رنگ و نور جلد اول
ربّا تیرے سہارے
اﷲتعالیٰ کی توفیق سے
چنداہل دل نے ایک ایسا ہفت روزہ اخبار
نکالنے کا ارادہ کیا ۔جس میں ۔امت مسلمہ کی دینی رہنمائی کی جاسکے اور مکمل دین
اسلام پورا پورا بیان کرنے کی کوشش کی جائے ۔الحمدﷲ مورخہ ۲۵ذو القعدہ ۱۴۲۵ھ کو القلم کا پہلا
شمارہ منظر عام پر آیا ۔رنگ و نور کے اس مضمون میں لفظ القلم پر مدلل بات کی گئی
ہے ۔اور اس اخبار کے اغراض و مقاصد ۔اور عزائم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
مزید فوائد:(۱) دو قرآنی آیات کی تفسیر
(۲)قلم
کے بارے میں تفاسیر کی عبارتیں (۳)ایک
عربی رباعی -وغیرہ
(۲۵ ذولحجہ ۱۴۲۵ھ بمطابق ۷ جنوری ۲۰۰۵ء)
ربّا تیرے سہارے
اللہ پاک کی قدرت دیکھئے…
’’القلم‘‘ بھی میدان میں اتر آیا ہے کتنا بھلا نام ہے… کتنا خوبصورت، کتنا حسین…
کتنا باجمال و پروقار… ’’القلم‘‘… سبحان اللہ! لکھتے ہوئے بھی مزا آتا ہے اور
پڑھتے اور سنتے ہوئے بھی… ویسے اس وقت ضرورت بھی ’’القلم‘‘ کی تھی… حق کو تاریخ کے
سینے پر محفوظ کرنے والا… پرنور، پرکیف، گرجدار اور چمکدار… ’’القلم‘‘ میرے عظیم
رب نے ایسے ہی ’’القلم‘‘ کی قسم تو نہیں کھائی… قلم کی عظمت اور قلم کا کردار
مسلّم ہے… تلوار کی عظمت سر آنکھوں پر… مگر تلوار کی ترجمانی بھی تو قلم ہی کرتا
ہے… دیکھیں ایک شاعر کا دماغ کہاں تک جا پہنچا
؎
اذا اقسم الابطال یوما
بسیفہم
وَعدُّوْ مما ُیکْسَبُ
المجْدُوالکرم
کفیٰ قلم الکُتَّابِ عزّا
ورِ فعَۃً
مدی الدھران اﷲ اقسم
بالقلم
یہ عربی زبان کی ایک
رباعی ہے… رباعی کا معنیٰ لغت میں کچھ یوں لکھا ہے۔ وہ چار مصرعے جو اوزان مخصوص
پر ہوں۔ اس میں پہلے اور چوتھے مصرعے کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے… رباعی کے چوبیس
اوزان ہیں… مصرعہ آدھے شعر کو کہتے ہیں… اور ہر شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں… یہ بات
اس لئے لکھ دی تاکہ… عربی اور شعر و شاعری کا کچھ ذوق پیدا ہوجائے… ورنہ ہمارا ملک
ان دنوں جتنی تیزی سے… معاشی خوشحالی… روشن خیالی… امن اور ترقی کی طرف دوڑ رہا
ہے… بلکہ دوڑ دوڑ کر ہانپ رہا ہے… اس میں عربی زبان بہت پیچھے رہ گئی ہے… اور اب
ہمیں یہ فخر مارے جا رہا ہے کہ ہم… انگریزوں کی طرح انگریزی بول لیتے ہیں… تحریک
آزادی اور تحریک پاکستان کے شہداء کی قبروں سے آواز آتی ہے کہ… پھر انگریزوں کو
یہاں سے نکالنے کی کیا ضرورت تھی… آواز آتی ہے تو آتی رہے… پرانے لوگوں کی… اور
مُردوں کی باتیں ہم نہیں سنتے… ہمیں تو کولن پاول کے فون آتے ہیں… کولن پاول کے!…
ان چار عربی مصرعوں کا ترجمہ کیا ہے؟… یقین کیجئے میں نہیں لکھوں گا… ممکن ہے آپ
عربی سیکھنے کا عزم کرلیں… یا کسی عالم کی خدمت میں حاضری دیں… اس لئے ترجمہ نہیں
لکھا جارہا… ان شاء اللہ کچھ ہی عرصہ بعد… جی ہاں اگر اللہ تعالیٰ نے نصرت فرمائی
اور ’’القلم‘‘ چلتارہا… نکلتا رہا… اور خونخوار دانتوں نے اسے چبا نہ لیا تو ان
شاء اللہ تعالیٰ… عربی سکھانے کا آسان نصاب… اور سلسلہ شروع کیا جائے گا… بات ادھر
ادھر کھسک گئی، آئیے واپس ’’القلم‘‘ کی طرف آتے ہیں… بات کا آغاز رب تعالیٰ کے
معطر و منور فرمان سے کرتے ہیں… قرآن پاک کے انتیسویں پارے کی دوسری سورۃ کا نام …
سورۃ ’’القلم‘‘ ہے… ویسے قرآن پاک کی کل سورتیں ایک سو چودہ ہیں اور ان میں سے
سورۃ القلم اڑسٹھویں نمبر پر ہے… القلم کا لفظ قرآن پاک میں دو مقامات پر آیا ہے۔
ایک تو یہی… یعنی سورۃ القلم آیت(۱) اور
دوسرا سورۃ العلق آیت(۴)۔
قلم کی جمع ’’اقلام‘‘ آتی ہے اور یہ جمع بھی قرآن پاک میں دو جگہ استعمال ہوئی ہے۔
سورۃ لقمان آیت (۲۷) اور
سورۃ آل عمران آیت (۴۴)
’’قلم‘‘ کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سب سے پہلے… اسے پیدا فرمایا… اس پر
مدلل بات چیت آگے چل کر کریں گے… پہلے قرآن پاک اورالقلم…
اللہ تبارک و تعالیٰ
ارشاد فرماتے ہیں…
نٓ
o والقلم وما یسطرون
o ماانت بنعمۃ ربک بمجنون(القلم آیت:۱،۲)
(ترجمہ) نٓ o قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں
(کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نہیں ہیں اپنے رب کے فضل سے دیوانے…
مشرکین مکہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو… نعوذ باللہ… العیاذ باللہ دیوانہ،شاعر،جادوگر اور نعوذ باللہ … کیا
کیا بکتے تھے… حکومت، مال اور سرداری کے نشے میں ان کی بیہودہ بکواس آئے دن…پوری
خود اعتمادی سے بڑھتی جارہی تھی…وہ خود کو حکمت پسند، وقت شناس… اور حالات دان
سمجھتے تھے… قرآن پاک اس موقع پر للکارا… عرش پر سے آواز آئی کہ قلم کی قسم، محمد
صلی اللہ علیہ وسلم دیوانے نہیں ہیں… اس موقع پر قلم کی قسم کھانے کی کیا حکمت ہے؟
مفسرین نے دل کھول کرلکھا… مگر حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ
اللہ تعالیٰ وہاں تک پہنچے جہاں تک رب علیم و قدیر کے خصوصی فضل سے ہی پہنچا جا
سکتا ہے… اس آیت کی تفسیر میں حضرت کا کلام پڑھئیے… اور پھر چودہ صدیوں کا ایک
سرسری جائزہ لیتے ہوئے اپنے زمانے تک کا سفر کیجئے۔ زندہ باتیں ہر زمانے میں زندہ
رہتی ہیں… کل بھی اور آج بھی… لیجئے پڑھئیے اور سر دھنیئے…
مشرکین مکہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کو (العیاذ باللہ) دیوانہ کہتے تھے… کوئی کہتا کہ شیطان کا اثر ہے جو …
تمام قوم سے الگ ہو کر ایسی باتیں کرنے لگے ہیں، جن کو کوئی نہیں مان سکتا، حق
تعالیٰ نے اس خیال باطل کی تردید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی فرما دی۔ یعنی
جس پر اللہ تعالیٰ کے ایسے ایسے فضل و انعام ہوں جن کو ہر آنکھ والا مشاہدہ کررہا
ہے۔ مثلاً اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور حکمت و دانائی کی باتیں… مخالف و موافق کے دل
میں اس قدر قوی تاثیر اور اتنے بلند اور پاکیزہ اخلاق، کیا اسے دیوانہ کہنا خود
اپنی دیوانگی کی دلیل نہیں؟ دنیا میں بہت دیوانے ہوئے ہیں اور کتنے عظیم الشان
مصلحین گزرے ہیں جن کو ابتداء ً قوم نے
دیوانہ کہہ کر پکارا ہے مگر ’’قلم‘‘ نے تاریخی معلومات کا جو ذخیرہ بطون اوراق
(یعنی کاغذوں) میں جمع کیا ہے، وہ ببانگ دہل شہادت دیتا ہے کہ واقعی دیوانوں… اور
ان دیوانہ کہلانے والوں کے حالات میں کس قدر زمین وآسمان کا تفاوت ہے۔ آج آپ کو
(العیاذ باللہ) مجنون کے لقب سے یاد کرنا بالکل وہی رنگ رکھتا ہے جس رنگ میں دنیا
کے تمام جلیل القدر اور اولوالعزم مصلحین کو ہر زمانہ کے شریروں اور بے عقلوں نے
یاد کیا ہے، لیکن جس طرح تاریخ نے ان مصلحین کے اعلیٰ کارناموں پر بقاء و دوام کی
مہر ثبت کی اور ان مجنون کہنے والوں کا نام ونشان باقی نہ چھوڑا، قریب ہے کہ قلم
اور اس کے ذریعہ سے لکھی ہوئی تحریریں آپ کے ذکر خیر اور آپ کے بے مثال کارناموں
اور علوم و معارف کوہمیشہ کیلئے روشن رکھیں گی اور آپ کو دیوانہ بتلانے والوں کا
وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ کر رہے گا۔ ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا آپ
کی حکمت و دانائی کی داد دے گی اور آپ کے کامل ترین انسان ہونے کو بطور ایک اجماعی
عقیدہ کے تسلیم کرے گی۔ بھلا خداوند قدوس جس کی فضیلت و برتری کو ازل الآزال میں
اپنے قلم نور سے لوح محفوظ کی تختی پر نقش کر چکا ، کس کی طاقت ہے کہ محض مجنون و
مفتون کی پھبتیاں کس کر اس کے ایک شوشہ کو مٹا سکے؟ جو ایسا خیال رکھتا ہو پر لے
درجے کا مجنون یا جاہل ہے۔ (تفسیر عثمانی)
آج پھر وقت کے فرعون…
زمانے کے نمرود… عصر حاضر کے ابوجہل و ابولہب اور دور حاضر کے عبداللہ بن ابی
منافق… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر… آپ کے پاکیزہ نظریات پر… آپ کی
اعلیٰ تعلیمات پر… ناسمجھی، بنیاد پرستی، رجعت پسندی… اور بے حکمتی کی پھبتیاں کس
رہے ہیں… مگر ان کی باتوں سے کچھ نہیں ہوگا… یہ خود بھی مر جائیں گے اور ان کے
نظریات بھی… ان کے عہدے بھی عارضی ہیں… اور ان عہدوں کے زور پر دیئے جانے والے
بیانات بھی… ان شاء اللہ ’’القلم‘‘ اپنا فیصلہ سنائے گا… اور عہد حاضر کے فرعونوں
کو گمنامی کی لکیر میں دفن کردے گا… جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین… اور اس
دین کی ایک ایک بات کل بھی زندہ تھی… آج بھی زندہ ہے اور ’’القلم‘‘ ان کے نقوش کو
انمٹ بناتا رہے گا… یہ تو ہوا پہلی آیت کا مختصر تذکرہ، اب آئیے دوسری آیت کی طرف!
اللہ ربّ العزت ارشاد
فرماتے ہیں:
اقرأ وربک الاکرم o الذی علم بالقلم (سورۃ العلق:۳،۴)
(ترجمہ) پڑھو اور تمہارا
رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا… یعنی اللہ ربّ العزت نے انسان
کو قلم سے لکھنا سکھایا اور اسے علوم کے محفوظ اور جاری ہونے کا ذریعہ بنا دیا…
علامہ قرطبی رحمہ اللہ
تعالیٰ لکھتے ہیں…
اللہ ربّ العالمین نے چار
چیزوں کو اپنے ہاتھ سے بنایا…
(۱)قلم
(۲)عرش
(۳)جنّتِ
عدن
(۴) حضرت
آدم علیہ السلام (قرطبی ص ۱۱۲،
ج۲۰)
حدیث صحیح میں حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ان
اول ماخلق اﷲ القلم فقال لہ اکتب (ترمذی
وقال حسن صحیح غریب)
(ترجمہ) سب سے پہلے اللہ
تعالیٰ نے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے حکم دیا کہ لکھو…
قلم کے ذریعہ اللہ پاک نے
علم سکھایا، یہ بات تو قطعی ہے مگر کسے سکھایا؟ اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال
ملاحظہ فرمائیے:
(۱)حضرت آدم علیہ السلام کو
سکھایا، وہی سب سے پہلے لکھنے والے ہیں۔ یہ کعب الاحبار رضی اﷲ عنہ کا قول ہے۔
(۲) حضرت
ادریس علیہ السلام کو سکھایا۔ یہ ضحاک رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور تفسیر
جلالین میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ ’’واول من خط بہٖ‘‘ادریس علیہ السلام
(جلالین ص۶۵۷)
(۳) قلم
سے لکھنے والا ہر شخص مراد ہے، کیونکہ جس کو بھی لکھنا آتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہی
اسے سکھایا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو اسے درست استعمال کرتا ہے،
خوب مزے میں رہتاہے…
اہل علم کا ارشاد ہے:
اصل میں قلم تین ہیں!
(۱) پہلا
قلم جسے اللہ پاک نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور اسے لکھنے کا حکم دیا (یہ قلم
عرش پر موجود ہے)
(۲) دوسرا
قلم فرشتوں کے وہ قلم جن سے وہ تقدیر، تکوین اور اعمال لکھتے ہیں۔
(۳) تیسرا
قلم لوگوں کے وہ قلم جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں دئیے ہیں، ان سے وہ اپنا
کلام لکھتے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ (القرطبی ص۱۱۲، ج۲۰)
قلم کے فضائل… اور اس کی
باتیں بہت زیادہ ہیں… ہم انہیں سمیٹنے کیلئے حضرت سعید بن قتادہ رضی اﷲ عنہ کا یہ
جامع قول نقل کرتے ہیں…
’’القلم… اللہ
تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے… اگر قلم نہ ہوتا تو اقامت دین نہ ہوتی… اور نہ دنیا کے
معاملات درست ہوتے… قلم کے کمالات کو سمجھنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
اپنے بندوں کو اس کے ذریعہ سے وہ سب کچھ سکھایا… جو وہ نہیں جانتے تھے… اور اسی
قلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو… جہالت کے اندھیروں سے علم کے نور کی
طرف منتقل فرمایا… اور علم الکتابۃ (لکھنے کے علم) کی فضیلت سے آگاہ فرمایا،کیونکہ
اس میں ایسے عظیم فوائد ہیں… جنہیں مکمل طور پر صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے… قلم
ہی کے ذریعے علوم کو مدون کیا گیا… حکمت کو محفوظ کیا گیا… پرانے لوگوں کے احوال و
اقوال کو یاد رکھا گیا… اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں کو لکھا گیا… اگر قلم
نہ ہوتا تو دین و دنیا کے معاملات کو نہ سنوارا جا سکتا… (قرطبی صفحہ ۱۱۱،ج۲۰)
قصہ مختصر کہ… ہمارے ان
بھائیوں نے… اپنے ہفت روزہ شمارے کا نام
’’القلم‘‘ کیوں رکھا ہے؟…اور کتنی برکتیں اپنے دامن میں سمیٹ لی ہیں؟ دل چاہتا ہے
کہ … ان کو … یہ مبارک نام تجویز کرنے پر خوب داد دی جائے… مگر… ان کی نیت اور
حالات بتا رہے ہیں کہ… انہیں داد کی نہیں دعا کی ضرورت ہے… پھر کیا دیر ہے… آئیے
سب بھائی اور بہنیں… اپنے زخمی دلوں… ٹھنڈے ہاتھوں… اور گرم آنسوئوں کے ساتھ …
اپنا دامن پھیلاتے ہیں… اور القلم کے رب سے… القلم کے لئے… قبولیت، مقبولیت،
حفاظت… اور خدمت دین کی مسلسل توفیق مانگ لیتے ہیں…
یا اللہ… کرم فرما… فضل
فرما… نصرت فرما… راکھ بہت ہے… مگر چنگاریاں بجھی نہیں… دیواریں اونچی ہیں… مگر
نالے تھمے نہیں… سلاخیں موٹی ہیں… مگر پیچھے کوئی ہے… منزل گم ہے… مگر دور نہیں…
رات مستی میں ہے… مگر دن مرا نہیں… رسّے تنے ہوئے ہیں… مگر ہیں تو مکڑی کے جالے…
طوفان منہ زور ہیں… مگر ساحل پکار رہا ہے… اے میرے رب یہ سب کچھ بتانے کے لئے… یہ
سب کچھ سجھانے کے لئے… تیری آیتیں رو رو کر سنانے کے لئے… القلم… صرف تیرے سہارے…
صرف تیرے سہارے… میدان میں اتر آیا ہے…
یا رب المدد المدد… یا
ربّا المدد!…
بس تیری محبت… تیرا
سہارا… اے میرے پیارے رب…
بسم اﷲ مجرٖھا و مرسٰھا
ان ربی لغفور رحیم فاﷲ خیر
حافظا وھو ارحم الراحمین
آمین یا ربّ العالمین… یا
ارحم الراحمین
اللہم صلّ علیٰ سیدنا
محمد خاتم النبیین وعلیٰ الہٖ وصحبہ اجمعین۔
۱۳؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۵ھ۔ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۰۴ء
تمنا اپنی اپنی
قربانی کے موضوع پر ایک دلچسپ تحریر
،جسمیں دلیل بھی ہے اور جذبہ عشق بھی۔ ہفت روزہ القلم نے مورخہ ۱۰ ذی الحجہ ۱۴۲۶ھ کو اپنا پہلا خصوصی
شمارہ عید الاضحی اور قربانی کے موضوع پر شائع کیا۔ چونکہ کچھ عرصہ سے بعض جدت
پسند قلمکار ’’سنت قربانی‘‘ کے خلاف بھونڈے دلائل کا کباڑ جمع کر رہے ہیں۔ رنگ
ونور کے اس مضمون میں اسی ’’کباڑ‘‘ کو آگ لگائی گئی ہے اور ’’سنت رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم‘‘ کی عاشقانہ وکالت کی گئی ہے۔
مزید
فوائد: (۱) بسنت
اور دیگر فضول خرچیوں کا مفصل حال۔ (۲)
۱۹۴۷ء کے بعض مظالم کا تذکرہ
(۱۰ ذی الحجہ ۱۴۲۵ھ بمطابق ۲۱ جنوری ۲۰۰۵)
تمنا اپنی اپنی
ہمارے ملک کی فلم انڈسٹری
پر سالانہ کتنی رقم خرچ کی جاتی ہے؟ یہ کوئی برا کام تو نہیں ہے کہ ہمارے دانشور
ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑیں، حکومتی ا یجنسیاں ان کی نگرانی کریں اور این جی اوز
سر پیٹیں… امریکہ والوں نے اپنی فلمی صنعت کا نام ’’ہالی وڈ‘‘ رکھا، انڈیا والوں
نے ان کی نقل اتاری اور بمبئی میں ’’بالی وڈ‘‘ قائم کرلیا تب ہم کیوں پیچھے رہتے
ہم نے لاہور کو ’’لالی وڈ‘‘ سے رونق بخشی… اگرچہ ہماری قوم کے اربوں روپے اس
’’ضروری کام‘‘ پر خرچ ہو رہے ہیں مگر پھر بھی قوم کے خیر خواہوں کا یہ نوحہ دل کو
لگتا ہے کہ ہم اس میدان میں بھارت سے پیچھے رہ گئے ہیں… ویسے پریشانی کی بات نہیں
اب بھارت کے ساتھ ’’آنیاں جانیاں‘‘ شروع ہوگئی ہیں… کچھ دن بعد ’’بسنت‘‘ کی صور ت
میں بھارت کے ساتھ یکجہتی کا دن بھی منایا جانے والا ہے… ہمارے کئی فنکار اب
بھارتی فلموں میں کام کرنے لگے ہیں ممکن ہے کہ قوم کے ماتھے سے شکست کا داغ دھل
جائے اور ہم اس دوڑ میں بھارت کی دم تک جا پہنچیں…ویسے پتا ہے ایک فلم بنانے پر
کتنا خرچہ اٹھتا ہے؟ … کئی کروڑ؟… اس سے بھی زیادہ؟… بہت زیادہ… چلیں چھوڑیں اس
بات کو ہم رنگ میں بھنگ کیوں ڈالیں… آئیں ذرا آسٹریلیا کا چکر لگا آتے ہیں وہاں
ہماری کرکٹ ٹیم نے ’’فتح و سربلندی‘‘ کے ایسے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں کہ اب ان جھنڈوں
کو اکھاڑنا مشکل ہو رہا ہے… مسئلہ چونکہ اہم ترین قومی مفاد کا ہے اس لئے رات کو
بی بی سی والوں نے بتایا کہ صدر پاکستان نے کرکٹ کنٹرول بورڈ کے کان کھینچے ہیں کہ
ہماری ٹیم تین صفر سے کیوں ہاری ہے؟ ٹیم کے لئے ایک غیر ملکی کوچ منگوایا گیا ہے
جس کی ماہانہ تنخواہ ایک ملین روپے سے زائد ہے… پاکستان کے دفاع اور سلامتی کیلئے
چونکہ کرکٹ کا فروغ از حد ضروری ہے اس لئے حکومت اور دوسرے ادارے ہر سال اربوں
روپے اس کھیل پر خرچ کرتے ہیں، ہماری ٹیم کے کھلاڑی دو تین میچ کھیلنے کے بعد ایک
اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں… اس دنیا کا تذکرہ پھر کبھی… آئیے تھوڑا سا فضاء میں
گھورتے ہیں… خشکی اور تری میں تو ’’فساد‘‘ تھا اب ہمارے گناہوں نے فضاء کو بھی
مسخر کرلیا ہے… اور تو اور ہماری حکومت نے بھی دل کھول کر ٹی وی چینلز کی اجازت دے
دی ہے… حکومت نے دل کھولا تو ٹی وی والوں نے سب کچھ کھول دیا… سنا ہے کہ خوب خوب
چینل آگئے ہیں… سآب کچھ دکھایا جاتا ہے… اگر میں لکھتا کہ سب کچھ دکھایا جاتا ہے
تو بات نہیں بن رہی تھی اس لئے مجبوراً ’’سب‘‘ پر مد کھینچنی پڑی… کچھ دن پہلے شیخ
رشید احمد صاحب بی بی سی پر انٹرویو دیتے ہوئے فخر کر رہے تھے کہ ہم نے فضاء میں
چوبیس چینل چھوڑ رکھے ہیں… واقعی بہت بڑا نیک کام کیا ہے، فرشتے اب اوپر اوپر ہی
لکھ لیتے ہوں گے… زندہ باد… مسئلہ آسان ہوگیا… معلوم ہے! ایک ٹی وی چینل کھولنے پر
کتنا خرچہ آتا ہے؟… ایک ایک ملازم کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے؟ … ماڈلنگ کرنے والی
لڑکیاں صابن لگانے اور اس کی جھاگ اڑانے کا کتنا پیسہ لیتی ہیں؟…
بات کروڑوں میں نہیں
رُکتی اربوں تک جا پہنچتی ہے مگر تنگ دلی کس بات کی؟ اگر یہ ٹی وی چینل نہ ہوں تو
قوم زندہ کیسے رہے گی؟ ملک محفوظ کیسے ہوگا؟ چلیں ٹی وی کی جان چھوڑتے ہیں کہ آپ
لوگ کہیں گے کہ سعدی کے پاس نہیں ہوگا اس لئے ہم سے جلتا ہے… بات سچی ہے، ابھی تک
ٹی وی میرے پاس نہیں آیا اللہ پاک اسے دور ہی رکھے… آئیے! کچھ دیر کیلئے
سوئٹزرلینڈ ہو آتے ہیں… ویسے اس ملک کو آپ اجنبی نہ سمجھیں یہاں اپنے اکثر خیر
خواہوں کے بینک اکائونٹ ہیں… جی بالکل… قوم کا درد رکھنے والوں نے سوچا کہ قوم کا
خون پسینہ ضائع نہ ہو جائے… تب انہوں نے قوم کے خون پسینے کو… اپنے ضمیر کی ٹھنڈک
سے نوٹ بنایا…پھر ان نوٹوں کو اپنی وفاداری کی حرارت سے ڈالر میں بدلا… اور پھر
انہیں سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جا کر محفوظ کردیا… ویسے آپ حیران ہو جائیں گے کہ
ہمارے یہ ہمدرد لیڈر وہاں کے بینکوں میں رقم رکھ کر اس کا سود تک وصول نہیں کرتے…
دیکھا آپ نے ان کا تقویٰ… مولوی لوگ خواہ مخواہ ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں… ہاں بس
اتنا ضرور ہے کہ وہ اس رقم کو وہاں چپکے سے چھپا کر رکھنے کے عوض ان بینکوں کو
ماہانہ سود دیتے ہیں… آپ خوش ہوجائیں بلکہ خوشیاں منائیں کہ ان بینکوں میں صرف
مسلمانوں کا اتنا پیسہ موجود ہے کہ اگر اسے نکالا جائے تو… غربت روٹھ جائے… اور
غریب روٹیاں کھا کھا کر پریشان ہوجائیں… بہترہے کہ غریب اور غربت کے مفاد میں یہ
پیسہ وہیں رکھا رہے… ہم نے زرداری صاحب کو مزید مشورے کیلئے بھیج دیا ہے… جب تک وہ
واپس تشریف لائیں۔ آئیے! ہم تھوڑا لاہور کا چکر لگا آئیں، وہاں ملک و قوم کی خدمت
اور سلامتی کیلئے زبردست تیاریاں چل رہی ہیں… کئی افراد جنگی پیمانے پر پتنگیں اور
ڈوریں تیار کررہے ہیں… ادھر بڑے ہوٹلوں کو سجایا جارہا ہے، بھوننے اور نچانے کیلئے
بکریاں بُک کرائی جارہی ہیں… کئی اور ناقابل بیان ادارے سرگرم ہیں،اب تک کروڑوں
روپے خرچ ہوچکے ہیں مزید اربوں ہوں گے… ابھی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ مشرقی پنجاب کے
وزیراعلیٰ جب تشریف لائیں گے تو انہیں کہاں کا رنگین پانی پلایا جائے گا… کئی پانی
ٹیسٹ ہو رہے ہیں… بھائی معمولی لوگ تو نہیں آرہے ہمارے بھارتی محسن آرہے ہیں۔
انہوںنے ۱۹۴۷ء
میں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو جو تحفے دئیے تھے… آخر ان کا بدلہ تو دینا ہے…
بیچاروں نے کتنی محنت کرکے مشرقی پنجاب کی زمین کو ہمارے خون سے سیراب کیا تھا… ان
کی ہمت کو داد کہ جب ہندوستان سے گاڑیاں یہاں آتی تھیں تو وہ لوگوں کو کاٹ کاٹ کر
بھیجتے تھے تاکہ وہ ہر فکر سے آزاد ہو کر پاک وطن آئیں… بڑے احسانات ہیں ان کے، اس
لئے تو اب ہمیں پرائے شعلوں کا ڈر ہی نہیں رہا، بس تھوڑا سا اپنے لوگوں سے ڈر لگتا
ہے۔ ویسے ہم انہیں ختم کردیں گے جبکہ ان کو ہم کندھوں پر بٹھا کر لائیں گے جنہوں
نے ۱۹۷۱ء
میں ہمارے نوے ہزار فوجیوں کو کئی سال تک مفت کھانا دیا… بس چھوڑیں ان کے کیا کیا
احسانات گنائیں؟ وہ اس بسنت کے موقع پر… تشریف لائیں گے… جی آیا نوں… پخیر راغلے…
بھلی کری آیا… خوش آمدید…
ویسے اربوں روپے پتنگوں…
اور قوم کے لئے ضروری عیاشیوں پر صرف ہو جائیں گے … کب؟ … بھائی ابھی ۶ فروری کو… اچھا ۶ فروری میں تو کچھ دن
باقی ہیں، ہم ذرا ہوٹلوں کا چکر لگا آتے ہیں… ہوٹل کئی قسم کے… سیون اسٹار… فائیو
اسٹار، تھری اسٹار… اور لاجز ،ریسٹ ہائوس اور کیا کچھ…
ان میں سے ہر ہوٹل میں
روزانہ اتنا خرچ ہوتاہے کہ ایک پوری بستی مہینہ بھر دونوں ہاتھوں سے لپیں بھر بھر
کھائے تب بھی زیادہ پڑ جائے… مگر مال والوں کی اپنی دنیا ہے… یہ لوگ اگر ہر دن سوٹ
نہ بدلیں… طرح طرح کے فیشن نہ اپنائیں… کھا کھا کر نہ گرائیں تو پھر غریب خودکو
غریب سمجھنا چھوڑ دیں… اس لئے مالداروں کو روزانہ بے شمار پیسے اپنی نمائش پر خرچ
کرنے پڑتے ہیں تاکہ غریب… اپنی اوقات میں رہ کر… الٹی سیدھی چھلانگوں اور خودکشیوں
کے منصوبے بناتے رہیں… ہوٹلوں کے اندر کی دنیا پر اگر دل کھول کر لکھا جائے تو آپ
خوشی سے تھو تھو کر نے لگیں… خیر ہمیں کیا ہوٹلوں سے؟ آئیے ذرا میک اپ کا سامان
چیک کرتے ہیں… یاللعجب! کیا زبردست سامان آگیا ہے، نقلی بال، نقلی بھنویں… آنکھوں
کے رنگ بدلنے کا سامان… ہونٹوں کی سرخیاں، پیلیاں، نیلیاں… ناک کا سامان… رخساروں
کے اتنے غازے کہ عقل دنگ… طرح طرح کے لوشن… قیمت پوچھیں تو… لگ جائیں موشن… ناخنوں
کو رنگنے کی چیزیں الغرض سر سے لے کر پائوں تک ہر چیز کا سامان اور اتنا کہ گنا نہ
جا سکے اور ہرہفتے مارکیٹ میں نیا آئٹم حاضر… کسی اچھی خاصی بڑھیا کو بیوٹی پارلر
میں بھیجیں تو دو اڑھائی لاکھ میں اپنی پوتی کی ہم شکل بن کر نکلے… بشرطیکہ پسینہ
نہ آجائے… اور چھوت چھات سے پرہیز رہے… اور اگر دو گھنٹے کے اندر مرجائے تو دیکھنے
والوں کو یوں لگے کہ دلہن مری پڑی ہے… مگر مسلمان ہونے کے ناطے غسل دینا پڑتا ہے
اور بات بگڑ جاتی ہے… معلوم ہے آپ کو میک اپ اور بیوٹی پارلر کے اخراجات پر کتنی
رقم اٹھ جاتی ہے؟… ہر مہینے کروڑوں نہیں اربوں روپے… امید ہے کہ ان دوچار مثالوں
کو پڑھ کر آپ کا دل بھر گیا ہوگا… افسوس کہ رب تعالیٰ کو ناراض کرنے والے کاموں پر
اتنا خرچ … اتنے بڑے اخراجات… اسی کو عربی زبان میں تبذیر کہتے ہیں… اور تبذیر
کرنے والوں کو مُبَذِّرْ کہا جاتا ہے…اور
قرآن پاک کا اعلان ہے کہ مبذّرین… شیطان کے بھائی ہیں… اور شیطان اپنے رب کا
ناشکرا ہے… ویسے آج میرا ارادہ بہت کچھ گنوانے کا تھا… مگر اللہ پاک رحم فرمائے ان
چند شعبوں کی حالت اور اخراجات لکھ کرمتلی آنے لگی اور دل خوف سے بھر گیا… یا اللہ
ہمیںمعاف فرما… اور اپنے غضب اور عذاب سے بچا… اب آئیے اصل بات کی جانب کہ… ایک
طرف تو پوری دنیا… اور اس میں موجود اکثر مسلمان بھی… بخل اور نمائش کی گاڑھی
غلاظت میںلتھڑے پڑے ہیں… سر سے پیر تک اسراف اور تبذیر… مال کے بڑے بڑے انبار… مال
پر بیٹھے ہوئے موٹے موٹے سانپ… ذخیرہ اندوزی کے سیلاب… بینک بیلنس کے زلزلے…
نمائشی اخراجات کے طوفان… ایسے میں اچانک کچھ مغرب زدہ… علم سے عاری مسلمان دانشور
کھڑے ہو کر کہتے ہیں… مسلمانو! قربانی نہ کرو… ایک دن میں اتنے زیادہ جانور کاٹنے
سے… دنیا غریب ہو جاتی ہے… یہی پیسہ غریبوں کو دے دو… ہسپتال میں دے دو… غریبوں کا
بھلا ہوگا… کیا فلموں کا پیسہ… اخبارات اور ان کے اشتہارات کا پیسہ… غریبوں کو
نہیں دیا جا سکتا؟ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کا پیسہ غریبوں کو نہیں لگتا؟ … ٹی وی
چینلز کی رقم سے غریبوں کو نہیں نوازا جا سکتا؟ … کیا کیا لکھوں… ذرا ہسپتال
ہسپتال کا شور مچانے والے وہاں اندر جھانک کر دیکھیں تو انہیں اندازہ ہو کہ… طب کے
مقدس پیشے نے کیسی بھیانک سوداگری کا روپ دھار لیا ہے… وہاں غریبوں کے اعضاء نکال
کر امیروں میںفٹ کئے جارہے ہیں… اور غریبوں کا خون چوسا جارہا ہے…
قرـبانی
میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے… قربانی اسلامی شریعت کا واجب حکم ہے
… قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلیلی سنت ہے… قربانی مسلمانوں کی روحانی
خوشی ہے… قربانی اللہ پاک کی دعوت ہے… قربانی رب کی محبت ہے… قربانی ایک فدائی نبی
کی یادگار ہے… قربانی اسلامی معیشت کا ایک سنہرا قانون ہے… قربانی فطرت کی ترجمان
ہے… دانش کے نام پر… اسلام میں کاٹ چھانٹ کرنے والو!… اپنے اوزار کہیں اور لے جائو
… میرے جیسے سادہ مسلمان کے لئے وہ منظر کافی ہے کہ… سیدناابراہیم خلیل اللہ علیہ
السلام… ہاتھ میں چھری لئے… دل میں جذبہ تھامے… آنکھوں پر پٹی باندھے… اس اسماعیل
علیہ السلام کی گردن پر … چھری چلا رہے ہیں… جو ان کو بہت پیارا تھا… بہت پیارا…
تب آسمانوں سے آواز آئی… سچ اسے کہتے ہیں… او دانش کے نام پر اسلام کی گردن پر وار
کرنے والو!… مجھ جیسے دیوانے مسلمان کیلئے وہ منظر کافی ہے کہ… مدینہ طیبہ کی پاک
سرزمین ہے… خیر القرون کا سورج نصف النہار پر ہے… آسمان جھانک کر مسرت سے دیکھ
رہاہے… ساری مخلوق ادب کے ساتھ متوجہ ہے… اور میرے پیارے آقا … ہاں بہت پیارے… بے
حد پیارے… میرے محبوب رہبر… حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم … اپنے عظیم رب
کی تکبیر پڑھ کر… اپنے پیارے ہاتھوں سے دنبہ ذبح کررہے ہیں…
او ظالمو! تمہاری تمنا ہے
کہ… ہم… اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ادا کو بھلا دیں… جبکہ ہماری تمنا …
ہاں یہ تمنا ہے کہ … ہم اس دنبے کی جگہ ہوتے جس پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
مبارک ہاتھ سے چھری چلا کر… اسے اپنے رب کی قربانی بناد یا…
٭٭٭
بدنام ہو جائے گا؟
یہود ونصاریٰ نے مسلمانوںکے ملکوں پر
قبضہ کرکے وہاں کی حکومتوں پر اپنے ’’وفادار‘‘ بٹھادئیے ہیں۔ کافروں کے پکے وفادار
یہ حکمران نام کے مسلمان ہیں اور خود کو اسلام اور امت کا (نعوذباﷲ) وکیل محافظ
اور نگہبان سمجھتے ہیں اور وہ مسلمانوں کو کفریہ طاقتوں کے قدموں میں جھکانا ہی
اصل کامیابی سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک اسلام دشمن کافروں سے لڑنا گناہ اور
فساد ہے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو مارنا اور ستانا عین ثواب ہے۔ یہ لوگ نعوذباﷲ
جہاد جیسے قطعی اسلامی فریضے کو اسلام کی بدنامی سمجھتے ہیں، جبکہ شراب پینے
اورناچنے گانے سے ان کے نزدیک اسلام کو عزت ملتی ہے۔افغانستان کے حامد کرزئی، عراق
کے ایاد علاوی اورفلسطین کے محمود عباس کی ایک تصوراتی گفتگو۔ جو ان حکمرانوں کے
مضحکہ خیز حالات وخیالات سے پردہ اٹھاتی ہے
(۱۷ ذی الحجہ ۱۴۲۵ھ بمطابق۲فروری ۲۰۰۵ء)
بدنام ہو جائے گا؟
یار اب ہم لوگوں کو بھی
اپنی ایک ’’پارٹی‘‘ بنا لینی چاہئے ہماری تعداد بڑھ چکی ہے… بھائیو! تم دونوں تو
منتخب ہو گئے ہو، چند دن انتظار کرلو، میرے ہاں بھی ’’الیکشن‘‘ ہونے والے ہیں، تب
میں بھی جمہوری صدر بن جائوں گا۔ پھر اپنی تنظیم کا اعلان کردیں گے…
کیا تمہیں ہارنے کا خطرہ
ہے؟بے ایمان کہیں کے! کیا تمہیں بش پر یقین نہیں ہے؟
(انگوٹھے چومتے ہوئے) بش
پر تو سر سے پائوں تک یقین ہے اور اپنی جیت مجھے صاف نظر آرہی ہے، مگر بندوق کے
زور پر ’’جمہوری صدر‘‘ بننے کا مزہ ہی کچھ اور ہے… کیوں بھائی محمود عباس؟
ہاں یار ٹھیک ہے انتظار
کر لیتے ہیں ویسے مجھے امریکہ سے ملاقات کی دعوت آئی ہے۔ دعوت کیا حکم سمجھ لو۔ بس
کیا پوچھتے ہو خوشی سے رات کو نیند تک نہیں آتی۔ سوچتا ہوں یہ کہوں گا وہ کہوں گا
… واہ کیا منظر ہوگا، جب مجھے بش کا قرب ملے گا، میرے تو لگتا ہے سارے اعمال قبول
ہوچکے ہیں۔ دل ہے کہ بس دھڑکے ہی جاتا ہے۔ بدبخت کی پرانی تمنا جو پوری ہورہی ہے
روزانہ منہ دھوتا ہوں۔ شیو بناتا ہوں کہ میرے منہ کے کسی بال سے ان کو تکلیف نہ
پہنچے۔ راتوں کو چھپ چھپ کر حماس اور اسلامی جہاد والے شرارتیوں کی منتیں ترلے
کرتا ہوں کہ چند دن خود کو روک لو، کوئی دھماکہ وغیرہ نہ کرو۔ کوئی مارتا ہے تو
مرجائو مجھے بلاوا آیا ہے بلاوا۔ دیکھیں یہ شرارتی ٹولہ رُکتا ہے یا نہیں؟ ادھر
احمد قریع مجھ سے بری طرح حسد کررہا ہے۔ حنّان عشراوی کہتی ہے کہ ہم گلے میں صلیب
لٹکا کر وہاں تک نہ پہنچ سکے، جہاں تک تم نے وفائوں کا یقین دلا کر پرواز کر لی
ہے۔ اگر یہ حماس والے نہ رکے تو انہیں ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔ یہ یہودی تھوڑے ہیں کہ
ان کو مارنے پر مجھے دکھ ہوگا یا باہر سے کوئی دبائو پڑے گا اگر سو دو سو مارنے سے
’’وہ‘‘ خوش ہوتے ہیں، تو ان کی خوشی کیلئے ہزار بھی قربان۔ بس میں تو اب ایک ایک
گھڑی گن گن کر گزار رہا ہوں اس لئے میری واپسی کے بعد ہی تنظیم کا اعلان کیا جائے
تو اچھا ہے۔ اس وقت تک ’’ایادبھیا‘‘ بھی عراق کے قانونی صدر تسلیم کروا لئے جائیں
گے…
ہاں حامد میاں تم نے
پارٹی کا نام سوچا؟ …
نام تو کافی سارے میرے
ذہن میں ہیں۔سر پر بال نہ ہوں تو ذہن خوب کھلا رہتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے
اسلاف کو یاد رکھتے ہوئے اپنی پارٹی کا نام ’’انجمن میر جعفران اسلام‘‘ رکھ لینا
چائے۔
یار نام تو اچھا ہے میر
جعفر صاحب بڑے آدمی تھے، مگر میرے آئیڈیل تو ٹیپو سلطان سے مسلمانوں کی جان چھڑا
کر ان کے سروں پر انگریز کا سایہ کروانے والے میر صادق صاحب ہیں اس لئے ہماری
جماعت کا نام ’’ضمیر فروشان میر صادق‘‘ ہونا چاہئے۔ کیا خیال ہے؟
واہ بھائی واہ خوب نام
سوچا ہے۔ سرفروشی تو آسان ہے کہ بس تلوار چلی اور گردن اڑی اصل اور مشکل کام تو
’’ضمیر فروشی‘‘ ہے کہ اپنا ضمیر اپنا ایمان سب کچھ مسلمانوں کے فائدے میں بیچ دیا
جائے… مگر مجھے ایک اور نام زیادہ پسند ہے دراصل کسی بھی قوم کیلئے اپنے بانی کو
فراموش کردینا تباہی کے مترادف ہے۔ میرے نزدیک ہمارا نام ’’أبنائِ عبداللہ بن
اُبی‘‘… ہونا چاہئے
تم نے تو بات ہی ختم کردی
بڑے آدمی تھے عبداللہ بن ابی، بہت روشن خیال، اعتدال پسند، ہر معدہ عزیز۔ یکجہتی
کا چلتا پھرتا نمونہ… آج مسجد نبوی میں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے نماز پڑھ رہے
ہیں، تو کل کعب بن اشرف کے دستر خوان پر یہودیوں کو اپنی محبت کا یقین دلا رہے
ہیں۔ ادھر اوس و خزرج کے درمیان گھوم رہے ہیں، تو اُدھر مکہ کے قریشی سرداروں سے
راز و نیاز کرر ہے ہیں۔ مگر افسوس کسی نے بھی ان کی قدر نہ کی۔ اگر ان کی مانی
جاتی تو اگرچہ اسلام مدینہ کے چند محلوں تک ہی محدود رہتا، مگر اتنے لوگوں کو جان
سے تو ہاتھ نہ دھونے پڑتے آنجہانی جہاد کے بڑے سخت مخالف تھے۔ تالیاں… بس یوں
سمجھو’’مخالفت جہاد‘‘ کے اصل بانی مبانی تھے اور ہماری ذمہ داری نمبر(۱) بھی آقابش نے یہی لگائی
ہے…
بس تو پھر یہ نام پکا؟ …
ہونا تو یہی چاہئے مگر یہ
عربی نام سے کہیں گورے لوگ ہمیں ’’القاعدہ کا نہ سمجھ لیں‘‘ ایک زمانہ تھا عربوں
کی بڑی قدر ہوتی تھی گوروں کے ہاں۔ تمہیں یاد ہے؟
کیوں یاد نہیں ائیرپورٹ
سے ہی آئو بھگت شروع ہوجاتی تھی۔ مارکیٹ جائو تو سارے دکاندار اور دکاندارنیاں لپک
لپک کر کھینچتے تھے۔ بار میں جائو تو ہر ویٹرس لڑکی ہماری میز کی طرف بڑھتی تھی
اور ہر جام نئے ہاتھ سے ملتا تھا اور کیا بتائوں یار… نائٹ کلبوں میں رقاصائوں اور
طوائفوں میں جھگڑا ہو جاتا تھا ہر کوئی چاہتا کہ عربی اس کے ہاتھ لگے… مگر ان دہشت
گردوں نے تجارتی عمارتوں اور فوجی مرکز پر حملہ کردیا یہ کونسی اسلام کی خدمت ہے؟
اب بار میں گھسو تو ویٹرس کو دیکھ کر ترستے رہو کوئی عربی کے قریب آنا گوارہ نہیں
کرتا… کیبر ے میں ڈانس کیلئے جائو تو حسینہ قریب نہ پھٹکے ائیر پورٹ پر جائو تو ہر
کوئی شک کی نظر سے دیکھے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان ان دہشت گردوں نے
پہنچایا ہے، کسی نے نہیں پہنچایا۔میرا بس چلے تو ان کو کچا چباجائوںکچا…
یار چبا تو رہے ہو… فلوجہ
کو تم نے فالودہ بنا دیا ہے…
(دائیں بائیں دیکھتے
ہوئے)… نہیں یار انہوں نے وہاں ہمارا اور آقا کی فوجوں کا بھرکس نکال دیا ہے…
مگر
اخبارات میں تو؟…
چھوڑو اخبارات کو اخبارات
کا تو تمہیں بھی پتہ ہے بیچار ے کیا لکھتے ہیں… آف دی ریکارڈ بتا رہا ہوں کہ فلوجہ
میں زیادہ نقصان اپنا ہی ہو رہا ہے…
یار تمہارے پڑوس میں تو
جنوبی وزیرستان نہیں ہے، تو پھر یہ دہشت گرد کہاں سے آجاتے ہیں؟…
یہ پوچھو کہاں سے نہیں
آتے؟ (آنکھوں میں آنسو لے کر)… سعودی عرب،شام، ایران ہر طرف سے آرہے ہیں اور خود
عراقی عورتوں نے مجاہد جننا شروع کردئیے ہیں… اب تو مجھے کرُدوں پر بھی شک ہورہا
ہے سچی بات ہے کہ میں تو پھنس گیا ہوں… رات کو نیند ہی نہیں آتی… کتنی گولیاں کھا
کر بمشکل چند گھنٹے غنودگی میں رہتا ہوں… آقا کی خوشنودی کا خیال نہ ہوتا تو سب
کچھ چھوڑ چھاڑ کر گوروں کے ملک جا بیٹھتا… پہلے بھی تو وہیں رہتا تھا انہوں نے
صدام کو گرانے کا کام سپرد کر رکھا تھا دور بیٹھ کر سال بھر میں ایک دو دھماکے
کروا دیتا تھا اور بس۔ ہر دن کرسمس تھا اور ہر رات نیو ائیر نائٹ۔ اب تو ہر وقت
موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے…
اچھا تمہاری بھی یہی حالت
ہے؟
تم نے نہیں چھپایا تو میں
کیا پردہ رکھوں… اتنے سارے ووٹ لے کر بھی ذلت میں وقت گزر رہا ہے… زلمی خلیل زاد
ہر وقت سر پر بیٹھا ہے آقا کی تیل کمپنی میں ملازم تھا تو مزے سے دیس دیس کے چکر
لگاتا تھا… اب تو ہر کام پوچھ کر کرنا پڑتا ہے اور ہر رات ڈانٹ الگ… فلاں سے کیوں
ملے؟ فلاں سے کیوں نہیں ملے؟ یہ بات کیوں کی؟ فلاں سے کیا تعلق ہے؟… سچی بات ہے کہ
طالبان والے رات کو پہاڑوں پر آرام سے سوتے ہیں، جبکہ میں سونے کے پلنگ پر کروٹیں
بدلتا رہتا ہوں… کبھی دل چاہتا ہے کہ آقا کو لکھ دوں کہ بھاڑ میں جائے یہ صدارت
مجھے پھر اپنی تیل کمپنی میں رکھ لیجئے… مگر سوچتا ہوں ان کا نازک دل دکھی نہ
ہوجائے… ابھی تک تو ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی پریشانی بھی ان کو لگی ہوئی ہے…
شمالی اتحاد والے بھی ان کے ساتھ صحیح وفاداری نہیں کررہے… ادھر روس پر بھی ان کو
اعتبار نہیں ہے اب اگر میں نے بھی بیوفائی کی تو وہ کہیں گے سارے مسلمان ایسے ہی
ہوتے ہیں تب تو اسلام اور مسلمان اور بدنام ہوجائیںگے…
اچھا تم دونوں کی یہ حالت
ہے؟ میں تو تمہیں مزے میں سمجھ رہا تھا ویسے مجھے پتہ ہے یاسر عرفات کے ساتھ بھی
انہوں نے بہت برا کیا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ زندگی کے آخری سالوں میں وہ ان کا
مخلص وفادار نہیں رہا تھا… جتنے دن رملہ میں محصور رہا باقاعدگی سے نماز پڑھ رہا
تھا… اب یہ بھی کوئی اسلام ہے کہ نماز پڑھتے رہو… میں نے اسے سمجھایا کہ تمہاری
داڑھی بھی ’’ان کو‘‘ پسند نہیں ہے، مگر وہ نہ مانا پھر ہر وقت پستول لٹکائے پھرتا
تھا اسلام میں یہ کہاں ہے کہ اسلحہ رکھو… شیخ احمد یٰسین سے ملا تو اسے یاد ہی
نہیں رہا کہ وہ کیمروں کے سامنے ہے… بے اختیار ان کی پیشانی چوم بیٹھا… آقا کو
چومنے پر اعتراض نہیں، جو کچھ مرضی چومو مگر انتہا پسندوں کے چہرے چومنا تو گوارہ
نہیں کیا جا سکتا… بس پھر کیا تھا… نیلی آنکھوں نے اس سے رخ پھیر لیا تین سال تک
بے چارا اپنے دفتر میں محصور رہا… ممکن ہے خدا راضی ہوگیا ہو یہ بھی سچ ہے کہ قوم
نے اس کو آنکھوں پہ بٹھایا، مگر آقا تو ناراض ہوا ایسے انجام سے شیطان کی پناہ…
اور تو اور اس کے جنازے میں بھی امریکی وفد شریک نہ ہوا اور صرف مسلمانوں نے جنازہ
پڑھ لیا… یہ ہے تنگ نظری کا انجام… میں نے ان تمام چیزوں سے بچ کر دل دینے کا
فیصلہ کرلیا ہے… اور ایریل شیرون کے فون نے تو مجھے سب کی آنکھوں کا تارا بنا دیا
ہے تارا… بس تم دونوں کی حالت سے ڈر رہا ہوں کہ میرے ساتھ بھی کوئی حادثہ نہ ہو
جائے ویسے حماس والے اور اسلامی جہاد والے ہیں تو بہت شرارتی مجھے بھی بس انہیں
اپنوں سے ڈر ہے…ورنہ پرائے شعلے تو مجھے دیکھتے ہی خود ٹھنڈے ہوجاتے ہیں… وہ مجھے
اپنا پکا وفادار سمجھتے ہیں… ویسے یار ایک بات سمجھ نہیں آرہی کہ ہم مسلمانوں کو
یہ جہاد، یہ لڑائی بھڑائی کا ذہن کون دے رہا ہے؟… مزے سے رہیں، شراب پئیں، سور
کھائیں، عورتیں نچائیں، ڈانس کریں، میوزک سنیں ، اور مسلمان بھی رہیں، عام نہیں
بلکہ اچھے اور بہترین مسلمان… آخر بچپن میں ختنہ کس لئے کروایا؟ کیا مسلمان ہونے
کیلئے اتنا کافی نہیں ہے… چلو ٹھیک ہے بہت مذہبی بنتے ہیں تو کبھی کبھار نماز بھی
پڑھ لیا کریں اور مزاروں پر چلے جایا کریں… اس سے زیادہ اسلام کہاں لکھا ہوا ہے ہم
نے کہیں نہیں پڑھا…
یار باتیں تو تمہاری ٹھیک
ہیں؟ مگر پرانی باتوں نے ان کا دماغ خراب کررکھا ہے وہ کہتے ہیں حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے خود جہاد کیا اور جنگوں میں شریک رہے پھر ان کی عورتیں بچوں کو
گود میں لے کر کبھی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کبھی مثنیٰ بن حارث رضی اللہ عنہ
کبھی ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کے قصے سنا کر لوریاں دیتی ہیں… عقل نہیں ہے ان کو
کہ دنیا چاند تک جا پہنچی ہے… پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
پورے دین کیلئے ماریں کھائیں… زخم اٹھائے… ختنے والا اسلام ہوتا تو پھر مکہ سے
مدینہ ہجرت ہی نہ کرنی پڑتی… پھر انہوں نے طارق بن زیاد، محمود غزنوی اور پتہ نہیں
کن کن کو اپنا ہیرو سمجھ رکھا ہے… ادھر یہ لوگ میر جعفر صاحب اور عبداللہ بن ابی
وغیرہ کے روشن خیال حالات کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے دراصل اسلامی تاریخ جب تک موجود
رہے گی دہشت گرد پیدا ہوتے رہیں گے…
تو کیا خیال ہے ہم تاریخ
بدل دیتے ہیں؟
تاریخ بدلنے کا کچھ کام
تو شروع ہے مگر نبی کی سیرت پڑھ کر پھر یہ ہمارے باس کے طریقے سے ہٹنا شروع ہو
جاتے ہیں کوئی ان کی طرح ڈاڑھی رکھ رہا ہے تو کوئی عورت کو پردہ کرا رہا ہے کوئی
جہاد کا عاشق بن رہا ہے تو کوئی پگڑی مسواک وغیرہ لے کر اسلام کو بدنام کررہا ہے ۔
تو پھر سیرت کی کتابوں کو
اپنے ممالک میں ضبط کرا لیتے ہیں…
یار… امن سے رہنا ہے تو
کرنا ہی پڑے گا مگر فقہ کا کیا ہوگا؟
اس
میں کیا ہے؟
اس میں تو سب کچھ ہے اور
یہ غلط ذہن دیا جاتا ہے کہ اسلام کوئی پرائیویٹ چیز نہیں بلکہ پورا اور مکمل نظام
ہے۔ اور اسلام کے پاس اپنا الگ سیاسی،ثقافتی، معاشی اور عدالتی نظام ہے اور اسلام
میں ختنے کے علاوہ اور بھی احکامات ہیں اور ظلم یہ کہ فقہ میں بھی جہاد پر اکسایا
جاتا ہے…
یار یہ تو بہت خطرناک چیز
ہے اس پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں اور لوگوں کو بتا تے ہیں کہ اسلام بس اسی چیز کا
نام ہے جس سے آقا بش خوش ہوں اور بس…
بالکل ٹھیک ہے مگر فقہ کی
کتابوں میں سب کچھ حدیث شریف کی کتابوں سے لیا اور سمجھا گیا ہے…
یہ حدیث کیا چیز ہے؟…
میں نے پڑھی تو نہیں سنا
ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کا مستند ذخیرہ ہے…
بہت خطرناک… ویری ڈینجرس…
اس میں تو غزوات کا بھی ذکر ہوگا؟… غزوات کا کیا؟ جہاد کے ایک ایک پہلو کا ذکر ہے
اور یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ مسلمان کا کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، پہننا وغیرہ
الغرض سب کچھ کیسے ہونا چاہئے؟ گویا کہ ہم ساری دنیا سے کٹ کر الگ شناخت بنائیں
اور یوں عالمی برادری سے الگ تھلگ نظر آئیں…
سنا ہے حدیث و فقہ کو پڑھ
کر ہی ماضی میں لوگ عالمی برادری کو کافر کہہ کر اس پر حملے کرتے رہے اور ملکوں کے
ملک قبضے میں لے کر اس پر مولویوں والا اسلام نافذ کرتے گئے… اب اگر یہ چیزیں اس
زمانے میں پڑھی گئیں تو ہمارے بچے امریکہ جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور گوریوں
کے ساتھ ناچنے کی بجائے بم باندھ کر فدائی بن جائیں گے… وہ رہیں گے اس دنیا میں
اور باتیں قبر و آخرت کی کریں گے… کیا تمہیں یہ بات گوارہ ہے؟
نہیں بالکل نہیں ہم ان
تمام کتابوں پر پابندی لگا دیں گے لوگوں کو کہیں گے یہ سب کچھ پڑھ کر تم زیادہ سے
زیادہ مسجد کے امام بن سکو گے اس لئے سائنس پڑھو تاکہ پاکستان کے ڈاکٹر عبدالقدیر
خان بن سکو…
یار یہ تم نے کس کا نام
لے لیا…
اوہ غلطی ہوگئی…(دائیں
بائیں دیکھ کر)… کسی نے سنا تو نہیں؟
اچھا یہ سب کتابیں بند…
مگر قرآن کا کیا ہوگا؟ …
قرآن لوگ پڑھتے رہیں؟
چھوٹے آقا ٹونی بلیئر نے
بھی کہا ہے کہ میں نے قرآن پڑھ رکھا ہے… قرآن پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا…
کیوں کچھ نہیں ہوگا میں
نے سنا ہے کہ اس میں بھی جہاد کی سینکڑوں آیات ہیں…
نہیں
ہو سکتیں؟
بھائی
اتنا نہ چلائو میرے اور تمہارے کہنے سے یہ حقیقت تو نہیں بدلے گی قرآن میںبھی جہاد
کی آیات ہیں… اور بہت زیادہ ہیں اور اس میں تو سنا ہے یہ بھی لکھا ہے کہ یہود و
نصاریٰ کو دوست نہ بنائو جو ان کو دوست بنائے گا انہیں میں سے شمار کیا جائے گا…
لو یہ کیا ہوا؟ ہمارے
ختنے، اسلامی نام، اور مسلمانوں کے خاندان میں پیدا ہونے کا بھی لحاظ نہیں ہو گا؟…
قرآن میں تو یہی لکھا ہے…
پھر سوچو کیا کریں؟…
یار اکھٹے چل کر آقا سے
مشورہ کرتے ہیں کہ قرآن کا کیا حل نکالیں… یہی دراصل لوگوں کو ’’انتہا پسند‘‘ بنا
رہا ہے…
نہیں یار یہ گھر کی بات
آقا کو نہیں بتاتے… اسلام بدنام ہوجائے گا…
پہلے اذان
شہداء بابری مسجد کو
والہانہ خراج عقیدت پیش کرنے والا یہ مضمون
جہاد کشمیر کے خلاف پھیلائے گئے اکثر وساوس، اعتراضات اور شبہات کا مدلل
جواب دیتا ہے۔
پہلا خاکہ۔ اس اعتراض کا
جواب کہ جہاد کشمیر ایجنسیوں کا جہاد ہے
دوسرا خاکہ۔ مجاہدین کو
لاشوں کا سوداگر کہنے والوں کی حقیقت
تیسرا خاکہ۔ مجاہدین پر
پھبتیاں کسنے والوں کا حال
چوتھا خاکہ۔ انڈین فوجیوں
کے حالات ( اس میں کافی سارے الفاظ ہندی کے ہیں)
پانچواں خاکہ۔ جہاد کشمیر
کی حقانیت پر ایمان افروز تقریر
(۲۴ ذی الحجہ ۱۴۲۵ھ بمطابق۹فروری ۲۰۰۵ء)
پہلے اذان
ہائے جہاد کشمیر بے چارہ
… اب ’’القلم‘‘ والوں کو بھی جہاد کشمیر کے ساتھ یکجہتی کی سوجھی ہے… بڑے لوگ
معلوم نہیں کیا کچھ لکھیں گے؟ سعدی اس موقع پر بھی آپ کو چند خاکے … چند مکالمے
سناتا ہے… امید ہے کہ … ان شاء اللہ … کافی ساری باتیں سمجھ آ جائیں گی… نیکی نہ
بھی کر سکے تو ممکن ہے بعض بھیانک گناہوں سے بچ جائیں… اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد
فرمائے … رہنمائی کرے…
پہلا خاکہ
جہاد کشمیر بالکل غیر
شرعی ہے … پکا غیر شرعی … بلکہ مجھے تو اسے جہاد کشمیر کہنے پر بھی اعتراض ہے۔ یہ
جہاد کہاں ہے؟ یہ تو ایجنسیوں کا کھیل ہے … جی کونسی ایجنسی کا؟… خیبر ایجنسی…
مالاکنڈ ایجنسی … کرم ایجنسی؟ … نہیں بھائی نہیں … حکومت کے خفیہ ادارے کو ایجنسی
کہتے ہیں میں اس کی بات کر رہا ہوں… اچھا تو معلوم ہوا کہ کشمیر میں حکومت کے خفیہ
اداروں کے لوگ لڑ رہے ہیں… مگر ہمارے محلے میں چند دن پہلے ایک نوجوان کی شہادت کی
خبر آئی… میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں… بہت صالح نوجوان تھا… بہت ذہین تھا… بہت
پاکباز … بس کیا بتائوں … فرشتہ صفت انسان تھا… مگر وہ تو کسی ایجنسی کا ملازم
نہیں تھا… لگتا ہے تمہاری عقل ڈیرہ بگٹی گئی ہوئی ہے… یہ میں نے کب کہا کہ وہاں
خفیہ اداروں کے لوگ لڑ رہے ہیں… یہ لڑ نہیں رہے لڑا رہے ہیں… مر تو بیچارے عام لوگ
رہے ہیں… مگر یہ ان کو پیسہ دیتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں… بس اس لئے یہ
ایجنسیوں کا جہاد ہے… اور بالکل غیر شرعی ہے … لیکن جناب مجاہدین بیچارے تو … گلی
گلی چندے کرتے پھرتے ہیں … کبھی قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں تو کبھی مساجد کے
باہر جھولیاں پھیلاتے ہیں… بے چارے ایک طرف اپنے شہداء کے زخم اٹھائے پھرتے ہیں تو
دوسری طرف انہیں اپنوں کی جیلوں کا سامنا ہے… ایک طرف دشمن انہیں گولیاں مارتے ہیں
تو دوسری طرف اپنے انہیں گالیاں دیتے ہیں… اگر یہ حکومتی لوگ ہوتے تو خوب مزے میں
رہتے … یار تم نہیں سمجھتے یہ خالصتاً ایجنسیوں کے لوگ ہیں… ان کی گاڑیاں دیکھو …
میرا تو دل … جل کر کوئلہ ہو جاتا ہے۔ حکومت اوپر اوپر سے ان پر پابندیاں لگاتی
ہے… اندر سے ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے… ان کی حکومت کے لوگوں سے باقاعدہ ملاقاتیں
ہوتی ہیں… اور بھی بہت سی باتیں میرے دل میں ہیں جو نہیں بتا سکتا… ہاں یہ بات
ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ … یہ جہاد غیر شرعی ہے… چلیں جناب جیسے آپ کا فرمان…
مگر دنیا میں کسی جگہ تو شرعی جہاد ہو گا؟ … آپ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
طریقے پر … عمل کرتے ہوئے … اس جہاد میں تھوڑی سی شرکت کر لیں … تاکہ … جسم پر
جہاد کی تھوڑی سی مٹی تو لگ جائے…کوئی ایک آدھ خراش… ایمان کی گواہی دینے کے لئے
بدن پر لگ جائے… اور نفاق کی وعید سے جان بچ جائے… اس لئے کہ حدیث شریف میں آیا
ہے کہ… جس نے جہاد میں حصہ نہ لیا… اور نہ جہاد میں لڑنے کا شوق اس کے دل میں
ابھرا… وہ نفاق کے ایک حصے پر مرے گا…
ہم کیوں حصہ لیں؟ اسلام
میں انفرادی ٗ جماعتی جہاد کہاں ہے… جہاد تو حکومت کا کام ہے… حکومت جس جہاد کا
اعلان کرے وہ جہاد شرعی ہوتا ہے… جناب پھر تو ’’جہاد کشمیر‘‘ شرعی ہو گیا اس لئے
کہ آپ کے بقول وہ حکومت کا جہاد ہے… آپ اسی وجہ سے اسے غیر شرعی فرما رہے تھے…
اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ … حکومت کی اجازت کے بغیر جہاد ہوتا ہی نہیں… کوئی
واضح بات فرمائیں… جی؟ … چونکہ … چنانچہ … کیونکہ
…
دوسرا خاکہ
واہ بھائی واہ … کیا
مضمون لکھ مارا ہے… دراصل اندر کا آدمی ہے اس لئے … بالکل اندر کی باتیں لایا ہے…
اب پتہ چلا کہ مجاہدین کے پاس گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں… بڑے پارسا بنتے تھے یہ
لوگ… اب سارا راز کھل گیا… دیکھو کیسی زبردست بات لکھی ہے کہ … حکومت ان کا تعاون
کرتی ہے… لاحول ولاقوۃ الا باللہ … دیکھا یہ ہے … لاشوں کی سوداگری… لوگوں کو مروا
رہے ہیں… اندر سے حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے… چلو اس موضوع پرپھر کبھی … گوشت
کھائیں گے۔
ہاں بھائی سنائو… ادارے
کی رجسٹریشن کے مسئلے پر … حکومت کچھ نرم پڑی یا نہیں… جناب کچھ نرمی تو آئی ہے…
مسلم لیگ والے کافی تعاون کررہے ہیں… ویسے لگتا ہے کہ اب حکومت کو اس مسئلے پر
تعاون کرنا ہی پڑے گا… کرنا بھی چاہئے جب خود کو مسلمان کہلاتے ہیں تو پھر اس معاملے
پر تعاون بھی کریں… یہ کاغذ کیا ہے؟ جی ہم نے صدر سے ملاقات میں مطالبہ رکھا ہے کہ
… مساجد کے معاملے میں حکومت کی سرد مہری بہت بڑھ گئی ہے حکومت تعاون کرے… اور
مساجد کے بجلی کے بل یا تو کم کر دے … یا بالکل نہ بھجوائے… یہ مطالبہ تیار ہے بس
آپ کے دستخط با قی ہیں… لائو بھئی نیک کام میں کیا دیر ۔۔۔۔۔۔یہ لو ہم نے دستخط
کر دئیے ویسے اس مطالبے کی میڈیا میں بھی تشہیر ہونی چاہئے کہ… حکومت کو ویسے تو
مدارس اور مساجد پر قبضے کا بہت شوق ہے… مگر ہم تو صرف اتنی سی رعایت مانگ رہے
ہیں… یار یہ فون قریب کرنا… ایس ایچ او سے بات کرنی ہے… کچھ لوگ زیادہ ہی گڑ بڑ کر
رہے ہیں… ذرا ان کے کان کھنچواتا ہوں… بڑے پھنے خان بنتے ہیں… پچھلے دنوں ایس ایچ
او آیا تھا کہہ رہا تھا کہ کوئی کام ہو تو بلا تکلف فون کر لیا کریں… ارے بھول
نہیں جانا شام کو… تکّے منگوالینا… میجر صاحب آ رہے ہیں… ان کا کہنا ہے کہ میں
بھی سیاسی و سماجی اثر و رسوخ رکھتا ہوں… امن کمیٹی میں شامل ہو جائوں… ذرا اخلاق
سے پیش آنا… اور خوب اچھے کھانے کا بندوبست کرنا… بعد میں کافی کام نکلتے رہتے
ہیں… جناب وہ لاشوں کے سوداگر ہاں بالکل … وہ لوگ تو حکومت کے ایجنٹ ہیں۔
جناب حکومت کا اگر یہ فرض
بنتا ہے کہ … ختم نبوت کے مسئلے پر تعاون کرے… مدارس کی خود مختاری کے معاملے پر
تعاون کرے… مساجد کے تحفظ کے معاملے پر تعاون کرے… دینی سیاسی جماعتوں کو الیکشن
میں حصہ لینے کے مسئلے پر تعاون کرے… دینی اجتماعات کی اجازت دینے کے مسئلے پر
تعاون کرے… اور حکومت کے تعاون سے ان میں سے کوئی کام بھی غیر شرعی نہیں بنتا… تو
کیا حکومت کا فرض نہیں ہے کہ … جہاد کے مسئلے پر بھی تعاون کرے… اول تو حکومت کا
حال سب کو معلوم ہے کہ … وہ تعاون نہیں کرتی… اگر بالفرض … یا جزوی طور پر کرے تو
پھر … جہاد کیوں غیر شرعی؟ … اور مجاہدین کیوں ایجنٹ؟ … اللہ پاک اس ملک میں ختم
نبوت کو عزت بخشے … مدارس اور مساجد کی حفاظت فرمائے… اور جہاد کا علم بھی بلند
رکھے… یہ سب دین کے کام… اور شعبے ہیں… انہیں ایک دوسرے کا معاون ہونا چاہئے نہ کہ
مقابل…
تیسرا خاکہ
دنبے نے زور دار قہقہہ
لگا کر کہا… وہ بھاگ گیا نہ … اب چھپا چھپا پھرتا ہے… یہ ہے ان کا جہاد… اور یہ
ہیں ان کے دعوے … بکری نے سنا تو مسکرا کر ہنہنائی اور کہنے لگی میں نے تو … شعر
بھی کہا ہے… مرغ نے کہا ضرور سنائو… تاکہ میں اور گردن فراز کر کے چل سکوں… بکری
نے کہا…
مسیحائی سے ڈر لگنے لگا
ہے… اور … مسیحا منہ چھپاتے پھر رہے ہیں… دیکھا نہ ڈر گئے… پکڑے جانے سے… اور
گرفتار ہونے سے… اب وہ جنگل میں مارا مارا پھرتا ہو گا… بلبل نے پھول کو چوم کر
کہاکس کی بات چل رہی ہے؟…سب نے بیک زبان کہا… شیر کی… ببر شیر کی… بہت دھاڑتا تھا…
اب جنگل میں چھپا چھپا پھر رہا ہے… بلبل مسکرائی… اور بولی … ہاں جن کے پاس قوت
ہوتی ہے… جن سے دنیا ڈرتی ہے… وہ جنگلوں میں ہی رہا کرتے ہیں… وہ جب دھاڑتا تھا تو
معلوم ہے کس کس کا دل دہل جاتا تھا؟ … دنبے نے کہا … میں بھی …زورداربیان دیتا
ہوں… اور حکومت کو ایسی گالیوں سے نوازتا ہوں کہ … کسی نے آج تک نہ دی ہوں گی…
بکری نے کہا … لو بھائی میں بھی تو کچھ کم نہیں کرتی… مگر ہم لوگ تو نہیں چھپتے…
سینہ تان کر پھرتے ہیں… بلبل نے ہنستے ہوئے… دنبے اور بکری کی گردن میں جھولتی
ہوئی رسی کی طرف دیکھا… پھر ایک نظر قصاب کی دکان پر ڈالی… اور پھر فضائوں کا سینہ
چیرتے… شہباز… اور جنگلوں کے خوف سے… بے خوف لڑتے… ببر شیر کی تعریف میں قصیدہ
پڑھنے لگی… خشک پہاڑ کی ایک غار سے … ملا محمد عمر مجاہد کی تلاوت کی آواز… آ
رہی ہے… گھنے جنگل کی زمین اسامہ بن لادن کے سجدوں کو چوم رہی ہے… سری نگر کے مزار
شہداء کے پتھر … غازی بابا کے ٹکڑوں کو چوم رہے ہیں… اور … اور … جموں کے قبرستان
میں حوروں کے بوسے … سجاد شہیدؒ پر … پھولوں کی طرح برس رہے ہیں…
چو تھا خاکہ
جے ہند سر… نمسکار … بولو
کیا سماچار ہیں؟ … شر… سیما پر باڑ کا کام پورا ہو گیا ہے… اب کیا آدیش ہیں؟ …
گھس پیٹھ رکی یا نہیں؟ شر وہ بھی کافی کم ہو گئی ہے… ویسے شیز فائر کا بہت لابھ
ملا ہے ہمیں… بس اب کشمیر سے آتنک واد سماپت ہو جائے گا شالے کسمیری بہت آ جادی
مانگتے تھے… ویشے پاکستان کا سینک شاسن تو نواز شریف شاسن سے بھی زیادہ ہوپ فل
نکلا ہے… جی شر… راشٹر پتی کے وشیش دودجی تو بار بار دلی آ جا رہے ہیں ویسے بڑے
ادھار وادی نیتا ہیں… ہاں جیش اور لشکر کے سنگٹھن بینڈ کرانے میں ان کا بہت سیہوگ
رہا ہے… ویشے مجھے ان کی ایک اور بات بہت بھائی ہے… ہم بھارتیوں کے منہ پر
پراجے(شکست) کی جو کالک 31 دسمبر 1999ء کو لگی تھی… جب ہمارا طیارہ اپھارن ہو گیا
تھا… انہوں نے وہ کالک کافی دھودی ہے… اب سنا ہے کہ … ہمیں پراجے کرنے والے خود
بھاگے بھاگے پھرتے ہیں… ویشے ہماری سرکار کو پاکستان میں سے جش جش سے ڈر لگتا تھا
… ان شب کا کھیل انہوں نے ٹھپ کر دیا… کوئی گھر میں بند بیٹھا ہے تو کوئی چھپا پھر
رہا ہے… کسی پر بھاشن دینے کی روک ہے تو کوئی جیل کی ہوا کھا رہا ہے… بھارت ماتا
کی کالی دیوی کی… چوکھٹ پر جتنا بلیدان ان لوگوں نے دیا… اتنا تو ہم ستاون سال میں
نہ دے سکے… وہ دیکھو اب ان کی ناریاں ادھر کی فلموں میں کام کر رہی ہیں … اور ہم
نے کیشی فلم بنائی… تم نے دیکھی؟ جی شر… وہ شین دیکھ کرتو خوشی سے ٹانگیں… دھوتی
سے باہر آ گئیں جب ہیرو نے … پاکشتان کو کہا… تم دودھ مانگو گے… ہم کھیر دیں گے…
تم کشمیر مانگو گے ہم چیر دیں گے… ارے یہ کس کا فون آگیا؟ … اٹھائو سنو! … کون
کیا بکتا ہے؟ … شر! شر! سری نگر میں اٹیک ہو گیا… گھش پٹھیئے گھش گئے… بھاڑ میں
جائیں… یہ دیکھو دوسرے فون پر کون ہے… شر ! شر ! بڈگام میں حملہ ہو گیا… بہت سارے
سینک کام آ گئے… پریس سیکرٹری کو بتاؤ کہ خبر نہ لگنے پائے… اگر لگ جائے تو بس
ایک سینک کی ہتیا ہونے کی لگے… شر … یہ فون سن لوں؟ … ہاں۔ شر کپواڑہ میں کانوائے
پر مائن اٹیک ہو گیا… کافی ساری گاڑیاں … سینک اور کتے مارے گئے… ہیلی کاپٹر
بھیجنے پڑیں گے…
ارے بھاڑ میں گئی باڑ …
سیز فائر … اور دوستی سمبندھ… سالے ہمارے نیتا خود دلی میں… دارو پی کر مست پڑے
ہیں اور ہم یہاں مر رہے ہیں… سب بکواس ہے ٗ اگر ہم پچاس سال بھی فوجی کارروائی
کرتے رہیں تب بھی… یہ جہاد … یہ آتنک واد بند نہیں ہو گا… یہ سالے ہم سے 71ء کا بدلہ
لے کر ہی رہیں گے… سالے وردی پہن کر آتے تو کچھ مزہ بھی آتا … مگر یہ تو … اتنے
بڑے بال… اور داڑھیاں رکھ کر آتے ہیں کہ… انہیں دیکھ کر … ہمارے سینک ڈر جاتے ہیں…
پانچواں خاکہ
حضرت! دعا فرمائیں… تحریک
کشمیر کے خلاف بہت سازش ہو رہی ہے… حضرت! بہت خطرہ ہے… آپ حضرات اولیاء … اور
علماء کرام کی دعائوں کی اشد ضرورت ہے… حضرت کیا بتائوں؟ … کیا…
واہ مجاہد واہ … اتنے
گھبرائے ہوئے کیوں ہو… جوان بنو … حوصلے رکھو… حضرت آپ سمجھیں ! بہت پریشانی ہے…
حکومت کشمیر کا سودا کر رہی ہے… ارے بھائی کیا فضول بات کر رہے ہو؟ کیا جہاد کا
بھی سودا ہو سکتا ہے؟… تم مجاہد لوگ بھی سیاسی لوگوں کی طرح سوچنے لگ گئے ہو… کیا
جہاد کشمیر صرف حکومت کے بل بوتے پر چل رہا ہے ؟ … نہیں حضرت مگر؟ … مگر وگر کیا…
حکومت منہ پھیرے یا پیٹھ ٗ اسلامی جہاد کو نقصان نہیں پہنچ سکتا… جہاد صرف اللہ
تعالیٰ کے سہارے پر ہوتا ہے… کیا حکومت اپنے مفادات کے لئے طالبان کا تعاون نہیں
کر رہی تھی؟… جی حضرت کر رہی تھی… اب کر رہی ہے؟ … نہیں حضرت بالکل نہیں… تو کیا
پھر طالبان ختم ہو گئے؟… بھولے کہیں کے … اللہ پاک … جہاد کی کرامت دکھانے کے لئے
… کافروں ٗ منافقوں … فاسقوں اور حکومتوں کو… بعض دفعہ مجاہدین کی خدمت پر لگا
دیتا ہے… اللہ کی شان دیکھو … امریکہ مدارس کا کتنا مخالف ہے… مگر تمہیں پتہ ہے
خود امریکہ میں کتنے دینی مدارس چل رہے ہیں… بالکل خالص دینی تعلیم دی جا تی ہے ان
میں… بابا اللہ پاک کے تکوینی نظام کو کوئی نہیں سمجھ سکتا… آج نادان لوگ…
افغانستان کے مجاہدین کو … سی آئی اے کا ایجنٹ کہہ دیتے ہیں … نہ بھائی نہ… یہ
بہت ظالمانہ بات ہے… سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو… شاید تم نے نہیں
دیکھا… بھائی وہ تو قرون اولیٰ کے بھٹکے مسافر لگتے تھے… شہید ہوتے تھے تو ان کے
جسموں سے مشک کی خوشبو پھوٹتی تھی… لڑتے تھے تو فرشتے ان کے ساتھ ہو جاتے تھے…
بابا یہ ان کی کرامت تھی کہ … امریکہ انہیں اپنا اسلحہ فروخت کر رہا تھا… اور عرب
ممالک اس جہاد کا خرچہ اور … اسلحہ کی قیمت برداشت کر رہے تھے… اس بات سے مجاہدین
امریکہ کے ایجنٹ تو نہیں بن گئے… بابا ایجنٹ چھپتے نہیں ہیں… اگر یہ لوگ ایجنٹ
ہوتے تو… دوسرے مسلم حکمرانوں کی طرح ٹھاٹھ کرتے… مگر انہوں نے امریکہ کو ٹھوکر پر
رکھا… ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود… بامیان کے بت گرا دیئے… بابا ایجنٹ ایسے
ہوتے ہیں؟ … ادھر دیکھو چیچنیا کے مجاہدین کی ترکی جیسا … سیکولر ملک مدد کرتا
رہا… یہ ہے ان کی کرامت… لیکن یاد رکھو… اللہ پاک نے کسی بھی جہاد یا تحریک کو …
کسی ملک اور حکومت کا ایسا محتا ج نہیں بنایا کہ … وہ ہٹ جائے تو جہاد ختم ہو
جائے… دیکھو طالبان کی پوری قوت باقی ہے… دیکھو عرب مجاہدین کا جہاد… عراق میں جا
کر کس قدر طاقتور ہو گیا ہے… بابا یہ دنیاوی سہارے ہٹتے ہیں تو جڑیں اور زیادہ
مضبوط ہو جاتی ہیں… حضرت آپ کی بات بجا ہے … مگر اندر اندر سے سودا ہونے کی خبر
آ رہی ہے… ارے بھائی چھوڑ کیا سودا اور کس کا سودا؟ رب نے شہیدوں کے خون کے بدلے
اپنی رضا… اور جنت تول دی ہے… وہ لوگ جو خود اپنی سانس کے مالک نہیں ہیں… وہ کیا
سودا کریں گے… حضرت تنظیموں پر پابندی؟ … جو تنظیم اللہ تعالیٰ کے لئے بنتی ہے اس
پر کوئی پابندی نہیں لگ سکتی۔ اب تم لوگ کیا چاہتے ہو کہ… جہاد بھی کرو اور جلسے
بھی… نہ بابا نہ… جو جہاد کرے گا اور وہ مخلص ہو گا اسے ضرور آزمایا جائے گا… ہاں
مگر وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ کام چلتا رہے گا… اور جہادی تنظیموں کا کام جہاد کرنا
ہے… جلسے ٗ جلوس ٗ مظاہرے … اور بیان بازی نہیں… جائو جہاد کرو… رب ساتھ ہو گا…
حضرت یہ سب ٹھیک ہے… مگر لوگوں کوجب جلسے اوربیان نظر نہیں آتے تو وہ کہتے ہیں کہ
بھاگ گئے… چھپ گئے اور یوں جہاد بدنام ہوتا ہے… واہ بھائی واہ… ہم تو تمہیں عقل
مند سمجھتے تھے… لوگوں سے تم نے کیا لینا ہے؟ کیا تمہاری جنت لوگوں کے ہاتھ میں
ہے؟ کیا تمہاری روزی لوگوں کے ہاتھ میں ہے؟ کیا تمہاری کامیابی لوگوں کے ہاتھ میں
ہے؟ … کوئی بدنام کرتا ہے تو کرتا پھرے… تم نام سے بے نیاز ہو کر کام کرو… نام
بنانے والے بہت ہیں… کام کرنے والے تھوڑے ہیں… پگلے مت بنو… لوگوں میںسے جو خود
اللہ تعالیٰ کے لئے جانیں دینے والے ہوں گے وہ کبھی … تمہاری مخالفت نہیں کریں گے…
اور جو جان بچائو طبقہ ہو گا… اس کی مخالفت سے تمہارا کیا نقصان؟ … جو ابدہی اللہ
کے سامنے ہے صحافیوں کے سامنے نہیں… آخر ان لوگوں کی آنکھیں بھی ہیں اور گریبان
بھی… خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں کہ انہوں نے کیا کیا؟… صرف اتنا کہنے
سے تو جان نہیں چھوٹے گی کہ ہم تو دعوے نہیں کیا کرتے تھے؟ فرض فرض ہے… اور ہر کسی
پر ہے… کوئی دعویٰ کرے یا نہ کرے… اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم تو چھپا چھپا کر کرتے
ہیں… تو پھر انہیں دوسروں پر اعتراض کا کیا حق ہے؟
بس بھائی زندگی کے سانس
غنیمت جانو… دوسروں کا نامہ اعمال ناپنے کی بجائے اپنے نامہ اعمال کی فکر کرو… موت
قریب اور قیامت سر پر ہے… حضرت آپ نے دل مطمئن کر دیا… ورنہ دانشوروں کے مضامین
نے تو ہمیں مایوسی کی دلدل میں پھنیک دیا تھا… کیا حضرت واقعی آفاق شہید کے جسم
کے ٹکڑے … اور بلال شہید کی جوانی ضائع نہیں
جائے گی؟ کیا واقعی کشمیر کی تحریک کامیاب ہو گی؟ … کیا واقعی ایک لاکھ
شہداء کرام کا خون رنگ لائے گا… کیا واقعی کشمیر کی بوڑھی مائیں آزادی کا سویرا
دیکھیں گی… کیا واقعی حضرت؟ کیا واقعی؟ … ارے بھائی…
تو ہی ناداں چند کلیوں پر
قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی
داماں بھی ہے
کشمیر
تو الحمد للہ … اب بھی آزاد ہے… سیاست و صحافت سے ذرا اوپر جہاد کی بلندی سے
جھانک کر دیکھو … کپواڑہ سے لے کر ہندواڑہ تک … ہر پہاڑ … ہر گلی … اور ٹیلہ
مجاہدین کے قبضے اور ان کی دسترس میں ہے… اور دیکھو … ہاں ہاں دیکھو… رام جنم
بھومی کی راکھ پر … بابری مسجد سینہ تان کر… کھڑی ہے… اور اس کے میناروں سے آواز
آ رہی ہے… اللہ اکبر … اللہ اکبر… ہاں ہاں… حذیفہ کی آواز… طلحہ کی آواز پاملا
کی آواز… او میرے یارو کیا کہہ رہے ہو… اللہ اکبر اللہ اکبر … ہاں ہم بھی تمھارے
ساتھ کہہ رہے ہیں… اﷲاکبراﷲاکبر… ارے بھائیو! بہت دن ہو گئے… گلے تو لگا لو… دل
پھٹا جا رہا ہے… گلے لگیں گے… مگر … پہلے اذان… اللہ اکبر … اللہ اکبر… لاالہ الا
اللہ… اللہ کے سوا … کوئی معبود نہیں…
منوّرسینے
خوبصورت بھوری اور کشادہ قبروں میں زندگی
کے مزے لوٹنے والے ’’چار بڑے شہیدوں‘‘کا درد انگیز تذکرہ اور ان کے قاتلوں کی
شقاوت اور بدبختی کا بیان
ایک
دلچسپ اور خوبصورت تمہید کے بعد
دیگر فوائد: (۱) علامہ دمیری کی کتاب
حیوٰۃ الحیوٰن کا تعارف (۲)خواب
کی تعبیر کے بعض آداب (۳)حجاج
بن یوسف کے انجام کا ایک قصہ (۴)گلستان
سعدی کی ایک ناصحانہ حکایت
(یکم محرم ۱۴۲۶ھ بمطابق۱۷فروری ۲۰۰۵ء)
منوّرسینے
اچانک علامہ دمیریؒ سے
ملاقات ہو گئی … اور یہ مختصر ملاقات تقریباً ایک سال بعد ہوئی…ہوا یہ کہ ایک بزرگ
نے ایک خواب دیکھا… مجھے یاد آیا کہ علامہ دمیری ؒ نے اس کی مفصل تعبیر لکھی ہے…
بس پھر کیا تھا فوراً علامہؒ کی کتاب… ’’حیوۃٰ الحیوان‘‘ اٹھا لی اور یوں علامہ
دمیریؒ سے مختصر ملاقات ہو گئی… کتاب میں اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنے سے پہلے کئی
جگہ رکنا پڑا۔ جن حضرات نے اس کتاب کو پڑھا ہے وہ اس بات سے ا تفاق کریں گے کہ اس
کتاب کا تقریباً ہر صفحہ … پڑھنے والے کا دامن پکڑ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیتا
ہے یا یوں کہیں کہ بس چمٹ ہی جاتا ہے…کتاب میں انسان سمیت سینکڑوں جانوروں کا
تذکرہ ہے … یہ کیا بات ہوئی؟ … آپ سوچیں گے کہ انسان کو بھی جانوروں میں شامل کر
دیا… جی ہاں جس میں بھی جان ہو اسے جانور کہتے ہیں … عربی زبان میں ’’حیوان‘‘ ہر
اس جاندار کو کہتے ہیں جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے… اس کتاب کا نام اسی لئے
…’’حیٰوۃ الحیوان‘‘ جانداروں کی زندگی رکھا گیا ہے… کتاب کے مصنف کا نام محمد بن
موسیٰ بن عیسیٰ بن علی ہے … کہتے ہیں پہلے ان کا نام ’’کمال‘‘ تھا… ویسے آدمی بھی
با کمال ہیں … پھر انہوں نے نام بدل لیا اور محمد رکھ لیا… ۷۴۲ھ … قاہرہ میں پیدا ہوئے…
پہلے درزی بنے اور پھر عالم… دینی علوم گھوم پھر کر وقت کے بڑے لوگوں سے حاصل کئے…
مکہ مکرمہ بھی پڑھنے کے لئے گئے وہاں حدیث اور ادب کی کتابیں پڑھتے رہے… اس زمانے
میں …’’عالمی برادری‘‘ نامی دو سینگوں والا جانور پیدا نہیں ہوا تھا ورنہ علامہ
دمیریؒ کی بھی رجسٹریشن ہو جاتی… کیونکہ وہ مدرسوں میں پڑھتے رہے… زندگی کا کافی
حصہ پڑھنے ، پڑھانے … درس دینے … حج کرنے اور تصنیف و تالیف کے کام میں کاٹا… اور
پھر ۸۰۸ھ
میں اپنا سفر پورا کر کے قاہرہ کے ’’مقابرالصوفیہ‘‘ میں اجرت پانے جا لیٹے… اپنی
کتاب ’’حیٰوۃ الحیوان‘‘ کو انہوں نے ایک عجیب و غریب ’’شہر‘‘ کی طرح بسایا ہے۔ اس
شہر میں ایک بہت بڑا چڑیا گھر ہے… ہر طرح کے جانور ، درندے ، چرندے ، پرندے … ان
کے نام … ان کی نسلیں … ان کے خواص… اور پتہ نہیں کیا کیا … اسی طرح اس شہر میں
’’عجائب گھر‘‘ بھی سجایا ہے۔ ایسی عجیب باتیں اور معلومات کہ انسان پڑھتے ہوئے
پہلو بدلنا … اور اپنے سامنے پڑی چائے کی پیالی اٹھانا بھول جاتا ہے… اس شہر میں
’’مساجد‘‘ بھی ہیں جہاں دین کی تلقین و نصیحت ہوتی ہے… اور خانقاہیں بھی جہاں
احسان و سلوک کے رموز سکھائے جاتے ہیں… اس طرح یہ شہر میدان ادب بھی رکھتا ہے جہاں
شعر و سخن کے نادر ذخیرے جمع ہیں اور اس شہر میں عامل بھی ہیں … عملیات سکھانے
والے ، تعویذ دینے والے اور ٹوٹکے بتانے والے… جب یہ کتاب پورا شہر ہے تو طب و
حکمت کی دکانوں سے کیوں خالی ہو گا… چنانچہ طب و حکمت کے حیران کن نسخے اس میں
موجود ہیں … شہر میں اچھے برے… تر اور خشک… میٹھے اورکڑوے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں
اس کتاب میں بھی ایسا ہی ہے چنانچہ اس کی ہر بات کو درست مان لینا اور اس کے ہر
واقعہ کو سند تسلیم کر لینا بھی درست نہیں ہے… بہت کچھ ا یسا ہے جو’’سمجھ و سند‘‘
روایت و درایت‘‘ کے معیار پر پورا نہیں اترتا… اس کتاب کو پڑھ کر آدمی روتا بھی
ہے اور ہنستا بھی… چونکتا بھی ہے اور کانپتا بھی… چہکتا بھی ہے اور چلاتا بھی…
سعدی کے پاس کتاب کا جو نسخہ ہے وہ دوجلدوں پر مشتمل بیروت کا چھپا ہوا ہے۔ پہلی
جلد ’’۵۲۰‘‘ اور
دوسری جلد ’’۵۸۱‘‘ صفحات
پر مشتمل ہے… کتاب کاپہلا حیوان … ’’اسد‘‘(شیر) اور آخری ’’یعسوب‘‘ ہے۔یعسوب شہد
کی مکھی کی ملکہ کو کہتے ہیں… ان دونوں کے درمیان … تقریباً ہر ’’معلوم‘‘ جانور
اور پرندے کا تفصیلی احوال ملتا ہے… میں نے کئی بار کوشش کی کہ اس کتاب کو ترتیب
سے پڑھ ڈالوں… مگر کبھی ایسا نہ ہو سکا… بس جیسے ہی کتاب کھولی کسی صفحے نے اپنی
جکڑ میں لے لیا… اور کافی دورجا کر چھوڑا… سعدی کو جب پتہ چلا کہ اس کتاب کا اردو
ترجمہ بھی ہو چکا ہے تو بہت خوشی ہوئی… مگر اسے دیکھ کر سارا مزہ کرکرا ہو گیا اور
مجبوراً … واپس عربی کی طرف لوٹنا پڑا… ویسے جنت والوں کی زبان بھی عربی ہو گی…
خدارا یہ بات آپ کسی ’’روشن خیال‘‘ کو نہ بتا دیجئے گا وہ اس فکر میں گھلنے لگے
گا کہ جنت والے ترقی کیسے کریں گے؟ … اور ’’عالمی برادری‘‘ کو کیا منہ دکھائیں
گے؟… چلیں اصل بات کی طرف واپس لوٹتے ہیں… ہمارے ایک محترم بزرگ نے خواب دیکھا کہ
وہ سینگوں والا دنبہ ذبح کر رہے ہیں… مجھے یاد پڑا کہ علامہ دمیریؒ نے دنبے اور
مینڈھے پر بہت کچھ لکھا ہے… کتاب کی دوسری جلد کے صفحہ ۳۶۴ سے شروع ہوئے ہیں اور
پورے چھ صفحے لکھ کر دم لیا ہے… آخر میں ’’حسب عادت‘‘ اس کے طبی فوائد اور نسخے
لکھ کر خواب میں اسے دیکھنے کی تعبیر لکھتے ہیں… میں نے تعبیر دیکھ لی… ماشاء اللہ
بہت اچھی تھی… ویسے صرف کتاب دیکھ کر تعبیر تک پہنچ جانا … بہت مشکل ہے… خواب
دیکھنے والا کون ہے؟ کیسا ہے؟ … کہاں ہے؟… کس مقام و عمر کا ہے؟ … پھر خواب کب
دیکھا؟ کیسے دیکھا؟ کس وقت دیکھا؟ … کس حالت میں دیکھا؟ … کس موسم میں دیکھا؟ …
پورا دیکھا؟ … ادھورا دیکھا؟ … کسی کو بتایا؟ وغیرھا بہت مشکل علم ہے۔ بس اللہ پاک
اپنے نور سے جسے چاہے سکھا دے، سمجھا دے ۔ سعدی جیسے لوگوں کی کہاں پہنچ؟ … ہمیں
تو بس اتنا فائدہ ہواکہ تعبیر دیکھنے کے بہانے کافی عرصہ بعد علامہ دمیریؒ سے
ملاقات ہو گئی… وہ بڑے ’’نافع‘‘ آدمی ہیں…
بہترین آدمی وہ ہوتا ہے جو کسی کو نفع پہنچائے… انہوں نے جلدی جلدی چند
باتیں سنا دیں۔ ان میں سے چند آپ اس کالم میں پڑھ لیں… صفحہ ۲۰۹ پر لکھتے ہیں… رسالہ
قیشری میں مرقوم ہے… حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو بہت
گڑ گڑا کر دعا مانگ رہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے پروردگار
اگر اس کی حاجت میرے بس میں ہوتی تو (میں اس کی یہ حالت دیکھ کر) اسے ضرور پورا کر
دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی اے موسیٰ میں آپ سے زیادہ اس کے لئے رحمت والا
ہوں لیکن یہ دعا تومجھ سے مانگ رہا ہے جبکہ اس کا دل اپنی بکریوں کے ریوڑ میں اٹکا
ہوا ہے… جس کا دل میرے غیر کے پاس ہو اس کی دعا کیا قبول ہو… حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے اس آدمی کو سمجھایا اس نے فوراً دل کو سب سے کاٹ کر اللہ سے جوڑا تو اس
کی حاجت فوراً پوری ہو گئی…
بڑی حکمت والا واقعہ ہے…
بات صرف توجہ کی نہیں بلکہ امید اور خوف کی بھی ہے… جب امیدیں غیروں سے … اور ڈر
بھی غیروں کا … اور توجہ بھی غیروں کی طرف … پھر کیا دعا؟ … کیا وظیفہ اور کیا
قبولیت؟ … کوئی مالک کو سب کچھ سمجھ کر تو دیکھے … اللہ پاک ہمیں اپنی معرفت نصیب
فرمائے…
آگے صفحہ ۴۲۸ پر لکھتے ہیں…
حجاج بن یوسف کی موت کا
وقت آیا تو عجیب حالت تھی… بار بار بے ہوش ہوتا…پھر ہوش میں آ جاتا جب بھی ہوش
میں آتا تو کہتا… ہائے میرا اور سعید بن جبیر کا معاملہ؟ … لوگ کہتے کہ مرض الموت
کے دوران وہ جب بھی سوتا تو حضرت سعید بن جبیر کو خواب میں دیکھتا کہ وہ اس کے
دامن کو پکڑ کر پوچھ رہے ہیں کہ اے اللہ کے دشمن مجھے کس بات پر تو نے قتل کیا؟ …
بس وہ ہڑ بڑا کر جاگ جاتا… کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ
اللہ علیہ نے حجاج کوا س کے مرنے کے بعد خواب میں دیکھا… گلا سڑا … بدبودار … اور
مردار … حضرت نے پوچھا … اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ …کہنے لگا مجھے
ہر اس شخص کے بدلے ایک بار قتل کیا گیا جسے میں نے قتل کیا تھا جبکہ سعید بن جبیر
کے بدلے مجھے ستر بار اللہ تعالیٰ نے قتل کیا۔
(حیٰوۃ الحیوان ۔ ص ۴۲۸
ج ۲)
دیکھا آپ نے ظالم کا
انجام … قتل تو ویسے ہی بھیانک جرم ہے… اور پھر مسلمان کا قتل اس سے بھی بھیانک …
اور پھر علماء اور مجاہدین کا قتل … اتنا خوفناک اتنا بھیانک اور اتنا خطرناک ہے
کہ بیان سے باہر … بعض روایات میں تو اسے کفر لکھا ہے… ہاں جو اسے جائز سمجھے اس
کا ایمان کہاں باقی رہ جاتا ہے… بہت کچھ سوچنے… اور بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے…
خون کسی کا بھی ہو بہت بڑی حرمت رکھتا ہے… صرف اللہ کے حکم اور اس کے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کے فرمان کے بغیر… کسی کو مارنا جائز نہیں ہے… حدیث صحیح میں آیا ہے کہ
سب بخشے جائیں گے مگر اپنے گناہ پر فخر کرنے والے نہیں … آج تو فخر کیا جاتا ہے…
مسلمانوں کو مار کر… مجاہدین کو مار کر… اپنوں کو مار کر … دوسروں کو رواداری کا
درس ہے اور خود اپنی بندوق ہر وقت شعلے اگل رہی ہے… شیخ سعدی گلستان میں لکھتے ہیں
کہ ایک حکمران نے… ایک بے گناہ شخص کے قتل کا فرمان جاری کیا… اس نے کہا کہ جنابِ
حاکم ! مجھ پر تو قتل کی سزا ایک سانس میں گزر جائے گی… مگر اس کا گناہ… آپ کو
ہمیشہ کاٹے گا… کھائے گا… جلائے گا… تڑپائے گا… قرآن پاک میں ہے کہ جو کسی مومن
کو جان بوجھ کر قتل کرے گا ہمیشہ جہنم میں جلے گا… وہ حکمران جو … موت ، قبر …
اورآخرت کو مانتا تھا… اللہ سے ڈر گیا اوراسنے سزا کا حکم واپس لے لیا… بے شک سچی
بات یہی ہے کہ … ظلم ایک انگارہ ہے… جو ظالم کے ہاتھوں سے نکل کرمظلوم کو جلاتا
ہے۔ مگر پھر آگ کا الائو بن کر واپس ظالم کی طرف لوٹ آتا ہے… اور اسے ہمیشہ
بھونتا رہتا ہے… ہائے علامہ دمیری ؒ نے سعیدبن جبیرؓ کا نام لیا تو مجھے … اس
زمانے میں علم و عرفان کے امام وہ تین مظلوم یاد آ گئے… جنہیں بے دردی کے ساتھ
شہید کیا گیا… خون کے چھینٹے ہر جاگتی آنکھ… اور تڑپتے دل کو سرخ کر گئے مگر…
قاتلوں کے ہاتھ صاف رہے… بالکل شفاف… کیونکہ ایسے لوگوں کو قتل کرنا … دنیا میں
امن ومحبت کے پھول کھلانے کے لئے ضروری ہے… کراچی کی ایک جامع مسجد … جس کا نام …
مسجد خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وسلم ہے… اس کے پہلو میں چار قبریں… بھوری بھوری …
مٹیالی مٹیالی… ان شاء اللہ جنت تک وسیع و عریض … خوب مہکتی ہوئی… یہ دنیا کے ان
قبرستانوں میں سے ایک ہے… جہاں سب کے کفن سرخ اور نصیب بلند ہیں… اللہ اکبر… شہید
اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ … بیسیوں کتابوں کے مصنف … علم و عرفان کے
بادشاہ … قلم کے شہسوار … اور ختم نبوت اور جہاد کے مجنوں … ان کے ساتھ ان کا وفادار
… خوش نصیب … اور خدمت گار ڈرائیور … جناب عبدالرحمن شہیدؒ … پھر عالم اسلام کے
دلوں پر سورج کی طرح راج کرنے والی … بلند و بالا ہستی امام المجاہدین حضرت مولانا
مفتی نظام الدین شامزئی شہید ؒ … ہزاروں طلبہ کے استاد … میدان جہاد … اور کلمہ حق
کے فدائی غازی … اور ان سب کے آخر میں … امام المخلصین … ظاہری و باطنی حسن و
جمال کے پیکر … فقید المثال شخصیت … حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب شہیدؒ …
کوئی ہے پوچھنے والا کہ
ان کو کس لئے قتل کیا گیا؟ … کوئی ہے گریبان میں جھانکنے والا کہ ایسے تباہ کن
طوفانی گناہ … کس کی خاطر ہوئے؟ … کوئی ہے ان فہرستوں پر نظر ڈالنے والا … جو ایسے
مزید گناہوں کی دعوت دے رہی ہیں… کراچی کے اس کُنج شہیداں میں معلوم نہیں مزید
قبروں کی جگہ باقی ہے یا نہیں … البتہ مجھے یہ اچھی طرح معلوم ہے … مزید بندوقوں
میں مزید گولیاں … ایسے ہی دلگداز اور ایمانی سینوں کیلئے … بھری جا چکی ہیں… حجاج
بن یوسف کے بدبخت پیروکار … ایسے اندھے مشنوں کیلئے تیار ہیں … مگر یاد رکھنا…
اسلام کی گود بانجھ نہیں ہوئی… حجاج جیسے بہت آئے اور مر گئے … مگرسعید بن جبیرؓ
… کل بھی زندہ تھا… اور آج بھی زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے… گولیاں کم پڑ جائیں گی…
کیونکہ وہ انسانی کارخانے سے بنتی ہیں… مگر وہ سینے کم نہیں پڑیں گے جو الٰہی
کارخانے سے … قرآن … اور جہادی نور لے کر بنتے ہیں… تاتاری اور ان کے ان گنت تیر
ختم ہو گئے… جبکہ مسلمان بھی باقی ہیں… اوران کے منور سینے بھی۔
لاہور والو
معاف کرنا
لاہوری بھائی ناچ رہے تھے، گا رہے
تھے، پتنگیں اڑا رہے تھے اور ہر گناہ کو بغل میں دبا کر جشن منارہے تھے۔ بسنت کا
جشن، ایک گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا جشن، ملک کا صدر بھی ان کے جشن میں شریک
تھا۔ مگر سعدی کو کچھ اور یاد آگیا۔ وہ اپنے لاہوری بھائیوں کے ساتھ جشن منانے
لاہور نہیں گیا بلکہ اس دن وہ کہیں اورچلا گیا۔ کہاں چلا گیا؟ ورق الٹئے اور رنگ
ونور کا مضمون پڑھئے
لاہور والو معاف کرنا
دیگر فوائد: دہشت گردی کے خلاف جنگ کا
اعلان کرنے والی حکومت کا دہرا معیار
)۸ محرم ۱۴۲۶ھ بمطابق۲۴فروری ۲۰۰۵ء(
لاہور والو
معاف کرنا
ایک خوفناک دہشت گرد شہر
میں گھس آیا… اس نے رات کو ایک طوفان برپا کیا… الامان… ایک ہی رات میں بیس پچیس
آدمیوں کو کاٹ کر پھینک دیا… جی ہاں ان کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا… اور وہ
فریاد بھی نہ کر سکے… اور تین سو سے زائد افراد کو بے دردی سے زخمی کر پھینکا… بس
صرف اتنا ہی نہیں وہ لوگوں کی جیبوں اور تجوریوں سے مال بھی لے اڑا… لاکھ دو لاکھ
نہیں… بلکہ …دو ارب سے زائد کا مال… اور اس نے بہت سارے لوگوں کو بیمار کر دیا …
اور بہت ساروں کو داغدار…اس دہشت گرد کے… ہمارے سابقہ دشمن… اور حالیہ دوست انڈیا
سے بھی تعلقات تھے… وہ وہاں سے نشہ آور شراب لایا… جوبہت سے لوگوں کوپلا گیا… اور
آف دی ریکارڈ وہ وہاں سے … کچھ اور … بھی لایا… آپ بتایئے… اس ظالم کو کیا سزا دی
جائے؟… اس درندے کا کیا حشر کیا جائے؟… کیا یہ دہشت گرد نہیں ہے؟… دہشت گرد بھی تو
قتل و غارت اور لوٹ مار کی وجہ سے … دہشت گرد کہلاتے ہیں… کیا یہ انتہاء پسند نہیں
ہے؟… انتہاء پسندوں سے بھی تو اس لئے نفرت کی جا رہی ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتے …
اس ظالم نے بھی تو کسی کی ایک نہ سنی… بائیس افراد کے جنازے اپنے خون کا حساب مانگ
رہے ہیں… بائیس میتوں کے وارث اپنی آہوں اور سسکیوں کے درد میں غوطے کھا رہے ہیں…
دین حیران ہے… اور غیرت پریشان۔۔۔۔ زخمی ہسپتالوں میں کراہ رہے ہیں… جبکہ شراب کے
بیوپاری نوٹ گن رہے ہیں۔۔ آخر یہ سب کچھ اس اندھیر نگری میں کس کی اجازت… اور کس
کی سرپرستی میں ہوا؟… ہے کوئی پوچھنے والا؟… اگر کوئی تنظیم ایک رات میں اس سے
چوتھائی افراد کو قتل کر دیتی تو معلوم ہے… کتنے اجلاس بلائے جاتے؟… کتنے گھروں پر
چھاپے پڑ جاتے؟… اخبارات میں کیسے کیسے بیانات آتے؟ مگر وہ دہشت گرد… جس کے منہ سے
خون ٹپک رہا تھا… قہقہے لگاتا ہوا… لاشوں کو روندتا ہوا چلا گیا… وہ اپنے خونخوار
دانت دکھا کر یہ بھی کہہ گیا… میں اگلے سال پھر آئوں گا… اسی دہشت کے ساتھ… اسی
طوفان کے ساتھ… اور انکی گاڑی میں بیٹھ کر آئوں گا… جن کی گاڑی کوئی نہیں روکتا…
کوئی نہیں ٹٹولتا… میں نے دوسروں کی طرح اس دہشت گرد کے بارے میں اخبار کی چند
خبریں پڑھیں۔ مگر دل بیٹھنے لگا… جگر پر آہیں برسنے لگیں تو مزید نہ پڑھ سکا… مجھے
بہت سارے دعوے اور بہت ساری باتیں مشکوک لگنے لگیں… دنیا میں امن و امان… اور ملک
میں تہذیب و ترقی کا رونا رونے والے… مجھے جھوٹے لگنے لگے… اگر ان کے دل میں
انسانی جان کا اتنا درد ہے تو پھر … بسنت نام کے اس دہشت گرد پر پابندی کی خبریں
اگلے دن کے اخبارات میں کیوں نہیں لگیں… کشمیر کی جن جہادی تنظیموں پر … پابندی،
ظلم اور خوفناک بیانات کے بم برسائے گئے تھے انہوں نے تو … اس ملک میں کسی ایک فرد
کو بھی قتل نہیں کیاتھا… اگر ان پر پابندی ضروری تھی تو … کیا بسنت ان سے کم
خطرناک ہے؟… بسنت نے انڈیا کو مضبوط کیا… جو ہمارا بیری دشمن ہے… بسنت نے قوم کو
ایسا ننگا کیا کہ … اہل دل کے سرشرم سے جھک گئے… مگر بسنت میں تو وہ سب شریک تھے
جنہوں نے اس ملک میں دینداروں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے… وہ کون سا جرم ہے جو بسنت
کے دوران سرکاری سرپرستی… اور حفاظت میں نہیں ہوا…بے حیائی، شراب نوشی … اسراف…
جوا بازی… سٹہ بازی… اسلحے کی نمائش اور اس کا استعمال… دین کا کھلم کھلا مذاق…
معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جو مہم جاری ہے… اس کا مقصد…
امن کا قیام… یا انسانی جانوں کی حفاظت نہیں کچھ اور ہے… ان تمام باتوں کا بس ایک
ہی جواب ملتا ہے کہ … لوگ اگر خوشی کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں کیوں روکیں؟… تو
جناب کچھ لوگ اگر جہاد کرنا چاہتے ہیں تو ان کو کیوں روکا جاتا ہے؟… کہتے ہیں کہ
بسنت لاہور کی ثقافت کا حصہ ہے… تو کیا جہاد، ڈاڑھی ،پردہ اور دینی علوم کے مراکز
اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہیں؟ پھر ان پر آئے دن کیوں حملے کئے جاتے ہیں ؟ آخر
ہمارے نظریاتی اور اسلامی ملک میں بسنت کو اس طرح سے منانے کا اس کے علاوہ اور کیا
مقصد ہے کہ … قوم کو دین سے جتنا ممکن ہو دور کیا جائے…بسنت سے غربت کا خاتمہ ہوتا
ہے؟… کیا بسنت سے تعلیم عام ہوتی ہے؟… کیا بسنت سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں
اضافہ ہوتا ہے…؟ کیا بسنت کا تعلق قوم کی صحت سے ہے؟…
حکومت نے بسنت کیلئے ایک
رات کھلی چھٹی دے دی… کیا وہ ایک رات جی ہاں صرف ایک رات ان لوگوں کو کھلی چھٹی دی
جا سکتی ہے جن بے چاروں کو … آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کو زندہ
رکھنے کے جرم میں دن رات کو سا جاتا ہے… رات دن ستایا جاتا ہے… بات گلے سے نہیں
اتر رہی کہ … جو قرآن کی آیات پر اصرار کریں وہ انتہاء پسند… اور جو ہندوانہ تہوار
بسنت پر اصرار کریں وہ ماڈریٹ… جو پردے پر اصرار کریں وہ بنیاد پرست… جو ناچ گانے
اور بے پردگی پر اڑ جائیں وہ روشن خیال … جو اللہ کیلئے لڑنے کو جائز سمجھیں وہ
دہشت گرد اور جو امریکہ کے تحفظ کیلئے بندوق اٹھائیں وہ مہذب… جو مظلوم مسلمانوں
کا رونا روئیں… وہ پاگل اور جنونی اور جو کفر کی ہر ادا کو عام کرنے کیلئے زور
لگائیں وہ ترقی یافتہ… جو کشمیرکی عصمت دریدہ بہن کیلئے چیخیں اور پکاریں وہ ملکی
امن کیلئے خطرہ … اور جو بمبئی کی طوائفوں کو یہاں بلا لائیںوہ ملک کے وفادار…
کشمیر کی طرف تو باڑ لگ
گئی… جبکہ واہگہ کی طرف باڑ ھ کھل گئی… اخبار اٹھاتے ہی یہی نظر آتا ہے کہ … کوئی
جا رہا ہے… اور کوئی آ رہا ہے… اور ظلم عظیم یہ ہے کہ اب ہمیں یہ سمجھایا جا رہا
ہے کہ … ہم پنجابی ہیں… ہم سرائیکی ہیں… ہم سندھی ہیں… ہم پختون ہیں … اور اُدھر
بھی… ہمارے ہندو پنجابی … سرائیکی اور سندھی بھائی موجود ہیں… عالمی پنجابی
کانگریس کے خود فراموش… ادھر سے ادھر پھرتیاں کرتے پھر رہے ہیں … شاعروں اور
ادیبوں کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں… اگر یہ سب کچھ کرنا تھا تو پھر … لاکھوں افراد کو
کیوں کٹوایا گیا؟… آج کے اخبار میں تصویر جمی ہے کہ … ہریانہ کے وزیراعلیٰ اوم پر
کاش چوٹالہ کا تپاک سے استقبال کیا جا رہا ہے… یقینا کل کے اخبارات میں … ان کے
پاکستان کے ساتھ محبت کے بیانات شائع ہونگے… یہ سب ٹھیک مگر کیا چوٹالہ صاحب سے یہ
پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر…پاکستان کے ساتھ آپ کو اتنی محبت ہے تو پھر … کشمیر میں
پاکستان کا نام لینے والوں پر … گولیاں… اور ڈنڈے کیوں برسائے جا رہے ہیں؟
بسنت میں ڈھول تاشے بج
رہے ہیں… رقص کی محفل عروج پر ہے مسلمان… دھمال ڈال کر بھارتی شراب پی رہے ہیں…
پاکستان کے غیور نوجوان، بھارتی اداکارائوں کی خدمت… اور آئو بھگت میں لگے ہوئے
ہیں۔
شور شرابا… خوشیاں،
قہقہے…مزے اور چھیڑخوانیاں… پتنگیں اور تھرکتی جوانیاں… لاہور والو!تمہیں
مبارک…معاف کرنا… سعدی مسکین تمہاری اس خوشی میں شریک نہیں ہو سکا… کیونکہ… وہ
کہیں اور پہنچ گیا… ہاں ہاں اس کا دل… اور دماغ کہیں اور پہنچ گیا… جموں کے ایک
عقوبت خانے میں… ایک جیل کے کمرے میں… جہاں ایک ہندو پنڈت… چہرے پر تھپڑ برسا رہا
ہے… بہت زور دار… زناٹے دار… پتہ ہے وہ ڈاڑھی والے چہرے پر… تھپڑ برسا برسا کر …
کیا مطالبہ کر رہا ہے…لاہور والو… سنو… وہ کہہ رہا ہے کہو!… پاکستان مردہ باد…
پاکستان کی ماں کو گالی دو… پاکستان کی بہن کو گالی دو… چہرہ مار کھا کھا کر … سرخ
ہو رہا ہے… بلکہ سوج گیا ہے …نرم و نازک ڈاڑھی اکھاڑ کر قدموں میں ڈال دی گئی ہے…
ایک اورنے… ڈاڑھی کو ہاتھ میں لے کر زور سے کھینچا اور کہا ہم تمہیں ہندو بنا کر
دم لیں گے… نصر اللہ منصور کے پائوں کے انگوٹھے کو پتھر سے توڑ دیا گیا… جعفر کی
کمر پر پٹرول ڈال کر… آگ لگا دی گئی… بس ایک ہی مطالبہ کہ پاکستان کی ماں کو گالی
دو… اور سجاد شہیدؒ کے جسم پر ایک کپڑا بھی نہیں تھا… حوریں بھی روپڑی ہونگی … آٹھ
آدمی اس کی ٹانگیں چیر رہے تھے… اور کہہ رہے تھے… پاکستان کی ماں کو گالی دو…
لاہور والو! میں تمہاری بسنت میں نہیں آ سکا…
بس بس بس
پاکستان کی فوجی حکومت نے
افغانستان کے بعد کشمیر اور جوہری بم کے مسئلے پر بھی پسپائی اختیار کی اور امریکہ
کے بعد انڈیا کو بھی سرعام اپنی ’’لچک‘‘ دکھادی۔ برہمنی سامراج کے مہرے اس صورتحال
سے خوش ہوئے۔ انہوں نے کشمیر کی تحریک پر بس کا بلڈوزر چلانے کی تجویز رکھی۔ یہاں
اس تجویز کو تسلیم کرلیا گیا اور مجاہدین کے احتجاج کے باوجود یہ بس سروس شروع
کردی گئی۔ بعد میں یہ بس زلزلے کے ملبہ تلے دب گئی۔ ایک دلچسپ تحریر
دیگر فوائد: (۱) کمانڈر سجاد شہیدؒ کے بعض
عجیب کارناموں کا بیان (۲)واجپائی
کی بس کا تذکرہ (۳)جیل
میں کھودی جانے والی ایک سرنگ اور اس کے پکڑے جانے کا واقعہ۔
)۱۵ محرم ۱۴۲۶ھ بمطابق۳مارچ ۲۰۰۵ء(
بس بس بس
جموں کے علاقہ میں کئی
جیلیں ہیں… اللہ تعالیٰ سب کو بچائے… اور بہت سارے عقوبت خانے … ایک بار ایسا ہوا
کہ … کچھ حریت پسند قیدیوں نے … غالباً وہ سکھ تھے … یا کشمیری … جیل سے رہا ہونے
کے لئے ایک عدد سرنگ کھودی … آپ جانتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل اور جوکھم کا کام ہے
…بہرحال وہ محنت کرتے رہے … اور اپنا خون پسینہ لگا کر … سرنگ کو جیل کی بیرونی
دیوار تک لے گئے … بس ایک دو روز کا کام باقی تھا… اور خلاصی چند قدموں پر تھی …
مگر پھر معلوم ہے کیا ہوا؟… جیل والوں نے … جیل کی اندرونی … اور بیرونی دیوار کے
درمیان واقع سڑک پر … کسی کام سے بس گذاری … بس بہت بھاری بھر کم تھی … اور سڑک کے
نیچے سرنگ کھدی ہوئی تھی … بس جب وہاں سے گزری تو نیچے دھنس گئی … یوں سرنگ کا راز
کھل گیا … اور قیدیوں کی قید … اور زیادہ سخت ٗ مشکل … اور طویل ہوگئی … گائے کے
پجاریوں کو بس نے کام دیا… اور قیدیوں کو بس نے بے بس کردیا… وہ دن … اور آج کا دن
وہاں کی تمام جیلوں کے اندرونی … اور بیرونی راستوں پر بسیں اور ٹرک دندناتے پھرتے
ہیں… آزادی کی سرنگوں کو ڈھونڈنے … مٹانے … اور گرانے کیلئے … اب لالہ جی گائے کے
پوتر موت (پیشاب) کا گھونٹ بھر کر کہتے ہیں … بس سروس کی جے … اور فضاء میں پیشاب
کی بوپھیل جاتی ہے…
بس سروس کی جے…
{…٭…٭…}
کمانڈر سجاد شہیدؒ نے
مقبوضہ کشمیر میں … چار سال جہاد کیا… مقبوضہ کشمیر جموں اور پونچھ کے لوگ انہیں
اچھی طرح جانتے ہیں… سرینگر کی کئی مقدس مائیں آج بھی …عیدالاضحیٰ کے موقع پر …
اللہ تعالیٰ کے حضور… سجادؒ شہید کے لئے قربانی ذبح کرتی ہیں … ویسے سجادؒ نے بھی
وفاداری کی حد کردی … اپنی قبر بھی ان کے ہاں بنوالی… ۱۹۹۰ء سے لے کر ۱۹۹۴ء تک سجادؒ کا نام …
انڈین آرمی کیلئے دہشت کی نشانی بنا ہوا تھا۔ وہاں کے مسلمان اور خود انڈین آرمی …
انہیں سجادؒ افغانی کے نام سے جانتی تھی … سچی بات یہ ہے کہ وہ دیکھنے میں افغانی
بھی لگتے تھے… اور کشمیری بھی … ان کی مادری زبان تو ’’پہاڑی‘‘ تھی… راولاکوٹ اور
پونچھ والوں کی زبان … پشتو کافی حد تک سمجھتے تھے … اردو بہت خوبصورت بولتے اور
لکھتے تھے … اور مقبوضہ کشمیر والوں کی زبان … ’’کشمیری‘‘ فرفر بولتے تھے … اور
جیل میں رہ کر عربی کے ساتھ بھی کافی مناسبت پیدا کرچکے تھے… انڈین فوج انہیں
ڈھونڈتی پھرتی تھی … اور ماہر کتے انہیں سونگھتے پھر رہے تھے … مگر وہ کہاں ہاتھ
آتے تھے… سیکورٹی فورسز انہیں سرینگر میں ڈھونڈتی تو وہ اسلام آباد (اننت ناگ) کے
پہاڑی جنگلوں میں … مجاہدین کے کیمـپ
چلا رہے ہوتے تھے… اور جب آپریشن کا رخ ان پہاڑوں کی طرف ہوتا تو وہ … قالینوں کے
تاجر بنے سرینگر میں اطمینان سے کار ڈرائیو کر رہے ہوتے تھے… حکومت کشمیر میں ان
کا کھوج لگاتی تو وہ اننت ناگ کے اوپر سے … پہاڑوں کو روندتے ڈوڈہ جابیٹھتے … اور
جب جموں میں ان کی تلاش شروع ہوتی تو وہ دہلی کا چکر لگا آتے … سجاد شہیدؒ … جہاد
کشمیر کے نباض… اور انڈین فورسز کے طریقہ واردات کے … واقف کار تھے … انہیں لڑنا
بھی آتا تھا… اور چھپنا بھی … مگر معلوم ہے پھر کیا ہوا؟… ۱۹۹۴ء کا ایک ٹھنڈا دن …
گیارہ فروری … شہید مقبول بٹ ؒ کی برسی۔۔۔۔ پورے کشمیر میں عام ہڑتال ۔۔۔۔۔سجاد
شہید ؒ کی مخبری ہوگئی … ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ … اپنے آگے پیچھے ایک کلومیٹر
تک سیکورٹی رکھتے تھے … بس ادھر آرمی آتی اور ادھر سجاد شہیدؒ کا وائرلیس بول پڑتا…
سادہ کپڑوں والے جانثار بتا دیتے کہ آگے آرمی ہے… مگر اس دن آرمی والوں نے عوامی
بس … اور سول ٹرک پکڑ لئے … اب ’’بس‘‘ جیسی بے ضرر چیز بھلا کسی کو کیوں کھٹکے؟…
با لآ خر آرمی … بس اور سول ٹرک کی آڑ لے کر ان تک جا پہنچی… چار سالہ عزیمت و
جہاد کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ’’بس‘‘ کے ٹائروں کے نیچے دب گیا… اسلام کا یہ شیر
پکڑا گیا … ۱۹۹۴ء
فروری سے لے کر ۱۹۹۹ء
جون تک … عقوبت خانوں اور جیل کی آزمائش گاہوں میں صبرو استقامت کی تاریخ رقم کرتا
رہا… پھر ایک اندھیری رات … اس کے جسم پر اتنے ڈنڈے ٹوٹے اور … اتنی لاٹھیاں برسیں
کہ … اس نے کلمہ طیبہ پڑھ کر … پرواز کرلی… اور جموں کے ایک قبرستان میں جاسویا …
اب اگر پنڈت جی گائے کا موت پی کر کہہ رہے ہیں… بس سروس کی جے … تو یہ ان کا حق ہے
کہ وہ گائے کے ساتھ ’’بس‘‘ کو بھی ماتھاٹیکیں … ’’بس‘‘ اس قدر جو کام آئی …’’بس
سروس کی جے‘‘
{…٭…٭…}
آپ نے ماضی قریب میں کئی
نام سنے ہوں گے … ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ جسے پیار سے بی جے پی کہا جاتا ہے …
’’اٹل بہاری واجپائی‘‘ … چھیاسی سالہ کنوارہ لیڈر… جو لیڈری کے علاوہ شاعری بھی
کرتا ہے… ’’لال کرشن ایڈوانی‘‘… سندھ سے بھاگ کر بھارت کی وزارت داخلہ تک پہنچنے والا
ایک کٹر ہندو … جو بھارت کو دوسرا سپین بنانے کے خواب دیکھتا تھا ’’اوما بھارتی‘‘…
ایک گنجی عورت جس نے بابری مسجد کو گرانے کی تحریک میں نمایاں کردارادا کیا اور یہ
قسم کھائے رکھی کہ جب تک مسجد نہیں گرے گی وہ اپنے سر پر بال نہیں رکھے گی… اور جب
مسجد شہید ہوگئی تو وہ مجمع عام میں … اچھل کر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کے کندھوں پر
چڑھ گئی … ’’سشما سوراج‘‘ ٹھگنے قد والی… لومڑی کی طرح تیز طرار عورت… جس نے بی جے
پی کی جیت پر ایڈوانی کے منہ میں مٹھائی ٹھونسی… اور دہلی کی وزیراعلیٰ اور بھارت
کی وزیراطلاعات رہی … القلم کے پیارے قارئین … آپ کو یہ سب کچھ یاد ہے نا؟… ۶دسمبر۱۹۹۲ء جب ہزاروں ہندوئوں کے
ریلے نے بابری مسجد شہید کردی … ۲۰۰۲ء
جب بھارت کے صوبے گجرات میں … بی جے پی کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی قیادت میں …
ہزاروں گجراتی مسلمان زندہ جلا دیئے گئے … سینکڑوں پاکیزہ بیٹیاں… سربازار رسوا
کردی گئیں… جی ہاں … اور جب دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ پر چھاپہ پڑا… اور مفکر
اسلام مولانا ابو الحسن ندوی ؒ … اپنے آنسو سمیٹتے رہ گئے … آخر بھارت کی کرسی پر
… بی جے پی جیسی کٹر ہندو پارٹی کو اقتدار کیسے ملا؟… اس چھوٹے سے سوال کا جواب
پانے کیلئے ۷۵
سال کی تاریخ کو کھنگالنا پڑتا ہے … پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر یہاں کی
پاکیزہ کرسی پر … کوئی راسخ العقیدہ مسلمان … ایک دن بھی نہ بیٹھ سکا… جبکہ بھارت
کا آئین اس کو ایک سیکولر ملک بتاتا ہے … مگر وہاں کی کرسی پر وہ جاپہنچے جن کیلئے
’’انتہاء پسندی‘‘ کا لفظ بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے… مختصر یہ کہ ہندوستان میں ایک
کٹر نظریاتی پارٹی ہے… جس کا نام … آر ایس ایس … راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ہے …
راشٹریہ کا معنیٰ ’’قومی‘‘ سوئم معنیٰ ’’خود‘‘ سیوک معنیٰ کام یا خدمت اور سنگھ کا
معنیٰ پارٹی یا جماعت … سنگھ کے سین پراگر زیرلگادی جائے یعنی سِنگھ تو اس کا معنی
ہے شیر … آج کل ایک بڈھا سِنگھ … نٹورسِنگھ پاکستان آیا ہوا ہے… دیکھیں وہ کیا کچھ
چیرپھاڑ کرتا ہے…
خیر… آر ایس ایس کا معنیٰ
ہوا… قومی رضا کار پارٹی ۔۔۔۔ اس متعصب ہندو جماعت نے اپنی مختلف شاخیں بنا رکھی
ہیں… فکری نظریاتی کام کیلئے وی ایچ پی … وشوا ہندو پریشد ہے… لڑائی جھگڑے … اور
غنڈہ گردی کیلئے … بجرنگ دل … اور شیوسینا ہیں… اور سیاست کی دکان چمکانے کیلئے
بھاجپا … یعنی بی جے پی ہے … آپ حیران ہوں گے کہ آر ایس ایس میں سب سے اہم عہدہ
’’پرچارک‘‘ کا ہوتا ہے… یعنی مشن کا پرچار کرنے والا… اور اس کی دعوت دینے والا …
آر ایس ایس کا پرچارک شادی نہیں کرتا … اور پوری زندگی اپنے شرکیہ پیغام کو
پھیلاتا ہے … اٹل بہاری واجپائی … ماضی میں آر ایس ایس کے ’’پرچارک‘‘ رہے ہیں… اس
لئے انہوں نے شادی نہیں کی … چنانچہ آثار قدیمہ کے محققین کا یہ دعویٰ کہ وہ ہیجڑے
ہیں زیادہ درست معلوم نہیں ہوتا … آر ایس ایس تعلیمی ادارے بناتی ہے … پھر اپنے
پڑھے پڑھائے لوگوں کو … فوج اور سول سروس میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچاتی ہے… دنیا بھر
کے ہندوئوں کو اپنے رابطے میں رکھتی ہے… اکھاڑے بناکر عسکری تربیت کا انتظام کرتی
ہے … اور سیاست اور میڈیا سے لے کر فلم انڈسٹری تک اپنی پکڑ مضبوط بنانے کیلئے
منظم کام کرتی ہے… آر ایس ایس کا مذہبی یا قومی نشان … خاکی کچھا … یعنی خاکی رنگ کی نیکرہے … اکھنڈ بھارت …
یعنی متحدہ بھارت ان کی منزل مقصود ہے… اور اکھنڈ بھارت کے نقشے میں پورا پاکستان
سماجاتا ہے … پچھتر سال کی دیمک صفت محنت کے بعد … آر ایس ایس کو بالآخر بھارت کا
اقتدار ملا … مگر منزل بہت دور تھی … کیونکہ … لوک سبھا یعنی قومی اسمبلی میں اسے
واضح اکثریت نہ مل سکی … اور اسے کئی ایسی پارٹیوں کو ساتھ ملانا پڑا جو … اس کی
بہرحال ہم مشن نہیں تھیں… آیئے اب بات کو مختصر کرتے ہیں … آر ایس ایس کا اہم ترین
مشن … پورے بھارت کو دوبارہ ہندو بنانا … اور پھر اس ہندو بھارت کو متحد کرکے …
اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے … ماضی میں بھارت کے عیسائیوں اور مسلمانوں کو … شدھی
(پاک) کرنے کی تحریک ہمارے سامنے ہے …اب آر ایس ایس اقتدار میں پہنچ گئی … مگر
حکومت پر مکمل قابو نہیں ہے… بھارتیہ جنتا پارٹی کے وہ لیڈر جن کے نام آپ نے ابھی
پڑھے ہیں …اپنے مشن کی تکمیل کیلئے بے چین ہیں مگر ایک طرف کشمیر کی تحریک آزادی …
دوسری طرف افغانستان کے طا لبان … اور تیسری طرف خود ہندوستان کے بکھرے ہوئے سہی …
مگر طاقتور مسلمان … بی جے پی نے طا لبان کیخلاف شمالی اتحاد … اور ایران سے ہاتھ
ملایا … اور دہلی لاجپت نگر کا علاقہ شمالی اتحاد کے لیڈروں کی آماجگاہ بن گیا …
ہندوستان کے مسلمانوں کو نکیل ڈالنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع ہوا جس کی ادنیٰ جھلک
نصاب تعلیم میں تبدیلی اور گجرات کے مسلم کش فسادات تھے … مگر کشمیر کی تحریک کا
کیا کیا جائے؟… بہت غورخوض … اور فکر مندی کے بعد یہ طے ہوا کہ … پاکستان کو تجارت
… اور ثقافت کی یلغار میں غرق کیا جائے … اسی زمانے میں اندرون خانہ ڈپلومیسی کا
منحوس دروازہ کھلا … اور با لآخر پاکستان تجارت اور ثقافت کے جال میں پھنستا نظر
آیا … بلی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کے لئے کسی بڑے ڈرامے کی ضرورت تھی… تب پنڈت
جی کے دماغ میں پھر ’’بس‘‘ آگئی … بھارتی وزیراعظم … جسے وہاں پر دھان منتری کہا
جاتا ہے… ایک بس پر لاہور کی طرف روانہ ہوئے … یہ بس لاہور کو فتح کرنے کیلئے …
کسی ٹینک کی طرح آگے بڑھی … اور واہگہ بارڈر کراس کرگئی … اس دن لاہور کے غیور
مسلمان … پولیس کے ڈنڈے کھاتے رہے … اور پاکستان میں موجود انڈین ایجنٹ خوشی سے
جھومتے رہے … یہ بس … آر ایس ایس کے خوفناک مشن کو … مینار پاکستان پر قابض کردیتی
… مگر … کچھ لوگ جاگ رہے تھے … لاہور کے مظاہرے … کرگل کے دھماکے … اور مجاہدین
کشمیر کے زبردست حملے … اس بس کو پنکچر کر گئے … تب … مجھے اچھی طرح یاد ہے … میں
نے خود بوڑھے واجپائی کی کھنکھناتی آواز … ریڈیو پر سنی … وہ کہہ رہے تھے … ہم نے
بس چلائی مگر پاکستان نے ہماری پیٹھ میں کرگل کا چھرا گھونپ دیا… مگر ’’بنیا‘‘
آرام سے نہیں بیٹھتا … اس نے وہ ہاتھ ڈھونڈ نکالا جس نے کرگل کا چھرا گھونپا تھا …
اب بنیے نے اسی ہاتھ کو ’’رام‘‘ کرنے کیلئے ’’دام‘‘ بچھایا… اور اب وہی ہاتھ … خود
ایک ’’بس‘‘ کی چابی سرجھکا کر انڈیا کے حضور پیش کررہا ہے … تب بنیا شراب کا گھونٹ
پی کر کیوں نہ کہے … ’’بس سروس کی جے‘‘
{…٭…٭…}
کشمیری مسلمان بھی عجیب
لوگ ہیں… ٹوٹ کر محبت کرنے والے… اور ہر لمحہ حالات کے ستم سہنے والے … ظلم اور
مجبوری نے گویا کشمیر کو اپنا وطن بنا لیا ہے … خوبصورت جگہ جو ہوئی … ہر کسی کی
خواہش ہے کہ کشمیر اسے ملے … پہلے سکھ سردار چڑھ دوڑے … پھر انگریز آدھمکے … پھر
ڈوگروں نے انسانیت کو شرمندہ کیا … اور اب بھارت ہے کہ سوتے جاگتے اٹوٹ انگ … اٹوٹ
انگ کی مالا جپتا رہا ہے … کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں … انہیں سن کر …
پڑھ کر … اور دیکھ کر انسان غمزدہ تو ہوتا ہی ہے … سخت حیران بھی ہوتا ہے کہ …
یااللہ یہ سخت جان قوم کس مٹی سے بنی ہے … ماضی کی بات چھوڑیئے… حالیہ تحریک جہاد
ہی کو لے لیجئے… یقین کیجئے اب تک کوئی اور قوم ہوتی تو کبھی کی ہتھیار ڈال کر …
غلامی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھتی … اور انڈیا کی گود میں جا گرتی زبان سے کہنا آسان
ہے مگر… حقیقت بہت مشکل ہے کہ… کشمیر میں روزانہ اوسطاً 30 جنازے اٹھتے ہیں … سنا
ہے کہ ایک بوڑھے باپ کے پانچ بیٹے تھے … پانچوں شہید ہوچکے ہیں … پاکستان نے اس
بوڑھے باپ کو بھلا دیا ہے مگر اس استقامت کے پہاڑنے … اسلام کو بھلایا ہے نہ جہاد
اور پاکستان کو … سنا ہے اب بھی یہی پیغام بھیجتا رہتا ہے کہ … فتح ان شاء اللہ
اسلام کی ہو گی … اور کشمیر پاکستان بن کر رہے گا … اور یہ کہ میں اور شہیدوں کی
ماں بھی … قربانی دینے کیلئے تیار ہیں … انڈیا نے پہلے پولیس اور سی آر پی ایف کو
آزمایا… چند ماہ میں ان دونوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور سی آر پی ایف نے تو سپریم
کورٹ میں حکومت کیخلاف مقدمہ درج کرا دیا کہ ہمیں بے بسی سے مروایا جارہا ہے … پھر
بی ایس ایف کو لایا گیا مگر چند ماہ بعد اس نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے … اس کے بعد
ریگولر آرمی اور راشٹریہ رائفلز کے دستے میدان میں اترے … مگر ساڑھے سات لاکھ
انڈین آرمی جہاد کا اور تحریک کا کچھ نہیں بگاڑ سکی… جہاد کشمیر پر انگلیاں اٹھانے
والے کبھی کشمیر کے کسی ایک معرکے کی کارگذاری سن لیں … اگر دل میں روشنی اور
آنکھوں میں نور ہوگا تو بے ساختہ چلا اٹھیں گے کہ … یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی
نصرت سے ہی ممکن ہے … اس کے بعد انڈیا نے اسرائیل کو اپنی مدد کے لئے پکارا …
مشرکین اور یہودیوں کا یہ اتحاد بھی … تحریک کشمیر کو ایک قدم پیچھے نہ ہٹا سکا…
یقین کیجئے … جب تک پاکستان نے مجاہدین کے خلاف انڈیا کا تعاون شروع نہیں کیا …
انڈیا کشمیر میں بے بس نظر آرہا تھا… پاکستان کا انڈیا سے تعاون … چونکہ مسلمانوں
کا مسلمانوں کے خلاف تعاون ہے … اس لئے اس کی نحوست ظاہر ہوئی … اور برہمنی سامراج
نے پہلی بار … اطمینان کا سانس لیا … پاکستان نے جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی …
پاکستان نے سیزفائر کا ظالمانہ فیصلہ کیا … پاکستان نے انڈیا کو امن کے ساتھ آہنی
باڑ لگانے دی … پاکستان نے مجاہدین کو ستایا … پاکستان نے خیر سگالی کے غیر ضروری
اقدامات کر کے … مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی … پاکستان نے
کشمیر کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف پر ایسی لچک دکھائی کہ … پوری قوم کا حوصلہ
پچک کر رہ گیا … خیر یہ تو لمبی داستان ہے … آیئے ایک مختصر سا نقشہ دیکھتے ہیں…
ایک
ظالم نے کچھ لوگوں کو قید کرلیا … پھر ان پر طرح طرح کے ستم ڈھانے لگا … اس نے ان
کی خوبصورت زمین کو ہی جیل خانہ بنادیا … مظلوم لوگوں نے بہت ہاتھ پائوں مارے …
بہت دہائیاں دیں … بہت مظاہرے کئے … مگر ظالم نے ایک نہ سنی … مظلوموں نے باہر کے
لوگوں کو مدد کے لئے بلایا … مگر سب کے ظالم کے ساتھ اچھے تعلقات تھے … تب اللہ
پاک نے نصرت فرمائی … مظلوموں نے آزادی کی سرنگ کھودنا شروع کردی … انہیں ایک وکیل
بھی مل گیا بہت ہمدرد … بہت خیر خواہ … اس وکیل نے ان کی حوصلہ افزائی کی … مظلوم
اپنے خون اور آبرو سے سرنگ کھودنے لگے … انہوں نے ایک لاکھ افراد کٹوا دیئے …
انہوں نے اپنے خوبصورت مکانات سے ہاتھ دھویا … ہزاروں افراد معذور اور سینکڑوں
بیٹیاں رسوا ہوئیں … مگر ایک ایمان … ایک جوش … اور ایک ولولہ … سرنگ بنتی چلی گئی
… اور اب منزل چند قدم کے فاصلے پر ہے … تب اچانک ان کا وکیل … گبھرا گیا … اس نے
ظالم سے یاری گاٹنھ لی … ادھر ادھر کے کچھ لوگوں نے اس سرنگ کا خاتمہ چاہا … باہم
مشورے ہوئے … اور تب ایک ’’بس‘‘ چلانے کا فیصلہ ہوا … مظلوم قوم حیران ہے … اسّی
ہزارشہداء کی قبروں پر لگے کتبے … رو رہے ہیں … مائیں آنچل پھیلا کر سجدے میں گری
پڑی ہیں … وہ بہنیں جن کی چادرِ عصمت تارتار ہوئی خالی آنکھوں سے آسمان کی طرف
دیکھ رہی ہیں … یا رباّ … یہ کیا ہوگیا … ہمارا وکیل خود بس میں تیل بھر رہا ہے …
ہائے کاش … ہم بھی شہداء کے قریب زمین کے اندر جگہ پا چکے ہوتے … سید علی گیلانی
کا بڑھاپا ششد رہے … آزادی کے متوالے سر پکڑے بیٹھے ہیں … بنیا زوردار قہقہ لگاتا
ہے … بس سٹارٹ ہو چکی ہے … وہ سرنگ کے اوپر سے گزرنا چاہتی ہے … جموں کی جیل والی
سرنگ کی طرح … یہ سرنگ بھی بیٹھ گئی تو؟ … بنیا کہہ رہا ہے … بس چلائو … بس چلائو
… شہداء کے وارث بلک بلک کر … پاکستان سے کہہ رہے ہیں … بزدلی اور خیر سگالی کے یہ
بھونڈے اقدامات … بس … بس … بس ۔۔۔۔۔اللہ کیلئے… بس
مگر یہ چھوٹا سا بچہ کیا
کہہ رہا ہے؟… ارے اس کے جسم سے تو خون ٹپک رہا ہے … خون کیا ؟… وہ تو ٹوٹے ہوئے
گلاب کی طرح … بکھرا پڑا ہے … کیا نام ہے بیٹا؟… آفاق ؒ … اسلام کا آفاق ؒ … سری
نگر کا رہنے والا … کہو بیٹا کہو؟… ہم تو بہت پریشان ہیں … کہیں یہ ’’بس‘‘ … آزادی
کی سرنگ کو گرانہ دے … آفاق مسکرایا … واہ سعدی چچا … اپنے آنسو سنبھال رکھو … یہ
سرنگ بہت گہری ہے … بہت مضبوط … ’’بس‘‘ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی … ہاں اگر ’’بس‘‘
نے اسے گراہی لیا تو معلوم ہے … کیا ہوگا؟… کیا ہوگا ؟… بس چلانے والے دونوں فریق…
بس سمیت اس سرنگ میں آگریں گے … چچا!… شہداء کا خون رب کو بہت پیارا ہے … تب کوئی
نہیں بچے گا … کوئی نہیں…
{…٭…٭…}
بتوں کا
ملبہ کچھ سمجھا رہا ہے
افغان عجیب لوگ ہیں۔ پہلے
انہوں نے برطانیہ کو شکست دی جبکہ برطانیہ سپرپاور سمجھا جاتا تھا۔ پھر افغانوںنے
سوویت یونین کو ہاتھ دکھایا تو وہ صفحہ ہستی سے فنا ہو کر صرف روس رہ گیا۔ اب
امریکہ کی باری ہے۔ امریکہ کو فخر ہے کہ افغانستان کے بہت سارے سابق جہادی کمانڈر
اس کے جگری دوست اوروفادار ہیں۔ مگر امریکہ بھول رہا ہے کہ اس کا واسطہ کس قسم کے
دوستوں سے ہے؟ اندر کے حالات نمایاں کرنے والی ایک شوخ تحریر اور افغانستان کے
مستقبل کی طرف ایک واضح اشارہ۔
)۲۲ محرم ۱۴۲۶ھ بمطابق۱۰مارچ ۲۰۰۵ء(
بتوں کا
ملبہ کچھ سمجھا رہا ہے
کیا آپ قندھار، ہلمند،
اور زگان کا سفر کرنا چاہتے ہیں ؟… کیا آپ خوست ، پکتیا، پکتیکا اور غزنی جانا
چاہتے ہیں؟ … کیا آپ کو میدان ، وردک اور گردیز جانے کا شوق ہے ؟ اور ہاں آپ تورا
بورا کے پڑوس میں واقع ننگر ھار… جلال آباد کی سیر کریں گے؟ جی ہاں دل تو چاہتا ہو
گا … مگر؟ وہاں تو امریکہ کا قبضہ ہے … شمالی اتحاد کا راج ہے… را کی حکومت ہے …
موساد کی اٹھک بیٹھک ہے … یعنی بہت خطرہ ہے … سنا ہے طالبان حملے کرتے ہیں …
القاعدہ والے بھی خشک پتھروں کے نیچے چھپے ہوئے ہیں … اور چور ، ڈاکو دندناتے
پھرتے ہیں … وہ ٹھیک مگر تفریح بھی تو بہت ہے … بالکل خالص … ملاوٹ سے پاک …
ریفرنڈم سے زیادہ شفاف … بنیادی جمہوریت سے زیادہ مست… اصلی چرس ملتی ہے … ویڈیو
کی دکانیں… اور ناچ گانے کے اڈے سبھی کچھ کھل گیا ہے… مگر ہم تو نیک لوگ ہیں …
اچھا یہ بتائیں کہ… افغانستان جانا ہے یا نہیں ؟… بھائی کیوں لے جانا چاہتے ہو؟
ایک عجیب تماشا دکھانا ہے …عجیب و غریب تماشا … جی ہاں ساری دنیا کو تماشا بنانے
والے کا … عبرتناک تماشا… ٹکٹ … پاسپورٹ کا کیا بنے گا ؟ چھوڑیں ٹکٹ پاسپورٹ کو …
آئیے… سعدی کا ہاتھ پکڑئیے… آنکھیں بند کیجئے… فرضی پاسپورٹ تھامئے… ’’ ہوائی‘‘ جہاز
پر بیٹھئے … اور پہنچ گئے جنوبی افغانستان … یہ ایک گورنر ہاؤس ہے … گورنر صاحب …
پرانے زمانے میں مجاہد کمانڈر تھے… اب کرزئی کے دل کا سکون … اور امریکہ کی آنکھ
کے تارے ہیں … ان کا یہ ہفتہ بہت مصروف ہے آپ آنکھیں بند کر کے… گورنر صاحب کی چند
دن کی مصروفیات دیکھتے جائیں …
گورنر ہاؤس … اتوار کادن
وہ خربچہ کدھر گیا ؟… آ
گیا صاحب …ووئے ابھی تک کمرا میں ٹی وی می وی نہیں لگایا … جی ابھی حاضر کرتا ہے
…ایک ٹی وی نہیں چار پانچ لگاؤ… ایک پر انڈیا والا پلم … دوسرا پر امریکہ والا …
اور باقی پر رنگین رنگین … شا شا … پلمو نہ لگاؤ… خا جی … ووئے تم کیا دیکھتا ہے
شراب مراب کا اچّا اچّا بوتل لا کر خوب ڈیزائن سے لگاؤ… ووئے خانہ خراب ہمارا پینٹ
اور شرٹ تیار ہے ؟… جی صاحب کب پہنیں گے؟… ابھی تھوڑی دیر میںپہنتا ہوں گیارہ بجے
وہ کاپر کے بچے آ رہے ہیں… میرے کو تو پینٹ پہننا بھی نہیں آتا ہے … مگر کیا کریں
… مجبوری ہے … جتنی دیر پہنتا ہوں … ایسا لگتا ہے ٹانگیں جہنم میں پھنسی ہوئی ہیں
… گلباز خان کو بلاؤ … ووئے ترجمہ ٹیک کرنا… اور چرس والے سگریٹ ؟… جی تمام
مہمانوں کے سامنے میز پر حاضر ہونگے… آپ فکر نہ کریں … بس آپ لباس بدلیں… پگڑی
اتاریں… پینٹ چڑھائیں … ٹائی لٹکائیں … ووئے کمرہ تو دیکھو ٹھیک ہے ؟ … جی صاحب
بہت زبردست امریکی بہت خوش ہونگے … مگر دیوار پر عورتوں کی تصویریں … اور لائٹ
میوزک ہوتا تو اچھا تھا… ووئے خو چہ جلدی جلدی پوٹو لگاؤ … اور میوزک بجاؤ… ہم
ابھی آیا … امریکی وفد پہنچ گیا۔
امریکی وفد
گورنر
صاحب نے خوب ہاتھ دبا دبا کر … مردوں اور عورتوں سے مصافحہ کیا… شراب کی بوتلیں
جھاگ انڈیلنے لگیں… چرس کے سگریٹ سلگنے لگے… مہمانوں کے بیٹھتے ہی … گورنر صاحب نے
تالی بجائی… کچھ عورتیں … اور مرد … اندر آ کر ناچنے لگے … گرم پلیٹوں میں … دنبے
کے کباب دھواں اڑا رہے تھے … امریکی مست ہو رہے تھے … طوفان تھما تو بات چیت شروع
ہوئی … گورنر صاحب ! ہم یہاں آ کر بہت خوش ہیں … آپ تو بہت روشن خیال اور ہم سے
محبت کرنے والے ہیں … جی تابعدار… ہم کو آپ اپنا غلام سمجھو آپ اس پورے صوبے کی
پِکر نہ کریں… ہم نے پانچ سو القاعدہ والے مار دیئے… گلباز خان نے آنکھ مار کر
گورنر صاحب کو بتایا پچاس کہیں… گورنر نے آنکھیں نکال کر گلباز کو گھورا… خانہ
خراب جو بتاتا ہوں وہی ترجمہ کرو…… اور ہم نے پانچ ہزار طالبان مار کر دفنا دیئے
ہیں… ہمارا لائق جو خدمت ہو… ہم بالکل بالکل حاضر ہے
…
امریکی وفد نے خوشی سے
تالیاں بجائیں … پھر پوچھا… آپ ڈرگز کیلئے کیا کر رہے ہیں … گورنر صاحب نے کہا ہم
ڈرگز کیلئے بہت کام کر رہا ہے … آپ لوگوں کو بھی ابھی خالص پلایا ہے… ہم نے اعلان
کیا ہے کہ … جو ملاوٹ والا مال بیچے گا ہم اس کو الٹا لٹکائے گا … اور جو چور کا
بچہ مہنگا بیچے گا … ہم اسکی کھال … اتارے گا … گلباز نے اپنا سر ہاتھوں میں پکڑ
لیا … امریکی وفد کے ایک ممبر نے کہا…پلیز ٹرانسلیٹ مسٹر گلباز… گلباز نے کہا…
گورنر صاحب نے کہا ہے مجھے دو منٹ کیلئے باہر جانا ہے…اگر آپ مائنڈ نہ کریں … وفد
والوں نے کہا بالکل نہیں … … گورنر صاحب جا سکتے ہیں… گلباز نے مخصوص اشارہ کر کے
… گورنر کو باہر نکالا وہاں جا کر سمجھایا … پھر دونوں واپس آ گئے…گورنر نے گلا
صاف کر کے کہا … ہم ڈرگز کو بالکل ختم کرتا ہے … ہمارا صوبہ میں ایک بوٹی بھی پیدا
نہیں ہوگا… بس ہمارا کسان لوگ …خر …لوگ ہے … اگر کچھ ڈالر مالر دے گا تو یہ لوگ
ڈرگز کو ختم کرے گا…… ترجمہ سن کر امریکی وفد نے اپنے کاغذوں پر کچھ لکھا … پھر
پوچھا… طالبان اور القاعدہ کو ختم کرنے میں آپ کا رول کیا ہو گا؟… ہم ان کا نسل
بھی مٹا دے گا بس کچھ گاڑیاں ماڑیاں کم ہیں … جنگ میں جو ہمارا مجاہد زخمی ہوتا ہے
اس کے علاج کا مسئلہ ہے … بس اگر دس بیس ملین ڈالر ملے تو اس علاقہ میں یہ دہشت
گرد لوگ بالکل ختم ہونا مانگتا ہے…… امریکی وفد خوشیاں سمیٹتا چلا گیا… گورنر صاحب
بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئے… پینٹ کو خوب زور سے کھینچا… آٹھ گز کی ڈھیلی شلوار
پہنی … جانے والے مہمانوں کو ایک موٹی سی گالی دی… اور اپنی گورنری میں مصروف ہو
گئے …
گورنر ہاوس … جمعہ کی رات
ہمارا پگڑی کدھر ہے ؟…
جلدی لاؤ … ووئے ظالم کا بچہ یہ ٹی وی کمرہ سے نکالو … خانہ خراب تم یہ دیوار سے
پوٹو موٹوہٹاؤ … خانہ کعبہ کی تصویر لگاؤ… ہمارا تسبیح کدھرہے ؟… یہ ہے صاحب … دو
تین تسبیح میز پر بھی رکھو … ابھی کچھ مہمان آتا ہے … پورا گورنر ہاؤس سے گانے
مانے کا آواز نہ آئے … آیا تو پھر ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا … ہمارا ملّا کہاں ہے
… اس کو لا کر بٹھاؤ… قہوہ مہوہ جوڑ کرو…زمزم گلاس میں بھر کر رکھو … مدینہ والی
کھجور پلیٹوں میں ڈالو … اور سنو … مہمانوں کو پچھلے خفیہ دروازہ سے لاؤ … اردگرد
نظر رکھو… مہمانوں کو آتے جاتے کوئی نہ دیکھے … باہر کا بتیاں بجھاؤ …
طالبان مہمان
گورنر
صاحب نے ان کو گلے سے لگایا… ہر ایک کی ڈاڑھی چومی … ہر ایک سے اس کے گھر کے ہر
فرد اور تحریک کے ہر رکن کا حال احوال پوچھا… اور پھر گپ شپ شروع ہو گئی… ملّاصاحب
کا کیا حال ہے ؟ مشر ملاّ کا؟ الحمدللہ خیریت سے ہیں … میرا بہت بہت سلامونہ ان کو
دو اور بتاؤ…ہم اب بھی ان کا تابعدار ہے …جتنا گولی اسلحہ آپ کے مجاہدین مانگتا ہے
ہم پورا کرتا ہے … یہ کاپر کا بچہ امریکی جلدی یہاں سے جاتا ہے پھر ہم آپ کی حکومت
میں … شریعت ناپذ کرتا ہے … ہم لوگ کسی کرزئی مرزئی کو نہیں مانتا … بس قوم کا
مجبوری ہے۔ اگر ہم گورنر نہیں بنتا تو کوئی دوسرا خنزیر بچہ بن جائے گا… اور اسلام
کو نقصان پہنچائے گا … آپ کے سپاہی ہمیں تنگ کر رہے ہیں؟… کون خربچہ تنگ کرتا ہے…
ہم آپ کو خصوصی خط لکھ دیتا ہے بس پھاٹک پر دکھاؤ … اور گزر جاؤ … اور کوئی خدمت …
بس مہربانی … ملّا صاحب نے بولا کہ … ہمارے لوگوں پرحملے نہیں ہونا چاہیے… تابعدار
تابعدار ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا…کبھی غلط فہمی میں کچھ ہو جائے… تو ملاّ
صاحب مجھے معاف کریں … میں نے روس کے خلاف جہاد کیا…میرا بڑا بھائی شہید ہوا … میں
اب بھی مجاہد ہے… پکا مجاہد …
گورنر ہاؤس … منگل کا دن
صاحب آج تو رکاپر (کالے
کافر) آتا ہے … انڈیا والا ؟ … جی صاحب … کمرہ کیسے سیٹ کرنا ہے؟… بس اتوار جیسا
بناؤ … اور وہ لمبا والا خر بچہ کیا نام ہے اسکا ؟… امیتابھ بچن … ہاں اسکا پوٹو
لگاؤ … اور وہ موٹی موٹی آنکھوں والی چوکری کا بھی … جی صاحب
…
انڈین وفد
شراب
کباب اور رقص و موسیقی کے بعد … ہم آپ کے آنے سے بہت خوش ہو گیا … انڈیا ہمارا پکا
دوست ہے… آپ لوگوں نے ہمیں بسیں دیا… جہاز دیا … ہسپتال دیا ہم آپ کے لوگوں کا پلم
روزانہ دیکھتا ہے … ہم آپ کا خادم … ہم نے آپ کے علاقے میں اپنا دفتر کھولنا ہے …
بالکل تابعدار تابعدار … دراصل ہمیں سیکورٹی کا پرابلم ہے… آپ لوگ فکر نہ کریں …
ادھر پاکستان کا کوئی آدمی نہیں آ سکتا ؟ … آپ بے فکر ہو کر دفتر کھولیں اور ہمارے
لئے بھی کوئی ؟… آپ کیلئے ہم کافی تحفے لائے ہیں … شکریہ شکریہ … مگر ہمیں رپورٹ
ملی ہے کہ … آپ کا ایک گھر کوئٹہ میں … ایک بنگلہ اسلام آباد میں… اور کافی سارے
رشتہ دار پشاور میں ہیں … آپ لوگ ان باتوں کی فکر نہ کریں… میں زبان کا پکا ہے آپ
ہاتھ کھلا رکھو ہم پاکستان کا پکا مخالف… اور انڈیا کا دوست ہے … پھر ہمیں ڈیل کون
کرے گا … گلباز خان… یہ بریف کیس آپ کا ہے اور دوسرے کمرے میں … شکریہ شکریہ … آپ
خواہ مخواہ تکلیف کیا ہم تو ویسے ہی تابعدار ہے
…
گورنر ہاؤس … پیر کا دن
آج پاکستان کا وفد آ رہا
ہے… کیا حکم ہے ؟… کمرا میں بابا قائد اعظم کا پوٹو لگاؤ… کھانا مانا اچھا بناؤ…
نور جہاں کا کیسٹ بجاؤ…
پاکستانی وفد
ہم
آپ سے مل کر بہت خوش ہوتا ہے… پاکستان افغانستان دونوں ایک ہے … ہمارا دوسرا گھر
پاکستان ہے … ابھی بھی ادھر چکر مکر لگانے کا دل کرتا ہے … وہاں سب لوگوں کو بہت
بہت سلام… جی ہم بھی بہت خوش ہوئے … وہاں آپ کے گھر اور رشتہ دار بہت محفوظ ہیں …
مگر … ہم نے سنا ہے کہ را والے … یہاں اپنا دفتر کھول رہے ہیں …
را والا کون ؟ … انڈیا
والے … وہ کاپر کے بچے یہاں دفتر کھولیں تو انکی ٹانگیں کاٹ کر واپس بھجوا دونگا…
پاکستان کا دفاع ہم پر فرض ہے … آپ نے ہمارے ساتھ ہمدردی کیا… ہمیں پناہ دی … ہم
زبان کا پکا مسلمان ہے … غداری نہیں کر سکتا … اور کوئی خدمت ؟… ہم پاکستان کا
تابعدار … بہت بہت شکریہ … ہمارے لائق کوئی کام ؟ … بس کچھ گندم مندم اور تیل میل
اگر آ جائے تو غریب لوگوں کو پاکستان سے محبت ہو جائے گا … ہم اپنی حکومت سے بات
کریں گے …ٹھیک ہے جی … ہم پاکستان کا تابعدار
…
گورنر ہاؤس کے چار دن آپ
نے دیکھ لئے … آنکھیں کھولیں اور واپس چلیں … وہاں جو کچھ ہو رہا ہے … اس فرضی
تمثیل سے دو قدم آگے ہیں … اس لیے کافروں کو خوش … اور مسلمانوں کو پریشان ہونے کی
ضرورت بالکل نہیں … افغانستان کی پراسرار بھول بھلیوں میں … سویت یونین … اپنا
وجود … کھو بیٹھا… اب امریکہ وہاں سر مار رہا ہے … اور اپنی آبرو گنوا رہا ہے… اور
سوئی چکر کاٹ کر … واپس اپنی پرانی جگہ… آنے کو ہے … بامیان کے بتوں کا ملبہ… باقی
بتوں کو … یہی بات سمجھارہاہے…
وہ حسن والے
ایمانی جذبات کو زندہ
کرنے والی ایک رواں تحریر۔ جو قادیانیوں کی اسلام اور پاکستان کے خلاف ریشہ
دوانیوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ دل میں عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شمع جلانے والا
ایک مضمون جو اس وقت منظر عام پر آیا جب قادیانی لابی نے ملک کے پاسپورٹ سے مذہب
کا خانہ ختم کروادیا۔ الحمدﷲ ختم نبوت کے پروانے مسلمانوں نے انگڑائی لی اورایک
بڑی تحریک کا ابتدائی آغاز ہوا۔ تب حکومت نے عقل سے کام لیا۔ ایک اور یو ٹرن لیا
اور مذہب کا خانہ بحال کردیا۔
)۲۹ محرم ۱۴۲۶ھ بمطابق۱۷مارچ ۲۰۰۵ء(
وہ حسن والے
آج مجھے بہت سارے… حسین
لوگ یاد آرہے ہیں… بہت خوبصورت، بہت البیلے، بہت مست… ہاں میں کیا کروں؟… حسن
والوں کی محبت میرے خون میں دوڑتی ہے… اس وقت بھی جبکہ آسمان سے بارش برس رہی ہے…
ادھر سبزہ پانی میں… بھیگ رہا ہے… اور ادھر مجھے ایک ایسا حسین شخص یاد آرہا ہے…
جو ظاہری آنکھوں سے نابینا تھا… مگر اس کے دل میں… نور کا چراغ دمک رہا تھا… اس
شخص کی قسمت دیکھیں کہ جب وہ کسی راستے سے گزرتا تو حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
جیسا شخص… اس کے گن گانے لگتا… ہاں لوگو!… مجھے حضرت عمیر بن عدی رضی اﷲ عنہ یاد
آرہے ہیں… کاش میرے ہونٹ ان کے قدموں کا بوسہ لے سکتے… مگر کہاں ہم اور کہاں وہ؟…
اور مجھے سات سو شہداء نظر آرہے ہیں… جنہیں دیکھ کر آسمان بھی جھوم اٹھا ہوگا… وہ
سب بنوحنیفہ کے ایک باغ کے اردگرد اور اس کے اندر کٹے پڑے ہیں… اور حضرت صدیق اکبر
رضی اﷲ عنہ کے آنسو انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں… کون کون تھا ان میں؟… نام
گنواؤں تو دل پھٹنے لگے… اور مجھے… اپنی اماں ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی یاد آرہی
ہے… میری پیاری ماں… امت مسلمہ کی پیاری ماں ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا… اور میری
آنکھوں کے سامنے عزت وعظمت … غیرت وحمیت کا ایک اونچا مینار ہے… حضرت خبیب رضی اﷲ
عنہ… یہ سب لوگ بہت حسین تھے… بہت خوبصورت … اور بے انتہا خوش قسمت… یا اﷲ! ہمارا
حشر بھی ان کے قدموں میں کرنا… ان سب کو یہ بلند رتبہ اور حسن کا اعجاز… اس لیے
ملا کہ … یہ سارے لوگ… عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم میں ڈوبے ہوئے تھے… محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم کا عشق… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے
میں ان کی غیرت… مسیلمہ کذاب کوئی معمولی آدمی نہیں تھا… بنو حنیفہ کے چالیس ہزار
خوفناک جنگجو اس کے گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے تھے… اس نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کی… دستار ختم نبوت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو … مسلمانوں میں غیرت وحمیت کا
سونامی پھٹ پڑا… حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کس طرح ایک لمحہ کیلئے آرام کرتے… حضرت
خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی تلوار کو کیسے چین آتا… مصلحت اور روشن خیالی کے مردار
پر بیٹھے ہوئے گدھ کیا جانیں کہ… عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کیا تقاضے ہیں؟…
میرا یقین ہے کہ جب بھی ختم نبوت کی اعلیٰ دستار کی طرف… کوئی ناپاک ہاتھ اٹھتا ہے
تو… آسمان وزمین میں لرزہ طاری ہوجاتا ہے… اسی لیے تو آج تک کوئی جعلی نبی نہیں چل
سکا… بلکہ منکرین ختم نبوۃ کے خلاف… آسمان وزمین کے عشاق جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل
کھڑے ہوتے ہیں… قرآن مجید کے سات سو حافظ صحابی کٹ گئے…مدینہ منورہ خالی ہوگیا…
مگر سبز گنبد کی حرمت پر آنچ نہ آئی… بنی حنیفہ کا غرور اور ان کا جھوٹا نبی خاک
وخون میں ملادیا گیا… آج اگر میری اداس آنکھیں ان شہیدوں کی عظمت پر آنسو بہارہی
ہیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے… ادھر ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا کو دیکھیں… ان کے
والد ابو سفیان… جب مسلمان نہیں ہوئے تھے… مدینہ منورہ آگئے… ام حبیبہ رضی اﷲ
عنہا… ان کی بیٹی تھیں… سوچا ان کے پاس کام بن جائے گا… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
کے اس حجرے میں پہنچے جو اماں جی کیلئے وقف تھا… زمین پر ایک ٹاٹ کا بستر تھا… یہ
تھا میرے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے انوار لوٹنے والا بوریہ…
ابوسفیان اس پر بیٹھنے لگے… بیٹی نے بستر الٹ دیا… ابوسفیان نے کہا… بیٹی میں عرب
کا سردار ہوں… تمہیں یہ معمولی بستر میرے شایان شان نظر نہیں آیا ہوگا… اس لیے تم
نے اسے ہٹادیا… اماں جی نے پتہ ہے کیا فرمایا؟ … سنو عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے
غفلت کرنے والو… سنو! قادیانیوں کو اپنی آنکھوں پر بٹھانے والو… سنو… مرتدین کیلئے
حرمین کا راستہ کھولنے والو… سنو… میری اماں کی بات سنو… فرماتی ہیں… یہ بستر میرے
محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے… میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ … اس پر کسی ناپاک
مشرک کا جسم لگے… آج اگر کوئی قادیانی … پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ خالی ہونے کی
وجہ سے … مدینہ منورہ جا پہنچا اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل کو تکلیف پہنچی تو…
مجرم کون ہوگا؟… او پاسپورٹ جاری کرنے والو… اﷲ تعالیٰ سے ڈرو… دیکھو سبز گنبد
اداس اداس نظر آرہا ہے… کہاں گئے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویدار؟… یاد
رکھو… قادیانی ٹولہ… حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا دشمن ہے… اور جو میرے آقا
کا دشمن ہو … وہ کبھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا… قادیانی ذلت اور عذاب کا نشان ہیں…
جس نے بھی ان سے ہاتھ ملایا وہ … دنیا آخرت میں تباہ وبرباد ہوگیا… یہ سازشی ٹولہ…
اپنی بے حیائی… اور کفریہ طاقتوں کے سہارے… ہمیشہ مسند اقتدار تک راستہ ڈھونڈ لیتا
ہے… اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے انہیں گلے سے لگا کر…
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاتے ہیں… ایوب خان کے ارد گرد… یہی لوگ
جال بُنتے رہے… شہاب نامہ پڑھ کر دیکھ لیجئے… اور تو اور نواز شریف صاحب کا جب
تختہ الٹا جارہا تھا تو … اس وقت وہ مجیب الرحمن قادیانی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے…
قادیانیوں سے برطانیہ اور امریکہ کیوں محبت کرتے ہیں … اسی لیے کہ اسلام کے خلاف
ان سے زیادہ خوفناک اور کوئی ہتھیار ان کے ترکش میں نہیں ہے… آج پھر … قادیانی
ٹولہ… ایوان اقتدار میں اپنا اثر رسوخ جما چکا ہے… مگر یاد رکھنا… محمد عربی صلی
اﷲ علیہ وسلم کے وفادار عاشق… اب بھی کم نہیں ہیں… ہم بے عمل ضرور ہوگئے ہیں… مگر
رب کعبہ کی قسم بے غیرت نہیں ہوئے… اگر قادیانیوں نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہوتا تو
وہ کھل کر سامنے آتے… تم سے تو مسیلمہ کذاب کے پیروکار اچھے تھے… انہوں نے مسیلمہ
کو نبی مانا… پھر مکر اور سازش کرنے کی بجائے… تلواریں لیکر… اس کی تائید میں نکل
آئے… مگر تم تو دنیا کے بدترین… بزدل، مکار اور کمینے ہو… تم اس دنیا میں جب مرزا
قادیانی سے اپنے تعلق کا کھلم کھلا اعلان نہیں کرسکتے… تو بتاؤ… آخرت میں تمہارا
کیا بنے گا؟… تمہیں یہودیوں کی طرح ہمیشہ کافروں کے سہارے کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟…
او ظالمو! باز آجاؤ… مذہبی منافرت نہ پھیلاؤ اور امت مسلمہ کے جذبات سے نہ کھیلو…
آج اگر یہ زمین تم پر کچھ کھلی ہے تو یاد رکھو… رات کے بعد دن ضرور نکلتا ہے…اور
تم نے جس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کو چیلنج کیا ہے… ان کے ماننے والوں کی بہادری،
غیرت… اور جذبہ شہادت مسلَّم ہے…
میں قادیانیت کو … عصماء
یہودیہ کے روپ میں دیکھتا ہوں… مدینہ کے پڑوس میں رہنے والی… ایک بے حیاء بدزبان…
اور بدچلن عورت جس نے اسلام کو گالیاں دیں… اور نعوذباﷲ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
کی شان اقدس میں گستاخی کا جرم کیا… بدکار ہمیشہ با اثر ہوتے ہیں… اونچے ایوانوں
تک جلدی پہنچتے ہیں… اوباش لوگوں میں مقبول ہوتے ہیں… جیسے آج قادیانیت… اور کل
عصماء یہودیہ… عصماء کی وجہ سے … بہت سارے لوگ اسلام سے دور تھے… اور اس کی
بدزبانی کے اسیر تھے… وہ حیض ونفاس والے ناپاک کپڑے… مسجد نبوی شریف میں ڈال کر…
اپنے دل کی بھڑاس نکالتی تھی… جب اس کی گستاخی حد سے بڑھ گئی… تب… ایک نابینا
صحابی… حضرت عمیر بن عدی رضی اﷲ عنہ نے… اس کا خاتمہ کردیا… تب اس کے قبیلے کے لوگ
جوق در جوق مسلمان ہونے لگے… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: عمیر رضی
اﷲتعالیٰ عنہ کو ضریر (نابینا) نہ کہو… یہ تو بصیر (دیکھنے والے) ہیں۔
اگر تم ایسے شخص کو
دیکھنا چاہو جس نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدد کی تو عمیر رضی اﷲ
عنہ کو دیکھ لو…
عصماء کے بیٹے اور رشتہ
دار… اسے دفن کر رہے تھے… حضرت عمیر رضی اﷲتعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے…
دھمکی کے انداز میں کہا… عمیر تم نے اسے قتل کیا ہے؟… حضرت عمیررضی اﷲتعالیٰ عنہ
نے سینہ تان کر فرمایا… ہاں!
