رنگ و نور جلد ششم

شُکر ہے بلا ٹلی

 اللہ  تعالیٰ ہم سب کو دنیا اور آخرت میں’’عافیت‘‘ نصیب فرمائے یاد رکھیں! شہادت کی موت بھی بہت بڑی’’عافیت‘‘ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے چچا حضرت سیدنا عبّاس  رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھیویسے بھی چچا والد کی جگہ ہوتے ہیں اور پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ! ماشاء  اللہ  بہت عظیم المرتبۃ اور اونچی شان والے بزرگ تھے اور اس سے بڑھ کر مقام اور سعادت کیا ہوگی کہ دو جہانوں کے سردار حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم  کے محبوب، مقرّب اور معتمد صحابی اور محترم چچا ہیں بڑے اونچے بہادر اور شاعر تھے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان مبارک میں بھی قصیدے کہے حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں عرض کیا مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو میں  اللہ  تعالیٰ سے مانگا کروں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا آپ  اللہ  تعالیٰ سے ’’عافیت‘‘ مانگا کریں چند دن گزرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ پھر تشریف لائے اور عرض کیا یا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی چیز سکھا دیں جو میں  اللہ  تعالیٰ سے مانگا کروں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

یا عباس  رضی اللہ عنہ! یا عم رسول  اللہ ، سلوا اللہ  العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ

ترجمہ: اے عباس! اے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا! آپ  اللہ  تعالیٰ سے دنیا آخرت میں’’عافیت‘‘ کا سوال کیا کریں۔(رواہ الترمذی)

سبحان  اللہ ! جواب میں کتنی محبت ہے اور کتنی مٹھاس اور کتنی زیادہ خیر خواہی

 ’’عافیت‘‘ کے معنی، بہت وسیع ہیں اور یہ  اللہ  تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ہم سب بہت زیادہ محتاج ہیں آئیں مل کر دعاء کریں

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ

یا اللہ  ہمیں دنیا اور آخرت میں عافیت نصیب فرما

ابھی آپ نے دیکھا کہ گیارہ ستمبر کے دن کتنی بڑی ’’عافیت‘‘ ہو گئی  اللہ  اکبر کبیرا

بہت بڑی عافیت، بہت ہی بڑی خیر ہو گئی کہ ہم ایک درد ناک امتحان سے بچ گئےسچی بات ہے کہ آنکھوںسے نیند ہی اڑگئی تھی اور جسم غصّے سے کانپنے لگتا تھا ایک حقیر اور منحوس پادری کی یہ ہمت کہ وہ کھلے عام قرآن پاک کی بے حرمتی کرے رمضان المبارک کا اختتام تھا اور عید کی آمد آمد تھی مگر ساری خوشیاں اور دعائیں غمناک ہچکیوں میں ڈھل رہی تھیں ساری دُنیا کے مسلمان یوں تڑپ رہے تھے جیسے مچھلی کو پانی سے باہر پھینک دیا گیا ہو یا  اللہ  اپنی قوت اور حکم سے اس ظلم کو روک دیجئے استغفر اللہ  ایسا بھیانک ظلم کہ مسلمان تو کیا کافر بھی کانپ اٹھے افغانستان میں تعینات امریکی جنرل نے کہا کہ اگر قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی تو ہم امریکیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی نیٹو کے سربراہ نے کہا! اگر قرآن پاک کے ساتھ امریکی پادری نے چھیڑ چھاڑ کی تو ہمارا پورا مشن برباد ہو جائے گا صدر اُبامہ نے کہا ! اگر یہ واقعہ ہوا تو دنیا بھر کا امن خطرے میں پڑ جائے گا ہمارے حکمران تو کچھ نہ بولےاُن کی اس بے حسی کا درد ابھی تک ہمارے دلوں میں ہے مگر باقی ساری دنیا چیخ پڑی بھارت کے وزیر داخلہ نے امریکی حکومت سے اپیل کی کہ وہ طاقت استعمال کر کے پادری ٹیری جونز کو اس حرکت سے روکے اگریہ حرکت ہوئی تو ہندوستان میں بھی امن خطرے میں پڑ جائے گا ہر طرف عجیب سا شور مچ گیا وہ مسلمان جو اپنی مغفرت کی دعائیں مانگ رہے تھے اب قرآن پاک کی حُرمت کی دعائیںمانگنے میں جڑ گئے ربّا! اس بڑے امتحان سے بچا لے اور ہماری جانوں کو قرآن عظیم کی حُرمت کے لئے قبول فرمالے واقعی بہت مشکل لمحات تھے اتنے مشکل کہ شاید زندگی میں اس سے زیادہ مشکل لمحات نہ دیکھے ہوں لالچی اور حریص صحافی اس موقع پر زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے چکر میں اس خبر کو خوب اچھال رہے تھے ساری دنیا کے حکمران پادری کی مذمت کر رہے تھے مگرپادری گدھے کی طرح بضد تھا کہ وہ دنیا کے امن کو ضرور آگ میں جھونکے گا اہل اسلام کبھی دعاء کے لئے ہاتھ اٹھاتے، کبھی سجدے میں گر جاتے کبھی اپنے آپ کو نوچتے اور کبھی یہ سوچتے کہ خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو اس ظلم کا یوں بدلہ لیں گے مگر نہیں نہیں یا  اللہ  یہ ظلم ہو ہی نہ آپ ہی ہماری نصرت فرما دیں اور ہمیںیہ منحوس لمحہ دیکھنے سے بچالیں اسی کشمکش میں دس ستمبر کا دن آگیا بہت سے مسلمانوں نے رمضان المبارک کے ہاتھ چومے اور عید کی نماز کے لئے نکل کھڑے ہوئےعرب ممالک، افغانستان اور پاکستان کے کئی علاقوں میں عید دس ستمبر کو ہو گئی عید کے خطبوں میں غم کے بادل تھے اور دعاؤں میں فلک رساآہیں تھیں کس کو عید مبارک کہیں اور کس سے عید مبارک لیں قرآن پاک پر نظرپڑتی تو آنکھیں بھیگ جاتیں اور شرم سے جھک جاتیں ایک ناپاک پادری میڈیاکے زور پر پوری امُتِ مسلمہ کو تڑپا رہا تھا مگر جیسے ہی عید کی دعائیں ختم ہوئیں آسمان سے نصرت اور عافیت نازل ہوئی اورپادری نے اعلان کر دیا کہ وہ یہ ظالمانہ حرکت نہیں کرے گا الحمدﷲ، الحمدﷲ ثم الحمدﷲ

شُکر ہے  اللہ  تعالیٰ کا جس نے ہم سب کو اتنے دردناک امتحان سے بچالیا اور الحمدﷲ اُمتِ مسلمہ کی دھاک پوری دنیا پر بٹھا دی اے مسلمانو!  اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان کیا ہے ورنہ ہماری زندگیوں میں یہ ظلم ہوتا تو زندگی ہمارے لئے کتنی مشکل ہو جاتی پادری ٹیری جونز نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ میں خدا سے دعاء کر رہا تھا کہ اگر خدا چاہتا ہے کہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی نہ کروں تو وہ مجھے اشارہ دے اب یہ اشارہ مجھے مل چکا ہے اور نیویارک کے مرکزی امام نے مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ نائن الیون کے واقعہ والی جگہ مسجد تعمیر نہیں کی جائے گی اُدھر نیویارک کے امام نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے پادری کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی بہرحال ایک عذاب اور طوفان ٹل گیا اس پر  اللہ  تعالیٰ کا جتنا شکر اداکیا جائے وہ کم ہے

پادری ٹیری جونز کو چاہئے کہ پوری دنیا کے سامنے معافی مانگے اور اسلام قبول کر لے کیونکہ بقول اُس کے خدا نہیں چاہتا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی جائے معلوم ہوا کہ قرآن پاک  اللہ  تعالیٰ کی سچی کتاب ہے اور  اللہ  تعالیٰ اس کتاب کا محافظ ہے اتنی عظیم نشانی دیکھنے کے باوجود اگر ٹیری جونز مسلمان نہیں ہوتا تو یقیناً وہ بہت بُری موت مرے گا اور لوگ اُس کی موت سے عبرت حاصل کریں گے انشاء  اللہ اس المناک موقع پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے قرآن پاک کے ساتھ جس محبت اور تعلق کا اظہار کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اے مسلمانو! قرآن پاک بہت ہی عظیم الشان نعمت ہے ہم سب اپنے عہد اور عزم کی تجدید کریں کہ انشاء  اللہ  ہم قرآن پاک کی بھرپور قدر کریں گے اور قرآن پاک سے اپنے تعلق کو اور زیادہ مضبوط بنائیں گے دینی مدارس میں داخلے شروع ہیں اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکالیں اور پہلے قرآن پاک کی مکمل تعلیم دیں اپنے گھروں کا جائزہ لیں کہ ہمارے گھر میں کوئی ایسا فرد تو نہیں جسے قرآن پاک صحیح تلفظ سے پڑھنا نہ آتا ہو جن لوگوں نے اپنے اسکول اور کالج کھول رکھے ہیں وہ اپنے مسلمان ہونے کا حق ادا کریں اور اسکول کے ہر بچے کو قرآن پاک پڑھنا سکھائیں نماز اور چند سورتیں بھی یاد کرائیں اور اُن کے دلوں میں قرآن پاک کی عظمت اور ادب و احترام کا بیج بوئیں حقیقی مسلمان کبھی بھی قرآن پاک سے نہیں کٹ سکتا جن کو  اللہ  تعالیٰ نے ذہین بچے دیئے ہیں وہ اُن کو قرآن پاک حفظ کرائیں اور پھر اُس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھائیں گھروں میں خواتین کو سورۂ نور کی تفسیر پڑھائی جائے تاکہ انہیں حیا کا مقام اور اُس کی اہمیت معلوم ہو جن مسلمانوں کو  اللہ  تعالیٰ نے مال دیا ہے وہ اپنے مال سے قرآن پاک کی خدمت کریں یادرکھیں! اگرہم قرآن پاک سے جُڑ گئے تو سیدھے  اللہ  تعالیٰ سے جُڑ جائیں گے قرآن پاک پر ایمان لانا قرآن پاک کے پیغام کو سمجھنا قرآن پاک کی تلاوت کرنا، قرآن پاک کو یاد کرنا قرآن پاک کے احکامات پر عمل کرنا قرآن پاک کی طرف لوگوں کو بلانا قرآن پاک ساری دنیا تک پہنچانا قرآن پاک کو دنیا پر غالب اور نافذ کرنا یہ ہم سب مسلمانوں کے ذمّہ سعادت والے کام ہیں  اللہ  تعالیٰ سب کو عافیت عطاء فرمائے اور ہمیں قرآن پاک سے وہ تعلق عطاء فرمائے جو تعلق ہمارے لئے دارین کی فلاح کا ذریعہ بن جائے آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد النبی الامی صاحب الفرق و الفرقان و جامع الورق ومنزلہ من سماء القرآن وعلی آل محمد و اصحابہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (267)

ہمارا اہم مسئلہ

 

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’دین اسلام‘‘ پر استقامت نصیب فرمائے اُم المؤمنین حضرت اُم سلمۃ  رضی اللہ عنہاسے پوچھا گیا کہ جب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تھے تو زیادہ کون سی دعاء مانگا کرتے تھے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اکثر یہ دعاء فرماتے تھے

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ  (الترمذی)

ترجمہ:                اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جمائے رکھیے!

جی ہاں! ایمان پر ثابت قدمی بہت بڑی نعمت ہے اور ہماری بے حد اہم ضرورت ہے شیطان سیدھا انسان کے دل پر حملہ آور ہوتا ہے اوردل خود بھی تو بڑی عجیب چیز ہے، منٹوں میں بڑی بڑی قلابازیاں کھا جاتا ہے ابھی کسی سے محبت اور پھر تھوڑی دیر بعد اُسی سے نفرت کبھی اتنی بہادری کے آسمان سے چھلانگ لگانے پر تیار اور کبھی اتنی بزدلی کہ ہلکی سی آواز سُن کر دھک دھک کبھی ایسی ہمّت کے دنیا کو فتح کرنے کا جذبہ اور کبھی ایسی بے دلی کے خود کشی کے منصوبے دل بہت عجیب چیز ہے اور اس کو قابو میں رکھنا بہت مشکل کام ہے ہاں بس ایک ہی طریقہ ہے کہ دل، دل کے مالک کو دے دیا جائے پھر یہ ٹھیک چلتا ہے اور ایسی روشنی سے بھر جاتا ہے کہ وہ روشنی ہر وقت انسان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے

 تھوڑا سا اس آیت مبارکہ میں غور کریں

أَوَ مَن کَانَ مَیْْتاً فَأَحْیَیْْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُون (الانعام ۱۲۲)

ترجمہ:                بھلا وہ شخص جو مُردہ تھا پھر ہم نے اُسے زندہ کر دیا اور ہم نے اُسے نوردیا کہ اُسے لوگوں میں لئے پھرتا ہے(کیا) وہ اُس کے برابر ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہو وہاں سے نکل نہیں سکتا، اسی طرح کافروں کی نظر میں اُن کے کام خوشنما بنا دیئے جاتے ہیں

چند باتیں بالکل وضاحت سے معلوم ہو گئیں

(۱)     کسی انسان کا دل زندہ ہوتا ہے اور کسی کا مُردہ کفر،گمراہی اور بعض بڑے گناہوں سے انسان کا دل مُردہ ہو جاتا ہے

(۲)     دل کی زندگی  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے  اللہ  تعالیٰ جس کو زندگی عطاء فرمانا چاہتے ہیں اُس کے دل میں ایمان اور اپنی معرفت کی روح پھونک دیتے ہیں

(۳)     جس کا دل زندہ ہو اُس کو ایک روشنی نصیب ہو جاتی ہے اس روشنی کے نور میں وہ سیدھے راستے کو دیکھ لیتا ہے اور گمراہی کے اندھیروں سے بچ جاتا ہے پھر جس کے دل میں جتنا ایمان اور جتنی معرفت ہوتی ہےاُس کی روشنی بھی اُسی قدر ہوتی ہے بعض لوگوں کو تو  اللہ  تعالیٰ ایسی روشنی عطاء فرماتے ہیں کہوہ بے شمار لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کے راستے پر لانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں

(۴)     کافر خوفناک اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں وہ اپنے اردگرد جتنی ظاہری روشنی، چمک دمک اور ٹیپ ٹاپ حاصل کرلیں مگر اُن کا دل مُردہ اور اُن کا راستہ اندھا ہوتا ہے

(۵)     شیطان، کافروںکو اُن کے اندھیرے اور غلطیاں خوشنما بنا کر دکھاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں، ہم عقلمند ہیں، ہم ترقی یافتہ ہیں، ہم مہذّب ہیں، ہم محفوظ ہیں باقی دنیا بھی ہماری پیروی کرے(توبہ توبہ)

چلیں تھوڑا سا سر جھکا کر اپنے دل میں دیکھتے ہیں کہ اس میں وہ’’نور‘‘ موجود ہے یا نہیں جس کا تذکرہ ہم نے ابھی اپنے عظیم رب کے سچے کلام میں پڑھا ہے دراصل ہمارے چاروں طرف شیاطین اور اُن کے دوست احباب موجود ہیں اور یہ سب مل کر ہم سے ’’زندگی‘‘ کو چھیننا چاہتے ہیں زندگی یعنی ہدایت اور دین  اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

وَإِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ إِلٰی أَوْلِیَآئِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُون(الانعام ۱۲۱)

ترجمہ: شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم نے ان کا کہنا مانا تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے

آپ نے حکمرانوں کو دیکھا کہ کس طرح جھگڑ جھگڑ کر ہمیں مجبورکرتے ہیں کہ ہم کافروںکی فرمانبرداری کریں آپ نے مغرب زدہ صحافیوں کو دیکھا کہ کس طرح سے قوم کو کفر پرستی پرمجبور کرنے کے لئے زورڈالتے ہیں کافروں کو ترقی یافتہ مان لو کافروں کو مہذّب مان لو کافروں کے قوانین اور نظام کو تسلیم کر لو کافروں کے غلبے کو قبول کر لو دیکھو اُن کے پاس اتنا پیسہ ہے اُن کے پاس فلاں فلاں مشین اور ٹیکنالوجی ہے اُن کے کتے بھی ہم سے اچھی زندگی گزارتے ہیں وغیرہ وغیرہ طرح طرح کی بکواسات اُن کی مالداریوں کے تذکرے جبکہ قرآن پاک سمجھا رہا ہے کہ یہ لوگ مُردے ہیں، اندھیروںمیں ذلیل ہو رہے ہیں نفس کی خواہش تو ایک کتا بھی دل کھول کر پوری کر لیتا ہے براک اوبامہ ہو یا بل گیٹس یہ سب ناکام ہیں، مُردے ہیں اگر ان کی موت کفر پر ہوئی تو جانور بھی ان کے انجام سے پناہ مانگیں گے یہ من موھن سنگھ ، یہ ایڈوانی یہ چدمبرم سب ناکام، رسوا، محروم، بدقسمت اورشقی ہیں ان میں سے کامیاب وہی ہوگا جو ایمان قبول کر لے گا  اللہ  تعالیٰ نے زمین میں بڑے بڑے خزانے رکھے ہیں کتابوں میں لکھا ہے اور بعض لوگوں کا تجربہ بھی ہے کہ کئی خزانوں پر بڑے بڑے سانپ پہرا دیتے ہیں گویا کہ وہ سانپ اُس خزانے کا مالک ہوتا ہے اور وہ کسی کو بھی اُس کے قریب نہیں آنے دیتا اب کوئی کالم نویس اس سانپ کی شان میں مضمون لکھ مارے کہ وہ اتنے بلین اور اتنے ٹریلین ڈالر کے برابر مال کا اکیلا مالک ہے آج کل کے سرمایہ داروں اور ان سانپوں میں کیا فرق ہے؟ دنیا بھوک سے مررہی ہے اور یہ اپنے خزانوں پرکنڈلی مارے بیٹھے ہیں اور اپنا مال فضول عیاشیوں اور ایجادات میں برباد کر رہے ہیں آپ یقین کریں کہ صرف گنجوں کے سر پر بال اُگانے کی کوشش میں اب تک کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں کیا انسان بغیر بالوں کے زندہ نہیں رہ سکتا؟ کیا بال ہی انسان کے حُسن کا معیار ہیں ماشاء  اللہ  بعض گنجے اتنے خوبصورت لگتے ہیں کہ مت پوچھیے مگرپاگلوں کے ہاتھ میں پیسہ ہے اور وہ خود اندھیروں میں ہیں تو فضول چیزوں پر مال کو برباد کر رہے ہیں اور دنیا کو فضول چیزوں میں لگا رہے ہیں حالانکہ انسان اگراپنے دل سے بالوں کی فکر نکال دے تو اُس کی زندگی میں اچھی خاصی برکت ہو جاتی ہے شریعت میں بالوں کے بارے میں بہت آسان احکامات ہیں چہرے پر داڑھی کو چمکنے دیں مونچھوں کو پورا یا کچھ کتر دیا کریں بغل اور زیر ناف بال کسی بھی ذریعے سے اُڑا دیا کریں اورسر پر اگر بال ہوں تو کافروں کی مشابہت اختیار نہ کریں اور صفائی،تیل اور کنگھی سے بالوں کی آرائش کر لیا کریں کتنا خوبصورت اور مختصر نصاب ہے اگر کوئی انسان اس نصاب پر عمل کرے تو اُس کی زندگی کا کتنا وقت بچ سکتا ہے داڑھی مونڈنے میں تو بہت وقت برباد ہوتا ہے پھر بھی کوئی مرد خودکو عورت جیسا نہیں بنا پاتا داڑھی کے بال ایک دو روز بعد پھر نکل آتے ہیں اسی طرح بالو ں کو کالا رکھنے کی فکر بھی انسان کے وقت اور وقار کو برباد کرتی ہے وقت تو کالک لگانے میں بربادہو تا ہے اور وقار کو اُس وقت دھچکا لگتا ہے جب کسی عذر کی وجہ سے ہروقت کالک نہیں لگا سکتے تو چہرے پر چائنا مرغی جیسا نقشہ بن جاتا ہے اس کی بجائے مہندی کا مسنون خضاب لگائیں اگر کبھی نہیں بھی لگا سکیں گے تو چہرہ سرخ اور سفید منقش یمنی چادر کی طرح خوبصورت نظر آئے گا

ارے  اللہ  کے بندو! اور  اللہ  کی بندیو! ہمیں ظاہر پرستی کی فکر چھوڑ کر اپنے دل کی فکر کرنی چاہیے کہ یہ کسی طرح زندہ ہو جائے، نور سے بھر جائے اور مرتے دم تک دین پر جما رہے اگر یہ نعمت نصیب ہو گئی تو پھر انشاء  اللہ  جنت میں روزآنہ ستر ستر ہزار جوڑے بدلیں گے اور طرح طرح کے حُسن کو اپنے اندر سموئیں گے اور اگرہمارے دل زندہ ہو گئے تو ہمیں  اللہ  تعالیٰ کی معرفت کا مزہ نصیب ہو جائے گا ایسا مزہ کہ دنیا کی کوئی لذّت اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اگرہمارے دل میں نور پیدا ہو گیا تو ہم خود کو بھی اندھیروں سے نکال سکیں گے اور بہت سے لوگ ہماری روشنی سے راستہ پائیں گے اگر ہمارے دل میں ایمان کا نور چمک اٹھا تو ہمیں دنیا کی حقیقت معلوم ہوجائے گی تب ہم اس کے دھوکے میں پھنسنے سے بچ جائیں گے اگرہمارے دل کو ہدایت کی روشنی مل گئی تو ہمارے دلوں سے کافروں کا رعب اور موت کا خوف نکل جائے گا اور جہاد کی اونچی اڑان اور منزل ہمیں نصیب ہو جائے گی خود کو دنیا کی سپر پاور کہنے والے یہ بزدل اس قابل نہیں ہیںکہ ہم ان سے ڈریں زندگی کے سانس اور ظاہری امن ایسی قیمتی چیزیں نہیںہیں کہ ان پر اپنے ایمان کو قربان کیا جائے نہ زندگی میں اضافہ ہو سکتاہے اور نہ تقدیر میں لکھی ہوئی پکی آزمائشیں ٹل سکتی ہیں لوگ تو ٹرکوں اور بسوں کی ٹکر سے بھی مرجاتے ہیں تو کیا ہم ٹرک اور بس کو سپرپاور مان لیں اور نعوذ ب اللہ  اُس کی پوجا کرنے لگیں؟ لوگ تو پانی میں ڈوب کر بھی مرجاتے ہیں تو کیا پھر پانی کو ہم سب کچھ مان لیں؟ دوسروں کو ڈرون طیاروں سے مارنے والے خود بھی تو دن رات مر رہے ہیں پھر ایسی کونسی بات ہے کہ جس کی وجہ سے ہم  اللہ  تعالیٰ کو چھوڑ کر امریکہ ، بھارت اور یورپ کی غلامی کو قبول کر لیں؟ یہ سب عذاب میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں ایمان سے محرومی بہت بڑا عذاب ہے، بہت بڑا یہ سب بد نصیب لوگ ہیں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم  کی غلامی سے محروم ہونا بہت بڑی بد نصیبی ہے بہت بڑی مسلمانو!  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور دین اسلام کی قدر کرو دیکھو! ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کس اہتمام کے ساتھ دین پر دل کی استقامت کی دعاء فرمارہے ہیں یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ  حالانکہ اُن کا دل تو ہر خطرے سے محفوظ تھا اُن کے دل جیسا مؤمن اور منوردل تو کسی کا بنایا ہی نہیں گیا مگر پھر بھی وہ یہ دعاء فرما رہے ہیں تو خود سوچیں کہ ہم کس قدر محتاج ہیں ہمارے دل تو معلوم نہیں کتنی گندگیوں سے بھرے رہتے ہیں نفاق، بزدلی، بخل، لالچ، ناجائز شہوتیں اور نہ معلوم کیا کیا شرارتیں ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہماری تعلیم کے لئے اس دعاء کی کثرت فرمائی تاکہ ہمیں اپنے ایمان اور اپنے دل کی فکر نصیب ہو جائے اور ہم ہر فکر سے زیادہ اسی بات کی فکر کریں کہ ہمارے دل کوایمان نصیب ہو جائے اور پھر اس ایمان پر استقامت بھی نصیب ہو جائے

جی ہاں یہ ہمیشہ ہمیشہ ابد الآباد کی کامیابی اور ناکامی کا مسئلہ ہے ایمان پر خاتمہ ہوا تو ابدالآباد کی کامیابی ورنہ!!! یا  اللہ  رحم فرما ، حفاظت فرما

اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلیٰ دِیْنِکَ 

اَللّٰھُمَّ یَا مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ

آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد صلوٰۃً تھدی بھا قلوبنا وعلیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

اسلام کا فیصلہ

 

 اللہ  تعالیٰ بہت قوّت والے ہیں وہ غالب و عزیز ہیں قادر، مقتدر اور قوی ہیں وہ اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے باوجود ’’عافیہ بہن‘‘ کو رہائی عطا فرما دیں اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر بننے کو روک دیں عجیب بات ہے کہ ہمارے دشمن اب عدالتی دہشت گردی پر اُتر آئے ہیں مگر الحمدللہ مسلمان ابھی زندہ ہیں اس طرح کے ہتھکنڈوں سے نہ اسلام کو روکا جا سکتا ہے اور نہ مسلمانوں کو امریکی عدالت نے ’’عافیہ بہن‘‘ کو طویل قید کی سزا سنا دی آخر کیوں؟ دراصل پورا کفر اس وقت اسلام دشمنی پر اُتر آیا ہے کیا جاہل اور کیا پڑھے لکھے سب ہی مسلمانوں کے خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں ججوں کا کام انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے اور انصاف سے امن آتا ہے مگر اب تو جج بھی میدان جنگ میں اُتر آئے ہیں اُن کے نزدیک کسی کو سزا سنانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملزم مسلمان ہے عافیہ بہن تو کراچی سے اغوا کی گئیں جج نے یہ پتہ نہیں لگایا کہ وہ افغانستان کیسے پہنچیں بس اتنا بہت ہے کہ عافیہ مسلمان بیٹی ہے وہ نماز اور پردے کی پابند ہے وہ جہاد اور مجاہدین سے محبت رکھتی ہے اس لیے وہ مجرم ہے اور عدالت اُسے سزا سناتی ہے یقینا ایسے فیصلے دنیا کی رگوں سے ’’امن‘‘کو چھین لیں گے عافیہ بہن، مسلمان ہے اور مسلمان بیٹیاں کافروں کی قید میں رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوتیں اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ عافیہ بہن کو عزت و شان کے ساتھ رہائی عطاء فرمائے اسلامی احکامات کے مطابق ہر مسلمان کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہونا چاہیے اور آخرت کے سخت دن کی کامیابی کے لیے اپنی اس ذمہ داری کو ادا بھی کرنا چاہیے اُدھر ہندوستان کے صوبے یوپی (اتر پردیش) کی ہائی کورٹ نے بابری مسجد کے مقام کو ’’رام جنم بھومی‘‘ قرار دے دیا ہے یعنی رام کی پیدائش کا مقام ہندو بھی عجیب بے عقل لوگ ہیں ایک طرف کہتے ہیں کہ رام ان کا خدا اور بھگوان ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ رام اجودھیا میںاُس جگہ پیدا ہوا جہاں بابری مسجد قائم تھی کیا خدا اور بھگوان بھی پیدا ہوتے ہیں؟ بے شک شرک ایسی نحوست ہے کہ اس سے انسان کی عقل ماری جاتی ہے بابری مسجد کا زمانہ کوئی بہت قدیم نہیں ہے اگر یہ جگہ ہندوئوں کی مقدّس پوجا گاہ ہوتی تو وہاں مسجد کس طرح سے بنتی؟ رام تو ہندوئوں کا بھگوان نمبر ون ہے اور ہندو اُسکی تاریخ کئی ہزار سال پہلے کی بتاتے ہیں کسی بھی مذہب کے لیے جو سب سے پہلی مقدّس جگہ ہوتی ہے وہ تو بہت مشہور، معروف اور مصروف ہوتی ہے پھربابر نے اس جگہ مسجد کس طرح سے بنا لی؟ کیا اُس وقت ہندو قوم مر گئی تھی؟ دنیا جانتی ہے کہ مغلوں کے زمانے میں ہندوئوں کو پورے ہندوستان میں کھلی آزادی حاصل تھی بابر کا بیٹا اکبر تو خود آدھا ہندو بنا بیٹھا تھا اور اُسوقت کے ہندو مہاراجے اپنی لڑکیاں اُس کے پاس چھوڑجاتے تھے بابر نے اگر رام مندر گرا کر مسجد بنائی ہوتی تو اکبر ضرور اُسے گرا دیتا کیونکہ اکبر تو مکمل طور پر ہندوئوں کے گھیرے میں تھا وہ تو ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے پورے اسلام کوہی ہندوستان میں گرانے پر تُلا ہوا تھا اللہ تعالیٰ اُس زمانے کے اکابر و مشائخ کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے تجدید دین کا بیڑہ اٹھایا اور اکبری فتنے کا منہ توڑ مقابلہ کیا ان حضرات میں سب سے اونچا نام حضرت مجدّد الف ثانی یعنی شیخ احمد سرہندیؒ کا ہے حضرت شیخ نے اس فتنے کی سرکوبی میں ’’جہانگیر‘‘کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں مغل بادشاہوں میں سے صرف حضرت اورنگزیب عالمگیر نوراللہ مرقدہ کے زمانہ میں اسلام کا صحیح رنگ نظر آیا انہوں نے بہت سے اسلامی احکامات کو نافذ کیا اور دینداری کے ساتھ اسلام اور جہاد کی خدمت کی آج کے متعصب ہندو اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ  کے نام سے ہی چڑتے ہیں انہوں نے اورنگزیب کے خلاف طرح طرح کی کتابیں لکھی ہیں اور عجیب وغریب فلمیں اور ڈرامے بنائے ہیں مگر بابری مسجد تو اورنگزیب  رحمۃ اللہ علیہ  کے زمانے میں نہیں بنی بابری مسجد کا مسئلہ تو انگریزوںکی قائم کردہ ہندو تنظیم آر ایس ایس نے اٹھایا انگریزوں نے برّصغیر میں اسلام کے خاتمے کے لیے جو اقدامات کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ متعصب ہندوئوں کی تنظیم آر ایس ایس قائم کی اور مسلمانوں میں قادیانی ٹولے کو کھڑا کیا انگریز بہت مکار تھا اسلام اور مسلمانوں کا بد ترین دشمن اور خوفناک زہریلا اور گندا سازشی آر ایس ایس اور اُسکی ذیلی تنظیمیں انگریز کی سرپرستی میں قائم ہوئیں ان تنظیموں نے پورے ملک میں اکھاڑے بنائے اور مسلمانوں کے خلاف عسکری اور فکری کام شروع کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف بی جے پی میں آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے لوگ ہیں حالانکہ یہ غلط ہے کانگریس کے کئی لیڈر اندرونی طور پر ان متعصب ہندو تنظیموں کے خفیہ رکن ہیں ہندوستان کا پہلا وزیر داخلہ’’ولبھ بھائی پٹیل‘‘ خود زہریلا ’’جن سنگھی‘‘ تھا اُس نے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا اور حیدرآباد اور جونا گڑھ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی آر ایس ایس کو ہندوستان کی ہر حکومت کے دور میں مکمل آزادی سے کام کرنے کا موقع ملا چنانچہ یہ تنظیم بہت طاقتور ہو چکی ہے اور اس کی ناپاک جڑیں دور دور تک پھیل چکی ہیں پاکستان کے حکمران تو شروع سے ہی ’’دین بیزار‘‘ ہیں انہوں نے آج تک کسی نظریاتی اسلامی جماعت یا تنظیم کو مضبوط نہیں ہونے دیا آر ایس ایس گذشتہ اسّی سال سے جس آزادی سے کام کر رہی ہے اگر ایسی آزادی صرف دس سال کے لیے ’’جیش محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کو مل جائے تو انشاء اللہ مسلمان برّصغیر کی ناقابل تسخیر طاقت بن جائیں مگر ہمارے حکمران تو دین اور جہاد کے کھلم کھلّا دشمن ہیں یہ دس سال تو درکنار دس گھنٹے بھی کسی اسلامی طاقت کو آزادی سے سانس نہیں لینے دیتے اسی وجہ سے نہ تو پاکستان طاقتور ہوسکا اور نہ برّصغیر کے مسلمان کوئی باعزت مقام حاصل کرسکے ہندو مشرک جب چاہتے ہیں مسلمانوں کی پوری کی پوری آبادیاںاکھاڑ کر رکھ دیتے ہیں ابھی کچھ دن پہلے گجرات کے مسلم کش فسادات کی ایک سی ڈی دیکھی تو دل خون کے آنسو رویا مسلمانوں کی ایک پوری بستی آگ میں جلی ہوئی تھی اور اس آگ کی چنگاریاں ناقابلِ برداشت داستانیں سنا رہی تھیں گذشتہ ساٹھ سالوں میں ہندوستان میں تیس ہزار سے زائد اجتماعی مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں اور ان میں سے ہر فساد کی داستان دوسرے سے زیادہ المناک اور دردناک ہے جبکہ پاکستان میں ایک بھی ہندو کش فساد نہیں ہوا خیر یہ تو اچھا ہوا کیونکہ اسلام نہتے لوگوں کے اس طرح قتل عام کی ہرگز اجازت نہیں دیتا مگر ہندوستان کے ظلم و فساد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے گجرات کے وزیر اعلیٰ نرنیدر مودی نے اپنی نگرانی ہزاروں مسلمانوں کو شہید کروایا اور ہندوستان کی سیاست پر آر ایس ایس کی گرفت ہر آئے دن بڑھتی ہی جارہی ہے یہ صورتحال پاکستان کے وجود کے لیے بے حد خطرناک ہے مگر یہاں کے مست حکمران بالکل بے فکرہیں اور اُن کے نزدیک ہندوستان اُن کا بہترین دوست ہے دوسری طرف ایک اور خوفناک المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی کئی دینی قوّتیں بھی ہندوستان کی اسلام دشمنی سے ناواقف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ دیوبند اور بریلی ہندوستان میں ہیں اس لیے نہ تو کشمیر کا جہاد جائز ہے اور نہ بابری مسجد کے المیے پر بات کرنا درست ہے ان دینی قوتوں کو چاہیے کہ ہندوستان کے حالات کا اندر سے جائزہ لیں اور اپنے نظریات درست کریں ہندوستان کی حکومت اور سیاست، اسرائیل سے کم اسلام کی دشمن نہیں ہے ابھی حال ہی میں بابری مسجد کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ہی پڑھ لیں رشوت خور مشرک ججوں نے اس فیصلے میں جس طرح سے اخلاق، انصاف اور انسانی قدروں کی دھجیاں اڑائی ہیں شاید ہی تاریخ میں اس کی مثال ملے اس عدالتی فیصلے کا لب و لہجہ قانونی نہیں بازاری ہے اور اس فیصلے نے ہندوستان میں جاری ہندو دہشت گردی کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اس فیصلے کے مطابق بابری مسجدکی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے دو حصے ہندوئوں کواور ایک حصہ مسلمانوں کو دیا گیا ہے حالانکہ سینکڑوں سال سے یہ زمین مسلمانوں کی ملکیت تھی اور جب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا اور اُس کا آئین بن رہا تھا تب بھی اس زمین پر مسلمانوں کا قبضہ تھا یہ تو ۱۹۵۲ء؁ سے آر ایس ایس نے جھگڑا شروع کیا مسجد شریف میں زبردستی مورتیاں رکھ دی گئیں اور ایک مقامی عدالت نے مسجد کو تالے لگوا کر وہاں نماز بند کرا دی ہندوستان کے مسلمان کافی کمزور ہیں اور اُن کو ہر آئے دن مزید کمزور کیا جا رہا ہے ہمارے وہاں کے اکابر نے بہت سوچ سمجھ کر وہاں کی جمہوری سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی مگر بعد والے اسی سیاست کے ساتھ چپکے ہوئے ظاہری پروٹوکول کی خاطر بے آبرو ہوتے رہتے ہیں قادیانی، منکرینِ حدیث اور وحید الدین خان کے فتنوں نے مسلمانوں کے اندر سے آزادی کی تڑپ تک نکال دینے کا مشن شروع کر رکھا ہے ہندوستان کے بیس کروڑمسلمان کسی مخلص اور گرمجوش قیادت سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے حضرت سید ابو الحسن علی ندوی  رحمۃ اللہ علیہ   کو جنہوں نے آخری سانس تک مسلمانوں کو زندہ اور بیداررکھنے کی انتھک محنت فرمائی حضرت ندوی  رحمۃ اللہ علیہ   بڑے یقین سے فرمایا کرتے تھے کہ ہندوستان ہم مسلمانوں کا ہے اور انشاء اللہ مسلمان ہی اس کے مالک اور حکمران بنیں گے ٹھنڈی اور مایوس قوم میں غیرت اور حرارت پیدا کرنے کے لیے حضرت ندویؒ نے مسلم پرسنل لابورڈ کے نام سے ایک طاقتور دینی جماعت قائم فرمائی اور عرب ممالک کی طرف سے شہریت کی پیشکش کو ٹھکرا کر آپ آخری دم تک ہندوستان میں مقیم رہے مگر اُن کے انتقال پر ملال کے بعد جو خلا پیدا ہواوہ ابھی تک پُر نہیں ہوسکا

اللہ تعالیٰ ساری دنیا کے مسلمانوں پر اور ہندوستان کے مسلمانوں پر رحم فرمائے ہم بحیثیت مسلمان الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو انتہائی نفرت اور حقارت سے مسترد کرتے ہیں اور ساری دنیا کو اسلام کا یہ فیصلہ سناتے ہیںکہ اجودھیا کی یہ زمین بابری مسجد کی ہے یہاں بابری مسجد قائم تھی جسے ہندوئوں نے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء؁ کے دن شہید کر دیا اللہ تعالیٰ کی مسجد جس جگہ قائم ہوجائے وہ قیامت تک مسجد ہی ہوتی ہے مسجد کو شہید کرنے کا عمل ایک مجرمانہ فعل تھااور یہ جرم پوری اُمت کے خلاف متعصب ہندوئوں نے کیا اسلام یہ فیصلہ سناتا ہے کہ اس جگہ دوبارہ مسجد ہی تعمیر کی جائے اور کسی بھی صورت شرک کے اڈے مندر کو برداشت نہ کیا جائے ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم اور ایک جان ہیں ساری دنیا کی مساجد کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور مساجد کے تحفظ کے لیے جان دینے والے مسلمان بہت اونچے درجے کے شہید ہوتے ہیں ہاں یہ اسلام کا فیصلہ ہے اور اسلام کے ماننے والے مسلمان اس فیصلے کے پابند ہیں اب کسی کو اچھا لگے یا بُرا اور ہم زندہ رہیں یا مر جائیں ایک بات بالکل واضح طور پر کہتے ہیں کہ انشاء اللہ بابری مسجد کی بحالی کی تحریک جاری رہے گی اور اگر وہاںرام مندربنانے کی کوشش کی گئی تو مسلمانوں کی طرف سے بھرپور مزاحمت ہو گی انشاء اللہ بھرپور، زوردار اور لرزہ انگیز مزاحمت حذیفہ سائیں سلام قبول کرنا ابو طلحہ اور پاملا، اسدﷲ، سلیم، عمر، اکرم اور ایّوبی اور سب شہداء کرام کو سلام یا اللہ ان پاکباز جوانوں کے خون کی لاج رکھ لیجئے

آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علیٰ سیدنا و مولانا محمد النبی الامی االماحی نبی السیف والملاحم وعلیٰ آلہ و صحبہ وبارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا

٭٭٭

سنّت علاج

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں سے شفاء نصیب فرمائے پہلے ایک بات سن لیںکہ بعض مسلمان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد جس جگہ تعمیر ہوئی تھی اُس جگہ کا نام ’’جنم استھان‘‘ یعنی پیدائش کی جگہ تھا یہ بات غلط ہے اول تو یہ بات ہی ثابت نہیں کہ رام کی پیدائش اجودھیا میںہوئی تھی پھر جو لوگ اجودھیا میں پیدائش مانتے ہیں وہ بھی کئی جگہیں الگ الگ بتاتے ہیں ہندوستان تو ویسے ہی جھوٹ نگری ہے کچھ عرصہ قبل آر ایس ایس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نعوذ ب اللہ ، نعوذب اللہ ’’حجر اسود‘‘ شیولنگ ہے ویسے بھی ہندوستان کی عدالت کو سینکڑوں سال پرانے مسئلے کو حل کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟ خود ہندوستان کو بنے ہوئے تریسٹھ سال ہوئے ہیں پھر اس بات کا فیصلہ بھی ہونا چاہئے کہ اگر بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا تو رام مندر سے پہلے وہاں کیا تھا تب اس زمین کے حقدار تو وہ ہوں گے جو رام مندر سے پہلے اس زمین کے مالک تھے کیا اب حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کی ملکیتوں کے فیصلے بھی آج کی عدالتیں کریں گی کچھ لوگ دراصل خود کو منصف قرار دینے کے لئے ملی جلی باتیں کرتے رہتے ہیں ان کو اتنا بھی خیال نہیں کہ یہ ایک مسجد کا مسئلہ ہے اور مسجد  اللہ  تعالیٰ کا گھر اور مسلمانوں کی غیرت ہے بُت تو کعبۃ  اللہ  میں بھی پوجے جاتے تھے جب مسلمانوں نے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی قیادت مبارکہ میں بزور تلوار مکہ مکرمہ فتح کیا تو کعبہ شریف میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے مگر پھر کعبہ کو پاک صاف کر دیا گیا اور اب کسی کو حق اور اختیار نہیں کہ پرانی تاریخ کو کھنگال کر کوئی فیصلہ کرےاسلام اور کفر برابر نہیں ہیں اہل توحید اور مشرکین کو ایک جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں مسجد جب بن جاتی ہے تو وہ قیامت تک کے لئے مسجد رہتی ہے اور بابری مسجد تو پہلے دن سے بابری مسجد ہے  اللہ  کیلئے! مسلمانوں کے خون کو اتنا ٹھنڈا نہ کرو کہ لوگ اُسے جوس سمجھ کر پی جائیں  اللہ  کے لئے غیرت کے چراغ کو اتنا رسوا نہ کرو کہ بے غیرتی کو لوگ دانشمندی سمجھنے لگیں یہ بات تو کسی پاگل نے نہیں کہی کہ مسجد کی جگہ رام مندر بننے سے اسلام خطرے میں پڑجا ئے گا ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ اسلام اور مسلمانوںکی توہین ہو گی اور کوئی مسلمان جس نے واقعی اپنی ماں کا دودھ پیا ہو اسلام کی توہین گوارہ نہیں کر سکتاہندو جیسا مشرک جب ایک مفروضے پر اتنی جان لڑاسکتا ہے تو پھر مسلمان ایک حقیقت پر قربانی کیوں نہیں دے سکتا یاد رکھنا بابری مسجد ہندوستان کے بیس کروڑ اور برصغیر کے پچاس کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا سوال ہے ایڈوانی نے خود کہا تھا کہ ہم بابری مسجد کے بعد تین ہزار مساجد گرائیں گے اور پھر میڈیا پران مساجد کے نام بھی جاری کر د یئے گئے مگر اسلامی غیرت سے سرشار مسلمانوں نے اس ظلم اور بے غیرتی کو ٹھنڈے پیٹ سہنے سے انکا رکر دیا مشرق سے مغرب تک ہائے بابری مسجد، ہائے بابری مسجد کی صدا نے مسلمانوں کے لہو کو گرم کیا تو ایڈوانی ہندوستان کا نائب وزیراعظم بن کر بھی رام مندر تعمیر نہ کر سکا الحمدﷲ مسلمان آج بھی زندہ ہیں اور حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں نہرو، گاندھی خاندان اسلام اور پاکستان کا بدترین دشمن ہے کانگریس نے مزید پچاس سال تک اقتدار میں رہنے کے لئے بابری مسجد کا سودا کرنے کی ٹھانی ہے مگر سونیا اور راھول گاندھی کو انشاء  اللہ  جلد احساس ہو جائے گا کہ یہ پتھر بہت بھاری ہے آج اس موضوع کو یہاں روک کر ایک اور دلچسپ بات کرتے ہیں کالم کا آغاز’’شِفاء‘‘ کی دعاء سے ہوا بیمار تو ہر آدمی ہوتا ہی رہتا ہے اور آج کل تو بیماریوں کا میلہ لگا ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحبان خوب کما رہے ہیں دنیا جب سے وجود میں آئی ہے اس میں سب سے اچھی صحت ہمارے آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہترین علاج’’الحجامہ‘‘ یعنی پچھنے لگانے کو ارشاد فرمایا ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے علامہ ابن قیمؒ کی معروف کتاب’’زادالمعاد‘‘ میں’’الحجامہ‘‘ کا باب پڑھا تو حیران رہ گیا سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم  اللہ  تعالیٰ نے اس آسان سے علاج میں کتنی بے شمار بیماریوں سے شفاء رکھی ہے علامہ ابن قیمؒ نے بہت سی خوفناک بیماریوں کے نام گنوائے ہیں کہ وہ پچھنے لگوانے سے ٹھیک ہو جاتی ہیں ’’الحجامہ‘‘ کہتے ہیں جسم کے مختلف حصوں کی کھال سے تھوڑا سا خون نکالنا بیماریاں اسی فاسد خون کے ساتھ نکل جاتی ہیں اور جسم صحت مند اور توانا ہو جاتا ہے ہمارے آقاو محبوب مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  بہت اہتمام کے ساتھ پچھنے لگواتے تھے یہاں تک کہ روزے اور احرام کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پچھنے لگوائے اِدھر ہمیں دیکھیں کہ ہم ساری زندگی اس علاج اور نعمت سے محروم رہے کچھ دن پہلے اچانک اِس علاج کی طرف توجہ ہوئی حالانکہ جب سے دینی تعلیم حاصل کی ہے’’الحجامہ‘‘ کے بارے میں پڑھتے سنتے رہے ہیں اب  اللہ  تعالیٰ نے توجّہ نصیب فرمائی تو سوچا کہ’’مرکز رُشد و انوار‘‘بہاولپور میں اس ’’سنت علاج‘‘ کا احیاء کیا جائے سیکھنے کے لئے چند ساتھی متعین ہوئے اور ایک ماہر استاد کا انتظام بھی ہو گیا صرف تین دن کے آسان سے کورس میں اب ماشاء  اللہ  چار ساتھی یہ’’فن ‘‘ سیکھ چکے ہیں اور درجنوں افراد کے جسم کو فاسد خون سے پاک کر چکے ہیںویسے بھی ہم لوگ کافی عرصہ سے یہی کام کر رہے تھے جہاد بھی تو پورے عالم کی’’الحجامہ‘‘ہے گندے خون کو نکال کر دنیا کو کفر، شرک، فتنے اور ظلم سے پاک کیا جاتا ہے مکہ مکرمہ کا گندا خون جب نکال کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا تو مکہ مکرمہ کی صحت بحال ہونا شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مکہ مکرمہ پھر پورے عالم کا’’مرکز ہدایت‘‘ بن گیا خیر یہ الگ موضوع ہے آپ میں سے بھی کئی لوگ بیمار ہوں گے ’’الحجامہ‘‘ کے ذریعہ جسمانی امراض کے علاوہ نظربد، عین حاسد، اور جادو کا علاج بھی ہوجاتا ہےہمارے محبوب اور کریم آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود ہمیں جسم کے وہ مقامات بتا دیئے ہیں جہاں بیماریوں کے جراثیم کا چھتّہ بنتا ہے بس وہاں سے خون نکالیں تو تمام بیماریوں کی جڑیں کٹ جاتی ہیں احادیث مبارکہ میں’’الحجامہ‘‘ کے مقامات، اس کے لئے مناسب تاریخیں اور مناسب دنوں تک کا تذکرہ ملتا ہے بندہ نے اپنے ایک فاضل ساتھی سے عرض کیا کہ’’الحجامہ‘‘ کے بارے میں کچھ احادیث و روایات جمع کر دیں  اللہ  تعالیٰ اُن کو جزائے خیر نصیب فرمائے کہ انہوں نے فوری طور پر تیس روایات جمع کر دی ہیں آئیے ہم سب ان روایات کو پڑھیں اور اپنے محبوب ِقلب آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان مبارک کے ایک اور پہلو کو دیکھیںاورپھر صبح شام، دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آل پر درود و سلام بھیجیں

’’الحجامہ‘‘ چند احادیث مبارکہ

(۱)     حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا شفاء تین چیزوں میں ہے پچھنا لگوانے، شہد پینے اورآگ سے داغنے میں، اورمیں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔(بخاری ص ۸۴۸ ج ۲/زاد المعاد ص ۵۵۰ طبع بیروت)

(۲)     حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (ایک مرتبہ) پچھنا لگوایا درانحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  روزہ سے تھے۔(بخاری۸۴۹ ج ۲/ زادالمعاد ص ۵۵۴ بیروت)

(۳)     حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حالتِ احرام میں پچھنا لگوایا۔(بخاری ص ۸۴۹ ج ۲)

(۴)  حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ  رضی اللہ عنہسے پچھنا لگانے کی اجرت کے بارے پوچھا گیا( کہ جائز ہے یا نہیں؟) آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پچھنا لگوایا تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو ابو طیبہ نے پچھنا لگایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں دو صاع اناج(اجرت) میں دیا تھا اور آپ نے ان کے آقاؤں سے گفتگو کی تو انہوں نے ان سے وصول کی جانے والی لگان میں کمی کر دی تھی۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا بہترین علاج جو تم کرتے ہو پچھنا لگانا ہے (بخاری ص ۸۴۹ ج ۲، مسلم ص۲۲ ج ۲، زادالمعاد ص ۵۵۱ طبع بیروت)

(۵)  حضرت جابر بن عبد اللہ   رضی اللہ عنہ مُقَنَّّع کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔پھر ان سے کہا جب تک تم پچھنا نہ لگوا لو گے میں یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس میں شفاء ہے۔(بخاری ص ۸۴۹ ج ۲)

(۶)  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے سر مبارک میں پچھنا لگوایا۔(بخاری ص ۸۴۹ ج ۲)

(۷) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تمہاری دوائیوں میں سے کسی میں خیر ہے تو شہد پینے میں، پچھنا لگوانے میں اور آگ سے داغنے میں ہے لیکن میں آگ سے داغ کر علاج کرنے کو پسند نہیں کرتا۔(بخاری ص۸۵۰ ج۲)

(۸)  حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  گردن کے دونوں جانب کی رگوں اور شانوں کے درمیان پچھنے لگوایا کرتے تھے اور یہ عمل سترہ، انیس یا اکیس تاریخ کو کیا کرتے تھے۔(ترمذی ص ۲۵ ج۲/ زادالمعاد ص ۵۵۳ بیروت)

(۹)     حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شب معراج کا قصہ سناتے ہوئے فرمایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرشتوں کے جس گروہ پر بھی گزرتے وہ یہی کہتا کہ اپنی امت کو پچھنے لگوانے کا حکم کیجئے گا۔(ترمذی ص ۲۵ ج ۲)

(۱۰)  حضرت عکرمہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے پاس تین غلام تھے جو پچھنے لگاتے تھے، ان میں سے دو تو اجرت پر کام کیا کرتے تھے اور ایک ان کو اور ان کے گھر والوں کو پچھنے لگایا کرتا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد نقل فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: پچھنے لگانے والا غلام کتنا بہترین ہے، خون کو لے جاتا ہے، پیٹھ کو ہلکا کر دیتا ہے اور نظر کو صاف کر دیتا ہے۔ اور آپ ر ضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  معراج پر تشریف لے گئے تو فرشتوں کے جس گروہ سے بھی گزر ہوا انہوں نے یہی کہاکہ حجامت ضرور کیا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پچھنے لگانے کے لئے بہترین دن سترہ، انیس اور اکیس کے دن ہیں۔۔۔ اور یہ بھی فرمایا کہ بہترین علاج سعوط لدود اور پچھنے لگانا ہے۔۔۔ (ترمذی ص۲۵ ج۲/ زادالمعاد ص ۵۵۱ بیروت)

(۱۱) حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی تمام ادویات میں سے کوئی دوا بہتر ہے تو وہ حجامت یعنی پچھنے لگوانا ہے۔(ابوداؤد ص ۱۸۳ ج ۲)

(۱۲) رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خادمہ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جو شخص بھی رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں سردرد کی شکایت کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کو پچھنے لگوانے کا فرماتے اور جو شخص پاؤں کے درد کی شکایت کرتا اسے فرماتے ان کو مہندی لگاؤ۔۔۔۔!(ابو داؤد ص ۱۸۳ ج ۲)

(۱۳) حضرت ابو کبشہ انماری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے سرمبارک کی مانگ میں اور دونوںکندھوں کے درمیان فصد لگواتے ، اور ارشاد فرماتے جو شخص ان جگہوں کا خون نکلوائے تو اس کو کسی مرض کے لئے کوئی دوا استعمال نہ کرنا نقصان نہیں پہنچائے گا۔ (ابو داؤد ص ۱۸۳ ج ۲/ ابن ماجہ ص ۲۴۹)

(۱۴) حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا جس شخص نے سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو سینگی لگوائی اس کے لئے یہ ہر مرض سے شفاء ہو گی۔( ابو داؤد ص ۱۸۴ ج۲/ زاد المعاد ص ۵۵۳ بیروت)

(۱۵) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت اُبی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک طبیب بھیجا چنانچہ اس طبیب نے (پچھنے لگانے کیلئے) ان کی ایک رگ کاٹی۔(ابو داؤد ص ۱۸۴ ج ۲)

(۱۶) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ران مبارک کے بالائی حصہ پر ہڈی میں درد کی بنا پر پچھنے لگوائے۔(ابو داؤد ص ۱۸۴ ج۲/ زادالمعاد ص ۵۵۲ بیروت)

(۱۷) حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا جو علاج تم کرتے ہو ان میں سے اگر کسی میںبہتری ہے تو وہ پچھنے لگانے میں ہے۔(ابن ماجہ ص ۲۴۸)

(۱۸) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا شب معراج میں فرشتوں کی جس جماعت پر بھی میرا گزر ہوا ہر ایک نے مجھے یہی کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پچھنے لگانے کا اہتمام کیجئے۔( ابن ماجہ ۲۴۸)

(۱۹) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اچھا ہے پچھنے لگانے والا غلام۔ خون نکال دیتا ہے، کمر ہلکی کر دیتا ہے اور بینائی کو روشن کر دیتا ہے۔ ( ابن ماجہ ۲۴۸)

(۲۰)  حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا شب معراج میں جس جماعت پر بھی میرا گذرہوا اس نے یہی کہا اے محمد اپنی امت کو پچھنے لگانے کا حکم فرمائیے۔(ابن ماجہ ص۲۴۸/ زادالمعاد ص ۵۵۱)

(۲۱) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پچھنے لگوانے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو طیبہ کو حکم فرمایا کہ انہیں پچھنے لگاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو طیبہ سیدہ ام سلمہؓ کے رضاعی بھائی تھے یا کم سن لڑکے تھے۔(ابن ماجہ ص ۲۴۸)

(۲۲) حضرت عبد اللہ  بن بحینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لحی جمل(نامی مقام) میں بحالت احرام اپنے سر مبارک کے وسط میں پچھنے لگوائے۔(ابن ماجہ ص ۲۴۸/ زادالمعاد ص ۵۵۲)

(۲۳)حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل حنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس، گردن کے دونوںجانب کی رگوں اور کندھوں کے درمیان پچھنے لگانے کا حکم لے کر آئے۔(ابن ماجہ ص ۲۴۹/ زادالمعاد ص ۵۵۲)

(۲۴) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے گردن کے دونوں جانب کی رگوں اور کندھوں کے درمیان پچھنے لگوائے۔ (ابن ماجہ ص ۲۴۹ / زادالمعاد ص ۵۵۲)

(۲۵)  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے گھوڑے سے کھجور کے ایک تنے پر گرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاؤں مبارک میں موچ آگئی۔ وکیع فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہڈی میں درد کی وجہ سے پچھنے لگوائے۔  (ابن ماجہ ص ۲۴۹)

(۲۶)  حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا جو پچھنے لگانا چاہے وہ سترہ یا انیس یا اکیس تاریخ کو لگائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خون کا جوش تم میں سے کسی کو ہلاک کر دے۔(ابن ماجہ ص ۲۴۹/ زادالمعاد ص ۵۵۳ بیروت)

(۲۷)  حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے نافع! میرے خون میں جوش ہو گیا ہے اس لئے کوئی پچھنے لگانے والا تلاش کرو، اگرہو سکے تو نرم خو آدمی کو لانا عمر رسیدہ ، بوڑھا یا کم سن بچہ نہ لانا۔ اس لئے کہ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا نہار منہ پچھنے لگوانا بہترہے اور اس میں شفاء ہے اور برکت ہے۔ یہ عقل بڑھاتا ہے، حافظ تیز کرتا ہے۔  اللہ  برکت دے جمعرات کو پچھنے لگوایا کرو۔ اور بدھ، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز قصدا پچھنے مت لگوایا کرو (اتفاقاً ایسا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں) اور پیر اورمنگل کو پچھنے لگوایا کرو اس لئے کہ اسی دن  اللہ  تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفاء عطاء فرمائی اوربدھ کے روز وہ بیمار ہوئے تھے۔ اور جذام اوربرص ظاہر ہوا تو بدھ کے دن یا بدھ کی رات کو ظاہرہوتا ہے۔(ابن ماجہ ص ۲۴۹/ زادالمعاد ص ۵۵۴)

(۲۸)  حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ منگل کا دن خون کا دن ہے اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں خون نہیں بند ہوتا۔( زادالمعاد ص ۵۵۴/ سنن ابی داؤد ص ۱۴۸ ج۲)

(۲۹)  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا گُدی کے اوپر کی ہڈی کے وسط میں پچھنے ضرور لگوایا کرو اس لئے کہ یہ پانچ بیماریوں سے شفاء ہے۔(زادالمعاد ص ۵۵۲ بیروت)

(۳۰)  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا گُدی سے اوپر کے گڑھے (یعنی ہڈی کے اوپر) میں ضرور پچھنے لگواؤ اس لئے کہ یہ بہتر(۷۲) بیماریوں سے شفاء ہے۔ ( زادالمعاد ص ۵۵۲ بیروت)

اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد النبی الطَّاہر الزکیّ صلوٰۃً تُحَلُّ بھا العُقَدُ وتُفَکُّ بھا الکُرَب وعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

ایک ضروری علم

 

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’حرام مال‘‘ سے بچائے اور ہم سب کو’’رزق حلال‘‘ وسعت اوربرکت کے ساتھ نصیب فرمائے اچھا پہلے ایک بات بتائیں؟ میں اور آپ مزید کتنے دن زندہ رہیں گے؟ کچھ پتا نہیں، ہم تو ابھی بھی مر سکتے ہیں اور چند دنوں اور چند سالوں کے بعدبھی جب ہم مر جائیں گے تو ہماری تمام چیزیں پیچھے والوں میں تقسیم ہو جائیں گی پھر وہ بھی مر جائیں گے مکانات کی دیواریں ہر کچھ عرصہ بعد نئے لوگوں کی شکلیں دیکھتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے بنانے والوں کا کیا بنا؟ اب تو قبروں کے نشانات بھی جلدی مٹ جاتے ہیں زمینوں کے کاروبار نے زمین کو ظلم اور فساد سے بھر دیا ہے لوگ قبرستانوں پر تیزی سے قبضے کر رہے ہیں آہ! قبریں تک بِک رہی ہیں اور اُن پر پلازے کھڑے ہو رہے ہیں دھوکے باز شیطان نے ہم سب کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ایک صاحب کو بڑی کوٹھی کا بہت شوق تھا اس کی خاطر یورپ جا بسے خوب محنت کی اور مال کمایا جو کماتے وہ کوٹھی کو کھلا دیتے یعنی خود تو محنت کر کر کے ختم ہو رہے تھے اور اُن کا پیسہ اور خون کوٹھی کھا کر موٹی ہو رہی تھی پہلے زمین خریدی، پھر نقشہ بنوایا اور پھر تعمیر ہوتی رہی کوٹھی بن گئی اس پر چار کروڑ روپے خرچ ہوئے وہ وطن واپس آکر کوٹھی دیکھنا چاہتے تھے کہ موت کے فرشتوں نے آواز لگائی اپنی جان ہمارے حوالے کرو وہ بے چارے مر گئے رشتہ دار بڑے وفادار تھے انہوں نے وفاداری دکھانے کے لئے میّت کو خوب رسوا کیا پہلے تو اٹھا کر پاکستان لے آئے وہیں یورپ میں دفن کر دیتے تو اچھا ہوتا وہاں مسلمانوں کے الگ قبرستان موجود ہیں مگر رشتہ داروں نے تو وفاداری دکھانی تھی میّت کو بیرون ملک بھیجنے سے پہلے خوب کاٹا چیرا جاتا ہے پیٹ کاٹ کر آلائش نکال دیتے ہیں کہ جناب والا بدبودار نہ ہو جائیں آہ! اے انسان! کچھ تھوڑا تکبّر کیا کر دیکھ تو سہی تیری اصلیت کیا ہے پھر پوسٹ مارٹم ہوتا ہے اُس میں اکثر کھوپڑی تک توڑتے ہیں ہتھوڑے کی زور دار ضرب سے سر کی ہڈی کے پیچ کھل جاتے ہیں پھر کئی بیماریوں کے ٹیسٹ ہوتے ہیں اور طرح طرح کی پاک ناپاک دوائیاں لاش میں بھری جاتی ہیں تب کہیں میت کو جہاز پر سوار کرنے کی اجازت ملتی ہے کوٹھی والے صاحب کو بھی رشتہ دار اٹھا کر لے آئے پہلے ائیر پورٹ، پھر ایمبولینس کا لمباسفر پھر میت کو کوٹھی میں لا کر رکھا گیا اور پہیوں والے بیڈ پر لٹا کر پورے گھر میں گھمایا گیا کہ یہ لاؤنج ہے، یہ بیڈ روم اور یہ کچن وغیرہ اُس بیچارے کی روح کیا سوچ رہی ہو گی؟ یہی کوٹھی مجھے کھا گئی آج وہ دوسروں کے لئے تیار ہے اور میں اسے چھوڑ کر ایک کچی کوٹھڑی میں جا رہا ہوںکاش یہی مال دین کے کاموں پر لگایا ہوتا سب سے افضل تو جہاد میں لگانا ہے قرآن وسنت میں جہاد پر مال خرچ کرنے کے اتنے فضائل ہیں کہ اگر اُن کو جمع کر دیا جائے تو ایک پوری کتاب بن جائے میری دعاء ہے کہ ایسی کتاب ضرور بن جائے تاکہ میرا اور آپ کا بھلا ہو اور ہمارا کچھ مال ہمارے لئے قیمتی بن جائےاسی طرح مساجد بنانا، مدارس بنانا والدین کی خدمت کرنا غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر خرچ کرنا نیکی کے بہت سے راستے ہیں جن میں انسان اپنا مال لگا کر اس مال کو اپنے لئے محفوظ کر سکتا ہے دنیا میں تو شاید چند دن، چند مہینے یا چند سال رہنا ہے مگر آخرت تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے پہلے معلوم نہیں کتنا عرصہ برزخ میں رہنا ہوگا اور پھر قیامت کا صُور پھونک دیا جائے گا ہم میں سے کوئی بھی موت سے نہیں بچ سکتا نہ کوٹھی والا، نہ کوٹھڑی والا قابل رحم ہیں وہ لوگ جو صبح سے شام تک پیسہ کماتے ہیں اور جب کچھ کما لیتے ہیں تو فوراً اُن کا یہ مال کوئی دوسرا کاروبار کھا جاتا ہے یوں بلڈنگیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور ان کی ہڈیاں کمزور ہوتی جاتی ہیں اوربالآخر موت کا بُلاوا آجاتا ہے عجیب آفت دیکھیں کہ ایک آدمی دس کروڑ کے اثاثے چھوڑ کر مرتا ہے مگر اُس نے حج ادا نہیں کیا ہوتا حالانکہ آج کل حج ڈھائی سے تین لاکھ کے درمیان ادا ہو جاتا ہے اور مال کا حرص دیکھیں کہ ایک آدمی دس کروڑ کے اثاثے چھوڑ کر مرجاتا ہے اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس پر اتنے لاکھ روپے قرضہ تھا اور وہ اس قرضے کو ادا کئے بغیر چلاگیا کیا ایک مسلمان ہاتھ میں مال ہونے کے بعد بھی اپنے ذمّہ قرضہ چھوڑ سکتا ہے؟ یقینا ایک منٹ بھی نہیں قرضے کے بارے میں جو وعیدیں آئی ہیں اُن کو دیکھ کر کوئی مسلمان ایک منٹ کی تاخیر بھی برداشت نہیں کر تا وہ چاہتا ہے کہ بس میرے ہاتھ میں پیسہ آئے اور میرا قرضہ اترے قرضہ اترے گا توروح کو سکون ملے گا روح کو آزادی ملے گی مال میں برکت ہوگی، عمر اور صحت میں برکت ہوگی اور معلوم نہیں کیا کچھ فوائد ملیں گے ایک آدمی کے پاس کروڑوں روپے موجود ہوتے ہیں مگر وہ قرضہ نہیں اُتارتا کہ میرے پیسے میں کمی نہ ہو جائے بس شوق ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ مال ہو نہ کھانے کا، نہ پینے کا، نہ کسی اور استعمال کا بس نوٹ زیادہ ہوں اور میں گِن گِن کر مزے لیتا رہوں ان اللہ  وانا الیہ راجعون یا  اللہ  ایسی خوفناک اور شرمناک کیفیت سے میر ی اور میرے اہل خانہ اور ساتھیوں کی حفاظت فرما اور ہر مسلمان کی اس کیفیت سے حفاظت فرما اے  اللہ  کے بندو! یہ نعمت نہیں عذاب ہے دردہے، مصیبت ہے اور خواہ مخواہ کی اذیّت ہے اللہ پاک پیسہ دے تو آدمی اچھا کھائے، اچھا پہنے کوئی حرج نہیں اچھی رہائش اختیار کرے کوئی حرج نہیں مگر حج فرض بھی ادا کرے والدین اور غریب اقرباء کا بھی خیال رکھے جہاد میں ضرور مال لگائے تاکہ فرض جہاد کی مال سے ادائیگی ہوتی رہے اور بھی نیکی کے اچھے اچھے کام کرے کبھی کسی سے مال کی محبت دل میں کم ہونے کا علاج بھی پوچھ لیا کرے اگرمال کی ضرورت نہ ہوتوفضول کاروبار نہ بڑھائے اپنی عبادت اور آرام کا خیال رکھے یہ عجیب بات ہے کہ روزآنہ دوسو روپے کمانے والا مزدور اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹھاٹھ سے کھانا کھاتاہے اور ڈکار بالجہر لے کر پورے محلّے کو لرزاتا ہے جبکہ روزآنہ دو لاکھ کمانے والا ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے جلدی جلدی اپنی کُرسی پر برگر نگلنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے  اللہ  کے بندو! مال کی خاطر اپنے سکون کو برباد نہ کرو اگر آپ کی ضروریات پوری ہیں اور آپ کو ایک ایسا کاروبار مل رہا ہے جس میں روزآنہ دو لاکھ کی بچت ہو مگراس میں آپ کی دور کعت نماز یا ایک گھنٹہ نیند کا نقصان ہو تو ایسے کاروبار کو ہاتھ بھی نہ لگاؤ دو رکعت تو کروڑوں روپے سے قیمتی ہے اور ایک گھنٹہ نیند سے جسم کو جو سکون ملتا ہے وہ تین لاکھ کی دوائیاں کھانے سے بھی نہیں ملتا ہاں اگر کوئی دین کی خاطر کماتاہے اور دین پر زیادہ مال لگاتا ہے اور نیاکاروبار بھی خالصتاً د ین کے لئے کر رہا ہے تو پھر ایسا کاروبار دو رکعت نفل اور ایک گھنٹہ آرام سے بہت قیمتی ہے اور ہر آدمی خود اپنی نیت کو خوب جانتا ہے بات کچھ دور نکل گئی ہم سب مسلمانوں پر لاز م ہے کہ ہم ’’حرام مال‘‘ سے بچیں حرام مال دنیا ہی میں جہنم کی ٹکٹ ہے یا  اللہ  ہم سب پررحم فرما حرام مال سے نہ تو صدقہ قبول ہوتا ہے اور نہ کوئی نیکیحرا م مال سے کوئی حج کرنے جائے تو وہ بھی قبول نہیں ہوتا اور نہ ہی حرام مال میں کسی مسلمان کے لئے کوئی برکت ہوتی ہے اور جو شخص مرنے کے بعد حرام مال پیچھے چھوڑ جائے گا تو وہ اُس کے لئے جہنم کا توشہ ہوگا

مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا

’’جو بندہ حرام مال کماتاہے پھر اس میں سے صدقہ کرتا ہے تو اُس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور نہ اُس کے لئے اس میں برکت ہوتی ہے اور جب وہ اس مال کو اپنے پیچھے چھوڑجاتا ہے تو وہ اس کے لئے جہنم کا توشہ ہوتا ہے‘‘(مسند احمد، شرح السنہ)

