رنگ و نور جلد پنجم
واپس
آ جا
اﷲ
تعالیٰ نے خود اپنی مبارک کتاب میں… ایمان والوں کو ’’خیانت‘‘ سے روکاہے… اور حرام
مال کھانے اور جمع کرنے سے منع فرمایاہے… تو پھریہ کیا بات ہے کہ مسلمان بھی چوری
اور خیانت کرتے ہیں… اور اجتماعی اموال میں بے احتیاطی کرتے ہیں… اور حرام مال
کھاتے اورجمع کرتے ہیں… آخر مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے؟… کیا اﷲ تعالیٰ پر ایمان
نہیں رہا… پیارے رب نے تو اپنی کتاب میں پکّا وعدہ فرمایا ہے کہ تمہیں روزی میں
دوں گا… اور ہر آدمی کی مقرر روزی اُس تک پہنچ کر رہتی ہے… کیا مسلمان کو اﷲ تعالیٰ
پر یقین نہیں؟… کیا وہ اﷲ تعالیٰ کو رزّاق نہیں مانتا… پیارے رب نے کتنے پیار سے
اپنی کتاب میں وعدہ فرمایا کہ ہر جاندار کار زق ہمارے ذمّہ ہے… پھر ایک شخص مسلمان
ہو کر کیوں حرام کماتا ہے؟ کیوں خیانت کرتا ہے؟… کیوں چوری کرتا ہے؟… اور کیوں دنیا
کے چند ٹکوں کی خاطر اپنا ایمان برباد کرتا ہے؟… اور اپنے جہا د کو ضائع کرتا ہے؟…
ہمارے پیارے آقا ﷺ اپنے صحابہ کرام کو بلوا کر مسجد نبوی میں جمع کر لیتے تھے…
پھر منبر پر تشریف لے جاتے اور کھڑے ہو کر اجتماعی اموال میں احتیاط کی ترغیب دیتے…
اپنے پیارے صحابہ کو خیانت سے ڈراتے اور پھر آخر میں جو ش کے ساتھ اپنا ہاتھ
مبارک بلند کر کے فرماتے… یا اﷲ میں نے آپ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچا دیا
ہے… آخر اتنی تاکید کیوں تھی؟… دراصل’’مال‘‘ ہی اس اُمت کا امتحان ہے… جو مال کے
معاملات ٹھیک نہیں کرتا… اُس کا تقویٰ اور اُس کا جہاد سب کچھ مشکوک ہو جاتا ہے…
مسلمان مال کے معاملے میں ٹھیک ہوتا ہے تو اﷲتعالیٰ کے ہاں بہت قیمتی ہوتا ہے… مگر
جب وہ خیانت کرنے لگتا ہے تو… بالکل ذلیل وخوار اور بے عزت ہو جاتا ہے… تب نہ اُس
کی نصرت کی جاتی ہے… اور نہ اُس کی دعاء قبول کی جاتی ہے… گزشتہ پچیس سالوں میں
’’مجاہدین اسلام‘‘ نے کتنی قربانی دی؟… اﷲ پاک کی قسم اتنی بڑی قربانی سے تو اب تک
زمین کے اکثرحصّے پر خلافت قائم ہوجاتی… افغانستان کے شہداء کرام کی تعداد بیس
لاکھ سے زائد ہے… اﷲ اکبر!بیس لاکھ شہداء… آج تو دنیا میں بعض ممالک کی کل آبادی
بیس لاکھ ہے…فلسطین کے شہداء کرام کی تعداد کئی لاکھ ہے… جبکہ کشمیر کے شہداء کرام
کی تعداد بھی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے… غزوہ بدر میں صرف تیرہ شہدا ء کرام کا
خون گرا… اور زمین کا ایک پورا حصّہ پاک کر گیا… اُحد اور بیر معونہ کے ستّر ستّر
شہداء کرام نے زمین کی تاریخ ہی بدل ڈالی… اور یرموک اور قادسیہ کے شہداء کا خون…
دنیا کی پرانی کافرانہ تہذیبوں کو ملیا میٹ کر گیا… مگرآج کیا ہوا؟… کیا شہداء
کرام کے خون میں وہ تاثیر نہیں رہی؟… نہیں رب کعبہ کی قسم نہیں… شہداء کرام کے خون
کی تاثیر آج بھی وہی ہے… بلکہ آج کا شہید بھیبہت نرالا بہت بہادر اور بہت البیلا
ہے… اگرآپ کو حال کے بعض شہداء کرام کے واقعات سناؤں تو آپ کے آنسو اس اخبار
کو گیلا کر دیں گے… افغانستان، کشمیر اور فلسطین کے شہداء… بہت عجیب ہیں… دنیا
پرست جانوروں کو تو اُ ن کی سمجھ تک نہیں آرہی … خود اپنی گاڑی میں اپنے ہاتھوں
سے بارود بھرنا… خود گاڑی چلا کر دشمنان اسلام کی تلاش میں نکلنا… اپنی شہادت سے
چند گھنٹے پہلے مسکرا مسکرا کر باتیں کرنا… مزے لیکر اور شکر ادا کر کے چائے پینا…
محبت کے ساتھ وضو تازہ کر کے دو رکعت ’’نماز عشق‘‘ ادا کرنا… اپنے ساتھیوں کا خود
حوصلہ بڑھانا… آخری لمحات میں خوب زور سے تکبیر کہہ کر کلمہ طیبّہ پڑھنا… اور پھر
ایک بٹن دبا کر دین ِ حق کی خاطر ریزہ ریزہ ہو جانا… اﷲ اکبر کبیرا… یہ سب کچھ
کہنا آسان ہے… پھانسی پانے والے ملزم کو رات بھر نیند نہیں آتی… اور دل دھڑک کر
گلے میں آجاتا ہے… جبکہ یہ فدائی شہداء اپنی کارروائی سے چند گھنٹے پہلے اطمینان
سے سو جاتے ہیں… ہاں بے شک ایمان اسی کو کہتے ہیں… آخرت کی زندگی کا یقین اسی کو
کہتے ہیں… اﷲ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کے وعدوں پریقین اسی کو کہتے ہیں… پھر کیا وجہ
ہے کہ … ایسے شہداء کرام کے پاکیزہ خون سے بھی حالات تیزی سے نہیں بدل رہے… بات
بالکل واضح ہے… ہم مسلمان اپنے اعمال کی وجہ سے ’’خلافت‘‘ اور ’’اسلامی نظام‘‘ کے
ابھی تک مستحق نہیں بنے… صرف مال کا مسئلہ ہی لے لیں… اور دنیا داروں کو چھوڑیں
صرف دین داروں کو ہی دیکھ لیں… کہ ہم لوگوں میں کتنی دنیا پرستی آگئی ہے… انا ﷲ
وانا الیہ راجعون…
کہاں
گئی امانت؟… ہاں وہ پیاری امانت جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سکھائی… وہ پیاری
امانت جو رسول پاکﷺ نے مکمل تاکید کے ساتھ سکھائی… کہاں گئی وہ امانت؟… جس کے آتے
ہی انسان کا دل ایمان سے بھر جاتاہے… اور دنیا کا کوئی شخص ایسے انسان کو خرید نہیں
سکتا… کہاں گئی وہ امانت؟… جو فقیری میں بادشاہی کا مزہ دیتی ہے اور انسان کو ہر
طرح کی غلامی سے بچاتی ہے… ہاں مسلمانو! ڈھونڈو اُس امانت کو جو سورۃ انفال میں
سکھائی گئی… اور اُ س پر عمل کر کے اُس زمانے کے مسلمان روم و فارس کے خزانوں کے
مالک بن گئے…
اے
امانت! واپس آجا… مسلمانوں میں واپس آجا… مجاہدین میں واپس آجا…اے ہماری عزت ،
اے ہماری آبرو! واپس آجا…
رب
کعبہ کی قسم آج اگر مجاہدین میں اجتماعیت اور امانت واپس آجائے تو… چند دن بعد
زمین کا نقشہ ہی بد ل جائے… مگر جو لوگ چند لاکھ اور چند کروڑ روپے میں امانت کا خیال
نہیں رکھتے اُن کو زمین کے خزانوں کا مالک کیسے بنا دیا جائے؟… مجھے یہ خبر ملتی
ہے کہ امریکی بحری بیڑہ مجاہدین پر حملے کے لئے روانہ ہو چکا ہے تو میرا دل نہیں
ڈوبتا… بلکہ یہی یقین ہوتاہے کہ یہ بیڑہ غرق ہو گا… مجھے انڈیا کی سازشوں کی خبر
ملتی ہے تو دل میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی…بلکہ دل کہتا ہے حسبنا اﷲ ونعم الوکیل…لیکن
جب یہ خبرملتی ہے کہ کسی مجاہد نے اجتماعی مال میں خیانت کی ہے تو دل ڈوبنے لگتا
ہے… اور آنکھوں کے سامنے مایوسی کا اندھیرا چھانے لگتا ہے… مجاہداور خیانت؟…
مسلمان اور خیانت؟… یہ کیسے ہوگیا؟… اور اب اس کا نتیجہ کتنا بھیانک نکلے گا… اور
اس سے کفر کو کتنی طاقت ملے گی… دینی جماعتوں، اسلامی مدارس اور جہادی تنظیموں کا
فرض ہے کہ وہ اپنا مالیاتی نظام شریعت کے مطابق بنائیں… اور اس میں جتنی محنت کر
سکتے ہوں کریں… کیونکہ اس کے بغیر کسی بھی دینی کام میں برکت اور قبولیت کے اثرات
ظاہر نہیں ہوں گے… الحمد ﷲ ایسا بھی نہیں کہ سب ہی بگڑ گئے ہیں… میں ایسے افراد کو
جانتاہوں جن کے نزدیک مال کی قیمت غلاظت کے برابر بھی نہیں… شکر الحمد ﷲ مجھے ایسے
افراد کی زیارت نصیب ہوئی ہے جو مال سے نفرت رکھتے ہیں… اور حرام کا تو اُن کے نزدیک
کوئی تصور بھی نہیں ہے…ہاںمیرے کاغذات میں ایسے خطوط ہیںکہ کچھ خوش نصیب لوگوں نے
اپنا تمام مال جہاد کے لئے وقف کرنے… اور خود کو شہادت کے لئے پیش کرنے کی درخواست
کی ہے…میں ایسے افراد کو جانتاہوں جن کے تھیلوںمیں کروڑوں روپے اجتماعی مال کے
موجود ہوتے ہیں… مگر وہ اپنے گھر کے بجلی کے بل کو دیکھ کر پریشانی سے اپنی پیشانی
کا پسینہ پونچھ رہے ہوتے ہیں… جی ہاں وہ بل اُن پر بھاری پڑتا ہے کیونکہ اُن کے
ذہن میں اس کا وہم تک نہیں آتا کہ وہ اجتماعی مال میں خیانت کریں…ہاں اب بھی ایسے
لوگ ہیں جو روز انہ لاکھوں روپے اجتماعی مال کے تقسیم کرتے ہیں… اور پھر دال روٹی
پر خوشی سے گزارہ کرتے ہیں… الحمد ﷲ امانتدار موجود ہیں… مگر ’’امانت‘‘ کی زور دار
آواز لگانے کی ضرورت برقرارہے… دشمنان اسلام نے زندگی کو مہنگا کردیا تاکہ مسلمان
مال کے پیچھے دوڑ کر اپنے رب کو بھول جائے… اﷲ تعالیٰ کے لئے اس سازش کو سمجھیں…
اور اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں… قرضے لینا بند کر دیں… مہنگی شادیوں سے مکمل
توبہ کرلیں… اور مغربی اسٹائل پرلعنت بھیجیں… اپنے محبوب آقا ﷺ کی زندگی اور سیرت
کو پڑھیں…اور قرآن وسنت سے اجتماعی اموال کے احکامات کویاد کریں… اِس وقت کفر
اوراسلام کی جنگ اپنے آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے… کافروں کے پاس
اگر ایٹم بم، بمبار طیارے اور میزائل ہیں تو مجاہدین اُن کے مقابلے میں… اجتماعیت،
امانت اور فداکاری کو کھڑاکردیں… یہ تین ہتھیار کافروں کو زمین کی آخری گہرائی میں
دفن کردیں گے… مجاہدین کا پلّہ آج بھی بھاری ہے لیکن اگر اُن کی جنگ میں یہ تین
بڑے ہتھیار پوری چمک دمک اور قوت کے ساتھ آگئے تو آپ دیکھ لیں گے کہ انشاء اﷲ…
جنگ کتنی تیزی سے دشمنوں کے علاقوں میں گھستی ہے… اس وقت تو بدقسمتی سے خود ہمارے
علاقے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں… حالانکہ حضور پاکﷺ نے دس سال کی مدنی زندگی میں… ایک
دن بھی جنگ کو مدینہ منورہ میں نہیں گھسنے دیا… غزوہ خندق کے موقع پر بھی سات دن کی
محنت کر کے جنگ کو مدینہ منورہ کے دروازوں پرروک دیا… کبھی بدر، کبھی اُحد، کبھی خیبر
اور پھر فتح مکہ… مدینہ منورہ کے مضافات میںجنگ ہوئی… مگر یہودیوں کی بستیوں میں
اور وہ بھی اس تدبیر سے کہ لڑائی زیادہ نہ ہو… مگر آج تو پوری دنیا میں صرف
مسلمانوں کے علاقے’’میدان جنگ‘‘ بنے ہوئے ہیں… ہمیں اس وقت پوری طاقت اس بات پر
لگانی چاہئے کہ یہ جنگ دشمنان اسلام کے علاقوں میں منتقل ہو جائے… اور ایسا بہت
جلد ہو سکتا ہے… بشرطیکہ ہم مال سے اپنی گردن آزاد کرالیں… مال کی فکر سے اپنے دل
کو پاک کر لیں… اور اپنی روزی کا معاملہ مکمل یقین کے ساتھ اپنے ربّ رزّاق جلّ
شانہ کے سپر د کر دیں… ہم اجتماعی اموال میں اتنی احتیاط کریںکہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں
’’امین‘‘ اور ’’امانتدار‘‘ لکھ لئے جائیں… ہم خود کو حرام مال کے دھویں اور چھینٹوں
تک سے بچائیں… ہم آج ہی فضائل جہاد یا حدیث شریف کی کسی کتاب میں اُن وعیدوں کو
پڑھیں جو خیانت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں… اور پھر ایک پختہ عزم اورعہد کے ساتھ
آگے بڑھیں… جی ہاں اونچی منزلیں، خوبصورت جنت… اور اچھا انجام تو ایمان والوں ہی
کے لئے ہے…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
خِطبہ
اﷲ
تعالیٰ کا نظام پہلے کی طرح ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے… سورج اب بھی اپنے مقرّرہ وقت پر
نکلتا ہے اور غروب ہوتا ہے… چاند بھی اپنے وقت پر ظاہر ہوتا ہے اور چھپتا ہے… اب
بھی ہوائیں چلتی ہیں… بادل اُڑتے ہیں اور گرجتے ہیں… بارش برستی ہے… پرندوں کو دیکھ
لیں… کتنے مزے سے ہوا میں اُڑتے اور تیرتے ہیں… مگر انسان کو کیا ہوا کہ پریشان
ہے… بدحال ہے… ہر طرف خون ہے اور خوف ہے… جب انسان اﷲ تعالیٰ کے قانون اور نظام کے
مطابق رہتا تھا تو بہت خوش تھا… امن اور سکون کی حالت میں تھا…سورج اور چاند سے بھی
زیادہ اونچا تھا… ہواؤں سے زیادہ پرسکون اور بادلوں سے زیادہ نفع مند تھا… مگر اب
تو بہت بُری حالت ہے… مالدار اپنے مال کے عذاب میں جل رہا ہے… اور غریب اپنی غربت
کی آگ میں سسک رہا ہے… حکمران حفاظتی حصاروںکی قید میں ہیں… جبکہ عوام کو کچھ پتہ
نہیں کہ وہ کس طرف جائیں… حکومت والے بھی روز مر ر ہے ہیں… حکومت سے لڑنے والے بھی
مر رہے ہیں… اور وہ جنہوں نے حکومت سے نہ لڑنے کا عزم ظاہر کیا وہ بھی خون میں لت
پت ہو کر قبروں میں دفن ہو رہے ہیں… صوفی محمد صاحب کی تنظیم نے موجودہ جنگ سے خود
کو الگ رکھنے کی کوشش کی… مگر حکومت والے اُن کے رہنماؤں کو بھی مسجد سے باہر گھسیٹ
لائے… اور پھر بتایا گیا کہ وہ دونوں رہنما بم دھماکوں میں مارے گئے ہیں… حکومت پر
حاوی کچھ طبقے یہی چاہتے ہیں کہ… پاکستان میں اندرونی جنگ خوب پھیلے… تاکہ پاکستان
بھی افغانستان جیساہو جائے… اور پھر اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے غیر ملکی فوجیں
پاکستان میں داخل ہوجائیں…اور پھر’’کرزئی‘‘ یا ’’نوری مالکی‘‘ کو پاکستان کا
حکمران بنا دیا جائے… اور یوں اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ختم ہوجائے، بکھر
جائے… ٹھیک ہے جیسے اﷲ پاک کی مرضی… ہمیں کیا ضرورت ہے زیادہ خون جلانے اور پریشان
ہونے کی… حکومت اپنے مکمل جنون پر اُتر آئی ہے… وہ اب ہر مسجد، ہر مدرسے اور ہر دینی
جماعت پر ہاتھ ڈالناچاہتی ہے… پنجاب حکومت نے بھی’’شرافت‘‘ کی نقلی کھال اُتار دی
ہے… اور شریف برادران اپنی پرانی اصلیت پراُتر آئے ہیں… وہاں بھی ہر داڑھی والے
کو پکڑا اور ستایا جا رہا ہے… اور اہل حق کے میناروں پر تھوکنے کی ناپاک کوشش کی
جارہی ہے… کوئی ہے جو حکومت کو سمجھائے… یاکم از کم اُس سے اتنا پوچھ لے کہ… مٹھی
بھر حکومت عوام کے سمندر سے آخر کیسے لڑ سکے گی؟… پاکستان کی پوری فوج اور پولیس
سب مل کر اس ملک کے ایک ضلع کی آبادی کے برابرنہیں ہیں… عوام کی بدقسمتی ہے کہ اس
کو کوئی قیادت میسّر نہیں ہے… بس ہر طرف چھوٹے چھوٹے ٹولے ہیں… اس لئے حکومت جب
اورجس کو چاہتی ہے مارتی ہے… لیکن اگر عوام میں تھوڑا سا بھی اتحاد ہو گیا تو مٹھی
بھر حکومت کہاں جائے گی؟…بڑے حکمران تو ملک سے بھاگ جائیں گے جبکہ باقی سارا ملک
افغانستان بن جائے گا… ہاں دشمنانِ اسلام یہی چاہتے ہیں…اور حکومت جان بوجھ کر یا
نادانستہ اس جال کا شکار ہو رہی ہے… امریکہ خوش ہے کہ عنقریب پاکستان ختم ہو جائے
گا… اور باقاعدہ امریکی کالونی بن جائے گا… انڈیا خوش ہے کہ پاکستان کا قصہ بس چند
روز میں ختم… اور اسرائیل خوش ہے کہ مسلمانوں کا ایٹمی ملک چند دنوں میں اُس کی
چراگاہ بن جائے گا… لیکن یہ تینوں پاگل بہت بڑی غلط فہمی میں ہیں …
پاکستان
اگر ختم ہوا تو اس کے ہر پتھر کے نیچے سے’’جہادی دستے‘‘ نکلیںگے… اور محاذ جنگ
بخارا سمر قند… اور چیچنیا تک پھیل جائے گا… تب انڈیا کا ہر شہر لرز اٹھے گا… اور
افغانستان کی طرح پاکستان کی سرزمین بھی ملا محمد عمر اور جلال الدینحقانی جیسے
مجاہد جنے گی… دشمنانِ اسلام پاکستان کو ختم کر کے پوری دنیا کو جنگل بنانا چاہتے
ہیں… بہت شوق سے بنائیں…مسلمان تو صحراؤں، پہاڑوں اور جنگلوں میں مضبوط ہوتے ہیں…
مسلمان فطرت کے عاشق اور سختیوں کے بیٹے ہیں… ان کو تو برگر، پیپسی، گاڑی، کوٹھی
نے برباد کر رکھا ہے… غلام بنا رکھا ہے… سوویت یونین نے افغانستان کو کھنڈر اور
جنگل بنایا… اس جنگل اور کھنڈر سے لاکھوں سچے جانباز مجاہد پیدا ہوئے… امریکہ نے
عراق کوکھنڈر بنایا… تب شراب خانوں اور نائٹ کلبوں والا عراق راتوں رات’’صلاح الدین
ایوبی‘‘ والا عراق بن کر جہادی آیات سے گونجنے لگا… عراق کی سرزمین نے دیکھتے ہی
دیکھتے لاکھوں مجاہدین… دشمنوں کے سامنے کھڑے کر دیئے…اور بالآخر امریکہ اور
برطانیہ کو وہاں اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی… آصف زرداری… اور شہباز شریف اگر
پاکستان کو افغانستان اور عراق بنانا چاہتے ہیں تو شوق سے بنائیں… سورج تب بھی
اپنے وقت پر نکلے گا اور غروب ہو گا… اﷲ تعالیٰ کا مقرر فرمودہ نظام پہلے بھی ٹھیک
ٹھاک چل رہا تھا اور اب بھی ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے… اب ہر انسان کی قسمت کہ وہ کہاں
جاتا ہے… جنت بھی مہک رہی ہے… اور جہنّم بھی بھڑک رہی ہے…
اے
ایمان والو…اﷲ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ… اے ایمان والو!یہودو نصاریٰ
کو اپنا دوست نہ بناؤ… یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم اور اُس کا قانون ہے… اور اﷲ تعالیٰ کی
رِٹ اور قانون کو چیلنج کرنے والے… کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے… کبھی نہیں، کبھی نہیں…
خُطْبہ
یا خِطْبہ
’’خُطْبہ‘‘ عربی
زبان میںتقریر یا خطاب کو کہتے ہیں… جبکہ خِطْبہ کہتے ہیں’’پیغامِ نکاح‘‘ کو… جس
دن سے خطیب شعلہ بیان جناب اُبامہ علیہ ما علیہ نے قاہرہ میں مسلمانوں کے لئے ایک
خصوصی تقریر کی ہے… اُس دن سے ہم سوچ رہے ہیں کہ… یہ تقریر خُطبہ تھی یا خِطْبہ…
اُبامہ خود تو مسلمان نہیں ہے… مگر ایک مسلمان کا بیٹا ہے… اس حیثیت سے اُسے تھوڑا
بہت تو ذہین ہونا چاہئے… مگر اس تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے دنیا کے مسائل کی
سمجھ ہی نہیں ہے… یہ بات تو بچہ بھی جانتا ہے کہ صلح اُس کے ساتھ کی جاتی ہے جس سے
جنگ ہو… جو پہلے سے آپ کے قدموںمیں پڑا ہواُس سے کیا صلح؟… اس وقت مسلمانوں سے
کچھ لوگ امریکہ سے لڑرہے ہیں… جبکہ کچھ مسلمان کہلانے والے لوگ امریکہ کے غلام بن
کر اُس کی خاطر لڑ رہے ہیں… تو اُبامہ کا خطاب کن سے تھا؟… وہ کہہ رہے تھے کہ
مسلمان امریکہ کو اپنا دشمن نہ سمجھیں… کون سے مسلمان؟… وہ جن پر بم برس رہے ہیں… یا
وہ جن پر ڈالر برس رہے ہیں؟… ارے اُبامہ جی! مصر کے حسنی مبارک، کویت اور امارات
کے شیخ… افغانستان کے کرزئی اور پاکستان کے حکمران تو کبھی بھی امریکہ کو اپنا
دشمن نہیں سمجھتے… بلکہ اُن کے نزدیک امریکہ سے دشمنی رکھنا کفر سے بھی بڑا گناہ
ہے… یہ حضرات تو امریکہ کے دورے کوحج اور عمرے سے زیادہ افضل اور امریکہ کی خوشنودی
کو… اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھتے ہیں… اگر آپ کا خطاب ان کے لئے تھا تو پھر وہ
بے کار چلا گیا… اور اگر آپ اُن مسلمانوں سے خطاب کر رہے تھے جو گوانتانا موبے میں
قید ہیں… جو بگرام ائر بیس میں دن رات امریکی مظالم میں پستے ہیں… جو قندھار اور
ہلمند میں امریکی بمباری سے قیمہ بنتے ہیں… جو ابو غریب جیل میں امریکی اخلاقیات
کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں… اور جو غزّہ کی پٹی میں امریکہ کے پالتو اسرائیل
کے مظالم کا نشانہ بنتے ہیں… تو سچ بتائیے آپ نے اپنے اس خطاب میں اُن کو کیا دیا؟…
آپ کی ایف بی آئی… اور سی آئی اے کا سب سے بڑا ایجنڈہ مسلمانوں کا خاتمہ ہے…
آپ نے عرب ممالک کو برائلرچوزے بنا کر اسرائیلی خونخوار کتّے کے سامنے رکھ چھوڑا ہے… کیا آپ کی ایک تقریر
سے یہ تمام مسلمان امریکہ کو اپنا دشمن ماننا چھوڑ دیں گے؟… پھر تو آپ اپنے میزائلوں
اور بموں پر مسلمانوں سے دوستی کا پیغام لکھ دیا کریں… تاکہ اُن تک جلد یہ پیغام
پہنچ جایا کرے…ویسے ہمارا اندازہ یہی ہے کہ اُبامہ کی یہ تقریر’’خُطْبہ‘‘ نہیں
بلکہ’’خِطْبہ‘‘ ہے… اور اس کا مقصد بہت سے مسلمانوں کو’’پیغام نکاح‘‘ دینا ہے…
دراصل امریکہ اب یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو خود مسلمان ہی ماریں… اور اس کام کے
لئے امریکی فوجیوں کو نہ مروانا پڑے… چنانچہ’’ابامہ‘‘ نے مسلمانوں میںسے زیادہ سے
زیادہ اپنے وفادار خریدنے کے لئے… یہ مفصل تقریر جھاڑی ہے… یا اﷲ ہم مسلمانوں کو
صرف اپنا غلام اور بندہ بنا… اور ہر ظالم، کافر کی غلامی سے بچا… مگر کچھ بد نصیب
اس ’’پیغام نکاح‘‘ پر اپنے ایمان کو قربان کر دیں گے… اور کافروں کے سپاہی بن کر
مسلمانوں کو قتل کریں گے… تب بھی کوئی پرواہ نہیں… اﷲ تعالیٰ کا نظام ٹھیک ٹھاک چلتا
رہے گا… سورج اپنے وقت پر نکلے گا اور اپنے وقت پر غروب ہو گا… بارش کے قطرے
پہاڑوں پر سبز چادریں بچھاتے رہیں گے… اور پرندے ہواؤں میں تیرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ
کی حمدو ثنا کرتے رہیں گے… ہاں یہ نظام چلتا رہے گا… مگر جب اﷲ تعالیٰ اس نظام کے
خاتمے کا فیصلہ فرمائیں گے تو پھر… سب کچھ بدل جائے گا…آسمان زمین چاند سورج… اور
بڑے بڑے پہاڑ تنکوں کی طرح بے قدر ہو جائیں گے… اور پھر ایک نیا اور مستقل نظام
قائم فرما دیا جائے گا… ضرورت اس بات کی ہے کہ اُس نظام میں اچھی جگہ کے لئے ہم سب
کوشش کریں…
ذلک
الیوم الحق… فمن شاء اتخذالی ربّہ مآبا…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
کس
جرم میں؟؟؟…
اﷲ
تعالیٰ درجات بلند فرمائے… حضرت مولانا محمد امین صاحب اورکزئی بھی’’شہید‘‘ ہو
گئے… جمعرات کا د ن تھا اور وہ روزے سے تھے… پاکستان ائیرفورس کے جنگی طیّاروں نے
اُن کے مدرسہ اور مسجد پر بمباری کی… اس بمباری سے ’’جامعہ یوسفیہ‘‘ اُس کی مسجد
اوراُس کے بانی سب اکٹھے شہید ہو گئے… اہلِ علم فرماتے ہیں کہ جو شخص کثرت سے
سورۂ یوسف کی تلاوت کرتا ہے اُسے شہادت کی نعمت نصیب ہوتی ہے… حضرت مولانا پ نے
تو اپنے مدرسہ کا نام ہی’’جامعہ یوسفیہ‘‘رکھاہوا تھا…’’یوسف‘‘ کے لفظ میں خوبصورتی
بھی ہے اوراچھا انجام بھی… حضرت مولاناپ پہلے کراچی میں رہتے تھے… وہ حضرت مولانا
محمد یوسف بنوری پکے خاص شاگرد تھے… حضرت بنوری پنے اُن کی صلاحیتوں کو دیکھتے
ہوئے جامعہ کے ’’دارالتصنیف‘‘ میں اُن کی تشکیل کر دی تھی… اس دارالتصنیف کے دوسرے
رکن حضرت مولانا حبیب اﷲ مختارپ تھے… کئی کتابوں کے مصنف اور ترمذی کے شارح، وہ بھی
کراچی میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے… اور اب اس ہفتے ’’ بنوری دارالتصنیف‘‘
کے دوسرے ستون کو بھی خاک و خون میں نہلا دیا گیا… کراچی کا موسم حضرت مولاناپ کو
راس نہ آیا تو اپنے علاقے’’ہنگو‘‘ میں آبیٹھے اوریہاں مدرسہ قائم فرمایا… ماشاء
اﷲ بلند پایہ محدّث تھے… حدیث شریف کی مشہور و معتمد کتاب’’طحاوی شریف‘‘ کی عربی میں
شرح لکھی… اور پوری زندگی درس و تدریس میں گزار دی… صاحب علم و قلم ہونے کے ساتھ
ساتھ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے بہت فکر مندرہتے تھے…اﷲ تعالیٰ یہ فکر ہر طالبعلم
او رہر عالم کو نصیب فرمادے… حضرت مولاناپ کا قلبی رجحان حضرت مولانا ولی احمد
سنڈاکئی بابا جی پ کے قادری سلسلے کی طرف تھا… اس سلسلے کا نور اگرچہ دور دور تک
پھیلا مگر اس کا مرکز سوات اور دیر کے علاقے ہی رہے… سوات کے علاقے’’جورا‘‘ میں
حضرت سنڈاکئی بابا جی پ کے ایک قوی النسبت خلیفہ حضرت مولانا محمد قمر صاحبپتھے…
حضرت مولانا محمد قمرپ سے سوات کے معروف عالم دین حضرت مولانا فضل محمد صاحبپ نے فیض
حاصل کیا اور خلافت پائی… حضرت مولانا محمد امین شہیدپ حضرت مولانا فضل محمدپ کے
مرید اور خلیفہ تھے… اُن کے علاوہ وہ کافی عرصہ تک ایک اور بزرگ حضرت مولانا محمد
اکرم صاحب جنگی خیل باباجی پ کے پیچھے بھی پھرتے رہے… جب انسان کو اپنے نفس کی پاکی
مقصودہو تو وہ بہت محنت کرتا ہے… اور سخت مشقت اٹھاتا ہے…مولانا محمد اکرم باباجی
پ بہت جلالی، اویسی اور تارک الدنیا بزرگ تھے… اُن کے ہاں مروّجہ پیروں والی چمک
دمک اور دنیا داری نہیں تھی… وہ اپنے دامن میں عشق کے وہ انگارے لئے پھرتے تھے جو
حبّ دنیا کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں… انہوں نے بہت کم لوگوں کو بیعت کیا اور بہت
مشقت کی زندگی گزاری… اُن کے نزدیک ’’ریاکاری‘‘ بہت بڑا جرم تھا… ساری زندگی اس
جرم سے بچنے کے لئے اپنے اوپر پردے ڈالتے رہے… حضرت مولانا محمد امین صاحبپنے اُن
سے فیض تو حاصل کیا مگر بیعت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے… اور پھر حضرت سنڈاکئی
باباجی پ کے خلیفہ حضرت صندل بابا جی سے بھی کثرت سے ملتے جلتے رہے… جی ہاں اصلاح
نفس ایک ایسا عمل ہے جس کی ضرورت ہر انسان کو مرتے دم تک رہتی ہے… اصلاح نفس اور
تصحیح نیت یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ضرورت مسلمان کو ہر عمل میںپڑتی ہے… نماز میں بھی
اور جہاد میں بھی… تصحیح نیت کے بغیر نہ نماز قبول ہے اور نہ جہاد مقبول ہے… کچھ
لوگوں نے جہاد اورمجاہد ہ نفس کو چھوٹا بڑا بھائی بنا دیا ہے… حالانکہ دونوں الگ
الگ چیزیں ہیں اور دونوں میں دور دور تک کوئی ٹکراؤ نہیں ہے… جہاد کے احکامات الگ
ہیں اور مجاہدہ نفس کے احکامات الگ ہیں… جہاد کی فرضیت الگ مسئلہ ہے اورمجاہد ہ
نفس کا لازم ہونا ایک الگ مسئلہ ہے… حضرت مولانا محمد امین شہیدپ جہاد اور مجاہدین
کے بہت قدر دان تھے… بندہ کو بھی اُن سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا… اور بعد میں سلام
و پیام کا سلسلہ بھی جاری رہا… اُن کی شہادت کی خبر آئی تو دل مجروح اور دماغ
ماؤف ہو گیا… بار بار قرآن پاک کے یہ الفاظ ذہن میں آرہے تھے
بایّ
ذنب قتلت
کہ
قیامت کے دن زندہ درگور کی جانے والی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ… انہیں کس جرم میں
قتل کیا گیا تھا… میرا دل بھی بار بارپوچھ رہا تھا کہ آخر حضرت مولاناپ کو کس جرم
میں قتل کیا گیا؟… ایک ساتھی سے پوچھا کہ آخر حکومت کے پاس کہنے کی حد تک تو کوئی
بناوٹی بہانہ ہو گا؟… انہوںنے جواب دیا کہ کوئی ظاہری بہانہ بھی نظر نہیں آرہا…
حضرت مولاناپ نہ تو روپوش تھے اور نہ حکومت سے چھپ کر کہیں بیٹھے تھے… وہ نہ تو
مقامی عسکریت پسند تھے اورنہ کسی گروپ کے مزاحمت کار… وہ ایک مسجد کو آباد کئے بیٹھے
تھے اور قرآن و حدیث کا ایک مدرسہ چلا رہے تھے… وہ کھلم کھلا سفر کرتے تھے اور بیرون
ملک بھی تشریف لے جاتے تھے… تو پھر آخر کیوں اُن کو اور اُن کی مسجد و مدرسہ کو
شہید کیا گیا؟… شاید اب نئے حکومتی قانون کے مطابق… اچھا مسلمان ہونا، عالم دین
ہونا، مسجد آباد کرنا…مدرسہ چلانا اور داڑھی رکھنا وہ جرائم ہیں جن کی سزا ایف
سولہ کی بمباری ہے… کچھ سمجھ نہیں آرہا …کچھ پتہ نہیں چل رہا… ہر طرف نمرود کی
آگ ہے… فرعون کے مظالم ہیں ابوجہل جیسی ضد اورجہالت ہے… اور قارون جیسے خزانوں کا
شوق ہے… کراچی میں ظالموں نے ایک ہفتے میں پچاس افراد قتل کر دیئے… مگر ملک کا کوئی
ٹینک، کوئی طیارہ وہاں بمباری کے لئے نہیں گیا… جبکہ ہنگو کے ایک مسجد اورمدرسہ کو
مسمار کرنے کے لئے ایف سولہ طیارے پہنچ گئے… پورے ملک میں دینی طبقے کو ستایا
جارہا ہے ، مارا جارہاہے… اور ہر طرف سے گھیرا جا رہا ہے… حکمران کانوں سے بہرے ہو
چکے ہیں… اُ ن کو امریکہ کے سوا کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی… کاش یہ لوگ سوچتے
کہ… آج نہ نمرود ہے ، نہ فرعون اور نہ قارون… آج نہ ابو جہل ہے نہ اُبی بن خلف…
آج نہ خندقوں والا قاتل موجود ہے اور نہ تاتاری درندے… آج نہ بش کی طاقت ہے او ر
نہ پرویز مشرف کی میں میں… جبکہ سیدنا ابراہیم د ہر’’التحیات‘‘ میںموجود ہیں… حضرت
موسیٰ د کا نام بچے بچے کی زبان پر ہے… اور خندقوں والے مقتولوں کی تعریف قرآن
پاک کا حصّہ ہے… پرویز مشرف نے ظلم کی آندھی چلائی مگر ملک کے دینی طبقے کوختم نہ
کر سکا… وہ آج کل لندن میں اپنے حرام مال سے خرید ے ہوئے ایک فلیٹ میں… شطرنج کھیلتا
ہے… شراب کے ناپاک گلاس میں اپنا کالا منہ دیکھتا ہے… اور اپنے ایک ایک بال سے
حسرت کی آہیں بھرتا ہے… وہ بھی خود کو ملک کا محافظ سمجھتا تھا… مگر پھر ملک کو
چھوڑ کر بھاگ گیا… اور اب موجودہ حکمرانوں کے منہ پر ایک ہی رٹ ہے کہ وہ ملک کے
محافظ ہیں…کیا حفاظت اسی طرح کی جاتی ہے… یقین کیجئے پاکستانی فوج اور پولیس بھی
ان حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں… یہ اپنے محلاّت میں رات گئے تک ناچتے ہیں ، گاتے ہیں
اور خرمستیاں کرتے ہیں… جبکہ پاکستان کا دینی طبقہ اور یہاں کی فوج اور پولیس ان کی
عیاشیوں پر قربان ہو رہی ہے… آج اگر فوج اور پولیس کو اختیار دے دیا جائے تو وہ
امن معاہدے شروع کر دے گی… یہ سچ ہے کہ کئی بڑے افسر اپنی بددینی، فرقہ پرستی اور
امریکی غلامی کی وجہ سے اس لڑائی میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں… پنجاب کے وزیر اعلیٰ
سمیت کئی مسلم لیگی بھی اپنے چہرے سے دینی رجحانات کے دھبے دھونے کے لئے مسلمانوں
کا خون استعمال کرنے لگے ہیں… مگر فوج ، پولیس اور عوام کی اکثریت اس موجودہ اندھی
جنگ کے حق میں نہیں ہے… یہ خالص امریکی اور صلیبی جنگ ہے جس میں دونوں طرف سے
مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے… حضرت مولانا محمد امین صاحب پ بھی اس جنگ کا نشانہ بن
گئے… وہ خود کچھ عرصہ سے’’ملاقات‘‘ کی تیاری اور شوق میں تھے…جی ہاں اﷲ تعالیٰ سے
ملاقات کی تیاری میں تھے… انہوں نے چند دن پہلے اپنے صاحبزادے کو اپنے کفن دفن کی
وصیت بھی فرما دی تھی… اور محبوب حقیقی سے ملاقات کے شوق میں سخت گرمی کے روزے بھی
رکھ رہے تھے… اﷲ تعالیٰ اُن کی شہادت قبول فرمائے… اورہم سب کو بھی بہترین ایمان
والا، شہادت والا، رحمت والا… اور بخشش والا خاتمہ نصیب فرمائے… ہماری زندگی کا
بہترین دن اُس دن کوبنائے جس دن ہم نے اپنے محبوب رب تعالیٰ جلّ شانہ سے ملنا ہو…
آمین یا ارحم الراحمین
مہنگائی
کا نیا طوفان
حکومت
نے نیا بجٹ پیش کر دیا ہے… افغانستان پر امریکی حملے کے وقت کہا گیا تھا کہ… ہم
امریکہ کا ساتھ دیں گے تو مالامال ہو جائیں گے… ہم مالا مال تو نہ ہو سکے خونا خون
ضرور ہوگئے… اس سال بھی خسارے کا بجٹ پیش ہوا… حکومت نے ایک بے پردہ خاتون سے بجٹ
تقریر کروائی تاکہ مہنگائی کی کڑواہٹ کو گلیمر کی مٹھاس سے دبایا جا سکے… ملٹی نیشنل
کمپنیاں اسی طرح کرتی ہیں… گویاکہ ہمارا ملک بھی اب کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے
ہاتھوں گروی رکھا جا چکا ہے… غریب لوگوں کے لئے عزت کے ساتھ جینا بہت مشکل ہو چکا
ہے… ہم سب غریبوں کو چاہئے کہ استغفار، درود شریف اور سبحان اﷲ کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ
کا سہار ا پکڑیں… استغفار کرنے سے گناہ معاف ہوں گے اور رزق میں وسعت ہو گی… درود
شریف سے رحمتیں نازل ہوں گی جو ہر مسئلے کا حل ہیں… اور سبحان اﷲ تو اس دنیا میں
رہنے کا ’’ویزہ‘‘ہے… جو مسلمان مالی تنگی کا شکار ہیں وہ ہر نماز کے بعد پوری توجہ
اور درست الفاظ کے ساتھ ایک سو بار ’’سبحان اﷲ‘‘ پڑھیں… انشاء اﷲ چند دن میں حالات
ٹھیک ہو جائیں گے… اور جو مسلمان ان چار تسبیحات کا روزانہ اہتمام کرے گا وہ انشاء
اﷲ رزق کی تنگی میں مبتلا نہیں ہو گا
پہلا
کلمہ… ایک سو بار درودشریف…
ایک سوبار
استغفار
…ایک سو بار تیسرا
کلمہ… ایک سو بار
مگر
اس میں چند شرطیں ہیں…(۱) یہ عمل رزق کی نیت سے نہ کریں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کی نیت
سے کریں(۲) مکمل توجہ سے کریں کہ ہر بارپڑھنا آپ کو یاد ہو… آٹو میٹک
مشین کی طرح نہ ہو کہ تسبیح شروع ہوئی اور پھر جب انگلی محراب سے ٹکرائی تو پتہ
چلا کہ تسبیح پوری ہو گئی ہے… لوگ فلمیں دیکھتے ہیں اور اس میں اُن کا دل، دماغ
،آنکھیں… اور تمام اعضاء پوری طرح سے متوجہ ہوتے ہیں… یہاں تک کہ کئی لوگوں کے بال بھی بعض اوقات
کھڑے ہو جاتے ہیں…ایک ناجائز کام میں اتنی توجہ… اور نماز، تلاوت اور ذکر میں اس
قدر بے توجّہی؟… اﷲ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے اور ہمیں مکمل اخلاص اور توجّہ
اور شوق کے ساتھ نماز، جہاد، تلاوت اور ذکر وغیرہ تمام نیک اعمال کی توفیق عطاء
فرمائے… اور ہمارے ایمان اور اعمال کو قبول فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
اچھے
حالات
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے حالات بہت اچھے ہیں… اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی ہر کوشش بُری
طرح سے ناکام ہو رہی ہے… مسلمان مردوں اور عورتوں میں دینداری کا جذبہ بڑھ رہا ہے…
سوا چودہ سو سال گزرنے کے باوجود قرآن پاک محفوظ ہے… دین اسلام محفوظ ہے… اور
مکمل دین پر عمل کرنے والے مسلمان آج بھی موجود ہیں… اسی لئے تو کہہ رہا ہوں کہ
الحمدﷲ حالات بہت اچھے جار ہے ہیں… آپ سب میرے ساتھ مل کر ایک کلمہ پڑھیں…
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
پڑھ
لیا آپ نے؟… ایک بار اور دل کی گہرائی سے پڑھیں…
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کتنا
مزہ آیا…دل چاہتا ہے کہ ابھی جان نکل جائے اورہم اس کلمے کی جنت اور وسعت میں گم
ہوجائیں… تھوڑا سا آنکھوں میں آنسو بھر کر پڑھیں…
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کتنا
عظیم کلمہ ہے… یہ کلمہ زمین اور آسمانوں سے بھی بڑا ہے…
بے
چارہ اُبامہ اس کلمے سے محروم… برطانیہ اور یورپ کے تمام حکمران اس سے محروم… ہم
کس طرح سے اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ… اُس نے ہمیں یہ عظیم کلمہ نصیب فرمایا… اس
کلمے کے بغیر تو انسان کتّے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتا ہے… اے میرے بھائیو… اے
میری بہنو!… ابھی جسم میں جان ہے اورزبان کام کر رہی ہے خوب دل کے یقین کے ساتھ
پڑھو…
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
بے
شک جس کویہ کلمہ نصیب ہو گیا اُس کے حالات اچھے ہیں…
رہنے
کے لئے کوٹھی ضروری نہیں… زندگی کے چند دن ہیں جو کسی غار اور جھونپڑی میں بھی گزر
جاتے ہیں… تنکوں کی جھونپڑی میں رہنا اور
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کا
اقرار کرنا کامیابی ہے… جبکہ وہائٹ ہاؤس کا مالک بن کر اس کلمے کا انکار کرنا
ذلّت ہے، ناکامی ہے، رسوائی ہے… اور شرمندگی ہے…
طرح
طرح کے کھانے ضروری نہیں ہیں… انسان کی بھوک سوکھی روٹی اور اُبلے ہوئے چاولوں سے
بھی دور ہو جاتی ہے… اور دین کی خاطر روزہ رکھنے اورفاقہ کاٹنے میں جو مزہ ہے… اس
کو وہی جانتے ہیں جو
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کا یقین
رکھتے ہیں… طرح طرح کے معاشی پیکج دنیا کا دھوکہ ہیں… گاڑیوں کے اشتہارات اور
ہاؤسنگ اسکیموں کے چکّر سب فضول کی باتیںہیں… دنیا میں سب سے بڑی حقیقت ایک ہی
کلمہ ہے… اور وہ ہے
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
اس
کلمے کا اقرار کرکے… ہمیں سب کچھ مل جاتا ہے… اس کلمے کے اقرار کے بعد کوئی پرواہ
نہیں کہ ہم گولی سے مریں یا بم سے… مرنے کے وقت ہماری لاش سلامت رہے یا ٹکڑوں میں
بکھر جائے… لاش کو دفن کیا جائے یا اس کو جانو ر اور کیڑے کھالیں…جب
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
موجود
ہے تو پھر کیا فکر اور کیا غم… بس آنکھ بند ہوئی اور مہمان نوازی شروع ہوگئی…
مہمان نوازی بھی اُس مہربان رب کی طرف سے جو بہت بخشنے والا’’غفور‘‘ ہے… ارے زمین
کے تمام خزانے اور آسمان کے تمام ستارے مل کر بھی
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کی
قیمت کو نہیں پہنچتے… اسی لئے تو ’’عقلمند‘‘ لوگ اس کلمے کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا
دیتے ہیں… تب اُنہیں اس کلمے کا مالک سب کچھ لوٹا دیتا ہے…جسم کے بدلے بہترین جسم
جو کبھی خراب اور بیمارنہیں ہوگا… دل کے بدلے بہترین دل جوہمیشہ خوش رہے گا… اور
آنکھوں کے بدلے… وہ آنکھیں جن میں اﷲ تعالیٰ کے دیدار کی طاقت ہو گی… اور جو
آنکھیں رسول اﷲﷺ کے روئے انور کے بوسے لے سکیں گی… ارے بھائیو! اری بہنو! دیر نہ
کرو… خوب توجہ سے پڑھو… بار بار پڑھو…جھوم جھوم کر پڑھو
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
دنیا
میںلڑائیاں ہوتی رہتی ہیں… بمباریاں بھی کافی عرصے سے چل رہی ہیں… قتل و غارت کا
سلسلہ بھی قابیل نے شروع کیا… اپنے بھائی ہابیل کو شہید کر کے… خود ناکام ہو گیا…
بھائی کو کامیاب کر گیا…بڑے بڑے بادشاہ بھی مر گئے… نامور پہلوان بھی مر گئے… دنیا
کے عام حالات تو بس اسی طرح رہتے ہیں… کسی کو رہنے کے لئے محلات مل جاتے ہیں… مگر
دل کا سکون نہیںملتا… کسی کو مال بہت مل جاتا ہے مگر ساتھ بیماریاں بھی بارش کی
طرح برستی ہیں… کسی کو صحت اچھی ملتی ہے مگر ساتھ گھریلو پریشانیاں لگ جاتی ہیں…
پاگل ہیں وہ لوگ جو اس دنیا میںہر خوشی اور کامیابی چاہتے ہیں… یہاں کسی کو بھی
اُس کی ہر خواہش نہیںمل سکتی… ایک عورت نے ایک شخص کو دیکھا کہ خوب صحت مند اور
بہت مالدار ہے… ظاہری طور پر ہر نعمت اُس کے پاس ہے اُس نے دعا کی یااﷲ…میرے بیٹے
کو اس جیسا بنا دے… اُس شخص نے یہ دعا سنی تو تڑپ اٹھا اور کہنے لگا… بہن جی! ایسی
غلط دعاء نہ کرو میری اصل حالت تمہیں پتا چلے تو اﷲ تعالیٰ سے پناہ مانگو گی… میں
تو سخت اذیت اور تکلیف کی زندگی گزار رہا ہوں…
ہاںاے
مسلمانو! کلمہ طیّبہ کی قدر کر لو… اﷲ کیلئے قدر کر لو… اس کلمے کی شاخیں آسمانوں
کے اوپر اور اس کی جڑیں زمین کے نیچے تک ہیں… عزت کی چابی یہی کلمہ ہے… عزت مال میں
نہیں… اس کلمے کے بغیر مال صرف وبال ہے… عزت کوٹھی، کار ، بنگلے اورباڈی گارڈوں میں
نہیں… عزت کا معیار ایک ہی ہے… اور وہ ہے
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کرکٹ
ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا… طبعی طور پر تو سب کو خوشی ہوئی… مگر کسی نے عقل سے سوچا کہ
مسلمانوں کو اس سے کیاملا؟… اور اگر یہ ہار جاتے جیسا کہ ہارتے رہے ہیں تو
مسلمانوں کا کیا نقصان؟… ہارون الرشیدکے دربار میں ایک شخص آیا کہ میرے پاس ایک
بڑا کمال ہے…میںایک سوئی زمین میں گاڑ دیتا ہوں اور دوسری سوئی دور سے پھینک کر
اُس کے ناکے سے گزار لیتا ہوں…بادشاہ نے کہا اس کو دس درہم انعام دو اور دس کوڑے
لگاؤ… انعام تو اس کی محنت کا اور کوڑے اس بات کے کہ اس نے اپنی صلاحیت کو ایک
فضول کام میں خرچ کیا… ابھی تو پاکستانی ٹیم کے لئے صر ف انعامات کا اعلان ہو رہا
ہے… نہ کسی بھوکے کو کھانا ملا… نہ کسی دربدر انسان کو چھت ملی… نہ کسی بے گھر بہن
کے سرپر دوپٹہ پڑا… اور ملکی خزانے کے کروڑوں روپے چند کھلنڈرے لڑکوں میں بانٹ دیئے
گئے… افسوس کہ مسلمانوں کے دل میں ایک گندے سے ’’کپ‘‘ کی تو قدر ہے…جبکہ اُس عظیم
کلمے کی سب نے قدر نہیں کی جو اُن کے لئے ہر کامیابی کی پکی ضمانت ہے… ہر طرف کرکٹ
کا شور ہے…بے حیا تصویریں ہیں… انعامات کے اعلانات ہیں… سرکاری دعوتیں اور اعزازات
ہیں… چھوڑیں ان فضول چیزوںکو آئیں کسی مسجد کے کونے یا گھر کے کسی گوشے میں بیٹھ کر…
غور کرتے ہیں کہ
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کے
تقاضے کیا ہیں… یہ کلمہ ہم سے کیا مانگتا ہے… اور ہمیں کیا کچھ عطاء فرماتاہے… شکر
الحمدﷲ کہ آج بھی پورے عالم میں اس کلمے کی گونج ہے…نفس پرستوں نے ’’توراۃ‘‘ کو
بدل ڈالا… گناہ پرستوں نے انجیل کو کیا سے کیا بنا دیا… غفلت شعاروں نے زبور کو
بُھلا دیا… مگر وہ دیکھو اس کلمے والا قرآن پاک ہر جگہ اُسی طرح موجود ہے… جس طرح
نازل ہوا تھا… افغانستان سے لیکر عراق تک… کشمیر سے لیکر فلسطین تک مشرق سے لیکر
مغرب تک… ایک ہی کلمہ گونج رہا ہے، ایک ہی اذان بلند ہور ہی ہے… اور ایک ہی قرآن
پڑھا جا رہا ہے… آؤ ہم بھی پڑھتے ہیں…
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
آج
اخبار میں حج کی درخواستیں جمع کرانے کا اعلان پڑھا تو مجھے پھر’’فتح‘‘ کا احساس
ہوا… میں اپنی درخواست تو جمع نہیں کراسکوںگا… مگرمیرے کتنے کلمہ گو بھائی تو یہ
درخواست جمع کرائیں گے… اور پھرا نشاء اﷲ حج پر جائیں گے… تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ
حج کے خلاف کتنی سازشیں ہوئی… نعوذ با ﷲکعبہ شریف اور مسجد نبوی پر حملوں کے
منصوبے بنے… انہیں سازشوں اور منصوبوں میں لاکھوں موذی کافر مرگئے، کھپ گئے… مگر
کعبہ شریف سینہ تان کر کھڑا مسکرا رہا ہے… میری آنکھوں کے سامنے اس وقت بھی حجر
اسود کا پر نور نظّارہ ہے… مسجد نبوی شریف اور اس کے ساتھ میرے آقا مدنیﷺ کا
روضہ… رشکِ جنت بنا ہر وقت نور برسا رہا ہے… میں کیوں نہ کہوں کہ الحمد ﷲ حالات
اچھے جار ہے ہیں… اور ہم کلمہ طیّبہ کے جتنے قریب ہوتے جائیں گے حالات اسی قدر
اچھے ہوتے جائیں گے…
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
اﷲتعالیٰ
نے زمین والوں پر احسان فرمایا… اپنے سب سے محبوب اور آخری نبی حضرت محمدﷺ کو بھیجا…
آپ ﷺ ہدایت اور دین حق لے کر آئے… آپﷺ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصہ بعد… شیطان
اورکافروں کی کوشش سے’’فرقہ پرستی‘‘ کا فتنہ شروع ہوا… کئی باطل فرقے وجود میں
آئے… تب اہل حق نے اسلام کی نظریاتی
سرحدوں کی حفاظت کا کام شروع فرمایا… اہل حق اُس زمانے سے ’’اہل سنت والجماعۃ‘‘کہلاتے
ہیں… یہ نام آقا مدنی ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ سے لیا گیا ہے… برصغیر پاک وہند میں
اہل سنت والجماعۃ…یعنی اہل حق نے ایک دینی مرکز بنایا… یہ مرکز صوبہ یوپی کے ضلع
سہارنپور کے ایک قصبے’’دیوبند‘‘ میں قائم ہوا… تب سے اہل سنت والجماعۃ کو دیوبندی
بھی کہا جانے لگا… ’’دیو بندی‘‘ کوئی نیا فرقہ نہیں ہے… اور نہ یہ کوئی رجسٹرتنظیم
ہے… اگریہ کوئی نیا فرقہ یا رجسٹر تنظیم ہوتی تو پھر… دیو بند مدرسے سے اس کے رکنیت
فارم جاری ہوتے… وہاں کے ذمہ دار جس کو رکنیت دیتے وہ رکن ہوتا… اورجس کو نکال دیتے
وہ خارج ہوجاتا…’’دیوبند‘‘ تو اہلسنت و الجماعت والوں کی ایک علمی نسبت ہے…
افغانستان میں دیوبند کی اسی علمی نسبت کے فیض یافتہ ایک ’’مجدّد‘‘ حضرت امیر
المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اﷲ تعالیٰ نے… صدیوں بعد اسلامی امارت قائم
فرمائی… افغانستان کے طالبان اور تھے اور پاکستان کے طالبان اور ہیں… افغانستان کے
طالبان کی عظمت وشرافت کا تو مسلمانوں کے علاوہ کافروںنے بھی اعتراف کیا …
الحمد
ﷲ دارالعلوم دیوبند نے
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کے فیض کو پورے برصغیر اور امریکہ اور یورپ تک
پھیلایا… حوادث زمانہ سے خود دارالعلوم دیوبند… کئی سال پہلے انتظامی انتشار کا
شکار ہوا… بڑے اداروں میں ایسا ہوتا رہتا ہے… تب کچھ حضرات نے دارالعلوم دیوبند(وقف)
کے نام سے ایک اور ادارہ بنالیا… اب دیوبند میں دو دارالعلوم دیوبند ہیں… ایک وہی
پُرانا اور دوسرا وقف… ابھی سنا ہے کہ وقف دارالعلوم سے… دیوبندی ہونے اور نہ ہونے
کے فتوے جاری ہو رہے ہیں… آج کل اخبارات میں اس کا بڑا شور ہے… حالانکہ پریشانی کی
کوئی بات نہیں… یہ دنیا ہے اس میں ایسی فضول حرکتیں کچھ لوگ کرتے رہتے ہیں… ہمارے
سامنے تو شاملی کا میدان ہے… اس میدان میں بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد
قاسم نانوتوی پ کی تلوار بجلی کی طرح چل رہی ہے… امیر المجاہدین حضرت حاجی امداد اﷲ
مکیپ کی آنکھوں سے جہادی نور کے شعلے برس رہے ہیں… حضرت حافظ ضامن شہیدپ کی
مسکراتی لاش پڑی ہوئی ہے… اور حضرت گنگوہیپ مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں… دیو بند
کے یہ عظیم حضرات پوری امت کے محسن ہیں… وہ ہمیں کوئی نیا فرقہ نہیں دے گئے… بلکہ
اہلسنت والجماعت سے جوڑ گئے… آئیے ہم سب وہی کلمہ پڑھیں… جس کلمے کی سربلندی کے
لئے ان حضرات نے علم وجہاد کا پرچم بلند کیا…
آئیے
خوب یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
لا
الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
ایک
نمونہ ایک دعاء
اللہ
تعالیٰ ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنائے… موجودہ حالات میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ
ہم ایک ’’نمونہ‘‘ اور ’’طریقہ‘‘ اختیار کریں اور ایک دعاء کا بہت اہتمام کریں…
نمونہ
اور طریقہ تو حضرت ابراہیمج کا ہے اور دعاء بھی وہی دعاء جو حضرت ابراہیم ح اور
اُن کے رفقاء نے مانگی تھی…یہ دعاء بہت مؤثر، بہت پرنور اور بہت طاقتور ہے… بلکہ یوں
سمجھ لیں کہ حفاظت کا قلعہ ہے۔ قرآن پاک کے اٹھائیسویں پارے کی سورۃ الممتحنہ کی
آیت ۵،۶،۷ میں اللہ تعالیٰ
نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم کافروں سے تعلق کے بارے میں حضرت ابراہیم ح کے طریقے اور
نمونے کو اپنائیں…اور انہی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دعاء بھی سکھادی ہے
جو کفر کے طوفانوں سے مقابلے کیلئے محفوظ کشتی اور سفینے کا کام دیتی ہے۔
ملاحظہ
فرمائیے ان تین مبارک آیات کا خلاصہ…اور اُن کے مضامین کی کچھ تفصیل…
خلاصہ
اہل
ایمان کے لئے لازمی تاکید اور دستور عمل کہ وہ کفارومشرکین سے تعلق کے بارے میں
حضرت ابراہیم ح اور ان کے رفقاء کا طرز عمل اختیار کریں۔ حضرت ابراہیم ح اور ان کے
رفقاء نے علی الاعلان کفار سے دشمنی، بغض اور براء ت کا اعلان کیا تھا۔ اور فرمایا
تھا کہ جب تک تم ایمان نہیں لائو گے ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہم تمہیں
کوئی حیثیت دیتے ہیں۔ (اصل چیز دین اور عقیدہ ہے باقی سب کچھ اس کے بعد ہے) اور
حضرت ابراہیم ح اور ان کے رفقاء نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ یا اللہ! ہم نے
تمام کفار سے قطع تعلق کرکے صرف آپ کی ذات پر بھروسہ کیا ہے اور آپ کی طرف رجوع
کرتے ہیں اور آخر آپ ہی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔اے ہمارے پروردگار کفار کو ہم پر
غالب نہ کیجئے کہ اس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑ جائیں اور خود کو برحق سمجھنے لگیں۔اور
ہمارے گناہ بخش دیجئے۔
ایمان
والوں کو پھر تاکید کی جاتی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور آخرت کا یقین
رکھتے ہیں تو وہ کفار سے تعلق کے بارے میں ابراہیمی ؑ طرز عمل اختیار کریں اور یاد
رکھو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری پرواہ نہیںوہ غنی ہے
اور خوبیوں والا ہے۔ تمہاری عبادت اور وفاداری کا محتاج نہیں۔
بہترین
نمونہ، بہترین مثال
حضرت
ابراہیم ح اور آپ کے رفقاء، کفارکے مقابلے میں بہت کم تعداد اور کمزور تھے۔ شروع
میں تو یہ کل تین افراد تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، آپ کی اہلیہ محترمہ اور
آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام۔ جبکہ ان کے مدمقابل کفار ومشرکین بہت طاقتور
تھے۔ ملک کا بادشاہ بھی مشرک تھا اور حضرت ابراہیم ح کی قوم کے لوگ بھی مشرک تھے۔
اتنی کمزوری کے باوجود حضرت ابراہیم حنے ان تمام کافروں سے کھلی دشمنی اور براء ت
کا اعلان فرمایا۔ اور ان سب کو بے حیثیت قرار دیا (کفرنابکم) بے شک کافر ومشرک بے
حیثیت ہی ہوتا ہے۔ جس نے اپنے خالق ومالک اور معبود کو نہ مانا نہ پہچانا اس کی کیا
حیثیت؟جس نے بتوں کو اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کی کیاحیثیت؟
دین
اور عقیدے کے زور پر حضرت ابراہیم حنے ساری قوم سے قطع تعلق، اور بیزاری کا اعلان
فرمایا۔ اور صاف کہہ دیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان نہیں لائو
گے اس وقت تک تم سے ہمارے تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔
حضرت
ابراہیم حکا یہ طرز عمل ظاہری طور پر جنون نظر آتا ہے آخر دوچارافراد اتنی بڑی
قوم کے مقابلے میں کر ہی کیا سکتے ہیں؟ اس میں تو سوائے اپنی ہلاکت کے اور کوئی نتیجہ
نظر نہیں آتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہی طرز عمل پسند آیا۔ اور قرآن پاک بتا رہا
ہے کہ یہ جنون نہیں’’توکل علی اللہ‘‘ تھا۔ اور اسی طرح کے طرز عمل سے دنیا میں بڑی
تبدیلیاں آتی ہیں۔ اگر ایمان والے ہی ایمان کو کچھ نہ سمجھیں اور کافروں کے سامنے
دبے رہیں۔ اور کافروں کی ظاہری ترقی سے مرعوب ہوکر ان کو معزز عالمی برادری تسلیم
کرلیں۔ اور اپنی کامیابی ان کی برادری کا حصہ بننے میں سمجھتے رہیں تو پھر ان کی
قدر کو کون تسلیم کرے گا۔(واللہ اعلم بالصواب)
یہ
جوانمردی قادرمطلق کے بھروسے پرتھی
’’نینویٰ اور
بابل کے بادشاہ اور انکی قوم اور سرداربت پرست تھے، صرف ابراہیم ح اور ان کے بھتیجے
لوط حاور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ایمان لائی تھی، اس وقت اس قوم کے
مقابلے میں جو ہر طرح سے قابو یافتہ (یعنی غالب) تھی اس بے کسی کی حالت میں یہ کہہ
دینا کوئی آسان بات نہ تھی، یہ جوانمردی محض اس قادر مطلق کے بھروسے پر تھی،
(اللہ تعالیٰ) مسلمانوں سے فرماتا ہے کہ تم کو بھی ابراہیمحکی پیروی کرنی چاہئے،
مشرکین تمہاراکیا کرسکتے ہیں؟ کس لئے ان سے محبت رکھتے ہو؟ برادری اور دوستی خدا
کے دشمنوں سے کیسی؟ مسلمان کے سچے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی پوری محبت کا یہ مقتضیٰ
ہے کہ اس کے دشمنوں، بددینوں، ملحدوں سے قطع تعلق کردے، ان سے محبت اور یکانگت
اوردلی اخلاص ایمان کے ساتھ ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتا‘‘(حقانی)
دنیا
خواہ متعصب کہے
’’یعنی تم
مسلمانوں کو یا بالفاظ دیگر ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور آخرت کے قائم
ہونے کے امیدوار ہیں، ابراہیم حاور ان کے رفقاء کی چال اختیار کرنی چاہئے، دنیا
خواہ تم کو کتنا ہی متعصب اورسنگدل کہے، تم اس راستہ سے منہ نہ موڑو، جو دنیا کے
مؤحد اعظم نے اپنے طرز عمل سے قائم کردیا، مستقبل کی ابدی کامیابی اسی راستہ پر
چلنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر اس کیخلاف چلو گے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے
دوستانہ گانٹھو گے تو خود نقصان اٹھائو گے، اللہ تعالیٰ کو کسی کی دوستی یادشمنی کی
کیا پرواہ ہے وہ توبذات خود تمام کمالات اور ہر قسم کی خوبیوں کا مالک ہے، اس کو
کچھ بھی ضرر نہیں پہنچ سکتا(عثمانی)
کافروں
کے سامنے جھکنا ایمان کیخلاف ہے
’’ایمان اور کفر
کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، حضرت ابراہیم خلیل اللہحکے جو اپنی قوم سے اور اپنے باپ
سے مباحثے ہوئے جگہ جگہ قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ ان باتوں میں سے ایک بات یہ بھی
ہے کہ ابراہیم ح اوران کے ساتھیوں نے بغیر کسی مداہنت کے اپنی قوم کے سامنے اعلان
کر دیا کہ ہم تم سے اورتم اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی عبادت کرتے ہو اس سے بیزار
ہیں، اس اعلان کے ساتھ یہ بھی کہ ہم تمہارے منکر ہیں ،ہم تمہارے دین کو نہیں مانتے
اور ہمارے تمہارے درمیان بغض ہے اور دشمنی ہے اور یہ دشمنی ہمیشہ رہے گی۔ جب تک تم
اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان نہ لائو۔ اہل ایمان کو اس طرح کھلے طور پر اپنے ایمان
کا اعلان کرنا چاہئے، کافروں کے سامنے جھکنا اور ان سے ایسی ملاقات کرنا جس سے
ظاہر ہوتا ہو کہ ان سے دوستی ہے یا یہ کہ وہ بھی دین حق پر ہیں یا یہ کہ ہمارا دین
کمزور ہے۔ (العیاذباللہ) یہ سب باتیں ایمان کیخلاف ہیں ڈنکے کی چوٹ اعلان کردیں کہ
ہم تم سے نہیں اورتم ہم میں سے نہیں، کافروں سے کسی قسم کی موالات اور مداہنت کا
معاملہ نہ کریں گے‘‘ (انوار البیان)
ایک
مؤثر اور جامع دعاء
طاقتور
کافروں کے درمیان رہتے ہوئے ان سے کھلی دشمنی اور براء ت کا اعلان آسان کام نہیں
ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء نے یہ سخت مشکل کام اللہ تعالیٰ کے
بھروسے پر کیا اور اس موقع پر انہوں نے جس دعاء کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔
وہ دعاء قرآن پاک میں پوری امت مسلمہ کو بھی سکھادی گئی ہے۔
رَبَّنَاعَلَیْکَ
تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ رَبَّنَا
لَاتَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ
کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَااِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ
’’یعنی اے ہمارے
رب ہم نے سب کو چھوڑ کرآپ پر بھروسہ کیا اور سب سے ٹوٹ کر آپ کی طرف رجوع ہوئے
اور ہمیں یقین ہے کہ ہم سب کو آپ ہی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ اے ہمارے رب ہمیں
کافروں کیلئے محل آزمائش اور تختہ مشق نہ بنا اور ایسے حال میں مت رکھ جس کو دیکھ
کر کافر خوش ہوں اوروہ اسلام اورمسلمانوں پر آوازیں کسیں اور ہمارے مقابلے میں
خود کو حق پر سمجھنے لگیں۔ اے ہمارے رب ہمارے گناہ معاف فرما کہ اگر ان گناہوں کی
سزا میں ہم پر برے حالات آئے تب بھی کافر یہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور ہم
غلط راستے پر ہیں۔ اے ہمارے رب آپ غالب ہیں، حکمت والے ہیں آپکی زبردست قوت
وحکمت سے یہی توقع ہے کہ اپنے وفاداروں کو دشمنوں کے مقابلہ میں مغلوب ومقہور نہ
ہونے دیں گے(مفہوم عثمانی، مظہری وغیرہ)
ہم
کو کافروں کیلئے فتنہ نہ بنا
مسلمان
جب غالب ہوتو وہ کفار کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ بن جاتا ہے کہ کافر اس کی
حالت دیکھ کر ایمان کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن اگر مسلمان مغلوب اور غلام ہو تو اس
کی یہ حالت کافروں کے لئے فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ جب اس کی کمزوری اور ظاہری ذلت دیکھتے
ہیں تو انہیں اپنے کفر کی حقانیت کا یقین ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے غلط عقیدے
اور مذہب پر اور زیادہ پختہ ہوجا تے ہیں۔ جس طرح آج کل کے اکثر کفار کی حالت ہے
کہ وہ کہتے ہیں ’’ہم بہت اچھے ہیں اس لئے کہ ہم مسلمان نہیں ‘‘(نعوذباللہ)
اس
مبارک دعائِ ابراہیمی میں اللہ تعالیٰ سے یہی مانگا گیا کہ اے ہمارے رب ہمیں کفار
کے لئے فتنہ نہ بنا‘‘
حضرات
مفسرین نے اس کے تین مطلب بیان فرمائے ہیں۔
(۱) یااللہ ہمیں کفار کے ہاتھوں سے عذاب نہ دے اور نہ اپنی طرف
سے عذاب میں مبتلا فرما ورنہ یہ کفار کہیں گے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو ان کی یہ
حالت نہ ہوتی۔
قال
مجاہد: لاتعذبنا بایدیہم ولا بعذاب من عندک فیقولوا:لوکان ھؤلاء علی حق ما اصابہم
ہذا وکذاقال الضحاک
(۲) یااللہ ان کافروں کو ہم پر غالب نہ فرما اگر یہ غالب ہوگئے
تو وہ اس فتنے میں پڑجائیں گے کہ وہ برحق ہیں اس لئے غالب ہیں۔
(۳) یااللہ انہیں ہم پر غالب نہ فرما ورنہ یہ ہمیں بہت تکلیفیں
پہنچائیں گے۔ (اور ستاستا کرکافر بننے پر مجبور کریں گے)
عن
ابن عباس لاتسلطہم علینا فیفتنونا۔ (تفسیرابن کثیر)
گناہوں
کی شامت سے بچا
وَاغْفِرْلَنَارَبَّنَا
اے
ہمارے رب ہمیں بخش دے۔
تفسیرمظہری
میں ہے:۔
کبھی
اپنے گناہوں کی وجہ سے مومن مبتلائے عذاب ہو جاتے ہیں اور کفار کا ان پر غلبہ
ہوجاتا ہے اس لئے درخواست ِ مغفرت کا ذکر کیا گیا۔(مظہری)
سوچ
کا فرق
ایک
سوچ یہ ہے کہ:۔
’’ہم مسلمان ہیں،
کمزور ہیں کفار بہت طاقتور ہیں وہ ہمیں بہت نقصان پہنچاسکتے ہیں اس لئے ہم ان سے
دوستی کر لیں، ان کے ساتھ تعاون کریں آخر ہم نے دنیا میں تو رہنا ہے‘‘
گویا
کہ کافروں کے شر سے صرف کافروں کی دوستی ہی ہمیں بچاسکتی ہے(نعوذباللہ)
دوسری
سوچ یہ ہے کہ
ہم
مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ کے وفادار بندے ہیں، جو بھی اللہ تعالیٰ کا دشمن کافر
ہوگا ہم اس کے دشمن ہیں۔ ہم ساری دنیا کے کفار کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں ہم کمزور
ہیں، کفار طاقتور ہیں تو وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کی
طرف رجوع کریں۔ صرف وہی ہمیں ہر نقصان سے بچا سکتا ہے۔ اور ہم نے ہمیشہ دنیا میں
تو نہیں رہنا اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے اس لئے دنیا کے عارضی مفاد کی خاطر ہم
کافروں سے دوستی کرکے اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کریں۔
سخت
تاکیدی حکم
امام
نسفی پ لکھتے ہیں:۔
تاکید
کا کوئی طریقہ ایسا نہیں جو ان آیات میں اختیار نہ کیا گیا ہو یعنی قسم کے ذریعہ،
ترغیب کے ذریعہ، وعید کے ذریعہ الغرض ہر طریقے سے تاکید فرمائی کہ کافروں سے تعلق
کے بارے میں صرف اور صرف حضرت ابراہیمحکے طریقے کو اختیار کرو۔ فلم یترک نوعا من التاکید الاجاء بہ۔(المدارک)
مجاہدین
کے لئے اہم سبق
اکثر
مفسرین فرماتے ہیں کہ ان آیات میں جو دعاء آئی ہے وہ حضرت ابراہیم ح اوران کے
رفقاء کی دعاء ہے۔ جبکہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس دعاء سے پہلے ’’قولوا‘‘ کا
لفظ مقدّر ہے۔ کہ اے مسلمانو! تم یہ دعاء مانگو۔
الغرض
یہ دعاء حضرت ابراہیمحکا ’’اسوۃ‘‘ ہو۔ تب بھی مجاہدین کو اسے اپنا معمول بنانا
چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ’’اسوۃ‘‘ اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم
فرمایا ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانے کے کافروں سے کھلی دشمنی
کااعلان فرمایا اور یہ دعاء مانگتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی ،غلبہ اور
اپنی خصوصی رحمت عطاء فرمائی۔ ان کا کام بھی جاری رہا اور ان کا نام بھی آج تک
مبارک ہے۔
اور
دوسرے قول کے مطابق اگر ایمان والوں کو اس دعاء کے مانگنے کاحکم دیا گیا ہے تو بھی
اسے معمول بنانا ضروری ہوا اور اس صورت میں ربط واضح ہے کہ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم
ح کا اسوۃ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا جو کہ کافی مشکل کام ہے تو اس میں آسانی کے
لئے یہ دعاء سکھائی گئی کہ مسلمان یہ دعاء مانگیں اور اس دعاء کے تقاضوں پر عمل کریں(واللہ
اعلم بالصواب)
رَبَّنَا
عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا متصل بما قبل الاستثناء وھو من جملۃ الاسوۃ الحسنۃ وقیل
معناہ قولوا ربنا فھو ابتداء امر من اللہ للمومنین بان یقولوہ (المدارک)
رَبَّنَاعَلَیْکَ
تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ
رَبَّنَا
لَاتَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ
کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَااِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ
(آمین یاارحم
الراحمین)
وصلی
اللہ تعالیٰ علی خیرخلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیراکثیراکثیرا
معطر
مجالس
اﷲ
تعالیٰ کے محبوب اورآخری نبی حضرت محمدﷺ… قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے نبی،
رسول اور ہادی ہیں… اس لئے آپﷺ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ ہم سب کے لئے ارشاد
فرمایا… چنانچہ جب بھی کوئی حدیث شریف پڑھا کریں تو… یہی خیال رکھیں کہ آقامدنیﷺ
مجھ سے ارشاد فرما رہے ہیں… لیجئے محبت اور احترام کے ساتھ بخاری شریف سے اپنے
آقاحضرت محمدﷺ کی چند احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں…
(۱)رسول
اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:جہنم
جس نے ہم پر(یعنی مسلمانوں پر) اسلحہ اٹھایا وہ
ہم میں سے نہیں ہے۔(بخاری)
برصغیر
پر جب انگریز کا قبضہ تھا تو اُس وقت… حضرات علماء کرام نے مسلمانوں کے لئے انگریزی
فوج میں بھرتی ہونے کو حرام قرار دیا تھا… اور وجہ یہ بتائی تھی کہ ’’برٹش آرمی‘‘
کئی جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہی ہے… حالانکہ مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ
وہ دوسرے مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے…حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد
مدنی پ نے اپنے موقف کے حق میں تیس سے زیادہ احادیث پیش فرمائی تھیں کہ… مسلمانوں
کے لئے مسلمانوں کے خلاف لڑنا جائز نہیں ہے…کراچی کے خالقدینا ہال کا مقدمہ بہت
مشہور ہے… باقی تفصیلات اُس مقدّمے کے ساتھ حضرت مدنیپکی کسی سوانح حیات میں پڑھ لیجئے…
اس وقت مسلمانوں کے ہاتھوں جس طرح سے دوسرے مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے… وہ بہت
افسوسناک اور درد ناک ہے… مسلمانوں کو چاہئے کہ اُن قرآنی احکامات… اور احادیث کا
آپس میں مذاکرہ کریں جو مسلمانوں کے قتل ناحق سے منع فرماتی ہیں…ممکن ہے زیادہ
مذاکرہ کرنے سے کوئی خوش قسمت مسلمان اس موذی اور مہلک گناہ سے بچ جائے…
(۲)رسول
اﷲﷺنے ارشاد فرمایا:
مؤمن
اپنے دین کی طرف سے ہمیشہ کشادگی میں رہتا ہے جب تک وہ کسی کو ناحق قتل نہ
کردے۔(بخاری)
یعنی
جب کوئی ناحق قتل کرے تو وہ تنگی میں پڑجاتا ہے… آج اہلِ پاکستان پر جو ہر طرح کی
تنگی مسلّط ہے اُس کا بڑا سبب’’خون ناحق‘‘ ہے… اور جوکوئی بھی ناحق خون سے اپنا
دامن آلودہ کرتا ہے… اُس پر دنیا کی زندگی بھی تنگ ہو جاتی ہے… جبکہ آخرت کے
بارے میں تو قرآن پاک کا واضح فیصلہ ہے کہ:
جو
شخص کسی مؤمن کو جان بوجھ کرقتل کرے گا اُس کی سزا جہّنم ہے…(ترجمۂ آیت)
پاکستان
میں جیسے جیسے ناحق خون بڑھتا جا رہا ہے… اُسی طرح تنگی اور مصیبت بڑھتی جار ہی
ہے… حکمران خوفزدہ ہیں، بیمار ہیں اور پریشان ہیں… جبکہ عوام کے پاس نہ روٹی ہے نہ
بجلی ہے اور نہ دوا… ہر طرف تنگی ہی تنگی ہے… اور گھٹن ہی گھٹن …
(۳)نبی
کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
(اے مسلمانو!) میرے
بعد کافر نہ بن جانا کہ تم میں سے بعض دوسرے بعض کی گردنیں مارنے لگیں… (بخاری)
یعنی
مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں… یہ تو کافروں کا طریقہ اور
کام ہے… اورمسلمانوں کو قتل کرنا کفر کی طرح بہت بڑا جرم اور گناہ ہے… اﷲ تعالیٰ
رحم فرمائے کہ آج تو مسلمانوں کے خون کے پرنالے بہہ رہے ہیں… شاید تاتاریوں نے
اتنے مسلمانوں کو قتل نہ کیا ہو جتنا آج خود مسلمان کہلوانے والے افراد کر رہے ہیں…
کوئی ہے جو ان کو رسول اﷲﷺ کے مبارک ارشادات سنائے اور سمجھائے…
(۴)رسول
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
مسلمان
کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔(بخاری)
اور
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب
تم میں سے کوئی ہماری(یعنی ہم مسلمانوں کی) مسجد یا بازار سے گزرے اور اُس کے ہاتھ
میں تیر ہوں تو اسے چاہئے کہ اُن تیروں کی نوک کا خیال رکھے(یا ارشاد فرمایا) اپنے
ہاتھ سے اُن تیروں کی نوک کو تھامے رکھے تاکہ کسی مسلمان کو اُن سے کوئی تکلیف نہ
پہنچے … (بخاری)
اور
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
قیامت
سے پہلے ایسے دن آئیں گے جن میں علم اٹھا لیا جائے گا اورجہالت اُتر پڑے گی
اورہَرْج کی کثرت ہو گی… اورہرج کہتے ہیں قتل کو … (یعنی قتل بہت زیادہ ہوں
گے) (بخاری)
صرف
ایک اخبار پڑھ لیں… صرف آدھا گھنٹہ خبریںسن لیں…آپ کو کم از کم سو ڈیڑھ سو
مسلمانوں کی لاشیں ضرور مل جائیں گی… اخبارات میں ایک طرف دلوں میں لالچ اور حرص پیدا
کرنے والے اشتہار اور دوسری طرف قتل و غارت کی خبریں…
حضرت
آقامدنیﷺ نے ارشاد فرمایا:
زمانہ
قریب ہوتا جائے گا، اور عمل کم ہوتاچلا جائے گا اورلالچ (یعنی حرص) دلوں میں ڈال دیا
جائے گا اور فتنے چھا جائیں گے اور ہرج بہت زیادہ ہو جائے گا… صحابہ کرام ذ نے عرض
کیا… یارسول اﷲ! یہ’’ہرج‘‘ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا قتل، قتل… (بخاری)
یہ
حدیث مبارکہ تو مکمل طور پر آج کل کے حالات پر صادق نظر آتی ہے… زمانہ بہت تیزی
سے گزر رہا ہے… پتہ ہی نہیں چلتااور مہینے گزر جاتے ہیں اور سال بیت جاتے ہیں… اور
عمل اتنا کم ہو گیا کہ مسجدیں نمازیوں سے نہیں بھرتیں… اور جمعہ کی اذان تک سے
بازاروں کی رونق میں کوئی فرق نہیں رہتا… تلاوت اورذکراﷲ بھاری معلوم ہوتے ہیں…
اور صداقت ودیانت تو بس کچھ لوگوں کے پاس رہ گئی ہے… اور حرص اور لالچ نے دلوں پر
قبضہ کر رکھا ہے… ہر طرف قتل و غارت ہے جبکہ کچھ لوگوں کی بس یہی فکر ہے کہ اُن کو
زیادہ سے زیادہ ڈالر مل جائیں… غیر ملکی بینکوں میں پیسہ پڑاپڑا گل سڑ جاتاہے…
مگرلوگوں کی حرص ہے کہ کم نہیںہوتی… کوئی پیسے کے پیچھے امریکہ بھاگ رہا ہے تو کسی
کا رُخ یورپ کی طرف ہے… اور کئی لوگ دن رات سعودیہ یا دبئی جاکر بسنے کے خواب دیکھتے
ہیں… پیسہ پیسہ اور پیسہ… معدہ خراب کرنے والے چٹ پٹے کھانے اور زیادہ سے زیادہ عیش
و عشرت کا سامان… ہر طرف لاشیں اور ہر طرف حرص اور لالچ… جانور بھی اپنے ہم جنس
جانوروں کی لاش دیکھ کر کچھ دیر کے لئے کھانا پینا بھول جاتے ہیں… مگر یہ انسان جو
اشرف المخلوقات ہے… اور پھر مسلمان جو کائنات کا مخدوم ہے… وہ کس طرح سے اتنی لاشیں
دیکھ کر بھی نہیں سدھرتا… اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایمانِ کامل نصیب فرمائے…
(۵)رسول
اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب
اﷲ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل فرماتا ہے تو وہ عذاب قوم کے سب لوگوں پر پہنچتا
ہے… لیکن وہ لوگ قیامت کے دن اپنے اپنے اعمال پر اٹھائے جائیں گے… (بخاری)
حدیث
مبارکہ میں بڑی تسلّی ہے… اگر ہم اپنا عقیدہ اور نظریہ درست رکھیں… اوراپنے عمل کو
ٹھیک رکھیں تو پھر… پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے… اسی لئے نہ تو حالات کے ساتھ
چلنے کی ضرورت ہے… اور نہ حالات سے بھاگ جانے کی ضرورت ہے… بلکہ ہمیں چاہئے کہ ایمان
پر قائم رہیں، جماعت کے ساتھ جڑے رہیں… اور اپنے فرض کام کو شریعت کے مطابق کرتے
رہیں… اس حالت میں اگر ہم کسی کے ہاتھوں ناحق قتل بھی ہوگئے… تو انشاء اﷲ اپنے عمل
پر اٹھائے جائیں گے… ہمیں اپنے گناہوںکے علاوہ کسی اور چیز سے گھبرانے کی ضرورت نہیں
ہے… اور گناہوں کے شر سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم گناہ چھوڑ دیں… سچے دل سے
استغفار کریں…اور ہمیشہ اچھی صحبت میں رہیں…
اور اس بات کو دل میں بٹھا لیں کہ … آخری فتح اسلام اور مسلمانوں کی ہونی ہے…
الحمدﷲ سوویت یونین کے خلاف جہاد ہوا… اُس وقت بھی طرح طرح کے فتنے آئے… مگر آخری
فتح مسلمانوں کی ہوئی… اب دنیا کے نقشے میں سوویت یونین موجود ہی نہیں ہے… ہیلری
کلنٹن کہتی ہیں کہ ہم نے… سوویت یونین کو شکست دی… حالانکہ یہ جھوٹ ہے… امریکہ
والے تو ویت نام میں مار کھا گئے… عراق میں بری طرح ہار گئے… اور اب افغانستان میں
پہاڑوں سے سر ٹکرا رہے ہیں… امریکہ میں اتنی طاقت ہوتی کہ وہ سوویت یونین کو توڑ
سکتا تو پھر آج دنیا میں امریکہ کو کسی جگہ شکست نہ ہوتی… سوویت یونین کو تو
شہداء کرام کے خون نے… اﷲ تعالیٰ کی نصرت سے شکست دی ہے… اوراب امریکہ دیکھ لے گا
کہ… کچھ عرصہ بعد اُسے جرمن، جاپان، کورین… اور فرنچ قوموں کے شدید چیلنج کا سامنا
ہوگا… تب دنیا کے نقشے میں جو خون نظر آئے گا وہ مسلمانوںکا نہیں ہوگا… آج ہم
مسلمانوں کے حالات کچھ خراب ہیں مگر ہمارے دشمنوں کے حالات ہم سے بہت زیادہ خراب ہیں…
اسرائیل ہو یا انڈیا… امریکہ ہو یا یورپ سب کو اپنی بقاء کے لالے پڑے ہوئے ہیں…
ہمارے ملک کے وزیر داخلہ صاحب کو کون سمجھائے کہ کافروں پر اتنا بھروسہ نہ کریں…
مگر وہ تو سنبھل ہی نہیں رہے… جب بولنے پر آتے ہیں تو گناہوں میں جوانی گزارنے
والی بوڑھی عورتوں کی طرح بولتے چلے جاتے ہیں… یوں لگتا ہے کہ جناب نے پاکستان کو
دو چار لاکھ روپے میں خرید رکھا ہے… اور اب وہ اس ملک کو دین سے اور دینداروں سے
پاک کردیں گے… یہی زبان ان سے پہلے کئی وزراء داخلہ بولتے بولتے تاریخ کا گمنام
کُوڑا بن گئے… معلوم نہیں ملک صاحب کافروں کے بھروسے پر اتنے بڑے دعوے کس منہ اور
زبان سے کرتے ہیں…وہ خود تو دن رات کافروں سے بھیک مانگنے جاتے ہیں جبکہ… جیش
محمد(ﷺ) جیسی پاکباز جماعت پر غیر ملکی امداد کے الزامات لگاتے ہیں… آج ملک صاحب
پر بہت کچھ لکھنے کا ارادہ تھا… مگر مضمون شروع کرنے سے پہلے میری نظر صحیح بخاری
شریف پر پڑی تو… میں اپنے آقا مدنیﷺ کی پر نور اور معطّر مجالس میں کھو گیا… اﷲتعالیٰ
ہمیں اورہمارے حکمرانوں کو ’’ایمانِ کامل‘‘ عطا ء فرمائے۔ آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
ایک
پیارے ساتھی کی شہادت
رنگ
و نور لکھ کر روانہ ہی کیا تھا کہ… ڈیرہ اسماعیل خان سے محترم قاری امان اﷲ صاحب کی
شہادت کی خبرآگئی… انا ﷲ وانا الیہ راجعون… وہ ہمارے مخلص اور دیرینہ ساتھی تھے…
ہماری جماعت کے ڈویژنل منتظم، عملی مجاہد اور بہادرمسلمان… وہ تو شہادت کے طلب گار
تھے مگر ہمارے دل رو رہے ہیں… وہ آج کا مضمون پڑھتے تو معلوم نہیں کتنے لوگوں کو
سناتے… جی ہاں وہ جہاد اور جماعت کے داعی تھے… ان کے آٹھ(۸) بچے
شہید کی اولاد بن گئے… مجھے لگتا ہے کہ جس لمحے
بندہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت کے لئے مضمون لکھ رہاتھا اسی وقت انسانیت کے
دشمن میرے پیارے ساتھی پر بولٹ کھینچ رہے تھے… مسلمانو! آج نہیں تو کل ضرور جیش
محمدﷺ کی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وفاؤں کو یاد کرو گے… اور اے بد نصیب قاتلو!
تم اﷲ پاک کے غضب سے نہیں بچ سکو گے… تم کتے کی موت مرو گے اور حسرت کی آہیں
بھروگے… تمہاری ان حرکتوں سے مسلمانوں کی شرعی جماعت کمزور ہو جائے گی؟ اگر تم ایسا
سوچتے ہو تو تم بڑی بھول میںہو… شہداء کے خون کو قیمتی بنانے والے رب کی قسم! اہل
ایمان کو تم نہیں جھکا سکتے… نہیں دبا سکتے… یا اﷲ تیرے کمزور بندوں کی جماعت کا
ہر فرد ہاتھ اٹھا کر، دامن پھیلا کر آپ سے قاری امان اﷲصاحب کے لئے مغفرت ، جنت
اور اونچے درجات کا سوال کر رہا ہے… یا اﷲ ان کی قبر کو نور سے اور سرور سے بھر دے
اور ان کے قاتلوں کو ان کے برے انجام تک پہنچا دے… آمین یا رب العلمین
اللھم
صلی علی سیدنا محمد فی العلمین
بہت
روشنی
اﷲتعالیٰ
نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ … یہاں حالات ایک جیسے نہیں رہتے…جی ہاں! دنیا
میں حالات بدلتے رہتے ہیں… اور آج کل تو یہ تبدیلی بہت تیز ہو گئی ہے… ابھی کچھ
عرصہ پہلے آصف زرداری صاحب جیل میں تھے… پھر اچانک وہ ملک کے صدر بن گئے…کتنی دیر
لگی؟… اور آگے جو حالات تبدیل ہوں گے ان میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی… پرویز
مشرف نے جناب یوسف رضا گیلانی کو سات سال کی قیدسنوا کر جیل میں ڈال دیا تھا… وہاں
انہوں نے غیر قانونی طور پر موبائل بھی رکھا ہوا تھا اور ایک کتاب بھی لکھتے رہے…
اب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں… تین سال پہلے تک پرویز مشرف پاکستان کے طاقتور ترین
کمانڈو صدر تھے… پھر اچانک زوال آیا اور اُن کو اٹھا کر لندن لے گیا… اب واپسی کے
دروازے بظاہر بند معلوم ہوتے ہیں… اور خاک وہاں پہنچ گئی ہے جہاں کا خمیر تھا… دیکھا
آپ نے حالات کتنی تیزی سے بدل رہے ہیں… ایک ڈیڑھ سال پہلے تک جارج بش دنیا کا
طاقتور ترین جانور تھا… مگر آج وہ بے چارہ ایک عبرتناک کارٹون ہے… دیکھا آپ نے
کہ حالات کتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں… آپ پانچ چھ سال پرانا ایک اخبار اٹھا کر
پڑھیں… اور پھر آج کا اخبار پڑھیں تو آپ کو حالات میں زمین و آسمان جتنی تبدیلی
نظر آئے گی… تین چار سا ل پہلے سوات کی طرف جانے والی درگئی کی پہاڑی پر ٹریفک
جام ہو جاتی تھی… گرمی کے ستائے ہوئے اور گناہوں کے بھوکے ہر طرح کے انسان سوات کی
ٹھنڈک لینے جا رہے ہوتے تھے… مگر اس سال اہل سوات کو اپنا ٹھنڈا علاقہ چھوڑ کر
صوابی، مردان، پشاور اور پنجاب کے تندوری موسم میں جھلسنا پڑا… چھ سات سال پہلے کی
بات ہے… فوج کے ایک بڑے افسر سے اچانک ملاقات ہو گئی… میں نے اُن سے کہا کہ حکومت
کی پالیسی ٹھیک نہیں جارہی… اگر یہی پالیسی رہی تو فوج اورپولیس کا امن ختم ہو
جائے گا… آج کل تو دوران سفر فوجی اپنے ٹرکوں میں سوئے رہتے ہیں… اور پولیس والوں
کو بھی جہاں ٹکنے کی جگہ ملے وہاں امن اور آرام سے سو جاتے ہیں… لیکن اگر حکومت
اسی طرح دینی طبقے اور جہادپرمظالم کرتی رہی تو دیکھ لینا … یہی فوجی اور پولیس
والے انڈین آرمی کی طرح خوف کی حالت میں… مکمل الرٹ ہو کر سفر کیا کریں گے… آج
آپ دیکھ لیں کہ فوج اور پولیس پر کیسا خوف سوار ہے… اسی خوف کی وجہ سے وہ اب بے
گناہوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں… جی ہاں حالات ایک جیسے نہیں رہتے… ایک صاحب ہمیشہ
اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ دوستو! حالات ایک جیسے نہیں رہتے… ایک بار وہ شدید
مالی بحران میں گھر گئے… اُن کے دوست افسوس کرنے گئے کہ… اب تو اس بحران سے نکلنے
کی کوئی صورت ہی نہیں…دوستوں نے جا کر غم اور افسوس کا اظہا رکیا تو وہ صاحب کہنے
لگے… کوئی فکر نہیں حالات ایک جیسے نہیں رہتے…اور واقعی ایسا ہی ہوا… چند دن بعد
اُن کے حالات بدل گئے… اور وہ پہلے سے زیادہ مالدارہو گئے… اب اُن کے رفقاء اُ ن
کومبارکباد دینے گئے تو انہوں نے کہا… خوشی کی کوئی بات نہیں حالات ایک جیسے نہیں
رہتے… اور واقعی ایسا ہوا چند دن بعد وہ بیمار ہو گئے… ایسے بیمار کہ مال کا ہونا
نہ ہونا ایک برابر ہو گیا… اُن کے رفقاء پھر عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے کہا… پریشانی
کی کوئی بات نہیں حالات ایک جیسے نہیں رہتے… چنانچہ ایسا ہی ہوا… اور چند دن بعد
اُن کا انتقال ہو گیا… تمام بیماریاں اورجھگڑے ختم… اُن کے رفقاء نے اُن کی قبر پر
آکر کہا…جناب اب تو حالات تبدیل نہیں ہوں گے… اُنہیں محسوس ہوا کہ قبر سے آواز
آرہی ہے… دوستو! حالات ایک جیسے نہیں رہتے… چنانچہ ایسا ہی ہوا… پانی کا سیلاب آیا
اور اُن کی قبر کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا… مجھے حیرانی ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو
حالات کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں… کچھ اپنا دین بدل لیتے ہیں… کچھ اپنے نظریات سے
ہاتھ دھو لیتے ہیں… اور کچھ حالات کی خرابی دیکھ کر ٹھنڈی لکڑیاں بن جاتے ہیں…
حالانکہ دنیا میں کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی دواء اﷲ تعالیٰ نے پیدا نہ کی ہو…
سورج اپنی گرمی برسا رہا ہوتا ہے کہ اچانک بادل آکر اُس کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں…
رات زور شور سے اندھیرے گرا رہی ہوتی ہے کہ صبح صادق کا نور آکر اُس کو شرمندہ کر
دیتا ہے… تعجب ہے اُن لوگوں پرجو اچھے حالات کو اپنا کمال سمجھتے ہیں… میں نے اپنی
مختصر سی زندگی میں… حالات کو اس طرح سے بدلتے دیکھا کہ… بظاہر وہ سب کچھ ناممکن
نظر آتاہے… اور دل میں اس بات کا یقین بٹھا دیتا ہے کہ…سب کچھ اﷲ پاک کی طرف سے
ہوتا ہے…۱۹۹۶ء کا وہ دن بھی میں نے دیکھا کہ جب ہم دس پندرہ ساتھی زخمی
حالت میں کوٹ بھلوال جیل کے ایک دفتر میں پڑے تھے… کسی کے منہ سے خون بہہ رہاتھا
تو کسی کے سر سے… مشرکین نے وہ سرنگ پکڑ لی تھی جو جیل سے فرا ر ہونے کے لئے مجاہدین
نے بنائی تھی… کمانڈر سجاد افغانی شہیدپ، کمانڈر نصر اﷲ منصور… اور ہم سب لاٹھیاں،
ڈنڈے، آنسو گیس کے گولے… اور لوہے کی ضربوںسے نیم جان پڑے تھے… شاید مشرکین کو بھی
احساس ہو چکا تھا کہ اب ان قیدیوں میں مزید تشدد برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی…
مگر پھر بھی اچانک کمرہ کھلتا اور کوئی مشرک سیدھا میرے پاس آکر ڈنڈے برسانا شروع
کردیتا… ایک بار ایک بے وردی شخص مارنے کے لئے بڑھا تو ہمارے اوپر متعین سنتری نے
اُس کو منع کیا… تب ایک اور سنتری نے کہا یار اس کو دو چار ڈنڈے مارنے دو یہ ایس پی
صاحب کاباڈی گارڈ ہے… ایس پی صاحب نے سفارش کی ہے کہ اس کو مارنے کی اجازت دی
جائے… یعنی اُس دن ہماری پٹائی کرنا ایک ’’اعزاز‘‘ تھا جس کو حاصل کرنے کے لئے انڈین
سپاہی اپنے آفیسروں سے سفارش کرارہے تھے… پھر حالات بدل گئے۱۹۹۹ء
میں پاکستان آگیا…توجس جگہ بھی جاتا لوگ مصافحے کے لئے ٹوٹ پڑتے… کراچی میں ایک
صاحب کو میرے ساتھی آگے نہیں بڑھنے دے رہے تھے تو وہ حضرت مفتی نظام الدین شامزئی
شہیدپ کی سفارش لیکر آگیا کہ… اس آدمی سے ضرور مصافحہ اور ملاقات کی جائے… سبحان
اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم… ڈنڈے مارنے کے لئے جمّوں کے ایس پی کی سفارش… اور
مصافحہ کے لئے حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدپ کی سفارش… جی ہاں میں سچ کہہ رہا
ہوں کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے… اور حالات کے اچھا ہونے میں انسان کا کوئی ذاتی
کمال نہیں ہوتا کہ فخر کرنے لگے… اور نہ حالات کے بُرا ہونے میں کوئی ایسا عذاب
ہوتا ہے کہ انسان مایوس اور بددل ہوجائے… مجھے وہ رکشہ بھی یاد ہے جس میں کمانڈر
سجاد شہیدپ اور میں نہایت بے بسی کے ساتھ گرفتار ہوئے… وہ رات ہم نے انڈین آرمی
کے آفیسروں کا تشددسہتے ہوئے گزاری… وہ شراب پی کر آتے اور طرح طرح کی فخریہ تقریریں
کرتے ہوئے ہمیںمارتے تھے… اور پھر مجھے وہ جہاز بھی یاد ہے جس میں انڈیا کا وزیر
خارجہ جسونت سنگھ سر جھکائے بیٹھا تھا… اور میں مسکراتے ہوئے اُس کے پاس سے گزر کر
طالبان کی مہمان نوازی میں آگیا… وہ رات بھی ہم نے جاگتے ہوئے گزاری… مگر سوائے
اکرام اور محبت کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا… طالبان طرح طرح کے کھانے کھلا رہے تھے…
بڑے اہل علم اور اہل جہاد ملنے آرہے تھے… پاکستان سے محبت بھرے ٹیلیفون موصول ہو
رہے تھے… دونوں راتیں گزر گئیں… رکشے والی بھی اور جہاز والی بھی… اسی لئے تو عرض
کر رہا ہوں کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے… پھر مجھے کیوں اپنے ارد گردمایوسی کا ایک
طوفان نظرآرہا ہے… میںنے اپنی اس مختصر سی زندگی میں حکمرانوں کو شیروں کی طرح
گرجتے… اور پھر چند دن بعد نمک کی طرح پگھلتے دیکھا ہے… مجاہدین کے خلاف آپریشن
کا آغاز معین الدین حیدر سابق وزیر داخلہ نے کیا تھا… آج اُس کی ملک میں کیا حیثیت
ہے؟… کیا کوئی ایک آدمی بھی اُس کے حکم پر کچھ کرنے کو تیار ہے؟… مجاہدین آج بھی
الحمدﷲ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں… اُن کے پاس اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قوت بھی ہے
اور طاقت بھی… مگر حکمران تو برف کی طرح پانی بن کر مٹی میں مل گئے ہیں… آج کے وزیر
داخلہ صاحب کا مستقبل تو ویسے ہی کافی خراب نظر آرہا ہے… موجودہ حکمرانوں کو
چاہئے کہ وہ اپنی توجّہ کھانے پینے اور پیسہ بنانے کی طرف رکھیں… اور زیادہ نظریاتی
باتیں نہ کیاکریں… ان کی باتیں سن کر تو بچوں کو بھی ہنسی آجاتی ہے… زرداری صاحب
اور اخلاقی نظریات؟… ملک صاحب اور قانون کی پاسداری؟… آپ حضرات اپنے ماضی کو دیکھیں
اور اسلام اور مسلمانوں کی باتیںنہ کیا کریں… یہ باتیں اُن لوگوں کو زیب دیتی ہیں
جن کا اسلام اور مسلمانوں سے کچھ تعلق ہو… انتخابات سے پہلے یہ تمام حضرات خود
مُلک توڑنے کی دھمکیاں دے رہے تھے… اورجب حکومت مل گئی تو اب اچانک ملک کے محافظ
بن گئے… پہلے آدھا ملک ان لوگوں نے توڑا… ملک کے اربوں روپے باہر ملکوں کے بینکوں
میں جا کر دفن کر دیئے… دنیا کا ہر جرم انہوں نے اپنا حق سمجھ کر کیا… اور اب یہ
علماء اور مجاہدین کو اخلاق اور حبّ الوطنی کاسبق پڑھا رہے ہیں… ان لوگوں کو بھی یاد
رکھنا چاہئے کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے… اور دن رات کی تبدیلی میں عقل والوںکے
لئے بہت سی نشانیاں ہیں… مکہ مکرمہ کی دعوت… مدینہ منورہ کا جہاد… مکہ مکرمہ کے
پتھر اور مظلومیت… طائف کے درد ناک مظالم… ہجرت کی خوفناک راتیں… اورپھر بدر کا
روشن دن… اور فتح مکہ کے دن حضرات صحابہ کرامؓ کے الگ الگ شاندار لشکر… ان تمام
باتوں میں اہل ایمان کے لئے بہت روشنی ہے… بہت روشنی…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
مسلمان
اور خلافت
اﷲ
تعالیٰ کی رحمت اور مدد ساتھ ہو تو ہر منزل آسان ہو جاتی ہے…حجاج بن یوسف کتنا
بڑا ظالم تھا… ایک ضدی، پاگل اور قاتل شخص… اُس نے اپنے دورحکومت میں ہزاروں
مسلمانوں کو شہید کیا اور ہزاروں مسلمانوں کو قید کی مشقت میں ڈالا… اُس کے ظلم
اور شر سے بچنے کے لئے بڑے بڑے ائمہ، علماء اور اولیاء روپوش ہوگئے تھے… مثلاً
(۱) حضرت
سعید بن جبیرپ
(۲) حضرت
ابوعمرو بن العلاء پ
(۳) حضرت
حسن بصری پ
(۴) حضرت
ابراہیم النخعیپ
یقینا
آپ نے ان حضرات کا نام سنا ہو گا… حضرت سعید بن جبیرپکو تو تابعین کا سردار کہا
جاتا ہے… وہ اپنے وقت میں روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کہلاتے تھے… اور اُن کے سینے
میں حضرات صحابہ کرام کے علوم اور معارف محفوظ تھے… باقی تینوں حضرات بھی بہت
اونچے درجے کے محدّث، فقیہ اور امام تھے…
لیکن جب حکومت کی کرسی پر ایک بد دماغ انسان آبیٹھا… تو ان حضرات کو چھپنا اور
روپوش ہونا پڑا… حضرت سیدنا سعید بن جبیرپ
تو د س سال تک روپوش رہنے کے بعد گرفتار کر لئے گئے… اور بد بخت حجاج نے
اُن کو شہید کر دیا… اُن کی شہادت کا واقعہ بہت معروف ہے… وہ آخری وقت میں بھی
مسکرا رہے تھے اور قرآن پاک کی آیات پڑھ رہے تھے… اُن کی شہادت کے بعد حجاج سخت
بیمار پڑ گیا… وہ بے ہوش ہو جاتا تھا اور پھر چیخ مار کر ہوش میں آجاتا… اورکہتا
کہ سعید بن جبیرپ میرے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ظالم تو نے مجھے کس جرم
میں قتل کیا ہے؟… اسی عذاب اور اذیت کی حالت میں حجّاج مر گیا اور مسلمانوں کی جان
چھوٹ گئی… حضرت حسن بصری پنے روپوشی کی حالت میں حجاج کے مرنے کی خبر سنی… تو
فوراً سجدے میں گر گئے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا…
ہائے
حجاج کی بد نصیبی کہ جس کے مرنے پر مسلمانوں نے شکر کے سجدے ادا کئے… حضرت ابو عمر
و بن العلاء پ بھی حجّاج سے چھپ کر یمن جا پہنچے اور وہاں روپوش رہے… دن کو تو گھر
میں بند رہتے تھے البتہ رات کو اُس مکان کی چھت پر آبیٹھتے اور ٹھنڈی ہوا کے
جھونکے لیتے… ایک دن کسی شخص نے اعلان کیا کہ حجاج مر گیا ہے تو بہت خوش ہوئے …کہا
اب آزادی کے ساتھ دین کی خدمت کا موقع ملے گا… حجّاج بھی مرگیا اور یہ تمام حضرات
بھی دنیا سے رخصت ہو گئے… آج مشرق و مغرب کے مسلمان حضرت سعید بن جبیرپ ، حضرت
حسن پ اور حضرت ابراہیم النخعیپ کے علوم سے فائدہ مند ہو رہے ہیں… روزانہ لاکھوں
مسلمان ان بزرگوں کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں… اور دین کے معاملے میں اُن کی
باتوں سے رہنمائی لیتے ہیں… جبکہ حجاج کا نام آج بھی ظلم اور نفرت کا استعارہ ہے…
اور اصل فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا جس میں ظالم کو اُس کے ظلم کا اور مظلوم کو
اُسکی مظلومیت کا بدلہ دیا جائے گا…
حضرت
ابراہیم النخعیپ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بھی حجاج کے شر سے روپوش تھے… جب انہیں
حجاج کے مرنے کی خبر ملی تو خوشی سے رونے لگے… جی ہاں بعض خوشیاں اتنی بڑی اور
بھاری ہوتی ہیں کہ انسان کو رُلا دیتی ہیں… اﷲ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو اب اپنی رحمت
سے ایسی ہی خوشیاں عطاء فرمائے… حجاج کا فتنہ بہت بڑا تھا اور بہت طویل تھا… اس
فتنے نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا مگر… آج پھر اُمتِ مسلمہ طرح طرح کے
فتنوں کی زدمیں ہے… ایک طرف کفار کے حملے ہیں تو دوسری طرف ظالم حکمرانوں کا راج
ہے… اسلامی دنیا کے حکمرانوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو مسلمانوں سے محبت رکھتا
ہو… ہاں ترکی کے موجودہ حکمران کچھ غنیمت ہیں… اُن کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن میں
سلام پیش کرتا ہوں ترکی کے صدر عبداﷲ گل اور وزیر اعظم رجب طیب اردگان کو… ان
دونوں نے چین کے مظلوم مسلمانوں کے لئے آواز اٹھائی ہے… ہم اُن کی آواز میں اپنی
آواز شامل کرنا اپنی اسلامی ذمہ داری سمجھتے ہیں… چین کے حکمرانوں نے چین کے
مسلمانوں پر ظلم کر کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کیا ہے… ہماری تو یہ خواہش
ہے کہ چین، جاپان، کوریا اور جرمن قومیں مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کر کے ظالم مغربی
استعمار کا مقابلہ کریں… لیکن کیمونزم کے منحوس اثرات کا نتیجہ ہے کہ چین نے سنکیانگ
کے مسلمانوں کو مستقل تختہ مشق بنایا ہوا ہے… اور چونکہ چین کی اکثر اسلامی ملکوں
سے دوستی ہے تو اس لئے چینی مسلمان بے چارے… بے بسی اور بے کسی کے ساتھ مارے جارہے
ہیں اور کوئی اُن کے حق میں آواز تک نہیں اٹھاتا… اور پاکستان میں تو ایک اور لطیفہ
بھی ہے… وہ یہ کہ اگر آپ پاکستان میں چین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز
اٹھائیں تو یہاں کے حکمران اور خفیہ ایجنسیاں فوراً… یہ اعلان کر دیتی ہیں کہ آپ
کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں اور آپ امریکہ کے اشارے پر یہ بات کہہ رہے ہیں…
لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم… ہمارے حکمران جو خود دن رات امریکہ کی پوجا
پاٹ میں لگے رہتے ہیں… وہ جب کسی پر امریکہ نوازی کا الزام لگاتے ہیں تو بہت حیرت
ہوتی ہے… ہمارا موقف اس بارے میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ… ساری دنیا کے
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں… اور مسلمانوں پر جو بھی ظلم کرے گا وہ ضرور
دوسرے مسلمانوں کی آنکھوں میں نفرت کا نشان بن جائے گا… نہ امریکہ کو یہ حق حاصل
ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم کرے اور نہ اسرائیل کو… نہ بھارت کو اس کا حق پہنچتا ہے
اور نہ چائنا کو… چین کو چاہئے کہ وہ اسلامی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی لاج
رکھتے ہوئے سنکیانگ کے مسلمانوں کو عزت اور آزادی کے ساتھ جینے کا حق دے… اور اُن
کے بنیادی حقوق غصب نہ کرے… اور نہ ہی انہیں تشدّد اورظلم کا نشانہ بنائے… اور اس
بات کو یاد رکھے کہ جس ملک نے بھی مسلمانوں پر ظلم کیا ہے اُس ملک میں امن قائم نہیں
رہ سکا… ترکی کے موجودہ حکمرانوں نے چینی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے ہم
انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں… انشاء اﷲ کبھی تو مسلمانوں کو خلافت نصیب ہو جائے
گی… خلافت مسلمانوں کے لئے اسی طرح ہوتی ہے جس طرح مرغی اپنے چوزوں کے لئے… تمام
چوزے مرغی کے پروں میں پناہ لیکر بڑے ہوتے ہیں… اسی طرح مسلمان خلافت کی آغوش میں
طاقتور ہوتے ہیں…مسلمانوں کا خلیفہ ہر مسلمان کے لئے فکر مند رہتا ہے اور وہ
مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے… افغانستان میں جب امارتِ
اسلامیہ قائم ہوئی تو کتنے بے سہارا مسلمانوں کو امن نصیب ہوا… حضرت امیر المؤمنین
نے روس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیچنیا کوبطور ملک تسلیم کیا… اور چیچن
مسلمانوں کو باقاعدہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی… امارتِ اسلامیہ چند سال ہی
قائم رہی… لیکن شیر کی ایک روزہ زندگی گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے…
امارت ِ اسلامیہ بھی تھوڑے دن قائم رہی مگرپوری شان کے ساتھ مسلمانوں کو خلافت کا
جلوہ دکھا گئی… اﷲ والے فرماتے ہیں کہ استغفاروہ چابی ہے جس سے ہر تالا کھولا جا
سکتا ہے… اس وقت مسلمانوں کی قسمت پر اُن کے گناہوں کا جو تالا لگ گیا ہے وہ بھی
استغفار سے کھل سکتا ہے… مسلمان امارتِ اسلامیہ کے اہل نہیں تھے تو اﷲ تعالیٰ نے
وہ نعمت واپس چھین لی… اب ہمیں چاہئے کہ سچے دل سے استغفار کریں… تمام گناہ چھوڑ دیں،
گناہوں سے نفرت کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کریں تو انشاء اﷲ ہر رکاوٹ
دور ہوجائے گی… کیونکہ …
اﷲ
تعالیٰ کی رحمت اور مدد ساتھ ہوتو ہر منزل آسان ہو جاتی ہے…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
ایمان
کا راستہ
اﷲ
تعالیٰ بہت کریم ہے… وہ ناقص اور نااہل بندوں پر بھی اپنا فضل فرماتاہے… میرے
بالکل قریب چار جلدوں پر مشتمل ایک کتاب رکھی ہے… فتح الجوّاد فی معارف آیات
الجہاد… الحمدﷲ رب العالمین، الحمد ﷲ رب العالمین… کتاب کو دیکھتا ہوں تو خوشی سے
آنکھیں بھیگ جاتی ہیں… اور یوں لگتا ہے کہ کوئی خوبصورت اور حسین خواب دیکھ رہا
ہوں… الحمدﷲ رب العالمین… اپنی حالت دیکھتے ہوئے مجھے کبھی اس بات کا پورا یقین نہیں
آتا تھا کہ … یہ کتاب میری زندگی میںمکمل ہو گی… مگر اﷲ تعالیٰ بہت کریم ہے، بہت
وھّاب ہے اور بہت رحیم ہے… الحمدﷲ رب العالمین… میرے دماغ میں کئی پرانے مناظر
تازہ ہو رہے ہیں… اور مجھے یقین دلا رہے ہیں کہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا
ہے… انسان اگر کسی کام کو اپنا کمال سمجھے تو یہ اُس کی غلطی ہے، بے وقوفی ہے… آئیے
ماضی کے کچھ مناظر کو یاد کر کے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں… بے شک یہ شکر ادا
کرنے کا موقع ہے…
حیرت
انگیز نعمت
ہماری
گاڑی خراب ہو گئی… جمعہ کا دن تھا اور بندہ نے جمعہ کا خطبہ دینا تھا… ہم نے وقت
پر پہنچنے کے لئے ایک موٹر رکشہ پکڑ لیا… تھوڑی دیر بعد ہمارا رکشہ آرمی کے گھیرے
میں آگیا… ہمارا مسلّح ساتھی تو بھاگنے میں کامیاب ہو گیا… مگر ہم دو ساتھی پکڑے
گئے… زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا، بے بسی اور بے کسی کا دور… ہم سے سب کچھ چھن
گیا… دن کا تشدد اور راتوں کا خوف ہمارا مقدّرٹھہرا…ہم دیکھتے ہی دیکھتے تماشہ بن
گئے… کوئی مارتا، کوئی گالیاں دیتا، کوئی فخر بگھارتا اور کوئی طنز کرتا… پہلے ایک
فوجی کیمپ اور پھر وہاں سے لاد کر
دوسرے کیمپ اور پھر وہاں سے باندھ کر تیسرے کیمپ میں ڈال دیا گیا… تیسرے کیمپ میں انہوں نے خوب بھڑاس نکالی… پھر ہم زخمی
حالت میں ایک تنگ سے سیل میں ڈال دیئے گئے… فوجی بوٹوں کی آواز جب بھی قریب سے
سنائی دیتی دل دھڑکنے لگتا… پھرایک دن اچانک زور دار بوٹوں کی آواز آئی… میں کسی
نئی آفت کے لئے خودکو تیار کرنے لگا کہ… اﷲ تعالیٰ کا فضل بارش کی طرح برسا… ایک
فوجی کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا جو اُس نے سلاخوں سے گزار کر مجھے دے دیا… میں وضو
سے تھا، قرآن پاک کو دیکھ کر عجیب حالت ہوگئی… کبھی اُسے چومتا، کبھی چہرے پر
ملتا اور کبھی سینے سے لگا لیتا… جسم کا درد اور روح کے سارے زخم بھول گئے… وقت کی
تلخی تلاوت کی مٹھاس سے بھر گئی… مجھے میرے محبوب اور کریم مالک نے بہت سکون دہ
ساتھی عطاء فرمایا… گرفتاری سے پہلے زندگی بہت مصروف تھی… صبح اسلام آباد تو شام
کراچی… دن کو لاہور تو رات کو پشاور… ایک دن جدّہ تو اگلے دن دبئی… آج حرمین تو
کل کہیں اور… صبح بہاولپور تو رات افغانستان… بس سفر ہی سفرتھے اور خوب بھاگ دوڑ…
الحمدﷲ قرآن پاک کے نسخے ہر طرف موجود تھے مگرتلاوت کی طرف توجہ کم تھی… اﷲ تعالیٰ
بہت معاف فرمائے… بہت معاف فرمائے… مجھے لگا کہ قرآن پاک کا یہ نسخہ جو مجھے
ٹارچر سیل میں ملا مجھ سے شکوہ کر رہا ہے… اور میں رو رو کر اُسے منا رہا ہوں… اور
پھر الحمدﷲ وہ مان گیا… اور اب ہم دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے… میں اُسے پڑھتا تھا
اور وہ مجھے سنبھالتا تھا… میں اُسے دیکھتا تھا اور وہ مجھے قوت دیتا تھا… بس اسی یاری
کے دوران آیات جہاداُبھر اُبھر کر سامنے آنے لگیں… کبھی چند ساتھی مل بیٹھتے تو
مذاکرہ بھی ہو جاتا… مگر نہ کاغذ تھا نہ قلم… نہ بھیجنے کی سہولت تھی نہ چھپوانے کی…
مگر ایک دلربا نعمت یعنی قرآن پاک کا نسخہ میرے پاس تھا میرے ساتھ تھا… الحمدﷲ رب
العالمین… دینی خدمات میں مصروف مسلمانوں سے بھی عرض ہے کہ تلاوت کلام پاک کا بہت
اہتمام کیا کریں…
عجیب
و غریب نعمت
ہمیں
بتایا گیا کہ اس ٹارچر سیل میں تمہیں اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک… کشمیر میں تحریک
جہاد جاری ہے… وہ تو اسے تحریک جہاد نہیںکہتے تھے بلکہ دہشت گردی پکارتے تھے… جی
ہاںکئی مسلمانوں کی طرح…مگرہمارے لئے وہ کل بھی تحریک جہاد تھی… اورآج بھی تحریک
جہاد ہے… اُ س ٹارچر سیل میں بہت سختی تھی… ہمیں کہا جاتا تھا کہ یہیں مر جاؤ گے یا
بوڑھے ہو کر نکلو گے… مگر اﷲ تعالیٰ تو بہت کریم ہے… اُس نے چند ماہ میں ہی ہمیں
وہاں سے نکال کر ایک جیل میں پہنچا دیا… اس جیل میں کافی آزادی تھی اور ڈیڑھ ہزار
کے قریب قیدی مجاہدین تھے… تب وہاں قرآن پاک کی آیاتِ جہاد گونجنے لگیں… یہ ایک
عجیب و غریب نعمت تھی… دشمن کی جیل ، دارالحرب، سخت پہرے اور ان کے درمیان بھرپور
درسِ قرآن پاک… یہ قرآن پاک کا اعجاز تھا… درس شروع ہوا تو بارک بھر گئی اور پھر
مجمع بڑھتا ہی چلا گیا… آواز الحمدﷲ بلند تھی وہ بھی کام آئی اور سینکڑوں افراد
درس میں شریک ہونے لگے… قرآن پاک کو جتنا بیان کیا جائے یہ اُتنا ہی کُھلتا
جاتاہے… آیاتِ جہاد یہا ں خوب کُھلیں…ہم قید کے دوران بھی اتنے مصروف ہوگئے کہ
کھانے کا وقت مشکل سے ملتا… مگرلکھنے اور بھجوانے کی سہولت یہاں بھی نہ تھی… الحمد
ﷲ کوٹ بھلوال کی اس جیل میں سورۃ انفال کا درس مکمل تفصیل سے ہوا… آج جب یہ سطریں
لکھ رہاہوں پاکستان میں آٹھ جگہ… الحمدﷲ آیات جہاد کا دورہ پڑھایا جا رہا ہے…
بہاولپور، کراچی، مردان، فیصل آباد، لکی مروت، سکھر، مانسہرہ،ٹنڈو الہ یار میں ایک
ہزار سے زائد طلبہ یہ مبارک و منور دورہ پڑھ رہے ہیں… اور پچھلے ہفتے گوجرانوالہ،
کوئٹہ اور پشاور میں یہ دورہ ہو چکا ہے… اور اگلے ہفتے مظفر آباد میں انشاء اﷲ
ہونے والا ہے… الحمدﷲ رب العالمین… کوٹ بھلوال جیل میں پورا دورہ تو نہ ہوسکا تھا
البتہ… ابتدائی دوپارے اور سورۃ انفال کا درس ہو گیا… الحمدﷲ رب العالمین… اور پھر
کچھ عرصہ کے لئے ہم پر آزمائش اور سختی کا ایک اور دور شروع ہو گیا… اس دور میں
پڑھنا پڑھانا تو ناممکن تھا مگر سمجھنے کے لئے بہت کچھ موجود تھا… والحمدﷲ رب
العالمین علیٰ کل حال…
عظیم
الشان نعمت
آزمائش
کے اس دور میں ہمیں بتایا گیا کہ… اب تمہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں بھیجا جائے گا…
وہاں جیل کا عملہ اور کریمنل قیدی تمہاری چمڑی اتاردیں گے… مگر جب ہم تہاڑ جیل میں
پہنچے تو اﷲ تعالیٰ کا فضل ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکا تھا… بے شک اﷲ تعالیٰ بہت کریم
ہے… وہاں کے نامور مجرم قیدیوں پر تو اﷲ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ وہ… دونوںہاتھ
جوڑ کرآداب کرتے تھے… اور جیل حکام نے بھی
خوف کی وجہ سے تشدّد سے گریز کیا… کچھ عرصہ ہم وہاں الگ الگ رہے… سات ماہ بعد
اکٹھے ہوئے تو قرآن پاک نے ہمیں جوڑ لیا… کچھ ساتھی تجوید اور ناظرہ ٹھیک کرنے
لگے تو کئی ساتھیوں نے ترجمہ یاد کرنا شروع کیا… ترجمے کا سبق شروع ہوا تو آیاتِ
جہاد پھر اپنی طرف بلانے لگیں… یہاں قرآن پاک کے نسخے بھی زیادہ تھے اور دو ترجمے
بھی موجود تھے… حضرت شیخ الہند پکا ترجمہ اور حضرت تھانوی پ کا ترجمہ… بندہ نے اﷲ
تعالیٰ کے بھروسے پر آیاتِ جہاد کو جمع کرنا شروع کر دیا… کام شروع ہوا تو قرآن
پاک نے اپنی طرف کھینچ لیا… نہ دن رات میں کوئی فرق رہا اور نہ کسی اور کام میں
کوئی دلچسپی… آٹھ دس دن میں چار سوسولہ آیات جمع ہو گئیں، اُن کا آسان ترجمہ
اور مختصر تشریح بھی ہو گئی… اور اُن کو پاکستان بھی بھجوادیا گیا… اور یوں۱۹۹۶ء
میں آیات ِ جہاد کا یہ پہلا کام کراچی میں مکتبۃ الخیر نے ’’تعلیم الجہاد حصہ
چہارم‘‘ کے نام سے شائع کر دیا… والحمدﷲ رب العالمین…
ناقابل
یقین نعمت
اﷲ
تعالیٰ نے آزادی دی تو کتابیں بھی خوب ہاتھ آئیں… الحمدﷲ گھر میں ایک بڑا کمرہ
کتابوں سے بھرا پڑا ہے… اس مکتبے میں درجنوں تفاسیر ہیں اور ہر دینی عنوان کی کتابیں…مگر
تہاڑ جیل کے ادھورے کام کو پورا کرنے کا موقع نہ مل سکا… اﷲ تعالیٰ نے دورہ تفسیر
آیات الجہاد کی توفیق عطاء فرمائی… مگر لکھنے کے لئے کچھ فرصت چاہئے تھی اور کچھ
تنہائی… حکمرانوں نے بہت ستایا تو گھر سے نکلنا پڑا… عجیب بات ہے کہ جن لوگوں پر
سو سو مقدّمات ہیں وہ حکومت کر رہے ہیں…اور وہ شخص جس پر ایک ایف آئی آر بھی نہیں
وہ ہجرت پرمجبور ہے… مگر اﷲ تعالیٰ بہت کریم ہے…وہ ناقص اور نااہل لوگوں پر بھی
اپنا فضل فرما دیتا ہے… کچھ دن کے دھکوّں کے بعد اﷲتعالیٰ نے پھر قرآن پاک کے
ساتھ جوڑ کر بٹھادیا… کام شروع ہوا تو معلوم پڑا کہ کافی مشکل ہے… ابتداء میں سورۃ
بقرہ نے ہی وہ رنگ دکھایا کہ… دل کے ساتھ جسم بھی کانپنے لگا… اُس وقت بس یہی تمنا
تھی کہ سورۃ بقرہ ہو جائے… اس طرح ایک طرز متعین ہو جائے گی تو… اہل علم میںسے کوئی
باہمت شخص باقی کام کرلے گا… مگراﷲ تعالیٰ بہت کریم ہے… کام بڑھتا گیا تو آسان بھی
ہوتا گیا… تب پہلی جلد آگئی… اس جلد کے بعد آنکھوں کے سامنے پھر اندھیرا چھا گیا…
حضرت استاذ مفتی محمدجمیل خان شہیدپ سے خواب میں ملاقات ہوئی… خواب میں محسوس ہوا
کہ وہ کوہاٹ میں جلد اوّل کی افتتاحی تقریب میںخطاب فرما رہے ہیں… بندہ نے اُن کے
سامنے اپنی کمزوری اور مجبوری کا ذکرکیاکہ باقی کام مشکل ہے… انہوں نے فرمایا کہ
پھر کسی اورکو سکھا دو… اُ س وقت دل میں خیال آیا کہ نہیں انشاء اﷲ خود کوشش کروں
گا… تب دوسری اور پھر تیسری جلد بھی آگئی… اور اب یقین نہیں آرہا کہ الحمدﷲ چوتھی
جلد بھی آچکی ہے… اور اُس کی افتتاحی مجلسِ شکر بھی ہو چکی ہے…
ہاں
بے شک اﷲ تعالیٰ بہت کریم ہے… اور اُس کی رحمت اور اُس کا فضل بہت وسیع ہے … الحمدﷲ
رب العالمین
کارنامہ
نہیں
یہ
کتاب کوئی ’’کارنامہ ‘‘نہیں… قرآن پاک کی ایک ادنیٰ سی خدمت ہے… اور انشاء اﷲ اب
اس موضوع پر کام کے مزید دروازے کُھل جائیں گے…ہم تو ہنگامی حالت میں جی رہے ہیں…
اس لئے امت تک جلد از جلد یہ امانت پہنچانے کے لئے بہت سی باتوں اور چیزوں کو چھوڑ
دیا گیا…الحمدﷲ آٹھ سو پینسٹھ(۸۶۵)
آیات کے جہادی مضامین اوراشارات اس میں آگئے ہیں… کتاب کی
مختلف فہرستیں بن جاتیں تو کافی فائدہ ہوتا مگر وہ نہ بن سکیں… انشاء اﷲ آئندہ چل
کر بن جائیں گی… اسی طرح ایک مفصّل مقدّمہ بھی زیر غور رہا جس میں اہم جہادی مباحث
آجائیں … مگر وہ بھی نہ ہو سکا… اور میرے خیال میں یہ سب کچھ ٹھیک ہوا… اس طرح
خالص قرآن پاک کی دعوتِ جہاد اُمت کے سامنے آگئی… جس میں کوئی بات بھی ہماری اپنی
نہیں ہے… قرآن پاک ہم سے کیا فرما رہا ہے؟… کتاب اﷲ میں جہاد کو کس طرح سے بیان کیا
گیاہے؟… اﷲرب العالمین نے اپنے مبارک کلا م میں جہاد پر کیا فرمایا ہے؟… فتح
الجوّاد بس ان ہی سوالات کا جواب ہے…اے مسلمانو! اے اﷲ تعالیٰ کے بندو!… بے شک کسی
کی بات نہ سنو!مگر اﷲ تعالیٰ کا فرمان تو سنو… آقا مدنیﷺ کا ارشاد تو سنو… ’’فتح
الجوّاد‘‘ کو اﷲ پاک کی رضاء کے لئے ایک بار ضرور پڑھ لو… انشاء اﷲ بہت سے اندھیرے
چھٹ جائیں گے… اورایمان کا راستہ آسان ہو جائے گا… یا اﷲ اس کتاب کو قبول فرما…
نجات کا ذریعہ بنا… آمین یا ارحم الراحمین…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
ترقی
کا راز
اللہ
تعالیٰ کا ذِکْر اور اللہ تعالیٰ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔
’’ولذکراللہ
اکبر‘‘ (القرآن)
دعاء
کریں اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو یہ بہت بڑی چیز…اور بہت بڑی نعمت نصیب فرما
دے۔
یہ
ہماری اہم ترین ضرورت ہے
اللہ
تعالیٰ کو ہمارے ذِکر کی ضرورت نہیں ہے… وہ تو غنی، بادشاہ بے نیاز ہے… ہماری تو حیثیت
ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذِکر کرسکیں… یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ
ہمیں اپنے ذکر کی توفیق عطاء فرماتا ہے… یاد رکھو مسلمانو! ہم سب ’’ذکراللہ‘‘ کے
بہت محتاج ہیں… اگر ہم ذکر نہیں کریں گے تو تباہ ہوجائیں گے، ہلاک ہوجائیں گے اور
گناہوں میں ڈوب جائیں گے… یاد رکھو ’’ذکراللہ‘‘ میں زندگی ہے اور ترقی ہے اور کامیابی
ہے… شیطان جب کسی پر غالب آجاتا ہے تو سب سے پہلے اُسے ’’ذکراللہ‘‘ سے غافل کرتا
ہے… ’’ذکراللہ‘‘ کرنے والے مجاہد ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں… اور جو مجاہد ’’ذکراللہ‘‘
نہیں کرتے وہ بالآخر جہاد سے بھی محروم ہوجاتے ہیں… کیونکہ شیطان اُن پر غالب
آجاتا ہے اور اُن کے دلوں کو سخت کر دیتا ہے۔
شیطان
کے غالب ہونے کا مطلب
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا:
اِسْتَحْوَذَعَلَیْہِمْ
الشَّیْطَانُ فَاَنْسٰہُمْ ذِکْرَاللّٰہِ، اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَ لَا
اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ۔ (المجادلۃ۹۱)
ترجمہ:
ان (منافقین) پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے، پس اُس نے انہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر
بھلا دیا ہے، یہی شیطان کا گروہ ہے، بے شک شیطان کا گروہ ہی نقصان اٹھانے والا ہے…
تھوڑا
سا سوچیں کہ ہمارا بدترین دشمن شیطان سب سے پہلا کام یہی کرتا ہے کہ … جس پر غلبہ
پاتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ کے ذِکْر سے غافل کردیتا ہے… معلوم ہوا کہ ذکر سے غفلت
کتنی نقصان دہ چیز ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ شیطان کے کسی انسان پر غالب آجانے کی
یہ علامات ہیں۔
(۱) شیطان اُسے کھانے، پینے، پہننے اور اپنا ظاہر سنوارنے میں
مشغول کردے۔
(۲) اُس کے دل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرنے اور اُن کا
شکر ادا کرنے سے غافل کردے۔
(۳) اُس کی زبان کو جھوٹ، غیبت اور بہتان میں لگا کر اللہ تعالیٰ
کے ذکر سے ہٹا دے۔
(۴) اُس کی تمام سوچ اور فکر کو دنیا بنانے اور دنیا جمع کرنے
میں مشغول کر دے۔
(تفسیرالمدارک)
تھوڑا
سا غور فرمائیں
شیطان
’’منافقین‘‘ پر غالب آجاتا ہے۔ شیطان کے غالب آنے کی چار علامات ہم نے پڑھ لیں…
اب ہم دوسروں کو نہیں بلکہ خود کو دیکھیں کہ… کہیں یہ علامات ہمارے اندر تو پیدا
نہیں ہوگئیں۔ ویسے ’’ذکراللہ‘‘ سے غفلت تو بہت عام ہوچکی ہے… مجھے جو ڈاک آتی ہے
اس میں اکثر خطوط میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ… معمولات پورے نہیں ہوتے، تلاوت رہ جاتی
ہے، وغیرہ وغیرہ… اللہ کے بندو! تلاوت کے بغیر کیا زندگی ہے؟ اور ذکراللہ کے بغیر
کیا مزہ ہے…
زندگی
کا جو دن تلاوت اور ذکر کے بغیر گزر گیا وہ تو ہمارا دشمن بن گیا… طرح طرح کے
ہوٹل، طرح طرح کے کھانے… خود کو خوبصورت بنانے کی بے وقوفانہ فکر اور اس کیلئے
گھنٹوں کی محنت…ہر وقت گپ شپ اور بک بک… اور دنیا کمانے اور بنانے کی فکر… یا اللہ
حفاظت فرما… یہ سب منافقین کی علامات ہیں… ہماری اور ہمارے مسلمان بھائیوں اور
بہنوں کی اِس سے حفاظت فرما…
یہ
کون لوگ ہیں؟
یہ
کون لوگ ہیں؟… صبح اُٹھ کر پہلی فکر ’’شیو‘‘ بنانے کی… نبی پاکﷺ کی سنت کو ذبح
کرنے کی … اناللہ وانا الیہ راجعون…
پھر
سر کے بالوں کا سٹائل… بالکل انگریزوں جیسا، کافروں جیسا… پھر لباس کی تراش خراش…
جیب میں موسیقی بجاتے موبائل فون… اذان کی آواز آئی مگر مسجد کا رُخ نہ کیا… جو
عورت نظر آئی اُس کو خوب دیکھا اور دکھایا… نام پوچھو تو کوئی محمد، کوئی
عبداللہ… اور کوئی عبدالرحمن… جی ہاں خوبصورت اسلامی نام… مگر اسلام سے کیا تعلق…
دن اور رات کے کئی گھنٹے فلمیں دیکھنے، گانے سننے اور کرکٹ کی کمنٹری میں برباد…
اور باقی وقت کھانے، پینے، سونے، شاپنگ کرنے، دنیا کمانے اور عشق معشوقی میں ختم…
نہ دل محفوظ نہ آنکھیں… نہ کوئی جذبہ نہ کوئی امنگ…بس ’’لائف اسٹائل‘‘ کو جدید
بنانا ہے اور ہرگناہ کو کمانا ہے…
یا
اللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اپنا فضل فرما کر ایسا بننے سے بچا… ان لوگوں سے
تو جانوروں کی زندگی بہتر ہے… وہ اپنی ترتیب سے اللہ تعالیٰ کا ذکر تو کرتے ہیں…
جب کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں سے… ’’اللہ تعالیٰ‘‘ نکل چکا ہے… نہ اللہ تعالیٰ کا
نام… نہ اللہ تعالیٰ کی یاد… نہ اللہ تعالیٰ کی محبت… نہ اللہ تعالیٰ کا خوف… اور
نہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی پرواہ… جی ہاں شیطان غالب آجائے تو انسان کو ایسا ہی
’’ مُردار‘‘ بنا دیتا ہے… کسی نوجوان کو میوزک کی دُھن میں مست گاڑی چلاتا دیکھیں…
دل شرم اور خوف سے کانپ جاتا ہے… او! بیوٹی پارلروں میں جاکر خوبصورت بننے کی کوشش
کرنے والو… اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ تعالیٰ کے راستے کے جہاد کو اختیار کرو…
تب اللہ تعالیٰ تمہیں وہ ’’حسن‘‘ عطاء فرمائے گا جس کا کوئی مقابلہ بھی نہیں کرسکے
گا…
گدھوں
کی منڈی
چند
دن پہلے بی بی سی پرخبر سنی کہ امریکہ اور نیٹو نے ’’اعتدال پسند طالبان‘‘ ڈھونڈنے