فکیدونی جمیعاً ثم
لاتنظرون
’’تم سب میرے خلاف
سازش کرو اور مجھے مہلت نہ دو…‘‘
پھر ارشاد فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی
جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم سب مل کر وہی باتیں کہو جو یہ عورت بکا کرتی
تھی تو میں تم سب کو بھی اپنی اس تلوار سے جہنم رسید کرنا شروع کردوں گا۔ یہاں تک
کہ یا تو میں مرجاؤں گا اور یا تم سب کا صفایا کردوں گا‘‘… (سیرۃ حلبیہ)
فتنہ قادیانیت… آج کی
عصماء یہودیہ ہے… آج پاکستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے… اس
کے پیچھے قادیانیت کا ناپاک ذہن… کارفرما ہے… آج جو کچھ مجاہدین پر بیت رہی ہے… اس
کے پیچھے قادیانیت کا ہاتھ ہے… اور اب اسی فرقے کی فرمائش پر… پاسپورٹ سے مذہب کا
خانہ گُم… آخر کیوں؟… ابھی الحمدﷲ مسلمان زندہ ہیں… ختم نبوت ہمارا ایمان ہے… عشق
مصطفی ہماری جان ہے… قادیانیوں کے خلیفہ نے پاکستان کے ختم کرنے کی پیشین گوئی کی
ہوئی ہے… یہ سب کوششیں اور محنتیں … اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کیلئے ہیں… مگر
یاد رکھنا… قادیانیوں کیلئے… اور قادیانیوں کا ساتھ دینے والوں کیلئے… ناکامی اور
جہنم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے… میرا ایمان ہے کہ… ان شاء اﷲ… مذہب کا خانہ بحال
ہوگا… اور ہم گنبد خضراء کے سامنے… سرخرو ہوں گے… حکومت میں شامل… مسلمان… اگر اس
سلسلے میں کوشش نہیں کریں گے تو کس منہ سے … روضہ اقدس پر جائیں گے… یہ مسئلہ ان
شاء اﷲ ضرور حل ہوگا… لیکن اگر وقت نے اس خالی خانے کو بھرنے کیلئے … سرخ روشنائی
مانگی… تو… رب کعبہ کی قسم … مسلمان اس سے دریغ نہیں کریں گے… ہمارا خون اس کیلئے
حاضر ہے… شاید… اسی کی برکت سے… حضرت عمیر رضی اﷲ عنہ… اور سات سو شہداء ختم نبوت
کے قدموں میں… جگہ مل جائے اور ہمارا خون بھی… خوش نصیب ہوجائے… ہاں القلم کے
پڑھنے والے… بھائیو… اور بہنو… مجھے آج… حسن والے … بہت یاد آرہے ہیں… بہت محبت
سے… بہت شدت سے… …
تیرے دشمنوں
کے مجرم…
پاکستان میںجب خزاں کا
موسم شروع ہوا تو اس کی زد میں جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی آگئے جو پاکستان کے
ایٹم بم کے موجد اور قوم کے مخلص محسن ہیں۔ وہ اس وقت نظر بندی، خوف اور خطرے کی
زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اسلام اور پاکستان کے دشمن اس ملک میں دندناتے پھررہے
ہیں۔
مظلوم محسن کی یاد اور
شان میں چند آنسو چند آہیں۔
دیگر فوائد: (۱) بخاری شریف کے حوالے سے
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک عبرت آموز واقعہ (۲) پاکستان کے تریسٹھ فوجی
اڈے امریکہ کی گود میں کیسے چلے گئے۔
)۷صفر
المظفر ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۴مارچ
۲۰۰۵ء(
تیرے دشمنوں
کے مجرم…
اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت
فرمائے … وہ کس قدر غم اور درد کے ساتھ بول رہے تھے … میری طرح ممکن ہے آپ نے بھی
ریڈیو پر ان کی آواز سنی ہو۔ میں اکثر رات کو آٹھ بجے بی بی سی کی خبریں سنتا ہوں
… حالات سے باخبر رہنے کیلئے یہ ایک ایسی مجبوری بن چکی ہے … جسے نبھاتے ہوئے بی
بی سی کی بہت سی ناگوار باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں … بعض خبریں ٗ تجزیئے اور
پروگرام ایسے بھی ہوتے ہیں جنکو نہ سننے کے لئے ریڈیو وقتی طور پر بند کرنا پڑتا
ہے … اس رات جب ان کا ’’معافی نامہ‘‘ نشر کیا گیا تو میں اچھی طرح جاگ رہا تھا… بی
بی سی پر بس اسی خبر کا چرچہ تھا کہ پاکستان کے سابقہ ہیرو … ایٹمی سائنسدان …
پاکستان کے ایٹم بم کے بانی …ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج قوم سے … اپنے گناہوں کی
معافی مانگیں گے … آپ یقین کیجئے… یہ خبر سنتے ہی میرا دل صدمے سے دھڑکنے لگا…
تھوڑی دیر بعد …انگریزی میں ان کی آواز بلند ہوئی … خواتین و حضرات! …؟ … وہ معافی
مانگ رہے تھے اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے … شاید ہی کسی عزت مند ملک اور
غیرت مند قوم نے اپنے محسن کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو جو ہم نے …ڈاکٹر خان صاحب کے
ساتھ کیا … ان کی آواز میں ایک بجھی ہوئی آگ تھی … معلوم نہیں کیوں یہ آواز دِل کے
تاروں کو چھیڑ رہی تھی … اور سب سے عجیب بات یہ کہ مجرم جرم کا اقرار و اعتراف
کررہا تھااوراِدھر ہمارے دل میں ان کی محبت ٗ عقیدت اور عظمت بڑھ رہی تھی … میں
اکیلا تھا …کس کے ساتھ درد بانٹتا … تکیے کا شکریہ کہ اس نے آنسو بڑی صفائی سے چوس
لئے … اور میں نے خود کو مخاطب کرکے کہا … کتنا عظیم انسان ہے یہ شخص … کل تک اس
نے مسلمانوں کو ایٹم بم دینے کیلئے ٗامت مسلمہ کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے … اور
پاکستان کو محفوظ بنانے کیلئے … اپنی جوانی ٗ عیش اور امن کی قربانی دی… اور آج یہ
شخص اس ایٹم بم کو بچانے کیلئے … اپنی عزت قربان کررہا ہے … ہاں نظریاتی لوگ … اور
تاریخ کو روشن کرنے والے لوگ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں … نیند میری آنکھوں سے
دور بھاگ گئی… اور مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کے حسب حال ایک واقعہ یاد آگیا … صحیح
بخاری کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ایک مقدمہ
لایا گیا… دو عورتیں ایک بچے پر دعویٰ کررہی تھیں … ہر ایک کا اصرار تھا کہ بچہ اس
کا ہے … مختلف طریقوں سے سچ اور جھوٹ کو الگ کرنے کی کوشش کی گئی مگر … کامیابی نہ
ملی … حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا … ایک تیز دھار چھری لے آئو …چھری آگئی …
آپ نے فرمایا بچہ کاٹ کر … آدھا آدھا دونوں عورتوں میں تقسیم کردیا جائے … چھری کا
رخ بچے کی طرف ہوا تو ایک عورت تڑپ کر اٹھی … کہنے لگی حضرت! میں نے جھوٹ بولا تھا
یہ بچہ میرا نہیں ہے … آپ اسے دوسری عورت کے حوالے کردیجئے … یہ سنتے ہی دوسری
عورت کے چہرے پر خوشی کی قوس قزح پھیل گئی … حضرت نے فیصلہ سنایا کہ بچہ اسی عورت
کا ہے جو خود کو جھوٹا کہہ رہی ہے … اس بچے میں اسی عورت کا خون دوڑ رہا ہے اسی
لئے وہ اسے کٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی … جبکہ دوسری عورت جو مطمئن کھڑی رہی … اس نے
نہ تو بچے کے لئے کوئی قربانی دی … اور نہ اسے بچہ کٹنے کا کوئی درد ہوا … ہمارے
وہ حکمران جو باہر سے تشریف لائے ہیں وہ پھر باہر چلے جائیں گے … مگر ایٹم بم کا
درد تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہے … جنہوں نے ساری دنیا کو اپنا دشمن … صرف اسلام
اور ملک کی خاطر بنایا… اور اب جب ملک کے ایٹمی پروگرام پر آنچ آنے لگی تو انہوں
نے اسے بچانے کیلئے … خود کو مجرم کہا … اور قوم سے معافی مانگی … حالانکہ ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کا … صرف ایک جرم ہے کہ … ان کا تعلق ایک بزدل قوم سے ہے … انڈیا
والوں نے … ڈاکٹر عبدالکلام کو ملک کا صدر بنادیا … اور ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو
… ایک مجرم … آخر ہے کوئی پوچھنے والا؟… کل ہی جناب عزت مآب شیخ رشید صاحب کا بی
بی سی پر انٹرویو … سننے کے لائق تھا … وہ ڈاکٹر صاحب کا تذکرہ یوں کررہے تھے جس
طرح کسی چور یا ڈکیٹ کا کیا جاتا ہے… اور بار بار فرما رہے تھے ہم نے ’’اُس‘‘ کو
معافی دی … اُس نے یہ کیا … اُس نے وہ کیا … اس کی جگہ اگر لفظ ’’اُن‘‘ استعمال
کرلیا جاتا تو روشن خیالی کا کونسا غبارہ پھٹ جاتا … کم از کم ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کی اس ملک کے لئے خدمات آج کے وزیروں سے تو کچھ زیادہ ہی رہی ہونگی … مگر جب ملک
کے حکمران … اپنی عزت و ناموس کے خود سوداگر بن جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے … مجھے
معلوم ہے کہ … ڈاکٹر عبدالقدیر اگر چاہتے تو ماضی میں اپنی کوئی طاقتور تنظیم
بناسکتے تھے … ان کے پاس وسائل اور مقبولیت کی کمی نہیں تھی … وہ چاہتے تو اہم
ترین ملکی عہدے حاصل کرسکتے تھے … ماضی کے حکمران ان کی قدر پہنچانتے اور ان کی
قوت کو مانتے تھے … وہ چاہتے تو بیرون ملک ہی رہتے … اور دنیا بھر کے عیش و آرام
کے مزے لوٹتے مگر انہوں نے … پورے ملک کو اپنا وطن اور پوری قوم کو اپنی جماعت
سمجھا … ڈاکٹرصاحب ہم سب کے ہیرو بن کر رہے۔ اس لئے آج ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ … ہم
ڈنڈا بردار حضرات سے پوچھیں کہ آخر ڈاکٹر صاحب کا کیا جرم ہے؟ … اگر عالمی قوانین
کی بات کی جاتی ہے تو پھر … ہمارا ملک ہی کیا … دنیا کے تمام ممالک مجرموں سے بھرے
ہوئے نظر آئیں گے … اور یاد رکھیں … ہر ملک کی شان وہی مجرم ہوتے ہیں جو دنیا سے
ٹکرا کر اُس ملک کی حفاظت کرتے ہیں … کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ پاکستان کس نے
بنایا؟ … ایک ہی جواب ملے گا کہ انگریزی حکومت کے مجرموں اور باغیوں نے یہ ملک
بنایا … اگر اس وقت بھی انٹرنیشنل قوانین کا احترام کیا جاتا تو یہ ملک کسطرح بنتا
… انگریز پونے دو سو سال سے برصغیر کا قانونی حکمران تھا … ہمارے آج کے حکمران
طبقے کے آبائو اجداد … اس زمانے میں انگریز کی نوکری کرتے تھے … ہمارے بہت سارے
مسلمان انگریز کی فوج میں بھرتی تھے اور انگریز کی طرف سے لڑتے تھے … تب کچھ لوگوں
نے جرم اور بغاوت کا راستہ اختیار کیا تو یہ برصغیر آزاد ہوا … اس زمانے میں ان
لوگوں کو مجرم اور باغی کہا جاتا تھا … پھر کیا یہ بات کسی نے سوچی کہ اگر
انٹرنیشنل قوانین کا احترام کیا جاتا تو خود ہمارا ایٹم بم کس طرح سے بن سکتا تھا
… بہت کچھ باہر سے لایا گیا … بہت کچھ مختلف طریقوں سے چرایاگیا … تب ہم ایک ایٹمی
ملک بنے … ہمارے آج کے روشن خیال ٗ امن پسند حکمرانوں کو چاہئیے کہ قبریں کھود کر
پرانے مجرموں کی ہڈیاں بھی امریکہ کے حوالے کریں … اور اگر کوئی بیساکھی یا وہیل
چیئر پر چل کر پھانسی کے پھندے تک پہنچ سکتا ہوتو … اہم ترین ملکی مفاد میں اسے
بھی ضرور لٹکایا جائے …
تاکہ … پاکستان محفوظ
ہوجائے … اور عالمی برادری کی آنکھوں کا تارا بن جائے مگر ایک بات ضرور سوچ لی
جائے کہ … آج اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا یہ جرم بتایا جارہا ہے کہ … انہوں نے
ایٹمی ٹیکنالوجی اور آلات ایران ٗ شمالی کوریا … اور لیبیا کو فراہم کئے … تو کل
اور بہت ساری فائلیں بھی کھل سکتی ہیں … ماضی میں ہم نے سوویت یونین کے خلاف اپنی
زمین استعمال کرنے دی … تب … سوویت یونین کے کئی نامی گرامی مجرم اور باغی ہمارے
ملک میں … عزت و شان کے ساتھ پھرتے تھے … اور یہیں سے اپنی بندوقیں بھر کر … سوویت
یونین کے خلاف لڑتے تھے … ریکارڈ کے چند کاغذ جلانے سے کام نہیں چلے گا … کسی دن
کرگل کی فائلیں بھی کھلیں گی … مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پانچ سال پہلے کئی بڑے
چھوٹے لوگ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر خود کو کرگل کا ہیرو کہتے تھے … مگر آج؟ … پھر
اگر اسی طرح کفر کے سامنے رکوع سجدے کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو مشرقی پنجاب میں
سکھوں کی تحریک … اور مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی تحریک کے سارے اوراق… جرم بناکر
کھولے جائیں گے … شیخ رشید صاحب! تب شاید آپکو بھی قوم سے معافی مانگنی پڑے …
1965ء اور 1971ء کے ہیرو … ابھی سارے دفن تو نہیں ہوئے … کچھ بیچارے برے حالات
دیکھنے کے لئے زندہ ہیں یہ سب بھی تو مجرموں کی فہرست میں آتے ہیں … کس کس کا
تذکرہ کروں … آج کے حکمرانوں نے تو اپنے ملک کی ہر سیدھی گردن کو جھکانے اور اپنی
عزت کے ہر نشان کو مٹانے کا عزم کر رکھا ہے …آج وہ لوگ ذلیل و رسوا ہیں جنہوں نے …
اس ملک کو ایٹمی دفاع کا تحفہ دیا … آج وہ لوگ دربدر اور رسوا ہیں جنہوں نے انڈیا
جیسے ظالموں کی گردن جھکائی اور جہادِ کشمیر کو حیاتِ نو بخشی … آج وہ لوگ پریشان
حال اور معتوب ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے سامنے اپنے جسموں کا بند باندھ کر
پاکستان کی حفاظت کی … کاش ہمارے حکمران صرف اتنا سوچ لیتے کہ … دنیا کا ہر ملک …
اپنے ان شہریوں کی قدر کرتا ہے … جو ملک کی حفاظت کی خاطر … بیرونی دنیا میں مجرم
کہلاتے ہیں … دراصل یہی لوگ ملک کی شان … اور اس کی حفاظت ہوتے ہیں … امریکہ کے وہ
ایجنٹ جنہوں نے … دنیا کے تیس سے زائد ممالک میں امریکہ کے لئے … تخریبی
کارروائیاں کیں … امریکہ کے معزز ترین … اور محفوظ ترین لوگ ہیں … حالانکہ … یہ
لوگ دوسرے ملکوں کے مجرم اور مطلوب ہیں … خود انڈیا نے پاکستان کے خلاف کیا کچھ
نہیں کیا … بنگال کی تحریک کس نے چلائی؟ … پاکستان میں لسانی تعصب کی آگ لگائی …
سارک کے تقریباً تمام ممالک میں اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے من مانی کارروائیاں
کیں … انڈیا کی یہ تمام تخریبی خدمات سرانجام دینے والے ایجنٹ … آج وہاں محفوظ و
معزز ہیں … بلکہ دنیا کے تمام ممالک … اپنے ان مجرموں کو صاف ستھرا کرنے کیلئے حکومت میں شامل کرتے ہیں
… اور تاحیات ان کے ممنون رہتے ہیں … مگر ہمارے ہاں کا … دستور یہ ہے کہ’’ مِیرا‘‘
تو ملک کی وفادار اور خدمت گزار … اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور مجاہدین … اس ملک
کے دشمن … ایسا تبھی ہوتا ہے جب ملک میں غیروں کا عمل دخل حد سے بڑھ گیا ہو … اور
بزدلی کی چربی میں ملّی اور ملکی غیرت دفن ہوچکی ہو … ماضی میں ڈاکٹر عبدالقدیر
خان … ملک اور حکومت کا حصہ تھے … انہوں نے ان دنوں جو کچھ کیا … اس وقت وہی ملکی
اور حکومتی پالیسی تھی … ایٹمی راز بہت عرصہ ہوا کہ … کسی ناکتخدا دوشیزہ کی آبرو
نہیں رہے یہ تو وہ طوائف ہے … جو سربازار سالہا سال سے بِک رہی ہے … آج ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کی جان کے پیچھے پڑنے والے اُسوقت خاموش کیوںرہے جب روس کے ایٹمی
سائنسدان ٹماٹر اور پیاز کے بھائو … فروخت ہورہے تھے … سوویت یونین کے گم شدہ
ایٹمی مواد کا کیا بنا؟ … اسرائیل کوایٹم بم اور اس کی مکمل ٹیکنالوجی کس نے فراہم
کی؟ … بھارت نے یہ سب کچھ کہاں سے حاصل کیا؟ … ایران … اور …لیبیا کے اعتراف جرم
کے بعد … شمالی کوریا نے بھی ایٹم بم رکھنے کا اعلان کردیا ہے … یہ درست … مگر
جنوبی کوریا کو یہ ٹیکنالوجی کس نے دی؟ … بہت سارے سوالات ہیں جنہیں اُٹھایا
جاسکتا ہے … اور بہت سارے حقائق ہیں جنہیں سینہ تان کر قبول کرکے ملک اور اس کی
آبرو کوبچایا جاسکتا ہے … مگر جھکنے کا سلسلہ رُکے تو اِن باتوں پر غور کیا جائے
کہ… آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزام ہے کہ اُنہوں نے ملک کے ایٹمی راز بیچے … کل
اگر یہ الزام اٹھایا گیا کہ … کچھ لوگوں نے اس پاک ملک کے تریسٹھ فضائی اڈے امریکہ
کو … چند ڈالروں کے عوض بیچ ڈالے تھے تاکہ وہ … افغانستان کے مسلمانوں پر بمباری
کرے … تو … اس الزام کا کیا جواب ہوگا؟ امریکہ کے سابق فوجی سربراہ جنرل ٹومی
فرینکس … اپنی خود نوشت سوانح عمری میں … یہ بات برملا لکھ چکے ہیں … ایران اور
شمالی کوریا کو … کاغذ کے چند ٹکڑے … اور دوچار الیکٹرونک سوئچ دینا … ملکی جرم …
اور امریکہ کو ملک کے تریسٹھ فوجی اڈے دینا … ملکی خدمت … یہ بات ہماری ناقص سمجھ
میں تو نہیں آسکی … انڈیا کے میزائل پروگرام کے بانی … ڈاکٹر عبدالکلام … کرسی ٔ
صدارت پر … اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی … ڈاکٹر عبدالقدیر خان بے بسی کے
ساتھ نظر بند … میں کیا کروں … یہ دیکھ کر میرے دِل میں درد اُٹھتا ہے … اور میری
آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں … اگر یہی ملکی مفاد … اور قومی خدمت ہے تو … آگے دیکھیں
کیا ہوتا ہے؟ … یا اللہ … تو ہی … مسلمانوں پر رحم فرما … اور مسلمانوں کو توفیق
عطاء فرما کہ … وہ … اُن اللہ کے بندوں کی قدر کریں … جو … اسلام اور مسلمانوں کی
خاطر مجرم بن چکے ہیں … مطلوب … مجرم … یا اللہ تیرے نہیں … تیرے دشمنوںکے مجرم …
انتہاپسندی
کی …ایسی تیسی…
مجاہدین ظاہری طور پر کچھ
کمزور پڑے تو بزدل اور مفاد پرست لوگوں نے خودکو عقلمند، دانشمند اور پتہ نہیں کیا
کچھ سمجھنا شروع کردیا۔ حالانکہ ہر ایک اس بات کو جانتا ہے کہ ہماری حکومت نے
امریکہ کا ساتھ صرف خوف، ڈر اور مالی مفاد کے لئے دیا تھا۔ اس وقت ’’جان بچاؤ‘‘ کے
سوا کوئی نظریہ ان کے پیش نظر نہیں تھا مگر جب انہیں ظاہری کامیابی ملی تو وہ
سرکشی پر اتر آئے اور صبح شام رات دن دیندار مسلمانوں کو ستانے لگے اور فخر سے بار
بار یہی بات دہرانے لگے کہ ہم انتہا پسندی کو ختم کرکے دم لیں گے۔ اس بات پرانہیں
گورے کافروں نے تھپکی دی تو وہ خوشی سے بے حال ہوگئے۔ پھر کیا تھا۔ نہ صبح دیکھتے
نہ شام بس ہر وقت، ہرجگہ ایک ہی بات، کون سی بات؟ اگلا صفحہ کھولئے۔
)۱۴صفر
المظفر ۱۴۲۶ھ
بمطابق۳۱مارچ
۲۰۰۵ء(
انتہاپسندی
کی …ایسی تیسی…
اﷲ تعالیٰ نے طرح طرح کے
خطباء پیدا فرمائے ہیں… ماضی اور حال کی تاریخ ان خطیبوں کے واقعات سے بھری پڑی
ہے… یہ بات تو طے ہے کہ … تقریر کرنا… ایک آسمانی نعمت ہے… کچھ لوگ اس نعمت کا
صحیح استعمال کرتے ہیں… جبکہ بعض بھٹکتے اور بھٹکاتے ہیں… ماضی میں ایسے خطباء بھی
گزرے ہیں… جو ہر دن نئی تقریر لاتے تھے… اور ہر مجمع کے مطابق نیا خطاب سناتے تھے…
اور ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے چند تقریریں یاد کرلیں … اور پھر مرتے دم تک انہیں
کا گھوٹا لگاتے رہے… ایسے خطباء بھی گزرے ہیں جو بہت بولتے تھے… اور ایسے بھی تھے
جو مختصر بات سے کام چلا لیتے تھے… ایک صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے خوب
محنت کرکے… شہادت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ … کا موضوع یاد کرلیا… بس پھر کیا تھا
خوشی ہو یا غمی… گرمی ہو یا سردی… نکاح ہو یا جنازہ… افتتاح ہو یا اختتام… وہ موقع
کی مناسبت سے چند نئے الفاظ جوڑ کر پھر اپنے اصل موضوع کی طرف گھوم جاتے… اور اپنا
رٹا ہوا مواد عوام کے کانوں میں انڈیل دیتے… سنا ہے کہ ایک بار ان کے خلاف سازش
ہوئی… حاسدین نے ان کی جہالت کا پردہ چاک کرنے کیلئے جلسہ کا موضوع متعین کردیا…
اور یہ بات لازم ٹھہری کہ صرف سورۂ فاتحہ… کے معارف پر بات ہوگی… خطیب صاحب نے
تقریر شروع کی… حاسدین کو معلوم تھا کہ وہ آج کے موضوع کا حق ادا نہیں کرسکیں گے…
چنانچہ وہ دل ہی دل میں خوش تھے… خطیب صاحب نے فرمایا… میرا آج کا موضوع آپ سب کو
معلوم ہے سورۂ فاتحہ… سورۂ فاتحہ کیا ہے؟… یہ قرآن کی سورت ہے… قرآن پاک کیا ہے؟…
یہ وہ آسمانی کتاب ہے جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی… اور حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم کون ہیں؟… حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے نانا… ہائے سیدنا حسین رضی
اﷲتعالیٰ عنہ… یہاں پہنچ کر خطیب صاحب کی تقریر اپنی اصل اور مخصوص پٹڑی پر چڑھ
گئی… آج کل ہم سارے مسلمان… کچھ اسی طرح کی تقریروں کا نشانہ ہیں… میرے دوست
’’بھائی خیال جی‘‘ نے موجودہ حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ایک دلچسپ… کہانی گھڑی
ہے… لیجئے آپ بھی یہ عبرت آموز… من گھڑت کہانی پڑھئے… اور اس زمانے کے مسلمانوں کی
قسمت پر ناز کیجئے…
خیال جی کی کہانی
میں کالج میں پڑھتا ہوں…
میرے اساتذہ اور دوستوں کاخیال ہے کہ میں… بہت باتونی ہوں… حالانکہ… ایسا نہیں ہے
بس میرے دل میں جو کچھ آتا ہے… میں اسے عقل کے سنسر بورڈ سے گزارے بغیر… زبان پر
لے آتا ہوں… اب کون ہر بات کو عقل پر پرَکھے؟… اگر ایسا کریں تو خاموش رہ رہ کر
گلا خشک ہوجائے… بہر حال میرے زیادہ بولنے سے … اور ہر بات بول جانے سے سبھی
پریشان تھے… بلکہ سچ بتاؤں تو مجھ سے اچھی خاصی نفرت کرتے تھے… اچانک شہر میں کچھ
ایسے واقعات ہوئے کہ ہمارے پرنسپل صاحب نے … دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ختم کرنے
… اور روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا… انہوں نے اپنے
شاگردوں سے تعاون کیلئے کہا تو میں نے خوب بڑھ چڑھ کر… اپنی خدمات پیش کردیں…
پرنسپل صاحب پہلی بارمجھ سے خوش ہوئے… انہوں نے مجھے گلے سے لگایا… اور آنکھوں میں
آنسو بھر کر… مجھے حکم دیا کہ … بس اب تم ہاتھ دھو کر … دہشت گردی… اور انتہاپسندی
کے پیچھے پڑ جاؤ… نہ رات دیکھو نہ دن… نہ گرمی کی فکر کرو نہ سردی کی… بس ہر حال
میں اور ہر جگہ تم ان دونوں کے خلاف شہر کے لوگوں کا ذہن بناؤ… تم زیادہ بولتے تھے
اور ہمیں اچھے نہیں لگتے تھے… مگر اب تمہارے بولنے کی صلاحیت کا امتحان ہے… مجھے
معلوم ہے کہ … ہر جگہ ایک ہی موضوع پر بولنا بہت مشکل کام ہے… مگر مجھے امید ہے کہ
تم ہر جگہ کے مناسب اپنے موضوع کے لئے بات بنالو گے… میں جانتا ہوں کہ ایک ہی بات
کو ہر مقام پر کہنا کافی شرمندگی کی بات ہے مگر تم ہماری خاطر… یہ شرمندگی سہہ
لینا… مجھے علم ہے کہ … لوگ اُکتا جائیں گے … مگر تم اُنھیں اُکتانے نہ دینا…
پرنسپل صاحب کی یہ ساری نصیحتیں پوٹلی میں باندھ کر … میں میدانِ عمل میں اتر چکا
ہوں… اب ہر مجلس میں میرا یہی موضوع ہے… اکثر جن مقامات پر میں تقریر کرنے جاتا
ہوں وہاں اپنے ’’مخصوص موضوع‘‘ سے متعلق بات کرنا میرے لیے آسان ہوتا ہے… البتہ
بعض مقامات پر کچھ مشکل بھی ہوتی ہے… مگر پرنسپل صاحب کی دعاؤں کی برکت سے میں
وہاں بھی بات بناہی لیتا ہوں… کچھ دن پہلے ہمارے شہر میں… ایک نیا ’’ پی سی او‘‘
کُھلا… لوگوں نے سمجھا ٹیلی فون کا افتتاح ہے میں شاید اپنا موضوع بھول جاؤں… مگر
ایسا نہیں ہوا… میں نے جاکر کہا… ٹیلی فون کے ذریعے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا
خاتمہ ہوگا… کیونکہ… فون کی وجہ سے معاشی استحکام آئے گا… اور غربت ختم ہوجائے گی…
جب غربت ختم ہوگی تو انتہاپسندی اور دہشت گردی ختم ہوجائے گی… لوگ میری بات کو
سمجھے یا نہیں مگر انہوں نے خوب داد دی… اور خوب تالیاں بجائیں… ایک مخالف نے
تقریر کے دوران پرچی بھجوائی کہ… دنیا کا مشہور دہشت گرد اور انتہاپسند… اسامہ بن
لادن … اربوں پتی شخص کا بیٹا ہے… میں نے مسکرا کر پرچی جیب میں ڈال لی کہ … فضول
باتوں کا جواب کون دے؟… ابھی کچھ دن ہوئے… ہمارے محلے میں ایک بیوٹی پارلر کھلا…
مجھے افتتاح کے موقع پر بلایا گیا… یہاں تو میں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے
بخیے ادھیڑ کر رکھ دئیے… میں نے کہا عورتیں جس قدر زیادہ بھڑکیلا میک اپ کرکے
نکلیں گی… اسی قدر دہشت گردی اور انتہاپسندی ختم کرنے میں مدد ملے گی… یہاں پر میں
نے وہ دلائل دئیے کہ لوگ دنگ رہ گئے… اور روشن خیال عورتیں تو تالیاں بجا بجا کر
بے حال ہوگئیں… میں نے صاف لفظوں میں ان انتہا پسندوں کو خبردار کیا… جو اپنی
بیویوں کو غیر مردوں سے ہاتھ نہیں ملانے دیتے… میں نے کہا… یہی لوگ ہمارے شہر کی
ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں… اور میں نے لوگوں کو ان دہشت گردوں کے بارے میں بھی
بتایا جو … اپنی بیویوں کو پردہ کراتے ہیں… میں نے جذبات میں آکر کہا… اتنا مہنگا
میک اپ کرکے عورت گھر میں بیٹھ جائے… منہ ڈھانپ لے… یا صرف اپنے خاوند کو اپنا میک
اپ دکھاتی رہے… یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟… خیر تقریر خوب جمی اور دہشت گردوں…
اور انتہا پسندوں کے گھروں میں … خوف اور دہشت پھیل گئی… کیونکہ میں نے یہ بھی کہہ
دیا تھا کہ ہم … تم لوگوں کو بالکل ختم کردیں گے… میں جلسے سے واپس آیا تو … اچانک
پھجے نہاری والے کا فون آگیا… کہنے لگا نہاری کی نئی دکان کا افتتاح کرنا ہے… کافی
مجمع ہوگا… آپ نے تقریر کرنی ہے… میں نے وعدہ کرلیا… اور ساری رات سوچتا رہا کہ …
نہاری… اور دہشت گردی… سری پائے … اور انتہاپسندی… آخر کس طرح سے بات بنائی جائے…
خیر جلسہ گاہ پہنچنے تک میں نے دل ہی دل میں تقریر تیار کرلی… محترم حاضرین… نہاری
کی یہ دکان… دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گی… آپ
پوچھیں گے کس طرح؟ … تو سنیے کہ لذیذ نہاری… ہمارے اندر پیٹ اور ذائقے کی فکر پیدا
کرے گی… پیٹ کی فکر ہوگی تو … مولوی ہمیں قبر اور آخرت سے ڈرا کر انتہا پسند… دہشت
گرد نہیں بناسکیں گے… ہمارا بھائی پھجا نہاری میں مرچیں بہت ڈالتا ہے… انتہا پسند
جب یہ نہاری کھائیں گے تو پیٹ کے درد کی وجہ سے دہشت گردی نہیں کرسکیں گے… پھر اہم
بات یہ ہے کہ ہماری قوم اس وقت ترقی کرسکتی ہے جب وہ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر…
والا انتہاپسندی کا سبق بھول جائے… اور صبح سے شام تک … کچن ٹو باتھ روم کے چکر
لگائے… اور پھجے کی مرغن نہاری سے قوم جلد اس مقصد تک پہنچ جائے گی… میری یہ تقریر
سن کر لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں… اور حاسدین بغلیں جھانکتے رہ گئے… تقریر کے بعد
… پھجے نے مجھے بھی ایک پلیٹ کھلائی… میں نہاری کھا کر … واپس اپنے محلے میں پہنچا
تھا کہ … ’’ماسی بھولی‘‘… سے ملاقات ہوگئی… ماسی بھولی ہمارے محلے کی ایک بوڑھی
عورت ہے… سارا دن برقع سر پر رکھ کر … اِدھر اُدھرگھومتی رہتی ہے… بڑے بوڑھے بتاتے
ہیں کہ … جوانی کے زمانے سے ہی ’’مجذوب‘‘ ہے… اکثر الٹی سیدھی باتیں کرتی رہتی ہے…
البتہ کبھی کبھار کوئی کام کی بات بھی کرلیتی ہے… آج مجھے دیکھتے ہی رک گئی اور
کہنے لگی… آج کل بہت تقریریں کرتا پھرتا ہے… سنا ہے کالج اور شہر میں تیری بڑی عزت
ہے… مگر ایک بات بتا… میں نے کہا ماسی کیا پوچھتی ہے؟… کہنے لگی تو ہر جگہ کہتا
پھرتا ہے کہ دہشت گردی… اور انتہاپسندی کو ختم کردے گا … کیا تو نے کبھی یہ بھی
سوچا کہ … اگر یہ لوگ واقعی ختم ہوگئے تو خود تیرا کیا بنے گا؟… تیری ساری عزت تو
انہیں لوگوں کے صدقے ہے… تجھے جو کچھ ملا انہیں کی وجہ سے ملا… تجھے تو اپنے گھر والے
بھی نہیں جانتے تھے… اور محلے والے بھی نہیں مانتے تھے… اب سارے شہر میں تیری واہ
واہ… انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی وجہ سے ہے … پُتّر ان کا شکریہ ادا کر… اور
ان کو زیادہ نہ ستا… ماسی بھولی نے برقع سر پر ڈالا … اور تیزی سے ایک طرف چل پڑی…
میں نے کہا… ماسی کا دماغ تو پہلے ہی خراب تھا اب لگتا ہے کہ … یہ بھی انتہا پسند
بن چکی ہے… خیر میری تقریریں اسی طرح چلتی رہیں… اخبارات والے تو اتنے ماہر ہوگئے
ہیں کہ ہر صحافی… میرے جلسے میں آنے سے پہلے… اپنے نیوز ایڈیٹر کو میری تقریر کا
ابتدائی حصہ لکھ کر دے آتا… اور کہہ آتا کہ … اس کی کتابت کروا کر رکھ لیں… البتہ
جو نئے دلائل سامنے آئیں گے وہ ’’بقیہ‘‘ میں لگادیں گے… زندگی کے دن اسی طرح مزے
میں گزر رہے تھے… پرنسپل صاحب بھی خوش تھے کہ ایک دن اچانک ایک امتحان آپڑا… ہمارے
شہر کے مضافات میں ایک چھوٹی سی نہر بہتی تھی… کافی عرصہ ہوا کہ بند ہوگئی… اب
حکومت نے اسے دوبارہ جاری کرنے کا پروگرام بنایا… بھل صفائی کی مہم چلی اور نہر کے
دوبارہ افتتاح کا اعلان ہوگیا… پرنسپل صاحب نے مجھے فون کرکے بتایا کہ تم نے اس
موقع پر تقریر کرنی ہے… اور اپنے خاص موضوع کو خوب اجاگر کرنا ہے… اور سنو لوگ نثر
میں تقریر سن سن کر تنگ آچکے ہیں… اس لیے کچھ شعر وغیرہ بھی بنا لاؤ تاکہ … ہمارے
موضوع میں جان پڑے… پرنسپل صاحب نے تو حکم دے کر فون بند کردیا… مگر میں اس مشکل
میں پھنس گیا کہ شعر کس طرح کہوں؟… میرے بڑوں نے بھی کبھی شاعری نہیں کی… پھر
دوسری بات یہ کہ … ایک چھوٹی سی نہر کے افتتاح میں… دہشت گردی … اور انتہاپسندی کے
بھاری موضوع کو … کس طرح جگہ دوں… رات کو سب سو رہے تھے اور میں اسی پریشانی میں
کروٹیں بدل رہا تھا… کبھی سوچتا کہ یہ کہوں گا کہ … نہر بنانے سے غربت ختم ہوگی…
اور جب غربت مٹے گی تو … دہشت گردی اور انتہاپسندی بھی ختم ہوجائے گی… مگر دل سے
آواز آئی کہ یہ بات تو میں اتنی بار کہہ چکا ہوں کہ اب خود مجھے شرم آنے لگی ہے…
لوگ پوچھتے ہیں کہ غربت تو مٹ نہیں رہی… پھر خیال آیا کہ یہ کہوں گا کہ نہر سے
کھیتوں کو پانی ملے گا … اس پانی کی وجہ سے کھیتوں میں کیچڑ ہوجائے گا… جب بھی
کوئی انتہا پسند دہشت گرد بھاگنے لگے گا تو اس کیچڑ میں پھسل کر گر جائے گا… اور
پولیس اس کو پکڑ لے گی… یوں نہر کے ذریعے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ
ہوجائے گا… مگر یہ تقریر بھی دل کو نہ لگی… لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ … دہشت گرد تو
کافی تربیت یافتہ ہوتے ہیں… جبکہ پولیس والے کم تربیت یافتہ… اگر پولیس والے پھسل
گئے تو پھر کیا ہوگا؟… خیر رات کو سوچتے سوچتے سوگیا… دوپہر کو اٹھ کر… جلسہ گاہ
کی طرف روانہ ہوا تو … راستے میں تقریر بھی تیار ہوگئی… اور شعر بھی… ( اگرچہ بے
وزن)… میں نے کہا… میرے پیارے حاضرین… خواتین وحضرات… ہمارے شہر کی خوش قسمتی ہے
کہ… یہاں یہ نہر جاری ہورہی ہے… اس نہر کے ذریعے دہشت گردی… اور انتہاپسندی کا
خاتمہ ہوگا… اور … روشن خیالی… اور اعتدال پسندی کو فروغ ملے گا… لوگوں نے میری
بات سن کر خوب تالیاں بجائیں… اور پوچھا … ایسا کس طرح ہوگا؟… میں نے مخصو ص انداز
میں ہاتھ ہلا کر کہا… یہاں لڑکے اور لڑکیاں … عورتیں اور مرد اکٹھے نہانے آئیں گے…
اس سے اعتدال پسندی کو فروغ ملے گا… اور جو جتنے کم سے کم لباس میں برسرعام نہائے
گا… اسی قدر روشن خیالی پھیلائے گا… انتہاپسندی اور دہشت گردی… گرمی اور غصے سے
پیدا ہوتی ہے… جب انتہا پسند… اور دہشت گرد… بار بار اس نہر میں نہائیں گے… اور
مخلوط ماحول کو چھپ چھپ کر دیکھیں گے تو وہ بھی… ماڈریٹ ہوجائیں گے… لوگوں نے یہ
دلائل سنے تو خوب تالیاں بجائیں… اور پھر چیخ چیخ کر کہنے لگے… آج کی تقریر میں
شعر سنانے کا وعدہ تھا… وہ پورا کریں… میں نے فاتحانہ انداز میں گردن اٹھائی… پورے
مجمع پر نظر ڈالی… اپنی کانپتی ٹانگوں کو سنبھالا… اور اپنی زندگی کا پہلا شعر …
سنا ڈالا…
نہر چلے گی
جیسی تیسی
انتہا پسندی
کی ایسی تیسی
گنبد خضرا
کو سلام
پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ بحال ہوا،
گنبد خضراء اور اس کے پروانے عاشق جیت گئے۔ یہ کتنی بڑی خوشی تھی۔ دل بے اختیار
پکار اٹھا!
گنبد خضراء کو سلام۔
)۲۱صفر
المظفر ۱۴۲۶ھ
بمطابق۷اپریل
۲۰۰۵ء(
گنبد خضرا
کو سلام
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے
ایک بار افریقہ جارہا تھا … ان دنوں دینی کام کے سلسلے میں اس طرح کے اسفار …
الحمدللہ … آسان تھے… سفر بہت لمبا تھا اور جہاز نے مسلسل سات گھنٹے اڑنا تھا…
اکثر سیٹوں پر لوگ موجود تھے… جبکہ بعض سیٹیں خالی بھی تھیں… مجھے اس بوئنگ طیارے کی
…درمیانی قطار میں نشست ملی تھی… ابھی سفر کو ایک آدھ گھنٹہ ہی گذرا تھا کہ مجھے
اپنی دائیں طرف والی قطار سے ایک آواز مسلسل سنائی دینے لگی… یوں لگتا تھا کہ کوئی
آدمی اردومیں تقریر کررہا ہے… پہلے تو میں نے خاص توجہ نہ دی اور مطالعے میں مگن
رہا… مگر پھر اس آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا… اب میں نے غور سے سننا شروع
کیا… ایک چھوٹی سی خشخشی ڈاڑھی والا شخص … چند نوجوانوں کو کچھ سمجھا رہا تھا… میں
نے سمجھا دین کی دعوت چل رہی ہے… مگر چند جملے سننے کے بعد مجھے حقیقت ِحال معلوم
ہوگئی کہ یہ شخص قادیانی مبلغ ہے… اور ان نوجوانوں کو دینِ اسلام سے ورغلا رہا ہے…
اس نے انہیں اپنا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ … مجھے افریقہ میں جماعت کا
نیا سربراہ بناکر بھیجا جارہا ہے… چند ہی منٹ میں میرے لئے یہ سب کچھ ناقابل
برداشت ہوگیا … اب اس کی منحوس آواز میرے کانوں میں آگ کے انگاروں کی طرح اتر رہی
تھی … اور میرے جسم پر غصے اور افسوس کی وجہ سے ایک طرح کا لرزہ طاری تھا… میں نے
دیکھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تین نوجوان … اور اس سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے
چار نوجوان بہت غور سے اس کی باتیں سن رہے ہیں … اور وہ ’’ملعون‘‘ اپنی سیٹ پر
ترچھا ہوکر بیٹھا تھا تاکہ پیچھے والوں تک بھی اپنا زہر سپلائی کرسکے… چند منٹ کے
تردّد کے بعد میں بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا اور بالکل اس کے سر پر جاکر … نوجوانوں سے
مخاطب ہوکر کہنے لگا… میرے بھائیو! یہ شخص آپ کو گمراہ کررہا ہے… آپ روزی روٹی کی
خاطر اپنے گھر اور رشتہ داروں سے تو جدا ہو ہی رہے ہیں… مگر اپنے ایمان کی تو
حفاظت کرو… وہ شخص اور تمام نوجوان مجھے غصے سے دیکھنے لگے… مگر میں نے ان کے غصے
اور نفرت کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات جاری رکھی… اور کہا ہمارے آقا حضرت محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم … اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں… قادیانی ہمیں … ہمارے پیارے آقا صلی
اﷲ علیہ وسلم سے توڑنا چاہتے ہیں… اللہ کے لئے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں
میں سے نہ بنو… میں شدتِ جذبات سے بولتا چلا گیا… اور وہ نوجوان میری بات کا اثر
لینے لگے… قادیانی مربی نے جب کھیل بگڑتے دیکھا تو مجھے بحث میں الجھانے لگا… میں
نے الحمدللہ اس کے دلائل کا جواب دیا… مگر بات کا رخ ان نوجوانوں کی طرف رکھا …
میں نے کہا میں آپ کا بھائی … آپ کو خیر خواہی والا مشورہ دے رہا ہوں کہ … آپ اس
کی باتیں نہ سنیں… اس کا عقیدہ ہے کہ پنجاب کا مرزا قادیانی نعوذباللہ … نبی ہے
…یہ سنتے ہی وہ نوجوان کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرنے لگے… اور آپس میں کہنے
لگے … چلو یار دفع کرو اس کو پیچھے چل کر بیٹھتے ہیں… وہ نوجوان جانے لگے تو
قادیانی مربی نے … اپنے ترکش کا آخری اور سب سے کارگر تیر نکالا … وہ کہنے لگا …
میں نے آپ لوگوں کو شروع ہی میں بتا دیا تھا کہ ’’مولوی‘‘ نفرت پھیلاتے ہیں… انہوں
نے مسلمانوں کو توڑ رکھا ہے … میری اس بات کا زندہ ثبوت آپ نے ابھی دیکھ لیا… ہم
آٹھ مسلمان کتنی محبت سے بیٹھے تھے… یہ ایک مولوی آیا … اور آپ کو مجھ سے کاٹ دیا…
اور اب آپ لوگ جارہے ہیں… میں نے کہا … بھائیو بے شک میں نے آپ کو اس ’’قادیانی‘‘
سے کاٹ دیا ہے… مگر سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے تو جوڑ دیا ہے … جبکہ یہ ظالم
تو آپ کو سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم اور تمام امت مسلمہ سے توڑ رہا تھا … اللہ
پاک کا شکر ہے وہ تمام نوجوان اپنی ان سیٹوں سے اٹھ کر … اِدھر اُدھر خالی نشستوں
پر چلے گئے … اور افریقہ میں کفر کے جھنڈے گاڑنے کیلئے جانے والے … کفری پہلوان کو
… راستے ہی میں … ذلت ٗ رسوائی … اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا… نیروبی پہنچ کر اس
نے اپنے استقبال کیلئے آنے والے چیلوں کے ذریعے … مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی …
مگر اللہ تعالیٰ کی نصرت کہ میں … ختم نبوت کے پاکیزہ نشے میں مست اکیلا ان کے
درمیان سے بحفاظت گذر گیا…
آپ یقین کریں اس دن مجھے
… اس قدر خوشی ہوئی کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا… اللہ رب العالمین نے …
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سات امتیوں کو … کفر و نجاست کے خوفناک گڑھے میں گرنے سے
بچالیا … اور میں نے اپنے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک دشمن کو … ناکامی اور
ذلت کی خاک چاٹتے دیکھ لیا… کفر اور نفرت کا وہ سوداگر جب اپنی زبان منہ میں دبائے
خاموش بیٹھا تھا تو مجھے ایک طرح کا روحانی سرور محسوس ہورہا تھا… کل رات خبروں
میں سنا کہ الحمدللہ … حکومت نے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ بحال کردیا ہے تو پھر
ایک بار… بے انتہا خوشی ہوئی… یقیناً یہ گنبد خضراء کی جیت ہے … یقینا یہ میرے آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ہے … یقینا یہ اسلام کی فتح ہے … بعض لوگ
اس بات کو ’’معمولی‘‘ سمجھ رہے ہیں … ایسا ہرگز نہیں بلکہ … یہ ایک خوفناک مہم کا
نقطۂ آغاز تھا … بلکہ میں یوں کہتا ہوں کہ … یہ ایک خوفناک عذاب تھا جو ہمارے
سروں پر آکر الحمدللہ ٹل گیا … جس طرح حضرت یونس علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم کے
سروں تک عذاب پہنچ گیا تھا … مگر انہوں نے ایسی زبردست آہ وزاری کی… اور ایسی
مخلصانہ توبہ کی کہ وہ عذاب … اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ٹال دیا … یقیناً اہل
پاکستان کے سروں پر یہ ایک عذاب تھا … مگر … الحمدللہ خوب آہ وزاری ہوئی… اور قوم
بروقت بیدار ہوگئی … چند دن پہلے اسی موضوع پر جب میں ’’رنگ و نور‘‘ لکھ رہا تھا
تو … میں اس غم اور پریشانی میں زار و قطار رو رہا تھا کہ … اگر اس حالت میں موت آگئی
تو قیامت کے دن … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائوں گا؟… اس وقت دنیا
بھر کے کفر نے … اسلام کو مٹانے کے لئے … ختم نبوت اور جہاد پر نقب لگانے کا فیصلہ
کیا ہے… کچھ عرصہ پہلے … امریکہ کی موجودہ وزیرخارجہ … جو اس وقت بش کی سیکورٹی
ایڈوائزر تھی … کا بیان آیا تھا کہ … ہم نے مسلمانوں میں سے بعض فرقوں کو … طاقتور
بنانے کا فیصلہ کیا ہے … کیونکہ یہ فرقے ہمارے مقاصد کی تکمیل کرسکتے ہیں … اور
پوری مسلم قوم کو ہمارے کام کا بناسکتے ہیں… ہم زیادہ سے زیادہ اموال خرچ کرکے ان
کو قوت اور اقتدار دیں گے اور یوں … مسلمانوں کے اندر سے … امریکہ دشمنی کے اثرات
ختم ہوجائیں گے… صحافیوں نے پوچھا کہ ایسا کونسا مسلمان فرقہ ہے … جو یہ کام کرے
گا … اس نے کہا … احمدی … یعنی قادیانی … امریکہ کے اسی خوفناک منصوبے کا آغاز …
اس طرح کیا گیا کہ … پہلے قادیانیوں کو … عام قومی دھارے میں لایا جائے … اور
پاکستانی قوم کا عمومی حصہ بنایا جائے… چونکہ … 1973ء کے آئین کی روشنی میں …
قادیانی ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جا چکے ہیں… اس لئے پہلے اس رکاوٹ کو ختم
کرنا ضروری تھا … پھر جب قادیانی … عمومی دھارے کا حصہ بن جائیں گے تو انہیں …
پالیسی ساز حکومتی عہدوں تک پہنچایا جائے گا … اور جب یہ منحوس مرحلہ بھی طے
ہوجائے گا تو … پھر یہ قادیانی ٹولہ … پاکستان کو انڈیا میں ضم کردے گا … جو ان کا
پرانا خواب … اور دیرینہ مشن ہے… قادیانیوں کا خلیفہ بشیر الدین محمود یہ اعلان
پہلے ہی کرچکا ہے کہ …
’’ہم ہندوستان کی
تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ
کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہوجائیں‘‘ (روزنامہ الفضل قادیان 17 مئی 1947ء ثبوت حاضر
ہیں ص 848)
چناب نگر (ضلع جھنگ) میں
جہاں قادیانیوں کا مرکز ہے… اور انہوں نے اس کا نام ربوہ رکھا ہوا تھا … قادیانیوں
کے قبرستان میں … مرزا قادیانی کی بیوی نصرت جہاں بیگم … اور مرزا بشیر الدین
محمود کی بیوی … کی قبروں پر … درج ذیل بکواسات پر مبنی بورڈ نصب ہے:
’’ارشاد حضرت خلیفہ
المسیح ثانی‘‘
جماعت کو نصیحت ہے کہ جب
بھی ان کو توفیق ملے ٗ حضرت ام المومنین (نعوذباللہ) اور دوسرے اہل بیت کی نعشوں
کو مقبرہ بہشتی قادیان میں لے جاکر دفن کریں ٗ چونکہ مقبرہ بہشتی کا قیام اللہ
تعالیٰ کے الہام سے ہوا ہے۔ اس میں حضرت ام المومنین (نعوذباللہ) اور خاندان حضرت
مسیح موعود کے دفن کرنے کی پیشگوئی ہے۔ اس لئے یہ بات فرض کے طور پر ہے … جماعت کو
اسے کبھی نہیں بھولنا چاہئے…
آج کل انڈیا کے ساتھ …
خیر سگالی اور دوستی کے جو اقدامات کئے جارہے ہیں … ان کا حکم بھی … امریکہ اور
عالمی برادری نے صادر فرمایا ہے تاکہ آئندہ کے لئے میدان ہموار کیا جاسکے… پاکستان
کے عوام میں ویسے ہی … حکمرانوں کی نالائقی کی وجہ سے … ملک کے ساتھ نظریاتی محبت
… اور وابستگی کا فقدان ہے … سندھ میں علیحدگی کا ذہن ہے … اور وہاں اردو بولنے
والا جو طبقہ پاکستان کا شیدائی تھا … اس کو بھی … لسانی تعصب اور سیاست نے انڈیا
کا ہمنوا بنادیا ہے… اور وہ اپنے بزرگوں کی لاشیں اور ہندوئوں کی درندگی بھول کر …
الطاف حسین کے دلّی دورے پر بغلیں بجا رہے ہیں… بلوچستان میں شروع سے علیحدگی کا
رجحان ہے … پنجاب میں بسنے والی دو بڑی قوموں … پنجابی اور سرائیکی … کو بھی لسانی
بنیادوں پر … انڈیا کے قریب کیا جارہا ہے … صوبہ سرحد کی قوم پرست پارٹیاں پہلے سے
بھارت کی دوست ہیں … اور تو اور … پاکستانی آزاد کشمیر میں نوے فیصد لوگ علیحدگی
اور خود مختاری کے حق میں ہیں… حالانکہ مقبوضہ کشمیر کے پچاسی فیصد لوگ پاکستان سے
الحاق چاہتے تھے … ڈنڈے اور گولی کی سیاست نے پاکستان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا
کردیا ہے … اور وہ طبقہ اب مٹھی بھر رہ گیا ہے … جو پاکستان کو متحد اور سلامت
دیکھنا چاہتا ہے… ہر ملک کے خفیہ ادارے اس ملک کو مضبوط کرتے ہیں … جبکہ ہمارے
خفیہ ادارے … ظلم ٗ تشدد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے اپنی عوام کو
ملک کا دشمن بناتے ہیں … آدھا ملک ٹوٹ گیا … جبکہ باقی بھی لرز رہا ہے … ان حالات میں
قادیانیوں کو … اور آغاخانیوں کو … اس ملک میں قوت ٗ ترقی … اور بڑھاوا دینے کے
آخر اور کون سے معنی ہیں؟… امریکہ اور انڈیا کی مشترکہ خواہش ہے کہ … پاکستان نہ
رہے … سندھ اور پنجاب انڈیا کو دے دیئے جائیں … سرحد کو افغانستان کے حوالے کردیا
جائے… اور بلوچستان کو الگ ملک کا درجہ دے کر …سیکولر بلوچوں کے ہاتھ میں اس کا
اقتدار دے دیا جائے … سازشوں کی دیگ میں ابال تو پوری طرح آہی چکا ہے… بس اب دم
دینے کا انتظار ہے… ہمیں معلوم نہیں کہ
آگے کیا ہوگا؟…کافروں کی سازشیں کامیاب ہونگی … یاکوئی آسمانی معجزہ اس
پاک وطن کو بچالے گا… فی الحال تو ہمیں خوشی ہے کہ … سازش کی گاڑی کا ایک ٹائر…
پنکچر ہی نہیں ہوابلکہ پھٹ گیا ہے… مسلمان بوڑھے، بچے…جوان… عورتیں … اور مرد… سب
خوش ہیں کہ … انہوں نے اپنی زندگی میں قادیانیوں کو … اپنے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کے دشمنوں کو … عبرتناک شکست کھاتے دیکھ لیا ہے… کتنامزہ آیا ہوگا جب یہ خبر…
میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں نے سنی ہوگی… اور ان کے چہرے لٹک گئے ہونگے…
انہوں نے ایک دوسرے کو دل کھول کر گالیاں دی ہونگی… انہوں نے اس مسئلہ پر جومال
خرچ کیا تھا… اس پر حسرت کی ہوگی… اور ان لوگوں پرلعنت بھیجی ہوگی… جنہوں نے پیسہ
کھالیا اور کام پورا نہ کرسکے… بس… میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا
شکست کھانا… ذلیل ہونا… غمگین ہونا… اہلِ اسلام کو مبارک ہو… امریکہ کے دور حکومت
میں… ختم نبوت کی یہ عظیم الشان کامیابی مبارک ہو… خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان
محمد دامت برکاتہم العالیہ کی قیادت کو سلام…عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین…
اور پروانوں کو سلام… چنیوٹ کی خاک میں جنت کے مزے لوٹنے والے… میرے استاذ فاتح
قادیانیت، فدائے ختم نبوت… حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی … نوراللہ مرقدہٗ کو
…سلام … شاہِ قلم… محققِ ختم نبوت … حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہیدؒ کوسلام…
ان … بوڑھوں کوسلام جو بڑھاپے کی پرواہ کئے بغیر… سڑکوں پر نکلے … ان بہنوں اور
مائوں کو سلام… جنہوں نے اس مسئلہ پر آنسوبہائے اور دعائیں نچھاور کیں… ان
نوجوانوں کو سلام جنہوں نے … وقت کے تیور … اپنے گرم خون کے جوش سے بدل دیئے… اور
ہر اس منبر و محراب کو سلام… جہاں سے ختم نبوت اور جہاد کے زمزمے بلند ہوئے…
سازشیں چلتی رہتی ہیں… زمین اپنے رنگ اور نقشے بدلتی رہتی ہے… جو لوگ صرف سازشوں
کو… دیکھ کر … دل پکڑ بیٹھتے ہیں… وہ تاریخ کی دھول بھی نہیں بنتے… ہاں جو للکار
کر کہتے ہیں… تم سازش کرو… ہم بھی زندہ ہیں… وہی زندہ رہتے ہیں… اور تاریخ کو معطر
کر دیتے ہیں… جہاد کے خلاف کتنی سازش ہوئی؟… مگر آپ نے دیکھا … کچھ بھی نہیں
بگڑا… ہاں… اللہ پاک کی قسم کچھ بھی نہیں بگڑا… جہاد اور زیادہ پھیل گیا… اور
زیادہ طاقت ور … اورتوانا ہوگیا… اب ختم نبوت کے خلاف سازش ہوئی… مگر آپ نے
دیکھا… کس بری طرح سے دم توڑگئی … آج سعدی کے ہونٹ… پھر بے قرار ہیں… کاش خاکِ
مدینہ کا بوسہ نصیب ہوتا… مگر کہاں؟ … ہاں… میں بہت خوش ہوں… اللہ پاک کی قسم بہت
خوش… اور ڈرتے ڈرتے … شرماتے شرماتے … لرزتے لرزتے … عرض کررہا ہوں… آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کے پروانے… جیت گئے …اس لئے … گنبد خضراء … تجھے میرا… محبت بھرا…
آنسوئوں بھرا… سلام …سلام… سلام…!
پیارے حضر ت
…! بہت معذرت
امریکہ سے ایک عورت اٹھی،
اس نے اعلان کردیا کہ میں جمعہ کی نماز پڑھاؤں گی۔ میں مردوں کے آگے ان کی امامت
کراؤں گی۔ ایک شور اٹھا۔ ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا۔ ملحدوں نے خوب بغلیں بجائیں۔
تب سعدی کو اپنے مرشد حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحبؒ اور ان کی ایک پیشن گوئی یاد
آگئی۔
دیگر فوائد: (۱) حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی
نور اﷲ مرقدہ کی زندگی کے ایمان افروز، دلچسپ واقعات
)۲۸صفر
المظفر ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۴اپریل
۲۰۰۵ء(
پیارے حضر ت
…! بہت معذرت
اﷲ تعالیٰ اُسے آباد
رکھے… کراچی میں ایک بڑا دینی ادارہ ہے… جامعۃ العلو م الاسلامیہ علامہ بنوری
ٹاؤن… بلند پایہ مشہور محدّث… حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اﷲ مرقدہ نے اس
دینی ادارے کی بنیاد رکھی… میں نے خود امام کعبہ شیخ عبداﷲ السبیل کو حضرت بنوریؒ
کے بارے میں کہتے سنا… ہذا الرجل کان جبلاً فی الحدیث… یہ شخص علو مِ حدیث کے پہاڑ
تھے… حضرت بنوریؒ اپنے اس نورانی، علمی… اور اخلاقی مرکز کے لئے جو چاند ستارے
ڈھونڈ کر لائے… ان میں سے ایک … مفتی اعظم پاکستان… حضرت مولانا مفتی ولی حسن
ٹونکی نور اﷲ مرقدہ تھے… میں نے اپنی زندگی میں اتنا مستغنی شخص اور کوئی نہیں
دیکھا…وہ خود کو چھپا تے تھے مگر ہر ادا سے نکھرتے تھے… علم کا یہ حال تھا کہ
…حضرت بنوری ؒ کی زندگی میں بخاری اور ترمذی پڑھا تے رہے …اور ہدایہ ثالث کے تو
گویا امام مشہور تھے… جبکہ تفقہ کا یہ عالم تھا کہ … حضرت مفتی محمد شفیعؒ …حضرت
مفتی محمود ؒ…اور حضرت مفتی رشیداحمدؒ کے ساتھ مجالس علمیہ میں بٹھائے جاتے تھے…
پہلے تقریر کرنے سے گھبراتے تھے…بس سبق پڑھانا …فتویٰ کی پاکیزہ مسند کو رونق
بخشنا…اور اپنی بوڑھی والدہ کی مثالی خدمت کرنا…یہی ان کے مشاغل تھے …ایک بار
جنوبی افریقہ کی ایک مسجد میں …حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریانوراللہ مرقدہ کے
ساتھ اعتکاف بیٹھے تھے…انہوںنے جمعہ کے دن بیان کرنے کو فرمایا …حضرت مفتی صاحب نے
عرض کیا میں تو گونگا ہوں … حضرت شیخ الحدیثؒ نے فرمایا آپ ہی نے بیان کرنا ہے…
بس پھر کیا تھا اللہ تعالیٰ کا نام لے کر بیٹھ گئے … اس دن سے ایسا بیان شروع ہوا
کہ …سننے والے دنگ رہ جاتے…اور ایک بار تو وفاقی شرعی عدالت کے روبرو ایسا بیان
دیا کہ اسلام آباد کے ایوان لرز کر رہ گئے…اور بالآخر حکومت کو مقدمہ واپس لینا
پڑا …سادگی کا یہ عالم تھا کہ پیدل گھر سے تشریف لاتے …راستے میں ایک دیندار پٹھان
کا ہوٹل تھا… وہاں بیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے چائے نوش فرماتے…جب تک والدہ
محترمہ زندہ رہیں مہینے کا مکمل مشاہرہ انکی خدمت میں پیش کردیتے…اور ان سے بچوں
کی طرح روزانہ کا خرچہ لے آتے …اسی سادگی کو دیکھتے ہوئے بڑے بڑے شکاریوں نے اپنے
جال ڈالے …مگر جال پھینکنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ کس آسمان پر تھوکنے کی کوشش
کر بیٹھے ہیں…ایک بہت چابکدست ،چالاک اور مشہور عیسائی پادری نے آکر بحث میں
الجھانے کی کوشش کی… حضرت نے چند منٹ میں ہی نمٹادیا… وہ اسطرح کہ وہ بحث کو طول
دینے لگا تو…حضرت نے اپنے مخصوص اور سادہ الفاظ میں فرمایا…میں چھوٹا سا آدمی ہوں
آپ مختصر بتائیے کہ کیا چاہتے ہیں؟ …اس نے کہا مختصر یہ کہ آپ عیسائی ہوجائیں
…نجات پاجائیں گے…آپ نے فرمایا …حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے عقیدہ کے مطابق
سولی پر چڑھائے گئے …ان کا سولی چڑھنا کفارہ ہوگیا…یہ کفارہ تمام انسانیت کے لئے
ہے یا عیسائیوں کے لئے؟ …پادری نے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا…تمام انسانیت
کے لئے …حضرت نے مسکراکر فرمایا دیکھیں میں بھی انسان ہوں…اور میرے گناہوں کا
کفارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دے چکے ہیں تو مجھے عیسائی ہونے کی کیا ضرورت ہے؟…
وہ پادری فوراً کھسک گیا…جنرل ضیاء الحق علماء اور مشائخ سے محبت کا اظہار کرتے
رہتے تھے…ایک بار حضرت مفتی صاحب سے ملاقات میں کامیاب بھی ہو گئے …مگر اس کے بعد
… ان کی ہر کوشش ناکام رہی… انہوں نے حکومت کے کئی عہدے پیش کئے … مگر بقول حضرت
مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر …حضرت مفتی صاحب نے امام ابو حنیفہؒ کے استغناء کو
زندہ کردیا… پرکشش عہدوں کو ٹھکرانے کی ایک طویل … اور ایمان افزاء داستان ہے… مگر
حیرت اس پر نہیں کہ عہدے ٹھکرا دئیے… اس بات پر ہے کہ … کبھی اپنی اس صفت پر فخر
نہیں فرمایا …اور نہ کبھی زہد فروشوں کی طرح …اس استغناء کو اپنے ماتھے کا جھومر
قرار دیا…ہم نے اس بارے میں ادھر اُدھر سے بہت کچھ سنا …اور خود اپنی آنکھوں سے
…اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کو ان کے گرد منڈلاتے بھی دیکھا …مگر کبھی خود ان کی زبان
سے اس بارے میں کوئی لفظ بھی نہیں سنا…ہاں بے شک جو لوگ اللہ کے ہوتے ہیں …وہ ایسے
ہی ہوتے ہیں …اللہ تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور پھر اسی کے لئے سنبھال رکھتے
ہیں…ہمیشہ سفید لباس اور سفید ٹوپی …مگر ہاتھ میں کبھی گھڑی نہیں ہوتی تھی…پہلے
پہل خیال گذراکہ …جیب میں رکھتے ہونگے مگر پھر معلوم ہوا کہ وہاں بھی ندارد…اتنا
مشغول …اتنا محبوب اور اتنا مطلوب انسان اور ہاتھ میں گھڑی بھی نہیں…آپ جامعۃ
العلوم الاسلامیہ کے شیخ الحدیث تھے …بخاری کی دونوں جلدیں …اور ترمذی شریف مکمل
آپ کے زیر تدریس تھی …تخصص فی الفقہ الاسلامی کے آپ مشرف یعنی نگران تھے …یہ
دوسالہ کورس صرف فارغ التحصیل علماء کرام کے لئے ہوتاہے…اس میں وہ کسی فقہی موضوع
پر مقالہ لکھتے ہیں…یا دو سو مدلل فتوے لکھنے کا کام کرتے ہیں… کافی مشکل اور محنت
طلب کورس ہوتا ہے… اس کے علاوہ اکثر ہدایہ ثالث کا سبق بھی پڑھاتے تھے… چھوٹے مفتی
حضرات کے فتاویٰ کی نگرانی وتصدیق بھی کرتے تھے… جلسوں اور اجتماعات میں بھی شرکت
رہتی تھی… طبیعت میں نرمی اور مروت کا عنصر غالب تھا اس لیے لوگوں کو انکار نہیں
کرسکتے تھے… ملک کی نامور فقہی مجلسِ تحقیق کے رکن بھی تھے… اور وقتاً فوقتاً اہم
موضوعات پر مضمون بھی تحریر فرماتے تھے… الغرض ان کے بہت کام تھے اور ہر کام اتنا
بھاری کہ سوچتے ہوئے بھی پسینہ آتا ہے… یقینا ایسی شخصیت کے پاس تو وقت کو ناپ تول
کر گزارے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا… مگر آپ کے پاس گھڑی نہیں ہوتی تھی… وجہ سنیں
تو حیران رہ جائیں… ایک بار طالب علمی کے زمانے میں حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ کے سبق
میں بیٹھے تھے… سبق کے دوران ہاتھ میں بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھ لیا… حضرت مدنیؒ نے
فرمایا… ولی حسن! سبق میں گھڑی دیکھتے ہیں؟… بس اتنا ہی کافی ہوگیا… سبق کے بعد
گھڑی توڑ دی اور پھر زندگی بھر اپنے پاس نہ رکھی… فراست اور ذہانت … اور مسلسل
گھڑی کے بغیر گزارہ کرنے کیوجہ سے … ٹائم پہچاننے کی فطری صلاحیت مضبوط ہوگئی تھی…
سر جھکائے فرماتے اتنے بجے ہوں گے… جب گھڑی دیکھی جاتی تو اکثر… اتنے ہی بجے ہوتے
تھے… حرم شریف … اور روضۂ اقدس کا بڑا عشق تھا… مگر یہ عشق یکطرفہ نہیں… مکمل طور
پر دو طرفہ تھا… اس لیے سال میں دوبار تو ضرور بلاوا آہی جاتا تھا… اور آپ عشق
ومحبت کے نشے میں گم وہاں پہنچ جاتے… جہاں جانے کی تمنا ہر دل ِمسلم رکھتا ہے… حرم
پاک میں ان کو قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ … اس پاک شخص کا خمیر ادب اور
تواضع میں گوندھا گیا ہے… ادب بہت بڑی چیز ہے… سچی بات ہے کسی کسی کو نصیب ہوتا
ہے… ہم تو اس کی جھلک کو ہی ترستے رہتے ہیں… جی ہاں جن کو اپنی عقل پر ناز ہو … جن
کو اپنے باہوش ہونے کا فخر ہو… اور جو اپنی ذات اور قومیت کے خول میں بند ہوں…
انہیں کیا معلوم کہ ’’ادب‘‘ کیا ہوتا ہے… کسی فارسی شاعر نے بات کو یوں سمجھا نے
کی کوشش کی ہے…
ادب گا ہیست زیر آسماں از
عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آیند جنید
وبایزیداینجا
یعنی ادب عرش سے بھی نازک
تر مقام ہے… ایسا مقام کہ یہاں جنید… اور بایزید جیسے… اہل معرفت کے سانس بھی گم
ہوجاتے ہیں… وہ ادب ہی کیا… جس میں آدمی خود کو بھی یاد رکھے… ہمارے حضرت… معلوم
نہیں کچھ اور تھے یا نہیں… مگر ادب کے اس مقام پر فائز تھے… جو آدمی کو… مدہوش، بے
حال اور تو، میں، سے بے فکر کردیتا ہے… اور آدمی کو یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ
خود کس مقام پر فائز ہے؟… مجھے یاد ہے کہ ایک بار … اپنے زمانے کے مشہور مفسّر اور
اﷲ والے بزرگ … حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی نور اﷲ مرقدہ فرما رہے تھے…
بھائی نماز پڑھنا ہمارے مفتی صاحب سے سیکھو… نماز میں یوں کھڑے ہوتے ہیں جیسے اس
جہان میں ہی نہیں ہیں… ادب کے ساتھ تواضع کا جو ہر خود بخود مل جاتا ہے… حرم شریف
میں… حضرت مفتی صاحب پر… عشق ومحبت کے آثار… اور ادب اور تواضع کا رنگ صاف نظر آتا
تھا… آپ یوں کھوئے کھوئے سے رہتے تھے… جیسے بس ہوش ہی نہیں ہے… اولیاء… علماء اور
سالکین کا آپ کے گرد ہجوم بنتا… مگر آپ تنہائیوں کو جالیتے… رمضان المبارک میں…
اہل مدینہ میں سے جو ہاتھ پکڑ کر افطار کی دعوت دیتا… آپ اسے فوراً قبول کرنا
مدینہ منورہ کے ادب کا حصہ سمجھتے تھے… مدینہ منورہ میں رمضان المبارک کے مزے
لوٹنے والے جانتے ہیں… وہاں کے مہمان نواز لوگ… عصر کے بعد ہی سے دسترخوان لگا کر…
مسجد نبوی شریف میں داخل ہونے والوں کو ’’دعوت افطار‘‘ دینے لگ جاتے ہیں… باہر سے
آنے والے اکثر زائرین کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں مسجد شریف میں آگے جگہ ملے…
چنانچہ دعوت افطار کے جواب میں شکراً شکراً کہتے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں … مگر
حضرت مفتی صاحب جیسے ہی مسجد میں داخل ہوتے… کوئی آگے بڑھ کر دعوت دیتا تو اس کے
ساتھ وہیں بیٹھ جاتے… آپ کے شاگرد … اور خدام آگے جانا چاہتے … مگر علم وروحانیت
کا بادشاہ دروازوں اور جوتوں کے قریب … بیٹھ کر سبق دیتا کہ … جو مزہ ’’ہاں‘‘ کہہ
کے جوتوں میں بیٹھنے کا ہے… وہ مزہ … ’’نہ‘‘ کہہ کر آگے بڑھنے میں نہیں ہے… پھر آپ
کاعجیب معمول تھا… مسجد نبوی شریف میں جہاں بھی داخل ہوتے… روضہ اقدس کی طرف رخ
پھیر کر… ادب وتوجہ کے ساتھ درود وسلام میں گم ہوجاتے … اور جب واپسی کا ارادہ
ہوتا تھا باہر نکلنے سے پہلے… دروازے کے پاس پھر اپنا رخ روضہ اقدس کی طرف کرکے…
درود وسلام پڑھتے… اور پھر باہر نکلتے… عشق ومحبت کی یہ کیفیت… آپ نے کہیں دیکھی؟
… سچے عاشق ایسے ہی ہوتے ہیں… جدائی کے وقت بار بار مڑتے ہیں… اور اسی طرح بے قرار
ہوتے ہیں… حضرت مفتی صاحب!… سچے عاشق تھے مگر بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنے عشق… اور
مقام کو چھپاتے تھے… اسی لیے پیری مریدی نہیں کرتے تھے… حضرت شیخ الحدیثؒ نے خلافت
سے نوازا… ارد گرد سے کافی اصرار ہوا… مگر … صرف چند افراد ہی کو ان کے سخت اصرار
پر بیعت فرمایا… اور انہیں بھی دوٹوک لفظوں میں بتادیا کہ… میں کچھ بھی نہیں ہوں…
میں بہت چھوٹا آدمی ہوں… آپ کی تواضع … سادگی، بذلہ سنجی… اور لطائف کے پردے ہٹا
کر آپ تک کوئی پہنچ جاتا تو وہ اپنے سامنے… ایک گہرے سمندر کو پاتا… کمالات میں
باکمال… اور سکون وگہرائی کا عجیب مرقّع… اور تأثیر میں عجیب تر… مکہ مکرمہ کے
ایک صاحب نے… گذارش کی کہ اٹھارہ سال ہوگئے اولاد نہیں ہوئی… حضرت نے انڈے دم کرکے
دئیے… اور اگلے سال وہ صاحب بچے سمیت خدمت میں حاضر ہوئے… ایسے واقعات بہت سارے
ہیں… مگر نہ انہوں نے کبھی ان کا ذکر کیا… اور نہ کسی اور کی زبان پر اس کے تذکرے
گوارا فرمائے… وہ تعریف کرنے والوں کو روکنے کی پوری ہمت رکھتے تھے… اور ایسے کسی
عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے… یہی وجہ ہے کہ … ہزاروں افراد کو ’’عالم‘‘ اور
سینکڑوں علماء کو ’’مفتی‘‘ بنانے والا شیخ… دارالعلوم کورنگی کے جدید قبرستان میں
گمنامی کے مزے لوٹ رہا ہے… ایک بار حرم شریف حاضر ہوکر جو بار بار یہاں آنے کی
خواہش رکھے… اسے حضرت مفتی صاحب ایک ایساعجیب عمل بتاتے تھے کہ… اگلی بار پھر
حاضری نصیب ہوجاتی تھی… مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ انہوں نے… کس کس کو یہ عمل
بتایا… ہاں مجھے یہ پتہ ہے کہ … حضرت کے ساتھ جانے والے اکثر افراد… غربت اور
وسائل سے تہی دامنی کے باوجود … بار بار حرم شریف جاتے رہے… گویا کہ ان کے لئے…
حرمین شریفین کے دروازے کھل گئے… خود حضرت کا یہ حال تھا کہ… آپ کے علم میں لائے
بغیر… صرف اجازت اور تاریخ پوچھ کر … باقی تمام انتظامات … حضرت مولانا مفتی محمد
جمیل خان شہیدؒ کردیتے تھے… روانگی کے دن حضرت احرام باندھتے… اور روانہ ہوجاتے…
اور بعض اوقات آپ اور آپ کے رفقاء کے پاس… ایک دن کا خرچہ بھی نہیں ہوتا تھا… گویا
کہ … مہمان ہی نہیں… لاڈلے مہمان بن کر بلائے جاتے تھے… اور پھر آپ کی خوب مہمان
نوازی کی جاتی تھی… دیکھا گیا کہ لوگ کئی کئی دن پہلے کھانے کی گذارش لے کر آتے…
اور انہیں بتایا جاتا کہ کھانا تو قبول ہے… مگر رہائش گاہ پر لانا ہوگا… اس وقت جب
کہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں… کئی خوبصورت مناظر میرے دماغ میں ایک دوسرے سے سبقت
لے کر … نوک قلم پر آنے کیلئے بے قرار ہیں… وجہ بالکل واضح ہے… میری گناہگار
آنکھیں کسی زمانے میں بہت خوش نصیب ہوا کرتی تھیں… مجھے ’’یار‘‘ کی صحبت نصیب تھی…
اور میں نے وہ کچھ دیکھا جواب خواب نظر آتا ہے… کئی بار ارادہ ہوا کہ … ان حسین
یادوں کو… مسلمانوں کے لئے محفوظ کرلوں… مگر جب بھی قلم اٹھایا… یقین کریں کچھ بھی
نہ لکھ سکا… اور تو اور … مجھے جب اپنے حضرت سے بہت دور… ان کے انتقال کی خبر ملی
اس وقت بھی کچھ نہ لکھ سکا… حالانکہ… جن کے ساتھ دور کا تعلق … اور ادنیٰ مناسبت
تھی… ان کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں… اور یہاں یہ حال تھا کہ … میں اس زمانے
میں … حافظ کا یہ شعر زبان حال سے پڑھتاپھرتا تھا…
شراب خوشگوارم ہست ویار
مہرباں ساقی
ندارد ہیچکس یارے چنیں
یارے کہ من دارم
مرا درخانہ سروے ہست
کاندر سایۂ قدّش
فراغ از سر و بستانی
وشمشاد چمن دارم
چودرگلزار اقبالش خراما
نم بحمد ﷲ
نہ میل لالہ ونسرین نہ
برگ یاسمن دارم
ویسے بہت سارے احباب کا
بھی یہی خیال تھا کہ … میں ان پر بہت کچھ لکھوں گا… بار بار لکھوں گا… اور ان کے
تذکرے امت تک پہنچاؤں گا… مگر لکھنا میرے بس کی بات تو نہیں ہے… میں نے کئی بار
قلم اٹھایا مگر ہر بار …ناکام ہوا… آج یہ چند الفاظ ایک صدمے نے باہر نکال دیئے…
اگر یہ صدمہ دل پر کچو کے نہ لگاتا تو شاید یہ چند سطریں بھی نہ لکھی جاتیں… مجھے
معلوم نہیں کہ اُن کے بارے میں کافی کچھ جاننے کے باوجود… اب تک کچھ کیوں نہیں لکھ
سکا؟… ممکن ہے خود ان کی دعاء رہی ہو… وہ گمنامی کو بہت زیادہ پسند فرمایا کرتے
تھے… لیکن اصل وجہ شاید کچھ اور ہے… اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے… آج یہ الفاظ کیوں
لکھے؟… بات دراصل یہ ہے کہ انہوں نے خلاف عادت ایک عجیب پیش گوئی فرمائی تھی… وہ
چند دن ہوئے پوری ہوگئی… بس وہ پھر پوری شدت اور رعنائی سے یاد آگئے… جس کا دل صاف
ہوتا ہے… اسے بہت کچھ سمجھ آجاتا ہے… ہمارے حضرت تو ویسے ہی معصوم بچوں جیسے لگتے
تھے… صاف دل… پاکیزہ روح اور دنیا سے بے غرض… ایک بار مدینہ منورہ کی مسجد میں ظہر
کی نماز ادا فرمائی… نماز کے بعد کافی دیر … وہاں بیٹھے رہے… اچانک اپنے خادم کو
فرمایا وہ جو صاحب بیٹھے ہیں… انہیں بلا لاؤ… وہ بلا لایا… سلام ومصافحہ کے بعد
فرمایا… آپ مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کے کیا لگتے ہیں؟… وہ چونک پڑے اور فرمایا ان
کا بھانجا ہوں… حضرت نے فرمایا بس میرے دل میں آرہا تھا کہ آپ ان کے کچھ لگتے ہیں…
فراست اور قیافہ شناسی کے ایسے واقعات کئی بار پیش آئے… یہ سب کچھ اپنی جگہ… اصل
بات یہ ہے کہ… حضرت اپنے بلند علمی وروحانی مقام کے باوجود بہت ہنس مکھ تھے… خود
بھی مسکراتے رہتے تھے… اور اپنے لطائف کے ذریعے دوسروں کو بھی ہنساتے تھے… آپ نے
مختلف لوگوں کے لئے مختلف نام تجویز فرما رکھے تھے… جس آدمی کی حماقت بتانا مقصود
ہوتی… ارشاد فرماتے … یہ جمعیت کا آدمی ہے… یا جمعیت کا سیکٹری جنرل ہے… کبھی
کبھار اس کی تشریح یوں فرماتے کہ… ایک تنظیم ہے… جمعیت حُمقَائِ اسلام… یہ اس کا
آدمی ہے… اور بطور تواضع فرماتے … اس جماعت کا صدر میں خود ہوں… غریبوں سے بے
انتہا محبت رکھتے تھے… دورہ حدیث کے غریب طلبہ کو قریب بٹھا کر… انہیں عزت بخشتے …
اور اپنی ذاتی اشیاء انہیں ہدیہ فرماتے… مالداروں سے دوری تو نہیں… البتہ کچھ
فاصلہ ضرور رکھتے تھے… یعنی آج کل کے عمومی طرز عمل کے بالکل برعکس… کسی چھوٹے بچے
کو… عالمانہ لباس میں دیکھتے تو فرماتے… شیخ الاسلام آرہا ہے… الغرض … خوشی اور
مسرت کے جھرنے ہر وقت آپ کے ہاں پھوٹتے رہتے تھے… مگر اچانک یہ حالت بدل گئی… آپ
کے تمام لطیفے کہیں گم ہوگئے… اور خوشیاں اور مسکراہٹیں ماضی کا حصہ بن گئیں…
بیٹھے بیٹھے اچانک رونا شروع کردیتے… اور ایسا گریہ طاری ہوتا کہ …سانس رکتا محسوس
ہوتا… سبق پڑھانے آتے تو کچھ زیادہ نہ فرماسکتے… البتہ حدیث شریف کی عبارت سن کر
رونے لگ جاتے… اور ایسا بار بار ہوتا… ان دنوں جس نے بھی آپ کو دیکھا… یہی سمجھا
کہ … کوہ ہمالہ پگھلنا شروع ہوگیا ہے… علم وعرفان کے اس پہاڑ کو اندر ہی اندر کوئی
چیز کھائے جارہی ہے… امراض کا حملہ بھی بار بار ہوتا تھا… اور قوت حافظہ بھی پہلے
جیسی نہ رہی تھی… آپ پر غم اور پریشانی کا یہ خوفناک حملہ… اس وقت ہوا جب بے نظیر
بھٹو کا ملک میں والہانہ استقبال ہوا… اور صاف نظر آنے لگا کہ … اب وہ اس ملک کی
حکمران بن کر رہے گی… حضرت مفتی صاحب… دینی غیرت میں گندھے ہوئے تھے… اور اﷲ
تعالیٰ نے آپ کو چہرے کے علاوہ دل میں بھی آنکھیں نصیب فرمائی تھیں… ہم جیسے باطن
کے اندھے کیا جانیں کہ زمینی حالات پر آسمانی تیور کیسے ہوتے ہیں؟… مگر ’’اوپر‘‘
تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ … رحمت کیا ہے اور عذاب کیا ؟… اوپر والے کی خوشی
کیا ہے؟… اور غضب کیا؟… امت مسلمہ کیلئے شہد کیا ہے اور زہر کیا؟… آپ نے اپنے دل
کی آنکھوں سے … بے نظیر کو ایک عذاب اور آفت محسوس کیا… اور بسمل کی طرح تڑپنے
لگے… لوگ مزے سے کھا پی رہے تھے… کسی نے ایک منٹ کے عیش کو قربان نہ کیا… جبکہ
میرے حضرت… شمع کی طرح پگھلنے… اور پروانے کی طرح تڑپنے لگے… فرماتے تھے… اس عذاب
کو روکنے کا کوئی راستہ ہے؟… ایک بار فرمایا انگلینڈ خط لکھو… میرے شاگرد مجھے
وہاں بلالیں… میں اﷲ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ … میری زندگی میں ایک مغربی
عورت مسلمانوں کی حکمران بن گئی… خدام نے عرض کیا… حضرت انگلینڈ میں بھی مارگریٹ
تھیچر… ایک عورت وزیر اعظم ہے… حضرت نے فرمایا… وہ کافروں کا ملک ہے ان پر کوئی
عورت ہے تو کیا ہوا… مگر مسلمان اور ان پر عورت حکمران؟… یہ فرما کر رونے لگے اور
سخت گریہ طاری ہوگیا… ان دنوں رائے ونڈ مدرسہ کے طلبہ کا امتحان لینے کیلئے تشریف
لے گئے… لاہور سے رائے ونڈ جاتے ہوئے اور اسی طرح واپسی پر… جہاں پیپلز پارٹی کا
جھنڈا نظر آتا… وہاں آپ پر گریہ طاری ہوجاتا… ایک دن فرمایا… ڈاک کے لفافے لے کر
آؤ… پھر ان سیاستدانوں کو خطوط لکھوائے… جو بے نظیر کا راستہ روک سکتے تھے… اور
انہیں نصیحت فرمائی کہ خوب ہمت سے اس عذاب کو روکیں… مگر حضرت کس طرح قوم کو
سمجھاتے کہ یہ ایک عذاب ہے… آپ کو اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ دکھایا… وہ اور لوگ کہاں
دیکھ سکتے تھے؟… ہم لوگوں کو تو بالکل واضح عذاب نظر نہیں آتے… یہ تو بہرحال… ایک
مستور عذاب تھا… الغرض… اﷲ تعالیٰ کا وہ مخلص بندہ… امت مسلمہ کے درد… اور اسلام
کی غیرت میں… جلتا رہا… کڑھتا رہا… پگھلتا رہا… اور پاکستان کی کرسی پر بے نظیر کا
بُت رکھ دیا گیا… مجھے یاد ہے… حضرت دورہ حدیث کی جماعت میں سبق پڑھانے تشریف
لائے… عجیب حالت اور کیفیت طاری تھی… سبق کے دوران روتے رہے… اور پھر جلال میں آکر
فرمایا… میرے گناہوں کی سزا… مجھے یہ خوفناک منظر دکھایا گیا کہ … ایک مغرب زدہ
عورت ہم مسلمانوں کی حکمران ہے… مگر یاد رکھو… تم لوگوں کو … اس سے بھی زیادہ سخت
آزمائش کا سامنا ہوگا… تم لوگوں سے یہ مسئلہ پوچھا جائے گا کہ… عورت نماز میں
مردوں کی امامت کرسکتی ہے یا نہیں؟… ہاں تم لوگ اس خوفناک آزمائش کو دیکھو گے…
میرے پیارے … اور محبوب
حضرت… عورت کی حکمرانی کا غم لے کر اس فانی دنیا کو چھوڑ گئے… اور اب ہمیں… عورت
کی امامت کا سامنا ہے… آمنہ ودود… اور اسراء نعمانی کے پتیّ یہودیوں نے بہت سوچ
سمجھ کر کھیلے ہیں…حضرت نے جب یہ بات فرمائی تھی … وہ سمجھ رہے تھے کہ… ہم ان کے
شاگردوں کا اسلام سے تعلق… ویسا مضبوط ہے… جیسا حضرت کا تھا… اس لیے جب کوئی منحوس
عورت اسلام کی بنیادوں پر وار کرتی ہوئی… امامت کے مصلّے کو روندے گی… تو ہم… بہت
تڑپیں گے… بہت روئیں گے… اور غم میں گھل گھل کر … اپنے عیش وآرام بھول جائیں گے…
مگر میرے پیارے حضرت!… بہت معذرت … آپ اور ہم میں بہت فرق ہے… آپ بے شک مسلمان
تھے… اسلام کے شیدائی… سچے مسلمان … جبکہ… ہم… جی حضرت ہم؟… کیا بتاؤں؟… بس دعاء
ہے کہ … اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی… مسلمان بنادے… سچامسلمان… اسلام کا شیدائی مسلمان…
غیرتمند مسلمان…
یا اﷲ… آپ کے لئے کیا
مشکل ہے… معاف فرمادیں… مسلمان بنادیں… توبہ قبول فرمالیں… اور امت مسلمہ پر رحم
فرمادیں…
ایک ولی کی
باتیں
حضرت مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی نور اﷲ
مرقدہ کی خود نوشت مختصر سوانح حیات اور آپ کی بعض عالمانہ تحریریں۔
دیگر فوائد: دینی غیرت کی اہمیت (۲) حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ کا
ایک ایمان افروز واقعہ
)۵ربیع
الا ول ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۱اپریل
۲۰۰۵ء(
ایک ’’ولی‘‘
کی باتیں
اللہ تعالیٰ نے جبرائیل
علیہ السلام کو حکم دیا کہ … فلاں بستی کو بستی والوں سمیت الٹ دو۔ انہوں نے عرض
کیا… اے میرے رب ان لوگوں میں آپ کا ایک ایسا بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے
کے برابر بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی… اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اس بستی کو …
اس (نیک) بندے اور باقی تمام لوگوں پرالٹ دو… کیونکہ میری خاطر کبھی ایک گھڑی بھی
اس بندے کا چہرہ متغیر نہیں ہوا… یعنی میری نافرمانی کے مناظر دیکھ کر کبھی بھی
غصہ سے اس کا چہرہ غضب ناک نہیں ہوا… یہ کوئی فرضی قصہ نہیں… حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کی حدیث ہے…
جو
مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت
کی ہے۔ وہ آدمی … بہت نیک اور عبادت گزار تھا … ایک لمحہ برابر اللہ تعالیٰ کی
نافرمانی نہیں کرتا تھا… پھر وہ کیوں ہلاک کیا گیا… جواب واضح ہے۔ اس میں دینی
غیرت نہیں تھی… دنیا بھر کے اسلام دشمن عناصر … مسلمانوں کے دیندار ہونے سے نہیں
ڈرتے… انہیں اصل ڈر … مسلمانوں کی اس ’’دینی غیرت‘‘ سے ہے … جو اصل اسلام ہے… حضور
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پڑھ لیجئے … صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے
حالات زندگی دیکھ لیجئے… امت مسلمہ کے کامیاب افراد کی تاریخ کھنگال لیجئے… یہ سب
لوگ ’’دینی غیرت‘‘ کے جذبے سے سرشار تھے… جہاد بھی اسی غیرت کا اظہار ہے … حضرت
صدیق اکبررضی اﷲ عنہ کا یہ اعلان کہ میں
زندہ رہوں اور دین میں کچھ کمی کی جائے… یہ ناممکن ہے … حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ
عنہ کی پوری زندگی … اور آپ کا اس شخص کو قتل کرنا … جو … حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کے فیصلے کے بعد آپ سے فیصلہ کرانے آیا تھا… یہ سب کچھ کیا تھا؟ … کیا یہ
’’دینی غیرت‘‘ کے علاوہ کوئی چیز تھی؟ … حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام
نے مکہ مکرمہ کیوں چھوڑا … کافروں اور مشرکوں کے ساتھ مل کر رہتے … دوستی کرتے …
خیرسگالی کے اقدامات ہوتے … ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا … مگر ایسا کچھ بھی نہیں
ہوا … معلوم ہوا کہ یہ ساری باتیں … ظاہری طور پر جتنی خوبصورت نظر آئیں … حقیقت
میں … بے حد بدبودار ہیں … اسی لئے … آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیارے مکہ کو چھوڑ
دیا … صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اپنا گھر بار قربان کیا… اور پھر دین
کی خاطر … اپنے رشتہ داروں کے خلاف تلواریں تک نکالیں … ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اس
لئے ہمیں تو وہی کچھ اچھا لگے گا… جو … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم … اور آپ کے
جانثار صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے کیا … دینی غیرت تو اتنی اونچی چیز ہے
کہ … اس پر عرش بھی مسکراتا ہے … اور آسمان والے … زمین والوں کو رشک کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں…
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ
چھوٹے بچے تھے… انہوں نے مکہ مکرمہ میں خبر سنی کہ … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
(نعوذ باللہ) گرفتار یا شہید ہوگئے ہیں… فوراً تلوار لیکر مشرکین کی طرف دوڑے …
راستہ میں آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی… پوچھا زبیر کہاں ؟ … انہوں
نے بتایا کہ آپ کے بارے میں خبر سنی تھی … ارشاد فرمایا اگر یہ خبر سچی ہوتی تو ؟
… کہنے لگے میں مکہ کی وادی … مشرکین کے خون سے بھردیتا… اسی وقت جبرائیل امین
آسمان سے اترے … اور فرمایا … اللہ تعالیٰ زبیر کو سلام فرماتے ہیں… اور یہ کہ …
قیامت تک جو بھی دین کے لئے تلوار اٹھائے گا… اس کے اجر میں زبیر رضی اللہ عنہ کا
بھی حصہ ہوگا… کس کس واقعے کا ذکر کروں… پچھلے کالم میں حضرت شیخ مفتی ولی حسن
صاحب ؒ کے کچھ حالات عرض کئے تھے … اس بار بھی ان کی ’’دینی غیرت‘‘ دِل و دماغ پر
خوشبو بکھیر رہی ہے… اور اس وقت جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں … ان میں … اللہ
تعالیٰ کا وہ … منور اور غیور ولی … اور ان کی فکر اور کڑھن بہت یاد آتی ہے … اور
اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ … ان کا … اور ان کی فکر کا تذکرہ کیا جائے تاکہ
قوم کی بیمار رگوں میں … غیرت کا خون دوڑے … اور ہم سب کو ’’بے غیرتی‘‘ کے مرض سے
نجات ملے … ویسے بھی ’’بے نظیر بھٹو‘‘ کی واپسی کا شور ہے … وہ امریکہ اور برطانیہ
کو باربار سمجھا رہی ہیں کہ آپ مجھے واپس بھجوائیں … پھر دیکھیں … دین اور
دینداروں کا کیا حشر کرتی ہوں … پاکستان کے سیکولر حکمران بھی … اسی نتیجے پر
پہنچے ہیں کہ ان کی پسندیدہ روشن خیالی … نافذ کرنے کیلئے ’’بے نظیر‘‘ سے زیادہ
بہتر اور کوئی نہیں ہے … اس لئے کل تک … جو لوگ اسے ملک کیلئے ’’سیکورٹی رسک‘‘
قرار دے رہے تھے … وہی آج … اس کی ’’اعتدال پسندی‘‘ کے گن گا رہے ہیں … انڈیا کی
بھی غالباً یہی خواہش ہے … کیونکہ … جنرل یحیٰ خان … اور بھٹو کے اتحاد نے ملک
توڑا تھا … اور اب پاکستان کی دوبارہ تباہی کیلئے … بھٹو کی جانشین بے نظیر کی کمی
ہے جبکہ … دوسرا فریق تو وجود پا چکا ہے… ادھر عورت کی امامت کا فتنہ آگے بڑھنے کا
سامان کر رہا ہے … روزنامہ خبریں میں کچھ عرصہ پہلے … یہودیوں کے ترجمان … خالد
احمد کا امریکہ سے مضمون چھپا تھا کہ … ہر مسجد میں ایک اسریٰ نعمانی کی ضرورت ہے
… ان دنوں اسریٰ نعمانی ایک مسجد میں گھس کر جمعہ کے دن مردوں کے درمیان بیٹھ جاتی
تھی … خالد احمد نے اس کے اس عمل کی بہت تعریف کی … اور روزنامہ خبریں والوں نے یہ
مضمون بہت نمایاں کرکے … ادارتی صفحہ پر شائع کیا … حالانکہ یہ ’’محتاط اخبار‘‘ ہر
دینی مضمون پر ’’نقطہ نظر‘‘ کا لفظ لکھنا نہیں بھولتا … مگر ’’خالد احمد‘‘ جو جنرل
ضیاء الحق کے دور میں … پاکستان سے فرار ہو گیا تھا … ہر الٹی سیدھی بکواس لکھ
بھیجتا ہے… اور اخبار اسے نہایت اہتمام سے شائع کرتا ہے … کچھ عرصہ قبل ایک یہودی
عورت کو پاکستان میں وکیلوں کی خدمات درکار تھیں … اس کی اپیل بھی ’’ خالد احمد‘‘
نے اپنے کالم میں شائع کی … جب ملک کے قومی اخبارات کا یہ عالم ہے تو صورتحال کا
اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں … حکومت نے قسم کھا رکھی ہے کہ … وہ ملک کے دشمنوں کو
خوش … اور دین کے حامیوں کو ضرور ستائے گی … مجھے یقین ہے کہ … غیروں کے ہاں
’’نام‘‘ پانے کے شوقین … ان شاء اللہ … نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے … بہرحال اس
وقت مسلمانوں پر ’’امتحان‘‘ کا دور ہے … اور اس امتحان میں وہی کامیاب ہوگا … جو
اپنی ’’دینی غیرت‘‘ کو محفوظ رکھے گا … اور نہایت استقامت کے ساتھ اپنے ’’ایمانی
نظریات ‘‘ پر قائم رہے گا … حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی صحبت آج اگر
مسلمانوں کو نصیب ہوتی تو وہ اپنے دل میں سکون ٗ ہمت اور ٹھنڈک محسوس کرتے … حضرت
جب موجود تھے …تو چند لمحے آپ کی صحبت میں گزارنے سے … دل کی پریشانی اور میل دور
ہوجاتی تھی … کئی ایسے لوگ جو گناہوں میں بری طرح پھنس چکے تھے … تھوڑی دیر آپ کے
ساتھ بیٹھتے ہی … آزاد ہوگئے اور انہیں توبہ ٗ استغفار اور انابت الی اللہ کا
راستہ نصیب ہوگیا… آیئے آج کچھ دیر حضرت اقدس ؒ کی میٹھی باتیں سنتے ہیں … اور کچھ
لمحات آپ کے ساتھ گزارتے ہیں … آپ پچھلے کالم میں پڑھ چکے ہیں کہ … حضرت مولانا
مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ … حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا نور اللہ
مرقدہ کے خلیفۂ مجاز تھے … کافی عرصہ پہلے … برطانیہ میں مقیم حضرت شیخ کے خلیفہ
مجاز … حضرت مولانا محمد یوسف متالا دامت برکاتہم نے ارادہ کیا کہ … حضرت شیخ کے
خلفاء کرام کے حالات زندگی جمع کریں … انہوں نے ایک سوالنامہ لکھ کر تمام حضرات کو
بھجوایا … اور جواب لکھنے کی درخواست کی … ہمارے شیخ حضرت مفتی ولی حسنؒ صاحب کو
بھی یہ سوالنامہ بھیجا گیا … آپ نے اس کا مختصر جواب … نہایت سادگی کے ساتھ تحریر
فرمایا… اور یوں ہمارے لئے … اللہ تعالیٰ کے ایک غیور اور پرنور ولی کے حالات
زندگی کسی قدر منکشف ہوگئے … ہم آج کے کالم میں … حضرت کی وہ تحریر پیش کررہے ہیں
… تاکہ … ہم سب چند لمحات حضرت کی صحبت میں گزارنے کی سعادت حاصل کرسکیں… یہ مضمون
خود حضرت والا نے تحریر فرمایا ہے البتہ اس کے عنوانات … اور سرخیاں مرتبین حضرات
نے اپنے سوالات کی روشنی میں تحریر کی ہیں … اور مضمون میں جہاں بھی … ’’حضرت
شیخ‘‘کا لفظ ہے تو اس سے مراد … حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ ہیں…!
حالات ِ زندگی
حضرت مولنا مفتی ولی حسن
خان صاحب ٹونکی نوراﷲ مرقدہ
اسم گرامی: ولی حسن ٹونکی
پیدائش اور تعلیم و
تربیت: ۱۹۲۴ء
ہجری یاد نہیں راقم کا خاندان علماء کا خاندان تھا۔ مولانا محمود حسن خان ٗ
مولانا حیدر حسن خان میرے والد مفتی انوارالحسن خان کے چچا تھے۔ اول الذکر معجم
المصنفین کے مصنف اور ثانی الذکر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور شیخ الحدیث
تھے۔ ندوۃ کے بہت سے قابل الذکر حضرات مولانا حیدر حسن خان کے شاگرد تھے حضرت
مولانا ابو الحسن علی ندوی نے ’’پرانے چراغ‘‘ میں ان کا طویل تذکرہ کیا ہے میرے
والد مفتی انوارالحسن اور ان کے والد (مفتی ولی حسنؒ کے دادا) مفتی محمد حسن خان
عدالتِ شرعیہ ٹونک میں مفتی تھے بلکہ (مفتی ولی حسنؒ کے دادا) مفتی محمد حسن خان ٗ
مولانا محمود حسن اور مولانا حیدر حسن خان کے استاد تھے ۔ راقم نے ابتدائی کتب
فارسی وغیرہ اسی طرح چھوٹی کتب عربی اپنے والد سے پڑھی تھیں‘ میرے والد کا انتقال
اس وقت ہوا جب میری عمر گیارہ سال تھی۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا حیدر حسن خان
رمضان المبارک کی تعطیلات میں ٹونک آئے اور تعزیت کے لئے میرے گھر آئے اور میری
دادی صاحبہ سے (جو مولانا دوست محمد کابلی کی بیٹی تھیں مولانا دوست محمد بڑے عالم
اور فاضل تھے۔ نزہتہ الخواطر میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ شاہ
عالم علی صاحب سے انہوں نے حدیث پڑھی تھی) تعزیت کی اور مجھے دارالعلوم ندوۃ میں
لے جانے کی خواہش ظاہر کی میری دادی نے بخوشی اجازت دے دی چنانچہ دارالعلوم ندوۃ
لکھنؤ چلاگیا اور چار سال رہ کر ندوۃ کا چار درجہ تک نصاب پڑھا اس درمیان میں
مولانا حیدر حسن خان سے خارج میں الفیہ ابن مالک کا کچھ حصہ اور منطق کے ایک دور
سالے پڑھے جب مولانا حیدر حسن خان نماز ظہر سے پہلے تفصیلی وضو فرماتے تھے پھر
مولانا حیدر حسن خان ٹونک تشریف لے آئے ندوۃ کے بعض اساتذہ نے میرے وہیں رہنے کی
سفارش کی لیکن مولانا نے یہ کہہ کر کہ اسے پرانے طرز کا عالم بنانا ہے سفارش قبول
نہ کی چنانچہ میں بھی ٹونک آگیا اور مولانا سے بے ترتیب کتابیں پڑھتا رہا ٗ حماسہ
بھی مولانا سے پڑھا ٗ ملا حسن فلسفہ کا ایک آدھ رسالہ پڑھا یہاں تک کہ مولانا کا
ٹونک بمرض فالج انتقال ہوگیا۔ پھر عدالت شرعیہ ٹونک میں کئی سال تک ملازمت کرلی اس
عرصہ میں مولوی الہ آباد مولوی عالم پنجاب اور مولوی فاضل پنجاب کے امتحانات دیئے
دورہ حدیث اور کتابیں پڑھنے کا شوق تھا آخر کار ملازمت چھوڑ کر رخت سفر باندھا اور
مولانا حیدر حسن خان ’’مظاہر علوم‘‘ کی تعریف کرتے تھے اس لئے مظاہر علوم چلا گیا
ٗحضرت شیخ الحدیث قدس سرۂ العزیز اس زمانہ میں جوان تھے ان کی زیارت ہوئی حضرت
شیخ کو بخاری شریف کا پارہ لئے ہوئے اور تلاوت قرآن کرتے ہوئے راستہ میں چلتے ہوئے
کئی بار دیکھا۔ دارالعلوم دیوبند چلا گیا ٗ موقوف علیہ اور دورہ حدیث دارالعلوم
دیوبند میں کیا حضرت مدنی قدس سرۂ العزیز سے صحیح بخاری اور جامع ترمذی پڑھی ٗ
ٹونک آگیا ٹونک کے ایک ضلع ’’چہبڑہ گو گور‘‘ میں مفتی اور قاضی ہوگیا ٗ عدالت
شرعیہ کو ۱۶
قسم کے مقدمات کو فیصل کرنے کا حق تھا تا آنکہ ملک تقسیم ہوگیا۔ ہندو راج قائم
ہوگیا ٗ میرے خلاف ایک مقدمہ درج کر لیا گیا بڑی طویل داستان ہے ترک کرنا ناگزیر
ہے۔
تدریس و افتاء :
پاکستان آنے کے بعد
دارالعلوم الاسلامیہ جس کا سابق نام مدرسہ عربیہ اسلامیہ تھا آگیا ٗ یہاں مختلف
کتابیں پڑھائیں اب صحیح بخاری جامع ترمذی باوجود نالائقی کے پڑھا رہا ہوں اور
افتاء کا بھی کچھ کام لیتا ہوں التخصص فی الفقہ الاسلامی کا بھی مشرف ہوں۔
فتنہ انکارِ حدیث:
فتنہ انکار حدیث کو سب سے
بڑا فتنہ سمجھتا ہوں اور کچھ رسالے بھی اس سلسلہ میں تصنیف کئے جو چھپ چکے ہیں
عائلی قوانین کے خلاف بڑا مبسوط تبصرہ لکھا جو ’’عائلی قوانین شریعت کی روشنی
میں‘‘ ان شاء اللہ شائع ہونے والا ہے۔
بیعت :
حضرت مولانا حماد اللہ
ہالیجویؒ سے پہلے بیعت ہوا کئی مرتبہ حضرت کی خدمت میں حاضر بھی ہوا ٗیہاں تک کہ
حضرت کا انتقال ہوگیا ٗ حضرت شیخ الحدیث قدس اللہ سرہ العزیز سے بیعت کا اشتیاق
تھا کیونکہ میں حضرت کو دارالعلوم دیوبند اور ’’مظاہر علوم‘‘ کے اکابر کی نسبتوں
کا مجموعہ سمجھتا تھا اس لئے مکی مسجد (کراچی) میں جبکہ حضرت شیخ الحدیث تشریف
لائے تھے بیعت کی درخواست کی بیعت تو کرلیا لیکن ڈانٹ بھی پڑی کہ علیحدہ کیوں بیعت
ہو رہے ہو پورے مجمع کے ساتھ بیعت کیوں نہیں ہوئے ٗ تسبیحات پڑھنے کو بتائیں پھر
ڈھڈیاں (سرگودھا) میں ذکر تلقین فرمایا اور فرمایا کہ مجھے بھی حضرت مولانا خلیل
احمد نے تعلیم و تدریس میں مشغولیت کی بناء پر یہی ذکر تلقین فرمایا تھا اور پھر
حضرت جب افریقہ تشریف لے گئے اور اسٹینگر میں اعتکاف فرمایا تو بندہ بھی حاضر ہوا
ٗ پہلے تو حضرت نے اعتکاف کی حالت میں غالباً ایک صاحب کو مقرر فرمایا کہ میرے
متعلق معلومات رکھیں ٗ یعنی میں زیادہ باتیں تو نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ ایک روز
غالباً عشرہ اخیر میں حضرت نے یاد فرمایا اور اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ تم
بلاکھٹکے میرے پاس آسکتے ہو لیکن میں ڈر کی وجہ سے جرأت نہ کرسکا اور گمنام ہی
رہا۔
اِجازت و خلافت:
عشرہ اخیر میں حضرت نے
یاد فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں تم کو اجازت دیتا ہوں جیسے مجھے بڑوں نے اجازت
دی ہے۔ راقم نے عرض کیا کہ میں تو بالکل نااہل ہوں ٗ فرمایا ایسے ہی نااہل اہل
ہوتے ہیں اوکما قال لیکن میں نے اس سے خود کو اہل نہیں سمجھا بلکہ نااہل سمجھنے
لگا اور حضرت کے لوگوں میں سب سے زیادہ گندہ ٗ نجس نااہل سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ
قبر ٗ آخرت میں لاج رکھ لے اور شرمندگی نہ ہو۔
خط و کتابت:
بیعت اور اجازت سے پہلے حضرت
سے کچھ خط و کتابت ہوئی تھی اور معمولی طالب علمانہ اشکالات بھی کئے تھے اب وہ یاد
بھی نہیں آرہے البتہ حضرت صوفی محمد اقبال زید مجدھم (مدینہ منورہ) نے ایک
بارفرمایا کہ حضرت نے تمہارے خط مجھے دے دیئے تھے ٗ ایک والا نامہ میں حضرت نے
ڈانٹ بھی دی تھی میں نے جب اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال کی اطلاع دی اور تحریر میں
ہجری تاریخ کی بجائے انگریزی تاریخ تحریر کی تو حضرت نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
حضرت قدس سرہٗ کا آخری
ذوق و خواہش:
حضرت رحمۃ اللہ علیہ
رحمتہ واسعۃً کا آخری حال جس کی کچھ جھلکیاں راقم نے افریقہ کے سفر میں دیکھیں تو
یہ محسوس کیا کہ حضرت کو ذکر سے بہت شغف تھا جس طرح حضرت گنگو ہی تدریس ٗ طبابت
تصنیف و تالیف سب مراحل طے کرنے کے بعد ذکر پر بہت زور دینے لگے تھے ٗ اسی طرح ہمارے
حضرت کا آخری حال ذکر تھا حضرت چاہتے تھے کہ ذکر کی نئی خانقاہیں آباد ہوجائیں
کیونکہ پچھلی خانقاہیں ختم ہوچکی ہیں اور اس کی وجہ میری ناقص اور جاہلانہ رائے
میں یہ ہے کہ آج کل قیامت کا دور ہے ٗ دجال کا دور ہے اب صرف ذکر جو روح عالم ہے
کی وجہ سے نجات ہوسکتی ہے اور اب صرف دل والا اسلام ہی چلے گا ٗ دماغ والا اسلام
نہیں چلے گا۔
تربیت کے چند واقعات:
تربیت کے سلسلہ میں حضرت
کے کئی فرمودات یاد تھے اب کچھ یاد نہیں ہے ایک بات یاد آرہی ہے ایک بار میں نے
عرض کیا کہ ذکر چھوٹ گیا ہے اور درمیان میں کافی عرصہ گزر گیا حضرت نے تحریر
فرمایا جب اس طرح ذکر چھوٹ جایا کرے تو غسل کرکے عطر وغیرہ لگا کر دو رکعت توبہ کی
نیت سے پڑھ کر پھر ذکر شروع کرو وساوس کی شکایت تحریر کی تو فرمایا اس کا علاج بھی
کثرت ذکر ہے اور وساوس کا علاج اس کی طرف توجہ نہ کرنا ہے۔
خلافت و اجازت کے موقعہ
پر مختلف مطالع کے رمضان اور عید کے متعلق مسئلہ دریافت فرمایا تھا اور پھر اس کی
توثیق فرما دی تھی۔ حضرت کی اجازت سے پہلے بندہ تقریباً گونگا تھا تقریر وغیرہ
نہیں کرتا تھا اسٹینگر میں قیام کے موقع پر ایک جمعہ کو دریافت فرمایا کہ تقریر
کرسکتے ہو ا حقر نے انکار کیا لیکن حضرت
کے فیض سے ٹوٹی ہوئی زبان چلنے لگی اور تقریر کرنے لگا۔
تبلیغ کے کام کی اہمیت:
تبلیغ کے سلسلہ میں حضرت
کی ہدایت یاد ہے اور اسی پر کار بند ہوں کہ اگرموقع ہوتو تبلیغ میں حصہ لو اگر
موقع نہ ہوتو نصرت کرو یہ بھی نہیں کرسکتے ہوتو تبلیغ کے متعلق اچھا خیال رکھو اور
مخالفت قطعاً نہ کرو۔
متفرقات :
حضرت ؒ سے تعلق کے بعد یہ
خیال راسخ ہوگیا کہ پرانا درس نظامی کا نصاب (کیونکہ اس کی کتابیں مخدوم ہیں) ہی
کامیابی کا ضامن ہے جدید نصاب سے ذہن بالکل یکسو ہوگیا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ
انکار حدیث کے فتنے کے خلاف کام کرنے کا ایک بار حکم فرمایا تھا وہ بھی قلب میں
راسخ ہوگیا ہے۔ حضرت ؒ کا حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اشتغال اور اس پر عمل اور
چھوٹی چھوٹی سنت پر عمل پیرا ہونا یہ یاد رہ گیا اوربس۔
یہاں تک ہم نے حضرت ہی کے
مبارک قلم سے لکھے ہوئے ان کے حالات زندگی پڑھ لئے…مجھے یقین ہے کہ حضرت والا کا
یہ مضمون پڑھنے والوں کو… جرأت ‘ ہمت‘اورایمانی حلاوت نصیب ہوئی ہوگی… اور اب آخر
میں حضرت کا ایک اور مضمون جو آپ نے اپنے کتاب نما مفصل فتویٰ کے شروع میں بطور
پیش لفظ تحریر فرمایا تھا… آپ کا یہ مایہ ناز علمی فتویٰ…’’فتنہ انکارِ حدیث‘‘ …
کے نام سے شائع ہوا تھا… اخبارات میں جہاد اور دیگر دینی شعائر کا مذاق اڑانے واے
اکثر کالم نگار … اور حکومت کو سیکولرازم کے گڑھے میں دھکیلنے والے اکثر دانشور
…بنیادی طور پر …منکرِ حدیث یا خفیہ قادیانی ہیں…جنرل ایوب خان کے زمانے میں بھی
یہ لوگ سرگرم رہے …حضرت والا کی یہ تحریر …بہت سارے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے
…لیجئے …پڑھنا شروع کیجئے…!
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ایوب خان کے دور حکومت
میں سیاسی طور پر پاکستان میں کیا تبدیلیاں ہوئیں اور ان کا کیا انجام ہوا ٗ اس کی
طویل داستان ہے اہل قلم نے اس پر لکھا اور لکھتے رہیں گے ٗ دینی اعتبار سے کچھ
تبدیلیاں کی گئیں مثلاً :
۱۔
اوقاف کو حکومت کی تحویل میں لیا گیا ٗ مساجد اور مزارات کی آمدنی واقفین کی شرائط
کے علی الرغم حکومت کی صوابدید کے مطابق خرچ کی جانے کا اختیار لیا گیا اور اس طرح
لاکھوں روپوئوں کی آمدنی سرکاری آفیسران کے گران بہا مشاہرات پر خرچ کی گئی ’’شرط
الواقف کنص الشارع‘‘ کے حکم شرعی کو پسِ پشت ڈالا گیا ٗ پھر اس آرڈیننس کو مارشل
لاء کا تحفظ دیا گیا ٗ غالباً کسی جج صاحب نے اوقاف کو حکومت کی تحویل میں لینے کے
قانون کو توڑ دیا اور اپنے فیصلہ میں لکھا کہ فقہاء کرام کے متفقہ فیصلہ کو تبدیل
کرنے کا حق نہیں ٗ اس قانون کے نفاذ سے کچھ فائدہ بھی ہوا ٗ بعض مزارات پر جو
شیطانی حرکتیں ہوتی ہیں ان میں کمی تو آئی البتہ اسلامی فقہ کے قوانین اور قواعد
کی خلاف ورزی کا جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔
۲۔
عائلی قوانین کا اجراء بھی اسی دور نامسعود میں ہوا انگریزی دور میں باوجود خرابی
بسیار اسلامی عائلی قوانین کسی حد تک محفوظ تھے منکرین حدیث اور بے پردہ اور دین
سے برگشتہ خواتین کے اصرار اور کوشش سے عائلی قوانین جاری کئے گئے۔ علمائے حق نے
ان کے خلاف تفصیلی مقالات اور مضامین لکھے اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ثابت
کیا کہ ان قوانین کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں ٗ سرکاری مولویوں نے اگرچہ ان کو
اسلامی قوانین ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ثابت نہیں ہوسکا۔ اس
زمانہ میں احقر نے ان کیخلاف سلسلہ وار مضامین و مقالات شروع کئے۔ جو ان شاء اللہ
زیور طبع سے آراستہ ہورہے ہیں اسی زمانہ میں راقم نے ایک طویل مقالہ میں یہ ثابت
کیا کہ اسلام سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ٗ منکرین حدیث اور غلام احمد پرویز کی
تحریرات ان کے مآخذ ہیں مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع قدس سرہ العزیز اس
سے بڑے خوش ہوئے کہ آپ نے سچی بات لکھ دی ہفت روزہ شہاب لاہور میں یہ مضمون چھپا
تھا۔
۳۔
خاندانی منصوبہ بندی کو زور شور سے شروع کیا گیا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اس کیلئے بے
دریغ وقف کئے گئے اس طرح دین دشمن ملکی وغیر ملکی عناصر کو خوش کرنے کی کوشش کی
گئی۔
حضرت مولانا محمد یوسف
بنوری رحمتہ اﷲ علیہ واسعۃً و قدس اللہ سرہ العزیز دین کے معاملہ میں بہت ہی حساس
دردمند دِل رکھتے تھے ٗ دین پر اگر کوئی شخص حملہ کرے یا دینی حکم کو تبدیل کرنے
کی کوشش کرے۔ حضرت مولانا اس کے مقابلہ کیلئے سینہ سپر ہوجاتے تھے اور امکانی حد
تک کوشش فرماتے ٗ اسی دور میں مولانا کو باوثوق ذرائع سے یہ خبر پہنچی کہ اسلامی
نظریاتی کونسل کی صدارت کیلئے غلام احمد پرویز علیہ ماعلیہ پر حکومت کی نگاہ
انتخاب پڑی ہے مولانا کو اس خبر سے فکر مند ہونا ناگزیر تھا ٗ مولانا جانتے تھے کہ
یہ شخص منکر حدیث ہی نہیں بلکہ منکر قرآن ہے یورپ اور روس کی فکر مستعار اس کا
نظریہ حیات ہے جس کو وہ افسانوی زبان کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔ راقم کو
مولانا نے مقرر فرمایا کہ پرویز کی اس وقت تک لکھی ہوئی کتابوں کو دیکھ کر میں
تنقیحات قائم کروں اور پھر ہر تنقیح پر قرآن کریم اور اسلامی ادلہ کی روشنی میں
بحث کرکے ایک متفقہ فتویٰ تحریر کیا جائے۔ فتویٰ تیار ہوگیا ملک کے طول و عرض میں
پھیلے ہوئے علماء کرام سے تائیدی و توثیقی دستخط لئے گئے اور فتویٰ پرویز کے نام
سے اس کو طبع کرایا گیا ٗ تعداد دس ہزار تھی جو چند سالوں میں ختم ہوگیا۔ طبع ثانی
پر لوگوں کا اصرار تھا کیونکہ انکارِ حدیث کا فتنہ بددینی ٗ بے حیائی ٗ مادر پدر
آزادی کے سایہ میں پروان چڑھ رہا ہے کچھ دوسرے منکرینِ حدیث بھی میدان میں آگئے
ہیں یہ ایک فتنہ عظیم ہے جس کی جڑیں بڑی گہری ہیں ٗ مقامی کمیونزم اور ناصبیت بھی
اسی کی شاخیں ہیں ٗوکلاء اور جج صاحبان کی ایک بڑی تعداد کی آبیاری بھی اسی فتنہ
سے ہورہی ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی پرویز صاحب کی طرح عربی زبان سے ناواقفیت
بلکہ جہالت کے باوجود ’’اجتہاد‘‘ کے منصب جلیل پر فائز ہوں اور یہ کہیں کہ اجتہاد
کے لئے عربی زبان جاننے کی قطعاً ضرورت نہیں ٗ دوسرے منکرین حدیث کا تانا بانا بھی
پرویز ہی کی کتابیں ہیں اس لئے اس فتویٰ کو بہ لباس جدید شائع کیا جارہا ہے۔
ممکن ہے کہ محمد عربی صلی
اﷲ علیہ وسلم کے مقام و منصب جلیل کے مخالف یا اس کے دامِ تزویر میں پھسنے والے
دوستوں کو اس سے فائدہ پہنچ جائے اور راقم مذنب و خطا کار کو محمد عربی صلی اﷲ
علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوجائے جن صاحب خیر نے اس کی طباعت ثانیہ کا انتظام فرمایا
ہے اللہ تعالیٰ ان کو دین و دنیا کی دولت سے مالا مال فرمائے اور اجر عظیم عطا
فرمائے۔
)وماذالک علی اﷲ
بعزیز(
کتبہ:مفتی ولی حسن
خان ٹونکی
دارالافتاء جامعۃ
العلوم الاسلامیہ
علامہ بنوری ٹائون
‘کراچی
)۵ربیع
الاول ۱۴۰۵ھ(
پاکیزہ
لہریں
ہفت روزہ القلم کو اﷲ تعالیٰ نے سعادت
بخشی اور اس نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر ’’خصوصی نمبر‘‘ شائع
کیا۔ اس خوبصورت اور مقبول نمبر کے لئے لکھا گیا ’’رنگ ونور‘‘ جس میں پانچ دل گداز
واقعات کے علاوہ کئی احادیث اور واقعات سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کا
ایک ’’انمول پہلو‘‘ اجاگر کیا گیا ہے۔ دل سے دنیا کی محبت نکالنے والی ایک تحریر۔
)۱۲ربیع
الا ول ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۸اپریل
۲۰۰۵ء(
پاکیزہ
لہریں
اﷲ تعالیٰ… ہم سب کو پاک
فرمائے… ہمیں غسل کرنے اور نہانے کی ضرورت ہے… مگر ایسا پانی کہاں سے لائیں جو
ہمیں پاک کر دے… ہمارے دل کی غلاظت کو دھو ڈالے… کوئی چھوٹی موٹی گندگی اور غلاظت
ہوتی تو ایک دو بالٹی پانی سے کام چل جاتا مگر یہاں تو صبح شام ناپاکی اور غلاظت
ہے۔ آئیے تھوڑی سی ہمت کرکے نور کے سمندر کی طرف جاتے ہیں اور اس میں چھلانگ لگا
دیتے ہیں خود کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ دیر سکون حاصل کرتے ہیں آئیے بسم
اﷲ پہلا غوطہ…
۱… ایک صاحب رو رہے
ہیں … موت ان کے بالکل سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے ان کے دوست پوچھتے ہیں بھائی جان!
آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ اﷲ کے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اس دنیا سے پردہ
فرمایا تو وہ آپ سے خوش اور راضی تھے آپ حوض کوثر پر جائیں گے اپنے پیارے ساتھیوں سے
ملیں گے جو صاحب بیمار تھے انہوں نے فرمایا مجھے نہ موت کا ڈر رلا رہا ہے… اور نہ
دنیا میں رہنے کی تمنا … لیکن مسئلہ اور ہے… رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم سے ایک
عہد لیا تھا کہ دنیا میں تمہارا سامان بس اتنا ہو… جتنا ایک سوار مسافر کا سامان
ہوتا ہے… میں اس پر رو رہا ہوں کہ … یہ عہد اچھی طرح پورا نہ کرسکا… تم دیکھ رہے
ہو… میرے گرد دنیا کا کتنا سامان جمع ہے … حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے دیکھا تو … کپڑے
دھونے کا ایک برتن …پانی پینے کا ایک پیالہ … اور ایک لوٹا موجود تھا… اور عظیم
صحابی … حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ …جن کو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت
میں شمار فرما لیا تھا… ہچکیاں بھر بھر کر رو رہے تھے… اور اپنی ’’دنیا داری‘‘ پر
آہیں بھر رہے تھے… حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ انتقال فرما گئے… رفقاء نے کل اثاثے شمار
کئے … صرف چودہ درہم مالیت کے تھے … (الترغیب و الترہیب ص ۷۹ ج ۴)
ہاں اتنی مالیت کے … جتنی
مالیت کا بعض اوقات ہم ایک ٹائم کا کھانا کھا جاتے ہیں… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
… صرف …حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے محبوب اور نبی نہیں تھے… ہمارے بھی آقا …
اور نبی ہیں … ہمیں بھی حوض کوثر پر جانے کی ضرورت ہے… آئیے ذرا ہم بھی اپنا
’’سامان ‘‘ شمار کریں… اپنے کپڑے‘ جوتے اور ہر طرف بکھری دنیا … ناپاک غلیظ … اور
ملعون دنیا … پھر دل میں جھانکیں کہ مزید کتنی چیزوں کی ضرورت ہے؟… ہائے رباّ! ہم
تو سر سے پائوں تک اس دنیا میں پھنس گئے … اور مزید پھنستے ہی جا رہے ہیں … حضرت
سلمان رضی اﷲ عنہ تین برتنوں پر رو رہے تھے… کیا کبھی ہم نے بھی … اپنی ’’دنیا
داری ‘‘ پرایک آنسو بہایا؟… صرف ایک آنسو… کیا ہمیں بھی کبھی … دنیا کے سامان سے
ڈر … اور خوف محسوس ہوا ۔۔۔۔ نہیں ہمارے دل پر دنیا کی غلاظت کا میل بہت سخت
ہے۔۔۔۔۔ آئیے نور کے سمند رمیں ایک اور غوطہ لگاتے ہیں … کیونکہ ہمیں اس کی اشد
ضرورت ہے… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا … ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری
امت کا فتنہ مال ہے (رواہ الترمذی… الترغیب و الترہیب ص ۸۶ج ۴)
۲… جو دنیا میں پیارا
ہوتا ہے… دل چاہتا ہے کہ جنت میں بھی ساتھ رہے… دنیا میں جب سے محبت اور وفا پیدا
ہوئی ہے … اس نے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا… محبت اور وفا نبھانے والا نہیں
دیکھا… اور پھر آپ نے … حضرت امی عائشہ رضی اﷲ عنہا کو جو محبت دی… اس کی مثال کوئی
نہیں لاسکتا… یہ محبت عرش کے اوپر سے لاکر … آپ کے دل مبارک میں ڈالی گئی تھی…
اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا… کا مقام ہی ایسا تھا… اسی لئے تو آپ کی… شان اور پاکی میں
قرآن کے رکوع نازل ہوئے… ہر شخص اپنی ’’بیوی‘‘ کے لئے دنیا کا سامان بنا تا ہے…
اور بیوی جتنی اچھی ہو … اسی قدر اسے سونے چاندی میں تولتا ہے … مگر یہ دیکھیں …
اماں عائشہ … صدیقۂ کائنات رضی اﷲ عنہا کیا فرما رہی ہیں…
’’مجھ سے رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا… اگر آخرت میں مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو بس دنیا میں
اتنے سامان کو کافی سمجھو … جتنا … ایک سوار کے پاس توشہ ہوتا ہے… اور مالداروں کے
پا س بیٹھنے سے بچو… اور کسی لباس کو استعمال کرنا… اس وقت تک نہ چھوڑو جب تک اسے
پیوند نہ لگا لو‘‘… (الترغیب و الترہیب ص ۷۸)
اے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی زیارت کے لئے تڑپنے والو! … یہ ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات کا نسخہ
… اے اپنی بیویوں کیلئے مال کے ڈھیر جمع کرنے والو! … یہ ہے اماں عائشہ رضی اﷲعنہا
… جیسی بیوی کا سامان زندگی… مجالس میں بن ٹھن کر غریبوں کا دل دکھانے والی
عورتو!… یہ ہے کائنات کی کامیاب ترین خاتون کا سٹینڈرڈ … اور معیارزندگی… اماں
عائشہ رضی اﷲعنہا … کے بھانجے عروہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ … اماں عائشہ
رضی اﷲ عنہا نے اس نصیحت کو پلے باندھا … انہیں تو رب کی رضا … اور رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی رفاقت کا جنون تھا… وہ اس وقت تک نئے کپڑے نہیں لیتی تھیں… جب تک
استعمال والے کپڑوں پر پیوند نہ لگ جاتے… مال ان کے پاس آتا تھا … مگر … وہ آخرت
کے لئے ذخیرہ کرتی تھیں… ایک بار حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اسی ہزار درہم بھجوائے
… شام تک اماں نے سب بانٹ دیئے… ان کی باندی نے کہا… اور غالباً خود انہیں اور
باندی کو روزہ تھا کہ … ایک درہم کا گوشت ہی خرید لیا جاتا… فرمانے لگیں … یاد دلا
دیتی تو لے لیتی… ہائے رباّ یہ ہے دین اور یہ ہے ایمان کہ … آخرت یاد ہے… اور دنیا
بھول گئی … پتہ نہیں ہمارا کیا بنے گا جنہیں صرف دنیا ہی یاد رہتی ہے… اور اپنے آج
کی نہیں اگلے سالوں کی بھی فکر رہتی ہے … پھر صرف اپنی نہیں اپنی آئندہ نسلوں کی
فکر بھی ہم سے ہر الٹا سیدھا کام کراتی ہے… یا اﷲ ہم بہت پیچھے رہ گئے… کچھ تو کرم
فرما… اورہماری عورتوں کو بھی فکرِعائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا عطافرما۔۔۔۔۔آج
مالداروں کے ہاں آنا… جانا… زندگی کی کامیابی … اور تہذیب کا معیار سمجھا جاتا ہے…
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی حبیبہ بیوی سے فرمایا… خبردار مالداروں کے ساتھ نہ
بیٹھنا … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیوں منع فرمایا… آئیے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے
ہی جواب پوچھتے ہیں…
۱… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا… جو کسی مالدار کے سامنے عاجزی (اور چاپلوسی ) کرے گا تاکہ
اس سے مال حاصل کر ے تو وہ اﷲ تعالیٰ کو ناراض کرے گا۔
(الترغیب
والترہیب ص ۸۶)
۲… دوسری روایت میں
ہے کہ جو شخص کسی مالدار کے سامنے بیٹھا اور اس نے دنیا کا مال حاصل کرنے کیلئے
مالدار کے سامنے عاجزی … (اور چاپلوسی) کی تو اس کے دین کا دوتہائی حصہ ضائع
ہوگیا… اور وہ جہنم میں جائے گا… (الترغیب و الترہیب ۸۷ص ج۴)
۳… حضور پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…
مالداروںکے پاس کم جایا
کرو… تب زیادہ ممکن ہو گا کہ تم اﷲ تعالیٰ کی نعمتوںکو حقیر نہ سمجھو… (رواہ الحاکم وقال صحیح الاسناد الترغیب ص ۹۱ج ۴)
۴… حضور پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…
میں نے جنت میں جھانکا تو
دیکھا کہ اس میں اکثریت فقراء کی تھی اور میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اس
میں اکثریت… مالداروں اور عورتوں کی تھی… (رواہ احمد باسناد جید الترغیب والترہیب
ص ۸۸)
اکثر مالدار… اﷲ تعالیٰ
کے حقوق سے غافل ہو جاتے ہیں … پاخانے اورغلاظت جیسے مال پر اکٹرتے ہیں …اور
غریبوں کا دل دکھاتے ہیں… زندگی کا معیار اتنا ’’تکلف ‘‘ والا بنا دیتے ہیں کہ …
غریبوں کے دل میں رسوائی پیدا ہوتی ہے… اکثر مالدار… مال جمع کرتے ہیں … اور ہمیشہ
اسے بڑھانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں … وہ مال میں سے اﷲ تعالیٰ کے حقوق ادا نہیں
کرتے… وہ بزدل اور عیش پرست ہونے کی وجہ سے … دین کیلئے قربانی نہیں دیتے … اور
اپنے مال کو ناجائز کاموں میں خرچ کرتے ہیں … اسی لئے جہنم… ان سے بھر گئی… یا اﷲ
ہم سب کی حفاظت فرما… ہاںجومالدار … ایسا نہ ہو… وہ تو اپنے مال کے بل بوتے پر …
رب کو پاتا ہے… اور اونچے درجات حاصل کرتا ہے… یاد رکھیں… مالدار ہونا یا غریب
ہونا ہر آدمی کے اپنے بس میںنہیں ہے… اگر مالدار ہو تو … شکر گزار بنے … سخاوت اور
سادگی اختیار کرے اسراف ذخیرہ اندوزی اور نام ونمائش سے بچے… اور مال کو اس کے
حقداروں تک پہنچائے… اور اسے اپنی زندگی کا مقصد نہ بنائے… غریب ہوتو خوشی اور صبر
سے کام لے… حرص‘ لالچ اور اسراف سے بچے… مالداروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے… اور
اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے کو بہت اور کافی سمجھے…بس اسی کا حکم ہے…
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم نے اپنی حبیبہ … اور لاڈلی بیوی کو تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ … دنیا کا سامان
اتنا رکھو… جتنا … ایک گھڑسوار مسافر کا توشہ ہوتا ہے… اماںنے اس پر عمل کیا …
ساری زندگی ایک کمرے میں خوشی خوشی گزارہ فرمایا… اور دنیا کے سامان کو اپنے گرد
ڈھیر نہیں ہونے دیا… اے نور کے سمندر میں غوطہ لگانے والو!… آئو ہم اپنے سامان پر
نظر ڈالیں …ہمیںبھی تو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قرب اوررفاقت کی ضرورت ہے
…اور کچھ نہیں تو اپنی ضروت سے زائد سامان اٹھا کر غریبوں کے گھروں تک پہنچا آئیں…
شاید… ہاں بہت ممکن ہے… بلکہ بھائیو… اور بہنو بہت ضروری ہے کہ … ہمیں آقا مدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیار اور قرب نصیب ہو جائے… اور ہم گھٹیا دے کر قیمتی پانے
والے … عقلمند بن جائیں… یہ معیشت معیشت کا شور مچانے والے… ہمیں … آقا مدنی صلی
اﷲ علیہ وسلم سے دور کر رہے ہیں… یہ سود کے ذریعے … ہم سب کو ناپاک کر رہے ہیں… یہ
ترقی کے نام پر ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں … یہ ہمیں دنیا کا ایسا خارشی کتا بنانا
چاہتے ہیں … جس کی خواہش اور خارش ہر لمحہ بڑھتی رہتی ہے… اگر مال میں سکون ہوتا …
اور مال کی محبت کامیابی کی ضمانت ہوتی تو … بڑے بڑے فنکار‘ اداکار‘ … خود کشیاں
کیوں کرتے … مالدار ممالک میں جرائم کیوں ہوتے… معیشت معیشت کا شور ہمیں کافروں کا
غلام بنانے کیلئے ہے… تاکہ ہم دنیا کے اتنے حریص ہو جائیں کہ پھر ہمیں … ا س کی
خاطر… غلام بننے میں عار نہ آئے… ہائے ان ظالموں! نے مالداروں کو حریص… اور غریبوں
کو لالچی بنانے کے علاوہ اور ہمیں کیا دیا ہے؟… مالدار ابھی ایک ماڈل پر فخر کرر
ہے ہوتے ہیں کہ دوسرا ماڈل مارکیٹ میں آجاتا ہے… اور اعلان ہوتا ہے کہ … اسے
استعمال کرنا ترقی… اور فیشن ہے… خود سوچئے کہ کیا یہ انسانیت ہے؟… کہ نام نمود …
کی خاطر انسانوں کا مال یوں برباد ہوتا رہے… اور پھر مالداروں کے ان نخروں نے
غریبوں کی زندگی مشکل بنا دی… لوگو! … اگر ہمارا بیڈروم امریکی اسٹائل کا نہ ہوتو
… اس میں کون سی پریشانی ہے… مگر امریکی اسٹائل کے بیڈروم کا اتنا چرچہ کیا جائے
گا کہ … غریب کو اپنا بستر برا لگنے لگے گا… اور وہ بھول جائے گا کہ … آقا مدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم کا بستر مبارک کیسا تھا… اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ ہم بہت گندے
ہو گئے ہیں… بہت میلے اور ناپاک آئیے نور کے سمندر میں ایک اور سکون بھرا …
آنسوئوں سے لبریز غوطہ لگاتے ہیں…
۳… ایک انصاری خاتون
اس حجرے میں تشریف لائیں جو زمین پر … رشک ِآسمان بنا ہوا تھا … جی ہاں … حضور پاک
صلی اﷲ علیہ وسلم … اور اماں عائشہ رضی ا ﷲ عنہا کا اس میں قیام تھا… اس نے جب آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کا سخت اور کھردرا بستر دیکھا تو دل تھام کر رہ گئیں … فوراً اپنے
گھر جاکر … ایک ایسا بستر بھجوا دیا جس میں اون بھری ہوئی تھی… آقا مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم تشریف لائے… پوچھا … عائشہ ! یہ کیا ہے؟… انہوں نے پورا واقعہ سنایا…
بارگاہ نبوت سے اعلان ہوا… عائشہ ! یہ واپس بھجوا دو… اﷲ کی قسم اگر میں چاہوں تو
اﷲ تعالیٰ میرے ساتھ … سونے چاندی کے پہاڑ چلا دے… (الترغیب و الترہیب ص۱۰۰)
یعنی یہ فقر اور سادگی…
میںنے خود پسند کی ہے… کاش ہمارے مالداروں کا دماغ بھی ایسا ہو جائے… کہ وہ بھی
مال ہونے کے باوجود… فقراور سادگی اختیار کریں تو پھر… غریبوں کی گرم آہوں سے تو
محفوظ رہیں… مالداروں نے شادیاں مہنگی کر دیں… صرف اپنے ’’ناجائز نخروں ‘‘ کی وجہ
سے… انہوں نے ’’رہائش‘‘ مہنگی کردی… صرف خود کو اونچا دکھانے کیلئے… انہوں نے
’’لباس ‘‘ مشکل بنا دیا صرف اپنی ناک رکھنے کیلئے… انہوں نے ’’کھانا‘‘ مہنگا کر وا
دیا صرف اپنی بیوقوفی … کم عقلی … اور غلاظت زیادہ بنانے کے شوق میں…
آپ احادیث مبارکہ پڑھ کر
دیکھ لیجئے … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم جب کئی کئی دن بھوک میں ہوتے تھے … اور آپ
کے پیٹ پر پتھر … یا کپڑا… بندھا ہوتا تھا تو آسمان لرز ا ٹھتے تھے … فرشتے زمین پر آکر کہتے کہ آقا
حکم فرمائیں… اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اجازت دے دی ہے… اگر آپ چاہیں تو ہم پہاڑوں کو
سونا … اور جواہر بنا دیں… مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیشہ انکار فرمادیا … اور
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا … ایسا جملہ کہ جس نے
مسلمانوں کو دنیا کی غلاظت سے آزاد کرکے پوری دنیا کا حکمران بنا دیا تھا… مگر
مسلمانوں نے اس جملے کو بھلا دیا… اور صرف اپنی نقلی بناوٹ… معدے میں چٹ پٹے کھانے
بھرنے… اور کافروں کے ہاں … بندروں کی طرح مقام پانے کیلئے… غلامی کے راستے کو چن
لیا…
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا…
من کانت ھمتہ الدنیا حرّم
اﷲ علیہ جواری فانی بعثت بخراب الدنیا ولم ابعث لعمار تھا۔ (رواہ الطبرانی الترغیب
والترھیب ص ۸۶ج
۴)
ترجمہ: جو دنیا ہی کی فکر
کو اپنالے گا تو اﷲ پاک نے اس کیلئے میرے قرب کو حرام کر دیا ہے کیونکہ میں دنیا
کی تعمیر کے لیے نہیں دنیا سے بے رغبتی … اور اس کی ویرانی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں…
یقین کریں عجیب حکیمانہ
نسخہ ہے… میں دنیا کی ویرانی کے ساتھ آیا ہوں… بس یہی راز تھا … دنیا پر حکومت
کرنے اور دنیا کو اپنے قدموں تلے روندنے کا … یہ دنیا ملتی ہی صرف اسی کو ہے جو
اسے چھوڑنے … اور پھینکنے کی ہمت رکھتا ہے… آج یہ حدیث… معیشت کے غم میں گھلنے والے
لوگوںکو سنائی جائے تو ممکن ہے… نعوذ باﷲ …مذاق اڑانے لگیں … مگر صحابہ کرام رضوان
اﷲ علیھم اجمعین نے اسے سنا … اور سینے سے لگا لیا… پھر اپنی دنیا کو ویران کرکے
نکل پڑے… تب … دنیا کو تعمیر کرنے والے روم و فارس ان کے غلام بنا دیئے گئے… یہ
آسمانی راز ہے… جو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کو ربّ تعالیٰ نے سکھایا… اور پھر آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں اتار دیا… اوریوں… مدینہ
منورہ کی ایک کچی مسجدسے اٹھنے والا نور… ان لوگوں کے ہاتھ لگا … جو اپنے معدے کی
فکر… اور ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کی منحوس سوچ سے آزاد تھے… اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے یہ نور … پورے عالم میں پھیل گیا… اور آج جبکہ ہمیں آگے بڑھنے کا شوق کھائے
جا رہا ہے… اور ہم فیشن اور معدے کے ہاتھوں رسوا ہیں… دنیا ہمیں ذلیل کر رہی ہے…
اور ہم اپنی صفائیاں دے دے کر مقام پانے کیلئے … اچھل کود کر رہے ہیں میرے آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا بستر جنتی تھا … کاش ہمارا بستر بھی سادہ ہو جائے…
دیکھئے یہ روایت … حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ … آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے… انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلو مبارک پر
چارپائی کے نشانات دیکھے… دونوں جانثاروں نے عرض کیا… یا رسول اﷲ … آپ کی
چارپائی او ر بستر کا کھردرا پن آپ کو
تکلیف دیتا ہے… اور ادھر روم و فارس کے بادشاہ … ریشم و دیباج کے بستروں پر مزے
کرتے ہیں … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا … ایسا مت کہو… کیونکہ روم و فارس
کے بادشاہوں کے بستر جہنم میں لے جانے والے ہیں … اور میرے اس بستر کا انجام ’’جنت
‘‘ ہے… (رواہ ابن حبان فی صحیحہ الترغیب و الترہیب ص۹۹)
اے مسلمانو… اے کافروں کی
ترقی کو مزے لے لے کر … بیان کرنے والو!… ہوسکے تو اس روایت کو باربار پڑھو… اور
اپنے دل کو پاک کرو… ہم … ترقی کے مخالف نہیں … مگر آج جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ
ترقی نہیں ہلاکت اور جہنم ہے… ترقی یہ تھی کہ حکمران خود ’’فقر‘‘ اختیار کرتے…
ترقی یہ تھی کہ مال کا شوق دلوں سے نکالا جاتا… ترقی یہ تھی کہ … انسان کی زندگی
سادہ اور بے تکلف بنائی جاتی … ترقی یہ تھی کہ … مال کی ذخیرہ اندوزی نہ ہوتی…
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین … آج کے مالداروں سے
… زیادہ … مالدار تھے مگر انہوں نے مال کو … ناک کا بال نہیں بنایا … او ردنیا کی
حقیقت اور غلاظت کو سمجھا… انہوں نے انسانوںکو … کپڑوں اور جوتوں کے برابر نہیں
تولا… انہوں نے قوم کی بیٹیوں کو … سرخی پائوڈر کے بھائو نیلام نہیں کیا… انہوں نے
انسان کو … عزت اور قدر دی … اور صرف مالدار ہونے کو معاشرے میں عزت کا تمغہ نہیں
بنایا… ان کے زمانے میں انسان اوپر تھا … اور مال حقیر گدھے کی طرح اس کے نیچے…
جبکہ … آج کے زمانے میں مال اوپر ہے… اور انسان حقیر گدھے کی طرح نیچے ہے… آقامدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا کی محبت کو … تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا … آج … چوری ‘
ڈاکے‘ ملاوٹ ‘ ذخیرہ اندوزی… کساد بازاری … اسمگلنگ … بے حیائی … اور فحاشی کی اصل
وجہ … دنیا سے محبت ہے… انسان کو بتایا گیا ہے کہ … اگر تمہارے پاس بہت سا مال
نہیںہو گا تو تم انسان نہیں رہو گے… بس پھر کیا تھا… انسان نے سب کچھ بیچ ڈالا… ہر
راستہ اختیار کرلیا… اور ہر جرم کر ڈالا… تاکہ… اسے بہت سارا مال ملے… اگر اسی کا
نام ترقی ہے … تو لعنت ہو اس پر … اگر سود بازی کا نام معیشت ہے تو کروڑ لعنت ہو …
اس پر … آئو… مسلمانو … تھوڑی دیر کیلئے اس بیمار دنیا سے نظریں ہٹا کر … مدینہ
منورہ کے پاک ماحول کو دیکھتے ہیں… اور دعا کرتے ہیں۔
یااﷲ ہم دنیا کی محبت کے
شر سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں …اور اس دعا کے بعد سکون … اور مزید پاکی کیلئے ایک
اور غوطہ لگا تے ہیں… اور خود کو… نور کی لہروں میں چھپالیتے ہیں…
۴… حضرت کعب رضی اﷲ
عنہ فرماتے ہیں… میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا… میں نے دیکھا کہ
آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدلا ہوا ہے… میں نے عرض کیا… میرے والدین آپ پر فدا ہوں
آپ کے چہرے پر تبدیلی کے اثرات ہیں؟… ارشاد فرمایا… تین دن سے پیٹ میں ایسی چیز
نہیں گئی… جسے کوئی جاندار کھاتا ہے… (حضرت کعب تڑپ اٹھے) فرماتے ہیں کہ مزدوری کی
تلاش میں نکلا ایک یہودی کو دیکھا کہ اپنے اونٹ کو پانی پلا رہا ہے… میں نے اس کی
نوکری کرلی… ایک ڈول پانی پلانے کے بدلے ایک کھجور … کچھ کھجوریں جمع ہوگئیں توآپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے آیا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اے کعب کیا تم مجھ
سے محبت کرتے ہو… میں نے کہا میرے والدین آپ پر فدا جی یا رسو ل اﷲ… فرمایا… مجھ
سے محبت کرنے والوں پر ’’فقر‘‘… سیلاب سے زیادہ تیزی کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔
(الترغیب و الترہیب ص ۹۴
ج ۴)
اﷲ اکبر … یہ دین ہم تک
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیسے پہنچایا … آپ دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ …
تین تین دن تک … بھوک برداشت فرمانے والے… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کامیاب تھے یا نعوذ باﷲ ناکام ؟… اگر کامیاب
تھے تو یہ آج کیا شور ہے؟… مجاہدین کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے… ہم غریب رہ گئے …
ورنہ دنیا کے کافر تو ہمیں سود کی غلاظت میںپوری طرح غرق کردیتے …میں دنیا کو
باربارغلاظت لکھتا ہوں… کیونکہ ایسا آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے… اور
مجھے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات نقل کرنے میں … کسی سے کوئی ڈر نہیں لگتا…
نہ گولی کا نہ طعنے کا … اور ساری زندگی سود کھانے اور لکھنے والے کیا جانیں کہ یہ
باتیں… کتنی پاک ہیں… کا ش پاکستان کی معیشت کی بنیاد بھی انہیں باتوں پر ہوتی …
چھوڑئیے سیاسی باتوں کو …ا گر ہمارے مجاہدین … اور دیندار طبقے کے دلوں میں دنیا
کی محبت کم ہوجائے تو اﷲ پاک کی قسم… حالات فوراً بدل جائیں… مگر کیا کریں … جب
مصیبت آتی ہے تو ساتھ اپنے اسباب بھی لاتی ہے… کیا مجاہدین اور کیا دین دار سب کے
دل پر خبیث دنیا کا جادو چل گیا ہے… اسی لئے تو لوگ ان پر غالب آگئے… دنیا کی محبت
اور ذلت مسلمان پر ایک ساتھ حملہ کرتی ہیں … یااﷲ ہمیں دنیا کی محبت سے بھی بچا…
اور ذلت سے بھی بچا… اور ہم سب کو ملعون دنیا کی حقیقت سمجھا… ہمیں اس میں غافل
ہونے سے بھی بچا… اور اس میں کسی کا محتاج ہونے سے بھی بچا… اور ہمارے دل میں سے
دنیا کی خواہشات کو ختم فرما… تاکہ … ہم آزاد ہوجائیں … ہلکے ہو جائیں… طاقتور ہو
جائیں… اور اسلا م کی خاطر طوفان کی طرح تیز ہوجائیں … آج القلم والے … سیرت کے
موضوع پر خاص شمارہ اسی لئے نکال رہے ہیںکہ … ممکن ہے… معیشت معیشت کے گندے شور کے
دوران … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ اعلان ہمارے کانوں تک پہنچ جائے کہ… ’’تم
سے پہلے والوں کو دینار اور درہم نے ہلاک کیا اور یہی دونوں تمہیں ہلاک کر دیں
گے‘‘۔(الترغیب و الترہیب ص۸۸)
پس ہلاکت ‘ ذلت‘ ناکامی‘
… اور رسوائی سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ … درہم و دینار کی محبت دل میں نہ آئے…
اور ان دونوںکا حصول ہمارا مقصد زندگی نہ بننے پائے… ہاں میرے بھائیو!… اور بہنو…
دنیا کی محبت سے بچنا بہت مشکل ہے… جو بچنا چاہتا ہے اس کے اردگرد والے نہیں بچنے
دیتے… جو جان چھڑاتا ہے اس کو رسوا قرار دیا جاتا ہے… مگر بچنا ضروری ہے… فقراء
پہلے جنت میںجائیں گے… اورعزت یہ نہیں کہ لوگ واہ واہ کریں… عزت یہ ہے کہ رب راضی
ہو جائے… نور کے سمندر کی حسین لہریں تو بہت ہیں … بات مختصر کرنے کیلئے… ایک اور
غوطہ لگاتے ہیں… اور پھر اسی سمندر میں … جگہ پانے کی دعا … کرتے ہیں…
۵… آقا مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم کی لخت جگر… سب سے پیاری اور لاڈلی بیٹی … جنت کی عورتوں کی سردار… حضرت
فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا … روٹی کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لئے حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں … حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا چیز
ہے؟… عرض کیا کہ … میں نے ایک روٹی پکائی تھی اور دل نہ چاہا کہ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے بغیر کھائوں … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا… تین دن کے بعد یہ پہلا لقمہ
ہوگا جو تمہارے باپ کے منہ میں جائے گا… (نسخۂ کیمیا ترجمہ کیمیائے سعادت ص ۵۸۹)
ہائے اﷲ …ہائے رباّ آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کتنی بھوک برداشت کی… میں آپ کی بھوک پر قربان … میں آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں کی خاک پر قربان… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر کروڑوں اربوں
… دردو سلام… آسمان وزمین کے برابر … تمام مخلوق کے برابر … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی بھوک پر آسمان و زمین… اور تمام مخلوقات جتنا روئیں… ان کے آنسوئوں کے
برابر… مجھے کوئی اور اچھا نہیں لگتا… میری نظروں میں آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
کے سوا کوئی نہیں جچتا … مجھے آقا کی صورت سے پیار ہے…… مجھے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم
کی سیرت سے پیار ہے… او ناپاک گوشت سے پیٹ بھر کے اکڑنے والو!… تمہاری خاطر… آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتوں …اور ادائوں کو چھوڑ دیں؟… یہ کیسے ممکن ہے؟ … اﷲ
پاک کی قسم تم سونے کے نوالے کھائو… اور دنیا بھر کی غلاظت کے مالک بن جائو… تب
بھی… تمہیں ترقی یافتہ اور مہذب سمجھنا ہمارے بس میں نہیں ہے… اے … مسلمانو… میرے
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم تین دن سے بھوکے … اﷲ اکبر… اور میدان احد میں زخمی …
کیا ہم انہیں بھول جائیں؟… کیا ہم انہیں چھوڑ دیں؟ … کیا ہم ان کے دشمنوں جیسی شکل
بنالیں؟… نہیں… ہر گز نہیں… یااﷲ ہمیں … اپنے محبوب کی محبت پر تھام لے… اور ہمیں
دین پر استقامت عطا فرمادے… اور اے میرے پیارے رباّ … میرے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم … تیری رضا کی خاطر … بھوک برداشت کرتے رہے … اور اس امت تک دین پہنچانے
کیلئے… زخم کھاتے رہے… اے پیارے رباّ! وہ آپ کے پیارے تھے… بس آقا مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم کی بھوک… اور زخم کو دیکھتے ہوئے… ان کی امت پر رحم فرمائیے … آپ ہی
جانتے ہیں کہ … آج آپ کے محبوب کی امت کا کیا حال ہے۔
اللھم ارحم امتہ محمدٍ
صلی اﷲ علیہ وسلم
دن رات
روشن خیالی کے نشے میں مسلمانوں پر
ظلم کرنے والوں سے چند صاف صاف باتیں اوراہل ایمان کو تسلی کہ حالات ہمیشہ ایک
جیسے نہیں رہتے۔
مزید فوائد: (۱)افغانستان میں ماضی قریب
کی دلچسپ تاریخ (۲)کیمونزم
کا عبرتناک انجام (۳)پاکستان
کے تازہ حالات۔
)۱۹ربیع
الا ول ۱۴۲۶ھ
بمطابق۵مئی
۲۰۰۵ء(
دن رات
اﷲ تعالیٰ نے رات بھی
بنائی… اور دن کو بھی پیدا فرمایا… دن آتا ہے تو رات کو کھاجاتا ہے… اور رات آتی
ہے تو دن کو نگل جاتی ہے… مگر دن نے کبھی یہ دعویٰ نہیںکیا کہ میں آگیا ہوں… اب
رات ختم ہوگئی ہے… وہ کبھی نہیں آئے گی… اور نہ کبھی رات نے یہ اعلان کیا کہ اب دن
کے ’’دن‘‘ گنے جاچکے ہیں وہ اب کبھی نہیں آسکے گا… اﷲ تعالیٰ نے اندھیرے بھی بنائے
… اور روشنی بھی… اس نے ’’ظلمت‘‘ کو بھی پیدا کیا اور ’’نور‘‘ کو بھی… اس نے زندگی
بھی بنائی… اور موت بھی… ا س نے میٹھا پانی بھی پیدا کیا … اور کڑوا بھی… اس نے
خوبصورت اور مفید جانور بھی بنائے… اور سانپ بچھو اور ریچھ بھی… اس نے شیر کو
بہادری بخشی… جبکہ … گیدڑ کو بزدلی میں مشہور کرادیا… مگر جنگل میں کبھی شیر غالب…
اور کبھی گیدڑوں کا راج… افغانستان میں ظاہر شاہ کی ’’شاہی‘‘ حکومت تھی… گھر کے
چراغ نے گھر کو آگ دکھائی… خاندان میں جھگڑا ہوا… اور ’’شاہی دور‘‘ ختم ہوگیا… صدر
داؤد کے بعد… سوویت یونین کے مہرے… ایک ایک کرکے آتے گئے… اور اپنے برے انجام سے
دوچار ہوتے گئے… نور محمد ترکئی … حفیظ اﷲ امین… ببرک کارمل… اب کوئی زندہ نہیں…
اس زمانے میں سوویت یونین اور روس کا نام چلتا تھا… ہمارے ’’بیرنگ‘‘ لفافے جو آ ج
اپنے پیچھے امریکی ٹکٹیں لگائے پھرتے ہیں… ان دنوں … اپنے چہرے ’’سرخ‘‘ بناتے تھے…
اور ہمارے … خربوزوں سے زیادہ پھیکے دانشور… مولویوں پر گرم تھے کہ سوویت یونین کو
’’خدا‘‘ تسلیم کرو… ورنہ کچھ بھی نہیں بچے گا… نقلی ’’انقلابیوں‘‘ کا ہر طرف زور تھا…
شام کا ’’حافظ الاسد‘‘ لیبیا کا کرنل قذافی… عراق کا صدام حسین… اور فلسطین کا
یاسرعرفات یہ سب … امریکہ کے خلاف یوں گرجتے تھے جس طرح بجلی بھرا بادل گرجتا ہے…
یہ سب … سوویت یونین کے مرید خاص تھے… اور تو اور … پاکستان کے ’’سرخے‘‘ درانتی
اور ہتھوڑے دکھا دکھا کر ڈراتے تھے کہ اب ’’روس‘‘ آیا… سوویت یونین ’’چھایا‘‘…
مجھے اچھی طرح یاد ہے… اس زمانے میں روشن خیال… اور دانشور وہی ہوتا تھا جو
کیمونزم کا قصیدہ پڑھتا… امریکہ اور سرمایہ داری کو گالی دیتا… اور لینن، اسٹالن
کے نام پر عقیدت کے انگوٹھے چومتا تھا… جب سیلاب آتا ہے تو … گدھوں، کتوں کے ساتھ
کچھ ’’حلال جانور‘‘ بھی بہہ جاتے ہیں… اس زمانے میں سوویت یونین کی طاقت کے سامنے
سجدے کرنے کا ایسا سیلاب آیا کہ … کچھ ’’مولوی‘‘ بھی بہہ گئے… میں نے ایسے ’’مولوی
حضرات‘‘ کو دیکھا اور سنا اور اﷲ پاک کی قدرت پر حیران ہوا کہ … اس کی مخلوق کے
کیسے کیسے رنگ ہیں… سنا ہے کہ ایک مولوی صاحب یہاں تک کہتے پھرتے تھے… اسلام اور
کیمونزم میں ’’تیرہ‘‘ باتیں مشترک ہیں… بس … ایک چھوٹی سی بات میں اختلاف ہے… اور
وہ یہ کہ … وہ اﷲ کو نہیں مانتے… جبکہ ہم اﷲ کو مانتے ہیں… یہ لوگ ’’سوویت یونین‘‘
کی طاقت سے اس قدر مرعوب تھے کہ انہیں باقی لوگ پاگل، ناشائستہ اور غیر مصلحت پسند
نظر آتے تھے… ساری دنیا جانتی ہے کہ … سردیوں کے موسم میں سائبیریا کے پرندے…
پاکستان کا رخ کرتے ہیں… ان دنوں سائبیریا میں ’’برف‘‘ کی حکومت ہوتی ہے… پہلے عرض
کرچکا ہوں کہ اﷲ پاک ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے… سائبیریا میں کچھ دن اس قدر سردی
پڑتی ہے… جس طرح آج کل پاکستان میں روشن خیالی… اور بے حیائی… پڑ رہی ہے… مگر کچھ
دن بعد وہ برف پگھل جاتی ہے… حالانکہ سردیوں میں کوئی دیکھے تو اعلان کردے کہ اب
یہاں کبھی سورج نہیں چمکے گا… کبھی دھوپ نہیں آئے گی… ہم نے مستقل بنیادوں پر…
گرمی کا راستہ روک لیا ہے… معاف کیجئے گا برف کا تذکرہ آیا تو بات پھسل گئی… میں
عرض کرر ہا تھا کہ … سوویت یونین کی ’’قوت‘‘ کے زمانے میں جب سائبیریا کے پرندے…
حسب عادت سردیوں میں پاکستان آتے تو … کیمونزم کے حامی بغلیں بجا بجا کر کہتے کہ
دیکھو … پرندوں کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ … سرخ انقلاب ’’اُدھر‘‘ سے اِدھر‘‘ آئے گا…
اور دیکھو کیمونزم کی برکات کہ ہمیں پرندوں کا گوشت… بھی وہاں سے آتا ہے … پس وہ
ہمارا رازق ہے… نعوذباﷲ… اس زمانے کی عجیب داستانیں ہیں… آج تو ’’ماشاء اﷲ‘‘ کوئی
خوفناک… اور بدبودار جانور بھی خود کو ’’کیمونسٹ‘‘ نہیں کہتا … جبکہ … اس زمانے
میں اچھے اچھے لوگ فخر سے خود کو کیمونسٹ کہتے تھے… ایک صاحب اب مرگئے ہیں… اس لیے
ان کا نام نہیں لکھتا… وہ حج پر تشریف لے گئے تو واپسی پر اپنا سفر نامہ لکھا… اور
اس کا نام رکھا… کیمونسٹ کا سفر نامۂ حج… دیکھئے کس قدر فخر اور اطمینان تھا ان
کو… مگر ان کی زندگی ہی میں… کارخانہ قدرت نے کروٹ بدلی… دنیا کے بت کدے میں جس
اونچی جگہ پر… سوویت یونین کا بت رکھا تھا… وہاں… امریکاکا بت رکھ دیا گیا … تب…
ہمارے ان نظریاتی دانشوروں نے ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی… اور عقیدت کے ساتھ اپنے
پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے… امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے… آج میں ایک بار پھر…
اخبارات کے ادارتی صفحات پر… اپنے دانشوروں کے ایسے مضامین ڈھونڈتا ہوں… جن میں…
لینن، مارکس… اور اسٹالن کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہو… اور ان کے نظریات ماننے کو
’’روشن خیالی‘‘ قرار دیا گیا ہو… مگر مجھے … سخت مایوسی ہوتی ہے… سوویت یونین کا
مدح سرا… کوئی بھی نظر نہیں آتا… یہ عجیب دانشوری ہے کہ … ہر … پندرہ سال بعد…
دسترخوان… آقا… اور خدا بدلتی ہے… پھر مجھے ’’مولوی‘‘ کیوں نہ اچھا لگے کہ … ساڑھے
چودہ سو سال سے ایک ہی اذان دے رہا ہے… ایک ہی کلمہ پڑھ رہا ہے… ایک ہی گھر کو
’’قبلہ‘‘ بنائے بیٹھا ہے… خیر چھوڑیں… واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں… افغانستان
میں سوویت یونین کے مہرے آتے رہے… جاتے رہے… ہر کسی نے اپنی بات منوانے کیلئے… ظلم
کیا… گولی چلائی… اور ہر کسی نے ’’اعلان‘‘ کیا کہ … افغانستان کے لئے سب سے اہم
چیز … ’’میرا وجود‘‘ … ہے مگر زمین نے ان کے کھوکھلے دعوے… خود… ان کے جسموں سمیت
نگل لئے… افغانستان آج بھی جیسا تیسا کھڑا ہے… مگر خود کو … افغانستان کے لئے
لازمی … اور ناگزیر قرار دینے والے… مٹی کے انبار میں… خود اس کا ایک حقیر حصہ بن
گئے ہیں… اور ان کے ’’اعمال‘‘… نہ سوویت یونین کے دربار میں پیش ہوئے… اور نہ کسی
اور ملک کے… بلکہ یہ اعمال ان کی تقدیر بن کر… ان کے ساتھ چلے گئے… پھر ایک موٹا
تازہ… ہٹّا کٹّا… ذہین وفِتّین… شخص آیا… فوجی تجربہ بھی رکھتا تھا اور جاسوسی کا
بھی… نام نجیب اﷲ… مگر ’’نجابت‘‘ قریب نہ پھٹکی تھی… اس نے کہا … میں میں ہوں… ہم
نے اس کے دعوئے سنے… وہ اس قدر جرأت اور یقین سے بولتا تھا کہ … مخالفین کے
حوصلے… ٹوٹنے لگتے تھے… اور ان کے عزائم پر… بجلیاں گرتی تھیں… پھر میں نے اخبار
میں تصویر دیکھی… وہ کابل کے ایک چوک پر لٹکا ہوا تھا … لوگ اس کے مردہ جسم سے
کھیل رہے تھے… کوئی منہ میں سگریٹ ٹھونس رہا تھا… اور کوئی نوٹ … اﷲ پاک برے انجام
سے بچائے… پھر… ایک نیا دور آیا… اپنوں… اور غیروں کے پسندیدہ ’’پیرمغاں‘‘ …صبغت
اﷲمجدّدی… دو ماہ کے لئے تشریف لائے… پھر … برہان الدین ربانی… پھر خانہ جنگی… اور
پھر طالبان… طالبان نے سات سال تک شریعت نافذ کی… عوام کی خوب خدمت کی… اسلام کو
عزت بخشی… اور پھر پہاڑوں میں روپوش ہوگئے… اور افغانستان پھر موسیقی … اور بے
حیائی میں ڈوب گیا… ایسے ایسے ’’لبرل‘‘ لوگ اپنے ’’بلوں‘‘ سے باہر آگئے کہ … جن کی
روشن خیالی دیکھ کر… جانور بھی شرما جاتے ہیں… خود سوچئے کہ … کوئی بھی ختم نہیں
ہوا… ظاہر شاہ سے لیکر نجیب تک کا … لبرل دور … مگر نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ملا عمر
صاحب جیسا قرون اولیٰ کا مسلمان پیدا ہوا… اور چھا گیا… پھر ملا محمد عمر صاحب کا
ایمانی دور… مگر اسی دور میں… کرزئی… اٹھا… اور امریکی کندھوں پر ’’تخت کابل‘‘ کا
مالک بن گیا… یہ ہے… اﷲ تعالیٰ کا نظام… اور اس کی شان … مگر مجھے سخت حیرانی…
پاکستان کے موجودہ ’’روشن خیال‘‘ طبقے پر ہورہی ہے… جو … امریکا کے بھروسے پر اس
قدر آگے نکل رہا ہے کہ … کپڑے تو کپڑے اب اپنی کھال سے بھی باہر نکلنے کو ہے… ان
لوگوں کے دعوئے… خود فریبی کے جنگل میں آگ لگا رہے ہیں… اور ان کا انداز اب …
جارحانہ ہوتا جارہا ہے… اور تعجب کی بات یہ ہے کہ … ایسا … میلہ مویشیاں لگا ہے کہ
… ہر انسان … خود کو… زیادہ سے زیادہ… لبرل… اور کفر پرست بتا کر آگے بڑھنے کی
کوشش میں ہے… کچھ عرصہ پہلے… میں نے اخبار میں ایک صاحب کا مضمون پڑھا … اس
’’غیرتمند‘‘ دانشور نے جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ … ملک کے حکمران میری
خدمات سے فائدہ اٹھائیں… صدر صاحب! میں نے انتہا پسندی کے خلاف کتاب لکھی ہے… میری
بیٹی میوزک اور رقص کی ماہر ہے بلکہ … دوسروں کو بھی سکھاتی ہے… میری بیوی بھی
ماڈریٹ سوسائٹی کی خاص رکن اور خواتین کی آزادی کے لئے دن رات کوشاں ہے… میں یہ
مضمون دیکھ کر حیران ہوا کہ … حالت یہاں تک جا پہنچی ہے… ابھی دو روز قبل… جناب
زرداری صاحب فرما رہے تھے کہ… حکومت کی خواہش ہے کہ … لبرل لوگ آگے آئیں تو ہم
’’لبرل فورس‘‘ موجود ہیں… ہمیں آگے لایا جائے… لبرل کے معنیٰ… آزاد… اور یہ آزادی
صرف اسلام سے ہے… اور ’’چشم بددور‘‘ اس پر فخر کیا جارہا ہے … کیا ہی اچھا ہوتا کہ
… زرداری صاحب اپنے ’’لبرل‘‘ ہونے کے کچھ واقعات بھی سنادیتے تاکہ … حکمرانوں کو
مزید تسلی ہوجاتی… ویسے ان کے واقعات اور لوگ سناتے رہتے ہیں… ادھر چند دن پہلے …
لاہور کے صحافی… نجم سیٹھی صاحب کا انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا… وہ کشمیر کے جہاد
کو کھلم کھلا ’’دہشت گردی ‘‘ قرار دے رہے تھے… اور یوں اعتماد … اور عقلمندی سے بول
رہے تھے جیسے وہ پاکستان کے مالک وحاکم ہیں… پاکستان والوں کو یاد ہے کہ … نجم
سیٹھی صاحب… چند سال پہلے … انڈیا کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار ہوئے
تھے… اخبارات اور میڈیا میں خوب شور ہوا تھا … سیٹھی صاحب نے تھوڑی سے ’’خدمت‘‘ کے
بعد ٹی وی پر آکر اپنے جرم کا اقرار کر لیا تھا… مگر پھر… ورلڈ بینک کے صدر کے حکم
پر… نواز شریف صاحب نے انہیں فوراً رہا کردیا… آج نجم سیٹھی صاحب ان محب وطن
صحافیوں میں شامل ہیں… جو … صدر صاحب کے ساتھ کرکٹ اور سیاست کا میچ دیکھنے… دہلی
گئے تھے… آہ … زمین کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے… آج اسلام اور ملک کی خاطر… اپنے لخت
جگر ذبح کروانے والے ملک کے لئے … سیکورٹی رسک… اور خطرناک… جبکہ … مِیرا، بے
نظیر، نجم سیٹھی… اور زرداری وفادار… اور … محب وطن… مجھے ان حالات سے کوئی شکوہ
نہیںہے… میرے مالک کی مرضی… دن لائے یا رات… اندھیرے کو غالب کرے… یا اُجالے… کو…
ہم کون ہیں تقدیر میں مداخلت کرنے والے؟… اور ہمیں کیا حق ہے… کہ … ہم شکوہ کریں…
بلکہ میرا نظریہ تو عجیب سا ہے… میں سمجھتا ہوں کہ ماضی قریب میں اﷲ تعالیٰ نے…
مجاہدین اور دینداروں کو … جو اتنی عزت بخشی… وہ ان کے اعمال… کردار… اور استحقاق
سے بہت زیادہ… محض اﷲ تعالیٰ کے فضل… اور عفو ودرگزر کی بدولت تھی… اور اس وقت
مجاہدین کو… جس پریشانی… اور ذلت کا سامنا ہے کہ… بے حیاء طبقے… غدّاران وطن… اور
طوائفیں تک ان کو دھمکیاں دے رہی ہیں… یہ ہمارے گناہوں کے مقابلے میں… بہت کم…
اورہلکی سزا ہے… مگر آج کے کالم میں جو بات عرض کرنی ہے وہ اور ہے… اور اسی بات کو
سمجھانے کیلئے… افغانستان اور سوویت یونین کا کچھ تذکرہ کیا ہے… وہ بات یہ ہے کہ…
ہمارے… روشن خیال حضرات نے معلوم نہیں… کس نشے میں آکر یہ سمجھ لیا ہے کہ… امریکا…
ناقابل تسخیر ہے اور وہ کبھی کمزور نہیں ہوگا… اور یہ کہ … ہمارے سروں پر امریکہ
کا ہاتھ ’’ہمیشہ‘‘ رہے گا… اور ہمارا ’’لبرل‘‘ اقتدار ہمیشہ ’’قائم‘‘ رہے گا… اور
اسلام کا نام لینے والے… اور مجاہدین … اس طرح پگھل جائیں گے… جس طرح … پانی میں
نمک پگھل جاتا ہے… اور کچھ عرصہ بعد … زمین ’’روشن خیالی‘‘ سے اس طرح بھر جائے گی
کہ … کفر اسلام … اور حیاء بے حیائی کا فرق مٹ جائے گا… روشن خیال حضرات وخواتین…
اپنے اس خیال کی وجہ سے … اب اکڑتے ہی جارہے ہیں… اور ان کی زبانیں… جہاد… اور
مجاہدین کے خلاف آگ اگل رہی ہیں… اور نوبت… یہاں تک جا پہنچی ہے کہ… دوروز قبل… بی
بی سی پر… ایک روشن خیال دانشور فرما رہے تھے… پہلے ہماری فوج… اور اسٹیبلشمنٹ کو
اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے … انڈیا کو دشمن بنا کر پیش کرنا ضروری تھا… مگر اب
انہوں نے اپنی بقاء کے لئے… ایک قریبی دشمن اپنے ملک میں ڈھونڈ لیا ہے… اور وہ
ہیں… مذہبی انتہا پسند… یعنی… اب فوج … اور عسکری ایجنسیوں کو بھڑکایا جارہا ہے
کہ… بیرونی دشمنوں کو تو… مِیرا اور ثقافتی طائفوں نے سنبھال لیا ہے… آپ لوگ اب
بھارت کی بجائے… مجاہدین اور مولویوں کا گلا دبائیں… میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں…
کاش میری بات کو… دھمکی نہ سمجھا جائے کہ… یہ سب کچھ روشن خیالوں کی… خام خیالی
ہے… اور انہیں چاہئے کہ … ظلم اور ایذاء رسانی میں اتنا آگے نہ بڑھیں کہ جب رات کے
بعد دن شروع ہو تو… انہیں… اپنے کیے پر پچھتا نا پڑے… آپ لوگ شوق سے نیکر پہنیں…
اپنی لڑکیوں کو بھی پہنائیں… اور جو روشن خیالی کرنی ہے ڈٹ کر کریں… اور پہلے بھی
آپ لوگ کونسا … باز آتے تھے… یا کون سی کسر چھوڑتے تھے؟ لیکن ایسے خواب نہ دیکھیں…
جن کی تعبیر خود آپ لوگوں کے لئے بھیانک ہو… آپ لوگ ناچنا ضرور جانتے ہیں مگر لڑنا
نہیں… آپ لوگ کافروں کے ہاتھوں بکنا ضرور جانتے ہیں… مگر کسی موقف پر ڈٹنا آپ کے
بس کی بات نہیںہے… آپ لوگ دنیا کا عیش چاہتے ہیں تو پھر… بس… اسی کی طرف توجہ
رکھیں… اور دینی امورمیں مداخلت کا جرم نہ کریں… سلمان رشدی… تسلیمہ نسرین… آمنہ
ودود… اور اسریٰ نعمانی… کافروں کی گود میں بیٹھ کر اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں
بک کر… پھر ان کی گود میں دبک جاتی ہیں… آپ لوگ بھی… بہت بہادر ہوئے تو بس اتنا ہی
کرلیں گے مگر یاد رکھیں… آپ لوگوں کو استعمال کرنے والے اسلام دشمن… اتنے سخی اور
فراخ دل نہیں ہیں کہ… ہر گالیاں دینے والے… اور ہر بدکاری کرنے والے کو پناہ دیتے
رہیں… ٹھیک ہے آج آپ لوگوں کا الّو بول رہا ہے مگر… اسلام سے محبت کرنے والے مر
نہیں گئے… حیرت کی بات ہے کہ… علماء اور مجاہدین نے کبھی آپ لوگوں پر سختی نہیں
کی… مگر آپ لوگوں کو جب بھی موقع ملتا ہے تو … کسی کو بھی معاف نہیں کرتے… آپ جس
’’روشن خیالی‘‘ کو اس پاک وطن میں لانا چاہتے ہیں… وہ تو … قرب قیامت سے پہلے نہیں
آسکتی… ہاں قیامت کے قریب وہ ’’روشن خیالی‘‘ عام ہوجائے گی… اور تب اﷲ پاک قیامت
لے آئے گا… مگر … اس سے پہلے اسلام نے ایک بار پھر غالب آنا ہے… معلوم ہوا کہ …
اسلام پسندوں کا دور قریب اور آپ کا زمانہ دور ہے… ہر کسی کو چاہئے کہ… صبر اور
تحمل کے ساتھ اپنی اپنی باری کا انتظار کرے… اور پھر اﷲ پاک حق وباطل میں فیصلہ
فرمادے گا… امریکہ کی طاقت عارضی ہے… موجودہ حکومت کے وزیروں کا شور شرابا عارضی
ہے… اس ملک کی فوج مسلمان ہے یہاں کے ادارے مسلمان ہیں… بظاہر ایسا امکان نہیں ہے
کہ… اسے ’’الجزائر‘‘ بنایا جاسکے گا… اور اگر ’’خدانخواستہ‘‘ بنایا بھی گیا تو کیا
ہوگا؟… ہر کسی کی موت کا وقت مقرر ہے… اور ابھی دنیا سے اسلام… مسلمان… اور جہاد
کے خاتمے کا وقت نہیں آیا… اور جنہیں آپ ’’انتہا پسند‘‘ قرار دے کر مارنا چاہتے
ہیں… وہ بکرے دنبے نہیں کہ بس گردن ہی آگے رکھیں گے… اور نہ مچھر اور مکھی ہیں کہ…
اسپرے کرنے سے مرجائیں گے… وہ ایسے لوگ ہیں… جن کو مارنے والے… بہت مشکل میں پڑ
جاتے ہیں… اور ہمیشہ اپنے مشن میں ناکام رہتے ہیں… یورپ اور امریکہ کی خواہش ہے
کہ… مسلمانوں کے دو طبقے بنا کر… انہیں آپس میں لڑا دیا جائے… روشن خیال… اور
انتہا پسند… ایک دوسرے کو کاٹتے رہیں… اور ان کے بچے یتیم… اور … عورتیں … بیوہ
ہوتی رہیں… روشن خیالوں کے دماغ میں چونکہ… امریکہ کی روشنی گھس گئی ہے اس لیے وہ
اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے پر… اتر آئے ہیں… جبکہ… انتہا پسند کہلوانے
والوں کو یاد ہے کہ … مسلمان کے خون کی اﷲ پاک کے ہاں کیا حرمت ہے… بس … انہیں کا
صبر ہے کہ… بڑی جنگ نہیں بھڑک رہی… کاش… روشن خیال بھی اپنی کھال میں واپس آجائیں…
غربت ختم
)۱(
غربت ختم کرنے کے لاجواب نسخے اورغربت
کی تعریف ۔ سود کے بارے میں دس احادیث مبارکہ۔ اس اعتراض کا جواب کہ سود سے غریبوں
کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
)۲۶ربیع
الا ول ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۲مئی
۲۰۰۵ء(
غربت ختم
اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ پر
رحم فرمائے… اور سب مسلمانوں کو باعزت اور حلال روزی نصیب فرمائے… یہ دیکھیں میرے
سامنے پرسوں کا روزنامہ نوائے وقت رکھا ہے… یہ اخبار کئی لحاظ سے ’’پسندیدہ‘‘ اور
’’غنیمت‘‘ ہے… صفحہ اول پر اشتہارات اور خبروں کا تناسب … زمین پر خشکی اور پانی
جیسا ہے… یعنی تین حصے اشتہارات کا پانی بہہ رہا ہے جبکہ … چوتھائی حصے پر چند خشک
خبریں ہیں… ویسے آج کل اخبارات میں… اشتہارات کی بھرمار ہے… اس لیے خبریں کم اور
اشتہار زیادہ ہوتے ہیں… اور اخبارات کے مالکان… خواہ جس عقیدے اور نظرئیے سے تعلق
رکھتے ہوں… اشتہارات لینے اور چھاپنے کے معاملہ میں… ہر عقیدے اور نظرئیے سے آزاد
رہتے ہیں… اس لیے انہیں خوب ’’ٹناٹن‘‘ اشتہارات ملتے ہیں… اور ان کے محفوظ… بینک
بیلنس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے… آج کل تو ویسے ہی ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ…
وہ بہت سارے مال پر… کنڈلی جما کر بیٹھا رہے… اور یہ مال نہ اس کے کام آئے … اور
نہ کسی اور انسان یا جانور کے… اشتہارات کی ’’مد‘‘ میں بڑے اخبارات تو ماہانہ
’’کروڑوں‘‘ کما لیتے ہیں… جبکہ… چھوٹے بھی لاکھوں کا ہاتھ مار ہی لیتے ہیں… سب سے
زیادہ موج… انگریزی اخبارات کرتے ہیں… وہ چھپتے کم اور بکتے زیادہ ہیں… ان کی اپنی
ایک الگ دنیا ہے… آج ہم نے اس کا تذکرہ نہیں کرنا… اشتہارات اور آمدنی کے اعتبار
سے بے چارے ’’صوفی اخبارات‘‘ بہت گھاٹے میں رہتے ہیں… حکومت انہیں سرکاری اشتہار
نہیں دیتی کہ… کہیں… اسلام کی خدمت کا خطرناک الزام نہ لگ جائے… اور امریکی سفارت خانے
کو کوئی لبرل صحافی… خط لکھ کر شکایت نہ لگادے… باقی رہے عوامی اشتہارات… تو ان
میں بڑا حصہ… باتصویر اشتہارات کا ہوتا ہے… ’’صوفی اخبارات‘‘ تصویر نہیں چھاپتے…
حالانکہ… اب تو کئی ٹی وی چینلز پر دُلدُل کی طرح سجے سجائے… مفکرینِ اسلام… دین
کی خدمت کر رہے ہیں… وہ قرآن کے الفاظ اگرچہ درست نہیں پڑھ سکتے… مگر… اپنے ڈیسک
کے نیچے چھپے لیپ ٹاپ کی مدد سے… انگریزی ترجمہ… فر فر کرلیتے ہیں… ’’صوفی
اخبارات‘‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سودی بینکوں کے اشتہارات بھی نہیں چھاپتے… پھر
ان کے ہاں… جعلی عاملوں اور امت کی خاص کمزوریاں دور کرنے والے ’’عطائیوں‘‘ کے
اشتہارات بھی شائع نہیں ہوسکتے… سگریٹ سے لیکر شراب تک کے یہ لوگ مخالف ہیں…
چنانچہ … انہیں کوئی اشتہار نہیں ملتا… ہاں کبھی کبھار… چھابڑے پر فروٹ بیچنے والا
کوئی ’’حلال خور‘‘ انہیں… ہزار پانچ سو کا اشتہار بھیج کر… ثواب کما لیتا ہے… سچی
بات یہ ہے کہ… ’’صوفی اخبارات‘‘ والے بس… جنت کی لالچ میں اخبار نکالتے رہتے ہیں…
ورنہ کمائی شمائی کچھ نہیں ہوتی… لالچی لوگ ہیں… اس لیے پیچھے نہیں ہٹتے… اﷲ پاک
کو راضی کرنے کی لالچ … اَن دیکھی آخرت کو بنانے کی لالچ… قبر کی روشنی کی لالچ…
لوگ انہیں بہت سمجھاتے ہیں کہ بھائی… زمانے کے ساتھ چلو… وہ کہتے ہیں… اگر سب
سیلاب کے ساتھ بہنے لگے تو سیلاب کا رخ کون موڑے گا؟… مسلمان زمانے کے ساتھ چلنے
کیلئے نہیں آیا… اس کا کام زمانہ بنانا… اور زمانہ بدلنا ہے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم جب تشریف لائے تو اس وقت ’’حالات‘‘ کون سے موافق تھے… صحابہ کرام رضوان
اﷲعلیہم اجمعین کو زمانے کے لوگ… پاگل اور دیوانہ کہتے تھے… مگر انہوں نے… اپنا
زمانہ بنالیا… اور اس سچی آخرت کو بھی سنوار لیا… جو … اس ’’فانی دنیا‘‘ سے بڑی
’’حقیقت‘‘ ہے… بات چل رہی تھی پرسوں کے نوائے وقت کے صفحۂ اوّل کی… یہاں… جہازی
سائز کے تین اشتہارات ہیں… ایک تو ڈالڈا گھی کا ہے… انہوں نے… انعامی اسکیم کے نام
پر بچوں کو لاکھوں روپے کا مالک بننے پر اکسایا ہے… دوسرا اشتہار پی آئی اے کا ہے…
انہوں نے اپنے ’’مسافروں‘‘ کیلئے کچھ اعلانات کیے ہیں… جبکہ تیسرا اور بڑا اشتہار…
ایک بینک کا ہے… اس بینک نے اعلان کیا ہے کہ … آپ ہمارے پاس ’’پیسہ‘‘ جمع کرائیں…
ہم … آپ کو سالانہ 9.25% منافع دیں گے… یہ اعلان پڑھ کر… کافی سارے لوگ… سود کی
خونی نہر میں غوطہ لگائیں گے… سرمایہ دار لوگوں کے پاس اتنا پیسہ جمع ہوچکا ہے کہ
رکھنے کی جگہ نہیں ہے… اس لیے ایسا اشتہار پڑھ کر وہ فوراً دوڑتے ہیں… اور اپنا
کچھ ’’پیٹ‘‘ … ہلکا کر آتے ہیں… اصل سرمائے پر… متعین اور مقررہ منافع کا اس طرح
اعلان… بلاشبہ… سود خوری کی دعوت ہے… اور سود خوری… زنا سے بھی بڑا اور سخت گناہ
ہے… بلکہ … قرآن پاک کے الفاظ میں… یہ … اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ساتھ کھلا ’’اعلانِ جنگ‘‘ ہے… سبز رنگ کے اس ’’خونی اشتہار‘‘ سے کون متاثر
ہوا ہوگا… یہ تو معلوم نہیں … مگر… وہ مسلمان جن کے دلوں میں ایمان کا کچھ حصہ
محفوظ ہے… وہ ایسی ’’دعوتِ گناہ‘‘ پر لعنت بھیجتے ہیں… اور اپنے اﷲ تعالیٰ کو
’’رزّاق‘‘ مانتے ہوئے اسی سے ’’رزق حلال‘‘ کا سوال کرتے ہیں… اس اشتہار… اور اسی
طرح کے روز آنے والے سودی اشتہارات پر عمل سے پہلے… ہر مسلمان پر لازمی ہے کہ… وہ
… سود کے بارے میں قرآن وسنت کے ’’احکام‘‘ معلوم کرلے… تب… اس کے لئے سود کھانے سے
زیادہ آسان یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہاتھ میں آگ کا جلتا ہوا انگارہ تھام لے… سود کے
متعلق وعیدیں تو بہت زیادہ ہیں… کیونکہ… یہ ایک معاشرتی کینسر ہے جو انسانوں کو…
درندوں سے بدتر بنادیتا ہے… یہاں پر ہم صرف …چند احادیث مبارکہ کا خلاصہ پیش کر
رہے ہیں… ممکن ہے … کسی کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے… اور ایمان والے… اپنے
’’نظریات‘‘ پر مزید پختہ ہوجائیں… باقی… اگر اس بارے میں تفصیلات دیکھنے کا شوق ہو
تو … کچھ انتظار کیجئے… ان شاء اﷲ… ’’القلم‘‘ کا ’’اسلامی معیشت‘‘ نمبر عام قارئین
کی اس ضرورت کو پورا کرے گا… لیجئے سود کے بارے میں حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے
بعض فرامین کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے…!
(۱) سود خوروں کے پیٹ…
بڑے بڑے کمروں جتنے… جن میں سانپ بھرے ہوئے… باہر سے نظر آرہے تھے… ایسا حضور پاک
صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج کی رات دکھایا گیا…
(مسند احمد)
(۲) سود میں گناہ کے
’’تہتر(۷۳)‘‘ دروازے
ہیں جن میں سے سب سے کم ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے … (رواہ
الحاکم وقال: صحیح علی شرط البخاری ومسلم)
(۳) سات گناہوں سے بچو
جو ہلاک کرنے والے ہیں… ان میں سود خوری، شرک اور قتل شامل ہیں… (بخاری ۔ مسلم)
(۴) سود خور خون کی
نہر میں ہوں گے… جب نکلنا چاہیں گے پتھر مار کر واپس پھینک دئیے جائیں گے… ایسا
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو خود دکھایا گیا… (بخاری)
(۵) رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے اور سود کھلانے والے پر (مسلم۔ نسائی)
(۶) رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے سود کھانے والے… سود کھلانے والے… سود لکھنے والے… اور سودی معاملہ
پر گواہ بننے والے کو برابر قرار دیا… اور ان سب پر لعنت بھیجی… (مسلم)
(۷) آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے سات گناہوں کو ’’کبیرہ‘‘ قرار دیا ان میں سے ایک ’’سود خوری‘‘ ہے…
(البزاز)
(۸) چار افراد کے بارے
میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے کہ انہیں جنت میں داخل نہیں فرمائے
گا اور نہ انہیں جنت کی نعمتیں چکھائے گا، ان چار میں سے ایک سود خورہے… (مستدرک
حاکم)
(ممکن ہے اس سے
مراد دخولِ اوّلی ہو… یا … یہ وہ لوگ ہوں جو سود کو حلال قرار دے کر قرآن پاک کا
انکار کرتے رہے ہوں۔ واﷲ اعلم)
(۹) جان بوجھ کر سود
کا ایک ’’درہم‘‘ کھانا چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے… (مسند احمد)
(۱۰) سود میں گناہ کے
سترّ سے زائد دروازے ہیں۔ (البزاز)
… اس موضوع پر
احادیث بہت زیادہ ہیں… ہم نے ان دس پر اکتفا کیا ہے جو ایک مسلمان کے لئے کافی
ہیں… اور اس وقت ان احادیث کے باہمی مذاکرے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ… حضور پاک صلی
اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ منحوس دور آپہنچا ہے جب ہر شخص سود کے دھوئیں
سے متاثر ہو رہا ہے… دیکھئے ابو داؤد کی یہ روایت…
’’حضرت ابو ہریرہ
رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا… لوگوں
پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا جب کوئی بھی سود کھانے سے نہیں بچے گا اور جو نہیں
کھائے گا اس تک بھی سود کا غبار پہنچ جائے گا…‘‘
آج چونکہ … عالمی معیشت
کا اژدہا سود کا دھواں چھوڑ رہا ہے… اس لیے غبار سے تو شائد ہی کوئی بچ سکے…
لیکن…ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ تو لازم ہے کہ… ہم … صریح اور واضح سود سے
بچیں… حضرت شیخ الاسلام … مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ العالی کی کاوشوں سے…
یہ امید بندھ چلی تھی کہ… ہمارے ’’پاک‘‘ ملک کی معیشت کسی قدر سود کی لعنت سے
’’پاک‘‘ ہوجائے گی… مگر… حکومت نے شب خون مار کر ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ کے فیصلے
کو… بابرکت جہادی تنظیموں کی طرح ’’کالعدم‘‘ قرار دے دیا… اور حضرت مولانا مفتی
محمد تقی عثمانی… کو جسٹس کے عہدے سے الگ کردیا… حکومتی سطح پر اب کسی اچھے اقدام
کی توقع عبث ہے… اس لیے… ہر شخص کو صریح اور واضح سود سے بچنے کی خود کوشش کرنا
ہوگی… اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ… جب کسی بینک، ادارے یا کمپنی کی طرف سے کوئی
’’اعلان‘‘ آئے تو… اس میں چھلانگ لگانے سے پہلے… مستند علماء کرام سے فتویٰ لے لیا
جائے… اسی طرح بیمہ… اور انشورنس کمپنیوں کے سودی جال سے بھی خود کو بچایا جائے…
اور اپنے ذمے … اﷲ تعالیٰ کے کاموں کو لینے کی بیوقوفی نہ کی جائے… اپنے بندوں کو
روزی دینا اﷲ تعالیٰ کا کام ہے… ہاں اس نے ہمارے ذمہ لگایا ہے کہ ہم … اپنے زیر
کفالت افراد تک رزق حلال پہنچانے کا ذریعہ بنیں… یہ ذمہ داری اپنی زندگی میں ہے…
مرنے کے بعد… ان کی روزی کا کیا ہوگا؟… اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے… اور جو اس پر
بھروسہ کرتے ہیں… وہ انہیں کبھی رسوا نہیں کرتا… مگر ہم نے اپنے سرپہ فکر سوار
کرلی ہے کہ… ہم بیمہ کروائیں… تاکہ … اپنے بچوں کو اپنے بعد سود کا زہر پلاسکیں…
پاکستان کے جن دینی اداروں کا فتویٰ اس بارے میں مستند ہے ان کی ایک لمبی فہرست
ہے… ہم… چند اداروں کا نام لکھ رہے ہیں… اپنے کاروباری معاملات … اور مالی لین دین
کو شریعت کے مطابق بنانے کیلئے… ان اداروں میں خط لکھ کر رہنمائی حاصل کریں…
(۱) جامعہ دارالعلوم
کورنگی کراچی ، (۲) جامعۃ
العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، (۳) دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ
خٹک پشاور، (۴) جامعہ
فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی، (۵) جامعہ
خیر المدارس ملتان … وغیرہم…
اب آئیے ایک ’’اعتراض‘‘ …
اور اس کے ’’جواب‘‘ کی طرف…
بعض لوگ ’’سود‘‘ کو حلال
کرنے کیلئے ایک … ’’انسانی جذباتی‘‘ مسئلہ اٹھاتے ہیں… ان کا کہنا ہے کہ پہلے
زمانے میں سود غریبوں پر ظلم کا ایک ذریعہ تھا… سرمایہ دار مہاجن غریبوں کو ان کی
مجبوری کے وقت قرضہ دیتے تھے اور پھر اس پر سود لیتے تھے … اور وقت پر قرضہ نہ
لوٹانے کی صورت میں سود بڑھتے بڑھتے اصل سرمائے سے بڑھ جاتا تھا (وغیرہ) … اس لیے
اسلام نے اسے ’’حرام‘‘ قرار دے دیا… مگر اب تو … سود ’’غریبوں‘‘ کو فائدہ پہنچاتا
ہے اور وہ اس طرح کہ … ایک شخص اپنی بوڑھی ’’ماں‘‘ اور چھوٹے بچے چھوڑ کر … مرگیا…
حکومت نے دو لاکھ روپے اس کے پسماندگان کو دے دیئے… اب اگر وہ یہ رقم کھاجائیں تو
چند دن میں بھوکے مریں… چنانچہ انہوں نے وہ رقم بینک میں جمع کرادی… اور بینک ان
کو ماہانہ سود دے رہا ہے… اس طرح اصل رقم بھی محفوظ … اور ماہانہ خرچہ بھی پکاّ…
اس ترتیب سے غریبوں کا بھلا ہی ہوا… کوئی نقصان نہیں… اس لیے یہ سود نعوذباﷲ…
’’حلال‘‘ ہے… انسانی جذبات پر مبنی یہ دلیل… بہت سے انسانوں کے دل کو لگتی ہے اور
وہ بھی نعوذباﷲ… سود کو ’’حلال‘‘ سمجھنے لگتے ہیں… چنانچہ مختصر طور پر اس دلیل یا
اعتراض کے چند جوابات عرض خدمت ہیں…
جواب (۱) انسانی
مجبوری کا یہ راگ اگر سود کو حلال کر سکتا ہے تو پھر باقی ’’جرائم‘‘ کے بارے میں
کیا خیال ہے؟ ایک چور کسی کے گھر گھسے… مال اٹھاتے ہوئے پکڑا جائے اور پھر بتائے
کہ … بچی کی شادی کرنی تھی، فریج اور ٹی وی کا انتظام نہیں تھا، بس مجبور ہو کر آپ
کے گھر چوری کرنے آگیا… کیا خیال ہے… گھر والا یا عدالت اسے چھوڑ دے گی؟ … ایک
ڈاکو… گاڑی لوٹ لے… پھر پکڑا جائے تو بتائے کہ والدہ سخت بیمار تھی… والد ہسپتال
میں تھے… بیوی کو تکلیف تھی مجبوراً ڈاکہ ڈالا… کون سی عدالت اس ’’منطق‘‘ کو مانے
گی؟
کبھی آپ کسی ہیروئنچی…
اور افیونی سے ملاقات کریں… وہ … ایسی مجبوریاں بتائے گا کہ دل لرز اٹھے گا… تو
کیا پھر نشہ حلال؟… پکڑی جانے والی طوائفوں کے اخبارات میں جو بیانات آتے ہیں… وہ
بھی یہی بتاتی ہیں کہ… مجبوریوں نے… بے بس کردیا تھا تو… کیا پھر جسم فروشی… نعوذباﷲ
… حلال؟…
دراصل شیطان اور نفس کے
پھندے بہت خطرناک ہیں… شیطان ہر شخص کو اس کے گناہ پر مطمئن کرتا ہے تاکہ وہ توبہ
نہ کرے… اور ایمان کی وجہ سے اس کے دل میں جو خلش ہے وہ ختم ہوجائے… یہ انسانی
مجبوری کا رونا بھی… شیطانی چال ہے… ہاں مجبوریوں میں بہت کچھ جائز ہوتا ہے مگر…
جس آدمی کے پاس دو لاکھ موجود ہوں… اور اسے یہ پتہ تک نہیں کہ… اس کی زندگی کے
کتنے دن باقی ہیں… اگر اسے بھی… روٹی کے لئے ’’مجبور‘‘ قرار دیا جائے تو بات واضح
ہوجاتی ہے کہ … مجبوری بناوٹی ہے… اور صرف مال کی لالچ، حرص… اور اﷲ تعالیٰ سے
بغاوت کا شوق ہے… کوئی چور… سخت مجبوری میں چوری کرے گا تو صرف ایک ہی بار کرے گا…
پھر کما کر… چوری کی وہ رقم واپس کرے گا… اور ساتھ ساتھ توبہ استغفار بھی کرتا رہے
گا… مگر جو ہر روز چوری کرے… بار بار لوگوں کے مال پر ہاتھ ڈالے تو یہ مجبوری
نہیں… کچھ اور ہے… یہی حال مجبوریاں بتا کر… دوسرے گناہ کرنے والوں کا ہے… اﷲ پاک
ہم سب کی حالت پر رحم فرمائے…
جواب (۲) آپ کہتے ہیں کہ… بینکوں
کے اس سودی نظام سے غریبوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے… حالانکہ… اصل غریب تو وہ ہے جس
کے پاس بنیادی ضروریات تک مہیا نہیں ہوتیں… اور اس کے پاس کسی طرح کا کوئی سرمایہ
نہیں ہوتا… ان غریبوں کو… اس سودی نظام نے کیا دیا ہے؟… اگر قرضہ دیتا بھی ہے تو…
اس پر مہاجنوں کی طرح ’’سود‘‘ لیتا ہے… اور پھر افسوس یہ ہے کہ … دنیا میں آج کے
اکثر غریبوں کی غربت کا سبب … یہی سودی نظام ہے… جس نے دنیا بھر کا سرمایہ… اور
روزی ان چند افراد تک محدود کردی ہے… جو… اس سرمائے پر کالے سانپ کی طرح پھن
پھیلائے بیٹھے ہیں… اور اب بھی بینکوں کے موجودہ نظام سے… اصل فائدہ بڑی مچھلیاں …
اور خونخوار مگرمچھ اٹھاتے ہیں… ہمارے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے اربوں کھربوں
ڈالر… ان بینکوں میں… آرام کر رہے ہیں… اور جرمنی کے یہودیوں کی طرح… کسی ہٹلر کے
منتظر ہیں… یہ رقم جو اسلامی زمینوں نے اگلی ہے… اسلامی سمندروں سے نکلی ہے… یا
پھر مسلمانوں کے خون پسینے کی کمائی ہے… آج … کسی مسلمان کے کسی کام نہیں آرہی…
خود ہوس پرست حکمرانوں کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا… بس … ان کے لئے اتنا
فائدہ ضرور ہے کہ ان کو معلوم ہے… ہم اتنے ’’مال‘‘ کے مالک ہیں اور بس… یہ بڑا
کہلانے والے لوگ اکثر معدے کے مریض ہوتے ہیں… اور … ایک غریب مزدور سے بھی کم
کھاتے ہیں… پھر وہ جتنا کھالیں… جتنی عیاشی کرلیں… جمع شدہ رقم میں… ایک روپے کی
کمی نہیں آتی… ہاں… ان لوگوں کو اس رقم کا غم دنیا میں کھاتا ہے… اور آخرت میں
انہیں اس کا حساب دینا ہوگا…
ہمارے زمانے کے سودی بینک
انہی… سرمایہ داروں کے فائدے کے لئے ہیں… اور یہ ان بڑے سانپوں کے وہ غار ہیں… جن
میں وہ … انسانوں کی روزی چھپا کر … اور دفنا کر رکھتے ہیں… غریبوں کی خدمت کا تو
بس ایک نعرہ ہے… اور ڈھکوسلا… بلکہ یہ بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں… غریبوں کا لہو
چوس کر … مالداروں کے چہرے کا غازہ بناتی ہیں… اس کی ایک بہت معمولی سی مثال لے
لیجئے… صابن … ہر آدمی کی ضرورت ہے … ہمارے ملک میں چونکہ اکثریت غریبوں کی ہے… اس
لیے … ہم کہہ سکتے ہیں کہ… غریب صابن زیادہ خریدتے ہیں… اب حکومتِ وقت کا فرض تھا
کہ وہ عوام کو اچھا سا … سستا سا معیاری صابن فراہم کرے… موجودہ حالات میں اچھے
صابن پر… زیادہ سے زیادہ لاگت… ۷۵پیسے
آتی ہے… اس پر پچاس پیسے نفع لے کر… حکومت… سوا روپے میں عوام کو صابن دے سکتی ہے…
مگر حکومت کو اس سے کیا غرض؟ … اسے تو نخروں، نمائشوں … اور دینداروں کو ستانے سے
فرصت نہیں ہے… اس نے … عوام کو… ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کے بغل بچہ سودی بینکوں
کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے … اب دیکھیں… یہ کمپنیاں غریبوں سے صابن کے بدلے کتنا
کچھ لوٹ کر… مال کالے سانپوں تک پہنچاتی ہیں… کمپنی نے ۷۵ پیسے لاگت کا صابن بنایا
… اور پھر اپنے ٹریڈ مارک… اور نام کے … مزید دو روپے اس میں ڈال دیئے… عوام کو
نہانے کیلئے… ٹریڈ مارک کی کیا ضرورت تھی؟… پھر اس صابن کی فاخرانہ پیکنگ ہوئی…
اور ایک روپیہ مزید بڑھ گیا… حالانکہ فاخرانہ پیکنگ کا نہانے، دھونے کی ضرورت سے
کیا تعلق؟… یہ کاغذ… نہانے سے پہلے صابن سے اتار کر کوڑے میں ڈال دیئے جاتے ہیں…
مگر… پیکنگ… کمپنیوں کے مالدار مالکوں کیلئے… غریب کی جیب کاٹنا ضروری تھی… پھر
کسی سفید چمڑے والی… ماڈل لڑکی سے معاہدہ ہوا کہ تمہارا مسکراتا ہوا فوٹو… ہمارے
صابن کے پیک پر ہوگا… بات کروڑوں میں طے ہوئی… غریب کو نہانے کے بدلے… ایک مالدار
’’ماڈل‘‘ کی جیب میں اپنی کمائی ڈالنا پڑی… پھر اسی پر بس نہیں… کسی مشہور فلمسٹار
عورت سے طے کیا گیا کہ وہ ایک بار اپنے منہ پر یہ صابن لگا کر فلم بنوائے… یا کسی
بڑے کھلاڑی سے یہی بات طے ہوئی… اس نے بھی بھاری رقم لی… کیونکہ… یہ گندے لوگ منہ
دھونے کے بھی کروڑوں روپے لیتے ہیں… اس دن بی بی سی والے بتا رہے تھے کہ … بھارت
کی ایک فلمسٹار ایک اشتہار کے ڈیڑھ کروڑ لیتی ہے… اب یہ رقم بھی صابن کی قیمت میں
شامل ہوگئی… اور غریب بیچارے کو بغیر ٹکٹ… ایک فلمسٹار عورت کو… اپنے خون پسینے کی
کمائی میں سے رشوت دینا پڑی… پھر… کمپنی نے ٹی وی چینلز سے بات کی کہ… ہمارا …
اشتہار چلایا جائے… ٹی وی چینلز کے ریٹ بھی آسمانوں سے بات کرر ہے ہیں… انہوں نے
بھی کروڑوں روپے لے لیے… اور یہ رقم بھی صابن کی قیمت میں شامل ہوگئی… پھر یہ
صابن… مین اسٹاکسٹ کے پاس آیا… اس نے اپنا نفع لیا … اور ہول سیلر کو دے دیا… ہول
سیلر نے نفع وصول کرکے… دکان والے کو پہنچایا… اور اب اس دکان والے نے… اپنا نفع
لے کر… غریب بیچارے کو بیس روپے میں صابن دے دیا کہ جاؤ… نہاؤ… اور مزے کرو…
تمہاری خوش نصیبی کہ تم فلاں کمپنی کے نام والے اس صابن سے نہا رہے ہو… جس سے ہالی
وڈ کی فلاں ’’طوائف‘‘ نہاتی ہے… اور فلاں ٹی وی چینل پر اس صابن کا اشتہار چلتا
ہے… جاؤ… اور شکر ادا کرو… دیکھا آپ نے … یہ ہے ایک چھوٹی سی مثال… ملٹی نیشنل
کمپنی نے کس طرح غریب کی جیب سے… اٹھارہ روپے نکال کر… اس طبقے میں بانٹ دئیے جو
صرف دولت بنا رہا ہے… نہ خود خرچ کرتا ہے… اور نہ کسی اور کے کام لاتا ہے… حالانکہ
صرف سوا روپے میں اس سے زیادہ بہترین صابن… غریب کا سر دھو سکتا تھا… مضمون کافی
طویل ہوچکا ہے جبکہ… اصل بات ابھی باقی ہے… اس لیے آج یہیں بس کرتے ہیں… باقی
باتیں… اگلی ملاقات میں… اگر… زندگی رہی… اور رب نے چاہا…ان شاء اﷲ!
غربت ختم
)۲(
غربتت ختم کرنے کے نادر طریقے اور
مسنون وظائف، صبر وقناعت کی فضیلت اور بہت کچھ جو آپ اس اہم موضوع پر پڑھنا چاہیں۔
)۴ربیع
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۹مئی
۲۰۰۵ء(
غربت ختم
)دوسری اور آخری
قسط(
اﷲ کرے آپ کو یاد ہو کہ
پچھلا کالم کہاں چُھوٹا تھا … بات چل رہی تھی ایک ’’اعتراض‘‘ اور اس کے جوابات کی…
اعتراض یہ تھا کہ موجودہ سودی نظام سے غریبوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے… دو جوابات عرض
کردئیے تھے… تیسرا جواب پیش خدمت کرنے سے پہلے ایک ’’واقعہ‘‘ یاد آگیا… ایک بار دو
سال کیلئے ایک ’’جیل‘‘ میں سعدی کو بند کردیا گیا… ایسا کیوں ہوا؟ یہ میں نہیں
بتاتا… وہاں ہمارے ساتھ ایک بڑے ’’بدمعاش‘‘ صاحب بھی تھے… جیل میں ان کے نخروں کا
یہ عالم تھا کہ پانچ لاکھ کی گھڑی باندھتے تھے… گلے میں اتنی ہی قیمت کا طلائی
لاکٹ لٹکاتے تھے… جیل میں سگریٹ کی ممانعت تھی … وہ … ہزار دو ہزار کی ایک ڈبی
روزانہ منگوا کر اس کا دھواں اپنے اندر منتقل کرلیتے تھے… موبائل فون ان کے پاس
خفیہ طور پر موجود تھا… اس پر… باہر اپنے گینگ کے ممبران سے رابطہ رکھتے تھے… اور
کاروائیوں کی نگرانی کرتے تھے… وارڈ کے تمام قیدی ان کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ
باندھے کھڑے رہتے… ہم فقیر لوگ ان کے نخروں اور غلاظتوں سے متاثر نہیں ہوئے تھے…
اور نہ ہمیں ان کی گھڑی … اور کپڑوں پر ذرہ برابر ’’رشک‘‘ آتا تھا … اس لیے وہ ہم
پر حیران بھی تھے… اور صبح سویرے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام بھی کرتے تھے… انہوں نے
ہمارا دل لبھانے کیلئے اپنی نیکیوں کے کارنامے بھی سنائے کہ ہم روزانہ پانچ ہزار
روپے… کسی نہ کسی مندر یا مسجد کے باہر غریبوں میں تقسیم کرواتے ہیں… ان کی اس
سخاوت سے ہمیں سودی بینکوں کا طرز عمل سمجھنے میں آسانی ہوئی… سودی بینک بھی…
’’بدمعاش جی‘‘ کی طرح چند غریبوں کو نواز کر مطمئن ہیں… بدمعاش جی… روزانہ چوری،
ڈکیتی … اغواء برائے تاوان، سٹہ بازی… جوا… اور ہر برائی اور گناہ کی ہر صورت پر
عمل کرتے تھے… بہت سارے لوگوں کا ناجائز خون بھی ان کے کاندھوں پر تھا… فحاشی اور
بے حیائی کو بالکل برا نہیں سمجھتے تھے… ہاں… اپنے کروڑوں کے کالے دھن میں سے چند
ہزار روپے غریبوں میں بانٹ کر مطمئن تھے… بینکوں کا سودی نظام بھی… بالکل اسی طرز
کا ہے…
(۳) تیسرا جواب… چلیں
مان لیا کہ … بینکوں کے سودی نظام سے چند غریبوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے… تو کیا…
صرف اسی ایک وجہ سے … قرآن وسنت میں بیان کردہ اس کی حرمت ختم ہوجائے گی؟… چند دن
پہلے ریڈیو پر یہ خبر سنی تھی کہ … بمبئی شہر کے شراب خانوں میں ساٹھ ہزار غریب
لڑکیاں… شراب پیش کرنے… اور پھر ناچنے کا پیشہ کرتی ہیں… اب ہمارے مفکر… ان شراب
خانوں کو بھی جائز قرار دیں گے؟… دراصل ہمارے روشن خیال… مفکرین اسلام نے موجودہ
’’زمینی حالات‘‘ کو ناقابل تبدیل حقیقت سمجھ لیا ہے… اور ان کا خیال ہے کہ اب یہ
حالات بس اسی رخ پر آگے بڑھتے چلے جائیں گے… چنانچہ… احساس کمتری میں مبتلا یہ
مفکرین… عصر حاضر کی مجبوریوں کے بلوں میں گھسنے کے لئے بے تاب ہیں… ہمیں اس پر
زیادہ دکھ نہیں ہے… ہر آدمی کی اپنی قسمت ہے اور اپنا نصیب… بس… افسوس اس بات کا
ہے کہ یہ مفکرین … اپنے ساتھ… اسلام کو بھی ان تاریک بلوں میں… گھسانے کی کوشش
کرتے ہیں… اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے ہی ارشاد فرمادیا کہ … امت کے بہت
سارے لوگ یہود ونصاریٰ کی اندھی پیروی کریں گے… یہاں تک کہ… اگر وہ کسی گوہ (ایک
جنگلی جانور ہے جسے عربی میں ضَب کہتے ہیں) کی بل میں گھسیں گے تو یہ لوگ بھی… ان
کے پیچھے … اس بل میں جا گھسیں گے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی… حرف
بحرف… پوری ہو رہی ہے… اور ہمارے روشن خیال مفکرین کے نزدیک… عقلمندی اور دانش کا
بس یہی ایک مطلب رہ گیا ہے کہ … ہم … یہود ونصاریٰ کی پیروی کریں… اور ہر معاملے
میں ان کے طرز عمل کو اختیار کریں… ان مفکرین کی خدمت عالیہ میں بس اتنی سی گزارش
ہے کہ… وہ… ان سوراخوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی … بس … اسلام کا نام
استعمال نہ کریں… ورنہ … ان کی گردن کا بوجھ بہت بڑھ جائے گا… اور پوری زمین فساد
کی لپیٹ میں آجائے گی… اسی ’’سود‘‘ کو لے لیجئے… کسی مسلمان کو… قرآن کے یہ الفاظ
پڑھ کر اوّل تو ہمت ہی نہیں ہوتی کہ … سود لے یا دے کہ… سودی کام کرنے والے اگر
باز نہیں آتے… تو پھر… فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرہ۲۷۶)… اﷲ اور اس کے رسول کا
اعلان جنگ سن لو… لیکن پھر بھی کوئی بدنصیب… قسمت کا مارا انسان… سودی کاروبار…
سودی لین دین… یا سودی ملازمت کرتا ہے تو وہ … سود کو حرام سمجھ کر … ایسا کرے…
اور اپنے اس گناہ پر توبہ، ندامت اور استغفار کرتا رہے… کیا بعید ہے کہ… اﷲ غفور الرحیم
اسے معاف فرمادے… اسے سود سے بچالے … اسے متبادل حلال روزی عطا فرمادے… یا … بخشش
کا کوئی بھی معاملہ کرے… لیکن اگر… نام نہاد مفکرین نے… اس سود کو ’’حلال‘‘ قرار
دے دیا تو اس میں ’’کفر‘‘ کا خطرہ ہوگا… اور کبھی توبہ کا خیال بھی نہیں آئے گا…
پھر ایک بات بہت واضح ہے کہ جب… بعض عناصر نے… پرانے اسلام کو بدلنے کا امریکی عزم
کر ہی لیا ہے تو پھر… اسلام کا نام بھی تو پرانا ہے… کیوں نہیں اس پرانے نام کو
چھوڑ کر… کوئی نیا نام … پسند کرلیتے … اب یہ تو غلط بات ہے کہ… پرانے اعمال چھوڑ
دیئے جائیں اور پرانا نام برقرار رکھا جائے… کل یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اگر پرانے
اعمال کو اختیار کرنا… قدامت پسندی ہے تو پھر پرانا نام استعمال کرنا بھی… قدامت
پسندی ہے… اور یہ روشن خیالی کے بالکل خلاف ہے… اس بات کو ابھی حا ل ہی میں پیش
آنے والے ایک واقعہ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں… امریکا میں دو عورتوں
نے… جمعہ کی نماز کی امامت کرا ڈالی… اور ساتھ یہ اعلان کیا کہ ہم… چودہ سو سال سے
جاری رہنے والی غلطیوں کو دور کر رہی ہیں… چلیں ٹھیک ہے… آپ نے ایک غلطی تو دور
فرمادی… مگر… اسی چودہ سو سال والے (نعوذباﷲ) غلط اسلام کی بہت ساری غلطیوں کو
جاری رکھا…
مثلاً (۱) مسلمان چودہ سو سال سے
اپنا ہفتہ واری اجتماع ’’جمعہ‘‘ کو کرتے ہیں… حالانکہ … اب عالمی برادری کے کندھے
سے کندھا … وغیرہ… ملانے کیلئے ضروری ہے کہ … یہ دن بدلا جائے… تو پھر… ان
’’خواتینِ انقلاب‘‘ نے ’’اتوارنماز‘‘ کی امامت کیوں نہ کرائی؟… جمعہ نماز کی عبادت
تو … قدامت پسندی ہے…
(۲) چودہ سو سال سے
مسلمان… نماز سے پہلے اذان دیتے ہیں… عالمی برادری کو اذان کی آواز پسند نہیں ہے…
جیسا کہ کئی واقعات سے ثابت ہوچکا ہے… تو پھر آپ نے اذان کیوں دلوائی؟ … کیا آپ
مسلمانوں کو ترقی نہیں کرنے دیں گی؟…
(۳) چودہ سو سال سے
مسلمان… کپڑے پہن کر نماز ادا کرتے ہیں… عالمی برداری کو یہ بات زیادہ پسند
نہیںہے… مگر آپ نے تو سر بھی ڈھانپ رکھا تھا… ہاں اسریٰ صاحبہ نے سر کھول کر ’’نیو
اسلام‘‘ کی کچھ لاج رکھ لی…
(۴) چودہ سو سال سے
مسلمان اپنے دین کا نام… اسلام بتا رہے ہیں… عالمی برادری میں یہ نام ’’غیر
مقبول‘‘ ہوچکا ہے… پھر کیوں نہ اپنی قوم کو … عالمی برادری کی آنکھوں میں اونچا
مقام دلانے کیلئے… کوئی اور نام دے دیا جائے… آمنہ ودود… اور اسریٰ نعمانی جیسے
لوگوں کو… جنہیں… چودہ سو سال پرانا اسلام پسند نہیں ہے… کوئی ایسا نام … جو …
عالمی برادری کو بہت پسند ہو… دے دیا جائے… مثلاً؟؟؟… چلیں چھوڑیں… بہت سارے
مزیدار نام ذہن میں آرہے ہیں… آپ کی ہنسی چھوٹ جائے گی… ان ناموں کو لکھنے کی
بجائے… ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ… یا اﷲ… ہم سب مسلمانوں کو اسلام کی سمجھ اور محبت
عطاء فرما… اور سب کو ایسا ’’مسلمان‘‘ بنا جیسا تجھے پسند ہو… اور کسی بھی مسلمان
کو … اسلام سے محروم نہ فرما… یہ دعاء اپنے لیے بھی ہے… اور روشن خیالوں کے لئے
بھی… اس لیے کہ ہم سب اسلام، ایمان… استقامت… اور حسن خاتمہ کے محتاج ہیں…
دراصل زمانہ جاہلیت میں
جو سود مروّج تھا… اس کا ظاہری مقصد… اور نعرہ بھی… غریبوں کو فائدہ پہنچانا تھا…
اور یہ حقیقت ہے کہ ابتدائی فائدہ اسی غریب کو ملتا تھا… جو … سخت ضرورت کے وقت
قرضہ کی صورت میں اپنی ضرورت کا مال حاصل کرلیتا تھا… اس لیے یہ کہنا کہ … اس زمانے
کا سود… غریبوں پر ظلم کی وجہ سے حرام ہوا… درست نہیں ہے… اﷲ پاک نے… سود کو حرام
فرمایا ہے تو ہمیں… اس بات کو قبول کرنا چاہئے… کوئی دلیل یا حکمت سمجھ آئے یا نہ
آئے… جبکہ یہاں تو … سود کے خلاف عقلی دلائل کا انبار موجود ہے… اور موجودہ عالمی
نظام کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ… سودی نظام… خالص شیطانی نظام ہے… جس
کا مقصد انسانیت کو مفلوج کرنا… اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے… اور اس نظام نے
دنیا کو … غربت، بے چینی، جرائم، ظلم … اور پریشانیوں سے بھر دیا ہے… ہم اگر واقعی
’’مسلمان ‘‘ ہیں تو اس نظام کے سامنے بے بس ہو کر ہتھیار ڈالنے کی بجائے… ڈٹ کر اس
کا مقابلہ کریں… انسانوں کے بنائے ہوئے نظام… بتوں کی طرح کمزور ہوتے ہیں… اگرچہ…
وہ مکڑی کے جالے کی طرح ہر طرف پھیل چکے ہوں… ہم اگر ’’غربت ختم‘‘ کرنا چاہتے ہیں…
تو ہمیں… اسلامی نظام… اور اسلامی اخلاق کے سائے میں پناہ لینا ہوگی… سب سے پہلے…
حکمران طبقہ … خود کو ٹھیک کرے… اپنے معیار زندگی کو اونچا بنائے… اونچا معیار
زندگی وہ ہوتا ہے جو سنت کے مطابق… اور سادہ ہو… یہ طبقہ… اپنے اندر سے ’’مال کی
حرص‘‘ نکالے تاکہ اس میں انسانیت اور وفا کی خوشبو پیدا ہوسکے… یہ طبقہ… مال کی
ناجائز اور فضول ذخیرہ اندوزی سے بچے… تاکہ… مال… صرف مالداروں کے درمیان نہ
گھومتا رہے… اور انسانوں کی روزی کو… بینکوں کی دیمک نہ کھاتی رہے… سچی بات یہ ہے
کہ… حکمران طبقہ… ایک دن میں جتنی فضول خرچی کرتا ہے… جتنی رشوت لیتا ہے… اور جتنا
حرام کماتا ہے … وہ اگر… جمع کرلیا جائے تو ملک کے غریبوں کے ایک سال کی خوراک نکل
سکتی ہے… بڑی دعوتیں… فائیو اسٹار کلچر… رقص وسرور کی محفلیں… تصنع اور بناوٹ والے
استقبال … ہیجڑوں جیسا زرق برق لباس… فضول ظہرانے اور عشائیے… غیر ملکوں میں علاج…
تفریحی دورے… اور معلوم نہیں کیا کیا؟… میں نے ایک بار اخبار میں … ممبران قومی
اسمبلی اور ان کی عورتوں کے … غیر ملک میں علاج کے مصارف پڑھے تو میرا سر پھٹنے
لگا… اس رقم کا مجموعہ… اربوں روپے بنتا تھا… اوپر سے لیکر نیچے تک … بناوٹ… اور
اسراف کا یہ ننگا ناچ قوم کو اندر ہی اندر سے کھا رہا ہے… ایک بار میں نے… بعض
سرکاری آفیسروں کی تنخواہیں معلوم کیں… دو سال پہلے کی بات ہے… پولیس کے ڈی ایس پی
کی تنخواہ… آٹھ سے دس ہزار بتائی گئی… حالانکہ ہم نے دیکھا کہ … اتنی رقم تو ان
آفیسروں کے کتیّ کھا جاتے ہیں… جبکہ… خود ان کے ایک وقت کا کھانا… بعض اوقات اس رقم
سے زیادہ ہوتا ہے… پھر باقی مال کہاں سے آتا ہے؟… ہمارے بڑے آفیسر خصوصاً سیکرٹری
حضرات کی… خلائی زندگیاں دیکھیں… وہ بلا مبالغہ… روزانہ… لاکھوں روپے اڑاتے ہیں …
اور ان کی ’’بیگمات‘‘ کا جیولری… اور لباس میں ایک غیر محسوس مقابلہ… ہر وقت…
غریبوں کا خون چوستا رہتا ہے… کیا یہ سب کچھ تنخواہ سے ہوتا ہے؟… میرے خیال میں تو
ان کے ایک سوٹ… اور بوٹ کی قیمت ان کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے… کچھ عرصہ قبل …
ایک ایماندار… ڈی آئی جی کا پتہ چلا… وہ اب بھی سائیکل پر سفر فرماتے ہیں… اور
چیلنج کرکے کہتے ہیں کہ… ہمیں جو تنخواہ ملتی ہے… اس میں گھر کا کھانا، خرچہ نکال
کر… کبھی اتنی بچ ہی نہیں سکتی کہ ہم حلال کا موٹر سائیکل خرید لیں… مگر ان کے
باقی ہم منصب… خواب میں بھی … سائیکل چلانا گوارہ نہیں کرتے… سر سے لیکر پاؤں تک…
ظلم اور رشوت میں لتھڑے ہوئے اس طبقے کو… بس … مجاہدین… علماء… اور دیندار افراد
ہی اس ملک کے دشمن… اور غربت کا سبب نظر آتے ہیں… غربت ختم کرنی ہے تو … حکمران
طبقہ… اپنا ’’قبلہ دُرست‘‘ کرے… سرکاری اخراجات میں کٹوتی کرے… ملک سے باہر پڑے
اپنے سرمائے کو ملک میں لائے… روزانہ چھ چھ جوڑے بدلنے والے مضحکہ خیز اقدامات سے
اجتناب کرے… مرد… کپڑوں سے نہیں… غیرت اور مردانگی سے عزت پاتے ہیں… اخبارات میں
آرہا ہے کہ … ہمارے ملک کے وفد نے … ہندوستان کے حالیہ دورے کے دوران… اتنے لباس
بدلے کہ… ہندو حیران رہ گئے… اس پر مجھے… حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ یاد آگئے…
جو … بیت المقدس کے فاتح بن کر… فلسطین میں داخل ہوئے تو ان کے لباس پر… سترہ
پیوند تھے… جبکہ… ملک شام کے سابق حکمران… زرق برق لباس… اور طلائی زیورات کے
ساتھ… ان کے قدموں کی دھول بنے ہوئے تھے… ایک تُرک فاتح کا قصہ مشہور ہے کہ… اس نے
ایک شہر فتح کیا… شہر کے سابق حکمرانوں نے … ہتھیار ڈال دیئے… اور اس کے اعزاز میں
دعوت دی… اور طرح طرح کے کھانوں سے دسترخوان بھردیا… وہ فاتح جب دسترخوان پر بیٹھا
تو… اس نے اپنے خادم سے کہا… ہمارا کھانا لاؤ… اس نے چمڑے کا تھیلا پیش کردیا…
فاتح نے اسے الٹا تو سوکھی روٹیاں نکلیں… وہ … مزے لے لے کر … انہیں کھانے لگا… شہر
والوں نے کہا… جناب یہ کھانے آپ کیلئے بنائے ہیں… اس نے مسکرا کر کہا… ان کھانوں
نے تمہیں ایسا بنادیا کہ … تم ہتھیار اٹھا کر لڑ نہ سکے… اور غلامی اختیار کرنے پر
مجبور ہوگئے… اور میرے اس کھانے نے مجھے… اس حال تک پہنچایا کہ … تم لوگ… میرے
سامنے تھوڑی دیر بھی نہ ٹھہر سکے… آج ہمارے حکمران بھی… مِیرا کے ٹھمکوں… میراتھن
کی ہاؤ ہو… اور لباس کی چمک دمک سے… ملک کو ترقی اور تحفظ دینا چاہتے ہیں… اور
انہوں نے اس ملک کے شیروں کو… پنجروں اور جنگلوں میں محبوس کرنے کی ٹھانی ہے… اور
عالم کفر کے تھانیدار… انہیں ان کاموں پر تھپکیاں دے رہے ہیں… آج کل… خبریں پڑھ کر
… دل پھٹتا ہے کہ… بس سود کھاؤ… اور غربت مٹاؤ… اﷲ پاک کی قسم… مسلمانوں کی غربت
کبھی سود سے نہیں مٹ سکتی… میری… تمام مسلمانوں سے التجاء ہے کہ… وہ خود بھی سود
سے بچیں … اور اپنے اہل خانہ … اور اولاد کوبھی اس لعنت سے بچائیں… میرے بھائیو…
اور بہنو… دنیا کسی نہ کسی طرح کٹ ہی جائے گی… لیکن اگر … پیارے محبوب حضرت محمد
مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی لعنت پڑ گئی تو ہم کہاں کے رہ جائیں گے… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے… سود خوروں پر واضح لعنت فرمائی ہے… دنیا کی ہر تکلیف اور تنگی جسے ہم…
صبر سے برداشت کرلیں گے… آخرت میں کام آئے گی… اور دنیا فانی… اور آخرت دائمی ہے…
اور مال کا تھوڑا ہونا… پسماندگی نہیں… ترقی ہے… کیونکہ کئی احادیث مبارکہ سے ثابت
ہے کہ … فقراء… مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے… (صحیح ابن حبان… مسند احمد)
اور اﷲ تعالیٰ اپنے بعض
محبوب بندوں کو… دنیا سے … اس طرح بچاتا ہے … جس طرح… لوگ اپنے مریض کو… بعض (مضر)
کھانے پینے کی اشیاء سے بچاتے ہیں… (مستدرک حاکم)
اور حضور اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے … اپنے لیے… مسکین رہنے کی دعاء فرما کر… غریبوں کے ’’ترقی یافتہ‘‘
ہونے پر مہر ثبت فرمادی ہے… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح حکم دیا ہے کہ…
أَحِبُّوْا الْفُقَرَآئَ
وَجَالِسُوْ ہُم (الحاکم وقال صحیح
الاسناد)
غریبوں سے محبت کرو… اور
ان کے ساتھ بیٹھو…
حقیقت یہ ہے کہ … غربت
میں مبتلاء افراد… اگر… صبر وقناعت اختیار کرکے… ایک نظر… آقا محمد مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم کے حجروں پر ڈالیں… پھر … دوسری نظر سے… ان حجروں کے اندر کی زندگی
دیکھیں… اور پھر وہ احادیث پڑھیں… جن میں… کم مال رکھنے کی فضیلت ہے تو … شکر میں
ایسے ڈوب جائیں کہ… ان کی غربت… بادشاہی… اور مالداری میں بدل جائے… دیکھیں یہ
عجیب ومبارک حدیث…
’’حضرت ابو ذر … رضی
اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا… مسجد
میں سب سے اونچا (مالدار اور بڑا) شخص دیکھو… میں نے دیکھا تو ایک شخص کو پایا… جس
نے بہت قیمتی حلّہ (لباس) پہن رکھا تھا… میں نے عرض کیا… یہ ہے… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا اب دیکھو سب سے ادنیٰ شخص کونسا ہے… میں نے دیکھا تو ایک شخص بہت
بوسیدہ لباس میں تھا… میں نے عرض کیا… یہ ہے (سب سے ادنیٰ) … اس پر رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا… یہ (ادنیٰ شخص) قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس
(اعلیٰ شخص) جیسے زمین بھرکے لوگوں سے افضل ہوگا‘‘… (مسند احمد… صحیح ابن حبان)
یعنی یہ ایک غریب شخص…
دنیا بھر کے مالداروں سے زیادہ افضل اور بہتر ہوگا… اﷲ تعالیٰ کے ہاں…
اور یہ دیکھیں… حضور پاک
صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ہاں… غریب کون ہے؟… اور مالدار کون؟…
ایک شخص نے حضرت عبداﷲ بن
عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ سے پوچھا… کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں؟… حضرت
عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا… کیا تمہاری بیوی ہے جس کے پاس تم ٹھکانا پکڑتے ہو؟…
انہوں نے کہا جی ہاں… پوچھا … کیا رہنے کا گھر ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں…
فرمایا پھر تو آپ اغنیاء میں سے ہیں… انہوں نے عرض کیا… میرے پاس تو (بیوی اور
مکان کے علاوہ) ایک خادم بھی ہے… فرمایا… پھر تو آپ ’’بادشاہوں‘‘ میں سے ہیں… (رواہ مسلم۔ موقوفاً)
یہ موضوع بہت طویل ہے…
اور میں نہیں چاہتا کہ… تیسری قسط تک پھیل جائے… اس لیے آئیے چند ضروری باتوں کا
مذاکرہ کرکے… اسے مختصر کرتے ہیں…
(۱) سود سے پکی توبہ
کرلی جائے… دوسروں کو بھی کرائی جائے اور اس بارے میں اپنا… عقیدہ اور نظریہ صاف
رکھا جائے…
(۲) حکومت کو اﷲ پاک
ہدایت دے کہ… وہ سودی نظام کو مضبوط کرنے کی بجائے… ’’اسلامی مضاربت‘‘ کو رواج دے…
ملک میں چھوٹی صنعتوں کا جال بچھائے… ملکی سرمایہ باہر جانے سے روکے… اور ملٹی
نیشنل کمپنیوں اور کلچر کی حوصلہ شکنی کرے…
(۳) حکومت کے اہلکار…
بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے فرضی دشمن کا پیچھا چھوڑ کر… اپنی اصلاح کریں… اور
اپنے اندر اور عوام میں حرص، طمع، نمائش… اور فیشن کے جراثیم پھیلانے سے بچیں…
نظام حکومت ایسا مضبوط بنائیں کہ… غربت کے تمام اسباب مثلاً… سود، چوری، ڈاکہ،
ملاوٹ، بدعنوانی، ناجائز ذخیرہ اندوزی… رشوت اور اسراف ختم ہوجائے… تب… چھ ماہ کے
اندر ملک سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا… ہم نے جواسباب ِ غربت لکھے ہیں ان میں سے
ایک ایک پر غور کریں تو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی… اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو
وہ خود… غربت پھیلانے کی مجرم ہوگی… غیر ملکی سرمایہ کاروں کو… جتنا خطرہ ملک کے
راشی آفیسروں… اور دھوکے باز تاجروں سے ہے… اتنا خطرہ… کسی جہادی جماعت سے نہیںہے…
(۴) عوام میں… غیر
ملکی چمک دمک کی تشہیر کرنے کی بجائے… اسلامی اقدار واخلاق کی دعوت عام کی جائے…
جب… قناعت اور ایثار جیسی دو صفات پیدا ہوں گی تب ہی جاکر ملک کا معاشی قبلہ درست
ہوگا…
(۵) وفاقی شرعی عدالت
کا وہ سابقہ فیصلہ جو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ نے لکھا تھا… اسے
نافذ کردیا جائے تو ملک میں… معاشی ترقی کی ان شاء اﷲ نئی بہاریں آجائیںگی…
آخر میں تین تحفے
تحفہ(۱) تمام
مسلمان بہن بھائی… دعاء قناعت کو اپنا معمول بنائیں… ہمارے دل میں… قناعت آگئی اور
لالچ نکل گئی تو ہم بادشاہوں سے زیادہ غنی ہوجائیں گے… اور کسی غریب کی آنکھیں …
کسی مالدار کے سامنے رسوا نہیں ہوں گی… ہر نماز کے بعد… دل کی گہرائی اور توجہ سے…
یا صبح وشام… تین بار … یہ مسنون دعاء پڑھ لیا کریں…
اَللّٰہُمَّ قَنِّعْنِی
بِمَا رَزَقْتَنِی وَبَارِکْ لِی فِیْمَا اَعْطَیْتَنِی
ترجمہ:… اے میرے پروردگار
آپ نے جو روزی مجھے دی ہے اس پر مجھے قناعت (یعنی صبر، اطمینان، خوشی اور کفایت)
عطاء فرمادیجئے اور آپ نے جو کچھ مجھے دیا ہے… اس میں… میرے لئے برکت عطاء
فرمادیجئے… یہ بہت مبارک، موثر… اور عجیب دعاء ہے… اگر یہ قبول ہوگئی تو… دنیا میں
ہی مزہ شروع ہوجائے گا… اور اپنا کچا مکان… وائٹ ہاؤس سے زیادہ … افضل اور مزیدار
لگنے لگے گا … اور دل سکون کی جنت سے بھر جائے گا… ان شاء اﷲ… اور ہمیں کبھی اپنے
دل یا آنکھوں کو کسی مالدار کے سامنے نہیں جھکانا پڑے گا… یہ دیکھیں … حضرت علی
رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب یہ اشعار…
لا تخضعن لمخلوق علی طمع
فانّ ذلک وہنٌ منک فی
الدین
واسترزق اﷲ مما فی خزائنہ
فانما الامر بین الکاف
والنون
ان الذی انت ترجوہ وتأملہ
من البریّۃ مسکین ابن
مسکین
ترجمہ: … لالچ اور طمع کی
وجہ سے کسی مخلوق کے آگے عاجزی نہ کرو… اس لیے کہ ایسا کرنا دین میں تمہاری ایک
قسم کی کمزوری ہے… اﷲ تعالیٰ سے… اس کے خزانوں میں سے روزی مانگو… اس لیے کہ
معاملہ کاف ونون (کُنْ) کے درمیان ہے… مخلوق میں سے جس سے تم (روزی کی) امید رکھتے
ہو… وہ تو خود مسکین (محتاج) … اور مسکین (محتاج) کا بیٹا ہے…
ماشاء اﷲ… کیا خوب
حکیمانہ کلام ہے… اﷲ کرے… میرے اور آپ کے دل کا ’’حال‘‘ بن جائے… اور اگر ہم نے
کبھی اپنی زندگی میں… کسی ’’مالدار‘‘ سے طمع یا لالچ رکھی ہو تو … اﷲ تعالیٰ …
اپنے عفو وفضل سے معاف فرمائے…
تحفہ (۲) فقر
وفاقہ … ہر انسان برداشت نہیں کرسکتا… اور بعض اوقات یہ فقر وفاقہ اسے کفر تک
گھسیٹ لے جاتا ہے… اس لیے … صبح وشام… اس مسنون دعاء کو بھی… ورد میں رکھنا چاہئے…
جس میں … فقر وکفر سے پناہ مانگی گئی ہے… لیجئے یہ دعاء… ترجمے اور درست الفاظ کے
ساتھ … یاد… کرلیجئے…
اَللّٰہُمَّ إنِّیْ
اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ
ترجمہ :… اے میرے
پروردگار میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں کفر سے… اور فقرسے
تحفہ(۳) روزی کی تنگی دور کرنے …
اور غربت ختم کرنے کا ایک خاص عمل… حضرت امام غزالی ؒ نے… حدیث شریف کے حوالے سے لکھاہے… بے انتہا
طاقتور… اور موثر ترین عمل ہے… جو بھی… یقین اور توجہ کے ساتھ اپنائے گا… ان شاء
اﷲ… بہت فائدہ پائے گا…
امام غزالی ؒ لکھتے ہیں…
ایک شخص آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پاس آیا کہ مجھ سے دنیا نے پشت پھیرلی ہے اور میں تنگ دست ہوگیا ہوں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو فرشتوں کی نماز اور مخلوق کی تسبیح کیوں نہیں
پڑھتا۔ اس سے تو لوگوں کو روزی ملتی ہے… اس نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح صادق کے طلوع سے فجر کی نماز پڑھنے تک کے اندر سو بار
سُبْحَانَ اﷲِ
وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہ اَسْتَغْفِرُ اﷲ
پڑھ لیا کرو۔ دنیا تیرے
پاس ذلیل وخوار ہو کر آئے گی… (احیاء العلوم… کیمیائے سعادت)
یعنی جب فجر کی نماز کا
وقت داخل ہوجائے… صبح صادق نکل آئے تو… اس وقت سے لیکر… فرض نماز ادا کرنے تک … یہ
تسبیح واستغفار ایک سو بار پڑھ لی جائے… بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ … فجر کی سنتیں
پڑھ کر… یہ عمل کیا جائے… اور پھر فجر کے فرض ادا کرلیے جائیں… اس عمل میں لفظ …
سبحا ن اﷲ… ویسے ہی روزی کی تأثیر رکھتا ہے… حمد میں شکر ہے… اور شکر سے نعمتیں
بڑھتی ہیں… اور آخر میں… استغفار … اور استغفار تو آسمان کے دروازے بھی کھلوادیتا
ہے…
لیجئے… القلم کے پیارے
قارئین… امام غزالیؒ کا تحفہ… اور غربت ختم… روشن خیال مفکر… قہقہے لگائے گا کہ…
دیکھو… ملاّ کی نا سمجھی… دنیا چاند تک پہنچ گئی… اور معیشت کا فن آسمان کو چھونے
لگا… ملاّ کو معیشت کی کیا سمجھ… اس لیے… سودی بینک کے خلاف لکھتے لکھتے… سعدی کی
تان… سبحان اﷲ وبحمدہ پر آکر ٹوٹی… ہاں روشن خیال کو ہنسنے دیجئے… ملاّ کو واقعی …
اﷲ پاک …کی حمد وثنا… اور وفاداری کے سوا … کچھ نہیں آتا… اﷲ کرے… کچھ اور آئے بھی
نہ… پھر بھی الحمدﷲ سوا چودہ سو سال سے… رب تعالیٰ اسے … کافروں کے بوٹ پالش کیے
بغیر… خوب روزی دے رہا ہے… خوب روزی… ہاں مسلمانو!… اﷲ پاک کے وفادار بنو… سود
چھوڑو… حلال کی جستجو کرو… اور پڑھو…
سبحان اﷲ وبحمدہ… سبحان
اﷲ العظیم وبحمدہ… استغفر اﷲ…
اور… غربت ختم… روشن خیال
بھائی فرماتے ہیں کہ … مولوی کو فنِّ معیشت نہیں آتا… اور اس کی تان… ’’سبحان اﷲ‘‘
پر ٹوٹتی ہے… ارے آپ تان کی بات کرتے ہو… ہماری تو قلبی تمنا ہے کہ… تان تو تان
ہمارا سانس بھی… سبحان اﷲ… الحمدﷲ… اور … لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پر ٹوٹے… اﷲ
کرے ایسا ہو… اور اگر… اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا… اور ایسا ہی ہوا تو… دنیا کے ساتھ
ساتھ … آخرت اور قبر کی بھی… غربت ختم… ان شاء اﷲ…
کتانہ کہو
ہمارے غیرت فروش حکمرانوں
نے عزت تلاش کرنے کیلئے ذلت کا راستہ اختیار کیا اور اس عزت کے راستے میں رکاوٹ
بننے والے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو پکڑ پکڑ کر ظالموں کے عقوبت خانوں کو آباد
کرنا شروع کیا مگر انجام کار ذلت آمیز کارٹون کا تحفہ اور کتے کا لقب ملا اس موقع
پر ہر دردمند دل سے آہ نکلی توالقلم جیسا غیور اور درد منداخبار کیسے خاموش رہتا ؟
مزید فوائد: (۱) انہی دنوں کی چند مزید
خبروں پر دلچسپ تبصرہ۔ (۲)چند
دلچسپ اور عبرت آموز واقعات
)۱۱ربیع
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۶مئی
۲۰۰۵ء(
کتا نہ کہو
اللہ پاک کا کرنا دیکھیں
… ہمارے دو ہفتے ایک ہی مضمون میں گزر گئے… ’’غربت ختم‘‘ کے موضوع پر بات لمبی
ہوگئی اور ادھر دنیا میں … بہت بڑے بڑے عجیب واقعات پیش آگئے… مثلاً … واشنگٹن
ٹائمز کا وہ کارٹون … جو پاکستانی قوم کے گلے میں جوتوں کا ہار بنا ہوا ہے … گوانتاناموبے
میں (نعوذ باللہ) قرآن پاک کی بے حرمتی … جس نے مسلمانوں کے سینے چھلنی کردیئے
ہیں… پاکستان اور جہاد کشمیر کے زبردست حامی سید علی گیلانی … اور بھارتی اداکارہ
’’رانی مکھر جی‘‘ … یہ بڑا دلچسپ موضوع ہے … اور ادھر ہمارے نمونہ عبرت پیر مغاں …
جناب صبغت اللہ مجددی کی سخاوت کہ طالبان اور حکمت یار ہتھیار ڈال کر … معافی
پاسکتے ہیں … میرا ہم سفر دوست ’’بھائی خیال جی‘‘ مجھے اکسا رہا ہے کہ … پچھلے
ہفتے کی تلافی کرو… اور ان چاروں موضوعات پر کالم لکھ ڈالو … اور اس کی خواہش ہے
کہ … اس کے کچھ ’’فرضی ڈھکوسلے‘‘ بھی مضمون میں شامل کئے جائیں… چلیں اللہ تعالیٰ
پر توکل کرتے ہوئے … بات کا آغاز کچھ واقعات و حکایات سے کرتے ہیں … آپ ان واقعات
اور حکایات کو اوپر والی چار خبروں کے ساتھ جوڑتے جائیں…
ولید بن یزید بن عبدالملک
کا انجام
یہ بہت عجیب شخص تھا …
نام کا مسلمان مگر پکا شرابی … رقص ٗ موسیقی اور عورتوں کا رسیا… اور دین کا مذاق
اڑانے والا … اس کا چچا … ہشام بن عبدالملک … خلیفہ تھا … خوبصورت اور خوب سیرت …
اسے اپنے بھتیجے ولید کی حالت پر رنج بھی تھا اور غصہ بھی … اور بالآخر اس نے
’’ولید‘‘ کو مارنے کا ارادہ کیا مگر ولید بھاگ نکلا … اللہ کی شان … ولید اپنے چچا
سے چھپتا پھرتا تھا ایک بار جنگل میں اپنے دوستوں کے ساتھ جارہا تھا کہ … دور سے
غبار اٹھتا دیکھا … وہ ڈر گیا کہ … بس چچا کا لشکر آیا اور اب میری خیر نہیں … گھڑ
سواروں کا دستہ قریب پہنچا تو … انہوں نے اتر کر ولید کو نہایت ادب سے سلام کیا …
اور بتایا کہ ہم شاہی ڈاک کے قاصد ہیں … آپ کے چچا کا انتقال ہوچکا ہے … اور آپ کو
مسلمانوں کا خلیفہ بنادیا گیا ہے … بس پھر کیا تھا ولید موت کے منہ سے حکومت کے
تخت پر آبیٹھا … اور اپنی خرمستیوں میں مگن ہوگیا کہ اب کوئی روک ٹوک کرنے والا
بھی نہیں تھا … وہ بہترین شاعر تھا اور گھڑ سوار بھی مگر … شراب بغیر گزارہ نہیں …
ایک بار اتنا مست ہوا کہ تالاب بنانے کا حکم دیا … اور کہا کہ اسے شراب سے بھردو …
بس پھر … اسی میں غوطے لگاتا رہتا اور جی بھر کر پیتا … باقی وقت … آلات موسیقی
بجانے … ڈانس کرنے اور … شہوت پوری کرنے میں گزارتا … دینی معاملات پر بے حد گستاخ
اور بد زبان تھا … ایک بار اپنی ایک باندی کے ساتھ تھا … موذن نے بتایا کہ نماز کا
وقت ہوگیا ہے … کہنے لگا اس باندی کو لے جائو یہ ناپاکی کی حالت میں لوگوں کی امامت
کروائے … اس کے ’’روشن خیال‘‘ کارنامے … ہر آئے دن بڑھ رہے تھے … اور اس کی جرأت
اور گستاخی میں ہر گھڑی اضافہ ہو رہا تھا … مگر آسمان خاموش تھا … اور مسلمان صبر
کر رہے تھے … اچانک ایک دن اس ظالم سے … ایسی غلطی ہوئی کہ … آسمان نے تیور بدل
لئے … اور ڈھیل کی مدت ختم ہوگئی … ہوا یہ کہ اس ظالم نے خوش فالی کی نیت سے قرآن
پاک کھولا تو … یہ آیت مبارکہ نکلی …
وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ
کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ (سورۃ ابراہیم آیت ۱۵)
ترجمہ: اور پیغمبروں نے
(اللہ تعالیٰ سے اپنی) فتح چاہی تو ہر سرکش ضدی ناکام ہوگیا
جبار کہتے ہیں ظلم و جبر
کرنے والے سرکش اور متکبر کو … اور عنید کہتے ہیں ضد اور عناد کرنے والے کو … ولید
نے ان الفاظ سے اپنی طرف اشارہ سمجھا اور بدمستی اور غصے میں آکر … اس ملعون نے… (العیاذ باللہ) قرآن پاک کے اوراق پھاڑ
دیئے … اور عربی اشعار پڑھ کر کہنے لگا کہ تو مجھے جبار و عنید … کہتا ہے … ہاں
میں جبار اور عنید ہوں … اور بے شک حشر کے دن جب اللہ تجھ سے پوچھے تو کہہ دینا کہ
مجھے ولید نے پھاڑا تھا…
حشر کا دن تو بہت دور تھا
… قرآن پاک کی آہ نے اثر دکھایا … اور چند دن بعد اسے معزول کردیا گیا … بھاگ کر
کہیں پناہ لی … مگر لوگوں نے پکڑلیا… اور پھر سرکش کا کٹا سر پورے شہر میں گھمایا
جارہا تھا … اور آخر میں اس سر کو خود اس کے محل پر لٹکا دیا گیا … (ماخوذ از
حیوٰۃ الحیوان ص ۱۰۸
ج۔۱)
قرآن بہت اونچی ٗ زندہ …
اور عالی شان کتاب ہے … خود مجھے … افغانستان کے جہاد میں کھینچ کر لے جانے والے …
قرآن پاک کے وہ مقدس اوراق تھے … جنہیں سوویت یونین کے بدبخت فوجیوں نے … العیاذ
باللہ استنجا کیلئے استعمال کیا تھا … ان اوراق کی مقدس ’’آہ‘‘ کراچی پہنچی … اور
مجھ جیسے ہزاروں افراد کو … آگ کا شعلہ بناکر … افغانستان لے گئی … سوویت یونین کا
حشر بھی … ولید سے کم نہیں ہوا … اس کا نام و نشان تک مٹ گیا … اور اب دنیا میں
کسی کتے کا نام بھی … سوویت یونین نہیں ہے … امریکہ کے فوجیوں نے … قرآن پاک کے
ساتھ جو سلوک کیا … اس نے ہمیں تو تڑپایا … مگر امریکہ نے خود … اپنے ’’ولیدی
انجام‘‘ کا اشارہ دے دیا ہے … قرآن دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے … اور یہ ازلی ابدی
کتاب … اپنا ’’انتقام‘‘ لینا خوب جانتی ہے
…
دو چرسیوں کا قصہ
سنا ہے کہ دو چرسی جب
سوٹے لگا لگا کر … بالکل اسٹارٹ ہوگئے تو ایک نے ترنگ میں آکر کہا … یار میں سوچ
رہا ہوں … یورپ پورا خرید لوں … دوسرے نے سنجیدگی سے کہا… یار تمہاری مرضی مگر میں
تو جاپان خرید رہا ہوں … ایک تیسرا چرسی جو ذرا فاصلے پر بیٹھا تھا… اور مکمل چارج
ہوچکا تھا … اس نے کہا … تم دونوں تب خریدو گے جب میں بیچوںگا… حالانکہ میں نے تو
ابھی … یورپ اور جاپان کو فروخت کرنے کا ارادہ نہیں کیا … لندن ٗ جرمنی … امریکہ ٗ
برطانیہ … پشاور ٗ کوئٹہ … اور دوسرے علاقوں سے چھپ چھپ کر افغانستان آنے والے …
غیر ملکی فوجوں کے کڑے پہرے میں اپنا اجلاس کرنے والے … سینکڑوں باڈی گارڈوں کے
جھرمٹ میں پیشاب اور تقاضے کے لئے جانے والے جرگے نے … نہایت سخاوت اور فراخدلی سے
… طالبان کو پیشکش کی ہے کہ … آکر … ہم سے معافی لے جائو … واہ کیا خوب پرواز ہے …
طالبان تو اب بھی افغانستان کے بہت سارے علاقوں میں … دندناتے پھر رہے ہیں … کیا
معافی دینے والے … کابل کی گلیوں میں بھی اکیلے گھوم سکتے ہیں … اونچے آدمی کے
کندھے پر بیٹھے ہوئے چھوٹے بچے … بعض اوقات غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں … یہ
حضرات بھی … آج کل امریکی کندھے پر بیٹھے ہیں … بابا … معافی دینے کی بجائے …
معافی لینے پر غور کرو … بشرطیکہ … آپ نے بھی سوٹا نہ لگایا ہوا ہو …
گیلانی … اور رانی
قدرت اللہ شہاب … بہت
عجیب آدمی گزرے ہیں… جموں کے رہنے والے تھے … انڈین سول سروس کے آفیسر بنے …
پاکستان کی تحریک میں خفیہ حصہ لیا … ملک بنا تو ادھر آگئے … ضلع جھنگ کے ڈپٹی
کمشنر رہے … ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر رہے … اور غلام محمد سے ایوب خان تک … صدر
مملکت کے سیکرٹری خاص بھی رہے … دیندار … شریف … اور ادیب آدمی تھے… انہوں نے شہاب
نامہ کے نام سے …اپنی زندگی کے کچھ حالات لکھے ہیں … یہ اچھی خاصی بھاری بھرکم
کتاب ہے … میں نے پڑھنا شروع کی تو پھر ختم کئے بغیر نہ رکھ سکا … گاڑی کی اگلی
سیٹ پر بیٹھ کر … پنجاب سے شروع کرتا … اور اسلام آباد تک پڑھتا رہتا … چنانچہ چند
ہی دنوں میں … اپنی بہت سی یادیں دل میں چھوڑ کر … ختم ہوگئی … انہوں نے ہمارے پاک
ملک کے سربراہان مملکت کے عجیب واقعات لکھے ہیں … جنرل یحییٰ خان کے بارے میں لکھا
ہے کہ انہوں نے اپنی ایک پسندیدہ عورت … ’’رانی‘‘ کو جنرل کا رینک دے کر … جنرل
رانی بنادیا تھا … ابھی چند دن پہلے … ہمارے موجودہ صدر صاحب نے … انڈیا کی
اداکارہ … رانی مکھر جی کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے … وہ بھی … رانی تھی … اور
یہ بھی ’’رانی‘‘ اللہ خیر کرے … اُس رانی کے زمانے میں … بنگال … ہم سے جدا ہوا …
اور یہ ’’رانی‘‘ خود بنگالی ہے… بس قوم مزید چند دن صبر کرے… رانی آنے والی ہے …
ادھر ہمارے پاکستان کے دیوانے … سیدعلی گیلانی … غم زدہ … پریشان … اور کسی قدر
ناراض بھی ہیں … انہوں نے پاکستان کی خاطر اتنی قربانیاں دی ہیں کہ … ہمارا … یہاں
کا حکمران طبقہ اس کا خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتا … مگر اب سید علی گیلانی کو
بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے … اور تو اور …ان کے خاتمے کی باتیں … زبانوں پر
ہیں … دراصل … گیلانی صاحب کو شکوہ نہیں کرنا چاہئے … ہم اب رانی کو سنبھالیں یا
گیلانی کو؟… رانی ادھر نہ آئی تو ہم ’’بین الاقوامی‘‘ برادری کو کیا منہ دکھائیں
گے؟ … ہاں کشمیر نہ ملا تو کیا ہوا؟ … وہاں تو صرف ایک لاکھ افراد ہی شہید ہوئے
ہیں … جو … ہمارے لئے معمولی سی بات ہے …
خیال جی کے ڈھکوسلے
خیال جی سے پوچھا … بھائی
واشنگٹن ٹائمز بڑا اخبار ہے … اس نے پاکستان کو ’’کتا‘‘ قرار دے دیا بتائو … اب تو
تمہارے روشن خیالوں کو کچھ عبرت ہوئی؟… خیال جی نے کہا … عبرت! … ارے وہ تو خوشیاں
منا رہے ہیں … اور ایک مخلوط پارٹی کا اہتمام کرنے کا سوچ رہے ہیں … وہ کہتے ہیں
کہ … ہمارے لئے اس سے بڑی اور کیا سعادت ہوسکتی ہے کہ … امریکہ جی نے ہم خاکساروں
کو اپنا کتا قرار دے دیا … بالآخر ہماری قربانیاں رنگ لے آئی ہیں … اور ہمیں ہماری
منزل مل چکی ہے … پھر کچھ … روشن خیال مردوں … اور عورتوں میں … کتے کی تصویر پر
جھگڑا ہوگیا … مرد کہتے تھے کہ … یہ کتا ہے اور امریکہ نے ہمیں اعزاز بخشا ہے …
کیونکہ قربانیاں ہم نے دی ہیں … دہشت پسندوں کو ہم نے پکڑا … ان کے کلمہ اور قرآن
پڑھنے کے باوجود ہم نے انہیں قتل کیا … انتہا پسندی کا خاتمہ ہم کررہے ہیں …
وزیرستان کی صفائی ستھرائی ہم نے کی ہے … اور بہت کچھ … مگر عورتوں کا کہنا تھا کہ
… دیکھو … تصویر سے یہ کتیا لگتی ہے … دراصل امریکہ نے ہمیں یہ سعادت بخشی ہے … اس
لئے کہ … روشن خیالی کے لئے جو قربانی ہم دے رہی ہیں … وہ تو بیان سے بھی باہر ہے
… مردوں نے جواب دیا … تمہاری قربانیاں اپنی جگہ … مگر … ہمارے پیارے امریکی فوجی
کے الفاظ تو پڑھو … وہ کہہ رہا ہے … گڈ بوائے … اچھے لڑکے … اگر یہ کتیا ہوتی تو …
’’گڈ گرل‘‘ کہتا … عورتوں نے کہا … امریکی باذوق لوگ ہیں … لڑکیوں کو لڑکا … اور
لڑکوں کو لڑکیاں بنانا ان کا مشغلہ ہے …یہ جھگڑا جاری تھا کہ … ایک عقلمند روشن
خیال نے کہا کہ … چھوڑو اس بحث کو … امریکہ نے ہم سب کو کتا ہونے کا جو شرف دیا ہے
بس اس پر خوشی منائو … ہائے میں قربان … مجھے زندگی میں اتنا اونچا مقام ملے گا …
یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا … ہائے مجھے تو خوشی کے مارے ساری رات نیند نہیں
آئی … دل چاہتا تھا کہ … ابھی ٹکٹ کٹوائوں … اور بھونکتا ہوا ان کے قدموں میں لوٹ
پوٹ جائوں … عقلمند کی بات سن کر … سب خوشی سے چیخنے چلانے لگے … اور بکرے کی
چانپوں پر سے گوشت بھنبھوڑنے … اور انڈیا سے آئی ہوئی شراب پینے لگ گئے … پھر پتہ
ہے کیا ہوا؟ … خیال جی نے پوچھا … جی کیا ہوا؟… ایک صاحب نے اٹھ کر … قرارداد پیش
کی کہ … ہمارے پیارے ہندو بھائی … ہنومان جی سے محبت کرتے ہیں … ہنومان لنگور کو
کہتے ہیں … آپ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ … بہت سارے ہندو … رام لِلّا کے
موقع پر … ہنومان کی طرح … پلاسٹک کی لمبی سی دم لگاتے ہیں … اور چہرے پر لنگور کا
ماسک پہنتے ہیں … اور جو مذہبی ہندو ہیں وہ تو منت مانتے ہیں کہ ہمارا فلاں کام
ہوگیا تو … ہم اتنے دن تک ’’ہنومان بھیس‘‘ میں رہیں گے … دم لگائیں گے اور چہرہ
بندر جیسا بنائیں گے … کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟… سب نے کہا … بالکل ہم نے کئی
بار ٹی وی پر دیکھا ہے … اس پر وہ صاحب کہنے لگے … بس لیڈیز اینڈ جنٹل مین … میری
تجویز ہے کہ … ہم بھی … کتے کی طرح دم لگائیں … اور چہرے پر ماسک پہنیں … تاکہ …
ہمارے پیارے امریکہ کو یاد رہے کہ ہم اس کے کیا لگتے ہیں؟… اس تجویز پر سب نے خوب
داد دی … اور تالیاں بجائیں … ایک خاتون نے فرمایا …لوگوں کو کیا پتہ … امریکہ …
اور یورپ میں کتے کی کیا شان ہے … ہمارے ہاں تو جہالت کی وجہ سے لوگ اسے حقیر
سمجھتے ہیں … حالانکہ … اگر انہیں پتہ ہو کہ وہاں کتا کتنا پیارا ہوتا ہے تو لوگ
آج … ہمیں دیکھنے کیلئے جمع ہوں … مگر ہائے ہماری پاگل قوم اور اس کی قسمت … ہمارے
صدر صاحب نے اپنے ابتدائی زمانے میں دو کتے اٹھا کر … اسی لئے فوٹو کھنچوایا تھا
تاکہ لوگوں کو … کتے کی اہمیت سمجھائی جاسکے … مگر ہماری جاہل قوم نہ سمجھی … مگر
… ہم لوگوں نے ہمت نہیں ہاری … اور آج پوری قوم کو … کتا بنوا کر دم لیا … میری
تجویز ہے کہ … اسمبلی میں … دو تہائی اکثریت کے ذریعہ کتے کی اہمیت پر بل پاس
کروایا جائے … تالیاں … خیال جی نے جب یہ کہانی سنادی تو میں نے ان سے کہا … یار …
روشن خیالوں کو چھوڑو … پاکستان پاک وطن ہے … اس کی جڑوں میں شہداء کا مقدس خون ہے
… پاکستان ہمیں آسانی سے نہیں ملا … کٹی ہوئی لاشوں کے انبار … اور خون کے دریا
عبور کرنے پڑے … آج … پاکستان کو کتا کہا گیا ہے تو پوری قوم رو رہی ہے … تم کسی
طرح … امریکی سفیر سے ملاقات کا وقت لو … اور اسے سمجھائو کہ … ہماری بہت توہین
ہوئی ہے … مگر خیال جی! تمہیں امریکی سفیر سے ملاقات کا وقت مل جائے گا؟… خیال جی
نے چٹکی بجا کر کہا … منٹوں میں مل جائے گا … میں فون کرکے بتائوں گا کہ … اسلامی
دہشت گردوں کے بارے میں کچھ بتانا ہے … بس پھر کیا … گاڑی میرے دروازے پر ہوگی…
ہمارے ملک کے کئی دانشور … اور صحافی اسی حربے سے تو امریکہ کو لوٹ رہے ہیں … اور
خوب پیسہ بنا رہے ہیں … مگر؟… مگر کیا خیال جی؟… وقت تو مل جائے گا مگر میں … اسے
کس طرح سمجھائوں گا کہ ہمیں کتا نہ کہے … تم کہہ دینا کہ دیکھو! ہم تو اچھے خاصے
انسان ہیں … مگر وہ نہیں مانے گا … وہ کہے گا … تمہیں کتوں والے کام کرتے ہوئے تو
شرم نہ آئی … اب صرف کتا کہلوانے پر کیوں چیخ رہے ہو؟… کتا کیا کرتا ہے ؟… ہڈی کی
خاطر … ہر کام … اچھایا برا … کتے کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا … اسے بس اپنے پیٹ
کی فکر ہوتی ہے … کتے کا کوئی قومی تشخص نہیں ہوتا … تم لوگوں کو ہم نے ڈالر
دکھائے … تم نے … اپنی دھرتی ہمارے لئے کھول دی … ہم نے تمہیں معاشی پیکج دیئے …
تم نے … ملا عبدالسلام ضعیف کو باندھ کر ہمارے حوالے کردیا … ہم نے تمہیں تھوڑا سا
ڈرایا … تم نے اپنے چھ سو مسلمانوں کو پکڑ کر ذبح کردیا … ہم نے تمہیں جو کام دیا
… تم نے اسی کو اہم سمجھا … اور کہیں بھی تمہارا نظریہ … ڈالر کے مقابلے میں کھڑا
نہ رہ سکا … اب بتائو … کیا تمہیں کوئی اور نام دیں … خیال جی! کی آنکھوں میں آنسو
بہہ رہے تھے … انہوں نے سراٹھا کر کہا … ٹھیک ہے میں امریکی سفیر سے مل آتا ہوں …
جب وہ اپنے دلائل دے کر پوچھے گا کہ تمہیں کتا نہیں تو کیا کہوں؟… تو میں کہوں گا
… سفیر صاحب … ہمیں کتا نہ کہو … وہ پوچھے گا … پھر کیا کہوں؟… تو میں کہہ دوں گا
… کتے سے بدتر … کیونکہ … کتا اپنے مالک اور آقا کا وفادار ہوتا ہے … جبکہ … ہم تو
… اپنے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے وفادار بھی نہیں ہیں… انہوں نے ہمیں … مسلمانوں
پر ظلم سے روکا … مگر ہم نے تمہاری خاطر اپنے مسلمانوں کو مارا … اور کاٹا … انہوں
نے ہمیں فرمایا کہ مسلمانوں کو کافروں کے حوالے نہ کرو … مگر ہم نے اپنے مسلمانوں
کو … تمہارے حوالے کیا … وہ اللہ اور اس کے رسول کا واسطہ دیتے رہے … ان کی بیٹیاں
برباد کردی گئیں … ان کی عورتیں بازاروں میں بیچ دی گئیں … اور انکے شیرخوار بچے
تڑپ تڑپ کر مر گئے … مگر ہمیں ذرہ برابر ترس نہ آیا … میرے خیال میں کوئی کتا بھی
… اپنی قوم کیلئے … اتنا سنگدل نہیں ہوسکتا … اس لئے سفیر صاحب … ہمیں کتا نہ کہو…
اوردوسری بات یہ کہ جو لقب دینا ہو ہمارے ان حکمرانوں کو دیا کرو… جو آپ کے محبوب
ہیں… عوام کو نہیں … کیونکہ عوام نہ آپ کی حامی ہے نہ محبوب…
ایڈوانی اور
مرحبا
بابری مسجد شہید کے مجرم نمبر (۱) لال کرشن ایڈوانی کو
ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ اس موقع پر ’’القلم‘‘ نے بھی ناکام
و نامراد ایڈوانی کو مرحبا کہا۔ مگر کس معنیٰ میں۔ ملاحظہ فرمائیے یہ مضمون
’’ایڈوانی اور مرحبا‘‘۔
)۱۸ربیع
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲جون
۲۰۰۵ء(
یڈوانی… اور
مرحبا؟
اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ پر
رحم فرمائے… آپ نے یہ خبر پڑھ لی ہوگی کہ… جون کے پہلے ہفتے میں… بھارتیہ جنتا
پارٹی (بی جے پی) کے صدر… لال کرشن ایڈوانی… پاکستان آرہے ہیں… پہلے انہوں نے
سردیوں میں آنا تھا مگر ہماری خوش نصیبی کہ وہ نہ آئے… اور اب ہماری بدبختی کہ
انہوں نے رخت سفر باندھ لیا ہے۔ پہلے ان کو پاکستان کے دورے کی دعوت… ہمارے نامور…
اور مشہور زمانہ سابق وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے دی تھی… وزارت داخلہ کی کرسی
پر صالح حیات صاحب کا بیٹھنا ایک قومی المیہ تھا… انہوں نے… مجاہدین اور دینی طبقے
کو خوب ستایا… اپنی ’’مخصوص ذہنیت‘‘کے تحت ملک کے نامور دینی افراد کو ظلم کا
نشانہ بنایا… کئی جماعتوں پر پابندی لگا کر… انتشار پیدا کیا… اور لال کرشن
ایڈوانی جیسے ’’اسلام دشمن مشرک‘‘ کو پاک زمین… ناپاک کرنے کی دعوت دی… موصوف کے
دل میں بھارت کیلئے بہت کھلی جگہ … بلکہ … پورا اسٹیڈیم تھا… اخبارات میں یہ خبر
بھی نظر سے گزری تھی کہ وہ ایک بھارتی اداکارہ کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں… اور
فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے شادی کرنی تھی مگر… وہ … شادی نہ مانی… انہوں نے جب
ایڈوانی کو دورے کی دعوت دی تو ملک کے وفادار طبقے میں کھلبلی مچی تھی… تب … کہا گیا
کہ مغربی دنیا کو مطمئن کرنے کیلئے محض رسمی دعوت ہے… ویسے اس وقت ہر وزیر… اور
وزیرہ نے اپنی وزارت کو… ’’ملکی صدارت‘‘ کی طرح پختہ بنانے کیلئے… ایسے اقدامات
شروع کردیئے تھے جن سے ’’عالمی برادری‘‘ خوش ہو… اور ان کی ’’روشن خیالی‘‘ کی داد
دے… آپ اس زمانے میں… محترمہ زبیدہ جلال کے بیانات دیکھ لیجئے… فرمایا کرتی تھیں
کہ مجھے ہٹانا آسان نہیں ہے… میرا تقرر کہیں اور سے ہوا ہے… ’’ایڈوانی‘‘ کو دعوت
ہمارے سابق وزیر داخلہ نے دی… اُس وقت ایڈوانی بھی بھارت کے وزیر داخلہ تھے… مگر
کچھ عرصہ بعد… دونوں کے نیچے سے کرسی کھسک گئی… ایڈوانی اپوزیشن کے بینچوں پر جا
بیٹھے… اور فیصل صالح حیات صاحب… نے کشمیر اور ملک کے شمالی علاقہ جات میں آشیانہ
بنالیا… چشم بد دور… انہوں نے وہاں بھی ’’فوجی آپریشن‘‘ کی سفارش فرمادی ہے… اے
’’نیب‘‘! تیرا شکریہ! تو نے ملک کو کیسے کیسے تحفے عطاء فرمائے… اب جبکہ… ایڈوانی
کا قصہ ختم ہوچکا تھا… اور اس کے خواب اس کی آنکھوں کا کانٹا بن چکے تھے… ہمیں بھی
اسے بھلا دینا چاہئے تھا… مگر… ایک سو ساٹھ ڈگری کے یو ٹرن نے ہمیں کہیں کا نہیں
رکھا… اب کی بار… ملک کے صدر اور وزیر اعظم نے ایڈوانی کو… دورہ پاکستان کی دعوت دے
کر… ملک کی نظریاتی سرحدوں کو ہلا کر رکھ دیا … ایڈوانی کی عمر اٹھترّ سال کے لگ
بھگ ہے… وہ بی جے پی کا دماغ سمجھے جاتے ہیں… اور ان کی لابی… اٹل بہاری واجپائی
کی لابی سے زیادہ مضبوط ہے… مگر مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ… ایڈوانی کے
تمام خواب اس کی زندگی ہی میں بکھر گئے ہیں… اور جب ان کی آنکھیں بند ہوں گی تو ان
شاء اﷲ… وہ دنیا کے ان چند ’’بڑے بدنصیب‘‘ لوگوں میں سے ہوں گے … جو … اپنے دل میں
شرک کے علاوہ… ’’خوفناک حسرت‘‘ کے سانپ بھی لے کر… آگ کے حوالے کیے جائیں گے…
بشرطیکہ انہوں نے مرتے دم تک کلمہ طیبہ کا اقرار نہ کیا… یہ کیسے؟…
اس بات کو سمجھنے کیلئے
ہمیں… ’’اصل ایڈوانی‘‘ دیکھنا ہوگا… وہ ایڈوانی جس نے … بھارت کو دوسرا اسپین
بنانے کا پلان بنایا تھا … جی ہاں… آر ایس ایس کی سترّ پچھتّر سالہ زیر زمین…
نظریاتی تحریک کا نچوڑ … ’’ایڈوانی‘‘… ہے… ان لوگوں نے ہر میدان میں کوشش کی… اور…
تعلیم وتربیت کے ذریعے… اپنے نظریاتی افراد تیار کیے… یہ خوفناک تحریک ایک کالی
آندھی کی طرح بھارت کے ہر طبقے پر چھا گئی… اور… فوج سے لے کر سول اداروں تک ان کے
افراد پہنچ گئے… ایڈوانی کی ذمہ داری تھی کہ وہ… فائنل راؤنڈ کھیلے… ایڈوانی نے
اسپین کا دورہ کیا… اسپین میں بھی ایک طویل زمانے تک… مسلمانوں کی خلافت قائم تھی…
اس زمانے میں اسے ہسپانیہ کہا جاتا تھا… مگر… پھر ایسا خوفناک صلیبی انقلاب آیا
کہ… وہاں سے… اسلام کا نام تقریباً مٹادیا گیا… مسلمانوں کی عبادت گاہیں… چرچ اور
سیاحتی مرکز بن گئے… لاکھوں افراد کاٹ دیئے گئے… لاکھوں کو زبردستی مرتد بنایا
گیا… اسلام کا نام جرم… اور اسلامی اصطلاحات کا استعمال… بغاوت… اور سزا صرف ایک …
یعنی موت… ایسا کس طرح ممکن ہوا؟… ایڈوانی یہی سمجھنے … اور سیکھنے اسپین گئے… خوب
مطالعہ … خوب مشورے… اور بھرپور پلاننگ… ادھر… اسرائیل کے ساتھ بھی… زبردست قسم کا
گٹھ جوڑ… اور مشاورت… انڈیا میں میدان تیار تھا… فوجی ہیڈکوارٹرز سے لے کر… بالی
وڈ کے فنکاروں تک… ہر جگہ… آر ایس ایس کے خیر مقدم کی تیاریاں تھیں… اور نرسمہا
راؤ جیسا ’’نظریاتی ہندو‘‘ خود کانگریس کو پیچھے دھکیل رہا تھا… ایڈوانی کے دو
مقاصد تھے… پہلے… ہندوستان کو مسلمانوں سے خالی کرانا… قتل وغارت، زبردستی مرتد
بنانے… اور بے حیائی کے ذریعے… پھر … پورے جنوبی ایشیاء کو … مہابھارت… یا … اکھنڈ
بھارت بنانا… کام کے آغاز کے لئے… بابری مسجد کا انتخاب کیا گیا… پھر اس کے بعد…
کاشی اور متھرا کی مساجد کا نمبر تھا… اور پھر ’’ان تین ہزار مساجد ‘‘ کا … جن کی
فہرست ’’ایڈوانی‘‘ نے جاری کی… اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی… اسپین کے
قاتل عیسائیوں … اور مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کرنے والے یہودیوں نے یہی سبق
ایڈوانی کو پڑھایا تھا… مساجد گریں گی تو مسلمانوں میں ہلچل ہوگی… اس ہلچل کے
نتیجے میں مکھن… اور لسّی الگ الگ ہوجائے گی… مکھن یعنی ’’اصلی مسلمان‘‘ ابھر کر
باہر نکلیں گے… ان کو… قتل کردیا جائے… باقی رہ جائے گی لسّی تو… اس میں … گنگا
جمنا کا اتنا پانی ملادیا جائے کہ… لسّی پانی بن جائے… اور … مسلمان ہندو… پھر جب…
مساجد نہیں ہوں گی… تو… نہ اذان گونجے گی… نہ نماز کی صفیں ہوں گی… اور نہ کسی کو
اسلام یاد رہے گا… ادھر شراب وشباب کی بارش… اور روٹی روزی کی فکر ویسے ہی دین
بھلادے گی… سترّ سالہ محنت کے نتیجے میں ہندوؤں نے… اکھاڑوں کی آڑ میں… جنگی تربیت
حاصل کرلی تھی… بجرنگ دل… اور شیوسینا کے دہشت گرد… قتل وغارت کیلئے ہر لمحہ تیار
تھے… خیر… قصہ لمبا ہے… ایڈوانی نے بابری مسجد پر پہلا وار کرنا تھا… پھر … کاشی
اور متھرا کی آباد مساجد کو ڈھانا تھا… پھر… انتخابات میں فتح یاب ہو کر… انڈیا کی
حکومت پر قبضہ کرنا تھا… ہندوستانی مسلمانوں کو دفن کرکے… برصغیر پر قبضے کا آغاز…
کشمیر سے کرنا تھا… ایک لمبا خواب… اور اس کی بھرپور تیاری… پہلا وار… بابری مسجد
پر ہوا… اور ایڈوانی کو … احساس ہوا کہ… کاغذی پلاننگ… اور زمینی حقائق میں… کافی
فرق ہوتا ہے…
اس سلسلے میں ’’ایڈوانی‘‘
… اور اس کی پارٹی کو… جو … سب سے بھیانک … اور ناقابل یقین تجربہ ہوا… وہ یہ تھا
کہ… بابری مسجد کا درد… ہندوستان کے باہر کے مسلمانوں نے بھی… محسوس کرلیا… اور
اسے اپنا درد بنالیا… حالانکہ… اسلام دشمن بڑی طاقتوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ…
مسلمانوں کے… حکمران اپنی عوام کے لئے کافی ہیں… ان میں سے ہر ایک نے اپنی قوم کو
ظلم کے پنجرے میں بند کر رکھا ہے… اور ان ملکوں کے عوام پر… دوسرے ملک کے مسلمانوں
کے بارے میں سوچنا حرام قرار دے دیا ہے… اوریہ حقیقت ہے … مسلمانوں پر جتنا ظلم…
ان … نام کے مسلمان حکمرانوں نے کیا ہے… کسی کافر کو اتنے ظلم کی ہمت نہیں ہوئی…
شام کے سابق صدر… حافظ الاسد کے مظالم سنیں اور پڑھیں… دل سے چیخیں نکلتی ہیں… اس
ظالم بدبخت دجّال نے… ایسی عورتیں مقرر کر رکھی تھیں جو … اسلحہ اٹھا کر پھرتی
رہتیں… اور جیسے ہی… کسی عورت کو اسلامی پردہ میں دیکھتیں فوراً اس کے سر میں گولی
مار دیتیں… حافظ الاسد کے ظلم نے … ملک شام کی سرزمین کو ناپاک کردیا… اس نے ایک
ہی دن میں… تین ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا… مگر جب اس ظالم، جابر… اور بہادر شخص
کا اسرائیل سے سامنا ہوا تو جولان کی پہاڑیاں… خالی کرکے… چوہے کی طرح بھاگ گیا…
آج بھی… فلسطین کے بچے یہ جملہ بولتے ہیں:
أسَدٌ فِی لَبْنَان
وَفَارٌ فِی جَوْلاَن…
یعنی لبنان میں تو… شیر
بنا رہا اور جولان میں چوہا بن گیا… یہی حال … تقریباً ہمارے تمام حکمرانوں کا ہے…
ان کے نامہ اعمال میں… اپنے مسلمانوں کا خون تو بے شمار وبے حساب لکھا ہوا ہے…
مگر… ان میں سے کسی کے چہرے پر کفر کے خلاف فتح کا ایک تمغہ بھی جگہ نہ پاسکا… ہر
جگہ… کافروں سے شکست… اور اپنوں پر فتح… ان کا کارنامہ رہی ہے… امریکہ شام پر حملہ
کیوں نہیں کر رہا؟… وہ … جانتا ہے کہ اسد کا بیٹا… باپ کی طرح … مسلمانوں کا
بدترین دشمن… اور ایک بدعقیدہ … اور بدمست شخص ہے… ہاں امریکہ کو اس سے بہتر کوئی
مل گیا تو ممکن ہے حملہ کردے… جن دنوں… شام پر ابھی حملہ…… ابھی حملہ کا شور تھا…
میں نے عرض کیا تھا کہ… ابھی کچھ بھی نہیں ہوگا… امریکہ خود مسلمانوں پر اس طرح
ظلم نہیں کرسکتا… جس طرح… اس کے یہ ایجنٹ کرتے ہیں… یقینا… وہ زمین بھی افسوس کرتی
ہوگی… جہاں یہ… غیرت سے عاری طبقہ پیدا ہوا تھا… ابھی… ازبکستان کے اسلام کریموف
کو دیکھ لیں… کس طرح… جنگلی درندوں کی طرح … اپنے مسلمان طبقے کو کاٹ رہا ہے… اتنا
ظلم کرنے کے باوجود… نہ وہ انتہا پسند ہے اور نہ دہشت گرد… اور نہ ہمارے… درد دل
رکھنے والے حکمرانوں نے اس کی کوئی مذمت کی ہے… حالانکہ … ہمارا دفتر خارجہ… پوری
دنیا میں… مجاہدین کی مذمت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے… امام بخاری… اور امام ابو
منصور ماتریدی کا وطن… ایک بار پھر خاک وخون میں تڑپ رہا ہے… عزتیں… اور بیٹے
گنوانے والی ماؤں کے روتے چہرے دیکھ کر دل پھٹتا ہے… ہر کسی کیلئے… مذاکرات اور
استقبال کی بے غیرت میزیں سجانے والے… ان حکمرانوں کو… اپنے مسلمانوں سے مذاکرات
کرتے موت آتی ہے… ان کی بندوقیں اور ہیلی کاپٹر… کافروں کو سلامی دینے کیلئے… اور
اپنے مسلمانوں پر… آگ برسانے کیلئے … ہر وقت تیار رہتے ہیں… کس کس ملک کی بات کی
جائے… پوری دنیا میں … یہودیوں کا ایک ملک ہے… بالکل چھوٹا سا اور حقیر سا… مگر…
دنیا کے کسی خطے میں کسی یہودی کو کانٹا چبھے تو… یہ ملک… اپنی تلوار نکال لیتا
ہے… اور خوب شور مچاتا ہے… پچھلے دنوں آپ نے سنا ہوگا کہ… فرانس کے یہودیوں کے
بارے میں… ایریل شیرون خوب چلاّیا کہ… ان کے تحفظ میں کوتاہی کی جارہی ہے… ادھر
ہمارے پچپن ملک ہیں مگر… یہاں مسلمانوں کے حقوق کی بات جرم ہے… بلکہ… اب تو… ہرجگہ
کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف معاہدے کیے جارہے ہیں… ہائے رباّ… دل کے یہ زخم
تیرے سوا… اور کون… دور کرسکتا ہے… تو ہی جانتا ہے کہ… ہم پر کیسی بلائیں مسلط
ہیں… ہاں میرے رباّ… تجھے چھوڑ کر… ہم کہیں کے نہیں رہے… ہمیں اپنا بنالے… اور امت
مسلمہ کو … ملا محمد عمر جیسے حکمران نصیب فرمادے… بات کچھ دور نکل گئی… ہندوستان
کو اسپین بنانے کے پلان میں… یہ بات موجود تھی کہ… ہندوستان کے باہر کے مسلمان…
زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کریں گے… مگر… ایسا نہ ہوا… ایک آگ اٹھی… اور
مسلمان بابری مسجد کے بکھرے ملبے کی طرف… اے ماں… اے ماں کہہ کر… پکارنے لگے… تب …
کاشی اور متھرا کی طرف بڑھنے والے ناپاک ہاتھ… رک گئے… تین ہزار مساجد کی فہرست
دھول چاٹنے لگی… ایڈوانی اینڈ پارٹی کو… حکومتی اختیارات کا انتظار تھا… حکومت
ملی… مگر… واضح اکثریت نہ مل سکی… پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود…
ایڈوانی… بابری مسجد کی جگہ… باقاعدہ ’’رام مندر‘‘ کا سنگ بنیاد نہ رکھ سکا…
حالانکہ… اس مندر کے لئے… تمام سامان تیار ہے… اور ملک میں قائم کئی کارخانوں نے…
سنگ مرمر کی اینٹیں… مورتیاں… ستون… دیواریں… چھتیں… سونے کے فانوس … طلائی اصنام…
اور الغرض… سب کچھ تیار کر رکھا ہے… اگر… حکومت کی طرف سے ڈھیل ملے تو… ایک دو ماہ
میں… مندر قائم ہوسکتا ہے… بیرون ممالک میں قائم … آر ایس ایس… اور وی ایچ پی کی
تنظیموں نے… کروڑوں ڈالر کے عطیات جمع کرکے بھجوائے ہیں… افریقہ کے ہندوؤں نے سونے
کی اینٹیں تک تیار کرکے بھیج دی تھیں… مگر … بدنصیب ایڈوانی… تڑپتا رہا… بلکتا
رہا… اور پرم راج ہنس تو یہی حسرت لیکر مرگیا… جب اس کی چتا کو آگ دکھائی جارہی
تھی تو… اس کی لاش پر کھڑے ہو کر… اٹل بہاری واجپائی نے پھر مندر بنانے کا اعلان
کیا… مگر… پرم راج ہنس کو آگ نے نگل لیا… اور واجپائی کی چِتا بھی قریب میںتیارہے…
واہ امت مسلمہ واہ… بے
شمار کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود… روح محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جب ان کے اندر
ابھرتی ہے تو دنیا کی سپرپاورز لرز کر رہ جاتی ہیں… ایڈوانی کا خواب تھا کہ… بابری
مسجد کی جگہ مندر بن جائے… یہ خواب اس کی آنکھوں کا تا حال کانٹا ہے… اﷲ پاک اس
کانٹے کو قائم رکھے… ایڈوانی کا خواب تھا کہ… کاشی اور متھرا کی مساجد شہید کرکے…
کرشن کے مندر بنادئیے جائیں… الحمدﷲ… وہاں روزانہ پانچ بار… آواز گونجتی ہے… اﷲ
اکبر… اﷲاکبر… اور اعلان ہوتا ہے کہ… لا الہ الا اﷲ… اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود
نہیں… اﷲ کرے… وہاں یہ اذان گونجتی رہے… اور شیطان کی طرح ایڈوانی پارٹی بھی… اس
کی آواز سے حواس باختہ… بھاگتی رہے… ایڈوانی کا خواب تھا کہ… مقبوضہ کشمیر میں
نافذ خصوصی دفعہ ختم کردی جائے… مگر دفعہ برقرار ہے… اور ایڈوانی… دفع ہوگیا…
ایڈوانی کاخواب تھا کہ… ہندوستان کے مدارس ختم ہوجائیں… مگر یہ مدارس آج بھی…
الحمدﷲ … قائم ہیں… ایڈوانی کا خواب تھا کہ… شُدّھی کی تحریک چلے اور مسلمانوں کو
ہندو بنایا جائے… مگر… الحمدﷲ اب بھی زیادہ تعداد میں ہندو ہی مسلمان ہو رہے ہیں…
ایڈوانی کا خواب تھا کہ … آزاد کشمیر سمیت پورے کشمیر کو انڈیا کا اٹوٹ انگ بنادیا
جائے… مگر آج بھی کشمیر میں… شہیدوں اور غازیوں کا راج ہے… اور جہاد کا نغمہ مدہم
نہیں پڑا… ایڈوانی کے اور بھی بہت سے خواب تھے… مگر… فی الحال تو سارے چکنا چور
ہوگئے… دشمن آج تو ہارا ہے… وہ صرف ہمارا نہیں اسلام کا دشمن ہے… اس لیے… شکر کرتے
ہیں… اﷲ اﷲ کی ضربیں لگاتے ہیں… اور آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کی طاقت
دیکھ کر… خوشی سے جھومتے ہیں… بس… صرف یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ… ایڈوانی جیسے
’’نامراد‘‘ شخص کو… پاکستان بلانے کی کیا ضرورت تھی؟… سندھ حکومت کی فائلوں میں
لکھا ہے کہ اس نے بانی پاکستان کو قتل کرنے کی سازش کی تھی… پھر پاکستان کے خلاف…
اس کے تمام خوفناک اور بھونڈے بیانات… اور دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں… حکمران قوم کی
نہیں تو اپنی عزت کی لاج رکھ لیتے… ایڈوانی نے ہر موقع پر صدر مشرف کو آڑے ہاتھوں
لیا… اور … آگرہ مذاکرات کے موقع پر… صدر مشرف کے پورے پروٹوکول کی دھجیاں بکھیر
کر …بیس افراد کو حوالے کرنے کی فہرست تھمادی… تب… ہمارے صدر صاحب کافی غضبناک
ہوئے تھے… دراصل… اس وقت حکومت کی ریڑھ کی ہڈی لچک کا شکار نہیں ہوئی تھی… اور
ہمارا سینہ انڈیا کی طرف تھا… اور اب یوٹرن کی بدولت… حکومت… اپنی پشت اُدھر کئے
ہوئے ہے… کیونکہ … اپنے ملک میں انتہا پسندوں کی نگرانی زیادہ اہم ہے… خیر قوم
انتظار کرے… ایڈوانی جی پدہار رہے ہیں… قوم کے بچے گلدستے لیکر سڑکوں پر کھڑے ہوں
گے… ٹریفک روکا جائے گا… ہمارے وزراء بڑھ چڑھ کر… اور زیادہ سے زیادہ مسکراکر
استقبال کریں گے… ملک کے محافظ… ملک کے خطرناک ترین دشمن… کی حفاظت کریں گے… ایک
اﷲ کی عبادت کرنے والے… ایک متعصب ترین مشرک کو سیلوٹ دیں گے… آسمان دیکھتا رہ
جائے گا… زمین ہمارے کرتوتوں پر ہنسے گی… مگر آپ پوچھیں گے… سعدی اس موقع پر کیا
کرے گا… تو سنئیے… دل میں غصہ اورغم تو بہت ہے… دل چاہتا ہے کہ… کراچی کے سمندر
کی… مچھلیوں کو ساتھ لے کر… ایک ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ… دھرتی کانپ جائے… مگر…
پھر سوچتا ہوں… ایک ناکام ترین مشرک… اور… ایک نامراد ترین دشمن کو… اتنی اہمیت
دینا… مناسب معلوم نہیں ہوتا… ہارا ہوا جواری پھر خود کو کچھ سمجھنا نہ شروع کردے…
ہاں اس موقع پر… ایک زبردست علمی نکتہ بتا دیتا ہوں… ہمارے روشن خیال لوگ… انتہا
پسند مشرک کو ’’مرحبا‘‘ کہنے کی تیاری کر رہے ہیں… ہم قارئین کو ’’مرحبا‘‘ کا ایک
’’دیسی ترجمہ‘‘ بتادیتے ہیں… یہ ترجمہ بس اسی موقع کیلئے خاص سمجھیں… کہتے ہیں کہ…
ایک صاحب کو … عربی بالکل نہیں آتی تھی مگر وہ… اپنے ان پڑھ رفقاء پر رعب ڈالتے
تھے کہ میں عربی کا ’’علامہ‘‘ ہوں… ایک بار … ایساہوا کہ ایک عربی صاحب آگئے…
انہوں نے… سب کو… مرحبا مرحبا کہا … رفقاء نے عربی دان سے پوچھا… یہ کیا کہتا ہے؟…
عربی دان نے کچھ سوچا… اور پھر سنجیدگی سے کہا… کتنا آسان سا لفظ ہے… اور آپ لوگوں
کو سمجھ نہیں آرہا… وہ کہہ رہا ہے… مربے حیا!… مر بے حیا!…
تھوڑی سی آج
پی کے دیکھ
امام المجاہدین حضرت مفتی نظام الدین
شامزئی کا پر نورتذکرہ اور ان کی مختصر مگر جامع سوانح حیات اور ان کا حسن خاتمہ۔
)۲۵ربیع
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۹جون
۲۰۰۵ء(
تھوڑی سی آج
پی کے دیکھ!
اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے…
انہیں پہلے ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں دیکھا… حالانکہ نام پہلے سے سن رکھا تھا مگر
’’زیارت‘‘ نہیں ہوئی تھی… مجھے وہ کمرہ … اور نشست اچھی طرح یاد ہے… ان کے ساتھ
حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ بھی تشریف فرما تھے… پھر… ملاقاتوں کا ایک
سلسلہ… کچھ عرصہ بعد ہی چل نکلا… اور بہت دور تک چلتا رہا… پھر … ایک اور منزل طے
ہوئی اور ان کے ساتھ ’’اسفار‘‘ کی سعادت ملی… کراچی سے نیروبی… نیروبی سے خرطوم…
پاکستان سے افغانستان… اور میرانشاہ سے بنوں… لمبے لمبے خوبصورت اور یادگار سفر…
ایک دو نہیں… بہت سارے… اور کراچی میں تو بارہا… ان کا ’’قرب‘‘ ملا… جامعہ میں…
جلسوں میں… دعوتوں میں… اور اس گاڑی میں بھی جو چلتے چلتے رک جاتی تھی… اور دھکا
مانگتی تھی… علم وجہاد کے اس شاہسوار کیلئے… تواضع کا کوئی عمل مشکل نہیں ہوتا
تھا… ان کے ساتھ رفاقت اور قربت کی داستان… ایک پوری کتاب کا موضوع ہے… ان کی
’’زندگی‘‘ بہت دلربا… قابل رشک… اور حسین تھی… ہر چھوٹا اور بڑا یہی سمجھتا تھا کہ
میں ہی ان کا سب سے مقرب شخص ہوں… یقین کیجئے… ان کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہر
کوئی… اس ’’خوش فہمی‘‘ کے مزے ضرور لوٹتا تھا… اور اپنی قسمت پر ناز کرتا تھا… ان
کے پاس سب کچھ تھا… علم، عمل، اخلاص، نسبت، شجاعت، مردانگی، حق گوئی، فقاہت،
فکاہت، ذوق، دلبری، وسعت قلبی، خطابت، نجابت، … اور ہمت… مگر سب سے اہم بات یہ تھی
کہ … وہ ایسے باتوفیق اور وسیع المشرب تھے کہ… ہر کسی کی ضرورت بن گئے تھے… جامعۃ
العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے لیکر… تحریک طالبان تک وہ سب کی ضرورت تھی…
طلبہ کو ان کی تدریس کی ضرورت تھی… اور… دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی قیادت اور
رہنمائی کی… جہاد والے بھی ان کے در کے چکر کاٹتے تھے… اور سیاست والے بھی… بس…
ایک ’’ہجوم عاشقاں‘‘ تھا… جو ان کے گرد منڈلاتا رہتا تھا… اور … ہر کوئی اپنی
اجتماعی… اور انفرادی ضرورت کیلئے ان کی راہ دیکھتا تھا… اور تو اور… دین سے بیزار
اور علماء سے دور رہنے والی حکومت بھی ان کی محتاج تھی… ایسے میں اچانک… وہ … سرخ
دستار سر پر سجائے سب کو چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے… جی ہاں… پچھلے سال یہی دن تھے جب
انہیں ’’گولیوں‘‘ سے نوازہ گیا… گولیاں ان کو لگیں جب کہ زخم… پوری امت مسلمہ پر
لگا… خون ان کا نکلا … مگر… دین سے محبت رکھنے والا ہر شخص… درد میں تڑپ کر رہ
گیا… ۳۰
مئی ۲۰۰۴ء…
اتوار کا دن… صبح پونے آٹھ بجے… ہاں، ان کے لئے خوشیوں کی بارات کا لمحہ تھا جبکہ…
مجاہدین اور اہل علم کے لئے ایک آندھی تھی… بہت سرخ بہت غم والی آندھی… کل پھر ان
کا تذکرہ کسی نے چھیڑا تو ان کی یاد کا غم… دل کو ہچکولے دینے لگا… اور بے شمار
حسین مناظر… آنکھوں کے سامنے گھوم گئے… جگر مراد آبادیؒ بھی عجیب شاعر گزرے ہیں…
مجھے ان کے ان اشعار میں… امام المجاہدین حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ… صاف
نظر آرہے ہیں…
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی‘ نظر
میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ
آرہے ہیں، وہ جارہے ہیں
وہی قیامت ہے قد بالا، وہی ہے صورت،
وہی سراپا
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں
اور مسکرا رہے ہیں
وہی لطافت، وہی نزاکت، وہی تبسم، وہی
ترنم
میں نقش حرماں بنا ہوا تھا، وہ نقش
حیرت بنا رہے ہیں
خرام رنگیں، نظام رنگیں، کلام رنگیں،
پیام رنگیں
قدم قدم پر روش روش پر نئے نئے گل
کھلا رہے ہیں
شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا
تک تمام رنگیں
تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں تمام رنگیں
بنا رہے ہیں
تمام رعنائیوں کے مظہر، تمام رنگینیوں
کے منظر
سنبھل سنبھل کر، سمٹ سمٹ کر، سب ایک
مرکز پہ آرہے ہیں
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے نظر سے
مستی ابل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پیئے ہوئے
ہیں، پلا رہے ہیں
یہ موج دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ
وگل، یہ ماہ وانجم
ذرا جو وہ مسکرادیئے ہیں، یہ سب کے سب
مسکرا رہے ہیں
اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر رہے گا
لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا
دامن چھڑا رہے ہیں
یہ اشک جو بہہ رہے ہیں پیہم اگرچہ سب
ہیں یہ حاصل غم
مگر یہ معلوم ہورہا ہے کہ یہ بھی کچھ
مسکرا رہے ہیں
خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شور
تہنیت ہے
یہ وقت وہ ہے جگر ؔ کے دل کو وہ اپنے
دل سے ملا رہے ہیں
(کلیات جگر ص۵۳۳)
ہاں وہ تو اب چلے گئے… اب تو ان کی
یادیں اور باتیں ہی دل سے ہم کنار ہو کر… کبھی غم دیتی ہیں… اور کبھی حوصلہ … ان
کی شہادت کے موقع پر… دل چاہتا ہے کہ القلم کے لاکھوں قارئین کیلئے ان کا مختصر
سوانحی خاکہ پیش کردیا جائے… لیجئے ملاحظہ فرمائیے…
نام گرامی…… نظام الدین
تخلص…… طارق
لاحقہ…… شامزئی
والد محترم کا نام…… حبیب الرحمن
تاریخ پیدائش… ۱۳۷۳ھ بمطابق جولائی۱۹۵۲ء
آبائی وطن
گاؤں فاضل بیگ گڑہی سخرہ مٹہ علاقہ
شامزئی ضلع سوات
ابتدائی تعلیم
(۱) مدرسہ مظہر العلوم
مینگورہ سوات
(۲) جامعہ عربیہ
دارالخیر بکرا پیڑی کراچی
(۳) مظہر العلوم کھڈا
کالونی کراچی
اعلیٰ تعلیم
جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی
درس نظام سے فراغت… ۷۳۔۱۹۷۴ء
تدریس
جامعہ فاروقیہ کراچی میں بیس سال
جامعہ امینہ للبنات کراچی اور جامعۃ
العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تادم شہادت
منصب تدریس
شیخ الحدیث ومشرف تخصص فی الفقہ
الاسلامی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
ڈاکٹریٹ
۱۹۹۲ء
سندھ یونیورسٹی اعلیٰ امتیاز کے ساتھ
بیعت
(۱) حضرت شیخ الحدیث
مولانا زکریا صاحب مہاجر مدنی ؒ
(۲) حضرت مولانا فقیر
محمد صاحب پشاوریؒ
(۳) حضرت مولانا محمد
یوسف لدھیانوی شہیدؒ
(۴) حضرت الشیخ سید
نفیس الحسینی شاہ صاحب مدظلہ العالی
اجازت وخلافت
مذکورہ بالا چار حضرات میں سے آخری دو
نے خلافت سے نوازا
عملی جہاد
افغانستان کے جہاد میں بارہا شرکت
فرمائی سوویت یونین کے خلاف بھی… اور پھر تحریک طالبان کے ساتھ بھی…
صدارت
مجلس تعاون اسلامی عالمی… مفتی محمود
اکیڈمی…
سرپرستی
جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم… خدام
الاسلام… (دونوں کالعدم)
خصوصی تعلق
تحریک طالبان افغانستان…
خصوصی اساتذہ
حضرت
مولانا سلیم اﷲ خان صاحب زیدمجدہم
فضیلۃ الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ نور اﷲ
مرقدہ
حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور
اﷲ مرقدہ (مہتمم دارالعلوم دیوبند)
حضرت مولانا عبدالرحمن برتھانے بابا
صاحبؒ
زیر تدریس خصوصی کتب
صحیح البخاری… صحیح مسلم… جامع ترمذی…
اور فقہ وفنون کی کتب
تصانیف
(۱) شیوخ بخاری (پی
ایچ ڈی کا مقالہ)
(۲) مسلمانوں کے حقوق
)۳(پڑوسیوں کے حقوق
)۴( مقدمہ مسلم شریف
)۵(عقیدہ ظہور مہدی
)۶( سونے چاندی کی
تجارت کے مسائل
)۷( توبۃ النصوح
)۸( فضائل مدینہ منورہ
)۹(الاتمام والاکمال
فی رویۃ الہلال
)۱۰( میرا مسلک ومشرب
افادات وافاضات
آپ کی تقاریر کا ایک مجموعہ خطبات
شامزئیؒ کے نام سے شائع ہوچکا ہے جبکہ… آپ کا درس ترمذی (ارشاد الشامزئی) …اوردرس
بخاری بھی شائع ہوچکا ہے۔
تحفظ ناموس رسالت
آپ نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں
بھرپور حصہ لیا۔ گرین ٹاؤن کراچی میں کئی قادیانی آپ کے ہاتھ پر تائب ہوئے اور آپ
تادم شہادت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوریٰ کے باقاعدہ رکن رہے۔
صحافت
روزنامہ جنگ کراچی صفحہ
اقراء… اور دیگر جہادی اور دینی رسائل میں وقیع مضامین قلمبند فرمائے۔
شہادت
۳۰ مئی ۲۰۰۴ء بروز اتوار… کراچی
تدفین
کُنج شہداء متصل جامع
مسجد خلفاء راشدین کراچی حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے پہلو میں
اعزاز
حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ایک صحابی نے ایک بار حالت جذب میں عجیب دعا مانگی… الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
اللہم اتنی افضل ماتؤتی
عبادک الصالحین۔ (المستدرک صحیح الاسناد)
یعنی… اے میرے پروردگار
مجھے وہ افضل ترین نعمت عطاء فرمائیے جو آپ اپنے پسندیدہ بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔
حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم نے جب یہ دعاء سنی تو فرمایا… تب تو… تمہارے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹی جائیں گی…
اور تمہیں اﷲ کے راستے میں قتل کیا جائے گا… یعنی… ایک مؤمن کیلئے دنیا میں افضل
ترین نعمت یہ ہے کہ… وہ شہید کیا جائے اور اس کی سواری بھی کام آجائے… حضرت مفتی
نظام الدین شامزئی شہیدؒ… باوضو… عطر لگا کر… حدیث پاک کی معروف کتاب… ترمذی شریف
کا درس دینے تشریف لے جارہے تھے… گاڑی میں ان کے ساتھ آپ کے چھوٹے صاحبزادے…
مولانا سلیم الدین حفظہ اﷲ… اور بھتیجے… مولانا رفیع الدین حفظہ اﷲ سوار تھے… آپ
کا ڈرائیور محمد طیب گاڑی چلا رہا تھا… کفر کے ایجنٹوں نے حملہ کیا… گاڑی کو بھی
نقصان پہنچا… بیٹا اور ڈرائیور زخمی ہوئے… اور آپ نے… جام شہادت نوش فرمایا…
صاحبزادوں کے نام
مولانا امین الدین
مولانا تقی الدین
مولانا سلیم الدین
تینوں ماشاء اﷲ… عالم
ومجاہد ہیں… اﷲ پاک انہیں اپنے والد گرامی کا صحیح جانشین بنائے…
٭…٭…٭
حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ…
کا… سوانحی خاکہ آپ نے پڑھ لیا… اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عجیب ’’محبوبیت‘‘ عطاء فرمائی
تھی… حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد ملاقات کے وقت آپ کے ہاتھ چوم لیا
کرتے تھے… پاکستان کے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وہ تحریر میں نے خود دیکھی
جس میں انہوں نے حضرت مفتی صاحب کے لئے اپنی عقیدت ومحبت کا اعتراف کیا… شیخ اسامہ
بن لادن نے اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر اپنی خصوصی کلاکوف رائفل آپ کی خدمت میں
پیش کی… اور آخری زمانے میں تو… علماء اور مجاہدین … ہر کوئی انہیں ’’بابا‘‘ کے پیارے
اور احترامی نام سے یاد کرکے ان کے دامن میں جگہ ڈھونڈ تا تھا… اب آپ خود سوچ
لیجئے کہ… اتنے بڑے علامہ، فقیہ، مجاہد، ولی… اور مفکر اسلام کو شہید کرنے والوں
نے… اپنے لیے… کتنی خوفناک حسرت اور آگ کا سامان کیا ہے… اور امت مسلمہ کو کتنا
نقصان پہنچایاہے…
قاتلہم اﷲ انی یوفکون…اﷲ تعالیٰ ان
ظالموں… اور ان کے سرپرستوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرے… اور ان کو ایسا تڑپائے
کہ امت مسلمہ کے زخموں کو کچھ سکون مل جائے… ہاں… اب بھی وہ قاتل اور ان کے سرپرست
تڑپ ہی رہے ہوں گے… اس لیے کہ… انہوں نے جس پیغام اور آواز کو دبانے کیلئے… یہ ظلم
ڈھایا… وہ پیغام اب بھی گونج رہا ہے… سنو دنیا والو! سنو… حضرت امام شامزئیؒ فرما
رہے ہیں:
’’ہم علی الاعلان
بغیر کسی خفت اور بغیر کسی جھجک کے یہ بات کرتے ہیں کہ دنیا کے اندر جہاں بھی
ہمارا مسلمان بھائی مظلوم ہوگا یا جہاد میں مصروف ہوگا، ہم اس ملک کے اندر ان شاء
اﷲ اس کے تعاون کیلئے آواز اٹھائیں گے، ہم سے ہوسکا تو ہم جاکر ان کے شانہ بشانہ
لڑیں گے بھی، اور ہم سے جو بھی مالی واخلاقی تعاون ہوسکے گا وہ ہم کرکے رہیں گے،
اس لیے کہ ہم امت مسلمہ کے افراد ہیں، وہ امت مسلمہ جس کے لئے رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ : ’’مسلمان جسد واحد کی طرح ہے، ایک جسم کی طرح
ہے، اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو جسم کے سارے حصے اس کو محسوس کرتے ہیں اس
بناء پر ہم اس چیز کو بھی برداشت نہیں کرسکتے کہ کسی مسلمان کو تکلیف
پہنچے۔‘‘ (خطبات شامزئی)
آج کی دنیا… قول وفعل کے تضاد کا شکار
ہے… مگر حضرت مفتی صاحب شہیدؒ نے جو کچھ کہا… اس پر… عمل کرکے دکھایا… آپ نے ایک
موقع پر ارشاد فرمایا:
’’یاد رکھو! کہ
اسلامی نظام، یہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی نعمت ہے، اور اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمت مفت
میں کسی کو نہیں دیتے، جب تک انسان اس نعمت کیلئے قربانی دے کر اﷲ تبارک وتعالیٰ
کے سامنے اپنے آپ کو اس انعام کا مستحق قرار نہ دے… اﷲ کا یہ نظام دنیا میں اس وقت
تک نافذ نہیں ہوسکتا، جب تک وہاں کے مسلمان اس کے لئے جہاد نہ کریں اور قربانیاں
نہ دیں ۔‘‘ (خطبات شامزئی)
آپ نے امت کو جہاد کیلئے بلایا…ساتھ
خود بھی میدانوں میں نکلے… اور اپنے بیٹوں کو بھی اگلے مورچوں تک بھیجا… آپ نے امت
کو قربانی کی دعوت دی… اور ساتھ اپنی قربانی پیش کرکے… اپنا نام ’’صادقین‘‘ میں
لکھوالیا… بس اس طرح ان لوگوں کا منہ کالا ہوا… جو کہتے ہیں کہ… مولویوں نے جہاد
کو ’’کاروبار‘‘ بنالیا ہے… دوسروں کو مرواتے ہیں… اور خود… اونچے عہدوں کے متلاشی
رہتے ہیں… حضرت مفتی صاحب شہیدؒ… کو تو بہت اونچے عہدوں کی طرف بلایا گیا مگر آپ
نے … ہر پیشکش کو … مسکرا کر ٹھکرادیا… رؤیت ہلال کمیٹی… اسلامی نظریاتی کونسل…
سینیٹ کی رکنیت… اور بہت کچھ… تب … اﷲ پاک نے بھی آپ پر نوازشات کی بارش فرمادی…
اور آپ کو… وہ سب کچھ عطا فرمادیا… جو … کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے… ؎
مقام کرگس وشاہین ہے اپنے ظرف کی بازی
جو ٹھکرادے صراحی کو اسے مے خانہ ملتا
ہے
آپ نے شہادت سے چند ہی روز پہلے… خدام
الاسلام کراچی کے زیر اہتمام ایک جلسہ سے خطاب فرمایا… جہاد کے خلاف یورش کے اس
دور میں… یہ جلسہ منعقد ہوا… اور حضرت مفتی صاحبؒ کی آمد پر شرکاء جلسہ… پورے پانچ
منٹ تک… الجہاد الجہاد کے نعرے لگاتے رہے…
حضرتؒ یہ منظر دیکھ کر بہت مسرور
ہوئے… آپ نے… اپنے خطاب میں یہودیوں کو للکارا… اور … اس بات پر زور دیا کہ…
مسلمانوں میں ’’دینی غیرت‘‘ بیدار کرنے کی ضرورت ہے… آپ نے فرمایا کہ… دیندار تو
بہت لوگ بن جاتے ہیں مگر… ان میں دینی غیرت نہیں ہوتی… اور آج کا ’’کفر‘‘ اسی غیرت
کو ختم کرنے کے درپے ہے…
پاکستان میں ان دنوں جو موسم مسلط ہے
اس میں اس طرح کے ’’بیانات‘‘ کی کہاں گنجائش ہے… ایسے سر پھروں کو تو سر میں گولی
ماری جاتی ہے… سو وہ مار دی گئی… مگر مارنے والے بھول گئے کہ … انہوں نے جو سزا دی
ہے… وہ … سزا پانے والے کیلئے کتنی بڑی سعادت ہے… حضرت مفتی صاحبؒ کو پورا اندازہ
تھا کہ… موسم کیسا ہے؟… اور اس وقت جان بچانے کیلئے… امن واعتدال کی رٹ لگانا
ضروری ہے… مگر وہ تو کسی اور جہان کے بندے تھے… اور آپ کا نظریہ یہ تھا کہ ؎
یہ صحن وروش، یہ لالہ وگل، ہونے دو جو
ویراں ہوتے ہیں
تخریب جنون کے پردے میں تعمیر کے
ساماں ہوتے ہیں
منڈلائے ہوئے جب ہر جانب طوفاں ہی
طوفاں ہوتے ہیں
دیوانے کچھ آگے بڑھتے ہیں اور دست
وگریباں ہوتے ہیں
بیدار عزائم ہوتے ہیں، اسرار نمایاں
ہوتے ہیں
جتنے وہ ستم فرماتے ہیں، سب عشق پہ
احساں ہوتے ہیں
رندوں نے جو چھیڑا زاہد کو، ساقی نے
کہا کس طنز سے آج
اوروں کی وہ عظمت کیا جانیں، کم ظرف
جو انساں ہوتے ہیں
تو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہیں، میں
خوش کہ مرے حصے میں نہیں
وہ کام جو آساں ہوتے ہیں، وہ جلوئے جو
ارزاں ہوتے ہیں
یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ
جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صَرف
بہاراں ہوتے ہیں
جو حق کی خاطر جیتے ہیں، مرنے سے کہیں
ڈرتے ہیں جگر ؔ
جب وقت شہادت آتا ہے، دل سینوں میں
رقصاں ہوتے ہیں
)جگر مراد آبادیؒ(
٭…٭…٭
حضرت مفتی صاحب شہیدؒ کی
یادیں اور باتیں تو بہت ہیں… ابھی تو میں نے… ان کے ساتھ گزرے لمحات … اور اپنے
چشم دید واقعات کا تذکرہ شروع نہیں کیا… یہ موضوع بہت طویل اور دلگداز… جبکہ… اس
کالم کا دامن تنگ ہے… بس ایک آخری گزارش کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں… آج ہمارے حکمران
آئے دن… اس بات کا طعنہ دیتے رہتے ہیں کہ… تم لوگوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کا
ٹھیکہ لے رکھا ہے… اسی طرح جہاد کے بارے میں بھی… ان کے تلخ نظریات… دھمکیوں کی
صورت اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں… مگر … ان سب کے باوجود… الحمدﷲ… نہ اسلامی
اخوت (جسے ٹھیکیداری کہا جارہا ہے) میں کچھ کمی آئی ہے نہ … جہاد کی گود مجاہدین
سے خالی ہوئی ہے… حالانکہ … خوفناک بم برس رہے ہیں اور … عقوبت خانے … اور قبرستان
بھر چکے ہیں… حضرت لدھیانوی شہیدؒ کے پیچھے… حضرت شامزئی شہیدؒ چلتے رہے… وہ شہید
ہوئے تو جھنڈا… مفتی محمد جمیل شہیدؒ نے تھام لیا… وہ بھی شہید ہوگئے… مگر اسلامی
اخوت… اور جہاد کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہوا… دنیا بھر کے ظلم… اور پروپیگنڈے کے
باوجود… کسی بھی محاذ پر … مجاہدین کی کمی نہیں ہوئی… ایک شہید ہو کر گرتا ہے تو
دوسرا اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے… بلکہ … اب تو … مجاہدین … محاذوں کو ڈھونڈتے پھر
رہے ہیں… اے ہمارے حکمرانو!… اور اے روشن خیال بھائیو!… روز روز مجاہدین کو
ڈانٹنے، مارنے اور طعنے دینے کی بجائے… کسی دن… چند لمحات کیلئے… اسلامی اخوت …
اور جہاد کا ایک قطرہ چکھ لو… ممکن ہے کہ … تمہارا مستقبل بھی شہداء کے مستقبل کی
طرح… روشن ہوجائے… اور تمہیں… یہ راز بھی سمجھ آجائے کہ… کس چیز نے حضرت شامزئی
شہیدؒ… جیسے علامہ سے لیکر … آفاق جیسے نوخیز بچے کو … اسلام اور جہاد کا دیوانہ
بنادیا ہے… اﷲ کے لئے … تھوڑی دیر … بس چند لمحات… خود کو امریکاکے خوف اور رعب سے
نکال کر… مسلمانوں کی مدد کرنے … اور جہاد میں چلنے کا… سرور… چکھ کر دیکھ لو… تب
تم درست فیصلہ کرسکو گے… ایسا فیصلہ… جو زمین کا رنگ اور نقشہ تک بدل دے گا… ؎
کس لیے جان دیتے ہیں رند
شرابِ ناب پر
پوچھ نہ روز، محتسب!
تھوڑی سی آج پی کے دیکھ
یا اﷲ! ہم نے… تیری دعوت…
تیرے بندوں تک پہنچادی… ہم پر کرم فرما… ہمیں بھی… ایمان … ایمانی غیرت، شجاعت، …
اسلامی اخوت اور شہادت کا جام پلا… اور حضرت امام شامزئیؒ کے درجات کو بلند فرما…
آمین یا رب المستضعفین…
بھروسا
مقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس کے
لچکدار دھڑے نے پاکستان کا دورہ کیا۔ القلم نے انہیں خوش آمدید کہا اور ساتھ کچھ
اوربھی کہا۔ شہداء کے حسین تذکرے سے معمور چٹکلوں بھری ایک تحریر۔
)۲جمادی
الا ولیٰ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۶جون
۲۰۰۵ء(
بھروسا
اللہ تعالیٰ کی مرضی
…آجکل پاکستان پر ’’مہمانوں،، کی یلغار ہے… عجیب’’رنگ برنگے‘‘مہمان…ایک جارہا ہے
تو دوسرا آرہا ہے… بالکل اسی طرح… جیسے ’’نیا پلاٹ‘‘ خریدنے کے بعد خاندان کے لوگ
اسے دیکھنے باری باری آتے ہیں… اور بار بار آتے ہیں… اب دنیا کے نقشے پر بھی ایک
نیا پاکستان ابھر رہا ہے… روشن خیال، اعتدال پسند پاکستان… ایڈوانی کا پسندیدہ…
اور ایریل شیرون کا مدح سرا پاکستان… ابھی کچھ دن پہلے ہالی وڈ کی اداکارہ…
انجلینا جولی… اقوام متحدہ کا چولا پہن کر آئی… ابھی پاکستان نے اپنے بال بھی خشک
نہیں کئے تھے کہ… ملکہ محترمہ ’’کرسٹینا روکا‘‘ تشریف لے آئیں… وہ نیو ورلڈ آرڈر
کے مطابق … ہمارے لئے ’’وائسرائے‘‘ جیسی ہیں… انہوں نے یہاں آکر سیاستدانوں سے
ملاقاتیں شروع کیں تو ہمارے اخبارات اور تجزیہ نگار دھوکہ کھا گئے۔ ہر ایک نے
تقریباً یہی لکھا کہ وہ ’’بحالی جمہوریت‘‘ کا جائزہ لینے آئی ہیں… حالانکہ…
سیاستدانوں سے ملاقات محض تماشا تھا… اصل کام… ’’ابو الفرج اللیبی‘‘ کی بارات لے
جانا تھا… سب اخبارات اس بات کو بھول گئے۔
ہمارے ملک کے غیور،
بہادر… اور دلیر حکمرانوں کو شکوہ تھا کہ… ہم نے… امریکہ کے لئے اتنا بڑا شکار
پکڑا… مگر … ہمیں صرف ایک ’’کارٹون‘‘ پر ٹرخایا جارہا ہے… ویسے تو شاباش دینے
کیلئے صدر بش کو آنا چاہئے تھا لیکن وہ تو… (خاکم بدہن) ملا محمد عمر اور اسامہ بن
لادن کے انتظار میں ہیں… چلیں وہ نہیں آسکتے تھے تو… کونڈا لیزا رائس ہی آکر
’’شاباش‘‘ دے جاتیں … مگر وہ کافی مصروف تھیں… لے دے کر رچرڈ آرمٹیج رہ گئے تھے…
امریکہ تیار تھا کہ… وہ آ کر… حکومت پاکستان کی کمر تھپکائیں اور شاباش دیں… مگر
ہمارے حکمران… ان کے بھاری بھرکم ہاتھوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ جب بھی کمر پر تھپکی دے
جاتے ہیں تو… تین مہینے تک کمر ہلانا مشکل ہو جاتا ہے… حالانکہ… انڈیا وغیرہ کو
’’لچک‘‘ دکھانے کیلئے کمر کا سلامت ہونا ضروری ہے… بالآخر …امریکہ کی طرف سے جنوبی
ایشیاء کی حکمران… کرسٹینا روکا نے آنا قبول کیا… مگر اس نے منہ دکھائی کے بدلے…
ابوالفرج اللیبی کو ساتھ لے جانا مانگ لیا… ہمارے حکمرانوں کو بھلا کیا اعتراض؟…
مگر… مشکل یہ تھی کہ وہ بہت موٹے موٹے بیانات داغ چکے تھے کہ ہم خود… مقدمہ چلائیں
گے … اور اپنے مبارک ہاتھوں سے پھانسی پر لٹکائیں گے … اس لئے ’’روکا صاحبہ‘‘ کے
دورے کے مقاصد کو… خفیہ رکھا گیا … تاکہ… جگ ہنسائی نہ ہو… اور اپوزیشن بھی قابو
میں رہے… وہ شاباش دے کر… بارات کی ترتیب بنا کر چلی گئیں… ادھر فوراً ’’ایڈوانی
جی‘‘ آگئے… خوب استقبال ہوا… دلوں اور مندروں کے دروازے کھل گئے… انہوں نے بھی
’’چانکیہ سیاست‘‘ کا مظاہرہ کیا… اور خود کو… امن پسند بتاتے رہے… افسوس کہ…
حکمرانوں سے لے کر دینی جماعتوں تک کسی نے اس ظالم سے ’’بابری مسجد‘‘ اور گجرات کے
شہیدوں کا حساب نہ مانگا… ایڈوانی… ایک نیا پاکستان دیکھ کر جارہے ہیں جہاں ہندو
محفوظ ہیں… اور مجاہدین ’’زیر عتاب ہیں‘‘ جہاں کے حکمران… غیروں کے سامنے … اپنوں
سے جان چھڑانے کی بات کرتے ہیں… ایڈوانی ابھی گئے نہیں تھے کہ… کشمیری لیڈر حضرات
کے دورے نے دھوم مچا دی… دعا کریں ہمارا ملک… اتنے ’’دورے‘‘ برداشت کر سکے… جیسے
ہی اخبار پر نظر پڑتی ہے… کوئی نہ کوئی آیا ہوتا ہے… اور ہم اسے بتا رہے ہوتے ہیں
کہ ہم نے اتنے ’’مسلمان‘‘ پکڑے… ہم نے اتنے مارے… اور مزید ہم ان کو ختم کرکے دم
لیں گے… غیر ملکی فوجی اتاشی تو ہر روز تشریف لا کر رپورٹ مانگتے ہیں کہ… جنوبی
وزیرستان میں کتنے مارے؟… شمالی وزیرستان میں کتنے پکڑے؟ باجوڑ ایجنسی کا کیا بنا؟
… اسامہ کا کوئی پتہ چلا؟… یقین جانیں ان کے سوالات… اور اپنوں کی ’’صفائیاں‘‘ پڑھ
پڑھ کر گھن آنے لگی ہے… اور دنیا نے ہمیں ایک ایسا پالتو جانور سمجھ لیا ہے جو
روٹی اور تھوڑے سے پروٹوکول پر… اپنی عزت سمیت ہر چیز قربان کر دیتا ہے… مگر…
ہمارے حکمران… اپنی اس عجیب الخلقت ’’روشن خیالی‘‘ میں آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں اور
پاکستان کی تاریخ میں وہ سیاہ دن بھی جگہ پا گیا ہے… جب… ہمارے ’’صدر‘‘ نے مسجد
اقصیٰ کے دشمن… اور مسلمانوں کے جنونی قاتل ایریل شیرون تک کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش
کردیا ہے… دراصل ’’صدر صاحب‘‘ پوری دنیا سے جہاد کے خاتمے کا مشن… اپنی زندگی
کامقصد بنا چکے ہیں… اس لئے جو بھی ’’مجاہدین اسلام‘‘ کو مارتا اور کاٹتا ہے وہ
صدر صاحب کو اچھا لگتا ہے… ایریل شیرون… حماس کے مجاہدین کو کاٹ رہا ہے اس لئے وہ
بھی ’’محبوب‘‘ ٹھہرا… ایڈوانی… کشمیری مجاہدین کے خون کا پیاسا ہے اس لئے وہ بھی
’’پسندیدہ شخص‘‘ قرار پایا… فلپائن کی صدر گلوریا… فلپائن کے مجاہدین پر ہاتھ صاف
کررہی ہے اس لئے وہ بھی بہت اچھی لگی… اور اس سے مجاہدین کے خلاف تعاون کا وعدہ
بھی کیا گیا… ماوراء النہر کا درندہ اسلام کریموف… ملحد اور کیمونسٹ سہی مگر وہ
وادی فرغانہ کو… اسلام اور مجاہدین سے صاف کررہا ہے اس لئے وہ بھی… دل کو بھایا
اور اس کے ساتھ بھی… جہاد اور مجاہدین کے خلاف معاہدہ طے پاگیا… الغرض …صدر صاحب
کی محبت اور قرب حاصل کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ… جہاد اور مجاہدین کے خاتمے
کی بات یا کوشش کی جائے کیونکہ وہ اس کی خاطر… ایک وسیع تر ’’عالمی اتحاد‘‘ بنانے
کی سوچ رکھتے ہیں… اس اتحاد میں… شیرون، ایڈوانی، اسلام کریموف… اور کونڈالیزارائس
جیسے ’’امن پسند‘‘ لوگ ہوں گے اور اس اتحاد کا مقصد… افغانستان سے لے کر عراق تک…
کشمیر سے لے کر فلسطین تک… بوسنیا سے لے کرفلپائن تک… اور چیچنیا سے لے کر تھائی
لینڈ تک مجاہدین کا خاتمہ ہوگا… صدر صاحب کشمیر کے بارے میں جو آئے دن نئے نئے
فارمولے پیش کرتے رہے ہیں… ان سب کا مقصد بھی ’’جہاد کشمیر‘‘ کا جلد از جلد خاتمہ
ہے…اور اسی بات پر… ان کا اور بھارتی حکومت کا ’’اتفاق رائے‘‘ ہو چکا ہے… صدر
صاحب… کے سامنے بیٹھا ہوا شخص … یہودی ہو یا ہندو … ملکی ہو یا غیر ملکی… آپ اس کے
سامنے ’’مجاہدین‘‘ کے خلاف بولنا… اور پھر دل سے بولنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں…
یوں… سامنے والا شخص حیران بھی ہوتا ہے اور خوش بھی… متاثر بھی ہوتا ہے اور مطمئن
بھی… کیونکہ … عام قانون یہی ہے کہ… کسی بھی ملک کا حکمران… اپنی عوام کے خلاف…
غیروں کے سامنے کچھ نہیں بولتا… خواہ… اس کی عوام خود اس کی دشمن ہی کیوں نہ ہو…
ہر ’’حکمران‘‘ اپنے ملک کی عزت اور عوام کی ناموس کا خیال رکھتا ہے … مگر ہمارے
صدر صاحب تو تاریخ بدلنے کیلئے آئے ہیں اس لئے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر…
اپنے مجاہدین تک… ہر کسی کے خلاف … گوروں اور مشرکوں کے سامنے… فرینکلی بولتے ہیں…
تب… ایریل شیرون سے ایڈوانی تک … ہر کوئی… پکار اٹھتا ہے کہ یہ شخص… اعتبار کے
قابل ہے… اسی طرح… صدر صاحب روشن خیال اسلام کا جو تصور پیش کرتے ہیں… وہ اس پر نہ
تو قرآن کا حوالہ دیتے ہیں کہ… فلاں آیت میں یہ بات ہے… نہ کسی حدیث… یا فقہ کا
حوالہ دیتے ہیں…بس ان کے اپنے دماغ میں جو کچھ آجاتا ہے اسی کو کہہ جاتے ہیں …
چنانچہ… ان کے اسلام کو’’جیک اسٹرا‘‘ اور ’’کونڈالیزا رائس‘‘ جیسے ’’علماء‘‘ ہی
پسند کرتے ہیں… جبکہ… قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے… نادان مولویوں کو ان کا خود
ساختہ اسلام سمجھ نہیں آتا… بات… پاکستان پر دوروں کی یلغار کی چل رہی تھی… آج کل
حریت پسند لیڈر… تشریف لائے ہوئے ہیں… یاد رہے کہ… کچھ عرصہ پہلے ’’حریت کانفرنس‘‘
کے اس دھڑے کو حکومت پاکستان نے مسترد کردیا تھا… اور… سید علی گیلانی صاحب کی
قیادت والی حریت کانفرنس کو اپنا ’’ہم موقف‘‘ قرار دیا تھا… مگر پھر یکایک موسم
بدل گیا… اور ہماری … حریت کانفرنس بھی بدل گئی… علی گیلانی سری نگر میں آنسو… ٹپ
ٹپ برسا رہے ہیں… جبکہ عباس انصاری… آزاد کشمیر میں استقبال کے مزے لوٹ رہے ہیں…
اور جہادی… بیس کیمـپ
میںجہاد کے خلاف بیانات داغ رہے ہیں… مولوی عمر فاروق…سرینگر کے نامور ’’میر واعظ
خاندان‘‘ کے سپوت… جب… ان کے والد مولوی محمد فاروق کو شہید کیا گیا تو وہ ابھی بے
ریش بچے تھے… کشمیری عقیدت پسندوں نے انہیں چودہ سال کی عمر میں ’’میر واعظ‘‘ بنا
دیا… اور پھر… چند ہی دن میں وہ منبر و محراب پر گرجنے لگے… ان کی داڑھی آئی مگر…
چند سال انہوں نے … اس کا راستہ روکے رکھا… پھر حج پر گئے تو… باریش واپس آئے…
سرینگر کی ’’جامع مسجد‘‘ اس خاندان کے ’’علم و سیاست‘‘ کا مرکز تھی اور ہے… ان کی
پارٹی … بکرا پارٹی کہلاتی ہے… یہ لوگ بڑے فخر سے خود کو… ’’بکرا‘‘ کہلاتے
ہیں…کشمیر میں یہ لفظ فخر، بہادری… اور آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے… میں نے خود
سنا ایک انتہائی محترم کمانڈر صاحب فرما رہے تھے … میرا باپ بکرا تھا بکرا… دراصل…
شیخ عبداللہ کی پارٹی کا نشان ’’شیر‘‘ تھا… اور ’’میر واعظ‘‘ خاندان کی پارٹی کا
نشان’’بکرا‘‘تھا… کچھ عرصہ بعد… شیخ عبداللہ کے بھارت نواز لوگ… یعنی نیشنل
کانفرنس والے’’شیر‘‘ کہلانے لگے…اور ان کے مدمقابل… آزادی اور پاکستان کے حامی
…بکرے… جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو… شیر گالی بن گیا… اور بکرا… تمغہ افتخار…
شیر چھپتے پھرتے تھے جبکہ… بکرے دندنا کر چلتے تھے… کسی بھی آدمی کو برا کہنے
کیلئے اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ وہ ’’شیر‘‘ ہے…اور کسی کی تعریف کیلئے بکرے کا
لفظ… ٹیپو سلطان کے ہم معنی قرار پاتا تھا… بکروں کی جہادی تنظیم کا نام ’’العمر مجاہدین‘‘
تھا… جناب مشتاق احمد زرگر کی جرأت مندانہ قیادت میں یہ تنظیم…کسی زمانے میں …
کفر کے خلاف ’’طوفان‘‘ تھی… مگر اب وہ صورتحال نہیں رہی… بکرے کمزور ہورہے ہیں …
جہادی تنظیم کو پروٹوکول کے بھوکے انسانوں نے… ویرانی کے غار میں پھینک دیا ہے…
عمر فاروق … اور مشتاق زرگر کا باہمی پیار بھی… حالات کے ہچکولوں پر ہے… مولوی عمر
فاروق… آج مظفر آـباد
میں ہیں… اور وہ… حریت کانفرنس کے اس دھڑے کے سربراہ ہیں جو …بھارتی حکومت سے
اکیلے مذاکرات کا حامی ہے… ان کے ساتھ… ایک پڑھے لکھے بزرگ پروفیسر عبدالغنی بٹ
صاحب ہیں… جناب… دو بار متحدہ حریت کانفرنس کے صدر رہ چکے ہیں… اپنی ’’حیثیت‘‘ اور
مقام کی بے حد فکر رکھتے ہیں… مجاہدین سے کسی قدر شاکی رہتے ہیں… اس وفد میں ایک
اور صاحب… مولانا عباس انصاری ہیں… ایرانی مکتبہ خیال کے لیڈر ہیں… جہادی تحریک
کو… انڈین حکمرانوں کی طرح… بیرونی مداخلت سمجھتے ہیں… ان کو… یہ قابل فخر اعزاز
حاصل ہے کہ… ان کے ’’زمانہ صدارت‘‘ میں سالہا سال سے متحد ’’حریت کانفرنس‘‘
دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی… جناب آج کل پاکستان کے مہمان ہیں… حریت کے وفد میں …
اپنے بھائی سجاد لون کی بہ نسبت کچھ ’’کم گرم‘‘ بلال لون بھی ہیں… یہ عبدالغنی لون
صاحب مرحوم کے صاحبزادے ہیں جنہیں ایک سال قبل… سرینگر میں قتل کردیا گیاتھا… یہ
پورا خاندان… ماڈریٹ اور روشن خیال ہے… دبئی میں وسیع کاروبار اور کشمیر کے
بارڈروں پر بکر وال قبائل میں وسیع حمایت رکھتا ہے… خودمختاری کی حامی… جے کے ایل
ایف کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی ہے… ان کی ایک بیٹی… شبنم لون … سپریم کورٹ آف
انڈیا کی وکیل… اور بہادر و بیمار رہنما… یٰسین ملک کی منگیتر تھیں…لون صاحب نے
’’البرق مجاہدین‘‘ کے نام سے جہادی تنظیم بھی چلائی… پھر یہ تنظیم ختم ہوگئی… اور
لون صاحب… جہاد سے کافی حد تک شاکی ہو گئے… کچھ عرصہ پہلے… انہوں نے … بھارت کے
زیر اہتمام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے… پر تولنا شروع کر دئیے تھے… ان کے
صاحبزادے… بلال لون… آج کل ہمارے مہمان ہیں… حریت کانفرنس کے علاوہ جے کے ایل ایف
کے یٰسین ملک بھی ہمارے مہمان ہیں… جناب… کشمیر کی خود مختاری کے زبردست حامی ہیں…
پہلے ’’مجاہد‘‘ تھے پھر انہوں نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا… ان کی جماعت…
کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے… امان اللہ خان کا دھڑا… جو پہلے مرکز تھا… اب… معمولی سی
اکائی بن کر رہ گیا ہے… بندہ نے… کئی بار… جے کے ایل ایف والوں کے موقف کوسمجھنے
کی کوشش کی… مگر… ہر بار ناکامی رہی… حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے
رہنے والے تھے… آپ نے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم فرمائی… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم اس کے ’’سربراہ‘‘ تھے… پھر… خلفاء راشدین بھی باہر کے لوگ تھے… اگر مکہ
والے مدینہ پر حکومت کر سکتے ہیں تو قوم پرستوں کے سارے دلائل زمین بوس ہو جاتے
ہیں… جو اسے ’’استحصال‘‘ کا جذباتی نام دیتے ہیں… حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے لئے…
قوم پرستی سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز شائد نہ ہو… جب ہم … اپنے ’’پنجابی‘‘
پختون … اور کشمیری ہونے کو… اسلام سے زیادہ ’’پرانا‘‘ قرار دے کر فخر کریں گے تو…
اس سے بڑھ کر… اسلام کی اور کیا توہین ہو گی… ابوجہل بھی تو کہہ سکتا تھا کہ میں…
چار ہزار سالہ ’’عرب‘‘ ہوں اور تم کل کے مسلمان … نعوذ باللہ… بہرحال… جے کے ایل
ایف کی کشمیر میں بہت قربانیاں ہیں… ان …قربانیوں کو نظر انداز کرنا ظلم اور
زیادتی ہے… ہم اشفاق مجید وانی شہید سے لے کر… ان کے آخری شہید تک… سب کو سلام پیش
کرتے ہیں… ابھی کچھ عرصہ پہلے… یٰسین ملک صاحب کے دیرینہ ساتھی… اور ان کے نائب…
جاوید میر بھی ان سے الگ ہوچکے ہیں… یٰسین صاحب بھی… ان دنوں پاکستان کے مہمان
ہیں… ان مہمانوں میں… غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ تاری بھی ہیں… یہ جیل میں…
شبیر احمد شاہ کے ساتھ تھے… دونوں میں خوب یاری رہی… شبیر احمد شاہ صاحب نے…
بھارتی زندانوں میں اکیس سال کاٹ دئیے…کشمیر میں انہیں… سیکنڈ نیلسن منڈیلا کہا
جاتا ہے… یعنی منڈیلا ثانی… میرا خیال تھا کہ… شاہ صاحب … اس لقب سے گھن کھاتے ہوں
گے مگر پھر حیرانی ہوئی کہ … وہ تو… اس ’’نسبت‘‘ پر بہت خوش ہوتے ہیں… اور اپنی
جوانی کے اکیس سالوں پر… ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعزاز کو سجاتے ہیں… پتہ نہیں
قارئین کو یاد ہوگا کہ نہیں کہ… ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’’شبیر شاہ صاحب‘‘ کو ’’ضمیر
کا قیدی‘‘ قرار دیا تھا… دس بارہ سال پہلے… میں بھی… کشمیر کا چکر لگانے گیاتھا…
تب شاہ صاحب جیل میں تھے… اور کشمیر میں ہر طرف ان کی بہادری اور عزیمت کے چرچے
تھے… الجہاد نامی طاقتور ترین جہادی تنظیم ان کو اپنا ’’قائد ‘‘ مانتی تھی… اور
شبیر شاہ جیل میں اس بات پر اڑے بیٹھے تھے کہ… بھارتی آئین کو مان کر… بھارتی
عدالت سے… ضمانت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… حکومت نے بار بار انہیں رہائی کی
پیش کش کی … مگر… انہوںنے… ضمانت لینے کو انڈین قبضہ تسلیم کرنے کے برابر قرار
دیا… اور… اپنی خوبصورت ’’جوانی‘‘ جیل میں پگھلاتے رہے… مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ…
اس زمانے میں… لوگ …سید علی گیلانی کو… شبیر شاہ صاحب سے مضبوطی… اور موقف کی سختی
میں… کم شمار کرتے تھے… ادھر جیلوں کے اندر… شبیر احمد شاہ کی ’’خدمت خلق‘‘ کا
چرچا تھا… غریب ہندو قیدی تو انہیں ’’بھگوان‘‘ کہتے تھے… قیدیوں کی اعانت، خدمت
اور دیکھ بھال میں انہوں نے… قابل تقلید مثالیں قائم کیں…
پھر…یکایک ہوا کا رخ
بدلا… شبیر احمد شاہ نے معلوم نہیں کس وجہ سے… پاکستان پاکستان کی رٹ چھوڑی…انڈیا
نے انہیں آزاد کردیا… انہوں نے …کئی پارٹیاں بنائیں… کئی توڑیں… حریت کانفرنس
میںشامل ہوئے… پھر… فارغ کردئیے گئے… مگر ان کی ذاتی مقبولیت… اور تحریک کشمیر میں
ان کی اہمیت مسلمہ ہے… انہوںنے بھی پاکستان آنا تھا… حکومت انڈیا نے کہا… پاسپورٹ
لینا ہو گا… میں نے جب یہ خبر سنی تو میرا دل پکار اٹھا کہ …شبیری غیرت ضرور جاگے
گی… مگر اطلاع آئی کہ… انہوں نے… درخواست دے دی ہے… پھر معلوم ہوا کہ… شبیر ی غیرت
کچھ دیر سے سہی مگر جاگ اٹھی اور انہوں نے… پاسپورٹ کے فارم میں خو د کو… انڈین
شہری لکھنے سے انکار کردیا… تب… ان کا پاسپورٹ اور سفر روک لیا گیا… اور ان کی
جگہ… ان کی پارٹی کے ناظم عبداللہ تاری آگئے ہیں… ان کے بار ے میں کافی … ’’رطب
ویابس‘‘ سن رکھا ہے… مگر… نہ ملاقات ہے نہ تحقیق … اس لئے… کچھ نہیں لکھتا…
اپنے گجرات والے چوہدری
شجاعت حسین… اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت… ان رہنمائوں کا استقبال کررہی ہے…
ابھی… ان کا اسلام آـباد
آنا باقی ہے… ان میں سے کئی… ہمارے حکمرانوں سے یہ… انڈین گزارش کریں گے کہ …
پاکستان… کشمیر میں… بندوق کو خاموش کرائے…ہمارے حکمران… تو پہلے سے بے چین ہیں کہ
کب جہاد ختم ہو… استقبال… ملاقاتیں… اور خفیہ تدبیریں … ادھر سید علی شاہ گیلانی…
شاید … سرینگر کے مزار شہداء کا چکر لگا آئیں گے… وہ ویسے بھی وہاں اپنے لئے جگہ
ڈھونڈ رہے ہیں… ہر آدمی کا عمل لکھا جار ہا ہے… اور ہر شخص … اپنی موت آخرت اور حساب
کی طرف بڑھ رہا ہے… زندگی کے کچھ لمحات… ’’فیصلہ کن‘‘ ہوتے ہیں… غالباً … ایسا ہی
لمحہ اب آیا چاہتا ہے… استقبال اور پروٹوکول کی چکا چوند… دیکھ کر… کچھ مجاہدین
بھی لالچ میں آسکتے ہیں… اور انہیں یہ فکر… دامن گیر ہو سکتی ہے کہ… ’’منزل انہیں
ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘… مگر الحمدللہ سعدی کو… ان باتوں کی پرواہ نہیں ہے…
کیمرے فلش… چمک دمک… ڈھول تاشے اور مردہ استقبال… سب… دنیا کے دھوکے… اور ناپاک
تماشے ہیں… یااللہ… مجھے… اور میرے ساتھیوں کو … ان شہداء کے مشن پر قائم رکھ…
جنہوں نے ظاہری چمک دمک کی بجائے… خاک اور خون کی چادر اوڑھی … اور تیرے بن گئے…
سجاد شہیدؒ سے لے کر غازی باباشہید ؒ تک…
اور آفاق ؒ سے لے کر بلال ؒتک… یااللہ… ثابت قدم رکھنا … یا اللہ ثابت
قدم رکھنا… اور اے مالک… شہداء کے مشن کی لاج کا سوال ہے… ہمیں یقین ہے کہ… تجھ پر
بھروسہ کرنے والے ناکام نہیں ہوتے… بس… رحم فرما… اور ہمیں … بس اپنی ذات پر…
توکل… اور بھروسہ عطا فرما۔ آمین یا رب
الشہداء والمجاہدین
شرما جائیں گے
امریکہ نے مجاہدین کے خلاف مسلمانوں
میں سے جاسوس بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے اکتالیس ارب ڈالر کی رقم
مختص کی ہے۔ تین دلچسپ قصوں اور کئی ظریفانہ چٹکلوں پر مشتمل ایک ہنستی ہنساتی مگر
فکر انگیز تحریر۔
)۹جمادی
الا ولیٰ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۶جون
۲۰۰۵ء(
شرما جائیں گے
اللہ تعالیٰ نے آسانی
فرمائی اور ہم ’’کابل‘‘ پہنچ گئے۔ طور خم ٗ جلال آباد ٗ سروبی … اور پل چرخی … ہر
جگہ خوب اکرام اور عمدہ مہمان نوازی ہوئی۔ صدر نجیب کا تختہ الٹا جاچکا تھا… صبغت
اللہ مجددی صدرِ عارضی تھے… ہم نے ایک ہفتہ ’’کابل‘‘ میں قیام کیا… اس دوران کئی
جہادی رہنمائوں سے ملاقات ہوئی… افغان جہاد کے بزرگ ٗ معمرّ ٗ صاحب علم رہنما حضرت
مولوی محمد نبی محمدی ؒکی زیارت کا اشتیاق تھا… اور یہ خوشخبری بھی سنی جارہی تھی
کہ ان کی جماعت … حرکت انقلاب اسلامی افغانستان … دوبارہ متحد ہوچکی ہے… سوویت
یونین کے خلاف جہاد کے دوران یہ بہت طاقتور ٗ مقبول … اور مضبوط جماعت تھی … پھر
اس جماعت کے ساتھ بھی وہ ’’المیہ‘‘ ہوا جو بڑی جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے … مولانا
نصراللہ منصور ؒ نے اپنا دھڑا الگ کرلیا … خود ان کی شخصیت تو بھاری تھی مگر دھڑا
’’بھاری‘‘ نہ ہوسکا… ادھر مولانا ارسلان رحمانی … اور مولوی پیر محمد جیسے مضبوط
کمانڈر … استاد سیاف کی ’’اتحاد اسلامی‘‘ میں پھنس گئے … مگر … مولوی محمد نبی
محمدی … اور ان کی مبارک جماعت ان تمام ’’صدمات‘‘ کو سینہ تان کر سہہ گئی … چنانچہ
… مولوی محمد نبی محمدی اور ان کی جماعت کی اہمیت کسی لمحہ بھی کم نہ ہوئی … اور
بالآخر اسی جماعت کے بابرکت نظام سے ’’تحریک طالبان‘‘ نے وجود پکڑا… قابل رشک
اورحیرتناک بات یہ ہے کہ … مولوی محمد نبی محمدی ؒ نے اپنی جماعت کے ایک چھوٹے سے
کمانڈر … ملا محمد عمر مجاہد … حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ … کی تحریک کو نہ صرف قبول
کرلیا … بلکہ … انہیں اپنا امیر تسلیم کیا اور تادم آخر ان کی حمایت و تائید
فرماتے رہے … جو لوگ افغانستان میں مولوی محمد نبی محمدی ؒکے مقام کو جانتے ہیں ان
کو ’’علم‘‘ ہے کہ اس دور میں یہ ان کا کتنا بڑا کارنامہ ہے … ورنہ … آج کل تو ہر
شخص خود کو ’’امیر جہاد‘‘ کا امیر سمجھتا ہے اور اس سے بیعت علی الجہاد بھی اس لئے
کرتا ہے تاکہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرسکے… مگر ’’بیعت علی الجہاد‘‘ بھی عجیب چیز
ہے جو اس کو رسوا کرتا ہے … خود بھی … رسوائی سے نہیں بچ سکتا… ہاں تو بات چل رہی
تھی ’’سفر کابل‘‘ کی … چند دوستوں نے کوشش
کی اور ملاقات کا وقت طے کرلیا… ہم رات کے وقت ان کی قیام گاہ پر پہنچے … ماشاء
اللہ … اجڑے ہوئے کابل میں یہ محفوظ اور
شاندار عمارت تھی … بتایا گیا کہ … یہ … افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ کا ہیڈ
آفس تھا … کابل پر قبضے کے بعد یہ عمارت ہمارے حصے میں آئی ہے … مولوی محمد نبی
محمدی ؒ … بہت مسرور بیٹھے تھے … خوب گفتگو فرمائی … پشتو اور فارسی کے اشعار بھی
پڑھتے رہے … گفتگو کے دوران ایک ڈبی میں سے سونگھنے والی نسوار نکال کر … اسے ناک
کے نتھنے پر رکھتے اور زور سے سانس اندر کھینچ کر دماغ کو آسودہ کرتے … یقینا وہ
زمانے کے بڑے آدمی تھے… اور اپنے اونچے مقام کے ’’حقدار‘‘ تھے… ہمیں اس ملاقات میں
بہت مزا آیا … اور … یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ … ان کے تمام بچھڑے ہوئے
’’ساتھی‘‘ ان کے اردگرد اس طرح مؤدب بیٹھے تھے جس طرح مدارس کے طلبہ اپنے استاذ
کے سامنے بیٹھتے ہیں … مولانا نصراللہ منصور … مولانا ارسلان رحمانی … اور بہت
سارے قدآور حضرات … مجال ہے مولوی نبی محمدیؒ کی موجودگی میں کوئی بولا ہو … ہاں …
ان کے اٹھنے کے بعد سب ’’بولنے‘‘ لگے… آج کے کالم میں اس ملاقات کی تفصیل بتانا
مقصود نہیں ہے … بلکہ … ایک ’’راز‘‘ کی بات عرض کرنی ہے … مولانا محمد نبی محمدی ؒ
سے مجلس کے بعد ہم نے اس عمارت کا چکر لگایا … عمارت کے منتظم صاحب ہمیں ایک
’’خصوصی‘‘ کمرے میں لے گئے … اس کمرے میں ’’خاد‘‘ کا ریکارڈ رکھا ہوا تھا … انہوں
نے ہمیں چند موٹی موٹی کاپیاں دے کر فرمایا … ان میں ان لوگوں کے نام ہیں جو
مجاہدین … اور عام مسلمانوں میں گھس کر … کمیونسٹوں کیلئے ’’جاسوسی‘‘کرتے تھے … یا
… کمیونسٹوں کیلئے سازگار ماحول بناتے تھے … یا … مجاہدین کو بدنام کرتے تھے … اور
اس کام کے عوض انہیں ماہانہ ’’تنخواہ‘‘ دی جاتی تھی … ہم نے کاپیاں کھولیں تو اس
میں مختلف افراد کے نام ٗ ان کے پتے … اور ان کی تنخواہوں کی تفصیل ٹائپ شدہ موجود
تھی … اکثر لوگ … قبائلی علاقوں کے سردار تھے … جبکہ بعض کے نام کے ساتھ ’’مولوی‘‘
بھی لکھا ہوا تھا … اور ایک پوری ’’کاپی‘‘ پاکستان میں ’’خاد‘‘ کے خدمت گزاروں کے
ناموں کی تھی … یہ منظر دیکھ کر … ہمارے کئی ساتھی بہت جذباتی ہوکر … جہاد کے
مخالفین کو موٹی موٹی سنانے لگے کہ اب پتہ چلا کہ وہ کہاں سے بولتے تھے وغیرہ…
یہ واقعہ ختم … اب دوسرا
واقعہ سنئے … بندہ کو کچھ عرصہ … کشمیر کی ایک ’’جیل‘‘ میں قیام کا شرف حاصل رہا … وہاں موجود مجاہدین نے
ایک دوسرے کی ’’اخلاقی تربیت‘‘ کا نظام بنایا … تفصیل تو بہت لمبی ہے اس لئے بس اصل بات پر اکتفا کرتا ہوں … ایک دن
… اجلاس میں اکثر ساتھیوں نے یہ ’’بل‘‘ پیش کردیا کہ اپنے وارڈ میں سگریٹ پر
پابندی لگا دی جائے … بل پیش کرنے والوں کے دلائل وزنی تھے … اور تعداد زیادہ … ان
کا کہنا تھا کہ سارا دن حفظ ٗ ناظرہ اور درس قرآن کی کلاسیں چلتی ہیں … تسبیحات و
ذکر کا اہتمام ہوتا ہے … کئی ساتھی ’’سگریٹ‘‘ سے تائب ہوچکے ہیں … اب … جو دوچار
افراد پیتے ہیں ان کی وجہ سے تعلیم میں حرج … اور تائبین کو اشتیاق پیدا ہوتا ہے …
وغیرہ … خیر سگریٹ کی بندش کا فیصلہ ہوگیا … ’’دھواں کش‘‘ ساتھی کافی پریشان ہوئے
… ان میں سے ایک نے نہایت جذبات سے کہا … او! جو فیصلے کرنے ہوں کرتے رہو! اللہ
پاک کسی کی روزی اور نشہ بند نہیں کرتا (نعوذ باللہ) سب سگریٹی احباب پریشان تھے
مگر وہ بالکل مطمئن تھا … اللہ کا کرنا دیکھئے کہ اگلے ہی دن … جیل حکام نے آکر
بتایا کہ اس کو دوسری جیل شفٹ کرنے کا حکم نامہ آگیا ہے … میں اس سے ’’الوداعی‘‘ ملاقات کے لئے گیا تو اس نے
… شکریہ اور اظہار محبت کے بعد اپنا ’’قول‘‘ یاد دلایا… وہ جس جیل میں جارہا تھا
وہاں ایسی کسی پابندی یا بندش کا امکان نہیں تھا … اب جاتے جاتے میں اسے کیا
سمجھاتا کہ … دنیا میں بے شک بہت ساری خواہشیں پوری ہوجاتی ہیں … مگر … ہمیں … قرآن
و سنت میں سکھلا دیا گیا ہے کہ … کیا مانگنا ہے اور کیا نہیں؟ … اور کونسی لذت
نعمت ہے … اور کونسی زحمت؟ … اللہ پاک ہم سب کو معاف فرمائے … یہ واقعہ بھی ختم …
اب تیسرا اور آخری واقعہ پڑھ لیجئے … اس واقعہ کے بعد بتائوں گا کہ یہ تین واقعات
کیوں عرض کئے ہیں؟…
آپ نے سنا ہوگا کہ
’’غزوۂ تبوک‘‘ جو ۹ہجری میں پیش آیا تھا … اسلام کا بہت اہم مگر مشکل
’’غزوہ‘‘ تھا … قرآن پاک میں اس غزوے کے کئی ’’مراحل‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے … آپ نے
یہ بھی سن رکھا ہوگا کہ قرآن پاک نے اس ’’جنگی مہم‘‘ میں نہ جانے والے افراد کو
سخت وعیدیں سنائی ہیں … ان آیات کو پڑھ کر انسان لرز کر رہ جاتا ہے … معلوم نہیں
جہاد میں تاویلیں کرنے والے حضرات ان آیات کو کس طرح ’’ہضم‘‘ کرتے ہونگے … آپ نے
یہ بھی سن رکھا ہوگا کہ تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی معقول عذر کے اس ’’غزوہ‘‘
میں نہ جاسکے تھے … انہوں نے … حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر پیش
نہیں کیا … بلکہ … انتہائی ندامت ٗ شرمندگی … اور غم کے ساتھ اپنی غلطی کا اقرار
کرلیا … اور معافی اور توبہ کی درخواست کی … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا معاملہ
اللہ تعالیٰ کے حکم پر مؤخر فرما دیا … اور فیصلہ آنے تک مسلمانوں کو ان تین
حضرات سے ہر طرح کے تعلق کو قطع کرنے کا حکم فرمادیا … یہاں تک کہ … اہل خانہ کو
بھی الگ ہونے کا حکم دیا گیا … حکم پر سوفیصد عمل ہوا … یہ تینوں حضرات … آنسوئوں
کی لڑیاں … ندامت کے غم میں پرو رہے تھے … سب کا ’’قطع تعلق‘‘ برداشت تھا مگر جب آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم بھی چہرہ مبارک پھیر لیتے تو دل پر ایسی بجلیاں گرتیں جن کا تصور
بھی محال ہے… ان کا عشق ’’معمولی عشق‘‘ نہیں تھا … زمین جب سے آباد ہے … صحابہ
کرام جیسا ’’عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘
اس نے نہیں دیکھا … اور دیکھ بھی نہیں سکے گی … کوئی مثال ہو تو دیکھے … ان تین
حضرات میں سے ایک حضرت کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ بھی تھے … خوبصورت ٗ جوان ٗ
بہادر … اور زبردست خطیب و شاعر … سیرت کی مشہور کتاب … سیرت حلبیہ میں سے … ان کے
اس واقعے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے…
’’حضرت کعب رضی
اﷲتعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کی اس جفا اور مجھ سے بے تعلقی کو بہت عرصہ
ہوگیا تو ایک روز میں ابوقتادہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر اندر گیا۔ ابو قتادہ
میرے چچا زاد بھائی ہیں اور مجھے ان سے بے حد محبت ہے… میں نے اندر پہنچ کر ابو
قتادہ کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا … آخر میں
نے ان سے کہا ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم میرے بارے
میں جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے کس قدر محبت کرتا ہوں … ابو قتادہ
خاموش رہے تو میں نے پھر اپنا سوال دہرایا اور پھر ان کو قسم دے کر پوچھا مگر پھر
بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا … تیسری مرتبہ میں نے پھر اپنا سوال دہرایا اور
قسم دی تو انہوں نے صرف اتنا کہا … اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں … یہ
سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے میں وہاں سے واپس مڑا یہاں تک کہ دیوار
پھلانگ کر باہر آگیا … جب میں مدینہ کے بازار میں جارہا تھا کہ ملک شام کے نبطیوں
میں سے ایک نبطی کو دیکھا جو اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لایا تھا اور اسے یہاں
مدینہ میں فروخت کررہا تھا اچانک میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا ’’کوئی شخص مجھے کعب
بن مالک کا پتہ بتاسکتا ہے … یہ سن کر لوگ اس کو میرا پتہ بتانے لگے … یہاں تک کہ
جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے مجھے غسّان کے بادشاہ کا ایک خط دیا … غسّان کا
بادشاہ حارث ابن شمریا جبلہ بن ایہم
(عیسائی) تھا … غرض وہ خط ایک ریشمی کپڑے
میں لپٹا ہوا تھا … میں نے اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا… اس کا مضمون یہ تھا …
میں نے سنا ہے کہ تمہارے
نبی نے تمہیں چھوڑ دیا ہے … مگر یاد رکھو خدا نے تمہیں ذلیل ہونے یا دوسروں کے
واسطے فنا ہونے کے لئے نہیں بنایا ہے … اس لئے تم ہمارے پاس چلے آئو ہم تمہارے غم
خوار و غمگسار ثابت ہونگے!
میں
نے خط پڑھ کر کہا یہ ’’دوسری مصیبت‘‘ ہے اس کے بعد سیدھا چولہے کی طرف گیا اور وہ
خط اس میں جھونک دیا …
یہ واقعہ بھی ختم … ان
تینوں واقعات کا تعلق اس ’’بل‘‘ سے ہے جو امریکی کانگریس میں بحث کے لئے پیش کردیا
گیا ہے … اس بل کا خلاصہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں تعاون کے لئے
’’جاسوس‘‘ بھرتی کرنے کی ضرورت ہے … چنانچہ اکتالیس ارب ڈالر کی رقم منظور کی جائے
تاکہ امریکہ کی خاطر … اپنی قوم کے خلاف ’’جاسوسی‘‘ کرنے والے افراد بھرتی کئے جاسکیں … اس بل کی
وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اب تک ’’جاسوسی‘‘ کا زیادہ انحصار ’’آلات‘‘ پر تھا ٗ
سیارچے ٗ جہاز … اور دیگر آلات ترصُدّ وغیرہ … مگر … ان تمام آلات سے بھی … مطلوبہ
مقاصد … پوری طرح حاصل نہیں ہو رہے … اس لئے ایسے ’’باقاعدہ جاسوسوں‘‘ کی ضرورت ہے
جو امریکہ کی خاطر امریکہ کے دشمنوں میں گھس جائیں … پھر وہاں سے خبریں لائیں …
اور خاص کارروائیاں کریں … بی بی سی والے بتا رہے تھے کہ … جاسوسوں کی یہ بھرتی …
کئی ممالک میں کی جائے گی جن میں سب سے اہم ملک … ’’پاکستان‘‘ ہے …
اب آپ پچھلے تین واقعات
کو سمجھ گئے ہونگے … سوویت یونین نے ہمارے ملک سے ’’جاسوس‘‘ بھرتی کئے … اب …
امریکہ آرہا ہے … اپنے مسلمان بھائیوں کو بیچنے والے ’’مسلمان‘‘ خوش ہونگے کہ اللہ
پاک نے ان کی روزی اور نشے کا پھر بندوبست کردیا ہے … مگر … کچھ غیرتمند مائوں کے
بچے … حضرت کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ … کی طرح … ان ناپاک ڈالروں کو تنور میں
جلا کر اپنی دنیا اور آخرت روشن کریں گے … آج کالم مختصر لکھنے کا ارادہ ہے ورنہ
اس ’’بل‘‘ کے تناظر میں کئی باتیں مچل رہی ہیں … بس صرف ان کی طرف ہلکاسااشارہ…
۱۔
یورپ اور امریکہ کے پجاری ہمیں ہر وقت طعنہ دیتے رہتے ہیں کہ وہ ترقی میں کہاں تک
پہنچ گئے ہیں؟ اب ہم ان سے کہاں لڑ سکتے ہیں؟ ان کے طیارے ایسے ان کے سیارچے ایسے
… وغیرہ وغیرہ … لیجئے اس ’’بل‘‘ نے بتادیا کہ آپ کے محبوب پھر سیارچوں سے
’’انسانوں‘‘ کی طرف واپس آ رہے ہیں … اور ان کے وہ آلات جن کو دیکھ کر آپ کانپتے
ہیں … اب … مجاہدین کے سامنے ناکارہ ثابت ہوکر … خود کانپ رہے ہیں …
۲۔
مجاہدین کو شاباش کہ … کمزور ٗ نہتے اور بکھرے ہوئے … ہونے کے باوجود … ماشاء اللہ
… ان کی یہ شان ہے کہ … پھر … امریکہ کے خزانے سے اکتالیس ارب ڈالر اور نکلوا لئے…
۳۔
مسلمانوں کو تنبیہ کہ … اس عارضی اور فانی دنیا کی خاطر … کافروں کیلئے جاسوسی نہ
کریں … ورنہ … انہیں کے ساتھ قیامت کے دن حشر کا خطرہ ہوگا … اللہ تعالیٰ نے قرآن
پاک میں کافروں کے لئے جاسوسی کرنے سے صاف منع فرمایا ہے … اور اللہ تعالیٰ ایسے
افراد کو ہدایت سے محروم ظالم قرار دیتا ہے جو یہود و نصاریٰ سے یاریاں کرتے ہیں …
ان شاء اللہ موقع ملا تو دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ اس موضوع پر پھر کبھی لکھا
جائے گا…
۴۔
امریکہ کو مشورہ کہ … کیوں اتنے سارے پیسے ایک فضول کام پر خرچ کر رہے ہو؟… ان
پیسوں سے اپنے لوگوں کے لئے ’’شلواریں‘‘ خرید لو… بے چارے نیکر پہن کر پھر رہے ہیں
… مسلمان نہ تو ایٹم بم سے ختم ہوں گے نہ … چند بے غیرت جاسوسوں کی مخبری سے … آپ
لوگ اکتالیس ارب ڈالر خرچ کرکے بھی ایسے ’’نظریاتی افراد‘‘ نہیں بنا سکو گے جیسے
یہ مجاہدین اکتالیس روپے خرچ کئے بغیر بنالیتے ہیں … پھر یہ بھی خطرہ ہے کہ … بے
غیرت لوگ تم سے پیسے بھی کھا جائیں اور تمہارا کام بھی نہ کریں … اس لئے کہ … جو
اپنی قوم کے نہیں بنے وہ تمہارے کیا وفادار بنیں گے … اس لئے سعدی کی مانو تو یہ
اکتالیس ارب ڈالر بچالو … اس سے برگر کھائو … چاکلیٹ چاٹو … اور افغانستان سے تازہ
چرس منگوا کر … اپنے دماغ … اور خیال روشن کرو…
!
ان چار باتوں کے بعد…
خیال جی سے پوچھا کہ اگر امریکہ نے وسیع پیمانے پر … ہمارے ملکوں میں جاسوس بھرتی
کرلئے تو جہاد اور مجاہدین کا کیا بنے گا؟… بہت فکر کی بات ہے… خیال جی نے بے فکری
سے کہا مجھے تو مجاہدین کی کوئی فکر نہیں… ان شاء اﷲ ان کا کچھ بھی… نہیں بگڑے گا…
ہاں مجھے ان تین طبقوں کی فکر ہے… جن کا اس بل سے اصل نقصان ہوگا …
(۱) ایک
ہمارے اسلامی ملکوں کے حکمران… جو بیچارے اس طرح روئیں گے جس طرح لاڈلی بیوی… سوکن
آنے پر روتی ہے اور سِسک سِسک کر خاوند سے پوچھتی ہے سرتاج! میرے اندر کیا کمی
تھی؟ …ہمارے حکمران بھی ان جاسوسوں کو دیکھ کر … امریکہ سے یہی پوچھیںگے…
(۲) امریکی
عوام … جن کے سرمائے کو ان کی حکومت یہودیوں کے اشارے پر… ضائع کر رہی ہے… اور ان
کے بچوں کے منہ کے نوالے… دوسری قوموں کے غداروں اور ضمیر فروشوں کو کھلا رہی ہے…
(۳) تیسرے … امریکہ کو
خدا ماننے والے ہمارے دانشور… یہ حضرات اگرچہ کافی بے شرم واقع ہوئے ہیں لیکن اگر
… آئے دن امریکہ کی ایجنسیاں اسی طرح اپنی ناکامی کا اعتراف کرتی رہیں تو مجھے
خطرہ ہے کہ… یہ حضرات وخواتین… کسی دن ضرور… اپنے نظریات پر… شرماجائیں گے…!
اقامت صلوٰۃ
مہم
الرحمت ٹرسٹ نے اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے
پورے ملک میں اقامت صلوٰۃ مہم چلائی۔ یہ مہم مورخہ یکم جولائی ۲۰۰۵ء کو شروع ہو کر مورخہ ۳۱جولائی ۲۰۰۵ء کو مکمل ہوئی اور
الحمدﷲ ہزاروں مسلمانوں کو اس سے عظیم فائدہ حاصل ہوا۔ رنگ ونور کا کالم اس پوری
مہم کے دوران نماز کی محنت کرنے والے رفقاء کے ساتھ رہا۔ چنانچہ مہم کے چارہفتوں
میں نماز کے مختلف پہلوؤں پر درج ذیل مضامین لکھے گئے۔
)۱( اقامت صلوٰۃ مہم (۲)وقت کی پکار
)۳(بے نمازی بے ہدایت
(۴)ایک
دعاء دس موتی
ان چاروں مضامین کی تعلیم اورمذاکرہ
کا اہتمام کیا جائے تو انشاء اﷲ نماز کا معاملہ درست ہو جاتا ہے جو فلاح وکامیابی
کے لئے ضروری ہے۔
)۱۶جمادی
الا ولیٰ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۳جون
۲۰۰۵ء(
اقامت صلوٰۃ
مہم
دعوت دینے والوں کیلئے چند گذارشات
اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے
’’اقامت صلوٰۃ مہم‘‘ بس شروع ہونے ہی والی ہے… صرف تیرہ دن باقی رہ گئے ہیں… اب تک
جو ’’حالات‘‘ سامنے آرہے ہیں وہ… الحمدﷲ… حوصلہ افزاء ہیں… پنجاب، سرحد، سندھ،
بلوچستان… اور آزاد کشمیر میں جماعتیں بن رہی ہیں … علماء کرام اور حفاظ پر مشتمل
’’مرکزی جماعت‘‘ نے اپنا دورہ شروع کردیا ہے… مرکزی، صوبائی… اور ضلعی ذمہ دار
اپنی نمازوں کو ’’جاندار‘‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں… انہوں نے… حضرت مولانا محمد
منظور نعمانیؒ کی کتاب ’’نماز کی حقیقت‘‘… حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا
کتابچہ ’’نمازیں سنت کے مطابق پڑھئے‘‘ بغور پڑھ لیا ہے… ان دونوں کتابوں کو پڑھنے
کے بعد ان ’’رفقاء کرام‘‘ نے اپنے جو ’’تاثرات‘‘ لکھے ہیں وہ بہت عجیب، دلچسپ اور
ایمان افروز ہیں… ادھر ہفت روزہ ’’القلم‘‘ جولائی کے پہلے ہفتے میں ’’اقامت
صلوٰۃ‘‘ پر اپنا خصوصی شمارہ (نمبر) نکال رہا ہے… سیرت نمبر کی طرح… اقامت صلوٰۃ
نمبربھی چار اضافی صفحات پر مشتمل ہوگا… ان شاء اﷲ… اس خصوصی شمارے میں ملک کے
نامور اہل قلم حضرات نماز کے تقریباہر پہلو پر موتی چنیں گے… معلوم ہوا ہے کہ… یہ
خصوصی شمارہ… ان شاء اﷲ… عمومی تعداد سے پچاس ہزار زائد شائع کیا جائے گا…
امید ہے کہ… قارئین القلم
کو … انشا ء اﷲ… اس نمبر میں درج ذیل عنوانات پر مدلل اور مفید مضامین پڑھنے کو
ملیں گے…
)۱(نماز کے موضوع پر
چالیس احادیث شریف کا مستند اور خوبصورت مجموعہ جو پورے ایک صفحہ پر مشتمل ہوگا
)۲( نماز اور جہاد
)۳( انسانی زندگی پر
نماز کے اثرات
)۴( مسنون نماز
)۵( عاشقوں کی نماز
)۶( نماز میں خشوع
کرنے والے کہاں ہیں؟
)۷( جماعت کے فضائل
واحکام
)۸( ترک نماز پر
وعیدیں
)۹( نماز کے فرائض،
واجبات، سنن ومستحبات
)۱۰( قرآن اور نماز
اور بہت سے مضامین اور افادات…
یہ ’’خصوصی شمارہ‘‘ ابھی
تیاری کے مراحل میں ہے… ہم سب کو چاہئے کہ ہم اس کی کامیابی کیلئے ’’خصوصی دعاء‘‘
کا اہتمام کریں… تب… ان شاء اﷲ اس کارخیر میں ہمارا حصہ اور اجر بھی شامل ہوجائے
گا…
نماز کی اہمیت کے پیش نظر
اس کی دعوت کو کسی ایک مہینے یا ہفتے تک محدود نہیں کیا جاسکتا… یہ دعوت تو ہمیشہ
جاری رہنی چاہئے… مگر اسے منظم کرنے کیلئے یہ ساری ترتیب بنائی جارہی ہے… ہمارے جو
بھائی اور بہنیں اس مبارک ومقدس مہم میں شرکت کرنا چاہتے ہیں… یا … شرکت کیلئے
اپنے نام پیش کرچکے ہیں… آج کے کالم میں… انہی کیلئے چند گذارشات پیش کی جارہی ہیں…
پہلی گذارش
نماز کی اہمیت، حقیقت اور
مقام کو سمجھنے کیلئے درج ذیل اردو کتابیں بے حد مفید ہیں…
)۱( حضرت
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہ کا رسالہ ’’فضائل نماز‘‘ یہ رسالہ
الگ بھی چھپا ہوا ہے اور فضائل اعمال میں بھی شامل ہے… ہر مسلمان مرد اور عورت کو
چاہئے کہ زندگی میں ایک بار … ضرور بضرور… اسے پڑھ لے… اور اگر خود پڑھ نہیں سکتے
تو کسی سے سن لیں… تاکیدی گذارش ہے کہ… اس کا ضرور بضرور فوری اہتمام کیاجائے…
)۲( بندہ کے ناقص
مطالعہ کے مطابق نماز کے موضوع پر… اردو کی سب سے بہترین، نافع، جامع، اور ایمان
افروز کتاب حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نور اﷲ مرقدہ کی ’’ارکان اربعہ‘‘ ہے…
اگر کوئی مسلمان نماز کی اصل حقیقت سمجھنا چاہتا ہے… اور نماز کے بارے میں اپنے
عقیدے اور عمل کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ فوری طور پر اس کتاب کو
پڑھے اور سمجھے… کتاب کا پورا نام اس طرح ہے:
’’ارکان اربعہ…
اسلامی عبادات کتاب وسنت کی روشنی میں تقابلی مطالعہ کے ساتھ‘‘
یہ کتاب مجلس نشریات
اسلام ناظم آباد کراچی نے شائع کی ہے… کتاب میں نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا بیان
ہے… پہلا حصہ نماز کے متعلق ہے… حقیقت یہ ہے کہ … اس کتاب کی خوبی بیان کرنے کیلئے
میرے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں… علماء اور طلبہ بھائیوں کو تو لازماً اس کتاب کو
پڑھ لینا چاہئے… ایک دو راتوں کا کام ہے… اور باقی مسلمان بھی اس کتاب سے محروم نہ
رہیں… میرا تو دل چاہتا ہے کہ… بار بار اس کتاب کو پڑھوں… اگر… دینی ذمہ داریاں نہ
ہوتیں تو یقینا ایسا ضرور کرتا… بے شک… یہ کتاب آخرت کا گھر سنوارنے والا ایک عظیم
الشان تحفہ ہے… اﷲ تعالیٰ حضرت مصنفؒ کو خوب خوب اس کا بدلہ عطا فرمائے…
)۳( اپنی نماز کو …
جاندار بنانے کیلئے ایک اور تحفہ… حضرت مولانا منظور احمد نعمانی صاحب کی مختصر
کتاب ’’نماز کی حقیقت‘‘ ہے… گذشتہ دنوں اپنی جماعت کے تقریباً دو سو ذمہ داروں کو
یہ کتاب مطالعہ کیلئے بھجوائی گئی… اور جماعت کے مرکز کی طرف سے تاکید کی گئی کہ
ہر ساتھی کم از کم دوبار اس کا مطالعہ کرے اور پھر دس سطروں پر مشتمل اپنے تاثرات
لکھ کر بھیجے… ذمہ دار ساتھیوں کے ’’تاثرات‘‘ بندہ کے سامنے ہیں… اور اگر صرف انہی
تاثرات کو شائع کردیا جائے تو ان شاء اﷲ نماز کے بارے میں پھیلی ہوئی بے شمار
کوتاہیوں کا خاتمہ ہوجائے گا… خلاصہ یہ ہے کہ… الحمدﷲ… ہر ساتھی کو اس کتاب سے
’’بے پناہ‘‘ فائدہ ہوا… اور ہر ایک نے خوشی اور تشکر کا اظہار کیا… اور اس بات کا
برملا اعتراف کیا کہ اب وہ اپنی نمازوں میں کافی فرق محسوس کر رہے ہیں… یہ مختصر
سی کتاب چھوٹی تقطیع کے ۱۲۸
صفحات پر مشتمل ہے… یہ کتاب بھی مجلس نشریات اسلام ناظم آباد کراچی نے شائع کی ہے…
)۴( نماز کو سنت کے
مطابق بنانے کیلئے اردو کے کتب خانہ میں اہل حق علماء کرام کی کئی کتب موجود ہیں…
حالیہ مہم کے دوران ہمارے تجربہ کے مطابق حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ
کا کتابچہ ’’نمازیں سنت کے مطابق پڑھئے‘‘ کافی مفید ثابت ہوا ہے… جیبی سائز کا یہ
کتابچہ محض ۳۲
صفحات پر مشتمل ہے اور اسے مکتبہ خلیل اردو بازار لاہور اور ادارۃ المعارف کراچی
نے شائع کیا ہے…
)۵(فرقہ واریت کو ہوا
دینے والے بعض… کم علم لوگ… احناف کی نماز پر انگلی اٹھاتے ہیں… اور… عام مسلمانوں
کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ… نعوذباﷲ… احناف کی نماز سنت کے مطابق نہیں ہے…
حضرا ت علماء کرام نے اس … ’’وسوسے‘‘ کو ختم کرنے کیلئے… ایسی مدلل کتب تحریر فرمادی
ہیں جن میں احناف کی نماز کو… سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت کیا گیا ہے… اس
سلسلے میں زیادہ مفید یہ تین کتابیںہیں…
نماز مدلل… تألیف شیخ
الحدیث حضرت مولانا فیض احمد صاحب ملتانی مدظلہ…
نماز مسنون… تصنیف… شیخ
الحدیث حضرت مولانا صوفی عبدالحمید صاحب سواتی مدظلہ
نماز پیمبر ا … تصنیف…
حضرت مولانا محمد الیاس فیصل صاحب مدینہ منورہ…
)۶(نماز کے مسائل
معلوم کرنے کیلئے درج ذیل کتب عوام وخواص کے لئے مفید ہیں
بہشتی زیور… حضرت حکیم
الامۃ مولانا اشرف علی تھانوی نور اﷲ مرقدہ
علم الفقہ… حضرت مولانا
عبدالشکور صاحب فاروقی لکھنویؒ
اپنی نمازیں درست کیجئے…
افادات حضرت تھانویؒ … ترتیب مولانا اشفاق احمدقاسمی
مکمل ومدلل مسائل نماز
قرآن وحدیث کی روشنی میں تالیف مولانا محمد رفعت قاسمی مدرس دارالعلوم دیو بند… یہ
کتاب … اگرچہ ’’منقول‘‘ ہے مگر کافی جامع اور ضرورت پوری کرنے والی ہے…
نماز کے سو مسائل… حضرت
مولانا مفتی محمد ابراہیم صاحب صادق آبادی مدظلہ…
)۷( نماز سیکھنے
کیلئے… اور ان پڑھ لوگوں اور بچوں کو سکھانے کیلئے بہترین کتاب… حضرت مولانا خیر
محمد جالندھری نوراﷲ مرقدہ کی نماز حنفی ہے… اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب کو بے حد نافع
اور مقبول بنایا ہے… کوشش کریں کہ ہر مسلمان کے پاس جیبی سائز کی یہ چھوٹی سی کتاب
موجود ہو… اسی طرح حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہریؒ کی کتاب ’’آسان
نماز‘‘ بھی بہت مفید اور نافع ہے… اس کتابچے کے آخر میں چالیس مسنون دعائیں بھی
مرقوم ہیں…
نماز چونکہ … دین اسلام
کا اہم ترین فریضہ… اور ستون ہے اس لیے ہر زمانے میں اہل علم… اور اہل دل نے اس
موضوع پر خوب لکھا ہے… اردو کے کتب خانے میں بھی… اس موضوع پر … بہت سی … مفید کتب
موجود ہیں… خود ہم نے … اقامت صلوٰۃ مہم کی تیاری
کے سلسلے میں … کتب خانوں پر نماز کی کتب تلاش کیں تو درجنوں کتابیں مل
گئیں… ان میں سے بعض کتابیں ’’قلم‘‘ سے اور بعض قینچی سے تیار کی گئی ہیں… ویسے
کچھ عرصہ سے ’’قینچی بردار‘‘ مصنفین نے خوب دھوم مچار رکھی ہے… وہ … کتابوں پر
کتابیں تیار کرکے چھاپ دیتے ہیں اور ان کے قلم کی سیاہی کا ایک قطرہ بھی خرچ نہیں
ہوتا… یہ حضرات مختلف کتابوں… اور مضامین سے اپنے کام کی چیزیں ’’کاٹ‘‘ لیتے ہیں…
پھر … ان تمام کو جوڑ کر کتاب تیار کرلیتے ہیں… ان میں سے جو امانتدار ہیں وہ ان
کتابوں کا حوالہ دے دیتے ہیں جن سے انہوں نے مضامین لیے ہوتے ہیں… جبکہ… دوسرے بعض
تو اس کا بھی تکلف نہیں کرتے… دیکھیں یہ سلسلہ کہاں تک جاتا ہے؟… اس بارے میں
ہمارے قارئین کا نظریہ یہ ہونا چاہئے کہ صرف اسی کتاب کو خریدیں… اور پڑھیں جس کی
تصدیق مستند علماء کرام فرمادیں… ہر لکھی ہوئی بات پڑھنے کے لائق نہیں ہوتی… اور
بعض کتابوں کا مطالعہ انسان کے عقائد، اعمال… اور فکر کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے… ہم
نے اقامت صلوٰۃ مہم میں شریک بھائیوں… اور بہنوں کیلئے چند کتابوں کا تعین کردیا
ہے… ان شاء اﷲ… نماز… اور دعوت نماز کے بارے میں یہ چند کتب آپ کیلئے کافی ہوں گی…
ہوسکے تو یہی چند کتابیں خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیں… خود بھی پڑھتے رہیں… اور
گھر والوں کو بھی پڑھاتے رہیں…
دوسری گذارش
کسی بھی دعوت کے مؤثر
ہونے کیلئے اہم ترین شرط یہ ہے کہ… دعوت دینے والا… خود ’’عمل‘‘ کا پکا ہو… اس لیے
سب سے پہلے اپنے عقیدے اور عمل کو اس بارے میں… مضبوط بنا لیجئے جس کا نصاب درج
ذیل ہے:
)۱( قرآن وسنت کے
فرامین پر غور کرکے اپنے دل میں نماز کو وہ مقام دیں… جو … شریعت نے بیان کیا ہے…
تب … آپ اپنی نماز پر تو پختہ ہو ہی جائیں گے… ساتھ یہ کہ آپ جب کسی مسلمان کو بے
نمازی دیکھیں گے تو آپ کے دل میں بہت درد … ہوگا اور بہت فکر اور تڑپ پیدا ہوگی…
)۲( قرآن مجید نے واضح
اعلان کیا ہے کہ… مسلمانوں کے بھائی اور دوست وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو نمازوں کو بھی
قائم رکھتے ہیں (چند اور شرطیں بھی ہیں) اس لیے قرآن پاک کے اس فیصلے پر عمل کرتے
ہوئے صرف انہی افراد سے برادری اور دوستی رکھیں جو نماز کو قائم کرنے والے ہوں… اسی
طرح رشتہ لینے اور دینے کے معاملہ میں بھی اس کا سختی سے لحاظ کریں…
)۳( اپنی نماز کے ظاہر
اور باطن کو درست کرلیں… ظاہر درست کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی ’’تجوید‘‘ بھی
ٹھیک ہو… اس کیلئے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں، بہت شرم کی بات ہے کہ
… مسلمان کو درست تلفظ کے ساتھ قرآن… اور نماز نہ آئے… تجوید کے بعد… اپنی نماز
سنت کے مطابق بنائیں اس کیلئے کتابوں کا نام پہلے عرض کردیا ہے، مزید علماء کرام
سے تعاون لیں… اور پھر اپنی نماز میں جان پیدا کرنے کیلئے ’’خشوع‘‘ کا اہتمام کریں
… خشوع حاصل کرنے کیلئے درج ذیل آسان طریقے ہیں:
٭ ہر نماز کے بعد اس دعاء
کا اہتمام کریں کہ یا اﷲ مجھے نماز میں خشوع عطا فرما اور میری نماز کو اپنی
پسندیدہ نماز بنا۔
٭ وضو، طہارت وغیرہ پورے
آداب کے ساتھ کریں اس سے بھی نماز میں خشوع پیداہوتاہے۔
٭ پوری نماز کا ترجمہ یاد
کریں اس سے بھی توجہ اور خشوع میں مدد ملے گی۔
٭ نماز میں ایک رکن سے
دوسرے رکن جاتے وقت نیت کریں کہ میں اب اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے فلاں رکن میں جا
رہا ہوں… مثلاً میں اﷲ تعالیٰ کیلئے رکوع میں جا رہا ہوں… میں اﷲ تعالیٰ کے لئے
سجد ے میں جا رہا ہوں وغیرہ… مگر تاکید ہے کہ یہ نیت دل سے ہو اگر زبان سے ادا کی
تو نماز ٹوٹ جائے گی… خشوع کا یہ طریقہ ہمارے شیخ حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور اﷲ
مرقدہ کا ارشاد فرمودہ ہے…
٭ پوری نماز میں عموماً
اور سجدہ میں خصوصاً یہ بات یاد رہے کہ میں ایک حقیر اور عاجز بندہ اپنے عظیم رب
اور مالک کے سامنے ہوں…
٭ قرأۃ، تسبیحات، اور
دعاؤں کو ترجمہ کے استحضار کے ساتھ پڑھیں…
٭ اپنا لباس، مقام اور
جسم خوب پاک صاف اور معطر رکھیں…
٭ان چند طریقوں کے علاوہ
اگر آپ اپنی نماز کو مزید جاندار بنانا چاہتے ہیں تو امام غزالیؒ کی کتاب کیمیائے
سعادت کا اردو ترجمہ لے لیں اور اس میں نماز کو جاندار بنانے کا باب خوب توجہ سے
پڑھ لیں… ویسے ہم کوشش کریں گے کہ ان شاء اﷲ… امام غزالیؒ… اور شاہ ولی اﷲ ؒ کے
بعض ضروری ملفوضات کو … اس مضمون کی کسی قسط میں شامل کردیا جائے…
٭اگر آپ کے ذمہ کچھ
نمازیں باقی ہیں… تو ان قضاء نمازوں کو ادا کرنا شروع کردیں… بالغ ہونے کے بعد
نماز فرض ہوجاتی ہے… پانچ فرض نمازیں اور تین رکعت وتر روزانہ … اگر خدانخواستہ
عمر کے کسی حصے میں چند دن غفلت ہوگئی ہو… اور ان دنوں کی نمازیں رہ گئی ہیں تو
روزانہ پانچ فرض نمازیں… اور تین رکعت وتر… ادا کرنا شروع کردیں… اور اس کا سب سے
آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ہر نماز کے ساتھ ایک نماز ادا کرلیا کریں… اور اگر ہمت
ہو تو زیادہ نمازیں بھی ادا کرسکتے ہیں… اگر آپ نے یہ کام شروع کردیا تو یہ حضرت
علی رضی اﷲ عنہ کے بقول توبہ کے قبول ہونے کی علامت ہوگی… اور ساتھ ساتھ آپ کی
دعوت میں بھی جان پڑ جائے گی… ایک بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کا جو وقت بھی نماز میں
گزرے گا وہ ہر گز ضائع نہیں جائے گا… بلکہ… یہ وقت قیمتی بن جائے گا… اور مرنے کے
بعد کے مراحل میں… ہمیں اس وقت کی قدر ومنزلت کا احساس ہوگا… ان شاء اﷲ…
تیسری گذارش
نماز کی دعوت کا آغاز…
اپنے… گھر یعنی اپنے اہل خانہ سے کریں… حضرات انبیاء علیہم السلام اپنے اہل وعیال
کو نماز کی دعوت دیتے تھے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے…
واذکر فی الکتب اسمعیل
انہ کان صادق الوعد وکان رسولاً نبیا۔ وکان یأمر اہلہ بالصلوۃ والزکوٰۃ وکان عند
ربہ مرضیا (مریم ۵۴۔۵۵)
ترجمہ: اور کتاب میں
اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے وہ وعدے کے سچے اور (ہمارے) بھیجے ہوئے
نبی تھے… اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم کرتے تھے اور اپنے
پروردگار کے ہاں پسندیدہ تھے…
اس آیت میں اہل سے مراد
گھر والے (بیوی بچے اور اہل خاندان)… ہیں… جبکہ بعض مفسرین کے نزدیک پوری قوم مراد
ہے… یہاں آیت میں الفاظ ہیں ’’کان یأمر‘‘ … کہ آپ اپنے اہل خانہ کو نماز اور زکوٰۃ
کا ’’حکم‘‘ دیتے تھے… امر یعنی حکم سے مراد یہ ہے کہ پوری قوت، مضبوطی اور سختی کے
ساتھ اپنے گھر میں نماز اور زکوٰۃ کو جاری فرماتے تھے…
قرآن مجید میں دوسری جگہ
اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ اپنے گھر والوں پر نماز نافذ کرنے کی تاکید ہے…
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وأمر أہلک بالصلوٰۃ
واصطبر علیہا لا نسئلک رزقاً نحن نرزقک والعاقبۃ للتقویٰ…(طٰہٰ ۱۳۲)
ترجمہ: اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجئے
اور خود بھی اس کی پابندی کیجئے ہم آپ سے رزق نہیں چاہتے ہم آپ کو رزق دیں گے اور
بہتر انجام پرہیز گاری کا ہے…
اس آیت کریمہ میں بالکل
واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ … خود بھی نماز کی پابندی کیجئے اور اپنے گھروالوں
کو بھی کرائیے… چنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا یہ طریقہ تھا کہ رات کو بمشیت الٰہی
نماز پڑھتے رہتے تھے جب رات کا آخری حصہ رہ جاتا تھا تو اپنے گھر والوں کو جگاتے
تھے اور فرماتے تھے کہ نماز پڑھو ، نماز پڑھو ، اور ساتھ ہی یہ آیت (وأمر اہلک
بالصلوٰۃ) تلاوت کرتے تھے۔ (رواہ مالک فی الموطا فی صلوٰۃ اللیل) حضرت عبداﷲ بن
سلام رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب اپنے گھر میں کوئی
سختی یا تنگی پیش آتی تھی تو انہیں نماز کا حکم دیتے تھے اور آیت کریمہ وأمر اہلک
بالصلوٰۃ تلاوت فرماتے تھے۔ ( روح المعانی)
چنانچہ حدیث شریف میں آیا
ہے کہ اپنے بچوں کو نماز پڑھاؤ جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور مار کر پڑھاؤ جب دس
سال کے ہوجائیں… حضرت عمر رضیﷲ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے گورنروں کو یہ
سرکاری فرمان لکھ کر بھیجا تھا:
’’بلاشبہ میرے نزدیک
تمہارے کاموں میں سب سے بڑھ کر نماز ہے جس نے نماز کی حفاظت کی اور اس کی پابندی
کی وہ اپنے باقی دین کی حفاظت کرے گا۔ اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ اس کے سوا
باقی دین کو اس سے زیادہ ضائع کرے گا۔ ( رواہ مالک فی الموطا) (تفسیر انوار البیان
ص ۱۱۱
ج۶)
خلاصہ یہ ہوا کہ… نماز پر
سب سے پہلے خود کو لانا ہے… اور… پھر اپنے گھر والوں کو… گھر والوں میں زیادہ
تاکید بیوی کیلئے ہے کہ… اسے نماز کا پورا پابند بنایا جائے… ورنہ… تمام اعتماد…
اور معاملات بگڑ جائیں گے… اس کے بعد اولاد… بہن بھائی… دیگر رشتہ دار آتے ہیں…
اور اگر والدین بھی نماز میں کمی یا سستی کرتے ہوں تو ان کی بھی فکر کی جائے…
یقینا وہ شخص بڑا ظالم ہے جو اپنی بیوی سے نفع تو اٹھاتا ہے مگر اسے جہنم کے
خوفناک انگاروں سے بچانے کیلئے فکر اور محنت نہیں کرتا… اس موضوع پر اور بھی بہت
سی قرآنی آیات اور احادیث ہیں ہم نے بطور اشارہ ان دو آیات کو بیان کیا ہے کہ تاکہ
’’دعوت نماز‘‘ اپنی اصل ترتیب پر آجائے…
چوتھی گذارش
ہائے افسوس! کہ امت مسلمہ
نماز سے بہت دور ہو کر… تباہی‘ بربادی…
اور جہنم کے کنارے پر پہنچ چکی ہے… مسلمانوں کی غالب اکثریت تو نماز ادا ہی نہیں
کرتی… خصوصاً… عورتوں میں تو نماز کی چوری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے… چنانچہ … پھر
بے حیائی… منکرات اور پریشانیوں کے دروازے بھی پوری طرح کھل چکے ہیں… غالب اکثریت
کو چھوڑ کر جو دس پندرہ فیصد مسلمان نماز ادا کرتے ہیں… ان میں سے اکثر کی نماز
درست اور جاندار نہیں ہے… کوئی تلاوت غلط کرتا ہے… کوئی طہارت کے مسائل نہیں جانتا
اور ناپاک حالت میں آکھڑا ہوتا ہے… کسی کا لباس پاک نہیں ہوتا… اور کوئی بے توجہی
سے نماز کو ٹرخا تا ہے… پنجاب کے دیہاتی لوگ حقے کی بدبو… اور سرحد کے کئی لوگ
نسوار کی بدبو کے ساتھ مسجد میں آتے ہیں… عورتیں ناخن پالش لگاتی ہیں… پھر نہ وضو
ہوتا ہے اور نہ غسل… نماز بھی ناپاکی میں پڑھتی ہیں… اور اس حالت میں مرجاتی ہیں
تو جنازہ بھی نہیں ہوتا… الغرض… ایک طرف بے نمازی مسلمانوں کا ہجوم ہے تو دوسری
طرف… نمازیوں کی غفلتیں اور کوتاہیاں ہیں… ایسے حالات میں… نماز کی دعوت دینے
والوں کو بہت ’’حکمت‘‘ سے کام لینا پڑے گا… اگر آپ نے شروع ہی سے اونچی باتیں شروع
کردیں… اور امام غزالی ؒ کے فرمودات سنانا شروع کردیئے کہ… بغیر خشوع خضوع والی
نماز… منہ پر ماری جائے گی اور اس سے کچھ فائدہ نہیں ملے گا وغیرہ… تو اس سے کئی
نمازی بھی نماز چھوڑکر بھاگ جائیں گے… اسی طرح اگر آپ نے فوری فتوے بازی شروع کردی
کہ… جو لوگ… عین اور حاء کو اپنے مخرج سے ادا نہیں کرتے ان کی نماز ہی نہیں ہوتی
تو… آپ کی یہ دعوت ’’مساجد‘‘ کو خالی کردے گی… اس لیے بہت ترتیب، فکر… اور حکمت سے
دعوت دیجئے… پہلے تو مسلمان کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھائیے کہ نماز کتنا بڑا فرض
ہے… اور نماز کے بغیر مسلمان ہونے کا دعویٰ پوری طرح سے سچا نہیں ہے… اور بے نمازی
کا حشر کس طرح فرعون، قارون اور ہامان کے ساتھ ہوگا… جب مسلمان کے خون میں یہ
نظریہ دوڑنے لگے کہ… نماز چھوڑنا کافرانہ کام ہے اور کوئی مسلمان ایک نماز چھوڑنے
کا بھی تصور نہیں کرسکتا تو پھر … اگلے مرحلے پر… اس کی نماز کا ظاہر ٹھیک کرائیے…
اور پھر اس کے بعد نماز کو جاندار بنانے کی فکر ڈالیں… اور اپنی دعوت میں اس بات
کا بھرپور خیال رکھیں کہ… نمازی جیسا بھی ہو… بے نمازی سے بہت بہتر ہے… اس لیے…
ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکلے کہ کوئی ’’نمازی‘‘ نماز چھوڑ جائے… اسی طرح … اپنی
دعوت میں ایسے سخت الفاظ بھی استعمال نہ کیجئے جن سے مسلمانوں کی عزت نفس کو ٹھیس
پہنچے… یاد رکھئے… جو آدمی جتنا گناہگار ہوتا ہے… شیطان… اسی قدر اس کو اپنی عزت
اور ناک کی فکر میں مبتلا کردیتا ہے… بلکہ… جو آدمی جتنا ذلیل اور شرمناک گناہ
کرتا ہے… اسی قدر… اسے اپنی ناک اور عزت کا جھوٹا خیال … پیدا ہوجاتا ہے… نماز کا
چھوڑنا… اور نماز میں سستی کرنا ایک کافرانہ گناہ ہے… کوئی مسلمان تو اس طرح کے
گناہ کا تصور بھی نہیں کرسکتا… لیکن… جو مسلمان نماز چھوڑتے ہیں… یا … اس میں سستی
کرتے ہیں… وہ… اپنے آپ کو بہت ناک والا… عزت والا سمجھتے ہیں… اس لیے انہیں نرمی،
محبت، اکرام، فکر… اور درد کے ساتھ دعوت دینے کی ضرورت ہے… اگر آپ نے… ان پر سختی
کی تو وہ بھڑک جائیں گے… اور کہیں گے… فلاں مولوی یوں کرتا ہے… فلاں عالم ایسا
کرتا ہے… تب وہ نماز… اور نمازیوں کو بھی گالیاں دے کر… ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں
گے… بس اے میرے عزیز بھائیو!… اور عزیز بہنو!… نرمی… محبت… اور درد کے ساتھ دعوت
دو… ایک شخص نے خواب دیکھا کہ… رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک آنکھیں دُکھ رہی
ہیں… کسی عالم نے تعبیر بتائی کہ… نماز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کی
ٹھنڈک ہے… امت مسلمہ نے نماز چھوڑی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آنکھوں میں
(نعوذباﷲ) تکلیف پہنچی… آج… امت مسلمہ نے … نماز جیسا الٰہی تحفہ… آسمانی تحفہ
ضائع کردیا ہے… حکمران بے نمازی … قوم کے لیڈر بے نمازی… دانشور بے نمازی… قانون
نافذ کرنے والے بے نمازی… اور حد یہ کہ… اپنے اس شرمناک جرم پر ندامت کا نام تک
نہیں… بلکہ بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ… وقت مل جائے تو پڑھ لیتے ہیں… مگر کیا کریں
وقت ہی نہیں ملتا… یہ بے نمازی لوگ کبھی اسلام اور مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں
ہوسکتے… یہ اپنے ماتحتوں کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں…مگر… جب … اﷲ پاک انہیں نماز
کیلئے بلاتا ہے تو یہ… اس کی نافرمانی کرتے ہیں… انہوں نے قوم کو… سولی پر لٹکادیا
ہے… ادھر قوم بھی بے نمازی… اور نمازیوں کی نمازیں… بے جان… تب … آسمان سے کس
کیلئے نصرت اترے؟… بس … اے مجاہدینِ اسلام! اپنی نمازیں… پوری کرو… درست کرو…
جاندار بناؤ… پھر اپنے گھروں میں رور و کر … بلک بلک کر … تڑپ تڑپ کر… نماز کی
دعوت دو… اور پھر … گلی گلی کوچہ کوچہ … پھیل جاؤ… اے مسلمانو! نماز ادا کرو… اے
مسلمانو! نماز ادا کرو…
وقت کی پکار
اﷲ تعالیٰ ’’اقامتِ صلوٰۃ
مہم‘‘ کو مزید کامیابی اور قبولیت عطاء فرمائے… الحمدﷲ اب یہ مہم ’’یکم جولائی‘‘
سے اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہورہی ہے… ماشاء اﷲ خوب جوش اور رغبت کے مناظر
دکھائی دے رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ ان تمام خواتین وحضرات کو خوب خوب … بہترین بدلہ عطاء
فرمائے جو اس ’’مقدس مہم‘‘ میں حصہ لے رہے ہیں… میرا ارادہ ہے کہ ان شاء اﷲ… مسلسل
دو تین کالم اس موضوع پر لکھے جائیں… تاکہ اس مہم میں باقاعدہ شرکت رہے… یہ ارادہ
اپنی جگہ… مگر… ہمارے گرد وپیش ایسے حالات تیزی سے کروٹیں لے رہے ہیں… جن پر …
لکھنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے… ہمارا نیا پڑوسی افغانستان… امریکی بٹن دبانے کی
وجہ سے چیخ رہا ہے کہ… افغانستان میں بد امنی کے ذمہ دار پاکستانی مجاہدین اور ان
کی تنظیمیں ہیں… سنا ہے کہ… کابل کی مضبوط، عوامی اور شاندار حکومت نے… حکومت
پاکستان کو… ان افراد کی فہرست دی ہے جو اس کے بقول افغانستان میں ’’کاروائیاں‘‘
کروا رہے ہیں… اور صدر کرزئی نے حکم بھیجا ہے کہ …ان افراد کے خلاف فوری کارروائی
کی جائے… بات بہت معمولی سی تھی… مگر… کرزئی نام کے ٹیپ ریکارڈر سے جو آواز آتی ہے
وہ ’’امریکی کیسٹ‘‘ کی ہوتی ہے… اس لیے اسلام آباد پر لرزہ طاری ہے… وہ کرزئی جس
کی کابل میں کوئی نہیں سنتا… اسلام آباد کو ’’دھمکا‘‘ رہا ہے… یا اﷲ یہ دن بھی
پاکستان نے دیکھنے تھے… دل چاہتا ہے کہ… گذشتہ پندرہ سال کی تاریخ کاغذ پر انڈیل
دوں کہ… کتنے افغانی پاکستان تشریف لائے؟… کتنوں نے یہاں قیام فرمایا؟… کس کس
تنظیم (جہادی تنظیموں کے علاوہ) کے یہاں دفاتر تھے؟… کتنے قتل اور بم دھماکے
ہوئے؟… خود کرزئی کے خاندان کو سر چھپانے کی جگہ کہاں ملی؟… طالبان کی مقدس تحریک
کو ختم کرنے کیلئے… کرزئی نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چھپ چھپ کر … کیا ڈرامے
کئے؟… ہاں وہ سب کچھ جائز تھا… مگر… اب اس بات پر اعتراض ہے کہ… چند طالبان
پاکستان میں کیوں موجود ہیں؟… اگر طالبان سارے پاکستان میں ہیں تو پھر… صدر کرزئی
افغانستان میں مستحکم حکومت قائم کیوں نہیں کرلیتے؟… اگر طالبان پاکستان سے جاکر
کاروائیاں کرتے ہیں تو… امریکی، اتحادی … اورافغان فوجی بارڈر پر کیا جھک مار رہے
ہیں؟… امریکہ کے جاسوس طیارے کیوں اندھے ہوجاتے ہیں؟… امریکی گائیڈڈ میزائل کیوں
اتنے بے بس ہوگئے ہیں؟… دراصل امریکہ اور اس کے حواری پاکستان میں وسیع ترین خانہ
جنگی کی جو آگ بھڑکانا چاہتے ہیں… اس میں انہیں… پوری طرح کامیابی نہیں ملی… وزیرستان
کے شعلے بجھ گئے… بلوچستان کی آگ قدرے ٹھنڈی ہوگئی… اب پھر… حکومت پر دباؤ ہے کہ…
مجاہدین کے خلاف کارروائی کرے… نوجوانوں کو بے گھر کرے… عقوبت خانوں اور جیلوں کو
آباد کرے تاکہ… وہاں… نئی تنظیمیں جنم لے سکیں… اور بالآخر… تنگ آیا ہوا دینی
طبقہ… اٹھ کھڑا ہو… حکومت میں تو خانہ جنگی کی خواہش رکھنے والے کئی افراد پہلے سے
موجود ہیں… بس اﷲ تعالیٰ ہی خیر فرمائے… موسم ’’صاف‘‘ نظر نہیں آرہا… مسلمان
کہلانے والے… اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن… اور آپریشن کی تیاری کر
رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ کو ’’وحدہ لاشریک لہ‘‘ ماننے والوں کو ڈرنے، گھبرانے… اور
پریشان ہونے کی ضروت نہیںہے… گرمی سردی … رات دن آتے جاتے رہتے ہیں… دنیا کی
خوشیوں کی طرح… یہاں کے دکھ بھی عارضی ہیں… ایمان ہی اصل نعمت ہے… اور مرنے کے
بعد… پھر ’’زندگی‘‘ ہے… ہاں وہ لوگ ضرور ڈریں… گھبرائیں… اور پچھتائیں جو کافروں
کو خوش کرنے کیلئے… اﷲ تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں … اور غیروں کی خاطر… اپنے مسلمان
بھائیوں کو ستانے کا جرم کرتے ہیں… انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ … یوم حساب زیادہ دور
نہیں ہے… اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام، قرآن، جہاد… اور مجاہدین کسی حال
میں بھی ختم نہیں ہوسکتے… ان پر اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ ہے… اور اﷲ تعالیٰ کا مقابلہ…
نہ امریکہ کرسکتا ہے اور نہ اس کے ایجنٹ … بہرحال یہ طویل موضوع ہے… آج … اس پر
تفصیل سے لکھنا ممکن نہیں ہے… ادھر ہمارے وزیر اطلاعات شیخ رشید صاحب سری نگر جانے
کیلئے… ’’بِن بُلائے‘‘بے تاب ہیں… مگر… یسین ملک صاحب نے ’’خچ‘‘ ماردی… اب شیخ
صاحب … اپنے ماضی کے گناہوں پر شرمندہ ہیں… مگر… ہندو مشرک ان کی توبہ قبول ہی
نہیں کر رہے… شیخ صاحب نے اپنی ’’پاکی‘‘ بیان کرنے کیلئے دلائل کے انبار لگادئیے
ہیں… ابھی کل ہی فرمایا ہے کہ … ہم مکتی باہنی (مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی
تنظیم) کو بھول جاتے ہیں آپ ’’ہمارے کیمپ‘‘ بھلادیں… یہ بیان بہت عجیب … اور
’’ستمگر‘‘ ہے… گویا کہ ایک دورے کی خاطر… ’’مکتی باہنی‘‘ کی ظالم تحریک، ہزاروں
شہداء… ملک کا بٹوارہ… اور آدھا پاکستان… ہم سب کچھ بھلا دیں گے… انا ﷲ و اناالیہ
راجعون… شیخ صاحب کا کیمپ تھا یا نہیں؟… اس بارے میں … مجھ جیسا چشم دید دوست بہت
کچھ لکھ سکتا ہے… مگر… اس کی ضرورت نہیں ہے… جب شیخ صاحب فرمارہے ہیں کہ… کیمپ
نہیں تھا تو بس بات ختم… کیمپ بالکل نہیں ہوگا… ہاں… بس دل میں ایک کانٹا بار بار
چبھتا ہے… شیخ صاحب کی تو بہ … اگر… بھارتی مشرکوں نے قبول کرلی… شیخ صاحب… بھارتی
بس پر بیٹھ کر… سری نگر جا پہنچے… لال چوک پر… ان کا استقبال ہوا… پھر شیخ صاحب…
لمبے جلوس کے ساتھ مزار شہداء کے قریب سے گزرے… اچانک… کسی قبر سے زور دار آواز
آئی… شیخ صاحب! السلام علیکم… میں بھی فریڈم ہاؤس؟؟؟ … چلیں چھوڑیں اس بات کو…
آئیے دعاء کرتے ہیں کہ … اﷲ پاک ہم سب کو دنیا کی رسوائی… اور آخرت کے عذاب سے
بچائے… اور شہداء کے پاکیزہ خون کی آہ… ہمیں نہ لگے… آمین… یا رب العالمین… میرا
ارادہ اس موضوع پر پورا کالم لکھنے کا تھا… مگر… ایسا نہ ہوسکا…
پاکستان میں مغرب زدہ
’’این جی اوز‘‘ کے پھنکارتے عفریت پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے… یہ لوگ… یورپ اور
امریکا کی ہوا سے … غباروں کی طرح پھول رہے ہیں… پہلے مخلوط میرا تھن… اور اب
بیچاری مختاراں مائی… این جی اوز کس طرح سے… باپردہ بیٹیوں کو… شمع محفل بناتی
ہیں… اور کس طرح سے مسلمانوں کی رسوائی کا سامان کیا جاتا ہے… یہ بہت دردناک
داستان ہے… یقینا… ان حالات کو دیکھ کر دل روتا ہے… ہاں ایک بات… ہنسی والی بھی
ہے… ہماری این جی اوز… مختاراں مائی کو… امریکہ کے ایسے پاکیزہ… اور مقدس ماحول
میں… لے جارہی تھیں… جہاں… کوئی آدمی کسی غیر محرم پر غلط نظر تک نہیں اٹھاتا…
جہاں… ہر مرد اور ہر عورت… نو سال کی عمر سے… پاکدامن بننا شروع کردیتے ہیں… جہاں
نہ کوئی کلنٹن ہوتا ہے نہ مونیکا لیونسکی… پھر جب… کسی سیمینار میں مختاراں مائی
بتاتی کہ … میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو پورا مجمع حیران رہ جاتا … اور مجمع میں
بیٹھی ہوئی ’’پاکدامن‘‘ گوریاں اپنے بوائے فرینڈز کے گلے لگ کر… رونا شروع
کردیتیں… اﷲ تعالیٰ… مسلمانوں کی … ان مغرب زدہ این جی اوز سے حفاظت فرمائے…
ادھر کل ہی کراچی میں…
معروف عالم دین… صاحب تحریر وتقریر… شیخ الحدیث مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحبؒ کو…
شہید کردیا گیا ہے… آج عصر کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ ہے… اﷲ تعالیٰ ان کے
درجات بلند فرمائے… اور ان کے پسماندگان کے زخمی قلوب پر صبر وسکینۃ نازل فرمائے…
حضرت مفتی صاحبؒ کی شہادت… ایک … ملی سانحہ ہے… اناﷲ و انا الیہ راجعون… ہم … خود
غمزدہ ہیں… اور جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی… کے عمائدین، طلبہ کرام… اور مفتی صاحبؒ
کے لواحقین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں… اﷲ تعالیٰ مفتی صاحب کے قاتلوں کو
تباہ وبرباد فرمائے… ادھر چند دن پہلے… ہمارے محبوب دوست، متقی عالم دین، نوجوانوں
کیلئے تقویٰ وطہارت کی مثال… مولانا محمد عامر صاحبؒ ایک سڑک حادثہ میں شہید
ہوگئے… مولانا مرحوم… فقیہ العصر حضرت اقدس مولانا مفتی رشید احمد صاحب نور اﷲ
مرقدہ… کے خاص فیض یافتہ شاگرد… اور مرید تھے… ان کا بچپن حضرت فقیہ العصرؒ کی
پاکیزہ… اور کیمیا اثر صحبت میں جوان ہوا… اور ان پر … دین، علم اور جہاد کا ایسا
رنگ چڑھا کہ چھوٹی سی عمر میں… بلند پایہ عالم دین، مجاہد… اور مدرس بن گئے…
دیکھنے والے جانتے ہیں کہ… ان کے چہرے پر… ایک ایسا نور تھاجس پر آنکھیں نہیں ٹکتی
تھیں… اور ایک ایسا بھولپن تھا جس سے معصومیت چھلکتی تھی… کراچی کے ایک ’’مالدار
گھرانے‘‘ سے تعلق رکھتے تھے مگر مال کی آلائشوں سے… ماشاء اﷲ… پاک رہے… مجھے اچھی
طرح یاد ہے کہ… چند سال پہلے… کراچی میں ان کے والد صاحب نے… ان کی موجودگی میں
فرمایا… اسے دنیا کی بالکل سمجھ نہیں ہے… مجھے یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی … میں نے
عرض کیا… مبارک ہو! یہ تو بہت اعلیٰ اور انمول صفت ہے… وہ فرمانے لگے… نہیں کچھ نہ
کچھ تو دنیا کی خبر ہونی چاہئے… آخر اس میں رہنا ہے، آپ اس کے لئے دعا کریں… میں
دعا کیا کرتا رشک میں مبتلا ہوگیا… اس امت کا فتنہ ہی ’’مال‘‘ ہے… اور جسے اﷲ پاک
اس ’’فتنے‘‘ کی آلائشوں سے دور رکھے… اس کے … کامیاب ہونے میں کیا شبہ ہے… مولانا
عامر صاحب نوراﷲ مرقدہ… جوانی ہی میں… اس دنیا کو چھوڑ گئے… جس کی ان کو سمجھ نہیں
تھی… اور اس آخرت کی طرف روانہ ہوگئے… جسے وہ خوب سمجھتے تھے… خوب مانتے تھے… اور
اسی کی فکر اور تیاری نے انہیں دنیا سے غافل کر رکھا تھا … ان کی جدائی کا درد…
سیدھا دل پر جگہ پکڑ تا ہے… مگر… صبر بہترین ’’متبادل‘‘ ہے… اﷲ پاک ان کے ’’جملہ‘‘
پسماندگان … تلامذہ… اساتذہ… اور احباب کو صبر جمیل عطاء فرمائے…
آئیے اب اپنے اصل موضوع
یعنی ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ کی طرف آتے ہیں…
قرآن پاک نے نماز کی
اہمیت خوب تفصیل سے بیان کی ہے… اور ایسی زبردست راز کی باتیں بتائی ہیں… جن پر
عمل کرنے سے… دنیا وآخرت کے بے شمار مسائل حل ہوجاتے ہیں… قرآن پاک نے کتنی آیات
میں ’’نماز‘‘ کو بیان کیا ہے؟… یہ ایک تحقیق طلب اور مشکل سوال ہے… حضرت مولانا محمد
منظور احمد نعمانی صاحب لکھتے ہیں…
’’خود میری نظر سے
تو نہیں گذرا لیکن اپنے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ شاہ رفیع الدین دہلویؒ نے اپنے
کسی رسالہ میں لکھا ہے کہ نماز کی اہمیت اور فضیلت قرآن مجید میں مختلف عنوانات سے
کہیں اشارۃً اور کہیں صراحۃً قریباً سات سو جگہ ذکر کی گئی ہے اور ننانوے آیتیں تو
نماز کی ترغیب وتاکید اور اس کی فضیلت واہمیت کے متعلق مولانا عبدالشکور صاحب
لکھنوی مدظلہ نے بھی اپنے رسالہ کتاب الصلوٰۃ میں جمع کردی ہیں‘‘… (نماز کی حقیقت
ص۲۰)
حضرت مولانا کی یہ عبارت
پڑھ کر… بندہ نے کوشش کی کہ وہ کتابیں مل جائیں جن کا اس عبارت میں تذکرہ ہے…
تاکہ… نماز کے بارے میں ’’قرآنی ہدایات‘‘ کا یکجا گلدستہ دیکھنے، پڑھنے، سمجھنے…
اور برتنے کی توفیق ملے… مگر دونوں کتابیں نہ مل سکیں… تب … اﷲ تعالیٰ کے بھروسے
پر خود آیات صلوٰۃ … یعنی نماز کے متعلق آیات کی گنتی شروع کی… ابتداء میں اﷲ
تعالیٰ کی ایسی نصرت رہی کہ… قرآن پاک کھلتا چلا گیا… اور امید ہوگئی کہ… ان شاء
اﷲ… نمازکی آیات جلد جمع ہوجائیں گی… اور اقامت صلوٰۃ مہم شروع ہونے سے پہلے… ان
کا مجموعہ … ان شاء اﷲ… رفقاء کرام کے ہاتھ میں ہوگا… مگر… اﷲ تعالیٰ کی تقدیر
غالب ہے… اور بندہ بے حد کمزور … کام نے جب رفتار پکڑی تو اچانک صحت نے جواب دے
دیا… اب دیکھیں… یہ کام میری قسمت میں ہے یا نہیں؟… قارئین کرام دعاء فرمادیں تو
بہت ممکن ہے کہ… اﷲ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوجائے… ویسے… اس کام کا ’’نقش اول‘‘
تیار ہے… یہ بات میں نے اس لیے لکھ دی کہ … ممکن ہے اسے پڑھ کر… کوئی جید عالم دین
اس کام کے لئے کمر باندھے… اور امت مسلمہ پر احسان ہوجائے… آیات صلوٰۃ پر کام کرتے
وقت… مجھے بار بار چونکنا پڑا کہ… ہمارے کتنے اہم مسائل کا حل … بالکل وضاحت سے
بتادیا گیا ہے … مگر ہم اس سے غافل ہیں… اور اب حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ …
ہماری مسجدیں نمازیوں سے … اور ہماری نمازیں ’’خشوع‘‘ سے خالی ہوتی جارہی ہیں… آپ
حیران ہوں گے کہ … ہم نے … نماز کے ساتھ بھی ’’جہاد‘‘ کی طرح کافی زیادتی کی ہے…
بہت سارے دین کے خادموں… اور اسکالروں تک کو سورۃ فاتحہ… اور التحیات درست پڑھنا
نہیں آتی… اور افسوس اس پر ہے کہ … ان بنیادی امور کو … ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے…
اور دین صرف … قیل وقال… اور تحریکی اٹھک بیٹھک بن کر رہ گیا ہے… دینی سیاسی
جماعتیں… جہاد کی طرح … نماز سے بھی ہاتھ دھو رہی ہیں… اہم عہدوں پر متمکن کارکن…
نماز کے ساتھ ’’سوتیلا سلوک‘‘ کرتے ہیں… اور مجمع میں اذان… اور جماعت قائم کرنے
سے شرماتے ہیں… دوسری طرف… قرآن کا اعلان ہے کہ … خلافت اسی جماعت کے ذریعہ قائم
ہوگی… جو نماز کو پوری طرح قائم کرنے والی ہو… اس کے علاوہ چند اور شرائط بھی ہیں…
جن کا تذکرہ … وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے… آج … قرآن پاک سے نماز کی دعوت سمجھ کر
… اسے امت مسلمہ تک پہنچانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ … حالات کی خرابی نے …
مجاہدین کو … میدان سے… مصلے کی طرف موڑ دیا ہے… الحمدﷲ… ماضی میں بھی… جہاد کے ساتھ
ساتھ اقامت صلوٰۃ… اور پورے دین کی دعوت چلتی رہی …اور ’’دورہ اساسیہ‘‘ کے ذریعے…
علم دین کے ساتھ رشتہ بھی… استوار رہا… دورہ تربیہ کے ذریعہ… تزکیہ، اور احسان کا
نور سمیٹنے کی کوشش… بحمداﷲ جاری رہی… اور … ماشاء اﷲ … جاری ہے…
دین کے کسی بھی شعبہ کے
بارے میں… افراط اورتفریط… الحاد کا دروازہ ہے… دین پورا… نازل ہوا ہے… اور پورا …
محفوظ ہے… اور کامیابی… پورے دین میں ہے… الحمدﷲ … یہ اصول … ہمیشہ … دل کا عقیدہ
رہا ہے… ہاں… ہم لوگوں نے … جہاد کی دعوت پر زیادہ توجہ دی … اور اس کی وجہ بالکل
واضح ہے کہ … اسلام دشمنوں نے اس دعوت کو مٹانے کیلئے… ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا
تھا… اور… عقیدہ جہاد پر… تحریفات اور تاویلات کی خوفناک بوچھاڑ تھی… اور تو اور …
ایک اہم اسلامی فرض … کو … گلی محلے کا ایک عام لفظ بنادیا گیا تھا… اور رشوت خور
پولیس والے بھی بے دھڑک کہہ دیا کرتے تھے کہ… اجی ہم بھی ڈیوٹی دیکر جہاد کر رہے
ہیں… مرزا قادیانی کی مکروہ تحریک … کے پیچھے سارا عالم کفر کھڑا تھا… اور خالص
جہاد کی بات … عنقاء ہوتی جارہی تھی… تب… ضرورت تھی کہ … جہاد کو… قرآن پاک کا
سہارا دیا جائے… اور جہاد کے مخالفوں کو … معترض کے اسٹیج سے اتار کر… ملزم کے
کٹہرے میں لایا جائے… اﷲ پاک ہی بہتر جانتا ہے کہ … یہ کوشش کامیاب ہوئی یا نہیں؟…
بہرحال … جہاد کے داعیوں نے ہمت نہیں ہاری… اور الحمدﷲ امت مسلمہ کے ایک بڑے طبقے
تک… فریضہ ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کی ملاوٹ سے پاک دعوت پہنچ گئی… اور یہ دعوت…
الحمدﷲ … آج بھی جاری ہے… اور ان شاء اﷲ تاقیامت جاری رہے گی… آج میں … جب مختلف
زبانوں میں… جہاد کا خالص لٹریچر… اور جہاد کی قرآنی آیات کا ترجمہ دیکھتا ہوں تو
دل سے… شکر ادا ہوتا ہے… اﷲ پاک ’’دعوت جہاد‘‘ کو مزید قوت، قبولیت اورترقی عطاء
فرمائے… عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ … اقامت صلوٰۃ کی موجودہ مہم خود… وقت کا تقاضا
… اور زمانے کی پکار ہے… جس کی طرف … اﷲ تعالیٰ نے اپنے کمزور بندوں کو متوجہ فرما
کر… ایک احسان عظیم فرمایا ہے… اس مہم کا مقصد… نہ تو… جہاد کی دعوت سے گریز ہے…
اور نہ خود کو قابل قبول بنانے … کا کوئی حیلہ… ہم … اسلام کے دشمنوں کیلئے… قابل
قبول بننا ہی نہیں چاہتے… الحمدﷲ … ہمارے سینے… ان کے سینوں کے نہیں… گولیوں کے
مشتاق رہتے ہیں… ہاں… قرآن پاک نے ہمیں… نماز… اور دعوت نماز کیلئے پکارا تو…
لبیک… لبیک… قرآن پاک نے ہمیں سمجھایا ہے کہ… بغیر نماز کے ہدایت نہیں مل سکتی… تو
ہمیں … اس بات پر پختہ یقین ہے… بے شک… نماز کو پوری طرح قائم کیے بغیر… ہدایت
نہیں ملتی… اور بے نمازی… قرآن پاک کی ہدایت کا نور نہیں پاسکتے… قرآن پاک نے ہمیں
سمجھایا ہے کہ… نماز قائم کیے بغیر فلاح اور کامیابی نہیں مل سکتی… قرآن پاک نے
ہمیں بتایا ہے کہ … نماز قائم کیے بغیر … اﷲ پاک کی نصرت نہیں آتی… قرآن پاک نے
ہمیں بتایا ہے کہ… منافق جہاد کی طرح نماز میں بھی سستی کرتا ہے… ہاں… میرے
بھائیو!… اور بہنو… قرآن پاک نماز کی طرف… بلا رہا ہے… بار بار… بلا رہا ہے… وہ
دیکھو… مظلوم قرآن … ظلم سہہ کر بھی ہمیں… عظمت کی راہیں دکھا رہا ہے… وہ دیکھو…
دنیا کے نہ چاہنے کے باوجود… کچی مسجد کے میناروں سے … آواز آرہی ہے… حیّ علی
الصلوٰۃ… آؤ نماز کی طرف… حیّ علی الفلاح…آؤ… فلاح… اور کامیابی کی طرف… جی ہاں رب
تعالیٰ بلا رہے ہیں… موذن ہمارے رب کا منادی ہے… ہاں… اﷲ کی قسم ہاں… ہمارا رب
ہمیں بلا رہا ہے… خوبصورت قیام… حسین رکوع… اور دلکش سجدے کی طرف… ہاں ہاں… بلا
رہا ہے… عظیم رب… اپنے حقیر بندوں کو… جی ہاں… بلا رہا ہے… باتیں سننے کیلئے …
باتیں کرنے کیلئے… جھولیاں بھرنے کیلئے… اور محبت اور قرب کا شربت پلانے کیلئے… اے
غمزدہ… مسلمانو! اور کیا چاہئے… آؤ… دوڑیں… اپنے عظیم رب کی طرف … اور دوسرے
مسلمانوں کو بھی ساتھ لے جائیں… لبیک… لبیک …ہم حاضر ہیں یا اﷲ… ہم آگئے… ہم تیرے
بن گئے… صرف تیرے… اب تو بھی … ہمارا بن جا…
بے نمازی بے ہدایت
اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے…
آج ہم اپنی مجلس کا آغاز… اس مبارک دعا سے کرتے ہیں… جو … حضرت ابراہیم علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے… اپنے لیے… اور اپنی اولاد کے لئے… بہت خاص مقام پر… بہت خاص
وقت میں… مانگی تھی… اور وہ دعا قبول ہوگئی… خود سوچئے کتنی اعلیٰ، اونچی اور ضروری
دعا ہوگی… آئیے… میں بھی مانگوں اور آپ بھی مانگیں… آج جمعۃ المبارک کا دن ہے…
ممکن ہے قبولیت والی گھڑی بھی ہو… آئیے دل کو فانی دنیا سے توڑیں… اوپر… بہت اوپر
عرش سے جوڑیں… الحمدﷲ رب العالمین… پڑھ کر حمد سے آغاز کریں… پھر … اللہم صل علیٰ
سیدنا محمد… صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم… درود شریف پڑھ کر… دعاء کے… اوپر
جانے کا ’’ویزہ‘‘ حاصل کریں… اور پھر دل اور زبان کو ملا کر مانگیں…
رَبِّ اجْعَلْنِیْ
مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ
رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ
دُعَآءo
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ
وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔
)سورہ ابراہیم ۴۰۔۴۱(
ترجمہ: ’’اے میرے
پروردگار مجھے نماز قائم کرنے والا رکھیے اور میری اولاد میں سے (نماز قائم کرنے
والے بنائیے) اور میری دعاء قبول فرمائیے… اے ہمارے رب میری مغفرت فرمائیے اور
میرے والدین کی اور مومنین کی، جس دن حساب قائم ہوگا‘‘…
اﷲ پاک اس دعاء کو قبول
فرمالے… اور ہمیں اور ہماری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنادے… حضرت ابراہیم
علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت اونچے… نبی اور رسول تھے… وہ ’’خلیل اﷲ‘‘ تھے… وہ
’’ابوالانبیاء‘‘ تھے… ان کی اس ’’دعاء‘‘ سے ’’اقامت الصلوٰۃ‘‘ کی اہمیت معلوم
ہوگئی… جب … ان جیسے نبی اور خلیل اﷲ کو … نماز کی ضرورت تھی… تو پھر… اور کون ہے
جو بغیر نماز کے… کچھ پاسکے؟… دین کے کام جتنے بڑے، کٹھن… اور عظیم الشان کیوں نہ
ہوں… لیکن … اگر ان کے ساتھ… نماز کا پورا اہتمام نہ ہوتو … سب کچھ… ضائع جانے کا
پورا خدشہ ہے… اس لیے… نہ نبی کو نماز معاف ہے… نہ صدیق کو … نہ مجاہد کو… اور نہ
داعی کو… ایک نماز تو درکنار… نماز کا ایک سجدہ بھی معاف نہیں… کیونکہ… نماز ہے تو
پورا دین ہے… ورنہ … صرف نام ہے… کام کچھ نہیں… ہم نے… آج کی مجلس کا آغاز اس
مبارک دعا سے کیا… امید ہے کہ… آپ نے بھی دل اور زبان سے یہ دعاء مانگ لی ہوگی… اﷲ
کرے… یہ دعاء میرا اور آپ کا ’’حال‘‘ بن جائے… اور نماز… ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بن
جائے … اب آئیے ان ’’وجوہات‘‘… اور اسباب کی طرف… جن کو مدنظر رکھ کر ہم یہ دعاء
تڑپ تڑپ کر مانگتے ہیں…
(۱) بے نمازی بے ہدایت
ہدایت… یعنی ایمان اور
اسلام کا رستہ نصیب ہوجانا… یہ سب سے بڑی نعمت ہے… اگر کسی انسان کو دنیا بھر کی
بادشاہت مل جائے مگر ہدایت نہ ملے تو… ایسے بدنصیب انسان سے… خنزیر اور کتے افضل
ہیں… اور اگر کسی کو ’’ہدایت‘‘ نصیب ہوجائے اور ا س کی ساری زندگی دکھ اور تکلیف
میں گزرے تو … ایسا انسان بے حد خوش نصیب ہے… ہدایت اتنی اہم چیز ہے کہ ہم اپنی سب
سے ’’بڑی دعاء‘‘ یعنی سورۂ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ سے ہدایت ہی مانگتے ہیں… اہدنا
الصراط المستقیم… ’’ہدایت‘‘ کتنی اہم اور ضروری نعمت ہے… اس پر… ہزاروں صفحات لکھے
جاسکتے ہیں… مگر… ان سب کا خلاصہ سمجھنے کے لئے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ
حدیث مبارک کافی ہے…
’’حضرت ابوسعید خدری
رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے میرے رب (کیا وجہ ہے کہ) آپ اپنے
مومن بندے پر رزق کے دروازے بند کردیتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ نے جنت کے دروازوں میں سے
ایک دروازہ کھولا اور فرمایا کہ یہ وہ اجر وثواب ہے جو میں نے (رزق کی تنگی اور
دنیوی تکالیف کے بدلے میں) اپنے بندے کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام
نے عرض کیا کہ اے اﷲ! آپ کی عزت اور آپ کے جلال وعظمت کی قسم، اگر مومن بندے کے
دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹے ہوئے ہوں اور اسے پیدائش کے دن سے لیکر قیامت کے دن
تک مسلسل منہ کے بل گھسیٹا جائے اور آخر میں اس کا ٹھکانہ جنت ہو تو وہ اس راحت
وسکون اور اس خوشی کی وجہ سے یوں محسوس کرے گا کہ گویا اس نے کبھی کوئی تکلیف
دیکھی ہی نہ تھی… موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب! آپ کافر کو دنیا کی
نعمتیں عطاء فرماتے ہیں؟ تو اﷲ تعالیٰ نے جواباً جہنم کے دروازوں میں سے ایک
دروازہ کھولا اور فرمایا کہ میں نے کافر کے لئے یہ سزا تیار کر رکھی ہے۔ موسیٰ
علیہ السلام نے عرض کیا اے رب! آپ کی عزت کی قسم، اگر آپ کافر کو دنیا اور دنیا کی
ساری نعمتیں بھی عطا ء کردیں اور وہ کافر پیدائش سے لیکر روز قیامت تک ان نعمتوں
سے لطف اندوز ہوتا رہے، پھر آخرکار اس کا ٹھکانہ یہ جگہ ہو تو وہ یوں محسوس کرے گا
گویا اس نے کبھی کوئی نعمت اور کوئی بھلائی دیکھی ہی نہ تھی‘‘ (کنزالعمال)
ثابت ہوا کہ… ایمان کی
ہدایت سب سے اہم اور بڑی نعمت ہے… اور ہدایت کے لئے… اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک کو
نازل فرمایا ہے جیسا کہ بہت سی آیات سے ثابت ہے… اور قرآن پاک کی ’’ہدایت‘‘ جن
لوگوں کو نصیب ہوتی ہے… ان کے لئے… ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ نماز قائم کرنے والے
ہوں… جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے…
ذٰلِکَ الْکِتَابُ
لاَرَیْبَ فِیْہٖ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo اَلَّذِیْنَ
یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ
یُنْفِقُوْنَo
)بقرہ۲۔۳(
ترجمہ: ’’یہ کتاب (قرآن
مجید) ایسی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے اس میں ہدایت ہے متقیوں کے لئے جو ایمان
لاتے ہیں غیب پر اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے
ہیں‘‘…
اس پورے مضمون کو بیان
کرنے کے بعد … قرآن پاک نے… پھر اعلان فرمایا:
اُوْلٰئِکَ عَلٰی ہُدًی
مِّنْ رَّبِّہِمْ وَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
)بقرہ۵(
ترجمہ: ’’یہی لوگ اپنے رب
کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں‘‘…
ان آیات میں بالکل صراحت
کے ساتھ سمجھادیا گیا کہ … قرآن پاک کی پوری ہدایت متقی لوگوں کو ملتی ہے… اور
متقی وہ ہیں جو ایمان میں بھی کامل ہوں… اور نماز وزکوٰۃ کے بھی پکے ہوں …
یہاں ’’اقامت صلوٰۃ‘‘
نماز قائم کرنے کا ذکر ہے… یعنی پوری نماز ادا کرتے ہوں… اور نماز کو مکمل اہتمام
سے ادا کرتے ہوں… ایک دو نمازیں پڑھنے والے… کبھی پڑھنے اور کبھی نہ پڑھنے والے…
یُقیمون الصلٰوۃ … کا مصداق نہیں بنتے… اسی طرح…نماز کو ٹرخانے والے بھی… نماز قائم
کرنے والے نہیں ہوتے… معلوم ہوا کہ… نماز کے بغیر مکمل ہدایت نصیب نہیں ہوتی… اور
نہ ایمان کامل ہوتا ہے… اور نہ قرآن پاک اپنی اعلیٰ ہدایت کے دروازے کھولتا ہے…
ایمان کے مکمل طور پر معتبر ہونے کے لئے… نماز قائم کرنا ضروری ہے… یہ بات … ان
آیات کے علاوہ بھی… قرآن پاک کی کئی اور آیات سے معلوم ہوتی ہے… مثلاً … اﷲ تبارک
وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے…
فَاِذَا انْسَلَخَ
الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُم
وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوا
وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ فَخَلُوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اﷲَ
غَفُوْرٌ رَّحَیْمٌo
)التوبہ۵(
ترجمہ: ’’جب حرمت والے
مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو اور پکڑلو اور گھیر لو اور ہر
گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم
کریں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو… بے شک اﷲ تعالیٰ بخشنے والا
مہربان ہے‘‘…
اس آیت مبارکہ میں…
مشرکین مکہ کے لئے معافی کی صورت یہ بتائی گئی کہ… شرک سے توبہ کرلیں… یعنی… ایمان
لے آئیں… اور ایمان کی سب سے بڑ ی علامات کا اظہار کریں… اور وہ علامات یہ ہیں کہ…
ٹھیک ٹھاک نماز قائم کریں… اور زکوٰۃادا کریں… تب … ان کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا
یعنی … انہیں معاف کردیا جائے گا… حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں…
’’اس آیت سے معلوم
ہوا کہ اگر کوئی شخص کلمہ اسلام پڑھ کر نماز ادا نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو مسلمان
اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔ امام احمدؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ کے نزدیک اسلامی
حکومت کا فرض ہے کہ تارک صلوٰۃ اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردے (امام احمدؒ کے
نزدیک مرتد ہونے کی وجہ سے اور امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بطور حد اور
تعزیر)۔ امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اسے خوب زدوکوب کرے اور قید میں رکھے حتیٰ
یموت او یتوب (حتی کہ مرجائے یا توبہ کرے) بہرحال تخلیہ سبیل کسی کے نزدیک نہیں۔
‘‘ (تفسیر عثمانی ص۲۴۹)
حضرت امام قرطبیؒ اس آیت
کی تفسیر میں لکھتے ہیں…
ولا خلاف بین المسلمین ان
من ترک الصلٰوۃ وسائر الفرائض مستحلاّ کفر(ج۸ ص۷۱)
ترجمہ: ’’اس بات میں اہل اسلام کے درمیان کوئی اختلاف
نہیں ہے کہ جو شخص نماز اور دوسرے فرائض کو چھوڑ دے اور اس چھوڑنے کو حلال اور
جائز سمجھے تو وہ کافر ہے‘‘
آگے لکھتے ہیں…
قال مالک: من آمن باﷲ وصدق المرسلین وابی ان یصلی قُتِل
وبہ قال ابو ثور وجمیع اصحاب الشافعی وہو قول حماد بن زید ومکحول ووکیع وقال ابو
حنیفۃ: یسجن ویضرب ولا یقتل، وہو قول ابن شہاب وبہ یقول داؤد بن علی۔ (ج۸ ص۷۱)
ترجمہ: ’’امام مالکؒ فرماتے ہیںکہ جو کوئی اﷲ تعالیٰ
پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کرے مگر نماز نہ پڑھے تو اسے قتل کیا جائے گا،
یہی قول ابو ثورؒ اور امام شافعیؒ کے تمام اصحاب کا ہے اور حماد بن زیدؒ، مکحولؒ
اور وکیعؒ بھی یہی فرماتے ہیں۔ اور امام ابو حنیفہؒ کا ارشاد ہے کہ ایسے شخص کو
قید کیا جائے گا اور اس کی پٹائی کی جائے گی مگر اسے قتل نہیں کیا جائے گا یہی قول
ابن شہابؒ کا بھی ہے اور داؤد بن علیؒ بھی اسی کے قائل ہیں‘‘۔
امام قرطبیؒ کچھ دلائل
بیان کرنے کے بعد یہ الفاظ لکھتے ہیں، انہیں غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے…
وذہبت جماعۃ من الصحابۃ
والتابعین الی أن من ترک صلوٰۃ واحدۃ متعمدا حتی یخرج وقتہا لغیر عذر، وابی من
ادائہا وقضائہا وقال لا أصلی فانہ کافر، ودمہ ومالہ حلالان، ولا یرثہ ورثتہ من
المسلمین، ویستتاب فان تاب والا قتل، وحکم مالہ کحکم مال المرتد۔ (ج۸ص۷۱)
ترجمہ: ’’صحابہ اور
تابعین کی ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو شخص ایک نماز جان بوجھ کر بغیر عذر کے
چھوڑ دے یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے، اور وہ اسے ادا اور قضاء کرنے سے انکاری
ہو تو یہ شخص کافر ہے اس کا خون اور مال حلال ہے۔ اس کے مسلمان وارث اس کی وراثت کے
مستحق نہیں ہوں گے۔ ایسے شخص کو توبہ کرنے کا کہا جائے گا اگر توبہ کرلے تو ٹھیک
ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کے مال کا حکم مرتد کے مال جیسا ہوگا‘‘۔
آج کے ناپاک ماحول میں یہ
باتیں سخت معلوم ہوتی ہیں… حالانکہ … سختی کچھ نہیں… اسلام ایک مضبوط دین ہے… اور
اس کے کچھ محکم… اور قطعی فرائض ہیں… اسلامی عقیدہ رکھنے سے ایک انسان ’’مسلمان‘‘
تو ضرور ہوجاتا ہے… مگر اس پر کچھ لازمی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں… انہی لازمی
ذمہ داریوں کو … اسلامی فرائض کہا جاتا ہے… اور ان فرائض میں سب سے پہلے ’’نماز‘‘
ہے… پس جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے… وہ … پکا… مضبوط اور اصلی مومن نہیں رہ سکتا…
اسی لیے… شرعی احکامات نافذ کرنے کے لئے… نماز اور زکوٰۃ کو ایمان کی علامت اور
شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے… جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے…
اِشْتَرَوْا بِآیٰتِ اﷲِ
ثَمَنًا قَلِیْلاً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ اِنَّہُمْ سَآئَ مَاکَانُوْا
یَعْمَلُوْنَo لاَیَرْقَبُوْنَ
فِیْ مُؤمِنٍ اِلاًّ وَّلاَ ذِمَّۃَ وَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُعْتَدُوْنَo
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْ
الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَo
)التوبہ۹۔۱۰۔۱۱(
ترجمہ: ’’(یہ مشرک) اﷲ کی آیتوں کے عوض تھوڑا سا فائدہ
حاصل کرتے اور لوگوں کو اﷲ کے رستے سے روکتے ہیں، بلاشبہ وہ جو کام کرتے ہیں برے
کام ہیں، وہ کسی مومن کے بارے میں کسی رشتہ داری اور عہد کا پاس نہیں رکھتے ۔ اور
یہ وہ لوگ ہیں جو زیادتی کرنے والے ہیں۔ پس اگر یہ لوگ توبہ کریں (یعنی ایمان لے
آئیں) اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہوں گے اور
سمجھنے والے لوگوں کے لئے ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں‘‘۔
آیت مبارکہ کے الفاظ پر
غور کریں فاخوانکم فی الدینکہ وہ دین وشریعت کے حکم میں… تمہارے بھائی ہوں گے…
معلوم ہوا کہ… احکام شریعت کے جاری ہونے میں… ایمان کے بعد سب سے اہم چیز نماز ہے…
اور زکوٰۃ… آئیے! اب اسی نظریہ کا جائزہ … حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک
احادیث وآثار سے لیتے ہیں… اگرچہ… اس موضوع پر مزید بھی کئی قرآنی آیات کو پیش کیا
جاسکتا ہے… مگر … سمجھنے کے لئے یہی آیات کافی ہیں… اور ان سے یہ باتیں بالکل واضح
… ہو کر سامنے آجاتی ہیںکہ… بے نمازی کا اسلامی معاشرہ میں کیا مقام ہے؟… اور بے
نمازی کا اسلامی شریعت میں کیا حکم ہے؟… اور بے نمازی کا دعوائے ایمان کس قدر
کمزور، مشکوک اور کھوکھلا ہے؟… اور بے نمازی … کس قدر بے ہدایت ہے؟… قرآن پاک کو
سمجھنے کے لئے… حدیث پاک کا سہارا لازمی ہے… اس لیے… ان آیات کی تفسیر وتشریح
سمجھنے کے لئے ہم چند احادیث مبارکہ بیان کرتے ہیں…
)۱( قال رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم بین العبد وبین الکفر ترک الصلوٰۃ
)صحیح مسلم(
ترجمہ: ’’رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا
بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑدینے ہی کا فاصلہ ہے‘‘…
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث
دہلویؒ نے اس حدیث شریف کو بنیاد بنا کر… واضح اعلان فرمایا ہے کہ… بے نمازی شخص
کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں مسلمان ہوں… بہت کھوکھلا اور انتہائی غیر معتبر دعویٰ ہے…
کیونکہ… اسلام کا اصل مفہوم … اور ثبوت… نمازہی کے ذریعہ … ادا اور پیش ہوتا ہے…
حجۃ اﷲ البالغہ میں شاہ صاحبؒ کی جو اصل عبارت ہے … وہ … ہم نے القلم کے اس خصوصی
شمارے میں… دوسری جگہ… ترجمہ کے ساتھ پیش کردی ہے…
)۲(قال رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم العہد الذی بیننا وبینہم ترک الصلوٰۃ فمن ترکہا فقد کفر
)احمد۔ ترمذی(
ترجمہ: ’’رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا… ہمارے اور ان (اسلام قبول کرنے والوں ) کے درمیان نماز
کا معاہدہ ہے پس جس نے نماز کو ترک کیا… اس نے کفر کیا… یعنی کافروں والا کام کیا‘‘…
)۳(عن عبادۃ بن
الصامت رضی اﷲ عنہ قال: اوصانی خلیلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بسبع خصال فقال …
ولا تترکوا الصلوٰۃ متعمدین فمن ترکہا متعمدا فقد خرج من الملۃ ۔
)الطبرانی۔ الترغیب(
ترجمہ: ’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے
ہیں کہ میرے خلیل حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے سات باتوں کی وصیت
فرمائی… (ان باتوں میں سے ایک) یہ ارشاد فرمائی … اور جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑو…
پس جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی وہ ملت (اسلام) سے نکل گیا‘‘…
)۴(عن عبداﷲ بن شقیق
العقیلی رضی اﷲ عنہ قال: کان اصحاب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم لایرون شیئا من الاعمال
ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ ۔ (الترمذی۔الترغیب)
’’حضرت عبداﷲ بن
شقیق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ… حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ اعمال میں سے
کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے کہ اس کا چھوڑنا ان کے
نزدیک کفر شمار ہوتا تھا‘‘۔
)۵( عن ثوبان رضی اﷲ
عنہ قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: بین العبد وبین الکفر والایمان
الصلوٰۃ فاذا ترکہا فقد اشرک(الطبری باسناد صحیح۔ الترغیب)
’’حضرت ثوبان رضی اﷲ
عنہ بیان فرماتے ہیں کہ … میں نے… رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی … اور اس کے کفر وایمان کے درمیان نماز (کا فاصلہ) ہے
پس جب وہ نماز چھوڑ دیتا ہے تو وہ شرک کرتا ہے‘‘۔
)۶(قال رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم:لا سہم فی الاسلام لمن لا صلوٰۃ لہ ولا صلوٰۃ لمن لا طہور لہ۔
(البزاز۔ الترغیب)
’’رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے نمازی کا اسلام میں کچھ حصہ نہیں… اور بے وضو کی
نماز (درست) نہیں‘‘…
)۷( قال رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم ولا دین لمن لا صلوٰۃ لہ انما موضع الصلوٰۃ من الدین کموضع الرأس من
الجسد (الطبرانی۔ الترغیب)
ترجمہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور
جس کی نماز نہیں اس کا دین نہیں بلا شبہ دین میں نماز کا وہی مقام ہے جو جسم میں
سرکا‘‘…
اس موضوع پر احادیث بہت
زیادہ ہیں… چنانچہ … صرف ’’بے نمازی‘‘ کی ’’حیثیت‘‘ متعین کرنے کے لئے… نہایت آرام
سے… چہل حدیث کا مجموعہ مرتب کیا جاسکتا ہے… ہم ان احادیث مبارکہ کا اختتام … صحیح
ابن حبان کی اس صریح حدیث شریف پر کرتے ہیں…
)۸(عن بریدۃ رضی اﷲ
عنہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: بکروا بالصلوٰۃ فی یوم الغیم فانہ من ترک
الصلوٰۃ فقد کفر
)رواہ ابن حبان فی
صحیحہ، الترغیب(
ترجمہ: ’’حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا… بادلوں والے دن نماز میں جلدی کیا کرو
کیونکہ بلاشبہ جس نے نماز چھوڑ دی… ا س نے کفر کیا‘‘…
ان تمام احادیث میں…
ہمارے علماء کرام یہی ترجمہ کرتے ہیں کہ … اس نے کافروں والا کام کیا… یہ ترجمہ
کرنے کا مقصد خوارج اور معتزلہ کے عقیدہ سے بچنا ہوتا ہے… ان کی یہ احتیاط بالکل
بجا… مگر… اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ… بے نمازی مسلمان … کافروں کے جتنے کام آتے ہیں…اتنے
خود ان کے ہم مذہب لوگ نہیں آتے… اﷲ تعالیٰ… ترکِ نماز کے وبال سے پوری امت مسلمہ
کی حفاظت فرمائے… آج بہت عجیب منظر ہوتا ہے… معلوم ہے کیا؟… جی ہاں … اعلان ہورہا
ہوتا ہے کہ ’’او آئی سی‘‘ کا سربراہی اجلاس ہورہا ہے… اس اجلاس میں امت مسلمہ کے
حکمران… سر جوڑ کر بیٹھیں گے… اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے… اور امت مسلمہ
کی حفاظت کے لئے… فیصلے کریں گے… پھر کیا ہوتا ہے؟… اندر اجلاس چلتا رہتا ہے… باہر
مساجد سے … موذّن بار بار اﷲ تعالیٰ کا حکم سناتا ہے… کہ خود کو مسلمان کہنے والو…
آؤ… اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دو… مگر… بے وضو مجمع ٹس سے مس نہیں ہوتا… بش بلاتا
تو بھاگے جاتے… مگر… اﷲ تعالیٰ کی پکار پر… دل میں حرکت تک نہیں ہوتی… اور دعویٰ
یہ کہ … ہم سے اچھا کوئی مسلمان نہیں… اور ہم مسلمانوں کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں…
کئی فرض نمازیں… ہڑپ کرکے… اجلاس اٹھ جاتا ہے… اور اس کی اہم ترین قرارداد… جہاد
اور مجاہدین کے خلاف ہوتی ہے… یا اﷲ ہم پر رحم فرما… ہاں ہم نے خود… نمازوں کو
ضائع کیا… تب ہم پر … بے نمازی اور… جہاد کے دشمن حکمران… مسلط کردیئے گئے… جواب
ملتا ہے کہ… نہیں… ہم تو پانچ وقت کے نمازی ہیں… پھر ہم پر یہ عذاب کیوں؟… ہاں
پانچ وقت کی نماز … ضرور ہے… اس پر… الحمدﷲ … مگر ہم نے … نماز کو قائم نہیں کیا…
ہم نے نماز کے لئے… اس کی شایان شان انتظام نہیں کیا… نہ تلاوت درست… نہ رکوع اور
سجدے… نہ نماز میں توجہ… اور نہ خشوع اور خضوع… ساری دنیا کے لئے… میک اپ… اور
تیاری… مگر نماز بوسیدہ… اور بدبودار کپڑوں میں… ہم کب… بن ٹھن کر … روتے کانپتے
مسجدوں کی طرف دوڑے؟ … ہم نے کب اذان کی آواز کو… اپنے دل کے آنسوؤں کا استقبال
دیا … ہم نے … اپنے گھر والوں کو کب نماز کا پابند بنایا… بیوی نماز چھوڑ دے تو
کوئی بات نہیں… بہن بھائی… بے نمازی تو برداشت… ارے اپنی نافرمانی… برداشت نہیں
کرتے… اپنے دشمن کو سینے سے نہیں لگاتے… مگر… بے نمازی اﷲ کا نافرمان… ہمیں برداشت
ہے… پھر … بیٹی اور بہن کا رشتہ… ڈالروں، نوٹوں… اور ریالوں، درہموں سے… بے نمازی
کے ساتھ… بیٹی رخصت کرنا… اس بے چاری کو … خنزیر کے پلے باندھنا ہے… مگر آج … رشتہ
لیتے… اور دیتے وقت… نماز نہیں… نوٹ دیکھے جاتے ہیں… پھر بھی فخر ہے کہ ہم خود تو
نمازی ہیں… اور تو اور … دینی جماعتوں … اور تنظیموں میں… دین کے کاموں کی مصروفیت
کا بہانہ… اور نماز اور اس کا اہتمام ذبح… ایک صاحب نے خود بتایا کہ… ہماری ایک اہم
دینی معاملے پر… سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے میٹنگ تھی… عصر کی نماز کا
وقت آگیا… اور پھر سورج… دینداروں کی بے حسی دیکھ کر غروب ہوگیا… مگر… ایک آدمی کے
سوا… کوئی نماز کے لئے نہ اٹھا… دراصل… انہیں حرکتوں نے دینی جماعتوں … اور
تنظیموں کو برباد کردیا… اﷲ پاک ان کی اصلاح … اور حفاظت فرمائے…
میرے بھائیو! اور بہنو…
الحمدﷲ اقامت صلوٰۃ مہم شروع ہوچکی ہے… ہم نے کالم کے آغاز میں ایک دعاء مانگی
تھی… اے میرے رب مجھے اور میری اولاد کو … نماز قائم کرنے والا بنادے… یہ دعاء ہم
نے کیوں مانگی… اس کی دس وجوہات عرض کرنی ہیں… آج … صرف ایک ’’وجہ‘‘ کا تذکرہ ہوا…
کہ … ہم نمازی اس لیے بننا چاہتے ہیں… اور اپنی اولاد کو اس لیے نمازی بنانا چاہتے
ہیں… کیونکہ… بے نمازی ’’بے ہدایت‘‘ ہوتاہے… یا اﷲ … بے ہدایت یعنی گمراہ ہونے سے
ہمیں… اور ہمارے ماں باپ بیوی بچوں… بہن بھائیوں… اور سب رشتہ داروں اور دوستوں کو
بچالے… گمراہی تو… بہت بڑا عذاب ہے… اور گمراہ انسان کا انجام بہت خطرناک ہے… اب …
اس مبارک ابراہیمی دعاء کو ہم اپنا… معمول بنالیں… اور … رات کے آخری پہر … جب
آسمان سے ہمارا … پیارا رب پکار کر پوچھے… ہے کوئی مانگنے والا جس کی جھولی
بھردوں… تو ہم … تڑپ کر… پہلے… ایمان اور نماز مانگ لیں… جب ہمیں … اصلی، سچی اور
پکی نماز مل جائے گی تو پھر… ہمارے مزے ہوجائیں گے… جو کام بھی ہوگا… ادھر ہم نماز
شروع کریں گے… اور ادھر اس کام کا فیصلہ زمین پر اتر آئے گا… ہمارے پاس جاندار
نماز ہوگی… تو ہم ہر خیر حاصل کرلیں گے… ہر دشمن … اور شر سے پناہ مانگ لیں گے…
نماز تو ماں کی گود کی طرح ہے… جب بھی کوئی حاجت یا پریشانی آئی … ہم لپک کر نماز
میں پہنچے… تڑپ کر سجدے میں گرے… اور ادھر اﷲ تعالیٰ کی رحمت زمین پر اتر آئی…
ہماری نماز… حضوری والی ہوگی تو ہمارا جہاد… طاقتور ہوجائے گا… اتنا طاقتور جس کے
سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا… بس آج رات انتظار کیجئے … ڈھائی، تین بجے کا یوں
انتظار کیجئے… جس طرح … نئی نویلی… وفادار دلہن اپنے پیا کا انتظار کرتی ہے… جب
رات کا آخری پہر شروع ہوجائے… اٹھ کر … ہم سب … مسواک کریں… وضو کریں… خوشبو
لگائیں… اور شوق کے ساتھ نماز میں… مصروف ہوجائیں… اور پھر نماز کے بعد … دل،
ہاتھ… اور جھولی پھیلا کر… مانگ لیں…
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ
الصَّلٰوۃِ
وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا
وَتَقَبَّلْ دُعَاء
آواز لرز اٹھی… آنسو بہنے
لگے… فرشتے جھوم اٹھے… اور اگر قبولیت نے ایک بوسہ لے لیا… اور میں اورآپ … واقعی
… نماز قائم کرنے والے بن گئے… تو پھر… قرآن ہمارے لیے… اپنا سینہ کھول دے گا… اور
فلاح ونجات… کا تاج ہمارے سر پر رکھ دیا جائے گا… یا اﷲ مجھے توفیق عطاء فرما… اور
سب پڑھنے والوں کو توفیق عطاء فرما… آمین… آج بس اتنا ہی… ان شاء اﷲ… زندگی رہی
اور توفیق ملی تو باقی نو وجوہات کا بیان آئندہ… ان شاء اﷲ…
ایک دعا… دس
موتی
اﷲ تعالیٰ ہمیں اور ہماری
اولاد کو… نماز قائم کرنے والا بنائے… پچھلے کالم میں ہم نے پڑھ لیا کہ بے نمازی
بے ہدایت ہوتا ہے… آج … باقی نو (۹) وجوہات
کا مختصر بیان…
)۲(نماز میں سستی
منافق کا شیوہ:
نماز میں سستی اور غفلت
کرنا… نماز چھوڑ دینا… کبھی پڑھنا کبھی نہ پڑھنا… وقت پر ادا نہ کرنا… بلاعذر
جماعت کے بغیر ٹرخانا… یہ سب کچھ ایمان کی نہیں… نفاق کی علامتیں ہیں… منافق ہمیشہ
نماز کے بارے میں بے فکر اور لاپرواہ ہوتا ہے جبکہ مؤمن ہمیشہ نماز کی فکر میں
رہتا ہے… ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ جب مرجاتا ہے
تو قبر میں بھی نماز کی فکر میں رہتا ہے کہ میری نماز قضا نہ ہوجائے… چنانچہ
روایات سے ثابت ہے کہ … مومن کو جب قبر میں سوال جواب کے لئے اٹھایا جاتا ہے تو
اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ … سورج غروب ہونے کو ہے وہ فرشتوں سے کہتا ہے… مجھے
چھوڑو میں نے نماز ادا کرنی ہے… جبکہ منافق کا نماز کے بارے میں رویہ اس کے برعکس
ہے… آئیے قرآن وسنت کی روشنی میں منافق کے طرز عمل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں… اور
پھر اس سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے…
ترجمہ: ’’بے شک منافق اﷲ تعالیٰ کو (اپنے نزدیک) دھوکا
دیتے ہیں اور وہ ان کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں
تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور اﷲ کو یاد ہی نہیں کرتے مگر
بہت کم… (النساء ۱۴۲)
دوسری جگہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے…
ترجمہ: آپ فرمادیجئے ( ان منافقین سے) کہ تم خوشی سے
خرچ کرو یا ناخوشی سے ہرگز تم سے قبول نہ کیا جائے گا، بلاشبہ تم نافرمان لوگ ہو
اور ان کے صدقات قبول کیے جانے سے کوئی چیز اس کے سوا مانع نہیں ہے کہ انہوں نے اﷲ
کے ساتھ اور رسول کے ساتھ کفر کیا، اور یہ لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر سستی کے ساتھ
اور خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ۔(التوبہ ۵۳۔۵۴)
ان دونوں آیات سے معلوم
ہوا کہ اگر انسان کے دل میں ایمان ہو… تو وہ نماز میں سستی نہیں کرتا … مگر جب …
ایمان پر نفاق کا ڈاکہ پڑ جائے تو اس کا ایک اثر… یہ ہوتا ہے کہ … انسان نماز سے غفلت
شروع کردیتا ہے… اب اس بارے میں چند احادیث پڑھتے ہیں:
حدیث (۱) یہ
منافق کی نماز ہے کہ بیٹھ کر سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج زرد
پڑ جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے ( یعنی غروب کے قریب) تو اٹھ
کر چار ٹھونگیں مارلیتا ہے اور اﷲ کا ذکر نہیں کرتا مگر بہت کم ۔ (صحیح مسلم)
اس صحیح حدیث سے معلوم
ہوا کہ منافق نماز کے اوقات کا اہتمام نہیں کرتا۔ حالانکہ مومن اپنی زندگیوں کو
اوقات نماز کی رعایت سے ترتیب دیتا ہے جبکہ نفاق زدہ انسان اپنے دوسرے کاموں کو
بروقت نماز پڑھنے پر ترجیح دیتا ہے۔
حدیث (۲) ہمارے
درمیان اور منافقین کے درمیان (فرق کرنے والی) نشانی عشاء اور صبح کی نماز میں
حاضری ہے کہ وہ (منافقین) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ (کنز العمال ص۹۷ ج۱۔ مرسلاً)
حدیث (۳) منافقین
کی کچھ علامات ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں… (ان علامات میں سے یہ بھی ہے کہ) وہ
مسجدوں میں نہیں آتے مگر کبھی کبھار (یعنی کئی دن کے وقفے سے ) اور نماز میں حاضر
نہیں ہوتے مگر آخر میں… تکبر کی وجہ سے… (کنز العمال ص۹۹ ج۱)
حدیث (۴) منافقوں
پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری اور کوئی نماز نہیں ہے اگر وہ جان لیں کہ
ان نمازوں میں کتنا اجر ہے تو ضرور حاضر ہوں اگرچہ انہیں گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے۔
(بخاری ۔ مسلم)
روایت (۵) حضرت
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خود کو (یعنی مسلمانوں کو) اس حال
میں دیکھا ہے کہ نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والا یا تو بس کوئی ایسا منافق
ہوتا تھا جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا تھا یا کوئی مریض۔(صحیح مسلم)
اس زمانے میں اسلام اور
مسلمانوں کو قوت حاصل تھی… اس لیے… منافقین کو بھی مسجد میں حاضر ہونا پڑتا تھا…
مگر اس زمانے میں بہت سارے لوگ… اتنا تکلف بھی نہیں کرتے… اور بڑے فخر سے کہتے ہیں
کہ ہم بہت اونچے مسلمان ہیں… جب ہمیں… ٹائم مل جائے نماز پڑھ لیتے ہیں… اﷲ پاک ہم
سب کی نفاق سے حفاظت فرمائے… اس بارے میں ہم سب کو چاہئے کہ حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کی اس پیاری دعاء کو اپنا معمول بنائیں…
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ
اَعُوْذُبِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوْئِ الاَْخْلاَقِ
ترجمہ: ’’اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ میں آتا
ہوں… ضدّ اضدی سے… نفاق سے… اور برے اخلاق سے… (کنز العمال ص۸۳ ۔ ج۲)
)۳( نماز میں سستی،
ہلاکت ہے:
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے…
ترجمہ: ’’پس ایسے نمازیوں کیلئے ہلاکت (بڑی خرابی) ہے
جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور برتنے کی چیزیں عاریۃً
نہیں دیتے۔ (الماعون ۵۔۶۔۷)
صاحب انوارالبیان لکھتے
ہیں…
یہ لفظ ان لوگوں کو بھی
شامل ہے جو نماز کو بالکل ہی نہیں پڑھتے اور ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو وقت سے
ناوقت کرکے پڑھتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو اس کے ارکان اور شروط کے
مطابق ادا نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو خشوع کی طرف دھیان نہیں دیتے
اور اس کے معانی میں غور نہیں کرتے۔ مفسر ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ الفاظ کا عموم
ان سب کو شامل ہے اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ جو شخص ان صفات میں سے کسی بھی ایک صفت
سے متصف ہوگا اسی درجہ میں آیت کا مضمون اس کو شامل ہوگیا۔ پھر لکھا ہے کہ جس میں
یہ سب صفات موجود ہوں وہ پوری طرح آیت کی وعید کا مستحق ہوگا، اور اس میں پوری طرح
نفاق عملی پایا جائے گا۔ (انوارالبیان ص۴۶۱۔ج۔۹)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی
اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ’’الذین ہم عن صلاتہم
ساہون‘‘ (الماعون۵) کے
بارے میں پوچھا (کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے لئے نماز میں غفلت کی وجہ سے ہلاکت ہے)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیتے
ہیں۔ (تفسیر ابن کثیرؒ ص۵۲۳۔
ج۔۴)
بہت اہم میٹنگ تھی… صاحب
نے بلایا تھا… مہمان آئے ہوئے تھے… شادی کی تقریب چل رہی تھی… دین کے کام میں
مشغول تھے… چنانچہ… نماز کا وقت نکل گیا… انا ﷲ وانا الیہ راجعون… یہ سب کچھ ہلاکت
ہے… اﷲ پاک حفاظت فرمائے کاش ہم نماز کو اتنی اہمیت ہی دے دیتے… جتنی ایک سپاہی
اپنی ڈیوٹی… اور صاحب کے سامنے حاضری کو دیتا ہے… ہائے کاش ہائے کاش…
)۴( بے نمازی غضب کا
مستحق:
اﷲ تبارک وتعالیٰ کا
ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: ’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آگئے جنہوں نے نماز
کو ضائع کردیا اور خواہشوں کے پیچھے لگ گئے پس عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے
گی۔ ‘‘(مریم۵۹)
اس سے پچھلی آیت میں ان
انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ ہے جن پر اﷲ تعالیٰ نے خوب خوب انعامات فرمائے۔ پھر
ارشاد فرمایا کہ ان انبیاء کے بعد ان کے بعض ایسے ناخلف آگئے جنہوں نے نمازوں کو
ضائع کرنے کا جرم عظیم کیا… اور خواہشات میں پڑگئے… پس یہ لوگ ’’غیّی‘‘ میں گریں
گے… غیّی کا معنیٰ بعض مفسرین نے گمراہی کیا ہے جب کہ بعض کے نزدیک اس کا معنیٰ
جہنم کے نیچے بہنے والی وہ نہر ہے جس میں جہنمیوں کی پیپ بہتی ہے… العیاذ باﷲ… اور
بعض مفسرین کے نزدیک غیّی کا معنیٰ خسارہ ہے۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیرؒ ص۱۲۲ج۳)
خلاصہ یہ ہے کہ… وہ لوگ
جن پر اﷲ تعالیٰ کے انعامات نازل ہوتے ہیں… ان کی بے نمازی اور نفس پرست اولاد …
اﷲ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوجاتی ہے… بے نمازی … اور نماز کو اس کے وقت پر نہ
پڑھنے والے اﷲ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہیں… خواہ وہ … اونچے اور بزرگ لوگوں کی اولاد
ہی کیوں نہ ہوں… اور اﷲ تعالیٰ کے غضب کی مختلف صورتیں ان نماز ضائع کرنے والوں پر
مسلط ہوجاتی ہیں… یا اﷲ ہمیں اور ہماری اولادوں کو نماز قائم کرنے والا بنا…
)۵( اقامت صلوٰۃ، نصرت
الٰہی کا ذریعہ:
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی
ہے…
ترجمہ: ’’اور جو شخص اﷲ تعالیٰ کی مدد کرتا ہے اﷲ
تعالیٰ اس کی ضرور مدد کرتا ہے بے شک اﷲ قوی اور غالب ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر
ہم ان کو زمین میں اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور بھلائی کا
حکم کریں اور برائی سے روکیں اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔(الحج ۴۰۔۴۱)
ان آیات میں اصل فضیلت تو
جہاد کی ہے کہ… جو … لوگ اﷲ تعالیٰ کے دین کی نصرت کیلئے جہاد میں نکلتے ہیں… اﷲ
تعالیٰ ان کی ضرور نصرت فرماتا ہے… مگر… ساتھ یہ بھی سمجھایا گیا کہ … نماز کا
قائم کرنا… زکوٰۃ کا ادا کرنا… نیکیوں کا حکم کرنا… اور برائیوں سے روکنا… یہ وہ
صفات ہیں جن کا جذبہ ہر مجاہد میں ہونا چاہئے… اور جب اﷲ تعالیٰ اسے قوت دے تو وہ
انہی چار کاموں کو اپنی حکومت کی بنیاد بنائے… اس میں اشارۃً یہ بھی معلوم ہوگیا
کہ … اﷲ پاک کی نصرت… انہی مجاہدین کو نصیب ہوتی ہے جو خود بھی نماز کا اہتمام
کرتے ہیں اور معاشرے میں بھی نماز کو قائم کرنے کی فکر کرتے ہیں…
)۶( اقامت صلوٰۃ،
اسلامی معاشرے کی لازمی شرط:
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے…
ترجمہ : ’’تمہارے دوست تو اﷲ اور اس کے پیغمبر اور مؤمن
لوگ ہی ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (اﷲ کے آگے) جھکتے
ہیں۔ (المائدہ۵۵)
نماز کے بارے میں یہ بہت
اہم آیت ہے، اس آیت سے پہلی والی آیات میں مسلمانوں کو سختی کے ساتھ… یہود ونصاریٰ
کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا… اور فرمایا گیا کہ جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی
میں سے ہوگا… اس کے بعد منافقین کا طرز عمل بتایا گیا کہ وہ اپنے بچاؤ کیلئے بھاگ
بھاگ کر یہود ونصاریٰ سے یاریاں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو زمانے کی گردش سے
ڈرتے ہیں… جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ یہود ونصاریٰ طاقتور ہیں اگر ہم ان سے یاری
اور تعاون نہ کریں تو وہ ہمارا آملیٹ بنادیں گے… پھر مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ
… کفر کی ظاہری طاقت دیکھ کر … اگر کوئی مسلمان… اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے گا تو
وہ اﷲ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا… اﷲ تعالیٰ اُس کی جگہ مخلص ومجاہد
مسلمانوں کو لے آئے گا… ان تین باتوں کے بعد… اسلامی معاشرے کی تشکیل کا اعلان کیا
گیا ہے کہ… پھر آخر مسلمانوں کے دوست کون ہوں گے؟ جواب ملا کہ مسلمانوں کے دوست
صرف اﷲ تعالیٰ اس کے پیغمبر… اور وہ پکے مسلمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں… اور
زکوٰۃ ادا کرتے ہیں… اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرتے ہیں…
خلاصہ یہ ہوا کہ … جب
یہود ونصاریٰ کی طاقت کا دور ہو… مسلمانوں میں گھسے ہوئے منافق… یہود ونصاریٰ کے
ساتھ یاریاں اور وفاداریاں کررہے ہوں… اور کچھ لوگ (نعوذباﷲ) کفر کے سامنے سجدے
کرکے مرتد ہو رہے ہوں تو اس وقت … مخلص مسلمانوں کو… اﷲ تعالیٰ کے ساتھ… اور اس کے
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بھرپور وفاداری کرنی چاہئے… اور آپس میں مضبوط
’’جماعت‘‘ اور ’’معاشرہ‘‘ تشکیل دینا چاہئے… یہ ’’جماعت‘‘ اور ’’معاشرہ‘‘ اقامت
صلوٰۃ… اور اداء زکوٰۃ کی لازمی شرط پر تشکیل پائے… پھر یہ لوگ کافروں اور منافقوں
کے مقابلے میں نکلیں گے تو فتح یاب ہوں گے… جیسا کہ اگلی آیت میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے…
ترجمہ: ’’اور جو شخص اﷲ اور اس کے پیغمبر اور مومنوں
سے دوستی کرے گا تو وہ (اﷲ کی جماعت میں داخل ہوگا اور) حزب اﷲ (یعنی اﷲ کی جماعت)
ہی غلبہ پانے والی ہے۔ (المائدہ ۵۶)
بہت مفید معلوم ہوتا ہے
کہ اس موقع پر … حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے یہ وجد آفرین الفاظ
نقل کیے جائیں… آپ تحریر فرماتے ہیں…
’’کفار کی کثرت اور
مسلمانوں کی قلت عدد کو دیکھتے ہوئے ممکن تھا کہ کوئی ضعیف القلب اور ظاہر بین
مسلمان اس تردد میں پڑ جاتا کہ تمام دنیا سے موالات منقطع کرنے اور چند مسلمانوں
کی رفاقت پر اکتفا کرلینے کے بعد غالب ہونا تو درکنار کفار کے حملوں سے اپنی زندگی
اور بقاء کی حفاظت بھی دشوار ہے۔ ایسے لوگوں کی تسلی کیلئے فرمادیا کہ مسلمانوں کی
قلت اور ظاہری بے سروسامانی پر نظر مت کرو۔ جس طرف خدا اور اس کا رسول اور سچے
وفادار مسلمان ہوں گے وہ ہی پلہ بھاری رہے گا۔ (تفسیر عثمانی ص۱۵۵)
اس مبارک آیت سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ … کسی کے ساتھ دوستی، رشتہ… اور تعلق قائم کرنے سے پہلے… اس بات کا
اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ … وہ … نماز کو قائم کرنے والا… زکوٰۃ کو دینے والا…
اور اﷲ کے حضور عاجزی کرنے والا ہو… بے نمازی… زکوٰۃ خور… اور اکڑ والے لوگ نہ
دوستی کے قابل ہیں نہ رشتہ داری کے… اور نہ ایسے لوگوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے…
بے شک… جو رب کے وفادار نہیں وہ ہمارے کیا وفادار ہوںگے…
)۷ ( اقامت صلوٰۃ، مخبتین کی
شان:
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے…
ترجمہ: ’’ اور ان ’’مخبتین‘‘ کو خوشخبری سنادیجئے جن
کا یہ حال ہے کہ جب اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور وہ مصیبتوں
پر صبر کرنے والے ہیں اور نمازیں قائم کرنے والے ہیں اور ہم نے جو کچھ انہیں دیا
ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (الحج ۳۴۔۳۵)
مخبتین کا ترجمہ عام
مفسرین کے نزدیک عاجزی کرنے والے… آپ جانتے ہیں کہ … اﷲ پاک کی خاطر عاجزی
اختیارکرنا کتنی بڑی نعمت ہے اور حدیث پاک میں وضاحت ہے کہ… جو … اﷲ تعالیٰ کے لئے
عاجزی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے رَفْعت اور بلندی… اور اونچی شان عطاء فرماتا ہے… اور
یہ عاجزی جن چار چیزوں سے خاص طور پر نصیب ہوتی ہے ان میں سے ایک لازمی چیز
’’اقامت صلوٰۃ‘‘ بھی ہے… پس جو لوگ نماز قائم نہیں کرتے وہ زبان سے جتنی عاجزی
دکھلالیں وہ ان ’’مخبتین‘‘ میں سے نہیں ہوسکتے جن کے لئے ’’خاص بشارت‘‘ ہے…
حضرت علامہ عثمانیؒ نے
مخبتین کا ترجمہ ان الفاظ میں فرمایا ہے:
جو صرف ایک خدا کا حکم
مانتے ہیں اسی کے سامنے جھکتے ہیں اسی پر ان کا دل جمتا ہے اور اسی کے جلال وجبروت
سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (تفسیر عثمانی ص۴۴۷)
اﷲ پاک توحید کی یہ شان
ہمیں بھی نصیب فرمائے کہ ہمارا دل صرف اﷲ پر جمے… اور صرف اﷲ تعالیٰ سے ڈرے… بے شک
یہ بہت اونچا… اور مشکل مقام ہے… ہاں نماز کو اس کے حقوق وآداب … اور خشوع وخضوع
کے ساتھ ادا کرنے سے یہ مقام ملنا آسان ہوجاتا ہے… اﷲ پاک ہم سب کے لئے آسان
فرمائے…
تفسیر جلالین میں…
’’مخبتین‘‘ کا ترجمہ ’’المطیعین المتواضعین‘‘ سے کیا گیا ہے یعنی اطاعت کرنے والے
اور تواضع اختیار کرنے والے… علامہ ابن کثیرؒ نے اور بھی چند اقوال لکھے ہیں…
خلاصہ یہ ہے کہ… اقامت صلوٰۃ… حب جاہ… تکبر اور سرکشی کا بہترین علاج ہے… جیسا کہ
دیگر کئی آیات اور احادیث مبارکہ سے بھی معلوم ہوتا ہے…
)۸( اقامت صلوٰۃ،
فحاشی اور منکرات کا علاج:
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی
ہے…
ترجمہ: ’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اس کی تلاوت
فرمائیے اور نماز قائم کیجئے بلاشبہ نماز بے حیائی سے اور برے کاموں سے روکتی ہے
اور یقینا اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور جو کام تم کرتے ہو اﷲ تعالیٰ جانتا
ہے۔‘‘(العنکبوت ۴۵)
آج ہر طرف بے حیائی… اور
منکرات کا شور ہے… قرآن پاک نے صدیوں پہلے نسخہ بتادیا اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم
عمل کریں… نماز کس طرح بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اس کی کئی صورتیں ہیں…
)۱( نماز … اگر
اہتمام، خشوع اور حضوری کے ساتھ ہو تو وہ انسان میں گناہوں سے بچنے کی قوت اور
طاقت پیدا کردیتی ہے… بلاشبہ ایسا ہی ہوتا ہے… روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص کی
شکایت کی گئی کہ وہ نماز تو پڑھتا ہے مگر برائیوں سے نہیں رکتا تو فرمایا گیا کہ
اس کی نماز اسے (بالآخر) برائیوں سے روک ہی دے گی۔
)۲( نماز… کی ہر ادا
کا تقاضا ہے کہ اے انسان! تجھے زیب نہیں دیتا کہ تو جانوروں کی طرح بے حیا اور
شیطانوں کی طرح گناہگار بن جائے۔ جو انسان نماز توجہ سے پڑھتے ہیں وہ نماز کی اس
’’صدا‘‘ اور دعوت کو سنتے ہیں… اور بالآخر بار بار کی یہ دعوت ان پر اثر کرتی ہے۔
)۳( نماز… ادا کرنے
والا انسان نماز اور نماز کی تیاری کے اوقات میں تو بے حیائی اور بڑے گناہوں سے
خود ہی رکا رہتا ہے… نماز کے یہ لمحات روزانہ کئی گھنٹوں پر محیط ہوتے ہیں… پھر
ایک نماز کے بعد اگلی نماز کے لئے جسم، لباس… اور روح کی پاکی کا اہتمام کرنا ہوتا
ہے… بالآخر اس کے چوبیس گھنٹے… اﷲ تعالیٰ کے لئے ہوجاتے ہیں۔
)۴(گناہ… غفلت کی وجہ
سے ہوتے ہیں جبکہ … نماز… ذکر… یعنی اﷲ تعالیٰ کی یاد ہے… بلکہ نماز تو ہے ہی اﷲ
تعالیٰ کی یاد کے لئے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
واقم الصلوٰۃ لذکری … اور
میری یاد کے لئے نماز قائم کرو… غفلت کا علاج ذکر ہے… شہوت کی نار کو اﷲ کی یاد کا
نور ہی توڑ سکتا ہے… جب… انسان کو کیفیت ذکر نصیب ہوجاتی ہے تو وہ غفلت سے بچ جاتا
ہے… جب غفلت سے بچتا ہے تو گناہوں کے قریب نہیں جاتا…
)۵(نماز… انسان کو
گناہوں پر پختہ نہیں ہونے دیتی… گناہگار آدمی جب… نماز میں آتا ہے تو ندامت سے
توبہ کرتا ہے… اور گناہ چھوڑنے کا عزم کرتا ہے… بار بار کی یہ توبہ بالآخر اسے
گناہوں سے دور کردیتی ہے…
اور بھی کئی صورتیں
ہوسکتی ہیں… جب ہمارے رب نے فرمادیا ہے… تو بس بات پکی ہوگئی… ہاں شرط وہی ہے کہ …
صرف نماز نہیں… کہ… آٹومیٹک… اٹھک بیٹھک ہو… بلکہ اﷲ کا ذکر … اس کی یاد اس کی
عظمت اور حاضر ی والی … پکی… مضبوط … بروقت نماز… اﷲ پاک… ہم سب کو نصیب فرمائے… اسی
کو اقامت صلوٰۃ کہتے ہیں…
)۹( اقامت صلوٰۃ ، سب
سے پہلے:
جب کوئی اچھی ’’جماعت‘‘
بنتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی تائید حمایت… اور نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے… تب اﷲ تعالیٰ
کے ہاں سب سے پہلے اس کی نماز دیکھی جاتی ہے… اگر نماز قائم ہو تو نصرت قائم رہتی
ہے… اور بالآخر قیامت کی کامیابی کا اصل مقصد پورا ہوجاتا ہے… اور اگر نماز نہیں
تو… وہ … جماعت رسوا ہوجاتی ہے… ہاں نماز قائم کرنے کے علاوہ کچھ اور شرطیں بھی
ہیں… اس بات کو سمجھنے کیلئے… ملاحظہ فرمائیے… قرآن پاک کا یہ ارشاد:
ترجمہ: ’’اور اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔
اور ان میں ہم نے بارہ نگران (امراء) مقرر کیے۔ پھر اﷲ نے فرمایا کہ میں تمہارے
ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کروگے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر
ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور اﷲ کو قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے
گناہ دور کردوں گا اور تم کو جنتوں میں داخل کروں گا۔ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی
ہیں۔ پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا۔ (المائدہ ۱۲)
آیت پر خوب غور کیجئے…
ہماری اجتماعی زندگی کی کامیابی کے نسخے ارشاد فرمائے گئے ہیں… جماعت کا قیام…
نگران یا امیر کا تقرر… پھر اعلان ہوا کہ … میں تمہارے ساتھ ہوں… مدد کرنے کے لئے
… اور تمہارے اعمال کو دیکھنے کے لئے… اب جو کچھ دیکھا گیا… اس میں سب سے پہلے نماز
ہے کہ… اگر تم نے نماز کو قائم کیا… اور وہ باقی کام کیے جن کا بیان آیت مبارکہ
میں ہے تو پھر تمہاری… کامیابی یقینی ہے…
کوئی تنظیم ہو یا دینی
مدرسہ… کوئی ادارہ ہو یا حکومت… سب سے پہلا کام جو اﷲ تعالیٰ کے ہاں دیکھا جائے گا
وہ ہے… اقامت صلوٰۃ … یہ تو ہوا دنیا میں… اور پھر آخرت میں بھی سب سے پہلے نماز
کا حساب ہوگا… جیسا کہ … حدیث شریف میں نہایت صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے…
’’قیامت میں آدمی کے
اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب کیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی)
بس ہر جماعت، ہر ادارہ…
ہر مدرسہ… اور ہر خاندان کو چاہئے کہ اپنے ہاں… اقامت صلوٰۃ کا نظام قائم کرے…
تاکہ… اونچے مقاصد حاصل کرنے کے سفر کا… مبارک آغاز… اﷲ تعالیٰ کی نصرت اور خصوصی
معیت کے ساتھ ہوسکے… خصوصاً فریضہ جہاد کے خادموں کو نماز کا خاص اہتمام کرنا چاہئے…
)۱۰( اقامت صلوٰۃ‘ شرک
سے حفاظت کا ذریعہ:
اﷲ تبارک وتعالیٰ کا
ارشاد ہے…
ترجمہ: ’’(اے ایمان والو) اسی (اﷲ) کی طرف رجوع کیے
رہو اور اس سے ڈرتے رہواور نماز ادا کرو اور مشرکوں میں سے نہ بنو۔‘‘ (الروم
۳۱)
نماز… توحید کا قلبی،
لسانی، اور عملی اعلان ہے… ا س لیے نماز کے قیام کا حکم دے کر … فرمادیا کہ…
مشرکوں میں سے نہ بنو… اخلاص اور نماز کا کتنا گہرا جوڑ ہے وہ اس آیت سے سمجھ آتا
ہے… اخلاص والی درست نماز ادا کرنے والے… شرک سے بچ جاتے ہیں… کیونکہ … نماز اول
تا آخر… توحید کا اعلان ہے… اور جو لوگ نماز ضائع کرتے ہیں… ان کا شرک میں مبتلا
ہوجانا آسان ہے… وہ ہر آستانے پر سر جھکاتے ہیں… اور ہر طاغوت کی پوجا کرتے ہیں…
یہاں تک دس وجوہات مکمل
ہوگئیں… آئیے … پھر اپنا ابتدائی سبق دہرالیتے ہیں… ہم نے… اﷲ تعالیٰ سے ایک دعاء
مانگی ہے… یہ دعاء قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے خود ہمیں سکھائی ہے… ’’اے میرے رب
مجھے نماز قائم کرنے والا بنا… اور میری اولاد میں سے بھی… اے ہمارے رب ہماری دعاء
قبول فرما۔‘‘
پھر ہم نے … قرآن پاک ہی
میں سے … دس ایسے موتی چُنے… جنہوں نے نماز کا مقام ہمیں اچھی طرح سے سمجھایا…
ویسے تو ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ … نماز قائم کرنا اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے… نماز
اسلام کا قطعی فریضہ ہے… نماز حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے…
لیکن اﷲ پاک نے ہمیں… قرآن پاک میں غور کرنے کی توفیق بخشی تو ہم نے اقامت صلوٰۃ
کی ضرورت کو سمجھانے والی… سینکڑوں وجوہات میں سے … دس وجوہات کا باہمی مذاکرہ
کرلیا… اور یوں… اﷲ پاک نے ہمیں… نماز کے اور قریب فرمادیا… یاد رکھیے… ہم نماز کے
جتنا قریب ہوتے جائیں گے… اسی قدر ہم اﷲ تعالیٰ کے قریب ہوتے جائیں گے… اب ہماری ذمہ داری ہے کہ … ہم خود …
نماز قائم کرنے والے بن جائیں… اور پھر… اپنے خاندان… اور پوری امت مسلمہ کو نماز
قائم کرنے کی دعوت دیں…
بس یہ مضمون مکمل … آخر
میں قارئین کے ساتھ ایک سودا… بندہ آپ سب مضمون پڑھنے والوں کے لیے دل کی گہرائی
سے … دعاء کرتا ہے کہ … اﷲ پاک آپ سب کو … آپ کے والدین کو… آپ کے اہل واولاد کو …
آپ کے بہن بھائیوں… اور رشتہ داروں کو… نماز قائم کرنے والا بنائے… اور ماضی میں
جو غلطیاں… اور کوتاہیاں ہو گئی ہیں انہیں معاف فرمائے… اور ان کی تلافی کی توفیق
عطاء فرمائے… اور اﷲ تعالیٰ آپ سب کو جہاد
فی سبیل اﷲ کی توفیق عطاء فرمائے… میں نے تو دعاء کردی اب میری گزارش یہ ہے کہ …
مضمون پڑھنے کے بعد… آپ بھی… میرے لیے… یہی دعاء… اﷲ تعالیٰ سے مانگ لیں… اﷲ
تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے… آئیے… مجلس کا اختتام … اسی قرآنی، خلیلی…
پیاری دعاء پر کرتے ہیں…
رَبِّ اجْعَلْنِیْ
مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ
وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَاب
)آمین یا ارحم
الراحمین(
یہ زمین ہے
زمین
ابھی امت مسلمہ کے جانباز
اپنے مسلمان بھائیوں کو نماز کی طرف بلا ہی رہے تھے کہ پورا ملک مجاہدین کے خلاف
ایک نئے آپریشن کے شور سے لرزنے لگا تب القلم نے اپنے مجاہدین بھائیوں کو مسنون
حفاظتی دعاؤں کا تحفہ دیا اور ساتھ ساتھ ظلم کرنے والے حکمرانوں سے بھی چند دو ٹوک
باتیں کیں۔ مسنون حفاظتی دعاؤں کے خزانے پرمشتمل ایک تحریر۔
)۱۵جمادی
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۲جولائی
۲۰۰۵ء(
یہ زمین ہے
زمین
اﷲ تعالیٰ… رحم فرمائے …
فرعون کے جانشین ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں… بالکل اسی کی طرح ظالم… ڈرپوک، عیاش
اور مفاد پرست… بس اپنی ذات، اقتدار اور نام پر ذرا سی آنچ کا خطرہ آیا… تو مذبح
خانے، عقوبت خانے… خون اور ظلم سے بھر دئیے… آپ یقین جانیں فرعون کے یہ جانشین…
دنیا کی خاطر… اپنی آخرت کو برباد کرتے رہتے ہیں… قرآن پاک اٹھا کر دیکھیں… ہر
فرعون کا مزاج بھی سمجھ آجائے گا… اور ہر فرعون کا خوفناک اور بھیانک انجام بھی…
کاش فرعون کا ساتھ دینے والے… اس آگ کا تذکرہ پڑھ لیں… جو قرآن پاک نے بیان کی ہے
کہ … فرعون اور اس کے ساتھی رات دن کس طرح اس میںجلائے جاتے ہیں… اور کس طرح سے
بھونے جاتے ہیں… آج فرعونوں کی بزدلی ہمارا موضوع نہیں ہے جو… ایک نجومی کی بات پر
خوف سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں… اور نہ ہی فرعونوں کا ظلم ہمارا موضوع ہے کہ… کس
طرح سے انسانوں کو ذبح کرتے ہیں… آج ہمارا موضوع کچھ اور ہے… لیجئے پہلی روایت
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے کہ… یہ دعا وہ حفاظتی قلعہ ہے جس کے ذریعے انبیاء علیہم السلام
فرعونوں سے حفاظت کا سامان کرتے تھے…
آگے حضرت علی رضی اﷲ عنہ
سے مروی وہ عجیب، مضبوط اور طاقتور دعاء ہے جسے ’’حرز‘‘ قرار دیا گیا ہے… ’’حرز‘‘
کا معنی ہے محفوظ مقام، حفاظت گاہ، قلعہ، ذریعہ حفاظت
)القاموس الوحید ص۳۲۶(
یقینا آپ کو دعاء کا
انتظار ہوگا… بس اس دعاء سے پہلے مشہور اﷲ والے بزرگ… حضرت امام محمد بن محمد
جزریؒ کے صرف دو اشعار پڑھ لیں… بات اچھی طرح سمجھ آجائے گی… یہ دو اشعار حضرت
امام جزریؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’حصن حصین‘‘ کے مقدمہ میں لکھے ہیں… خوب غور
سے پڑھیں…
اَلاَ قُوْلاَ لِشَخْصٍ
قَدْ تَقَوّٰی
عَلٰی ضُعْفِیْ وَلَمْ
یَخْشَ رَقِیْبَہ
خَبَأْتُ لَہٗ سِہَامًا
فِی اللَّیَالِی
وَاَرْجُوْا اَنْ
تَکُوْنَ لَہٗ مُصِیْبَہ
ترجمہ: خبردار اس ظالم
شخص سے کہہ دو جو دلیر بنا ہوا ہے۔ مجھے کمزور سمجھ کر اپنے حقیقی نگہبان سے نہیں
ڈرتا… میں نے راتوں کو بیٹھ کر یہ (دعاؤںکے) تیر خفیہ طور پر اس (کے مقابلہ) کے
لئے تیار کیے ہیں اور مجھے (اﷲ تعالیٰ سے) امید ہے کہ یہ تیر اس کو ضرور نشانہ بنائیںگے…
لیجئے اب وہ ’’حرز‘‘
پڑھتے ہیں… ہاں… یاد رہے کہ درست تلفظ اور اعراب (زیر زبر) کے ساتھ… پورے یقین اور
توجہ سے پڑھیں ۔
دعاء حرز
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ۔ قَالَ اخْسَئُوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنَ۔ اِنِّیْ اَعُوْذُ
بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا
o اَخَذْتُ بِسَمْعِ اﷲِ وَبَصَرِہٖ وَقُوَّتِہٖ عَلٰی
اَسْمَاعِکُمْ وَاَبْصَارِکُمْ وَقُوَّتِکُمْ۔ یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالاِْنْسِ
وَالشَّیَاطِیْنِ وَالاَْعْرَابِ وَالسِّبَاعِ وَالْہَوَامِّ وَاللُّصُوْصِ،
مِمَّا یَخَافُ وَیَحْذَرُ فُلاَنُ بِنْ فُلاَنُ سَتَرْتُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَکُمْ
بِسَتْرَۃِ النُّبُوَّۃِ الَّتِیْ اِسْتَتَرُوْا بِہَا مِنْ سُطُوَاتِ
الْفَرَاعِنَۃِ۔ جِبْرِیْلُ عَنْ أیْمَانِکُمْ وَمِیْکَائِیْلُ عَنْ شَمَائِلِکُمْ
وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَامَکُمْ وَاﷲُ تَعَالٰی مِنْ
فَوْقِکُمْ یَمْنَعُکُمْ مِنْ فُلاَنٍ بْنِ فُلاَنٍ فِیْ نَفْسِہٖ وَوَلَدِہٖ
وَاَہْلِہٖ وَشَعْرِہٖ وَبَشَرِہٖ وَمَالِہٖ وَمَاعَلَیْہِ وَمَامَعَہٗ
وَمَاتَحْتَہُ وَمَا فَوْقَہُ۔ وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ
وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِالآْخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاo
وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ
یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۔ وَاِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی
الْقُرْآنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلٰی اَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًاo
دعاء حرزکی کچھ تفصیلات
یہ دعا حدیث شریف کی
معروف کتاب کنز العمال صفحہ ۲۸۲
جلد ۲ (کتاب
الاذکارقسم الافعال) پر موجود ہے، دعاء میں دو جگہ فلان بن فلان ہے یہاں فلان بن
فلان نہ پڑھیں بلکہ اپنا اور اپنے والد کا نام لیں مثلا محمد بن احمد… اور اگر کسی
اور کی حفاظت کے لئے پڑھ رہے ہوں تو اس کا اور اس کے والد کا نام لیں… اور اگر
کوئی خاتون پڑھ رہی ہوں تو بن کی جگہ بنت کہے۔ مثلاً فاطمہ بنت زینب…
دعاء کے آخر میں دو قرآنی
آیات ہیں…
یہ سورہ بنی اسرائیل کی
آیات (۴۵) اور
(۴۶) ہیں…
حضرت موسیٰ علیہ السلام
کی دعاء
لیجئے فرعونوں سے حفاظت
کے لئے ایک بہترین قلعہ مل گیا… ویسے… قرآن پاک میں جس فرعون کا کثرت سے ذکر ہے…
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس فرعون کے شر سے ان الفاظ کے ذریعہ پناہ مانگا کرتے تھے…
جو … قرآن پاک نے خود بیان فرمائے ہیں…
وَقَالَ مُوْسٰی اِنِّیْ
عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لاَّ یُوْمِنُ بِیَوْمِ
الْحِسَابِo )المومن
۲۷(
ترجمہ: موسیٰ علیہ السلام
نے کہا میں ہر اس متکبر سے جو قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا اپنے اور تمہارے
پروردگار کی پناہ لے چکا ہوں… اب اس آیات سے دعاء بنائیے…
اَللّٰہُمَّ یَا رَبِّ
اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لاَّ یُوْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ۔
اے میرے پروردگار میں آپ
کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔
دیکھا آپ نے کتنی مزیدار،
سکون بخش… اور طاقتور دعاء ہے… اکڑنے والے… ظالم اس دعاء کے مقابلے میں کہاں ٹھہر
سکتے ہیں؟…
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا
تحفہ
حجاج بن یوسف بڑا ظالم
تھا… ہزاروں مسلمانوں کو اس نے باندھ کر شہید کردیا… یہ بات تو آپ نے سن رکھی
ہوگی… مگر… آج ایک اور بات بھی سن لیں کہ… حجاج بہت بزدل بھی تھا… عجیب بات ہے کہ
اپنوں پر ظلم کرنے والے… اکثر ظالم… بزدل ہوتے ہیں… حجاج کی بزدلی پر تو عربی ادب
میں اشعار تک موجود ہیں… مگر یہی بزدل جو میدان جنگ سے ڈرتا تھا… جب اپنی فوج اور
پولیس کے جھرمٹ میں ہوتا تو اس کے نخرے اور شیخیاں سننے کے لائق ہوتیں… تب وہ ان
حضرات کو بھی ذبح کروا ڈالتا… جن کے علم، تقویٰ اور بہادری پر زمانہ رشک کرتا تھا…
آپ حیران ہوں گے کہ وہ ایسا بدزبان… اور بے حیاء شخص تھا کہ… صحابی رسول حضرت انس
بن مالک رضی اﷲ عنہ پر بھی بھونک پڑا… حالانکہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا نام آتے ہی
آنکھیں آج بھی ادب، احترام، محبت اور عقیدت سے جھک جاتی ہیں… انہوں نے دس برس تک
ان کی خدمت کی جن سے ملنے کیلئے حضرت جبرئیل علیہ السلام بے تاب رہتے تھے… جی ہاں…
حضرت انس رضی اﷲ عنہ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خادم تھے… مگر… اقتدار اور
آمریت کا نشہ بہت خبیث شے ہے کہ چوہے پر بھی… یہ نشہ چڑھ جائے تو دم اٹھائے پھرتا
ہے… خیر حجاج نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کے سامنے بہت نازیبا الفاظ بکے تو انہوں نے…
بلاخوف جھاڑدیا… حجاج غصے میں تڑپ اٹھا… اور کہنے لگا کہ اگر آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی خدمت نہ کی ہوتی… اور خلیفہ نے مجھے آپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہ
دیا ہوتا تو میں آپ کو دیکھ لیتا… حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا… بالکل نہیں… تم ہمارا
کچھ نہیں بگاڑ سکتے… میں نے تمہارے شر سے ایسے الفاظ کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی حفاظت
لے لی ہے کہ… ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد مجھے کسی بادشاہ کے جبر… اور کسی شیطان کی
سرکشی کا خوف نہیں رہتا… یہ سن کر حجاج کے طوطے اڑ گئے… کہنے لگا وہ ’’کلمات‘‘
مجھے بھی سکھا دیجئے… آپ نے فرمایا تم اس کے اہل نہیں ہو… پھر جب حضرت انس رضی اﷲ
عنہ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے یہ دعاء اپنے خادم حضرت ابانؒ کو سکھادی… آپ
نے انہیں فرمایا کہ تم نے میری دس سال خدمت کی ہے… اور میں تم سے راضی جا رہا ہوں…
بس صبح شام یہ دعاء پڑھ لیا کرو…
بِسْمِ اﷲِ
وَالْحَمْدُلِلّٰہِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ بِسْمِ اﷲِ
عَلٰی دِیْنِیْ وَنَفْسِیْ بِسْمِ اﷲِ عَلٰی اَہْلِیْ وَمَالِیْ بِسْمِ اﷲِ عَلٰی
کُلِّ شَیْئٍ اَعْطَانِیْہِ رَبِّیْ بِسْمِ اﷲِ خَیْرِ الاَْسْمَآئِ بِسْمِ اﷲِ
رَبِّ الاَْرْضِ وَالسَّمَآئِ بِسْمِ اﷲِ الَّذِیْ لاَ یَضُرُّ مَعَ اِسْمِہٖ
دَائٌ بِسْمِ اﷲِ اِفْتَتَحْتُ وَعَلٰی اﷲِ تَوَکَّلْتُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ
لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ
اﷲُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا
اﷲُ اَلْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
تَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَرَبُّ
الاَْرْضِیْنَ وَمَا بَیْنَہُمَا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ عَزَّ
جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلاَ اِلٰہَ غَیْرُکَ اِجْعَلْنِیْ فِیْ جَوَارِکَ
مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ اِنَّ
وَلِیِّيَ اﷲُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَہُوَ یَتَوَلّٰی اَلصَّالِحِیْنَo
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اﷲُ لاَ اِلٰہَ
اِلاَّ ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo
(کنزالعمال ص۲۸۳ ۔ج۲(
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی
اﷲ عنہ کا تحفہ
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی
اﷲ عنہ فرماتے ہیں… اگر تم میں سے کسی کو اپنے حکمران سے بددماغی اور ظلم کا خطرہ
ہو تو یہ دعاء پڑھ لے… یقینا تمہیں اس کی طرف سے کوئی برائی نہیں پہنچ سکے گی…
اَللّٰہُمَّ رَبَّ
السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ کُنْ لِّیْ جَارًا مِّنْ
فُلاَنٍ وَاَحْزَابِہٖ وَاَشْیَاعِہٖ مِنَ الْجِنِّ وَالاِْنْسِ اَنْ یَفْرُطُوْا
عَلَیَّ وَاَنْ یَّطْغَوْا عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلاَ اِلٰہَ
غَیْرُکَ۔
دیکھا کتنی زبردست، مؤثر…
نافع اور آسان دعاء ہے… اس دعاء میں جہاں فلان کا لفظ لکھا ہے … وہاں … اپنے
حکمران کا نام لے لیں… اور پھر پورے یقین کے ساتھ پڑھیں… معلوم نہیں آج کے کالم
میں یہ دعائیں کیوں شروع ہوگئیں… حالانکہ… اور بہت سارے مسائل ایسے ہیں… جن پر لکھنے
کی ضرورت ہے… ویسے بعض دعائیں کافی سخت بھی ہیں… ان کو اگر مظلوم پڑھیں تو… ظالموں
کو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں… بے شک… دعاء میں بہت طاقت ہے… ان سخت دعاؤں کو
کیسے لکھیں؟… ہم لوگوں کے اپنے اعمال ہی ہمارے حکمران ہیں… کاش ہم سدھر جائیں …
توبہ کرلیں… اور جو اچھی باتیں کہتے ہیں ان پر عمل بھی شروع کردیں تو بہت امید ہے
کہ … ہمیں اچھے حکمران نصیب ہوجائیں… ان شاء اﷲ ان دعاؤں سے کافی فائدہ ہوگا…
بشرطیکہ ہم نے پانچ وقت نماز کی پابندی کی… گناہوں سے توبہ کی… یقین کے ساتھ پڑھا…
اور الفاظ بھی درست ادا کیے… ویسے ڈرنے، گھبرانے اور پریشان ہونے اور دین کا کام
چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے… باربار پابندیاں… اور ہر روز نئے تماشے صرف ’’غیروں‘‘ کو
خوش کرنے کیلئے ہیں… جب ہم نے اپنا رشتہ مکہ مکرمہ… اور مدینہ منورہ کی سوا چودہ
سو سالہ پرانی زندگی کے ساتھ جوڑ لیا ہے تو پھر… ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ
ہم شکوے کریں… اور حالات کا رونا روئیں… آپ نے وہ شعر سنا ہوگا لیجئے پھر تازہ
کرلیں…
جو لگتا ہے کوئی کنکر بدن
پر دین کی خاطر
تو دل کو وادی طائف کے
پتھر یاد آتے ہیں
آجکل ہمارے ہاں جولائی کا
مہینہ خوب آگ برسا رہا ہے… مگر… مکہ مکرمہ کی گرمی الگ شان رکھتی ہے… کچا گوشت
دوپہر کو ریت پر رکھ دیا جائے تو … کھانے کے قابل ہوجاتا ہے… وہاں سیدنا بلال رضی
اﷲ عنہ لٹائے اور تڑپائے جاتے تھے… پتھر، گالیاں، بائیکاٹ، طعنے، قہقہے، پابندیاں،
ظلم اور گردنوں میں رسے… مکہ مکرمہ میں اس کے علاوہ… ان عظیم ہستیوں کو اور کیا
ملا؟… جن کے ساتھ … میں اور آپ جنت میں… بلکہ… میدان حشر ہی میں جمع ہونا چاہتے
ہیں… تن آسانی… اور نزاکت پسندی کے ساتھ اسلام اور جہاد کے دعوے مذاق معلوم ہوتے
ہیں…
اس لیے جس کو ڈر لگ رہا
ہو… وہ … دوبارہ کلمہ پڑھ کر ایمان کو تازہ کرے… بزدلی سے ہم سب پناہ مانگیں…
جیلیں بھرتی ہیں تو بھرتی رہیں… انہی جیلوں میں … بڑے بڑے گناہگاروں کو خواب میں…
محبت کے ایسے بوسے ملے کہ… صبح اٹھے تو اونچے درجے کے ولی تھے… عقوبت خانوں میں صرف
گوشت پر داغ نہیں پڑتے… نامہ اعمال کے داغ بھی دھل جاتے ہیں… آپ نے کبھی سوچا کہ
جہاد میں غبار اور مٹی کے اتنے فضائل کس لیے بیان ہوئے؟… میرے بھائی سمجھایا گیا
کہ اگر ہر حال میں کپڑے صاف رکھنے ہی کی فکر ہو تو پھر جہاد کا اونچا رستہ نصیب
نہیں ہوتا… اچھا آپ ایک بات خوب سوچ لیں… پھر خود ہی جواب دیں… ہمیں بہت آرام دہ
زندگی مل جائے… گاڑیاں، نوکر، بنگلے، ائیرکنڈیشنر، طرح طرح کے کھانے، عورتیں… اور
یہاں کی تمام نعمتیں… پھر ہم مرجائیں… اور نعوذباﷲ جہنم میں ڈالے جائیں… قبر میں
سترگز کا موٹا سا سانپ لپٹ جائے… یہ بہتر ہے … یا … یہ کہ دنیا میں جیلیں،
تکلیفیں، بھاگ دوڑ… خوف، دھول اور خون… پھر موت آتے ہی ٹھاٹھ شروع ہوجائیں… اﷲ پاک
ہمیں سمجھ نصیب فرمائے… ویسے آپ کے دل میں آرہا ہوگا کہ… کاش آج کے کالم میں سخت
دعاء بھی لکھ دی جاتی… روز روز ستانے والوں… اور ہر آن اکڑنے والوں کو کچھ تو سبق
ملتا… مگر… میرے عزیز بھائیو!… بددعاء سے دعاء بہت بہتر ہے… سبق سکھانا مطلوب ہوتا
تو بہت کچھ ہوچکا ہوتا… مگر … اپنوں کے لئے آخری مرحلے تک صبر… ایمان اور وقت کا
تقاضا ہے… آپ یہ نہ سمجھیں کہ… ظلم کرنے والے مزے میں ہیں… ان بے چاروں کی حالت…
ہم سے زیادہ بری اور تکلیف دہ ہے… اور افسوس یہ کہ… ان کی پریشانی … تکلیف اور
مصیبت … اﷲ تعالیٰ کیلئے بھی نہیں ہے کہ… آگے چل کر اجر کی امید ہو… باقی رہے کافر
تو یہ اپنا کلیجہ نکال کر بھی… ان کے سامنے رکھ دیں… وہ ان سے راضی نہیں ہوں گے…
اﷲ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے…
ولن ترضیٰ عنک الیہود ولا
النصاریٰ حتی تتبع ملتہم۔ (البقرہ ۱۲۰)
ترجمہ: اور تم سے نہ تو
یہودی کبھی خوش ہونگے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار
کرلو…
یہ قرآن پاک کا فیصلہ ہے…
جو پتھر پر لکیر سے بڑھ کر… مضبوط، محکم اور یقینی ہے… ویسے ہم خود سختی کے ساتھ
اس بات کے قائل ہیں کہ… جنگ اسلامی اصولوں کے مطابق ہونی چاہئے… نہتے، غیر مسلح
شہریوں کو نشانہ بنانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے… کسی کو اچھا لگے یا برا… ہمارا یہی
پختہ موقف ہے… کیونکہ یہ واضح اسلامی اصول ہے… مگر… ایک اور بات بھی بالکل صاف ہے
کہ … امریکا اور اسکے اتحادیوں نے عراق اور افغانستان کے نہتے شہریوں کو شہید کیا…
تب… کسی نے نہیں کہا کہ عیسائیت بدنام ہوگئی… تو پھر… دو چار دھماکوں سے اسلام کی
بدنامی کا کیا تعلق ہے؟… ویسے کچھ لوگوں کو اتنا تنگ، مجبور، پریشان… اور بے حال
کردیا گیا ہے کہ وہ لوگ… حالت اضطرار میں ہیں… آپ جانتے ہیں کہ… حالت اضطرار کے
احکامات مختلف ہوتے ہیں… اب علاج تو یہ تھا کہ… انصاف کو عام کیا جاتا… مگر… ایسا
نہیں ہورہا بلکہ… ظلم کو بڑھایا جارہا ہے… خود سوچیں جب ظلم کا بیج بویا جائے گا
تو پھر… ظلم ہی کے درخت اور پودے اگیں گے… کیونکہ یہ زمین ہے زمین… اﷲ کی زمین… اس
کا اپنا ایک مزاج ہے… زمین کا مزاج سمجھنا ہے تو… اﷲ پاک کی کتاب قرآن مجید پڑھیں…
قرآن پاک ہی… مسائل کا حل… زمین کا مزاج… اور کامیابی کا معنیٰ… اور راز بتا سکتا
ہے…
ایک عجیب
کیفیت
ہر کوئی پریشان ہے اور
سکون کا متلاشی ہے۔ مگر مصیبتیں اور پریشانیاں ہیں کہ ہر طرف سے بارش کی طرح برس
رہی ہیں۔ ذہنی پریشانی، جسمانی پریشانی،
مالی پریشانی، غرض پریشانی ہی پریشانی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود سکون نہیں۔ مگر
کیوں؟ یقینا آپ وجہ جاننا چاہیں گے اور علاج بھی۔ تو پڑھئے یہ مضمون۔ ایک عجیب
کیفیت اور سب غموں اور پریشانیوں کو بھو ل کر سکون کی اس پرنور کیفیت میں کھو
جائیے۔
مزید فوائد: (۱) حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی
طرف سے تعلیم فرمودہ دعا کا ایک مستجاب طریقہ (۲) حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا ایک عجیب واقعہ اور ایسی دعا جو نفس
وشیطان کے خلاف ناقابل عبور حصارہے۔
)۲۲جمادی
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۹جولائی
۲۰۰۵ء(
ایک عجیب
کیفیت
اﷲ تعالیٰ ہمارے گناہوں
کو معاف فرمائے… اس وقت سچے دل سے استغفار کی بے حد ضرورت ہے… گناہ … ایمان والوں
کو اس دنیا ہی میں نقصان اور تکلیف پہنچاسکتے ہیں… حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی ایک
پرکیف دعاء سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کے فوری طور پر درج ذیل نقصانات بھی ہوسکتے
ہیں:
(۱) کچھ گناہ ایسے ہیں
جو اﷲ تعالیٰ کے غصے اور انتقام کو لے آتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ معاف فرما۔
(۲) کچھ گناہ ایسے ہیں
جو انسان سے اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں… یااﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف
فرما۔
)۳(کچھ گناہ ایسے ہیں
جو انسان کو حسرت اور پچھتاوے میں ڈال دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف
فرما۔
)۴( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو آسمان سے اترنے والی خیر، بھلائی اور روزی کو انسان سے روک دیتے ہیں… یا اﷲ
ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۵( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو بلاؤں اور مصیبتوں کے نازل ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی
معاف فرما۔
)۶( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو انسان میں موجود گناہوں سے بچنے کی صلاحیت کو ختم کردیتے ہیں… اور اس کے حفاظتی
نظام کو توڑ دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۷( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو تباہی کو جلد لے آتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۸( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو انسان کے دشمنوں کو بڑھا دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۹(کچھ گناہ ایسے ہیں
جو انسان کو امید سے کاٹ کر ناامیدی کے خوفناک گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں… یا اﷲ
ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۱۰( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو دعاؤں کی قبولیت کوروک دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۱۱( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو بارش کو روک دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۱۲(کچھ گناہ ایسے ہیں
جو ہوا کو گھٹا دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔
)۱۳( کچھ گناہ ایسے ہیں
جو انسان کو بے پردہ کردیتے ہیں… یعنی اس پر پڑے ہوئے رحمت، حفاظت اور عزت کے
پردوں کو ہٹادیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما… گویا کہ… گناہوں کی
تیرہ قسمیں بیان فرمائی ہیں… اﷲ تعالیٰ ہماری حالت پررحم فرمائے… ایسا لگتا ہے کہ
… ہم اجتماعی طور پر ان تمام قسم کے گناہوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اس لیے ان گناہوں
کے کڑوے پھل بھی چکھ رہے ہیں… ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم باریک بینی کے ساتھ اپنا
محاسبہ کریں… اور سچے دل کے ساتھ تمام گناہوں سے استغفار کریں… اور ان گناہوں کو
چھوڑ دیں… اب آپ پوچھیں گے کہ … حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی وہ کونسی دعاء ہے
کہ جس میں ان تمام گناہوں سے استغفار کا طریقہ موجود ہے… تو لیجئے یہ روایت …
O حضرت
علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کو جب کسی معاملہ میں پریشانی ہوتی تھی… یا کوئی مشکل،
دشواری، اور تکلیف پیش آتی تو آپ تنہائی میں جا بیٹھتے اور پہلے تین بار ان الفاظ
میں اﷲ تعالیٰ کو پکارتے:
یَا کٓہٰیٰعٓصٓ۔ یَا
نُوْرُ۔ یَاقُدُّوْسُ۔ یَا اَوَّلُ الاَْوَّلِیْنَ۔ یَا آخِرَ الْآخِرِیْن۔ یَا
حَیُّ۔ یَا اَﷲ یَارَحْمٰنُ۔ یَا رَحِیْمُ۔
پھر ان تیرہ طرح کے
گناہوں سے … استغفار فرماتے… جن گناہوں کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے… آپ فرماتے:
یَا حَیُّ یَا اَﷲُ یَا
رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ
)۱(إِغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُحِلُّ النِّقَمَ
)۲( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُغَیِّرُ النِّعَمْ
)۳( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُوْرِثُ النَّدامْ
)۴( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَحْبِسُ الْقِسَمْ
)۵( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُنْزِلُ الْبَلاَئَ
)۶( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَہْتِکُ الْعِصَمْ
)۷( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُعْجِلُ الْفَنَائَ
)۸( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَزِیْدُ الاَْعْدَائَ
)۹( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَقْطَعُ الرَّجَائَ
)۱۰( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَرُدُّ الدُّعَائَ
)۱۱( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تُمْسِکُ غَیْثَ السَّمَائِ
)۱۲( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَظْلِمُ الْہَوَائَ
)۱۳( وَاغْفِرْلِی
الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَکْشِفُ الْغِطَائَ
)کنز العمال ج۔۱۔ص۲۷۸(
امید ہے کہ ان شاء اﷲ
پوری دعاء… اس کی ترتیب اور اس کا ترجمہ سمجھ آگیا ہوگا… عربی والے جملوں کا
ترجمہ… پہلے تیرہ نمبروں میں ترتیب سے آگیا ہے… آجکل پریشانی اور مصیبت کے لمحات
ہیں… ایسے حالات میں شیطان… بے راہ روی، بزدلی اور مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے… کان
میں آکر کہتا ہے… کیوں اپنی زندگی ضائع کر رہے ہو؟ کیوں ان مصیبتوں میں مبتلا ہو؟…
تھوڑا سا جھک جاؤ… کچھ آرام کرو… کچھ اپنی زندگی بہتر بناؤ… وہ مردود ہمیں مرنے سے
پہلے مارنا چاہتا ہے… کیونکہ … ایمانی نظریات… اور دینی کام کے بغیر زندگی… موت سے
بدتر ہے… یہ تو ہوا شیطان… جبکہ… دوسرا دشمن ہمارا اپنا نفس… ہمیں ایک دوسرے کے
عیبوں میں لگادیتا ہے کہ… فلاں کی اس غلطی سے یہ ہوا… فلاں کی اس غلطی سے وہ ہوا…
گویا کہ ہم مصیبت کے وقت تین دشمنوں میں پھنس جاتے ہیں… ایک تو خود وہ مصیبت…
دوسرا شیطان… اور تیسرا نفس… ان حالات میں انتہائی پیارے اور محبوب خلیفہ راشد…
داماد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم… علم وشجاعت کے پیکر… سیدنا علی رضی اﷲ عنہ… ہمیں
سکھا رہے ہیں کہ… کچھ وقت خلوت میں بیٹھ جاؤ… خلوت میں جاکر اپنے اندر جھانکنا
آسان ہوتا ہے… پھر اﷲ تعالیٰ کے پیارے پیارے ناموں سے اسے پکارو… جب لائن جڑ گئی
تو پھر… اپنے گناہوں کو چن چن کر اس طرح مارو… جس طرح… موذی سانپوں اور دشمنوں کو
مارا جاتا ہے… یہ بہت بڑا علاج ہے …اور یہی مسئلے کا حل ہے… پھر اس دعاء میں یہ
بھی سمجھایا گیا کہ… اپنے گناہوں پرغور کرو کہ… کون کون سے گناہوں میں مبتلا ہو،
تاکہ… ان کو چھوڑنا آسان ہوجائے… اور سب سے بڑی بات جو اس دعاء میں ہے… وہ سمجھنے
کے لائق ہے… اور وہ یہ کہ … جب دین کا کام کرنے والوں پر … ظالموں، اور منافقوں کی
طرف سے مصیبت آتی ہے تو … دل میں یہ وسوسہ ابھرتا ہے کہ… ہم تو اتنا اچھا کام کر
رہے تھے… مگر… اﷲ تعالیٰ نے نعوذباﷲ ہماری مدد ہی نہیں کی… ہم اس کے ہیں… مگر وہ
ڈھیل کافروں اور منافقوں کو دیتا ہے… یہ وسوسہ بہت خطرناک … اور بے حد جھوٹا اور
فضول ہے… اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو… دارالجزاء نہیں بنایا… یہ تو… امتحان گاہ اور
عارضی ٹھکانا ہے… بیعت عقبہ کے موقع پر… جب… مدینہ منورہ کے حضرات نے حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی… اور آپ سے وعدہ کیا کہ آپ مدینہ تشریف
لے آئیں… ہم آپ کی پوری حفاظت وحمایت کریں گے … وغیرہ … تو اس بیعت کے بعد ان
حضرات میں سے ایک نے پوچھا… ہمیں… یہ سب کچھ کرکے کیا ملے گا؟… آقا مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا… جنت… دیکھا آپ نے… دنیا میں ترقی، معیشت اور لڈو کھلانے کا
وعدہ نہیں کیا… اور نہ دنیا کی نعمتیں ایمان، اورجہاد کا بدلہ بن سکتی ہیں… الغرض
… مصیبت کے وقت اﷲ تعالیٰ سے شکوہ پیدا نہ ہو… بلکہ … یہ یقین دل میں مستحکم ہو
کہ… اس کا فضل تو بے حد ہے … میں خود ہی گناہگار، قصور وار … اور مجرم ہوں… یہی وہ
عجیب کیفیت ہے جو مچھلی کے پیٹ سے بھی آدمی کو زندہ باہر لے آتی ہے… حضرت یونس
علیہ السلام کی دعاء پڑھ کر دیکھ لیجئے…
لا الہ الا انت سبحانک…
یا اﷲ آپ تو پاک ہیں… آپ سے کوئی شکوہ نہیں… انی کنت من الظالمین … میں خود ہی
ظالم اور قصور وار ہوں… جب یہ الفاظ دل کا حال بن جائیں… یعنی دل مان لے کہ… قصور
اپنا ہے… اور اﷲ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں… تو پھر … نصرت کے ایسے دروازے کھلتے
ہیں کہ… عقل دنگ رہ جاتی ہے… مگر … افسوس ہم اس کیفیت سے محروم رہتے ہیں… اور کتنی
عجیب بات ہے کہ … حضرت یونس علیہ السلام جیسے نبی کو… جو گناہوں سے معصوم تھے… یہ
کیفیت نصیب ہوئی… حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ… جن کوجنت کی باقاعدہ اور پکی
بشارت تھی… اس کیفیت میں ڈوب کر … خود کو قصوروار سمجھ کر… رو رہے ہیں… جبکہ ہم…
جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں… اس کیفیت سے محروم رہتے ہیں… حالانکہ
… ہمارے لیے تو خود کو قصوروار سمجھنا… زیادہ آسان ہونا چاہئے تھا… روئے زمین کا
کونسا گناہ ہے جو ہم … دین کے دعویداروں میں نہیں ہے؟… عہدے بازی، جھگڑے بازی،
پروٹوکول کا حرص… حبّ دنیا … تکبر… شہرت پسندی، تصویر بازی… اور نعوذباﷲ بے حیائی…
کس کس گناہ کا تذکرہ کیا جائے… حسد اور بغض نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہے… اور
اجتماعی اموال میں بے احتیاطی نے ہمیں مکڑی کا جالا بنادیا ہے… حقیقت میں ہم توبہ،
استغفار کے بے حد محتاج ہیں… اﷲ پاک ہمیں توفیق دے کہ… ہم اپنے گناہوں کی شدت کو
سمجھیں… قرآن پاک ہی کولے لیجئے… ہم اس کو نافذ کرنے کی باتیں کرتے ہیں… مگر…
ہمارے رات اور دن اس کی تلاوت سے خالی گزرتے ہیں… ہم اس کے حقوق سے غافل ہیں… کتنے
حافظ دین کے کام کے دھوکے میں… حفظ کی نعمت سے محروم ہوگئے ہیں… اگر یہی ہمارا دین
ہے کہ … قرآن پاک بھی بھول جائیں تو پھر… اﷲ پاک ہی ہمیں ہدایت عطاء فرمائے… الغرض
… ہم بہت گناہگار ہیں… مگر اس کے باوجود … اﷲ تعالیٰ کا فضل دیکھیں کہ اس نے ہمیں…
ایمان کی دولت بخشی… ہمیں دین اورجہاد کا مضبوط نظریہ عطاء فرمایا… ہمیں اس دور
میں اپنا نام لینے کی توفیق عطاء فرمائی… ہم سے دین کا کام لیا… اور ہمیں اپنے
کاموں میں لگایا… ان نعمتوں کی فہرست بہت لمبی ہے… ہم … ان کو شمار بھی نہیں
کرسکتے… بس ضرورت اس بات کی ہے کہ … ہم میں سے ہر شخص صرف اپنے عیب دیکھ کر … ان
پر آنسو بہائے… اپنے گناہ ڈھونڈ کر… ان سے پکی توبہ کرے… اور دین کے کام کو اﷲ
تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت … اور اس کاعظیم احسان سمجھ کر … اس کی قدر کرے… حضرت علی
رضی اﷲ عنہ کی دعاء تو الحمدﷲ… ہم نے سمجھ لی… آئیے آخر میں… ایک اور عظیم الشان
تحفہ حاصل کرکے… آج کی مجلس کا اختتام کرتے ہیں:
ایک عجیب واقعہ
حضرت ہشام بن عروہؒ
فرماتے ہیں کہ … حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ بننے سے پہلے ایک بار … میرے والد
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے… اور فرمانے لگے… رات میں نے
ایک عجیب چیز دیکھی… میں اپنے گھر کی چھت پر … بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ میں نے
نیچے راستے میں کچھ شور وغوغا سنا… میں نے جھانک کر دیکھا تو پہلے گمان کیا کہ رات
کو شکار ڈھونڈنے والے بھیڑیوں کا غول ہے… مگر وہ شیاطین کے مختلف گشتی دستے تھے…
پھر یہ تمام دستے میرے گھر کے پیچھے ویرانے میں جمع ہوگئے… پھر (ان کا سردار)
ابلیس بھی آپہنچا… یہ سارے جب ابلیس کے پاس جمع ہوگئے تو اس نے بلند آواز سے پکار
کر کہا… تم میں سے کون… میری طرف سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کیلئے کافی ہوگا…
(یعنی کون ان کو جاکر بہکائے گا اور نقصان پہنچائے گا) شیاطین کے ایک گروہ نے کہا…
’’ہم‘‘ … پھر یہ گروہ چلا گیا… اور کچھ دیر بعد لوٹ آیا… اور کہنے لگا… ہم ان پر
بالکل قابو نہیں پاسکے… شیطان ابلیس یہ سن کر پہلے سے زیادہ زور سے چیخا اور کہنے
لگا… تم میں سے کون… میری طرف سے … عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کیلئے کافی ہوگا؟
شیاطین کی ایک اور جماعت نے کہا… ’’ہم‘‘ … یہ لوگ گئے اور کافی دیر کے بعد واپس
آئے اور کہنے لگے… ہم تو ان پر کچھ بھی قابو نہیں پاسکے… ابلیس یہ سن کر اس قدر
زور سے چیخا کہ مجھے لگا زمین پھٹ جائے گی… اس نے پھر اپنا وہی اعلان دہرایا… اس
بار بھی شیاطین کی ایک جماعت گئی… اور بہت دیر بعد واپس آئی… اور کہنے لگی… ہم ان
کا کچھ نہیں بگاڑ سکے… یہ سن کر ابلیس غصے کی حالت میں وہاں سے چلا گیا… اور تمام
شیاطین بھی اس کے پیچھے رخصت ہوگئے…
حضرت عروہ بن زبیر رضی
اللہ عنہ نے یہ قصہ سن کر فرمایا… میرے والد حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ عنہ نے
مجھے بتایا کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: جو شخص دن یا رات کے آغاز میں یہ دعاء پڑھ لے اﷲ پاک اسے ابلیس اور
اس کے لشکر سے محفوظ فرما دیتے ہیں …
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ ذِی الشَّانِ، عَظِیْمِ الْبُرْہَانِ، شَدِیْدِ السُّلْطَانِ مَاشَائَ
اﷲُ کَانَ، اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ۔ (کنز العمال ج۔۱ص۲۸۱)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ کے نام
سے جو رحمن ہے رحیم ہے شان والا ہے۔ بڑی دلیل والا ہے۔ مضبوط سلطنت والا ہے۔ جو
کچھ اﷲ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے… میں اﷲ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان سے…
اﷲ تعالیٰ … میری اور آپ
سب کی… تمام گناہوں، شیطانوں، ظالموں… اور نفس امّارہ کے شر سے حفاظت فرمائے…
آمین یا رب المستضعفین
محبت کا
سیلاب اور ڈیم
بغل میں چھری اور منہ میں
رام رام ۔ ہمارے ارباب اقتدار کی دو غلی
پالیسی۔ ایک طرف ملک کے دیندار طبقے کے خلاف ظالمانہ آپریشن اور دوسری طرف ملک میں امن ، سلامتی اور محبت پھیلانے کے بلند وبانگ دعوے۔ اسی انداز محبوبانہ پر
مشتمل ایک صدارتی تقریر پر خیال جی کا ہنستا مسکراتا تبصرہ۔ جس میں طنز ومزاح کی شوخیاں بھی ہیں اور
درد دل کی کسک بھی ۔ گویا کہ قلم کار کے مسکراتے زخم ہیں۔
)۲۲جمادی
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۹جولائی
۲۰۰۵ء(
محبت کا
سیلاب اور ڈیم
اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم
نافع عطاء فرمائے… میرا دوست ’’خیال جی‘‘ علم کے بارے صدر صاحب کی تقریر سن کر
خوشی سے پھول گیا ہے… اس نے ماضی کی طرح اس بار بھی صدر صاحب کا چشم کشا خطاب خوب
کان لگا کر سنا ہے… لیجئے اسی کی زبانی اس خطاب کے اہم نکات… اور ان کی خیالی
تشریح ملاحظہ فرمائیے…
۱۔
مسلمان پوری دنیا میں خلفشار کے ذمہ دار
اس خطاب میں نہایت افسوس
کے ساتھ بتا یا گیا کہ پوری دنیا میں شورش اور خلفشار کے ذمہ دار… مسلمان ہیں… ہم
لاکھ صفائیاں دیں… مگر… مسلمانوں کے کرتوت ان صفائیوں پر پانی پھیر دیتے ہیں…
بالکل بجا فرمایا… مسلمان
عجیب پاگل لوگ ہیں… چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے مرنے لگ جاتے ہیں… غلامی اور ظلم کے
خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں… حالانکہ غلامی کو آئسکریم سمجھ کر … اور ظلم کو بسکٹ سمجھ کر قبول کرلینا چاہئے… یہودیوں نے
مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلیا تو کیا ہوا؟ … فلسطین چھین لیا تو کیا ہوا؟…بس اتنی
معمولی سی بات پر یہودیوں سے لڑائی شروع کردی … امریکہ نے عراق تباہ کردیا… ایک
لاکھ سویلین افراد مار دئیے… بالکل چھوٹی سی بات ہے … مگر وہاں کے پاگلوں نے لڑائی
شروع کردی… افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کیا تو مسلمانوں کو خوشی منانی چاہئے تھی
کہ… ان کی سرپرستی ہورہی ہے مگر وہاں کے پاگل لڑائی پر اتر آئے… ادھر چیچن پاگلوں
کو دیکھیں کہ اپنی سرزمین آزاد کرانے کیلئے لڑ رہے ہیں حالانکہ روس کو اپنا ملک دے
دیں تو کیا ہوجائے گا… معمولی سی بات ہے۔
ادھر بوسنیا والوں کے صرف
ایک رات میں… آٹھ ہزار افراد قتل ہوئے… معمولی سی بات ہے… مگر بہت سارے پاگلوں نے
اسے دل سے لگا لیا ہے… کشمیر میں صرف نوے ہزار افراد مارے گئے ہیں تو سب جہاد جہاد
کا شور کررہے ہیں… حالانکہ… کشمیر ہندوئوں کے حوالے کردیا جائے تو کیا ہوجائے گا؟…
معمولی سی بات ہے… اب خود سوچیں کہ… ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا… اور الجھنا
کہاں جائز ہے؟… پتہ ہے ان تمام باتوں کا کتنا بڑا نقصان ہوا؟… ٹونی بلیئر نے ہمیں
غصے سے فون کیا… اور کافی ناراض ہوئے… دیکھا یہ کتنی… بڑی… اور غیر معمولی بات ہے…
اس بات پر… اگر… پاکستان کے تمام انتہا پسندوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے تو بھی
کم ہے…
۲۔
حقوق العباد
اس خطاب میں مولوی حضرات
کو للکارا گیا کہ… تم لوگ حقوق العباد کی بات نہیں کرتے ہو… اور نہ ان کا خیال
رکھتے ہو…
بے شک یہ بات بالکل درست
ہے… دینی طبقوں نے لوگوں کے حقوق پامال کر رکھے ہیں… ورنہ… حکومت نے تو حقوق
العباد… اس طرح سے ادا کئے ہیں کہ… لوگ چیخ چیخ کر… بس بس کررہے ہیں… مثلاً
oملک
میں جمہوری حکومت قائم تھی… ہم نے … فوج کے زور پر اس کے جملہ حقوق ایسے ادا کئے
کہ وہ لوگ… حرم پاک میں جا بیٹھے…
o آٹا،
دال، گھی… پٹرول اور ڈیزل ہم نے اتنا مہنگا کردیا کہ … غریب عوام کے جملہ حقوق ادا
ہوگئے… اور اب آدھی روٹی کھانے والا بھی فخر کے ڈکار لیتا پھر تاہے کہ میں کوئی
معمولی آدمی نہیں ہوں… میرے پیٹ میں چار روپے کی روٹی موجود ہے… یوں عوام کا معیار
زندگی بلند ہوا ہے اور انہیں… قیمتی چیزیں کھانا نصیب ہورہی ہیں…
o ہم
نے چھ سو سے زائد مجاہدین کو پکڑ کر مار دیا … اور ان کا آخری حق تک ادا کردیا کہ
وہ دنیا سے نجات پا کر جنت کے مکین ہوگئے…
o ہم
نے دینی طبقے کو دربدر کرکے اس کے جملہ حقوق ادا کئے کہ اب مزے سے پھرو اور دیس
بدیس کا پانی پیو…
o ہم
نے پولیس والوں کو کھلی چھٹی دے کر… ان کے بچوں کی اولاد تک کے حقوق ادا کردئیے…
کہ… لوگوں کو… دہشت گرد بنا کر پکڑتے جائیں… اور فقیر بنا کر چھوڑتے جائیں…
o ہم
نے نیب زدہ سیاستدانوں کے حقوق ادا کردئیے کہ انہیں چند دن کے اکرام کے بعد… اونچی
وزارتوں پر بٹھا دیا…
پھر چونکہ لوگوں کے حقوق
ادا کرنے کیلئے… گولی اور ڈنڈے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے اس لئے… ہم نے …وردی اتارنے
سے… وعدہ کرنے کے باوجود انکار کردیا ہے…
۳۔علم
کی فضیلت
خطاب میں علم کی فضیلت پر
بہت زور دیا گیا ہے… خصوصاً ’’علم سائنس‘‘ تاکہ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے انجام سے…
دوچار ہونا آسان رہے… ویسے موجودہ حکومت قائم بھی علم کے زور پر ہے… اسی لئے توہم
وردی نہیں اتار رہے تاکہ… قوم کے ’’علم‘‘ میں رہے کہ ہم کونسا ’’علم‘‘ رکھتے ہیں…
اور کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم خود کو آزاد سمجھ کر اپنی مرضی کے لوگ ملک پر مسلط
کرتی رہے… خبردار!
۴۔
روشن خیالوں سے شکوہ
اس خطاب میں ملک کو تین
طبقوں میں تقسیم کردیا گیا… پھر روشن خیال طبقے سے یہ درد بھرا شکوہ کیا گیا کہ…
اس نے… دین کی تشریح و تعبیر کا کام جاہل علماء کے سپرد کردیا ہے… اور یوں قوم کے
کم پڑھے لکھے لوگ ’’خراب‘‘ ہو رہے ہیں… بالکل ٹھیک ہے… روشن خیال لوگوں سے یہ غلطی
ہوئی ہے کہ… انہوں نے دین کا میدان مولویوں کے لئے خالی چھوڑ دیا… اب فلم سٹار
میرا کو ہی دیکھیں وہ لوگوں کو دین سمجھانے کی بجائے… مہیش بھٹ کے ساتھ بمبئی میں
پھر رہی ہے… اور وہ بھی غلط کام نہیں ہے… مگر اسے کچھ وقت اپنے لوگوں کو دین بھی
سکھانا چاہئے… تاکہ… روشن خیال اسلام لوگوں کو سمجھ میں آئے… اس طرح باقی روشن
خیال خواتین و حضرات کو بھی چاہئے کہ ساری رات ناچنے گانے… شراب پینے اور سارا دن
سونے اور دنیا کمانے میں نہ گزارا کریں… بلکہ کچھ وقت لوگوں کو… روشن خیال اسلام
بھی سکھایا کریں…اور دینی جلسوںکے اشتہارات پر دقیانوس مولویوں کی جگہ… حنا
جیلانی، عاصمہ جہانگیر… مِیرا… اقبا ل حیدر وغیرہ کے نام ہوں… کاش ہماری پاگل قوم
ان باکردار لوگوں سے روشنی لے… ویسے قوم تو تیار ہے مگر افسوس کہ یہ لوگ خود ٹائم
نہیں دیتے… اسی لئے تو لوگ پرانے اسلام سے چمٹے ہوئے ہیں…
۵۔
ابن الوقت بنیں
خطاب میں اس بات پر زور
دیا گیا کہ… وقت کے ساتھ چلیں… اور زمانے کے مطابق خود کو ڈھالیں… یہ بات سمجھاتے
ہوئے مولویوں کی تمام غلطیاں بھی بتائی گئیں کہ وہ ہمیشہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں…
اس نصیحت کے مطابق اب ہر شخص کو چاہئے کہ وہ انتہا درجے کا ’’ابن الوقت‘‘ بنے…
ماضی کے پاگل لوگ اس لفظ کو گالی سمجھا کرتے تھے… اسی لئے تو کبھی انگریزوں سے
لڑتے رہے اور کبھی دوسرے لوگوں سے … وہ کہا کرتے تھے کہ وقت جیسا بھی آجائے… اپنے
نظریات… اور اپنی اقدار کی حفاظت کرنی چاہئے… اسی لئے تو وہ سارے پاگل لوگ مرگئے…
اور ہم چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں… اور گھوم رہے ہیں اس لئے ہم ہمیشہ رہیں
گے… ماضی میں یہاں انگریز کی حکومت تھی… ہم نے وقت کے مطابق اس کا ساتھ دیا… اور
اسکی نوکری کرتے رہے… پھر پاکستان بنا تو ہم اس کے پاسباں بن گئے… الغرض… ہر
طاقتور کے سامنے فوراً جھک جانا کہ وہ نقصان نہ پہنچائے… سب سے بڑی عقلمندی اور
سمجھداری ہے… البتہ کمزوروں کو خوب رگڑناچاہئے…
۶۔
ہم خودمختار ہیں
قوم سے خطاب کے دوران ہی…
جناب ٹونی بلیئر کی خدمت میں بھی کچھ باتیں عرض کی گئیں… اس سے ثابت ہوا کہ ہم
اپنے تمام فیصلے خود کرتے ہیں… اور ہم پر غیر ملکی دبائو کا کوئی اثر نہیں ہوتا
اور موجودہ ملک گیر آپریشن کا لندن بم دھماکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے…
۷۔
اسلام کی بدنامی
خطاب میں نہایت درد کے
ساتھ اسلام کی بدنامی کا ذکر چھیڑا گیا کہ… ان دو چار حملوں سے اسلام بدنام ہوگیا
ہے ورنہ پہلے تو یہ حالت تھی کہ… امریکہ اور یورپ کے لوگوں کی لائنیں اسلام قبول
کرنے کیلئے… ہمارے دروازوں کے باہر لگی رہتی تھیں… روزانہ لاکھوں ہزاروں لوگ مشرف
بہ اسلام ہورہے تھے… اور امریکہ کے صدر سے لے کر برطانیہ کے شاہی خاندان تک کے
افراد… اسلام کے نام پر مرمٹتے تھے… اور انگریزوں کی اسلام سے محبت کا تویہ عالم
تھا کہ… ترکی سے لے کر ہندوستان تک… ہزاروں مسلمانوں کو جلتے تنوروں میں ڈالا جاتا
تھا… نائن الیون… اور سیون سیون سے بہت پہلے… مسلمانوں کے ساتھ ان کی محبت کی
داستانیں عام تھیں… کالا پانی کا قید خانہ… ان کی اسلام کے ساتھ محبت کا منہ بولتا
ثبوت تھا… بس کیا کیا بتایا جائے؟… بوسنیا سے لے کر افغانستان تک … ان کی محبت
دیکھنے کیلئے کتنی قبروں کو کھودا جائے؟… خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ اسلام اور
مسلمانوں کی محبت میں مرے جارہے تھے کہ یہ دھماکے ہوگئے … اور ان کی آنکھوں میں
اسلام بدنام ہوگیا…
۸۔
نیا اسلام
خطاب میں سمجھایا گیا کہ
انتہا پسندوں کے پاس قدیم اور پرانا اسلام ہے… جبکہ… مسلمانوں کو جدید اور نئے
اسلام کی ضرورت ہے… یہ بہت اہم نکتہ ہے… کیونکہ… اس میں ہر قدیم سے رشتہ توڑنے کی
دعوت دی گئی ہے… اس لئے اب بالکل نیا اسلام بنانا پڑے گا… پرانے اسلام میں اللہ
تعالیٰ کو مانا جاتا ہے… جبکہ… اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’’القدیم‘‘ ہے… اسلام میں
قرآن پاک کو مانا جاتا ہے… اس کتاب کی صفت بھی یہ ہے کہ… یہ …قدیم کتاب ہے… اسلام
کا قبلہ کعبۃ اللہ ہے… اور اسی کعبہ کو ’’البیت العتیق‘‘ کا لقب دیا گیا ہے… جس کا
ایک واضح ترجمہ ہے… پرانا اور قدیم گھر… اب اگر… ہر قدیم کو چھوڑ دیا تو پھر… خود
ہی ’’نئے اسلام‘‘ کا معنی سمجھ لیں…
۹۔نیا
آپریشن
خطاب میں بتایا گیا کہ…
ملک کے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ حکم ’’پاس‘‘ کرد یا گیا ہے کہ… وہ…
انتہا پسندوں کو کچلنے کیلئے آپریشن شروع کردیں… اس سلسلے میں… نہ پارلیمنٹ سے کچھ
پوچھا گیا… اور نہ کابینہ سے… ہاں… وزیراعظم کو طلب کرکے… ان کو اطلاع کردی گئی
ہے… جب کام اتنا اہم ہو تو پھر… جمہوریت شمہوریت نہیں دیکھی جاتی… ادھر سے غیر
ملکی رہنمائوں کے فون آتے رہیں… اور ہم یہاں… پارلیمنٹ اور کابینہ کے چکروں میں
پھنسے رہیں یہ نہ کبھی ہوا ہے… اور نہ کبھی ہو سکتا ہے … جب آپریشن اپنی قوم کے
خلاف ہے تو پھر پوچھنے کی کیاضرورت ہے؟…
۱۰۔
محبت پھیل گئی
یہ خطاب… نفرت پھیلانے
والوں کے خلاف تھا … چنانچہ … اس کے ذریعے خوب خوب محبت پھیلائی گئی مثلاً
o قوم
کو تین حصوں میں بانٹ دیا گیا۔
o دلائل
کے ساتھ دینی طبقوں کے خلاف محبت پھیلائی گئی۔
o انتہا
پسندوں کو آپریشن کا محبت بھرا تحفہ دیا گیا اب … یہ خطاب ختم ہوگیا ہے… ملک کے
روشن خیال لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ… انتہا پسندوں کے خلاف جہاد کریں… یوں جب…
روشن خیال اور انتہا پسند ایک دوسرے کے خلاف جہاد کریں گے تو ہر طرف محبت ہی محبت
پھیل جائے گی… ویسے اس وقت کراچی سے خیبر تک پھیلی ہوئی محبت صاف نظر آرہی ہے…
شہداء کرام کی مائیں… اور مجاہدین کی بہنیں دامن پھیلا کر رو رہی ہیں… پولیس والے
پوری محبت کے ساتھ چھاپے مار رہے ہیں… گرفتار شدگان کے ورثاء پوری محبت کے ساتھ
انہیں تھانوں… اور عقوبت خانوں میں ڈھونڈ رہے ہیں… پولیس کے ہاتھوں زخمی ہونے والی
بہنیں… محبت بھرے سلوک پر ہسپتال میں پڑی رو رہی ہیں… دینی طبقے کے افراد… پولیس
والوں کی محبت کے ڈر سے… چھپتے پھر رہے ہیں… بس کیا بتائیں… محبت کا ایک سیلاب ہے
جو… قوم کو بہا کر لے جارہا ہے… کاش اس محبت کو ذخیرہ کرنے کیلئے بھی… کوئی ڈیم
ہوتا…
زمانے کی
ضرورت
دینداروں کو ہر طرف سے دبایا اور
ستایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں ان کے خلاف ظالمانہ آپریشن جاری ہے۔ الزام یہ ہے کہ
یہ لوگ نفرت پھیلاتے ہیں۔ ان کی کتابوں پر پابندی لگائی جارہی ہے اور جیلیں بھری
جارہی ہیں۔ ایسے وقت میں دیندار طبقے کو کیا کرنا چاہئے؟
تو
پڑھئیے درد دل میں ڈوبا یہ مضمون اور طے کیجئے اپنے لیے لائحہ عمل۔
)۲۹جمادی
الثانی ۱۴۲۶ھ
بمطابق۵اگست
۲۰۰۵ء(
زمانے کی
ضرورت
اﷲ تعالیٰ اس ظالمانہ
’’آپریشن‘‘ کو الٹا لوٹا دے… بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے… ہمارے محبوب حضرت قاری
عرفان صاحب نور اﷲ مرقدہ … ایسے مواقع پر بہت جوش سے فرمایا کرتے تھے… اﷲ ایک ہے…
بے شک اﷲ ایک ہے… اور اس کا کوئی شریک نہیں… اسلام آباد بھی عجیب جگہ ہے… فرقہ پرستوں
کا ایک مخصوص ٹولہ ہر حکمران کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے… اور پھر ہر کوئی اپنی
استطاعت کے مطابق… ملک کے دینی طبقے کو تنگ کرتا ہے… مگر اﷲ تعالیٰ کا سچا دین اور
اس کے ماننے والے بہت سخت جان ہیں… ان کو ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے… اپنی
آنکھوں میں حسرت کے کانٹے لیے مرگئے… حضرت قاری عرفان صاحبؒ فرمایا کرتے تھے… ایوب
خان کہا کرتا تھا میں ملک کے علماء کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دوں گا… یحییٰ خان
تو علماء اور دینی طبقے سے سخت بے زار تھا… کس کس کی بات کی جائے… مکہ مکرمہ میں
جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو معلوم ہے… مکہ کے
مشرک سرداروں نے کیا کہا؟… وہ کہتے تھے یہ شخص نفرت پھیلا رہا ہے… ملک وقوم کا
دشمن ہے… مجنون اور پاگل ہے کہ حالات نہیں سمجھتا… ابوجہل اور ابولہب کے یہ جملے…
آج تک … حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے وارثین پر… تیروں اور پتھروں کی طرح برسائے
جارہے ہیں… کونسی نفرت… اور کیسی نفرت؟… کیا ان بتوں کی پوجا کو برا بھلا کہنا غلط
ہے جن کو لوگ… اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں؟ … ہاں بتوں کے پجاری یہی سوچتے
تھے کہ… نفرت پھیل رہی ہے… حالانکہ توحید کا نور پھیل رہا تھا… آج کے بڑے بتوں کے
پجاری بھی … علماء اور مجاہدین کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ… یہ … نفرت پھیلا رہے
ہیں… جی ہاں آپ لوگ جو ہر مجلس میں دینداروں کو گالیاں دیتے ہیں… وہ نفرت پھیلانا
نہیں ہے… اور نہ وہ فرقہ واریت ہے… کیونکہ … آپ کے منہ میں… محبت کی شوگر بھری
ہوئی ہے… کل کوئی بتا رہا تھا کہ … کراچی کے بڑے پولیس افسر نے… اردوبازار کراچی
کے تاجران کتب کو جمع کرکے کہا… جہاد کی کوئی کتاب فروخت نہیں ہونی چاہئے…
قادیانیوں کے خلاف کوئی کتاب برداشت نہیں ہوگی… یہاں تک کہ یہود ونصاریٰ کے خلاف
بھی کوئی لٹریچر آپ لوگوں کے ہاں نہیں بکنا چاہئے… ایک بزرگ تاجر نے کہا آپ صاف
کہہ دیں کہ… قرآن پاک کی اشاعت ہی بند کردی جائے اس لیے کہ … جن باتوں سے آپ روک
رہے ہیں و ہ تو ساری کی ساری قرآن پاک میں موجود ہیں… یہ سن کر … وہ پولیس افسر
صاحب طیش میں آگئے… اور گالیاں اور دھمکیاں دے کر چلے گئے… ہماری حکومت ملک میں جو
محبت پھیلانا چاہتی ہے اس کے آخر میں یہی گالیاں اور دھمکیاں ہی ہوتی ہیں… ہماری
حکومت جس تحمل اور رواداری کو … قوم میں عام کرنا چاہتی ہے… اس کا انجام بھی گولی،
ڈنڈے اور ہتھکڑی پر ہوتا ہے… شاید کچھ حکمرانوں کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ … انہوں نے
اس ملک کو خرید لیا ہے… اب وہ یہاں کے مالک… اور باقی سب غلام ہیں… جس طرح ڈوگروں
نے کشمیر کو پچھتّر لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض… انگریزوں سے خرید لیا تھا… اﷲ پاک
کی کتاب قرآن مجید میں خصوصیت کے ساتھ جن پانچ موضوعات کو بیان کیا گیا ہے… ان میں
سے ایک موضوع … ’’علم المناظرہ‘‘ ہے… قرآن پاک نے یہودیوں، عیسائیوں، مشرکوں،
منافقوں اور بددینوں کے خلاف… خوب کھل کر… دلائل دئیے ہیں… اور ان کے غلط عقائد کا
رد کیا ہے… کسی کو یقین نہ آئے تو ابتدائی پانچ پارے پڑھ کر دیکھ لے… سورہ فاتحہ
کے آخر میں… بتادیا گیا کہ… اس زمین پر کچھ لوگ… ایسے بھی ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ کا
غضب ہے… اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گمراہ ہیں… پھر اگلی سورۃ کا نام ’’البقرہ‘‘ ہے
اس میں یہودیوں پر شدید ردّ ہے… کیونکہ یہودیویت کی پوری تاریخ ’’گائے‘‘ کے گرد
گھومتی ہے… چنانچہ اس سورۃ کا نام ’’البقرۃ‘‘ ہے اور عربی میں بقرہ گائے کو کہتے
ہیں… اس سورت میں ان لوگوں کا خاص طور سے بیان ہوا جن پر اﷲ تعالیٰ کا غضب ہے… اس
کے بعد والی سورۃ ’’آل عمران‘‘ ہے جس میں گمراہ لوگوں… یعنی عیسائیوں سے مکالمہ
اور مناظرہ ہے… میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ … قرآن پاک نفرت نہیں پھیلاتا… جو
ایسا کہے یا سوچے تو اس کا منہ کالا… قرآن پاک کی ایک سورۃ کا نام ’’المنافقون‘‘
ہے… اس میں ابن الوقت منافقین پر شدید ردّ ہے… اسی طرح مشرکین اور بددینوں پر بھی
بہت ساری آیات میں تردید موجود ہے… کیا کسی نام نہاد روشن خیال میں یہ اخلاقی
جرأت ہے کہ … وہ قرآن پاک سے فیصلہ کرائے کہ… کون محبت پھیلا رہا ہے اور کون
نفرت؟… مگر کہاں؟ … اگر اخلاقی جرأت ہوتی تو غیروں کی خاطر اپنوں کے گلے کیوں
کاٹتے؟اور دل کی جگہ صرف معدے ہی کی فکر میں کیوں مرتے؟… آپ حیران ہوں گے کہ… آج
ہر روشن خیال … ایک ہی بات بار بار دہرا رہا ہے کہ… (نعوذباﷲ) اسلام مسخ ہوچکا ہے… اور اصلی اسلام لوگوں کے سامنے لانے
کی ضرورت ہے؟…
میں پوچھتا ہوں کہ… یہ
اصلی اسلام کیا ہے؟… اور کہاں ہیں؟… اگر کسی میں اخلاقی جرأت ہے تو وہ صرف اسی
سوال کا جواب دے دے… اور پوری قوم کو سمجھادے کہ… اصلی اسلام کہاں لکھا ہوا ہے؟…
یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ جملہ ہے جس پر … ان لوگوں کو… کسی نہ کسی دن ضرور پچھتانا
پڑے گا… اسلام تو وحی کے ذریعہ نازل ہوا ہے… یہ دین عقل سے نہیں بنایا گیا بلکہ…
اﷲ تعالیٰ نے پورا کا پورا دین خود نازل فرمایا ہے… انسان کی عقل تو بہت ناقص ہے…
لینن اور اسٹالن جیسے ذہین لوگ… جن کی ایک دنیا نے پوجاکی… بیوی اور بہن کے درمیان
فرق کرنے کو غلط سمجھتے تھے… بے شک انسان کی عقل ناقص ہے… اس لیے… دین کی بنیاد
عقل پر نہیں… وحی پر رکھی گئی ہے… روشن خیال حضرات وخواتین… اگر … اپنے نظریات اور
اعمال کے لئے… وحی الٰہی سے کوئی دلیل لاتے ہیں تو سر آنکھوں پر… لیکن اگر وہ
حالات کے مطابق چلنے کو دین سمجھتے ہیں تو یہ سراسر غلط ہے… مکہ مکرمہ میں… جب دین
کی دعوت کا آغاز ہوا تو حالات بالکل موافق نہیں تھے… اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے… اپنی دنیا اور اپنی ترقی کو
قربان کرکے… دین کو اپنایا… اور اسلام کو پھیلایا… اس لیے صرف اتنا کہہ کر امریکہ
کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا کہ… ہم پیچھے رہ جائیں گے… ہم ترقی نہیں کرسکیں گے… ٹھیک
ہے جن کو آپ انتہا پسند کہتے ہیں وہ… جہاد کو مانتے ہیں… مگر ان کے پاس وحی متلو…
یعنی قرآن پاک کی سینکڑوں آیات ہیں… جن میں … جہاد بمعنی قتال فی سبیل اﷲ کا حکم
اور تذکرہ موجود ہے… اور ان کے پاس وحی غیر متلو… یعنی حدیث پاک کی بے شمار دلیلیں
ہیں… اور ان کے پاس حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ… آپ خود جہاد میں
نکلے… بار بار نکلے… اور زخمی ہوئے… اب روشن خیال حضرات یہ بتائیں کہ… ان کے پاس
جہاد کی مخالفت کرنے کیلئے… کون سی دلیل ہے… صرف اتنی کہ … ہم کمزور ہیں… دشمن
ہمارا آملیٹ بنادے گا… یہ تو کوئی دلیل نہیں… مسلمان ہر زمانے میں کمزور تھے… مگر…
ان میں سے جو ڈٹے رہے انہی کی برکت سے دین ہم تک پہنچا ہے… آجکل اخبارات میں… نیکر
پہننے … ڈاڑھی نہ رکھنے… اور برقع نہ پہننے پر زور ہے… کیا دلیل ہے آپ کے پاس؟…
ستر چھپانے، ڈاڑھی رکھنے… اور پردہ کرنے پر تو دلائل موجود ہیں… آپ کے پاس بس یہی
دلیل ہے کہ… آپ کے ہاتھ میں… ڈنڈا ہے… اور ملک کا دینی طبقہ انتشار کا شکار ہے…
اور اس میں ایک دوسرے کے لئے بے حسی پیدا ہوچکی ہے…
ہاں بس یہی ستم ہے… ورنہ
… دین کے خلاف بے دلیل… اور بے دھڑک بولنا اتنا آسان تو نہیں تھا… اﷲ تعالیٰ ملک
کے دینی طبقے کو… سیاست سے ہٹا کر غیرت پر آنے کی توفیق دے تو پھر دیکھیں… کون
کتنے پانی میں کھڑا ہے…
اصل اسلام کیا ہے؟… کوئی
تو اسے دلائل کے ساتھ پیش کرے… اﷲ کی قسم اگر ہم غلط ہوئے تو توبہ کرنے میں ایک
منٹ کی دیر نہیں لگائیں گے… لیکن اگر… اصل اسلام یہی بنایا جارہا ہے کہ … ہم عالمی
استعمار کے سامنے سجدہ کریں… اور وقت کے مطابق اپنا عقیدہ، عمل… اور نظریہ بدلتے
رہیں تو پھر… رب کعبہ کی قسم… جیل اور تھانے تو کیا… جسم کے ٹکڑے کردئیے جائیں تو
… ان شاء اﷲ… قرآن پاک… اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے … قطعاً دستبردار نہیں
ہوں گے… ڈنڈے اور گولی کے زور پر کسی ہندو اور یہودی کو ضرور بدلا جاسکتا ہے…
مسلمان کو ہر گز نہیں… بلکہ… مسلمان تو سختی کے موسم میں ہی … سچا مسلمان بنتا ہے…
اور ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ… ظلم وستم کے اس دجالی دور میں بھی… اچانک… اسلامی
غیرت کا کوئی چراغ جلتا ہے… اور پھر… زمین تھر تھر کانپنے لگتی ہے… اس وقت بس ایک
بات کی کمی ہے… کاش وہ کمی… کلی طور پر نہ سہی… جزوی طور پر ہی دور ہوجائے کہ…
دینی طبقہ … انتشار کی آگ سے باہر نکل آئے… آج عجیب موسم ہے… کچھ لوگ زنجیروں میں
جکڑے جارہے ہیں… اور کچھ خوشیاں منا رہے ہیں… اور خود کو عقلمند سمجھ رہے ہیں… یہ
ذہنیت مدنی تربیت سے میل نہیں کھاتی… کاش دینی طبقے کو… اپنی ذات کے خول میں
گرفتار لیڈروں کی بجائے… درد دل رکھنے والی قیادت نصیب ہو… تب … ہمیں جانوروں کی
طرح شکار نہیں کیا جاسکے گا… اور نہ اسلامی احکامات کو تضحیک کے بوٹوں تلے روندا
جاسکے گا… سب دینی جماعتیں ایک ہو جائیں … سردست ایسا ممکن نہیں ہے… لیکن… مسلمان
ہونے کے ناطے سورہ حجرات کے ضابطہ اخلاق پر عمل تو ممکن ہے… دینی طبقے تمام کے
تمام مظلوم ہیں… کوئی بھی حکومت یا ایجنسیوں کا ایجنٹ نہیں ہے…سب کا نمبر… آنے
والا ہے… علیحدہ علیحدہ اس لیے ذبح کیا جارہا ہے تاکہ… یہ لوگ متحد نہ ہوجائیں…
پہلے مجاہدین ذبح ہوئے تو… مدارس اور سیاسی جماعتوں نے… دامن سمیٹ لیا کہ ہم پر ان
کے خون کے چھینٹے نہ پڑ جائیں… اب کچھ مدارس پر ہاتھ پڑا… تو … باقی مدارس نے
صفائیاں دینا شروع کردیں… کہ… ہم پاک ہیں ہم صاف ہیں… اﷲ کے بندو… ان کی دشمنی
قرآن پاک کی تعلیم سے ہے… پھر ان کو صفائیاں دینے کی کیا ضرورت ہے؟… ہاں سینہ تان
کر… حضرت شیخ الہندؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے… ظلم کا ہاتھ آہستہ آہستہ
… ان دینی سیاسی جماعتوں کی طرف بھی بڑھ رہاہے… جو ڈیڑھ صوبے کی حکومت کی خاطر…
بہت کچھ برداشت کر رہی ہیں… قوم کا گرم خون… اگر پہلے ہی نکال لیا گیا … تو پھر… جب
ان بڑی جماعتوں پر برا وقت آئے گا تو… نہ زمین روئے گی… اور نہ آسمان…
اﷲ کرے ایسا وقت نہ آئے…
دین محفوظ ہے …اﷲ کرے دیندار بھی محفوظ رہیں… کاش دینی طبقے کے … زعماء… اور
افراد… اب وقت کی پکار کو سمجھ لیں… اور ایک دوسرے کی بربادی پر خوش ہونے کی
بجائے… اس حقیقت کا ادراک کریں کہ… جو کچھ کٹ رہا ہے وہ بھی ان کا اپنا ہے… یہ وقت
خوف کا نہیں جرأت کا ہے… تاریخ پھر کسی بیعت رضوان کی منتظر ہے… اس وقت جو … امت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو بچانے کی خاطر… فضاء کو… عمومی دینی اتحاد سے معطر کرے
گا… وہی اس زمانے کا مجدّد الف ثانی ہوگا…
کلامِ
اقبالؒ… کالعدم؟؟؟
مسلمان دنیا بھر میں ذلیل
ورسوا ہیں اور اسلام بدنام ہو رہا ہے۔ تنگ نظر مولویوں اور بنیاد پرست دینداروں نے
اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کردیا ہے۔ اس لیے ان سب پر پابندی عائد کردی جائے ۔
اور ان کی کتابیں ضبط کرلی جائیں اور نعوذباﷲ قرآن مجید میں بھی کاٹ چھانٹ کرکے
جہادی اور نظریاتی مواد نکال دیا جائے۔ یہ تو ہے سرکاری دعویٰ اور اس کے دلائل۔
القلم کیا کہتا ہے؟ یہ تو مضمون پڑھنے پر ہی پتا چلے گا۔
مزید فوائد: (۱) کاروباری یا خاندانی
مجبوریوں کی بناء پر بیرون ملک رہنے والے مسلمانوں سے چند باتیں۔ (۲) کلام اقبال سے منتخب
اشعار اور ان کی تشریح۔
)۶رجب
۱۴۲۶ھ بمطابق۱۲اگست ۲۰۰۵ء(
کلامِ
اقبالؒ… کالعدم؟؟؟
اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن
مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے… اس لیے قرآن والوں کو ڈرنے، گھبرانے اور پریشان
ہونے کی خاص ضرورت نہیں ہے… کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ایک منحوس شاعر نے آسمانی
کتابوں کو نعوذباﷲ نفرتوں کے صحیفے بکا… خیر اچھے شعراء کی بھی کمی نہیں ہے … چند
مہینے پہلے ارادہ ہوا کہ کوئی ایسا ہلکا پھلکا تصنیفی کام کیا جائے… جس میں زیادہ
تحقیق اور دماغ سوزی نہ ہو… اچانک خیال آیا کہ … علامہ اقبال مرحوم کے کلام سے
جہادی اشعار… اور نظموں کو چھانٹ کر… ان کی مختصر تشریح لکھ دی جائے… ابتداء میں
یہ کام آسان لگا… مگر جب کلیات اقبال میں سے … مطلوبہ جہادی اشعار کا انتخاب شروع
کیا تو کام بڑھتا ہی گیا… اور محسوس ہوا کہ اگر بہت بخل کے ساتھ بھی لکھا جائے تو
کم از کم ڈھائی سو صفحات کی کتاب تیار ہو جائے گی… یہ تو اچھا ہوا کہ ابھی تک یہ
کتاب مکمل نہیں ہوسکی… ورنہ حالیہ مہم کے دوران علامہ اقبال کا نام بھی… نفرت
پھیلانے والوں میں لکھ دیا جاتا… اور ممکن ہے وہ کتاب بھی… ممنوعہ لٹریچر میں شمار
کی جاتی… اور ’’کالعدم‘‘ ہوجاتی… ویسے راز کی بات بتاؤں کہ … کلیات اقبال میں جہاد
کے موضوع پر سینکڑوں اشعار موجود ہیں… اور جہاد کا معنیٰ ان اشعار میں ’’قتال فی
سبیل اﷲ‘‘ بالکل واضح ہے… اور تو اور علامہ اقبالؒ نے منکرین جہاد کا بھی خوب سبق
لیا ہے… اور انہیں بہت کھری کھری سنائی ہیں… قرطبہ اور اندلس کا رونا بھی رویا ہے…
شہادت کے فضائل بھی بیان کیے ہیں… اور جہاد کی حکمتوں پر بھی خوب روشنی بکھیری ہے…
دعاء کریں ’’کلیات اقبال‘‘ پر پابندی نہ لگ جائے یا حکومت … علامہ اقبال مرحوم کے
اکلوتے فرزند جاوید اقبال صاحب کو تنگ نہ کرے… ویسے وہ اپنے والد محترم سے کافی
مختلف ہیں… شراب نوشی کا اقرار … اور علماء پر تنقید کے ذریعے… وقتاً فوقتاً محبت
… اور روشن خیالی کا اظہار کرتے رہتے ہیں… علامہ اقبالؒ کا تذکرہ ہو ا تو ایک اور
بات یا دآگئی… دراصل ہمارا ملک پاکستان بنا ہی … نفرت پھیلانے والوں کی محنت سے
ہے… ۱۹۴۷ء
سے پہلے تو ہندوستان متحد تھا… یہاں انگریز کی حکومت تھی… کانگریس والے چاہتے تھے
کہ انگریز نکل جائے… اور ملک متحد رہے… کانگریس کے جلسوں میں محبت کا سبق پڑھایا
جاتا تھا کہ… ہندو مسلم بھائی بھائی … ہندو اور مسلمان لیڈر جلسوں کے دوران ایک
دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کرتے تھے… اور اسٹیج پر لاکھوں
لوگوں کے سامنے ایک پیالے سے… ایک دوسرے کا جھوٹا پانی پیتے تھے… اس وقت مسلم لیگ
والے… اس بات پر سخت برہم ہوتے تھے… اور ہندوؤں کے خلاف خوب تقریریں کرتے تھے… اور
مسلم لیگ کے نوجوان… ان مسلمان لیڈروں کی توہین بھی کرتے تھے جو ہندو مسلم کے
اتحاد کے حامی تھے… یہ بہت لمبی داستان ہے مگر اب ہندو کے خلاف بولنا بھی جرم ہے… ملتان
کی ایک عدالت میں ایک عالم دین پر… ہندوستان کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں مقدمہ
چلایا جا چکا ہے… اﷲ بھلا کرے سیشن جج صاحب کا جنہوں نے فاروق لغاری کے بیٹے جمال
لغاری کی طرف سے قائم کردہ اس مقدمے کو خارج کردیا… آج کے اخبار میں پھر خبر لگی
ہے کہ … انتہا پسندی اور فرقہ واریت پر مبنی لٹریچر پر پابندی لگادی گئی ہے… مگر …
اب تک کسی کو یہ پتہ نہیں ہے کہ انتہا پسندی کا کیا معنیٰ ہے؟… اور فرقہ واریت کسے
کہتے ہیں؟… فرقہ واریت پر مبنی لٹریچر بند کرانے کیلئے تو دینی طبقے… سالہا سال سے
مطالبہ کر رہے ہیں… مگر … اب جو یہ اندھی مہم چلی ہے… اس میں نہ نیت صاف ہے… اور
نہ رستہ واضح … اگر جہاد یعنی اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں لڑنا… جنگ کرنا… اور قربانی
دینا… یہ انتہا پسندی ہے تو پھر … اسلامی کتب خانے کا کچھ بھی نہیں بچے گا… ہلاکو
خان کے دور میں اسلامی کتب خانے کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا… اس ظالمانہ… اور
جاہلانہ نعرے سے پہنچ سکتا ہے… قرآن پاک کی تو ایک سورۃ کا ایک نام … القتال ہے…
جس کا معنیٰ ہے ’’جنگ‘‘… ایک اور سورۃ کا نام … ’’الانفال‘‘ ہے… جس کا معنیٰ ہے…
جنگ کے دوران دشمن سے چھینا ہوا مال… پورے قرآن پاک میں جنگ وقتال کے موضوع پر…
پانچ سو کے لگ بھگ بالکل صریح اور واضح آیات موجود ہیں… ہمیں اسلام کو بدنامی سے
بچانے کیلئے… اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ ہم… قرآن پاک کو بدلیں یا چھپائیں…
ہمارے پیارے نبی حضرت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم… اپنے زمانے کے کافروں کو اچھے نہیں لگتے تھے… مشرکین مکہ
ان کے دشمن تھے… مدینہ منورہ کے یہودی ان کے دشمن تھے… مدینہ منورہ کے منافق ان کے
دشمن تھے… ہوازن وثقیف کے بت پرست قبائل ان کے دشمن تھے… عرب عیسائی دشمن تھے…
فارس کے آتش پرست ان کے دشمن تھے… روم کی اشرافیہ ان کی دشمن تھی… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی سیرت مبارکہ پڑھ کر دیکھ لیجئے… مشرکوں، یہودیوں، منافقوں… اور متعصب
عیسائیوں نے آپ کو شہید کرنے کی سازشیں اور کوششیں کیں… معلوم ہوا کہ … اسلا م تو
ان سب کی نظر میں اس وقت بھی برا تھا… اسی لیے تو غزوہ بدر سے لیکر موتہ اور تبوک
تک کے معرکے اور ان کی تیاریاں ہوئیں… اگر اسی کا نام ’’بدنامی‘‘ ہے تو… یہ بہت
پرانی ہے… اس وقت اس بدنامی کو دھونے کیلئے کیا کیا گیا؟… بات بالکل واضح اور سب
کو سمجھ میں آنے والی ہے کہ… جس غیرمسلم کو اسلام اچھا لگتا ہے تو وہ… فوراً
مسلمان ہوجاتا ہے… اور جسے اچھانہیں لگتا… اس کی نظر میں… ناقابل قبول یا برا ہوتا
ہے… یہ بات ایک بچے کو بھی سمجھ آسکتی ہے… مگر… آج ہر طرف … اسلام بدنام … اسلام
بدنام کا شور ہے… دراصل ہم نے ان اسلام دشمنوں کو اپنی نظروں میں اتنا اونچا
بنالیا ہے کہ … اب … ہمارے نزدیک نعوذباﷲ… اسلام کو بھی ان کی تعریف کی ضرورت ہے…
نہ بابا نہ!… اسلام بہت اونچا اور سچا دین ہے… اسے کسی ابوجہل، ابولہب، بش، بلیئر
کی تعریف وتحسین کی ضرورت نہیںہے…
ہاں آج کل ایک اور مسئلہ
بہت سنگین ہے… ہمارے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی نااہلی… ظلم اور بے انصافی کی وجہ
سے… ہمارے بہت سے مسلمان بھائی… غیر مسلموں کے ممالک میں مقیم ہیں … دنیا میں پیش
آنے والے کئی واقعات کی وجہ سے… ان ملکوں کے غیر مسلم باشندے ان مسلمانوں کو تنگ
کرتے ہیں… تب … یہ نعرہ پھر گونجتا ہے کہ… اسلام بدنام ہوگیا… یہاں بعض حقائق پر
سرسری سی نظر ڈالنا ضروری ہے…
)۱(اس بات پر غور کیا
جائے کہ مسلمانوں کو روزی کمانے کیلئے غیر مسلموں کے ملکوں میں کیوں جانا پڑتاہے؟
آپ بہت باریکی سے غور
کرلیجئے… اس صورتحال کے ذمہ دار نہ مجاہدین ہیں ، نہ علماء… اور نہ دینی مدارس اور
جماعتیں… پھر کون ذمہ دارہے؟… ذرا بازار جاکر … اشیاء خوردونوش کے ریٹ معلوم
کرلیجئے… ذرا تھانے جاکر… انصاف کی فراہمی کا جائزہ لے لیجئے… ذرا وڈیروں کے ہاں جاکر…
سماجی برابری کے ہولناک مناظر دیکھ لیجئے… ذرا حکمرانوں اور آفیسروں کی جائیدادوں
اور عیاشیوں کی ایک جھلک دیکھ لیجئے… ذرا سیکورٹی اداروں کے اندھے اختیارات … اور
جابرانہ طرز عمل کا مشاہدہ کرلیجئے… بہت کچھ سمجھ آجائے گا… بہت کچھ…
)۲( ہمارے مسلمان
بھائی… کس مقصد سے غیر مسلم ممالک میں تشریف لے گئے ہیں… دین پھیلانے؟… اسلام کا
نام سربلند کرنے؟… اسلام کو بدنامی سے بچانے؟… اسلام کی تبلیغ کرنے؟… یا پھر… بے
پناہ مال بنانے؟… عیاشیاں کرنے؟… خود کو غیر مسلموں جیسا بنانے؟… ان سوالات پر غور
کرنے سے … ضرور اس شور کا مقصد سمجھ آجائے گا کہ اسلام بدنام ہورہا ہے…
کاش حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ان فرامین کو بھی یاد رکھا جاتا … جن میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے… غیر
مسلموں کے علاقوں میں رہنے سے منع فرمایا ہے… مگر… اس فانی دنیا کے نخروں نے ہمیں
کافروں کے بوٹ صاف کرنے پر لگادیا… اور اب جبکہ… وہ اپنی اصلیت پر اتر رہے ہیں تو
ہمیں… اسلام اور مسلمانوں کے عیب نظر آنا شروع ہوگئے ہیں…
)۳( ہمیں اعتراف ہے کہ
بہت سارے مسلمان… بعض حقیقی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر کافروں
کے ممالک میں آباد ہیں… اور ہم ان مسلمانوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں
نے… دیار کفر کے ناپاک ماحول میں بھی… اپنے ایمان، اعمال… اور اسلامی کردار کی حفاظت
کی ہے… مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ … مجبوری کو… مجبوری ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے
لیکن اگر اسے ’’فخر‘‘ بنالیا جائے تو وہ گلے کا سانپ بن جاتی ہے… کیا کافروں کے
ملکوں میں رہنے والے مسلمان خود کو… مجبور اور بے وطن سمجھتے ہیں؟… کیا وہ اسلامی
ممالک میں واپس آنے کیلئے راتوں کو چھپ چھپ کر روتے اور دعائیں مانگتے ہیں؟… کیا
وہ اس بات کا ہمیشہ اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ ان کی مجبوری ختم ہوئی ہے یا
برقرار؟… ممکن ہے کچھ لوگ ایسا کرتے ہوں کہ… اﷲ تعالیٰ کی زمین صدیقین اور صالحین
سے خالی نہیں ہوتی… مگر… اکثریت کی سوچ اس کے بالکل برعکس ہے… وہ تو خوشی اور فخر
سے پھٹے جارہے ہیں… اور ہر آئے دن ان کے نخروں میں اضافہ ہورہا ہے… وہ خود کو…
پاکستان وغیرہ میں بسنے والے انسانوں سے… بہت بلند اور بالا مخلوق سمجھتے ہیں… اور
ہر بات کے ساتھ یہ بتانا لازمی سمجھتے ہیں کہ … ہم یوکے یا یو ایس اے سے آئے ہیں…
اور وہاں رہتے ہیں… ان لوگوں کی نظر میں پاکستان… اور اسلام (نعوذباﷲ) حقیر ہوتے
چلے جاتے ہیں… اوریہ حضرات جب اپنے ملک میں کبھی کبھار آتے ہیں تو اپنے لیے بہت
اونچے پروٹوکول کی خواہش کرتے ہیں…
یہ ساری صورتحال حقیقی
اسلامی نقطہ نگاہ کے اعتبار سے… حوصلہ افزاء نہیں ہے… اور اس میں ان دینی رہنماؤں
کا قصور بھی شامل ہے جو … اپنی دنیا کو رنگین اور پرتعیش بنانے کیلئے… کافروں کے
ممالک کا سفر کرتے ہیں… اور اپنے فقر غیور کو داؤ پر لگاتے ہیں… علامہ اقبال مرحوم
فرماتے ہیں…
اے مرے فقر غیور فیصلہ
تیرا ہے کیا!
خلعتِ انگریز یا پیرہن
چاک چاک
)کلیات ۵۱۷(
کاش ہمیں فاروقی فقر غیور
کی ایک تابناک جھلک ہی نصیب ہوجائے… کہ لباس پر سترہ پیوند تھے… اور … مسجد اقصیٰ
کی چابیاں ان کے قدموں میں ڈالی جارہی تھیں… آج… کھوکھلی ترقی کے نعرے ہیں… اور …
خوبصورت انگریزی سوٹوں کے اندر… بھوسہ بھرا ہوا ہے… بڑے بڑے نام ہیں… مگر بالکل
پھیکے پکوان ہیں… غیروں کے غلام… اور اپنوں پر پہلوان ہیں … اور ان کے دل میں اپنے
ملک کی اتنی قدر ہے کہ… اپنی اولاد کو بھی بیرون ملک نوکریاں دلواتے ہیں… اور خود
بھی… سرے محل خرید کر… برے وقت کی تیاری رکھتے ہیں… ہر ملک میں… مواطن یعنی اپنے
ہم وطن شہری کا لفظ عزت کا سمبل ہے… جبکہ ہمارے ہاں سب سے مقدس لفظ ’’فارنر‘‘ ہے…
کاش ہمارے ممالک کے حکمران… غریب مگر غیرتمند ہوتے تو پھر… لاکھوں مسلمانوں کو
امریکہ اور یورپ کے سفارتخانوں کے باہر ذلیل ورسوانہ ہونا پڑتا…
میرا خیال ہے کہ بات کچھ
دور نکل گئی… کاش کافروں کے ممالک میں بسنے والے مسلمان اب واپس اپنے ملکوں میں
آکر… باعزت زندگی گزاریں … ورنہ کسی دن … کسی بھی بات کو بہانا بناکر… ان مسلمانوں
کا قتل عام کیا جائے گا… عیسائی اوریہودی جب ظلم پر اترتے ہیں تو پھر… کوئی قانون،
ضابطہ یا اخلاق ان کی درندگی کو کم نہیں کرسکتا… ہسپانیہ سے اسپین کیسے بنا؟ تاریخ
پڑھ لیجئے… دل نفرت اور گِھن سے بھر جاتا ہے… اگر پرانی باتیں بھول بھی جائیں تو
بوسنیا کی داستان بالکل تازہ ہے… ایسی خوفناک اور بھیانک داستانیں رقم کرنے والے
درندے… جب … اسلام کی بدنامی کی بات کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے… مگر… احساس کمتری کا
شکار ہمارے لیڈر… اپنی صفائیاں دیتے نہیں تھکتے… بات علامہ اقبالؒ کے کلام کی چل
رہی تھی… کہ انہوں نے … کس طرح سے جہاد کو اجاگر فرمایا… حالانکہ … اقبال کا پورا
دور… انگریز غلامی کا دور تھا… اور اب ماشاء اﷲ… ہم آزاد ہیں… غلامی کے دور میں…
جہاد کی بات پر اتنی پابندی نہیں لگ سکی… جتنی… اس آزادی کے دور میں لگ رہی ہے…
علامہ اقبالؒ نے اس ظالمانہ دور میں… جہاد کے تقریباً ہر پہلو پر… بہت علمی،
ادیبانہ… اور وقیع طبع آزمائی فرمائی… کم عمر نوجوانوں کے دل میں شوق شہادت پیدا
کرنے کیلئے… انکی یہ چھوٹی سی نظم… بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے…
صف بستہ تھے عرب کے
جوانانِ تیغ بند
تھی منتظر حنا کی عروسِ
زمینِ شام
اک نوجوان صورت سیماب
مضطرب
آکر ہوا امیر عساکر سے
ہمکلام
اے بُوعبیدہ رخصت پیکار
دے مجھے
لبریز ہوگیا مرے صبر
وسکوں کا جام
بیتاب ہورہا ہوں فراقِ
رسول ا میں
اک دم کی زندگی بھی محبت
میں ہے حرام
جاتا ہوں میں حضور رسالت
پناہ میں
لے جاؤں گا خوشی سے اگر
ہو کوئی پیام
یہ ذوق شوق دیکھ کے پرنم
ہوئی وہ آنکھ
جس کی نگاہ تھی صفتِ تیغ
بے نیام
بولا امیر فوج کہ وہ
نوجواں ہے تو
پیروں پہ تیرے عشق کا
واجب ہے احترام
پوری کرے خدائے محمد ا
تیری مراد
کتنا بلند تیری محبت کا
ہے مقام
پہنچے جو بارگاہ رسول
امیں میں تو
کرنا یہ عرض میری طرف سے
پس از سلام
ہم پہ کرم کیا ہے خدائے
غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کیے
تھے حضور نے
)کلیات ۱۹۳(
کیا فرماتے ہیں… روشن
خیال خواتین وحضرات اس انتہا پسند نظم کے بارے میں… جسے پڑھتے ہی … یہ دنیا اور اس
کی زندگی بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے… اور سعدی جیسے ٹھنڈے خون والے کا دل بھی… کہیں
اور جانے کیلئے مچلنے لگ جاتا ہے… سبحان اﷲ… اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام…
پھر علامہ مرحوم کا کمال دیکھیں کہ… منکرین جہاد پر کس طرح غضبناک ہوتے ہیں… اور
مرزا قادیانی کی تحریک ’’انکار جہاد‘‘ پر کتنا بلیغ رد فرماتے ہیں… ملاحظہ فرمائیے
یہ نظم…
)۱(فتویٰ ہے شیخ کا
یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
)۲( لیکن جناب شیخ کو
معلوم کیا نہیں
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر
)۳( تیغ وتفنگ دستِ
مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی تو دل ہیں موت کی لذت سے بے
خبر
)۴(کافر کی موت سے
بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر!
)۵( تعلیم اس کو چاہئے
ترکِ جہاد کی!