دشمنان اسلام نے دنیا کا معاشی نظام اس طرح کا بنا دیا ہے کہاس میں سود کی لعنت شامل ہو گئی ہے  اللہ  تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد کی توفیق عطاء فرمائے تاکہ وہ کفریہ نظام کو توڑ کر اسلام کے حلال معاشی نظام کو نافذ کر سکیں فی الحال تو مسلمانوں کے لئے اتنا ضروری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق سود اور حرام سے بچیں اور جان بوجھ کر خود کو ان عظیم اور مہلک گناہوں میں نہ ڈالیں ٹی وی، نیٹ اور اخبارات کے کمرشل اشتہارات اسی لئے ہوتے ہیںکہ لوگوں میں مال کی لالچ، حرص اور ضرورت زیادہ ہو جائے جب انسان میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ زیادہ مال کی خاطر حرام میں منہ ڈالتا ہے اور جب کسی کے منہ کو حرام لگ جائے تو وہ جہاد کے قابل نہیں رہتا قرآن پاک میں بھی اس طرف اشارہ موجود ہے کہ حرام کھانے سے مسلمانوں کا جذبہ جہاد کمزور ہوتا ہے جب مسلمان جہاد نہیں کرتے تو کفار کو اپنی طاقت بڑھانے اور حکومت پھیلانے کا کُھلا موقع ملتا ہے اسی طرح دنیاداری میں زیادہ پڑنے سے بھی انسان کا جذبہ شجاعت کمزور ہو جاتاہے علماء کرام کو چاہئے کہ تاجروں اور چیمبر آف کامرس کے اراکین کو جمع کر کے انہیں ’’حبّ دنیا‘‘ کا علاج سمجھایا کریں یہ دنیا ملعونہ ہے اور اس سے محبت کرنے والے ہمیشہ دھوکا اور نقصان اٹھاتے ہیں ان تاجروں کو سمجھایاجائے کہ موت کی فکر کریں،  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا شوق اپنے اندر پیداکریں اور ’’وہن‘‘ سے بچیں ’’وہن‘‘ کے معنیٰ آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمائے ہیں دنیا کی محبت اور موت سے نفرت جو شخص دنیا سے محبت کرے گا اور موت سے نفرت رکھے گا وہ’’وہن‘‘ نامی موذی بیماری  میں مبتلا ہو جائے گا اور جب یہ بیماری اکثر مسلمانوں میں پھیل جائے گی تو اُن کا رعب اُن کے دشمنوں کے دلوں سے نکل جائے گا اور دنیا بھر کے کفار ان پر غالب ہونا شروع ہو جائیں گے ’’حرام مال‘‘ کئی طریقے کا ہےایک عام طریقہ جس نے ہمارے معاشرے میں جڑیں پکڑ لی ہیں وہ یہ ہے کہ میّت کی میراث ٹھیک طرح تقسیم نہیں کی جاتی سبحان  اللہ ! جس مسئلے پر  اللہ  تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی آیات اُتاریں اور جس پر عمل کرنے کی  اللہ  پاک نے خود ترغیب دی اور جناب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُمت کو تاکید سے فرمایا کہ علم میراث کو سیکھ لو یہ آدھا علم ہے یعنی تمام علوم کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس میں سے آدھا علم یہ علم میراث ہے اور دیگر تمام علوم باقی آدھا علم ہیں مگر افسوس کہ اکثر مسلمان میراث کے بنیادی علم سے ہی واقف نہیں ہیں حالانکہ یہ حلال، حرام کا مسئلہ ہے یہ یتیموں کے مال کا مسئلہ ہے اوریتیموں کا مال ناحق کھانا قرآن مجید کی رو سے جہنم کی آگ کھانا ہے انشاء  اللہ  بندہ اپنے اگلے کالم میں کوشش کرے گا کہ عام فہم اور آسان الفاظ میں اس علم کے ضروری مسئلے آپ سب کی خدمت میں عرض کرد ےممکن ہے کسی کو عمل کی توفیق مل جائے ایک طرف شریعت کا یہ حکم ہے کہ مرنے والے کی جیب میں اگر ایک الائچی کا دانہ ہو اور مرنے والی عورت کی ملکیت میں ایک سوئی اور دھاگہ ہو تو اس میں بھی میراث جاری ہو گی  یعنی ورثاء کے ذمہ لازم ہو گا کہ وہ ان چیزوں کو شریعت کے بیان فرمودہ طریقے کے مطابق تقسیم کریں دوسری طرف مسلمانوں میں اتنی غفلت ہے کہ اب میراث کے شرعی مسائل کو عیب سمجھنے لگے ہیں اگر کسی مرنے والے کی میراث فوراً تقسیم کی جائے تو پیچھے والے کہتے ہیں ابھی اُس کا کفن میلا نہیں ہوا اور وارثوں نے اُس کے مال پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیئے اسی طرح کئی لوگ میراث تقسیم کرنے کو عیب سمجھتے ہیں اور یوں حرام مال کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے یا  اللہ  میری اور تمام اہل اسلام کی ’’حرام مال‘‘ سے حفاظت فرما اور ہم سب کو ’’رزق حلال‘‘ وسعت اور برکت کے ساتھ نصیب فرما

آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد صاحب العلم والقرآن وعلی الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا

٭٭٭

ایک ضروری علم (۲)

 

 اللہ  تعالیٰ کاحُکم ایک مسلمان کی نظرمیں ہر چیز سے بڑاہوتاہے اپنے جذبات سے بھی بڑا ، اپنی خاندانی رسومات سے بھی بڑا اور اپنے خیالات اور خواہشات سے بھی بڑا  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر  اللہ  تعالیٰ سب سے بڑا ہےیقینا  اللہ  تعالیٰ کا حکم بھی سب سے بڑا ہے پھر آج کل ہم مسلمان اپنے مرنے والے رشتہ داروں کی میراث  اللہ  تعالیٰ کے حکم کے مطابق کیوں تقسیم نہیںکرتے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میراث کے احکامات  اللہ  تعالیٰ کی کتاب’’ قرآن مجید‘‘ میں نازل ہوئے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ میّت کے ورثاء کے حصّے قرآن پاک میں  اللہ  تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ وارثوں کے حصے بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایاکہ اس تقسیم کی حکمت کو  اللہ  تعالیٰ ہی جانتاہے تم لوگ پوری طرح نہیں سمجھ سکتے اور فرمایا کہ جو لوگ ہمارے ان احکامات کی تعمیل کریں گے ہم اُن کو جنت میں جگہ دیں گے اور جو لوگ ہماری بات کو نہیں مانیں گے وہ جہنم کے مستحق ہو ں گے

ہم مسلمانوں کے لئے کتنی رحمت اور آسانی ہو گئی کہ نہ کوئی جھگڑا نہ عدالت ہمارے عظیم رب نے خود میّت کے مال کے حصّے فرما کر سمجھا دیا کہ فلاں کو اتنا دے دو اورفُلاںکو اتنا کیا ایک مسلمان اتنے محبت بھرے تاکیدی حکم کے بعد بھی اس کی ہمت رکھتا ہے کہ میراث کی تقسیم کے معاملے میں گڑ بڑ کرے مگر افسوس کہ آج کل بہت زیادہ گڑ بڑ ہو رہی ہے اکثر مسلمانوں کو تو میراث کے احکامات معلوم ہی نہیں ہم برّصغیر کے مسلمانوں پر ہندوؤں کے مزاج کا بہت منحوس اثر پڑا ہوا ہے اس اثر کی وجہ سے ہم بہت سی اسلامی نعمتوں اور رحمتوں سے محروم ہیں ایک مسلمان کے لئے’’موت‘‘ نہ تو کوئی اجنبی چیز ہے اور نہ کوئی قابل نفرت مصیبت ’’موت‘‘ تو ایک برحق حقیقت ہے اور یہ مسلمان کے لئے تحفہ ہے کہ وہ دنیا کے قید خانے سے نکل کر اپنی آرام اور راحت کی جگہ پہنچ جاتا ہے مگر ہندوؤں کا اثر ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ موت کا تذکرہ بھی معیوب سمجھتے ہیں انا ﷲ وانا الیہ راجعون ایک آدمی کے ہاتھ میں لوگوں کی امانتیں ہوں اور اُسے کوئی کہہ دے کہ آپ مر بھی سکتے ہیں وصیت وغیرہ ٹھیک طرح لکھ رکھیں تو وہ بُرا مناتاہے کہ میرے مرنے کا تذکرہ کیوں ہوا؟ اور کیا مال کی اہمیت مجھ سے زیادہ ہے؟ آہ! مسلمان جب تو کامیاب تھا تو موت کے آئینے میں محبوب کا دیدار ڈھونڈتا تھا اور آج تجھے اپنی زندگی  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے بھی زیادہ قیمتی اوربڑی لگتی ہے قرآن مجید کی کئی آیات میں’’میراث‘‘ کے مسائل وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں اور قرآن پاک کے کئی اور احکامات بھی ایسے ہیں جن کا تعلق میراث کی صحیح تقسیم سے ہے آپ اپنے ارد گرد ایسے مسلمانوں کو دیکھیں گے جومعمولی مسائل میںبہت شدّت کرتے ہیں ناخن کیسے کاٹنے ہیں؟ کئی لوگ بعض کتابوں میں لکھاہوا ایک مخصوص طریقہ یاد کر کے دوسرے لوگوں کی’’مسلمانی‘‘ کا امتحان لیتے نظر آئیںگےکیلا کھانے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ بعض لوگ اتنی شدّت کرتے ہیں کہ دل گھبرانے لگتا ہے اسی طرح کے کئی اور مسائل جو نہ قرآن پاک میں مذکور ہیں اور نہ سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں اُن کا صریح تذکرہ ہے کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے بتایا کہ کسی کو ’’حضرت‘‘ لکھنا شرک ہے بندہ نے عرض کیا کہ آپ کے سلفی مسلک کی کتابوں میںصحابہ کرام ڑا ور علماء کرام کو’’حضرت‘‘ لکھا ہوا ہم نے خود دیکھا ہے فرمانے لگے یہ نئی تحقیق ہے جو سندھ کے ایک عالم نے کی ہے کہ حضرت کا معنیٰ حاضر ناظر ہے اب اپنی سابقہ کتابوں کا کیا کروگے؟ کیا سب مصنف مشرک تھے؟بس لوگ فارغ بیٹھے ہیں نہ انہیں دنیا پر کفر کے غلبے کا غم ہے اورنہ قرآن پاک کو دنیا پر نافذکرنے کی فکر نہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کاکوئی افسوس ہے اور نہ اسیران اسلام کا کوئی درد ہمارے بڑوں نے دنیا کو فتح کیا اورہم نے وہی اسلامی زمینیں کافروں کو بیچ دیں پھر بھی ہمیں اپنے علم اور اپنی شان پرفخر ہے انا ﷲ وانا الیہ راجعون عربی ادب کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی کے ادب اور احترام کے لئے خطاب کا صیغہ استعمال کیا جا سکتاہے اور حضرت اسی طرح ہے جس طرح اردو میں ’’جناب‘‘ چھوٹے چھوٹے مسائل پر لوگ الجھ رہے ہیں اور اُن مسائل کا علم تک نہیں جو قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں آپ بہت سے مسلمانوں سے پوچھیں کہ کیا مجاہدین کو زکوٰۃ لگتی ہے؟ وہ شش و پنج میں پڑ جائیںگےحالانکہ یہ مسئلہ قرآن مجید نے مکمل وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے یہی حال میراث کے مسائل کا ہے کہ اکثر مسلمان اس سے واقف نہیں ہیں حالانکہ

(۱)     سب جانتے ہیں کہ ہم نے اورہمارے عزیز و اقارب نے ضرور بضرور مرنا ہے

(۲)     جو آدمی مرتا وہ کچھ نہ کچھ مال وغیرہ چھوڑکر مرتا ہے

(۳)     مرنے والا تو بے بس ہوتا ہے اُس کے ورثاء کے ذمّہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کے ’’ترکے‘‘ کو شریعت کے مطابق تقسیم کریں اور اگر وہ ٹھیک طرح تقسیم نہیں کریں گے تو گناہ اور نافرمانی کا دائرہ معلوم نہیں کہاں تک وسیع ہو جائے گا

(۴)     کبیرہ اور مُہلک ترین گناہوں میں سے ایک گناہ یتیم کا مال ناحق کھانا ہے وراثت کی صحیح تقسیم نہیں ہوگی تو اس گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو گا

(۵)     عورتوں کو میراث میں سے حصّہ نہ دینا ایک بدترین اور قابل نفرت جُرم اور گناہ ہے اورظُلم کی بڑی قسموں میں سے ایک ہے میراث ٹھیک تقسیم نہیں ہوگی تویہ ظُلم بھی عام ہو گا

الغرض میراث کا ٹھیک طرح سے تقسیم نہ کرنا گناہوں کا ایک کارخانہ ہے اس کارخانے سے بڑے بڑے گناہ بنتے جائیں گے  اللہ  تعالیٰ کی نافرمانی رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی ظلم، غصب، لُوٹ مار او ر قطع رحمی اسی لئے ہمارے محبوب آقامدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے میراث کے احکامات کو اچھی طرح یاد کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا اور اُمت کو تنبیہ فرمائی کہ یہ و ہ علم ہے جو سب سے پہلے اس اُمت سے اٹھا لیا جائے گا یعنی قیامت کے قریب جب دین کی برکتیں ایک ایک کر کے اٹھنا شروع ہو ں گی تو دین کا علم بھی آہستہ آہستہ اٹھنے لگے گاتب جاہل لوگ مذہبی پیشوا بن جائیں گے وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے طالب علمی کے ابتدائی زمانے میں ایک صاحب کے جنازے پر جانا ہوا تدفین کے بعدایک منقّش قسم کے پیر صاحب کو لایا گیا انہوں نے میّت کا وصیت نامہ پڑھ کر لوگوں کو سنایا یہ وصیت نامہ مکمل طورپر غیر شرعی اور ناجائز تھا مگر پیر صاحب کو کیا علم؟ وہ تو خاندانی طور پر گدّی کے وارث بن گئے نہ دین پڑھا او رنہ دین کو سمجھا چنانچہ دین کی بنیادی باتوں تک کاعلم نہیں وصیت نامہ نافذ کر کے کافی گندم اور نذرانہ لے کر وہاں سے چلے گئے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے دور کی نشاندہی فرمائی ہے کہ علم کو اٹھا لیا جائے گا صاحبِ علم لوگ ایک ایک کر کے انتقال کرتے جائیں گے اورپیچھے جاہلوں کا تسلّط ہوتا جائے گا اور ان دینی علوم میں سے جو علم سب سے پہلے اٹھا یا جائے گا وہ’’فرائض‘‘ یعنی’’میراث‘‘ کاعلم ہو گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے

تعلموا الفرائض وعلموہ الناس فانہ نصف العلم وھو ینسیٰ وھو اول شیٔ ینتزع من اُمتی(ابن ماجہ رقم ۲۷۱۹، سنن الکبری بیہقی رقم ۱۲۱۷۵)

ترجمہ: میراث کا علم سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ۔ بے شک یہ آدھا علم ہے او ریہ (علم) بُھلا دیا جاتاہے اور یہی وہ پہلی چیز ہے جو میری اُمت سے اٹھا لی جائے گی

ایک اور روایت میں علم میراث سیکھنے کی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا:

’’عنقریب علم رخصت ہو جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی میراث کے کسی مسئلے میں اختلاف کریں گے(مگر) کسی ایسے شخص کو نہیں پائیں گے جو اُن کے درمیان فیصلہ کرے‘‘(سنن الکبریٰ بیہقی رقم ۱۲۱۷۳)

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

تعلمو ا الفرائض و القرآن وعلموا الناس فانی مقبوض(ترمذی رقم: ۲۰۹۱)

ترجمہ: میرا ث کا علم اور قرآن پاک سیکھ لو بے شک میں اس دنیا سے جانے والا ہوں

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان تاکیدی فرامین کو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سر آنکھوں پر لیا کچھ حضرات تو ان میں سے اس علم کے بڑے ماہر تھے ان میں سب سے بڑا نام حضرت زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ کا ہے اور خواتین میں حضرت اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہاکو اس مبارک علم میں خصوصی مہارت حاصل تھی اسی طرح حضرت سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ بھی اس علم کے ماہرین میں سے تھے حضرت امیر المؤمنین سیدنا عمربن خطاب  رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میراث کاعلم سیکھو یہ تمہارے دین کا حصہ ہے اور کبھی فرماتے میراث کا علم اُسی طرح(تاکید سے) سیکھو جس طرح تم قرآن پاک کو سیکھتے ہو اورآپ نے اپنے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ کو خط میں لکھا اگر تم لوگ کھیلنا چاہو تو تیر اندازی میں لگ جایا کرو (کہ بہترین اجر والا جہادی کھیل ہے)

اور جب آپس میں بات چیت اور بحث مباحثہ کروتو پھر علم میراث میں گفتگو کیا کرو

قال عمر رضی اللہ عنہ : تعلّموا الفرائض واللحن والسّنۃ کما تعلّمون القرآن(سنن الکبری بیہقی رقم ۱۲۱۷۶)

قال عمر رضی اللہ عنہ : تعلّموا الفرائض فانھا من دینکم( سنن الکبری رقم ۱۲۱۷۷)

عن قتادہ قال کتب عمر رضی اللہ عنہ : اذالھو تم فالھوا بالرمی واذا تحدّثم فتحدّثوا بالفرائض( سنن الکبری ۱۲۱۷۸)

چونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین علوم کو’’بنیادی علم‘‘ قرار دیا ہے

(۱) آیت محکمہ یعنی قرآن مجید(۲) سنت قائمہ(۳) علم میراث (ابو داؤد)

تو اس وجہ سے حضرات صحابہ کرام اپنے شاگردوں پر ان علوم کی تعلیم میں بعض اوقات سختی بھی فرماتے تھے

عن عکرمہس قال کان ابن عباس یضع الکبل فی رجلی یعلمنی القرآن والفرائض( سنن الکبری ۱۲۱۸۳)

حضرت عکرمہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی  اللہ  عنہما میرے پاؤں میں بیڑی ڈال کر مجھے قرآن مجید اور میراث سکھاتے تھے

اس کا ایک مطلب تویہ ہو سکتاہے کہ واقعی بیڑی ڈالتے تھے جبکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت پابندی سے پڑھاتے ہوںتو پابندی کو بھی عام طور پر’’بیڑی‘‘ کہہ دیا جاتا ہے حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں سے بعض تو یہاں تک فرماتے تھے کہ میراث کا علم سیکھے بغیر کوئی قرآن پاک کو سیکھ ہی نہیں سکتا

یہ ساری تاکید اس لئے کہ ہم مسلمانوں کا مرنا،جینا سب  اللہ  تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو جائے اور ہم میراث کے بارے میں  اللہ  تعالیٰ کے حکم کو اپنے جذبات، اپنی خاندانی روایات اور اپنی خواہشات سے بڑا سمجھیں اور ہم ان احکامات پر عمل کر کے وہ تمام خیریں اور برکتیں حاصل کریں جو  اللہ  تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر نے سے نصیب ہوتی ہیں القلم کے قارئین تک’’ترکے‘‘ اور میراث کے احکامات پہنچانے اور مسلمانوں میں ا س مبارک علم کو پھیلانے کے لئے  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے درج ذیل اقدامات کئے جارہے ہیں

(۱)     القلم کے اسی شمارے میں ’’مسائل بہشتی زیور‘‘ سے ایک باب کا خلاصہ پیش کیا جارہاہے اس سے آپ کو انشاء  اللہ  میراث کے اہم احکامات کا علم ہو جائے گا گزارش ہے کہ غور اور توجّہ سے پڑھیں اور آپس میں اس کا مذاکرہ بھی کریں(بندہ نے گزشتہ رنگ و نور میں جو مسائل لکھنے کا وعدہ کیا تھا وہ تمام مسائل اس باب میں آگئے ہیں)

(۲)     القلم کے اگلے شمارے سے حضرت ڈاکٹر عبدالحیٔ عارفی نور اللہ  مرقدہ کی کتاب ’’احکام میت‘‘ سے ترکے اور وراثت کے بارے میں کچھ اہم باتیں شائع کی جائیں گی

(۳)     القلم کے قارئین اور قارئات کو’’علم میراث‘‘ سکھانے کے لئے انشاء  اللہ  القلم کے اگلے شمارے سے’’تعلیم الفرائض کورس‘‘ شروع کیا جارہاہے ہمارے ایک فاضل ساتھی آپ کو یہ کورس کروائیںگے اسی طرح عنقریب انشاء  اللہ  جامع مسجد عثمانؓ و علی رضی اللہ عنہمامیں بھی مستقل’’ دوراتِ میراث‘‘ کی ترتیب قائم کی جائے گی

 اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو اپنے احکامات کے مطابق جینے اورمرنے کی توفیق عطاء فرمائے

 آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علٰی سیدنا ومولانا محمد بقدر علمہ و عملہ وکمالہ وعلیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا

٭٭٭

حقیقی مسائل

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(الفاتحہ)

قیامت کا دن بالکل برحق ہے قیامت کا دن تیزی سے قریب آرہاہے اور قیامت کے دن  اللہ  تعالیٰ کے سواکسی کی حکومت نہیںہو گی

لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ(المؤمن ۱۶)

قیامت کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں اور بعض بڑی نشانیاں ظاہر ہونا باقی ہے ہم میں سے جو مر جاتاہے اُس کی قیامت تو قائم ہو جاتی ہے ہم بھی مر جائیں گے تو ہماری قیامت بھی شروع ہو جائے گی تھوڑا سا سوچیں کہ آپ کے جاننے والے کون کون انتقال فرما چکے ہیں کئی لوگ آپ کے ساتھ پڑھتے ہوں گے کئی آپ کے رشتہ دارہوںگے اورکئی آپ کے دوست احباب اُن سب کی قیامت شروع ہو گئی چھوٹا حساب کتاب تو قبر میں ہو جائے گا اور قبر سے ہی راحت یا عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے مجھے اور آپ کو شائد قبرکی زیادہ فکر نہیں میں کبھی کبھار ایک مسجد میں جاتاتھا وہاں ایک بوڑھے نمازی کو دیکھتا تھا  اللہ  اکبر، وہ کس طرح سے بلک بلک کر عذاب قبر سے حفاظت کی دعا مانگتے تھے میں نے کئی بار کان لگا کر اُن کی دعاء کو سُنا وہ نماز سے پہلے بھی دعاء مانگتے تھے اور نماز کے بعد بھی اور جب مسجد خالی ہو جاتی تو پھر خوب زیادہ دعاء مانگتے تھے یا اللہ  عذاب قبر سے بچا، یا  اللہ  عذاب قبر سے بچا، یا  اللہ  عذاب قبر سے بچا یا اللہ  منکر نکیر کے سوال جواب میں مدد فرما یا اللہ  بہت اچھی، خوبصورت قبر عطاء فرما یا  اللہ  قیامت کے دن اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں عطاء فرما بس یہ اور اس طرح کی اوردعائیں وہ آہستہ آہستہ آواز میں دعاء مانگتے تھے مگر ساتھ بیٹھنے والا تو سن ہی لیتا بڑھاپے میں ویسے بھی سرگوشی بلندہوجاتی ہے چونکہ اپنے کان کم سنتے ہیں تو انسان تھوڑا اونچابولنے لگتاہے فجر کے بعد وہ اشراق تک ذکر اذکار میں ڈوبے رہتے تھے اشراق کے نفل ادا کر کے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر یہی دعاء یا اللہ  قبر کے عذاب سے بچا آنکھوں اور ہاتھوں کے اور دل کے گناہ معاف فرما اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں عطاء فرماعصر کے بعد تو وہ اکثر گھر نہیں جاتے تھے، مسجد میں بیٹھے رہتے ایک لمبی تسبیح اُن کے ہاتھ میں مسلسل چلتی رہتی مغرب کے بعد اوّابین کے نوافل ادا کر کے پھر یہی دعاء یا  اللہ  جہنم سے بچا، عذاب قبر سے بچا، اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں عطاء فرما میں نے کئی بار رشک اور محبت کے ساتھ اُن کی دعاء کو مکمل سننے کی کوشش کی سبحان  اللہ  وہ صرف اصل چیزیں مانگتے اور اصل مسئلہ کا حل چاہتے تھے جبکہ عام طور سے لوگ عارضی مسائل کی دعائیں زیادہ مانگتے ہیں بوڑھے بزرگوں کو تو عارضی مسائل ویسے بھی زیادہ لاحق ہوتے ہیں بیٹے کہنا نہیں مانتے، بہویں بدتمیزی کرتی ہیں اپنی بوڑھیا بھی قابو میں نہیں آتی طرح طرح کی بیماریاں، رزق اور روزی کے مسائل لوگوں کی ناقدری اور فضول طرح کی حرص اور فکریں مگر اس  اللہ  کے بندے کو اپنے اصلی گھر کی فکرہے یا  اللہ  قبر کے عذاب سے بچا بعض اوقات تو اُن کی دعاء سُن کر آنکھوں میں آنسو آجاتے کہ یا  اللہ  اس بزرگ کو کیسی مبارک اور اچھی فکر نصیب ہو گئی ہے حدیث شریف کا مفہوم ہے جسے آخرت کی فکر نصیب ہوجائے  اللہ  تعالیٰ اُسے دنیا کی فکروں سے خلاصی عطاء فرما دیتے ہیں آخرت کی فکر نصیب ہوجانا دراصل آخرت کی کامیابی کی ایک بڑی نشانی ہے ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم مسلمانوں کوحکم دیا ہے کہ موت کو یاد کیا کرو جو لوگ اصلاح نفس کے لئے کسی بزرگ سے بیعت ہوتے ہیں وہ اپنے شیخ سے’’فکر آخرت‘‘ کا تحفہ لیا کریں آخرت بن گئی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا آج بڑے بڑے صاحب نسبت بزرگوں کے پاس لوگ صرف دنیا بنانے کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور اُن سے وہ اصل چیز حاصل نہیں کرتے جو ہمیشہ ہمیشہ کام آنے والی ہے ٹھیک ہے صحت کے تعویذ بھی لیں، رزق میں برکت کے وظیفے بھی پوچھیں مگریہ بھی سوچیں کہ دنیا کی صحت اور رزق کتنے دن کا ہے؟ اگرہم اس  اللہ  والے سے آخرت کا کوئی تحفہ لے لیں تو وہ زندگی میں بھی کام آئے گااور مرنے کے بعد بھی مگر افسوس کہ آخرت کی فکر بہت کم لوگوں کو ہے ہر جگہ بس دنیا ہی کے لئے رش لگا ہوا ہے اوردنیا ایسی بے وفا ہے کہ کسی کو اپنے پاس ٹکنے نہیں دیتی اور نہ خود کسی کے پاس ٹکتی ہے فلاں بزرگ بڑے پہنچے ہوئے ہیں، ان کی دعاء کی برکت سے میری دکان چل پڑی ہے فلاں بزرگ کے تو کیاکہنے بچے کو ملازمت نہیںمل رہی تھی انہوں نے تعویذ دیا اب میرا بیٹا بینک میں منیجر لگ گیا ہے فلاں بزرگ تو بڑے اونچے کمال والے ہیں میری بیٹی کا داخلہ نہیں ہو رہا تھا انہوں نے عمل کیا اب بیٹی سکالرشپ پر ھنگری میں پڑھنے گئی ہوئی ہے بس یہی تذکرے ہیں اور یہی چرچے ایسے ایسے  اللہ  والے جو تھوڑی سی توجہ سے انسان کا دل مدینہ پاک سے جوڑسکتے ہیں لوگ اُن کے پاس اپنے کاروبار میں برکت کی دعاء کے لئے اصرارکررہے ہوتے ہیں کاش اُن سے قبر کے عذاب سے حفاظت کی دعاء ہی کرالی ہوتی  اللہ  کے بندو! قبر میں تو ضرورجاناہے اور وہاںجانے کے بعد واپسی نہیں ہو گی اور قبرکا عذاب اتنا سخت ہے کہ جب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے صحابہ کرام ڑ کو اُس کی تفصیل بیان فرمائی توان میں سے کئی تو روتے روتے بے ہوش ہو جاتے تھے دنیا میں تو ارد گرد کافی لوگ موجود ہیں قبر میں تو ہم بالکل اکیلے ہوں گے آج اگر ہمیں کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ یہ’’مستجاب الدعوات‘‘ ہے یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو یہ بے وقوفی نہ کریں کہ اُس سے بیٹے کی نوکری، اچھے مکان اور پیسے کی دعائیں کرانے لگ جائیں دنیا کی ضروری دعائیں کرانی بھی ہوں تو آخر میںکرائیں پہلے اپنے اصل مسائل کی فکر کریںحضرت دعاء کر دیں کہ’’ایمان کامل‘‘ نصیب ہو جائے حضرت دعاء فرمادیں کہ جہنم اور قبر کے عذاب سے حفاظت ہو جائے اور جنت میں دخول اوّلی نصیب ہو جائے حضرت دعاء فرما دیں کہ اخلاص نصیب ہو جائے، فکر آخرت نصیب ہو جائے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع نصیب ہو جائے حضرت دعاء فرما دیں کہ  اللہ  تعالیٰ کے راستے کی مقبول شہادت نصیب ہو جائے یہ ہیں ہمارے اصلی مسائلاِن کی فکر کے بعد دنیا کی جائز حاجات کی بات کریں وہ حاجات پوری ہوں یا نہ ہوں گزارہ چل جاتاہے مگر آخرت کی حاجات پوری نہ ہوئیں تو عذاب برداشت کرنا بہت مشکل ہے، بہت ہی مشکل اصلاحی بیعت کرنے کے لئے دیکھ بھال کر’’شیخ طریقت‘‘ کی تلاش کیا کریں ایسانہ ہو کہ دھوکا کھا جائیں اور دین کے نام پر دنیا میں پھنس جائیں صاحب نسبت شیخ کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ اُس کی صحبت میں فکر آخرت پیدا ہوتی ہے اوردین کے لئے قربانی دینے کا جذبہ نصیب ہوتاہے

حضرت میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ قطب الارشاد حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’حضرت اقدس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ممتاز خلفاء کوجہاں فیضانِ سلوک و تصّوف سے سیراب کیا وہاں جذبۂ جہاد و سرفروشی سے بھی سرشار کیا گویا سلوک و تصوف اور جذبۂ حریت دونوں کا تعلق نسبت باطنی ہی سے تھا‘‘(شعر الفراق ص ۷۹)

جو شخص جہاد یعنی قتال فی سبیل  اللہ  کی مخالفت کرتاہو وہ کبھی بھی صاحب نسبت نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اُس کی صحبت سے کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے ہمارے اہل حق میں اس وقت جتنے بھی سلاسل چل رہے ہیں اُن میں سے اکثرکا تعلق حضرت حاجی امداد اللہ  مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے جُڑتاہے یہ دونوں حضرات عملی اور نظریاتی مجاہد تھےدارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سبھی جانباز اور صف شکن مجاہد تھے آپ خود سوچیں کہ ایک شخص جو اسلام کے ایک محکم فریضے کا منکرہو وہ کس طرح سے ’’صاحب نسبت‘‘ ہو سکتا ہے دین تو نام ہے یقین اور قربانی کا جو شخص موت سے ڈرتا ہے اور دین کی خاطر نہ جان کی قربانی دے اور نہ مال کی قربانی پیش کرے وہ کس طرح  اللہ  والا ہو سکتاہے کافروں اور ظالموں کی خوشنودی کے لئے کتابیں لکھنے والے کافروں کے ملکوں میں جاکر اُن کی حکومتوں سے امن ایوارڈ کی بھیک مانگنے والے جہاد کی حُرمت کے فتوے دینے والے کفر اور اسلام کا فرق مٹانے والے کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مسلمان اُن کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیں اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھیں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک  اللہ  والے، صاحب نسبت اور بلند پایہ بزرگ تھے جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان،عزت اور امن کوخطرے میں ڈال کر ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا حضرت شاہ صاحب سچاہتے تو خاموشی سے بیٹھے رہتے اُس وقت برصغیر میں اُن کے شاگردوں اور مریدوں کا بہت بڑا حلقہ موجود تھا مگر  اللہ  تعالیٰ کے ساتھ نسبت کاپہلا تقاضہ دینی غیرت ہے پس اسی دینی غیرت کے تحت حضرت شاہ صاحبؒ نے خود کو مشکلات میں ڈالا وہ جانتے تھے کہ دنیا میں قیام عارضی ہے بزدل بن کر جیو یا بہادربن کر موت نے بہرحال آنا ہے تو پھر کیوں نہ اسلامی غیرت کا عَلَم بلندکر کے اپنی آخرت کو محفوظ اور کامیاب بنایا جائے حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوے نے اُمتِ مسلمہ میں ہزاروں جانباز مجاہدکھڑے فرما دیئے یقیناً ان سب کے اجر میں حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ بھی پوری طرح شریک ہو گئے دوسرے ایک اور عالم تھے مولوی احمدرضا خان بریلوی وہ بھی بزرگ کہلاتے تھے، لوگوں کو مرید بناتے تھے اور لوگوں کی اصلاح کی بات کرتے تھے انہوں نے حکومت برطانیہ کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ایک رسالہ لکھا’’اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام‘‘یعنی انگریز کی حکومت کے باوجود ہندوستان دارالاسلام ہے انگریزی حکومت بہت خوش ہوئی اور انہوں نے مولوی صاحب کو اکرام و اعزاز سے نوازا اب ایسے لوگ کسی میں’’فکر آخرت‘‘ کیسے پیدا کریں گے قیامت بہت قریب ہے، قیامت تیزی سے آرہی ہے ہم میں سے جو بھی مرجاتا ہے اُس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے ہم بھی بہت جلد مرنے والے ہیں  اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو موت کی سختی، عذاب قبر، فتنہ منکر نکیر اور حشر اورجہنم کے عذاب سے بچائے اورہم سب کو جنت الفردوس نصیب فرمائے ’’فکر آخرت‘‘ ایک نعمت ہے اور یہ نعمت اُن  اللہ  والوں کی صحبت میں نصیب ہوتی ہے جو واقعی صاحب نسبت ہوتے ہیں صاحبِ نسبت بزرگ کیسے ہوتے ہیں ملاحظہ فرمائیے سوانح قطب الارشاد کی یہ عبارت:

’’حضرت قطب الارشاد(مولانا رشید احمد) گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ علم و عمل میں حکیم الاُمت شاہ ولی  اللہ  محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  کےمسلک و منہاج پر تھے، جہاد فی سبیل  اللہ  خانوادہ ولی اللّہی کا طغرائے امتیاز رہا ہے، ہندوستان میں سب سے پہلے سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز قدّس سرّہ نے حکومتِ برطانیہ کے خلاف آوازبلند کی، انہوں نے فتویٰ دیا کہ ’’انگریزی اقتدار کے باعث ہندوستان اب دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے‘‘

اسی بنیاد پر امام المجاہدین حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ (م ۱۲۴۶) نے تحریکِ جہاد چلائی، اس کے چند ہی سال بعد ۱۸۵۷ء میں پورے ہندوستان میں انگریز کے خلاف جگہ جگہ جنگ آزادی شروع ہوئی حضرت اقدس گنگوہی قدس سرہ نے اس میں بھرپورحصّہ لیا،چنانچہ اعلیٰ حضرت حاجی امداد  اللہ  مہاجر مکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کمان میں تھانہ بھون کو’’دارالاسلام‘‘ قرار دے کر اعلان جہاد کر دیا گیا، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سپہ سالار اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ قاضی مقرر ہوئے، شاملی کے میدان میں گھمسان کی جنگ ہوئی، اوّل اوّل لشکر اسلام غالب رہا انگریزی فوج کو سخت ہزیمت اُٹھانی پڑی، آخر میں جدید اسلحہ سے لیس انگریزی فوج کامیاب ہوگئی، حضرت ضامن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جنگ میں شہادت سے سرخروئی حاصل کی، اعلیٰ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے وارنٹ گرفتاری جار ی ہوئے، تینوں روپوش ہو گئے، اعلیٰ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک روحانی اشارے کی بناء پر حجازمقدس کو ہجرت کی، حضرت اقدس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ گرفتار ہوئے‘‘ (شعر الفراق ص ۱۹)

اللھم صل علٰی سیدنا محمد عدد من صلی من خلقک وعلٰی الہ وصحبہ و بارک سلم تسلیماکثیراکثیرا

٭٭٭

ضروری سامان

 

اللہ تعالیٰ میرا اور آپ کا سفرآسان فرمائے یہ تو پکّی بات ہے کہ ہم سب نے ’’سفر‘‘ کرنا ہے آئیے اس ضروری سفرکی کچھ تیاری کر لیں اور اس سفر کے لئے کچھ خریدارییعنی’’شاپنگ‘‘ بھی کر لیں

سامان کی فہرست

(۱)     نہلانے کے لئے پانی کا برتن جی ہاں ہم مر جائیں گے تو غسل دیا جائے گا چلیں گھر ہی میں پڑاہوا کوئی برتن کام آجائے گا، نیا خریدنے کی ضرورت نہیں

(۲)     لوٹا یا مگ جس سے پانی بھر کر ہمارے اوپر ڈالا جائے گا ہم خود تو شاور کے نیچے کھڑے نہیںہو سکیں گے اور نہ اپنے اوپر پانی ڈال سکیں گے ،دوسرے لوگ ہی یہ کام کریں گے

(۳)     غسل کا تختہ جی بالکل بیڈ، بستر،پلنگ،صوفے کچھ کام نہیں آئیں گے،بس ایک لکڑی کا تختہ جس پر ہمیںلٹا کر نہلایا جائے گا ویسے عام طورپر ہرمسجد میں موجود ہوتا ہے،خریدنے کی کیا ضرورت ہے،گھروالے بھاگ کر جائیں گے مسجد سے اٹھا کر لے آئیں گے لیجئے کچھ اورپیسے بچ گئے

(۴)     استنجے کے ڈھیلے، تین یا پانچ عدد ویسے ٹشوپیپر سے بھی کام چل جائے گا  اللہ  پاک پردہ رکھے اُس وقت تونہلانے والے ہی یہ کام کریں گے

(۵)     بیری کے پتّے نہلانے کے لئے جو پانی گرم ہوگا اُس میں ڈالیں گے،تاکہ جسم اچھی طرح صاف ہوجائے نہ ملیں تو کوئی حرج نہیں، صابن سے ہی کام چل جائے گا ہم کونسا کسی شادی یا ولیمے میں جارہے ہوں گے ایک کچّے گھر میں جانا ہے اور پھر کبھی واپس نہیں آنا

(۶)     عطر، تین ماشہ نہلانے کے بعد ہمیں لگایا جائے گا

(۷)     روئی،آدھی چھٹانک یہ بھی بہت کام آتی ہے، ناک وغیرہ کے اندر پانی اسی سے پہنچایا جاتا ہے

(۸)     کافور، ۶ ماشہ یہ نہلانے کے بعد ہمارے سجدے والے اعضاء پر لگایا جائے گا

(۹)     تہبند، دوعدد ہمارے کپڑے تو اتار دیئے جائیں گے،یہی تہبند پہنا کر نہلایا جائے گا

(۱۰) مرد کے لئے ایک گز چوڑائی والا دس گز کپڑا اور عورت کے لئے ساڑھے اکیس گز کپڑا

عورتوں کو کپڑوں کازیادہ شوق ہوتاہے نا؟ دیکھیں کفن کے لئے بھی اتنا ساراکپڑا وہ بھی سفید رنگ کا لٹھا

کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام

آپ ڈر تو نہیں گئے؟

 اللہ  تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار موت کی یاد دلائی ہے ہر کسی نے موت کا مزہ چکھنا ہے، موت کا وقت آجائے تو ایک لمحہ کے لئے نہیں ٹل سکتا کافراورمنافق کہیں گے کہ ہمیں دوبارہ زندگی دی جائے ہم نیک اعمال کریں گے مگر جواب ملے گا، کلّا ہرگز نہیں قرآن پاک میں جگہ جگہ موت کا بیان ہے، معلوم ہوا کہ موت کو یاد کرنا اور اُس کی تیاری کرنا بہت اچھا کام ہے اورہمارے آقا، محسن اور محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے تو ہمیں باقاعدہ موت کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہمیں آپس میں یہ باتیں دُھراتے رہنا چاہئیں تاکہ غفلت کی موت سے بچیں

اللھم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت، اللھم ھوّن علینا سکراتِ الموت

مکان کیسا چاہئے؟

مرنے کے بعد ہمیں ایک ’’مکان‘‘ میں بند کر کے سب دوست احباب، نوکر ملازم اور رشتہ دار بھاگ جائیں گے آئیے تھوڑی سی اُس کی پلاننگ کرلیں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مکان میں ہمیں بہت لمبے عرصے تک رہنا ہوگا معلوم نہیں سینکڑوں سال، یاہزاروں سال یا کروڑوں سال  اللہ  تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہم کسی کو لاکھوں، کروڑوں روپے دیں کہ وہ ہمارے ساتھ اس گھر میں ایک رات رہ لے تو کوئی بھی نہیں مانے گا وہ جو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے بغیر ایک لمحہ نہیں ر ہ سکتے وہ دفن کر کے جلدی جلدی چلے جائیں گے تیسری بات یہ ہے کہ اُس گھر میں اگر راحت مل گئی تو وہ قیامت تک چلتی رہے گی اور اگر خدانخواستہ عذاب کا فیصلہ ہو گیا تو اس جگہ کا عذاب بہت سخت اور بہت لمبا ہےچوتھی بات یہ ہے کہ یہ گھر روزآنہ ہمیں آوازیں دیتا رہتا ہے کہ میں تنہائی ،غربت اور وحشت کا گھر ہوں اب سوچیں کہ کیا کیا جائے؟ کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم قبر میں جائیں ہی نہ؟ ایسی تو کوئی صورت ممکن نہیں قبر تو ہرکسی کو ملنی ہے جس جگہ بھی لاش کو آخری قرار ملا وہی قبر ہو گی وہ مٹی کا گھرہو،پانی کی تہہ ہو، کسی پرندے یا جانور کا معدہ ہو یا کوئی بھی جگہ معلوم ہوا کہ ہم قبر سے بچ تو نہیں سکتے پھر ایساکیوںنہ کریں کہ ابھی سے قبرکے بارے میں پوری معلومات لے لیں دنیا کے مکان کے لئے ہم کتنی معلومات لیتے ہیں حالانکہ یہاں تو بس چند سال یا چنددن رہنا ہوتاہے پھر ہم اس بات کی معلومات لے لیں کہ اچھی قبر کیسے ملتی ہے اور قبر کے عذاب سے حفاظت کیسے ہوتی ہے احادیث میں آیا ہے کہ مؤمن کی قبر جنت تک کھل جاتی ہے سبحان  اللہ  اتنا بڑا بنگلہ اور کافر ومنافق کی قبر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ انسان کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں توبہ، توبہ اتنی تنگ کوٹھڑی اور آخری کام ہم یہ کریں کہ قبر کی روز فکرکیا کریں اور عذاب قبر سے بہت زیادہ پناہ مانگاکریں بس جس آدمی کو قبر کی فکر دنیا کے مکان سے زیادہ نصیب ہو گئی اُس کے تو مزے ہو جائیں گے انشاء  اللہ اور جو دنیا کے مکانوں، پلاٹوں میں الجھ کر قبر سے غافل رہا اُس پر  اللہ  تعالیٰ ہی رحم فرمائیں کہ کیسی حقیقت سے آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے

مکان کا نقشہ

ہمارے اس مکان کے جو نقشے شریعت نے پاس کئے ہیں وہ دو طرح ہیں

(۱)     لحد یعنی بغلی قبر اس میں پہلے زمین کو نیچے کی طرف کھودتے ہیں اور پھر قبلہ کی طرف اندر ایک خانہ بناتے ہیں، جس میں میت کو رکھا جاتاہے یہ نقشہ زیادہ پسندیدہ ہے مگر اس میں زمین زیادہ چاہئے ہوتی ہے کراچی وغیرہ بڑے شہروں میں تو کوئی اس کی تمنا ہی نہ کرے وہاں پلاٹ بہت مہنگے ہیں اور قبرستان بہت چھوٹے ہیں ہر طرف عارضی اور فانی بلڈنگوں کا حرص اورسیلاب ہے اس لئے وہاں ایسی قبر ملنا مشکل ہے

(۲)     شق یعنی صندوقی بس زمین کو نیچے کی طرف کھودیں گہرائی تو میت کے قد کے برابر ہو لیکن اگر رشتہ دار زیادہ ’’بیزی‘‘ ہوں اور ان کو جلدی جلدی اپنے کاروبار پرجانا ہو تو پھر میت کے قد سے آدھا گڑھا بھی کافی ہے یہ تو ہوئی گہرائی باقی رہی چوڑائی تو وہ بس میت کے آدھے قد کے برابربہت ہے

اللھم انی اعوذبک من فتنۃ عذاب القبر اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر

لیجئے یہ ہے نقشہ نہ ٹی وی لاونچ، نہ کچن، نہ لان اورنہ اٹیچ باتھ اور گیراج قسمت اچھی ہوئی تو یہی گڑھا جنت کا ایسا باغیچہ بن جائے گا کہ اُس کے مقابلے میں کیا وہائٹ ہاؤس اور کیا تاج محل اور اگر بد نصیبی نے گھیرلیا تو یہی کچا مکان آگ کا تندور بن جائے گا یا  اللہ  رحم، یا  اللہ  رحم، یا  اللہ  رحم ویسے کبھی کبھی اپنے اس گھر کا نقشہ سوچا کریں، بہت مزے کے آنسو نکلیں گے اور دنیا کی کئی پریشانیوں اور سوچوں کو بہا کر لے جائیں گے

چلیں کلاتھ مارکیٹ ہو آئیں

جب ہم مرجائیں گے اور یقیناً مریں گے، دل چاہے یا نہ چاہے تو ہمارے تمام کپڑے قینچی سے کاٹ کر اُتار لئے جائیں گے اور ہمیںنہلا دُھلا کر ایک تھری پیس سوٹ پہنایا جائے گا اچھا نہیں ہے کہ ہم اپنا تھری پیس سوٹ ابھی سے خرید کر رکھ لیں ہمارے حضرت قاری عرفان صاحبؒ اپنا کفن ہر وقت ساتھ رکھتے تھے ہم اُن سے ملنے جاتے تو دیکھتے کہ کفن ساتھ رکھاہوا ہے یہ منظر بہت اچھا لگتا تھا کہ اصل سفر کی تیاری کرنے والوں کو ہی اچھا سفر نصیب ہوتاہے ہم اُن کو چند دن کے لئے’’مدرسہ‘‘ میں لے گئے تو انہوں نے اپنا کفن ساتھ رکھا لوگ کہتے ہیں موت کی اتنی زیادہ فکر سے دنیا کے کام خراب ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ غلط ہے موت کی فکر سے تو دنیا کے کام ٹھیک ہوتے ہیں،تیزہوتے ہیں ا   ور اچھے ہوتے ہیں جانے والا آدمی تمام کام جلدی کرتا ہے، ایمانداری سے کرتاہے اور ٹھیک کرتا ہے اچھا چھوڑیں موت کی باتوں کو ہم اپنے ’’تھری پیس ڈریس‘‘ کی بات کرتے ہیں مردحضرات کے لئے یہ تین کپڑے (تھری پیس) مسنون ہیں

(۱)     ازار اس کی لمبائی سر سے پاؤں تک ہو

(۲)     لفافہ یا چادر یہ ازار سے چار گرہ زیادہ ہو

(۳)     قمیص یا کفنی یہ زبردست اسٹائل کا کُرتہ ہوتا ہے،اس میں نہ آستین ہوتی ہے نہ کلی بس درمیان میں سے کاٹ کر سر داخل کرنے کی جگہ بنا دیتے ہیں یہ گردن سے پاؤں تک لمبا ہوناچاہئے

اچھا ہو گاکہ ہم ابھی سے خود جا کر شاپنگ کر لیں، بعد والے کیا پتا ٹھیک خریدیں یا نہ

اور خواتین کا ڈریس’’فائیو سٹار‘‘ یعنی پانچ ستاروں پرمشتمل ہونا چاہئے

(۱)     ازار

(۲)     لفافہ

(۳)     قمیص

ان سب کی تفصیل تو آپ نے اوپر پـڑھ لی مزید دوکپڑے اور ہوں

(۴)     سینہ بند بغل سے رانوںتک اور چوڑا اتنا ہو کہ بند ھ جائے

(۵)     سر بند یا اوڑھنی اسے خمار یعنی دوپٹہ بھی کہتے ہیں یہ تین ہاتھ لمبا ہو

خواتین کے پاس ویسے تو کپڑے کافی ہوتے ہیں اگر یہ ’’فائیو سٹار‘‘ سوٹ بھی خرید کر رکھ لیں اور کبھی کبھی اس کو دیکھا کریں تو انشاء  اللہ  بہت فائدہ ہو گا خصوصاً جب لڑائی کا موڈ ہو بازارجانے کا شوق ہو، دل زیادہ پیسے مانگ رہا ہو نماز میں سستی ہو رہی ہو موبائل یا کمپیوٹر کھیلنے کے لئے دل بہک رہا ہو تب اپنا یہ جوڑا دیکھا کریں اور اس کے بعد والے حالات کو سوچا کریں

اللھم اَجِرنا مِنَ النَّار، اللھم اَجِرنا مِن النَّار

ایک اندر کی بات

ایک راز کی بات بھی سُن لیں دنیا میں جو کچھ ہم نے اب تک بنا لیا ہے اورمرتے دم تک جو کچھ بنائیں گے اس میں سے کچھ بھی ہمارے ساتھ نہیں جائے گا آپ کہیں گے یہ کون سی رازکی بات ہے، یہ تو سب کو معلوم ہے عرض یہ ہے کہ اگر یہ بات سب کو معلوم ہوتی ہے تو لوگ صرف دنیا ہی کیوں بناتے زبان سے سب کہتے ہیں مگر اکثرلوگ دنیا ہی کی فکر میں لگے ہوئے ہیں قبر اورآخرت کے لئے اُن کے پاس نہ وقت ہے اورنہ پیسہ اس لئے یہ راز کی بات خود کو بھی یاد دلا رہا ہوں اور آپ سب کو بھی کہ مکان، دکان، کوٹھی، کار، کپڑے، زیور سارا سامان یہاںرہ جائے گا اور پیچھے والوں میں تقسیم ہو جائے گا ہمارے ساتھ بس وہی کچھ جائے گا جو ہم اپنی زندگی میں اپنے مالک کی رضا کے لئے خرچ کردیںگے ہمارے ساتھ جانے والی چیزوں کی ایک مختصر فہرست یہ ہے

(۱)     صدقہ جاریہ

(۲)     ایسا علم جس سے لوگ نفع اٹھا رہے ہوں

(۳)     صالح اولاد کی دعائیں اور اعمال

(۴)     مجاہد کی پہرے داری اور جہاد کااجر یہ قیامت تک قبر میں پہنچتا رہے گا

(۵)     قرآن پاک اگر اُسے یاد کیا اوراُس کے ساتھ وفا کی

(۶)     حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ انتہائی درجے کی خاص محبت

 اور ہر طرح کے وہ نیک اعمال جو ہم نے اخلاص کے ساتھ کئے

 سفربہت قریب ہے اپنا سامان دیکھ لیںکہ ساتھ لے جانے کے لئے کیا کیا تیار کر لیا ہے

باقی آئندہ انشاء  اللہ

سوچا تھا کہ آج اس سفر کی بات پوری ہو جائے گی مگروقت بھی ختم ہو گیا اور کالم کی گنجائش بھی زیادہ لمبا لکھا جائے تو پڑھنے والوں کو ہر اگلی بات پڑھتے ہوئے پچھلی بات بھول جاتی ہے ویسے بھی بزرگوںنے لکھا ہے کہ مفید باتوں کو کئی بار پڑھا جائے تب دل میں بیٹھتی ہیں سفر آخرت کے موضوع پر کئی باتیں باقی ہیں  اللہ  تعالیٰ نے زندگی اور توفیق عطاء فرمائی تو انشاء  اللہ  کسی اگلی مجلس میں عرض کردی جائیں گی میدان جہادمیں لڑنے والے مجاہدین کا معاملہ کافی آسان ہے اگر امانت، اطاعت اور اخلاص کے ساتھ جہاد کریں تو اُن کے لئے آخرت اورقبر کی منزلیں صرف آسان ہی نہیںمزیدار بھی ہوں گی اور اگر شہادت مل جائے پھرتو کیاکہنے؟ نہ سوال نہ جواب، نہ پوچھ نہ تاچھ، نہ خوف نہ تنگی بس مزے ہی مزے اور اڑانیں ہی اڑانیں ہم سب  اللہ تعالیٰ سے مقبول شہادت مانگا کریں اور خود کو شہادت کا مستحق بنانے کے لئے نفاق کی ہرقسم سے بچاکریں آج کا سبق توبس اتنا ہے کہ میں اور آپ دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر کریں اور دنیا سے زیادہ آخرت کی دعائیں مانگاکریں

ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار ربنا اصرف عنا عذاب جہنم ان عذابھا کان غراماآمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علیٰ محمد النبی الامی البشیر النذیر وعلی الہ و صحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

دلچسپ مناظر

 

  اللہ  تعالیٰ کے سامنے آسمان و زمین کی ہر چیز عاجز ہے آج کی مجلس میں چند دلچسپ مناظر پر بات ہو گی آئیے پہلا منظر دیکھتے ہیں

 ایک شخص جنگ میں کودا اُس کے ہمراہ لاکھوں فوجی، ہزاروں ٹینک اور سینکڑوں جنگی طیارے اورخطرناک میزائل تھے اسباب کی حد تک فتح اُس کے قدموں میں تھی مگرمیدان جنگ کچھ اور ہی خبریں سنا رہا تھا ہر دن فوجیوں کے تابوت، گرتے ہوئے طیارے اور زمین پر بکھرتے ٹینک قصّہ بہت طویل ہے، مختصر یہ کہ فتح کا خواب ٹوٹ گیا اور شکست ایک بَلا کی طرح بال کھولے اس پر حملہ آور ہو گئی جنگ کا سردار چاہتا تو میدان میں کچھ اور عرصہ ڈٹا رہتا مگر اُس نے بچی کھچی عزت بچا کر بھاگنے کا فیصلہ کیا آسمان پر چمکتے سورج نے وہ حسین منظر بھی دیکھا جب سوویت یونین کا آخری فوجی دریائے آمو سے پار جا رہا تھا اور سوویت فوجوں کے جرنل نے ایک بار پیچھے مڑ کر افغانستان کو دیکھا اور گردن جُھکا کر آگے کی طرف روانہ ہو گیا جنگ ہارنے والا سردار’’گورباچوف‘‘ یکایک ہیرو سے زیرو ہوا جنگ کیا ہاری کہ مُلک بھی ہار گیا اور سوویت یونین کئی آزادریاستوں میں تقسیم ہو گیا ’‘’گوربا چوف‘‘ کا نام ’’بدنامی‘‘ کا استعارہ تھا یہاں تک کہ ہمارے ہاں بھی ہارنے والے شخص کو’’گوربا چوف‘‘ کا لقب دیا جاتا تھا دنیا میں جب کوئی کسی کو ذلیل کرنا چاہتا تو اُسے ’’گوربا چوف‘‘ کہہ کر پکارتاجی ہاں’’گوربا چوف‘‘ کے لفظ میں ذلّت، شکست، ناکامی ،رسوائی اور عبرت کی کئی کہانیاں سمٹ چکی تھیں اور یہ ہمارے زمانے کا سب سے زیادہ بدنام لفظ بن چکا تھا مگر پھر منظر بدل گیا آج کل گوربا چوف کا پھر بول بالا ہے افغانستان میں مار کھانے والے امریکی اور نیٹو حکام’’ گوربا چوف‘‘ کو اپنا استاد قرار دے چکے ہیں گوربا چوف کے بیانات سے اخبارات کی زینت ہے اور کیمروں کے فلش گوربا چوف کے شفّاف سر پر لائٹیں نچھاور کر رہے ہیں دیکھا آپ نے یہ دنیا کیسی عجیب جگہ ہے اور دنیا کے کفارکس قدر بے بس ہیں نیٹو والے گوربا چوف سے بھاگنے کا گُر سیکھ رہے ہیں اور گورباچوف گردن تان کر کہہ رہا ہے کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ افغانستان کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے تم لوگوں کو یہاںسے نکلنا ہی ہوگا، اچھا ہے کہ مزید نقصان اٹھانے سے پہلے نکل جاؤنیٹو اتحاد نے گوربا چوف کا مشورہ مان لیا ہے اور اب انخلاء کی تیاریاں زوروں پر ہیں واقعی عجیب منظر ہے کل تک یہ نعرہ گونجتا تھا

’’شکست خوردہ گورباچوف مُردہ باد‘‘

 اورآج یہ نعرہ گونج رہاہے

شکست خوردہ اتحادی لشکروں کا خیر خواہ استاد گوربا چوف زندہ باد

 آئیے اب اس سے بھی زیادہ ایک اور دلچسپ منظر دیکھتے ہیں:

 طالبان کا ایک بہت اہم کمانڈر آج کل امریکہ اور نیٹو اتحاد سے مذاکرات کر رہا ہے یہ خبر پہلے اندر ہی اندر چلتی رہی ایک چونکا دینے والی پر اسرار خبر اس خبر نے’’کرزئی‘‘ کی نیندیں اڑا دیں کہ اگر طالبان اورنیٹو میں مذاکرات شروع ہو گئے تو میرا کیا بنے گا؟ پاکستان حکومت کے بھی چھّکے چھوٹ گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے مذاکرات شروع ہیں اور ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا یہ خبر پہلے ہلکی تھی مگرپھر گرم اور تیز ہوتی گئی حتیٰ کہ مجاہدین بھی آپس میں کہتے تھے  اللہ  خیر کرے کون ہے جو بِک گیا ہے پھر یہ مذاکرات اہم دور میں داخل ہوئے تو امریکہ اور نیٹو کے جرنیل اپنی فتح کو چھپا نہ سکے انہوںنے میڈیا کو تفصیلات بتانا شروع کر دیں کہ ایک بہت بڑے طالبان کمانڈر آج کل ہمارے پاس کابل میں آ، جارہے ہیںاور بات چیت کافی آگے بڑھ گئی ہےجرنیلوں سے یہ رازپھسلا تو امریکی حکومت نے بھی اس عظیم الشان فتح کو چھپانا مناسب نہ سمجھا امریکہ کے وزیر دفاع بھی بول اٹھے کہ جی ہاں بات چیت بہت کامیاب جارہی ہے کئی دن تک سی این این اور بی بی سی پر اسی خبر کا چرچہ تھا اوربرطانیہ والے تو خوش تھے کہ ان کا بُوڑھا جرنل لیمب اپنے جال میں بڑی مچھلی پھنسا لایا ہے مذاکرات کی کامیابی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے صدر کرزئی نے امریکہ اور نیٹو کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیئے کرزئی کا خیال تھا کہ اگر طالبان امریکہ کے ساتھ مل گئے تو پھر اُسے افغانستان میں زندہ رہنے کے لئے ابھی سے’’ جہادی بیانات‘‘ شروع کر دینے چاہئیں

 بس اسی گرما گرمی، خوشی اور پریشانی میں اچانک مذاکرات کی خبر میڈیا سے غائب ہو گئی میڈیا والے سمجھے کہ شاید مذاکرات کسی نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور عنقریب کوئی اہم اعلان ہونے والا ہےمگر پھر پتا ہے کیا ہوا؟؟ اچانک یہ خبرآئی کہ جو شخص طالبان کمانڈر بن کر نیٹو اور امریکہ سے مذاکرات کر رہا تھا وہ ایک’’بہروپیا‘‘تھا جی ہاں ایک بہروپیا دنیا کے سینتالیس ملکوں کو کئی ماہ تک بیوقوف بناتا رہا رازیہ کُھلا کہ پاکستان میں مقیم ایک شخص نے امریکہ اور نیٹو سے رابطہ کر کے بتایاکہ وہ مُلّا اختر منصور ہے اور وہ امریکہ اور نیٹو سے مذاکرات کرناچاہتا ہے ملّا اختر منصور طالبان کے اہم کمانڈر ہیں اور حضرت ملّا برادر کی گرفتاری کے بعد وہ طالبان شوریٰ کے انتظامی سربراہ ہیں نیٹو جو افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے، فوراً اس بہروپیے کی باتوں میں آگیا اور پھر تو’’بہروپئے خان‘‘ کے مزے ہو گئے نیٹو کے خصوصی طیارے اُسے کابل پہنچاتے اور پھر وی آئی پی طیارے اُسے واپس کوئٹہ چھوڑجاتے اس دوران پانی خرچہ بھی خوب چلا اور بہروپئے کو مختلف مدّات میں کروڑوں ڈالر دیئے گئے بہروپئے نے ان مذاکرات میں نیٹو کے خوب حوصلے بڑھائے اور اُسے سمجھایا کہ بس ہاتھ کھُلا رکھو میں اب تک اتنے لوگوںکو خرید چکا ہوں اور کچھ پیسے اور دو تاکہ مزید لوگوں کو خرید سکوں اورعنقریب کابل کے کسی بڑے اسٹیڈیم میںطالبان کے اہم کمانڈر نیٹو کے سامنے سرنڈر ہونے والے ہیں کئی ماہ کی لوٹ مار کر کے وہ بہروپیا امریکہ اور نیٹو کو انگوٹھا دکھا کر بھاگ گیا اور ان کو اب پتا چلا ہے کہ وہ ملّا اخترمنصور نہیں تھا

واہ ری ٹیکنالوجی دعوے خدائی کے اور ہے تو اندھی

آئیے اب تیسرے منظر پر ایک نظر ڈالتے ہیں پہلے آپ سب سے معذرت کہ اگر کسی شخص نے اپنے بچے کو پیمپر پہنا کر اپنے سر پر بٹھایا ہواہو اور وہ پیمپر ’’لیک‘‘ ہو جائے یعنی تھوڑا سا پھٹ جائے تو اُس شخص کا کیا بنے گا؟ سبق یہ ملا کہ کسی کو سر پر نہیں بٹھانا چاہئے مگر اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو کون سمجھائے انہوں نے امریکہ کو اپنے سرپر بٹھا رکھا ہے اور اب جب کہ امریکہ’’لیک‘‘ ہوا ہے تو ان سب کے منہ اور چہرے غلاظت سے بھر گئے ہیں آپ کومعلوم ہوگا کہ انٹرنیٹ کی ایک سائٹ’’وکی لیکس‘‘ نے امریکہ کی کئی لاکھ خفیہ دستاویزات ’’لیک‘‘ کر دی ہیں اور آج کل ہر طرف ان دستاویزات کاچرچہ ہے ہم نے کافی غور سے ان معلومات کو پڑھا ہے جوان دستاویزات کے ذریعہ منظرعام پر آئی ہیں معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم شرارت کا حصہ ہے اور امریکہ خود ہی ان دستاویزات کو شائع کر رہا ہے بات دراصل یہ ہے کہ امریکی نظام سلطنت اس وقت کافی درہم برہم ہے امریکہ کے گورے سامراجی ایک کالے صدر کو برداشت نہیں کر پارہے عراق اور افغانستان کی بے نتیجہ جنگ نے امریکی معیشت کو گنجا کر دیا ہے اور امریکی معاشرہ ایک خوفناک نسلی اور مذہبی تفریق کی طرف بڑھ رہا ہے ایسے حالات میں امریکہ نے اپنے اُن مسلمان اتحادیوں پر اپنا غصہ نکالا ہے جو اتنا کچھ کھا کر بھی امریکہ کے کام کو آسان نہ کر سکے ان دستاویزات میں کرزئی کے لئے طرح طرح کی گالیاں ہیں ہمارے زرداری صاحب کی شان میں بھی گستاخی بکی گئی ہے نواز شریف صاحب کو خطرناک قرار دیاگیا ہے سعودی شاہ عبد اللہ  کے کئی راز افشا کئے گئے ہیں امارات اور بحرین کے حکمرانوں کے دلچسپ بیانات بھی سامنے لائے گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران کو مسلم دنیا کا ہیرو بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے ان دستاویزات میں پاکستان کی آئی ایس آئی اور فوج کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے اور سعودیہ کے ’’سُنّی کردار‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے امریکہ چاہتا تھا کہ یہ سب باتیں دنیا کے سامنے آجائیں مگر وہ اپنی زبان سے کس طرح کہتا چنانچہ یہ ڈرامہ رچایا گیا کہ امریکی فوج اور امریکی دفتر خارجہ کی لاکھوں دستاویزات چوری ہو گئی ہیں اور چورنے یہ تمام دستاویزات ویب سائٹ پر نشر کر دی ہیں

 کیا یہ کہانی دل کو لگتی ہے؟ ایک عام سے پولیس تھانے کے کاغذات چوری کرنا آسان کام نہیں ہوتا چہ جائیکہ اتنے بڑے ملک کے حسّاس کاغذات یوں دن دھاڑے چوری ہو جائیں اور عجیب بات یہ ہے کہ چور کانام پتا بھی ساری دنیا کو معلوم ہے اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ چور نے کئی دن پہلے دھمکی دی کہ میں یہ معلومات انٹرنیٹ پرنشر کررہا ہوں امریکہ چاہتاتھا تو چور کو پہلے ہی پکڑ لیتا اور اُس سے اپنے کاغذات برآمد کرا لیتا انٹرنیٹ کا نظام بھی امریکی قبضے میں ہے امریکہ چاہتا تو پورے نیٹ نظام کو ہی جام یا ختم کر دیتا مگرکچھ بھی نہیں ہوا امریکہ صرف اس ویب سائٹ کے خلاف دکھاوے کے بیانات دیتا رہا اور ویب سائٹ نے وعدے کے مطابق تمام خفیہ دستاویز نشرکر دیں اور اب ہمارے ملکوں کے حکمران اپنے چہرے اور منہ دھوتے پھر رہے ہیں کہ امریکہ بالکل اُن کے سر پر بیٹھ کر ’’لیک‘‘ ہواہے  اللہ  تعالیٰ ہم سب کو کافروں کی ذہنی اور جسمانی غلامی سے بچائے کہ اس میں آخرت کی ناکامی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھی ذلّت ہے ہمارے حکمرانوں نے اگر اب بھی امریکی غلامی نہ چھوڑی تو اسی طرح مزیدرُسواہوتے رہیں گے کئی ایک دلچسپ مناظر اور بھی بالکل سامنے ہیں مگرآج اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں بے شک عقل والوں کے لئے ان مناظرمیں بڑی عبرتیں ہیں

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد النبی الامی الفاتح و علیٰ الہ وصحبہ و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

کمالات

  اللہ  تعالیٰ حضرت شاہ ولی  اللہ  محدث دہلوی اور اُن کی اولادپر اپنی خاص رحمت فرمائے  حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے خاندان نے دین اسلام کی بہت مقبول خدمت کی ہے  میرے مرشد حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بیان میں ارشاد فرمایا:

’’ہندوستان میں مغلوں نے بڑی لمبی حکومت کی،ان میں بڑے بڑے بادشاہ کشور کُشا گزرے ہیں، قاعدہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے تو اُن کو بھی اپنی کوتاہیوں کے سبب زوال کا سامنا کرنا پڑا، اس موقع پر  اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایک بڑے روحانی اور دینی پیشوا حضرت شاہ ولی  اللہ  ؒ کو پیدا فرمایا جنہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا،  اللہ  تعالیٰ نے اس خاندان سے بڑا عظیم کام لیا اور ہندوستان میں اسلام کی بقا کا ان حضرات کو سبب بنایا حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہیدس بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ بڑی یگانہ روزگار (یعنی منفرد) شخصیت کے مالک تھے سید احمد شہیدسکی تحریک جہاد و اصلاح کے روح رواں تھے، بالاکوٹ میں حضرت سید احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہی شہید ہوئے، آپ س کا مزار بھی وہیں ہےتو یہ حضرت اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ہیں کہ جن کے دل میں  اللہ تعالیٰ نے جذبۂ جہاد اور جذبہ اصلاح و تبلیغ کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو قرآن مجید سے بھی ایک خاص شغف اور تعلق تھا، پوری تقریر اور بیان، قرآن مجید کی کسی سورت کے گرد گھومتا تھا، کبھی سورۃ کہف پر بیان ہے تو سارے مطالب بیان کر رہے ہیں، کبھی سورۃ مریم، کبھی سورۃ آل عمران، پوری پوری سورت ایک وقت میں بیان کرتے تھے، ہماری طرح کے بیان نہیں ہوتے تھے کہ بیان میں سب کچھ ہوتا ہے قرآن نہیں ہوتا اور عوام بھی شوقین نہیں تو حضرت شاہ اسماعیلؒ نے ایسا زمانہ پایاجو مغلوں کا آخری دورتھا اور مسلم حکمرانوں کی حیثیت کاغذی شیر کی سی رہ گئی تھی،عملاً انگریزوںکا اقتدارپرقبضہ تھا، مسلمانوں کی دینی اور ذہنی سطح پستی کا شکار تھی، ایسے حالات میں عقیدے کمزور پڑجایا کرتے ہیں اور غیر ضروری اور بے اصل چیزیں دین کا حصّہ بنا لی جاتی ہیں اور لوگ شعر شاعری کے چکر میں پڑجاتے ہیں،مسلمانوں کے جو اکثر نامور شعراء ہیں سب اسی زمانے کے ہیں، دھلی کی مشہور زمانہ جامع مسجد میںاُس زمانے تبرکات کی زیارت کرائی جاتی تھی اور ان ’’تبرکات‘‘ کی سند کاکچھ پتا نہ تھا بس خود تراشیدہ ہی تھے یہ نمائش خاص خاص مواقع محرم، رمضان، ذی الحجہ وغیرہا میں کرائی جاتی تھی،بادشاہ، ملکہ ،شہزادے، شہزادیاں سب اس میں شریک ہوتے تھے، جہاںجہاں سے یہ تبرکات لے جائے جاتے لوگ کھڑے ہو جاتے اور ان کی تعظیم کرتے کہ یہ حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم  کے بال مبارک ہیں، انگوٹھی ہے، کھڑاؤں ہیں، ٹوپی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی جو اصل چیز ہے یعنی ایمان اور عمل وہ تو متروک اور شرک و بدعات اور غیر ضروری رسوم دین کا حصہ بن گئیں ایک ایسے موقع پر جبکہ شاہ اسماعیل شہیدس جامع مسجد دھلی میں ایک حوض کے پاس وعظ فرما رہے تھے، محرم کی ابتدائی تاریخیں تھیں اور یہ موقع تبرّکات، کی زیارت کاتھا، توعین وعظ کے دوران ان تبرّکات کا دورہوا، شاہ صاحب سنے وعظ جاری رکھا اور ذرا التفات نہ فرمایا، نہ رُکے، نہ کھڑے ہوئے، وعظ میںشریک لوگ بھی آپ کی اتباع میں بیٹھے رہے یہ ایک بڑی بات تھی جو ظاہر ہوئی تھی، بادشاہ کو خبر دی گئی اور شاہ صاحب شہیدس کی دربار میں طلبی ہوئی، بادشاہ نے غصے کے عالم میں وضاحت طلب کی تو شاہ اسماعیل شہید صاحب س نے بڑے سکون سے جواب دیا کہ دیکھئے میرے ہاتھ میں اس وقت قرآن مجید اور دوسرے ہاتھ میں حدیث کی سب سے بڑی کتاب صحیح بخاری شریف ہے مگر آپ اس کی تعظیم میں کھڑے نہ ہوئے، نہ ہی آپ نے ان کو دیکھ کر کوئی غیر معمولی کام کیا، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سب سے بڑے معجزات اور تبرّکات ،قرآن و حدیث ہی ہیں کہ اب تک ہو بہو ہمارے درمیان موجود ہیں اوران میں کوئی تغیر و تبدّل نہیں ہوا تو یہ زیادہ لائق تعظیم ہیں نہ کہ وہ تبرکات کہ جن کی کوئی اصل اور سند آپ کے پاس موجود نہیں، قرآن و حدیٖث کے تبرّکات ہونے پر ہمارے پاس لا تعداد دلائل قاطعہ موجود ہیں اور جو تبرکات آپ کے پاس ہیں، اُن کی ایک سند بھی آپ کے پاس نہیں ہے، غرض شاہ صاحب س نے بادشاہ کو لاجواب کر دیا(رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت کے عظیم مقاصد از حضرت مفتی ولی حسنؒ)

حضرت شاہ ولی  اللہ س کے چار بیٹے تھے اور چاروںماشاء  اللہ  باکمال

(۱)     حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی  رحمۃ اللہ علیہ

(۲)     حضرت شاہ رفیع الدین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ

(۳)     حضرت شاہ عبدالقادر صاحب  رحمۃ اللہ علیہ

(۴)     حضرت شاہ عبدالغنی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ

حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  کے کمالات پر مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اپنے والد گرامی کی طرح بلند پایہ محدث، مفسّر اور مصنف تھے، خواب میں حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سے بیعت کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ نے حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ  کے منامی حکم پر ایک کتاب بھی لکھی آپ کی تفسیر ’’تفسیر عزیزی‘‘ نہایت ہی مقبول خلائق ہوئی، اورآپ کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ اب تک فریقِ مخالف کو لاجواب کئے ہوئے ہیں علم اور تقویٰ کی برکت سے آپ کا روحانی مقام اس قدر بلند تھا کہ جنّات کے بادشاہ بھی حاضر خدمت ہوتے تھے اور لوگوں کے حق میں آپ کی سفارش کو قبول کرتے تھے جنّات کے بارے میں آپ کے واقعات پڑھے جائیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے آپ کی قوّتِ حافظہ بھی بہت مضبوط تھی اور حاضر جوابی بھی زور دارتھیساٹھ ستر ہزار اشعار زبانی یاد تھے اور بر محل اوربر موقع شعر فرماتے تھے جہاد کے ساتھ آپ کی محبت عروج پر تھی  اللہ  تعالیٰ نے برصغیر میںجہاد کے احیاء کا کام آپ کے مرید حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ  آپ کے بھتیجے حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ  اور آپ کے داماد حضرت مولانا عبدالحیٔ رحمۃ اللہ علیہ  سے لیا

حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک صاحب نے کچھ سوالات کئے

 آئیے ان سوالات کو پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مرشد المجاہدین فخر المحدّثین حضرت شاہ عبدالعزیزؒ ان کا کیا جواب ارشاد فرماتے ہیں ممکن ہے حضرت شاہ صاحبؒ کے جوابات سے ہمارا بھی کوئی مسئلہ حل ہو جائے

سوال: کس چیز کی برکت سے گناہوں سے نفرت اور طاعت کی طرف رغبت ہوتی ہے؟

جواب: اس مقصد کے لئے

 لا حول ولا قوۃ الا ب اللہ  العلی العظیم

 کثرت سے پڑھنا بہت مفید ہے اور کلمۂ توحید کی نفی و اثبات اورشد و مد کے ساتھ اس کی ضرب قلب پرلگانی اور’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ‘‘ اور ’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘  صبح شام پڑھنا(کمالاتِ عزیزی)

سعدی فقیر عرض کرتا ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا ب اللہ  پڑھنا بھی کافی ہے اور اس کے ساتھ ’’العلی العظیم‘‘ ملا کر پڑھنا بہت اچھا ہے گناہوں سے نفرت اور دوری کے لئے، روزآنہ کم از کم پانچ سو بار پڑھنا چاہئے، حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ پانچ سو کی تعداد تلقین فرماتے تھے اگراس تعداد کو توجہ اور اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے، تو سخت سے سخت فاسق دل بھی مسلمان ہو جاتاہے اور اس میں ایمان کی حلاوت آنا شروع ہو جاتی ہےمگر یہ تمام مقصد ایک دن میں حاصل نہیں ہوتا کم از کم چالیس دن اہتمام کے ساتھ پابندی کرنی چاہئے اسی طرح جوکسی مصیبت میں گرفتار ہو یا اُس کے دل پر ہموم اور تفکرات کا بوجھ رہتا ہو تووہ روزآنہ ایک ہزار بار اسکا اہتمام کرے کلمۂ توحید سے مُراد ’’ لاالہ الا  اللہ ‘‘ ہے ضرب لگانے کا طریقہ نہ آتا ہو توویسے ہی توجہ سے اس کاورد کریں، حضرت مجدّد الف ثانیؒ بارہ سو بار روزآنہ کی تلقین فرماتے تھے یہاں تک کہ جب آپ جہانگیر کی قیدمیں تھے تب بھی وہاں سے خطوط لکھ کر اپنی اولاد اور متعلقین کو اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے لا الہ الا  اللہ  ہر عمل کی بنیاد ہے، اس کے بغیر تو کوئی عمل قبول ہی نہیں ہوتا

اہل دل فرماتے ہیں کہ ہر نیک عمل کرنے کے بعد ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کا ورد کر لیا جائے تو اُس عمل کے قبول ہونے کی امید پکی ہو جاتی ہے مثلاً نماز کے بعد تین بار پڑھ لیں تو انشاء  اللہ  نماز قبول یہی معاملہ ہر عمل کا ہے مجاہدین کو خاص طور سے اس ’’ کلمہ طیبہ‘‘ کااہتمام کرنا چاہئے کیونکہ اُن کی محنت اسی کلمے کی سربلندی کے لئے ہے

امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا  اللہ  (الحدیث)

’’لا الہ الا  اللہ ‘‘  کے ساتھ ہر بار یا ہر ننانوے کے بعد ایک بار’’ محمد رسول  اللہ ‘‘ بھی ملا لیا کریں حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نےآخری عمل قرآن مجید کی آخری دو سورتوں کا بیان فرمایا کہ صبح شام سورہ الفلق اور الناس پڑھنی چاہئے کم سے کم مقدار تین بار ہے، درمیانی مقدار گیارہ بار ہے اور اعلیٰ مقدار ایک سو بار ہے ان دوسورتوں کے فضائل، مناقب، اثرات اور فوائد بہت زیادہ ہیں اور بیان سے باہر ہیں بس اتنا سوچ لیں کہ قرآن عظیم الشان کا اختتام ان دوسورتوں پر ہوا ہے اور یہ  اللہ  رب العالمین کا کلام ہیں

سوال:             گناہوں کی معافی اور خاتمہ بالخیر کے لئے کیا پڑھنا چاہئے؟

جواب:           گناہوں کی معافی کے لئے ’’استغفار‘‘نہایت مفید ہے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے کلمہ طیبہ کا ذکر کرنا اور نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنا نہایت مفید ہے۔

سوال:             قبر کے عذاب سے بچنے کے لئے کیا پڑھنا چاہئے؟

جواب:           سورۃ تبارک الذی، عشاء کی نماز کے بعد ہمیشہ سونے سے قبل پڑھنی چاہئے اورسورۃ آلم سجدہ کی بھی عشاء کی نمازکے بعد تلاوت کرنی چاہئے۔

سوال:             نفس امّارہ اور شیطان لعین کے فریب سے بچنے کے لئے کیاپڑھنا چاہئے؟

جواب:           ’’لا حول ولا قوۃ الا ب اللہ ‘‘ زیادہ پڑھنا چاہئے اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(دونوں سورتیں) صبح اور مغرب کی نماز کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ ہمیشہ پڑھنی چاہئے۔

 سوال:            رمضان کے علاوہ اور کس مہینہ میں روزہ رکھنا چاہئے؟

جواب:           رمضان کے علاوہ یہ روزے بہترین ہیں

8            نویں ذی الحجہ کا روزہ اس کا بہت ثواب ہے اور اس سے دو برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں

8            دسویں محرم یعنی عاشورہ کے روزے کا بھی نہایت ثواب ہے، اور اس سے ایک برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

8            ہر مہینے میں تین روزے رکھنا مسنون ہے بہتر ہے کہ یہ چاند کی تیرھویں، چودھویں، پندرھویں تاریخ کو رکھے جائیں۔

8            عشرہ ذی الحجہ کے نو روزے، پیرکے دن کا روزہ، پندرہ شعبان کا روزہ اور شوال کے چھ روزے بھی مستحب ہیں

سوال:             کوئی درود شریف اور استغفار ہمیشہ وظیفہ کرنے کے لئے ارشاد ہو

جواب:           اگرہو سکے تو ہر رات، ورنہ شب جمعہ ہمیشہ سو مرتبہ یہ درود شریف پڑھنا چاہئے

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ  وَاٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم

 اور بہترین استغفار’’سید الاستغفار ‘‘ ہے سوتے وقت اُس کے مطلب اور معنیٰ کا لحاظ کر کے پڑھنا چاہئے(کمالات عزیزی)

 ماشاء  اللہ  بہت عمدہ نصیحتیں ہیں،  اللہ  تعالیٰ عمل کی توفیق عطاء فرمائے سوالات اور جوابات مزید بھی ہیں جو ’’کمالات عزیزی‘‘ میں مذکور ہیں، جو دیکھنا چاہے وہاں ملاحظہ فرما لے نیا اسلامی سال شروع ہو رہا ہے، آپ سب کومبارک،  اللہ  تعالیٰ اسے اُمت مسلمہ کے لئے خیر وبرکت اور فتوحات والا سال بنائے آمین یا ارحم الراحمین

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ  وَاٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم تَسْلِیْمًا کَثَیْرًا کَثَیْرًا

٭٭٭

اَہلِ عزیمت

 

اللہ تعالیٰ کے ’’ انبیاء‘‘ کو تو دین کی خاطر بہت ستایا ہی گیا مگر انبیاء د کے علاوہ بھی جو کامیاب لوگ گزرے ہیں وہ بھی بہت سی آزمائشوں اور تکلیفوں میں ڈالے گئے ہم جب بھی حضرات صحابہ کرام کے واقعات پڑھتے ہیں، امت مسلمہ کے بڑے فقہاء، محدثین ا ور ائمّہ کے حالات پڑھتے ہیں تو آزمائشوں اور تکلیفوں کی عجیب عجیب داستانیں سامنے آتی ہیں مگر ان کامیاب لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کسی آزمائش میں پڑ کر اپنے راستے سے ہٹا ہو یا اُس نے اپنے برحق مؤقف کو تبدیل کیا ہو آج ساری دنیا کے مسلمان حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ، حضرت امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں اور آج تک اُن سے دین سیکھتے ہیں آپ صرف ان چارائمّہ کے حالات ہی پڑھ لیں تو حیران ہوں گے کہ یہ تمام جلیل القدر حضرات خود مسلمانوں کے ہاتھوں ستائے گئے ان حضرات کو ستانے والے تو تاریخ کا کُوڑا بن گئے جبکہ ان حضرات کے صدقات جاریات کے چشمے آج بھی رواں دواں ہیں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نام ’’ نعمان‘‘ اور لقب ’’امام اعظم‘‘ ہے ۸۰ھ یا ۷۱ھ کوفہ میں پیدا ہوئے کوفہ وہ شہر ہے جس میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام نے سکونت اختیار فرمائی ان میں سے چوبیس ’’اصحاب بدر ‘‘تھے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  تابعی ہیں آپ نے تقریباً چھبیس صحابہ کرام کی زیارت کی خاندان نبوت میں سے ’’ واقعہ کربلا‘‘ کے بعد کئی افراد نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی خصوصاً محمد ذوالنفس الزکیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے مدینہ منورہ میں اور اُن کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کوفہ میں ’’ منصور‘‘ کے خلاف تحریک کھڑی کی حضرت امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ نے برملا اُن کی تائید کی، مشہور ہے کہ ’’ منصور‘‘ نے حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ’’قاضی القضاۃ‘‘ بنانے کی پیشکش کی مگر امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ نے انکار فرما دیااس کے نتیجے میں منصورنے آپ کو۱۴۷ھ میں قیدکرادیا اورآپ کوکھانے میں زہردیاجب اس زہر کا اثر حضرت امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ نے محسوس کیا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں انتقال فرمایا یہ رجب ۱۵۰ھ کا زمانہ تھا آج دنیا میں ایک بھی ’’ منصوری‘‘ نہیں جبکہ  ’’ احناف‘‘ کی تعداد الحمد للہ کروڑوں میں ہے کچھ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک نعوذ باللہ حدیث کے خلاف ہے وہ لوگ کم علم اور نادان ہیں حضرت امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ کے علم، تقویٰ، امامت اور فقاہت کی گواہی تو امام المجاہدین حضرت عبداللہ بن مبارک  رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل محدث بھی دیتے ہیں بات آزمائش کی چل رہی تھی چھوٹی چھوٹی آزمائشوں پر دین بدلنے والے، راستہ چھوڑنے والے اور جھک جانے والے لوگ کامیابی سے دور ہو جاتے ہیں ہمیں چاہیے کہ امت مسلمہ کے کامیاب افراد کے حالات پڑھتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ سے اُن جیسی استقامت مانگا کریں دوسرے بڑے امام حضرت امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ ہیں آپ کا نام مالک، والد کا نام انس اور کنیت ابوعبد اللہ ہے آپ کا لقب امام دارالہجرۃ ہے امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۹۳ھ مدینہ طیبہ میں ہوئی آپ بلندپایہ محدث، فقیہ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں خاندانِ نبوت کے ایک بزرگ محمد ذوالنفس الزکیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے جب مدینہ منورہ میں ’’ منصور‘‘ کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کا ساتھ دیا جس کے نتیجہ میں والیٔ مدینہ جعفر بن سلیمان نے غضبناک ہو کر حضرت امام صاحب کی پشت پر ستّر کوڑے لگوائے، ان کوڑوں نے آپ کی پیٹھ کو خون سے بھر دیا اور دونوں ہاتھ مونڈھوں سے اتر گئے، اس کے بعد آپ کو سوار کر کے پورے شہر میں گھومایا گیا جی ہاں رُسوا کرنے کے لئے مگر امام دارالہجرۃ اُس وقت بھی ’’ کلمۂ حق‘‘ بلند فرما رہے تھے جعفر بن سلیمان دنیا سے چلا گیا مگر امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ سے آج بھی مسلمان فیض یاب ہوتے ہیں ہمارے غیر مقلد بھائی بہت زور لگاتے ہیں کہ اماموں کی تقلید نہ کرو مگر آخر میں خود بھی تقلید پر مجبور ہوتے ہیں اور بہت بُری طرح ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ان چارائمّہ پر اتفاق اور اتحاد نصیب فرمایا اور ان ائمّہ کرام کی تحقیقات پر ساری امت مسلمہ نے اعتماد کیا مسلمانوں کو چاہیے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کے دامن سے وابستہ ہو کر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور جماعتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جُڑے رہیں انشاء اللہ بہت سے تفرقوں اور فتنوں سے بچے رہیں گے بات آزمائشوں کی چل رہی تھی آج ماشاء اللہ امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر دنیا کے کئی ملکوں میں بڑے بڑے ادارے، جامعات اور دارالتصنیف چل رہے ہیں الجزائر اور افریقہ کے کئی ممالک میں امام صاحب کی تقلید کی جاتی ہے جبکہ خود یہ جلیل القدر امام پوری زندگی کرائے کے مکان میں رہے تیسرے بڑے امام حضرت امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  ہیں آپ کا نام ’’ محمد‘‘ والد کا نام ادریس اور کنیت ابوعبداللہ ہے آپ کا لقب ’’ ناصر السنّہ‘‘ ہے آپ رجب ۱۵۰ھ بمقام غَزّہ پید اہوئے اور رجب ۲۰۴ھ چوّن سال کی عمر میں وفات پائی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عجیب صلاحیتوں سے نوازہ کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں علم فقہ اور حدیث کے مستند امام قرار پائے آپ جوانی کے زمانے نجران کے عامل بھی رہے مگر اپنے گورنر کو ظلم و ستم سے روکنے کی وجہ سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا دراصل والیٔ یمن بہت سفاک و ظالم تھا، حضرت امام صاحب اس کو ظلم و زیادتی اور بے انصافی سے روکتے تھے اُس نے ناراض ہو کر ہارون رشید کو خط لکھا کہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ’’ علوی سادات‘‘ کے ساتھ ہیں، جس سے بڑا اندیشہ ہے جب یہ خط ہارون رشید کو ملا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا اور والیٔ یمن کو خط لکھوا یا کہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور اُن کے تمام ساتھیوں کو فوراً دارالخلافہ بھیج دو حکم کی تعمیل ہوئی اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ  گرفتار کر کے دربار خلافت بھیجے گئے حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے دربار میں جا کر اُن کو رہائی دلائی اور اُن کو اپنے حلقۂ درس میں لے گئے جہاں دیکھتے ہی دیکھتے محمد بن ادریس  رحمۃ اللہ علیہ امت مسلمہ کے بڑے امام ’’ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ بن گئے آج مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، سری لنکا اور معلوم نہیں کن کن ملکوں میں حضرت امام شافعی کے کروڑوں مقلدین ان کے لئے صدقہ جاریہ ہیں امت مسلمہ کے چوتھے بڑے امام حضرت امام احمد بن حنبلؒ ہیں ربیع الاوّل ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے اور ربیع الاوّل ۲۴۱ھ ستتر سال کی عمر میں انتقال فرمایا آپ علم، زُہد، توکّل اور استغناء میں منفرد شان رکھتے تھے ساری زندگی کسی بادشاہ اور خلیفہ کا عطیہ قبول نہ فرمایا جب عباسی خلفاء کے زمانے میں ’’ خلق قرآن‘‘ کا فتنہ سرکاری سرپرستی میں گرم ہوا تو حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  اسکے مقابلے میں سینہ سپر ہو گئے حالانکہ اس سے پہلے آپ کے عباسی خلفاء سے اچھے تعلقات تھے، خلیفہ متوکل آپ کا عقیدت مند اور قدر دان تھا اس کے حکم پر آپ نے چند دن اسلامی لشکر میں قیام بھی فرمایا، اس عرصہ میں آپ شاہی مہمان تھے آپ کے لئے خلیفہ کی طرف سے روزآنہ پُر تکلف کھانا آتا تھا جس کی قیمت کا اندازہ ایک سو بیس درہم روزانہ تھا مگر امام صاحب نے کبھی اس کھانے کو چکھا تک نہیں، آپ مسلسل روزے رکھتے رہے مگر جب عباسی خلفاء نے فتنہ خلق قرآن کی باقاعدہ سرپرستی شروع کی تو امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا نتیجہ ظاہر ہے حکمران آپ کے دشمن ہو گئے آپ کو اٹھائیس ہفتے تک قید رکھا گیا، اس دوران آپ کو کئی بار کوڑوں سے مارا گیا امام بخاری سفرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ امام احمدس کو ایسے کوڑے لگائے گئے کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی کو لگتا تو چیخ مار کر بھاگتا امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کوڑوں سے لہولہان ہو جاتے مگر اپنے موقف پر ڈٹے رہتے اور فرماتے’’ اعطونی شیئًا من کتاب اللہ  وسنۃ رسولہ حتیٰ اقول بہ‘‘ یعنی میرے سامنے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کوئی دلیل پیش کرو تاکہ میں اس کو مان لوں ماشاء اللہ کیا عظیم استقامت ہے بڑھاپے کی حالت میں اتنا تشدد بالآخر ظلم کرنے والے ہار گئے اور فتنہ خلق قرآن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی موت آپ مر گیا دین کی خدمت کرنی ہو اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنی ہو تو آزمائشیں اور  تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

الٓمّٓ (۱)اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(۳)

 ترجمہ:               کیا لوگ خیال کرتے ہیں، یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی، اور جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ہم نے انہیں بھی آزمایا تھا، پس اللہ تعالیٰ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو سچے ہیں اور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں‘‘(سورۂ عنکبوت)

’’ یعنی زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا کچھ سہل ( یعنی آسان) نہیں جو دعویٰ کرے( وہ) امتحان وابتلا کے لئے تیار ہو جائے، یہ ہی کسوٹی ہے جس پر کھرا کھوٹا کسا جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ سب سے سخت امتحان انبیاء کا ہے، اُن کے بعد صالحین کا ، پھر درجہ بدرجہ اُن لوگوں کا جو اُن کے ساتھ مشابہت رکھتے ہوں، نیز امتحان آدمی کا اُس کی دینی حیثیت کے موافق ہوتا ہے، جس قدر کوئی شخص دین میں مضبوط اور سخت ہو گا اُسی قدر امتحان میں سختی کی جائے گی‘‘( تفسیر عثمانی)

ان تمام باتوں کو پڑھ کر آپ ڈرنہ جائیں کہ پھر تو سچا مسلمان بننا کافی  تکلیف دہ کام ہو گا ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی ہمت اور طاقت سے بڑی آزمائش نہیں ڈالتے اور جن لوگوں کو اللہ پاک اپنے دین کی سربلندی کے لئے منتخب فرماتے ہیں، ان کے لئے تکلیفوں کو برداشت کرنا بھی آسان فرما دیتے ہیں بات یہ سمجھانا مقصود ہے کہ سچے دین اور دین کے سچے کام میں آزمائشیں اور تکلیفیں آتی ہیں آج وبا چل پڑی ہے کہ دین کا کام تو کیا جائے مگر امن خطرے میں نہ پڑے اور کچھ لوگ اپنے ظاہری امن کو بہت بڑی چیز سمجھ کر اُن اہل عزیمت پر تنقید کرتے ہیں جو آزمائشوں سے گزر چکے ہیں کچھ دن پہلے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ  نے کیا کیا رائے بریلی سے اُٹھے اور بالاکوٹ میں آ کر شہید ہو گئے اور کام ختم اس لئے جہاد نہیں کرنا چاہیے بلکہ پر امن کام ڈھونڈنے چاہئیں عجیب ظالمانہ جَہالت ہے، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ  کا کام تو ماشاء اللہ آج بھی جاری ہے جبکہ اُن کی شہادت کو دو سو سال ہو رہے ہیں کوئی مخصوص نام تو ضروری نہیں ہے انڈیا والوں نے کئی ناموں پر پابندی لگا دی اب امریکہ کو شوق چڑھا ہے کہ ہر آئے دن کسی مسلمان تنظیم یا مسلمان رہنما پر پابندی لگا دیتا ہے ان دنوں الرحمت ٹرسٹ اور اُس کے کئی خدّام پابندی کی زد میں ہیں ان سب کو مبارک کہ ماشاء اللہ آپ اس زمانے میں ظالموں، قاتلوں اور کافروں کو کھٹک رہے ہیں ’’ لیغیظ بہم الکفار‘‘ کہ کافر اُن سے غیظ کھاتے ہیں یہ حضرات صحابہ کرام کی صفت ہے اب جو بھی حضرات صحابہ کرام کے راستے کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے یہ کیفیت نصیب فرماتے ہیں ان پابندیوں سے نہ کوئی خوف ہے اور نہ الحمدللہ کوئی ڈر  نہ انشاء اللہ ان کے خلاف کوئی اپیل کی جائے گی اور نہ اُن کو ہٹانے کے لئے کوئی بھیک مانگی جائے گی زمین تنگ ہوتی ہے تو ہو جائے، ایک دن تو انشاء اللہ اُس کا سینہ کھل ہی جائے گا مجاہدین تو ماشاء اللہ اہل عزیمت ہیں، اپنے جسموں کے ٹکڑے کرانے کی خواہش دل میں لئے پھرتے ہیں مجاہدین کی قیادت کو بھی عام مجاہدین سے بڑھ کر باہمت ہونا چاہیے یہ بالکل اچھا نہیں لگتا کہ  ٹی وی اور میڈیا پر آ کر صفائی دی جائے کہ ہمارا جہاد سے کوئی تعلق نہیں اور ہماری درخواست ہے کہ ہم سے پابندی ہٹا لی جائے زندگی کے چار سانس ہیں ممکن ہے جھکنے اور دبنے سے پابندی توہٹ جائے مگر پابندی ہٹتے ہی موت آ جائے

پاک ہے وہ اللہ جس کے قبضے میں ہر چیز کی حکومت ہے اور ہم سب نے اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے

 وصلی  اللہ  تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سید نا محمد وآلہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

کشکول

 

 اللہ  تعالیٰ کادین یقیناً غالب آئے گا جی ہاں کسی کو شک کرنے کی ضرورت نہیں، دین اسلام ماضی میںبھی غالب آیا اورآئندہ بھی غالب ہو گا اورآج بھی جو مسلمان اس دین پر پورا عمل کر رہے ہیں وہ عزت اور شان کی زندگی گزار رہے ہیں دین کے راستے میںآنے والی آزمائشیں اور تکلیفیں، ناکامی نہیں، کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اچھا اپنی بات کوتھوڑا ساروک کرپہلے ایک واقعہ پڑھتے ہیں

مکّہ مکرمہ میں دین کی دعوت چل رہی تھی خاموشی کے ساتھ، چپکے چپکے،اندرہی اندر مشرکین مکّہ اس دعوت اور محنت کے خلاف پوری طرح بیدارتھے،جسکے بارے میں پتا چلتاہے کہ مسلمان ہوا ہے تو اُسے بہت ستاتے مسلمان چھپ چھپ کر عبادت کرتے تھے خوش نصیب روحیں جمع ہو رہی تھیں، مسلمانوں کی تعداد اڑتیس تک پہنچ چکی تھی جی ہاںپوری دنیا میں کُل اڑتیس مسلمان اتنی کم تعداد مگر جوش اور حوصلہ دیکھیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کاایک ہی اصرار ہے کہ یا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اب ہمیں کُھل کر کام کرنا چاہئے دو کم چالیس افراد کی جماعت اور کُھل کر کام  اللہ  اکبر کبیرا بے شک انسان کے دل سے دنیا کی خواہشات ختم ہو جائیں تو وہ بہت بہادر اور طاقتور بن جاتا ہے یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں، ابھی سچے دل سے شہید ہونے کا عزم کریں اور شہادت کا راستہ پکڑیں پھر نہ مایوسی قریب آئے گی اور نہ کم ہمتی نہ کوئی غم ستائے گااور نہ کوئی پریشانی پلاٹوںپر قبضے کے لئے عدالتوں کے چکر لگانے والے یہ بات نہیں سمجھ سکتے محبوبہ کو راضی کرنے اور پھنسانے کے لئے لمبے لمبے وظیفے کرنے والوں کو اس کی سمجھ نہیں آسکتی لوگوں سے عزت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کی انگوٹھیاں، تعویذات اور عملیات باندھنے والے بے چاروں کو کیا پتا؟ مالدار ہونے کے لئے چلّے کاٹنے اور ویزوں، اقاموں کے پیچھے دوڑنے والوں کو کیا خبر؟ دنیا کی ہر خواہش انسان کو کمزورکرتی ہے، پریشان کرتی ہے، اورکم ہمت بناتی ہے وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا فانی ہے آپ اپنے پسند کی بلڈنگ بنالیں مگر رہنا قبر میں ہی پڑے گایا  اللہ  ہم سب کو سمجھ نصیب فرما حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کا اصرار تھاکہ اب ہماری تعداد ماشاء  اللہ  کافی ہو چکی ہے ہمیںکھلم کھلا دعوت دینی چاہئے اورکعبہ شریف میں سب کے سامنے عبادت کرنی چاہئے بارگاہ رسالت سے جواب ارشادہوتا تھا:

یا ابا بکر انا قلیلٌ

اے ابو بکر! ابھی ہم تھوڑے ہیں

مگر قرآنِ پاک نازل ہو رہا تھا قرآن پاک اپنے ماننے اور سمجھنے والوں کو بہت بہادر بنا دیتا ہے اور جناب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مبارت صُحبت تھی مکہ والے صحابہ کرام بھی کتنے خوش نصیب اور اونچی قسمت والے تھے کہ انہیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صُحبت مبارکہ زیادہ نصیب ہوتی تھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جذبہ اور عزم اپنی آخری حدوںکو چُھو رہا تھا بالآخر کھلم کھلا دعوت کی اجازت مل گئی

 اللہ  اکبر کبیرا!کیسا عجیب منظر ہو گا ساری دنیا کفر سے سیاہ تھی اور یہ چند روشن روحیں کعبہ شریف میں جمع ہورہی تھیں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے اڑتیس جانثار صحابہ کعبہ شریف میں تشریف لے آئے مشرکین کا ہجوم تھا، حضرات صحابہ کرام بکھر بکھر کر بیٹھ گئے لیجئے امتِ مسلمہ کی طرف سے اسلام کا پہلا علانیہ خطبہ شروع ہو رہا ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے کھڑے ہو کر تمام لوگوں کو  اللہ  تعالیٰ کی طرف اور رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف دعوت دی توحید اور رسالت کی دعوت جی ہاں سچے اسلام کی دعوت مشرکین نے فوراً حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  پر حملہ کر دیا خود اُن کو اور باقی تمام مسلمانوںکو بہت تشدّد کا نشانہ بنایا  اللہ  اکبر کبیرا کامیاب لوگ ناکام لوگوںکے ہاتھوں سے مارے پیٹے جارہے ہیں کوئی ہے جو اس منظر سے کامیابی اور ناکامی کا مفہوم سمجھ سکے؟ مسجد حرام، کعبہ شریف کا پڑوس اور مسلمانوں کی آہیں اور درد بھری سسکیاں اُس دن مسلمانوں کو بہت سخت ماراگیا خصوصاً صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اُن پر تو مشرکین ایسے ٹوٹے کہ اُن کو گویا کہ روند ڈالا عتبہ بن ربیعہ نے اپنے جوتوںکے ساتھ اور جوتے جوڑ کر اُن کوبھاری اور وزنی کر دیا اور پھر یہ جوتے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مبارک چہرے پر تابڑ توڑ برسنے لگے وہ مشرک آپ  رضی اللہ عنہ کے پیٹ پر چڑھ کر اُچھل کود رہا تھا اور چہرے پر جوتے برسارہاتھا صدیق اکبرؓ کا چہرہ مبارک سوج گیا

حتی ما یُعرف وجہہ من انفہ

چہرہ اتنا سوج گیا کہ ناک اور چہرہ ایک برابر ہوگئے

 رضی  اللہ  عنہ، رضی  اللہ  عنہ،رضی  اللہ  عنہ

اے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ! آپ کی عظمت،قربانی اور ایمان کو سلام بے شک آپ کے ہم سب مسلمانوں پر بہت احسانات ہیں سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کی قوم ’’بنو تیم‘‘ والے دوڑ کر آئے انہوں نے مشرکین کو ہٹایا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کو چادر میں ڈال کر اُن کے گھر لے گئے سب کو یقین تھا کہ یہ بس چند سانسوں کے مہمان ہیں قبیلے والے اور والد محترم اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح تھوڑا سا ہوش آجائے، بالآخر ہوش آگیا اور صدیق کی زبان سے پہلا جملہ نکلا:

’’مافعل رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘

 رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیا حال ہے؟

 یہ جملہ سن کر قوم والے بُرا بھلا کہنے لگے اور وہاں سے اٹھ گئے اور اُن کی والدہ سے کہہ گئے کہ ہم تو جاتے ہیں آپ ان کو کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کریں لوگ چلے گئے محبت کرنے والی ماں بیٹے پر جُھک پڑی کہ بیٹا کچھ تو کھالو چند گھونٹ تو پی لو جواب میں بس ایک ہی جملہ کہ:

’’رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیا حال ہے؟‘‘

 ماں نے کہا بیٹا! مجھے اُن کا کچھ علم نہیں فرمایاامی جی آپ اُم جمیل بنت خطاب ز کے پاس جاؤ اور اُن سے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حال پوچھ لاؤ غمزدہ ماں جلدی سے اُم جمیل ز کی طرف نکلی،جا کر کہا ابو بکر پوچھتے ہیں کہ محمد بن عبد اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا کیا حال ہے؟ خوف کا زمانہ تھا، احتیاط کا حُکم تھا،انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا اگر تم کہو تو میں تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے کے پاس چلتی ہوں مسلمان بہن نے آکر دیکھا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ    تو زخموں سے روندے پڑے ہیں خطّاب کی بیٹی ، مستقبل کے فاروق اعظم کی بہن، اُم جمیل جی ہاں فاطمہ بنت خطاب جوچند دنوںبعد اپنے بھائی عمر بن خطاب کے اسلام لانے کا ذریعہ بنیں کیسی باہمت! مگر اپنے مسلمان بھائی کو زخموں سے چُور دیکھ کر تڑپ اٹھیں اور بلند آواز سے مشرکین کو بددعائیں دینے لگیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ   نے پوچھا:

’’فما فعل رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘

 یعنی میری فکرچھوڑیں یہ بتائیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اشارے سے عرض کیا کہ آپ کی والدہ سُن رہی ہے ارشاد فرمایا! اِن سے کوئی خطرہ نہیں اُم جمیل رضی اللہ عنہ  نے خوشخبری سنائی:

 سالم،صالح

کہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  خیریت اورسلامتی کے ساتھ ہیں

پوچھا! کہاں تشریف رکھتے ہیں؟ عرض ہوا ’’دارالارقم ‘‘ میں فرمایا میں نے  اللہ  تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ جب تک رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضرنہیں ہوں گا ، نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ پئوں گا دونوں خواتین نے عرض کیا کچھ انتظار کیجئے اس وقت لوگ دیکھتے ہیں جب لوگ گھروں میں دبک گئے تو زخمی صدیق اپنی والدہ کے سہارے گھسٹتے ہوئے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوگئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس حالت میں دیکھا تو آپ کو لپٹا لیا اور بوسے نچھاور فرمائے، باقی مسلمان بھی محبت کے ساتھ آپ پر ٹوٹ پڑے  اللہ  اکبر کبیرا کَل مشرک ظلم اور نفرت کے ساتھ ٹوٹ پڑے تھے اور آج مسلمان محبت کے ساتھ نچھاور ہورہے تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے جب آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے اوپر روتے دیکھا تو عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان یا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی تکلیف نہیں بس اُس فاسق(عتبہ بن ربیعہ) نے میرے چہرے کو تھوڑا سا زخمی کیا ہے یہ میری امی جان ہیں انہوں نے میرے ساتھ بہت بھلائی کی ہے آپ تو یارسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بہت برکت والے ہیں آپ ان کو اسلام کی دعوت دیجئے اور  اللہ  تعالیٰ سے اِن کے لئے دعاء فرمائیے کہ وہ انہیں آپ کی برکت سے جہنم کی آگ سے بچالے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  اللہ  تعالیٰ سے دعاء مانگی اور اپنے صدیق رضی اللہ عنہ  کی والدہ کو دعوت دی تو وہ فوراً مسلمان ہو گئیں ز

 اس واقعہ میں ہم سب مسلمانوں کے لئے بہت سے ’’اسباق‘‘ ہیں مگر آج یہ مبارک ’’واقعہ‘‘ اُن  اللہ  والے دیوانوں کے لئے ہے جو دو چار دن بعد اپنے ’’مرکز‘‘میں جمع ہوکر’’تجدید عہد‘‘ کریں گے یہ کون لوگ ہیں؟

ز             اس زمانے میں پورے دین کی دعوت دینے والے ماشاء  اللہ

ز             جہاد اور نماز کے احیاء کی اذان دینے والے ما شاء  اللہ

ز             سترہ سو شہداء کرام کے ہم پیالہ ساتھی ماشاء  اللہ

ز             مسجدوں اور جیلوں کوآباد کرنے والے دیوانے ما شاء  اللہ

ز             مسلمانوںکی خدمت کرنے والے فقراء ماشاء  اللہ

ز             کافروں سے جہاد کرنے والے مجاہدین ماشاء  اللہ

ز             غزوہ بدر سے سبق اور مثال لینے والے اہل عزیمت ماشاء  اللہ

ز             غزوہ اُحد کے زخموں میں بلندی ڈھونڈنے والے اہل ایمان ماشاء  اللہ

ز             حضرات صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے نقش پا پر سرپٹ دوڑنے والے ماشاء  اللہ

ز             حضرت عبد اللہ  بن مبارک  رحمۃ اللہ علیہ   کی فکر کے امین ماشاء  اللہ

ز             خلافت کے قیام کے لئے اپنے لہو سے جدوجہد کرنے والے ما شاء  اللہ

ز             نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ  اور صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ  کی طرز اپنانے والے ماشاء  اللہ

ز             حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ سے جہاد اور روحانیت سیکھنے والے ماشاء  اللہ

ز             مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کی خدمت کرنے والے ماشاء اللہ

یہ ایک چھوٹا سا قافلہ ہے ماضی کے قافلوں کی مبارک زنجیر کی ایک چھوٹی سی کڑی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم  میں جینے مرنے والا قافلہ اب تک  اللہ  تعالیٰ نے اس قافلے کی بہت نصرت فرمائی شاید ہی اسلام کا کوئی دشمن ایساہو جو انہیںاپنا دشمن نہ سمجھتا ہو الحمدﷲ کفرکے ہر ایوان میں ان کا نام دہشت کی علامت ہے

ترھبون بہ عدو  اللہ  وعدوکم

جو کچھ ہوا صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ کے فضل اور نصرت سے ہوا آئندہ جو کچھ ہو گا  اللہ  تعالیٰ ہی کے فضل اورنصرت سے ہوگا اپنے دلوں پر دنیاکا زنگ نہ لگ جائے شہادت کا راستہ بھول کر دنیا پرستی کی دلدل میں نہ پھنس جائیں اپنے گناہوں کی وجہ سے مبارک قافلے سے محروم نہ ہو جائیں بس انہیں باتوںکی فکر لے کر انشاء  اللہ  دیوانے جمع ہوں گے خوب تلاوت ہوگی، پُرنوربیانات ہوں گے، پر سوز دعائیں ہوں گی ایمان افروز نظمیں اور نعرے ہوں گے

ارے خوش نصیب جوانو تم سب کو ایسی جوانی اور ایسی جماعت مبارک ہو

بس ایک گزارش ہے جب تمہارا دل تمہاری آنکھوں کو اشارہ کر دے اور تمہاری آنکھیں آنسوؤں کو ٹپکنے کی اجازت دے دیں اورتمہاری دعائیں عرش کار استہ دیکھ لیں تو اس وقت اپنے اس فقیر بھائی کو بھی یاد کر لینا ہاں کچھ مقبول دعائیں سعدی فقیر کو بھی دے دینا وہ بھی تو اپنا’’کشکول‘‘اپنے رب کے سامنے تمہارے لئے پھیلائے بیٹھا ہے اور دعاء کر رہا ہے کہ یا  اللہ ! اس اجتماع میں شرکت کرنے والے تمام افراد کی مغفرت فرما ان سب کوجہنم اور نفاق سے برأت نصیب فرما ان سب کوایمان کامل، جنت الفردوس اوردنیا وآخرت کی حسنات عطاء فرما

آمین یا ارحم الراحمین

 اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

جامع مسجد’’سبحان  اللہ ‘‘

 

 اللہ  تعالیٰ’’حق‘‘ ہے اُس کا ہر کام’’برحق‘‘ ہے  اللہ  تعالیٰ ظلم سے پاک ہے وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں فرماتا آج کل سردی خوب برس رہی ہے امریکہ اوریورپ میں تو برف ہی برف ہے اور انڈیا’’دُھند‘‘ میں ڈوبا ہواہے ہزاروں ٹن نمک سڑکوں پر ڈال کر امریکہ اور یورپ میں زندگی رواں رکھنے کی کوشش جاری ہے لوگ ائیر پورٹوں پر پھنسے پڑے ہیں برف ایسی برسی ہے کہ عاشق، عشق کو اور ظالم ظلم کو بھول کر تھراتھر کانپ رہے ہیں  اللہ  تعالیٰ’’سُبحان‘‘ ہے ہم سب بھی دل کی گہرائی سے پڑھ لیں

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

جس مؤمن کی زبان اور دل پر’’سبحان  اللہ ‘‘ جاری رہے، وہ روحانی خزانوں کا مالک بن جاتا ہے جی ہاں ’’سبحان  اللہ ‘‘ آسمان و زمین کی چابیوں میں سے ایک چابی ہے اور یہ کلمہ  اللہ  تعالیٰ کو بہت محبوب ہے سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ  و بحمدہ   شام ہو تو ،  سبحان  اللہ ، اور صبح ہو تو سبحان  اللہ سبحان  اللہ  حین تمسون و حین تصبحون  ماشاء  اللہ  بہاولپورمیں’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ کا افتتاح ہو چکا ہے سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم جی ہاں اس مسجد کا نام ہے ’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا دوکلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں، اور ترازویعنی اعمال تولنے والے ترازو میں بہت وزنی اور  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک بہت محبوب ہیں

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

روزآنہ ایک سو بار سبحان  اللہ  وبحمدہ پڑھیں تو ایک ہزار نیکیاں ملتی ہیں اور سمندر کی جھاگ کے برابر گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ  وبحمدہ سچ بتائیں کہ’’سبحان  اللہ ‘‘ پڑھتے وقت منہ کتنا میٹھا ہو جاتا ہے کیا شہد اور کیا گلاب جامن سبحان  اللہ  کی مٹھاس بہت زیادہ اور بہت لطیف ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ سبحان  اللہ ، الحمدﷲ،لا الہ الا  اللہ ،  اللہ  اکبر سے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے(سردی میں) درخت سے پتّے جھڑتے ہیں آج کل تو ویسے ہی سخت سردی کا موسم ہے برفانی طوفان پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے نیویارک کی طرف بڑھ رہا ہے مشرقی امریکہ پورا آئس کریم بنا ہو اہے نہ جہاز اڑ رہے ہیں اورنہ گاڑیاں چل رہی ہیں جس کو چلنا ہو پھسل پھسل کر اور دھنس دھنس کر چلتا ہے کوئی لاکھ سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر لے  اللہ  تعالیٰ کے سامنے تو سب مجبور اور بے بس ہیں  اللہ  تعالیٰ کی ایک ادنیٰ سی مخلوق تھوڑی سی کروٹ لیتی ہے تو دنیا بھر کی ٹیکنالوجی فیل ہو جاتی ہے  اللہ  تعالیٰ تو سبحان ہے سبحان ہر کمزوری،بے بسی اور عیب سے پاک

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

مشہور صحابی سیدنا ابو ذر غفاری  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاکہ میں آپ کو بتاؤں کہ  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ کلام کونسا ہے؟ میں نے عرض کیاضرور ارشاد فرمائیں فرمایا!  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب کلام ’’سبحان  اللہ  وبحمدہ‘‘ ہے

سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ  وبحمدہ

القلم پڑھنے والے بھائیو! اوربہنو! میں سبحان  اللہ  بار بار اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ میں بھی پڑھتا رہوں اور آپ بھی پڑھتے رہیں سبحان  اللہ  وبحمدہ، سبحان  اللہ  العظیم یوںہمارے لئے بلاشبہ جنت میں درخت لگتے جائیں گے سبحان  اللہ اور ہمارا یہ وقت بہت قیمتی ہو جائے گا سبحان  اللہ بعض اوقات شیطان جب زیادہ پریشان کرے  تو فوراً سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم پڑھنے لگ جایا کریں اور اُس ملعون کو کہا کریں کہ دیکھ ظالم میرا مالک کتنا رحیم اور مہربان ہے کہ اس وقت بھی اُس نے مجھے اپنے محبوب اور پسندیدہ ترین کلام کی توفیق عطاء فرمائی ہے پھر مجھے مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

سُنا ہے کہ جب’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ کی مہم کا اعلان ہو رہا تھا تو ماشاء  اللہ  خوب نعرے گونجے اور جذبات کی بجلی نے سب کا خون گرم اور تیز کر دیا

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

آٹھ ہزار مصلوں والی مسجد سبحان  اللہ ہر مصلے کی قیمت چھ ہزار دو سو پچاس روپے سبحان  اللہ اتنی سی رقم لگا کر قیامت تک کے لئے مسجد کے ایک نمازی کا صدقہ جاریہ

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

کچھ خوش نصیبوں نے نقد خریداری کر لی اور اکثر وعدے کر گئے ہیں  اللہ  تعالیٰ سُبحان ہے سُبحان وہ ہر کمی اورکمزوری سے پاک ہے ایسا سُبحان کہ لمحوں میں اپنے بندے اورمحبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو زمین سے ملأ اعلیٰ اور عرش تک لے گیا

سبحان الذی اسری بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ

اب جو’’سبحان‘‘ سے مدد مانگے گا سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ  پڑھ پڑھ کر اُس کے لئے رزق کے اور توفیق کے دروازے کھل جائیں گے اورجتنے مصلوں کا وعدہ کیا ہے وہ دینا آسان ہو جائیں گے آپ کو تو پتا ہے کہ دل میں نیکی کا پہلا ارادہ  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے آتاہے اورپھر اُس ارادے کو توڑنے کے لئے ’’شیطان‘‘ طرح طرح کے مشورے دینے لگتا ہے مثلاً مسجد کا سنا تو دل میں خیال آیا کہ ایک لاکھ دے دوں میرے لئے قیمتی بن جائیں گے اور آخرت میں کام آئیں گے پھر فوراً دے دیئے تو ٹھیک اور اگر دیر کر دی تو شیطان کہے گا فی الحال پچاس ہزار لگا دو ظالم ایسے ایسے دلائل جوڑ کر مشورے دیتا ہے جیسے سپریم کورٹ بارکونسل کا ’’صدر‘‘ہو  اللہ  سبحانہ و تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو نفس امّارہ اورشیطان ملعون کے شر سے بچائے شیطان ہمارا بڑا خطرناک دشمن ہے یہ تو بہت سے لوگوں کو’’سبحان  اللہ ‘‘ بھی نہیں پڑھنے دیتا کئی لوگ تو گانے گنگناتے رہتے ہیں توبہ توبہ،کتنی فضول حرکت ہے مردہو کر، مسلمان ہو کر ’’لتّا‘‘ جیسی گندگی کے ڈرم کے گانے گنگناتے ہیں اگرمیرے بس میں ہوتاتو میں اپنے سر کی ٹوپی اوررومال مسلمانوں کے قدموں میں ڈال کر اُن کی منّت سماجت کرتا کہ  اللہ  کے لئے ’’انڈین فلمیں‘‘ نہ دیکھاکرو فلمیں تو کوئی بھی نہ دیکھو مگر انڈین فلمیں تو انسان کو مسلمان نہیں رہنے دیتیں شایدہی کوئی فلم ہو جس میں یہ بھگوان کی اور اوپر والے کی، توہین نہ کرتے ہوں یہ ٹھیک ہے کہ اُن کے ہاں بھگوان اور اوپر والا ایک نہیں کروڑوں ہیں مگرفلم دیکھنے والے کے ذہن میں تو ’’خدا تعالیٰ‘‘ کا تصور ہوتاہے اور یہ ناپاک ، نجس، مشرک، ہر چیز میں بھگوان اور اوپر والے کو لاکر ایسی گستاخی بکتے ہیںکہ دیکھنے، سننے والے کا ایمان بھی غارت کر دیتے ہیں قرآن پاک نے اسی لئے’’مشرک‘‘ کو نجس کہا ہے کہ اس کے نزدیک، بھگوان ، معبود یا خدا بس حاجتیں پوری کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے جب چاہا مان لیا اور جب چاہا چھوڑ دیا اور جب چاہا گستاخی بک دی  اللہ ، اللہ  ، اللہ  اللہ  تعالیٰ توعظیم ہیں جبرئیلؑ و میکائیلؑ  اللہ  تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں  اللہ  تعالیٰ مالک الملک ہے اُس کے بارے میں ادنیٰ گستاخی کا دل یا زبان پر آنا انسان کے لئے بدترین ہلاکت ہے مسلمانو! موت قریب ہے انڈیا اور انڈین فلمیں ایمان کے دشمن ہیں  اللہ  کے لئے اپنی حفاظت کرو، اپنے ایمان کی حفاظت کرو انڈین فلموں میں جو چند نام کے’’خان، مسلمان‘‘ گھسے ہوئے ہیں وہ تو ہندوؤں سے بڑے ہندو ہیں بددین، بدکردار، بد شکل اور بدکار ہندوؤں سے اپنی بہنوں، بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں مندروں میں جا کر پوجا کرتے ہیں کیا صرف کوئی عید کی سویاں اور شیرخرما کھانے سے مسلمان ہو جاتا ہے؟ اچھی بات یہ ہے کہ ٹی وی، سینمااور فلموں سے دور رہیں ان فنکاروں میراثیوں کا کچھ پتا نہیں کہ کس وقت کیا بک دیں اور سننے والا بھی اپنے ایمان کو تباہ کر بیٹھے آپ کو لذت اور مزے کی ضرورت ہے توپھر دل کھول کر اور آنکھیں بند کر کے پڑھیں

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

 اورجہاد کی نیت سے ورزش کریں کمیت یا ابلق گھوڑے پر بیٹھیں بہترین اسلحہ سے کھیلیں اور اپنی’’بیگم‘‘ سے تعلقات خوشگوار رکھنے کی محنت کریں

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

بات یہ ہے کہ ہم خود سبحان  اللہ  کو پڑھنے اور حاصل کرنے کے محتاج ہیں  اللہ  تعالیٰ کو ہماری عبادت یا تسبیح کی کیا ضرورت؟  اللہ  تعالیٰ تو ہر احتیاج، ضرورت اور محتاجی سے پاک ہے سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

آسمان پر ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدہ کی حالت میں  اللہ  تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مشغول نہ ہو تسبیح کا مطلب’’سبحان  اللہ ‘‘پڑھنا،  اللہ  تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

حدیث شریف میں آتا ہے جو شخص ’’سبحان  اللہ  وبحمدہ‘‘ ایک سو بار پڑھے تو اُس کے نامہ اعمال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں نیکیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں اور  اللہ  تعالیٰ کا نظام بہت وسیع ہے کوئی نیکی ایک ہزار، کوئی نیکی ایک لاکھ چوبیس ہزار میرے رب کے کلمات کا نظام بہت اونچا اور بہت عجیب ہے اور  اللہ  تعالیٰ کی قدرت، طاقت اور وسعت کو  اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

تھوڑا سا سوچیں کہ قسمت کا معاملہ کتنا عجیب ہے سبحان  اللہ  کہنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ تاجر لوگ سارادن کتنا بولتے ہیں ریڑھیوں والے سارادن کتنی آوازیں لگاتے ہیں آپ اپنے گھر سے دفتر اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جاتے ہوئے کتنی بار سبحان  اللہ  پڑھ سکتے ہیں؟ بس قسمت کی بات ہے  اللہ  پاک جس پر مہربان ہو جائے اُسے یہ سب کچھ سمجھ آجاتا ہے اور پھر اس کی زندگی سبحان  اللہ  اور ذکر  اللہ  سے بھر جاتی ہے حدیث شریف میں ’’سبحان  اللہ ‘‘ پڑھنے کو صدقہ قرار دیاگیا ہے جی ہاں بغیر مال خرچ کئے صدقہ اور ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ سبحان  اللہ   وبحمدہ  کثرت سے پڑھا کرو کہ یہ کلام  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک پہاڑ کی مقدار سونا خرچ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ  وبحمدہ ایک تولا سونا شاید چالیس ہزار کا ہے پہاڑ برابر سونا شک کرنے کی ضرورت نہیں  اللہ  تعالیٰ ہر کمی اور کمزوری سے پاک ہے یہ زمین اور اُس کے تمام خزانے اور اُس کے تمام پہاڑ اور اُس کا تمام سونا  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھرکے پرکے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے فلکیات یا سائنس کی کسی کتاب میں صرف نظام شمسی کو پڑھ کر دیکھیں اور پھر سوچیں کہ جو کچھ ہمیں اپنی کمزور نگاہوں سے نظر آرہا وہ اتنا بڑا ہے تو جو کچھ نظرنہیں آرہا وہ کتنا ہو گا سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

ایک حدیث شریف میں ان لوگوں کے لئے جو کم ہمت، بخیل اور بزدل ہیں فرمایاگیا ہے کہ سبحان  اللہ  وبحمدہ کثرت سے پڑھا کریں تاکہ عبادت، صدقہ اور جہاد میں جو کوتاہی رہ جاتی ہے اس کا ازالہ ہو سکے ویسے بھی یہ کلمات عجیب تاثیر والے ہیں، انسان جس قدر ان کی کثرت کرتا ہے، اسی قدر نیک اور بڑے اعمال اُس کے لئے آسان ہو جاتے ہیں

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

سچی بات یہ ہے کہ’’سبحان  اللہ ‘‘ کے فضائل، فوائد اورمعارف اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی پوری کتاب لکھے تو شاید ایک گوشہ کا احاطہ نہ کرسکے یہ وہ عظیم کلمہ ہے کہ اسے پڑھنے والا کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ اسے رزق کی تنگی آتی ہے ہم فقیرلوگوں نے مسجد شریف کا نام’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ رکھ دیا ہے تاکہ ’’سبحان  اللہ ‘‘ کی برکت سے اس کی تعمیر اورآبادی میں کسی کی محتاجی نہ ہو سبحان کے خوش نصیب بندے خود ہی آکر اپنی آخرت کے گھر کو تعمیر کرنے لگیں اور ’’سبحان  اللہ ‘‘ کی طاقت سے وہ تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں جو بے چینی سے زہریلی کروٹیں بدل رہی ہیں اور اس مسجد کے ہر خادم اور ہر نمازی کو’’سبحان  اللہ ‘‘ کی برکات اور انوارات نصیب ہو جائیں آپ نے وہ قصہ تو سنا ہوگا کہ ایک چور نے چوری سے توبہ کر لی مگر اُس بے چارے کی توبہ بار بار ٹوٹ جاتی تھی تب اُس نے سوچا کہ ایک مرتبہ کسی بڑے رئیس کے گھر چوری کر لوں، کچھ زیادہ مال ہاتھ آئے گا توپھر چوری چھوڑدوں گا قصہ لمبا ہے، مختصر یہ کہ اُس نے ایک بڑے رئیس کے گھر کی ’’ریکی‘‘ کی اورایک رات اُس کے گھر جا گھسا وہ ابھی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے ہی لگا تھا کہ اُسے رئیس اور اُس کی بیوی کی باتیں سنائی دیں چور نے چوری سے ہاتھ ہٹا کر اُدھر کان لگادیئے وہ دونوں اپنی بیٹی’’امۃ السبحان‘‘(سبحان کی بندی) کے رشتے کی بات کر رہے تھے

بیوی نے کہا سرتاج! آپ نے اُس کے رشتے کا کچھ سوچا ماشاء  اللہ  جوان ہو گئی ہے رئیس نے کہا میں خود فکر مندہوں مگر چاہتا ہوں کہ کسی ایسے آدمی سے اُس کا نکاح کر دوں جو نہ منافق ہو، نہ جہنمی اب استخارہ کے بعد یہ ترتیب سوچی ہے کہ آج صبح فجر کی نماز سے مسجد میں نظر رکھوں گا جو آدمی چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کا پابند نظر آئے گا اُس سے ’’امۃ السبحان‘‘ کا نکاح کر دیں گے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو مسلمان چالیس دن تکبیر اولیٰ سے نماز کا اہتمام کرے تو اللہ  تعالیٰ اسے جہنم اور نفاق سے برأت کا پروانہ عطا فرماتے ہیں اگر ایسا آدمی مل گیا اور وہ غریب ہوا تو بھی پروانہیں ہم خود اُسے بڑی کوٹھی اور جائیداد و تجارت دے دیں گے

چور نے یہ گفتگو سنی تو سوچا! لو بھائی! حلال کا مال، حلال کی بیوی اور ایسا سُسرال مل رہا ہے چوری چھوڑو اور چالیس دن اس ’’رئیس آدمی‘‘ کی مسجد آباد کرو گھر جا کر وہ نماز کا انتظار کرتا رہا فجر سے کافی پہلے مسجد کی ’’صف اول‘‘ میں جا بیٹھا اور پھر ہر نماز میں یہی معمول کہ سب سے پہلے جاتا اور سب سے آخر میں نکلتا ادھر رئیس صاحب بھی نظر رکھے ہوئے تھے اور یہی’’چورصاحب‘‘ ان کے معیار پر پورے جارہے تھے چالیس دن ہونے کو تھے رئیس کی بیوی نے پوچھا کہ جناب کوئی نظر آیا؟ رئیس صاحب نے خوشی سے بتایاکہ بالکل! ایک آدمی نظر میں ہے بس شادی کی تیاریاں کرو، چالیس دن پورے ہوتے ہی ایک منٹ کی دیر نہیں لگائیںگے اکلوتی بیٹی ہے داماد کو گھر لے آئیںگے

اُدھر چور صاحب خوب نمازوں میں لگے ہوئے تھے نیت تو’’امۃالسبحان‘‘ اور اُس کے مال کی تھی مگر مالک کے درپر آنے والے خالی ہاتھ کہاں رہتے ہیں وہ عظیم رب جوچالیس دن میں ناپاک نطفے کی حالت تبدیل کر کے انسان کی پیدائش کا خون بنا دیتا ہے اُس نے چالیس دن کے سجدوں سے اُس’’چور‘‘ کو بھی اپنا’’ولی‘‘بنا لیا جیسے جیسے دن گزرتے جارہے تھے اُس کی حالت اور نیت میں واضح تبدیلی آرہی تھی چالیس دن بعد رئیس صاحب اُس کے گھر جا پہنچے اوراپنی پوری بات اُس کے سامنے رکھی اور فرمایا آج سے آپ ہمارے داماد، بیٹے اور جائیداد کے مالک ہیں نوجوان نے سر جھکادیا اور آنسو رواں رئیس صاحب! میں مسجد میں گیا تو ’’امۃ السبحان‘‘ کے لئے تھا مگر شکر ہے کہ مجھے وہاں’’سُبحان‘‘ مل گیا اب نہ مجھے امۃ السبحان کی خواہش ہے اور نہ آپ کے مال کی ضرورت اور پھر اپنی چوری اور اُس رات کی باتیں سننے والا پورا قصہ سنایا اور عرض کیا جناب! آپ کوئی اور رشتہ ڈھونڈ لیں، مجھے تو الحمدﷲ اب منزل مل چکی ہے

رئیس صاحب بھی  اللہ  والے بزرگ تھے فرمایا بیٹے تجھے سبحان مل گیا اور مجھے اپنی ’’امۃ السبحان‘‘ کے لئے ایساہی خاوند چاہئے جسے سبحان مل گیا ہو  اللہ  تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کی اب تم یہ رشتہ قبول کرو

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ کے لئے دل چاہتاہے کہ کسی کو کہنا ہی نہ پڑتا خود اپنی جیب میں اتنے پیسے ہوتے کہ اپنے عظیم ’’سبحان‘‘  اللہ  تعالیٰ کے گھر کو بنا لیتا اور اس احسان پر اُس کا شکرادا کرتا مگر یہ بھی اچھا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا  اللہ  تعالیٰ کئی مسلمانوں کو اس سعادت میں شریک فرمانا چاہتا ہے تو یہ بھی’’سبحان‘‘ کا احسان ہے آواز لگ چکی ہے اہل سعادت تاخیر نہ کریں ایسے موقع روز روزنہیں آتے

سبحان  اللہ  وبحمد ہ سبحان  اللہ  العظیم

اللھم صل علیٰ سیدنا ومولانا محمد وعلیٰٰ آلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

جسے جینا ہو، مرنے کے لئے

تیارہو جائے

 

 اللہ  تعالیٰ تینوں شہید ساتھیوں کے درجات بلند فرمائے یہ تینوں نہ کشمیر میں شہید ہوئے نہ عراق، فلسطین اورافغانستان میں آپ کو پتا ہے کہ کہاںشہید ہوئے؟ پاکستان کے سب سے بڑے شہر’’کراچی‘‘ میں جی ہاں کراچی محاذِ کراچی،مقتل گاہ کراچی، مے خانۂ کراچی کراچی کو کیا نام دوں؟ خونخوار کراچی یا عشق گاہِ کراچی چلیں یہی نام ٹھیک ہے’’عشق گاہِ کراچی‘‘ شہادت سے بڑھ کر اورکونسی حسین اور خوبصورت چیزہو سکتی ہے اگر یہ حُسن کی حور کراچی    میں ملتی ہے تو اے کراچی کی عشق گاہ تجھے سلام!   ؎

نہ لا وسواس دل میں، جو ہیں تیرے دیکھنے والے

سر مقتل بھی دیکھیں گے چمن اندر چمن ساقی

آج آپ مجھے تھوڑا سا معاف کیجئے گا میرے تصور میں تین شہداء ہیں ہنستے،مسکراتے دل لبھاتے شہداء اور ہاں ان میں سے ایک کی انگلی ایک چار سال کی بچی نے پکڑرکھی ہے معصوم شہیدہ وہ بھی خوب ہنس رہی ہے اپنی اور اپنے باپ کی قسمت پر خوشی سے مسکرارہی ہے اور اپنے بدبخت قاتلوں کی بدنصیبی پر قہقہہ لگا رہی ہے یہ پھول جیسی بچی  اللہ  تعالیٰ سے چار سال کی عمرہی لائی تھی ہاں اُس نے جلدی جلدی اپنے شہیدباباکاہاتھ پکڑ کر  اللہ  تعالیٰ کی مہمانی میںجاناتھا مجھے معاف کیجئے گا اس طرح کا منظرآنکھوں میںہو تو میں بہکی بہکی باتیں ہی لکھ سکوں گا چلیں کوئی بات نہیں آج آپ بھی میرے ساتھ بہکتے جائیں    ؎

عجب کیا ہے، یہ بہکی بہکی باتیں رنگ لے آئیں

بہت باہوش رہتا ہے مرا دیوانہ پن ساقی

کراچی کی ایک مسجد میں زمانے کے بڑے ولی، بڑے مصنف اور فقیہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی  رحمۃ اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑکر پورے یقین سے فرمایا تھا میں نے جہاد کی رسمی بیعت نہیں کی دل سے بیعت کی ہے، دیکھ لینا میں بستر پر نہیں مروں گا، انشاء  اللہ  شہید ہوں گا پھر دنیا نے دیکھا کہ حضرت لدھیانوی  رحمۃ اللہ علیہ شہید کر دیئے گئے عشق گاہِ کراچی میں انہوں نے ایک نئے ’’مقبرۂ شہدا‘‘ کی بنیاد رکھی اب وہاں اُن کے ساتھ چار دیگر شہداء کی قبریں بھی ہیں ہمارے شیخ مفتی محمد جمیل خان صاحب  رحمۃ اللہ علیہ بڑے والہانہ انداز میںکہا کرتے تھے کہ حضرت لدھیانوی  رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد تو موت، زندگی سے زیادہ محبوب ہو گئی ہے  ؎

یاد ایّامے کہ جب تھا ہر نَفَس اک زندگی

زندگی اب ہر نَفَس کے ساتھ مرجانے میں ہے

ایک کیفِ نا تمامِ درد کی لذت ہی کیا

درد کی لذّت سراپا درد بن جانے میں ہے

شیشہ مست و بادہ مست و حسن مست و عشق مست

آج پینے کا مزا پی کر بہک جانے میں ہے

پوچھنا کیا ، کتنی وسعت میرے پیمانے میں ہے

سب اُلٹ دے ساقیا! جتنی بھی مے خانے میں ہے

آپ کو انتظار ہو گا کہ شہداء کرام کے نام تو معلوم ہو جائیں جی ہاں شہیدوں کے نام میں بھی برکت ہوتی ہے اور اُن کے تذکرے میں بھی  اللہ  تعالیٰ ہر کسی کو تو بیعت علی الجہاد اور شہادت نصیب نہیںفرماتا لیجئے تین نئے شہداء کرام کے ناموں سے اپنی آنکھوں کو روشن کیجئے

(۱)     مولانا مدثر صاحبکراچی میں شہید ہوئے، نماز پڑھا کر اپنے گھر کے قریب پہنچے تھے کہ بدنصیب قاتلوں کی گولیاں اُن کے لئے پیغام محبت بن گئیں عالم تھے، نوجوان تھے، غیر شادی شدہ تھے

(۲)     محمدشہزاد خالد کراچی میں شہید ہوئے، اُن کی چار سالہ بیٹی بھی اُن کے ساتھ جام شہادت سے سرفراز ہو ئی ماشاء  اللہ  بہادر جوان تھے

(۳)     محمد عمران یہ بھی عشق گاہِ کراچی میں شہید ہوئے، سر گرم مجاہد تھے پسماندگان میں بیوہ اور دو بچے ہیں،  اللہ  تعالیٰ اُن کا کفیل و نگہبان ہو

قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ان تینوں کی زندگی تو بس اتنی ہی تھی مگر جب ان کی زندگی ختم ہوئی تو موت کی جگہ ایک نئی اور حسین زندگی شروع ہو گئی ان کا مبارک خون انشاء  اللہ  بہت رنگ لائے گا

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

نکھرتا جا رہا ہے رنگ گلشن

خس و خاشاک جلتے جا رہے ہیں

وہیں میں خاک اڑتی دیکھتا ہوں

جہاں چشمے اُبلتے جا رہے ہیں

ان شہداء کے گھر والے یقینا غمگین ہوں گے مگر اس غم میں اُنکے لئے شرف ہے ، سعادت ہے،بشارت ہے اور لطف ہی لطف ہے

کون یہ ناصح کو سمجھائے بطرز دل نشیں

عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں

اُس مقام قُرب تک اب عشق پہنچا ہے جہاں

دیدہ ودل کا بھی اکثر واسطہ ہوتا نہیں

 اللہ ،  اللہ  یہ کمال ارتباط حسن وعشق

فاصلے ہوں لاکھ، دل سے دل جُدا ہوتا نہیں

ویسے تھوڑا سا سوچیں کہ ہم کتنے خوش نصیب دور میں جی رہے ہیں شرابی رند کو اگر وافر شراب مل رہی ہو تو وہ کہتا ہے یہ بہترین زمانہ ہے ایک مؤمن کے لئے شرابِ شہادت سے بڑھ کر مست چیز اورکیا ہو سکتی ہے؟شکر،لاکھ شکر کہ ہمارے زمانے میں شرابِ شہادت خوب مل رہی ہے اور جام بھر بھر کر مل رہی ہے مسلمانوںپر تو ایسے زمانے بھی گزرے ہیں جب غلامی اوربے بسی نے شہادت کے عمومی دروازے کو کافی حد تک بند کر دیا تھا آپ تھوڑا سا قرآن پاک میں غورکریں کہ شہادت کیاچیز ہے  اللہ  کی قسم شہادت کی آیات پڑھ کر دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ ربّا اس عظیم نعمت سے محرومی نہ ہو آپ تھوڑا سا میدان بدر کی سیر کرآئیں آپ اُحد کے پہاڑ سے محبت کا ایک جام پی آئیں آپ بئر معونہ کے شہداء کرام کی میٹھی میٹھی باتیں پڑھ لیں تب آپ بھی میری طرح چلّا اٹھیں گے کہ واقعی ہمارا زمانہ بہت اچھا ہےیہاں تو ہر طرف مئے خانے ہی مئے خانے سجے ہوئے ہیں وضوکرکے نماز کے لئے جاتے ہیں اوپر سے جہاز کی آواز آتی ہے تو دل خوشی سے اُچھلنے لگتا ہے کہ لو بھائی! ڈرون آگیا،محبت کاجام ملنے کو ہے کشمیر کی طرف جائیں مئے خانے ہی مئے خانے، افغانستان جائیں ہر طرف چھلکتے ہوئے جام ماشاء  اللہ  اب تو کراچی والے بھی محروم نہیں بس آنکھیں کھلی ہونی چاہئیں تو ہر طرف بہار ہی بہار نظر آرہی ہے

پی کے اِک جامِ شرابِ شوق آنکھیں کھل گئیں

دیکھتا ہوں جس طرف مے خانہ ہی مے خانہ ہے

ایک وقت تھا  اللہ  والے شہادت کو ترستے تھے لوگ شہادت کے لئے لمبے لمبے سفر کرتے تھے عارفین راتوں کو اٹھ اٹھ کر مانگتے تھے مگر اب  اللہ  تعالیٰ کا احسان دیکھیں کہ زمانے کے کافروںاور اُن کے ایجنٹ منافقوں نے ہمیں الحمدﷲ’’مسلمان‘‘ تسلیم کر لیا ہے اور مسلمان کا بہترین انجام شہادت ہے اورہماری شہادت کو قریب کرنے کے لئے دنیائے کفر نے طرح طرح کے آلات اور ہتھیار تیار کر لئے ہیں خوش ہو جاؤ عاشقو، خوش ہو جاؤ! موسم خوشگوار ہے،شراب کے جام عام ہیں اور ہرطرف عشق کی مستی چھلک رہی ہے

ہوشیار ، او جان و دل سے چھپنے والے ہوشیار

آج چشم شوق کا انداز بے باکانہ ہے

فیضِ ساقی نے مجھے لبریزِ مستی کر دیا

ہر نظر جام و سبو ہے، ہر نفس مے خانہ ہے

ہاں بس ایک شرط ہے   ؎

جس کا جتنا ظرف ہے، اس سے سوا ملتانہیں

جلوۂ ساقی بقدر ہمت مردانہ ہے

میرا ارادہ تھا کہ آج کے کالم کا عنوان یہ مصرعہ ہو

’’دیکھتا ہوں جس طرف مے خانہ ہی مے خانہ ہے‘‘

مگرپھر جگر مُراد آبادی مرحوم کی ایک فریاد یاد آگئی، انہوںنے عشق کے نشے میں ڈوب کر یہ فریاد کی تھی

یہ مصرعہ کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے

جسے جینا ہو، مرنے کے لئے تیار ہو جائے

جی ہاں جو ’’زندگی‘‘ چاہتا ہے اُسے خود کو’’موت‘‘ کے لئے تیار کرنا ہوگا مسلمان جب زندگی سے پیار کرتا ہے تو پھر مرجاتا ہے اور جب موت سے پیار کرتا ہے تو زندہ ہوجاتا ہے آج الحمدﷲ موت سے پیار کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اس لئے اسلام بھی زندہ ہو رہا ہے اور مسلمان بھی زندہ ہو رہے ہیں

شاد باش و زندہ باش اے عشقِ خوش سودائے من

تجھ سے پہلے اپنی عظمت بھی کہاں سمجھا تھا میں

کراچی کے شہیدو! میرا سلام قبول کرنا  اللہ  تعالیٰ تمہیں اونچے اونچے درجات عطاء فرمائے تمہیں بیعت علی الجہاد مبارک ہو اور تمہیں گل رنگ شہادت مبارک ہو بہت مبارک ہو

اب لفظ وبیاں سب ختم ہوئے، اب دیدہ و دل کا کام نہیں

اب عشق ہے خود پیغام اپنا، اب عشق کا کچھ پیغام نہیں

ہاں شہیدو! تمہارا عشق، تمہارے لہو رنگ جنازے، تمہارے مسکراتے چہرے یہ سب ہمارے لئے بہت اہم پیغام ہیں انشاء  اللہ  تمہارا قافلہ رُکے گا نہیںاور نہ تمہارے خون کو بھلائے گا دیکھو! تمہارے سب بھائی تمہیں رشک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں

شہادت انتقامِ عشق کی صورت بدلتی ہے

سنبھلنا، ہاں سنبھلنا، رقص بسمل دیکھنے والے

ہائے بیچارے کافر آخرت تو اِن کی برباد ہو چکی اب دنیا بھی ان کے لئے کانٹوں کا بستر بن چکی ہے مسلمان غازیوں کا خنجر ان کے گلے پر ہے اور امن و آرام اِن سے روٹھ چکے ہیں یہ سارے اسلام دشمن کافر آسمانی آفتوں اور مجاہدین کی یلغار کے سامنے بے بس ہیں اب اُن کی خواہش یہ ہے کہ وہ میدان چھوڑکر بھاگ جائیں اور مسلمانوں میں سے منافقوں کو خرید کر انہیں مجاہدین کے خلاف کھڑا کردیں انشاء  اللہ  ان کی یہ سازش بھی ناکام ہو گی اپنے تین شہداء کرام کے بد نصیب قاتلوں کو صاف صاف کہتا ہوں

ظالم نے جو چھیڑا رندوںکو،ساقی نے کہا کس طنز سے آج!