اور اُن سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے… میری زبان سے بے ساختہ نکلا کہ ایک اور
منڈی لگ گئی… اب بہت سے نام نہاد مجاہدین خود کو بیچنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر
سبقت کریں گے… ہائے مسلمان تجھے کیا ہو گیا… اللہ تعالیٰ کا ذکر چھوٹا تو دل سخت
ہو گئے… اور دنیا کے حقیر مال کے پجاری بن گئے… ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو
مجاہدین تلاوت، تقوٰے، نماز اور ذکر کا اہتمام کرتے تھے وہ بہت کامیاب رہے… مگر جن
کا جہاد ’’سیاسی‘‘ تھا یا صرف ’’جذباتی‘‘ وہ زیادہ دیر استقامت نہ دکھا سکے… کہاں
ہے… استاد سیاف؟ کہاں گئے برہان الدین ربانی… اور کہاں گئے پیرصبغت اللہ مجددی… یہ
سب مجاہدین کے بڑے تھے مگر آج امریکہ کی گود میں جاگرے ہیں… صرف دنیا کی خاطر،
صرف عزت کی خاطر، صرف حفاظت کی خاطر… حالانکہ یہ سب کچھ امریکہ کے ہاتھ میں نہیں
ہے… جہاد کشمیر کے کئی نامور مجاہد آج دہلی میں بیٹھ کر ہندو مشرک کی غلامی کرتے
ہیں… مسلمان اگر دل سے کلمہ پڑھے تو وہ کبھی نہیں بِک سکتا مگر جب دل ہی مسلمان نہ
ہوا ہو تو صرف داڑھی پگڑی سے کیا بنتا ہے… طالبان کے سابق وزیرخارجہ وکیل احمد
متوکل صبح شام کرزئی اور امریکہ کی انگلیوں پر ناچتے ہیں… اور اب مزید گدھے خریدنے
کیلئے ایک نئی منڈی کا اعلان ہوا ہے… اللہ تعالیٰ سب مجاہدین کے ایمان کی حفاظت
فرمائے… کافروں کے ہاتھوں فروخت ہونے کی بجائے موت آجائے تو وہ بہت بڑی نعمت ہے۔
نظامِ
ذکر فرض ہے
ہمارے
ایک اللہ والے بزرگ فرماتے تھے… ہر چیز محبت سے وجود میں آتی ہے اور ذکر سے ترقی
کرتی ہے اور بڑی ہوتی ہے… مجاہد بھی جہادی جماعت اللہ تعالیٰ کی محبت میں بناتے ہیں…
اسی طرح مدرسے والے مدرسہ اور دینی اداروں والے اپنے ادارے اللہ تعالیٰ کی محبت میں
بناتے ہیں… اب اگر ان میں ’’ذکراللہ‘‘ کا نظام قائم ہو تو یہ جماعتیں، مدرسے اور
ادارے ترقی کرتے ہیں اور فلاح پاتے ہیں… لیکن اگر ان میں ذکراللہ کا نظام نہ ہو تو
سب دنیاداری کے اڈے بن جاتے ہیں… نماز کا اہتمام، تلاوت کا اہتمام، ذکر وتسبیح کا
اہتمام، درودشریف اور استغفار کا اہتمام… اور ہر کام میں سنت کا اہتمام… مسنون
دعائوں کا اہتمام اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کا اہتمام… یہ سب
’’ذکراللہ‘‘ کے نظام میں داخل ہے… اور اصل چیز اللہ تعالیٰ کی وہ محبت ہے جو اخلاص
اور احسان کے مقام تک پہنچی ہوئی ہو… نماز اللہ تعالیٰ کے لئے… جہاد اللہ تعالیٰ
کے لئے… اور آپس کی دوستی اور دشمنی سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو پھر دین کا
ہرکام قبول ہوتا ہے اور ترقی کرتا ہے…
عجیب
محرومی
ہمارے
آقا مدنیﷺ نے جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں بہت بڑی خیر اوربرکت پوشیدہ ہے… مگرکئی
مسلمان ان دعائوں کا اہتمام نہیں کرتے… اناللہ وانا الیہ راجعون… وجہ پوچھو تو
کہتے ہیں کہ ٹائم نہیں ملتا یا یاد نہیں رہتی… اللہ کے بندو! تمہیں کتنی دوائیوں
کے نام یاد ہیں… کتنے لوگوں کے نام یاد ہیں… اور تو اور سری لنکا کے کالے کھلاڑیوں
کے مشکل نام تک یاد ہیں… پھر مبارک دعائیں یاد کیوں نہیں ہوتی؟… کیا تمہاری زندگی
رسولِ پاکﷺ کی زندگی سے زیادہ ’’مصروف‘‘ ہے… اس کائنات میں سب سے زیادہ ’’مصروف‘‘
زندگی آقا مدنیﷺ نے گزاری… جب آپﷺ نے اتنی مصروف زندگی کے باوجود اِن دعائوں کا
اہتمام فرمایا تو پھر کسی اور کے لئے کیا عذر رہ جاتا ہے… اللہ کے بندو اور اللہ کی
بندیو! ان دعائوں کی برکت سے انسان کے وقت اور عمر میں برکت ہو جاتی ہے… اور زندگی
نور سے بھر جاتی ہے… اس لئے ان نعمتوں سے ہم سب خوب خوب فائدہ اٹھائیں…
دل
اور روح کا حق
’’ذکراللہ‘‘
انسان کے دل اور روح کی خوراک اور روزی ہے… ہم اپنے جسم کے لئے کتنی محنت کرتے ہیں
تو کیا ہم پر ہماری روح اور دل کا کوئی حق نہیں ہے؟… یاد رکھو دل مُردہ ہو گیا تو
نہ گناہ سے باز آئے گا اور نہ کفر سے… بلکہ سیدھا جہنم کی طرف لے جائے گا… اور
روح مُردہ ہوگئی تو اسے بھی جہنم میں جانا پڑے گا… اللہ کے بندو، اللہ کی بندیو…
تھوڑی دیر خالص اللہ پاک کی رضا کے لئے تنہائی میں تلاوت تو کرکے دیکھو… دل اور
روح کو کتناسکون ملتا ہے؟… تھوڑی دیر تنہائی میں اللہ پاک کی خالص رضا کے لئے اللہ
اللہ کرکے دیکھو… سبحان اللہ، والحمدللہ، اللہ اکبر، پڑھ کر دیکھو… یوں لگے گا کہ
دل کے زخم مندمل ہورہے ہیں…کبھی ایک نماز تو خالص اللہ پاک کی رضا کیلئے اور اُس کی
یاد میں مشغول رہ کر ادا کرو… دل آسمانوں سے اوپر پہنچ جائے گا… یاد رکھو ذکر میں
فائدے ہی فائدے ہیں… اور ’’ذکراللہ‘‘ سے غفلت میں نقصان ہی نقصان ہے… علامہ ابن قیم
پ نے قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ کو سامنے رکھ کر ’’ذکراللہ‘‘ کے سو
فائدے لکھے ہیں… جس کو شوق ہو اُن کی کتاب ’’الوابل الصیّب‘‘ میں دیکھ لے… اُن سو
فائدوں میں سے چند ایک یہ ہیں…
(۱) ذکر
اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے۔
(۲) ذکر
شیطان کو دفع کرتا ہے اور اُس کی قوت کو توڑتا ہے۔
(۳) ’’ذکراللہ‘‘
دل سے فکر وغم کو دور کرتا ہے۔
(۴) ’’ذکراللہ‘‘
بدن اور دل کو طاقت بخشتا ہے۔
(۵) ’’ذکراللہ‘‘
چہرے اور دل کو منور کرتا ہے۔
(۶) ’’ذکراللہ‘‘
رزق میں برکت کا ذریعہ ہے۔
(۷) ’’ذکراللہ‘‘
اللہ تعالیٰ کے قرب اور اُس کی معرفت کا ذریعہ ہے۔
(۸) ’’ذکراللہ‘‘
کرنے والے کا ذکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہوتا ہے۔
(۹) ’’ذکراللہ‘‘
دل اور روح کی روزی ہے۔
(۰۱) ’’ذکراللہ‘‘
آدمی کی ہر ترقی کا ذریعہ ہے۔
آج
سے نیت کرلیں
اب
تک جو غفلت ہوگئی اُس پر استغفار کرلیا جائے… حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا
صاحبپ کی کتاب ’’فضائل ذکر‘‘ کا ایک بار مطالعہ کرلیا جائے… پختہ نیت کرلی جائے کہ
نماز میں کوئی غفلت، سستی نہیں ہوگی… اور نماز باجماعت توجہ سے ادا کریں گے… اور
نماز میں دل اور جسم کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھیں گے… نہ ہاتھوں کو بار بار
ہلائیں گے اور نہ کپڑوں سے کھیلیں گے… تلاوت کے ناغے کا تصور بھی نہیں کریں گے
(عورتیں مجبوری کے ایام میں تلاوت کے وقت کسی اور ذکر کا اہتمام کرلیا کریں)… اور
اپنے تمام معمولات اور اذکار کو سب سے زیادہ ترجیح دے کر پورا کریں گے… یاد رکھو
مسلمانو! اگر میری اور آپ کی زندگی میں ’’ذکراللہ‘‘ آگیا تو پھر ہم ہرچیز کے
مالک بن جائیں گے… کیونکہ ذکراللہ بہت بڑی چیز ہے۔
ولذکراللہ
اکبر
دعاء
کریں… اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ بڑی چیز اور بڑی نعمت مجھے اور آپ کو نصیب
فرمادے۔
اللہ،
اللہ اللہ
آمین
برحمتک یا ارحم الراحمین
وصلی
اللہ تعالیٰ علی خیرخلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیراکثیراکثیرا
٭…٭…٭
دو
کمزوریاں
اللّٰھم
بارک لنا فی رجب و شعبان وبلّغنا رمضان…
یہ
بہت قیمتی اور مبارک دعاء ہے… شعبان کے جتنے دن باقی ہیں ان میںکثرت کے ساتھ اس
دعاء کا اہتمام کیا جائے… ہم سب اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے محتاج ہیں… اور
رمضان المبارک کا مہینہ بالکل قریب ہے…اُ س کو ایمان کے ساتھ پانے کے لئے جس قوت
اور طاقت کی ضرورت ہے… وہ بھی اس دعاء کی برکت سے نصیب ہو سکتی ہے… دشمنانِ اسلام
اﷲ تعالیٰ کے انتقام کے گھیرے میںہیں… انڈیا میں اس سال بارشیں کم ہونے کی وجہ سے
چاول کی فصل تباہ ہو گئی ہے… من موہن سنگھ
نے سخت مایوسی اور پریشانی کا اظہار کیا
ہے… اور دوسری طرف امریکہ اور نیٹو کے بعض ممالک
کے درمیان اختلافات شدید ہوتے جار ہے ہیں… ایسے حالات میں ہمیں اﷲتعالیٰ کی
رحمت اور برکت کی بے حد ضرورت ہے… اللّٰھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلّغنا رمضان
دو
کمزوریاں
ہم
مسلمانوں میں کمزوریاں تو بہت سی پیدا ہو گئی ہیں… مگر دو کمزوریاں ایسی ہیں جنہوں
نے تقریباً ہر مسلمان کو جکڑ رکھا ہے… حضور اقدسﷺ کی لخت ِجگر حضرت فاطمۃ الزھراء
ز کے گھر میں ایک دن مکمل فاقہ تھا… حضرت علیذ اور حضرت فاطمہ زنے بھوک کی حالت میں
رات گزاری… صبح حضرت علیذ ایک معمولی سی چادر لپیٹ کر خود کو سردی سے بچاتے ہوئے ایک
یہودی کے باغ میں گئے… وہاں آپ ذنے پانی کے بڑے بڑے ڈول کھینچنے کی مزدوری کی… یہودی
نے اُن کو ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور دی… اس مزدوری کی وجہ سے حضرت علی ذکے ہاتھ
سوج گئے… واپس تشریف لا کر کچھ کھجوریں حضور اقدسﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں… اور
باقی کھجوروں سے کائنات کے خوش قسمت جوڑے نے اپنی بھوک کو ٹھنڈا کیا… یہ سب کچھ
ہوگیا مگر نہ آہ نکلی نہ کوئی شکوہ… وہ بھوک پیاس کی حالت میں بھی اﷲ تعالیٰ سے
راضی اورخوش تھے… اور خود کو سعادت مند محسوس کر رہے تھے… وجہ یہ تھی کہ وہ نعمتوں
کی قدر اور قیمت پہچانتے تھے… ایمان کی نعمت، رسول اﷲﷺ کے خاندان سے ہونے کی نعمت…
ہجرت کی نعمت… دیندار ی کی نعمت… یہ وہ نعمتیں ہیں جن کی قیمت کا اندازہ لگانا بھی
مشکل ہے… یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے فرعون، قارون اور ابو جہل محروم رہے تو باوجود
حکومت، مال اور سرداری کے ذلیل و خوار ہو گئے… آج ہم مسلمانوں میں یہ بڑی کمزوری
آگئی ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی اصلی اور بڑی نعمتوں کی قیمت سے ناواقف ہو گئے ہیں…
قرآن کے حافظ رو رہے ہیں کہ اُن کے گھر میں فریج نہیں ہے…اناللہ وانا الیہ
راجعون… مجاہدین رو رہے ہیں کہ ان کے اپنے ذاتی مکان نہیں ہیں… انا ﷲ وانا الیہ
راجعون… دیندار آہیں بھر رہے ہیں کہ اُن کے پاس زیادہپیسہ نہیں ہے… انا ﷲ وانا الیہ
راجعون
گویا
کہ جہاد، حفظِ قرآن او ر دینداری کی نعمتیں کچھ بھی نہیں؟ …اﷲ تعالیٰ نے ایک آدمی
کو کوٹھی دی اور دوسرے کو قرآن پاک … آپ بتائیں کہ ان میں سے زیادہ احسان کس پر
ہوا؟… کوٹھی تو ایک دن گر جائے گی… اُس پر کوئی قبضہ بھی کر سکتا ہے…مگر قرآن تو
ماشاء اﷲ، سبحان اﷲ… قبر میں بھی ساتھ دے گا اور حشر میںبھی… جہاد کتنی عظیم الشان
نعمت ہے؟… فضائل جہاد میں سے چند آیات اور احادیث پڑھ کر دیکھ لیں… اگر کسی انسان
کے پاس دس کروڑ روپے ہوں اور وہ ان کے بدلے جہاد کا ایک منٹ خرید لے تو… آپ یقین
جانیں اُس نے مٹی کے بدلے سونے کا پہاڑ خرید لیا… مگر یہاں یہ حالت ہے کہ جن کو
صبح و شام جہاد اور پہرے داری نصیب ہے وہ گاڑی تک کو جہاد سے بڑی نعمت سمجھ رہے ہیں…انا
ﷲ وانا الیہ راجعون… اﷲ تعالیٰ ہم مسلمانوں کی اس کمزوری کو دور فرمائے… یہ کمزوری
دور ہو گئی تو ناشکری کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی… آپس کا حسد ختم ہو جائے گا…
مسلمان اصل نعمتوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے … اور گھروں اور جماعتوں کا
اتفاق و اتحاد واپس لوٹ آئے گا … آج مسلمان جن چیزوں پر ایک دوسرے سے حسد کر رہے
ہیں وہ تو اصلی اور بڑی نعمتیں نہیں ہیں… مال، عہدے، گاڑیاں ظاہری عزت… یہ تو عام
سی چیزیں ہیں… کسی کے پاس جتنی بھی ہوں تو ہمیںکیا… اصل نعمتیں تو ایمان، اسلام، دین،
نماز، قرآن ، تقویٰ، صدقہ، جہاد اور شہادت وغیرہ ہیں… ان نعمتوں کی تمنا بھی کرنی
چاہئے او ر قدربھی… میری بات پر یقین نہ آئے تو ابھی کسی قبرستان میں چلے جائیں
اور مُردوں سے پوچھیں کہ… اب اُن کے پاس مال، گاڑیاں، عہدے ہیں… یا ایمان، قرآن،
جہاد اور نیکیاں… اور پھر کچھ پرانی قبروں پر چلے جائیں اور اندازہ لگائیں کہ ان
کو دنیا چھوڑے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہے… تب آپ کو انشاء اﷲ اس بات کا یقین
آجائے گا… دوسری بڑی کمزوری ہم مسلمانوں میں… دعاء سے محرومی ہے…دل کے یقین اور
قوت کے ساتھ ہم دعائیں نہیں مانگتے … ہماری نظر اسباب اور وسائل پر زیادہ اور دعاء
پر بہت کم ہے … اسی لئے ہم پر رحمت کے بہت سے دروازے بند ہیں … ہماری نظر میں سو روپے
کا نوٹ بہت کچھ کر سکتا ہے مگر دو رکعت نماز اور دعا ء سے (نعوذباللہ) کچھ نہیں
ہوتا … ہماری اس کمزوری نے ہمیں ’’عالم قدس ‘‘ سے کاٹ کر ’’مٹی‘‘ میں ملا دیا ہے…
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں یقین والی دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے…آمین
رمضان
المبارک کا استقبال
رمضان
المبارک تشریف لانے والا ہے…ہمیں ابھی سے تیاری شروع کردینی چاہئے… کوئی بڑا معزز
مہمان آرہا ہوتا ہے تو اُس کے لئے بہت کچھ کیاجاتا ہے…رمضان المبارک تو بہت معزز
مہمان ہے…ہمیں ابھی سے اپنا دل اور منہ دھوکر اس مہمان سے ملاقات کی تیاری کرنی
چاہئے… کاروباری حضرات اپنے کاروبار سمیٹ کر ایسی ترتیب بنائیں کہ انہیں عبادت
وتلاوت کا زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے… اللہ والوں کو محاذوں کا رُخ کرنا چاہئے
کہ…رمضان غزوہ بدر اور فتح مکہ کا مہینہ ہے… یہ مہینہ اگر جہاد یا رباط میں گزرے
تو پھر کیا ہی مزے ہیں…اہل قرآن کو ابھی سے قرآن پاک کی طرف زیادہ توجہ شروع کردینی
چاہئے … اور خواتین کو خاص طور سے رمضان کی تیاری کا اہتمام کرنا چاہئے…
٭…جن کے ذمہ
زکوٰۃ باقی ہے وہ فوراً خوشدلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کریں… نوٹ اور زیورات کم ہونے سے
نہ گھبرائیں … بلکہ ان نوٹوں اور زیورات کو اپنی اصل زندگی کے لئے آگے بھیجنے کی
عقلمندی کریں۔
٭…جن کی نمازیں
کمزور چل رہی ہیں وہ باجماعت اور باتوجہ نماز کا ابھی سے اہتمام شروع کردیں… نماز
کے بغیر ایمان اور اسلام بس نام کے ہی رہ جاتے ہیں…اور کمزوری کے آخری درجے پر
پہنچ جاتے ہیں۔
٭…جن کے ذمے کسی
کاقرضہ ہے …اور ان کے پاس مال موجود ہے توفوراً قرضہ ادا کریں… مال کو اپنے پاس
رکھ کر خوش ہوتے رہنا بہت بری عادت ہے…مال اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ نیکیاں
کمائی جائیں اور گناہوں سے بچا جائے… پس آپ بھی اپنا قرضہ ادا کرکے اپنی جان
چھڑائیں…قرضہ ادا ہو گا تو رزق میں برکت شروع ہوجائے گی۔
٭… جن کی موبائل
دوستیاں چل رہی ہیں…ناجائز یاریاں بڑھ رہی ہیں وہ رمضان المبارک کے استقبال میں
اپنے نمبر بدل لیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھالیں کہ… ہم اب موبائل اور کمپیوٹر
کا غلط استعمال نہیں کریں گے… اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت اور قسم انشاء اللہ ان کے
ارادوں کو مضبوط کردے گی…
٭…جن کو اللہ
تعالیٰ نے مال دیا ہے وہ ابھی سے اپنے غریب رشتہ داروں کیلئے…مجاہدین اور دینی
مدارس کیلئے لفافے بنانے شروع کردیں…بہت خوشی اورروحانی سرمستی کے عالم میں بڑے
بڑے نوٹ ان لفافوں میں بھر کر…ان لفافوں کو خوشی سے دیکھیں کہ یہ ہے میرا اصل مال
جو میرے کام آئے گا…
افطار کے لئے کھجوریں خریدیں کہ…رمضان
المبارک سے پہلے تقسیم کرنی ہیں… اور کھلے دل کے ساتھ مالی ہدایا کے ذریعے رمضان
المبارک کے استقبال کی تیاری کرلیں…
٭…اہل جہاد نیت
کرلیں کہ…جہاد کے حوالے سے جو کام ہمارے ذمے لگا رمضان المبارک میں بھرپور اخلاص
اور محنت کے ساتھ کریں گے… شہداء کرام کے گھرانوں کا خصوصی خیال رکھیں گے…اپنے اسیربھائیوں
کے لئے خوب اچھا سامان بھیجیں گے… اور ان کے لئے زیادہ دعائیں مانگیں گے…
جی
ہاں… اللہ تعالیٰ کا مہینہ رمضان المبارک آرہا ہے… ہرمسلمان اپنی ہمت… شوق اور
طاقت کے مطابق تیاری شروع کر دے…اللہ تعالیٰ سعدی فقیر کو…اور آپ سب کو توفیق عطا
فرمائے…
شعبہ
احیائے سنت
ہماری
مبارک جماعت کا شعبہ’’ احیاء سنت‘‘کافی عرصہ سے کام کر رہا ہے…جب یہ شعبہ قائم ہوا
تو اس کی ذمہ داری ہمارے محترم بزرگ قاری عمرفاروق صاحب زیدقدرہ نے سنبھالی… ماشاء
اللہ حضرت قاری صاحب نے بہت محنت فرمائی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس شعبہ کو بہت پذیرائی
ملی…یہ شعبہ دیندار گھرانوں کے درمیان رشتوں کیلئے رابطہ کا کام کرتا ہے… دیندار
گھرانے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے کوائف لکھ کر بھیجتے ہیں … اورجس طرح کارشتہ
مطلوب ہو اس کی تفصیلات بھی لکھتے ہیں … شعبہ احیاء سنت ان کوائف کی روشنی میں’’مناسب
جوڑ‘‘ بنا کر دونوں خاندانوں کا باہمی رابطہ کرادیتا ہے… بس اس شعبے کا کام اتنا ہی
ہے… اور ماشاء اللہ یہ بہت بڑا کام ہے… بہت اجر والا …بہت نیکی والا… اور بہت خیر
والا… شعبۂ احیاء سنت کسی کو کسی کے ہاں رشتہ کرنے کی ترغیب نہیں دیتا… اور نہ کسی
کے سامنے کسی کی سفارش کرتا ہے… یہ شعبہ بس خاندانوں کے درمیان رابطہ کرادیتا
ہے…باقی تمام کام اُن خاندانوں کو کرنے ہوتے ہیں… وہ ایک دوسرے کودیکھیں، پسند یا
ناپسند کریں … رشتہ کریں یانہ کریں…یہ سب اُن خاندانوں کی اپنی مرضی پر موقوف ہوتا
ہے… الحمدللہ اس شعبے کی برکت سے بہت سے نوجوانوں کو اور بیٹیوں کو اچھے دینی رشتے
مل گئے … اور بہت سے خاندان ایک دوسرے سے جڑ گئے… گزشتہ دنوں بندہ نے ’’شعبہ احیاء
سنت‘‘ کا تمام ریکارڈ منگوا کر دیکھا تو حضرت قاری عمر فاروق صاحب کیلئے دل سے
دعائیں نکلیں… اللہ تعالیٰ اُن کو بہت جزائے خیر اور صحت وعافیت عطا فرمائے… انہوں
نے بے شک مثالی محنت فرمائی ہے… قارئین کو یہ پڑھ کر صدمہ ہوگا کہ حضرت قاری صاحب
کچھ عرصہ سے کافی علیل ہیں…پچھلے دنوں تو وہ کئی ہفتے تک ہسپتال میں داخل رہے…
قارئین سے درخواست ہے کہ اُن کی صحت وعافیت کیلئے دعا فرمائیں… حضرت قاری صاحب کی
علالت کی وجہ سے ’’شعبہ احیاء سنت‘‘ کا کام رک گیا تھا… محترم قاری صاحب سے مشورہ
کرنے کے بعد اب محترم جناب سلیس احمد صاحب کو اس شعبے کا نیا ناظم مقرر کیا گیا
ہے… اور شعبے کا دفتر رحیم یار خان سے بہاولپور منتقل کردیا گیا ہے… اہل ایمان درج
ذیل باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس مبارک شعبے سے استفادہ کرسکتے ہیں…
(۱)’’نکاح‘‘
ایک پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے، اس کو مذاق نہ بنایا جائے۔
(۲)شعبہ
احیاء سنت سے اُسی وقت رابطہ کریں جب آپ رشتے کے بارے میں سنجیدہ ہوں۔
(۳)شعبے
پر اس بات کا بوجھ نہ ڈالیں کہ وہ رشتے کی تمام تر ذمہ داری قبول کرے…شعبہ صرف
تعارف اور رابطہ کراتا ہے… اس سے زیادہ کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا… اور نہ کسی کی
قسمت اور تقدیر کو کوئی بدل سکتا ہے… شعبہ احیاء سنت کے بارے میں آپ کو مزید
معلومات…القلم کے اسی شمارے میں ایک مضمون اور ایک اشتہار کے ذریعہ حاصل ہوجائیں گی…
اللہ تعالیٰ اس شعبے کو مسلمانوں کے لئے خیروبرکت کا ذریعہ بنائے… آمین یا ارحم
الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
ایک
شہادت چند اعمال
اﷲ
تعالیٰ درجات بلند فرمائے… شہادت قبول فرمائے اور اعلیٰ علیین میں مقام نصیب
فرمائے…
حضرت
مولانا علّامہ علی شیر حیدری گزشتہ رات شہید کر دیئے گئے…
انا
ﷲ وانا الیہ راجعون
انّ
لِلّٰہ ما اعطیٰ ولہ ما أَخذ وکل شیٔ عندہ باجل مسمیّٰ
ابھی
تھوڑی دیر بعد چار بجے اُن کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی… اور پھر وہ خاک کی
چادراوڑھ لیں گے… اﷲ تعالیٰ اُن پر رحمت فرمائے وہ بڑے عالم اور بلند پایہ خطیب
تھے… اُن کے جانے سے اُمت کا بڑا نقصان ہوا… ملک میں کئی جگہوں پر ہنگاموں کی خبر
ہے… بہت سے مسلمان غم سے نڈھال اور جذبات سے بے قابو ہیں… سب سے زیادہ اُداس اہلِ
حق کا وہ’’اسٹیج‘‘ ہے جو آہستہ آہستہ گُھپ ویرانی کی طرف جارہا ہے…علامہ حیدری پ
دلیل سے بات کرتے تھے اور علم کے زور پر بولتے تھے… انہوں نے حضرت تونسوی مدظلہ
اور حضرت مولانا محمد امین صاحب صفدرپ سے علم مناظرہ کی تکمیل کی تھی… اور خود بھی
صف شکن مناظر تھے…اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بلند آہنگ اور اچھی آواز سے نوازہ تھا اور
جسمانی طور پر بھی خوب باوجاہت تھے… کچھ عرصہ پہلے اُن کے ’’والد محترم‘‘ کو شہید
کیا گیا تھا اور آج اُن کا خون آلود جنازہ بھی مسلمانوں کے کندھوں پر ہے… اہل
علم تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں… اﷲ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ پر رحمت اور رحم فرمائے…
ایک
بھاری عمل
ہم
سب بھی تیزی سے اپنی قبروں کی طرف دوڑ رہے ہیں… اچھا ہوگا کہ مرنے سے پہلے ہم اپنی
آخرت کے لئے اچھے اعمال کا ذخیرہ کر لیں… آخرت میں کام آنے والے اعمال میں سے ایک
بھاری عمل مسلمانوں کو معاف کرنا ہے… آپ کسی مسجد میں چلے جائیں یا گھر ہی میں
اپنے مصلّے پر کچھ نماز ادا کریں… اور پھر دل کی سچائی کے ساتھ یہ دعاء کریں… یااﷲ
جس کسی مسلمان نے مجھے ایذاء پہنچائی ہے، کوئی تکلیف دی ہے، یا میری غیبت کی ہے… یا
میری حق تلفی کی ہے… یا مجھ پر کوئی ظلم کیا ہے… یا اﷲ میں نے آج آپ کی رضا کے
لئے اُسے معاف کر دیا ہے آپ بھی اپنا فضل فرما کر اُسے معاف فرمائیں…
دعاء
کے آخر میں درود شریف پڑھ لیں… اگر ہم نے دل کی سچائی سے یہ عمل کر لیا اور
آئندہ بھی کرتے رہے تو انشاء اﷲ ہم پر اﷲ تعالیٰ کے فضل کے دروازے کُھل جائیں
گے…کیونکہ
(۱) اﷲ
پاک اُن مسلمانوں سے محبت فرماتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں کو معاف کر تے ہیں…
(۲) مسلمانوں کو معاف کرنے والوں کے لئے جنت میں خاص محلاّت تیار
کئے گئے ہیں…
(۳) قرآن پاک میں اُن لوگوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو دوسروں
کو معاف کرتے ہیں والعافین عن الناس
(۴) دوسروں کو معاف
کرنے سے ہم خود اﷲ تعالیٰ کی معافی کے مستحق بن جاتے ہیں…
(۵) دوسروں کو معاف کرنے سے اپنا دل بغض، کینے اور دوسری خرابیوں
سے پاک ہو جاتا ہے
(۶) دلوں کا بغض اور کینہ رزق اور برکت کے راستے کی رکاوٹ ہوتا
ہے جب ہم دوسروں کو دل سے معاف کرتے ہیں تو ہم پر روزی، بخشش اور برکت کے دروازے
کُھل جاتے ہیں…
(۷) دوسروں کو معاف کرنا وہ صدقہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے ہاں قبول
فرمایا جاتا ہے…
اس
بھاری عمل کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں… اس عمل کی بدولت اسلامی معاشرے میں اتحاد
اورمحبت پیدا ہوتی ہے جو مسلمانوں کی قوت کا ذریعہ بنتی ہے…باقی ایک بات اچھی طرح یاد
رکھیں کہ… کسی کو معاف کرنا، بخش دینا… یا معافی اور بخشش نہ دینا یہ اﷲ تعالیٰ کی
مرضی پر موقوف ہے… اﷲ پاک کی مرضی کہ وہ ہماری دعاء قبول فرمائے یا قبول نہ
فرمائے… وہ ظلم، زیادتی کرنے والوں کو ہماری دعاء سے معاف فرمائے یا نہ معاف
فرمائے… ہم اپنے دل پر جبر کر کے اُسے’’معاف کرنے‘‘ کا عادی بنائیں… انشاء اﷲ یہ چیز
خود ہمارے لئے… اور اسلامی معاشرے کے لئے بہت فائدہ مند ہو گی…
ایک
ضروری عمل
صرف
آج کا اخبار دیکھ لیں… کم از کم ایک سو لاشیں ضرور مل جائیں گی… سوات میں اٹھارہ
لاشیں ملیں… ان سب کو گولیاں مارنے کے علاوہ اُن کے چہرے بھی خراب کر دیئے گئے ہیں…
وزیرستان میں چودہ لاشیں ایک جگہ سے اور چار لاشیں دوسری جگہ سے ملی ہیں… خیرپور
سندھ میں تو حضرت علامہؒ اور اُن کے ڈرائیور کو شہید کیا گیا ہے… اور چوری، ڈکیتی
وغیرہ میں قتل ہونے والوں کی لاشیں بھی اخبارات میں تصویروں کے ساتھ موجود ہیں… کیاہم
نے کبھی سوچا ہے کہ کل کے اخبارات میں ہماری لاش بھی ایک خبر بن سکتی ہے؟…موت سے
ڈرنا تو اچھی بات نہیں ہے… لیکن موت کو یاد رکھنا اور اُس کی تیاری کرنا ایک
مسلمان کے لئے بے حد ضروری ہے… میں اور آپ تھوڑا سا سوچیں کہ کیا ہم مرنے کے لئے
تیار ہیں؟ … ایک بزرگ کا واقعہ پڑھا تھا کہ انہوں نے ایک بار خلوت میں اپنے خادم
سے کہا… آج الحمدﷲ میں موت کے لئے اور اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے مکمل طور پر تیار
ہوں… ہم بھی زندگی کا ایک دن موت کی تیاری میں گزار دیں
(۱) اپنے تمام گناہوں سے پکّی توبہ کر لیں اور خوب معافی مانگیں…
(۲) اپنے مالی معاملات درست کر لیں اور جو لکھنے کے لائق ہوں
وہ وصیت نامے میں لکھ دیں
(۳) کسی کی کوئی زمین… پلاٹ یا مال پر قبضہ کر رکھا ہو تو واپس
کر دیں…
(۴) جن مسلمانوں کے حقوق ضائع کئے ہوں اُن سے معافی مانگ لیں
اور اگر وہ دنیا سے گزر چکے ہیں تو اُن کے
لئے ایصال ثواب کریں…
(۵) اُس دن کی تمام نمازیں اس طرح سے ادا کریں کہ گویا یہ میری
آخری نمازیں ہیں…
(۶) اپنے مال میں سے جو کچھ آخرت میں ساتھ لے جانا چاہیں وہ
جہاد وغیرہ دینی کاموں میں دے دیں…
(۷) سارا دن ہرطرح کے گناہوں سے خود کو بچائیں اور سارا دن نیکی
اور توبہ استغفار میں گزاریں…
اورپھر
شام کو یہ سوچ کر مسجد جا بیٹھیں کہ آج سجدے کی حالت میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات ہونی
ہے… اور میری روح نے اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے…
ہمت
کریں اور صرف ایک دن ایسا گزارلیں… کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا جواب آـپ اپنی آنکھوں
سے دیکھ لیں گے…
ایک
نیا تحفہ
الحمدﷲ’’رنگ
ونور‘‘ کتاب کی چوتھی جلد تقریباً تیارہو چکی ہے…نیٹ اور موبائل کے اس دور میں
کتابوں کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے…مگر اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اہل اسلام نے ’’رنگ
ونور‘‘ کی پہلی تین جلدوں کو محبت کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیا… بعض حضرات نے خطوط لکھ
کر اطلاع بھی دی ہے کہ الحمدﷲ انہیں اس کتاب سے فائدہ ہوا ہے… کتاب کی چوتھی جلد
تقریباً پچاس مضامین پر مشتمل ہے… دعاء فرمائیں کہ یہ کتاب جلد شائع ہو جائے اور اﷲ
تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو…
ایک
مفید محنت
اﷲ
تعالیٰ نے ہماری کامیابی اپنے پورے دین میں رکھی ہے… اور پورا دین وہ ہو گا جس میں
کلمہ بھی ہو، نماز بھی ہو… جہاد ا ور دیگر تمام فرائض بھی ہوں… جہاد کے بغیر دین
پورا نہیں ہوتا… جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد کو مانے بغیر اور جہاد میں حصہ ڈالے
بغیر وہ پورے دین پر عمل کر رہے ہیں… وہ لوگ بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں… دین تو
قرآن پاک میں بیان ہوا ہے… اور قرآن پاک جہاد کو بہت تفصیل سے بیان فرماتا ہے… دین
تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے اپنے قول، فعل اور عمل سے سکھایا ہے… اور آپ ﷺ نے جہاد کو بیان
بھی فرمایاہے اور جہاد میں خوب شرکت بھی فرمائی ہے… جس طرح کوئی عمل نماز کامتبادل
نہیں بن سکتا… اسی طرح کوئی عمل جہاد کا متبادل بھی نہیں بن سکتا… رسول اﷲ ﷺ نے دین
کی جو محنت فرمائی اس میں جہاد سب سے بڑی محنت تھی… اگر کسی کی نظر میں موجودہ
زمانے کی جہادی تحریکیں… شریعت کے خلاف ہیں تو اُس کا فرض بنتا ہے کہ وہ… شریعت کے
مطابق جہاد کی تحریک شروع کرے… لیکن اگر اُس نے جہاد کا ہی انکار کیا یا جہاد کا
معنٰی بدلا تو اُس کی بڑی بدنصیبی ہوگی… الحمدﷲ ہمارا اخبار ’’القلم‘‘ مسلمانوں کو
پورے دین کی طرف توجہ دلاتا ہے… یہ کلمہ بھی بیان کرتا ہے اور نماز بھی… یہ زکوٰۃ
کی دعوت بھی دیتا ہے اور حج کی بھی… یہ جہاد کی طرف بھی بُلاتاہے اور تقویٰ کی طرف
بھی… الغرض یہ دین کے کسی حصّے کو نظر انداز کرنے یا تبدیل کرنے کی آواز نہیں
لگاتا… بلکہ پورے دین کی عظمت اور اہمیت دلوں میں بٹھاتا ہے… اس اخبار میں تفسیر
بھی ہے اور حدیث پاک بھی… اس میں فقہ بھی ہے اور تحقیق بھی… اس میں ایمان کی دعوت
بھی ہے اور اعمال کی بھی… اس میں ذکر کی ترغیب بھی ہے اور مجاہدے کی بھی… اور یہ
اخبارامت کو حضرات صحابہ کرامؓ اور اسلاف کے نقش قدم کی طرف کھینچتا ہے… میر ی آپ
سب سے دردمندانہ گزارش ہے کہ… یہ اخبار ایک دینی نعمت ہے آپ اس کو خوب پھیلائیں…
زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک پہنچائیں… اور یہ اخبار جو مقبول محنت کر رہا ہے آپ
اس میں حصّہ دار بنیں… اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے… (آمین یا ارحم الراحمین)
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
مبارک
بہت مبارک
اﷲ
تعالیٰ کا مہینہ’’رمضان المبارک‘‘ شروع ہو چکا ہے… آپ سب مسلمانوں کو مبارک ہو
بہت مبارک
رمضان
مسلمانوں کا
رمضان
المبارک کی ساری رحمتیں، برکتیں… اور بھلائیاں صرف اور صرف ’’مسلمانوں‘‘ کے لئے ہیں…
باقی جس کو جو کچھ ملتا ہے مسلمانوں کی برکت سے ملتا ہے… مسلمانوں سے مُراد اﷲ
تعالیٰ کے وہ خوش نصیب بندے ہیں جنہوں نے ’’دین اسلام‘‘ کو دل وجان سے قبول کیا
ہے… اور وہ کلمہ
لا
الہ الا اﷲمحمد رسول اﷲ
پر مکمل یقین رکھتے ہیں… دنیا میں جتنی بھی اچھی
اور برکت والی چیزیں ہیں وہ انہی’’ایمان والوں‘‘ کے لئے ہیں… قرآن پاک اِن کا ہے،
کعبہ شریف اِن کا ہے، روضۂ رسول ﷺ اِن کا
ہے… مسجد نبوی شریف ان کی ہے… مسجد اقصیٰ ان کی ہے… رسول اﷲ ﷺ کی مبارک شریعت اور
سنت ان کی ہے… نماز ان کی ہے… زکوٰۃ ان کی ہے… حج ان کا ہے… جہاد ان کا ہے…یعنی ان
عظیم الشان نعمتوں سے صرف مسلمان ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں… خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے
مزے ہی مزے ہیں… ہر پاک اور افضل چیز اِن کی ہے… اب رمضان المبارک میں روزانہ جو
بے شمارر حمتیں برس رہی ہیں وہ سب اِن کی ہیں… پھر عید بھی ان کی ہوگی… مرجائیں گے
تو جنت تک کھلی اور بڑی قبر اِن کی ہوگی… اور پھر آخرت میں جنت بھی اِن کی ہو گی…
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم…
اﷲ
تعالیٰ محرومی سے بچائے… کافر بے چارے تو محروم رہ گئے… آج جھونپڑی میں بیٹھا
مسلمان’’رمضان‘‘ کی رحمتوں میں غوطے کھا رہا ہے… جبکہ وہائٹ ہاؤس میں بیٹھے کافر
رمضان المبارک کی ہر رحمت اور ہر نعمت سے محروم ہیں… اﷲ تعالیٰ ہمیں ایمان کی قدر
نصیب فرمائے… اے ایمان والے مسلمانو!رمضان المبارک آپ سب کو مبارک ہو… بہت مبارک
پیارا
عقیدہ
شکر،
الحمدﷲ ہم نے رمضان المبارک اس حال میں پایا کہ…ہم اﷲ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ
مانتے ہیں…الحمدﷲ، الحمدﷲ… اور ہم حضرت محمد ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا آخری رسول مانتے ہیں…
الحمدﷲ،الحمدﷲ… ہم تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں… ہم اﷲ تعالیٰ کی نازل فرمودہ
تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں… ہم اﷲ تعالیٰ کے تمام فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں…
ہم تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہر تقدیر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے خیر ہو یا
شر… اور ہم آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ… آخرت کا دن برحق ہے… اور ہم مرنے
کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان رکھتے ہیں … الحمدﷲ، الحمدﷲ… ہمارا ایمان ہے
کہ حضرت محمدﷺ کی تشریف آوری کے بعد اب صرف اُن کا لایاہوا دین برحق ہے… اور تمام
انسانیت کی کامیابی اسی دین پر ہے… الحمدﷲ ہم قرآن پاک پر اوّل تاآخر ایمان
رکھتے ہیں… اور اسے اﷲ تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں… الحمدﷲ، الحمدﷲ… ہم پر مالک کا
کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کو اس حال میں پایا کہ ہم… رسول اﷲ ﷺ کی
اُمت کے افراد ہیں… ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ اُمت سب سے افضل اور سب سے بہترین امت
ہے… ہم الحمدﷲ اسلام کے تمام فرائض کو دل سے مانتے ہیں … نماز ہو یا روزہ، زکوٰۃ
ہو یا حج اور جہاد… ہم اﷲتعالیٰ کے ہر فریضے کو مانتے ہیں… اور دین کے ہر حکم کو
اُسی طرح تسلیم کرتے ہیں جس طرح رسول اﷲ ﷺ نے ہم تک پہنچایا …الحمدﷲ ہمارے دل میں
دین کے کسی حکم سے دوری، نفرت یا وحشت نہیں ہے… الحمدﷲ ہمارے دل میں تمام صحابہ
کرام ڑ کا مکمل احترام ہے…حضرت سیدنا علی المرتضی ذہوں یا حضرت سیدنا امیر معاویہذ
… اہل بیت کرام ہوں یا انصار و مہاجرین… ہمارے دل میں کسی سے کوئی کھوٹ نہیں… ہم
حضرات صحابہ کرام ڑ کو ہر طرح کی تنقید سے بالاتر اورکائنات کی کامیاب ترین جماعت
تسلیم کرتے ہیں…
الحمدﷲ
ہمارے دل میں حضرات تابعین کا پورا احترام ہے… اور ہم دین اسلام کے خدمت گار ائمہ،
فقہاء، محدّثین،مجاہدین اور صوفیاء سے محبت رکھتے ہیں… حضرت امام ابو حنیفہس ہوں یا
حضرت امام مالک س… حضرت امام شافعیس ہو ں یا حضرت امام احمد بن حنبلس ہم ان سب سے
محبت رکھتے ہیں… حضرت امام بخاری پ ہوں یا حضرت امام طحاوی سہم ان سب کو احترام کی
نگاہ سے دیکھتے ہیں… ہمارے دل میں ان میں
سے کسی سے بھی کوئی بغض یا عداوت نہیں… یہ ہم پر اﷲ تعالیٰ کابہت بڑا احسان ہے اور
بہت بڑا فضل… اہلسنت و الجماعت کے اس مبارک اور پیارے عقیدے پر جس مسلمان نے بھی
رمضان المبارک کو پایا ہے اُسے بہت مبارک ہو… بہت مبارک…
اصل
روح
رمضان
المبارک میں عرش سے رحمت برستی ہے… اس مہینے کا روزہ ہو یا تراویح… اس مہینے کے
فرائض ہوں یا نوافل… سب کی قدرو قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے… مگر ایک بات کا ہم سب
خیال رکھیں… اور بہت زیادہ خیال رکھیں… وہ یہ کہ جو عمل بھی کریں اﷲ تعالیٰ کی رضا
کی نیت سے کریں… یہ اصل روح ہے جس کے بغیر کوئی عمل بھی جاندار نہیں ہوتا… اﷲ تعالیٰ
نے ہم پراحسان فرمایا کہ ہمیں ایمان کی دولت عطاء فرمائی… اﷲ تعالیٰ نے ہم پر فضل
فرمایا کہ ہمیں رمضان المبارک نصیب فرمایا… تو جب سب کچھ اﷲتعالیٰ ہی عطاء فرماتا
ہے تو پھر ہم اُس کے علاوہ کا خیال دل میں کیوں لائیں؟… یہاں بھی جو کچھ ملے گا اﷲ
تعالیٰ سے ملے گا… اور آخرت میں بھی جو کچھ ملے گا اﷲ تعالیٰ سے ملے گا… پس ہم پر
لازم ہے کہ ہم ہر عمل صرف اور صرف اﷲتعالیٰ کے لئے کریں… اور اس رمضان المبارک میں
ریاکاری نامی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لیں… لوگ نہ عزت دے سکتے ہیں اور نہ روزی…
لوگوں کے ہاتھ میں نہ دنیا ہے نہ آخرت تو پھر…شہرت پسندی اور ریاکاری کا کیا جواز
ہے؟… روزہ، نماز،جہاد، دینی محنت اور صدقہ خیرات ہر عمل سے پہلے ہم اﷲ تعالیٰ کی
خالص رضا کی نیت کر لیا کریں…پس جس کو اخلاص نصیب ہو گیا اُسکو رمضان المبارک بہت
مبارک ہو… بہت مبارک…
خود
کو تھکائیں
ہم
سب اس مبارک مہینے میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں خود کو تھکائیں… ہم جب عبادت
اور محنت سے تھک کر گریں گے تو آسمانوں سے رحمت بارش کی طرح برسے گی… ہم اپنے نفس
کو سمجھائیں کہ اﷲ کے بندے یہ بہت مبارک موسم ہے… نیند پھر کبھی ہو جائے گی… قبر میںتو
کوئی کام نہیں ہوگا… آرام پھر کبھی ہو جائے گا… معلوم نہیں اگلا رمضان ملتا ہے یا
نہیں… خوب مجاہدہ،خوب تلاوت اور خوب نوافل… رمضان المبارک کی ایک رکعت عام دنوں کی
ستر رکعت کے برابر یا اُن سے بھی بھاری ہے… تو پھر روزانہ ساٹھ یا سو نوافل کیوں
نہ ادا کریں… نوافل کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے… بس خلاصہ یہ ہے کہ
رمضان المبارک کو پانے اور کمانے کی دُھن اپنے سر پر سوار کر لی جائے… اور پھر کوئی
موقع عبادت کا ضائع نہ کیا جائے… جس کو یہ کیفیت نصیب ہو گئی اُسکو رمضان المبارک
بہت مبارک ہو… بہت مبارک…
دینی
محنت کرنے والے
کئی
خوش قسمت لوگ رمضان المبارک میں بڑاکام کرتے ہیں…مثلاً ’’الرحمت‘‘ والوں کو ہی دیکھ
لیں پورے ملک میں مسجد، مسجد…گلی ، گلی جاتے ہیں… مسلمانوں کو ’’پورے دین‘‘ کی بات
سمجھاتے ہیں… جہاد اور شہداء کے اہل خانہ کے لئے اموال جمع کرتے ہیں… اور بڑی نیکی
کماتے ہیں… ان سب کو رمضان المبارک بہت مبارک ہو… مگر یہ تمام حضرات ایک بات یاد
رکھیں… گاڑی جتنے اہم یا مقدس سفرپر ہو بغیر پٹرول اور ایندھن کے نہیں چل سکتی…
آپ حضرات بھی ایمانی قوت حاصل کرنے کے لئے تلاوت اور نوافل کا اہتمام کریں… چلتے
پھرتے زبان پر ذکر، تسبیحات، درودشریف اور استغفار جاری رہے… اور جس قدر شوق کے
ساتھ عبادت کر سکتے ہوں… کرتے رہیں… تب آپ کے کام میں قبولیت آئے گی اور بہت
برکت ہو گی… اور آپ کی محنت کے اثرات پورے عالم میں پڑیں گے… اگر آپ نے اس بات
کو سمجھ کر اپنے عمل میں شامل کر لیا تو پھر یہ رمضان المبارک… آپ سب کو مبارک
ہو… بہت مبارک…
بہت
ضروری کام
گاڑی
میں اے سی چلادیں مگر شیشے بند نہ کریں… گاڑی ٹھنڈی ہو جائے گی؟… نیک اعمال کرتے
رہیں مگر اپنے’’حواس‘‘ کو قابو میں نہ کریں تو نیک اعمال کے ضائع ہونے کا خطرہ
رہتا ہے… حضرت شیخ ہجویری پ فرماتے ہیں ! مجھے رسول اﷲ ﷺ نے خواب میں ہدایت فرمائی
کہ اپنے حواس کو قابو میں رکھو… روزے اور رمضان میں انسان کے حواس بہت مچلتے ہیں…
آنکھیں بہت کچھ دیکھنا چاہتی ہیں… زبان بہت کچھ چکھنا اور بولنا چاہتی ہے… مگر
آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرفیو لگادیں… آنکھوں کو بتادیں کہ کم دیکھو… اِدھر
اُدھر تانک جھانک بند… کھڑکیوں، چھتوں سے دیکھنا بند… راستے میں دائیں بائیں دیکھنا
بند… ٹی وی وغیرہ دیکھنا بند… قرآن پاک کو دیکھو،مساجد کو دیکھو،اور اپنے دل کے
اندر جھانک کر دیکھو… زبان کو بتا دیں کہ تیری بہت خدمت کرلی اب طرح طرح کے کھانے
اور ذائقے کی فکر چھوڑ دے… رمضان میں مؤمن کی روزی بڑھ جاتی ہے… جو کچھ حلال طریقے
سے خود مل جائے وہ بسم اﷲ… مگرطرح طرح کے کھانوں کی فکر کرنا ایک فتنہ ہے جس نے
مسلمانوں کے رمضان المبارک کو پھیکا کر دیا ہے…یہ تو چند مثالیں ہیں… مطلب یہ کہ
ہم اپنے حواس کو قابو میں کر لیں اور آخرت کی لذتوں کی خاطر اپنی زندگی کے چند دن
بے لذّت بنالیں… یقین کریں اس بے لذّتی میں دل اور روح کو وہ سکون اور لذّت ملے گی
کہ… اُسے بیان کرنا مشکل ہے… جو مسلمان اس رمضان المبارک میں اپنے حواس پر قابو پا
کر… اونچے مقامات حاصل کریںگے اُن سب کو رمضان المبارک… بہت مبارک…
اخبارات
اس
رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے لئے… عام اخبارات کا مطالعہ یا تو بند کردیں یا
بہت کم کر دیں… طرح طرح کے گمراہ کن کالم، فضول اشتہارات، جھوٹی خبریں… اور
حکمرانوں کے بیانات اور تصویریں… ان میں سے ہر چیز دوسری سے بڑھ کر نقصان دہ ہے…
روزانہ جتنا وقت اخبار میں لگاتے ہیں وہی وقت تلاوت کرلیں… قرآن پاک کے ایک رکوع
کا ترجمہ پڑھ لیں… حضرت شیخ پ کی کتاب
’’فضائل رمضان‘‘ پڑھ لیں… آنکھیں بند کر کے مدینہ پاک پہنچ جائیں اور دو چار تسبیح
درود شریف پڑھ لیں…یا پھر سچے دل سے اﷲ ، اﷲ، اﷲ کے ذکر میں مشغول ہو کر عرش کے
سائے کو پالیں… اخبارات بہت مکروہ ہو چکے ہیں… اور بعض توحرام کے درجے تک جا پہنچے
ہیں… رمضان المبارک میں بس ضرورت کے مطابق ان کو استعمال کریں… اگر کوئی مسلمان اس
رمضان المبارک میں ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل، بدنظری… اور اخبارات کے فتنے سے بچ گیا
تو اُسے رمضان المبارک… بہت مبارک…
دعاء
کی درخواست
باتیں
اور بھی بہت سی کرنی تھیں مگر رمضان المبارک کا مہینہ ہے… اور آپ سب کا وقت بہت قیمتی
ہے… ویسے بھی مضمون لمبا ہو جائے تو پچھلی باتیں بھول جاتی ہیں… اﷲ تعالیٰ اس
رمضان المبارک میں آپ سب کی مغفرت فرما دے… اور آپ سب کو خوب رحمتیں نصیب
فرمائے… سعدی فقیر نے آپ کے لئے دعاء کر دی … آ پ بھی اُس کے لئے یہی دعاء فرمادیں…
فجزاکم
اﷲ خیرا احسن الجزاء فی الدارین…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
انوارات
اﷲ
تعالیٰ کا بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں’’رمضان المبارک‘‘ کا مہینہ نصیب
فرمایا…’’رمضان‘‘ کے معنیٰ ہیں’’گناہوں کو جَلانے والا‘‘… یعنی یہ مبارک مہینہ
مسلمانوں کو گناہوں سے پاک صاف کر دیتا ہے… یاد رکھیں’’ رمضان المبارک‘‘ صرف
گناہوں کو نہیں جلاتا بلکہ گناہوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کئی دشمنوں کو بھی جلا کر
راکھ کر دیتا ہے…
بیماریوں
کو جَلانے والا
زیادہ
کھانے کی وجہ سے انسان کے جسم میں کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں… خصوصاً جو لوگ انگریزوں
کی طرح ہر گھنٹے یا آدھے گھنٹے بعد کچھ نہ کچھ ضرور کھاتے ہیں اُن کے جسم میں بہت
سی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں… اوراکثر بیماریاں ایک سال کے عرصے میں جڑ پکڑ تی ہیں
اور مضبوط ہوتی ہیں… رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی مسلمان روزہ رکھتے ہیں… اس
روزے کی وجہ سے وہ بارہ تیرہ گھنٹے بھوکے پیاسے رہتے ہیں… اُن کے جسم میں جو بیماریاں
ہوتی ہیں اُن بیماریوں کے جراثیم اور کیڑوں کو ہر گھنٹے بعد خوراک کی ضرورت ہوتی
ہے… روزے کی وجہ سے ان کیڑوں کو خوراک نہیں ملتی تو وہ پہلے کمزور ہوتے ہیں اور
پھر بالآخر مر جاتے ہیں… اوریوں مسلمان کا جسم بہت سی بیماریوں سے پاک ہو جاتا
ہے… انسان کے پاس جو مال یا زیور ہوتا ہے اُس کو بھی بیماری لگتی ہے اور اگر ایک
سال گزر جائے تو وہ بیماری پکّی ہو جاتی ہے… اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا نظام عطاء فرمایا…
چنانچہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے وہ مال پاک اور صحت مند ہو جاتا ہے اور بہت
تیزی سے بڑھتا ہے…
اسی
طرح رمضان المبارک کے روزے انسان کے جسم کی زکوٰۃ ہیں… بہت بڑی بڑی بیماریاں ان
روزوں کی برکت سے دم توڑ دیتی ہیں… ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان المبارک کے روزے
بہت سلیقے، اہتمام اور آداب کے ساتھ رکھیں… تاکہ ہماری روح اور ہمارا جسم بیماریوں
سے پاک ہو جائے… اسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہر مہینے میں تین روزوں کا اہتمام کیا کریں
تاکہ… ہمیں تقویٰ کی نعمت نصیب رہے…
بڑی
مصیبت کو جَلانے والا
قرآن
پاک کو’’حفظ‘‘ کر کے بُھلا دینا ایک بڑی اور سخت مصیبت ہے… شیطان پورا سال
مسلمانوں پر سستی اور غفلت کے پردے پھینکتا رہتا ہے تاکہ وہ قرآن پاک سے غافل ہو
جائیں… شیطان جانتاہے کہ اگر مسلمان کا قرآن پاک سے تعلق رہے تو اس کو ناکام کرنا
بہت مشکل ہو جاتا ہے…
’’حفظ قرآن‘‘
بہت بڑی سعادت ہے… ہم چند دن بعد مر جائیں گے… اور پھر برزخ کی زندگی شروع ہو جائے
گی… اس میں قرآن پاک بہت کام آتا ہے… چند دن پہلے ایک مسجد میں جانے کا اتفاق
ہوا… وہاں دیکھا کہ ایک بڑی عمر کے بزرگ زبانی تلاوت فرمار ہے ہیں… پھر کچھ نوجوان
اُن کو اپنی منزل سنانے لگے… وہ نابینا بزرگ زبانی سنتے رہے… میرے دل سے آواز آئی
کہ دیکھو! آنکھوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا مگر قرآن پاک نے ساتھ نہیں چھوڑا… مرنے
کے بعد بھی سب کفنا دفنا کر بھاگ جائیں گے تب قبر میں قرآن پاک تشریف لے آئے گا…
اور پھر آخرت کی ابدالآباد والی زندگی میں بھی قرآن پاک بہت کام آئے گا… مگر
افسوس کہ بہت سے لوگ پورا قرآن پاک… یا اُس کی کچھ سورتیں یاد کر کے پھر اُسے
بُھلا دیتے ہیں… یہ بہت سخت مصیبت ہے اورکئی علماء کرام نے اس کو کبیرہ گناہ لکھا
ہے…
الحمدﷲ
رمضان المبارک آتے ہی شیطانی سُستی کے رسّے جل جاتے ہیں… رمضان المبارک کا قرآن
پاک سے عجیب تعلق ہے… اس مہینے میں قرآن پاک کو پڑھنا اور یاد کرنا بہت آسان ہو
جاتا ہے… ساری دنیا مانتی ہے کہ موسم کا اثر ہوتا ہے… آم گرمی کے موسم میں پیدا
ہوتے ہیں جبکہ مالٹے سردی کے موسم میں… پس رمضان المبارک بھی قرآن پاک کا موسم
ہے… اگر رمضان المبارک نہ آتا تو بہت سے لوگوں کے لئے قرآن پاک یاد رکھنا مشکل
ہو جاتا… تراویح کی ترتیب قرآن پاک کے حفظ کے لئے بہت مفید ہے… سب حفاظ کو چاہئے
کہ کسی سال بھی تراویح میں قرآن پاک سنانے کا ناغہ نہ کریں… او ر جو حفاظ قرآن
پاک بھول چکے ہیں وہ دل میں درد بھر کے اس رمضان المبارک میں خوب دعاء کریں… اور
آج ہی سے دوبارہ یاد کرنا شروع کردیں… دنیا کے سارے کام بعد میں ہو جائیں گے مگر
قرآن پاک رہ گیا تو بہت بڑا خسارہ ہو جائے گا… اﷲ پاک ہم سب کو قرآن پاک کے حفظ
کی نعمت نصیب فرمائے…
خباثتوں
کو جلانے والا
شیطان
چاہتا ہے کہ ہم سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائے… اسی لئے وہ ہمارے نفس میں تکبر،
ریاکاری، اور مال کی محبت جیسے زہر بھرتا ہے… رمضان المبارک کی ترتیب میں ان تمام
بیماریوں کا علاج موجود ہے… آپ سب جانتے ہیں کہ ہر علاج میں تین چیزیں ہوتی ہیں(۱) دوا(۲) پرہیز(۳) مشقت
یا ورزش… ہر حکیم اور ڈاکٹر مکمل علاج کے لئے کچھ دوا دیتا ہے، کچھ پرہیز بتاتا ہے
اور کچھ ورزش وغیرہ کی تلقین کرتا ہے…
رمضان
المبارک میں روزہ ہے جو دواء بھی ہے اور پرہیز بھی… اور رمضان المبارک میں تلاوت
ہے جو ہر مرض کی دواء ہے… اوررمضان المبارک میں تراویح ہے جو نفس کے لئے ایک طرح کی
مشقت ہے …قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے ہرروحانی اورہر جسمانی بیماری کی شفاء رکھی
ہے… رمضان المبارک میں اگرآپ روزانہ دس پارے پڑھتے ہیں تو آپ کو اربوں کھربوں نیکیاں
تو ملتی ہیں… اُس کے ساتھ قرآنی آیات سے علاج بھی چلتا رہتا ہے… روزے میں جب
بھوک اور خستہ حالی پیدا ہوتی ہے توتکبر
ٹوٹتا ہے… اور نفس میں سے حرص اور لالچ ختم ہوتی ہے… رمضان المبارک کا مکمل نصاب
ہم سب کے لئے بہت بڑی نعمت ہے… مگر اکثر مسلمانوں کو رمضان المبارک گزارنے کا طریقہ
نہیں آتا … میری آپ سب سے درخواست ہے کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا
صاحبپ کا کتابچہ’’ فضائل رمضان‘‘ ایک بار پڑھ لیں… یہ فضائل اعمال کا حصّہ ہے اور
الگ بھی ملتا ہے… انشاء اﷲ رمضان المبارک کو پانے اور کمانے کاسلیقہ معلوم ہو جائے
گا… دیر نہ کیجئے رمضان المبارک کے دن تیزی سے گزرتے جار ہے ہیں…
دشمنوں
کو جَلانے والا
شیطان
ہمیشہ باطل قوتوں کو مزید قوّت فراہم کرتا رہتا ہے… لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کو ایٹمی
ٹیکنالوجی باقاعدہ شیطان نے فراہم کی… واﷲ اعلم بالصواب…بہر حال یہ بات تو قرآن
پاک سے ثابت ہے کہ شیطا ن کافروں کی بھرپور جنگی مدد کرتا ہے … اوراُن کو مسلمانوں
سے لڑانے پر اُکساتا ہے… مگر رمضان المبارک آتے ہی سرکش شیاطین باندھ دیئے جاتے ہیں…
تب مسلمان جہاد میں بہت بڑی کامیابی حاصل کرتے ہیں… غزوہ بدر کی فتح رمضان المبارک
میں ہوئی… اُس رمضان نے مشرکین مکہ کی بڑی طاقت کو جلاکر راکھ کر دیا… پھر مکہ
مکرمہ کی ’’فتح اعظم‘‘ بھی رمضان المبارک میں ہوئی… موسم کا بہت اثر ہوتا ہے…
رمضان کا موسم اسلام کی فتح کا موسم ہوتا ہے… ابھی تھوڑی دیر پہلے میں خبریں سن
رہاتھا تو بی بی سی والوں نے بتایا کہ… افغانستان میں نیٹو افواج کے سربراہ نے صدر
اُبامہ کو لکھ دیا ہے کہ ہم افغانستان میں ناکام ہو چکے ہیں… اُدھر امریکہ میں
تازہ سروے کے مطابق ملک کی اکثر آبادی افغانستان میں امریکی جنگ کی مخالف ہو چکی
ہے… ما شاء اﷲ آٹھواں رمضان المبارک جارہا ہے… قندھار سے خوست تک… اورجلال آباد
سے کابل تک مجاہدین کے جھنڈے لہرا رہے ہیں… غیر ملکی افواج کی تعداد ایک لاکھ سے
بڑھ چکی ہے مگر اس کے باوجود نیٹو کا ہیڈ کوارٹر تک مجاہدین کے حملوں سے محفوظ نہیں
ہے… یہ سب اﷲ تعالیٰ کی شان ہے اور اس میں ایمان والوں کے لئے …اور عقلمندوں کے
لئے بہت سی نشانیاں ہیں…
ایک
ارادہ
انشاء
اﷲ رمضان المبارک کے بعد ارادہ ہے کہ… مرکز عثمانؓ و علیؓ بہاولپور میں اُن حفّاظ
کے لئے تین ماہ کی کلاس رکھی جائے… جو بد نصیبی سے قرآن پاک بھول چکے ہیں… آپ سب
دعاء کردیں کہ … یہ ترتیب آسان ہوجائے اور کامیاب رہے… تین ماہ کا عرصہ حفظ کی
تجدید کے لئے بہت ہوتا ہے… اور ماحول کی برکت سے مزید آسانی بھی ہوجاتی ہے…
ایک
دعوت
جامع
مسجد عثمانؓ و علیؓ بہاولپور میں اس سال بھی انشاء اﷲ … آخری عشرے کا اعتکاف ہو
گا… اس اعتکاف میں اُمت مسلمہ کے غازی، فاتح اور مستقبل کے شہداء بھی شرکت فرماتے
ہیں… اوربہت سے اہل علم، اﷲ والے بھی تشریف لاتے ہیں… اس اعتکاف میں پورے دین کی
بات کی جاتی ہے اور مرد ہ جذبوںکو زندگی ملتی ہے… پچھلے سال چار سو سے زائد خوش
قسمت افراد نے یہ سعادت حاصل کی… اس سال وسیع پیمانے پرانتظام کیا جارہا ہے… اﷲتعالیٰ
توفیق دے تو روشنی کے اس جزیرے پر ضرورتشریف لائیں…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
شیخ
جمال شہید رحمۃ اللہ علیہ
اﷲ
تعالیٰ تمام’’اَسِیر‘‘ مجاہدین کو رہائی عطاء فرمائے… یہ کل کی بات ہے کہ مدینہ
منورہ سے ایک دوست نے رابطہ کیا… وہ عمرہ ادا کرنے مکہ مکرمہ جارہے تھے اور پوچھ
رہے تھے کہ یہ’’عمرہ‘‘ کس کی طرف سے کروں؟… میں نے فوراً عرض کیا… شیخ جمال مندو خیل
شہید س کی طرف سے…پھر دو قریبی ساتھیوں سے رابطہ ہوا وہ بھی عمرہ ادا کرنے جارہے
تھے… اُن کو بھی یہی کہا کہ’’جمال شہیدس‘‘ کی طرف سے ادا کریں… اور یوں الحمدﷲ… کل
ہمارے بھائی جمال سکی طرف سے تین عمرے ہوگئے… اور عمرے بھی رمضان المبارک کے … جن
کی فضیلت بہت زیادہ ہے… یہاں ایک اور واقعہ سن لیں پھر انشاء اﷲ ’’جمال شہید‘‘ کی
باتیں کریں گے… سات سال پہلے رمضان المبارک میں ہم نے اپنے پنڈی کے دفتر میں کچھ
لوگوں کو افطار کی دعوت دی… کھانے کے بعد بات چیت چل پڑی اور موضوع یہ تھا کہ ایصال
ثواب جائز ہے یا نہیں؟… ایک غیر مقّلّد صاحب کا کہناتھا کہ ہر آدمی کو صرف اُس کے
اپنے اعمال کا ثواب اور گناہ ملتا ہے… کوئی اور کس طرح سے اپنے عمل کا ثواب کسی کو
بخش سکتا ہے؟… اُن کی خدمت میں کئی دلائل عرض کئے اور ایک بات یہ بھی… کہ کسی آدمی
کے مرنے کے بعد اگر کوئی اُس کے لئے کچھ ایصال ثواب کرتاہے تو حقیقت میں یہ بھی
اُس کے اپنے اچھے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے… مثال کے طور پر اگر ملک کے ظالم حکمران
مرجائیں تو کتنے لوگ ان کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک اور نوافل پڑھیں گے؟… وہ
کہنے لگے کوئی بھی نہیں یا بہت کم لوگ… پھر پوچھا کہ اگر فلاں فلاں نیک آدمی مر
جائے تو؟… کہنے لگے بہت لوگ ایصال ثواب اور دعاء کریں گے… عرض کیا کہ بس ثابت ہو گیا
کہ مرنے کے بعد دوسروں کی طرف سے جو کچھ پہنچتاہے وہ اپنے اعمال کا نتیجہ اور پھل
ہوتا ہے… اور جو لوگ پیسے دے کر ’’ختم‘‘ پڑھواتے ہیں تو وہاں پڑھنے والوں کو ہی
ثواب نہیںہوتا… وہ آگے کسی کو کیا بھیجیں گے… آج ہم جمال شہیدپ کے ایصال ثواب کے
لئے جو قرآن پاک پڑھ رہے ہیں… دعائیں اور عمرے کررہے ہیں… یہ خود اُن کے اچھے
اعمال کا پھل ہے… انہوں نے کالج اور بُرے ماحول کو چھوڑ کر جہاد کا راستہ اختیار کیا…
اُنہوں نے مالدار گھرانے کو چھوڑ کر ہجرت کا راستہ اختیار کیا… وہ اس دور میں جب
لوگ قربانی کے نام کو بھول چکے ہیں اپنی جان قربان کرنے کشمیرجا پہنچے… اورپھر
گرفتار ہو گئے… چودہ سال سے زائد عرصہ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں…
اور بالآخر ابھی چند دن پہلے جودھ پور انڈیا کی جیل میں پیٹ کی تکلیف میں مبتلا
ہو کر… انتقال فرما گئے، شہید ہو گئے… انا ﷲ واناالیہ راجعون… بات آگے بڑھانے سے
پہلے ایک روایت پڑھ لیتے ہیں…
’’حمیدبن
عبدالرحمن سسے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ کے صحابہ کرام ڑ میں سے ایک صاحب کا اسم
گرامی’’ حممہ ذ‘‘ تھا وہ حضرت عمرذ کے دور خلافت میں جہاد کے لئے اصفہان تشریف
لائے اور انہوں نے دعاء کی!
اے
میرے پروردگار! حممہ کو گمان ہے کہ وہ آپ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اگرحممہ
اپنے گمان میں سچا ہے تو آپ اُس کے گمان کو پورا فرمادیجئے اور اگر جھوٹا ہے تب
بھی اُسے یہ(نعمت) عطاء فرمادیجئے اگرچہ وہ ناپسند کرے، اے میرے پروردگار!حممہ کو
اس سفر سے واپس نہ لوٹائیے… اس کے بعد ان کے پیٹ میں تکلیف ہوئی اور اصفہان میں
اُن کا انتقال ہو گیا… اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ذکھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا
اے لوگو! ہم نے اﷲ تعالیٰ کے نبیﷺ سے جو کچھ سنا ہے اور جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے نبیﷺکی
طرف سے ہم تک پہنچا ہے اس کے مطابق حممہ کو شہادت والی موت نصیب ہوئی ہے( اسد
الغابہ، ابن مندہ)
جمال
شہیدس اونچے قد کے لمبے چوڑے، صحت مند مجاہد تھے… بڑے بڑے ہاتھ اور پاؤں… وہاں
انڈیا میں اُن کے ناپ کا جوتا نہیں ملتا تھا… ہماری اُن سے پہلی ملاقات۱۹۹۴ء
میں ہوئی… انہیں بی ایس ایف یعنی انڈیا کی بارڈر سیکورٹی فورس نے گرفتار کیا تھا…
وہ بیماری کی حالت میں گرفتار ہوئے اس کے باوجود اُن کو ’’پاپا ون‘‘ اور ’’پاپا
ٹو‘‘ کے عقوبت خانوں میں سخت تشدّد کا نشانہ بنایا گیا… تشدّد تو تمام اسیر مجاہدین
پر ہوا مگر جمال شہید پر شاید سب سے زیادہ ہوا… وہ جب اپنے تشدّد کے حالات سناتے
توہم سب یہ سمجھتے کہ ہم آرام سے ر ہے ہیں… زیادہ تشدّد کی وجہ جمال شہیدس کا
مزاج تھا… وہ حوصلے اور برداشت والے آدمی تھے…مار کھا کر بے ہوش ہوجاتے مگر ہوش میں
آتے ہی کوئی ایسی بات یا حرکت کرتے کہ دوبارہ تشدّد شروع ہو جاتا… وہ زور دار
قہقہہ لگا کر ہنسنے کے عادی تھے… سخت قسم کے ٹارچر سینٹر میں بھی وہ اپنی یہ عادت
پوری کر لیتے تھے… ابھی جمعہ کے دن جب محترم قاری ضرار صاحب اور دیگر ساتھی اُن کی
میت کو واہگہ بارڈر پر وصول کرنے گئے تو میں سوچ رہا تھا … ان سب کو دیکھ کرجمال
اپنا قہقہہ کس طرح سے روکے گا؟… وہ ٹارچر کے دوران بھی انڈین افسروں کا مذاق اڑانے
سے باز نہیں آتا تھا… اور اپنے بیان میں طرح طرح کی خوفناک پشتو گالیاں لکھوا دیتا
تھا… اورویسے بھی انڈین افسر اور فوجی جمال شہید کی جسامت اور سرخ و سفید رنگ سے
حسد میں مبتلا ہو جاتے تھے… جمال شہیدسکے جسم پر گُڑ کا شربت ڈال دیا جاتا اور پھر
اُنکی کی قمیص اور شلوار میں موٹے موٹے چوہے چھوڑ دیئے جاتے تھے…۱۹۹۴ء
کی کسی تاریخ کو سری نگر میں قید تمام پاکستانی اور افغانی قیدیوں کو… مختلف عقوبت
خانوںسے نکال کر ایک جگہ جمع کیا گیا… وہ ایک بڑا سا ہال تھا جس میں تمام قیدیوں
کو کرسیوں پر بٹھایا گیا تھا… ہم بارہ افراد تو بادامی باغ کے آر آر سینٹر سے
لائے گئے تھے… جبکہ جمال وغیرہ کو پاپاٹو سے لایا گیا تھا…
ہم
نے اُس دن پہلی بار اُنہیں دیکھا…وہاںایک انڈین افسر پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال
کر ہمارے درمیان گھوم رہا تھا… اور بہت زور دار تقریر کر رہا تھا… لہجے سے لگتا
تھا کہ کشمیری پنڈت ہے… وہ کبھی کشمیریوں کے خلاف بولتا،کبھی پاکستان کے خلاف اور
کبھی تحریک کشمیر پر… وہ کہہ رہا تھا کہ آپ لوگوں نے اِدھر آکر غلطی کی ہے… دیکھو
کس طرح سے پکڑے گئے ہو… جمال شہید نے فوراً کہا پنڈت جی جس وقت میں پکڑا گیا میرے
پاس گن نہیں تھی… اب تقریر کرنے کی بجائے مجھے گن دو پھر دیکھو تم ہمیں کیسے پکڑتے
ہو… جمال کی بات اورانداز سے فوجی پنڈت کو آگ لگ گئی… ماشاء اﷲ جمال بہت زیادہ
بہادر تھا… جیل کی لڑائیوں میں وہ پیش پیش رہتا تھا… بلکہ یوں کہیں کہ بہت خوش
ہوتا تھا… ایک بار کوٹ بھلوال جیل میں ہمارا ارادہ جیل حکام پر صرف دباؤ ڈالنے کا
تھا… لڑائی کا نہیں… چنانچہ اُسی حکمت عملی کے تحت ساتھی چھتوں پر چڑھ کر نعرہ بازی
کرنے لگے…جمال بھی بوٹ کس کر ڈنڈا اٹھائے چھت پرچڑھ گیا… اُس کے لئے تویہ عید کا
موقع ہوتا تھا… محترم سجاد شہیدس جلدی سے میرے پاس آئے اور فرمایاجمال کو اتار لیں
یہ سات فٹ کا مجاہد کسی کام میںگرانا ہے… آج یہاں ضائع نہیں کرنا… میں نے دیکھا
تو جمال اپنے قد کی وجہ سے سب ساتھیوں سے نمایاںتھا… اور لڑائی بھڑکانے کے موڈمیں
تھا… میں نے آواز دیکر نیچے بُلایا تو سر جھکا کر افسوس کے ساتھ اُتر آیا… اﷲ
تعالیٰ اُس کی قبر کو سکون اور راحت سے بھر دے اُس نے مجھ نااہل سے اصلاحی بیعت کر
رکھی تھی… اور اُسی کی لاج رکھتے ہوئے ہر بات مانتا تھا… وہ زیادہ عبادت گزار نہیں
تھا مگر عبادت کا شوق ضرور رکھتا تھا… اُس کے لئے جم کے بیٹھنا مشکل کام تھا مگر
پھربھی اپنی اصلاح اور آخرت کی خاطر ’’مجلس ذکر‘‘ میں پابندی سے بیٹھتا تھا… اُس
کی طبیعت میں تیزی بھی تھی … ساتھی اُس سے تنگ ہوتے تو میرے پاس شکایت لاتے میں
سمجھا دیتا تو جمال فوراً مان لیتا… وہ قرآن ، حدیث اور اکابر کے واقعات کا بہت
جلد اثر لیتا تھا…
اگرصدقے
کے موضوع پر بیان ہوتا تو اپنا سب کچھ اٹھا کرصدقہ کر دیتا اور خود ایک جوڑے کپڑوں
میں گزارہ کرتا… ہر انسان کی طرح جمال س میں بھی بہت سی کمزوریاں اور خامیاں تھیں…
مگر اُس کی ایک صفت بہت اونچی اور بھاری تھی… وہ یہ کہ اس کو اپنی کمزوریوں اوربیماریوں
کا احساس تھا… وہ ریاکاری کر کے اپنے عیب نہیں چھپاتا تھابلکہ… اپنی کمزوریوں پر
کبھی کبھار روتا تھا اور پریشان ہوتا تھا… ایک بار میں نے اُس کو حضرت تھانوی سکی
کتاب ’’آداب زندگی‘‘ مطالعہ کے لئے دی… اور تاکید کر دی کہ اس پر عمل کرنا ہے… وہ
مطالعے کا بہت شوقین تھا خصوصاً جہادی واقعات کی کتابوں کا تو دیوانہ تھا… حضرت سید
احمد شہیدؒ کی تحریک کے واقعات والی کتابیں بہت شوق سے پڑھتا تھا… اور پھر چونکہ
امارت اسلامی افغانستان کا عاشق تھا اس لئے طالبان کے بارے میں آنے والی ہر خبر،
ہر تصویر اور ہر کتاب کے پیچھے پڑا رہتا تھا… وہ ’’آداب زندگی‘‘ لے گیا… اور بہت
جلد پڑھ کر واپس لے آیا اور مجھے کہنے لگا… حضرت تھانوی پنے پوری کتاب میرے خلاف
لکھی ہے… یعنی اُسے اپنی کمزوریوں کا اعتراف تھا اور احساس تھا… اور وہ میرے سامنے
اس پر کئی بار رویا بھی… خصوصاً ساتھیوں سے لڑائی جھگڑا زیادہ ہوتا تھا… ویسے
الحمدﷲ اخلاقی طور پر وہ بلند کردار اور پاکیزہ طبیعت رکھتا تھا… ایک بار جمال کی
شکایات زیادہ آئیں تو میں نے اُسے کہا… میرے مریدین میں سے چند بہت ’’فراڈی‘‘ ہیں…
اور آپ ان میں نمبر ایک پر ہیں… میرا دل چاہتا ہے کہ آپ سب کو ترتیب سے نمبر… دے
دوں تاکہ ایف ون سے ایف سولہ تک نام ہوجائیں… جمال میری بات سن کر بہت خوش ہوا… یہ
اُس کی طبیعت تھی… چنانچہ اُس دن کے بعد سے وہ خود کو’’ایف ون‘‘ لکھتا تھا… گزشتہ
سالوں میں میرے پاس اُس کے بہت سے خطوط آئے جو اُس نے جیل سے لکھے تھے… کاش وہ
خطوط میرے قریب ہوتے تومیں ان میں سے ایک آدھ اپنے قارئین کے لئے یہاں نقل کردیتا…
وہ اپنے خطوط میں بہت باتیں پوچھتا تھا… اُسے اکابر علماء سے بہت محبت تھی… حضرت
مفتی رشید احمد صاحب سکو دادا جی لکھتا تھا… اور حضرت مفتی نظام الدین شامزئی س سے
قلبی عقیدت رکھتا تھا… اُس کے خطوط میں زیادہ سوالات ان اکابر کے بارے میں ہوتے
تھے… سامان کے بارے میں لکھتا تھا کہ مجھے کتابیں بھجوائی جائیں… اور اپنے بھائیوں،
بہنوں اور اُن کی اولاد کی دینی تربیت کے بارے فکر کا اظہار کرتا تھا… اور کہتا
تھا کہ آپ ان سب کو مدارس میں داخل کرائیں… جیل میں جن دنوں بندہ’’یہود کی چالیس
بیماریاں‘‘ لکھ رہاتھا وہ دن جمال س پر بہت بھاری تھے… کیونکہ میں تحریری مصروفیت
کی وجہ سے کسی سے نہیں ملتا تھا… بس ایک ساتھی نے خدمت کا احسان اپنے ذمہ لیاہوا
تھا… سارے کام وہ کر دیتے تھے اور میں الگ بیٹھ کر کتاب میں مشغول رہتا تھا… جمال
شہید سچھوٹے بچے کی طرح میرے گرد منڈلاتا رہتا تھا… شاید اُسے مجھ ناکارہ سے قلبی
تعلق ہو گیا تھا… پھر دن بھر کام کی وجہ سے رات کو جلد نیند آجاتی تھی اس لئے بی
بی سی پر بھی جمال سے مجلس نہ ہوپاتی… مگرجمال بہت تیز تھا اُس نے میرے مزاج کے
مطابق ایک صورت ڈھونڈ لی… ایک شام مجھ سے کہنے لگا… آپ جو کچھ لکھتے ہیں اُس کی
نقل تو ضرور کسی سے لکھواتے ہیں… تو اس بار جو کتاب لکھ رہے ہیں…اُس کے جتنے صفحات
روزانہ لکھیں وہ مجھے دے دیا کریں میں اپنے رجسٹر پر نقل کردوں گا… دراصل جیل میں
کتاب کے گم ہونے کا خطرہ رہتا تھا… اسی طرح ڈاک میں بھی یہ اندیشہ رہتا تھا… اس
لئے بندہ جب بھی کچھ لکھتا تو کوئی ساتھی اُس کی نقل لکھ کر رکھ لیتا تاکہ …
اگراصل ضائع یا گم ہو جائے تو نقل کو پاکستان بھجوایا جا سکے… جمال س کی اس پیشکش
کو میں نے قبول کر لیا… اور اُس نے اس بہانے ملاقات کا موقع حاصل کر لیا… وہ ہررات
مجھ سے مسوّدہ لے جاتا اور نقل کرتا… ایک رات مجھے کہنے لگا… ایک بات سچ سچ بتائیں
کیاآپ نے یہ پوری کتاب میری بیماریوں کو سامنے رکھ کر لکھی ہے؟… میں جو صفحہ بھی
کھولتاہوں تو میرے بارے میں باتیں لکھی ہوتی ہیں… یہ جمال شہیدسکی خود احتسابی اور
اصلاح کی فکر تھی کہ اُس نے یہ بات کہی… میںنے جواب میں عرض کیا…جمال! یہ کتاب میں
نے آپ کو نہیں بلکہ آئینہ سامنے رکھ کر اپنی بیماریاں دیکھ کر لکھی ہے… جمال شہیدس
کو اس کتاب سے خاص انس تھا اور اُس نے راتوں کو جاگ جاگ کراس کا مسوّدہ اپنے رجسٹر
پر نقل کیا… باتیں تو بہت ہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں…
ہم تقریباً تین،چار سال ایک ہی جیل میں اکٹھے رہے… صبح شام کا ملنا تھا… اور پھر
جب اﷲ تعالیٰ نے مجھے رہائی دی تو جمال کے ساتھ خط و کتابت کا رابطہ رہا… اس رابطے
میں مجھ سے جو کوتاہی ہوئی اُس پر اﷲ تعالیٰ سے استغفارکرتاہوں… بندہ کی مشغولیات
اس قسم کی ہیں کہ کسی بھی محبت کرنے والے کا پورا حق ادا نہیں کرسکتا… اﷲ تعالیٰ
معاف فرمائے… اوراپنی رحمت کا معاملہ فرمائے… چند دن پہلے اچانک فجر کی نماز کے
بعد شعبہ اسیران کے ناظم نے مجھ سے رابطہ کیا اوربتایا کہ…جمال کا جودھ پور جیل میںانتقال
ہو گیا ہے… میرے لئے یہ کافی مشکل خبر تھی… اور ابھی تک مشکل ہے… مگرجمال شہیدسکے
لئے تو الحمدﷲ آسانی ہو گئی… وہ کھلے مزاج کا آدمی تھا اب الحمدﷲ کھلی جگہ چلاگیا…
شیر جنگل میں خوش رہتا ہے اسی طرح مؤمن کو اصل خوشی مرنے کے بعدنصیب ہوتی ہے… اﷲ
تعالیٰ جمال شہیدسکی اس بے بسی، بے کسی اور مسافرت والی شہادت کو قبول فرما کر…
اُسے اعلیٰ علییّن میں اونچا مقام عطاء فرمائے… اپنی جماعت کے شعبہ اسیران کا شکریہ
ادا کرتاہوں… اور انہیں دعاء دیتا ہوں کہ انہوںنے پوری محنت کر کے… جمال شہیدس کی
میّت دشمنوں اور مشرکوں سے وصول کی… اور قاری ضرار صاحب نے اُن کی نماز جنازہ
پڑھائی… جیل کے وہ ساتھی جن کو جمال شہیدس سے کچھ شکوہ تھا یا انہیں کوئی تکلیف
پہنچی… مجھے اُمید ہے کہ انہوں نے آنسوؤں کے ہدیے کے ساتھ معاف کر دیا ہو گا…
اور اب وہ اپنے اس عظیم اور مظلوم بھائی کے لئے جھولیاںپھیلا کر دعائیں کر رہے ہوں
گے… اسیر ہند مولانا ابو جندل سے تعزیت کہ انہوں نے سجاد شہیدسکے بعد جمال شہیدس کا غم بھی جیل میں دیکھا… اور جمال شہیدس کے
خاندان کے تمام افراد سے دلی تعزیت… اﷲ تعالیٰ آپ سب کو صبر جمیل عطاء فرمائے…
جمال شہیدس’’القلم‘‘ بہت اصرار سے منگواتا تھا اور بہت شوق سے پڑھتا تھا… آج کا
القلم معلوم نہیں اُسے پہنچے گا یا نہیں… شہداء کی اپنی دنیا ہوتی ہے… بہت بڑی اور
خوبصورت دنیا… اگر مجھے اس کی اُمید ہوتی کہ القلم کا یہ پرچہ بھی جمال تک پہنچ
جائے گا تو میں اُسے لکھتا… پیارے جمال! میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ہم
سے پہلے چلے جاؤ گے… اورتمہارا جنازہ اُمت کے اماموں کی طرح جیل سے اٹھے گا… اور
تم ہمیں اس طرح سے رُلا جاؤگے’’ایف ون‘‘ کہیں کے…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
کوئی
برابری نہیں
اﷲ
تعالیٰ پوری دنیا میں اسلام کو غلبہ عطاء فرمائے… اس رمضان المبارک میں دو اہم تاریخیں
جمع ہو گئیں… ایک تو شمسی تاریخ’’نائن الیون‘‘ اور دوسری قمری تاریخ’’بائیس
رمضان‘‘… گزشتہ نو سال سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس سب کا بہت سا تعلق ان دو
تاریخوں کے ساتھ ہے…’’نائن الیون‘‘ یعنی گیارہ ستمبر۲۰۰۱ء
عرب مجاہدین نے امریکہ پر’’جہازی حملہ ‘‘ کیا… دو جہاز نیویارک کے ’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘‘
کی دو عمارتوں سے ٹکرائے اور ایک جہاز’’پینٹاگون‘‘ پر جا پڑا… اس حملے میں تین
ہزار سے زائد لوگ مارے گئے… اور پھر دنیا میں موت سستی ہو گئی… اس واقعہ کے بعد سے
اب تک ہزاروں امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں… امریکہ کے اتحادی ممالک کے فوجی بھی بڑی
تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں… اور مسلمان بھی کافی تعداد میں شہید ہوئے ہیں… اس واقعہ
سے پہلے تقریباً ساری دنیا اس بات پر(نعوذ باﷲ) ایمان لا چکی تھی کہ امریکہ سے
مقابلہ ناممکن ہے… مگر آج آٹھ سال گزرنے پر امریکہ کا کھوکھلا پن دنیا کے سامنے
واضح ہو چکا ہے… اور عالمِ کفر اس وقت شدید صدمے میں ہے… دوسری تاریخ’’بائیس رمضان
المبارک‘‘ کی ہے… نو سال پہلے۲۲ رمضان ۱۴۲۰ھ جمعہ کے دن… انڈیا کے مشرکین کو عبرتناک شکست ہوئی…
قندھار کے ائیر پورٹ پر کفر کی اس شکست کی آخری داستان لکھی گئی… مسلمانوںکو ایک
بہت بڑی فتح اﷲ تعالیٰ نے عطاء فرمائی… اسی فتح کے نتیجے میں… مجاہدین کی منظم اور
بابرکت جماعت ’’جیش محمدﷺ‘‘ وجود میں آئی… سترہ سو شہداء اور فدائیوں والی یہ
جماعت… جی ہاں ایسی جماعت جس کی کارکردگی دیکھ کر ’’ اﷲ تعالیٰ‘‘ یاد آتاہے… دہشت
ناک عسکریت، ایمان افروز روحانیت، ناقابل تسخیر علم اور سمندروں کو شرمندہ کرنے
والی طوفانی دعوت …
بارک
اﷲ، ماشاء اﷲ لاقوۃ الاباﷲ …
یہ
سب اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے… والحمدﷲ ربّ العالمین… اس وقت دنیا کا ’’طاغوتی نظام‘‘
نائن الیون اور ’’بائیس رمضان‘‘ کے گھیرے میں ہے… اور ان دونوں تاریخوں کی قیادت’’امارتِ
اسلامیہ افغانستان‘‘ کے پاس ہے… اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کی کمان اُمتِ مسلمہ
کے حقیقی ولی اورسچے مسلمان’’حضرت ملا محمد عمر مجاہد مدظلہ‘‘ کے ہاتھ میں ہے…
کفر
اور اسلام کا یہ مقابلہ آٹھ ، نوسال سے جاری ہے… اور دونوں فریق ظاہری طور پر سخت
پریشان ہیں… ’’کفار‘‘ تو اس لئے پریشان ہیں کہ اُن کی ہر تدبیر ناکام ہو رہی ہے…
وہ آگے بڑھتے ہیں تو موت نظر آتی ہے اور پیچھے ہٹتے ہیں تو موت نظر آتی ہے… بڑے
بڑے عقلمندوں اور جرنیلوں کا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہے… عراق میں ایک مجاہد بھی
نہیں تھا مگر جب امریکی اور اتحادی افواج وہاں پہنچیں تو ہر گلی سے مجاہد… اور ہر
گھر سے مجاہدہ نکل پڑی… افغانستان کی جنگ امریکہ کی طاقت کے سامنے ایک مہینے کی
مار تھی… مگر آج آٹھ سال ہو گئے کہ امریکہ کو سوائے شکست کے اور کچھ نظر نہیں
آرہا… گزشتہ ایک مہینے میں درجنوں غیر ملکی فوجی مارے جا چکے ہیں اور کابل جیسے
شہر میں دو خوفناک فدائی حملے ہو چکے ہیں… امریکہ وغیرہ کے پاس جتنی بھی ٹیکنالوجی
تھی وہ سب عراق اور افغانستان میں آزمائی جا چکی ہے… اور وہ بُری طرح ناکام ہوئی
ہے… اب صرف ’’ایٹم بم‘‘ اور آکسیجن بم باقی ہیں… اگر امریکہ وہ استعمال کرتا ہے
تو مسلمانوں کی طرف سے بھی امریکہ پر ایٹمی حملہ خود امریکہ کے ہتھیاروں سے ہو
جائے گا… تب دنیا کا بیشتر حصّہ تباہ و برباد ہو جائے گا… اب کافر’’بیچارے‘‘پریشان
ہیں کہ وہ کیا کریں؟… اگر وہ افغانستان چھوڑ کر جاتے ہیں تو دوبارہ’’امارتِ اسلامیہ‘‘قائم
ہوتی ہے… اور ’’عالم کفر‘‘ امارتِ اسلامیہ کو اپنے لئے موت سمجھتا ہے… وہ کہتے ہیں
کہ’’امارتِ اسلامیہ‘‘ موجود تھی تو اسی کی وجہ سے ’’بائیس رمضان‘‘ بھی ہو گیا
اور’’نائن الیون‘‘ بھی… اب اگر دوبارہ امارتِ اسلامیہ قائم ہوئی تو معلوم نہیں کیا
کچھ ہو جائے گا… پریشانی ہی پریشانی… اور الجھن ہی الجھن… اور نئی تدبیریں اور ہر
دن نئی ہزیمتیں… دوسری طرف مسلمان بھی پریشان ہیں… اور اس پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ
ان کے پاس زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا نہیں ہے جس پر وہ آزادی سے مل بیٹھیں… سوویت یونین
کے خلاف جہاد کے وقت مجاہدین کے لئے پاکستان کی صورت میں ایک ’’بیس کیمپ‘‘ موجود تھا…مجاہدین کو جب کوئی پُرامن’’بیس کیمپ‘‘ مل جاتا ہے تو اُن کا جہاد منظم ہو جاتا
ہے… وہ اپنی فتوحات کو دیکھ سکتے ہیں اور کافروں کے زخم بھی گِن سکتے ہیں… اور یوں
اُن کا حوصلہ بلند رہتا ہے… مگر موجود ہ جہاد میں مجاہدین کے پاس کوئی پُرامن جگہ
موجود نہیں ہے… اسی لئے بڑی کامیابیوں کے باوجود وہ پریشان رہتے ہیں اور کبھی
کبھار مایوس ہو جاتے ہیں… اب عراق کی اصل صورتحال کیا ہے یہ کسی کو بھی معلوم نہیں…
افغانستان کی اصل صورتحال کیا ہے اس کا بھی کسی کو پورا علم نہیں… دنیا تک تو صرف
دُھواں پہنچتا ہے حالانکہ اس وقت جہاد کی آگ شعلے برسا رہی ہے… مگر مسلمان اپنے
اس جہاد کی خوشی نہیں منا سکتے… اور نہ اپنی فتوحات کی قیمت کو جان سکتے ہیں… پہلے
زمانوں میں حضرات انبیاء د کو ستایا جاتا تھا تو وہ حرم شریف کی طرف ہجرت کرتے
تھے… پھر حرم شریف میں رسول اﷲﷺ کو ستایا گیا تو آپﷺ نے’’مدینہ پاک‘‘ کی طرف ہجرت
کی… پھر بعد کے مسلمان جب ستائے جاتے تو وہ حرمین شریفین کا رُخ کرتے تھے… مگر اب
تو’’حرمین شریفین‘‘ جانا بھی آسان نہیں… وہاں کے حکمرانوں کے ذاتی جہاز پرویز
مشرف اور نواز شریف جیسے مسلمانوں کو اٹھانے کے لئے اڑتے ہیں… اگر حالیہ عالمی
جہاد کی تھوڑی سی قیادت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہوتی… وہ کعبہ شریف کے
سامنے بیٹھ کر حجر اسود کی طرف نظریں اٹھا کر جہاد کی منصوبہ بندی کرتی… وہ روضۂ
اقدس کی جالیوں کے سائے میں بیٹھ کر قتال فی سبیل اﷲ کی تدبیریں کرتی تو آج…
حالات کچھ اور ہوتے… مگر اس وقت تو ہجرت اور جہاد کندھا ملا کر چل رہے ہیں…
اورہجرت ایسی ہے کہ اس میں کسی’’دارالہجرۃ‘‘ کا پتہ نہیں… بس چلتے رہو چلتے رہو…
سورج کی طرح نکلتے اور چھپتے رہو… اور
شہاب ثاقب کی طرح خود کو فدا کر کے حملے کرتے رہو…اس صورتحال کی وجہ سے مسلمان بھی
کچھ پریشان ہیں… انہیں کوئی کنارہ نظر نہیں آرہا… خلاصہ یہ ہوا کہ لڑائی کے دونوں
فریق پریشان ہیں تو اب فیصلہ کس کے حق میں ہو گا؟… ظاہر بات ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی
صرف طبعی ہے… وہ دل سے پریشان نہیں ہیں… جس طرح اچھی منزل کی طرف جانے والا مسافر
لمبے راستے میں تھکتا ہے… کبھی گِر بھی جاتا ہے اور کبھی مایوس بھی ہونے لگتا ہے…
مگر اُسے منزل کا یقین پھر کھڑا کر دیتا ہے… مسلمان بھی وقتی طور پر پریشان ہو جاتے
ہیں… مگر انہیں معلوم ہے کہ ہمارے لئے شکست ہے ہی نہیں… ہم مارے گئے تو جنت اور
فاتح رہے تو جنت…جبکہ کفار کی پریشانی حقیقی ہے… وہ دنیا میں فتح اور عیش چاہتے ہیں
اور اس لڑائی نے اُن کی دنیا کو تاریک کر دیا ہے… غزوہ ٔاُحد کے موقع پر جب ستر
مسلمانوں کی لاشیں میدان میں کٹی پڑی تھیں… اور باقی اکثر مسلمان زخموں سے نڈھال
تھے تو مشرکین کے سردارنے آوازلگائی!
’’ہمارا تمہارا
معاملہ برابر ہو گیا بدر میں ہمارے ستّر مارے گئے تو آج اُن کے بدلے تمہارے ستّر
کٹ گئے‘‘…
مشرکین
کے سردار کی بات ظاہری طور پر معقول تھی مگر دربار نبویﷺ سے مبارک آواز گونجی!
’’کوئی برابری
نہیں!! ہمارے مقتولین تو جنت میں ہیں جب کہ تمہارے مقتولین آگ میں ہیں‘‘…
’’بائیس رمضان‘‘
اور ’’نائن الیون‘‘ والے اس رمضان المبارک میں ہم بھی عالم کفر سے کہتے ہیں!…
’’کوئی برابری نہیں تم جہنم اور شکست کی طرف جارہے ہو اور مسلمان جنت اور فتح کی
طرف رواں دواں ہیں‘‘… اور مجاہدین کی خدمت میں عرض ہے کہ… پریشان ہونے کی ضرورت نہیں…
ہم جس راستے پر چل رہے ہیں یہ راستہ ہی خود منزل ہے… آپ سب کو اور پوری امت مسلمہ
کو عید مبارک ہو… والسّلام
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
تاخیر
نہ کریں
اﷲ
تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے… حضرت ہجویری س لکھتے ہیں:۔
’’مشائخ میں سے
ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے ستّر مرتبہ توبہ کی مگر ہر بار توبہ کے بعد مجھ سے
گناہ ہو گیا… پھر اکہترویں مرتبہ توبہ کی تو اﷲتعالیٰ نے مجھے اُس پر استقامت عطاء
فرمائی‘‘(کشف المحجوب)
حضرت ہجویری سیہ بات بھی سمجھاتے ہیں کہ اگر کسی
نے ایک مرتبہ گناہ چھوڑنے کے پختہ ارادے کے ساتھ توبہ کی… اور پھر اپنی توبہ پر
قائم نہ رہ سکا… تب بھی اُسے اپنی گزشتہ توبہ کا اجر وثواب ملے گا…(کشف المحجوب)
اے
میرے بھائیو! اور بہنو! توبہ سے نہیں تھکناچاہئے… البتہ گناہ سے ضرور تھک جانا
چاہئے… شیطان ہمیں گناہ کرانے سے نہیں تھکتا تو ہم سچی توبہ کرنے سے کیوں تھکیں؟…بعض
لوگ گناہ کرنے کے بعد… نیک عمل چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم اس کے قابل نہیں رہے… یا نیک
بزرگوں کی صحبت چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیا منہ دکھائیں… اﷲ کے بندو! گناہ کے
بعد تو نیک اعمال میں اضافہ کر دینا چاہئے… اور نیک لوگوں کی صحبت میں زیادہ
جاناچاہئے تاکہ ’’گناہ‘‘ کے بُرے اثرات ختم ہو جائیں… ایک شخص نے گناہوں سے توبہ کی
مگر کچھ دن بعد اُس کو توڑ ڈالا… اور گناہ کر بیٹھا… اُس وقت اُس کے دل میں سخت
ندامت پیدا ہوئی… اُس نے اپنے دل میں کہا کہ اب میں کیسے اﷲ تعالیٰ کے دربار میں
توبہ کے لئے حاضری دوں؟… اور کس منہ سے توبہ کروں گناہ تو چھوٹتا ہی نہیں… تب غیب
سے ایک آواز آئی:
اے
ہمارے بندے! تو نے ہماری اطاعت کی… یعنی توبہ کی توہم نے تجھے قبول کر لیا… پھر تو
نے ہمیں چھوڑ دیا… یعنی گناہ کر بیٹھا تو ہم نے تجھے مہلت دی… یعنی فوری عذاب میں
گرفتار نہیں کر دیا… اب اگر تولوٹ کر ہمارے پاس آئے گا توہم تجھے قبول کر لیں گے…
جی ہاں اﷲ تعالیٰ حلیم ہے، غفور ہے، غفّار ہے اور عَفُوّ ہے… پس انسان اپنے دل کو
اﷲ تعالیٰ سے ’’غافل‘‘ نہ ہونے دے بلکہ… ہر وقت یہ بات یاد رکھے کہ میرا ایک ربّ
ہے اور اُس رب کی اطاعت اور عبادت مجھ پر فرض ہے… شیطان جب بھی بہکادے تو انسان
فوراً اﷲ تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑے کہ یا اﷲ! مجھ سے غلطی ہو گئی، نافرمانی ہو گئی…
اب میں واپس آگیا ہوں مجھے قبول فرما لے… حضرات انبیاء علیھم السلام سے کوئی گناہ
نہیں ہوتا تھا مگر وہ کتنی زیادہ توبہ کرتے تھے… ہم بھی وضو کر کے تیز تیز قدم
مسجد کی طرف یا محاذ جنگ کی طرف چل پڑا کریں اور کہا کریں… اے میرے اﷲ، اے میرے
مالک میں آرہا ہوں… گناہوں سے معافی مانگنے کے لئے آرہا ہوں… اور سوچا کریں کہ میرے
ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ میرے گناہوں کی سزا سے بہت کم ہے… اگر اﷲتعالیٰ سزا دینے
پر آجائے تو ہم ایک سانس بھی نہ لے سکیں… ہم سوچتے ہیں ہم پر یہ مصیبت ہے، یہ پریشانی
ہے… حالانکہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ہم پر برس رہا ہوتا ہے… حضرت یونس علیہ
السلام مچھلی کے پیٹ کی مصیبت میں فرما رہے تھے کہ… یا اﷲ جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا،
غلطی مجھ سے ہوئی آپ تو’’سبحان‘‘ ہیں… حضرت ہجویری پ فرماتے ہیںکہ حضرت ذوالنون
مصری پ فرمایا کرتے تھے… توبہ دو طرح کی ہوتی ہے… ایک ’’توبہ انابت‘‘ اور ایک
’’توبہ استحیاء‘‘… ’’توبہ انابت‘‘ تو یہ ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر
توبہ کرے… یہ توبہ بھی بہت اونچی اوربہت بڑی ہے…مگر ’’توبہ استحیاء‘‘ یہ ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کے کرم سے شرم کرتے ہوئے توبہ کرے کہ اﷲتعالیٰ کے مجھ پر کتنے احسانات ہیں…
پس مجھے نہیں چاہئے کہ ایسے کریم رب کی نافرمانی کروں… آپ نے کبھی غور کیا کہ ہم
دن میں کتنی بار وضو کرتے ہیں؟… جی ہاں بار بار کرتے ہیں تاکہ پاک ہو جائیں اور
نماز ادا کرسکیں ، قرآن پاک کو چُھو سکیں… اسی طرح ہمیں اپنے دل کی پاکی کے لئے
بھی بار بار توبہ کا وضو کرنا چاہئے… ہم نے کبھی غور کیا کہ ہم پر ’’بعض لوگوں‘‘
کو راضی کرنے کی کتنی فکر سوار رہتی ہے… بس اس سے بڑھ کرہم اپنے دل میں اﷲ تعالیٰ
کو راضی کرنے کی فکر بٹھالیں اورہر غلطی کے بعد چونک کر فوراً اﷲ تعالیٰ کی طرف
متوجہ ہو جایا کریں… ہمارا زمانہ تو ماشاء اﷲ جہاد کا زمانہ ہے… اس زمانے کے ’’ولی‘‘بہت
اونچے ہیں جو نفس کی اصلاح سے بڑھ کر نفس کو قربان کرنے والے ہیں… ابھی دو چار دن
پہلے’’اٹلی‘‘ کی حکومت ماتم کر رہی تھی کہ… افغانستان میں اُس کا اب تک کا سب سے
بڑا نقصان ہوا ہے… ستائیس رمضان المبارک کے دن ایک اﷲ والے مجاہد نے اپنی گاڑی
بارود سے بھر کر اٹلی کے فوجی قافلے سے ٹکرا دی… طالبان کے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے
کہ… اﷲ تعالیٰ کے اس ولی کی عمر سترہ سال تھی… اُس نے کابل کے وسط میں اٹلی کے فوجی
قافلے کی دھجیاں بکھیر دیں… دو بکتر گاڑیاں اور آٹھ فوجی تو موقع پر ختم ہو گئے
جبکہ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے… اُمتِ مسلمہ کا ایک سترہ سالہ ’’بچّہ‘‘ اتنا
طاقتور اور اتنا بہادر… سلام ہو اُس کے والدین پر اور سلام ہو اُس کی ایمانی تربیت
کرنے والوں پر… یقینا یہ ’’احسان اﷲ‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ کا مسلمانوں پر بہت بڑا
احسان ہے کہ … ہر زمانے میں معاذ ؓاور معوذ ؓپیدا ہوتے رہتے ہیں… سترہ سال کا یہ
ولی اور شہید ہم سب کے لئے بہت بڑا سبق چھوڑ گیاہے کہ… اے مسلمانو! کن کاموں اور
گناہوں میں غرق ہو رہے ہو… اﷲ تعالیٰ کی جنت اور جنت کی حوریں تمہارے انتظار میں ہیں
جبکہ تمہیں’’توبہ‘‘ کا خیال تک نہیں… اور تم ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے اپنی مصیبتوں کے
شکوے کرتے رہتے ہو… آپ تھوڑا سا سوچیں کہ… جب یہ نوجوان روزہ رکھ کر جان قربان
کرنے کے لئے جارہا ہوگا تو اُس کے دل میں کتنا ’’ایمان‘‘ اور کتنا’’یقین ‘‘ ہوگا…
اُس پر اُن لمحات میں کتنا نور اور سکینہ برس رہاہو گا… کیا کوئی خواب میں بھی اس
کا تصور کر سکتا ہے؟… وہ نہ تو گھبرایا اور نہ ہی دشمنوں کے بکتر بند دستے سے ڈرا…
اُسے نہ دنیا کی محبت نے روکا اور نہ زندہ رہنے کے شوق نے…وہ اطمینان سے آگے بڑھا
اور امت کے فاتحین میں اپنا نام لکھوا کر ’’شہداء کرام‘‘ میں شامل ہو گیا…
ہاں مسلمانوں ہاں!… رب تعالیٰ کا توبہ والا
دروازہ چوبیس گھنٹے کھلا ہوا ہے… رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بندہ نے کسی سے
پوچھا کہ بہاولپور کی مسجد عثمانؓ و علیؓ میں کیا ماحول ہے؟… جواب ملا کہ یہاں تو
کسی کو سوائے رب کی رضا کے کوئی فکرہی نہیں… ہر وقت مسجد میں یا تو رونے کی آواز
آتی ہے یا تلاوت اور ذکر کی… یہاں اعتکاف
میں بیٹھے ہوئے ساڑھے چار سو کے لگ بھگ افراد اﷲ تعالیٰ سے رو رو کر شہادت مانگتے
ہیں… گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی ملاقات میں شوق میں بس اُسی کا
نام رٹتے رہتے ہیں… اﷲ، اﷲ، اﷲ… واہ میرے مالک آپ کی شان بھی عجیب ہے کہ… اپنے پیاروں
کو اپنا نام محبت سے لینے کی توفیق عطاء فرماتا ہے… اور جس سے ناراض ہو جاتا ہے
اُسے اپنے نام اور کام سے محروم کر دیتا ہے… رمضان المبارک میں کمانے والوں نے بہت
کچھ کمایا… اﷲ تعالیٰ سب مسلمانوں کے اعمال قبول فرمائے… ماشاء اﷲ مجاہدین نے تو
بہت کمایا… محاذوں والے محاذوں پر ڈٹے رہے جبکہ دعوت والے دیوانوں کی طرح ہرمسجد
اور گلی میں’’حیّ علی الجہاد‘‘ کی صدا لگاتے رہے… اس سال کی مہم تو ماشاء اﷲ عجیب’’پُرنور‘‘تھی…
اﷲ تعالیٰ مزید ترقی ، قبولیت، ہمت اور استقامت نصیب فرمائے… رمضان المبارک کی
بہاریںچلی گئیں تو شیطان زخمی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا پھر میدان میں اُتر آیا
ہے… وہ توبہ کرنے کی والوں کی توبہ ختم کرانے کے لئے زور لگا رہا ہے… اور کافروں
اور منافقوں کو مجاہدین کے خلاف اُکسا رہا ہے… اسی لئے عرض کیا کہ ہم توبہ کو نہ ٹوٹنے
دیں… اور اگر ٹوٹ جائے تو دوبارہ جوڑنے میں دیر نہ لگائیں… رمضان المبارک میں تو
بہت تلاوت ہوتی تھی… اب بھی تلاوت کا ناغہ نہ کریں… نوافل کا بھی حتی الوسع اہتمام
رکھیں… اور اپنے دینی کاموں میں بغیر کسی وقفے اور چھٹی کے… خود کو اس کا محتاج
سمجھ کر… پوری طرح سے جُڑے رہیں… رمضان المبارک کے بعد پندرہ دن تک زیادہ محنت کی
ضرورت ہوتی ہے… کیونکہ نفس اور شیطان بہت زور لگاتا ہے… سنو اے مسلمانو سنو… اﷲ
تعالیٰ فرما رہا ہے…
قل یعبادی
الذین اسرفوا علیٰ انفسھم لا تقنطوامن رحمۃ اﷲ ان اﷲ یغفر الذنوب جمیعا۔ انہ
ھوالغفور الرحیم۔(الزمر ۵۳)
ترجمہ:فرما
دیجئے! اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس
نہ ہو، بے شک اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے…
حضرت
لاہوری س فرماتے ہیں کہ جن مسلمانوں کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص والا تعلق ہے… انہیں
اپنے گناہوں کی وجہ سے مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے… حضرت شاہ عبدالقادرپ
فرماتے ہیں… یہ آیت اُن کافروں کے بارے میں نازل ہوئی جو جہاد میں مسلمانوں کی
فتوحات کے بعد نادم ہوئے کہ … ہم تو مسلمانوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور ہم نے کفر
کیا ہے تو اب ہماری توبہ کہاں قبول ہو گی… تب اُن کو فرمایا گیا کہ… موت آنے تک
توبہ کا دروازہ کُھلا ہوا ہے… اﷲ اکبر… اتنے عظیم اور خطرناک گناہوں پر ایسا سخاوت
والا اعلان… تو پھر جو مسلمان ہیں اُن کو گھبرانے اور مایوس ہونے کی کیا
ضرورت ہے؟… بس دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت
اور اخلاص پیدا کریں تب ہر منزل آسان ہے… اور یاد رکھیں اﷲ تعالیٰ کے مخلص بندے
توبہ میں تاخیر اور سستی نہیں کرتے… ہم بھی تاخیر نہ کریں…
سبحانک
اللھم وبحمدک نشھدان لا الہ انت نستغفرک ونتوب الیک…نستغفرک ونتوب الیک… نستغفرک
ونتوب الیک…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
موت
سے پیار
اﷲ تعالیٰ کی محبت دل میں اُتر جائے یہ بہت بڑی
نعمت ہے… اور اسی نعمت کی بدولت اﷲ تعالیٰ سے ’’ملاقات‘‘ کا شوق پیدا ہوتا ہے… اور
جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ہو… اﷲ تعالیٰ بھی اُس سے ملاقات کو پسند
فرماتے ہیں… اور اﷲ تعالیٰ سے ملاقات’’موت‘‘ کے ذریعہ ہوتی ہے… چنانچہ اﷲ تعالیٰ
سے جوبھی سچّی محبت رکھتا ہے وہ موت
سے’’عشق‘‘ رکھتا ہے…
ایک
نوجوان کا عجیب واقعہ
مشہور بزرگ حضرت ذوالنون مصری پ فرماتے ہیں کہ میں
حج کے موقع پر’’منیٰ‘‘ میں تھا… میں نے دیکھا کہ لوگ قربانیاں کرنے میں مصروف ہیں
جب کہ ایک نوجوان آرام سے پُرسکون بیٹھا ہوا ہے… میں نے اُس پر نظر رکھی کہ یہ کیا
کرتا ہے؟… تھوڑی دیر بعد وہ جوان کہنے لگا… یا اﷲ تمام لوگ قربانیوں میں مشغول ہیں
لہٰذا میں بھی چاہتاہوں کہ تیری بارگاہ میں اپنی قربانی پیش کروں… یا اﷲ میری
قربانی قبول فرمانا… یہ کہہ کر اُس نے اپنی انگلی سے اپنی گرد ن کی طرف اشارہ کیا
اور گِر پڑا… میں نے قریب جا کر غور سے دیکھا تو اُس کا انتقال ہو چکا تھا… اﷲ
تعالیٰ اُس پر رحمت نازل فرمائے’’آمین‘‘(کشف المحجوب)
جن
مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مزہ آتا ہے وہ سوچیں کہ… اﷲ تعالیٰ کی ملاقات میں
کتنا مزہ ہو گا… اور یہ مزہ موت کی صورت میں آتا ہے… رب کعبہ کی قسم ! شہادت کے
مزے کا لاکھواں حصہ بھی کوئی دیکھ لے تو ایک منٹ دنیا میں رہنا گوارہ نہ کرے… اﷲ
تعالیٰ سے ملاقات… ربّ کریم سے ملاقات… محبوب مالک سے ملاقات… اﷲ اکبر کبیرا…
پاگل
لوگ
کچھ
بے وقوف اور پاگل لوگ مجاہدین کو ڈراتے رہتے ہیں… امریکہ کا ڈرون حملہ ہونے والا
ہے… بلیک واٹر والوں نے اسلام آباد، پشاور، کراچی ، کوئٹہ ، لاہور اور بہاولپور میں
اڈے قائم کر لئے ہیں… تمہارے لئے کرائے کے قاتلوں کو اتنا پیسہ دے دیا گیا ہے… وغیرہ
وغیرہ… ارے دانشمندو! اس میںڈرنے کی کیا بات ہے؟… موت کے ہونٹ چومنے کے لئے مجاہدین
اونچے اونچے پہاڑوں کا سفر کرتے ہیں… مشکل بارڈر کراس کرتے ہیں… لاکھوں روپے خرچ
کر کے میدانوں تک جاتے ہیں…اب اگر یہی شہادت کی موت خود بن سنور کر اپنے گھر میں
آجائے تو کتنی خوشی اور سعادت کی بات ہے… میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہمارا
زمانہ ’’ماشاء اﷲ‘‘ بہت بابرکت زمانہ ہے… یہ جہاد اور شہادت والا زمانہ ہے… اس میں
ہمیں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرانے کے لئے… پوری دنیا کا کفر سرگرم ہے… مسلمان الحمدﷲ
نہ کسی’’ڈرون‘‘ سے ڈرتے ہیں اور نہ کسی’’ایٹم بم‘‘ سے… قرآن پاک کا سچا اعلان ہے
کہ موت نے اپنے وقت پر آنا ہے… اور شہادت کی موت سے بڑی نعمت ایمان کے بعد اس
زمانے میں اور کوئی نہیں ہے… بلیک واٹر آگئی ہے تو خوش آمدید… مگر اتنی گزارش
ضرور ہے کہ… اپنے تابوت بھی تیار رکھنا… کیونکہ مسلمان جس طرح ’’مرنا‘‘ جانتے ہیں…
اُس سے بڑھ کر’’مارنا‘‘ بھی جانتے ہیں…اوریہ دونوں چیزیں انہیں’’قرآن پاک‘‘ نے…
اورآقامدنیﷺ نے سکھائی ہیں…
مزے
ہی مزے
ہم
میں سے جو ’’بوڑھے‘‘ ہو چکے اُن کے لئے تو شہادت… صرف نعمت ہی نہیں’’انعام‘‘ بھی
ہے کہ… پوری زندگی کا لطف بھی لے لیا… بیٹے، بیٹیاں ہی نہیں پوتے اور نواسے بھی دیکھ
لئے… خوب کھا پی لیا… ہر چیز برت لی اور آخر میں شہادت بھی مل گئی… سبحان اﷲ مزے
ہی مزے… اور ہم میں سے جو ’’جوان‘‘ ہیں اُن کے لئے شہادت صرف نعمت ہی نہیں بہت بڑا’’اعزاز‘‘ ہے… جوانی کی ملاقات بہت
مبارک اور جوانی کی توبہ بہت ’’مقبول‘‘ ہے… اور جوانی کی قربانی کا تو کیا پوچھنا…
کوئی جائے اور’’شہداء بدر‘‘ سے پوچھے کہ کیا مزے ہی مزے ہیں… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان
اﷲ العظیم… اورہم میں سے جو بچے ہیں… وہ تو ویسے ہی جنت کے پھول ہیں… اور جب ان
پھولوں پر ڈرون میزائل گرتا ہے تو… وہ کھل اٹھتے ہیں اور اُن کی خوشبو دور دور تک
پھیل جاتی ہے… نہ کوئی گناہ، نہ زندگی کی تکلیفیں… کچھ دن بچپن کے معصوم مزے لوٹے
اور اب شہادت کے مزے ہی مزے… ماں باپ ساتھ گئے تو اﷲ تعالیٰ کی مہمانی میں اُن کی
گود… ورنہ جنت کی حوروں کی پاکیزہ اور محبت بھری گود… والحمدﷲ ربّ العالمین
جتنی
بھیانک اُتنی آسان
اﷲ
تعالیٰ کے راستے کی موت دیکھنے میں جتنی بھیانک نظر آتی ہے… حقیقت میں اُتنی’’آسان‘‘
ہوتی ہے… بم گرا، گولی لگی اور استقبال شروع… نہ کوئی گھبراہٹ، نہ کوئی انتظار…
اور نہ کوئی ڈر اور خوف… جب کہ ہسپتالوں کی موت سے اﷲ تعالیٰ بچائے… شاندار کمرے،
مٹکتی ہوئی نرسیں، گھبرائے ہوئے ڈاکٹر، روتے ہوئے اہل خانہ، سسکتی ہوئی حسرتیں…
اور ترس ترس کر نکلنے والی روح… اﷲ پاک ہم سب کا انجام ایمان پر فرمائے…دوسری طرف
بم گرا اور روح نے خوشی کی چھلانگ لگادی…
ایک
شخص کا جنازہ بہت ٹھاٹھ سے سجایا جارہا ہے… مگر روح عذاب میں تڑپ رہی ہے… جب کہ
دوسرے کا جسم قیمہ بنا ہوا ہے اور روح نئے جسم میں فرشتوں اور حوروں کے ساتھ عرش
کے سجدے اور آسمانوں کی سیریں کر رہی ہے… کونسا اچھا ہے؟… جسم سلامت رہے تو خطرہ
ہے کہ جسم کے اعضاء گناہوں کی گواہی نہ دے دیں… اور جسم بھی جل، کٹ گیاتو انشاء اﷲ نیا جسم مل جائے گا… اُس جسم سے نہ
کوئی گناہ کیا اور نہ کوئی نافرمانی… غزوہ اُحد میں حضرات صحابہ کرامؓ کے جسم کٹے
پڑے تھے… مشرکین نے اعضاء کاٹ کر ہار بنا لئے تھے… اور کلیجوں کو چبا ڈالا تھا…
جبکہ قرآن پاک بتارہاتھا کہ… یہ تمام شہداء اﷲ تعالیٰ کے قُرب میں بیٹھے مزے سے
کھاپی رہے ہیں اور خوشیاں منارہے ہیں… اور تمنا کر رہے ہیں کہ باقی مسلمان بھی
شہادت سے محروم نہ ہوں…
آواز
نہیں ہاتھ اٹھائیں
بعض عجیب سے مسلمان ہر چیز کا فیصلہ’’میڈیا‘‘ کے
ذریعے کرتے ہیں… کیا وہ نہیں جانتے کہ میڈیا پر کافروں اور منافقوں کا قبضہ ہے… وہ
کہتے ہیں کہ فلاں واقعہ پر فلاںنے ’’آواز‘‘کیوں نہیں اٹھائی؟… شاید بِک گئے ہوں
گے یا حکومت کے ساتھ مل گئے ہوں گے… اﷲ کے بندو! اب ’’آواز‘‘نہیں’’ہاتھ‘‘ اٹھانے
کا وقت ہے… اسلام دشمن طاقتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ وہ ظلم کرتے رہیں اور… مسلمان
صرف آواز اٹھاتے رہیں… اس لئے وہ آواز اٹھانے والوں کو کچھ نہیں کہتے… جب کہ
جہاد کرنے والوں کو ختم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں…
جی
ہاں کافر اپنے دشمنوں کو پہچانتے ہیں… جب کہ ہم اپنے ’’محسنوں‘‘ کو نہیں پہچانتے…
اور اُن کو ٹی وی چینلوں پر دیکھنا چاہتے ہیں… اے مسلمانو! اے مجاہدو! مروّجہ میڈیا
سے اپنی جان چھڑالو… ورنہ بہت نقصان اٹھاؤ گے اور اب تک بہت اٹھا چکے ہو… تم ان
شیطانوں کا نہیں فرشتوں کا میڈیا استعمال کرو…وہ نہ تم سے ویڈیو مانگیں گے نہ آڈیو…
بلکہ ہواؤں کے دوش پر تمہارے کام اور پیغام کو پوری دنیا میں پھیلا دیں گے… انشاء
اﷲ
موت
اور وقت
اپنے
شیخ احمد یاسینس… صہیونیوں سے دشمنی کر کے بھی ستّر سال تک جی گئے… اور پھر شہید
ہو کر زندہ ہو گئے… اپنے امیر المؤمنین ملا محمد عمر ماشاء اﷲ پچاس سال کی زندگی
گزار چکے ہیں… اﷲ پاک اور برکت عطاء فرمائے… نہ سوویت یونین اُنہیں مارسکا اور نہ
آٹھ سال ہو گئے امریکہ اور نیٹو اُن کا کچھ بگاڑ سکے… اُن کی جتنی عمر باقی ہے وہ
ضرور گزاریں گے… اپنے شیخ اُسامہ صاحب تو شاید پچپن سال کے ہو گئے… اُن کو مارتے
مارتے اب تک معلوم نہیں کتنے لوگ مر چکے ہیں… اﷲ کے بندو! یہ زمین پر کھلی نشانیاں
ہیں اس بات کی کہ قرآن پاک نے… بالکل سچ فرمایا ہے… جہاد میں موت نہیں بلکہ موت
کا وقت اٹل ہے… پھر معلوم نہیں کلمہ پڑھنے والے مسلمان موت سے اس قدر کیوں ڈر رہے
ہیں… مسلمان آج اپنے دل سے موت کا ڈر نکال دیں… اور موت کی تیاری شروع کردیں تو
انشاء اﷲ بہت جلد زمین کے حالات بدل جائیں گے…مگر
شہادت
مہنگی نعمت ہے
شہادت
بہت مہنگی نعمت ہے… یہ ہر کسی کو نہیں ملتی… ماضی میں جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے وعدوں
پر یقین رکھتے تھے وہ رو رو کر شہادت مانگا کرتے تھے… اُن کے نزدیک شہادت سے محرومی
بہت بڑی محرومی تھی… وہ شہادت کے اتنے سچے طلبگار تھے کہ بستروں پر مرتے تھے مگر
مقام شہادت کا پاتے تھے… کیونکہ یہ آقا مدنیﷺ کا وعدہ ہے کہ… جو سچے دل سے شہادت
مانگے گا اﷲ تعالیٰ اُسے شہادت کا مقام عطاء فرمائیں گے، اگرچہ وہ اپنے بستر پر
مرا ہو… شہادت تو ایک’’اعزاز‘‘ ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کو عطاء فرماتے ہیں…
ہم سب مسلمانوں کو چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ سے سچے دل کے ساتھ شہادت کی دعاء مانگا کریں…
اور یہ دعاء مانگا کریں کہ یااﷲ ہمیں اپنی ملاقات کا سچا شوق عطاء فرما… اگرہم
شہادت کے طلبگار ہیں تو ہم ’’جھوٹ‘‘ سے بچیں… اور جہاد کا راستہ اختیار کریں…
شہادت مل گئی تو ہمارے تمام مسئلے حل ہو جائیںگے… اور آخرت کی تمام منازل انشاء اﷲ
آسان ہو جائیں گی… اﷲ تعالیٰ توفیق دے تو حضرات صحابہ کرامؓ کے مَردوں اور عورتوں
کے شوق شہادت کے واقعات کو پڑھتے رہا کریں…
دلچسپ
بات
جب
دل میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ہو گا… اور دل میں شہادت کی آرزو ہو گی تو پھر
کسی جن،بھوت، ڈرون، انڈیا… اور بلیک واٹر سے ڈر نہیں لگے گا… آج کل پاکستان میں
’’بلیک واٹر‘‘ کا شور ہے… کرائے کے قاتلوں کا یہ گروہ پاکستان میں قتل و غارت کے
لئے بھیجا گیا ہے… یہ بزدل چوہے شیروں کا شکار کرنے نکلے ہیں… ہم مسلمان اپنے دل میں
شہادت کا شوق بھر لیں تو ’’بلیک واٹر‘‘ کا خوف دل سے نکل جائے گا…بلکہ’’بلیک
واٹر‘‘ والے آپ کو اتنے پیارے لگیں گے کہ دل چاہے گا کہ بغیر پکائے ان کو کچّا ہی
چبا جائیں…
امن
کا راستہ
اسلام
امن و سلامتی والا دین ہے… آج دنیا میں جتنا ظلم و ستم اور قتل و غارت ہے یہ سب یہودیوں
کی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہے… یہودیوں نے صدیوں تک محنت کی اور بہت کچھ بنا لیا… اب
اُن کاخیال تھا کہ ہم پوری دنیا پر قبضہ کر لیں گے اور مسلمانوں کو ختم کر دیں گے…
چنانچہ انہوں نے جنگیں اور سازشیں شروع کیں… مسلمان الحمدﷲ آخری اُمت ہیں یہ دنیا
دراصل اُن کی ہے… وہ فوراً مقابلے پر آگئے اور اب ہر طرف جنازے ہیں اور تابوت… میں
مسلمانوں کی طرف سے یہ بات عرض کرتاہوںکہ… ساری دنیا کا کفر سو سال تک بھی لڑتا
رہے تب بھی اسلام کو ایک شوشے برابر نقصان نہیں پہنچا سکتا… ہم مسلمان تو شہادت کے
عاشق ہیں… ضرورت تو کافروں کو ہے کہ وہ کچھ دن زندہ رہ کر برگر کھالیں اور خرمستیاں
کر لیں… اس لئے’’اُبامہ‘‘ کو چاہئے کہ اپنی فوجیں عراق اور افغانستان سے نکال لے… یہودیوں
کی سرپرستی چھوڑ دے… اور مسلمانوں کو لبرل بنانے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے… تب بہت
ممکن ہے کہ… کچھ امن و امان ٹھیک ہو جائے… ورنہ توحالات کا رُخ دنیا کے اکثر حصے کی
تباہی کی طرف جارہاہے… اﷲ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ پر رحم فرمائے اور ہم سب مسلمانوں کو
اپنی ملاقات کا شوق نصیب فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
ایک
بیماری تین علاج
اﷲ
تعالیٰ بہت معاف فرمانے والا ہے… معافی کو پسند فرمانے والا ہے… بہت عطاء فرمانے
والاہے… جو مسلمان’’سخی‘‘ ہو وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت قریب ہے… اور جو ’’بخیل‘‘ اور
کنجوس ہو وہ اﷲ تعالیٰ سے دور ہے… ہم مسلمان آج کل حد سے زیادہ’’بخیل‘‘ لالچی اور
حریص ہو گئے ہیں… اسی لئے ہر’’مصیبت‘‘ نے ہمارا دروازہ دیکھ لیا ہے…عرب کے
حکمرانوں کے پاس کتنا مال ہے؟… یہ مال مسلمانوں کیکیاکام آرہا ہے؟… ایک عرب
شہزادے نے امریکہ کی ایک کمپنی میں دو سو ارب ڈالر لگا رکھے ہیں… یہ ایک شہزادے کی
صرف ایک دولت ہے… اُس کی باقی دولت اور باقی شہزادوں کے مال کا اندازہ لگا لیجئے…
ہمارے جناب پرویز مشرف صاحب نے صرف گیارہ ارب ڈالر میں پورا پاکستان بیچ دیا… اور
اب موجودہ حکمران تین ارب ڈالر میں باقی ملک کو فروخت کرنے کا سودا کر آئے ہیں…
زرداری صاحب کے اثاثوں کی مقدار ایک ارب چھ سو ملین ڈالر ہے… یہ وہ ہیں جو ’’نظر
‘‘آگئے ہیں… بے نظیر صاحبہ اور اُن کی اولاد کے اثاثے اس کے علاوہ ہیں… یہ ساری
دولت کس کے کام آرہی ہے؟… ہاں مسلمان بہت بخیل ہو چکے ہیں… ایک مکان کے بعد دوسرا
مکان، ایک گاڑی کے بعد دوسری گاڑی… چلیںیہ بھی منظور مگر بُرا اور منحوس شوق یہ ہے
کہ بہت سی دولت کو بلافائدہ دبا کر بیٹھ جاتے ہیں جو نہ زندگی بھر ان کے کسی کام
آتی ہے… اور نہ کسی اور کے… کروڑوں کے فضول اثاثے جن کا آخرت میں حساب دینا ہو
گا بینکوں، لاکروں اور خفیہ مقامات پر گلتے سڑتے رہتے ہیں… مالداروں کی زبان میں
اس کو’’پیسہ بنانا‘‘ یا ’’مال بنانا‘‘ کہتے ہیں… یعنی ایسا مال جو ہر طرح کے
اخراجات سے زائد بس فضول پڑارہے… مالدار لوگ اس ’’بے وقوفی‘‘ کو بہت بڑی ’’عقلمندی‘‘
سمجھتے ہیں… وہ بھول گئے کہ’’قارون‘‘ آج بھی اپنے مال سمیت زمین میں دھنس رہا ہے…
وہ بھول گئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس مال کو انسانوں کے فائدے کے لئے زمین پر اُتارا
ہے… اور جو لوگ مال کو مخلوق میں نہیں چلاتے وہ خزانوں کے سانپ ہوتے ہیں… اور پھر
اُن کا یہ مال بھی اُن کے لئے سانپ بن جائے گا… آج مسلمانوں کے پاس جو دولت فضول
پڑی ہوئی ہے اگر تمام مالدار اس دولت کی زکوٰۃ… یعنی چالیسواں حصہ نکال کر جہاد
اور فقراء پر خرچ کر دیں تو… اسلامی دنیا سے غلامی اور غربت ختم ہو سکتی ہے… مگر
سانپوں کوکون سمجھائے؟… وہ تو صرف تین ارب ڈالر کے بدلے سب کچھ بیچ سکتے ہیں… ہر
طرف حرص اور لالچ کی آگ بھڑک رہی ہے… ہر کسی کو’’مالدار‘‘ بننے…اور وی آئی پی
کلچر حاصل کرنے کا شوق ہے… پلاٹ، بلڈنگ، پلازے… اور پھر خستہ حال قبر… مال کی لالچ
نے پوری دنیا کو’’بیمار‘‘ کر دیا ہے… چند دن پہلے ایک قبرستان سے گزرا تولوگوں نے
قبروں پر کوڑا کرکٹ ڈالا ہوا تھا… مال جمع کرنے والے صرف پانچ منٹ بیٹھ کر سوچیں
کہ… اُن سے پہلے والے’’مالدار‘‘ اپنے ساتھ کتنا مال لے گئے… سب کچھ تو یہاں رہ گیا
اور وہ ساری زندگی حساب کتاب کا عذاب جھیل کر خالی ہاتھ قبروں میں جاگرے… مال اگر
خرچ کیا جائے تو اور زیادہ ہوتا ہے اور روک دیا جائے تو اُس کی برکت اُٹھ جاتی ہے…
آپ دیکھ لیں کہ آج کے کروڑ پتی لوگ کتنی پریشانی کی زندگی گزار رہے ہیں… طرح طرح
کی بیماریاں، گھریلو پریشانیاں اورہروقت کا ذہنی انتشار… مزے کر گئے وہ لوگ جو مال
کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں خرچ کر گئے… آج وہ مرنے کے بعد اس مال کے مزے
لوٹ رہے ہیں… اور دنیا میں بھی اﷲ پاک نے اُن کو کسی کا محتاج نہیں فرمایا… صدیق
اکبرذ نے غزوۂ تبوک میں اپنا تمام مال حتی کہ گھر کا سوئی دھاگہ بھی دے دیا… تو کیا
اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بھیک مانگنے کا محتاج کیا؟…نہیں بلکہ اُن کو اتنا دیا کہ ساری
زندگی خرچ پر خرچ کرتے چلے گئے… اور پورے جزیرۃ العرب کا مال اُن کے قدموں میں
آگرا… ہمارے حکمران آج جس طرح سے کشکول اٹھا کر بھیک مانگتے پھر رہے ہیں اُسے دیکھ
کر دل خون کے آنسو روتا ہے… امریکہ کی طرف سے’’کیری لوگر بل‘‘ آخر کیا ہے؟… مال
کے بدلے اپنی عزت کا سودا… ہم ملک سے جہاد کا نام ختم کر دیں گے ہمیں پیسے دو… ہم
ملک کے ایٹمی اثاثے تمہارے حوالے کردیں گے ہمیں پیسے دو… ہم ملک میں سے دینداری
ختم کر دیں گے ہمیں پیسے دو…’’کیری لوگربل‘‘ پاکستان کے وجود پر ایک خنجر ہے… اور
پاکستان کا وجود پہلے سے زخمی زخمی ہے…پرویز مشرف خود ایک حریص اور لالچی انسان
تھے وہ فوج کو بھی بلڈنگیں،پلازے بنانے پر لگا گئے… اور حکومت کا رخ بھی صرف اور
صرف مال کی طرف پھیر گئے… کوئی ہے جو مسلمانوں کو سمجھائے کہ لالچی اور حریص
انسان’’برائلر مرغی‘‘ کی طرح کمزور اور بے بس ہوجاتا ہے… امام شافعیپ فرماتے ہیں
کہ جس آدمی کو ہر وقت اُن چیزوں کی فکر رہتی ہو جنہیں وہ پیٹ میں ڈال سکے تو اُس
کی قدروقیمت اُس چیز کے برابر رہ جاتی ہے جو پیٹ سے نکلتی ہے… پاکستان کی خارجہ
پالیسی’’غلامانہ‘‘ اور داخلہ پالیسی ’’ظالمانہ‘‘ چلی آرہی ہے… خارجہ پالیسی کی بنیاد
تو ایک قادیانی ’’سر ظفر خان‘‘ نے رکھی… وہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ تھا اور
اُس نے اپنی باقی عمر یورپ کی نوکری میں گزاری…
پاکستان
کو بچانے کی فکر میں’’مجاہدین‘‘ کو مارنے والا’’پرویز مشرف‘‘ اپنے محبوب پاکستان
کو چھوڑ کو کیوں بھاگ گیا؟… پانچ سال تک پاکستان کو ترقی کے خواب دکھانے والا سود
خور’’شوکت عزیز‘‘ آج پاکستان آکر کیوں نہیں رہتا؟… ملّا عبدالسلام ضعیف نے اپنی’’داستان
قید‘‘ میں لکھا ہے کہ جب اُن کو پاکستان میں گرفتار کیا جارہا تھا تو ایک کالے سے
موٹے افسر نے کہا… ہم پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں… اور جب اُن کو امریکہ کے ہاتھوں
فروخت کیا گیا تب بھی یہی بتایا گیا کہ… ہم کیا کریں ہمیں اپنے ملک کو بچاناہے… ان
تمام لوگوں نے ملک کو کتنا بچالیا؟… جو بھی حکومت سے ہٹتا ہے یا نوکری سے ریٹائر
ہوتا ہے سیدھا امریکہ یا کسی اور ملک جا بستا ہے… ’’سر ظفر خان‘‘ بھی پاکستان
کا’’وزیر خارجہ‘‘ بنا رہا … اور جب نوکری سے فارغ ہوا تو’’ہیگ‘‘ میں یورپ کی ایک
عالمی عدالت کا جج بن گیا…
اُس
نے پاکستان کی’’خارجہ پالیسی‘‘ کو مکمل ’’غلامانہ‘‘ بنایا… اور پھر بعد والوں میں
سے کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس میں کچھ تبدیلی کر سکیں… پرویز مشرف کو بھی وزراتِ
خارجہ کے لئے جو شخص موزوں نظر آیا وہ’’عبدالستار‘‘ تھا… ’’بلانوش‘‘ یعنی اتنی
شراب پینے والا کہ مدہوشی طاری ہو جائے…جی ہاں غلامی تو شراب اور پیشاب پی کر ہی کی
جا سکتی ہے ورنہ مسلمان ماںکا دودھ پینے والا کوئی انسان سونے میں تُل کر بھی غلامی
گوارہ نہیں کر سکتا… ہمارے مُلک کے سفارتخانے پوری دنیا میں بدنام ہیں… ان
سفارتخانوں کی بھرتی موٹی رشوتوں اور سفارشوں سے ہوتی ہے… اور پھر لالچی انسانوں
کا یہ گروہ رشوت میں دیا ہوا پیسہ واپس لینے… اور مزید پیسہ بنانے کی فکر میں ہر
بُرائی کرتا ہے… ہر ملک کا سفارتخانہ اپنے شہریوں کی’’پناہ گاہ‘‘ ہوتا ہے… جب کہ
پاکستانی سفارتخانے پاکستانی شہریوں کو بے عزت کرتے ہیں، اُن کو فروخت کرتے ہیں…
اوراُن کے لئے اپنے دروازے بند رکھتے ہیں… آپ ’’ایران‘‘ کا ریڈیو سُن لیں پچاس فیصد
خبریں اور تبصرے پاکستان کے خلاف ہوتے ہیں… مگر پاکستان کے ریڈیو پر ایران کے خلاف
ایک لفظ بھی نہیں بولاجاسکتا… وجہ یہ ہے کہ یہ بھی غلامانہ خارجہ پالیسی کا ایک قانون
ہے… امریکی آپ کو ماں کی گالی دے سکتا ہے مگر آپ امر یکہ کے خلاف کچھ نہیں کہہ
سکتے… یہ ہماری خارجہ پالیسی ہے… فوج میں پھر بھی’’انڈیا‘‘ کے خلاف کچھ ذہن ہے
ورنہ خارجہ پالیسی کے مطابق… انڈیا بھی ہمارا بہترین دوست ہے…
دوسری
طرف مُلک کی ’’داخلہ پالیسی‘‘… ظالمانہ ہے… اس پالیسی کا پہلا اصول یہ ہے کہ
پاکستان کا دینی طبقہ’’خطرناک‘‘اور ’’مشکوک‘‘ ہے… وجہ یہ ہے کہ انگریزوں نے جاتے
وقت جو فائلیں دی تھیں ان میں لکھا ہوا تھا کہ’’سرکار‘‘ کو سب سے زیادہ خطرہ مذہبی
لوگوں سے ہے… انگریز کی فائلیں ابھی تک چل رہی ہیں… کسی وزیر داخلہ میں ہمت نہیں
کہ وہ ان میں کوئی تبدیلی کرے اور پاکستان کے دینی طبقے کو بھی پاکستان کا شہری
تسلیم کرے… اکثر وزراء داخلہ وہ گذرے ہیں جنہیں ناچنے، گانے اور شرابیں پینے سے
فرصت ہی نہیں ملتی… اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ
فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ ہمارا پاکستان میں گزارہ نہیں ہے… اور یہ ملک ہمارا نہیں
غیروں کا ہے… پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ… ان دو وزارتوں کی
پرانی فائلیں ختم کر کے ان کو اسلامی اصولوں پر مبنی پالیسی دی جائے… مگر یہ کام
کون کرے؟ پیسہ بنانے کی فکر حکمرانوں کے سروں پر سوار ہے… اسلام آباد میں ہر کام
کے’’ریٹ‘‘ مقرر ہو چکے ہیں… اور اسلام آباد کو ’’امریکہ باد‘‘ بنانے کے لئے اُن
کو دھڑا دھڑ زمینیں دی جارہی ہیں… چلیں چھوڑیں ان باتوں کو… انشاء اﷲ جہاد جس
رفتار سے ترقی کر رہاہے… اس میں بہت اُمید ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ… پوری
دنیا کے حالات انشاء اﷲ اچھائی کی طرف پھرنے والے ہیں… مجھے اور آپ کو اس وقت اِس
بات کی فکر کرنی چاہئے کہ کہیں ہمارا نفس تو لالچی اور بخیل نہیں بن گیا… کہ ہم
باہر کے پرویز مشرف پر تو تنقید کرتے رہیں جب کہ خود ہمارے اندرایک لالچی اور حریص
پرویز مشرف بیٹھا ہو… ہم روزانہ اﷲ تعالیٰ سے دعاء کیا کریں کہ وہ ہمیں بخل اور
لالچ سے بچائے
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ
اے
میرے پروردگار مجھے بخل اور بزدلی سے اپنی پناہ عطاء فرمائیے۔
تفسیر
قرطبی میں ہے کہ حضور پاکﷺ یہ دعاء مانگا کرتے تھے
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شُحِّ نَفْسِیْ وَاِسْرَافِھَا وَوَسَاوِسِھَا
یا
اﷲ میں آپ کی پناہ چاہتاہوں اپنے نفس کی لالچ سے اور اُس کے اسراف اور وساوس سے…
ایک تابعی بزرگ حضرت ابو الھیاج اسدی پ فرماتے ہیں کہ میں نے طواف کے دوران ایک
شخص کو دیکھا کہ وہ صرف ایک ہی دعاء مانگ رہے ہیں
اَللّٰھُمَّ
قِنِی شُحَّ نَفْسِیْ
(یا اﷲ مجھے میرے
نفس کے لالچ سے بچا لیجئے)
میں
نے وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا!… اگر میں نفس کے لالچ سے بچ گیا تو نہ چوری کروں
گا، نہ بدکاری کروں گا اور نہ کوئی اور گناہ… بعد میںمعلوم ہوا کہ وہ شخص جو طواف
میں صرف یہی ایک دعاء مانگ رہے تھے مشہورصحابی عبدالرحمن بن عوف ذ تھے… جن کے لئے
حضور اکرمﷺ نے واضح الفاظ میں’’جنت‘‘ کی بشارت دی ہے… حضرت ابو ہریرہ ذ سے روایت
ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا!
