخری کنارے تک… ارے بھائیو! اور بہنو! زمین
کے پتھر اور درختوں نے ہمارے معلوم نہیں کتنے گناہ دیکھ رکھے ہیں…اور ہمارے گناہوں
والی کتنی باتیں سن رکھی ہیں… اُٹھو! حرم شریف کی طرف دوڑو… میقات پر احرام باندھو
اور دیوانہ وار پڑھو…
لَبَّیْکَ
اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ
وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ
دیکھو!
مدینہ منورہ سے آواز آ رہی ہے…
اَیُّھَا
النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا ( صحیح مسلم )
اے
لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے…پس تم حج کرو…
بس
بات ہی ختم ہو گئی…مدینہ پاک سے حکم آ گیا…اب تو جانا ہے ان شاء اللہ…جو بیچنا
پڑے اسے بیچنا سعادت…جو چھوڑنا پڑے اسے چھوڑنا سعادت… اس میں جو تھکنا پڑے وہ
تھکاوٹ سعادت… ارے! جلدی کرو… ایسا نہ ہو کہ تمہارے درمیان اور بیت اللہ کے درمیان
رکاوٹیں آ جائیں… اس سال کی حج پالیسی کا اعلان ہونے والا ہے … جنہوں نے اب تک یہ
فریضہ ادا نہیں کیا…وہ آج سے ہی دو رکعت نفل روزانہ ادا کریں خوب مانگیں، خوب
گڑگڑائیں … جن کی اولاد جوان ہو چکی ہے… اور وہ استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنی اولاد
کو حج کرائیں تاکہ… اولاد کے فرائض پورے ہوں… اور ان کی زندگی بامقصد بنے… بھائیو!
نوٹوں کی گنتی میں نہ پڑو، یہ نوٹ ہمیں اسی لئے ملتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے ان کے
ذریعہ اپنے فرائض ادا کریں… ہاں! اپنی اور اپنی اولاد کی ایک گنتی ہروقت ضرور کرتے
رہو کہ…کتنے فرائض ادا ہو گئے اور کتنے باقی ہیں؟ … فریضۂ نماز، فریضۂ زکوٰۃ،
فریضۂ صیام، فریضۂ حج اور فریضۂ جہادِ فی سبیل اللہ…ہمارے ایک استاذ محترم
فرمایا کرتے تھے کہ جن کے پاس ’’حرمین شریفین‘‘ جانے کے اسباب نہ ہوں اور وہ جانے
کا شوق رکھتے ہیں… تو وہ ہر نماز کے بعد ایک بار ’’تلبیہ‘‘ پڑھ لیا کریں… ان شاء
اللہ آسانی ہو جائے گی…
لَبَّیْکَ
اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ
وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ
حضرت
نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تحفہ
حضرت
سیّدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آخر عمر میں اپنے بیٹے کو اپنا ولی عہد بنایا
اور وصیت فرمائی کہ… دو چیزیں کرنا تم پر لازم اور دو چیزوں کو چھوڑنا تم پر لازم
ہے…
جو
دو چیزیں کرنی ہیں ان میں پہلی…
لَآ
اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْـدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ
وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
ان
کلمات کو اپنا ورد بنائیں …ان کی شان عظیم ہے…اگر ان کلمات کو آسمان و زمین سے
تولا جائے تو یہ ان سے زیادہ نکلیں گے…
اور
دوسری چیز …
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ…
ہمیشہ
پڑھا کرو، یہ کلمے تمام مخلوق کے لئے وظیفہ ہیں… ان کا پڑھنے والا محتاج نہیںہوتا
اور جو دو چیزیں چھوڑنا لازم ہیں… وہ ہیں شرک اور تکبر کہ ان سے ہمیشہ دور رہنا
فرض ہے… حضرت سیدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دو وظیفے سکھائے ہیں …ان کے
فضائل ، فوائد اور خواص بہت عالی شان ہیں… اہل دل کبھی دل کی روشنی میں ان پر غور
کریں تو ان پر شکر اور خوشی کا حال طاری ہو جائے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور536
موت فتنے سے بہتر
فتنہ
کیاہوتاہے؟… فتنہ کی تعریف…
فتنہ
کی مختلف شکلیں…
زندگی
کے فتنے، موت کے فتنے…
فتنوں
کی اقسام…
موت
فتنہ سے بہتر…
آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنوں سے حفاظت کی
دعاء کا معمول…
فتنوں
سے حفاظت کے چار نسخے…
دوراتِ
تفسیر آیاتِ الجہاد…
فتنوں
کی پہچان کراتی… اور فتنوں سے حفاظت
کا
سبق دیتی … ایک تحریر
۷ جمادی الثانی۱۴۳۷ھ؍ 16 مارچ 2016ء
موت فتنے سے بہتر
اللہ
تعالیٰ ہمیں ہر ’’فتنے‘‘ سے بچائے…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔
خوش
نصیب ہے وہ جو فتنوں سے بچا لیا جائے … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا…
خوش
نصیب ہے وہ جو فتنوں سے بچا لیا جائے …اور آخر میں فرمایا…واہ ، واہ! اس کے لئے
جس پر فتنہ آئے مگر وہ صبر کرے…یعنی ثابت قدم رہے …وہ پرُ نور ’’بابا جی‘‘ یاد آ
رہے ہیں …نام بھی ’’محمد حیات ‘‘ اور کام بھی حیات…اور اب ان شاء اللہ ان کے لئے
حیات ہی حیات… انہوں نے اپنے وصیت نامے میں تحریر فرمایا کہ … مجھے جماعت سے ہٹانے
کی بہت کوشش کی گئی…تفرقہ بازی بھی ایک بڑا فتنہ ہے…فتنہ وہ ہوتا ہے جو انسان کو
امتحان اور’’ آزمائش‘‘ میں ڈال دیتا ہے …اس کی عقل اور دل پر حملہ آور ہوتا
ہے…جو اسے اپنی کشش کی طرف کھینچتا ہے… جو ہوتا باطل ہے مگر دعویٰ حق ہونے کا کرتا
ہے… اسی لئے تو اسے ’’فتنہ‘‘ کہتے ہیں کہ انسان اس کی وجہ سے ڈگمگانے لگتا ہے کہ
میں کدھر جاؤں؟…حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنی امت کو فتنوں سے متنبہ
فرمایا …بہت سے فتنوں کی نشاندہی فرمائی…کالی اندھیری رات جیسے فتنے … خوفناک
اندھے فتنے … یا اللہ! حفاظت… ایک نظر ’’ماوراء النہر ‘‘ کے علاقے پر ڈالیں…بخارا،
سمر قند، تاشقند…ترمذ اور فرغانہ… آج وہاں کفر ہی کفر…گناہ ہی گناہ اور ظلم ہی
ظلم ہے… یہ وہ علاقے تھے جہاں ایمان تھا، علم تھا ، نور تھا…اور روشنی ہی روشنی تھی…
وہاں سے فقہ کے امام اٹھے اور اسلامی دنیا پر چھا گئے … وہاں سے حدیث کے ائمہ اٹھے
اور ساری دنیا کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے…وہاں سے تصوف کے امام اٹھے اور مشرق و مغرب
کو روشن کر گئے…مگر پھر’’ فتنہ‘‘ آیا …اور سب کچھ کھا گیا سب کچھ مٹا گیا … فتنہ
کبھی ظلم کی صورت میں آتا ہے …اور کبھی عیش کی صورت میں… فتنہ کبھی دشمن کی شکل
میں آتا ہے…تو کبھی مقدس روپ دھار کے…بس ہر وہ چیز جو حق سے ہٹانے…اور گمراہ کرنے
کی طاقت رکھتی ہو…وہ فتنہ کہلاتی ہے… حیات بابا جی جماعت کے ساتھ جڑے رہے…اللہ
تعالیٰ نے انہیں لالچ والے فتنے سے بھی بچایا…اور مقدس شکل دھار کر گمراہ کرنے
والے فتنے سے بھی بچایا… بالآخر وہ جام شہادت نوش فرما گئے…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَتَقَبَّلْہُ شَہِیْدًا
حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کسی فتنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا…مگر آپ
اپنی ہر نماز میں فتنوں سے پناہ مانگتے تھے…زندگی کے فتنوں سے بھی اور موت کے
فتنوں سے بھی…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ
زندگی
کے فتنے بھی بہت خطرناک…کیسے کیسے لوگ کھڑے کھڑے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین سے ہٹ
جاتے ہیں اور موت کے فتنے اس سے بھی زیادہ خطرناک… فتنے کی ایک بڑی مصیبت یہ ہے
کہ…اس میں مبتلا ہونے والا شخص خود کو ‘‘غلط‘‘ نہیں سمجھتا… اسی لئے فتنہ… گناہ سے
زیادہ خطرناک ہے…گناہگار آدمی خود کو گناہ گار اور مجرم سمجھ کر نادم ہوتا ہے،
شرمندہ ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے… مگر جو فتنے میں پھنس جائے وہ تو خود کو حق پر
سمجھتا ہے…اب کہاں ندامت اور کہاں توبہ؟
اسی
لئے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فتنوں سے حفاظت کے نسخے سکھائے…
اور فتنوں سے حفاظت کی دعائیں یاد کرائیں…اور بہت سے فتنوں کی شکلیں اور رنگ تک
بتا دئیے… مسیح دجال کا فتنہ…یہ طاقت،قوت اور ٹیکنالوجی کے زور پر دین سے گمراہ
کرنے کا فتنہ ہے… دجال کذابوں کا فتنہ … یہ روحانیت ،نبوت اور عملیات کے زور پر
لوگوں کو دین سے ہٹانے کا فتنہ ہے … حُبِّ مال کا فتنہ… یہ اس اُمت کا سب سے
خوفناک اور خطرناک فتنہ ہے…عورتوں کا فتنہ… یہ مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کو
بے ایمان، بے عزت اور ذلیل کرنے کا فتنہ ہے… ایسی ذلت جو دین سے ہٹا دیتی ہے …حبّ
جاہ کا فتنہ…یہ اُمت میں فساد، قتل و غارت اور بربادی لانے والا فتنہ ہے… حدثان کا
فتنہ… یہ کم علم اور کم عقل متشدد لوگوں کا فتنہ ہے جس نے خوارج کی شکل اختیار کر
لی تھی… اِلحاد کا فتنہ… بدعات کا فتنہ…اولاد کا فتنہ…کفار کی شان و شوکت اور
روشنی کا فتنہ… کفار کے غلبے اور ترقی کا فتنہ… نفاق اور منافقین کا فتنہ… یا
اللہ! رحم…فتنے ہی فتنے …بس وہی بچ سکتا ہے جسے آپ بچا لیں … اور وہی نکل سکتا ہے
جس کو آپ نکال دیں…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ
فتنوں
سے حفاظت کیسے ہو؟…پہلا نسخہ فتنوں سے حفاظت کی مستقل دعاء …دن رات دعاء … ہر نماز
میں دعاء…اس بارے میں یہاں تک دعاء سکھائی گئی کہ یا اللہ! جب قوم پر آپ فتنہ
لانے کا فیصلہ فرمائیں تو مجھے فتنے سے پہلے ہی موت دیدیں … یعنی فتنہ ایسا کڑوا
ہے کہ…اس کے مقابلے میں موت بھی میٹھی ہے…خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَالْمَوْتُ
خَیْرٌ لِّلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ
یعنی
مومن کے لئے موت، فتنہ سے بہتر ہے…
یہ
دراصل ایک حدیث پاک کا ٹکڑا ہے … اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ انسان موت کو برا سمجھتا ہے
حالانکہ اس کے لئے موت ، فتنے میں مبتلا ہونے سے بہت بہتر ہے اور انسان مال کی کمی
کو برا سمجھتا ہے حالانکہ مال کم ہو گا تو آخرت میں حساب بھی کم ہو گا…
(مسند احمد)
دعاء
کے الفاظ یہ ہیں:
وَاِذَا
اَرَدْتَّ فِتْنَۃَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ۔
فتنوں
سے حفاظت کا دوسرا نسخہ… اللہ تعالیٰ سے دین پر ثابت قدمی کی دعاء مانگنا ہے:
١ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا
وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ﴾
٢ اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی
دِیْنِکَ
٣ ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
ہر
مسلمان اللہ تعالیٰ سے ثابت قلبی اور ثابت قدمی مانگتا رہے…کیونکہ ہر آدمی کا دل
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے… وہ چاہے تو ثابت رکھے اور چاہے تو پھیر دے…
فتنوں
سے حفاظت کا تیسرا نسخہ…اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ہے…
شکر
کے معنٰی ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا… اور اس نعمت کی دل سے قدر کرنا
… ایمان کی نعمت…فرائض کی نعمت…جہاد کی نعمت ،جماعت کی نعمت… پاکدامنی کی نعمت…
وضو اور طہارت کی نعمت …رزق، مال، اہل اور اولاد کی نعمت… عزت اور پردہ پوشی کی
نعمت…جو بھی ان نعمتوں کو اپنا کمال نہیں سمجھتا… بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا
ہے وہ فتنوں سے بچا رہتا ہے… کیونکہ نعمتیں ہی دراصل فتنے بن جاتے ہیں…جب انسان کی
بد نصیبی جاگتی ہے… جب اس کے اندر بُرائی، فخر اور تکبر پیدا ہوتا ہے… جب وہ اپنے
مقصد سے ہٹ کر نعمتوں کا ناجائز استعمال کرتا ہے …یا اللہ! آپ کی پناہ…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ
فتنوں
سے حفاظت کا ایک اہم ترین نسخہ … قرآن مجید ہے…قرآن مجید سیکھنا ،پڑھنا اور اس
پر عمل کرنا… یہ نسخہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے رازدار صحابی حضرت سیّدنا
حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سکھایا… اور بے شک یہ سب سے اہم ترین نسخہ
ہے…ہمارے زمانے میں ’’انکارِ جہاد‘‘ کا جو فتنہ مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکے ڈال رہا
ہے…اس فتنے کا علاج …قرآن مجید کی آیات جہاد میں ہے… ہمارے لئے بے حد شکر کا
مقام ہے کہ…اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو محض اپنے فضل سے …یہ نعمت عطاء فرمائی
ہے… جماعت کے زیر انتظام ’’ آیاتِ جہاد‘‘ کے تفسیری دورے پورے ملک میں …اور ذرائع
ابلاغ کے ذریعے دیگر ممالک میں بھی پڑھائے جاتے ہیں…یہ الحمد للہ بہت با برکت
سلسلہ ہے…مرکز بہاولپور میں پورا سال یہ دورہ ہر ماہ پڑھایا جاتا ہے…اور سال بھر
اس مبارک دورے کی ترتیب ملک کے کئی اضلاع میں جاری رہتی ہے… جبکہ رجب و شعبان میں
سالانہ دورے پورے ملک میں رکھے جاتے ہیں…اس سال الحمد للہ دین کے دیوانوں نے زیادہ
محنت کی ہے …اور تقریباً پچاس کے قریب ’’دوراتِ تفسیر‘‘ کا اہتمام کیا ہے… اللہ
تعالیٰ نصرت فرمائے … اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور537
مخلص،میٹھے
ایک
قیمتی اور اونچی دعاء…
جہادِ
فی سبیل اللہ پر کون آتا ہے؟…
اور
کون نہیں؟…
’’جہاد‘‘ اللہ تعالیٰ سے خاص ’’یاری‘‘ کا نام…
نہ
چال بدلی نہ کھال…
شیطان
کے تین قاتل تیر…
وہن،
ضعف اور استکانت کا معنٰی و مطلب…
ان
تین شیطانی حملوں کا علاج…
مخلص
اور میٹھے مجاہد قبول ہوتے ہیں…
مخلص
اور میٹھے کون؟…
ایک
اہم اور دقیق نکتہ…
بد
دین حکمرانوں کے لئے بری خبر…
جہادِ
فی سبیل اللہ اور قرآنی دعاء کے معارف سمجھاتی تحریر…
۱۴ جمادی الثانی۱۴۳۷ھ؍ 23 مارچ 2016ء
مخلص،میٹھے
اللہ
تعالیٰ نے ’’مجاہدین ‘‘ کو بڑی قیمتی اور اونچی دعاء سکھلا دی ہے…
ایسی
دعاء جو غموں کے پہاڑ مٹا دیتی ہے… ایسی دعاء جو ڈوبتے دل کو شیر بنا دیتی ہے…
ایسی دعاء جو لرزتے قدموں کو جما دیتی ہے… ایسی دعاء جو وساوس کے سیلاب کو اڑا
دیتی ہے…ایسی دعاء جو سخت شیطانی حملے کے وقت ایمان کو بچا لیتی ہے … سورۂ آل
عمران ،چوتھا پارہ کھولیں … دیکھیں! دعاء مسکرا رہی ہے:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
دل
بیچ کے آؤ
جہادِ
فی سبیل اللہ پر وہ آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے… دین کی یہ بلند ترین
چوٹی اللہ تعالیٰ کے ’’یاروں ‘‘کے لئے خاص ہے… اور یار وہ ہوتا ہے جو جان سے پہلے
دل دیتا ہے…
ہم
نے اُن کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا
پھر
کلیجہ رکھ دیا ، دِل رکھ دیا، سر رکھ دیا
جن
کو اپنی عقل پر ناز ہو…اور دل ان کے مردہ ہوں، وہ جہاد پر نہیں آتے… جن کو بس
اپنے ’’بچاؤ‘‘ کی فکر ہو…وہ جہاد پر نہیں آتے… اس عظیم اور مبارک راستے پر صرف
اللہ والے آتے ہیں، دل والے آتے ہیں…
آنا
ہے جو بزمِ جاناں میں
پندار
خودی کو توڑ کے آ
اے
ہوش و خرد کے دیوانے!
یاں
ہوش و خرد کا کام نہیں
حضرات
انبیاء علیہم السلام …جہاد میں شریک ہوئے، قید ہوئے، زخمی ہوئے… ہاں!