دنیا کو جس کے نتیجے خونین سے ہو خطر
)۶( باطل کے فال وفر
کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
)۷( ہم پوچھتے ہیں شیخ
کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی
ہے شر
)۸( حق سے اگر غرض ہے
تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر
)کلیات اقبال ۴۰۷(
میری گزارش ہے کہ… اس
خوبصورت اور آساں نظم کو ایک بار سمجھ کر دوبارہ پڑھ لیں… دیکھیں اس کے شعر نمبر (۱) اور (۷) میں مرزا غلام احمد
قادیانی پر براہ راست… تنقید کی گئی ہے… اور اسے ’’کلیسا نواز شیخ‘‘ قرار دیا گیا
ہے… کلام اقبال کے تمام شارحین کا اتفاق ہے کہ علامہ صاحب… مرزا قادیانی ملعون پر
تنقید کر رہے ہیں… نوٹ فرمالیا آپ نے… یہ تو ہوا نفرت پھیلانا… اور فرقہ واریت کو
ہوا دینا… شعر نمبر (۳) اور
(۵) میں
مسلمانوں کو لڑنے مرنے پر ابھارا گیا ہے… اور موت یعنی شہادت کو لذت والی چیز قرار
دیا گیا ہے… نوٹ فرمالیا آپ نے یہ ہوا… انتہا پسندی کا سبق… شعر نمبر (۶) میں عالمی برادری کو برا
بھلا کہا گیا ہے… برطانیہ اور یورپ کے نظریات کو ’’باطل‘‘ قرار دیا گیا ہے… اور ان
کی خونخواری اور جنگی تیاری پر تنقید کی گئی ہے … نوٹ فرمایا آپ نے؟… یہ کتنا
خطرناک جرم ہے کہ یورپ کو برا بھلا کہا جائے… شعر نمبر(۴) میں… اسلام قبول نہ کرنے
والوں کو ’’کافر‘‘ کہا گیا ہے… اور مسلمانوں کو سمجھا یا گیا ہے… کہ… اسلام دشمن
کافر کے مرنے پر اگر تیرا دل لرزتا ہے تو تو… فطرت سے کتنا دور اور بے خبر ہے… نوٹ
فرمالیا آپ نے… اس شعر میں شدت پسندی کی دعوت ہے… اور شعر نمبر (۸) یعنی آخری شعر میں… ان
لوگوں پر تنقید ہے جو اسلام کے خلاف تو خوب بکتے ہیں… جبکہ… یورپ کا محاسبہ نہیں
کرتے… مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ… علامہ اقبال نے انگریز کے دور حکومت میں یہ نظم
کیسے کہی؟… پھر ان کے گھر پر چھاپہ کیوں نہیں پڑا؟… ان کی کتاب ضبط کیوں نہیں
ہوئی؟… ہمارے صدر صاحب نے بالکل بجا فرمایا کہ… انگریز خود مسلمانوں کو ڈھیل دے
رہے ہیں… اور ان پر ہماری طرح سختی نہیں کر رہے… جہاد کی تائید… عالمی برادری کی
تردید… اور شوق شہادت پر علامہ کے اشعار بہت زیادہ ہیں… اﷲ کرے … ’’جہاد اور
اقبال‘‘… نامی وہ کتاب جلد تیار ہوجائے جس میں کلام اقبال سے… ان اشعار کے انتخاب
کا ارادہ ہے… جن کا تعلق … جہاد فی سبیل اﷲ کے ساتھ ہے… تب… بہت ساری آنکھیں کھل
سکتی ہے… اور ممکن ہے… بعض آنکھیں پھٹ بھی جائیں… بس مجھے اس بات کا دھڑکا لگا ہوا
ہے کہ… ملک کی ترقی کیلئے گھلنے والے… ہماری حکومت کے خیر خواہ مشیر… کہیں… اقبالؒ
کے اس ملک میں… کلیات اقبال کو بھی… کالعدم قرار نہ دے دیں… کیونکہ… اﷲ کی قسم…
اقبال کے اس مجموعہ کلام ’’کلیات اقبال‘‘ میں وہ تمام باتیں موجود ہیں… جن کی… وجہ
سے… ملک کی دینی جہادی جماعتوں پر … پتھر برسائے جارہے ہیں… اور … مدارس اور مساجد
پر ناپاک چھاپے مارے جارہے ہیں…
سبحان اﷲ
…سبحان اﷲ
کائنات کی ہر مخلوق اﷲ
تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہے اور اسی سبحان اﷲ کی برکت سے کائنات میں خوشحالی اور
فراوانی ہے۔ مگر کائنات کی سب سے اہم مخلوق انسان اس سے غافل ہے۔ پریشان حال
مسلمانوں کیلئے پرنور اور گرانقدر تحفہ۔
مزید فوائد: فرشتوں اور بعض پرندوں کی تسبیح کے الفاظ ترجمہ
کے ساتھ
)۱۳رجب
۱۴۲۶ھ بمطابق۱۹اگست ۲۰۰۵ء(
سبحان اﷲ
…سبحان اﷲ
اﷲ تعالیٰ کے پیارے بندے
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس… بڑے پروں والا ایک کوّا لایا گیا… آپ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا… جو شکار بھی پکڑا جاتا ہے … جو درخت بھی کاٹا
جاتا ہے… اس کی وجہ ’’تسبیح‘‘ کا چھوڑنا ہے… یعنی جو پرندہ تسبیح چھوڑ دیتا ہے
پکڑا جاتا ہے… اور جو درخت ’’تسبیح‘‘ چھوڑ دیتا ہے وہ کاٹ دیا جاتا ہے…
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے
دو شخصوں کو کسی جرم کی بناء پر … سزا دینے کا حکم دیا… جب ان کی پٹائی شروع ہوئی
تو ان میں سے ایک نے کہا ’’سبحا ن اﷲ‘‘… حضرت نے جلاّد کو حکم دیا کہ اس کے ساتھ
نرمی کرو… اس لیے کہ ’’تسبیح‘‘ مومن کے دل ہی میں جگہ پکڑتی ہے… تسبیح کہتے ہیں…
اﷲ پاک کی پاکی بیان کرنے کو… جس کا خوبصورت طریقہ… ’’سبحان اﷲ‘‘ پڑھنا ہے… اﷲ
تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے…
تسبّح لہ السمٰوٰت والارض
ومن فیہنّ وان من شیئٍ اِلاّ یُسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہ (الاسراء۴۴)
ترجمہ: ساتوں آسمانوں اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں
سب اسی کی ’’تسبیح‘‘ کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے…
تعریف کے ساتھ تسبیح کا
بہترین جملہ
’’سبحان اﷲ وبحمدہ
سبحان اﷲ العظیم‘‘ ہے…
امام بخاریؒ نے اسی جملے
پر اپنی مستند اور بابرکت کتاب ’’بخاری شریف‘‘ ختم فرمائی ہے… حدیث پاک کے مطابق
یہ دو جملے جو زبان پر آسان ہیں… اﷲ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں… اور قیامت کے دن
نامۂ اعمال میں بہت بھاری ہیں… حضرت ابراہیم علیہ السلام نے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کو اس امت کے لئے پیغام دیا کہ… جنت کی زمین پر درخت اور پودے اگانے کے لئے
سبحان اﷲ والحمدﷲو لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر کا ورد کریں… سبحان اﷲ… کس قدر طاقتور
جملے ہیں کہ … پڑھیں یہاں… اور اثر اتنی اونچی جنت تک جا پہنچے… آسمانوں سے بھی
بہت اونچی جنت تک… حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ سبحان اﷲ
وبحمدہ کو نہ چھوڑے کہ اس کلمے کی برکت سے تمام مخلوق کو روزی ملتی ہے… سبحان اﷲ …
تھوڑا سا یقینی تصور کریں کہ… آسمان سے لیکر زمین تک… آسمان کے اوپر اور زمین کے
نیچے… ہر کوئی… اور ہر چیز پڑھ رہی ہے…
سبحان اﷲ وبحمدہ… سبحا ن
اﷲ وبحمدہ… سبحان اﷲ… سبحان اﷲ…
ہر کسی کی زبان اپنی…
پڑھنے کا انداز اپنا… اور پڑھنے کا طریقہ کار اپنا… مگر معنیٰ اور مقصد سب کا ایک…
اور وہ ہے… سبحان اﷲ سبحان اﷲ… اﷲ تعالیٰ پاک ہے… اﷲ تعالیٰ پاک ہے… اردو میں کہاں
ہمت اور جسارت کہ ’’سبحان‘‘ کا ترجمہ کرسکے… بس لفظ ’’پاک‘‘ میں ہلکا سا اشارہ ہے…
ورنہ… ’’سبحان‘‘ کے سمندر میں کوئی غوطہ تو لگائے… پاکی، عظمت، قدرت، محبت… اور
شکر سب کچھ اس میں ہے… اس لیے تو حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں… اسی
لفظ کا سہارا لیکر… رابطہ کیا…
لا الہ الا انت سبحانک
انی کنت من الظالمین…
تمام مخلوق ’’تسبیح‘‘ کرتی ہے… تمام
انبیاء علیہم السلام ’’تسبیح‘‘ فرماتے تھے… ’’سبحان اﷲ‘‘ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بہت
محبوب ہے… اور بہترین صدقہ ہے… وہ لوگ جونفل عبادات میں زیادہ وقت نہیں دے سکتے ان
کے لئے سبحان اﷲ بہترین کفارہ ہے… آئیے آج اﷲ تعالیٰ کے مقربین کی ’’تسبیح‘‘ کو
دیکھتے ہیں کہ وہ کن الفاظ سے… اﷲ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے تھے… پھر ہم بھی ان کی
نقل اتاریں… کیا بعید ہے… کہ… پاک رب… عظمت والا رب ہمارے گناہ بخش دے… ہماری
تسبیح قبول فرمالے اور ہم پر بھی توبہ اور پیار کی نظر فرمادے… بعض مفسرین کے
نزدیک…
حملۃ العرش کی تسبیح
سُبْحَان اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ
وَلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ پاک ہے… اور تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ
کے لئے ہیں… اور اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں… اور اﷲ سب سے بڑا ہے…
حضرت میکائیل علیہ السلام اور
کَرُّوبیّون کی تسبیح
سُبْحَانَ الْمَعْبُوْدِ بِکُلِّ
مَکَان۔ سُبْحَانَ الْمَذْکُوْرِ بِکُلِّ لِسَان
ترجمہ: پاک ہے وہ جو ہر جگہ معبود ہے… پاک ہے وہ جس کا
ذکر ہر زبان پر ہے…
حضرت جبرئیل علیہ السلام اور
روحانیّون کی تسبیح
سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس۔
سُبُّوْحٌ قُدُّوْس۔ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْح
ترجمہ: پاک ہے وہ بے عیب بادشاہ، وہ ہر شرک اور عیب سے
پاک ہے، رب ہے فرشتوں کا اور روح القدوس کا…
رضوان (جنت کے نگران) فرشتے کی تسبیح
سُبْحَانَ اﷲِ مَنْ فِی السَّمَائِ
عَرْشُہ۔ سُبْحَانَ مَنْ فِی الْاَرْضِ سُلْطَانُہ۔ سُبْحَانَ مَنْ فِی الْجَنَّۃِ
فَضْلُہ
ترجمہ: پاک ہے وہ جس کا عرش آسمان پر ہے، پاک ہے وہ جس
کی زمین پر سلطنت ہے، پاک ہے وہ جس کا فضل جنت میں ہے…
مالک (جہنم کے داروغہ)
فرشتے کی تسبیح
سُبْحَانَ مَنْ فِی
الْبَرِّ بَدَائِعُہْ۔ سُبْحَانَ مَنْ فِی الْبَحْرِ عَجَائِبُہْ سُبْحَانَ مَنْ
فِی النَّارِ عَذَابُہْ
ترجمہ: پاک ہے وہ … خشکی پر جس کی مخلوقات ہیں… پاک ہے
وہ سمندر میں جس کے عجائبات ہیں… پاک ہے وہ آگ میں جس کا عذاب ہے…
حضرت عزرائیل علیہ السلام
اور ان کے معاونین کی تسبیح
سُبْحَانَ مَنْ تَعَزَّزَ
بِالْقُدْرَۃِ۔ وَقَہَرَ الْعِبَادَ بِالْمَوْتِ
ترجمہ: پاک ہے وہ کہ قدرت کے ذریعہ جس کا غلبہ ہے اور
اس نے بندوں کو قابو کر رکھا ہے موت کے ذریعے
حضرت آدم علیہ السلام کی
تسبیح
سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ
وَالْمَلَکُوْتِ۔ سُبْحَانَ ذِی الْقُدْرَۃِ وَالْجَبَرُوْتِ۔ سُبْحَانَ الْحَیِّ
الَّذِیْنَ لاَیَمُوْتُ
ترجمہ: پاک ہے بادشاہت اور ملکوت والا… پاک ہے قدرت
اور جبروت والا پاک ہے وہ زندہ جس کے لئے موت نہیں…
حضرت نوح علیہ السلام کی
تسبیح
سُبْحَانَ اﷲِ ذِی
الْمَجْدِ وَالنِّعَمْ۔ سُبْحَانَ ذِی الْقُدْرَۃِ وَالْکَرَمِ سُبْحَانَ ذِی
الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔
ترجمہ: پاک ہے بزرگی اور نعمتوں والا… پاک ہے قدرت اور
کرم والا… پاک ہے جلال اور اکرام والا
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی تسبیح
سُبْحَانَ الْاَوَّلِ
الْمُبْدِیٔ۔ سُبْحَانَ الْبَاقِی الْمُغْنِیْ سُبْحَانَ الْمُسَمّٰی قَبْلَ اَنْ
یُسَمّٰی۔ سُبْحَانَ الْعَلِیِّ الْاَعْلیٰ سُبْحَانَ اﷲِ وَتَعَالیٰ
ترجمہ: پاک ہے وہ جو اوّل ہے اور آغاز کرنے والا ہے…
پاک ہے وہ باقی اور غنی کرنے والا… پاک ہے وہ جو نام رکھنے سے پہلے نام والا ہے…
پاک ہے وہ بلند واعلیٰ… پاک ہے اﷲ اور بلند ہے…
حضرت یوسف علیہ السلام کی
تسبیح
سُبْحَانَ الَّذِیْ
تَعَطَّفَ بِالْعِزِّ وَقَالَ بِہ۔ سُبْحَانَ الَّذِیَْ لَبِسَ الْمَجْدَ
وَتَکَرَّمَ بِہٖ ۔ سُبْحَانَ مَنْ لاَّ یَنْبَغِیْ التَّسْبِیْحُ اِلاَّ لَہٗ
ترجمہ: پاک ہے وہ جس نے مہربانی فرمائی قدرت کے ساتھ
اور اسے پسند فرمایا… پاک ہے وہ جو بلند مرتبے والا ہے اور اس کے ذریعے احسان
فرماتا ہے … پاک ہے وہ کہ تسبیح صرف اسی کے لائق ہے…
حضرت موسیٰ علیہ السلام
کی تسبیح
سُبْحَانَ ذِی الْعِزِّ
الشَّامِخِ الْمُنِیْفِ۔ سُبْحَانَ ذِی الْجَلاَلِ البَاذِخِ الْعَظِیْم۔
سُبْحَانَ ذِی الْمَلِکِ الْقَاہِرِ الْقَدِیْم۔ سُبْحَانَ مَنْ فِی عُلُوِّہِ
دَانٍ وَفِی دُنُوُّہِ عَالٍ۔ وَفِی اِشْرَاقِہٖ مُنِیْرٌ وَفِی سُلْطَانِہِ
قَوِیُّ۔ وَفِیْ مُلْکِہِ عَزِیْزٌ۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمْ
ترجمہ: پاک ہے وہ جو بہت بلند اور اونچی عزت والا ہے…
پاک ہے وہ جو بہت زبردست اور عظیم جلال والا ہے… پاک ہے وہ جو قدیم وقاہر بادشاہت
والا ہے… پاک ہے وہ جو اپنی بلندی میں قریب ہے… اور اپنے قرب میں بلند ہے… اور
اپنے ظہور میں نور والا ہے اور اپنی سلطنت میں قوت والا ہے… اور اپنی بادشاہت میں
غلبے والا ہے… پاک ہے میرا رب عظمت والا…
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی تسبیح
سُبْحَانَ الْوَاحِد
الاَحَدْ۔ سُبْحَانَ الْبَاقِی عَلی الاَبَد۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ
وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدْ
ترجمہ: پاک ہے وہ ایک ، یکتا… پاک ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ
باقی رہنے والا… پاک ہے وہ جس نے کسی کو نہیں جنا اور نہ خود کسی سے جنا گیا… اور
کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے…
مؤمنین کی تسبیح
نماز کے شروع میں
سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ
وَبِحَمْدِکَ
ترجمہ: اے اﷲ تو پاک ہے
اور تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔
رکوع میں
سُبْحَانَ رَبِّیَ
الْعَظِیْم
ترجمہ: اے میرے عظمت والے
رب تو پاک ہے۔
سجدہ میں
سُبْحَانَ رَبِّیَ
الْاَعْلیٰ
ترجمہ: اے میرے رب تو پاک
ہے، سب سے بہتر
سب سے افضل سید الانبیاء
والمرسلین
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کی تسبیح
سُبْحَانَ اﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اﷲَ وَاَتُوْبُ
اِلَیْہ
ترجمہ: پاک ہے اﷲ تعالیٰ اور اس کے لئے حمد ہے… پاک ہے
اﷲ عظمت والا اور اسی کیلئے حمد ہے… میں بخشش مانگتا ہوں اﷲ تعالیٰ سے اور اسی کی
طرف رجوع کرتا ہوں…
مفسرؒ کہتے ہیں… حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو روزانہ سترّ بار اسے پڑھے گا… اس کے
گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ جیسے (کثیر) ہوں… (بصائر ذوی التمییز ص۱۷۲ج۳)
مزا آگیا نہ؟ … ہمیں پکا
یقین ہے کہ… تسبیح یعنی سبحان اﷲ… اﷲ تعالیٰ کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے… پکا
یقین اس لیے ہے کہ ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے… اب جب بھی ہم… سبحان
اﷲ وبحمدہ … سبحان اﷲ العظیم… وغیرہ پڑھتے ہیں تو… یقینا اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے
پڑھتے ہیں… اﷲ تعالیٰ اپنے پسندیدہ اور محبوب کام کی توفیق کسے دیتا ہے؟… تھوڑا سا
سوچیں دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے… سبحان اﷲ وبحمدہ… اچھا ایک کام کریں… اوپر جتنی
تسبیحات لکھی ہیں… ان کو خوب توجہ سے ایک بار پڑھ لیں… اور پھر روزانہ… سو بار کم
از کم… سبحان وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم پڑھ لیا کریں… ہر نماز کے بعد… ۳۳ بار سبحان اﷲ… ۳۳بار الحمدﷲ… ۳۴ بار اﷲ اکبر… تو آپ
پڑھتے ہی ہوں گے… نہیں تو شروع کردیں… مگر… ٹناٹن… اٹاپ شٹاپ نہیں… خوب اچھی طرح
توجہ سے…
اور رات کو سوتے وقت بستر
پر… بیٹھ کر… یہی عمل خوب توجہ اور اہتمام سے کرلیا کریں… میں نے بعض کتابوں میں
دیکھا ہے کہ … حضرت علی رضی اﷲ عنہ جنگ کے دوران بھی یہ عمل ناغہ نہیں فرماتے تھے…
کیونکہ… ان کو … اور جنت کی خواتین کی سردار حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہما… کو یہ عمل
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے… خود گھر میں تشریف لاکر… بہت محبت کے ساتھ تلقین فرمایا
تھا… خود سوچ لیں… کتنا اونچا اور کتنا اعلیٰ عمل ہوگا… بشرطیکہ… اﷲ تعالیٰ کی
رضاء کے لیے کیا جائے…
یہ تو ہوا بالکل عام
نصاب… باقی جو خواتین وحضرات… ترقی کرنا چاہیں تو ’’سبحان اﷲ‘‘ کا دروازہ کھلا ہے…
پہلے حدیث شریف کی کتابوں میں اس کے فضائل پڑھیں… پھر قرآن پاک کے آئینے میں… اس
کے وسیع وشاندار مطلب کو سمجھیں… اور پھر … دمادم… پڑھتے چلے جائیں… پڑھتے چلے
جائیں…
ایک عجیب قصہ
علامہ دمیریؒ لکھتے ہیں:
’’المجالسۃ
للدینوری‘‘ میں ’’معاذ بن رفاعہ ؒ ‘‘ سے
مروی ہے کہ : حضرت یحییٰ بن زکریا علیہم السلام… حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر
پر سے گزرے… انہوں نے قبر سے آواز سنی کوئی کہہ رہا ہے…
سبحان من تعزز بالقدرۃ
وقہر العباد بالموت
پاک ہے وہ جو غالب ہے
قدرت سے
اور اس نے بندوں کو قابو
کیا موت سے
حضرت یحییٰ علیہ السلام
آگے بڑھے تو آسمان سے آواز آئی …
انا الذی تعززت بالقدرۃ
وقہرت العباد بالموت، من قالہن استغفرت لہ السمٰوٰت السبع، والارضون السبع، ومن
فیہنّ
’’میں ہوں وہ جو
قدرت کے ذریعے غالب ہے اور میں نے بندوں کو قابو کیا ہے موت کے ذریعے‘‘
جو یہ الفاظ کہتا ہے اس
کیلئے ساتوں آسمان ،ساتوں زمینیں اور ان کے باشندے استغفار کرتے ہیں ۔ (حیوٰۃ الحیوان ص۱۷۔ج۱)
قارئین کو یاد ہو گا
کہ…اوپرحضرت عزرائیل علیہ السلام کی تسبیح میں یہی الفاظ گزر چکے ہیں… آئیے ہم
بھی توجہ سے پڑھیں … اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے … تاکہ وہ راضی ہو جائے … اور ہمارے
گناہ بخش دے …
سبحان من تعزز بالقدرۃ
وقہر العباد بالموت
سلاد
چڑھتے سورج کے پجاریوں کے
نام جی ہاں ان لوگوں کیلئے لمحہ فکریہ جو عروج اور کشائش کے زمانے میں فتح کی خوشی
میں مجاہدین کے سجے دسترخوانوں پر بڑے فخر سے سلاد کھانے تو بیٹھ جاتے ہیں مگر
زمانہ عسرت میں انہی مجاہدین سے دامن بچانے میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔
)۲۰رجب
۱۴۲۶ھ بمطابق۲۶اگست ۲۰۰۵ء(
سلاد
اللہ تعالیٰ ہماری
رہنمائی فرمائے ۔۔۔۔بہت سارے لوگ ’’جہاد‘‘
سے اپنا دامن جھاڑ کر سمجھ رہے ہیں کہ ۔۔۔۔ہم بچ جائیں گے ۔۔۔۔نہیں رب کعبہ کی قسم
۔۔۔۔کوئی نہیں بچے گا۔۔۔۔ کل نفس ذائقۃالموت۔۔۔۔ہر کوئی ضرور مرے گا ۔۔۔۔اور اس
فانی دنیا کو چھوڑ جائے گا ۔۔۔۔ معلوم ہے ترقی یافتہ ممالک سے لاشیں کیسے لائی
جاتی ہیں؟ ۔۔۔ڈاکٹر پیٹ چیر کر سب کچھ نکال لیتے ہیں پھر دوبارہ سی دیتے ہیں۔۔۔۔
جراثیم کش دوائیوں کا اندر باہر چھڑکائو کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اور پھر قبر ۔۔۔۔جی ہاں
سب مر جائیں گے۔۔۔۔جہاد سے لاکھ دامن جھاڑیں ۔۔۔۔کوئی نہیں بچے گا۔۔۔۔مگر یہ سب
کچھ کیا ہے؟ ۔۔۔۔بہت سارے لوگ اعلان کر رہے ہیں کہ۔۔۔۔ ہمارا جہاد اور مجاہدین سے
بالکل کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔ ماضی میں بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا ۔۔۔۔ماشاء
اللہ ۔۔۔۔جہاد سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی مسلمان ہیں؟ ۔۔۔۔فلسطینی مجاہدین اگر
اسرائیل کے خلاف ۔۔۔۔یہودیوں کے مقابل لڑیں تو دہشت گرد۔۔۔۔ٹھیک ہے آپ کا ان سے
کوئی تعلق نہیں ۔۔۔۔مان لیا آپ بالکل پاک صاف ہیں۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔جناب رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے بھی یہودیوں پر حملے فرمائے تھے۔۔۔۔حضرات صحابہ کرام رضوان
اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔۔۔۔بنو نضیر،بنو
قینقاع،بنوقریظہ، یہ سب یہودی تھے۔۔۔۔آخری قبیلہ تو مسلمانوں کے ہاتھوں تقریبا
ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان
اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین نے خیبر پر حملہ کیا۔۔۔۔
یہ سب کچھ جہاد تھا۔۔۔۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ
’’مجاہدین‘‘ تھے۔۔۔۔ ٹھیک ہے میڈیا پر آپ خوب زور سے اعلان کریں کہ ہمارا جہاد
۔۔۔۔اور مجاہدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔اور نہ کبھی تھا۔۔۔
ویسے یاد دہانی کیلئے عرض
ہے کہ۔۔۔۔ان تمام غزوات کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔۔۔۔ کشمیری
مجاہدین۔۔۔۔بھارت کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔۔۔۔جہاں ان کا مقابلہ مشرکین کے اقتدار
اعلیٰ سے ہے۔۔۔ یہ لوگ بھی دہشت گرد ۔۔۔۔ٹھیک ہے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔
مان لیا کہ آپ بالکل پا ک صاف ہیں۔۔۔۔مگر۔۔۔۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ۔۔۔۔غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق،غزوہ حنین۔۔۔۔یہ سب مشرکین کے خلاف لڑے
تھے۔۔۔۔ بہت خون ریز جنگیںہوئیں۔۔۔۔ قرآن پاک نے ان تمام غزوات کو بار بار یاد
کیا ۔۔۔۔یہ سب کچھ ’’جہاد‘‘ تھا حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ
رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین مجاہدین تھے۔۔۔۔ذرا زور سے اعلان کریں کہ ۔۔۔۔ ہم پاک
ہیں ،ہم پر امن ہیں ،ہمارا جہاد اورمجاہدین سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔ افغانی اور
عراقی مجاہدین ۔۔۔۔اپنے او پرمسلط کی گئی ’’ صلیبی جنگ ‘‘ میں اپنے جسموں کے ٹکڑے
کروا رہے ہیں۔۔۔۔انکی معصوم سی خواہش ہے کہ ۔۔۔۔بیرونی فوجیں ان کے ممالک کو چھوڑ
دیں ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔اپنے علاقوں میں قرآن پاک کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔یقینا یہ لوگ
’’دہشت گرد ‘‘ ہیں۔۔۔۔ آپ نے ان کی حمایت کی تو نہ آپ کو امریکہ ویزہ دے گا اور نہ یورپ۔۔۔۔اس لئے یقینا آپ کا ان
سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔مان لیا کہ آپ پاک اور صاف ہیں۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔حضورپاک صلی
اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین نے ۔۔۔غزوہ
تبوک اور غزوہ موتہ میں ۔۔۔۔صلیبی طوفان کا رخ موڑا تھا۔۔۔۔غزوہ تبوک کو تو قرآن
پاک مزے لے لے کر سناتا ہے۔۔۔۔اور اسے ’’جہاد ‘‘ قرار دیتاہے ۔۔۔اور اس میں جانے
والوں کو ’’مجاہدین‘‘ ۔۔۔۔بالکل آپ کا جہاد اور مجاہدین سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔آپ
با لکل پاک صاف ہیں۔۔۔۔بھارت میں ایک متعصب ہندو رہنما۔۔۔۔بال ٹھاکرے بمبئی میں
رہتا ہے ۔۔۔۔آپ نے اس کا نام سنا ہوگا۔۔۔۔اسکی پارٹی کا نام ’’شیوسینا ُ‘‘ ہے۔۔۔۔
’’سینا‘‘ ہندی زبان میں ۔۔۔۔فوج کو کہتے ہیں ۔۔۔۔جبکہ ’’شیو ‘‘ مخفف ہے ۔۔۔شیواجی
مہاراج کا۔۔۔۔۔وہ مشہور مراٹھا جنگجو جس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا ۔۔۔۔ ویسے
اطلاعاً عرض ہے کہ ۔۔۔۔بھارت نے ابھی تک اس پارٹی کو ’’کالعدم‘‘ قرار نہیں
دیا۔۔۔۔اور نہ وہاں کے صدر اور وزیر اعظم اپنی تقریر میں ان ’’انتہاء پسندوں‘‘ کو
ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔۔۔۔
بال ٹھاکرے کی بیوی
۔۔۔۔گنیش نامی ایک بت کی پوجا کرتی تھی۔۔۔۔اور اسے اپنا بھگوان مانتی
تھی۔۔۔۔۔’’گنیش‘‘ کی مورتی انسان کے بچے اور ہاتھی کے سر سے مرکب ہے۔۔۔۔۔یہ عورت
دل کی مریضہ تھی۔۔۔۔اور اپنے ’’پرس‘‘ میں دل کے دورے سے بچنے والی ادویات رکھتی
تھی ۔۔۔۔ایک بار وہ کسی تقریب میں گئی ۔۔۔۔وہاں اس پر دل کا دورہ پڑا۔۔۔۔اس نے پرس
ٹٹولاتو معلوم ہوا کہ ۔۔۔۔دوائیں تو گھر بھول آئی ہے۔۔۔۔اسے ہسپتال لے جایا گیا
مگر وہ مر گئی۔۔۔۔ بال ٹھاکرے نے اپنی پیاری بیوی کی موت پر پتا ہے کیا کام
کیا؟۔۔۔اس نے فورا اپنی بیوی کے بھگوان گنیش کا بت اٹھایا اور اسے ما ر مار کر
توڑدیا۔۔۔۔۔اور گھر سے باھر پھینک دیا۔۔۔۔ ہندوئوں نے کچھ برا منایا تو اس نے کہا
۔۔۔۔میری بیوی نے اسکی اتنی پوجا کی ۔۔۔۔مگر اس نے اسے دوائیں تک ساتھ لے جانا یاد
نہ دلایا۔۔۔۔
مجھے وہ لوگ یاد آرہے
ہیں جو طالبان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔۔۔۔ان کو اپنے ہاںبلاتے تھے۔۔۔۔انکی
دعوتیں کرتے تھے۔۔۔۔ان کو اونچے اونچے مشورے دیتے تھے ۔۔۔۔ان سے ملاقات کے بعد فخر
کی محفلیں سجاتے تھے کہ ۔۔۔۔ آج فلاں طالبان وزیر ہمارے ہاں آیا تھا۔۔۔آج ۔۔۔فلاں
عہدیدار آیا تھا۔۔۔اپنے ملک کے مجاہدین کو بھی آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا۔۔۔۔
مگر آج صرف ایک ہی اعلان ہے کہ ۔۔۔۔۔اللہ توبہ ۔۔۔۔اللہ توبہ ہمارا کبھی جہاد اور
مجاہدین سے تعلق تھا۔۔۔۔اور نہ ہے۔۔۔۔
ٹھیک ہے آج اپنے بچائو
کے لئے ۔۔۔۔جہاد اور مجاہدین کا لٹریچر جلا دیں۔۔۔۔اور کافروں کے ہاں سرخرو ہو
جائیں مگر۔۔۔۔۔جس محبوب کے گلے میں آپ نے ہاتھ ڈال دیا ہے۔۔۔۔یہ آپ کو نچوڑ کر
رکھ دے گا۔۔۔۔کل فقہ کی کتابوں سے باب الجہاد ۔۔۔۔ابواب السیرنکالنے کا حکم ملا تو
کیا کریں گے؟ ۔۔۔قدوری،کنز،ہدایہ اور وقایہ کو بھی نعوذباللہ۔۔۔۔ اپنے سفید دامن
کو بچانے کے لئے آگ دکھا دیں گے۔۔۔۔کل اگر محبوب کی نظر کتب احادیث پر پڑی تو
شامت آجائے گی بخاری، مسلم، ترمذی، ابودائود، نسائی،ابن ماجہ۔۔۔۔۔ سب جہاد ومغازی
سے اٹی پڑی ہیں۔۔۔۔کیا ان کو نصاب سے نکال دیں گے یا ان کتابوں کے نئے۔۔۔۔پاک صاف
ایڈیشن چھاپیں گے۔۔۔۔سیرت کی کتابوں میں جہاد کا مفصل تذکرہ ہے ۔۔۔۔حضرت مولانا
محمد ادریس صاحب کاندھلویـؒ
نے کمال کیا کہ ۔۔۔۔پوری سیرت کو تین جلدوں میں ایسا سمیٹا کہ قلم بھی جھوم اٹھا
ہوگا۔۔۔۔ان تین جلدوں میں سے ایک پوری جلد۔۔۔۔صرف جہاد اور قتال کے قصے سناتی
ہے۔۔۔۔سیرۃ حلبیہ کے مصنف نے تو ہزار کے لگ بھگ صفحات پر جہاد کے بے تحریف موتی
بکھیر دیے۔۔۔۔پھر قرطبی جیسی تفسیر کا کیا بنے گا؟۔۔۔اور تفسیر عثمانی کا کیا
مستقبل ہوگا؟۔۔۔یہ حضرات تو جہاد پر شروع ہو تے ہیں تو سانس لینا بھول جاتے
ہیں۔۔۔۔چلیں ان کتابوں کا کچھ کرلیں گے مگر کہیں آپ کو ۔۔۔۔ اپنے اکابر کی
’’غلطیوں‘‘ کی سزا نہ بھگتنا پڑجائے۔۔۔۔یہ سیداحمد شہیدؒ،شاہ اسماعیل شہیدؒ۔۔۔۔۔یہ
حافظ ضامن شہیدؒ۔۔۔۔ یہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ۔۔۔۔یہ حضرت مولانا قاسم
نانوتویؒ۔۔۔۔یہ حضرت مولانا رشیداحمدگنگوہیؒ۔۔۔۔سارے جنگجو مجاہد تھے۔۔۔۔سب مطلوب
،ناپسندیدہ اور کالعدم تھے۔۔۔۔حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ۔۔۔۔اس محبوب کے
باغی تھے،جس سے ویزہ درکار ہے۔۔۔۔اور حضرت شیخ الہندؒ اسی محبوب کے معتوب قیدی
تھے۔۔۔۔کیا ہمارا ان سب سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔اچھا ایک قانون بنا لیتے ہیں
۔۔۔۔ جس جہاد سے ہمیں کسی تکلیف کا خطرہ نہ ہو وہ ۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔اور جس سے ہم پر
کچھ پریشانی آسکتی ہو وہ برا۔۔۔۔یہ قانون تو بہترین ہے مگر تب ۔۔۔۔جہاد ۔۔۔۔جہاد
نہیں رہے گا ’’سلاد ‘‘ بن جائے گا۔۔۔۔ حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا
کہ ۔۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا کہ میں زندہ رہوں اور دین میں کسی طرح کی کمی کی جائے
۔۔۔۔مگر آج کہا جا رہا ہے ۔۔۔۔بس ہم زندہ رہیں خواہ دین کے ایک عظیم رکن کا انکار
ہی کرنا پڑے۔۔۔۔ ایسی زندگی قابل رشک تو نہیں ہے۔۔۔۔۔قرآن اپنی آیات جہاد سناتا
رہے گا۔۔۔۔سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مناظر ۔۔۔۔جہاد کو زندہ رکھیں
گے۔۔۔۔تب۔۔۔۔ہم اپنے دل کو کیا تسلی دیں گے کہ وہ بڑے لوگ تھے۔۔۔۔ہم چھوٹے لوگ
ہیں۔۔۔۔ اس لئے ہم جہاد کا نام ہی مٹا رہے ہیں۔۔۔۔یا بدل رہے ہیں۔۔۔۔تب کوئی پوچھے
گا۔۔۔۔بڑے لوگوں پر پانچ نمازیں فرض تھیں۔۔۔۔ہمــ۔۔۔۔ چھوٹوں پر کتنی ہیں؟تب ایک بہترین حیلہ آندھی
کی طرح اٹھے گاکہ مجاہدین گندے، بدمعاش، لٹیرے، ۔۔۔۔۔ ایسے، ویسے، تیسے ۔۔۔۔اس لئے
ہم جہاد کے مخالف ۔۔۔۔یہ حیلہ چل نہیں سکتا۔۔۔۔۔جب تک جہاد کی حمایت میں عزت تھی
امن تھا۔۔۔۔تو یہ سب کچھ نظر نہ آیا۔۔۔۔اب ۔۔۔۔محبوب نے آنکھیں دکھائیں تو سب
مجاہد گندے ہو گئے۔۔۔۔بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے ۔۔۔۔مجاہدین سب گندے ۔۔۔۔مگر
۔۔۔۔وہ جماعت کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔جس کے بارے میں حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح
احادیث میں بشارت ہے کہ ـــ۔۔۔۔وہ
۔۔۔۔ہر زمانے میں قتال کرتی رہے گی ۔۔۔۔ حدیث پاک میں شک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ٹھیک
ہے۔۔۔۔آپ اچھے اور متقی لوگ جہاد کو تھام لیں ۔۔۔۔برے لوگوں سے خود جان چھوٹ جائے
گی۔۔۔ویسے پرانے کاغذ، رسیدیں ۔۔۔ اور اشتہارات کہیں چھپاکر رکھ لیں۔۔۔۔ممکن ہے
اگر سال دو سال بعد جہاد اور مجاہدین کو پھر عزت مل گئی ۔۔۔۔۔طالبان دوبارہ اقتدار
میں آگئے تو یہ سب کچھ ۔۔۔۔۔بہت کام آئے گا۔۔۔۔
کاش اس موقع پر۔۔۔۔۔ہر
لمحہ ڈٹ جانے کا درس پڑھنے پڑھانے والے۔۔۔۔سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے
۔۔۔۔کاش اپنی ’’چٹائی ‘‘ کی عظمت جاننے والے ۔۔۔۔غیر ملکی ویزوں پر تھوک
دیتے۔۔۔۔کاش قرآن پاک کے اٹھائیس پاروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام۔۔۔۔۔ کا قصہ
پڑھنے والے ۔۔۔۔۔الٹے قدم بھاگنے سے پہلے۔۔۔۔۔کچھ۔۔۔۔ ہمت کر لیتے۔۔۔۔کاش ماضی کے
چراغوں کو سلام کرنے والے ۔۔۔۔۔اپنے زمانے کے چراغوں سے لا تعلقی کا اعلان ۔۔۔۔
کچھ سوچ سمجھ کر کرتے۔۔۔۔
اچھا چھوڑیں ان تمام دل
جلی باتوں کو۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ بے نیاز ۔۔۔۔۔۔اور غنی ہے۔۔۔وہ کسی کا محتاج
نہیں۔۔۔۔اس نے ۔۔۔۔۔۔قرآن پاک میں جہاد کے بیان کے ساتھ واضح اعلان فرمادیا ہے کہ
۔۔۔۔اگر تم منہ موڑوگے تو وہ تمہیں ہٹا دے گا۔۔۔۔۔ اور ان لوگوں کو لے آئے گا۔۔۔۔۔
جو تمہاری طرح۔۔۔۔نہیں ہوں گے۔۔۔۔یعنی خوب پکے ہوں گے۔۔۔۔خوب لڑنے والے۔۔۔۔۔۔کسی
ملامت کی پروا نہ کرنے والے۔۔۔۔۔۔اس لئے۔۔۔۔۔ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے
کہ۔۔۔۔۔جہاد کا کیا بنے گا؟۔۔۔۔جہاد جاری رہے گا۔۔۔۔۔حوروں کے دولھے انہیں بڑھ بڑھ
کر ۔۔۔۔۔محبت سے دبوچتے رہیں گے۔۔۔۔۔شہادت کے شیریں ہونٹ چوسنے والے ۔۔۔۔۔ چھوٹے
بچوں کی طرح اسکی طرف لپکتے رہیں گے۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ ۔اس بات کی فکر کی ضرورت ہے کہ
۔۔۔۔۔ہم ا س فانی زندگی کے دھوکے میں آکر۔۔۔۔۔خدانخواستہ خدانخواستہ۔۔۔۔۔ راستہ
نہ بدل لیں۔۔۔۔۔۔۔۔یا اللہ اپنے کرم اور فضل سے استقامت عطاء فرما۔۔۔۔۔آخرمیں دل
کو سیدھا رکھنے والی ایک حدیث پاک ۔۔۔۔پڑھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔حضورپاک صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔
’’اسلام کا آغازہوا
تو وہ اجنبی تھا۔۔۔۔کچھ عرصہ بعد ۔۔۔۔۔یہ اپنے آغاز کی طرح پھر اجنبی ہو جائے
گا۔۔۔۔۔پس خوشخبری ہے غرباء کے لئے۔۔۔۔۔عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ۔۔۔۔۔۔یہ
’’غرباء ‘‘ کون ہیں؟ ۔۔۔۔۔فرمایا۔۔۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت ٹھیک رہیں گے جب
(اکثر) لوگ فساد میں مبتلا ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔دوسری روایت میں فرمایا۔۔۔۔۔۔۔یہ ’’غرباء‘‘ وہ لوگ ہیں ۔۔۔
{الذین یزیدون
اذانقص الناس}
جواس وقت زیادہ کریں گے
جب لوگ کمی کرنے لگ جا ئیں گے(الحدیث رواہ احمد)
ترقی ترقی۔۔۔۔۔۔کے شور
میں ’’مجاہدین‘‘ ہی اجنبی لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔پس ان کے لئے خوشخبری اور بشارت
ہے۔۔۔۔۔۔لوگ دین میں کمی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔فرائض کا انکار ۔۔۔۔۔۔کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ایسے وقت میں ۔۔۔۔۔۔۔خوش نصیب وہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔جو اپنی محنت ،کوشش اور ہمت
کو بڑھا دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔جب لشکر کے پائوں اکھڑ چکے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ بزدلی کی ہوا نے
اوسان خطا کردئیے ہوں۔۔۔۔۔۔لوگ میدان چھوڑکر ۔۔۔۔۔۔۔۔سرپٹ دوڑ رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔ایسے
وقت میں ۔۔۔۔۔۔۔ڈٹ جا نے والے ہی۔۔۔۔۔۔۔صدیق۔۔۔۔۔۔۔۔ شہید۔۔۔۔۔اور سچے اور اصلی
مسلمان کہلاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔زمین ان پر ناز کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔آسمان انہیں جھک کر
دیکھتاہے ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔زمین و اسلام کا رب ان پر فخر فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔
{اللھم یا رب
اغفرلنا واجعلنامنھم }
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سات ہلاک کرنے
والے کاموں سے بچو، پوچھا گیا اے اللہ کے رسول وہ سات کام کیا ہیں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ـ:
(۱) اللہ کے ساتھ شرک
کرنا (۲) اس
جان کو ناحق قتل کرنا جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہو (۳) یتیم کا مال کھانا (۴) سود کھانا (۵) میدان جہاد سے پیٹھ پھیر
کر بھاگنا (۶)بھولی
بھالی پاکدامن مومن عورتوں پر تہمت لگانا (۷) جادو کرنا۔۔۔۔۔ (بخاری)
اللہ پاک ہمیں ان گناہوں
سے۔۔۔۔۔۔اور دیگر تمام گناہوں سے بچائے۔۔۔۔۔۔اور ہمیں اس بات کی سمجھ نصیب فرمائے
کہ ’’جہاد ‘‘ ۔۔۔۔۔ بہت ہی افضل ہے۔۔۔۔۔۔’’سلاد ‘‘ سے۔۔۔۔۔
)آمین یا ارحم
الراحمین(
چھ سبق
کسی بھی نسبت سے دین کا
کام کرنے والے لوگ بہت ہی خوش نصیب اور قابل تحسین ہوتے ہیں مگر بعض بظاہر معمولی
نظر آنے والے کام،ارادے اور خیال ایسے ہوتے ہیں کہ زندگی بھر کے نیک کاموں کو
اکارت کردیتے ہیں اس مختصر مضمون میں انہیں
کے سدباب کی ایسی تدابیر بتلائی گئی ہیں جو دین کا کام کرنے والوں کیلئے
گرانقدر تحفہ ہیں۔
)۲۷رجب
۱۴۲۶ھ بمطابق۲ستمبر ۲۰۰۵ء(
چھ سبق
اﷲ تعالیٰ غفلت سے بچائے…
ہم سب کے لئے بعض بنیادی باتوں کی یاد دہانی ازحد ضروری ہے… دراصل وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ زنگ لگ جاتا ہے… میل چڑھ جاتی ہے… اور پرزے کچھ ڈھیلے پڑجاتے ہیں… آئیے
کچھ سبق دہرا لیتے ہیں… بالکل آسان مگر ضروری سبق…
پہلا سبق
ہر زمانے میں عموماً… اور
اس فساد زدہ دور میں خصوصاً دین کا کام… دین کی خدمت… اور جہاد کی خدمت… اﷲ تعالیٰ
کی بہت ہی بڑی نعمت ہے… بہت ہی بڑی نعمت… پھر کیا خیال ہے … ہم … دن میں کتنی بار
اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں؟… شکر کریں گے تو نعمت برقرار رہے گی… ورنہ… خوفناک
زنگ چڑھ جائے گا…
دوسرا سبق
دین کا کام صرف اور صرف
اﷲ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ممکن ہے… انسان کا اپنا کچھ کمال نہیں… مقبولیت، صلاحیت،
علم، بہادری، ذہانت… اور ہمت اﷲ تعالیٰ ہی عطاء فرماتے ہے… اگر بندہ یہی یقین دل
میں رکھے تو پھر دین کا کام جاری رہتا ہے… اور اگر نظر اپنی ذات پر چلی گئی … اور
اپنے کمالات یاد آنے لگے تو … پھر بربادی شروع… شیطان ابلیس کا قصہ تو ہم سب کو
یاد ہے… پھر … یہ میں میں کا شور … کسی دین کے خادم … اور مجاہد کو زیب نہیں دیتا…
تیسرا سبق
دین کے کام کا پہلا… اور
آخری مقصد … صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا ہے… جو کام ذاتی حقوق حاصل کرنے کے لئے
کیا جائے وہ دین کا کام نہیں رہتا… جو شخص دین کا جتنا کام کرے گا اتنا وہ اپنے
حقوق کی قربانی دے گا… یہی دین کی ترقی ہے… دیکھیں حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ…
ترقی کرتے کرتے کہاں تک پہنچے؟… یہاں تک کہ انتقال کے وقت کفن کا کپڑا بھی میسر
نہیں تھا… بس یہی ہے اصل ترقی … دین والی ترقی… اس لیے… جو جتنا پرانا ہوتا جائے
اسی قدر دنیا سے دور… اور آخرت کی فکر کے قریب ہوتا جائے… اگر یہ کیفیت نصیب رہی
تو بہت مزے… اور عظیم سعادت… اور اگر خدانخواستہ… یہ خیال دل میں جڑ پکڑگیا کہ…
میں پرانا ہوں… میں بڑا ہوں… میرا یہ حق… میرا وہ حق… تو پھر … قیمتی دین… حقیر
دنیا کے بدلے فروخت ہونے لگتا ہے… اور یہ بہت گھاٹے کا سودا ہے…
چوتھا سبق
اﷲ تعالیٰ غنی ہے… اور ہم
محتاج … اﷲ تعالیٰ کا دین … اور اس دین کے تمام شعبے ’’غنی‘‘ ہیں… اور ہم محتاج …
ہم دین کا کام نہیں کریں گے تو دین کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا… ہاں… ہم اپنا نقصان
کریں گے… کیونکہ… وہ زندگی جس میں دین کی خدمت نہ ہو… جانوروں سے بدتر زندگی ہے…
بس ہمیشہ … یہی یقین دل میں جاگزین … اور پختہ رہے کہ ہم محتاج ہیں… اور ہم نے
ضرور کرنا ہے… اور اگر ہم نے نہ کیا تو ہم مرجائیں گے… برباد ہوجائیں گے… اور ذلیل
ہوجائیں گے… جس کو یہ یقین نصیب ہوگیا اسے دین کی خدمت کا … ان شاء اﷲ… پکا ویزہ
مل گیا… اور اگر یہ خیال آیا کہ … دین ہمارا محتاج ہے… جہاد ہمارا محتاج ہے… جماعت
ہماری محتاج ہے… تو پھر… میں میں کا یہ شور ہمیں… انسان سے ’’بکری‘‘ بنا کر چھوڑے
گا۔
پانچواں سبق
استقامت سب سے بڑی کرامت
ہے… اور جنت کا راستہ تکالیف اور آزمائشوں سے بھرا پڑا ہے… اﷲ تعالیٰ سے عافیت
مانگنی چاہئے کہ … اسے عافیت مانگنے والے پسند ہیں… مگر… آزمائش کے وقت
’’استقامت‘‘ اختیار کرنی چاہئے… اور جب دین کے کام کے راستے میں تکلیفیں آنا شروع
ہوجائیں تو … کام پر ڈٹ جانا چاہئے… حالات جان سے لیکر مال تک جس چیز کی قربانی
مانگیں… اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے … پیش کردینی چاہئے… بس یہی سلامتی… اور امن کا
راستہ ہے… اور اسی میں نجات ہے…
چھٹا سبق
اوپر جن پانچ اسباق کو ہم
نے دہرایا… کیا یہ آسان ہیں؟… ہر گز نہیں… بالکل نہیں… ہاں اﷲ تعالیٰ توفیق دے تو
… میٹھا دودھ پینے سے بھی زیادہ آسان … بس پھر آسان طریقہ یہ ہے کہ … ہم اﷲ تعالیٰ
سے مانگنا شروع کردیں… دعاء سیکھیں… دعاء مانگیں… اور پھر مانگتے رہیں… اور مانگتے
چلے جائیں… یا اﷲ آپ کا شکر … بے حد شکر… کہ آپ نے ہمیںدین کے کام کی توفیق بخشی…
یہ سب… اے میرے مالک … آپ کا فضل اور احسان ہے… میرا اس میں کچھ کمال نہیں… میں تو
آپ کاعاجز بندہ ہوں… مجھے دین کے کام پر استقامت عطاء فرما دیجئے… اس کام کو اپنی
رضا کے لئے قبول فرمالیجئے… اس میں جو غلطیاں، کوتاہیاں… اور خامیاں… مجھ سے سرزد
ہوئیں… وہ اپنے فضل سے معاف فرمادیجئے… مجھے عافیت اور امن کے ساتھ زیادہ سے
زیادہ… کام کرنے کی توفیق عطاء فرمادیجئے… یا اﷲ یہ سب کام آپ کی رضا کے لئے ہے…
مجھے شرک، ریا… اور خود غرضی سے بچالیجئے… اور میری ذاتی ضرورتوں کے لئے… اپنے
خزانۂ غیب سے کفایت فرمادیجئے… یا اﷲ… میرے گناہوں کی وجہ سے … مجھے اس کام سے
محروم نہ فرمائیے…
یا اﷲ… دین کے کام کے
سلسلے میں… میری مدد اور رہنمائی فرمائیے… اور مجھے اپنے نفس کے شر اور شیطان کے
مکر سے بچالیجئے… یا اﷲ آپ غنی… میں محتاج… مجھے اپنا بنالیجئے… اور مجھے ایمان …
اور دین کے کام پر استقامت عطاء فرمادیجئے… اور … مجھے اپنی محبت کے ساتھ … اپنی
ملاقات کا شوق عطاء فرمادیجئے… اور مجھے… شہادت والا حسن خاتمہ عطاء فرمادیجئے…
آمین… یارب العالمین… یا ارحم الراحمین…
کیا آپ کو
زیادہ جلدی ہے؟
حالات جیسے بھی ہوں سازشیں کیسی ہی
خطرناک کیوں نہ ہوں اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کچھ بھی کہہ رہے ہوں
مسلمانوں کو مایوس ہونے کی اجازت اور ضرورت نہیں ہے کیوں کہ آخرت اور اچھا انجام
تو مسلمانوں کے حق میں یقینی ہے اسی حقیقت سے پردہ اٹھانے والا یہ ہنستا مسکراتا
مضمون پیش خدمت ہے۔
)۱۱شعبان
المعظم۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۶ستمبر
۲۰۰۵ء(
کیا آپ کو
زیادہ جلدی ہے؟
اﷲ تعالیٰ ’’القلم‘‘
والوں کو دنیا و آخرت میں جزائے خیر عطاء فرمائے… انہوں نے بن پوچھے ’’علالت‘‘ کا
اعلان چھاپ کر قارئین کرام سے دعاء کی درخواست کردی… میں نے بھی یہ اعلان
’’القلم‘‘ میں پڑھا… آج کل دنیا میں خبریں تو بہت گرم ہیں مگر ہمارے لیے سننے اور
پڑھنے کا موقع کم ہے… میرے ایک حبیب وعزیز نے پیغام بھیجا کہ کالم لکھ کر بھیجوں…
میں نے عرض کیا… آج کل بی بی سی سن نہیں رہا… اخبار پڑھنے کا موقع ملتا نہیں… دینی
کتب دسترس سے باہر ہیں… یاروں کی مجلس میں ویرانی کا دھواں اٹھ رہا ہے… دنیاوی
کتابیں اور ناول پڑھنے کا شوق نہیں ہے… ٹی وی خریدا نہیں… ڈش ہے مگر چاول کھانے
والی… کیبل ہے مگر کپڑے دھو کر سکھانے والی… انٹرنیٹ چلانا نہیں آتا… چل پڑے تو
بجھانا نہیں آتا… پھر کس طرح سے حالات حاضرہ پر کالم لکھوں؟… میرے عزیز نے فوراً
خبروں کی بھرمار کردی… فرمانے لگے… قصوری صاحب اسرائیل کے وزیر خارجہ سے مل آئے
ہیں… صدر مشرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں… دینی مدارس کی
رجسٹریشن کے مسئلہ پر مدارس اور حکومت میں اختلاف ہونے ہی والا ہے… اپوزیشن کی
ہڑتال ناکام ہوگئی… امریکہ میں سیلاب نے ہزاروں امریکی غرق کردیئے ہیں… افغانستان میں
بہت سے امریکی مارے گئے ہیں… عراق میں روزانہ حملے ہوتے ہیں… صدر حامد کرزئی نے
امریکی سیلاب زدگان کیلئے پورے ایک لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کردیا ہے… ضلعی
انتخابات کے آخری مرحلے کا جوڑ توڑ زور وشور سے جاری ہے… فرانس نے حضرت علامہ طاہر
قادری کو ویزہ دینے سے انکار کردیا ہے… بھارت نے پاکستان سے تیس مطلوب افراد مانگ
لیے ہیں… اور اس طرح کی بہت سی خبریں… میں نے سوچا کہ اس میں تو کوئی خبر بھی کالم
کے لائق نہیں… صدر پاکستان اور وزیر خارجہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ انہیں کرنا چاہئے…
کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جو یہود اور نصاریٰ دونوں سے دوستی کرے گا وہ انہیں
میں سے ہوگا… اب اگر صرف عیسائیوں سے یاری رکھی جائے اور یہودیوں سے نہیں تو پھر…
مکمل یکجہتی اورہم آہنگی تو نہ ہوئی… چھٹے پارے میں خود آیت پڑھ کر دیکھ لیجئے… اس
میں صرف عیسائیوں کا نہیں یہودیوں کا بھی ذکر ہے کہ… اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ
سے دوستی نہ کرو… ان میں سے بعض بعض کے دوست ہیں… اور جو تم میں سے ان سے یاری کرے
گا وہ انہیں میں سے ہوگا… (المائدہ۵۱)
اس سے مولویوں کا یہ
الزام بھی غلط ثابت ہوا کہ ہمارے حکمرانوں کو قرآن پاک نہیں آتا… وہ چونکہ عالمی
برادری کا باوقار حصہ دار بننا چاہتے ہیں… اس لیے انہوں نے یہودیوں سے ہاتھ ملایا
ہے… پاکستان میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے… اس کے ہوتے ہوئے… اسرائیل کو تسلیم کرنے
سے اور کونسی قیامت آجائے گی؟… پہلے بھی میڈیا اور این جی اوز کے روپ میں یہودی
دندناتے پھر رہے ہیں… اورباقاعدہ طور سے ملکی پالیسی پر اثر انداز رہتے ہیں… اس
لیے معذرت! ہم تو اس موضوع پر کالم لکھنے سے رہے… ہاں جب اسرائیل کا سفارت خانہ
کھلے گا… تب ممکن ہے اسے دیکھنے جائیں کہ کیسا ہے؟… کیسا لگتا ہے؟…
جہاں تک دینی مدارس کی
رجسٹریشن کا تعلق ہے تو یہ مدارس زمین کی مخلوق تو ہیں نہیں کہ… کسی کی ایک گرج سے
دب جائیں گے… ان مدارس میں وہ قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے جس کے سامنے روئے زمین کے
پہاڑ نہیں ٹھہر سکتے… ایٹم بم بن گیا… ہائیڈروجن بم کے تجربے ہوگئے… انسانوں نے
جانور جنم دینے شروع کردیئے… گورے کالے ہوگئے… کالے گورے ہوگئے… کوئی خود کو سپر
کہنے لگا اور کوئی خود کو سپریم سمجھنے لگا… مگر قرآن پاک اٹل ہے اٹل… کوئی حرف
نہیں بدلا… کوئی زیر زبر نہیں الٹی… کوئی شوشہ نہیں چھوٹا… شراب کا پیشاب پی کر
ناچنے والے… بھول رہے ہیں…مدرسہ اوپر سے اترا ہے… اور ان شاء اللہ اوپر رہے گا…
اللہ… کرے مہتمم حضرات تکڑے رہیں…تہذیب نو کے سامنے سرخم نہ کریں… مسئلہ جہاد پر
لچک نہ دکھائیں… لوگوں کو ایوب خان سے لیکر یحییٰ خان کی قبروں کا پتہ ہے …مگر آج
تک کسی مدرسہ کی قبر نہیں بنی … چرچ اور مندر فروخت ہو رہے ہیں … جبکہ… مدرسہ … ہر
سال پچیس سے پچاس فیصد کی ترقی کر رہا ہے … اللہ کرے مدارس کے رہبر شیخ الہندؒ
جیسے صاحب فراست حضرت مدنیؒ جیسے صاحب جرأت اور حضرت ضامن شہیدؒ جیسے صاحب شہادت
رہیں…
ہاں اگر حبّ دنیا کی دیمک
نے کسی پر دست درازی کی تو پھر… اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کا وعدہ کیا
ہے… دین فروشوں کا نہیں… اس لیے بھی الحمدللہ کامل اطمینان ہے کہ کالے دل والے…
اپنی کالی حسرتیں لے کر کالی قبروں میں چلے جائیں گے اور مدرسہ کے مینار سے آواز
آتی رہے گی اللہ اکبر اللہ اکبر… اللہ اکبراللہ اکبر اس لئے اس موضوع پر بھی کالم
نہیں لکھتے…باقی رہا امریکہ کا سیلاب… اور عراق اور افغانستان میں امریکیوں کی
ہلاکت…تو اس پر کیا لکھا جائے؟ سیلاب کو حدیث پاک میں غالباً اندھا حملہ آور
کہاگیا ہے…
اسے تمیز بھی نہیں کہ وہ
کس مہذب اور ترقی یافتہ ملک پر چڑھ دوڑا ہے ؟ پھر امریکہ کے حامی ہمارے حکمران اس
سیلاب کو گالیاں بھی نہیں دے رہے اور نہ اس کے خلاف فرنٹ لائن پر جاکر سینہ تان کر
کھڑے ہیں… امریکہ کا سیلاب امریکہ کونگلتا جارہا ہے… سنا ہے ہزاروں لوگ لقمہ اجل
بن گئے ہیں… گاڑیاں روئی کے گالوں کی طرح بہتی پھررہی ہیں… بڑی بڑی عمارتیں کاغذ
کی کشتیاں نظر آرہی ہیں…لاشیں پھول پھول کر پھٹ رہی ہیں… ادھر بیچارے امریکی فوجی
عراق میں مر رہے ہیں… ادھر افغانستان سے روزانہ انکی لاشیں رنگ برنگے جھنڈے پہن کر
آرہی ہیں… امریکی بیچارے کہاں جائیں ؟ اوپر نیچے سے گھر گئے ہیں… فضاؤں کی طرف
ناسا کا خلائی جہازبھیجا تو پائلٹ کی سیٹ کے نیچے گیس بنانے والا گولا پھٹ گیا…
اربوں ڈالر لگا کر اسامہ کو تلاش کرنا چاہا تو چار سال میں شیخ اسامہ تو کیا بنی
اسرائیل کا بچھڑا بھی نہیں ملا… اربوں ڈالر لگا کر… ملا محمد عمر مجاہد کو ڈھونڈا…
مگر… وہ بت شکن نظر آکر بھی نکل گیا… ہائے میں امریکہ کے کس کس درد کا ذکر کروں…
وہ کونسی ناکامی ہے جو اس کے حصے میں نہیں آئی؟ اور وہ کونسا غم ہے جس نے اس کو
کچو کے نہیں لگائے؟… اب رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی ہے … کچھ دن پہلے کی بات
ہے… صدر بش صاحب نے گرجدار آواز میں اعلان کیاتھا کہ شام چند دن میں اپنی فوجیں
اور خفیہ ادارے لبنان سے بلالے ورنہ … یہ فرما کر انہوں نے فاتحانہ انداز میں
دائیں بائیں دیکھا… اور زور سے ہنسے… ان کے اس انداز دلبرانہ و جابرانہ پر ہزاروں امریکی
کئی منٹ تک تالیاں پیٹتے رہے اور ناچتے رہے … وہ بہت عجیب منظر تھا… جس نے دیکھا
دجالی ہیبت محسوس کی… کیا آج صدر بش… سیلاب کو یہی حکم نہیں دے سکتے کہ واپس چلا
جائے ورنہ ؟ بے شک اللہ ایک ہے … اللہ سب سے بڑا ہے… ویسے ان مشکل حالات میں دل
چاہتا ہے کہ … کہیں سے ٹکٹ کا بندوبست کرکے امریکہ چلا جائے…تاکہ …سیلاب میں ہلاک
ہونے وا لے مظلوم لوگوں سے تعزیت کی جاسکے…مگر … مگر؟
جب طاہرالقادری صاحب جیسے
روشن روشن روشن ترین خیال آدمی کو فرانس کا ویزہ نہیں ملا… تو مجھے امریکہ کا
ویزہ کیسے ملے گا؟…اس لئے اس موضوع پر بھی کالم نہیں لکھتے…
باقی انڈیا نے پاکستان سے
تیس آدمی مانگے ہیں …تو… یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے …آپ تیس کہتے ہیں … اگر ضرورت
محسوس فرمائیں تو… ان شاء اللہ … تیس ہزار تیار ہیں…مگر لالہ جی! سوچ لو … پھر
ہوگا کیا؟…ویسے بعض روایات میں بتایاجاتا ہے کہ مسلمان مجاہدین … افغانستان سے
براستہ پاکستان… ہندوستان فتح کرکے …امام مہدی کے لشکر کی طرف روانہ ہوجائیں گے…
کیا آپ کو زیادہ جلدی ہے؟…
خوشبو!
دل کو مسجد نبوی کا دیوانہ بنانے
شفاعت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل کرنے کاطریقہ بتانے افغانستان کے موجودہ
حالات کو سمجھانے اور توبہ کی طرف مائل کرنے والی خوشبو۔
اگلا
صفحہ کھولئے اور اس خوشبو میں ڈوب جائیے۔
)۱۸شعبان
المعظم۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۳ستمبر
۲۰۰۵ء(
خوشبو!
اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ہم
سب کو… حضور پاک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے… مجھے وہ منظر
کبھی نہیں بھولتا جب میں ایک دن مسجد نبوی شریف کی دیواروں اور ستونوں پر لکھی
ہوئی… نورانی عبارات پڑھتا پھر رہا تھا… اچانک ایک پاک ستون پر نظر پڑی… اور میں،
رحمت، حیرت اور کیفیات کی لہروں میں ڈوب گیا… آدمی مدینہ پاک میں ہو… یہ بھی بڑی
خوش بختی ہے… پھر مسجد نبوی شریف… اور پھر ریاض الجنۃ… ایسے حالات میں تو… عشق
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی روحانی بارش میں انسان ویسے ہی ڈوبا ہوا ہوتا ہے… پتا
نہیں کیا کیا یاد آتا ہے… اور کس کس طرح سے یاد آتا ہے… بڑے بڑے لوگ ادب سے سہمے…
لرزتے کانپتے نظر آتے ہیں… ادب، ادب اور ادب … وہ بہت عجیب جگہ ہے… جب امریکا
برطانیہ کے بعض متعصب موذی وہاں حملے کے مشورے دیتے ہیں تو … دل اور جسم میں آگ لگ
جاتی ہے… ان ناپاک پاگل چوہوں کی ہمت کہ… ادھر نظر بھی اٹھا کر دیکھں… یاد رکھنا
سارے مسلمان روشن خیال دانشور نہیں ہیں… بہت سے مسلمان… ابھی تک مسلمان ہیں… ہاں
مدینہ کی پاکیزہ مٹی کی خوشبو پر مرنے والے… پکے سچے اور غیرت مند مسلمان… ابھی
بہت ہیں… رب کعبہ کی قسم بہت ہیں… تم اسلام، مسلمانوں، مکہ مکرمہ … اور مدینہ پاک
کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے… ہاں رب نے قیامت لانی ہو تو اور بات ہے… آج کل انتہا
پسندی ختم، انتہا پسندی ختم کا اتنا شور ہے کہ … اگر کوئی آدمی چند دن … بازار گلی
میں نہ گھومے… گھر میں بیٹھ کر صرف سرکاری اخبارات پڑھے … تو … وہ سمجھے گا کہ… بس
پاکستان میں اسلام ختم… صدر سے لیکر عوام تک سب ناچ رہے ہیں، گا رہے ہیں… راتوں کو
میوزیکل نائٹ کے پروگرام ہوتے ہیں… اور خواتین… نیم لباسی میں گھومتی ہیں… پورے
ملک میں کوئی مدرسہ نہیں… جہاد کا تذکرہ جرم ہے… ڈاڑھی والے عجائب گھروں میں بطور
نمونہ رکھ دئیے گئے ہیں… اور باپردہ خواتین … آثار قدیمہ کا ورثہ قرار دی جاچکی
ہیں… حالانکہ… الحمدﷲ … ثم الحمدﷲ… ایسا کچھ بھی نہیں ہے… ہمارے ر وشن خیال حضرات
تو اب باقاعدہ … الجھن، پریشانی اور بے بسی کا شکار نظر آتے ہیں… اسلام پھل رہا ہے
اور… خوب پھیل رہا ہے… کچھ دن پہلے ایک دعوتی مرکز میں جانا ہوا تو سخت حیرت ہوئی…
کئی ہزار ڈاڑھی والے… بے فکری سے بیان سن رہے تھے اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگ رہے
تھے… مجمع اتنا بڑا تھا کہ … ایکڑوں پر پھیلی مسجد چھلک رہی تھی… اور کسی کو اس
بات کی پروا نہیں تھی کہ … اخبارات اور ٹی وی میں… ان کے خاتمے کا مسلسل اعلان
ہورہا ہے… میں روزانہ… مساجد سے اذان کی آواز سن رہا ہوں… یہ آواز دل کے تار ہلا
دیتی ہے… اور بتاتی ہے کہ … اسلام زندہ ہے… تابندہ ہے… جمعۃالمبارک کے دن… اب بھی مسجدوں سے باہر
سڑکوں تک صفیں بنتی ہیں… باقی رہا ’’جہاد‘‘ تو اس کا کون کیا بگاڑ سکتا ہے؟…
انگریزی اسکولوں اور کالجوں سے … فدائی مجاہد پیدا ہورہے ہیں… اور اس وقت نشریاتی
طور پر … انٹرنیٹ ’’جہادیوں‘‘ کے قبضے میں ہے… بات مسجد نبوی شریف کی چل رہی تھی…
اور نکل گئی کہیں اور… دراصل حالات اچھے ہیں یا برے… یہ تو … اﷲ تعالیٰ ہی جانتا
ہے… مگر… گہماگہمی اور کشمکش عروج پر ہے… اس لیے مجھ سمیت کسی کا بھی دماغ پوری
طرح ٹھکانے پر نہیں ہے… اور اسی کیفیت میں دنیا کے خاتمے کاراز مضمر ہے… کوئی بھی
کسی بات کا پکا فیصلہ کرنے کی ’’پوزیشن‘‘ میں نہیں ہے… کیا کریں؟… کیا نہ کریں؟…
کی حالت ہے… اور یہی حالت دنیا کو ایک ہولناک جنگ کی طرف لے جارہی ہے… حضرت ملا
محمد عمر سے لے کر صدر بش تک کسی کی یہ حالت نہیں ہے کہ وہ کوئی… ناقابل واپسی
ٹھوس فیصلہ کرسکے… ہر ایک کی دماغی حالت… تغیرات اور آندھیوں کا شکار ہے… صبح ایک
فیصلہ … دوپہر دوسرا… اور رات کو پہلے دونوں فیصلے منسوخ… ہاں حضرت ملا محمد عمر
جیسے حضرات خیر کے بارے میں سوچتے ہیں… جبکہ … دوسرا طبقہ شر کے بارے میں فکر مند
رہتا ہے…مگر… حتمی فیصلہ اس وقت کسی کے بس میں نہیں ہے… یہ بھی قرب قیامت کی نشانی
ہے کہ اسی کشمکش، گومگو اور شش وپنج میں… اچانک… حالات ایک ایسی کروٹ لیں گے… جو
اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے… کیا خیال ہے… یہودیوں کے خلاف مسلمانوں
اور عیسائیوں کا جنگی اتحاد … مسلمانوں او ر عیسائیوں کے مشترکہ لشکر… خراسان کے
کالے جھنڈے… ہندوستان کے بادشاہوں کا زنجیروں میں جکڑا جانا… دجّال… دابۃ الارض…
آسمان کا دروازہ کھلنا… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا… دریائے فرات کا
سونا… طالقان کے خزانے… اور یاجوج ماجوج… ظاہری حالات کے تحت… ان میں سے ایک بات
بھی اس وقت ممکن نظر آتی ہے؟… بظاہر بالکل نہیں… مگر یہ سب کچھ حق ہے سچ ہے… اور
اس وقت ساری دنیا کے طاقتور انسانوں کا ذہنی انتشار … ان حالات کو تیزی سے ممکن
بنا رہا ہے… ہم نے حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کو دیکھا کہ … ماشاء اﷲ…
بہت سنجیدہ اور گہری شخصیت کے مالک ہیں… بات سننے اور اسے سمجھنے کے بعد حتمی
فیصلہ فرمادیتے ہیں… ایسا میں نے خود دیکھا… جب میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا… اور
وہ اپنے مخصوص دھیمے، نرم اور مستانہ لہجے میں… وائر لیس پر احکامات دے رہے تھے…
بعض فیصلے کافی سخت تھے مگر نہ ان کا لہجہ بدلا… اور نہ ان کے چہرے کے تاثرات …
کسی کو کچھ دینے کا حکم تو وہی لہجہ… اور کسی کو سزا کا حکم تو وہی انداز… یقینا
یہ ایک متاثر کرنے والی صفت تھی… اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق میں… ایسے پیارے تحفے پیدا
فرماتا ہے… اب ایک طرف ان کی یہ صفت … مگر جب گیارہ ستمبر کی آندھی آنے کو تھی… اﷲ
والے… صاحب بصیرت افراد صاف دیکھ رہے تھے کہ… دنیا کے نقشے اور انداز میں … تبدیلی
کا کوئی بڑا تکوینی فیصلہ ہوا چاہتا ہے… اب علم غیب تو اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے
پاس نہیں ہے… کسی کو بھی یہ پتا نہیں تھاکہ … کیا ہونے والا ہے… مگر تمام صاحب
نظر… دل والے ’’کچھ ہونے‘‘ کو ضرور محسوس کررہے تھے… ان دنوں پھر مجھے… امیر
المؤمنین مدظلہ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا… آج وہ بالکل پہلے جیسے نہیںتھے… نہ وہ
اطمینان، نہ وہ دھیما پن… اور نہ وہ پرسکون لہجہ… وہ بہت بڑے عارف باﷲ، صاحب نسبت،
مجدّد، اﷲ والے تھے… ایک موضوع پر بہت غصے اور جذبات میں بولتے رہے… اور خلاف عادت
کافی دیر تک بولتے رہے… حالانکہ… ان کی کم گوئی ضرب المثل تھی… میں نے عرض کیا… آپ
کی بات درست … مگر اب کیا کرنا چاہئے… ایک دو منٹ میں بامیان کے دو ہزار سالہ بتوں
کو گرانے کا فیصلہ کرنے والا… باہمت انسان خاموش رہا… کوئی جواب نہیں… کوئی تبصرہ
نہیں… میں نے دوبارہ کہا… بات بالکل ٹھیک ہے مگر کرنا کیا چاہئے؟… انہوں نے اپنے
ہاتھ سے اپنی پیشانی کو پکڑا … اور بار بار زور سے دباتے رہے… اور فرماتے رہے کہ
مجھے کچھ پتا نہیں… کیا ہونے والا ہے؟… کیا ہوگا؟… اور کیا بنے گا؟… دو چار منٹ
بعد پھر انہوں نے اپنی پیشانی کو اسی طرح دبا کر فرمایا… کچھ پتا نہیں کیا ہوگا؟…
پھر چند دن بعد … گیارہ
ستمبر ایک نئی دنیا لے کر طلوع ہوا… امریکا نے سو فیصلے کیے… اور سو بدلے… بالآخر
پاکستان کی امداد سے … افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ کیا… خود طالبان نے
سو فیصلے کیے… اور سو بدلے… اور بالآخر… گوریلا جنگ اور دشمن کو تھکا کر نکالنے کا
طے ہوا… پاکستان نے سو فیصلے کیے… اور سو بدلے… بالآخر … ایک فون پر جھکنے والوں
کے دلائل سب نے تسلیم کرکے… خون مسلم میں شرکت کا پہلے جزوی… اور پھر کلی فیصلہ
کیا… پاکستان میں موجود… مجاہدین نے سو فیصلے کیے… اور سو بدلے… اور بالآخر… جو
اینٹیں جماعت کی عمارت میں جڑی رہیں… اﷲ پاک نے ان سے کام لیا… اور جو روڑے، پتھر
پروازوں کے دھوکے میں آئے وہ تاریخ کا بھولا ہوا سیاہ باب بن گئے… اب ان حالات میں
جب … ساری دنیا میں… حتمی فیصلے کا رواج ہی اٹھ گیا تھا… کچھ لوگوں پر طعن کرنا
کہ… انہوں نے یہ نہیں کیا، انہوں نے وہ نہیں کیا… کہاں کا انصاف ہے؟…اصل بات صرف
یہی ہے کہ … جو خوش نصیب اپنے عقیدے، نظرئیے، اہداف… اور جماعت سے جڑے رہے… ان پر
اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل رہا… اور جو لوگ بوکھلا گئے، سٹپٹا گئے، حالات سے گھبرا گئے…
انہوں نے… اسلامی اور جہادی کاز کو کافی نقصان پہنچایا… نہ خود کچھ کرسکے… اور نہ
عالمی درجہ بندی میں … انتہا پسند کہلانے والے مسلمانوں کا حصہ بن سکے…
اﷲ تعالیٰ سب کو معاف
فرمائے… اور ہم سب کی رہنمائی فرمائے… چلیں واپس… مسجد نبوی شریف کے خوبصورت،
بابرکت، اور پرنور تذکرے کی طرف لوٹتے ہیں… میں عرض کر رہا تھا کہ … مسجد نبوی
شریف کے اندرونی حصے کی دیواروں اور ستونوں پر احادیث مبارکہ وغیرہ لکھی ہوئی
تھیں… اور اس دن میں پورے ذوق وشوق کے ساتھ ان کو مزے لے لے کر پڑھتا پھر رہا تھا…
اچانک… ایک حدیث پاک نے میری آنکھوں کو بھگودیا… اے القلم پڑھنے والے بھائیو!… اور
بہنو… خوب غور سے اس حدیث پاک کو پڑھو… اور آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت،
اور عشق میں ڈوب جاؤ… اور اندازہ لگانے کی کوشش کرو کہ… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کو
ہم سے کتنا پیار ہے… اور پھر سوچو کہ کیا ہمیں بھی ان سے اتنا پیار ہے؟… مجھے بہت
عرصہ ہوگیا… جی ہاں تقریباً بارہ سال کہ میں مسجد نبوی شریف … پھر نہیں جاسکا…
میرا اﷲ پاک ہی جانتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہوگی… اﷲ کرے پھر راستہ کھل جائے… پھر
وہی باب عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ … وہی ریاض الجنۃ وہی … مجلس… ہائے وہی مجلس… وہی
اشک… وہی ندامتیں… وہی بدر واحد کا معطر لہو… اور وہی جنت البقیع… عرض کرنے کا
مقصد یہ ہے کہ … یہ حدیث پاک بارہ تیرہ سال پہلے ریاض الجنہ کے پاس ایک ستون پر
سنہری الفاظ میں پڑھی تھی… وہاں تعمیر وتبدیل کا کام چلتا رہتا ہے … اس لیے …
وضاحت کے دو جملے لکھنے پڑے… آئیے اپنے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث
پاک پڑھتے ہیں…
حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
شَفَاعَتِیْ لِاَہْلِ
الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ
’’قیامت کے دن میری
شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لئے ہوگی جن سے کبیرہ گناہ سرزد ہوئے…‘‘
ہائے میں اس رحمت پر
قربان … کبیرہ گناہ بڑی نافرمانی کو کہتے ہیں… بہت بڑی نافرمانی… ایسے بڑے
نافرمانوں کی بھی بھلا کوئی سفارش کرتا ہے؟… کسی ادارے، مدرسے اور جماعت میں جاکر
دیکھ لیں… اپنے بڑے مجرموں کو کون گلے سے لگاتا ہے… ملکوں کے قوانین دیکھ لیں… مگر
یہاں تو رحمۃ اللعالمین… صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں… میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر
کے لئے ہوگی… یہاں ہم لوگ گناہوں کی مستیوں میں غرق… اور ادھر آقا صلی اﷲ علیہ
وسلم قیامت کے ہولناک، خوفناک دن … امّتی امّتی… یا رب امّتی پکار رہے ہوں گے …
کیا اب بھی اے مسلمانو! گناہ کرنے پر دل کرتا ہے؟… اتنی رحمت اور شفقت دیکھ کر تو
کتا بھی انسان بن جاتا ہے… مگر معلوم نہیں … ہمارا نفس امّارہ … کتے سے کب انسان
بنے گا… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں… میں تمہاری شفاعت کروں گا… تمہیں جنت
میں لے جانے تک … کھڑا رہوں گا… سجدے میں گروں گا… امتی امتی پکاروں گا… ادھرہم
ہیں کہ… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے وفاداری کا ذرا بھی پاس نہیں… نہ نماز، نہ روزہ…
نہ جہاد … نہ حیا … نہ پردہ… نہ ڈاڑھی… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت ہو تو …
ڈاڑھی رکھنے میں بھلا کیا رکاوٹ ہے؟… تمام سنتیںپوری کرنے میں … کیا باک ہے؟… اے
امت کے کبیرہ گناہ کرنے والو!… خوشخبری، خوشخبری، خوشخبری… پیارے آقا… میٹھے آقا…
سوہنے آقا… سجن آقا… محبوب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ہماری شفاعت کا وعدہ فرما رہے
ہیں… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر بات سچی… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر بات پکی… یہ
وعدہ ضرور پورا ہوگا… سور ج مشرق کی جگہ مغرب سے طلوع ہوسکتا ہے… مگر حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم کا سچا وعدہ نہیں ٹل سکتا… واہ میرے اﷲ واہ… کبیرہ گناہوں والے
بھی جنت میں… تیری رضا ورضوان میں… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں… حوروں کی
حسین اور خوشبودار بانہوں میں… حضرات صحابہ کرام کے جھرمٹ میں … واہ میرے مالک واہ
مزہ آگیا مزہ… تیرا شکر کہ ہمیں کیسا عظیم نبی دیا… کیسا رؤف ورحیم نبی دیا… کیسا
امت کا درد کھانے والا نبی دیا… یا اﷲ تیرا شکر… بار بار شکر… بے انتہا شکر … اوہ
مجھے اپنے مسکراتے ہوئے شہید ساتھی یاد آرہے ہیں… یہاں لوگ ان کی شناختیں ڈھونڈنے…
ان کی تصویریں اٹھائے پھرتے ہیں … مگر وہ بہت اوپر، بہت اوپر… پیارے آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم کی شفاعت مبارکہ کے سائے میں … دنیا کے کافروں پر ہنس رہے ہوں گے… ان
شاء اﷲ
کس کس کا نام لوں… کس کس
کا تذکرہ کروں… وہ چھوٹے کہلاتے تھے… مگر بڑے نکلے… اور جو بڑے کہلاتے ہیں… اﷲ پاک
ان کو چھوٹا ہونے سے بچائے… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
شَفَاعَتِیْ لِاَہْلِ
الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ
آپ میں سے کوئی بھی مدینہ
پاک جائے… اﷲ تعالیٰ سب کو ایمان، غیرت اور ادب کے ساتھ لے جائے… اﷲ معاف فرمائے
وہاں جانا کافی نہیں ہے… دو آدمی آئے تھے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک تک
پھیر لیا تھا… ظالم ڈاڑھیاں کاٹتے تھے… آپ کو یہ شیطانی عمل بہت ناگوار گزرا… ہاں
بھائیو اور بہنو! صرف وہاں جانا کافی نہیں ہے… ایمان، غیرت، محبت… اور ادب ضروری
ہے… وہاں بلالی رنگ کے کچھ حضرات ہیں… جی ہاں کالے رنگ کے… وہ روضہ اقدس کے اندر
جانے کا شرف رکھتے ہیں… یہ پاکیزہ نسل کے حضرات ہیں بلالی رنگ، سفید لباس اور
کمرمیں سبز پٹکا… اﷲ اکبر… ایسے خوش بخت کہ اندر جھاڑو تک دے آتے ہیں… اور وہاں
کے… سارے کام نمٹاتے ہیں… مجھے حضرت مفتی محمد جمیل خان صاحب شہیدؒ کے والد… حضرت
الحاج عبدالسمیع صاحبؒ نے بتایا کہ… جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی حضرت مفتی محمد
حسن صاحب نور اﷲ مرقدہ نے فرمایا… میں نے… روضہ اقدس کے ان پاکیزہ خدام کے بزرگ کو
زیارت کے لیے ڈھونڈ لیا… ان سے مصافحہ کیا… اور پوچھا کب سے یہ خدمت سرانجام دے
رہے ہیں؟… انہوں نے فرمایا… ساٹھ سال سے روضہ اقدس کے اندر جھاڑو دے رہا ہوں… مفتی
محمد حسن صاحبؒ نے فرمایامیں تیزی سے پیچھے ہٹ کر ان سے الگ ہوگیا… وہ مجھے اتنے
پاکیزہ، مقدس اور مطہر لگے کہ … میں خود کو … گندگی کا ڈھیر سمجھ کر ان سے دور
ہوگیا… ارے وہاں کی خاک کا تو ایک ذرہ… آفتاب وماہتاب کے ترازو جھکادے اور اس خوش
نصیب بزرگ کو ساٹھ سال سے وہ خاک نصیب ہو رہی ہے… یہ قصہ سن کر مجھے بھی شوق اٹھا
کہ … اس خاندان کے کسی فرد کی زیارت کروں… حضرت مفتی محمد حسن صاحب نور اﷲ مرقدہ…
بڑے عالم، بزرگ اور صاحب معرفت تھے… جبکہ… میں تو مدرسہ کا طالب علم تھا… اور
مدرسہ کے طالب علم عجیب دیوانے ہوتے ہیں… پوچھتے پوچھتے کسی نے بتادیا کہ فلاں وقت
صفہ کے چبوترے پر بیٹھ کر تلاوت فرماتے ہیں… میں تاک میں لگ گیا… اور الحمدﷲ ڈھونڈ
کر مصافحہ کر آیا… جن ہاتھوں سے روضہ اقدس میں جھاڑو دیا جاتا تھا… ان ہاتھوں کی
لمس مجھے آج تک محسوس ہوتی ہے… یا اﷲ اس کی لاج رکھ کے مجھے آخرت کی شرمندگی سے
بچالے… آمین
میں عرض کر رہا تھا کہ اﷲ
پاک تمام مسلمانوں کو عموماً… اور القلم پڑھنے والوں کو خصوصاً… مدینہ پاک لے
جائے… ان شاء اﷲ آپ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقدس آرامگاہ سے چند گز کے فاصلے
پر خود یہ اعلان پڑھ لیں گے کہ …
شَفَاعَتِیْ لِاَہْلِ
الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ
’’میری شفاعت میری
امت کے اہل کبائر کے لیے ہے…‘‘
تو کیا خیال ہے؟… آقا صلی
اﷲ علیہ وسلم کے اس اعلان کے بعد ہم گناہوں سے پکی سچی توبہ نہ کرلیں؟…
جب ادھر سے اتنا کرم ہے
تو ادھر سے اتنی جفا اچھی تو نہیں لگتی… جب ابر رحمت برس رہا ہے تو ضد اور ناپاکی
کی چھتری اوڑھے رکھنے سے فائدہ؟… آئیے… آج تمام کبیرہ گناہوں سے سچی توبہ کرلیں…
بالکل پکی توبہ… روح کے گناہوں سے توبہ… جسم کے گناہوں سے توبہ… فکر وعقیدے کے
گناہوں سے توبہ… بری صحبت سے توبہ… گھر سے ٹی وی نکال دیں… انٹرنیٹ کا غلط استعمال
چھوڑ دیں… شادی، نکاح کے معاملات درست کرلیں… بیویاں اپنے خاوند کی غیر مشروط
وفادار خادمائیں بن جائیں… خاوند بیویوں کے حقوق ادا کریں… مرد چہرے پر ڈاڑھی
سجالیں… بہنیں آنکھوں میں حیا کا سرمہ ڈال لیں… مدینہ پاک بہت قریب ہے… اس میں
روضہ اقدس سے متصل ریاض الجنۃ کا ’’جنتی قطعہ‘‘ ہے اور اس کے ستون پر آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم کا اعلان لکھا ہوا ہے…
شَفَاعَتِیْ لِاَہْلِ
الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ
پھر دیر کیسی… آئیے مدینہ
پاک کے عشق میں انتہا پسند بن جائیں… پرسوں مجھے ایک منظر … خیالات کی دنیا میں
اٹھا کر لے گیا… حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سورج بن کر آئے، صحابہ کرام ان کے گرد
ستارے… امت کے شہداء اور غازی اس بزم ومجلس کے دولہے… واہ کیسا منظر ہوگا، کیسا
منظر؟… شہیدوں کے خون سے نور کی لائٹیں برس رہی ہوں گی… تب خدانخواستہ میں اور آپ
اپنے گناہوں کے پسینے میں غوطے نہ کھا رہے ہوں… پھر خود سوچیں شہادت کے سوا اور
کون سی راہ ہے… جس میں… اس قدر سلامتی اور عزت ہے؟… مجھے پتا نہیں کون کس ملک میں
گیا ہے؟… کس نے کس سے اتفاقی مصافحہ کیا ہے؟… ہمارے گلے کاٹنے کیلئے کیا مکر ہوئے
ہیں؟… اسلام اور یہودیت کے کون سے رشتے تلاش کر لیے گئے ہیں؟… مجھے کچھ پتا نہیں…
ایسے بدبودار ماحول میں… میرا رب مجھے اور القلم پڑھنے والوں کو … خیالات ہی میں
سہی مدینہ پاک کی خوشبودار فضا میں لے گیا… اور ریاض الجنہ کی سیر کرادی اور آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک خوشبو دار حدیث پاک سنادی… پھر کیوں نہ ہم… اپنے رب کی
توحید وعظمت اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق میں انتہا پسند بنیں… اسلام
زندہ باد…
کلیجے کے
آنسو
جس وقت نام نہاد مسلمان
حکمران اور دجالی قوتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوجانے والے مصلحت پسند دانشخور اپنے
مسلمان بھائیوں کو پکڑ پکڑ کر کافروں کے حوالے کر رہے تھے اور ان سے ذلت آمیز
ایوارڈز وصول کررہے تھے اس وقت ایک مظلوم دربدر اور دین کے نام پر ستائے جانے والے
مسافر کے یہ آنسو ان خوش نصیب لوگوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جنہوں نے آج کے
ناگفتہ بہ حالات میں چودہ سو سال پہلے والی ہجرت ونصرت کی تاریخ دہرادی
)۲۵شعبان
المعظم۱۴۲۶ھ
بمطابق۳۰ستمبر
۲۰۰۵ء(
کلیجے کے
آنسو
اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی …
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ایک ایسا زبردست بیج بو گئے… جس کے سامنے آج سارے عالم
کفر… کی قوت، طاقت اور ٹیکنالوجی فیل اور ناکام ہوچکی ہے… نائن الیون کو پورے چار
سال بیت گئے… ۷
اکتوبر بھی آنے والا ہے… کہاں گئے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد؟… کہاں ہیں
شیخ اسامہ بن لادن؟… کیا کسی نے کبھی سوچا کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟… اتنی بڑی طاقت
اور اتنی جدید ٹیکنالوجی… چار سال سے کیوں خاک چاٹ رہی ہے… رب کعبہ کی قسم حضرت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو عبرتناک شکست دی ہے… ہاں میرے آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ترتیب نے ان کو کھوکھلا کر دیا ہے… ورنہ… ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام
کچھ معمولی انعام نہیں ہے… کیلکولیٹر پر اسے ساٹھ سے ضرب دیں… کتنے سارے روپے بنتے
ہیں… آج لوگ پچاس ہزار کا گردہ بیچ دیتے ہیں… چند ہزار میں عصمتیں فروخت ہورہی
ہیں… پھر… ملا عمر کو پناہ دینے والے… ڈھائی کروڑ ڈالر… کئی ارب روپے لیکر ان کو
کیوں نہیں بیچ دیتے؟… کیا اس غریب مولوی نے… اپنے ’’انصار‘‘ کو اس سے زیادہ رقم دے
رکھی ہے… نہیں رب کعبہ کی قسم نہیں… اس نے انہیں دعاء کے سوا کچھ زیادہ نہیں دیا
ہوگا… پھر کیوں وہ … اپنے بیٹے اور بیٹیاں اپنے گھر اور کنبے خطرے میں ڈال کر … اس
کے گرد اپنے جسموں اور عزتوں کو ڈھال بنائے بیٹھے ہیں… شیخ اسامہ غریب نے… اپنے
میزبانوں اور انصار کو کیا دیا ہوگا؟… کیا بچا تھا اس مہاجر کے پاس کسی کو کچھ
دینے کے لئے؟… ہاں رات کے آخری حصے کے دو ٹپ ٹپ برستے آنسو… وہ … انہیں ضرور دیتا
ہوگا… کیوں نہ دے… چار سال سے ان گمنام ’’انصار‘‘ نے اس پر … دنیا کی سپر پاور کا
سایہ تک نہیں پڑنے دیا… امریکا ہر دن انعام کی رقم بڑھاتا جارہا ہے… مگر… حضرت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے… نصرت کرنے والوں … اور پناہ دینے والوں کیلئے… چودہ سو
سال پہلے جس ’’انعام‘‘ کا اعلان کردیا ہے … اس نے… ڈالروں کی کشش کو پیشاب سے
زیادہ ناپاک بنادیا ہے… ڈھائی کروڑ ڈالر کیا… ڈھائی ٹریلین ڈالر کا اعلان بھی
کردیا جائے… جنہوں نے… مدینہ پاک کے … معاہدہ مؤاخات کی خوشبو سونگھی ہے… وہ … ان
ڈالروں پر تھوکنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں… اس موقع پر مجھے… عجیب عجیب منظر یاد
آرہے ہیں… ہائے میں قربان عقبہ کی اس گھاٹی پر… جس میں… ہجرت ونصرت کا پہلا معاہدہ
ہوا تھا… اﷲ تعالیٰ موقع دے تو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں… اس تاریخی دن کو
ڈھونڈیں… اور پھر پڑھیں اور سمجھیں… تب معلوم ہوگا کہ مسلمان قوم اتنی بہادر اور
مست کیوں ہے؟… عقبہ کے اس واقعہ کو چودہ سو سال سے زائد بیت گئے مگر اس کی خوشبو
اور تاثیر ابھی تک جوں کی توں ہے… ہمارے ایک کمانڈر دوست مقبوضہ کشمیر کے ایک گھر
میں پناہ لیے بیٹھے تھے… یہ واقعہ … چار سو سال پرانا نہیں بلکہ … ابھی اسی زمانے
کا ہے… جی ہاں یہ اسی عزت فروش، غیرت سوز… غافل دور کا واقعہ ہے… ہالی وڈ، بالی
وڈ… اور ڈش اور کیبل کے زمانے کا واقعہ ہے… گھر کی بزرگ خاتون… مہمان مجاہد کیلئے
کھانا لگا رہی تھی… وہ بہت خوش تھی، اس کے گھرمیں آج… ہجرت وجہاد کا دیپ روشن تھا…
اور وہ خود نصرت کی خوشبو مہکائے جارہی تھی… مہمان کے ہاتھ دھلائے گئے… کھانا پیش
کیا گیا… مگر اسی دوران انڈین آرمی آ پہنچی… پورا علاقہ کریک ڈاؤن کی زد میں آگیا…
مخبری بہت پکی تھی… خاتون نے مہمان مجاہد کو گھر میں بنائے گئے خفیہ مقام میں
چھپادیا… آرمی والے سیدھے اسی گھر میں آئے… خوب تلاشی… بھرپور تشدد… مگر کچھ ہاتھ
نہ آیا… خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ ڈٹی رہی… آرمی کی ’’اطلاع‘‘ پکی
تھی… چند سکّوں پر بکنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے… یہ لوگ مسلمانوں کے گھروں میں
پیدا تو ہوگئے… مگر ہوتے یہ لکشمی کے پجاری ہیں… مال مال … اور صرف مال… آرمی
والوں نے خاتون کے بیٹے کو سامنے کھڑا کرکے کہا… مجاہد کا پتا دو ورنہ… اسے گولی
ماردیں گے… خاتون نے کہا… یہاں کوئی مجاہد نہیں… پھر ایک بندوق نے آگ اگلی… خاتون
کا بیٹا خاک وخون میں تڑپنے لگا… وہ بیٹا… جسے نو ماہ پیٹ میں اٹھایا… دوسال دودھ
پلایا… ہزاروں لاڈ… اور لاکھوں نازوں سے جوان کیا… وہ تڑپ رہا تھا… گولیاں برستی
رہیں… وہ ٹھنڈا ہوگیا… کوئی ماں… ذرا دیر کیلئے اس منظر کا تصور تو کرکے دیکھے… یہ
افسانہ نہیں حقیقت ہے … بچہ شہید ہوگیا… آرمی چلی گئی… کریک ڈاؤن ختم ہوگیا… خاتون
نے خفیہ مقام سے ’’مہمان مجاہد‘‘ کو نکالا… اور کہا بیٹا! آرمی چلی گئی ہے کھانا
کھالو… مجاہد نے اس کے بیٹے کی لاش دیکھی… واقعہ پوچھا… عرض کیا ماں! میرا بتادیتی
اور اسے بچالیتی… خاتون نے کہا… بیٹا!… اگر میرے پانچ بیٹے ہوتے اور ایک کے بعد
دوسرا گرایا جاتا تب بھی نہ بتاتی… یہ سب کچھ کیا ہے؟… کوڑھ مغز دانشور سمجھتے ہیں
کہ… لوگ مال کی خاطر… پناہ دیتے ہیں… اور نصرت کرتے ہیں… حالانکہ … اگر ایسا ہوتا
تو امریکا جیت چکا ہوتا… اس کے پاس بہت مال ہے… انڈیا کشمیر کو مجاہدین سے خالی
کرا چکا ہوتا… وہ مجاہدین سے بہت زیادہ مالدار ہے… ارے یہ ’’ہجرت ونصرت‘‘ کا وہ
بیج ہے جو میرے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بویا ہے… اسی نے مسلمانوں کو فاتح
بنایا ہے… اور اسی نے انہیں دیوانہ اور مستانہ کردیا ہے… پرسوں کوئی بتا رہا تھا
کہ قندھار کی ایک خاتون کا ایک بیٹا… حال ہی میں شہید ہوا ہے… اس نے یہ بیٹا
مجاہدین کی خدمت کیلئے وقف کر رکھا تھا… اس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ … اس
خاتون کے تین سگے بھائی… اور تین حقیقی بیٹے شہید ہوچکے ہیں… بم برس رہے ہیں…
لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں … کچے مکانات پر بلڈوزر دندنا رہے ہیں… وردی اور اسٹارز
کے بھوکے بھیڑئیے… آگ اور بارود کی بارش کر رہے ہیں… مگر… ہجرت اور نصرت کی شمع جل
رہی ہے… مسکرا رہی ہے… اور خوب مہک رہی ہے… کیا کیا سناؤں؟… کیا کیا بتاؤں؟… ایسا
دلسوز موضوع ہے کہ کلیجہ سے بھی آنسو ٹپکنے لگتے ہیں کہ… مسلمانوں نے اپنے نبی صلی
اﷲ علیہ وسلم کے وعدے کی کیسی لاج رکھی… اور کیسی کیسی قربانیاں دے کر ’’ہجرت اور
نصرت‘‘ کے عمل کو زندہ رکھا… کیا چند ہزار مجاہدین… سات لاکھ انڈین آرمی کے دانت
کھٹے کر سکتے تھے؟… اگر ہجرت اور نصرت نہ ہوتی… کیا امریکا کی دجالی ٹیکنالوجی …
اور طاقت کے سامنے چند ہزار طالبان چار سال تک سیسہ پلائی دیوار بن سکتے تھے؟… اسی
لیے تو آج سارا زور … ہجرت اور نصرت کے دروازے بند کرنے پر ہے… مگر بند ہونا تو
دور کی بات … یہ عمل پھیلتا ہی جارہا ہے… عراق پر چاروں طرف سے مجاہدین کی یلغار
ہے… اردگرد کا کوئی ملک ایسا نہیں… جہاں سے … دیوانے نہ آرہے ہوں… ان آنے والے
مجاہدین ومہاجرین کو راستہ بھر… اور پھر عراق پہنچ کر… نصرت کی طاقت اپنی آغوش میں
لے لیتی ہے… ہجرت… ہمت کا کام ہے… اور نصرت… جرأت کا کام ہے… مسلمانوں میں جب بھی
یہ دونوں ترقی پاتے ہیں تو اسلام کا پھریرا ہر سو لہرانے لگتا ہے… افغانستان پر
بھی چاروں طرف سے مجاہدین کی یلغار ہے… اور شمال کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر … ہر
طرف نصرت کے دروازے کھلے ہیں… دراندازی کا الزام صرف پاکستان پر اس لیے لگتا ہے
کہ… یہاں کی حکومت… اس وقت ’’بے وقار‘‘ لوگوں کے ہاتھ میں ہے… ورنہ … جہاد کی
تحریک… اور ہجرت ونصرت کی خوشبو … اس وقت پورے عالم میں پھیل چکی ہے… آج ہمارے ذمے
لازم ہے کہ ہم … ان ایام کو یاد کریں… جب حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم … کئی سال تک
… اپنے لیے ’’انصار‘‘ ڈھونڈتے پھرتے تھے… حج کے موسم میں آپ ایک ایک قبیلے کے پاس
جاتے… بڑے بڑے بازاروں کا رخ کرتے… اور اعلان فرماتے اے لوگو! ہے کوئی ایسا آدمی
جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام پہنچانے سے
روک دیا ہے… لیکن کوئی بھی آپ کی بات نہ مانتا تھا… ہر طرف … ان کی نہ سنو… ان کی
نہ مانو کا شور تھا… گالیاں اور پتھر تھے… اور منفی پروپیگنڈہ… اور وہ بھی عرب
گیر… چنانچہ یمن اور مصر تک سے جب کوئی حج کے لئے مکہ کا رخ کرتا تو قوم کے دانشور
اسے سمجھادیتے کہ… وہاں نعوذ باﷲ… ایک دیوانہ پھرتا ہے… اس کی نہ سننا… اس کی نہ
ماننا… دس سال تک میرے آقا… منیٰ کی گھاٹیوں میں… عکاظ اور مجنہ کے بازاروں میں…
ان خوش نصیبوں کو ڈھونڈتے رہے… جن کی قسمت میں… ’’انصار‘‘ بننا لکھا تھا… آپ ان سے
فرماتے کون مجھے ٹھکانا دے گا؟… اور کون میری مدد کرے گا؟… تاکہ … میں اپنے رب کا
پیغام پہنچا سکوں… اور جو ایسا کرے گا… اسے اس کے بدلہ میں جنت ملے گی… ہاں بس جنت
کا وعدہ تھا… اور کسی چیز کا نہیں… مگر… ’’جنت‘‘ کا وعدہ کوئی معمولی بات ہے؟… ارے
یہی تو ہے اصل وعدہ … ایسا وعدہ … جس کی خوشبو کے سامنے … آج کے دیوانوں کو … ڈالر
سڑے ہوئے کتے سے زیادہ بدبودار محسوس ہوتے ہیں… دس سال تک کوئی نہ ملا… قبیلہ
ہمدان کے ایک آدمی نے وعدہ کیا… اور بتایا کہ ہمارے ہاں حفاظت کا انتظام ہے… وہاں
تشریف لے چلیں… مگر پھر… قوم سے مشورہ کرنے گیا… اور واپس نہ آیا… ادھر… مدینہ
منورہ کے لئے… عرش کے اوپر فیصلہ ہوا… انصار مدینہ نے ہاتھوں میں ہاتھ دے دئیے…
ساتھ لے جانے کے لئے… راضی ہوگئے… حفاظت کے لیے دل وجان سے قسمیں کھانے لگے… یہ
لوگ پہلے تھوڑے تھوڑے کرکے مسلمان ہوئے… جب … مدینہ منورہ میں ان کی جماعت تیار
ہوگئی تو انہوں نے مل کر مشورہ کیا کہ… کب تک ہم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسے ہی
چھوڑے رکھیں کہ آپ یونہی لوگوں میں پھرتے رہیں… اور مکہ کے پہاڑوں میں آپ کو
دھتکارا جاتا رہے… اور آپ کو ڈرایا جاتا رہے… چنانچہ ستر۷۰ خوش نصیب افراد کا وفد…
آپ کو لے جانے کیلئے … عقبہ کی گھاٹی میں حاضر ہوا… اور پھر اگلے سال تشریف لے
جانا طے ہوا… مدینہ منورہ والے اپنے لیے… پورے عرب کو دشمن بنارہے تھے… خود کو
جنگوں… اور حملوں کا ہدف بنا رہے تھے… مگر اس سب کے بدلے… انہیں کیا ملے گا… جواب
دیا گیا… جنت… انہیں یہ وعدہ ایسا بھایا… اور ایسا سمجھ میں آیاکہ اس پر اتنے پکے
ہوگئے کہ کبھی نہیں بھلاتے تھے… چنانچہ ایک بار… قربانیوں کی تابندہ تاریخ رقم
کرنے والے ان انصار نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا… آپ نے ہمارے ذمہ
اپنے کئی کام لگائے تھے… اور ہماری یہ بات آپ نے اپنے ذمہ لی تھی کہ ہمیں (اس کے
بدلہ میں) جنت ملے گی… تو جو کام آپ نے ہمارے
ذمہ لگائے تھے وہ ہم نے سارے کردئیے… اب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری چیز ہمیں مل
جائے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جنت تمہیں ضرور ملے گی…
انصار راضی ہوئے تو ہجرت
کا دروازہ کھلا… اور اسلام کے دنیا بھرمیں پھیلنے کا انتظام ہوگیا… ہجرت کرنے
والوں نے قربانی کی حد کردی… مگر… نصرت کرنے والوں نے بھی وہ کیا… جو کوئی نہیں
کرسکتا تھا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے … ایک مہاجر… اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنادیا…
وہ مؤاخات… اور بھائی چارہ… آج … ملا محمد عمر کی حفاظت پر مامور ہے… اور وہی…
مواخات اور بھائی چارہ… ساری دنیا کے کفر سے لڑ رہا ہے… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے …
ہجرت فرمائی … اور ہجرت جیسے کڑوے، مشکل… اور مصیبت والے کام کو ایسا میٹھا بنادیا
کہ… پورے ملک کی حکومت چھوڑنا بھی آسان… اور ہر طرح… کی راحت قربان کرنا بھی آسان…
امریکا نے خدائی کا دعویٰ کرکے… افغانستان پر حملہ کیا… طالبان نے ڈٹ کر مقابلہ
کیا… پھر ہجرت کا اشارہ ملا… وہ … ہجرت میں گم ہوکر… نصرت کی گود میں جا بیٹھے…
اور جہاد کے شعلے دشمن کو جلانے لگے… ہجرت بھی رحمت… اور نصرت بھی رحمت… انصار
مدینہ نے … مہاجرین کو سر آنکھوں پر بٹھایا… انہیں وہ عزت دی جو اپنے ہم وطنوں کو
نہیں دیتے تھے… علاقہ پرستی… اور قوم پرستی کا زہر مسلمانوں میں اسی لیے تو
پھیلایا جاتا ہے تاکہ… ہجرت ونصرت کے دروازے بند ہوجائیں… مہاجر کا لفظ گالی بن
جائے… اور ہر کوئی کفر کی غلامی پر مجبور ہوجائے… اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے
کاٹ کر… گاجر مولی کی طرح کاٹا جائے… حضرات انصار مدینہ نے… علاقہ پرستی اور قوم
پرستی کی جڑ کو کاٹ دیا… اور ’’اسلام‘‘ ہی کو اصل رشتہ اور تعلق قرار دیا… حضرت
انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ جب مدینہ آئے تو
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان میں اور حضرت سعد بن ربیع رضی اﷲ عنہ میں بھائی چارہ
کرادیا… حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ سے کہا اے میرے بھائی!
میں مدینہ میں سب سے زیادہ مال والا ہوں… تم دیکھ کر میرا آدھا مال لے لو… اور
میری دو بیویاں ہیں تم دیکھ لو ان میں سے جو تمہیں پسندہو میں اسے (تمہارے لیے)
طلاق دے دوں گا… تو حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ نے کہا تمہارے گھروالوں میں اور
تمہارے مال میں اﷲ برکت عطا فرمائے… مجھے تو بازار کا راستہ بتادو… مدینہ منورہ کے
باغات کے بارے میں بھی انصار نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا انہیں
ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں… آدھا آدھا بانٹ دیجئے… مگر… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ… چونکہ… مہاجرین حضرات کھیتی باڑی نہیں جانتے… اس لیے
باغات کے مالک تو انصار ہیں… اور وہی محنت کریں… البتہ جب پھل اترے تو آدھا آدھا
تقسیم کیا جائے… یہ تقسیم فتح خیبر تک اس طرح جاری رہی کہ … حضرات انصار خاص طریقے
سے زیادہ کھجوریں اپنے مہاجر بھائیوں کو دیتے… اور خود کم حصہ لیتے… جب بحرین فتح
ہوا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا… تاکہ بحرین کی زمین ان میں بانٹ
دیں… تو انصار نے عرض کیا… ہم بحرین کی زمین تب لیں گے جب آپ اتنی ہی زمین ہمارے
مہاجر بھائیوں کو بھی دیں… اس طرح کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے… پھر انصار پر
مشکل دور آیا… جب … ان کے بعض رشتہ دار منافق بن کر ابھرے… علاقہ پرستی کے نعرے
لگانے لگے… اور یہودیوں کے ساتھ مل کر… مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگ گئے… انصار
نے اس مشکل کو بھی… پاؤں کے نیچے رکھا… اور تلوار نکال کر … اعلان کردیا کہ… اصل
رشتہ اسلام کا ہے… پھر… سب سے مشکل دور آیا کہ… جہاد کا اعلان ہوگیا… ہجرت اور
نصرت کے معاہدے میں… باہر نکل کر لڑنے کا ذکر نہیں تھا… مگر اب تو … خون بھی ایک
ہوچکا تھا… غزوہ بدر کے موقع پر… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار سے پوچھا تو انہوں
نے… ایسی جانبازی کا اعلان کیا… اور ایسی تاریخی تقریریں فرمائیں کہ… زمین وآسمان
بھی جھوم اٹھے… کس کس منظر کو یاد کیا جائے… ہجرت اور نصرت کی خوشبو کے کس پہلو کو
اجاگر کیا جائے… آج میں جو کچھ لکھ رہا ہوں… یہ تو محض … اشارہ ہے… ہجرت اور نصرت
کے اصل فضائل تو قرآن وسنت میں ہیں… کبھی… اﷲ تعالیٰ نے تفسیر وحدیث کی کتابوں کے
درمیان بیٹھ کر لکھنے کا موقع دیا تو پھر … عرض کروں گا کہ… ہجرت کیا ہے؟… اورنصرت
کیا ہے؟… آج عالم کفر ونفاق… مسلمانوں سے ہجرت اور نصرت کی ڈھال چھیننا چاہتا ہے…
مگر اسے الحمدﷲ ناکامی ہو رہی ہے… ہجرت بہت مشکل سہی… دل لرزتا ہے… گھر بار
چھوڑنا… وطن چھوڑنا… والدین … اور بال بچوں کو چھوڑنا… مگر… کس کی خاطر… اﷲ پاک کی
خاطر… جب اﷲ پاک کی خاطر ہے تو پھر… آسان ہوجاتا ہے… ایک نہیں لاکھ جانیں قربان
کرنا… مشکل نہیں رہتا… نصرت مشکل ہے… غیروں کو اپنا بنانا… اپنے گھر بار اور عزت
وآبرو کو خطرے میں ڈالنا… مگر کس کی خاطر… اﷲ پاک کی خاطر… تب تو یہ بھی آسان
ہوجاتا ہے… ایک بوڑھی اماں مصلے پر بیٹھ کر… رو رہی ہے… یا اﷲ تیرا ایک مجاہد…
میرے گھر میں ہے… یا اﷲ وہ تیرا بندہ … اور میرا بیٹا ہے… یا اﷲ تیری خاطر دربدر
کے دھکے کھاتا پھرتا ہے… یا اﷲ تیری خاطر… ماں باپ بیوی بچوں کو چھوڑ آیا ہے… یا
اﷲ تیرے دشمن اسے مارنا چاہتے ہیں… اسے پکڑنا چاہتے ہیں… یا اﷲ میں دامن پھیلا رہی
ہوں… اپنا پھٹا ہوا دوپٹہ تیرے حضور پھیلائے بیٹھی ہوں… یا اﷲ اس کی حفاظت فرما…
اس کو… اس کے اعلیٰ اور پاکیزہ مشن میں کامیاب فرما… یا اﷲ تجھے قربانی چاہئے تو
میرا حقیقی بیٹا حاضر ہے… وہ لے لے … مگر میرے مہمان بیٹے کو تو بخار بھی نہ ہو…
گرتے آنسو صاف کرکے… آگ جلاتی ہے… روٹی پکاتی ہے چائے ابالتی ہے… بسم اﷲ پڑھ کر …
مہمان کو بھجواتی ہے… اور پھر قرآن پاک لیکر تلاوت اور دعاء میں لگ جاتی ہے… ہاں
یہ مسلمان ماں ہے… یہ اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا… اور اماں فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی بیٹی
ہے… یہ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری امتی ہے… مگر… دوسری طرف … کچھ لوگ چند
نوٹوں کی خاطر… تھوڑے سے عہدوں کی خاطر… یا ظالموں کے ڈر سے… مسلمانوں کو پکڑ کر…
کافروں کے حوالے کر رہے ہیں… اور کچھ لوگ پناہ دینے والوں کے مکانات گرانے جارہے ہیں…
یہ کون ہیں؟… میں انہیں نہیں پہچانتا… ہاں ہاں… میں نہیں پہچان سکتا کہ یہ کون لوگ
ہیں؟؟؟……
کون آرہا
ہے؟
استقبال رمضان المبارک پر ایک خوبصورت
مکالمہ اگر رمضان المبارک کے آنے سے پہلے اسے پڑھ لیا جائے تو مزہ آجائے اصلی مزہ
اور سچا مزہ
)۲رمضان
المبارک ۱۴۲۶ھ
بمطابق۷اکتوبر
۲۰۰۵ء(
کون آرہا
ہے؟
اﷲ تعالیٰ نے … تجھے کتنا
مبارک … کتنا پیارا، کتنا عظیم … اور کتنا مقدس بنایا ہے… اے رمضان… ساری دنیا کے
مسلمان دو مہینے سے… تیرے آنے کی تیاری… اور دعاء کر رہے ہیں… کتنے مجاہد اور کتنے
اﷲ والے … تیرے استقبال کیلئے بے چین ہیں… اورتیرے انتظار کی ایک ایک گھڑی… گن گن
کر گزار رہے ہیں… ابھی ایک دوسرے ملک سے… ایک دوست نے پیغام بھیجا ہے کہ… ہمارے
ہاں منگل کے دن پہلے روزے کا امکان ہے… آپ رمضان المبارک کے خصوصی معمولات مجھے
بتادیجئے… اے رمضان دیکھ… مسلمان کتنی بے چینی سے تیرا انتظار کر رہے ہیں… ہمارے
ہاں پاکستان میں آج ۲۷
شعبان کی تاریخ ہے… کچھ لوگ زندہ رہ کر تجھ سے گلے ملیں گے… اور کچھ ان اگلے دو
تین دنوں میں… تیرے انتظار کی مٹھاس اپنے کفن میں لپیٹے قبروں میں جا سوئیں گے… اے
رمضان! تو بہت عجیب ہے… ہمارے آقا مدنی ان پر میں اور میرا سب کچھ قربان… صلی اﷲ
علیہ وسلم… رجب کا چاند دیکھتے ہی تجھے یاد کرنا شروع کردیتے تھے… اے اﷲ ہمارے لیے
رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما… اور ہمیں رمضان تک پہنچا… اے رمضان! رب تعالیٰ
نے تیری جھولی کو … سعادتوں سے بھردیا… اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک جیسی عظیم الشان
کتاب… تیری ایک رات میں… لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دی… واہ رمضان واہ… قرآن
پاک جیسا تحفہ تیری پاکیزہ رات میں… اس امت مرحومہ کو ملا… اے رمضان! … تیرا تو
نام بھی قرآن پاک میں مذکور ہے… اس لیے تو بھی مبارک اور تیرا نام بھی مبارک… اے
رمضان! تیری جھولی بھری ہوئی ہے… تو رحمت، مغفرت، جہنم سے نجات کا مہینہ ہے… تو
سخاوت اور غمخواری کا مہینہ ہے… اے رمضان! تیرے دن… پاک اور تیری راتیں منور اور
معطر ہیں… اے رمضان! تو پھر آرہا ہے… پوری شان کے ساتھ … پوری آن کے ساتھ… معلوم
نہیں اس بار تو کتنے گناہگاروں کی پاکی کا ذریعہ بنے گا… ہاں رمضان ہاں… ہمیں پتہ ہے… تیری راتوں کے نور
نے بڑے بڑے شرابی، پاپی، زانی، ڈاکو… اور چور… پاک کرکے جنتی بنادئیے… ہاں رمضان
ہمیں علم ہے… تو بہت سخی ہے… تجھے رب نے بہت طاقت دی ہے… حضرت جبرئیل علیہ السلام…
جو انبیاء علیہم السلام پر اترا کرتے تھے … اے رمضان … وہ تیری ایک رات میں… امت
کے ان لوگوں کے پاس آتے ہیں… جو … بلک رہے ہوتے ہیں… رو رو کر رب کو منا رہے ہوتے
ہیں… جھوم جھوم کر تلاوت کر رہے ہوتے ہیں… اور تلواریں اٹھائے… دشمنوںکا مقابلہ کر
رہے ہوتے ہیں… اے رمضان… ہاں یہ حقیقت ہے تیری… شب قدر میں… روح القدس فرشتوں کو
لیکر … زمین پر آجاتے ہیں … اور خوش نصیب لوگوں کے لئے سلامتی کی دعاء مانگتے ہیں…
اے رمضان ہمیں معلوم ہے تیرے آتے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں… یا اﷲ ہمیں بھی
جنت عطاء فرما… اور تیرے آتے ہی جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں… یا اﷲ ہمیں جہنم
سے بچا… آج ہر طرف تیرا انتظار ہے… ایک ایک گھڑی انتظار ہے… تو آئے گا… اور ضرور
آئے گا… ہمیں پتہ نہیں کہ ہم ہوں گے یا نہیں … اگر ہم ہوئے تو تجھے دل کھول کر
اپنے غم اور دکھڑے سنائیںگے… کیونکہ اس بار … ہمارے ہاں موسم بہت عجیب ہے… اے
رمضان جب ۷
اکتوبر کی رات آئے گی… ہم تجھے گلے لگا کر امارت اسلامیہ افغانستان… کا رونا روئیں
گے… اور تجھے بتائیں گے کہ چار سال پہلے… اسی تاریخ کو… کتنا بڑا ظلم ڈھایا گیا…
اور وہ پیاری امارت اسلامیہ بموں کی زد میں آگئی… اور وہ پیارا امیر المؤمنین کہیں
گم ہوگیا… آج آنکھیں اسے دیکھنے کو ترستی ہیں… اور اس کی ایک ایک ادا کو یاد کرتی
ہیں…
اے رمضان! ہم تجھے سب کچھ
بتادیں گے کہ… اپنوں نے کیا کیا؟… اور غیروں نے کیا کیا؟ اور پھر ہم تیری مبارک
گھڑیوں کا فائدہ اٹھا کر… رب سے ۷
اکتوبر کی نحوست ختم ہونے کی دعاء کریں گے… اسلام کے سچے فدائی امیر المؤمنین کی
سلامتی اور حفاظت کیلئے گڑ گڑا ئیں گے… اور اﷲ تعالیٰ سے پھر پوری دنیا کیلئے
خلافت اسلامیہ مانگیں گے…
ہمیں یقین ہے اے رمضان!
تو ہمارا دکھڑا ضرور سنے گا… اور یہ آہیں اور نالے ضرور عرش تک پہنچیں گے… اور ان
شاء اﷲ… تیری برکت سے حالات تبدیلی کی کروٹ لیں گے… اے رمضان! امیر المومنین تک…
افطاری پہنچ جائے… تیرے راستے میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے والوں کو تراویح پڑھنے
کیلئے پر امن جگہ مل جائے… اور اﷲ کے مجاہدین تک سحری اور افطاری پہنچ جائے… ہم
ابھی سے اس کی دعاء کر رہے ہیں… شہداء کرام کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو… اسیران
اسلام کی سلاخیں ان پر تنگ نہ ہوں… اے رمضان ابھی سے ہم یہ سب کچھ مانگ رہے ہیں…
کیا کریں… مانگ ہی تو سکتے ہیں… ہاں ہاں فلوجہ کے خون کا حساب مل جائے… مانگ ہی تو
سکتے ہیں… ہاں قندوز کے ہلاکت خیز قتل عام کا حساب مل جائے… ہم مانگ ہی تو سکتے
ہیں… ہاں غازی بابا کی روح کو… سری نگر کی فتح سے چین ملے… ہاں سجاد شہید کے جسم
پر پڑنے والے نیلے نشانات کا بدلہ ملے… ہم مانگ ہی تو سکتے ہیں… اے رمضان! ہمیں
معلوم ہے تو برکت بن کر آرہا ہے… تو ہمارے دردوں کی دوا بن کر آرہاہے… جلدی آجا…
اے برکت والے مہینے… سب تیرا انتظار کر رہے ہیں… کچھ دیوانے تو یوم بدر کی سنت کو
زندہ کرنے کیلئے بے قرار ہیں… اور کچھ تیرے سر اور پاؤں چومنے کیلئے تڑپ رہے ہیں…
اے رمضان! جب بارہ اکتوبر
کی رات آئے گی ہم تجھ کو موجودہ حکمرانوں کا شکوہ سنائیں گے… ہاں… ان ظالموں کا جن
کو نہ دین اچھا لگتا ہے نہ جہاد… ہاں… ان کا… جن سے … اﷲ کی قسم ہم نے صرف اسلام
کی خاطر… اپنے ہاتھ روکے رکھے … مگر انہوں نے تو حد کردی… انہوں نے… ہمیں بے گھر…
اور بے در کردیا… انہوں نے علماء کرام کے خون کو سستا پانی بنادیا… انہوں نے …
مجاہدین کے گھروں اور چادر اور چار دیواری کی حرمت کو پامال کیا… انہوں نے ملک کو
بے حیائی سے بھردیا… ہاں بارہ اکتوبر کی ایک رات یہ آئے تھے تو قوم نے خوشیاں
منائی تھیں… مگر کون جانتا تھا کہ… یہ ظلم وزیادتی … میں … تمام حدود پھلانگ جائیں
گے۔
اے رمضان! فیصلہ تو رب نے
کرنا ہے ہم تو تیری راتوں میں… سارا دکھڑا سنادیں گے… کتنے گھر لٹ گئے؟… کتنے سر
کٹ گئے؟… کیا کچھ چھن گیا؟… مگر ابھی تک ان کا دل نہیں بھرا … یہ دین کا … اور
ہمارا نام ونشان تک مٹانا چاہتے ہیں… اور ظلم وگناہ میں بڑھتے ہی جارہے ہیں… اور
اب تو بہت خوش ہیں کہ… ہماری طاقت… ناقابل تسخیر ہے… اے رمضان تو تو… غزوہ بدر کا
عینی گواہ ہے… تونے ہلاکو اور چنگیز کا دور بھی دیکھا ہے… تجھے بہت کچھ یاد ہے…
اونچے برج کیسے گرتے ہیں… اور متکبر لوگوں کا غرور کیسے خاک میں ملتا ہے… ہاں ہم
تجھ سے ان شاء اﷲ… ساری باتیں کریں گے… اے رمضان! امیر المؤمنین تک ہمارا سلام
پہنچادینا… اے رمضان!… ہمارے بوڑھے والدین تک… ہمارا سلام پہنچادینا… جنہیں دیکھے
ہوئے عرصہ بیت گیا… آنکھیں ان کی زیارت کیلئے بے تاب … اور ہاتھ ان کی خدمت کیلئے
بے چین ہیں… اے رمضان!… دنیا بھر کے غازیوں تک ہمارا سلام پہنچادینا… اور انہیں
بتا دینا کہ… وہ اکیلے نہیں ہیں… اﷲ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے… اور ہم مسلمانوں نے
اپنے ایمانی … اور قرآنی نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا… اے رمضان… جودھ پور (انڈیا)
کی گندی جیل سے لیکر … گوانٹا نامو بے (طالبان کے لئے امریکہ کی خصوصی جیل) تک کے
… اسیروں کو ہمارا سلام پہنچادینا… اور انہیں بتادینا کہ… اسلام اور مسلمانوں کو
ان پر فخر ہے… اے رمضان… میں تجھے ضرور سناؤں گا کہ… جودھ پور کی گندی جیل میں… اﷲ
کے ولی… مولانا ابوجندل اور ان کے رفقاء پر کیا بیت رہی ہے؟… ہاں میں پرسوں ہی تو
ان کا خط پڑھ رہا تھا… وہ کون سا ظلم ہے… جو ان پر نہیں ڈھایا جارہا… اور اِدھر…
ہندوستان کے جاسوس تک کو معافی دی جارہی ہے… اے رمضان! تجھے پتہ ہے یہ اﷲ کے راستے
کے قیدی تجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں… اور کتنا قرآن پڑھتے ہیں… میں نے خود انہیں
روزانہ ایک ایک ختم کرتے دیکھا ہے… اے رمضان! اس بار تو کچھ ایسا ہو کہ… سلاخیں
ٹوٹ جائیں… اور شہیدوں کے خون کے قرضے اتر جائیں… میرے اﷲ پاک سے کیا بعید ہے… اے
رمضان! ہمیں معلوم ہے یہ سارے حالات ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں… مگر تو تو بخشش اور
رحمت کا مہینہ ہے… ہاں… رمضان تو آرہا ہے… تیرے پیارے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی
ہے… مسجدوں میں تیرا تذکرہ چل پڑا ہے… عمرے کرنے والوں نے احرام اٹھالیے ہیں جہاد
کے مزے لوٹنے والوں نے گھر والوں کو الوداع کہہ دیا ہے… فدائیوں کی آنکھوں میں…
حور عین کی چمک اتر آئی ہے… اور قرآن پڑھنے والے… منٹ منٹ گن رہے ہیں… مرحبا! …
خوش آمدید!… اے رمضان!… بہت سارے خوش نصیب … تیرے مقدس ایام میں روزانہ ایک قرآن
پاک ختم کریں گے… اور کمزور لوگ تین دن میں ایک ختم… معلوم نہیں ہماری قسمت میں
کیا لکھا ہے؟… یا اﷲ ہمارے لیے بھی… قرآن مجید پڑھنا… اور سننا آسان فرما… اور
پھرقبول بھی فرما… بہت سارے لوگ … اے رمضان!… اپنی جیبیں اور تجوریاں کھول دیں گے…
روزے داروں کو روزہ افطار کرائیں گے… شہداء کرام کے گھروں تک خرچہ اور کھانا
پہنچائیں گے… اور غازیان اسلام کی جہادی ضرورتوں کو پورا کریں گے… معلوم نہیں
ہماری قسمت میں کیا لکھا ہے؟… یا اﷲ ہمارے لیے بھی یہ اعمال آسان فرما… بہت سارے
لوگ… اس مہینے میں بخشے جائیں گے… عرش سے اعلان ہوگا… کہ ان کا نام جہنم کی فہرست
سے نکال کر جنت کی فہرست میں لکھ دو… یا اﷲ ہم بھی اسی فضل کے سوالی ہیں… بہت سارے
لوگ اے رمضان! تیرے آتے ہی گناہوں کو یوں چھوڑ دیں گے جس طرح خنزیر کے گوشت کو پرے
پھینکا جاتا ہے۔ یا اﷲ ہمیں بھی انہیں میں سے بنا…
اے افغانستان میں ظلم کا
شکار بننے والے مسلمانو!… مبارک ہو رمضان آرہا ہے… اٹھو اور ہمت کرکے… سب کچھ واپس
لے لو… سب کچھ کمالو… اے کشمیر کے مظلوم مسلمانو! مبارک ہو… رمضان آرہاہے… بس اسی
مہینے میں خون اور آنسوؤں… کے ذریعے … اپنے حق میں فیصلہ کرالو…
اے عراق کے … غیور
مسلمانو!… مبارک ہو رمضان آرہا ہے… اٹھو… اور داستان حرم اہل کلیسا کو سنادو…
ہاں رمضان! دیکھ ہم اعلان
کر رہے ہیں تو آرہا ہے… مظلوموں کی خاطر… پسے ہوئے انسانوں کی خاطر… حق کی خاطر…
اور گناہگاروں کی بخشش کی خاطر… اے رمضان!… تیری خوشبو آرہی ہے… دل کو مہکا رہی
ہے… ہائے کاش… ہم بھی … اس رمضان میں کامیابی پالیں… بس اس وقت تو یہی دھڑکن ہے…
اور بس یہی دعاء…
چند اور
سانس
۸؍اکتوبر
کو ملک میں زبردست زلزلہ آیا جس نے تقریباً پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا جو لوگ اس
زلزلے کا شکار ہوئے وہ تو اپنے رب کے ہاں چلے گئے جو ان کے اچھے برے کا فیصلہ خود
فرمائے گا لیکن جو لوگ بچ گئے اور ان کو دنیا میں مزید چند دن رہنے کی مہلت مل گئی
کیا انہوں نے اس زلزلے سے کچھ سبق حاصل کیا؟ غفلت میں کھوئے لوگوں کو جھنجھوڑنے
والی تحریر۔
)۹رمضان
المبارک ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۴اکتوبر
۲۰۰۵ء(
چند اور
سانس
اﷲ تعالیٰ نے زمین اور
آسمان کو پیدا فرمایا ہے… اور وہی ان کا مالک ہے … انسان نام کی مخلوق بھی اﷲ
تعالیٰ نے پیدا فرمائی … اور پھر اسے یہ اعزاز بخشا کہ اس کو زمین پر اپنا خلیفہ
بنادیا… اب انسان کی ذمہ داری ہے کہ… وہ زمین پر اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو جاری اور
نافذ کرے… اور ظلم اور فساد سے بچے… زمین پر جب ظلم اور فساد عام ہوجاتا ہے تو …
وہ روتی ہے پیٹتی ہے… اور لرزتی ہے… سب سے بڑا ظلم شرک ہے … اور پھر … ظلم کی بہت
سی چھوٹی بڑی قسمیں ہیں… اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی … یعنی گناہ بھی ’’ظلم‘‘ ہے… جی
ہاں… ہر گناہ ظلم ہے… اور ہر گناہگار ظالم… اسی طرح ’’فساد‘‘ کی بھی بہت سی قسمیں
ہیں… اور سب سے بڑا فساد ’’فتنہ‘‘ ہے اور سب سے بڑا فتنہ… اسلام کے دشمنوں کا
طاقتور ہوجانا ہے… اتنا طاقتور کہ وہ مسلمانوں پر ظلم ڈھا سکیں… اور اپنی طاقت کے
زور پر… کمزور مسلمانوں کو گمراہ کرسکیں…
اب آپ چاروں طرف نظر اٹھا
کر دیکھیں تو … ظلم ہی ظلم … اور فساد ہی فساد نظر آرہا ہے… اب زمین بے چاری کب تک
اس بوجھ کو برداشت کرے… ظلم بڑھتا جارہا ہے اور فساد پھیلتا جارہا ہے… چنانچہ ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے… اور قیامت تیزی سے قریب آرہی ہے…
زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں کی ایک یلغار ہے جس نے… پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
ہے… امریکا سیلاب میں ڈوب رہا ہے… اور پاکستان زلزلے سے لرز رہا ہے… کیسا سخت اور
خوفناک زلزلہ تھا… اﷲ اکبر کبیرا… ایک ہی آن میں ہزاروں افراد کو نگل گیا… اور
ابھی تک اس کے جھٹکے جاری ہیں… آج بی بی سی کی خبریں سننا بہت مشکل تھا… بس چیخیں
تھیں… آنسو اور بے بسی … بالا کوٹ کا پورا شہر نیست ونابود ہوگیا… مائیں بچوں کے
جنازے گن گن کر تڑپ رہی تھیں… اور لوگ فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے… غم، جذبات،
بے بسی نفرت… اور غصے کا ایک لاوا تھا جو ہر دل اور زبان سے پھٹ رہا تھا… خبروں
میں بتایا جارہا تھا کہ دو دن سے…سینکڑوں بچے ملبے کے نیچے دفن ہیں… ان کی معصوم
آہ وپکار ابھی تک سنائی دے رہی ہے… بعض ملبے کے نیچے سے اپنے ماں باپ سے باتیں بھی
کر رہے ہیں… اور ان کے بے بس ماں باپ … ملبے کے اوپر… موت سے بدتر غم کا شکار ہیں…
حسین وجمیل کشمیر… ٹوٹ پھوٹ گیا ہے… دلکش وادیاں… لاشوں کے انبار سے بھر گئیں ہیں…
اور حسین نظارے خون اور ہڈیاں اگلنے لگے ہیں… ہاں بے شک یہ دنیا فانی ہے… اس زمین
نے ختم ہونا ہے… اور ہر شخص نے موت کا مزہ چکھنا ہے… کاش ہمیں موت یاد رہے… کاش
ہمیں مٹی اور قبر نہ بھولے… آپ خود سوچیں… انسان کے نزدیک ’’مکان‘‘ کی کتنی قدر
ہے… اپنا مکان… خوبصورت مکان… کھلا مکان… ہر انسان کی خواہش ہے … مکان کی خاطر …
بعض اوقات بھائی بھائی کاخون کردیتا ہے… مگر آج ہر کوئی اپنے مکان سے بھاگ کر
میدانوں میں پناہ لے رہاہے… بس زمین نے ایک جھٹکا دیا … اور مکان کو دشمن بنادیا…
پھر بھی انسان کی غفلت ختم نہیں ہوتی… اور گناہوں کا کاروبار ٹھنڈا نہیں پڑتا…
ہمارے صدر صاحب کہہ رہے تھے کہ… یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے… بے شک
موجودہ حکومت نے تو … ہر میدان میں … تاریخ بدلنے… اور نئی تاریخ قائم کرنے کا عزم
کر رکھا ہے… تو پھر … تاریخی تباہی بھی اسی دور میں ہی آسکتی تھی… چنانچہ وہ آگئی…
معلوم نہیں آگے مزید کیا کچھ ہوگا؟… چند دن پہلے مجھے خیال آیا کہ ان اﷲ والے عظیم
الشان… علماء کرام کی فہرست بناؤں جو موجودہ دور حکومت میں شہید ہوئے… یا جن کا
انتقال ہوا… یقین جانئیے… ستائیس بڑے علماء کرام کا نام لکھنے کے بعد میرا دل
بیٹھنے لگا … اور میں نے … کاغذ ایک طرف رکھ دیا… ان چھ سالوں میں… کیسے عظیم
الشان لوگ زمین کی پیٹھ سے اتر کر… اس کے پیٹ میں چھپ گئے… یہ حضرات زمانے کی برکت
… اور مسلمانوں کیلئے نعمت تھے… ان میں سے ہر ایک اونچا مقام رکھتا تھا … اور ہر
ایک کی … مخصوص شان تھی… اب تو یہ تعداد ستائیس سے بہت اوپر جاچکی ہے… کراچی
تقریباً خالی ہوگیا… چنیوٹ ویران ہوگیا… فیصل آباد حیرت زدہ ہے… جھنگ اور کبیر
والہ… رو رہے ہیں… کس کس کو یاد کروں… کس کس کی جدائی کا غم سناؤں… ہر طرف سے خط
آتا ہے کہ تعزیتی مضمون لکھ دو… کس سے تعزیت کریں؟… علم، جہاد، تصوف، مناظرہ… ختم
نبوۃ… دفاع ناموس صحابہ… اور تدریس کے ائمہ ایک ایک کرکے… یوں تیزی سے جارہے ہیں…
جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہو… اور دانے یکے بعد دیگرے گر رہے ہوں… بڑے
حضرات میں سے تو بس چند ایک ہی رہ گئے ہیں… اﷲ پاک ان کی حفاظت فرمائے… اور ان کی
زندگیوں میں برکت عطا فرمائے… کبھی موقع ملا… تو اس اداس موضوع پر … کچھ عرض کیا
جائے گا … فی الحال تو اتنا عرض ہے کہ… ملت پاکستان کو ان چھ سالوں میں… تاریخی
خسارے اٹھانے پڑے ہیں… ہمارے پڑوس میں… امارت اسلامی افغانستان قائم تھی… یہ حکومت
خود پاکستان کیلئے ایک ڈھال تھی… مگر چار سال پہلے… انہیں تاریخوں میں… ہم نے اپنے
کندھے امریکا کو کرائے پر دے دئیے… اور اس نے انہیں کندھوں پر بیٹھ کر… امارت
اسلامی کو لہو لہان کردیا… پھر ہم نے … چھ سو سے زائد افراد پکڑ کر اس کے حوالے
کیے… یقینا یہ بھی تاریخی کام ہے… گوانٹا نامو بے… کا قصاب خانہ ہمارے دم سے قائم
اور آباد ہوا… اور یہی نہیں… ہم نے… چھ سو سے زائد… تہجد گزار… قرآن پڑھنے والوں
کو پکڑ کر… بے دردی سے شہید کیا… اور ان کی لاشیں دریاؤں اور صحراؤں میں درندوں کے
سامنے ڈال دیں… زمین اب ہم سے حساب مانگتی ہے تو … ہم کہاں جائیں حساب تو دینا پڑے
گا… آج بھی… اور کل قیامت کے دن بھی… آج بی بی سی نے بتایا کہ … کوئی ملک ہمیں…
آفت کی اس گھڑی میں پانچ لاکھ ڈالر سے زائد کی امداد دینے کو تیار نہیں ہے… ہاں …
ایسا ہی ہوتا ہے… ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے … حادثات زلزلے… اور طوفانوں
میں مرنے والے سبھی گناہگار نہیں ہوتے … ۸؍اکتوبر والے زلزلے میں بھی… بہت سے لوگ
زندگی کا آخری دن … روزے کی سعادت میں گزار کر… دنیا سے کوچ کر گئے… ان شاء اﷲ …
ان کی افطاری … جنت کی مٹھاس سے ہوئی ہوگی… کئی حضرات صحابہ کرام … حادثات میں
شہید ہوئے… اور بعض کو مختلف وبائی امراض نے… اﷲ تعالیٰ سے ملایا… اس لیے… گناہوں
کی شامت، گناہوں کی شامت… کا جملہ، ہر جگہ استعمال کرنے سے ڈرنا چاہئے… بعض لوگ…
اس بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگتے ہیں… اور متاثرہ علاقے کے لوگوں کے زخموں پر…
مرہم کی بجائے… نمک چھڑکتے ہیں… حالانکہ … دوسروں کی موت کو گناہوں کا نتیجہ کہنے
والے… خود کتنے پاک ہیں… کبھی تنہائی میں سوچیں تو شرم کے مارے اپنے ہاتھ چبا
جائیں… یہ وقت تو … زخمیوں کی دیکھ بھال… اور متاثرین کی خدمت کا ہے… جو اس سلسلے
میں… جتنا کچھ کرے گا… اپنی آخرت کو بہتر بنائے گا… چار سال پہلے… ۸؍اکتوبر کو افغانستان کی
مائیں رو رہی تھیں… ہمارے فوجی اڈوں سے… اڑنے والے طیارے… ان کے بچوں کا قیمہ بنا
رہے تھے… اور آج چار سال بعد ۸؍اکتوبر
کو پاکستان کی مائیں رو رہی ہیں… اور اپنی فوج سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ… کبھی
اپنوں کے کام بھی آجاؤ… اور ملبے کے نیچے سے ہمارے بچوں کو نکال دو… حکومت کا
دعویٰ ہے کہ … فوج خوب مدد کر رہی ہے… جبکہ … عوام کا شکوہ ہے کہ … ابھی تک ہماری
مدد کو کوئی نہیں پہنچا… ایک صاحب نے کہا… یہ کیا ہوا؟ رمضان تو رحمت کا مہینہ ہے…
یہ تباہی اور بربادی کیسی؟… میں نے کہا رحمت کے بھی… الگ الگ رنگ ہیں… کیا پتہ اس
زحمت کے اندر کوئی رحمت چھپی ہو… زلزلے کے وقت… لوگ گڑگڑا کر توبہ کر رہے تھے…
معلوم نہیں کتنے گناہگار بخشے گئے ہوں گے… کتنے غافل بیدار ہوگئے ہوں گے… کتنے لوگوں
نے… گھر سے ٹی وی اور ڈش کی نحوست کو اکھاڑ پھینکا ہوگا… کتنے بدکاروں نے… خود کو…
آنسوؤں سے دھو ڈالا ہوگا… اور کتنے ظالم ظلم سے رک گئے ہوں گے… ہاں انسان کی ہدایت
میں دیر نہیں لگتی… بس دل کے تار ہِلے… ایک بار سچے دل سے اﷲ پاک کو پکارا… حرام
کاری اور حرام خوری سے نفرت ہوئی… اور منٹ میں … ظالم سے … ولی بن گئے… اسی طرح
انسان کے گمراہ ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی … بس دل پر… انا پرستی اور ’’میں‘‘ کا
اندھیرا چھایا… اپنی نیکیوں پر فخر ہوا… اﷲ تعالیٰ کے احکامات سے بغاوت کا جذبہ
ابھرا… اور دیکھتے ہی دیکھتے ولی… ظالم بن گئے… اس لیے تو روایات میں آیا ہے کہ …
اصل اعتبار خاتمے کا ہے… اﷲ پاک ہم سب کو ’’حسن خاتمہ‘‘ نصیب فرمائے… بعض اﷲ والے
بزرگوں کو دیکھاکہ … ہر کسی سے بس یہی دعا کروا رہے ہیں کہ … اﷲ پاک اچھا خاتمہ
عطاء فرمائے… ہاں بے شک اس دعاء کی سخت ضرورت ہے… مجاہدین کو شیطان اس دھوکے میں
ڈال دیتا ہے کہ … شہادت سے سارے گناہ دُھل جاتے ہیں… اس لیے جی بھر کر گناہ کرو…
آخر میں فدائی کارروائی کرکے پاک ہوجانا… ارے شہادت کوئی آسان اور سستی چیز تھوڑی
ہے کہ … جان بوجھ کر گناہ کرنے والوں کے انتظار میں بیٹھی رہے گی… گناہ ہوجانا الگ
بات ہے … اور گناہ کرنا الگ بات ہے… گناہ ہوجائے تو توبہ کیے بغیر ایک پل چین نہیں
آتا… اور انسان رو رو کر … تڑپتا ہے… اس گناہ سے بچنے کا پکا عزم کرتا ہے … اور
اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے… ایسے لوگوں کیلئے ان شاء اﷲ… آسانی ہے… توبہ بھی
قبول ہوجاتی ہے … اور شہادت کی لیلیٰ بھی نہیں روٹھتی… مگر خود جان بوجھ کر… گناہ
کرنا … کہ اﷲ پاک غفور ہے… رحیم ہے… بخش دے گا… شہید ہوجائیں گے تو بخشے جائیں گے…
یہ خطرناک ہے… بہت خطرناک … ایسے لوگ نہ نادم ہوتے ہیں… اور نہ توبہ کے آنسو بہاتے
ہیں… اور نہ ان کے دو گناہوں کے درمیان … سچی توبہ کا فاصلہ ہوتا ہے… تب دل سخت
ہوجاتے ہیں… اور شہادت کی لیلیٰ بھی روٹھ سکتی ہے… خون میں نہانے والا ہر شخص شہید
تو نہیں ہوتا… اﷲ پاک ہمیں مقبول شہادت کا سچا شوق … اور صحیح راستہ عطا فرمائے…
زلزلے کی تباہ کاری… ابھی تک جاری ہے… اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ … ہم … اﷲ تعالیٰ
کی طرف کامل طور پر متوجہ ہوجائیں… اور اس بات کی کوشش کریں کہ… ہم سچے مسلمان …
اور پکے مجاہد بن جائیں… تنہائی میں بیٹھ کر اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے… کیونکہ
… قبر کی تنہائی بالکل قریب ہے… اﷲ پاک قبر کی وحشت سے بچائے… قیامت قریب ہے… کہیں
ہم بھی اس کی بری علامات میں مبتلا تو نہیں ہیں؟… اس کے لئے ضروری ہے کہ … علامات
قیامت کو پڑھا جائے… پھر اپنے سامنے آئینہ رکھ کر دیکھا جائے کہ… ہم ان علامات کا
شکار تو نہیں ہیں… اگر خدانخواستہ ہوں تو سچی توبہ کرلیں… اور اگر نہ ہوں تو شکر
کریں… اور اﷲ پاک سے استقامت کی بھیک … اور دعاء مانگیں… آپ یقین کریں … ہم دیندار
کہلانے والے لوگوں کو … اس بات کی اس وقت سخت ضرورت ہے… کیونکہ … شیطان اسی طبقے
پر زیادہ حملے کر رہا ہے… ہم کوشش کریں گے کہ… ان شاء اﷲ … القلم میں ان ’’علامات
قیامت ‘‘ کو شائع کیا جائے جو صحیح حدیث سے ثابت ہیں… تاکہ … میں اور آپ… ان کی
روشنی میں اپنا جائزہ لے سکیں… اور خود کو… زمین کے خاتمے کا ذریعہ بننے سے بچانے
کی دعاء اور کوشش کرسکیں… ہم سب کمزور ہیں… اور اصلاح کے محتاج ہیں… رمضان المبارک
کی پاکیزہ… اور معطر گھڑیاں تیزی سے گزر رہی ہیں… ہم سب غفلت سے بیدار ہوجائیں …
ہاں بھائیو!… اور بہنو ہم سب اب جاگ جائیں… اور سچے دل سے اﷲ پاک کو پکاریں… خوب
اچھا روزہ رکھیں… خوب تلاوت کریں… خوب اﷲ کے راستے میں خرچ کریں… اور خوب خوب
گناہوں سے بچیں… اصل چیز… قربانی ہے ہم اﷲ پاک کے دین کی خاطر… کسی بھی قربانی سے
دریغ نہ کریں… تو تو… میں میں چھوڑ کر … اﷲ اﷲ کریں… اور اسلام کی عظمت کیلئے…
اپنا سب کچھ پیش کردیں… دو دن پہلے جو زلزلہ آیا تھا… ہم بھی اس میں مرسکتے تھے…
مگر… ہم بچ گئے… ہمیں مزید کچھ سانس مل گئے… یا اﷲ … ہمارے ان سانسوں کو … اور
زندگی کے باقی اوقات کو… اپنی رضاء کے مطابق بنادے… تیرے پاکیزہ مہینے کی… اس معطر
رات میں… آج یہی دعاء ہے… قبول فرما… قبول فرما… قبول فرما… اے بادشاہوں کے بادشاہ
… اے رحمت والے… اے مہربان … یا رحیم یا رحمن… یا رؤف یا حنان… یا ارحم الراحمین…
وصل علیٰ سیدنا محمد خاتم النبیین…
وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین…
موجودہ
حالات… چند ضروری باتیں
۸؍اکتوبر
کے زلزلہ کے بعد لکھے جانے والے اس کالم میں زلزلہ سے متاثر ہونے والوں، غیر
متاثرہ عوام اور ان خوش نصیب لوگوں (جنہوں نے مصیبت کی اس کٹھن گھڑی میں اپنے
بھائیوں کی امداد کا بیڑہ اٹھایا ہے) سے چند ضروری اور اہم باتیں کی گئی ہیں تاکہ
یہ آزمائش کی گھڑی محض مصیبت ہی نہ بن جائے بلکہ اس سے سبق حاصل کرکے اس کو سدھرنے
کا اشاریہ بنادیا جائے۔
)۱۶رمضان
المبارک ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۱اکتوبر
۲۰۰۵ء(
موجودہ
حالات…
چند ضروری باتیں
اﷲ تعالیٰ میری اور آپ کی
’’مغفرت‘‘ فرمائے … رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ… مغفرت، بخشش اور معافی والا عشرہ
شروع ہے… کچھ کام ایسے ہیں کہ ان کو کرنے سے … معافی اور بخشش جلد مل جاتی ہے… اﷲ
پاک ہمیں ان کاموں کی توفیق عطا فرمائے… اور کچھ کام ایسے ہیں… جو … بخشش کو روک
دیتے ہیں… اﷲ پاک ہمیں ان سے بچائے… بہت فکر اور محنت کی ضرورت ہے… جس نے رمضان
پایا اور اپنی بخشش نہ کرائی… وہ ہلاک ہوگیا… یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی دعاء
ہے… اور آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر ’’آمین‘‘… فرمائی ہے… آئیے موجودہ
حالات کے تناظر میں چند ضروری باتیں کرلیتے ہیں… اﷲ کرے ہمارا ایمان سلامت اور فکر
روشن رہے…
قلبی تعزیت
ہم دل کی گہرائیوں سے…
تعزیت پیش کرتے ہیں… ان تمام حضرات وخواتین کو … جنہیں اس زلزلے نے … کسی بھی طرح
کا جانی، مالی، جسمانی اور مکانی نقصان پہنچایا ہے… اﷲ تعالیٰ کے لئے صبر کیجئے…
ان شاء اﷲ … بہت کچھ ملے گا… قیامت کے دن بچھڑے ہوئے… دوبارہ مل جائیں گے… اور اگر
صبر سچا ہوا تو دنیاوی نقصانات کا بھی… ان شاء اﷲ… خوب خوب ازالہ ہوجائے گا… ہمیں
آپ کے غم، دکھ اور پریشانی کا احساس ہے… ہمیں آپ کے آنسوؤں اور آہوں کا درد معلوم
ہے… آپ کے پیارے بچھڑ گئے… آپ کے مکانات منہدم ہوگئے… آپ کی پاکیزہ … اور باپردہ
بہنوں اور بیٹیوں کو … کھلے آسمان تلے بیٹھنا پڑا… اﷲ پاک آپ کو اس مصیبت پر اجر
عطاء فرمائے… اور جلد اس سے نجات عطاء فرمائے… اے مصیبت زدہ مسلمانو! بس اس وقت
ایک ہی بات کی ضرورت ہے کہ… کسی بھی طرح… آپ کی اس مصیبت اور آزمائش کا اجر ضائع
نہ ہو… آپ نے جو ’’درد‘‘ اٹھایا ہے… وہ… گناہوں کو معاف کرانے والا … جنت کو واجب
کرانے والا… اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کو قریب لانے والا ہے… آپ آج اس جگہ کھڑے ہیں…
جہاں اﷲ پاک کے مقرب بندے… اور پیارے نبی… حضرت ایوب علیہ السلام کھڑے تھے… بس …
شیطان کے وسوسے کو اپنے قریب نہ آنے دیں… اور دل میں… اﷲ تعالیٰ کے لئے شکوہ پیدا
نہ کریں… وہ ہمارا رب اور مالک ہے… ہم اس کے بندے اور غلام ہیں… اس نے ہم پر بے
شمار نعمتیں برسائی ہیں… اور برسا رہا ہے… ہمارا ہر سانس اس کا عطاء کیا ہوا ہے…
اس کی مرضی ہمیں جس حال میں رکھے… اس کی خوشی کہ ہمیں کھول دے یا باندھ دے… زندہ
رکھے یا ماردے… یا جو چاہے کرے… ہمارا کام … شکر اور صبر ہے… اگر ہم اس میں کامیاب
ہوگئے تو پھر اس کی رحمت اور بخشش کا دریا ایسا جوش میں آتا ہے کہ… انسان حیران رہ
جاتا ہے… حضرت ایوب علیہ السلام کو … دنیا و آخرت میں کیا کچھ ملا… قرآن پاک ان
نعمتوں اور رحمتوں کا گواہ ہے… ان شاء اﷲ… آپ کو بھی بہت کچھ ملے گا… سب سے بڑھ کر
یہ کہ… رب راضی ہوجائے گا… ا س لیے … شکوہ نہ کریں… شکایت نہ کریں… غیر اﷲ کے
سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں… دل تنگ نہ ہونے دیں… بس شکر اور صبر والا ایک سجدہ… اس
وقت … آپ کو بہت اونچا لے جاسکتا ہے… فارسی کے چند اشعار نظر سے گزرے تھے…جن کا
مفہو م یہ ہے کہ … ایک بار خوشی اور تندرستی کے ایام میں… حضرت جبرئیل علیہ السلام
… حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس تشریف لائے… اور پوچھا!… آپ بیماری اور مصیبت کے
دنوں میں زیادہ خوش تھے یا اب؟… حضرت ایوب علیہ السلام نے ہر حال میں شکر ادا کرکے
فرمایا… بیماری اور مصیبت کے ایام میں… محبوب کی محبت اور توجہ بہت زیادہ تھی… وہ
روزانہ پوچھتے تھے اے میرے ایوب! کیسے ہو؟… کیا حال ہے؟… بس اب خوشی اور تندرستی
کے دنوں میں… اس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے… اے زلزلہ کے غم جھیلنے والے… مسلمانو!…
عرش والے رب کی طرف توجہ کرو… ممکن ہے … محبت کے ساتھ آواز آرہی ہو… اے میرے بندو
کیسے ہو؟… اﷲ تعالیٰ کی محبت پر جان، مال، اولاد… اور مکان سب کچھ فداء … اور
قربان … اﷲ تعالیٰ ہم پر… اور آپ پر رحم فرمائے… ہماری تعزیت قبول فرمائیے…
دعاء مغفرت
اس زلزلے میں… جو …
نابالغ بچے اور بچیاں جاں بحق ہوئے… وہ تو معصوم تھے… ان کے لئے دعاء مغفرت کی
ضرورت ہی نہیں… اﷲ پاک ان کو جنت کے حور وغلمان کے ساتھ وہاں کے… میٹھے اور سچے
مزے عطاء فرمائے… دنیا کے بے حیا ماحول میں معلوم نہیں… بڑے ہو کر یہ بچے… مسلمان
رہتے یا گناہوں کے ہاتھوں مرجھا کر… کافر وفاسق ہو کر مرتے… ا ﷲ پاک نے انہیں …
بچپن ہی میں اپنے پاس بلالیا… اور ان کو آزمائش سے بچا کر اپنی رحمت کا پکا مستحق
بنادیا… اﷲ پاک ان بچوں کے لواحقین کو … صبر عطاء فرمائے… اور ان بچوں کو ان کی
مقبول شفاعت اور بخشش کا ذریعہ بنائے… ان بچوں کے علاوہ… باقی جو مسلمان حضرات
وخواتین شہید … اور جاں بحق ہوئے… دل کی گہرائیوں سے ہماری دعاء ہے کہ… اﷲ پاک ان
سب کی مغفرت فرمائے… ان کے تمام کبیرہ، صغیرہ… ظاہر وباطن گناہ معاف فرمائے… ان کو
سکون والی قبر عطاء فرمائے… ان کی ارواح کو علّیّین میں مقام عطاء فرمائے… اور اس
مصیبت والی موت کو… ان کے حق میں شہادت بنا کر… انہیں شہداء والا اجر عطاء فرمائے…
شاباش ومرحبا
بہت رشک کے ساتھ… بہت
محبت کے ساتھ… اور بہت پیار کے ساتھ… ان تمام لوگوں کو شاباش جنہوں نے… مصیبت زدہ
مسلمانوں کی مدد کی… ان کو ملبے سے نکالا… ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کا گھونٹ
پہنچایا… اور ان کے کانپتے جسموں کو کمبل سے ڈھانپا… آفرین اور مرحبا!… ان نوجوانوں
کے لئے جو کندھوں پر سامان رکھ کر… زخمیوں تک پہنچاتے رہے… واہ آپ نے جوانی کاخوب
فائدہ اٹھایا… حقیقت میں یہ وقت … اﷲ تعالیٰ کو منانے اور جنت کمانے کا ہے… اﷲ پاک
کو اپنے بندوں سے بہت پیار ہے… بہت پیار… ماں کے پیار سے بھی زیادہ… اب جو اﷲ کے
ان مصیبت زدہ بندوں کی مدد کرتا ہے… وہ بھی… اﷲ پاک کا پیارا بن جاتا ہے… بلکہ…
مخلوق کی خدمت کرنے والے تو …ا ﷲ تعالیٰ کے خاص بندے بن جاتے ہیں… انہیں عابدوں
اور زاہدوں سے بہت اونچا مقام ملتا ہے… اور … ان کے اعمال کا ترازو بہت بھاری
ہوجاتا ہے… اس وقت سسکتے انسانوں کو مدد کی ضرورت ہے… کوئی بھی… بخل اور سستی سے
کام نہ لے… اور نہ میدان ان گمراہ کن این جی اوز کے لئے خالی چھوڑ دے… جو خدمت اور
مسکراہٹ کے عوض ایمان خریدتی ہیں… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے … خدمت خلق کے جو
فضائل اور فوائد بیان فرمائے ہیں… ان کی موجودگی میں… اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا کہ… مسلمان اس میدان میں سستی کریں گے… ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم خود… خدمت
خلق کی بہترین مثال تھے… جو شخص …مخلوق کے کام میں لگتا ہے… اﷲ پاک اس کے کاموں
میں لگا رہتا ہے… جو دنیا میں کسی کی تکلیف دور کرتا ہے… اﷲ پاک آخرت میں اس کی
تکلیف دور فرماتا ہے… خدمت… نفل عبادت سے ہزار ہا درجہ افضل ہے… اور انسان کی بخشش
کا بہترین ذریعہ ہے… ہمیں … آقا صلی اﷲ علیہ وسلم … ہی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ… ایک
زانیہ عورت… پیاسے کتے کو پانی پلانے کے بدلے… بخشی گئی… اور ایک عابدہ، زاہدہ
عورت … بلی کو مارنے کے جرم میں… جہنم میں ڈالی گئی… معلوم ہوا ہے کہ… حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کے… سچے نوجوان … اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے عاشق…
خوب بڑھ چڑھ کر … محنت کر رہے ہیں… بہت سے لوگ مال دے رہے ہیں… بہت سے… ضرورت کی
اشیاء جمع کر رہے ہیں… بہت سے آگے جاکر… ضرورت کا سامان پہنچا رہے ہیں… اور بہت سے
زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں… یہ تمام بھائی… ہماری طرف سے ’’مبارکباد‘‘ قبول
کریں… ماشاء اﷲ… آپ کا رمضان خوب رہا اور آپ نے… اس مبارک مہینے کو کمالیا… اﷲ
پاک… امت مسلمہ کو… آپ جیسے جوانوں سے آباد رکھے… اور آپ کی نیکیوں اور محنتوں کو
قبول فرمائے…
ایک تنبیہ
خدمت بھی افضل عبادت ہے…
اور نفس وشیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ … انسان کی ہر عبادت دنیا ہی میں ضائع ہوجائے…
یوں وہ محنت اور تکلیف بھی اٹھائے اور اجر سے بھی محروم رہے… اس لیے … امدادی کام
کرنے والے تمام حضرات کو چاہئے کہ وہ نفس اور شیطان کے پھندوں سے محفوظ رہیں… اور
چند امور کا اہتمام کریں…
)۱(ریاکاری… شرک کا
ایک درجہ ہے… ریاکاری نیک اعمال کو گناہ بنادیتی ہے… اور انسان کی نیکیوں کو برباد
کردیتی ہے… اس لیے اپنے اندر ’’اخلاص‘‘ کو تازہ کریں… اس وقت مختلف تنظیمیں
جماعتیں… اور افراد میدان میں اتر آئے ہیں… ظاہر بات ہے کہ… ایک دوسرے کو دیکھ کر
مقابلے کا جذبہ ابھرے گا… تب… ریاکاری کا دروازہ تیزی سے کھل جائے گا… اور اتنا
اونچا عمل… برباد ہوجائے گا… آپ جانتے ہیں کہ … سجدہ کتنی اہم عبادت ہے حدیث پاک
میں آتا ہے کہ… انسان اﷲ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب … سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے…
رمضان المبارک میں تروایح کے… دوران… جب … آیت سجدہ آتی ہے تو کئی لوگ… صرف یہ
دکھانے کے لئے کہ… ہمیں معلوم ہے… یہ آیت سجدہ ہے بہت تیزی کے ساتھ سجدہ میں جاتے
ہیں… اوریوں… توحید کے نشان ’’سجدہ‘‘ کو… ریاکاری کے شرک سے آلودہ کر بیٹھتے ہیں…
اور اس تیزی کی وجہ سے بعض اوقات امام سے پہلے سجدہ میں چلے جاتے ہیں… حالانکہ یہ
ایک ’’مستقل گناہ‘‘ ہے… اور حدیث پاک میں… امام سے پہلے رکوع و سجدہ وغیرہ میں
جانے والے کے بارے میں آیا ہے کہ… قیامت کے دن اس کا چہرہ… گدھے جیسا بنایا
جاسکتاہے… اس لیے… امدادی کارکن… ریاکاری سے بچیں اور صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی
رضا کے لئے یہ ساری محنت کریں…
)۲( فرائض کا اہتمام
کریں… خصوصاً فرض نماز ضرور ادا کریں… کام زیادہ ہو تو نوافل وغیرہ چھوڑ دیں… مگر
فرض اور وتر… اور فجر کی دوسنتیں… بالکل نہ چھوڑیں… بعض اوقات… خدمت کے دوران اس
بارے میں غفلت ہوجاتی ہے… جو خطرناک ہے… اور بعض اوقات نفس کچھ بہانے بناتا ہے کہ
… پانی نہیں ہے… کپڑے صاف نہیں ہیں… وغیرہ… حالانکہ شریعت میں… بالکل سختی نہیں
ہے… اور ہر عذر کی حالت میں رعایت موجود ہے… مگر… فرض نماز چھوڑنے کی رعایت… کسی
کو بھی نہیں ہے…
)۳( حیا کا اہتمام
کریں… بہت ساری بہنیں اور بیٹیاں… ننگے سر سامنے آئیں گی… تب… اپنی ماں، بہن اور
بیٹی کو یاد کرکے… اﷲ تعالیٰ کا خوف کریں… اور اپنی نظر اور ارادے کو پاکیزہ
رکھیں… کسی … بہن، بیٹی پر بری نظر نہ ڈالیں… اور نہ کسی کو برائی کے ارادے سے
ہاتھ لگائیں… یہ مصیبت ہر کسی پر آسکتی ہے… خود سوچیں … ہمارا گھر گر جائے… ہمیں
اپنی، بہنیں اور بیٹیاں باہر لا کر بٹھانا پڑیں… اور خود ہم زخمی پڑے ہوں… تب… کچھ
لوگ امداد کے نام پر آئیں… اور بری اور گندی نظروں کے تیر… برسانے لگیں… تب ہمارا
کیا حال ہوگا؟… کیا ہماری یہ خواہش نہیں ہوگی کہ… ہمیں … کلاشنکوف ملے اور ہم ان خبیثوں کو بھون کر رکھ دیں…
رمضان المبارک کا مہینہ
ہے… اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ … نظریں نیچی رکھو…
ہمیں خدمت کے میدان میں…
ان تمام باتوں کا خیال رکھ کر چلنا ہوگا… ورنہ… یہ خدمت ہمارے لیے جہنم اور ناکامی
بن سکتی ہے…
)۴( زخمیوں کی خدمت…
اور دور دراز کے علاقوں تک سامان پہنچانے والے جو ساتھی… روزہ نہ رکھ سکیں… وہ…
روزہ نہ رکھیں… اور بڑھ چڑ ھ کر دور دراز علاقوں تک پیاسوں کو پانی… بیماروں کو
دواء… اور بہنوں کو دوپٹہ پہنچائیں… رمضان المبارک کے بعد … اپنے ان روزوں کی قضاء
کرلیں… اور جو باہمت ساتھی روزہ اور خدمت دونوں کو جمع کرسکتے ہوں… وہ … دونوں کے
بیک وقت مزے لوٹیں…
)۵( خود کو… نفس اور
شیطان کی شرارت سے بچانے کے لئے… چلتے پھرتے ذکر کا اہتمام کریں… پہلا کلمہ…
استغفار… درود شریف… تیسرا کلمہ… اور دیگر دعائیں پڑھتے رہیں… اور ایک دوسرے کو
دین کی تلقین کرتے رہیں… تاکہ… ملبے اور تھکاوٹ کا اثر دین اور ایمان پر نہ پڑ
جائے…
سانپ اور بچھو
معلوم ہوا کہ… زلزلے کے
بعد… زہریلے سانپ… اور بچھو بھی کثرت سے نکل آئے ہیں… اور افسوس یہ ہے کہ… ان
سانپوں اور بچھوؤں کی شکل انسانوں جیسی ہے… چنانچہ… وہ بھیس بدل کر خوب نقصان
پہنچا رہے ہیں… جی ہاں… زخمیوں کو لوٹنے والے لوگ… انسان تو نہیں ہوسکتے … بے بسوں
کی مجبوری سے دولت کمانے والے… انسان تو نہیں ہوسکتے… بے آسرا بیٹیوں کو ہوس کا
نشانہ بنانے والے انسان تو نہیں ہوسکتے… لاوارث بچوں کو اغواء کرکے لے جانے والے
انسان تو نہیں ہوسکتے… امدادی سامان جمع کرکے… خود کھا جانے والے انسان تو نہیں
ہوسکتے… یہ سب… موذی جانور اور درندے ہیں… یہ لوگ انسانیت کے چہرے پر داغ ہیں… میں
نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ… برصغیر کی تقسیم کے وقت… جو مسلمان… مشرقی پنجاب سے
ہجرت کرکے… اپنی بہنوں ، بیٹیوں کو سکھوں سے بچا کر… ادھر لے آئے تھے… ان میں سے
بعض کو… یہاں کے وڈیروں اور دوسرے سانپوں نے برباد کردیا… یہ لوگ… باقاعدہ ٹولیاں
بنا کر شکار کی تلاش میں نکلتے تھے… اور اﷲ اﷲ کرتے بے بس خاندانوں کو برباد کرتے
تھے… ایسے ظالموں پر تو آسمان بھی تھوکتا ہوگا… اور زمین کا ذرہ ذرہ ان پر لعنت
بھیجتا ہوگا… پاکستان میں جب بھی… ٹرین کا حادثہ ہوتا ہے… بہت سے درندے… زخمیوں کو
لوٹنے پہنچ جاتے ہیں… وہ … خاک اور خون میں تڑپتے انسانوں کی جیبیں خالی کرتے ہیں…
اور عورتوں کے زیور ان کے جسموں سے نوچ کر… انہیں مزید زخمی کرتے ہیں… دنیا کی
محبت … اور مال کی لالچ کتنی گندی بیماری ہے؟… اے میرے بھائیو اور بہنو… اﷲ کے لئے
… اﷲ کے لئے ہم سب خود کو… مال کی محبت سے بچائیں… اور اپنی آل اولاد… اور بہن
بھائیوں کو بھی… اس گندی ناپاکی سے بچائیں… مال کی محبت… انسان کو پلید، ناپاک اور
نجس بنادیتی ہے… اور اس کو انسانیت کے مقام سے گرا کر گندہ جانور بنادیتی ہے …
زلزلے کی تباہ کاری سے لاکھوں انسان… تڑپ رہے ہیں… ہر طرف چیخیں اور آہیں ہیں… تب…
یہ جانور میدان میں آکر … زخمی اور غم زدہ انسانوں کو لوٹ رہے ہیں… اﷲ پاک ان کو
ہدایت عطاء فرمائے… اور ان کے شر سے تمام انسانوں کی حفاظت فرمائے… ہماری حکومت
انتہا پسندی کی بجائے اگر اس طبقے کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تو … آسمان کے فرشتے
بھی اس کا ساتھ دیتے…
اے انسانو! اﷲ پاک سے
ڈرو… قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے… اور وہ زلزلہ ضرور آنے والا ہے… اس دن کی
خاطر… اپنی اصلاح کرلو… مہنگائی نہ بڑھاؤ… غریبوں کو نہ لوٹو… اور متاثرین پر اپنے
جرائم کی چُھریاں نہ چلاؤ… امدادی کارکنوں کو چاہئے کہ لوگوں کو… قدرتی آفات کے ساتھ
ساتھ… ان سانپوں اور بچھوؤں سے بچانے کی بھی کوشش کریں…
ایک غلطی
دیکھنے میں آیا ہے کہ… جب
بھی… اس طرح کے واقعات میں امداد اور چندے کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ… پرانے
کپڑوں، پرانے بستروں اور پرانے سامان کے ڈھیر لگا دیتے ہیں… چار سال پہلے طالبان
کے سقوط کے وقت بھی ایسا ہی منظر تھا… اور اب بھی … بعینہٖ وہی منظر ہر چوک اور ہر
گلی میں نظر آرہا ہے… بعض تنظیموں نے صرف دکھاوے کے کیمپ لگا دیئے ہیں تاکہ… ان کے
ووٹر ناراض نہ ہوں… اور ان کو سیاسی نقصان نہ پہنچے… بعض تنظیموں نے اپنے کارکنوں
کی لعن طعن سے بچنے کے لئے… کیمپ لگادیئے ہیں… اور لوگ دھڑا دھڑ پرانا سامان ان
کیمپوں میں جمع کر وا رہے ہیں… اس بارے میں گذارش ہے کہ… اپنی آخرت کے لئے… اچھا
اور کار آمد سامان بھجوائیں… اور اﷲ تعالیٰ کے راستے میں اپنی محبوب اور پسندیدہ
چیزیں دیں… کیمپ لگانے والوں سے بھی گزارش ہے کہ… وہ … صرف ضروری اور کام آنے والی
اشیاء وصول کریں… ورنہ بعد میں… یہ تمام سامان… کباڑ والے کوڑیوں کے بھاؤ خریدیں
گے… اور کسی مستحق کو کوئی نفع نہیں ہوگا… ہاں… جو لوگ بہت غریب ہیں… اور ان کے
پاس دینے کے لئے سوائے پرانی چیزوں کے اور کچھ نہیں ہے تو ان کا دینا مبارک ہے…
اور اس سے ان شاء اﷲ… مستحقین کو ضرور فائدہ ہوگا… کیونکہ …قربانی کے ہر عمل میں…
اﷲ پاک نے بے شمار فائدے رکھے ہیں…
ایک خطرناک طرز عمل
اس طرح کے مشکل حالات
میں… کچھ لوگ دوسروں کے نامہ اعمال کھول کر… بیٹھ جاتے ہیں … کہ فلاں نے یہ نہیں
کیا… فلاں نے وہ نہیں کیا… ان لوگوں کی مجلسیں غیبت کی گیس سے بدبودار… اور ان کی
باتیں امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں… ایسے لوگوں سے اور ان کی باتوں
سے بچیں اور اپنے اندر کسی طرح کے انتشار کو جگہ نہ دیں… ان لوگوں کی باتوں سے
متاثر ہو کر… بہت سے گھر بیٹھنے والے حساب دان… مجاہدین پر طعن وتشنیع شروع کردیتے
ہیں کہ … آپ نے یہ نہیں کیا… آپ نے وہ نہیں کیا… ایسے لوگوں کی خدمت میں ادب کے
ساتھ عرض کریں کہ… الحمدﷲ ہمیں اپنے فرائض کا شعور اور احساس ہے… اور ہم اپنی ذمہ
داریوں کو سمجھتے ہیں… اور الحمدﷲ ہم اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر… دوسروں پر
تنقید نہیں کرتے… اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے… جان کی قربانی سے لیکر… آرام کی
قربانی تک کے تمام شعبے ہمارے ہاں زندہ ہیں… جہاد، علم، تصوف، خدمت خلق… اور امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام اپنی استطاعت کے مطابق… الحمدﷲ ہورہاہے…
موجودہ حادثہ میں بھی …
ہم … اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہے ہیں… اور مزید باہمی مشاورت سے اس میں ترقی
کر رہے ہیں… ہمارا دل چاہتا ہے کہ … یہ سارا کام ہم سنبھال لیں… مگر… دنیا بھرکی
پابندیاں بھی ہم پر ہیں… اور امت مسلمہ نے جہاد سے غفلت کا جو عمومی جرم کیا ہے…
اس کا بوجھ بھی ہمارے ساتھیوں کے ناتواں کندھوں پر ہے… محاذ اب بھی گرم ہیں… کسی
زلزلے نے ان کی ضروریات اور گرمی کو کم نہیں کیا…
سینکڑوں شہداء کے لاوارث
گھرانوں کا چولھا بھی… انہیں کے ذمہ ہے… کسی حادثے کی وجہ سے … ان کو تو نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا… اسی طرح باقی ذمہ داریاں اور کام بھی ہیں… ایسے موقع پر… تنقیدی
پارٹی کا زہر اور گیس بعض اوقات امت مسلمہ کو… جماعت کی برکت سے محروم کردیتا ہے…
امارت اسلامی افغانستان کے سقوط کے وقت بھی اسی طرح کے پروپیگنڈے نے امت مسلمہ کو…
بے حد زخم پہنچائے… اور معلوم نہیں کیا کچھ تباہ کردیا…
غیبت اور چغل خوری کے …
برے اثرات سے خود کو بچائیں… کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں… اور اپنے
فرائض کی بجا آوری میں لگے رہیں… اور جس قدر ممکن ہو بڑھ چڑھ کر… موجودہ حادثے میں
متاثرین کی مدد کریں… اور تنقید وانتشار کے زہر سے خود کو بچائیں…
دعاء کا اہتمام
یہ تمام کام ایک طرف… اور
دعاء کی طاقت ایک طرف… حدیث پاک میں آتا ہے کہ… تقدیر کو دعاء کے سوا کوئی چیز
نہیں ٹال سکتی… دعاء… پانی، آگ اور ہوا سے زیادہ طاقتور … اور لوہے سے زیادہ مضبوط
چیز ہے… دعاء لمحات میں آسمانوں کو پار کرلیتی ہے… اور پلک جھپکتے عرش تک پہنچ
جاتی ہے… اس لیے موجودہ حالات میں خوب خوب دعاؤں کا اہتمام ہو… ایسی دعائیں… جو …
عمل اور کامیابی کے دروازے کھلوادیں… ہر شخص اس دعاء کا بھی اہتمام کرے کہ… یاا ﷲ!