’’کسی بندے کے پیٹ
میںجہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتے اور کسی بندے کے دل میں
لالچ اور ایمان کبھی جمع نہیں ہو سکتے‘‘(سنن نسائی از فتح الجواد، جلد ۴)
ان
روایات کو پڑھنے کے بعد کیا خیال ہے؟… ہمیںچاہئے کہ یہ روایات پڑھتے ہی
کچھ’’مال‘‘چپکے سے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں دے دیں… یا کسی حاجت مند کو دے دیں… اور
دیں اس طرح کہ کسی کو بھی خبر نہ ہو… اور نیت یہ کریں کہ یااﷲ صرف آپ کی رضا کے
لئے دے رہا ہوں اسے میرے لئے آخرت کا ذخیرہ بنا دیجئے… مال دینے کے بعد فوراً…
الحمدﷲ پڑھ کر مالک الملک کا شکر ادا کریں کہ… یا اﷲ کیسی زبردست کریمی فرمائی کہ
مجھ نالائق سے مال قبول فرمالیا… الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ… یا اﷲ مجھے اور بھی توفیق
عطاء فرما… اور پھر اس مال کے دنیا میں کسی بھی بدلے کی خواہش دل میںنہ لائیں بلکہ
اُسے آخرت کے لئے محفوظ رکھیں… یہ تو ہوا پہلاکام… اور دوسرا کام یہ ہے کہ رسول اﷲﷺ
کی وہ احادیث مبارکہ پڑھیں جو مال اور دنیا کی محبت ختم کرنے والی ہیں… ممکن ہے کہ
آپ کو اس موضوع کی چند مبارک احادیث القلم کے اسی شمارے میں مل جائیں… ورنہ ریاض
الصالحین یا معارف الحدیث میں ضرور پڑھ لیں… اور تیسرا کام یہ ہے کہ آج کے کالم میں
جو تین دعائیں بیان ہوئی ہیں ان کو نہایت اہتمام سے معمول بنا لیں…خصوصاً نفل نماز
کے سجدے میں گڑ گڑا کر یہ دعائیں مانگنا انشاء اﷲ بہت مفید ہو گا…
اﷲ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو معاف فرمائے… اور مجھے اور آپ سب کو بخل، حرص، لالچ
اور حُبِّ دنیا سے بچائے…
آمین
یا ارحم الرحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراکثیرا کثیرا
غلامی
نامہ مسترد
اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت تاثیر رکھی ہے… قرآنِ مجید بہت ہی اونچی کتاب ہے… یہ
کلام اللہ ہے یعنی خود اللہ جلّ شانہ کاعظیم کلام… مکہ کے مشرک جو ضد کی وجہ سے ایمان
نہیں لا رہے تھے چھپ چھپ کر قرآن مجید سنتے تھے… نضر بن حارث، عتبہ بن ربیع اور
ابوجہل یہ سب بڑے فصیح وبلیغ اور جادوبیان تھے… مگر جب رات کو چھپ کر آتے اور
رسول اللہﷺ کی تلاوت سنتے تو اُن کے ہوش اُڑ جاتے… جنات کے لشکر آسمانوں پر اُڑ
رہے تھے… انہوں نے تلاوت کی آواز سنی تو زمین پر اُتر آئے… اور قرآن پاک سُن کر
ایمان لے آئے… عمر بن خطاب اپنے گھر سے تلوار لے کر نورنبوت کو بجھانے کے لئے
نکلے مگر قرآن پاک کی چند آیتیں سن کر… خود اس نور سے منور ہوکر فاروق اعظم ذبن
گئے… اور بعد میں بھی یہ حالت رہی کہ ایک بار کسی نے آپ ذکے سامنے یہ آیت پڑھی
ِانَّ
عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ، مَالَہٗ مِنْ دَافِعٍ
ترجمہ:
بے شک آپ کے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے کوئی اِس کو ٹالنے والا نہیں…
حضرت
عمر رضی ذ نے یہ سن کر ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑے… لوگ آپ کو اُٹھا کر
آپ کے گھر لے گئے اور آپ اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے ایک مہینہ تک بیمار پڑے
رہے… وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہوچکا ہے… رات بی بی سی پر خبریں سنیں تو فوج
والے مقامی طالبان کو اور مقامی طالبان فوج والوں کو مارنے کے دعوے کررہے تھے…
مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگا… دل میں درد کی ٹیسیں اُٹھ رہی ہیں اور دماغ مسلسل
جھٹکے کھا رہا ہے… امریکہ کا شاطر سینیٹر ’’جان کیری‘‘ پاکستان آیا ہوا ہے… یہ
انڈین لابی کا شرارتی شخص ہے… ہمارے وزیرخارجہ صاحب کی اس سے گہری دوستی ہے…
پاکستان کو برباد اور تباہ کرنے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ ’’کیری لوگر بل‘‘ کے ذریعہ
پوری کی جارہی ہے… آج اخبار بھی خریدا اس میں لاشوں کی تصویریں… اور مدارس پر
چھاپوں کے فوٹو تھے… اسلام آباد کے معروف دینی ادارے ’’جامعہ محمدیہ‘‘ میں پولیس
والے گھس رہے تھے… پولیس والوں کو نماز کا کہو تو کہتے ہیں کپڑے خراب ہیں لیکن جب
چھاپے کا حکم ملے تو بوٹوں سمیت مسجدوں اور مدرسوں میں گھس جاتے ہیں… وزیر داخلہ
صاحب کے بیانات بھی تھے… کافی مایوس کن اور تکلیف دہ… کچھ کالم بھی تھے کیری
لوگربل کیخلاف… اور کچھ کالم حکومت کو مزید سختی کرنے پر اُکسا رہے تھے… ڈاکٹر
عائشہ صدیقہ کا کالم تھا… پڑھ کر اندازہ ہوا کہ محترمہ کو نہ قبر یاد ہے نہ آخرت…
نہ اُن کو اپنے دین سے کچھ غرض ہے اور نہ اپنے تاریخی ورثے سے… غم اور افسوس کی اسی
حالت میں وضو کرکے ’’داتا دربار‘‘ آ بیٹھا… جی ہاں حضرت شیخ علی بن عثمان ہجویری
پ کی صحبت میں بیٹھا ہوا ہوں… لاہور والے اُن کو ’’داتا‘‘ کہتے ہیں… یعنی دینے
والا … شاید یہ لفظ انہوں نے ہندوئوں کے لفظ ’’دیوتا‘‘ سے اُدھار لیا ہے… مجھے
حضرت کے مزار پر حاضری کا کبھی اتفاق نہیں ہوا… مگر اُن کے ساتھ دوستی بہت قریب کی
ہے… اُن کی بلند پایہ تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میرے پاس موجود ہے… اور اس کے ذریعے
اُن کی صحبت میں جا بیٹھتا ہوں… آج بہت غم کی حالت میں آکر ’’کشف المحجوب‘‘
اُٹھائی… غم تو کیا تھوڑی دیر میں تو خود کو بھی بھول گیا… حضرت پ آج قرآن پاک
پڑھنے اور سننے کے فضائل بیان فرما رہے ہیں… میں وہی پڑھنے میں مگن تھا یاد آیا
کہ ’’رنگ ونور‘‘ لکھنے کا وقت ہے… اس لئے آج آپ سب کو بھی اس محفل میں شریک کرلیا
ہے… کالم کے شروع میں قرآن پاک کے بارے میں جو باتیں عرض کی ہیں وہ اکثر حضرت شیخ
پ کی کتاب میں موجود ہیں… اب میرے دل سے غم اور صدمہ کچھ ہلکا ہو رہا ہے… حضرت شیخپ
نے گویا یہ اشارہ دیا ہے کہ… مسئلے کا حل ’’قرآن مجید‘‘ ہے… مجھے یاد ہے کہ آج
سے آٹھ سال پہلے پاکستان کے اخبارات میں کسی اللہ کے بندے نے ایک اشتہار دیا تھا…
اس میں پاکستان کی افواج کو کہا گیا تھا کہ آپ لوگ سورۃ احزاب اور سورۃ الفتح کو
خوب سمجھ کر تلاوت کریں ورنہ آپ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے… یہ
اشتہار کسی خواب کی بنیاد پر تھا… یقینی بات ہے کہ کسی نے توجہ نہیں کی ہوگی… اُس
وقت پاکستان میں فوج کی بہت قدر تھی… میں دیکھتا تھا کہ فوجیوں کے لمبے لمبے قافلے
امن کے ساتھ سفر کرتے تھے اورفوجی جوان اپنے ٹرکوں پر سوتے نظر آتے تھے… اگر
قرآن پاک سے رہنمائی لینے کی توفیق ملتی تو وہ امن قائم رہتا… مگر قرآن پاک سے
قسمت والے لوگ ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں… کوئی ہے جو پاکستان کے موجودہ حکمرانوںکو
قرآن پاک سنا اور سمجھا سکے؟ ظالم انگریز نے نظام تعلیم ہی ایسا دیا کہ ’’قرآن
پاک‘‘ سے محرومی رہے… اور جو لوگ تھوڑا بہت قرآن پاک کی طرف متوجہ ہوں تو اُن کے
لئے …ڈاکٹر جاوید غامدی جیسے پردہ پوش ڈاکو بیٹھے ہیں… قرآن پاک تو لمحوں میں دل
کی حالت بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا نور دل میں بٹھا دیتا ہے… حضرت
ہجویری پ فرماتے ہیں… ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک بار میں قرآن پاک کی تلاوت کررہا
تھا:
وَاتَّقُوْایَوْمًا
تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ
ترجمہ:
اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جائو گے…
اچانک
ایک غیبی آواز آئی کہ آہستہ پڑھو… اس آیت مبارکہ کی ہیبت سے چار ’’جنات‘‘ مر
چکے ہیں…
ہمارے
حکمران تو قرآن پاک سننا ہی نہیں چاہتے… سابقہ حکومت کے وزیرداخلہ معین الدین حیدر
سے میں نے ایک مجلس میں کہا تھا… آپ وقت نکالیں میں آپ کو قرآن مجید کی آیات
جہاد سناتا ہوں اس کے بعد آپ فیصلہ کریں کہ جہاد کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا
ہونا چاہئے… مگر اُن کوتوفیق نہ ملی بلکہ مزید دشمنی پر اُتر آئے… وہ قرآن پاک
کا علم رکھنے والوں کو ’’قاعدہ پڑھانے والے جاہل‘‘ کہا کرتے تھے…
ایک
اور فوجی جرنیل سے بندہ نے کہا کہ … اگر آپ کو قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا اور نہ
آپ اس کے احکامات کو سمجھتے ہیں تو اس زندگی اور ان عہدوں کا کیا فائدہ؟… انہوں
نے کچھ اثر لیا اور کہنے لگے ریٹائرمنٹ کے بعد میں ضرور قرآن پاک پڑھوں گا… رات
بھی بی بی سی پر ایک ریٹائر جنرل صاحب وزیرستان آپریشن کی مخالفت کر رہے تھے… کاش
حاضر ڈیوٹی آرمی چیف کو بھی قرآن پاک سے رہنمائی لینے کی توفیق مل جائے… قرآن
پاک میں ’’کیری لوگر بل‘‘ کے بارے میں پیشگی احکامات موجود ہیں… مگر جن لوگوں نے
بزرگوں کے مزاروں سے نذر نیاز ہی کمانی ہو اُن کو کیا فرق پڑتا ہے کہ ملک غلام ہو یا
آزاد… جب انگریز کی حکومت تھی تب بھی مزاروں پر قوالیاں آزاد تھیں اور آج بھی
آزاد ہیں… ہندوستان میں بھی مزاروں پر کوئی پابندی نہیں… بلکہ کافروں کی تو یہی
خواہش ہے کہ تمام مسلمان قرآن پاک کو چھوڑ کر مزاروں کا رُخ کریں… اور اللہ تعالیٰ
کو چھوڑ کر قبروں کو سجدے کریں… ملک کے موجودہ حکمرانوں کی اکثریت وہی ہے جن کو کسی
غلامی یا آزادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا… اس لئے وہ بار بار کہتے ہیں کہ ’’کیری
لوگر بل‘‘ کی مخالفت کرنے والے احمق ہیں… ہمیں مفت میں سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر مل
رہے ہیں… حضرت ہجویریؒ فرماتے ہیں… اللہ تعالیٰ
نے اُن لوگوں کو ملامت فرمائی ہے جو قرآن پاک کو اس طرح سے نہیں سنتے جس
طرح اُس کو سننے کا حق ہے… یعنی کانوں سے سن کر دل تک نہیں پہنچاتے… اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے
خَتَمَ
اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ وَعَلیٰ سَمْعِہِمْ وَعَلیٰ اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مُہر لگادی ہے اور ان کے دلوں پر
پردہ ہے…
اور
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جہنم والے کہیں گے
لَوْکُنَّا
نَسْمَعُ اَوْنَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ اَصْحَابِ السَّعِیْرِ
ترجمہ:
اگر ہم حق کے ساتھ قرآن پاک کو سنتے اور سمجھتے تو ہم جہنم والوں میں نہ ہوتے…
اور
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ظاہری طور پر قرآن پاک سنتے ہیں لیکن اُن کے دلوں
پر پردہ… اور کانوں میں بہرہ پن ہوتا ہے پس وہ بالکل اس کا اثر نہیں لیتے… اللہ
پاک کا فرمان ہے
وَمِنْہُمْ
مَنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہٗ
وَفِیْ اَذَا نِہِمْ وَقْرًا
ترجمہ:
اور ان میںسے بعض آپ کی طرف توجہ سے سنتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال
رکھا ہے کہ وہ اسے سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے …
’’کیری لوگر
بل‘‘ جیسے غلامی نامے‘‘ کی وکالت کرنے والوں کو چاہئے وصیت کر جائیں کہ …اُن کے
مرنے کے بعد اُن کی روح کے لئے ’’کیری لوگر بل‘‘ پڑھا جائے… قرآن پاک کا ایصال
ثواب تو اُسی کو فائدہ دے سکتا ہے جو قرآن پاک کو مانتا ہو…
کچھ
عرصہ پہلے میں ایک مرحوم قاری صاحب کے حالاتِ زندگی پڑھ رہا تھا… وہ قومی اسمبلی
کے اجلاس میں صدر کی تقریر سے پہلے تلاوت اور اس کا ترجمہ پیش کرتے تھے… وہ فرماتے
ہیں کہ بعض آیات اور ان کے ترجمے سے ملک کے حکمران کافی سیخ پا اور غصے ہوتے تھے
اور کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) یہ آیات سخت ہیں آپ کوئی اور پڑھا کریں…
ہے
کوئی علاج ایسے بددماغ اور محروم لوگوں کا؟… افغانستان میں سوویت یونین کیخلاف
جہاد ہوا تو اہل پاکستان نے خوب تعاون کیا… اس نیکی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے
پاکستان کو چار نعمتیں عطاء فرمائیں …
(۱) افغانستان
کے طالبان (جو پاکستان کا مضبوط دفاع تھے)
(۲) جہاد
کشمیر
(۳)ایٹم
بم
(۴) مضبوط
فوج
دشمنوں
نے فیصلہ کیاکہ یہ چاروں چیزیں پاکستان سے کھینچ لی جائیں… صدر مشرف کے ذریعے
’’طالبان‘‘ پرحملہ کر کے اُن کی حکومت ختم کی گئی… پرویز مشرف نے تقریر میں کہا کہ
ہم نے طالبان کیخلاف امریکہ کا تعاون اپنے ایٹمی اثاثوں اور جہاد کشمیر کو بچانے کیلئے
کیا ہے… پہلی نعمت تو اس طرح سے چھن گئی… اور افغانستان ہمارے دشمنوں کا اڈا بن گیا…آخر
ایک کھنڈر ملک میں انڈیا کو اپنے سترہ سفارتخانے کھولنے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟…
پھر دشمنوں کا ہاتھ جہاد کشمیر کی طرف بڑھا… پرویز مشرف نے کہا میں نے کشمیر کو کیاکرنا
ہے میرے لئے تو پاکستان سب کچھ ہے… انڈیا کو بارڈر پر باڑ لگانے دی گئی اور جہادی
تنظیموں کیخلاف وسیع کریک ڈائون ہوا… اور اب ’’کیری لوگربل‘‘ کے ذریعے پاکستان کے
ایٹمی اثاثے ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے…اور فوج کو ختم کرنے کیلئے اس بل میں یہ شرط
لگا دی گئی ہے کہ پاکستان سے ’’جہادی کلچر‘‘ کا خاتمہ کیا جائے… فوج جب اپنے لوگوں
سے لڑے گی تو بالآخر ختم ہو جائے گی یا بہت کمزور ہوجائے گی… اس لئے کہ ’’ظلم‘‘
کسی مسلمان کو ہضم نہیں ہوتا…حضرت شیخ ہجویری پ آج کی مجلس میں ہم سب کو قرآن
پاک کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے رہے ہیں… ہمیں چاہئے کہ خوب توجہ سے تلاوت کرکے…
وزیرستان آپریشن اور اسی طرح کے دیگر آپریشن بند ہونے کی دعا ء کریں… قرآن پاک
کی برکت سے انشاء اللہ دعاء قبول ہو گی… پاکستان آرمی اور مقامی طالبان کو چاہئے
کہ قرآن پاک سے رہنمائی لیں اور پہلے کی طرح آپس میں امن اور صلح کا معاہدہ کرلیں…
اور ہم سب مسلمانوں کو چاہئے کہ… روزانہ قرآن پڑھیں… قرآن پاک پڑھنا سیکھیں،
قرآن کو سمجھیں،قرآن پاک سے رہنمائی لیں… اور قرآن پاک پر عمل کی اللہ تعالیٰ
سے توفیق مانگیں… اورختم قرآن کے موقع پر جو دعاء پڑھی جاتی ہے اُسے اپنی روزانہ
کی دعائوں میں شامل کرلیں… بے شک ہم قرآن پاک کے محتاج ہیں
اَللّٰھُمَّ
اٰنِسْ وَحْشَتِیْ فِیْ قَبْرِیْ اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِیْ بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ
وَاجْعَلْہٗ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً
اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنِیْ مِنْہٗ مَانَسِیْتُ وَعَلِّمْنِیْ
مِنْہٗ مَا جَھِلْتُ وَارْزُقْنِیْ تِلَاوَتَہٗ اٰنَائَ اللَّیْلِ وَاٰنَائَ
النَّہَارِ وَاجْعَلْہٗ لِیْ حُجَّۃً یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اللہ تعالیٰ علیٰ خیرخلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا۔
آسان
راستہ
اﷲ
تعالیٰ کبھی بھی اس زمین کو اپنے ’’دوستوں‘‘ سے خالی نہیں فرماتے… ہر زمانے میں اﷲ
تعالیٰ کے ’’اولیاء‘‘ موجود رہتے ہیں… اور وہ حضرات انبیاء دکے طریقے پرہوتے ہیں…
اﷲ تعالیٰ کے ’’اولیاء‘‘ کی بڑی علامت یہ ہے کہ وہ’’ارکانِ اسلام‘‘ …یعنی اسلام کے
فرائض کا بہت اہتمام کرتے ہیں… اور’’عبادت‘‘ میں بہت محنت کرتے ہیں…
عبادت
کاچھوڑنا گمراہی ہے
تبع
تابعین میںایک بڑے بزرگ گزرے ہیں… اُن کانام تھا حضرت یحییٰ بن معاذ الرازی… پ… وہ
بہت عبادت گزار اور اونچے حال والے ولی تھے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی بہت ’’مضبوط
امید‘‘ رکھتے تھے… اُن سے کسی نے پوچھا! آپ ایک طرف تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے’’امیدوار‘‘
ہیں دوسری طرف آپ کا عمل ایسا ہے کہ جیسے آپ اﷲ تعالیٰ کے سخت’’ خوف‘‘ میں مبتلا
ہوں؟… حضرت یحییٰ پنے جواب دیا!
’’اے بیٹے!
عبادت کا چھوڑدینا گمراہی ہے، خوف اور امید دونوں ایمان کے دوست ہیں، جب تک عبادت
نہ ہو اس وقت تک نہ خوفِ الہٰی درست ہو سکتا ہے اور نہ اُمید،لیکن جب عبادت کا
درجہ حاصل ہو جائے تو خوف اور امید سب عبادت بن جاتے ہیں‘‘
یعنی
عبادت کرنے والا شخص اگر اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہو تو یہ امید بھی… مستقل
عبادت بن جاتی ہے… اور اگر وہ اﷲتعالیٰ کے عذاب سے خوف رکھتا ہو تو اُس کا یہ خوف
بھی عبادت ہے…
معمولات
کیوں چھوٹ جاتے ہیں
میرے
پاس آنے والے اکثر خطوط میں لکھا ہوتا ہے کہ… معمولات میں سستی ہو رہی ہے… یا
معمولات چھوٹ گئے ہیں؟… عجیب بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ’’عبادت‘‘ کے لئے پیدا
فرمایا… اورہم سے تھوڑی سی عبادت بھی نہیںہوتی… ہمارے معمولات تو بہت تھوڑے ہیں…
اگر یہ بھی نہیں ہوتے تو پھر زندگی کا کیا فائدہ ہے؟… زندگی کا سارا مزہ ’’عبادت‘‘
میں ہے… اگر عبادت نہیں کرتے تو پھر کیا کرتے ہیں؟… غیبت؟… وہ تو کبیرہ گناہ ہے…
فضول باتیں؟… وہ تو انسان کو ذلیل کر دیتی ہیں… گناہ؟ وہ تو انسان کو برباد کردیتے
ہیں…
اﷲ
کے بندو! ہم سب کو وہ کام کرناچا ہئے جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں اور وہ کام ہے
عبادت… اور عبادت کا معنیٰ ہے’’غلامی‘‘… اور غلام کا کام ہے اپنے مالک کے بتائے
ہوئے کاموں میںلگے رہنا… اور اُن سے کبھی غافل نہ ہونا…
دل
لگے یا نہ لگے
کچھ
لوگ کہتے ہیں کہ تلاوت، نماز اور ذکر میں دل نہیںلگتا… اس لئے ہم نے چھوڑدیا … بعض
لوگ کہتے ہیں کہ معمولات میں پہلے مزہ آتاتھا اب نہیں آتا… اس لئے ہم سے سستی ہو
جاتی ہے… ارے اﷲ کے بندو! مزہ آئے یا نہ آئے دل لگے یا نہ لگے خود کو باندھ کر
فرائض، باجماعت نماز اور معمولات کا پابند بناؤ…باقی تمام باتیں شیطان کا دھوکہ ہیں…
عبادت مزے کے لئے نہیں کی جاتی بلکہ اﷲ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کی جاتی ہے… اس میں
ظاہری مزہ آجائے تب بھی ٹھیک نہ آئے تب بھی ٹھیک… کوئی ملازم اپنے افسر سے کہے
کہ دفتر میں دل نہیںلگتا اس لئے میں نہیں آؤں گا… ایسے ملازم کو ملازمت سے نکال
دیا جاتا ہے… کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں بھی بندگی اور عبادت سے نکال دیا جائے اور
ہم (نعوذ باﷲ) شیطان کے ملازم بن جائیں… اس لئے آج سے ہی تمام فرائض اور تمام
معمولات مکمل کرنے کا عزم کر لیں… جب تک معمولات پورے نہ ہوں نیند نہ کریں اور نہ
ہی کسی دوسرے کام میں مشغول ہوں… وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور قبر منہ پھاڑ کرقریب
آرہی ہے…
ایک
عجیب بات
اکثر
خطوط میں لکھا ہوتا ہے کہ ایک ہزار بار ’’اﷲ اﷲ‘‘ کے معمول میں سستی ہوتی ہے… یعنی
اﷲ کے بندے اور اﷲ کی بندیاں… اﷲ تعالیٰ کا نام پکارنے میں سست… اناﷲ وانا الیہ
راجعون… اﷲ تعالیٰ کا نام نہیں لیں گے تو پھر کس کا نام لیں گے؟… اﷲ تعالیٰ کا نام
نہیں لیں گے تو دل اور روح کو غذا کہاں سے ملے گی؟… ’’اﷲ اﷲ‘‘ کا ذکر توتمام اذکار
کا بادشاہ ہے… اس کو کبھی نہ چھوڑیں… سات آٹھ منٹ کا یہ ذکر ہمیں لاکھوں فتنوں
اور گناہوں سے بچاتا ہے… آپ ایسا کریں کہ تلاوت کے بعد معمولات میں سب سے پہلے اسی
کا اہتمام کریں…آغاز’’اﷲ اﷲ‘‘ سے ہوگا تو آگے باقی معمولات بھی آسان ہو جائیں
گے انشاء اﷲ…
عجیب
فائدہ
ابھی
قریب زمانے میں ایک بزرگ گزرے ہیں… بہت بلند پایہ عالم، بہترین مدرس اور مقبول
مصنف… میں نے اُن کے حالاتِ زندگی پڑھے تو حیران رہ گیا کہ صرف تریسٹھ سال کی عمر
میں وہ اتنا کام کیسے کر گئے؟… انہوں نے جتنی کتابیں لکھیں ہیں اگر کوئی اُن کو
نقل کرنے بیٹھے توپچاس سال گزر جائیں… میں نے اُن کے صاحبزادے سے پوچھا کہ حضرت کے
وقت میں اتنی برکت کیسے ہوئی؟… انہوں نے جواب دیا کہ’’اﷲ اﷲ‘‘ کے ورد کی برکت سے
اُن کے وقت اور زندگی میں اﷲ تعالیٰ نے برکت ڈال دی… بے شک درست فرمایا…
حضرت
مولانا فقیر محمد پشاوری پ روزانہ تیس ہزار بار ’’اﷲ اﷲ‘‘ کا ورد کرتے تھے… اﷲ پاک
ہمیں بھی نصیب فرمائے…
یہی
تو اصل وقت ہوتا ہے
بعض
ساتھیوں نے لکھا ہے کہ… ہم اگر عبادت اور معمولات زیادہ کریں تو دل بے چین ہوجاتا
ہے… طبیعت بہت گھبراتی ہے… اور گناہوں کے خیالات زیادہ آتے ہیں… پھر اگر عبادت کم
کردیں تو طبیعت ٹھیک ہو جاتی ہے… یہ کیفیت بہت سی خواتین اور مرد حضرات لکھتے ہیں…
اﷲ کے بندو! یہی تو عبادت کا اصل وقت ہوتا ہے… انسان جب بھی کچھ پانے لگتا ہے… تو
شیطان اس پر حملے کرتا ہے تاکہ انسان محروم ہو جائے… آپ جب شہد کے چھتے کے قریب
جائیں گے تبھی مکھیاں آپ پر حملہ کریں گی… پھر جو مقابلہ کر کے آگے بڑھے گا وہ
’’شہد‘‘ کوپالے گا… اور جو بھاگ جائے گا وہ وقتی آرام تو محسوس کرے گا مگر’’شہد‘‘
سے محروم رہے گا… جب دل پر بے چینی کا حملہ ہو اور گناہوں کے لشکر جمع ہو کر حملہ
کر دیں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ ملنے والا
ہوتا ہے… ایسے وقت میں نہایت ہمت اور حکمت سے عبادت کو جاری رکھنا چاہئے… اور اﷲ
تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری کو بڑھا دینا چاہئے… یہ کافی مشکل ہوتا ہے…لیکن اونچی
نعمتیں پانے کے لئے مشکلات کو برداشت کرنا پڑتا ہے… جب بھی دل پر شیطانی گناہوں کا
حملہ ہو تو اﷲ تعالیٰ سے عرض کریں یا اﷲ ! آپ کے بندے اور غلام پر حملہ ہو گیا ہے
حفاظت فرما دیں… اور اگر گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کے لئے پہنچ جائیں کہ یا اﷲ
پھر ظلم ہو گیا رحمت کا امیدوار ہوں… یہ مقابلہ چند دن جاری رہتا ہے… جو گرگر کر
اٹھتا اور سنبھلتا ہے وہی بڑی نعمت پالیتاہے… اور جو گر کر مایوس ہو جاتا ہے وہ
مقابلہ ہار جاتا ہے… یہ شیطان اور نفس کے ساتھ باکسنگ کا مقابلہ ہے… اس میں حملہ
بھی کرنا ہوتاہے اور دفاع بھی… عبادت حملہ ہے اور استغفار دفاع… اور مایوس ہوجانا
ناک آؤٹ ہونے کی طرح ہے… اﷲ تعالیٰ میری اور آپ کی مدد فرمائے… اس وقت ملکی
حالات کافی مایوس کن… اور خوفناک ہیں… ہمیں ان حالات میں خود کو مایوسی سے بچانے
کے لئے دعاء اور محنت سے کام لینا چاہئے… آپریشن چلتے رہتے ہیں… خوفناک بیانات
آتے رہتے ہیں… چھاپے پڑتے رہتے ہیں… مکڑیاں اپنا جال بُنتی رہتی ہیں… گیدڑ اور
کتے شور مچاتے رہتے ہیں… چوہے انسانوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں… مگر حق، حق ہے… اور
حق نے بلند ہونا ہے… کیونکہ اﷲ تعالیٰ موجود ہے، اﷲ تعالیٰ ایک ہے اور اﷲ تعالیٰ
ہر چیز پر قادر ہے…
آسان
راستہ
اﷲ
تعالیٰ کی عبادت کا راستہ آسان ہے… جبکہ شیطان کی غلامی کرنا بہت مشکل ہے… شیطان
اپنے ’’غلاموں‘‘ پر گدھے سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے… کمپیوٹر اور فون پر گناہ کرنے
والے اپنی نیند تک پوری نہیں کر سکتے، شیطان چھوڑتا ہی نہیں… ناجائز عشق بازی کرنے
والے آپس میں باتیں کرنے، ایک دوسرے کو دیکھنے… اور ملنے کے لئے کتنی مصیبتیں اور
تکلیفیں برداشت کرتے ہیں؟… شیطان ایک ایک چیز کے لئے ترساتا ہے… پہلے گناہ
کرواتاہے، پھر گناہ کو چھپانے کی محنت میں ڈالتا ہے… اورپھر زندگی بھر بدنامی سے
ڈرا ڈرا کر اور گناہ کرواتا ہے… مال کی محبت والوں کو شیطان مال کی خاطر کتنا رسوا
کرتاہے؟… یہ بہت لمبا موضوع ہے آپ خود تھوڑا سا غور کرلیں کہ…شیطان کی غلامی کرنا
کتنا مشکل کام ہے… پہلے سگریٹ، پھر چرس پھر ہیروئن… مگر شیطان کسی پر بھی دل کو
مطمئن نہیں ہونے دیتا… تب لوگ سپرٹ پیتے ہیں، بوٹ پالش کھاتے ہیں اور قبرستان سے
مردوں کی کھوپڑیاں نکال کر ان میں نشہ کرتے ہیں… مگر شیطان اُس وقت تک نہیں چھوڑتا
جب تک مار نہ دے… بازار میں جا کر حرام مال کمانے والوں کو دیکھ لیں… شیطان کے حکم
پر عیاشیاں کرنے والوں کو دیکھ لیں… یا اﷲ رحم فرما اور ہمیں شیطان کی بندگی سے
بچا… جبکہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت بہت آسان اور شاندار ہے… کسی فدائی مجاہد کو
کارروائی سے چند دن پہلے تہجد پڑھتا دیکھ لیں…
نماز
آسان، روزہ لذیذ… اورنکاح میں سکون…وضو نہیں ہے تب بھی’’اﷲ اﷲ‘‘ کہنے کی اجازت
ہے… آپ خود عبادات پر غور کریں… ان میں آسانی ہے، نور ہے، صحت ہے، سکون ہے… اور
زندگی ہے… پھر کیوں نہ شیطان سے ہاتھ چھڑا کر ہم اﷲ تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑیں… کیا یہ
مشکل ہے؟… اگرمشکل ہے تو ایک کام کر لیں… اچھی طرح وضو کر کے صرف دو رکعت نماز ادا
کر کے اﷲ تعالیٰ سے مانگ لیں … یا اﷲ مجھے اپنا مؤمن اور مخلص بندہ بنا … مجھے
اپنی مقبول عبادت کی توفیق عطاء فرما… اور مجھے شیطان کی غلامی اور بندگی سے بچا…
اورہم
سب سورۃ یٰس شریف کی ان آیات پر غورکریں… جب قیامت کے دن مجرموں سے کہا جائے گا…
وَامْتَازُوْا
الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ ہ اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ آدَمَ
اَلَّا تَعْبُدُوْاالشَّیْطٰنَ اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّامُبِیْنٌ ہ وَاَنِ
اعْبُدُوْنِیْ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ہ وَلَقَدْاَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا
کَثِیْرًا اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ ہ (یس ۵۹ تا
۶۲)
ترجمہ:’’اے
مجرمو! آج الگ ہو جاؤ ۔ اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کر دی تھی
کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے اور یہ کہ(صرف) میری
عبادت کرنا یہ سیدھا راستہ ہے۔ اور یقینا اُس شیطان نے تم میں سے بہت سے لوگوں کو
گمراہ کیاتھا کیاپس تم نہیں سمجھتے‘‘…
ہمارے
شیخ حضرت ہجویری س فرماتے ہیں:
اﷲ
تعالیٰ زمین کو کسی دور میں محبت کے بغیر نہیں چھوڑتے اور اس اُمت کو ہر گز اپنے
اولیاء(یعنی دوستوں) سے خالی نہیں فرماتے…(کشف المحجوب)
بے
شک اﷲ تعالیٰ کی’’محبت‘‘ ہر دور میں برستی رہتی ہے… اور اﷲ تعالیٰ کے دوست اولیاء
کرام ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں…یا اﷲ اپنا فضل فرما کر ہم پر محبت کی نظر فرما…
اور اے کریم ہمیں بھی اپنے دوستوں میں شامل فرما…آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اللہ تعالیٰ علیٰ خیرخلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا۔
٭…٭…٭
اندھیرا
نہیں چراغ ڈھونڈو
اﷲ
تعالیٰ رحم فرمائے…پاکستان میں بہت خون بہہ چکا ہے… اور ابھی مزید بہہ رہا
ہے…پشاور کی’’پیپل منڈی‘‘ کا دھماکہ بہت خوفناک تھا… ایک مسجد، کئی طلبہ، ڈیڑھ سو
کے لگ بھگ افراد شہید ہوگئے… خبریںآرہی ہیں کہ چار دن سے بازار کی مسجد ملبے کے نیچے
خود ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے…اس میںسے قرآن پاک پڑھنے والے دس طلبہ کی لاشیں ابھی
تک نہیں نکالی جا سکیں… اب نہ وہاں اذان ہے اور نہ نماز… جبکہ پشاور کے تقریباً ہر
محلے میں جنازے ہیں اور ہر گلی میں آہ و پکار… ہندوستان نے افغان حکومت کی مدد سے
ظلم کا یہ بازار گرمایا ہے… اُس کا مقصد مسلمانوں کو مارنا ، پاکستان کو کمزور
کرنا… اور جنوبی وزیرستان میں جاری آپریشن پر پٹرول چھڑکنا ہے… تاکہ پاکستان کے
مسلمان آپس میں اور زیادہ لڑیں، اور زیادہ ایک دوسرے کو قتل کریں… صوبہ سرحد میںاے
این پی کی حکومت ہے… یہ حضرات انڈیا کے پُرانے یار ہیں… ماضی میں پاکستان توڑنے کی
باتیں کرتے تھے اور امریکہ کے خلاف بہت گرجتے تھے… مگراب وہ امریکہ کے دوست ہیں
اور دیندار طبقے کے مرنے پر لطف اندوز ہورہے ہیں… ہیلری کلنٹن’’کھپرے سانپ‘‘ کی
طرح پاکستان کا چکر کاٹ گئی ہے… ہر جگہ ایک ہی بات کرتی رہی کہ ہم امداددیں گے تم مسلمانوں
کو مارو… حالات کافی تشویشناک ہیں… مگر ہمیں انہی حالات میں سے اُمید کے چراغ تلاش
کرنے ہیں… اور ان چراغوں سے روشنی حاصل کرنی ہے… وجہ یہ ہے کہ ہم خود کو ’’مؤمن‘‘
یعنی ایمان والا کہتے ہیں… اﷲ تعالیٰ ہمیں ایمانِ کامل نصیب فرما دے… مؤمن کی بڑی
علامت یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے…
وَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّالِلّٰہِ ( البقرہ۔۱۶۵)
ترجمہ:’’اور
ایمان والوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے‘‘
آپ
جانتے ہیں ’’محبت‘‘ کسے کہتے ہیں؟… حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں… المحبۃ ھی
الموافقۃ… محبت نام ہے دوست کی موافقت کا… یعنی اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو پھر
ہربات اور ہر چیز میں اُس کی موافقت کرتے جائیں… اور دل تک میں مخالفت نہ لائیں…
اگر
ہمیںاﷲ تعالیٰ سے ’’محبت‘‘ ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ جو بھی کرے، جو بھی فیصلہ فرمائے
ہم دل سے اُس پرراضی رہیں… اوراپنے دل کو اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی موافقت کرنے
والا بنادیں… اﷲتعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ حالات ایسے ہی رہیں تو ہم بھی راضی ہیں… یقینا
ان اندھیروں کے پیچھے بہت بڑی خیر چھپی ہو گی… اس لئے غم اور پریشانی کا زیادہ
شکار ہو کر’’کفریہ باتیں‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں ہے… ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ’خیر‘‘ کی
اور’’اچھے حالات‘‘ کی دعاء کریں… شرعی طور پر ہماری جو ذمہ داری بنتی ہو وہ ادا کریں…
اور اﷲ تعالیٰ سے ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہ ہوں… ساری دنیا ہمارے ساتھ ہو تب
بھی ہم اﷲ تعالیٰ کے وفادار رہیں… اور اگر ساری دنیا ہماری دشمن ہو جائے تب بھی ہم
اﷲ تعالیٰ کے وفادار رہیں… بس جس کو یہ’’راز‘‘ سمجھ آگیا وہی اس زمانے کا کامیاب
مسلمان ہے… دنیا کے حالات جتنے بھی خراب ہو جائیں اس کا اﷲ تعالیٰ کی ’’جنت‘‘ پرکیا
فرق پڑتا ہے؟… پاکیزہ حوروں پر کیا فرق پڑتا ہے؟… جب کوئی فرق نہیں پڑتا تو مؤمن
کو مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟… وہ تو تیزی سے جنت کی طرف،اُس کی نعمتوں کی طرف…
اور اپنی حوروں کی طرف دوڑ رہا ہے… خیرالقرون کے مسلمانوں نے بھی بڑی آزمائشیں دیکھیں…
مکہ مکرمہ کی تکلیفیں…ابوجہل کی جہالت…ابو لہب اور عتبہ کے مظالم… طائف کے پتھر…
ہجرت کے کانٹے… پھر دورِ صدیق اکبرؓ میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ… پھر پُل والا واقعہ
جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے… دور عثمانیؓ کی وہ لڑائی جس میں دس ہزار مسلمان شہید
ہوئے… اور پھر حجاج بن یوسف کے ظلم کا فتنہ… ان تمام آزمائشوں میں کسی مخلص
مسلمان نے گھبرا کر یہ نہیں کہا کہ اب کیا ہوگا؟… سب کو معلوم تھا کہ ہم اﷲ کی طرف
جارہے ہیں…جنت کی طرف دوڑ رہے ہیں، تب اُنہیںمظالم کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ
خود بخودنظر آجاتے تھے… مثال کے طور پریہ چھوٹا سا واقعہ ملاحظہ فرمائیے…
عبدالرحمن
بن ناصر اندلسی س کے زمانے میں ایک مجاہد گزرے ہیں، ان کا نام’’ابو محمد س‘‘ تھا…
وہ فرماتے ہیں کہ خندق والے سال میں بھی جہاد کے لئے نکلا… لڑائی میں مسلمانوں کو
شکست ہو گئی اور جو مسلمان بچ گئے وہ مختلف اطراف میں بکھر گئے… میں بھی بچ جانے
والوںمیں سے تھا اوراکیلا سفر کر رہا تھا… دشمنوں سے بچنے کے لئے میں دن کو چھپ
جاتا اور رات کو سفر کرتا… ایک رات اچانک میں ایسے لشکر میں پہنچ گیا جو پڑاؤ
ڈالے ہوئے تھا… ہر طرف گھوڑے بندھے ہوئے تھے، آگ جل رہی تھی اور جگہ جگہ تلاوتِ
قرآنِ پاک کی آواز آرہی تھی… میں نے شکر ادا کیا کہ میں مسلمانوں کے لشکر میں
پہنچ چکا ہوں… وہاں میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی، اُس کا گھوڑا قریب بندھا ہوا
تھا اور وہ سورۂ بنی اسرائیل کی تلاوت کر رہا تھا… میں نے اُسے سلام کیا، اُس نے
جواب دیکر پوچھا کیا آپ بچ جانے والوں میں سے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں!… اُس نے
مجھے بٹھا دیا اور میرے پاس بے موسم کے انگور، دو روٹیاں اور پانی کا پیالہ لے آیا…
میں نے ایسا لذیذ کھانا کبھی نہیں کھایا تھا… کھانے کے بعد اُس نے پوچھا،کیا آپ
سونا چاہتے ہیں؟… میں نے کہا جی ہاں! اُس نے اپنی ران پر میرا سر رکھا اورمیں سو گیا…
صبح اٹھا تو میدان میں کوئی بھی نہیں تھا اورمیراسر ایک انسانی ہڈی کے اوپر تھا… میں
سمجھ گیا کہ یہ شہداء کرام کا لشکر تھا… کافی مفصل واقعہ ہے فضائل جہاد کے صفحہ ۴۴۶ پر
پڑھ لیجئے… ہمیں تو یہ ہڈی نظر آتی ہے مگر اس ہڈی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہ اﷲ
پاک جانتا ہے… فون کے میموری کارڈ میں کیا کچھ بھرا ہوتا ہے؟ صرف کارڈ دیکھنے سے
پتا نہیں چلتا… یہ تو دنیا کی معمولی چیز ہے… اﷲتعالیٰ کے ’’جہانوں‘‘ کو تو اﷲ
تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا… برزخ کا جہان کتنا بڑاہے؟… ہم کمزور لوگ کیا جانیں…
تو پھر ہم نے اسی دنیا کو ہی سب کچھ کیوں سمجھ رکھا ہے؟… تھوڑے سے حالات خراب ہوں
تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور زبانوں پر ’’اﷲ، اﷲ‘‘ کی بجائے ایک ہی رٹ ہوتی ہے
کہ اب کیا ہو گا؟… اب کیا ہو گا؟… مجھے یاد ہے کہ ’’پرویز مشرف‘‘ کے ڈر سے بہت سے
لوگوں نے شرعی جہاد تک چھوڑ دیا تھا… اور بہت سے لوگوں نے اپنے بہترین مدرسوں
کو’’کمپیوٹروں کا باڑہ‘‘بنا دیا تھا… اﷲ تعالیٰ نے اپنی خاص تدبیر سے پرویز مشرف
کو دفع فرمادیا… ابھی بھارتی گجرات کے درندے’’نریندر مودی‘‘ کا حال آپ نے دیکھا؟…
اُس کو ’’سوائن فلو‘‘ کے عذاب نے آپکڑا ہے… آج کل اپنے گھر میں ابو لہب کی طرح
اکیلا پڑا ہے… کوئی ایڈوانی سے جا کر کہے کہ اپنے ’’شکاری کتے‘‘ کی عیادت تو کر
لو… ایڈوانی کبھی نہیں جائے گا… اور تو اور’’مودی‘‘ کے گھر والے بھی اُس کے قریب
نہیں جارہے… ڈاکٹر بھی جاتے ہیں تو خلائی مسافروں کی طرح حفاظتی لباس اور ماسک پہن
کر جاتے ہیں… اس میں مسلمانوں کے لئے کتنی نشانیاں ہیں… آپ بھارتی وزیر داخلہ کے
بیانات پڑھ لیں وہ مجاہدین کے خوف میں مبتلا ہے… آپ امریکہ اور نیٹو والوں کے
حالات دیکھ لیں وہ خود کو مایوسی کے جنگل میں کھڑا دیکھ رہے ہیں…
وَکَفَی
اﷲُ الْمُوْمِنِیْنَ الْقِتَالَ (الاحزاب۲۵)
جی
ہاں اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمارہاہے اوراُن کے دشمنوں کو عبرتناک انجام کی
طرف دھکیل رہا ہے… مسلمان اس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنا چھوڑ دیں تو اُن کی مایوسی
فوراً ختم ہو سکتی ہے… الحمدﷲ ہم مسلمانوں کے پاس کلمہ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘
موجود ہے… ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے… ہمارے پاس کعبہ شریف موجودہے … ہمارے
پاس رسول اﷲﷺ کا ’’روضۂ اقدس‘‘ موجود ہے…ہمارے پاس مسجد حرام موجود ہے… ہمارے پاس
مسجد نبوی شریف موجود ہے… ہمارے پاس اپنے پاک نبیﷺ کی سنت کا علم… احادیث اور فقہ
کی صورت میں موجود ہے… ہمارے پاس نماز موجود ہے… ہمارے پاس مسجدیں موجود ہیں… ہماے
پاس روزہ، زکوٰۃ اور حج موجود ہے… ہمارے پاس جہاد فی سبیل اﷲ موجود ہے… ہمارے پاس
جان دینے والے شہداء اور مجاہدین موجود ہیں… ہمارے پاس قرآن پاک کے حفاظ اور
علماء موجود ہیں… مایوس وہ ہو جو اﷲ تعالیٰ سے کٹ چکا ہو… جس کا رب موجود ہے اور
ہمیشہ ہمیشہ ہے وہ کیوں مایوس ہو؟… اور رب بھی ایسا جس نے چوبیس گھنٹے توبہ کا
دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے… اور رات کے آخری پہر تو وہ خود آواز دے کر توبہ کے لئے
بلاتا ہے… وہ ایسا کریم ہے کہ پہاڑوں جیسے بڑے بڑے گناہوں کو رحمت کی ایک نظر فرما
کر نیکیوں سے بدل دیتا ہے… فضیل بن عیاضؒ
گھر سے ڈاکہ ڈالنے نکلے… جس قافلے کو لوٹنا تھا اُس میں قرآن پاک کا ایک
قاری اپنے اونٹ پربیٹھا تلاوت کر رہا تھا…
اَلَمْ
یَأنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِاﷲِ ( الحدید۱۶)
ترجمہ:
کیا ایمان والوں کے لئے وہ وقت قریب نہیں آیا کہ اُن کے دل اﷲ تعالیٰ کے ذکر کے
لئے گڑ گڑااٹھیں…
بس یہ
آیت سنتے ہی’’فضیل‘‘ نے توبہ کے لئے سر جھکا دیا… ربّ کریم نے اُن کو اولیاء کا
سردار اور ’’عابدالحرمین‘‘بنادیا… اﷲ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے ہمارے گناہوں کی حیثیت
ہی کیا ہے؟… حضرت عبداﷲ بن مبارک س اپنے گھر سے ’’اپنی محبوبہ‘‘ کا دیدار کرنے
نکلے… وہ’’عشق مجازی‘‘ کی مصیبت میں مبتلا تھے… رات بھر’’محبوبہ‘‘ کے گھر کی دیوار
کے نیچے کھڑے رہے یہ نیچے اور وہ اوپر… ساری رات دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے…
فجر کی اذان سنی تو دل ایک لمحے کے لئے محبوب حقیقی کی طرف متوجہ ہوا… اپنے آپ سے
کہنے لگے اے مبارک کے بیٹے! تمہیں شرم آنی چاہئے کہ آج کی پوری رات تو نفسانی
خواہش کے لئے پاؤں پر کھڑا رہا اورپھر بھی تو عزت چاہتا ہے… لیکن اگر امام نماز میں
ذرا لمبی سورۃ پڑھ لے تو تودیوانہ ہو جاتا ہے… اس نفسانی خواہش کے دعویٰ کے ہوتے
ہوئے توایمان کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟(کشف المحجوب، حضرت ہجویری س)…
بس اتنی دیر خود کو سمجھایا تو اﷲ تعالیٰ نے
قبول فرمالیا… اور اُن کو علماء،مجاہدین اور اولیاء کا سرتاج بنا دیا… کیا ہم لوگ
تنہائی میں تھوڑی دیرکا مراقبہ نہیں کر سکتے؟… وہ دیکھو کلمہ طیبہ کا نور ہمارے
سروں پر چمک رہا ہے… وہ دیکھو کعبہ شریف کا جلال و جمال ہر طرف نور برسا رہا ہے…
وہ دیکھو فلسطین، افغانستان، کشمیر اور عراق کے محاذوں سے ’’محبت الہٰی‘‘ کی
خوشبوآرہی ہے… وہ دیکھو قرآن پاک ہدایت کے میٹھے سمندر کی طرح ہمارے سامنے جاری
ہے… یادکرو… تھوڑی دیر تنہائی میں یاد کرو… ہاں جلدی کرو…زبان اور آنکھیں بند کر
کے یاد کرو… اﷲ تعالیٰ موجود ہے… اُس نے اب تک مجھے کون کون سی نعمتیں دیں ہیں …
پھر قرآن پاک کوسوچو… کعبہ شریف، حجراسوداور روضہ اقدس کو سوچو… محاذوں کی خوشبو
اور شہداء کے مہکتے خون کو سوچو… ہاں ان باتوں کو سوچا کرو… اسی کو مراقبہ کہتے ہیں…
گم ہوجاؤ… اپنے رب کریم کی یاد، اُس کی محبت اور اُس کی رحمت میں گم ہوجاؤ… پھر
جو مانگنا ہے مزے سے مانگو… اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو… اور رحمت کی ہواؤں میں
اڑتے پھرو… اور وہ جو مایوسی آج کل آئی ہوئی ہے اُسے بس پہ بٹھا کر سیدھا’’نریندر
مودی‘‘ کے پاس بھیج دو… اُس کے’’اننچاس کروڑ‘‘ جعلی دیوتا اُس کے کچھ کام نہ آئے…
یا اﷲ امت مسلمہ پر رحمت فرما…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
ہلاکت
خیز گناہ
اﷲ
تعالیٰ نے اپنے سب سے محبوب اور آخری نبی… حضرت محمدﷺ کو تمام جہانوں کے
لئے’’رحمت ‘‘ بنا کربھیجا… ذرا غور سے سنیے’’رحمۃ اللعالمین‘‘ کیا ارشاد فرماتے ہیں…
’’حضرت ابو ہریرہ
ذ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:میرا دل چاہتا ہے کہ چند نوجوانوں سے
کہوں کہ بہت سی لکڑیاں(یعنی ایندھن) جمع کر کے لے آئیں پھر اُن لوگوں کے پاس
جاؤں جو بلاعذر گھروں میںنماز پڑھ لیتے ہیں اور جا کر اُن کے گھروں
کوجلادوں‘‘۔(صحیح مسلم،ابو داؤد)
اے
مسلمانو! جب آپ لوگ جماعت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں… خصوصاً فجر کی نماز… اور گھروںمیں
نماز ادا کرتے ہیں تو رسول اﷲﷺ کو کتنی تکلیف پہنچتی ہے… آپﷺ نے ایسے لوگوں کے
گھروں کو آگ سے جلانے کا ارادہ فرمایا… تو اﷲ تعالیٰ نے اُن کے گھروں میں آگ لگا دی ہے… بیماری کی
آگ، پریشانی کی آگ، ذلّت کی آگ، بے برکتی کی آگ… نااتفاقی ، اور رزق میں تنگی
کی آگ… اور معلوم نہیں کہ کون کون سی آگ… اور یہ ظلم نہیں انصاف ہے… کیونکہ’’نماز‘‘
ایک مسلمان کے لئے سب سے اہم ’’فریضہ‘‘ہے… سب سے زیادہ ضروری کام ہے ،سب سے زیادہ
ضروری کام…
دن
کاآغاز نافرمانی سے
تھوڑا
سا سوچیں… اﷲ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کا ایک نیا دن دیا… اس دن کے آغاز میں مسجد سے
اذان کی آواز آئی… یعنی اﷲ تعالیٰ نے ہمیں نماز کے لئے بلایا… مگر ہم نہیں گئے…
ہم نے دن کا آغاز ہی نافرمانی اورگناہ سے کر ڈالا… انا ﷲ وانا الیہ راجعون…
’’حضرت معاذ بن
انس ذ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا… سراسر ظلم ہے اور کفر ہے اور نفاق
ہے اس شخص کا عمل جس نے اﷲ تعالیٰ کے منادی (یعنی مؤذن) کی آواز سنی اور نماز کے
لئے نہ گیا(احمد، طبرانی)…
صبح
سورج نکلا تو اُس نے ہمیںنیند میں مست پایا… سورج اتنا بڑاہو کر اﷲ تعالیٰ کی
نافرمانی کی ہمت نہیںکرتا… اورہم نے صبح صبح اتنابڑا ظلم کر ڈالا… رونے کا مقام
ہے، چیخ چیخ کر رونے اور دھاڑیںمارنے کا مقام ہے… تین ہزار کی نوکری والے اپنے وقت
پر دفترپہنچ جاتے ہیں… اور ایک مسلمان مسجد نہ جا سکا… پھر بھی مسلمان ہے اور پھر
بھی بے فکر پھرتا ہے…
بہت
بڑی مصیبت
بے
نمازی لوگوں کی بات تو چھوڑیں… ان کے لئے تو بہت سخت خطرہ ہے… ان کے بارے میں تو یہ
بھی معلوم نہیں کہ ان کا ایمان باقی ہے یاوہ کفر کی سرحدوں میں داخل ہو چکے ہیں…
بات تو اُن مسلمان مردوں کی چل رہی ہے جو نمازیں قضا کر دیتے ہیں… جونمازوں کو
اپنے وقت پر نہیں پڑھتے… جو نمازوں کے لئے مسجدوں میں حاضر نہیں ہوتے… حقیقت میں یہ
بہت بڑی مصیبت ہے… جی ہاں فجرکی نماز… یا کوئی بھی نماز بغیر عذر کے بے جماعت گھر
میں پڑھنا… یا اپنے وقت پر ادا نہ کرنا یہ
بہت سخت مصیبت ہے… ایک مسلمان کے لئے امریکی میزائل اتنے خطرناک نہیں جتنا کہ نماز میں سستی خطرناک ہے…
اﷲ
تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں فرمایا کہ… ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو نماز کی
طرف سے غافل رہتے ہیں… حضور اقدسﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟… ارشاد فرمایا یہ
وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کر دیتے ہیں…
ہم
تھوڑا سا سوچیں کہ جس عمل کو اﷲتعالیٰ ’’ہلاکت‘‘ قرار دے… وہ عمل کتنا خطرناک ہو
گا…
ہائے
افسوس
فجر
اور عشاء کی نماز میں سستی منافق کی علامت قرار دی گئی ہے… روایات میں ہے کہ
(۱) ’’ہمارے اور منافقین کے درمیان (فرق کرنے والی) نشانی عشاء
اور صبح کی نماز میں حاضری ہے کہ وہ(منافقین) اس کی طاقت نہیں رکھتے‘‘۔(کنز
العمال)
(۲) ’’منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری اور کوئی نماز نہیں ہے اگر وہ جان لیں کہ ان نمازوں میں
کتنا اجر ہے تو ضرور حاضر ہوں اگرچہ انہیں گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے‘‘ (بخاری ، مسلم)
اﷲ
تعالیٰ کے نبیﷺ نے جس کام کو منافقین کی علامت قرار دیا… اب وہی کام مسلمانوں کے
’’دیندار‘‘ طبقے میں عام ہو تا جارہا ہے… سیاسی جماعتوں کو توچھوڑئیے…دین کے کئی
طالب علم اور طالبات تک فجر کی نماز قضاء کرنے کے عادی بن گئے ہیں… کاش ہم
مسلمانوں کو احساس ہو جائے کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے… مگر افسوس، ہائے افسوس کہ دین
کا کام کرنے والوں تک میں سے یہ احساس نکلتا جارہا ہے…
کیا
ہی اچھا ہوتا
کبھی
کبھار تو کسی کو بھی نیند آسکتی ہے… اورفجر کی نماز قضاء ہو سکتی ہے… لیکن ایمان
والے تب کیا کرتے ہیں؟… وہ جاگتے ہی نماز کی تیاری کے لئے بھاگتے ہیں… اُن کے دل میں
ڈر ہوتا ہے کہ اس حالت میں موت نہ آجائے… وہ فوراً نماز ادا کرتے ہیں… اور
پھر’’صلوٰۃ توبہ‘‘ ادا کر کے معافی مانگتے ہیں… اُن کی آنکھوں کے ساتھ ان کا دل
بھی روتا ہے… وہ صدقہ خیرات کرتے ہیں… سارا دن غم اور شرمندگی میں گھلتے ہیں… کسی
سے آنکھیں ملا کربات نہیں کر سکتے… ہائے میری ایک نماز اپنے وقت سے قضاء ہو گئی…
کوئی انسان کروڑوں روپے دے کر بھی اس نماز کا اجر نہیں خرید سکتا… فجر کا حسین
وقت، اُس وقت کی تلاوت اور سجدے… اور سلام پھیرتے ہی آیۃ الکرسی… اورسید
الاستغفار… سبحان اﷲ… شام تک جنت محفوظ ہو گئی… یہ سب کچھ یاد آتا ہے اور دل
توبہ، استغفار میںلگارہتا ہے… ایسے لوگوں کی نماز اگر دو چار بار قضا ء ہو جائے تو
خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں… اﷲ والوں سے وظیفے پوچھتے ہیں… نفل روزے رکھ کر اﷲ
تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری کرتے ہیں… اور سجدوں میں گر کر کہتے ہیں یا اﷲ… اس محرومی اور گناہ سے بچا، یا اﷲ مجھ
پر رحم فرما…
مرض
سمجھیں تو علاج ممکن ہے
لیکن
کچھ لوگ اس بیماری کو ’’مرض‘‘ ہی نہیں سمجھتے… شیطان اُن کو سمجھاتا ہے کہ کوئی
بات نہیں قضا ہی سہی میں پڑھ تو لیتا ہوں… لوگ تو فلاں فلاں گناہ کرتے ہیں… جبکہ میں
تو فلاں فلاں نیکیاں کرر ہا ہوں… کبھی شیطان سمجھاتا ہے کہ کوئی بات نہیں کچھ دن
بعد باجماعت نماز شروع کر دینا… ایسے لوگ آہستہ آہستہ غلطی میں پڑتے چلے جاتے ہیں…
کئی اچھے خاصے مسلمانوں کی گمراہی کی وجہ ہی یہی بنی کہ انہوں نے’’نماز‘‘ کا
اہتمام نہیں کیا… نماز تو ستون ہے ستون ٹھیک اور سیدھا نہیں ہو گا توباقی عمارت کیسے
کھڑی ہوگی… نماز تو پہلی بنیادہے جب بنیاد ہی کمزور ہوگی تو اخلاص کہاں سے پیدا ہو
گا… حضرت فاروق اعظم ذنے تو صاف سمجھا دیا کہ جس کی نماز کامعاملہ ٹھیک نہیں اس کا
کوئی بھی معاملہ ٹھیک نہیں ہو سکتا…اس لئے مسلمان بھائیو! اور مسلمان بہنو!…ہم سب
سے پہلے اپنے دل میں نماز کی اہمیت بٹھائیں… اور نماز میں سستی کے مرض کو ’’کینسر‘‘
کی طرح خطرناک سمجھیں… اگر اﷲ پاک نے ہمارے دل میں یہ بات بٹھادی تو پھر علاج بہت
آسان ہے، بے حد آسان… اور علاج یہ ہے کہ ہم اپنی پچھلی غفلت سے سچی توبہ کر لیں
اور آئندہ کے لئے مضبوط عزم کر لیں کہ انشاء اﷲ… ہر نماز کو تکبیر اولیٰ کی پابندی
کے ساتھ مسجد میں ادا کریں گے خواہ کچھ بھی ہو جائے… اور عورتیں یہ عزم کرلیں کہ
ہم انشاء اﷲ ہر نماز کو اُس کے اوّل وقت میں مکمل اہتمام کے ساتھ ادا کریں گی… اگر
ہم نے پختہ عزم کر لیا تو پھر معاملہ آسان ہے کیونکہ نماز… کوئی بوجھ نہیں بلکہ
لذتوںاور مزوں کا دریا ہے…
اپنی
نگرانی
ہم
نے عزم کر لیا کہ مرتے دم تک ہر نماز… مسجد میں باجماعت ادا کریں گے… انشاء اﷲ یہ
عزم ہی کام کر جائے گا… آخر چوکیدار بھی تو تھوڑی سی تنخواہ کے لئے رات بھر جاگتا
ہے… کیونکہ اُس نے جاگنے کو اپنا کام سمجھ لیا ہے… پھر بھی رات کو سوتے وقت خوب
دعاء کر لیں…اپنے موبائل پر زور دارالارم لگا دیں… سورۃ الکہف کی آخری آیات پڑھ
لیں… اور کسی کے ذمہ لگادیں کہ مجھے جگا دینا… یہ سارے انتظامات کر لئے مگر شیطان
نے پھر بھی سلا دیا تو اب کیا کرنا ہے؟… جواب یہ ہے کہ شیطان کا مقابلہ کرنا ہے
اور اس مردود کو اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے شکست دینی ہے…وہ ا س طرح کہ
(۱) سارا دن توبہ، استغفار میں گذاریں اور نیت کر لیں کہ
آئندہ اگر میری نماز قضا ء ہوئی تو اُسی دن دس رکعت نوافل پڑھوں گا… ایک دن کا
نفل روزہ رکھوں گا… اور اپنی ماہانہ آمدن کا تیسواں حصہ صدقہ دوں گا…
(۲) تیسواں حصہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ… اگر آمدن تین ہزار ہے
تو ایک سو روپے دے دیں اور نفس سے کہیں!… ٹھیک ہے تو میری نماز قضا ء کرا میں
روزانہ اتنا صدقہ دوں گا تو پورے مہینے کی آمدن تیس نمازوں کا صدقہ بن جائے گی…
تب تجھے بھوکا رہنا پڑے گا…
(۳) صلوٰۃ توبہ ادا کر کے استغفار کریں… اور صلوٰۃ الحاجۃ ادا
کر کے اﷲ پاک سے نماز باجماعت کی توفیق مانگیں…
اگر
یہ کام کر لئے تو انشاء اﷲشیطان شکست کھاجائے گا… اور نماز کے لئے جاگنا آسان ہو
جائے گا… یاد رکھیں کہ جن لوگوں کے سر نماز کے وقت نیند سے بھاری ہو جاتے ہیں… اور
وہ سوتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے سخت
وعید ہے کہ قیامت کے دن فرشتے اُن کے سروں کو لوہے کے گرزوں سے ماریں گے…اﷲ پاک ہم
سب کی حفاظت فرمائے…
مذاکرہ
ضروری ہے
’’نماز‘‘ کے بغیر’’ایمان‘‘
قابل اعتبار نہیں ہوتا… اور نہ ہی قوت پکڑتا ہے…ہمیں اگر اپنی ذات کے ساتھ تھوڑی سی
ہمدردی ہے… اورہم خود کو قبر اور آخرت کے عذاب سے بچانا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم
ہے کہ ہم اپنی نمازوں کی خود ہی فکر کریں… اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ نماز
کے بارے میں جو آیات اوراحادیث وارد ہوئی
ہیں ہم اُن کا مطالعہ کریں… اور ان میں سے بعض کو یاد کر لیں… اور پھر ہم دوسرے
مسلمانوں کو نماز کی دعوت دیا کریں… اور اﷲ والوں سے نماز سیکھا کریں… میرے عزیز
بھائیو! اور بہنو! قبر سامنے تیار ہے… ہم سب کو نماز کی بہت فکر کرنی چاہئے… حضرت
شیخ الحدیث س کے رسالے’’فضائل نماز‘‘ کا ایک بار ضرور مطالعہ کرلیں… یا رنگ و نور
جلد اوّل کے ان تین مضامین کو توجہ سے پڑھیں
(۱) اقامت
صلوٰۃ مہم …رنگ ونور ج۱،ص۲۱۳
(۲) بے
نمازی، بے ہدایت …رنگ ونور ج۱،ص ۲۳۲
(۳)ایک
دعاء دس موتی…رنگ ونور ج۱،ص ۲۴۴
ایک
گزارش
(۱) آپ میں سے اﷲ تعالیٰ جس کو توفیق عطاء فرمائے وہ ان ’’تین
مضامین‘‘ کو پڑھ کر ان کا خلاصہ یاد کر لے… اور پھر مسلمانوں کو یہ خلاصہ سنایا
کرے… اس سے انشاء اﷲ اپنی نماز بھی مضبوط ہوگی… اور دوسروں کو دعوت دینے کا اجر عظیم
بھی ملے گا…
(۲) ہمارے جو ساتھی جہاد پر بیان کرتے ہیں وہ… جہاد کے ساتھ
ساتھ نماز کی دعوت بھی دیا کریں… انشاء اﷲ اس سے تحریک جہاد کوبے پناہ قوت ملے گی…
(۳) آپ میں سے جس کو اﷲ تعالیٰ استطاعت عطاء فرمائے وہ ان تین مضامین کو چھپوا کر… یا انکی فوٹو کاپی کرا کے
مسلمانوں میں تقسیم کرے…
(۴) آپ میں سے جو بھائی یا بہن نماز کی سستی میں مبتلاہو… اور
آج کی محفل کے بعد اُس نے اس جرم سے توبہ کا عزم کر لیا ہو… اور پھر مسلسل تین دن
عمل بھی کیاہو تو… میری دل سے دعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُسے دنیا اور آخرت میں اپنی
خاص رحمت نصیب فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین…
وصلی
اﷲ تعالیٰ اعلیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
کثیرا
٭…٭…٭
دوسروں
کے لئے زندہ رہنے والے
اﷲ
تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے ’’رزق‘‘ زیادہ کرتا ہے… اور جس کے لئے چاہتا ہے’’رزق‘‘
تنگ کردیتا ہے… وہ اپنے بندوں کو خوب جانتاہے اور سب دیکھتاہے… تم لوگ اپنی
اولادوں کو تنگدستی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی…
بے شک اُن کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے…
ایک
صفحہ چار احکام
آج
کالم لکھنے بیٹھا تو دل سے آوازآئی کہ قرآنِ پاک سے رہنمائی لو… اﷲ تعالیٰ کا
نام لیکر قرآنِ پاک کو کھولا تو یہ دو آیات سامنے آئیں جن کا مفہوم آپ نے اوپر
پڑھ لیا ہے… آگے دیکھا تو صرف اسی ایک صفحہ پر مسلمانوں کے ’’مال‘‘ کے بارے میں
چار احکامات موجود تھے… بے شک’’مال‘‘ کا معاملہ بہت نازک اور حسّاس ہے… اسی لئے اﷲ
پاک نے اور اس کے رسول ﷺ نے بہت کھول کھول کر مال کے احکامات بیان فرمائے ہیں…
تاکہ’’مال‘‘ مسلمان کے لئے’’وبال‘‘ نہ بنے… بلکہ اُس کی راحت اور سعادت کا ذریعہ
بنے…
چار
احکامات یہ ہیں:۔
(۱) مال کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے، وہ جسے چاہے جتنا دے… معلوم ہوا
کہ مسلمان کو اپنی ’’روزی‘‘ کے لئے صرف اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے… اﷲ تعالیٰ
کے سوا کسی کورزّاق نہیں سمجھنا چاہئے… روزی اور مال کی خاطر اﷲ تعالیٰ کو ناراض
نہیں کرنا چاہئے… نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے وقت یہ نہیںسوچنا چاہئے کہ مال کم ہو
جائے گا… جب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے کسی جگہ خرچ کرو گے تو اﷲ تعالیٰ برکت عطاء
فرمائے گا…
(۲) اپنی اولاد کو بھوک اور غربت کے خوف سے قتل نہ کرو… یعنی یہ
نہ سمجھو کہ تم اپنی اولاد کو کھلاتے پلاتے ہو… جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے وہ اپنا
رزق ساتھ لاتا ہے… اسی لئے عقلمند لوگ کہتے ہیں’’زیادہ بچے خوشحال گھرانہ‘‘… روزی
کم ہونے کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو… نہ جسمانی طور پر اور نہ روحانی طور پر…
جسمانی قتل تو یہ ہے کہ اُن کو مار ڈالو… اور روحانی قتل یہ ہے کہ روزی کی خاطر
انہیں دین اور دینی تعلیم سے محروم رکھو… یہ دونوں طرح کے قتل ناجائز اور حرام ہیں…
(۳) یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ… یعنی وراثت کا مال
ٹھیک طرح سے تقسیم کیا کرو… یتیم بچوں کا جو حصہ بنتاہے اُسے ہڑپ کر کے جہنم کے
انگارے نہ کھاؤ… بلکہ یتیموں کے مال کی حفاظت کرو… اور یتیموں کا بہت خیال رکھا
کرو…
(۴) ناپ تول میں کمی نہ کرو… ٹھیک ترازو سے تول کر دیا کرو… یعنی
دھوکے اور دغا بازی سے مال نہ کماؤ… خیانت نہ کرو… کسی کا حق نہ مارو… تجارت میںشرعی
احکامات کو ملحوظ رکھو…
یہ
ہے خلاصہ اُن چار احکام کا جو قرآن پاک کے ایک صفحہ مبارکہ پر مال کے بارے میں ہم
مسلمانوں کو سمجھائے گئے ہیں…
مال
کس کا ہے
قرآن
پاک نے سمجھایا کہ ’’مال‘‘ کا اصل مالک اﷲ تعالیٰ ہے… اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کو یہ
مال اس لئے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ… اپنی دنیا کی ضروریات پوری کریں اور
آخرت کی نعمتیں خریدیں… دنیاکی ضرورت پوری کرناتو سب کو سمجھ آتا ہے مگر آخرت کی
نعمتیں خریدنا ہر کسی کی عقل میں نہیں آتا… اﷲ تعالیٰ نے احسان فرمایا کہ قرآن
پاک میں عجیب عجیب طریقوں سے مسلمانوں کو… جہاد اور نیکی کے دوسرے راستوں میںمال
خرچ کرنے کی ترغیب دی… ایک مسلمان اگر صرف ایک بار اُن آیات اور احادیث کو پڑھ لے
جو مال خرچ کرنے کی ترغیب میں آئی ہیں تو اس کے لئے… اپنے تن کے کپڑے تک دینا
آسان ہو جاتا ہے… صرف سورۃ الحدید کو پڑھ لیں… اس میں جہاد پر مال لگانے کی
عاشقانہ ترغیب ہے… اﷲ اکبر کبیرا… اﷲ تعالیٰ کتنا کریم ہے… خود مال دیتا ہے… اور
پھر جب کوئی بندہ اس مال کواُس کے راستے میں خرچ کرے تو اُسے دنیا اور آخرت کی
نعمتوں سے مالا مال کر دیتا ہے… سورۃالحدید میں اﷲ تعالیٰ کتنے پیار سے سمجھاتا ہے
کہ
(۱) اے مال والو! یہ مال تم سے پہلے کسی اور کے پاس تھا… اب
اُس کے پاس نہیں رہا… آگے چل کر تمہارے پاس بھی نہیں رہے گا… تمہاری زندگی ہی میں
یا تمہارے مرنے کے بعد یہ مال کسی اور کے پاس چلا جائے گا… پس تم عقلمندی کرو اور
اس مال کو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے اپنی آخرت کے لئے محفوظ کر لو… سورۃ
الحدید کی آیت(۷) میں اس مفہوم کی طرف اشارہ ہے…
(۲) اے مال والو! یہ مال تم نے ویسے ہی اﷲ تعالیٰ کے لئے
چھوڑجانا ہے…کیونکہ سب لوگ ختم ہو جائیں گے اور اﷲ تعالیٰ ہی ہر چیز کا وارث رہ
جائے گا… توپھر اپنی مرضی اور خوشی سے یہ مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں کیوںنہیںلگاتے…
یہ مفہوم آیت (۱۰) میں سمجھایا گیا ہے…
(۳) اے مال والو! تمہارا یہ مال خرچ کرنا گویا کہ اﷲ تعالیٰ کو
قرض دینا ہے… اب سوچ لو کہ یہ کتنی بڑی سعادت ہے… پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ اس خرچ
کرنے کی برکت سے اﷲ تعالیٰ تمہارے مال اور اجر کو بڑھا دیتا ہے… اور اس کا بدلہ
پاکیزہ جنت کی صورت میں عطاء فرماتاہے… یہ مفہوم آیت(۱۱) میں
سمجھایا گیا ہے…
مال
سعادت یا وبال
جن
لوگوں نے مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں لگایا… وہ دنیا کے حکمران بن گئے اور آخرت کا
اصل بدلہ اُن کا مقدر بن گیا… مگر جنہوں نے حرص کی اوربخل کیا انہوں نے خود کو اور
اپنے ارد گرد کو دنیا و آخرت کی آگ سے بھر دیا… آج پاکستان میں جو درد ناک
حالات ہیں ان کے پیچھے صرف اور صرف ’’ڈالر کے پجاریوں‘‘ کا ہاتھ ہے… مال کی خاطر
ملک بیچنے والے حکمران… مال کی خاطر مسلمانو ں کے سودے کرنے والے حکام… مال کی
خاطر فساد پھیلانے والے صحافی… مال کی خاطر دین سے محروم ہو جانے والے دانشمند… ان
سب نے مل کر اس ملک کو مسلمانوں کی قتل گاہ بنا دیا ہے… انہوں نے پیسہ لیکر دہشت
گردی ختم کرنے کا ٹھیکہ لیا اور پھر بالآخر انہیں دہشت گردی نظر آہی گئی… نو سال
پہلے بھی اس ملک میں ’’مجاہدین‘‘ موجود تھے… بااخلاق، امن پسند اور عبادت گزار
مجاہدین… انہوں نے نہ ملک میں کوئی دھماکہ کیا اور نہ کوئی قتل… اُن کے پاس حکومتی
لائسنس والی سیمی آٹو میٹک چند رائفلیں تھیں… پولیس اُن کو روکتی تو وہ مسکراتے
ہوئے رُک جاتے اور آرام سے تلاشی دیتے… کافروں کو یہ مجاہدین کھٹکتے تھے انہوں نے
ڈالروں کے پجاریوں کو نوٹ دکھائے کہ بس ان پر شروع ہو جاؤ… صحافیوں کو خریدا کہ
دہشت گردی کے خطرے کے گیت گاؤ… بے عقل دانشمندوں کو امریکہ کے گناہ آلود چکر
لگوائے کہ دہشت گردی کے خلاف کام کرو… یہ سب اپنی فیس لیکر جہاد اور مجاہدین کے پیچھے
پڑ گئے… مسجدوں پر چھاپے، مدارس پر چھاپے… مجاہدین کی گرفتاریاں… طرح طرح کے بیہودہ
تشدد… اور ہر دیندار پر شک کی نظریں… تب اﷲ پاک کا انتقام جوش میں آگیا، اب ہر
کوئی مر رہا ہے… ہرکوئی جل رہا ہے… اور ہر کوئی چیخ رہا ہے… اور ایسا لگتا ہے کہ
معاملات اب کسی کے ہاتھ میں بھی نہیں رہے… میں مکمل یقین سے کہتا ہوں کہ حکمران
آج ڈالر پرستی سے توبہ کر لیں، جہاد کے خلاف کام کرنے سے توبہ کر لیں… مساجد اور
مدارس کے مقام کو تسلیم کر لیں… زرخرید صحافیوں پرپابندی لگادیںتو صرف تین ماہ میں
پاکستان دوبارہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے… اس ملک میں الحمدﷲ کوئی’’دہشت گرد‘‘ نہیں
تھا… ڈالر کے پجاریوں نے لوگوں کو خود دہشت گردی پرمجبور کیا ہے… اور جب تک یہ پالیسی
رہے گی حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے اﷲ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے…
سخاوت
میں برکت ہے
حضرت
ہجویری س نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں مال خرچ پر عجیب واقعات لکھے ہیں اُن میں سے چند
ایک کا خلاصہ یہاں عرض کیا جاتا ہے… ممکن ہے اُن کو پڑھ کر ہماری قسمت بھی کُھل
جائے… اورہم بھی اﷲتعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے والے بن جائیں…
(۱) سید عالم ﷺ کے پاس ایک بار اسّی ہزار درہم لائے گئے… آپﷺ
نے وہ سب اپنی چادر پر ڈال دیئے اور جب تک وہ سب اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کر دیئے
اپنی جگہ سے نہ اٹھے…
(۲) حضور اقدسﷺ کی خدمت میں حبشہ کے بادشاہ نے دومن’’مشک‘‘بھیجا…
آپﷺ نے تمام کا تمام ایک بار ہی پانی میں ڈال دیا اور صحابہ کرام کو استعمال کروایا…
(۳) ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے بکریوں کا
بڑا ریوڑ پورا اُس کو عطاء فرمایا… جب وہ اپنی قوم کے پاس گیا تو کہنے لگا… اے
قوم! مسلمان ہو جاؤ کہ محمدﷺ اتنی بخشش کرتے ہیں کہ انہیں اپنی مفلسی کی کوئی
پرواہ نہیں ہوتی…
(۴) ایک شخص حضرت سیدنا حسن بن علیذ کی خدمت میں آیا اور کہنے
لگا… اے پیغمبر زادے! میرے ذمہ چار سو درہم قرض ہے… حضرت حسنؓ نے چار سو درہم اس
کودینے کا حکم دیا اور خود روتے ہوئے گھر کے اندر تشریف لے گئے… لوگوں نے پوچھا اے
پیغمبرﷺ کے نواسے! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ ذنے فرمایا’’اس لئے کہ میں نے اس شخص کا حال جاننے میںکوتاہی کی حتی کہ
اسے سوال کرنے کی ذلت اٹھانی پڑی …(کشف المحجوب)
دوسروں
کیلئے زندہ رہنے والے
حضرت
ہجویری س لکھتے ہیں:
ایک
دن ایک شخص حضرت سیدنا حسین بن علی ذ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا:اے رسول اﷲﷺ
کے صاحبزادے! میں ایک درویش آدمی ہوں اور صاحب اولاد ہوں مجھے آج کی رات کے
کھانے کے لئے کچھ عنایت فرمایئے… حضرت سیدنا حسین ذنے اُسے فرمایا… بیٹھ جاؤ!
ہمارا روزینہ ابھی راستے میں ہے،ابھی آجائے گا… تھوڑی ہی دیر بعد لوگ آپ ذ کے
پاس حضرت امیر معاویہ ذ کی طرف سے پانچ تھیلیاں لے کر آئے… ہر تھیلی میں ایک ہزار
دینار تھے ،لوگوں نے عرض کی کہ حضرت امیر معاویہ ذ آپ سے معذرت چاہتے ہوئے کہتے
تھے کہ یہ تھوڑی سی رقم خرچ کیجئے پھر اس کے بعد اس سے بہتر پیش کی جائے گی… حضرت
سیدنا حسینذ نے اس درویش کی طرف اشارہ کیا اور وہ پانچ تھیلیاں اُسے عطاء فرمادیں
اور اُس سے معذرت کی کہ تھوڑی دیر ہو گئی اور یہ بے قدرسا عطیہ ہے جو تجھے ملا ہے…
اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ رقم اتنی تھوڑی ہے تو میں تمہیں انتظار کے لئے نہ کہتا…
ہمیں معذور سمجھنا کہ ہم اہل بلا ہیں… ہم دنیا کی تمام راحتوں سے دست بردار ہو چکے
ہیں اور اپنی خواہشات کو کم کر کے دوسروں کی ضرورتوں کے لئے زندہ ہیں(کشف المحجوب)
اﷲ
اکبر کبیرا… کتنی عجیب بات ہے اور کتنا میٹھا جملہ کہ… ہم دوسروں کی ضرورتوں کے
لئے زندہ ہیں… اﷲ تعالیٰ جس مسلمان کو یہ کیفیت نصیب فرما دے کہ وہ اپنے لئے نہیں
دوسروں کے لئے زندہ رہے تو یہ عظیم سعادت ہے… بہت ہی عظیم سعادت…
اچھا
موقع موجود ہے
اﷲتعالیٰ
کے راستے میں خرچ کرنے کے واقعات بہت زیادہ ہیں… آپ صرف ’’فضائل جہاد‘‘ کا نواں ،
دسواں اور گیارہواں باب پڑھ لیں… مجھے بہت اُمید ہے کہ جس نے توجہ کے ساتھ ان تین
ابواب کو پڑھ لیا وہ انشاء اﷲ بہت بڑی خیر کمانے کے لئے تیار ہو جائے گا… روزی،روٹی
جو قسمت میں ہوتی ہے وہ ہر کسی کو مل جاتی ہے … پرندے اور جانور صبح بھوکے پیٹ
نکلتے ہیں اور رات کو اُن کے پوٹے اور معدے غذا سے بھرے ہوتے ہیں… سمندروں کی
لاتعداد مچھلیوں کو باقاعدگی سے روزی مل رہی ہے…آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو
پہاڑوں کے پھٹنے سے بڑے بڑے سانپ نکل آئے… درختوں سے بڑے ان سانپوں کو زمین کے
اندر روزی مل رہی تھی اس لئے وہ زندہ تھے…
جنگلوں
کو توچھوڑیں صحراؤں میں بھی اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کو روزی پہنچاتا ہے… اِس لئے ہم
کسی کو دیں نہ دیں اُس کی روزی اُس تک پہنچ کر رہے گی… البتہ اگر ہم نے پہنچا دی
توہمارا بہت بڑا فائدہ ہو جائے گا… ساری دنیا مل کرمجاہدین کا’’چندہ‘‘ بند کرانے
پرتُلی ہوئی ہے… مگر پھر یہی دشمن لوگ کہتے ہیں کہ مجاہدین کے پاس مال بہت ہے… بینک
اکاؤنٹ سیل ہو گئے، مالدار طبقہ ڈر کر سہم گیا،دکانوں سے چندہ بکس اٹھا لئے
گئے…مگر الحمدﷲ کام چل رہا ہے اور حسد کرنے والوں کی آنکھیں پریشانی سے باہرنکل
رہی ہیں… یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کا نظام ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا… آج کل’’الرحمت
ٹرسٹ‘‘ کے مخلص جانباز پھر میدان میں نکلے ہوئے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ ’’اجتماعی
قربانی‘‘ میں حصہ لیں…ہم عید کے دنوں میں اپنی خوشیاں قربان کر کے آپ کی نیکی
بڑھائیں گے…شہداء کے بچوں تک آپ کی قربانی کا گوشت پہنچائیں گے… اسیران اسلام کو
بکرے اور گائے بھجوائیں گے… اور شہداء کے بوڑھے والدین کے خشک دسترخوان تک آپ کا
کھانا پہنچا آئیں گے… ماشاء اﷲ! کیا جذبہ ہے اور کتنی بلند سوچ… اﷲ پاک ان جوانوں
کی زندگی میں برکت دے… خود شہادت کے پیچھے دوڑتے ہیں اور لوگوں میں زندگی کا احساس
بانٹتے ہیں… ہر ایک دو ماہ بعد ان کو وہ سوجھتا ہے جس میں امتِ مسلمہ کے لئے خیر ہی
خیر ہوتی ہے… یہ کبھی جہاد کی آواز لگاتے ہیں تو کبھی مساجد کی…کبھی ان پر اقامتِ
صلوٰۃ کی فکر سوار ہوتی ہے تو کبھی امتِ مسلمہ کو قرون اولیٰ سے جوڑنے کی… پچھلے
کئی سالوں سے انہوں نے اجتماعی قربانی کا سلسلہ شروع کیا ہے… اور ماشاء اﷲ وہاں
وہاںتک گوشت پہنچایا ہے جہاں تک پہنچانا اﷲ تعالیٰ کی خاص توفیق کے بغیر ممکن نہیں
ہے… مدارس، مساجد، غرباء، مسافر اور اُمتِ مسلمہ کی حفاظت اور عظمت کی خاطر اپنا
سب کچھ لٹانے والوں تک… آپ میں سے جس کو اﷲ تعالیٰ ہمت اور توفیق دے وہ اس سال بھی…
الرحمت ٹرسٹ کے ساتھ اجتماعی قربانی میں بھرپور حصّہ لے…اﷲ تعالیٰ جتنی استطاعت
دے… ایک قربانی یا زیادہ… اگر استطاعت نہیںتو دعاء مانگیں کہ استطاعت مل جائے… پھر
بھی نہیں ملی تو دوسروں کو ترغیب دیں… آگے جہاں ہم نے جانا ہے وہاں نیکیوں کی بہت
ضرورت ہوگی… اﷲ کرے ہم سب نیکیاں کمانے والے بن جائیں…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
بے
چارے
اﷲ
تعالیٰ کی رحمت ہے کہ پھر’’خوشی‘‘ کا دن آرہا ہے… جی ہاں’’عیدالاضحیٰ‘‘ پوری شان
کے ساتھ تشریف لار ہی ہے… مرحبا، صد مرحبا… میں کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو اُن
پر’’ترس‘‘ آتا ہے… وہ بیچارے کتنی تکلیف میں ہیں… اور دوسرے کچھ لوگوں کو دیکھتا
ہوں تو ’’رشک‘‘ آتا ہے کہ ما شاء اﷲ کتنے خوش ہیں اور کتنے کامیاب… اچھا اس بات
کو یہاں روک کرماضی کی طرف چلتے ہیں… مدینہ
منورہ میں کچھ لوگ تھے جن تک ’’اسلام‘‘ تو پہنچ گیا مگر وہ اسلام تک نہ پہنچ سکے یعنی
دل سے مسلمان نہ ہوئے… بس اُن کو مجبوراً خود کو’’مسلمان‘‘ کہلوانا پڑا… اُن کے
نام بھی اسلامی، خاندان بھی اسلامی… اوراٹھنابیٹھنا بھی مسلمانوں کے ساتھ… اور
مردم شماری میںبھی ان کا شمار مسلمانوں میں… دراصل وہ’’بیچارے‘‘ پھنس گئے تھے… وہ
تو اسلام کے قریب بھی نہ آتے مگر کیا کرتے کہ اسلام خود ان تک پہنچ گیا… اب ان کی
ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح اسلام سے جان چھوٹے تو وہ کافروں والی’’آزاد زندگی‘‘
گزاریں… جی ہاں لبرل بالکل لبرل… وہ دن رات اسی فکر میں جلتے تھے کہ معلوم نہیں کب
مسلمان کمزور ہوں گے اور کب اسلام ختم ہو گا… وہ مسجد میں بھی آتے تھے… جمعہ کا
خطبہ بھی سنتے تھے… بعض اوقات مجبوراً غزوات میں بھی چل پڑتے تھے… مگر اُن کی جان
عذاب میں آگئی تھی… انہیں مسلمان اچھے نہیں لگتے تھے… پھر بھی انہیں مسلمانوں کے
ساتھ رہنا پڑتا… انہیں کافروں سے بہت پیار تھا مگر وہ کھل کر ان کے ساتھ شامل نہیں
ہو سکتے تھے… مسلمانوں کو جب کوئی فتح ملتی
تو یہ لوگ ڈر کی وجہ سے سہم جاتے اور موت انہیں آنکھوں کے سامنے نظر آتی… لیکن
جب مسلمانوں پر کوئی ظاہری مصیبت پڑتی تو وہ بہت خوش ہوتے… اور انہیں امید کی روشنی
نظر آنے لگتی کہ عنقریب ہم ’’لبرل‘‘ اور آزاد زندگی گزار سکیں گے…
کئی بار تو انہیں اپنی منزل بہت قریب نظر آئی
اور انہوں نے اچھی خاصی خوشی منا ڈالی… غزوہ بدر کے موقع پر جب نہتے مسلمان ابو
جہل کے مسلح لشکر کے سامنے آئے تو اس
طبقے کو خیال ہوا کہ اب جان چھوٹی… مگر مسلمان پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر مدینہ
منورہ لوٹ آئے… غزوہ اُحد کے موقع پر اس طبقے نے خوشی کی مٹھائیاں بانٹ لیں اور
مستقبل کے سہانے خواب بھی دیکھ لئے مگر مسلمان سنبھل گئے… پھر غزوہ احزاب شروع ہوا
تو ان لوگوں کی جان میں جان آئی… اخبارات تو اُس زمانے میں تھے نہیں کہ وہ
’’کالم‘‘ لکھتے… ٹی وی چینل بھی نہیں تھے کہ اُس پر آکر مسلمانوں کے مکمل خاتمے کی
پیشین گوئیاں کرتے… ہوٹل بھی نہیںتھے کہ وہاں سیمینار کر کے اکٹھے ناچتے… موبائل
فون بھی نہیں تھے کہ وہ ابو سفیان کے لشکر کو’’خوش آمدید‘‘ کے میسج بھیجتے… مگر
اُن کے پاس زبانیں تھیں جو انہوں نے خوب چلائیں اور مجلسیں تھیں جو انہوں نے خوب
گرمائیں… آپس میں ملتے اور قہقہے لگاتے کہ لوبھائی روم فارس فتح کرنے کی ڈینگیں
مارنے والے اب امن کے ساتھ بیت الخلاء بھی نہیں جا سکتے… ابوسفیان کا دس ہزار کا
اتحادی لشکر مدینہ منورہ کے سر پربیٹھا
تھا اور مسلمان ہر طرف سے شدید محاصرے میں تھے… تب یہ ’’بیچارے ‘‘ لوگ بہت خوش
تھے… کبھی تو خط لکھ کر اتحادی لشکرکو بتاتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں… اور کبھی آپس
میں بیٹھ کر مجلس گرماتے کہ یار… ہمیں چاہئے کہ حضرت محمد(ﷺ) کو (نعوذ باﷲ) پکڑ کر
مشرکین کے حوالے کر دیں… ہم ایک شخص کی وجہ سے
اپنا شہر تو تباہ نہیں کرواسکتے… اِن کو مشرکین کے حوالے کر دیں گے تو پھر
ہم امن کے ساتھ اپنی’’لبرل‘‘ زندگی گزاریں گے… انہیں سو فیصد امید تھی کہ اس بار
اُن کا مسئلہ حل ہو جائے گا… مگر ہائے، بیچارے… چند دنوں کے بعد اُن کی تمام امیدیں
دم توڑ گئیں اوراتحادی لشکر… شکست کی کالک اپنے منہ پر سجائے واپس چلا گیا… مگر یہ
لوگ بھی اپنی ’’بدقسمتی‘‘ میں پکے تھے… انہیں امید تھی کہ چلیں آج نہیں تو کل
مسلمان ختم ہو جائیں گے… جب غزوہ تبوک کا وقت آیاتو ان کی امیدیں پھر بیدار ہونے
لگیں… اُن کے تجزیہ نگار دانشور کہنے لگے کہ رومیوں کا لشکر مسلمانوں کو باندھ کر
لے جائے گا… مگر ہائے حسرت، ہائے ناکامی… مسلمان دومۃ الجندل کی غنیمت لے کر
واپس آگئے… اور یہ طبقہ اپنی حسرتوں کو
اپنے ساتھ لے کر مرکھپ گیا…
دنیا میں بھی خسارہ اور آخرت میں تو سراسر
خسارہ… مسلمان آگے بڑھتے گئے اور دنیا کے حکمران بن گئے… پاکستان میں بھی طویل
عرصہ سے ایک طبقہ یہ اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ… عنقریب دیندار مسلمان ختم ہو جائیںگے…
عنقریب دینی مدارس پر تالے ڈال دیئے جائیںگے… عنقریب اس ملک میں جہاد کا نام لینا
بھی ممنوع قرار پائے گا… اور عنقریب مجاہدین کی نسل تک ختم ہو جائے گی… اُن کی
تمنا ہے کہ اس ملک میں اذان کی آواز نہ گونجے… کوئی مولوی عالم نظر نہ آئے… کوئی
مجاہدیہاں تکبیر بلند نہ کرے… وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں شراب آزاد ہو… ہر شہر میں
بڑے بڑے نائٹ کلب ہوں… مردوں اور عورتوں کو راستوں پرگدھوں کی طرح آپس میں’’روشن خیالی‘‘ کرنے کی آزادی ہو… اور یہ
ملک یورپ اور بھارت کی تصویر بن جائے… پاکستان کا یہ طبقہ کافی طاقتور ہے مگر پھر
بھی’’بے چارہ‘‘ ہے… ایوب خان کے زمانے میں ان کو امید تھی کہ پاکستان مکمل’’لبرل
ملک‘‘ بن جائے گا… اور ایوب خان تمام مولویوں کو سمندر میں پھینک دے گا… مگر ہائے
حسرت کہ کام نہ بنا… ایوب خان نے اپنے کانوں سے’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے
سنے… اور پھر ایک مولوی نے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی… ضیاء الحق کے زمانے میں یہ
طبقہ کچھ مایوس رہا… مگر پرویز مشرف کے دور میں اس کی امیدیں آسمانوں تک جا پہنچیں…
پرویز مشرف بھی چلا گیا… اب ان کی امیدیں موجودہ حکومت اور امریکہ سے وابستہ ہیں…
افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو یہ لوگ خوشی سے مرے جارہے تھے… اُن دنوں
اخبارات میں ان کے کالم قابو سے باہر نکل رہے تھے… اُن کا خیال تھا کہ امریکہ
افغانستان اور پاکستان کے تمام داڑھی، پگڑی والوں کو مار دے گا… مگر ہائے حسرت،
ہائے ناکامی… آج امریکہ مذاکرات کے لئے داڑھی، پگڑی والوں کو ڈھونڈ رہا ہے…
مجھے
ترس آتا ہے اُن صحافی مردوں اور عورتوں پر جنہوں نے یہ امید لگا رکھی ہے کہ…
جہادبند ہو جائے گا، مساجد ویران ہو جائیں گی… اذان پرمیوزک کی آواز غالب آجائے
گی…ارے بدنصیبو! اگر تمہیں ہزار سال کی زندگی مل جائے، قارون کے خزانے مل جائیں
اور فرعون کی طاقت مل جائے… تب بھی تمہارے یہ خواب پورے ہونے والے نہیں ہیں…
تم لوگ تو خواہ مخواہ کی آگ میں جل رہے ہو… اگر
تمہیں اسلام، قرآن اور جہاد سے اتنی ہی نفرت ہے تو پھر کافروں کے ملکوں میں
جابسو… وہاں خنزیر کا گوشت بھی ملتا ہے اور شراب بھی… اور سڑکوں پر ’’روشن خیالی‘‘
کی بھی اجازت ہے… ہاں اتنی پریشانی ضرور ہے کہ تمہیں وہاں بھی کسی نہ کسی جگہ اذان کی آواز سننے کو
ملے گی… تب اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینا… اورتمہیں داڑھی ،پگڑی والے بھی ملیں
گے تب اپنا راستہ بدل لینا… ارے کم عقل لوگو! آخرت کا تو تم نے سوچا نہیں مگر
جہاد کے خلاف کام کر کے اپنی دنیا کیوں برباد کر رہے ہو؟… یہ بھاری پتھر تم سے نہیں
اٹھایا جائے گا… تم عبداﷲ بن ابی اور ابن سبا سے زیادہ سازشی اور میر جعفر اور میر
صادق سے زیادہ عیار نہیں ہو… تم نے تو ایک ایسے گناہ کو اپنا مشن بنا لیا ہے جو
گناہ تمہارے بس میں ہی نہیں ہے… تم سمجھتے ہو کہ انگریزی اخبارات میں مجاہدین کے
خلاف’’جاسوسی کالم‘‘ لکھو گے تو تمہارے کہنے پر امریکہ والے اُن مجاہدین کو ختم کر
دیں گے… عجیب بے وقوفی ہے اور عجیب بد نصیبی… پاکستان میں کئی’’تھنک ٹینکس‘‘ بن
گئے… یہ سارا دن کافروں کو بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں فلاں مجاہد ہے… فلاں
مدرسہ خطرناک ہے اور فوج میں فلاں آفیسر دیندار ہے… پاکستان کے کئی صحافی مرد اور
عورتیں باقاعدہ سی آئی اے، موساد اور را کے لئے کام کرتے ہیں… ان سب کو یہ امید
ہے کہ بس اب چند دن میں مجاہدین ختم ہوجائیں گے… یہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ پچھلے
نو سال میں مدارس کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے… اور جہاد بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے…
اسلام اور جہاد تو ہمیشہ مشکل حالات میں پھلتے پھولتے ہیں… لال مسجد پرآپریشن ہوا
تو ان لوگوں نے خوشی میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے… مگر نتیجہ کیا نکلا؟ لال مسجد آج
بھی آباد ہے… ایک جامعہ حفصہؓ کی جگہ کئی
جامعہ حفصہ ز بن چکے ہیں… اور مسلمانوں کو
ایک اور شہید کا مزار مل گیا ہے… سوات آپریشن شروع ہوا تو ان لوگوں کی امیدیں آسمان تک جا پہنچیں کہ اب پورے ملک سے اسلام
کا خاتمہ ہوجائے گا… پاک انڈیا مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو یہ لوگ خوشی سے چھلانگیں
لگانے نکل پڑتے ہیں… مگر پھر آخر میں سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا… آج کل
پھر یہ طبقہ خوشی اور امید میںمست ہے… ان کے دانشور کھوجی کتوں کی طرح دُم اٹھا کر
حکومت کو ہر تنظیم، ہر مدرسے اور ہرمرکز پر حملے کے لئے بلار ہے ہیں… ان کے صحافی
مرد اورعورتیں اپنے گناہوں کی ناپاکی کو سیاہی بنا کر کالم لکھ رہے ہیں… اور ان کے
بااثر لوگ امریکہ اور حکومت کو اپنا آپریشن پھیلانے کے مشورے دے رہے ہیں… ارے بے
چارو! امریکہ بھی تمہاری طرح’’بے چارہ‘‘ ہے
وہ تمہارا نوکر تو نہیں کہ تمہارے کہنے پر اپنا مزید نقصان کرے… وہ تو اب
طالبان سے مذاکرات کے لئے بے چین ہے… اور حکومت تو تمہارے مشورے مان مان کر تھک چکی
ہے… اُسے بھی اب تمہارے مشوروں سے موت کی بو آنا شروع ہو گئی ہے … وہ دیکھو! عیدالاضحیٰ
پوری شان کے ساتھ آرہی ہے… یہ کرسمس نہیں ’’عیدالاضحیٰ‘‘ ہے قربانی والی عید… ہاں
قربانی والی… وہ دیکھو لاکھوں مسلمان احرام باندھنے کی تیاری کر رہے ہیں… وہ
تمہارے’’گورو‘‘ شیطان کو پتھر ماریں گے… وہ دیکھو فلسطین کے بیٹوں اور بیٹیوں نے عید
پر قربانی دینے کے لئے اپنے ماتھوں پر
کلمہ طیبہ کی پٹی باندھ کر… راکٹ اٹھا لئے ہیں… وہ دیکھو! افغانستان میں فدائیوں کی
یلغار ہے…وہ دیکھو! کشمیر پھر انگڑائی لے رہا ہے اور بی ایس ایف کے ڈی آئی جی کی
چتاجل رہی ہے…عیدالاضحی آرہی ہے… ماشاء اﷲ پوری شان کے ساتھ آرہی ہے… مجھے اُن
بد نصیب لوگوں پر ترس آرہا ہے جو حسرت اور ناکامی کی آگ میں جل رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ
اُن کو اور ناکامیاں دکھائے… اور مجھے اُن لوگوں پر رشک آرہا ہے جو اپنی جانوں کو
تکلیف میں ڈال کر… اسلام کی خدمت کر رہے ہیں… مسلمانوں کی خدمت کر رہے ہیں… جو
اسلام کے ایک ایک حکم کی پہرے داری کر رہے ہیں… جو شرعی جہاد کی شمع اپنے خون سے
جلا رہے ہیں… جو ہردن اجر وثواب کماتے ہیں… اور ہررات نیکیاں سمیٹتے ہیں… اﷲ تعالیٰ
اُن پر رحمت فرما رہا ہے… اُن کا کام بڑھتا جار ہا ہے… اور اُن کی کامیابیوں میں
بھی دن رات اضافہ ہو رہا ہے… یہ وہ لوگ ہیں
جو’’ایثار‘‘ کرتے ہیں… خود کم کھاتے ہیں اپنا حصہ دوسروں کو کھلاتے ہیں… جو
مال کا ایثار بھی کرتے ہیں اور جان کا بھی… یا اﷲ ہمیں بھی قبولیت کے ساتھ ان
لوگوںمیںشامل فرما…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
کرامت
اولیاء
اﷲ
تعالیٰ حضرات انبیاء دکے ہاتھ پر’’معجزے‘‘ ظاہر فرماتا ہے… اور اپنے ’’اولیاء
کرام‘‘ کے ہاتھ پر’’کرامات‘‘ ظاہر فرماتا ہے… جو چیز ظاہری طور پر ناممکن نظر آتی
ہو… اورپھر وہ کسی’’نبی‘‘ کے ہاتھ سے ہوجائے تو ’’معجزہ‘‘ جیسے رسول اﷲﷺ کے اشارے
سے چاند دوٹکڑے ہو گیا… اور اگر کوئی ناممکن چیز’’ نبی‘‘ کے علاوہ کسی ’’مؤمن‘‘
کے ہاتھ سے ہو جائے تو وہ’’ کرامت‘‘ کہلاتی ہے… جیسا کہ حضرات صحابہ کرام ڑ کے
لشکر کا پانی پر چلنا… ’’اولیاء کرام‘‘ کی کرامات ’’برحق‘‘ ہیں… اور آقا مدنیﷺ کی
اُمت میں ’’کرامات‘‘ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا…ابھی امریکہ کے صدر نے
افغانستان میں مزید تیس ہزار فوج بھیجنے کا اعلان کیا ہے… جو اس بات کا کھلا
اعتراف ہے کہ گذشتہ آٹھ سال میں جو اتحادی لشکر بھیجا گیا وہ شکست کھا چکا ہے… یہ
اس زمانے کے مجاہدین کی تازہ’’کرامت‘‘ ہے… اﷲ اکبر کبیرا، والحمدﷲ کثیرا، وسبحان اﷲ
بکرۃ و اصیلا
عظیم
الشان کرامت
کوئی
نہیں مانتا تھا کہ’’ امریکہ‘‘ کا مقابلہ کرنا ممکن ہے… کوئی نہیں مانتا تھا کہ
افغانستان میں نیٹو افواج کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا… بڑے بڑے عسکری پنڈت کہتے
تھے مجاہدین زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک لڑ سکیں گے… مگر یہ کیا ہوا؟… آٹھ سال سے
زائد کا عرصہ بیت گیا… جدید طیارے بمباری کرتے کرتے گھِس گئے…ٹینکوں کے دھانے آگ
اگل اگل کر پگھل گئے… خلائی سیارچے جاسوسی کر کرکے اندھے ہوگئے… ٹیکنالوجی کروٹیں
بدل بدل کر شرمندہ ہو گئی… مگر افغانستان آج بھی تکبیر کے نعروں اور مجاہدین کے
قدموں سے گونج رہا ہے… کیا یہ کرامت نہیں ہے؟… کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں
کہ’’قرآن کریم‘‘ برحق ہے، اسلام سچا دین ہے…اور جہاد ناقابل تسخیر ہے؟… صدر ابامہ
نے اپنے مختصر سے دور حکومت میں دوسری بار مزید فوج افغانستان بھیجی ہے… اور ساتھ
ہی اٹھارہ مہینے بعد اپنی فوج واپس بُلانے کا اعلان کر دیا ہے… اﷲ اکبر کبیرا…
تھوڑا سا سوچیں تو دل اﷲ تعالیٰ کی عظمت سے بھر جاتا ہے… کہاں امریکہ اور اُس کی
طاقت اور کہاں مجاہدین اور اُن کی بے سروسامانی… مگر اﷲ پاک ایک ہے… اور وہ
غالب،قوت والاہے…
نئی
پالیسی اور خوشی
امریکہ
نے افغانستان پر اپنی جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے… اس پالیسی سے کئی لوگ تو بہت
خوش ہیں… مثلاً مصنوعی اعضاء بنانے والی امریکی کمپنیاں خوشی منا رہی ہیں … اُن کو
یقین ہے کہ اگلے دو سال میں اُن کا کاروبار ترقی کرے گا… بہت سی ٹانگیں،بازو اور دیگر
اعضاء فروخت ہوں گے… تابوت بنانے والی کمپنیاں بھی کافی خوش ہیں اُن کے بہت سے
تابوت فروخت ہوںگے… اور مہنگی قیمت پر بکیں گے… امریکہ کے آس پاس کے وہ ممالک جو
امریکی پالیسیوں سے تنگ ہیں وہ بھی خوشیاںمنا رہے ہیں… اُن کا کہنا ہے کہ
افغانستان میں مزید فوج بھیجنے سے امریکہ کمزور ہو گا… اسی طرح افغانستان کے مجاہدین
بھی کافی خوش ہیں… وہ لوگ امریکی فوجیوں کو ’’قیمتی شکار‘‘ کہتے ہیں… انہیں شکایت
تھی کہ’’فدائی مجاہد‘‘ اپنی گاڑی لیکر کئی کئی دن گھومتا رہتا ہے اور اُسے امریکی
نہیں ملتے… اب تازہ دم تیس ہزار فوج کے آنے سے یہ شکایت دور ہوجائے گی… امریکی
فوج اپنے ساتھ بہت سا عملہ بھی لائے گی… اس عملے کے کئی افراد اغواء کر لئے گئے تو
’’فدیہ‘‘ میں کروڑوں ڈالر ملیں گے… اور کئی مجاہدین جو ’’افغان آرمی‘‘ میں بھرتی
ہو چکے ہیں وہ بھی شدّت کے ساتھ غیر ملکی افواج کا انتظار کر رہے ہیں… پچھلے دنوں
ایسے ہی ایک مجاہد نے سات برطانوی فوجیوں کے تابوت برطانیہ پارسل کروا دیئے…
نئی
پالیسی اور غم
امریکہ
کی تازہ پالیسی سے کئی لوگ کافی غم زدہ بھی ہیں… یہ دنیا عجیب جگہ ہے یہاں کسی چیز
سے ایک آدمی خوش ہوتا ہے تو دوسرا غمگین… امریکہ کے جو تیس ہزار فوجی افغانستان
جانے ہیں وہ کافی پریشان ہیں… اسی پریشانی میں ایک’’میجر صاحب‘‘ نے فائرنگ کر کے تیرہ
فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے… یوں وہ تیرہ فوجی افغانستان جانے سے بچ گئے ہیں… ان تیس
ہزار فوجیوں میں کئی’’خواتین فوجنیاں‘‘ بھی ہیں… سنا ہے وہ بہت پریشان ہیں اور
اکثر چھپ چھپ کر روتی رہتی ہیں… ان تیس ہزار فوجیوں اور فوجنیوں کے اہل خانہ سخت
پریشان ہیں اُن کے گھروں پر ماتم کا سماں ہے… پاکستان کے حکمران بھی پریشان ہیں کیونکہ
اُن کو بتائے بغیر اس پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے… اور اس پالیسی میں زیادہ’’وزن‘‘
افغانستان پر نہیںبلکہ پاکستان پر ڈالا گیا ہے…
پالیسی
اور پریشانی
صدر
اُبامہ نے اپنی تازہ افغان پالیسی کا اعلان جس پریشانی میں کیا ہے اُس کا اندازہ
لگانا مشکل ہے… چھ ماہ تک انہوں نے اس مسئلے پر مشاورت کی… آٹھ ہفتے کی محنت سے
اپنی آدھے گھنٹے کی تقریر تیار کی…اور اس تقریر میں بائیس مرتبہ پاکستان کا نام لیا…
یعنی تقریر میں ہر ڈیڑھ منٹ بعد پاکستان کا نعرہ لگایا… ابامہ کی مشکل یہ تھی کہ ایک
طرف تو اُن کی پیٹھ پر امن کا نوبل انعام لدا ہوا ہے… جبکہ دوسری طرف امریکی گوروں
کا دباؤ تھا کہ کوئی کارنامہ دکھاؤ… صدر اُبامہ کے اپنے اختیار میں ہوتا تو وہ
کل صبح تک افغانستان سے فوجیں نکال لیتے مگر وہ اگلے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل
کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کا خون پینا چاہتے ہیں… افغانستان میں موجود
امریکی اور نیٹو افواج نے اپنے حکمرانوں کو بتادیا ہے کہ افغانستان میں فتح حاصل
کرنا ناممکن ہے… امریکہ کے اڑتالیس فیصد لوگوں نے بھی فوجیں واپس بلانے کے لئے
دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے… ان حالات میں اُبامہ ’’بے چارہ‘‘ پھنس گیا… چنانچہ
اُس نے درمیانی راستہ اختیار کیا… شدّت پسندوں سے کہا خوش ہو جاؤ! میں نے مزید تیس
ہزار فوج افغانستان بھیج دی ہے… اور جنگ مخالف طبقے سے کہا کہ خوش ہو جاؤ! میں نے
افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس لانے کے لئے یہ تیس ہزار فوج بھیجی ہے تاکہ… یہ
اپنے بھائیوں کو بحفاظت واپس لا سکیں… مگر خبروں میں آرہا ہے کہ اُبامہ ’’بے
چارے‘‘ سے کوئی بھی خوش نہیں… شدّت پسند کہہ رہے ہیں کہ واپسی کا اعلان کیوں کیا؟…
اور جنگ مخالف کہہ رہے ہیں کہ مزید فوجی کیوں بھیجے؟… بے شک آقا مدنیﷺ کی اُمت سے
لڑنے والے اسی طرح کی پریشانی اور الجھنوں میں دفن ہوتے رہتے ہیں… اﷲ اکبر کبیرا…
پالیسی
کے تین رُخ
امریکہ
نے افغانستان پر جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے آخر اس کی حقیقت کیا ہے؟… غور
کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نئی پالیسی کے تین اہداف یا مقاصد ہیں…
(۱) افغانستان
میں شدید خانہ جنگی کرانا…
(۲) پاکستان
کو جس قدر ممکن ہو کمزور اور برباد کرنا…
(۳) انڈیا
اور ایران کو افغانستان میں طاقت دینا…
آپ
حضرات جانتے ہیں کہ ’’انگریز‘‘ دنیا کی شاطر ترین قوم ہے… انگریزوں کے ایک
کرنل’’لارنس‘‘ نے عربوں کو ماضی میں جو نقصان پہنچایا وہ بھی آپ کو معلوم ہو گا…
اور لارڈ میکالے نے برصغیر کے مسلمانوں کو جس طرح سے برباد کیا وہ بھی آپ جانتے ہیں…
ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان میں خوفناک خانہ جنگی
کرانے کے لئے برطانیہ کے ایک سابق فوجی’’جنرل لیمب‘‘ کی خدمات حاصل کی ہیں… ’’جنرل
لیمب‘‘ برطانیہ کے خفیہ ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں… اور انہوں نے عراق میں’’سنیّوں‘‘
کو کمزور کرنے میں خاص کردار ادا کیا ہے… اس وقت’’جنرل لیمب‘‘ افغانوں کو اور
مجاہدین کو آپس میں لڑانے کے مشن پر ہیں… امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے’’جنرل
لیمب‘‘ کو اربوں ڈالر خرچ کرنے کااختیار دے رکھا ہے… اور جنرل لیمب کا کہنا ہے کہ
اُس کی محنتوں کا نتیجہ اگلے چھ ماہ میں ظاہر ہونا شروع ہوجائے گا… گذشتہ کچھ عرصہ
سے طالبان کے ساتھ جن مذاکرات کا شور ہے وہ بھی جنرل لیمب کے اپنے طالبان ہیں… وکیل
احمد متوکل اور اس طرح کے دوسرے لوگ جنرل لیمب کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں… اور
جنرل لیمب کو امید ہے کہ چند مہینوں کے بعد افغانستان میں’’طالبان‘‘ کے ایک ایسے
گروہ کا اعلان ہو جائے گا جو روشن خیال اور اعتدال پسند کہلائے گا… پھر ان روشن خیال
طالبان پر اصلی طالبان حملے کریں گے تو افغانوں کی باہم لڑائی شروع ہو جائے گی…
اور پھر اس لڑائی کی آڑ میں امریکہ وغیرہ افغانستان سے اپنی’’عزت‘‘ بچا کر کھسک
جائیں گے… اس دوران انڈیا اور ایران کو افغانستان میں طاقتور کیا جائے گا… تاکہ وہ
اُن افغانوں کی مدد کرتے رہیں… جو اسلام اور پاکستان کے مخالف اور امریکہ کے حامی
ہوں گے… اورتیسری طرف ان اٹھارہ مہینوں میں پاکستان کاگھیرا تنگ کیا جائے گا… اور
پاکستان میں جنگیں بھڑکا کر اُسے کمزور کر دیا جائے گا…
بس
آخری آرزو
ہمارے
ایک سابق دوست نے اپنے علاقے کے ایک عالم کا قصہ سنایا… وہ عالم صاحب جب نوجوان
تھے تو شادی کے بارے میں کافی اونچا معیار رکھتے تھے… انہوں نے اپنی مجوّزہ دلہن
کے لئے ستائیس شرطیں لکھ رکھی تھیں… والدین جہاں بھی رشتہ دیکھنے جاتے تو تمام
ستائیس شرطیں بہرحال موجود نہیں ہوتی تھیں… اور یوں اُن کی شادی مؤخر ہوتی گئی
اور سراورداڑھی میں سفید بال چمکنے لگے… اور لوگوں نے بھی رُخ پھیر لیا… تب انہوں
نے اعلان کیا کہ بھائیو! میری شادی کرادو… اور دلہن کے لئے بس ایک ہی شرط ہے کہ وہ
’’عورت‘‘ ہو… بالکل اسی طرح امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کے لشکر گھر سے نکلے تھے تو
اُن کے دعوے بلند اور عزائم بہت اونچے تھے… وہ کہتے تھے کہ ہم صلیبی جنگ میں نکلے
ہیں مسلمانوں کو اچھی طرح سبق سکھائیں گے… ہم جہاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے… ہم
دہشت گردی کا قلع قمع کردیں گے… ہم طالبان کا نام و نشان تک مٹا دیں گے…
مگر
اب آٹھ سال بعد اُن کے عزائم شرمندہ ہو چکے ہیں… اور تمام ستائیس شرطیں ختم ہو گئی
ہیں… اب اُن کی بس اتنی سی آرزو ہے کہ کسی طرح انہیں ایک’’شیخ اسامہ‘‘ اصلی ہو یا
نقلی مل جائے… تاکہ وہ اُن کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر اپنی تھوڑی سی ناک بچا سکیں…
پچھلے دنوں برطانوی وزیر اعظم ’’گارڈن براؤن‘‘ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ ہمیں
اُسامہ پکڑ کر دے دو… کیونکہ ہمیں اس بات سے شرم آرہی ہے کہ ہم آٹھ سال کی محنت
کے باوجود اُسے کیوں نہیں پکڑ سکے… اسی طرح کے کئی بیانات امریکہ کی طرف سے بھی
آرہے ہیں… … اﷲ تعالیٰ کی طاقت دیکھیں… اور ایمان والوں کے ساتھ اُس کی نصرت دیکھیں
کہ… دنیا میں خدائی کا دعویٰ کرنے والے ممالک ایک ایک مسلمان کے سامنے کس طرح سے
بے بس ہیں… کاش ہم سب سچے مسلمان بن جائیں…
پالیسی
اور تین مشکلات
کیا
امریکہ کی نئی افغان پالیسی کامیاب ہو جائے گی؟… غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ
پالیسی انشاء اﷲ بُری طرح سے ناکام ہو گی… اور اس ناکامی کی موٹی موٹی وجوہات تین
ہیں…
(۱) قرآن پاک سچی کتاب ہے… اپنے ہوں یا غیر سبھی مانتے ہیں کہ…
قرآن پاک جو کچھ فرماتا ہے وہ بالکل اٹل ہوتا ہے… قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے یہ
اعلان فرما دیا ہے کہ… اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کا مولیٰ… یعنی حامی ومددگار ہے اور
کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں… یعنی کافر’’بے چارے‘‘ ہیں… افغانستان کے مجاہدین…
الحمدﷲ دولت ایمان سے سر شار ہیں… افغانستان میں پہلے بھی غیر ملکی فوجیں موجود تھیں…
اب مزید آجائیں گی تو اس سے ایمان والوں کا ایمان اور زیادہ ہو گا… اور وہ کہیں
گے’’حسبنا اﷲ ونعم الوکیل‘‘ اور ایمان جب بڑھے گا تو اﷲ تعالیٰ کی نصرت بھی بڑھ
جائے گی…
(۲) امریکہ نے تیس ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے… اگر
مسلمانوں کی تیس ہزار ماؤں نے اپنے بیٹے افغانستان میں لڑنے بھیج دیئے تو… اتحادی
لشکروں پر زمین تنگ ہو جائے گی… اور مسلمان ماؤں کے لئے ایسا کرنا مشکل نہیں ہے…
وہ تو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے دودھ پلاتی ہیں… اور شہادت کا شوق جگا کر اپنے بیٹوں
کو سُلاتی ہیں…
(۳) افغانستان میں جو’’طالبان‘‘ لڑ رہے ہیں… وہ صرف ایک تنظیم
نہیں بلکہ تحریک بن چکے ہیں… تنظیموں کو توڑنا آسان ہو تا ہے مگر تحریکوں کو
توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے… اور اگرکوئی تحریک ایک امیر کی قیادت میں ہو تو پھر تنظیم
کے باقی عہدیداروں کے آنے جانے سے تحریک پر کوئی فرق نہیں پڑتا… جنرل لیمب جیسے
لوگ عہدیداروں تک تو پہنچ سکتے ہیں مگر عام مجاہدین تک اُن کا پہنچنا ناممکن ہے…
اس لئے اگر چند ’’عہدیدار‘‘ بِک بھی گئے یا ٹوٹ گئے تو اس سے تحریک کمزور نہیں ہو
گی پھر عراق اور افغانستان کے حالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے… عراق میں ’’ہنگامی
جہاد‘‘ تھا جبکہ افغانستان میں’’مستقل جہاد‘‘ہے…عراق میں بعث پارٹی نے جہاد پر
پابندی لگا رکھی تھی… جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ہنگامی بنیادوں پراچانک
جہاد شروع ہوا… اور اس جہاد میں باہر کے مجاہدین زیادہ تعداد میں شریک ہوئے…
چنانچہ جنرل لیمب جیسے لوگوں کو جزوی طور پر یہ کامیابی ملی کہ انہوں نے’’سنی
قبائل‘‘ کو مجاہدین کے خلاف کھڑا کر دیا… اس کامیاب سازش کے باوجود اب بھی عراق میں
جہاد موجود ہے اور غیر ملکی افواج نے خود اپنی شکست کا اعلان کیا ہے… مگر
افغانستان میں جو لوگ لڑ رہے ہیں وہ تو سالہاسال سے’’مجاہد‘‘ہیں… ان میں سے اکثر
تو شہداء کرام کی اولاد ہیں… اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے آنکھیں جہادی ماحول میں
کھولی ہیں… اس لئے ’’جنرل لیمب‘‘ کو انشاء اﷲ افغانستان میں کوئی کامیابی نہیںمل
سکے گی… باقی رہا مسلمانوں کا آپس میں لڑنا تو وہ تو ویسے ہی لڑتے رہتے ہیں… آج
کل اُن کو آپس میں لڑنے کے لئے کسی سازش یا ’’جنرل لیمب‘‘ کی ضرورت نہیں پڑتی…
اﷲ
تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان اتفاق عطاء فرمائے… بہر حال اُن کی آپس کی تھوڑی بہت
لڑائی سے انشاء اﷲ تحریک جہاد کمزور نہیں ہو گی…
یا
اﷲ امت محمدیہ( علی صاحبھا الف صلوات وتحیات) پر رحم فرما…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
روشن
مستقبل
اﷲ
تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ… میری زندگی کے کتنے دن باقی ہیں… اور آپ سب کی زندگیوں کے
کتنے دن باقی ہیں… نجومیوں سے پوچھنا فضول ہے، وہ کچھ نہیںجانتے… اُن کی باتوں پر
اعتماد کرنا خطرناک گناہ ہے… یہ گناہ بعض اوقات’’ایمان‘‘ تک چھین لیتا ہے… اخبارات
میں’’ یہ ہفتہ کیسے گزرے گا‘‘ کے عنوان سے جو کچھ شائع ہوتا ہے… اُسے بالکل نہ
پڑھا کریں… مجھے اور آپ کو تو بس یہ فکر کرنی چاہئے کہ … زندگی کے جتنے دن
اورلمحات باقی ہیں وہ ایمان پر گزرجائیں… اور خاتمہ ایمان پرنصیب ہوجائے…آج صبح
صبح اخبار خریدا… اس میں کئی کالم تھے… ایک بوڑھے صحافی نے آج پھر جہاد اور مجاہدین
کے خلاف زہریلا کالم لکھا ہے… ان صاحب کی عمر تراسی سال ہے مگر دین اور جہادکے
خلاف اُن کے جذبے پوری طرح سے جوان ہیں… میں نے پورا کالم غور سے پڑھا… اکثر باتیں
جھوٹی، گناہ آلود اور شر انگیز ہیں… ایک بات بھی ایسی نہیں لکھی جو یہ ثابت کر
سکے کہ اُن کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق ہے… کالم پڑھ کر پہلے تو مجھے غصہ
آیا… ارادہ کیا کہ آج اسی موضوع پر لکھوں گا… وضو کرنے کے بعد نماز اداکی تو مجھ
پر غصے کی جگہ خوف سوار ہوگیا کہ آئندہ کل میرا کیا بنے گا؟… بہت سے لوگ پہلے نیک
ہوتے ہیں مگر مرنے کے قریب گمراہ ہوجاتے ہیں… العیاذ باﷲ، العیاذ باﷲ… کئی صحافی
جو افغان جہاد کے ابتدائی زمانے میں جہاد کے حامی تھے… اُس وقت جہاد کی حمایت میں
کوئی خطرہ نہیں تھا… مگر جب افغان جہاد کا تیسرا دور شروع ہوا تو وہ بھی جہاد کے
خلاف لکھنے لگے… اور انہوں نے’’ایمان‘‘ کی بجائے’’جان‘‘ بچانے کو ترجیح دی… کئی
لوگ جوانی کے آغاز میں نماز کے بہت پابند ہوتے ہیں مگر شادی کے بعد سست اور پھر
گمراہ ہو جاتے ہیں… ایک صاحب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ عالم تھے، ان کے چہرے
پر داڑھی کا نور تھا، مگرپھر دنیا کے چکروں میں پڑے تو علم سے بھی محروم ہوگئے اور
داڑھی سے بھی… اور اب ریڈیو پاکستان میں کام کرتے ہیں… کئی لوگ پہلے مجاہد تھے مگر
آج کل امریکہ کے باقاعدہ ملازم ہیں اور دن رات جہاد کے خلاف کام کرتے ہیں… کئی
خواتین کے بارے میں سنا کہ پردے کی سخت پابندتھیں… مگر اب پردے کی نعمت سے محروم
ہو چکی ہیں… کئی عورتیں تہجد گزار تھیں مگر اب فرض نماز میں بھی سستی کر کے کفر کی
طرف دوڑ رہی ہیں…ہمارے چاروں طرف اس طرح کی بے شمار خوفناک مثالیں بکھری پڑی ہیں…ہم
کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بہت اونچے تھے مگر بلندی پر جم نہ سکے اور نیچے گر پڑے…
ماضی کے کئی نامور مجاہد، کئی بڑے مبلغ، کئی متقی لوگ آج ذلّت اورگناہوں کی زندگی
میں ڈوب چکے ہیں… میں اسی خوف میں مبتلا ہو گیا کہ یا اﷲ میرا کیا بنے گا؟… نیکی
کا راستہ تو بہت بلند ہے مگربلندی پر پہنچ کر چکّر آتے ہیں اور شیطان بھی دھکّے دیتا
ہے… اور جو انسان جتنی بلندی سے گرتاہے وہ اُتنا ہی زیادہ برباد ہوتا ہے… اﷲ تعالیٰ
تو بے نیاز ہے … اتنے بڑے بڑے آسمانوں کامالک اور اتنی بڑی زمینوں کا پیدا کرنے
والا… ’’تراسی‘‘ سال کے ایک بوڑھے کو اس عمر میں بھی موت یاد نہیں ہے… وہ پیسے
کمانے کے لئے جھوٹ لکھ رہا ہے… گناہ لکھ رہا ہے… اور دین کے دشمنوں کی وکالت کر
رہا ہے… اﷲ تعالیٰ کو کیا پرواہ؟… اُس کے سامنے کوئی بڑا بڑا نہیں اور کوئی
طاقتور، طاقتور نہیں… ہاںہم اس بات کے محتاج ہیں کہ ہم ایمان لائیں… اور پھر مرتے
دم تک ایمان پر قائم رہیں…مگر ایمان پر کیسے قائم رہیں؟… ہر طرف سے گناہ اور گمراہی
کی دعوت ہے… ایک نوجوان کو دیکھا دین پر پختہ تھے… جہاد کا کافی جذبہ رکھتے تھے
مگرجب شادی کا وقت آیا تو پھسل گئے… داڑھی پر قینچی چلی اور دین سے دور جا گرے…
کتنے لوگ جو حلال، حرام کا بہت خیال رکھتے تھے… مگر دنیا نے تھوڑی سی کشش دکھائی تو
سودی بینکوں سے قرضے لیکر اندھیری کھائیوں میں جا گرے… یا اﷲ ہمارا کیا بنے گا؟…
استاذ سیّاف پشاور میں ہوتے تھے اور شہداء کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنے بیانات سے
جذبات کی آگ بھڑکاتے تھے… آج کابل میں امریکہ کے حواری ہیں… اﷲ تعالیٰ کو کیا
پرواہ؟… اﷲ تعالیٰ جہاد کے لئے کسی سیّاف اور کسی ربّانی کا محتاج نہیں… اُس نے
اپنے جہاد کو زندہ رکھنے کے لئے ایسے مجاہد کھڑے فرما دیئے جن پر ماضی کے مجاہد بھی
رشک کرسکتے ہیں… کس عظمت اور ایمان کے ساتھ ایک ’’فدائی‘‘ اٹھتا ہے اور پورے عزم
کے ساتھ اپنی جان قربان کرتا ہے… ان مخلصین کے سامنے اونچے ناموں والے اور
پروٹوکول والے لفافوں کی کیا حیثیت ہے؟… کیمروں اور ویڈیو نے تو’’اخلاص‘‘ کا جنازہ
نکال دیا ہے… طرح طرح کے پوز ہیں اور طرح طرح کی تصویریں… جب سب کچھ لوگوںکو ہی
دکھانا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کو کیا دکھائیں گے؟… اﷲ تعالیٰ کے پاس کیا لے جائیں
گے؟… اِس زمانے کے کافروں نے گمراہی کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں… ایمان
چھوڑو اور مزے کرو… جہاد چھوڑو اور مزے کرو… نوٹ، ڈالر،لڑکیاں، فلمیں، جہاز، سیکرٹریاں…
اور ہر غلاظت… ایسے لوگ جن کے چہروں پر ایمان کا نور برستا تھا’’دنیا پرستی‘‘ میں
مبتلا ہو کر ہر نور اور ہرروشنی سے محروم ہو گئے… وہ لوگ جو صحابہ کرامؓ کی فقیری
کے واقعات مزے لے لے کر سناتے تھے اب کیمروں والے موبائل مزے لے لے کر استعمال
کرتے ہیں… اور اُن کا دل ہر وہ گناہ مانگتا ہے جن گناہوں کی خواہش ایک مسلمان نہیں
صرف’’کافر‘‘ کر سکتا ہے… یا اﷲہمارا کیا بنے گا؟… خوفناک آزمائشیں منہ پھاڑ کر
کھڑی ہیں… کوئی چند دن جیل جاتا ہے تو واپسی پر ایمان اورجہاد سے بھاگ جاتا ہے… کسی
کوگھر چھوڑنا پڑتا ہے تو وہ گھر کی خاطر دین کی قربانی دے دیتا ہے… کسی پر تھوڑی سی
بیماری آتی ہے تو اپنی بیماری کو بڑھا چڑھا کر خود کو’’معذور‘‘ قرار دے دیتاہے…
کسی پر تھوڑی سی گھریلو مشکلات آتی ہیں تو وہ دین اور جہادکو پیٹھ کے پیچھے پھینک
دیتاہے… نام تو ہم حضرت ابراہیم علیہ ج کا لیتے ہیں جو آگ میں ڈالے گئے، مگر ڈٹے
رہے… قصّے ہم حضرت موسیٰ علیج کے سناتے ہیں جو ماں کی گود سے آزمائشوں میں رگڑے
گئے… واقعات ہم حضرت بلال ذاور حضرت سمیہز کے سناتے ہیں… مگر دین کی خاطر دو ڈنڈے
اور چار تھپڑ برداشت نہیں کر سکتے… اﷲ نہ کرے ہم پر وہ حالات آجائیں جو اﷲ تعالیٰ
کے ان مقرّب بندوں پر آئے تو معلوم نہیں ہم کہاں تک جا گریں گے؟… دین اور جہاد میں
آزمائشیں تو آتی ہیں… یہ جمہوریت کا کھیل تو ہے نہیں کہ فوٹو کھنچوائیں، وزارتیں
پائیں اور خود کو دھوکہ دیں کہ ہم نے دین کی بہت خدمت کر لی ہے… دین پہلے اپنے دل
میں اُترتاہے اور پھر اُس کی شاخیں اعمال کی صورت میں پھیلتی ہیں… اور جب دین اور
جہادپختہ ہوتے ہیں تو آزمائشیں شروع ہو جاتی ہیں… اور یہی وقت اصل امتحان کا ہوتا
ہے… کیا ہم زندگی کے اگلے یعنی آخری دنوں میں بھی دین پر قائم رہ سکیں گے؟… یا دنیا
کی ہوائیں ہمیںجہنم کی طرف جا پھینکیں گی… یا اﷲ رحم فرما… کئی لوگ تو ایسے بھی ہیںکہ
پوری زندگی بہت اچھی گزارتے ہیں مگر…عمر کے بالکل آخری حصے یعنی بڑھاپے میں وہ
گمراہ اور گناہ گار ہو جاتے ہیں… کوئی اولاد کی خاطر، کوئی تھوڑے سے امن و آرام کی
خاطر…کوئی ضد کی وجہ سے اورکوئی عزت اور مال کے شوق میں… یا اﷲ رحم فرما ہمارا کیا
بنے گا؟… کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جو زندگی کے آخری سانس تک ڈٹے رہے اور ایمان