دنیا میں اللہ تعالیٰ کے یاروں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے …حضرات صدیقین، اولیاءِ
جہاد میں شہید ہوئے، قید ہوئے، معذور ہوئے… آسان زندگی تو ہر کوئی جی لیتا ہے… بے
کار اور بے مقصد… سستی نعمتیں تو ہر کوئی پا لیتا ہے… مگر جہاد تو اونچی چوٹی ہے…
موت اور کفر کو شکست دینے والی چوٹی… جہاد تو بڑی مہنگی نعمت ہے… کیونکہ یہ… اللہ
تعالیٰ کے قرب کا خاص مقام ہے… اس لئے اس میں ہمت والے ہی اترتے ہیں… اور پھر ہمت والوں میں بھی عزم والے اس میں کامیاب
ہوتے ہیں …وہ جو ہر مشکل پر مسکراتے ہیں… اور ہر تکلیف کو چومتے ہیں…
تو
خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہیں
میں
خوش کہ مرے حصے میں نہیں
وہ
کام جو آساں ہوتے ہیں
وہ
جلوے جو اَرزاں ہوتے ہیں
قیمتی
نعمتیں ہوں گی… شہادت ، قید اور زخم… اور جہاد کا انعام بہت اونچا ہو گا…محبت،
زندگی، حساب سے خلاصی… اور فردوس اعلیٰ… جس کو آنا ہو آ جائے…مگر جو آئے وہ
اپنا دل اللہ تعالیٰ کو بیچ کر آئے… اب اپنی کوئی خواہش نہیں …بس محبوب جو چاہے
اسی میں دل خوش ، اسی میں دل راضی… ہاں! جہاد میں انسان کی ذاتی زندگی کی
’’بربادی‘‘ ہے… ویرانی ہے…مگراسی بربادی اور ویرانی کے اندر تعمیر ہی تعمیر ہے…
آبادی ہی آبادی ہے… اور کامیابی ہی کامیابی ہے…
یہ
صحن و روش ، لالہ و گل
ہونے
دو جو ویراں ہوتے ہیں
تخریبِ
جنوں کے پردے میں
تعمیر
کے ساماں ہوتے ہیں
سبحان
اللہ! اربوں انسان قبروں میں پڑے ہزاروں سال سے ’’حشر‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں…
جبکہ جہاد کے شہداء…اللہ تعالیٰ کا رزق کھا رہے ہیں، جام بھر بھر کے پی رہے
ہیں…اونچی اڑانوں میںاُڑرہے ہیں…کائنات اور آسمانوں کی سیریں کر رہے ہیں…یعنی وہ
جو جان بچا بچا کر جیتے رہے وہ مر گئے، مٹ گئے اور جو جان دینے کو دوڑے…ان کی جان
کو ہمیشہ کی زندگی مل گئی…
عشق
کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
بستیاں
نکلیں ، جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں
شاد
باش و زندہ باش اے عشق خوش سودائے من
تجھ
سے پہلے اپنی عظمت بھی کہاں سمجھا تھا میں
نہ
چال بدلی نہ کھال
جہادِ
فی سبیل اللہ… اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ’’یاری‘‘ کا نام ہے… اور یہ دوستی اور یاری
ان کی قبول ہوتی ہے جو جہاد کی مشکلات میں پڑھتے ہیں…
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
سمجھا
دیا گیا کہ… جہاد میں روٹی والے جعلی مجنوں نہیں ٹھہر سکتے… نیپال میں ایک معمولی
سی پہاڑی چوٹی ہے…اس کا نام ’’ایورسٹ‘‘ ہے… معمولی اس لئے کہا کہ جہاد والی چوٹی
بہت اونچی ہے… دنیا کے سارے پہاڑ اٹھا کر ایک دوسرے کے اوپر رکھ دو… پھر ان پر
چاند رکھ دو، سورج رکھ دو… پھر ان پر مریخ رکھ دو، مشتری رکھ دو… تب بھی یہ سب مل
کر جہاد کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتے… یقین نہ آئے تو شہدائِ اُحد کے حالات پڑھ
لو… اللہ تعالیٰ نے ان سے کس طرح خود باتیں فرمائیں … اور کس طرح ان کا پیغام ساری
دنیا کو سنایا… ایورسٹ کی معمولی سی بلندی پر چڑھنے کے لئے ’’کوہ پیما‘‘ ایسی
خوفناک تکلیفیں اٹھاتے ہیں کہ جن کا… عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا… کتنے کوہ
پیما، راستے میں گر مرے… اور کتنے زخمی اور معذور ہو آئے … جہاد ’’ایورسٹ ‘‘ سے
زیادہ بلند ہے… اس لئے اس میں زیادہ تکلیفیں آتی ہیں…اور بار بار آتی ہیں… اب جو
ان آزمائشوں کے دوران نہ چال بدلتے ہیں نہ کھال… نہ تلوار چھوڑتے ہیں نہ ڈھال…
بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں… اور
اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں ان حالات میں جہاد سے محروم نہ فرما… بس
یہی وہ لوگ ہیں جن کی یاری اور دوستی مقبول ہے…اور ان کا جہاد اللہ تعالیٰ کو
محبوب ہے…فرمایا:
﴿وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ﴾
شیطان
کے حملے
یہودیوں
نے جنگ کا ایک بزدلانہ طریقہ نکالا … دیواروں کے پیچھے سے لڑنا… اب دنیا کے کئی
ممالک نے یہ طریقہ اپنا لیا ہے… آگے ٹینک اور بکتر پیچھے اس کی اوٹ میں فوجی…
جہاد کے دوران مجاہدین پر جو آزمائشیں اور مصیبتیں آتی ہیں … وہ خوفناک ٹینکوں
کی طرح ہوتی ہیں… اور ان ٹینکوں کے پیچھے شیطان چھپا ہوتا ہے… بس جیسے ہی مجاہد پر
کوئی آزمائش آئی…مثلاً وہ زخمی ہوا، معذور ہوا، گرفتار ہوا یا پسپا ہوا… شیطان
نے فوراً اس پر تین قاتل تیر پھینک دیئے…
١
’’وھن‘‘ کا تیر
٢
’’ضعف‘‘ کا تیر
٣
’’اِستکانت‘‘ کا تیر
آپ
میں سے کئی افراد کو تجربہ ہوا ہو گا… آزمائش کے وقت ’’وھن ‘‘ کا حملہ ہوتا ہے…
بزدلی، کم ہمتی، بے دلی… بس یار بھاگ جاؤ، جان بچاؤ ، گھر بناؤ، بچے
سنبھالو…دوسرا حملہ ’’ ضعف‘‘ کا… یعنی کمزوری …کہ اب ہم نہیں لڑ سکتے… اب ہمیں
نہیں لڑنا چاہیے… اور تیسرا حملہ ’’استکانت‘‘ کا… یار بہت تکلیف دیکھ لی اب اپنے
نظریہ میں لچک دکھاؤ…دشمنوں سے ہاتھ ملاؤ … کافروں اور منافقوں سے اَمن کی اور
صلح کی بھیک مانگو… جو شیطان کے ان تیروں میں سے کسی تیر کا شکار ہو گیا… وہ مارا
گیا… وہ عشق میں ناکام ہو گیا… اس کی یاری جھوٹی نکلی… اس کا جہاد کھوٹا نکلا… مگر
سوال یہ ہے کہ ان تیروں سے بچیں کیسے؟… فرمایا وہ جو ہمارے تھے وہ ان تیروں سے بچ
گئے… انہوں نے میدانوں میں اپنے انبیاء علیہم السلام کے شہید ہونے کی خبر سنی … اللہ، اللہ اس سے بڑا
غم اور صدمہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ … اس سے زیادہ بے ہمت اور بے حوصلہ کرنے والی اور
کیا چیز ہو سکتی ہے؟… مگر وہ ڈٹے رہے …کیوں؟… اس لئے کہ انہوں نے شیطانی تیروں کا
فوری دفاع اور علاج کر لیا…وہ علاج ہے:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
انہوں
نے اپنے محبوب رب سے مغفرت مانگ لی ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا﴾ … مغفرت علاج ہے
’’وھن ‘‘ کا… کیونکہ بزدلی اور کم ہمتی گناہوں کی وجہ سے آتی ہے… گناہ مٹے تو
بزدلی بھی بھاگ گئی …اور انہوں نے اپنے محبوب رب سے ثابت قدمی مانگ لی… ﴿وَ
ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا﴾… ثابت قدمی ’’علاج ‘‘ ہے ’’ضعف‘‘ کا… جب اللہ تعالیٰ پاؤں
جما دے تو پھر کیسی کمزوری اور کونسی کمزوری؟…
اور انہوں نے اپنے محبوب رب سے ’’ نصرت ‘‘ مانگ لی…
﴿وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ﴾
اور
نصرتِ الٰہی ’’علاج ‘‘ ہے… استکانت کا…اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت آ جائے تو پھر
کون جھکے؟ کون دبے؟ اور کیوں دبے؟…
بھائیو!
دل سے پڑھو، سمجھ کر پڑھو، کثرت سے پڑھو… اور گڑگڑا کر مانگو…
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
اس
مبارک دعا کا مکمل مفہوم ، معنیٰ اور پس منظر سمجھنے کے لئے سورہ آل عمران کی
آیات ۱۴۶،
۱۴۷،
۱۴۸
کا… فتح الجواد میں مطالعہ فرما لیں…
فرق
واضح ہے
آپ
نے ’’تربوز ‘‘ دیکھا ہو گا… اسے متیرہ اور ہندوانہ بھی کہتے ہیں… اوپر سے سارے
تربوز ایک جیسے لگتے ہیں… مگر جب کاٹیں تو کوئی سرخ میٹھا نکلتا ہے… اور کوئی سفید
پھیکا… جو سرخ اور میٹھا ہو اسے قبول کر لیا جاتا ہے… اور جو سفید پھیکا ہو وہ
پھینک دیا جاتا ہے یا جانوروں کو ڈال دیا جاتا ہے… اسی طرح دیکھنے میں سب
’’مجاہد‘‘ ایک جیسے لگتے ہیں… لیکن جب آزمائش کی ’’چھری‘‘ چلتی ہے تو اصل رنگ
ظاہر ہو جاتا ہے… میٹھے مخلص قبول کر لئے جاتے ہیں… اور پھیکے کچے پھینک دئیے جاتے
ہیں…میٹھے مخلص وہ ہوتے ہیں جو آزمائشوں کے وقت ڈٹے رہتے ہیں… آپ اندازہ لگائیں
کتنا بڑا فرق ہے… ایک شخص پر آزمائش آئی تو وہ جہاد سے بھاگنے کی تدبیریں کر رہا
ہے… یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے کو چھوڑ رہا ہے… اور دوسرا وہ کہ جس پر آزمائش
آئی تو اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگ مانگ کر منت کر رہا ہے کہ… یا اللہ! مجھے
ثابت قدم رکھ اور مجھے اپنے راستے سے محروم نہ فرما…
اب
سوال یہ ہے کہ ہم بہت کمزور ہیں… جبکہ آزمائشیں بہت سخت ہیں تو پھر… ایسے سخت
حالات میں کس طرح سے میٹھے اور مخلص رہیں؟ … جواب آیا کہ اخلاص و یقین کے ساتھ یہ
پڑھنے میں لگ جاؤ:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
یعنی
سچا استغفار کرو…اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی مانگو… اور اللہ تعالیٰ کی نصرت مانگو…
بھاگنے، کچا ہونے ، پھیکا پڑنے اور جھکنے یا دبنے کا خیال دل سے نکال دو…اللہ
تعالیٰ سے معافی مانگو اور ڈٹے رہنے کا عزم باندھو… یہ تمام باتیں اسی دعاء میں
آجاتی ہیں:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
حکمرانوں
کے لئے جگر کا ایک شعر
قرآن
مجید میں سمجھایا گیا کہ… ماضی کی امتوں میں ایسے اللہ والے مجاہد موجود تھے…جو
جہاد کی آزمائشوں سے نہ کم ہمت ہوئے، نہ کمزور پڑے، نہ جھکے… بلکہ انہوں نے کہا:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
ایسے
مجاہدین کا بدلہ یہ ہے کہ …دنیا میں ان کو اعلیٰ درجے کی عزت اور آخرت میں دوسروں
سے اونچا مقام ملا…اس میں ایک تو سبق ہے کہ …امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل اُمت ہے… اس کے مجاہدین کو بھی یہی
طرز اپنانی چاہیے… اور دوسرا اس میں یہ پیغام ہے کہ… جب سابقہ امتوں میں ایسے
مجاہدین موجود تھے تو اس اُمت میں ان سے بھی بڑھ کر موجود رہیں گے… کیونکہ یہ
’’خیرِ اُمت‘‘ ہے… اس لئے حکمرانوں کے لئے بڑی بُری خبر ہے کہ… جہاد کے خلاف ان کے
تمام اقدامات ناکام رہیں گے…اور ان شاء اللہ جہاد بھی موجود رہے گا اور مخلص مجاہدین
بھی… اس موقع پر پاکستان کے ہندوپرست حکمران ٹولے کے لئے… جگر کا ایک شعر پیش ہے:
آسودہ
ساحل تو ہے مگر
شاید
یہ تجھے معلوم نہیں
ساحل
سے بھی موجیں اٹھتی ہیں
خاموش
بھی طوفاں ہوتے ہیں
اسی
کا وقت ہے
جماعت
پر اس وقت جہاد کے راستے کی آزمائشوں کا زور ہے… پابندیاں، گرفتاریاں، چھاپے اور
سازشیں …بعض گرفتاریاں تو ہمارے لئے اپنی گرفتاری سے بھی زیادہ اذیت ناک ہیں … مگر
یہ جہاد ہے… یاروں والا فریضہ… عشق والا عمل…اس لئے ضروری ہے کہ …ہم ثابت قدم
رہیں… اور یہی وہ وقت ہے ، ہم دل کی توجہ اور کثرت سے پڑھیں…
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ
اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 538
اُکتاہٹ کا علاج
دل
کی اکتاہٹ کا علاج… پر حکمت لطیفے…
سیّدنا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک فرمان…
چند
اکتا دینے والی خبریں…
لطیفہ
کسے کہتے ہیں؟…
لطیفہ
کا مطلب، معنٰی اور اقسام…
ہنسانے
والے لطیفوں کے شرعی آداب و حدود…
کام
جاری ہے…
تین
کُرتے…
قیدیوں
کے لئے ایک وظیفہ…
غریبوں
کے لئے ایک وظیفہ…
ہدیہ
اور دعوت قبول کرنے نہ کرنے کا ایک ضروری ادب…
ایک
سبق آموز تحریر
۲۱ جمادی الثانی۱۴۳۷ھ؍ 30 مارچ 2016ء
اُکتاہٹ
کا علاج
اللہ
تعالیٰ ہمارے دلوں پر ’’سکینہ‘‘نازل فرمائے… دل بھی کبھی کبھار تھک جاتے ہیں،
اُکتا جاتے ہیں…
دل
کی اکتاہٹ کا علاج
حضرت
سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
’’دلوں کو بھی آرام دو، ان کے لئے حکمت آمیز لطیفے تلاش کرو
کیونکہ جسموں کی طرح دل بھی تھکتے اور اُکتا جاتے ہیں‘‘… ( المرتضیٰ، ص: ۲۸۸)
حضرت
نے دلوں کی اُکتاہٹ کا علاج … حکمت آمیز لطیفوں کو قرار دیا…
آج
ہم بھی …ان شاء اللہ دلوں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے کچھ ہلکے پھلکے لطیفے سنائیں
گے… وجہ یہ ہے کہ تمام تازہ خبریں دلوں کو تھکانے اور اُکتانے والی ہیں…مثلاً
٭ پرویز
مشرف جو دوبارہ صدر پاکستان بننے آیا تھا…پاکستان سے بھاگ گیا ہے…جہاد مسکرا رہا
ہے…انتہا پسندی قہقہے لگا رہی ہے … سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ رو رہا ہے…جبکہ
پرویز مشرف اپنے دھوئیں سے دبئی کو بدبودار کر رہا ہے… ظلم، شکست اور بزدلی کے
دھبے اس کے نامۂ اعمال پر نقش ہو چکے ہیں…بالآخر سب نے مر جانا ہے…اللہ تعالیٰ
ایسے دھبوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…آمین
٭
بلوچستان سے انڈیا کا ایک حاضر سروس جاسوس پکڑا گیا ہے… یہ ملکی سلامتی کے حوالے
سے ایک بڑا واقعہ ہے… مگر نہ ملک کا وزیر اعظم تڑپا اور نہ وزیر اطلاعات… شاید
دونوں غمزدہ ہوں گے کہ ایک گہرے دوست ملک کا جاسوس کیوں پکڑ لیا…اور وہ بھی
’’ہندو‘‘ …پکڑنا تو صرف مجاہدین کو چاہیے… اور مسلمانوں کو…اسی وجہ سے نہ انڈیا پر
کوئی دباؤ ڈالا گیا اور نہ عالمی سطح پر یہ معاملہ اُٹھایا گیا…اس جاسوس کے گھر
کا پتا میڈیا پر بار بار آ رہا ہے…مگر ہندوستان نے نہ اس کے گھر پر چھاپہ ڈالا
اور نہ اس کے رشتے داروں پر… حالانکہ اگر کوئی پاکستانی مسلمان پکڑا جاتا تو اب
تک…کئی گھروں ، مسجدوں اور خاندانوں پر چھاپے پڑ چکے ہوتے…ظالمو! اللہ تعالیٰ کے
انتقام سے ڈرو…
٭ انڈین
جاسوس کے پکڑے جانے پر نہ مذاکرات ملتوی ہوئے…اور نہ وزراء اعظم کی ملاقات بلکہ اس
واقعے کے باوجود…اپنی تحقیقاتی ٹیم بھی پٹھانکوٹ بھیج دی گئی…دراصل پاکستان میں اس
وقت وہی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں جو ۱۹۷۱ء کے وقت بنے
تھے…اور ان حالات کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوا تھا…اللہ تعالیٰ رحم فرمائے…
٭ لاہور
دھماکے کے بعد پھر آپریشن آپریشن کا شور ہے…یہی وہ آپریشن ہے جس نے دہشت گردی
کو جنا ہے…مزید جتنے آپریشن ہوتے جائیں گے دہشت گردی کے اتنے ہی بچے پیدا ہوتے
جائیں گے…مگر کوئی اس ملک کا ہمدرد ہو تو سوچے، ہر کسی نے اپنے اقتدار کے دن کمانے
ہیں… اور ان دنوں میں غیروں کو خوش رکھنا ہے … آئیے! ان اُکتا دینے والی خبروں سے
ہٹ کر… آج اپنے دل کو آرام دیتے ہیں…
لطیفوں
کا لطیفہ
’’لطیفہ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ آج کل کی عوامی زبان میں ہنسانے والی بات
کو ’’لطیفہ ‘‘ کہا جاتا ہے …وہ چھوٹا سا سچا یا جھوٹا قصہ جسے سن کر ہنسی چھوٹ
جائے…
ہم
بھی بچپن میں ’’لطیفہ‘‘ کا یہی مطلب سمجھتے تھے…جامعہ میں حضرت شیخ مفتی ولی حسن
صاحبؒ اپنے بیان میں کبھی فرماتے… اس آیت
میں ایک عجیب لطیفہ ہے… تب ہم چھوٹے بچے ہنسنے کے لئے اپنے دانت تیار کر لیتے…مگر
ہنسنے والی کوئی بات سامنے نہ آتی… کبھی فرماتے … اب میں ایک دلچسپ لطیفہ سناتا
ہوں… تب ہم سراپا گوش، دندان بکف ہوشیار ہو جاتے… مگر ہنسنے کی خواہش پوری نہ
ہوتی… جب چند درجے علم پڑھ لیا تو معلوم ہوا کہ…لطیفہ صرف ہنسنے والی بات کو نہیں
کہتے… بلکہ لطیفہ کا مطلب ہوتا ہے … باریک نکتہ، لطیف بات، چھپا ہوا مطلب، دلچسپ بات،
انوکھی بات ، اچھی بات… یعنی ہر وہ بات جس میں لطافت کی چاشنی ہو وہ لطیفہ کہلاتی
ہے… اس میں ہنسی اور خوش مزاجی والی گفتگو بھی آ جاتی ہے… دل کے آرام اور راحت
کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن ’’لطائف‘‘ کا تذکرہ فرمایا ہے…ان سے مراد
علم اور حکمت والی وہ مفید اور دلچسپ باتیں ہیں…جن کو سن کر دل خوشی، تازگی اور
راحت محسوس کرے…اور اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے…
آج
کل کے لطیفے
آج
کل ہنسانے والی جھوٹی باتوں کو ہی لطیفہ سمجھا جاتا ہے…بہرحال یہ بھی ایک ’’فن‘‘
ہے …ہر کوئی ہنسانے کی صلاحیت نہیں رکھتا…آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی لوگ ایسے فضول
لطیفے سناتے ہیں کہ…انہیں سن کر ہنسی نہیں رونا آتا ہے… مگر وہ سنانے کے بعد دانت
نکال کر زبردستی ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں…اسی طرح بعض لوگ اتنا مشکل لطیفہ سناتے
ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا…پھر خود اسے سمجھاتے ہیں اور یوں ہنسنے کا ٹائم ہی نکل
جاتا ہے…ہمارے القلم کا ’’کارٹون ‘‘ بہت دلچسپ ہوتا ہے…بعض اوقات تو بے ساختہ ہنسی