اوروں کی وہ عظمت کیا جانیں، کم ظرف جو انساں ہوتے ہیں

تو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہیں، میںخوش کہ مرے حصّے میں نہیں

وہ کام جو آساں ہوتے ہیں، وہ جلوے جو ارزاں ہوتے ہیں

آسودۂ ساحل تو ہے مگر، شاید یہ تجھے معلوم نہیں

ساحل سے بھی موجیں اٹھتیں ہیں، خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں

یہ خون جو ہے مظلوموںکا، ضائع تو نہ جائے گا، لیکن

کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں

جو حق کی خاطر جیتے ہیں، مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگرؔ

جب وقت شہادت آتا ہے، دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں

جی ہاں کوئی دھوکے میں نہ رہے بہت سے طوفاں خاموش ہوتے ہیں بہت سی بجلیاں بے آواز ہوتی ہیںاور جو لوگ  اللہ  تعالیٰ کے لئے جیتے اور مرتے ہیں اُن سے دشمنی کرنے والے  اللہ  تعالیٰ کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

281مسافر خانہ

مسافر خانہ

 

 اللہ  تعالیٰ رحم فرمائے ہم پر ایسے حکمران مسلَّط ہو گئے ہیں، جن کا جینا بھی مسلمانوں کے لئے مصیبت ہے اور اُن کا مرنا بھی مصیبت پاکستان میں تو روزانہ سینکڑوں اور درجنوں افراد قتل ہوتے ہیں ان ہی میں گورنر پنجاب بھی شامل ہو گئے کسی بھی مُلک میں ہر شہری کا خون برابر کی قیمت رکھتا ہے وہ شہری کوئی مزدور ہو یا گورنر  اللہ  تعالیٰ نے قرآن مجید میں’’علماء‘‘ کے مقام کو اونچا قراردیا ہے پاکستان میں تو آئے دن علماء کرام بھی شہید کئے جاتے ہیں پھر’’گورنر پنجاب‘‘ کے قتل پر روشن خیالوں کی کالی زبانیں اتنی تیز کیوں چل رہی ہیں؟ کراچی میں ایک غریب آدمی قتل ہوتا ہے اُس کے پیچھے گھر میں کوئی کمانے والا تک نہیں ہوتا اُس کی بیوہ خاوند کو الگ روتی ہے اور اس بات کو الگ کہ کل کا چولہا کیسے جلے گا جبکہ گورنر صاحب تو اپنے ورثاء کے لئے کم ازکم ایک ارب ڈالر کے اثاثہ جات چھوڑ گئے ہیں ایک پورا ٹی وی چینل، ایک چالو اور بے حیا اخبار ٹیلیفون کی کمپنی ورلڈ کال اور اکاؤنٹنٹ کی ایک ایسی کمپنی جو ماہانہ کروڑوں روپے کماتی ہے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ چند دن پہلے خود بی بی سی والوں سے فرما رہے تھے کہ میرے مالی اثاثے ایک ارب ڈالر سے زائد کے ہیں بلوچستان میں زندہ جل جانے والے مزدور کے بچوں کو کیا پتا کہ ایک ارب ڈالر کیا ہوتے ہیں اُن غریبوں کو تو بیس روپے کا دودھ بھی نصیب نہیں ہوتا

روشن خیالوں نے اس مُلک میں قتل و غارت کی آگ خود جلائی ہے اس مُلک پر نہ تو افغانستان کے طالبان نے حملہ کیاتھااورنہ پاکستان کی کسی جہادی جماعت نے اس ملک کوتوروشن خیالوں کی حرام خوری نے برباد کیا ہے غیر مُلکی امداد اور کافروں کی خوشنودی کے لئے اس ملک میں قتل و غارت کی آگ سب سے پہلے کس نے بھڑکائی؟ گورنر پنجاب کے قریبی دوست پرویز مشرف نے آج اگر کوئی یہ کہے کہ سلمان تاثیر کا قاتل بھی پرویز مشرف ہے تو یہ بات غلط نہیں لگتی تھوڑا سا غور کریں یہ روشن خیال دانشور ہمیشہ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے اس ملک میں کلاشنکوف کلچر عام کیا مولویوںکو طاقتور کیا یہ توکوئی پُرانی تاریخ نہیں ہے آپ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں تلاش کریں کہ اُس وقت پاکستان میں روزآنہ کتنے افراد قتل ہوتے تھے؟ پھر پرویز مشرف کا دوردیکھیں اور آج کے قتل شمار کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے وہ دور تو آج کے مقابلے میں بہت پر امن تھا وجہ یہ تھی کہ اُس وقت ہم’’جہادِ افغانستان‘‘ کا تعاون کر رہے تھے اور جہاد کی برکت سے مسلمانوں کو امن نصیب ہوتا ہے اور اب ہمارے روشن خیال حکمران مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کر رہے ہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ ہم امن سے محروم ہو چکے ہیں اس بھڑکتی آگ کی کوئی چنگاری کسی گورنر تک بھی پہنچ جاتی ہے پھر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا روشن خیالوں کو ڈر لگنے لگا ہے یا را، موساد اور سی آئی اے نے اپنی این جی اوز کو ہشکارہ دیا ہے کہ شاباش اچھا موقع ہے مدرسہ، مسجد، مولوی، مجاہد اور دین اسلام کے خلاف خوب شور مچاؤاین جی اوزمیں کام کرنے والی عورتیں پریشان ہیں ایک طرف اُن کویہ حکم ہے کہ پورے کپڑے نہ پہنا کرو اور اب اتنی سردی میں یہ حکم آگیا ہے کہ مسجد، مدرسہ کے خلاف احتجاج میں نکلو آج کل خوب چیک بانٹے جارہے ہیں صبح صبح گرم کافی، خستہ بسکٹ اور منرل واٹر کی بوتلیں دے کر ان کرائے کے احتجاجیوں کومختلف جگہوں پر بھیجا جاتا ہےکالم نویسوں پر الگ نوٹ برس رہے ہیں اور ٹی وی والوں کی کمائی کا بھی اچھا موقع نکل آیا ہے ارے اگر تمہیں گورنر صاحب سے محبت تھی تو تھوڑا سا سوچو کہ وہ تو اب قبر میں ہیں اُن کے ایصال ثواب کے لئے کچھ قرآن پڑھو کچھ صدقہ خیرات دو مگریہ بے چارے کیا کریں قرآن پڑھنا آتا ہی نہیں اور صدقہ خیرات کو تو جانتے ہی نہیں آخر یہ احتجاج کس کے خلاف کر رہے ہیں؟ قاتل تو سینہ تان کر خود کو پولیس کے حوالے کر چکا ہے ہمیں توآج تک حضرت لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ  کے قاتل نہیں ملے یہاں تو قاتل نے گولیاں مار کر بہت شرافت سے گرفتاری دے دی تو پھر یہ احتجاج کس کے خلاف ہو رہا ہے؟ قاتل تو خود حکومت کا سپاہی ہے نہ مولوی ہے اور نہ کسی مسجد کا امام اور نہ کسی جہادی تنظیم کا رُکن وہ تو پنجاب حکومت کی قابل فخر پولیس فورس’’ایلیٹ‘‘ کاسپاہی ہے بی بی سی والے سرپیٹ رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر’’ممتاز قادری‘‘ کے چاہنے والوں نے قبضہ کر رکھا ہے سر پیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ لوگ تو ’’آزادی اظہار‘‘ کے علمبردارہیں اب مسلمان نوجوانوں نے فیس بُک پر’’ممتازقادری‘‘ کی تعریف میں ہزاروں صفحات بنا دیئے ہیں تو آپ کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟ آپ کے نزدیک ہر آدمی کو اپنی پسند اور ناپسند کا اختیار ہے قسمت کی بات ہے کہ ’’ممتاز قادری‘‘ پر وکلاء پھول نچھاور کر رہے ہیں روشن خیال یہی محنت تو کر رہے ہیں کہ ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے کوئی کپڑے پہنے یا نہ پہنے کسی کو نہ ٹوکا جائے کوئی کسی کو مانے یا نہ مانے کوئی زبردستی نہ کی جائے کوئی شراب پئے یا پیپسی ہر آدمی کو اس کی آزادی ہونی چاہئے کوئی اگر کسی لڑکی سے دوستی کرے اور بغیر نکاح کے اُس کے ساتھ پھرے تو اُس کو نہ ٹوکا جائے کوئی میراتھن ریس میں دوڑے تو اُس کو دوڑنے دیا جائے یہی دعویٰ اورمحنت ہے نا روشن خیالوں کی؟ تو پھر اگر کوئی مدینہ والے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے غیرت والی محبت کرے تو اُسے کیوں ٹوکتے ہو؟ کوئی اپنی مرضی سے مدرسہ پڑھے، جہاد کرے تو اُس کو کیوں روکتے ہو؟ کوئی ممتاز قادری کو اپنا ہیرو قرار دے تو اُسے کیوں روکتے ہو؟ کوئی کافروں کو نہ مانے تو اُس سے کیوںناراض ہوتے ہو؟ عجیب دوغلاپن ہے کہ کفر کے ہر کام کی آزادی چاہتے ہو اور اسلام کا صرف ’’پردہ‘‘ تک تم سے ہضم نہیںہوتا آخر’’تحفظ ناموس رسالت‘‘ کے قانون سے تمہیں کیا تکلیف ہے؟کوئی تمہیں گالی دے تو برداشت نہیںکرتے ہو حکمرانوں نے طرح طرح کی فورسیں بنا رکھی ہیں جو اُن کے مخالفوں کو قتل کرتی ہیں اور اُن کی ہڈی پسلی ایک کرتی ہیں چند دن پہلے ایک بڑے ریٹائر پولیس افسر کا مضمون نظر سے گزرا انہوں نے لکھا تھا کہ میں چند دن پاکستان کے ایک وزیر اعظم کی خصوصی فورس کا افسر مقرر ہوا ایک دن وزیراعظم نے مجھے بلایا اور آنکھیں سرخ کرکے کہا ! فلاں مولوی اپنی تقریروں میں مجھے بُرا بھلا کہتا ہے میں فی الحال اُس کو قتل تو نہیں کرنا چاہتا مگر ایک دو روز کے اندر وہ ہسپتال میں ہو نا چاہئے کم از کم ایک پسلی ضرور ٹوٹ جائےوہ تو وزیراعظم تھا عام مالدار قسم کے روشن خیالوں نے اپنے مخالفوں کو مارنے کے لئے پتا نہیں کیسے کیسے کتے اور غنڈے پال رکھے ہیں مگر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر آدمی کو اس کی آزادی ہو کہ وہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان اقدس میں گستاخی بک سکے میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں ’’تحفظ ناموس رسالت‘‘ کا قانون ختم ہو گیا تو یہاں قتل و غارت اور زیادہ بڑھ جائے گی اگر روشن خیال طبقے کافروں کی محبت میں مجبور ہیں تو پاکستان کے غریب مسلمان حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت سے سرشار ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ اپنی جان سے زیادہ محبت رکھنے کواپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں آج مسجد، مدرسہ اور جہاد کے خلاف زبانیں چلانے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ گستاخ’’آسیہ عیسائی‘‘ کو سزائے موت کسی مولوی یا مجاہد نے سنائی ہے؟ اُسے سزائے موت حکومت پاکستان کی ایک عدالت نے سنائی ہے ویٹی کن میں بیٹھے دشمن اسلام ’’پاپے‘‘ نے آسیہ کے حق میں گھنٹی بجا دی گوروں کا حکم کیا آنا تھا کہ پاکستان کے روشن خیالوں میں کھلبلی مچ گئی حالانکہ یہ ایک حکومتی اور عدالتی معاملہ تھا حکومت اندر اندر کے ہاتھوں کو استعمال کرکے آسیہ کو بچا سکتی تھی ان کے نزدیک مدینہ والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادی ویٹی کن والے پاپے کو خوش کرنا ضروری ہوتا ہے آسیہ بچ جاتی تو اِن کا ’’پاپا‘‘ اِ ن سے خوش ہو جاتا مگریہ تو پوری دنیائے کفر کو خوش کرنے کے چکر میں پڑ گئے اور انہوں نے موقع دیکھ کر ’’قانون‘‘ کو ہی ختم کرنے کی بات شروع کر دی اس دوران گورنرصاحب بھی اچانک قتل ہو گئے معلوم نہیں اسلام آباد میں اپنے وسیع و عریض گھر کو چھوڑ کر ریستوران میں کھانا کھانے کی کیا ضرورت تھی کروڑوں ڈالر کے مالک تھے باہر مُلکوں سے اپنے لئے گوری سیکیورٹی کا بندوبست کرسکتے تھے مگرپھر بھی اس غریب مُلک کے سپاہیوں کو ساتھ لئے پھرتے تھے وی آئی پیز کی سیکورٹی کرنے والے کسی بھی سپاہی سے آپ بات کریں وہ اُس ’’وی آئی پی‘‘ کو گالیاں دیتا ہوا نظر آتا ہے بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہ کرہمیں بڑی بے غیرتی کرنی پڑتی ہے اکثر وی آئی پیز روشن خیال ہیں اور روشن خیالوں کے نزدیک ہر کام کی آزادی ہوتی ہے عام پولیس والے غریب اور متوسط مسلمان گھرانوں کے افراد ہوتے ہیں انہوں نے جانوروں کو تو کھلم کھلا روشن خیالی کرتے دیکھا ہوتاہے مگر انسانوں کو وہ تب دیکھتے ہیں جب کسی وی آئی پی کے سیکورٹی گارڈبنتے ہیں ایسے حالات میں کبھی بھی کسی کا دماغ پھر سکتا ہے اور کسی کی  انگلی سے ٹرائگر دب سکتا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود کیوں مسجد، مدرسہ اور جہاد پر تیر برسائے جارہے ہیں ویسے امید ہے کہ جیسے ہی پیٹرول ختم ہو گا یہ سارے انجن بند ہوجائیں گے ابھی تو پاکستان کے ماحول کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گرمانے کے لئے دنیا کی کئی خفیہ ایجنسیوں نے کافی سرمایہ لگا دیا ہے اس سرمائے کا نشہ آہستہ آہستہ اُترجائے گا فی الحال تو سُنا ہے کہ ملک کے سارے وی آئی پیز اپنے سیکورٹی گارڈوں کو دیکھتے ہی پسینے میں ڈوب جاتے ہیں جی ہاں اتنی سخت سردی میں یہ صاحب لوگ پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں ایک ہی زندگی ہے یہ ختم ہو گئی تو کیا بنے گا؟ قبر اور آخرت کا تو کبھی سوچا نہیں اس لئے وہاں جانے سے ڈر لگتا ہے یہ دنیا جیسے جیسے قیامت کے قریب ہو رہی ہے اس میں قتل و غارت بڑھتی جارہی ہے حضرت امام مہدی  رضی اللہ عنہ  کے ظہور کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی لکھی ہے کہ قتل و غارت بہت عام ہو جائے گی ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ ہر نو(۹) میں سے سات افراد قتل ہو جائیں گے جبکہ ایک اور روایت ہے کہ دنیاکے ایک تہائی افرادقتل ہوجائیں گے ایک تہائی انتقال کرجائیں گے جبکہ ایک تہائی باقی ہوں گے یہ علامات تیزی سے قریب آرہی ہیں مسلمانوں میں شہداء کے قبرستان بڑھتے جارہے ہیں جبکہ غیر مسلموں میں بھی قتل ہونے والوں کے انبار لگے ہوئے ہیں دنیا کے کئی ممالک میں جنگیں جاری ہیں جبکہ کئی جگہوں پر جنگوں کی تیاری ہے مسلمانوں میں ایک دوسرے کو مارنے کا رواج کم تھا مگر اب ہر مسئلے کا حل’’قتل‘‘ قرار دے دیا گیا ہے وڈیروں، سرداروں، خانوں کے اپنے اپنے فائرنگ اسکواڈ ہیں جبکہ کئی لسانی اور سیاسی جماعتوںکے کِلنگ دستے پورے ملک میںبکھرے پڑے ہیں موت کا یہ جام کسی بھی وقت ہم تک پہنچ سکتا ہے اس لئے اچھا ہوگا کہ ہر مسلمان اپنی زندگی دین اور جہاد پر لگا کر اُسے قیمتی بنائے اور ہر وقت آخرت کی تیاری میں لگا رہے اگرہمیں ’’فکر آخرت‘‘نصیب ہو گئی اورہم آخرت کی تیاری میں لگ گئے توپھر قتل ہوں یا موت آئے سب کچھ انشاء  اللہ  بہت اچھا ہوگا اس فانی دنیا میں کس نے رہنا ہے؟ یہ تو ایک ’’مسافرخانہ‘‘ ہے کاش یہ حقیقت ہمارے دلوںمیں اُتر جائے

اللھم صل علیٰ سیدنا و مولانا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

 

282پناہ مانگو

پناہ مانگو

اللہ تعالیٰ ظَاہری اورباطِنی فِتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائےہمارے آقااوررہبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایاہے کہ:

تَعَوَّذُوابِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَمِنْہَا وَمَابَطَنَ

’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوتمام ظاہری اورباطنی فتنوں سے ‘‘

صحابہ کرام نے حکم کی فوری تعمیل کی اوردعامانگی

نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَمِنْہَاوَمَابَطَنَ

’’ہم اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں تمام ظاہری اورباطنی فتنوں سے‘‘

آئیے ہم بھی یہ دعایاد کرلیں کیوں کہ ہم توچاروں طرف سے فتنوں میں گِھرے ہوئے ہیں اورصرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آکرہی ہم ان فتنوں سے بچ سکتے ہیں

نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَمِنْہَاوَمَابَطَنَ

یہ حکم اوریہ دعاحدیث شریف کی مشہوراورمستندکتاب صحیح مسلم شریف کی روایت میں مذکورہےہوایہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ’’بنی نجار‘‘ کے ایک باغ میں سے گزررہے تھے ،آپ کی سواری اچانک راستے سے ہٹ گئی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھاتووہاں کچھ قبریں تھیں ،پوچھنے پرمعلوم ہواکہ ان میں کچھ مشرک دفن ہیںآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:یہ لوگ اپنی قبروں میں عذاب میں مبتلاہیں اگر اس بات کاڈرنہ ہوتاکہ تم لوگ خو ف کی وجہ سے اپنے مُردوں کودفن نہ کرسکوگے تومیں اللہ تعالیٰ سے دعاء کرتا کہ قبر کے عذاب میں سے جتناکچھ میں سُن رہاہوں وہ اس میں سے کچھ تمہیں بھی سنادے اس کے بعدآقامدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چار احکامات جاری فرمائےالقلم کے پڑھنے والے مسلمانو!غورسے ان احکامات کوسُنو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:

(۱)تَعَوَّذُوْابِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ

’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوآگ کے عذاب سے‘‘

صحابہ کرام نے فوراًدعاء مانگی

نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ

’’ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں آگ(یعنی جہنم) کے عذاب سے‘‘

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(۲)تَعَوَّذُوْابِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوعذاب قبرسے‘‘

صحابہ کرام نے فوراً پناہ مانگی

نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

’’ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں قبرکے عذاب سے‘‘

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

(۳)تَعَوَّذُوابِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَر َمِنْہَا وَ مَا بَطَنَ

’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوتمام ظاہری اورباطنی فتنوں سے‘‘

صحابہ کرام نے فوراً دعاء مانگی

نَعُوذُبِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَر َمِنْہَا وَ مَا بَطَنَ

’’ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں تمام ظاہری اورباطنی فتنوں سے‘‘

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

(۴)تَعَوَّذُوابِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ

’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگودجّال کے فتنے سے‘‘

صحابہ کرام نے فوراً دعاء مانگی

نَعُوذُبِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ

’’ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں دجّال کے فتنے سے‘‘

لیجئے چاربہت اہم دعائیں تازہ ہوگئیںالفاظ میں تبدیلی بھی ہوسکتی ہے مثلاً یوں کہیں:اَللّٰہُمَّ اِنَّانَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ اَللّٰہُمَّ اِنَّانَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِاَللّٰہُمَّ اِنَّانَعُوذُبِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَمِنْہَاوَ مَا بَطَنَاَللّٰہُمَّ اِنَّانَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ

خاص خاص اوقات میں ان دعاؤں کازیادہ اہتمام ہونفل نماز کے رکوع سجدے میں بھی گڑگڑاکریہ دعائیں مانگنی چاہئیں اور ’’التحیات‘‘  کے اخیرمیں توان کی پکّی ترتیب بنانے کی کوشش کرنی چاہیےیہ دعائیں قبول ہوگئیں توہم بہت خوش نصیب اورکامیاب ہوجائیں گےاورفکرآخرت کی برکت سے ہمارے دنیاکے مسئلے مسائل بھی انشاء اللہ حل ہوجائیں گےآج توہرطرف فتنے ہی فتنے نظر آرہے ہیںقرآن پاک کے دوجملے اچھی طرح یاد کرلیں ایک توجب شیطان دل میں ناشکری ڈالے نعوذباللہ کوئی شک، وسوسہ دل میں آئےیہ خیال آئے کہ میرے ساتھ توبڑاظلم ہورہاہے تو فوراً زورسے کہاکریں

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَالْحَقّ

بے شک اللہ تعالیٰ’’حق‘‘ہےاُس کاہرفیصلہ ’’برحق‘‘ ہے اُس نے جوکچھ کیاحق اورٹھیک کیاذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَالْحَقُّیہ مبارک جملہ بار بار پڑھا کریں ، ایک دوسرے کوسنایاکریں اور اسے دل میں بٹھا دیں اورکبھی کہاکریںیَااَللّٰہُ یَاحَقُّبے شک اللہ تعالیٰ ’’حق‘‘ہے اَنْتَ الْہَادِی اَنْتَ الْحَقُّ لَیْسَ الْہَادِی اِلَّاہُو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُاوردوسراجملہ قیامت کے بارے میں ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ

بے شک قیامت کادن ’’برحق‘‘ہےاس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں،کوئی شبہ ہی نہیںدل جب زیادہ نوٹ گننے اور مانگنے لگےبہت مکانوں اوردکانوں کاشوق غافل کرنے لگےیا دنیاکی عیاشی اچھی لگنے لگے تو یہ صدااپنے دل کوسنائیںذلک الیوم الحق اے غافل دل کیوں اس فانی دنیامیں پھنس رہاہےاُس برحق اوریقینی دن کی تیاری کر ہمارے آقااورمحسن  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں کامیابی والی دعائیں سکھائی ہیں فتنوں کودیکھیں کس طرح سے گٹر کے کیڑوں کی طرح اُبل اُبل کرسامنے آرہے ہیں آج کل حضرت امام مہدی  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں عجیب عجیب فتنوں کازورہے ہرملک میں اور ہر شہرمیں طرح طرح کے کالے پیلے لوگ ’’مہدی‘‘ ہونے کادعویٰ کررہے ہیںگوجرانوالہ کے نجومی جو ’’مہدی‘‘کاصحیح لفظ نہیں لکھ سکتے بلکہ ’’امام مہندی‘‘کہتے ہیں وہ بھی طرح طرح کی پیشین گوئیاں کررہے ہیں اُدھرکچھ لوگ امام مہدی  رضی اللہ عنہ  کاانکارکرنے پر تُلے ہوئے ہیںیہ دونوں فتنے خطرناک ہیں مہدی کادعویٰ کرنے والے بھی ظالم ہیںاورامام مہدی  رضی اللہ عنہ کے ظہور کاانکارکرنے والے بھی فتنہ ہیں احادیث وروایات میں حضرت امام مہدی  رضی اللہ عنہ  کی علامات بالکل واضح طورپرموجودہیں مسلمانوں کو ان علامات کاعلم ہو تو پھر کسی کے دعویٰ یاانکارکرنے سے وہ دھوکہ نہیں کھائیں گےمسلمانوں کواس فتنے سے آگاہ کرنے کے لئے انشاء اللہ عنقریب’’القلم‘‘ میں حضرت امام مہدی  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں تحقیقی مضامین کاسلسلہ شروع کیاجائے گا فی الحال اتنا یاد رکھیں کہ امام مہدی  رضی اللہ عنہ نے ضرور آنا ہے وہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے حسنی اورحسینی سیدہوں گےاُن کانام محمداوراُن کے والدکانام عبداللہ ہوگاحضرت شاہ رفیع الدین  رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق اُن کی والدہ محترمہ کانام آمنہ ہوگااُن کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوگی اور صورت،سیرت اور اخلاق میں اپنے ناناحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے مشابہ ہوں گے احادیث وروایات پرغورکرکے حضرات علماء کرام نے اُن کی تیس سے زائد علامات لکھی ہیںوہ مسلمانوں کے مقبول ترین خلیفہ ہوں گےبہادر،جنگجواورفاتح ہوں گےاُن کازمانہ جہاد کازمانہ ہوگا

بڑی بڑی جنگیں لڑیں گے اورفتوحات پائیں گے بہت سخی ہوں گے کہ جھولیاں بھربھرکرمال تقسیم فرمائیں گےاُن کے پاس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قمیص مبارک ، تلوارمبارک اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاجھنڈاہوگا آسمانی فرشتے اُن کے لشکرکے ساتھ چلیں گے اوراُن کے ہاتھوں پر عجیب کرامات اورفتوحات ظاہرہوں گی اگر کوئی مسلمان صرف ان علامات کوہی یادرکھے توبہت سے جعلی دعوے داروں سے اُس کی جان چھوٹ جائے گیامام مہدی س کے بارے میں انکاری نظریات رکھنے والوں میں سے ایک کانام ’’تمناعمادی‘‘ہے ہمارے حضرت مفتی ولی حسن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  فرمایاکرتے تھے کہ ’’تمنا عمادی‘‘منکرحدیث ہے ’’تمنا عمادی‘‘ ایک مؤرّخ  قسم کے لفّاظ ادیب تھےاصل تو ’’بہار‘‘کے رہنے والے تھے مگرپھرکراچی آبسے بہت شوخ ،چنچل اور گستاخ قلم کے مالک مگرکافی بدنصیب سے انسان تھےاس سے بڑے بدنصیبی کیا ہوگی کہ جن گناہوں سے اُن کادامن آسانی سے بچ سکتا تھاان میں بھی اپناحصّہ زبردستی ڈالتے رہے مثلاًحجّاج بن یوسف کے زبردست مدّاح تھے اور اُس کی قتل وغارت کودرست بناکراُس کی خونخواری میں اپناحصّہ شامل کرتے تھےحضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ  کے دشمن تھے حضرت سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ  کے سخت مخالف تھےحضرات تابعین کے بڑے بڑے محدّثین اور قرّاء کرام کونعوذباللہ عجمی نسل سازشی کہتے تھےامام زُہری اورحدیث شریف کے کئی ائمّہ کونعوذباللہ رافضی قراردے کراُمت کااعتماد احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اُٹھانے کی مذموم کوشش کرتے تھےاپنی ان تمام قباحتوں کے باوجود ’’ردّ رافضیت‘‘کالیبل لگاکراہل حق میں گھسے رہتے تھےانہوں نے ایک بڑاظلم یہ کیاکہ قرآن پاک کی متواترقراء توں کاانکارکیااوراس پرایک تلبیسی کتاب لکھیمجھے یہ دیکھ کربہت دکھ ہواکہ انٹرنیٹ پر’’منکرین حدیث‘‘نے اس کتاب کوبڑی تشہیر کے ساتھ لگایاہواہےاللہ تعالیٰ مسلمانوں کی اس فتنے سے حفاظت فرمائےبندہ کے انتہائی مشفق استاذمحترم حضرت اقدس مولاناقاری عبدالحق صاحب نوّراللہ مرقدہ نے تمناعمادی کے ’’فتنہ انکارقرأت ‘‘ کا تعاقب فرمایااُن کے جانشین اورصاحبزادے حضرت مولاناقاری ضیاء الحق صاحب مدظلہ العالی بھی اس بارے میں فکرمندہوئےان دونوں حضرات کی سعی مشکورسے حضرت مولاناقاری محمدطاہرصاحب رحیمی نوراللہ مرقدہ اس فتنے کی طرف عقابی اندازسے جھپٹے اورانہوںنے نوسوصفحات پرمشتمل ’’دفاع قراآت‘‘ نامی کتاب تصنیف فرمائیفجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء عن اُمّۃ الاسلام

ماشاء اللہ بہت عمدہ،علمی ،تحقیقی اورنافع کتاب ہے حضرت مولاناقاری ضیاء الحق صاحب کاشکریہ کہ انہوں نے اس کتاب کاایک نسخہ بندہ کوبھجوایاآج کل یہ کتاب نایاب ہورہی ہےقرآن پاک کے خدّام کو اس کی اشاعت کی فکرکرنی چاہیےہم خود بھی انشاء اللہ اس سعادت کے لئے تیارہیںاس کتاب کو دیکھنے کے بعدیہ ارادہ بھی کرلیاہے کہ انشاء اللہ آئندہ سال شوال سے ہمارے جامعہ میں ’’قراآت متواترہ عشرہ‘‘کی تعلیم کاباقاعدہ نظام قائم کیاجائے گا اہل اسلام تمنّاعمادی اوردیگرمنکرین حدیث کے فتنے سے اپنی حفاظت کریںاوراس کے لئے کثرت سے یہ دعامانگاکریں

اَللّٰہُمَّ اِنَّانَعُوْذُبِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَمِنْہَاوَمَابَطَنَ

نَعُوْذَبِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَمِنْہَاوَمَابَطَنَ

آمین یاارحم الراحمین

اللّٰہم صل علی سیدناومولانامحمدالنبی الامی وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیماکثیراکثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (283)

قرآن پاک کی روشنی میں

 

 

 اللہ  تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے آج میں اور آپ مل کر قرآن پاک پڑھتے ہیں سبحان  اللہ ، قرآن پاک، ہمارے عظیم رب کا کلام، ہدایت کا سرچشمہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس’’قرآن مجید‘‘ موجود ہے، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ  اللہ  تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر نصیب فرمائے

 کامیابی کا واحد راستہ

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

(۱) ترجمہ:     دین تو  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک ’’اسلام‘‘ ہے۔ (ال عمران ۱۹)

(۲) ترجمہ:     اور جو شخص’’اسلام‘‘ کے سوا کسی اور دین کوچاہے وہ اُس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میںنقصان اٹھانے والوں میں ہو گا (ال عمران ۸۵)

(۳) ترجمہ:    آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے’’اسلام‘‘ کو دین پسند کیا۔

(۴) ترجمہ:     پس جس شخص کو  اللہ  تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اْس کا سینہ’’اسلام‘‘ کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گُھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔( الانعام ۱۲۵)

(۵) ترجمہ:    بھلا جس شخص کا سینہ  اللہ  تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہے( تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہو سکتا ہے؟)  (الزمر ۲۲)

(۶) ترجمہ:    اور اُس سے زیادہ ظالم کون ہے جو  اللہ  تعالیٰ پر جھوٹ باندھے، حالانکہ’’اسلام‘‘ کی طرف اُسے بلایا جارہا ہو اور  اللہ  تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا( الصّف ۷)

الحمدﷲ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں اپنی عظیم الشان کتاب میں سے چھ آیات پڑھنے کی توفیق عطاء فرمائی قرآن مجید میں سے ان آیات کو پڑھ لیں اور اُن کا ترجمہ بھی یاد کر لیں اور پھر شُکر میں ڈوب جائیں کہ  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے ’’اسلام‘‘ کی نعمت عطاء فرمائی ہے الحمدﷲ ، الحمدﷲ، الحمدﷲ ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت کے بعد صرف دین اسلام ہی سچا اور مقبول دین ہے کافر اورغیر مسلم سب کے سب ناکام ہیں، نامُراد ہیں اور بد نصیب ہیں خواہ وہ کسی مُلک کے صدر ہوں، بڑے مالدار ہوں، ماہر سائنسدان ہوں، یونیورسٹیاں بنانے والے ہوں یا بڑے بڑے کھلاڑی یہ سب بہت سخت عذاب اور خسارے میں ہیں کیونکہ وہ اصل نعمت اور روشنی یعنی دین اسلام سے محروم ہیں یہ عقیدہ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں سمجھایا اور یاد کرایا گیا ہے مزیدتفصیل جاننی ہو تو’’فتح الجوّاد‘‘ میں ’’سورۃ محمد‘‘ یعنی ’’سورۃ القتال‘‘ کا مطالعہ کر لیجئے آئیے اسلام کی نعمت ملنے پر  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کریں

الحمدﷲ علیٰ نعمۃ الاسلام سبحان  اللہ  علیٰ نعمۃ الاسلام  اللہ  اکبر علیٰ نعمۃ الاسلام

سبحان  اللہ ،والحمدﷲ و اللہ  اکبر علیٰ ماھدانا الحمدﷲ الذی ھدانا لھذا وماکنا لنھتدی لولا ہدانا  اللہ

دعاء کریں اور کوشش کریں کہ یہ نعمت ہمارے پاس محفوظ رہے اور مرتے وقت ہم اسلام پر مریں

موت

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

(۱) ترجمہ:     ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے پھر جو کوئی جہنم سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا پس وہ پورا کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں(ال عمران ۱۸۵)

(۲) ترجمہ:     ( وہ  اللہ  تعالیٰ) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کے عمل اچھے ہیں(المُلک ۲)

(۳) ترجمہ:     اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے، اورجو خیالات اس کے دل میں گذرتے ہیں ہم اُن کو جانتے ہیں اور ہم اُس کی رگِ جان سے بھی اُس سے زیادہ قریب ہیں جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھتے ہیں لکھ لیتے ہیں، کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اُس کے پاس تیار رہتاہے اور موت کی سکرات(یعنی بے ہوشی) تو ضرور آکر رہے گی یہی ہے وہ جس سے تو بھاگتا تھا(قٓ ۱۶ تا ۱۹)

(۴) ترجمہ:    تم جہاں کہیں ہو گے، موت تمہیں آہی پکڑے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو(النساء ۷۸)

(۵) ترجمہ:     کاش تم ان ظالم لوگوں کو اُس وقت دیکھو جب وہ موت کی سختیوں میں(مبتلا) ہوں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو! اپنی جانیں آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی(الانعام ۹۳)

(۶) ترجمہ:    (یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاںتک کہ جب اُن میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا اے پروردگار مجھے پھردنیا میںواپس بھیج دے تاکہ جسے میں چھوڑ آیا ہوں اس میں نیک کام کر لوں ہرگز نہیں ایک بات ہی بات ہے جسے یہ کہہ رہاہے اور ان کے آگے ایک پردہ پڑا ہوا ہے قیامت تک( کہ اس پردے یعنی برزخ کو عبور کر کے دنیا میںواپس نہیں آسکیں گے)(المومنون ۹۹،۱۰۰)

الحمدﷲ ہم نے چھ مقامات اور پڑھ لئے اپنے عظیم رب کی سچی باتیں بے شک موت نے آنا ہے، اس یقین کو دل میں بٹھائیں گے اور اس کی تیاری کریں گے تو ہم پکے اوراچھے مسلمان بن جائیں گے یقین کریں ہم موت سے نہیں بھاگ سکتے ہاںمگر اپنی موت کو اچھا اور مزیدار بنانے کی دعاء اور محنت کرسکتے ہیں پھر دیر کس بات کی آج سے ہی دعاء اور تیاری شروع ہو جائے اللھم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت

موت نما مزیدار اورطاقتور زندگی

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

(۱) ترجمہ:     اور جو  اللہ  تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیںسمجھتے(البقرہ ۱۵۴)

(۲) ترجمہ:     اور اگر تم  اللہ  تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے گئے یا مر گئے تو  اللہ  تعالیٰ کی مغفرت اوراُس کی رحمت اُس چیز(یعنی مال و اسباب) سے بہترہے جو لوگ جمع کرتے ہیں(ال عمران ۱۵۷)

(۳) ترجمہ:    اور جو لوگ  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں مارے گئے انہیں مردے نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیئے جاتے ہیں،  اللہ  تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو انہیں دیا ہے اُس پر خوش ہونے والے ہیں الآیۃ (ال عمران ۱۶۹،۱۷۰)

(۴) ترجمہ:    اور جو شخص  اللہ  تعالیٰ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے پھر اُس کو موت آپکڑے تو اُس کا ثواب  اللہ تعالیٰ کے ذمے ہو چکا (النساء ۱۰۰)

(۵)ترجمہ:     اور جن لوگوں نے  اللہ  تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی، پھر وہ قتل کئے گئے یا مرگئے بے شک  اللہ  تعالیٰ اُن کو اچھی روزی دے گا اوریقیناً  اللہ  تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے اور اُن کو ایسے مقام میںداخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے اور بے شک  اللہ  تعالیٰ جاننے والا، برُدبار ہے(الحج ۵۸،۵۹)

(۶) ترجمہ:    اور جو  اللہ  تعالیٰ کی راہ میںمارے گئے ہیں  اللہ  تعالیٰ اُن کے اعمال ضائع نہیں فرمائے گا(بلکہ) جلدی انہیں راہ دکھلائے گا اور اُن کا حال درست کردے گا اور انہیںجنت میں داخل کرے گا جس کی حقیقت انہیں بتا دی ہے (محمد ۴ تا ۶)

الحمدﷲہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ  اللہ  کریم نے ہمیںاپنی کتاب میں سے چھ مزید مقامات پڑھنے کی توفیق عطاء فرمادی مزے لے لے کر قرآن پاک میں سے اُن کی تلاوت کریں پھر ترجمے کو پڑ ھیں اور سمجھیں اور ان آیات میںموت کو شکست دینے کا جو طریقہ لکھاہے اُسے اختیار کرلیں جی ہاں جہاد اور ہجرت کا راستہ بس نیت کر لیں اور راستہ پکڑ لیں پھر قتل ہوں یا عام موت آئے منزل پر پہنچیں یا راستے میں کھپ جائیں کوئی فتح ملے یا ظاہری شکست اُٹھائیں کوئی نتیجہ نظر آئے یا بالکل نہ آئے کوئی فرق نہیں، ذرہ برابر فرق نہیں ہاں جس کی نیت جتنی اونچی اور جس کی محنت اور قربانی جتنی زیادہ اُس کو اُتنا زیادہ مقام ملتاہے

عذاب اور اُس سے بچاؤ

قرآن پاک نے ’’عذاب‘‘ کے مسئلے کو تفصیل سے بیان فرمایاہے صرف’’العذاب‘‘ کا لفظ دو سو چونسٹھ(۲۶۴) بار اور’’عذابا‘‘ کا لفظ اُنتالیس (۳۹) بار قرآن مجید میں آیا ہے جبکہ اسی لفظ کے دیگر صیغے بھی درجنوں بار استعمال ہوئے ہیں قرآن پاک ’’عذاب‘‘ بھی بیان فرماتا ہے اور اُس کی اقسام بھی اور عذاب سے حفاظت اور بچاؤ کا طریقہ بھی  اللہ  تعالیٰ کا عذاب دنیا میں بھی آتاہے،اور مرنے کے بعد بھی اور اصل اور زیادہ سخت عذاب قیامت قائم ہونے کے بعد اُن لوگوں پر ہو گا جو اس عذاب کے مستحق ہوں گے جو لوگ  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں وہ اکثر عذاب الٰہی سے بچ جاتے ہیں اور جو لوگ’’ عذاب الہٰی‘‘ سے بے فکرے ہوتے ہیںوہ اکثر اس عذاب میں پکڑے جاتے ہیں  اللہ  تعالیٰ کاعذاب کب آئے گا اور کس پر آئے گا اس کا علم  اللہ  تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں اور کونسی چیز عذاب ہے اور کونسی چیز عذاب نہیں یہ بھی  اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے پانی میں ڈوب مرنا فرعون کے لئے اور کافروں، نافرمانوں کے لئے سخت عذاب ہے جبکہ مجاہدین کیلئے حالت جہاد میں ڈوب کر مرنا دُگنے اجر کا ذریعہ اوربڑی شہادت ہے آگ میں جل مرنا کافروں اورنافرمانوں کے لئے عذاب ہے جبکہ اصحاب الاخدود کے واقعہ میںجو اہل ایمان جلائے گئے وہ سیدھے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں داخل ہو گئے ہم سب مسلمانوں کو قرآن پاک کی اُن آیات میںغور کرنا چاہئے جو ’’عذاب‘‘ کوبیان فرماتی ہیں اور ہم سب کو  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے بے حد ڈرنا چاہئے اور اُن طریقوں کو اختیار کرنا چاہئے جو  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہیں

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

(۱) ترجمہ:     کیا تم اُس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسادے پس یکایک وہ زمین لرزنے لگے،کیا تم اُس سے بے خوف ہو گئے ہو جوآسمان میں ہے کہ وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے(المُلک ۱۶،۱۷)

(۲) ترجمہ:     کیا بستیوں والے بے خوف ہو چکے ہیں کہ ہماری طرف سے اُن پر رات کو عذاب آئے جب وہ سورہے ہوں یا بستیوںوالے اس بات سے نڈر ہو چکے ہیں کہ اُن پر ہمارا عذاب دن چڑھے آئے جب وہ کھیل رہے ہوں،کیا وہ  اللہ  تعالیٰ کی اچانک پکڑ سے بے فکر ہو گئے ہیں، پس  اللہ  تعالیٰ کی اچانک پکڑ سے بے فکر نہیں ہوتے مگر نقصان اٹھانے والے(الاعراف ۹۷ تا ۹۹)

(۳) ترجمہ:     اور اُن اچھی باتوں کی پیروی کرو جوتمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہیں اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو، کہیں کوئی نفس کہنے لگے ہائے افسوس اُس پر جو میں نے  اللہ  کے حق میں کوتاہی کی اور میں توہنسی ہی کرتا رہ گیا یا کہنے لگے اگر  اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت کرتا تو میں پرہیز گاروں میں ہوتا یا کہنے لگے جس وقت عذاب کو دیکھے گا کہ کاش مجھے میسر ہوتا واپس لوٹنا تو میں نیکو کاروںمیں سے ہوجاؤں ہاںتیرے پاس میری آیتیں آچکی تھیں پس تو نے انہیں جھٹلایا اور تو نے تکبر کیا اور تو منکروںمیں سے تھا (الزمر ۵۵ تا۵۹)

(۴) ترجمہ:     اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں جہاد پر نکلو تو زمین پر گِرے جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو، دنیا کی زندگی کا فائدہ توآخرت کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے، اگر تم نہ نکلو گے تو  اللہ  تعالیٰ تمہیںدرد ناک عذاب میں مبتلا کرے گااورتمہاری جگہ اور لوگ پیدا کرے گا اور تم اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور  اللہ  تعالیٰ ہر چیزپر قادر ہے( التوبہ ۳۸، ۳۹)

(۵) ترجمہ:    اور  اللہ  تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ انہیں آپ کے ہوتے ہوئے عذاب دے دے اور  اللہ  تعالیٰ انہیں عذاب دینے والے نہیں اس حال میں کہ وہ استغفار کرتے ہوں۔(الانفال ۳۳)

(۶) ترجمہ:    اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے، تم  اللہ  تعالیٰ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور تم  اللہ  تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوںسے جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو(ا  لصّف ۱۰،۱۱)

الحمدﷲ ہم نے مزید چھ مقامات سے قرآن پاک کو پڑھنے کی سعادت حاصل کی ان آیات کی تلاوت کر کے ان کا ترجمہ توجہ سے پڑھیں پہلے چار مقامات پر عذاب کا تذکرہ ہے اورآخری دو مقامات میں عذاب سے حفاظت کے طریقے ارشاد فرمائے ہیں  اللہ  تعالیٰ اور رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پرایمان تو بنیاد ہے اس کے بعد جہاد اور استغفار وہ دو بڑی چیزیں ہیں جن کواختیار کر کے ہر مسلمان  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکتا ہے  اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ان دو اعمال کی بھرپور اور مقبول توفیق عطاء فرمائے اور ہم سب کو اپنے عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچائے

 آمین یا ارحم الراحمین

اللھم یا ارحم الراحمین صل علی محمد ھو رحمۃ للعالمین وعلیٰ الہ وصحبہ اجمعین وبارک وسلم تسلیما کثیر ا کثیرا

٭٭٭

آزادی کی انگڑائی

 

 اللہ  تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت عطاء فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ( اٰل عمران ۲۶)

ترجمہ:                کہہ دیجئے! یا  اللہ ، سلطنت کے مالک! جسے آپ چاہتے ہیں سلطنت دیتے ہیں اور جس سے چاہتے ہیں سلطنت چھین لیتے ہیں جسے آپ چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں اور جسے آپ چاہیں ذلیل کرتے ہیں سب خوبی آپ کے ہاتھ میں ہے بے شک آپ ہر چیز پر قادرہیں

تیونس مسلمانوں کا مُلک ہے مگروہاں’’ اسلامی جماعتوں‘‘ پر پابندی تھی آپ نے سُن لیا ہو گا کہ تیونس میں بڑی تبدیلی آرہی ہے مُلک کا صدر، مُلک کا سونا چُرا کر بھاگ گیا ہے پچیس سالہ مضبوط اقتدار عوامی مظاہروں کے سامنے مکڑی کا جالا ثابت ہوا اور اب تیونس ایک نئی کروٹ لے رہا ہے مگر زیادہ حیران کن حالات تو’’مصر‘‘ کے ہیں ہر مسلمان’’مصر‘‘ کو خوب جانتا ہےحضرت یوسف علیہ السلام والا مصر جس کاتذکرہ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے اکابر فرماتے ہیں کہ جس کو شہادت کا شوق ہو وہ ’’سورۂ یوسف‘‘ زیادہ پڑھا کرے انشاء  اللہ  شہادت نصیب ہو گی ایک مسلمان بہن نے خط میں پوچھا کہ شہادت کا بے حد شوق ہے کوئی وظیفہ بتائیں جواب میں لکھا کہ صدق دل سے شہادت کی دعاء کرنا، سورۂ یوسف کی زیادہ تلاوت کرنا اور  اللہ  تعالیٰ کا اسم مبارک’’یا شہید‘‘ زیادہ پڑھنا شہادت پانے کے لئے مفیدوظائف ہیں شہادت بہت بڑی ،بہت میٹھی، بہت لذیذ، بہت حسین، بہت خوشبودار، بہت منّور، بہت البیلی، بہت انمول، بہت مست اور بہت ہی زیادہ اونچی اور مزیدار نعمت ہے  اللہ  تعالیٰ رحم فرمائے بعض لوگ شہادت سے ڈرتے بھی ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شہادت کے ڈر سے سورۂ یوسف کی تلاوت ہی چھوڑدیں مہربانی فرما کر ایسا ہرگز نہ کریں سورۂ یوسف میں ’’مصر‘‘ کے کئی عجیب احوال اور خصوصیات کاتذکرہ ہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کاواقعہ تو قرآن پاک میں بار بار آیا ہے مصر کے ’’فرعون‘‘ کا تذکرہ بھی بہت زیادہ ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ قرآن پاک کے تیس میں سے اٹھائیس پاروں میں موجود ہے وہ انبیاء د جن پر قرآن پاک میں نام لے کر’’سلام‘‘ کا تذکرہ ہے ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں آپ سب قارئین بھی انبیاء د پر سلام بھیجا کریں قرآن پاک کی دو آیات پڑھنے سے  اللہ  تعالیٰ کے تمام انبیاء اور رسولوں تک سلام پہنچ جاتا ہے دیکھا کتنی بڑی خوش نصیبی ہے

الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (النمل ۵۹)

ترجمہ: سب تعریف  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہے اور اُس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے

وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الصافات ۱۸۱)

ترجمہ:                اور رسولوں پر سلام ہو اور سب تعریف  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے

ان دو آیات کو اپنے معمولات میں شامل کر لیں اسی طرح جن انبیاء دکانام لے کر سلام کا تذکرہ ہے وہ آیات بھی پڑھا کریں

سَلاَمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ (الصافات ۷۹)

سَلاَمٌ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ (الصافات ۱۰۹)

سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ (الصافات ۱۲۰)

سَلاَمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ  (الصافات ۱۳۰)

اور سب سے بڑھ کر اپنے آقا و محسن امام الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام بھیجنے کا تو  اللہ  تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں حکم فرمایا ہے

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(  الاحزاب ۵۶)

ترجمہ: بے شک  اللہ  اور اس کے فرشتے نبی پر درو د بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو

 التحیات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام بھیجنے کا طریقہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے سکھایا ہے

السَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ  اللہ  وَبَرَکَاتُہٗ

ہم جب بھی دُور سے یہ سلام پڑھتے ہیں تو فرشتے فوراً اسے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچا دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کا جواب ارشادفرماتے ہیں سبحان  اللہ  کتنی بڑی سعادت ہے اسلام کے ان الفاظ میں نہ کوئی شرک ہے نہ کوئی بدعت اورنہ اس سے حاضر و ناظر کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے ہر جگہ حاضر و ناظر تو صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ کی ذات ہے سلام کے یہ الفاظ خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سکھائے ہیں ویسے جودرود شریف بھی پڑھیں اس کے ساتھ سلام کو ملا لیا کریں ’’سلام‘‘ خوداسلام کی ایک مقبول عبادت ہے اور ’’السَّلام‘‘  اللہ  تعالیٰ کا اسم مبارک ہے اورہم سب سلامتی کے محتاج ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور تمام انبیاء علیہم السلام پر سلام بھیجنا اور پڑھنا بڑی سعادت کی بات ہے حضرت موسیٰ  علیہ السلام ’’مصر‘‘ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ نے آپ کو قتل سے بچانے کے لئے  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا دریا، پانی، چشمے اور سمندر کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں عجیب اثر ہے اسی پانی میں تیرتے ہوئے فرعون کے محل جا پہنچے فرعون کے گھر آپ کی پرورش ہوئی کمزور بچیوں کو پانی بھر کر دیا تو رہائش اور رشتہ ملا اور بالآخر سب سے بڑا دشمن پانی میں غرق ہو کر ڈوب مرا اور جب پتھر پرلاٹھی ماری تو اپنی قوم کے لئے بارہ چشمے پانی کے پُھوٹ پڑے  اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ کو پانی کی قدر اور سمجھ نصیب فرمائے اور زیادہ سے زیادہ مخلوقات کو  اللہ  تعالیٰ کی رضاء کے لئے پانی پلانے کی توفیق عطاء فرمائے پانی کا تذکرہ آتے ہی’’کالم‘‘ پانی پلانے کے فضائل کی طرف پھسل رہا ہے ایسا پھسلنا بھی اچھا مگر ہم پھسلنے کی بجائے ’’مصر‘‘ چلتے ہیں، کیونکہ وہاں آج کل بہت شور شرابا اور ہلچل ہے کچھ عرصہ پہلے امارات جانا ہوا تھا وہاں کویت اور دبئی کے اسلامی رسائل میں مصر کے موجودہ صدر’’ حسنی مبارک‘‘ کو ’’فرعون مصر‘‘ لکھا ہوتا تھا اور اُس کے عجیب و غریب مظالم بھی بیان کئے جاتے تھے مصر کے حکمرانوں نے’’ اسلامی تحریکوں‘‘ کا ایسا گلا دبایا کہ دور دور تک کسی شورش یا یورش کے آثار نہیں تھے ان حکمرانوں نے ’’جامعہ ازھر‘‘ کے توسط سے ’’اسلام‘‘ کو سرکاری تحویل میں چھپا رکھا تھا جمال عبدالناصر نے اخوان کی تحریک کو ایسا کُچلا کہ’’اخوان‘‘ آزادی سے دستبردار ہو کر پارلیمنٹ کی چند سیٹوں تک محدود ہو گئے بڑے بڑے لوگوں کوپھانسی پر لٹکا دیا گیا جہاد کا تو نام لینا ہی ممنوع تھا جبکہ پورا مصر اسرائیل اور امریکہ کی خدمت اور چوکیداری کے لئے وقف تھا یہاں ایک مزیدار بات سُن لیں ہمارے سابق صدر آنجہانی پرویز مشرّف کے دل میں کبھی کبھار’’کمال اتاترک‘‘ اور’’جمال عبدالناصر‘‘ بننے کا شوق اٹھتا تھا وہ دونوں اگرچہ اسلام کے دشمن تھے مگر ذاتی صفات اور صلاحیتوں سے مالا مال تھے جبکہ مشرف صاحب کے پاس ’’اسلامی دشمنی‘‘ تھی ذاتی صفات میں گانا، ناچنا ، شراب پینا، کرکٹ دیکھنا اور دن رات بولتے رہنا، بولتے رہنا اب ان صفات کا حامل شخص نہ تو اچھا ہیرو بن سکتا ہے اور نہ بُرا مگر پھر بھی اُن کے دل میں شوق ابھرتا تھا کہ وہ کوئی تاریخی شخصیت بن جائیں اور پاکستان کا نقشہ ہی بدل دیں آپ حیران ہوں گے کہ انہوں نے پاکستان کو ترکی اور مصر بنانے کے لئے باقاعدہ ایک خفیہ کمیشن بنایا مصر کی انٹیلی جینس ایجنسیوں سے اسلامی تحریکوں کو دبانے، مولویوں کو سرکاری بنانے اور جہاد کا نام و نشان مٹانے کے گُر سیکھے آزاد دینی مدارس کو بند کر کے سرکاری تحویل میں چلنے والے ’’ماڈل دینی مدارس‘‘ کا خاکہ تیار کیا اور جہاد کے معنیٰ اور مفہوم کو بگاڑنے کے لئے ’’صوفی ازم‘‘ کا باقاعدہ منصوبہ بنایا پرویز مشرف تو ناکام رہا مگر مصر کی حکومت فرعونی انداز سے چلتی رہی اور کسی کے خیال میں بھی نہ تھا کہ اگلے پچاس سال تک مصر میں کوئی آزادی کی انگڑائی بھی لے سکے گا مصر کے وہ غیور مسلمان جو یہ بدترین غلامی برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ دوسرے ملکوں میں ہجرت کرجاتے تھے اخوان المسلمین سے کچھ لوگوں نے الگ ہو کر’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ بنائی اسی جماعت کے ایک رُکن خالد اسلامبولی شہیدس نے انور السادات کو قتل کیا خالد اسلامبولی فوج میں ملازم تھے انہوں نے پریڈ کے دوران انورالسادات کو گولی مار دی اسی الجماعۃ الاسلامیہ کے شیخ عمر عبدالرحمن امریکہ کی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں مصر کواپنی انٹیلی جینس پر بہت ناز تھا مگر یہ انٹیلی جینس اُس خاموش تحریک کاپتا نہ چلا سکی جو انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے منظم ہوتی رہی آج مصر کے باشندے سڑکوں پر ہیں بہت طویل غلامی کے بعد روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے کئی دہائیوں کے بعد مصر کی فضاء نے پھر ایمان اورغیرت کے نعرے سنے ہیں مصر کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں کی کوٹھڑیاں پھر تکبیر کے زمزموں سے آباد ہو چکی ہیں افغانستان، بوسنیا، اور عراق کے دور دراز علاقوں میں مصری شہداء کی قبروں پر امیدوں کی شبنم برس رہی ہے یہ سب کچھ ایک اچھے مستقبل کی نوید ہے خود کو دنیا کی سپر پاور کہنے والا استعمار کمزور ہوا ہے تو اب اُس کے مُہرے بھی ایک ایک کر کے گر رہے ہیں کافروںنے نیٹ اور موبائل کومسلمان قوم کی بربادی کے لئے استعمال کیا مگر آج اسی ہتھیار کی دھار خود اُن کی گردنوں پر ہے مصر کے شہر قاہرہ سے پوری عرب دنیا کو فحش ویب سائٹس فراہم کی جاتی تھیں مگر آج قاہرہ، اسکندریہ اور سویز میں نیٹ پر پابندی لگ چکی ہےیہ پابندی ’’طالبان‘‘ یا’’ مذہبی شدّت پسندوں‘‘ نے نہیں لگائی بلکہ خود مصر کی سیکولر اور منافق حکومت نے لگائی ہے جی ہاں تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمان اٹھ کھڑا ہو تو پھر کافروں کے تمام ہتھیار خود اُن کی طرف اپنا رخ کر لیتے ہیں آج وقت ہے کہ ہم’’مصر‘‘ تیونس اور تمام اسلامی ممالک کے لئے ’’اچھے حکمرانوں‘‘ کی دعاء مانگیں کیا معلوم اس دعاء کی برکت سے ہمیں بھی اچھے حکمران نصیب ہو جائیں اورہمیں بھی کفر اور نفاق کے پیادوں اور سواروں سے نجات مل جائے وما ذلک علی  اللہ  بعزیز

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (285)

قدر دانی

 

 اللہ  تعالیٰ ہم سب کو ’’نعمتوں‘‘ کی قدر کرنے والا بنائے نعمتیں تو بہت لوگوں کو ملتی ہیں مگر اُن کی ’’قدر‘‘ کوئی کوئی کرتاہے اکثر لوگ تو بڑی بڑی ’’نعمتوں‘‘ کی ناقدری کر کے محروم ہو جاتے ہیں تھوڑا سا سوچیں! ایک عورت کے لئے وقت کے رسول اورنبی کی بیوی ہونے سے بڑھ کر کوئی نعمت ہوسکتی ہے؟  اللہ  اکبر کبیرا اتنی عظیم نعمت جس کی عظمت کا تصور بھی محال ہے نبی اور رسول کی تو چند لمحے کی زیارت ہی بہت بڑی نعمت ہے تو پھر دن رات کی رفاقت کا کیامقام ہوگا؟ اربوں کھربوں انسانوں میں سے  اللہ  تعالیٰ نے کم وبیش صرف ایک لاکھ چند ہزار افراد کو اپنی نبوت اور رسالت کے لئے منتخب فرمایا  اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں رسالت اور نبوت سے اونچا کوئی مقام نہیں ہے حضرت نوح علیہ السلام  اللہ  تعالیٰ کے بڑے رسول اور نبی ہیں آپ کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے قرآن پاک میں جابجا آپ کا مبارک تذکرہ موجود ہے اور ایک پوری سورۃ کا نام’’سورۃ نوح‘‘ ہے اُس زمانے کی ایک عورت کو یہ عظیم نعمت ملی کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے نکاح میں آئی مگر اُس ظالم نے ’’قدر‘‘نہ کی استغفر اللہ ، استغفر اللہ اتنی عظیم نعمت کی ناقدری اُس کے گھر میں’’وحی‘‘ نازل ہو رہی تھی اُس کے سرتاج کی زیارت کو ملائکہ اُتر رہے تھے مگر وہ اپنی ادنیٰ خواہشات کی اسیر بنی رہی اُسے اپنی قوم اور برادری کا ناز اور خیال رہا اور وہ اصل نعمت کو بُھلا بیٹھیبالآخر کافر مری اور ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں غرق ہو گئی بڑے خوف کا مقام ہے جی ہاں بڑے خوف کا قرآن پاک فرماتاہے کہ کافروں کی مثال سمجھنی ہو تو حضرت نوح  علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام  کی بیویوں کودیکھو  اللہ  تعالیٰ نے اُن کو نعمت دی مگر انہوں نے ناقدری اور خیانت کی تب انبیاء د کے ساتھ رشتے داری بھی اُن کے کام نہ آئییہ رشتہ داری کیسے کام آتی؟ انہوں نے کبھی اس رشتے کی قدر ہی نہیں کی اُن کی نظر میں وقتی مفادات تھے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ والی حقیقی زندگی کو بھول چکی تھیں  اللہ ،  اللہ ،  اللہ  اللہ  تعالیٰ کی رحمت ہو ہماری ماؤں پر اُمہات المؤمنین نے ایک بار خرچے میںاضافے کا مطالبہ کیا جی ہاں معمولی سا مطالبہ مگر  اللہ  تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا کیونکہ جو نعمت اُن خوش نصیب بیبیوں کو حاصل تھی خاتم النبیین حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت کی نعمت اس نعمت کے ہوتے ہوئے عام دنیاوی نعمتوں کوسوچنا بھی اچھا نہیں تھا چنانچہ اعلان ہو گیا کہ دو چیزوں میں سے ایک چیز اختیار کر لو یا تو  اللہ  تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو اختیار کر لو تب دنیا کی ہر خواہش اور زیب و زینت کو بُھلا دو یہاں کی آسائشوں کا خیال بھی نہ لاؤ اور اگر تمہیں دنیا کی آرائشیں چاہئیں تو پھر آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جدائی کے لئے تیار ہو جاؤ  اللہ ،  اللہ ،  اللہ ہماری مقدس مائیں کانپ کر رہ گئیں رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  سے جُدائی نہیں، نہیں، ہر گزنہیں خرچے کا مطالبہ بھی خواہشات کے لئے نہ تھا بس کچھ آسانی مطلوب تھی سب نے بیک آواز پکار کر کہاہم  اللہ  تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو اختیار کرتی ہیں سبحان  اللہ نعمت کی قدر کی تو ماشاء  اللہ  کیسامقام پایا کچے گھروں میں کھجور اور پانی پر گزارا کرنے والی ہماری مقدس مائیں آج کن نعمتوں میں ہیں کیا کوئی اس کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ اور جنت میں بھی وہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہوں گی ایک چچاکو  اللہ  تعالیٰ نے عظیم بھتیجا دیا مگر اُس نے قدر نہ کی وہ ابو لہب آگ میں گیا اُس کی روح سارادن اپنے لئے ہلاکت کا اعلان سنتی ہے تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ دوسرے چچا  نے اپنے عظیم بھتیجے کی قدر کی وہ سیدالشہداء سیدنا حمزہ رضی  اللہ  عنہ بن گئے اُن کا نام سنتے ہی انسان پر عجیب وجد طاری ہوجاتا ہے  اللہ  پاک مدینہ طیبہ لے جائے شہداء اُحد کے ہاں حاضری دیں تو جسم کے اندر خون کی گردش خود تیز ہو جاتی ہے سبحان  اللہ ! ہر مسلمان کو شہادت کی تمنا ہے اور شہیدوں کے سردار ہیں حضرت سیدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ   سچی بات ہے بہت سے مسلمان آج بھی اُن کی زیارت کے لئے تڑپتے ہیں حضرت سیدنا عباس  رضی اللہ عنہ نے بھی قدر فرمائی ماشاء  اللہ  خود بھی اونچے تھے خوب دراز قد، بنی ہاشم کے سردار اور مقام بھی کتنا اونچا پایا جو کوئی بھی حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ اچھاسلوک کرتا تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا محبوب بن جاتا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑا اور لوگ بارش کو ترس گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  کو ساتھ لیا اوراُن کے وسیلے سے بارش کی دعا  اللہ  تعالیٰ سے مانگی اُن کی دعاکے بعدحضرت سیدناعباس  رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوگئے آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹک ٹک برس رہے تھے آپ نے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگی تھوڑی ہی دیر میں منظر کچھ یوں تھا کہ لوگ بارش سے بچنے کے لئے بھاگ بھاگ کر دیواروں کی پناہ پکڑ  رہے تھے اور حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  کے مبارک جسم کو محبت اور احترام سے چھوتے ہوئے کہہ رہے تھے ھنیا یا ساقی الحرمین اے حرمین کے ساقی مرحبا ’’حرمین کے ساقی‘‘ مکہ مکرمہ میں حُجَّاج کرام کو زمزم پلانے کی خدمت بھی حضرت عباس  رضی اللہ عنہ کے پاس تھی اور آج مدینہ طیبہ کے باسی بھی آپ کی دعاء کی برکت سے سیراب ہو رہے تھے

جی ہاں نعمت کی قدر انسان کو بہت اونچا کر دیتی ہے اس راز کوحضرت سیدناعباس  رضی اللہ عنہ  نے خوب سمجھا علاقائی دستور اور قبائلی رواج کے مطابق تو بھتیجے کی پیروی کرنا ٹھیک نہیں تھا مگر جس کو  اللہ  تعالیٰ عقل عطاء فرمائے وہ کبھی  ان فضولیات کی خاطر بڑی نعمتوں سے محروم نہیںہوتا پھر آگے دیکھیں! حضرت عباس  رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے مفسر القرآن حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنھما کو عجیب نصیحت فرمائی جی ہاں ایک بڑی نعمت کی’’قدر دانی‘‘ کا طریقہ سکھلایا ارشاد فرمایا:

’’ اے بیٹے میں دیکھ رہا ہوں کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ   تمہیں بزرگ صحابہ پر بھی ترجیح دیتے ہیں پس(اس نعمت کی قدر کے لئے) پانچ  باتوں کاخوب لحاظ رکھو

(۱)     اُن کاراز کسی کے سامنے افشاء نہ کرنا

(۲)     اُن کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرنا

(۳)     اُن سے جھوٹ نہ بولنا

(۴)     کسی معاملے میں اُن کی نافرمانی نہ کرنا

(۵)     اس کا خیال رکھنا کہ وہ تم سے کوئی خیانت نہ دیکھیں

امام شعبی پ فرماتے ہیں کہ ان پانچوں باتوں میں سے ہر بات ہزار باتوں اور نصیحتوں پر بھاری ہے( احیاء علوم الدین)

 اللہ  تعالیٰ کسی بھی مسلمان کو اپنے کسی مقبول بندے کی صحبت، اعتماد اور قُرب عطاء فرمائے تو وہ ان پانچ باتوں کا خیال رکھے تب وہ اس نعمت کی قدر کرنے والا ہو گا اور جو کسی نعمت کی قدر کرتاہے وہ  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے انعامات اور مقامات پاتا ہے مگر شیطان کی بھرپور کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیں ناقدرا اور ناشُکرا بنادے شیطان خبیث ہمارا دشمن ہے اور اُسے ہماری ہر نیکی سے تکلیف ہوتی ہے تفسیر روح البیان میںاس پر ایک عجیب واقعہ لکھاہے حضرت ابن عباس رضی  اللہ  عنہما فرماتے ہیںایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد کی طرف تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں ابلیس موجودہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: تمہیں کیا چیز میری مسجد کے دروازے پر لائی ہے؟ ابلیس نے کہا یا محمد!( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے  اللہ  تعالیٰ یہاں لایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کس لئے؟ کہنے لگا! اس لئے تاکہ آپ جو چاہیں مجھ سے پوچھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلی بات یہ پوچھی کہ اے ملعون! تم میری امت کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے کیوں روکتے ہو؟شیطان نے کہا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب آپ کی اُمت نماز کے لئے نکلتی ہے تو مجھے گرم بخار اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے یہ بخارمیری جان نہیں چھوڑتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: تم میری اُمت کو علم اور دعاء سے کیوں روکتے ہو؟ کہنے لگا جب آپ کے اُمتی دعاء کرتے ہیں تو میں بہرا اور اندھا ہو جاتا ہوں اور اُس وقت تک ٹھیک نہیں ہوتا جب تک وہ ہٹ نہیں جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا! تم میری اُمت کوقرآن سے کیوں روکتے ہو؟ اُس نے کہا جب یہ قراء ت کرتے ہیں(یعنی قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں) تو میں سیسے کی طرح پگھلنے لگتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایاتم میری امت کو جہاد سے کیوں روکتے ہو؟شیطان نے کہا یہ جب جہاد پر نکلتے ہیں تو میرے پاؤں میں بیڑی ڈال دی جاتی ہے اور ان کے واپس آنے تک میں قید رہتا ہوں اور جب یہ حج کے لئے نکلتے ہیں تو ان کے واپس آنے تک میں زنجیروں اور طوقوں میں جکڑا رہتاہوں اور جب یہ صدقہ کا ارادہ کرتے ہیں تو میرے سر پر آرا رکھ دیا جاتا ہے جو میرے سر کو یوں کاٹتا ہے جس طرح لکڑی کو چیرا جاتا ہے (روح البیان، تفسیر حدائق الروح والریحان)

 اللہ  تعالیٰ کے کسی مقرب اور مقبول بندے کی صحبت اور رفاقت تو اُن تمام اعمال کا ذریعہ بنتی ہے جن اعمال سے شیطان کو تکلیف پہنچتی ہے اس لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ انسان سے یہ نعمت چھن جائے ابھی آخری زمانے میں  اللہ  تعالیٰ نے حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ  کو اُمت مسلمہ میں ایک عظیم مصلح اور مجدّد کی صورت میں پیدا فرمایا اُن کے زمانے کے خوش نصیب لوگوں نے اس نعمت کو پہچان لیا اور پھر ہر قربانی دے کر اس نعمت کی قدر کی ان اہل وفا کی عجیب داستان ہے آج اہل علم اور اہل قلم جب بھی ایمان، عزیمت اور وفا کی داستان لکھنے بیٹھتے ہیں تو انہیں حضرات کو بطور حوالہ کے پیش کرتے ہیں حضرت سید صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی برکت سے دنیا میں ان حضرات کو ایمان، جہاد، جماعت اور شہادت کی نعمتیں ملیں اور شہادت کے بعد آخرت کی نعمتیں الگ اوردنیا میں نیکیوں اور دعاؤں کے سلسلے الگ اور وہ لوگ جنہوں نے وقتی مفادات کو سامنے رکھ کر اس نعمت کی ناقدری کی وہ بھی اپنے وقت سے زیادہ نہ جی سکے اور نہ اپنے مقدر سے زیادہ روزی پا سکے ہاں بہت سی سعادتیں اُن کے گھر کے آنگن میں اُتر کر پھر اُن سے روٹھ کر چلی گئیں آج یہ سب باتیں اچانک میرے ذہن میں ایک خط پڑھنے کے بعد آئیں یہ خط مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر اور اکابر کی صحبتوں سے منجھے ہوئے ایک بڑے بزرگ عالم دین کا ہے حضرت اقدس ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ العالی حضرت اقدس بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کے خاص شاگرد اور معتمد اورآج مسند بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے تاجدار حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کو ’’عصائے بنوری ‘‘ کا لقب دیا نامور عربی ادیب اور دلکش ، شائستہ مزاج کے حامل، شفیق استاذ میری سعادت ہے کہ اُن سے نحو میر بھی پڑھی اور پھر مشکوٰۃ شریف کا ایک حصہ بھی اُن کا یہ عمومی خط حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مضمون لکھنے کے حکم پر مشتمل ہے حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری  رحمۃ اللہ علیہ  کا نام پڑھا تو میرا ذہن نعمت اور اُس کی قدر کے موضوع پر سوچنے لگا ہم نے مولانا سعید احمد جلالپوری  رحمۃ اللہ علیہ کو اُس زمانے میں بھی دیکھا جب ماشاء  اللہ  بالکل نوجوان تھے قسمت کی خوبی دیکھیں کہ ان کی تشکیل حضرت لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بطور معاون ہو گئی وہ ماہنامہ بینات کے دفتر میں حضرت لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے دائیں طرف بیٹھے رہتے تھے اور حضرت جو کتاب طلب فرماتے وہ نہایت پھرتی کے ساتھ تیزی سے اٹھا کر حضرت کو پیش کر دیتے اُس وقت نہ وہ خود مضامین لکھتے تھے اور نہ تصنیف و تدریس سے کوئی خاص رشتہ تھا مگر اُن کو’’پارس‘‘ کی صحبت مل گئی تھی اُن کی قسمت اچھی تھی انہوں نے اس صحبت کی قدر اور حفاظت کی اور ہر طرح کے حالات میں حضرت سے چمٹے رہے استقامت اور وفا بڑی چیز ہے یہ انسان پر ترقی کے تمام دروازے کھول دیتی ہے حضرت لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قدر کرنے پر  اللہ  تعالیٰ نے حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ کو ماشاء  اللہ  خوب نوازا اُن سے علمی اور تحریری میدان میں کافی کام لیا اوربالآخر اُن کو حضرت لدھیانوی شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے قائم فرمودہ ’’ادارے‘‘ مزار شہداء میں بھی جگہ مل گئی  اللہ  تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور  اللہ  تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی نعمتوں کی ’’قد ردانی‘‘ نصیب فرمائے

آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد وعلی الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (286)

تِرا جانا’’ مُبارک‘‘ ہو

اللہ تعالیٰ کا شُکر ہے’’ حُسنی‘‘ چلا گیا مسلمانوں کو ’’مُبارک‘‘ ہو۔ الحمد للہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے صیہونیت کا جال ٹوٹ رہا ہے انگریزی استعمار کے بُرے اثرات ختم ہو رہے ہیںاور’’مسلمان‘‘ جاگ رہا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ’’جہاد‘‘ کی محنت اور شہداء کے خون کی برکت سے نازل ہو رہا ہے الجزائر میں بھی تحریک پُھوٹ پڑی ہے اوریمن بھی ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے الحمد للہ ایسے حالات آرہے ہیں کہ ’’ یہودی‘‘ چلاّ اٹھے ہیں، اسرائیل لرز رہا ہے اور کافروں کے تھنک ٹینک اپنا سر کُھجا رہے ہیں آپ یقین کریں یہ سب کچھ ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘  کی برکت سے ظاہر ہو رہا ہے جی ہاں مختصر سے جہاد کے نتائج اپنا رنگ دکھا رہے ہیں تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھیں یوں لگتا تھا کہ ساری دنیا کافروں نے آپس میں بانٹ لی ہے اور اب مسلمانوں کے مقدّر میں موت ہے یا غلامی ایک طرف سوویت یونین تھا، جس کا فوجی اور نظریاتی سیلاب مسلمانوں کو بہالے جا رہا تھا کیا بخارا اور کیا سمر قند کیا قفقاز اور کیا داغستان کیا ترکمانستان اور کیا تاجکستان ہر طرف سوویت یونین کے جھنڈے لہرا رہے تھے کیمونزم کی درانتی نے سروں کی فصلیں کاٹیں اور کیمونسٹوں کے ہتھوڑ ے نے مسلمانوں کو پیس ڈالا لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور کروڑوں کو بددین  بنا دیا گیا آہ، حدیث و تفسیر کے اماموں کی اولاد بددینی اور کفر کا شکار بن گئی کیمونزم آدھی دنیا پر چھا گیا اور باقی آدھی دنیا صیہونیت اور سرمایہ داری کے استعمار میں لپیٹ لی گئی اُس وقت میرے آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اُمت پر عجیب حالات تھے

یوں لگ رہا تھا کہ بس اس ’’اُمت‘‘ کے دن پورے ہو چلے اور تو اور دینی رہنما بھی غلامی پر صابر، شاکر ہو بیٹھے مسلمانوں کے اپنے بچے کیمونسٹ بن گئے اور وہ سرخ جھنڈے لیکر اپنے ملکوں میں سوویت یونین کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے اُس وقت جہاد ہو تو رہا ہو گا مگر اُس کا کہیں تذکرہ نہیں تھا یقینا کچھ گمنام مجاہدین، حضرت امام شامل رحمۃ اللہ علیہ کی طرح اسلام کی شمع کے گرد پروانوں کی طرح شہید ہو رہے ہوں گے میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ’’وعدہ‘‘ ہے کہ جہاد کبھی بند نہیں ہو گا جی ہاں دجّال کے خاتمے تک یہ عظیم عمل جاری رہے گا کتنے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کے وعدے کی ’’تصدیق‘‘ بنتے ہیں یا اللہ ہمیں اُن ہی میں زندہ رکھنا اور اُنہیں میں مارنا مگر اُس وقت جہاد کی عمومی فضاء نہیں تھی گلیوں میں الجہاد، الجہاد کے نعرے نہیں تھے دنیا کے اکثر ممالک مسلمانوں کی گردن پر پائوں رکھ کر مطمئن بیٹھے تھے  اور اُنہیں کسی طرح کی ’’مزاحمت‘‘ کا کوئی خطرہ نہیں تھا اہلِ دل مسلمان امت مسلمہ کے ایمان کو بچانے کے لئے پُرامن دعوتی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور کفر کا سیلاب مشرق و مغرب میں تیزی سے مسلمانوں کو روندتا جا رہا تھا تب مدینہ منورہ سے کچھ آنسو عرش کی طرف اٹھے قرآن پاک نے روشنی کی ایک شعاع مشرق کی طرف برسائی کعبۃ اللہ اور حجر اسود سے ہدایت کے شرارے دریائے آمو کی طرف بڑھے تب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو اللہ پاک نے اُمت مسلمہ کو ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ عطاء فرمادیا اللہ اکبر کبیرا یہ عجیب جہاد تھا چودہ سو سال بعد مسلمانوں نے غزوہ بدر کا ایک اور رنگ دیکھا جگہ جگہ ’’شہداء احد‘‘ کی یاد یں تازہ ہوئیں اُس زمانے جب پاکستان کا آسان بارڈر عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوتے تھے تو ایک عجیب سی خوشبو محسوس ہوتی تھی جس سے بھی پوچھا اس نے تصدیق کی کہ واقعی یہ خوشبو آتی ہے میران شاہ کی طرف سے افغانستان میں داخل ہوتے ہی ژاور کے علاقے میں ایک اجتماعی قبر تھی یہ پچاس عربی مجاہدین تھے جو سوویت بمباری سے اکٹھے ہی شہید ہوئے تھے کوئی مصر کا تھا تو کوئی تیونس کا کوئی الجزائر کا تھا تو کوئی یمن کا کوئی شام کا تھا تو کوئی سعودیہ کا کوئی مراکش کا تھا تو کوئی لبنان و فلسطین کا ان کی قبروں سے کئی لوگوں نے راتوں کو تلاوت کی آواز سنی ویسے جو بھی وہاں سے گزرتا عجیب سکون پاتا اُس سے تھوڑا پہلے ایک پہاڑی کے اوپر بنگلہ دیش کے ایک مجاہد’’ مفتی ابوعبیدہ پ‘‘کی قبر تھی وہاں سے تہجد کے وقت تلاوت کی آواز کئی لوگوں نے بار بار سُنی بے شک اللہ تعالیٰ شہداء کے عمل کو ضائع نہیں فرماتا یہ جہاد افغانستان کا پہلا مرحلہ تھا ابتداء میں کیمونسٹ غالب نظر آ رہے تھے۔ بستیوں کی بستیاں بمباری سے ملیا میٹ کر دی گئیں۔ غزنی کے کئی دیہات ایسے تھے جہاں کے سب مکین شہید کر کے اجتماعی قبروں میں چُھپا دیئے گئے مسلمان تیزی سے مر رہے تھے مگر اسلام زندہ ہو رہا تھا افغانستان کے اس مبارک جہاد میں اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو شرکت کی سعادت بخشی شہداء کا خون بڑھتا گیا تو مجاہدین کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوتا گیا جہاد بھی عجیب عمل ہے اس میں جتنا زیادہ نقصان ہو یہ اتنا طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اُس زمانے کے پُرنور مجاہدین یاد آتے ہیں تو دل عقیدت سے بھر جاتا ہے میران شاہ کے تبلیغی مرکز کے قریب ایک بڑے مجاہد کی قبر ہے مولانا فتح اللہ حقانی شہید ان کی شہادت کے بعد ’’ حقانی‘‘ مجاہدین کا سلسلہ ایسا مضبوط ہوا کہ افغانستان کے پانچ صوبوں سے اس نے کیمونزم کے ہر دھبّے کو دھو ڈالا کم عقل لوگ پوچھتے ہیں کہ جہاد کا کیا نتیجہ نکلا؟ سبحان اللہ جہاد کے نتائج تو سورج کی روشنی سے بھی زیادہ چمک رہے ہیں جو ربّ کریم آنسو کے قطرے کو رائگاں نہیں فرماتاوہ اپنی خاطر بہنے والے خون کو بھی ضائع نہیں فرماتا یہ جہادکی برکت تھی کہ سوویت یونین ختم ہو گیا اور اُس کا خونی انقلاب اپنی موت آپ مر گیا اب تو آپ کسی عالم سے ’’ کیمونزم‘‘ کے خلاف بیان نہیں سنتے کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں رہی ورنہ بیس ، تیس سال پہلے تو امت کا درد رکھنے والے اکابر اور علماء اس فتنے سے اتنے پریشان تھے کہ دن رات اس کے خلاف لکھتے اور بولتے تھے صوبہ سرحد کے شہر پشاور میں ایک بزرگ تھے وہ اپنی خانقاہ میں بھی کیمونزم کے خلاف بیان فرماتے تھے کیونکہ اُس وقت یہ فتنہ مسلمانوں کے ایمان کو کھا رہا تھا یہ جہاد کی برکت تھی کہ بخارا کی مساجد دوبارہ کُھل گئیں، یہ جہاد کی برکت تھی کہ سمرقند میں اذانیں گونجنے لگیں یہ جہاد کی برکت تھی کہ کشمیری مسلمان انگڑائی لیکر کھڑے ہوئے اور بھارت ماتا کے پجاریوں کو دن کے تارے دکھا دیئے

افسوس کہ مسلمانوں نے ابھی تک بھارت کے خطرے کو نہیں سمجھا یقین کریں اسلام اور مسلمانوں کے لئے بھارت کا خطرہ کسی بھی طرح اسرائیل، امریکہ اور نیٹو کے خطرے سے کم نہیں ہے مگر ہندو ’’ میٹھا زہر‘‘ ہے ’’ میٹھا زہر‘‘ کڑوے زہر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے مگر اُس کی مٹھاس کی وجہ سے لوگ اُسے زہر نہیں سمجھتے بھارت کئی جنگوں میں پاکستانی حکمرانوں کو شکست دیکر اب اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا تھا کہ جہاد کشمیر نے اُس کے پائوں کے نیچے زمین کو ہِلا دیا جہاد تو مسلمانوں میں غیرت، زندگی اور حرارت پید اکرتا ہے طالبان کے زمانے میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، اور طالبان نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے ’’اعلان جہاد‘‘ کر دیا تو پوری دنیا کے مسلمان غیرت سے سرشار ہو گئے اُن دنوں پاکستان میں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے ہر ڈاڑھی پگڑی والے کو بے حساب ووٹ ڈالے۔اگلے الیکشن میں وہ ماحول نہ رہا تو نتائج بھی بدل گئے۔ پچھلے چند سالوں میں جہاد کی برکت سے لاکھوں افراد مسلمان ہوئے ہیں پاکستان میں مدارس کا جال بھی جہاد کی شمع روشن ہونے کے بعدوسیع ہواباقی کام توپہلے بھی ہورہے تھے مگر پھربھی مدارس کم تھے کراچی کے نامورمدارس میں دورۂ حدیث کے طلبہ کی تعداد پچاس سے اوپرنہیں جاتی تھی مگرجب جہادنے دینی غیرت کوجگایاتواب ہرطرف مدارس ہی مدارس نظرآرہے ہیں اورکئی مدارس میں صرف دورۂ حدیث کے طلبہ کی تعدادپانچ سو سے اوپرہے جہاد نے الحمدللہ دین کے ہرشعبے کو قوت دیجہادنے عالم اورمولوی کوشان دیجہاد نے ’’طالبعلم ‘‘کے اندرخودداری اوراعتماد پیداکیاجہاد نے مساجداورمدارس کوجُھولی چندے سے اٹھا کرفائیواسٹار عمارتوں سے بھی اونچا کردیاجہاد کاہردن کفرکے لئے خسارے کااورمسلمانوں کے لئے فائدے اورترقی کاپیغام لاتاہےجہادجیسے جیسے طویل ہوتا جا رہا ہے اُس کے اثرات پھیلتے جارہے ہیںمصرکے تازہ فرعون کوغرق ہونے میں کتنے دن لگے؟جی ہاں صرف ’’اٹھارہ دن‘‘بی بی سی والوں نے اعتراف کیاہے کہ مصرکانظام ٹوٹناسوویت یونین کے ٹوٹنے کی طرح ہے جس طرح سوویت یونین کی طاقت ناقابل شکست سمجھی جاتی تھی اسی طرح مصرکے نظام کوبھی دُوردورتک کوئی خطرہ نہیں تھالوگ پوچھیں گے کہ مصرمیں کون سامسلّح جہاد ہوا؟کچھ لوگ اسے پرامن احتجاج کانتیجہ قراردیں گےان سے پوچھاجائے کہ مسلمانوں کے خون میں غیرت اورحرارت کس عمل نے پیدا کی؟اپنے مقصد کے لئے کٹ مرنے کی سوچ کس محنت سے بیدار ہوئی؟پُرامن احتجاج توبہت عرصے سے ہورہاتھایہ سب کچھ جہادی محنت، اورجہادی دعوت کانتیجہ ہےہم توبہت پہلے سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں پرمسلّط منافقین کے خلاف مسلّح جہاد نہ کیاجائے بلکہ شرعی جہاد کوقوت دے کران پرزمین تنگ کردی جائےجب کچھ مسلمان کفارکے خلاف لڑتے ہیں اوراپناخون دیتے ہیں توپوری قوم میں دینی غیرت اورزندگی پیدا ہوتی ہےمبارک ہوافغانستان کے گم نام شہداء کوسلام ہوفلسطین اورکشمیرکے شہداء کوآفرین ہوچیچنیا،عراق اورقفقاز کے شہداء پرمبارک ہوجہادی محنت میں کسی بھی طرح حصہ ڈالنے والے ہرمسلمان مرداورعورت کوماشاء اللہ جس نے بھی جہاد میں جوحصہ ڈالاوہ کام آگیالڑنے والے بھی مبارک،زخم کھانے والے اوراعضاء کٹوانے والے بھی مبارکجیلیں ،قیدیں اورعقوبت خانے سہنے والے بھی مبارکجہادی دعوت کے لئے زبان ،قلم اورمال لگانے والے بھی مبارکہاں بیشک جہاد نے مسلمانوں کومالامال کردیاکوئی شہادت اورجنت پاگیااورکوئی جنت کے انتظار میں ہےدنیاجس ظالمانہ شکنجے میں کسی ہوئی تھی وہ شکنجہ ٹوٹ رہاہےابھی فی الحال کسی جگہ اسلامی حکومت توقائم نہیں ہوگی مگرکفرکانظام بھی آزادی سے نہیں چل سکے گاابھی بڑے بڑے ملک ٹوٹیں گےابھی کفارگھبراہٹ میں مبتلاہوکرآپس میں لڑیں گےابھی توکئی مُلک چھوٹے مُلکوں کی شکل میں تقسیم ہوں گےابھی توافغانستان، کشمیر،عراق اورفلسطین کے علاوہ اورکئی جگہ جہادی محاذ کُھلیں گےابھی تو بعض اوقات کمزورمسلمانوں کوپھراندھیرانظرآئے گاکیوںکہ بادلوں کازورٹوٹ بھی جائے توپھربھی اُن کاکوئی ٹکڑاسورج کے سامنے آکرروشنی کومدہم کردیتاہےمگریادرکھنااسلام غالب ہونے کے لئے آیاہےاوراسلام اپنے حتمی غلبے کی طرف بڑھ رہاہےجہادسے دوستی کرنے والوتمہیں بہت مبارک ہوبس اسی جہاد پرجمے رہنااللہ تعالیٰ سے جان ومال کاسوداکرنے والواس مبارک بازارسے بھاگ نہ جانا تمہارا جہاد تو رب تعالیٰ کی رضاء اورجنت خریدنے کے لئے ہےمگراب تودنیامیں بھی اس کے نتائج تیزی سے ظاہرہورہے ہیںوہ دیکھو ’’حُسنی‘‘ بھاگ گیاہےمبارک ہو،مبارک ہو

اللہم صل علیٰ سیدنامحمدوآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیراکثیرا

٭٭٭

287

کوئی ہے؟

 

 اللہ  تعالیٰ ہم سب پر’’رحم‘‘ فرمائےدل میں شوق اٹھتا ہے کہ مسلمانوں میں تین چیزوں کی زور دار محنت چلائی جائے(۱) کلمہ طیبہ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ (۲) اقامتِ نماز(۳) جہاد فی سبیل  اللہ یہ محنت مسلمان مردوں میں بھی چلے اور عورتوں میں بھی مگر دل میں درد محسوس ہوتا ہے کہ کون اس عظیم محنت کو لیکر کھڑا ہو سچ یہ ہے کہ ان تین باتوں کواکٹھے لے کر چلنے کی ضرورت ہے کلمہ طیبہ ایساہو کہ دل کی گہرائی اورخون کے ذرّات تک میں گھساہوا ہو یہ عظیم کلمہ ہے ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ اس دنیا کا سب سے طاقتور کلمہ ہے یہ اس دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے یہ حقیقی کلمہ ہے ایٹم بم وغیرہ کی طاقت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے یہ کلمہ طاقت اور قوّت کاعظیم خزانہ ہے جو اس کو جتنا زیادہ پڑھتا ہے، جتنا زیادہ سمجھتا ہے اور جتنا زیادہ اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے وہ اُسی قدر زیادہ اس کی طاقت سے فیض یاب ہوتا ہے آج کل کے پُر فتن حالات میں ہر مسلمان مرد اورعورت کو روزآنہ کم از کم بارہ سو بار’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کا ورد کرلینا چاہیے اس سے ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے اور باطن میں نور اور ایمانی قوّت پیدا ہوتی ہے ایک صاحب کو شوق تھا کہ ُانہیں چالیس دن تک مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز نصیب ہو جائے کافی کوشش کی مگر کامیاب نہیںہوتے تھے کبھی بیس دن بعد،کبھی اس سے زیادہ یا کم دنوں کے بعد کسی نماز کی تکبیر اولیٰ چھوٹ جاتی ویسے کافی صدمے اور غم کی بات ہے نا؟ مسلمان کے لئے سب سے ضروری کام’’نماز‘‘ہے مسلمان کے لئے سب سے اہم حکم’’نماز‘‘ ہے مسلمان کے لئے سب سے لازمی چیز’’نماز‘‘ ہے پھر نماز میں سُستی کا کیا مطلب؟ دل میںایمان ہو تو مسلمان کو نماز کا انتظار رہتاہے حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت بلال  رضی اللہ عنہ  سے فرماتے تھے اے بلال نماز کے ذریعہ ہمیں راحت پہنچاؤ نماز تو لذّت، راحت، برکت، رحمت اور نورانیت کامجموعہ ہے نماز میں سستی ’’نفاق‘‘ کی سب سے واضح علامت ہے حضرت سہل بن عبد اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ ایمان کے سچا ہونے کی علامت یہ ہے کہ  اللہ  تعالیٰ مؤمن کے لئے ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو نماز کے وقت اُسے نماز پر ابھارتاہے اور اگر وہ سو رہا ہو تو اُسے جگا دیتا ہے کیاایک مسلمان صرف چالیس دن بھی اس کی پابندی نہیں کر سکتا کہ وہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرے؟ یقیناً خطرے کی بات ہے ، رونے اور دھاڑیں مارنے کا مقام ہے ہر مسلمان غور کرے کہ اُسے اپنی زندگی میں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے یانہیں؟ جن کونصیب نہ ہوئی ہو اُن کو تنہائی میں رونا چاہئے اور التجا کرنی چاہئے کہ یا  اللہ  ایمان نصیب فرما بے شک نماز ’’ایمان‘‘ کی سب سے بڑی علامت ہے اور یہ ’’ایمان‘‘ کا سب سے پہلا تقاضاہے جب ہم نے’’ایمان ‘‘ کاپہلا حکم ہی ٹھیک طریقے سے نہیں مانا تو پھر ایمان کتنے دن تک ہمارے دل میں رہے گا؟ گھر میں کوئی بہت معزز اورمحبوب مہمان آجائے اور اُس کے آنے سے ہمارا گھر خیر اور برکت سے بھر جائے وہ مہمان شرط رکھ دے کہ میں اُس وقت تک یہاں رہوں گا جب تک آپ فلاںفلاںکام کریں گے اور ان کاموں میں سب سے اہم اور ضروری فلاں کام ہے پھر وہ چھ سو بار تاکید کرے کہ یہ کام ضرور کرنا ہے مگر ہم اُسی کام میں سستی کریںتو کسی دن وہ مہمان چپکے سے گھر چھوڑ کرچلا جائے گا  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی دولت عطاء فرمائی ایمان کی برکت سے ہمارا دل روشن ہو گیا اور ہم دنیا اور آخرت میں  اللہ  تعالیٰ کے مقرب بن گئے ایمان کی برکت سے ہمیں جہنم سے نجات کا وعدہ ملا جنت کی نعمتوں کی بشارتیں ملیں کعبہ شریف ملا،مسجدیںملیں آج دنیا کے کافروں کو دیکھیں وہ کعبہ شریف سے محروم ، حجر اسود سے محروم، روضہ اقدس واطہر سے محروم مسجد حرام اور مسجد نبوی سے محروم مسجد اقصیٰ سے محروم رمضان اور عیدا لفطر سے محروم حج اور عید الاضحیٰ سے محروم درود شریف اور استغفار سے محروم جنت اور اس کی حوروں سے محروم اذانوں اور مسجدوں سے محروم آج دنیا کے ’’ارب پتی‘‘ کافروں کی آنکھوں سے ایک منٹ کے لئے پردہ ہٹا دیا جائے اور انہیں دکھادیا جائے کہ ایک بار ’’سبحان  اللہ ‘‘کہنے سے کیا ملتا ہے تو وہ اپنی دولت کو پیشاب کے قطرے سے بھی زیادہ حقیر سمجھنے لگ جائیں ایمان کی برکت سے مسلمانوں کو سبحان  اللہ ، الحمدﷲ،  اللہ  اکبر جیسے عظیم کلمات ملے اب ایمان نے ہمیں چند باتوں کا حکم دیا ان میں سب سے زیادہ تاکید’’نماز‘‘ کی فرمائی ہم نے نماز کو ہی نہ سمجھا اور نہ اپنایا تو پھر خطرہ ہے نا؟ کہ یہ ایمان کسی دن ہمارے دل کو چھوڑ کر چلا جائے یا  اللہ  رحم، یا  اللہ  رحم،یا  اللہ  رحم ایمان نہ رہا توپھر کتّے بھی ہم سے اچھے، سور اور خنزیر بھی ہم سے اچھے یا  اللہ  آپ کی پناہ، یا اللہ  آپ کی پناہ ہوناتو یہ چاہئے کہ ہم دولت ایمان کی قدر کرتے ہوئے نماز کے ساتھ عشق والا رشتہ بنالیں اس کے لئے بہت زور دار محنت کی ضرورت ہے اوریہ محنت جہاد اور دینی غیرت کی دعوت کے ساتھ ہو تو اس میں جان پڑے گی دینی غیرت انسان کے ایمان کو خالص اور مضبوط کر دیتی ہے جہاد، دینی غیرت اورقربانی کی دعوت نہ ہو تو لوگ نمازبھی دنیاوی مقصد کے لئے بنالیتے ہیں کہ رزق میں وسعت ہو جائے گی، لوگوں میں عزت ہو جائے گی زندگی آسان ہوجائے گی، کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اگرصرف یہ نیت ہوتو پھر نماز بے جان ہو جاتی ہے وہ بھی دکان اور کام پر جانے کی طرح ایک ڈیوٹی بن جاتی ہے ایسی بے جان نماز نہ گناہوں سے روکتی ہے نہ فواحش سےایسی کمزور’’نماز‘‘ ایمان کی کیا حفاظت کر سکے گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز سے رزق میں وسعت ہوتی ہے اور بھی بے شمار دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر نماز کااصل مقصد یہ نہیں ہے آپ نے کبھی سوچا کہ حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بڑھ کر کسی کی نماز ہو سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کے بارے میں لکھا ہے کہ صرف جسم مبارک دنیا میںہوتا تھا جبکہ روح مبارک  اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جان مبارک’’ملکوت‘‘ میں ہوتی تھی اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو جتنی راحت نماز سے ملتی تھی اتنی کسی چیز سے نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرماتے تھے آنکھیں تو نہ گرم ہوتی ہیں نہ ٹھنڈی آنکھوں کی ٹھنڈک عربی زبان کا محاورہ ہے اس کامطلب دل کی بہت زیادہ خوشی اور جسم کی بہت زیادہ راحت ہوتا ہے یعنی ایسا سرور جو دل سے لے کر آنکھوں تک چھا جائے ایک خاص سرمستی اور سرشاری اسے آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے ہیں مثلاً ہم میں سے جو مال کے شوقین ہیں اور کچھ غریب بھی ہیں اُن کو اچانک کوئی پچاس لاکھ روپے یا ایک کروڑ ھدیہ کر دے اُس وقت دل،آنکھوں یا جسم پر جو کیفیت ہوتی ہے اسے آپ آنکھوں کی ٹھنڈک سے تشبیہ دے سکتے ہیںنماز آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیبعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پوری رات نماز میں گزر جاتیمگر اس کے باوجود جہاد کے زخم بھی لگے گھر میں فاقے بھی آئے دشمنوں نے ستایا بھی معلوم ہوا کہ نماز صرف رزق اور ظاہری امن کا ذریعہ نہیں بلکہ اسلام کا لازمی حکم اور فریضہ ہے بہت سے ائمہ اور علماء کے نزدیک تو نماز کا ترک کرنا کفُر ہے قرآن پاک میں نماز کی آیات پڑھیں، احادیث مبارکہ میں نماز کے باب کو پڑھیں تو یہی لگتا ہے کہ اگر عقیدے کا کفر نہ بھی ہو تو عملی کفر ضرور ہوجاتاہے  اللہ  پاک رحم فرمائے آج توہر گھر بے نمازی مردوں اور عورتوں کی نحوست سے بھرا پڑا ہے نمازی لوگ سارا دن کماتے ہیں اور اپنے بے نمازی بچوں کو کھلاتے ہیں بات ایک صاحب کی چل رہی تھی انہیں بہت تمنا تھی کہ کسی طرح چالیس دن تکبیرا ولیٰ نہ چُھوٹے بتاتے ہیں کہ روتے گڑ گڑاتے بھی تھے کہ یا  اللہ  نفاق اور جہنم سے برأت کی یہ علامت کب نصیب ہوگی؟ کئی بار تو بالکل قریب پہنچ کر رہ جاتے تب انہیں یہ عمل بتایا گیا کہ آپ روزآنہ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ بارہ سو بار پڑھنے کا معمول بنائیں کلمہ طیبہ کی قوت دیکھیں کہ جیسے ہی انہوں نے شروع کیا تو فرشتہ مقرر ہو گیا وہ سوتے تو جگادیئے جاتے، بیمار ہوتے تو نماز کے وقت قوت آجاتی اور پھر اُن کا یہ دینی شوق بھی پہلی جست ہی میں پورا ہوگیا کہ بغیر کسی رکاوٹ کے وہ ’’تکبیراولیٰ‘‘ کا چلّہ کرنے میںکامیاب ہو گئے اور ماشاء  اللہ  اس چلّے کی برکت یہ ہے کہ انسان کو نماز اور تکبیراولیٰ سے خود بخود محبت پیدا ہو جاتی ہے اور نماز سے محبت کرنے والوں کو  اللہ  تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے  اللہ  کرے مسلمان عورتوں کو بھی نماز کا شوق نصیب ہوجائے وہ بھی چالیس دن کا چلّہ آسانی سے کر سکتی ہیں طریقہ یہی ہے کہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع کریں  اللہ  تعالیٰ سے توفیق مانگیں کسی کے سامنے تذکرہ نہ کریں اور نہ خود کو نیک سمجھ کر دوسروں سے لڑائیاںکریں نماز کانقشہ منگوائیں ہر نماز کا اول وقت دیکھیں اورپھر پابندی سے ہر نماز اوّل وقت میں اہتمام سے ادا کریں درمیان میں کسی کا ناغہ آجائے تو فکر کی بات نہیں جو عذر  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے ہو وہ ناغے میں شمار نہیںہوتا دن گن کر رکھ لیں اور جب پھر نماز شروع کریں تو چلّے میں سے باقی کے دن پورے کر لیں جی ہاں اے  اللہ  کی پیاری بندیو! چالیس دن اپنے محبوب حقیقی اوراپنے مالک حقیقی کے لئے دے دو بارہ سو بار ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ پڑھا کرو ہر ایک سو پورا ہونے پر مکمل کلمہ اور درود شریف پڑھ لیا کرو دل پرسستی کا حملہ ہو یا آزادی اور گناہوں کی رغبت ہو تو لاحول ولاقوۃ الا ب اللہ ایک ہزار بار پڑھ لو قبر کا عذاب اور جہنم بہت مشکل ہے دل میں دنیا کی محبت پیدا ہو تو سورۃ التکاثر( الھکم التکاثر) تین بار پڑھ کر دعاء کر لیا کرو کوٹھی، کار او رغلام خاوند کاشوق انشاء  اللہ  دل سے نکل جائے گامصیبت اور بیماری آئے تو خود کو شیطان کے حوالے نہ کرو ایسے مواقع پر شیطان کان میں کہتا ہے کہ تمہاری کوئی دعاء قبول نہیںہوتی،تم بد نصیب ہو بس اٹھو اور گناہوںمیں لگ جاؤ ایسا ہو تو دس بار اعوذ ب اللہ  من الشیطن الرجیمپڑھ لیا کرو یا اعوذ ب اللہ  السمیع العلیم من الشیطن الرجیم اور میری بہنو! ایک بات یاد رکھو وہ یہ کہ دوسری مسلمان بہنوں کو کلمے اور نماز کی دعوت ضروردیا کرو اور جہادی احادیث اور واقعات بھی سنایا کرو دعوت دینے سے اپنا ایمان مضبوط ہوتا ہے اس دعوت کے لئے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں بلکہ گھر میں ہی جو مل جائے اُسے دعوت دو ایمان بہت قیمتی چیز ہے اُس کی حفاظت اپنے زیورات سے زیادہ کرو ہاں! میرے دل میں بہت درداٹھتا ہے میں چاہتاہوں کہ  اللہ  تعالیٰ مجھے بھی کلمہ طیبہ نصیب فرماد ے زندگی میں بھی اورمرتے وقت بھی اورمیری نمازیں ایسی ہوجائیں کہ نماز کی اقامت کا حق ادا ہوجائے اور میں جہاد فی سبیل  اللہ  کو سمجھ لوں، اوراس کے ذریعہ اسلام کی بلند ترین چوٹی تک پہنچوں اور  اللہ  پاک سے شہادت کا حسین خاتمہ پاؤں  اللہ  پاک میرے لئے یہ تین کام آسان فرمادے اور دل میں یہ درد اٹھتا ہے کہ سب مسلمان جی ہاں! پوری امت مسلمہ میں ان تین کاموں کی آواز لگائی جائے اس کیلئے زور دار محنت چلائی جائے اس کے لئے مخلص اور باعمل مبلغین تیار کئے جائیں ان تین اعمال سے انشاء  اللہ  ہمارے دل کی دنیا آباد ہو جائے گی اور ہمارے لئے پورے دین پر چلنا اور ہر سعادت کو پانا آسان ہو جائے گا اور ان تین اعمال سے انشاء  اللہ  ساری دنیا کا نقشہ بھی تبدیل ہو جائے گا اے مسلمانو! کوئی ہے جو اس درد اور فکر میں ہمارا ساتھ دے کوئی ہے؟ کوئی ہے؟

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (288)مجلسِ روحانی   رحمۃ اللہ علیہ

اللہ تعالیٰ ’’حُبِّ دنیا‘‘سے میری اورآپ سب کی حفاظت فرمائےحضرت اقدس مولانامحمدموسیٰ روحانی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:

’’احمدبن عمار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں زمانہ طالبعلمی میں دیگررفقاء سمیت اپنے معلّم واستاذ کے ساتھ نمازجنازہ میں شرکت کے لئے قبرستان کی طرف جارہاتھا راستے میں ہم نے ایک مقام پردیکھاکہ بہت سے کتے جمع ہیں اوروہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے کھیل رہے ہیں ، ہمارے استاذنے ہمیں ان کتّوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایاکہ دیکھوکتوں کی بعض عادتیں کتنی اچھی ہیں اوروہ ایک دوسرے کے ساتھ کتنے اچھے طریقے سے پیش آرہے ہیںاحمدبن عمارسفرماتے ہیں کہ نمازجنازہ پڑھنے کے بعدہم واپس اسی راستے سے آرہے تھے ،جب کتّوں والی جگہ پرہم پہنچے تودیکھاکہ کسی نے وہاں ’’جیفہ‘‘یعنی مردہ جانورپھینک دیاہے اوروہ کتّے اس جیفے یعنی مُردارکوکھانے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں،ایک دوسرے کوکاٹ رہے ہیں،غصہ سے بھونک رہے ہیںاورغُرّارہے ہیں،ان میں سخت ترین جنگ جاری ہے اور ہر ایک کتّا اس مُردار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمارے اُستاذ نے جب یہ حالت دیکھی توہم سے فرمایاکہ یہ عبرت وموعظت ونصیحت کامقام ہے اورفرمایاکہ جب یہ دنیاوی چیزان کتّوں کے سامنے نہ تھی تواس وقت یہ کتّے ایک دوسرے سے محبت والفت کااظہارکررہے تھے اورجب اُن کے مابین یہ دنیاوی چیز (مُردارجانور)آگئی تواب اُن کے مابین محبت کے تمام علاقے ختم ہوگئے اورعداوت وجنگ وجدال کی نوبت آگئیہمارے استاذ نے فرمایاکہ یہی حال ہے انسانوں کاجب انسانوں کے دلوں میں’’حُبّ دنیا‘‘نہ ہوتووہ ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اورآپس میں الفت سے پیش آتے ہیں،اورجب دنیاوی منفعت اُن کے سامنے آجائے تووہ ایک دوسرے سے کتّوں کی مانندلڑنے لگتے ہیںسابقہ حکایت میں ہمارے لئے عبرت کاعظیم سبق ہے،حُبّ دنیاخُداسے دورکرنے والی اورشیطان کے قریب کرنے والی چیزہےآج کل حبّ دنیاوحرصِ دنیاکی وباعام ہے،جس کانتیجہ یہ ہے کہ لوگ آفات ، بلاؤں ،مصیبتوں اورعداوتوں کے طوفان میں گِھرے ہوئے ہیں،یہی ’’حُبّ دنیا‘‘موت کے وقت اورقیامت کے دن مُوجب حسرت کاہوگالیکن اُس بے جاحسرت سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا‘‘ (گلستان قناعت)

ایک اورمقام پرتحریر فرماتے ہیں:

’’بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی کاانتقال ہوگیا اُس کے دوبیٹے تھے،ان دونوں کے مابین ایک دیوار کی تقسیم کے سلسلے میں جھگڑا ہوگیا جب دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے توانہوں نے دیوارسے ایک غیبی آواز سنی کہ تم دونوں جھگڑامت کروکیوں کہ میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایک مدت تک اس دنیامیں بادشاہ اورصاحب مملکت رہا پھر میرا انتقال ہوگیااورمیرے بدن کے اجزاء مٹی کے ساتھ گھل مل گئےپھراس مٹی سے کمہارنے مجھے گھڑے کی ٹھیکری بنادیاایک طویل مدت تک ٹھیکری کی صورت میں رہنے کے بعدمجھے توڑدیاگیاپھرایک لمبی مدت تک ٹھیکری کے ٹکڑوں کی صورت میں رہنے کے بعد میں مٹی اورریت کی صورت میں تبدیل ہوگیاپھرکچھ مدّت کے بعدلوگوں نے میرے اجزائے بدن کی اس مٹی سے اینٹیں بنالیں اورتم مجھے اینٹوں کی  شکل میں دیکھ رہے ہو لہذا ایسی مذموم اورقبیح دنیا پرکیوں جھگڑتے ہووالسلام

کسی شاعر نے کیاخوب کہاہے:

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو جا پڑا

وہ یکسر استخوان شکستہ سے چُور تھا

کہنے لگا! دیکھ کہ چل راہ بے خبر

میں بھی کبھی کسی کا سر پُر غُرور تھا

ایک اورشاعرکہتاہے:

غرور تھا، نمود تھی، ہٹو بچو کی تھی صدا

اورآج تم سے کیا کہوں لحد کا بھی پتہ نہیں

آہ،آہیہ دنیابڑی فریب دہندہ ہےفانی ہونے کے باوجود یہ لوگوں کی محبوب بنی ہوئی ہےیہ اپنی ظاہری رنگینی اوررعنائی سے لوگوں کوگمراہ کرتے ہوئے آخرت سے غافل کرتی ہے‘‘(گلستان قناعت)

ایک اورمقام پرتحریر فرماتے ہیں:

’’حضرت حسن بن بصری  رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ دنیامیں پانچ قسم کے لوگ رہتے ہیں:اول علماء ہیں جوانبیاء دکے وارث ہیںدو م زاہدین ہیں(یعنی تارک دنیا حضرات) یہ قوم کے رہنما ہیں سوم  غزاۃ ہیں ( مجاہدین  یعنی کفارسے جنگ کرنے والے)یہ اللہ تعالیٰ کی تلواریں ہیںچہارم تجارت کرنے والے ہیں یہ اللہ تعالیٰ  کے امین ہیںپنجم بادشاہ ہیں یہ مخلوق کے نگران ہیںپھر حسن بصری سنے فرمایا:

جب علماء دنیاکالالچ کرنے والے بن جائیں اورمال جمع کرنے لگیں توپھر کس کی پیروی کی جائے گی اورکون رہنماہوگا؟اورجب زاہدین،مال میں رغبت کرنے والے ہوجائیں تو پھرکس سے رہنمائی حاصل کی جائے گی اورکون نیک ہوگا؟اورجب غازی ریاکارہوجائیں توپھردشمن پرفتح کون حاصل کرے گا؟اورجب تاجرخیانت کرنے والے ہوجائیں تو پھر کون پسندیدہ اورامین ہوگااورجب بادشاہ وسلاطین خود بھیڑئیے بن جائیں توپھربکریوں(یعنی رعایا) کی حفاظت کون کرے گا؟‘‘(گلستان قناعت)

ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:

’’عبداللہ بن فَرَج سفرماتے ہیں کہ کسی نے داؤدطائی سکوخواب میں دیکھا کہ وہ صحرائِ حیرہ میں دوڑ رہے ہیں(حیرہ ایک شہرکانام ہے)تواُس نے پوچھاکہ اے داؤد!یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ دوڑکیوں رہے ہیں؟داؤدس نے فرمایاکہ میں ابھی ابھی جیل سے رہا ہواہوں اس لئے خوشی سے دوڑ رہا ہوں

لوگوں نے سوچااورغورکیاتوپتہ چلا کہ داؤدسکی وفات اسی دن ہوئی تھی جس دن انہیں خواب میں دوڑتے ہوئے دیکھا گیاتھااحبابِ کرام!حدیث شریف میں ہے ’’ الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر‘‘ یعنی’’دنیامؤمن کے لئے قیدخانہ ہے اورکافرکے لئے جنت ہے‘‘کامل مؤمنیعنی متّقی مسلمان،موت کے بعداُن نعمتوں اورخوشیوں سے ہم آغوش ہوتاہے جوتصوّرسے بلندہیںاہل اللہ کے لئے موت رحمت اورنعمت ہے موت سے دنیوی خواہشات،مشقتیں،جھگڑے اوربیماریاں ختم ہوکرفراغت حاصل ہوجاتی ہے،جیساکہ ایک شاعرکہتاہے:

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی

موت سے جینے کی صورت ہو گئی

جی رہا ہوں موت کی امید پر

مر ہی جاؤں گا جو صحّت ہو گئی

اب تو میں ہوں اور شُغلِ یادِ دوست

سارے جھگڑوں سے فراغت ہوگئی

اس کو ہر ذرّہ ہے ایک دنیائے راز

منکشف جس پر حقیقت ہوگئی

آپڑا ہوں قبر میں آرام سے

آج سب جھگڑوں سے فرصت ہوگئی

(گلستان قناعت)

ایک اورمقام پرتحریرفرماتے ہیں:

’’کُتب تاریخ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حاتم اصم  رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد کے سفرکے لئے تیاری کی توآپ نے اپنی بیوی سے پوچھاکہ تمہارے لئے کتناراشن چھوڑجاؤں تاکہ تمہیں میری عدم موجودگی میں کوئی تکلیف نہ ہو؟اس اللہ کی نیک بندی نے جواب دیا کہ آپ میری زندگی بھر کے لئے راشن کابندوبست کردیں،حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ ارے اللہ کی بندی!تیری زندگی تومیرے اختیار میں نہیں ہے لہذا مجھے کیامعلوم ہے کہ توکب تک زندہ رہے گی؟بیوی نے جواباً کہا کہ اگرمیری زندگی آپ کے اختیارمیں نہیں ہے تومیری روزی آپ کے اختیار میں کیسے ہے جس کاآپ انتظام کرناچاہتے ہیںپس جس مالک المُلک کے قبضۂ قدرت میں کسی جاندارکی زندگی اورموت ہے اسی کے ذمہ اس کی رزق رسانی بھی ہے،لہذاآپ اس بات کی فکر نہ کریں اوراپنے مبارک سفرپرروانہ ہوجائیں‘‘(گلستان قناعت)

ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:

’’لالچی اورحریص شخص کے نزدیک عزت وعظمت کامدار’’مال‘‘ہوتاہے ،وہ شخص حصول مال وجاہ کواپنی کامیابی وعزت وسعادت سمجھتاہے ،حالانکہ یہ مال ودولت فانی چیزیں ہیںکامل مسلمان کے نزدیک سب سے بڑی عزت تقویٰ ہے ، قناعت ہے، عبادت ہے اورذکراللہ ہےکیوں کہ یہ امورباقی اوردائمی ہیں اوریہ سب امورکلمۂ توحیدکے یعنی ’’لاالہ الااللہ‘‘ کے ثمرات ہیںمسلمانوں کے لئے سب سے بڑی عزت یہ ہے کہ انہیں’’لاالہ الااللہ‘‘پڑھنانصیب ہواہے اوراسی کلمہ مبارکہ پرانہیں نازہےایک شاعرنے اس سلسلے میں کیاخوب کہاہے:

سُنا ہے چند مسلمان جمع تھے یک جا

خدا پرست، خوش اَخلاق اور بلند نگاہ

کہا کسی نے یہ اُن سے کہ یہ تو بتلاؤ

تمہاری عزت و وقعت کا کس طرح ہے نباہ

نظر کرو طرفِ اقتدارِ اہل فرنگ

کہ اُن کے قبضے میں ہے ملک ومال وگنج وسپاہ

اُنہی کاسکّہ ہے جاری یہاں سے لندن تک

انہی کی زیرنگیں ہے ہراِک سفیدوسیاہ

کلیں بنائی ہیں وہ وہ کہ دیکھ کرجن کو

زبانِ خَلق سے بے ساختہ نکلتی ہے واہ

تمہارے پاس بھی کچھ ہے کہ جس پہ تم کوہوناز

کہا انہوں نے کہ ہاں ،لاالہ الّا اللہ

(گلستان قناعت)

بے شک ’’لاالہ الااللہ‘‘سب سے عظیم نعمت ہےاللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم کلمے کی قدرکرنے کی توفیق عطاء فرمائےاس کلمے کے مقاصدکوسمجھنے اوراس کے تقاضوں پرعمل کی توفیق عطاء فرمائےاوراس کلمے کی عظمت اورسربلندی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی توفیق نصیب فرمائےواقعہ یہ ہواکہ رات خواب میں اچانک پہلے حضرت ابّاجی ؒ سے اورپھرحضرت مولانامحمدموسیٰ روحانی بازی  رحمۃ اللہ علیہ   سے ملاقات نصیب ہوگئیسعدی فقیرتنہائی کے جنگل میں پڑارہتاہے تب اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے کبھی کبھی اپنے پیاروں کواُس کے خوابوں میں بھیج دیتے ہیںحضرت مولانامحمدموسیٰ صاحب نوراللہ مرقدہ سے بھرپورملاقات ہوئی خوب گلے لگایا دونوں طرف سے بوسوں کا تبادلہ ہوااوردل حلاوت سے بھرگیاصبح اپنے مکتبے سے اُن کی چندکتابیں اٹھاکرلایااورایصال ثواب کے بعداُن کی کتاب’’گلستان قناعت‘‘ کودیکھناشروع کیا اوپر جو عبرت آموزواقعات اوراشعارآپ نے پڑھے وہ اُسی میں سے نقل کردیئے تاکہآج رنگ ونور کی محفل میں ہم حضرتؒ سے فیض یاب ہوں’’حُبّ دنیا‘‘کافتنہ اُمت مسلمہ کوچاٹ رہاہےجہادفی سبیل اللہ اس فتنے کامؤثرعلاج ہے

ہلاکت اورتباہی سے بچنے کے لئے بہترین نسخہ یہی ہے کہہم اخلاص کے ساتھ جہادفی سبیل اللہ میں لگے رہیںآئیے آخرمیں حضرت مولانامحمدموسیٰ صاحبؒ کے لئے دعاء کرلیں کہاللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلندفرمائے اوراُن کے صدقات کوقیامت تک جاری رکھےجامع مسجد’’سبحان اللہ‘‘کے لئے عطیات دینے والے بھی قابل رشک ہیںاُن کے لئے بھی دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے لگائے مال کوقبول فرمائے اورانہیں اس کابہترین اورشانداربدلہ اوراجرعطافرمائے

آمین یاارحم الراحمین

اللہم صل علیٰ سیدنامحمدوآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیراکثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (289)

ہمارے ’’آج‘‘ کی قیمت

 

 اللہ  تعالیٰ توفیق عطاء فرمائےآج انشاء  اللہ  آپ کو ایک ’’کہانی‘‘ سُنانی ہے مگر اس سے پہلے اپنی ’’مجلس‘‘ کو بابرکت اور پُرنور بنانے کے لئے دو احادیث مبارکہ پڑھ لیتے ہیں بے شک میرے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مبارک باتوں میں بے حد برکت اور نُورہے میں نے آج ارادہ کیا تھا کہ حدیث شریف کی کتاب کھولوں گا جو روایت سامنے آئی اُسے خود بھی عمل کی نیت سے پڑھوں گا اور آپ کو بھی پڑھاؤںگا شُکر میرے مالک کہ ہم خوش نصیب ہوئے کہ آپ کے محبوب اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا کلام پڑھ رہے ہیں

(۱)     حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب کھانا تناول فرماتے تواپنی تین انگلیاں چاٹ لیا کرتے حضرت انس  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’کھاتے وقت تم میں سے کسی کا کوئی لقمہ گِر جائے تو اسے جھاڑ پونچھ کر کھا لیا کرو اور شیطان کے لئے نہ چھوڑاکرو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا بھی حکم فرمایا کہ کھانے کے برتن کو صاف کر لیا کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے کھانے کے کس حصّے میں برکت ہے‘‘(مُسلم)

معلوم ہوا کہ انگلیاں چاٹ لینی چاہئیں سالن اور چاول کی پلیٹ کو اچھی طرح صاف کر لینا چاہئے یعنی اس میں جو کچھ ہو وہ کھا لیا جائے( زیادہ بچاہو اورکھانے کی گنجائش نہ ہو تو اسے سلیقے سے ایک جگہ جمع کر کے اگلے وقت کھا لیا جائے) دستر خوان پر روٹی، سالن کے جو ذرّات ہوں، یا لقمہ گر جائے وہ صاف کر کے کھا لیا جائے لبیک یا سیّدی! ہم سب انشاء  اللہ  سعادت سمجھ کر ان تمام پر عمل کریں گے

(۲)     رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ  اللہ  تعالیٰ نے جو بھی نبی بھی مبعوث فرمائے انہوں نے بکریاں ضرور چرائیں صحابہ رضوان  اللہ  علیہم اجمعین نے عرض کیا! کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بھی بکریاں چرائیں ارشاد فرمایا جی ہاں! میں نے چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرائیں(بخاری)

اس حدیث شریف سے تواضع، محنت، تحمل اور برداشت حُسنِ تدبیر اور رزق حلال کے احکامات معلوم ہوئے ہم سب عمل کی نیت کر لیں اور  اللہ  تعالیٰ سے ان تمام احکامات پر عمل کی دعاء مانگیں اب آتے ہیں اپنی کہانی کی طرف اور اس کہانی کو سمجھنے کے لئے ایک بہت عجیب اور سبق آموز واقعہ پڑھتے ہیں حضرات انبیاء  علیہم السلام میں سے ایک نبی کا ایک عابد پر سے جو گزر ہوا وہ عابد ایک غار میں عبادت کے لئے رہائش پذیر تھے وہ نبی ح اُس عابد کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں سلام کیا عابد نے سلام کا جواب دیا نبی ح نے عابد سے پوچھا: اے  اللہ  کے بندے! آپ کب سے اس غار میں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا، تین سو سال سے پوچھا کہ کھانے کا کیا انتظام ہے؟ عرض کیا درختوں کے پتّے کھا لیتا ہوں فرمایا: پینے کا کیا بندوبست ہے؟ عرض کیا چشموں کا پانی پیتا ہوں فرمایا: سردیوں میں کیسے گزارہ ہوتا ہے؟ عرض کیا پہاڑ کے نیچے گزارہ ہو جاتا ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا اتنے طویل عرصے تک آپ عبادت پر کیسے ڈٹے ہوئے ہیں ( کہ نہ تنگ ہوتے ہیں اور نہ اُکتاتے ہیں) عابد نے عرض کیا میں عبادت پر کیسے نہیں جما رہوں گا کہ میرے پاس تو بس ایک دن ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ دن تو گزر گئے اور آگے کے دن آئے نہیں نبی ح عابد کی اس بات سے بہت حیران اور خوش ہوئے کہ میرے پاس تو بس ایک دن ہوتا ہے اور مجھے صرف اُسی دن کی عبادت کرنی ہوتی ہے اور ایک دن کی عبادت کوئی مشکل کام نہیں ہے واقعی بہت حکمت والی بات ہے انسان آگے کے دنوں کا سوچ سوچ کر بہت سی سعادتوں اور نیکیوں سے محروم ہو جاتا ہے حالانکہ آگے کا پتہ نہیں کہ اگلا دن آئے گا یا نہیں ہماری زندگی میں تو بس ہمارے سامنے کا دن ہوتا ہے قرآن پاک نے قیامت کے دن کو ’’کل‘‘ کا نام دیا ہے جی ہاں! بے شک یہی ایک ’’کل‘‘ یقینی ہے باقی تو اگلے لمحے کا بھی پتا نہیں انسان خود کو اوراپنے نفس کو راضی کر لے کہ بس آج میں نے ہر نیکی کرنی ہے ہر سعادت حاصل کرنی ہے اور ہر گناہ سے بچنا ہے مگرہم میں سے بہت سے لوگ مستقبل کی تدبیریں کر کر کے اپنے ’’آج‘‘ کو اور اپنے’’حال‘‘ کو خراب کرتے رہتے ہیں آج کی کہانی بھی اسی واقعہ کے گِرد گھومتی ہے آنجہانی پرویز مشرّف نے جب دینی، جہادی جماعتوں پر پابندی لگا دی ہمارے رسائل بند کر دیئے گئے دفاتر کا وجود ختم ہو گیااور ہر طرف خوف کی فضاء پھیل گئی وہ بہت عجیب دن تھے حکومت کے لوگ بھیس بدل بدل کر مجاہدین کے پاس جاتے اور انہیں تاریک مستقبل سے ڈراتے تب بہت سے لوگ واقعی ڈر گئے وہ کہتے تھے کہ ہمیں فلاں کرنل نے بتایا ہے کہ اس جماعت کو نہیں چلنے دیا جائے گا ہمیں فلاں انسپکٹر نے کہا ہے کہ جماعت کی قیادت بس چند دنوں میں مار دی جائے گی وغیرہ وغیرہ تب یہ مستقبل پرست لوگ کھسکنے لگے کسی نے کہا مجھے گھریلو مسئلہ ہے، کسی نے کہا میں ابھی فریز ہو جاتا ہوں جب حالات ٹھیک ہوں گے تو دوبارہ سرگرم ہو جاؤں گا کسی نے کہا دین کے کام بہت ہیں جہاد کوئی ضروری تو نہیں ان سب کے دلوں میں دو خواہشیںتھیں ایک ظاہری امن اور دوسرا محفوظ مستقبل مگر اُس وقت کچھ دیوانے یہی کہتے ہوئے میدان میں ڈٹے رہے کہ ہمارے پاس تو آج کا دن ہے اور آج الحمدﷲ ہم سلامت ہیں چاروں طرف موت کی خبریں ہیں مگر ہم آج تو زندہ ہیں کل آنے والی موت کے ڈر سے آج کیوں مر جائیں؟ ان لوگوں نے اپنی زندگی کا صرف ایک دن سمجھا اور اُس ایک دن میدان سے پیٹھ پھیرنے کو خود پر حرام کر لیا کیا صرف ظاہری امن کی خاطر شہادت کے میدان کو چھوڑ دینا جائز ہے؟ کیا موہوم مستقبل کی خاطر اپنے آپ کو سعادتوں سے محروم کر لینا عقلمندی ہے؟ مستقبل کے لیے اچھی تدبیر کرنے کا ہرگز انکار نہیں وہ اپنی جگہ اہم مگر مستقبل بھی اُن کا ہی سنورتا ہے جو اپنے آج یعنی حال کو درست اور قیمتی بناتے ہیں  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں نکلنے والے یہ مُسافر آندھیوں اور طوفانوںمیں ڈٹے رہے تب  اللہ  پاک نے اُن سے صدیوں کا کام لے لیا ان کا ایک محاذ بند ہوتا تو وہ بھاگ کر دوسرا محاذ کھول لیتے سچی بات ہے کہ اگر آج کا مؤرّخ اس داستان کو لکھے تو اس کا قلم حال کو ماضی سے جوڑنے میں شرمندہ نہیں ہوگا اپنے ’’آج‘‘ کے فرض کو ادا کرنے والے ان عاشق دیوانوں نے محاذوں پر ایسی محنت کی کہ ماشاء  اللہ  اُن کا جہاد  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے عزیمت کی چوٹیوں کو چُھونے لگا چونکہ ان کے پاس بس ایک ’’دن‘‘ تھا اس لئے وہ اپنے آج کے دن میں ہر کام کرتے چلے گئے تاکہ زندگی کا آخری دن قیمتی بن جائے اور وہ دن گناہ، خوف اوردنیا پرستی میں ضائع نہ ہو جائے تب مسجدوں پر مسجدیں بنتی چلی گئیں الحمدﷲ مدارس پر مدارس آباد ہوتے گئے الحمدﷲ دعوت جہاد نے دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا الحمدﷲ رفاہی کاموں میں اندازے سے زائد ترقی ہوئی الحمدﷲ ذکر و درود کی محفلیں دور دور تک اپنا رنگ جمانے لگیں الحمدﷲ یہ دیوانے ہاتھ اور زبان کے ساتھ اپنے’’قلم‘‘ سے بھی دین کی خدمت کرتے تھے حکومت نے ان کے قلم کو خُشک کر نے کی کوشش کی کراچی میں اخبار کا دفتر سیل کر دیا گیا اور رسالے کا عملہ خوف کی فضاء میں بکھرگیا مگر اِن دیوانوں کو اتنا یاد تھا کہ ان کے پاس آج کے دن’’قلم‘‘ موجود ہے چنانچہ وہ بھاگتے، دوڑتے ہوئے بھی لکھتے اور چھاپتے رہے کراچی روٹھا تو وہ لاہور آپڑے ’’شمشیر‘‘ بند ہوا تو انہوں نے ’’راہ وفا‘‘ نکال لیا دشمن پریشان تھے کہ یہ لوگ کتنی لمبی پلاننگ کر کے رکھتے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ اگلے سالوں تو کیا اگلے دنوں کی پلاننگ بھی نہیں تھی بس یہ عزم تھا کہ ہمارے پاس ’’آج‘‘ کا دن ہے’’آج‘‘ تو ہم ہار نہیں مانیں گے ایک دن کی استقامت کونسا مشکل کام ہے سبحان  اللہ ! ہجرت اور سفر کی برکتیں ظاہر ہوئیں اور’’قلم‘‘ جولانیاں دکھانے لگا یہ سب کچھ  اللہ  تعالیٰ کا فضل تھا پابندی کے بعد ان دیوانوں کی زیادہ تصنیفات سامنے آئیں اور ان کی تحریرمیں زیادہ عزم و ہمت کا رنگ چھلکنے لگا اُنہیں دنوں کا تذکرہ ہے کہ ان دیوانوں میں سے ایک میرے پاس آیا اُس وقت ہر طرف خوف کی خبریں تھیںکہ بس ایک دو دن میں یہ سب لوگ مار دیئے جائیںگے ختم کر دیئے جائیں گے اُس دیوانے نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ کل ہم کیا کریں گے؟ مرجائیں گے تو پیچھے والوں کا کیا بنے گا؟ اگر پکڑے گئے تو کیا ہوگا؟ اُس کے پاس تو بس ایک دن تھا اور وہ اپنے اس دن کو کمانا چاہتا تھا سعدی جی!  ہفت روزہ اخبار نکالنے کی اجازت چاہئے مگر شرط یہ ہے کہ آپ کا مضمون بھی ضرور ہونا چاہئےاُن دنوں میرے مضامین کا سلسلہ بند تھا کچھ کتابوں پر کام بھاگتے دوڑتے جاری تھا سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتاب ’’لطف اللطیف‘‘ تو معلوم نہیں کتنے شہروں میں تھوڑی تھوڑی لکھی گئی مجھے یہ مطالبہ سُن کر حیرانی ہوئی اتنے سخت حالات میں ہمارے اخبار کو کون نکلنے دے گا اور کون چلنے دے گا مگر میرے پاس بھی زندگی کا ایک دن تھا میں انکار کر دیتا تو میرا وہ دن ایک اچھے کام سے محروم ہوجاتا میں نے ہاں کر دی پھر نام پر بات شروع ہوئی تو وہ بھی اُسی دن طے ہو گیا’’القلم‘‘ سبحان  اللہ ہفت روزہ’’القلم‘‘ نکالے گا کون؟ جواب آسان تھا کہ اپنے ’’آج‘‘ کو روشن اور قیمتی بنانے والے دیوانے نکالیںگے ہم نے سب کچھ طے کر کے اپنے اُس دن کو ’’قیمتی ‘‘بنا لیا اور یہ نہ سوچا کہ کل یہ اخبار نکل سکے گا یا نہیں؟کیونکہ کل کا تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ آئے گا یا نہیں ہمیں تو مالک نے اپنے فضل سے ایک نیکی کے عزم اور ارادے کی توفیق دے دی

الحمدﷲ’’القلم‘‘ پوری قوّت سے نکلا ابتداء ہی میں پچاس ، ساٹھ ہزار کی اشاعت اور دین اسلام اور جہاد کی بے لاگ ترجمانی ہم نے اخبار کا نقشہ بناتے وقت یہ نہیں سوچا کہ فلاں فلاں باتوں کو دشمن برداشت کریں گے یا نہیں؟ کیونکہ یہ تو’’کل‘‘ کی باتیں تھیں ہمارے پاس’’آج‘‘ تھا توہم سب نے اپنی زندگی کے آخری دن حق بات کہنے اور سچ لکھنے کی پابندی کرلیہمیں یہ ڈر نہیں تھا کہ کل ان باتوں کو پڑھ کر فلاں ہمیں مار دے گا یا فلاں ہمارا اخباربند کر دے گا ہمیں اپنے ’’آج‘‘ کی فکر تھی کہ’’آج‘‘ ہم پر کیا فرض ہے ہم بے فکری کے ساتھ’’ملا محمد عمر مدظلہ‘‘کا بیان بڑی سرخی میں لگا دیتے لوگ کہتے اخبار بند ہو جائے گا ہم عرض کرتے آج تو بندنہیں ہوا کل پتا نہیں آئے گی یا نہیں ہم ایسے مشکوک ’’کل‘‘ کی خاطر اپنے ’’آج‘‘ کو کیوں’’سیاہ‘‘ کریں کہ پرویز مشرف کے بیان کو اخبار کی بڑی سرخی بنادیںالعیاذ ب اللہ ، العیاذب اللہ ظالموں کی باتیں اہمیت کے ساتھ چھاپنا خود ایک ظلم اور گناہ ہےایک صاحب نے پیغام بھیجا کہ’’القلم‘‘ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ چلے گا دیوانوں نے کہا چھ ماہ تو بہت بڑا عرصہ ہے ہم تو اسے آج چلانا چاہتے ہیں کہ آج یہ حق بات پہنچا دے کیا چھ ماہ زندہ رہنے کے لئے’’آج‘‘ جھوٹ بولنا جائزہے؟ ایک اور باخبر صاحب نے فرمایا القلم والے انگاروں سے کھیل رہے ہیں کسی بھی لمحے یہ سب اندر اور اخبار بند!!! دیوانوں نے کہا آج تو ہم آزاد ہیں اور اخبار بھی جاری ہے کل کی ذمّہ داری اُن پر جو کل زندہ ہوں گےابھی دو چار دن پہلے ایک دیوانے نے مجھے ایک کتاب کے چند نسخے بھیجے میں نے کھول کر دیکھا تو رنگ و نور جلدپنجم سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم واہ میرے عظیم مالک آپ کی قدرت بہت عظیم ہے بہت اونچی مجھے تو ایک جلد کی امید بھی نہ تھی بس اپنے آخری دن کو کام میں کھپانے کے لئے ہر پیر یا منگل کو قلم لے کر بیٹھ جاتاتھا کبھی بھی ذہن میں یہ نہیں آتا تھا کہ اگلے ہفتے بھی لکھنا ہوگا یانہیں اب ماشاء  اللہ  پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں یہ سب  اللہ  تعالیٰ کا فضل ہے برادر عزیز مولانا محمد مقصود احمد شہیدسکے مضامین بھی انشاء  اللہ  جلد چھپ کر سامنے آنے والے ہیں برادر عزیز مولانا طلحہ سیف کے مضامین بھی ماشاء  اللہ  دو جلدوںمیں چھپ رہے ہیں اخبار میں شائع ہونے والی محترم پروفیسر انور جمیل صاحب کی نظموں کے دومجموعے شائع ہو چکے ہیں اخبار کے بعض مفید نمبر بھی الگ شائع ہو چکے ہیں اُس دن کوئی کہہ رہا تھا کہ’’القلم‘‘ تو ماشاء  اللہ  پورا مدرسہ ہے ایمان کا سبق، غیرت کا درس قرآن پاک کی تفسیر، سنت اور فقہ کی تعلیم سیرت اور سوانح، نظم اور نثر اخبار اور واقعات اور ہر تازہ معاملے پر امت مسلمہ کی رہنمائی  اللہ  تعالیٰ عُجب اورنظر بد سے اپنی حفاظت میں رکھے اور اُمتِ مسلمہ کے لئے نافع بنائے بے شک اس میں اُن لوگوں کے لئے عبرت ہے جو اپنے’’کل‘‘ کی خاطر اپنے ’’آج‘‘ کو محرومیوں میں دفن کر رہے ہیں اہل اسلام سے گزارش ہے کہ القلم کی قدر کریں، اس سے استفادہ کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک پہنچائیں آج تو یہ اخبار آپ کے پاس ہے اپنے آج کو قیمتی بنائیں کل کی نہ مجھے خبر نہ آپ کو