موجودہ حادثے سے متعلق… میری جو انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے وہ مجھے ادا
کرنے کی توفیق اور ہمت عطاء فرما… گھروں میں بیٹھی… ہماری مسلمان مائیں، بہنیں… اس
وقت خوب دعائیں کریں… پاکستان کے مسلمان زلزلے کا شکار ہیں… افغانستان کے مسلمانوں
پر امریکا اور اس کے ا تحادی ظلم اور فحاشی برسا رہے ہیں… عراق پر صلیب کا قبضہ
ہے… کشمیر پر برہمنی سامراج کا راج ہے… فلسطین زخمی ہے… گوانٹا نامو بے… پل چرخی…
تہاڑ… اور ابو غریب… سینکڑوں جیلوں اور عقوبت خانوں میں… ہزاروں مسلمان جوانیاں
تڑپ رہی ہیں… پگھل رہی ہیں…
جہاد کے خلاف… عالمی
تحریک زوروں پر ہے… اور مسلمان ملکوں کے حکمران… کافروں سے بڑھ کر… جہاد کے خلاف
سرگرم ہیں… جہاد کے خلاف یہ مہم… دراصل اسلام اور قرآن کے خلاف مہم ہے… اس لیے کہ
وہ ’’اسلام‘‘ جس میں جہاد نہ ہو… اﷲ کا بھیجا ہوا ’’اسلام‘‘ نہیں ہے… اور نہ وہ حضرت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہوا ’’اسلام‘‘ ہے… ان تمام پریشانیوں کے باوجود امت
مسلمہ کے کچھ لوگ… مکمل دین پر قائم ہیں… وہ کفار سے لڑ رہے ہیں… اور کسی ملامت کی
پروا نہیں کر رہے… یا اﷲ ہمیں بھی انہیں میں شامل رکھیے…
الغرض… ان تمام حالات کو
مدنظر رکھ کر… دعاء کا اہتمام کریں… اپنی ذات کے خول سے باہر آکر… قبر کو سامنے
رکھ کر… قربانی کے جذبے کے ساتھ… ہم سب خوب خوب… دعاء کریں… دنیا کے حالات تیزی سے
بدل رہے ہیں… وقت کی رفتار آندھی کی طرح زور دار ہے… ہم … کہیں ’’کامیاب قافلے‘‘
سے پیچھے نہ رہ جائیں… اس کے لئے… ہمیں رات کے اندھیروں میں… دعاء کے نور کو
ڈھونڈنا ہوگا…!!!
کہاں ہیں
میرے قدردان
وہ سال میں ایک بار آتی ہے لاکھوں
کروڑوں کو پاک کر جاتی ہے ٹوٹے ہوؤں کو جوڑ جاتی ہے اور سلامتی کی خوشبو بکھیر
جاتی ہے جی ہاں قدر ومنزلت والی ’’لیلۃ القدر‘‘ پوچھ رہی ہے کہاں ہیں میرے قدردان؟
)۲۳رمضان
المبارک ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۸اکتوبر
۲۰۰۵ء(
کہاں ہیں
میرے قدردان؟
اﷲ تعالیٰ نے جن لوگوں کے
دل کی آنکھیں… کھول دیں… انہوں نے اس دلکش اور حسین رات میں بہت کچھ… دیکھ لیا…
اور سب کچھ پالیا… بعض حضرات نے دیکھا کہ سمندر کا پانی میٹھا ہوچکا ہے… اﷲ اکبر…
جی ہاں جس رات کی فضیلت میں قرآن پاک کی پوری سورت نازل ہوئی ہو… اس میں… سمندر کی
سیاہی اور کڑواہٹ دور ہوگئی تو کون سی بڑی بات ہے؟… کاش ہمارے دلوں کی سیاہی… اور
ہمارے اخلاق کی کڑواہٹ بھی دور ہوجائے… بعض حضرات نے دیکھا کہ اس رات کے آتے ہی
ہرچیز … اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرگئی… اور رات بھر سجدے کے مزے لوٹتی رہی…
کاش عید کمانے والے تاجروں کو بھی یہ رات یاد رہے… اﷲ والوں نے اس رات میں بہت کچھ
دیکھا… جی ہاں جن کے دل زندہ ہوتے ہیں… انکی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں… ہم
لوگوں کو کچھ نظر نہیں آتا… کیسے نظر آئے؟… ہم تو ابھی تک ’’خود‘‘ کو نہیں دیکھ
سکے۔ ’’خود‘‘ کو نہیں پہچان سکے… جن کے معدے ہر وقت بھرے رہتے ہیں… وہ سارا دن
’’گیس‘‘ سے لڑتے رہتے ہیں… اور رات کو پھر… اپنا ’’پیٹ‘‘ جہنم کی طرح بھر لیتے
ہیں… اس حال میں آنکھیں کس طرح کھل سکتی ہیں… رمضان المبارک آتا ہے تاکہ ہم… بھوک
کا مزہ حاصل کریں… اور کچھ قربانی دیں… مگر … ایسا کم ہوتا ہے بلکہ… رمضان آتے ہی
’’کھانے‘‘ کی فکر اور بڑھ جاتی ہے… پکوڑے، سموسے، پھینیاں اور پتہ نہیں کیا کیا…
عورتوں کا وقت کھانے بنانے اور چننے میں برباد ہوتا ہے… اور مرد خریدنے اور اٹھانے
میں… رمضان ضائع کردیتے ہیں… آخری عشرہ… ایک عظیم الشان رحمت بن کر آتا ہے… ایسی رحمت
کہ… پکے ’’جہنمی‘‘ تک ’’جنتی‘‘ بنادئیے جاتے ہیں… اور ایک رات کی عبادت کا اجر …
تراسی سال چار مہینے کی مقبول عبادت… اور قربانی سے بڑھادیا جاتا ہے… مگر عظیم نفع
کمانے کا یہ موسم… عید کی تیاری… میں برباد ہوجاتا ہے… اے معزز مسلمانو… عید تو ہے
ہی ان لوگوں کی خوشی … جنہوں نے رمضان المبارک کو کمالیا… پالیا… اور حاصل کرلیا…
اس بدنصیب کی کیا عید؟… جس کا رمضان گناہوں اور دنیاداری میں ضائع ہوگیا… حسن
بصریؒ نے عید کے دن کچھ لوگوں کو قہقہے لگاتے دیکھا تو فرمایا… اگر پردہ ہٹادیا
جائے تو کوئی بھی قہقہہ نہ لگائے… رمضان مقابلے کا میدان تھا کہ… کون بڑھ چڑھ کر
اس میں… دوسروں سے آگے بڑھتا اور عبادت کرتا ہے… پھر کچھ لوگ بخشے جاتے ہیں… اور
کچھ محروم رہتے ہیں… بخشے جانے والوں کو اپنا اجر اور مقام پتہ چل جائے تو شکر میں
ڈوب جائیں… اور محروم رہنے والوں کو اپنی حالت کا پتہ چل جائے تو غم میں غرق
ہوجائیں… بات چل رہی تھی ’’شب قدر‘‘ دیکھنے کی… اﷲ پاک کچھ دکھا دے تو اس کا کرم…
ویسے ’’کچھ دیکھنا‘‘ بالکل ضروری نہیں ہے… ہاں ماننا اور یقین کرنا ضروری ہے… آئیے
مختصر طور پر … شب قدر… یعنی بڑی قدر ومنزلت والی رات کا ایک منظر دیکھتے ہیں…
ممکن ہے کچھ ہاتھ آجائے… ہمارا مالک تو بہت کریم… اور مہربان ہے…
شب قدر کا خلاصہ
)۱(
اس رات کی فضیلت کے بیان
میں قرآن پاک کی ایک پوری سورت نازل ہوئی ہے… اس سورت کا نام ’’سورۃ القدر‘‘ ہے…
یہ آخری پارے میں ہے۔
)۲(
اﷲ تعالیٰ کی آخری اور سب
سے اعلیٰ اور افضل کتاب… اسی رات میں نازل ہوئی… جی ہاں… قرآن پاک لوح محفوظ سے
آسمان دنیا پر… اسی رات میں اترا ۔
)۳(
’’لیلۃ القدر‘‘ ایک
ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ (القرآن) یعنی اس ایک رات کی عبادت کا ثواب… اجر اور درجہ…
ایک ہزار مہینے تک مسلسل عبادت کرنے سے… بہت بڑھ کر ہے… کتنا بڑھ کر ہے؟ یہ اﷲ پاک
ہی بہتر جانتے ہیں۔
)۴(
اس رات میں فرشتے نازل
ہوتے ہیں۔ (القرآن) بے شمار فرشتے… جوق در جوق آسمان سے اترتے ہیں… وہ … بہت شوق
سے… عبادت کرنے والوں کو دیکھتے ہیں… اور ان سے مصافحے کرتے ہیں… ان کو اپنی دعاء
اور توجہات سے نوازتے ہیں… ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں… کیا خوب نورانی صحبت ہوتی ہے…
)۵(
حضرت جبرئیل علیہ السلام
(روح القدس) اس رات میں زمین پر اترتے ہیں۔ (القرآن)
ہم لوگ ہروقت شیطانی دنیا
کے… سردار ابلیس کی زد میں رہتے ہیں… مگر… شب قدر کے سجدے اتنے مبارک اور مقدس…
اور اتنے پیارے ہیں کہ… روحانی دنیا کے تاجدار… حضرت جبرئیل علیہ السلام زمین پر
تشریف لے آئے… مرحبا، خوش آمدید… اﷲ اکبر … سبحان اﷲ… اگر دل سے سوچیں تو خوشی سے
جان نکلتی ہے کہ… کون آرہے ہیں؟… کاش وہ ہمیں اچھی حالت میں پائیں… کہیں ہم غیبت
کا حرام گوشت نہ کھا رہے ہوں… کہیں ہم لا یعنی کاموں میں مصروف نہ ہوں… کہیں ہم
سگریٹ، نسوار اور پان کی بدبو میں غرق نہ ہوں… کہیں ہم ساڑھیاں اور جوتیاں نہ خرید
اور بیچ رہے ہوں… کاش وہ ہمیں سجدے میں دیکھیں… سبحان ربی الاعلیٰ… ایسا سجدہ جو
خالص اﷲ تعالیٰ کیلئے ہو… کسی بڑے وزیر یا افسر کے دورے کے وقت… ماتحتوں کی کیا
حالت ہوتی ہے؟… حضرت سیدنا جبرئیل علیہ السلام جیسے جاہ وجلال والے… مقرب فرشتے
تشریف لا رہے ہیں… اس امت کے عبادت گزار… سچے مردوں اور عورتوں کو دعاء دینے
کیلئے… ان کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے کیلئے… ہاں ان نظروں سے … جن سے انہوں نے
ہمارے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا… حضرت جبرئیل علیہ السلام تو انبیاء
کرام پر اترتے تھے… مگر ہائے قربان رب کی رحمت پر کہ… ہمیں کیسی رات بخشی کہ عام
لوگوں کیلئے بھی… حضرت سیدنا جبرئیل علیہ السلام سلامتی لیکر اتر آئے… مجھے الفاظ
نہیں ملتے کہ کس طرح خوشی اورعظمت کے اس منظر کو بیان کروں… اﷲ اکبر کبیرا… ہائے
کاش ہم … یہ رات پالیں… ہائے کاش ہم کسی طرح اس رات کو کمالیں… کچھ نظر آئے یا نہ
آئے… یہ قرآن پاک کا سچا اعلان ہے… کہ … روح القدس حضرت جبرئیل علیہ السلام اور
فرشتے… اس رات میں اترتے ہیں… اے مسلمانو! … خود کو… اور اپنے گھروں کو ان چیزوں
سے پاک کرلو… جن سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے… یا … جن کی موجودگی میں رحمت کے
فرشتے قریب تشریف نہیں لاتے… احادیث سے ثابت ہے کہ… رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں
آتے جس میں کتا ہو… سوّر (خنزیر) ہو… جاندار کی تصویر ہو… یا بدکاری کی وجہ سے
ناپاک ہونے والا کوئی فرد ہو…
کچا پیاز… اور لہسن نہ
کھائیں… بدبودار کپڑے نہ پہنیں… اور ظالم ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھیں…
بس وہ پیاری رات آرہی ہے…
ابھی سے… خوشی اور ادب کے ساتھ استقبال کی تیاری شروع کردیں…
)۶(
اس رات میں فرشتے اور روح
القدس… اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں۔(القرآن)
اﷲ تعالیٰ کے اس خاص حکم
سے خود اندازہ لگالیں کہ… اس رات کی کتنی قدر ہے… اور کتنی قیمت؟… حضرت شیخ
الاسلام ؒ لکھتے ہیں… یعنی اﷲ کے حکم سے روح القدس (حضرت جبرئیل ؑ) بے شمار فرشتوں
کے ہجوم میں نیچے اترتے ہیں تاکہ عظیم الشان خیر وبرکت سے زمین والوں کو مستفیض کریں
اور ممکن ہے ’’روح‘‘ سے مراد فرشتوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق ہو۔ (تفسیر عثمانی)
)۷(
پورے سال کے انتظامی امور
کا نظام… فرشتے اسی رات میں زمین پر لاتے ہیں۔ (القرآن)
یعنی پورا نظام ہی اسی
رات میں نافذ ہوتا ہے… یا جتنی خیریں سارا سال آنی ہوتی ہیں… وہ … اسی رات میں
بانٹی جاتی ہیں…
)۸(
یہ رات سراپا ’’سلام ‘‘
ہے۔ (القرآن)
یعنی تمام رات فرشتوں کی
طرف سے ایمان والوں پر ’’سلام‘‘ ہوتا رہتا ہے کہ ایک فوج آتی ہے اور دوسری جاتی
ہے… یا مطلب یہ ہے کہ … یہ رات سراپا سلامتی ہے، ہر طرح کے شر، فساد وغیرہ سے امن
رہتا ہے… حضرت شیخ الاسلامؒ لکھتے ہیں… یعنی وہ رات امن وچین اور دلجمعی کی رات
ہے، اس میں اﷲ والے لوگ عجیب وغریب طمانیت اور لذت وحلاوت اپنی عبادت کے اندر
محسوس کرتے ہیں اور یہ اثر ہوتا ہے نزول رحمت وبرکت کا جو روح اور ملائکہ کے توسط
سے ظہور میں آتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ اس رات جبرئیل ؑ اور فرشتے عابدین
وذاکرین پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں… یعنی ان کے حق میں رحمت اور سلامتی کی دعاء
کرتے ہیں… (تفسیر عثمانی)
فرشتوں کا صلوٰۃ وسلام…
یا اﷲ ہم سب کو اپنے فضل سے نصیب فرما…
)۹(
(یہ ساری رحمت، برکت اور فضیلت) صبح
تک رہتی ہے۔ (القرآن)
یعنی یہ رات اول تا آخر… غروب آفتاب
سے لیکر طلوع فجر تک … ان فضائل سے آراستہ ہے جن کا ذکر اوپر والی آیات میں ہوا ہے…
)۱۰(
جو شخص شب قدر میں ایمان
کے ساتھ اور ثواب (یعنی عبادت) کی نیت سے کھڑا ہو… اس کے پچھلے تمام گناہ معاف
کردئیے جاتے ہیں… (بخاری، مسلم)
اس صحیح حدیث پاک سے…
’’لیلۃ القدر‘‘ کمانے کا طریقہ معلوم ہوگیا کہ… اس رات قیام کیا جائے… قیام سے
مراد نوافل ہیں … جبکہ… باقی عبادات یعنی تلاوت اور ذکر بھی اس میں داخل ہیں… مگر
یہ عبادت ایمان کے ساتھ ہو… اور اجر وثواب حاصل کرنے کا دل میں پختہ یقین ہو…
اور رات بھر کی یہ عبادت
پوری بشاشت، محبت اورتوجہ سے ہو… بوجھ سمجھ کر نہ ہو… حضرت مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں
’’مناسب ہے کہ جتنی دیر جاگنا چاہے اس کے تین حصے کرے ایک حصہ میں نوافل پڑھے اور
ایک حصہ میں تلاوت کلام اﷲ کے اندر مشغول رہے اور تیسرا حصہ استغفار، درود شریف،
دعاء وغیرہ وغیرہ ذکر اﷲ میں گزارد ے… حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اﷲ سرہ العزیز
نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو خواب میں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ اب بزرگوں کی نسبت
میں وہ کیفیت نہیں ہوتی جو پہلے بزرگوں کی نسبت میں ہوتی تھی اس کی کیا وجہ ہے؟
حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ پہلے بزرگ تین چیزوں کی پابندی
فرماتے تھے کثرت نوافل، کثرت تلاوت اور کثرت ذکر اﷲ ۔ اب اس زمانہ میں ذکر اﷲ کی
کثرت کا تو بزرگوں کو کچھ خیال ہے مگر تلاوت اور نوافل کی کثرت کا اہتمام کم
ہوگیاہے… ’’الاّنادرًا‘‘ اس لیے نسبت مع اﷲ کی کیفیت میں بھی فرق آگیا…
واقعی اب جو لوگ اﷲ والے
کہلاتے ہیں ان کے ہاں بھی اکثر صرف کثرت ذکر کی ہی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے… نوافل
وتلاوت کا خیال ہی نہیں… ہمارے اسلاف کا تو یہ طریقہ نہ تھا
…
)۱۱(
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
رمضان کے آخری عشرہ عبادت وغیرہ میں اتنا مجاہدہ کرتے تھے جو دوسرے دنوں میں نہیں
کرتے تھے (مسلم شریف)
اس حدیث شریف سے یہ سبق
ملا کہ… ہم بھی… کچھ محنت بڑھا دیں اور عبادت میں کچھ مشقت، تکلیف… اور مجاہدہ
اٹھائیں… تاکہ… شب قدر کی صحیح قدر ہوسکے… اور ہماری جھولی بھی بھر جائے…
)۱۲(
جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کمر بند مضبوطی سے باندھ لیتے… اور اپنی رات کو (عبادت
سے) زندہ رکھتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے۔
)بخاری، مسلم(
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
اس مبارک عمل سے… روشنی ملی کہ… ان راتوں میں عبادت کا عمومی ماحول بنایا جائے…
اور اپنے اہل خانہ کو بھی محرومی سے بچایا جائے… ہاں جس سے پیار ہوتا ہے … دل
چاہتا ہے کہ وہ بھی… آخرت کے مزے لوٹے… لیلۃ القدر میں تو … دنیا آخرت کی بے شمار نعمتیں
بانٹی جاتی ہیں… اور انسان کو روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے… اس لیے اپنے گھر والوں
کو بھی… اہتمام سے جگایا جائے… اور پیار ومحبت کے ساتھ عبادت میں لگایا جائے… اور
انہیں سمجھایا جائے کہ … آج خلوت کا کونہ پکڑو… اور خود کو نور اور سلامتی کے
حوالے کردو…
)۱۳(
شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام
فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اس بندے کیلئے دعاء رحمت کرتے ہیں جو
کھڑا یا بیٹھا اﷲ تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہو (بیہقی)
اس حدیث پاک سے یہ خاص
بات معلوم ہوئی کہ … اصل فضیلت اﷲ تعالیٰ کی یاد کی ہے… ذکر کہتے ہی اﷲ پاک کی یاد
کو ہیں… جس کا سب سے بہترین طریقہ… نماز… ہے… الغرض اس قیمتی رات میں… جو عبادت
بھی کی جائے خوب توجہ کے ساتھ کی جائے… یعنی دل اﷲ پاک کی طرف متوجہ ہو… تب … عبادت
کی حقیقت نصیب ہوگی … اور اس رات کی خصوصی برکت اور رحمت بھی…
)۱۴(
شب قدر کو رمضان کے آخری
عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (بخاری)
اﷲ پاک کی حکمت کہ… لیلۃ
القدر کو اس نے روپوش فرمادیا کہ… اسے ڈھونڈو… محبوب کے ساتھ آنکھ مچولی کا مزہ
کسی کسی کو ہی سمجھ میں آتا ہے… قدر ومنزلت والی یہ رات… چھپالی گئی تاکہ… سچے
عاشق اس کی خوشبو سونگھتے پھریں… اور اس کی تلاش میں خود کو خوب تھکائیں… ’’لیلۃ
القدر‘‘ کون سی رات ہے؟… اس میں بہت سے ’’اقوال‘‘ ہیں… سب سے مضبوط بات وہی ہے جو
اس حدیث پاک میں بیان ہوئی کہ… رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور پھر اس کی پانچ طاق
راتیں… پس خوب محنت کرو… اے نیکیوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والو…
)۱۵(
تمہارے اوپر ایک مہینہ
آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ
گیا گویا ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ
شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔(الترغیب والترہیب)
کتنی راتیں ہم نے… دنیا
کی خاطر جاگ کر کاٹیں… کتنی راتیں گناہوں… اور عیاشیوں کی نظر ہو گئیں… کتنی راتیں
بیماری … اور بے چارگی نے چاٹ لیں… تو کیا… اﷲ پاک کیلئے… اپنے رب کیلئے… اپنے
خالق و مالک ومولیٰ کے لئے… دوچار راتیں جاگ لینا مشکل ہے؟… پھر یہ جاگنا ہمارے ہی
نفع کا ہے… ہمارا مولیٰ اور مالک تو غنی اور بے نیاز ہے… ہم نے کتنی راتیں … گھر
والوں کو اپنے لئے جگایا… کیا ایک دو راتیں … محبوب حقیقی کیلئے انہیں نہیں جگایا
جاسکتا… ہاں بے شک جب… قرآن لیلۃ القدر کی فضیلت سنا رہا ہو… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم اس کی تلاش میں جاگ رہے ہوں… حضرت جبرئیل ؑاس رات کے عابدوں سے ملاقات کر رہے
ہوں… تو ایسی رات سے … محروم رہنا… واقعی بڑی سخت محرومی ہے… یا اﷲ اس محرومی سے
میری حفاظت فرما… ہم سب کی حفاظت فرما…
)۱۶(
حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے پوچھا… اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے
تو کیا دعاء مانگوں؟… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعامانگو:
اَللّٰہُمَّ
اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (مسند احمد)
اس مبارک دعاء کا ترجمہ
یہ ہے…
اے میرے پروردگار آپ معاف
کرنے والے ہیں، اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں… پس مجھے بھی معاف فرمادیجئے…
اس حدیث شریف سے ایک تو
ہمیں… شب قدر کی ایک پیاری دعاء معلوم ہوگئی… دوسری طرف یہ اشارہ بھی ملا کہ …
دعاء بہت اہم عبادت ہے… اسی لیے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس رات دعا ء میں مشغول
رہنا… زیادہ بہتر ہے…
جبکہ عام رائے یہی ہے کہ
… نماز سب سے افضل ہے… اور بہتر یہ ہے کہ مختلف عبادات کو جمع کیا جائے جیسا کہ
پہلے عرض کیا جاچکا ہے…
)۱۷(
شب قدر کی صبح کو جب سورج
نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ (مسلم شریف)
احادیث میں شب قدر کی بعض
ظاہری نشانیاں بتلائی گئی ہیں… ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس رات کے بعد… صبح جب سورج
نکلتا ہے تو وہ چودھویں کے چاند کی طرح ہوتا ہے… یعنی اس میں شعاع نہیں ہوتی… یہ
علامت کئی احادیث شریفہ میں آئی ہے… جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ… یہ رات
… کھلی ہوئی چمکدار ہوتی ہے، بالکل صاف شفاف، نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ
معتدل، گویا اس میں چاند کھلا ہوا ہے… اس رات میں… شیاطین پر شہاب ثاقب نہیں مارے
جاتے… اور اس رات کی ایک باطنی علامت یہ ہے کہ جب اس کے بعد سورج نکلتا ہے تو… اس
کے ساتھ شیطان نہیں ہوتا…
)۱۸(
اﷲ تعالیٰ نے میری امت کو
لیلۃ القدر عطاء فرمائی ہے اور یہ تم سے پہلے والے لوگوں کو عطاء نہیں کی
گئی۔ (کنزالعمال)
حدیث شریف سے معلوم ہوا
کہ… شب قدر اس امت کا اعزاز … اور اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا خاص تحفہ ہے… پس اس کی
بھرپور قدر کرنی چاہئے۔
)۱۹(
لیلۃ القدر میں فرشتے…
زمین پر کنکریوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
(کنزالعمال)
دیکھئے کتنا بہترین منظر…
اور موقع ہوتا ہے… کہ فرشتوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے سجدوں کا گواہ بنایاجائے…
اور ان کی نورانی، پاکیزہ صحبت کا فائدہ اٹھایا جائے۔
)۲۰(
جس نے شب قدر میں عشاء
اور فجر کی نماز جماعت سے ادا کی تو اس نے شب قدر میں سے بڑا حصہ پالیا۔(کنز
العمال)
چونکہ یہ رحمت اور برکت
والی رات ہے اس لیے جس نے اتنا بھی اہتمام کیا تو وہ بھی اس کی برکت سے محروم نہیں
رہے گا… اب خود ہی اندازہ لگالیں کہ پوری رات عبادت میں گزارنے والے کو کیا کچھ…
اور کتنا کچھ ملے گا…
روحانیت کا خلاصہ
اوپر جو بیس نکات عرض کیے
ہیں… ان سے ان شاء اﷲ شب قدر… اور اس کے معمولات کا وہ خلاصہ… سمجھ آگیا ہوگا جو
عمل کیلئے کافی ہے… وگرنہ اس عظمت والی رات کا تفصیلی حال تو … مستند کتابوں کے
سینکڑوں صفحات پر بکھرا پڑا ہے… اب آخر میں … آخری عشرہ کو قیمتی بنانے … اور شب
قدر کو ڈھونڈنے کا ایک مفید، تیر بہدف اور مؤثر ترین نسخہ … اور اگر یہ کہا جائے
تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ نسخہ… روحانیت کا خلاصہ ہے… اﷲ پاک ہم سب کو اس پر… شرعی
حدود میں رہتے ہوئے… عمل کی توفیق عطاء فرمائے…
امام احمد بن علی البونی
نور اﷲ مرقدہ… شمس المعارف میں بیان فرماتے ہیں…
’’الصمت یورث معرفۃ
اﷲ‘‘
خاموشی سے اﷲ پاک کی
معرفت حاصل ہوتی ہے…
’’والعزلۃ تورث
معرفۃ الدنیا‘‘
اور خلوت وتنہائی سے دنیا
کی معرفت ملتی ہے…
’’والجوع یورث معرفۃ
الشیطان‘‘
اور بھوک سے شیطان کی
پہچان ملتی ہے…
’’والسہر یورث معرفۃ
النفس‘‘
اور بیداری سے نفس کی
معرفت حاصل ہوتی ہے…
یہ چار جملے بہت تفصیل
طلب ہیں… جبکہ ہمارے کالم کا دامن تنگ ہے… خلاصہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت کیلئے
زبان پر قابو پایاجائے… دنیا کی حقیقت اس کے دھوکے اور فناء کو سمجھنے کیلئے خلوت
اختیار کی جائے… ورنہ انسان یہاں کے روڑے، پتھر اور مٹی جمع کرتے کرتے ناکام مر
جاتا ہے… بھوک سے شیطان کی سازشوں شرارتوں اور مکاریوں کا علم حاصل ہوتا ہے… اور
راتوں کو ذکر وعبادت کے لئے جاگنے سے اپنے نفس کی پہچان ہوتی ہے… اور اس کی
شرارتوں اور حالتوں کا پتہ چلتا ہے… حتی الامکان … شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس چار
نکاتی نصاب پرعمل کیا جائے تب… دوسرے اعمال میں جان پڑ جائے گی… اور دل میں صفائی…
اور باطن میں نور محسوس ہوگا…
بلا ضرورت بات چیت بند…
بلا ضرورت لوگوں سے اختلاط بند… زیادہ کھانے اور معدہ بھرنے سے پرہیز… اور رات کو
جاگ کر خوب عبادت… اﷲ پاک مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے…
آواز لگ رہی ہے
آخری عشرہ شروع ہوتے ہی…
لیلۃ القدر کی خوشبو آنا شروع ہوجاتی ہے… اﷲ کے مقرب بندے… اس کی تلاش میں رات دن
ایک کردیتے ہیں… جبکہ… خود یہ حسین، البیلی اور دلکش رات یہی آواز لگاتی ہے کہ…
میںلیلۃ القدر ہوں… قدر ومنزلت والی رات… کسی کو کیا معلوم کہ میری کتنی قدر وقیمت
ہے؟… کہاں ہیں میرے قدردان کہ… میں ان کو رب سے ملادوں… زمین سے اٹھا کر… آسمان پر
پہنچادوں… کہاں ہیں میرے قدردان؟ … کہاں ہیں میرے قدردان؟…
امدادی
سامان اور دس نقشے
۸؍اکتوبر
کے زلزلہ کی تباہ کاری، مسلمانوں کی طرف سے بے پناہ جذبہ خدمت کا اظہار -ہر طرف
اجتماعی اموال کے انبار- اس موقع پر القلم اپنا فرض ادا کر رہا ہے وہ ایک طرف خدمت
کی طرف بلاتا ہے اور دوسری طرف اجتماعی اموال میں خیانت سے ڈراتا ہے امانت کی
خوشبو بکھیرنے والی ایک تحریر۔
)یکم شوال ۱۴۲۶ھ بمطابق۴نومبر ۲۰۰۵ء(
امدادی
سامان اور دس نقشے
اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں
کو ’’تقویٰ‘‘ نصیب فرمائے… زلزلہ سے متاثر ہونے والوں کیلئے ہر طرف… ماشاء اﷲ… خوب
فنڈ ہو رہا ہے… اہل دل مسلمان دل کھول کر عطیات وصدقات دے رہے ہیں… اور امدادی
کارکن خوب محنت کرکے… مال اور ضرورت کا سامان مستحقین تک پہنچا رہے ہیں… اﷲ جل
شانہ قبول فرمائے… چار سال پہلے طالبان کے سقوط کے وقت بھی… کم وبیش ایسا ہی منظر
تھا… اور مسلمان ماؤں بہنوں نے… اپنا آخری زیور تک … اﷲ کی راہ میں لٹا کر … اپنا
نام… اونچی فہرست میں شامل کرالیا تھا… یہ سب کچھ مبارک… مگر مال اور سامان اپنے
ساتھ بہت بڑے فتنے اور گناہ بھی لے آتے ہیں… اور کئی بدنصیب (العیاذباﷲ) اس مال کی
وجہ سے ہلاکت اور جہنم کی کھائیوں میں جاگرتے ہیں… مال اس امت کا فتنہ ہے… اور وہ
شخص اس امت کا ولی اور ابدال ہے جو اس فتنے سے بچ جائے … قرآن پاک نے مال کے مسئلے
کو جگہ جگہ کھول کر بیان فرمایا … تاکہ … مسلمانوں کا نظریہ اور عمل مال کے بارے
میں درست ہوجائے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول وعمل کے ذریعے سے
ہمیں اس بارے میں سب کچھ سکھادیا ہے… آئیے ’’اجتماعی مال‘‘ کے بارے میں اپنا راستہ
سیدھا… کامیابی اور جنت کی طرف کرنے کیلئے ماضی کے چند… کامیاب نقشے دیکھتے ہیں…
کامیاب لوگوں کے ساتھ چلنا… اور کامیاب لوگوں کے راستے پر چلنا ہی … کامیابی کی
ضمانت ہے… ان نقشوں کو پڑھنے سے پہلے دل کو دنیا سے آخرت کی طرف موڑنے والا ایک
قصہ حاضر خدمت ہے…
مال کی حقیقت
بنی اسرائیل میں سے ایک
آدمی کا انتقال ہوگیا… اس کے دو بیٹے تھے… ان دونوں کے مابین ایک دیوار کی تقسیم
کے سلسلے میں جھگڑا ہوگیا… جب دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انہوں نے دیوار سے
ایک غیبی آواز سنی کہ تم دونوں جھگڑا مت کرو… کیونکہ میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایک
مدت تک اس دنیا میں بادشاہ اور صاحب مملکت رہا… پھر میرا انتقال ہوگیا اور میرے
بدن کے اجزاء مٹی کے ساتھ گھل مل گئے… پھر اس مٹی سے کمہار نے مجھے گھڑے کی ٹھیکری
بنادیا… پھر ایک لمبی مدت تک ٹھیکری کے ٹکڑوں کی صورت میں رہنے کے بعد میں مٹی اور
ریت کی صورت میں تبدیل ہوگیا… پھر کچھ مدت کے بعد لوگوں نے میرے اجزائے بدن کی اس
مٹی سے اینٹیں بناڈالیں… اور آج تم مجھے اینٹوں کی شکل میں دیکھ رہے ہو، لہٰذا تم
ایسی گندی دنیا پر کیوں جھگڑتے ہو؟ والسلام ۔(جنۃ القناعہ ص۴۹۳)
پہلا نقشہ
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم کا اعلان
ایک صاحب کو صدقات اورعشر
کی وصولی کیلئے بھیجا جاتا ہے… وہ واپس آکر کہتے ہیں… یہ مال اور جانور تو بیت
المال کے لئے ہیں… اور یہ مال مجھے ہدیہ ملاہے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان پر ناراض
ہوتے ہیں… اور شام کو اپنے صحابہ کرام کو جمع کرکے یہ وعظ فرماتے ہیں…
’’صدقات کی وصولی
کیلئے جانے والے کو کیا ہوا؟ ہم اسے صدقات وصول کرنے کیلئے بھیجتے ہیں… وہ واپس
آکر ہمیں کہتا ہے … یہ تو آپ لوگوں کے کام کی وجہ سے ملا ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا
ہے… وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھ کر کیوں نہیں دیکھ لیتا کہ اسے ہدیے ملتے ہیں
یا نہیں؟… اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی جان ہے تم میں
سے جو آدمی بھی صدقات کے مال میں تھوڑی سی بھی خیانت کرے گا اور صدقات کے جانوروں
میں سے کچھ بھی لے لے گا وہ اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے قیامت کے دن لائے گا…
اونٹ، گائے اور بکری جو لیا ہوگا اسے گردن پر اٹھا کر لائے گا اور ہر جانور اپنی
آواز نکال رہا ہوگا… اس کے بعد آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ خوب اوپر
اٹھاکر فرمایا:’’میں نے (تمہیں اﷲ کا پیغام) پہنچادیا ہے۔ ‘‘ (بخاری، حیاۃ الصحابہ ج۳ص۶۲۷)
قیامت کا ہولناک دن… سورج
سوا نیزے پر… اپنے برے اعمال کا بوجھ الگ اور کندھوں پر جانور بھی سوار… یا اﷲ
حفاظت فرما… روایات سے ثابت ہے کہ … زمین کی خیانت کی ہوگی تو ہ بھی کندھوں پر
سوار ہوگی… ہدیہ لینا اور دینا… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب سنت ہے… آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ہدایا قبول فرمائے… ہدیہ کا جبہ پہن کر جمعہ پڑھایا… ہدیے کی
سواری استعمال فرمائی… مگر یہاں… صورتحال مختلف اور مشکوک تھی… اس لیے… اتنی سخت
وعید فرمائی… اے متاثرین کیلئے امداد جمع کرنے والو!… اے اجتماعی اموال کے امینو!…
خوب احتیاط سے عمل کرو… اور زبان حال… اور اپنے عمل سے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
کا دل ٹھنڈا کرنے کیلئے کہو… جی ہاں ہمارے آقا! ہمارے محبوب! بے شک آپ نے اﷲ
تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچادیا… بے شک آپ نے بڑا احسان فرمایا… ہم حاضر ہیں… حاضر
ہیں… عمل کیلئے حاضر ہیں… ان شاء اﷲ ایک پائی کی خیانت نہیں کریں گے… خواہ کتنی ہی
تکلیف اٹھانی پڑے…
دوسرا نقشہ
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی
بے چینی
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو آپ کے
چہر ہ مبارک کا رنگ بدلا ہواتھا… مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ کسی درد کی وجہ سے نہ ہو…
میں نے کہا یارسول اﷲ! آپ کو کیا ہوا؟ آپ کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا: ان سات دینار کی وجہ سے جو کل ہمارے پاس آئے ہیں اور آج شام
ہوگئی ہے اور وہ ابھی تک بستر کے کنارے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ وہ
سات دینار ہمارے پاس آئے اور ہم ابھی تک ان کو خرچ نہیں کرسکے۔ (بزازحیوٰۃ الصحابہ ج۲ص۲۳۹)
امانت میں خیانت بدترین
جرم… اور منافقین کی خاص علامت ہے… اور اس سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ…
اجتماعی مال آتے ہی اسے فوراً خرچ کرلیا جائے… ایسا نہ ہو کہ اچانک موت آجائے اور
وہ مال ضائع ہوجائے… یا ورثاء اسے ذاتی مال سمجھ کر تقسیم کرلیں… تب یہ مال (نعوذباﷲ)
جہنم کا انگارہ بن جائے گا… جو دل تک کو بھون دیتا ہے… اس لیے مال فوراً مستحقین
تک پہنچائیں… اور اگر فوراً نہ پہنچا سکیں تو کچھ معتبر لوگوں کو گواہ بنادیں کہ…
فلاں مال اجتماعی ہے… یا وصیت لکھ کر کسی کے حوالے کریں… جیسا کہ… دیگر احادیث
شریفہ سے معلوم ہوتا ہے…
تیسرا نقشہ
یتیم کے مال جیسا حکم
آپ جانتے ہیں کہ… اﷲ پاک
نے یتیم کے مال کا کیاحکم بیان فرمایا ہے… ارشاد باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے…
’’جو لوگ یتیموں کا
مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جہنم کی آگ میں
ڈالے جائیں گے۔‘‘ (النساء ۱۰)
اب دیکھئے… حضرت عمر رضی
اﷲ عنہ بیت المال کے متعلق کیا فرماتے ہیں…
آپ رضی اﷲ عنہ نے ارشاد
فرمایا: میں اﷲ کے مال کو (یعنی مسلمانوں کے اجتماعی مال کو جو بیت المال میں ہوتا
ہے) اپنے لیے یتیم کے مال کی طرح سمجھتا ہوں۔ اگر مجھے ضرورت نہ ہو تو میں اس کے
استعمال سے بچتا ہوں اور اگر مجھے ضرورت ہو تو ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں
لیتاہوں۔
(ابن سعد، حیاۃ الصحابہ ۔ج۲ص۳۷۷)
امیر المؤمنین کو اختیار
تھا کہ… بیت المال میں سے اپنا وظیفہ اور خرچہ لے سکتے تھے… مگر آپ نے حد درجہ
احتیاط فرمائی… اور اپنے لیے محض اتنا اختیار رکھا… جتنا کسی مالدار یتیم کے فقیر
ولی کو ہوتا ہے کہ… وہ صرف بقدر ضرورت لے سکتا ہے… ان حضرات نے اپنے دل… حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں ایسے پاکیزہ بنالیے تھے کہ سونا، چاندی… اور مال کی
کشش ان کیلئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی تھی… اور پھر احتیاط کا یہ عالم تھا کہ… ایک
بار آپ کے پاس کچھ مال آیا تو آپ کی صاحبزادی… حضرت ام المؤمنین حفصہ رضی اﷲ عنہا
نے آکر عرض کیا… اے امیر المؤمنین! اﷲ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا
حکم دیاہے… اس لیے اس مال میں آپ کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ
نے فرمایا: اے بیٹی! میرے رشتہ داروں کا حق میرے مال پر ہے اور یہ تو مسلمانوں کا
مال غنیمت ہے…
چوتھا نقشہ
حرام مال کے نقصانات
غزوہ خیبر میں مسلمانوں
کو شاندار فتح… اور بہت سا مال غنیمت ملا… اسلامی لشکر… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم
کی قیادت میں… خوشی خوشی واپس آرہا تھا… آج اس لشکر کی جھولی… اجر، ثواب، سعادت…
اور مال غنیمت سے بھری ہوئی تھی… حدیث شریف کے مطابق… جہاد سے واپسی کا سفر بھی…
جہاد میں جانے والے سفر کی طرح مبارک ہوتاہے… لشکر میں ایک غلام بھی تھا… راستے
میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا تو اس غلام کو تیر لگا… جو … اس کی موت کا ذریعہ بن
گیا… صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اسے رشک سے دیکھا… اور عرض کیا… یارسول
اﷲ اس کیلئے شہادت مبارک ہو… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں… قسم اس
ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے مال غنیمت میں سے تقسیم کرنے
والے کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے لے لی تھی آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے… یہ سن کر
لوگ سخت خوفزدہ ہوگئے… اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لیکر حاضر ہوا… اس نے کہا
یہ میں نے خیبر کے دن لیے تھے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا… یہ ایک تسمہ
یا دو تسمے آگ کے ہیں…(بخاری، فضائل جہاد ص۴۸۶)
اجتماعی مال میں خیانت…
ایمان کے منافی ہے… جس شخص کا ایمان سلامت ہو وہ اجتماعی مال میں خیانت کا سوچ بھی
نہیں سکتا… جبکہ… منافق کو جب موقع ملتا ہے تو وہ خیانت کر گزرتا ہے… الغرض … حرام
مال کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ انسان کا نام… ایمان والوں کی فہرست سے نکال کر …
نعوذباﷲ… منافقین کے ساتھ لکھ دیا جاتا ہے…
اس کے علاوہ بھی بے شمار
نقصانات ہیں مثلاً:
)۱( حرام مال سے کیا
ہوا صدقہ خیرات قبول نہیں ہوتے ۔(مسند احمد)
)۲( حرام کھانے، پینے
اور استعمال کرنے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم)
)۳( حرام مال سے خریدا
ہوا کپڑا پہن کر جو نماز پڑھی جاتی ہے وہ قبول نہیں ہوتی۔ (مسند احمد)
)۴( انسان کے جسم کا
جو گوشت حرام مال کھانے سے بنتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہے۔(مسنداحمد)
)۵( لوگوں کے صدقات
وزکوٰۃ میں خیانت کرنے والے شخص کو قبر میں آگ کی ذرہ پہنادی گئی۔(نسائی)
)۶( اجتماعی مال میں
خیانت کرنے والا شخص قیامت کے دن حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مدد کیلئے پکارے
گا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمائیں گے میں کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تم تک اﷲ
تعالیٰ کے احکامات پہنچادیئے تھے۔ (بخاری)
)۷( اجتماعی مال میں
خیانت عار ہے، ذلت ہے اور آگ ہے ۔ (مسنداحمد)
اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں پر رحم
فرمائے اور ہمیں خیانت کے جرم عظیم سے محفوظ فرمائے… اور ہمیں… آقا مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہ فرمائے…
پانچواں نقشہ
اجتماعی مال سے قرض
اٹھانا
امیر المؤمنین سیدنا عمر
رضی اﷲ عنہ زمانہ خلافت میں بھی تجارت کیا کرتے تھے… ایک بار آپ نے تجارتی قافلہ
ملک شام بھیجنے کا ارادہ کیا تو کچھ رقم کی ضرورت پڑی… آپ نے حضرت عبدالرحمن بن
عوف رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے پاس آدمی بھیجا کہ مجھے چار ہزار قرض دے دیں، حضرت عبدالرحمن
رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے قاصد سے کہا… امیر المؤمنین سے کہو کہ وہ بیت المال سے قرض لے
لیں اور بعد میں واپس جمع کرادیں۔ قاصد نے جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو یہ جواب
پہنچایا تو آپ کو بڑی گرانی ہوئی… بعد میں جب آپ کی حضرت عبدالرحمن رضی اﷲتعالیٰ
عنہ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے ان سے فرمایا… تم نے ہی کہا تھا کہ عمر بیت المال سے
چار ہزار قرض لے لے … اگر میں تجارتی قافلہ کی واپسی سے پہلے مرگیا تو تم لوگ کہو
گے کہ امیرالمؤمنین نے چار ہزار لیے تھے اب ان کا انتقال ہوگیا ہے اس لیے یہ چار
ہزار ان کو معاف کردئیے جائیں… (تم لوگ تو چار ہزار چھوڑ دو گے) اور میں ان کے
بدلے قیامت کے دن پکڑا جاؤں گا۔ نہیں میں بیت المال سے بالکل نہیں لوں گا… بلکہ
میں چاہتا ہوں کہ تم جیسے بخیل آدمی سے ادھار لوں تاکہ اگر میں مرجاؤں تو وہ میرے
مال میں سے اپنا ادھار وصول کرے۔ (ابن سعد
حیاۃ الصحابہ ج۲ص۳۷۹)
اس واقعہ میں بہت سے سبق
ہیں…
)۱( حضرات صحابہ کرام
ایک دوسرے سے بے حد محبت رکھتے تھے… اور ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی کا معاملہ
برتتے تھے… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا قرض مانگنا… حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ا ﷲ عنہ
کا نہ دینا… پھر بھی دونوں میں ملاقات اور مذاکرہ کا ہونا… اور حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ کا صاف صاف باتیں سنا کر اپنا دل صاف کرلینا… اپنے حکومتی اختیارات کو قطعاً
استعمال نہ کرنا… اور امیرالمؤمنین ہو کر عام بھائیوں کی طرح معاملہ کرنا… یہ سب
کچھ ان کی باہمی محبت اور اخوت کا نتیجہ تھا… تلخی بھی اپنوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے…
اور انسان ڈانٹ ڈپٹ بھی اپنے محبوبین ہی سے کرسکتا ہے… پھر یہ دنوں حضرات تو عشرہ
مبشرہ میں سے بھی تھے… رضی اﷲ تعالیٰ عنہم
)۲( بظاہر اس میں کچھ
حرج نہیں کہ… بیت المال میں سے قرض اٹھالیا جائے… اور اسے لکھ کر گواہوں کے سپرد
کردیا جائے مگر… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے امت مسلمہ کیلئے ایک مثال چھوڑی کہ… اپنے
تجارتی کاموں کیلئے اجتماعی مال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے… ویسے مشاہدہ بھی
یہی ہے کہ خیانت کا آغاز قرض سے ہوتا ہے… پہلے انسان اجتماعی مال میں سے قرضہ
اٹھاتا ہے… پھر آہستہ آہستہ اس کے دل سے اس مال کا خوف کم ہونے لگتا ہے… پھر قرضے
معاف کراتا ہے… اور پھر (نعوذباﷲ) ہاتھ آگے بڑھنے لگتے ہیں… اور وہ خود کو اس مال
کا حقدار سمجھ کر … خیانت کرنے لگتا ہے… اس لیے … پہلا دروازہ … یعنی قرض کا سلسلہ
ہی بند کردیا جائے… تب … تقویٰ مضبوط رہے گا… اور ان شاء اﷲ خیانت سے حفاظت رہے گی…
)۳( رزق حلال کی طلب…
کوئی برا کام یا گناہ نہیں ہے… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا خلافت کے زمانے میں تجارت
کرنا اس کی بہت بڑی دلیل ہے… بلکہ… دین کا کام کرنے والے حضرات کے پاس اگر اپنا
ذاتی مال ہو… اور ان کی ذاتی تجارت ہو تو… بیت المال پر ان کا بوجھ نہیں پڑے گا…
اور وہ فکر معاش سے بے فکر ہو کر کام کرسکیں گے… اور ان کی طبیعت خیانت کی طرف بھی
مائل نہیں ہوگی… مگر وہ حضرات جن کے کلی اوقات کی… دینی کاموں کو ضرورت ہوتی ہے وہ
تجارت وغیرہ میں نہ الجھیں تو بہتر ہے… اور اگر تجارت کریں بھی تو ایسا کام اختیار
کریں جس میں زیادہ مشغولیت نہ ہو…
)۴( قرض کی دو قسمیں
ہیں… ایک یہ کہ تجارت وغیرہ کیلئے قرض لیا جائے… اس کے بارے میں تو ہم نے حضرت عمر
رضی اﷲ عنہ کا عمل پڑھ لیا… اور یہی ہمارے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہے… جبکہ قرض
کی دوسری قسم یہ ہے کہ انتہائی ضروری… ذاتی ضروریات کیلئے قرض لیا جائے… اور پھر اسے
جلد لوٹاد یا جائے… تو وہ حضرات جن کی زندگیاں دین اور جہاد کیلئے وقف ہیں وہ بیت
المال سے اس طرح کا قرض لے سکتے ہیں… مگر شرط یہ ہے کہ … خفیہ نہ لیں… اس قرض پر
گواہ بنائیں… اسے لکھ کر رکھیں… اور اپنے عہدے یا منصب کا رعب ڈال کر… اس کی واپسی
میں خلل نہ ڈالیں… چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ضرورت پیش آتی تو
بیت المال کے نگران کے پاس آتے اور اس سے ادھار لے لیتے، بعض دفعہ آپ تنگ دست ہوتے
تو بیت المال کا نگران آکر ان سے قرض ادا کرنے کا تقاضا کرتا اور ان کے پیچھے پڑ
جاتا ، آخر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ قرض کی ادائیگی کی کہیں سے کوئی صورت بناتے… بعض
دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ کو وظیفہ ملتا تو اس سے قرض ادا کرتے… اس واقعہ پر بہت غور
کرنے کی ضرورت ہے… تقریباً آدھی دنیا کا حکمران… اور تنگ دست… کپڑوں پر پیوند…
ذاتی ضروریات کیلئے قرضہ لینے کی حاجت، بیت المال کے نگران کا پیچھے پڑنا… آپ کا
بالکل ناراض نہ ہونا… اور قرضہ واپس کرنے کی صورت بنانا… کیا ہمارا بھی اجتماعی
مال کے بارے میں یہی رویّہ ہے؟…کیا ہم بھی اس بارے میں اتنے محتاط، اتنے متواضع
اور اتنے عاجزی پسند ہیں؟… کیا ہم سے بھی چھوٹے ذمہ دار اسی طرح حساب اور بازپرس
کرسکتے ہیں؟… کیا ہم بھی اتنی خندہ پیشانی سے اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرتے
ہیں؟… جماعتوں، تنظیموں، ٹرسٹوں، مدارس اور دینی اداروں کے ذمہ داروں کیلئے… یہی
بہترین نمونہ …اور یہی کامیابی کی ضمانت ہے… جو اس میں جتنی سبقت کرے گا… اﷲ
تعالیٰ کے ہاں… ان شاء اﷲ… اتناہی اونچا مقام پائے گا…
چھٹا نقشہ
روزی مل کر رہتی ہے
عماد الدولہؒ… ایک معروف
مسلمان بادشاہ گزرے ہیں… وہ ایک غریب آدمی کے بیٹے تھے جو مچھلی کا شکار کرکے اپنے
کنبے کو پالا کرتا تھا… اس غریب آدمی کے تین بیٹے تھے… اور یہ تینوں بادشاہ… اور
حکمران بنے… اور ان میں سے عماد الدولہ کو اعلیٰ سیاسی سوجھ بوجھ کی و جہ سے زیادہ مقبولیت ملی… عماد الدولہ کے
واقعات میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے ’’شیراز‘‘ پر قبضہ کیا تو ان کے پاس مال ودولت
نہیں تھا… ان کے لشکری اور ساتھی جمع ہو کر… مال کا تقاضا کرنے لگے… اور یہ تقاضا…
بغاوت کا روپ اختیار کرنے لگا… عمادالدولہ… غم اور پریشانی کے عالم میں غرق… ایک
کمرے میں لیٹے ہوئے تھے… انہوں نے دیکھا کہ چھت کی ایک طرف سے … ایک سانپ نکلا…
اور دوڑتا ہوا دوسری طرف کے ایک سوراخ میں غائب ہوگیا… عماد الدولہ کو خطرہ ہوا
کہ… یہ سانپ کہیں ان پر نہ گرجائے… اور نقصان نہ پہنچائے… انہوں نے خدام کو بلایا…
سیڑھی منگوائی… اور سانپ کو تلاش کرنے لگے… تب پتا چلا کہ… دو چھتوں کے درمیان ایک
خفیہ کمرہ بنا ہو ا ہے… اس کمرے کی تلاشی لی گئی تو… سونے کے پانچ لاکھ دینار کا
خزانہ… اس میں چھپایا گیا تھا… ایک زہریلے خطرناک سانپ سے بچنے کی کوشش… اور اس
میں اتنی بڑی روزی کا ہاتھ آنا… عمادالدولہ نے یہ رقم اپنے لشکر اور ساتھیوں میں
تقسیم کی… چنانچہ بغاوت ٹھنڈی ہوگئی… اور حکومت ایسی جمی کہ عراق اور فارس کے اکثر
علاقوں تک فتوحات کا سلسلہ پھیل گیا… کتابوں میں لکھا ہے کہ پانچ لاکھ دینار کا
خزانہ ملنے کے بعد… جب اسے بغاوت وغیرہ سے اطمینان ہوا تو اس نے سوچا کہ کچھ کپڑے
وغیرہ سلوالیے جائیں… اس نے لوگوں سے پوچھا کہ… سابق حکمران کا درزی کون تھا؟…
لوگوں نے نام پتا بتادیا… اس نے اپنے کچھ سپاہی اسے لانے کیلئے بھیجے کہ آکر ناپ
لے جائے… وہ درزی سابق حکمران کا رازدان تھا… اور سابق حکمران نے اس کے پاس اپنا
خزانہ چھپایا ہوا تھا… سپاہی جب اس درزی کے پاس پہنچے اور اسے بتایا کہ نئے حکمران
عمادالدولہ نے اسے بلایا ہے تو وہ سمجھا کہ میرا راز فاش ہوگیاہے… اور اب میری خیر
نہیں… وہ ڈرتے، کانپتے عمادالدولہ کے پاس آیا اور آتے ہی گڑگڑاکر کہنے لگا… کہ …
اﷲ کی قسم میرے پاس صرف بارہ صندوق ہیں… اور آپ یقین کریں… مجھے معلوم نہیں ہے کہ
… ان میں کیا ہے؟… عماد الدولہ نے وہ صندوق اٹھوائے تو ان میں بھی خزانہ… اور
قیمتی سامان نکلا… (حیاۃ الحیوان ج۱ص۳۹۷)
روزی ملنے کے ان دو عجیب
واقعات کے بعد آئیے … چند مبارک روایات پڑھتے ہیں… تب … بات ان شاء اﷲ دل میں اتر
جائے گی…
)۱( حضرت ابو سعید
خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ… رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی
روزی سے بھاگے تو وہ روزی اسے اسی طرح پالے گی جس طرح موت انسان کو پالیتی ہے
۔ (ابن ابی الدنیا۔ جنۃ القناعہ ص۴۶۲)
یعنی اﷲ جل شانہ نے ازل
سے انسان کیلئے جو رزق… لکھ دیا ہے… انسان لاکھ چاہے اس سے نہیں بھاگ سکتا… بلکہ…
قسمت کی روزی اسی طرح اٹل اور یقینی ہے … جس طرح … موت اٹل اور یقینی ہے…
)۲( حضرت ابودرداء رضی
اﷲ عنہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ رزق آدمی کو موت
سے زیادہ تلاش کرتا ہے۔ (کنزالعمال)
یعنی روزی… موت سے بھی
زیادہ تیزی… اور مضبوطی کے ساتھ انسان کو ڈھونڈ لیتی ہے… اور اس تک پہنچ جاتی ہے…
)۳( اسی طرح حضرت عمر
رضی اﷲ عنہ کا فرمان ہے کہ آدمی اگر اپنے رزق سے بھاگے تو رزق اس کا پیچھا کرتاہے
اور اسے اسی طرح پالیتا ہے جس طرح موت سے بھاگنے والے کو موت پالیتی ہے پس اے
لوگو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور حلال طریقہ سے رزق حاصل کرو…(بیہقی وکنزالعمال)
عجیب بات ہے کہ … روزی
انسان کو ڈھونڈ رہی ہے … اور انسان اس کی خاطر… جہنم میں چھلانگیں لگا رہا ہے… اﷲ
پاک ہمیں… یقین عطا فرمائے… تب … کوئی شخص بھی حرام اور مشتبہ مال میں ہاتھ نہیں
ڈالے گا… پس اے مسلمان بھائیو!… اور بہنو… ہم سب خود کو حرام سے بچائیں… اور اپنی
قسمت کی روزی… صرف اور صرف حلال ذرائع سے حاصل کریں… اور خصوصی طور پر… اجتماعی
اموال… چندے کی اموال… اور اموال غنیمت میں بہت زیادہ احتیاط کریں… اور جب بھی
ہمیں کوئی روزی ملے تو… اسے لینے، کھانے… اور استعمال کرنے سے پہلے… ضرور دیکھ لیں
کہ… وہ ہمارے لیے حلال ہے یا نہیں؟… اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو قیامت کے دن سخت
مشکل پیش آسکتی ہے… جیسا کہ اگلے نقشے میں آرہاہے…
ساتواں نقشہ
برا وقت
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ
آئے گا کہ آدمی کو اس کی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ جو کچھ لے رہا ہے وہ حلال ہے یا
حرام؟ (بخاری)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
کتنے درد سے… اس برے وقت کا نقشہ کھینچا ہے… جب لوگ جہنمی مزاج ہوجائیں گے… اور اس
بات کی تحقیق نہیں کریں گے کہ… ان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ جائز بھی ہے یا نہیں؟…
بس ملنا چاہئے … جہاں سے بھی ملے… جیسا بھی ملے… حالانکہ ایک مسلمان… مومن کو تو
اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ… اس کی روزی میں… حرام شامل نہ ہو… اس لیے کہ قیامت کے
دن… ہر شخص سے یہ پوچھا جائے گا کہ… مال کہاں سے کمایا تھا؟ … اور کہاں خرچ کیا
تھا؟… اور جب تک ان سوالوں کا درست جواب نہیں دے لے گا… اس کے قدم وہاں سے نہیں
ہٹیں گے… اس لیے اس معاملے میں نہ شرم جائز ہے… اور نہ مروّت… حضرات صحابہ کرام
رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس جب بھی کوئی مال آتا تھا تو… اس کی تحقیق
فرماتے تھے… اور اگر کسی پر اعتماد کرکے بغیر تحقیق استعمال فرمالیتے… تو بعد میں
ضرور معلوم کرلیتے کہ یہ چیز کیسی تھی؟… حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ … اور حضرت
عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے مشہور واقعات ہیں کہ … آپ نے ہدیہ میں ملنے والا دودھ
پی لیا… بعد میں… تحقیق کرنے پرمشکوک معلوم ہوا تو … گلے میں انگلی ڈال کر … قے
کرلی… اور سارا دودھ باہر نکال دیا… اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی… ایسی ہی سوچ، فکر… اور
احتیاط نصیب فرمائے… اﷲ تعالیٰ رزاق ہے… وہ ماں کے پیٹ میں بھی ہمیں روزی پہنچاتا
رہا… اور پھر ہروقت ہماری روزی کا بندوبست کرتا ہے… اب ہمیں حرام اور غلط مال
استعمال کرنے سے پہلے… اس عظیم رزاق سے شرم کرنی چاہئے… جو … دن رات ہمیں روزی
عطاء فرماتا ہے… اور قیامت کے دن ہم نے اس کے حضور پیش ہونا ہے…
آٹھواں نقشہ
روزی کی ضرورت
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کا فرمان ہے:
لوگوں پر ایک ایسا وقت
آئے گا جب دینار ودرہم ہی کام آئیں گے۔
(مسنداحمد)
دینار سونے کا سکہ اور
درہم چاندی کا سکہ ہوتا تھا… حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب
روپے پیسے کے بغیر کام نہیں چلے گا… تو … اس زمانے میں روپیہ پیسہ کمانے کی محنت
کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے… دراصل حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کیلئے
جو معاشی نظام… نافذ فرمایا… اس میں روپے پیسے کمائے بغیر بھی زندگی بسر ہوسکتی
تھی… یعنی یہ ضروری نہیں تھا کہ ہر شخص ہی پیسہ کمانے میں لگ جائے… مسلمانوں کے
لئے بیت المال موجود ہوتاتھا… جہاد کی کثرت تھی ہر طرف سے غنائم آتے تھے… اور
غلاموں اور ذمیوں کی بہتات تھی جو مسلمانوں کو جذیہ دیتے تھے اور ان کی زمینوں میں
کام کرتے تھے… مگر بعد میں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق زمانہ بدل
گیا… اور اب اس بات کی ضرورت رہتی ہے کہ… ہر شخص کیلئے خود کمانے اور روزی حاصل
کرنے کا کوئی ذریعہ ہو… چنانچہ اس حدیث شریف کے راوی حضرت مقداد بن معدی کرب رضی
اﷲ عنہ نے بھی دودھ دینے والے جانور پال رکھے تھے اور آپ ان کا دودھ فروخت کرتے
تھے۔ بعض لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انہوں نے یہ حدیث شریف سنادی… جب اس
زمانے میں یہ حال تھا تو اب کیا صورتحال ہوگی؟… خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے…
مقصد… اور خلاصہ اس پوری
بات کا یہ ہے کہ… مال کی مذمت اور اس میں احتیاط کا پڑھ کر بہت سے لوگ… سارے کام
کاج چھوڑنے پر آجاتے ہیں… اور پھر لوگوں کے محتاج ہوجاتے ہیں… اس لیے حرام مال سے
احتیاط کی جائے… مگر… ضرورت ہو تو حلال مال کمانے کی صورت بھی اختیار کی جائے…
البتہ اگر کسی کو توکل کااعلیٰ درجہ نصیب ہو تو… اس کی الگ بات ہے… ایسے لوگوں کو
تو اﷲ پاک اپنے کام میں لگائے رکھتا ہے اور ان کیلئے غیب سے روزی کا بندوبست
فرماتا ہے… ایسے لوگوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ … وہ … روزی کے سلسلے میں
مخلوق سے نہ تو سوال کرتے ہیں… اور نہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے روزی کی طمع اور
امید رکھتے ہیں…
باقی جو لوگ… حلال روزی
کیلئے… حلال طریقے سے … دنیا کی محبت کے بغیر… محنت کرتے ہیں… ان کیلئے درج ذیل
روایت میں بڑی بشارت ہے…
’’حضرت ابوہریرہ رضی
اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ … بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور عمرہ ان
کیلئے کفارہ نہیں بنتے… ان گناہوں کا کفارہ روزی طلب کرنے کی فکر بنتی ہے‘‘… (کنز
العمال)
یعنی بعض گناہ… نماز،
روزہ، حج وغیرہ سے بھی معاف نہیں ہوتے… ان گناہوں کو … وہ پریشانی معاف کراتی ہے…
جس کی تکلیف بندہ مومن… حلال روزی کمانے کیلئے… برداشت کرتا ہے…
نواں نقشہ
وصیت
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کا فرمان ہے:
’’کسی ایسے مسلمان
شخص کیلئے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی چیز ہو درست نہیں کہ وہ دو راتیں گزار دے،
مگر اس حال میں کہ اس کا لکھا ہوا وصیت نامہ اسکے پاس ہو۔ ‘‘ (بخاری)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کا فرمان ہے:
’’جس نے وصیت کی
حالت میں انتقال کیا تو اس کی موت ٹھیک راستہ پر اور سنت پر ہوئی اور وہ تقویٰ اور
شہادت پر مرا… اور اسے بخش دیا گیا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
ان دو احادیث… اور دیگر
احادیث وروایات سے تاکید معلوم ہوگئی کہ … وہ حضرات وخواتین … جن کے پاس اجتماعی
اموال… یا لوگوں کے اموال وغیرہ ہوتے ہیں وہ بالکل دیر نہ کریں… موت کسی بھی لمحے
آسکتی ہے… فوراً وصیت نامہ لکھ کر… بااعتبار لوگوں کے حوالے کریں… ایسا نہ ہو کہ
اچانک آنکھ بند ہوجائے… پیچھے ورثاء بھی حرام کھائیں… اور خود اپنی گردن بھی… مرتے
ہی… نعوذباﷲ پکڑی جائے…
دسواں نقشہ
دو راستے
محتاج لوگوں کیلئے … مال
جمع کرنا… جہاد کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا… متاثرین کیلئے امداد جمع کرنا… بیت المال
بنانا… اور چلانا… یہ سب عظیم الشان نیکیاں… اور باقی رہنے والے کام اور صدقات
ہیں… اﷲ تعالیٰ کے ہاں ان کی بہت بڑی قیمت ہے… اور یہ وہ نیکیاں ہیں… جو … مرنے کے
بعد اصل کام آئیں گی… احادیث سے ثابت ہے کہ… جس طرح … خرچ کرنے والوں کو اجر ملتا
ہے… اسی طرح جمع کرنے، سنبھالنے، حساب رکھنے…اور پہنچانے والوں کو بھی پورا پورا
اجر ملتا ہے… دیکھیں کتنی بڑی سعادت ہے… ہم کروڑوں روپے نہیں دے سکتے… مگر … جمع
کرکے امانت کے ساتھ پہنچانے پر ہمیں… ہمارا پیارا رب… کروڑوں روپے کا اجر عطاء
فرمادیتا ہے… اس لیے وعیدیں پڑھ کر… ہمت نہ ہاریں… بلکہ… اور زیادہ محنت اور
احتیاط سے کام کریں… ایک شخص کسی سیٹھ کے ہاں ملازمت کرتا ہے… وہ سیٹھ اسے اس بات
کی تنخواہ دیتا ہے کہ وہ … اس کے مال کا حساب رکھے اور اسے سنبھالے… اب یہ شخص …
دس بیس ہزار کی تنخواہ کیلئے… ایک ایک پائی گنتا ہے… بار بار حساب کرتا ہے… اور
روزانہ کھاتہ برابر جوڑتا ہے… وہ اس کام سے نہیں اکتاتا… کیونکہ… اسے اسکی تنخواہ
ملتی ہے… میرے عزیز بھائیو… اور بہنو… اﷲ پاک تو ہمیں … صرف دنیا کی تنخواہ نہیں…
بلکہ سب کچھ دیتا ہے… اجر، ثواب، روزی، عزت، شہادت… اور جنت… اور سب سے بڑھ کر …
اسی کی خوشی، پیار اور رضاء… تو پھر ہم کیوں اکتائیں… اور کیوں حساب سے پریشان
ہوں… ایک مسلمان بہن… روتے روتے اپنے ہاتھوں سے سونے کی آخری انگوٹھی اتار کر … اﷲ
پاک کے راستے میںدے رہی ہے… وہ دعاء کر رہی ہے کہ … یا اﷲ مجھ غریب کے پاس بس یہی
مال باقی تھا… اے پیارے ربّا! مجھ غریب سے قبول فرمالے… ادھر اس کے آنسو گرتے ہیں…
اور ادھر شیطان چیخیں مارکر … اپنے سر میں خاک ڈالتا ہے… ہماری بہن کا ہاتھ خالی
ہوگیا… اس نے اپنے گمان میں مجاہدین… یا زلزلہ کے متاثرین تک مال پہنچادیا… کیا اے
مسلمان بھائی… اپنی اس مقدس بہن کا یہ صدقہ… صحیح مصرف تک پہنچانا… آپ کی ذمہ داری
نہیں ہے؟…
رسوائی سے
حفاظت کے چند مفید نسخے
ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا
نے
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دی
اور آپ کی
ان صفات کو بیان فرمایا جن کے ہوتے
ہوئے ذلت اور رسوائی
انسان کے قریب نہیں آسکتی خدمت خلق کے
جذبہ سے سرشار
الرحمت ٹرسٹ کے کارکنوں کو القلم کی
طرف سے خراج تحسین اور تسلی
)۸ شوال ۱۴۲۶ھ بمطابق۱۱نومبر ۲۰۰۵ء(
رسوائی سے
حفاظت
چند مفید
نسخے
اللہ کی قسم… اللہ آپ کو
کبھی رسوا نہیں کرے گا آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں… ہمیشہ آپ سچ بولتے ہیں لوگوں کے
بوجھ کو اٹھاتے ہیں… یعنی دوسروں کے قرضے اپنے سر رکھتے ہیں اور ناداروں( غریبوں
مسکینوں) کی دیکھ بھال فرماتے ہیں۔ آپ امین ہیں لوگوں کی امانتیں رکھتے ہیں…
مہانوں کی ضیافت کا حق ادا کرتے ہیں… حق بجانب امور میں آپ ہمیشہ امین اور مددگار
رہتے ہیں…( سیرۃ المصطفیٰ جلد اول)
ہاں اللہ رب العزت کی
قسم… اللہ پاک آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا…
پیارے بھائیو… اور بہنو! یہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وہ
یقینی، اور میٹھی باتیں ہیں… جو … انہوں نے اپنے محبوب آقا، اور خاوند… حضرت محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسوقت فرمائیں تھیں …جب… روئے زمین پر ابھی تک
کسی نے اسلام قبول نہیں کیا تھا… آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت و رسالت
کا عظیم بوجھ اور عظیم الشان منصب اٹھا کر گھر آئے تھے… راستے میں ہر درخت اور
پتھر نے… آپ کو سلام کیا تھا… السلام علیک یا رسول اللہ… آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے گھر آتے ہی… حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو… سب کچھ بتا دیا… اور فرمایا…
مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہے… اس وقت ایک عورت نے پھر سعادت کا میدان جیت لیا… جی
ہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے … فوراً فرمایا…آپ کو بشارت ہو آپ ہر گز نہ
ڈریئے… مبارک ہو اور آپ کو بشارت ہو… اللہ کی قسم… اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ سوائے
خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں کرے گا… میں پھر کہتی ہوں…کہ آپ کو بشارت ہو آپ یقینا
اللہ کے ر سول برحق ہیں…
حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا… عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لے آئیں… انہوں نے… آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا اس تنہائی کے عالم میں خوب خوب ساتھ دیا… اور رفیقہ ٔحیات… رفیقۂ
میدان عمل بھی بن گئیں… حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے… کتنا بڑا کام کیا؟… کتنی بڑی
سعادت اٹھائی؟ … کتنا اونچا اور پائیدار اجر پایا… یہ باتیں پھر کسی مجلس میں …ان
شاء اللہ… آج ہمارا موضوع کچھ اور ہے… دیکھیں… جس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو رسالت سے نوازا گیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس برس کی عمر کو پہنچ چکے
تھے… مکہ مکرمہ کا ماحول کفر، شرک، ظلم اور گناہ سے بھرپور تھا… ہر طرف بے حیائی
کے سانپ دندناتے پھرتے تھے… گلی گلی شراب و زنا کا دور دورہ تھا… طاقتور لوگ’’
ظالم‘‘ تھے… اور کمزوروں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا…ہرشخض کو بس پیٹ،شرم
گاہ اور ناک کی فکر تھی… اور انسانیت انہیں تین گڑھوں میں گھٹ گھٹ کر مر رہی تھی…
ہائے مال ہائے مال… ادھر عورت ادھر عورت … بس میں اور میں… میں ایسا میں ویسا…
میرا یہ حق، میرا یہ نام…ہر کسی کو اپنی فکر تھی… الغرض معاشرہ پر گناہ کا ہر ساز
بج رہا تھا… ہر طرف بے حیائی کی موسیقی تھی… ظلم ناچ رہا تھا… اس ماحول میں اللہ
تعالیٰ نے پیارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح سے بچایا کہ … عقل دنگ رہ
جاتی ہے کہ ذرہ برابر… کسی گناہ اور ظلم کا سایہ بھی آپ پر نہ پڑا… اور آپ کی
طبیعت مبارکہ کا خمیر… رحمت، شفقت، ایثار، قربانی… اور خدمت… وغیرہ جیسی اعلیٰ
صفات پر اٹھایا گیا… آیئے… حضرت امام بخاریؒ کے ساتھ … مزے لے لے کر… اس حدیث شریف
کو دوبارہ پڑھتے ہیں… جو … ہم نے شروع میں پڑھی ہے۔ ایسی حدیث جس میں ہمارے آقا
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک شان اور صفات کا ذکر ہو… ایک بار پڑھنے سے کہاں
دل بھرتا ہے؟… محبوب کی باتیں… محبوب ہوتی ہیں… دل چاہتا ہے بار بار سنے… زبان
چاہتی ہے بار بار بتائے … قلم چاہتا ہے بار بار لکھے… پھر اس زمانے میں تو … ان
مبارک’’صفات‘‘ کا تذکرہ کرنے کی بار بار ضرورت ہے کیونکہ… حضور پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی امت درد سے تڑپ رہی ہے۔ ایک نظر آزاد کشمیر… اور صوبہ سرحد کے متاثرہ
اضلاع پر ڈالیں… آج حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ظلم سے کراہ رہی ہے…
ایک نظر فلسطین، افغانستان، مقبوضہ کشمیر… اور عراق پر ڈالیں…آج حضور پاک صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی امت بوجھ تلے سسک رہی ہے… ایک نظر برما، فلپائن ، تھائی لینڈ،
سنکیانک، ہندوستان، بوسنیا… اور اب پاکستان پر بھی ڈالیں… آج حضور پاک صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی امت گناہوں کی یلغار کے سامنے تنکے کی طرح لرز رہی ہے… ایک نظر
اپنے ماحول اور معاشرے پر ڈالیں… آیئے صحیح بخاری شریف کی اس مفصل روایت کے کچھ
حصہ کا خلاصہ پڑھتے ہیں…
’’حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے سلسلے کا آغاز
اچھے خوابوں سے ہوا… آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی
کی طرح ظاہر ہو جاتا… پھر خلوت اور تنہائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے
محبوب بنا دی گئی… آپ غار حراء میں خلوت فرماتے تھے… اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ
السلام کے آنے اور آپ پر پہلی وحی نازل ہونے کے احوال ہیں… تیسری بار جب آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ( اپنے ساتھ) بھینچا… اور
آیات پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے… کانپتے دل کے ساتھ ان آیات کو
دہرایا… پھر آپ حضرت خدیجہ بنت خویلہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے…
فقال زملّونی زملّونی…
اور ارشاد فرمایا مجھے کمبل اوڑھائو، مجھے کمبل اوڑھائو… انہوں نے کمبل اوڑھا دیا…
حتیٰ ذھب عنہ الروع فقال لخدیجۃ و أَخَبَرھَا الخَبر لقد خشیتُ علی نفسی… جب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کو
پورا واقعہ سنا کر فرمایا مجھے اپنی جان کا خوف ہے… فقالت خدیجۃ کلّا…حضرت خدیجہ
نے فرمایا… ہر گز نہیں… واللہ مایخزیک اﷲ ابدًا… اللہ کی قسم… اللہ تعالیٰ آپ کو
کبھی بھی رسوا نہیں فرمائے گا…انک لتصل الرحم… آپ تو صلہ رحمی( اہل خاندان پر
احسان)فرماتے ہیں… و تحمل الکل… اور بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں…وتکسبُ المعدوم…
اور غریبوں کے لئے کماتے ہیں… و تقری الضیف… اور مہمان نوازی کرتے ہیں… و تعین علی
نوائب الحق… اور مصائب میں مدد کرتے ہیں۔ ( صحیح بخاری ج۔ا ص۳)
اس روایت میں پہلی بات
تویہ ہے کہ … آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خوف اور ڈر… نعوذ باللہ بزدلی کی وجہ
سے نہیں تھا… ہمارے حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے… یا تو یہ
طبعی خوف تھا جو اچانک یہ سب کچھ دیکھنے سے پیدا ہوا اور ختم ہو گیا… حضرت جبرائیل
علیہ السلام کی قوت کا اندازہ لگانا مشکل ہے… وہ اچانک آئے… اور انہوں نے تین بار
بھینچا اور دبایا… یا یہ خوف نہیں… منصب نبوت کا رعب تھا… یا… ذمہ داری کا بوجھ
تھا… جو خوف اور سردی کی صورت میں طاری ہوا… قیامت تک کے انسانوں کی ہدایت کے لئے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری اور سب سے مقرب رسول منتخب کیا گیا تھا…اور
یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جان کا خوف ہے…اس کا مطلب
بھی یہی تھا کہ …ذمہ داری اتنی بڑی ہے کہ … جان
نکلنے کا خوف ہے… یہ موت کا ڈر نہیں تھا… بلکہ … ذمہ داری اور منصب کی عظمت
کا بیان تھا۔
دوسر ی بات یہ ہے کہ …
حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنی تکلیف اور محنت کے ساتھ وحی کا بوجھ
اٹھایا… اور اسے امت کے لئے آسان فرمایا… مگر … آج امت مسلمہ نے قران پاک سے منہ
موڑا ہوا ہے… ہر طرف جدید تعلیم جدید تعلیم کا شور ہے… جبکہ … انسانوں کی کامیابی…
اور نجات ’’وحی الٰہی‘‘ میں ہے… کاش حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے
عاشق… آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تکلیفوں کا اندازہ لگائیں… جو آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے… اللہ تعالیٰ کی وحی اٹھانے، سنبھالنے… اور ہم تک پہنچانے کے
لئے برداشت فرمائی ہیں… اور پھر قرآن پاک کو خودبھی پڑھیں… سیکھیں، سمجھیں… اور اس
پر عمل کریں… اور اپنی اولاد کو بھی…اللہ پاک کی عظیم وحی کا حافظ و عالم و عامل
بنائیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ …حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا نے … پورے عزم، جزم اور یقین کے ساتھ فرمایا کہ … اللہ پاک آپ
کو رسوا نہیں فرمائے گا… کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ پانچ صفات
موجود ہیں:
)۱(صلہ رحمی… اپنے
عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک۔
)۲(تحمل الکل… کل
کہتے ہیں بوجھ کو… یعنی آپ لوگوں کا بوجھ خود اٹھا کر انہیں ہلکا پھلکا فرما دیتے
ہیں۔ ضعیفوں، محتاجوں، بے کسوں کی مدد کرنا… یتیموں کی کفالت کرنا… بے سہارا لوگوں
کی معاونت کرنا… یہ سب تحمل الکل میں شامل ہے۔
)۳(وتکسب المعدوم… یہ
بہت وسیع جملہ ہے… اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ …آپ محنت کر کے مال کماتے ہیں… اور
پھر وہ مال ناداروں اور غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں… یعنی آپ صرف اس لئے مال کمانے
کی تکلیف اٹھاتے ہیں تاکہ وہ مال بے سہارا، اور محتاج و مستحق لوگوں میں تقسیم کر
سکیں… اس جملے کے اور بھی کئی معنیٰ… حضرات محدثین نے لکھے ہیں:
)۴( وتقری الضیف… آپ
مہمان نوازی کرتے ہیں… ظاہر ہے اس پر مستقل ڈٹے رہنا آسان کام نہیں ہے۔
)۵( و تعین علی نوائب
الحق… نوائب جمع نائب… اس کے معنیٰ ہیں حادثہ… مصیبت… یعنی آپ ایسے مصیبت زدہ
افراد کی مدد کرتے ہیں جو مدد کے حقدار ہوں…یا حق کی وجہ سے مصیبت زدہ ہوں۔
بعض روایات میں… حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک چھٹی صفت بھی بیان فرمائی کہ …آپ بے حیا عورتوں کے پاس
نہیں جاتے… یعنی عفیف اور پاکدامن ہیں۔
پس جو شخص… اللہ تعالیٰ
کی طرف سے ان اونچی صفات پر قائم ہو… وہ… رسوا نہیں کیا جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو… رسالت و نبوت سے سرفراز فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنی امت میں بھی… ان صفات عظیمہ کا بیج بو دیا… آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے رشتہ داروں کے وہ حقوق بیان فرمائے کہ… کوئی بھی مسلمان ان پر ظلم کرنے کا
تصور تک نہیں کر سکتا… اور آپ نے ہر مسلمان کو… خدمت، سخاوت، اور ایثار و مہمان
نوازی کا پیکر بنا دیا… بے شک… آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محنت رنگ لائی… آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے آپ والی صفات کو … اپنا لیا… اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو… اختیار کر لیا… آج دنیا انکی مثال لانے سے قاصر ہے…
اللہ پاک نے ان کو پیار کی نظر سے دیکھا اور ان سے راضی ہو گیا… مگر یہ سلسلہ رکا
نہیں… اسلام… ایک سدابہار دین ہے… قیامت تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
دیوانے عاشق… آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو اپناتے رہیں گے… آج بھی ایسے
لوگ موجود ہیں… جو اپنے تمام رشتہ داروں کے … شرعی حقوق جانتے ہیں… اور پھر شرعی
حدود میں رہتے ہوئے انہیں ادا کرتے ہیں… آج بھی… لوگوں کے بوجھ اپنے کندھوں پر
اٹھانے والے ایسے افراد زندہ ہیں… جو سایہ دار درخت کی طرح خود تو دھوپ اٹھاتے ہیں
… جبکہ … دوسروں تک ٹھنڈا سایہ پہنچاتے ہیں… جی ہاں… آج بھی وہ خوش نصیب زندہ ہیں…
جو … کمزوروں، یتیموں… اور عیالداروں کے لئے مال کماتے ہیں… خود سادہ کھاتے ہیں…
موٹا پہنتے ہیں… اور اپنے مال سے دوسروں کو خوب نفع پہنچاتے ہیں… جی ہاں… آج بھی مہمانوں
کی خاطر… بھوکے پیٹ سونے والے… اور دل کی چاہت کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کرنے والے
زندہ ہیں… اور حادثات میں لوگوں کی… آخری حد تک مدد کرنے والے… موجود ہیں… اسی لئے
تو امت میں… دین باقی ہے… اسی لئے تو امت کی شان آج بھی … مسلّم ہے… اللہ پاک نے
انہیں لوگوں کی وجہ سے ابھی تک امت مسلمہ کو اجتماعی رسوائی سے بچایا ہوا ہے۔
الرحمت ٹرسٹ کے… ذمہ
دارو! اور کارکنو!… اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے… اور آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے…
آپ لوگ خوش نصیب ہیں… اللہ پاک نے آپ کو اپنے کاموں کے لئے ایسا چن لیا کہ … اب …
فرصت کانام و نشان تک نہیں ہے… ہاں فرصت کس بات کی؟… اللہ پاک کے کاموں سے فرصت؟…
قربانی ا ور عبادت سے فرصت؟… ہماری دعا ہے ایسی فرصت ہمارے دشمنوں کو ملے… ہمیں تو
اپنے مالک کی نوکری چاہئے… اپنے مالک کی بندگی چاہئے… ابھی ایک کام سے سرنہ اٹھا
ہو کہ دوسرا کام مل جائے… اور قبول بھی ہو جائے… اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو
گی؟… یا اللہ! فخرسے بچا… شکر کی توفیق عطاء فرما… یا ربا! آپ کا شکر…یا ربا! آپ
کا شکر…ابھی قربانی مہم سے فارغ نہیں ہوئے تھے…ہماراجمع کیاہواگوشت ابھی تک غریبوں
کے گھرمیں موجودتھا کہ…اے ہمارے رب! آپ نے گندم مہم پر لگا دیا… ابھی شہید کی عظیم
ماں… اس گندم سے … شہید کے بچوں کو روٹی کھلا ہی رہی تھی کہ تونے ہمیں… دیوانوں کی
طرح… حیّ علی الصلوٰۃ… حیّ علی الصلوٰۃ کے کام پر لگا دیا…یا اللہ! کیسے شکر ادا
کریں… نعمتیں بے شمار ہیں جبکہ ہماری زبان ناقص …ابھی اقامتِ صلوٰۃ مہم کی خوشبو
فضاء میں تھی کہ … رجب مہم کا اعلان ہوا… ابھی اس کے تانے بانے بن رہے تھے کہ…
الحمد للہ دس مقامات پر دورہ تفسیر کا نور… پھیلتا ہی چلا گیا… ہم ابھی اس نور کو
سمیٹ رہے تھے کہ … رمضان شریف تشریف لے آیا… شہداء کے گھرانوں کی کفالت سے لیکر…
زلزلہ زدگان کی مددتک… آپ نے ہمیں توفیق بخشی… اور ابھی عید کے کپڑے اتارے نہیں
تھے کہ… مرکز کی طرف سے اعلان عام آ گیا کہ… ایک مہینہ… رات دن ایک کر کے … زلزلہ
سے متاثر ہونے والے… افراد کے لئے بھرپور مہم چلائی جائے… کیونکہ… ہم حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپاہی… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو
اس دکھ اور درد میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔
اب تمام ذمہ دار… اور
کارکن بغیر آرام کئے… اس مہم میں الحمد للہ مصروف ہو رہے ہیں… اس سال تو الحمد للہ
… حج پر بھی… وفد جا رہا ہے… خوب مانگنے… رب کو منانے… اور پھر قربانی… اور قربانی
والی عید… یہ تو صرف ایک پہلو کا ذکر ہے… رب تعالیٰ نے تو اپنے ان بندوں کو ان
کاموں سے بھی… اونچے کاموں پر لگایا ہوا ہے… الحمدللہ…الحمد للہ… الحمد للہ… یا
اللہ! ایمان اور اخلاص کے بعد… استقامت عطاء فرما… یا اللہ! تیری ہی توفیق سے نقل
کر رہے ہیں… تواس نقل کو اصل بنا دے… یا اللہ! ہمیں برباد کرنے، ہمیں مٹانے… ہمیں
بار بار روکنے کے لئے … بہت سارے ’’سر‘‘ جمع ہوتے ہیں… بہت سی ’’زبانیں‘‘ چلتی
ہیں… بہت سی ’’سازشوں‘‘ کے کارخانے دن رات محنت کرتے ہیں… مگر … تیرا فضل اور
احسان ہے کہ … بات اب تک بنی ہوئی ہے۔
اے
پیارے مالک!… ہم سے راضی ہو جا… ہم سے کام لے لے… اور ہمیں… رسوائی اور محرومی سے
بچا… اور ایک چھوٹی سی دعاء… آپ کے لئے چھوٹی… اور ہمارے لئے بڑی… کہ … یا اللہ!