بھی چھوٹتی ہے اور دل سے دعاء بھی نکلتی ہے … کیونکہ دشمنان اسلام کی ایسی ذلت
نمایاں کی جاتی ہے جو پورے ایک مضمون سے بھی نہیں ہو سکتی… مگر بعض اوقات کارٹون
سمجھ میں نہیں آتا… تب بندہ ادارے والوں سے رابطہ کر کے عرض کرتا ہے …کارٹون کا
مطلب ارشاد ہوتا کہ ہنسنے کا کاروبار کیا جا سکے…
مگر
اس طرح کے ہنسی والے لطیفے سننے اور سنانے میں احتیاط کی ضرورت ہے…کیونکہ بہت سے
کفریہ لطیفے ’’ نیٹ ‘‘ پر اور معاشرے میں پھیلا دئیے گئے ہیں… اگر لطیفے سننے اور
سنانے ہوں تو خیال رہے کہ…ان میں اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک نہ آئے… قرآن مجید کی
کسی آیت کا تذکرہ نہ ہو… حضرات انبیاء، ملائکہ کا تذکرہ نہ ہو…کسی دینی فرض یا
سنت کا مذاق نہ اُڑایا گیا ہو…کسی مسلمان قوم کی تذلیل اور تحقیر نہ ہو…بس شرعی
حدود میں رہتے ہوئے مزاح کیا جائے…اللہ تعالیٰ ہنساتے بھی ہیں اور رُلاتے بھی
ہیں…اسی لئے ہنسانے کے لئے بہت سی حلال چیزیں اور باتیں پیدا فرمائی ہیں… ضروری
نہیں کہ…حرام کاموں والے جنسی مذاق سن کر ہی انسان کو خوشی ہو…بدکاری اور بے حیائی
کے واقعات پر مبنی لطیفوں کو سننا بھی گناہ ہے اور انہیںسنانا بھی گناہ ہے…وہ کام
جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتاہو ان کو سن کر ایک مسلمان کس طرح سے ہنس سکتا
ہے؟…
اب
کون سا لطیفہ؟
لطیفے
کے دو مطلب ہمارے سامنے آ گئے … اب آج کی مجلس میں کون سا لطیفہ سنایا جائے …
مفید دلچسپ باتیں؟… یا ہنسنے والے قصے؟ بندہ کے پاس دونوں کا تھوڑا تھوڑا سٹاک
موجود ہے… مگر مفید خوشگوار باتوں میں فائدہ زیادہ ہوتا ہے … ویسے آپ آج کی
تمہید سے یہ نہ سمجھیں کہ ہم حالات کی وجہ سے مایوس ہیں…الحمد للہ ایسی کوئی بات
نہیں…تمام کام مکمل اہتمام سے چل رہے ہیں … الحمد للہ محاذ تمام آباد ہیں…مساجد،
مدارس ، تربیہ، کفالت، تعلیم، ریاضت، تعمیر، حجامہ اور دعوت سب کاموں میں…اللہ
تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہے…ابھی کراچی میں شاندار دورہ تفسیر ہوا … کل کوہاٹ میں
ایمان پرور اجتماع ہوا…پشاور میں مثالی تربیتی نشست ہوئی…روز اجتماعات ہوتے
ہیں…اور دیوانے نئی مہمات کی تیاری میں ہیں… ہاں! ہمارے کئی رفقاء اور ذمہ دار
ساتھی گرفتار ہیں…اللہ تعالیٰ سے ان کی جلد رہائی کی دعاء اور اُمید ہے…
انسان
کی کامیابی اور ناکامی…اس کے کام سے دیکھی جاتی ہے…آپ نے الحمدللہ جہاد کے کام کو
اپنایا…اور آج الحمد للہ جہاد دنیا کا سب سے بڑا اور اہم معاملہ بن چکا ہے… اور
دنیا کے تمام حکمران جہاد کے شرعی معنٰی کو سمجھ چکے ہیں…اور اسے مٹانے کی ہر کوشش
کر رہے ہیں…اور ان کی ہر کوشش جہاد کا ایک نیا محاذ کھولنے کا ذریعہ بن رہی ہے… یہ
آپ کی محنت کی دنیاوی کامیابی ہے … جبکہ اصل انعام اور کامیابی آخرت میں ہے…
قیدیوں
کے لئے
سورۂ
یوسف میں تین کُرتے ہیں… حضرت یوسف علیہ
السلام کی تین قمیصیں… سبحان اللہ ! پہلی
قمیص کی کرامت یہ کہ… اس سے بھائیوں کا دھوکہ کھل گیا اور والد محترم کو معلوم ہو
گیا کہ بیٹا زندہ ہے… دوسری قمیص کی کرامت یہ کہ وہ آپ کی پاکدامنی کی شہادت بن
گئی… اور تیسری قمیص کی کرامت یہ کہ وہ والد محترم کے لئے بشارت اور شفاء بن گئی…
آج یہ نکتہ اچانک میرے ذہن میں آیا تو معارف کی ایک قطار لگ گئی… آپ بھی اس میں
غور کریں… آج کل ساتھی زیادہ گرفتار ہو رہے ہیں…ویسے تو رہائی کے کئی وظیفے…’’لطف
اللطیف‘‘ میں عرض کر دئیے ہیں…ایک یہ بھی ہے کہ… روزانہ توجہ سے ایک بار سورۂ
یوسف پڑھ لیا کریں…یعنی قیدی اگرروزانہ مکمل سورۂ یوسف پڑھے تو ان شاء اللہ رہائی
میں آسانی ہو جاتی ہے …اور شہادت کی موت کے لئے بھی اس سورت مبارکہ کی تلاوت کی
جاتی ہے…
غریبوں
کے لئے
غربت
ایک بڑی عظیم الشان اور انمول نعمت ہے…مگر یہ بہت مشکل نعمت ہے…بہت کم لوگ اس کو
برادشت کر سکتے ہیں…اور وہ بڑا اونچا مقام پاتے ہیں…وہ مسلمان جو مالی تنگی کا
شکار ہیں … ان کے لئے ایک بڑا مجرب وظیفہ عرض خدمت ہے …عشاء کے بعد سورۃ مزمل
پڑھیں …جب یہ الفاظ آئیں…
﴿فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا﴾
تو
تلاوت روک کر پچیس بار پڑھیں…
﴿حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ﴾
پھر
آگے پوری سورت مکمل کریں…
﴿وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ الخ﴾
اس
طرح سے روزانہ تین بار یا سات بار یہ سورت پڑھیں…ان شاء اللہ عجیب فائدہ دیکھیں
گے… اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانوں سے ہم سب کی جائز حاجات پوری فرمائے…اور اپنے
سوا کسی کا محتاج نہ فرمائے…آمین
دین
بچائیں
ہمارے
معاشرے میں بعض چیزیں ایسی داخل ہو گئی ہیں…جن کی شکل نعوذ باللہ ’’نفاق‘‘ جیسی
ہے… یعنی دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور… مثلاً کوئی ہدیہ دیتا ہے تو
اوپر اوپر سے بار بار اس کا ہاتھ پیچھے دھکیلتے ہیں کہ… ہمیں نہیں چاہیے…حالانکہ
دل میں ایسی لالچ ہوتی ہے کہ سامنے والے کا ہاتھ بھی کاٹ لیں… کوئی کھانے کی دعوت
دیتا ہے تو اوپر اوپر سے ضرور انکار کرتے ہیں…حالانکہ دل کھانے کے شوق سے اچھل رہا
ہوتا ہے…یہ طرز درست نہیں… بلکہ یہ خطرناک ہے اور اس کی عادت ہماری پوری زندگی کو
نفاق اور ریاکاری میں ڈال سکتی ہے…آپ نے کسی وجہ سے ہدیہ قبول نہیں کرنا تو بے شک
نہ کریں…لیکن اگر دل میں قبول کرنے کا ارادہ ہے تو پہلی بار ہی میں خوشی اور شکریہ
کے ساتھ خندہ لبی سے وصول کر لیں …اس میں عاجزی بھی ہے اور شکر گزاری بھی… اس سے
ممکن ہے سامنے والا آپ کو لالچی یا حریص سمجھے گا…تو اس میں کوئی حرج نہیں… ہمیں
اپنا ایمان بچانا ہے… اور ہم نفاق سے جس قدر دور ہوں گے اسی قدر ہمارا ایمان محفوظ
ہو گا… ہدیہ خوشدلی سے مسکراتے ہوئے…اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتے ہوئے وصول کریں…
دینے والے کو دعاء دیں…اور قدر کے ساتھ رکھیں… اور اگر کسی اور کو آگے دینا ہو تو
بعد میں دیں…دینے والے کے سامنے نہ دیں… ہاں! اگر ہدیہ قبول نہیں کرنا … اور اس کی
کوئی شرعی وجہ موجود ہے تو پھر…تواضع کے ساتھ انکار کر دیں…مگر یہ انکار پکا ہو…ہر
ہدیہ اور ہر دعوت قبول کرنا ضروری نہیں… جس ہدیے یا دعوت میں اپنا یا دینے والے کا
دینی نقصان ہو وہ قبول نہیں کرنی چاہیے…
لطیفے
بس کریں؟
ابھی
میرے پاس آج کی مجلس کے لئے دو لطیفے باقی ہیں…ایک کھانے میں عجیب برکت کا… اور
دوسرا کھانے کے طریقے کا…دونوں بڑے کام کے لطیفے ہیں مگر آپ کہیں گے…بابا! ہنسی
تو آ نہیں رہی… اس لئے ایسے لطیفے بس اتنے ہی کافی ہیں…مزید پھر کبھی… ٹھیک ہے بس
کرتے ہیں…باقی رہی ہنسی تو آپ ایک آئینہ لے لیں…رات کو اسے اپنے تکیے کے ساتھ
رکھ کر سو جائیں… صبح جیسے ہی آنکھ کھلے فوراً آئینہ اُٹھا کر خود کو دیکھیں…
بہت ہنسی آئے گی…سچی بات ہے ہنس ہنس کر نماز کے لئے جاگ جائیں گے … ہاں! بعض لوگ
جب صبح جاگ کر آئینہ دیکھیں گے تو ان کو رونا آ جائے گا…ان کو چاہیے کہ رونا
چھوڑیں …شکر کریں اور ہنسیں… اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان کے ساتھ ہنستا مسکراتا
رکھے… آمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 539
مضبوط
مغفرت
کے لئے قیمتی لمحات…
بعض
کلمات میں توبہ و استغفار کا لفظ نہیں ہوتا…
مگر
ان سے بڑی مغفرت ملتی ہے…
سیّدنا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایک مغالطہ کی اصلاح…
انسان
کو اکثر بڑی نعمتیں مصیبت کے اوقات میں ملتی ہیں… ایک عجیب نکتہ…
حکمرانوں
پر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں…
کھانے
میں برکت کے لئے دو اہم کام…
کھانا
کھانے کا طریقہ…
بیت
الخلاء کے بارے میں ایک ضروری ادب…
ایک
متشاعر کا قصہ…
دو
شاندار سانس…
یہ
سب کچھ جاننے کےلئے… ملاحظہ ہو… یہ تحریر
۲۸ جمادی الثانی۱۴۳۷ھ؍ 06 اپریل
2016ء
مضبوط
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو اپنی طرف سے ’’مغفرت‘‘ عطاء فرمائے…
مغفرت
کے لئے قیمتی کلمات
بعض
کلمات میں توبہ اور استغفار کا لفظ نہیں ہوتا…مگر وہ کلمات ایسے وزنی اور بلند
ہوتے ہیں کہ ان کو اخلاص سے پڑھا جائے تو ’’مغفرت‘‘ ملتی ہے…یعنی گناہوں کی معافی
اور بخشش مثلاً…
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:
’’ کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب آپ انہیں پڑھیں
تو اللہ تعالیٰ آپ کو مغفرت عطا فرمائے…باوجود اس کے کہ آپ کو پہلے سے مغفرت ملی
ہوئی ہے…پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات سکھائے:
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ،لَآ اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘‘
(مسند احمد، خصائص للنسائی)
اس
حدیث شریف میں حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ایک بڑی فضیلت بھی آ گئی …کہ وہ اللہ تعالیٰ
کی طرف سے ’’مغفرت یافتہ ‘‘ تھے… اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے سچی محبت اور عقیدت نصیب فرمائے … بعض لوگ
حضرات خلفاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فتوحات کا ’’رقبہ‘‘ شمارکرتے ہیں… فلاں خلیفہ
نے اتنے ہزار مربع میل فتح فرمایا اور فلاں نے اتنا …اس تذکرہ میں حضرت سیّدنا علی
رضی اللہ عنہ کے ’’ مربعے‘‘ نہیں آتے… یوں لوگ سمجھتے ہیں کہ
نعوذ باللہ ان کی شان کم رہی… حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان فتنوں سے قتال فرمایا
…جو اگر نہ مارے جاتے تو مسلمانوں کے اگلے پچھلے سب مفتوحہ علاقے ویران کر ڈالتے
…ویسے بھی غزوۂ بدر سے جنگ نہروان تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک ایک جہادی کارنامہ …بہت اونچا اور بہت
بھاری ہے…رضی اللّٰہ عنہ وارضاہ
ایک
بات سوچیں
اوپر
جو مغفرت کی دعاء آئی ہے وہ ایک بار توجہ اور اخلاص سے پڑھ کر ایک بات سوچیں…ہمیں
زندگی میں جتنی بھی بڑی نعمتیں ملتی ہیں…وہ اکثر ’’مصیبت‘‘ کے اوقات میں ملتی
ہیں…انسان جب ’’مصیبت‘‘ میں ہوتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت زیادہ متوجہ
ہوتی ہے…اور خود انسان کی عقل بھی زیادہ کام کرتی ہے… قید، گرفتاری، بیماری ،
جدائی ، زخم ، معاشی تنگی، اپنوں کی بے وفائی، دوستوں کے مظالم ، رشتہ داروں کا
حسد… وغیرہ وغیرہ… ایک بیمار آدمی جو اپنی بیماری پر صبر کرتا ہے … روحانیت اور
معرفت کے ان مقامات کو پا لیتا ہے جو بڑے بڑے عابد اور فاضل سالہا سال کی محنت سے
نہیں پا سکتے… آپ موبائل سے کچھ وقت بچا کر اس حقیقت پر ضرور غور کریں…اپنے مصیبت
کے دن یاد کریں…اور ان میں ملنے والی نعمتوں کو یاد کریں…تب آپ کو’’ شکر گزاری ‘‘
نصیب ہو گی…ایک صاحب جیل میں گئے ،وہاں کی سختی میں ان کی عقل روشن ہوئی تو انہیں
معلوم ہوا کہ…وہ وضواور طہارت میں غلطی کر رہے تھے … تب وہ شکر ادا کرتے ہوئے رو
تے تھے کہ… زندگی بھر کی نمازیں بچ گئیں…ورنہ فضول عبادت کرتے رہتے…
بہرحال
یہ ایک مفصل موضوع ہے…بندہ نے صرف اشارہ عرض کر دیا ہے کہ…اب اس پہلو پر ضرور غور
کریں… آج کل ہمارے کئی رفقاء گرفتار ہیں… ان کے اہل خانہ و اقارب ایک کرب اور
مصیبت سے گذر رہے ہیں…ان حالات میں صبر و استقامت کی ضرورت ہے… اللہ تعالیٰ اپنے
بندوں پر ظلم نہیں فرماتے…
عذاب
کی جھلکیاں
قرآن
مجید سمجھاتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ ’’ظالموں‘‘ کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہیں…
﴿لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ
ڛ ﴾
حکومت
جو مظالم ڈھا رہی ہے…وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں…اس کی پکڑ کب آتی ہے یہ تو
صرف خود وہی جانتا ہے… مگر اس پکڑ کے آثار اور جھلکیاں صاف نظر آ رہی ہیں…آج کل
حکمران خاندان… اپنے مالی معاملات میں ایسا بے پردہ اور بے نقاب ہوا ہے کہ…ہر کوئی
اس پر لعن طعن کر رہا ہے… قانون کے نام پر عوام کو باندھنے والے اور مارنے والے
خود کس قدر ’’لا قانون ‘‘ ہیں… یہ سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے… پردے چاک
ہونا شروع ہو گئے ہیں … آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟… مظلوموں کی آہیں اور بد
دعائیں رائیگاں نہیں جاتیں…
کھانے
میں برکت
کھانے
اور رزق میں برکت کا اصل نسخہ تو یہ ہے کہ…کھانا حلال ہو اور سنت کے مطابق کھایا
جائے…اس میں مزید دو اہم باتیں آج عرض کرنی ہیں…اگر آپ چاہتے ہیں کہ…اللہ تعالیٰ
کی نعمتوں کو کھاتے پیتے رہیں تو دو کام کر لیں… پہلا یہ کہ جب بھی دودھ کے علاوہ
کچھ کھائیں اور پئیں تو… درمیان میںیہ دعاء پڑھ لیا کریں…
اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَ ارْزُقْنَا خَیْرًا مِّنْہُ
یا
اللہ! اس میں ہمارے لئے برکت عطاء فرما اور اس سے بہتر بھی ہمیں عطاء فرما…
یہ
مزید اچھے رزق کو کھینچنے والی دعاء ہے … اور یہ جنت پانے کی بھی دعاء ہے کیونکہ
جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بہت بہتر اور افضل ہیں…
جو
آدمی اس دعاء کا اہتمام رکھتا ہے…اس کے رزق اور خوراک میں بہتری آتی چلی جاتی ہے
… اور جب دودھ پئیں تو یہ دعاء پڑھیں…
اَللّٰہُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْہُ
یا
اللہ! اس میں ہمارے لیے برکت عطاء فرما اور یہ ہمیں مزید بھی عطاء فرما…
یہ
ہوا پہلا کام…دوسرا کام یہ کہ کھانا چھپایا نہ کریں…بعض لوگ اپنا کھانا چھپاتے
ہیں… کوئی پوچھے آپ نے کھانا کھایا؟… یا تو صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے صبح
سے کچھ بھی نہیں کھایا …یا پھر دو چار لقموں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں …ایسے
افراد سے آپ جب بھی ملیں …وہ آپ کو ہمیشہ بھوکے ملیں گے…یار کیا کریں! آج کل
بھوک ہی نہیں لگتی… صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا … حالانکہ کافی کچھ انہوں نے کھا پی
رکھا ہوتا ہے… یہ لوگ چونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں تو… پھر ان
کا رزق واقعی کم ہوتا چلا جاتا ہے… کسی پر ڈاکٹر پابندی لگا دیتے ہیں… اور کسی پر
کوئی اور ایسی مصیبت آتی ہے کہ…رزق کم ہو جاتا ہے… تھوڑا سا سوچیں! کھانا چھپانے
کی کیا ضرورت ہے؟ شیطان سمجھاتا ہے کہ… اس طرح لوگ تم سے ہمدردی کریں گے…حالانکہ
یہ غلط ہے…کسی کے بھوکا رہنے یا کم کھانے سے کسی کو کیا ہمدردی اور عقیدت ہو سکتی
ہے؟… بعض لوگ ’’نظر‘‘ سے ڈرتے ہیں کہ اگر اپنا کھانا بتا دیا…اور اب ان کے سامنے
مزید بھی کھایا تو کوئی نظر لگا دے گا…حالانکہ یہ بھی غلط ہے اور ریا کاری ہے…
بہرحال جو بھی جس وجہ سے بھی…اپنے کھانے کو چھپاتا ہے یا کم بتاتا ہے… وہ نہ لوگوں
کی نظر میں محبوب شمار ہوتا ہے…اور نہ ہمدردی کے قابل … بلکہ وہ صرف اور صرف اپنا
نقصان کرتا ہے… ناشکری کی وجہ سے اس کی روزی کم ہوتی چلی جاتی ہے…اور جھوٹ،
ریاکاری اور دکھلاوے کا گناہ مزید اس کے سر پر چڑھ جاتا ہے…
اللہ
تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے…
کھانے
کا طریقہ
کھانا،
اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے… اسے ہمیشہ ذوق شوق سے کھانا چاہیے نہ کہ…ناز اور نخرے
کے انداز میں…حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا…میں اس طرح کھاتا
ہوں جس طرح ’’غلام ‘‘ کھاتا ہے… غلام کو کھانا کم ملتا تھا اور سخت ضرورت کے وقت
ملتا تھا…اس لئے اس کو جیسے ہی کھانا ملتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ایک
ضرورت مند کی طرح مکمل ذوق، شوق سے کھاتا تھا…ایک ایک لقمے کا ذائقہ لینا اور
درمیان میں گفتگو کے وقفے کاٹنا اس کی برداشت میں نہیں ہوتا تھا…اسی طرح وہ عاجزی
اور تواضع سے کھاتا تھا…اور کھانے پر زیادہ وقت نہیں لگاتا تھا…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں بڑی عظیم جامعیت ہوتی ہے…ایک لفظ