پر جمے رہے… اگر ہم بھی اُنہی لوگوں میںشامل ہونا چاہتے ہیں تو پھر اس کا ایک
راستہ ہے… اور وہ راستہ اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا ہے… ہم رو رو کر، گڑ گڑا کر اﷲ
تعالیٰ سے مدد مانگیں کہ یااﷲ ایمان پر ثابت قدمی نصیب فرما… یا اﷲ ہمیں ایمان
کامل عطاء فرما اور اسی ایمان کامل پرہمارا خاتمہ فرما… اس کے لئے ایک ’’دعاء‘‘
کاہم بہت اہتمام کریں…
کنزالعمال
میں آیا ہے کہ حضرت صدیق اکبرذاس دعاء کا اہتمام فرماتے تھے… بعض روایات میں یہ
مسنون دعاء حضرت انس ذسے بھی مروی ہے… اور اسی حوالے سے ’’مناجات مقبول‘‘ میں
مذکور ہے… طبرانی میں حضرت انسذ کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپﷺ نے ایک’’اعرابی‘‘
کو یہ دعاء مانگتے ہوئے سنا تو آپﷺ نے اُس’’اعرابی‘‘ کو انعام و اکرام سے نوازہ…
بندہ نے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدپ کوسفر میں دیکھا کہ وہ اس دعاء کا
بہت اہتمام فرماتے تھے… ابھی حال ہی میں پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی پ کی
تفسیر ترکی سے شائع ہوئی ہے… اس تفسیر کے مرتب’’شیخ محمد فاضل جیلانی‘‘نے مقدمے کا
اختتام اسی دعاء پر فرمایا ہے… حیاۃ الحیوان میں ایک شخص کا واقعہ ہے کہ وہ عرصہ
دراز سے رومیوں کی قیدمیں تھا… ایک دن بہت آہ وزاری کر کے سویا تو ایک پرندے نے
اُسے دعاء سکھلائی… تین راتیں اُس دعاء کا اہتمام کیا تو اﷲ پاک نے باعزت اور حیرت
انگیز رہائی عطاء فرمائی… اُس دعاء میں یہ دعاء بھی شامل ہے جو آج ہمارا موضوع
ہے…
مناجات
مقبول میں طبرانی کے حوالے سے یہ دعاء اس طرح سے ہے
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ خَیْرَ عُمُرِیْ اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَوَاتِیْمَہٗ وَ خَیْرَ اَیَّامِیْ
یَوْمَ اَلْقَاکَ فِیْہِ
ترجمہ:
اے میرے پروردگار! میری عمر کا بہترین حصہ اس کے آخری پہر کو بنائیے اور میرے
بہترین اعمال میرے آخری اعمال بنائیے اور میری زندگی کا سب سے اچھا دن وہ بنائیے
جس دن میں آپ سے ملوں…(مناجات ص ۳۰)
کنز
العمال میں’’سنن سعید بن منصور‘‘ کے حوالے سے روایت اور الفاظ ا س طرح سے ہیں
’’حضرت معاویہ
بن قرۃ س سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکرصدیقذ اپنی دعاء میں فرماتے تھے
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ خَیْرَ عُمُرِیْ اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَوَاتِمَہٗ وَ خَیْرَ اَیَّامِیْ
یَوْمَ اَلْقَاکَ (کنز العمال ص ۲۸۴،جلد۲)
ترجمہ
ان الفاظ کا بھی وہی ہے البتہ دو جگہ الفاظ میں فرق ہے… آپ کو جو الفاط یاد ہو سکیں
وہ کر لیں… مناجات مقبول میں اس سے پہلے ایک اور دعاء کو بھی جوڑا گیا ہے… وہ اس
دعاء کا حصّہ نہیں بلکہ الگ دعاء ہے جو’’طبرانی‘‘ میں حضرت عائشہز سے مروی ہے…
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِبَرِسِنِّی وَانْقِطَاعِ عُمُرِیْ
جس
کا مفہوم یہ ہے کہ یااﷲ میری سب سے زیادہ کشادہ روزی مجھے بڑھاپے اور عمر کے آخری
حصے میں عطاء فرمایئے…
اس
دعاء کوبھی پہلی دعاء کے ساتھ جوڑ لیں تو اور زیادہ اچھا ہو جائے گا… بڑھاپے میں
انسان روزی کے بارے میں تنگدست اور محتاج نہ ہو تو اُس کے لئے ایمان اور عمل پر
قائم رہنا آسان ہو جاتا ہے… اب اس دعاء
پر مختلف پہلوؤں سے تھوڑا سا غورکریں…
(۱) یہ دعاء ہم سب
کے اندر اس بات کی فکر پیدا کرتی ہے کہ ہمارا زندگی کا ہر اگلادن… پچھلے دن سے
بہتر ہونا چاہئے…ایمان یہ نہیں کہ چند دن جوش اورجذبے میں کچھ کر لیا اورپھر ڈھیلے
پڑ کر شیطان کا شکار بن گئے…
(۲) یہ دعاء ہمارے اندر’’انجام‘‘ کا خوف پیدا کرتی ہے… جو ایک
مؤمن،مجاہداورعبادت گزار مسلمان کے لئے ضروری ہے… اگرہم نے اپنے جہاد اور اپنی
عبادت کو بہت کچھ سمجھ لیا تو ہم کسی بھی وقت اس سے محروم ہو سکتے ہیں… اس لئے ہر
وقت اپنے انجام اور خاتمے کے خوف میںرہ کر پوری زندگی ایمان اور اعمال میںلگے رہنا
چاہئے… اورکسی وقت بھی اپنے آپ کو ’’ہمیشہ کے لئے کامیاب‘‘ نہیںسمجھنا چاہئے…
(۳) اپنی زندگی کے ہر دن کو تولتے رہنا چاہئے کہ یہ دن ماضی کے
دنوں سے بہتر ہوا یا نہیں؟… ہرنئے دن کا ملنا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے…تو ہر
نئے دن اپنے ایمان، اپنے اعمال اور اپنے علم و نیت میں ترقی حاصل کرنی چاہئے…
(۴) اس دعاء میں مستقبل کی کامیابی اور حسن خاتمہ کی تڑپ ہے کہ
ایک بندہ اﷲتعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ… یااﷲ! آپ ہی میری زندگی، موت اور میرے دن
رات کے مالک ہیں… شیطان مجھے ہردن گرانا چاہتا ہے آپ مجھے سنبھال لیجئے… ہر اگلے
دن مجھے ایمان میں ترقی عطاء فرمائیے… اورمیرے اعمال میں اورزیادہ قوت عطاء فرمائیے…
اور اُس دن میرے لئے ترقی کا عروج ہوجس دن مجھے موت آنی ہے…
اِس
وقت ہر طرف فتنوں کی آندھیاں چل رہی ہیں… گمراہی کا سیلاب تیزی سے بڑھ رہا ہے…
اور گناہوں کی دعوت قدم قدم پر چل رہی ہے… سب سے خطرناک’’صحافت کا میدان‘‘ ہے…
اکثر صحافیوں نے اپنا ایمان اور ضمیر بیچ دیا ہے… یہ مجاہدین کے سب سے خطرناک دشمن
ہیں… یہ دوست بن کر بھی ڈستے ہیں اور دشمن بن کر بھی وار کرتے ہیں… ان کے ذریعے ہر
برائی مجاہدین تک پہنچتی ہے اور یہی کفر اور شیطان کی نمائندگی کرتے ہیں… کراچی میں
ایک بار ایک صحافی انٹرویو کے لئے آیا… یہ صحافی ایک نیم مذہبی رسالے میں بھی
لکھتا تھا اور اُس کے مضامین دینی حلقوںمیں پڑھے جاتے تھے… انٹرویو کے دوران اُس
نے ایک ایسا سوال کیا جس کا ٹھیک ٹھاک جواب دینے سے مجاہدین کو نقصان پہنچ سکتا
تھا… ظاہر بات ہے کہ جہاد میں آپ ہر وقت، ہر کسی کے خلاف نہیں بول سکتے… آج اگر
جرمن اور کورین قومیں طالبان سے معاہدہ کر لیں کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر نیٹو سے لڑیں
گے… تو اس معاہدے کے بعد طالبان میڈیا پر کوریا یا جرمن کے خلاف بیان تو نہیں دیں
گے… اسی طرح بعض اوقات مجاہد ایک دشمن سے لڑ رہا ہوتا ہے اور دوسرے دشمن کو اپنے
خلاف نہیں بھڑکانا چاہتا توان حالات میں بھی بیانات میں احتیاط کی جاتی ہے…جب اُس
صحافی نے مجھ سے شر انگیز سوال کیا تو میں نے اس کا ٹیپ ریکارڈر بند کر دیا اور
پوچھا کہ آپ تو نیک آدمی سمجھے جاتے ہیں… پھر آپ کیوں یہ شر انگیزی کررہے ہیں؟…
وہ ہنس کر بولا… مولانا صاحب! آپ کا کیا نقصان ہوگا اگر آپ کے دو جملوں سے مجھ
غریب کو دو، چار سو ڈالر مل جائیں… مجھے اُس کی حرص اور بے رحمی پر تعجب ہوا… یہی
صحافی ڈالروں کی خاطر مجاہدین کو میڈیا پر گھسیٹ کر لاتے ہیں… اور پھر زیادہ
ڈالروں کی خاطر اُن کو کافروں سے مرواتے ہیں… یہی لوگ مجاہدین سے اُلٹے سیدھے بیانات
لیتے ہیں… اور پھر ان بیانات کو آڑ بنا کر مجاہدین کی مخبری کرتے ہیں… ان کے دل و
دماغ میں سوائے مال اور عزت کے اور کوئی خیر نہیں ہوتی… یہ ہر ایمانی جذبے سے عاری
اور آخرت کی ہر فکر سے محروم ہوتے ہیں… ابھی حال ہی میں ڈالروں کے ایک پجاری
نے’’پنجابی طالبان‘‘ کے نام سے ایک شر انگیز کتاب لکھی ہے… اس کتاب کا مقصد حکومت
پاکستان اور امریکہ کو اس پر ابھارنا ہے کہ وہ پنجاب میں دینی طبقے کے خلاف فوری
آپریشن شروع کرے… آج صبح میں نے جو
اخبار خریداس میں’’تراسی سالہ‘‘ بابے نے اسی کتاب کی شان میں کالم لکھا ہے… مجھے
بہت عبرت ہوئی کہ اگر اﷲ تعالیٰ ناراض ہوجائے تو انسان کتنی مصیبت میں جا گرتا ہے…
اس تراسی سالہ شخص کی پوری زندگی ایک خوفناک عبرت ہے… بیماریاں، ناکامیاں، نامرادیاں…
زندگی کے قیمتی سال کمیونزم کی وکالت میں گزارے… اور پھر اپنی زندگی میں کمیونزم
کو ذلیل ہوتے دیکھ لیا… اب اس دین دشمن طبقے کی تمام امیدیں’’امریکہ‘‘ سے وابستہ ہیں…
حالانکہ یہ کچھ عرصہ پہلے تک مجاہدین کو امریکہ کا ایجنٹ کہتے تھے… اﷲ کی شان دیکھیں
کہ آج یہ سب خود امریکہ کے ایجنٹ بن کر موت کا انتظار کر رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ ہم
سب کو ایمانِ کامل نصیب فرمائے… اورہماری عمر کا ہر اگلا دن پچھلے دن سے بہتر
بنائے… آج جس دعاء کا تذکرہ ہو ا ہے ہم سب کو چاہئے کہ خوب توجہ … اور اخلاص سے
اس دعاء کو اپنا مستقل معمول بنا لیں…
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ خَیْرَ عُمُرِیْ اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَوَاتِیْمَہٗ وَ خَیْرَ اَیَّامِیْ
یَوْمَ اَلْقَاکَ فِیْہِ
خاص
طور پر وہ اوقات اورمقامات جن میں دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے ان میں… اور دعاؤں کے
ساتھ ساتھ اس دعاء کو بھی مانگا کریں مثلاً
(۱) اذان
کے وقت
(۲) جہادی
سفر پرجاتے ہوئے اور محاذ جنگ پر
(۳)جہاد
کی صف میں
(۴) تہجد
کے وقت
(۵) سنت
اور نفل نماز کے رکوع اور سجدوں میں
(۶) تلاوت
قرآنِ پاک کے بعد
(۸) فجر
کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان
(۸) زمزم
شریف پیتے وقت
(۹) حج
اور عمرہ کے مواقع اور مقامات پر
(۱۰) جب
نماز کی صف کھڑی ہوجائے
(۱۱) مسجد
کی طرف نماز کے لئے جاتے وقت
(۱۲) فرض
نماز کے بعد
(۱۳) اسماء
الحسنیٰ کے ورد کے بعد
وغیرہ
وغیرہ
اﷲ
تعالیٰ مجھے اورآپ کو توفیق عطاء فرمائے… اور اس دعاء کو میرے اور آپ سب کے حق میں
قبول فرمائے… کراچی سے ایک محترم دوست نے ’’خمیری مسلماں‘‘ نام کی ایک مختصرکتاب
بھیجی ہے… اس ایمان افروز کتاب میں دو ایسی مسلمان بیٹیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے
ہندو مذہب چھوڑکر’’دین اسلام‘‘ قبول کیا ہے… یہ عزیمت و استقامت کی ایک ایمان
بڑھانے والی داستان ہے… قارئین عموماً اورقارئات یعنی خواتین خصوصاً اس کتاب کا
مطالعہ کر لیںانشاء اﷲ دین پر چلنے میں مدد ملے گی… جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی نے یہ
کتاب چھاپی ہے… القلم کے اس شمارے میں اس کتاب کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے… اﷲ تعالیٰ
قبول فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
عاشقوں
کے نام
اللہ
تعالیٰ اس سال کو اُمت مسلمہ کے لئے فتوحات کا سال بنائے…آمین، والحمدللہ رب
العالمین…
نیا
اسلامی سال شروع ہو چکا ہے… اس سال کا نام ہے سن ۱۴۳۱ہجری…اللہ
تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ہر سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں…
اِنَّ
عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَاﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَھْراًفِیْ کِتَابِ اﷲِ یَوْمَ
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(التوبہ ۳۶)
ترجمہ:بے
شک اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے
ہیں،اللہ تعالیٰ کی کتا ب میں، جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا
فرمایا…
اس
سال کے بارہ مہینوں میں سے پہلے مہینے’’محرّم الحرام‘‘ کی آج ہمارے ہاں۳ تاریخ ہے…جبکہ
عرب ممالک میں ۴ تاریخ ہے…کاش پوری دنیا کے مسلمانوں کی تاریخ ایک ہو
جائے…حضرت امام ابوحنیفہ س کا تویہی مسلک ہے…پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن عید
منائیں… ایک ہی دن روزے شروع کریں…ایک ہی رات لیلۃ القدر کو پائیں…اور ایک ہی دن
اپنا نیا سال شروع کریں…افغانستان کے علماء کرام نے تو کافی پہلے یہ’’فتویٰ‘‘ دے
کر بہت سے جھگڑوں سے اپنی جان چھڑالی…چلیں چھوڑیں اس موضوع کو…اللہ تعالیٰ نے
پاکستان کو کبھی اچھے حکمران نصیب فرما دیئے تو یہ مسئلہ بھی انشاء اللہ حل ہو
جائے گا…فی الحال تو اسی طرح گزارہ چلائیں…چینی اسّی روپے اور آٹا اٹھائیس روپے
کلو خریدیں… کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو تین سو روپے دیتے تھے تو وہ نیا سوٹ بنا لیتاتھا
اور اب گوشت تین سو روپے کلو ہے…مسلمان خواتین تو گھر بیٹھے بیٹھے مالدار ہو گئیں…کیونکہ
سونا اب پینتیس ہزار روپے تولہ ہو چکا ہے…نیا سال شروع ہوچکا ہے…امریکہ ’’بے
چارہ‘‘سخت طوفانوں کی زد میں ہے…بارش، برفباری اور طوفانی آندھیاں … وہاں کی کئی ریاستوں
میں ہنگامی حالت کا اعلان ہو چکا ہے…ڈنمارک کے شہر ’’کوپن ہیگن‘‘میں ایک عالمی کانفرنس ہو رہی تھی…مقصد
اس ’’جلسے‘‘ کا یہ تھا کہ بڑے صنعتی ممالک زہریلی گیس کم چھوڑیں… ورنہ یہ دنیا بہت
جلد تباہ ہو جائے گی…مگر کوئی ملک بھی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھا…دنیا میں
سب سے زیادہ زہریلی گیس’’امریکہ‘‘ چھوڑتا ہے…ساری دنیا کے ممالک نے امریکہ کی منت
سماجت کی کہ …کچھ رحم کرو…اگر اسی طرح زہریلی گیسیں فضا میں اڑتی رہیں تو کچھ ہی
عرصہ میں زمین پر سانس لینا مشکل ہو جائے گا…تمام برفانی گلیشئر پگھل جائیں
گے…درجہ حرارت اتنا بڑھ جائے گا کہ زمین تندور سے زیادہ گرم ہو جائے گی…اور یہاں
رہنے والے تمام لوگ خودبخود’’روسٹ‘‘ ہو جائیں گے…اب بھارت بھی زیادہ زہریلی گیس
چھوڑنے لگا ہے…اس کو سب ممالک نے سمجھایا تو وہ کہتا ہے کہ مجھے’’پیسے‘‘ دو پھر میں
یہ حرکت نہیں کروں گا …ملکوں اور لوگوں کی ہوس اتنی بڑھ گئی ہے کہ کارخانوں پر
کارخانے لگ رہے ہیں…جنگلات تباہ ہو چکے ہیں ،دریائوں کا پانی زہریلا ہو رہا
ہے…سمندروں میںتابکاری پھیل رہی ہے … تازہ
ہوا اور آکسیجن…اب دھوئیں میں تبدیل ہو رہی ہے…پہاڑ ختم ہو رہے ہیں…اور زمین کو
مالداروں کی ہوس نے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا… کہاں گئے ٹیکنالوجی کے حق میں گیت
گانے والے؟… یہ کیسی ترقی ہے کہ آئندہ نسل کے لئے موت کے بیج بوئے جا رہے ہیں…طرح
طرح کی گاڑیاں …طرح طرح کے برتن،کپڑے ،فرنیچر اور طرح طرح کی فضول مشینیں…کیا
انسانوں کو دو ہزار قسم کے برتنوں کی ضرورت ہے یا تازہ ہوا اور صاف پانی کی؟… بیوقوفوں
کے نزدیک دنیا ترقی کررہی ہے اور حال یہ ہے کہ ہر شخص بیمار ہے…اسلام نے ’’پیسے‘‘
کی اہمیت کوبہت کم اور’’انسان‘‘ کی اہمیت کو بہت اونچا کردیا تھا…مگر آج پھر ’’پیسہ‘‘
سب کچھ ہے… اور ’’پیسے‘‘ کے اس حرص نے انسان کو ذلیل ،رسوا اور غیرمحفوظ کردیا
ہے…نیا سال شروع ہو چکا ہے دنیا کو ایک نئے مرض کا سامنا ہے…اس مرض کو ’’سوائن
فلو‘‘ یا خنزیری بخار کہتے ہیں…حضور اقدسﷺ ’’بُری بیماریوں‘‘ سے پناہ مانگا کرتے
تھے…آپ ﷺ کی مبارک دعائوں میں سے ایک دعا ء یہ بھی ہے…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجَذَمِ وَالْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَسَیِّئیِ
الْاَسْقَامِ
یا
اللہ میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں کوڑھ، برص، پاگل پن اور ہربری بیماری سے…
ہم
مسلمانوں کو اس دعاء کا اہتمام کرنا چاہیے… ویسے مسلمان اگر اسلامی تعلیمات پر عمل
کرے تو اسے اس طرح کی بیماریاں کم لگتی ہیں …غسل،وضو اور طہارت کا اہتمام،حلال
کھانا،نفل روزے رکھنا…صدقے کا اہتمام کرنا…اور اپنا حصہ دوسروں کو کھلانا…گھڑ سواری
کرنا ،تیراکی سیکھنا…تیر اندازی کی مشق کرنا…کھانا کم کھانا…بدنظری نہ کرنا…ان
تمام تعلیمات میں صحت ہی صحت ہے…مسلمان کے لئے منع ہے کہ وہ اپنے دل میں کسی
مسلمان کے لئے بغض ،کینہ اور حسد رکھے…جب دل میں بغض کینہ اور حسد نہ ہو تو دماغی
ٹینشن کم ہو تی ہے… اور اگر انسان اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوتو اُس کا بلڈپریشر
ٹھیک رہتا ہے…بس اللہ پاک نے جو کردیا وہ ٹھیک ہے اور ہم اس پر خوش ہیں…یہ وہ کیفیت
ہے جو بہت سی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج ہے…پاکستان کے ایک بڑے سیاستدان
کے بارے میں سنا ہے کہ جب۱۹۹۹ء میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹا تو ان کو گرفتار کر لیا گیا…انہیں
اور تو کوئی تکلیف نہیں دی گئی بس قید تنہائی میں رکھا گیا…وہ اس ادنیٰ سی تکلیف
کو بھی برداشت نہ کر سکے…بلکہ دوسرے تیسرے دن اُن پر وحشت طاری ہو گئی اور انہوں
نے اپنے تمام کپڑے اتار پھینکے اور غلاظت کرکے اُسے کھانے لگے…تب فوج والے اُن کو
اٹھا کراپنے آفیسر کے پاس لے گئے…جہاں منٹوں میں سودا طے پا گیا اور وہ فوجی حکومت
کے ’’طاقتور دوست‘‘ بن کر ٹی وی چینلوں پر چہکنے لگے…اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان
اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر یقین رکھتا ہو تو قید تنہائی میں اُسے مزہ آتا ہے… وہ دیواروں
اور چھتوں کو اپنے ساتھ ملا کر اللہ،اللہ کرتا ہے…اور اللہ تعالیٰ کی محبت اُس کی
تنہائی کو پُرنور محفل میں بدل دیتی ہے…باقی آزمائش کے طور پر اور اجر بڑھانے کے
لئے مسلمانوں پر بھی بیماریاں آتی ہیں…حضرات صحابہ کرام کے زمانے میں ملک شام کی
طرف’’طاعون‘‘کا مرض پھیل گیا تھا اس میںکئی
بڑے بڑے حضرات صحابہ کرام واصل بحق ہوئے اور انہوں نے ’’شہادت‘‘ کا مقام پایا…نیا
سال آرہا ہے اور اس سال میں بھارت کا بہت بُرا حال ہے…چاول کی فصل نہیں ہوئی ،ملک
میں بیمار ی اور فاقے کا دور دورہ ہے…ہندوئوں کی تنظیم’’بھارتی جنتا پارٹی‘‘ میں
شدید ٹوٹ پھوٹ جاری ہے… ایڈوانی کا آخری عہدہ بھی چھن چکا ہے اب وہ حزب اختلاف کا
لیڈر نہیں رہا…البتہ پارٹی نے اُسے خوش رکھنے کے لئے ایک نیا رسمی عہدہ گھڑا
ہے…پارلیمانی پارٹی کا چیئرمین…ہائے بے چارہ ایڈوانی…اُس کی ہر تمنا’’حسرت‘‘ میں
بدل گئی… وہ چاہتا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ مندر بنائے…مگر ابھی تک نہ بنا…وہ
چاہتا تھا کہ ملک کا وزیراعظم (پردھان منتری) بنے مگر نہ بن سکا…وہ چاہتا تھا کہ
مرتے دم تک اپنے ’’عہدوں‘‘ پر قائم رہے مگر ہر عہدہ اُس کے سر سے پھسلتا چلا گیا…
اور اب بدنامی کا یہ عالم ہے کہ پارٹی والے اپنی ہر خرابی کی ذمہ داری اُس پر ڈال
رہے ہیں…انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش میں سخت سیاسی بحران ہے…اور آج کل پورے انڈیا
میں اس پر بحث جاری ہے کہ دس سال پہلے بھارتی طیارے کے اغواء کے بدلے تین مجاہدین
کو رہا کرنا ٹھیک تھا یا غلط؟… جی ہاں اکتیس دسمبر کی تاریخ قریب آرہی ہے اکتیس
دسمبر۱۹۹۹ء بھارت کا ایک طیارہ اچانک اغواء ہو کر قندہار جا بیٹھا
تھا…نیا سال شروع ہو چکا ہے اور متحدہ عرب امارات کا شہر’’دبئی‘‘ سر سے پائوں تک
’’سود‘‘ کی دلدل میں پھنس گیا ہے…مسلمان کو ’’سود‘‘ کبھی ہضم نہیں ہوتا’’سود‘‘ ایک
تباہ کن لعنت ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے ’’زہر قاتل‘‘ ہے… دبئی ایک زمانے تک مال
کے شوقین لوگوں کے لئے بہت پرکشش تھا…لوگ دھڑا دھڑ ’’دبئی‘‘ جا رہے تھے… میں نے
کراچی میں ایسے تاجروں کو بھی دیکھا جو ہر ہفتے ایک دو دن کے لئے’’دبئی‘‘ کا چکر
لگا آتے تھے…کسی بھی انسان کو ’’نوٹ‘‘ جمع کرنے کا شوق ہو جائے تو پھر’’نوٹ‘‘ اُس
کے خون تک کو چوس لیتے ہیں…نہ آرام نہ سکون بس یہی فکر کے اتنے نوٹ آگئے اور اتنے
چلے گئے…یہ ’’نوٹ‘‘اگر آخرت بنانے پر خرچ ہوں تو پھر’’مالداری‘‘ بڑی رحمت ہے…انسان
معلوم نہیں کیا کچھ کما لیتا ہے…ایک بار ملتان ائیر پورٹ پر مجھے ایک صاحب ملے
…انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی کے ایک بڑے بزرگ عالم دین کے گھر کا تمام خرچہ پوری
زندگی دیتے رہے…مجھے اُن صاحب پر بہت رشک آیا…وہ جس عالم کا تذکرہ کررہے تھے انہوں
نے دین کا بہت کام کیا…درجنوں کتابیں لکھیں اور ہزاروں انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ
بنے… اور علم کی تو بہت خدمت کی…اب اس عقلمند مالدار نے ماہانہ کچھ رقم خرچ کرکے
اُن عالم کے سارے دینی کام میں اپنا حصہ خرید لیا…یقینا یہ بڑی سعادت ہے… سنا ہے
کہ کراچی وغیرہ میں کچھ ایسے مالداربھی ہیں جو صرف دین پر خرچ کرنے کے لئے مال
کماتے ہیں…انہوں نے کئی ایسی فیکٹریاں اور کارخانے لگا رکھے ہیں جن کی آمدن کی ایک
پائی وہ اپنے گھر نہیں لے جاتے…بلکہ تمام آمدن دینی کاموں پر خرچ کرتے ہیں…شروع میں
جب ہماری جماعت کا اعلان ہوا تو ملک میں جہاد پر پابندی نہیں تھی…تب کئی ایسے خوش
نصیب مالداروں کو دیکھا جنہوں نے جہاد پر بہت موٹی موٹی رقمیں لگائیں…دینی کاموں میں
سب سے زیادہ اجر جہاد میں مال خرچ کرنے کا ہے…قرآن پاک کی کئی مستقل آیات میں جہاد
پر خر چ کرنے کا حکم دیا گیا ہے…احادیث میں تو جہاد پر خرچ کرنے کے ایسے فضائل آئے
ہیں کہ انہیں پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ انسان اپنے تن کے کپڑے بھی جہاد میں دے
دے…تھوڑا سا افسوس اس بات کا ہے کہ جہاد پر خرچ کرنے کے فضائل عام طور سے بیان نہیں
کئے جاتے… اس کی وجہ سے اور کچھ حکومت کے خوف سے اب مالدار لوگ جہاد میں دینے سے
ڈرتے ہیں…حالانکہ جہاد میں مال لگانا بہت ہی اونچی سعادت ہے…بات ’’سود‘‘کی چل رہی
تھی کہ مسلمانوں کو’’سود‘‘ ہضم نہیں ہوتا…بینکوں سے سودی قرضہ لینا بہت بڑا گناہ
ہے…جی ہاں’’ کبیرہ گناہ‘‘ اوراس سے تمام مال ناپاک ہو جاتا ہے…دبئی والوں نے بھی
اپنی معیشت کی بنیاد سود اور بے حیائی پر رکھی تو اب یہ معیشت منہ کے بل گررہی ہے…
لاکھوں لوگ بے روزگار ہو کر وہاں سے بھاگ گئے ہیں…اونچی اونچی عمارتوں میں اب جن
اور بھوت رہتے ہیں… اور پراپرٹی کاکام
مکمل خسارے میں جا رہا ہے…اللہ تعالیٰ وہاں کے حکمرانوں کو دین پر عمل کرنے کی توفیق
عطا ء فرمائے…نیا سال شروع ہو چکا ہے اس حوالے سے باتیں تو بہت ہیں مگر اُن سب کو چھوڑ
کر صرف یہ بات عرض کرنی ہے کہ جو لوگ’’عشق‘‘ کے راستے کو اختیار کر چکے ہیں وہ اب
’’عقل‘‘ کی باتوں میں آکر پیچھے نہ ہٹیں…جہاد کا راستہ عشق کا راستہ ہے…بیعت علی
الجہاد کا راستہ سچے عشق کا راستہ ہے…آج جو چند مسلمان ’’شرعی جہاد‘‘ میں جڑے ہوئے
ہیں انہیں کی برکت سے ساری دنیا میں ہلچل ہے…انسان کی عقل بار بار اس راستے میں’’بریکر‘‘
یعنی رکاوٹیں لاتی ہے…مگر سچے عاشق کبھی واپسی کا نہیں سوچتے آج دنیا کی ساری چہل
پہل کے پیچھے یہی ’’مجاہدین‘‘ ہیں…بڑے بڑے بحری بیڑے ،اونچے اونچے قلعے،اڑتے ہوئے
جہاز،خفیہ سیارچے، دن رات کی میٹنگیں،صبح شام کی سازشیں… تکبیر کے نعرے،پہاڑوں کی
سرخی،صحرائوں کی لالی…اور قوس قزح کے رنگ… مجاہدین کی تھوڑی سی محنت نے ایک سپر
پاور کو بھکاری اور دوسرے کو ناکام شکاری بنا دیا ہے…مجاہدین کی تھوڑی سی قربانی
نے قرون اولیٰ کے تمام واقعات کا رنگ اس زمانے کودکھا دیا ہے…اب ایسے عظیم راستے
سے واپسی…اللہ تعالیٰ کی پناہ… جس کے دل میں بھییہخیال آئے وہ تو بہ استغفار
کرے…اور اللہ تعالیٰ سے استقامت مانگے…کہتے ہیں کہ بخارا کے حاجیوں کا ایک قافلہ…
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جا رہا تھا…عشق ومحبت کے جذبات کا سیلاب تھا کہ ابھی
تھوڑی دیر بعد ہم آقاﷺ کے قدموں میں ہوں گے…اور ہمیںمسجد نبوی کے سجدے نصیب ہوں
گے…راستے میں ڈاکہ پڑا…کئی حاجی مارے گئے… باقی جو بچ گئے انہوں نے کہا راستہ
خطرناک ہے ہم واپس چلتے ہیں…وہ سب واپس ہو گئے مگر ایک ’’بخاری نوجوان‘‘ آگے ہی
بڑھتا رہا… اُس نے کہا کہ وہ عشق کیسا جو موت اور حوادث سے ڈر جائے…عشق کے راستے کی
تکلیفیں تو محبت کے لذید جھٹکے ہوتے ہیں…اور اگر عشق کے راستے میں خنجر لگے تو وہ
خنجر نہیں ہوتا عید کا چاند ہوتا ہے… اقبال س نے اس واقعہ کوا پنے ان اشعار میں بیان
کیا ہے…
قافلہ
لوٹا گیا صحرا میں، اور منزل ہے دور
اس
بیاباں یعنی بحرِ خشک کا ساحل ہے دور
ہم
سفر میرے شکارِ دشنۂ رہزن ہوئے
بچ
گئے جو ،ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے
اس
بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی
موت
کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی
خنجر
رہزن اُسے گویا ہلال عید تھا
’’ہائے یثرب‘‘
دل میں،لب پہ نعرہ توحید تھا
خوف
کہتا ہے کہ‘‘یثرب‘‘ کی طرف تنہا نہ چل
شوق
کہتا ہے کہ ’’تو مسلم ہے بیباکا نہ چل‘‘
بے
زیارت سوئے بیت اللہ پھر جائوں گا کیا؟
عاشقوں
کو روز محشر منہ نہ دکھلائوں گا کیا؟
خوف
جان رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرتِ
مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز
گوسلامت
محملِ شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق
کی لذت مگر خطروں کی جانکاہی میں ہے
کیا
خوبصورت اشعار ہیں…حضور اکرمﷺ کی ہجرت نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ حجاز ی قافلوں کے
مسافر جان کی پرواہ نہیں کرتے…جان کی سلامتی تو ظاہری طور پر محفوظ لوگوں کے ساتھ
چلنے میں ہے…لیکن عشق کی لذت خطروں میں کود جانے میں ہے…اس زمانے میں’’شرعی جہاد‘‘
کی شمع روشن کرنے والے مجاہدین…رسول کریمﷺ کے مبارک لشکر کے سپاہی ہیں…کیا کسی
خوف،خطرے یا حالات کی خرابی کی وجہ سے اس لشکر کو چھوڑا جا سکتا ہے؟
یا
اللہ تادم شہادت’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ پر استقامت نصیب فرما آمین وصلی اللہ علی خیرخلقہ
سیدنا محمدوالہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیراً کثیراً
(گزارش: اقبال س
نے ضرورت شعری کی وجہ سے ’’مدینہ طیبہ‘‘ کو ’’یثرب‘‘ لکھا ہے، کئی اہل علم بعض روایات
کی روشنی میں مدینہ منورہ کو ’’یثرب‘‘ کہنے سے منع فرماتے ہیں، واللہ اعلم
بالصواب)
(دشنۂ یعنی
خنجر)(زہراب یعنی زہرملا پانی)
سلامتی
کا پیغام
اﷲ
اکبر کبیرا… عجیب شان ہے شہداء اسلام کی… سال کا پہلا مہینہ’’محرم الحرام‘‘ آتا
ہے تو اپنے ساتھ شہادتوں کی یادیں لاتا ہے… حضرت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن
الخطاب ذ کی شہادت… حضرت امیر سیدنا حسین
بن علی ر کی شہادت… اس وقت مُلک میں جو کچھ ہو رہا ہے…جی ہاں ماتمی جلوس، تعزیئے
اور مجلسیں… ان سب کا تو’’شہداء اسلام‘‘ سے کوئی تعلق نہیں… البتہ اِس وقت جو کچھ
افغانستان،کشمیر،فلسطین اور عراق وغیرہ میں ہو رہا ہے اُس کا تعلق حضرت عمرذاور
حضرت حسین ذ اور ماضی کے تمام شہداء اسلام کے ساتھ ہے…کشمیر میں مشرکین کے خلاف
جہاد ہے… جناب رسول کریم آقا مدنیﷺ نے… بدر، اُحد، خندق، فتح مکہ، حنین اور طائف
کی جنگیں مشرکین کے خلاف لڑی تھیں… انڈیا کی بی جے پی نے اپنے ایک’’کتابچے‘‘ میں
دعویٰ کیا ہے کہ مکہ کے مشرک’’ہندو‘‘ تھے… اور حضرت محمدﷺ نے اُن سے ’’کعبہ شریف‘‘
کوچھین لیا… افغانستان میں جن کفار کے خلاف جہاد ہو رہا ہے اُن میں سے اکثر کا
تعلق’’یہودونصاریٰ‘‘ کے ساتھ ہے… کچھ ان میں بدھ مت بھی ہیں، کچھ کیمونسٹ ہیں… اور
کچھ کھلم کھلا منافقین… منافقین کی بعض قسموں کے ساتھ’’ قتال ‘‘کرنا جائز ہے…
افغانستان کے منافقین بھی اُسی قسم کے ہیں… عراق کا جہاد مجوس، نصاریٰ اور یہود کے
مشترکہ اتحاد کے خلاف ہے جبکہ …فلسطین کے جانباز یہودیوں سے لڑ رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ’’صومالیہ‘‘
کے مجاہدین کو سلامت رکھے انہوں نے ’’سمندری جہاد‘‘ بھی شروع کر دیا ہے… احادیث
مبارکہ میں ’’سمندری جہاد‘‘ کی بہت فضیلت آئی ہے… حضور اقدسﷺ نے بنی قینقاع،بنی نضیر
اور بنی قریظہ… اورپھر خیبر کی جہادی جنگیں یہودیوں کے خلاف قائم فرمائیں… اورآپﷺ
نے ’’تبوک‘‘ کاسفر’’نصاریٰ‘‘ سے جہاد کے لئے فرمایا… اور آپﷺ نے ’’موتہ‘‘ کی طرف
جو جہادی لشکر روانہ فرمایا وہ بھی ’’نصاریٰ‘‘ کے مقابلے کے لئے تھا…پھر آپﷺ نے
مسلمانوں کو کئی جنگوں کی بشارتیںعطاء فرمائیں… ان بشارتوں میں ’’بحری جہاد‘‘ کی
خوشخبری بھی تھی…میرا سلام اُن تمام’’مجاہدین‘‘ کوجو اِس زمانے میں رسول اﷲﷺ کی
بشارتوں کا مصداق بنے ہوئے ہیں… دل چاہتا ہے کہ ان مجاہدین کے قدموں کی خاک جمع کر
کے اُسے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالوں… ویسے آپ کو ایک سچی بات اور بتاتاہوں کہ
اِس زمانے کے ’’مجاہدین‘‘ کا مقام ماشاء اﷲ بہت اونچا ہے…یہ بات تفصیل سے بیان نہیں
کر سکتا کہ ’’مجاہدین‘‘ اُسے پڑھ کر’’تکبّر‘‘ میں مبتلا نہ ہو جائیں… اور جو تکبّر
میں مبتلا ہوتا ہے وہ ’’جہاد‘‘ کے اونچے مقام سے پھسل کرنیچے گر جاتا ہے… آپ نے
کبھی اس نکتے کو سوچا کہ اِس زمانے کا جہاد افغانستان میں کیوں شروع ہوا؟…پھر
افغانستان سے کشمیر کے جہاد کا چراغ کیوں جلا؟… اور پھر عراق میں جہاد کے نعرے کیوں
گونجے؟… کبھی سوچا آپ نے؟… دنیا تو بہت بڑی ہے اور مسلمان الحمدﷲ ہر جگہ موجود ہیں…
اور کفار کا ظلم و ستم بھی تقریباً ہر جگہ موجود ہے… مگر افغانستان ہی سے اﷲ پاک
نے اس زمانے کے جہاد کا آغاز فرمایا اس میں بڑی حکمتیں ہیں… ’’دسمبر‘‘ کے ٹھنڈے
مہینے کو ’’عالمی میڈیا‘‘والے کئی حوالوں سے یاد کرتے ہیں… اور ہر سال دسمبر میں
مزید کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو سالہا سال تک یاد کیا جاتا ہے… بابری مسجد کی
شہادت چھ(۶) دسمبر کو ہوئی، مسلمانوں کو اپنا یہ زخم یاد آتا ہے… انڈین
طیارے کا اغواء بھی دسمبر میں ہوا انڈیا اپنے اس زخم کو کُھجاتا ہے… آج کل پیپلز
پارٹی والے بے نظیر صاحبہ کی دوسری برسی منا رہے ہیں… عیسائی برادری اپنا کرسمس
اور پاکستانی حکومت ’’جناح ڈے‘‘ بھی دسمبر میں مناتی ہے… یہ عجیب ٹھنڈا مہینہ ہے
جو گرم گرم واقعات سے بھرا پڑا ہے… انہیں گرم واقعات میں سے ایک واقعہ تیس(۳۰) سال
پہلے پیش آیا…تیئیس(۲۳)دسمبر ۱۹۷۹ء سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں… کسی کے
وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ’’سوویت یونین‘‘ کی موت اُسے افغانستان میں کھینچ
لائی ہے… اس سے پہلے ’’سوویت اتحاد‘‘ نے کبھی شکست کا نام تک نہیں سنا تھا… تیمورلنگ
جیسے فاتح کا شہر سمر قند… اور امام شاملپ کا قفقاز بھی’’سوویت اتحاد‘‘ کا حصہ بن
چکے تھے… افغانستان میں کیمونسٹوں کی دو طاقتور مقامی پارٹیاں موجود تھیں… ایک کا
نام’’خلق‘‘ اور دوسری کا نام’’پرچم‘‘ تھا… سوویت یونین کابل میں تنہا نہیں تھا…
بلکہ سالہا سال کی محنت نے افغانستان میں مقامی کیمونسٹوں اور کامریڈوں کا ایک
پورا لشکر تیار کر دیا تھا… حفیظ اﷲ امین،نورمحمد ترکئی، ببرک کارمل… اور نجیب… یہ
سب سوویت یونین کے نظریاتی اور جسمانی غلام تھے… روس کے جنگلات میں خونخوار’’گلم
جم ملیشیا‘‘ کو تیار کیا گیا تھا… اس ملیشیا کی کمان’’عبدالرشید دوستم‘‘ کے ہاتھ میں
تھی…ظاہری طور پر افغانستان… ایک ترلقمہ تھا… مگر اﷲ پاک کی شان دیکھیں کہ ’’سرخ ریچھ‘‘
بُری طرح پھنس گیا… ہمارے’’آلودماغ‘‘ دانشور ایک ہی بات فرماتے ہیں کہ امریکہ،
پاکستان اور دیگر ممالک نے’’سوویت یونین‘‘ کو شکست دے دی… ان ممالک نے مجاہدین کی
مدد کی… عرب ممالک سے مجاہدین کوبھرتی کرکے لے آئے… ساری دنیا سے مجاہدین کے
لئے’’گدھے‘‘خریدے… ان گدھوں پر بیٹھ کر مجاہدین نے سوویت یونین کو شکست دے دی… اگر
یہ بات سچی ہے تو آج امریکہ بھی موجود ہے اور اُس کے اتحادی بھی… وہ ساری دنیا سے
’’گدھے‘‘بھی خرید سکتے ہیں اور کرائے کے فوجی بھی بھرتی کر سکتے ہیں… تو کیا وجہ
ہے کہ آٹھ سال سے ’’طالبان‘‘ کو شکست نہیں دی جا سکی؟… عجیب بات یہ ہے کہ سوویت یونین
ایک بڑی ایٹمی طاقت تھی… جبکہ’’طالبان‘‘ ظاہری طور پر ایک معمولی سی طاقت ہیں…
دراصل یہ دانشور بیچارے کچھ نہیں سمجھتے، کچھ نہیں جانتے…اصل بات یہ ہے کہ
افغانستان کے مجاہدین نے بغیر کسی بیرونی امداد کے افغانستان کا جہاد شروع کیا… یہ
جہاد وہاں کی کیمونسٹ حکومت کے خلاف تھا… حکومت نے جب مجاہدین کا زور دیکھا تو
اپنے آقا سوویت یونین کوبُلایا… تیئیس دسمبر۱۹۷۹ء
کو سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کردیں… سوویت یونین کا یہ
لشکر’’ڈیڑھ لاکھ‘‘ فوجیوں پر مشتمل تھا… بعد میں اس میں کمی اور زیادتی ہوتی رہی…
مجاہدین نے اپنا جہاد جاری رکھا… نہ امریکہ کا تعاون تھا اور نہ پاکستان کا… سوویت
فوجوں نے جب وسیع پیمانے پر بمباری اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا تو’’ہجرت‘‘
شروع ہو گئی… پاکستان کو اﷲ پاک سلامت رکھے اُس نے اپنا سینہ کھول دیا… مہاجرین
پاکستان آگئے تو ان کے ساتھ مجاہدین بھی آنے جانے لگے… جب دنیا نے دیکھا کہ
مجاہدین بہت باعزم، مضبوط اور جنگ آزما ہیں تو ہر طرف سے امداد شروع ہو گئی… جہاد
کے واقعات عام ہوئے اور شہداء کے خون کی خوشبو پھیلی تو دنیا بھر سے خوش قسمت’’روحیں‘‘
جہاد کے میدان کی طرف دوڑنے لگیں… اور وہ نام نہاد اسلامی ممالک جہاں کے حکمرانوں
نے… دیندار مسلمانوں کو تنگ کر رکھا تھا وہاں کے کئی مسلمانوں نے بھی افغانستان
کارُخ کیا… افغانستان کا جہاد جب اچھی طرح جم گیا تو امریکہ وغیرہ نے اس موقع کو
اپنے لئے غنیمت سمجھا کہ اب سوویت یونین کوسبق سکھایا جا سکتا ہے… چنانچہ انہوں نے
بھی افغان مجاہدین کا تعاون کیا… یہ سب کچھ کیا تھا؟… اﷲ رب العزت کا تکوینی نظام…
جی ہاں اِس زمانے میں جہاد کے احیاء کا عالیشان انتظام… سوویت یونین کو شکست ہوگئی…
اور وہ ٹوٹتا اور بکھرتا چلا گیا… کابل میں کیمونسٹ حکومت ختم ہوئی… مگر خالص
مجاہدین بھی نہ آسکے… ایسا کیوں ہوا؟… یہ تفصیل پھر کبھی… مگر افغان جہاد کے تمام
بیرونی معاونین ہاتھ جھاڑ کر واپس چلے گئے… اگر افغان جہاد امریکہ کی جنگ ہوتی تو
امریکہ وہاں موجود رہتا… مگر امریکہ کا تو نام و نشان تک نہیں تھا… وہاں تو دو ماہ
کیلئے’’مجدّدی‘‘ اور پھر دو سال کے لئے ’’ربّانی‘‘ آئے… احمد شاہ مسعود اور حکمت یار
نے اپنے سینگ اڑائے… ہر صوبے پر الگ تنظیم نے حکومت قائم کی… اور گلم جم والے خوب
دندنائے… اُدھر سے ایران بھی گُھس آیا… حزب وحدت اور حرکتِ اسلامی کے نام سے دو ایران
نواز تنظیموں نے خوب اودھم مچایا… ہرات، بامیان اور مزار شریف کو وہ لے اُڑے… اس
افراتفری کے عالم میں شہداء کرام کے خون نے کروٹ لی اور طالبان ’’رحمتِ حق‘‘ بن کر
آئے… اور پچانوے فی صد افغانستان پر چھا گئے… اب دنیا بھر سے’’کفر ونفاق‘‘ کو اپنی
غلطی کا احساس ہوا… روس، انڈیا اور ایران نے’’شمالی اتحاد‘‘بنایا امریکہ اور یورپ
نے بھی اس شمالی اتحاد کی مدد کی… یہ افغان جہاد کا دوسرا دور تھا… طالبان اکیلے
تھے اور اُن کے مقابل شمالی اتحاد تھا جسے ہرطرف سے امداد اور گدھے مل رہے تھے…
مگر اس بار امداد اور گدھے دونوں بُری طرح ہار رہے تھے… اسی اثناء میں’’نائن الیون‘‘
کا واقعہ ہو گیا… کچھ اچھے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ امریکہ نے خود کرایا تاکہ
طالبان پر حملہ کر سکے… یہ خیال حقائق کے مطابق نہیں ہے… امریکہ ایک منہ زور طاقت
ہے اُسے کسی پر حملہ کرنے کے لئے اس طرح کے بہانوں کی ضرورت نہیں… اور بہانہ بھی ایسا
جس نے امریکہ کی معیشت کا بھرکس نکال دیا… بہرحال قسمت کی بات کہ’’نائن الیون‘‘ ہو
گیا… اور امریکہ کو اﷲ پاک نے اُس کے بِل سے نکال دیا… تب افغان جہاد کا تیسرا دور
شروع ہو گیاجسے اب آٹھ سال ہو چکے ہیں… اس جہاد میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی
طاقت مجاہدین کے ساتھ نہیں ہے… وجہ بالکل واضح ہے کہ سب امریکہ سے ڈرتے ہیں… مگر اﷲ
تعالیٰ کو امریکہ کا کیا ڈر… اﷲ تعالیٰ چاہے تو ایک اشارے سے زمین و آسمان کو
تباہ فرمادے… اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس جہاد کے لئے کھڑا فرما دیا… اسی سے
آپ اِس زمانے کے مجاہدین کا مقام سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو کتنے پیارے ہیں…دراصل
آخری زمانہ بھی اسلام کے پہلے زمانے کی طرح’’جہاد کا زمانہ‘‘ ہے… اور اس جہاد کا
بڑا لشکر افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں تیار ہونا ہے… طالقان کا علاقہ
افغانستان میں ہے جہاں سے مجاہدین کے لئے ایک بڑا خزانہ نکلے گا… روایات میں اس کی
بشارت موجود ہے… حضرت امام مہدی ذ کی خدمت میں خراسان سے کالے جھنڈوں والا لشکر
روانہ ہو گا… مجاہدین کا اصل راستہ کشمیر سے گزر کر ہندوستان تک پہنچتا ہے… چنانچہ
کشمیر بھی’’میدان جہاد‘‘ بن گیا… حضرت سید احمد شہیدپ کا لشکر بھی کشمیر کی طرف
روانہ تھا کہ راستے میں شہید کر دیاگیا… روایات میں ہے کہ افغانستان سے مجاہدین کا
لشکرہندوستان پہنچے گا اور وہاں کے حکمرانوں کو زنجیروں سے باندھے گا… یہی وہ آخری
زمانہ ہوگا جس میں بڑے بڑے واقعات پیش آئیں گے… حضرت امام مہدی ذ کا آنا… حضرت عیسیٰ
بن مریم ح کا نازل ہونا… دجّال کا نکلنا… مسلمانوں کے تین بڑے لشکروں کا تذکرہ
ملتا ہے… ملک شام والا لشکر تو جہاد فلسطین کے ذریعہ تیار ہو رہا ہے… خراسان کا
لشکر افغانستان اور کشمیرمیں جوان ہو رہا ہے… اور عراق کا لشکر جہاد عراق سے پیدا
ہو چکاہے… ساری دنیا کوگھیرنے کے لئے یہی تین لشکر کافی ہیں… اور وہ زمانہ تیزی سے
قریب آرہا ہے جب رسول اﷲﷺ کی بشارت کے مطابق زمین پر پھر ’’خلافت‘‘ کا عادلانہ
نظام قائم ہو گا… اور اسلام پوری دنیا پر غالب آجائے گا… جہاد کا نظریہ بہت تیزی
سے مسلمانوں میں عام ہو رہا ہے… اور کئی ممالک میں تو جہاد کی گمنام تحریکیں بھی
چل رہی ہیں… بے شک اِس زمانے کے مجاہدین مسلمانوں کے روشن مستقبل کی بنیاد بن رہے
ہیں… یہاں ایک چھوٹا سا نکتہ اور بھی سمجھ لیں… اِس زمانے کے جہاد کا ظاہری نتیجہ
سامنے نہیں آرہا…یعنی نہ افغانستان فتح ہوا، نہ کشمیر آزاد ہوااور نہ عراق میں
اسلامی حکومت قائم ہوئی… بعض لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ جہاد شرعی ہوتا تو
اسلام غالب اور نافذ ہو جاتا… مگر کسی جگہ بھی ایسا نہیں ہوا تو ثابت ہوا کہ(نعوذ
باﷲ) اِس زمانے کا جہاد غیر شرعی ہے… یہ اعتراض بالکل غلط ہے… اِس زمانے کا جہاد
تو مسلمانوں کی عظمت کے لئے بنیاد فراہم کر رہا ہے… یعنی پہلے ایک جہادی اُمت تیار
ہو گی جو آگے چل کر اسلام کو نافذ کرے گی… آج اگر فوری طور پر ان جہادی تحریکوں
کا ظاہری نتیجہ نکل آئے توجہاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے… وجہ یہ ہے کہ جب نتیجہ
نکلے گا تو مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے گی… کچھ وزیر بنیں گے اور کچھ مشیر…
جبکہ دنیا بھر کی سیاست اور معیشت پر یہود ونصاریٰ کا قبضہ ہے… اب جو حکومت بھی
بنے گی اُسے اپنی کرنسی اور اپنے خارجہ معاملات کی وجہ سے کفار کا محتاج ہو نا پڑے
گا… اور جہاد سے دستبردار ہونا پڑے گا… اوریوں تحریک جہاد ختم ہو جائے گی… جبکہ
موجودہ حالات میں اگرچہ کسی جگہ اسلامی حکومت قائم نہیں ہو رہی مگر جہاد کوقوت مل
رہی ہے… اُمت مسلمہ میں مجاہدین پیدا ہو رہے ہیں… اور کفر کی طاقت آہستہ آہستہ
پگھل رہی ہے… بس یہ سلسلہ اگر کچھ عرصہ اور جاری رہا تو دنیا پر سے کفار کی’’دادا
گیری‘‘ ختم ہو جائے گی… اور مسلمانوں میں بے شمار سچے مسلمان پیدا ہو جائیں گے…
اور سچا مسلمان تو وہی ہوتا ہے جو جہاد سمیت پورے دین کو مانتا ہو… اور اس پر عمل
کے لئے تیار رہتا ہو… جہاد کی موجودہ تحریکیں دیمک کی طرح کفار کے مضبوط قلعوں کو
اندر ہی اندر سے کھاتی جارہی ہیں… آپ کو یقین نہ آئے تو صرف پندرہ بیس سالوں کی
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں… کچھ عرصہ پہلے تک دنیا میں کفار کو چیلنج کرنے والا کوئی
بھی نہیں تھا… چنانچہ اس مستی میں انہوں نے’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان کر دیا کہ
اب… ساری دنیا ہماری غلام بن چکی ہے… اور اب وہی کچھ ہو گا جو ہم چاہیں گے… مگر
آج حالات بدل چکے ہیں… ایک سپرپاور تو دنیا کے نقشے سے ہی مٹ چکی ہے… جبکہ دوسری
سپر پاور اپنے فوجیوں کے تابوت اٹھارہی ہے… اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ اِس زمانے
کے مجاہدین کا مقام بہت اونچا ہے… اﷲ تعالیٰ تکبر، حبّ دنیا اور ریاکاری سے بچائے
اور استقامت عطاء فرمائے… ساری دنیا کے کفار کی خدمت میں گزارش ہے کہ’’اسلام‘‘ہی
سلامتی کا واحد راستہ ہے… جنگ آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے… حضرت محمدﷺ کے
اُمّتی جب میدانوں میں اُتر آئیں تو پھر آسمان وزمین کے غیبی لشکر بھی اُن کے
ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں… آپ لوگ مسلمانوں سے نہیں لڑ سکیں گے… اور ہر آنے والا دن
آپ کے لئے نئی مصیبتیں لائے گا… اس لئے اسلام کی طرف رجوع کریں… آپ اسلام قبول کر
لیں گے تو سلامتی پالیں گے اور ہمارے معزز بھائی بن جائیں گے… بس سال کے آغاز پر
مجاہدین کی طرف سے دنیا بھر کے لئے یہی پیغام ہے… جی ہاں سلامتی کا پیغام…وَالسََّلَامُ
عَلٰی مَنْ اِتَّبَعَ الْھُدٰی
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
صاحب
الجہاد ﷺ
اﷲ
تعالیٰ کے سب سے محبوب اور آخری نبی حضرت محمدﷺ’’جہادی نبی‘‘ ہیں… انبیاء د میں سے سب سے زیادہ ’’جہاد‘‘ رسول نبی کریمﷺنے فرمایا…
سندھ کے مشہور محدّث اور عالم حضرت مخدوم سید محمد ہاشم ٹھٹھوی س نے رسول نبی کریمﷺ
کے جو اسماء مبارکہ جمع فرمائے ہیں… ان میں یہ چند نام مبارک بھی شامل ہیں…
(۱) ذوالجہاد
ﷺ(جہادی نبی)
(۲) صَاحِبُ
الجہاد ﷺ(جہاد والے نبی)
(۳) المجاہد
ﷺ(مجاہد نبی)
(۴) القتّال
ﷺ(بہادر جنگجو نبی)
(۵)المقاتل
فی سبیل اﷲ ( اﷲ تعالیٰ کے راستے میں قتال
فرمانے والے نبی)
تھوڑا
ساغور فرمائیے کہ جب ہمارے نبی ﷺ خود’’جہادی‘‘ ہیں… تو پھر’’جہادی‘‘ ہونا ایک
مسلمان کے لئے جُرم کس طرح سے بن سکتا ہے؟… آج کل کئی صحافی مرد اور صحافی خواتین
لفظ’’جہادی‘‘ کو گالی اور جرم بنا کر پیش کر رہے ہیں… آخر یہ لوگ کس کو گالی دینا
چاہتے ہیں؟… جہاد تو اسلام کا ایک مقدس فریضہ ہے… اور اس فریضے کا منکر… نماز،روزے
کے منکر کی طرح کافر ہے… ’’جہادی‘‘ ہونا ایک مسلمان کے لئے بہت بڑی سعاد ت ہے… بہت
ہی عظیم الشان سعادت…
صحابہ
کرام ڑبھی جہادی
رسول
کریم ﷺکے صحابہ کرام ڑبہت زبردست … اور اونچے درجے کے ’’جہادی‘‘ تھے… قرآن پاک نے
انہیں سمجھایا کہ… جہاد اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب ترین عمل ہے… تب اُن کے
نزدیک بھی جہاد محبوب ترین عمل بن گیا… حضرات صحابہ کرام ڑ کے جہاد کی مثال نہ پہلی
امتوں میں گزری ہے… اور نہ آئندہ کوئی اُن جیسا جہاد کر سکتا ہے… حضرات صحابہ
کرام ڑ نے آخری دم تک لڑتے رہنے کی بیعت فرمائی… اور اُن کا یہ شعر بھی مستند اور
معروف ہے…
نحن
الذین بایعوا محمدا علی
الجہاد مابقینا ابدا
کہ
ہم نے زندگی کے آخری سانس تک… جہاد کرنے کی بیعت حضرت محمد ﷺکے ہاتھ مبارک پر کر
لی ہے… صحابہ کرامؓ میںاونچا مقام خلفائے راشدین کا ہے… وہ چاروں’’جہادی‘‘ تھے…
اصحاب بدر کا خاص مقام ہے وہ سب’’جہادی ‘‘ تھے… اصحاب حدیبیہ کا خاص مقام ہے وہ سب
بھی’’جہادی‘‘ تھے… مہاجرین کا خاص مقام ہے… اسی طرح انصار کا بڑا مقام ہے… یہ سب
’’جہادی‘‘تھے… رسول اﷲ ﷺکے اہل بیت کا تو بہت ہی اونچا مقام ہے… یہ سب اہل بیت’’جہادی‘‘
تھے… امہات المؤمنین بھی جہاد میں ساتھ تشریف لے گئیں… اور حضرت سیدہ فاطمہ ز تو
اُحد کے میدان میں آقا مدنی ﷺ کے زخم دھو رہی تھیں…
پھر
بی بی سی پر پاکستان کے صحافی… لفظِ’’جہادی‘‘ کو گالی اورجُرم بنا کر کیوں پیش کر
رہے ہیں؟… کیا اِن کی عقل ماری گئی ہے… یا یہ کافروں اور مرزائیوں کی زبان بول رہے
ہیں…
فرشتے
جہادی
قرآن
پاک نے بتایا ہے کہ… اﷲ تعالیٰ نے جہاد میں مسلمانوںکی نصرت کے لئے فرشتے نازل
فرمائے… قرآن پاک میں کئی جگہ اس کا تذکرہ ہے… اور یہ بھی فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے
ان فرشتوں کو لڑنے کا طریقہ سکھایا… صحیح روایات میں کئی فرشتوں کا نام بھی آیا
ہے… خصوصاًحضرت سیدنا جبریل ح، حضرت سیدنا میکایل ح… پس فرشتوں کا ’’جہادی‘‘ ہونا
بھی قرآن و احادیث سے ثابت ہو گیا…کیا معصوم فرشتے کوئی جرم کرتے ہیں؟… نہیں تو
پھر مسلمانوں کی نظر میں’’جہادی‘‘ ہونا کیوں جُرم بن رہا ہے؟… بعض مدارس صفائیاں
دے رہے ہیں کہ ہم جہاد کی تعلیم نہیں دیتے… تو کیا قرآن پاک کی بجائے(نعوذ باﷲ) گیتا
پڑھانا شروع کردی ہے… ایسا بھی کیا خوف جو اسلام کی بنیادوںسے ہٹاد ے… اور ایسی بھی
کیا مصلحت جو دین کانقشہ ہی بدل دے… جہاد قرآن مجید میں موجود ہے… اس کا تو کوئی
بھی انکار نہیں کر سکتا… اور دینی مدارس میں بھی قرآن پاک کی تعلیم ہوتی ہے تو…
لازمی بات ہے جہاد کی بھی ہوتی ہے… دارالعلوم دیوبند میں تو تلوار اور لاٹھی(بنوٹ)
بھی سکھائی جاتی تھی… اس میں کیا خرابی ہے؟… جہادی ہونا توایک مسلمان کے لئے اعزاز
ہے… اور مسلمان کا جہاد سے محروم ہونا ایک فتنہ اور وبال ہے…
انبیاء
د جہادی
قرآن
پاک کے چوتھے پارے میںواضح طور پر فرمایا گیا ہے… بہت سے انبیاء اور اُن انبیاء کے
اﷲ والے ساتھیوں نے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں’’قتال‘‘ کیا … معلوم ہوا کہ کئی انبیاء
دبھی’’جہادی‘‘ تھے… حضرت داؤد علیہ السلام کے جہاد کا بیان قرآن پاک میں موجود
ہے… حضرت سلیمان علیہ السلام کی جہادی تیاری کا تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے…
حضرت موسیٰ ح کی دعوت جہاد قرآن پاک میں موجود ہے… تو جو کام انبیاء علیہم السلام
نے کیا وہ کتنا مبارک اور محبوب کام ہوگا… پس جو شخص بھی سچا مسلمان ہوتا ہے وہ
’’جہاد‘‘ سے محبت کرتا ہے… اور جوشخص کفر اور نفاق کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اسی
قدر’’جہاد‘‘ سے دور بھاگتا ہے… ایمان اور نفاق کی یہ علامت قرآن پاک نے سمجھائی
ہے… اِس زمانے کے جو’’صحافی‘‘ یہ مخبریاں کرتے پھرتے ہیں کہ فلاں’’جہادی‘‘ ہے اس
کو پکڑو… فلاں ’’جہادی‘‘ ہے اس کو مارو… یہ لوگ اپنے ایمان کی خیر منائیں… انہوں
نے اﷲ تعالیٰ کے ایک فریضے کو جُرم اور گناہ قراردیا ہے جو خود بہت بڑا ظلم ہے…
ہم
تو اس قابل نہ تھے
آج
ایک کتاب دیکھ رہا تھا… حضرات صحابہ کرام ڑکے بعد کے بزرگوں میں سے کون کون’’جہادی‘‘
تھے… اﷲ اکبر کبیرا… فقہاء کرام میں سے حضرت ابراہیم نخعی س، حضرت عبداﷲ بن مبارک
س… اور صوفیاء کرام میں سے حضرت حاتم اصم س، حضرت ابراہیم بن ادہم ساور حضرت شقیق
بلخی پ جیسے حضرات کا نام بھی’’جہادیوں‘‘ میں لکھا ہوا تھا… اگر اس تفصیل کو مرتب
کیا جائے تو کتابیں بن جائیں… جہاد اُن حضرات کو بہت محبوب اور مرغوب تھا… حالانکہ
زمانے کے خلفاء نے ہرطرف جہادی لشکر بھیج کر فرض ادا کر دیا ہوتا تھا… اور بڑے
علماء کودین کی خدمت کے لئے روکا جاتا تھا مگر پھر بھی… یہ حضرات جہاد کی طرف
کھنچے چلے جاتے تھے… کیونکہ جب آقا مدنیﷺ ’’جہادی نبی‘‘ہیں توآپ ﷺکی اُمت بھی
جہادی اُمت ہے… یہ تو حبّ دنیا کی وبا چل پڑی ہے… اصل مسئلہ صرف جان بچانے کا
ہوتاہے… اور یہ کہ ہمارے ظاہری امن میں کوئی خلل نہ پڑے… باقی دلائل تودل کو
بہلانے کے لئے ہوتے ہیں… جس اُمت کے نبیﷺمیدان جہاد میں زخمی کھڑے ہوں… اُس اُمت
کو جہاد کے معنیٰ سمجھ میں نہ آئیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا…ہاں جان بچانی ہو، اور
دل میں ہر کسی کا خوف سمایا ہو تو پھر نہ قرآن نظر آتا ہے… اورنہ آقامدنیﷺکی سیرت…
اِس زمانے میں جو چند لوگ جہاد کے لئے نکلے ہیں یہ اُن پر اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا
فضل اوراحسان ہے… یہ چند لوگ ابھی تک جہاد کا حق ادانہیں کر سکے… مگر اُن کے
دشمنوں نے خوفزدہ ہو کر گواہی دے دی ہے کہ… یہ سب ’’جہادی‘‘ ہیں…دشمنان دین کی
زبانی جب ہمیں’’جہادی‘‘ ہونے کی گالی دی جاتی ہے تو دل بہت خوش ہوتا ہے…اور مغفرت
کی اُمید بڑھ جاتی ہے… چند دن پہلے ملعون سلمان رُشدی کو ’’انٹرنیٹ‘‘ پر دیکھا کہ
وہ ہمارے خلاف بول رہاتھا… اس سے پہلے بُش، ٹونی اور مشرف بول بول کر چُپ ہو گئے …یہ
سب اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے تھوڑے سے کام میں اتنی قوت، برکت اور رعب رکھ دیا
ہے… حقیقت میں’’جہادی‘‘ کا لفظ بہت اونچا ہے… ہم خود کو اس کا اہل نہیںسمجھتے… اب
اگر دشمنوں نے ہمارے’’جہادی‘‘ ہونے کی گواہی دے دی ہے تو اس پر ہم اﷲ تعالیٰ کا
شکر ادا کرتے ہیں ؎
بیدار
عزائم ہوتے ہیں، اسرار نمایاں ہوتے ہیں
جتنے
وہ ستم فرماتے ہیں، سب عشق پہ احساں ہوتے ہیں
موت
نہیں زندگی
پاکستان
کے لفافہ زدہ صحافی… جب کسی کو ’’جہادی‘‘ کہتے ہیں تو اُن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ…
اُن کا ابو امریکہ اِس شخص کو جلد مار دے… اس لئے جس کو بھی مروانایاپکڑوانا مطلوب
ہو تو اُس کو’’جہادی‘‘ مشہور کیا جاتا ہے… یعنی اِن کے نزدیک’’جہادی‘‘ہونا اپنی
موت کو دعوت دینا ہے… چنانچہ جو لوگ موت سے ڈرتے ہیں وہ صفائی دیتے ہیں کہ… ہم
جہادی نہیں ہیں… حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ… جہادی ہونا… اُس زندگی کوپانا ہے جو ہمیشہ
ہمیشہ ہوگی… بہت مزیدار اور شاندار ہوگی… اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے راستے کے ’’جہادیوں‘‘
کیلئے اُس زندگی کا وعدہ کیا ہے… پس اے مسلمانو! اگر حقیقی زندگی چاہتے ہوتو
’’جہادی‘‘ بن جاؤ… صرف ایک بار چند دن فارغ کر کے ’’فضائل جہاد‘‘ نامی کتاب کا
مطالعہ کر لو… بے شک زندگی پانے کا راز اور طریقہ معلوم ہو جائے گا… آج اگر کوئی
ڈاکٹر یا حکیم یہ اعلان کر دے کہ ہمارے پاس پانچ سال عمر بڑھانے کی دواء موجود ہے
تو لوگوں کا ہجوم اُن کے دروازے توڑ دے گا…حالانکہ کوئی ایک منٹ بھی کسی کی عمر نہیں
بڑھا سکتا…مگرجہاد میں تو واقعی زندگی ہی زندگی ہے… اس میں موت کا نام تک نہیں ہے…
پس اس زندگی کا راز معلوم کرنے کے لئے آپ آج سے ہی’’فضائل جہاد‘‘ کا مطالعہ شروع
کردیں…روزانہ ایک سو یا پچاس صفحے پڑھ لیں… چند دن بعد اپنے دل کی حالت انشاء اﷲ
بہت عجیب خیر والی دیکھیں گے… اور تب آپ کو’’جہادی‘‘ ہونا ایک گالی نہیں بلکہ ایک
تمغہ لگے گا… بہت عظیم الشان تمغہ…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
ایثار
اﷲتعالیٰ
مجھے اور آپ سب کو ’’ایثار‘‘ کی صفت نصیب فرمائے… یہ وہ پیاری صفت ہے جو اﷲ تعالیٰ
اپنے محبوب بندوں کو عطاء فرماتا ہے…’’ایثار‘‘ کہتے ہیں اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح
دینا… اپنے حصے کی چیزیں دوسروں کو دے دینا… دوسروں کی راحت کے لئے خود تکلیف
برداشت کرنا… قرآن مجید میں’’حضرات انصارِ مدینہ‘‘ کے ’’ایثار‘‘ کی خاص طور پر
تعریف کی گئی ہے… انہوں نے’’حضرات مہاجرین‘‘ کے لئے اپنے گھر اور اپنے کاروبار میں
اپنے سے بڑھ کر حِصّہ رکھا… اور اپنی چیزوں کا اُن کو مالک بنادیا… انسان میں جس
قدر ایمان بڑھتا ہے… اِس قدر ایثار بھی بڑھتا ہے… اور جس کا ایمان کمزور ہوجائے اس
میں ایثار کی جگہ’’خودغرضی‘‘ آجاتی ہے… میں، میں اور میں… میں زیادہ کھالوں… میں
زیادہ پی لوں… میں زیادہ حاصل کرلوں… ہر چیز میں میرا حِصّہ دوسروں سے زیادہ ہو… یہ
عادت جب بڑھ جائے تو انسان کو اتنا رُسوا کرتی ہے کہ… اُسے روٹی اور بوٹی تک میں
الجھا دیتی ہے… مجھے زیادہ روٹی ملے، مجھے زیادہ بوٹی ملے… حضرات صحابہ کرام ڑ میں
سے کسی کے پاس کوئی اچھی چیز آتی تو اُس کے ذہن میں پہلا خیال یہ آتا کہ یہ مجھے
اپنے بھائی، اپنے پڑوسی یا اپنے رشتہ دار کو دے دینی چاہئے… اُن کے بارے میں آتا
ہے کہ بکری کی’’سِری‘‘ کئی گھروں سے گھوم کے واپس پہلے گھر آجاتی تھی… اور میدان
جہاد میں اُن کے زخمی اپنے حصّے کا پانی دوسروںکو دے دیتے اور خود شہید ہو جاتے
تھے…یاد رکھیں جو ’’ایثار‘‘ اختیار کرتا ہے وہ خود کبھی تنگی میں نہیں رہتا… اس
لئے کہ جو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی فکر رکھتاہے اُس کی فکر اﷲ تعالیٰ فرماتاہے…
حضرات صحابہ کرام ڑ کے’’ایثار‘‘ کی مثال تو کوئی پیش کر ہی نہیں سکتا… البتہ ہم نے
بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہونا ہے… ہمیں چاہئے کہ پہلے اپنے اندر’’انصاف‘‘ پیدا
کریں… اور جب ’’انصاف‘‘ پیدا ہو جائے تو پھر ہمیں اپنی آخرت بنانے کے لئے خوب خوب
’’ایثار‘‘ اختیار کرنا چاہئے… ’’انصاف‘‘ یہ ہے کہ ہم کسی کا حق نہ ماریں… کسی اور
کے حصے پر قبضہ نہ کریں… کسی دوسرے کی چیز پر اپنا حق نہ جتلائیں… اور اپنے شرعی
حق سے زیادہ کا کسی سے مطالبہ نہ کریں… ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے… کیا ہم
انصاف پر قائم ہیں؟… بہت سے لوگ جائیداد کی تقسیم میں ظلم کرتے ہیں… بہت سے لوگ
بوڑھے والدین کی ملکیت پر ظلم کرتے ہیں… بہت سے لوگ عورتوں کا حِصّہ مار لیتے ہیں…
اور بہت سے لوگ اپنے شرعی حق سے زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں… ہم’’خاص‘‘ لوگ ہیں
ہمارا حق زیادہ ہے… اﷲ کے بندو! ظلم نہ کرو… اور خود کو خاص نہیں اﷲ تعالیٰ کا عام
بندہ سمجھو… دین تو یہ ہے کہ قربانی دو… دین یہ نہیں کہ قبضے کرو… اﷲ تعالیٰ
نے’’ظلم‘‘ کو حرام قراردیا ہے… جو شخص مرتاہے اُس کی جائیداد اُس کے سب ورثاء کا
حق ہوتی ہے…کچھ زور آور لوگ قبضہ کر لیتے ہیں اور کمزوروں کو محروم کر دیتے ہیں… یہ
سب کچھ جہنم کے انگارے ہیں… کراچی کی بولٹن مارکیٹ کو کون لوگ لوٹ گئے؟… ہمارے وزیر
داخلہ صاحب نے سوال نہیں اٹھایا کہ کیا وہ لوگ مسلمان تھے؟… جی ہاں کراچی میں سب
کچھ معاف ہے… روزانہ درجنوں افراد کا قتل… اربوں روپے کی لوٹ مار… ماہانہ کروڑوں
روپے کا بھتّہ… اورجگہ جگہ قاتلوں کے خونخوار گروہ… سوات اور وزیرستان میں اتنا
اسلحہ موجود نہیں ہے جتنا اسلحہ کراچی میںجمع کیا گیا ہے… مگروزیر داخلہ کے بقول
وہاں نہ فوج کی ضرورت ہے اور نہ فوجی آپریشن کی… اﷲ تعالیٰ کراچی اور اہل کراچی
کو آزادی نصیب فرمائے… یہ شہر کافی عرصہ سے عجیب وغریب غلامی اور پریشانی میں
مبتلا ہے… کراچی کے لوگ’’ایثار‘‘ کی صفت سے مالا مال ہیں… پاکستان بھر کے مدارس کے
لئے بڑا چندہ کراچی سے آتا تھا… افغانستان کے جہاد کے مختلف ادوار میں اہل کراچی
نے کافی حِصّہ ڈالا… ملک میں جاری دینی تحریکوں میں بھی اہل کراچی کا بڑا حِصّہ
ہے… اہل کراچی غریبوں، مسکینوں کو کھانا کھلانے… اور یتیموں کے سروں پر ہاتھ رکھنے
والے لوگ ہیں… افغان جہاد کے پہلے دور میں مجھے کئی بار عرب ممالک جانے کا اتفاق
ہوا… امارات میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہاں کے ’’اہل خیر‘‘ افغان یتیم بچوں کی
کفالت کا مکمل ذمّہ اٹھا لیتے تھے… میں نے یہ ترتیب دیکھی تو بہت متاثرہوا… دل
چاہا کہ پاکستانی شہداء کرام کے بچوں اور اہل خانہ کے لئے بھی اسی طرح کے نظام کی
کوشش کرنی چاہئے… چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر کراچی میں اس کی آواز لگائی…
مجھے بہت خوشی اور حیرت ہوئی کہ لوگوں نے بہت محبت اور جذبے کے ساتھ تعاون کیا…
اُس وقت ’’شہداء کرام‘‘ کا ریکارڈ رکھنے کا نظام مرتب نہیں تھا… حالت یہاں تک پہنچ
گئی کہ کفالت کرنے والوں کے لئے بہت محنت کر کے شہیدوں کے گھرانے ڈھونڈنے پڑتے
تھے…
یہ
اہل کراچی کا اعزاز تھا کہ انہوں نے اتنی دور بیٹھ کر اس مبارک کام کی بنیاد ڈالی…
بعد میں الحمدﷲ ملک کے دوسرے علاقے بھی اس خدمت میں شامل ہوتے چلے گئے… پاکستان کے
سب سے زیادہ اور جاندار دینی مدارس بھی کراچی میں ہیں… ان مدارس کے فیض یافتہ
علماء کرام دنیا کے کئی ممالک میںدینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں… کراچی والے بہادر
بھی بہت ہیں… اس زمانے میں اﷲ تعالیٰ کا شیر’’کاشف شہید ؒ ‘‘ کراچی ہی میں پلا بڑھا تھا… کاشفپ بہادری کے
ساتھ ساتھ خدمت اور ایثار میں بھی خاص مقام رکھتا تھا… محاذ پر اُس کے ایثار کا یہ
عالم تھا کہ اپنا بستر دوسرے ساتھیوں کو دے کر خود نیچے سو جاتاتھا… وہ جلدی اس دنیا
سے چلا گیا آج اپنے’’ایثار‘‘ کا اجر پاتا ہوگا… اور انشاء اﷲ مزے کرتا ہوگا… جبکہ
خودغرض انسان بس اسی فکر میں جلتا رہتا ہے کہ مجھے کیا ملا؟… مجھے کیا نہیںملا؟… میں
فلاں چیز لے لوں… اور فلاں چیز پر قبضہ کر لوں کہ کوئی دوسرا نہ لے لے… اور پھر ایک
دن یہ سب چیزیں یہاں چھوڑ کر آگے چلا جائے گا… تب اُسے پتا چلے گا کہ دنیا تو جمع
کرنے کی نہیں لٹانے کی جگہ تھی… حضرت ہجویری س سمجھاتے ہیں کہ… اے اﷲ کے بندو! دنیا
خدمت اور قربانی کی جگہ ہے… جبکہ آخرت ثواب یعنی بدلہ پانے کی جگہ ہے… توپھر اپنے
ہر کام کا بدلہ دنیا ہی میں کیوں مانگتے ہو؟… حضرت ہجویری س نے اپنی کتاب’’کشف
المحجوب‘‘ میں’’ایثار‘‘ پر ایک پورا باب لکھا ہے… اس میں وہ اُن بزرگوں کا قصہ بھی
لکھتے ہیں جنہیں حاکم وقت نے قتل کرنے کے لئے جلاّد کے حوالے کیا توان میں سے ایک…اپنے
ساتھیوں سے آگے بڑھ کر اپنی گردن پیش کرنے لگا…جلاّد نے حیرانی کے ساتھ وجہ پوچھی
تو فرمایا… میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی کے چند سانس اپنے ان بھائیوں کے کام میں
لگادوں… حضرت ہجویری س نے’’ایثار‘‘ کے بارے میں اور بھی کئی واقعات لکھے ہیں…
اورآخر میں فرماتے ہیں کہ اصل ایثار تو جان کا ایثار ہے کہ… اپنی جان اﷲ تعالیٰ
کے راستے میں قربان کر دی جائے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایثار کا یہ اعلیٰ ترین مقام
نصیب فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭٭٭
جادو
ہار گیا
اللہ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں ’’کامیابی‘‘ کا راستہ کھول کھول کر بیان فرمادیا ہے…ہے کوئی
سمجھنے والا؟…لوگ جادو کیوں کرتے اور کرواتے ہیں؟…کیا آپ نے مصرکے اُن جادوگروں کا
پورا واقعہ قرآنِ پاک میں پڑھا ہے جو حضرت موسیٰ علیہج کا مقابلہ کرنے آئے
تھے…آجکل دنیا میں پھر’’جادو‘‘ کا بہت شور ہے…ابھی براعظم امریکہ کے جس ملک میں
زلزلہ آیا ہے وہاں کا جادو بہت مشہور تھا…دنیا بھر سے سیّاح جادو کرنے ،جادو کرانے
اور جادو سیکھنے کے لئے’’ہیٹی‘‘ جایا کرتے تھے…آج ’’ہیٹی‘‘ ملبے اور لاشوں سے بھرا
پڑا ہے… افریقہ میں جادو کا کافی زور ہے…پچھلے دنوں وہاں کے ایک ملک میں جادوگروں
نے ایسے پچپن افراد ذبح کرکے کاٹ دیئے ،جن کے جسموں پر ’’برص‘‘ کے سفید دھبّے
تھے…جادوگروں کا عقیدہ تھا کہ ایسے افراد کی بوٹیوں کے تعویذ بہت مفید ہوتے ہیں…اللہ
تعالیٰ رحم فرمائے… کافر تو کافر مسلمانوں میں جادو،توہم پرستی،ٹونہ بازی…اور غیر
شرعی’’وظائف‘‘ عام ہوتے جا رہے ہیں…
دل
میں جس قدر ’’دنیا‘‘ کی محبت زیادہ ہوتی ہے آدمی اُسی قدر اِن حرام چیزوں میں
مبتلا ہوتا ہے… (۱)اپنے تمام مسائل حل کرانے کا شوق(۲)دوسروں
کو تکلیف پہنچانے کا جذبہ (۳) غیب کی خبریں اور
آئندہ کے حالات معلوم کرنے کا جنون(۴) دنیا میں ہر چیز زیادہ سے زیادہ پانے کا شوق…ہم مسلمانوں کی
نظر اگر’’حضرات انبیاء ح‘‘ کی زندگیوں پر ہو تو دل کی اصلاح ہو جائے…’’جادو‘‘ کرنے
اور کرانے والے لوگ’’ایمان‘‘ سے بہت دور ہو جاتے ہیں… اور ہر عجیب چیز اور خبر سے
متاثر ہونے والے لوگ بھی جلد گمراہ ہو جاتے ہیں…
اللہ
تعالیٰ نے’’آگ‘‘ کو جلانے کی طاقت دی ہے…تو کیا ہم آگ کو’’خدا‘‘مان لیں… اللہ تعالیٰ
نے کافر اور گمراہ لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ طاقت دے رکھی ہے…فرعون کے بارے میں عجیب
عجیب قصے مشہور ہیں…اُس نے چار سو سال عمر پائی،کبھی بیمار نہیں ہوا…اور پانی اُس
کے پیچھے پیچھے چلتا تھا…اُس ’’بے وقو ف‘‘ کو وہم ہوگیا کہ وہ ’’خدا ‘‘ ہے…
اللہ
تعالیٰ نے پرندوں کو اُڑنے کی طاقت دی ہے…اگر کوئی انسان اُڑنے لگے تو ہم بہت زیادہ
متاثرکیوں ہو جاتے ہیں؟…دجّال کے شعبدے اور اس کی طاقت کا حال تو خود آقا مدنیﷺ بیان
فرما گئے ہیں…اور ساتھ یہ بھی سمجھا گئے ہیں کہ متاثر ہونے کی ضرورت نہیں
وہ’’کافر‘‘ ہے…اور اُس کو ماننے والے ’’جہنم‘‘ میں جائیں گے…آج کی ٹیکنالوجی دیکھ
کر بہت سے مسلمانوں نے امریکہ اور یورپ کو ’’کامیاب‘‘ سمجھ رکھا ہے…آخر کیوں؟…
سرسے پائوں تک محتاجیوں میں ڈوبا ہوا انسان کس طرح سے ’’خدا‘‘ بن سکتا ہے… کھانے کی
حاجت،پینے کی ضرورت اور بیت الخلاء کے چکر…آج کوئی’’پروفیسر‘‘ مستقبل کی تھوڑی سی
پیشین گوئی کردے تو اس کے گھر کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں…کیا وزیر
اور کیا فنکار سب اُس کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں کہ ہماری قسمت اچھی کردو…ہندوستان
میں ایک’’برہمچاری‘‘سادھو ابھی کچھ عرصہ پہلے گزرا ہے…وہ کافی شعبدے دکھاتا
تھا…ملک کے حکمران تک اُس کے پیچھے پھرتے تھے…حکمرانوں اور فنکاروں نے اپنی’’قسمت‘‘
بنانے کے لئے اُس پر اتنی دولت نچھاور کی کہ وہ اپنے ذاتی جہازوں میں اڑتا تھا…اُس
نے اعلان کردیا تھا کہ وہ کم ازکم ساڑھے تین سو سال تک جوان اور تندرست رہے گا…ایک
دن اپنے جہاز پردلی سے جموں جارہا تھا کہ…قسمت کا ایک جھٹکا اُس کو جہاز سمیت خاک
کا ڈھیر بناگیا… اگر’’ترقی‘‘ انہیں چیزوں کا نام ہے جو آج امریکہ اور یورپ کے پاس
ہیںتو پھر…فرعون بہت ترقی یافتہ تھا،نمرود بہت فارورڈ تھا… شدّاد کی ترقی کا یہ
عالم تھا کہ زمین پر جنت کی تعمیر کرارہا تھا…قوم عاد کی ترقی کے آثار آج تک نہیں
مٹ سکے …امریکہ،یورپ وغیرہ تو اُن کے مقابلے میں بیچارے ہیں… بیماریاں،ایڈز،دماغی
پریشانیاں اور بے سکون زندگیاں…آج کے جدید مسلمان امریکہ اور یورپ جیسا بننا چاہتے
ہیں تو یہ…فرعون،ہامان اور شدّاد جیسا بننے کی بات کیوں نہیں کرتے؟… بل گیٹس کا
نام آتے ہی ہمارے ’’کالم نگاروں‘‘ کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے… یہ لوگ قارون کی
شان میں قصیدے کیوں نہیں لکھتے؟…تاریخ بتاتی ہے کہ ’’قارون‘‘ کی دولت ’’بل گیٹس‘‘
کے اثاثوں سے بہت زیادہ تھی…فرعون نے مصر میں ’’جادو گری‘‘ کی جو یونیورسٹی بنائی
تھی اُس کے مقابلے میں کیمرج،آکسفورڈ اور ہاروڈ کچھ بھی نہیں ہیں… آج کل کی تعمیرات
تو دو جھٹکوں میں ختم ہو جاتی ہیں…ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دو عمارتیں صرف دو طیاروں کے
ٹکرانے سے موم بتی کی طرح پگھل گئیں… جبکہ فرعونوں کی تعمیرات کے پتھروں کا مسالہ
ابھی تک نہیں اُترا…کئی طوفان آئے،زلزلے اُٹھے اور ریت کی آگ برسی مگر فرعونوں کے
محلّات اور اُن محلّات میں پڑے تابوت اور ان تابوتوں میں پڑی لاشیں تک خراب نہ ہوئیں…میں
سوچتا ہوں کہ امریکہ کی ایک ’’یونیورسٹی’’ کے بارے میں انٹرنیٹ پر تفصیل پڑھ
کر…حضرت سیدنا معاویہ ذ پر طعنے برسانے والے کالم نویس ’’فرعونوں‘‘ کے حق میں کالم
کیوں نہیں لکھتے؟…فاتح عرب وعجم حضرت سیدنا معاویہ ذ جن کے ’’انداز حکمرانی‘‘ نے روم کے بادشاہوں کو
احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا…اُ ن کا موازنہ ایک حقیر سی ’’یونیورسٹی‘‘ سے
کرنابہت بڑا ظلم ہے…میں اپنے تمام قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ’’سائنس‘‘ کے
تضادات کا صرف عام اخبارات ہی میں جائزہ لے لیں…ایک دن خبر چھپتی ہے کہ سائنسدانوں
نے موٹے افراد کو گوشت کھانے کی ترغیب دی ہے…اس تحقیق پر کروڑوں ڈالر خرچ
ہوئے…کتنے ہاتھی اور بھینسیں ذبح ہوئیں کہ یہ تو بغیر گوشت کھائے موٹی ہو جاتی ہیں…وغیرہ
وغیرہ…مگر کچھ دن بعد سائنس انکشاف کرتی ہے کہ موٹے حضرات وخواتین گوشت کو ہاتھ بھی
نہ لگائیں…اب آپ بتائیں موٹے غریب کیا کریں؟…ایک تحقیق آتی ہے کہ انسان دو کروڑ
سال پُرانا ہے… پھر بتایا جاتا ہے کہ نہیں یہ تو چھ سو کروڑ سال پہلے سمندری مچھلی
سے انسان بن گیا…ایک رپورٹ آتی ہے کہ چاکلیٹ خوب کھائو یہ دل کے لئے مفید ہے…دوسری
بتاتی ہے کہ چاکلیٹ دل کے مریضوں کے لئے زہر ہے…سائنس دانوں نے اربوں ڈالر صرف اس
تحقیق پر خرچ کردیئے کہ انسان کو غصہ کیوں آتا ہے؟…ہمارے بعض خطباء جب دین اسلام
کے احکامات کی تصدیق میں سائنس کے حوالے دیتے ہیں تو میرا دل غم سے لرزنے لگتا
ہے…کل خدانخواستہ ان سائنسدانوں نے کچھ اور بک دیا تو عام لوگ کتنا بُرا اثر لیں
گے…ایک صاحب کا بیان سنا وہ گردن کے مسح پر سائنسدانوں کی تحقیق سنا رہے تھے…مجھے
اچھا نہیں لگا…کل یورپ کے کسی سائنسی انسٹیٹیوٹ
نے کسی سے رشوت لیکرگردن کے مسح کو ’’نقصان دہ‘‘ قرار دے دیا تو کیا ہم وضو سے
اُسے نکال دیں گے؟…کچھ عرصہ پہلے یورپ کے ایک بہت بڑے سائنسی ادارے نے گائے کے
گوشت کو’’زہر‘‘ قرار دیا…رپورٹ دیکھتے ہی دل نے کہا کہ ہندوئوں نے بھاری رشوت دیکر’’گوروں‘‘
سے یہ رپورٹ تیار کرائی ہے…پورے ہندوستان میں اس رپورٹ کا بہت شور تھا…مگر پھر کسی
اور سائنسی ادارے نے اسے غلط قرار دے دیا…ہمارے حکیم حضرات بھی گائے کے گوشت سے
روکتے ہیں…ایسا بعض بیماریوں کے علاج کیلئے ہوتا ہے نہ کہ اس لئے کہ یہ گوشت زہر
ہے…گائے کا گوشت تو جسے ہضم ہو جائے وہ ’’بیل‘‘کو مقابلے کی دعوت دے سکتا ہے… اس
لئے زیادہ جسمانی محنت کرنے والوں کے لئے یہ گوشت بہت مفید ہوتا ہے…جبکہ سست لوگ
تو شلغم کھا کر بھی طوفانی ڈکاریں مارتے ہیں…میرے پیارے آقا مدنیﷺ نے حج کے موقع
پر اپنی ’’ازواج مطہرات‘‘ کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی…بس بات ہی ختم ہو گئی…اب
نہ کسی رپورٹ کی ضرورت ہے اور نہ کسی تحقیق کی… اقبال پ نے فرمایا تھا کہ مغرب
والوں کا مذہب’’تجارت‘‘ ہے…گورے ہر چیز بیچتے ہیں…چنانچہ اب سائنسی رپورٹیں بھی
دھڑا دھڑ فروخت کررہے ہیں…سائنس ایک حد تک اچھی چیز ہے…مگر اس وقت تو سائنس
انسانوں کی’’قاتل‘‘ بن چکی ہے …موجودہ سائنس نے انسان کی صحت اور اُس کے سکون کو
چھین لیا ہے…چلیں آپ ’’سائنس‘‘ کے قائل رہیں… مگر اُس کو ’’خدا‘‘ نہ مانیں…مصر کے
جادو گراپنے وقت کے بڑے سائنس دان تھے… بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اُن کے پاس ’’پارے‘‘کی
ٹیکنالوجی تھی…انہوں نے اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو پارے سے بھر دیا تھا…اور جس میدان
میں مقابلہ ہونا تھا اس میں زیرزمین’’ہیٹنگ‘‘ یعنی گرمی پہنچانے کا نظام بنا دیا
تھا…جب انہوں نے رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں اور زمین کے اندر لگے ہوئے ہیٹر
چلائے تو زمین اور گرم ہوگئی اور رسیوں میں بھراہوا پارہ اچھلنے کودنے لگا…مضبوط
قول یہ ہے کہ انہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھوں پرجادو کردیا تھا…بہر حال یہ منظر
اتنا ہیبت ناک اور متاثر کن تھا کہ حضرت موسیٰ ج بھی طبعی طور پر گھبرا گئے…قرآن
پاک میں اس کا تذکرہ موجود ہے…مگر پھر کیا ہوا؟…حضرت موسیٰ ح اللہ تعالیٰ کے حکم
سے ایک’’معجزہ‘‘ لے کر آئے اور اس ’’معجزے‘‘ نے سارے’’جادو‘‘ کو نگل لیا…جی ہاں
حضرت موسیٰ علجنے اپنی ’’لاٹھی‘‘ پھینکی تو وہ بہت بڑا اصلی اژدھا بن گئی…اُس
اژدھے نے تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل لیا… اور میدان صاف ہوگیا…اچھا ایسا کریں
کہ آپ کسی مستند ترجمے والے قرآن پاک میں ان آیات کا ترجمہ پڑھیں(۱)سورۂ
الاعراف ۱۰۷ تا۱۱۲
(۲)سورۂ یونس ۷۵ تا۷۹(۳) سورۂ
طٰہٰ ۵۷ تا۵۹
(۴) سورۂ شعراء ۳۸ تا۴۲ (۵) سورۂ
طٰہٰ ۶۱ تا۶۴
(۶) سورۂ طٰہٰ ۶۵ تا۶۹ (۷) سورۂ
الاعراف ۱۱۵ تا۱۱۹
(۸) سورۂ یونس ۸۰ تا۸۲ (۹)سورۂ
طٰہٰ ۷۰(۱۰) الاعراف ۱۲۰ تا۱۲۲(۱۱)
سورۂ طٰہٰ ۷۱(۱۲)
سورۂ طٰہٰ ۷۲ تا۷۳
(۱۳)سورۂ الشعرا ۵۰،۵۱
ان
تیرہ مقامات سے جب آپ قرآن پاک کو پڑھیں گے تو آپ کو یہ ’’ایمان افروز‘‘ واقعہ پوری
ترتیب سے معلوم ہو جائے گا…
(۱) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کو اپنے معجزات دکھانا اور
فرعون کا ان معجزات کو ’’جادو ‘‘قرار دینا…
(۲) فرعون اور اُس کے وزراء کا یہ طے کرنا کہ حضرت موسیٰ اور
حضرت ہارون (ح) کے مقابلے کیلئے ملک بھر سے جادو گر جمع کئے جائیں…
(۳) مقابلے کے لئے اُن کی ’’عید‘‘ کا دن طے ہونا…
(۴) مقابلے کے روز ایک بڑے میدان میں فرعون،اُس کے حکام اور
عوام کا جمع ہونا اور جادوگروں کا حضرت موسیٰ
ح کے سامنے آنا…
(۵) میدانِ مقابلہ میں حضرت موسیٰ ح کی دعوت…
(۶) فرعون کا اپنے جادوگروں کے لئے فتح کی صورت میں بڑے انعامات
(تمغوں) کا اعلان …
(۷) حضرت موسیٰ ح اور جادوگروں کی ابتدائی گفتگو اور جادوگروں
کا اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکنا…اور ان رسیوں اور لاٹھیوں کا دوڑنا…
(۸) حضرت موسیٰ ح کا خوف محسوس فرمانا…اس سے جادو کی شدّت کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے
(۹) حضرت موسیٰ حکا اللہ تعالیٰ کے حکم سے لاٹھی پھینکنا…لاٹھی
کا اژدھا بن کر تمام شعبدوں کو نگل لینا
(۱۰) جادوگروں کا سجدے میں گر کر ’’ایمان‘‘ قبول کرنا…فرعون
کااُن کو قتل کی دھمکیاں دینا…اور جادوگروں کا صاف جواب کہ اے فرعون! تم جو کرنا
چاہتے ہو کر لو ہم تو اپنے حقیقی رب پر ایمان لا چکے ہیں…
اللہ
تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ اس پورے قصّے کو قرآن پاک میں ایک بار ضرور دیکھ لیں…آج
ہر طرف جادو کا شور ہے اور دوسری طرف ٹیکنالوجی بھی’’جادو‘‘ کی طرح مسلمانوں کو
گمراہ کررہی ہے…لوگ جادوگروں، نجومیوں، ستارہ شناسوں سے متاثر ہو رہے ہیں …کفار کی فوجیں جادوگروں کی
رسیوں کی طرح ہر طرف دوڑرہی ہیں…اور لوگ امریکہ اور یورپ سے اس طرح مرعوب ہیں جس
طرح مصر کے لوگ فرعون اور جادوگروں سے مرعوب تھے…اس پورے قصے کو پڑھنے سے تین باتیں
تو بالکل واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہیں…
(۱) معجزے اور جادو میں علماء کرام نے کئی فرق بیان فرمائے ہیں…ان
میں سے ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جب معجزے اور جادو کا مقابلہ ہوتا ہے تو جادو شکست
کھا جاتا ہے…پس معلوم ہوا کہ اگر کسی ’’مسلمان‘‘پر جادو ہو جائے تو وہ قرآن پاک کی
آیات سے علاج کرے…قرآن پاک’’معجزہ‘‘ ہے تو اس عظیم معجزے کے سامنے جادو ایک منٹ بھی
نہیں ٹھہر سکے گا…اور دوسری یہ بات معلوم ہوئی کہ کفار کی طاقت ایک طرح کا
’’جادو‘‘ ہے …جبکہ جہاد ایک ’’معجزہ‘‘ ہے …کیونکہ قرآن پاک کا حکم ہے تو جہاد کے
سامنے کفر کی طاقت نہیں ٹھہر سکے گی…انشاء اللہ
(۲) مصر کے چوٹی کے جادو گر…حضرت موسیٰ حکے معجزے کو دیکھ کر
کفر سے تائب ہو گئے… تو ایک مسلمان کے لئے یہ کہاں جائز ہے کہ وہ جادو اور
جادوگروں کو دیکھ کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے…مسلمانوں کو چاہیے کہ کسی کے
جادو،شعبدے اور ٹیکنالوجی سے متاثر نہ ہوں…ابھی تو بڑے جادوگر’’دجّال‘‘ نے آنا
ہے…اس لئے اپنے ایمان اور عقیدے کو مضبوط کریں…
(۳) جادوگر…سجدے میں گرے اور فوراً اللہ تعالیٰ کے مقرب بن گئے…یعنی
پہلے سجدے ہی میں کامل ہو گئے… یہ کیسے ہوا؟…کئی لوگ تو پچاس سال سجدے کرکے بھی نہیں
سُدھرتے …اس سوال کا جواب انشاء اللہ کسی اور مجلس میں …بس اتنا یاد رکھیں کہ مشکل
وقت میں خود کو قربانی کے لئے پیش کرنا بڑی چیز ہے…
وصلی
اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیراً کثیراً
٭…٭…٭
اخلاص
ہمت اور دعاء
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو’’اخلاص‘‘ اور ’’ہمت‘‘ عطاء
فرمائے… استاذمحترم، قائد اہلسنت حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن صاحب س کو اﷲ تعالیٰ
نے یہ دو صفات خوب عطاء فرمائی تھیں… انہوں نے’’اکیاون‘‘ سال کی عمر پائی مگر
ماشاء اﷲ… کام اتنا کر گئے جو بعض اوقات کوئی جماعت مل کرسو سال میں بھی نہیں کر
سکتی… حضرت امام شافعیس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی مگر دنیا کے کروڑوں انسان’’ان کی
تقلید‘‘ کو سعادت سمجھتے ہیں… کیا مصر اور ملائشیا، انڈونیشیا… اور تو اور کشمیرتک
امام شافعی پ کے’’مقلدین‘‘ بکھرے پڑے ہیں… امام صاحب پ کو اﷲتعالیٰ نے اخلاص عطاء
فرمایا… اوربلندہمت… یہ دو نعمتیں جس کو مل جائیں اُس کی ترقی، کامیابی اور پرواز
کو کوئی نہیں روک سکتا… حضرت ناناتوی پ کی عمر بھی کم تھی مگر اُن کا نام بھی’’حجّت‘‘
ہے اور اُن کا کام بھی’’حجّت‘‘ ہے… اور اُن کے ’’صدقات جاریہ‘‘ پوری دنیا میں پھیلے
پڑے ہیں… ہمارے زمانے میں مخلصوں کے امام حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب س… اور اُن
کے مخلص رفقاء حضرت مفتی عبدالسمیع صاحب شہیدس… حضرت مفتی نظام الدین صاحب شہیدس…
اور حضرت مفتی محمد جمیل خان صاحب شہیدس… یہ سب حضرات تقریباً ایک ہی عمر میں اس
دنیا سے رخصت ہوئے… جو لوگ بھی ’’اﷲ تعالیٰ کی رضا‘‘ کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں…
اُن کے ہر کام میں بہت برکت پیدا ہو جاتی ہے… اور پھر ان’’مخلصین‘‘ میں سے جو جس
قدر ’’ہمت‘‘ سے کام لیتا ہے اُسی قدر اونچی کامیابی پاتا ہے… یہاں ہم تھوڑا سا
وقفہ کرتے ہیں… اور ماضی کے واقعات کی بعض جھلکیاں دیکھتے ہیں… بدر کے میدان میںتین
سو تیرہ نہتے افراد کا مقابلہ ایک ہزار کے مسلّح لشکر کے ساتھ تھا… ظاہری طور پر
مسلمانوں کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا… ان حالات میں رسول پاکﷺ نے کیا عمل فرمایا؟…
تمام روایات میں یہی آتا ہے کہ اس موقع پر رسول کریمﷺ نے’’دعاء‘‘ مانگی… بہت زیادہ
’’دعاء‘‘ بہت والہانہ دعاء…اور پھر یہ ’’دعاء‘‘ آسمانی نصرت کو میدان بدر میں کھینچ
لائی… غور فرمائیں’’دعاء‘‘ کتنی بڑی چیز اور کتنی بڑی طاقت ہے… حضرت موسیٰ ح اپنی
اہلیہ کے ساتھ سفر میں تھے… اُن کے پاس نہ کوئی لشکر تھا اور نہ کوئی ظاہری طاقت…
سفر کے دوران حکم ملا کہ جائیے اور فرعون کو’’دعوت‘‘ دیجئے… فرعون بہت طاقتور اور
جابر بادشاہ تھا… مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر قتل کا مقدمہ بھی درج تھا…
فرعون خود آپ (ح)کا ذاتی دشمن اور آپ (ح) کی تلاش میں تھا… ایک اکیلے آدمی کو
اُس زمانے کی سپر پاور سے ٹکرانے کا حکم دیا جارہا ہے… ظاہری طور پر ناممکن… بالکل
ناممکن… ان حالات میں حضرت موسیٰ ح نے کیا عمل فرمایا؟… سب جانتے ہیں کہ انہوں نے
’’دعاء‘‘ کے لئے ہاتھ پھیلا دیا اور دعاء کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کی طاقت کو اپنے ساتھ
لے لیا… اور دعاء یہ فرمائی کہ یا اﷲ مجھے’’شرح صدر‘‘ عطاء فرما… یعنی مجھے’’ہمت‘‘
عطاء فرما… حضرت ایوب حکو حوادث اور بیماریوں نے ہر طرف سے گھیر کر اکیلا کر دیا…
انہوں نے کیا عمل کیا؟… قرآن پاک میں ہے کہ انہوں نے’’دعاء‘‘ مانگی… اﷲ تعالیٰ نے
اپنے فضل اور نوازشات کی بوچھاڑ کر دی… حضرت زکریا علیہ السلام کی اولاد نہیں تھی…
اور دین کے کام کو جاری رکھنے کے لئے اولاد کی ضرورت تھی… انہوں نے کیا عمل فرمایا؟…
قرآن پاک بتاتا ہے کہ انہوں نے ’’دعاء‘‘ مانگی اﷲ تعالیٰ نے اولاد عطا فرما دی…
پورا
قرآن مجید اس طرح کی خوبصورت جھلکیوں سے بھرا پڑا ہے… اور یہ سب جھلکیاں ہمیں
سمجھاتی ہیں کہ… ’’دعاء‘‘ بہت بڑی چیز ہے، دعاء بہت بڑی طاقت ہے… اﷲ تعالیٰ نے
حضرات صحابہ کرام ڑکو ’’دعاء‘‘ کی طاقت عطاء فرمائی… آپ تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں…
حضرات صحابہ کرام ڑکی ’’دعاؤں‘‘ کے ایسے عجیب واقعات سامنے آتے ہیں کہ عقل حیران
ہو جاتی ہے… ہمارے استاذ محترم حضرت مفتی احمد الرحمن صاحبپ ’’صاحبِ دعاء‘‘ اﷲ
والے تھے… اُن کو اُنتالیس سال کی عمر میں حضرت بنوریپ پ نے اپنا جانشین مقرر فرمایا…
اس طرح کی ’’تقرری‘‘ سے دو فتنے پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے… پہلا یہ کہ بعض
لوگ’’کم ہمتی‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہم اتنا بوجھ کیسے اٹھائیں گے… اُن کی نظر
فوراً اسباب، وسائل، مشکلات اور دنیا پر پڑتی ہے… وہ بھول جاتے ہیں کہ کام لینے
والا تو ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ ہے وہ چاہے تو ایک ’’انسان‘‘ سے لاکھوں انسانوں کا کام لے
لے… دوسرا فتنہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ… تقرری قبول کر کے اپنی نفسانی خواہشات پوری
کرنے کا شوق دل میں بھر جاتاہے… بس اسی کا انتظار رہتا ہے کہ مجھے یہ عہدہ کب ملے
گا… کب میرے ہاتھ میں کھلا مال اور کھلے اختیارات ہوں گے… میں اپنی تمام خواہشات
پوری کروں گا… مگر’’مخلص ایمان والے‘‘ ان دونوں فتنوں سے ’’محفوظ‘‘ رہتے ہیں… وہ
’’کم ہمتی‘‘ دکھانے کی بجائے’’دعاء‘‘ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں… یا اﷲ ذمہ داری آگئی
ہے میری نصرت فرما،مجھ پر رحم فرما… اور دوسری طرف وہ اپنے دل سے تمام شوق، تمام
خواہشات اور تمام دنیاوی امراض نکال کر… خود کو اس دینی کام کے لئے وقف کر دیتے ہیں…
حضرت مفتی صاحبپ نے ذمہ داری قبول کر لی…
دن رات’’دعاء‘‘ کے عمل کو اپنا وظیفہ اور سہارابنا لیا… اور دین کے کام اور آخرت
کے فکر کے علاوہ اپنی ہر خواہش کو دل سے نکال دیا… پھر نہ انہیں یہ فکر تھی کہ…
انہوں نے’’مکان‘‘ بنانا ہے… اپنے بچوں کا’’دنیاوی مستقبل‘‘ سنوارنا ہے… اور نہ
اُنہیں یہ یاد رہا کہ اس فانی دنیا میں سے انہوں نے کتنا جمع کرنا ہے… اور یہ حقیقت
ہے کہ انسان جب تک اپنی ذاتی فکروں اور خواہشات سے آزادی نہ پائے… اُس وقت تک اُس
کام میں’’نورانیت‘‘ پیدا نہیں ہوتی… حضرت مفتی صاحب س پر اﷲ تعالیٰ کا عظیم احسان
ہوا… انہیں اخلاص اور ہمت کا وہ مقام حاصل ہوا… جو اس اُمت میں اُن افراد کو نصیب
ہوتا ہے جن کی جھولی میں… حضرت صدیق اکبرذکی نسبت ہوتی ہے… آپ حضرت صدیق اکبرذ کے
حالات و واقعات پڑھ لیں… اور پھر حضرت مفتی صاحب س کے حالات و واقعات پڑھیں تو…
آپ بھی بے اختیار کہہ اٹھیں گے کہ… حضرت مفتی صاحبؒ کو حضرت صدیق اکبر ذکی مبارک
نسبت حاصل تھی… ایک طرف مزاج میں ایسی نرمی کہ ہر کسی کے کام آرہے ہیں… اورہر کسی
کے سامنے جھکے بیٹھے ہیں… اور دوسری طرف ایسی شدّت کہ وقت کے حکمران اُن کے رعب سے
لرز رہے تھے… حضرت ہجویری سنے اپنی کتاب’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھا ہے کہ… اگرکسی
نے’’صوفی‘‘ یعنی اﷲ والا بزرگ بننا ہے تو اُسے لازماً حضرت صدیق اکبر ذ کی صفات
اختیار کرنی ہوں گی…
انّ
الصفا صفۃ الصدیق: ان اردت صوفیا علی التحقیق
یعنی
اگر تم حقیقی اﷲ والے بننا چاہتے ہو تو تمہیں حضرت صدیق اکبر ذ کی پیروی کرنی ہو گی…
کیونکہ بلاشبہ باطن کی صفائی حضرت صدیق اکبرذ کی صفت ہے(کشف المحجوب)
حضرت
صدیق اکبر ذ کی بڑی صفت’’اخلاص‘‘ تھی… اُن کے ’’اخلاص‘‘ کا یہ عالم تھا کہ… رسول
اقدسﷺ کے وصال مبارک کے وقت بھی اُن کی توجہ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ سے نہ ہٹی… حالانکہ اس
عظیم صدمے نے ہر کسی کو ہلاکر رکھ دیا تھا… اور حضرت صدیق اکبر ذ کی دوسری
صفت’’ہمت‘‘ تھی… آپ ذکی نظر چونکہ اﷲ تعالیٰ پر رہتی تھی اس لئے آپ ذ کسی دینی
کام کو ’’ناممکن‘‘ یا مشکل سمجھ کر نہیں چھوڑتے تھے…آپ ذ نے خلافتِ راشدہ کی بنیاد
رکھی… اور پھر اس کی مبارک روشنی پورے عالم تک پھیل گئی… جب کسی انسان میں ’’
اخلاص‘‘ اور ’’ہمت‘‘ موجود ہو تواُس میں’’دینی غیرت‘‘ بھی زیادہ ہوتی ہے… حضرت صدیق
اکبر ذ کی دینی غیرت کا یہ عالم تھا کہ… حضرت فاروق اعظمذ جیسے بلند ہمت انسان بھی
حیران رہ جاتے تھے… حضرت صدیق اکبرذ نے ’’مرتدین‘‘ کے خلاف جہاد فرمایا… اور مانعین
زکوٰۃ کے ساتھ جنگیں برپا فرمائیں… اوریوں خلافت راشدہ… علی منہاج النبوۃ قائم ہو
گئی… حضرت صدیق اکبر ذکی دعائیں، آپ ذکی انابت، آپ ذکی تواضع، آپ ذ کی سادگی…
آپ ذ کا زُہد،آپ ذکی بہادری،آپ ذکی قرآنی اور فلاحی خدمات… اور آپ ذ کا جہاد…
اُمت مسلمہ کے لئے ’’روشن مثالیں‘‘ ہیں… حضرت ہجویری س لکھتے ہیں کہ… حضرت صدیق اکبر
ذ کا دل اس دھوکے باز دنیا کی محبت سے اتنا خالی تھا کہ(غزوہ تبوک کے موقع پر)
اپنا تمام مال، اسباب اور غلام اور جو کچھ بھی آپ ذکے پاس تھا… سب کچھ ’’راہ حق‘‘
میں دے دیا اورخود ایک گدڑی پہن کر رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے…
اﷲ
تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب س کو حضرت صدیق اکبر ذ کی نسبت سے حصہ عطاء فرمایا… آپ
س نے حضرت بنوری س کے ادارے کو سنبھال کر قرآن و سنت کی خوب خدمت فرمائی قرآن
پاک کی خدمت’’نسبت صدیقی‘‘ کا خاص اثر ہے… آپ پ ہی کے زمانے میں یہ ادارہ پاکستان
کا سب سے بڑا اور معتمد مرکز بن گیا… اور اس کی شاخیں دور دور تک پھیل گئیں… حضرت
مفتی صاحب س نے بیواؤں اور یتیموں کی دیکھ
بھال کے میدان میں بھی’’نسبت صدیقی‘‘ کی لاج رکھی… اور پھر’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کی
خدمت میں لگ کر’’نسبت صدیقی‘‘ میں اونچا مقام حاصل کیا…
حضرت مفتی صاحبپ کو یہ تمام نعمتیں’’اخلاص‘‘ اور ’’ہمت‘‘ کی
برکت سے نصیب ہوئیں… اور ’’اخلاص‘‘ اور ’’ہمت‘‘ کی نعمتیں اﷲ تعالیٰ نے حضرت مفتی
صاحبؒ کو ’’دعاء‘‘ کی برکت سے عطاء فرمائیں…
یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطاء فرماتا ہے… اﷲ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب
س کے درجات بلند فرمائے… اُن کے خاندان پر اپنی رحمت فرمائے… اور اُن کے صدقات جاریہ
کو تاقیامت جاری رکھے… اور اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی’’اخلاص‘‘’’ہمت‘‘ اور’’دعاء‘‘ کی
نعمتیں نصیب فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
محبت
کا نور
اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو اپنی’’محبَّت‘‘ کا نور عطا فرمائے… اﷲ تعالیٰ کی ’’محبَّت‘‘بہت بڑی
اور بہت میٹھی نعمت ہے… یہ ایسی نعمت ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا … اﷲ
تعالیٰ نے ہمارے ’’دلوں‘‘ کو ہمارے’’جسموں‘‘ سے سات ہزار سال پہلے پیدا فرمایا…
اور ان ’’دلوں‘‘ کو اپنے مقامِ قُرب میں رکھا… کیاہمارے لئے جائز ہے کہ اپنا’’دل‘‘
اﷲ پاک کے سوا کسی اور کو دے دیں؟… یہ عشق نہیںظُلم ہے کہ… دل کو اﷲ تعالیٰ کے سوا
کسی کی یاد میں لگایا جائے…
وساوس
کا مسئلہ
وسوسے
اور خیالات تو ہر کسی کو آتے ہیں… شیطان دل کے اوپر بیٹھ کر اپنی ’’سونڈ‘‘ دل سے
لگا کر اس میں بُرے خیالات کا زہر چھوڑ دیتا ہے… لیکن جب دل’’اﷲ، اﷲ‘‘ کر رہا ہو
تو شیطان اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا… ویسے بھی انسان دنیا میں رہتا ہے… اُس کی
آنکھیں بہت کچھ دیکھتی ہیں… اُس کے کان بہت کچھ سنتے ہیں… انسان کے اندر ’’نفس‘‘
بھی موجود ہے… انسان کو اﷲ تعالیٰ نے’’عقل‘‘ بھی دی ہے… انسان کوئی معمولی چیز
تونہیں ہے… یہ تو زمین پر اﷲ تعالیٰ کا خلیفہ یعنی نائب بنا کر بھیجا گیا ہے… اسی
لئے اس میں سوچنے، سمجھنے کی طاقت ہے… سوچنے کے عمل کی وجہ سے ’’وسوسے‘‘ اور ’’خیالات‘‘
بھی پیدا ہوتے ہیں… کبھی اچھے اور کبھی بُرے… آپ سب سے پہلے یہ اندازہ لگائیں کہ
آپ کو بُرے خیالات زیادہ آتے ہیں یا اچھے… اگر اچھے خیالات زیادہ آتے ہیں تو اﷲتعالیٰ
کا شکر ادا کریں… اور اگر دل و دماغ ہر وقت’’ڈش انٹینا‘‘بنا ہوا ہے کہ… ایک کے بعد
دوسرا بُرا خیال چلتا رہتا ہے تو پھر بھی… پریشان نہ ہوں بلکہ’’علاج‘‘ کی فکر کریں…
ٹریفک
اور سڑک
انسان
کا ’’دماغ‘‘ ایک ایسی سڑک کی طرح ہے جس پر ہر وقت خیالات کی’’ٹریفک‘‘ چلتی رہتی
ہے… سڑک پر گھوڑے، گدھے، سائیکل، گاڑی… اور ٹرک سب کچھ چلتے ہیں… گھوڑے اور گدھے
کبھی کبھار سڑک پرلید اور پیشاب بھی کر دیتے ہیں… انسان کے دماغ میں چلنے والے خیالات
اور وساوس بھی اسی طرح کے ہیں… کبھی کوئی گدھا، گھوڑا لید اور پیشاب کر دیتا ہے…
اورکبھی کوئی معطر انسان گزرتا ہے تو خوشبو پھیل جاتی ہے…انسان کے بس میں نہیں ہے
کہ وہ اس ٹریفک کو روک دے… خیالات آتے رہتے ہیں اورآتے رہیں گے… یہ کبھی نہیں
رُکتے…جو ان خیالات سے پریشان ہو جاتا ہے اُس کو وساوس اورزیادہ آتے ہیں اور خوب
ستاتے ہیں… اس لئے وساوس کو روکنے کی بجائے انہیں’’قابو‘‘ اور کنٹرول کرنے کا طریقہ
سیکھیں… یاد رکھیں جولوگ اپنے خیالات اور وساوس کو قابوکرنے کا طریقہ سیکھ لیتے ہیں
وہ بہت مزے کرتے ہیں… بہت دور دور کی سیریں کرتے ہیں… بہت اونچا اونچا اُڑتے ہیں…
اور بغیر کسی خرچے اور ٹکٹ کے ہر جگہ ہو آتے ہیں… بے شک اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ
’’انسان‘‘ کو بہت طاقت دی ہے… اب انسان کی مرضی کے وہ بے کار ہو کر مکھیاں
مارتاہے… یا اپنی قیمت کو سمجھ کر دنیا اور آخرت کی کامیابیاں خرید لے…
اصلاح
کا آسان راستہ
وہ
خوش نصیب مسلمان جو’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ میں نکلنے کا ارادہ کرلیتے ہیں… اُن کا کام
تو کافی آسان ہو جاتا ہے… انسان کے ’’وساوس‘‘ کا تعلق دنیا کی زندگی سے زیاد ہے…
اب جو آدمی اس زندگی کو قربان کرنے کا ارادہ کر لے تو اُسے کیا وساوس آئیں گے؟…
بارش ہو یا نہ ہو، پٹرول سستا ہو یا مہنگا… پڑوس والی اچھی ہو یا بُری اس کو کیا
پرواہ؟… زندگی گناہ مانگتی ہے… جب زندگی ہی قربان تو گناہوں کے کیا خیالات آئیں
گے؟… اب تو بس یہ فکر ہو گی کہ پچھلے گناہ معاف ہو جائیں… اور یہ خوف ہوگاکہ قبر
پتا نہیں کیسی ہو گی؟… دل میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ابھرے گا تو’’محبت‘‘ کا
نور شعلے برسائے گا… اور جب نور برستا ہے تو خواہشات کی آگ بُجھ جاتی ہے… ایک
آدمی یہ تک سوچتا ہے کہ بیس سال بعد میرے ساتھ کیا ہو گا؟… اور دوسرا کل کا بھی
نہیں سوچتا… بلکہ ہر آن قربانی کے لئے تیار رہتا ہے… ان دونوں کے خیالات میں بہت
فرق ہوتا ہے… اور پھر ہر ہر قدم اور ہر ہر ادا پر اجرو ثواب ملتاہے… کیونکہ دل میں
اﷲ تعالیٰ کی ’’محبت‘‘ ہو تی ہے… اور محبت والوں کی کوئی ادا ضائع نہیں جاتی…
باقی
لوگ کیا کریں
محاذ
کی طرف دوڑنے والوں کیلئے تو آسانی ہو گئی… مگرباقی لوگ کیا کریں؟… پہلا کام تو یہ
کر لیں کہ آپ بھی ’’جہاد‘‘ کی نیت کر لیں… اور دوسرا کام یہ کریں کہ اپنے خیالات
اور وساوس کو قابو رکھنے کے لئے تھوڑی سی محنت کرلیں…لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے
ممکن ہے؟… جی ہاں بالکل ممکن ہے… آپ جب اپنی کوئی پسندیدہ چیز دیکھ رہے ہوں تو اس
وقت’’خیالات‘‘ کہاں چلے جاتے ہیں؟… فلموں کے شوقین جب فلم دیکھتے ہیں تو ایسے گُم
ہوجاتے ہیں کہ کسی اور چیز کا خیال تک نہیں رہتا… یہ توہم بدنصیب ہیں کہ’’نماز‘‘ میںبھی
گُم نہیں ہوتے… ورنہ لوگ تو کمپیوٹر کی سکرین میں کھو جاتے ہیں… اور کسی کسی کو ای
میل کرتے ہوئے تو اُن کے جسم کے بال تک کھڑے ہو جاتے ہیں… اﷲ تعالیٰ نے انسان کو یہ
طاقت دی ہے کہ وہ اپنے خیالات کوایک حد تک قابو کر سکتا ہے… پس ہمیں چاہئے کہ اپنے
وساوس اور خیالا ت کو قابو کریں… اورپھرکچھ وقت اپنے دماغ اور دل پر اچھے خیالات
کابلڈوزرچلایا کریں تاکہ… دماغ کی سڑک سے ہر ناپاکی دُور ہو جائے…
ایک
آسان طریقہ
خیالات
اور وساوس کو قابو کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ… کچھ دن تک پابندی سے تھوڑاسا
وقت اپنے’’سانس‘‘ کی نگرانی کریں… زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ… زمین پر سیدھے بیٹھ
جائیں… اور اپنے سانس کی طرف توجہ کریں کہ وہ اندر جارہا ہے اور باہر آرہا ہے… ہم
روزانہ لاکھوں بار سانس لیتے ہیں مگر یہ’’آٹو میٹک‘‘ نظام خودچلتا رہتا ہے… اِس
وقت آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں اور آپ کا سانس جاری ہے… مضمون پڑھنے کے بعد آپ
آنکھیں بند کر کے سانس کی طرف پوری توجہ کر لیں… تب آپ کو محسوس ہوگا کہ ابھی
سانس اندر گیا اور اب باہر آیا… باقی تمام باتیں سوچنا بند کردیں… توجہ اِدھر
اُدھر بھاگے تو اُس کو پکڑ کر واپس لے آئیں اور سانس کی طرف متوجہ رہیں… دو منٹ
سے پانچ منٹ… یہ اپنے آزاد خیالات کو قابو میں کرنے کی پہلی مشق ہوگی… پھر اتنا ہی
وقت اپنے سانس سے اﷲ تعالیٰ کا ذکر کریں… سانس اندر جا رہاہے اور کہتا ہے’’اﷲ‘‘
اور باہر آرہا ہے تب بھی کہتا ہے’’اﷲ‘‘… آنکھیں بندکر کے اپنے سانس کی طرف توجہ
رکھیں… اور سانس کو ذکر اﷲ میں لگا دیں… نہ کوئی خیال نہ کوئی وسوسہ… تھوڑی دیر ہم
نے اپنے سانسوں کو اپنے قابو میں کر کے اُن کے مالک حقیقی کے ذکر میں لگا دیا…
دل
کی تڑپ
دل
تو ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ کا ہے… یہ بہت عرصہ اﷲ تعالیٰ کے ’’مقام قُرب‘‘ میں رہا ہے… پھر
اس کو جسم میں قید کر دیا گیا تو تب بھی اپنے پُرانے مقام کے لئے تڑپتا رہتا ہے…
اسے ہر وقت ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ کی جستجو لگی رہتی ہے… جو لوگ اپنے دل کو اﷲ تعالیٰ کے
ذکر میں لگاتے ہیں… وہ اپنے ’’دل‘‘ کی تڑپ پوری کرتے ہیں… دل اُن سے خوش ہوتا ہے
اور اُن کو دعائیں دیتا ہے… اس لئے یہ دل ’’اﷲ والوں‘‘ کی صحبت میں بہت مسرَّت
پاتا ہے… اور’’اہل دنیا‘‘ سے گھبراتا ہے… مگر جو لوگ دل کو اُس کی ’’غذا‘‘ نہیں دیتے
اُن کا دل ناراض ہوتا ہے… وہ سخت اور داغدار ہو جاتا ہے… اور ہر وقت مُرجھایا رہتا
ہے… ایسے لوگوں کو خوش رہنے کے لئے شراب، کباب، شباب اور موسیقی کا سہارا لینا پڑتا
ہے… مگر خوشی کہاں؟… اصل خوشی تو دل کی ہوتی ہے… جب دل ہی سخت ہو جائے تو پھر حقیقی
خوشی کہاںمل سکتی ہے…
اگلا
مرحلہ
سانس
کی طرف توجہ کر کے… اور اُس کو ذکر میں لگا کے خیالات کو قابو کرنے کا پہلا مرحلہ
تو طے ہو گیا… اﷲ کے بندو! یہ بہت آسان ہے مگر غفلت کی وجہ سے دو چارمنٹ کا یہ
کام بھی مشکل لگتا ہے… وہ مسلمان جن کو حقیقی اﷲ والوں کی صحبت مل جاتی ہے… اُن کے
لئے تو یہ سارے مرحلے آسان ہو جاتے ہیں… پانچ منٹ کیا وہ پانچ گھنٹے کے ذکر سے بھی
نہیں تھکتے… ’’رنگ و نور‘‘ کے اسی کالم میں سات منٹ کا ایک نصاب کچھ عرصہ پہلے عرض
کیا تھا… الحمدﷲ کئی مسلمانوں کو اُس سے بہت فائدہ ہوا… اب یہ دوسرا آسان سا نصاب
عرض کیا جارہا ہے… اﷲ تعالیٰ اسے بھی میرے لئے… اور آپ سب کے لئے نافع بنا ئے…
دراصل ہم نے اپنے خیالات کو بہت ’’آزاد‘‘ چھوڑ رکھا ہے… اور پھر ہم ہر
وقت’’وساوس‘‘ کی شکایت کرتے ہیں… مجھے بہت عجیب خطوط آتے ہیں… ہمارے بہت سے باہمت
بھائی… اور بہنیں اب وساوس سے تنگ آکر مایوس ہوتے جارہے ہیں… حالانکہ’’مایوس‘‘
ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے… آپ اپنے ’’خیالات‘‘ اور’’وساوس‘‘ کو اپنے قبضے میں
لے لیں… اورپھر روزانہ صرف پانچ منٹ اچھی باتیں سوچا کریں… کبھی اﷲ تعالیٰ کی محبت
کو سوچیں… کبھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو سوچیں… کبھی اﷲ تعالیٰ کی مغفرت کو سوچیں…
کبھی اپنی قبر اور آخرت کے مراحل کو سوچیں… دماغ کی سڑک پر صرف پانچ منٹ اچھی
سوچوں کی ٹریفک چلادیں تو سڑک مکمل طور پر پاک صاف ہو جائے گی… بس تھوڑی سی ہمت کریں…
یہ دنیا اورپھر آگے آخرت ہمت والوں کی جگہ ہے… اس چھوٹے سے نصاب پرایک ہفتہ عمل
کریں… روزانہ پانچ منٹ اپنے دل اور دماغ پر قرآنی آیات، احادیث… اور اچھے خیالات
چلانا شروع کردیں… باقی باتیں انشاء اﷲ اگلے ہفتے عرض کی جائیں گی…
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭/٭/٭
دلِ
عاشق
اﷲ
تعالیٰ اپنی رحمت سے میرے اور آپ کے ’’دل‘‘ کی اصلاح فرما دے…؎
آئینہ
بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ
نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل
ہر
کسی کے سینے میں’’دل‘‘ نہیں ہوتا… جی
ہاں’’اصلی دل‘‘ جو ہر وقت’’محبوب‘‘ کی یاد میں ہو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا… پچھلے
ہفتے سے ہم دل کی اصلاح پر بات کررہے ہیں…آج بھی اُسی موضوع پر کچھ عرض کرنے کا
ارادہ ہے… مگر آج تو دل میں’’درد‘‘ سا محسوس ہو رہاہے… ایک ارب چالیس کروڑ
مسلمانوں کی بہن’’عافیہ صدیقی‘‘ کو امریکی عدالت نے ’’مجرم‘‘ قرار دے دیا ہے… عافیہ
بہن تو فیصلہ سن کر خوش ہو رہی تھی… اُس کی والدہ نے بھی ایمانی جرأت کا مظاہرہ کیا
اور فرمایاآج کا دن ہمارے لئے’’عید‘‘ کا دن ہے… مگر معلوم نہیں کیوں ہمارا دل رو رہا
ہے… امریکی فیصلہ ایک’’خنجر‘‘ کی طرح ہمارے دلوں کو زخمی کر گیا ہے… ایک کمزور سی
مسلمان’’بیٹی‘‘ پر سات امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کا الزام… جب عدالتیں اس طرح کا
’’انصاف‘‘ کریں گی تو پھر اس دنیا میں’’فساد‘‘ ہی پھیلے گا… غرور میں مبتلاججوں نے
اتنا بھی نہیں سوچا کہ ’’عافیہ بہن‘‘ لاوارث نہیں ہے… وہ لاکھوں، کروڑوں جوان بھائیوں
کی لاڈلی بہن ہے… اُس نے عزت کے راستے کو اختیار کر کے اپنی’’جنت‘‘ کو سجا لیا ہے…
اب اُس کے کس کس بھائی کو’’مجاہد‘‘ اور ’’فدائی‘‘ بننے سے روکو گے… بے شک’’عافیہ‘‘
کی قربانی اس اُمت کو ’’عافیت‘‘ کے راستے پر لے جانے میں مددگار ثابت ہو گی… اور یہ
تو سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے عزت،عافیت اور آزادی کا راستہ’’جہاد فی سبیل
اﷲ‘‘ ہے…’’عافیہ بہن‘‘ تمہیں ہم سب کی طرف سے سلام پہنچے… اور ڈھیروں آنسوؤں بھری
دعائیں… اچھا پھر اپنے دل کی اصلاح کی طرف آتے ہیں… دراصل ہم لوگ’’دل‘‘ کو پہچانتے
ہی نہیں… ہم اپنی بہت سی بُری خواہشات کو ’’دل‘‘ سمجھ لیتے ہیں…جیسے آج کل
اخبارات میں آرہا ہے کہ انڈیا میں پاکستانی کرکٹرز کی بولی نہ لگنے پر پاکستانیوں
کے’’دل‘‘ دکھے ہوئے ہیں… تو بہ توبہ! دل تو بڑی اونچی چیز ہے وہ اتنی سی بات پر کیسے
ٹوٹ سکتا ہے؟… پاکستان کے مسلمان کھلاڑی اپنے آپ کو بیچنے ’’انڈیا‘‘ گئے تھے… کیا
یہ اچھا کام ہے؟…؎
طلب
کرتے ہو دادِ حُسن تم پھر وہ بھی غیروں سے
مجھے
تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے
وہاں
کھلاڑیوں پر جس طرح کی’’بولی‘‘ لگائی جاتی ہے… اُسے سن کر گھن آتی ہے… ایک کھلاڑی
کا نام لیکر اُس کی ’’قیمت‘‘ بتائی جاتی ہے… اور پھر انڈیا کے میراثی فنکار اپنی’’بولی‘‘
لگاتے ہیں… اور پھر سب سے زیادہ ’’بولی‘‘ لگانے والا اس کھلاڑی کو’’خرید‘‘ لیتا
ہے… اُف کتنا شرمناک منظر ہے… کوئی غیرت مند انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا …
مگر مال کی لالچ میںہمارے کھلاڑی خود کو بیچنے انڈیا پہنچ گئے… ہندو مشرک نے
انتہائی نفرت اور حقارت سے ان سب کھلاڑیوں پر تُھوک دیا… اس پر ہماری قوم کے
’’دل‘‘ دکھ گئے… لوگ آج کل ’’صوفیاء‘‘ کے کلام کو بھی نہیں سمجھتے… ’’صوفیاء
کرام‘‘ نے بہت تاکید سے فرمایا کہ کسی کا’’دل‘‘ نہ توڑو… کیا ’’دل‘‘ سے مُراد نفس
کی ’’خواہشیں‘‘ ہیں… ایک آدمی آپ سے آکر کہے میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے گھر میں
گھس جاؤں… کیا آپ اُس کا دل رکھنے کے لئے اجازت دے دیں گے؟… کوئی آدمی آپ سے
تقاضا کرے کہ میرا دل چاہتا ہے آپ بتوں کو سجدہ کریں… اورپھر آپ کو وہ کسی صوفی
شاعر کا قول سنائے کہ ہر چیز توڑ دو مگر کسی کا دل نہ توڑو… تو کیا آپ اُس کا دل
رکھنے کے لئے’’شرک‘‘ کر لیں گے؟… لوگ صرف گناہوں کو’’حلال‘‘ کرنے کے لئے صوفیاء کی
باتیں پیش کرتے ہیں… پچھلے دنوں ’’بی بی سی‘‘ نے جہاد کے خلاف ایک پروگرام دیا… اس
میں جنوبی پنجاب کے ایک صوفی شاعر کی نظم بار بار سنائی گئی… اس سرائیکی نظم کا
مفہوم یہ تھا کہ… مسجد توڑ دو، مندر توڑ دو مگر کسی کا ’’دل ‘‘ نہ توڑو… میں نے
سوچا کہ بی بی سی کے نامہ نگار سے کوئی جا کر کہے… میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کو
پانچ تھپڑ اور دس جوتے ماروں… آپ میرا دل رکھنے کے لئے اس کی اجازت دے دیں کیونکہ…
مسجد توڑدو، مندر توڑ دو مگر کسی کا دل نہ توڑو… اگر آپ نے مجھے اجازت نہ دی تو میرا
دل ٹوٹ جائے گا… پھر دیکھیں کہ بی بی سی کا نمائندہ کتنابڑا’’صوفی‘‘ ہے… یہ لوگ تو
کسی کا دل رکھنے کے لئے دس روپے خرچ نہیں کرتے اور باتیں کرتے ہیں حضرات صوفیاء
کرام کی…حالانکہ صوفیاء کرام کے اشعار میں مسجد کا بھی الگ معنیٰ ہے، مندر کا بھی
الگ معنیٰ ہے اور ’’دل ‘‘ کا بھی اور مطلب ہے… حضرت خواجہ مجذوب سنے اپنے چند
اشعار میں ’’دل‘‘ کالفظ استعمال کیا ہے… اورکمال یہ ہے کہ ہر شعر میں دل کا مطلب
الگ ہے… ملاحظہ فرمائیے یہ اشعار
آئینہ
بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ
نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل
عشق
میں دھوکے پہ دھوکے روز کیوں کھاتا ہے دل
ان
کی باتوں میں نہ جانے کیوں یہ آجاتا ہے دل
کٹ
گئی اِک عُمر اِس افہام اور تفہیم میں
دل
کو سمجھاتا ہوں میں اورمجھ کو سمجھاتا ہے دِل
فصل
گل میں سب تو خنداں ہیں مگر گریاں ہوں میں
جب
تڑپ اُٹھتی ہے بجلی یاد آجاتا ہے دل
ایک
وہ دن تھے محبت سے تھا لطف زندگی
اب
تو نام عشق سے بھی سخت گھبراتا ہے دل
کچھ
نہ ہم کو علم رستہ کا نہ منزل کی خبر
جارہے
ہیں بس جدھر ہم کو لئے جاتا ہے دل
بی
بی سی والے’’بیچارے‘‘ انگریزوں کے نوکر ’’اردو‘‘ تک نہیں سمجھتے… وہ بابا فرید شکر
گنج ؒکی شاعری کیا سمجھیں گے… انہوں نے تو
مسجد گرانے کا لفظ سنا تو خوشی خوشی ان اشعار کو نقل کر دیا کہ بابا فرید(نعوذ باﷲ)
سیکولر ہو گئے … کیا مسجد گرنے سے کسی کا دل نہیں دُکھتا؟… ایک بابری مسجد گری تو
لاکھوں مسلمانوں کے دل دُکھے… پھر بابا فرید س جیسے عبادت گزار بزرگ جن کی عبادت
اور ریاضت کے تذکروں پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں… مسجد گرانے کی بات کس طرح
کر سکتے ہیں؟… یہ حضرات تو اپنی داڑھیوں سے مسجد کی صفائی کرنے کو سعادت سمجھتے
تھے… دل ٹوٹنے کی بات آگئی تو یہ بھی سن لیجئے کہ ہمارے جگر مراد آبادی س تو اپنے دل کے ٹوٹنے کو اپنی’’فتح‘‘ قرار دیتے
تھے ؎
ترے
دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے
اے جگر! مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
’’دل‘‘ کے بارے
میں’’جگر س ‘‘ کے چند اور اشعار بھی پڑھ لیجئے…
ممکن ہے’’دل‘‘ کو ’’عاشقی‘‘ کی تڑپ ہو جائے…
کیا
بتائیں،دل سے مل کر کیا غضب ڈھاتا ہے دل
جس
طرح آندھی کوئی آتی ہے، یوں آتا ہے دل
رہ
گیا ہے اب تو بس اتنا ہی ربط اک شوخ سے
سامنا
جس وقت ہو جاتا ہے، بھرآتا ہے دل
دل
تو سینے ہی میں رہتا ہے مگر اُس کے حضور
جیسے
اب جاتا ہے دل سینے سے، اب جاتا ہے دل
سامنے
اُن کے ہمیں سے اس کی ظالم شوخیاں
وہ
نہیں ہوتے، تو کیا نادان بن جاتا ہے دل
رحم
بھی، غصہ بھی، کیا کیاآہ آتا ہے جگر!