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (290)

کارآمد مسلمان

 

 

ش تعالیٰ پر یقین اور’’توکّل‘‘ رکھنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے اگر مسلمان  اللہ  تعالیٰ کی قدرت، قوّت اور کبریائی کا یقین رکھے اور اپنے تمام معاملات میں  اللہ  تعالیٰ پر توکّل کرے تو  اللہ  تعالیٰ کی رحمت اور نصرت ہروقت اُس کے ساتھ رہتی ہے میرا معبود کون ہے؟  اللہ،صرف  اللہ میرا خالق کون ہے؟  اللہ،صرف  اللہ مجھے روزی کون دے گا؟   اللہ،صرف  اللہمجھے فتح کون دے گا؟ اللہ،صرف  اللہ میری مصیبتیں کون دور کرے گا؟ اللہ،صرف  اللہ میرے گناہ کون معاف کرے گا؟   اللہ،صرف  اللہ میری بیماری کون دور کرے گا؟   اللہ،صرف  اللہ دشمنوں اور آفتوں کے مقابلے میں میری مدد کون کرے گا؟   اللہ،صرف  اللہ میں بخیل ہوں مجھے سخی کون بنائے گا؟   اللہ،صرف  اللہمیں بُرا ہوں میری اصلاح کون کرے گا؟   اللہ،صرف  اللہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں میری مغفرت کون کرے گا؟  اللہ،صرف  اللہ میں تو بے بس ہوں، بے کَس ہوں، بے سہارا ہوں  میرا اس دنیا میں کون ہے؟  اللہ،صرف  اللہ میں بدنصیب ہوں میری قسمت کون بدلے گا؟  اللہ،صرف  اللہ میں تو گناہوں اور مصیبتوں میں گِھر چکا ہوں، اب میرا بچنا اور سُدھرنا ناممکن ہے اس ناممکن کو ممکن کون بنائے گا؟  اللہ،صرف  اللہ مجھ پر قرضوں کا بوجھ ہے، اتارنے کی کوئی صورت نہیں اتنے زیادہ قرضے کون اُتارے گا؟ اللہ،صرف  اللہ کفرہر طرف چھا چکا ہے، کافروں نے بے پناہ قوت حاصل کر لی ہے، ان حالات میں اُمت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو کون بچائے گا؟  اللہ،صرف  اللہ مجھے موت کی سختی سے کون بچا سکتا ہے؟  اللہ،صرف  اللہ مجھے قبر کی تاریکی، وحشت اور عذاب سے کون بچا سکتا ہے؟ اللہ،صرف  اللہمجھے پل صراط کون پار کرا سکتا ہے؟  اللہ،صرف  اللہ مجھے جہنم سے بچا کر جنت میں کون پہنچا سکتا ہے؟  اللہ،صرف  اللہ جی بالکل  اللہ  تعالیٰ ہی سب کچھ کر سکتا ہے  اللہ،  اللہ اورصرف  اللہ لاالہ الا  اللہ  اللہ   تعالیٰ کے سوا کوئی اس لائق ہی نہیں کہ ہم اُس کی بندگی کریں لا الہ الا  اللہ عبادت کے لائق ،  اللہ،  اللہ،صرف  اللہ تعریف کے لائق اللہ، اللہ اور صرف   اللہ اسی لئے کہتے ہیں الحمدﷲ پاکی کے لائق صرف  اللہ ساری مخلوق اسی لئے کہتی ہے سبحان  اللہ  اللہ  تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے مزے لے کر پڑھیں ان  اللہ  علی کل شیٔ قدیر کوئی چیز بھی اُس کی قدرت سے باہر نہیں جاپان آج زلزلے سے چلّا رہا ہے امریکہ عراق و افغانستان سے بھاگ رہا ہے سائنسدان اپنی ہی باتوں کو جھٹلا رہے ہیں مگر  اللہ  تعالیٰ کے بنائے ہوئے آسمانوں میں کوئی ایک سوئی برابر بھی سوراخ نہیں کر سکا شیطان ہمارا دشمن ہمارے دل سے  اللہ  تعالیٰ کا یقین نکالتا ہے تب ہم بھی کافروں کی زبان بولنے لگتے ہیں کہ ہمارے حالات ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے مسلمان کامیاب ہو ہی نہیں سکتے میری اصلاح ہو ہی نہیں سکتی قرآن پاک اعلان کرتا ہے کہ  اللہ  تعالیٰ اوّل ہے ،آخر ہے، ظاہر ہے، باطن ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے  اللہ  تعالیٰ کو ساتھ لے کر تو دیکھو چھوٹا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور بڑے مسئلے بھی ختم ہوجاتے ہیں وہ جو  اللہ  تعالیٰ پر یقین رکھتے تھے اُن کو نہ آگ جلا سکی نہ سمندر ڈبوسکے نہ چُھری کاٹ سکی نہ درندے نگل سکے  اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہمارے ایمان پر ’’شک‘‘ کے جراثیم نے حملہ کر دیا ہے ارے ایک بار تو دل سے  اللہ  تعالیٰ کے سوا سب کو باہر نکال کر صرف  اللہ  تعالیٰ کا نام بسا کر دیکھو صرف ایک بار وضو کر نے سے پہلے دل اور زبان سے کہو اے میرے مالک آج خالص آپ کی خوشی اور رضا کے لئے وضو کر رہا ہوں یقین جانیں آنکھیں بھیگ جائیں گی اور ایسی رحمت اُترے گی کہ جسم گناہ سے اور دل مایوسی سے پاک ہو جائے گا اے میرے مالک میں آپ کا غلام آپ کا بندہ آپ کوراضی کرنے مسجد آرہا ہوں چلتے جائیں اور باتیں کرتے جائیں ہاں اُس عظیم رب سے جو اپنے بندوں کی سنتا ہے یا اللہ  میں گناہوں کی معافی مانگنے  آرہا ہوں آہا! میں کتنا خوش نصیب کہ آپ نے مجھے بُلایا ہے مالک! میری جان میرا جسم آپ پر فدا معاف فرمادیجئے آپ نے اتنے بڑے سورج کو قابو کر رکھا ہے میرے چھوٹے سے دل کو بھی اپنا بنا لیجئے! پیارے مالک ،عظیم مالک یا رحمن، یا رحیم یا ارحم الراحمین

رہوں ذکر و طاعت میں ہر دم الہٰی

یہی عمر بھر مشغلہ چاہتا ہوں

نہ دم بھر رہوں یاد سے تیری غافل

یہ توفیق اب اے ِالہٰ چاہتا ہوں

میں کب تک پھروں دربدر مارا مارا

ترے در پہ اب بیٹھنا چاہتا ہوں

جیوںگا کسی کا میں ہو کر فدائی

بقا بھی برنگِ فنا چاہتا ہوں

بوقت خوشی ہو فنا کا تصوّر

مسرّت بھی حسرت فزا چاہتا ہوں

جو کر دے مجھے گُم خُدا کی طلب میں

میں ایسا کوئی رہنما چاہتا ہوں

تصدُّق، تعیُّش، تنعُّم، تجمّل

بس اب اِک غمِ دلرُبا چاہتا ہوں

بس اصلاحِ نفس اپنی تھک کر الہیٰ

تجھی پر میں اب چھوڑنا چاہتا ہوں

دراصل ہم نے  اللہ  تعالیٰ کی قدر نہیں کی وما قدرو  اللہ  حق قدرہ ہم نے عظیم کلمہ ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کی قدر نہیں کی شیطان لعین نے ہمیں مایوسیوں کے اندھیرے میں دھکّا دیا تو ہم اپنے عظیم نور والے رب کو بھول گئے  اللہ  نور السموات والارض شیطان کبھی کان میں آکر اور کبھی خواب میں آکر کہتا ہے کہ تو تو بدنصیب بد قسمت ہے، تیری نجات اور اصلاح ممکن نہیں تیری نماز اور تیرا جہاد قبول نہیں اگر تو مؤمن ہوتا تو تجھ سے گناہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ تیری توبہ ٹوٹ کیوں جاتی ہے؟ جھوٹ بولتا ہے یہ ملعون اس کو کچھ پتا نہیںکہ کون بدقسمت ہے اور کون خوش نصیب؟  اللہ  تعالیٰ جس کی چاہے اصلاح فرما سکتا ہے اُس نے مشرکوں کو توبہ کی توفیق دے کر اپنے آخری نبی کا ’’صحابی‘‘ بنا دیا سبحان  اللہ ! حضرات صحابہ کرام رضوان  اللہ  علیہم اجمعین ہدایت کی روشنی کے ستارے اور سارے کے سارے کامیاب ابو جہل جیسے ملعون کے بیٹے پر  اللہ  تعالیٰ نے رحمت کی نظر فرمائی تو وہ اسلام کے عظیم، جانباز سپہ سالار، محبوب صحابی اور کامیاب شہید بن گئے آسمانوں سے سچا اعلان آچکا ہے کہ ان  اللہ  یغفر الذنوب جمیعا  اللہ  تعالیٰ  سارے گناہوں کو معاف فرماتا ہے جمیعاً  کے لفظ نے کیا چھوڑ دیا کہ کوئی مایوس ہو بیٹھے دراصل اسلام اور مسلمانوں کے کام کا مسلمان وہی شخص بنتا ہے جو  اللہ  تعالیٰ سے اچھا گمان رکھتا ہے اور  اللہ  تعالیٰ سے ’’اچھا گمان‘‘ رکھنے والا ہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتا ہے حضرت سہیل بن مہران  رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کو اُن کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا میں نے کہا اے ابو یحییٰ! کاش مجھے پتہ چل جائے کہ  اللہ  تعالیٰ کے حضور آپ کی پیشی کس طرح ہوئی؟ مالک بن دینار س نے فرمایا کہ میں بہت زیادہ گناہ لے کر  اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوا لیکن  اللہ  تعالیٰ کی ذات کے ساتھ میرے حُسنِ ظن نے میرے ان سارے گناہوں کو مٹا دیا حضرت مالک بن دینار بڑے محدّث، بزرگ اور  اللہ  والے گزرے ہیں اُن کے انتقال کی رات حضرت مہدی بن میمون رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ یہ آواز لگا رہا ہے کہ اے لوگو! خوب سن لو کہ مالک بن دینارس اہل جنت میں شامل ہو گئے ہیں اللہ  تعالیٰ سے’’حُسنِ ظنّ‘‘ اتناعظیم عمل ہے کہ

اسی نے حضرت مالک بن دنیار کے سارے گناہوں کو مٹا دیا ابتداء میں اُن کی زندگی بھی غفلت اور گناہ والی تھی پھریکایک توبہ کی تو زمانے کے رہنما بن گئے کوئی ہے جو آج کالجوں، یونیورسٹیوںمیں پھنسے ہوئے مسلمان نوجوانوں کو  اللہ  تعالیٰ کی طرف بُلائے؟ موبائل اور انٹرنیٹ، روشن مستقبل اور فرینڈ شپ گاڑی، کوٹھی بنگلے کے خواب بے مقصد زندگی اور بے فائدہ محنت  اللہ  تعالیٰ اپنی طرف بُلارہاہے کوئی ہے جو آج کے نوجوان کو قوم پرستی، علاقہ پرستی زبان پرستی اور قبیلہ پرستی کی بدبودار دلدل سے نکال کر شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دربار میں لے جائے یہ دربار اُنہی کو نصیب ہوتا ہے جو ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘  کو  سمجھتے اور مانتے ہیں اور ’’محمد رسول  اللہ ‘‘ کے طریقے سے’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ تک پہنچتے ہیں اور پھر اسی کلمے پر متحد ہو کر قومیت، وطینت، لسانیت اور قبائلیت کے بتوں کو توڑ دیتے  ہیں اور پھر’’لا الہ الا  اللہ ‘‘  کے حقیقی سچ کو دنیا پر نافذ کرنے کی محنت کرتے ہیں اور اس عظیم کلمے کی عظمت کے لئے جان و مال کی قربانی دیتے ہیںکوئی ہے جو اپنی ذات کے خُول سے باہر نکل کر اسلام اور مسلمانوں کے لئے سوچے؟ کوئی ہے جو اپنی خواہشات کے جال توڑکر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اُمت کے درد کو سمجھے؟ ایک طرف دشمن ہے کہ حملوں پر حملے کرتا جارہا ہے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ شیطان نے ہمیں اپنے عظیم رب سے کاٹ رکھا ہے مسلمانو!  اللہ  تعالیٰ سے خوش گمانی کی دعاء مانگو! قرآن پاک میں  اللہ  تعالیٰ کی صفات کو پڑھو اپنے رکوع اور سجدے میں  اللہ  تعالیٰ کے قُرب کو محسوس کرو اپنے سانس اور لقموں میں  اللہ  تعالیٰ کی قدرت کو دیکھو اپنے چُھپے ہوئے گناہوں پر  اللہ  تعالیٰ کے پردے محسوس کرو اگر  اللہ  تعالیٰ ستّاری کا معاملہ نہ فرمائے تو ایک دن میں دنیا کے تمام انسان ایک دوسرے کو کاٹ کر پھینک دیں کیا واقعی ہماری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ کون قبول کرے گا؟  اللہ،  اللہ ، صرف  اللہ ہمارے دل سے گناہوں کا شوق کون نکالے گا؟ اللہ،  اللہ اور صرف  اللہ کیا ہم بھی کام کے انسان بن سکتے ہیں؟ کون بنائے گا؟  اللہ،  اللہ اور صرف  اللہ حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  سے لے کر زمانہ حال کے تمام فاتحین انسان تھے  اللہ تعالیٰ سے انہوں نے اچھا گمان رکھا کہ  اللہ  تعالیٰ اُن سے کام لے گا دیکھاآپ نے مالک نے اُن سے کیا کام لیا طارق بن زیادس ہو یا محمد بن قاسم س صلاح الدین ایوبی س ہوں یا نورالدین زنگیس اُن کے کارناموں کے اثرات آج تک جاری ہیں تُھوک دو مایوسی پرآجاؤ اُس رب کی طرف جو غفور ہے، حلیم ہے، جواد ہے، کریم ہے، رؤف ہے، رحیم ہے، رحمان ہے، حنّان ہے جی ہاں گناہوں کو نیکیوں سے بدلنے کی طاقت رکھنے والا ہے زندگی تیزی سے گزر رہی ہے سعادت مند جھولیاں بھر رہے ہیں آؤ میں اور آپ بھی  اللہ  تعالیٰ کی طرف دوڑیں کیا واقعی؟ ہم جیسوں کو اس توفیق کون دے سکتا ہے؟ اللہ،  اللہ اور صرف  اللہ یا اللہ ہم سب کو اپنا  بنالے ہم سب کو کام کا بنادے اور ہم سب کو کامیاب فرمادے قبول فرما یا اللہ ، یا  اللہ ،یا  اللہ

اللھم صل علیٰ  سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (291)

ایک اور محاذ

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’نفاق‘‘ سے بچائے(۱) دوپاکستانی مسلمانوں کا قاتل’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ آزادفضاؤں میں گُھوم رہا ہے(۲) پاکستان کی سرزمین سے اُڑنے والے امریکی ڈرون طیاروں نے وزیرستان کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کر دیا ہے (۳) مسلمانوں کے مُلک’’لیبیا‘‘ پر صلیبی ظالموں نے خوفناک فضائی حملہ کر دیا ہے بے شک’’نفاق‘‘ بہت خطرناک مرض ہے منافق کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے مسلمانوںمیں نفاق کیوں پیدا ہوتا ہے؟ وجوہات تو بہت سی ہیں مگر موٹی موٹی تین ہیں(۱) حرص اورلالچ(۲) حسد اوربُغض(۳) آزمائشوں سے بچنے کی فکر

ایک مفسّر لکھتے ہیں:

’’مخلص اور منافق برابر نہیں ہو سکتے، ان دونوں میں آسمان وزمین کا فرق ہے جس شخص کے کام کی بنیاد اخلاص، تقویٰ، اور  اللہ  تعالیٰ کی خوشنودی پرہو، وہ اچھا اور بہتر انسان ہے، اس کا عمل سرسبز ہوگا اور اچھے نتائج پیدا کرے گا، بخلاف اس کے وہ شخص جس نے اپنے کام کی بنیاد، کفر، نفاق ،سازش اور مکروفریب پر رکھی وہ بہت بُرا انسان ہے، اُس کا انجام بہت بُرا ہوگا اور وہ ہرگز کامیاب نہ ہوگا‘‘(حاشیہ قرآن مجید اورنگ آبادی)

’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ نے توچھوٹنا ہی تھا کیونکہ نہ وہ مسلمان تھا اور نہ پاکستانی پھر وہ قید میں کیوں رہتا؟ جب سے یہ مسئلہ شروع ہوا ہم نے اس پر کچھ نہیں لکھا کیونکہ مکمل یقین تھا کہ ہمارے حکمران زیادہ دن تک اس قاتل کو اپنی قید میں نہیں رکھ سکیں گے یہ بھی بہت ہمت کی بات ہے کہ تیس چالیس دن اُس کو قید میں رکھ لیا اسی ہمت کو دیکھ کر بہت سے لوگ غلط فہمی میںمبتلا ہو گئے کہ شاید حکمرانوں میں کچھ ایمان، کچھ غیرت اور تھوڑی سی بہادری آگئی ہے یہ تو اچھا ہوا کہ پرویز مشرف کے دور میں یہ واقعہ نہیں ہوا وہ ہوتا تو شہید ہونے والے فہیم اور فیضان کے خلاف تقریر جھاڑتا کہ یہ دونوں ایک امریکی کی گاڑی کے قریب کیوں آئے تھے؟ پاکستان کے حکمران تو اب تک امریکا نامی بُت کی چوکھٹ پر لاکھوں پاکستانیوں کو ذبح کر چکے ہیں پھر فہیم اور فیضان کے قاتل کو کس جُرم میں گرفتار رکھا جا سکتا تھا؟ چند دن غیرت کا ایک نقلی ڈرامہ ہوا اور پھر قاتل کو باعزت بری کر دیا گیا فہیم اور فیضان کی روحیں بھی طنز سے مسکرا کر حکمرانوں اور اپنے رشتہ داروں کو دیکھ رہی ہوں گی ہمارے قلم نویس بھی عجیب لوگ ہیں عقلی اور اخلاقی دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ نے یہ غلط کیا اور فلاں نے وہ غلط کیا ارے  اللہ  کے بندو! آج کل صرف ’’طاقت‘‘ کی زبان اور’’طاقت‘‘ کا قانون چلتا ہے امریکہ طاقت میں تھا تو اپنے آدمی کوچُھڑا کر لے گیا جبکہ ہمارے حکمران ہر طرح کی طاقت، ہمت،عزم،ارادے اور مقصد سے محروم ہیں کھانا، پینا، عیاشی کرنا، ناچنا اور خزانے جمع کرنا ان کا شوق ہے یہ چاہیں تو ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کی ناقابل تسخیر طاقت کو حاصل کرلیں مگر کہاں؟ یہ تو کفر کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو مارتے اور ذبح کرتے ہیں ڈرون طیارے خودپاکستان کے ہوائی اڈوں سے اڑتے ہیں اورپھر پاکستانیوں کا قیمہ بناتے ہیں کیا دنیا کے کسی اور مُلک میں بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ میں سب سے زیادہ اپنی اُمت کے لئے جس سے ڈرتاہوں وہ باتوں کا ماہر منافق ہے (او کما قال مسند احمد)

 قرآن پاک نے ’’نفاق‘‘ اور’’منافق‘‘ کو بہت کھول کھول کر بیان فرمایا اور ایسی عجیب ترتیب سے بیان فرمایا کہ اگر کوئی توجہ سے پڑھے تو اُس کے لئے نفاق سے بچنا آسان ہو جائے سورہ توبہ میںدیکھیں منافقین کا ایک گروہ مسلمانوں کی جماعت میں تفریق ڈالنے اور کافروں کو مدد پہنچانے کے لئے ایک’’مسجد‘‘ بنا رہا ہے یہ ہے نفاق کا کردار اس کے بعد اگلی آیت میں وہ ایمان والے جو اپنی جان و مال  اللہ  تعالیٰ کو بیچ رہے ہیں تاکہ انہیں جنت ملےیعنی بیعت علی الجہاد یہ ہے نفاق کا علاج واقعی بیعت علی الجہاد بہت عظیم ایمانی نعمت ہے جس کو یہ نعمت نصیب ہو وہ اس کی حفاظت کرے اور کسی یار، دوست کی خاطر اس سے محروم نہ ہو الحمدﷲ دنیا میں جہاد کی برکت سے بہت تیز تبدیلی آرہی ہے دوہفتے قبل عرض کیا تھاکہ ابھی بہت سے محاذ اور کُھلیں گے اور جنگ کا دائرہ وسیع ہوگا آپ نے دیکھا کہ ’’لیبیا‘‘ کا محاذ کُھل گیا ہے اور اب صحراؤں میں بسنے والے جفاکش عرب اور افریقی مسلمانوں میں جہاد کی دعوت پھیلے گی  اللہ  تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ صدام حسین شہید ساری زندگی جہاد کی مخالفت کرتے رہے مگر معلوم نہیں کہ ربّ غفور کو کون سی نیکی پسندآئی کہ حالات نے ’’صدام حسین‘‘ کو جہاد کا نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا اور بالآخر وہ کافروں کے ہاتھوں پھانسی سے سرفراز ہوئے ایسا ہی کچھ لیبیا کے صدر قذافی کے بارے میں نظر آرہاہے قذافی ایک انقلابی لیڈر ہے مگر اسلام کے نظریہ جہاد سے بہت دُور اُس کے زمانے لیبیا میں مغربی طرز کی آزادی رہی اور دینی جماعتوں اورجہاد کی دعوت پر بہت سخت پابندی رہی یہ ٹھیک ہے کہ وہ کبھی کبھار دوسرے ممالک کے علماء کو طرابلس بُلاتاتھا اور سیرت اورمیلاد کے جلسے بھی سجاتاتھا مگر خود لیبیا والوں کو اُس نے جہاد کی کبھی اجازت نہ دی مصر، تیونس اور الجزائر کے مجاہدین کی طرح لیبیا کے مجاہدین بھی اپنی حکومت میں معتوب تھے صدر قذافی کے اسلام اور قرآن کے بارے میں کئی نظریات بھی جمہور اہل سنت و الجماعت کے خلاف تھے قذافی کی بہادری بھی آئے دن طرح طرح کی کروٹیں بدلتی رہتی تھی ایک زمانے اُس کو ایٹمی طاقت بننے کا شوق ہوا تو بہت پیسہ لگایا اور پاکستان کے تعاون سے کافی پیش رفت بھی کرلی مگر پھر یکایک یوٹرن لیا اور اپنا اربوں ڈالر کا ایٹمی نظام جہازوں میں بھر کر اقوام متحدہ اوریورپ کے حوالے کر دیا

ابھی حال میں جب’’لیبیا‘‘ میںمظاہرے شروع ہوئے تو قذافی اور اُس کے بیٹے نے اس کا الزام لیبیا کے’’اسلام پسندوں‘‘ پر رکھا اور اسامہ بن لادن کو ان مظاہروں کا ذمہ قرار دیا پچھلے چند سالوں میں’’لیبیا‘‘ نے اپنے چہرے کو سیکولر بنانے کے لئے فرانس، اٹلی اور یورپ کے کئی ممالک میں بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا مگر گورے کافر کسی کے دوست نہیں ہوتے وہ تو طویل عرصہ سے قذافی کی تاک میںتھے اور اب اُن کو ایک کھلم کھلّا بہانہ بھی مل گیا قذافی کل تک کیسا تھا وہ کل گزر گئی، مگر آج وہ ’’صلیبی حملوں‘‘ کا نشانہ ہے بہت سے سازشی مزاج لوگ اس میں بھی کوئی سازش تلاش کریں گے کہ قذافی کو مقبول بنانے کے لئے یہ حملے ہو رہے ہیں مگرہمیں تو وہی دیکھنا ہے جو کُھلی آنکھوں سے نظر آرہاہے جب قذافی پر صلیبی طاقتیں حملہ آور ہوںگی توعالم اسلام کی ہمدردیاں یقینا قذافی کے ساتھ ہوں گی ہماری دعاء اورتمنا ہے کہ قذافی وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باغیوں سے صلح کر لے اور باغی بھی تازہ صورتحال میںاپنی بندوقوں کا رُخ ’’کفر‘‘ کی طرف کر لیں معلوم نہیں یہ تمنا پوری ہوگی یا نہیں مگر ایک بات تو پکّی ہے کہ جہاد کا ایک اور محاذ کُھل گیا ہے اب لیبیا اور اُس کے آس پاس کے علاقوں میں آیاتِ جہاد گونجیں گی اور بہت سے خوش نصیب مسلمان ان آیات مبارکہ پر عمل کے لئے میدان میںاُتریں گے آج پوری دنیا میں کہیں بھی اسلام نافذنہیں ہے دنیا کا موجودہ نظام اسلام اور مسلمانوں کے لئے موت ہے ظاہری ا من اگرایمان کے بغیر ہوتو وہ مسلمان کے لئے جہنم کی طرح بُرا ہوتا ہے حضرت امام مہدی  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں احادیث مبارکہ اور روایات پڑھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف جنگیں اور فسادات ہوں گے ان حالات میں اُن کا ظہور ہو گا اور اسلام کے بڑے اورحتمی غلبے کا دور شروع ہو گا موت تو ہر کسی پر آنی ہے جاپانیوں پر آج کل کونسی جنگ مسلّط ہے کہ روز سینکڑوں لوگ مررہے ہیں  اللہ  کرے’’لیبیا‘‘ کے مسلمان،عراق اور افغانستان کے مسلمانوں سے سبق لیں اور حملہ آور صلیبیوں کو خون کے دلدل میں غرق کر دیں مسلمانوں میں جہاد جتنا مضبوط ہوتا جائے گا نفاق اور منافقین اتنے کمزور ہوتے جائیں گے ہمارے لئے اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت میں منافقین کی علامات پڑھیں اور اس بات کی فکر کریں کہ یہ علامات ہمارے اندر پیدا نہ ہونے پائیں روایات میں آتا ہے کہ آخری زمانے میںمنافقین بہت زیادہ ہوجائیںگے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں

’’یاتی علی الناس زمان یجتمعون فی مساجدھم لیس فیھم مؤمن‘‘

ترجمہ: ’’لوگوں پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ وہ اپنی مسجدوں میں جمع ہوں گے ان میں کوئی مؤمن نہیں ہوگا‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ)

ہم سب کو نفاق سے بہت ڈرتے رہنا چاہئے حضرات صحابہ کرا  م رضی اللہ عنہم  جن کو نفاق کا خطرہ تک نہیں تھا وہ بھی ہر وقت منافق ہونے سے ڈرتے تھے اور نفاق سے  اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے اور تو اور حضرت سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  جیسے عظیم الشان صحابی اور خلیفہ راشد بھی نفاق سے ڈرتے تھے حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے جب یہ سمجھ لیا کہ نفاق ایمان کو کھا جاتاہے تو پھر اُنہیں نفاق کے سوا کوئی فکر اور غم نہیں تھا یعنی ہر وقت نفاق سے حفاظت کی فکر میں رہتے تھے حضرت جبیر بن نفیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو درداء  رضی اللہ عنہ کو سنا کہ نماز میں تشہد کے بعد نفاق سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگ رہے تھے اور انہوںنے بہت کثرت سے نفاق سے پناہ مانگی جبیرس نے اُن سے عرض کیا اے ابو درداء  رضی اللہ عنہ ! آپ کو کیا ہوا کہاں آپ اور کہاں نفاق؟(یعنی نفاق تو آپ سے بہت بعید ہے) حضرت ابو درداء  رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں معاف رکھو!  اللہ  تعالیٰ کی قسم آدمی ایک ہی گھڑی میں اپنے دین میں ایسی کروٹ کھاتا ہے کہ دین سے نکل جاتا ہے (صفۃ المنافق للفریابی)

واقعی ’’نفاق‘‘ بہت خطرناک’’بلا‘‘ ہے آج عالم اسلام اسی بلا کی’’وبا‘‘ میں تڑپ رہاہے  اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو نفاق سے بچائے اور ہم سب کو ایمانِ خالص، ایمانِ کامل اورایمانِ دائم نصیب فرمائے

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوذُبِکَ مِنَ النِّفَاقِ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوذُبِکَ مِنَ النِّفَاقِ

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا

٭٭٭

292

محفوظ پناہ

 اللہ  تعالیٰ نے اپنے سب سے محبوب اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو حکم فرمایاکہ آپ جنّاتی شیطانوں  اور انسانی شیطانوں کے شر سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگیں معلوم ہوا کہ شیاطین کی دوقسمیں ہیں (۱) انسانی شیطان(۲) جنّاتی شیطان قرآن پاک میں ایک اور جگہ بھی ان دونوں قسم کے شیاطین کا تذکرہ ہے

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا  (الانعام ۱۱۲)

ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شرارتی آدمیوں اور جنّوں کو دشمن بنا دیاجو کہ ایک دوسرے کو ملمع کی باتیں دھوکا دینے کے لئے سکھاتے ہیں

 آپ نے قرآنِ پاک کی آخری سورت تو پڑھی ہو گی’’سورۃ الناس‘‘ اس میں  اللہ  تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو حکم دیا کہ آپ ’’الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘ سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگیں ’’الْوَسْوَاسِ‘‘  بہت زیادہ وسوسے ڈالنے والا( یہ مصدر ہے مبالغہ کے لئے) الْخَنَّاسِ  پیچھے ہٹ جانے والا، چھپ جانے والا یعنی وسوسہ ڈال کر غائب ہوجاتا ہے اور پھر واپس ہو کر نئے وسوسے ڈالتا ہے ہر دن نیا وسوسہ، ہر گھڑی نیا شوشہ انسان جب’’ذکر  اللہ ‘‘ میں لگے تو وسوسہ ڈالنے والا بھاگ جاتا ہے مگرجیسے ہی انسان غافل ہوتا ہے یہ دوبارہ وسوسہ ڈالنے پہنچ جاتا ہے اصل میں یہ کام تو شیطان کا ہے مگر کچھ انسان بھی بدقسمتی سے’’شیطان‘‘ بن جاتے ہیں اور بعض اوقات انسان کا اپنا نفس بھی’’شیطان‘‘ بن جاتا ہے اور ہر وقت پلٹ پلٹ کر وسوسوں کے حملے کرتا رہتا ہے شیطان خواہ وہ انسان ہو یا جنّ ان دونوں کا وسوسہ انسان کے لئے اتنا خطرناک ہے کہ اس کی وجہ سے انسان ہر بُرائی میں جا پڑتا ہے اور ہرسعادت سے محروم ہوجاتا ہے آپ دین کا کام کر رہے ہیں اور صبح و شام نیکیاں کما رہے ہیں اچانک کوئی جنّاتی یا انسانی شیطان آپ کو وسوسے میں ڈالتا ہے اگر آپ اُس کا وسوسہ قبول کر لیتے ہیں تو فوراً دل سے تمام اطمینان ختم ہو جاتا ہے اور انسان مایوسی اور اندھیرے کے دلدل میں غوطے کھانے لگتا ہے جنّات کی نظر تو سیدھی دل پر اثر کرتی ہے دَھار والے نیزے سے بھی زیادہ تیز ایسی نظر لگتے ہی دل بے چین ہو جاتا ہے اور ایسی شدید تنگی اور الجھن ہوتی ہے کہ انسان سکون حاصل کرنے کے لئے نشے اور گناہ کی طرف بھاگنے لگتا ہے اور دین کا ہر کام اُسے قید اور مصیبت نظر آنے لگتا ہے  اللہ  تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا کہ اس کے علاج کے لئے قرآن پاک کی آخری سورت سورۃ الناس نازل فرما دی اور ہمیں سکھا دیا کہ میں تمہارا ربّ ہوں، میں تمہارا مالک اور حکمران ہوںا اور میں تمہارا معبود ہوں تم فوراً میری پناہ میں آجاؤ تم جیسے ہی میری پناہ میں آؤ گے مکمل طور پر محفوظ ہو جاؤ گے پھر کوئی بھی شیطان خواہ وہ جنّ ہو یا انسان تمہیں اپنے وسوسوں کے جال میں نہیں پھنسا سکے گا کوئی بھی شیطان تم سے نورِ ایمان اوردل کے سکون کو نہیں چھین سکے گا کسی جادوگر کا جادو اور کسی نظر لگانے والے کی نظر تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی  اللہ  اکبر کبیرا  اللہ  تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے بعد پھر کس کی ہمت ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکے

اس سے  پہلے سورۃ الفلق  میں چار چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے

(۱) تمام مخلوق کے شر سے(۲) اندھیرے کے شرسے جب وہ چھا جائے(۳) جادو کرنے والی عورتوں کے شرسے (۴) حاسدین کے شر سے جب وہ حسد پر اُتر آئیں

قرآن پاک کی ان دو مبارک سورتوں کو’’معوّذتَین‘‘ کہتے ہیں

پورا قرآن پاک جو عظیم نعمتیں ہم سب کو عطاء فرماتاہے یہ نعمتیں کوئی دشمن ہم سے چھین نہ لے اس کے لئے قرآن پاک کے آخرمیں حفاظت کی یہ دوسورتیں نازل فرمادیں جو مسلمان ان دو سورتوں کا اہتمام کرتا ہے وہ  اللہ  تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں آجاتا ہے بعض مفسرین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر مسلمان ان دو سورتوں کا بے حدمحتاج ہے اور ان دو سورتوں کی ضرورت سانس لینے، کھانے پینے اور لباس پہننے سے بھی زیادہ ہے ان دو عظیم سورتوںپر تھوڑا آگے چل کر بات کریں گے اُس سے پہلے آپ مجھے ایک سوال کا جواب دیں کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  سے بڑھ کر کسی کی روحانی طاقت ہو سکتی ہے؟ یقیناً آپ سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں، ہرگز نہیں  اللہ  تعالیٰ نے سب سے زیادہ روحانی طاقت اپنے محبوب تاجدار حرمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کو عطاء فرمائی ہے پھر تھوڑا سا اندازہ لگائیے کہ جس جادو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر بھی اثر کرلیا وہ کتنا خوفناک اور طاقتور جادو ہوگا؟ یقینی بات ہے کہ اگر وہ جادو مجھ پر یا آپ میں سے کسی پر ہوجاتا تو اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا آج کل کوئی ایساجادو گر نہیں جو اتنا تیز اور سخت جادو کر سکے ہم سب جانتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے ایک یہودی لبید بن اعصم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کیا یہ شخص اصل میں تو کافر تھا مگر ظاہری طور پر خود کو مسلمان قرار دے کر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتاجاتا تھا قصہ طویل ہے اور آپ نے بارہا سنا ہوگا اصل بات یہ ہے کہ اتنے سخت جادو کے علاج کے لئے  اللہ  تعالیٰ نے یہ دوسورتیں نازل فرمائیں اور ان دو سورتوں نے اُس جادو کو جڑ سے کاٹ دیا معلوم ہوا کہ یہ دو سورتیں سب سے سخت جادو کو بھی توڑ دیتی ہیں تو پھر آج کے مسلمان کیوں ہر در کے دھکّے کھاتے پھرتے ہیں اور ان دو سورتوں سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ دراصل یقین، توکّل اور ایمان کی کمزوری ہےآپ کے پاس کوئی مسلمان آئے اور بتائے کہ مجھ پر جادو ہے آپ اُسے یہ دو سورتیں بتادیں وہ فوراً مایوس ہو جائے گاکہ مجھے کوئی بڑا علاج ہی نہیں بتایا استغفر اللہ ، استغفر اللہ اس کی جگہ آپ اُس کو چند تعویذ دیں کہ ان کو یوں موم لگانا، فلاں پانی چھڑکنا کسی چراغ میں جلانا پھر دور دریا میں ڈالنے جانا وہ خوش ہو گا کہ اب ٹھیک علاج جا رہا ہے ان اللہ  وانا الیہ راجعون   اللہ  رب العزت کا عظیم کلام تو مسلمانوں کی نظر میں کچھ نہیں اور الٹے سیدھے نفسیاتی شعبدوں کو وہ بہت بڑی طاقت سمجھتے ہیں بندہ دعوے کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ دنیا بھر کے عاملوں کے عملیات، اُن کے تعویذ، اُن کے چراغ اور اُن کے شعبدے، ان کے دھاگے اور فلیتے ان دو مبارک سورتوں کی ایک آیت کے کروڑویں حصے جتنی طاقت بھی نہیں رکھتے لوگوں کو جو ظاہری فائدہ محسوس ہوتا ہے وہ محض نفسیاتی اور ذہنی ہوتا ہےروحانی فائدہ تو روحانیت کے مرکز قرآن پاک سے ہی مل سکتا ہے

اخبار میں  جاپان کے کسی چالاک تاجر کا قصہ لکھا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنی پسندیدہ فلم دکھانے  لے گیا دوران فلم بیوی کے سر میں شدید درد ہوا  وہ کراہنے لگی تاجر درمیان سے اٹھ کر جانا نہیں چاہتا تھا اُس نے فوراً عاملوں والا حربہ استعمال کیا بیوی سے کہنے لگا میں امریکہ گیا تھا وہاں ایک ڈاکٹر نے مجھے بہت ہی مہنگی گولی بتائی کہ بس منہ میں ڈال کر بیٹھ جاؤ جیسا بھی درد ہو فوراً ٹھیک ہوجاتا ہے وہ کافی دیر اس گولی کی اہمیت، فوائد اور قیمت بتاتا رہا اور پھر اپنی قمیص کا ایک بٹن توڑ کر بیوی کے منہ میں ڈال دیا دو منٹ بعدبیوی نے لمبا سانس لیا اور کہا عجیب گولی ہے، درد کا تو نام و نشان ہی ختم کر دیا آہ مسلمان! تیرے پاس قرآن پاک ہے پھر بھی کبھی مزاروں کے دھکّے، کبھی عاملوں کے چکّر کبھی دور دراز کی درگاہوں کی ذلّت اور کبھی دھوکے بازوں کی مِنّت اور سماجت اچھا ایک اور بات بتائیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک زمانے کے کافر اور منافق جتنے سخت تھے کیا ویسے سخت کافر اور منافق کسی اور زمانے میں ہو سکتے ہیں؟ یقیناً آپ سب کا جواب ہو گاکہ ہرگز نہیں وہ کافر واقعی بہت سخت اورظالم تھے آہ میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کے رخ انور کو دیکھ کر بھی جن کا کفر اور نفاق نہ پگھلا اُن جیسا سخت بد نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ان کافروں اور منافقوں میں بہت سے ’’الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘  بھی تھے جی ہاں وسوسے ڈالنے والے اسلام کے خلاف، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف اوردین کے خلاف کبھی مسلمان ہو جاتے پھر کافر ہو جاتے تاکہ اپنے ساتھ اوروں کو بھی گھسیٹ کر لے جائیں صحابہ کرامؓ سے ملاقاتیں کرکے اپنے وسوسے اُن میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے اور طرح طرح کے الزامات اور طرح طرح کا روناروتے  اللہ  تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرامؓ کو یہ دو سورتیں عطاء فرمائیں ان دو سورتوں میں ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آفتوں سے حفاظت کا سامان ہے حضرات صحابہ کرام ڑ نے ان مبارک سورتوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور  ہر طرح شیطان سے الحمدﷲ محفوظ رہے آج بھی تمام مسلمان کو عموماً اور دین کا کام کرنے والوں کو خصوصاً ان دو سورتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے اب ان دو سورتوں کے بارے میں اگلی عبارت خوب غور سے پڑھیں بلکہ کوشش کریں کہ دو بار پڑھ لیں مجھے  اللہ  تعالیٰ سے امید ہے کہ آپ کے بہت سے مسائل انشاء  اللہ  حل ہو جائیں گے

’’حافظ ابن قیمس نے معوذتین کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ان دونوں سورتوں کے منافع و برکات بے شمار ہیں اور سب لوگوں کو ان کی حاجت و ضرورت ہے کوئی ایک انسان بھی ان سے مستغنی نہیں ہو سکتاان دونوں سورتوں کو سحر، نظر بد، آفاتِ جسمانی اور امراضِ روحانی کے دور کرنے میں تاثیرِ عظیم ہے اور حقیقت کو سمجھا جائے تو انسان کو ان کی ضرورت سانس لینے، کھانے پینے اور لباس پہننے سے بھی زائدہے یہ تو ہر مؤمن کا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کے منافع و نقصانات سب  اللہ  تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، بغیر اُس کی مشیّت کے کوئی کسی کو ذرہ برابر نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اس لئے دنیا و آخرت کی تمام آفات سے محفوظ رہنے کی اصل صورت یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو  اللہ  تعالیٰ کی پناہ میں دے دے اور اپنے عمل سے اس کی پناہ میں آنے کے قابل بننے کی کوشش کرے ان دو سورتوں میں سے پہلی سورت(الفلق)  میں تو دنیوی آفات سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم ہے اور دوسری سورت(الناس) میں اُخروی آفات سے بچنے کے لئے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا طریقہ سکھایا گیاہے یا یہ کہیے کہ سورۂ فلق میں جسمانی شرور سے اور سورۂ ناس میں روحانی آفات سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے مستند احادیث میں ان دو سورتوں کے بڑے فضائل اور برکات منقول ہیں‘‘( درسی تفسیر ص ۴۸۵)

انشاء  اللہ  رنگ و نور کی کسی مجلس میں ان دو سورتوں کے مسنون فضائل اور کچھ مجرب طریقے عرض کر دیئے جائیں گے فی الحال تو اس عظیم خزانے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ مسلمان اس کی قدر و قیمت کو پہچانیں جو لوگ جادو، نظر یا وساوس میں مبتلا ہیں وہ روزآنہ سو سو بار ان دو سورتوں کا اہتمام کریں جو اپنے دینی کاموں اور جماعت کے بارے میں وساوس میں مبتلا ہیں وہ بھی یہ عمل پوری توجہ سے کریں اور دونوں سورتیں ہر بار بسم  اللہ  الرحمن الرحیم  کے ساتھ پڑھیں اور پہلی مرتبہ اعوذ ب اللہ  من الشیطن الرجیم  بھی پڑھ لیں فتنوں کی کثرت کیو جہ سے کم از کم صبح شام گیارہ بار، یا سات بار ان دو سورتوں کا ہر مسلمان کو اہتمام کرنا چاہئے ورنہ تین بار تو کبھی ناغہ نہ کریں ایک بات اوریاد رکھیں کہ’’عمل‘‘ وہی ہوتا ہے جسے انسان خود کرے بے شک دوسروں کے دم کرنے سے بھی اثر ہوتاہے مگر وہ تو اس دم کرنے والے کا عمل ہوا اب اگر اُس کے دل میں اخلاص ، تقویٰ اور آپ کے لئے خیر خواہی ہے تو آپ کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اگر اُس کی نظر صرف آپ کی جیب پر ہے تو ایسے عمل سے کیا مل سکتا ہے  ہمارے معاشرے میں آج کل دونوں طرح کے عامل موجود ہیں صاحب نسبت مخلص بھی اور محض پیشہ وَرْ بھی لیکن جب آپ خود پڑھیں گے تو یہ آپ کا ’’عمل‘‘ ہوگا اور اصل ’’عمل‘‘ ہوتا ہی وہی ہے جو انسان خود کرے ایسا ’’عمل‘‘ انشاء  اللہ  ضرور کارگر ہوگا آپ سوچیں گے کہ کرکٹ کا میدان گرم ہے اورسیمی فائنل کا میچ دشمن ملک میں ہو رہا ہےہمارے وزیراعظم صاحب بھی سج دھج کر اس مقتل میں جائیں گے اس پر تو ایک کالم ہونا چاہئے تھا دراصل بات یہ ہے کہ آج پیر کا دن ہے اخبار بُدھ کے دن شائع ہوگا اور آپ حضرات تک جمعرات یا جمعہ کو پہنچے گا اُس وقت تک تو ہاتھ دُھل چکے ہوں گے ہم کرکٹ کے خلاف جتنا لکھیں، مسلمان باز نہیں آتے یہ کھیل بھی مستقل شیطانی وسوسہ ہے اس لئے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ  اللہ  تعالیٰ سے پناہ مانگی جائے بعض لوگ سوچتے ہیں کہ ہم نے تیونس اور مصر کے مظاہروں کی حمایت کی جبکہ بحرین کے مظاہروں پر کچھ نہیں لکھاتو ایک بات بالکل صاف صاف عرض ہے ہم نہ جمہوریت پسند ہیں اور نہ بادشاہت پسند ہم تو صرف اور صرف خلافت پسند، اسلام پسند، جہاد پسند اور توحید پرست ہیں ہماری حمایت یا مخالفت کا معیار کوئی طرز حکومت نہیں بلکہ اسلام ہے جہاںہمیں اسلام کا فائدہ قریب یا دور نظر آئے گا وہاں حمایت کریں گے اور جہاں نقصان نظر آئے گا وہاں مخالفت کریں گے اندھی حمایت نہیں کہ جو بھی ڈنڈا اٹھا کر کھڑا ہو جائے ہم اُس کے پیچھے تالی بجا دیں ’’سوریا‘‘یعنی’’شام‘‘ میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں ہم دل و جان سے اُن کے حامی ہیں اور دل کی گہرائیوں سے دعاء کرتے ہیں کہ  اللہ  تعالیٰ مُلک شام کو آزادی نصیب فرمائے حافظ الاسد اور اب اُس کے بیٹے بشار الاسد نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں وہ کسی بھی طرح تاتاری مظالم سے کم نہیں  اللہ  کرے ان بد عقیدہ بھیڑیوں کا اقتدارجلد ختم ہو اور مُلک شام دوبارہ عالم اسلام کی تگ و تاز کا مرکز بن جائے آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (293)

وہ آگ جو چل پڑی ہے

وہ آگ جو چل پڑی ہے

 

ش تعالیٰ کے قہر اور غضب کو دعوت دینے والے کتنے ’’بد نصیب‘‘مجرم ہیں قرآن عظیم الشان کے ایک نسخے سے اٹھنے والے آگ کے شعلے لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں بھڑک اٹھے ہیں اور یہ بھڑکتی آگ صرف خون سے ٹھنڈی ہو گی ہاں سُن لو! صرف خون سے امریکہ کے دو ناپاک چوہوں نے بہت بڑی جسارت کی ہے اور اپنی قوم کو ہلاکت کی کھائی میں دھکیل دیا ہے ادھر مسلمانوں میں اس واقعہ سے ایسا ولولہ اٹھا ہے کہ جنت بھی’’شہداء حُرمتِ قرآن‘‘ کے استقبال کے لئے سج دھج گئی ہے ہاں سُن لو! شُہدائِ قرآن شہداء حُرمتِ قرآن قرآن پاک کی حُرمت کے لئے جان دینے والے شہزادے ہاں یہ شہزادے قرآن کے حافظوں، قاریوں، عالموں اور مبلّغوں سے بہت آگے ہوں گے، بہت آگے دشمن جب میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف انگلی اٹھائے گا تو اُمتِ مسلمہ میں’’شہداء حرمت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ پیدا ہوں گے اور جب ظالموں کی انگلی’’ قرآن عظیم الشان‘‘ کی طرف اٹھے گی تو شہداء کرام کی ایک نئی اور البیلی قسم وجود میں آئے گی مشکوک نسل کے ناپاک کیڑوں کو بھی معلوم ہے کہ اسلام کوئی لاوارث دین نہیں ہے یہ کیتھولک چرچ نہیں کہ سیکولر ازم کے سامنے ہتھیار ڈال کر پادری کی بدبودار پینٹ تک محدود ہو جائے یہ اسلام ہے اسلام غازیوں کا دین، مجاہدوں کا دین شہداء کا دین  اللہ  تعالیٰ کا محبوب اور منتخب دین آپ تھوڑا سا سوچیں کہ پادری نے قرآن پاک کی بے ادبی کیوں کی؟ وہ جانتاہے کہ قرآن پاک کے ایک دو نسخوں کی بے ادبی سے قرآن پاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا یہ عظیم الشان کتاب لاکھوں سینوں میں محفوظ ہے روزآنہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اور روزآنہ کروڑوں لوگ اس کی تلاوت کرتے ہیں آپ یقین کریں دل جلے پادری نے یہ شرمناک حرکت کرکے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا ہے

شکست کا اعتراف

طاقتور لوگ کبھی اس طرح کی حرکت نہیں کرتے فتح پانے والوں کو اس طرح کے احتجاج کی ضرورت پیش نہیں آتی کھمبا تو ہمیشہ کھسیانی بلّی نوچتی ہے اور گالیاں وہی دیتا ہے جس کا ہاتھ کمزور ہو معلوم ہواکہ’’عالم کفر‘‘ شکست کھا رہا ہے اسلام کو مٹانے کے تمام خواب چکنا چور ہو چکے ہیں دنیا پر قبضے کا منصوبہ اپنی موت آپ مر چکا ہے اور بھیانک ٹیکنالوجی بُری طرح سے بے آبرو ہو چکی ہے لوگ کہتے تھے کہ امریکہ اور یورپ کے لئے اسلامی دنیا کو ختم کرنا دو گھنٹے کا کھیل ہے مگر جب میدان سجا تو قرآن عظیم الشان نے فدائیوں کے لشکر’’عالم کفر‘‘ کے سامنے کھڑے کر دیئے عراق میں شکست، افغانستان میں ذلّت   اور کھربوں ڈالر کے خسارے تب غم، غصّے اور بے بسی کی آگ میں جلتے پادری نے قرآنِ پاک کے نسخے کی بے ادبی کرکے اپنے دل کو سکون دینے کی کوشش کی وہ خبیث اور کر ہی کیا سکتا تھا جنگ کرنا اُس بدفطرت پادری کے بس میں نہیں تھا مجاہدین اور فدائیوں کی یلغار روکنا اُس کی طاقت میں نہیں تھا تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام کے آگے بند باندھنا اُس کی استطاعت میں نہیں تھا تب اُس پاگل، ہذیانی اور مایوس شخص نے وہ حرکت کی جس کا خمیازہ خود اُسے اور اُس کی قوم کو ہر حال میں بھگتنا ہو گا یاد رکھنا! اب امریکہ کو ٹکڑوں میں بٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا دیکھ لینا! امریکہ آپس میں ٹکرائے گا گورے کالوں سے اور کالے گوروں سے لڑیں گے اور بھی بہت کچھ ہوگا ہاں بہت کچھ ’’قرآن عظیم الشان‘‘ کی بے حُرمتی کا جُرم کوئی چھوٹا گناہ نہیں ہے یہ وہ آگ تھی جو اب چل پڑی ہے اور بھڑک اٹھی ہے

خطرہ نہیں عزّت و عظمت ہے

 کئی لوگ کہتے ہیں کیا اسلام عدم برداشت کی تعلیم دیتاہے؟ بابری مسجد گر گئی تو اسلام خطرے میں قرآن پاک کی بے ادبی ہو گئی تو اسلام خطرے میں توہین رسالت ہو گئی تو اسلام خطرے میں مولوی لوگوں کو بھڑکاتے ہیں حالانکہ بات یہ نہیں ہے ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ان چیزوں سے اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے اسلام کو الحمدﷲ کوئی خطرہ نہیں ہے یہ  اللہ  تعالیٰ کا آخری اور محفوظ دین ہے اسلام ہے تو دنیا ہے، جب اسلام ختم تو یہ دنیا بھی ختم ہوجائے گی اسلام کو نہ تو کوئی ایٹمی طاقت نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ دنیا بھر کے منافق مگر  اللہ  تعالیٰ نے اسلام کو بہت عزت وعظمت عطاء فرمائی ہے  اللہ  تعالیٰ نے قرآن پاک کو اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کو بہت عزت و عظمت عطاء فرمائی ہے یہ وہ آسمانی عزت اور غیرت ہے جو ان مقدس ناموں کے گرد ہر وقت پہرہ دیتی ہے یہ وہ آسمانی محبت ہے جو ان مقدس ناموں کو ہر وقت گھیرے میں لئے رکھتی ہے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ کی غیرت اور محبت کتنی عجیب تھی اور خود آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بشارت دی کہ میرے بعد مجھ سے سچی محبت کر نے والے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مجھ پر اپنے والدین اور بیوی بچوں کو قربان کرنا سعادت سمجھیں گےعزت اور غیرت سے محروم یہودی اور عیسائی اس بات کو نہیں سمجھتے اُن کو کیا معلوم کہ عزت کیا چیز ہے اور غیرت کیا نعمت ہے؟ اُنہی کے رنگ میں رنگے منافقوں کو بھی اس عزّت اور محبت کی ہوا تک نہیں لگی ارے! عزت، محبت اور غیرت کے ان چراغوں کو جلانے کے لئے نہ کسی مولوی کے بھڑکانے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ کسی مبلّغ کے تقریر کرنے کی یہ نعمت حضرات صحابہ کرام ڑکے زمانے سے چلی آتی ہے اور تاقیامت چلتی رہے گی دشمنوں نے اس محبت اور غیرت کو مسلمانوں کے دلوں سے کھرچنے کی ہر کوشش کر لی مگر کہاں؟ یہ تو عرش سے نازل ہونے والی نعمت ہے سلام ہو شہدائے اسلام پر سلام ہو شہدائے ناموس رسالت پر سلام ہو شہدائے ختم نبوت پر سلام ہو شہدائے حُرمتِ قرآن پر یہ لوگ اصلی مسلمان ہیں ان کو ایمان کی حلاوت، محبت اورغیرت نصیب ہے ان کی اس محبت کے سامنے دنیا بھر کی طاقت مفلوج ہے اور ان کی یلغار کے سامنے ایٹمی قوتیں بے بس ہیں یہ عزت، محبت اور غیرت مسلمان کے لئے دنیا و آخرت میں کام آنے والی نعمتیں ہیں تم نے توہین رسالت کا جُرم کیا تو لاکھوں غافل نوجوان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے سچے عاشق و دیوانے بن گئے اب تم نے قرآن پاک کی بے ادبی کی ہے تو سن لو! اب ہر طرف قرآن پاک سے تعلق اور محبت کی فضا قائم ہو گی اور تمہارے خلاف نفرت اور انتقام کے نہ بجھنے والے شُعلے بلند ہوں گے

انتقام کا طریقہ

اس وقت ہر سچے مسلمان کے دل میں یہی درد ہے کہ ہائے کاش وہ اپنی زندگی میں یہ منظر نہ دیکھتا، نہ سنتا اور اگر یہ آزمائش آہی گئی ہے تو اب  اللہ  تعالیٰ اُسے ان مجرموں سے انتقام لینے کی توفیق عطاء فرمائے کتنے نوجوان سجدوں میں رو رہے ہیں کتنی مائیں اور بہنیں سسک سسک کر اپنے آنچل بھگو رہی ہیں اور کتنے مسلمان اندر ہی اندر سے تڑپ رہے ہیں افغانستان والوں نے سبقت کر لی وہ ایک طرف تو جہاد کر کے مجرموں سے مستقل انتقام لے رہے ہیں تو دوسری طرف پر جوش مظاہروں نے بھی کفر کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے مگر باقی مسلمان کیا کریں؟ کچھ ’’بے عمل‘‘ لوگ ایسے مواقع پر دوسروں پر تنقید کرتے ہیںکہ فُلاں نے کیا کیا؟ فُلاں نے کیا کیا؟ ایسے لوگوں سے ہمیشہ بچ کر رہیں نماز جس طرح ہر مسلمان پر فرض ہے اسی طرح باقی احکام بھی سب مسلمانوں کے لئے ہیں کوئی بھی اپنا بوجھ دوسرے کے کندھے پر نہ ڈالے ہرکوئی اپنے ایمان اور قبر کی فکر کرے کچھ’’پلانر‘‘ قسم کے لوگ ایسے مواقع پر جہادی قیادت کو خط لکھیں گے کہ مجھے’’ٹیری جونز‘‘ اور’’وائن سلیپ‘‘ تک پہنچانے کا بندوبست کیا جائے تاکہ میں بدلہ لے سکوں ایسے لوگ بھی مسلمانوں کے کسی کام کے نہیں ہوتے جہاد تو ایک ایسے بہتے دریا کا نام ہے کہ جس کا ہر قطرہ خود پورا دریا ہوتا ہے دریا قطروں سے بنتا ہے اور قطرے دریا بن کر مقصد حاصل کرتے ہیںالگ رہنے والے تو چند دن میں گل سڑ جاتے ہیں کچھ نفاق زدہ لوگ ایسے مواقع پر کہیں گے کہ ہم مسلمان اگر قرآن پاک کی آیاتِ جہاد کو بیان نہ کرتے تو پادری قرآن پاک کی بے ادبی نہ کرتا ہمیں چاہئے کہ قرآن پاک کا امن والا پیغام سنایا کریں ایسے لوگ اسلام اور قرآن پاک کے دشمن ہیں یہ نام کے مسلمان ہیں مگر ان کے اندر’’ٹیری جونز‘‘ اور وائن سلیپ‘‘ جیسے پادری بیٹھے ہیں یہ قرآن پاک کی آیات کا انکار کرتے ہیں بھلا بتائیے کہ انکار سے بڑی بے ادبی اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ تو ہوئے وہ تین طبقے جن کو آپ مسلمانوں کی جھاگ کہہ سکتے ہیں یہ بے ادبی کی خبر کو پھیلاتے رہیں گے اور اس پر لفظوں کی چاند ماری کرتے رہیں گے مگر مسلمانوں میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں تو اس ناقابل معافی جُرم کا حقیقی انتقام لیں گے وہ قرآن پاک کو ہاتھ میں لے کر قسم کھائیں گے کہ سورہ فاتحہ سے لے کر سورہ والناس کی قسم کہ یہ قرآن پاک  اللہ تعالیٰ کا کلامِ برحق ہے اور ہم اس کے تمام احکامات کو تسلیم کرتے ہیں پادری نے قرآن پاک کی بے ادبی آیاتِ جہاد کی وجہ سے کی تو یہ لوگ ان آیاتِ جہاد پر عمل کی قسم کھائیں گے اور پھر میدان جہاد کا رُخ کر لیں گے ہاں یہی ہیں سچے لوگ اور انہی کے خوف سے پادری چوہے کانپ رہے ہیں جہاد فی سبیل  اللہ  کی ترتیب میں جُڑجانا جہاد فی سبیل  اللہ  کی تربیت لینا جہاد فی سبیل  اللہ  میں مال خرچ کرنا اور جہاد فی سبیل  اللہ  کی خالص دعوت دینا یہ ہے وہ انتقام جو اس جُرم کا بدلہ بن سکتا ہے ہاں مسلمانو! تھوڑا سا سوچو قرآن پاک کے اوارق جلائے گئے کیا ہم اسے برداشت کر سکتے ہیں؟ آجاؤ قرآن مقدّس کی طرف آج ہی عزت، غیرت اور محبت سے سرشار ہو کر قرآن پاک کو اپنے سینے اور گلے سے لگا لو جس کو پڑھنا نہیں آتا وہ پڑھنا سیکھے جس کو مطلب نہیں آتا تو مطلب سمجھے اور جس کی اولاد میں ایک بھی قرآن کا حافظ و عالم نہیں وہ اپنی محرومی کو محسوس کرے اور اپنی اولاد کو قرآن پاک کی نعمت سے سرشار کرے ایک ظالم اور ناپاک پادری نے جو کرنا تھا کر لیا اب مسلمانوں کی باری ہے کہ وہ ہر سطح پر قرآن پاک اور اُس کے حکم جہاد کے گرد اپنے سینوں، گردنوں اور خون کی دیواریں قائم کر دیں

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

94ترتیب

 

 اللہ تعالیٰ تمام’’آفات‘‘ اور ’’شرور‘‘ سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے آفات کی دو قسمیں ہیں(۱) دنیا کی آفات (۲) آخرت کی آفات اور شرور کی بھی دو قسمیں ہیں(۱) جسمانی شرور(۲) روحانی اور باطنی شرور

ہم دُنیوی آفتوں سے بھی بچ جائیں اور اُخروی آفتوں سے بھی اور ہم جسمانی شروراور تکلیفوں سے بھی محفوظ رہیں اور روحانی اور باطنی شرور سے بھی اس کے لئے گزشتہ ایک مجلس میں عرض کیا تھا کہ ہم سب’’معوذتین‘‘ کا اہتمام کریں قرآن پاک کی آخری دو سورتیں’’معوذتین‘‘ کہلاتی ہیںآج انشاء  اللہ  ان دو سورتوں کے کچھ فضائل اور خواص بیان کرنے کا ارادہ ہے

دشمنوں کی کثرت

ہمیں نقصان پہنچانے والے دشمن بے شمار ہیں ظالم حکمران، کفار و منافقین چور، ڈاکو اور شریر لوگ جادو، حسد، نظر بد کے ماہر اندھیرے اور حادثات سانپ، بچھو،کتے اور طرح طرح کی موذی مخلوقات شیاطین، جنّات انسانی شکل کے شیاطین ہمارا اپنا نفس،اُس کاغضب، اُس کی شہوت اور گندے گندے خیالات بیماریاں، کمزوریاں اور طرح طرح کے امراض ان سب سے حفاظت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم  اللہ  تعالیٰ کی پناہ پکڑ لیں  اللہ  تعالیٰ شہنشاہِ اعظم واکبر ہے اُس کی پناہ میں آنے کے بعد کوئی چیزنقصان نہیں پہنچا سکتی اور  اللہ  تعالیٰ کی مضبوط پناہ مانگنے کا بہترین اور افضل طریقہ قرآن پاک کی آخری دو سورتیں ہیں سورہ الفلق، سورہ النّاس اسی لئے اہل علم فرماتے ہیں کہ انسان کو ان دو ’’‘سورتوں‘‘ کی ضرورت سانس لینے، کھانے پینے اور لباس پہننے سے بھی زیادہ ہے عجیب بات ہے کہ اتنی عظیم اور مضبوط پناہ گاہ ہمارے اتنے قریب ہے اور ہم پھر بھی اِدھر اُدھر دھکّے کھا رہے ہیں

اصل مصیبت

بیمارہونا بھی ایک آفت ہے مثلاً کسی انسان کو کینسر ہو جائے مگر یاد رکھیں نماز میں سُست ہوجانا کینسر سے بڑی مصیبت ہے آنکھوں کا کمزورہوجانابھی ایک مصیبت ہے لیکن یاد رکھیں کہ آنکھوں کا ’’بدنظری‘‘ میں پڑجانا، اندھا ہونے سے بھی بڑی مصیبت ہے اس میں یہ بات برابر ہے کہ مرد، غیر عورتوں کو دیکھیں یا عورتیں غیر مردوں کو دیکھیں بھوک اور فاقہ بھی ایک مصیبت ہے مگر دل میں ناشکری کا آجانا اُس سے زیادہ بڑی مصیبت ہے بس یوں سمجھ لیں کہ جو چیز انسان کو  اللہ  تعالیٰ سے دُور کرے اور عذاب کا مستحق بنائے وہ چیز اصل مصیبت اور اصل آفت ہے ہم تمام انسان کمزور ہیں ہمیں عارضی مصیبتوں سے بھی تکلیف پہنچتی ہے اور اصل مصیبتوں سے بھی ہم ڈرتے ہیں تب ہمیں چاہئے کہ ہم مضبوط سہارے کوپکڑیں اور قرآن پاک کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں قرآن پاک سے دُوری نے ہمیں کمزور، بے بس اور نہتّا کر دیا ہے ہم اندھیروں اور مصیبتوں میں دھکّے کھا رہے ہیں آجائیں! توبہ کریں اور قرآن پاک کے ساتھ جُڑ جائیں قرآن پاک نُور کا خزانہ ہے اورعزت و قوّت کا سرچشمہ ہے ہم قرآن پاک پڑھیں، قرآن پاک سیکھیں، قرآن پاک سمجھیں قرآن پاک کا ادب کریں قرآن پاک کی خدمت کریں قرآن پاک کو پھیلائیں قرآن پاک کو نافذ کریں قرآن پاک کو اپنائیں قرآن پاک کے ساتھ جیئیں اور قرآن پاک کے ساتھ مریں انشاء  اللہ  اندھیرے روشنی میں اور کمزوری قوت میں بدل جائے گی لارڈ میکالے اور انگریز کا نظام تعلیم ہمیں پہلے قرآن پاک سے کاٹتا ہے پھر جب ہم کٹ جاتے ہیں تو وہ ہمیں شکار کرلیتا ہے ڈاکٹر بننا، انجینئر بننا، سائنسدان بننا کمال نہیں قرآن عظیم الشان کو پا لینا کمال ہے روزی روٹی کے لئے انسان کو کوئی بھی حلال پیشہ اپنا لینا جائز ہے وہ تجارت ہو، مزدوری ہو، ڈاکٹری ہو، انجینئرنگ ہو یا سائنس مگر دنیا اور آخرت میں عزت، کمال، کامیابی اور سکون حاصل کرنے کے لئے ہم قرآن پاک کے محتاج ہیں اُمتِ مسلمہ آج قرآن پاک کی طرف لوٹ آئے تو عزت و عظمت اُس کے قدم چومے گی حضرات صحابہ کرام ڑکے پاس’’قرآن پاک‘‘ تھا وہ قرآن پاک کے حکم جہاد کو لے کر چلے تو روم و فارس کے حکمران، اطباء، حکماء، فلاسفر، موجد سب اُن کے غلام بن گئے مسلمانو! یادر کھنا گدھے کا مقابلہ گدھا بننے سے نہیں ہو سکتا کتے کا مقابلہ کتا بننے سے نہیں ہو سکتا گدھے اور کتے کا مقابلہ کرنا ہے تو مضبوط انسان بننا ہو گا یہ جو آج ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ کتّوں کا مقابلہ کرنا ہے تو اُن سے بھی زیادہ بدبودار کتّے بن جاؤ یہ جھوٹ بول رہے ہیں خود بھی دھوکہ کھا رہے ہیں اور عوام کوبھی دھوکہ دے رہے ہیں

ایک ضروری بات سمجھیں

وظائف اور اذکار میں سب سے زیادہ مؤثر اورطاقتور قرآنِ پاک کی آیات ہیں ان کے بعد اُن وظائف اور دعاؤں کا مقام ہے جو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل سے ثابت ہیں  اللہ  کے لئے اس نکتے کو اچھی طرح ذہن میں بٹھائیں مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ لوگ غیر مسنون وظیفوں کو قرآن اور سنت کے اعمال سے بھی زیادہ ترجیح دیتے ہیں کسی نے بتا دیا کہ حافظے کی قوت کے لئے نماز کے بعد سر پر ہاتھ رکھ کر گیارہ بار’’یَا قَوِیُّ‘‘ پڑھیں اب بس جیسے ہی امام صاحب نے سلام پھیرا تو سب نے اپنے سر پکڑے ہوئے ہیں اور ’’یَا قَوِیُّ‘‘ پڑھ رہے ہیں  اللہ  کے بندو! یہ وظیفہ ٹھیک ہے مگر پہلے اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم تو پورا کر لو نماز کے بعد کی کم از کم ایک دو مسنون دعائیں تو پڑھ لو بعد میں بزرگوں کے احکامات بھی پورے کر لینا نماز کا سلام پھیرنے کے بعد ہمارے آقا و محسن اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کونسی دعائیں پڑھتے تھے ؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کونسی دعائیں پڑھنے کی تلقین فرمائی؟ کیا ان دعاؤں سے بڑھ کر اس موقع پر کوئی عمل ہو سکتا ہے؟ بزرگ جو وظیفے بتاتے ہیں اُن کا مقصدبھی یہ ہوتا ہے کہ مسنون اور سنت عمل پورا کرنے کے بعد اُن کو کیا جائے چنانچہ نماز کے فوراً بعد نماز کے بعدوالی مسنون دعائیں پڑھی جائیں ان میں دنیا و آخرت کی بڑی خیر پوشیدہ ہے اس کے بعد اگر کوئی مجرّب وظیفہ کرناہے تو کر لیں بزرگوں کے بتائے ہوئے وہ وظیفے جو شریعت کے مطابق ہوں وہ بھی بڑی تاثیر رکھتے ہیں  اللہ  تعالیٰ نے’’وحی‘‘ کا دروازہ تو بند فرمادیا مگر الہام اور کشف کا دروازہ قیامت تک کُھلاہے  اللہ  تعالیٰ کے مقرب مجاہدین، اولیاء اور ابدال کو ’’الہام‘‘ کے ذریعے بہت سے وظائف اور دعائیں ملتی ہیںیہ بہت کام کی چیزیں ہوتی ہیں مگر نہ تو ان کی قوت قرآنی آیات کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ یہ مسنون دعاؤں اور وظائف کے درجے کو پہنچ سکتی ہیں اس لئے گزارش ہے کہ زیادہ توجہ تو قرآن پاک کی سورتوں اور آیات کی طرف ہو خصوصاً وہ قرآنی وظائف جن کی فضیلت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمائی ہے اگر آپ کو کسی عمل کے لئے کوئی آیت بتائی جائے تو اُسکو سب سے زیادہ مؤثر سمجھیں اسی طرح وہ دعائیں جو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہیں ان میں بہت زیادہ تاثیر ہے پس قرآنی آیات اور مسنون اوراد کی زیادہ حرص کریں اس کے بعد بزرگوں کے مجرب وظائف کا درجہ ہے اور وہ وظیفے اور اوراد جو غیر شرعی اور مشکوک الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں اُن سے پوری زندگی بچیں یاد رکھیں شرک اور بدعت سے بچنا ہم سب کے لئے بے حد ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ دنیا کے ادنی مسائل حل کرنے کی فکر میں ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں العیاذ ب اللہ ، العیاذ ب اللہ