میں اتنا بڑا مفہوم ارشاد فرما دیتے ہیں…آج کل غلام تو نہیں ہیں…آپ کسی ایسے
مزدور کو دیکھ لیں جو صبح سے دوپہر تک آٹھ گھنٹے سخت مشقت کا کام کرے… اور پھر
اسے کھانا پیش کیا جائے تو وہ کس طرح سے کھائے گا؟… آج کل ہمارے کھانوں میں وقت
کا ضیاع، نخرے بازی اور تکبر بہت آتا جا رہا ہے…کافی اصلاح کی ضرورت ہے…جو مسلمان
چاہتا ہو کہ …اس کی زندگی قیمتی بنے وہ کھانے پینے اور بیت الخلاء میں کم سے کم
وقت گزارے…کھانا دس بیس منٹ کے اندر ہو جانا چاہیے نہ کہ… گھنٹوں میں … اور بیت
الخلاء میں بھی جس قدر ممکن ہو کم وقت گزاریں … کیونکہ وہاں شیطانی اثرات زیادہ
ہوتے ہیں… کھانا کم کھائیں گے تو بیت الخلاء بھی کم جانا پڑے گا…
ایک
متشاعر کا قصہ
بعض
لوگ ’’بیت الخلاء‘‘ میں بہت وقت لگاتے ہیں…یہ بری بات ہے… روزانہ گھڑی میں وقت
دیکھ کر… اپنے اس دورانیہ کو کم کرنا شروع کر دیں… اس کی برکت سے وہم کی بیماری ،
وسوسے اور فضول غم دور ہوں گے ان شاء اللہ … بیت الخلاء سوچ اور فکر کی جگہ نہیں
ہے… وہاں کھانے پینے، کھیلنے، میوزک سننے اور زیادہ سوچنے سے طرح طرح کی بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں… یہاں ایک قصہ یاد آ گیا…ایک صاحب جو شعر و شاعری کی مہارت نہیں
رکھتے تھے…مگر خود کو شاعر سمجھتے اور کہلواتے تھے… ایک بار وہ ایک عالم فاضل شاعر
کے پاس گئے اور حسب عادت ان کو بھی اپنا ایک ’’قصیدہ‘‘ سنانے لگے…وہ عالم ایسا بے
وزن، بے وضع اور بے موضوع قصیدہ سن کر بہت بد مزہ ہوئے مگر مروتاً برداشت کرتے
رہے…قصیدہ سنا کر وہ نقلی شاعر کہنے لگے…
حضرت!
یہ عالی شان قصیدہ مجھے بیت الخلاء میں فراغت کے دوران ہوا…اور وہیں بیٹھے بیٹھے
میں نے ذہن میں تیار کر لیا…یہ بات سن کر وہ عالم بولے… اچھا اب میں سمجھا کہ
اشعار میں سے اتنی بدبو کیوں آ رہی تھی…
دو
شاندار سانس
دو
عبادتیں بڑی لاجواب ہیں… ایک شکر اور ایک استغفار…یعنی الحمد للہ اور استغفر اللہ
… ایک سانس آئے تو ساتھ نکلے الحمد للہ…اور دوسرا سانس آئے تو دل بولے…استغفر
اللہ…یہ دو عبادتیں… جس کو جس قدر زیادہ نصیب ہوں … وہ اسی قدر زیادہ خوش بخت ہے…
آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں ان پر …شکر اور استغفار کا جال ڈال
دیں…تب یہ نعمتیں آپ کے پاس مضبوط ہو جائیں گی…
اَلْحَمْدُ
لِلہِ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ…اَلْحَمْدُ لِلہِ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ …اَلْحَمْدُ
لِلہِ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 540
اَلْوَکِیْلُ جَلَّ جَلَالُہٗ
اللہ
تعالیٰ ایمان والوں کے وکیل اور کارساز ہیں…
حضرت
خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ…
’’سیّد جی‘‘ کے تحفے…
دین
کا کام چلانے والا کون؟… الوکیل جل شانہٗ…
اُمت
مسلمہ کے لئے ایک شاندار خوشخبری…
وکیل
کون ہوتا ہے؟…
وکیل
کے ذمے کام کیوں لگائے جاتےہیں؟…
حضرت
مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ حالات و واقعات…
اسمِ
الٰہی’’الوکیل‘‘ میں موجود چار چیزیں…
دینی
مدارس پاکیزہ ادارے…
اسمِ
الٰہی ’’الوکیل‘‘ کی روشنی بکھیرتی ایک خوبصورت تحریر…
۵ رجب۱۴۳۷ھ؍ 13 اپریل
2016ء
اَلْوَکِیْلُ
جَلَّ جَلَالُہٗ
اللہ
تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہیں…اور وہی بہترین وکیل اور کارساز ہیں…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
حضرت
خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
حضرت
خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ’’ بادشاہوں‘‘ سے اجتناب فرماتے تھے، اس لئے
اکثر بادشاہ ان سے ناراض رہتے تھے…ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں اور لشکر
کے سپاہیوں کو جو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ہدیے، نذرانے دیا کرتے تھے…ان پر
پابندی لگا دی کہ نہ تو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملیں گے اور نہ ہی اُن کو ہدیے ، نذرانے دیں
گے… بادشاہ کا خیال یہ تھا کہ جب ہدیے، نذرانے بند ہوں گے تو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ
کا لنگر بھی بند ہو جائے گا اور آپ
بادشاہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے مجبور ہوں گے…حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو لنگر کے نگران سے
فرمایا کہ آج سے آٹا دوگنا کر دو…یعنی پہلے سے دُگنی روٹی پکایا کرو… تاکہ
بادشاہ کو معلوم ہوجائے کہ لنگر چلانے والا کوئی اور ہے…یعنی اللہ تعالیٰ…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ… حَسْبُنَا اللّٰهُ
وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ…حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
سیّد
جی کے تحفے
گذشتہ
جمعۃ المبارک کا اختتام تھا کہ… تحفے شروع ہو گئے…کراچی سے ایک قریبی دوست نے
پیغام بھیجا کہ ایک پوری مسجد تعمیر کرانے کا انتظام ہو گیا ہے… آپ جگہ منتخب کر
کے کام شروع کرا دیں… سبحان اللہ…ایک ہی مسلمان نے پوری مسجد کا کام اپنے ذمہ لے
لیا… غمناک خبروں کے درمیان ملنے والی یہ پہلی خوشخبری تھی… دل بہت خوش ہوا…مسجد،
اللہ تعالیٰ کا گھر… سبحان اللہ … اُسی وقت ناظم مساجد کو کام دے دیا گیا اور وہ
اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے اور آباد کرنے میں لگ گئے… ایک مسجد کے لئے کافی چندہ
کرنا ہوتا ہے… مگر جب چندے پر خوفناک پابندی لگی تو یوں ایک ایک فرد پوری مسجد
بنانے والا سامنے آ گیا… معلوم ہوا کہ دین کا کام چلانے والا کوئی اور ہے… یعنی
اللہ تعالیٰ…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ…حَسْبُنَا اللّٰهُ
وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
پھر
اس کے بعد خوشخبریوں کی قطار لگ گئی… کئی ساتھیوں کو عدالتوں نے بری کر دیا…کئی
اجتماعی اور اِنفرادی ضروریات اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دیں…جماعت کا حج وفد بھی
مقرر ہو گیا… مجاہدین پر آپریشن کرنے والے حکمران طرح طرح کی پریشانیوں میں پھنس
گئے…اور ان کا جارحانہ انداز… ایک دَم دِفاعی رُخ پر چلا گیا…انڈیا کو اَقوام
متحدہ میں ایک ذلت ناک شکست ہوئی … اور آج کل پھر انڈین میڈیا پر مجاہدین کی
تصویریں، بیانات اور جھلکیاں … گھنٹوں کے حساب سے چل رہی ہیں… اور ساتھ ہی ساتھ
’’چین‘‘ کو بھی منہ کے گٹر کھول کر گالیاں دی جا رہی ہیں…
جمعۃ
المبارک سے ہمیں محبت ہے…یہ ’’سیّد جی‘‘ہے… دنوں کا سردار… اب اس ’’جمعۃ المبارک‘‘
اپنے اسیر رفقاء کی رہائی…اہل جماعت نے مانگی ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آسانی
فرمائے… وہی کافی ہے اور وہی کارساز…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ… حَسْبُنَا اللّٰهُ
وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ…حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
ایک
اور اچھی خبر
اَمیر
المؤمنین جناب ملا اختر محمد منصور زِیْدَ قَدْرُہْ کی اِمارت پر افغان مجاہدین
کا اِتفاق بڑھتا جا رہا ہے… یہ اُمت مسلمہ کے لئے بہت شاندار خوشخبری ہے…حضرت امیر
المؤمنین کی وفات و شہادت کے بعد ’’اِمارت اسلامیہ ‘‘ شدید خطروں اور سازشوں کی
زَد میں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا… اندرونی اور بیرونی سازشیں ناکام
ہوئیں …اور فراست و تدبر سے مالا مال جناب ملا اختر منصور صاحب اِمارت اسلامی کے
متفقہ ’’امیر المومنین‘‘ قرار پائے… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے روز اول سے ہی
اُن کی حمایت کی، اُن کے مخالفین سے دور رہے…اور امارت اسلامی میں اِتفاق و اِتحاد
کے لئے دعاء گو رہے… جمعۃ المبارک کے دن اس بارے بھی اچھی خبریں آ گئیں … بے شک
اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی بہترین وکیل اور کارساز ہے…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ…حَسْبُنَا اللّٰهُ
وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
اَلْوَکِیْلُ
جَلَّ شَانُہ
کالم
میں بار بار قرآنی دعاء… ﴿حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ﴾ آ رہی ہے… دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے
پیارے نام ’’اَلْوَکِیْلُ ‘‘ پر بھی تھوڑی سی بات ہو جائے… وکیل وہ ہوتا ہے جس کے
ذمہ اپنے کام سپرد کر کے آدمی مطمئن ہو جائے… اپنے کام کسی کے ذمہ کیوں لگائے
جاتے ہیں؟… اس کی دو وجہیں ہوتی ہیں…پہلی یہ کہ وہ کام ایسے مشکل ہوتے ہیں کہ
انسان انہیں خود سر انجام نہیں دے سکتا… اسی لئے اُن کاموں کے ماہر سے رجوع کر کے
اُس کے سپرد کرتا ہے… اور دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ…ہمیں اگر کوئی بہت با اختیار
اور بے حد طاقتور ،بااعتماد محبوب دوست مل جائے تو پھر اپنے کام اس کے سپرد کرتے
ہیں کہ… وہ لمحوں اور منٹوں میں یہ کام کرا دے گا…اندازہ لگائیں … جو شخص ان دو
معنیٰ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو اپنا ’’وکیل‘‘ بنا دے… اور اللہ تعالیٰ اس کا
وکیل بن جائے تو پھر کون سا کام ہے جو نہ ہو سکے اور کون سا مسئلہ ہے جو حل نہ
ہو؟…اسی لئے ’’عارفین ‘‘ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے نام ’’الوکیل‘‘ میں بھی ’’اسم
اعظم ‘‘ کی تأثیر ہے…خصوصاً دشمنوں سے مقابلہ، میںآسمانی آفات کے سامنے، گناہوں
سے بچنے کے لئے، ظالموں سے حفاظت کے لئےاور تمام حاجات کے لئے…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ… حَسْبُنَا اللّٰهُ
وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ…حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
حضرت
جی رحمۃ اللہ علیہ یاد آ گئے
آج
رنگ ونور کا موضوع کچھ اور تھا …آغاز میں﴿حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ
الْوَکِیْلُ﴾ آ گیا تو اُسی نے کھینچ لیا…ابھی مزید ’’الوکیل‘‘ پر کچھ لکھنے لگا
تو میرے محبوب اُستاذ اور شیخ حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ یاد آ
گئے…حکومت نے ان پر بڑا سخت مقدمہ قائم کر کے انہیں عدالت میں طلب کیا تھا… عدالت
میںرُعب اور دہشت کا سب سامان جمع تھا…مگر جب حضرت شیخ بیان دینے کھڑے ہوئے تو
آغاز اس حدیث شریف سے فرمایا:
اَلدِّیْنُ
النَّصِیْحَۃُ۔
اور
پھر بے ساختہ اس حدیث شریف کے طُرُق اور تشریح میں لگ گئے… باحشمت جج صاحبان اور
ہزاروں مسلمانوں کے درمیان … حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی رُعب نہیں تھا…حدیث شریف کی اسناد اور
دیگر تفصیلات یوں بتا رہے تھے جس طرح اپنے طلبہ کے سامنے تشریف فرما ہوں… یہ اُن
کے مزاج کا خاص حصہ تھا… ابھی جب میں اصل موضوع چھوڑ کر …’’الوکیل‘‘ کے معنٰی میں
اُتر گیا اور ابھی مزید آگے جا رہا تھا تو …ایک رقت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ حضرت
شیخ رحمۃ اللہ علیہ یاد آ گئے…کہ آج
مجھ بے رنگ و بے صفت پر اُن کا رنگ آ رہا ہے…اللہ تعالیٰ اُن کے درجاتِ مغفرت
بلند فرمائے… اور اُن کے حقوق اور اُن کی قدر و منزلت کے بارے میں ہم سے جو کوتاہی
ہوئی ہے …اللہ تعالیٰ وہ معاف فرمائے… بے شک وہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی توکل کرنے
والے انسان تھے… جامعہ میں ایک بار اَموال کی کمی ہوئی تو…اَساتذہ کرام کو دو تین
ماہ تک تنخواہ نہ دی جا سکی… حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اَساتذہ کو بلا کر صورتحال بتائی کہ تنخواہ
دینے کے لئے رقم موجود نہیں…اور آگے کا بھی کچھ پتہ نہیں… آپ حضرات کو اختیار ہے
جو رہنا چاہے یا جانا چاہے… حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضرت ! میں تو تنخواہ کے لئے نہیں
آیا چنے چبا کر گذارہ کر لوں گا مگر کہیں نہیں جاؤں گا… حالانکہ اُس وقت حضرت کے
مالی حالات کافی کمزور تھے… مگر انہوں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا ’’وکیل‘‘
بنائے رکھا…دو تین ماہ بعد جامعہ میں رقم کی فراوانی ہو گئی، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کو بلا کر سابقہ مہینوں کی تنخواہ دینا چاہی تو
قبول نہ کی…فرمایا! حضرت! وقت تو گزر گیا اب پچھلی رقم لے کر کیا کروں گا… باوجود
اِصرار کے وہ رقم نہ لی…بس اُسی مہینے کا مشاہرہ قبول فرمایا…
دراصل
’’الوکیل ‘‘ کے اسم مبارک میں چار چیزیں آ جاتی ہیں:
١ اَلْحَفِیْظُ…
٢ اَلْکَفِیْلُ…
٣ اَلْمُقْسِطُ…
٤
اَلْکَافِیْ…
حفاظت
بھی، کفالت بھی، رزق بھی، کفایت بھی…اور اِقامت بھی…
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ… حَسْبُنَا اللّٰهُ
وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ…حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾
ایک
اہم موضوع
آج
ایک اہم موضوع پر گفتگو تھی…دینی مدارس کے بارے میں نعوذ باللہ ایک بہت مکروہ اور
ناجائز پروپیگنڈہ عام ہو رہا ہے…ایسے نور بھرے پاکیزہ اِداروں پر…ایک ناپاک اور
غلیظ گناہ کا الزام… ایسا الزام جس کو لکھنے سے قلم شرماتا ہے… اچھے خاصے لوگ اب
اس الزام سے متاثر ہو رہے ہیں …اس لئے تفصیل کے ساتھ لکھنے کا ارادہ تھا تاکہ… کسی
کے دل میں ایسی ناجائز بد گمانی نہ رہے… اور کوئی اپنے معصوم بچوں کو مدرسہ بھیجنے
سے نہ گھبرائے…موضوع مفصل ہے اس لئے ان شاء اللہ کسی اور مجلس میں آ جائے گا…بندہ
نے ’’المرابطون ‘‘ کے گذشتہ شمارے میں مدارس کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا ہو
سکے تو فی الحال وہ ملاحظہ فرما لیں…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 541
مبارکباد کا مستحق
راہِ
حج میں وفات پانے والا، پکا اور مقبول ’’حاجی‘‘…
راہِ
جہاد میں وفات پانے والا… پکا اور مقبول ’’مجاہد‘‘…
اور
اس کی موت ’’شہادت‘‘…
اس
کا عمل ’’تا قیامت‘‘ جاری و ساری…
بھائی
راشد اقبال رحمۃ اللہ علیہ …
نوید
انجم شہید رحمۃ اللہ علیہ …
کمانڈر
سجاد خان شہید رحمۃ اللہ علیہ …
جمال
مندو خیل شہید رحمۃ اللہ علیہ …
بھائی
محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ …
شہداءِ
زندان کے تذکروں سے معطر و منور ایک تحریر…
۱۲ رجب۱۴۳۷ھ؍ 20 اپریل
2016ء
مبارکباد کا مستحق
اللہ
تعالیٰ بھائی راشد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو مغفرت کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے…وہ گذشتہ
شام پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ساہیوال جیل میں انتقال فرما گئے…
﴿اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ﴾
مسلمان
جو گھر سے حج کے لئے نکلے اور راستے میں وفات پا جائے…وہ پکا اور مقبول ’’حاجی‘‘
بن جاتا ہے قیامت تک ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے …وہ اُس کی طرف سے ہر سال حج
کرتا رہتا ہے…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
جو
گھر سے جہاد، خدمت جہاد اور دعوت جہاد کے لئے نکلا…اور پھر اسی سفر میں وفات پا
گیا تو وہ پکا اور مقبول مجاہد ہے… اُس کی موت، شہادت ہے…اور قیامت تک اُس کا عمل
جاری رہتا ہے…
سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
کوٹ
بھلوال جیل کا وہ دیوانہ مرد مجاہد یاد آ گیا…نوید انجم شہید رحمۃ اللہ علیہ …ماشاء
اللہ روشن دماغ علم و عمل کا پیکر… اور خوبصورت جوان… انڈین فورسز نے جیل پر حملہ
کیا…قیدی مجاہدین نے پتھروں اور نعروں سے مقابلہ کیا…پیرا ملٹری فورس کی سات
کمپنیاں پسپا ہونے پر مجبور ہو گئیں…تب جیل کے ٹاوروں سے فائر کھول دیا گیا…گولیاں
ہمارے سروں پر سنسنانے لگیں …نوید انجم جذبۂ شہادت سے سرشار میدان میں ڈٹا
رہا…گولی لگی اور اس نے قیامت تک کے لئے اس پاک راستے پر قبضہ کر لیا… سبحان اللہ!