خود
تڑپ کر عشق میں جب مجھ کو تڑپاتا ہے دل
اپنے
ایک اور شعر میں’’جگرس ‘‘ سمجھاتے ہیں کہ…
دل کی آزادی نظروں کی قید میں ہے
یہی
ہے رازِ آزادی، جہاں تک یاد ہوتا ہے
کہ
نظریں قید ہوتی ہے تو دل آزاد ہوتا ہے
اور
عاشق کے’’دل‘‘ کا حال اس شعر میں بیان کرتے ہیں
؎
دلِ
عاشق بھی کیا مجموعۂ اضداد ہوتا ہے
اُدھر
آباد ہوتا ہے، اِدھر برباد ہوتا ہے
اور
جب کوئی نیم مردہ دل…کسی زندہ دل سے مل کر’’چارج‘‘ ہورہا ہو تو اُس وقت کیا کیفیت
ہوتی ہے ؎
خوشی
سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شور تہنیت ہے
یہ
وقت وہ ہے جگر کے دل کو وہ اپنے دل سے ملا رہے ہیں
اس
شعر کو سمجھنے کی کوشش کریں… انشاء اﷲ بہت فائدہ ہو گا… دراصل عاشق مزاج دل… خشک
مزاج دل سے بہتر ہوتا ہے اور جلدی منزل تک پہنچ جاتا ہے… خود جگر مُراد آبادیؒ کا دل عاشق مزاج تھا… مگر وہ شراب کے پیچھے پڑ
گئے… پھر دل کی اصلیت رنگ لائی اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کی شراب سے دل آباد ہو گیا…
شراب چھوڑنے کے بعد’’جگرؒ ‘‘ نے جو اشعار
کہے وہ پڑھنے کے لائق ہیں… فرماتے تھے کہ شراب چھوڑ کر تو میں ’’بڑا شرابی‘‘ بن گیا
ہوں… اب جو’’سحری‘‘ کے وقت شراب ’’محبت‘‘ ملتی ہے اُس کا نشہ تو ایک ایک بال کو
مست کر دیتا ہے…پہلے زمانے میں’’اﷲ والے‘‘ جب کسی ایسے آدمی کو دیکھتے جس کا
دل’’عشق‘‘ سے خالی ہوتا … اور ’’خود غرضی‘‘ سے بھرا ہوتا تو پہلے اس میں’’جذبہ
عشق‘‘بیدار کرتے تھے… پھر جب’’خود غرضی‘‘
ختم ہوجاتی اور ایسا ’’عشق‘‘ پیدا ہو جاتا کہ’’محبوب‘‘ کی خاطر قربانی دینے
پر خوشی ہو تو پھر… اس عشق و محبت کارُخ’’محبوب حقیقی‘‘یعنی ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ کی طرف
پھیرنے کی محنت کرتے… ایک ’’خشک مزاج‘‘ شخص ایک اﷲ والے کی خدمت میں حاضر ہوا
اور’’اصلاح‘‘ کی درخواست کی… انہوں نے چند
دن اپنے ساتھ رکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ… یہ شخص عشق اور محبت سے بالکل خالی ہے…
اِسے تو بس اپنی اور اپنے نفس کی فکر ہے… انہوں نے اُس شخص کو پہلا سبق یہ دیا کہ…
تم مُراقبہ کی قوت سے اپنے دل میں ’’بھینس‘‘ کی محبت پیدا کرو… بزرگ نے ایک بھینس
پال رکھی تھی اُس شخص کو اس’’بھینس‘‘ کی خدمت پر لگا دیا… اور سمجھایا کہ اسے پیار
سے دیکھا کرو… زیادہ وقت اس کے ساتھ رہا کرو… جب اس سے دور ہو تو آنکھیں بند کر
کے اسے یاد کیا کرو… اپنے ساتھیوں کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کیا کرووغیرہ وغیرہ…
اُس شخص نے چند دن یہی عمل کیا تو اُس کے دل میں’’حرکت‘‘پیدا ہو نے لگی… اب اُسے
بھینس سے’’پیار‘‘ ہوتا جارہا تھا… پھر یہ محبت اُسے قربانی تک لے آئی کہ اپنی روٹی
تک بھینس کو کھلا آتا… اور اپنی نیند قربان کر کے بار بار اُسے دیکھنے جاتا… اور
پھر یہ محبت اُس کے حواس پر چھا گئی کہ اُس بھینس کے لئے بے چین رہتا اور جب اُس
کاتذکرہ ہوتا تو اِس کادل دھڑکنے لگتا… تب اﷲ والے بزرگ نے اُسے’’ذکر اﷲ‘‘ میں لگا
دیا… وہ عاشق مزاج تو بن چکا تھا… جلد ہی’’محبوب حقیقی‘‘ کے عشق میں کامیاب ہو گیا…
دراصل’’سوچ‘‘ اور ’’دل‘‘ کی عبادت بہت بڑی چیز ہے… ہم سب اﷲ تعالیٰ کا ذکر اپنے
’’دل‘‘ سے کیا کریں… اور دل سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کا مراقبہ کیا کریں… تھوڑی دیر
کے لئے کسی بھی نماز کے بعد آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں اور خوب سوچیں کہ… اﷲ
تعالیٰ مجھ سے محبت کرتا ہے… میں اُس کا بندہ ہوں… اُس نے مجھے ایمان کی توفیق دی…
مجھے نماز اورجہاد کی توفیق دی… میرے گناہوں پر اُس نے پردے ڈالے… میری حالت
لوگوںپر ظاہر ہو جائے تو لوگ مجھ سے کتنی نفرت کریں… اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت سے
مجھے معاف کیا… مجھے مسجد میں لایا… مجھے اپنے ذکر کی توفیق دی… اور جو تکلیف مجھ
پر ہے وہ میرے گناہوں کی سزا سے بہت کم اور خود میرے فائدے کے لئے ہے… اور اﷲ تعالیٰ
کی محبت والی ’’آیات‘‘ کو سوچیں ’’یحبھم ویحبونہ‘‘ اﷲ تعالیٰ اُن سے محبت فرماتا
ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں… محبت کا یہ مُراقبہ روز کرتے رہیں تو انشاء
اﷲ دل زندہ اور بیدار ہو جائے گا… اور اس میں اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق پیدا ہو
جائے گا… باقی’’مُراقبہ‘‘ کسے کہتے ہیں اور اس کی کون کون سی قسمیں ہیں… یہ انشاء
اﷲ کسی اور مجلس میں عرض کیا جائے گا… اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنی’’محبت‘‘کا’’نور‘‘
عطاء فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
پہلا
قطرہ
اﷲ
تعالیٰ بارش برساتا ہے اور ’’مردہ زمینوں‘‘ کوزندہ فرما دیتا ہے… کتنے’’دریا‘‘ ہیں
جو سوکھ جاتے ہیں…مگر جب آسمان کی طرف سے اﷲ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ برستی ہے تو یہ
دریا پوری’’شان‘‘ کے ساتھ چلنے لگتے ہیں… قرآن پاک نے بار بار یہ بات سمجھائی ہے
کہ اﷲ تعالیٰ مُردہ زمینوں کو پانی کے ذریعہ زندہ فرماتا ہے… اور اﷲ تعالیٰ
’’مُردوں‘‘ کو دوبارہ زندہ فرمائے گا…
بہتے
دریا
جو مسلمان ’’قرآن پاک‘‘ حفظ کر لیتے ہیں کبھی
آپ نے اُن کی شان کا اندازہ لگایا… اﷲ اکبر کبیرا… الحمد سے والناس تک پورا قرآن
پاک سینے میں محفوظ… اتنا اونچا کلام… جی
ہاں اﷲ رب العالمین کا کلام… یہ کلام پہاڑوں پر اُترتا تو اُن کو ریزہ ریزہ کر دیتا…
یہ کلام جس کے ہر حرف میں اجر ہے، ہر لفظ میں ثواب ہے… ہر نقطے میں شان ہے… اور ہر
زیر زبر میں برکت ہے… یہ کلام جوہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا،جسے زوال کا خطرہ ہی
نہیں… یہ کلام جو جبریل امین علیہ السلام لائے… اور سید الکونین آقا مدنیﷺ کے سینے
پر نازل کیا… ساری دنیا کی تمام طاقتیں اِس’’کلام‘‘ کی طاقت کے سامنے کچھ بھی نہیں…
کچھ بھی نہیں… ایسا عظیم کلام جو گرے ہوئے لوگوں کو آسمانوں سے اونچا کر دیتا ہے…
اور موت کے وقت بھی ساتھ رہتا ہے… اور قبر میں بھی جدا نہیں ہوتا… اگر کسی انسان
کو قارون کا خزانہ ملے اور وہ یہ سارا خزانہ دے کرقرآنِ پاک کی ایک آیت حاصل کر
لے… اور اِس آیت کو اپنے ساتھ ’’قبر‘‘ میں لے جائے تو… گویا کہ اُس نے ’’مٹی‘‘ دے
کر ’’سونے‘‘ کا پہاڑ خرید لیا… آنکھیں بند ہیں اور زبان پر رب تعالیٰ کا کلام جاری
ہے اﷲ اکبر کیسا شاندار منظر ہے… تنہائی ہے اورزبان پر قرآن پاک کی تلاوت ہے اور
آنکھوں میں آنسو… اﷲ اکبر کیسا شاندار منظر ہے… لوگ مُردے کو اٹھا کر قبرستان لے
جاتے ہیں… ایک گڑھا کھودتے ہیں اور اس میں دفن کر کے سب واپس آجاتے ہیں… اس تنہائی،
وحشت اور بے بسی کے وقت قرآن پاک قبر میں آجاتاہے تو ہر طرف خوشی، خوشبو اور نور
پھیل جاتا ہے… میرے عزیز مسلمان بھائیو!… اور بہنو!…قرآنِ پاک بہت بڑی نعمت ہے…
دنیا کا کوئی علم، کوئی ڈگری، کوئی سند… اور کوئی عہدہ قرآنِ پاک کے علم اور حفظ
کے برابر نہیں ہے… یہ وہ نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کرنی چاہئے…اور
بہت زور لگانا چاہئے… بے شک قرآن پاک ہمارے تمام مسائل کا حل ہے… وہ مسائل دنیا
کے ہوں، قبر کے ہوں یا آخرت کے ہوں… قرآن پاک کی تلاوت، قرآن پاک کا حفظ، قرآن
پاک کا ادب، قرآن پاک کا علم، قرآن پاک پر عمل… اور دنیا کو قرآن پاک کی دعوت…
جس مسلمان کو یہ نعمتیں نصیب ہو جائیں وہ بادشاہ ہے، سلطان ہے، شان والا ہے… اور ایسا
بہتا دریا ہے… جس دریا کی شان کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا… وہ دیکھو!
ہلمند کی طرف امریکہ اور اُس کے حواریوں نے ’’خوفناک‘‘ حملہ کر دیا ہے… مگریہ سب
شکست کھا کر، رسوا ہو کر واپس جائیں گے … کیونکہ اُن کا مقابلہ’’قرآن والوں‘‘ سے
ہے… ارے! بہتے دریاؤں کو کون شکست دے سکتا ہے؟… ارے! سمندروں کا راستہ کون روک
سکتاہے… یہ مجاہد رات کے تین بجے اٹھ کر… مصلّے پر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز میں ایک’’پارہ‘‘
تلاوت کریں گے تو… تم سب کی طاقت’’پارہ پارہ‘‘ ہو جائے گی… ہاں ربّ کعبہ کی قسم!
قرآن پاک کے سامنے اور قرآن والوں کے سامنے… کوئی باطل نہیں ٹھہر سکتا…
سوکھتے
دریا
جب’’مغل
حکمرانوں‘‘ سے ہندوستا ن کی سلطنت چھنی تو معلوم ہے اُ ن کا کیا حال ہوا؟…
افسوسناک حال، اور عبرت انگیز احوال… یہ سب بے چارے آسمان سے زمین پر آگرے… اور
سچی بات یہ ہے کہ بے موت مارے گئے… آہ! تیموری خاندان کی مغل شہزادیاں بازاروں میں
بیچی گئیں… کتنے شہزادے اور شہزادیاں اس طرح مرے کہ نہ کفن نصیب ہوا اور نہ دفن… جی
ہاں سلطنت چھن جائے تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے… ’’حافظِ قرآن‘‘ کی سلطنت تو مغل
بادشاہوں کی حکومت سے بڑی ہوتی ہے… جب چاہتا ہے سورۂ بقرہ کا سفر کرتا ہے… جب
چاہتا ہے انفال اور برآۃ کی بلندیوں میں پرواز کرتا ہے… جب چاہتا ہے طٰہٰ اور یس
ٓ کے باغات میں گم ہو جاتا ہے… چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے قرآن پاک اُس کے ساتھ
ساتھ رہتا ہے… اب اگر اس ’’حافظ‘‘ سے اُس کی سلطنت چھن جائے… یعنی وہ قرآن پاک کو
بھول جائے تو اُس کا حشر معزول ہونے والے’’مغل شہزادوں‘‘ سے بھی بُرا ہوتا ہے… دل
اُجڑ جاتا ہے، دماغ ویران ہو جاتا ہے… روح بے چین ہو کر بدروح کی طرح بھٹکتی ہے
اور ہر مصیبت اُس کے گھر کا دروازہ دیکھ لیتی ہے… سچ پوچھیں تو ایسا آدمی بے موت
مرجاتا ہے… اورایک بڑی سلطنت سے محروم ہو جاتا ہے… یا اﷲرحم فرما، یا اﷲ رحم فرما…
آپ نے دیکھا ہو گا کہ سوکھے دریاؤں میں تو بس… ریت ہوتی ہے، کیچڑہوتا ہے… خطرناک
سانپ اور بچھو ہوتے ہیں… اور نقصان ہی نقصان ہوتا ہے… بہتے دریا سے ہر کوئی فائدہ
اٹھاتا ہے… جبکہ سوکھے دریا صرف نقصان پہنچاتے ہیں… جو لوگ قرآن پاک کو یاد کر کے
بھول جاتے ہیں… جو لوگ علم کو پڑھ کر بھول جاتے ہیں… وہ لوگ سوکھے دریاؤں کی طرح
ہوتے ہیں… جھاڑیاں، کانٹے، ویرانیاں اور پریشانیاں… دین کا کوئی کام ایسا نہیں جس
میں لگ کرقرآن پاک یا علم بھول جاتا ہو… حضرات صحابہ کرامؓ کے علوم میںبرکت’’جہاد‘‘
میں نکل کر ہوئی… جو لوگ تنظیمی مصروفیت کا بہانہ بناتے ہیں… وہ سچ نہیں بولتے…
اصل میں اپنی سستی ہوتی ہے اور اپنی محرومی… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہتے دریا…
سوکھے کھنڈر بن جاتے ہیں… یا اﷲ رحم فرما…
ابن مبارک س کا قولِ مبارک
مشہور
زمانہ محدّث، فقیہ اور مجاہد… حضرت عبداﷲ بن مبارک س ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس آدمی نے
قرآن پاک کو سیکھا اور پھر اُسے بھلا دیا، ایسے آدمی سے یقیناً کوئی گناہ ہوا
ہے(جس کی سزا کے طور پر اُس کو قرآنِ پاک بُھلا دیا گیا)… کیونکہ اﷲ تعالیٰ ارشاد
فرماتے ہیں:
وَمَا
اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ
کَثِیْرٍ
ترجمہ:
اورتمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے پہنچتی
ہے اور بہت سے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے‘‘…
ابن
مبارک سفرماتے ہیں:
قرآن
پاک کا بھول جانا سب سے بڑی مصیبتوں میں سے ایک ہے… پس معلوم ہوا کہ یہ مصیبت کسی
گناہ کی وجہ سے ہی آئی ہوگی…
ہائے
ہائے کتنی بڑی مصیبت کہ بیٹھے بیٹھے… قرآن پاک سے ہی محروم ہو گئے… العیاذباﷲ،
العیاذ باﷲ… اتنی اونچی سلطنت سے محرومی… استغفراﷲ، استغفراﷲ، استغفراﷲ…
بارش
کی تاثیر
ابھی
کچھ دن پہلے گندم کی فصل لگانے والے کسان… حسرت سے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے… کئی
ایک تو مایوس ہو چلے تھے کہ اس سال یا تو بھیک مانگیں گے یا بھوکے مریں گے… ویسے
اِس وقت پاکستان عجیب’’آزمائش‘‘ کے مرحلے سے گزر رہا ہے… نہ بجلی، نہ گیس، نہ
آٹا، نہ چینی… ہر طرف غربت ہے اور بے چینی… ہمارے حکمرانوں نے کہا تھا کہ ہم
امارتِ اسلامیہ افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں’’امداد
‘‘ دے گا…اور ہمارا ملک مالا مال ہو جائے گا… مگر ہم تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ جب سے
امریکی امداد شروع ہوئی ہے ملک غریب تر ہوتا جارہاہے… حرام کے پیسے حرام خوروں کو
ہی ہضم ہوتے ہوں گے… پاکستانی قوم بہرحال مسلمان ہے وہ تو امریکی امداد آنے کے
بعد سے مہنگائی اور بھوک دیکھ رہی ہے…مشہور زمانہ اغواکار’’پرویز مشرف‘‘ نے چھ
سونواسی (۶۸۹)پاکستانی اغوا کر کے امریکہ کو فروخت کئے… اُس نے اپنی کتاب
میں اپنے اِس جُرم کا فخر کے ساتھ اعتراف کیا ہے… ہماری بہن عافیہ صدیقی بھی اِن’’۶۸۹‘‘ افرادمیں
سے ایک تھی… ان تمام افرادکو امریکہ کے حوالے کرنے پر باقاعدہ’’قیمت‘‘ وصول کی گئی…
مگر پاکستان ہے کہ گناہ بھی کر رہاہے اور غریب بھی ہو رہا ہے… پھر بھی حکمرانوں کو
اﷲ تعالیٰ کا ڈر نہیں… اس سال بارش نہیں ہو رہی تھی توغریب کسان رو رہے تھے… پھر اﷲ
تعالیٰ نے فضل فرمایا اب بارش خوب برس رہی ہے… اس وقت بھی بادلوں کی گھن گرج وقفے
وقفے سے سنائی دے رہی ہے… مُردہ زمینیں زندہ ہو گئی ہیں… اور خشک ندی نالے پھر شان
سے بہہ رہے ہیں… قرآن پاک کے وہ’’حافظ‘‘ جو ’’سوکھی زمین‘‘ یا’’خشک دریا‘‘ بن گئے
ہیں… وہ کیوں مایوس ہو بیٹھے ہیں… دو رکعت استخارہ کی نماز ادا کریں… مالک کے
سامنے گناہ اور غلطی کا اعتراف کریں… وہ مالک جو پانچ منٹ کی بارش سے لاکھوں مربع
میل زمین کو’’زندہ‘‘ کردیتا ہے… وہ اپنی ایک رحمت کی نظر فرما کر… ہمارے چند انچ
کے دل اور دماغ کو زندہ کرنے پر قادرہے… ’’استخارہ‘‘ کی طاقت’’بجلی‘‘ سے زیادہ ہے…
آج ہم مسلمان’’استخارہ‘‘ سے محروم ہو رہے ہیں ورنہ’’استخارے‘‘ کے ذریعے تو
پہاڑوںجیسے مسائل منٹوں میں حل ہو جاتے ہیں… ہم نے’’استخارہ‘‘ کو علم نجوم کا کوئی
شعبہ سمجھ رکھا ہے… حالانکہ استخارہ تو’’خیر حاصل کرنے‘‘ کی دعاء ہے… ابھی آپ
اپنے بھولے ہوئے ’’حفظ قرآن‘‘ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے مسنون استخارہ کریں…
انشاء اﷲ کوئی ترتیب اورانتظام سامنے آجائے گا… اور سوکھے دریا… پھر آن کے ساتھ
بہنے لگیں گے…
پہلا
قطرہ
بارش
کا پہلا قطرہ زمین پر آگیا ہے… بہاولپور میں ایک مدرسہ قائم ہوا ہے… مدرسہ کا نام
ہے مدرسہ سیدنا اویس القرنی ذ… اس مدرسہ میں اُن حضرات کو داخلہ دیا جائے گا… جو
قرآن بھول چکے ہیں… اور پھر تین مہینے کی محنت سے اُن کے حفظ کو تازہ کرایا جائے
گا… تین مہینے… بہت تھوڑا سا عرصہ ہے… جو آپ آسانی سے نکال سکتے ہیں… کراچی میں
ایک مفتی صاحب تھے… اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے… وہ تو
ماشاء اﷲ تین مہینے میں نیا حفظ کرا دیتے تھے… حضرت قاری محمد طاہر رحیمی پ نے اپنی
کتاب’’فضائل حفاظ القرآن‘‘ میں پورے قرآن کو’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی طرح حفظ کرنے کا
نصاب اور طریقہ لکھا ہے… اﷲ کرے ’’مدرسہ اویس قرنی ذ‘‘ کے منتظمین اُس نصاب سے
استفادہ کریں…
کل یکم
ربیع الاوّل ۱۴۳۱ھ سے انشاء اﷲ… اس ’’نورانی مدرسے‘‘ کے داخلے شروع ہو رہے
ہیں… دل بہت خوش اور شکر گزار ہے… کچھ آنسو بار بار اُبل کر آنکھوں کی طرف دوڑتے
ہیں… اس خیال کی وجہ سے کہ کاش اس مبارک مدرسہ کی افتتاحی مجلس میں شرکت ہو جاتی…
مگر اﷲ تعالیٰ کی تقدیر ہی میں خیر ہے… اور ہم اپنے مالک کی تقدیر پر خوش اور
مطمئن ہیں… یہ سالہا سال پُرانا خواب تھا… جو الحمدﷲ اب پورا ہو رہا ہے… یہ آسمان
کی طرف سے نازل ہونے والی وہ رحمت ہے جو ہماری حیثیت سے بہت بڑھ کر ہے…اب انشاء اﷲ
کتنے سوکھے دریا…بہنے لگیں گے… اور کتنی خشک ندیاں… پھر تراویح میں جولانیاں دکھائیں
گی… بس ایک ہی دعاء ہے کہ… یہ مدرسہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہو جائے… اور اس کے
منتظمین مکمل اخلاص اور درد کے ساتھ محنت کریں… اور اس مدرسہ کی شاخیں دیکھتے ہی دیکھتے
پوری دنیا میں پھیل جائیں… قرآن پاک بھی بھلا کوئی بھلانے کی چیز ہے… قرآن پاک
کوبھلانا سب سے بڑی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت ہے… اﷲ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو اس
مصیبت سے بچائے…
چھوٹا نصاب
جو
حضرات اس مدرسہ میں تشریف لائیں اُن سب کو’’خوش آمدید‘‘ اورڈھیروں دعائیں… اﷲ کرے
ہم آپ کی صحیح خدمت کر سکیں… اور جو دور ہیں اور نہیں آسکتے وہ اپنے طور پر محنت
کریں… جس کو سورۃ یاد تھی… یاکوئی آیت یاد تھی وہ اُسے دوبارہ تازہ کرے… اور جو
’’مدرسہ اویس قرنیؓ‘‘ کا نظام اپنے ہاں جاری کرنا چاہے وہ تین ماہ بعد’’مرکز‘‘ سے
رابطہ کرے… خواتین اپنے گھروں میں اس کی ترتیب بنائیں… آخر میں آپ سب سے… دور
ہوں یا قریب… ایک چھوٹی سی درخواست ہے… کم از کم ایک بار مکمل اخلاص کے ساتھ… اس
مدرسہ اور اس نظام کی عنداﷲ قبولیت اور کامیابی کی دعاء فرمادیں… آپ دعاء کردیں
گے تو آپ کا حصہ بھی اس ’’مبارک کام‘‘ میں شامل ہو جائے گا… انشاء اﷲ… واﷲ علی کل
شی قدیر… والصلوٰۃ و السلام علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
برحمتک یا ارحم الراحمین
خوشی
اور غم
اﷲتعالیٰ
نے ’’دنیا‘‘ کو امتحان کی جگہ بنایا ہے… یہاں
زندگی بھی ہے اور موت بھی… خوشی بھی ہے اور غم بھی… نعمت بھی ہے اور مصیبت بھی…
مسکراہٹیں بھی ہیں اور آنسو بھی… ملاپ بھی ہے اور جدائی بھی… ایمان والوں کو
چاہئے کہ ہر ’’حالت‘‘ کے لئے تیار رہیں…
اور ہر’’حال‘‘میں اپنے ’’ایمان‘‘ کی حفاظت کریں… ابھی ابھی… جی ہاں صرف دو منٹ
پہلے خبر آئی ہے کہ’’بہاولپور‘‘ کے ٹول پلازہ پر چند گاڑیوں کا ایک قافلہ …
مولانا ابوجندل صاحب کے استقبال کے لئے موجود ہے… اور مولانا تھوڑی دیر میں
بہاولپور پہنچنے والے ہیں… اﷲ اکبر کبیرا…
الحمدﷲ
الذی بنعمتہ تتم الصّالحات
اﷲ
تعالیٰ مسلمانوں کو… ایسی خوشیاں بار بار نصیب فرمائے… مولانا پندرہ سال کی جیل
کاٹ کر آئے ہیں… مشرکین کی قید، اندھیرے عقوبت خانے، گندی جیلیں، خوفناک تشدّد،
زہریلے طعنے، ناقص غذائیں… ماحول کی گھٹن اور ظاہری بے بسی… کچھ دن پہلے تک یہی
خبر آتی تھی کہ… مولانا جودھ پور جیل میں ہیں… اب وہ پیشی بھگتنے جموں میں ہیں…
اب وہ بیمار ہیں… اب وہ قاتلانہ حملوں کی زد میں ہیں… اور آج یہ خبر آرہی ہے کہ…
مولانا ’’بہاولپور‘‘ پہنچ رہے ہیں… اور اُمت کے ’’فاتحین‘‘ اُن کے استقبال کے لئے
آنکھوں میں آنسو لئے کھڑے ہیں… ابھی ابھی پھر فون کی گھنٹی بجی ہے اور مجھے بتایاگیا
ہے کہ ’’مولانا‘‘ پہنچ گئے ہیں… واہ میرے مالک واہ… بے شک اﷲ تعالیٰ ہر چیزپر قادر
ہے… دل شکر کے ساتھ دھڑک رہا ہے… اور سرگوشیاں کر رہا ہے یا اﷲ! ہماری عافیہ بہن
کب آئے گی… آپ تو ہر چیزپر قادر ہیں… یا اﷲ حضرت امیر المؤمنین مُلاّ محمد
عمرمجاہد کی روپوشی کب ختم ہو گی… یا اﷲ آپ تو قادر مطلق ہیں… یا اﷲ! کشمیر، انڈیا،
افغانستان… اور پاکستان کی جیلوں میںقید مجاہدین کب رہا ہوں گے… مالک آپ تو بہت
کریم ہیں… میں بہت دور سے بہاولپور کے ٹول پلازہ کے پاس آپ کی رحمت کے ٹھنڈے اورمیٹھے
مناظر دیکھ رہاہوں… راہ حق کا ایک تھکا ہارامسافر کس طرح سے اپنے رفقاء سے گلے مل
رہا ہو گا… اور پھرتھوڑی دیر بعد… انشاء اﷲ بہاولپور کی جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ…
ایمانی نعروں سے گونج رہی ہو گی… شاید میرے لکھنے کے دوران ہی وہ’’مسجد‘‘ میں پہنچ
جائیں… اورمیرا فون مجھے خبر دے دے… تب میں انشاء اﷲ اپنے’’غمزدہ‘‘ قارئین کو بھی
اس خوشی میں شامل کر لوں گا… اس وقت میرے سامنے اور کئی قیدی بھائیوں کے چہرے… عجب
انوارات کے ساتھ چمک رہے ہیں… میں اُن کا نام نہیں لکھتا کہ… کسی کی رہائی میں کوئی
رکاوٹ پیدا نہ ہو… مگر اپنے’’کریم مالک‘‘ کے سامنے تو اُن کا نام لے لے کر اُن کی
باعزت اور باعافیت رہائی کی دعائیں ہم سب مانگتے ہیں… اور کتنے قابل فخر ہیں وہ’’قیدی‘‘…
جو اپنے بھائیوں کو رہا کروانے گئے اور
پھر خود’’قیدی‘‘ بن گئے… اُن سب کی عزیمت کو سلام… اور کتنے مظلوم اور عظیم ہیںوہ
قیدی… جن کو خود اپنے ملک کے حکمرانوں نے
پکڑ رکھا ہے… بھائی عمر شیخ کا کیا قصور ہے؟… امریکہ کی عدالت میں القاعدہ کے
رہنما ’’خالدشیخ‘‘ نے خود اقرار کیا ہے کہ… ڈینیل پرل کو انہوں نے مارا ہے…
پھر’’عمر شیخ‘‘ کس قتل کے الزام میں جیل میں ہے… چند دن پہلے کسی ایذاء پہنچانے
والے نے مجھے خط لکھا… اﷲ تعالیٰ اُسے معاف فرمائے… وہ لکھ رہا تھا کہ(نعوذ باﷲ) عمر شیخ کو آپ نے پکڑوایا
ہے… نعوذ باﷲ، نعوذ باﷲ… مجھے اس خوفناک الزام سے کافی تکلیف پہنچی… مسلمانوں کے
خلاف کافروں کی مدد کرنا حرام ہے… اور ایسے افراد پر’’لعنت‘‘ برستی ہے جو مسلمانوں
کو اُن کے دین اور جہاد کی وجہ سے کافروں کے حوالے کرتے ہیں… عمر شیخ جیل میں
موجود ہیں خود اُن سے اُن کی گرفتاری کا حال معلوم کیا جا سکتا ہے… کچھ عرصہ پہلے
وہ حیدر آباد جیل میں تھے… پھر اُنہیں کراچی…اور کبھی اڈیالہ منتقل کیا جاتا ہے…
ڈینیل پرل کی بیوی اور دنیا بھر کی یہودی لابی اس کوشش میں ہے کہ… اس ’’مسلمان
نوجوان‘‘ کو موت کی سزا دلوائیں… ہمارے حکمرانوں کے پاس عمر شیخ کو جیل میں رکھنے
کا کوئی جوازنہیں ہے… مگر’’ڈالروں‘‘ کی خواہش اُن سے ہر’’جرم‘‘ کروا رہی ہے… وہ دیکھیں
میرے فون کی گھنٹی بجی ہے… مولانا’’مرکز شریف‘‘ پہنچ گئے ہیں… ماشاء اﷲ خوب نعروں
کی گونج ہے… اور تشکر کے آنسوؤں کی جھڑیاں… آپ سب کو خوشی کا’’لمحہ مبارک‘‘ہو… اب انشاء اﷲ بیانات ہوں
گے… اور پھر دعاء… وہ دیکھیں میرا ٹیلی فون ایک اور خبر سنا رہا ہے… مجاہدین نے زمین
پر انڈیا کا’’ترنگا‘‘ بنایا اور مولانا اُس کو روندتے ہوئے’’مسجد‘‘ میں داخل ہوئے…
ترنگا انڈیا کے تین رنگ والے پرچم کو کہتے ہیں… یہ دراصل مستقبل کی ایک مشق ہے…
اولیاء کرام کی سرزمین’’ہند‘‘ پھر غازیوں کو بُلا رہی ہے… اﷲ والوں نے احادیث
مبارکہ کی روشنی میں یہ پیشین گوئی بھی فرمائی ہے کہ… مجاہدین کا لشکر افغانستان
سے براستہ پاکستان ہندوستان میں داخل ہو گا… یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں ہیں… اور
اگر جذباتی ہوں بھی تو کیا حرج؟… ایک مسلمان کو دین و ایمان کے بارے میں ایمانی
جذبات سے لبریز ہونا چاہئے… اسلام’’فتح‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے… اور دنیا’’خلافت‘‘ کی
طرف جارہی ہے… قیامت سے پہلے’’خلافت‘‘ ضرور قائم ہو گی… مگر یہ سب کچھ ’’ قربانی‘‘
سے ملتا ہے… اس وقت مسلمانوں پر ’’قربانی‘‘ کا زمانہ ہے… دیکھیں ابھی اور کس کس کی
قربانی لگتی ہے…
زمانے
کے ایک بڑے ولی حضرت مُلاّ عبدالغنی برادر اخوند… زید قدرہ و مجدہ… کی گرفتاری کی
خبر آرہی ہے… کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خبر غلط ہے… اﷲ کرے ایسا ہی ہو… مگر بُری
خبریں اکثر سچی نکلتی ہیں… کیا کریں ہمارے اعمال ہی کچھ اس قسم کے ہیں… مُلاّ
برادر صاحب! اکثر افغانستان میں رہتے تھے… وہ حضرت امیر المؤمنین کے نائب، اُن کے
معتمد اور اُن کے قریبی رشتہ دار تھے… ممکن ہے کبھی کبھار پاکستان بھی تشریف لے
آتے ہوں … اس میں کیا حرج ہے؟… اگر بلیک واٹر کے قاتل پاکستان آسکتے ہیں تو ایک
’’افغان مؤمن‘‘ کو بھی یہاں آنے کا حق حاصل ہے… مُلاّ برادر اﷲ تعالیٰ کے اونچے
ولی ہیں… اُن کو دیکھ کر’’اﷲ‘‘ یاد آتا ہے… آخر پاکستان والوں نے انہیں گرفتار کیوں
کیا؟… ایک ’’ولی اﷲ‘‘ کو ایذاء پہنچانا اﷲ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے… کتنے
بدقسمت اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے زمانے کے اتنے بڑے ولی اور اتنے بڑے مجاہد
کی بے حرمتی کی… کاش وہ اتنا گھناؤنا گناہ کرنے سے پہلے مر گئے ہوتے… مُلاّ برادر
صاحب نے پاکستان کا کیا بگاڑا ہے؟… وہ دس سال تک مجاہدین کو پاکستان میں کارروائیاں
کرنے سے روکتے رہے… وہ اگر اس کی اجازت دے دیتے تو پاکستان میں ہونے والے حملوں میں
تین سو فیصد کا اضافہ ہو سکتا تھا… اس موقع پر آقا مدنیﷺ کی یہ حدیث مبارک یاد
آتی ہے…
عن
جابرؓ ان رسول اﷲﷺ قال: اِتَّقُوْا الْظُّلْمَ فَاِنَّ الْظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ
الْقِیٰمَۃِ، وَاتَّقُوْ الْشُّحَّ فَاِنَّ الْشُّحَّ اَھْلَکَ مَنْ کَانَ
قَبْلَکُمْ حَمَلَھُمْ عَلیٰ اَنْ سَفَکُوْا دِمَائَ ھُمْ وَ اسْتَحَلُّوا
مَحَارِمَھُمْ (رواہ مسلم)
رسول
اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا:
ظلم
سے بچو! کیونکہ ظلم قیامت کے دن کے اندھیروں(یعنی عذابوں) میں سے ہے اور حرص سے
بچو! کیونکہ حرص نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کیا اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا
کہ وہ آپس میں خون بہائیں اور حرام کو حلال کریں…
کاش
کوئی جا کر حکمرانوں کو یہ حدیث مبارک سنا دے… یہ لوگ تو ظلم اور حرص کی ہر حد کو
پھلانگ چکے ہیں… امریکی امداد اور امریکی ڈالروں کی حرص میں اپنے ملک کو ویران کر
رہے ہیں… اپنے مسلمانوں کو پکڑ رہے ہیں… اپنے مسلمانوں کو ماررہے ہیں… اور اپنے
چمن کو آگ لگا رہے ہیں…اُس دن میں نے خبروں میں جب امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی…
پاکستان کے حکمرانوںسے ملاقات کا حال پڑھا تو میرا دل نفرت اور کراہیت سے بھر گیا…
یوں لگتا تھا کہ ابھی خون کی اُلٹی آئے گی… استغفراﷲ، استغفراﷲ… عجیب شرمناک
مناظر اور بے حیائی کی باتیں… امریکی ایلچی نے بتایا کہ ہم ہلمند میں آپریشن کر
رہے ہیں… ہمارے حکمرانوں نے اس پر’’خوشی‘‘ کا اظہار کیا… ہائے افسوس کہ صلیب کا
خنجر اہل ایمان کو ذبح کر رہاہے… اور خود کو مسلمان کہلوانے والے اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں…
امریکی ایلچی نے بتایا کہ یہ آپریشن فیصلہ کن
ہوگا… پاکستانی حکمرانوںنے کہا…بس اس کا خیال رہے کہ وہاں سے کوئی بھاگ کر ہماری
طرف نہ آجائے… اگر کسی انسان کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر’’ایمان‘‘ ہو تو
وہ اس طرح کی باتیں نہیں کر سکتا… اگر خدانخواستہ پاکستان نے مُلاّ برادر اخوند کو
گرفتار کیا ہے تو… یاد رکھنا یہ حکومت اور پاکستان دونوں کے لئے بہت بڑی’’بدنصیبی‘‘
کی خبر ہے… یہ عذاب اور زلزلوں کی گھنٹی ہے… کچھ لوگ آزاد ہوتے ہیں تو بہت
سے’’زلزلے‘‘قید رہتے ہیں… مگرجب وہ لوگ’’قید‘‘ کر لئے جائیں تو’’زلزلے‘‘ آزاد
ہوتے ہیں… اور اس میں اصل رازیہ ہے کہ… اﷲ تعالیٰ کے بعض اولیاء… بارگاہ الٰہی میں
بہت محبوب ہوتے ہیں…
جب
ان اولیاء کو ایذاء پہنچائی جائے… تو زمین و آسمان اﷲ تعالیٰ کے عذاب کے خوف سے
’’لرزنے‘‘ لگتے ہیں…میری اس بات کو’’حکمران‘‘ تو نہیں سمجھیں گے… وہ تو اسے ایک’’دھمکی‘‘
سمجھ کر نئے آپریشنوں کے مشورے کریں گے…بہت شوق سے کریں …جن کو اﷲ پاک گمراہی میں
ڈالے اُن کو کوئی’’ہدایت‘‘ نہیں دے سکتا… البتہ مسلمانوں کو میری اس گزارش پر غور
کرنا چاہئے… تمام اہل اسلام خوب استغفار کریں… جس کے پاس’’دعاء‘‘ کا جو خزانہ ہو
وہ اُسے خوب لُٹائے… اور امیر المؤمنین کی حفاظت کی دعاء…افغانستان، کشمیر اور
فلسطین کے مجاہدین کی کامیابی… اور حفاظت کی دعاء… اور مُلاّبرادر صاحب کی عزت،
ناموس، رہائی اور عافیت کی دعاء… خبر آرہی ہے کہ… مولاناابو جندل صاحب زید قدرہ
کا استقبال خوب چل رہا ہے… ما شاء اﷲ ، بارک اﷲ… ہزاروں مسلمانوں نے ایمان افروز…
اور پر جوش نعروں سے انہیں’’خوش آمدید‘‘ کہا ہے… علماء کرام نے اُن کے استقبال میں
نئی نظم پیش کی ہے… اور ہمارے زمانے کے شاعرِ اسلام جناب پروفیسر انور جمیل صاحب نے بھی اپنا نیا کلام
نچھاور فرمایا ہے… اﷲ تعالیٰ اس مجلس کو اپنی رحمت سے قبول فرمائے اور خیر کا ذریعہ
بنائے… دنیا کی اس زندگی میں خوشی اور غم دونوں آتے جاتے رہتے ہیں… خود کو خوشی
کا ایسا عادی نہ بنایا جائے کہ غم کے وقت ناشکری ہونے لگے… ہماری تاریخ میں ایک
طرف غزوہ بدر ہے تو دوسری طرف غزوہ اُحد… ایک طرف مال غنیمت اور قیدیوں کے ڈھیر ہیں…
تو دوسری طرف شہداء کرام کے جسموں کے ٹکڑے… مؤمن کا کام یہ ہے کہ وہ خوشی اور فتح
کو اﷲ تعالیٰ کافضل سمجھ کر’’شکر‘‘ ادا کرے… اور شکست اور غم کو اﷲ تعالیٰ کی تقدیر
کا حصہ سمجھ کر’’صبر‘‘ کرے… کامیابی نہ خوشی میں
ہے نہ غم میں… نہ فتح میں ہے نہ شکست میں… کامیابی… ایمان اور وفاداری میں
ہے… اﷲ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری… آقا مدنیﷺ کے ساتھ وفاداری… دینِ اسلام کے ساتھ
وفاداری… اسی لئے غزوہ اُحد کے شہداء اور زخمیوں سے فرمایا گیا کہ!… تم ہی غالب
اور بلند ہو… اگر تم ایمان پر ہو… حالات فیصلہ کُن موڑ پر پہنچ رہے ہیں… ہم سب
مسلمانوں کو ہر طرح کی صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہئے… یااﷲ ہمیں ایمانِ کامل نصیب
فرما… اورہمیں ایمان پر استقامت نصیب فرما… آمین یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ علی النبی الامی الکریم سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
کثیرا
٭…٭…٭
عطر
اﷲ
تعالیٰ کے چارسچے’’عاشقوں‘‘ کا تذکرہ کر رہا ہوں … معلوم نہیں ہمارے حالات عشق کی یہ
پرانی داستان لکھنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں… مجھے تو ان’’عاشقوں‘‘ کی یاد نے ہر
طرح کے حالات اور نتائج سے بے پروا ہ کر دیا ہے…
جا
بھی اے ناصح! کہاں کا سود اور کیسا زیاں؟
عشق
نے سمجھا دیا ہے عشق کا حاصل مجھے
تذکرہ
ہو’’شہیدوں‘‘ کا تو پھر’’شہادت‘‘ سے کیا ڈر… تذکرہ ہو’’ایمان والوں‘‘ کا تو
پھر’’قربانی‘‘ سے کیا ڈر… آج تو دل چاہتا ہے کہ ان چار عاشقوں کی شان میں پوری
کتاب لکھ دوں… لکھتا جاؤں، لکھتا جاؤں… اور پھر اپنے قلم کو توڑ کر وہاں چلا
جاؤں…جہاں وہ چلے گئے ؎
شیشہ
مست و بادہ مست و حسن مست و عشق مست
آج
پینے کا مزہ پی کر بہک جانے میں ہے
وہ
ہمارے بعد’’مے خانے‘‘ میں آئے… اور ہم سے زیادہ پی گئے… ہم کھڑے منہ دیکھتے رہے
اور وہ مدہوشی کے مزے اٹھاتے منزل کی طرف کوچ کر گئے… پھربھی دل کو تسلّی ہے کہ وہ
ہمارے ہی’’ہم پیالہ ‘‘ تھے… اب اُن کی یاد میں لکھنے بیٹھا ہوں تو میرا کلام اور
قلم دونوں بہک رہے ہیں…
صحبتِ
رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کر سکا
بہکا
بہکا سا مگر طرزِ کلام آہی گیا
کچھ
لوگوں پر اﷲتعالیٰ کافضل بہت زیادہ ہوتا ہے… مالک
کی مرضی جس کو چاہے جتنا دے، جس کو چاہے جتناپلا دے…
اچھا
پہلے ان چار’’اولیاء‘‘ کے نام تو پڑھ لیں…
(۱) عبدالرشید
(۲) محمد
عدنان
(۳) اختربلوچ
(۴) محمدکامران
عثمان
میرے
دل میں اس بات کا یقین ہے کہ… ان چاروں کے لئے جو دعاء کر ے گا وہ خود اپنا بھلا
کرے گا… ان چاروں کے لئے جو ایصال ثواب کرے گا وہ خود بڑا ثواب پائے گا… انشائاﷲ،
انشاء اﷲ، انشاء اﷲ… ہاں یہ لوگ زمانے کے خاص الخاص بزرگ تھے… جوان بزرگ، ارے جوان
کہاں بالکل نوجوان… آقا مدنیﷺ کے لشکر کے شیر دل سپاہی… زندہ ولی… کل بھی زندہ…
اور آج بھی زندہ ولی… القلم پڑھنے والو!…کیا میں آپ سب کو ان کا ’’پتا‘‘
بتادوں؟… فون نمبر دے دوں؟… اﷲ پاک کی قسم یہ اس قابل ہیں کہ اُن کی زیارت کے لئے
لمبا سفر کیا جائے،بہت سا مال قربان کیا جائے… مگر اب اُن سے ملاقات آسان نہیں،
مشکل بن گئی ہے… وہ اب’’ترقی یافتہ‘‘ بڑے لوگ بن گئے ہیں…
اپنی
اپنی وسعتِ فکرو یقیں کی بات ہے
جس
نے جو عالم بنا ڈالا، وہ اُس کا ہو گیا
کہاں
ترقی یافتہ لوگ… اور کہاں تیسری دنیا کے دھکے کھاتے ہم لوگ …
ہم
نے سینے سے لگایا، دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا
کر تم نے دیکھا، دل تمہارا ہو گیا
آپ
کسی نوجوان سے کہیں کہ… اپنے موبائل سے لڑکیوں کی تصویریں ہٹا دو… کیا وہ ہٹادے
گا؟… آپ کسی نیک تاجر سے کہیں کہ اپنا آدھا کاروبار اﷲ پاک کے لئے قربان کر دو…
کیا وہ ایسا کردے گا؟… آپ کسی بزرگ آدمی سے کہیں کہ اپنی دکانوں اور مکانات میں
سے ایک اﷲ پاک کے راستے میں دے دو… کیا وہ دے دے گا؟… آپ کسی صالح آدمی سے کہیں
کہ دل سے ہر تمنا نکال کر شہادت کی دعا ء مانگو… کیا وہ مانگ لے گا؟… کئی لوگ
شہادت مانگتے ہیں… مگرکچھ عرصہ بعد ملے… کئی لوگ مال لگاتے ہیں مگر دوفی صد… یا زیادہ
سے زیادہ دس فی صد… کئی لوگ خواہشات چھوڑتے ہیں… مگر کتنی؟… ان حالات میں چند
طاقتور نوجوان اٹھتے ہیں… سبحان اﷲ، سبحان اﷲ… وہ اپنے جسم پر ہر گناہ حرام کر لیتے
ہیں … دل سے دنیا کی ہر تمناکھرچ دیتے ہیں… دماغ پر’’عشق الہٰی‘‘ کا نشہ سوار کر لیتے
ہیں… اور پھر خود کو طرح طرح کی مشقتوں میں ڈال کر… قربانی کے قابل بناتے ہیں…
گھنٹوں دوڑنا، پہاڑوں کو روندنا … پانی
کے سینے کو چیر کر تیرنا… بھاری بھاری وزن اٹھانا… شادی کے لئے نہیں، تمغے اور
مقابلے کے لئے نہیں… بلکہ قربان ہونے کے لئے… دنیا میں رنگا رنگ فلمیں چل رہی ہیں…مگر
اُن کے دل میںانہیں دیکھنے کی خواہش نہیں… دنیا طرح طرح کے کھانے اور فاسٹ فوڈز تیار
کر رہی ہے… مگر اُن کو ان کھانوں کی رغبت نہیں… دنیا طرح طرح کی گاڑیاں… اور
چمکدار لائف اسٹائل متعارف کرارہی ہے… مگر اُن کے دل میں ان کی جھاڑو برابر قدر نہیں…دنیا
میں ایک سے ایک حسین لڑکی پڑی ہے… مگر اُن کے دل میں کسی کا چہرہ نہیں… دنیا میں
جہاد چھوڑنے کی ایک سے بڑھ کر ایک تاویلیں موجود ہیں… مگر اُن کو اِن تاویلوں کی
پرواہ نہیں… وہ ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ کو مانتے ہیں… اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں… اﷲ تعالیٰ
کے دین کی عظمت چاہتے ہیں… صبح شام اﷲ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں… اور اﷲ تعالیٰ کی
رضا کے لئے اﷲ تعالیٰ کے در پر ذبح ہونا چاہتے ہیں… ؎
ہر
تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب
تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
وہ
اونچی منزل کے پیچھے پڑے… اور چھوٹی خواہشیں انہوں نے دل سے نکال دیں ؎
پوچھنا
کیا، کتنی وسعت میرے پیمانے میں ہے
سب
اُلٹ دے ساقیا! جتنی بھی مے خانے میں ہے
ایک
ایسا راز بھی دل کے نہاں خانے میں ہے
لطف
جس کا کچھ سمجھنے میں نہ سمجھانے میں ہے
وہ
اﷲ تعالیٰ سے’’ملاقات‘‘ کی تیاری میں تھے… دنیا کی ہر لذت اور رنگینی اُن کے
لئے’’مٹی‘‘ کی طرح بے قدرہو چکی تھی کہ… اچانک ایک رات محبت کا پیغام آہی گیا…
محبت
کا، بالآخر رقص بے تابانہ کام آیا
نگاہ
شرمگیں اُٹھی، سلام آیا، پیام آیا
ادب
اے گردش دوراں!کہ پھر گردش میں جام آیا
سنبھل
اے عہد تاریکی!کہ وقتِ انتقام آیا
نہ
جانے آج کس دُھن میں زباں پر کس کا نام آیا
فضانے
پھول برسائے ستاروں کا سلام آیا
اٹھا
تعظیم کو ساقی، جھکے شیشے ، بڑھے ساغر
نہ
جانے آخرِ شب کون رندِ تشنہ کام آیا
جی
ہاں… محبت کا پیغام آگیا… ان چار میں سے ایک کو خواب میں حضرت آقا مدنیﷺ کی زیارت
ہوئی… اور حضرت آقا مدنیﷺ نے خود اُسکی تشکیل فرمادی… اﷲ اکبر کبیرا، اﷲ اکبر کبیرا…
لیجئے خود اُس ’’ولی‘‘ کے الفاظ میں اِس’’پیغام محبت‘‘ کو پڑھئے…
’’حضو ر اقدسﷺ
اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ ایک گھر میں تشریف فرما ہیں، اور باہر ایک مجمع جمع ہے
تو اندر سے ایک آدمی نے دروازے میں آکر میرا نام پکارا کہ اندر آجاؤ! میں جیسے
ہی داخل ہوا تو حضورﷺ نے حکم دیا کہ ان دو کمروں والوں کو مار دو جن (دو کمروں) میں
ایک ایک آدمی تھا میں نے حکم کے مطابق دونوں کو مار دیا مگر پتا نہیں کس چیز
سے(مارا) تو حضورﷺ کوبتایا کہ دونوں کو مار دیا (ہے) تو حضورﷺ نے کندھے پر ہاتھ
مار کر فرمایا کہ جاؤ مجمع میں بتادو کہ میں نے ان دونوں کو ماراہے۔ میں چل پڑا لیکن
پتہ نہیں دروازے سے باہر آیا یا نہیں اتنے میں آنکھ کھل گئی‘‘…
سبحان
اﷲ! آقا مدنیﷺ کے ’’کاشانۂ مبارک‘‘ کے باہر ’’مجاہدین‘‘ کا مجمع جمع ہے… اندرسے
حکم دے کر خاص خاص ’’جانبازوں‘‘‘ کو بلایا جاتا ہے… اُس خوش نصیب کو بھی بُلایا گیا…
اور وہ کام سونپاگیاجو اﷲ تعالیٰ کو بھی’’محبوب‘‘ ہے… اور آقا مدنیﷺ کو بھی’’محبوب‘‘
ہے… آج پتہ نہیں کیوں دل بے قرار ہو رہاہے… اندر سے بُلانے والے کس کس کا نام
پکار کر اُن کو لے گئے… معلوم نہیں کس دن قسمت چمکے گی… ہاں وہ بھی خوش نصیب ہیں
جو مسلمانوں کو پکڑپکڑ کر اس مبارک مجمع میں بٹھا رہے ہیں… گلی گلی کوچہ کوچہ
الجہاد، الجہاد کی صدائیں لگا رہے ہیں… اب آپ سب اس انتظار میں ہوں گے کہ… میں
آپ کو ان چار’’اولیاء‘‘ کا پتا بتا دوں اور آپ اُن کے دیدار سے اپنی آنکھیں
ٹھنڈی کر سکیں… مگر کیسے بتاؤں؟… میں خود اُن سے نہیں مل سکا… جی ہاں محروم
رہا…اور اپنی محرومی پر افسردہ ہوں… ہاں میری اُن سے خط و کتابت ہوتی ہے… جی ہاں
اُن میں سے ایک نے میرے لئے عطربھی بھیجا ہے… میں وہی عطر لگا کریہ’’داستانِ
محبت‘‘ لکھ رہا ہوں… یہ عطر اُس ’’ولی ‘‘ نے بھیجا ہے جس نے وہ ’’مبارک خواب‘‘ دیکھا
تھا… بہت شکریہ پیارے بہت شکریہ!… اﷲ پاک تمہیں او ر تمہارے ساتھیوں کو ہر وہ خوشی
عطاء فرمائے جو تمہارے وہم و گمان سے بھی بڑھ کر ہو… میں بھی ’’عطر‘‘ بھیج رہا ہوں
قبول فرما لینا… اور ہاں ایک احسان بھی کرنا… وہ آدمی جو دروازے پر آکر نام
پکارتاہے… اُس کو کسی’’بے نام‘‘ کا نام بھی یاد دلا دینا… خوش رہو، عاشقو! خوش
رہو!… اﷲپاک تمہارے ’’عملِ مقبول‘‘ کی برکت سے… ہمیں بھی’’ عشق حقیقی‘‘ نصیب فرما
دے… آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلّم
تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
یا
لطیف
اللہ
تعالیٰ اپنی رحمت سے توفیق عطا ء فرمائے آج انشاء اللہ کئی باتیں عرض کرنی ہیں…اب
معلوم نہیں کہ تمام باتیں عرض ہو سکیں گی یا کچھ رہ جائیں گی…سب سے پہلے تو آپ سب
کی خدمت میں ایک تحفہ پیش کرنا ہے…یہ تحفہ ہے حضرت دائودح کی دعاء…اور پھر اللہ
تعالیٰ کے اسم مبارک’’اللّطیف‘‘ کے بارے میں چند باتیں بیان کرنی ہیں…اور آخر میں
تذکرہ ایک خوش نصیب مسلمان کا…
حضرت
دائودح کی عجیب دعاء
حضرت
سیدنادائود ح …اللہ تعالیٰ کے اُن ’’انبیاء کرام‘‘ میں سے ہیں جن کا مبارک تذکرہ
قرآن پاک میں کئی مقامات پر آیا ہے…اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ح کو ’’زبور‘‘ عطاء
فرمائی…اور انہیں زمین پر خلافت وبادشاہت بھی نصیب فرمائی…حضرت دائودح نے کم عمری
کے زمانے میں’’جالوت‘‘ نامی بڑے کافر کو قتل فرمایا…نادان لوگ کہتے ہیں کہ
جہادوقتال انبیاء دکا کام نہیں…حضرت دائود ح کے ہاتھ مبارک میں یہ تاثیرتھی کہ
لوہا آپ کے ہاتھوں میں آتے ہی نرم ہو جاتا تھا اور آپ اُس لوہے سے جنگی زرہیں بنایا
کرتے تھے…اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت عجیب نورانی اور دلکش ’’آواز‘‘ عطاء فرمائی تھی…آپ
جب’’زبور‘‘ کی تلاوت فرماتے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح
میں مگن ہو جاتے…جہاد اور عدل وانصاف کی برکت سے آپ کی سلطنت زمین کے ایک بڑے حصے
پر پھیل گئی تھی… شام، عراق، فلسطین، شرق اردن…خلیج عقبہ سے لیکر فرات کے تمام
علاقے اور حجاز کے کئی حصّے آپ کی سلطنت میں شامل تھے…اتنی بڑی بادشاہت کے باوجود
آپ ملکی خزانے سے ایک دانہ تک نہیں لیتے تھے…بلکہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کے خرچے
کے لئے خود محنت کرکے رزق حلال کماتے تھے… صحیح بخاری شریف میں روایت ہے کہ رسول
اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :
ترجمہ’’انسان
کا بہترین رزق اس کے اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا ہوا رزق ہے اور بے شک اللہ کے نبی
دائودح اپنے ہاتھ کی محنت سے روزی کماتے تھے(بخاری، کتاب التجارۃ)
بعض
دوسری روایات میں مالِ غنیمت کو ’’پاکیزہ ترین‘‘رزق قرار دیا گیا ہے…حضرت دائود علیہ
السلام کے فضائل ،مناقب،خصوصیات اور قصّے بہت زیادہ ہیں…اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کے
اس عظیم ،مقرّب اور شان والے نبی کے حالات معلوم کرنے ہوں تو قرآن پاک کے درج ذیل
مقامات کا کسی مستند تفسیر کے ذریعہ مطالعہ کرلیں…
٭سورۃ البقرہ آیت(۱۰۲) اور(۲۵۱)
٭سورۃ النساء آیت(۱۶۳)
٭سورۃ المائدہ آیت
(۷۸)
٭سورۃ الانعام آیت(۴۸ تا۹۰)
٭سورۃ الاسراء آیت(۵۵)
٭سورۃ الانبیاء
آیت(۷۸ تا۸۲)
٭سورۃ النمل آیت(۱۰ تا۴۴)
٭ سورۃ سبأ آیت(۱۰) اور(۱۴)
٭سورۃ ص آیت(۱۷ تا۴۰)
ان
تہتر(۷۳) آیات میں سولہ مقامات پرحضرت دائود ح کا نام مبارک بھی
مذکور ہے…قرآن پاک نے یہ بھی بتایا ہے کہ …اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ح کو پرندوں
کی بولیاں بھی سکھلا دیں تھیں…اور بھی آپ کے معجزات بہت زیادہ ہیں…آج ہمارا موضوع
حضرت سیدنا دائود حکی سیرت مبارکہ نہیں بلکہ ایک دعاء ہے…اور یہ دعاء حدیث شریف کی
مشہور کتاب’’مصنّف ابن ابی شیبہ‘‘ کی’’ کتاب الدّعاء‘‘ کے چالیسویں باب میں مذکور
ہے…حضرت کعب ذفرماتے ہیں کہ حضرت دائودحیہ دعاء مانگا کرتے تھے…
اَللّٰھُمَّ
خَلِّصْنِیْ مِنْ کُلِّ مُصِیْبَۃٍ نَزَلَتِ الْلَّیْلَۃَ مِنَ الْسَّمَائِ فِی
الْاَرْضِ
ترجمہ:یا
اللہ مجھے ہر اُس مصیبت سے بچایئے جو آج کی رات آسمان سے زمین پر نازل ہوئی ہے…
اور
یہ دعاء فرماتے :
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ لِیْ سَھْمًا فِیْ کُلِّ حَسَنَۃٍ نَزَلَتِ الْلَّیْلَۃَ مِنَ السَّمَائِ
فِی الْاَرْضِ
ترجمہ:یا
اللہ مجھے اُس بھلائی(اور خیر) میں سے حصّہ عطاء فرمایئے جو بھلائی آج کی رات
آسمان سے زمین پر اُتری ہے… (مصنف ابن ابی
شیبہ کتاب الدعاء)
دوسری
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ…حضرت دائود علیہ السلام پہلی دعاء سورج غروب ہونے کے
وقت تین بار مانگتے تھے…اور دوسری دعاء صبح سورج طلوع ہونے کے وقت تین بار فرماتے تھے…اللہ اکبر کبیرا،سبحان
اللہ…یہ دونوں دعائیں بہت نافع،بہت مفید
اور بہت پُراثر ہیں…رات کے وقت آسمان سے خیر اور شردونوں نازل ہوتے ہیں…پہلی
دعاء میں ہر شر سے حفاظت مانگی گئی اور دوسری دعاء میں ہر خیر میں سے حصّہ مانگا گیا
ہے…دل چاہتا ہے کہ…یہ میٹھی اور طاقتور دعاء ہر مسلمان یاد کر لے اور دل کی توجہ
سے اس کا اہتمام کرے…
(۱)اَللّٰھُمَّ
خَلِّصْنِیْ مِنْ کُلِّ مُصِیْبَۃٍ نَزَلَتِ الْلَّیْلَۃَ مِنَ الْسَّمَائِ فِی
الْاَرْضِ…(تین بار)
(۲)اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ لِیْ سَھْمًا فِیْ کُلِّ حَسَنَۃٍ نَزَلَتِ الْلَّیْلَۃَ مِنَ السَّمَائِ
فِی الْاَرْضِ…(تین بار)
یا
لطیف
اللہ
تعالیٰ کے پیارے پیارے ناموں کو ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کہتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے اپنے
بندوں کو حکم دیا ہے کہ…وہ اللہ تعالیٰ کو ان پیارے پیارے ناموں سے پکاریں…اور ان
ناموں کو پکار کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں…’’اسماء الحسنیٰ’’میں سے سب سے
مستند’’اسماء‘‘ (یعنی نام)وہ ہیں جو قرآن پاک میں آئے ہیں…اسماء الحسنیٰ کے بارے میں
آپ نے مزید تفصیلات جاننی ہوں تو ’’تحفہ سعادت‘‘نامی کتاب کا مطالعہ کریں…جبکہ عربی
اور اُردو میں اس موضوع پر بہت عمدہ کتابیں موجود ہیں…بات دراصل توفیق کی ہے…اللہ
پاک کی نظرِرحمت ہو جائے تو انسان پر…علم اور توفیق کے دروازے کُھلتے چلے جاتے ہیں…قریب
کا قصہ ہے کہ ایک شخص بہت پریشان تھا…وہ ہر طرف سے مصائب میں گِھر چکا تھا…ایک رات
اُس نے خواب میں اپنے’’شیخ‘‘کی زیارت کی…انہوں نے فرمایا کہ ’’اسماء الحسنیٰ‘‘
پڑھا کرو… آپ یقین کریں کہ…اُس نے جیسے ہی’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کا باقاعدہ وِرد شروع
کیا تو حالات بہتر ہوتے چلے گئے…دراصل ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ خیر،بھلائی اور حَسَنَات
کا خزانہ ہے… مالک کی مرضی کہ جس کو اس خزانے میں سے جتنا عطاء فرمادے … حضرات
صحابہ کرام تو اسماء الحسنیٰ میں سے چندایک پڑھ کر دعاء کرتے تھے اور اپنے گھوڑے
سمندروں میں ڈال دیتے تھے…آج کل بہت سے لوگ حالات کی تنگی اور پریشانی کا شکوہ
کرتے ہیں…اُن سے گزارش ہے کہ کچھ توجہ اسماء الحسنیٰ کی طرف بھی کریں…اللہ تعالیٰ
کے ’’اسماء الحسنیٰ‘‘میں سے ایک ’’اللطیف‘‘ جلَّ شانہ ہے…اللہ تعالیٰ کا یہ
مبارک’’اسم‘‘قرآن پاک کی کئی آیات میں مذکور ہے…اور ہر آیت میں اس’’اسم مبارک‘‘ کی
الگ تاثیر کی طرف واضح اشارہ ہے…حضرت یوسف ج
کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ کی’’شانِ لطیفی‘‘پوری طرح ظاہر ہوئی …چنانچہ
جب حضرت یوسف ج اپنے والدین کو لے کر مصر کے ’’تختِ حکمرانی‘‘ پر جلوہ افروز ہوئے…اور
آپ کے والدین اور آپ کے بھائیوں نے سجدہ کیا تو حضرت یوسف ح بے ساختہ پکار
اٹھے…اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِمَایَشَائُ…بے شک میرا رب جو چاہتا ہے اُسے اپنی خفیہ
تدبیر…اور مخفی طریقے سے پورا فرمادیتا ہے…ظاہری طور پر بہت سی چیزوں میں ’’شر‘‘
نظر آرہا ہوتا ہے…مگر اللہ تعالیٰ جو ’’لطیف‘‘ ہے وہ نہایت لُطف،لطافت،اور باریکی
کے ساتھ اُن چیزوں کا انجام بہت خیروالا بنادیتا ہے…ظاہری طور پر بھائیوں کا
حسد،والدین سے جُدائی،قید وبند،جھوٹی تہمتیں…اور دربدری ہے…مگر اللہ تعالیٰ نہایت
لطافت اور باریکی کے ساتھ انہیں راستوں سے اُن کو …نبوت،خلافت اور دنیا وآخرت کی
سعادت کی طرف لے جا رہا ہے…اگر یہ مصیبتیں نہ آتیں تو پھر اتنے اُونچے علوم اور
اتنے اُونچے مقام تک پہنچنا آسان نہ ہوتا…اسی طرح باقی انبیاء دکے حالات پڑھ لیں…ظاہری
طور پر وہ امتحانات اور مصائب میں ڈالے گئے…مگر بعد میں سب نے دیکھ لیا کہ اللہ
تعالیٰ کی مخفی تدبیر نے ہر چیز کا انجام بہترین بنا دیا…حضرات مفسرین نے ’’اللطیف‘‘
کے بائیس(۲۲) معانی لکھے ہیں… ہم اُن میں سے بعض کو یہاں نقل کررہے ہیں…تاکہ
ہم جب اپنے رب کو ’’یا لطیف‘‘ کہہ کر پکاریں تو ہمارے ذہن میں…اس نام کی عظمت اور
زیادہ روشن ہو…
(۱) اللطیف…اپنے بندوں کے ساتھ بھلائی کرنے والا…اور اُن پر ایسے
طریقے سے احسان کرنے والا جس کا انہیں گمان تک نہ ہو
(۲) اللطیف:نہایت محبت کے ساتھ اپنے بندوں کی حاجتیں پوری
فرمانے والا …
(۳) اللطیف: اپنے اُن بندوں پر لطف وکرم کی بارش برسانے والا جو
مخلوق سے مایوس ہو کر اُس پر توکل کرتے ہیں…جب وہ اُس کے سامنے گڑگڑاتے ہیں تو وہ
اُن کی دعاء قبول فرماتا ہے…اور اُن کی طرف توجہ فرماتا ہے…
(۴) اللطیف:اپنے بندوں کی خوبیاں لوگوں میں پھیلانے والا اور
اُن کے گناہوں کو لوگوں سے چھپانے والا…
(۵) اللطیف:تھوڑے کوقبول کرنے والا اور زیادہ دینے والا…
(۶) اللطیف:اپنے بندوں کو اُن کیإاہلیت سے زیادہ دینے والا اور
اُن پر اُن کی طاقت سے کم کا بوجھ ڈالنے والا…
(۷) اللطیف:وہ جو اپنی نافرمانی کرنے والوں کو جلدی نہیں پکڑتا
اور اپنے سے اُمید رکھنے والوں کو ناکام نہیں فرماتا…
(۸) اللطیف:اُن پر رحم فرمانے والا جو اپنے اوپر رحم نہیں کرتے…
(۹) اللطیف:وہ جس تک انسان کے خیالات تک نہیں پہنچ سکتے…
(۱۰) اللطیف:ہر مشکل کو آسان فرمانے والا اور ہر نقصان کی تلافی
فرمانے والا…
آپ
نے اندازہ لگایا کہ…کتنا بڑاسمندرہے…جی ہاں رحمتوں کا میٹھا سمندر… نرمی، محبت،
مخفی طریقوں سے خیر پہنچانا…اور اپنے بندوں پر اُن کے حق سے زیادہ رحمت فرمانا…آج
ہم سب اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم کے محتاج ہیں…اس لئے خوب توجہ اور اہتمام کے ساتھ یا
اللہ یا لطیف کا ورد کریں…خوب ورد کریں اور اس نام مبارک کا خوب مراقبہ کریں…اور
اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم کے پردوں میں چُھپ جائیں ،گُم ہو جائیں…ڈوب جائیں اور
نوراور سکون کے لمبے لمبے غوطے لگائیں…
اَللّٰھُمَّ
یَا لَطِیْفُ،یَالَطِیْفُ،یَالَطِیْفُ اُلْطُفْ بِنَا بِلُطْفِکَ الْخَفِیِّ یَا
لَطِیْفُ اُلْطُفْ بِنَافِیْ تَیْسِیْرِ کُلِّ عَسِیْرٍ…آمین…
اگر
آپ نے اسلاف اور اکابر سے منقول ’’یالطیف‘‘ کے ورد کے بعض طریقے معلوم کرنا ہوں
تو…لطف اللطیف اور تحفہ سعادت نامی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں…اللہ تعالیٰ مجھے اور
آپ سب کو اس مبارک ’’اسم‘‘ اور تمام’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کی برکات دنیا وآخرت میں نصیب
فرمائے…
معذرت
شروع
میں تین باتیں عرض کرنے کا ارادہ لکھا تھا…مگر ‘‘کالم‘‘مکمل ہوگیا اور ایک بات رہ
گئی…انشاء اللہ اگلی کسی مجلس میں اُسے بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی…
اللھم
صلّ علیٰ سیدنا ومولانا محمد عدد مافی علم اللہ صلوٰۃ دائمۃ بدوام ملک اللہ عزوجلّ
وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
عظیم
نسبت کی حفاظت
اﷲ
تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کا سلسلہ حضرت ’’محمد‘‘ﷺ پر مکمل فرمایا ہے… حضرت محمدﷺ
اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں… آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آسکتا ہے اور نہ
کوئی رسول… ختم نبوت کا تاج اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کے سرمبارک پر رکھ دیا ہے…
آپ ﷺ کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے، ملعون ہے، کافر ہے،
ناپاک ہے، مردود ہے… اور جو اس جھوٹے مدّعی نبوت کو مانے… وہ بھی کافر ، ملعون،
ناپاک اور مردود ہے… اور جو کوئی اس جھوٹے نبی کی نبوت کو تو نہ مانے مگر اُسے یا
اُس کے ماننے والوں کو مسلمان سمجھے وہ ملحد، زندیق… اور ایسا خطرناک گمراہ ہے کہ
اُس کی گمراہی پر کفر کا خطرہ ہے… آپ سب نے خبروں میں سُن لیا ہو گا کہ کراچی میں
حضرت لدھیانوی شہیدپ کے خلیفہ اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما حضرت مولانا سعید
احمد جلالپوری کو شہید کر دیا گیا ہے… اُن کے ایک بیٹے اور کچھ رفقاء بھی اس گلرنگ
سفر میں اُن کے ہمسفر بنے ہیں… اﷲ تعالیٰ ان سب کی شہادت قبول فرمائے… دوسری طرف
کراچی کے صاحبِ حال خطیب حضرت مولانا عبدالغفور ندیم پ اور اُن کے صاحبزادے بھی
گولیوں سے چھلنی ہو کر جام شہادت نوش فرما گئے ہیں… دونوں خبریں پیچھے والوں کے
لئے غمناک ہیں… اس لئے ہم سب پڑھتے ہیں
انا
ﷲ وانا الیہ راجعون
حضور
اقدسﷺ نے اُمت کو خبر فرمادی ہے کہ… آپﷺ کے بعد اس اُمت میں تیس ایسے دجال پیدا
ہوں گے… جو سب نبوت کا دعویٰ کریں گے…
حضور
اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے
سیکون
فی اُمتی کذابون ثلٰثون کلھم یزعم انہ نبی… وانا خاتم النبیین لانبی بعدی (ا بو
داؤد)
’’آئندہ میری
اُمت میں تیس بڑے کذّاب(جھوٹے) پیدا ہوں گے، اُن میں سے ہر ایک اس بات کا دعویدار
ہوگا کہ وہ نبی ہے… حالانکہ میں(یعنی محمدﷺ) آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی پیدا
نہیں ہو گا‘‘…
علامہ
ابن حجر س، علامہ بدرالدین عینی س… اور دیگر محدّثین کرام نے اس حدیث پا ک کی تشریح
میں لکھا ہے کہ… یہ’’ تیس کذّاب‘‘ وہ ہوںگے جن کا فتنہ لوگوں میں پھیلے گا… ورنہ
نبوت کا دعویٰ کرنے والے تو بے شمار ہوں گے… اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے… ایک مسلمان کس
طرح سے اُن لوگوں کو برداشت کر سکتا ہے جو آقا مدنیﷺ کے’’تاج ختم نبوت‘‘ کی طرف
گستاخی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں… ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گورداس پور کے
قصبے’’قادیان‘‘ میں ایک شخص پید ا ہوا… غلام احمد اُ س کا نام تھا… باپ کا نام
غلام مرتضیٰ، دادا کا نام عطاء محمد… اور پردادا کا نام گل محمد…
یہ
ملعون شخص۱۸۳۹ء یا۱۸۴۰ء میں پید ا ہوا… اور ۲۶ مئی۱۹۰۸ء
کو مر گیا… یعنی اسے مَرے ہوئے سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اُس کا فتنہ
دنیا کے کئی ملکوں میں پھیل چکا ہے… اس ظالم شخص نے مہدی، مسیح موعود… اور پھر نبی
ہونے کا دعویٰ کیا… اور اسلام کے سینے پر انگریزوں کی صلیب گاڑنے کی کوشش کی… مجلس
تحفظ ختم نبوت اسی فتنے کی سرکوبی کے لئے دنیا بھر میں محنت کرتی ہے… حضرت بنوری
پاسی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ’’امیر‘‘ تھے… حضرت مفتی احمد الرحمن صاحبپ اور حضرت
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدپ یکے بعد دیگرے اس مجلس کے ’’نائب امیر‘‘ رہے…
حضرت مولانا سعید احمد جلالپورپ بھی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بے لوث خادم تھے…
پاکستان میں نبوت اور رسالت کے جھوٹے مدّعی وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہتے ہیں…
اسلامی خلافت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لئے ہر کفر کی کھلی آزادی ہے… آج’’مہدی‘‘
کا دعویٰ کرنے والے تو تقریباً ہر شہر میں موجود ہیں… جبکہ تجدید اور امامت کا دعویٰ
کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے… نبوت کا دعویٰ کرنے والے کئی ملعون توفوراً
مارے گئے… جبکہ بعض نے الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لیکر اپنے فتنے کو لوگوں میں پھیلا
دیا ہے… کچھ عرصہ پہلے’’گوہر شاہی‘‘فتنہ وجود میں آیا… یہودیوں اورصلیبیوں نے ریاض
گوہر شاہی کو فوراً پاکستان سے بحفاظت یورپ منتقل کر دیا… گوہر شاہی نے یہ دعویٰ
بھی کیا کہ چاند پر اُس کی منحوس تصویر ظاہر ہوئی ہے… اور نعوذ باﷲ حجر اسود پر بھی
اُس کی شبیہ ظاہر ہوئی ہے… یہ ناپاک شخص ابھی اپنے دعوؤں کی پرواز میں تھا کہ موت
کا فرشتہ اُس کو گھسیٹ کر لے گیا… آج سندھ، پنجاب اور بیرون ممالک میں کئی بدقسمت
لوگ اس گمراہ فتنے کا شکار ہو چکے ہیں… حضرت لدھیانوی شہیدپ نے اپنی زندگی کے آخری
ایام میں گوہر شاہی فتنے پر کتاب جمع کرنا شروع فرمائی تھی… بعد میں حضرت مولانا
سعید احمد جلالپوری پ نے اس کتاب کو مکمل کیا… اور اہتمام کے ساتھ شائع کیا…
قادیانی
فتنہ… دراصل مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی سیاسی سازش ہے… پاکستان کی جڑوں میں یہ فتنہ
گھسا ہوا ہے… کئی بڑے صحافی، کئی اہم بیورو کریٹ اور کئی بڑے فوجی اور سیاستدان یاتو
خود خفیہ قادیانی ہیں… یا قادیانیوں کے ہمنوا ہیں… پاکستان کا جو ادارہ، جو عالم یا
جو تنظیم’’قادیانیوں‘‘ کے خلاف کام کرے امریکہ اور برطانیہ فوراً اُس کے خلاف
اقدامات شروع کر دیتے ہیں… قادیانی چوہے اُن علماء کرام کو دھمکی آمیز خطوط بھی
لکھتے ہیںجو علماء کرام قادیانیوں کے خلاف کام کرتے ہیں… الحمدﷲ، الحمدﷲ ثم الحمدﷲ
اس طرح کے خطوط مجھے بھی مل چکے ہیں… مجھے
بہت خوشی ہوئی کہ میرے آقا ﷺ کے دشمن مجھ سے پریشان ہیں… قادیانیوں کے علاوہ
پاکستان میں’’ختم نبوت‘‘ کے اور بھی کئی دشمن اور گستاخ موجود ہیں… یہ بڑی بڑی
کوٹھیوں میں رہتے ہیں اور بظاہر بہت پڑھے لکھے اور مہذّب سمجھے جاتے ہیں… ان سب کی
سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ… یہ اپنی طرف سے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی پیشین
گوئیاں کرتے رہتے ہیں… او ر لوگوں کو اُن کے مستقبل کے حالات بتا کر اپنے جال میں
پھنساتے رہتے ہیں… یہ لوگ اپنی بات ’’انسانیت‘‘ سے شروع کرتے ہیں… پھر’’روحانیت‘‘
کو اپنا موضوع بناتے ہیں… نہ دل اسلامی، نہ گھر اسلامی، نہ شکل اسلامی، نہ لباس
اسلامی، نہ کھانا پینا اسلامی… مگر’’روحانیت‘‘ کے اونچے اونچے اشارے… یہ عجیب
روحانیت ہے جو بے پردہ لڑکیوں کے درمیان بیٹھ کر پرواز پکڑتی ہے… اور موسیقی کی
دھنوں میں لشکارے مارتی ہے… ’’روحانیت‘‘ کے بعد اگلا سبق علماء کرام کی مخالفت کا
ہوتا ہے…تاکہ… اپنے شکار کو ہر روشنی سے کاٹ دیا جائے… یہ تمام مراحل جب پورے ہو
جاتے ہیں تو پھر دعوؤں اور گمراہیوں کا اصل دروازہ کھولا جاتا ہے… پاکستان میں ایسے
بے شمار’’بزرگ‘‘ موجود ہیں جن کے بقول اُن کے لئے براہ راست’’بغداد‘‘ سے احکامات
آتے ہیں… یعنی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی پ اُن سے ملاقاتیں کرتے ہیں ، اُن کو
احکامات دیتے ہیں… اُن کے ذریعے ملک کے بڑے اور مالدار لوگوں تک اپنے پیغامات،
خطوط اور گدڑیاں پہنچاتے ہیں… ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو صاحب کشف کہلاتے ہیں… اور
انہیں کشف ہوتا ہے کہ فلاں ایس پی کب ڈی آئی جی بنے گا… فلاں صحافی کب ترقی کرے
گا… اور فلاں سیاستدان کب حکومت پائے گا… حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سارے امام،
مجدّد، مہدی… صرف مالداروں میں کام کرتے ہیں… اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں تک
’’روحانی میسج‘‘پہنچاتے ہیں… غریبوں کے لئے ان کے پاس کوئی پیغام، کوئی پیشین گوئی
اور کوئی خوشخبری نہیں ہے… اﷲ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر رحم فرمائے… اگر ہم صرف اتنی
بات سمجھ لیں کہ دین میںترقی قربانی سے ہوتی ہے توہم… بہت سے لٹیروں اور گستاخوں
سے بچ سکتے ہیں… کیونکہ یہ لو گ دین کی خاطر کوئی قربانی نہیں دیتے… بلکہ مشرکین کی
طرح نعوذباﷲ اسلام کو بھی… دنیاوی حاجتیں پوری کرنے کا ایک آستانہ سمجھتے ہیں…
گمراہی کے تاریک بادل تیزی سے اندھیرا پھیلا رہے ہیں… طرح طرح کے پروفیسر، طرح طرح
کے جعلی پیر، طرح طرح کے نقلی مہدی… طرح طرح کے خود ساختہ خلیفے اور امام… اور طرح
طرح کے اسلامی سکالر… پھر ان سب کے عجیب عجیب’’کشف‘‘ عجیب عجیب پیشین گوئیاں… اور
عجیب عجیب دعوے… کہاں جہاد، کہاں قربانی، کہاں راتوں کی بیداری… اور کہاں سجدوں کے
آنسو… دنیا، دنیا اور دنیا… روحانیت کے جھوٹے دعوے اور میڈیا کے زور پر امریکہ
اور اسرائیل ختم کرنے کے ڈھکوسلے… مسلمان تو ایک کمزور چوزے کی طرح لرز رہا ہے…
اور گمراہی کی یہ’’چیلیں‘‘ جھپٹ جھپٹ کرمسلمانوں کو نوچ رہی ہیں… اور اٹھا اٹھا
کرتاریکی کے گڑھوں میں ڈال رہی ہیں… بزدل اور وہمی سیاستدانوں نے اپنی حفاظت کے
لئے طرح طرح کے ستارہ شناس… اور پروفیسر پال رکھے ہیں… اور ان میں سے کئی ایک ختم
نبوت کے منکر… اور کافروں کے یار ہیں… ان حالات میں مسلمان کہاں جائیں… ہم
مسلمانوں سے سب کچھ چھن گیا… نہ خلافت رہی، نہ حکومت رہی… نہ کوئی اسلامی فوج اور
نہ کوئی اسلامی بم… ایک زمانے تک ہم دنیا سے ’’جزیہ‘‘ لیتے تھے مگر آج سانس لینے
پر بھی کافروں کو ٹیکس دیتے ہیں… اب توہمارے پاس ایک ہی چیز باقی ہے… اور وہ ہے
جناب رسول اﷲﷺ کی نسبت… آج اسی نسبت کے سہارے ہم دنیا میں موجود ہیں… اور ہم میں
سے خوش نصیب اسی نسبت کی برکت سے… جہاد جیسا عظیم عمل سرانجام د ے رہے ہیں… ظالموں
کی کوشش ہے کہ … وہ ہم سے یہ نسبت چھین لیں… اے مسلمانو! اگر ہم سے آقا مدنیﷺ کی
نسبت چھن گئی تو پھر ہماری جھولی میں کیا رہ جائے گا… کس قدر دردناک عذاب ہے کہ…
ہم آقا مدنیﷺ کی نسبت سے محروم ہو کر… کسی کذاب کی طرف منسوب ہو کر مریں… تھوک دو
ہر قادیانی پر… اور قادیانیوں سے نرمی کرنے والوں پر… تھوک دو ہر ملعون گوہر شاہی
… اورہر یوسف کذّاب پر…
مسلمانو!
مرجانا، کٹ جانا اور جل جانا برداشت کر لو مگر ختم نبوت کے تاج کی طرف اٹھنے والا
کوئی ہاتھ برداشت نہ کرو… یہ ٹھیک ہے کہ… قادیانیوں اور دوسرے اسی طرح کے فتنوں کے
ساتھ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، انڈیا… اور کرائے کے قاتل ہیں… مگر یہ بھی تو یاد
رکھو کہ… اسلام اور تحفظ ختم نبوت پر مر مٹنے والوں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ہے… اور
ہمارے لئے ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ ہی کافی ہے… وہی بہترین کام بنانے والا… اور بہترین
مددگار ہے…
حسبنا
اﷲ و نعم الوکیل نعم المولیٰ و نعم النصیر
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
نماز
کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو
للہ
تعالیٰ اُمّت مسلمہ پر رحم فرمائے… اللہ کے بندو ! کیا کوئی مسلمان بھی بے نمازی
ہو سکتا ہے؟… وہ دیکھوبازار بھرے پڑے ہیں اور مسجد آنسو بہا رہی ہے… یا اللہ یہ
سب کچھ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں… اذان
ہوگئی مگر مسلمان نماز کے لیے نہیں آرہے۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ مگر معاملہ تو بہت
خطرناک ہوتا جارہا ہے… مسلمان مالک اور آفیسر اپنے ملازموں کو نماز سے روک رہے ہیں…
کہ کاروبار خراب نہ ہوجائے… اسکولوں والے طلبہ کو نماز سے روک رہے ہیں… کہ تعلیم
خراب نہ ہوجائے… لعنت ہو ایسے کاروبار پر اور ایسی تعلیم پر… نماز چھوڑنا تو کُفر
ہے… جی ہاں عملی کُفر… رسول پاک ﷺ کے زمانے میں منافقوںکو بھی نماز میں آنا پڑتا
تھا… کیونکہ نماز کے بغیر کسی کے مسلمان ہونے کا دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا تھا…
مشہور تابعی حضرت عبداللہ بن شقیقس فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام ڑ نماز چھوڑنے
کو کُفرسمجھتے تھے
کان
اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایرون شئیا من الاعمال ترکہُ کفر غیر
الصلوٰۃ ۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)
پھر
یہ سب کچھ کیا ہے؟… حکمران بے نمازی، مگر اسلام کے اونچے اونچے دعوے… لیڈر بے نمازی،
رہنما بے نمازی، فوج اور پولیس بے نمازی… مگر ان سب کو گمان ہے کہ وہ اونچی نسل کے
مسلمان ہیں… اذان ہو جاتی ہے مگر اُسے سُن کر ’’صاحب‘‘ کی میٹنگ برخواست نہیں ہوتی…
پرویز مشرف تو جان بوجھ کر جمعہ کی نماز کے وقت اجلاس جاری رکھتا تھا… ہائے میرے
مالک نماز جیسے اسلام کے ’’رکنِ اعظم‘‘ کی یہ بے حرمتی… قرآن پاک سمجھاتا ہے کہ …
شیطان تمہیں نماز سے روکنا چاہتا ہے… جی ہاں شیطان اور اُس کے چیلے انسان ہوں یا
جنّ… مسلمانوں کو نماز سے روکتے ہیں… کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نماز سے ایمان نصیب
ہوتا ہے… اور ایمان سے جنت اور کامیابی ملتی ہے… جبکہ شیطان کا مشن ہی یہ ہے کہ
مسلمان ناکام ہو جائے… انسان برباد ہو جائے… اللہ کے بندو! شیطان تو پوری محنت سے
اپنا کام کر رہا ہے… لوگوں کو نماز سے روک رہا ہے… ظالم اتنا بوڑھا ہو کر بھی نہیں
تھکتا… اور اپنا کام اتنا پھیلا کر بھی آرام نہیں کرتا… تو پھر اللہ پاک کے بندے
دین کی دعوت دینے میں محنت کیوں نہیں کر رہے… وہ کیوں اتنا جلدی تھک جاتے ہیں… وہ
دیکھو! میرے آقا ﷺ کی اُمت میں کتنی تیزی سے کُفر اور ارتداد پھیل رہا ہے… کوئی
ہے اس دردناک صورتحال پر رونے اور تڑپنے والا؟… اللہ کے بندو! جب نماز نہیں ہوگی
تو ایمان کتنے دن سلامت رہے گا؟… بغیر ستون کے عمارت؟… بغیر سر کے جسم؟… بے نمازی
بہت جلدی کُفر کا شکار ہو جاتا ہے… العیاذ باللہ العیاذ باللہ… بے نمازی کا دل ایک
درندے کے دل سے زیادہ حریص اور زیادہ ظالم ہو جاتا ہے… بے نمازی خود کو مسلمان کہہ
کر کس بے دردی سے اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں… کس بے دردی سے مسلمانوں کو قتل کرتے ہیںاور
کس بے حیائی سے کھلم کھلّا گناہ کرتے ہیں… اللہ کے بندو! اس اُمت کو بچانا ہے تو
اسے نماز پراور جہاد پر لانا ہوگا… ورنہ کچھ پتہ نہیں چلے گا کہ کون اپنا ہے اور
کون غیروں کا ایجنٹ… آج کی بے نور عورتوں کو نماز کا نور ملے گا تو مسلمان کے
حالات میں بہتری آئے گی… ورنہ تو یہ غافل اور حریص عورتیں ہر کفر کو ہمارے گھر کے
دروازے تک لے آئیں گی…
اقامت
صلوٰۃ مہم الحمدللہ شروع ہو چکی ہے… زیادہ سے زیادہ مسلمان مَردوں اور عورتوںتک
اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دو… یہ پیغام رسول ِ کریم ﷺپر یوں نازل ہوا …
’’میرے ایمان
والے بندوں سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں‘‘…(القرآن)
دیکھو،
دیکھو رب تعالیٰ کتنے پیار سے اپنے بندوں کو نماز کا حکم فرما رہا ہے… ذرا قرآن
پاک میں نماز والی آیات تو پڑھ کر دیکھو… اور پیارے آقا مدنی ﷺ نے تو آخر وقت
تک اپنی اُمت کو نماز کی طرف بلایا…
’’نماز کے بارے
میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، نماز کے بارے میں
اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘‘ (الحدیث)
اے
مسلمانو! اے نماز ادا کرنے والو!… آپ سب مرد اور عورتیں اس مہم میں شامل ہو جائیں…
نماز کو اپنی زندگی کا سب سے اہم کام بنا لیں… نماز کو سنت کے مطابق خشُوع سے ادا
کرنے کی پوری زندگی محنت کریں… اپنی اولاد کو نماز پر لگائیں… کھانے پینے اور سونے
کے اوقات کی ترتیب نماز کا خیال رکھ کر بنائیں… نوکری ، ملازمت، کاروبار میں نماز
کو معیار بنا کر ترتیب بنائیں… رشتے دیں یا لیں نماز کو سب سے پہلے دیکھیں… دوستی
کرنی ہو یا ملازم رکھنا ہو سب سے پہلے نماز کو دیکھیں… پوری زندگی اپنی نگرانی کریں
کہ نماز کیسی جارہی ہے… جب بھی سُستی، غفلت یا کمی محسوس ہو تو فوراً ڈر جائیں کہ
بیماری لگ چکی ہے… ایمان خطرے میں ہے… تب اس طرح محنت سے اپنا علاج کریں جس طرح کینسر
کا مالدار مریض کرتا ہے… اے مسلمانو!… نماز سے محروم ہونا کینسر سے بہت زیادہ
خطرناک ہے… روزآنہ کسی نہ کسی کو نماز کی دعوت دیں… یہ اُمت بہت اونچے کام کے لیے
آئی ہے اُس کام کا اہل بننے کے لیے اسے اپنی نماز اور اپنے جہاد کو پختہ کرنا
ہوگا… اقامتِ صلوٰۃ مہم شروع ہو چکی ہے… آپ سب ہر نماز کے بعدیہ دعا ضرور کریںکہ…
اللہ تعالیٰ اس مہم کو کامیاب بنائے اور اسے قبول فرمائے…
گرانقدر
قرآنی تحفہ
اس
مبارک مہم میں شرکت کے لیے سعدی فقیر نے بھی تھوڑی سی کوشش کی ہے… اللہ تعالیٰ
قبول فرمائے… قرآنِ پاک تو سب کے لیے نازل ہواہے… ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ …
وہ معلوم کرے کہ قرآن پاک نے اُسے کیا سمجھایا ہے… قرآن پاک نے نماز کا حکم بھی
بہت تاکید سے دیا ہے… اور نماز کے فوائد کھول کھول کر بیان فرمائے ہیں… بندہ نے
قرآن پاک کی اکثر ’’آیاتِ صلوٰۃ‘‘ کا ایک مختصر خُلاصہ ترتیب دیا ہے… آپ اسے
پڑھ لیں گے تو قرآن پاک کے ’’حکم نماز‘‘ کا ایک مختصر خاکہ آپ کے ذہن میں آجائے
گا… اسے پڑھنے سے آپ کو انشاء اللہ اجر و ثواب بھی ملے گا… اور عمل کی ہمت اور
حوصلہ بھی… اور طلبۂ علم کے لیے تحقیق کا دروازہ کھلے گا کہ … قرآن پاک میں جہاں
بھی نماز کا حکم آیا ہے… وہاں ’’تکرار‘‘ نہیں بلکہ ہر جگہ نئے فوائد ہیں اور نئی
حکمتیں… کیونکہ یہ ’’الحکیم جلّ شانہ‘‘ کا کلام ہے…
ہر
مسلمان کو چاہیے کہ … نہایت محبت، احترام اور توجہ سے ایک بار اس خلاصے کو پڑھ لے…
یہ نماز کی تمام آیات کا خلاصہ نہیں بلکہ اکثر کا ہے… اور خلاصہ میں جو کچھ لکھا
گیا ہے وہ آیات کا ترجمہ نہیں… مفہوم اور مضمون ہے… ملاحظہ فرمائیے ’’دعوتِ
نماز‘‘ کا قرآنی تحفہ…
قرآنی
تحفہ
۱۔ ہدایت اور
تقویٰ حاصل کرنے کے لیے نماز کی پابندی لازمی ہے… نماز کی پابندی کے بغیر ہدایت
اور تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتے (البقرہ :۲،۳)
۲۔ نماز کا
پورااہتمام کرو اور نماز باجماعت ادا کیا کرو
(البقرہ: ۴۳)
۳۔ نماز کے ذریعہ
اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرو (البقرہ: ۴۵)
۴۔ نماز اُن
لوگوں کے لیے بھاری ہے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اللہ تعالیٰ سے
ملاقات کا شوق نہیں ہے … جن کے دلوں میں یہ نعمت موجود ہے اُن کے لیے نمازہرگز
بوجھ نہیں (البقرہ: ۴۶)
۵۔ نماز وہ اہم
فریضہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ماضی میں بھی اپنے بندوں سے عہد لیا (البقرہ: ۸۳)
۶۔ نماز آخرت
میں بہت کام آنے والا عمل ہے (البقرہ: ۱۱۰)
دشمن
جب بہت ایذا پہنچائیں تو نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ ہمت اور حوصلہ حاصل کرو (البقرہ: ۱۱۰)
۷۔ جہاد اور
نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرو، اِ ن دو اعمال کی پابندی سے دین کے سب
کام آسان ہو جاتے ہیں (البقرہ: ۱۵۳)
۸۔ نمازوں کی
بہت زیادہ حفاظت کرو، خصوصاً عصر کی نماز کا خوب اہتمام کرو (البقرہ: ۲۳۸)
۹۔ نماز میں
ادب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہواکرو
(البقرہ: ۲۳۸)
۱۰۔ حالت خوف میں
بھی نماز معاف نہیں، جیسے بَن پڑے پیدل ہو یا سوار ادا کرو (البقرہ: ۲۳۹)
نکاح
اور طلاق کے تذکرے میں نماز کی پابندی کا حکم ارشاد فرمایا…پس معلوم ہوا کہ انسان
کی ذاتی اور گھریلو زندگی کی اصلاح میں بھی نماز کا بہت دخل ہے (واللہ اعلم
بالصواب)
۱۱۔ ایمان والے
سودی کاروبار نہیں کرتے بلکہ نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے بہترین بدلہ
پاتے ہیں، اور آخرت کے خوف اور غم سے نجات حاصل کرتے ہیں (البقرہ: ۲۷۷)
۱۲۔ حضرت زکریا
حکو نماز کے دوران بڑی بشارت دی گئی… (معلوم ہوا کہ نماز خاص رحمتوں کے نزول کا ذریعہ
ہے) (آل عمران: ۳۹)
۱۳۔ نمازاللہ تعالیٰ
کے فرمانبرداروں کی اہم علامت ہے (آل
عمران: ۴۳)
۱۴۔ نشے اور
ناپاکی کی حالت میں نماز نہ پڑھو، بلکہ نماز کے لیے دل، دماغ اور جسم حاضر اور پاک
رکھو (النساء: ۴۳)
۱۵۔ حالتِ جنگ
اور سفر میں بھی نماز معاف نہیں، البتہ قصر اور صلوٰۃِ خوف کی اجازت ہے، حالتِ جنگ
میں نماز کا ایسا طریقہ اللہ تعالیٰ نے سکھا دیا کہ نماز بھی نہ چھوٹے اور جہاد بھی
چلتا رہے (النساء: ۱۰۱، ۱۰۲)
۱۶۔ نماز فرض ہے
اور اس کے اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں، جب حالتِ خوف نہ ہو تو بہت اطمینان
اور تمام شرائط ، ارکان اور آداب کی رعایت کے ساتھ نماز ادا کیا کرو (النساء: ۱۰۳)
۱۷۔ منافقین کی ایک
علامت یہ ہے کہ نماز میں سست کھڑے ہوتے ہیں
(النساء: ۱۴۲)
۱۸۔ نماز کامیاب
اہل ایمان کی ایک علامت ہے (النساء: ۱۶۲)
۱۹۔ نماز کی اہمیت
کہ اس کے لیے طہارت کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے خود سکھایا اور پانی نہ ہو تب بھی
نماز معاف نہیں تیمم کرکے نمازادا کرو
(المائدہ: ۶)
۲۰۔ نماز، مریض
اور مسافر کو بھی معاف نہیں، البتہ اُن کو طہارت وغیرہ کے معاملات میں کچھ آسانیاں
دی گئیں ہیں (المائدہ: ۶)
۲۱۔ نماز اللہ
تعالیٰ کی معّیت، نصرت، مغفرت اور جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے (المائدہ: ۱۲)
۲۲۔ مسلمانوں کے
دوست اور خیرخواہ وہی مسلمان ہو سکتے ہیں جو نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہیں
(المائدہ: ۵۵)
۲۳۔ کافر اذان کی
آواز سے جلتے ہیں اور اُس کا مذاق اڑاتے ہیں
(المائدہ: ۵۸)
۲۴۔ شیطان چاہتا
ہے کہ وہ مسلمان کو شراب، جوئے ، وغیرہ میں لگا کر نماز سے روک دے… اے مسلمانو! ان
غفلت والی چیزوں سے باز آجائو (المائدہ: ۹۱)
۲۵۔ اللہ تعالیٰ
کا اصلی حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی مانگو، اور دعاء کی سب سے عمدہ صورت
’’نماز‘‘ ہے تو نماز کا خوب اہتمام کرو
(الانعام: ۷۲)
۲۶۔ قرآن پاک اور
آخرت پر ایمان رکھنے والے نمازوں کا بہت اہتمام کرتے ہیں (الانعام: ۹۲)
۲۷۔ فرمانبرداری کے
نصاب میں پہلا عمل نماز ہے… نماز صرف اللہ تعالیٰ کے لیے (الانعام: ۱۶۲)
۲۸۔ نمازکے لیے زینت
یعنی لباس وغیرہ سے آراستہ ہو کر آئو
(الاعراف:۳۱)
۲۹۔ نماز اہلِ ایمان
کی اہم علامت ہے (الانفال:۳)
۳۰۔ کافر اگر ایمان
کا دعویٰ کریں تو اُن کا دعویٰ تب معتبر ہوگا جب وہ نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں (التوبہ: ۵)
۳۱۔ اسلامی برادری
میں شامل ہونے کے لیے ایمان قبول کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام لازمی
ہے (التوبہ: ۱۱)
۳۲۔ ہدایت یافتہ
ہونے کے لیے نماز لازمی ہے (التوبہ: ۱۸)
۳۳۔ منافق نماز کے
معاملے میں سُست (التوبہ: ۵۴)
۳۴۔ ایمان والی
جماعت کی ایک بڑی علامت نماز کا اہتمام ہے
(التوبہ: ۷۱)
۳۵۔ منافق کی نماز
جنازہ ادا نہ کی جائے (التوبہ: ۸۴)
۳۶۔ نماز اُن
مقبول اور کامیاب مجاہدین کی ایک علامت ہے جن کی جانوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت کے
بدلے خرید لیا ہے (التوبہ: ۱۱۲)
۳۷۔ دشمنوں کے شدید
غلبے کے وقت بھی نماز قائم رکھنے کا حکم (یونس:۸۷ )
۳۸۔ نماز کی پابندی
کرنے والوں کی بُرائیاں دور کر دی جاتی ہیں
(ہود:۱۱۴)
۳۹۔ اللہ کے بندوں
کو یہ پیغام پہنچا دو کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے نماز اور مالی عبادتوں کا
اہتمام کرلیں (ابراہیم:۳۱)
۴۰۔ حضرت ابراہیمپنے
اپنے اہل اولاد کو حرم کے پاس ایک چٹیل میدان میں جا بسایا تاکہ وہ نماز قائم کریں
(ابراہیم:۳۷)
۴۱۔ حضرت ابراہیمپکی
دعاء کہ اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میںسے بھی نماز
قائم کرنے والے بنا (ابراہیم:۴۰)
۴۲۔ کافروں کی
سازشوں، باتوں اور حرکتوں سے دل تنگ ہو تو نماز کی طرف متوجہ ہو جائو… مرتے دم تک
نماز کا اہتمام کرو (الحجر:۹۸، ۹۹)
۴۳۔ ان کافروں کی
منصوبہ بازیوں کی فکر نہ کیجئے، اپنے مالک کی یاد کے لیے نمازوں کو ٹھیک ٹھیک قائم
کیجئے… تعلق مع اللہ وہ چیز ہے جو ہر مشکل اور مصیبت کا حل ہے (بنی اسرائیل ۷۸)
۴۴۔ پانچ نمازوں کے
اوقات، فجر کی نماز کی فضیلت کہ اس میں فرشتوں کی حاضری ہوتی ہے (بنی اسرائیل:۷۸)
۴۵۔ رسول پاک ﷺ کے
لیے تہجد کا حکم (بنی اسرائیل:۷۹)
۴۶۔ اللہ تعالیٰ
نے حضرت سیدنا عیسیٰح کو آخری دم تک نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم فرمایا (مریم:۳۱)
۴۷۔ حضرت سیدنا
اسماعیل حاپنے گھروالوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم فرماتے تھے (مریم:۵۵)
۴۸۔ نمازیں ضائع
کرنا ناخلف اور گمراہ لوگوں کا طریقہ ہے
(مریم:۵۹)
۴۹۔ اللہ تعالیٰ
کے ذکر اور اُسکی یاد کا بڑا طریقہ نماز قائم کرنا ہے (طٰہٰ:۱۴)
۵۰۔ دشمنانِ اسلام
کی باتوں پر دھیان نہ کریں صبر و سکون کے ساتھ عبادت میں لگے رہیں… اس میں نمازوں
کے پانچ اوقات بھی ارشاد فرمادئیے… نماز سے اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے (طٰہٰ:۱۳۰)
۵۱۔ خود بھی نماز
پر مضبوط رہیں اور اپنے اہل وعیال اور متعلقین کو بھی نماز کی تاکید فرماتے رہیں (طٰہٰ:۱۳۲)
۵۲۔ انبیاء د کو
اللہ تعالیٰ نے نماز قائم رکھنے کا حکم فرمایا
(الانبیاء:۷۳)
۵۳۔ اللہ تعالیٰ نے
اپنے خلیل حضرت ابراہیمحکو طواف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے کعبۃ
اللہ کو ہر طرح سے پاک صاف کرنے کا حکم فرمایا
(الحج:۲۶)
۵۴۔ اللہ تعالیٰ کے
لیے تواضع کرنے والے کامیاب لوگوں کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم رکھتے ہیں (الحج:۳۵)
بیت
اللہ کی طرف حج کے لیے سفر کرنے والے سفر کی مشکلات میں نماز سے غافل نہ ہوں
۵۵۔ ایمان والے
حکمرانوں کی پہلی ذمہ داری کہ وہ حکومت ملتے ہی نماز قائم کرتے ہیں (یعنی خود بھی
اہتمام سے ادا کرتے ہیں اور مسلمان رعایا کو بھی اس کا حکم دیتے ہیں)… اللہ تعالیٰ
کے منصور اور محبوب مسلمانوں کو جب زمین پر حکومت ملتی ہے تو وہ سب سے پہلے نماز
قائم کرتے ہیں (الحج:۴۱)
۵۶۔ فلاح اور کامیابی
حاصل کرنے کے لیے نماز کا اہتمام بھی ضروری ہے
(الحج:۷۷)
۵۷۔ اے مسلمانو! تم
بڑے کام کے لیے کھڑے کئے گئے ہو اس لیے نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ
تعالیٰ ہی کو مضبوط پکڑے رہو (الحج:۷۸)
بے نمازی مسلمان ’’شہادت علی الناس‘‘
کی ذمہ داری کس طرح سے ادا کرسکتا ہے؟
۵۸۔ ایمان والوں کے
لیے کامیابی اور فلاح کے نصاب میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی نمازیں خشوع سے ادا
کریں… اور نمازوں کی بہت زیادہ حفاظت کریں کہ… اپنے وقت پر باجماعت تمام شرائط و
آداب کی رعایت سے ادا کریں (المومنون:۲،۹)
۵۹۔ مردانِ حق کو
تجارت اور دنیاوی مشاغل نماز سے غافل نہیں کرتے یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی مساجد کو
آباد کرتے ہیں اور نور کے فیض سے منوّر ہوتے ہیں
(النور:۳۷)
۶۰۔ اگر اللہ تعالیٰ
کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو تو تم بھی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی روش اختیار
کرو اور روش یہ ہے نمازیں قائم کرنا، زکوٰۃ دیتے رہنا اور زندگی کے تمام شعبوں میں
رسول اللہ ﷺ کے احکام پر چلنا (النور:۵۶)
۶۱۔ ’’رحمن‘‘ کے
مخلص بندوں (عبادالرحمن) کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنی راتیں نماز کے رکوع، سجدوں میں
گزارتے ہیں (الفرقان:۶۴)
۶۲۔ قرآن پاک ہدایت
اور بشارت ہے اُن ایمان والوں کے لیے جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں
اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں (النمل:۳) یعنی قرآن پاک سے فائدہ اُٹھانے کی لازمی شرط ایمان کے بعد
نماز کی پابندی ہے…
۶۳۔ نماز بے حیائی
اور بُری باتوں سے روکتی ہے… قرآن پڑھیں اور نماز ادا کریں نماز سے تمام نقائص
دور ہوجاتے ہیں، نماز اللہ تعالیٰ کے ذکر کا ذریعہ ہے اور ذکر اللہ بہت بڑی چیز
ہے (العنکبوت:۴۵)
۶۴۔ جنت چاہتے ہو
تو اللہ تعالیٰ کی یاد کرو جو دل، زبان، اعضاء سب سے ہوتی ہے نماز میں تینوں قسم کی
یاد جمع کر دی گئی، پس فرض نمازوں کے ان اوقات میں نمازوں کا خوب اہتمام کرو (الروم:۱۷، ۱۸)
۶۵۔ نماز قائم کرو
اور مشرکین میں سے نہ بنو (الروم:۳۱)
مسلمانوں
کے غلبے کے لیے جو اصول بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک نماز کی پابندی ہے
۶۶۔ نماز ’’محسنین‘‘
کا طریقہ ہے وہ ’’محسنین‘‘ جو قرآن پاک سے ہدایت اور رحمت پاتے ہیں (لقمان:۴)
۶۷۔ حضرت لقمان حکیم
ؑ نے اپنے بیٹے کو کامیابی اور حکمت کے جو راز بتائے ان میں سے ایک یہ ہے کہ بیٹا نماز کا خوب اہتمام کرو (لقمان:۱۷)
۶۸۔ اللہ تعالیٰ کی
باتوں کو وہی لوگ مانتے ہیں جو سجدوں اور نمازوں کے عاشق اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں
مال خرچ کرنے والے ہیں (السجدہ:۱۶)
۶۹۔ ازواج مطہرات،
اُمہات المومنین (رضی اللہ عنہن) کو نماز کا تاکیدی حکم (الاحزاب:۳۳)
۷۰۔ رسول نبی کریم ﷺ
کی دعوت سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو بن دیکھے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور
نمازیں قائم رکھتے ہیں (فاطر:۱۸)
۷۱۔ ایک ایسی
تجارت جس میں نقصان کا خطرہ نہیں… کتاب اللہ کو ماننا اور پڑھنا، نماز کو قائم
رکھنا، اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال میں سے خوب خرچ کرنا (فاطر:۲۹)
۷۲۔ کیا فرمانبردار
اور نافرمان دونوں برابر ہو سکتے ہیں، ہرگز نہیں، فرمانبردار کی بڑی صفت راتوں کو
نمازیں ادا کرنے والے (الزمر:۹)
۷۳۔ آخرت کی ہمیشہ
ہمیشہ والی نعمتوں میں جو لوگ عیش و آرام کریں گے اُنکی ایک صفت یہ ہے کہ وہ
نمازوں کو قائم رکھتے ہیں (الشوریٰ:۳۸)
۷۴۔ دنیا کی کامیاب
ترین جماعت ’’حضرات صحابہ کرام ڑ‘‘ کی ایک اہم صفت نمازوں کا ایسا عشق اور اہتمام
کہ سجدوں کا نور اُن کے چہروں سے عیاں تھا
(الفتح:۲۹)
۷۵۔ کفار کی بیہودہ
باتوں سے پریشان نہ ہوں، صبح شام اور رات نمازوں کا اہتمام کریں (ق:۳۹، ۴۰)
۷۶۔ جنّت کے مستحق
مسلمان رات کو جاگ جاگ کر نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں اور سحری کے وقت استغفار کرتے
ہیں (الذاریات:۱۷، ۱۸)
۷۷۔ آپ صبر و
استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں جو عنقریب آپ کے اور ان کے درمیان
فیصلہ کردے گا، اورا ٓپ کو مخالفین کی طرف سے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچے گا، آپ
صبر و تحمل اور اطمینان و سکون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہیں (الطور:۴۸، ۴۹)
۷۸۔ عقلمند کا کام
نہیں کہ انجام سے غافل ہو کر نصیحت و فہمائش کی باتوں پر ہنسے اور مذاق اڑائے،
بلکہ لازم ہے کہ عبادت کی راہ اختیار کرے… اگر نجات چاہتے ہو تو ایک اللہ تعالیٰ
کا سجدہ اور اُسی کی عبادت کرو (النجم:۶۲)
۷۹۔ نماز اور زکوٰۃ
تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہیں (المجادلہ:۱۳)
۸۰۔ جب ’’نماز
جمعہ‘‘ کے لیے اذان ہو جائے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نماز کے لیے دوڑو اس میں
تمہارے لیے بڑی خیر ہے (الجمعہ:۹)
۸۱۔ جمعہ کے وقت
(اذان سے سلام تک) کوئی خرید و فروخت نہ ہونے پائے، اس وقت کو یاد الہٰی میں صَرف
کرنے سے جو اجر ملے گا وہ تجارت کے نفع سے بہت بہتر ہے (الجمعہ:۱۱)
۸۲۔ قیامت کے دن
جب اللہ تعالیٰ ساق کی تجلّی فرمائے گا تو ایمان والے سجدہ میں گر جائیں گے مگر ریا
کار، منافق اور کافر سجدہ نہ کرسکیں گے اُن کو سجدہ کے لیے بلایا جائے گا مگر وہ
اسکی طاقت نہیں پائیں گے (اُنکی کمر تختہ کر دی جائے گی) اس دن شرم کی وجہ سے اُنکی
آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور اُن پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، اس رسوائی کا سبب یہ
ہوگا کہ اُن کو دنیا میں سجدہ کے لیے بلایا جاتا تھا اور وہ سجدہ نہیں کرتے تھے
حالانکہ اُسوقت وہ تندرست تھے اور سجدہ کر سکتے تھے (القلم:۴۲، ۴۳)
۸۳۔ نماز کی مکمل
پابندی اور پوری حفاظت کرنے والے بے صبری اور طبیعت کے کچے پن سے محفوظ رہتے ہیں (المعارج ۲۳، ۳۴) ایسے لوگوں کی دیگر صفات بھی اسی مقام پر مذکور ہیں
۸۴۔ رسول پاک ﷺ کے
لیے قیام اللیل کا حکم اور اُس کے فوائد
(المزمل:۱ تا۶)
۸۵۔ تہجد کی نماز
کا منظر اور اُس کے بعض احکام اور اقامتِ صلوٰۃ کا حکم (المزمل:۲۰)
۸۶۔ نماز میں اللہ
تعالیٰ کی بڑائی بیان کریں (المدثر:۳) اس سے دعوت الی اللہ کے کام میں مدد ملتی ہے…
۸۷۔ جنت والے، جہنم
والوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟ وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں
پڑھتے تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے
(المدثر:۴۱ تا ۴۴)
۸۸۔ موت اور آخرت
کی تیاری کے لیے نماز کا توشہ ضروری ہے، بے نمازی کے لیے ہلاکت ہے (القیامہ:۳۱)
رب کے پاس جا رہا ہوگا اور کافرکے پاس
کوئی تیاری نہیں ہوگی نہ ایمان لایا نہ نماز ادا کی…
۸۹۔ مضبوطی،
استقامت اور کافروں کے فتنے سے حفاظت کے لیے رات کی نماز کا اہتمام کریں… مُراد شاید
مغرب و عشاء ہے یا تہجد (الدھر:۲۶)
۹۰۔ نماز کاحکم نہ
ماننا مجرموں اور کافروں کا طریقہ ہے
(المرسلات:۴۸)
۹۱۔ نماز تزکیہ
نفس کا بہترین ذریعہ ہے (الاعلیٰ:۱۴، ۱۵)
۹۲۔ نمازی کے لیے
فلاح اور پاکی ہے (الاعلیٰ: ۱۴، ۱۵)
۹۳۔ بد ترین کافر،
ابوجہل جیسے مشرک ’’نماز‘‘ سے روکتے ہیں
(العلق: ۹، ۱۰)
۹۴۔ کافروں کی بات
نہ مانیں بلکہ خوب سجدے کریں (العلق:۱۹)
سرکش
کفار کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ مسلمان نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہو جائیں
مسلمان کو چاہیے کہ اُن کی باتوں اور فتنے میں نہ آئیں اور نماز و سجدوں کا خوب
اہتمام کریں
۹۵۔ نماز اور سجدہ
اللہ تعالیٰ کے قُرب کا ذریعہ ہے (العلق:۱۹)
۹۶۔ نماز ہر سچے
دین کا پسندیدہ اور اہم عمل رہا ہے (البیّنہ:۵)
۹۷۔ نماز پہلی
امتوں پر بھی فرض تھی (البیّنہ:۵)
۹۸۔ نماز میں سُستی
ہلاکت ہے (الماعون :۴،۵)
۹۹۔ نماز میں ریاکاری
ہلاکت ہے (الماعون: ۶)
۱۰۰۔ شکر ادا کرنے کا
بہترین طریقہ نماز اور قربانی ہے… بدنی اور روحی عبادات میں سب سے بڑی عبادت نماز
ہے… اے نبی (ﷺ) ہم نے آپ کو بہت زیادہ اور بڑی خیر عطاء فرمائی ہے پس (اس کا شکر
ادا کرنے کے لیے) آپ اپنے رب کے لیے نماز ادا کریں اور قربانی کریں (الکوثر:۲)
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
سنت،
میڈیا ، کشکول
اﷲ
تعالیٰ رحمت و نصرت فرمائے… اور مجھے وہ باتیں لکھنے کی توفیق عطاء فرمائے جو اُس
کی ’’رضا‘‘ کے مطابق ہوں… اور ان باتوں سے مجھے اور آپ سب کو فائدہ نصیب فرمائے…
آج کئی باتیں جمع ہو گئی ہیں… آئیے مختصر طور پر ایک ایک کو لیتے ہیں…
ایک
پیاری سنت ادا کیجئے
پچھلے
سال اپنے عظمت و جلال والے ربّ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے بھروسے پر چوبیس مساجد کی تعمیر
کا کام شروع ہوا تھا… اللہ تعالیٰ کے بندوں نے دل کھول کر خرچ کیا… اور اللہ تعالیٰ
کے جانثاروں نے پوری محنت کی… مگر کام مکمل نہ ہوسکا… اموال ختم ہو گئے… ’’مساجد‘‘
کی تعمیر ادھوری رہ گئی… اِدھر اُدھر سے پیسہ جوڑ کر ان ’’مساجد‘‘ کو مکمل کیا
جاسکتا تھا مگر یہ عزم تھا کہ ’’مساجد‘‘ جیسے مقدس ترین مقامات پر ’’مساجد‘‘ کی
مدّ کا پیسہ ہی لگایا جائے… چنانچہ کام روک دیاگیا… اس پر غور و فکر جاری تھا کہ
دوبارہ ’’مہم‘‘ چلا کر اِس مدّ کے اموال فراہم کئے جائیں… یا کیا کیا جائے؟… کسی
مسجد میں دو لاکھ کا کام باقی تھا تو کسی میں آٹھ لاکھ کا… ان تمام مساجد کی تکمیل
کے لیے ’’ساٹھ لاکھ‘‘ روپے کی ضرورت تھی… اپنے ربّ عظیم و جلیل کے سامنے دعاء کر
رہے تھے کہ… یا اللہ! مسجد تو آپ کا گھر ہے… اُسکی آبادی میں ہماری نصرت فرما…
’’مہم‘‘ کے بارے میں غور جاری تھا کہ… اللہ تعالیٰ کی عجیب نصرت نور برساتی ہوئی
زمین پر اُتر آئی… اللہ تعالیٰ کے ایک مخلص اور خوش نصیب بندے نے خود کسی ذریعے
سے رابطہ کرکے… مساجد کی تعمیر کے لیے ایک خاطر خواہ رقم دینے کی خواہش ظاہر کردی…
اللہ اکبر کبیرا… اِن صاحب کو اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ مساجد کی تعمیر ادھوری
رہ گئی ہے… اور نہ اُن کو ہم نے خاص طور پر کوئی ترغیب دی تھی… بس اللہ پاک نے اُن
پر رحمت اور محبت کی نظر فرمائی اور اُن کے مال کے ایک حصّے کو اپنی رضا کے لیے
قبول فرما لیا… انہوں نے اتنی رقم کا اعلان کیا جس سے انشاء اللہ یہ تمام مساجدبھی
مکمل ہو جائیں گی… اور مدرسہ اویس قرنیذ کی مسجد بھی… انشاء اللہ… کافی حد تک تعمیر
ہو جائے گی… الرحمت ٹرسٹ کے شعبہ مساجد نے فوراً تفصیلی اجلاسات بُلائے… تمام
مساجد کے لیے نگران مقرر کئے… دو کمیٹیاں بنائی گئیں… اور آج ماشاء اللہ یہ
صورتحال ہے کہ اکثر مساجد میں کام شروع ہو چکا ہے… اور انشاء اللہ تین ماہ میں یہ
تمام مساجد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت سے ’’آباد‘‘ ہو جائیں گی… اس وقت جبکہ میں
یہ کالم لکھ رہا ہوں… جماعت کی دو کمیٹیاں پوری محنت، امانت اور لگن کے ساتھ مساجد
کے کام میں نکلی ہوئی ہیں… والحمد للہ ربّ العالمین… الحمد اللّٰہ الذی بنعمتہ
تتمّ الصّالحات… اللہ تعالیٰ مال تو بہت لوگوں کو عطاء فرماتاہے… مگر اس مال کو
اپنے لئے بہت کم لوگوں سے قبول فرماتا ہے… حضرات صحابہ کرام ڑ کی کامیابی کا بڑا
نکتہ یہ تھا کہ … اللہ تعالیٰ نے اُنکو سمجھا دیا کہ ’’جان‘‘ میں نے اس لیے دی ہے
کہ اسے میرے لئے قربان کرکے میری رضا حاصل کرو… اور مال میں نے اس لئے دیا ہے کہ
اسے میرے لئے خرچ کرکے ’’جنت‘‘ خرید لو… اُمت میں سے جس کو بھی یہ عقلمندی والا
نکتہ سمجھ آگیا وہ کامیاب ہوگیا… اور جس کو سمجھ نہیں آیاوہ جان اور مال دونوں کی
ذلّت اور تکلیف میں مبتلا ہوا… پلاٹ پر پلاٹ، دکان پر دکان اور مکان پر مکان… صبح
شام مال اور مال… یہ لوگ جمع کر کرکے تھکتے ہیں، گِن گِن کر مرتے ہیں… اور پھر سب
کچھ یہیں چھوڑ کر مر جاتے ہیں… حضرات صحابہ کرام ڑ نے اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا
کے لئے خرچ کیا… اللہ تعالیٰ نے دنیامیں اُن کو اِس مال سے سینکڑوں گنا زیادہ عطاء
فرمایا… اور آخرت میں اُن کے لیے جنت اور اُس کے محلّات کو سجا دیا… آپ صرف حضرت
جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی پ کی کتاب ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ میں حضرات صحابہ کرام
ڑکے مال خرچ کرنے کے واقعات پڑھ لیں… رب کعبہ کی قسم دل روشن ہو جاتا ہے… اُن کے
مَرد اُن کی عورتوں سے اور اُن کی عورتیں مَردوں سے زیادہ سخی تھیں… اور اخلاص کا یہ
عالم تھا کہ اللہ پاک کی رضا اور آخرت کے اجر کے سوا کوئی نیت اُن کے قریب نہ آتی
تھی… پھر سب سے زیادہ مزے کی بات یہ تھی کہ… جب وہ خرچ کرتے تھے تو ربّ کریم اُن کی
تعریف میں قرآن پاک کی آیات نازل فرماتا تھا… اور رسول پاک ﷺ کے چہرہ انور پر
خوشی کی ’’بَہَار‘‘ آجاتی تھی… اور پھر آپ ﷺ ہاتھ اور جھولی پھیلا کر اُن کو
دعائیں اور بشارتیں دیتے تھے… اللہ اکبر کبیرا، اللہ اکبر کبیرا… تعمیر مساجد میں
رقم خرچ کرنے والے ہمارے بھائی کو بہت مبارک ہو… قرآن پاک کی آیات اور رسول اللہ
ﷺ کی دعائوں کی برکت آپ کو بھی نصیب ہوگئی… ہم مسافروں نے بھی آپ کے لیے قبولیت
اور برکت کی دعائیں مانگی ہیں… اور اپنے ربّ عظیم سے عاجزی کے ساتھ درخواست کی ہے
کہ… وہ آپ کو اس کا بہترین بدلہ دنیا اور آخرت میں عطاء فرمائے… پیارے بھائی!