قرآن پاک کی دعائیں

دعاء خود بہت اونچی عبادت ہے بلکہ عبادت کی اصل ہے پھر دعاؤں میں سب سے اونچی دعائیں وہ ہیں جو قرآن پاک نے ہمیں سکھائی ہیں  اللہ  اکبر کبیرا ان دعاؤں میں اتنی قوت، اتنی تاثیر اور اتنی خیر ہے کہ اُسے زبان اور قلم سے بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے مثلاً حضرت یونس علیہ السلام کی دعاء

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن (الانبیاء ۸۷)

یہ ایسی مؤثر، جامع اور طاقتور دعاء ہے کہ حضرات اہل علم نے اس کے فضائل اور خواص پر باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں غموں، مصیبتوں اور بیماریوں کے ازالے کے لئے اور بڑی سے بڑی جائز حاجات کے لئے یہ دعاء عجیب تاثیر رکھتی ہے اسی طرح قرآن پاک کی جامع ترین دعاء

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ  (البقرۃ  ۲۰۱)

یہ دعاء تو فضائل اور رحمت کا خزانہ ہےوہ کونسی ضرورت ہے جو اس دعاء میں نہیں مانگی گئی آپ سب سے گزارش ہے کہ اس دعاء کے الفاظ اور معنیٰ میں غور کر کے اس کی قیمت اور عظمت کو سمجھیں اور جب بھی محسوس ہو کہ میری دعاء قبول ہو رہی ہے تو سب سے پہلے اس دعاء کو مانگیں خود سوچیں کہ اگر یہ دعاء قبول ہو گئی تو دنیا بھی اچھی، آخرت بھی اچھی اور جہنم سے نجات بھی پکّی تو پھر اور کیا چاہئے؟ وہ خاوند اور بیوی جو ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں ایک دوسرے کی ناقدری اور حق تلفی کرتے ہیں وہ قرآن پاک کی دعاء :

رَبَّنَا ھَبْ لَنَامِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَّاتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً  (الفرقان ۷۴)

صبح شام مانگا کریں چند دن میں عجیب حالات دیکھیں گے کم از کم سات سات بار توجہ اور عاجزی سے یہ دعاء مانگیں وہ لوگ جن کا دل کمزور ہوتا ہے جلدی غصے میں آجاتا ہے جلدی میلا کچیلا ہوجاتا ہے جی ہاں ! کمزور دل کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ اس میں دوسرے مسلمان کا بُغض جلدی بھر جاتاہے ورنہ بہادر دل والے تو پروا ہی نہیں کرتے پرواہ کریں بھی تو جلد معاف کر دیتے ہیںبہرحال کمزور دل لوگوں کے لئے قرآن پاک کی دعاء

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَؤُفٌ رَحِیْمٌ (الحشر ۱۰)

اگریہ دعاء کثرت سے مانگیں گے اور ترجمہ ذہن میں رکھ کر توجہ سے مانگیں گے تو دل کی بیماری یعنی’’غِلّ‘‘ دور ہو جائے گا اور دل آئینے کی طرح پاک صاف ہو جائے گا اور جب پاک ہو گا تو مضبوط بھی ہو جائے گا  اللہ  اکبرکبیرا قرآن پاک کی کِس کِس دعاء کا تذکرہ کروں عجیب عجیب خزانے ہیں

حَسْبُنَا  اللہ  وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ  (آل عمران ۱۷۳)

 کو دیکھیں

حَسْبِیَ  اللہ  لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم  (التوبۃ ۱۲۹)

کو دیکھیںحضرت آدم اور حواعلیہماالسلام کی دعاء دیکھیں

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ  (الاعراف ۲۳)

خیر میرا مقصد توجہ دلانا تھا اُمید ہے بہت سے مسلمانوں کی توجہ اس طرف ہوگئی ہو گی اُن سب کو بڑی خیر مبارک ہو

معذرت

آپ سب سے معافی چاہتا ہوں آج’’معوذتین‘‘ کے فضائل اور خواص لکھنے بیٹھا تھا احادیث، حوالے اور وظائف لکھنے کے لئے پانچ چھ کتابیں بھی سامنے رکھی ہیں مگر بعض ضروری باتیں درمیان میں آگئیں اور کالم کی جگہ پوری ہو گئی  اللہ  تعالیٰ ان باتوں سے مجھے اور آپ سب کو نفع نصیب فرمائے ’’غزہ‘‘ کے مسلمان یہودی بمباری کا شکار ہیں آج بھی کئی مسلمانوں کے شہید ہونے کی خبر ہے  اللہ  تعالیٰ کے حضور فلسطین کے مجاہدین کے لئے دعاؤں کا اہتمام کریں اور یہودیوں کے خلاف جہاد فی سبیل  اللہ  کی دل میں نیت کر یں

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (295)

رِٹ، شام ،فضائل

 اللہ  تعالیٰ میرااورآپ سب کاخاتمہ’’ایمانِ کامل‘‘پر فرمائے آج کچھ متفرق باتیں اور کچھ پُرانے وعدوں کوپورا کرنے کی کوشش یا  اللہ  توفیق عطاء فرما

رِٹ کی رَٹ

پاکستان کا سابق صدر پرویز مشرّف ایک بات کی ’’رَٹ‘‘ لگاتا تھا کہ جو بھی حکومت کی’’رِٹ‘‘ کو نہیں مانے گا میں اُس کو ختم کردوں گا چنانچہ اُس نے لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ پر خونی حملہ کیا اور سینکڑوں سچے مسلمانوں کو شہید کیا وجہ یہ بتائی کہ یہ لوگ حکومت کی’’رِٹ‘‘ کو نہیں مانتے تھے اب موجودہ حکومت نے پرویز مشرّف کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں عدالت کئی بار یہ’’رِٹ‘‘ جاری کر چکی ہے کہ پرویز مشرّف فوری طورپر پیش ہوجائے مگر وہ نہ تو پیش ہو رہا ہے اور نہ حکومت کی’’رِٹ‘‘ کو تسلیم کر کے گرفتاری دے رہا ہے وہ کہا کرتا تھا: سب سے پہلے پاکستان اور اب اُسی پاکستان کے قانون کو نہیں مان رہا اور نہ وہ سب سے پہلے پاکستان میں آرہا ہے یہ ہے ان کی ’’روشن خیالی‘‘ اور یہ ہے ان کی اعتدال پسندی کوئی ہے جو اس پورے منظر نامے کو دیکھ کر عبرت حاصل کرے؟ کوئی ہے جو اس پورے منظر نامے سے ’’روشن خیالی‘‘ کے دعویداروں کے حالات کو سمجھے؟ کوئی ہے جو اس پورے قصے کو پڑھ کر اسلام، جہاد اور مجاہدین سے ٹکر لینے کے انجام کو سمجھے؟ کہاں وہ چیختا چنگھاڑتا، مکّے لہراتا پرویز مشرّف اور کہاں یہ ڈرتا، بھاگتا،چُھپتا اورذلیل ہوتا پرویز مشرّف یا  اللہ  بُرے انجام سے ہم سب کی حفاظت فرما

مُلکِ شام کی آزادی

قرآن پاک میں ’’مُلک شام‘‘ کا تذکرہ ہے یہ انبیاء علیہم السلام کی سر زمین ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ‘‘ شام‘‘ والوں کے فضائل بیان فرمائے ہیں اسلام کے آخری معرکے کا میدان بھی ملک شام ہو گا جہاں دجّال قتل کیا جائے گا دشمنانِ اسلام نے مُلک شام کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا فلسطین، لبنان، اردن اور سوریا یہ بہت بابرکت اور سر سبز و شاداب مُلک ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکّہ کے لئے پھلوں اور میووں کے رزق کی دعاء فرمائی تو فرشتوں نے  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے ملک شام کا ایک ٹکڑا مکہ کے قریب لاکر رکھ دیا یہ’’طائف‘‘ کا علاقہ ہے جہاں کے پھل کھا کر انسان شُکر کی کیفیت میںجُھوم جاتاہے شام کے لوگ بہت ذہین، سمجھدار اور حد درجہ خوبصورت ہیں کہتے ہیں کہ حُسن و جمال میں اہل یورپ بھی ملک شام کے لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اہل یورپ تو ویسے ہی چُونے کی طرح بے رونق اور پھیکے ہیں مُلک شام نے مسلمانوں کو بڑے بڑے فاتحین، مجاہدین محدّثین، ائمہ، اولیاء اور مصنّفین دیئے ہیں یہ ’’ابدال‘‘ کی سر زمین ہے  اللہ  تعالیٰ کے بڑے اولیاء یعنی اقطاب اور ابدال کی سرزمین ملک شام کا جو حصّہ ’’سوریا‘‘ کہلاتا ہے وہاں نصف صدی سے ایک گمراہ باطنی فرقے کی حکومت ہے حافظ الاسد نامی ایک منافق نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا ظلم کی حد یہ تھی کہ کوئی سنّی مسلمان بہن اگر حجاب اوڑھ کر سڑک پر آتی تو ’’اسد‘‘ کے نُصیری غنڈے اور غنڈیاں اُس کو سڑک پر ہی ڈنڈوں، لاٹھیوں اور ہتھوڑوں سے مار مار کر شہید کر دیتے تھے سوریا کے ان مظالم پر کویت کے خطیب شیخ احمد القطان نے ایک درد ناک خطبہ دیاتھا یہ تقریر’’أَحداثُ السَّوریا‘‘ کے نام سے پوری عرب دنیا میں پھیل گئی جو مسلمان بھی ا س خطبے کو سنتا وہ غم سے سسکیاں بھرتا اور کبھی دھاڑیں مار کر روتا تمام عرب حکمرانوں نے اس تقریر پر پابندی لگا دی جو کوئی کیسٹ بیچتے یا سنتے پکڑا جاتا اُسے سزا دی جاتی شیخ قطان نے اس تقریر میں سوریا کی مظلوم بہنوں کو پکار کر کہا یا اُختنا لِمنِ النّداء اے ہماری بہن تو کس کوپکار رہی ہے؟ مسلمان تو گونگی، بہری دیواروں جیسے ہو چکے ہیںحافظ الاسد قرآن پاک کا حافظ نہیں تھا بس اُس کا نام’’حافظ‘‘ تھا شائد کفر اور نفاق کا محافظ اُس نے مسلمانوں پر مظالم کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا مگر جب اسرائیل سے لڑائی ہوئی تو’’جولان‘‘ کے پہاڑی سلسلے سے ہاتھ دھو بیٹھا اور یہ اہم علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا لبنان کے مسلمانوں پر جب اُس نے تشدّد کا ہاتھ بڑھایا تو وہاں یہ جملہ مشہور تھا

 فارٌ فی جولان وأَسدٌ فی لبنان

جولان میں چوہا اور ہم پر شیر یعنی حافظ الاسد’’جولان‘‘ میں تو چوہا ثابت ہوا اور ہم پر شیر بنا ہوا ہے الحمدﷲ گیارہ سال پہلے’’حافظ الاسد‘‘ تو مر گیا مگر پھر اُس کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھال لیا وہی باپ جیسا زہر اور باپ جیسارنگ ’’سوریا‘‘ میں آزادی کی کئی تحریکیں اٹھیں مگر باطنی نصیری حکومت نے ان تحریکوں کو سختی کے ساتھ کچل دیا اب عوامی احتجاج کی صورت میں امید کی روشنی نظر آئی ہے مُلک شام مظاہروں سے لرز رہا ہے اور باطنی حکومت اپنے کالے باطن تک کانپ اٹھی ہے سینکڑوں مسلمان شہیدہو چکے ہیں اور ایران اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لئے بشار الاسد کا ساتھ دے رہا ہے عجیب بات ہے کہ مسلمان اب تک’’ایران‘‘ کو مسلمانوں کو ہمدرد مُلک سمجھتے ہیں ایران صرف امریکہ کے خلاف بولتا ہے آج تک نہ تو اُس نے امریکہ کا کچھ بگاڑا اور نہ امریکہ نے کبھی ایران پر ایک گولی چلائی افغانستان میں امارت اسلامیہ کے خاتمے میں ایران نے پورا زور صرف کیا اور آج بھی اس کی حمایت طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کے ساتھ ہے عراق میں صدام حسین کی حکومت گرانے میں ایران نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا اور صدام کے مخالفین کو ایران میں اڈے فراہم کئے اب شام کے مظلوم مسلمان اپنی حکومت سے چھٹکارا لینے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں تو ایران ان مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ کچل رہا ہے ایرانی ریڈیو دن، رات پاکستان اور یہاں کی دینی جماعتوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے جب کہ پاکستان میں ایران کے خلاف کچھ لکھنا اور کہنا ’’فرقہ واریت‘‘ کے زمرے میں آتا ہے ہائے کاش! پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی مسلمان پاکستانی نے بنائی ہوتی

معوذتین کے فضائل

 گزشتہ بعض مجالس میں قرآنِ پاک کی آخری دو سورتوں یعنی’’معوذتین‘‘ کے بارے میں چند باتیں عرض کی تھیں آج ان دو سورتوں کے بعض مسنون فضائل اور طریقے بیان کئے جارہے ہیں ان احادیث اور روایات کو دل کی آنکھوں سے پڑھیں اور دیکھیں کہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے کس طرح سے اپنے صحابہ کرامؓ کو ان مبارک سورتوں کی طرف متوجہ فرمایا

بے مثال سورتیں

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

(۱)     اے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ! کیا تمہیں چند ایسی سورتیں نہ سکھا دوں کہ ان جیسی سورتیں  اللہ  تعالیٰ نے تورات، زبور، انجیل اور قرآن کسی میں بھی نازل نہیں فرمائیں اور میں ہر رات انہیں ضرور پڑھتا ہوں قل ھو  اللہ  احد قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذ برب الناس حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں:جب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے ان سورتوں کے پڑھنے کا حکم دیا ہے تو مجھ پر واجب ہوگیا ہے کہ انہیں نہ چھوڑوں(حیات الصحابہ بحوالہ، ابن عساکر و کنز)

(۲)     حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:تمہیں کچھ خبر ہے کہ آج رات  اللہ  تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل فرمائی ہیں کہ ان کی نظیر موجود نہیں اور وہ ہیں قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبرب الناس (مسلم)

 اللہ  تعالیٰ کی پناہ پکڑنے کا سب سے بہترین طریقہ

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھا’’جحفہ‘‘ اور ’’ابوا‘‘ (دو مقامات) کے درمیان اچانک سخت آندھی آگئی اور سخت اندھیری چھا گئی، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اللہ  تعالیٰ سے پناہ مانگنے لگے اور مجھ سے ارشاد فرمانے لگے ، عقبہؓ! تم بھی یہ دو سورتیں پڑھ کر  اللہ  تعالیٰ کی پناہ لو، کسی پناہ لینے والے نے ان کے مثل پناہ نہیں لی(یعنی  اللہ  تعالیٰ کی پناہ پکڑنے کے لئے کوئی دعاء ایسی نہیں جو ان دو سورتوں کے مثل ہو) (ابو داؤد)

رات کو آرام سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول تھا کہ ہر رات کو جب آرام فرمانے کے لئے اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا لیتے اور قل ھو  اللہ  احد اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذبرب الناس پڑھتے، پھر ہاتھوں پر پھونکتے پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے جسم پر اُن کو پھیرتے، سر، چہرہ اور جسم کے سامنے حصے سے شروع فرماتے یہ آپ تین بار کرتے(صحیح بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیماری بڑھ گئی تو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ آپ کے ساتھ اسی طرح کروں(کنز العمال)

 ماشاء  اللہ  کتنا مبارک عمل ہے کم از کم ہر مسلمان اسی کا اہتمام کر لیا کرے

ہرچیز سے کفایت

حضرت عبد اللہ  بن خبیبؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک بارش والی سخت اندھیری کی رات میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تلاش کرنے کے لئے نکلے تو جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو پالیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہو! میں نے عرض کیا کیاکہوں؟ فرمایا قل ھو  اللہ  احد اور معوذتین ہر صبح و شام تین تین بار ان کو پڑھاکرو (یہ عمل )تم کو ہر چیز سے کافی ہو جائے گا(ترمذی، ابو داؤد)

محدّثین کرام نے ہر چیز سے کافی ہونے کے دو مطلب بیان فرمائے ہیں

تکفیک من کل شر او من کل وِرد

یعنی یہ سورتیں تمہارے لئے ہر شر سے حفاظت کے لئے کافی ہو جائیں گی یا تمہیں ہر ورد اور وظیفے سے بے نیاز کر دیں گی کہ اگر کوئی اور وظیفہ نہ کرو تو حفاظت کے لئے یہی عمل کافی ہو جائے گا حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نصیحتوں میں ارشاد فرمایا

  اگر چاہتے ہو کہ بارش کی طرح روزی برسے تو قل اعوذ برب الفلق کو ہمیشہ پڑھو

اور اگر لوگوں کے شر سے حفاظت وسلامتی کے طلبگار ہو تو قل اعوذ برب الناس کا اہتمام کرو

یہاں ایک ضروری بات یاد رکھیں کہ ان دو سورتوں کوپڑھنے کے تمام فضائل اور خواص تبھی حاصل ہوتے ہیں جب ان کو  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے اوریہ دوسورتیں ویسے بھی  اللہ  تعالیٰ کے قُرب کو پانے کا ذریعہ ہیں

 اللہ  تعالیٰ کے قُرب کا ذریعہ

حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں سورۂ ھود یا سورۂ یوسف پڑھا کرتا ہوں فرمایا تم کوئی چیز قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ  اللہ  تعالیٰ تک رسائی والی ہرگز نہیں پڑھ سکتے(احمد، نسائی)

سفرمیں آسانی اور کشادگی

حضرت جبیر بن مطعمؓ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایا اے جبیر! کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ جب تم سفر میں جایا کرو تو تمہاری حالت سب سے اچھی اور تمہارا توشہ سب سے زیادہ ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! میرے باپ آپ پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا تم یہ پانچ سورتیں پڑھا کرو

قل یا ایھا الکفرون، اذا جاء نصر اللہ  والفتح، قل ھو  اللہ  احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ہر سورت کے شروع میں بھی بسم  اللہ  الرحمن الرحیم اور آخر میں بھی بسم  اللہ  الرحمن الرحیم پڑھو

حضرت جبیر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: حالانکہ میں غنی اور مالدار تھا لیکن جب میں سفر میں جایا کرتا تھا تو میں سب سے زیادہ خستہ حالت والا اور سب سے کم توشہ والا ہوتا تھا تو جب مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ سورتیں سکھائیں اور میں نے انہیں پڑھنا شروع کیا تو میں سب سے اچھی حالت والا اور سب سے زیادہ توشہ والا ہو گیا اورپورے سفر میں واپسی تک میرا یہی حال رہتا ہے( حیات الصحابہ بحوالہ ابو یعلی)

ان دو مبارک سورتوں کے فضائل اور خواص اور بھی ہیں آج کی مجلس میں اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں دشمنوں، بیماریوں، وسوسوں، اور پریشانیوں سے گھِرے مسلمان خاص طور پر ان دو سورتوں سے فائدہ اٹھائیں الحمدﷲ کئی لوگوں نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے ان سورتوں کا مستقل وِرد شروع کر دیا ہے اور انہیں  اللہ  تعالیٰ نے عجیب و غریب فوائد سے نوازہ ہے

والحمدﷲ الذی بنعمتہ تتم الصالحات

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (296)

 

مسلمانو! ہوشیار

مسلمانو! ہوشیار

 اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو’’حُبِّ دنیا‘‘ اور حِرص سے بچائے ہم میں سے ہر ایک اپنے دل میں جھانک کر دیکھے کہ میرے دل میں حرص اور لالچ ہے یا نہیں؟ اپنی جسمانی بیماریاں بھی تو ڈاکٹروں سے ٹیسٹ کراتے ہیں شوگر ہے یا نہیں، بلڈپریشر کتنا ہے؟ اگر ہم اپنے دل میں دنیا کی محبت اور اس کا حرص لیکر قبر میںچلے گئے تو معاملہ خطرناک ہو جائے گا یا  اللہ  رحم فرما آج چاروں طرف درد ناک مناظر ہیں اولاد، اپنے ماں باپ کے مرنے کا انتظار کررہی ہے وہ مریں گے تو مکان اور جائداد پر میرا قبضہ ہو گا انا ﷲ وانا الیہ راجعون

دنیا میں ماں باپ جیسی کوئی نعمت ہے؟ ماں باپ کی دعائیں اور اُن کا سایہ ہزاروں مکانوں اور جائدادوں سے زیادہ قیمتی ہے مگر لالچ اور حرص تو انسان کو بھیڑیا بنا دیتی ہے قرآن پاک حکم فرماتا ہے کہ بوڑھے ماں باپ کے لئے رحمت کی دعاء کرو اُن کو جھڑکی نہ دو انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ  اللہ  تعالیٰ کی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو مگرحرص اور لالچ یہاں تک پہنچا دیتی ہے کہ بیٹے اپنے ماں باپ کے مرنے کے لئے دن گنتے ہیں اور اس بات کو بُھول جاتے ہیں کہ ہم یہ بُری نیت اور سوچ دل میں اٹھائے اپنے ماں باپ سے پہلے بھی مرسکتے ہیں بیوی کا رشتہ کتنا عجیب پیار اورمحبت والا رشتہ ہے مگر مال کی لالچ اور حرص میں کئی لوگ باہر ملک بھاگ جاتے ہیں بے چاری وفادار بیویاں ہر دن راہ دیکھتی وقت کاٹتی ہیں کہ ایک دن اچانک طلاق کا پیغام آجاتا ہے نقلی دوائیاں، جھوٹی قسمیں اور دھوکے بازی اور تو اور مال کی خاطر کیسے کیسے قیمتی انسانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے آہ انسان، اشرف المخلوقات سورج اور چاند سے افضل مگر ایک موبائل فون اور ایک موٹر سائیکل کی خاطر اُسے گولی مار کر قتل کر دیا جاتا ہے لوگوں نے بس ایک بات ذہن میں بٹھا لی ہے کہ جناب اس زمانے میں مال کے بغیر کہاں گزارہ ہو سکتا ہے؟ اس لئے اب’’دنیا کی محبت‘‘ کے خلاف کوئی بات ہی نہ کرو  اللہ  کے بندو! مال کی ضرورت اور چیز ہے اور مال کی محبت اور چیز ہے اسلام حلال مال سے نہیں روکتا، بلکہ مال کی حرص اور محبت سے روکتا ہے اسلام دنیا سے نہیں روکتا بلکہ دنیا کی محبت سے روکتا ہے امام غزالی س فرماتے ہیں کہ علماء کرام نے ’’حبّ دنیا‘‘ کے خلاف بولنا چھوڑ دیا، صرف اس ڈر سے کہ لوگ کیا سوچیں گے کہ خود تو مال کماتے ہیں اور ہمیں روکتے ہیں حالانکہ اگر علماء اور دیندار لوگ ’’حبّ دنیا‘‘ کے خلاف بولنا چھوڑدیں گے تو بہت بڑا فساد اور تباہی پھیل جائے گی جی ہاں وہی تباہی جو آج ہم اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں مال کا حرص، عزت کا حرص اور شہوت کا حرص ان تین چکیوں میں مسلمان بُری طرح پِس رہے ہیں اور کفار ہر طرف غالب آتے جارہے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا

’’حرص سے بچو، کیونکہ یہ حرص(اور بخل) تم سے پہلے والوں کو ہلاک و برباد کر چکا ہے اسی نے اُن کو قتل و غارت اور محارم کو حلال کرنے پر ابھارا‘‘(صحیح مسلم)

ہم سب کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت، اور دنیا کا حرص پیدا نہ ہو کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو انسان کے دین کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا

’’وہ دو بھوکے بھیڑیئے، جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے گئے ہوں،اُن بکریوں کے لئے اتنے نقصان دہ نہیں ہیں، جتنا کہ مال اور عزت کا حرص انسان کے دین کو تباہ کرنے والا ہے‘‘(جامع ترمذی)

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس دور میں ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو’’حُبِّ دنیا‘‘ سے سو فیصد پاک صاف ہیں جی ہاں یہ فدائی مجاہدین ہیں  اللہ  تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھنے والے غیب پر ایمان رکھنے والے ایک فدائی مجاہد کہہ رہا تھا کہ میں نے  اللہ  تعالیٰ کو نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے کہ  اللہ  تعالیٰ موجود ہے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو نہیں دیکھا مگرمجھے یقین ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نبی برحق ہیں میں نے جنت کو نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے کہ جنت برحق ہے میں نے اُن انعامات کو جو شہداء کے لئے  اللہ  تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے کہ شہید کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے سچے ہیں اس لئے میں اپنی جان  اللہ  تعالیٰ کو بیچنے جارہا ہوں سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ کیاشان والا ایمان ہے ہم اس طرح کے سچے اولیاء کو دیکھ کر اپنے دل کے مرض یعنی’’حبّ دنیا‘‘ اور’’حرص‘‘ کا علاج کر سکتے ہیں اور ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی دنیا کی محبت سے بچنا ممکن ہے

ہمارے سیّد اور محبوب حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں:

جو شخص دنیا کو اپنا محبوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کا ضرور نقصان کرے گا اور جو کوئی آخرت کو محبوب بنائے گا وہ اپنی دنیا کا ضرور نقصان کرے گا پس تم لوگ فنا ہو جانے والی (دنیا) کے مقابلے میں باقی رہنے والی (آخرت) کو ترجیح دو(مسند احمد)

مال کمانے سے کوئی نہیں روکتا آپ روز کروڑوں کمائیں مگر اس مال سے محبت نہ کریں کہ اسے خرچ کرنا ہی آپ کے لئے مشکل ہو جائےاور یہ آپ کے پاؤں کی زنجیر بن جائے کہ اسے چھوڑ کر جہاد اور دین کے کسی کام پر ہی نہ نکل سکیں اور ہر وقت اس مال کو بڑھانے کی فکر میں لگے رہیں تھوڑا سا غور کریں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا مفہوم یہ ہے کہ جب مسلمان دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں گے اور موت سے نفرت کرنے لگیں گے تو دنیا بھر کی کافر قومیںاُن پر حملہ آور ہو جائیں گی مگر مسلمان کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود سمندر کی جھاگ اور میل و کچیل کی طرح کمزور اور بے قدر و قیمت ہوں گے یہ روایت آپ نے بارہا سنی ہو گی معلوم ہوا کہ جہاد اور ترقی سے روکنے والی چیز ’’دنیا کی محبت‘‘ ہے اور ترقی اور کامیابی کا راستہ موت اور شہادت کی محبت ہے اب ہم اس معیار پر اپنے آپ کو دیکھ لیں ہمارے ہاں تو اب اس ’’ملعون‘‘ دنیا کی محبت کو’’دین‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے خوب پیسہ کماؤ، تاکہ’’بزنس‘‘ میں کفار کا مقابلہ کر سکو انا ﷲ وانا الیہ راجعون

مسلمانوں کو اگر عزت، کامیابی اور ترقی کے راستے پر لانا ہے تو اُن کو جہاد پر کھڑا کرنا ہو گا اور جہاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ’’دنیا کی محبت‘‘ ہے مال کا حرص جس نے انسانوں کو خونی درندے اور جانور بنا دیا ہے عزت کا حرص جس نے ہر طرف فساد ہی فساد برپا کر دیا ہے اور شہوت کا حرص جس نے ہمارے ماحول کو پلید اور ناپاک کر دیا ہے اپنی بیوی دو باتیں زیادہ کر دے تو سر میں درد ہونے لگے اور غیر عورتوں سے گھنٹوں تک لمبی لمبی باتیں آہ مسلمان تجھے کیا ہو گیا ہےموبائل ٹاکنگ، کمپیوٹر چیٹنگاور کہیں دین کی دعوت کے نام پر غیر مردوں اور عورتوں کی ہلاکت خیز گپ بازیاں یہ حرص نہیں تو اور کیا ہے کہ بیوی کو اپنے خاوند کے علاوہ ہر مرد اور خاوند کو اپنی بیوی کے علاوہ ہر عورت پسند ہے بے حیائی کے حرص نے طرح طرح کی شکلیں اختیار کر لی ہیں اسی طرح کھانے پینے کا حرص طرح طرح کے کھانے، بڑے بڑے ہوٹل اور قیمتی مال اور وقت کا ضیاع دنیا میں شائد کوئی ایسا فینسی ہوٹل ہو جہاں تازہ کھانا ملتا ہو ان ہوٹلوں میںہفتے بھر کا کھانا پکا کر فریز کر لیتے ہیںاور پھر مائکروویو یا اس طرح کی دوسری چیزوں میں گرم کر کے پیش کرتے ہیں بڑے بڑے قیمتی لوگ یہ باسی کھانا کھانے کے لئے گھنٹوں تک میزوں کے سامنے بیٹھے اپنا وقت اور اپنی عزت برباد کرتے رہتے ہیں اچھا کھانے کا شوق زیادہ بُری بات نہیں مگر اس کا حرص ذلت ناک ہے نماز میں کھانے کی سوچ، ہروقت جہاں سے بھی ملے اچھا کھانا کھانے کی فکر پھر اگر اچھا کھانا بچ جائے تو اُسے سنبھالنے کی فکر کہ کوئی اور نہ کھالے اور اگر کوئی کھالے تو دل پر ایسا غم جیسے مشرّف کی وردی اُتر گئی ہومسلمان تو سخی ہوتا ہے اپنا حصہ بھی دوسروں کو کِھلا کر خوش ہوتا ہے یہ کیاکہ زائد کھانا بھی اگلے وقت بچانے کی فکر خلاصہ یہ کہ دنیا کی محبت اور اس کا حرص انسان کو ہر بُرائی میں ڈالتا ہے اور ہر سعادت سے محروم کرتا ہے اور اگر اس موذی بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو یہ عمر اور وقت کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور بالآخر عذاب اور سانپ بن کر قبر میں بھی ساتھ داخل ہو جاتی ہے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے مگراس کی دو خصلتیں جوان اور طاقت ور ہوتی رہتی ہیں ایک مال کا حرص اور دوسری لمبی عمر کا حرص( بخاری و مسلم)

اے میرے بھائیو! اور بہنو! ہم سب غور کریں کہ ہمارے اندر دنیا کی محبت اور حرص ہے یا نہیں؟ دوسرا کام یہ کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ دنیا کی محبت ایک خطرناک بیماری ہے جو ہمیں بہت سخت نقصان پہنچا سکتی ہے اورتیسرا کام یہ کہ ہم اپنے اندر سے اس بیماری کو ختم کرنے کی کوشش کریں یاد رکھیں کہ اس زمانے میں کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میرے اندر یہ بیماری نہیں ہے محاذوں پر فدائی حملوں کے لئے جانے والے مجاہدین کے علاوہ شائد ہی کوئی مسلمان ’’حبّ دنیا‘‘ کی بیماری سے محفوظ ہو کسی پر مال کا حرص ہے، کسی پر عہدے اور عزت کا حرص ہے، کسی پر کھانے پہننے کا حرص ہے، کسی پر شہوت کا حرص ہے یہ تمام چیزیں’’حبّ دنیا‘‘ کہلاتی ہیں اور ہر مسلمان پر’’حُبِّ دنیا‘‘ کی کسی نہ کسی قسم کا حملہ ضرور ہوتا ہے پھر جو خوش قسمت مسلمان ہوتے ہیں وہ اس حملے کا مقابلہ کرتے ہیں اور’’حبّ دنیا‘‘ کے جراثیم کو اپنے دل میں نہیں اُترنے دیتے ایسے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں اور ان کے لئے قرآن و سنت میں بڑے بڑے انعامات کا وعدہ ہے ہم سب کوشش کریں کہ ہم بھی اسی طبقے میں سے بن جائیں حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کئی حضرات کروڑوںپتی تھے بلکہ آج کل کی پاکستانی کرنسی کے حساب سے تو ارب پتی تھے مگر ان میں مال کا حرص نہیں تھا زیادہ سے زیادہ خرچ کرکے بھی انہیں ذرہ برابر تکلیف نہیں ہوتی تھی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کئی ایک نے بڑے بڑے عہدے پائے ملکوں کے گورنر اور حکمران بنے مگر ان میں عہدے اور عزت کا حرص نہیں تھا حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کئی نے زیادہ شادیاں فرمائیں مگر ان میں شہوت کا حرص نہیں تھا حضرات صحابہ کرامؓ کو  اللہ  پاک نے طرح طرح کی نعمتیں کِھلائیں اور پلائیں مگر ان میں کھانے، پینے کا حرص نہیں تھا معلوم ہوا کہ دنیا کا ملنا، برا نہیں، دنیا کا حرص بُرا ہے اور حرص کی علامات بالکل واضح ہیں اور ہر آدمی اپنے اندرجھانک کر جائزہ لے سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ آج کل حرص اور لالچ کا مرض بہت عام ہو چکا ہے مجاہدین کو خاص طور پر فکر کرنی چاہئے کیونکہ شیطان کو یہ گُر معلوم ہے کہ جہاد سے روکنے کا مضبوط طریقہ ’’حبّ دنیا‘‘ میں مبتلا کرنا ہے وہ کہتاہے آپ نے بہت جہاد کر لیا اب کچھ بناؤ، کماؤ، جمع کرو، آرام کرو اور لوگوں کو اپنے پُرانے قصے سنا کر اُن سے مال حاصل کرو اور اپنے پُرانے عہدے بتا بتا کر اپنی بڑائی جتلاتے پھرو وہ مجاہدین جو جہاد کی نعمت پرقائم رہنا چاہتے ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنے دفاتر ختم کر کے مسجدوں میں آئیں مسجدیں بنائیں اور انہیں آباد کریں نماز کا تکبیر اولیٰ سے اہتمام کریں تقویٰ اور ذکر اختیار کریں اور حبّ دنیا سے اپنے دل کو بچائیں تب انہیں انشاء  اللہ  جہاد میں برکت، کامیابی اور استقامت نصیب ہوگی

حُبّ دنیا کا علاج

(۱)     ’’حُبِّ دنیا‘‘کو خطرناک بیماری سمجھنا

(۲)     ’’حُبِّ دنیا‘‘ سے حفاظت کی ہر رات دن فکر کرنا

(۳)     روزآنہ دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر دعاء میں اقرار کرنا کہ یا  اللہ  میں حبّ دنیامیں مبتلا ہو کر حریص اور لالچی ہو گیا ہوں اور آپ کی ملاقات کے شوق سے محروم ہو گیا ہوں یا  اللہ  مجھے حبّ دنیا سے بچا ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ حُبِّ الدُّنِیَا‘‘

(۴)     قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں’’حُبِّ دنیا‘‘ کی مذمت پڑھنا، اس کی تعلیم کرانا اور دوسروں کو بھی سنانا

(۵)     صبح و شام تین تین بار سورہ’’الھٰکم التکاثر‘‘ توجہ سے پڑھ کر، حبّ دنیا سے حفاظت کی دعاء مانگنا اور کثرت سے یہ دعاء پڑھنا اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِی

(۶)     موت کو کثرت سے یاد کرنا،حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرات صحابہ کرامؓ کے زہد کے واقعات پڑھنا مجاہدین اور شہداء کے واقعات پڑھنا

(۷)     ’’حُبِّ دنیا‘‘ میں سے جس چیز کا حرص زیادہ ہو، اُس کے حلال سے بھی تھوڑا تھوڑا بچنے کی کوشش کرتے رہنا

(۸)     اُن اولیاء کرام کی صحبت میں بیٹھنا جو ’’حُبِّ دنیا‘‘ کے مرض سے بچے ہوئے ہوں

 اور ان سب علاجوں کا خلاصہ یہ کہ جہاد میں نکل کر جان و مال کی قربانی دینا اور ہروقت  اللہ  تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے رہنا اور عاجزی کے ساتھ اس کینسر سے زیادہ موذی مرض سے حفاظت کی دعاء مانگنا

یا  اللہ  مجھے اور سب پڑھنے والوں کو ’’حُبِّ دنیا‘‘ کے مرض سے شِفاء اور نجات عطاء فرما

آمین یا ارحم الراحمین

وصلی  اللہ  تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا کثیرا

٭٭٭

297)سلام اے شیر اسلام

 اللہ  تعالیٰ سے سچی مَحبَّت رکھنے والے مسلمان کے لئے شہادت سے بڑھ کر اور کیا بڑی نعمت ہو سکتی ہے سرخ خون کا جوڑا گلرنگ زخموں سے سجا ہوا جسم عشق کی لذت بھری دھار سے کٹے ہوئے اعضاء سر اور داڑھی پر مٹی کا غبار، جیسے مہندی کا سنگار اور فتح کے خمار سے سرشار روح  اللہ  اکبر کبیرا رب کعبہ کی قسم شہادت بہت عظیم، بہت لذیذ اور بہت مست نعمت ہے حضرت شیخ اسامہ بن لادن بہت خوش نصیب تھے وہ زندہ رہے تو مجاہد اور فاتح بن کر اور رخصت ہوئے تو شہید بن کر واہ خوش نصیبی، واہ خوش نصیبی پھر آج’’سعدی‘‘ رو کیوں رہا ہے؟ یہ ٹپ ٹپ برستے آنسو یہ سینہ چیر کر نکلنے والی ہچکیاں اور یہ کانپتا ہوا قلم ہاں بے شک! شیخ اسامہ بہت پیارے انسان، پورے مسلمان اور بڑے مجاہد تھے اُن جیسوں کی جدائی پر بھی غم نہ ہو تو پھر کس کی جدائی پر ہوگا اُن جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں موجودہ زمانے کے مسلمان فخر کر سکتے ہیں کہ وہ ملّا محمد عمر مجاہد اور شیخ اسامہ شہید کے زمانے میں پیدا ہوئے ایمان، جرأت، غیرت اور اسلامی فتوحات کا زمانہ آج مسلمانوں پر جو غم اور صدمہ ہے وہ کسی شکست کا نہیں بلکہ ایک محبوب شخصیت کے کھونے کا ہے اور یہ وہ غم ہے جو مایوسی نہیں غیرت اور قربانی کی دعوت دیتا ہے آج معلوم نہیں کتنے نوجوان گناہوں کو چھوڑ کر توبہ کی چوکھٹ پر آئیں گے اور اسلام کی خاطر قربانی کا عزم کریں گے سبحان  اللہ ! شیخ اُسامہ کی قسمت تو دیکھیں کہ  اللہ  تعالیٰ نے اُن کو سراپا جہاد بنا دیا نام بھی جہاد کہ جو کافر بھی سنے تو اُس کے دل پر خنجر چلے آواز بھی جہاد کے جب بھی گونجے دشمنان اسلام کو نقصان پہنچائے اور وجود بھی جہاد کہ جس کی تلاش میں روزلاکھوں، کروڑوں ڈالر کے خسارے عالم کفر کو بھگتنے پڑے بے شک اخلاص بڑی چیز ہے اور ہجرت سے توفیق کے راستے کُھلتے ہیں عجیب بات ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جشن منایا جارہا ہے یہ بھی اُن کی شکست اور کمزوری کا ثبوت ہےاُن کو مایوسیوں کے درمیان ایک اچھی خبر ملی ہے حالانکہ امریکہ اس وقت طوفانوں سے لرز رھا ہے امریکہ کی وسطی اور جنوبی ریاستوں میں ایسا ہولناک عذاب آیا ہے کہ درخت، کھمبے، گاڑیاں اور مکانات ہوا میں تنکوں کی طرح اُڑ رہے ہیں سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور کئی ریاستوں میں ہنگامی حالت کا اعلان ہے خود ابامہ کا کہنا تھا کہ میں نے ایسی خوفناک تباہی پوری زندگی میں نہیں دیکھی اُدھر کابل میں تین چار دن پہلے ایک افغان پائلٹ’’گل احمد‘‘نے نو امریکی فوجی افسر اور ایک امریکی ٹھیکیدار کو بھون دیا فونکس پر فدائی حملے میں اُنتیس امریکیوں کی اور اس تازہ واقعہ میں دس امریکیوںکی لاشیں امریکی عوام نے وصول پائیں قرآن پاک کی بے حرمتی کا وبال بری طرح سے طوفان اٹھا رہا ہے ان حالات میں حضرت شیخ اسامہ بن لادن کی شہادت پر جشن منایا جا رہا ہے حالانکہ شیخ کو وہ سب کچھ مل گیا جو وہ چاہتے تھے اور امریکہ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ آیا کل تک شیخ اسامہ کافروں کی کمزوری اور شکست کا نشان تھے اور آج شیخ اُسامہ اپنی فتح اور سرفرازی کا نشان ہیں وہ نہ تو کسی محاذ پر لڑ رہے تھے کہ اُن کی شہادت سے وہ محاذ بندہو جائے گا اور نہ وہ ایسی حالت میں تھے کہ مجاہدین کی تشکیلات کرتے ہوں وہ تو اس طرح سے تھے جس طرح کسی لشکر میں اسلامی جھنڈا ہوتا ہےمجاہدین اس جھنڈے کو دیکھتے ہیں تو جم کر لڑتے ہیں اس جھنڈے میں ایک ’’ہلال‘‘ ہوتا ہے جو اسلا م کی عظمت کا پیغام سناتا ہے اور ایک ستارہ ہوتا ہے جو جہاد کی دعوت دیتا ہے مگر جب ایسی شخصیت کو شہید کر دیا جائے تو اس جھنڈے میں ایک اور ستارہ ابھر آتا ہے اور یہ انتقام پر ابھارنے والا نشان بن جاتا ہے شیخ اسامہ شہید کے ساتھ کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں تھیں ان دعاؤں کے صدقے  اللہ  تعالیٰ کی ایسی نصرت رہی کہ دس سال تک دنیا بھر کی جنگی ٹیکنالوجی سر پٹختی رہی کروڑوں ڈالر کے انعامات کا اعلان ہوا فضا سے سیارچوں نے زمین کے ایک ایک کونے کو کھنگال لیا سینکڑوں آپریشن لانچ ہوئے صدر بش کے دو(۲) دور حکومت اسی کوشش میں غرق ہو گئے مخبروں اور جاسوسوں کے ٹولے بھرتی کئے گئے گرفتار مجاہدین کی ہڈیوں اورکھالوں کو توڑا اور کاٹا گیا مگر  اللہ  تعالیٰ کی حفاظت کے حصار کو کوئی نہ توڑ سکا یقیناً ان دس سالوں میں عبرت والوں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں سب مسلمانوں کی خواہش تھی کہ شیخ سلامت رہیں اور جس طرح انہوں نے سوویت فوجوں کو ذلت کے ساتھ افغانستان سے نکلتے دیکھا اسی طرح نیٹو فوجوں کے انخلاء کو بھی دیکھیں مگر ہر مسلمان اور ہر مجاہد کو یہ بھی علم تھا کہ یہ جنگ ہے اور اس میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے حضرات صحابہ کرامؓ جہاد میں اُترے تو ان کو جہاد کے تیسرے سال ہی یہ سبق پڑھا دیا گیا کہ اس مبارک جہاد میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  بھی شہید ہو سکتے ہیں اگر کامیابی چاہتے ہو تو پھر اپنے دلوں کو اتنے عظیم ترین صدمے اور حادثے کے لئے بھی تیار رکھو اور اگر یہ حادثہ ہو جائے تو پھر ایک قدم بھی میدان سے پیچھے نہ ہٹنا حضرات صحابہ کرامؓ کے لئے اس سے بڑا نقصان اور حادثہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا قرآن پاک نے اُن کو اسی حادثے کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا تو پھر کوئی حادثہ بھی اُن کے لئے مایوسی اور دل شکنی کا ذریعہ نہ بن سکا موجودہ جہاد میں شرکت کرنے والے مجاہدین جانتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات تو لازماً ہوتے ہیںیہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجاہدین تو شہادت کے جام پیتے رہیں اور اُن کے مخلص قائدین اس عظیم نعمت سے محروم رہیں مجاہدین اگر شہادت کی دعاء دن میں پانچ بار کرتے ہیں تو اُن کے قائدین یہی دعاء دس بار کرتے ہیں جہاد میں کسی کی بھی گرفتاری ہو سکتی ہے مگر گرفتاری  اللہ  تعالیٰ کی آزمائش ہے وہ جن افراد سے مزید کچھ کام لینا چاہتا ہے اُن کو اس آزمائش میں ڈالتا ہے اور جہاد میں شہادت بھی ملتی ہے اور شہادت  اللہ  تعالیٰ کا انعام ہے شیخ اسامہ زیادہ خوش نصیب رہے کہ  اللہ  تعالیٰ کی آزمائش سے بچ کر انعام کے مستحق ہوئے معلوم ہوا کہ اُن کی محنت، مزدوری اور مشقت کا وقت ختم ہو چکا تھا اور اب انشاء  اللہ  اُن کی راحت، اور خوشی کا وقت شروع ہو چکا ہے افغانستان میں جب سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع ہوا تو دنیا بھر سے سعادت مند مسلمان اس جہاد میں شرکت کے لئے افغانستان پہنچے شیخ اسامہ اُس وقت ایک نوخیز، نوجوان تھے سعودی عرب کے ایک مالدار یمنی نسل گھرانے سے تعلق رکھنے والا انجینئرنگ کا طالب علم اُسامہ جب پشاور پہنچا تو کسی کو خبر نہیں تھی کہ یہ شخص ایک پورے جہادی مکتب فکر کا بانی بننے والا ہے مفکر جہاد حضرت شیخ عبد اللہ  عزام شہید نے خوست کی طرف جو پہلا دستہ روانہ کیا شیخ اسامہ اُسی دستے کے ایک عام مجاہد تھے شیخ عزام نے اس دستے کا نام ’’کتیبۃ الغرباء‘‘ رکھا تھا یعنی مسافروں کا ایک جہادی دستہ عربی زبان میں’’غریب‘‘ مسافر اور اجنبی کو کہتے ہیں شیخ اُسامہ اُسی وقت سے جہاد کے ہو گئے اور جہاد اُن کا ہو گیاپھر انہوں نے اپنی جہادی جماعت’’القاعدہ‘‘ بنائی پشاور میں اس جماعت کا دفتر’’ مکتب الانصار‘‘ اور جلال آباد میں اس جماعت کا معسکر’’مأسدۃ الانصار‘‘ کھلے عام چلتے تھے نواز شریف کے پہلے دور اقتدار میں پاکستان میں مقیم عرب مجاہدین پر زمین تنگ کی گئی تو شیخ اُسامہ کچھ عرصہ کے لئے واپس سعودی عرب جا بیٹھے اور انہوںنے’’یمن‘‘ کے محاذپر جہاد کی خدمت اور سرپرستی شروع کر دی پاکستان کے حالات بہتر ہوئے تو واپس آئے مگر اب یہاں پہلے جیسی آزادی نہیں تھی بالآخر وہ سوڈان چلے گئے خرطوم میں اُن کا گھر تھا اور چار تجارتی کمپنیاں اور درجنوں مجاہدین کے گھرانےیہاں سے بیٹھ کر شیخ نے صومالیہ میں پنجہ آزمایا اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں اپنا کام پھیلایا کینیا کے دارالحکومت نیروبی اور تنزانیہ کے دارالسلام میں امریکی سفارتخانوں پر حملے ہوئے تو سوڈان کی حکومت نے شیخ سے سوڈان چھوڑجانے کی درخواست کی یہ غریب مجاہد الجزائر جا پہنچا وہاں ایک قاتلانہ حملے میں شیخ کو گویا نئی زندگی ملی اور اُن کارخ واپس افغانستان کی طرف ہو گیا جلال آباد میں گورنر حاجی عبدالقدیر خان نے اُن کو رہائش دی تورا بورا کا مرکز قائم ہوا اسی اثناء میں طالبان نے افغانستان پر اسلامی امارت قائم فرما دی شیخ بھی قندھار جا بیٹھے اور پھر نائن الیون، یعنی گیارہ ستمبر ہوا اور دنیا ایک نئی جنگ میں جُھلسْنے لگی اور آج یہ خبر آرہی ہے کہ شیر اسلام بھی شہداء اسلام میں شامل ہو گئے ہیںشیخ کے ساتھ  اللہ  تعالیٰ کی حفاظت کا معاملہ عجیب تھا کتنی بار موت اُن کے پاس سے گزر گئی مگر وہ موت کوللچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے رہ گئے وہ دنیا کے سب سے مطلوب شخص تھے مگر پھر بھی تقریباً ساٹھ سال کی عمر جی گئے اور پھر موت کے وقت اُسے بھی شکست دیکر شہادت کی زندگی پا گئے وہ نازونعمت کے پلے ہوئے انسان تھے مگر دین کی خاطر اُن کا دل روتا رہا اور جسم مشقتیں سہتارہتا اُن کو شوگر کی تکلیف ہوئی مگر اُن کے نظریات اور عزائم میں کوئی فرق نہ آیا انہیں گردوں کا شدید عارضہ لاحق ہوا مگر مجال ہے کہ اُن کے عزم و حوصلے میں کوئی فرق آیا ہو جو لوگ جہاد کا کام کرتے کرتے اکتا جاتے ہیں اُن کے لئے شیخ کی زندگی میں بڑا سبق ہے شیخ کا نظریہ یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لڑو، زیادہ سے زیادہ پھیلو اور جتنا ہو سکے زیادہ دیر تک لڑو شیخ کی اسی محنت اور اخلاص کا نتیجہ تھا کہ اُن کا جہادی فیض اُن کی زندگی میں دور دورتک پھیل گیا عراق کی لڑائی میں اُن کے ایک ساتھی شیخ ابو مصعب الزرقاوی نے ایوبیؒ دور کی یادیں تازہ کیں چیچنیا کے جہاد میں اُن کے ایک ساتھی خطاب شہید نے قفقاز کے پہاڑوں کو جہادی زمزموں سے گرما دیا یمن کی تحریک میں شیخ کا بڑا حصّہ تھا اور صومالیہ تو اُن کے مجاہدین کا اب بھی ایک مضبوط بیس کیمپ ہے دشمنوں نے شیخ کو’’مطلوب‘‘ بنایا تو  اللہ  تعالیٰ نے اپنے اس مسافر بندے کو’’محبوب‘‘ بنادیا لاکھوں مسلمانوں نے اپنے بچوں کا نام ’’اُسامہ‘‘ رکھا اور دنیا بھر میں ’’اُسامہ‘‘ کا نام عزت وغیرت کا استعارہ بن گیا ہم جہاد کے میدان میں امیر المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد حفظہ  اللہ  تعالیٰ کے نظریات سے رہنمائی لیتے ہیں مگر اس کی وجہ سے شیخ اسامہ کے ساتھ محبت میں کوئی کمی نہیں آئی شیخ اُسامہ کا اپنا جہادی انداز تھا وہ جنگ کو پھیلانے پر یقین رکھتے تھے اور انتقامی طرزِجنگ کو پسند کرتے تھے شیخ کے اس طرز جہاد کو دیکھتے ہوئے یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ شہادت کے بعد شیخ اپنے دشمنوں کے لئے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں اُن کے مجاہد ساتھی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کی بہت سی کارروائیاں شیخ کے تحفظ کے لئے رکی ہوئی تھیں اب یہ دستے مزید آزاد ہو جائیں گے اور اُن کے دلوں میں اُبلنے والے انتقام کے شُعلے خوفناک انداز میں بھڑک اٹھیں گے خیر دنیا کا جو بھی مقدّر آج تو شیخ اُسامہ بن لادن کی شادی کا دن ہے ہاں اُن کی خوشی اور ہم مسلمانوں کے غم کا دن ہمارے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں جن سے ہم اس عظیم جہادی شہزادے کو خراج تحسین پیش کر سکیں وہ بے شک اسلام اور مسلمانوں کا قابل فخر اورباعث ِعزت سرمایہ تھے ہم دل کی عقیدت اور محبت کے ساتھ اُن کی پاکیزہ اور سرفراز روح کو’’سلام‘‘ پیش کرتے ہیں اے شیر اسلام الوداعسلام ہو آپ پر اور آپ کے تمام اہل خانہ اور رفقاء پر جو آپ کے ساتھ ہی شہادت کا تاج پہن گئے ہم خود راہ جہاد کے ’’غرباء‘‘ میں سے ہیں بے گھر، بے وطن مگر پھر بھی بہت شرمندہ ہیں کہ شیر اسلام کی شہادت پاکستان میں ہوئیکاش ایسا نہ ہوتا کاش ایسا نہ ہوتا

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا کثیرا

٭٭٭

(298)صحراء سے سمندر تک

 

صحراء سے سمندر تک

 

شتعالیٰ اپنے اُس دیوانے، فرزانے، عاشق، جانباربے گھر، بے در اور مسافر بندے کے درجات بلند فرمائے جسے ساٹھ اسلامی ملکوں کے ہوتے ہوئے زمین پر دو گز کی قبر نہ مل سکی یوں لگتاہے کہ شیخ اُسامہ شہیدؒ  مسکرا کر مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں :

پھول تربت پر مری ڈالو گے کیا

خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی

شیخ اُسامہؒ راہِ جہاد کے شہزادے تھے معلوم نہیں شہادت کے بعد چہرے اور جسم پر’’ انوارات‘‘ کا کیا عالَم ہو گا کہ دشمن بھی تصویریں چھپانے پر مجبور ہے ایک جھوٹی تصویر تو اخبارات اور میڈیا پر چل رہی ہے وہ شیخ کی تصویر کہاں ہے؟ کسی’’نیٹ باز‘‘ نے کمپیوٹر پر بنالی ہے اُبامہ کا کہنا ہے کہ تصویریں سامنے آگئیں تو لوگوں میں تشدّد یعنی جہاد کا جذبہ پھیل جائے گا ارے اتنا بڑا شہید تھا قربانیوں کا خوگر شادی کے بعد تو اُس کا حسن و جمال اور زیادہ غضب ڈھا رہا ہوگا ہاں، ہاں پھولوں کی طرح نکھر گیا ہوگاتبھی تو تصویروں کو چھپایا جارہا ہے

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی

بلندی چاہیے انسان کی فطرت میں پوشیدہ

کوئی ہو بھیس، لیکن شانِ سلطانی نہیں جاتی

ایک زمانے اُن کو قریب سے دیکھاتھانائن الیون کے بعد نہ کوئی ملاقات ہوئی نہ رابطہمگر  اللہ  تعالیٰ کے نام کی محبت بھی عجیب چیز ہے تھوڑی تھوڑی دیر بعد شیخ کا مسکراتا ہوا سراپا سامنے آجاتا ہے آنسو تو کچھ تھم گئے ہیں مگر دل میں اب بھی طوفان کی موجیں بار بار اٹھتی ہیں

محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

شیخ اُسامہ کو شعر و شاعری کا لطیف ذوق تھا اشعار سنتے وقت جھوم اٹھتے تھے عاشق مزاج آدمی تھے مجنوں سے دو قدم آگے نکل گئے مجنوں نے لیلیٰ کے لئے گھر چھوڑا تھا شیخ  اللہ  تعالیٰ کے لئے جان سے بھی گزر گئے آج اُن کا تذکرہ کرتے ہوئے اشعار اُبل اُبل کر سامنے آرہے ہیں

وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی

وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی

نہیں معلوم کس عالم میں حُسن یار دیکھا تھا

کوئی عالم ہو، لیکن دل کی حیرانی نہیں جاتی

 جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر ، مٹے جاتے گِر گِر کر

حضور شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی

شیخ اُسامہ شہیدپ غیرتِ ایمانی کا دریا تھا اور دریا بالآخر سمندر ہی میں اُتر جاتے ہیں دشمنوں نے  اللہ  تعالیٰ کے اس ولی کو سمندر کے حوالے کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اب اس پاک جسم کی برکت سے سمندر کی وسعتیں اُن پر تنگ ہو جائیں گی شیخ  ؒ نے اپنے سفر کا آغاز ’’صحرا‘‘ سے کیا اور سفر کی آخری منزل ’’سمندر‘ ‘ کو بنایا اندازہ لگائیں کہ کتنا بڑاآدمی تھا صحرا سے سمندر تک جس کی عزیمتوں کی داستان بکھری پڑی ہے

بڑی مشکل سے پیدا اک وہ آدم زاد ہوتا ہے

جو خود آزاد جس کا ہر نَفَس آزاد ہوتا ہے

میراعلم تو بہت ناقص ہے پھر بھی عرض کر رہا ہوں کہ شیخ اُسامہ شہیدؒ کی شکل و صورت صحابی رسول حضرت سیدنا سنان بن سلمہ رضی  اللہ  عنہ سے ملتی جلتی تھی حضرت سنانؓ پشاور کے علاقے’’چغرمٹی‘‘ میں شہید ہوئے اور شیخ اُسامہ’’ایبٹ آباد‘‘ میں شہید ہوئے زمین  اللہ  تعالیٰ کی ہے حضرت سنانؓ بھی عرب سے تشریف لائے تھے مسلمان دنیا میں ہر جگہ جا سکتا ہے ہمارے حکمران معلوم نہیں کیوں شرمندہ اور پریشان ہیں اگر امریکہ اُن سے کہتا ہے کہ شیخ اُسامہ پاکستان میں کیوں روپوش تھے تو یہ جواب میں ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتے ہیں کہ جناب!ہم پاکستان کے عارضی حکمران ہیں، مالک تو نہیں یہ تو مسلمانوں کا مُلک ہے پرویز مشرف نے اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھا آج وہ ایک قدم بھی یہاں نہیں رکھ سکتا ہم اپنے ملک کو نہ ڈرون حملوں سے بچا سکتے ہیں، نہ ہیلی کاپٹروں کے حملے سے ہم تو بس چند دن کے لئے ہیں مال کے انگارے، بددعاؤں کے انبار اور ظلم کے پہاڑ جمع کرنے کے لئے باقی ہمارا اور کیا کام ہے آپ پاکستان کی عوام کو سزا دیجئے اور یہ سزا آپ دس سالوں سے ویسے ہی دے رہے ہیں یہی مسلمان پاکستانی اپنے گھروں میں صرف مجاہدین کو پناہ ہی نہیں دیتے بلکہ ان کی مائیں تو بڑے ناز کے ساتھ مجاہدین کو پالتی ہیں کتنا آسان سا جواب ہے حکمران بیچارے خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں پریشان تو اُن مسلمانوں کو ہونا چاہئے جن سے اُن کا پیارا اسلامی بھائی چھن گیاہے اور وہ غم کی وجہ سے سکتے کے عالم میں ہیں اُس دن ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اسلام دشمن عناصر کا جشن دیکھ کر دل پھٹ رہا ہے بندہ نے اس جشن کی تفصیلات معلوم کیں تو غمزدہ دل خوشی سے اُچھلنے لگا کہ سبحان  اللہ  ایک مسلمان کی اتنی اہمیت، اتنی قوت اور اتنی عظمت کہ وہ اکیلا اتنے سارے کافروں کے اعصاب پر سوار تھا پھر اسلام اور جہاد کی عظمت دیکھئے کہ دس سال کی جنگ میں دنیا کے سینتیس(۳۷) طاقتور ملکوں کو اب جا کر پہلی خوشی نصیب ہوئی ہے معلوم ہوا کہ وہ شکست اور مایوسی کے اندھیروں میں پڑے چلاّ رہے تھے روزآنہ لاشوں کے تابوت ہزاروں کی تعداد میں زخمی فوجی اربوں کھربوں ڈالر کے خسارے فوجیوں کے دردناک خطوط کہ ہم موت کی ریل گاڑی میں بند ہو چکے ہیں ہر چند ماہ بعد جرنیلوں کی تبدیلی اتنی طویل جنگ مگر فتح کا دور دورتک نام و نشان نہیں سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم ہے نا اسلام کی طاقت؟ ہے نا جہاد کی کرامت؟ چند نہتے مجاہدین نے سپر پاور کہلانے والوں کو دن کے تارے دکھا دیئے اب یہ سارے کافر مل کر یہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ پاکستان کو ختم کر دیا جائے انڈیا کا پاکستان پر قبضہ ہو جائے مگر یہ تدبیر بھی الٹی پڑے گی اور انشاء  اللہ  اس تدبیر کے نتیجے میں انڈیا بھی اندر سے پھٹ جائے گا اور جہاد کا دائرہ وسط ایشیا کے راستے یورپ تک اور کشمیر اور پنجاب کے راستے پورے انڈیا تک پھیل جائے گا بات یہ چل رہی تھی کہ کفر کے لئے ہر طرف مایوسی ہی مایوسی تھی ایسے میں اُن کو شیخ اُسامہ کی شہادت کی خبر ملی تواب خوشی سے ناچ رہے ہیں مگر خود اُن کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ کام ختم نہیں ہوا اور یہ ایک وقتی کامیابی ہے اب اُن کی کوشش ہے کہ اس کامیابی کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کریں ایک طرف تو جھوٹی خبروں کے انبار ہیں مسلمان بھی عجیب ہیں کہ وہ کافروں کی خبروں کا اعتبار کرتے ہیں  اللہ  کے بندو! کیا کبھی خفیہ ادارے بھی سچ بولتے ہیں؟ انٹرنیٹ کے کھلاڑی ٹوئٹر، فیس بک اور دوسری ویب سائٹوں پر بیٹھے افواہوں کی مکھیاں مار رہے ہیں حالانکہ اس وقت تقریباً تمام خبریں جھوٹی چل رہی ہیں امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی کا جادو پھر لوگوں کے دماغوں پر مسلّط کر ے یہ ٹیکنالوجی دس سال تک کیوں’’اندھی کتیا‘‘ بنی ہوئی تھی؟ اگر یہ ٹیکنالوجی اتنی ہی طاقتور ہوتی جتنی کہ بتائی جاتی ہے تو پھر مجاہدین ان کے قافلوں اور چھاؤنیوں پر حملہ ہی نہ کر سکتے جو اپنے گھر میں کچھ بولتا فوراً پکڑا جاتا حالانکہ مجاہدین گلا کھول کر بولتے ہیں بے تحاشا فون استعمال کرتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو ہنس ہنس کر کارروائیوں کے حالات سناتے ہیں اور بعد میں خوب شور شرابے کے ماحول میں قہوہ پیتے ہیں ہم مسلمانوں کی شروع سے کمزوری وہ’’مخبر‘‘ہیں جو مال کی لالچ میں اپنا ایمان اور ضمیر بیچ دیتے ہیں میں یقین سے کہتا ہوں کہ شیخ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہو گا اور بس اب کوئی حالات بتانے والا تو ہے نہیں، ا س لئے ہر کوئی منہ بھر کر جھوٹ بول رہا ہے حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو ایک بڑی دینی نقصان پہنچا ہے اُن کو چاہئے کہ  اللہ  تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا اہتمام کریں مسلمانوںکی جو جہادی قیادت باقی ہے اُس کی حفاظت کے لئے دعائیں کریں اپنے دل میں  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا شوق پیدا کریں اور اپنے دل کو مضبوط رکھیں کہ کل اگر اس سے بھی کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو ہم انشاء  اللہ  ثابت قدم رہیں گے اسی طرح مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی جہادی یلغا ر کا رخ کفار کی طرف رکھیں اور اسلامی ممالک خواہ وہ نام کے ہی اسلامی ممالک کیوں نہ ہوں اُن کو میدان جنگ نہ بنائیں اگر تمام مجاہدین اپنا مکمل رخ کفار کی طرف پھیر لیں اور اپنی توانائیاں نام کے مسلمانوں کے خلاف ختم نہ کریں تو انشا ء  اللہ  غلبہ اسلام کی منزل بہت قریب آسکتی ہے دشمنا ن اسلام کی کوشش ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں دنیا دار مسلمان یعنی حکمران اُن کے جال میں پھنس چکے ہیں کم از کم دیندار مجاہدین کو تو ان کی سازش سے ہوشیار رہنا چاہئے لوگ کہتے ہیں کہ شیخ اُسامہ شہیدؒ کا نام لینا بھی جُرم ہے اگر تم اسی طرح اُن کے لئے محبت اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے رہے تو بہت جلد تمہارا وقت بھی آجائے گا ہم عرض کرتے ہیں کہ  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا وقت کل کی بجائے آج آجائے شیخ اُسامہ شہید پ کا انجام دیکھ کر تو منہ میں پانی آجاتا ہے اور دل رشک سے بھر جاتا ہے  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں کٹ مرنا سبحان  اللہ اور پھر گرمی کے اس موسم میں ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں اترجانا سبحان  اللہ ! شیخ کی شہادت تو بزمِ عشق میں نغمۂ شوق کی طرح ہے جس نے لاکھوں سینوں میںشہادت کا شوق بیدار کر دیا ہے

دل نے کچھ ایسی دُھن میں آج نغمۂ شوق گادیا

عشق بھی جھوم جھوم اٹھا، حُسن بھی مسکرا دیا

مجھ کو خدائے عشق نے جو بھی دیا بجا دیا

اُتنی ہی تاب ضبط دی، جتنا کہ غم سوا دیا

آتش تر نے ساقیا! کچھ نہ مجھے مزا دیا

آنکھوں میںآنکھیں ڈال کے تو نے یہ کیا پلا دیا

جذب جنوں نے آج تو گل ہی نیا کھِلا دیا

خود وہ گلے لپٹ گئے عشق نے واسطا دیا

سلام اُن مسلمانوں پرجنہوں نے علاقہ پرستی اور قوم پرستی کے اس دور میں ہجرت اور جہاد کی شمعوں کو روشن کیاان دیوانوں نے اپنا سب کچھ کھو کر اسلام کی عظمت اورقرآن کی صداقت کی گواہی دی نہ ہجرت آسان ہے اور نہ روپوشینہ جہاد آسان ہے اورنہ حق گوئی مگر  اللہ تعالیٰ کے سچے بندے ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ کہاں ہیں قرآن پر عمل کرنے والے؟ وہ دیکھو! سمندر کی تہہ میں سکون کے ساتھ لیٹا ایک خوبصورت شہزادہجس کی قربانی نے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کر دیں آج ہر کوئی مالداری کے خواب دیکھتا ہے مگر اُس نے خوابوں جیسی مالداری کو پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھا اور  اللہ  تعالیٰ کے راستے کا فقر اختیار کیا وہ دیکھو! اُس کا جسم سمندر کی زمین پر سجدے کر رہا ہے اور اُس رب کا شکر ادا کر رہا ہے جس نے اُس کی محنتوں کو قبول کر کے اُسے شہادت کا تاج پہنا دیا

سلام اے بَطلِ عزیمت سلام اے شیر اسلام!