جہاد میں قید کی آزمائش …اور اس آزمائش میں شہادت…یہ رتبہ بلند کسی ، کسی کو
ملتا ہے…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہُ وَاجْعَلْہُ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔
اور
وہ ہمارے محبوب سالار اور دوست… حافظ کمانڈر سجاد خان صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ …
جہاد میں بھی اونچا رتبہ…اور شہادت میں بھی اونچا مقام… پاکستان سے آخری بار جاتے
وقت کراچی میں دعاء کر گئے کہ…یا اللہ! اب واپس نہ لانا… حضرت سیّدنا عمرو بن
الجموح رضی اللہ عنہ والی دعاء… یا اللہ! گھر زندہ واپس نہ
بھیجنا…جان کا سودا ہاتھ میں لئے محبوب کی رضا اور جنت کے یہ خریدار … بڑے خاص لوگ
ہوتے ہیں…سجاد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا
آخری جہادی سفر بھی میرے ساتھ تھا…میں اُن کو بہت دور بارڈر تک چھوڑ کر آیا تھا…
پھراُن کی زندگی کا آخری آزاد سفر بھی میرے ساتھ تھا…وہ مجھے اسلام آباد ( اننت
ناگ مقبوضہ کشمیر) لے جا رہے تھے کہ…دونوں گرفتار ہو گئے…پہلے تیرہ دن کھندرو کیمپ
میں تشدد…پھر نو ماہ بادامی باغ میں ٹارچر…پھر چار ماہ کوٹ بھلوال میں تعلیم و
تعلّم …پھر دو ماہ تالاب تلو میں بد ترین اذیت… پھر دو سال تہاڑ جیل …پھر واپس کوٹ
بھلوال… یہاں ایک رات…ان کی بارک پر انڈین فورسز نے حملہ کیا…ہم ساتھ والی بارک
میں شور شرابا اور چیخیں آہیں سن سکتے تھے…اگلے دن خبر آئی کہ اُن کو تشدد کر کے
شہید کر دیا گیا…میں نے اُن کو شہادت کے بعد ہسپتال میں دیکھا…جسم پر لاٹھیوں کے
نیل اور نشان تھے اور چہرے پر مسکراہٹ…
ما
و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوانِ عشق
او
بصحرا رفت، ما در کوچہا رسوا شدیم
وہ
چلے گئے…اللہ تعالیٰ بلند مقام مغفرت عطاء فرمائے…ہم چل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ
سیدھے راستے پر چلائے اور اسی راستے پر اُٹھائے…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہُ وَاجْعَلْہُ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
وہ
دیکھو! طویل قامت، ’’جمال مندوخیل‘‘ مسکرا رہا ہے…کیا آپ مجھے بھول گئے؟… نہیں
پیارے جمال…حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ
علیہ کے اس قافلے کے شہسوار تمہیں بھلایا
نہیں جا سکتا… جمال نے قید میں بہت سختیاں جھیلیں… ہاں! ہم سب سے زیادہ اُس نے جیل
میں بہت لڑائیاں لڑیں… سب قیدیوں سے زیادہ…امارتِ اسلامیہ افغانستان کا وہ شیدائی
جو اس امارت کا ایک دن بھی نہ دیکھ سکا…امارتِ اسلامیہ ایک حور کی طرح آئی …اور
سات سال دنیا بھر کو اپنی خوشبوؤں سے مہکا کر مورچوں میں جا بیٹھی جہاں اس نے
’’فاتح عالم‘‘ کا روپ اپنا لیا…’’جمال ‘‘ جیل میں اس امارت کی خوشیاں مناتا رہا،
نعرے برساتا رہا… ہاں! جب امارتِ اسلامیہ چلی گئی تووہ رویا بھی خوب ہو گا … وہ
بہت کم روتا تھا مگر موٹی موٹی آنکھوں سے پیازی آنسو برساتا تھا اور پھر جلد ہی
قہقہوں میں لوٹ جاتا تھا…جودھ پور جیل سے اُس کا جنازہ دھوم سے اُٹھا اور اُس کا
سفر بھی کھرا اور پکا ہو گیا…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہُ وَاجْعَلْہُ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
اوہ!
مہمان خصوصی مسکراتے ہوئے سامنے آ گئے ہیں…جب بھی آتے ہیں ایسا جلوہ دکھاتے ہیں
کہ دل کو ہلا دیتے ہیں…جناب محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ …اس زمانے کے
شہداء کی آبرو…بلند نسبتوں کے امین…تحریک کشمیر کے فاتحانہ دور کے بانی… اور
دشمنوں کے لئے ناقابل شکست … زمین نے ایسا لاڈلا شہید بہت عرصہ بعد دیکھا ہو گا
کہ…جس کی شہادت کے بعد سے اس کے دشمن اپنی لاشیں اُٹھا اُٹھا کر ہلکان ہو رہے ہیں
… ایک ایسا مکمل مجاہد جس نے شعور کی آنکھوں سے جہاد کیا، سمجھا اور اپنایا…وہ جس
نے جہاد پر سب کچھ لٹایا اور جہاد کے ہر پہلو کو پا لیا…وہ خوش نصیب جس نے ہجرت کا
اجر بھی لوٹا، جہاد کا اجر بھی کمایا …دعوتِ جہاد کا مقام بھی پایا…جہادی
آزمائشوں کا اجر بھی پایا…اور مظلومانہ شہادت کا تاج بھی حاصل کیا…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہُ وَاجْعَلْہُ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
واہ
راشد بھائی!… آپ بھی کتنے اونچے قافلے میں جا اُترے… کیسے پیارے ہم نشینوں کا
انتخاب کیا…لوگ حیران ہیں کہ…نوید، سجاد، جمال اور افضل تو کافروں کی جیل میں تھے…
کافر ، مجاہدین کو ہمیشہ سے پکڑتے آئے ہیں، گرفتار کرتے آئے ہیں، شہید کرتے آئے
ہیں… مگر آپ تو اپنے ملک میں تھے…وہ ملک جسے حاصل کرنے کے لئے…’’لا الٰہ الا
اللہ‘‘ کے فلک شگاف نعرے گونجے تھے…وہ ملک جس کا مطلب بھی ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کو
بتایا گیا تھا… وہ ملک جہاں لوگ دین اور ایمان کی تلاش میں کٹ کٹ کر پہنچے تھے…پھر
آپ کو کیوں پکڑا گیا؟… آپ تو جہاد کی دعوت دیتے تھے…اور جہاد کی دعوت قرآن کی
دعوت ہے… دین کی دعوت ہے…
آپ
نے تو سرگودھا سے حضرو تک… اپنی پاکیزہ محنت کے نقوش اس پاک دھرتی پر ثبت کئے تھے…
پھر آپ کو کیوں پکڑا گیا؟…کیوں سزا سنائی گئی؟… اور کیوں بیماری کی حالت میں جیل
ڈالا گیا؟…
ہاں!
یہ کڑوے سوال اس ملک کی پیشانی پر دھبے کی طرح اُبھر رہے ہیں…اور اس ملک کو گہرے
گڑھوں کی طرف دھکیل رہے ہیں… بہرحال بھائی راشد! نہ آپ ناکام ہوئے اور نہ ہم
مایوس اور خوفزدہ ہیں…سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قافلے کے کئی افراد کو جب منافقین نے شہید کر
دیا تو بعض افراد ان حملوں میں بچ بھی گئے…ان بچ جانے والوں کو جب مبارکباد دی گئی
تو انہوں نے حیرانی سے پوچھا… کیسی مبارکباد؟… مبارکباد تو اُن کے لئے ہے جو شہید
ہو گئے …ہم سب اپنے گھروں سے شہادت کے لئے نکلے تھے…شہادت میں ہماری بھی کامیابی
ہے …اور اس اُمت کی بھی… پھر ہمارے وہ ساتھی ہم سے پہلے اپنے مقصد کو پا گئے…جبکہ
ہم اسی راستے پر جا رہے ہیں اور تمنا رکھتے ہیں کہ …ہمیں بھی شہادت ملے…اس لئے
مبارکباد کے مستحق ہم نہیں…وہ ہیں…
بھائی
راشد…مبارک ہو…بہت مبارک …
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 542
ایک
اہم دعاء
قرآن
کریم کی ہر دعاء میں خیر و برکت کے خزانے…
قرآنی
دعائیں… ہر عمل، وظیفے اور چلے سے بڑھ کر طاقتور اور وزنی…
’’عباد الرحمن‘‘ کی دعاؤں میں سے ایک اہم دعاء…
امام
قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نایاب تقریر…
’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ کا معنٰی و مطلب…
گھوٹا
لگانا پڑتا ہے…
ایصال
ثواب کیا چیز ہے؟…
ایک
اشکال کا جواب…
اپنا
فائدہ…
یہ
سب کچھ جانئے… اس کے لئے ملاحظہ ہو…
یہ
مبارک تحریر…
۱۹ رجب۱۴۳۷ھ؍ 27 اپریل
2016ء
ایک اہم دعاء
اللہ
تعالیٰ ہمیں ’’قرآنِ مجید‘‘ کی بے حد قیمتی دعاؤں سے فائدہ اُٹھانے والا بنائے…
آمین
ایک
قیمتی اور اہم دعاء
قرآن
مجید کی ہر ’’دعاء‘‘ میں خیر اور برکت کے بڑے بڑے خزانے ہیں…اسی لئے شیطان
مسلمانوں کو قرآنی دعاؤں کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا… یہ دعائیں ہر وظیفے سے
بڑا وظیفہ ، ہر چلّے سے بڑا چلّہ اور ہر روحانی عمل سے زیادہ طاقتور عمل ہیں…کئی
لوگ بتاتے ہیں کہ …گھر میں اتفاق نہیں… بیوی فرمانبردار اور نیک نہیں… اولاد میں
خیر اور اچھائی نہیں …کوئی دعاء بتا دیں… اُن سے عرض کیا جاتا ہے کہ آپ یہ دعاء
کثرت سے پڑھیں …
﴿ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ
اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾
بعد
میں اگر اُن سے پوچھا جائے کہ…یہ دعاء پڑھنا شروع کی؟… تو کہتے ہیں کہ جی! اکثر
بھول جاتی ہے، رہ جاتی ہے، چھوٹ جاتی ہے … اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ
ایسا
عظیم، قیمتی، ربانی تحفہ اور علاج بھول جاتا ہے …پھر گھر والوں کی اور اولاد کی
خرابیوں کا شکوہ کرنے کی کیا گنجائش ہے؟…
دعاء
کا ترجمہ
اس
دعاء کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ… یہ دعاء خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے…دوسری بڑی
اہمیت یہ ہے کہ…یہ دعاء ’’عباد الرحمن ‘‘ کا وظیفہ ہے…اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے
جن کی عادتیں اور باتیں اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں…اور اُن کے لئے اللہ تعالیٰ
نے جنت کے اونچے درجات کا وعدہ فرمایا ہے…تیسری اہمیت یہ کہ یہ دعاء ہمارے اس عزم
کا اظہار ہے کہ…ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار دیکھنا
چاہتے ہیں…اور اس کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہتے ہیں… دعاء کے الفاظ اور اُن کا
ترجمہ یاد کر لیں:
﴿رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ
اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا﴾
ترجمہ:
اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطاء فرمائیے
اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنائیے۔
اس
دعاء کے قبول ہونے سے انسان کے اہل اور اولاد میں ’’برکت‘‘ آ جاتی ہے…حضرت امام
قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب
انسان کو اپنے اہل اور اولاد میں برکت مل جائے تو اگر اُس کی صرف ایک بیوی ( اور
ایک بچہ) ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اُن میں وہ تمام چیزیں جمع فرما دیتے ہیں…جو اُس
کے دل کی تمنا ہوتی ہیں…مثلاً خوبصورتی، پاکیزگی، حیا، فرمانبرداری اور دین و دنیا
کے کاموں میں معاونت… تب اُس کی آنکھیں ایسی ٹھنڈی ہوتی ہیں کہ …وہ کسی اور طرف
نظر نہیں اُٹھاتا…
سُبْحَانَ
اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ
آنکھوں
کی ٹھنڈک
آیتِ
مبارکہ میں آنکھوں سے مراد ’’ اہل ایمان ‘‘ کی آنکھیں ہیں…ہر کسی کی آنکھیں
نہیں… اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد…اہل و عیال اور اولاد کا نیک صالح ہونا ہے…
امام
قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مومن کی آنکھ کے لئے اِس سے بڑھ کر کوئی ٹھنڈک نہیں کہ وہ اپنے
اہل اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار دیکھے۔‘‘ ( مظہری)
اہل
لغت کے نزدیک …آنکھوں کی ٹھنڈک کا مطلب ہوتا ہے …’’دل کو اُس کی آخری مراد مل
جانا‘‘…یعنی دل جو چاہتا ہے وہی ہو جائے تب اُس کی خوشی آنکھوں کو ٹھنڈا اور
پُرسکون کر دیتی ہے… اور انسان پوری طرح مطمئن ہو جاتا ہے…
یہ
دعاء مرد حضرات کے لئے بھی ہے…اور خواتین کے لئے بھی…قرآن پاک سب کے لئے نازل ہوا
ہے…انسان کی آنکھیں بہت مشکل سے ٹھنڈی اور مطمئن ہوتی ہیں …ابھی اپنے حکمرانوں کو
دیکھ لیں … اربوں کھربوں روپے اور دنیا بھر میں جاگیریں ، جائیدادیں بنا کر بھی
اُن کی آنکھیں پیاسی ہیں…اور یہ مزید مال اور جائیداد بنانے کی فکر میں ہیں…اپنی
بیویوں سے جب آنکھیں مطمئن نہیں ہوتیں تو وہ آنکھیں طرح طرح کی خیانتیں کرتی
ہیں… اور اپنے خاوند سے جب آنکھیں مطمئن نہ ہوں تو وہ ناشکری اور شکوے روتی
ہیں…اور گناہوں میں مبتلا ہوتی ہیں…آنکھوں کی پیاس تب بجھتی ہے جب دل کو اُس کی
پوری مراد مل جائے… اور دل کی مراد اللہ تعالیٰ ہی پوری فرما سکتے ہیں…تو اللہ
تعالیٰ نے دعاء سکھا دی کہ یہ مانگو…دل کی مراد آنکھوں کو ٹھنڈا کر دے گی…
﴿ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ
اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾
﴿رَبَّنَا﴾’’ اے ہمارے رب!‘‘ ﴿ھَبْ﴾… ’’عطا فرما‘‘
﴿اَزْوَاجِنَا﴾…’’ہماری بیویاں‘‘ ﴿ذُرِّیّٰتِنَا﴾… ’’ہماری اولاد‘‘ ﴿قُرَّۃ﴾
’’ٹھنڈک‘‘﴿ اَعْیُنٍ﴾’’ آنکھیں‘‘…
گھوٹا
لگانا پڑتا ہے
اگر
کوئی نوجوان ہو اور اُس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو…وہ اس دعاء کو مضبوط پکڑ لے تو ان
شاء اللہ شادی بھی ہو جاتی ہے اور اولاد بھی صالح نصیب ہوتی ہے… لیکن شادی ہو گئی
، بچے ہو گئے اور کبھی یہ دعاء نہیں مانگی تو اب کیا کریں؟… جواب یہ ہے کہ اب اس
دعاء کا چند دن خوب گھوٹا لگائیں … آپ نے کبھی باداموں کا شربت بنتے دیکھا ہو گا
… باداموں کو جس قدر زیادہ رگڑا جائے اُسی قدر عمدہ شربت بنتا ہے… اس رگڑائی کو
گھوٹا لگانا کہتے ہیں… پہلے دعاء کے درست الفاظ سیکھیں…اس کا ترجمہ سمجھیں اور پھر
خوب توجہ سے گڑگڑا کر ، رو رو کریقین سے مانگتے جائیں… خصوصاً فرض نمازوں کے
بعد…اذان اور اقامت کے درمیان … سحری اور افطار کے وقت…جہاد کے سفر یا محاذ پر…
جمعہ کے دن عصر کے بعد… جمعہ کی رات … صدقہ دیتے وقت…کسی مریض کی عیادت یا خدمت کے
وقت…یا اسی طرح قبولیت کے کسی بھی وقت… دل میں جذبہ یہ ہو کہ…میری بیوی ، میرا
خاوند، میری اولاد سب اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بن جائیں…دین اسلام کے کام آنے
والے بن جائیں… اہل جنت میں سے بن جائیں…اور جہنم کے دھویں تک سے بچ جائیں…جب دن
رات کثرت سے یہ دعاء ایک ضروری مقصد اور کام بناکر مانگیں گے تو ان شاء اللہ …اس