جنت کے اتنے سارے مکانات کی خریداری مبارک ہو… اللہ پاک کی رضا کے لئے مال خرچ
کرنے والوں کو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ خوب دعائوں سے نوازتے تھے… اور آپ ﷺ
اُن کے اس مقبول خرچ پر بہت خوشی کا اظہار فرماتے تھے… القلم کے پڑھنے والے تمام
مسلمان مرد اور خواتین… آج آقا مدنی ﷺ کی اس سنت مبارک کو زندہ کریں… اور اُس
مسلمان بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت، قبولیت اور برکت کی دعاء کردیں…
جس نے اللہ تعالیٰ کے گھر ’’مساجد‘‘ کو آباد کرنے کے لئے اِس ضرورت کے موقع پر یہ
مال خرچ کیا ہے… اللہ تعالیٰ تمام دعاء کرنے والوں کو جزائے خیر عطاء فرمائے… آمین
ویڈیو
تو جعلی نکلی
کچھ
عرصہ پہلے دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ پر ایک ’’ویڈیو‘‘ کا شور تھا… کچھ ڈاڑھی والے
لوگ ایک لڑکی کو بدکاری کی سزا کے طور پر کوڑے مار رہے ہیں… کیا بی بی سی اور کیا
سی این این سب نے خوب ماتم کیا… اور دل کھول کر واویلا… ہر ٹی وی چینل پر مغرب زدہ
دانشور بھونک رہے تھے… اور بے پردہ عورتوں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا… کراچی
میں لاکھوں لوگوں کو جمع کرکے ریلی نکالی گئی جس میں ’’لندن‘‘ کے ایک انگریزی پیر
نے رو رو کر بیان کیا… اور مجمع کو گن پوائنٹ پر رُلایا… یوں لگتا تھا کہ دنیا میں
بس یہی ایک مسئلہ سب سے اہم ہے… اور تو اور عدالتوں نے بھی نوٹس لینا شروع کر دئیے
تھے… اب راولپنڈی کی پولیس نے ’’اُس ویڈیو‘‘ کے ہیرو کو پکڑ لیا ہے… موصوف ایک
مغرب پال ’’این جی او‘‘ کے معزز نمائندے ہیں…
اور اُس ہیروئن کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جس نے دو لاکھ روپے لیکر پیٹھ پر کوڑے
کھائے… تمام تفصیلات آپ نے اخبارات میں پڑھ لی ہوںگی… پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ … کیا
اب بھی آپ ’’میڈیا‘‘ پر اعتماد کرتے رہیں گے؟… چند دن پہلے انڈیا کے ایک بڑے ٹی وی
چینل نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے… اس میں نقشوں کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ… جیش
محمد ﷺ نے کراچی کے قریب بہاولپور میں اپنا نیا ٹریننگ سینٹر کھول لیا ہے… یہ
رپورٹ اور اس کی ویڈیو میرے پاس موجود ہے… کیا واقعی ’’بہاولپور‘‘ کراچی کے قریب
ہے؟… ہمیں تو جب کبھی کراچی سے بہاولپور جانا ہوتا ہے تو سفر سے کمر دُکھ جاتی ہے…
یقین جانیںاگر اللہ کریم جلّ شانہ کی فرض کردہ نمازیں نہ ہوتیں تو اس سفر سے کمر
بالکل اکڑ جاتی… نماز بھی عجیب تحفہ ہے… راستے میں رُکے وضو کیا، نماز ادا کی تو
بالکل تروتازہ ہوگئے… مگر اِنٹرنیشنل میڈیا بتاتا ہے کہ… ’’بہاولپور‘‘ کراچی کے قریب
ہے… اب بھی آپ رات دن اسی میڈیا پر اعتماد کرکے مایوس ہوتے رہیں گے؟… میڈیا بتا
رہا ہے کہ… ہلمند میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا ’’آپریشن مشترک‘‘ بہت کامیاب
جا رہا ہے… اس آپریشن نے طالبان کی کمر توڑ دی ہے اور وہ چاروں طرف سے گھِر چکے ہیں…
حالانکہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے… آپ ہلمندکے آپریشن سے بحفاظت نکل کر آنے والے مجاہدین
کو… افغانستان اور پاکستان کے کئی علاقوں میں بے فکری کے ساتھ گنڈیریاں چوستے دیکھ
سکتے ہیں… وہ نیٹو فورسز کو انگوٹھا دکھا کر آگئے… اور کچھ آرام کرکے پھر واپس
پہنچ جائیں گے… ارے دنیا والو! اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے…
اور اللہ تعالیٰ ’’ایک‘‘ ہے وحدہ لاشریک لہ… آئیے ہم سب کہہ دیں… اللہ اکبر کبیرا
فاتحین
واپس آگئے
کئی
ماہ سے شور تھا کہ… ’’پاک امریکہ مُذاکرات‘‘ ہونے والے ہیں… ان مذاکرات کے نتیجے میں
پاکستان کو اتنا کچھ ملے گاکہ… یہاں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی… شاید امریکہ کے
’’مخبر‘‘ حسین حقانی نے حکومتِ پاکستان کو بتا دیا ہو گا کہ… اس بار ’’اوبامہ‘‘ جیب
کھول کر اور ’’ہیلری‘‘ دل کھول کر دے گی… ہمارے وزراء ان مذاکرات کی تیاری میں کئی
ماہ سے رنگ گورا کرنے والی کریمیں لگا رہے تھے… اور سیکورٹی فورسز کو حکم تھا کہ…
امریکہ کو خوش کرنے کے لئے نہ جان کی پرواہ کرو نہ ایمان کی… حضرت ملّا برادر کی
دھوکے کے ساتھ گرفتاری بھی انہیں مذاکرات کی تیاری کا حصّہ تھی… وزیر اعظم صاحب نے
کئی بار اجلاسات بُلائے اور اس پر مشورہ ہوا کہ… امریکہ سے کیا کیا مانگنا ہے اور
اِس بار امریکہ کو کس طرح سے دبانا ہے… اُن طوائف ملکوں کے ریٹ بھی منگوائے گئے جو
بہت مہنگے داموں امریکہ کو اپنی عزت بیچتے ہیں… مثلاً مصر اور ازبکستان وغیرہ…
اوراس پر افسوس کے آنسو بھی بہائے گئے کہ… امریکہ ہماری ’’عزت‘‘ کیوں اتنی سستی
خریدتا ہے… بہرحال کشکولوں، فائلوں اور فہرستوں کے اسلحہ سے لیس ہمارا یہ وفد امریکہ
پہنچا… اور واقعی پہلے دو، تین دن تو امریکیوں کے چھکّے چھُڑا دیئے… کسی نے امریکیوں
سے کہا! ہمیں فوراً پینتیس ارب ڈالر چاہئیں… دوسرے نے کہا امریکہ جی! ڈرون ٹیکنالوجی
ہمارے حوالے کردو… تیسرے نے کہا ہمیں بھارت کی طرح ایٹمی پلانٹ لگا کر دو… چوتھے
نے کہا دہشت گردی جنگ کے بقایا جات نکالو… پانچویں نے کہا ہمارا صوبہ تباہ ہوگیا
ہے تعمیر کے لئے پیسے دو… چھٹے نے کہا جہالت کی وجہ سے دہشت گردی پھیل رہی ہے تعلیم
کے لئے پیسے نکالو… ساتویں نے کہا غربت کی وجہ سے لوگ مجاہدین بن رہے ہیں ہمیں
مالدار بنائو… آٹھویں نے کہا ملک میں خشک سالی ہے ڈیموں کے لئے پیسے دو… نویں نے
کہا بیماریوں کی وجہ سے لوگ خود کُش حملہ آور بنتے ہیں ہسپتالوں کے لئے پیسے دو…
دسویں نے کہا روشن خیالی پھیلانے کے لیے کچھ ڈالر دو… وغیرہ وغیرہ… بیس پچیس موٹے
تازے وزراء نے جب پیسہ دو، ڈالر دو کی فائرنگ کی تو امریکی بے چارے اپنے دفتروں میں
جا چھُپے… یہ وقت شاید امریکہ کے لئے ویتنام اور عراق کی شکست سے بھی زیادہ مشکل
تھا… پاکستانی وفد کے ارکان جہاں کسی امریکی وزیر، مشیر یا چپڑاسی کو دیکھتے فوراً
کہتے پیسہ نکالو، ڈالر دو… اور وہ بے چارہ عزت بچا کر بھاگ جاتا… اور اِدھر
پاکستان میں حکومتی صحافیوں نے شور ڈال دیا کہ امریکہ اب کی بار پوری طرح جھُک گیا
ہے… اور چند دن تک پاکستان میں ڈالروں کا سیلاب آجائے گا… مگر دو چار دن کی پسپائی
کے بعد امریکی سنبھل گئے… انہوں نے پُرانے سفارتکاروں کو بُلا کر پوچھا کہ پاکستانی
حکومت کے اس حملے کا کیا توڑ ہو… پُرانے لوگوں نے بتایا یہ تو بالکل آسان کام ہے…
کسی کے بیٹے کو گرین کارڈ، کسی کی بیٹی کو تعلیمی داخلہ، کسی کو امریکہ میں ایک
آدھ فلیٹ… اور کسی کو بوتل اور ٹھمکا… مشورے پر عمل ہوا… اور حالات ہی بدل گئے…
آخری خبریں آنے تک ہمارے حکمران خالی کشکول اٹھائے واپس آچکے ہیں… پینتیس ارب
تو کیا پینتیس لاکھ بھی نہیں ملے… وہ جو مسلمانوں کے خون کے ڈرم بھر کر لے گئے
تھے… شاید ولائتی شراب کی چند بوتلیں اُس کے عوض لے آئے… یا اللہ ہم پر رحم فرما…
اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت عطاء فرما
آمین
یا ارحم الراحمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
وقائع
سیّد احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ
اﷲ
تعالیٰ بہت کریم ہے، بہت رحیم ہے اور بہت مہربان… وہ جب چاہتا ہے تو بغیر کسی محنت
کے اپنے بندوں کو بڑے بڑے انعامات عطاء فرما دیتا ہے… جی ہاں! بعض اوقات گھر بیٹھے
ایسی نعمت مل جاتی ہے کہ… انسان خوشی، حیرت اور شُکر میں ڈوب جاتا ہے… چند دن پہلے
بندہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا… میری ڈاک میں ایک بھاری بھر کم کتاب بھی تھی…
پہلے دن تو ڈاک کھولنے کا موقع ہی نہیں ملا… دوسرے دن کھولی تواُس کتاب کی زیارت
نصیب ہوئی… یہ تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے… ’’وقائع سیّد احمد شہید س
‘‘… اس کا نامِ نامی، اسم گرامی ہے… چھاپنے والوں نے ایک ہی جلد میں یہ کتاب سمیٹنے
کے لیے اسے بہت باریک کاغذ پر چھاپا ہے… چنانچہ صفحہ الٹتے وقت بہت احتیاط سے کام
لینا پڑتا ہے کہ ایک کی بجائے کئی صفحے نہ الٹ جائیں… یہ کسی ایک مصنف کی تصنیف نہیں
ہے بلکہ ریاست ٹونک کے نواب صاحب مرحوم س کے حکم پر ’’حضرت سید احمد شہیدس‘‘ کے
رفقاء اور عزیزو اقارب کی حکایات پر مشتمل ہے… اکثر واقعات ’’حضرت سید بادشاہ س‘‘
کے خادم جناب دین محمد صاحب س کی زبانی ہیں… یہ کتاب کئی ضخیم رجسٹروں میںلکھی ہوئی ’’تکیہ رائے بریلی‘‘ (حضرت سیّد صاحب س کے
آبائی وطن) میں محفوظ تھی… اتنی بڑی کتاب کو کون چھاپتا اور کیسے چھاپتا؟… چنانچہ
جس کی قسمت جاگتی وہ ’’تکیہ شریف‘‘ جاکر کچھ کچھ دیکھ اور پڑھ آتا تھا… مفکر
اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی س تو خود ماشاء اللہ ’’حضرت سیّد بادشاہ س‘‘
کے خاندان سے تھے… انہوں نے اس کتاب کو مکمل پڑھا اور پھر ان الفا ظ میں خراج تحسین
پیش فرمایا
’’میں نے
’’وقائع احمدی‘‘ کے اس دفتر کو جوکئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے لفظ بلفظ پڑھنا شروع
کیا، جو وقت اس ذخیرہ کے مطالعہ اور تلخیص میں گزرا وہ عمر کے بیش قیمت ترین لمحات
میں سے تھا، قلب پر ان حالات و واقعات کا عکس پڑتا تھا، ان واقعات نے جو سادی پوربی
اردو میں بیان کئے گئے تھے بار بار دل کے ساز کو چھیڑا، بار بار قلب کو ایمانی
حرارت بخشی، بار بار آنکھوں کو غسلِ صحت دیا، اہل یقین و مقبولین کی صحبت کے جو
اثرات بیان کئے گئے ہیں ان واقعات کے مطالعہ اور ان کتابوں کی ورق گردانی کے دوران
میں ان کا بارہا تجربہ ہوا، اور صاف محسوس ہوا کہ یہ وقت ایک ایمانی اور روحانی
ماحول میں گذر رہا ہے، معلوم نہیں کہ ان اللہ کے بندوں کے انفاس قدسیہ اور اُن کی
صحبت میں کیا تأثیر ہوگی جن کے واقعات کے مطالعہ اور جن کے حالات کے دفتر پارینہ
کی ورق گردانی میں یہ تأثیر ہے (مقدمہ وقائع احمدی)
پھر
ایسا ہواکہ … ہمارے زمانے میں حضرت سید احمد شہیدس کے عاشق زار حضرت اقدس سید نفیس
الحسینی شاہ صاحب س نے اس ’’نافع و مقبول‘‘ کتاب کو شائع فرما دیا… اب یہ کتاب
لاہور میں بآسانی ملتی ہے اور ہر مسلمان اپنی استعداد کے مطابق اس سے نفع حاصل کر
سکتا ہے… میرے ایک قریبی ساتھی جو ماشاء اللہ … حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب
س کے خلیفہ مجاز بھی ہیں… انہوں نے مجھے یہ
کتاب بھجوادی… اپنی گوشہ نشینی کی وجہ سے مجھے اس کے شائع ہونے کا علم نہیں تھا…
پہلے ایک دو دن تو میں کتاب کی ’’آزاد سیر‘‘ کرتا رہا… میرا خیال تھا کہ میں اتنی
ضخیم کتاب کے لئے اپنے کاموں سے وقت نہیں نکال پائوں گا… چنانچہ مختلف مقامات سے
کتاب کے کئی صفحات پڑھ ڈالے… کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ کئی افراد کو حضرت سید احمد
شہیدس نے اصرار فرما کر اپنے پاس بُلایا اور انہیں اپنے انفاس قدسیہ سے فیض یاب
فرمایا… بعد میں وہ لوگ حضرت سید صاحب س کو پوری زندگی دعائیں دیتے تھے… بالکل اسی
طرح تیسرے دن میری توجہ بھی کتاب کے مکمل مطالعہ کی طرف خود ہی مائل ہوگئی… اوراب
تک الحمدللہ ایک تہائی سے زائد حصّہ تھوڑے ہی وقت میں ہو چکا ہے… اللہ تعالیٰ اپنی
رحمت سے پوری کتاب پڑھنے کی توفیق عطاء فرمائے… اور اس سے خوب فیض یاب فرمائے (آمین)…
یہ ماشاء اللہ بہت خوب کتاب ہے… آپ نے حضرت سید ابوالحسن علی ندوی سکی رائے تو
پڑھ لی… اب اُن کے بعد کسی اور کی گواہی کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے… کتاب چونکہ
حکایات پر مشتمل ہے اس لئے کئی غیر ضروری باتیں بھی اس میں آگئی ہیں… حضرت سید
صاحب پ کے رفقاء کو سلام کہ انہوں نے اُنکی ایک ایک بات کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی
… ورنہ آجکل تو اہم باتیں بھی منٹوں میں ’’ڈیلیٹ‘‘ ہو جاتی ہیں… بندہ کو تو
الحمدللہ اس بابرکت کتاب سے بہت سکون مل رہا ہے… بارک اللہ، ماشاء اللہ لاقوۃ الّا
باللہ… حضرت سیّد احمد شہیدس کو اللہ تعالیٰ نے عجیب و غریب نعمتوں سے نوازہ… وہ
’’قطب الاقطاب‘‘ تھے… یہ اولیاء کرام کا بہت اونچا مقام ہے… حضرت سیّد صاحب س
مستجاب الدعوات بھی تھے… ہزاروں لاکھوں لوگوں کو اُنکی دعاء سے فائدہ پہنچا… وہ
اپنا ہر معاملہ ’’دعاء‘‘ کے ذریعہ حل کرانے کے قائل تھے… جب بھی کسی کا کوئی مسئلہ
انفرادی یا اجتماعی سامنے آتا تو اپنا سر ننگا کرکے بہت آہ و زاری سے دعاء
فرماتے… اور اللہ تعالیٰ اُنکی لاج رکھتا اور دعاء قبول فرماتا… اس کتاب میں ایسے
سینکڑوں واقعات مرقوم ہیں… حضرت سید صاحب پ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے بہت فکر مند
تھے… لوگوں کو شرک و بدعت اور گناہوں سے بچنے کی تلقین فرماتے اور اسی بات پر ’’بیعت‘‘
لیا کرتے تھے… اُن کے ہاتھ پر کئی کافر مسلمان ہوئے… بے شمار رافضی تائب ہو کر اہل
سنت والجماعت میں شامل ہوئے… اور لاکھوں گناہگاروں نے اُن کے ہاتھ پر توبہ کرکے
خالص اسلامی زندگی گزارنے کا سچا عہد کیا… اس کتاب میں اس طرح کے واقعات بہت پر
اثر انداز میں بیان کئے گئے ہیں… دراصل حضرت سید احمد شہیدس اپنی ذات کو بھول چکے
تھے… اُن کے دل تو کیا اُن کے حواس پر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُسکی محبت غالب
آچکی تھی… چنانچہ وہ جدھر قدم اٹھاتے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت اُن کا
استقبال کرتی تھی… صرف برّصغیر ہی نہیں بلکہ تبت، چین اور بخارا و افغانستان تک
اُن کا یہ روحانی فیض اُن کی زندگی ہی میں پھیل چکا تھا… یہاں تک کہ کئی بے حیا
اور فاحشہ عورتیں اُن کی بیعت میں آکر اللہ تعالیٰ کی ’’ولیّہ‘‘ بن گئیں… حضرت سید
صاحب س کو نماز اور مسجد کا بہت اہتمام تھا… انہوں نے کتنے ہی مسلمانوں کو ’’پکّا
نمازی‘‘ بنایا اور کتنی ہی ویران مسجدوں کو آباد فرمایا… وہ خود بہت شوق سے
مسجدوں کی صفائی کرتے، انہیں پاک صاف کرتے… اور نئی مساجد بہت اہتمام سے تعمیر اور
آباد کراتے تھے… اس کتاب میں حضرت سیّد صاحب س کی زندگی کے اس پہلو پر آپ کو کئی
عجیب واقعات ملیں گے… اور بھی بہت کچھ اس کتاب میں مذکور ہے… مگر سب سے بڑھ کر جو
بات ہے وہ حضرت سید صاحب س کی ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ سے محبت ہے… اللہ اکبر کبیرا…
حضرت سیّد صاحب س کسی بھی عمل اور کسی بھی کیفیت کو ’’جہاد‘‘ کے برابر نہیں سمجھتے
تھے… وہ ہمیشہ اچھے سے اچھے اسلحہ کی جستجو میں رہتے تھے… اور خود بھی ہتھیار
باندھتے تھے… اُن کے بعض بڑے مریدوں نے جب اس پر اعتراض کیا تو حضرت سیّد صاحب س
نے بہت جلال میں اُنکو تنبیہ فرمائی… اور انہیں بتایا کہ جہاد کے بارے میں یا جہادی
اسلحے یا حُلیے کے بارے میں اگر دل میں کوئی اعتراض لائو گے تو تمہاراسب کچھ برباد
ہو جائے گا… جہاد تو وہ مبارک عمل ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء دکو حکم
فرمایا ہے… اور جہاد ہی کی برکت سے کفار نا ہنجار کی گردن ٹوٹتی ہے اور اسلام پھیلتا
ہے… حضرت سید صاحب س فرماتے تھے کہ لوگو! اگر جہاد نہ ہوتا تو معلوم نہیں تم اور
ہم آج کس حالت میں ہوتے… یہ جہاد کی برکت ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں… یہ کتاب جہاد
کے متعلق ایک اہم اور مدلل دستاویز ہے… حضرت سیّد صاحب سنے کئی مقامات پر فرمایا
کہ… کوئی شخص ولی اور قطب بن جائے… مگر جہاد کا رتبہ ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہے…
حضرت سید صاحب س کے خاص مرید اور خلیفہ حضرت حاجی عبدالرحیم صاحب س کے بعض جہادی
اقوال بھی اس کتاب میں بہترین سند کے ساتھ مذکور ہیں… حضرت حاجی عبدالرحیم صاحب س
تمام دیوبندیوں کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی کے دادا پیر ہیں… تیرہویں
صدی میں جب مسلمان غفلت، گمراہی… اورغلامی میں بُری طرح دھنس چکے تھے… اللہ تعالیٰ
نے اُنکی رہنمائی کے لئے حضرت سید احمد شہیدس کو مجدّد بنا کر کھڑا کیا… حضرت سید
صاحب سکے پاس علم بھی تھا، روحانیت بھی تھی… اور جہاد بھی تھا… پھر اللہ تعالیٰ نے
اُن کو خاص تأثیر اور توفیق بھی عطاء فرمائی تھی… اور وہ اسلامی احکام کی ترتیب
سے بھی واقف تھے کہ… کونسا عمل کتنا اہم ہے… اس کتاب میں ’’مجاہدین‘‘ کے لئے اصلاح
اور نظم و ضبط کا بہترین سامان موجود ہے… اور اسی طرح اُن ’’بے بنیاد عناصر‘‘ کے
لئے بھی بہت سے اسباق ہیں… جو اپنے جہاد کے لئے کوئی مضبوط رُخ متعین نہیں کرتے…
بلکہ ہر بھونکنے والے کتّے کے پیچھے پتھر لیکر بھاگ پڑتے ہیں… اور کسی بھی جماعت
کو منظّم اور مضبوط نہیں ہونے دیتے… حضرت سیّد احمد شہیدس جہاد کے شیدائی تھے… اور
اتنے بڑے ’’شیخ طریقت‘‘ ہو کر بھی سلوک و احسان کو جہاد کے تابع قرار دیتے تھے…
مگر جہاد کے ساتھ اس محبت اور عشق کے باوجود انہوں نے کئی مقامات پر اپنے ساتھیوں
کو… ہتھیار تک نہیں باندھنے دئیے… اور کئی مقامات پر مخالفین سے معاہدے کئے… اورکئی
مقامات پر اپنے اندر کے جذباتی عناصر کو سختی سے فرمایا کہ خبردار کوئی حملہ یا گڑ
بڑ نہ کرے ورنہ ہم سزا دیں گے… یا اپنی جماعت سے نکال دیں گے… ایسے مواقع پر ممکن
ہے کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے الگ ہوئے ہوںکہ… سید صاحب سپہلے تو جہاد کی بہت باتیں کرتے
تھے اب ان کی غیرت کہاں گئی؟… لیکن اس کتاب میں اسطرح کے لوگوں کا کوئی تذکرہ نہیں
ہے… البتہ بعض ایسے لوگوں کا تذکرہ ضرور ہے جو سید صاحب سکے اچھا کھانے اور پہننے
پر اعتراضات کرکے کچھ لوگوں کوجماعت سے توڑ گئے… بے شک اُس زمانے کے لوگ خوش نصیب
تھے کہ اُنکو حضرت سید احمد شہیدپ جیسا رہنما، امام اور امیر ملا… اور وہ لوگ
سعادتمند تھے جنہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر حضرت سید صاحب پ کا ساتھ دیا
اوراپنی آخرت بنالی… ہمیں حضرت سیّد احمد صاحب شہیدس کا زمانہ تو نہیں ملا… مگر
اُنکی لذیذ حکایتوں پر مشتمل کتاب ’’وقائع احمدی‘‘ مل گئی ہے… ہم اس کتاب کے آئینے
میں اپنا بہت کچھ سنوار سکتے ہیں… یا اللہ توفیق عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علٰی سیدناو مولانا محمد صاحب الفرق والفرقان وجامع الورق و منزلہ من سماء
القرآن وعلی اٰل محمد وسلم تسلیما کثیراً کثیرا
٭٭٭
قافلے
کی تلاش
اﷲ
تعالیٰ حضرت سیّد احمد شہیدس اور اُن کے اہل وعیال اور رفقائے کرام کے درجات بلند
فرمائے… حضرت سیّد صاحبپ نے بظاہر تھوڑی عمرپائی مگر اﷲ تعالیٰ نے اُن سے بہت کام
لیا اور اُن کے کام اور اوقات میں’’برکت‘‘ عطاء فرمائی… آپ کی ولادت’’صفر ۱۲۰۱ھ‘‘
اور شہادت’’ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ‘‘ میںہوئی… مطلب یہ ہوا کہ تقریباً پینتالیس(۴۵) سال
عمرپائی… اس چھوٹی سی عمر میں ’’برکت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ آج بھی اُن کا نام اور
کارنامے سُن کر بہت سے لوگ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں… حالانکہ
اُن کی شہادت کو دو سو سال کا عرصہ ہونے والا ہے… اور خود اُن کے اپنے زمانے میں
اُن کی مقبولیت کا ایک عجیب رنگ تھا…مولانا عبدالاحد صاحب لکھتے ہیں:۔
’’حضرت سیّد
صاحب قدس سرہ کے ہاتھ پر چالیس ہزار سے زیادہ ہندو وغیرہ کفار ’’مسلمان‘‘ ہوئے اور
تیس لاکھ مسلمانوں نے آپ پکے ہاتھ پر بیعت کی اور جو سلسلۂ بیعت آپ سکے خلفاء
اور خلفاء کے خلفاء کے ذریعے تمام روئے زمین پر جاری ہے۔ اس سلسلے میں تو کروڑوں
آدمی آپ سکی بیعت میں داخل ہیں (روحانی
رشتے ص ۳۷)
اتنے
بڑے مجاہد، قطب اور مجدّد کے ساتھ بھی کئی بدنصیب لوگوں نے طرح طرح کی زیادتیاں کیں…
کئی لوگ آپ سکو قتل کرنے آئے ان میں سے بعض تو بعد میں تائب ہو گئے جبکہ بعض اپنی
بدنصیبی پر ڈٹے رہے… پشاور کے ایک سردار نے آپ سکے کھانے میں زہر ملا دیا… آپ س
اس زہر سے شہید تو نہ ہوئے البتہ کئی دن تک بیمار رہے… شکر گزاری کا یہ عالم تھا
کہ اس واقعہ پر بھی شکر ادا کیا کہ ایک سنت اور پوری ہوئی… کیونکہ آقا مدنیﷺ کو
بھی یہودیوں نے زہر دیا تھا… اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیّد صاحب کو بہت عجیب فراست عطاء
فرمائی تھی… ارشادفرماتے تھے کہ تین چیزوں کے پہچاننے میں مجھ سے بہت کم غلطی ہوتی
ہے(۱) گھوڑا (۲) اسلحہ(۳) آدمی… آپ سکے رفقاء تصدیق کرتے ہیں کہ واقعی اسی طرح تھا…
مگر اﷲ تعالیٰ کا نظام بہت وسیع ہے… اتنی فراست کے باوجود بہت سے بد نصیب لوگ آپ
کو دھوکا اور فریب دیتے رہے… بے شک علم غیب کے خزانے صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے پاس
ہیں… خود حضرت سیّد صاحب سبھی یہی فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی! جب چاہتا ہے
اپنے بندوں کو کسی پوشیدہ بات کا الہام فرما دیتا ہے اور جب چاہتا ہے تو پوشیدہ کو
پوشیدہ ہی رہنے دیتا ہے… حضرت سیّد صاحب نے خود کو اور اپنی جان کو اﷲ تعالیٰ کے
لئے وقف فرما دیا… اور یہ بات یقینی ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کا ہو جاتاہے تو اﷲ تعالیٰ
بھی اُس کا ہو جاتا ہے… چنانچہ سیّد صاحب کی صحبت میںعجیب قوّت اور عجیب برکت تھی…
آپ سکے ایک ’’اصلاحی سفر‘‘ کا حال حضرت ندوی سان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
’’ہر ہر جگہ سینکڑوں
آدمی متقی، متورّع، عابد، متبع سنّت اور ربّانی بن گئے۔ ہزاروں فاسق صالح اور اولیاء
اﷲ ہو گئے، بیسیوں آدمی قتل کے ارادے سے آئے اور جانثار بن گئے اور گھر بارچھوڑ
کر آپ سکے ساتھ ہو گئے ، یہاں تک کہ میدان جنگ میں شہید ہو گئے، جس نے ایک مرتبہ
زیارت کر لی وہ آپ سکے رنگ میں رنگ گیا اور مرتے مرتے مرگیا مگر شریعت سے ایک قدم
نہ ہٹا‘‘ (روحانی رشتے ص ۲۶)
پچھلے
ہفتے کی مجلس میں عرض کیا تھا کہ… آج کل ’’وقائع سیّد احمد شہید پ‘‘ نامی کتاب کا
مطالعہ جاری ہے… اﷲ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے گزشتہ رات اس مبارک کتاب کا مطالعہ
مکمل ہوا… تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک دلکش تحفہ ہے… یہ ایک ایسا
سمندر ہے جس میں جہاد اور روحانیت کے موتی ہی موتی بھرے ہوئے ہیں… آپ نے اس کتاب
کا خلاصہ پڑھنا ہوتو حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی سکی یہ تین کتابیں پڑھ لیجئے
(۱) جب
ایمان کی بہار آئی
(۲) سیرت
سیّد احمد شہید رحمۃ اﷲ علیہ
(۳) کاروانِ
ایمان و عزیمت
(یا مولانا غلام
رسول مہرس کی درج ذیل کتب کا مطالعہ کر لیجئے
(۱) سیّد
احمد شہیدس
(۲) جماعتِ
مجاہدین
(۳) سرگزشت
مجاہدین
اور
اگر آپ کے پاس وقت کم ہے اور آپ ان تمام کتابوں کا خلاصہ اور عطر پڑھنا چاہتے ہیں
تو پھر حضرت سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب سکی کتاب’’روحانی رشتے‘‘ ضرور پڑھ لیجئے…
اس کتاب کا پورا نام’’سیّد احمد شہیدس سے حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجرمکی کے روحانی
رشتے‘‘ ہے… یہ کتاب صرف دو سو چالیس ۲۴۰ صفحات پر مشتمل ہے… اس کتاب میں آپ کو انشاء اﷲ بہت کچھ
مل جائے گا… آج اکثر لوگوں کاجہاد کے بارے میں’’نظریہ‘‘ مکمل اسلامی نہیں ہے…
حضرت سیّد احمد شہیدس کا بڑا تجدیدی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو جہاد
اور خلافت کا حقیقی مفہوم… اپنے علم اور عمل دونوں سے سکھایا… اس لئے ہم جب حضرت سیّد
صاحب پ کے حالاتِ زندگی پڑھتے ہیں تو ہمیں’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کا حقیقی مفہوم پوری
وضاحت کے ساتھ سمجھ آتا ہے… اور ساتھ ساتھ شہادت کا حسین انجام اور راستہ بھی
روشن دکھائی دینے لگتا ہے… حضرت سیّد صاحب س کو اﷲ تعالیٰ نے جو روحانی مقام عطاء
فرمایا تھا اور لوگ جس طرح سے آپ س کی طرف رجوع کررہے تھے… اس میں حضرت سیّد صاحب
سکے لئے ایک پرامن اور پرآرائش زندگی گزارنا بہت آسان تھا… بڑے بڑے رئیس اور
نواب آپ س کے قدموں میں ہدیے اور نذرانے ڈھیر کرتے تھے اور بڑے بڑے مالدار آپ س
کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنا سارا مال لٹانے کو تیار رہتے تھے… مگر حضرت سیّد
صاحب س نے اﷲ تعالیٰ کی رضاء کے لئے ہجرت اور جہاد کا راستہ اختیار فرمایا… اور اسی
راستے کو سب سے افضل اور بہترین جانا… بالاکوٹ کے سفر میں ایک بار آپ سنے ارشاد فرمایا:۔
’’بھائیو! میں
جو اپنے وطن سے اتنے بندگان خدا کو جابجا سے لے کر اور طرح طرح کی سختی اور مصیبت
اُٹھا کر تمہارے اس مُلک کوہستان میں آیا ہوں فقط اس واسطے کہ تم مسلمانوں کے
مُلک پر کفار غالب ہو گئے اور وہ طرح طرح کی تم کو تکلیف اور ذلّت دیتے ہیں، اُن
کو مدد الٰہی سے مار کر مغلوب کروں تا کہ تم اپنی اپنی ریاستوں پر قابض اور متصرّف
ہو اور دین اسلام قوت پکڑے اور اگر میں طالب عیش و آرام کا ہوتا تو میرے واسطے
ملک ہندوستان میں ہر طرح کی عیش و آرام تھی، اس کوہستان میں کبھی نہ آتا سو
مُراد اس گفتگو سے یہ ہے کہ تم بھی سب بھائی حکومتِ کفار سے غیرت کرو اور جان ومال
سے میری شراکت کرو اورکافروں کو مار کر یہاں سے نکالو(وقائع ص ۲۲۰۹)
اﷲ
اکبر! کس قدر’’درد‘‘ ہے اور کس قدر’’غیرت‘‘ کہ اے مسلمانو!… اس بات سے غیرت کھاؤ
کہ تم پر کفار کی حکومت ہے…
حضرت
سیّد صاحب س اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور ہدایت کا بادل بن کر… تکیہ رائے بریلی سے اٹھے
اور بالاکوٹ کی طرف روانہ ہوئے… راستے میں آپ بہت سے شہروں سے گزرے… موجودہ صوبہ
سرحد کے ایک بڑے حصّے پر آپ س نے اسلامی حکومت بھی قائم فرمائی… اور پشاور پر بھی
قابض ہوئے… آپ س نے دعوت جہاد کے کئی وفود دوسری اسلامی ریاستوں میں بھی بھیجے…
مگرجان، مال، عہدے اور ظاہری امن کے لالچی حکمرانوں نے صرف تحفے تحائف بھیجنے پر ہی
اکتفا کیا… اس دوران بہت سی بغاوتیں اور شرارتیں بھی ہوئیں… کئی ظالم لوگوں نے
حضرت سیّد صاحب س کو (نعوذ باﷲ) انگریزوں کا ایجنٹ بھی قرار دیا… اور کئی لوگوں نے
آپ سپرکم علم ہونے کا فتویٰ بھی صادر کیا… مگر حضرت سیّد صاحب ساپنے حق کام میں
لگے رہے… پہاڑوں سے زیادہ بھاری مشکلات بھی آپ سکا راستہ اور طریقہ تبدیل نہیں
کرسکیں اور نہ ہی… لوگوں کی جہالت اور ضد دیکھ کرآپ کسی موقع پر شریعت سے نیچے
اترے… آپ سنے ہرجہالت کا جواب بُردباری اورحلم سے اور ہر ضد کا جواب شریعت پر
استقامت سے دیا… آپ سنے اپنے زیر حکومت علاقوں میں بہت محبت، نرمی اور حکمت کے
ساتھ شریعت کے احکامات نافذ فرمائے… آپ سد ین نافذ کرنے کے معاملہ میں ڈنڈے سے زیادہ
ترغیب اور دعوت کا طریقہ استعمال فرماتے تھے… آپ سنے لوگوں کوعُشر اور زکوٰۃ دینے
کی ترغیب دی اور پھر’’عُشر‘‘وصول کرنے کے لئے جابجا نمائندے بھی مقرر فرمائے… بعد
میں بدنصیب ظالموں نے ان نمائندوں میں سے کئی ایک کو بہت مظلومیت کے ساتھ شہید کر
دیا… اسی طرح حضرت سیّد صاحب سنے اپنے زیر حکومت علاقوں میں نکاح اور شادی کے معاملے
کو’’اسلامی‘‘طریقے پر لانے کی بہت محنت فرمائی… افسوس کہ آپ سکی اس محنت سے بہت
کم لوگوں نے فائدہ اٹھایا… جبکہ اکثرلوگ اپنی پرانی غیر شرعی رسومات اورطریقوں پر
ڈٹے رہے…
اس
وقت حضرت سیّد صاحب سکی تعلیمات کو پھر عام کرنے کی ضرورت ہے… کیونکہ بہت سے لوگ
جہاد کے معنیٰ کو بدل رہے ہیں… حضرت سید صاحب سکے خطبات اور عمل میں اس فتنے کا
توڑ موجود ہے… اسی طرح کچھ لوگوںنے’’جہاد‘‘ کو ہرطرح کی مار دھاڑ اور ہر طرح کے
فساد کے معنیٰ میں لے رکھا ہے… حضرت سیّد صاحب سنے بار بار لوگوں کو سمجھایا کہ
ہمارا مقصد صرف ہلّہ گُلّہ کرنا، فساد پھیلانا اور مار دھاڑ کرنا نہیں ہے … بلکہ
ہم تو شریعت اور سنت کے مطابق’’جہاد‘‘ کا احیاء چاہتے ہیں… آج کی بہت سی نام نہاد
جہادی تحریکوں کے ذمہ دار اگرسیّد صاحبپ کے حالات، واقعات اور ارشادات کا مطالعہ
کریں تو اُن کو معلوم ہو گا کہ وہ سیدھے راستے پر نہیں جا رہے… اسی طرح ہمارے
زمانے کا ایک بڑا فتنہ’’خلافت‘‘ کے نام پر شور مچانے والے بے عمل اسکالروں کا ہے…
لاہور، اسلام آباد اور کراچی میںکئی تنظیمیں ’’خلافت‘‘ کے نام پر کام کر رہی ہیں…
یہ لوگ ظاہری طور پر’’خلافت‘‘ کے قیام کی باتیں کرتے ہیں مگر خوداُن کا عمل
مسلمانوں’’ کو خلافت راشدہ‘‘ کے پاکیزہ نظام سے دور لے جارہا ہے… خلافت کے قیام کے
لئے دو چیزیں فرض کے درجے میں ہیں… ایک ہجرت اور دوسری جہاد… مگر ان تنظیموں اور
اسکالروں کے پاس نہ ہجرت ہے اورنہ جہاد… بس ہوائی باتیں ہیں… اور خود فریبی کے
ڈھکوسلے…
کیا
خلافت گھر بیٹھے قائم ہو جائے گی؟… قرآن پاک کی وہ آیات جن میں خلافت کا تذکرہ
ہے اُن کو غور سے پڑھا جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ… خلافت کی نعمت مسلمانوں
کو تب نصیب ہوتی ہے جب وہ ایمان اور اعمال صالحہ کی قوت سے لیس ہو کر… ہجرت
اورجہاد یعنی ہر طرح کی قربانی کے لئے کھڑے ہوتے ہیں… حضرت سیّد صاحب سنے
جب’’خلافت‘‘ کا مشن شروع فرمایا تو پھر تکیہ رائے بریلی میں بیٹھ کر لیکچر نہیں دیتے
رہے… بلکہ انہوںنے ہجرت اور جہاد کا راستہ اختیار فرما کر… اُمت مسلمہ کو’’خلافت‘‘
پانے کا طریقہ اور راستہ سمجھا دیا… اور خود بھی زمین کے ایک حصّے پر اس کا نمونہ
قائم فرما دیا…مگر مسلمانوں کے مجموعی حالات اس معیار کے نہیں تھے کہ اُن
کو’’خلافت‘‘ کی نعمت نصیب ہوتی… چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے سیّد صاحب س کو اپنے پاس
بُلالیا… اور اُن کے مخلص رفقاء کو مغفرت،سعادت اور شہادت کی نعمتوں سے مالا مال
فرما دیا… حضرت سیّد صاحب س جس قافلے کو لیکر چلے تھے وہ قافلہ آج بھی الحمدﷲ
رواں دواں ہے… سیّد صاحب س کا قافلہ کوئی نئی چیز یا نئی بدعت نہیں تھی… یہ وہ
قافلہ ہے جو’’بدر‘‘ کے میدان سے چلاتھا اور حضرت عیسیٰ ح کی تشریف آوری تک بغیرکسی
وقفے کے چلتا رہے گا… اس قافلے کے پہلے امیر حضرت آقا مدنیﷺ تھے اور آخری امیر
حضرت امام مہدی ح اور حضرت عیسیٰ ح ہوں گے… پندرہویں صدی جاری ہے…پچھلے چودہ سو
سال میں یہ قافلہ ایک دن کے لئے بھی نہیں رکا…حضرت آقامدنیﷺ نے واضح اعلان فرمادیا
ہے کہ یہ قافلہ ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے… اور یہ حق پر ہو گا اور اس میں چلنے
والے کامیاب لوگ ہوں گے… تیرہویں صدی میں اس قافلے کی سالاری کے لئے اﷲ تعالیٰ نے
حضرت سیّد صاحب س کو منتخب فرمایا… اور یہ قافلہ اور اُس کے کارنامے اُمت کے سامنے
ظاہر ہوئے… بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ قافلہ گمنام چلتا رہتا ہے اور دنیا
کے دوسرے مسلمانوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی… دنیا تو بہت بڑی ہے اور زمین اور سمندر
بہت وسیع ہیں… آج سائنسدانوں نے ساری دنیا کو ناپنے کا دعویٰ کر رکھاہے مگر ہر
چند سال کے بعد کوئی نئی جگہ سامنے آجاتی ہے… حضرت سیّد صاحب س چونکہ اس اُمت
کے’’مجددین‘‘ میں سے تھے اس لئے اُن کے قافلے کے حالات مسلمانوں کے سامنے آگئے…
تاکہ وہ لوگ جن کا ’’قبلہ‘‘ دائیں بائیں ہو چکا ہے وہ اس قافلے سے روشنی لے
کر’’صراط مستقیم‘‘ کی طرف گامزن ہوں… بدر اور بالاکوٹ والا قافلہ آج بھی الحمدﷲ…
اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے… وہ خوش نصیب مسلمان جن کی قسمت میں کامیابی اور
جنت لکھی ہے وہ اس قافلے کو ڈھونڈ لیتے ہیں… اور پھر اپنی پونجی یعنی جان و مال
لگا کر اﷲ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں… میری آپ سب سے گزارش ہے
کہ… دنیا پرستی کے دھوکے میں نہ پڑیں… لوگ دھڑا دھڑ اس دنیا کو چھوڑ کر مررہے ہیں…معلوم
ہوا کہ دنیا فانی ہے یہ دل لگانے اور جان کھپانے کی جگہ نہیں ہے… آپ سب حضرت سیّد
احمد شہید س کے مبارک حالاتِ زندگی اور آپ س کے ارشادات کو پڑھیں… سیّد صاحب س گویا
کہ ہمارے اپنے زمانے ہی کے آدمی ہیں… دو سوسال کا عرصہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے…
اُن کے زمانے میںتقریباً وہ تمام فتنے موجود تھے جن کا سامنا آج ہمیں بھی ہے… پھر
ان حالات میں حضرت سیّد صاحب س اور اُن کے رفقاء نے’’حق راستے‘‘ اور کامیابی کوکیسے
تلاش کیا؟… ہم سب کو اگر اپنی آخرت کی فکر ہے تو ہم سیّد صاحب سکے قافلے سے قرآن
وسنت کا کامیابی والاراستہ معلوم کر آئیں… اور پھر اپنے زمانے میں اس قافلے کو
تلا ش کریں… اور پھر مرتے دم تک اسی قافلے میں جڑے رہیں… یا اﷲ روشنی عطاء فرما،
نور عطاء فرما، توفیق عطاء فرما… آمین یا ارحم الرحمین
اللھم
صل علیٰ سیّدنا ومولانا محمد عدد مافی علم اﷲ صلوٰۃ دائمۃ بدوام ملک اﷲ عزوجل
وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
تحفۂ
سیّد احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ
اﷲ
تعالیٰ’’رزق‘‘ کی تنگی سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے… حضرت سیّد احمد شہیدپ
نے کئی غریب، فقیر اور پریشان حال مسلمانوں کو روزی میں برکت کے وظیفے بتائے… اور
بعض لوگوں کو روزی میں برکت کے طریقے بھی ارشاد فرمائے… ماشاء اﷲ ان تمام مسلمانوں
کو ان وظیفوں اور طریقوں پر عمل کرنے سے فائدہ ہوا… اور اﷲ تعالیٰ نے اُن کی تنگی
اور پریشانی دُور فرما دی… دراصل حضرت سیّد صاحب پ کو دو چیزوں کا بے حد شوق تھا…
(۱)جہاد(۲) مخلوق
کی خدمت…
حضرت
ندوی پتحریر فرماتے ہیں:
’’آپ پکو بچپن
ہی سے مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا شوق تھا سنّ بلوغ کو پہنچے تو خدمت خلق کا ایسا
ذوق پیدا ہو اکہ اچھے اچھے بزرگ حیران رہ گئے، ضعیفوں اور محتاجوں اور بیواؤں کی
خدمت کرنے کا جذبہ، اس کے ساتھ عبادت، ذکر الہٰی کا ذوق بہت بڑھا ہوا تھا، ورزش
اور مردانہ کھیلوں کا بہت شوق تھا، پانچ پانچ سو ڈنڈ لگاتے تھے اور تیس تیس سیر کے
گرز گھماتے، تیرنے اور پانی میں دیر تک ٹھہرنے کی مشق کرتے (جب ایمان کی بہار آئی،
تسہیل)
اسلام
کے اہم ترین فریضے’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے بارے میں آپ پ کی خدمات کا سلسلہ تو ابھی
تک جاری ہے… اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور انشاء اﷲ آئندہ بھی لکھا جاتا رہے
گا… آج کی مجلس میں حضرت سیّد صاحب پکے اُن وظائف اور طریقوں کا تذکرہ کرتے ہیں…
جو آپ پنے روزی کی تنگی اور پریشانی میں مبتلا افراد کو تلقین فرمائے… ان وظائف
سے پہلے چند ضروری باتیں…
روزی
کی تنگی کی کئی قسمیں
روزی
میں تنگی کی کئی قسمیں ہیں… اور ہر قسم دوسری سے زیادہ تکلیف دہ ہے…
(۱) مال و اسباب کی اتنی کمی کہ اہم ضروریات بھی پوری نہ ہوں… یہ
بھی رزق کی تنگی ہے…
(۲) دل میں اتنی لالچ اور حرص پیدا ہو کہ جتنا بھی ملے کم محسوس
ہو… یہ بھی رزق کی تنگی ہے…
(۳) مال بہت ہو مگر اس مال سے کوئی فائدہ نہ ہو… سارا مال ایک
کاروبار کے بعد دوسرے کاروبار میں لگتا جائے… مٹی اور گارے میں ضائع ہوتا رہے… اور
مال کے مالک کو اس مال سے کوئی آرام، آسائش اور راحت نہ ہو… بلکہ الٹی تکلیف، پریشانی
اور تھکاوٹ ہو… یہ بھی رزق کی تنگی ہے…
(۴) رزق تو پورا ملے مگر اسراف، فضول خرچی اور لاپرواہی کی عادت
ہو جس کی وجہ سے قرضوں پر قرضے چڑھتے جائیں… اور انسان دوسرے انسانوں کے سامنے
رسوا ہوتا رہے… یہ بھی رزق کی تنگی ہے…
(۵) مال موجود ہو مگر دل میں اتنا بخل پیدا ہو جائے کہ… ہر روپیہ
خرچ کرنے پر تکلیف ہو… اور اس کی وجہ سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات تک
پوری نہ کر سکتا ہو… یہ بھی رزق میں تنگی کی ایک قسم ہے…
رزق
میں تنگی کے بعض اسباب
رزق
میں تنگی کے کئی اسباب ہیں مثلاً
(۱) اجتماعی
اموال… یا کسی اور کے مال میں خیانت کرنا… حضرت سیّد صاحب پجب نواب امیر الدولہ کے
لشکر میں تھے تو آپ پکو خواب کے ذریعہ معلوم ہوا کہ… لشکر کے ہاتھی کا جو نگران
ہے وہ ہاتھی کے حق میں خیانت کرتا ہے… یعنی نواب صاحب پاُسے ہاتھی کے لئے جتنا
خرچہ دیتے تھے وہ پورا ہاتھی کو نہیں کھلاتا تھا… کچھ حصّہ خود ہڑپ کر جاتا تھا…
چنانچہ وہ جہادی ہاتھی بھوکا رہ جاتا تھا… سیّد صاحبپ کو حکم ملا کہ اس کو سمجھائیں
ورنہ وہ سخت مصیبت میں گرفتار ہو گا… اتفاق سے اُس نگران نے حضرت سیّد صاحب پکی
دعوت کی… اور درخواست کی کہ میری روزی میں بہت تنگی ہے، کچھ پورا نہیں پڑتا آپ میرے
لئے سفارش کریں… حضرت سیّد صاحب پنے فرمایا آپ اس ہاتھی کا حق پورا اس کو کھلایا
کریں انشاء اﷲ چند دن میں خوب روزی ملے گی… انہوں نے فوراً خیانت سے توبہ کی… اور
چند دن بعد ماشاء اﷲ مالا مال ہو گئے… اگر آپ نے یہ دلچسپ واقعہ پورا پڑھنا ہے تو
وقائع صفحہ(۵۱)تا صفحہ (۵۳)
پر ملاحظہ فرمائیں…
(۲) بعض
اوقات کسی گناہ کی وجہ سے رزق میں تنگی آجاتی ہے… اس لئے اگر استغفار کا معمول
بنایاجائے… اور صدقہ وغیرہ دیا جائے تو وہ تنگی فوراً دور ہو جاتی ہے… جس طرح کسی
پائپ میں کچر ا آجائے تو پانی رُک جاتا ہے… وہ کچرا دور کر دیا جائے تو پانی جاری
ہو جاتا ہے… حضرت سیّد صاحبپ جب نواب امیر الدولہ مرحوم کے لشکر میں تھے تو اسلحہ
کے کچھ تاجر آئے اور انہوں نے آپ پکے پاس قیام کیا… کئی دنوں بعد انہوں نے شکایت
کی کہ ہمارا اسلحہ فروخت نہیں ہو رہا…اور کھانے پینے کا خرچ الٹا ہم پر پڑ رہا ہے…
حضرت سیّد صاحبپ نے اُن سے کہلوایا کہ وہ اگر اپنی تیر کمانوں میں سے سب سے بہترین
کما ن اور ایک ترکش اُس مجاہد کو دے دیں جس کا ہم نام بتائیں تو انشاء اﷲ اُن کا
تمام سامان فروخت ہو جائے گا اور مزید مال بھی ملے گا… انہوں نے اس ’’نسخہ‘‘ پر
عمل کیا تو فوراً اُن کا تمام اسلحہ فروخت ہو گیا اور نواب صاحب نے اُن کو مزید
انعام بھی دیا… تاجر لوگ اگر اسی طرح جہاد میں قیمتی مال خرچ کریں … اور غریب
مسلمان بھی اپنا کچھ نہ کچھ مال جہاد میں لگایا کریں تو اس سے اُن کے گناہ معاف
ہوں گے… اور انشاء اﷲ روزی میں بہت برکت ہو گی…
(۴) فجر
کے بعد سورج نکلنے سے پہلے سونا، فجر کی نماز قضا کرنا، قرض لیکر واپس نہ لوٹانا،
اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے مال پر نظر رکھنا کہ وہ ہمیں دے…یہ بھی رزق کی تنگی
کے اہم اسباب ہیں…
اسماء
الحسنیٰ کا عمل
حضرت
سیّد صاحب پ کو’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کی برکت سے اتنی اونچی نسبت اور مقام حاصل تھا
کہ… آپ پکے شیخ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحبپ بھی اپنے مریدوں
اور رشتہ داروں کو اصلاح، دعاء اور توجّہ کے لئے حضرت سیّد صاحب کے پاس بھیجتے
تھے… ایک بار حضرت شاہ صاحبپ کے کچھ رشتہ داروں نے رزق کی تنگی کی شکایت کی تو
حضرت سیّد صاحب نے اُن کو برکت والے روپے دیئے اور اُن کے ساتھ دو افراد اورتھے
اُن کو یہ وظیفہ ارشاد فرمایا:
اکتالیس
دن تک ہر روز یَا مُغْنِیْ اور یَا
بَاسِطُ گیارہ گیارہ ہزار بار پڑھیں… یعنی گیارہ ہزار بار یَا
مُغْنِیْ اور گیارہ ہزار باریَا بَاسِطُ… اور اس وظیفہ کے اوّل اورآ ٓخر میں
سات سات بار درود شریف اور سورہ فاتحہ پڑھیں…
اکتالیس
دن کے بعد یہ عمل بند کر دیں… اُن حضرات نے یہ عمل کیا تو ماشاء اﷲ چند دن بعد اُن
کی تمام تنگی بہت عجیب طریقہ سے دور ہو گئی… یہ پورا قصہ ’’وقائع احمدی ‘‘کے صفحہ ۱۲۹ پر
مرقوم ہے…
بسم
اﷲ کا عمل
ایک
صاحب جن کا نام’’محمد میاں‘‘تھا… انہوں نے حضرت سیّد صاحبپ اور آپ کے رفقاء کی
دعوت کی… اور پھر انہوں نے اورایک دوسرے صاحب نے آپ پکی خدمت میں اپنی پریشانی
عرض کی کہ… ہماری قدیم جاگیریں انگریز حکومت نے ضبط کر لی ہیں… جبکہ ہمارے اخراجات
اپنی پُرانی طرز پر جاری ہیں جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ قرضدار رہتے ہیں، حضرت ہمیں ایسی
دعا بتادیں کہ جس کی برکت سے اﷲ تعالیٰ قرض سے نجات بخشے اور ہماری گزر بسر خوبی
سے چلے… حضرت سیّد صاحب نے ان میں سے ایک شخص کو یہ مؤثر اور طاقتور وظیفہ ارشاد
فرمایا:
پانچ
سو بار درود شریف پڑھ کر گیارہ سو بار بسم
اﷲ الرحمن الرحیم پڑھیں اور آخر میں پھر پانچ سو بار درود شریف پڑھیں…
اﷲ
تعالیٰ آپ کا مقصد پورا کر ے گا (وقائع ص ۱۷۱)
سعدی
فقیر عرض کرتا ہے کہ… یہ عمل رزق میں برکت کے علاوہ اور بھی بہت سی پریشانیوں اور
مسائل کا حل ہے… شرط یہ ہے کہ اخلاص اور توجہ سے کیا جائے…
اَﷲ
ُ الصَّمَدْ کا عمل
ایک
شخص نے حضرت سیّد صاحبپ سے عرض کی کہ میں روزی سے بہت تنگ حال ہوں… کچھ ایسا عمل
ارشاد فرمائیں کہ روزی کشادہ ہو جائے… آپ پنے ارشاد فرمایا:
تم
ہر روز گیارہ سو مرتبہ اَﷲُ الصَّمَدُ پڑھا کرو… اوّل آخر درود شریف (جتنی بار ہو
سکے)
اﷲ
تعالیٰ تمہاری روزی میں برکت کر ے گا… انشاء اﷲ۔
(وقائع ص ۱۴۵)
’’ اَﷲُ
الصَّمَدُ ‘‘ کا یہ عمل بہت نافع اور مجرب ہے…
قرآنی
آیت مبارکہ کا عمل
ایک
شخص نے حضرت سیّد صاحبپ سے رزق میں وسعت اور برکت کا عمل پوچھا تو
آپ
پنے ارشاد فرمایا:
تم
گیارہ سو بار یہ آیت پڑھا کرو
اِنَّ اﷲَ ھُوَالْرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ
اَلْمَتِیْنُ
اوّل آخر درود شریف (وقائع ص ۱۴۵)
قرآنی
آیت کا یہ عمل بہت مبارک، مفید اور قوی ہے…
دنیا
اور آخرت دونوں کی فلاح کا عمل
’’ناگور‘‘ کے ایک
میاں جی جن کا نام خدا بخش تھا… اور وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے ، حضرت سیّد
صاحبپ کی خدمت میں حاضر ہوئے… اور عرض کی کہ آپ میرے واسطے دعاء کریں کہ اﷲ تعالیٰ
مجھ سے راضی ہو اور دین و دنیا میں مجھ کو فلاح(کامیابی) دے… حضرت سیّد صاحب پنے ہنس
کر فرمایا کہ تم تو آپ میاں جی ہو! اور تم کو معلوم ہے کہ قرآن مجید اﷲ تعالیٰ کی
نعمتوں کا خزانہ ہے، اسی میں سے کوئی آیت پڑھا کرو… انہوں نے عرض کی کہ بے شک
قرآن مجید نعمتوں کا خزانہ ہے مگر آپ جس آیت کی اجازت دیں میں پڑھا کروں… سیّد
صاحب پنے فرمایا…
ہر
روز گیارہ سو بار یہ آیت پڑھا کریں
اِنَّ اﷲَ ھُوَالْرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ
اَلْمَتِیْنُ
اوّ
ل آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف…
اﷲ
تعالیٰ تمہارا دنیا کا مقصد پورا فرمائے گا اور آخرت کی فلاح اور کامیابی کے لئے یہ
آیت پڑھا کرو
سَلَامٌ
قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِیْمٍ(وقائع ص ۶۵۳)
راوی
کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد میری’’میاں صاحب‘‘ سے ملاقات ہوئی تو ماشاء اﷲ بہت
خوشحال… اور فارغ البال تھے…
سورہ
فاتحہ اور اخلاص کا عمل
حضرت
سیّد صاحب پکے قاصد’’میاں پیر محمد صاحب پ‘‘ سے ایک غریب مسلمان نے روزی کی تنگی کی
شکایت کی… اور رزق میں برکت اور وسعت کا عمل پوچھا… میاں پیر محمد صاحب پنے فرمایا:
تم
ہر روز ایک سو بار سورہ فاتحہ اور ایک سو بار سورۂ اخلاص پڑھا کرو، اﷲ تعالیٰ
تمہاری روزی میں برکت دے گا اور یہ وظیفہ مجھے میرے مرشد(حضرت سیّد صاحبپ) نے بتایا
ہے۔ (وقائع ص ۲۲۷۹)
چند
اور وظائف
آپ
نے رزق میں وسعت کے وظائف ملاحظہ فرما لئے… یہ آپ سب کے لئے حضرت سیّد صاحبپ کی
طرف سے تحفہ ہیں… آپ میں سے جو بھی رزق کی کسی طرح کی تنگی کا شکار ہو وہ اخلاص
کے ساتھ ان وظائف سے فائدہ اٹھائے… ’’وقائع سیّد احمد شہیدپ‘‘ میں چند اور وظیفے
بھی درج ہیں… مثلاً
(۱) کسی کے ساتھ دشمنی یا لڑائی ختم کر کے اتفاق پیدا کرنے کا
عمل
تہجد کے وقت ساٹھ دن تک تین سو اکتالیس
بار ’’اَﷲُ الصَّمَدُ ‘‘پڑھنا ۔(ملاحظہ فرمائیے وقائع ص ۶۷۵)
(۲) جنگ اور خوف کی جگہ جاتے وقت امن اور عافیت کے لئے گیارہ
بار سورۂ القریش(لایلٰف قریش) پڑھ کر
اپنے اوپر دم کرنا…
یہ
عمل کتاب میں کئی جگہ مذکورہے…
(۳) رزق میں بے حد برکت، وسعت اور پریشانیوں کے حل کے لئے سورۂ
مزمّل کا چلّہ… یہ عمل وقائع صفحہ ۱۳۰ پر مختصر اور حج کے بیان میں مکمل شرائط اور تفصیل کے ساتھ
مذکور ہے…
(۴) سمندر کے سفر میں حفاظت کے لئے
سورہ
الزخرف کا پہلا رکوع روزانہ تلاوت کیا جائے(وقائع ص ۱۰۲۷)
حج کے سفر کے دوران حضرت سیّد صاحب
پبحری جہاز پر… روزانہ فجر کے بعد’’حزب البحر‘‘ پڑھتے تھے۔ (وقائع ص ۱۰۲۹)
٭…٭…٭
اﷲ
تعالیٰ حضرت سیّد احمد شہیدپ… اور اُن کے اہل و عیال اور رفقاء کرام کے درجات مزید
بلند فرمائے… اور ہمیں بھی اپنی رحمت سے ’’صراط مستقیم‘‘ کی ہدایت اور استقامت نصیب
فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علیٰ سیّدنا محمد النبی الامّی وانزلہ المقعد المقرب عندک وبارک وسلم تسلیما کثیرا
کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
مجلسِ
سیّد احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ
اﷲ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’پورا مسلمان‘‘ بنائے… اور ہم سب کو ایمان ِ کامل نصیب
فرمائے…آج کی محفل میںبھی حضرت سیّد احمد شہیدپ کا بابرکت تذکرہ جاری رکھتے ہیں…
اُس سے پہلے چند تازہ خبروں پر ایک مختصر سی نظر…
(۱) پاکستان میں’’اٹھارویں ترمیم‘‘ منظور ہو گئی… یہ عام سا
واقعہ ہے کیونکہ حکمرانوں کے نزدیک ملک کا آئین ایک’’کھلونا‘‘ ہے وہ حسب خواہش اس
سے کھیلتے رہتے ہیں… کل کوئی اور آئے گا تو’’انیسویں ترمیم‘‘ بھی منظور کرا لے
گا…
(۲) یورپ میں ایک آتش فشاں پہاڑ نے دھواں اُگلا تو سارا یورپ
مفلوج ہو کر رہ گیا… سات دن تک کئی ملکوں میں کوئی جہاز نہیں اُڑا… اور لاکھوں لوگ
ہوائی اڈوں پر پھنس کر رہ گئے… یہ ہے ترقی اور یہ ہے طاقت کہ… اﷲ تعالیٰ کی ایک
ادنیٰ مخلوق کا مقابلہ کر نہیں سکتے اور دعوے کرتے ہیں خُدائی کے…
(۳) اُدھر امریکہ اور ایران اوپر اوپر سے ایک دوسرے پر برس رہے
ہیں جبکہ اندر سے دونوں کے مفادات ایک ہیں… مسلم دنیا میں ایران کی مقبولیت جب کم
ہونے لگتی ہے تو امریکہ اُس کے خلاف ایسا شور مچاتا ہے کہ ایران پھر’’کاغذی ہیرو‘‘
بن جاتا ہے… افغانستان میں امریکہ اور ایران اکٹھے کھڑے ہیں…عراق میں امریکہ اور ایران
ایک ساتھ بیٹھے ہیں… بلکہ عراق میں امریکہ کو کامیابی ایران کے تعاون سے ملی ہے…
(۴) کشمیر کے معروف اور بزرگ رہنما سیّد علی گیلانی… تہاڑ جیل
جا کر بھائی محمد افضل گورو صاحب سے ملاقات کر آئے ہیں… اﷲ تعالیٰ اُن کو اس کارِ
خیر پر جزائے خیر عطاء فرمائے… انہوں نے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے
کہ… افضل گورو
صاحب سے ملاقات کر کے میرا ایمان تازہ ہوا ہے…
اورمیرے ایمانی جذبات کو ترقی نصیب ہوئی ہے… افضل گورو صاحب خوش خرّم، مطمئن اور
اپنے ایمانی نظریات پر قائم ہیں… القلم کے قارئین تو محمد افضل گورو صاحب کو جانتے
ہیں… کشمیر کا ایک بہادر اور شیر دل نوجوان جو تہاڑ جیل دہلی میں… سزائے موت وارڈ
میں ہے…ایک شخص موت کے منہ میں بیٹھا ہے… مگر اپنے ملنے والوں میں’’امیدیں‘‘ اور
’’روشنیاں‘‘ تقسیم کر رہا ہے… اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کے جذبات بانٹ رہا ہے…سبحان اﷲ
وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم…اﷲ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے… اب آتے ہیں
اپنے اصل موضوع کی طرف… حضرت سیّد احمد شہیدپ کے تذکرے سے خود مجھے اور قارئین کو
الحمدﷲ فائدہ پہنچ رہا ہے…حضرت سیّد صاحب پر اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل تھا… حضرت شاہ
عبدالعزیز محدث دہلوی پ کی خدمت میں بخارا کے ایک عالمِ دین اصلاح، توجہ اور سلوک
و احسان کی تکمیل کے لئے حاضر ہوئے… حضرت شاہ صاحبپ نے اُن کو انتظار کا حکم فرمایا…
یہاںتک کہ جب حضرت سیّد احمد شہیدپ دوبارہ حضرت شاہ صاحب پکے پاس تشریف لائے تو
آپ نے’’بخاری عالم‘‘ کو حضرت سیّد صاحب کے سپرد کیا… بخاری عالم نے جب حضرت سیّد
صاحبپ کی جہادی وضع قطع دیکھی تو دل میں سوچا کہ یہ تو مجاہد آدمی لگتے ہیں یہ
مجھے روحانی و باطنی علوم کی کیا تعلیم دیں گے… اور حضرت سیّد صاحبپ سے پوچھنے لگے
کہ آپ نے کون کون سی کتابیں اور علوم پڑھے ہیں؟… حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی پ
نے ان کو ٹوک کر فرمایا کہ اس طرح کی گفتگو سے آپ کو کیا مطلب؟ آپ یہ سمجھ لو کہ
جو کچھ آپ کو میرے پاس بارہ برس میں ملے گا ان کی خدمت میں وہ سب کچھ بارہ دن میں
حاصل ہو جائے گا…(وقائع ص ۹۳)
ہم
بھی حضرت سیّد احمد شہید پ کا تذکرہ اس لئے کر رہے ہیں کہ… اُن پر اﷲ تعالیٰ کا
بہت فضل تھا… اور جن لوگوں پر اﷲ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا ہواُن کا تذکرہ
کرنے سے بہت سی نعمتیں نصیب ہوتی ہیں… آئیے حضرت سیّد احمد شہیدپ کی صحبت میں
چلتے ہیں اور کامیابی کی باتیں سیکھتے ہیں…
نماز
کی سخت تاکید
حضرت
سیّدصاحب پنماز کی بہت تاکید فرماتے تھے… رسالہ اشغال میں ہے:۔
’’نماز پنجگانہ(یعنی
پانچ وقت کی نماز) اداکرنا فرض ہے، اور اس کا ترک کُفر ہے، لازم ہے کہ ہر مؤمن
جان و دِل سے اﷲ تعالیٰ کا حُکم بجا لائے‘‘(رسالہ اشغال، روحانی رشتے)
ہر
مسلمان کو چاہئے کہ نماز کے بارے میں یہی عقیدہ اور نظریہ رکھے… حضرات صحابہ کرام
ڑکا نماز کے بارے میں یہی عقیدہ اور نظریہ تھا… پس ہر مسلمان خود کو اس کاپابند
بنائے… اور اپنی آل،اولاد، رشتہ داروں اور اپنے تابعداروں میں نماز کو قائم کرے…
اور نماز چھوڑنے کو کافروں والا کام سمجھے…
مساجد
کا ادب و احترام
بخارا
کے جس عالم دین کا تذکرہ اوپر گزرا ہے… وہ چند دن حضرت سیّد صاحبپ کی صحبت میں رہے
تو اپنے مقصد کو پہنچ گئے… انہیں اﷲ تعالیٰ کی معرفت کا بہت اونچا مقام نصیب ہوا…
ایک روز حضرت سیّد صاحبپ اُن کو’’تعلیم‘‘ فرمارہے تھے کہ اچانک اُنہیں قے(یعنی
اُلٹی) آنا شروع ہو گئی…حضرت سیّد صاحب پنے مسجد کو ناپاکی سے بچانے کے لئے پہلے
مٹی کیچلمچی اُن کے آگے کی… مگر وہ چھوٹی تھی تو باقی اپنے دامن میں لیکر آپ اور
ملاّبخاری مسجد سے باہر نکلے… اور باہرآکر آپ نے اپنے ہاتھ کپڑے وغیرہ دھو لئے…
اس واقعہ کے چھ سات دن بعد آپ نے فرمایا… اُس دن جو ملاّبخاری کی قے میںنے اپنے
ہاتھ میں لی کہ مسجد نجس نہ ہو تو اس کام سے اﷲ تعالیٰ بہت راضی ہوئے اور اﷲ تعالیٰ
نے اس پرمجھے بڑی نعمت عطاء فرمائی کہ اُس کا شکرادا نہیں کرسکتا…اور فرمایا کہ تو
نے ہماری مسجد کا ادب کیا ہم نے تجھ کو یہ انعام دیا…(وقائع ص ۹۵)
اس
سلسلے کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ… حضرت سیّد صاحبپ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب پکی مسجد
میں رہتے تھے… حضرت شاہ عبدالقادر صاحب پنے قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر’’موضح
قرآن‘‘… جس کو عام طور سے’’موضح القرآن‘‘ کہا جاتا ہے اسی مسجد میں تحریرفرمائی…
حضرت سیّد صاحبپ نے خواب میں دیکھا ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ… یہ مسجد جب سے بنی ہے
اس کی چھت کو کبوتروں اور ابابیلوں کی بیٹ سے کسی نے پاک نہیں کیا… صبح بیدار ہو
کر آپ پنے تحقیق فرمائی تو یہی معلوم ہوا کہ مسجد کی چھت بہت طویل مدت سے پاک نہیں
کی گئی… مسجد کی چھت بہت اونچی تھی… آپ پ نے حضرت شاہ اسماعیل شہیدپ کو حکم دیا
کہ کئی سیڑھیاں جوڑ باندھ کراونچی سیڑھی تیار کی جائے… پھر آپپاس سیڑھی کے ذریعہ
چھت پر چڑھے اور بہت محنت سے صفائی، دُھلائی کی… اوربھی کئی لوگ اس مبارک کام میں
آپ پ کے ساتھ شریک ہو گئے… اس واقعہ کے کئی دن بعد حضرت سیّد صاحبپ نے فرمایا… اﷲ
تعالیٰ جلّ شانہ نے اس چھت کو صاف کرنے کے بدلے مجھے بڑی نعمت عطاء فرمائی کہ اس
کا شکر مجھ سے ادانہیں ہو سکتا…(وقائع ص ۱۰۴ تسہیل)
ان
دو واقعات سے حضرت سیّد صاحب پ کی زندگی کا ایک اور خوبصورت اور قابل تقلید پہلو
ہمارے سامنے آگیا… مساجد سے محبت، مساجد کی خدمت، مساجد کی صفائی،مساجد کا
احترام… اور مساجد کے لئے محنت… حضرت سیّد صاحب پ جہاں بھی گئے آپ پنے مسجد کو
آباد فرمایا… کئی جگہوں پر نئی مساجد تعمیر کروائیں… کئی گمراہ بدعتیوں نے جب
توبہ کی تو آپ نے اُن کے امام باڑوں کو مساجد میں تبدیل فرمادیا… ایک غریب آدمی
سے آپ پنے فرمایاکہ تم… مسجد کے پانی، روشنی اور لوٹوں وغیرہ کا بندوبست اپنے ذمہ
لے لو تو اﷲ تعالیٰ تمہیں رزق کی وسعت عطاء فرمائے گا…اُس آدمی نے یہ خدمت اپنے
ذمہ لے لی مگر وہ حیران تھا کہ… اُس جیسے غریب آدمی سے یہ کام کیسے ہوپائے گا؟…
اُس نے اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر مسجد کی خدمت شروع کر دی تو اﷲ تعالیٰ نے اُس کی
روزی اور رزق میں خوب برکت عطاء فرما دی… مسجد کی تعمیر، مسجد کی آبادی اور مسجد
کی خدمت یہ وہ اعمال ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو دعوت دیتے ہیں… ہم سب کو چاہئے
کہ… مسجد کی صفائی کیاکریں… جو مسجد ہمارے زیرِ انتظام ہو وہ شیشے کی طرح صاف شفاف
ہونی چاہئے… اگر مسجد کی چٹائی پھٹ گئی ہوتو ہم نئی خرید لائیں… مسجد میں جب جائیں
تو ادب سے جائیں… آواز بلند نہ کریں، شور شرابا نہ کریں… اور دنیا کی باتیں نہ کریں…
مسجد کی خدمت کا موضوع بہت طویل ہے آج بس اتنا ہی کافی ہے…
ہمیشہ
جہاد کی تیاری
سیرت
سیّد احمد شہیدپمیں ہے:
’’یوں توعبادت
وسلوک کے ساتھ جہاد کی تیاری آپ ہمیشہ کرتے رہتے تھے ، لیکن(رائے بریلی کے) اس قیام
میں اس طرف سب سے زیادہ توجہ تھی…جہاد کی ضرورت کا احساس روز بروز بڑھتا جاتاتھا
اور یہ کانٹا تھا، جو آپ کو برابر بے چین رکھتا تھا… دن رات اسی کاخیال رہتا تھا…
زیادہ تر یہی مشاغل بھی رہتے(یعنی جہاد کی تیاری، ٹریننگ وغیرہ)آپ اکثر اسلحہ
لگاتے تاکہ دوسروں کو اس کی اہمیت معلوم ہو اور شوق ہو…دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیتے‘‘
(روحانی رشتے ص ۶۱)
ہرمسلمان
کو جہاد کی ایسی ہی فکر اور تیاری رکھنی چاہئے… یہ اسلام کا تقاضا اور ایمان کامل
کی شرط ہے…
پردے
کی تاکید
حضرت
سیّد صاحب پ نے عورتوں کی اصلاح کے لئے بھی بہت کام کیا… آپپجہاں بھی تشریف لے
جاتے وہاں مردوں کے ساتھ عورتوں کی بیعت بھی لیتے… اور انہیں وعظ ونصیحت فرماتے…
جو عورتیں حلال مال میں سے آپ پ کو کوئی ہدیہ پیش کرتیں تو آپ پ قبول فرماتے اور
دعاء سے نوازتے… لیکن اگر ہدیہ کسی حرام مال سے ہوتا تو آپ پ وہ واپس فرما دیتے…
اور بہت خیرخواہی کے ساتھ حرام کاموں سے بچنے کی تلقین فرماتے… عورتوں کی اصلاح کا
یہ سارا معاملہ پردے کے پیچھے سے ہوتا تھا… سفر حج کے راستے میں ایک بار ایک بڑے
رئیس نے آپ پ کی دعوت کی اور بیعت ہوئے… پھر وہ آپ کو عورتوں کی بیعت کے لئے گھر
کے اندر لے گئے… حضرت یہ سمجھ کر اُن کے ساتھ چلے گئے کہ خواتین پردے کے پیچھے ہوں
گی… مگروہاں تو خواتین سامنے بیٹھی تھیں…حضرت فوراً باہرنکل آئے اور آپ پ نے اُس
رئیس کو پردے کی بہت تاکید کی اور ارشاد فرمایا:
’’پردہ نہ کرنا
کفار کا طریقہ ہے اور اس میں بڑے بڑے فساد اور بہت قباحتیں ہیں اور اس میں سب سے
بڑا گناہ یہ ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی نافرمانی ہے‘‘(وقائع ص ۹۰۲
تسہیل)
پھر
آپ س صحیح پردہ کروا کے اندر تشریف لے گئے اور عورتوں سے بیعت لی… اورآپ پ نے سر
ننگا کرکے بہت عاجزی و آہ و زاری سے اُن عورتوں کی اصلاح کی دعاء فرمائی… راوی
کہتے ہیں کہ دعاء قبول ہوئی اور اُس علاقے کی عورتوں میں بہت حیا اور دینداری عام
ہوئی…
ہم
سب مسلمانوں کو پردے کا خوب اہتمام کرنا چاہئے… اور خواتین پردے کورسم یا مجبوری
سمجھ کر نہیںبلکہ شان اور عبادت سمجھ کر خوشی اور ایمانداری سے اختیارکریں…
سیّد
صاحب پ کی بیٹی کا صدقہ
حضرت
سیّد صاحب س کو اﷲ تعالیٰ نے… توکّل اور سخاوت کی صفت عطاء فرمائی تھی… آپ س نے
جب سے ہوش سنبھالا کسی محتاج سائل کو حتی الامکان خالی ہاتھ واپس نہیں فرمایا… جن
دنوں آپ بالاکوٹ تشریف لے جانے کے لئے قصبہ’’راج دواری‘‘ میں اپنے جانثار مجاہدین
کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے… وہاں ایک دن اشراق کے بعد چارپائی پر لیٹے ہوئے اپنے
رفقاء کو کچھ وعظ و نصیحت فرما رہے تھے… اسی وعظ میں آپ س نے ارشاد فرمایا:
’’بعض اوقات کوئی
چھوٹا سا عمل اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسا مقبول ہوتا ہے کہ نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے…
اوربعض اوقات کوئی بڑا عمل جس میں بہت مال خرچ ہوا قبولیت کے اس مقام تک نہیں
پہنچتا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ غنی ہے اس کو تھوڑے، زیادہ کی کوئی پروانہیں… چنانچہ ایک
دن کا قصہ ہے کہ میں اپنے تکیہ کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ ایک محتاج فقیر نے سوال کیا…
اس وقت میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں تھا میں اس کو ٹھہرا کر اپنے گھر گیا اور
گھر کی عورتوں سے کہا کہ اس وقت کسی کے پاس کوئی پیسہ ہو یا کچھ کوڑیاں ہوں ہم کو
دے، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت عطاء کرے گا…سب نے جواب دیا کہ اس وقت ہمارے پاس پیسہ،
کوڑی کچھ نہیں ہے۔ اُس وقت ہماری بیٹی’’سارہ‘‘ کھیل رہی تھی اُس نے سنا تو مجھ سے
کہا میاں! چھدام کی کوڑیاں میرے پاس ہیں، اگر اتنی کوڑیوں کے دینے سے جنت ملتی ہے
تو میں لیتی ہوں، میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس کو پروردگار جنت دیوے وہ پاوے… دیکھو
تو چھوٹی سی بچی کس طرح اس بات کو سمجھ گئی ، یہ اﷲ تعالیٰ کی عنایت ہے، پھر
وہ’’کوڑیاں‘‘ سارہ سے لیکر میں مسجد میں گیا اور اس سائل کو دے کر رخصت کیا(وقائع
،تسہیل ۲۱۸۰)
ہم
سب مسلمانوں کو صدقہ، خیرات میںبڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا چاہئے…اور اپنی اولاد میں بھی
اس مقبول عمل کی عادت ڈالنی چاہیے…
اسلام
کے پانچ اہم فرائض
رنجیت
سنگھ کاایک فوجی آفیسر فرانسیسی تھا… نام اُس کا جنرل وینٹورہ تھا… یہ جنرل دوبار
حضرت سیّد صاحب س کے مقابلے میں اترا مگر دونوں بار اُسے بھاگنا پڑا… یہ کافی
سمجھدار اور مذاہب کا علم رکھنے والا شخص تھا… دوسری لڑائی سے پہلے اس نے حضرت سیّد
صاحب س سے مراسلت بھی کی اور اپنا کوئی نمائندہ بات چیت کے لئے بھیجنے کو کہا…
حضرت سیّد صاحبپ نے اپنی جماعت کے ایک صاحب علم، فہیم، بہادر اور بزرگ عالم دین
حضرت مولانا خیرالدین شیر کوٹی کو’’جنرل ونیٹورہ‘‘ کے پاس بات چیت کے لئے بھیجا
حضرت مولانا خیرالدین شیر کوٹی پنے اس ملاقات میں حضرت سیّد صاحبپ اور اُمت مسلمہ
کی بہترین ترجمانی فرمائی… اور جنرل ونیٹورہ کو لاجواب کردیا…جنرل ونیٹورہ نے جب
مولانا سے یہ پوچھا کہ… حضرت سیّدصاحبپ کو اپنے علاقے میں بڑی عزت حاصل تھی پھر وہ
یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ کیا اپنے سے بہت زیادہ طاقتور دشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے
چلے آنا کوئی دانشمندی ہے؟… تو حضرت مولاناپنے ارشاد فرمایا:
’’سیّد صاحب پکے
آنے کا سبب یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ دینِ اسلام میںپانچ احکام’’فرض‘‘ کا درجہ
رکھتے ہیں، جن کی ادائیگی کی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سخت تاکید ہے اور وہ نماز ،
روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد ہیں۔(جب ایمان کی بہار آئی ص ۱۶۷)
یہ
تھا جہاد کے بارے میں حضرت سیّدصاحب پاور اُن کی جماعت کا عقیدہ… اور یہی وہ عقیدہ
ہے جو قرآن پاک نے… اورجناب رسول کریمﷺ نے بیان فرمایا ہے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اسی
عقیدے پر زندہ رکھے اور اسی پر شہادت نصیب فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علٰی سیّدنا محمد النبی الامی بقدر علمہ وکمالہ وحُسنہ وجمالہ وعلیٰ ال محمد
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
نظریہ
سیّد احمد شہید
اﷲ
تعالیٰ میری اورآپ سب کی ’’قسمت‘‘ اچھی فرمائے… اور ہم سب کو بد نصیبی سے بچائے…
آمین یا ارحم الراحمین…’’ابو لہب‘‘ بدقسمت تھا حالانکہ اُس نے رسول اکرمﷺ کا
زمانہ پایا…صرف زمانہ ہی نہیں قریب کی رشتہ داری بھی… جی ہاں آدمی بدنصیب ہو تو
اُسے ’’پیغمبرﷺ‘‘ کی رشتہ داری بھی کام نہیں دیتی… جبکہ دجّال کے زمانے میں ایسے
مسلمان ہوں گے جو سیدھے جنت میں جائیں گے… جی ہاں آدمی’’خوش نصیب‘‘ ہو تو پھر
اُسے ’’دجّال‘‘ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا… مجھے حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو خود
کو مسلمان کہلواتے ہیں… مگر جہاد کی مخالفت کرتے ہیں… شہداء کرام کے گرم لہو جنازے
بھی اُن کی سوچ اور ہٹ دھرمی نہیں بدل سکتے… جہاد کے خلاف وہی پرانی باتیں اور
پُرانے اعتراضات… اﷲ تعالیٰ بد نصیبی سے بچائے… قرآن پاک جہاد کے تذکرے بار بار
فرماتا ہے… مگر بدنصیب لوگ نہیں سمجھتے… ان کو ’’سائنس‘‘ کی کوئی بات بتادو تو
فوراً مان لیتے ہیں… مگر سورۂ انفال اور سورۂ برأۃ کی پکار اِن کے کانوں پر اثر
نہیں کرتی…بس یہی کہتے ہیں کہ آج کا جہاد’’ بے مقصد‘‘ ہے… ان کو کون سمجھائے کہ
جہاد اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے… اور اﷲ تعالیٰ کا حکم ماننا اور زندہ کرنا خود بہت بڑا
مقصد ہے…شہداء بالاکوٹ کا تذکرہ بار بار اسی لئے کیا جارہا ہے کہ… اُس تحریک کا بھی ظاہری نتیجہ لوگوں کو نظر نہیں آیا… مگر اُس
تحریک کے مجاہدین کو جنت کی حوریں آسمان سے اُترتی ہوئی اپنی آنکھوں سے نظر آگئیں…
’’دعوتِ جہاد‘‘ دینے والے رفقاء سے بار بار یہی عرض کرتا ہوں کہ… فضول سوال و جواب
میں جہاد کے عظیم الشان فریضے کی توہین نہ ہونے دیں… بس مسلمانوں کو رو روکر
سمجھائیں کہ… جہاد اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے… اے مسلمانو! رب تعالیٰ کے حکم کو پورا
کرو… جہاد کی فرضیت، جہاد کے فضائل، جہادکے مناقب، جہاد کی شان، شہادت کے فضائل…
اور ترک جہاد کی وعیدیں بیان کرو جو خوش نصیب ہوگا وہ ایک حدیثِ پاک سن کر ہی کھڑا
ہو جائے گا… باقی آج کے جہاد کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے؟… مسلمانوں سے نہیں کافروں
سے جا کر پوچھو کہ وہ آج کے جہاد سے کس قدر ہیبت زدہ ہیں… اور کس طرح سے اُن کے
منصوبے خود اُن کے منہ کی کالک بن رہے ہیں… ہمارے لئے تو بس اتناہی کافی ہے کہ اﷲ
پاک ہمیں اپنے راستے کا ’’مجاہد‘‘ بنا دے… اور ہمارے دل میں ’’اعلاء کلمۃ اﷲ‘‘ کا
جنون ہو اور ہمارا جسم اپنے محبوب رب کے راستے میں بکھر جائے…
حضرت
سیّد احمد شہیدپ نے پوری زندگی مسلمانوں کو یہ مسئلہ سمجھایا کہ… ایمان کا سب سے
اونچا مقام جہاد فی سبیل اﷲ سے حاصل ہوتا ہے… اسلام کی سب سے بلند چوٹی جہاد فی سبیل
اﷲ ہے… اور اﷲ تعالیٰ سے محبت کا سب سے اہم تقاضہ جہاد فی سبیل اﷲ میں قربانی پیش
کرنا ہے… پس وہ شخص جو اسلام، ایمان اور محبت الہٰی کا دعویٰ کرتا ہے وہ جہاد فی
سبیل اﷲ میں نکل کر اپنے دعوے کو سچّا ثابت کرے… اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں کامیابی کا
مقام پائے… حضرت سیّد صاحبپ کی جماعت میں چوٹی کے علماء کرام موجود تھے… خانوادۂ
ولی اللّہی کا پورا علمی نچوڑ اُن کے قافلے میں شامل تھا… آج جو لوگ جہاد فی سبیل
اﷲ پر سوالات کرتے ہیں اُن کو چاہئے کہ… بدنصیبی سے نجات حاصل کرنے کی دعاء کریں
اور حضرت سیّد احمد شہیدپ کے قافلے کے مکمل حالات پڑھیں… انشاء اﷲ نظریئے کی اصلاح
ہو جائے گی… جہاد پر اشکالات اور سوال کرنے والے لوگ کئی طرح کے ہیں…
(۱) بعض
لوگوں نے اپنے دل میں یہ تہّیہ کر رکھا ہے کہ… وہ کبھی بھی جہاد کے لئے نہیں نکلیں
گے… جی ہاں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں… ایسے لوگوں کے ہر سوال کا جواب اگر قرآنی آیات
سے بھی دے دیا جائے تب بھی… اُن پر کوئی فرق نہیں پڑتا… وہ صرف الفاظ سے کھیلتے ہیں…
کبھی کہتے ہیں ہم مطمئن ہیں اور کبھی پھر غیر مطمئن ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں… ان
کی قسمت میں نہیں ہوتا کہ اُن کا ایک روپیہ جہاد میں قبول ہو… یا اُن کوجنت کے زیورات
یعنی جہادی اسلحہ نصیب ہو… وہ روز نئے سوالات ڈھونڈتے ہیں… مجھے اچھی طرح یاد ہے
کہ جب ابتداء میں’’جیش محمدﷺ‘‘ کا اعلان ہوا تو بعض لوگوںنے ایک ’’صاحب‘‘ کے بارے
میں بہت اشکالات کئے کہ… ان کو’’جیش ‘‘ میں کیوں شامل کیا گیاہے؟… چند سال بعد اُن
’’صاحب‘‘ کی’’جیش‘‘ سے علیحدگی ہو گئی توانہی لوگوں نے پھر شور مچایا کہ… ان کوکیوںنکالا
گیا ہے؟… بہرحال وہ کبھی بھی کسی بھی حال میں جہاد یا مجاہدین کی جماعت کے حامی نہیں
ہوتے… اُن کے نزدیک جہاد ایک عظیم فریضہ نہیں… بلکہ نعوذباﷲ ایک کھلونا ہے… ایسے
لوگوں سے بحث کرنے کا کیا فائدہ؟
(۲) بعض
لوگ جہاد کو ایک اچھا کام سمجھتے ہیں… مگر خود کو اور اپنے غیر جہادی کام کو جہاد
سے بہت زیادہ افضل مانتے ہیں… ان کے سامنے نہ قرآن پاک کی وہ نصّ قطعی ہے جس میںمجاہدین
کی افضلیت کا صاف اعلان ہے… اور نہ ان کے سامنے رسول اﷲﷺ کے جہادی فرمودات اور آپﷺ
کی زندگی ہے… یہ لوگ چونکہ شریعت کی ایک ترتیب کو الٹتے ہیں اس لئے یہ بھی وساوس میں
غوطے کھاتے رہتے ہیں… اور جہاد کے مبارک عمل میں دو لفظوں کی شرکت بھی ان کو نصیب
نہیں ہوتی… کہ کسی مجاہد کی حوصلہ افزائی کردیں… یا کسی مجاہد کو اخلاص کے ساتھ
دعاء دے دیں… حالانکہ یہ’’ختم نبوت‘‘ کی برکت ہے کہ… رسول کریمﷺ نے جو جہاد شروع
فرمایا تھا وہ آج بھی…تروتازہ، سرسبز اور شاندار ہے… میں آپ سب مسلمانوں کو کھلی
دعوت دیتا ہوں کہ… آج بھی شرعی جہاد کے کسی محاذ پر جا کر دیکھیں… آنے اور جانے
میں جو ایمانی کیفیات نصیب ہوتی ہیں… اُ ن کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا …
الیکشن لڑنے والوں سے پوچھیں کہ…تیس دن کی انتخابی مہم چلانے سے’’ایمان‘‘ کی کیا
حالت بنتی ہے… تجربہ کار لوگ بتاتے ہیں کہ… ایمان، نماز، دینی کیفیات کا جنازہ نکل
جاتا ہے… یوں محسوس ہوتا ہے کہ… سینے میں دل نہیں ایک کالا پتھر رکھا ہو اہے… اب یہی
تیس دن آپ جہاد کا سفر کریں… اﷲ اکبر کبیرا… زندہ راتیں، حسین دن، جاندار نمازیں…
اور عرش تک پہنچتی دعائیں… ذکر کا الگ مزہ، مراقبے کا الگ لطف… اور دل پر رحمت اور
نور کی برسات… جہاد کی تو آج بھی یہ شان ہے کہ… کوئی مسلمان عورت اپنے ہاتھوں سے
سونے کی ایک چوڑی جہاد میں دینے کے لئے اُتارتی ہے تو اُسی وقت اُس کے دل کی حالت
بدل جاتی ہے… اندھیرے اور شہوات غائب اور نور ہی نور، نور ہی نور… اﷲ نورالسمٰوٰت
والارض…آج بھی کوئی پریشان حال آدمی اچانک ’’فدائی جہاد‘‘ کی نیت کرتا ہے تو اُسی
وقت سے اُس پر… سکینہ طاری ہونا شروع ہو جاتا ہے…اور جب آدمی جہاد میں مال خرچ
کرنے کے لئے اپنی جیب یا تجوری میں ہاتھ ڈالتا ہے تو اُسی وقت اُس کی روح آسمانوں
کے اوپر کی سیر کر آتی ہے…ا ﷲ کے بندو! جہاد بہت بڑی چیز ہے… بہت بڑی چیز ہے… یہ
بات خود اﷲ تعالیٰ نے اور آقا مدنیﷺ نے سمجھائی ہے… اُمتِ مسلمہ کے جن خوش نصیب
لوگوں نے اﷲ تعالیٰ اور رسولِ پاکﷺ کی اس بات کو سمجھا ان میں حضرت سیّد احمد شہیدپبھی
تھے… حضرت سیّد صاحبپ ارشاد فرماتے ہیں…
تمام
عبادتوں کی بنیاد، تمام طاعتوں کی اصل اور تمام سعادتوں کا مدار یہ ہے کہ بندے کا
اﷲ تعالیٰ کے ساتھ عبودیت یعنی بندگی کا رشتہ قائم ہو جائے… یہ رشتہ قائم ہونے کی
نشانی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت تمام رشتوں اور چیزوں کی محبت سے بڑھ کر نصیب ہو
جائے… اب اس بات کا پتہ کس طرح چلے گا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت سب سے بڑھ کر ہے تو اس
محبت کی سب سے بڑی امتحان گاہ’’میدان جہاد‘‘ ہے…پس جہاد کے لئے قدم اٹھانا جسے حدیث
شریف میں اسلام کی چوٹی کی بلندی قرار دیا گیا ہے اس بات کی مضبوط علامت ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کی محبت تمام مخلوقات کی محبت پر غالب ہو گئی ہے۔(سیّد احمد شہید ص ۲۵۲
تسہیل)
یہ
ہے جہاد کے بارے میں صحیح اسلامی نظریہ… خوش قسمت ہیں وہ مسلمان مرد اورعورتیں جو
اس زمانے میں کسی بھی طرح… جہاد فی سبیل اﷲ کے عظیم اور مبارک عمل کے ساتھ منسلک ہیں…
ان سب کو پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے بہت بہت مبارک… اﷲ تعالیٰ تو فیق دے تو’’فتح
الجوّاد‘‘ کا مطالعہ کر لیں… ’’فضائل جہاد‘‘ کو ایک بار پڑھ لیں… حضرت سیّد احمد
شہیدپکے متعلق حضرت مولانا سیّد ابوالحسن ندوی پ … اور مولانا غلام رسول مہرپکی
کتابیں پڑھ لیں…حضرت سیّد صاحبپ کے بیانات اور واقعات پڑھ لیں…انشاء اﷲ آپ ضرورکہیں
گے کہ… بے شک جہاد کی نعمت صرف’’سعادت مندوں‘‘ کو نصیب ہوتی ہے… اﷲ تعالیٰ میری
اور آپ سب کی قسمت اچھی فرمائے اور ہم سب کو شقاوت اور بدبختی سے بچائے… آمین یا
ارحم الراحمین
وصلی
اﷲعلی النبی الطاہر الزکی الکریم الہاشمی محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
صلوٰۃ تحل بھا العقد وتفک بھاالکُرب
٭…٭…٭
شاندار
محفل
اﷲ
تعالیٰ نے ایک’’پتھر‘‘ پر محبت کی نظر فرمائی تو وہ… کالا پتھر یعنی’’حجر اسود‘‘
کتنا ’’محبوب‘‘ ہوگیا…لاکھوں، کروڑوں مسلمان اُس کی زیارت کرتے ہیں… اور لپک لپک
کر اُس کے بوسے لیتے ہیں… اﷲ تعالیٰ کی محبت عجیب نعمت ہے یہ جس کو بھی نصیب ہو
جائے وہ ’’محبوب‘‘ بن جاتا ہے…
وَأَلْقَیْتُ
عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ
خواہ
وہ کوئی انسان ہو، پتھر ہو یا پانی ہو… ’’زمزم شریف‘‘ کتنا محبو ب ہے، حالانکہ وہ
بھی پانی ہے… مگر اﷲ تعالیٰ کی ’’نظر محبت‘‘ نے اُسے کیا سے کیا بنا دیا ہے…
سبحان
اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
حضرت
سیّد احمد شہیدپ بھی ایک ’’انسان ‘ ‘ تھے… اور ہماری طرح رسول پاکﷺ کے ایک اُمّتی
تھے… وہ نہ پیغمبر تھے اور نہ صحابی… مگر اﷲ تعالیٰ نے اُن پر اپنی محبت کی نظر
فرمائی… اور اُن کو اپنی محبت والے خاص راستے یعنی ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے لئے
منتخب فرمایا… اﷲ تعالیٰ کی اس ’’محبت‘‘ نے حضرت سیّد صاحب پکو ایسا ’’محبوب‘‘
بنادیا کہ… مسلمان آج بھی اُن سے محبت رکھتے ہیں، اُن سے روشنی لیتے ہیں… اور اُن
کے لئے دعائیں کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں…
سبحان
اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
القلم
کی شاندار محفل
جہاد،
روحانیت اور محبت کے اس خوبصورت ’’سنگم‘‘ پرالقلم آج ایک شاندار محفل سجا رہا ہے…
اس میں آپ کو ایک’’مرد مجاہد‘‘ کے کارنامے… اور ایک کامیاب مسلمان کے حالاتِ زندگی
سنائے جائیں گے… آج القلم آپ کو اپنے ساتھ لیکر ایک جانباز قافلے کے پیچھے پیچھے
عقیدت کے ساتھ دوڑے گا… رائے بریلی سے دہلی…کلکتہ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ…تکیہ
علم اﷲ سے قندھار… پشاور سے پنجتار… طورو اور مایار… سوات، ہزارہ اور پھر بالاکوٹ…
ایمان اور نفاق کے عجیب مناظر… وفا اور دغا کی انمٹ کہانیاں… جرأت اور غیرت کے
مثالی شاہکار… بالاکوٹ کے آنسو اور روشنی کے ٹوٹتے بکھرتے ذرّات… معطّر خون اور
منوّر قبریں… اور قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کرنے والے جہادی زمزمے… واہ القلم! واہ
توبھی بہت خوش نصیب ہے… اﷲ تعالیٰ نظرِ بد سے بچائے… بے شک تو… تپتے صحراؤں میں
بادل اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چراغ ہے… اﷲ تعالیٰ تجھے سلامت رکھے… مسلمانوں کو
سچے لوگوں کی داستانیں سناتا جا… اور انہیں اُن کی عزت و عظمت کا آئینہ دکھاتا
جا…
سبحان
اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
ایک
سوال
کیا
ہر کسی کو ’’محبوبیت‘‘ اﷲ تعالیٰ کی ’’نظر محبت‘‘ سے ملتی ہے؟… آج کروڑوں لوگ
’’بتوں‘‘ کی محبت میں مبتلا ہیں… لاکھوں لوگ درختوں، پنڈتوں اور بدعتی پیروں کے
گرد جمع ہیں…کیا(نعوذباﷲ) ان بتوں، آستانوں، اور مشرکوں کو اﷲ تعالیٰ کی محبت
حاصل ہے؟… نہیں ہرگز نہیں… آپ نے مکھیوں کو دیکھا ہو گا کہ غلاظت پر جمع ہو جاتی
ہیں… شیطان غلط اور ناپاک چیزوں کی محبت… ناپاک لوگوں کے دلوں میں مزیّن کر دیتا
ہے… دیکھنے میں یہ بھی محبت نظر آتی ہے… مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو محض’’نفسانیت‘‘
ہوتی ہے…نفس پرستی ،مفاد پرستی… اﷲ تعالیٰ جس شخص یا چیز کو اپنی محبت عطاء فرماتے
ہیں… وہ’’محبت‘‘ لوگوں کو اﷲ تعالیٰ سے جوڑنے کا ذریعہ بنتی ہے… حجر اسود کو چومنے
اور دیکھنے سے توحید کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے…زمزم شریف پینے سے’’لا الہ الا اﷲ‘‘
پر یقین بڑھتا ہے… اب اس معیار پر آپ حضرت سیّد احمد شہیدپ کو دیکھ لیں… آپ کو
اُن کے حالات پڑھ کر توحید، سنت اور جہاد سے محبت حاصل ہوتی ہے… شرک، بدعت، بزدلی
اورحبّ دنیا سے نفرت ہوتی ہے… جو شخص لوگوں کو اﷲ تعالیٰ سے جوڑتا ہو، مسلمانوں کی
آزادی کے لئے تڑپتا ہو، اسلام کے غلبے کے لئے سب کچھ لٹاتاہو… اُس کی محبت… مقبول
محبت ہوتی ہے… اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیّد صاحب پ کو ایسی مقبول محبت عطاء فرمائی کہ…
زمانے کے بڑے بڑے علماء اور اولیاء اُن کی جوتیاں اٹھانا سعادت سمجھتے تھے… ہزاروں
لاکھوں لوگ آپ کی زیارت کے لئے ترستے تھے… آپ کے قدموں کی مٹی لوگ برکت کے لئے
اٹھا کر لے جاتے تھے… آپ کی طرف مخلوق کا ہجوم دیوانہ وار دوڑ رہاتھا…مگر آپ خود
اپنے محبوب رب کے راستے میں دوڑے جارہے تھے… آپ ہر ایک کو بتار ہے تھے کہ… اﷲ
تعالیٰ ایک ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں… وہی ہم سب کا رازق ہے… وہی قادر اور مشکل
کشا ہے… اے لوگو! اگر رب سے محبت کرتے ہوتو آؤ… رب کی خاطر قربانی دو… کافروں نے
مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے… مظلوم مسلمان ہر طرف تڑپ رہے ہیں… ہماری
زندگیوں میں شعائر اسلام پر پابندی لگائی جارہی ہے… اے مسلمانو!محبت تو غیرت سکھاتی
ہے… اسلام کے لئے غیرت کرو… اور کفر کی طاقت کو نابود کر دو…ہزاروں لوگ حضرت سیّد
صاحبپ کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے… جبکہ سیّد صاحب پ پہاڑوں، وادیوں اورجنگلوں میں…
اسلام کے لئے عظمت اور اپنے لئے شہادت ڈھونڈتے پھر رہے تھے… اﷲ اکبر کبیرا…
آپ
یہ نہ سمجھیں
آپ
یہ نہ سمجھیں کہ حضرت سیّد احمد شہیدپ کو اﷲ تعالیٰ نے ’’محبوبیت‘‘ عطاء فرمائی تو
کوئی بھی اُن کا مخالف نہ تھا… حضرت سیّد صاحب پکے مخالفین بہت زیادہ تھے… غیر تو
مخالف ہوتے ہی ہیں… اپنوں نے بھی اعتراضات،الزامات اور بہتان تراشی میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی… حضرت سیّد صاحبپ پر جو اعتراضات کئے گئے اُ ن میں سے چند ایک یہ ہیں:۔
(۱) حضرت سیّد صاحب(نعوذ باﷲ) انگریزوں کے ایجنٹ ہیں… اور جہاد
کا لبادہ اوڑھ کر درحقیقت انگریزوں کا کام آسان کر رہے ہیں… ہندوستان کے کئی پیرزادوں
اور مولویوں نے اس تہمت پر مشتمل ایک فتویٰ نامہ تیار کرا کے دور دور تک تقسیم کیا…
اور اس فتویٰ یا پمفلٹ نے بہت سے لوگوں کو حضرت سیّد صاحب پ کا مخالف بنایا…
(۲ حضرت سیّد صاحبپ کے پاس لشکر اور سازو سامان کم ہے، جبکہ
مدّ مقابل دشمن بہت طاقتور ہے… جب تک اُس دشمن جتنی طاقت مہیا نہ ہو جائے یہ جہاد
شرعاً درست نہیں ہے…
(۳ کئی بڑے بڑے لوگ سیّد صاحبپ سے بیعت کر کے… کچھ ہی عرصہ بعد
منحرف ہو گئے اور انہوں نے ’’بیعت‘‘ توڑ دی… آخر کوئی خرابی تو دیکھی ہو گی؟… جب
اتنے لوگ بیعت توڑ گئے تو باقی کا کیا پتہ کہ کب توڑ دیں… تو ایسے لشکر کا کیا
اعتبار؟
(۴ جہاد فرض کفایہ ہے… چند لوگوں کے ادا کرنے سے باقی تمام کے
ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے… تو سیّدصاحب پعمومی طور پر اس کی دعوت کیوں دے رہے ہیں؟
(۵ جہاد کے لئے’’جامع الشروط‘‘ امام کی ضرورت ہے… یعنی ایسا امیر
جس میں فلاں فلاں شرطیں موجود ہوں… کیا سیّد صاحبپ میں یہ تمام شرطیں پائی جاتی ہیں؟
یہ
اوراس طرح کے کئی فضول اور گمراہ کن اعتراضات اورشبہات… مختلف لوگ حضرت سیّد صاحب
پاور اُن کی جماعت کے متعلق پھیلا رہے تھے… مگر حضرت سیّد صاحب پکے لشکر میں شیخ
الاسلام حضرت مولانا عبدالحی صاحبپ اور حجۃ الاسلام حضرت شاہ اسماعیل شہیدپ جیسیے
اہل علم موجود تھے… ان حضرات نے تمام اعتراضات کا مدلّل جواب دیا اور مسئلہ جہاد
کو خوب اجاگر فرمایا… لیکن بدقسمتی اور ضد کا کوئی علاج نہیں ہے… ہر بزدل کو جہاد
میں موت نظر آتی ہے… مگر کئی بزدل اپنے اس اندرونی خوف کو ’’علمی پاجامہ‘‘ پہنا دیتے
ہیں… کہ فلاں فلاں دلیل کی وجہ سے جہاد ٹھیک نہیں ہور ہا… حضرت شاہ اسماعیل شہیدپنے
ایسے ہی بدنصیب لوگوں کے بارے میں نہایت درد کے ساتھ ارشاد فرمایا:
’’سبحان اﷲ! کیا
اسلام کا حق یہی ہے کہ اُس کے ’’رُکنِ اعظم‘‘(یعنی جہاد فی سبیل اﷲ) کو جڑ سے
اکھاڑا جا رہا ہو اور جس شخص کے سینے میں ضُعف اور ناتوانی(یعنی کمزوری) کے باوجود
اسلامی حمیّت(یعنی غیرت) نے جُوش مارا، اُسے طعن وملامت (یعنی اعتراضات) کا ہدف
بنایا جائے؟ آیا یہ (اعتراض کرنے والے) لوگ نصرانی، یا یہودی یا مجوس یاہنود ہیں
کہ ملّتِ محمدیہ کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں؟محمدیت (یعنی مسلمانی کا) مقتضا یہ تھا
کہ اگر کوئی شخص ہنسی ،مذاق میں بھی جہاد کا نام لیتا تھا تو مسلمانوں کے دل پُھول
کی طرح کھل جاتے تھے اور سنبل کی طرح تروتازہ ہو جاتے تھے اگر دور دست(یعنی بہت
دور دراز) مقامات سے بھی جہاد کا آوازہ غیرت مندانِ اسلام کے کانوں میں پہنچتا
تھا تو وہ دیوانہ وار دشت و کہسار(یعنی صحراؤں اور پہاڑوں) میں دوڑ پڑتے بلکہ
شہباز کی طرح اُڑنے لگ جاتے، آیا! جہاد کے معاملے کو، عظمتِ شان کے باوجود حیض و
نفاس کے مسائل پڑھنے پڑھانے سے بھی کم تر سمجھ لیا گیا؟‘‘(سیّد احمد شہید ص ۲۶۲)
تربیت
کے مراحل
حضرت
سیّد صاحبپ ’’ماشاء اﷲ‘‘ ایک کامیاب، مقبول، محبوب اور شاندار زندگی گزار گئے… اور
اپنے پیچھے اپنے لئے’’ صدقاتِ جاریہ‘‘ کے بڑے بڑے ذخیرے چھوڑ گئے… حضرت سیّد صاحبپ
نے تربیت اور ترقی کے یہ مراحل جس ترتیب سے طے فرمائے…اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں…
(۱) شعوری
اسلام
بچپن
سے ہی اسلام کی نظریاتی تعلیم حاصل کی جائے تاکہ دل اور دماغ کے نرم خلیوں میں بس
اسلام ہی رچ بس جائے… یہ تعلیم کچھ تو گھر میں والدین دیں اور باقی قرآنی اور دینی
مکاتب سے حاصل کی جائے… حضرت سیّد صاحب پکو یہ مرحلہ کامیابی سے طے کرنا نصیب ہوا…
(۲) جسمانی مضبوطی
جسم
کی کمزوری اور سُستی انسان کے نظریات کو کمزور اور غلامانہ بنا سکتی ہے… حضرت سیّد
صاحب پ کی کامیاب زندگی کا آغاز ’’جسمانی
مضبوطی‘‘ کی محنت سے ہوا… پہلوانی، تیراکی اور دیگرمردانہ کھیلوں میں آپ نے کمال
درجہ محنت کی… ہر مسلمان کو چاہئے کہ… اپنے بچوںکو پہلوانی، تیراکی، گھڑ سواری،
بنوٹ اوراسلحہ کی تربیت دلوائے تاکہ وہ آگے چل کر’’برائلر‘‘ نہیں’’شہباز‘‘ بنیں…ان
کو ویڈیو، کمپیوٹر، کرکٹ، شطرنج، کیرم اور لڈو جیسے فضول اور گناہ خیز کھیلوں سے
بچایا جائے…
(۳) نسبت،
یعنی تعلق مع اﷲ
حضرت
سیّد صاحبپ نے خاص اس مرحلے کی تکمیل کے لئے بہت پُر مشقت سفر فرمایا اور حضرت شاہ
عبدالعزیز محدّث دہلوی کے در پر حاضری دی… حضرت شاہ صاحبپ نے آپ کو اپنے بھائی
حضرت شاہ عبدالقادر صاحبپ کے سپر دفرمایا… اور کچھ دن بعد اپنی بیعت میں بھی قبول
فرمالیا… حضرت شاہ عبدالقادرپ قرآن پاک کے مفسّر اور آیاتِ جہاد کے ’’عارف‘‘
تھے… اُن کی صحبت اور تربیت نے حضرت سیّد صاحبپ کو اسلام کے بلند ترین مقام… یعنی
جہاد فی سبیل اﷲ کا سچا عاشق بنا دیا… اُدھر حضرت شاہ عبدالعزیزپ نے سیّد صاحبپ کے
احوال اور مقامات دیکھ کر اُن کو’’خلافت ‘‘ سے نوازہ… پس ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ
تربیت اور ترقی کے اس مرحلے کو طے کرنے کے لئے… کسی ایسے صاحب نسبت اﷲ والے سے
تعلق جوڑے جس کے پاس جہاد سمیت مکمل دین کا نصاب ہو… اور جس کے ہاں عقیدہ ٔ توحید،
اتباع سنت اور دین کے لئے قربانی کاسبق ملتا ہو… اور جو معرفت ، تصحیح نیت، اخلاص
اور احسان کی منزلیں طے کرنے کے طریقے سکھاتا ہو… خبردار! کسی دنیا پرست، بدعتی،
خلافِ شرع اور جہاد کے مخالف یا منکر’’پیر‘‘ سے ہرگز بیعت نہ کریں… جو شخص دین کے
کسی فریضے کا منکر یا مخالف ہو وہ کبھی صاحب معرفت نہیں ہو سکتا… جو شخص خود دین
کے لئے جان و مال کی قربانی کا جذبہ نہ رکھتا ہو وہ لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتا …
(۴)عسکری
تربیت
حضرت
سیّد صاحبپکو اتنے بڑے شیخ سے ’’خلافت‘‘ مل چکی تھی… کئی عجیب خواب اور بشارتیں بھی
آپ کو نصیب ہو چکی تھیں… مگر آپ کسی’’گدّی‘‘ پر بیٹھنے کی بجائے… اسلام کے بلند
ترین مقام کی طرف نکل پڑے… جی ہاں آپ نے جہاد فی سبیل اﷲ کو سیکھنے کے لئے نواب
امیر خاں مرحوم کے لشکر میں باقاعدہ شمولیت اختیار فرمالی… تاکہ’’فریضہ جہاد‘‘ کو
ہر پہلو سے سیکھ لیں اور اس میں عملی شرکت کاتجربہ بھی حاصل کر لیں… بے شک جو
مسلمان اﷲ تعالیٰ کے ہاں محبت کا اونچامقام چاہتا ہے … اور اُس کے دل میں اسلام کے
غلبے اور مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کا درد ہوتاہے تو وہ… خود کو جہاد کے میدانوں کا
خوگر بناتا ہے… تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کسی کام آسکے… اور اﷲ تعالیٰ کے
حضور اپنی جان و مال کا سودا کر سکے… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم… یہ ہے پانچ
نکاتی، بالکل سیدھا سادہ سا ایک نصاب… کیا ہی اچھا ہو کہ… ہم اپنی اور اپنی اولاد
کی تربیت میں اس نصاب کو بھی مدنظر رکھیں…
شرعی
جہاد اور محاذ کی تلاش
ہر
لڑائی اور جنگ کا نام’’جہاد‘‘ نہیں ہے… جہاد ایک اسلامی فریضہ ہے… اور نماز، روزے
اور حج کی طرح اسلام نے اُس کے احکامات کو بھی بیان فرمایا ہے… پس جو لڑائی ان
احکامات کے مطابق ہو گی وہی’’جہاد‘‘ بنے گی…بہت سے لوگ ہر کارروائی کو ’’جہاد‘‘
سمجھ لیتے ہیں… یہ اس طرح ہے کہ جیسے کوئی ہر اُٹھک بیٹھک کو’’نماز‘‘ کا نام دے
دے… کئی لوگ جہاد کی فرضیت اور فضیلت سنتے ہیں توفوراً… اپنے ارد گرد شکار ڈھونڈنے
لگتے ہیں… لیکن حضرت سیّد صاحبپ نے جب’’احیائِ جہاد‘‘ کا ارادہ فرمایا تو اپنے آس
پاس کے کافروں اور منافقوں پر فوری حملہ شروع نہیں کر دیا… بلکہ بہت غور، فکر، تدبیر،
دعاء، مشورے اور استخارے کے بعدجہاد کے آغاز کے لئے ایک’’شرعی محاذ‘‘ کا انتخاب
فرمایا… اورپھر اس محاذ تک پہنچنے کے لئے ایسا پرمشقت سفر فرمایا کہ… اُس کے حالات
پڑھ کر دانتوں کوبھی پسینہ آجاتا ہے… حضرت سیّد صاحبپ صاف فرماتے تھے کہ… میرا
مقصد ہنگامہ کرنا یا ہلّہ کرنا نہیں ہے… میں تو مظلوم مسلمانوں کی آزادی، اسلام
کے غلبے اورنفاذ اور کفر کی طاقت کو توڑنے کے لئے جہاد کرتا ہوں… حضرت سیّد صاحبپ
کے مختصر سے جہاد میں اتنی برکت اس لئے ہوئی کہ اُس کی ترتیب بھی شریعت کے مطابق
تھی… اور اُس کا محاذ جنگ بھی شرعی تھا… حضرت سیّد صاحبپ نے جب پشاور بغیر کسی جنگ
اورمزاحمت کے فتح فرما لیا تو… ہر کسی نے آپ کو یہی مشورہ دیا کہ پشاور کو اب نہ
چھوڑا جائے… مگر حضرت سیّد صاحبپ دھوکہ کھانے والے ’’سادہ بزرگ‘‘ نہیں تھے کہ…
لوگوں کی باتوں میں آکر ایک نئی اور فضول جنگ میں اپنے رفقاء کو مرواتے… آپ نے بیعت
کرنے والوں کے’’ہجوم‘‘ اور آئندہ مدد کے وعدے کرنے والوں سے دھوکہ نہیں کھایا…
بلکہ اپنی دور اندیش نگاہوں سے معاملے کی حقیقت اور تہہ کو سمجھ لیا… کہ اگر پشاور
پر قبضہ برقرار رکھا گیا تو پورا اسلامی لشکر… اسی کے دفاع میں لگار ہے گا… ہر
آئے دن مسلمانوں اور منافقوں سے جنگیں ہوں گی اور اُدھر کافر مزے سے مسلمانوں پر
مظالم ڈھاتے رہیں گے… چنانچہ سیّد صاحبپ نے اس محاذ کو چھوڑ دیا اور سکھوں کے
مقابلے کے لئے روانہ ہو گئے… اور آپ نے منافقوں کی بجائے کافروں کے ہاتھوں شہید
ہونے کو ترجیح دی… آج کے مجاہدین کوبھی اس عظیم جہادی حکمت عملی اور شرعی ترتیب
سے سبق لینا چاہئے…
جہاد
سب سے بڑا کام
قرآن
وسنت نے سمجھایا ہے کہ… ایک مسلمان کے لئے’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ ہی سب سے بڑا کام
ہے… حضرت سیّد صاحبؒ نے یہ مسئلہ اپنے قول اور عمل سے واضح فرمایا… آپ نے برصغیر
کی سب سے بڑی خانقاہ چلاتے ہوئے… مسلمانوں کو سمجھایا کہ سلوک و احسان سب جہاد کے
تابع ہیں …اور جہاد سے بڑا کوئی مقام نہیں ہے… بعض نادان لوگ سلوک و احسان… اور
جہاد کو ایک دوسرے کا مدّمقابل بنا کر پیش کرتے ہیں جو غلط ہے… جہاد ایک مستقل فریضہ
ہے… جبکہ تزکیہ ، اخلاص اور تصحیح نیت اس کے ہر حکم میںلازم ہے… اور ہر حکم کی جان
ہے… دوسری طرف مجاہدین میں ایک وبا صدیوں سے چلی آتی ہے کہ… کچھ لوگ خود کو’’زیادہ
قیمتی‘‘ سمجھ کر… جہاد میں کسی ’’بڑے کام‘‘ کی خواہش لے کر گھر بیٹھے رہتے ہیں… ان
لوگوں کو جہاد کی دعوت دی جائے تو کہتے ہیں… ہم سے کوئی بڑا کام لیا جائے تو ہم تیار
ہیں… ماضی میں یہ مطالبہ کچھ باصلاحیت لوگ کرتے تھے… مگر آج کل تو کمپیوٹر جیسی
بے کار چیز کے ماہر بھی خود کو بڑا قیمتی اور عقلمند سمجھ لیتے ہیں… انا ﷲ وانا الیہ
راجعون…
یہ’’سائبر
عقلمند‘‘ عام مجاہدین کو بالکل بے وقوف اور نادان سمجھتے ہیں… اور ہر وقت اسی خیال
میں کھوئے رہتے ہیں کہ… کوئی بڑا کام ہو توہم بھی نکلیں… اﷲ کے بندو! کمپیوٹر تو
اب ہر چوڑھے،چمار، بھنگی، کافر اور منافق کوآتا ہے…اورآپ سے اچھا آتاہے… زیادہ
معلومات تک رسائی انسان کو اکثرکمزور اور معطّل کر دیتی ہے… روم و فارس کو جن
صحابہ کرام ڑ نے شکست دی ان میں سے بعض کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ ایک ہزار سے
اوپر گنتی ہوتی ہے… آج بھی امریکہ، نیٹو اور انڈیا کو… اُن سادہ لوح اوربھولے
بھالے مجاہدین نے لوہے کی لگام دے رکھی ہے جو… ستارے اور سیارچے کا فرق تک نہیں
جانتے… حضرت سیّد صاحبپ نے سمجھایا کہ… جہاد خود بڑا کام ہے… دراصل بڑاکام وہ ہوتا
ہے جس میں آدمی کا اخلاص کامل، محنت مکمل اور قربانی پوری ہو… ان تین شرطوں کے
ساتھ جہاد کا ہر کام… بڑا کام ہے… خواہ وہ روٹی پکانے کی محنت ہو یا آگے بڑھ کر
حملہ کرنے کی مشقت… خود قرآن پاک نے غزوہ تبوک کے ضمن میں یہ مسئلہ تفصیل سے
سمجھایا ہے…حضرت سیّد صاحبپ نے اس موضوع پر خاص محنت فرمائی چنانچہ… آپ نے اپنے
مجاہدین کو جس کام اور محاذ پر لگایا انہوںنے اُسی کو بڑا سمجھ کر خوشی سے قبول کر
لیا… اور ’’بڑے کام‘‘ کی خواہش میں کسی نے الگ دھڑا یا گروپ نہیں بنایا… سبحان اﷲ
وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
ایک
فہرست
آج
حضرت سیّد صاحبپ اور اُن کی مبارک جماعت اور تحریک کے متعلق کئی باتوں کو لکھنے کا
ارادہ تھا…مگرچند باتوں میں ہی’’کالم‘‘ مکمل ہونے کو ہے… چنانچہ اُن ’’عنوانات‘‘ کی
فہرست پیش کر رہاہوں… جن پر مذاکرے کا ارادہ تھا… شائقین خودان پر غور فرمالیں…
(۱) حضرت
سیّد صاحبپ کی بلند جہادی نیت اور اونچے جہادی عزائم
(۲) حضرت سیّد صاحب پ کی یہ تمنا کہ اسلام غالب اور نافذ ہو…
خواہ اُن کے ہاتھ سے ہو یا کسی اور کے ہاتھ سے
(۳) سیّد صاحبپ کی وہ کوششیں جو انہوں نے مسلمانوں اور منافقوں
سے نہ لڑنے کیلئے فرمائیں
(۴) شرعی پردے کے بارے میں حضرت سیّد صاحبپ اور اُن کی جماعت کا
مسلکِ اعتدال
(۵) حضرت سیّد صاحبپ کے جہادی لشکر کا ماحول… عبادت، تلاوت، ذکر
اذکار، مراقبات، دینی تعلیم و تعلّم…وہاں نہ تو دنیاداری اور بزنس کے چرچے تھے نہ
شادیوں کے ہوس انگیز تذکرے۔
(۶) حضرت سیّد صاحب پ کا یہ اسلامی نظریہ کہ… جہاد میں ہماری
نظر فتح یا شکست پر نہیں… اخلاص کے ساتھ جہاد کرنا ہی مسلمانوں کی فتح اور کامیابی
ہے۔
(۷) حضرت سیّد صاحبپ کا شوقِ شہادت اور اس پر آپ کی عجیب ترغیبات۔
(۸) غریبوں اور مسکینوں پر حضرت سیّد صاحب پکی خاص شفقت…
ایک
دعاء
عجیب
اتفاق ہے کہ… شہدائے بالاکوٹ سے اتنی محبت اور عقیدت کے باوجود اُن کے بارے میںمفصل’’مطالعہ‘‘
کا موقع اب جا کر ملا…جب سے جہاد کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے تعلق عطاء فرمایا… زیادہ
توجہ آیات جہاد، احادیث جہاد اورعلم جہاد کی طرف رہی… اب الحمدﷲ حضرت سیّد صاحبپ
اور اُن کی تحریک کا تفصیلی مطالعہ بھی نصیب ہو رہا ہے… یقینا اﷲ تعالیٰ کے ہاںیہی
وقت اس کے لئے مناسب ہوگا…حضرت سیّد صاحبپ اور اُن کی تحریک کو پڑھ کر… اپنے جہادی
نظریات پرمزید مضبوطی اور اطمینان نصیب ہوا… اور آج کے جہاد میں اُن کے جہاد جیسی جوخوبیاں نظر آرہی ہیں اُن کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ
کا شکر ادا کیا… اور جو کمی، کوتاہی سامنے آئی… اُس کے ازالے کی دعاء مانگی… اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو… اور ہماری جماعت کو حضرت سیّد صاحبپ کے فیوض وبرکات نصیب فرمائے…
اور خاص اپنا فضل فرما کر… ہماری ناقص محنتوں کو قبول فرمائے…
آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علی سیّدنا محمد بقدر حسنہ وجمالہ ودعوتہ وجہادہ والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
جاپانی
دجّال
اﷲ تعالیٰ ہر فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…کچھ
لوگ’’ بے کار‘‘ کا موں میں اُلجھے رہتے ہیں… اور اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ… دوسرے
مسلمانوں کو بھی ان ’’فضولیات‘‘ میں اُلجھا دیں… ابھی ایک بہت ہی عزیز شخصیت نے
بتایا کہ… موبائل پر ایک میسج چل رہا ہے… اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ…’’دجّال‘‘
جاپان کے ایک جزیرے سے نکلنے والا ہے… اور اسی سال حضرت امام مہدی ح ظاہر ہونے
والے ہیں… جاپان کے سمندر میں ایک آتش فشاں پھٹا ہے… اُ س سے ایک نیا جزیرہ ظاہر
ہو گا… جاپان چونکہ مشرق میں ہے اور دجّال نے مشرق سے نکلنا ہے… اس لئے وہ اس جزیرے
سے نمودار ہو گا… یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں اس’’میسج‘‘ میں لکھی ہوئی ہیں… کئی
لوگ دھڑا دھڑ اس میسج کو ثواب سمجھ کر پھیلا رہے ہوں گے کہ… ہم نے دجّال کا ’’ ایڈریس‘‘
معلوم کر لیا اور یہ کہ ’’دجّال‘‘ میڈ اِن جاپان ہے… انا ﷲ وانا الیہ راجعون…
کیا
اسلام نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم’’دجّال‘‘ کو تلاش کرتے پھریں؟… کیا دجّال کا
فتنہ کوئی معمولی چیز ہے؟… ا ﷲ کے بندو! یہ روئے زمین کا سب سے بڑا فتنہ ہے… آپ
اس طرح کے فضول’’میسج‘‘ کی جگہ وہ دعائیں میسج کریں جو ہر نماز میں اور نماز کے
بعد’’مسیح دجّال‘‘ کے فتنے سے حفاظت کے لئے سکھائی گئی ہیں… آپ وہ احادیث’’میسج‘‘
کریں جن میں جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی آیات کی تلاوت کو’’مسیح دجال‘‘ سے حفاظت کا
ذریعہ فرمایا گیا ہے… دجّال کے فتنے کا مقابلہ تو جہاد فی سبیل اﷲ کے ذریعہ ہوگا…
آپ مسلمانوں میں جذبہ ٔ جہاد پیدا کریں… دجّال کا فتنہ کوئی ایسا چھوٹا یا مخفی
فتنہ نہیں ہو گا کہ… جسے جاننے اور پہچاننے کے لئے کتابیں دیکھنا پڑیں گی… یہ تو
وہ عالمگیر اور خوفناک فتنہ ہے جس سے تمام انبیاء د نے اپنی اُمتوں کو ڈرایا
ہے…کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب مجھے ملے اور فرمایا کہ… ایک مسئلے پر بات کرنی ہے کیا
آپ تحمّل سے سن سکیں گے؟… اُن سے عرض کیا کہ انشاء اﷲ ضرور پورے تحمّل سے سنوں
گا…فرمانے لگے کہ دجّال کسی فرد یا شخص کا نام نہیں ہے… بلکہ ایک’’عمومی فتنے‘‘ کا
نام ہے… اور آج کل امریکہ اور یورپ ہی’’دجّال اکبر‘‘اور’’فتنہ مسیح الدجال‘‘ ہیں…
اس پر انہوں نے بہت لمبی چوڑی تقریر کی اور بتایا کہ… ہمیں چاہئے کہ تمام کام چھوڑ
کر اس فتنے کے بارے میں مسلمانوں کو بتائیں… بندہ نے اُن سے چند سوالات کئے… اُن
صاحب کے پاس امریکہ کی نیشنلٹی تھی… انگریزی فر فر بولتے تھے… اُن سے پوچھا کہ
دجّال اکبر نے آپ جیسے اپنے اتنے بڑے مخالف کو اپنے ملک کی نیشنلٹی کیسے دے رکھی
ہے؟… وہ گرم ہونے لگے… عرض کیا کہ تحمّل سے سنیں… دجّال کا مقابلہ صرف اور صرف
جہاد سے ہوگا… آپ کے پاس جہاد کا کیا نظام ہے؟… وہ سٹپٹا گئے… اُن سے عرض کیا کہ…
آپ کا کام صرف ’’دجّال‘‘ کاتعارف پیش کرنا ہے یا اُس کا مقابلہ کرنا؟… اگر صرف
تعارف کرانا ہے تو پھر آپ دجّال کی خدمت کررہے ہیں… اور اگر مقابلہ کرنا ہے تو
اُس کی آپ کے پاس کیا ترتیب ہے؟… وہ صاحب کافی گھبرا گئے… اور غصّے میں اٹھ کر
چلے گئے… اُن کے بھائی نے بتایا کہ کئی سال سے یہ اس موضوع پر علماء سے بات کر رہے
ہیں… مگر اِن کو اس طرح سے بھاگتے ہوئے آج دیکھا ہے… ورنہ یہ تو اپنی معلومات کے
زور پر کئی علماء کرام کو شرمندہ کر چکے ہیں…دراصل اس طرح کے لوگوں کی خواہش یہ
ہوتی ہے کہ… آپ اُن کے ساتھ بیٹھ کر دجّال کی باتیں کریں… دجّال کی طاقت کے گُن
گائیں… دجّال کے ضمن میں یہودیوں کی طاقتوں اور سازشوں پر لمبی گفتگو کریں… اُن کے
ایٹم بم شمار کریں، اُن کے طیارے گِنیں …
اُن کی ٹیکنالوجی کے ہوشربا تذکرے
کریں… اور اُن کو ناقابل تسخیر قرار دے کر… جہاد کا کام حضرت عیسیٰ علیہ السلام
اور امام مہدی ح کے ذمہ لگادیں کہ… وہ آئیں گے تو کچھ ہوگا… ہم سے تو اس خوفناک
طاقت اور فتنے کے خلاف جہاد نہیں ہو سکتا… چند دن پہلے ایک رسالے میں دیکھا کہ… ایک
خاتون صاحبہ نے پوری اُمت مسلمہ کے ذمہ یہ کام لگا دیا کہ… انگریزی میں حضور اقدسﷺ
کے نام مبارک کے ساتھ’’صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘… فلاں طریقے سے لکھیں اور جو عام طریقے
سے لکھا جاتا ہے… وہ غلط ہے اور اس کے فلاںفلاں معنیٰ ہیں… انا ﷲ وانا الیہ
راجعون… یہ ہے’’نیٹ‘‘ کے کھلاڑیوں کا جہاد کہ ہر لفظ میں سازش کی ’’بُو‘‘ سونگھ
کر…پھر اس’’بو‘‘ کو پورے زور سے مسلمانوں میں پھیلاتے ہیں… ایک اور خاتون اس مشن
پر تھیں کہ… انگریزی میں جب’’اﷲ‘‘ ،’’قرآن‘‘ اور’’رسول‘‘ جیسے الفاظ لکھے جائیں
تو… پہلا حرف بڑی اے، بی، سی میں لکھا جائے… ورنہ گناہ ہو گا… اور مسلمان سازش کا
شکار ہو جائیں گے… اسی طرح ہر چند روز بعد کوئی’’سائبر مفکّر‘‘ اچانک یہ اعلان چلا
دیتا ہے کہ… مکہ، مدینہ وغیرہ الفاظ کو… اگر فلاں ’’اسپیلنگ‘‘ میں لکھا تو… مطلب یہ
ہو جائے گا اور مسلمان ایک گمنام سازش کا شکار ہو جائیں گے… اسی طرح یہ ’’کمپیوٹر
کھلاڑی‘‘مختلف چیزوں پر گستاخی کی سازش پکڑ لیتے ہیں اور پھر اس گستاخی کی اتنی
تشہیر کرتے ہیں کہ… انسان کا دل غم سے پھٹنے لگتا ہے… حالانکہ انسان کسی بھی
مصلّے، جائے نماز، جوتے یا نقشے کو مختلف زاویوں سے دیکھے تو کئی خیالی تصاویر اور
الفاظ بن جاتے ہیں… مگر چونکہ ان بے کار لوگوں نے نہ تو جہاد کرنا ہوتا ہے اور نہ
ان کو تلاوت اور نوافل کی فکر ہوتی ہے… یہ ہر چیز کی تصاویر اور نقشوں میں الجھے
رہتے ہیں اور پھر کوئی نہ کوئی سازش اور گستاخی تلاش کر کے… مسلمانوں کا دل مزید
زخمی کرتے ہیں… اور اس کودین کی بڑی خدمت سمجھتے ہیں… اﷲ کے بندو! مسلمانوں کے
خلاف اس طرح کی سازشیں اُس وقت ہوتی تھیں جب کفار مغلوب تھے… اور وہ اپنے دل کی
بھڑاس چُھپ چُھپ کر نکالتے تھے… کہیں کوئی صلیب چھپا دی… کسی جگہ مسلمانوں کے مقدس
ناموں کی چھپ کر گستاخی کر دی… مگر اِس وقت تو وہ غالب ہیں… اور مسلمان خود بھاگ
بھاگ کر اُن کی جھولی میں گر رہے ہیں… وہ کھل کر ہمارے پاک نبیﷺ کی شان میں گستاخی
کرتے ہیں… مگر پھر بھی اُن کے سفارتخانوں کے باہر مسلمانوں کی لمبی قطاروں میںکوئی
کمی نہیں آتی… عام لوگ تو درکنار دیندار اور صاحب علم بھی اُن کے ملکوں میں جانا…
اور اُن کے طریقوں کو اپنانا فخر کی بات سمجھتے ہیں… ہمارے ملکوں کی سیاست پر اُن
کا قبضہ ہے… ہماری معیشت اُن کے جھوٹے برتنوں کو چاٹنے کا نام ہے… ہماری فوجیں اُن
کے حکم پر مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں… ان حالات میں اُُن کو
خفیہ سازشوں اور چوری چھپے وارداتوں کی کیا ضرورت ہے؟… اِس وقت اُن کی سازشوں کے
چرچے کرنا مسلمانوں میں مزید کمزوری اور بے ہمتی پھیلانے کا ذریعہ ہیں… کیونکہ
اُمتِ مسلمہ کو اس وقت الفاظ کی نہیں عمل کی ضرورت ہے… آج سے پندرہ، بیس سال پہلے
لاہور میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی… وہ عالم نہیں تھے مگر مطالعہ کے زور پر درس
قرآن دیتے تھے… اور’’احیائے خلافت‘‘ اُن کا موضوع تھا… تین گھنٹے کی تفصیلی بات چیت
سے اُن کو فائدہ ہوا… اور وہ جہاد کے حامی ہو گئے… اُن سے یہی بات عرض کی تھی کہ…
’’خلافت‘‘ کوئی ناراض بیوی تو نہیں ہے کہ… صرف آوازیں دینے سے واپس آجائے گی…
ہائے خلافت ، اری خلافت، آہ خلافت، پیاری خلافت…ہم جتنا بھی پکاریں ’’خلافت‘‘
قائم نہیں ہو گی… ایک بزرگ عالم دین کا فی پہلے عراق کا سفر کر کے واپس تشریف
لائے… انہوں نے بتایا کہ عراق میں’’سامرہ‘‘ کے مقام پر ایک غارہے… شیعہ لوگوں کا
عقیدہ ہے کہ اسی غار میں اُن کے بارہویں امام ’’روپوش‘‘ ہیں… زائرین اس غار پر
جاتے ہیں… وہاں موجود’’مجاوروں‘‘ کو نذرانے دیتے ہیں اور غار کے دھانے کھڑے ہو کر…
روتے پیٹتے اور پکارتے ہیں کہ امام صاحب! جلدی نکل آؤ… وہ عالم کہتے ہیں کہ میں
نے وہاں کے ایک مقامی شخص سے پوچھا …کیا واقعی امام اس غار میں ہیں؟…وہ کہنے لگا یہ
تو پتا نہیں کہ امام غار میں ہیں یا نہیں… لیکن اگر ہوئے بھی تو کبھی نہیں نکل سکیں
گے… بلکہ جب وہ نکلنے لگیں گے تو مجاور اُن کو مار کرواپس غار میں ڈال دیں گے… کیونکہ
اُن کے چلے جانے سے مجاوروں کی کروڑوں کی آمدن بند ہو جائے گی… خلافت، خلافت کا
شور کرنے والے اکثر’’مفکرین‘‘ خود خلافت کے دشمن ہیں… کیونکہ یہ لوگوں کو’’جہاد‘‘
سے روکتے ہیں… اور بغیر جہاد کے خلافت قائم نہیں ہو سکتی…خلاصہ یہ ہے کہ… مسلمان
فضول کاموں اور بے کار تحقیقات میں وقت ضائع نہ کریں… حضرت امام مہدیؓ کے تشریف
لانے سے پہلے بھی جہاد کا حکم ہر مسلمان کے لئے موجود ہے… بس اس حکم کو پورا کریں…اگر
وہ ہماری زندگی میں تشریف لے آئے تو جہاد کرتے ہوئے اُن کے ساتھ شامل ہونا ہمارے
لئے… انشاء اﷲ آسان ہو گا… اور اگر وہ ہماری زندگی میں تشریف نہ لائے تو بھی ہمیں
عمل جہاد کا پورا اجر ملے گا… دجّال جب آئے گا تو پوری دنیا کو پتا چل جائے گا
اور دجّال کے فتنے سے وہی لوگ محفوظ رہ سکیں گے جن کا ایمان کامل ہو گا اور وہ موت
سے نہیں ڈرتے ہوں گے… اور مال و ہوس کے پجاری نہیں ہوں گے… یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے لشکر میں شامل ہو کر دجّال کا مقابلہ کریں گے… اور دجّال حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا… چنانچہ ہم سب دجّال کا ایڈریس معلوم کرنے کی
بجائے… دجّال سے مقابلے کے لئے… جہاد کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کریں…
اللھم
انا نعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال
آمین
یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد صاحب الفرق والفرقان وجامع الورق ومنزلہ من سماء القرآن وال
محمد وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
بائیکاٹ
یا تفرقہ
اﷲ
تعالیٰ ہر فتنے سے میری اور آپ کی حفاظت فرمائے… اور ہم سب مسلمانوں کو’’خلافت‘‘
کی نعمت نصیب فرمائے… آج چند باتیں’’بائیکاٹ‘‘ کے متعلق عرض کرنی ہیں…
سب
کو پیتے دیکھا
بچپن
سے جوانی تک پاکستان… اور دیگر کئی ممالک میں مسلمانوں کو پیپسی، کوک، سیون اپ،
مرنڈا، ٹیم… اور سپرائٹ کی بوتلیں بے تکلف پیتے دیکھا… عام مسلمانوں کے ساتھ علماء
کرام بھی خوب پیتے تھے… اور ایک دوسرے کو پلاتے تھے… حضرت مفتی اعظم مفتی رشید
احمد صاحبپ کو سیون اپ اور اپنے مرشد مفتی اعظم مفتی ولی حسن صاحبپ کو’’ٹیم‘‘ کی
بوتلیں پیتے دیکھا … خلاصہ یہ کہ… جس کسی کو شوگر یا کوئی اور پرہیز نہ تھا وہ یہ
بوتلیں خوشی خوشی پیتا تھا… یقیناً آپ سب نے بھی خوب پی ہوں گی… اور بعض اب تک پیتے
ہوں گے…
پیپسی
،کوک تقویٰ کی علامت
اُن
دنوں بعض ایسے ممالک میں بھی جانا ہوا… جہاں پیپسی اورکوک پینا تقویٰ کی علامت
سمجھا جاتا تھا… دراصل کافروں کے ان ممالک میں شراب اور دوسری غلاظتیں کھلے عام
ملتی ہیں… ماحول کے اس رگڑے میں کئی مسلمان بھی اپنا ایمان کمزور کر بیٹھے ہیں…
وہاں بازاروں اور گلیوں میں شراب کی بو ہر طرف پھیلی پڑی ہے… ایسے ماحول میں جو
مسلمان شراب نہیں پیتے بلکہ… پیپسی اور کو ک پیتے ہیں اُن کو بہت متقی سمجھا جاتا
ہے… اوران کے تعارف میں یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ… یہ صاحب تو پیپسی اور کوک سے
آگے نہیں بڑھتے…
بے
بسی
عربی
زبان میں’’پ‘‘ کا حرف نہیں ہے… چنانچہ عرب لوگوں کو اگر مجبوراً’’پ‘‘ بولنا پڑے تو
وہ اُسے’’ب‘‘ بنا کر بولتے ہیں… مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ… اور سعودی عرب کے دوسرے
شہروں میں ’’پیپسی‘‘ خوب بکتی ہے… مگر وہ اسے’’بیبسی‘‘ کہتے ہیں… ایک صاحب نے جگہ
جگہ’’بیبسی‘‘ کے بورڈ دیکھے تو کہنے لگے یہ ہر جگہ’’بے بسی بے بسی‘‘ کے بورڈ لگے
ہوئے ہیں… مسلمانوں کی بے حسی سمجھیں یا بے بسی کہ… اُن کے ہر ملک میں’’بے بسی‘‘بِکتی
ہے… اور خوب پی جاتی ہے…
اچانک
رُخ بدلا
مسلمانوں
میں پیپسی، سیون اپ پینے والے بھی موجود تھے… اور نہ پینے والے بھی… مگر اس مسئلہ
پر الحمدﷲ کوئی اختلاف نہیں تھا… کسی عالم دین یا مفتی صاحب نے ان بوتلوں کو حرام یا
مکروہ قرار نہیں دیا تھا… یہ بوتلیں اصل میں تو کافروں اور یہودیوں کے ممالک کی ایجاد
تھیں… مگر اسلامی ملکوں میں ان کے بنانے اور خریدنے والے عام طور پر مسلمان تاجر
تھے… کچھ حکیم حضرات ان بوتلوں کو صحت کے منافی قرار دیتے تھے… مگر اُن کی بات زیادہ
لوگ قبول نہیں کرتے تھے… پھر اچانک مسلمانوں میں… پیپسی اور کوک کے خلاف ایک تحریک
اور آواز اٹھی… اُدھر جب یورپ گستاخی پر اترا تو… ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے وغیرہ
کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی آواز بھی اٹھی… دنیا بھر کے کسی ملک میں چونکہ خالص
اسلامی حکومت نہیں ہے… اس لئے’’تجارتی مقاطعہ‘‘…یعنی’’بائیکاٹ‘‘ کا یہ عمل مضبوطی
کے ساتھ تو نہ چل سکا مگر جزوی طور پر یہ کئی ممالک میں چل رہا ہے… اب بہت سے لوگ
پیپسی اور سیون اپ نہیں پیتے… بہت سی خواتین’’ہیڈ اینڈ شولڈر‘‘ شیمپو نہیں لگاتیں…
بہت سے بچے’’نیسلے‘‘ کا دودھ نہیں پیتے… او ربہت سے افراد’’ٹیلی نار‘‘ کی سم
استعمال نہیں کرتے…
بات
زیادہ آگے بڑھ گئی
’’بائیکاٹ‘‘ کا یہ
عمل اسی قدر رہتا تو بہت اچھاتھا… لیکن ایسا لگتا ہے کہ… مرچ مصالحہ کچھ زیادہ ہی