ہمیں… حب دنیا سے بچا کر… اپنی ملاقات کا سچا شوق نصیب فرما… اور پھر … شہادت کے
خون میں نہلا کر… اپنی وہ پیاری ملاقات نصیب فرما…
خدمت نامہ
خدمت خلق سے کیا کچھ ملتا ہے؟ کونسی
خدمت اﷲ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے؟ خدمت کے بارے میں اسلامی احکامات کیا ہیں خدمت
خلق کے موضوع پر ایک جامع تحریر۔
)۱۵ شوال ۱۴۲۶ھ بمطابق۱۸نومبر ۲۰۰۵ء(
خدمت نامہ
اﷲ تعالیٰ اپنے رحم وکرم
کا معاملہ فرمائے… موسم تیزی سے ٹھنڈا ہورہا ہے… بارش شروع ہوچکی ہے… اور برف گرنے
ہی والی ہے… زلزلہ سے تباہ حال لاکھوں انسان ابھی تک آزمائش کے جوکھم سے گزر رہے
ہیں… اس وقت انہیں مدد، تعاون اور خدمت کی ضرورت ہے… جبکہ… بہت سے ادارے اور
تنظیمیں کام بند کرکے واپس جارہی ہیں… زخمیوں کو تڑپتا… اور بچوں کو بلکتا چھوڑ
کر… اور بعض ادارے … متاثرین کیلئے جمع ہونے والے فنڈ کا ایک بڑا حصہ… اپنی تشہیر
اور اشتہارات پر صرف کررہے ہیں … یقینااﷲ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے… بڑے اخبارات کے
پہلے صفحہ پر… اشتہار کا خرچہ لاکھوں روپے پڑتا ہے… لاکھوں روپے سے بہت سے افراد
کو چھت، بہت سے بھوکوں کو نوالہ اور بہت سی بے آسرا بہنوں کو دوپٹہ اور آنچل دیا
جاسکتاہے…
ایک دن… اخبار میں اشتہار
دینے پر پندرہ لاکھ برباد… اور جب روزانہ اشتہار چلے گا… اور کئی کئی اخبارات میں
چلے گا تو خرچہ کروڑوں میں جا پہنچے گا… عجیب بات ہے… ماؤں کی گود میں بچے بھوکے
مر رہے ہیں… بوڑھے بزرگ سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں… اور لاشیں بے گور وکفن پڑی ہیں…
ایسے میں خود کو بھلا کر خدمت کرنا ہی اچھا لگتا ہے… نہ کہ… تشہیر وتعارف میں
’’امدادی اموال‘‘ برباد کرنا… ہاں ایک حد تک… تشہیر کی ضرورت موجود ہے… تاکہ… عوام
کو … ’’تعاون‘‘ کی طرف متوجہ کیا جاسکے… مگر… اس کیلئے کم خرچ ذرائع استعمال کیے
جاسکتے ہیں… میرا مقصد … کسی پر تنقید نہیں… اپنے رفقاء اور ساتھیوں کیلئے ’’نقشۂ
عمل‘‘ فراہم کرنا ہے… تاکہ… مقابلے کی دوڑ میں کود کر کوئی اپنا عمل برباد نہ کرے…
اور مصیبت زدہ لوگوں کے خون اور آہوں پر جمع ہونے والا مال… محض اشتہارات، جہازوں
کے ٹکٹ… ذمہ داروں کے دورے… اور وفود کی مہمان نوازی پر قربان نہ ہوجائے… خیر… یہ
ہر کسی کے اپنے سوچنے کی بات ہے… اﷲ تعالیٰ… اس بحران میں اخلاص کے ساتھ… خدمات
سرانجام دینے والے… تمام افراد اور اداروں کی محنت قبول فرمائے… بات یہ چل رہی تھی
کہ… کچھ لوگ امداد اور تعاون چھوڑ کر واپس جارہے ہیں… انہیں اس وقت ایسا نہیں کرنا
چاہئے… کل یہ حالات خود ان پر بھی آسکتے ہیں… اور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ… حسب
عادت عوام کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ رہا ہے … اور … ہر کوئی یہ سوچ کر امداد سے ہاتھ
کھینچ رہا ہے کہ… اب میرے تعاون کی کیاضرورت ہے؟… حکومت خود… روزانہ کروڑوں روپے
خرچ کر رہی ہے… امریکہ جھولیاں بھر بھر کر ڈالر بھیج رہا ہے… اقوام متحدہ نے سامان
کے ڈھیر لگادئیے ہیں… باقی ممالک کے امدادی جہاز … صبح شام اڑانیں بھر رہے ہیں…
فضاء میں ہیلی کاپٹروں کا شور ہے… ہندوستان نے ایل او سی کھول کر… کئی ٹرک امداد
بھیج دی ہے… یہ سب کچھ اپنی جگہ… مگر سچ یہ ہے کہ اب بھی مصیبت زدہ انسانوں کو…
امداد اور خدمت کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح آٹھ اکتوبر کے فوراً بعد تھی… ہر طرح
کی امدادی سرگرمیوں کے باوجود… ابھی تک … بہت کچھ کرنا باقی ہے… بلکہ… اگر یہ کہا
جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ… ابھی تک … جو کچھ کیا گیا ہے… اس سے دس گنا مزید… کی
فوری ضرورت ہے… ابھی تک بعض علاقے سب کی نظروں سے اوجھل ہیں… انہیں ڈھونڈنے … اور
وہاں سسکتے ہوئے انسانوں تک تعاون پہنچانے کی ضرورت ہے… اکثر لوگ بے گھر ہوچکے
ہیں… اور یہ پورا زلزلہ زدہ علاقہ … وہاں کے مکینوں کیلئے ایک ایسا رِستا ہوا زخم
بن گیا ہے… جس میں… مسائل ہی مسائل ہیں… بس اﷲ پاک ہی اپنا خاص کرم فرمائے… ورنہ …
بحالی کا کام بہت مشکل ہے… ان حالات میں جو لوگ بھی… ان مصیبت زدہ انسانوں کی …
کسی بھی طرح خدمت کریں گے… وہ … اپنی دنیا اور آخرت کیلئے بہت بڑا نفع کمالیں گے… اس
لیے… جوش اور جذبے کو ٹھنڈا نہ ہونے دیں… اور اﷲ پاک جو مال بھی عطاء فرمائے… اس
میں سے… متاثرین زلزلہ کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور نکالیں… اور حکمرانوں کے ’’سیاسی
دعوؤں‘‘ اور رنگین تصویروں سے یہ نہ سمجھ لیں کہ… بس … اب کام ختم ہوگیا ہے…
’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے احباب… دعاء اور تحسین کے مستحق ہیں کہ… انہوں نے… مزید ایک
مہینہ کی مخلصانہ… بھرپور اور زور دار مہم کا اعلان کیا ہے… مسلمانان پاکستان کو
چاہئے کہ وہ … ان غیور، فقیر، جانباز… اور امانتدار دیوانوں کے ساتھ مل کر… آزاد
کشمیر اور صوبہ سرحد کے دور دراز علاقوں تک پہنچیں اور اپنے نامۂ اعمال کو… خدمت
کے نور سے منور کریں… مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ… مدینہ طیبہ میں ایک بار… میرے شیخ
حضرت اقدس مفتی ولی حسن صاحب نور اﷲ مرقدہ… شام کی چہل قدمی کے دوران ایک بزرگ کے
پاس تشریف لے گئے… سلام دعاء کے بعد… کچھ باتیں ہوئیں… وہ بزرگ مسلسل درود شریف
پڑھ رہے تھے… بات چیت کے دوران ان کی تسبیح تھوڑی دیر کیلئے رکتی… اور پھر درود
شریف کے ساتھ چلنے لگتی… بعد میں معلوم ہوا کہ غالباً…روزانہ پچھتر ہزار کا معمول
ہے… وہ بزرگ جہاں بیٹھے تھے وہاں قریب ہی کھانے کی دیگیں پک رہی تھیں… اور وہ
پکانے والوں کو وقتاً فوقتاً ہدایات بھی جاری کر رہے تھے… میرے حضرت تھوڑی دیر
وہاں بیٹھے رہے… جب واپس ہونے لگے تو بزرگوں نے فرمایا… مفتی صاحب! کسی وقت اکیلے
تشریف لائیں کچھ باتیں کرنی ہیں… اگلے دن حضرت پھر مجھے ساتھ لے کر ان کے پاس
تشریف لے گئے… انہوں نے اکیلے نہ آنے کا شکوہ کیا… حضرت نے فرمایا آپ اس کی فکر نہ
کریں… انہوں نے اپنے کچھ خواب سنائے… بشارت والے ان خوابوں کو سن کر حضرت روتے
رہے… اور واپسی پر مجھے فرمایا… یہ باتیں لوگوں کو نہ بتانا… یہ ان حضرات کا حسن
ظن ہے ورنہ مجھے اپنی حالت کا علم ہے… خیر اس واقعہ کے بعد مجھے … اس اﷲ والے بزرگ
کے حالات معلوم ہوئے کہ… سالہا سال سے مدینہ پاک میں مقیم ہیں… روزانہ سینکڑوں
افراد کو کھانا پکا کر کھلاتے ہیں… پہلے خود پکاتے تھے اور اب کئی ملازم رکھ لیے
ہیں… ایک دو بار انہوں نے ہمارے وفد کیلئے بھی کھانا بھیجا…
روزانہ ہزاروں بار درود
شریف، سینکڑوں افراد کو کھانا کھلانا… بڑے بڑے اکابر ومشائخ کی رہائش کا انتظام
کرنا… اور بہت سے کام… ایک بوڑھا انسان یہ سب کچھ کیسے کر رہا ہے… اور اتنے اونچے
مقام تک کیسے پہنچا ہے؟… معلوم ہوا کہ سارا ’’خدمت‘‘ کا کمال ہے یہ بزرگ جوانی کے
عالم میں مدینہ منورہ آئے تھے… تب … یہاں تیل نہیں نکلا تھا… اور پیسے کی ریل پیل
نہیں تھی… انہوں نے دیکھا کہ… چند بیمار افراد جنہیں کوڑھ (جذام) کا مرض ہے وہ
بھی… مدینہ پاک میں مقیم ہیں… کوڑھ کے مریض سے سب لوگ… حتی کہ قریبی رشتہ دار بھی
دور بھاگتے ہیں… کیونکہ ہاتھ پاؤں کے زخموں سے بدبو آتی ہے… اور یہ خطرہ بھی محسوس
ہوتا ہے کہ… ان کا مرض ہمیں نہ لگ جائے… پنجاب کے اس سعادت مند نوجوان نے… ان
مریضوں کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا… وہ قصائی کی دکان سے ہڈیاں جمع
کرتا… انہیں دھو کر… پکاتا… پھر ان مریضوں کے ہاتھ منہ دھلوا کر انہیں… ہڈیوں کا
شوربہ پلاتا… اور ان کی راحت کا خیال رکھتا… حدیث پاک میں آتا ہے کہ… تم زمین
والوں پر رحم کرو … آسمان والا رب تم پر رحم فرمائے گا… ایک اور حدیث شریف میں آتا
ہے کہ… ایک شخص نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں… اپنی سخت دلی کی شکایت
کی… کہ میرا دل سخت ہے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس خطرناک بیماری کا یہ علاج تجویز
فرمایا کہ… تم یتیموں کے سر پر (شفقت کا) ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں، حاجت مندوں
کو کھانا کھلایا کرو…
اور ایک حدیث شریف میں
آیا ہے کہ… جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے… اﷲ پاک اس کی حاجت
پوری فرماتا ہے… اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور مصیبت کو دور کرے گا اﷲ تعالیٰ
قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے اس کی مصیبت کو دور کرے گا… اور جو کوئی کسی مسلمان
کے عیب کو چھپائے گا… یعنی اس کی پردہ داری کرے گا… (اس کی عزت رکھے گا) اﷲ تعالیٰ
قیامت کے دن اس کی پردہ داری فرمائے گا… اور جب تک کوئی بندہ اپنے کسی مسلمان
بھائی کی امداد واعانت کرتا رہے گا… اﷲ تعالیٰ اس کی مدد کرتا رہے گا…
اس طرح کی احادیث بہت
زیادہ ہیں… ان شاء اﷲ ’’القلم‘‘ کے اسی شمارے میں آپ کو… ایسی ’’چالیس احادیث‘‘
پڑھنے کی سعادت مل جائے گی… الغرض… اس نوجوان نے فقر وتنگدستی کے باوجود… مدینہ
منورہ میں قیام پذیر… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے معذور ومریض مہمانوں کی خدمت کی…
ان کی بیماری اور بو سے نفرت نہیں کی… تو اﷲ پاک نے اس کی خدمت کو قبول فرما کر…
اسے ’’مدنی‘‘ بنادیا… ہر طرح کی مالی فراوانی عطاء فرمائی… خوب عبادت کی توفیق
بخشی… رہنے کیلئے عمدہ جگہ… اور لوگوں کو کھلانے کیلئے… لاکھوں روپے عطاء فرمائے…
اور ایسی شان بخشی کہ… مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن صاحبؒ جیسے بزرگ خود
چل کر … ان کے پاس جاتے تھے… یہ تو دنیا کی چند نعمتیں ہیں… خدمت کا اصل اجر تو
آخرت میں ملتا ہے… یوں… سمجھ لیجئے کہ آخرت میں اﷲ پاک نے ’’خدام‘‘ کے لئے اجر
وثواب کی جو بارش تیار کر رکھی ہے… دنیا میں… اس کے چند چھینٹے نصیب ہوجاتے ہیں…
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ… بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے والے کو… اﷲ تعالیٰ جنت کے
پھل کھلائے گا… پیاسے کو پانی پلانے والے کو… شراب طہور پلائے گا… ننگے کو کپڑا
پہنانے والے کو… جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا…
اے میرے بھائیو!… اور
بہنو! … کیا ہمیں ان تمام چیزوں کی… اشد ضرورت نہیں ہے؟… بے شک ہمیں آخرت میں ان
تمام چیزوں کی سخت ضرورت ہوگی … اور دنیا میں بھی… ہمیں… اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم کی
سخت ضرورت ہے… اور اﷲ تعالیٰ کا فضل … اور اس کی طرف سے برکت حاصل کرنے کا ایک
بہترین ذریعہ ’’خدمت‘‘ ہے… امام طاؤسؒ بہت بڑے عالم، امام، بزرگ گزرے ہیں… آپ
تابعی تھے… یعنی حضرات صحابہ کرام کے صحبت یافتہ… ان کے بہت عجیب واقعات کتابوں
میں لکھے ہیں… ان کی عفت اور پاکدامنی کا یہ عالم تھا کہ… ایک عورت ان کو گمراہ
کرنے کی کوشش میں… خود تائب ہوگئی… اس کا بیان ہے کہ میں نے جس پر بھی تیر پھینکا
وہ پھنس گیا مگر امام طاؤس کو میں گمراہ نہ کرسکی… میں نے انہیں گناہ کی طرف بلایا
تو فرمانے لگے ٹھیک ہے فلاں وقت آجانا… میں اس وقت پہنچ گئی وہ مجھے لیکر حرم شریف
(کعبۃ اﷲ) پہنچ گئے… اور فرمانے لگے… یہاں کرتے ہیں… میں نے حیرت سے کہا… یہاں
کیسے؟… فرمانے لگے… اﷲ تو ہر جگہ موجود ہے… وہ یہاں بھی دیکھے گا… اور دوسری جگہ
بھی… یہ سن کر وہ عورت تائب ہوگئی… امام طاؤسؒ جو دعائیں مانگا کرتے تھے ان میں سے
ایک دعاء یہ بھی ہے…
اللہم ارزقنی الایمان
والعمل ومتعنی بالمال والولد
ترجمہ: اے میرے پروردگار
مجھے ایمان اور عمل عطاء فرمائیے اور مال اور بیٹے کے ذریعے سے مجھے دنیا کا فائدہ
بخشئے…
امام طاؤسؒ فرماتے ہیں
کہ… ایک شخص کے چار بیٹے تھے… وہ آدمی بیمار ہوگیا… چاروں بیٹوں میں سے ایک نے
اپنے بھائیوں سے کہا… یا تو آپ لوگ والد صاحب کی خدمت کریں یا مجھے کرنے دیں… مگر
شرط یہ ہے کہ جو بھی خدمت کرے گا وہ والد کی میراث میں سے حصہ نہیں لے گا… تینوں
بھائیوں نے کہا کہ اچھا تم ان کی خدمت کرو… اور میراث سے حصہ نہ لو… وہ بیٹا اپنے
والد کی خدمت میں لگ گیا… جب والد کا انتقال ہوا تو اس نے معاہدہ کے مطابق … وراثت
میں کچھ بھی نہ لیا… اور تمام مال وجائیداد باقی تین بیٹوں میں تقسیم ہوگئی… رات
کو خدمت کرنے والے بیٹے نے اپنے والد کوخواب میں دیکھا… وہ فر ما رہے تھے فلاں جگہ
چلے جاؤ وہاں سو دینار رکھے ہیں وہ لے لو… بیٹے نے پوچھا ابا جان! کیا ان میں برکت
ہے؟ والد نے کہا نہیں… اس نے صبح اپنی بیوی کو خواب بتایا تو اس نے کہا جاؤ وہ سو
دینار لے آؤ بس یہی برکت کافی ہے کہ ہم کچھ لے کر کھائیں، پئیں اور پہنیں… مگر وہ
نہ گیا… اگلی رات پھر والد کو خواب میں دیکھا وہ بتا رہے تھے… بیٹا فلاں جگہ چلے
جاؤ وہاں دس دینار رکھے ہیں وہ لے لو… بیٹے نے پوچھا: کیا ان میں برکت ہے؟ والد نے
کہا نہیں… صبح اپنی بیوی کو خواب بتایا تو اس نے پھر ترغیب دی… مگر وہ نہ مانا…
تیسری رات پھر والد صاحب خواب میں آئے اور کہنے لگے… فلاں جگہ چلے جاؤ وہاں ایک
دینار رکھا ہے وہ لے لو… بیٹے نے عرض کیا… کیا اس میں برکت ہے… والد نے فرمایا ہاں
اس میں برکت ہے… صبح جاکر بیٹے نے وہ دینار اٹھالیا… اور بازار کی طرف نکل کھڑا
ہوا… وہاں ایک شخص دو مچھلیاں فروخت کر رہا تھا… اس نے پوچھا کتنے کی ہیں؟… اس نے
کہا ایک دینار کی… اس نے خرید لیں… گھر لا کر انہیں صاف کرنے لگا تو دونوں کے پیٹ
سے ایک ایک بے حد قیمتی… اور نایاب موتی نکلا… قصہ طویل ہے… خلاصہ یہ کہ… یہ دونوں
موتی… ملک کے بادشاہ نے… کئی خچر سونے کے بدلے خرید لیے… اور یوں خدمت کی خاطر باپ
کی تھوڑی سی جائیداد قربان کرنے والا یہ شخص… کروڑوں پتی بن گیا… یعنی … بوڑھے باپ
کی خدمت پر… آخرت میں… نعمتوں کی جو بارش اس کیلئے تیار تھی… اس کے چند چھینٹے دو
موتیوں کی صورت میں… دنیا ہی میں وصول ہوگئے… اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ…
خدمت کا موقع پانے کیلئے… دوسروں پر سبقت کرنی چاہئے… اور خوب قربانی دینی چاہئے…
ایسے سچے واقعات بے شمار ہیں… اور خدمت کے فضائل کا… اندازہ لگانا مشکل ہے… حکایت
ہے کہ… بنی اسرائیل کے ایک عابد نے ستر سال تک خلوت میں… بے ریا عبادت کی… ستر سال
بعد جب وہ اٹھا تو راستے میں ایک عورت نے اسے فتنے میں ڈال دیا… اس گناہ میں مبتلا
ہوتے ہی اس کی ستر سال کی عبادت ضائع ہوگئی… وہ اسی غم میں جارہا تھا… اس کے پاس
دو روٹیاں تھیں… اسے سخت بھوک لگی تو روٹیاں کھانے کیلئے رکا… تب… کسی مستحق محتاج
نے اس سے سوال کیا اس نے وہ دونوں روٹیاں اس کو دے دیں… اﷲ پاک کو اس کا یہ عمل
اتنا پسند آیا کہ… اسے … اس کا مقام واپس عطا فرمادیا… ہم نے اپنے حضرات اکابر کے
واقعات میں… خدمت کے عجیب مناظر پڑھے ہیں… مادر علمی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ
بنوری ٹاؤن کے بانی… محدّث العصر حضرت بنوریؒ… راتوں کو چھپ کر… طلبہ کے بیت
الخلاء صاف کیا کرتے تھے… حالانکہ… بہت نفیس اور معطر مزاج کے عالی مقام محدث اور
عالم تھے… حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ نے… ریل گاڑی میں… ایک ہندو کیلئے… بیت الخلاء
اپنے ہاتھوں سے صاف کیا… وہ بدنصیب… اپنی منزل آنے سے پہلے گاڑی سے اتر گیا… اور
کہنے لگا کہ… اگر ان کے ساتھ مزید بیٹھا تو مسلمان ہوجاؤں گا…
ایک اہم نکتہ
اسلام نے جس طرح سے
’’خدمت خلق‘‘ کے مسئلے کو سکھایا اور سمجھایا ہے… اس کی وجہ سے… سچا اور اصلی
مسلمان… خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے… بلکہ… خدمت سے بڑھ کر ایک چیز ہے… جس کا
نام ہے ’’ایثار‘‘… یعنی اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینا… اور خود قربانی کرکے…
دوسروں کو نوازنا…
الحمدﷲ… سچے مسلمانوں میں
تو ’’ایثار‘‘ پایا جاتا ہے… وہ … خود پیاسے مرجاتے ہیں… اور اپنے ہونٹوں سے لگا
پانی… اپنے بھائی کے ہونٹوں سے لگادیتے ہیں… مسلمانوں کے علاوہ باقی قوموں میں…
خدمت کا جذبہ تو ضرور ہوتا ہے مگر ان میں ایثار نہیں ہوتا… اب یہاں اشکال یہ ہوتا
ہے کہ… آج کل زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے… مسلمانوں میں… خدمت اور ایثار کا جذبہ
ختم ہوچکا ہے… بلکہ وہ تو لوٹ مار میں مصروف ہوجاتے ہیں… جبکہ عیسائی اور دوسری
اقوام کے لوگ… بڑھ چڑھ کر انسانی خدمت کے کام کرتے ہیں… قیدیوں سے لیکر بچوں تک…
اور انسانوں سے لیکر جانوروں تک کی خدمت کیلئے ان کی تنظیمیں ہیں… اور وہ خدمت کے
حوالے سے … بلا امتیاز ہرجگہ… اور ہر فرد تک پہنچتے ہیں… یہ ایک ایسا اشکال اور
اعتراض ہے جس نے بہت سے ’’مسلمانوں‘‘ کو کفر پسند بنادیا ہے… میں نے خود انڈیا کی
جیلوں میں دیکھا کہ … جب … ریڈکراس کے گورے اور گوریاں مجاہدین سے ملنے آتے تھے…
مسکرا مسکرا کر ان کے دکھ پوچھتے تھے… اور زبانی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے تو کئی
مجاہدین بے حد متاثر ہوتے تھے… اور پھر خدمت کے بعد کا مشن شروع ہوجاتا… جی ہاں
عیسائیت کی تبلیغ… ایسے قلم اور پنسلیں بانٹی جاتیں… جن کو جیب میں لگانے سے …
صلیب … کی تصویر ظاہر ہوجاتی… نفسیاتی علاج کے نام پر… جہاد کے خلاف ذہن سازی کی
جاتی… اور سمجھایا جاتا کہ… اصل تو انسانیت ہے… ایک بار … میں نے ان کو بہت محنت
کرکے… کھال سے باہر نکال لیا… تب … مجاہدین حیران رہ گئے… ہوا یہ کہ … وہ ہنستے
مسکراتے… ناز اور ادائیں دکھاتے ہمارے وارڈ میں آئے… آکر… ہمدردی جتانے لگے… میں
نے کہا… آپ لوگ کام تو کچھ کرتے نہیں… اور بس منہ دکھا کر چلے جاتے ہیں… کہنے لگے
کیا کام؟… میں نے کہا کمانڈر سجاد خانؒ شہید ہوگئے… آپ لوگوں نے کیا کیا؟… ان کے
والدین کو لائے؟… میت کو واپس لے گئے؟… اس ظلم پر آواز اٹھائی؟… قاتلوں پر مقدمہ
چلوایا؟… قیدیوں کے تحفظ کیلئے کچھ کیا؟… وہ کہنے لگے یہ سب کچھ ہمارے بس میں نہیں
ہے… خیر بحث جب گرم ہوئی… اور ان کا ’’انسانیت انسانیت‘‘ کا وعظ شروع ہوا تو میں
نے کہا… آپ لوگ دنیا کو پاگل بناتے ہیں… کیا آپ لوگوں کی اکثر معیشت کا انحصار
اسلحہ کی فروخت پر نہیں ہے؟… کہنے لگے ہاں ہم اسلحہ بیچتے ہیں؟… میں نے کہا…
انسانیت کیلئے؟… آپ کے اسلحے سے افریقہ میں روزانہ ہزاروں افراد قتل ہوتے ہیں… آپ
کے اسلحے سے ایشیا غربت کی کھائی میں گرا پڑا ہے… آپ کے اسلحے نے عربوں کا تیل نچوڑ
لیا ہے… آپ کے اسلحے نے انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنادیا ہے… آپ لوگ تو ساری
دنیا کا خون پی کر… گورے چٹے ہوگئے ہیں… وہ کافی دیر تک تحمل سے ٹالتے رہے… مگر…
پھر گرم ہوگئے اور کہنے لگے ہاں ہم افریقہ اور ایشیا کے پاگلوں کو اسلحہ بیچتے ہیں
تاکہ وہ خوب لڑیں… اور ہم سے مزید اسلحہ خریدیں… یہ ہمارا بزنس ہے… یہ ہماری معیشت
ہے… ہماری مرضی ہم جو چاہیں کریں… تب… بہت سے مجاہدین نے اس دن… مسکراتے چہروں کے
پیچھے چھپے مکروہ کرداروں کو دیکھا… ان لوگوں نے مختلف گروپ بنائے ہوئے ہیں… بعض
گروپ… لوگوں کو ایک دوسرے کا مخالف بناتے ہیں… بعض دونوں کو… ایک دوسرے کے خلاف
زیادہ اچھا اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرتے ہیں… بعض امن امن کا شور مچا کر… جنگ کو
مزید بھڑکاتے ہیں… اور بعض خدمت کے نام پر… اپنے لیے ہمدردی حاصل کرتے ہیں… اور
جاسوسی کا کام سر انجام دیتے ہیں…
آج پوری دنیا میں…
عیسائیت کی تبلیغ… اور استعماری قوتوں کی جاسوسی کا پورا نیٹ ورک … انسانی ہمدردی
کی انہیں تنظیموں پر قائم ہے… مجھے اعتراف ہے کہ… ان کا چھوٹا عملہ… خدمت کے جذبے
سے سرشار ہوتا ہے… مگر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ… ان لوگوں کو باقاعدہ اس کی تربیت
دی جاتی ہے… اور انہیں اسی کام کی تنخواہ ملتی ہے… اور اس چھوٹے عملے کے پیچھے…
اصل پالیسی ساز… اپنے مکروہ عزائم پورے کرنے کیلئے موجود ہوتے ہیں…
ایک اہم بات
اب سوال یہ ہے کہ…
مسلمانوں میں یہ جذبہ کیوں کمزور پڑ گیا ہے… جواب بہت تفصیل طلب ہے میں صرف ایک
مختصر سے اشارے کے ذریعے اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں… ماضی قریب میں … خلافت
اسلامیہ کے سقوط کے بعد… افریقہ، عرب، ایشیا اور یورپ کے تمام مسلمان انتشار کا
شکار ہوئے… تب برطانیہ اور یورپ نے اکثر
مسلمان ملکوں پر قبضہ کرلیا… اس قبضے کے دوران انہوں نے… مسلمانوں کوجو ظاہری و
باطنی نقصانات پہنچائے ان کی بھیانک داستان ایک طرف… یہاں ہم صرف اس بات پر غور
کریں کہ… انہوں نے مسلمانوں کو قابو رکھنے، انہیں غلام بنانے… اور انہیں اسلام سے
ہٹانے کیلئے جو ’’نظام حکومت‘‘ قائم کیا… وہ بہت خطرناک، ناپاک… اور سخت تھا… اب
برطانیہ اور یورپ خودتو ان اسلامی ملکوں کو چھوڑ کر چلے گئے… مگر… ان ظالموں نے
اپنے پیچھے اپنے اس ’’نظام حکومت‘‘ کو قائم رکھا جو… انہوں نے غلاموں کیلئے بنایا
تھا… اور اب ہمارے… روشن خیال، حکمران انگریز کے اسی نظام کو پوری مضبوطی سے چلا
رہے ہیں… حالانکہ… جب قوم کو آزادی ملی تھی تو نظام بھی بدلنا چاہئے تھا… اور ایسا
نظام لانا چاہئے تھا جس کے ذریعے غیروں پر نہیں اپنوں پر حکومت کی جاتی ہے… خود
امریکہ، برطانیہ… اور یورپ اپنے ملکوں میں… الگ نظام سے حکومت کرتے ہیں… اور وہاں
کے حکمران عوام کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں… اور اپنے مذہب کے ساتھ وفاداری کو اپنے
اوپر لازم رکھتے ہیں… جبکہ ہمارے ہاں… حکمران خود کو قابض… اور عوام کو غلام
سمجھتے ہیں… جس کی وجہ سے عوام میں اسلامی … یعنی انسانی جذبات آہستہ آہستہ دم
توڑتے جاتے ہیں… اور غلاموں والی بری عادتیں… پورے معاشرے کو برباد کر رہی ہیں… یہ
تو دینی مدارس… اور دینی جماعتوں کا احسان ہے کہ… عوام میں کچھ نہ کچھ دین زندہ
ہے… ورنہ غلاموں کاکوئی دین، ایمان… اور جذبہ نہیں ہوتا…
کاش مسلمانوں کو… کوئی
ایسے مسلمان حکمران مل جائیں جو ان ملکوں سے… قابض قوتوں والا… حیوانی نظام ختم
کرکے… انسانوں کو عزت دینے والا… اسلامی نظام نافذ کریں… اور دین کے ساتھ مکمل
وابستگی رکھیں… تب … آپ کو مسلمانوں کے جذبہ خدمت وایثار کے ایسے مناظر نظر آئیں گے
کہ … باقی دنیا اس کی مثال پیش نہیں کرسکے گی…
خلاصہ یہ ہے کہ… امریکہ،
برطانیہ اور یورپ کی حکومتیں اپنی عوام کی خیر خواہ… اپنے مذہب کی وفادار… اور
اپنے مشن کی پکی ہیں… خدمت کے یہ سارے شعبے خود حکومتیں اپنی نگرانی… اور امداد سے
چلا رہی ہیں… اگرچہ… حکمت کے تحت… ان کے لئے… آزاد ادارے بنادئیے گئے ہیں… اور اس
خدمت کے پیچھے… مسلمانوں کو مرتد بنانے… اور ان کے خلاف جاسوسی کرنے کے… مقاصد کار
فرما ہیں…
جبکہ دوسری طرف … اسلامی
ملکوں کی حکومتیں… اپنی عوام کی دشمن ہیں… اور ان پر قابض افواج والا ظالمانہ
حیوانی نظام … چلا رہی ہیں… ان حکومتوں کا اپنے دین سے کچھ لینا دینا نہیں… اور ان
کا مشن صرف اپنی خاندانی… اور شخصی حکومتیں بچانا ہے … چنانچہ وہ مسلمانوں کے جذبہ
خدمت کو ابھارنے کی بجائے… اسے فنا کر رہی ہیں…
اس کے باوجود
اس کے باوجود… الحمدﷲ…
چونکہ اسلام زندہ ہے… اور غیر سرکاری طور پر اسلام کی دعوت، تبلیغ اور خدمت کا کام
ہو رہا ہے… اور جہاد کا فریضہ بھی… محدود پیمانے پر جاری ہے… اس لیے اسلام کی فطرت
کے مطابق… سچے مسلمانوں میں… خدمت اور ایثار کا جذبہ بھی موجود ہے… چنانچہ… اس
زلزلے کے بعد اسلامی جماعتوں نے اپنے جذبے سے لاکھوں مصیبت زدہ انسانوں کو مدد
پہنچائی… اور انہیں مشکل گھڑی میں سہارا دیا… انگریزوں کے قابضانہ نظام کی حفاظت
کرنے والے حکمرانوں کو مسلمانوں کا یہ انداز خدمت اچھا نہیں لگ رہا… اس لیے… وہ
منتیں ترلے کرکے… نیٹو کی افواج کو لے آئے ہیں تاکہ… ان اسلامی تنظیموں کو نکالنے
کیلئے… کوئی بہانہ تجویز کیا جاسکے… مگر… اسلام اور اس کے خدام نے باقی رہنا ہے…
یہ امت آخری امت ہے… اس امت کے بعد قیامت ہے… اس لیے… الحمدﷲ… کسی نہ کسی طرح…
دینی جماعتیں خدمت کا کام بھی سرانجام دے رہی ہیں… اور اپنے باقی دینی کاموں اور
شعبوں کو بھی چلا رہی ہیں…
آخری گذارش
آج بہت سی باتیں کرنی
تھیں… مگر… ابھی ایک دو باتیں بھی پوری نہ ہوسکیں… کہ کالم کی جگہ ختم ہونے لگی
ہے… اس لیے اب مختصر طور پر… چند گذارشات
…
)۱(تمام اہل دل ساتھی
خدمت کی اس مہم میں جان توڑ محنت اور کوشش کریں… اور کسی طرح کی غفلت، سستی اور
ریاکاری کو اپنے قریب نہ آنے دیں…
)۲(متاثرین زلزلہ کو…
دین کی بھی دعوت دیں… اگر وہ لوگ نماز ادا کرنے لگے… جہاد کے قائل ہوگئے… زکوٰۃ کو
سمجھ گئے… بے حیائی سے تائب ہوگئے… اور ذکر اﷲ میں لگ گئے تو ان شاء اﷲ… یہ مصیبت
ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائے گی… اور دنیا میں اﷲ پاک ان کے تمام نقصانات کا بہترین
ازالہ فرمادے گا…
)۳( تمام مصیبت زدہ
افراد کو بتائیں کہ… اسماء الحسنیٰ اور درود شریف کی کثرت کریں… اﷲ پاک کے ننانوے
نام جو حدیث شریف میں آئے ہیں عجیب تاثیر رکھتے ہیں… ان کا خوب ورد کریں… ان شاء
اﷲ جلد مصیبت ٹل جائے گی… اور عجیب وغریب فوائد نصیب ہوں گے… ان شاء اﷲ…
)۴( اس بات سے نہ
شرمائیں کہ… بار بار لوگوں سے چندے کی اپیل کرنا پڑتی ہے… آپ اپنی ذات کیلئے کچھ
نہیں کر رہے… یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے… او ر اﷲ تعالیٰ کی رضاء کیلئے سب کچھ برداشت
کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے…
)۵( شہرت… اور تشہیر
پر اموال برباد نہ کریں… اور نہ محض تعارف کیلئے امدادی مال سے ایسے وفود لے کر
جائیں جن کے جانے سے لوگوں کو کوئی فائدہ نہ ہو…
)۶(خدمت کے فضائل
اپنی جگہ… مگر … ہجرت اور جہاد کے برابر کوئی عمل نہیں… حالات کے تحت اسلامی
نظریات نہیں بدلے جاتے… اسلام کے اہم اور محکم فریضے کی قدر وقیمت دل میں کم نہ
ہو… اور نہ ہی قربانی کے نظریات میں کسی طرح کی کمزوری آئے…
)۷( عبادات وذکراذکار
کا اہتمام کریں… جاندار کی تصویر بازی سمیت ہر گناہ سے بچیں… اور آپس میں دینی
مذاکرے اور نصیحت کا اہتمام رکھیں…
)۸( نیٹو اور امریکہ
کی افواج کو دیکھ کر بہت سے لوگ… آپ سے پوچھیں گے کہ… ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟…
یہی لوگ عراق اور افغانستان میں مسلمانوں پر آگ اور بارود برسا رہے ہیں… یہی لوگ
لاکھوں مسلمان بچوں کے قاتل ہیں… اور یہ اب کشمیر پر قبضہ کرنے آئے ہیں… تو کیا ان
پر حملہ جائز ہے؟… آپ ایسے لوگوں کو بتائیں کہ … جہاد کا پورا نظام قرآن وسنت میں
موجود ہے… اور ہم سب مسلمان اسی نظام کے تابع ہیں… ایک شخص ایک وقت میں واجب القتل
ہوتا ہے… مگر… دوسرے وقت میں اسی شخص کو قتل کرنا حرام ہوتا ہے… مثلاً … دشمنوں کے
ساتھ جنگ میں… ان کا ایک سپاہی خوب لڑ رہا ہے… مسلمانوں کو شہید کر رہا ہے… اب اس
شخص کو مارنا… ضروری … اور باعث ثواب ہے مگر اگلے دن… مسلمانوں کے اپنے دشمنوں سے
مذاکرات …شروع ہوگئے… اور انہوں نے… اسی شخص کو … اپنا ایلچی اور قاصد بنا کر بھیج
دیا… اب … اس شخص کو قتل کرنا حرام ہوگا… حالانکہ … اس نے کل بیسیوں مسلمانوں کو
شہید کیا تھا… اب اگر اسے قتل کرنا ہے تو … اس کے واپس جانے کا انتظار کرنا ہوگا…
اپنے گھر آئے ہوئے اس شخص کو … قتل کرنا حرام ہے… آپ خود دیکھیں… ابو سفیانؓ … جب
مکہ مکرمہ سے مشرکین کا لشکر لے کر آتے تھے تو … تمام … مسلمان ان کے خون کے پیاسے
ہوتے تھے… مگر جب… فتح مکہ سے پہلے وہ امان لے کر بات چیت کیلئے آئے تو کسی نے ان
کو پتھر بھی نہ مارا… جذبات اپنی جگہ … مگر مسلمان جذبات کانہیں … قرآن وسنت کا
غلام ہے… نیٹو اور امریکہ کی افواج پر آزاد کشمیر میں حملہ کرنا… جائز نہیں ہوگا…
بلکہ… اس طرح کے کسی بھی حملے سے خود ان کے مقاصد پورے ہوں گے… اور مسلمانوں کو…
اور جہادی تحریکوں کو نقصان پہنچے گا… ان پر یہاں حملہ کرنے والے… غیروں کو نہیں…
لاکھوں مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں گے… ہماری حکومت نے ان کو یہاں لا کر بہت بڑی
غلطی کی ہے… خو دان کا آنا بھی مشکوک ہے… مگر چونکہ وہ اعلان جنگ کرکے نہیں آئے…
اور نہ انہوں نے قبضے کا اعلان کیا ہے… جبکہ عراق اور افغانستان پر انہوں نے
باقاعدہ قبضہ کیا ہے… اس لیے… اسلام کے ظاہری احکامات کے مطابق ان پر … یہاں حملہ
کرنا… ناجائز ہوگا…
)۹(مسلمانوں سے چندے
کی اپیل کے ساتھ یہ گذارش بھی کی جائے کہ وہ مصیبت زدہ مسلمانوں کیلئے خصوصی دعاؤں
کا اہتمام کریں… مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کریں… اور اﷲ
پاک سے معافی… اور اس کی رحمت مانگیں…
)۱۰( متاثرین کی امداد
کیلئے جتنے بھی… ادارے اور افراد سرگرم ہیں… ان کے ساتھ کسی طرح کے لڑائی جھگڑے
میں مبتلا نہ ہوں… کوئی اور اس کی کوشش بھی کرے تو خوبصورتی سے اپنا دامن بچالیں…
کھانا دسترخوان پر کھایا جاتا ہے… پیشاب اور قضاء حاجت بیت الخلاء میں کی جاتی ہے…
ہل کھیت میں چلایا جاتا ہے… جبکہ… قلم کاغذ پر چلتا ہے… یعنی… ہر کام کیلئے الگ
مقام اور موقع ہوتا ہے… لڑائی کی جگہ اور ہے… خدمت کی جگہ اور… اس وقت متاثرہ
علاقوں میں خدمت کی ضرورت ہے… نہ کہ آپس میں لڑائی کی…
)۱۱( خدمت … ایک اچھا
کام ہے… جو بھی یہ کام کرتا ہے… اﷲ پاک اسے اس کا بدلہ عطاء فرماتا ہے… حتی کہ…
کافر اور منافق بھی… خدمت خلق کریں تو دنیا میں… اس کا بہترین صلہ پاتے ہیں… اب
اگر کوئی اپنی ’’خدمت‘‘ کو ’’عبادت‘‘ بنانا چاہتا ہے تو… اﷲ تعالیٰ کے نام کے بغیر
… کوئی چیز ’’عبادت‘‘ نہیں بن سکتی… اس لیے… صرف وہی ’’خدمت‘‘… ’’عبادت‘‘ ہوگی… جو
اﷲ تعالیٰ ہی کی رضاء کیلئے کی جائے گی… اس لیے… لازم ہے کہ… ہم اپنے اندر اخلاص
پیدا کریں… شور شرابے اور مقابلے کے اس زمانے میں اخلاص پیدا ہونا بہت مشکل کام
ہے… ہم اور آپ جانتے ہیں کہ … مشکل کو صرف اﷲ پاک ہی آسان فرماسکتا ہے… پس ہم رات
کی تنہائی میں … اور دن کے اجالے میں دعاء کریں کہ یا اﷲ… ہم یہ ’’خدمت‘‘… صرف،
صرف اور صرف آپ کی رضا کیلئے کرنا چاہتے ہیں… تاکہ… اے ہمارے رب آپ راضی ہوجائیں…
یا اﷲ ہمیں اخلاص عطاء فرما… یا اﷲ ہمیں اخلاص عطاء فرما… یا اﷲ ہمیں اخلاص عطاء
فرما…
حضرت مفتی
محمد جمیل خان شہیدؒ اور ماہنامہ بینات کا خصوصی شمارہ
حضرت اقدس مفتی محمد جمیل خان صاحب
شہیدؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۹؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کو انہیں ظالمانہ انداز
میں شہید کردیا گیا شہادت کے ٹھیک ایک سال بعد ماہنامہ بینات کراچی نے ان کی یا
دمیں ایک ضخیم خصوصی شمارہ شائع کیا اسی شمارے پر ’’القلم ‘‘ نے تعارفی صفحات تیار
کیے اور شہید محترم کو انمول خراج تحسین پیش کیا ۔
)۲۲ شوال ۱۴۲۶ھ بمطابق۲۵نومبر ۲۰۰۵ء(
حضرت مفتی
محمد جمیل خان شہیدؒ
اور ماہنامہ بینات کا خصوصی شمارہ
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
ایک سال کے ’’طویل انتظار‘‘کے بعد… الحمدللہ…وہ ’’ خصوصی شمارہ‘‘ منظر عام پر آ
ہی گیا… جس کی ہم سب کو ضرورت تھی ـ
قارئین کرام کویاد ہو گا کہ اس سال تو آٹھ اکتوبر کو شدید زلزلہ آیا ہے۔جبکہ
پچھلے سال نو اکتوبر (۴ ۲۰۰)
کراچی میںایک جنازہ اٹھا تھا… ایک عاشق کا جنازہ… ایک بڑے مسلمان کا جنازہ … ایک
جانباز مجاہد کا جنازہ …جی ہاں…امت مسلمہ کے محبوب رہنما… استاذ محترم حضرت مولانا
مفتی محمد جمیل خان …کو شہید کر دیا گیا تھا … یاد رکھیں شہادت کی تاریخ ۲۳ء شعبان ۱۴۲۵ھ بمطابق ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء ہے ان کے غم سے بے حال
… اور صدمے سے نڈھال…وفادار ساتھیوں نے اعلان کیاتھا کہ … ان کے مکمل حالات زندگی
…اور نابغہ روزگار کارنامے اجاگر کرنے کے لئے… عنقریب کسی معتبر رسالے کا … خصوصی
شمارہ شائع کیا جائے گا … تب سے ہر خاص و عام کو اس ’’مرھم‘‘ کا انتظار تھا… سعادت
کا یہ قرعہ ’’بالآخر‘‘ماہنامہ بیّنات کراچی کے نام نکلا…جو… جامعۃ العلوم
الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی کا ترجمان رسالہ ہے … اس وقت جبکہ میں یہ الفاظ لکھ
رہا ہوں … وہ خصوصی شمارہ میرے سامنے ہے ـ
میری خواہش، تمنا اور مشورہ ہے کہ …القلم کے قارئین … اس ’’خصوصی شمارے‘‘ کو حاصل
کریں … اسے پڑھیں، سمجھیں، سینے سے لگائیں … اور اپنے گھر کے کتب خانے کو اس کے
ذریعے سے … برکت اور سعادت عطا کریں … ماشاء اللہ لکھنے والوں نے خوب سخاوت کی ہے
… اور شہید مکرمؒ کے ساتھیوں نے خوب محنت کی ہے… یہ خصوصی شمارہ بارہ سو چالیس
صفحات پر مشتمل ہے… بارہ سو صفحات پر تو حضرت شہید مکرمؒ کے بارے میں مضامین …
تاثرات، تبصرے ـــ
اور انکی یادگار تحریریں ہیں … اس کے بعد … دل کو رلانے والی چند تصاویر ہیں … ان
میں وہ ’’خون‘‘ بھی نظر آ رہا ہے … جو بہت کچھ پوچھ رہا ہے … اور بہت کچھ سمجھا
رہا ہے … آخری چند صفحات پر … حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی شہیدؒ کے بارے میں
چند مضامین ہیں … ختم نبوت کا یہ پروانہ … حضرت استاذ محترمؒ کے ساتھ شہید ہوا …
یہ خصوصی شمارہ بہت اثر انگیز ہے … اس کا ہر صفحہ… واہ جمیلؒ، واہ جمیل ؒ کہہ رہا ہے… اور اس کا ہر مضمون…آہ جمیلؒ،
آہ جمیلؒ پکار رہا ہے … اکثر لکھنے والوں نے روتے ہوئے لکھا… اور پھر روتے چلے
گئے اور رلاتے چلے گئے … کسی نے کہا … بیٹا جمیل … کسی نے کہا ابو جمیل، کسی نے
لکھا بھائی جمیلؒ…کسی نے پکارا حضرت جمیلؒ …کسی نے بولا ولی جمیل، کسی نے للکارا
مجاہد جمیلؒ…کسی نے لکھا خادم جمیلؒ … کسی نے کہا مجدّد جمیلؒ …کسی نے کہا ترجمان
حق جمیلؒ …کسی نے بولا … شہید جمیلؒ … مگر ایک بات مشترک ہے … کیا بڑا کیا چھوٹا
ہر کوئی پکار رہا ہے …میرا جمیلؒ، میرا جمیلؒ … ہاں وہ سب کے تھے … مگر … رب
تعالیٰ نے انہیں جس طرح سے بلایا … یوں لگتا ہے … فرمایا گیا … کسی کا نہیں …صرف
میرا جمیل …ہاں وہ صرف … اللہ پاک کے تھے … اور جس کے بھی تھے … اللہ پاک کی نسبت
سے تھے … اس کتاب کو اوّل تا آخر …دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ … استاذ محترم
نور … اور خوشبو کی چادر اوڑھے … دولھا بنے بیٹھے ہیں … اور چاروںطرف لوگوں کا
ہجوم ہے …اور ہر کوئی ان پر پھول نچھاور کر رہا ہے … خوشبو ڈال رہا ہے …اور ہر
کوئی رو رہا ہے … تڑپ رہا ہے …عش عش کر رہا ہے … اور اپنے دل میں ’’رشک‘‘ کی کیفیت
محسوس کر رہا ہے … ان شاء اللہ آپ جب یہ کتاب خرید کر …پڑھنا شروع کریں گے تو آپ
کو بھی کم و بیش یہی کیفیت … یہی منظر نظر آئے گا … حضرت شعیب بن حربؒ کا مقولہ
ہے …
’’ جوچھوٹا
بننے پر راضی ہو… اللہ تعالیٰ اسے سردار اور بڑا بنا کر ہی چھوڑتا ہے ‘‘ … آپ اس
کتاب کے جس مضمون کو بھی پڑھیں گے … آپ کو اس مقولے کی صداقت کا اذعان ہوتا چلا
جائے گا… مجھے چونکہ… حضرت شہید مکرمؒ کے ساتھ … طبعی اور جذباتی لگائو ہے اس لئے
ابتدا میں تو … اس کتاب کو آسانی سے نہ پڑھ سکا… بس جیسے ہی کوئی مضمون شروع کرتا
تو ان کی یاد … ان کی جدائی کا غم … اور ان کے موجود نہ ہونے کا ہول … دل کو پکڑ
لیتا …اور میں کتاب سینے پررکھ کر …چھت کو گھورتا رہتا… پھر آہستہ آہستہ ہمت نے
کچھ قرار پکڑا تو …کتاب کا ضروری حصّہ پڑھ ڈالا …اور آج ’’ القلم‘‘ کا خصوصی
شمارہ تیار کرنے کے لئے … از سر نو پوری کتاب کا جائزہ لیا … ہمارے جو مسلمان
بھائی اور بہن اس کتاب کو پڑھیں گے وہ ان شاء اللہ بہت سے فائدے حاصل کریں گے
…مثلاً
۱ ایک
کامیاب انسان کی زندگی کے حالات … اورکارنامے معلوم ہونگے… تب …کامیابی کی طرف سفر
ان شاء اللہ آسان رہے گا …
۲ ایک
مخلص کی داستان حیات …اخلاص کا معنیٰ سمجھائے گی …یادرہے ہمارے لئے اخلاص …سانس سے
زیادہ ضروری ہے…
۳ حضرات
اکابر کی روشن تحریریں پڑھنے کو ملیںگی…
۴ خدمت
دین کے مختلف شعبوں کا تعارف نصیب ہو گا…
۵ دل
کی سختی دور ہو گی …کیونکہ پوری کتاب رقّت سے معمور ہے
…
۶ اپنی
اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کے طریقے اورراستے معلوم ہونگے…
۷ قرآن
پاک، حرمین شریفین …اور جہاد سے عشق پیدا ہو گا…
۸ دل
میں شوق شہادت مچلے گا …اورحُبّ ِدنیا کی غلاظت دور ہو گی…
۹ دین
کے لئے محنت کرنے کا جذبہ …اور ہمت پیدا ہو گی…
۱۰ دنیا
کے مختلف ملکوں، خطوں …اور علاقوں کے حالات معلوم ہو نگے اور امت مسلمہ کو درپیش
مسائل سے روشناسی حاصل ہوگی…
یہ تو محض دس نمبر ہیں
…ان شاء اللہ …کتاب پڑھنے کے بعد آپ بے شمار فوائد محسوس فرمائیں گے … بس حالات
کی ستم ظریفی …اور کچھ دھول اوردھواں کہ …حضرت شہید مکرمؒ کی زندگی کے بعض جرات
مندانہ پہلو …اس کتاب میں …پوری طرح سے اجاگر نہ ہو سکے …حالانکہ …یہی وہ پہلو ہیں
…جن کی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا …اور گولیوں کا نشانہ بنایا گیا …بہر حال اس سے
کوئی خاص فرق نہیں پڑتا …انکی شہادت ہی سب کچھ سمجھنے کے لئے کافی ہے …اللہ پاک
ہمیں بھی … جذبہ جہاد اور شوق شہادت نصیب فرمائے …اس کتاب میں …وقت کے عظیم اکابر
حضرات نے جو خراج تحسین …تحریر فرمایا ہے …ہم اس کا کچھ حصہ …شائع کر رہے ہیں …تا
کہ …کتاب تک رسائی نہ پانے والوں کے لئے …کچھ سامان مہیا ہو جائے …اسی طرح اس
خصوصی شمارہ کی بعض نظمیں اوراشعار بھی …حاضر خدمت ہیں …حضرت شہید مکرّمؒ کے …رفیق
خاص…اور معتمد حضرت مولانا مفتی خالد محمود صاحب زید مجدہ نے ’’عکس جمیل‘‘ کے
عنوان سے…ایک مفصّل مضمون تحریر فرمایا ہے …ہم اس مضمون کا ابتدائی حصہ … شائع کر
رہے ہیں …حضرت شہید مکرّم ؒ کے قریبی رشتہ داروں نے … بہت وقیع اور درد انگیز
مضامین لکھے ہیں … اس کتاب میں ایسے مضامین کی تعداد بارہ ہے …ہم ان میں سے …شہید
مکرّمؒ کی والدہ محترمہ کا …مضمون ان صفحات پر شائع کر رہے ہیں …باقی …صاحبزادوں،
بھائیوں…بہنوں …اور دیگر رشتہ داروں کے مضامین بھی …پڑھنے کے لائق ہیں…حضرت مولانا
مفتی مزمّل حسین صاحب زید قدرہ نے …اقراء روضۃ الاطفال کا مفصّل، مدّلل …اوردلنشین
تعارف لکھا ہے …یہ مضمون ایک ’’ تاریخی دستاویز‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے …بھائی وسیم
غزالیؒ نے بھی …قلم توڑ کر …خون جگر پیش کیا ہے… حضرات علماء نے …ہر پہلو کو اجاگر
کرنے کی سعی فرمائی ہے …جبکہ …صحافی دوستوں نے بھی یادوں کے پھول بکھیرے ہیں …میں
آج زیادہ کچھ نہیں لکھتا …آج…القلم کے یہ چاروں صفحات …اللہ تعالیٰ کی رضاء کے
لئے …اللہ تعالیٰ کے مخلص اور سرفروش بندے…حضرت استاذ محترم مولانا مفتی محمد جمیل
خان صاحب شہیدؒ کے نام
یا اللہ …اس ادنیٰ سی
کاوش کو قبول فرما اور شہید مکرّم کے درجات بلند فرما…
آمین …یا ربّ الشہداء
والمجاہدین …
کام یا آرام
ہمارے اکابر اتنے بڑے بڑے
کام کر گئے دیکھ کر یقین نہیں آتا وسائل کی قلت کے باوجود اتنی بڑی بڑی کتابیں
تصنیف فرمائیں کہ جن کو صرف نقل کرنے میں بھی ان کی مکمل عمر سے دو گنا زیادہ وقت
چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت اور تلاوت اتنی کہ ہم جیسے کم ہمت لوگ
تصور ہی نہیں کرسکتے کیا ان کے زمانے میں دن ۴۸گھنٹوں پر مشتمل ہوتا تھا
یا ہفتہ چودہ دنوں پر؟ اسی حقیت کو آشکارا کرنے والا یہ مضمون ملاحظہ فرمائیے اور
اپنی ہمت کو جلا بخشیے۔
)۲۹ شوال ۱۴۲۶ھ بمطابق۲دسمبر ۲۰۰۵ء(
کام یا آرام
اﷲ تعالیٰ کے مقبول بندے
دنیا میں بہت کام کر گئے… کتنی خوبصورت اور حسین زندگیاں تھیں… ان حضرات وخواتین
کی… آج ہم ان کے واقعات پڑھتے ہیں تو جسم میں بجلی دوڑنے لگتی ہے… انہوں نے اتنا
جہاد کیا کہ … علاقوں کے علاقے فتح کرلیے… اب ان علاقوں میں دین کا جو کام بھی
ہوتا ہے… اس کا اجر … ان فاتحین کو بھی ملتا ہے… اب وہ مزے کرتے ہوں گے اور خوب
عیش اڑاتے ہوں گے… تھوڑا سا سوچئے کہ وہ بھی اگر… سوتے رہتے، مال جمع کرتے رہتے،
اپنے نفس کے چکروں میں پڑے رہتے، ہر وقت مسلمانوں کو توڑنے کی سازشیں کرتے رہتے تو
… وہ اتنا اونچا کام کرسکتے تھے؟… ان حضرات نے اخلاص کے ساتھ ایسی محنت کی کہ …
کافروں کے علاقے چھین کر… انہیں ’’اسلامی سلطنت‘‘ کا حصہ بنایا… اور وہاں اسلام
نافذ کیا… جبکہ ہم لوگ… ’’اسلامی امارت‘‘ کی بھی حفاظت نہ کرسکے… اور وہ دن دھاڑے
ہم سے چھین لی گئی… آخر کچھ کھوٹ، قصور، شرارت، کمی… اور غلطی تو ہمارے اندر
ضرورہے… ورنہ اس زمانے کے نفس پرست کافر… اور بزدل منافق کبھی ہم پر غالب نہیں
آسکتے تھے… کاش یہی بات سوچ کر… ہماری سستی اور غفلت دور ہوجائے… ماضی کے لوگوں
نے… دین کی کیسی کیسی خدمات سرانجام دیں… ہم ان کے حالات پڑھتے ہیں تو سر چکرانے
لگتا ہے… یا اﷲ وہ بھی تیرے بندے تھے… انہیں بھی بھوک، نیند اور شہوت ستاتی ہوگی…
پھر وہ اتنا کام کیسے کر گئے کہ صدیاں گزر گئیں… مگر… دنیا آج بھی ان کے علم ان کی
کتابوں… اور ان کی تحقیق کی محتاج ہے… ان میں سے بعض نے تو اتنا کچھ لکھ لیا کہ
اگر ہم اسے نقل کرنے لگیں تو زندگی گزر جائے… پھر وہ حضرات… خوب قرآن پاک بھی
پڑھتے تھے، ذکر بھی صبح و شام کرتے تھے… راتوں کو جاگ جاگ کر نوافل بھی ادا کرتے
تھے… ان کی کئی کئی شادیاں بھی تھیں… مگر پھر بھی… وہ اتنا کام کرگئے کہ اب تک …
ان کا کام زندہ ہے… اور ان کا اجر جاری ہے… پھر عجیب بات یہ ہے کہ… ان کو جتنی قوت
اور طاقت ملتی گئی وہ اسے دین کے کاموں میں صرف کرتے گئے… ان میں سے کسی نے بھی
پیچھے مڑنے… یا رکنے کا ارادہ نہیں کیا… بلکہ… مسلسل اپنی محنت بڑھاتے گئے… اور اﷲ
پاک کے دئیے ہوئے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے گئے… آپ ایک حسین اور خوبصورت عورت کو
ہی لے لیجئے… ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا… مگر… کوئی بھی مؤرخ جب تاریخ
لکھنے بیٹھتا ہے تو … اس خاتون کو سلام کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا… کوئی بھی عراق
کی تاریخ لکھتا ہے تو اسے اس ’’عورت‘‘ پر کئی صفحات لکھنے پڑتے ہیں… کوئی حرمین شریفین
کی تاریخ لکھتا ہے تو اسے… اس عورت کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے… کوئی دنیا
بھرکے اہم کارناموں کی فہرست بناتا ہے تو اسے… اس عورت کو خراج تحسین پیش کرنا
پڑتا ہے… کوئی مصنف دنیاکے کامیاب اور بامراد افراد کے نام جمع کرتا ہے تو اسے اس
عورت کا نام اونچی فہرست میں لکھنا پڑتا ہے… علم ہو یا خدمت خلق… ذہانت ہو یا نیکی
ہر باب میں اس عورت کو یاد رکھاجاتا ہے…
آخر کیوں؟… دنیا میں
خوبصورت عورتیں تو بے شمار ہیں… اور ان کی تاریخ… زیادہ اچھی نہیں ہے… ان میں سے
اکثر کا تذکرہ… سستی، فتنہ پرستی… اور بے حیائی کے عنوان سے کیا جاتا ہے… مگر…
خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ’’زبیدہؒ ‘‘ …
دنیا کی وہ ’’کامیاب عورت‘‘ ہے جس نے سعادت اور ہمت کی ہر چوٹی کو سر کیا… اور دین
کی ہر گھاٹی کو عبور کیا… اگر وہ بدنصیب ہوتی تو بس اپنے خاوند پر اپنے حسن کا جال
پھینک کر… اسے … قابو میں رکھنے… اور اپنی سوکنوں پر برتری پانے میں… اپنی ساری
زندگی برباد کرلیتی… یا … ہر وقت مال گنتی رہتی… اور اسے اپنی اولاد کیلئے چھوڑ کر
مر جاتی… لیکن ایسا نہیں ہوا… اﷲ پاک نے اسے اچھی شکل… اور بہترین دماغ دیا تو اس
نے خود کو… اﷲ پاک کی رضا کیلئے وقف کردیا… اس نے اپنے حسن وجمال پر فخر نہیں کیا…
اور نہ اسے دنیا پانے کا ذریعہ بنایا… اس نے شکر کیا… اور وہ اﷲ تعالیٰ کی ہوگئی…
جب وہ اﷲ کی ہوگئی تو اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو رسوا کرکے… اس کے قدموں میں لا بٹھایا…
جی ہاں وہ امیر المؤمنین کی چہیتی بیوی بن گئی… مگر… اس نے اسے کافی نہیں سمجھا …
اور نہ اسے اپنی منزل قرار دیا… وہ تو … بس اﷲ تعالیٰ ہی کو راضی کرنا چاہتی تھی…
چنانچہ… اسے جو کچھ ملتا گیا وہ اسے اﷲ تعالیٰ کے کاموں میں لگاتی گئی… اور جیسے
جیسے اس کے اختیارات بڑھتے گئے… اس کا دینی کام بھی بڑھتا گیا… وہ اﷲ تعالیٰ کی بن
گئی… تو … اﷲ تعالیٰ اس کی قدر بڑھاتا گیا… اس خاتون نے دیکھا کہ اب مجھے اتنی
طاقت مل چکی ہے کہ … میری زبان ہلانے سے… ہزاروں افراد حرکت میں آسکتے ہیں… اور
شاہی خزانے کا منہ کھل سکتا ہے… تب اس نے عیش وعشرت کا کوئی پروگرام نہیں بنایا…
اس نے اپنے نام کو مزید چمکانے کا فضول کام نہیں کیا… اس نے زبان ہلائی… اور
دیکھتے ہی دیکھتے عراق سے لیکر مکہ مکرمہ اور منیٰ، عرفات تک پانی کی نہر… جاری
ہوگئی… اب ہر سال… لاکھوں زائرین حرم اس پانی سے پیاس بجھا رہے تھے اور … کعبۃ اﷲ
کے سامنے جھولیاں پھیلا پھیلا کر ’’زبیدہ‘‘ کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے… اسے کہتے
ہیں… موقع سے فائدہ اٹھانا… اور اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کی رضا کے لئے استعمال
کرنا… اہل تاریخ بتاتے ہیں کہ … یہ نہر صدیوں تک … اﷲ تعالیٰ کے مہمانوں کو سیراب
کرتی رہی… زبیدہؒ کے اور بھی بہت عجیب احوال ہیں… اﷲ تعالیٰ کی یہ مخلص ، محنتی…
اور عقلمند بندی… عزم وہمت کی ایک تاریخ رقم کر گئی ہے… اﷲ پاک اس کے درجات کو
مزید بلند فرمائے… اور ہمیں بھی… کام کی ہمت، توفیق اور سلیقہ عطاء فرمائے… آج بھی
ایسے بے شمار مرد اور عورتیں موجود ہیں جو … اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت کچھ
کرسکتے ہیں… ایسے افراد بھی موجود ہیں جو صرف زبان ہلادیں تو … ایک سال میں… ایک
سو مساجد آباد ہوجائیں… ایسے افراد بھی ہیں جو صرف اشارہ کردیں تو… علاقوں کے
علاقے جہاد کی محنت سے زرخیز ہوجائیں… ایسے افراد بھی ہیں جو … اپنی نیند میں سے
دو گھنٹے کم کرکے اسے خدمت قرآن پر لگادیں تو ہزاروں زبانیں… تلاوت کرنے کا طریقہ
سیکھ لیں… ایسے افراد بھی ہیں جو … اپنے نفس کی بڑائی اور سستی سے نجات پالیں تو…
صدقہ جاریہ کے اونچے پہاڑ منٹوں میں کھڑے ہوجائیں… اور ایسے افراد بھی ہیں جو صرف
چند الفاظ بول دیں تو ہزاروں غریبوں کے گھروں میں رزق کے برتن بھرجائیں… اﷲ تعالیٰ
نے اپنے بندوں کو بہت صلاحیتیں… اور بہت قوتیں عطاء فرمائی ہیں… مگر… بہت کم لوگ
ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جو ان قوتوں… اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں… ابھی
پچھلے شمارے میں آپ نے… حضرت مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کے کچھ حالات پڑھے… یقین
کیجئے انہوں نے اﷲ پا ک کی دی ہوئی ہر چیز کو… اس کی رضا کیلئے … استعمال کیا …
اور پھر تھوڑے ہی عرصے میں اتنا کام کرگئے… جتنا… کئی ہزار افراد مل کر بھی نہیں
کرسکتے… میں نے انہیں خود دیکھا کہ… اپنے تعارف اور اپنی رشتہ داری تک کو دین کے
کاموں میں استعمال کرتے تھے… گویا کہ انہوں نے ’’سب کچھ‘‘ لگادیا… تب … اﷲ پاک نے
بھی انہیں ’’سب کچھ‘‘ عطاء فرمادیا… آج چالیس ہزار بچے ان کے قائم کردہ مدارس میں
قرآن پاک پڑھ رہے ہیں… جبکہ… وہ خود جہاد اور شہادت کا مزہ لوٹ رہے ہیں…
اب کسی ’’کم ہمت‘‘ شخص کو
لے لیجئے… وہ … اپنی پوری زندگی میں چار سو بچوں کا ادارہ بھی نہیں چلا سکتا… بس
ہر وقت ناشکری… ہر وقت سونا… ہر وقت فضول گپ بازی… ہر وقت سازشیں، شرارتیں… اور
دوستیاں… اس طرح زندگی … برباد… اور آخرت بھی خدانخواستہ مشکوک… پھر وہ افراد جو
کسی … شرعی جماعت کے رکن ہوتے ہیں … ان پر تو اﷲ تعالیٰ کی بہت نوازش… اور مہربانی
ہوتی ہے… یہ لوگ اگر جماعت کی قدر کریں… امیر کی اطاعت کریں… اور محنت سے کام لیں
تو… اﷲ پاک … پورے عالم میں ان کے کام کو پھیلا دیتا ہے… اور… انہیں ناقابل شکست
قوت، شوکت، رعب… اور توفیق عطاء فرماتا ہے… یہ لوگ… جماعت کی قوت کے ذریعہ… دین کو
بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں… اپنے لیے قیامت تک کا صدقہ جاریہ بنا سکتے ہیں… مگر
اکثر ایسا نہیں ہوتا… کچھ ہی دن میں بعض لوگ تھک جاتے ہیں… بعض جماعت سے زیادہ
اپنی ذات کو اہمیت دینے لگتے ہیں… اور کچھ مال اور غفلت کے فتنے میں مبتلا ہوجاتے
ہیں… تب … اندر ہی اندر دوستیاں بنتی ہیں… گروپ بنتے ہیں… اپنے نفس کو سجدے کرانے
کے لئے خفیہ معاہدے ہوتے ہیں… پھر … امیر کی نافرمانی… اور جماعت کی ناقدری ہوتی
ہے … تب … ساری قوت بکھر جاتی ہے… اور وہ لوگ جن کو اﷲ تعالیٰ نے… علاقوں کے علاقے
روشن کرنے کی قوت دی تھی… واپس اپنی گلی میں آ بیٹھتے ہیں… تب انہیں پتہ چلتا ہے
کہ… انکی ساری قوت ’’جماعت‘‘ کے زور پر تھی… اور انہوں نے… شیطان کے حکم پر… اپنی
ہی قوت کو توڑا ہے… اور اپنی آخرت کو برباد کیا ہے… تب پچھتانے سے کچھ نہیں بنتا…
اب انہیں چاہئے کہ سای زندگی بکری کی طرح ’’میں میں‘‘ کریں… کیونکہ اسی ’’میں‘‘
اور ’’ہم‘‘ نے ہی انہیں جماعت اور قوت سے محروم کیا… اے اﷲ کے بندو… ا ور اے اﷲ کی
بندیو!… اﷲ پاک سے ڈرو… اور غفلت، سستی اور ’’میںمیں‘‘ سے توبہ کرکے… دین کا کام
کرو… کافروں کے لشکر میدانوں میں اتر آئے ہیں… فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب سب کچھ
بہا کر لے جارہا ہے… کافروں کی این جی اوز خدمت کے نام پر… ڈاکے ڈال رہی ہیں…
مسلمان قرآن سے محروم ہورہا ہے… مسلمان جہاد سے محروم ہو رہا ہے… مسلمان دین سے
محروم ہو رہا ہے… اب سستی اور غفلت کا وقت نہیں ہے… اب تھک ہار کر بیٹھ جانے کا
زمانہ نہیں ہے… اب جماعتوں کو توڑنے … اور خفیہ یاریاں کرنے کا وقت نہیں ہے… اب
غیبتوں اور شرارتوں کا وقت نہیں ہے… اے باصلاحیت مسلمانو! اﷲ کے لئے خود کو تولو…
اور پھر اپنا سارا وزن دین کے کاموں پر خرچ کرڈالو… اگر تمہارے چلنے سے کوئی کام
ہوتا ہے تو بغیر تھکے چلتے رہو… خواہ ٹانگیں ٹوٹ جائیں… اگر تمہارے بولنے سے کچھ
کام ہوتا ہے تو… بولتے رہو خواہ سینہ پھٹ جائے… اگر تمہارے جاگنے سے کچھ کام ہوتا
ہے تو جاگتے رہو… خواہ دماغ تھک جائے… اورسنو… اگر تمہارے مرنے سے کچھ کام ہوتاہے
تو مر جاؤ… تب … رب کریم خود استقبال فرماتا ہے… اور یاد رکھنا… زندہ رہنے والے
تمہاری موت کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں گے… بس اپنے اندر اخلاص پیدا کرو… اﷲ کی
’’رضا‘‘ اﷲ کی رضا… اور اﷲ پاک کی رضا…
یاد رکھو! اخلاص کے راستے
کا سب سے بڑا بُت ’’میں‘‘ ہے… اسے توڑ دو… اپنا نام مٹادو … اپنی قوم بھول جاؤ…
اپنے علاقے کو چھوڑ دو… اخلاص کے بعد… محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالو… اﷲ پاک
نے انسان کی کامیابی کیلئے… محنت کو ایک اہم ذریعہ بنایا ہے… دیکھو… اﷲ پاک کا
ارشاد ہے…
لَقَدْ خَلَقْنَا
الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدْ
ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں پیدا کیا ہے۔
(البلد۴)
اس آیت کی تشریح میں حضرت
مولانا احمد علی لاہوریؒ… فرماتے ہیں…
’’انسان دنیا میں
آرام پانے نہیں کام کرنے آیا ہے۔‘‘
(ترجمہ حضرت لاہوری
ص۹۵۰)
انسان کی قسمت میں تکلیف
ہی تکلیف لکھی ہے… مگر… خوش قسمت ہیں وہ انسان جو دین کی خاطر تکلیف اٹھاتے ہیں…
ایسے لوگوں کیلئے اﷲ پاک راستے کھول دیتا ہے… اور وہ ان کے ساتھ ہو جاتا ہے…
والذین جاہدوا فینا
لنہدینہم سبلنا وان اﷲ لمع المحسنین (العنکبوت۶۹)
ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو
ضرور اپنے رستے دکھادیں گے اور اﷲ تعالیٰ تو محسنین کے ساتھ ہے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کا فرمان ہے… سات چیزوں کے … آنے سے پہلے… نیک اعمال میں جلدی کرلو… تم
انتظار نہیں کر رہے مگر سات چیزوں کا… (۱) سب کچھ بھلادینے والا فقرکا… (۲)سرکش بنادینے والی
مالداری کا… (۳)سب
کچھ بگاڑنے والی بیماری کا… (۴)عقل
اور ہوش ختم کرنے والے بڑھاپے کا … (۵)اچانک
موت کا… (۶) دجال
کا… جن غائب چیزوں کا انتظار ہے … ان میں یہ … سب سے بڑا شر ہے… (۷)قیامت کا… اور قیامت بہت
سخت… اورتلخ ہے… (ترمذی)
ہم سب کے سامنے یہ سات
چیزیں ہیں… اس لیے جلدی کریں… جلدی کریں…
ہائے عزت
کافروں کے دروازوں پر سر جھکا کر اپنے
نظریات اور تشخص کو مٹا کر اپنے بھائیوں کا خون بیچ کر کافروں کے سامنے دنیا کی
عزت کی بھیک مانگنے والے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ مسلمانوں کی عزت کا معیار
کیاہے؟ اور اس کا حصول کیسے ممکن ہے؟ مسلمانوں میں لسانی اورعلاقائی عصبیت پھیلانے
والے لوگ کتنا بڑا ظلم ڈھا رہے ہیں مضمون پڑھئے اور آگاہی حاصل کیجئے۔
)۷ذی
القعدہ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۹دسمبر
۲۰۰۵ء(
ہائے عزت
اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے…
ما ذئبان جائعان ارسلا فی غنم بافسد لہا من حرص المرء علی المال
والشرف لدینہٖ…
ترجمہ: ’’دو بھوکے بھیڑئیے جو کسی ریوڑ پر چھوڑ دئیے
جائیں اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا مال اور مرتبہ حاصل کرنے کا حرص آدمی کے دین
کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الرقاق)
ہم نے پڑھ لیا کہ مال اور
مرتبے کا حرص انسان کے دین کے لئے کتنا خطرناک ہے… جی ہاں بہت خطرناک … بلکہ… بعض
اوقات تو عزت ومرتبے کا یہ شوق انسان کو منافق بنادیتا ہے… میں نے چند دن پہلے
اخبار کے صفحہ اول پر ایک بہت بڑی ’’سرخی‘‘ پڑھی… رات کو… بی بی سی نے بھی مزے لے
لے کر وہ بری خبر سنائی… وہ خبر کونسی ہے؟… تھوڑا سا انتظار فرمالیں… پہلے ہم قرآن
پاک کی دو آیات مبارکہ پڑھتے ہیں… قرآن پاک پڑھنے سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے… آپ
اگر پریشان ہیں، غمگین ہیں… دل میں شہوت کے کیڑے گندگی پھیلا رہے ہیں… یا … دنیا
داروں کے مال پر نظریں جارہی ہیں تو فوراً قرآن پاک کی تلاوت کریں… اور خوب تلاوت
کریں… تب … آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ… دل کا زنگ دھل رہا ہے… مگر شرط یہ ہے
کہ… تلاوت زیادہ ہو… یعنی عام معمول سے کم از کم پانچ گنا زیادہ… مثلا روزانہ ایک
پارہ پڑھتے ہیں تو ایسی حالت میں … پانچ پارے تلاوت کریں… یا دس… پہلے دو دن تو
زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوگا بلکہ… کچھ بوجھ اور کچھ مشکل حالت ہوگی… مگر… تیسرے دن
سے ایسا مزہ آئے گا… ایسا مزہ آئے گا جیسے … دل … دودھ اور شہد پی رہا ہو… اور مزے
لے لے کر چسکیاں بھر رہا ہو…
تلاوت کے آداب مختصر طور
پر … حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ نے … فضائل اعمال میں لکھ
دئیے ہیں… وہاں ملاحظہ فرمالیں… ہم تو آج ’’ایک خطرناک خبر‘‘ کا زنگ دھونے کیلئے
اس مضمون میں… دو آیات مبارکہ… اور ان کی مختصر تفسیر کا مذاکرہ کرتے ہیں…
دیکھئے پانچواں پارہ…
سورہ نساء آیت ۱۳۸… اور
۱۳۹ … اﷲ تبارک وتعالیٰ کا
ارشاد گرامی ہے…
بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْنَ
بِاَنَّ لَہُمْ عَذَاباً اَلِیْمَا oنِ الَّذِیْنَ
یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط
اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ ﷲِ جَمِیْعًاo
ترجمہ: ’’(اے پیغمبرصلی
اﷲ علیہ وسلم) منافقوں (یعنی دو رخے لوگوں) کو بشارت سنا دو کہ ان کیلئے دردناک
عذاب تیار ہے۔ وہ منافق جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنا تے ہیں، کیا یہ
ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اﷲ ہی کے قبضہ میںہے۔‘‘
آئیے ان مبارک آیات کو
مزید سمجھنے کیلئے بعض ’’مستند مفسرین‘‘ کی باتیں پڑھتے ہیں
حضرت محقق عثمانیؒ لکھتے
ہیں:
’’دین حق پر ہو کر
گمراہوں سے بھی بنائے رکھنا یہ بھی نفاق کی بات ہے۔‘‘
)تفسیر عثمانی ص۱۳۱(
صاحب تفسیر عثمانی ان دو
آیات کی تفسیر ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’یعنی
منافق لوگ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے
اور ان کا یہ خیال کہ کافروں کے پاس بیٹھ کر ہم کو دنیا میں عزت ملے گی بالکل غلط
ہے، سب عزت اﷲ تعالیٰ کے واسطے ہے جو اس کی اطاعت کرے گا اس کو عزت ملے گی۔ خلاصہ
یہ ہوا کہ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل وخوار رہیں گے۔‘‘
)تفسیر عثمانی ص ۱۳۱(
تفسیر ’’انوار البیان فی
کشف اسرار القرآن‘‘ کے مصنف ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’طارق ابن شہاب
بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ (اپنے زمانہ خلافت میں)
شام کی طرف روانہ ہوئے اس وقت ہمارے ساتھ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعا لیٰ
عنہ بھی تھے۔ چلتے چلتے حضرت عمر رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ اپنی اونٹنی سے اتر گئے اور
اپنے موزے اپنے کاندھے پر ڈال لیے اور اونٹنی کی باگ پکڑ کر چلنا شروع کردیا۔ حضرت
ابو عبیدہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین! آپ ایسا کرتے ہیں
کہ موزے نکال کر کاندھے پر ڈال کر اونٹنی کی باگ پکڑ کر چل رہے ہیں؟ مجھے تو یہ
اچھا نہیں لگتا کہ یہاں کے شہر والے اور لشکر اور نصاریٰ کے بڑے لوگ آپ کو اس حال
میں دیکھیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا افسوس ہے تیری بات پر اے ابو
عبیدہ ! تیرے علاوہ کوئی شخص یہ بات کہتا تو اسے عبرتناک سزا دیتا جو امت محمدیہ
کیلئے عبرتناک ہوتی۔ پھر فرمایا کہ بلا شبہ ہم لوگ (عرب) ذلیل قوم تھے اﷲ نے ہم کو
اسلام کے ذریعے عزت دی اس کے بعد جب کبھی بھی ہم اس چیز کے علاوہ عزت طلب کریں گے
جس سے اﷲ نے ہمیں عزت دی ہے تو اﷲ تعالیٰ ہمیں ذلیل فرما دے گا۔ ‘‘(رواہ الحاکم فی
المستدرک صفحہ ۲۶،ج۱)
آج دیکھا جاتا ہے کہ
مسلمان ہونے کے دعویدار نصاریٰ کے طور طریقے اختیار کرنے میں، داڑھی مونڈنے میں،
افرنگی لباس پہننے میں، کھانے پینے میں اور معیشت میں اور معاشرت میں، حکومت میں اور
سیاست میں دشمنان دین کی تقلید کرنے کو عزت کی چیز سمجھتے ہیں۔ کتاب اﷲ، سنت رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع کرنے میں، اسلامی لباس پہننے میں، بیاہ شادی میں سنت
کا طریقہ اختیار کرنے میں، اسلامی قوانین اختیار کرنے میں خفت اور ذلت محسوس کرتے
ہیں جس طرح منافقین کافروں سے دوستی کرکے ان کے یہاں عزت چاہتے تھے، آج کے مسلمان
بھی انہیں کے طرز کو اپنا رہے ہیں۔ اسلام اور اعمال اسلام میں عزت نہ سمجھنا اور
کافروں سے دوستی کرنے اور ان کی طرف جھکنے اور ان کی تقلید میں عزت سمجھنا بہت بڑی
محرومی ہے۔
حضرات صحابہ رضوان
اﷲعلیہم اجمعین سچے مسلمان تھے کافران سے ڈرتے تھے۔ اب جب کہ مسلمان ہی کافروں کی
طرف جھک رہے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگے جار ہے ہیں تو عزت کہاں رہی؟یہود ونصاریٰ
اور ہنود کا اتباع کرنے والے غور کریں۔(انوارالبیان فی کشف اسرار القرآن صفحہ ۳۷۷۔۳۷۸،ج۲)
حکیم الامۃ حضرت تھانویؒ
بیان القرآن میں تحریر فرماتے ہیں…
’’منافقین کو
خوشخبری سنادیجئے اس امر کی کہ ان کے واسطے آخرت میں بڑی دردناک سزا تجویز کی گئی
ہے۔ جن کی یہ حالت ہے کہ عقائد تو اہل ایمان کے نہ رکھتے تھے مگر وضع بھی اہل
ایمان کی نہ رکھ سکے چنانچہ کافروں کو دوست بناتے ہیں مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا ان
کے پاس جاکر معزز رہنا چاہتے ہیں سو خوب سمجھ لو کہ اعزاز تو سارا خدا کے قبضہ میں
ہے وہ جس کو چاہیں دیں‘‘۔(بیان القرآن ص۱۶۵ج۱)
ان آیات کے ’’مسائل
السلوک‘‘ میں حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں…
’’فیہ ذم لطلب الجاہ
وہو ظاہر‘‘ (بیان القرآن ص۱۶۵ج۱)
یعنی اس آیت میں بالکل
وضاحت کے ساتھ ’’طلب جاہ‘‘ کی مذمت ہے۔
علامہ ابن کثیرؒ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ان آیات مبارکہ کی
دلنشین تشریح وتفسیر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ…
’’مناسب معلوم ہوتا
ہے کہ ہم یہاں وہ حدیث بھی لکھ دیں جو امام احمدؒ نے (مسند میں) روایت کی ہے۔ حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’جو عزت اور فخر کے
طور پر اپنے نو(۹) کافر
آباء واجداد کا تذکرہ کرے گا تو وہ ان کے ساتھ جہنم میں دسواں ہوگا‘‘۔ (تفسیر ابن
کثیر ص۵۴۴ج۱)
یعنی اگر کسی کو اﷲ پاک
نے اسلام کی توفیق دی تو اب اس کے لئے جائز نہیں کہ … اپنے کافر آباء واجداد کے
نام سے عزت وفخر حاصل کرنے کی کوشش کرے… جس طرح کہ آج کے قوم پرست لیڈر… اسلام کو
نئی چیز… اور اپنی لسانی قومیت کو ہزاروں سال پرانی چیز قرار دے کر… اپنے… کافر
آباء واجداد کے نام پر فخر کرتے ہیں… اﷲ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے…
حضرت مولانا مفتی محمد
شفیع صاحبؒ نے ان دو آیات کی تشریح میں پورے دو صفحات پر بہت مؤثر کلام فرمایا ہے
ہم یہاں ان کی ’’تقریر‘‘ میں سے دو باتیں پیش کر رہے ہیں…
)۱( کفار ومشرکین کو
خود ہی عزت نصیب نہیں، ان کے تعلق سے کسی دوسرے کو کیا عزت مل سکتی ہے، اسی لیے
حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
مَنِ اعْتَزَّ بالعبید
اَذلّـہُ اﷲ
یعنی جو شخص مخلوقات اور
بندوں کے ذریعے عزت حاصل کرنا چاہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ذلیل کردیتے ہیں… ( تفسیر جصّاص و معارف القرآن ص۵۸۳ج۲)
)۲( یہاں عزت سے مراد
اگر ہمیشہ قائم اور باقی رہنے والی آخرت کی عزت ہے تب تو دنیا میں اس کا مخصوص
ہونا اﷲ تعالیٰ کے رسول اور مؤمنین کے ساتھ واضح ہے، کیونکہ آخرت کی عزت کسی کافر
ومشرک کو قطعاً حاصل نہیں ہوسکتی، اور اگر مراد دنیا کی عزت لی جائے توعبوری دور
اور اتفاقی حوادث کو چھوڑ کر انجام کے اعتبار سے یہ عزت وغلبہ بالآخر اسلام اور
مسلمانوں ہی کا حق ہے، جب تک مسلمان صحیح معنی میں مسلمان رہے، دنیا نے اس کا
آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا اور پھر آخر زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امامت
وقیادت میں مسلمان صحیح اسلام پر قائم ہوجائیں گے تو پھر غلبہ انہی کا ہوگا۔
(تفسیر معارف القرآن ص۵۷۳)
انڈیا کی جن جیلوں میں
’’کشمیری مجاہدین‘‘ کو قید رکھا گیا ہے… وہاں… انڈیا کے مخبر اور جاسوس اس بات کی
ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کس مجاہد لیڈر کو لوگوں کے درمیان ’’بڑائی‘‘ کا شوق ہے…
پھر وہ ایسے مجاہدین کو شکارکرتے ہیں… جیل کا ’’ایس پی‘‘ انہیں اپنے دفتر میں بلا
کر کرسی پر بٹھاتا ہے… چائے پلاتا ہے… ان کی عقلمندی کی تعریف کرتا ہے… انہیں کھڑے
ہو کر ملتا ہے… اور واپسی پر دروازے تک چھوڑنے آتا ہے… تب … بعض عزت کے شوقین بلکہ
مریض حضرات… ان غلیظ اداؤں میں پھنس جاتے ہیں … اور اپنے نقلی پروٹوکول کو سب کچھ
سمجھ کر… اپنے… پیارے شہید بھائیوں کا خون تک بھول جاتے ہیں… اسی صورتحال کو مدنظر
رکھتے ہوئے ہم لوگ جیل میں کہا کرتے تھے کہ… اﷲ پاک جسے ذلیل کرنا چاہتا ہے اس کے
دل میں اپنی عزت اور بڑائی کا شوق ڈال دیتا ہے…
اب ہم اپنی اصل بات کی
طرف لوٹتے ہیں … ہم نے مضمون کے شروع میں ایک حدیث پاک پڑھ لی… پھر… اﷲ پاک نے
ہمیں اپنی مبارک ومعطر کتاب قرآن پاک کی دو آیات پڑھنے… اور سمجھنے کی توفیق عطا
فرمائی… اب آئیے اخبار اٹھا کر وہ بیان پڑھتے ہیں جس کا تذکرہ مضمون کے شروع میں ہوا
تھا… یہ روزنامہ ’’اوصاف‘‘ ہے… پاکستان کا ایک بڑا اخبار… اس کی مرکزی سرخی ملاحظہ
فرمائیے…
’’دنیا میں عزت
کیلئے عسکری تنظیموں سے بچنا ہوگا، ’’صدر پرویز مشرف‘‘
خبر کی مزید تفصیل میں
لکھا ہے…
’’صدر مملکت جنرل
پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر ہم نے اقوام عالم میں اپنی عزت اور وقار کو بحال
رکھنا ہے تو ہمیں مذہبی انتہا پسندی اور عسکری تنظیموں سے دور رہنا ہوگا… (روزنامہ
اوصاف)
اس کے بعد صدر صاحب نے جو
فوجی وردی میں ملبوس تھے کہا:
’’اکیسویں صدی میں
آگے جانے کا طریقہ لڑائی نہیں معاشی خوشحالی اور علم ہے۔‘‘ (روزنامہ اوصاف)
میں یہ خبر پڑھ کر حیران
رہ گیا کہ… ہمارے صدر صاحب ایک طرف تو کعبہ شریف پر چڑھ کر نعرے لگاتے ہیں… اورد
وسری طرف … اپنوں کو مار کر کافروں کے ہاں عزت ڈھونڈ رہے ہیں… کیا… انہوں نے قرآن
پاک کی وہ آیات نہیں پڑھیں جن کا اوپر تذکرہ ہوا ہے… میں اسی الجھن میں تھا کہ
اخبار کی بڑی سرخی سے کچھ نیچے… ایک اور سرخی پر نظر پڑی… اور میری الجھن ختم
ہوگئی… آپ بھی ملک کے صدر کا بیان ملاحظہ فرمائیں…
’’سوچنے میں وقت
ضائع ہوتا ہے جو جی میں آئے کر گزر تا ہوں‘ صدر مشرف‘‘ (روزنامہ اوصاف)
ہائے ہماری قسمت… بس ہم
یہی دعاء کرتے ہیں کہ… اﷲ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو… قرآن پاک پڑھنے،
سمجھنے اور نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے…اور ہمیں آخرت کی سوچ اور دین کی سمجھ
عطاء فرمائے… اور ہمیں ہر قدم ’’سوچ سمجھ‘‘ کر اٹھانے کی سعادت عطا فرمائے… (آمین یا ارحم الراحمین)
اﷲ کے لئے
اے مسلمانو!
قرآن پاک مسلمانوں کو اپنی طرف بلاتا
ہے تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ تک پہنچیں اور دنیا وآخرت میں عزت وسرفرازی پائیں ماضی میں
جب بھی مسلمانوں نے قرآن پاک کو اپنایا بلندیاں ان کا مقدر بن گئیں قرآن پاک سے
غفلت جرم ہے اسی جرم سے بچنے کی ایک درد بھری دعوت۔
)۱۴ذی
القعدہ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۱۶دسمبر
۲۰۰۵ء(
اﷲ کے لئے
اے مسلمانو!
اﷲ کے لئے اے مسلمانو!…
قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ… اﷲ کے لئے… اﷲ کے لئے فوراً لوٹ آؤ… ہماری غفلت نے ہمیں
تباہ کردیا ہے… برباد کردیا ہے… کتنا بڑا زلزلہ آیا مگر ہم نے عبرت نہ پکڑی… وہی
بدمعاشیاں، وہی تماشے، وہی جانوروں والی حرکتیں… اور وہی بندر والا ناچ… حکمرانوں
کو ذرا خیال نہ آیا کہ… ان کے کرتوُتوں نے قوم کو کتنے بڑے عذاب میں مبتلا کیا ہے…
اسی طرح غفلت سے اُچھلتے پھرتے ہیں اور لوگوں کو جبراً قرآن پاک سے دور کر رہے
ہیں… سیاستدانوں کو کچھ خیال نہ آیا کہ ملبے کے نیچے دبی لاشیں ان کو کیا سمجھا
رہی ہیں… سب نے اپنا ’’قد‘‘ بڑھانے کے لئے چھلانگیں لگانا شروع کردیں… دینداروں نے
ذرا نہ سوچا کہ ان سے کیا کوتاہی ہورہی ہے… حالانکہ… مدینہ منورہ میں صرف تیز ہوا
چل پڑتی تھی تو… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کے جانثار صحابہ کرام رضوان اﷲ
علیہم اجمعین… مسجدوں کی طرف دوڑ پڑتے تھے… اور اﷲ پاک کے خوف سے کانپنے اور لرزنے
لگتے تھے… یہاں لاکھوں افراد اکھاڑ دیئے گئے… مگر… کچھ ایسا نہ کیا گیا جس کی
’’اصل ضرورت‘‘ تھی… بلکہ… بعض جگہ تو دنیا پرستی اور شہوات کا کھیل … اور زیادہ
شروع ہوگیا… ہاں… جنہوں نے اپنے نظریات کو قرآن پاک کے مطابق نہ بنایا ہو… ان پر…
یہود ونصاریٰ کی گوری اور چمکدار این جی اوز کا جادو جلدی چڑھ جاتا ہے… اے
مسلمانو!… ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے کی ضرورت ہے… اور … یہ پہچان قرآن پاک کے ذریعہ
ہی ممکن ہے… اے مسلمانو!… ہمیں خود کو سدھار نے کی ضرورت ہے… اور ہمیں… قرآن پاک
ہی سدھرنے کا راستہ بتا سکتا ہے… مگر ہم… قرآن پاک سے بہت دور ہوچکے ہیں … اور
مزید دور ہوتے چلے جارہے ہیں… اسی لیے… ہم بے وزن ہوگئے… اور اسی لیے ہم ’’بے
آبرو‘‘ ہو گئے… حالانکہ… قرآن پاک موجود ہے… اور اس کی ہر آیت… اور اس کے ہر حکم
میں… ہمارے لیے زندگی ہے… رحمت ہے، ہدایت ہے، حفاظت ہے، شفاء ہے… اور کامیابی ہے…
ٹھیک ہے ہمارے پاس اب کوئی ’’مرکز‘‘ نہیں رہا… مگر… قرآن پاک تو موجود ہے… ہم
’’قرآنی جماعت‘‘ بن کر مرکز حاصل کرسکتے ہیں… ٹھیک ہے ہم مغلوب ہوچکے ہیں… مگر…
ہمارے پاس قرآن پاک تو موجود ہے… ہم … قرآنی اصولوں کو اپنا کر… غلبہ حاصل کرسکتے
ہیں… ٹھیک ہے ہم سے سکون چھن گیا … مگر… ہمارے پاس قرآن پاک تو موجود ہے… ہم قرآن
پاک کے میٹھے طریقے پر چل کر سکون حاصل کرسکتے ہیں… ٹھیک ہے ہم بکھر چکے ہیں… مگر
ہمارے پاس قرآن پاک تو موجود ہے ہم قرآن پاک کی رسی کو تھام کر… متحد ہوسکتے ہیں…
ٹھیک ہے ہم کمزور ہوچکے ہیں… مگر… ہمارے پاس قرآن پاک تو موجود ہے ہم قرآن پاک کی
قوت کو اپنے اندر لا کر… طاقتور ہوسکتے ہیں… اے مسلمانو! اﷲ کے لئے قرآن پاک کی
طرف لوٹ آؤ… چھوڑو امریکا اور اسرائیل کی سازشوں کے تذکرے… یہ کافر، انکی قوت اور
ان کا شور شرابا… ہر زمانے میں موجود تھا… روم وفارس کی قوت اور دبدبہ ان سے کم
نہیں تھا… مگر… صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے قرآن پاک کو پڑھا، سمجھا… اور
اس پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھے تو یہ قوتیں ان کے جوتوں کا غبار بن گئیں… پھر آج کا
مسلمان کیوں بے بسی سے ہاتھ مل رہا ہے؟… آج کا مسلمان کیوں خوف سے کانپ رہا ہے؟…
صرف اسی لیے کہ اس نے قرآن پاک کے آئینے میں خود کو… اور اپنے دشمنوں کو نہیں
دیکھا… اور نہ… اس نے قرآن پاک والا راستہ اختیار کیاہے… اگر آج مسلمانوں پر حالات
خراب ہیں تو ماضی میں کون سے اچھے تھے؟… اٹھاون سال پہلے تو ہمارے اس پورے علاقے
پر انگریز کا راج تھا… کسی زمانے فرعون، کسی زمانے نمرود، کسی زمانے ابوجہل، کسی
زمانے تاتاری… اور کسی زمانے منگول… آزمائش تو آتی ہے… مگر مسلمان تو کبھی اپنے
دین سے دستبردار نہیں ہوتا… مسلمان تو کبھی کسی طوفان سے نہیں ڈرتا… مسلمان تو
کبھی اپنے نظریات نہیں بدلتا… قرآن پاک نے بتایا ہے کہ… اصل عزت اسلام کی عزت ہے…
بس … مسئلہ ہی ختم… قرآن پاک نے بتایا ہے کہ اصل کامیابی… آخرت کی کامیابی ہے… بس
مسئلہ ہی ختم… قرآن پاک نے بتایا ہے کہ دنیا کی زیب وزینت سب کھیل تماشا اور بے
کار ہے… بس مسئلہ ہی ختم…قرآن پاک نے بتایا کہ … ہر موت ناکامی نہیں… بس مسئلہ ہی
ختم… قرآن پاک نے بتایا ہے کہ امن کا معنیٰ… اﷲ کی ناراضی اور عذاب سے بچنا ہے… بس
مسئلہ ہی ختم… قرآن پاک نے بتایا ہے کہ… شہادت موت نہیں زندگی ہے… بس مسئلہ ہی
ختم… اور قرآن پاک نے سمجھایا ہے کہ… کافروں کا دنیا میں مزے کرنا ان کی کامیابی
کی وجہ سے نہیںہے… بس مسئلہ ہی ختم… اور قرآن پاک نے بتایا ہے کہ… مسلمان دنیا میں
کھانے پینے، مکانات بنانے اور دنیا آباد کرنے نہیں… قرآن پاک پر عمل کرنے، جہاد
کرنے، دین کو غلبہ دلانے… اﷲ پاک کو راضی کرنے… اور اپنی قبر اور آخرت بنانے کے
لئے آیا ہے… بس مسئلہ ہی ختم… قرآن پاک نے سمجھایا ہے کہ… مسلمان شرک وکفر کا غلبہ
برداشت نہیں کرسکتا … بس مسئلہ ہی ختم… قرآن پاک نے بتایا ہے کہ… مسلمان اﷲ کے
دشمنوں کا یار نہیں ہوسکتا… بس مسئلہ ہی ختم… قرآن پاک نے تبایا ہے کہ… یہود
ونصاریٰ … اور دوسرے اسلام کے دشمن مسلمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوسکتے… بس مسئلہ
ہی ختم… اور قرآن پاک نے ہمیں بتایا کہ … بڑے بڑے بادشاہ ناکام تھے… کیونکہ وہ
کافر تھے… اور بہت سارے فقرا کامیاب تھے… حالانکہ وہ ظلم وستم سے مارے گئے… اگر
کامیابی یہی ہے… اور یقینا یہی ہے تو مسئلہ ہی ختم … اﷲ کے لئے اے مسلمانو!… قرآن
پاک کی طرف لوٹ آؤ… قرآن پاک ہمیں جس قسم کا مسلمان بناتا ہے… اس مسلمان کے لئے
ناکامی کا تصور ہی نہیں ہے… وہ کامیاب ہی کامیاب ہے… زندہ رہے تب بھی کامیاب اور
مرجائے تب بھی کامیاب… ایسے مسلمان سے شیطان بھی مایوس ہوتا ہے… اور دنیا بھر کے
کافر بھی اس سے مایوس … وہ… مسلمان نہ مغرب کا ایجنٹ ہوتا ہے نہ مشرق کا … وہ نہ
مال کا پجاری ہوتا ہے اور نہ کافروں کی طاقت کا… وہ نہ موت سے ڈرتا ہے… نہ … ایٹم
بم سے … وہ صرف اﷲ کا ہوتا ہے… وہ اﷲ کے پاک رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہوتا ہے… وہ
کعبۃ اﷲ کا ہوتا ہے… اور وہ مسلمانوں کا ہوتا ہے… اسلام دشمن کافر اسے کبھی اپنا
دوست نہیں سمجھتے… بلکہ… وہ اسے مارنے، پکڑنے اور برباد کرنے کیلئے سازشیں کرتے
ہیں… مگر… وہ اپنی زندگی آزادی کے ساتھ گزارتا ہے… وہ … کسی سے زندگی کی بھیک نہیں
مانگتا… وہ … لا الہ الا اﷲ کہتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے… اسی لیے تو… دنیا
بھر کے کافر ’’قرآن کی تعلیم‘‘ کے دشمن ہیں… وہ جانتے ہیں کہ… قرآن پاک کے ہوتے
ہوئے… اسلام کا خاتمہ ناممکن ہے… جہاد کا خاتمہ ناممکن ہے… وہ کہتے ہیں… سب کچھ
پڑھو… قرآن پاک نہ پڑھو… سب کچھ سمجھو قرآن پاک نہ سمجھو… کیونکہ… قرآن پاک… اسلام
کے دشمنوں کیلئے… موت کی آسمانی بجلی ہے … اور وہ … قرآنی دعوت کی قوت کو جانتے
ہیں… قرآن پاک جب مسکراتا ہے تو… کروڑوں بھولے بھالے کافر… اسلام کی طرف دوڑتے
ہیں… اور فوج در فوج مسلمان ہوجاتے ہیں… اے مسلمانو!… اﷲ کے لئے قرآن پاک کی طرف
لوٹ آؤ… اور … دنیا کو قرآن پا ک کی مسکراہٹ دکھادو… تب … ناپاک حسیناؤں کی
مسکراہٹ اپنا اثر کھو دے گی… قرآن پاک جب کڑکتاہے ، گرجتا ہے … تو … اسلام کے
دشمنوں کی طاقت مکڑی کے جالے کی طرح … ٹوٹ جاتی ہے… اور پھٹ کر بکھر جاتی ہے… اے
مسلمانو! اﷲ کے لئے ہمت کرو… اور … دنیا کو قرآن پاک کی کڑک اور گرج کا مشاہدہ
کرادو… آج… لوگوں کے کان حضرت خالد بن ولیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ… اور حضرت قعقاع رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کی للکار کو ترس گئے ہیں… ہاں… مظلوموں کو بہت انتظار ہے… اور قرآن
پاک جب اپنا دامن پھیلاتا ہے تو… اﷲ پاک کی زمین… توحید اور نور سے بھر جاتی ہے…
اے مسلمانو!… اﷲ کے لئے… قرآن پاک کی دعوت کو عام کرو… تاکہ… اس کے دامن کے سائے
میں روتی، بلکتی… اور سسکتی انسانیت سکون لے سکے… اور رب تعالیٰ کے راستے تک پہنچ
سکے… اے مسلمانو! … تم تو قرآن پاک کے ’’داعی‘‘ تھے مگر اب تو خود… تمہارے سینے
قرآن پاک سے خالی ہیں… تم … اوروں کو کیا دعوت دو گے؟… اے مسلمانو!… تم توقرآن پاک
کے مبلغ تھے… مگر… اب تو تم خود قرآن پاک کو نہیں سمجھتے… تم … ساری دنیا کو کیا
سمجھاؤ گے… کیا تم نے کبھی سوچا کہ… تمہاری اس غفلت سے کتنا نقصان ہورہا ہے؟… آج …
لاکھوں افراد روزانہ کفر کی حالت پر مر رہے ہیں… کیا تم نے ان تک قرآن پاک
پہنچایا؟… کیا تم نے جہاد کے ذریعے ان کے علاقوںمیں دین کو داخل کیا؟… نہیں بالکل
نہیں… تم تو خود… دنیا پرست بن چکے ہو… تمہیں نوٹ بنانے، نوٹ گننے، … اور
جائیدادیں جوڑنے سے فرصت ہی نہیں ہے … تم تو… خود شہوت پرست جانور… اور اپنی ذات
کے سوراخ میں بند کیڑے بن چکے ہو… تمہیں کیا فکر… کہ کتنے لوگ کفر پر مر رہے ہیں…
تمہیں کیا فکر… کہ تمہارے قرآن پاک چھوڑنے کی وجہ سے … کفر کتنا طاقتور ہوگیا… اور
کافر کس قدر اپنے کفر پر پکے ہوگئے… کاش… تم قرآن پاک کے حکم کے مطابق صرف… اﷲ پاک
کو جان دینے کا وعدہ کرلیتے تو… کفر کبھی طاقتور نہ ہوتا… اور نہ سارے کافر اپنے
کفر پر اتنے پکے ہوتے… مگر افسوس… آج کافر مغرور ہوگئے ہیں… کیونکہ تم ان کی نظروں
میں مقام پانے کے لئے مرے جارہے ہو… ہائے اس ذلت اور پستی کا تصور کرنا بھی مشکل
ہے… جانور بھی اتنی ذلت اور پستی گوارہ نہیں کرتے… آپ اخبار اٹھا کر دیکھ لیں…
ہمارے حکمران، ہمارے دانشور اور ہمارے دنیادار سبھی کافروں سے امن اور عزت کا
سرٹیفیکیٹ لینے کے لئے… قرآن پاک کا انکار تک کر جاتے ہیں… حالانکہ مسلمان دنیا
میں ذلیل ہونے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوا… مگر جب ہم نے… قرآن پاک کی ’’زندگی‘‘ کو
چھوڑا تو پھر ذلت کی ’’موت‘‘ نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے… ہم نے قرآن پاک کے
’’سکون‘‘ کو چھوڑا تو ہر طرف سے … بے سکونی نے ہمیں تباہ کردیا ہے… نہ ہمارا
’’نکاح‘‘ قرآن کے مطابق، نہ ہماری ’’طلاق‘‘ قرآن پاک کے مطابق… نہ ہمارا ’’مرنا‘‘
قرآن کے مطابق نہ ہمارا ’’جینا‘‘ قرآن کے مطابق… نہ ہماری ’’سیاست‘‘ قرآن کے مطابق
نہ ہماری ’’قیادت‘‘ قرآن کے مطابق… نہ ہماری ’’تعلیم‘‘ قرآن کے مطابق … نہ ہماری
’’تربیت‘‘ قرآن کے مطابق… نہ ہماری ’’سوچ‘‘ قرآن کے مطابق… اور نہ ہمارے نظریات قرآن
کے مطابق…
تب ہم پر اگر اندھیرے
چھاگئے ہیں تو کیا تعجب ہے؟… ہم نے نور کو چھوڑ دیا ہے تو اندھیرے ہی ہمارا مقدر
بنیں گے… اے مسلمانو! اﷲ پاک کے لئے قرآن کی طرف لوٹ آؤ… دیکھو اب بھی… کچھ لوگ
قرآن پاک کو تھامے ہوئے ہیں… اﷲ پاک نے انہیں کتنا نوازا ہے… روزانہ… کروڑوں اربوں
ڈالر ان کے خلاف خرچ کیے جارہے ہیں… روزانہ سینکڑوں جہاز ان کے خلاف اڑانیں بھرتے
ہیں… روزانہ سینکڑوں من بارود ان پر برسایا جارہا ہے… مگر وہ… زندہ ہیں، کامیاب
ہیں… اور قرون اولیٰ کا نشان ہیں… تب … ساری دنیا کا کفر چیختا ہے کہ… مسلمانوں کو
قرآن سے روکو… کچی مسجدوں کی چٹائی کو الٹ دو… تاکہ… قرآن پاک کی تعلیم بند
ہوجائے… عالم اور مولوی کو ڈرادو… تاکہ… قرآن پاک کی تعلیم بند ہوجائے… غیر ملکی
ویزوں کے دروازے کھول دو… تاکہ قرآن پاک کی تعلیم بند ہوجائے… باطل فرقوں کے ڈسے
ہوئے افراد کو حکمران بنادو تاکہ… قرآن پاک کی تعلیم بند ہوجائے… دینداروں پر روزی
تنگ کردو… تاکہ قرآن پاک کی تعلیم بند ہوجائے… مدرسہ کی ’’خودی‘‘ کو بیٹری ڈال دو…
تاکہ… قرآن پاک کی تعلیم بند ہوجائے… قرآنی روح سمجھانے والوں کو قتل کردو… منظر
سے غائب کردو… تاکہ… قرآن پاک کی تعلیم بند ہوجائے… جہادی مراکز میں قرآن کے
مضامین خوب کھلتے ہیں… جہادی مراکز تباہ کردو… تاکہ… قرآن پاک کی تعلیم بند
ہوجائے… زمانے کے فرعون ڈر رہے ہیں کہ… قرآن پاک … محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت
کے نوجوانوں میں… حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جذبہ بھردے گا… دنیا کے فرعون کانپ
رہے ہیں کہ… قرآن پاک… اس امت کی بیٹیوں کو حضرت آسیہ بنادے گا… زمانے کے نمرود
طاقت کی آگ بھڑکا کر بھی کانپ رہے ہیں کہ… قرآن پاک … پھر فرزندان ابراہیم کے لشکر
کھڑے کردے گا… زمانے کے ابولہب گھبرائے ہوئے ہیں… اور زمانے کے عبداﷲ بن ابی… قرآن
پاک کے خلاف ہر حربہ آزما رہے ہیں… وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اے مسلمانو! قرآن
کو چھوڑ دو ہم تمہیں مالا مال کردیں گے… اے مسلمانو! قرآن کو چھوڑ دو ہم … یہ
ناچنے والی لڑکیاں تمہارے قدموں میں ڈال دیں گے… تب اچانک مسلمان کی نظر… قرآن کی
بتائی ہوئی جنت پر پڑتی ہے… اور قرآن انہیں پاکیزہ حوروں کی حسین داستاں سناتا ہے
تو… پھر … مسلمان کافروں کے مال… اور ان کی بے حیائی پر تھوک دیتا ہے… اسی لیے… اے
مسلمانو! اﷲ کیلئے قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ… تم مرد ہو تو… اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ
مرد کو… قرآن پاک میں ڈھونڈو… اور پھر ویسے مرد بن کر… اﷲ پاک کی رضا، محبت اور
جنت کو جیت لو … تم عورت ہو تو… قرآن پاک کو دیکھ کر… اﷲ پاک کی پسندیدہ عورت بنو
… تب … تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہوجاؤ گی… الغرض تم جو کچھ بھی ہو… جہاں بھی
ہو… جس حال میں بھی ہو… اﷲ کیلئے قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ… وقت تیزی سے گزر رہا ہے…
مساجد پکار رہی ہیں… مظلوموں کی لاشیں فریاد کر رہی ہیں… عقوبت خانوں اور جیلوں
سے… ظلم کا بھیانک دھواں اٹھ رہا ہے… ہر طرف کفر، اندھیرا… اور بے چینی ہے… ہر طرف
شرک، بدمعاشی اور بے حیائی ہے … وہ دیکھو… شہداء حیران ہیں… وہ دیکھو ہماری قبر
ہمارے بالکل قریب آچکی ہے… وہ دیکھو!… موت ہمیں دیکھ رہی ہے… وہ دیکھو… زمانے کا
مؤرّخ ہماری بری داستان لکھنے کو تیار بیٹھا ہے… وہ دیکھو… قیامت کا حساب کتاب
بالکل سامنے ہے… وہ دیکھو… زمین پھٹنے کو ہے… دیر مت کرو… دیر مت کرو… اے
مسلمانو!… اﷲ کے لئے قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ… ہاں … دو رکعت پڑھ کر اس کا پکا وعدہ
کرلو… رنگ ونور کی اگلی مجلس میں… ان شاء اﷲ قرآن پاک سمجھنے کا آسان اور مختصر
نصاب… بیان ہوگا… مگر… اس سے پہلے خوب غور کرلو… خوب سوچ لو… اور ایک زور دار
انگڑائی لیکر غفلت کے رسّے توڑ دو… ایک نئے عزم کی بجلی اپنے اندر بھرلو… اور پھر…
رب تعالیٰ سے توفیق مانگو… ہاں مسلمانو! ہاں… بس اب تک بہت ہوچکا … اب اﷲ کیلئے…
قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ…
قرآن کی طرف
ہر مسلمان لازمی طور پر اپنے آپ سے
پانچ سوال کرے اور اپنے نفس کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کا جواب پوچھے قرآن، جہاد
اور کامیابی کی طرف بلانے والی ایک تحریر۔
)۲۱ذی
القعدہ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۲۳دسمبر
۲۰۰۵ء(
قرآن کی طرف
اﷲ تعالیٰ کے محبوب شہر
مکہ مکرمہ میں… جمع ہو کر بھی … وہ کوئی اچھا فیصلہ نہ کرسکے… مسلمانوں پر حکومت
کرنے والے… ان پچاس سے زائد حکمرانوں کو… کسی نے نہیں بتایا کہ… مکہ مکرمہ جہاد کے
ذریعہ فتح ہوا تھا… جی ہاں امت مسلمہ میں سے کسی سچے مسلمان کو اس حقیقت سے انکار
نہیں ہے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے دس ہزار جاںنثار صحابہ کرامؓ نے
پوری جنگی تیاری… اور مکمل عسکری حکمت عملی کے ساتھ… مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی
فرمائی تھی… یہ حملہ اس قدر سخت اور منظم تھا کہ… مشرکین مکہ کا جنگی غرور خاک میں
مل گیا اور وہ لڑائی نہ کرسکے… مکہ مکرمہ سے لیکر مدینہ منورہ تک قربانیوں کی جو
داستان زمین اور آسمان کو یاد ہے… کاش کوئی اس کا ایک ورق ان ’’حکمرانوں‘‘ کو
سنادیتا… ان حضرات نے ’’مدینہ منورہ‘‘ حاضری دی … مگر… انہیں یاد نہ رہا کہ… مدینہ
منورہ جہاد فی سبیل اﷲ کی برکت سے ایک مکمل ’’اسلامی ریاست‘‘ بنا… قرآن پاک کی ایک
پوری سورۃ ’’سورۃ الحشر‘‘ کو پڑھ کر دیکھ لیجئے…
پھر اسی مدینہ منورہ سے
ہر دو مہینے میں ایک اسلامی لشکر ’’جہاد‘‘ کے لئے روانہ ہوتا تھا… اور وہ زمانہ
روئے زمین کا بہترین… اور ترقی یافتہ ترین زمانہ تھا… اس زمانے میں آسمان کی
بلندیاں زمین کو رشک سے دیکھتی تھیں… اور بوڑھے سورج نے اتنا خوبصورت زمانہ نہ
پہلے دیکھا تھا… اور نہ وہ بعد میں دیکھ سکا… جی ہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس
زمانے میں… مدینہ منورہ تشریف فرما تھے… مجاہدین کا ایک لشکر جارہا تھا… تو …
دوسرا واپس آرہا تھا… شہداء کے جنازے مہک رہے تھے… مدینہ منورہ کی گلیوں میں
شہیدوں کے یتیم بچے آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے تھے… گھوڑوں کے طاقتور پاؤں غبار
اڑا رہے تھے… بہت معطر غبار… ہر شخص زخمی تھا… اور وہ اپنے زخموں کو یوں محبت سے
دیکھتا تھا جس طرح حسن والے اپنے محاسن کو دیکھتے ہیں… بوڑھے، بچے، عورتیں سب جہاد
میں جارہے تھے… صبح شام زخمی ہو رہے تھے… کٹ رہے تھے… اور اسلام تیزی سے آگے بڑھ
رہا تھا… حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے جسم کے ٹکڑوں والے مدینہ منورہ میں بھی ہمارے
حکمرانوں کو ’’جہاد سمجھنے‘‘ کی توفیق نہ ملی… وہ جہاد کے خلاف بیانات داغتے ہوئے…
امریکی سفیروں سے تازہ ہدایات لیتے ہوئے… اپنے ملکوں سے روانہ ہوئے… اور … جہاد کے
خلاف اپنی تقریروں کے بنڈل سر پر لاد کر واپس آگئے… اب ہر طرف شور ہے کہ… مکہ
اجلاس بہت تاریخی تھا… حالانکہ… کچھ بھی نہیں… اچھے سے اچھا لباس پہننے والوں کا
ایک ’’تاریخی میلہ‘‘ تھا… اور بس … کیا ان حضرات نے سوچا کہ وہ ’’حرمین شریفین‘‘
کے پاس ہیں… ’’حرمین‘‘ کامطلب ہے ’’دوحرم‘‘ یعنی دو حرمت والے مقامات… ان دو حرمت
والے مقامات پر غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے… آپ جب جدّہ سے مکہ مکرمہ کی طرف
روانہ ہوتے ہیں تو حدود حرم میں داخل ہوتے ہی… آپ ان بڑے بڑے کتبوں کو دیکھ سکتے
ہیں… جن پر لکھا ہوتا ہے کہ … ’’یہاں سے آگے غیر مسلموں کا داخلہ قطعاً ممنوع
ہے‘‘… حدود حرم کا یہ رقبہ میلوں تک پھیلا ہوا ہے… کاش… یہ حکمران حضرات اپنے چند
انچ کے دل کو بھی اﷲ پاک کا ’’حرم‘‘ بنا کر حرم شریف میں داخل ہوتے… ہاں اگر ایسا
ہوتا تب واقعی یہ اجلاس… ایک ’’تاریخی اجلاس‘‘ بن جاتا… مگر ان کے دلوں میں تو…
غیرمسلموں کی عزت، عظمت، ہیبت… اور شوکت ابل رہی تھی… ان کا اول آخر بس ایک ہی
مطالبہ تھا کہ ہم سب عالمی برادری کے ہاں کس طرح مقام حاصل کریں؟… ہم عالمی برادری
کے دشمنوں کو کیسے ختم کریں؟… اور ہم اسلام دشمن غیر مسلموں کے خلاف لڑنے والے
مسلمانوں کو کس طرح ذبح کریں؟…
یا اﷲ میں تیری عظمت اور
غیرت پر قربان… تو چاہے تو نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی گود میں کھلانے والے
ابولہب کو… مردود کافر بنادے… اور چاہے تو … بن دیکھے حضرت اویس قرنی کو نبی پاک
صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقبول پروانہ بنادے… تو چاہے تو قریش کے عالی نسب سردار کو
’’ابوجہل ناپاک‘‘ بنادے… اور چاہے تو حبشہ کے کالے غلام کو’’ سیدنا حضرت بلال رضی
اﷲ عنہ‘‘ بنادے… یا اﷲ میں تجھ پر قربان… بے شک تو جہان والوں سے غنی ہے… تو نے
اپنے کتنے بندوںکو… حرم پاک سے دور… پہاڑوں، ریگستانوں اور تنگ غاروں میں بٹھادیا…
وہ حرم پاک سے دور اس کے لئے تڑپتے ہیں… مگر تو نے ان کے دلوں کو حرم پاک والی
غیرت عطاء فرمادی ہے… بے شک ان کے دلوں میں صرف تو بستا ہے… تیرا نام بستا ہے…
تیری عظمت بستی ہے… اور وہاں… تیرا کوئی دشمن پھٹک بھی نہیں سکتا…
یا اﷲ تیری شان بہت عجیب
اور بہت بلند ہے… حرم پاک تیرا تھا… کعبہ شریف تیرا تھا… مگر وہاں سے… تیرے محبوب
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نکال دیا گیا… وہ… حرم کی طرف حسرت سے دیکھتے رہے…
اور کلیجے کے آنسو بہاتے رہے… اس وقت … تونے اے میرے ربّا… ابوجہل، امیہ بن خلف،
عقبہ بن ابی معیط… اور ابولہب جیسے اپنے دشمنوں کو کعبہ شریف میں بسائے رکھا… ہاں
وہ ایک امتحان تھا… مگر وہ نہ سمجھے… ادھر تیرے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم نے… مکہ
مکرمہ اور کعبہ شریف سے جدائی کا زمانہ کس درد میں گزارا… اے میرے رب تو خوب جانتا
ہے… مگر… تیرا نظام بہت عجیب ہے… لوگ تیرے دشمن ’’فرعون‘‘ کو بادشاہت کی کرسی پر
دیکھتے ہیں… اورتیری مقرب بندی ’’حضرت آسیہ‘‘ خون میں ڈوبی پڑی ہوتی ہے… ہاں میرے
ربا… تیرا نظام عجیب ہے… اور اصل کامیابی تجھے راضی کرنا ہے… فرعون کو ایک وقتی
مزہ ملا… اور پھر دائمی عذاب… معلوم نہیں کب سے جل رہا ہے… اور ہمیشہ جلتا رہے گا…
یا اﷲ ایسے مزے سے تیری
پناہ… اور بی بی آسیہ کو ایک درد ملا… چند لمحے کا محبت بھرا درد… اور پھر مزے ہی
مزے، بلندی ہی بلندی… اور ترقی ہی ترقی… ناپاک فرعون کو تیری خاطر چھوڑا تو جنت
میں انہیں آقا مدنی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت ملے گی… اﷲ اکبر کتنا
اونچا مقام ہے… کوئی ہے جو اس ترقی اور عظمت کا اندازہ لگا سکے… ایسی سعادت کیلئے
تو ہزار جانیں قربان کردی جائیں تب بھی سودا سستا ہے…
مکہ مکرمہ میں جمع ہونے
والے ہمارے حکمران… اپنی عوام کی بات نہیں سنتے… حالانکہ ان کے آئیڈیل امریکہ،
برطانیہ اور یورپ کے حکمران اپنی عوام کی بات سنتے ہیں… اگر ہمارے حکمرانوں کو بھی
سننے کی توفیق ہوتی تو ہم ضرور چند سوالات ان کے سامنے رکھتے…
عزت مآب شاہ عبداﷲ… جو …
آج کل سعودی عرب کے حکمران ہیں… ایک زمانے تک دینی اور عربی چھاپ رکھتے تھے…
مسلمان سالہا سال سے دعائیں کر رہے تھے کہ وہ جلد حکمران بنیں… اب… شاہ …صاحب سے
کوئی پوچھے کہ آپ کو امت مسلمہ کے مجاہدین سے تو بہت شکوے ہیں مگر… کبھی آپ نے سوچا
کہ… آپ نے مقدس سرزمین کے کتنے خزانے کافروں کی گود میں ڈال رکھے ہیں… مکہ مکرمہ،
مدینہ منورہ اور سرزمین حجاز پوری دنیا کے مسلمانوں کااثاثہ ہے… ماضی کے مسلمان
حکمرانوں نے… روم و فارس کے خزانے مکہ اور مدینہ کی گود میں لا ڈالے… اور آپ نے…
مکہ اور مدینہ کی دولت نکال کر… اسلام دشمن کافروں کی گود میں ڈال دی ہے…
امریکہ کی صرف ایک کمپنی
میں شاہ عبداﷲ کے دو سو بلین ڈالر جمع ہیں… اور آج زلزلے سے زخمی پاکستان کو صرف
پانچ بلین ڈالر کے لئے ساری دنیا سے بھیک مانگنی پڑ رہی ہے… اﷲ پاک نے آخری زمانے
میں مسلمانوں کو غلبے کیلئے بے شمار دولت عطا فرمائی… حجاز سے لیکر مکران کے ساحل
کی ریت کو… اﷲ پاک نے سونے سے زیادہ قیمتی بنادیا… مگر… مسلمانوں کے حکمران اس
دولت کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے… بلکہ… یہ دولت ان کیلئے گدھے کا بوجھ ثابت ہوئی…
اور وہ مزید عیاش ہو کر غلامی کی دلدل میں پھنستے چلے گئے… مسلمانوں کے کئی ممالک
میں… بندوق کے زور پر فوجی حکومتیں چل رہی ہیں… اور… امریکا کے جنگی طیارے ان
حکومتوں پر حفاظتی پہرہ دے رہے ہیں… مسلمانوں کے کئی ممالک میں خاندانی حکومتیں چل
رہی ہیں… جنہوں نے… عوام کے بنیادی حقوق تک سلب کر رکھے ہیں… وہ بہت دلچسپ منظر
ہوتا ہے جب ہمارے یہ حکمران اسٹیج پر انصاف، رواداری، عدم تشدد اور اخلاق کے موضوع
پر… خطاب فرمارہے ہوتے ہیں… اور ان کی عوام ان کے بوٹوں کے نیچے کراہ رہی ہوتی ہے…
اور ان حکمرانوں کے منہ سے… اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کی بو آرہی ہوتی ہے… کچھ
عرصہ پہلے تک تو یہ اکٹھے جمع بھی نہیں ہوتے تھے… کیونکہ ان میں سے کچھ امریکہ کے
تھے اور کچھ سوویت یونین کے … مگر… سوویت یونین کے خاتمے کے بعد… یہ سب… ایک ہی
دسترخوان کے ’’پیربھائی‘‘ بن گئے ہیں… اور انہیں حکم ملا ہے کہ… اب تم سب اکٹھے
ہوجاؤ، ایک ہوجاؤ… اور سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ… جہاد کو ختم کرنے کیلئے… اور اصلی
اسلام کو مٹانے کیلئے… چنانچہ اس بار… یہ بات بھی زیر غور رہی کہ… اسلامی فتویٰ
جاری کرنے کا اختیار بھی ان ’’عالم باعمل‘‘ حکمرانوں کو دے دیا جائے… اب مسلمانوں
نے فتویٰ لینا ہو تو… ان مفتیان وقت سے لیں… جن کے نزدیک اﷲ کے لئے لڑنا فساد… اور
امریکہ کی خاطر لڑنا جہاد ہے… جن کے نزدیک عورت کا برقع پہننا غلطی اور اسکا نیکر
پہن کر گھومنا اسلام ہے…
یا اﷲ مسلمانوں پر رحم
فرما… اور انہیں… قرآن پاک کی نعمت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرما… یہ سب کچھ
قرآن پاک کو پیٹھ پیچھے پھینکنے کا نتیجہ ہے کہ ہم اس قدر رسوا ہو رہے ہیں… اسی
لیے تو بار بار یہ دُہائی دی جارہی ہے کہ… اے مسلمانو! اﷲ کے لئے قرآن پاک کی طرف
لوٹ آؤ… دیکھو… جس وقت اسلام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے چند گھرانوں تک محدود
تھا… اور مسلمانوں کے پاس روئے زمین کے صرف ایک چھوٹے سے شہر کی حکومت تھی… قرآن
پاک اس وقت بھی یہی اعلان کر رہاتھا کہ… جو اﷲ تعالیٰ کے دین کی نصرت کرے گا… اﷲ
تعالیٰ اس کی نصرت کرے گا… اور اﷲ کا لشکر غالب ہوگا… کافروں پر دنیا وآخرت میں
عذاب آکر رہے گا… مسلمان غالب ہوں گے… کفر مغلوب ہوگا… حالانکہ اس وقت روما کی
سلطنت موجود تھی… فارس جیسی سپرپاور موجود تھی… چاروں طرف کفر ہی کفر تھا… اور ہر
طرف فوجی طاقت اور دنیاوی ترقی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہاتھا… ہمارے آج کے دانشور
اس وقت موجود ہوتے تو نعوذباﷲ قرآن پاک کامذاق اڑاتے کہ… ابھی… ایک محلے میں چند
مسلمان ہیں… اور باتیں ہورہی ہیں روم اور فارس کی… مگر… صرف تیس سال کے عرصے میں
قرآن پاک کے سارے وعدے… لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے
…
ہاں قرآن پاک سچ بولتا
ہے… یہ رب عظیم کا کلام ہے…جھوٹ اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا… قرآن عظمت اور
ترقی کا جو راستہ دکھاتا ہے… بس… اسی راستے میں مسلمانوں کی نجات ہے… طاقتور رومی
اپنی کتاب کی حفاظت نہ کرسکے… اور وہ کلیسا کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی… طاقتور یہودی
اپنی کتاب کی حفاظت نہ کرسکے اور وہ … نفس پرستوں کی تحریفات کانشانہ بن گئی… مگر…
مسلمانوں کو اﷲ پاک نے توفیق بخشی… انہوں نے… اپنے دل قرآن پاک کیلئے وقف کردیئے…
اور اپنے دماغ اس کے الفاظ سے روشن کرلیے… وہ راتوں کو اٹھ کر قرآن پاک پڑھتے رہے…
اور اپنے دن کی گھڑیوں کو قرآن پاک کے ذریعے قیمتی بناتے رہے… قرآن پاک کی اصل
حفاظت تو اﷲ تعالیٰ نے فرمانی ہے… اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت فرمائے گا…
مگر… اس نے جن لوگوں کو عظمت وعزت دینی ہوتی ہے انہیں قرآن پاک کے ساتھ جوڑ دیتا
ہے… وہ قرآن پاک کو پڑھتے ہیں… اسے یاد کرتے ہیں، اسے سمجھتے ہیں، اس پر عمل کرتے
ہیں، راتوں اور دنوں کو جاگ جاگ کر اس کی تلاوت کرتے ہیں… اور اپنے عقائد،اعمال…
اور عادات کو قرآن مجید کے مطابق بناتے ہیں… وہ قرآن پاک کے پیغام کی خاطر جان اور
مال کی پوری قربانی دیتے ہیں… وہ قرآن پاک کو حقیر دنیا کے عوض نہیں بیچتے… اور
قرآن پاک کی طرف ساری دنیا کو بلاتے ہیں… آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں… ماضی میں آپ کو
وہی لوگ کامیاب نظر آئیں گے… جنہوں نے قرآن پاک کے ساتھ وفا کی… اور قرآن پاک کی
عالمگیر دعوت کو… قرآن پاک ہی کے طریقے (جہاد) کے ذریعے دنیا میں عام کیا… حضور
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کاا رشاد گرامی ہے…
ان اﷲ یرفع بہذا الکتاب
اقواماً ویضع بہ آخرین
ترجمہ: بے شک اﷲ جل شانہ
اس کتاب یعنی قرآن مجید کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو بلند کرتا ہے اور کتنے ہی
لوگوں کو پست وذلیل کرتاہے۔ (صحیح مسلم)
کاش مسلمانوں کے مسائل پر
غور کرنے والے حکمران… اور دانشور حضرات اس حدیث شریف کو سامنے رکھ کر… فیصلے اور
تجزئیے کیا کریں تو چند دن میں دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے… مگر ایسا نہیں ہوتا…
کافروں کی طاقت کا رعب… دل و دماغ پر سوار کرلیا جاتا ہے… اور پھر مسلمانوں کو
مشورہ دیا جاتا ہے کہ بس اب اپنی گردن ان کے سامنے جھکادو یہی ترقی ہے اور یہی
عقلمندی… اب ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ دجّال کے مقابلے میں ان کا فتویٰ کیا
ہوگا؟… کیا وہاں بھی جان بچانا ہی کامیابی ہوگا؟… اورجان بچانے کے لئے کفر اختیار
کرنا جائز ہوگا؟… اﷲ تعالیٰ ایسے دانشوروں سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے… اس وقت…
بہت زوردار طریقے سے ’’رجوع الی القرآن‘‘ کی مہم چلانے کی ضرورت ہے… کیونکہ جو
مسلمان اس وقت قرآن پاک کی طرف لوٹ آئے گا وہی کامیاب ہوگا… اور اسی کا ایمان
محفوظ ہوگا… ورنہ اس وقت جو آندھی چلی ہے وہ… اس قدر زور دار ہے… کہ بے دین تو بے
دین… بہت سے دیندار مسلمانوں کا ایمان بھی خطرے میں جا پڑا ہے… مثلا سورۃ النساء
کی آیت ۱۵۰
کی تشریح وربط میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ لکھتے ہیں…
’’جو لوگ بظاہر
مسلمان ہوں، قرآن حکیم کو مانتے ہوں، لیکن اپنی طرف سے اس کی تاویلیں گھڑ لینی
چاہیں کہ کلام الٰہی کی ایسی شرح کی جائے جس میں جہاد کا ذکر نہ آنے پائے، کہیں کہ
لڑنے مرنے میں دنیا کی تباہی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ لوگ کفر اور ایمان کے
درمیان کوئی راستہ اختیارکرنے کے آرزو مند ہیں،یا چاہتے ہیں کہ قرآن حکیم، توراۃ
اور انجیل میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں اخذ کرلیں اور ایسے انتخاب کو اس دعویٰ
کی بنا پر جائز بتاتے ہیں کہ سب کتابیں آسمان سے نازل ہوئی ہیں، یہ لوگ یقینا کافر
ہیں… اور ان کے لئے ذلت خیز عذاب مہیا ہے۔‘‘ (ترجمہ حضرت لاہوری صفحہ ۱۶۱)
اب آپ خود اندازہ لگائیں
کہ… قرآن پاک سے دوری کے نتیجے میں کتنے دیندار مسلمان (نعوذباﷲ) جہاد کا انکار
کرکے … کفر ونفاق کا شکار ہوسکتے ہیں… اس لیے… اب یہ درد بھری صدا لگانے کی ضرورت
ہے کہ… اے مسلمانو! اﷲ کے لئے قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ… مگر… اس صدا اورمہم کا آغاز
ہم میں سے ہر فرد… عورت ہو یا مرد… اپنی ذات سے کرے… اور اپنے غافل دل کو بار بار
کہے کہ… اے غافل! قرآن پاک کی طرف لوٹ آ… پھر بالکل تنہائی میں… باوضو بیٹھ کر
اپنی غفلت پر دو آنسو بہائے اور خود سے پانچ سوالات کرے…
)۱( کیا مجھے قرآن پاک
درست تلفظ سے پڑھنا آتا ہے؟
)۲(کیا میں روزانہ
قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں؟
)۳( کیا مجھے قرآن پاک
کی سمجھ ہے کہ اﷲ پاک نے میری ہدایت کیلئے اس میں کیا کیا ارشاد فرمایاہے؟
)۴( کیا میں قرآن پاک
کی ہر بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں؟
)۵( کیا میں قرآن پاک
پر مکمل عمل کرتا ہوں؟
اے میرے مسلمان بھائیو!
اور بہنو!… ہم نے ساری زندگی اور لوگوں سے بہت سوالات کیے… اوردوسروں کے بہت عیب
دیکھے… مگر آج چند لمحے اپنی ذات کے بھلے کے لئے بھی نکال لیں… دوسروں کی اچھائیاں
یا برائیاں ہماری قبرمیں نہیں جائیں گی… ہمارے ساتھ ہمارا ’’عمل‘‘ جائے گا… آج خود
کو کسی جگہ بند کرکے… یہ پانچ سوال ضرور پوچھ لیں… اور پھر بار بار پوچھتے رہیں…
اگر جواب ہاں میں ملے تو تکبر نہ کریں… کیونکہ اپنی تجوید، اپنی قرأت اور اپنے
علم پر تکبر اور غرور کرنے والے… برباد ہوجاتے ہیں… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے
اس امت کے بعض قاریوں کو (نعوذباﷲ) منافق قرار دیا ہے… اس لیے تکبر نہ کریں… بلکہ…
شکر ادا کریں… اور اس نعمت کو دوسروں تک عام کریں… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے…
یاعلی تعلم القرآن وعلمہ
الناس فان مت حجت الملئکۃ الی قبرک کما تحج الناس الی بیت اﷲ العتیق
ترجمہ: اے علی (رضی اﷲ عنہ) قرآن سیکھو اور اسے لوگوں
کو سکھلاؤ کیونکہ اگر اسی میں تمہاری موت آگئی تو فرشتے تمہاری قبر کی اس طرح
زیارت کرنے آئیں گے جس طرح لوگ بیت اﷲ الحرام کی زیارت کرنے آتے ہیں۔ (فضائل حفاظ
القرآن ص۴۰۳
بحوالہ ابونعیم)
لیکن اگر پانچ سوالوں کا
جواب نفی میں ملے… یا … ان میں سے بعض کا جواب نفی میں ہو تو پھر… فکر کی بات ہے…
پورے قرآن پاک کو ماننا تو فرض ہے… اور اس میں ذرہ برابر کوتاہی… ہمارے ایمان کو
تباہ… اورہماری آخرت کو تاریک کرسکتی ہے… اسی طرح باقی چاروں چیزیں بھی… درجہ
بدرجہ ضروری ہیں…
آہ… آج اکثر مسلمانوں کو
قرآن پاک پڑھنا ہی نہیں آتا… افسوس کتنا بڑا نقصان ہے… اور کتناعظیم خسارہ… اﷲ
کیلئے، اﷲ کیلئے… اے مسلمانو! اس کی فکر کرو… بوڑھے ہوگئے تب بھی اس کی فکر ہو…
جوان ہو تب بھی اس کی فکر کرو… اور اپنی اولاد کو اس عظیم نعمت سے محروم نہ کرو…
جو کوئی اپنی اولاد کو دین اور قرآن سے محروم کرتا ہے وہ اپنی اولاد کا قاتل ہوتا
ہے… قیامت کے دن… یہ اولاد اپنے قاتل والدین کی گردن پکڑے گی… اور اﷲ تعالیٰ سے
کہے گی کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کی بات مانی تھی… انہوں نے ہی ہمیں گمراہ کردیا…
قرآن پاک میں کئی جگہ …
اﷲ پاک نے اپنی اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا ہے… سورۃ الانعام میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے…
ولا تقتلوا اولادکم من
املاق نحن نرزقکم وایاہم
ترجمہ: اور تنگ دستی کے سبب اپنی اولاد کو قتل نہ کرو،
ہم تمہیں اور انہیں رزق دیںگے۔(الانعام۱۵۱)
حضرت مولانا احمد علی
لاہوریؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں…
’’بھوک کی وجہ سے
اولاد کا قتل نہ کرنا پہلا ترجمہ ہے، جس طرح زمانہ جاہلیت میں رائج تھا اور دوسرا
ترجمہ جو ساری دنیا کے لئے ہے یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی فقط رزق کمانے کیلئے اولاد
کو معمولی پیشوں میں قید کر رکھتا ہے اور اس کو حسب الفطرت پڑھنے، تعلیم الٰہی
دلانے اور اﷲ تعالیٰ کے دروازے کی طرف قدم اٹھانے سے روکتا ہے تو یہ بھی قتل اولاد
ہے، یہ بات مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہے۔‘‘ (ترجمہ حضرت لاہوریؒ ص۲۳۵)
ہمارا یہ موضوع ابھی جاری
ہے… ان شاء اﷲ آئندہ مجلس میں… قرآن پاک کی طرف لوٹنے کی منظم ترتیب عرض کرنے کی
کوشش کی جائے گی…
یا اﷲ… ہمیں قرآن پاک
’’عطا‘‘ فرما… اور ہمیں اس کی دعوت پورے عالم میں جاری کرنے والا بنا… اور قرآن
پاک کو ہمارا… دنیاو آخرت میں رفیق وانیس بنا…
آمین یا ارحم الراحمین…
رجوع الی
القرآن کا نصاب
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم قرآن پاک
کو کیسے پا سکتے ہیں؟
ہم اﷲ پاک تک پہنچانے والے اس نور کو
کس طرح حاصل
کرسکتے ہیں؟ ہم دنیا آخرت میں کام آنے
والی اس نعمت
کو کیسے پا سکتے ہیں؟ قرآن پاک کے
پانچ حقوق کون سے
ہیں؟ کیا ہم نے انہیں ادا کیا؟
)۲۸ذی
القعدہ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۳۰دسمبر
۲۰۰۵ء(
رجوع الی القرآن کا نصاب
اللہ تعالیٰ ہمیں قران
پاک کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے… کیونکہ… ہم میں سے اکثر اس سے غافل ہیں…
وہ کیسا عجیب اور حسین زمانہ تھا… حضرت جبریل علیہ السلام آسمانوں کے اوپر سے
’’قرآن پاک‘‘ لاتے تھے… پھر… آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سناتے تھے… آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی جلدی اسے پڑھتے تھے تاکہ … اپنے… پیارے رب کے
کلام کو پورا پورا یاد کر لیں… تب… اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ … آپ جلدی نہ کیجئے…
ہم آپ کو پورا پورا پڑھائیں گے اور آپ کی زبان پر اسے جاری فرما دیں گے… آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی پیاری باتیں اپنے صحابہ کرام اور اپنے گھر
والوں کو سنا دیتے… تب… ہر طرف تلاوت ہی تلاوت… شروع ہو جاتی… کوئی نماز میں پڑھ
رہا ہے تو کوئی بازار میں… کوئی سن رہا ہے تو کوئی سنا رہا ہے… عورتیں گھروں میں
پڑھ رہی ہیں… مجاہدین گھوڑوں کی پیٹھ پر پڑھ رہے ہیں… رات کا کچھ حصہ ہی گزرتا تھا
کہ بستر چھوڑ دیئے جاتے… اور … تلاوت شروع ہو جاتی… کوئی زور زور سے پڑھتا تاکہ
شیطان کو بھگائے… اور سونے والوں کو جگائے… اور کوئی چپکے چپکے پڑھتا اور اپنے رب
کے ساتھ ’’مزیدار‘‘ سرگوشیاں کرتا… رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضرت جبریل علیہ
السلام اجازت لیکر آ جاتے… اور آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قرآن پاک
کا دور کرتے… ہر طرف حفاظ ہی حفاظ تھے اور ہر طرف تلاوت ہی تلاوت… سبحان اللہ کتنا
سکون ہوتا ہے اور کیا مزہ آتا ہے جب ہر طرف… قرآن پاک کا نور دمک رہا ہو اور تلاوت
کی خوشبو مہک رہی ہو… حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا کر
اپنا کلام سنایا…حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کلام سے ایسی لذت پائی کہ دیدار اور
زیارت کی خواہش فرمانے لگے… اللہ اکبر، محبوب کے کلام میں واقعی اتنی لذت ہوتی ہے
کہ انسان بے قابو ہو جاتا ہے اور ملاقات کے لئے تڑپنے لگتا ہے… اسی لئے تو قرآن کو
پڑھنے اور سمجھنے والے بے اختیار ’’میدان جہاد‘‘ کی طرف دوڑتے ہیں کہ کب… محبوب
حقیقی سے ملاقات نصیب ہو جائے…ہاں بے شک اللہ کا کلام بہت اونچا، بہت لذیذ اور بہت
میٹھا کلام ہے… ولید بن مغیرہ عرب کا مشہور شاعر اور سردار تھا… مشرکین مکہ کو بہت
امید تھی کہ یہ ’’مضبوط شخص‘‘ قرآن پاک سے متاثر نہیں ہو گا مگر… ولید نے ایک ہی
بار قرآن مجید سنا تو اس کا اسیر ہو گیا… لوگوں نے کہا ابن مغیرہ! یہ کیا ہوا؟…
کہنے لگا اس کلام نے دل موہ لیا ہے… یہ انسانی کلام نہیں ہے… اس کی بات خوبصورت
اور اس کا انداز دلنشین ہے… یہ اس پھل دار درخت کی طرح ہے جس کا اوپر کا حصہ پھل
دیتا ہے اور نیچے کا حصہ گہرا ہوتا ہے… یہ کلام غالب ہو گا اور ہر گز مغلوب نہ ہو
گا اور جو اس سے ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائے گا۔(الاتقان فی علوم القرآن )
آج کئی ساتھی شکایت کرتے
ہیں کہ ہماری حالت پہلے جیسی نہیں رہی… نماز میں پابندی نہیں رہتی، دل سخت ہو گیا
ہے رونا نہیں آتا… نظر کی حفاظت نہیں ہوتی… آخر ایسا کیوں ہے؟… یہ شکایت درست ہے
اور اکثر دیندار لوگ اس حالت سے دوچار ہوتے ہیں… ہم نے خود ایسے افراد کو دیکھا ہے
جو برے ماحول میں تھے… اور ہر برائی میں مبتلا تھے… پھر اللہ پاک نے ان پر فضل
کیا… انہوں نے توبہ کی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ دیندار بن گئے…مگر کچھ ہی عرصہ
بعد ان کی حالت پہلے سے بھی بگڑ گئی… اور وہ دوبارہ گناہوں کا شکار ہو گئے… ویسے
بھی ہر دیندار انسان پر شیطان حملہ آور ہوتا رہتا ہے اور اسے جہنم کی طرف گھسیٹنے
کی کوشش میں لگا رہتا ہے… قرآن مجید بتاتا ہے کہ …دراصل انسان کے دل میں ’’زنگ‘‘
لگ جاتا ہے… اور یہ زنگ جس قدر بڑھتا ہے دل اسی قدر سخت ہوتا چلا جاتا ہے… اور
بالآخر یہ زنگ اس دل کو مردہ کر دیتا ہے… اللہ پاک ہم سب کے دلوں کی حفاظت فرمائے…
ہمارے رہبر اور آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زنگ کو دور کرنے کا
طریقہ ہمیں سکھا دیا ہے… حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا! ’’اِن دلوں کو بھی زنگ لگ
جاتا ہے جس طرح لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے… عرض کیا گیا کہ یا رسول
اللہ! تو پھر ان دلوں کی صفائی کی کیا صورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا! موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن شریف کی زیادہ تلاوت کرنا‘‘۔
(بیہقی، مشکوٰۃ)
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم
میں سے جو حضرات جتنے پرانے تھے وہ اس قدر زیادہ دیندار، زیادہ بہادر اور زیادہ
عبادت گزار تھے… مگر … ہم میں جو جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے اسی قدر بگڑتا چلا جاتا
ہے… اور اس کا دل… حب دنیا، حب جاہ اور تکبر کا بیت الخلاء بن جاتا ہے… اور وجہ
صرف یہی ہے کہ ہم… اور کاموں میں مشغول ہو کر… قرآن پاک سے غافل ہو جاتے ہیں… وہ
قرآن پاک جو نور، ہدایت اور روحانیت کا منبع ہے… جب ہم… اصل مرکز سے کٹ جائیں گے
تو دل … اور عزائم میں بجلی کہاں سے آئے گی؟… حضرات صحابہ کرام نے ساری زندگی جہاد
کیا مگر قرآن پاک کو نہیں چھوڑا… انہوں نے ساری امت تک دین پہنچایا… مگر قرآن پاک
کو نہیں چھوڑا… بلکہ… علماء کرام کا تو یہاں تک فرمانا ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے
علم میں برکت اس لئے تھی کہ انہوں نے… جہاد کے میدانوں میں قرآن پاک کا علم حاصل
کیا… تب … قرآن پاک نے ان کے لئے اپنا سینہ کھول دیا… آج پھر مسلمانوں کو قومیت
اور وطنیت کے بدبودار نعروں کی طرف بلایا جا رہا ہے… ایسے وقت میں قرآن پاک کی طرف
لوٹنے کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے… کیونکہ… قومیت کے نعرے بعض اوقات ایمان تک
سلب کر لیتے ہیں… ہندوستان کے مشرکوں کی طرف سے ہر دوسرے دن ایسے وفود آ رہے ہیں
جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم پنجابی ہیں… ہم پختون ہیں… ہم بلوچ ہیں… ہم سرائیکی
ہیں… حالانکہ ان نعروں کو یاد دلانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم الحمدللہ کلمہ طیبہ…
لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر اسلام کے دامن میں آچکے ہیں… اب کسی عربی کو
عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے… قران پاک نے ہمیں
سمجھایا ہے کہ تمہاری قومیں اور قبیلے صرف ’’تعارف‘‘ اور ’’پہچان‘‘ ہیں… اور اصل
فضیلت ’’تقویٰ‘‘ میں ہے… قرآن پاک نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو… بھائی بھائی قرار
دیا ہے… اور ہم سب کو سمجھایا ہے کہ اگر اپنی برادری اور قبیلے کے لوگ اللہ کے
دشمن ہوں تو ان کو چھوڑ دو… اور اللہ کی جماعت بن جائو…مگر آج کے قوم پرست لیڈر
فخر کے ساتھ کہتے ہیں ہم چودہ سو سالہ مسلمان… اور پانچ ہزار سالہ پنجابی، پختون
اور سرائیکی ہیں یعنی نعوذ باللہ… اسلام کو اپنی قوم سے کم درجہ دیتے ہیں… یہ جملہ
کتنا خطرناک اور کفر خیز ہے… کبھی ہم نے سوچا؟… صحابہ کرام نے اگر قیامت کے دن
اللہ تعالیٰ کے حضور ہم پر دعویٰ دائر کر دیا تو ہم کیا کریں گے… ان حضرات میں سے
بعض نے جہادمیں اپنے مشرک باپ کو قتل کیا… بعض نے اپنے بھائی کے سینے میں تلوار اتاری…
انہوں نے اپنا وطن چھوڑا… انہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑا اور انکی انہیں قربانیوں کی
برکت سے یہ ’’پیارا دین‘‘ ہم تک پہنچا… ورنہ آج ہم نعوذ باللہ کسی بت کے سامنے
سجدے میں پڑے ہوتے یا … کسی جانور کا پیشاب پی رہے ہوتے… حضرات صحابہ کرام میں سے
اکثر ’’اصل عرب‘‘ تھے مگر انہوں نے خود کو اپنی قومیت میں ’’محدود‘‘ نہیں کیا بلکہ
انہوں نے اپنی ہی قوم کے خلاف جہاد کیا …مگر آج ہم اللہ کے دشمنوں کو اس لئے گلے
لگا رہے ہیں کہ وہ ہماری زبان بولتے ہیں؟… کیا ابوجہل… کو عربی نہیں آتی تھی؟… یا
ابولہب پانچ ہزار سالہ عرب نہیں تھا؟… کیا کعب بن اشرف یہودی عربی کا بہترین ادیب
، شاعر، دانشور اور فنکار نہیں تھا؟…جواب
اگر ہاں میں ہے تو پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کے خلاف کیوں
جہاد کیا؟… اللہ پاک ہم ظالموں کے کرتوت معاف فرمائے کہ ہم ’’مسلمان‘‘ ہونے کے بعد
’’کفر‘‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں… اے مسلمانو! جاہلیت کے ان گندے نعروں سے توبہ کرو اور
اعلان کرو کہ اسلام ہی سب سے بڑی نعمت ہے… اور ہم مسلمان ہیں صرف مسلمان…یاد رکھو
جس دل میں اپنی قومیت کا فخر اور ناز موجود ہو گا اس دل نے کلمہ طیبہ کی ناشکری
کی… اور ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی ناشکری بہت بڑا عذاب ہے… یاد رکھو عربی ہونا کوئی فخر
نہیں، بلوچ ہونا کوئی فخر نہیں، پختون ہونا کوئی فخر نہیں پنجابی ہونا کوئی فخر
نہیں… اللہ پاک نے جسے جہاں چاہا پیدا فرما دیا… اور پھر جنہیں پسند فرمایا انہیں
’’اسلام‘‘ کی نعمت سے سرفراز فرما دیا… حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی لئے فرمایا کرتے
تھے کہ جو اسلام کے علاوہ کسی چیز میں عزت ڈھونڈے گا تو اللہ پاک اسے رسوا کر دے
گا… اللہ پاک نے قرآن مجید میں اعلان فرمایا ہے کہ ’’حزب اللہ‘‘ یعنی اللہ کی
جماعت ضرور غالب رہتی ہے… اور حزب اللہ کی تفصیل قران پاک نے جو بتائی ہے اس میں
یہ بھی ہے کہ … یہ لوگ اﷲ تعالیٰ اور اسلام کے مقابلے میں اپنے کنبے، قبیلے اور
رشتہ داریوں کی پرواہ نہیں کرتے… ماضی میں مسلمان جب بھی ’’حزب اللہ‘‘ بنے اللہ کے
فرشتے انکی نصرت کے لئے زمین پر آگئے کیونکہ فرشتے نہ پنجابی ہیں،نہ سرائیکی اور
نہ پٹھان… وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کیلئے
بھیجے جاتے ہیں…کافر ہمیشہ اس بات سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ مسلمان ’’حزب اللہ‘‘نہ بن
جائیں…انہوں نے ماضی قریب میں دیکھا کہ … افغان مجاہدین…اور امیر المومنین ملا
محمد عمر مجاہد کے ہاتھ پر ساری دنیا کے ایمان والے عرب و عجم جمع ہو گئے…وہاں
قومیت و وطنیت کا بت ٹوٹا تو لوگوں نے … سات سال تک … چودھویں صدی میں خلافت راشدہ
جیسا دور دیکھ لیا…کافر اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں اس لئے وہ ہمیں یاد دلاتے رہتے
ہیں کہ تم مسلمان بعد میں ہو پہلے تم پختون ہو،عرب ہو،ہندکو ہو،پنجابی اور سرائیکی
ہو… پھر صرف یہی نہیں بلکہ … ہر قوم کے دل میں دوسری زبان اور قوم والوں کے لئے
نفرت اور حقارت کے جذبات تک بھڑکائے جاتے ہیں…چنانچہ پختونوں کے ہاں ’’پنجابی‘‘
نفرت کا نشان اور پنجابیوں کے ہاں ’’پٹھان‘‘ کو نفرت کا نشان بنا کر پیش کرتے ہیں
تاکہ مسلمان متحد نہ ہو جائیں…ان ظالموں نے برصغیر میں لسانیت پرستی کا ایسا جادو
چلایا کہ۱۹۷۱ء
میں …بنگالی اور غیر بنگالی مسلمان ایک دوسرے کو گاجر،مولی کی طرح کاٹتے رہے اور
بالآخر … پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے… میں نے کراچی میں اکثر مسلمانوں کی زبان پر
’’بنگالی‘‘ کا لفظ نفرت اور حقارت کے ساتھ سنا… حالانکہ … آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کی برکت سے مجھے …آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر
امتی بہت پیارا لگتا ہے… اور میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی امتی کو
حقارت سے دیکھنا گوارہ نہیں کرتا… حوض کوثر پر آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے ہاتھ مبارک سے پانی پینے کی خواہش ہو تو … دل کو یاد ہی نہیں رہتا کہ مسلمان کے
علاوہ ہمارا کوئی اور نام بھی ہے… ہر انسان پیشاب کرتا ہے ہر انسان کے جسم میں
غلاظت بنتی ہے ہر انسان میں ناپاک خون ہے… پھر معلوم نہیں …بعض لوگ اپنے اوپر کس
بات کا فخر کرتے ہیں… انہیں دنوں مجھے بنگلہ دیش کا سفر در پیش ہوا میں بنگلہ دیش
کے فرشتہ صفت اولیاء، علما اور طلباء کو دیکھ کر حیران رہ گیا… دل چاہا کہ مدینہ
پاک کی اس مٹی پر قربان ہو جائوں… جس پر … میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے پائوں مبارک پڑے تھے… آپ یقین کریں … وہاں کے اکابر اور مدارس میں اتنا نور…
اور اتنی روحانیت محسوس ہوئی کہ میرا دل ایک خاص سکون محسوس کرنے لگا… یہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمے کی برکت ہے کہ جس نے بھی سچے دل سے پڑھ لیا وہ
’’انسان ‘‘ بن گیا… میں ایک ہفتے تک بنگلہ دیش کے پرُنور مدارس میں گھومتا رہا اور
… بنگلہ دیشی علماء و طلباء … اور مسلمانوں کی محبت کو صاف محسوس کرتا رہا… عرب
ہوں یا عجم ہم سب اسلام سے پہلے گدھوں سے بدتر تھے… اللہ پاک نے ہمیں اسلام دیا …
اور قرآن عنایت فرمایا تو ہم انسان بن گئے اور … اب… کچھ لوگ ہمیں دوبارہ گدھا
بننے کی دعوت دے رہے ہیں… ہائے کاش ہم سب مسلمان اس گندی اور بدبودار دعوت سے
محفوظ ہو جائیں اور ہمارے دل ہر طرح کی لسانی عصبیت سے بالکل پاک ہو جائیں… تب ہم
ان شاء اللہ حزب اللہ بن جائیںگے…
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ
قبر میں ہم سے ہمارا دین تو پوچھا جائے گا…زبان اور قوم نہیں… اس لئے …وہی سبق یاد
رکھیں جو آگے سنانا ہے اور اس بات کو بھلا دیں جو ہمیں برباد کرنے کیلئے یاد
کرائی جا رہی ہے…یہ موضوع بہت طویل ہے…بس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن پاک کی طرف لوٹ
آئیں تاکہ ہم ’’لسانیت پرستوں‘‘ کی جاہلیت کا شکار ہو کر مدینہ منورہ کی خوشبو سے
محروم نہ ہو جائیں…
۱۶؍دسمبر
کی تاریخ آتی ہے تو دل میں یہی درد اٹھتا ہے کہ… لسانیت کے مردود نعروں نے ہمیں
اتنا کمزور کر دیا تھا کہ … گائے کے پجاری مسلمانوں پر غالب آ گئے … اور پاکستان
دو ٹکڑے ہو گیا…اب کالا باغ ڈیم کا شور بھی مسلمانوں کو دوبارہ اسی گندی دلدل میں
پھنسانے کیلئے ہے…چنانچہ… حکومت کی خواہش کے مطابق … پھر سڑکوں پر سندھی، پنجابی،
پختون کے نعرے شروع ہو گئے ہیں…انگریز نے پونے دو سو سال تک ان نعروں کی وجہ سے
ہمیں بندر بنائے رکھا اور ہم پر حکومت کی…اور اب… انگریزوں کے جانشین بھی قوم کو
انہی نعروں میں لگا کر… حکومت کر رہے ہیں… ہائے کاش مسلمان قرآن پاک کی طرف لوٹ
آئیں اور اعلان کر دیں کہ ہم مسلمان ہیں……صرف مسلمان… صرف مسلمان- یاد رکھیں!
…آج جس مسلمان کا دل… لسانیت پرستی اور قومیت پرستی سے پاک ہو گا… اللہ پاک اس سے
ان شاء اللہ … بہت کام لے گا… اور یہی مسلمان… حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا پیارا… اور محبوب امتی ہو گا… آج الحمدللہ… مسلمان فتوحات کی طرف بڑھ رہے ہیں…
امریکی حکومت نے عراق اور افغانستان سے پسپائی کا اعلان کر دیا ہے…صدر بش نے دو
ہفتے کے دوران پانچ مرتبہ …اپنی قوم سے خطاب کیا ہے اور امریکیوں پر زور دیا ہے کہ
وہ مایوسی اور شکست کے احساس کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں…یہ بات بالکل واضح ہے
کہ … فتح اور شکست تقریر میں نہیں میدان میں نظر آتی ہے… بش کا اپنی قوم کو بار
بار تقریر سے مطمئن کرنا صاف بتا رہا ہے کہ … میدان میں انہیں شکست ہو رہی ہے… اور
اس شکست کے اثرات امریکی قوم اچھی طرح محسوس کر رہی ہے… الحمد للہ سوویت یونین ختم
ہو گیا ہے… اور امریکہ… شکست کی طرف بڑھ رہا ہے… مسلمانوں کی تعداد دنیا میں بڑھ
رہی ہے … اور جس طرح حضرت موسیٰ ؑ پر ان کی قوم کے نو عمر … نوجوان سب سے پہلے
ایمان لائے تھے …اسی طرح آج کا نو عمر … نوجوان تیزی سے اسلام کی طرف آ رہا ہے…
نو عمر… لڑکیاں پورا پردہ کر رہی ہیں اور اسلام کیلئے ہر طرح کی قربانی کیلئے تیار
ہیں… اور ہماری مسلمان عورتیں… ساس بہو کے جھگڑے اور سوکنوں کی جنگوں سے بالاتر ہو
کر … اسلام اور مسلمانوں کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتی ہیں… ان حالات میں ہمیں
مایوس نہیں مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور مضبوط ہونے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ …ہم
قرآن پاک کی طرف لوٹ آئیں… اور کافروں کی طرف سے چلنے والے میڈیا کے شور سے ہرگز
متاثر نہ ہوں… اب آئیے’’رجوع الی القرآن‘‘ کے مختصر نصاب کی طرف…اس نصاب کے پانچ
اجزاء یا لازمی حصے ہیں…
۱۔یقین
۲۔ادب ۳۔ تلاوت ۴۔عمل ۵۔دعوت
یعنی
قرآن پاک پر مکمل ایمان لانا اور ا سکی ہر بات پر یقین ر کھنا،قرآن پاک کا ہر
طرح سے ادب کرنا،اس کے الفاظ کا ،اس کے اوراق کا ،اس کے درس کا،اس کے حاملین کا…
الغرض قرآن پاک کے ساتھ جس چیز کی بھی نسبت ہو اس کا ادب کرنا… قرآن پاک کی درست
تلفظ کے ساتھ خوب خوب تلاوت کرنا… رات بھی اور دن بھی… سفر میں بھی اور حضر میں
بھی، مجالس میں بھی اور تنہائی میں بھی،نماز میں بھی اور بازار میں بھی… قرآن پاک
پر پورا پورا عمل کرنا یعنی اپنا عقیدہ،اپنا نظریہ اور اپنا عمل قرآن پاک کے
مطابق بنانا… اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پاک ہی کو اپنا رہبر
بنانا… اور ہر قدم پر پہلی رہنمائی اس سے لینا، اور پھر قرآن پاک کی دعوت کو … پوری
دنیا تک پہنچانا اور روئے زمین کو … قرآنی نظام کا تابع بنانا… آپ یقین کریں… ہم
یہ پانچ کام (ان شاء اللہ) کر سکتے ہیں… بشرطیکہ … ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا
چاہیں اور اپنی قبر اور آخرت کو سنوارنا چاہیں … اور ہمارے دل و دماغ پر … اسلام
کی عظمت کا جذبہ سوار ہو… اس پانچ نکاتی نصاب پر عمل کی کیا صورت ہو گی؟… انشاء
اللہ آئندہ مجلس میں اس پر گفتگو کریں گے…
قرآن پاک کو
پانے کے تین طریقے
ایک آسان سا نسخہ جس کی بدولت ہم
ایمان والے بن جائیں ہم قرآن والے بن جائیں اور ہماری تاریک زندگی میں نور اور
روشنی کا دریا بہنے لگے۔
)۵ذی
الحجہ ۱۴۲۶ھ
بمطابق۶جنوری
۲۰۰۶ء(
قرآن پاک کو
پانے کے تین طریقے
اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی
مقر ّب، پیارے اور کام کے بندے اور بندیاں…اس امت میں گزرے ہیں ان سب نے… قرآن پاک
کے ساتھ خوب دل لگایا… آج ہم ان کے واقعات پڑھ کر حیران رہ جاتے ہیں…انہوں نے ہم
سے بہت زیادہ کام کیا…بہت زیادہ جہاد کیا…بہت زیادہ کتابیں لکھیں…بڑی بڑی حکومتیں
چلائیں …مگر اتنی مصروفیت کے باوجود وہ روزانہ بہت زیادہ قرآن پاک تلاوت کرتے
تھے…حضرت امام ابوحنیفہؒ اور حضرت امام شافعیؒ نے کتنا کام کیا… آج دنیا کے نو ّے
فیصد مسلمان ان کے علوم اور تحقیقات پر اعتماد کرتے ہیں… یہ حضرات اکثر روزانہ ایک
قرآن پاک تلاوت کر لیتے تھے… جی ہاں پورے تیس پارے… اور رمضان المبارک کے مہینے
میں عیدالفطر کا چاند نکلنے تک ساٹھ ختم پورے کر لیتے تھے… ہمارے اصلاحی معمولات
میں روزانہ ایک پارہ تلاوت کرنے کی گزارش کی گئی ہے مگر اکثر خطوط میں یہی جملہ
لکھا ہوتا ہے کہ… تلاوت پوری نہیں ہوتی… اللہ پاک ہماری حالت پر رحم فرمائے… قرآن
پاک کی جتنی تلاوت کی جائے انسان کی زندگی اور وقت میں اتنی ہی برکت ہوتی ہے…اور
انسان زیادہ سے زیادہ دین کا کام کر لیتا ہے… خیر اس وقت تو ’’فتنے‘‘کا زمانہ ہے…
اسکول، کالج کی تعلیم پہلے ہی سے ’’غفلت خیز‘‘ تھی اب اسے مزید سیکولر بنایا جا
رہا ہے… دینی مدارس کے گلے میں رجسٹریشن کا پھندا ڈالا جا رہا ہے … جبکہ… مسجد
تعمیر کرنے کیلئے حکومتی این او سی کی ضرورت ہے… کچھ عرصہ پہلے ہم نے ایک مسجد پر
چند نئی اینٹیں رکھی ہی تھیں کہ پولیس کی کئی موبائلیں پہنچ گئیں… کہ اب کسی مسجد
میں توسیع وغیرہ بھی… بغیر اجازت کے نہیں ہو سکتی… میں حیران ہوتا ہوں کہ انگریز
کے زمانے میں اتنی بڑی بڑی… اور عالیشان مساجد کیسے تعمیر ہو گئیں کہ اب تک لوگ
انہیں دیکھنے جاتے ہیں… کاش ہماری حالیہ حکومت انگریز سے بڑھ کر تو مظالم نہ ڈھائے
… کہ ایک دن ’’حساب‘‘ بھی ہونا ہے… اب ان حالات میں…اپنا اور اپنی آئندہ نسل کا
ایمان بچانے کے لئے… ’’رجوع الی القرآن‘‘ سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں ہے… اس لیے
ہم نے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر بھی یہی صدا لگائی ہے… اور تمام مسلمانوں کے لئے
بھی یہی آواز لگائی ہے کہ اے اﷲ کے بندو… اﷲ کے لئے قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ… قرآن
جس بات کو سچ کہے ہم بھی اسی کو سچ کہیں… اور قرآن جسے باطل قرار دے ہم بھی اسے
باطل قرار دیں… ہمارا عقیدہ قرآن پاک کے مطابق ہو… چنانچہ ہم نہ بش کی طاقت کو
سجدہ کریں نہ کسی ولی کی قبر کو… بس قرآن پاک جس کے سامنے سجدے کو جائز قرار دے
اسی کے سامنے ہمارا سر بھی سجدہ کرے اور ہمارا دل بھی… پھر ہمارا نظریہ بھی قرآن
پاک کے مطابق ہو اور ہماری سیاست بھی… ہمارا جینا بھی قرآن پاک کے مطابق ہو اور
ہمارا مرنا بھی… ہم رات کے آخری حصے میں بستر اور حلال ساتھی کو چھوڑ دیں… اور
فرشتوں کی موجودگی میں… لمبی لمبی سورتیں پڑھ کر تہجد ادا کریں… پھر ہمارے دن کا
آغاز سورۃ یس شریف سے ہو… اور جب … رات کو لوگ اپنے کمروں اور گھروں کو روشن کرنے
کی فکر میں ہوں تو اس وقت ہم اپنی قبر کی روشنی کا انتظام سورۃ الملک کی تلاوت سے
کرر رہے ہوں… جب دنیا میں ہر کوئی یہ اعلان کر رہا ہو کہ ہم کامیاب ہیں… ہم کامیاب
ہیں تو ہم قرآن پاک سے پوچھیں کہ… کامیابی کیا ہوتی ہے؟… اور کون کامیاب ہے؟… تب
ہم پروپیگنڈے اور میڈیا کے دھوکے سے آزاد ہوجائیںگے…
پچھلے ہفتے ہم نے ’’رجوع
الی القرآن‘‘ کا پانچ نکاتی نصاب عرض کیا تھا آج اس نصاب کو نافذ کرنے کے آسان
طریقے عرض کرتے ہیں… اگر ہم سب نے ان طریقوں پر عمل کیا تو… ان شا ء اﷲ… ہمارا نام
بھی قرآن پاک کے ’’خادموں‘‘ میں لکھ لیا جائے گا… اور… ان شاء اﷲ ہمارے لئے دنیا
اور آخرت کی منزلیں آسان ہوجائیں گی… اور…ان شاء اللہ ہمیں بھی ’’خوشبودار زندگی‘‘
اور ’’معطر آخرت‘‘ نصیب ہو جائے گی… آیئے عمل کی نیت سے اس مبارک نصاب کا طریقہ
کار پڑھتے ہیں…
پہلا کام…مذاکرہ
انسان… غفلت اور نسیان کا
مریض ہے… اس نے عالم ارواح میں بھی وعدہ کیا تھا کہ… ہمارا رب ایک اللہ ہے… پھر
دنیا میں آکر بھول گیا… اللہ پاک نے اس کی یاددہانی کے لئے… انبیاء اور رُسل
بھیجے… اور کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے… یاد دہانی کے اس عمل کو ’’مذاکرہ‘‘ کہتے
ہیں… یہ بہت ضروری اور بہت مبارک عمل ہے… صحابہ کرام بہت اونچے لوگ تھے مگر ان کو
بھی … یاددہانی اور نصیحت کی ضرورت پڑتی تھی… اسی لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم
دیا گیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یاد دہانی کراتے رہیں کیونکہ یاد دہانی سے ایمان
والوں کو فائدہ ہوتا ہے… گائے اگر جگالی نہ کرے تو گھاس، چارہ ہضم نہیں ہوتا…اسی
طرح… انسان کو اگر یاد دہانی نہ کرائی جائے تو غافل ہو جاتا ہے…آج ہم… قرآن پاک سے
بُری طرح غافل ہیں… پہلا کام یہ کریں کہ…خود کو، اپنے گھر والوں کو… اپنے رشتہ
داروں اور ساتھیوں کو… بار بار یاد دہانی کرائیں کہ… قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام
ہے… اس میں ہدایت، رحمت، کامیابی… اور شفاء ہے… اور اس سے غفلت بہت بڑا جرم اور
محرومی ہے… حکمران سے لے کر مزدور تک سب اس کتاب کے محتاج ہیں… یاد دہانی کا طریقہ
یہ ہے کہ فوری طور پر دو کتابیں خرید لیں اور چند دن تک ڈٹ کر ان کا مطالعہ کریں…
اور ان کی تعلیم کرائیں… یقین کریں پندرہ دن میں… آپ اپنے اندر ایک ایسا انقلاب
محسوس کریں گے… جس میں… نور ہی نور اور روشنی ہی روشنی ہو گی… اور آپ کا دل ان شاء
اللہ… قرآن پاک کی طرف اس طرح لپکے گا جس طرح… بچہ ماں کے دودھ کی طرف لپکتا ہے… یاد
رکھیں جنت آسمانوں کے اوپر ہے… اور جہنم زمینوں کے نیچے ہے… اگر ہم اوپر جانا
چاہتے ہیں توہمیں … اوپر سے آنے والی ’’وحی‘‘ یعنی قرآن پاک کے ساتھ اپنی روح کو
باندھنا ہوگا… وگرنہ زمین کی چیزیں، یہاں کی کشش اور یہاں کے تقاضے ہمیں… نیچے
جہنم میں گرادیں گے…
جو دو کتابیں ہم نے
خریدنی ہیں وہ یہ ہیں:
)۱( ’’فضائل
حفاظ القرآن، معہ علوم وقصص واخلاق حملۃ القرآن‘‘
یہ کتاب حضرت مولانا قاری
محمد طاہر صاحب مدظلہ مقیم مدینہ منورہ نے لکھی ہے… یہ کتاب مذاکرہ اور تعلیم کے
لئے لاجواب ہے اور آپ کو اس کتاب میں… قرآن پاک کے بارے میں ہر وہ بات مل جائے گی…
جس کی ہمیں ضرورت ہے…
)۲( ’’فضائل قرآن‘‘
یہ کتاب شیخ الحدیث حضرت
مولانا محمد زکریا صاحبؒ مہاجر مدنی کی ہے… اور فضائل اعمال کا حصہ دوم ہے…
بس ایک بار ہمت کرکے ان
دونوں کتابوں کو پڑھ لیجئے… یا سن لیجئے اور پھر اپنے آپ سے پوچھیئے کے ہم نے قرآن
پاک جیسی عظیم نعمت کی قدر کی ہے یا ناشکری؟…
ایک خوشخبری
ان غریب مسلمانوں کے
فائدے کے لئے جو یہ کتابیں نہیں خرید سکتے… یہ ترتیب بنائی گئی ہے کہ ہفت روزہ
’’القلم‘‘ میں… ہر ہفتہ… فضائل قرآن پاک… اور حقوق قرآن پاک وغیرہ کے موضوع پر… ان
شاء اﷲ ایک مضمون شائع کردیا جائے تاکہ… کتابیں نہ ملنے کی صورت میں… اسی مضمون کی
تعلیم… ہر گھر اور ہر مجلس میں ہوتی رہے… فی الحال ہم حضرت مولانا قاری محمد طاہر
صاحب رحیمی مدظلہ کی کتاب سے… مضامین کا ایک سلسلہ شروع کر رہے ہیں… یہ مضامین آپ
صفحہ ہدایت پر ملاحظہ فرما لیا کریں…
انیسویں پارے کے شروع میں
ہے کہ قیامت کے دن حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم… اللہ تعالیٰ سے شکایت فرمائیں گے
کہ… اے میرے رب میری قوم نے قرآن پاک کو چھوڑ دیا تھا… اے مسلمانو! کہیں ہم لوگ اس
’’شکایت‘‘ کی زد میں آکر ’’شفاعت‘‘ سے محروم نہ ہو جائیں… آپ نے بہت سے ناول پڑھے
ہوں گے… بہت سے ڈائجسٹ پڑھے ہوں گے… بہت سی فلمیں اور ڈرامے دیکھے ہوں گے… بہت سا
وقت گپ شپ اور لطیفہ بازی میں گزارا ہو گا… اب… آپ کا ایک غریب مسافر بھائی آپ سے
صرف دو کتابیں پڑھنے کی التجاء کر رہا ہے تو اللہ کیلئے… یہ التجا مان لیجئے…
فضائل اعمال تو ہر مسجد میں موجود ہوتی ہے… اس میں حکایات صحابہ کے بعد فضائل قرآن
کا حصہ ہے جس کے صرف ستاسی صفحات ہیں… جی ہاں جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ سے بہت کم…
اور فضائل قرآن کا یہ حصہ الگ کتابچے کی صورت میں بھی چھپا ہوا ہے… حضرت قاری طاہر
صاحب مدظلہ کی کتاب اگرچہ مفصل ہے مگر اس میں ایسی معلومات کا خزانہ ہے… جو دنیا
آخرت میں کام آنے والی ہیں… امید ہے کہ… یاد دہانی اور مذاکرہ کا یہ سلسلہ ان شاء
اللہ… ہر گھر میں فوراً ہی شروع ہو جائے گا… اور ہماری مجلسیں بھی اس مذاکرے سے
رونق پائیں گی…
دوسرا کام… تلاوت کی
ترتیب
ایک بار میں پاکستان سے
باہر… ایک دوسرے ملک میں تھا… وہاں میرے پرانے جاننے والے ایک دوست مل گئے… انہوں
نے اصرار کیا کہ ایک رات ہمارے گھر میں قیام کریں… تعلق ایسا تھا کہ میں مان گیا…
عشاء کے بعد انہوں نے اپنی غربت کے باوجود طرح طرح کے کھانے دسترخوان پر جمع
کردئیے… اور پھر صفائی دینے کے لئے بتانے لگے کہ… گھر کی مسلمان خواتین بہت خوش
ہیں… انہوں نے یہ کھانے محنت سے تیار کیے ہیں… رات کو ایک اور مہمان بھی میرے
ساتھ… ان کی بیٹھک میں موجود تھے… فجر کی نماز ہم سب نے جماعت سے ادا کی… نماز
مکمل ہوتے ہی… وہ چھوٹا سا گھر خوبصورت تلاوت میں ڈوب گیا… صاحب خانہ ان کے کئی
بیٹے… اور گھر کے تمام مرد بیٹھک میں حلقہ بنا کر بیٹھ گئے… ہم دونوں مہمان بھی ان
کے ساتھ شامل ہوگئے… معلوم ہوا کہ اندر خواتین کا بھی یہی نظم ہے… حلقے میں ایک
آدمی تلاوت کرتا اور باقی سنتے… پھر اس کے بعد والا شروع ہوجاتا … اور یوں سب نے
قرآن پاک پڑھا بھی… اور سب نے سنا بھی… چھوٹے بچے اتنی خوبصورت آواز… اور تلفظ سے
پڑھ رہے تھے کہ… کئی بڑوں کو شرم آرہی تھی… اور ان کے دل میں… اچھا پڑھنے کا جذبہ
پیدا ہو رہا تھا… اس دور دراز ملک کی وہ مجلس میرے دل ودماغ میں اتر گئی… اور اس
وقت سے میری خواہش اور تمنا ہے کہ… ہمارے گھرانوں میں بھی… تلاوت کا یہ پیارا
ماحول بن جائے… آپ اُن دونوں کتابوں میں تلاوت کے فضائل پڑھ لیںگے… تب … ان شا ء
اﷲ آپ کو احساس ہوگا کہ درست تلفظ کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا کتنا اہم … اور مفید کام
ہے… چنانچہ… مزید تأخیر کیے بغیر آپ اپنے لئے استاذ کا انتظام کریں… سب سے پہلے…
اپنی نماز اور قرآن پاک کی آخری دس سورتوں کی تجوید درست کریں… پھر… پورا قرآن پاک
تجوید کے ساتھ پڑھنا سیکھیں… اور جب تک… یہ نعمت حاصل نہ کریں دل کو چین نہ لینے
دیں… اسی طرح… روزانہ کم از کم ایک پارہ کی تلاوت کا معمول بنائیں… اور پھر… اس
میں ترقی کرتے چلے جائیں… گھر میں اگر بیوی موجود ہو اور اس کا خاوند نہ اسے
دیکھے، نہ اس سے بات کرے… اور نہ اس کی طرف توجہ کرے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی…
ہمارے گھروں میں… قرآن پاک خوبصورت غلافوں میں موجود ہوتا ہے… اور ہمارا سارا دن…
اور ساری رات اس سے غفلت میں گزر جاتی ہے… کیا یہ اچھی بات ہے؟… قرآن پاک سے یاری
کرنے والوں کو تو قبر میں بھی قرآن پاک کی صحبت نصیب رہے گی… اور کوئی سانپ بچھو
قریب نہیں آسکے گا… اور قیامت کے دن قرآن پاک اپنے یاروں کی طرف سے… جواب بھی دے
گا… اس لئے بس آج ہی سے… فجر کی نماز سے پہلے اور فجر کے بعد ہر گھر کے… ہر حصے
سے… قرآن پاک کی پیاری پیاری آواز آنا شروع ہو جائے…تب… آسمان والے اس گھر کو یوں
چمکتا ہوا دیکھیں گے… جس طرح… زمین والے آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہیں…
ایک فتنہ
بعض ’’مفکر‘‘ قسم کے لوگ…
تلاوتِ قرآن پاک کی اہمیت کو (نعوذ باللہ) کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں…وہ کہتے ہیں
کہ… بغیر سمجھے الفاظ رٹنے سے کیاہوتا ہے… کچھ عرصہ قبل ہمارے شہر کے ایک مشہور
ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ پہلے میں روزانہ بیس منٹ تلاوت کرتا تھا اب تلاوت
چھوڑ دی ہے اور فلاں تفسیر کا مطالعہ کرتا ہوں… حالانکہ تلاوت خود مستقل ایک عبادت
ہے… اور انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں شامل ہے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم، حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اور ان کے بعد … امت کے ائمہ، مجاہدین… اور
صلحاء کے نزدیک تلاوت کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جو
چار کام قرآن پاک نے بتائے ہیں ان میں پہلا یہی ہے کہ… آپ اﷲ کی آیتیں لوگوں کو
پڑھ کر سناتے ہیں… اس لیے تلاوت سے غفلت سوائے محرومی کے اور کچھ نہیں ہے…
تیسرا کام… فہم قرآن
رجوع الی القرآن کے نصاب
پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ… فہم قرآن کی ترتیب بنائی جائے… حضور پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم نے اس کے لئے بہت تاکید فرمائی ہے… اور کچھ نہیں تو مسلمان عورتوں کو
سورۃ نور ضرور سمجھانی چاہئے اور مردوں کو سورۃ مائدہ… کیا ہمارے دل اس شوق سے
نہیں پھٹتے کہ ہمارے اﷲ پاک نے ہم سے کیا کیا فرمایا ہے؟… اور وہ ہمیں معلوم ہونا
چاہئے… قرآن پاک سمجھنے کی سب سے بہترین صورت تو یہ ہے کہ ہم کسی مستند اور متقی
عالم دین سے… جو خود بھی قرآن پاک پر عمل کرتے ہوں… باقاعدہ قرآن پاک پڑھیں اور
سمجھیں… علم کا اصل راستہ ’’تعلّم‘‘ یعنی شاگردی ہے…
لیکن اگر اس کا موقع نہ
ہو تو… ابتدائی طور پر یہ چند کتابیں خرید لیں…
)۱(’’تفسیر
عثمانی‘‘ (۲)’’ترجمہ
وحاشیہ‘‘ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ (۳) ’’تفسیر بیان القرآن‘‘ حضرت تھانویؒ…
تفسیر عثمانی تو ایک جلد
پر مشتمل ہے… اس میں قرآن پاک کا ترجمہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحبؒ کا
ہے… انہوں نے یہ ترجمہ مالٹا کے جزیرے کالا پانی میں انگریز کی قید کے دوران تحریر
فرمایا… یہ ترجمہ دراصل حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ کی تلخیص ہے… اس ترجمہ کے
حاشیہ پر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی تفسیر ہے… یہ تفسیر علماء
اور عوام سب ہی کے لئے ایک عظیم الشان تحفہ ہے…
ترجمہ حضرت مولانا احمد
علی لاہوریؒ، یہ بھی ایک جلد پر مشتمل ہے … یہ ترجمہ بہت سلیس، رواں اور با محاورہ
ہے اور حاشیہ پر حضرت لاہوریؒ کا زبردست علمی حاشیہ ہے… قرآن پاک کے ’’حکم جہاد‘‘
اور ’’دینی سیاست‘‘ کو سمجھنے کے لئے یہ حاشیہ لاجواب ہے…
تفسیر بیان القرآن، حضرت
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی لاجواب اردو تفسیر ہے… بعض محقق علماء کرام
نے اس تفسیر کو اردو تفاسیر کا ’’سرتاج‘‘ قرار دیا ہے…
ان تین کتابوں سے ان شاء
اللہ فہم قرآن کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا لیکن اگر… ہمت کر کے تفسیر معارف
القرآن بھی خرید لیںتو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا… آٹھ جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی شاہکار تالیف ہے… ویسے تفاسیر تو
الحمد للہ بہت ہیں… خود اردو زبان میں بھی اب تک درجنوں تفاسیر منظر عام پر آچکی
ہیں… جبکہ… قرآن مجید کی کل تفاسیر کی تعداد دو لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے… ہم نے
یہاں صرف ان تفاسیر کا تذکرہ کیا ہے جو… مستند ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم بھی ہیں…
تفاسیر سے استفادے کا
طریقہ
ان تفاسیر سے فہم قرآن کا
طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ایک رکوع کی تلاوت کریں… پھر اس کا ترجمہ پڑھیں… اور پھر ان
تینوں تفاسیر سے اس کی تشریح پڑھ لیں… اس دوران جو بات سمجھ نہ آئے وہ لکھ لیں…
اور کسی مستند عالم دین سے پوچھ لیں…
ضروری تنبیہ
قرآن پاک کی تفسیر اور
تشریح میں… اپنی رائے کو دخل نہ دیں… کوئی بات ذہن میں آ بھی جائے تو جب تک اس کی
تحقیق نہ کرلیں اسے بیان نہ کریں… ماضی میں بہت سے لوگ… اس حرکت کی وجہ سے برباد
ہوگئے… اس لیے تفسیر کے معاملہ میں صرف اپنے مستند اسلاف کی تحقیق پر ہی اعتماد
کریں… اور اپنی طرف سے کوئی بات بنانے سے بچیں…
ضروری احتیاط
بعض جاہل لوگوں نے بھی
تفسیر کے نام سے کتابیں لکھی ہیں… وہ چونکہ انگریزی الفاظ، سائنسی علوم اور جدید
اصطلاحات کا بکثرت استعمال کرتے ہیں تو عام لوگ… ان کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں
… حالانکہ … ان میں سے بعض ظالم تو ’’منکر حدیث‘‘ اور کٹر ’’نیچری‘‘ ہیں… جبکہ…
دوسرے بعض کو… دینی علوم پر عبور اور گرفت حاصل نہیں ہے… اس لیے… ہر کسی کی تفسیر
نہ پڑھیں… بلکہ صرف مستند اہل علم کی تفاسیر کا مطالعہ کریں…
بس یہ ہے پانچ نکاتی نصاب
کو نافذ کرنے کا آسان… اور سادہ سا طریقہ… اس طریقے کی بدولت… قرآن پاک کے ساتھ
ہمارا تعلق بحال…اور پھر… ان شاء اللہ مضبوط ہو جائے گا…
ایک عظیم الشان نعمت
الحمد للہ ہمارے ملک میں…
دینی تعلیم کے مدارس کی نعمت موجود ہے… اس لئے اپنی نئی نسل کو اسلام اور قرآن پاک
سے جوڑنے کے لئے ان مدارس میں داخل کرائیں… آٹھ نو سال میں جب وہ دین کو… اور قرآن
پاک کو سمجھ لیں اور شعوری مسلمان بن جائیں تو پھر آپ کی مرضی… ان کو ڈاکٹر بنائیں
یا انجینئر…یا انہیں دین کے کاموں کے لئے ہی وقف رکھیں… ماضی کے لوگوں نے سولیوں
پر لٹک کر… آگ کی خندقوں میں جل کر… اپنا ایمان بچایا… ہمیں بھی چاہئے کہ… اپنے
ایمان کی قدر کریں… اور قرآن کے ذریعے اپنے ایمان کی حفاظت کریں… بس… کئی ہفتے سے
جاری اس موضوع کو آج اسی درد بھری صدا کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ…
اے مسلمانو… اللہ کیلئے،
اللہ کیلئے، اللہ کیلئے… قرآن پاک کی طرف لوٹ آؤ…
٭٭٭