کے عجیب فوائد اور برکات اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے…
﴿ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ
اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾
اپنا
فائدہ
ایک
بار ایک مجلس میں یہ سوال اُٹھا کہ… یہ ایصال ثواب کیا چیز ہے؟… قرآن مجید میں
واضح سمجھایا گیا کہ… ہر کوئی اپنے عمل کا مالک ہے، کسی پر کسی کا گناہ نہیں ڈالا
جائے گا…جب کسی پر کسی کا گناہ نہیں ڈالا جائے گا تو پھر کسی اور کی نیکی کسی کو
کس طرح مل سکتی ہے؟… بندہ نے جواب کو دو حصوں میں تقسیم کیا… ایک تو وہ روایات جن
میں ایصال ثواب کی وضاحت آئی ہے…اور دوسرا جواب یہ کہ ایصال ثواب میں انسان کو جو
کچھ دوسرں سے ملتا ہے وہ دراصل اپنے عمل کا ہی حصہ اور نتیجہ ہوتا ہے … ایک حافظ و
قاری باعمل جب انتقال فرماتے ہیں تو اُن کے سینکڑوں ہزاروں شاگرد اُن کے ایصال
ثواب کے لئے ہزاروں ختمات کرتے ہیں … یہ سب اس قاری صاحب کے اپنے عمل کا نتیجہ اور
اپنے عمل کا پھل ہے… اُس نے قرآن مجید کو سیکھا پھر اُسے سینے سے لگایا اور پھر
لوگوں کو سکھایا … اب لوگ جو کچھ اُسے ایصال ثواب کر رہے ہیں…وہ سب اُس کے اپنے
عمل ہی کا حصہ ہیں …پرویز مشرف جب مر جائے گا تو لوگ کتنے قرآن پڑھ کراسے بخشیں
گے؟ نواز شریف اور شہباز شریف کو لوگ کیا ایصال ثواب کریں گے؟… پیسے دے کر جو ختم
کرائے جاتے ہیں…اُن کا ثواب تو خود پڑھنے والوں کو بھی نہیں ہوتا وہ آگے کسی اور کو
ہدیہ کیا کریں گے؟ مجاہدین، شہداء اور اہل ایمان کے نیک اعمال کے اثرات ایسے ہوتے
ہیں جو اُن کے لئے صدیوں اور ہزاروں سال تک کے ایصال ثواب کا راستہ بناتے ہیں… ایک
شخص اپنے بیٹے کو قرآن عظیم الشان کا حافظ بنائے… اب جب بھی اُسے دیکھے گا تو دل
اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی کہ میرے مرنے کے بعد میرے لئے کیسا زبردست انتظام ہو گیا
…مقصد یہ ہے کہ یہ دعاء اگرچہ اپنی بیوی اور بچوں کی اصلاح کے لئے ہےمگر اس کا
فائدہ واپس دعاء کرنے والوں کو ہی لوٹتا ہے… اچھی بیوی، اچھا خاوند اور اچھی اولاد
انسان کے لئے عزت، راحت، نجات اور جنت کا ذریعہ ہیں…
﴿ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ
اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾
معذرت
اس
دعاء کی تشریح اور فضیلت پر مزید لکھنا تھا…جبکہ دعاء کا آخری حصہ﴿وَاجْعَلْنَا
لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا﴾ بہت اہم ہے…مگر وقت ختم ہو چکا…اذانوں کی آوازیں گونج
کر تھم چکی ہیں … اللہ کرے یہی مختصر الفاظ کافی ہو جائیں اور زیادہ سے زیادہ
مسلمان اس دعاء سے فائدہ اُٹھائیں … ساتھ یہ نیت اور ارادہ بھی کر لیں کہ اپنے
بچوں کو قرآن مجید سے محروم نہ رکھیں گے…اُن کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیں
گے…اپنی ساری اولاد کو عموماً اور بیٹیوں کو خصوصاً ’’انگریز‘‘ کی تعلیم میں نہیں
جھونکیں گے…اپنی اولاد کو تیراکی، گھڑ سواری، نشانہ بازی اور عمدہ قرآت سکھائیں
گے…اور اپنی اولاد کو …اللہ تعالیٰ کے دین کا مجاہد بنائیں گے …یا اللہ! ہم مانگ
رہے ہیں…آپ قبول فرما لیں…
﴿ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ
اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾
آمین
یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِینْ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 543
مقبولیت،قبولیت
لوگوں
میں مقبول ہونا… نہ کمال نہ نیکی…
بلکہ
ایک آزمائش…
عند
اللہ ’’قبولیت‘‘ کے نتیجے میں ملنے والی ’’مقبولیت‘‘ ایک نعمت…
دین
’’ضروری‘‘… اور دنیا ’’ضرورت‘‘…
دنیا
کو ’’ضروری‘‘ اور دین کو ’’ضرورت‘‘ سمجھنے
والا
طبقہ… اور ایک غلط طرز عمل…
دو
اہم نکات…
صالح
و مصلح کا فرق…
اللہ
تعالیٰ کے ہاں ’’قبولیت‘‘ اور دین کی خالص محنت کے لئے
’’مقبولیت‘‘ کا شوق قربان کرنا ضروری …
لوگ
کیا چاہتے ہیں؟…
سب
سے ’’غیر مقبول‘‘ اور ایک ’’قانون‘‘…
معاشرے
میں پھیلے ایک بگاڑ کی وضاحت…
اور
بہت سے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھاتی…
ایک
روشن و معطر تحریر…
۲۶ رجب۱۴۳۷ھ؍ 04 مئی 2016ء
مقبولیت،قبولیت
اللہ
تعالیٰ ہمیں اپنے نزدیک قبولیت اور مقبولیت عطاء فرمائے…لوگوں میں ’’مقبول ‘‘ ہونا
…عوام میں مقبول ہونا ، میڈیا پر مقبول ہونا…نہ کوئی فخر ہے، نہ کوئی کمال …نہ
کوئی نیکی ہے اور نہ کوئی کام آنے والی چیز… عوامی مقبولیت کا شوق خطرناک ہے…یہ
شوق دینداروں کے لئے زہر اور مجاہدین کے لئے ناکامی ہے… یہ اخلاص کا جنازہ…ترقی کی
راہ میں رکاوٹ…اور بربادی ہے… ہاں! اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت ہو…پھر وہ اپنے فضل
سے اپنے مخلص بندوں میں بھی کسی کو مقبول بنا دے، محبوب بنا دے تو یہ اللہ تعالیٰ
کی نعمت ہے…اُس کا فضل ہے…
ایک
ضروری نکتہ
دین
ضروری ہے اور دنیا ضرورت ہے… مسلمان کا کام یہ ہے کہ دین پر رہے…اور دین پر رہتے
ہوئے اپنی دنیوی ضرورتیں پوری کرے… دنیا کی جو ضرورت دین سے ٹکراتی ہو اُسے چھوڑ
دے… مگر اب مسلمانوں میں وہ طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو دنیا کو ہی ضروری اور اصل
سمجھتا ہے…اور دنیا کو اصل مقصد بنا کر ساتھ تھوڑا بہت دین پر چلنا چاہتا ہے… اس
سے بہت خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں… مسلمانوں کے دلوں سے بڑے بڑے گناہوں کی نفرت ختم
ہو رہی ہے…نعوذ باللہ مساجد میں کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی دعائیں چل پڑی ہیں … حالانکہ
کرکٹ میچ لاکھوں افراد کو نماز سے روکتے ہیں… اور طرح طرح کی برائیاں اور گناہ
پھیلاتے ہیں…اب نعوذ باللہ’’ نور جہاں ‘‘ کی بھی تعریفیں ہو رہی ہیں…حالانکہ اب
بھی اس کے ساز اور گانے روزانہ لاکھوں افراد کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرتے ہیں… اور
گناہوں میں غوطے دیتے ہیں …اور تو اور نعوذ باللہ بالی وڈ کے فنکاروں کے تعریف
بھرے تذکرے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو رہے ہیں …عامر خان وغیرہ نے نہ تو فلمیں
چھوڑیں اور نہ اپنے غلط نظریات… اُن کے ہاں مسلمانوں کی ہندوؤں سے شادی حلال
ہے…جو کہ خالص کفریہ عقیدہ ہے… اُن کے ہاں ہر فلم میں ہندو بن جاناجائز ہے…اور اُن
کی فلمیں کروڑوں مسلمانوں کو گناہ، غفلت اور گمراہی میں ڈال رہی ہیں…مگر ہم اس پر
خوشی منا رہے ہیں کہ اس نے ہمیں فون کیا، میسج کیا…اور ایک آدھ بار ملاقات کا شرف
بخشا… یہ درست ہے کہ…ہمیں ہر طبقے میں دین کی محنت کرنی ہے…مگر یہ محنت اس طرح
جائز نہیں کہ…ہم دنیا کو اصل بنا دیں اور دین کو محض ایک وقتی ضرورت… کوئی سود
نہیں چھوڑنا چاہتا ہے تو ہم اس کو تجارتی حیلے سکھا دیں… کوئی فلم نہیں چھوڑنا
چاہتا تو ہم اسے فلم کی اجازت دے دیں…آپ لوگوں کو دین بتائیں… دین کی طرف بلائیں
…نیکی اور گناہ کا مفہوم سمجھائیں …نیکی پر شکر اور گناہ پر استغفار کا طریقہ
سکھائیں … مگر گناہوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں…گناہوں کو حلال نہ کریں…اور صرف کسی
کے رمضان المبارک میں مرنے کو دلیل بنا کر اُسے جنت میں محلات اَلاٹ نہ کریں… ہمیں
کیا معلوم کون کفر پر مرا اور کون اسلام پر؟… اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے…مگر
اللہ تعالیٰ کا غضب بھی بہت سخت ہے… جو لوگ ’’نہی عن المنکر‘‘ چھوڑ دیتے ہیں…جو
لوگ گناہوں کو پُرکشش بناتے ہیں…جو لوگ گناہوں کو بُرا نہیں سمجھتے… وہ بڑی غلطی
کر رہے ہیں…اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے…
﴿اُدْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗ فَّةً
۠﴾
پورے
پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ…
ہاں
پورے پورے… اور جو کچھ نہیں کر سکتے اُس پر توبہ کرو ، استغفار کرو…
ایک
اور اہم نکتہ
میں
کسی پر تنقید نہیں کر رہا…مجھے ’’تنقید‘‘ کرنے سے ڈر لگتا ہے…میں اپنے رفقاء کو
بھی روکتا ہوں کہ… جن معاملات میں مستند اہل علم کا اختلاف ہے اُن معاملات میں
اپنا مؤقف مضبوط رکھیں… مگر دوسرے مؤقف پر لعن طعن نہ کریں … اسی طرح اگر آپ
خود کوئی کام چھپ چھپا کر کرتے ہیں اور اُس پر توبہ، استغفار نہیں کرتے تو …
دوسروں پر اسی کام کے بارے میں لعن طعن نہ کریں… کئی لوگ خود تصویر بازی کرتے ہیں…
جہاں موقع ملے موبائل نکال کر ذی روح کا فوٹو، ویڈیو بناتے ہیں… مگر وہ دوسروں پر
تصویر کے بارے میں لعن طعن کرتے ہیں …یہ طرز عمل انتہائی خطرناک ہے… یہ عمل آپ کی
اللہ تعالیٰ کے ساتھ رازداری خراب کر دے گا…آپ تصویر کو بُرا سمجھتے ہیں تو آپ
کو یہ حق نظریہ بہت مبارک…
آہ
افسوس! اس نظریے کے اَفراد اب دنیا میں بہت کم رہ گئے ہیں…یہ افراد حق کے زیادہ
قریب ہیں…لیکن ان افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ خلوت، جلوت ہر جگہ اپنے نظرئیے کی
پاسداری کریں… تاکہ یہ ثابت ہو کہ آپ کا نظریہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، دوسروں کو
ذلیل کرنے کے لئے نہیں… اور اللہ تعالیٰ ہر چیز ہر جگہ دیکھتے ہیں…لیکن اگر آپ
لکھنے اور بولنے کی حد تک تو تصویر کے مخالف ہوں …مگر خود تصویر بنانے اور بنوانے
سے پرہیز نہ کرتے ہوں تو آپ کی یہ حالت خود آپ کے لئے خطرناک ہے… اب سنئے! ایک
اہم نکتہ… ایک آدمی ’’صالح ‘‘ ہے… یعنی نیک، اس کو سب اچھا سمجھتے ہیں…لیکن جیسے
ہی وہ ’’مُصلِح‘‘ بنا…یعنی نیکی کی دعوت دینے والا اور گناہوں سے روکنے والا… تو
اب اس کی عوامی مقبولیت ایک دَم کم ہو جائے گی…اور بہت سے لوگ اس کے مخالف ہو
جائیں گے…
مگر
ایک مسلمان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ …’’مصلح ‘‘ بنے… لوگوں میں مقبولیت کی قربانی
دے… اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنی مقبولیت چھوڑے… تب اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں…
بڑی خاص ’’قبولیت‘‘ اور ’’مقبولیت‘‘ نصیب ہو تی ہے …اس دنیا میں رہتے ہوئے… جو
انسان اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے… اسے لوگوں میں مقبولیت کا شوق دل سے
نکالنا ہو گا…اگر یہ شوق دل سے نہ نکلا تو…یہ کسی بھی وقت اس کے دین کو برباد کر
دے گا…لوگ دینداروں سے کیا چاہتے ہیں؟ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی مرضی کا دین
بیان کریں… ایسا دین جس سے ان کی دنیا داری پر کوئی فرق نہ پڑے… وہ آپ سے تعویذ
چاہتے ہیں… عملیات چاہتے ہیں…اور استخارے… ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی نعوذ باللہ
بس یہی عزت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مسائل حل کرتا رہے…اور انہیں خود اللہ تعالیٰ
کے لئے دو رکعت کی تکلیف بھی نہ کرنی پڑے…بلکہ کوئی اور نمائندہ ان کے لئے اللہ
تعالیٰ سے استخارہ پوچھ دے… استغفر اللہ ، استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
وہ
چاہتے ہیں کہ… اپنی مرضی کا کھائیں، اپنی مرضی کا پئیں، اپنی مرضی سے خوشی غم
منائیں… اور اپنی مرضی سے کمائیں… دین کو ان معاملات میں مداخلت کا حق نہیں…
دیندار بس ان کا نکاح پڑھا دیں اور جنازہ…
اب
جو دیندار …لوگوں کی ان خواہشات کے برعکس چلتا ہے تو وہ ان میں ’’غیر مقبول ‘‘ ہو
جاتا ہے…پھر جو جس قدر زیادہ خالص دین کی طرف بلائے گا وہ اسی قدر زیادہ غیر مقبول
ہو گا…
ایک
نظر ڈالیں
لوگ
چاہتے ہیں کہ… ان کی دنیاداری چلتی رہے… گناہوں کا کاروبار چلتا رہے… اور اس کے
ساتھ تھوڑا بہت دین بھی آ جائے…لوگوں کی اس خواہش کو دیکھتے ہوئے ایسے اَفراد
میدان میں آ گئے ہیں جو لوگوں کو اُن کی پسند کا دین سپلائی کرتے ہیں…اور یوں ان
کی مقبولیت خوب بڑھتی ہے…
پھر
اس میں کئی درجے ہیں:
٭ کچھ لوگ نہ کسی کو نماز کی دعوت دیتے ہیں…اور نہ کبیرہ گناہوں سے
بچنے کی…بلکہ شریعت کا ہر حکم دنیا داروں کے لئے معاف کراتے رہتے ہیں…نہ نماز، نہ
روزہ…نہ قربانی نہ شریعت… یہ لوگ آج کل سب سے زیادہ مقبول ہیں… یہ خود کسی قدر
دیندار ہیں…مگر لوگوںکو دین کے نام پر دین سے دور کرتے ہیں…ان میں کچھ دانشور ہیں…
کچھ عامل …کچھ پروفیسر اور کچھ کشف کے دعویدار…
٭ کچھ لوگ نماز روزے کی دعوت دیتے ہیں…مگر شریعت کے باقی احکامات
میں آزادی کی آواز لگاتے ہیں…اور کسی بھی گناہ سے کسی کو نہیں روکتے… یہ لوگ
پہلے طبقے سے کچھ کم مگر پھر بھی بہت مقبول ہیں…
٭ کچھ لوگ پورے دین کی دعوت کا اعلان کرتے ہیں…ماحول بھی دینی
بناتے ہیں…مگر دین کے ان احکامات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے جو کفریہ سامراجی طاقتوں
کو ناپسند ہیں…مثلاً جہادِ فی سبیل اللہ ، اسلامی نظامِ انصاف…اسلامی معیشت وغیرہ…
یہ
لوگ پہلے دو طبقوں سے کم…مگر پھر بھی کافی مقبول ہیں…
لوگوںمیں’’مقبولیت‘‘
کا شوق اور لوگوں تک ان کی پسندیدہ دین کی سپلائی کے اس رجحان نے … اسلامی معاشرے
کو گلابی بنا دیا ہے…سچے، خالص اور پورے دین کی خوشبو اب اکثر جگہ نہیں ملتی…
دنیا، دنیا اور دنیا… جبکہ دین ہر جگہ دنیا کے تابع… (نعوذ باللہ)
آہ!