لگ گیا… اوریہ عمل اب مسلمانوں میں ایک نئی ’’تفریق‘‘ کی بنیاد بنتا جارہاہے…
(۱) وہ لوگ جنہوں نے ان چند چیزوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے خود
کو بس اسی عمل کی بدولت بڑا مسلمان اور بڑا مجاہد سمجھنے لگے ہیں…
(۲) جو مسلمان ابھی تک پیپسی، سیون اپ، ٹیلی نار وغیرہ کا بائیکاٹ
نہیں کر سکے… اُن کو بائیکاٹ کرنے والے مسلمان بہت حقیر اور گناہ گار سمجھتے ہیں…
(۳) ان چند چیزوں کے بائیکاٹ کو دینداری اور تقویٰ کا معیار
سمجھ لیا گیا ہے… یعنی جو پیپسی نہ پیئے وہ دیندار اور جو پی لے وہ گناہ گار… حتیٰ
کہ کسی بڑے مفتی یا عالم کو یہ بوتلیں پیتا دیکھ لیں تو اُن کے ایمان میں شک کرنے
لگتے ہیں…
تھوڑا
ساسوچو
کل
تک آپ خود’’پیپسی‘‘ شوق سے پیتے تھے… شائد کئی ڈرم پی گئے ہوںگے… اُس وقت آپ
مؤمن تھے یا فاسق؟… آج بھی ممکن ہے کہ… آپ کے پاؤں کا جوتا جرمنی کا… ہاتھ کی
گھڑی سوئیزرلینڈ کی… اور سواری کی گاڑی جاپان یا امریکہ کی ہوگی… آپ اپنے بارے میں
کیا فرماتے ہیں؟ … ہمارے بازار غیر ملکی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں… عام استعمال کی
پچھتر فیصد چیزیں باہر سے آتی ہیں… اب اس کافیصلہ کون کرے گا کہ… کون سی چیز
استعمال کریں اور کس کا بائیکاٹ کریں… بہت سے مسلمان اسلام دشمنی کی وجہ سے نہیں…
بلکہ اپنی سادگی اور لاعلمی کی وجہ سے ان چیزوں کو استعمال کرتے ہیں… یہی حال
علماء کرام اور مجاہدین کا بھی ہے کہ… وہ شرعی حلال حرام کے علاوہ باقی معاملات پر
بعض اوقات غور کرنے کی فرصت نہیں پاتے… اگر آپ ان تمام باتوں کو سوچیں تو انشاء اﷲ
سوچ میں ’’اعتدال‘‘ پیدا ہو گا…
ایک
بات تو پکی ہے
اگر
علماء کرام… اور مفتیانِ عظام، شرعی اصولوں کی روشنی میں کسی چیز کو ’’حرام‘‘ قرار
دیں تو پھر… اس میں کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی… تمام مسلمانوں کا فرض بنتا ہے
کہ… ایسی چیزوں کو فوراً اپنی دکانوں اور گھروں سے نکال پھینکیں اور کبھی اُن کے
استعمال کا خیال تک دل میں نہ لائیں… لیکن وہ ’’اشیاء‘‘ جن کو علماء کرام نے حرام
قرار نہیں دیا اُن کے بارے میں زیادہ شدّت ہمارے ایمان کے لئے… اور مسلمانوں کے
اتحاد کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے… پہلے ہماری بھی یہ شدید خواہش تھی کہ… مسلمان ان
بوتلوں اور چیزوں کا سختی سے بائیکاٹ کریں… مگر بعد کے کچھ حالات دیکھ کر… بائیکاٹ
نہ کرنے والوں کے لئے اب دل میں نفرت نہیں آتی… ہم مسلمان ہر بات پر آپس میں کیوں
لڑیں؟… اﷲ پاک نے ارشاد فرمایا
فمالکم
فی المنافقین فئتین (سورہ النساء)
کہ
مسلمانو! تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں آپس میں گروہ بندی کر رہے ہو… آج
جب کہ ہر طرف سے مسلمانوں پر کفار کے حملے ہو رہے ہیں ہم اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ… پیپسی اور کوک
کو حق اور باطل کا معیار… یا غیرت کے اظہار کا واحد ذریعہ سمجھ کر… آپس میں لڑیں…
اعتدال
کیسے آتا ہے
(۱) ایک
بار ایک بزرگ عالم دین کی زیارت کے لئے گئے… انہوں نے ہمارے اکرام کے لئے سیون اپ
وغیرہ کی بوتلیں منگوالیں… بندہ کے ساتھ جو مجاہدین اور حارسین تھے وہ بہت نفرت سے
کبھی بوتلوںکو… اور کبھی اُن بزرگوں کو دیکھتے… اورآپس میں کانا پھوسی بھی کرتے…
وہ بزرگ بہت شرمسار ہو رہے تھے… اُن کی یہ حالت دیکھ میں بہت شرمندہ ہوا… اور مجھے
احساس ہواکہ… یہ معاملہ بائیکاٹ سے بڑھ کر’’الحاد‘‘ تک نہ پہنچ جائے کہ ایک چیز کو
شریعت مطہرہ نے ’’حرام‘‘ قرار نہیں دیا… مگر اب کئی مسلمان اُسے حرام سے بھی بدتر
سمجھ رہے ہیں… اور اسی کو دین اور تقوے کا معیار قرار دے رہے ہیں… حالانکہ ان سب
نے کچھ ہی عرصہ پہلے یہ بوتلیں پینا چھوڑا ہے…
(۲) ان
بوتلوں کے بائیکاٹ کے بعد… کئی کمپنیاں’’ حلال بوتلیں‘‘ لے کرمیدان میں اُتریں…
انہوں نے اپنے تجارتی مفادات کے لئے بائیکاٹ مہم کی خوب تشہیر کی… مگر مسلمانوں کو
کوئی معیاری چیز پیش نہ کی… یہ بڑے بڑے کروڑ پتی لوگ… دیندار بھی نہیں تھے… خود
اُن کے اکاؤنٹ کافروں کے ملکوں میں کھلے پڑے تھے… اور خود اُن کو کافروں اور یہودیوں
کی کسی چیز سے پرہیز نہیں تھا… انہوں نے تو توّا گرم دیکھا تو دھڑا دھڑ روٹیاں
لگانے لگے…
(۳) بائیکاٹ
کی مہم کے لئے زیادہ معلومات… وہ مسلمان بھیج رہے ہیں جو خود کافروں کے ملکوں میں
مقیم ہیں… وہی انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ کمپنیوں کے نام اور کوڈ بھیجتے ہیں… اور وہی
اس مہم کی زیادہ تشہیر کرتے ہیں… اور ان میں کئی لوگ ایسے ہیں جو خود شریعت کے
پابند نہیں ہیں بلکہ اُن کا تو اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا سب کافروں کی چیزوں پر
ہے… یہ ہر ماہ بلکہ ہر ہفتے کافروں کو ٹیکس دیتے ہیں… اور ہر چیز اُن کی بنی ہوئی
استعمال کرتے ہیں… اور کسی بھی طرح کافروں کے ملکوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں…
بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو عملی جہاد سے روک رہے ہیں…کیونکہ
مسلمان کی دینی غیرت اُسے جہاد فی سبیل اﷲ پر کھڑا کرتی ہے… اور یہ لوگ اسی غیرت
کو صرف’’ پیپسی‘‘ نہ پینے تک محدود کر رہے ہیں… چنانچہ بہت سے مسلمان بس اسی ’’غیرت‘‘
کو کافی سمجھ کر جہاد سے محروم رہتے ہیں…
(۴) کافروں
کے غلبے کو توڑے بغیر اُن کی مصنوعات سے جان چُھڑانا کافی مشکل ہے… گاڑیاں، جہاز،
گھڑیاں، فون اور تقریباً ہر چیز اُن کے ہاں سے آتی ہے… اب ایک مسلمان اُن کے
بنائے ہوئے جہاز پر حج کرآئے… اُن کی بنائی ہوئی گاڑی پر دن رات گھومے… اُن کے
بنائے ہوئے فون استعمال کرے… اُن کے تیار کردہ کپڑے پہنے… اور پھر کسی’’پیپسی‘‘ پینے
والے غریب کو… بے غیرتی کے طعنے دے تو یہ بات ایک طرح کا ظلم لگتی ہے…
یا
اُن جیسے بن جاؤ
متحدہ
عرب امارات کے ایک سفر کے دوران… ’’فجیرہ‘‘ جانا ہوا… مقامی میزبان نے بتایاکہ یہاں
ساحل سمندر پر ایک شخص رہتے ہیں جو کوئی بھی جدید چیز استعمال نہیں کرتے… نہ بجلی،
نہ فون اور نہ کوئی مشینری… ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں… انگریزی دواء استعمال نہیں
کرتے… بیمارہو جائیں تو عربوں کے خاص طریقے’’کَیّ‘‘ یعنی داغنے کے ذریعہ اپنا علاج
کرتے ہیں… فریج یا برف کا ٹھنڈاپانی نہیں پیتے… اور اپنی جھونپڑی کو بھی… جدید اشیاء
سے پاک رکھتے ہیں…وہ بزرگ واقعی ایسے تھے… بہت شدّت کے ساتھ ’’بائیکاٹ‘‘ کرنے والے
حضرات بھی اگر اُن صاحب جیسے بن جائیں تو پھر… اُن کا حق ہے کہ پیپسی، سیون اپ پینے
والوں سے نفرت کریں… لیکن خود پچھتر فیصد چیزیں کافروں کی استعمال کریں… اور ایک
دو چیزوں کو’’اسلامی غیرت‘‘ کا معیار قرار دیں تو یہ بات دل کو نہیں لگتی…
اعتدال،
اعتدال
اے
مسلمانو! اعتدال اختیار کرو کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت زیادہ
باہمی نفرت پھیل رہی ہے…ایک مسلمان کا عقیدہ ٹھیک ہو… اور وہ پانچوں فرائض کا
پابند ہو… بس یہی بات دینداری کے لئے کافی ہے… اور اگر وہ عالم اور مفتی ہو اُ س
کا اکرام مزید بڑھ جاتا ہے… اب اُسے مزید چیزوں پر نہ تولو… گھڑی پہنتا ہے یا نہیں…
سیدھے ہاتھ میں پہنتا ہے یا اُلٹے میں… کون سی حلال بوتل پیتا ہے… یا نہیں پیتا…آپ
اپنے اپنے معیار بنا کر نہ چلیں… بلکہ مسلمانوں کی عزت اور حرمت کے معاملے میں اﷲ
تعالیٰ سے ڈریں… ان چیزوںکی وجہ سے مسلمانوںسے نفرت کرنا اور اُن سے بدگمانی رکھنا
جائزنہیں ہے… اﷲ کے لئے تفرقہ بازی کے نئے نئے … ذریعے نہ نکالیں… آپ خود شو ق سے
کسی چیز کا بائیکاٹ کریں… مگر کوئی مسلمان اگر کسی حلال چیز کا بائیکاٹ نہیں کر
رہا تو اُس کے ایمان اور تقوے میں شبہ نہ کریں… ایمان کے بعد پانچ چیزوں کوماننا
اور… حسب شرائط اُن پر عمل کرنا فرض ہے… نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ… اور جہاد… اپنی
طرف سے کوئی کسی نئی چیز کو فرض قرار نہ دے… اور نہ ہی کسی چیز کو اپنی طرف سے
حرام قرار دے…
آخری
گزارش
بات
مختصر کرتے ہیں… ہم خود’’بائیکاٹ‘‘ کے حامی ہیں اور ماضی میں اس تحریک کی حمایت کر
چکے ہیں… ہماری تو تمنا ہے کہ کفر کی طاقت اور شوکت ہی ختم ہو جائے… اور اپنی اس
تمنا کے لئے الحمدﷲ عملی محنت کرتے رہتے ہیں…
٭وہ مسلمان جو پیپسی
وغیرہ چھوڑ چکے ہیںوہ اس’’کالم‘‘کوآڑبناکردوبارہ نہ شروع ہو جائیں، آپ زمزم شریف
پئیں دودھ اور شہد پئیں، تازہ پھلوں کا جوس پئیں… یا اﷲپاک کی نعمت سادہ پانی پئیں،
پیپسی وغیرہ ویسے بھی معدہ کے لئے نقصان دہ ہیں…
چند
چیزوں کا بائیکاٹ کرنے والے حضرات خود کو اُن مجاہدین کے برابرنہ سمجھیں جو اپنی
جانوں کو اسلامی غیرت اورعظمت کے لئے نچھاور کررہے ہیں… اور دن رات اپنے جسموں کے
ٹکڑے کرا کے کافروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں…
O اگر ملک کے اکثر علمائے کرام کسی چیز کے بائیکاٹ
کا فتویٰ دے دیں تو پھر… تمام مسلمانوں کو شدّت کے ساتھ اُس کا ’’بائیکاٹ‘‘کرنا
چاہئے۔
O اور اگر تمام یا اکثر علماء کرام فتویٰ نہ دیں
اور کسی مسلمان کو یقین ہو کہ… اس چیز کی آمدنی ’’اسلام دشمنی‘‘ کے کاموں میں لگ
رہی ہے تو… وہ خود بائیکاٹ کرے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس کی دعوت دے… مگر اس کی
وجہ سے دوسرے مسلمانوں کو حقارت یا نفرت کا نشانہ نہ بنائے …
O ’’شیزان‘‘ کمپنی کے بائیکاٹ کا فتویٰ ملک کے
تمام علماء کرام نے دے رکھا ہے… مسلمان مضبوطی کے ساتھ اس کا بائیکاٹ کریں…
O تمام مسلمان پوری قوت کے ساتھ جہاد فی سبیل
اﷲ میں لگ کر… کفر کی جڑ کاٹیں… صرف پتے اور شاخیں جھاڑنے سے کام نہیں بنے گا
بلکہ… اس سے مزید پتے اور شاخیں نکل آئیں گی… اﷲ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو
قوت و شوکت عطاء فرمائے… اور ہم سب کی ہر فتنے سے حفاظت فرمائے… آمین یا ارحم
الراحمین
اللھم
صل علی سیدنا محمد بقدر علمہ و کمالہ وعلی آل محمد وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
جانوروں
سے بدتر
اﷲ
تعالیٰ رحم فرمائے’’ گستاخانہ خاکوں‘‘ کا معاملہ ایک بار پھر اہل ایمان کو تڑپا
رہا ہے… آئیے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں…
لکھنے
میں تأخیر کیوں ہوئی
سب
سے پہلے بی بی سی پر خبر دیکھی کہ… ’’فیس بک‘‘ کی ویب سائٹ پر گستاخانہ خاکوں کا
مقابلہ چل رہا ہے…دل پر سخت چوٹ لگی اور پوری خبر پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی… پھر
پتہ چلا کہ لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں’’فیس بک‘‘ پر پابندی لگا دی ہے… یہ خبر
دل کو اچھی لگی… اور جب’’یو ٹیوب‘‘ پر پابندی لگی تو دل بہت خوش ہوا… مگر زیادہ
بولنے والے وزیر داخلہ خاموش نہ رہ سکے انہوں نے فوراً کہہ دیا کہ یہ پابندی جلد
اٹھالی جائے گی… پھر پتہ چلا کہ ملک بھرمیں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں… اچھی بات
ہے مسلمان عشق رسولﷺ میں تڑپے ہیں… اﷲتعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے… کچھ احباب نے
ان مظاہروں میں شرکت کی اجازت مانگی تو خوشی سے دے دی کہ… اُمت کو اس مسئلہ پر یک
جان ہو نا چاہئے… مگر مجھے اب تک پوری بات معلوم نہیں ہے… اور نہ میں معلوم کرنے کی
ہمت رکھتا ہوں… اور نہ میں کسی سے پوچھوں گا… کچھ دن پہلے اپنے انٹرنیٹ کے شعبے کے
نگران سے ملاقات ہوئی… خیال آیا کہ پوری بات پوچھ لوں مگر دل رونے لگا… آنکھیں گیلی
ہو گئیں… حضرت آقامدنیﷺ کی شان اطہر و اقدس میں گستاخی کی بات کیسے پوچھوں، کیسے
سمجھوں، کیسے سنوں؟… بہت مشکل ہے، بلکہ ناممکن ہے…اخبار وغیرہ پر جب اس طرح کی کوئی
خبر نظر آتی ہے… میں آنکھیں پھیر لیتا ہوں… بس اتنا معلوم ہوا کہ… برطانیہ کی ایک
انگریز عورت نے اس خباثت کا آغاز کیا… اور پھر پاگل کتے جمع ہو کر جہنّم کے
انگارے جمع کرنے لگے… برباد ہو جاؤ گے ظالمو!… دنیا میں بھی ذلت پاؤ گے… اور پھر
وَلَعَذَابُ
الْاٰ خِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰی (طہ ۱۲۷)
اور
آخرت کا عذاب بہت سخت ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے…
ان
سے جانور اچھے
ایک
تمثیلی حکایت ہے کہ… جنگل کے جانوروں کا ایک جلسہ ہوا… طے یہ کرنا تھا کہ کونسا
جانور سب سے زیادہ’’بے حیا‘‘ بدبودار اور گندہ ہے… مختلف جانوروں کے نام آئے اور
طرح طرح کے دلائل آئے… بالآخرطے پایا گیا کہ خنزیر یعنی’’سؤر‘‘ سب سے زیادہ بے
حیا، بدبودار اور گندہ جانور ہے… صدر جلسہ جب اس نتیجے کا اعلان کرنے کھڑا ہوا تو
ایک بہت بوڑھا خنزیر کھڑا ہو گیا… اوربولنے کی اجازت چاہی… صدر جلسہ نے اجازت دے دی…
بوڑھے سؤر نے کہا جناب میں نے بچپن اور جوانی کا اکثر حصّہ یورپ میں گزارا ہے…
کچھ انگریز مجھے جنگل سے پکڑ کے لے گئے تھے اور پھر ایک انگریز گھرانے نے مجھے
پالا پوسا… جناب والا! وہاں میں نے انگریز مردوں اور عورتوں کی جو بے حیائی، بدبو
اور گندگی دیکھی… اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا… خود مجھے اُس گھر میں صاحب
خانہ سے زیادہ حقوق حاصل تھے… مگر میں تو اس بے حیائی اور گندگی سے تنگ آگیا…
وہاں ایک دو کتے بھی تھے وہ بھی اکثر یہی شکایت کرتے تھے… بالآخر جب معاملہ حد سے
بڑھ گیا تو ایک رات میں چپکے سے بھاگ نکلا… اس کے بعد اُس بوڑھے سورنے انگریزوں کے
کچھ واقعات سنائے تو پورے جلسے میں شیم شیم اور توبہ توبہ کی آوازیں گونجنے لگیں…
اور پھر صدر جلسہ نے یہ اعلان کر دیا کہ… دنیا میں سب سے بے حیا، بدبودار اور گندی
نسل انگریزوں کی ہے… جبکہ خنزیر تو اُن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں… سنا ہے
کہ… گستاخانہ خاکوں کی اس نئی مہم کا آغاز… ایک انگریز عورت نے کیا ہے… ایک بے حیاء،
بدبودار، نجس اور ناپاک عورت سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟…
اﷲ
تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے
دل
زخمی تھا اور آنکھیں اس وحشتناک خبر سے بچنے کی کوشش میں تھیں کہ… کابل میں ایک
فدائی مجاہد نے اپنی گاڑی نیٹو فورسز کے ایک خصوصی دستے سے ٹکرا دی… اس حملے میں کینیڈا
کا ایک کرنل… اور امریکہ کے تین کرنل اور کئی فوجی مارے گئے… اور بہت سے زخمی ہو
کر اپنے ملکوں کو واپس ہوئے… یہ ایک ایسا حملہ تھا جس میں اﷲ تعالیٰ کی خاص مدد ہر
پہلو سے بالکل واضح نظر آرہی ہے… اﷲ اکبر کبیرا… صرف ایک مجاہد اور پھر اُس کے
سامنے کفر کے بڑے بڑے سرداروں کی بکھری لاشیں… یہ ہے ’’احتجاج‘‘ کا درست اور مفید
طریقہ… اور یہ ہے عشق رسولﷺ کا بالکل صحیح اظہار… اگر تمام مسلمان اسی راستے کو
اختیار کر لیں تو خاکے بنانے والے خاک میں مل جائیں گے… اور پھر کسی کو ہمت نہیں
ہو گی کہ… وہ ایسی قیامت خیز گستاخی کا ارتکاب کر سکے… افغانستان کے طالبان نے اس
حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے… اﷲ تعالیٰ اُ س مجاہد کی شہادت قبول فرمائے اور
اُسے پوری اُمتِ مسلمہ کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطاء فرمائے… آمین…
احتجاج
کریں مگر گستاخی نہ پھیلائیں
جہنّمی
کیڑے ماضی میں بھی اس لرزہ خیر گناہ کا ارتکاب کر چکے ہیں… خود رسولِ اقدس ﷺ کے
مبارک زمانے میں بعض’’بدبختوں‘‘ نے گستاخی کا ارتکاب کیا… الحمدﷲ، الحمدﷲ ان میں
سے اکثر مارے گئے… اور کچھ نے سچی توبہ کر لی… ہمیں سیرت اورتاریخ کی کتابوں میں…ان
ناپاک لوگوں کے نام تو ملتے ہیں کہ… کوئی’’ابن خطل‘‘ تھا کوئی کعب بن اشرف… اور
کوئی عصماء یہودیہ… مگر یہ لوگ کیا گستاخی بکتے تھے اس کا کوئی تذکرہ سیرت اور تاریخ
کی کتابوں میں نہیں ہے… وجہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان بطور نقل کے بھی اپنی زبان پر
حضرت آقا مدنیﷺ کی گستاخی نہیں لا سکتا…چنانچہ ان بے ہودہ لوگوں کی گستاخیوں کو
نہ کسی نے نقل کیا اور نہ پھیلایا… آج بھی مسلمانوں پر لازم ہے کہ… گستاخی کے ان
خاکوں اور باتوں کو نہ پھیلائیں… کوئی بھی ان خاکوں کو نہ دیکھے اور نہ دوسروں کو
دکھائے… اورنہ ان کا بہت زیادہ تذکرہ کیا جائے… البتہ اپنے احتجاج کو مؤثر بنانے
کے لئے’‘قربانی‘‘ دی جائے صرف رسمی جلسے، اجتماعات اور شور شرابے سے کام نہیں بنے
گا…
فیس
بُک اور یو ٹیوب
انٹرنیٹ
کی جن د وویب سائٹوں نے یہ ظلم کیا ہے… اُن دونوں کو حسب استطاعت نقصان پہنچایا
جائے… آسان طریقہ تو یہ ہے کہ مسلمان ان دونوں سائٹس پر جاناہی چھوڑ دیں… جس جگہ
آقا محبوب مدنیﷺ کی گستاخی بکی جاتی ہو ایک مسلمان اُس جگہ کس طرح جا سکتا
ہے؟…بہت سخت دینی مجبوری کے علاوہ ان سائٹس پر’’وزٹ‘‘ کرنا چھوڑ دیں… ویسے تو کمپیوٹر
اور انٹرنیٹ ہی ہم مسلمانوں کے ایمان کا دشمن ہے… فیس بک اور یوٹیوب کو اور کس کس
طرح سے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے یہ بات… کمپیوٹر کے ماہرین اچھی طرح سمجھتے ہیں…
اﷲ تعالیٰ ہمت اور توفیق عطاء فرمائے…
مسلمان
حکمران؟
اسلامی
ملکوں کے جتنے بھی حکمران ہیں… یہ سب اپنے آپ کو’’بڑا مسلمان‘‘ سمجھتے ہیں… ہمارے
مُلک پر تو پیروں، گدّی نشینوں اور صاحبزادوں کی حکومت ہے… کیا ان لوگوں کا حضرت
آقا مدنیﷺ سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟… کوئی ظلم ہو، کوئی گستاخی ہو ان کے منہ بند اور
زبانیں خاموش رہتی ہیں… یہ چاہیں تو فیس بک اور اس جیسی تمام سائٹس کو اپنے ممالک
میں’’بینڈ‘‘ کر دیں… مگر یہ تو صرف مجاہدین اور دینداروں کو ’’بینڈ‘‘ کرتے ہیں… ان
ہی لوگوں نے اسلامی ملکوں میں فسادات کی آگ بھڑکارکھی ہے… دو دن سے’’وزیر داخلہ‘‘
کی زبان مجاہدین پر قینچی کی طرح چل رہی ہے… اگر اس طرح کے بیانات اور اقدامات سے
امن قائم ہو سکتا ہے تو پھر وہ کب کا قائم ہو گیا ہوتا… معین الدین حیدر اور فیصل
صالح حیات بھی یہی زبان بولتے بولتے چلے گئے… پرویز مشرف نے بھی اندھی طاقت اور
گندی زبان خوب استعمال کی… مگر حالات تو بد سے بدتر ہو تے جارہے ہیں…ہمارے لئے تو
آمریت اور جمہوریت سب ہی’’مصیبت‘‘ بن کر آتے ہیں… اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو
’’خلافت‘‘ کی نعمت عطاء فرمائے… جمہوریت کا تذکرہ آیا تو ایک اہم بات یاد آگئی…
کالم
نگار کی بے وقوفی
برطانیہ
کے حالیہ انتخابات میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی کوئی’’وکیلنی‘‘ پارلیمنٹ کی رکن
منتخب ہو گئی ہے… یہ خاتون آج کل اپنے تیسرے خاوند کے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہے
اور وہاں کی شہری ہے… پاکستان کے ایک کالم نویس نے اس خاتون کی شان میں پورا ایک
کالم لکھا ہے… اس کالم میں پہلے تو ’’خاتون‘‘ کے ذاتی حالات لکھے ہیں کہ… اب تک کس
کس خاوند کو طلاق دے چکی ہے … اور کون کون سے تنازعات کا شکاررہی ہے… اس کے بعد
لکھتے ہیں کہ… ذاتی کمزوریوں کے باوجود اس خاتون نے محنت جاری رکھی اور چونکہ اُس
کاراستہ’’سیدھا‘‘ تھا چنانچہ وہ اتنی عظیم منزل تک پہنچ گئی… کاش ڈاکٹر عافیہ صدیقی
بھی غلط راستہ اختیار نہ کرتیں… بلکہ اسی خاتون کی طرح سیدھے راستے پر چلتی تو شاید
وہ بھی آج امریکہ میں’’رکن پارلیمنٹ‘‘ہوتی…
انا
ﷲ وانا الیہ راجعون…انا ﷲ وانا الیہ راجعون
کتنی
ظالمانہ، فاسقانہ اور فضو ل بات ہے… کہاں ایک حُور اور کہاں ایک لنگور… کہاں فرشتہ
اور کہاں شیطان… کہاں حیاء کا مقدّس آبگینہ… اور کہاں بے پردگی کا گٹر… کہاں ایمان
و عزیمت کا زندہ شاہکار… اور کہاں غلامی اور مادہ پرستی کا انبار… محترمہ عافیہ صدیقی
صاحبہ کی زندگی کا تو ایک ایک لمحہ عبادت ہے… کیونکہ جو مسلمان دین کے راستے میں
کافروں کے ہاتھوں قید ہو جاتاہے وہ اﷲ تعالیٰ کے راستے کا معتکف بن جاتا ہے… کہاں
وہ عافیہ جس کو مجبوری کی تلاشی بھی گوارہ نہیں… اورکہاں غیر مردوں کے درمیان آٹے
کی بوری کی طرح بھاگتی لڑھکتی بیرسٹر شبانہ… مگر کیا کریں آج کل ہمارے کالم نویسوں
کے دماغ پر’’مادہ پرستی‘‘ حد سے زیادہ سوار ہو چکی ہے… یہ مسلمان ہیں مگر کافروں
کے حق میں کالم لکھتے ہیں… جب دجّال آئے گا تو یہ لوگ شاید بھاگ بھاگ کر اُس کے
ساتھ شامل ہوں گے… کیونکہ دجّال تو ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کا بادشاہ ہو گا… آج
کی جس سائنس اور ٹیکنالوجی کو یہ کالم نویس سجدے کر رہے ہیں وہ سائنس تو کسی بوڑھے
کو جوان نہیں کر سکتی… جبکہ دجّال تو مُردوں کو زندہ کر دے گا… یہ بے چارے کالم نویس
تو بل گیٹس کی دولت پررال ٹپکاتے کالم لکھتے ہیں جبکہ… دجّال کی دولت تو کسی گنتی
اور شمار میں بھی نہیںآسکے گی… ایک کالم نویس نے… امریکہ کی ایک کافرانہ یونیورسٹی
کی تعریف میں کالم لکھا تو … پوری امت ِمسلمہ کے ’’ماموں‘‘ حضرت سیدنا امیر معاویہذ
کی شان میں گستاخی بک دی… میں اکثر سوچتا ہوں کہ… ان کالم نگاروں نے ’’کامیابی‘‘
کا جو معیار مقرر کررکھا ہے… اُس کی رو سے تو فرعون، قارون، نمرود… اور ابوجہل سب
کامیاب تھے… جبکہ سیدنا ابراہیم ح سیدنا نوح ح اور دیگر انبیاء د کی زندگیاں توبہت
مشقت اور تکالیف میں گزریں… توخود کو مسلمان کہلوانے والے یہ کالم نویس قرآن پاک
کاکس طرح سے مطالعہ کرتے ہوں گے؟… اﷲ تعالیٰ ان بے رنگ لفافوں کے شر سے مسلمانوں کی
حفاظت فرمائے… ان میں بعض کالم نگار تو بہت رنگ برنگے ہیں… چار کالم مادہ پرستی کے
حق میں لکھ کر… پھر ایک اسلامی کالم لکھ مارتے ہیں… اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان سے
بڑا غیرت مند مسلمان اور کوئی نہیں ہے… اور تعجب کی بات یہ ہے کہ… بعض کالم نویس
مکمل انگریزی زندگی گزارتے ہیں… اور اپنے گھروں میں ہر غیر ملکی چیز استعمال کرتے
ہیں… اور پھر پیسے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بائیکاٹ پر کالم بھی لکھتے ہیں…
حالانکہ وہ جس قلم سے کالم لکھ رہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ہوتا
ہے… دراصل یہ لوگ سادہ دل مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں… اور قوم کو بیوقوف
بنانے کی کوشش کرتے ہیں… اﷲ تعالیٰ ہم سب کو’’حق‘‘ دکھائے اور’’حق‘‘ پر چلائے …
آمین
یا حقُّ یا رحمَنُ یا ارحم الراحمین
اللھم
صلی علیٰ سیدنا و مولانا محمد عدد مافی علم اﷲ صلوٰۃ دائمۃ بدوام ملک اﷲ عزوجل و
بارک وسلم تسلیما کثیر ا کثیرا
٭…٭…٭
دروازہ
سب کے لئے کھلا ہے
اﷲ تعالیٰ زیادہ توبہ کرنے والوں سے’’محبت‘‘
فرماتاہے
اِنَّ
اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ (البقرہ ۲۲۲)
ترجمہ:
بے شک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتاہے:
سبحان
اﷲ!گناہ گاروں کے لئے کتنی عظیم بشارت ہے کہ… توبہ کریں اور اﷲ تعالیٰ کے
’’محبوب‘‘ بن جائیں… شیطان کہتا ہے کہ… کب تک تمہاری توبہ قبول ہو گی؟… روز توبہ
توڑتے ہو… اب توبہ کرنا چھوڑ دو، توبہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے… گناہ تم سے نہیں
چھوٹ سکتے… تم تو ہو ہی بد نصیب… اس لئے یہ روز روز کا توبہ کرنا اور پھر اُسے توڑ
کر پھر توبہ کرنا بس کرو… میرے سامنے ہتھیار ڈالو اور خود کو بدنصیب سمجھ کر
گناہوں میں ڈوب جاؤ… یہ ہے شیطان کا سبق… مگرہمارا عظیم رب سمجھاتا ہے کہ… توبہ
کرتے رہو، توبہ کرتے رہو… تائب بنو، توّاب بنو… جتنا بڑا گناہ ہو جائے فوراً بھاگ
کر میرے پاس آکر توبہ کرو… تمہارا کوئی گناہ میری رحمت سے بڑا نہیں ہے… توبہ
توڑنے کا گناہ ہو گیا تو ا س گناہ پر بھی توبہ کرو… ایک دن میں ستّر بار توبہ ٹوٹے
تو… ہر بار سچی توبہ کرتے رہو… تم جتنی زیادہ توبہ کرو گے اُتنے میرے محبوب بنو
گے…
اِنَّ
اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ (البقرہ ۲۲۲)
بے
شک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے
جب
گناہ بار بار ہو … توبہ بار بار ٹوٹے تب بھی… بندہ اﷲ تعالیٰ سے نہ بھاگے بلکہ
روتے روتے اُس کے سامنے گرپڑے… وضو کر کے کسی مسجد کے کونے میں جا بیٹھے… اور نیک
لوگوں کی صحبت اختیار کرے… اﷲ تعالیٰ سے بھاگ جانا’’محرومی‘‘ ہے… اور اﷲ تعالیٰ کی
طرف بھاگ پڑنا سعاد ت ہے…
فَفِرُّوْٓا
اِلَی اﷲِ (الذاریات ۵۰)
ترجمہ:
پس اﷲ تعالیٰ کی طرف دوڑو
یعنی
گناہ ہوتے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف بھاگو کہ… اے عظیم مالک پھر ظلم ہو گیا… میں نے اپنی
جان پر ظلم کر ڈالا… آپ مجھے بخش دیجئے… شیطان روکے گا مگر اُس ملعون کی باتوں میں
نہ آئیں… اور اﷲتعالیٰ کی طرف دوڑ پڑیں… اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے گر پڑیں… ؎
سنبھل
کر یوں تو ہم گزرے کسی کی راہ میں لیکن
کچھ
ایسے بھی مقام آئے کہ گر پڑنا ہی کام آیا
قرآن
پاک میں ’’توبہ‘‘ کا لفظ عام طور سے دو معنی پر آیا ہے
(۱) کسی بندے کا گناہوں کو چھوڑ دینا
وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ
وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰے
(طہ ۸۲)
ترجمہ:بے شک میں بڑا بخشنے والاہوں
اُس کو جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے کام کرے پھر ہدایت پر قائم رہے۔
(۲ )اﷲ تعالیٰ کا بندے کی توبہ کو قبول فرمانا
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْ ا
وَاَصْلَحُوْ وَبَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ (البقرہ ۱۶۰)
ترجمہ: مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی
اور اصلاح کر لی اور(اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو) ظاہر کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں
اُن کی توبہ قبول کرتا ہوں…
جب
بندہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے… یعنی گناہ چھوڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی اُس پر توبہ
فرماتا ہے… یعنی اُس کی واپسی کو قبول فرما لیتا ہے…
پھر
دیر کس بات کی؟… ہم سب کو فوراً توبہ کے لئے اٹھ کھڑا ہو نا چاہئے… اور معافی کے
پورے یقین کے ساتھ توبہ کرنی چاہئے… ہم کیوں اپنے اوپر ’’رحمت‘‘ کے دروازے بند کریں…
اور یہ سوچیں کہ میرا معاف ہونا مشکل ہے… استغفراﷲ، استغفراﷲ… ایسا سوچنا بہت بری
بات ہے کیونکہ…اﷲ تعالیٰ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے…
میں
اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے کہتا ہوں کہ… اپنی ذات پر رحم کھائیں… جی
ہاں ہم سب اپنے اوپر رحم کھائیں اور خود کو عذاب سے بچانے کے لئے … تمام گناہوں سے
توبہ کرلیں… اور پھر سب سے پہلا کام یہ کریں کہ… اپنی نماز کو بالکل ٹھیک کر لیں…
باجماعت، مکمل اہتمام، پوری محبت، مکمل توجہ… اور لذّت و شوق کے ساتھ نمازیں ادا
کریں… ارے بھائیو! نماز تو جنت کی حُور سے زیادہ لذیذ اور میٹھی ہے… یہ کیا ہو
جاتا ہے کہ مسلمان ہو کر نماز میں غفلت کرنے لگتے ہو… اﷲ کے لئے ایسانہ کرو… اﷲ
تعالیٰ نے خود ہمیں پانچ وقت اپنے عالی شان دربار میں حاضر ی کے لئے بُلایا ہے…جی
ہاں بہت تاکید سے بُلایا ہے…
مسلمان
اور نماز میں سستی… یہ دو باتیں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں… مسلمان نماز میں تب ہی
سست ہوتا ہے… جب شیطان اُسے کفر کے جراثیم کا انجکشن لگا دیتا ہے… یا اُسے نفاق کا
زہر پلا دیتا ہے… مجھے جب کوئی مسلمان مرد یا عورت یہ لکھتے ہیںکہ… ہم سے نماز میں
سستی ہوتی ہے تو میرے دل پر ایک مکّا سا لگتا ہے …مسلمان اور نماز میں سستی… ہائے یہ
کیسے ہو گیا؟… نماز میں سستی تو منافق کر سکتا ہے… مسلمان ہر گز نہیں… کیونکہ نماز
دین میں اسی طرح ہے جس طرح جسم میں سر… کیا بغیر سر کے کوئی زندہ رہ سکتا
ہے؟…معلوم نہیں کیا مصیبت آئی کہ… مسلمان عورتیں تک’’نماز‘‘ میں سستی کرتی ہیں…
حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ… مسلمان عورتوں کوتو نماز سے عشق ہوتا تھا… توبہ کرو میری
بہنو! توبہ کرو… مسلمان عورت نماز میں سکون اور قرار پا تی ہے اور وہ نماز میں ہر
گز سستی نہیں کر سکتی… بلکہ وہ تو اپنا ہر مسئلہ نماز کے ذریعہ حل کراتی ہے… یہ
بازاروں میں جانے کی نحوست ہے… کیا آج کل کے بازار اس قابل ہیں کہ کوئی مسلمان
بہن ان میں جا سکے؟… میری بہنو! اﷲ کے لئے، اﷲ کے لئے بازار جانا چھوڑ دو… بہت ہی
سخت مجبوری میں جانا پڑے تو صرف اور صرف خاوند کے ساتھ جاؤ… نہ والد کے ساتھ نہ
بھائی اور بیٹے کے ساتھ… صرف خاوند کے ساتھ… اور مسلمان خاوندوں سے گزارش ہے کہ وہ
اپنی بیویوں کو بازار لیکر ہی نہ جائیں… بلکہ سارا سامان خود لاکر دیا کریں… یاد
رکھیں اگر جوان عورتیں بازاروں میں جاتی رہیں تو بہت کچھ تباہ ہو جائے گا… ہماری
مسلمان بہنیں بہت اونچے مقام والی ہیں… ان کا یہ کام نہیں ہے کہ… بازار جا کر
مَردوں سے خرید و فروخت کریں… یا موبائل فون پر اپنا وقت برباد کریں… آج کی مسلمان
عورت نماز کی لذت اور طاقت سے محروم ہوئی ہے تو اس کی بڑی وجہ… بازاروں میں جانا
اور موبائل کا ناجائز یا فضول استعمال کرنا ہے… میری بہنو! قبریں منہ پھاڑکر
انتطار کر رہی ہیں… کچھ عرصہ پہلے ایک بزرگ کے پاس جانا ہوا… وہاںمعلوم ہوا کہ کچھ
دن پہلے یہ بزرگ بہت پریشان اور غمگین ہو گئے تھے… ان کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور
ہرو قت آنسو جاری رہتے تھے… لوگوںنے بہت پوچھا تو بالآخر بتایا کہ… گاؤں کے
قبرستان میں ایک عورت پر عذاب ہو رہا ہے… اُس کے عذاب کی شدّت نے میری یہ حالت بنا
دی ہے… پھر اُن بزرگوں نے اور تمام اہل مسجد نے خوب گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں… تب
وہ عذاب کا سلسلہ ٹھنڈا ہوا… کہاں گئیں سجدوں میں رونے والی عبادت گزار خواتین؟…
کہاں گئیں حیاء کی پیکر وہ خواتین جنہوں نے پردے کو رب تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر… دل
سے قبول کیا اورپھر اپنے چہرے ، کانوں اور آنکھوں کی ہرگناہ سے حفاظت کی… اے
مسلمان بہنو! نماز کا معاملہ ٹھیک کر لو…ہر برائی اور بے حیائی سے طبیعت خود متنفر
ہو جائے گی… نما زکے لئے خوب پاکی، اوقات کی پابندی… اور آداب کی رعایت… اختیار
کرو… آپ کا اپنا ہی فائدہ ہو گا… آپ کی اولاد کا فائدہ ہوگا… کل کے دن تو کوئی
کسی کے کام نہیں آسکے گا…حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی ’’بیویاں‘‘
جہنم میں دھکیلی جا رہی ہوں گی… اُن کو اپنی ناک، عزت، زبان اور چالاکیوں نے برباد
کر دیا… قرآن پاک پڑھنے والا ہر مسلمان اُن دو عورتوں کے کُفر اور بُرے انجام کو
بیان کرتا ہے… حالانکہ وہ سمجھتی تھیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں اور زمانے کے تقاضوں
کا خیال رکھتی ہیں… انہوں نے اپنی قوم اور برادری کو خوش رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ
کو ناراض کیا… اپنے پیغمبر خاوندوں کی ناقدری کی… پتہ نہیں قوم اور برادری اُن سے
خوش ہوئی یا نہیں… مگریہ بات پکّی ہے کہ وہ دونوں ہزاروں سال سے عذاب میں جل رہی ہیں…
اور قیامت کے دن اُن کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا… توبہ ، توبہ ،توبہ میرے مالک…
آپ کی پناہ عذاب قبر سے… آپ کی پناہ آخرت کے عذاب سے… مجاہدین سے خاص طور پر
درخواست ہے کہ… نمازوں کا معاملہ بہت ٹھیک کریں… باجماعت، لمبی لمبی، خشوع خضوع
والی نمازیں… تب آپ کے جہاد میں عجیب برکت ہو گی… اور اس برکت سے پوری اُمتِ
مسلمہ کو فائدہ ملے گا… نمازوں میں غفلت او ر سستی کرنے والے مجاہدین زیادہ
عرصہ’’مخلص جہاد ی قافلے‘‘ کے ساتھ نہیں چل سکتے… وہ یا تو دنیاداری کی مصیبت میں
مبتلا ہو جاتے ہیں… یا پھر کسی اور فتنے کا شکار ہو جاتے ہیں… العیاذ باﷲ، العیاذ
باﷲ…
توبہ دراصل’’روحانی پاکی‘‘ کا نام ہے… یہ انسان
کے اندر کی میل کچیل اور گندگیوں کو دور کر دیتی ہے… توبہ کا دروازہ چوبیس گھنٹے
کُھلا رہتاہے… جب تک موت کا ’’غرغرہ‘‘ شروع نہ ہوجائے انسان کی توبہ قبول ہوتی ہے…
توبہ کے بہت سے فائدے ہیں… مثلاً
(۱) توبہ کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی محبت نصیب ہو جاتی ہے…
(۲) توبہ کرنے سے گناہ مٹ جاتے ہیں، اُن کے اثرات ختم ہو جاتے
ہیں… اور بسا اوقات وہ گناہ بھی نیکیاں بنا دیئے جاتے ہیں…
(۳) توبہ سے انسان کو فلاح اور کامیابی ملتی ہے…
وَ
تُوْبُوْٓ ااِلَی اﷲِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ
تُفْلِحُوْنَ (النور ۳۱)
سچی
توبہ کے لئے کچھ شرطیں ہیں… صرف زبان سے توبہ توبہ کہنا کافی نہیں ہے… ان چند چیزوں
کا لحاظ رکھ کر توبہ کریں تو وہ توبہ انشاء اﷲ قبول ہوتی ہے…
(۱) اخلاص… یعنی توبہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائے… بہت سے
لوگ صرف اس لئے توبہ کرتے ہیں کہ… دنیا میں اُن پر کوئی مصیبت نہ آجائے…
(۲) ندامت… یعنی اپنے گناہ پر نادم اور شرمندہ ہونا…
(۳) اقلاع… یعنی اُس گناہ کو چھوڑ دینا…
(۴) عزم… یعنی آئندہ گناہ نہ کرنے کی مضبوط نیت رکھنا…
(۵) وقت… یعنی موت کی سکرات شروع ہونے سے پہلے پہلے تو بہ کر لینا…
ہم
سب کو چاہئے کہ… ان پانچ باتوں کا لحاظ رکھ کر اپنے تمام گناہوں سے آج ہی توبہ کر
لیں… اگر خدانخواستہ توبہ کی ہمت نہیںہو رہی تو… ہر نماز کے بعد یہ دعاء شروع کردیں
کہ… یا اﷲ مجھے سچی توبہ کی توفیق نصیب فرما… جب رو رو کر عاجزی کے ساتھ توبہ کی
دعاء کریں گے تو… انشاء اﷲ توبہ کا سکون بھرا دروازہ ہمارے لئے کُھل جائے گا… جب اﷲ
تعالیٰ کسی بندے کو توبہ کی توفیق دیتے ہیں… اور پھر اُس کی توبہ قبول بھی فرما لیتے
ہیں تو… کچھ ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ… اس بندے کی
توبہ قبول ہو چکی ہے… اور یہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کا مستحق بن چکا ہے…
اُن
علامات میں سے چند یہ ہیں…
(۱) اچھی صحبت… توبہ قبول ہونے کی بڑی علامت یہ ہے کہ… انسان کو
صدیقین، مجاہدین… اور صالحین کی صحبت نصیب ہو جاتی ہے… اور بُرے دوستوں سے جان
چھوٹ جاتی ہے… یاد رکھیں اچھی صُحبت ہزاروں نیک اعمال کو آسان بنا دیتی ہے…
(۲) نیکیوں کی رغبت… توبہ قبول ہو جائے تو دل نیکیوں کی طرف
راغب ہوتا ہے اور گناہوں سے اُسے وحشت ہو تی ہے…
(۳) حُبِّ دنیا سے چھٹکارا… توبہ قبول ہونے کے بعد انسان کا
رُخ دنیا سے ہٹ کر آخرت کی طرف ہو جاتا ہے… یعنی اُس کا اصل مقصود اﷲ تعالیٰ کی
رضا اور آخرت کی تیاری بن جاتا ہے… دنیا اُس کے ہاتھ میں تو رہتی ہے مگر اُس کے
دل میں اُتر کر اُس کا مقصود نہیں بن جاتی کہ… بس اُسی کی خاطر جیتا مرتا ہو…
اے
مسلمانو! توبہ کا دروازہ سب کے لئے کُھلا ہے… اﷲ تعالیٰ جو ہماراعظیم رب ہے خود ہم
سب کو توبہ کے لئے بُلا رہا ہے… کوئی ڈاکو ہو یا چور… کوئی شرابی ہو یا زانی… کوئی
جھوٹا ہو یا فریبی… کوئی خائن ہو یا قاتل… کوئی جواری ہویا نشئی
قُلْ
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ
رَّحْمَۃِ اﷲِ اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَا لْغَفُوْرُ
الرَّحِیْمُ (الزمر ۵۳)
فرما
دیجئے! اے میرے بندو! جنہوںنے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس
نہ ہو، بے شک اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے…
سبحان
اﷲ! کسی کے لئے توبہ کا دروازہ بند نہیں… نہ کسی مشرک کے لئے اور نہ کسی کافر کے
لئے… وہ بھی توبہ کر کے ایمان قبول کر سکتے ہیں… اور نہ کسی کبیرہ گناہ کرنے والے
مسلمان کے لئے… آؤ! سارے آجاؤ… رب کی رحمت کی طرف، رب کی مغفرت کی طرف… اور رب
کی جنت کی طرف… یا اﷲ ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق عطاء فرما… اورہم سب کی توبہ
قبول فرما… اور ہم سب کو’’توّابین‘‘ میں سے بنا… آمین یا غَفَّاْر یا غَفُوْر یا
توَّابْ یاَ عَفُوَّیاَ رؤفُ یاَ ارَحم الَراحمین… آج کی مجلس کا اختتام کرنے سے
پہلے اس آیت مبارکہ پر’’کلام برکت‘‘ بھی پڑھ لیتے ہیں… یعنی حضرت شاہ عبدالقادرپ
کی تفسیر… آپ پ فرماتے ہیں…
’’جب اﷲ تعالیٰ
نے اسلام کو غالب کیا… جو کفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے کہ لاریب(یعنی بلاشبہ)
اُس طرف’’اﷲ‘‘ ہے… یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر پچھتائے لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ
ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو گی؟… دشمنی کی، لڑائیاں لڑے اور کتنے
خداپرستوں کے خون کئے، تب اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی
توبہ اﷲ تعالیٰ قبول نہ کرے، ناامید مت ہو، توبہ کرو، اور رجوع کرو، بخشے جاؤ گے،
مگر جب سر پر عذاب آیایا موت نظر آنے لگی، اُس وقت کی توبہ قبول نہیں‘‘ (موضح ا
ز تفسیر عثمانی)
ہم
مسلمانوں سے شکست کھا کر جانے والے… سوویت فوجی اور حکمران… او ر عراق اور
افغانستان میں ہم مسلمانوں کے ہاتھوںشکست اور زخم کھا کر واپس جانے والے اتحادی
فوجی… اس آیت مبارکہ… سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں کہ… توبہ کر کے ایمان قبول کر لیں…
ان لوگوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہے…
ورنہ اتنی خوفناک عسکری طاقتوں کو نہتے مجاہدین کے سامنے اتنی بے بسی محسوس نہ ہوتی…
اللھم
صلِ علیٰ سیّدنا محمد النبی الامی المجاہد صاحب الغزوات وعلیٰ الہ وصحبہ وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
ایک
پیارا خاندان
اﷲ
تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے… آج چندباتیں مختصر طور پر عرض کرنی ہیں…
تبدیلی
ہو سکتی ہے
پاکستان
کے داخلی اور خارجی حالات کافی خراب ہوچکے ہیں… ملک کے تمام خزانے تقریباً خالی ہیں…
زرّ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے خرچ ہو رہے ہیں… بیرونی قرضہ اتنا ہو چکا ہے کہ اُسے
ادا کرنے میں پورا ملک گروی رکھا جائے تب بھی کام نہ بنے… حکمرانوں کو پتہ ہے کہ یہ
حکومت’’فانی‘‘ ہے اس لئے وہ اندھا دُھند مال جمع کر رہے ہیں… مہنگائی نے قوم کی
گردن توڑ رکھی ہے… ملکی تجارت آزاد ہو چکی ہے، جو چاہتا ہے مہنگائی بڑھا دیتا ہے…
امریکہ کے مطالبات حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں… اب اُس کا مطالبہ ہے کہ ایٹمی پروگرام
ختم کرو، انڈیا سے یاری لگاؤ اور کشمیر کو بھول جاؤ… ملک میں تین ادارے الگ الگ
حکومت کر رہے ہیں… فوج، عدالت اور وفاقی حکومت… حکمرانوں کی یہ حالت ہے کہ… امریکہ
اور انڈیا سے مذاکرات کے دوران اُن کا ہر مطالبہ قبول کر کے آجاتے ہیں… ان
مطالبات کو پورا کرنے کے لئے فوج کو جگہ جگہ لڑنا پڑتا ہے… اس لڑائی میں فوجی جوان
مارے بھی جاتے ہیں … اور افسروں کے خواب بھی چکنا چور ہوتے ہیں… فوج میںتو لوگ
روشن مستقبل کے لئے بھرتی ہوتے ہیں… کوئی اپنے ملک والوں سے لڑنے مرنے کوتو نہیں
آتا… فوج اب اس صورتحال سے تنگ آچکی ہے… عدلیہ اپنی آزادی کا زور لگا رہی ہے…
مگر اُس کے مقابلے میں فوم کے گدّے ہیں جو زور دیا جائے تو دبتے جاتے ہیں مگر جیسے
ہاتھ ہٹایا جائے واپس پہلے جیسے ہوجاتے ہیں… عدلیہ چینی سستی کرتی ہے مگر بازار میں
عدلیہ کی نہیں پولیس کی چلتی ہے… اور پولیس کو وزیر داخلہ صاحب چلاتے ہیں جن کی
اپنی تین سالہ سزا ابھی صدر نے معاف کی ہے… قانونی زبان میں سزا یافتہ آدمی کو
’’مجرم‘‘کہا جاتا ہے… اور اگرکیس چل رہاہو اور ابھی سزا نہ ہوئی ہو تو
اُسے’’ملزم‘‘ کہتے ہیں… کراچی میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا سلسلہ تیزی سے چل رہا ہے… لوگ
دھڑا دھڑ مارے جارہے ہیں… اور اُدھر بلوچستان میں بھی روزانہ آٹھ دس لاشیں گرتی ہیں…
ان تمام حالات کو دیکھ کر… محسوس ہوتا ہے کہ شاید ملک میں کوئی بڑی تبدیلی ہو
جائے… جب ہر طرف آپریشن چل رہے ہوں تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے… دعاء کریں جو کچھ
ہو خیر والا ہو… اور اگر کوئی تبدیلی ہو تو… وہ اُمتِ مسلمہ اور اہل پاکستان کے
لئے خیر کا پیغام لائے… یا اﷲ رحمت فرما…
رجب
اور شعبان کی دعاء کا اہتمام
آج
الحمدﷲ’’ رجب ‘‘ کی ایک تاریخ ہے… رجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے… اور یہ
حُرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے… چنانچہ آج کی ہجری اسلامی تاریخ یوںلکھی
جائے گی یکم رجب ۱۴۳۱ھ… آپ سب سے گزارش ہے کہ رجب اور شعبان کے مہینے میں اس
بابرکت مسنون دعاء کا خوب اہتمام فرمائیں…
اللّٰھُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
اس
دعاء کی برکت سے انشاء اﷲ… رجب اور شعبان کے مہینے کی برکات بھی نصیب ہوں گی… اور
رمضان المبارک بھی اچھا گزرے گا…
کچھ
اپنی فکربھی
الحمدﷲ
مرکز عثمانؓ و علیؓ میں’’دورۂ تربیہ‘‘ پابندی سے جاری ہے… اس دورۂ میں شرکت کرنے
والے خوش نصیب افراد عجیب ایمان افروز تأثرات کا اظہار کرتے ہیں… ایک صاحب نے
مجھے لکھا کہ’’دورۂ تربیہ‘‘ تو ماشاء اﷲ اپنے اندر کا ’’ایکسرے‘‘ ہے… دوسرے تیسرے
دن ہی اپنی تمام برائیاں سامنے آجاتی ہیں… اور اُن کے ازالے اور اصلاح کی فکر دل
میں پیدا ہو جاتی ہے… اکثر لوگوں کے ایسے ہی تاثرات ہوتے ہیں… مگر کچھ لو گ کسی
جگہ اور کسی بھی ماحول سے فائدہ نہیں اٹھاتے… اُن کو صرف تنقید کرنے اور دوسرے کے
عیب دیکھنے کا شوق ہوتا ہے… اُن کے کان ہر وقت تنقید سننے کے لئے… اور اُن کی زبانیں
ہر کسی پر اعتراض کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں… کراچی کے ایک صحافی اتفاقاً حج کرنے
گئے تو واپسی پر وہاں کے تمام معاملات پر ایک تنقیدی مضمون لکھ مارا… حضرت لدھیانوی
شہیدپ نے اُس مضمون کا دندان شکن جواب تحریرفرمایا… اسی طرح کے ایک تنقیدی مزاج
شخص نے دورہ ٔتربیہ میں شرکت کے بعد … مجھے خط لکھا اور اس میں دیگر چند باتوں کے
علاوہ نہایت شدّت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ سالن میں شوربہ کم ہوتا ہے… اور
کبھی تو بالکل نہیں ہوتا… اے اﷲ کے بندے! آپ وہاں اپنی اصلاح کے لئے گئے تھے یا
شوربہ پینے کے لئے؟… آپ کو اپنی اصلاح مطلوب تھی یا مرکز والوں کی؟… انسان کو
چاہئے کہ کبھی تو اپنی فکر بھی کر لے… ہر وقت دوسروں کے عیبوں کی فکر انسان کو
برباد کر دیتی ہے… تنقیدی مزاج انسان اکثرمحروم رہتا ہے… اُسے بار بار غیبت کرنے
اور سننے کا گناہ کرنا پڑتا ہے… اوراُس کے اپنے ذاتی حالات خراب سے خراب تر ہوتے
چلے جاتے ہیں… ایسا آدمی کسی بزرگ کے پاس جاتا ہے تو جلد بدگمان ہو جاتا ہے… ایک
صاحب کسی بزرگ کے پاس بیعت کے لئے گئے اور نماز میں انُ سے’’ضاد‘‘ کا مخرج سن کر
بدگمان ہوگئے… اوربیعت کئے بغیر واپس آگئے…
اﷲ
کے بندو! حضرات انبیاء ح کے علاوہ دنیا میں کون ہے جو ’’بے عیب‘‘ ہو؟… اگر عیب دیکھتے
رہو گے تو کس سے کچھ حاصل کرو گے؟… کبھی دو منٹ کا ٹائم خود کو بھی دو اور اپنے عیب
دیکھو!… ہزاروں لوگوں کو دورۂ تربیہ سے توبہ کی توفیق ملی… مگرایک صاحب ان سات
دنوں میں ’’اﷲ اﷲ‘‘ کی صدا کے دوران بھی عیب ڈھونڈتے رہے اور… دل ہی دل میں جلتے
اور کڑھتے رہے… کاش آپ آتے ہی مجھے پیغام بھیج دیتے کہ… میں ذکر کرنے، استغفار
کرنے اور اﷲ والوں کی صحبت پانے کے لئے نہیں آیا بلکہ شوربا پینے آیا ہوں تو…
آپ کے لئے شوربے کی دیگ کابندوبست کر دیا جاتا… باقی جہاد اور مجاہدے میں توقربانی
لگتی ہے… اور جو جتنی قربانی پیش کرتا ہے اُتنا ہی نفع پاتا ہے…
دورۂ
تربیہ کے لئے تشریف لانے والوں سے عرض ہے کہ… صرف یہ سات دن آپ اپنی فکر کریں…
دوسروںکے عیب اور غلطیاں نہ دیکھیں… قبر میں ہر ایک نے اکیلے جانا ہے… اور ہر ایک
نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے… صرف ان سات دنوں کے لئے عز م کر لیں کہ… نہ تنقید کریں گے اور نہ تنقید سوچیں
گے… بس صرف اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کریں گے… آپ میں سے جس نے ’’دورۂ تربیہ‘‘
میں اس بات پر عمل کیا وہ انشاء اﷲ عجیب احوال دیکھے گا…
ایک
پیارا خاندان
تبع
تابعین… اُن حضرات کو کہتے ہیں جنہوں نے ایمان کے ساتھ حضرات تابعین کی صحبت پائی
ہے… اور تابعین وہ ہیں جنہوں نے ایمان کے ساتھ حضرات صحابہ کرام ذ کی صحبت پائی ہے
… تبع تابعین میں ایک بڑے مجاہد گزرے ہیں… وہ حدیث اور فقہ کے امام بھی تھے اور
اولیاء اﷲ کے سرداربھی… وہ ایک سال جہاد کے لئے تشریف لے جاتے تھے… اور ایک سال حج
کے لئے… اُن کا نام’’عبداﷲ‘‘ اور اُن کے والد محترم کا نام’’مبارک‘‘ تھا…یقینا آپ
حضرات نے حضرت امام عبداﷲ بن مبارک پ کا نام نامی بار بار سنا ہو گا… آپ ۱۱۸ھ
میں پیدا ہوئے… اُس وقت ہشام بن عبدالملک کی حکومت تھی… بنو امیہ کا دور زوال پذیر
تھا اور ’’بنو عباس‘‘ کی آمد آمد تھی… حضرت عبداﷲ بن مبارک پ پیدا تو اموی دور میں
ہوئے مگر آپ پ نے عباسی دور کا عروج… یعنی ہارون الرشید کی حکومت کا زمانہ بھی پایا…
آپ پ کا خاندان… امانت داری کی بنیاد پر وجود میں آیا… بے شک ’’امانت‘‘ بہت اونچی
نعمت ہے… یہ نعمت جس انسان کو نصیب ہو جائے اُس پر اﷲ تعالیٰ کا بہت فضل ہو جاتا
ہے… حضرت عبداﷲپکے والد… جن کانام’’مبارک‘‘ تھا… ایک تاجر کے غلام تھے اور اُس کے
باغ میں کام کرتے تھے … آپ کافی عرصہ اُس باغ کی دیکھ بھال کرتے رہے… پھر ایک دن
اُ ن کا مالک باغ میں آیا اور اُس نے انہیں باغ سے میٹھے انار توڑ کر لانے کا حکم
دیا… مبارک باغ سے انار توڑ کر لائے تو وہ کھٹے نکلے… مالک بہت غصہ ہوا اور تاکید
کی کہ میٹھے انار توڑ کر لاؤ… وہ دوبارہ توڑ کر لائے تو وہ بھی کھٹے نکلے… اسی
طرح تیسری بار بھی ہوا تو مالک کو بہت غصہ آیا… وہ کہنے لگا! کیا تمہیں معلوم نہیں
کہ میٹھے کون سے ہیں اور کھٹے کون سے؟… مبارک نے کہا جی مجھے معلوم نہیں… آپ نے
اس باغ کی رکھوالی کا حکم دیا تھا… چونکہ
آپ نے اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں دی تھی اس لئے میں نے کبھی کوئی پھل نہیں چکھا… مالک نے جب تحقیق کی
تو یہ بات درست نکلی… اُس نے مبارک کو آزاد کر دیا… اور اپنی بیٹی سے اُن کا نکاح
کر دیا… یہ خاتون بہت دیندار اور اﷲ والی تھیں… ان کا نام’’ہند‘‘ تھا… ان دونوں کو
… اﷲ تعالیٰ نے عبداﷲ بن مبارک جیسا بیٹا… اورکئی بیٹیاں عطاء فرمائیں… اپنی بیٹی
سے نکاح کے ساتھ ہی اُس تاجر نے مبارک کو اپنی جائیداد میں سے بھی کافی حصہ دیا…
اس میں ایک باغ بھی تھا جو مبارک نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت عبداﷲ بن مبارک کو دے دیا…
حضرت عبداﷲ بن مبارک جب جوان ہوئے اور وہ علماء کی صحبت میں علم حاصل کرنے لگے تو
اُن کو احساس ہو اکہ… مجھے اپنے اس باغ میں سے اپنی بہنوں کو بھی حصّہ دینا چاہئے…
وہ اپنی بہنوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا… والد محترم کو چاہئے تھا کہ یہ باغ
ہم سب میں تقسیم فرماتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا… اب میں اس باغ کو والد صاحب کی
وراثت قرار دے رہا ہوں… والد صاحب سے ایسا کام ہوا جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا
وہ تم سب معاف کر دو اور اس باغ میں سے اپنا حصہ لے لو… اُن کی بہنیں بھی عجیب تھیں…
انہوں نے کہا ہم نے والد محترم کو معاف کیا… اور اس باغ سے اپنا حصّہ وصول کر کے
وہ آپ کو ہدیہ کر دیاحضرت عبداللہ بن مبارک نے بہنوں کا ہدیہ قبول نہ فرمایا…پھر
حضرت عبداﷲ بن مبارک پکا بیٹاپیدا ہوا تو… آپ پکی بہنوں نے اُس باغ میں سے اپنا
اپنا حصّہ اُس بچے… یعنی اپنے بھتیجے کو ہدیہ کر دیا… چند دن بعد اُس بچے کا
انتقال ہو گیا تو وہ باغ واپس حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے حصے میں بطور وراثت آگیا…
یہ تھی اُس پیارے خاندان کی امانت، خوش اخلاقی ،ایثار… اور باہمی محبت… بھائی کو
بہنوں کے حق کی فکر… اوربہنیں اپنے بھائی کی خا طر ہر قربانی کو تیار… ایسے بابرکت
خاندان نے… اُمت مسلمہ کو ایک عظیم امام دیا… جس کا نام حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ تھا…
انشاء اﷲ آئندہ کسی نشست میں حضرت امام عبداﷲ بن مبارک پکے کچھ حالات عرض کئے جائیں
گے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کے گھرانوں میں ایمان، تقویٰ، دیانت، امانت… اور باہمی ایثار
و محبت نصیب فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد وأَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَّربَ عِنْدَکَ وعلی الہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
حضرت
عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ
اﷲتعالیٰ
کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اُن کے تذکرے سے… اﷲ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے… اُمت
مسلمہ کے امام، مجاہدین کے سردار حضرت عبداﷲ بن مبارک پ بھی اُنہی شخصیات میں سے ہیں…
یہ بات اُمت کے ایک اور امام حضرت نووی پ ان الفاظ میں سمجھاتے ہیں:
حضرت
عبداﷲ بن مبارک پ وہ شخصیت ہیں جن کی امامت اور جلالت پر اُمت کا اتفاق ہے… وہ ایسے
شخص ہیں جن کے تذکرے سے رحمت نازل ہوتی ہے… اورجن سے محبت پر مغفرت کی اُمید کی
جاتی ہے(تہذیب الاسماء)
امام
نووی پ خود بہت بڑے آدمی ہیں… انہوں نے ماشاء اﷲ بہت پرنور کتابیں لکھی ہیں… آپ
نے اُن کی کتاب’’ریاض الصالحین‘‘ تو ضرور دیکھی ہو گی… امام نووی پایک رات چراغ کی
روشنی میں لکھ رہے تھے… اچانک وہ چراغ بجھ گیاتو اﷲ تعالیٰ نے اُن کی انگلیوں میں
روشنی ظاہر فرمادی… اور وہ کافی دیر تک اپنی انگلیوں کی روشنی میںلکھتے رہے… یہ
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مبارک پکے تذکرے سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت
نازل ہوتی ہے… واقعی بالکل سچ فرمایا… آپ انشاء اﷲ آج ہی اس کا تجربہ کر لیں گے…
مجھے اصل میں تو حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کا ’’جہاد‘‘ بیان کرنا ہے… وہ اُمت کے کامیاب
ترین مجاہدین میں سے تھے… اور اُن کے جہاد کو دیکھ کر مجاہدین اپنے جہاد کو درست
اور مقبول بنا سکتے ہیں… مگر اُن کے جہاد سے پہلے اُن کی زندگی کے کچھ دیگر حالات
عرض کئے جاتے ہیں… تاکہ… آپ سب حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کی شخصیت اور مقام سے کسی
قدر واقف ہو جائیں… اُن کے خاندان کے بارے میں چند باتیں گزشتہ کالم میں عرض کر دی
گئیں تھیں… آج اُن کی کچھ دیگر صفات کو بیان کیا جارہا ہے…آپ حیران ہو ں گے کہ…
جب اُمت مسلمہ کے بڑے مجاہدین کا تذکرہ لکھاجاتا ہے تو ان میں حضرت عبداﷲ بن مبارک
پپہلی صف میں نظر آتے ہیں… اور جب صوفیاء کرام کا تذکرہ لکھا جاتا ہے تو اس میں
بھی حضرت عبداﷲ بن مبارک پ پہلی صف میں موجود ہوتے ہیں… حضرت ہجویری پ نے اپنی
کتاب کشف المحجوب میں اُن کا تذکرہ بڑے صوفیاء کرام میں فرمایا ہے… اسی طرح جب
اُمت مسلمہ کے فقہاء، حفاظ اور محدّثین کا تذکرہ آتا ہے تو اس میں بھی حضرت عبداﷲ
بن مبارک پ پہلی صف میں شمار کئے جاتے ہیں… آپ اپنی عمر کے ابتدائی زمانے کچھ
غفلت میں پڑگئے تھے… بڑے رئیس زادے تھے پیسے نے اثر دکھایا تو لہو و لعب میں مشغول
ہو گئے… مگرجب عمربیس سال کی ہوئی تو اﷲ تعالیٰ نے آپ پر توبہ، محبت، معرفت، علم
اور جہاد کا دروازہ کھول دیا… آپ کی توبہ کا واقعہ بھی بہت عجیب ہے جو انشاء اﷲ
اگلی کسی مجلس میں عرض کیا جائے گا…
آج
ملاحظہ فرمائیے حیات ابن مبارک پ کے کچھ بکھرے اوراق…
مثالی
سخاوت
آپ
بڑے مالدار تھے… وراثت میں کافی مال ملا تھا اور تجارت بھی کرتے تھے تاکہ… فقراء
پر خرچ کریں، مجاہدین کو کھلائیں پلائیں اور طلبۂ حدیث کی خدمت کریں، حج کریں …
اور لوگوں کو حج کروائیں اور جہاد میں اپنا اور اپنے رفقاء کا خرچہ برداشت کریں… ایک
بار مشہور تارک الدنیا بزرگ حضرت فضیل بن عباسؒ سے ارشاد فرمایا:
اگر
آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا(تہذیب التہذیب)
یعنی
آپ جیسے لوگ دنیا چھوڑ کر عبادت اور دین کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں… میں آپ کی
خدمت کرنے کے لئے تجارت کرتا ہوں… اﷲ تعالیٰ نے حضرت عبداﷲ بن مبارک پکے مال میں
خوب برکت عطاء فرمائی تھی… وہ خیر کے کاموں میں خرچ کرتے جاتے تھے اور اُن کا مال اور بڑھتاجاتا تھا …
تھوڑا سا اندازہ لگائیں کہ
٭ہر سال فقراء کرام پر ایک لاکھ د رہم خرچ کرتے
تھے…
٭ایک سال جہاد
پر جاتے اور سارا خرچہ خود کرتے اور دوسرے سال حج پر جاتے تب بھی اپنا اوراپنے
رفقاء کا خرچہ خود اٹھاتے… جہاد میں مال غنیمت بھی نہیں لیتے تھے اور حج پر اپنے
رفقاء کو اچھے کھانے کھلاتے اور گھر والوں کے لئے سامان بھی خرید کر دیتے تھے…
٭کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے، ہمیشہ علماء
طلبہ اور دیگرمہمانوں کو بُلاتے اوربڑے بڑے دستر خوان بچھا کر انہیں کھانا کھلاتے…
اور طرح طرح کے فالودے بنو ا کر انہیں پیش کرتے… انہیں اپنے والد محترم کی وراثت میں
سے جو چھ لاکھ درہم ملے ان میں سے بھی… چار لاکھ ساٹھ ہزار درہم خیر کے کاموں میں
خرچ کر دیئے… بے شک خیر کے کاموںمیں سخاوت… اﷲ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے…
بہت ہی عظیم نعمت …
حُسنِ
اخلاق
حضرت
عبدا ﷲ بن مبارک پ ’’حُسنِ اخلاق‘‘ میں اپنی مثال آپ تھے… اُن کے اخلاق بناوٹی نہیں
تھے کہ… لوگوںمیں شہرت اور عزت حاصل کرنے کے لئے ہوں… بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کی
فطرت اور خصلت ہی ایسی بنائی تھی کہ… ماشاء اﷲ حُسنِ اخلاق کا پیکر نظر آتے تھے …
اور پھر امانتدار اور متقی والدین کی تربیت نے بھی خوب رنگ جمایا…
مشہور
محدّث حضرت اسماعیل بن عیاش پ فرماتے ہیں:
روئے
زمین پر عبداﷲ بن مبارک پ جیسا(اُن کے زمانے میں) کوئی نہیں ہے… اور میرے علم کے
مطابق اﷲ تعالیٰ نے خیر کی جتنی بھی عادتیں اور خصلتیں پیدا فرمائی ہیں… اُن سب سے
عبداﷲ بن مبارکؒ کو حصہ عطاء فرمایا ہے ( سیر اعلام النبلاء)
حضرت
نعیم بن حماد پ فرماتے ہیں… میں نے عبدالرحمن بن مہدی پ سے پوچھا کہ… عبداﷲ بن
مبارک پ اور سفیان بن عیینہ پ میں سے کون افضل ہے؟… فرمایا عبداﷲ بن مبارک!… میں
نے عرض کیا لوگ آپ کی یہ بات نہیںمانتے… ارشاد فرمایا لوگوں نے قریب سے نہیں دیکھا… ورنہ عبداﷲ بن مبارک
پ جیسا کوئی نہیں ہے(تہذیب الاسماء)
حضرت
عبداﷲ بن مبارک پ… اتنے بلند مقام کے باوجود تواضع اختیار فرماتے تھے… اپنی گردن
پر لکڑیاں لادتے… اور ننگے پاؤں بازار سے چیز خرید لاتے… اور حضرت سفیان بن عیینہؒ
جیسے بزرگوں کے سامنے کسی کو مسئلہ بتانا بے ادبی سمجھتے تھے… ایک بار کسی نے
پوچھا کہ… حضرت! تواضع کسے کہتے ہیں؟…ارشاد فرمایا مالداروں کے سامنے تکبّر کرنا…
اﷲ اکبر کبیرا… یعنی انسان مال اور دنیا کے لالچ میں اپنے نفس کو ذلیل نہ کرے… آپ
سے پوچھا گیا کہ تکبر کسے کہتے ہیں؟… ارشاد فرمایا لوگوں کو حقیر سمجھنا…
مثالی
تقویٰ
عبادت
اور تقویٰ کے معاملے میں … عبداﷲ بن مبارک پ پر اﷲ تعالیٰ کا بہت فضل تھا… جہاد میںنکل
کر ساری ساری را ت عبادت کرنا… مجاہدین کے لشکر کی پہرے داری کرنا… سفر کے دوران
اپنے کجاوے میںنفل نماز کا مسلسل اہتمام کرنا… راتوں کو اپنے رفقاء کو سُلا کر خود
چھپ کر نماز ادا کرنا… سفر کے دوران اپنے رفقاء کو قیمتی حلوے کھلانا اور خود روزے
سے رہنا… اﷲ تعالیٰ کے خوف سے اتنا رونا کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی … اور پھر اپنے
تقوے اور عبادت کو لوگوں سے چھپانا… حضرت احمد بن حنبلپ فرماتے ہیں کہ… عبداﷲ بن
مبارک پ کواﷲ تعالیٰ نے اتنا اونچا مقام اُن کی مخفی عبادت کی وجہ سے عطاء فرمایا
ہے… اور خود حضرت عبداﷲ بن مبارک پ فرماتے تھے کہ… تم میں سے جو اﷲ تعالیٰ سے جتنا
ڈرتا ہے وہ اتنا بڑا عالم ہے… آپ جب بغداد تشریف لائے تو وہاں کے حکمران کچھ ظالم
تھے… آپ کو شبہ ہوا کہ میرا اس شہر میں قیام کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟… چنانچہ آپ
روزانہ ایک دینار صدقہ کرتے تھے… تاکہ اس شہر میں قیام کا جو گناہ ہے اُس کاکفارہ
ہو جائے… ایک بار آپ نے ملکِ شام میں ایک شخص سے اُس کا قلم عاریۃً لیا او ر اُسے
واپس کرنا بھول گئے اور خراسان تشریف لے گئے… خراسان پہنچ کر آپ پکو یاد آیا تو…
صرف قلم واپس لوٹانے کے لئے شام کا سفر فرمایا… سفرِ وفات میںآپ کو ستّو پینے کی
رغبت ہوئی… رفقاء نے ستّو تلاش کیا تو وہ صرف ایک آدمی کے پاس تھا جو بادشاہ کے
ہاں ملازم تھا… رفقاء نے آپ کو صورتحال بتائی تو آپ نے لینے سے منع فرما دیا…اور
ستّو پئے بغیر اس دنیا سے تشریف لے گئے… جی ہاں وہ شخص نے جس نے ساری زندگی لوگوں
کو طرح طرح کے کھانے کھلائے اور مشروبات پلائے… وہ اپنی زندگی کی آخر ی گھڑیوں میں
ستّو بھی نہ پی سکا… اسے کہتے ہیں امانت اور اسے کہتے ہیں تقویٰ کہ… کسی حال میں
بھی انسان اﷲ تعالیٰ کے خوف سے غافل نہ ہو… اور نہ ہی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر
مشتبہ چیزوں میں منہ مارے…
سبحان
اﷲ!… اﷲ تعالیٰ کے انعامات دیکھئے… اُمت کا امام ، فخر المجاہدین، تارک الدنیا
لوگوں کے قائد… سخی،بہادر، باحیا، عفیف، متقی، بہادر، جانباز… بہترین گھڑسوا ر…
اور زمانے کے مایہ ناز محدّث… رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ…
سرکاری
عہدوں سے پرہیز
اُس
زمانے کے حکّام… ہمارے دور کے حکمرانوں سے بہت نیک، متقی اور غیرت مند تھے… وہ
جہاد کے لئے خود بھی نکلتے تھے اور اسلامی لشکروں کو بھی دور دراز علاقوں میں جہاد
پر بھیجتے تھے… مگر اس کے باوجود حضرت عبداﷲ بن مبارک پ … ان حکام سے دور رہے اور
انہوں نے سرکاری عہدے قبول نہ کرنے میں… اپنے محبوب استاذ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ
کی مکمل پیروی کی… اورآپؒ ہمیشہ حضرت امام ابو حنیفہ پکی اس بات پر تعریف کرتے
تھے کہ انہوں نے قاضی القضاۃ کے عہدے کو ٹھکرایا… چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
میں
نے ابو حنیفہپ سے زیادہ متقی کوئی نہیں دیکھا انہیں کوڑوں اور اموال کے ذریعہ
آزمایا گیا(تاریخ بغداد للخطیب)
حضرت
عبداﷲ بن مبارک پ حکمرانوں سے دور دور رہے… تو اﷲتعالیٰ نے انہیں لوگوںکے دلوں پر
حکومت عطاء فرما دی… ایک بارخلیفہ ہارون الرشید رقّہ شہر میں تھے… حضرت عبداﷲ بن
مبارک پ بھی وہاں تشریف لے آئے تو لوگ اُن کی زیارت کے لئے ٹوٹ پڑے… زیارت کرنے
والوں کا اتنا مجمع تھا کہ لوگوںکے جوتے ٹوٹ گئے اور فضاء غبار سے بھر گئی… ہارون
الرشید کی ایک باندی نے خلیفہ کے محل کے بُرج سے یہ منظر دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا
ہو رہا ہے؟… اُسے بتایا گیا کہ خراسان کے ایک عالم جن کا نام عبداﷲ بن مبارک پ
ہے’’رقّہ‘‘ تشریف لائے ہیں… وہ کہنے لگی… اﷲ کی قسم بادشاہت تو یہ ہے… اس کے
مقابلے میں ہارون الرشید کی بادشاہت کیا ہے کہ لوگوں کو پولیس کے ذریعہ جمع کیا
جاتاہے…
فقراء
والی موت
آپ
پ کا انتقال جہاد سے واپسی پر حالت سفر میں ہوا… جب موت کا وقت قریب آیا تو اپنے
آزاد کردہ غلام ’’نصر‘‘ سے فرمایا… میرا سر مٹی پر رکھ دو… غلام رونے لگا… ارشاد
فرمایا کیوں روتے ہو؟… وہ کہنے لگا مجھے یہ بات رُلا رہی ہے کہ آپ کیسی نازو نعمت
والی زندگی میں تھے اور اب فقیری اور مسافری کی حالت میں اس دنیا سے جارہے ہیں…
ارشاد فرمایا :چپ ہو جاؤ میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعاء کی تھی کہ… مجھے اغنیاء
والی زندگی اور فقراء والی موت عطاء فرمائے… پھر ارشاد فرمایا… اب مجھے کلمے کی
تلقین کرتے رہو، کوئی اور بات نہ کرو…(ابن عساکر)
جہاد
سب سے افضل عمل
مشہور
عابد اور محدّث حضرت فضیل بن عیاض پ کے بیٹے’’محمدپ ‘‘ فرماتے ہیں:میں نے حضرت
عبداﷲ بن مبارک پ کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: آپ نے کس عمل کو افضل پایا؟… ارشاد
فرمایا وہی عمل جس میں لگا ہوا تھا… میں نے پوچھا یعنی رباط اور جہاد… ارشاد فرمایا
جی ہاں… میں نے عرض کیا آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟…ارشاد فرمایا
… میرے رب نے مجھے پکّی مغفرت عطاء فرمادی اورمیرے ساتھ حور عین نے گفتگوکی… (صفۃ
الصفوۃ)
اﷲ
تعالیٰ حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے درجات بلند فرمائے… ہم سب مسلمانوں کو بھی اُن جیسی
مبارک صفات نصیب فرمائے … آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علی سیدنا و مولانا محمد النبی الطَّاہر الزکیّ صلوٰۃً تُحَلُّ بھا العُقَدُ
وتُفَکُّ بھا الکُرَب وعلی الہ وصحبہ وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
مبارک
اسباق
اﷲ
تعالیٰ کا فضل ہو جائے تو انسان فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتا ہے… حضرت عبداﷲ بن
مبارک پ کو ہی دیکھ لیں کہ تریسٹھ سال کی عمر پائی… اور کتنے بڑے بڑے کام کر گئے
اور کتنا اونچا مقام پا گئے…
سبحان
اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
کتنے
لوگوں کی پوری زندگی ایک بلڈنگ بنانے پر خرچ ہو جاتی ہے… بالآخر وہ بلڈنگ بن جاتی
ہے مگر بنانے والا اس کو دوسروں کے لئے چھوڑ کر قبر کے گڑھے میں جا گرتا ہے… یا اﷲ
الأمان الأمان…
کتنے
لوگوں کی پوری زندگی جائیداد کے جھگڑوں میں بیت جاتی ہے… جبکہ کئی لوگوں کی زندگی
کھیل کود اور عیش و عشرت میں بسر ہو جاتی ہے… پُرانے دور کے ایک شخص کا واقعہ پڑھا
تھا اُسے شوق تھا کہ میرے پاس اتنی دولت آجائے کہ میں رومی باندیاں خرید سکوں…
اُ
س زمانے میں غلام اور باندی ہوا کرتے تھے… اور باندیوں کو رکھنا حلال بھی تھا …
جبکہ آج کل جس کو شیطان بہکاتا ہے… وہ پلاننگ کرتا ہے کہ کوئی ایسا کام شروع
کردوں جس میں بہت سی عورتوں کو ملازم رکھ لوں… بہرحال وہ شخص رومی باندیوں کے شوق
میں پیسے کماتا رہا… دن رات محنت کرتا رہا… جب اُس کی عمر اسّی سال کی ہوئی تو وہ
خوب مالدار ہو گیا اور اُس نے رومی باندیاں خرید لیں… مگر عمر اور بیماریاں اتنی زیادہ
ہو گئی تھیں کہ جب کوئی باندی اُسے ہاتھ لگاتی تو باباجی کی چیخیں نکل جاتیں…
خلاصہ یہ کہ پوری زندگی ایک خواہش میں گزار دی… اور جب وہ خواہش پوری ہونے کا وقت
آیا تو جسم میں جان اور طاقت نہ رہی… اے میرے بھائیو! اور بہنو! یہ دنیا اپنے
چاہنے والوں کے لئے حسرتوں کا قبرستان ہے… حضرت عبداﷲ بن مبارک پ پر اﷲ تعالیٰ نے
اپنافضل فرمایا تو انہوں نے دنیا کی کسی چیز کو اپنا مقصد نہیں بنایا… بلکہ وہ ایک
سچے اور وفادار غلام کی طرح اس دنیا میں اپنے مالک کی رضا مندی ڈھونڈتے رہے… ہم
اپنی آج کی مجلس میں حضرت عبداﷲ بن مبارک پ سے کامیابی کے بعض نسخے سیکھنے کی
کوشش کریں گے… انشاء اﷲ تعالیٰ…
عصر
کے بعد ذکرا ﷲ
عبدہ
بن سلیمان پ فرماتے ہیں:
حضرت
عبداﷲ بن مبارک پ جب عصر کی نماز’’جامع مسجد المصیصہ‘‘ میں ادا کر لیتے تو قبلہ
رُخ بیٹھ کر ذکر اﷲ میں مشغول ہو جاتے اور مغرب تک کسی سے بات نہ فرماتے… (الجرح و
التعدیل لابن ابی حاتم)
عصر
سے مغرب تک کا وقت اکثر اولیاء کرام کے نزدیک ذکر و مناجات کے لئے بہترین وقت ہے…
جس کو اﷲ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے وہ اس وقت کو اپنے لئے آخرت کا ذخیرہ بنائے…
خصوصاًجمعہ کے دن عصر تا مغرب کا وقت ذکر تلاوت اور مناجات میں قیمتی بنانا چاہئے…
اور اگر کسی کو اس کی فرصت نہ ملے تو عصر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر اور سورج غروب
ہونے سے کچھ دیرپہلے ذکر و مناجات میں لگ جانا چاہئے… اور عصرکے بعد کم ازکم سورۃ’’
النباء‘‘(پارہ ۳۰) کا اور مغرب کے وقت شام کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کر لینا
چاہئے…
ایک
سال جہاد، ایک سال حج
جہاد
کے ساتھ حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کا تعلق بہت گہراتھا… وہ کبھی اس انتظار میںنہیں
رہے کہ نفیر عام ہو تو جہاد پر نکلیں… یاد رہے کہ نفیر عام کے وقت جہاد فرض عین ہو
جاتا ہے… حضرت عبداﷲ بن مبارک پ نے دشمنوں کے حملے کے وقت بھی جہاد کیا اور ایک ایک
لڑائی میں درجنوں کافروں کو قتل فرمایا… اور جب لڑائی کا وقت نہیں ہوتا تھا تو آپ
دور دراز کی اسلامی سرحدوں پر پہرے کے لئے تشریف لے جاتے اور رباط فی سبیل اﷲ کا
اجر حاصل کرتے… آپ پ کا انتقال بھی طرسوس کے رباط سے واپسی پر ہوا… اور حدیث شریف
میںآتا ہے کہ جہاد سے واپس لوٹنا بھی جہاد میں جانے کی طرح ہے… آپ پ نے اپنی
زندگی کی یہ ترتیب بنا رکھی تھی کہ… ایک سال حج پر تشریف لے جاتے اور ایک سال جہاد
پر… زندگی کا یہ معمول آخری وقت تک جاری رہا… اور جہاد کے آخری سفر سے واپسی
پرمالک حقیقی سے ملاقات ہو گئی…
یحج
سنۃ و یغزوسنۃ حتی نہایۃ عمرہ (تاریخ بغداد)
ہمیں
چاہئے کہ… ہم بھی آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ والی کامیابی کے لئے اسی طرح جہاد اور حج
سے محبت کریں… اور مکمل استقامت کے ساتھ جہاد میں ڈٹے رہیں…
قرأت
اور نماز کا اہتمام
حضرت
حسن بن شقیقپ فرماتے ہیں:
میں
نے حضرت عبداﷲ بن مبارک پ سے زیادہ اچھی قرأت کرنے والا اور زیادہ نماز ادا کرنے
والا کوئی نہیں دیکھا… آپ سفر اور حضر میں پوری پوری رات نماز میںگزار دیتے تھے…
ہرمسلمان کے لئے لاز م ہے کہ… قرآن پاک کو تجوید
سے پڑھنا سیکھے اور پھر کبھی تلاوت کا ناغہ نہ کرے… ایک مسلمان کے لئے وہ دن بڑے
خسارے والا ہوتاہے جس میں وہ قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرتا… اور نماز تو مؤمن کی
ترقی اور معراج ہے… جس کی نماز جتنی اچھی وہ اتنااچھا مسلمان… اور جس کی نماز جتنی
زیادہ وہ اس قدر خوش نصیب… یا اﷲہم سب کو توفیق عطاء فرما…
خوف
اور خشیت الٰہی
حضرت
قاسم بن محمدپفرماتے ہیں:
ہم
نے عبداﷲ بن مبارک پ کے ساتھ کئی سفر کئے ، مجھے ہر سفر میں یہ خیال رہتا تھا کہ
آخر اس شخص نے ہم سب پر کس چیز کی وجہ سے فضیلت حاصل کر لی ہے… حالانکہ اگر یہ
نمازیں ادا کرتے ہیں تو ہم بھی ادا کرتے ہیں… یہ روزے رکھتے ہیں تو ہم بھی رکھتے ہیں…
یہ جہاد کرتے ہیں تو ہم بھی مجاہد ہیں… اگر یہ حج کرتے ہیں تو ہم بھی حج کرتے ہیں…
اسی دوران ہم ایک سفر میں تھے رات کو کھانے کے لئے ہم ایک گھر میں رُکے… کھانے کے
دوران چراغ بجھ گیا…ہماراایک ساتھی اُسے دوبارہ جلانے کے لئے اٹھا… اور تھوڑی ہی دیر
میں جلا کرواپس لے آیا… میر ی نظر حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے چہرے پرپڑی تو آپ پ
کی داڑھی آنسوؤں سے بھر چکی تھی… میں نے دل میںکہا… ان کی ہم پر فضیلت اسی خوف
اور خشیت کی وجہ سے ہے کہ… تھوڑی دیر کا اندھیرا ہواتو ان کو قیامت یا د آگئی اور
یہ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے رونے لگے… (صفۃ الصفوۃ)
بے
شک اﷲ تعالیٰ کاخوف اور خشیت بہت بڑی نعمت…اور ایمان کی بڑی علامت ہے… وہ طالب علم
جو مدرسے میں پڑھتے ہیں اگر ان میں علم کے اضافے کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا خوف بھی
بڑھتا جائے تو اُن کاعلم مقبول ہوتا ہے… یہی حال عبادت کا ہے اور یہی حال جہاد کا
ہے… اور جس عمل میں دل میں قساوت اور سختی آتی جائے اس عمل میں کوئی کھوٹ اور کجی
ہوتی ہے…
مشہور
عابد اور محدّث حضرت فضیل بن عیاض پ نے ایک بار فرمایا:
ہاں
میں عبداﷲ بن مبارک پ سے محبت رکھتا ہوں… کیونکہ وہ اﷲ عزوجلّ سے ڈرتے ہیں… (تاریخ
دمشق)
ظالم
حکمرانوں کے مددگار بھی ظالم
حضرت
ابن مبارک پ کے زمانے میں بغداد کے کچھ حکام… ظالم تھے، ایک درزی اُن کے کپڑے سیتا
تھا، وہ حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا… کیا میں ظالموں
کا مددگار تو شمار نہیں کیا جاؤں گا؟… ارشاد فرمایا نہیں!… ظالموں کے مددگار تو
وہ لوگ ہیں جو تجھے سوئی اور دھاگہ بیچتے ہیں… جبکہ تو تو خود ظالم ہے… اپنی جان
پر ظلم کرنے والا … (الغزالی)
معلوم
ہوا کہ… ظالم حکمرانوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کرنا چاہئے… اور اُن سے
دُور رہنا چاہئے… اور ہمیشہ رزق حلال کی فکر کرنی چاہئے… اور اپنی روزی کا جائزہ لیتے
رہنا چاہئے کہ… وہ حلال ذرائع سے آرہی ہے یانہیں…
بغیر
مانگے عطاء کرنا
حضرت
حسن بن حمادپ فرماتے ہیں:
حضرت
حماد بن اُسامہ پ ایک بار حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے پاس آئے… حضرت عبداﷲ بن مبارک
پ نے ان کے چہرے پر فقر و فاقے کے آثار محسوس کئے … جب وہ چلے گئے تو آپ پ نے ان
کے گھر چار ہزار درہم بھجوا دیئے… اور ساتھ کچھ اشعار بھی لکھ کر بھیجے…(سیر اعلام
النبلاء)
سخاوت
یہ نہیں ہے کہ… کوئی آپ سے مانگے تو آپ اُسے دیں… سخاوت تو یہ ہے کہ خود مستحق
کو تلاش کریں… اور پھر عزت و اکرام کے ساتھ اُن کی خدمت کریں… اصل بات یہ ہے کہ دینے
والا خود اس بات کا محتاج ہے کہ… اﷲ تعالیٰ اس کے مال کو قبول فرمائے… کیونکہ اگر
اﷲ تعالیٰ قبول نہ فرمائے تو مال غلط کاموں میں خرچ ہو جاتا ہے… یا پڑا پڑا ضائع
ہو جاتا ہے…اور جو مال اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے وہ مال… انسان کے لئے محفوظ ہو جاتا
ہے اور بڑھتا رہتا ہے…
بناوٹی
زُہد نہیں
حضرت
عبداﷲ بن مبارک… اپنے ذاتی مال میں خوب سخاوت کرتے مگر اجتماعی اموال اور اموال غنیمت
میں بے حد احتیاط کرتے تھے… ایک مسلمان کا یہی طرز عمل ہونا چاہئے کہ اگر اس کو اﷲ
تعالیٰ نے ذاتی مال دیا ہے تو… پھر اس میں خوب سخاوت کرے… اُسے جہاد میں لگائے،غریبوں
کو دے، لوگوں کو کھانے کھلائے… لیکن اگر اﷲ تعالیٰ نے ذاتی مال زیادہ نہیں دیا تو
پھر خود کو مصیبت میں نہ ڈالے… بلکہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے اسی مال میں گزارہ
کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق مہمان نوازی کرے… اور اجتماعی اموال میں تو کسی کو
بھی سخی بننے کی اجازت نہیں ہے… یہ مال تو سخت امانت ہوتا ہے… اس کو اپنی ذات کی
شہرت اور عزت کے لئے کسی کو نہ کھلائے… حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے زُہد کے واقعات
بھی مشہور ہیں… آپ پ روزے رکھتے تھے… اور اتنے بڑے مالدار ہونے کے باوجود آپ پ کی
زندگی بہت سادہ تھی… مگر آپ پ نے زُہد میں بھی مبالغہ اورریاکاری اختیار نہیں کی…
بلکہ… حلال اور اچھی چیزوں کا استعمال فرماتے رہے… آپ پ کے دستر خوان پر بھنا ہوا
گوشت، مرغیاں… اور فالودے کثرت سے نظر آتے تھے…آپ پ خود بھی یہ چیزیں تناول
فرماتے اور دوسروں کو بھی خوب کھلاتے بے شک جس کو اﷲ تعالیٰ حلال طور پریہ چیزیں
عطاء فرمائے… اور پھر اُسے جہاد،شکر اور عبادت کی توفیق بھی دے تو یہ بھی اﷲ تعالیٰ
کی پاکیزہ نعمتیں ہیں… لوگوں نے جو یہ سمجھ رکھاہے کہ بزرگ وہی ہوتا ہے جو غریب
اوربھوکا ہو تویہ بات بالکل غلط ہے…
اﷲ
تعالیٰ حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے درجات بلند فرمائے… اور ہم سب کو اُن کے معتدل
اور مبارک نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علی سیدنا و مولانا محمد کلما ذکرہ الذاکرون وکلما غفل عن ذکرہ الغافلون وعلی
آلہ و صحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
دریا
اﷲ
تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں زمین پر موجود ہیں… اور ہرا ٓئے دن ظاہر ہوتی رہتی ہیں
مگر…ہر کوئی ان نشانیوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا … نمرود نے اپنی آنکھوں سے حضرت
ابراہیم ح کے معجزات دیکھے… فرعون نے بار ہا حضرت موسیٰ ح کے معجزات کا مشاہدہ کیا…
مگر بدقسمتی غالب رہی…اﷲ تعالیٰ کی نشانیوںسے صرف’’عقل‘‘ والے فائدہ اٹھاتے ہیں…
عقل والے کون ہوتے ہیں؟… حکمران بن جانا عقلمند ہونے کی علامت نہیں ہے… بڑے بڑے
بددماغ لوگ حکمران بن جاتے ہیں… عقل والے تو وہ ہوتے ہیں جو ’’اﷲ تعالیٰ‘‘ کو
پہچانتے ہیں اور اُن کا رُخ آخرت کی طرف ہوتا ہے… دنیا کی طرف نہیں… پرویز مشرف
کو حکومت ملی… مگر وہ عقل اور سمجھ سے محروم انسان تھا… اُس کی نظر میں صرف دنیا
تھی… دنیا، دُنیا اور صرف دُنیا… جی ہاں وہی دنیا جو تیزی سے اُس کے قدموں سے کھسک
رہی ہے… حکومت چھن گئی، جرنیلی نے ساتھ چھوڑ دیا… وردی اوروں کے پاس چلی گئی… کیا
حاصل کیا؟ اور کیاکمایا؟… چند دن بعد ایسی قبر یقینی ہے جہاں سے واپسی نہ ہو گی…
تب کیا کام آئے گا؟… بُش اور کولن پاول کی دوستی یاناچ گانے کی محفلیں؟… پرویز
مشرف اس ملک میںایک آگ سُلگا گیا… اور اب موجودہ حکمران اُس آگ کو مزید بھڑکاتے
جارہے ہیں… لاہور میں حضرت ہجویری پ کے مزار کے پاس ’’ظالمانہ دھماکے‘‘ ہوئے… حقیقت
یہ ہے کہ دل بہت دُکھا… معلوم نہیں کس نے یہ خونی قدم کس مقصد کے تحت اٹھایا ہے؟…
پینتالیس افراد کا خون اپنے سر لینا کوئی آسان کام نہیں ہے… خون کے تو ایک ایک
قطرے کا حساب دینا ہوگا… یہ لوگ جو مار دیئے گئے ان کا اس جنگ سے کیا تعلق تھا؟…
حملہ کرنے والوں نے جو گناہ کمانا تھا کمایا مگر پرویز مشرف بھی اس جرم میں برابر
کا شریک ہے…یہ اُسی کی لگائی ہوئی آگ ہے جس کے شُعلے کبھی کسی کو جلاتے ہیں اور
کبھی کسی کو… امریکہ، برطانیہ اور انڈیا کے اشارے پر اُس نے پاکستان کی کئی دینی
جماعتوں کو ’’کالعدم‘‘ قرار دیا…آخر کس وجہ سے؟… ان تنظیموں نے پاکستان کا کیا
بگاڑا تھا؟… مگر وہ شخص اقتدار، غلامی اور شراب کے مشترکہ نشے میں فیصلہ کرتاتھا…
اُس کے حکم پر خفیہ ایجنسیاں اور پولیس میدان میں اتر آئیں… گھروں کے دروازے
ٹوٹے، مساجد کی حرمت پامال کی گئی… اورمدارس پر چھاپے مارے گئے…اُس وقت نہ وزیرستان
میں کوئی مسئلہ تھا اور نہ سوات میں… مگر ظلم بڑھتا گیا… بڑے بڑے دریاؤں کو کاٹا
گیا تو آزاد ندی نالے ہر طرف بہنے لگے… تنظیموں کی کمان کو توڑا گیا تو… منظم
جماعتیں انتقامی دستوں میں بٹتی چلی گئیں… یہ باتیں سب کو معلوم ہیں… پرویز مشرف
کے قریبی جرنیل تک کہہ رہے ہیں کہ… پرویز مشرف کا یہ فیصلہ غلط تھا اور ہم نے اُسے
سمجھانے کی کوشش کی تھی… پھر پرویز مشرف چلا گیا… ملک پر سیاستدانوں کی حکومت آگئی…
ان لوگوں نے پرویز مشرف کے کئی اقدامات پر روک لگا دی… مگر وہ آگ… جو اُس ظالم نے
لگائی تھی بدستور جل رہی ہے… اور موجودہ حکمران اُ س آگ کی بھرپور حفاظت کر رہے ہیں…
اب پھر کالعدم تنظیموں پر کریک ڈاؤن کا فیصلہ ہے… اب پھر دروازے ٹوٹیں گے…گرفتاریاں،
چھاپے اور تشدُّد… نتیجہ کیا نکلے گا؟… جی ہاں وہی نتیجہ جو پہلے نکلا تھا… ملک میں
تشدُّد کے واقعات اور بڑھ جائیں گے… اور جن کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا… وہ خود
موت کی تلاش میںنکل کھڑے ہوں گے… اور ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جائیںگے… جو جہاد کا
نام تو لیتے ہیں مگر جہاد کے تقدس اور اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے…ہمیں الحمدﷲ کوئی
خوف نہیں… اور نہ اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر ہے… ہم زمین پر اﷲ تعالیٰ کی بڑی بڑی
نشانیاں دیکھ رہے ہیں… اور یہ نشانیاں اچھے حالات کی خبر دے رہی ہیں… کل تک تُرکی
کا کیا حال تھا… مگر اب وہاں جہاد کے نعرے گونج رہے ہیں… اور آج کی تازہ خبر کے
مطابق تُرکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دے دی ہے… بے شک شریعت
کی حدود میں کام کرنے والوں کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی… ایک دن انشاء اﷲ پاکستان
کے حالات بھی بدل جائیںگے… اور یہاں بھی اسلام اور جہاد جرم نہیں رہیں گے… سیاستدانوں
کوچاہئے تھا کہ… وہ پرویز مشرف کی کالعدم کردہ تنظیموں کا جائزہ لیتے… ان جماعتوں
سے مذاکرات کرتے اور ان کے وجود کو تسلیم کرتے… مگرانہوں نے ظالم کاراستہ اختیار کیا…
ظاہر بات ہے ظُلم بونے سے ظلم کی فصل ہی
مضبوط ہوگی… پنجاب میں’’فور شیڈول‘‘ کی فہرست میں رکھے گئے بے گناہ افراد کی
گرفتاریاں شروع ہو چکی ہیں… کیااِن لوگوں نے داتا دربار پر حملہ کیا ہے؟… اگرنہیں
کیا تو پھر ان کو گرفتار کرنے کا کیا قانونی اور اخلاقی جواز ہے؟… اے حکمرانو! اﷲ
تعالیٰ سے ڈرو… اور اﷲ تعالیٰ کے اولیاء کو نہ ستاؤ… تم لوگوں کی حکومت اور زندگی
میں کتنے دن باقی ہیں؟… کوئی تو ایسا کام کر جاؤ جو آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ والی
زندگی میں کام آئے… شرعی ترتیب سے دین کا کام کرنے والے’’ساتھی‘‘ موجودہ صورتحال
سے بالکل نہ گھبرائیں… اﷲ تعالیٰ کا شُکر ہے کہ… آپ سب کا دامن مسلمانوں کے خون
سے پاک ہے… اور آپ دین اسلام کی خاطر ہر قربانی کا عزم کر چکے ہیں… اور اپنی جان
و مال کو جنت کے بدلے بیچ چکے ہیں… دین کے راستے میں گرفتاری اﷲ تعالیٰ کا عذاب نہیں
بلکہ بسا اوقات انعام ہوتا ہے… جب کوئی تمہارے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالے تو اُس
ہتھکڑی کو چوم لینا… کوئی جیل لے جائے تو اُس جیل کو دین اور نماز وجہاد سے روشن
کر دینا… آپ نے مسلمانوں کے محبوب امام حضرت عبداﷲ بن مبارک پ کے واقعات پڑھے ہوں
گے… ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب محاذ جنگ پر تشریف لے جاتے تو وہاں بھی تعلیم،
تربیت… اور عبادت و اصلاح کا کام جاری رکھتے… فرض تو فرض ہوتا ہے ایک مسلمان کبھی
اس سے غافل نہیں رہ سکتا… اﷲ تعالیٰ آپ سب کی حفاظت فرمائے… آپ لوگ اس دور میں
حضرت عبداﷲ بن مبارک پ، حضرت نورالدین زنگی پ ، حضرت صلاح الدین ایوبیپ، حضرت بایزید
یلدرم پ، حضرت سید احمد شہیدپ… اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدپ کے مبارک نقش قدم پر ہیں…
آپ وہ لوگ ہیں جن کو اس زمانے میں جہاد کے شرعی محاذوں کا غُبار اﷲ تعالیٰ نے نصیب
فرمایا ہے… آپ تو بروہی، پاملہ، ابو طلحہ، غازی بابا، ارسلان، باہو، آفاق اور
کاشف کے ساتھی ہیں… آپ تو عدنان، اختر اور کامران کے دوست ہیں… اور آپ عمران جیسے
صف شکن فاتح کے رفیق ہیں… ارے آپ لوگوں کو ڈرنے، گھبرانے اور پریشان ہونے کی کیا
ضرورت ہے؟… آپ لوگوں کے مقبول چرچے زمین و آسمان میں گونج رہے ہیں… ابھی رات کے
تین بجے ہیں آپ کے کتنے ساتھی آنسوؤں سے اپنی جانمازوں کو… اور کتنے ساتھی
قربانیوں سے زمین کے سینے کو سیراب کررہے ہیں… یہ بیچارے حکمران کیا کرلیںگے؟… شریعت
کا تقاضہ ہے کہ ہم ان سے نہیںلڑتے… مگر یہ بھی تو اسلام کا حکم ہے کہ ہم ان سے نہ
ڈریں… الحمدﷲ ایک دریا پوری شان کے ساتھ… اﷲ تعالیٰ نے جاری فرمادیا ہے… بس اس دریا
کے پانی بنے رہو… اور دریا کے پانی کی طرح آپس میں جُڑے رہو اور بغیر تھکے چلتے
رہو… چلتے دریاؤں پرڈالی جانے والی گندگی خود مٹ جاتی ہے… اسلام آباد کے پوش اور
پُر اسرار علاقے اُن لوگوں سے بھر چکے ہیں جو اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں… ان میں
سے کوئی اسرائیل سے تنخواہ لیتا ہے تو کوئی انڈیا سے… یہ لوگ ہر حکمران کو اپنے گھیرے
میں لے لیتے ہیں اور اسے جہاد، مدرسہ اور مسجد کے خلاف سبق پڑھاتے ہیں… موجودہ
حکمران بھی اسی طبقے کے گھیرے میں ہیں… اور اپنا ملک جلانے کے لئے الٹے کام کر رہے
ہیں… ان الٹے کاموں پر انہیں امریکہ اور انڈیا سے شاباش اور تعاون بھی ملتا ہے… یہ
سب باتیں ٹھیک مگریہ تو بتاؤ… اﷲ تعالیٰ کس کے ساتھ ہے؟… اب تک آپ لوگوں کے کام
کی حفاظت کس نے فرمائی ہے؟… پرویز مشرف نے تین سے زائد بار آپ لوگوں کا نام و
نشان تک مٹا دینے کے حتمی احکامات جاری کئے… مگر وہ کون تھا جو آپ کی حفاظت کر
رہا تھا… اﷲ، اﷲ اور صرف اﷲ… اﷲ تعالیٰ، رب عظیم… عرش عظیم کا مالک… جو قوی ہے،
قادر ہے، اور مقتدر ہے… قربان ہو جاؤں اُس عظیم اور پیارے رب کی عظمت، محبت اور
نصرت پر… اﷲ اکبر کبیرا… کس طرح سے اُس نے اِس کام کو بچایا اور آگے بڑھایا… بس
ہم سب اﷲ تعالیٰ سے جڑے رہیں… اور اپنا رُخ آخرت کی طرف رکھیں… اِ س دنیا کی طرف
نہیں… اور اس موقع پر صرف ا ﷲ تعالیٰ کو پکاریں… یا ارحم الراحمین، یا ارحم الراحمین،
یا ارحم الراحمین… یا ذاالجلال و الاکرام،یا ذاالجلال والاکرام، یا ذاالجلال و
الاکرام… ہم ہر گناہ سے توبہ کریں… دنیا کے عیش و عشرت کا ہر خیال دل سے نکال کر…
آخرت کی حسین وسعتوں میں کھو جائیں… اور اپنے رب کے شکر اور اُس کی یاد میں ڈوب
جائیں…
اﷲ،
اﷲ ،اﷲ…
اگراﷲ
تعالیٰ نے ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمادی… تو پھر انشاء اﷲ کامیابی ہماری ہو گی…
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم…
آج
کی مجلس کا اختتام حضرت شیخ احمد بن علی البونی ُُُُُُُپکے تلقین فرمودہ ایک عمل
سے کرتے ہیں… حضرت شیخ پنے لکھا ہے کہ… یہ عمل حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو عطاء
ہواتھا اور آپ پ جنگوںمیں اس عمل کے ذریعہ دعا ء مانگا کرتے تھے… یہ عمل حفاظت،
برکت اور نزول رحمت کا بہترین ذریعہ ہے…
اگر کسی پر جنات، جادو یا آسیب کااثر ہو تو اس عمل کی برکت سے وہ بھی ختم ہو جاتا
ہے… یہ ایک مبارک دعاء ہے جو قرآن پاک کے ’’حروف مقطّعات‘‘ پر مشتمل ہے… اگر صبح
و شام تین تین بار اخلاص اور توجہ کے ساتھ اس کا معمول بنا یا جائے تو انشاء اﷲ عجیب
فوائد نصیب ہوں گے… (اول آخر درود شریف)
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ الٓمّٓ وَ الٓمّٓ وَالٓمّٓصٓ وَالٓمّٓرٓ وَالٓرٓ وَ
کٓہٰیٰعٓصٓ وَطٰہٰ وَ طٰسٓمّٓ وَطٰسٓ وَ طٰسٓمّٓ وَ یٰسٓ وَ صٓ وَحٰمٓ وَحٰمٓ وَ
حٰمٓعٓسٓقٓ وَ حٰمٓ وَحٰم ٓ وَحٰم ٓ
وَحٰمٓ وَ قٓ وَ نٓ وَ یَامَنْ ھُوَ ھُوْ یَا مَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ
اِغْفِرْلِیْ وَانْصُرْنِیْ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ
اﷲ
تعالیٰ ہم سب پر اور پوری امت مسلمہ پر رحم و رحمت فرمائے۔آمین یا ارحم الراحمین…
اللھم
صل علی سیدنا محمدکلماذکرہ الذاکرون وکلما غفل عن ذکرہ الغافلون و علی الہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما کثیر اکثیرا
٭٭٭
امام
تفسیر حضرت مولانا محمد شریف مولویانی رحمۃ اللہ علیہ
اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو’’صبر جمیل‘‘ عطاء فرمائے… ہمارے حضرتؒ بھی چلے گئے…
انا للہ وانا الیہ راجعون…
کیا
یہ خبر سچی ہے؟… سب لوگ یہی بتارہے ہیں… کوئی بتا رہا ہے کہ ہم خود نماز جنازہ میں
شریک ہوئے… کوئی بتا رہا ہے کہ میں نے مرقد مبارک پر حاضری دی ہے… یہ سب لوگ سچ ہی
کہہ رہے ہوں گے… جی ہاں، بہت کڑوا سچ… ہم سب کے لئے کڑوا مگر میرے حضرتؒ کے لئے میٹھا…و
ہ تو معلوم نہیں کب سے سامان باندھے بیٹھے تھے… موت کا تذکرہ یوں فرماتے تھے جیسے
کوئی دلہن اپنے پیا کے گھر جانے کو بے چین ہو… لوگ اُن کے جانے کی خبریں سنا رہے ہیں…
ستائیس رجب کے دن پونے چھ بجے محبوب حقیقی
کا ذکر فرماتے فرماتے اُسی کے پاس چلے گئے… اکتالیس سال بخاری شریف کا درس دیا اور
اس سال بھی اپنا نصاب پورا پڑھایا… اس سال ترمذی شریف کا درس بھی دیا… اورعمومی
وقت سے پہلے طلبہ کرام کواجازت حدیث بھی عطاء فرمادی… روزانہ صدقہ دینے کا معمول
تھا، آخری دن بھی یہ معمول نہ چھوٹا… اوربہت سے فضائل اورمناقب… یہ ساری باتیں یہی
سمجھا رہی ہیں کہ حضرت پ چلے گئے… سعدی فقیر نہ تو اُن کے دیدار کے لئے جا سکا اور
نہ اُن کے جنازے کو کندھا دے سکا… اور نہ اُن کے مرقد پہ حاضر ہو سکا… یہی سوچا کہ
زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کی کوشش کروں… اور اُن کی باتوں اور یادوں کو الفاظ میں
سمیٹوں…مگر کوئی کوشش کامیاب نہیں جارہی… کل بھی کاغذ، قلم اور آنسو لے کر بیٹھا
رہا… اور آج بھی کئی گھنٹوں سے گُم سم بیٹھا ہوں… ایسا لگتا ہے کہ حضرت پمسکراتے
ہوئے سامنے آگئے ہیں… اور بس پھر میں اُن کی یادوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں…ملاقات
کا محبت بھرا دلکش انداز… حال احوال پوچھنے میں ایک عجیب سی میٹھی اپنائیت… اولیاء
سلف جیسی حقیقی تواضع…بادشاہوں سے بڑھ کر استغنا… اظہار بندگی ایسا کہ ’’عبدیت‘‘
کا معنیٰ سمجھ میں آجائے… پھر درس قرآن کی مجلس میں علوم اورمعارف کی موسلا دھار
بارش… ایمان افروز نصائح… اور انمول علمی نکتے… اور سب سے بڑھ کر خلوت کی ملاقات…
اُن ملاقاتوں کی چاشنی تو شاید مرکر بھی نہ بھولے… ان ملاقاتوں میں بس تین ہی
موضوع ہوتے تھے…
(۱) اﷲ
جلّ شانہ کی محبت، معرفت، ادب کاتذکرہ…
(۲) ذات
نبوت ﷺ سے عشق و وفا کی باتیں…
(۳) ہر
طرح کے حالات پر شُکر گزاری کی نصیحت…
واقعی’’حضرت
پ‘‘ ہم سب کے لئے اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑاانعام تھے… اورا گر یہ کہا جائے تو مبالغہ
نہ ہوگا کہ… حضرت پ اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ تھے… اﷲ تعالیٰ نے اُن کو
دوچشموں کاوارث بنایا… ایک علم کا چشمہ جو انہیں اپنے والد صاحب پ اور اپنے علمی
خاندان سے نصیب ہوا… مولویوں والا یہ خاندان علم دین کی آبرو ہے… اور حضرت پ نے
اپنی مسند نشینی کے زمانے میں اس خاندان کے علمی رنگ کو مزید گہرا فرمایا… اور اس
کے فیض کو دور دور تک پھیلایا… ایک بار خلوت کی ملاقات میں ارشاد فرمایا… لوگوں کی
مخالفت سے پریشان اور اُداس نہ ہوا کرو… دیکھو! میری کتنی مخالفت بعض لوگوں نے کی…
مگر میں نے کسی کو جواب نہ دیا، آج اﷲ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ بلوچستان کے چالیس
مدرسوں کے مہتمم میرے شاگرد ہیں… آپ پکا خاندان علوم و فنون میں ایک مثالی شہرت
رکھتا ہے… مگر حضرت پ نے تین علوم کو زیادہ توجہ دی…
(۱) علم
تفسیر(۲) علم حدیث(۳) علم فرائض(میراث)
آپ
کاد ورۂ تفسیر اور دورۂ حدیث بہت عجیب شان کا ہوتا تھا… بندہ نے جب بھی آپ کے
کسی درس میں شرکت کی تو ہمیشہ آپ کی علمی شان سے بے حد متاثرہوا… بیس پچیس سال
کتابوں کی ورق گردانی سے ہم خود تو عالم نہیں بن سکے مگر الحمدﷲ اس کی پہچان نصیب
ہو گئی ہے کہ… کون عالم ہے اور کون صرف مدّعی… حضرت پ ماشاء اﷲ بہت راسخ العلم اور
متبحّر عالم تھے… اور علم آپ کے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا… ابھی تین سال سے
نظر کی کمزوری کا عارضہ لاحق تھا… مگرا س کے باوجود آپ تمام اسباق زبانی پڑھا رہے
تھے… ایک ملاقات میں ارشاد فرمایا تھا … جب سبق پڑھانے بیٹھتاہوں توجوان ہو جاتا
ہوں… اور میری جوانی دیکھنے لائق ہوتی ہے… علم تفسیر کے ساتھ آپ کو عشق تھا… آپ
نے عربی میں تفسیر بدیع اور اردو میں تفسیر کوثری تصنیف فرمائی… اﷲ تعالیٰ ان تفاسیر
کا فیض پورے عالم میں جاری فرمائے… دوسرا چشمہ جس کاوارث اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بنایا
وہ ’’معرفت‘‘ کا ہے… آپ قطب الاقطاب حضرت مولانا حماد اﷲہالیجوی پ کے باقاعدہ خلیفہ
مجاز تھے… حضرت ہالیجوی پ کے مقام کو سمجھنے کے لئے حضرات اکابر کے چندملفوظات
ملاحظہ فرمائیے:
(۱) شیخ الاسلام حضرت مدنی پ نے حضرت ہالیجوی پ سے فرمایا:
حضرت! اگر آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئیں تو آپ کا ہم پر بے حد احسان ہو
گا،ہم آپ سے روحانی فیض حاصل کرتے، آپ سے معرفت الہٰی اور تعلق باﷲ کے اسباق سیکھتے۔
(۲) حضرت علامہ بنوری پ فرماتے ہیں:
حضرت ہالیجوی پ متقدمین صوفیاء کی صف
کے فرد ہیں، تصوف میں اُن کا مقام بہت بلند ہے۔
(۳) حضرت امیر شریعت مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری پ فرماتے ہیں:
حضرت
ہالیجوی پ کے دل پر گناہ کا تصور بھی نہیں آتا تھا، حضرت کا قلب مبار ک ہمیشہ ذات
ِ الہٰی کی محبت میں مشغول رہتا تھا۔(تذکرہ مشائخ سندھ ص ۵۲۱)
حضرت
بنوری پ پابندی سے حضرت ہالیجوی پ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے… اور اپنے جامعہ کے
اساتذہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے…ہمارے حضرتؒ نے حضرت ہالیجوی پ کے ہاتھوں میں
اپنا ہاتھ دیا… اور پھرغلاموں کی طرح اُن کی اتباع کی… اور اﷲ تعالیٰ کی معرفت
حاصل کرنے کے لئے وہ محنتیں اورمجاہدے اٹھائے کہ اس زمانہ میں اُن کا تصوربھی محال
ہے… خلوت کی ملاقاتوں میں آپ کبھی کبھار اپنے ’’سفرِمعرفت‘‘ کاتذکرہ چھیڑتے تو دل
حیرت اور عقیدت میں ڈوب جاتا… فرماتے تھے کہ … میں زمین میں گڑھا کھود کر اس میں بیٹھ
جاتا اور پھر گھنٹوں ذکر اﷲ میں ڈوبا رہتا… حضرت ھالیجوی پ بہت بلند پایہ عالم بھی
تھے… انہوں نے اپنے اس وفادار اور جانثار مرید پر خصوصی توجہ فرمائی… اور بالآخر
سندکمال سے نوازہ… حضرت پ کو اپنے شیخ سے فنا درجے کا عشق تھا… شاید ہی کوئی مجلس
اُن کے تذکرے سے خالی جاتی ہو… اور تو اور اگر سندھ سے کوئی طالب علم آجاتاتو اُس
کابھی بہت اکرام فرماتے کہ… یہ میرے شیخ اور حضرت کے علاقے کا ہے… ایک ملاقات میں
ارشاد فرمایا …
جب
میں نے تفسیر کوثری لکھی تو بعض مخالف علماء نے بھی اعتراف کیا کہ یہ حضرت ہالیجوی
پ کا فیض ہے… ویسے تو آپ سلاسل اربعہ میں کامل تھے… مگر زیادہ رجحان سلسلہ قادریہ
کی طرف تھا… اور اسی سلسلہ کے اسباق کی تعلیم فرمایا کرتے تھے… اﷲ تعالیٰ نے آپ
کوبہت سی علمی، عملی اور روحانی خوبیوں سے وافر حصہ عطاء فرمایا تھا… آپ کو حدیث
شریف کی ایک’’قُربی سند‘‘ بھی نصیب ہوئی تھی… آپ نے اس مبارک سند کافیض عرب و عجم
کے اہل علم میں پھیلایا… آپ نے خدمتِ قرآن مجید کے لئے ایک نیا سلسلہ’’تفسیری‘‘
قائم فرمایا… آپ اس سلسلہ کے بانی اور سرپرست تھے…آپ کا آبائی مدرسہ’’مولویاں
والی بستی‘‘ میں قائم تھا… آپ پنے دین کی اشاعت کے لئے رحیم یار خان شہر کو عزت
بخشی… اور اپنی موروثی جائیداد بیچ کر یہاں ایک مقبول اور مستند دینی ادارہ قائم
فرمایا… آپ پ فریضہ ٔ جہاد فی سبیل اﷲ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور اپنی مجالس
میں اپنے شوق شہادت کا والہانہ اظہار کرتے تھے… حضرت پ کا ہم پر بڑا احسان تھا کہ
آپ نے ہماری جماعت کو روزِ قیام سے اپنی محبت اور سرپرستی سے نوازہ… بہت سے اہم
معاملات میں خصوصی رہنمائی فرمائی… اور بہت سے مشکل مقامات پر اپنی توجہ اور دعاؤں
سے سہارا دیا… حضرتؒ کے تشریف لے جانے سے دل بہت غمگین اور بے چین ہے… انا للہ وانا الیہ راجعون… اللھم لاتحرمنا اجرہ
ولا تفتنابعدہ…
برادر
مکرّم حضرت مولانا محمد خلیل اﷲ صاحب مدظلہ اور اُن کے بھائیوں … اور رشتہ داروں
کے غم کا ہمیں کچھ اندازہ ہے… ہم اُن سے تعزیت کرتے ہیں… اور وہ ہم سے تعزیت کریں…
اور سب مل کر حضرت پ کے کام کو جاری رکھنے کی کوشش کریں…
القلم کے قارئین بھی… امام التفسیر حضرت مولانا
محمد شریف اﷲ نوراﷲ مرقدہ کے لئے ایصال ثواب اور دعاء کا اہتمام فرمائیں… انشاء اﷲ
جب دل کا بوجھ ہلکاہوا توحضرت پ کی بہت سی باتیں… آپ سب تک پہنچانے کی کوشش کروں
گا… یا اﷲ… یا ارحم الراحمین… ہمارے حضرت پ کے درجات بلند فرما… اُن کو فردوس اعلیٰ
کا مقام نصیب فرما… اُن کے دینی ادارے، دینی خدمات… اور اہل واولاد کی حفاظت فرما…
اور ہمیں حضرت پکے فیوض سے محروم نہ فرما…آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علی سیدنا محمد النبی الامی والہ وبارک وسلم عدد کل معلوم لک دائما ابدا…
٭…٭…٭
رب
تعالیٰ کا فضل
اللہ
تعالیٰ کا بے حد شُکر ہے… ہم ہر طرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی خوشبو پھیلی ہوئی
محسوس کر رہے ہیں…
الحمدللہ
رب العالمین ، الحمدللہ رب العالمین
ابھی
چند دن پہلے پاکستان کے چند شہروں میں قرآن پاک کی ’’آیات جہاد‘‘ کا دورہ تفسیر
ہواگوجرانوالہ، سکھر، پشاور، میر پور (آزاد کشمیر)… حویلی لکّھاں… الحمدللہ سینکڑوں
افراد نے فیض اٹھایا… اور آج جس وقت میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں مُلک کے بارہ شہروں
میں آیاتِ جہاد کا درس گونج رہا ہے… والحمدللہ رب العالمین…
سب
سے زیادہ افراد کراچی کے درس میں شریک ہیں… جبکہ بہاولپور، فیصل آباد، واہ کینٹ میں
بھی سینکڑوں مسلمان قرآن پاک کا نور حاصل کر رہے ہیں… اس کے علاوہ ٹنڈوالہ یار،
کوئٹہ، نواب شاہ، سرگودھا، مانسہرہ، کوہاٹ، بنوں میں بھی آیاتِ جہاد کے دورے پوری
شان سے جاری ہیں… جبکہ صوابی میں انتظامیہ کی طرف سے شدید رکاوٹ کے باوجود یہ دورہ
رات دن کی محنت سے دو دن ہی میں مکمل کر لیا گیا… والحمد للہ رب العالمین…
مرد
حضرات کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر خواتین اور طالبات بھی ان دوروں میں شرکت کر رہی
ہیں… کچھ عرصہ پہلے آپ نے ’’خمیری مسلمان‘‘ کے نام سے جس نو مسلم بہن کے ایمان
افروز حالات پڑھے تھے… وہ بھی اس سال ’’ٹنڈو الہ یار‘‘ کے دورہ میں شریک ہیں…
والحمدللہ رب العالمین…
جہاد
کو مانے بغیر نہ تو ایمان مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی ہدایت کامل ہوتی ہے… جہاد فی سبیل
اللہ کا انکار کُفر ہے… اور جہاد کے بارے میں الٹی بحثیں کرنا گمراہی ہے… اُمتِ
مسلمہ کو کفر اور گمراہی سے بچانے کے لیے جہاد کی دعوت بے حد ضروری ہے… خصوصاً اس
وقت تو پوری دنیا کے کفار جہاد کے خلاف متحد ہو کر تحریک چلا رہے ہیں… اور کئی نام
نہاد مسلمان بھی جہاد کی مخالفت کو اپنا مشن بنا چکے ہیں… یہ سب لوگ قرآن پاک کے
دشمن ہیں… یہ قرآن پاک کی سینکڑوں آیات کو نعوذ باللہ غلط قرار دینے کی مذموم
محنت کر رہے ہیں… یہ لوگ اس بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیںکہ… قرآنِ پاک نعوذ باللہ
ہر زمانے میں رہنمائی نہیں کر سکتا… ہمارے بہت سے مسلمان ان باتوں کی وجہ سے جہاد
کے منکر بن رہے ہیں… ایسے حالات میں آیاتِ جہاد کے دورے منعقد ہونا اللہ تعالیٰ
کا بہت بڑا فضل ہے… ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں… الحمدللہ جو
مسلمان بھی آیاتِ جہاد کی ان مجالس میں شرکت کرتا ہے وہ اپنے دل میں نور اور روشنی
محسوس کرتا ہے… اُسے قرآن پاک کے بیان فرمودہ فریضہ جہاد سے محبت نصیب ہوتی ہے…
اور اُسے کسی بھی زمانے میں جہاد ناممکن نظر نہیں آتا…
الحمدللہ
رب العالمین، الحمدللہ رب العالمین…
اللہ
تعالیٰ کا فضل دیکھیں کہ … آیاتِ جہاد کے یہ اسباق وہ علماء کرام پڑھا رہے ہیں جو
خود ماشاء اللہ عملی مجاہد ہیں… ان میں سے کئی تو ماضی میں محاذوں کے شہسوار رہے ہیں…
یہ لوگ جب جہاد کی آیات پڑھانے بیٹھتے ہیںتو… اُن کے سامنے ناولوں اور کہانیوں
والا جہاد نہیں ہوتا… بلکہ وہ جہاد کے اصلی محاذوں کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں… یہ
حضرات جب شہداء کا تذکرہ قرآن پاک کی آیات میں اٹھاتے ہیں تو اُن کے پیچھے اپنی
جماعت کے سولہ سو سے زائد شہداء مسکرا رہے ہوتے ہیں… یہ حضرات جب اللہ تعالیٰ کی
نصرت والی آیات پڑھاتے ہیں تو اُن کے سامنے اسلام دشمن کفار کی لاشوں کے وہ انبار
ہوتے ہیں… جو حالیہ زمانے میں جہاد کا نتیجہ ہیں… یہ حضرات جب جہاد کی محنتوں،
مشقتوں اور زخموں کا تذکرہ کرتے ہیں تو انہیں اپنے ہی قیدی اور زخمی ساتھیوں کی
آہیں صاف سنائی دے رہی ہوتی ہیں… تفسیر کے یہ اساتذہ… قرآن پاک کے جہادی محاذوں
کاتذکرہ کرتے ہوئے افسوس سے ہاتھ نہیں ملتے کہ … کاش آج بھی کوئی محاذ ہوتا…
الحمدللہ ان کا دامن ماضی اور حال کے محاذوں سے بھرا ہوتا ہے… وہ قرآن پاک سے
بدر، اُحد، خندق، حنین اور بنی قریظہ کے تذکرے اٹھاتے ہیں تو… اُنکی آنکھوں کے سامنے
افغانستان، کشمیر، فلسطین اور عراق کے محاذ آجاتے ہیں… خلاصہ یہ ہے کہ… قرآن پاک
کی آیاتِ جہاد پڑھانے اور پڑھنے والوں کے سامنے… گذشتہ کل کی طرح آج کا منظر بھی
ہوتا ہے… اور عمل کی دعوت کے ساتھ عمل کا میدان بھی صاف نظر آتا ہے…
الحمدللہ
رب العالمین، الحمدللہ رب العالمین…
آپ
تھوڑاسا سوچیں… ایک شخص دین کی باتیں کرتا ہے مگر جہاد کا نام تک نہیں لیتا… پھر
اُسے کچھ لوگ مجبور کرتے ہیں کہ جناب جہاد کی بات بھی کرو… تب وہ خاص لوگوں کو جمع
کرکے جہاد کی بات کرتا ہے… اور صاف کہہ دیتا ہے کہ … جہاد کا انکار تو کفر ہے… مگر
ہم یہ کہتے ہیں کہ … ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا… بہت سے لوگ اُس کی یہ ظالمانہ
بات مان لیتے ہیں… استغفراللہ، استغفراللہ… حضور اقدس ﷺ کی صحیح احادیث میں فرمایا
گیا ہے کہ… جہاد کبھی نہیں رُکے گا… جہاد ہمیشہ جاری رہے گا… مسلمانوں کی ایک
جماعت تو ضرور جہاد میں لگی رہے گی اور یہ برحق جماعت ہوگی… محدّثین کرام نے ان
احادیث کی روشنی میں لکھا ہے کہ… ایک دن کے لیے بھی روئے زمین پر جہاد نہیں رُکے
گا… اور یہ اسلام کے مسلسل اور برحق ہونے کی دلیل ہے… جہادکا عمل جاری رہے گا یہاں
تک کہ اُمت مسلمہ کے مجاہدین کی آخری جماعت دجّال کو قتل کردے گی… تب دنیا سے کفر
کا خاتمہ ہو جائے گا تو جہاد کی ضرورت نہیں رہے گی… اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ فرماتے ہیں
کہ… جہاد ہمیشہ جاری رہے گا… ایک تقریر کرنے والا کہتا ہے کہ… آجکل جہاد کا وقت
نہیں ہے… آپ بتائیے کہ ہم کس کی بات مانیں گے؟… اور یہ شخص اُمت مسلمہ کو کس طرف
لے جا رہا ہے؟… الحمدللہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ … آج بھی جہاد
جاری ہے اور جہاد ممکن ہے… آج بھی جہاد میں اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہورہی ہے…
آج بھی الحمدللہ شہداء کرام کے خون سے مُشک اور کستوری کی خوشبو آرہی ہے… مگر
بعض لوگ بڑے بڑے مجمعوں سے دھوکے میں پڑگئے ہیںاور وہ خود کو مسلمانوں کا خیر خواہ
سمجھ رہے ہیں… وہ سمجھتے ہیں کہ جہاد کرنے سے مسلمان ختم ہو جائیں گے اس لیے
مسلمانوں کو بچانے کے لیے قرآن پاک کا انکار کردو… انا للہ وانا الیہ راجعون… ارے
اللہ کے بندو! مسلمان کی حفاظت اور ترقی اسلام کے تمام احکامات کو ماننے اور اُن
پر عمل کرنے میں ہے… آج کے کُفار تو کسی ایک محاذ پر بھی مسلمانوں کو ختم نہیں
کرسکے… اورنہ شکست دے سکے… اگر اپنی حفاظت کے لیے قرآن پاک کا انکار کروگے تو
پھر… ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟… آیاتِ جہاد کی مجالِس میں یہی سبق پڑھایا جاتا ہے
کہ… ہر مسلمان پورے دین کو مانے… پورے قرآن کو مانے… اور اپنی جان بچانے کے لیے
کفر اختیار نہ کرے… بلکہ اپنی جان اور مال اسلام کے لیے قربان کرے… الحمدللہ اب تک
لاکھوں مسلمان اس پیغام کو سُن چکے ہیں اور اسلام کے تمام فرائض کو ماننے کا اعلان
کر چکے ہیں…
الحمدللہ
رب العالمین، الحمدللہ رب العالمین
اللہ
تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہوا کہ… اُس نے آیاتِ جہاد کی طرف توجہ نصیب فرمائی… سب سے
پہلے افغانستان کے ایک مرکز میں سورۂ انفال کامکمل درس دینے کی توفیق نصیب ہوئی…
پڑھانے والے کو بھی خوب لطف آیا اور پڑھنے والوں نے بھی ایمان کی روشنی محسوس کی…
اس دورے میں کئی علماء کرام بھی شریک تھے جو ان اسباق کو پڑھ کر بہت خوش اور بے حد
حیران ہوئے… ان اسباق میں ایسے ساتھی بھی شریک تھے جن کی لہو رنگ قبریں آج
تاجکستان اور افغانستان کے دور دراز علاقوں میں مہک رہی ہیں…
پھر
قسمت جیل میں لے گئی… وہاں الحمدللہ کوٹ بھلوال کی بڑی بارک میں سورۂ انفال کا
درس سینکڑوںقیدی مجاہدین کے سامنے ہوا… پھر اللہ تعالیٰ کا فضل واپس پاکستان اُڑا
لایا… کراچی میں حضرت لدھیانوی شہید کی مسجد میں سورۂ انفال کا دورہ ہوا جو ماشاء
اللہ بہت کامیاب رہا… کم وبیش تین سو علماء کرام اور سینکڑوں طلبہ اور طالبات نے
اس میں شرکت کی… تقاضا بڑھا تو مالا کنڈ میں دوبارہ یہ دورہ رکھا گیا… ان دونوں
دوروںکی کیسٹیں دور دور تک پھیل گئیں… ابھی مدینہ منورہ سے کسی کا خط آیا ہے کہ…
میں نے کراچی والے دورے کی کیسٹیں سنی ہیں… کیا یورپ اور کیا امریکہ… کیا عرب اور
کیا عجم… اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم نے ہر جگہ ان کیسٹوں کو پھیلادیا… اچانک خیال
آیا کہ پورے قرآن پاک کی آیاتِ جہاد کا دورہ ہونا چاہیے… الحمدللہ مردان اور
کوہاٹ میں دوبار اس طرح کے دورے ہوئے… اُن دوروں کی برکت سے کئی ایسے ساتھی بھی تیار
ہوگئے جو یہ دورے خود پڑھاسکیں… اب ماشاء اللہ وہی ساتھی پڑھا رہے ہیں… اور ہم
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو دیکھ کر شُکر اور تشکّر میں جھوم رہے ہیں… اس سال
پاکستان کے سترہ شہروں میں یہ دورے منعقد ہوئے… اور الحمدللہ تین ہزار سے زائد
مسلمان مرد و خواتین ان سے فیض یاب ہوئے…
الحمدللہ
رب العالمین، الحمدللہ رب العالمین
آج
مجھے خوشی اور شکر کے اس موقع پر وہ خوش نصیب افراد یاد آرہے ہیں جنہوں نے… بالکل
ابتداء میں اس مبارک جماعت کا ہاتھ بٹایا… ساتھ دیا اور پھر آخری دم تک ڈٹے رہے…
ان میں سے کئی الحمدللہ ابھی تک حیات ہیں اور اپنی پکی ہوئی آخرت کی اس کھیتی کو
دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں… جبکہ کئی آج اس دنیا میںنہیں ہیں… ماشاء اللہ ہر طرف
خوشبو اور روشنی پھیل رہی ہے… محاذوں کو دیکھو تو آباد ہیں… شہادت گاہوں کو دیکھو
تو کیسے کیسے کڑیل سپاہی خون میں نہا گئے… اور کئی تو عشق کے ذرّوں میں بدل گئے…
سولہ سو سے زائد شہداء کرام، … جیلوں کو دیکھو تو ان کی تلاوت اور تکبیروں سے
آباد ہیں… تربیت گاہوں کو دیکھو تو دن رات خوشبودار پسینوں میں ڈوبی ہوئی ہیں…
خدمتِ قرآن پاک کو دیکھو تو… بہاریں ہی بہاریں ہیں… ابھی صرف چند ماہ میں مدرسہ
اویس قرنی ذ سے چوبیس طلبہ نے قرآن پاک مکمل کیا… قرآن پاک سے بھاگے ہوئے یہ لوگ
واپس قرآن پاک کی آغوش میں آئے… عجیب رحمت والا منظر ہے… تجوید، تلاوت، تفسیر…
اور دعوتِ قرآن کا کام زور شور سے جاری ہے… دعوتِ جہاد کو دیکھو تو ماشاء اللہ
پچھلی کئی صدیوں میں اسکی نظیر نہیں ملتی کہ … صرف ایک جماعت نے اتنے لوگوں تک
دعوتِ جہاد پہنچائی ہو… اور یہ دعوت اُن حالات میں چلی کہ… قدم قدم پر پابندیاں،
گرفتاریاں، پریشانیاں، جھوٹا پروپیگنڈہ… اور سازشیں ہیں… مگر اللہ تعالیٰ کا فضل
بہت بڑی نعمت ہے… ابھی اسی سال الحمدللہ بیس سے زائد مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی… کل
کے چٹیل پلاٹوں پر آج نور سے معمور مساجد مسکرا رہی ہیں… جو بھی ان مساجد کو دیکھ
کر آتا ہے ماشاء اللہ ماشاء اللہ پڑھتاآتا ہے… دینی مدارس، نماز کی دعوت… اور
حرمین شریفین کے قافلے… اور ان سب سے بڑھ کر… اللہ تعالیٰ کا ذکر… الحمدللہ ہر دن
مرکز شریف اور کئی مقامات پر اللہ، اللہ ، اللہ، اللہ ہی کی صدا آتی ہے… مسلمانوں
کی رہنمائی کے لیے اخبار، رسالے، کتابیں… اور انسانی خدمت کے نئے نئے اسلوب… ماشاء