کیسا دُکھ بھرا ماحول بن گیا…وہ جگہیں جہاں ایک سنت چھوٹ جانے پر آنسو قطار بنا
لیتے تھے…آج وہاں ’’منکرات‘‘ کا طوفان قہقہے لگا رہا ہے…یا اللہ! رحم…
سب
سے غیر مقبول
زیادہ
لوگ جب ’’بد دینی‘‘ اور ’’ بے دینی‘‘ پر ہوں تو ایک قانون بن جاتا ہے…وہ قانون یہ
کہ لوگوں کے نزدیک جو چیز جتنی ’’غیر مقبول‘‘ ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ اسی
قدر ’’مقبول ‘‘ ہوتی ہے… آج دین کا کونسا فرض اور کون سا مسئلہ لوگوں میں زیادہ
’’غیر مقبول ‘‘ ہے؟… جواب واضح ہے… جہادِ فی سبیل اللہ
دنیا
کے تمام کفار اس کے شدید مخالف… دنیا کے تمام منافقین اس کے شدید دشمن… دنیا کے
تمام دنیا پرست اس کے شدید ناقد… اور دنیا کے تمام فاسق اس کے شدید معاند… آج
مسلمانوں میں بھی… ہر وہ شخص جو مہذب کہلاتا ہے…وہ جہاد کا نام سن کر بدک جاتا
ہے…آج دنیا پرست دینداروں کے ہاں… نہ جہاد کو سنا جاتا ہے اور نہ جہاد کو بولا
جاتا ہے… حالانکہ جہاد قرآن مجید میں موجود ہے… ایک بار نہیں ہزار بار… جہاد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہے… ایک بار نہیں
سینکڑوں بار… جہاد تمام حدیث کی کتابوں میں موجود ہے… ایک بار نہیں ہزاروں بار…
جہاد تمام فقہ کی کتابوں میں موجود ہے… ایک بار نہیں لاکھوں بار… جہاد حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں موجود ہے…ایک بار نہیں ہزاروں
بار…ہمارا دین تو یہی ہے… جو قرآن میں آ گیا… جو سنت میں آ گیا… جو حدیث میں آ
گیا… جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں آگیا… جو فقہ میں آ گیا… ہمارا دین یہ تو
نہیں کہ جو حکم عالمی طاقتوں کو ناپسند ہو … وہ دین سے خارج… وہ بیان سے خارج…
ہاں!
آج عمومی، عوامی حلقوں میں جہاد سب سے ’’غیر مقبول‘‘… بلکہ اب تو ’’خطرناک‘‘ بھی
ہے کیونکہ نام کے مسلمان حکمرانوں کی طرف سےیہ کفریہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ جہاد
کو نعوذ باللہ مٹا دو… جہاد کو مٹانے میں اچھے برے کی تفریق نہ کرو…بس جو بھی جہاد
فی سبیل اللہ پر کھڑا ہو اسے گرا دو…
جب
اہل کفر ، اہل نفاق، اہلِ فسق اور دنیا پرستوں کے نزدیک… جہاد سب سے غیر مقبول
ہوا… تو ان شاء اللہ یہی عمل اس وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قبولیت اور
مقبولیت والا ہو گا… پس اللہ تعالیٰ کے عاشق اسے مضبوط پکڑیں … اس میں بھرپور محنت
کریں… اور اس میں خوب آگے بڑھیں… عشر مہم چل رہی ہے…اس کو اخلاص کے ساتھ تیز
کریں… دوراتِ تفسیر آ رہے ہیں اس سال مثالی کارکردگی دکھائیں… جو صرف عوام میں
مقبول ہوتے ہیں وہ ہمیشہ عوام کے جوتوں تلے رہتے ہیں…اور جو اللہ تعالیٰ کے ہاں
مقبول ہوتے ہیں…ان پر تو جبرئیل علیہ
السلام اور فرشتے بھی سلام بھیجتے ہیں…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 544
آٹھ آفات
آٹھ
آفات اور مصیبتیں…
شیطان
ہر دن صبح اور شام غافل انسان پر
آٹھ
مصیبتوں کے تیر پھینکتا ہے…
ان
آٹھ آفات کا تعارف…
ان
سے بچنے کی پناہ گاہ…
کبھی
نیک اور متقی لوگوں پر بھی ان آفات کا حملہ ہوتا ہے…
کیوں؟…
ایک
قیمتی اور مضبوط دعاء…
آفتوں
کے آپسی تعلقات…
دل
کی ہمت اور چارجنگ…
راہِ
جہاد میں آزمائشیں معمول کا حصہ…
شیطان
کے آٹھ تیروں کا تعارف…
اور
ان سے بچنے کا نسخہ…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئےملاحظہ ہو… یہ تحریر
۴ شعبان۱۴۳۷ھ؍ 11 مئی 2016ء
آٹھ آفات
اللہ
تعالیٰ ہمارے لئے ’’شعبان‘‘ میں برکت عطاء فرمائے… اور ہمیں ’’قبولیت‘‘ والا
’’رمضان ‘‘ عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
آج
کا موضوع
آج
کا موضوع بہت اہم ہے… کوئی بندہ جب اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتا ہے… یا کوئی گناہ
کرتا ہے تو اس پر بہت سی مصیبتیں آتی ہیں…مگر ان مصیبتوں میں سے ’’آٹھ‘‘ بہت
خطرناک ہیں …یہ آٹھ مصیبتیں انسان کی زندگی برباد کر دیتی ہیں …اور اس کی آخرت
کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہیں…اس لئے ہمیں سکھایا گیا کہ ہر دن صبح اور شام ان
آٹھ مصیبتوں سے بچنے کی دعاء مانگا کریں… عجیب بات یہ ہے کہ …شیطان ان آٹھ
مصیبتوں کے تیر…ہر صبح اور ہر شام ہم پر چھوڑتا ہے… پس جو انسان صبح شام اللہ
تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے…وہ بچ جاتا ہے…اور جو یہ پناہ نہیں پکڑتا وہ ان
تیروں میں سے کسی ایک یا زیادہ تیروں کا شکار ہو جاتا ہے…
وہ
آٹھ مصیبتیں یہ ہیں:
١ ’’اَلْھَم
‘‘ یعنی فکر میں مبتلا ہونا …
٢ ’’اَلْحُزْن‘‘
یعنی غم میں جکڑا جانا…
٣ ’’اَلْعَجْز‘‘
یعنی کم ہمتی ، بے کاری، محرومی…
٤ ’’اَلْکَسْل‘‘
یعنی سستی ، غفلت…
٥ ’’اَلْجُبْن‘‘
یعنی بزدلی، خوف، دل کا کمزور ہو کر پگھلنا …
٦ ’’اَلْبُخْل‘‘
یعنی کنجوسی، حرص، لالچ اور مال کے بارے میں تنگ دلی …
٧ ’’غَلَبَۃُ
الدَّیْن ‘‘ یعنی قرضے میں بری طرح پھنس جانا کہ نکلنے کی صورت ہی نظر نہ آئے…
٨ ’’قَھْرُالرِّجَال
‘‘ یعنی لوگوں کے قہر، غضب ، غلبے اور ظلم کا شکار ہو جانا…
یہ
آٹھ مصیبتیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے … ہر روز کم از کم دو بار ہم پر حملہ آور
ہوتی ہیں … صبح بھی اور شام بھی…
جی
ہاں! ہر روز… آپ تجربہ کر لیں… آپ صبح اور شام ان آٹھ آفتوں سے حفاظت کی دعاء
کا اہتمام کریں… مگر جس دن دعاء نہ پڑھی یا پڑھی مگر توجہ سے نہ مانگی… اس دن ان
آٹھ میں سے کوئی مصیبت اچانک حملہ آور ہو گی…اور ہمارے دل کو پگھلانا شروع کر دے
گی… بالکل فضول قسم کے تفکرات اور ہموم… ایک صاحب ایک بزرگ کے پاس گئے…پریشانی اور
فکر کی وجہ سے چہرہ بدلا ہوا تھا… بار بار دل کو مسلتے اور سر کو پکڑتے … یوں لگتا
تھا کہ ان کے اندر کوئی آگ جل رہی ہے … یا کوئی زہریلا جانور ان کو اندر ہی اندر
سے ڈس رہا ہے… اسے ’’ھَمْ ‘‘ اور فکر کہتے ہیں… بزرگ نے پوچھا کیا بات ہے؟… کہنے
لگے… بھائی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے… ان کے چھ بچے اب میرے ذمے ہیں…میں اس فکر
میں ہوں کہ ان کو کہاں سے کھلاؤں گا؟… بزرگ نے پوچھا… بھائی نے وراثت میں کچھ
نہیں چھوڑا؟…وہ صاحب کہنے لگے کہ یہی فکر تو آج لگی ہے کہ ہم نے بھائی کے چھوڑے
ہوئے مال کا حساب کیا …وہ تو صرف ایک سال تک ان بچوں کی ضروریات پوری کر سکتا ہے…
تو اس وقت سے میں جل رہا ہوں کہ…ایک سال کے بعد کیا ہو گا؟ … بزرگ نے فرمایا… ایک
سال کا خرچہ موجود ہے… تم کو اگر رونا دھونا ہے تو ایک سال بعد رو لینا…ابھی سے کیوں
جل رہے ہو؟… کیوں کڑھ رہے ہو؟… سبحان اللہ! ایک سال میں تین سو ساٹھ راتیں… تین سو
ساٹھ دن… ایک سال میںچار موسم اور ہزاروں تبدیلیاں… ایک سال میں زندگی، موت اور
رزق کے اترنے والے فیصلے… مگر شیطان جب ’’فکر‘‘ میں ڈالتا ہے تو اسی طرح تڑپاتا
ہے… اپنی بیٹی پر نظر پڑی اور فکر شروع…
شادی کہاں ہو گی؟ پھر کیا کرے گی؟ …معلوم نہیں اچھا رشتہ ہو گا یا نہیں؟… اسی طرح
کبھی مکان کی فکر… کبھی گاڑی کی فکر… جو کچھ ہوا نہیں …اس کی فکر… پندرہ سال پہلے
جب جماعت پر چھاپے پڑنا شروع ہوئے تو آگے کی فکر میں کئی افراد بھاگ گئے…مگر اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے جماعت بھی چلتی رہی اور کام بھی بڑھتا گیا… لیکن وہ لوگ اپنے حصے
سے محروم ہو گئے…کبھی بزدلی کا ایسا حملہ کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ!
تقریر
جہاد پر کرنے جا رہے ہیں…اور دل خوف اور بزدلی سے اندر ہی اندر پگھل رہا ہے… ہر
طرف موت ہی موت محسوس ہو رہی ہے… اور دل بیٹھا جا رہا ہے…یہ شیطانی حملہ نہیں تو
اور کیا ہے؟موت کا قرب تو خوشبودار اور روشنی بھرا ہوتا ہے… موت کے بعد ہی ملاقات
ہے اور راحت… لیکن جب موت کالی کالی بلا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ دل پر شیطانی
حملہ ہو گیا… اسی طرح کم ہمتی کا حملہ کہ… بس چھوڑو سارے کام…بغیر جہاد کے بھی جنت
مل جائے گی… اور کبھی سستی کا حملہ کہ بس بستر پر پڑے رہو…کوئی غم آئے یا خوشی
مگر بستر نہ چھوٹے…تب بڑے بڑے عظیم کاموں سے محرومی ہو جائے گی… کبھی قرضے کا ایسا
حملہ کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ …سمندر کی لہروں کی طرح ایک کے بعد دوسرا… اور دوسرے
کے بعد تیسرا… اللہ تعالیٰ بچائے… ایسا منظر بن جاتا ہے کہ انسان کو زمین میں دھنس
جانے کا جی چاہتا ہے…اور کبھی لوگوں کا قہر ، غضب اور غلبہ… کوئی مار رہا ہے… کوئی
گھسیٹ رہا ہے…کوئی باندھ رہا ہے…کوئی مذاق اڑا رہا ہے… اور کوئی گالیاں بک رہا ہے…
آٹھ مصیبتیں …ہر ایک مصیبت دوسری سے زیادہ خطرناک…
ضروری
نہیں
پہلے
عرض کیا ہے کہ…یہ آٹھ مصیبتیں ہم پر ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں…اور اس وقت
آتی ہیں جب ہم اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتے ہیں … لیکن یہ ضروری نہیں…ایسے نیک لوگ
جو احکام الٰہی پورے کرتے ہیں…اور گناہوں سے حتی الوسع بچتے ہیں…ان پر بھی ان
مصیبتوں کا حملہ ہوتا ہے…اور ہر دن ہوتا ہے… اور ہر دن دو بار یعنی صبح شام ہوتا
ہے… یہ اس لئے تاکہ وہ مزید نکھر جائیں مزید پاک ہو جائیں… اور ان کے درجات مزید
بلند ہو جائیں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کرنے والے بن جائیں…
قیمتی
دعاء
ان
آٹھ مصیبتوں سے حفاظت کی دعاء… کئی احادیث مبارکہ میں آئی ہے… صحیح بخاری میں تو
یہاں تک آیا ہے کہ…رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کثرت کے ساتھ یہ دعاء مانگتے
تھے…بسی اسی سے اہمیت کا اندازہ لگا لیں…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے، محفوظ تھے اور شیطان کے ہر شر سے پاک
تھے… مگر پھر بھی اس دعاء کی کثرت فرماتے…ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ… حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت مسجد تشریف لے گئے تو وہاں اپنے صحابی
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو بیٹھا پایا…پوچھا کہ نماز کا تو وقت نہیں پھر
مسجد میں کیسے بیٹھے ہو … عرض کیا…تفکرات نے گھیر رکھا ہے…اور قرضے میں پھنس چکا
ہوں… فرمایا یہ کلمات صبح شام پڑھا کرو… انہوں نے اہتمام فرمایا تو تفکرات بھی دور
ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے سارا قرضہ بھی اُتار دیا … یہ دعاء الفاظ کی تقدیم
تاخیر اور کچھ فرق کے ساتھ کئی احادیث میں آئی ہے… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین یہ دعاء ایک دوسرے کو قرآن مجید
کی آیات کی طرح اہتمام سے سکھاتے تھے…
دعاء
کے دو صیغے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں …جو آسان لگے اُسے اپنا معمول بنا لیں…
١ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ
وَالْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ
الرِّجَالِ…
٢ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ
وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ
وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ…
الفاظ
کا ترجمہ ایک بار پھر اختصار کے ساتھ سمجھ لیں…
’’اَلْھَم‘‘ تفکرات کو کہتے ہیں…آگے کی فکریں، پریشانیاں ، فضول
پریشان کرنے والے منصوبے اور خیالات…
’’اَلْحُزن ‘‘غم کو کہتے
ہیں …ماضی کے واقعات کا صدمہ اور غم ایک دم اُبھر کر دل پر چھا جائے… حالانکہ حدیث
شریف میں آیا ہے … ’’کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک
اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ جو کچھ اسے پہنچا ہے وہ اس سے رہ نہیں سکتا تھا… اور جو
کچھ اس سے رہ گیا وہ اسے پہنچ نہیں سکتا تھا۔‘‘(مسند احمد)
یعنی
جو نعمت مل گئی وہ ملنا ہی تھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتی تھی…جو تکلیف آئی وہ
آنی ہی تھی اس سے بچا نہیںجا سکتا تھا…اور جو کچھ نہیں ملا وہ نہیں ملنا تھا خواہ
میں کچھ بھی کر لیتا… مطلب یہ کہ اللہ کی تقدیر پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر
پر راضی ہونا…یہ غم کا علاج ہے…
’’اَلْعَجْز‘‘ کا مطلب اچھے کاموں اور اچھی نعمتوں کو پانے کی طاقت
کھو دینا…اس میں کم ہمتی بھی آ جاتی ہے…
’’اَلْکَسْل‘‘ کا مطلب
سستی… یعنی انسان کے ارادے کا کمزور ہو جانا… میں نہیں کر سکتا … میں نہیں کرتا…
’’اَلْجُبْن‘‘ بزدلی، موت کا ڈر، اپنی جان کو بچانے کی ہر وقت فکر
…اللہ تعالیٰ نے جان دی کہ اس کو لگا کر جنت پاؤ مگر ہم ہر وقت جان لگانے کی
بجائے جان بچانے کی سوچتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے جان دی تاکہ ہم اسے لگا کر…دین کو
غلبہ دلائیں، اسلامی حرمتوں کی حفاظت کریں…اُمت مسلمہ کو عزت دلائیں… مگر ہم جان
بچانے کے لئے ہر ذلت برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں … اسے ’’جبن ‘‘ کہتے ہیں…
’’اَلْبُخْل‘‘ مال کے بارے میں کنجوسی کرنا …مال سے فائدہ نہ
اٹھانا… مال جمع کرنے اور گننے کی حرص میں مبتلا ہو کر …مال کا نوکر اور ملازم بن
جانا…اور مال کے شرعی اور اخلاقی حقوق ادا نہ کرنا…
’’ضَلَعُ الدِّیْن‘‘ قرضے کا بری طرح مسلط ہو جانا… فضول قرضے لینے
کی عادت پڑ جانا … قرضوں کے بوجھ تلے دب جانا…
’’غَلَبَۃُ الرِّجَال یا قَہْرُالرِّجَال ‘‘
لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ،
رسوا ، مغلوب اور مقہور ہونا…
اللہ
تعالیٰ میری اور آپ سب کی…ان آٹھ آفتوں اور تمام آفتوں سے حفاظت فرمائے…
آفتوں
کے تعلقات
نیکیوں
کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں … ایک نیکی انسان کو دوسری نیکی سے ملاتی ہے…اسی طرح
گناہوں کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں ایک گناہ انسان کو دوسرے گناہ کی طرف کھینچ لے
جاتا ہے… یہی حال ’’آفتوں‘‘ کا بھی ہے…ہر آفت انسان کو اگلی آفت کی طرف کھینچتی
ہے…اہل علم نے ان آٹھ آفتوں کے باہمی تعلقات پر بہت عمدہ نکتے لکھے ہیں… مثلاً
یہ کہ ’’ ھم ‘‘ اور ’’حزن‘‘ کا تعلق انسان کی روح کے ساتھ ہے…’’ھم ‘‘ روح کو آگے
کی پریشانیوں میں ڈالتا ہے… اور ’’حزن‘‘ اسے ماضی کی پریشانیوں میں جلاتا ہے… عجز
اور کسل کا تعلق عمل کی محرومی سے ہے… انسان کا ارادہ کمزور اور عمل کی طاقت سست
پڑتی ہے تو وہ ترقی سے محروم ہو جاتا ہے… بخل اور جبن کا تعلق ذاتی نقصان سے ہے…
انسان نے جان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا یہ جبن ہے… اور مال سے کوئی فائدہ نہ پکڑا یہ
بخل ہے… اور قرضے اور مغلوبیت کا تعلق انسان کی آزادی سے ہے کہ …ان دونوں مصیبتوں
کی وجہ سے انسان داخلی یا خارجی آزادی سے محروم ہو جاتا ہے… بندہ نے کافی غوروفکر
کے بعد اس دعاء میں یہ دیکھا ہے کہ… ان آٹھ آفتوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے…
ہر آفت کے بعد والی آفت اس کا سبب ہے… کالم کی جگہ ختم ہو رہی ہے اس لئے تفصیل
سے نہیں لکھ سکتا اہل علم کے لئے اشارہ عرض کر دیا ہے…
موجودہ
حالات
اس
وقت پاکستان میں ’’ اہل دین‘‘ خصوصاً ’’اہل جہاد‘‘ پر جو حالات ہیں وہ بظاہر
مایوسی پھیلانے والے ہیں…تفکرات اور غموں میں ڈالنے والے ہیں… حالانکہ حقیقت میں
ایسا کچھ نہیں… ایمان والے مجاہدین پر ہمیشہ ہی ایسے حالات رہتے ہیں… ’’جہادِ فی
سبیل اللہ ‘‘ عمل ہی ایسا ہے…مگر فرق یہ ہے کہ جب اپنے دل میں ہمت کی روشنی…یعنی
’’چارجنگ‘‘ موجود ہو تو… دل مطمئن رہتا ہے اور کام میں لگا رہتا ہے… لیکن اگر اپنے
دل کی روشنی ہی کمزور پڑ جائے تو پھر جہاد میں اطمینان والے حالات کب نظر آ سکتے
ہیں؟…
بدر
کا الگ امتحان ہے…احد کا الگ امتحان ہے…احزاب کا الگ امتحان ہے… حتی کہ فتح مکہ کا
بھی الگ امتحان ہے…
اس
لئے ضرورت ہے کہ…اپنے دل کی روشنی پر نظر رکھی جائے کہ موجود ہے یا نہیں …کم ہے یا
زیادہ… پھر اس روشنی کو قرآنی نسخوں اور مسنون دعاؤں اور اعمال کے ذریعے برقرار
رکھا جائے… بڑھایا جائے…
﴿ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ﴾
بس
اسی سلسلے میں آج یہ قیمتی دعاء بھی عرض کر دی ہے… تاکہ اہل ایمان ان آٹھ خطرناک
آفتوں سے بچنے کا سامان کریں… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس مبارک دعاء کی
برکات عطاء فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭
رنگ
و نور 545
ایک فتنہ
ایک
مسنون دعاء…
اور
اس کی تشریح و فوائد…
’’غنٰی‘‘ کا مطلب…
سورۂ
انفال میں ذکر کردہ ایک فتنے کی تشریح…
ترک
جہاد کا فتنہ اور اس کا وبال…
نہی
عن المنکر کے ترک کا فتنہ… اور اس کے نقصانات…
گناہوں
کی دو قسمیں…
اہل
ایمان کا فریضہ…
نہی
عن المنکر کے درجات…
اُمت
میں پھیلایا جانے والا ایک برا فتنہ…
دوراتِ
تفسیر آیات الجہاد…
اور
کچھ تائبین کا تذکرۂ خیر…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئے ملاحظہ ہو… یہ تحریر…
۱۱ شعبان۱۴۳۷ھ؍ 18 مئی 2016ء
ایک فتنہ
اَللّٰھُمَّ
یَا رَبِّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی
یا
اللہ! ہمیں ہدایت ، تقویٰ ، عفت اور غنا عطاء فرما دیجئے…
وہ
افراد جن کے دل پر گناہوں کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… اور وہ برائیوں میں مبتلا ہو
جاتے ہیں … اُنہیں ہمارے حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ یہ مسنون دعاء
تلقین فرماتے تھے:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی
جو
لوگ توجہ سے یہ دعاء مانگتے ہیں… ان کے دل کی بھی اصلاح ہوتی ہے اور مزاج کی بھی…
مثلاً
’’اَلْغِنٰی‘‘ کہتے ہیں…محتاجی سے حفاظت کو…شیطان کوشش کرتا ہے کہ آدمی کی طبیعت
محتاجوں والی ہو جائے…ہر چیز میں محتاج … گپ شپ کا محتاج، اپنا حال اور بیماری
بتانے کا محتاج… مال کا محتاج… لوگوں کی توجہ کا محتاج … لوگوں کی اطاعت کا محتاج…
ہر کسی سے یہ تمنا کہ وہ مجھے کچھ دے… حتیٰ کہ بیت الخلاء سے نکلتے ہی ایسے افراد
کی ضرورت جن کو بیت الخلاء کی کار گزاری سنا سکے اور اپنی بیماریاں بتا سکے… مجلس
میں بیٹھے تو ہر ایک پر دل پھنسایا ہوا ہے کوئی اُٹھا تو فوراً سوال کہ کیوں
اُٹھے؟… کوئی جانے لگا تو فوراً سوال کہ کہاں جا رہے ہو؟… محتاجی ہی محتاجی… مگر
جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو ’’غنی‘‘ فرما دے تو اسے نہ ان چیزوں کی فکر ہوتی ہے
نہ ضرورت… غنی دل، بادشاہ دل… نہ کسی کے اکرام کا محتاج اور نہ کسی کی ہمدردی کا
محتاج…اپنے کام سے کام اور اپنے مالک سے ہمکلام…
واقعی
بڑی عجیب دعاء ہے:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی
ہدایت
مل گئی تو گمراہی سے حفاظت ہو گئی… فتنوں سے حفاظت ہو گئی…قرآن مجید نے ہمیں بہت
سے فتنوں سے آگاہ کیا ہے… سورۂ انفال میں ایک بڑے فتنے سے بچنے کا حکم دیا گیا
ہے:
﴿وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا
مِنْكُمْ خَاۗصَّةً ۚ﴾
ترجمہ:
اور تم ایسے فتنہ سے بچو جو خاص کر انہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے
گناہوں کے مرتکب ہوئے…
یعنی
وہ ایسا خطرناک فتنہ ہے کہ…جو گناہگاروں اور بے گناہوں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے
گا…وہ کون سافتنہ ہے؟… مفسرین لکھتے ہیں: وہ جہاد چھوڑنے کا فتنہ ہے… اس فتنے کے
نقصانات عوام اور خواص سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں…کیونکہ جہاد کے ذریعہ دین
کی حفاظت ہے، شعائر دین کی حفاظت ہے… اور جہاد ہی کے ذریعہ تمام مسلمانوں کی حفاظت
ہے … اسی لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ہمیشہ جہاد کرتے رہیں… اگرچہ کفار نے
ان پر حملہ نہ کیا ہو تب بھی مسلمان خود آگے بڑھ کر لڑتے رہیں… اور جب کفار
مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائیں تو پھر جہاد سے پیچھے ہٹنے کی گنجائش ہی نہیں
ہے…تفسیرِ انوار البیان میں لکھا ہے:
’’جہاد کا سلسلہ جاری نہ رکھنے کی ہی وجہ سے دشمن کو آگے بڑھنے کی
جرأت ہوتی ہے اور جب دشمن چڑھ آتے ہیں تو بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی حفاظت کے
لئے فکر مند ہونا پڑتا ہے، لہٰذا جہاد جاری رکھا جائے اور اس سے پہلو تہی نہ کریں
ورنہ عوام و خواص مصیبت میں گھِر جائیں گے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی قوم جہاد چھوڑ
دے گی اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب بھیج دے گا۔ ( انوار البیان)
بعض
مفسرین فرماتے ہیں کہ… وہ فتنہ ’’نہی عن المنکر ‘‘ چھوڑنے کا فتنہ ہے…لوگوں کو
گناہوں سے نہ روکنا…اس میں جب عذاب آتا ہے تو گناہگار بھی رگڑے جاتے ہیں…اور ساتھ
وہ لوگ بھی جو انہیں گناہوں سے نہیں روکتے… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے یہ وہ فتنہ ہے
جو (نعوذ باللہ) دین کا حلیہ ہی بدل دیتا ہے…پھر گناہوں کی دو قسمیں ہیں…یہ دونوں
قسمیں سخت خطرناک ہیں…مگر ایک ان میں سے بہت ہی زیادہ خطرناک ہے… ایک تو وہ گناہ
ہے جو انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے… اس گناہ میں دوسروں کو گناہوں میں مبتلا
کرنے کی دعوت یا انتظام نہیں ہے… مگر ایک گناہ ایسا ہے کہ اس میں دوسروں کو بھی
گناہ کی دعوت موجود ہے اور اس گناہ کے ذریعہ دوسرے مسلمان بھی گناہوں میں مبتلا
ہوتے ہیں…یہ گناہ … ’’سیئہ جاریہ‘‘ ہے… یعنی جاری رہنے والی برائی … آگے بڑھنے
والا گناہ… اس گناہ کے علمبردار اللہ تعالیٰ کے اور ایمان والوں کے دشمن ہوتے ہیں
… کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایمان اور تقوے کی طرف بلاتا ہے جبکہ یہ لوگ
اس کے مدمقابل گناہوں کو کھڑا کر کے… لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف
بلاتے ہیں…قرآن مجید کی کئی آیات میں ایسے گناہگاروں پر سخت وعید فرمائی گئی ہے…
وہ جو لوگوں میں فحاشی پھیلاتے ہیں…وہ جو لوگوں کو کھیل کود اور لہو و لعب میں
غافل کرتے ہیں… وہ جو دوسروں کو گناہوں کی طرف مائل کرتے ہیں …ایسے لوگوں کے لئے
بڑی ذلت اور بڑا عذاب ہے… مگر توبہ کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے کھلا رکھا
ہے… ذاتی گناہ کرنے والوں کے لئے بھی…اور گناہوں کو پھیلانے والوں کے لئے بھی…لیکن
گناہ پھیلانے والوں کی توبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا گناہ اعلان کر کے
چھوڑیں…اور اس گناہ کے جتنے اثرات معاشرے میں جاری ہوں…اُن کو مٹانے کی حتی الوسع
کوشش کریں…
تب
ان شاء اللہ ان کی توبہ قبول ہو گی… جبکہ اہل ایمان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان
گناہگاروں کو ان کے گناہوں سے روکیں…انہیں قرآن و سنت کی وعیدیں سنائیں… اورانہیں
دو ٹوک الفاظ میں بتائیں کہ آپ کا یہ عمل اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے … لیکن اگر اہل
ایمان یہ فریضہ چھوڑ دیں… گناہ گاروں کو اُن گناہوں سے نہ روکیں… اور اس بات پر
کھلے عام فخر بھی کریں کہ…ہم نے فلاں سے ملاقات کی اور اسے اس کے عالمگیر گناہوں
کا احساس تک نہیں ہونے دیا تو پھر ایسے حالات میں وہ عذاب اور فتنہ آتا ہے جس کی
لپیٹ میں سب آ جاتے ہیں…نہی عن المنکریعنی گناہوں سے روکنے کے کئی درجات ہیں…اس
میں سب سے اونچا درجہ ’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ ہے کیونکہ وہ سب سے بڑے ’’منکر‘‘
یعنی کفر سے روکتا ہے… اس کے بعد کا درجہ گناہ کو ہاتھ سے روکنے کا ہے… اس کے بعد
زبان سے روکنے کا مرتبہ ہے… اور سب سے آخری درجہ یہ ہے کہ دل سے گناہ کو گناہ
سمجھے اور اس سے نفرت رکھے…اور اس سے بیزار ہو… اس کی مثال یہ ہے کہ… کسی کے گھر
میں آگ لگ جائے اور وہ آدمی ہاتھ، پاؤں اور زبان سے معذور ہو…وہ نہ خود آگ
بجھا سکتا ہو اور نہ کسی اور کو مدد کے لئے بلا سکتا ہو …تو ایسے آدمی کے دل میں
جو غم اور گھٹن ہو گی اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے … بس اسی طرح وہ مسلمان جو
گناہوں سے دوسروں کو نہیں روک سکتے…وہ گناہوں سے اپنے دل میں شدید نفرت اور بے
زاری رکھیں… یہ ایمان کا سب سے آخری اور کمزور درجہ ہے… اور اللہ تعالیٰ معاف
فرمائے…آج مسلمانوں کو ایمان کے اس آخری درجے سے محروم کرنے کی سخت محنت جاری
ہے… انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ…گانے بجانے کو برا نہ سمجھو کیونکہ ساری زندگی
ہزاروں گانے ریکارڈ کرنے والی… چھبیس سے زائد ناجائز معاشقے لڑانے والی…بارہ سے
زائد مشکوک شادیاں بھگتانے والی ’’مائی ‘‘ جنت میں ہے… بالی وڈ کی فلموں کو برا نہ
سمجھو کیونکہ ان میں کام کرنے والے کئی افراد بڑے جینئس، حاجی اور مثالی لوگ ہیں…
لہو و لعب اور کھیل و کود میں زندگی برباد کرنے کو برا نہ سمجھو کیونکہ وہاں تو
دین کی بہاریں پھوٹ رہی ہیں…گناہوں کی تو دور کی بات… اب اسلام دشمن کافروں سے بھی
نفرت نہ کرو … بلکہ ہاتھ میں کتبے لے کر فوٹو بنواؤ کہ…ہم مودی سے نفرت نہیں
کرتے… ہم ایڈوانی سے بغض نہیں رکھتے…ہم مشرکوں سے محبت کرتے ہیں… پھر یہ کتبے رکھ
کر نماز کی امامت کے لئے آگے بڑھو … اور بڑے سوز سے تلاوت کرو…
﴿وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ﴾
ترجمہ:
جو صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
تھے وہ کفار کے لئے بہت سخت اور آپس میں بڑے ہمدرد تھے…
پھر
نماز کے بعد دوبارہ کتبہ اُٹھا کر بیٹھ جاؤ کہ:
’’ میں سشما سوراج اور اندرا گاندھی کا دیوانہ ہوں …اور عجیب بات
یہ کہ میں مسلمان بھی ہوں‘‘…
عرض
کرنے کا مقصد یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنے کی ضرورت ہے اور ہدایت کی
حفاظت تقویٰ سے ہوتی ہے… اور تقویٰ عفت سے مضبوط ہوتا ہے…ا ور عفت تب آتی ہے جب
انسان کا دل غنی ہو… اور وہ شہوات اور اغراض کی حرص سے پاک ہو…اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو یہ جامع دعاء سکھا دی:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی
الحمد
للہ فتنوں سے حفاظت کے لئے… دعوتِ جہاد کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جاری
ہے… اس وقت ملک کے پچیس اضلاع میں ’’دورہ تفسیر آیات الجہاد‘‘ جاری ہے… جماعت کی
تین نکاتی جامع دعوت کا اثر بھی الحمد للہ دور دور تک پھیل رہا ہے… کلمہ طیبہ،
اقامت صلوٰۃ اور جہادِ فی سبیل اللہ…ابھی دو روز قبل بیرون ملک سے ایک صاحب نے
بتایا کہ وہ بیان سن کر تائب ہوئے… اور شراب خانے کی نوکری چھوڑ دی… انہوں نے رزق
حلال کے لئے دعاء کی درخواست کی ہے… ایک خاتون نے لکھا کہ انہوں نے این جی او کی
نوکری اور بیوٹی پارلر بند کر دیا ہے… اور ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب کو حرز جان بنا کر
دن رات توبہ استغفار اور قضا نمازوں میں مشغول رہتی ہیں … اور الحمد للہ شرعی پردہ
اپنا لیا ہے…ایک اور مسلمان بہن نے بھی اپنی توبہ کا بہت عجیب حال لکھا ہے… تمام
قارئین سے گذارش ہے کہ… ان سچے’’ تائبین‘‘ کے لئے اللہ تعالیٰ سے استقامت، ترقی
اور وافر رزق حلال کی دعاء فرمائیں…بے شک توبہ کرنے والوں کا مقام بہت بلند ہے…
اللہ تعالیٰ کا عرش اُٹھانے والے فرشتے ان کے لئے خاص دعائیں کرتے ہیں…اور اللہ
تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے…
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْنَا مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ
تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭٭٭