اللہ آج ہر دن پانچ ہزار سے زائد افراد… جماعت کے دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں…
اگر اللہ پاک کا فضل نہ ہو تو کون یہ سب کچھ کر سکتا ہے… کتنے خوش نصیب تھے وہ
لوگ… اور کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ… جنہوں نے اس جماعت میں حصہ ڈالا… میرے سامنے
بہت سے مناظر آرہے ہیںاور بہت سے چہرے… اللہ اکبر کبیرا… کراچی ختم نبوت کے دفتر
میں حضرت لدھیانوی شہیدپ خوب مسکرا رہے تھے… خوشی کے آثار نے اُن کے حُسن کو اور
بڑھا دیاتھا… مجھے اپنی تائید کی تحریر عطاء فرمائی… اور ارشاد فرمایایہ کام بہت
چلے گا… مگر لوگ مخالفت بھی بہت کریں گے… آپ مخالفین کے پیچھے پڑنے کی بجائے کام
میں لگے رہنا… کام بہت چلے گا… وہ حضرت قاری عرفان صاحبپ… بالاکوٹ کے ایک کمرے میں
پُرجلال انداز… پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ ایک ہے… اور اللہ تعالیٰ
آپ کے ساتھ ہے… وہ حضرت شامزئی شہیدپ جنہوں نے کراچی پریس کلب میں جماعت کا اعلان
فرمایا… وہ میرے محبوب اُستاذ مفتی جمیل خان شہیدپ… اور بہت سے لوگ… ابھی پچھلے
ہفتے آپ نے حضرت مولانا شریف اللہ صاحبپ کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھی… عجیب طرح
سے تعاون فرمایا… کسی بھی مرحلے پر حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیتے تھے… یہاں تک کہ روپوشی
کی مشقت آئی تو فرمایا اس میں بڑی خیر ہے… الحمدللہ ایک خیر تو اللہ تعالیٰ نے
’’فتح الجوّاد‘‘ کی صورت میں دکھا دی… دوسری خیر وہ اپنے فضل سے آخرت کی کامیابی
کی صورت میں عطاء فرما دیں تو غریب مسافر کے مزے ہوجائیں… اللہ ، اللہ… عجیب
جانباز ساتھی، رفقاء، اور جماعت کے خُدّام… کِس کِس کا نام لوں کِس کِس کا تذکرہ
کروں… زیورات دینے والی خواتین… ہاں آج وہ خوش ہونگی… الحمدللہ ہر طرف صدقاتِ جاریہ
کے انبار لگ گئے ہیں… اور اپنے بیٹے وقف کرنے والی مائیں… خوش قسمت عظیم مائیں…
ہاں سب سے زیادہ انہوں نے کمایا… میں آج کے دوراتِ تفسیر کی مبارک باد انہیں
مائوں کو پیش کرتا ہوں… آپ سب کو مبارک… آپ سب کو سلام
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد، وانزلہ المقعد المقرب عندک، واجزہ افضل ماجازیت احدامِن خلقک…
وبارک علیٰ سیدنا محمد والہ و صحبہ وسلّم تسلیما کثیرا کثیرا
٭٭٭
واہ
ابا جی!……واہ اباجی
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے اُس نے مجھے اتنے پیارے ابّا جی دیئے… الحمدﷲ رب العالمین، الحمد
ﷲ رب العالمین…
اب
اﷲ تعالیٰ نے میرے ابّا جی کو اپنے پاس بُلا لیا ہے… انا ﷲ وانا الیہ راجعون…انا ﷲ
وانا الیہ راجعون
اتنے
پیارے ابّا جی کی جُدائی پر رونا تو منع نہیں ہے نا!… ساری زندگی ابّو جی کی برکت
سے ہم ہنستے رہے اور اب سات دن سے اُن کی جدائی پر رورہے ہیں… مشہور صحابیہ حضر ت
خنساء ز کے بھائی’’ صخر‘‘ انتقال فرما گئے… حضرت خنساء ز کو اپنے بھائی سے بہت
محبت تھی… وہ صخر کی قبر پر صبح شام جا کر زار زار روتیں اور دردناک اشعار پڑھتی
تھیں… مثلاً
’’ جب سورج
نکلتا ہے تو مجھے صخر کی یاد دلاتا ہے… اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو مجھے صخر کی یاد
رُلاتی ہے…‘‘
آگے
کچھ اشعار ہمارے حسب حال فرماتی ہیں:
الایا
صخرا ان ابکیت عینی
فقد
اضحکتنی دھرا طویلا
دفعت
بک الجلیل وانت حی
ومن
ذایدفع الخطب الجلیلا
’’اے صخر!اگر تو
نے اب میری آنکھوں کو رُلایا ہے تو کیا ہوا، ایک لمبے عرصے تک تو تم مجھے ہنساتے
رہے، تم زندہ تھے تو تمہاری برکت سے ہم بڑے بڑے حوادث سے بچ جاتے تھے… مگر اب ان
بڑی مصیبتوں کو کون(اپنی برکت سے) دور کرے گا۔‘‘
آنسو
بھی تو نعمت ہیں… اور یہ وفاداری کی علامت ہیں… حضرت خنساء ز فرماتی ہیں
أعینیّ
جودا وتجمدا ألا تبکیان لضحر النّدی
اے
میری آنکھو! خوب آنسو بہاؤ اور آنسو بہابہا کر خشک ہو جاؤ کیا تم صخر جیسے سخی
پر نہیں روؤ گی؟…
واہ
ابّو جی واہ… آپ تو بہت ہنساتے تھے اوربہت خوش رکھتے تھے… اور اب رُلا بھی تو بہت رہے ہیں… ہم ہی کیا آپ کے پیچھے آسمان
بھی رویا ہے اور زمین بھی… اور کتنے بڑے بڑے لوگ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رورہے ہیں…
اے
عزیزِ جان و دل گھر گھر ترا ماتم ہوا
روتے
روتے کون تھا ایسا نہ جو بے دم ہوا
سب کو بے حد غم ہوا بیوی سے پھر بھی کم ہوا
کارخانہ
ہی سب اُس کا درہم و برہم ہوا
شادو
آباد اس قدر یا خانما برباد ہے
اک
جہاں شیدا تھا اک دنیا تھی متوالی تری
فرد
تھی جود وسخا میںہمت عالی تری
خوشہ
چیں سب تھے جُھکی ہی رہتی تھی ڈالی تری
سب
نے دامن بھر لئے مٹھی رہی خالی تری
قرض
کا بھی غم نہ تھا جب تجھ کو دیکھا شاد ہے
جو
کوئی ناکام پہنچا کام اُس کا کر دیا
دامن
مقصود اک دنیا کا تو نے بھر دیا
بے
زروں کو زر دیا اور بے گھروں کو گھر دیا
دل
تجھے اﷲ نے بہتر سے بھی بہتر دیا
تیرے
غم میں ہم تو کیا ہیں مجمع زُھّاد ہے
ابّا
جی پ ہمارے خاندان اور جماعت کے بادشاہ تھے… وہ ہماری جماعت کے لئے مقبول دعاؤں
کا پرسکون بادل تھے… بادل ہٹ جائے،وہ بھی گرمی کے موسم میں تو دھوپ بہت بے قرار
کرتی ہے ؎
گئی
یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
کروں
اس زیاں کا میں کیا بیاں مراغم سے سینہ فگار ہے
سبھی
جا وہ صدمہ سخت ہے کہوں کیسی گردش بخت ہے
نہ
وہ تاج ہے نہ وہ تخت ہے نہ وہ شاہ ہے نہ دیار ہے
الحمدﷲ
ہم آج اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہیں… اُس نے چالیس سال کی عمر تک یہ عظیم نعمت
ہمارے مقدّر رکھی… ہم موت سے نفرت کرنے والے لوگ نہیں بلکہ موت کے آئینے میں’’رُخ
یار‘‘ دیکھنے والے کمزور سے مسلمان ہیں… پوری زندگی ہی ہنگاموں، طوفانوں اور حوادث
میں گزری ہے… پھرابّو جی کی جُدائی پر اتنا غم کیوں؟… اﷲ رب العزت کی قسم وہ ہمارے
لئے اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھے… اﷲ تعالیٰ کی نعمت چھن جائے تو صدمہ ہونا یقینی
بات ہے… اناﷲ وانا الیہ راجعون… اللھم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ…
آپ
تھوڑا سا اندازہ لگائیں… کتنے مشکل حالات میں ’’فتح الجوّاد‘‘ کا کام شروع ہوا…
شروع کرتے ہی اندازہ ہوا کہ یہ پتھر بہت بھاری ہے… تب والدین نے رو رو کر دعائیں
مانگیں… الحمدﷲ کام چل پڑا… دو جلدیں مکمل ہوئیں تو ہمت نے جواب دے دیا… پورا ایک
سال کام بالکل بندرہا… امیدوںنے دم توڑنا شروع کردیا… تب حضر ت ابّا جی سے ملاقات
نصیب ہو گئی… بندہ نے عرض کیا تو فرمایا کہ بس اب انشاء اﷲ شروع ہو جائے گا… بندہ
نے اُن کے سامنے رجسٹر اور قلم رکھ دیا کہ… آپ ہی شروع فرمادیں… انہوں نے قلم
تھاما اور بہت خوبصورت خط میں لکھا
’’بسم اﷲ الرحمن
الرحیم، سورۃ الفتح‘‘
ابّو
جی کی’’بسم اﷲ‘‘ رنگ لائی… اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے کام مکمل ہو گیا… والحمدﷲ رب
العالمین… اب میں قرآن پاک کی تفسیر لکھنا چاہتا ہوں اور لکھ نہیں پارہا… مجھے نہ
رونے کا حکم دینے والے بتائیں کہ … میں کس سے’’بسم اﷲ‘‘ لکھواؤں؟…انا ﷲ وانا الیہ
راجعون، انا ﷲ وانا الیہ راجعون…
جا
کہیو اُن سے نسیم سحر مرا چین گیا مری نیند گئی
تمہیں
میر ی نہ مجھ کو تمہاری خبر مرا چین گیا مر ی نیند گئی
اے
برق تجّلٰی بہر خدا ، نہ جلا مجھے ہجر میں شمع آسا
مری
زیست ہے مثل چراغ سحر میرا چین گیا مر ی نیند گئی
یہی
کہتا تھا رو رو کے آج ظفر مری آہ رسا میں ہوا نہ اثر
ترے
ہجر میں موت نہ آئی مگرمرا چین گیا مری نیند گئی
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میرے ابّو جی کو ایمان کی دولت عطاء فرمائی… ہم نے آنکھ
کھولی تو انہیں پابندی سے مسجد جاتے دیکھا… رمضان المبارک آتا تووہ اہتمام سے
آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے… انہیں مسجد سے پیار تھا… جب ہم نے گھر کے قریب مسجد بنا لی تو ابّا جی کی خوشی دیدنی
تھی… فرمایا تم لوگوں کی ساری زندگی کی خدمت ایک طرف اور یہ خدمت ایک طرف… یہ خدمت
سب پر بھاری ہے… ایمان قبول کرنے کے بعد پانچ فرائض سب سے مقدّم ہیں… نماز، روزہ،
حج، زکوٰۃ… اور جہاد… اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے ابّا جی نماز کے پابند تھے… روزہ بہت
شوق سے رکھتے تھے… فرض کے علاوہ نفل روزوں کا بھی اہتمام تھا… زکوٰۃ اُن پر اکثر
واجب ہی نہیںہوئی… جوتھوڑا بہت مال ہوتا وہ تقسیم کرتے رہتے تھے… ویسے الحمدﷲ
ہمارے گھر میں یکم رمضان المبارک زکوٰۃ نکالنے کا ہر کمرے میں اعلان ہوتا ہے… حج میرے
ابّو جی کو اﷲ تعالیٰ نے تین نصیب فرمائے… فرماتے تھے کہ… دل میں بڑی تمنا ہے کہ ایک
اور حج تمہارے ساتھ کروں… اور فریضۂ جہاد میں میرے ابّو جی کا بڑا شاندار حصہ
تھا… وہ طالبان سے پہلے والے جہاد میں بندہ کے ساتھ افغانستان تشریف لے گئے…
کمانڈر عبدالرشید شہید سے کافی دوستی ہوگئی…اور ابّوجی نے خوب فائرنگ کا اجر پایا…
پھر طالبان کے زمانے میں اکابر علماء کرام کے ساتھ محاذوں تک تشریف لے گئے… اور جب
ہماری جماعت بنی تو ابّو جی کی جہادی خدمات نے عروج پایا… عجیب بات یہ ہوئی کہ …
جس نے بھی ابّو جی کی خدمت کی اﷲ تعالیٰ نے اسے شہادت کا مقام نصیب فرمایا… آپ
روز اول سے جماعت کے غیر اعلانیہ سرپرست رہے ہمیشہ جماعت کی تشکیل میں رہے… جماعت
کے لئے دعائیں فرماتے رہے… جماعتی معاملات میں رہنمائی فرماتے رہے… اور جماعت کے
لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش فرماتے رہے… یوں میرے ابّو جی کے پانچوں فرائض الحمدﷲ
پورے ہوئے… اور ابّو جی’’اﷲ اکبر‘‘ کہتے ہوئے ہم سے جُدا ہو گئے…اناﷲ وانا الیہ
راجعون
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے ابّو جی کو صالح والدین عطاء فرمائے… ہمارے
دادا بو صاحب نسبت بزرگ تھے… رات کا اکثر حصہ مسجد میں اکیلے گزارتے تھے اور رزق
حلال کا بہت اہتمام فرماتے تھے… ہم نے انہیں جب دیکھا اکثر عبادت و ذکر میں دیکھا…
جبکہ دادی اماں بہت صالحہ خاتون تھیں… زندگی کے آخر تک روزانہ دس پارے تلاوت کرنے
اور کثرت سے نفل روزے رکھنے کا معمول تھا… میرے ابّو جی اپنے والدین کے بڑے بیٹے
اور اُن کی آنکھوں کے تارے تھے… ابّو جی نے والدین کی بہت خدمت کی اور انہیں ہمیشہ
ادب و احترام دیا… اب کئی سال سے وہ پابندی کے ساتھ والدین کے لئے قربانی بھی کرتے
تھے… کچھ عرصہ پہلے ہم نے مساجد کی تعمیر کا کام شروع کیا… ایک مجلس بُلائی گئی
تاکہ… اس مبارک کام کا آغاز ذکر، درود شریف اور دعاء سے کیا جائے… میرے ابّو جی
اس مجلس کے’’صدر‘‘ تھے… بندہ نے مختصر بیان کے بعد اعلان کیا کہ… مہم کا آغاز اسی
مجلس میں شریک جماعت کے ساتھی اپنے مال سے کریں… اور اس کامبارک افتتاح حضرت ابّاجی
اپنے مال سے فرمائیں… یہ کہہ کر میں نے رومال ابّو جی کے آگے پھیلا دیا… ابّو جی
کے چہرے پر خوشی اور نور چمکنے لگا… پندرہ ہزار روپے جیب سے نکالے… فرمایا پانچ
پانچ ہزار میرے والدین کی طرف سے… اور پانچ ہزار میری طرف سے…
پھر
مجلس کے تمام رفقاء نے چندہ جمع کرایا… ہم نے یہ تمام چندہ حضرت ابّا جی کے ہاتھ میںدیا
کہ آپ… اپنے دست ِ مبارک سے ’’مجلس تعمیر مساجد‘‘ کو عطاء فرمائیں… آج الحمدﷲ تین
سال سے کم عرصے میں کئی درجن مساجد تعمیر ہو چکی ہیں … واہ ابّا جی واہ… اﷲ تعالیٰ
آپ کو ایسی خوشیاں عطاء فرمائے کہ جن خوشیوں کے بعد بھی خوشیاں ہی خوشیاںہوں… آپ
کے احسانات اور برکات کے مناظر آج یاد آتے ہیں تو عجیب سی کمی کا احساس ہوتا ہے
اور دل بے اختیار رونے لگتا ہے… انا ﷲ وانا الیہ راجعون
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ…اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابّاجی کو بہادری کی صفت عطاء فرمائی… اُن
کا بچپن اور جوانی دیہات میں گزرے تھے… گاؤں دیہات کے لوگ اندھیروں، سایوں،
جنوں،بھوتوں اورکتّوں سے نہیں ڈرتے… میرے ابّو جی بہت ماہر شہسوار تھے… انہوں نے کافی عرصہ گھڑ سواری اور شتر سواری کی…
بندوق کا نشانہ بہت اچھا تھا… اور ہرن وغیرہ کے ساتھ مچھلی کے شکار کے ماہر تھے…
شکار کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے اُن کے ہاتھ میں عجیب برکت رکھی تھی… ابّو جی کی یہ
بہادری دین کے معاملے میںبہت کام آئی… بہادر آدمی اکثر ذاتی انتقام نہیں لیتا…
اور مسلمانوں کا بغض دل میں نہیںرکھتا… بعض عارفین نے بہادر کی یہ تعریف لکھی ہے
کہ جو دوسرے کے حقوق ادا کرتا ہے اور اُن سے اپنے حقوق ادا کرنے کی توقع نہیں
رکھتا… الحمدﷲ ابّو جی بالکل ایسے ہی تھے… وہ پہلے عام سی زندگی گزار رہے تھے کہ
اچانک اُن کی زندگی کا رُخ طوفانوں کی طرف مُڑ گیا… تب ہرکسی نے دیکھا کہ … ابّاجی
نے نہایت ہمت اور بہادری سے ان طوفانوں کا مقابلہ کیا… اپنی اولاد کی دینی معاونت
میں حضرت ابّا جی کا جو کردار تھا اُس کی مثال اس زمانے میںملنا بہت مشکل ہے… اُن
کے تمام بیٹے بھی اگرجہاد پر چلے جاتے تووہ کبھی نہیں فرماتے تھے کہ… بیٹا گھر کا
کیا ہوگا؟… تمہارے بوڑھے والدین کا کیا ہو گا؟… وہ خوشی خوشی ہر کسی کو رخصت
فرماتے اور بعض اوقات گھر میں اکیلے رہ جاتے… اُن کا ایک بیٹا گرفتارہوا… وہ ثابت
قدم رہے… دوسر ابیٹا موت کے جبڑوںمیں پنجے ڈالے کھڑا تھا تو ابّو جی دعاء دے رہے
تھے… دو چھوٹے بیٹے خوفناک محاصروں میں لڑرہے تھے تو ابّو جی کو کسی نے پریشانی کے
ہاتھ ملتے نہیں دیکھا…
بہت
عجیب صفت ہے، بہت ہی عجیب… ہمار ا گھر طویل عرصہ تک پولیس اور ایجنسیوں کے گھیرے میں
رہا… او ر گیارہ ماہ تک اس گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا… کوئی اور ہوتا تو بیٹوں
کو سمجھاتا کہ… کچھ ہلکا ہاتھ رکھو… ہمارے بڑھاپے کا خیال کرو… مگر ابّا جی تو
استقامت کی چٹان تھے… ایک لمحہ پریشانی کا اظہار نہ فرمایا اور نہ اپنے کسی بیٹے
کو عزیمت کے کسی کام سے روکا… میں جہاں گرفتار ہوتا تو پہلی ملاقات میں ابّاجی کی
زیارت ہوتی اور وہ صرف حوصلہ بڑھاتے اور محبت کے بوسے نچھاور فرماتے… اور جب میں
کسی قید سے چھوٹتا تواستقبال کے لئے سب سے آگے حضرت ابّا جی کھڑے ہوتے… انہیں اپنی
اولاد سے بہت پیار تھا… مگریہ پیار کبھی دین کے کسی کام کی رکاوٹ نہ بنا… وہ ہمیں
موت کے میدانوں میں دیکھتے توخوش ہوتے اور
اپنی عبادت اور دعاء بڑھادیتے… لیکن اگرہم میں سے کوئی نماز میں، دین کے کام میں… یا
جہاد میں سستی کرتا تو ابّو جی کو بہت تکلیف ہوتی… تب وہ دعاؤں میں لگ جاتے اور
اصلاح کے لئے کوشش فرماتے… وہ بہادرتھے دور دراز سفر سے نہیں گھبراتے تھے… اور نہ
حکومتی اہلکاروں سے ڈرتے تھے… اُن کا کئی بار جرنیلوں سے سامنا ہوا… جرنیلوں نے
انہیں کہا کہ اپنے بیٹوں کو سمجھائیں تو… ابّا جی جہاد اور جماعت کی وکالت فرماتے
اور اپنے بیٹوں کی تائید کرتے… دنیا کے کئی ممالک حضرت ابّا جی کا نام اپنی’’ہٹ
لسٹ‘‘ میں لکھ چکے تھے… مگر ابّا جی کو پروا نہیں تھی… پاکستان کے حکمرانوں نے کئی
بار اُن کو علامتی نظر بند کر کے اُن کے
حوا س کا جائزہ لیا تو الحمدﷲ… حضرت ابّا جی ؒکو بہت پرسکون پایا…سچی بات یہ ہے کہ
…حضرت ابّا جی پ بہادری اور استقلال کے اُس خاموش اور گھنے جنگل جیسے تھے کہ… جس
جنگل میں مجاہدین شیروں کی طرح گرجتے برستے پھرتے تھے… کئی بددماغ افسروں نے دھمکی
کے انداز میں اُن سے کہا کہ آپ ان مجاہدین کو سمجھائیںتو… ابّا جی فرماتے کہ میں
دین کے کام سے کسی کو نہیں روک سکتا… سات شعبان۱۴۳۱ھ
منگل کے دن دوپہر کے وقت عزم وبہادری کا یہ گھنا جنگل اچانک لڑکھڑایا… اور دیکھتے
ہی دیکھتے اپنے مالک حقیقی کے پاس چلا گیا… اناﷲ وانا الیہ راجعون، انا ﷲ وانا الیہ
راجعون… یا اﷲ! پیچھے والوں پررحم فرما…
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ…اس نے میرے ابّو جی کو دنیا بنانے میں نہیں لگایا… حضرت ابّا
جی کے وصال کے بعد اُن کے ترکے کا سامان جمع کیا گیا تو… سب سے قیمتی سامان وہ
دنبے تھے جو ابّا جی ہر سال قربانی کے لئے پالتے تھے… کئی سال سے معمول تھاکہ…دو یا
تین دنبے منگوا لیتے اور پھر اُن کو بہت نا زسے پالتے … ایک دنبہ تو ہر سال حضرت
آقامدنیﷺ کی طرف سے قربانی کا ذبح فرماتے… دو جانور اپنے والدین کی طرف سے… اورایک
قربانی اپنی طرف سے پیش کرتے… زیادہ قربانی کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے… پلے ہوئے
دنبے اکثرالرحمت ٹرسٹ کو جمع کراتے…اور جب ہم پوچھتے کہ ابّو جی ! مزید قربانی کرنی
ہے؟ تو فرماتے کیوںنہیں… میری طرف سے الرحمت ٹرسٹ میں جمع کرادو…
میرے
ابّو جی نے اپنے ترکے میں نہ مکان چھوڑا نہ گاڑی… جی ہاں ایک سائیکل بھی نہیں… پوری
زندگی میں پانچ مرلے کا ایک مکان بنایا اور وہ بھی کافی عرصہ پہلے اپنے ایک بیٹے
کو دے دیا… چند کپڑے ، کچھ کتابیں، مسنون دعاؤں کا ایک بنڈل… اور اپنی ضرورت
کاسامان…
اﷲ
تعالیٰ نے حضر ت ابّا جی کو جو ظاہر ی شوکت عطاء فرمائی تھی اُسے دیکھ کر لوگ آپ
کو بہت مالدار سمجھتے تھے… ویسے بھی حضرت ابّا جی بہت باذوق تھے… اُجلا لباس، بہترین
چشمہ اور قیمتی قلم آپ کو پسند تھے… جو پیسے جیب میں آتے وہ تقسیم کرتے رہتے
تھے… انداز ماشاء اﷲ بہت شاہانہ تھا… مگردنیا کی طرف ’’رُخ‘‘ نہیں تھا… زندگی کا
اکثر حصہ غربت میںگزارا مگرخوش رہے… اُن دنوں ہمارا گھر ’’جنکشن‘‘ کے نام سے مشہور
تھا… یعنی ریلوے اسٹیشن کی طرح مہمانوں کا
ہجوم رہتا تھا… ابّوجی نے ایک تنخواہ پر بارہ بچے پالے انہیںعالم و حافظ بنوایا…
اور اپنے کئی بھائیوں کی بھی کفالت کی… پھر اﷲ تعالیٰ نے انہیں کچھ وسعت عطاء
فرمائی… اتنی وسعت کہ وہ آسانی سے گزر بسر کر سکیں… تب بھی وہ خوش اور شاکر رہے…
ہمیشہ فرماتے تھے کہ… اﷲ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات سے زیادہ دیا ہے… عجیب منظر
تھا کہ دنیا کی کئی بڑے ممالک کی آنکھوں میںکھٹکنے والا بوڑھا مردمجاہد جب اپنی پیاری قبر میں جا سویا تو… اُس کے ترکے
کا تمام مال ایک گٹھڑی میںآسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے… جی ہاں دنیا میں ایک گٹھڑی…
اور آخرت کے لئے ماشاء اﷲ صدقات جاریہ کے انبار… یا اﷲ اُن کے تمام صدقات ِ جاریہ
کو قبول فرما… اُن کی اولادمیں سے کوئی نہیں رویا کہ ابّو جی ہمارے لئے کچھ نہیں
چھوڑ گئے… ہاں سب اس بات پر رورہے ہیںکہ ابّوجی ہمیںچھوڑ گئے … اناﷲوانا الیہ
راجعون… اناﷲوانا الیہ راجعون
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے ابّو جی کو اپنا ایک بیٹا اﷲ تعالیٰ کے لئے
’’وقف‘‘ کرنے کی توفیق عطاء فرمائی… یہ واقعہ وہ بار بار سناتے تھے اور بہت خوشی
سے سناتے تھے… فرماتے تھے کہ میںنے نذرمانی
تھی کہ… ایک بیٹا اﷲ تعالیٰ کے لئے وقف کردوں گا… اُس وقت ہمارے گھر کی دوڑ اسکول
کی طرف تھی… ابّا جی نے نذر پوری فرمائی اُن کا تیسرابیٹا جب بارہ سال کا ہوا تو
وہ اس کے لئے مدرسہ ڈھونڈنے نکلے… اﷲ تعالیٰ نے اُن کی نذر قبول فرمائی اور اُن کے
بیٹے کو کراچی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن پہنچا دیا… حضرت ابّا جی
کی نیت میں ایسا اخلاص تھا کہ اُن کے فیصلے نے خاندان کا رُخ اور رنگ ہی بدل دیا…
اﷲ تعالیٰ کی رحمت دیکھیں کہ اس بیٹے کے بعد ابّا جی کی تمام اولاد قرآن پاک کی
حافظ اور عالم بنی… آپ کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ماشاء اﷲ حافظ اور پھر عالم
ہوئے… اورپوری اولاد الحمدﷲ دینی رنگ میں رنگی گئی… ابّا جی اﷲ تعالیٰ کی اس عنایت
پر بہت شکر ادا فرماتے تھے… اس شکر کی برکت سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور بڑھی اور آپ
کے پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں میں بھی کئی حافظ و عالم بن گئے…اور کئی بن
رہے ہیں…ابّا جی نے اس پر بہت شکراداکیاتو اﷲ تعالیٰ کی رحمت بڑھی… اور ابّا جی
اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ایک دینی مدرسے کے مہتمم بلکہ مخلص خادم بنے رہے…
آپ نے اس چھوٹے سے مدرسے کو اپنے اخلاص، محنت اور عمدہ نظم و نسق سے بہت ترقی دی…
اور اپنے دل جان اورمال سے اس مدرسے کی خدمت کی… آپ کی بڑی تمنا تھی کہ اس مدرسہ
میں دورۂ حدیث شریف شروع ہو… بالآخر اگلے سال کا طے ہوگیا ، اشتہار بھی آگیا…
اساتذہ کا تقرر بھی ہوگیا… مگر ابّا جی
اچانک اپنے دفتر سے اٹھ کر آرام فرمانے چلے گئے… اناﷲوانا الیہ راجعون… اناﷲوانا
الیہ راجعون
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ… اﷲ تعالیٰ نے میرے ابّو جی کو مثالی ذہانت عطاء فرمائی… آپ
اردو اور فارسی ادب میں ماہر تھے… اور شعر و شاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے… یہ
ابّوجی کی ذہانت ہی تھی کہ انہوں نے دین کے راستے کو پہچان لیا اور پھر اس پر تمام
کشتیاں جلا کر چل پڑے… ذہانت کی ایک عجیب چمک آپ کی آنکھوں میں صاف نظر آتی تھی…
طالب علمی کے زمانے میں ایک باربندہ اپنے چند ہم سبق ساتھیوں کو چھٹیوں میں گھر لایا…
اُن طلبہ کی ابّو جی سے ملاقات ہوئی تو تھوڑی ہی دیر میں وہ ابّا جی کے ساتھ گُھل
مل گئے… یہ حضرت ابّا جی کی خاص صفت تھی…
مجلس جب خوشگوار ہوئی تو ایک طالب علم نے میری طرف اشارہ کر کے ابّو جی سے کہا…
چچا جی! آپ نے اس کو ذہانت کاکون سا نسخہ کھلایا تھا، ہمیںبھی بتادیں تاکہ ہم بھی
وہ استعمال کریں… ابّا جی مسکرائے اور فرمایا بیٹا! اب دیر ہو گئی ہے … وہ نسخہ
اسے نہیں کھلایا تھا بلکہ خود میں نے کھایا تھا… سات دن ہو گئے مجھے ایسی بہت سی
مجلسیں یاد آرہی ہیں جن میں ہم خوب ہنسے تھے… مگر اب ان مجلسوں کی یاد ہنسانے کی
بجائے رُلا نے پر اُتری ہوئی ہے انا
للہ واناالیہ راجعون
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ… اﷲ تعالیٰ نے میرے ابّو جی کو ایک خاص’’محبوبیت‘‘ عطاء فرمائی…
جو بھی آپ سے ایک بار مل لیتا آپ سے محبت کرنے لگتا… اپنوں کا توکیا پوچھنا دور
دور کے لوگ ابّا جی کو اپنا غمگسار سمجھتے تھے… میرے دادا ابّو کے نو بیٹے اور دو
بیٹیاں تھیں… مگر سب یہی بتاتے ہیں کہ اُن کو زیادہ محبت میرے ابّو جی سے تھی…
خود اپنے گھر میں ابّو جی کا ایک الگ مقام
تھا… اسے ’’مقام محبت‘‘ کا نام ہی دیا جاسکتا ہے … ہم بھائیوں،بہنوںمیں سے کسی سے
پوچھا جائے کہ تمہیں اپنی اولاد سے زیادہ محبت ہے یا والدین سے… الحمدﷲ جواب دینے
میں کوئی پریشانی نہیںہوگی کہ والدین سے زیادہ محبت ہے… اورپھر اگر ہم اپنی اولاد
سے پوچھیں کہ… تمہیں ہم زیادہ اچھے لگتے ہیں یا دادا ابّو… تو چھوٹے چھوٹے بچے صاف
کہتے کہ دادا ابّو… اور سب سے زیادہ عجیب معاملہ یہ کہ… ابّا جی کو اپنی بیٹیوںسے
بہت محبت تھی… مگر ساتھ ساتھ اُن کی تمام بہویں بھی اُن کی سگی بیٹیوں کی طرح تھیں…
اُن کی کوئی بھی بہو اپنے خاوند کی شکایت ابّاجی سے لگا کر اپنا مسئلہ حل کراسکتی
تھی… بندہ نے بڑے بڑے اﷲ والے مشائخ کودیکھا کہ وہ بھی حضرت ابّا جی سے محبت
فرماتے تھے… مگر ابّاجی کو سب سے زیادہ محبت مجاہدین نے دی… بیماری سے کچھ عرصہ
پہلے تک تو حضرت ابّاجی مجاہدین کے جھرمٹ میں اُن کے دوستوں کی طرح تشریف رکھتے
تھے… آپ جیسے ہی اپنے معمولات سے فارغ
ہوتے آپ کے گردمجاہدین کا جھمگٹھا بن جاتا… ان میں سے ہر ایک آپ کو ’’ابّا جی‘‘
کہتا تھا اور آپ کی محبت کا فیض پاتاتھا… یہ صورتحال بہت سے لوگوں کو حسد میں بھی
مبتلا کردیتی تھی… اور کئی لوگ اس طرح کی محبوبیت پانے کے لئے جعلی حرکتیں بھی
کرتے تھے… مگرکہاں؟… محبت اور محبوبیت تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوتی ہے… اﷲ
تعالیٰ نے حضرت ابّا جی کو یہ نعمت اپنے فضل سے نصیب فرمائی… اسی لئے جب اُن کے
انتقال کی خبر آئی تو ہر کوئی اپنی جگہ جام ہو کر رہ گیا… کسی کو سمجھ نہیں آرہی
تھی کہ وہ کیا کرے اورکون کس سے تعزیت کرے… اناﷲوانا الیہ راجعون …اناﷲوانا الیہ
راجعون
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ… اﷲ تعالیٰ نے حضرت
ابّا جی کو’’فتح الجوّاد‘‘ کی چاروںجلدوں کے افتتاح کی سعادت اورخوشی بخشی… اﷲ
تعالیٰ اس مبارک عمل کو اُن کے لئے آخرت کی خوشی کا ذریعہ بھی بنائے… ’’فتح
الجوّاد‘‘ جیسے ہی شروع ہوئی دل میںیہ خیال پختہ ہوتا گیا کہ… اس کا افتتاح حضرت
ابّاجی سے کراناہے… میرے ابّو جی نہ تو عالم دین تھے اور نہ شیخ طریقت… ہمیشہ
فرماتے تھے … میں گناہ گار آدمی ہوں بس اﷲ تعالیٰ نے میری لاج رکھی ہوئی ہے…مگر
اس انمول کتاب کے افتتاح کے لئے میری نظریں ابّاجی کے علاوہ کسی کی طرف نہیں اٹھیں…
حافظ شیرازؒ نے کتنا خوبصور ت شعر کہا ہے
مرادرخانہ
سروے ہست کہ اندر سایۂ قدّش
فروغ
از سروبستانی و شمشادِ چمن دارم
ترجمہ:’’میرے
گھر میں ایسا سرو(کا درخت)ہے جس کے قد کے سایہ میں مجھے باغ کے سرو اور چمن کے
شمشاد سے بے نیازی ہے۔‘‘
دراصل
میرے دل میں ایک کسک تھی کہ میری وجہ سے میرے والدین نے بہت دُکھ جھیلے ہیں… چھ
سال تو وہ میری قید سے غمگین رہے… اور رہائی کے بعد بھی کبھی چند دن مسلسل اُن کے
قدموں میں بیٹھنا نصیب نہ ہوا
مرا
در منزل جاناں چہ امن وعیش چوں ہردم
جرس
فریاد می دارد کہ بربندید محملھا
دل
میں تمنا تھی کہ میرے والدین کوئی بڑی دینی خوشی دیکھیں… کیونکہ انہوںنے اپنی
اولاد کو دنیا میں نہیں لگایا… الحمدﷲ فتح الجوّاد کی جلد اول مکمل ہوئی… کوہاٹ میں
افتتاح کا اعلان ہوا، بندہ نے جس ساتھی کو بھی بتایا کہ افتتاح ’’ابّوجی‘‘ کریں گے
تووہ خوشی سے سرشار ہو گیا… کیونکہ ابّاجی تو سب کے روحانی ابّا جی تھے… الحمدﷲ
افتتاح ہوا اور ماشاء اﷲ بہت خوب ہوا… افتتاح کے کچھ دن بعد حضرت ابّا جی کی زیارت
ہوئی تو انہیں بہت خوش پایا… فرمارہے تھے کہ… عجیب لمحہ تھامجھے لگا کہ آج خوشی
سے جان نکل جائے گی… حضرت ابّا جی کے ان تاثرات نے میرے بہت سے غموں کو دور کر دیا…
سبحان اﷲ… لوگ دنیا کی رنگینیوں اور شادی کی دعوتوں سے خوش ہوتے ہیں جبکہ ابّا جی
کو دین کے کام سے اتنی خوشی نصیب ہوئی… الحمدﷲ چاروں جلدیں مکمل ہوئیں اور چاروں
کا افتتاح حضرت ابّا جی نے فرمایا… اب ارادہ تھا کہ پورے قرآن پاک کا حاشیہ لکھنے
کی سعادت حاصل کی جائے… دیکھیں کیا بنتا ہے … میرے ابّو جی تو اب افتتاح نہیں کرسکیں
گے…
اناﷲوانا
الیہ راجعون…اناﷲوانا الیہ راجعون
اﷲتعالیٰ
کا شکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابّاجی کو مثالی تواضع نصیب فرمائی… آپ نے اپنی
اولاد تک کو کبھی نہیں فرمایاکہ… میرا ادب کرو… عجیب مٹے ہوئے انسان تھے…حالانکہ
بہادر، گھڑ سوار، شکاری اور ہزاروں افراد کے استاذ تھے… ایسے لوگوں میں کچھ نہ کچھ
اکٹر پیدا ہو جاتی ہے… مگر حضرت ابّا جی تواضع کا پیکر تھے… اﷲ تعالیٰ نے اُن کی
تواضع قبول فرمائی اور اُن کو خوب شان، عزت اور رفعت عطاء فرمائی… بعض لوگوں نے
حضرت ابّاجی کو بہت ستایا مگر مجال ہے کہ آپ نے کبھی اُن سے انتقام لینے کی بات
تک کی ہو… چھ جوان بیٹوں کا باپ اپنے مخالفین کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتا… مگر
ابّا جی کے دل میں تکبّر اور انا پرستی کاشایدخانہ ہی نہ تھا… اُن کا بڑے سے بڑا
مخالف ملنے آجاتا تو ماضی کی ہر تلخی کو
فوراًبُھلا کر اُسے گلے لگا لیتے…معلو م نہیں اُن کے ان اخلاق کریمانہ نے
کتنے لوگوں کو دین سے جہاد سے اور جماعت سے جوڑے رکھا… اُن کے چلے جانے کے بعد اِس
معاملہ میں جو خلا پیدا ہو ا ہے اُس کا پُرہونا بظاہر کافی مشکل نظرآتا ہے…
اناﷲوانا
الیہ راجعون…اللھم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ…
اﷲ
تعالیٰ کا شکرہے کہ… اﷲ تعالیٰ نے میرے ابّو جی کے آخری لمحات آسان فرمائے…
اورآخری وقت اُن کی زبان پر اپنا نام مبارک جاری فرمایا… الحمدﷲ ابّاجی کی نماز
جنازہ میں بہت سے علماء، مجاہدین اور صلحاء نے شرکت کی…دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ
چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی… حضرت ابّاجی کو کسی کے انتظارمیں تکلیف نہیں اٹھانی پڑی…
جھٹ پٹ غسل فرمایا… کفن اوڑھا اور مدرسہ اویس قرنی ذ سے ملحق پلاٹ میں جا لیٹے…
ابھی نئے گھر کا دروازہ بندہوا ہی تھاکہ… ہر طر ف سے ایصال ثواب کے پھول برسنے
لگے… بلامبالغہ دو دن میں قرآن پاک کے ہزاروں ختم ہوئے… بہت سے لوگوںنے ایصال
ثواب کیلئے عمرے اور طواف کئے… لاہور کے ایک بڑے روحانی اور مقبول گھرانے سے پیغام
آیا کہ… صرف اُن کے گھر سے قرآن پاک کے گیارہ ختمات اور دولاکھ بار درود شریف کاایصال ثواب ہوا ہے… حضرت ابّا جی کی
میراث تیسرے دن شریعت کے مطابق تقسیم ہوگئی…
غیرشرعی اور ہندوانہ رسومات سے الحمد ﷲ حفاظت رہی… نہ تیجا، نہ ساتواں، نہ رسم پگڑی
اور نہ کچھ اور… اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو ترتیب عطاء فرمائی ہے اس میں… صبر کی
قوت خود بخود آتی چلی جاتی ہے… پہلے غسل دو، پھر کفن دو، پھر نمازجنازہ
اداکرو…پھر تدفین کرو… پھر میراث تقسیم کرو… وغیرہ وغیرہ… انسان اپنے کسی قریبی
محبوب کے انتقال کے بعد جب ان مراحل کو طے کرتاہے تو… دل میں صبر کی کیفیت آجاتی
ہے… مگرجو نہ غسل دے سکا،نہ کفن پہنا سکا…نہ اُسے نمازجنازہ میں شرکت کاموقع ملا…
اور نہ اُس نے قبر میں اُترتے دیکھا… وہ اپنے غم کا کیا کرے… انتقال کے دوسرے روز
مغرب سے کچھ پہلے میں ایک مسجد میں بیٹھا ہواتھا… حضرت ابّا جی کی یاد اس قدر شدّت
سے آئی کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا… لوگوںسے اپنے آنسو چھپا کر
روتارہا… پھر اذان ہونے لگی … سوچاکہ قبولیت اورجنت کے دروازے کُھل گئے ہیں تو
اذان کے جواب کے ساتھ ساتھ حضرت ابّا جی کی مغفرت، راحت اور رفع درجات کی دعاء بھی
جاری ہوئی… مگردل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا…امام صاحب نے اﷲ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دی…اور
سورہ فاتحہ کے بعد اُن کی زبان پر یہ آیت جاری ہوگئیں…
وَلاَ
تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ
الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ اَلَّذِیْنَ
إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّـا إِلَیْْہِ
رَاجِعُوْنَ٭أُولٰـئِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ
وَأُولٰـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ (البقرہ)
ترجمہ:
اور جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں انہیںمرا ہو انہ کہاکرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں
لیکن تم نہیںسمجھتے، اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اورپھلوں
کے نقصان سے ضرور آزمائیںگے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو، وہ لوگ کہ جب
انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ’’اناﷲوانا الیہ راجعون‘‘ ہم تو اﷲ تعالیٰ
کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں یہ لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی طرف
سے مہربانیاں ہیں اور رحمت ، اوریہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
اﷲ اکبر کبیرا… قرآن پاک نے بہت سی باتیں سمجھا
دیں… یا اﷲحضرت ابّا جی کی مغفرت فرما، اُن کی قبر کو جنت کا باغ بنا، آخرت کی
تمام منزلوں میں اُن کو آسانی اورکامیابی عطاء فرما، اُنہیںبغیر حساب وکتاب جنت
الفردوس عطاء فرما…آمین یا ارحم الراحمین…
بہت
سی باتیں لکھنی تھیں جو رہ گئیں… بس دو جملوںپر بات ختم کرتا ہوں
واہ
ابّا جی واہ… الحمدﷲ رب العالمین
آہ
ابّا جی آہ…اناﷲوانا الیہ راجعون
اللھم
صل علی سیدنا و مولانا محمد وانزلہ المقعد المقرب عندک وعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
استقبال
اﷲ
تعالیٰ رحم فرمائے… پاکستان میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں… کبھی دھماکے، کبھی
بمباری اور اب سیلاب… لوگ گرمی سے تڑپ رہے تھے اورہر ایک بارش مانگ رہا تھا…
پھربارش آئی تو اپنے ساتھ ہزاروں مصیبتیں لے کر آئی… آج اس وقت بھی دریائے کابل
میں لاوارث لاشیں بہہ رہی ہیں… نہ اُنہیں کوئی نکالنے والاہے اور نہ دفنانے والا…
نوشہرہ کے علاقے میں لوگ اپنی میّتوں کو لے کرپھر رہے ہیں مگر دفن کرنے کی جگہ نہیںمل
رہی… جی ہاں قبرستان پانی سے بھر چکے ہیں… ہزاروں لوگ سیلاب میں بہہ گئے… اور
لاکھوں ایک دم سے بے گھر ہو گئے… اﷲ تعالیٰ توبندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے… یہ
تو ہمارے اعمال کی بہت تھوڑی سی سزا ہے… اگر پوری سزا مل جائے تو شاید کوئی بھی نہ
بچے… کیا کسی نے عبرت پکڑی؟… کسی نے ان دردناک حالات کو دیکھ کر گناہ چھوڑے؟…
تاجروں نے ہر چیز کی قیمت بڑھا دی… کیا اُن کو موت یاد نہ آئی؟… گھروں میں اُسی
طرح گانے بجانے اور فلموں کی آوازیں آرہی ہیں… کمپیوٹر اور موبائل کی سکرین اب
بھی نوجوانوں کے ایمان کو کھار ہی ہے… نہ توبہ، نہ استغفار، نہ رونے والی آنکھیں
اور نہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والے دل… اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو کیا چیز روکے؟… ہمارے ملک
میں اگر اچھے حکمران آجائیں تو یہ مُلک عذاب سے بچ جائے… مگر اچھے حکمران کہاں سے
آئیں؟… ہمارے مُلک میں اگر حرام خوری اور حرام کاری رُک جائے تو یہ مُلک عذاب سے
بچ جائے… کبھی زلزلے، کبھی طوفان، کبھی سیلاب، کبھی دھماکے، کبھی آپریشن کبھی
ڈرون حملے… اور کبھی آپس کی جنگیں… یا اﷲ رحم فرما… کچھ لوگ توہمت کریں اور اپنے
دلوں کو مسلمان بنالیں… کچھ لوگ تو آگے بڑھیں اور توبہ کے دروازے کو مضبوطی سے
تھام لیں…یقینا اس مُلک میں کچھ لوگ تو ایسے موجود ہیں جن کی برکت سے پورے ملک پر
عمومی عذاب نہیں آرہا… کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی دعاء، محنت اور آہ وزاری کر کے
خود کو انہیں مقبول لوگوں میں شامل کرا لیں… اوراس کے لئے ایک بہترین موقع آرہا
ہے… جی ہاں رمضان المبارک کا عظیم برکتوں والا مہینہ آرہا ہے… اس مہینے میں ایسے
لوگ بھی بخشے جاتے ہیں جو اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم کے مستحق بن چکے ہوتے ہیں… بس
چند دن ہی رہ گئے… کتنا اچھا ہو کہ اس رمضان المبارک میںہم سب کی مغفرت ہو جائے…
اور ہم سب اﷲ تعالیٰ کے مقبول بندے بن جائیں… آئیے ابھی سے رمضان المبارک کی تیاری
شروع کر دیتے ہیں…
(۱) آج ہی سے اس دعاء کا اہتمام کہ… یا اﷲ! اس سال ہمیں قبولیت،
رحمت اور مغفرت والا رمضان المبارک نصیب فرما… یہ دعاء، بہت توجہ، اخلاص اور آہ و
زاری سے کی جائے… ارے بھائیو! بہت زبردست موقع آرہا ہے… اﷲ کرے ہم سب اس سے فائدہ
اٹھا سکیں…
(۲) ابھی سے اپنی عبادت میں کچھ اضافہ کر دیں… ایک ہزار بار
درود شریف کا معمول ہے تو سو، دو سو بڑھادیں… فجر کی نماز جماعت سے نہیں پڑھتے تو
فوراً شروع کر دیں… نما ز سے کچھ پہلے مسجد جا کر چند نوافل ادا کر کے… اﷲ پاک کا
قُرب اور محبت محسوس کریں کہ… میرے مالک نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے… اور اپنے
سامنے چند سجدوں کا موقع دیا ہے… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲالعظیم…
(۳) اگر کسی پر قرضہ ہے تو وہ ابھی سے سچی نیت کر لے کہ… یا اﷲ!
میرے پاس جیسے ہی مال آئے گا میں فوراً یہ قرضہ ادا کروں گا… اُس مال سے نہ تو
اپنی تجارت بڑھاؤں گا اور نہ عیش وعشرت کی چیزیں خریدوں گا… میں انشاء اﷲ پوری ایمانداری
سے قرضہ ادا کروں گا…
(۴) دل میں جن مسلمانوں کے لئے بغض، عداوت اور کینہ ہے… آج ہی
مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کر کے اُن سب کو معاف کر دیں… اس طرح سے دل انشاء
اﷲ شیشے کی طرح پاک ، شفاف ہو جائے گا… قرآن پاک نے ہمیں اسی لئے یہ دعاء سکھلائی
ہے … اس دعاء کا بھی خوب اہتمام کیا کریں
رَبَّنَا
اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا
تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَااِنَّکَ رَؤُفٌ
رَّحِیْمٌ۔(الحشر۱۰)
ترجمہ:
اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں
اور ہمارے دلوں میں ایمانداروں کی طرف سے کینہ قائم نہ ہونے پائے اے ہمارے رب بے
شک تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
ہر
مسلمان مرد اور عورت کو چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک یا تین بار اس دعاء کا
التزام کریں… آج ہم مسلمانوں کی باہمی نفرتوں اور کدورتوں نے ہمیں اجتماعی طور پر
بے جان اور کمزور کر رکھا ہے…
(۵) دل میں جس مسلمان کے لئے حسد ہو اُس کے لئے خوب توجہ سے ترقی
کی دعاء کریں… جس کے مال پر حسد ہو دعاء کریں کہ یا اﷲ اس کو مزید مالِ حلال عطاء
فرما… جس کی عزت و مقام پر حسد ہو اُس کے لئے دعا ء کریں کہ یا اﷲ اس کو اور زیادہ
عزت اور مقام عطاء فرما… یاد رکھیں حسد ایک آگ ہے جو دل میں لگتی ہے اور انسان کی
تمام نیکیوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے… اﷲ پاک کی مرضی وہ جس کو جو چاہے عطاء
فرمائے… ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نعمت پرجلنے والے… مگر شیطان دل میں حسد کی آگ
لگا کر بھاگ جاتا ہے… اور اس آگ کا نقصان خود حسد کر نے والا اٹھاتا ہے… ارے اﷲ
کے بندو! رمضان المبارک آرہا ہے … کسی بھی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اﷲ پاک سے
عرض کر دو…
یا اﷲ! میں آپ کی تقدیر پر راضی
ہوں… آپ مالک ہیں مختار ہیں جس کو چاہیں مال دیں، جس کو چاہیں گاڑی دیں، جس کو
چاہیں عزت دیں، جس کو چاہیں حُسن دیں… یا اﷲ آپ ’’حق‘‘ ہیں اور آپ کا ہر
حکم’’برحق‘‘ ہے… یا اﷲ میں کسی سے حسد نہیں کرتا… میرے دل کو حسد کی آگ سے پاک
فرما… یہ دعاء کرتے ہوئے دو چار آنسو بھی بہادیں تو… بہت اُمیدہے کہ دل ٹھنڈا ہو
جائے اور آگ بجھ جائے… ورنہ میرے بھائیو! اور بہنو! کتنا بڑا عذاب ہے کہ ہم
دوسروں کی نعمتیں دیکھ کر خواہ مخواہ گُھٹ گھٹ کر مرتے رہیں اور وہ ان نعمتوں کے
مزے لوٹتے رہیں… یاد رکھو! اگر ہمارے دل سے حسد نکل گیا تو پھر انشاء اﷲ ہم دنیا و
آخرت کی نعمتوں کے مزے لوٹیں گے…
(۶) ابھی سے فضائل رمضان المبارک کی احادیث مبارکہ پڑھنا شروع
کر دیں… اس موضوع پر آسان اور مفید کتاب تو حضرت شیخ الحدیثؒ کا رسالہ’’فضائل
رمضان‘‘ ہے… آپ یقین کریں کہ اسے پڑھتے ہی روح میں عجیب قوت آجاتی ہے… اور انسان
کی روح رمضان المبارک کی برکتوں کا سفر کر آتی ہے… آخر اتنا عظیم الشان مہینہ
آرہا ہے… جہنم سے نجات کا مہینہ… اس مہینے کے بارے میں ابھی سے معلومات لیں گے تو
آغاز اچھا ہو گا… جب کسی عمل کا آغاز اچھا ہو تو انشاء اﷲ اُس کا اختتام بھی
اچھا ہوتا ہے…
(۷) جو مسلمان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں… وہ عموماً تین طرح کے
ہیں…
ایک
تو وہ نوجوان جو خالص دینی کام کے لئے اس دلدل میں کشتی چلاتے ہیں اور پھرپوری
محنت کر کے… خود کو غفلت میں ڈوبنے سے بچاتے ہیں… یہ لوگ تو بہت مبارک اور قابل
رشک مسلمان ہیں… اﷲ تعالیٰ ان کے عمل میں خوب برکت عطاء فرمائے… ایسے لوگ تو اپنا
کام کرتے رہیں… دوسرے وہ لوگ جو کھولتے تو دینی کاموں کے لئے ہیں مگر پھر… پھسلتے
جاتے ہیں،بہکتے جاتے ہیں … اور وہ اپنے ساتھ شیطان کو مفتی بنا کر بٹھا لیتے ہیں
کہ اس چیز میں یہ فائدہ ہے ، اور اُس چیز میں وہ فائدہ… اور فلاں کام تو مباح ہے،
چلو مباح نہیں تو صرف مکروہ ہے حرام تو نہیں… چلو تھوڑا سا گناہ ہے مگر میں نے اس
لڑکی کو نماز کی دعوت تو دی ہے وغیرہ وغیرہ… ایسے لوگ اگر اپنے ایمان کی سلامتی
چاہتے ہیں تو … ابھی سے اپنے کمپیوٹر کو بند کرکے رکھ دیں… موبائل چیٹنگ سے توبہ
کرلیں… ورنہ رمضان المبارک ضائع ہونے کا سخت خطرہ ہے… تیسرے وہ لوگ جو کمپیوٹر پر
کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں… اور موبائل کو بھی ناجائز استعمال کرتے ہیں… ایسے لوگ تو
فورا ًیہ کام چھوڑ دیں…اﷲ پاک کی خاطر، اﷲ پاک کی خاطر… دیکھو ! بھائیو! اور بہنو!
رمضان المبارک آرہا ہے… ہم سب اپنے محبوب حقیقی کی محبت میں گم ہو جائیں… اُسی کو
منائیں، اُسی کو راضی کریں اور اُسی سے باتیں کریں…
(۸) وہ لوگ جو والدین کی نافرمانی کرتے ہیں، بوڑھے والدین کی بے
ادبی کرتے ہیں… والدین کے حقوق ادا نہیں کرتے… وہ رمضان المبارک آنے سے پہلے اس
معاملے کو درست کر کے رمضان المبارک میں داخل ہوں… والدین اﷲ تعالیٰ کی ایسی نعمت
ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں…والدین رحمتوں اور دعاؤں کا خزانہ ہیں… اگر رمضان
المبارک کو حاصل کرنا ہے تو پھر والدین کی دعاؤں کو تلاش کرو…
(۹) جب شعبان کی اُنتیس(۲۹) تاریخ ہو تو… مغرب سے
کافی پہلے مسجد جا بیٹھیں اور قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہو جائیں… تاکہ جب
قرآن پاک کامہینہ رمضان المبارک شروع ہو تو اُس کی پہلی گھڑیاں… ہمیں اﷲ تعالیٰ
کے گھر میں اﷲ تعالیٰ کا کلام پڑھتے ہوئے پائیں… پھر اگر اُس دن چاند نظر آجائے
تو بہت اچھا… اور اگر نظر نہ آئے تو اگلے دن پھر اسی طرح بن ٹھن کر خوب اچھے
کپڑے، خوشبو، مسواک اور دل کے شوق کے ساتھ رمضان المبارک کے استقبال کے لئے… مسجد
آبیٹھیں… خواتین یہ عمل اپنے گھر میں اپنے مصلّے پر کر کے پورا فائدہ حاصل کر سکتی
ہیں… اور ایک بات یاد رکھیں کہ … جس طرح رمضان المبارک کا استقبال کریں… اسی طرح
اُنتیس اور تیس رمضان المبارک کو مسجد میں تلاوت کرتے ہوئے اُسے الوداع کہیں…
(۱۰) رمضان المبارک کے خاص اعمال روزہ، تراویح، تلاوت، قیام اللیل،جہاد،
لوگوں کو افطار کرانا، غریبوں کی مدد کرنا، صدقہ، خیرات، اعتکاف… ذکر اذکار، نوافل
اور درودشریف کی کثرت… نظر اور زبان کی حفاظت… جسم کی کمزوری روح کی تقویت… شب قدر
کی تلاش… آخری عشرے کی راتوں میں زیادہ عبادت… صلہ رحمی…
دعاء
کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان تمام مقبول اعمال میں سے مجھے اور آپ کو وافر حصہ عطاء
فرمائے… اور ہم سب کو قبولیت، رحمت اور مغفرت والا رمضان المبارک نصیب فرمائے…
حضرت ابّا جی ذرمضان المبارک کا بہت اہتمام فرماتے تھے… اس رمضان المبارک میں اﷲ
تعالیٰ اُنہیں وہاں کی خاص نعمتیں، راحتیں اور خوشیاں نصیب فرمائے… آمین یا ارحم
الراحمین…
اللھم
صل علی سیدنا محمد بقدر قیامہ و صیامہ و عبادتہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا
کثیرا
٭…٭…٭
وقت
دعاء
اﷲ
تعالیٰ اس رمضان المبارک کی ’’رحمتیں‘‘ پوری اُمتِ مسلمہ کو نصیب فرمائے… خصوصاً
اُن مسلمانوں کو جو کسی بھی مصیبت میںمبتلاہیں… بارش، سیلاب، ہجرت، اسارت، مظلومیت
اور غُربت… ہم مسلمانوں کو ناشکری، دنیا پرستی اور نا اتفاقی نے کھا رکھا ہے… اسی
لئے ہر مصیبت اور آفت نے ہمارے گھر کا دروازہ دیکھ لیا ہے… مصیبتوں کے ان لمحات میں
رحمتوں کا مہینہ رمضان المبارک آرہا ہے تو دل کو تسلّی ملتی ہے کہ… ایمان والوں
کو مایوس نہیں ہو نا چاہئے…
آئیے
پہلے اپنے اُن مسلمانوں کے لئے دعاء کر لیں جو… آج بارش اور سیلاب کی وجہ سے تکلیف
میں ہیں… جو مسلمان بارش یا سیلاب میں ڈوب گئے… اور وہ حالت ایمان پر تھے تو انہیں…
ماشاء اﷲ شہادت کی موت نصیب ہوئی… محبوب آقا مدنیﷺ نے واضح الفاظ میں اُن
مسلمانوںکو’’شہید‘‘ قرار دیا ہے جو ڈوب کر مرتے ہیں… موت تو ہر کسی کو آنی ہے…
کوئی طوفان یا سیلاب کسی کو اُس کے وقت سے پہلے مار نہیں سکتا… اور جب وقت آجائے
تو کوئی ٹیکنالوجی موت سے بچا نہیں سکتی… شہادت کا اجر بڑی نعمت ہے… مبارک ہو اُن
مسلمانوں کو جنہیں اﷲ تعالیٰ نے یہ نعمت نصیب فرمادی… ڈوب کر چلے جانے والے تو اس
فانی دنیا سے چلے گئے… اگر کسی میّت کی مغفرت ہو چکی ہوتو پھر اُس کی لاش پانی میں
تیرتی رہے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا… او ر اگر خدانخواستہ مغفرت نہ ہوئی تو لاش
کو جتنی بھی ٹھنڈک یا عزت دی جائے مرنے والے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا… خیر
جن مسلمانوں کا وقت آچکا تھا وہ تو چلے گئے ، اﷲتعالیٰ اُن سب کی مغفرت فرمائے…
اور انہیں شہادت کا اجر نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل عطاء
فرمائے… مگر جولوگ زندہ ہیں اور سیلاب میں گھِر چکے ہیں وہ بہت بڑی پریشانی میںہیں…
باپردہ عورتوں کے ساتھ اپنے گھر سے نکل کر دربدر کی ٹھوکریں کھانا بہت بڑا امتحان
ہے… اس سیلاب میں اب تک ساڑھے چھ لاکھ مکانات تباہ ہو چکے ہیں… مکانوں کی اتنی
تباہی2005ء کے زلزلے میں بھی نہیںہوئی تھی… اُس وقت مرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی
اور اس بار مصیبت زدہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے… زندہ انسان کو تو بہرحال کھانے، پینے…
اور دیگر ضروریات کی حاجت ہوتی ہے… بہت سے لوگ سیلاب کے عین درمیان میں پھنسے ہوئے
زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں… ایسا وقت بہت مشکل ہوتا ہے… حالتِ امن میں بیٹھنے
والا کوئی انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا… اس سیلاب نے بڑے بڑے مالداروں کو فقیر
اور مضبوط گھروں والوں کو بے گھرکر دیا ہے… ان حالات میں ریلیف کا کام بھی اپنی
طاقت اور استطاعت کے مطابق جاری ہے… مگر اصل کام یہ ہے کہ ہم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں
کے غم اور تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں… اُن کے لئے رو رو کر دعاؤں کا اہتمام کریں…
خود سارے گناہ چھوڑ کر توبہ استغفار کریں… کیونکہ جب ایک مسلمان گناہ چھوڑ کر توبہ
استغفار کرتا ہے تو اُس کی برکت سے بہت سی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں… ہم اس وقت فضول سیاسی
بحثوں میںنہ الجھیں…ہمارے اکثر سیاستدان انسانی جذبوں سے عاری ایک الگ طرح کی
مخلوق ہیں… اُن کو کیا پرواہ کہ کون مر رہا ہے اور کون جل رہا ہے…اُن کو بس حکومت
چاہئے، اقتدار چاہئے، پیسہ چاہئے اور عیاشی چاہئے… یہ لوگ ملک میں ہوں یا باہر ہوں
ملکی خزانے کو خالی کرتے رہتے ہیں… ایسے دردناک حالات میں ہم ان کے بیانات اور ان
کے طرز عمل میں نہ الجھیں… بارش اور سیلاب کا یہ سلسلہ اور بھی پھیل سکتا ہے… اور
ہم بھی اس کا لقمہ بن سکتے ہیں… چاروں طرف عبرت کے نمونے بکھرے پڑے ہیں ہم ان سے
سبق لیں اور اپنی زندگی کا رخ دین اور آخرت کی طرف موڑ دیں… ہم سیلاب اور لاشوں
سے جہاد کا مسئلہ بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ… موت جہاد سے نہیں آتی… اور اپنے
گھروں میں بیٹھے رہنے سے بہت بہتر ہے کہ ہم جہاد فی سبیل اﷲ کی محنت میں نکلیں اور
اپنی زندگی کے اوقات کو قیمتی بنالیں… سیلاب زدگان کے ساتھ ہمیں اپنی استطاعت کے
مطابق تعاون کرنا چاہئے… اور ساتھ ساتھ ریلیف کے کاموں میں بددینی اور خیانت سے
لازماً بچنا چاہئے…ریلیف کے یورپی اداروںنے خدمت کے اس مقدّس کام کو بھی فحاشی، بے
حیائی، تصویر بازی اور دنیا پرستی سے آلودہ کر دیا ہے… ایسانہ ہو کہ جانیں بچاتے
بچاتے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں… رمضان المبارک میں اب صرف دو دن باقی ہیں… بعض
روایات میں آیا ہے کہ رسول نبی کریمﷺ نے رمضان المبارک میں چار کاموں…کی کثرت کی
ترغیب ارشاد فرمائی ہے… آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو ان
میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے ذریعہ تم اپنے پروردگار کو راضی کرو گے اور دو
کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے ہو… وہ دو کام جن سے اﷲ تعالیٰ کی
خوشنودی حاصل ہوگی
(۱) ’’لا الہ الااﷲ‘‘ کاورد رکھنا
(۲) اﷲ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہنا… یعنی استغفار کرنا… اور
وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے ہو یہ ہیں
(۱) جنت کا سوال کرنا
(۲) جہنم سے پناہ مانگنا … (الترغیب والترہیب)
رمضان
المبارک میںروزانہ اگر پچیس سو مرتبہ ’’لا الہ الااﷲ‘‘ کا معمول بنا لیں تو… اُنتیس
دن میں ستّر ہزار کلمے کا نصاب بھی پورا ہو جائے گا… بلکہ کچھ تعداد زیادہ ہو جائے
گی… بہت سے اﷲ والوں نے ستّر ہزار کلمے کو مغفرت کے لئے بہت مؤثر عمل قرار دیا
ہے… اور رمضان المبارک میں تو ہر عمل کا اجر ویسے ہی ستّر گنابڑھ جاتا ہے… ضروری
نہیں کہ آپ باقاعدہ مصلے پر بیٹھ کر پڑھیں… چلتے پھرتے، کھانا پکاتے، کپڑے دھوتے…
ہرو قت زبان پر ذکر اور درودشریف جاری رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے… اسی طرح استغفار
روزانہ تین سو کا معمول ہو جائے… حضرت گنگوہی پ فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی کثرت تین
سو سے شروع ہوتی ہے… اور جنت کے سوال اور جہنم سے پناہ کی دعاء بھی تین سو بار ہو
جائے…
لَا
اِلٰہَ اِلَّااﷲُ، اَسْتَغْفِرُاﷲَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ
وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ
ویسے
رمضان المبارک میں زیادہ توجہ قرآن پاک کی طرف دینی چاہئے… قرآن پاک کی زیادہ سے
زیادہ تلاوت کریں… بھولے ہوئے حافظ زیادہ وقت قرآن پاک کو یادکریں… روزانہ قرآن
پاک کی چند آیات کا ترجمہ اور تفسیر بھی’’فتح الجوّاد‘‘ سے دیکھ لیا کریں… اور
تراویح میں قرآن پاک سننے اور سنانے کا خاص اہتمام کریں… بارش اور سیلاب کے علاوہ
بھی بہت سے مسلمان دنیا بھر میں’’تکلیف زدہ‘‘ہیں… ان دنوں ہمارے پڑوس مقبوضہ کشمیر
میں ظلم کا خوفناک بازار گرم ہے … روزانہ نہتے شہریوں کو شہید کیا جارہا ہے… اور
مسلمانوں کو مساجد میں نماز تک ادا نہیں کرنے دی جارہی … اہل کشمیر کو اپنی دعاؤں
میں یاد رکھیں… اور اُدھر غزہ کے مسلمان کتنے عرصہ سے محاصرے میں ہیں… اُن کے
خوبصورت بچے دودھ اور بسکٹ تک سے محروم ہو کر سوکھ رہے ہیں…اور اُن کے گھروںمیں
بھوک اور خوف کی ریت اڑ رہی ہے… اہل فلسطین کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں… بہت
سے اہل ہمت مسلمان کفار کی جیلوںمیں قید ہیں… سری نگر سے لیکر راجھستان تک… اور
بگرام سے لے کر خوست تک… اور بہت دور گوانتاناموبے تک… اور اُدھر عراق میں ابو غریب
اور نامعلوم کتنی جیلیں… رمضان المبارک آرہا ہے اپنے اسیر بھائیوں کویاد رکھیں…
ابھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے کئی منوّر چہرے چمک اٹھے… کس کس
کا نام لوں، کس کس کو یاد کروں… بہت سے اُمت مسلمہ کے سالار… اور بہت سے اس امت کے
جگر گوشے… اب تو اُن میں سے کئی بوڑھے ہوگئے… اور کئی بیمار… دنیا میں مسلمانوں کا
کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں دین آزادہو، جہاد آزاد ہو… اور اُس ملک کی
حکومت اسیر اور مظلوم مسلمانوں کے متعلق سوچتی ہو… رمضان المبارک آرہاہے دعاء کریں
کہ حالات اچھے ہوجائیں… ہم مسلمانوں کے لئے رحمت اور خلافت کا فیصلہ آسمان سے اتر
آئے… ویسے ناشکری کی کوئی بات نہیں… ہم مظلوم ہو کر بھی الحمدﷲ اس دنیا کی سب سے
بڑی قوت ہیں… ساری دنیا کے کافر اور منافق خود تسلیم کر رہے ہیں کہ… اسلام بہت بڑی
قوت ہے، جہاد بہت بڑی طاقت ہے… والحمدﷲ رب العالمین
اللھم
صل علی سیدنا محمد عددمافی علم اﷲ عزّوجلّ صلوٰۃ دائمۃ بدوام ملک اﷲ عزّوجلّ وبارک
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
پھر
کوئی ڈر نہیں
ش،ش،ش،رمضان
المبارک آچکا ہے… اوراب تیزی سے جا رہا ہے… ہمارے تو آج پانچ روزے پورے ہوئے
جبکہ عرب ممالک میں چھ روزے ہو چکے ہیں… کبھی ایسا بھی ہو گا کہ سب مسلمان ایک
چاند پر رمضان اور عید منائیں گے؟… جی ہاں جب پوری دنیا میں اسلامی خلافت قائم ہو
جائے گی تو ایسا ضرور ہو گا… فی الحال تو ہم سب گزارہ چلائیں … ہم اگراس طرح کے
مسائل میں شدّت کریں گے تو مسلمانوں میں اور زیادہ ٹوٹ پھوٹ ہو جائے گی… بس جہاں
حکومت کی چلتی ہے وہاں رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کو مان لیا کریں… اور جہاں علماء
کی مقامی کمیٹیاں فیصلہ کرتی ہیں وہاں اکثرعلماء کے فیصلے پر عمل کر لیا کریں… ذہنی
ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں… اس طرح کی رنگا رنگی سے بھی لطف اندوز ہوا کریں… جب
ہمار اکچھ بھی سیدھا نہیں توچاند کا مسئلہ کیسے سیدھا ہو سکتا ہے؟… ہمارے حکمرانوں
نے اﷲ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ ہر’’ حد‘‘ کو توڑا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی ایک مخلوق’’پانی‘‘
نے بھی ہر حد کو توڑ دیا ہے… ش،ش،ش،کیسے بڑے بڑے شہر ڈوب گئے… اوربقول حکمرانوں کے
پاکستان پچاس سال پیچھے چلا گیا…
تھوڑا
سا دس پندرہ سال پہلے والے پاکستان کو یاد کریں… اور پھر آج کے ٹوٹے، پھوٹے، ڈوبے
پاکستان کو دیکھیں… ش،ش،ش… حکمرانوں نے کسی کے سمجھانے کی پرواہ نہیںکی… اﷲ والوں
نے بار بار وارننگ دی مگر… کسی نے نہیں سنی… ہم نے ایک بدبودار نعرہ لگایا اور یہ
نعرہ لگاکر اپنے مسلمان پڑوسیوں کو خاک و خون میں نہلا دیا… سب سے پہلے پاکستان…
پھر زلزلے نے بھی اعلان کر دیا کہ… سب سے
پہلے پاکستان… دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ افراد لقمۂ اجل بن گئے… بدامنی
نے بھی اعلان کر دیا کہ… سب سے پہلے پاکستان… اور پھر پاکستان میں ہر کسی کا امن چھن
گیا… اور اب بارشوں اور سیلاب نے یہی اعلان کر کے جنگ کا نقارہ بجا دیا ہے … سب سے
پہلے پاکستان…
ش،ش،ش…
حکمرانوں نے کیسا عظیم جُرم کیا… صدیوں بعد زمین کے ایک چپّے پر اسلامی حکومت قائم
ہوئی تھی… اس حکومت میں عدالتی فیصلے قرآن پاک کرتا تھا… ہمارے حکمرانوں نے
ڈالروں کے لالچ میں… اور تباہی کے خوف سے کہ ہمارا آملیٹ نہ بن جائے… اسلامی
امارت کو ختم کر ادیا… ش،ش،ش…عجیب حالات تھے… یاد آتے ہیں تو دل ڈوبنے لگتا ہے…
مسلمانوںکی زمین اور فوجی اڈے کافروں کو دے دیئے گئے… ایک اسلامی مُلک کافروں کی
جنگ کا مورچہ بن گیا… کافروں کا مورچہ، توبہ توبہ کافروں کا مورچہ… اس مورچے میں بیٹھ
کر کافروں نے کتنے مسلمانوں کو شہید کیا… کوئی ہے جو گنتی کرے؟… ہزاروں لاکھوں
مسلمان اس طرح سے پناہ کی تلاش میں پھر رہے تھے جس طرح انسان نہ ہوں بے قیمت
جانوروں کے گلّے ہوں… کتنے معصوم بچوں نے اپنی ماؤں کی گود میں دم توڑ دیا… اُن
بے چاریوں کے جسم میں دودھ ہوتا تو پلاتیں… قندھار کے چند مہمان مجاہدین رو رو کر،
چیخ چیخ کر افغانوں سے کہہ رہے تھے!… اﷲ کے لئے ہماری عورتوں سے شادیاں کر لینا
مگر ان کو کافروں کے ہاتھ نہ لگنے دینا… آسمان سے کارپٹ بمباری اور زمین پر سازش
کی بو… ہمارا مُلک پہلے تھوڑا اور پھر پورا بکتا چلا گیا… چھ سو مسلمانوں کو پکڑ
کر دور افتادہ دریاؤں کے کنارے شہید کر دیا گیا… نہ جنازہ، نہ کفن… بس تصویریں کھینچ
کر امریکہ کو بھیجی گئیں… اور ان لاشوں پر انعامات وصول کئے گئے… کئی ہزار افراد
کو پکڑ کر امریکہ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا… ہاں انسانوں کی تجارت کا ایک بھیانک
دور ہمارے مُلک نے دیکھا… اُس وقت مُلک کے اندر کوئی شورش نہیں تھی… مگر حکمرانوں
پر انعامات پانے، ڈالر کمانے اور امریکہ کو خوش کرنے کا بھوت سوار تھا… اور امریکہ
کے منہ سے ایک ہی آواز آتی تھی… ڈو مور ڈو مور… تب خودشدّت پسندی کو کھڑا کیا
جاتا اور پھر اُسے گرا کر انعامات وصول کئے جاتے… اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پورا
مُلک دھماکوں اور آپریشنوں سے لہو لہان ہو گیا…ش،ش،ش… مسلمان خود مسلمان کا قاتل…
مسلمان خود مسلمان کو بیچنے والا… اور مسلمان خود مسلمان کا دشمن…دریاؤں میں سیلاب
نہ آئے تو پھر کیا آئے؟… گوانتا نا موبے کے قیدی جب قنوت نازلہ میں چیخیں اٹھاتے
ہیں تو کیوبا کا سمندر بھی سانس لینا بھول جاتا ہے… کتنے مظلوموں نے سیکورٹی والوں
کو اﷲ تعالیٰ کا واسطہ دیا… جواب ملا ہم نے مُلک بچانا ہے… قرآن پاک کا واسطہ دیا
، جواب ملا ہم نے مُلک بچانا ہے… اور آج سب چیخ رہے ہیں کہ ہمارا مُلک ڈوب گیا،
ہمارا مُلک ڈوب گیا… بلاؤ نہ امریکہ کو کہ… وہ سیلاب کو روک دے… ان سیلابوں نے تو
زمین کی جڑیں تک ہلا دی ہیں… اور اب ایک اور خوفناک زلزلے کا خطرہ ہے… ہر دن نیا
ظلم اور ہر رات نیاستم… حضرت ملّا برادر جیسے پاکستان کے دوست کو پکڑ کر حکمرانوں
نے عذاب الہٰی کو دعوت دی… اور اب اس رمضان میں جیش محمدﷺ اور دیگر اسلامی تنظیموں
پر کریک ڈاؤن کی تیاری تھی… اﷲ پاک کے لئے قربانیاں دینے والے… رات دن قرآن پاک
پڑھنے والے… صبح شام ذکر اﷲ میں مست… اِن مجاہدین کو ہر آئے دن جیلوں اور عقوبت
خانوں میں ستایا جاتا ہے… اورجب بھی کوئی بڑا کافر مُلک میں آتا ہے… یا ہمارے
حکمران کسی کافر مُلک جاتے ہیں تومحض عزت اور تماشے کے لئے اہل ایمان کو ستایا
جاتا ہے… حکمران فخر سے بتاتے ہیںکہ… ہم نے اتنے مسلمان مجاہدین مارے اوراتنے
پکڑے… صحافی فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے قرآن، جہاد اور مدرسے کے خلاف کتنا کام کیا…لسانی
لیڈر فخر سے بتاتے ہیںکہ… ہم نے قوم کے اتنے افراد کو اسلام سے ہٹا کر کر لسانیت
پرستی پر لگا دیا ہے… ان حالات میں اگر پانی بے قابو ہو کر شہروں میں گُھس آیا ہے
تو اس کا کیا قصور ہے؟… وہ مزید کتنے مظالم دیکھے؟ اور مزید کتنے گناہوں کو جھیلے؟…
اچھا تھوڑی دیر اپنی بات کو یہاں روکتے ہیں … ایک سوال!…ظلم تو حکمرانوں نے کیا
جبکہ مصیبت عوام جھیل رہے ہیں… سیلاب میں نہ پرویز مشرف ڈوبا… اور نہ موجودہ
حکمران… اُن کے اونچے بنگلے محفوظ ہیں… جبکہ غریب کی جھونپڑی بہہ گئی… عذاب آنا
تھا تو حکمرانوں پر آتا… مگر وہ مزے میں تھے اور ہیں… سیلاب اگرزیادہ آگیا تو وہ
لندن، واشنگٹن، دوبئی بھاگ جائیں گے… جواب بالکل واضح ہے… بڑے عذاب میں تو حکمران
ہی جکڑے جا چکے ہیں… مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا…سیلاب سے بڑا عذاب ہے…
مسلمانوں کو قتل کرنا اور اُن کے خون کا وبال سر پر اٹھانا… زلزلے سے بڑا عذاب ہے…
اپنے دور حکومت میں صدی کا سب سے آفت زدہ زمانہ پانا ایک مستقل عذاب ہے… کافر
حکمرانوں کے سامنے دن رات گڑ گڑانا اور ان کے مطالبات پر گردن جھکانا… طوفان سے
بڑا عذاب ہے… حکومت ہونے کے باوجود قرآن پاک کو نافذ نہ کرنے کا گناہ اٹھانا… ایک
سخت ترین عذاب ہے… دن رات اپنی حکومت کے زوال سے ڈرتے رہنا اور ہر طرف سے
ملامتوںکو اٹھانا ایک درد ناک عذاب ہے… ارے بھائیو!ہم اور آپ تو اگر ایمان پر ہیں
تو ربّ تعالیٰ کی قسم مزے میں ہیں… ہمیں نہ ہیلری کا ڈر نہ ابامہ کا خوف… اور نہ
مسلمانوں کے خون سے ہمارے ہاتھ رنگین… اور نہ ہم اپنی زمین کوڈالروں کے بدلے بیچنے
والے… اور نہ ہم کسی کافر کے سامنے جوابدہ اور نہ کسی منافق کے سامنے…ان حکمرانوں
کا تو بُرا حال ہے… دن رات وبال ہی وبال ، عذاب ہی عذاب… ویسے عوام کی بڑی تعداد
بھی تو انہیں کو منتخب کرتی ہے… پاکستان کا عمومی ماحول بھی… بے دینی کی زد میں
ہے… اور قوم پرست لسانی تنظیموں نے تو مُلک کی لٹیا ہی ڈبو رکھی ہے… ش،ش،ش… رمضان
المبارک شروع ہو چکا ہے… دن رات عجیب مناظر ہیں… وہ جو فرض نمازوں میں سستی کرتے
تھے… اب ماشاء اﷲ تہجد بھی نہیں چھوڑتے… ویسے رمضان المبارک میں تہجد سے محروم
ہونا عجیب سا نہیں لگتا؟… سحری کھانے کے لئے تو اٹھنا ہی ہوتاہے… تہجد تو عاشقوں کی
نماز ہے… اور تہجد میں دعائیںزیادہ قبول ہوتی ہیں… کتنے لوگوں کودیکھا کہ ماشاء اﷲ
اب باقاعدگی سے مسجد میں جارہے ہیں… ش،ش،ش… مساجد میں رش دیکھ کر تو اتنی خوشی ہوتی
ہے کہ بیان سے باہر ہے…ہر عبادت میں الگ سرور، الگ مزہ… اور اجر کے خزانے… پہلے بھی
’’سبحان اﷲ‘‘پڑھتے تھے… مگر اب پڑھتے ہیں تو اس میں ستر گنا زیادہ وزن اور نور
آجاتا ہے… ایک سو روپے صدقہ کئے تو سیدھے
سات ہزار بن گئے… اور پھر جہاد کے اجر کو شامل کریں تو کوئی معاملہ کروڑوں سے نیچے
رکتا ہی نہیں … ویسے یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ وسیع ہے…صرف
زمین کے نظام شمسی میں ایسے بڑے بلیک ہول موجود ہیں کہ… اگر امریکہ، روس سمیت ساری
زمین کو اس میں ڈال دیں تو یوں غائب ہو جائے جیسے بڑے مین ہول میں ایک چھوٹی سی گیند…
یہ تو ایک زمین ہے… جبکہ قرآن پاک میں سات زمینوں کا تذکرہ ہے… اور سات آسمان…
جن کے قریب بھی ابھی تک کوئی سائنسدان نہیں پہنچ پایا… اتنا عظیم ربّ جس نے یہ
کائنات پیدافرمائی… روزے دار مسلمان سے محبت فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ…
روزے کا بدلہ میں خود دوں گا… ش،ش،ش… بس مجھے اور آپ کو کوشش کرنی چاہئے کہ …
رمضان المبارک میں کوئی گھڑی ضائع نہ کریں… اگر کوئی بیمارہو جائے تو… وہ بھی لیٹا
لیٹا دعائیں کرتا رہے اور آنسو بہاتارہے… ارے بھائیو! او ربہنو!… رمضان المبارک کی
دعاؤں پر تو عرش کے فرشتے آمین کہتے ہیں… خوب دعائیں اور خوب آہ وزاری… اور
دعاؤں میں یہ بھی کہہ دیں کہ… یا اﷲ حکمرانوں کے مظالم سے ہم بری ہیں… ہم آپ کے
اورآپ کے دین کے وفادارہیں… اور ہم اسلام اور قرآن پاک کے ہر حکم کو مانتے ہیں…
اور یا اﷲ! ہم آپ کے فرض کردہ حکم جہاد کے منکر بھی نہیں ہیں… ارے بھائیو! آپ نے
کسی ناجائز عاشق کو فون پر بات کرتے دیکھا ہے؟… گھنٹوں، گھنٹوں کھوئے رہتے ہیں…
اور پتہ نہیں کیا کیا بکتے رہتے ہیں… ارے بھائیو! اور بہنو! ایمان والے تواﷲ تعالیٰ
سے بہت والہانہ محبت کرتے ہیں… پھر دعاؤں میں کھو کیوںنہیں جاتے؟… مانگتے جاؤ،
مانگتے جاؤ… محتاج اور ضرورت مند بھکاری سے بھی زیادہ عاجزی اور آہ وزاری…
مانگتے جاؤ، مانگتے جاؤ… ہر گناہ کی معافی مانگ لو…اگر میری اور آپ کی ’’معافی‘‘
اور مغفرت ہوگئی تو پھر کوئی ڈر نہیں، سیلاب میں ڈوب جائیں یا زلزلے میں دب جائیں…
ارے تب تو ہم اپنے مالک اور محبوب کے پاس چلے جائیں گے… وہاں نہ کوئی غم نہ خوف…
نہ کمر کا درد اور نہ دل کی بے چینی… نہ کوئی ظلم… اور نہ کوئی اندیشہ… سکون ہی
سکون… مزے ہی مزے… رمضان المبارک گزر رہا ہے… یا اﷲ القلم پڑھنے والے تمام مرد اور
خواتین کی مغفرت فرما… دیکھیں میں نے آپ کے لئے دعاء مانگ لی… اب آپ بھی میرے
لئے یہی دعاء مانگ لیں… پورا رمضان میں بھی مانگتا رہوں… اور آپ بھی مانگتے رہیں…
ش،ش،ش… کتنی مبارک گھڑیاںہیں… اور کیسا مبارک مہینہ…غم کے دور میں برکتوں اورخوشیوں
کا مہینہ… یا اﷲ! ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرما… آمین یا ارحم الراحمین
اللھم
صل علی سیدنا محمد بعدد کل معلوم لک دائما ابدا وعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا
کثیرا
٭…٭…٭
قوت
کا راز
اﷲ
تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو اپنے پیارے ’’دین اسلام‘‘ کی سمجھ عطاء فرمائے…
روزے
کی اہمیت
حضرت
شیخ الحدیث نور اﷲ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:
ایک
حدیث میں ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ’’رمضان‘‘ کیا چیز ہے تومیری اُمت یہ
تمنّا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے… ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’رمضان
المبارک‘‘ کے روزے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھنا دل کے کھوٹ اور وساوس کو
دُورکرتا ہے، آخر کوئی بات تو ہے کہ صحابہ کرام ڑ رمضان کے مہینے میں جہاد کے سفر
میں باوجود نبی کریم ﷺ کے بار بار افطار کی اجازت فرما دینے کے روزہ کا اہتمام
فرماتے حتیٰ کہ حضورﷺ کو حُکماً منع فرمانا پڑا… مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ
صحابہ کرامؓ ایک غزوہ کے سفر میں ایک منزل پر اُترے گرمی نہایت سخت تھی اور غربت کی
وجہ سے اس قدر کپڑا بھی سب کے پاس نہ تھا کہ دھوپ کی گرمی سے بچاؤ کر لیں، بہت سے
لوگ اپنے ہاتھ سے آفتاب کی شعاع سے بچتے تھے، اس حالت میں بھی بہت سے روزے دار
تھے، جن سے کھڑے ہو سکنے کا تحمل نہ ہوا اور گر گئے ، صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت گویا
ہمیشہ تمام سال روزے دار ہی رہتی تھی۔(فضائل رمضان)
حضرت
ہجویری پ لکھتے ہیں:
’’صرف کھانے اور
پینے سے رُکے رہنا تو بچوں اور بوڑھی عورتوں کا روزہ ہے، جب کہ روزہ دراصل
خواہشات، لہو، لعب اور غیبت سے بچنے کا نام ہے‘‘ (کشف المحجوب)
رمضان
المبارک کا اتنا عظیم اور قیمتی مہینہ تیزی سے گزر رہا ہے… ہم سب اپنے اوقات کو قیمتی
بنائیں اور یہ یاد رکھیں کہ رمضان المبارک کی ہر گھڑی رمضان المبارک ہے… رات ہو یا
دن… صبح ہو یا شام رحمت ہی رحمت ہے اور برکت ہی برکت ہے… چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے یہ
بات یاد رکھیں کہ ہم رمضان المبارک میں ہیں… چنانچہ خوب نیکیاں کریں، گناہوں سے بچیں…
اور اپنے وقت کو فضول کاموں اور باتوں میں ضائع نہ کریں… گپ شپ تو پھر بھی ہوتی
رہے گی ابھی تو رمضان المبارک ہے اس میں خوب تلاوت، خوب ذکر، خوب دعاء، خوب نوافل،
خوب خیرات، خوب درود شریف اور خوب عبادات کا اہتمام کریں…
اعتکاف،
عشق کی آبرو
رمضان
المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف بہت اہم اور عاشقانہ عبادت ہے… حضرت شیخ الحدیث
پتحریر فرماتے ہیں:
’’اعتکاف کا بہت
زیادہ ثواب ہے اور اس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ اس کا
اہتمام فرماتے تھے… معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ کسی کے دَر پرجا پڑے کہ جب
تک میری درخواست قبول نہ ہو میں یہیں پڑا رہوں گا ؎
نکل
جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی
دل کی حسرت یہی آرزو ہے
(فضائل رمضان
تسہیل)
صاحب
مراقی الفلاح پکہتے ہیں کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال میں سے
ہے، اس کی خصوصیتیں شمار سے باہر ہیں کہ اس میں دل کو دنیا و مافیھا سے یکسو کر لینا
ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کردینا ہے اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے ؎
پھر
جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑا رہوں
سر
زیر بار منّتِ درباں کئے ہوئے
(فضائل رمضان)
اس
سال مسلمانوں پر کافی سخت حالات آئے ہوئے
ہیں… ان حالات میں اعتکاف کی ضرورت بڑھ جاتی ہے… تاکہ کئی لوگ سب کو چھوڑکر اﷲ
تعالیٰ کے حضور آپڑیں اور عید کا چاند نظر آنے تک ہر کسی سے کٹ کر صرف اﷲ تعالیٰ
سے جُڑے رہیں… اور اُس کے گھر کی چوکھٹ پر پڑے رہیں… خواتین تو اپنے گھروں میں
اعتکاف کا اہتمام کریں جبکہ مرد حضرات مسجد کے اعتکاف کی فکر کریں… بہاولپور کی
جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ میں اس سال بھی عاشقانہ اعتکاف ہو گا… آپ سب کی خدمت میں
صلائے عام ہے…جو بھی تشریف لائے مرحبا!… ایک بار پھر گزارش ہے کہ اس سال اعتکاف کی
زیادہ کوشش اور فکر کریں… انشاء اﷲ بہت فائدہ ہو گا…
مال
سے جنّت خریدی
حضرت
شیخ الحدیثپ تحریر فرںماتے ہیں:
روح
البیان میں بروایت ابن عمرذنبی کریمﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ میری اُمّت میں ہر
وقت پانچ سو برگزیدہ(یعنی اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ) بندے اور چالیس ابدال رہتے ہیں،
جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے، صحابہؓ نے
عرض کیا ان لوگوں کے خصوصی اعمال کیا ہیں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ظلم کرنے
والوں سے درگزر کرتے ہیں اور بُرائی کا معاملہ کرنے والوں سے (بھی) احسان کا
برتاؤ کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے عطاء فرمائے ہوئے رزق میں لوگوں کے ساتھ ہمدردی
اور غم خواری کا برتاؤ کرتے ہیں، ایک دوسری حدیث میں نقل کیا ہے کہ جو شخص بُھوکے
کو روٹی کھلائے یا ننگے کو کپڑا پہنائے یا مُسافر کو شب باشی کی جگہ دے حق تعالیٰ
شانہ قیامت کے ہُولوں(یعنی خوفناکیوں) سے اس کو پناہ دیتے ہیں، یحییٰ برمکیپ ،حضرت
سفیان ثوری پ پر ہر ماہ ایک ہزار درہم خرچ کرتے تھے تو حضرت سفیان ثوری پ سجدے میں
اُن کے لئے دعاء کرتے تھے کہ یا اﷲ یحییٰ نے میری دنیا کی کفایت کی تو اپنے لطف سے
اس کی آخرت کی کفایت فرما… جب یحییٰپ کا انتقال ہوا تو لوگوں نے خواب میں اُن سے
پوچھا کہ کیا گُزری؟انہوں نے کہا سُفیان پکی دعاء کی بدولت مغفرت ہوئی(فضائل رمضان)
معلوم
ہوا کہ
٭ اپنے دل کو
مسلمانوں کے بغض اور کینے سے صاف رکھنا اور مسلمانوں پر ظلم نہ کرنا یہ اﷲ تعالیٰ
کے اولیاء اور ابدال کا طریقہ ہے… ہر مسلمان کو چاہئے کہ یہ کیفیت حاصل کرنے کی
دعاء اور کوشش کرے
٭ اپنے مال سے
غریبوں کی خیر خواہی کرتے رہنا چاہئے، مال جمع کرنا کمال نہیں ہے… بلکہ اپنے مال
سے جنت خریدنا بہت بڑی حکمت اور عقلمندی ہے… اور اﷲ تعالیٰ جسے یہ حکمت اور عقلمندی
عطاء فرمادے تو اُسے بہت بڑی خیر نصیب ہو جاتی ہے…
٭ رمضان المبارک
میں خصوصی طور پر مسلمان سے اچھا برتاؤ کرنا چاہئے… اور اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ
دینی کاموں پر اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنا چاہئے…
ایک
مفید خط اور واقعہ
میرے
ایک کرم فرما بزرگ، عالم دین… ضلع لودھراں کے رہنے والے ہیں… آزادی کے دنوں میں
اُن سے خوب ملاقاتیں رہتی تھیں… اب بھی کبھی کبھار خط لکھتے رہتے ہیں… حال ہی میں
اُن کا ایک خط آیا ہے… اس میں انہوں نے حضرت مولانا شاہ محمد الیاسپ کا ایک واقعہ
تحریر فرمایا ہے… قارئین پہلے وہ واقعہ ملاحظہ فرمالیں پھر آخر میں چندباتیں عرض
کی جائیں گی…
’’مولانا منظور
احمد نعمانی نوراﷲ مرقدہ نے رئیس التبلیغ مولانا محمد الیاسپکے ملفوظات جمع فرمائے
ہیں۔ فرمایا کہ بمبئی کے اردو روزنامہ الہلال کے ایڈیٹر حافظ علی بہادر خاں بی اے
حضرت کے مرض الوفات میں ایک دن حضرت کی زیارت کے لئے تشریف لائے حضرت نے انتہائی
ضعف و ناتوانی میں تقریباً آدھ گھنٹہ دعوت تبلیغ فرمائی اور وہ حافظ صاحب اس
گفتگو اور دعوت سے بہت متاثر ہوئے اور بمبئی پہنچ کر انہوں نے الہلال کی چند
اشاعتوں میں حضرت کی شخصیت اور دینی دعوت کے متعلق اپنے تاثرات لکھے حضرت کی دعوت
اصلاح و تبلیغ کی عظمت اہمیت سنجیدگی کا اعتراف اس طرح کیا کہ جس کی توقع آج کل
کے کسی ایڈیٹر اور لیڈر سے نہیں کی جاسکتی۔ الہلال کے وہ پرچے مجھے ایک جگہ سے مل
گئے، جنہیں پڑھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ میں حضرت کو بھی
یہ سناؤں گا چنانچہ میں وہ پرچے ہاتھ میں لے کر مناسب وقت کی امید کے ساتھ حاضر
خدمت ہوا۔ کہ ہاتھ میں پرچے دیکھ کر حضرت خود ہی فرمائیں گے کہ یہ ہاتھ میں کیا
ہے۔ تو مجھے عرض کرنے اور مضامین سنانے کا موقعہ مل جائے گا، لیکن میری توقع اور
آرزو کے خلاف حضرت نے کچھ پوچھا ہی نہیں، دیر تک انتظار کے بعد جب میرا پیمانہ
صبر لبریز ہو گیا تو میں نے خود ہی عرض کیاکہ حضرت فلاں دن بمبئی کے حافظ علی
بہادر خاں صاحب جو تشریف لائے تھے وہ الحمدﷲ ہماری دعوت سے بہت ہی متاثر ہوکر گئے
اور انہوں نے اپنے اخبار میں ہمارے کام کے متعلق چند مضامین لکھے ہیں جن میں کام کی
عظمت اور اہمیت کا انہوں نے بہت اعتراف کیا ہے۔ اگر ارشاد ہو تو ایک آدھ مضمون
سنا دوں؟ فرمایا مولوی صاحب جو کام ہو چکا اس کا ذکر کیا کرنا ہے۔اس میں یہ فکر
کرو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا اس میں کیا کمی رہ گئی اور جو کچھ کیا جا چکا اس میں
کتنی اور کیسی کوتاہیاں ہوئیں۔ اخلاص میں کتنی کمی واقع ہوئی عظمت امر الہٰی میں
کتنا قصور واقع ہوا آداب عمل کے تفقد اور اتباع اسوۂ نبوی کی کوشش میں کتنا
نقصان ہوا۔ مولوی صاحب اس فکر اور سوچ کے بغیر پچھلے کام کا ذکر و مذاکرہ اور اس
پر خوش ہونا ، تو بس ایسا ہی ہے جیسے راستہ چلنے والا مسافر کھڑا ہوکر پیچھے کی
جانب مڑ کر دیکھنے لگے اور خوش ہونے لگے۔ پچھلے کام کی صرف کوتاہیاں تلاش کرو اور
ان کی تلافی کی فکر کرو اور آئندہ کے لئے سوچو کہ کیا کرنا چاہئے، بلکہ اس پر غور
کرو کہ ایسے کتنے لاکھ اور کتنے کروڑ باقی رہ گئے جن کو ہم دعوت الی اﷲ پہنچا بھی
نہیں سکے اور کتنے ہیں جو واقفیت اور اعتراف کے بعد بھی ہماری کوششوں کی کمی کی
وجہ سے عمل پر نہیں پڑے۔‘‘(انتھیٰ)
حضرت
مولانا محمد الیاسپ اس اُمت کے محسنین اور مجدّدین میں سے تھے… اﷲ تعالیٰ نے آپ
کے دل میں دین کادردڈالا، پھر آپ کو دین کے کام کا ایک طریقہ الہام فرمایا… اور
پھر آپ کے کام کو قبولیت اور ترقی سے نوازہ… اﷲ تعالیٰ تبلیغ کے کام کو مزید قبولیت
اور ترقی عطاء فرمائے… اور اسے کھیل کود، کرکٹ، شوبز اور انکار جہاد کے فتنوں سے
بچائے… اور اس عظیم کام کو حضرت مولانا محمد الیاس صاحب پکے بیان کردہ اصولوںکے
مطابق چلانے کی موجودہ قیادت کو توفیق عطاء فرمائے… ہم نے اوپر جو واقعہ پڑھا ہے
اس سے کئی اسباق ملتے ہیں مثلاً
(۱) حضرت
مولانا الیاسپ کام کی کار گزاری بیان کرنے کے خلاف نہیں تھے… کار گزاری کا تواُن
کے ہاں بہت اہتمام تھا… اور ماضی کی کارگزاری کے بغیر کوئی کام ترقی بھی نہیں کر
سکتا… مگر یہاں کار گزاری نہیں تھی بلکہ… ایک نیم سیاسی اخبار کی طرف سے خراج تحسین
تھا… اور حضرت مولاناؒ اپنے کام کو مروّجہ سیاست… اور عام صحافت سے بہت دور رکھنا
چاہتے تھے… اور چونکہ طبیعت میں تنقید کا مزاج نہیں تھا تو اس لئے ایک خاص حکمت سے
اپنی جماعت کی توجہ اخبارات اور صحافت سے ہٹا دی… اور ماشاء اﷲمولانا کی اس حکمت
عملی کا جماعت کا بہت فائدہوا… عام صحافی اور کالم نویس حضرات اپنی رائے اور ترجیحات
بدلتے رہتے ہیں… آج وہ کسی کے حق میں کچھ لکھتے ہیں کل اُسی کے سر پر جوتے بھی
برساتے تھے… اور یہ صحافی حضرات کسی بھی کام کی تائید کرنے کی کم سے کم قیمت یہ
وصول کرتے ہیں کہ… اُس کام کے بارے میں طرح طرح کے مشورے جھاڑنے شروع کر دیتے ہیں…
حضرت مولانا محمد الیاسؒ اپنے دینی کام کو ان فتنوں سے بچانا چاہتے تھے… چنانچہ
انہوں نے اخبار کی طرف توجہ ہی نہیں فرمائی… بلکہ اوروں کوبھی پڑھنے سے منع فرمایا…
اب کوئی تعریف لکھے یا مذمّت اُس کا اُن کے دینی کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا… الحمدﷲ
اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ہماری جماعت کا بھی یہی طرز عمل رہا… بہت سے صحافی حضرات نے
اپنی خدمات پیش کیں… اور کئی لوگوں کی طرف سے میڈیا پر آنے کا کافی دباؤ رہا…
مگر الحمدﷲ مناسب دوری رہی… جس کا بہت فائدہ اﷲ تعالیٰ نے نصیب فرمایا… اﷲ کرے
آئندہ بھی جماعت اپنی اس حکمت عملی پر گامزن رہے…
(۲) حضرت
مولانا محمد الیاسپ کا ایک خاص عمل… اپنی غلطیوں کا مراقبہ تھا…یہ وہ عمل ہے کہ جس
نے اُن کی جماعت کو بہت سے عظیم فتنوں سے بچارکھا ہے… تکبّر اور عُجب سے جماعتوں کی
جڑیں اکھڑ جاتی ہیں… اور طرح طرح کے اختلافات اور فتنے جنم لیتے ہیں… لیکن اگر نظر
اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ہو تو انسان ہمیشہ استغفار کرتاہے… اوریہ قرآن پاک
کا اعلان ہے کہ استغفار سے قوت بڑھتی ہے… جہاد کا عظیم دینی کام کرنے والوں کے لئے
لازمی ہے کہ وہ اس اصول کو اپنائیں…
یا
اﷲ ہم سب کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف فرما… اور ہماری توبہ کو قبول فرما… آمین یا
ارحم الراحمین
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد صاحب الفرق والفرقان و جامع الورق من سماء القرآن وعلی اٰل
محمد و سلّم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
مرہم
ش
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اپنی ’’معرفت‘‘ نصیب فرمائے… آج اپنی بات کا
آغاز’’ذکر اﷲ‘‘ کے ایک واقعہ سے کرتے ہیں… حضرت سہل بن عبداﷲ تستری پ نے اپنے ایک
مرید سے فرمایا کہ تم اس بات کی کوشش کرو کہ سارا دن’یاش ، یا ش ، یا ش ‘‘ کہتے
ہوئے گزارا کرو… مُرید نے عمل کیا یہاں تک کہ یہ مبارک ذکر اُس کی عادت بن گئی
توآپ نے فرمایا اب راتوں کو بھی یہی ذکر شروع کر دو… اُس نے ایسا ہی کیا یہاں تک
کہ جب سوجاتا تو خواب میں یہی ذکر جاری رہتا… جب یہ حالت اُس کی طبیعت ثانیہ بن گئی
تو حضرت نے فرمایا کہ اب اس سے رُک جاؤ اور اﷲ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جاؤ… یعنی
زبان سے ذکر بند، اب دل اور دماغ سے ہر وقت اﷲ تعالیٰ کو یاد کیا کرو… وہ شخص حکم
کے مطابق یاد الہٰی میں مشغول ہو گیا ،یہاں تک کہ ہروقت اسی یاد میں ڈوبا رہتا… ایک
دن وہ اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک لکڑی اُ س کے سر پر گری جس سے سر پھٹ گیا اور
خو ن بہنے لگا… دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اُس کے خون کے جو قطرے زمین پر گرے ان میں’’ش
، ش ،ش ‘‘ لکھا ہوا ظاہر ہو تا تھا…(کشف المحجوب)
ماشاء
اﷲ رمضان المبارک کے انوارات ہر طرف خوب چمک رہے ہیں… مگر کچھ لوگ ابھی تک پریشان
ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا؟… ہم ایمان کامل چاہتے ہیں مگر ہمارا ایمان مضبوط نہیں
ہوتا… ہم اخلاص چاہتے ہیں مگر پھر بھی ریا کاری ہو جاتی ہے… ہم بہت نیک بننا چاہتے
ہیں مگر پھر بھی گناہ ہو جاتے ہیں… ہم ہر وقت اپنے محبوب حقیقی کی فرمانبرداری میںلگے
رہنا چاہتے ہیں مگر نفس اور شیطان ہمیں بہکا دیتا ہے… کیا ہم بد نصیب ہیں؟ کیا ہم
شقی اور محروم ہیں؟… کیا ہم جہنّمی ہیں؟… یہ خیالات بہت سے لوگوں کو رُلاتے ہیں
اور تڑپاتے ہیں… کبھی انہیں خیال آتا ہے کہ ہم منافق ہو گئے ہیں تب وہ سرخ
آنسوؤں سے روتے ہیں اور سجدوں میں گر کر بار بار ’’کلمۂ توحید‘‘ پڑھتے ہیں… جو
مسلمان اس طرح کی کیفیت میں مبتلا ہیں وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اُس واقعہ میں
غور کریں جو بعض بزرگوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے… حضرت موسیٰ حنے ایک بار اﷲتعالیٰ
سے عرض کیا… یا ش میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟… ارشاد فرمایا… ہمیں ٹوٹے ہوئے دلوں
میں تلاش کرو…
حضرت
موسیٰح نے عرض کیا یا اﷲ!کوئی بھی دل میرے دل سے زیادہ ٹوٹا ہوا نہیں ہے… اﷲ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا… پس میں بھی تیرے ٹوٹے ہوئے دل
میں ہوں…(کشف المحجوب)
یعنی
وہ دل جو اﷲ تعالیٰ کے خوف سے کانپتے رہتے ہیں… اور کبھی کبھی اپنی حالت سے مایوس
ہو جاتے ہیں… مگر پھربھی اﷲ تعالیٰ سے ہی جڑے رہتے ہیں… انہیں ظاہری طور پر کوئی
کامیابی نظر نہیں آتی… اور نہ اپنی حالت پر اطمینان ہوتا ہے… ایسے ٹوٹے ہوئے، خوف
سے لرزتے ہو ئے دلوں میں… اﷲ تعالیٰ کی محبت اور معرفت کا نور ٹھاٹھیں مارتاہے…
ارے ظاہری نتائج تو کئی انبیاء د کوبھی نظر نہیں آئے… سالہا سال کی محنت سے کوئی
ایک آدھ آدمی مسلمان ہوا… حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نوسو سال کی سخت محنت کے
بعد صرف ایک کشتی بھر سکے… مگر یہ سب حضرات اعلیٰ درجے کے کامیاب تھے… مشہور عالم
وبزرگ حضرت ذوالنون مصری پ کو تو اُن کے علاقے کے لوگوں تک نے تسلیم نہ کیا… جب
اُن کے انتقال کے بعد طرح طرح کی کرامتیں
ظاہر ہوئیں تو مصر کے لوگ اپنے اُن مظالم پر رو رہے تھے جو انہوں نے … اﷲ تعالیٰ
کے اس مقرّب ولی پر ڈھائے تھے… حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کتنے تھے جو اس بات پر
روتے تھے کہ کہیں ہم منافق تو نہیں ہو گئے… ہاں یہ ٹوٹے ہوئے، لرزتے ہوئے دل بڑے
کام کے ہیں… ان دلوں کو اپنے محبوب اور مالک کی رضا کی فکر ہے… اور انہیں اپنی
حالت پر ناز اور فخر نہیں… اور انہیں ہر وقت اﷲ تعالیٰ کا خوف اور اپنی آخرت کا
غم نصیب رہتا ہے… رمضان المبارک کے انوارات ماشاء اﷲ ہر طرف صاف نظر آرہے ہیں…
ارے ! ہے کوئی دنیا میں جو مسلمانوں کا مقابلہ کر سکے؟… ماشاء اﷲ ہر طرف قرآن پا
ک کے حافظ ہی حافظ نظر آرہے ہیں… یہودیوں میں سے کتنے ہیں جن کو تورات یاد ہے؟… عیسائیوں
میں سے کتنے ہیں جو انجیل یا بائبل کے حافظ ہیں؟… ہندوؤں کا تو کوئی مذہب اور عقیدہ
ہی نہیں… پھر بھی گیتا اور رامائن کاایک حافظ بھی نہیں ملے گا… مگر یہاں مسلمانوں میں ماشاء اﷲ ایک
سے ایک بڑھ کر حافظ… مرد تو مرد عورتیں بھی
مکمل حافظ… بچے بھی حافظ اور بوڑھے بھی حافظ… پچھلے سال میں نے ایک نابینا بزرگ دیکھے…
خود اپنے سہارے چل نہیں سکتے تھے مگر جب قرآن پاک پڑھتے تو یوں لگتا کہ کوئی
شہسوار اپنے گھوڑے کو پوری شان سے دوڑا رہا ہے… کئی کئی پارے پڑھ جاتے مجال ہے کہ…
کوئی زیر زبر کی غلطی بھی ہو جائے… مسلمانوں کے خاتمے کی باتیں کرنے والے ذرا
رمضان المبارک میں گلی کوچوں کا چکر لگائیں… ایک ایک مسجد میں کئی کئی حافظ قرآن
پاک سنا رہے ہیں… کہیں تین دن میں ختم، کہیں سات راتوں میں… اور کہیں کچھ اور ترتیب…
اب آخری عشرہ شروع ہو گا تو بعض جگہ ایک رات میں پورا قرآن پاک مکمل کیاجاتا ہے…
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم… آج رات کئی ملکوں میںرمضان المبارک کا آخری
عشرہ شروع ہو چکا ہے… جبکہ ہمارے ہاں انشاء اﷲ کل سے شروع ہو گا… دیکھنا اﷲ تعالیٰ
کے کتنے وفاد ار عاشق سب کوچھوڑکر… دس دن رات کے لئے اﷲ تعالیٰ کے در پر آپڑیں
گے… ہے دنیا میں کسی کے پاس وفاداری کی ایسی مثال؟… یورپ میں عیسائی اپنے چرچ
فروخت کر رہے ہیں… اور یہاں ماشاء اﷲ مسجدوں پر مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں اور اب
آخری عشرے میں یہ مسجدیں چوبیس گھنٹے آباد رہیں گی… پاگل ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیںکہ
اسلام ختم ہو رہا ہے… اور مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں… نہیں ایسا ہرگز نہیں…
الحمدﷲ مسلمانوں میں اب بھی دم خم ہے… افغانستان جاگ رہا ہے… کشمیر گونج رہا ہے…
فلسطین شیروں کی طرح دھاڑ رہا ہے… اور عراق واپس جانے والے امریکی فوجیوں پر قہقہے
لگا رہا ہے… اﷲ اکبر کبیرا… کتنے مجاہدین روزے کی حالت میں شہید ہوئے… کتنوںنے
روزے کی حالت میںجہاد کی ٹریننگ لی… اور کتنوں نے خشک ہونٹوںکے باوجود گرجدار
آوازمیں جہاد کی دعوت پہنچائی… یہ برگر خور کافر ایسی قوم کا مقابلہ کس طرح کر
سکتے ہیں… جس قوم کی عورتوں تک میں شہادت کاجذبہ موجزن ہے… رمضان المبارک کے عجیب
انوارات ہر طرف برس رہے ہیں… ماشاء اﷲ بعض لوگ تو بالکل اسلاف کی یاد تازہ کرتے ہیں…
روزانہ ایک قرآن پاک ختم کرنا… ہزاروں بار درود شریف پڑھنا… صبح و شام دین کی
محنت میں لگے رہنا… روزانہ سینکڑوں رکعت نوافل ادا کرنا… عجیب عجیب واقعات ہیں…
ماشاء اﷲ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اجر کما رہا ہے… پاکستان میں آج کل لوگوں کے مالی
حالات اچھے نہیں ہیں مگر… ہر طرف سخاوت ہی سخاوت نظر آرہی ہے… اور کئی لوگوں نے
تو ماشاء اﷲ رمضان المبارک کو خوب پالیا ہے… چند دن پہلے مجھے کسی کام سے افطار کے
فوراً بعد باہر نکلنا پڑا… ایک بڑا روڈ جو ہر وقت ٹریفک سے اٹا رہتا ہے… بالکل
سنسان پڑا ہو ا تھا… حالانکہ عام دنوں میں یہاں کئی پولیس والے مل کر بھی ٹریفک کو
قابو نہیں کر سکتے تھے… میں نے خوب اچھی طرح دائیں بائیں دیکھا… نہ کوئی گاڑی اور
نہ کو ئی بس… یہ منظر دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ… دل جھومنے لگا…ش، ش ، ش… یہ ہے
مسلمانوں پر اسلام کی گرفت…اور رمضان المبارک کا کنٹرول… جی ہاں اسلام زندہ ہے اور
اپنے ماننے والوں کے نزدیک بہت محبوب ہے… روزے کے حکم کی تعمیل میں سڑکیں ویران ہیں…
مزدور اینٹیں اٹھا رہے ہیں مگر روزے سے ہیں…
بے حیا، کمینی عورتیں رنگ برنگے کپڑے پہن کر نکلتی ہیں مگر مسلمانوں کی نظریں اُن
کی طرف نہیں اٹھتیں… گھروں کی فریجیں کھانے پینے کی چیزوں سے بھری پڑی ہیں… مگر
سات سال کا روزے دار بچہ بھی اُن کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا… کیا امریکہ اور
کیایورپ، کیا عرب اور کیا عجم ہر جگہ مسلمانوں کے چہروں پر ایک خاص نور ہے… ایک
خاص شرافت… ہر سخی مسلمان کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف ہے… جب کہ غریب مسلمانوں کا دل
اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہے… سبحان اﷲ… راتوں کو تراویح کاپرسکون شور… سحری کے وقت
کی خوشبو دار گہما گہمی… اور افطار کے وقت کا نورانی منظر… واہ رمضان واہ… ہر طرف
رمضان المبارک کے انوارات چمک رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ اس رمضان المبارک میں میری اور
آپ کی مغفرت فرما دیں… آئیں !آج ہم سب اس بات کی فکر کریں کہ رمضان المبارک کے
بعد بھی ہم… انشاء اﷲ اچھے مسلمان بنے رہیں گے… اور انشاء اﷲ مرتے دم تک… اپنے
مالک و خالق… اور محبوب حقیقی کے ساتھ جڑے رہیںگے…
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد بقدر علمہ و کمالہ وقیامہ و صیامہ و علیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم
تسلیما کثیر ا کثیرا
٭…٭…٭
حسرتیں
اپنی جگہ!
اﷲ
تعالیٰ نے اس زمانے میں جن بڑے کافروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ذلّت ناک شکست سے
دوچار فرمایا… ان میں سے ایک ’’ٹونی بلیئر‘‘ بھی ہے… تیز طرّار انگریز، برطانیہ کا
سابق وزیر اعظم اور اسلام کا بدترین دشمن… ٹونی بلیئر… الحمدﷲ اس زمانے کا قیصر ہو
یا کسریٰ، ابو جہل ہو یا کعب بن اشرف… ابو لہب ہو یا عُقبہ… عبداﷲ بن اُبی ّ ہو یا
ابو عامر فاسق… سب کا منہ بری طرح کالاہوا… آپ کو یاد ہے؟ سانپ کی طرح پھنکارتا
صدر بُش… کتے کی طرح بھونکتا ٹونی بلیئر… بھیڑیئے کی طرح دانت نکالتا ٹومی فرینکس…
خنزیر کی طرح اکڑتا ایڈوانی… اور ابن اُبی ّ کی طرح پیچ و تاب کھاتا پرویز مشرّف…
اﷲ تعالیٰ نے ان سب کو ناکام اور ذلیل فرما دیا … اب وہ کالی حسرتوں کے کنوؤں میں
پڑے سسک رہے ہیں… اﷲ اکبر کبیرا… ان سب کے دماغوں میں صیہونی سوچ تھی… ان سب کے
پاس بے پناہ ظاہری طاقت تھی اور اسلام کا مکمل خاتمہ ان سب کا ارمان تھا… مگر ایک
ایک کر کے یہ سب ناکام ہوتے گئے… بہت سے نام میں نے چھوڑ دیئے… وہ نام بہت بجتے
تھے… آج اُن کو کوئی پوچھتا ہی نہیں… یاد ہے کسی کو خونی کالی ماتا؟… کونڈالیزا
رائس… چند نہتے او ربے سرو سامان مجاہدین نے ان سب کے غرور کو توڑ دیا… اور ان سب
کو ایسا رُسوا کیا کہ یہ ہیرو سے زیرو ہو گئے… کیا اب میں مجاہدین کے نام بھی
گنواؤں؟… اخلاص کے ساتھ جہاد کرنے والے کس مجاہد کی قدروقیمت کم ہوئی؟… اور کس کے
مقام میں کوئی کمی آئی؟… چلیں چھوڑیں… کسی کا نام نہیں لکھتا… اﷲ تعالیٰ اُن سب
کو سلامت رکھے اور اُن کے عمل کو قبول فرمائے… بات تو’’ٹونی بلیئر‘‘ سے شروع ہوئی
تھی… دراصل اُس نے اپنی سوانح حیات لکھ ڈالی ہے… ویسے سچ بتائیں کافی عرصہ سے تو
آپ نے اُس کا نام بھی نہیں سنا ہوگا… وہ برطانیہ کا مقبول ترین وزیر اعظم تھا جو یکے
بعد دیگرے تین بار وزیرا عظم منتخب ہوا… مگر پھر؟…مسلمانوں سے جنگ میں شکست کھانے
کی وجہ سے خود اُس کی پارٹی نے اُسے ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کے عہدے سے ہٹا دیا… او رپھر
اس سال تو اُس کی پارٹی بھی انتخابات ہار گئی… اور سب نے یہی کیا کہ ’’ٹونی ‘‘ کی
پالیسیاں پارٹی کو لے ڈوبیں…’’ٹونی‘‘ کی رگوں میں اسلام دشمنی کا خون معلوم نہیں
کہاں سے آیا… ویسے سمجھدار لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ’’انگریز‘‘ اسلام کا اصل
دشمن ہے… گیا رہ ستمبر کے حملوں کے بعد… مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو’’ٹونی
‘‘ آنکھیں بند کر کے اس جنگ میں کود پڑا… اور سیدھا بش کی گود میں جا گرا…
اخبارات والے اُسے بش کا پوڈل… یعنی کتا لکھتے تھے… پھر جب بُش نے عراق کا رخ کیا
تو ٹونی اس کے ساتھ اس دلدل میں جا گرا… ان دونوں کو امید تھی کہ وہ اپنی طاقت سے
مسلمانوں کو کمزور کر دیں گے… مگر ہزاروں فوجی مروا کر بھی کچھ ہاتھ نہ آیا…
مسلمان تو الحمدﷲ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے… جبکہ بش اور ٹونی کو اب کوئی پوچھتابھی نہیں… جی ہاں دونوں تاریخ کی کالک بن
گئے… بُش تو کافی عرصہ سے چپ بیٹھا ہوا ہے… جیسے اُسے جوتا سونگھ گیا ہو مگر ٹونی
کو معلوم نہیں کیا سوجھی کہ اُس نے کتاب لکھ ڈالی ہے… اور اپنی اس کتاب میں’’ریڈیکل
اسلام‘‘ کو دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے… مگر نہایت بے بسی کے ساتھ یہ
بھی لکھ دیا ہے… کہ مجھے معلوم نہیں… ہم اس خطرے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟…
واہ
میرے اﷲ واہ… آپ ہی سلطنت کے مالک ہیں، جس کو چاہتے ہیں حکمرانی دیتے ہیں… اورجس
سے چاہتے ہیں حکمرانی چھین لیتے ہیں… آپ جس کو چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں… اور جس سے
چاہتے ہیں عزت چھین لیتے ہیں… آپ ہی کے ہاتھ میں سب بھلائی ہے… اور آپ ہر چیز پر
قادر ہیں… ٹونی بلیئر… جو پورے برطانیہ میں جھوٹا، پوڈل اور شکست خوردہ لیڈر مشہور
ہے…اسلام کے خلاف اپنی آخری کوشش کے طور پرایک بار پھر بولا ہے… مگر جب منہ میں
دانت نہ رہیں تو پوپلے کتے کی بھونک سے کیا بنتا ہے… اسلام اﷲ تعالیٰ کا محبوب دین
ہے… اور اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے… صدیوں کی کوششوں کے بعد کفار نے
مسلمانوں سے خلافت چھین لی… مسلمانوں کے پاس کوئی ایک مرکز نہ رہا… مسلمان قومیتوں
اور زبانوںمیں بٹ گئے… چھوٹے چھوٹے مُلک اورکمزور جزیرے… مسلمانوں کے حکمران
کافروں کے غلام بن گئے… اور مسلمانوں کا سرمایہ کافروں کے قبضے میں چلا گیا… یہ وہ
حالات تھے جن میں کسی بھی قوم کو ایک جھٹکے سے ختم کیا جا سکتا ہے… گیارہ ستمبر کے
بعد دنیا بھر کے دشمنان اسلام نے فیصلہ کیا کہ… اب آخری جھٹکا دے دینا چاہئے…
آخر ہمارے مقابلے میں آئے گا کون؟… حکمران تو سب ہمارے ساتھ ہیں… اور اُن کے
مسلّح دستے بھی ہمارے معاون ہیں… ملکوں کی سرحدیں بند ہیں… ساری دنیا کے سمندر
ہمارے قبضے میں ہیں… اور فضائی طاقت میں تو کسی کے پاس ہمارا جواب ہی نہیں… یہ
تمام باتیں سوچ کر حملہ شروع کر دیا گیا… اور جنگ کو دنیا کے دو حصوں میں پھیلا دیا
گیا… خوفناک بحری بیڑے میزائلوں کی بارش کر رہے تھے… آسمان پر جنگی طیاروں کا شور
تھا… اور زمین پر بڑے بڑے ٹینک دوڑ رہے تھے… یوں لگتا تھا کہ… اب مسلمانوں کا کچھ
نہیں بچے گا… ڈیزی کٹربموں کی کارپٹ بمباری… اور کروز میزائلوں کا ہولناک سیلاب…
خوب آگ بھڑکی… ہر طرف دھول ہی دھول پھیل گئی… مگر جب دھول چھٹی تواُس کے اندر
اسلام مسکرا رہا تھا… افغانستان میں بھی… اور عراق میں بھی… کشمیر میں بھی اور غزہ
میں بھی… یا اﷲ آپ کی شان… مجھے ایک اخبار نویس کا کالم یاد ہے… اُس نے فخر سے
لکھا تھا کہ بس اب چند دنوں کی بات ہے… دنیا میں مجاہدین نام کی کوئی چیز دیکھنے
اور سننے کو نہ ملے گی… تب ہم نے دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے… صرف اور صرف اﷲ
تعالیٰ کی طاقت کے بھروسے پر لکھا تھا کہ… ہرگز نہیں… اب انشاء اﷲ اسلام اور جہاد
پہلے سے زیادہ ابھریں گے… تب بہت سے اپنے بھی بغلوں میں منہ چھپا کر ہنستے تھے کہ…
آخر اس ہولناک طاقت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟… مگر قرآن پاک دکھا رہا تھا کہ…
دور دور تک پھیلی ہوئی خوفناک آگ کے درمیان… حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام
مسکرا رہے ہیں… مسلمان بھی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملّت پر ہیں… ان کو ایٹم
یا ہائیڈروجن کی آگ کس طرح سے جلا سکتی ہے…الحمدﷲ …اﷲ تعالیٰ کی نصرت زمین پر اتری…دریائے
آمو میں کفار کا خون… اور دجلہ اور فرات میں اُن کی لاشیں تیرنے لگیں… فدائیوں کے
دستے ایسی شان سے اٹھے کہ قرون اولیٰ کی خوشبو ہر طرف مہکنے لگی… مجاہدین کے لشکر
اس طرح منظم ہوئے کہ سرحدوں کا فرق مٹ گیا… اور تب کفر کی شطرنج پر بڑے بڑے مہرے ایک
کے بعد ایک منہ کے بل گرتے چلے گئے… اور آج یہ حالت آچکی ہے کہ… انڈیا میں اسرائیل
کے سفیر’’مارک سوفیر‘‘ نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مزار پر حاضری دی ہے… اور مسلمانوں کو اپنا
بھائی قرار دیا ہے… میدان جنگ میںہارنے والے بزدل آخر میں اسی طرح کی چالوں پر
اُترتے ہیں… مسلمان خواجہ معین الدین چشتیؒ کے جذبہ جہاد سے واقف ہیں… حضرات صوفیاء
کرام ہمیشہ سے جہاد کے حامی بلکہ خود مجاہد رہے ہیں… ’’صوفی ازم‘‘ کا جو مطلب آج
کل بیان کیا جارہا ہے اس سے وہ مسلمان… کبھی دھوکا نہیں کھا سکتے جو قرآن پاک کو
سمجھتے ہیں… حضرات صوفیاء کرام کے بڑے بڑے مشائخ میدان جہاد کے… شہسوار تھے اور ان
میں سے کئی ایک کوشہادت بھی نصیب ہوئی… سلام ہو غزہ کے اہل عزیمت پر… جن کی بہادری
اور قربانی نے یہودیوں کو پینترے بدلنے پر مجبور کر دیا ہے… ٹونی بلیئر نے اپنی
کتاب میں لکھا ہے کہ… گیارہ ستمبر کا دن ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کے لئے بڑی تبدیلی کا دن
تھا کہ… اس کے بعد عالمی طاقتوں نے اس خطرے کو محسوس کیا …اور اب اسلام کے خلاف
جنگ کا آغاز ہو چکا ہے… اور یہ جنگ ریڈیکل مسلمانوں کے خاتمے تک جاری رہے گی… ٹونی
بلیئر کی حسرتیں اپنی جگہ… مگر مسلمان تو اس سال گیارہ ستمبر کو عید منا رہے ہیں…
تمام اہل اسلام کو… عید مبارک
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد صاحب السیف والجہاد نبی الرّحمۃ و الملاحم وعلی آلہ و صحبہ و
بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا…
٭…٭…٭
شُکر
ہے بلا ٹلی
اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو دنیا اور آخرت میں’’عافیت‘‘ نصیب فرمائے… یاد رکھیں! شہادت کی
موت بھی بہت بڑی’’عافیت‘‘ ہے… رسول کریمﷺ کو اپنے چچا حضرت سیدنا عبّاسذ سے بہت
محبت تھی…ویسے بھی چچا والد کی جگہ ہوتے ہیں… اور پھر حضرت عباسذ!… ماشاء اﷲ بہت
عظیم المرتبۃ اور اونچی شان والے بزرگ تھے… اور اس سے بڑھ کر مقام اور سعادت کیا
ہوگی کہ دو جہانوں کے سردار حضرت امام الانبیاءﷺ کے محبوب، مقرّب اور معتمد صحابی
اور محترم چچا ہیں… بڑے اونچے بہادر اور شاعر تھے… حضرت آقا مدنیﷺ کی شان مبارک میں
بھی قصیدے کہے… حضرت سیدنا عباس ذ بن عبدالمطلب نے ایک بار حضور اقدسﷺ کی خدمت میں
عرض کیا… مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو میں اﷲ تعالیٰ سے مانگا کروں… حضور اقدسﷺ
نے ارشاد فرمایا… آپ اﷲ تعالیٰ سے ’’عافیت‘‘ مانگا کریں… چند دن گزرنے کے بعد
حضرت عباسؓ پھر تشریف لائے اور عرض کیا… یا رسول اﷲﷺ! مجھے کوئی چیز سکھا دیں جو میں
اﷲ تعالیٰ سے مانگا کروں… حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا:
یا
عباسذ! یا عم رسول اﷲ، سلوااﷲ العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ
ترجمہ:
اے عباس! اے رسول اﷲﷺ کے چچا! آپ اﷲ تعالیٰ سے دنیا آخرت میں’’عافیت‘‘ کا سوال کیا
کریں۔(رواہ الترمذی)
سبحان
اﷲ! جواب میں کتنی محبت ہے اور کتنی مٹھاس… اور کتنی زیادہ خیر خواہی…
’’عافیت‘‘ کے معنی، بہت وسیع ہیں… اور یہ اﷲ
تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ہم سب بہت زیادہ محتاج ہیں… آئیں مل کر دعاء کریں
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ
یااﷲ
ہمیں دنیا اور آخرت میں عافیت نصیب فرما…
ابھی
آپ نے دیکھا کہ گیارہ ستمبر کے دن کتنی بڑی ’’عافیت‘‘ ہو گئی… اﷲ اکبر کبیرا…
بہت
بڑی عافیت، بہت ہی بڑی خیر ہو گئی کہ … ہم ایک درد ناک امتحان سے بچ گئے…سچی بات
ہے کہ… آنکھوںسے نیند ہی اڑگئی تھی… اور جسم غصّے سے کانپنے لگتا تھا… ایک حقیر
اور منحوس پادری کی یہ ہمت کہ… وہ کھلے عام قرآن پاک کی بے حرمتی کرے… رمضان
المبارک کا اختتام تھا… اور عید کی آمد آمد تھی… مگر ساری خوشیاں اور دعائیں
غمناک ہچکیوں میں ڈھل رہی تھیں… ساری دُنیا کے مسلمان یوں تڑپ رہے تھے جیسے… مچھلی
کو پانی سے باہر پھینک دیا گیا ہو… یا اﷲ اپنی قوت اور حکم سے اس ظلم کو روک دیجئے…
استغفراﷲ ایسا بھیانک ظلم کہ مسلمان تو کیا کافر بھی کانپ اٹھے… افغانستان میں تعینات
امریکی جنرل نے کہا کہ اگر قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی تو ہم امریکیوں کی جانیں
خطرے میں پڑ جائیں گی… نیٹو کے سربراہ نے کہا!… اگر قرآن پاک کے ساتھ امریکی پادری
نے چھیڑ چھاڑ کی تو ہمارا پورا مشن برباد ہو جائے گا… صدر اُبامہ نے کہا !… اگر یہ
واقعہ ہوا تو دنیا بھر کا امن خطرے میں پڑ جائے گا… ہمارے حکمران تو کچھ نہ
بولے…اُن کی اس بے حسی کا درد ابھی تک ہمارے دلوں میں ہے… مگر باقی ساری دنیا چیخ
پڑی… بھارت کے وزیر داخلہ نے امریکی حکومت سے اپیل کی کہ وہ طاقت استعمال کر کے… پادری
ٹیری جونز کو اس حرکت سے روکے… اگریہ حرکت ہوئی تو ہندوستان میں بھی امن خطرے میں
پڑ جائے گا… ہر طرف عجیب سا شور مچ گیا… وہ مسلمان جو اپنی مغفرت کی دعائیں مانگ
رہے تھے… اب قرآن پاک کی حُرمت کی دعائیںمانگنے میں جڑ گئے… ربّا! اس بڑے امتحان
سے بچا لے… اور ہماری جانوں کو قرآن عظیم کی حُرمت کے لئے قبول فرمالے… واقعی بہت
مشکل لمحات تھے… اتنے مشکل کہ شاید زندگی میں اس سے زیادہ مشکل لمحات نہ دیکھے
ہوں… لالچی اور حریص صحافی… اس موقع پر زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے چکر میں اس
خبر کو خوب اچھال رہے تھے… ساری دنیا کے حکمران پادری کی مذمت کر رہے تھے… مگرپادری
گدھے کی طرح بضد تھا کہ… وہ دنیا کے امن کو ضرور آگ میں جھونکے گا… اہل اسلام کبھی
دعاء کے لئے ہاتھ اٹھاتے، کبھی سجدے میں گر جاتے… کبھی اپنے آپ کو نوچتے… اور کبھی
یہ سوچتے کہ خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو اس ظلم کا یوں بدلہ لیں گے… مگر نہیں نہیں…
یا اﷲ یہ ظلم ہو ہی نہ … آپ ہی ہماری نصرت فرما دیں اور ہمیںیہ منحوس لمحہ دیکھنے
سے بچالیں… اسی کشمکش میں دس ستمبر کا دن آگیا… بہت سے مسلمانوں نے رمضان المبارک
کے ہاتھ چومے اور عید کی نماز کے لئے نکل کھڑے ہوئے…عرب ممالک، افغانستان اور
پاکستان کے کئی علاقوں میں عید دس ستمبر کو ہو گئی… عید کے خطبوں میں غم کے بادل
تھے اور دعاؤں میں فلک رساآہیں تھیں… کس کو عید مبارک کہیں… اور کس سے عید مبارک
لیں… قرآن پاک پر نظرپڑتی تو آنکھیں بھیگ جاتیں… اور شرم سے جھک جاتیں… ایک
ناپاک پادری میڈیاکے زور پر پوری امُتِ مسلمہ کو تڑپا رہا تھا… مگر جیسے ہی عید کی
دعائیں ختم ہوئیں… آسمان سے نصرت اور عافیت نازل ہوئی اورپادری نے اعلان کر دیا
کہ وہ یہ ظالمانہ حرکت نہیں کرے گا… الحمدﷲ، الحمدﷲ ثم الحمدﷲ…
شُکر
ہے اﷲ تعالیٰ کا جس نے ہم سب کو اتنے دردناک امتحان سے بچالیا… اور الحمدﷲ اُمتِ
مسلمہ کی دھاک پوری دنیا پر بٹھا دی… اے مسلمانو! اﷲتعالیٰ نے کتنا بڑا احسان کیا
ہے… ورنہ ہماری زندگیوں میں یہ ظلم ہوتا تو زندگی ہمارے لئے کتنی مشکل ہو جاتی…
پادری ٹیری جونز نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ… میں خدا سے دعاء کر رہا تھا کہ اگر
خدا چاہتا ہے کہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی نہ کروں تو وہ مجھے اشارہ دے… اب یہ
اشارہ مجھے مل چکا ہے… اور نیویارک کے مرکزی امام نے مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ…
نائن الیون کے واقعہ والی جگہ مسجد تعمیر نہیں کی جائے گی… اُدھر نیویارک کے امام
نے اعلان کیا ہے کہ… انہوں نے پادری کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی… بہرحال ایک
عذاب اور طوفان ٹل گیا… اس پر اﷲ تعالیٰ کا جتنا شکر اداکیا جائے وہ کم ہے…
پادری
ٹیری جونز کو چاہئے کہ… پوری دنیا کے سامنے معافی مانگے اور اسلام قبول کر لے… کیونکہ
بقول اُس کے… خدا نہیں چاہتا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی جائے… معلوم ہوا کہ
قرآن پاک اﷲ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے… اور اﷲ تعالیٰ اس کتاب کا محافظ ہے… اتنی عظیم
نشانی دیکھنے کے باوجود اگر ٹیری جونز مسلمان نہیںہوتا تو یقیناً وہ بہت بُری موت
مرے گا… اور لوگ اُس کی موت سے عبرت حاصل کریں گے انشاء اﷲ… اس المناک موقع پر دنیا
بھر کے مسلمانوں نے قرآن پاک کے ساتھ جس محبت اور تعلق کا اظہار کیا ہے… وہ قابل
تحسین ہے… اے مسلمانو! قرآن پاک بہت ہی عظیم الشان نعمت ہے… ہم سب اپنے عہد اور
عزم کی تجدید کریں کہ انشاء اﷲ ہم … قرآن پاک کی بھرپور قدر کریں گے اور قرآن
پاک سے اپنے تعلق کو اور زیادہ مضبوط بنائیں گے… دینی مدارس میں داخلے شروع ہیں…
اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکالیں اور پہلے قرآن پاک کی مکمل تعلیم دیں… اپنے گھروں
کا جائزہ لیں کہ ہمارے گھر میں کوئی ایسا فرد تو نہیں جسے قرآن پاک صحیح تلفظ سے
پڑھنا نہ آتا ہو… جن لوگوں نے اپنے اسکول اور کالج کھول رکھے ہیں وہ اپنے مسلمان
ہونے کا حق ادا کریں… اور اسکول کے ہر بچے کو قرآن پاک پڑھنا سکھائیں… نماز اور
چند سورتیں بھی یاد کرائیں… اور اُن کے دلوں میں قرآن پاک کی عظمت اور ادب و
احترام کا بیج بوئیں… حقیقی مسلمان کبھی بھی قرآن پاک سے نہیں کٹ سکتا… جن کو اﷲ
تعالیٰ نے ذہین بچے دیئے ہیں وہ اُن کو قرآن پاک حفظ کرائیں… اور پھر اُس کا
ترجمہ اور تفسیر پڑھائیں… گھروں میں خواتین کو سورۂ نور کی تفسیر پڑھائی جائے…
تاکہ انہیں حیا کا مقام اور اُس کی اہمیت معلوم ہو… جن مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ نے
مال دیا ہے وہ اپنے مال سے قرآن پاک کی خدمت کریں… یادرکھیں! اگرہم قرآن پاک سے
جُڑ گئے تو سیدھے اﷲ تعالیٰ سے جُڑ جائیں گے… قرآن پاک پر ایمان لانا… قرآن پاک
کے پیغام کو سمجھنا… قرآن پاک کی تلاوت کرنا، قرآن پاک کو یاد کرنا… قرآن پاک
کے احکامات پر عمل کرنا… قرآن پاک کی طرف لوگوں کو بلانا… قرآن پاک ساری دنیا تک
پہنچانا… قرآن پاک کو دنیا پر غالب اور نافذ کرنا… یہ ہم سب مسلمانوں کے ذمّہ
سعادت والے کام ہیں… اﷲ تعالیٰ سب کو عافیت عطاء فرمائے… اور ہمیں قرآن پاک سے وہ
تعلق عطاء فرمائے… جو تعلق ہمارے لئے دارین کی فلاح کا ذریعہ بن جائے… آمین یا
ارحم الراحمین
اللھم
صل علیٰ سیدنا محمد النبی الامی صاحب الفرق و الفرقان و جامع الورق ومنزلہ من سماء
القرآن وعلی آل محمد و اصحابہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭٭٭