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

(299)

خطرناک دوستی

 

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (الزخرف ۶۷)

ترجمہ:                جتنے دوست ہیں وہ قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے اُن کے جو  اللہ  تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں:

’’یعنی اُس دن دوست سے دوست بھاگے گا کہ اس کی وجہ سے کہیں میں پکڑا نہ جاؤں دنیا کی سب دوستیاں اور محبتیں منقطع ہو جائیں گی آدمی پچھتائے گا کہ فلاں شریر آدمی سے دوستی کیوں کی تھی جو اُس کے اُکسانے سے آج مصیبت میں گرفتارہونا پڑا اُس دن بہت گرمجوشی سے محبت کرنیوالے اپنے محبوب کی صورت دیکھنے سے بیزار ہوںگے، البتہ جن کی محبت اور دوستی  اللہ  تعالیٰ کے واسطے تھی اور  اللہ  تعالیٰ کے خوف پر مبنی تھی وہ کام آئے گی‘‘(تسھیل عثمانی)

’’دوستی‘‘ بہت بڑی چیز ہے یہ انسان کو ’’صدیق‘‘ بھی بنا دیتی ہے اور ’’شیطان‘‘ بھی آج طرح طرح کی دوستیوں کا رواج ہے گپ شپ والی دوستی، حرام کھانے پینے والی دوستی، بدمعاشی اور بے حیائی والی دوستی، غیبت، جھوٹ اور بک بک والی دوستی، موبائل دوستی، قلمی دوستی وغیرہ وغیرہ

 اللہ  تعالیٰ جس سے ناراض ہوتے ہیں وہی اس طرح کی غلط اور نقصان دہ دوستیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے سب سے خطرناک تو کفار ومنافقین کے ساتھ دوستی ہے قرآن پاک نے اُس دوستی کے نقصانات اور انجام کو کھول کھول کر بیان فرمایا ہے  اللہ  تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ بھی قرآن پاک سے روشنی لیں کتنے درد کا مقام ہے کہ یہ مسلمان ہو کر اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں، اُن کو اپنی خدمات بیچتے ہیں، اُن کے ہاتھوں اپنے مُلک کے اڈے فروخت کرتے ہیں اور اُن کی عسکری مددکرتے ہیںاستغفر اللہ ، استغفرا ﷲ معلوم نہیں ان کا دل کیسے گوارہ کر لیتا ہے کہ یہ  مسلمانوں پر بمباری کرنے والے طیاروں میںتیل بھرتے ہیں اور کافروں کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام کریں   

؎  مجھے تو سُن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے

کبھی کبھی ان حکمرانوں کی یہ حالت دیکھ کر ان پر ترس بھی آتا ہے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت اور ذلّت میں مبتلا ہیں صبح شام کافروں کے جوتے اٹھاتے ہیں، ان کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کرتے ہیں اور قدم قدم پر اُن کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں نائن الیون کے بعد جب پاکستان کے حکمرانوں نے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو افغانستان پر حملے کے لئے لاجسٹک سپورٹ دینے کا اعلان کیا تو بہت سے مسلمانوں نے ان حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اُن کے دلوں پرخوف سوار تھا کہ امریکہ ہمارا آملیٹ بنا دے گا حکمرانوں میں سے بعض نظریاتی طور پر مسلمانوں کے دشمن بھی ہوتے ہیں وہ ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ابھی آج کل پھر یہ تمام ٹولے سرگرم ہو گئے ہیں شیخ اُسامہ شہیدؒ کے واقعہ کو سامنے رکھ کر پورے ملک میں آپریشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں ماضی میں ایسے سینکڑوں آپریشن ہو چکے نہ ہی امریکہ ان سے خوش ہو ااور نہ ہی یہ جہاد  کو ختم کر سکے جہاد کی حفاظت قرآن پا ک کر رہا ہے اورقرآن پاک کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے مجاہدین موجودہ حالات میں ہرگز نہ گھبرائیں جو بھی اُن کو ڈرائے یا ستائے تو فوراً’’حسبنا  اللہ ‘‘ کا نعرہ بلند کریں کہ  اللہ  تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے حسبنا  اللہ  ونعم الوکیل دنیا میں کسی کو اچھا لگے یا بُرا لگے ہم تو صرف اُن ہی لوگوں سے محبت کر سکتے ہیں جن سے محبت رکھنے کا حکم  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے ہم اپنی جان بچانے کے لئے کافروں اور منافقوں سے یاری نہیں کر سکتے جو بھی اسلام کا دشمن ہے ہم اُس کے دشمن ہیں جو بھی قرآن کا دشمن ہے ہم اُس کے دشمن ہیں جو بھی حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کا دشمن ہے ہم اُس کے دشمن ہیں اور جو اسلام، قرآن، جہاد اور آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کا یار ہے وہ ہمارا بھی یار ہے اورہمیں اُس سے دوستی رکھنے پر فخر ہے

ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ رزق کے دانے مقرر ہیں ہمارا عقیدہ ہے کہ عزت و ذلت دینے کا اختیار صرف اورصرف  اللہ  تعالیٰ کے پاس ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ کامیابی ایمان کی حفاظت میں ہے نہ کہ جان کی حفاظت میں اور ہمارا عقید ہ ہے کہ ساری دنیا کا کفر مل کر بھی اسلام اور مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتا ہم آخری اُمت ہیں اور ہمارے بعد قیامت ہے ہم اُس وقت ختم ہوںگے جب  اللہ  تعالیٰ اس زمین و آسمان اور کائنات کو ختم کرنے کا فیصلہ فرمائے گا ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے اور قیامت سے پہلے اسلا م نے دوبارہ ساری دنیا پر غالب ہونا ہے اور دنیا کے ہر کچے اور پکے گھر میں داخل ہونا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج اسلام کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں بات دوستی کی چل رہی تھی حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کے دوست تھے دیکھا آپ نے کہ اچھی دوستی کتنے کام آتی ہے؟ جس شخص پر  اللہ  تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے وہ ہمیشہ اچھے لوگوں کو اپنا دوست بناتا ہے اچھی دوستی ایک ایسی نیکی ہے جو لاکھوں نیکیوں کا ذریعہ ہے اور بری دوستی ایک ایسا گناہ ہے جو کروڑوں گناہوں کا ذریعہ ہے قرآنِ پاک نے سمجھایا ہے کہ اُن لوگوں سے دوستی کرو جو صبح شام  اللہ  تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہتے ہیں اور اُن لوگوں سے دوستی نہ کرو جن کے دل  اللہ  تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو نیک لوگوں سے وحشت اور خشکی ہونے لگتی ہے اور بُرے لوگوں کے ساتھ وہ ایسے گھل مل جاتے ہیں جیسے صدیوں کا ساتھ ہو  اللہ کے بندو! ایسی دوستیاں، ایسی مجلسیں جن میں صرف گپ شپ، کھانا پینا اور غفلت کی باتیں ہوں ایک مسلمان کے لئے زہر کی طرح خطرناک ہیں چلو میری نہ سنو قرآنِ پاک تو سچ فرماتا ہے اُس کی سُن لو اور قرآن پاک میں دوستی اور دشمنی والی آیات کو صرف ایک بار پڑھ کر دیکھ لو ایسے ایسے ناکارہ لوگ جن کے پاس ادنیٰ سی صلاحیت بھی نہیں تھی صرف اچھی دوستی اور اچھے تعلق کی وجہ سے بڑے مجاہد، بڑے فاتح اور  اللہ  والے اولیاء بن گئے اور ایسے ایسے باصلاحیت لوگ کہ جن کی صلاحیتوں پر لوگ رشک کرتے تھے بُری صحبت، بُری دوستی اور برے تعلقات کی وجہ سے ناکام ہو گئے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:

ان احب الاعمال الی  اللہ  تعالیٰ الحب فی  اللہ  والبغض فی   اللہ  (ابو داؤد)

ترجمہ:                بندوں کے اعمال میں  اللہ  تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ محبت ہے جو  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہو او ر وہ بغض و عداوت ہے جو  اللہ  تعالیٰ کے لئے ہو

بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص  اللہ  تعالیٰ کے لئے دوستی اور  اللہ  تعالیٰ کے لئے دشمنی کی صفت نہ رکھتا ہو وہ ایمان کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکتا

حضرت عبد اللہ  بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عر ض کیا یا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیا فرماتے ہیں اُس شخص کے بارے میں جس کو کچھ لوگوں سے محبت ہے مگر وہ اُن کے ساتھ نہیں ہو سکا( یعنی عمل میں کمزوری کی وجہ سے اُن کے مقام تک نہیں پہنچ سکا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا جو شخص جس سے محبت کرتا ہے وہ اُس کے ساتھ ہی ہو گا(بخاری و مسلم)

المرء مع مَنْ احب کا اصول یعنی آدمی دنیا اور آخرت میں اُنہیں میں شمار ہوگا جن سے وہ محبت رکھتا ہے جب حضرات صحابہ کرام نے سنا تو بہت زیادہ خوش ہوئے حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں (یعنی صحابہ کرام) کو کبھی کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشاد سے ہوئی کہ انت مع من احببت(تم جس سے محبت کرتے ہو اُسی کے ساتھ ہو) پس میں بحمد اللہ  محبت رکھتا ہوں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اور ابو بکرؓ وعمرؓ سے اور امید رکھتا ہوں کہ اپنی اس محبت ہی کی وجہ سے مجھے ان کا ساتھ نصیب ہوگا اگر چہ میرے اعمال اُن حضرات جیسے نہیں ہیں( بخاری) اب اس روایت میں دونوں پہلو دیکھیں اچھے لوگوں سے محبت اور بُرے لوگوں سے محبت آج ہم نے دین اور دوستی دو الگ الگ چیزیں بنا لی ہیں حالانکہ مسلمان کی دوستی اور دشمنی دین کے تابع ہوتی ہے  اللہ  تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ ایک دل تو وہ دین کو دے دے اور دوسرا دل اپنے کسی دوست کو آج بُری دوستیوں کے فساد نے مسلمانوں کو بہت نقصان میں مبتلا کر دیا ہے ہر وہ شخص جس کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے سے دنیا کی محبت دل میں آتی ہو، دل پر غفلت سوار ہوتی ہو شہوت یا مایوسی کی آگ بھڑکتی ہو جس کی وجہ سے حق جماعت یا دینی کاموں سے محرومی کا سبق ملتا ہو یا جس کی مجلس میں صرف غیبت اور جھوٹ ہی چلتا ہو یا جس سے باتیں کر کے نفسانی خواہش کی تکمیل ہوتی ہو یہ سب خطرناک دوستیاں ہیں جو ان سے بچے گا وہی اپنے دین کو سلامت پائے گامسلمان لڑکے اور لڑکیاں موبائل وغیرہ پر دوستیاں کرتے ہیںاور اگر آپس میں ملاقات نہ ہوتو اسے نعوذبا  اللہ  پاکیزہ دوستی کا نام دیتے ہیںان سے پوچھا جائے کہ لڑکے اپنی بہنوں سے اور لڑکیاں اپنے بھائیوں سے یہ پاکیزہ دوستی کیوں نہیں کر لیتیں شیطان کے پھندے بہت سخت ہیں  اللہ  تعالیٰ ہی ہم سب کی حفاظت فرمائے آئیے آج کی مجلس کا اختتام حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک مبارک حدیث شریف پر کرتے ہیں حدیث شریف پڑھنے سے پہلے ہم دل میں نیت کر لیں کہ انشاء  اللہ  ہم سب اس پر عمل کی پوری کوشش کریں گے

رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

(اے مسلمانو) تم دوسرے کے متعلق بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ(یعنی تلاش) میں نہ رہا کرو، اور جاسوسوں کی طرح کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کیا کرو اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد کرو، نہ بغض وکینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے  اللہ  کے بندو!  اللہ  تعالیٰ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو( بخاری و مسلم)

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

  (300)

اُمت کا خیر خواہ کون؟

 

ا ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ذمّہ اپنے مسلما ن بھائیوں کے بہت سے حقوق لازم فرمائے ہیں

مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں مسلمان خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے شریک ہیں مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو ایذاء پہنچائے مشہور مفسّر حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں:

جہنم والوںمیں سے بعض پر ایک’’خارش‘‘ مسلّط کی جائے گی، وہ اس کو اتنا کھجائیں گے کہ گوشت پھٹ کر ہڈی ظاہر ہو جائے گی تب اُسے پکارا جائے گا کہ اے فلاں شخص! کیا تجھے یہ خارش تکلیف دے رہی ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں! تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ اُس کے بدلے میں ہے جو تم مسلمانوں کو ایذا پہنچایا کرتے تھے حدیث شریف میں تو یہاں تک آیا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف آنکھ سے ایسا اشارہ کرے جو اُسے تکلیف اور ایذاء پہنچانے والا ہو

 مسلمان اگر آپس میں محبت، صلح اور دوستی کے ساتھ رہیں تو اُن کا یہ عمل نفلی روزے، نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو دنیا میں چھپائے گا  اللہ  تعالیٰ اُس کے عیبوں کو دنیا اورآخرت میں لوگوں سے چھپا دے گا ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کی غیبت کرے اور اُس کے عیبوں کو تلاش کرتا پھرے ارشاد فرمایا کہ جو کسی مسلمان کے عیب اس لئے تلاش کرے گا تاکہ اُسے لوگوں میں رسوا کرے تو  اللہ  تعالیٰ خود اُسے گھر بیٹھے رسوا فرما دے گا مسلمان کو حکم دیا گیا کہ وہ جب بھی کسی دوسرے مسلمان سے ملے تو اُسے سلام کرے یعنی سلامتی کی دعاء کرے سلامتی کی دعاء دینے کا پہلا تقاضہ یہی ہے کہ وہ اُس مسلمان کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے کوئی تکلیف نہ پہنچائے

حضرت انسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے آٹھ سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے ارشاد فرمایا:۔

اے انس  رضی اللہ عنہ ! وضو اچھی طرح(یعنی پورا پورا) کیا کرو اس سے تمہاری عمر زیادہ ہو گی (یعنی عمر میں برکت ہو گی) اور میری اُمت میں سے جس سے بھی ملو تو اسے سلام کیا کرو اس سے تمہاری نیکیاں بڑھیں گی اور جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو اس سے تمہارے گھر کی برکت زیادہ ہو گی(مسند ابو یعلیٰ)

روایات میں آتا ہے کہ جب کوئی مسلمان دوسرے مسلمان سے ملتا ہے اور اسے سلام نہیں کرتا تو اس پر فرشتے حیران ہوتے ہیں اور جب کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور وہ اس سلام کا جواب دیتا ہے تو فرشتے اُس کے لئے ستر مرتبہ رحمت کی دعاء کرتے ہیں مسلمان جب آپس میں ملیں تو ایک دوسرے سے مصافحہ کریں اس مصافحہ پر اُنہیں طرح طرح کی نعمتیں اور رحمتیں ملتی ہیں اور روایات میں آتا ہے کہ اُن کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور مصافحہ کی ابتداء کرنے والے کو نوّے رحمتیں اور دوسرے کو دس رحمتیں نقد مل جاتی ہیں مسلمان بیمار ہوجائے تو دوسرے مسلمان اُس کی عیادت کریں روایات میں آتا ہے کہ مریض کی عیادت کرنے والا گویا کہ جنت کے باغات میں بیٹھا ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اُس کے لئے رات تک رحمت کی دعاء کرتے ہیں مسلمان اگر سب مسلمانوں کے لئے صبح شام تین تین بار اصلاح، رحمت اور کشادگی کی دعاء کا معمول بنائے تو اُسے’’ابدال‘‘ کا مقام دے دیا جاتا ہےکسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تو اُس کے یتیم بچوں کی کفالت دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے مسند احمد کی روایت میں آیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچے کو اپنے ذمے لے لے اور اُسے کسی کا محتاج نہ ہونے دے بلکہ اُس کی مکمل کفایت کرے تو ضرور بضرور جنت اُس کے لئے واجب ہو جاتی ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کا بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کا بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو جس سے بُرا سلوک کیا جاتا ہو(الادب المفرد للبخاری)

مسلمان دوسرے مسلمانوں کے لئے وہی چیز پسند کرتا ہے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہےاور جو مسلمان کسی مسلمان کو خوشی پہنچاتا ہے تو قیامت کے دن اس کے بدلے  اللہ  تعالیٰ اُسے خوشی عطاء فرمائے گا جو کوئی کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کے لئے رات یا دن کی ایک گھڑی چلتا ہے وہ حاجت پوری ہوتی ہے یا نہیںیہ عمل اُس کے لئے دو ماہ کے اعتکاف سے افضل ہے اور فرمایا کہ مسلمان کے دل کو خوش کرنا  اللہ  تعالیٰ کے پسندیدہ ترین اعمال میں سے ہے یہ خوشی پہنچانا اس طور ہو کہ اُس کی پریشانی دور کر دے یا اُس کا قرضہ اُتار دے یا اُسے بھوک کی حالت میں کھانا کِھلا دے حقوق کا یہ سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے کہ مسلمان کا حق ہے کہ اُس کی نماز جنارہ ادا کی جائے اُسے غسل و کفن دیاجائے اس کے جنازے کے ساتھ چلا جائے اُس کی تدفین میں شرکت کی جائے امام اعمش س اپنے زمانے کا حال بیان کرتے ہیں کہ ہم جنازوں میں جایا کرتے تھے تو پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کس سے تعزیت کرے کیونکہ سب لوگ ہی غمزدہ ہوتے تھے جی ہاں اسلامی محبت میں ایسا ہی ہوتا ہے پھر یہ بھی حق ہے کہ مسلمان کی قبر پر دوسرے مسلمان جائیں اُس کے لئے دعاء کریں ، ایصال ثواب کریں اور خود اپنی موت کو یاد کریں حضرت حاتم اصمؒ فرماتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے قبرستان سے گزرا اور اُس نے نہ اپنے بارے میں کوئی فکر کی (کہ میں مرنے والا ہوں) اور نہ قبرستان والوں کے لئے دعاء کی تو اُس نے اپنے ساتھ بھی خیانت کی اور اہل قبور کے ساتھ بھی خیانت کی

صحابی رسول حضرت ابو الدرداء رضی  اللہ  عنہ کا معمول تھا کہ قبروں کے پاس جا بیٹھتے تھے لوگوں نے اُن سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا میں ایسے لوگوں کے پاس بیٹھتا ہوں جو مجھے آخرت کی یاد دلاتے ہیں اور جب میں اُن سے اٹھ کر چلا جاتا ہوں تو پیچھے میری غیبت نہیںکرتے حضرت سفیانؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص قبر کو زیادہ یاد کرتا ہے وہ اپنی قبر کو جنت کا ایک باغیچہ پائے گا اور جو قبر کی یاد سے غافل رہتا ہے وہ اُسے آگ کا ایک گڑھا پائے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ کی قبروں پر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ، یَغْفِرُ اللہ  لَنَا وَلَکُمْ، اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثْرِ  (ترمذی)

ترجمہ: السلام علیکم اے قبروں والوں!  اللہ  تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے تم ہم سے آگے چلے گئے اور ہم تمہارے پیچھے چلے آنے والے ہیں

جی ہاں! مسلمانوں کے ذمہ دوسرے مسلمانوں کے بے شمار حقوق ہیں پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کبھی آپ نے سوچا کہ ان حقوق کا اصل مقصد کیا ہے؟

جو کوئی مسلمان کو دھوکہ دے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص ایمان والا نہیں جس کے پڑوسی اُس کے شر سے محفوظ نہیں مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوںیہ بھی نیکی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو وغیرہ وغیرہ کبھی سوچا آپ نے کہ ان حقوق کے پیچھے اصل بات کیا ہے؟ ہم نے تو آج چند حقوق بغیر کسی ترتیب کے لکھ دیئے قرآن پاک نے مسلمانوں کے باہمی حقوق کو مفصّل بیان فرمایا ہےاور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سینکڑوں مبارک احادیث ان حقوق کے بارے میں موجود ہیں علماء اُمت نے ان حقوق پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اصل بات یہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں کلمہ طیبہ:

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

موجود ہوتا ہے یہ کلمہ اس مسلمان کو بہت قیمتی اور اونچا انسان بنا دیتا ہے

 اب اس کلمے کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسلمان کو نہ تو کوئی مسلمان ایذاء پہنچائے، نہ تکلیف دےنہ زخمی کرے، نہ قتل کرے نہ اس کی غیبت کرے بلکہ حتی الامکان اس کا اعزاز ، اکرام اور اس کی خدمت کرےچنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس مسلمان کے دل میں ایمان مضبوط ہوتا ہے وہ دوسرے مسلمان کے حقوق کا بہت خیال رکھتا ہے اور جس کے دل میں ایمان کمزور ہوتا ہے وہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کر تا ہے ایک دوکاندار کے پاس کوئی مسلمان خریدار آتا ہے اب دوکاندار کا کام یہ ہے کہ وہ اس مسلمان کے دل میں موجود کلمے کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے نہ تو اسے دھوکا دے اور نہ اسے لُوٹے

لیکن اگر دوکاندار کے دل کا ایمان کمزور ہے تو وہ دس روپے زائد لینے کے لئے دھوکا بھی دے گا، جھوٹ بھی بولے گا، ملاوٹ والی چیز بھی دے گا اور اسے ذرہ برابر یہ خیال نہیں آئے گاکہ وہ اپنی اس حرکت سے کلمہ طیبہ کی ایک طرح سے اہانت کر رہا ہے اسی لئے فرمایا ویل للمطففین ہلاکت ہے تطفیف کرنے والوں کے لئے یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے حقوق پورے ادا نہیں کرتے اور بعض علماء یہ عجیب ترجمہ کرتے ہیں کہ ’’مطفِّف‘‘ وہ ہے جو چھوٹے سے فائدے کے لئے اپنا بڑا نقصان کر رہا ہو مثلاً ایک تاجر نے کسی مسلمان کو دھوکا دے کر دس روپے لوٹ لئے اب مرنے کے بعد قیامت میں اُسے اس دس روپے کے بدلے جو عذاب ہو گا اُس عذاب سے بچنے کے لئے پوری دنیا کی دولت اگر اسے مل جائے اور وہ خرچ کر دے تو دس روپے کے دھوکے والا عذاب نہیں ٹل سکے گا کتنا بڑا خسارہ ہے کہ ادنیٰ سے فائدے کے لئے اتنا بڑا نقصان اٹھا لیامسلمان جب ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کرتے ہیں تو ان میں قوت، اجتماعیت اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور بالآخر انہیں خلافت کا وہ عظیم نظام نصیب ہوجاتا ہے جس میں مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہے آج مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ کلمے کی عظمت اُن کے دلوں سے نکلتی جارہی ہے

مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں کاٹ رہے ہیں بیچ رہے ہیں، کھا رہے ہیں اور کافروں کے ہاتھوں اُن کو نیلام کر رہے ہیں کتنے دُکھ کی بات ہے کہ مشرک مضبوط ہوگئے آج انڈیا خود کو منی سپر پاور کہتا ہے یہودی جو مٹھی بھر ہیں وہ طاقتور ہو گئے کہ ہر جگہ مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں اور عیسائی تو آج خود کو بڑی طاقت کہہ اور سمجھ رہے ہیں مسلمانوں کے پاس ایک بھی ایسا ملک نہیں جہاں کلمہ طیبہ اور اسلام کی عظمت کا لحاظ کیا جاتا ہو مال کی حرص اور علاقہ پرستی نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے مسلمانوں کے پاس نہ تو قوت کی کمی ہے اور نہ اسباب کی الحمدﷲ اس قوم کے چند مجاہد لاکھوں کے لشکر کاٹ پھینکتے ہیں لیکن جب مسلمان خود ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں تو پھر تباہی کو کون روک سکتا ہے قرآن پاک آواز دے رہا ہے ایمان والے بھائی بھائی ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  پکار رہے ہیں اے  اللہ  کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ

آج جو بھی حتی الامکان اس آواز اور پکار پر لبیک کہے گا وہی اُمت مسلمہ کا حقیقی خیر خواہ ہو گا

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

            

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (301)

باربارشکر

اللہ تعالیٰ میرا اور آپ سب کا’’خاتمہ ‘‘ایمان پرفرمائےبعض اوقات انسان سے ایسی غلطی اورگناہ سرزدہوجاتا ہے کہ جس کی نحوست سے ’’ایمان‘‘ سلب ہوجاتا ہےیااللہ رحم فرماایک بزرگ امام محمدبن عبدالرحمن الحبیشیؒ فرماتے ہیں:

چار گناہ ایسے ہیں جن کی وجہ سے اکثرموت کے وقت ایمان سلب ہونے کاخطرہ رہتا ہے

(۱)     نعمتِ اسلام پرشکر ادا نہ کرنا

(۲)     اسلام کے چھن جانے کاخوف دل میں نہ ہونا

(۳)     مسلمانوں پر ظلم کرنا

(۴)     والدین کی نافرمانی کرنا

آئیں ہم سب مل کردل کی گہرائی سے اس نعمت کاشکراداکریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’مسلمان‘‘ بنایا ہے اور ہمیں کلمہ طیبہ:

آلاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

کی نعمت عطاء فرمائی ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ نِعْمَۃِ الْاِسْلَامِ

یااس طرح پڑھ لیں زبان اوردل دونوں سے:

’’سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُعَلیٰ نِعْمَۃِ الْاِیْمَانِ ‘‘

اورکبھی کبھی اس طرح بھی کہا کریں:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ھَدَانِی

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے ہدایت دی

اورکبھی خوشی سے روتے ہوئے یہ پکاراکریں:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَاھَدَانِی

اللہ تعالیٰ کاشکر ہے اس پر کہ اُس نے مجھے ہدایت دی

دراصل ایمان اوراسلام سب سے بڑی نعمت ہےاور سب سے بڑی نعمت پرشکر بھی سب سے زیادہ کرنا چاہیے اور باربار اس نعمت کوتازہ کرتے رہنا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے ایمان کو ’’لاالہ الااللہ‘‘کے ذریعے تازہ کیاکرواسی طرح:

آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ یا آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ

بھی دن رات میں کم ازکم ایک بار یاسات بار پڑھنا چاہیے ایمان کی نعمت کاشکر یہ ہے کہ اسے سب سے بڑی نعمت سمجھے اور اسے اللہ تعالیٰ کا اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھے اور ہروقت اس بات سے ڈرتا رہے کہ یہ نعمت مجھ سے چھن نہ جائے ویسے تو کوئی کبیرہ گناہ ایسا نہیں ہے جس کے کرنے سے ایمان ختم ہوجاتا ہومگر ان کبیرہ گناہوں کی نحوست سے یہ خطرہ رہتا ہے کہ کسی بھی وقت انسان کفر کواختیار کرلے اور اسلام کی نعمت سے محروم ہوجائے اس لئے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں اس کے بعد پورا زورلگا کر ان گناہوں سے بچنا چاہیے اور جو ہوچکے ہوں اُن پرتوبہ کرنی چاہیے احادیث میں کئی گناہوں کو’’کبیرہ ‘‘قرار دیا گیا اور بعض گناہوں کو ان احادیث مبارکہ پر قیاس کرتے ہوئے اُمت کے ائمہ کرام نے کبیرہ قرار دیا ہے بغیر ترتیب کے چند کبیرہ گناہوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:

۱ ۔ کسی مسلمان کوقتل کرنا ۲۔  فرض نماز چھوڑنا ۳۔ والدین کی نافرمانی کرنا ۴۔ میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کربھاگنا ۵۔ جادوکرنا ۶۔ یتیم کامال کھانا ۷۔  جھوٹی گواہی دینا ۸۔  سودکھانا ۹۔  پاک دامن مسلمان عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا ۱۰۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا ۱۱۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا ۱۲۔  اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہونا۱۳۔ اپنے والدین کو گالی دینا ۱۴۔جھوٹی قسم کھانا ۱۵۔چغل خوری کرنا ۱۶۔پیشاب سے پاکی کاخیال نہ رکھنا ۱۷۔قرآن پاک کے اوراق کو گندگی میں ڈالنا ۱۸۔کسی مسلمان کو پکڑ کر ایسے کافروں کے حوالے کرنا جو اُسے قتل کردیں ۱۹۔کافروں کے لئے مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنا ۲۰۔  زنا ، لواطت کرنا ۲۱۔  چوری ، ڈاکہ وغیرہ وغیرہ

یہ فہرست بہت طویل ہے حضرت عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں یعنی اگر سچے دل سے استغفار ہوتو کبیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اگر صغیرہ گناہوں پراصرار کیاجائے تو وہ کبیرہ بن جاتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ،اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور ہر وقت اس بات کی فکر کرے کہ میرا ایمان مجھ سے چِھن نہ جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے دل کی نگرانی کرے اور دیکھتا رہے کہ وہ ایمان کی حالت میں ہے یا غفلت کی حالت میں اگر دل غفلت کی حالت میں نظر آئے تو فوراً کلمہ پڑھے ایمان کااعلان کرے غسل کرے اور نماز وذکر میں لگ جائے یا ایمان والوں کی صحبت اختیار کرے ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور دل میں ایمان موجود نہ ہو آج بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے دل میں ایمان کی قدر نہیں ہے اور نہ اس نعمت کے چھن جانے کاڈر ہے ہم گاڑی ، کوٹھی ، نوکری اور مال کو نعمت سمجھتے ہیں ہم صحت ، قوت اور ظاہری عزت کو نعمت سمجھتے ہیں بے شک یہ سب کچھ نعمت ہے مگر سب سے اصل اور بڑی نعمت ’’ایمان ‘‘ کی نعمت ہے ہمیں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو پھر اپنے دل کی گہرائی میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ سب سے بڑی ، قیمتی اور ضروری نعمت ایمان کی نعمت ہے اور کبیرہ گناہ ایمان کے دشمن ہیں کبیرہ گناہوں میں سے ایک سخت گناہ والدین کی نافرمانی ہے اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ والدین کے ہر حکم کوماناجائے جائز ہو یاناجائز بلکہ حلال چیزوں میں اُن کی اطاعت ضروری ہے اور اُن کی نافرمانی کرنا گناہ ہے اسی طرح اُن کوایذاء پہنچانا اُن کی ضرورت کو پورا نہ کرنا جبکہ وہ تقاضا کریں اور اولاد کے پاس طاقت بھی ہو خود پیٹ بھر کر کھانا اور اُن کو بھوکا رکھنا وہ اگر گالی دیں تواُن پر ہاتھ اٹھانا اپنا مال بچا کر رکھنا اوراُن کامال کھاجانا اور اُن کی امانت میں خیانت کرنا یہ سب کچھ والدین کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے ’’عیون الاخبار‘‘ میں یہ عجیب قصہ لکھا ہے کہ حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں میں ایک بار حج کے لئے بیت اللہ شریف گیا حج سے فراغت کے بعد میں رات کوسوگیا اور پھر اُٹھ کراپنے معمولات کرنے لگا اچانک یہ آواز میرے کانوں سے ٹکرائی کوئی اعلان کررہاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات والوں پراحسان فرمایا ہے اور جس نے بھی حج ، عمرہ ، طواف ، سعی ، تلبیہ ،حلق ، قصر ،رمی کی ہے سب کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا ہے اور ہرشخص کی بُرائی کاکفارہ فرمادیا ہے مگر ایک شخص جس کانام عبدالرحمن بن محمد بلخی ہے اللہ تعالیٰ اُس پر غضبناک اور ناراض ہے فرماتے ہیں صبح اُٹھ کرمیں نے معلومات کیں کہ بلخی حجاج کہاں ہیں اُن کے پاس جاکر میں نے پوچھا کہ عبدالرحمن بن محمدکون ہے اور اُس کے کیا حالات ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ تو ایسا آدمی ہے کہ قحط کے وقت لوگ اُس کے وسیلے سے بارش کی دعاء مانگتے ہیںوہ عابد ، زاہد آدمی ہے، لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ساری رات تلاوت کرنے والا بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرنے والا مجاہدین کوجہاد کے لئے گھوڑے اور سواریاں دینے والا اوربیت اللہ کاحج کرنے والا مالک ؒ فرماتے ہیں یہ حالات سُن کر میں نے دل میں کہا کہ رات کوجوآواز آئی تھی وہ شیطان کی طرف سے ہوگیاگلے سال میں پھر حج کیلئے گیاویسا ہی واقعہ کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد میں نے وہی آواز سنیمیں نے سوچا معلوم نہیں کہ یہ آواز رحمن کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ لوگوں سے اُس آدمی کے متعلق پوچھا تو پہلے جیسا جواب ملا میں نے ارادہ کیا کہ خود چل کر تحقیق کرتا ہوں فجر کی نماز ادا کر کے میں روانہ ہوا اور چلتے چلتے بلخی حجاج کے خیموں تک پہنچ گیا اور اُن سے کہا کہ مجھے عبدالرحمن کا خیمہ دکھائو ۔انہوں نے ایک خیمے کی طرف اشارہ کیا یہ کالے بالوں کا ایک ادنیٰ سا چھوٹا سا خیمہ تھا میں خیمے کے دروازے پر پہنچا تو اندر سے رونے کی آواز آئی میں نے اندر جا کر دیکھا تو ایک جوان آدمی ہےاُس نے اپنا دایاں ہاتھ ایک زنجیر کے ذریعے اپنی گردن سے باندھ رکھا تھا اور زنجیر کا ایک سِرا ایک حبشی غلام کے ہاتھ میں دے رکھا تھا وہ غلام اس کے پیچھے کھڑا تھا اور وہ غلام سے کہہ رہا تھا کہ اے غلام! اگر میں غافل ہو جائو ںتو تم غافل نہ ہونا میرے رخسار کو زمین کے ساتھ رگڑنا اور ساتھ یہ بھی کہنا کہ یہ ہے بدلہ اس شخص کا جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اپنے والدین کی نافرمانی کی

مالک س فرماتے ہیں کہ میں خیمے میں داخل ہوا اور اُسے سلام کیا طویل قصہ ہے مختصر یہ کہ اس نے خود مجھے بتایا کہ آپ مالک بن دینار ہیں اور مجھ سے اُس آواز کے بارے میں پوچھنے آئے ہیں جو حج کے بعد سنائی دیتی ہے کہ وہ رحمن کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے اے مالک وہ آواز رحمن کی طرف سے ہے اور میں بیس سال سے ہر حج کے موقع پر سُن رہا ہوں میرا قصہ یہ ہے کہ میں بہت مالدار آدمی تھاشراب اور گناہوں کا عادی ایک بار رمضان المبارک کی پہلی رات میرے والد محترم نے مجھے بہت محبت اور پیار سے نماز کی دعوت دی میں نشے میں تھا میں نے اُن کو دھتکار دیا وہ مجھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور توبہ کرنے کی دعوت دینے لگے تو میں نے اپنا یہ منحوس ہاتھ اٹھایا اور انہیں ایک تھپڑ دے مارا جس کی وجہ سے اُن کی آنکھ اُن کے رخسار پر بہہ گئی تب میرے والد نے مجھے بددعا دی کہ اللہ تعالیٰ تجھے نہ بخشے اور نہ موت کے وقت تجھے کلمہ نصیب ہو اورنہ قیامت کے دن تجھ سے راضی ہوجب مجھے ہوش آیا تو میری والدہ نے مجھے ساری تفصیل بتائی اس وقت سے میں نے توبہ کر لی شراب کی بوتلیں توڑ دیںعیش و عشرت کا تمام سامان چھوڑ دیا اپنی باندیاں آزاد کر دیں اور اپنے نرم کپڑے صدقہ کر کے یہ سخت لباس اختیار کر لیا ۔اب میں یتیموں بیوائوں کی کفالت کرتا ہوں فقیروں مسکینوں کوکھاناکھلاتا ہوںاور ہر سال حج کرتا ہوںمگر حج کے بعد یہی اعلان ہوتا ہے کہ میرے علاوہ سب کی مغفرت کر دی گئی ہےمالکؒ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ سن کر میں نے اُسے کہا کہ مجھ سے دور رہو اور مجھے اپنی آگ میں نہ جلائو وہ آگ جو تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر ہمیشہ کیلئے جلا لی ہے یہ کہہ کر میں وہاں سے نکلنے لگا تو وہ سخت رونے لگا اور کہنے لگا کہ اے مالک !کیا آپ مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش سے مایوس کر رہے ہیں میں نے پوچھا کہ تمہارے والد زندہ ہیں اگر وہ زندہ ہیں تو تجھے خوشخبری ہو اور اگر انتقال کرچکے ہیں تو تیرے لئے ہلاکت ہے اور اس ہلاکت کے بعد ایک اوربڑی اور طویل ہلاکت ہے اُس نے کہا وہ زندہ ہیں اور حج پر بھی تشریف لائے ہیں قصہ مختصر کہ مالک بن دینارس نے جا کر اُن کے والد کو راضی کیا اُدھر والد راضی ہوئے اور اِدھر اس جوان پر موت کا نزع شروع ہو گیا ہے بالآخر اس کو کلمہ نصیب ہوا ،والد نے اپنی رضا کا اعلان کیا اور اُس نے اس دنیا فانی کو خیر باد کہہ دیامالکؒ فرماتے ہیں کہ اگلی رات میں نے ایک غیبی آواز سنی کوئی کہہ رہا تھالوگو !سن لو اللہ تعالیٰ نے عرفات میں حاضر تمام لوگوں کو ایک آدمی کی برکت سے بخش دیا ہے اس آدمی کا نام عبدالرحمن بن محمد البلخی ہے رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ

یہ قصہ تو درمیان میں ضمناً آ گیا اصل بات اور آج کا سبق یہ ہے کہ ہم ایمان کو سب سے بڑی نعمت سمجھ کر اُس کی قدر کریں اور اُس پر دن رات اللہ تعالیٰ کا دل سے شکر ادا کریں اور کبیرہ گناہوں سے دور رہیں بلکہ ہر گناہ سے بچنے کی کوشش کریں خصوصاً نماز کا بہت اہتمام کریںاپنے دل کے ایمان کو دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی نماز کو دیکھ لیں اگر نماز پوری ہے ،اچھی ہے ،ذوق شوق اور پابندی سے ہے تو سمجھ لیں کہ ایمان دل میں موجود ہے اور اگر نماز کا معاملہ خراب ہے تو سمجھ لیں کہ ایمان بہت کمزور اور ناقص ہو چکا ہے چنانچہ فوری طور پر اپنی نماز کے تمام معاملات کو اہتمام کے ساتھ درست کریں اب رہ گیا ایمان کا امتحان تو وہ جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ ہو گا سچا اور خالص ایمان ہمیشہ جہاد کی طرف لاتا ہے محبوب کی خاطر جان دینا ،محبوب کی خاطر کٹ مرنا محبوب کے دین اور طریقے کو غالب کرنا محبوب کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا اور محبوب کے راستے میں زخم کھانا پورے قرآن پاک کو دیکھ لیں آپ کو یہی ترتیب نظر آئے گی کہ ایمان خالص اور سچا ہے یا نہیں اس کا امتحان جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے ہوتا ہے چنانچہ ہرمسلمان کے ذمہ ادنی درجہ میں یہ لازم ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ سے محبت رکھے اور بڑادرجہ یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت کرے۔ اور جو بد نصیب انسان جہاد فی سبیل اللہ سے بُغض اور نفرت رکھتا ہو اس کے ایمان کا کچھ پتہ نہیں کہ کمزوری کی کس حالت میں سسکیاں لے رہا ہے ہاں بے شک پھر سُن لیں اور بار بار سنیں اور لاکھوں بار سُنیں اور سنائیں کہ سب سے بڑی نعمت ایمان ہے ایمان لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پر یقین اور اس کا اقرار۔ ایک سائنسدان اگر ایسی مشین ایجاد کر لے جس سے ساری دنیا کے انسانوں کو بیک وقت مفت کھانا، مفت پانی، مفت دوائی اور مفت بجلی ملنے لگے اور یہ سائنسدان کلمہ ’’لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ سے محرو م ہو تو وہ اپنے گھر کی چارپائی پر معذور پڑے ہوئے اُس شخص کے جوتے کے برابر بھی نہیں جسے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر یقین اور اقرار کی دولت حاصل ہے شکر کرو مسلمانو، شکر کرو بار بار، کروڑوں بار اور پھر شکر پر بھی شکر کرو کہ اتنا عظیم کلمہ نصیب ہو گیا

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ نِعْمَۃِ الْاِسْلَامِ وَ عَلیٰ نِعْمَۃِ الْاِیْمَانِ

اس کلمے کو دل میں اُتارنے کے لئے نمازیں مضبوط کرو اور پھر اس کلمے میں خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے جہاد فی سبیل اللہ سے تعلق پیدا کرو اللہ پاک اس نصاب کی مجھے بھی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کو بھی

آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک و سلم تسلیماً کثیراً کثیراً

٭٭٭

  (302)

چار باتیں

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ’’ایمان کامل‘‘ نصیب فرمائے آج میری ایک چھوٹی سی گزارش تو دل سے مان لیں انشاء  اللہ  بہت فائدہ ہو گا آج کل مسلمانوں پر’’نفاق‘‘ کا بہت سخت حملہ ہے جی ہاں پوری دنیا میں اس لئے صبح شام کم از کم سات بار دل کی توجہ کے ساتھ نفاق سے پناہ مانگا کریں اور جب یہ پناہ مانگ رہے ہوں تو ایسی کیفیت سے مانگیں جیسے اپنی اہم ترین ضرورت مانگ رہے ہیں

(۱) اللھم انی اعوذبک من النفاق

(۲) اللھم انی اعوذبک من الشقاق و النفاق و سُوئِ الاخلاق

ان دونوں دعاؤں کو اپنی اہم دعاؤں میں شامل کر لیں کوشش کریں کہ باوضو مانگیں اور کسی نماز کے بعد مانگیں اول ، آخر درود شریف بھی پڑھیں اور دعاء کی نورانیت کو دل سے محسوس کریں ’’نفاق‘‘ اور’’منافقت‘‘ بہت بڑا عذاب ہے نفاق کی دو قسمیں ہیں ایک عقیدے کا نفاق اور ایک عمل کا نفاق اور ’’جھوٹ بولنا‘‘ نفاق کی سب سے بنیادی علامت ہے آج کل نفاق چاروں طرف سے حملہ آور ہے ہمیں چاہئے کہ پوری عقل مندی کے ساتھ اپنے ایمان کے دفاع کی فکر کریں

رجب کی دعاء

ہر سال ان دنوں’’رجب‘‘ کی مسنون دعاء یاد دلائی جاتی ہے اچھا ہے اس سال بھی ناغہ نہ ہو حکومت کے نئے بجٹ نے مہنگائی اور بے برکتی کی جو آگ بھڑکائی ہے اُسے  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے آنے والی’’برکت‘‘ ہی بجھا سکتی ہے’’برکت‘‘ بہت بڑی نعمت ہےچلیں پھر رجب اور شعبان کی برکت اپنے محبوب آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک الفاظ کے ذریعہ مانگتے ہیں

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ

                 تو آپ کے ذہن میں ہوگا ماشاء  اللہ  ہرسال لکھا جاتا ہے

اسی طرح دودھ پیتے وقت بھی برکت کی دعاء مسنون ہے

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَامِنْہُ

اسی طرح جب کسی نئے شہر اور بستی میں جائیں تو وہاں کی برکت کی دعاء مانگیں

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْھَاوَارْزُقْنَا جَنَاھَا

یا  اللہ  ہمارے لئے اس بستی میں برکت عطا فرمائیے اور ہمیں یہاں کے پھل کھلائیے

آج اس موضوع پر بس اتنا ہی آئندہ کبھی موقع ملا تو انشاء  اللہ ’’برکت‘‘ کے مطلب اور معنیٰ پر تفصیل سے گفتگو کریں گے

مناجات صابری

ہمارے بہت سے بھائیوں اور بہنوں کو شدّت کے ساتھ’’مناجات صابری‘‘ کا انتظار ہے مگرقسمت! کہ کتاب کا کام مؤخر ہی ہوتا جارہا ہے انشاء  اللہ  اس تاخیر میں بڑی خیر ہو گی کیونکہ جیسے جیسے تاخیر ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ کتاب مزید نکھرتی اور سنورتی جارہی ہے اب اس میں بہت عمدہ تبدیلیاں ہوئی ہیں ماشاء  اللہ  استغفار کے مسنون صیغے تو ایسے جمع ہوئے ہیں کہ شاید ہی کسی کتاب میں اتنی تعداد میں مل سکیں تلاوت، اذکار اور عملیات ہر ایک کو بار بار پڑھ کر مفید اضافے اورتبدیلیاں کی گئی ہیں بندہ خود کئی بار کتاب کو دیکھ چکا ہے ہر بار پڑھتے اور تصحیح کرتے ہوئے عجیب لطف اور نورانیت محسوس ہوتی ہے دل چاہتا ہے کہ حضرت ابا جی نور  اللہ  مرقدہ کا یہ تحفہ جلد از جلد مسلمانوں تک پہنچ جائے مگر پھر اس میں کوئی کام نکل آتا ہے آپ سب سے دعاء کی خصوصی گزارش ہے

رزق کا ضیاع

کسی زمانے ہم جیل میں تھے وہاں یہ بات شدّت سے محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کے دل سے ایک خاص کیفیت بہت تیزی سے نکلتی جارہی ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے گھروں، مدرسوں اور دفتروں میں کتنا’’رزق‘‘ ضائع ہوتا ہے

انا ﷲ وانا الیہ راجعون

دنیا داروں کے ہاں تو رزق کو ضائع کرنا فیشن ہے جبکہ دین دار لوگ بھی اس بارے میں بے توجہی کا شکار ہیں جیل میں قید ساتھی بھی’’رزق‘‘ ضائع کرتے تھے ویسے کبھی تو بہت تنگی کا وقت ہوتا تھا تب تو روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں بچتا تھا بادامی باغ میں پرانی بریڈ کے دو پیس ناشتے میں ملتے تھے تمام ساتھی اُن کو ’’پیزا‘‘ یا فش برگرکی طرح مزے لے کر کھاتے تھے مگر جب فراوانی ہوتی تو پھر رزق ضائع ہونا شروع ہو جاتا  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے سب کو اس طرف توجہ دلائی گئی نگرانی کا نظام قائم کیا گیا تب کچھ افراد تو دل سے عمل کرتے جبکہ بعض صرف اُس وقت تک جب تک نگرانی رہتی

اس فرق کی وجہ وہ کیفیت تھی جس کا بندہ نے اوپر تذکرہ کیا ہے

کیفیت کہتے ہیں دل کی سمجھ کویعنی دل جس چیز کو جس طرح سے سمجھ لے وہ چیز ’’کیفیت‘‘ کہلاتی ہے ہمار ادل بکر ی کے گوشت کو اچھا سمجھتا ہے یہ ایک کیفیت ہے اسی کیفیت کی وجہ سے ہمیں بکری کا گوشت اچھا لگتا ہے لیکن ہمارا دل بلّی کے گوشت سے نفرت کرتا ہے یہ بھی ایک کیفیت ہے اب کوئی ہمیں د س گھنٹے تقریر کرے کہ بلّی کے گوشت میں یہ یہ فائدے ہیں آپ بلّی کے دو کباب کھالیں کیا آپ کھا سکیں گے؟ہرگز نہیں کیونکہ کیفیت بڑی مضبوط چیز ہوتی ہے اور انسان اپنی ’’کیفیات‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے

اب’’رزق‘‘ ضائع کرنے کے مسئلے کو دیکھیں ایک شخص کے دل میں یہ بات اُتری ہوئی ہے کہ  اللہ  تعالیٰ میرا رازق ہے وہ میرا رب ہے اور بڑی محبت سے رزق دے کر مجھے پالتا ہےوہ میرے رزق کی حفاظت فرماتا ہے اور اسے سب سے بچا کر مجھ تک پہنچاتا ہے اور وہ بہت عظیم رب ہے اور میں اُس کا عاجز بندہ ہوں اگر یہ کیفیت کسی کے دل میں ہو گی تو یقین کریں روٹی کا ایک لقمہ تو دور کی بات وہ چاول کا ایک دانہ بھی ضائع نہیں کرے گا  اللہ  تعالیٰ تین سو ساٹھ افراد کی محنت کے بعد ایک لقمہ اپنے بندے تک پہنچاتا ہے زمین و آسمان کی کتنی مخلوقات کو اس لقمے کے بنانے کی خدمت پر لگاتا ہے آپ مُلک کے صدر کے پاس جائیں وہ بڑی محبت سے آپ کو کوئی چیز دے آپ اُٹھ کر اُس کے سامنے وہ چیزکوڑا دان میں ڈال دیںکیا وہ آپ کے اس عمل سے خوش ہو گا؟  اللہ  تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ کتنی محبت سے اپنے بندے تک رزق پہنچاتا ہے او ر وہ دیکھتا ہے کہ اُس کے بندے نے کیا معاملہ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کائنات کے سب سے افضل اور اعلیٰ اور مہذّب انسان حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کھانے کے بعد اپنی مبارک انگلیاں چاٹ رہے ہیں جی ہاں اُن کو معلوم تھا کہ ان انگلیوں پرمیرے محبوب رب کا رزق لگا ہوا ہے وہ ضائع نہ ہو جائے واقعی یہ کیفیت کا مسئلہ ہے کئی لوگوں کو آپ بار بار سمجھائیں مگر وہ رزق ضائع کرتے ہیں اور بعض لوگ تنہائی میں کچھ کھاتے پیتے وقت بھی ایک دانہ، ایک قطرہ اور ایک لقمہ ضائع نہیں کرتے وہ اُسے یا تو خود کھا لیتے ہیں، یا سلیقے سے بچا کر کسی دوسرے انسان تک پہنچا دیتے ہیں اب یہ معاملہ سمجھنے سمجھانے سے تو دل میں بیٹھے گا نہیں کافی تجربہ کر لیا ہے دعاء کریں کہ مجھے اور آپ سب کو اپنے رازق اور رزّاق رب کے ساتھ محبت والی کیفیت نصیب ہو جائے

کلمہ طیبّہ کی محنت

 اللہ  تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے کہ الحمدﷲ کلمے کی محنت سے بہت عجیب فوائد حاصل ہو رہے ہیں کئی ایسے مسلمان جنہوں نے بارہ سو بار

’’لا الہ الا  اللہ ‘‘

کے ورد کو پابندی سے معمول بنا لیا ہے وہ اپنے اندر بہت سے مثبت نتائج دیکھ رہے ہیں دس پندرہ منٹ کا عمل مگر فوائد اور نتائج اتنے زیادہ کہ بیان سے باہر بعض حضرات اور خواتین نے خطوط میں عجیب کیفیات لکھی ہیں  اللہ  تعالیٰ اُن سب کو مزید ترقی اور قبولیت عطاء فرمائے اُس دن تفسیر بغوی جس کا نام’’معالم التنزیل‘‘ ہے دیکھ رہا تھا اس میں حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کا قول تھا کہ بنی اسرائیل کو ملک شام میں داخل ہوتے وقت جو ’’کلمہ‘‘ پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا وہ

’’لا الہ الا  اللہ ‘‘

 تھاوقولوا حطّۃ یعنی ایسا کلمہ پڑھتے جاؤ جو تمہارے گناہوں کو بالکل مٹا دے اور یہ کلمہ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ ہے جو گناہوں کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے تھوڑا سا غور کریں کہ اس وقت دنیا میں ’’ایڈوانی‘‘ سے بڑا کافر بھی کو ئی ہوگا؟ یہ انتہائی کٹر مشرک ، کافر، بت پرست، دشمن اسلام اور ذاتی طور پر بہت بُرا شخص ہے یہود و نصاریٰ تو پھر بھی پرانی کتابوں کی کوئی ایک آدھ اچھی اور سچی بات کو مانتے ہیں مگر ہندو، مشرک تو اُس سے بھی محروم  ہیں لیکن اگر ایڈوانی بھی ایک باردل کے یقین سے

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

پڑھ لے تو اُس کے تمام گناہ بالکل ختم ہو جائیں گے

اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ لا الہ الا  اللہ  کی کتنی تاثیر ہے ہم خواہ مخواہ مایوس ہو جاتے ہیں کہفلاں چیز کیسے معاف ہو گی اور فلاں کیسے؟ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ہر گناہ اور بُرائی کو مٹا دیتا ہےاسے دل کے ساتھ جوڑیں، دل میں اس کا یقین بٹھائیں اور پھر دل اور زبان کو ساتھ ملا کر پڑھیں اس وقت ہر طرف کفر اور نفاق کے فتنے ہیں تمام مسلمان مرد اور عورت کم از کم بارہ سو بار لا الہ الا  اللہ  کا ورد اپنا ایسا معمول بنالیں جو کبھی بھی نہ چھوٹے انسان پر مختلف حالات آتے رہتے ہیں کبھی پڑھنے میں مزہ آئے گا اور کبھی نہیں آئے گا کبھی دل لگے گا اور کبھی دل نہیں لگے گا مگرآپ اپنی دینی ڈیوٹی سمجھ کر اپنا وظیفہ پورا کریں اور پھر اگر  اللہ  تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے تو اس تعداد میں اضافہ بھی کر لیں اب تو ویسے بھی عبادت کے مہینے شعبان اور رمضان آرہے ہیں کلمہ طیبہ لا الہ الا  اللہ  محمّد رسول  اللہ ہی میں ہم مسلمانوں کی کامیابی ہے اس کلمے کو خوب بیان کیا کریں تاکہ یہ مسلمانوں کے دل میں اُتر جائےاور مسلمانوں کو کلمے کی عزت اور مقام کا علم ہو جائے حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ نے جب اس کلمے کی عزت و عظمت کو پہچانا تو ساری دنیا کے سامنے اعلان فرما دیا کہ ہم لوگ ذلیل قوم تھے،  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی اب اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز میں عزت ڈھونڈیں گے تو  اللہ  تعالیٰ ہمیں پھر ذلیل فرما دے گا سبحان  اللہ یہ ہے کلمے پر ایمان کہ کلمے کے بغیر ہم ذلیل قوم تھےحالانکہ عربی تھے، قریشی تھے، بڑے خاندان کے تھے مگرکلمے کے بغیر کسی زبان، قوم اور قبیلے میں کوئی عزت نہیں عزت کلمے میں ہےآج پھر مسلمانوں کو قومیت، لسانیت اور وطنیت کے بدبودارنعروں کی طرف بُلایا جارہا ہےآج پھر اپنی زبان، علاقے اور قبیلوں کو عزت مند قرار دیا جا رہا ہےاے مسلمانو! یہ جہالت ہے جہالت اور عظیم کلمے کی ناقدری ہم مسلمانوں کے لئے بس ایک ہی نسبت عزت والی ہے اور وہ ہے اسلام کی نسبت یعنی کلمہ طیبہ کی نسبت

لا الہ الا  اللہ  محمّد رسول  اللہ

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

(303)

چند راتیں

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’بُرے دن‘‘ اور’’بُری راتوں‘‘ سے بچائے آپ کو معلوم ہے بُرا دن کونسا ہوتا ہے؟ جی ہاں وہ دن جس میں انسان سے کوئی گناہ ہو جائے، ظلم ہو جائے اور توبہ کی توفیق نہ ملے ہم سمجھتے ہیں کہ جس دن ہمارے پاس پیسے نہ ہوں یا کوئی مصیبت آجائے وہ دن بُرا ہوتا ہے ایسا نہیں ہے ایک روایت میں آتا ہے:

موت غنیمت ہے، گناہ مصیبت ہے، فقر و فاقہ راحت ہے، مالداری سزا( یعنی آزمائش) ہے، عقل  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے ہدیہ ہے، جہالت گمراہی ہے، ظلم ندامت ہے،  اللہ  تعالیٰ کی فرمانبرداری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،  اللہ  تعالیٰ کے خوف سے رونا جہنم سے نجات ہے، ہنسنا بدن کی ہلاکت ہے اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ وہ شخص جس کا کوئی گناہ ہی نہ ہو۔(بیہقی)

آج کل جون کے مہینے کی گرم راتیں چل رہی ہیں مجھے آج سے گیارہ سال پہلے والے’’جون‘‘ کی کچھ راتیں یاد آرہی ہیں خوف، غم اور پریشانی سے بھرپور راتیں لیکن وہ بُری راتیں ہرگز نہیں تھیں  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں خوف کی راتیں کہاں بُری ہو سکتی ہیں بُری راتیں تو وہ ہوتی ہیں جو غفلت اور گناہ میں گزر جائیں جن میں نہ نماز ہو نہ ذکر اور نہ استغفار بہت سے لوگ رنگین راتوں کے خواب دیکھتے ہیں رنگین راتیں تو بہت کالی ہوتی ہیںلذت ختم ہو جاتی ہے اور گناہ لازم ہو جاتا ہے ٹی وی، فلم، شراب، کباب اور غیبت، گناہ  اللہ  تعالیٰ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اچھے اور بُرے کو سمجھ سکیں آج کل تو معاملہ الٹا ہے وہ بے وقوف جو آخرت کی حقیقی زندگی سے غافل ہو کر دنیا کمانے اور بنانے میں لگے رہتے ہیں اور کچھ تھوڑی سی بنا بھی لیتے ہیں لوگ اُن کو عقلمند سمجھتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن ارے پورے قرآن پاک کو پڑھ لو میرے محبو ب آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت مبارکہ کو دیکھ لو عقلمند وہ ہے جو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی آخرت بنالے اور اُسے خوب سجا لے

بات چل رہی تھی گیارہ سال پہلے والے جون کی جب کمانڈر حافظ سجاد خان صاحب سجموں کی ایک جیل میں شہید ہوئے تھے وہ چند راتیں تھیں جن کی ہیبت اب بھی دل سے نہیں جاتی مگر غور کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ وہ شاید زندگی کی بہت اچھی راتیں تھیں جہاد کاراستہ بہت آزمائشوں والا ہے یہ اسلام کی سب سے اونچی چوٹی ہے اسلام بہت اونچا دین ہے ہمالیہ اور ایورسٹ سے بہت اونچا آپ خبروں میں سنتے ہوں گے کہ فلاں کوہ پیما نے ہمالیہ سر کر لیا یعنی اُس کی چوٹی تک پہنچ گیا اور فلاں کوہ پیما ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچ گیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ایسے افراد جو ان اونچی چوٹیوں تک پہنچتے ہیں کتنے ہوتے ہیں؟ پورے پاکستان سے گزشتہ ساٹھ سالوں میں صرف دو افراد نے ایورسٹ کی چوٹی سر کی ہے اتنے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں تک ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا تو پھر اسلام کی بلند ترین چوٹی تک ہر کوئی کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والوں کو’’کوہ پیما‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ اسلام کی بلند چوٹی تک پہنچنے والے کو ’’مجاہد‘‘ کہتے ہیں اور آج دنیا میں مجاہدین کی تعداد کوہ پیماؤں سے بھی کم ہے جہاد میں نکلنا تو پھر بھی کچھ آسان ہے مگر مرتے دم تک اس پر ڈٹے رہنا کافی مشکل ہےمدینہ منورہ سے لشکر روانہ ہوا تو تعداد ایک ہزار تھی مگرجب وہ تین میل کا سفر کر کے اُحد پہنچا تو گنتی سے پتہ چلا کہ تعداد سات سو رہ گئی ہے تین سو افراد اپنے نفاق کی وجہ سے راستے ہی میں پھسل کر گر پڑے پھر بھی بڑی بات ہے کہ سات سو افراد اسلام کی بلند ترین چوٹی تک جا پہنچے یہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی برکت تھی اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تین سو کے ٹوٹ جانے سے اسلامی لشکر کی ساکھ خراب ہو گئی؟جواب واضح ہے کہ ہر گز نہیں! بلکہ اُن کی ساکھ اور بہتر ہوگئی کیونکہ’’حق جماعت‘‘ کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ اُس کا نظام بُرے لوگوں کو باہر پھینکتا رہتا ہے عمل کی کمزوری تو برداشت ہوجاتی ہے لیکن جن کا نظریہ ہی بگڑجائے اور وہ دنیا اور مال کے پجاری بن جائیں وہ ’’مخلص جماعت‘‘ کا حصّہ نہیں رہ سکتے تیز چلنے والا صاف پانی، میل اور کچرے کو اپنے سے الگ کر دیتا ہے یہ میل اور کچرا کچھ وقت ابھرا ابھرا سا نظر آتا ہے مگرپھر سوکھ کر گُم ہو جاتا ہے یہ مثال قرآن پاک نے پیش فرمائی ہے

جہاد کوئی ناممکن عمل نہیں ہے کیونکہ اگر یہ ناممکن ہوتا تو  اللہ  تعالیٰ اس کا حکم نہ فرماتے ہاںیہ بہت اونچا اور بڑا عمل ہے اور اس میں ہر کسی کو قبول نہیں کیا جاتا دنیا میں کتنے مالدار مسلمان ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ روزآنہ صرف گناہوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور کچھ جن کوشیطان نے گمراہ کر رکھا ہے مزاروں پر روزآنہ لاکھوں کے چڑھاوے چڑھاتے ہیںقرآن پاک میں سب سے زیادہ تاکید جہاد پر مال خرچ کرنے کی ہے یعنی قرآن پاک نے جن جن کاموں پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے ان میں سب سے زیادہ تاکیدجہاد پر مال خرچ کر نے کی ہے اور اس کا اجراور ثواب بھی سب سے زیادہ ہے اگر ایک آدمی کعبہ شریف کی تعمیر میںمال لگائے اور دوسرا جہاد پرمال خرچ کرے تو جہاد پر مال خرچ کرنے کی فضیلت کعبہ شریف کی تعمیر پر مال خرچ کرنے سے زیادہ ہے یہ بات قرآن پاک نے بالکل صاف الفاظ میں سمجھائی ہے کیونکہ جہاد سے پورے اسلام کی حفاظت اور اُس کا بقا ہے آج اگر اعلان ہو جائے کہ کعبہ شریف کو ایک بار پھر تعمیر کرنا ہے اور مسلمان اس کے لئے چندہ دیں یقین کریں کہ لوگ سونے کی اینٹیں، سونے کی دیواریں اور سونے کی چھتیں دینے پرتیار ہو جائیں گے کعبہ شریف کے ساتھ مسلمانوں کی یہ محبت بہت اچھی بات ہے اور ہمیں چاہئے کہ اس کی مزید حوصلہ افزائی کریں لیکن جہاد پر مال لگانا تو کعبہ شریف کی تعمیر پر مال لگانے سے افضل ہے اوریہ بات قرآن پاک نے سمجھائی ہے تو پھر مسلمان جہاد پر اتنا مال کیوں نہیں لگاتے؟ وجہ وہی ہے کہ جہاد بہت اونچا عمل ہے جان سے ہو یا مال سے اور اتنی اونچی چوٹی تک انسان  اللہ  تعالیٰ کی خاص توفیق اور مدد سے ہی پہنچ سکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان قرآن پاک کی روشنی میں ’’جہاد فی سبیل  اللہ ‘‘ کوسمجھیں اور پھر  اللہ  تعالیٰ سے توفیق مانگیں کہ  اللہ  تعالیٰ اُن کی جان اور مال کو جہاد کے لئے قبول فرمائے آپ یقین کریں کہ اگر ہم جہاد میں قبول ہو گئے تو پھر آگے کی اصل زندگی اتنی اونچی اور مزیدار ہو جائے گی کہ اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا نہ موت کا درد، نہ قبر کا عذاب، نہ منکر نکیر کافتنہ اور نہ حساب کتاب کا غم بس آنکھ بند ہوئی اور اکرام ہی اکرام، مزے ہی مزے اور کامیابی ہی کامیابی جہاد میں چونکہ بڑی کامیابی اوربڑا مقام ہے ا س لئے اس راستے میں آزمائشیں بھی بہت آتی ہیں مگر ہر آزمائش کے بعد نئی فتوحات اور نئی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے گیارہ سال پہلے جون کی راتیں بھی آزمائش والی تھیں اُن راتوں کا کچھ تذکرہ کرنے سے پہلے ایک ’’وظیفہ‘‘ عرض کرناہے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی اور بہنیں رزق میں وسعت کا وظیفہ پوچھتے ہیں پچھلی ڈاک میں بھی ایسے کئی خطوط تھے بہت سے لوگ مقروض ہیں اور بہت سے مہنگائی کی وجہ سے پریشان بندہ خطوط کے جواب میں ہر ایک کے مناسب حال جو وظیفہ یا عمل سمجھ میں آتا ہے عرض کر دیتا ہے الحمدﷲ بہت سے افراد کو  اللہ  تعالیٰ نے فائدہ بھی پہنچایا ہے اوربعض کو یہ نقصان بھی پہنچا کہ وہ زیادہ مالدار ہونے کے بعد بگڑگئے انبیاء دمیں سے حضرت داؤدعلیہ السلام خود بادشاہ اور حکمران بھی تھے مگر آپ ایسی مالداری سے ہمیشہ  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جو سرکش کر دے آپ کی دعاؤں میں یہ تین دعائیں بھی مذکور ہیں:

(۱) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ کُلِّ فَقْرٍ یُّنْسِیْنِیِ

ترجمہ:                یا  اللہ  میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ہر ایسی غریبی اور فقر سے جو مجھے اپنا آپ بُھلا دے

(۲) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ کُلِّ غِنیً یُّطْغِیْنِیِ

ترجمہ: یا  اللہ  میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں ہر ایسی مالداری سے جو مجھے سرکش کردے

(۳) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ کُلِّ عَمَلٍ یُّخْزِیْنِیِ

ترجمہ:                یا  اللہ  میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ہر ایسے کام سے جو مجھے رسوا کر دے

خیر اپنی اپنی قسمت  اللہ  تعالیٰ میری اور آپ سب کی قسمت اچھی بنائے آج ایک ایسا وظیفہ عرض کر رہا ہوںکہ جو بھی اخلاص اور توجہ کے ساتھ کرے گا اُسے انشاء  اللہ  اور بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ یہ فائدہ بھی پہنچے گا کہ مالی تنگی ختم ہو جائے گی اور انشاء  اللہ  رزق کی فراوانی ہو جائے گی یہ ایک ایسا عمل اور وظیفہ ہے کہ جس کے فضائل قرآن پاک میں بھی آئے ہیں اور احادیث شریف میں بھی اور اس عمل کی برکت سے رزق کی تنگی دور ہونے کا پکّا وعدہ ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ یہ وظیفہ خود حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایاہے

حافظ اسماعیل بن فضل الاصبھانی سنے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایک دیہاتی شخص خلیفہ منصورعباسی کے پاس آیا اور اُس نے امداد مانگی، خلیفہ منصور نے کہا میں تمہیں مال تو نہیں دیتا البتہ ایک حدیث سناتا ہوں مجھے یہ حدیث میرے والد نے اپنے والد سے اور اُن کے والد نے اپنے دادا حضرت ابن عباسؓ سے بیان فرمائی کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا: جو کوئی پورا سال روزآنہ ایک ہزار بار  اللہ  تعالیٰ سے استغفار کر ے گا، وہ سال ختم ہو نے سے پہلے غنی ہو جائے گا یہ سن کر اُس دیہاتی نے یہ عمل شروع کر دیا جب سال کا اختتام ہونے والا تھا تو ایک دن شدید بارش ہوئی جس میں اولے بھی برس رہے تھے وہ اعرابی(یعنی دیہاتی) پناہ لینے کے لئے ایک کنیسے میں جا گُھسا اچانک اس کے سامنے کی زمین پھٹی تو وہاں ایک مٹکا تھا جس میں چھتیں ہزاردرہم کا خطیر مال موجود تھا یہ معاملہ منصور عباسی تک پہنچا وہ مدفون خزانوں سے پانچواں حِصّہ وصول کرتا تھا مگر اُس نے وہ بھی اس اعرابی کو معاف کر دیا

یہ ہے وہ وظیفہ جس کی تائید قرآن پاک کی کئی آیات اور کئی احادیث سے ہوتی ہے اُن سب آیات اور احادیث کو لکھوں تو مستقل ایک بڑے مضمون کی صورت بن جائے اس لئے آج صر ف ایک حدیث پاک پر اکتفا کرتے ہیں

ابو داؤد، ابن ماجہ اور مسند احمد کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

 قال رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ  اللہ  لِہُ مِنْ کُلِّ ضَیْقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجًا وَرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ

ترجمہ: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو استغفار کو لازم پکڑلے تو  اللہ  تعالیٰ اُسے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے کا راستہ عطاء فرمائے گا اور اُسے ہر پریشانی سے نجات عطاء فرمائے گا اور اُسے ایسے راستوں سے رزق دے گا کہ جن کا اسے گمان بھی نہیں ہو گا(مسند احمد)

اس حدیث شریف میں تین انعامات کا تذکرہ ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے طریقے سے رزق ملے گا جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا استغفار کہتے ہیںگناہوں پر ندامت اور شرمندگی کے ساتھ  اللہ  تعالیٰ سے معافی مانگنے کو اب آپ پوچھیں گے کہ ہم کونسا استغفار پڑھیں بات یہ ہے کہ صرف پڑھنا نہیں بلکہ استغفار کرنا ہے باقی استغفار کے کئی الفاظ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں سکھائے ہیں ان میں سے کوئی بھی پڑھ لیا کریں ہماری کتاب معمولات یومیہ میں چند مسنون صیغے مذکور ہیں اور اب جو انشاء  اللہ  مناجات صابری آرہی ہے اس میں تو نوے سے زائد مسنون اور مستند استغفار مذکور ہیں آج قصّہ سنانا تھا گیارہ سال پہلے والے ’’جون‘‘ کی راتوں کا مگر بات کہیں اور نکل گئی  اللہ  تعالیٰ اپنے فضل سے اسی کو قبول فرما لے آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

(304)

راتوں کے بعد

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو دنیا اور آخرت کے خسارے سے بچائےگزشتہ ہفتے جون 1999ء کی بعض ہولناک اور اُداس راتوں کا تذکرہ چھیڑا تھا ہم دشمنوں کی قید میں تھے، نہتّے، کمزور او ربے بس وہاں  اللہ  تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور ہمیں ایک’’جماعت‘‘ بنا کر قوّت عطاء فرمائی ہم ایک اندھی قید میں تھے جہاں رہائی کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں تھا ایسی قید انسان کو مفلوج اور مایوس کر دیتی ہےمگر  اللہ  تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے اُس نے اپنے بندوں کو ایسی اندھی قید میں بھی مفلوج اور مایوس نہ ہونے دیا رہائی کی خواہش سب کے دل میں تھی مگر اجتماعیت کو توڑ کر اور دوسروں کو عذاب میں چھوڑ کر جانے کی ہمت بھی نہیں تھی ایک بار تین افراد بآسانی فرار ہو گئے پیچھے رہ جانے والوں پر آفت ٹوٹا ہی چاہتی تھی کہ  اللہ  تعالیٰ نے مضبوط جماعت کی برکت سے حفاظت کا ہاتھ عطاء فرمادیا وہ واقعہ بھی عجیب ہے جیل حکام ہمیں کچّا کھا جانا چاہتے تھے مگر کچھ بھی نہ کر سکے تھوڑی بہت سختی، دھمکیاں اور پھر وہ خود مصیبت کا شکار ہو گئے بے شک جماعت میں بڑی برکت اور بڑی حفاظت ہے اور یہی مسلمانوں کی’’قوّت‘‘ کا راز ہے جو تین افراد فرار ہوئے تھے ان میں سے دو تو اپنی دنیا میں کھو گئے مگر ایک کے دل میں کچھ روشنی تھی یہ روشنی اُس نے جیل کی مجالس ذکر اور مجالس تعلیم سے حاصل کی تھی یہ روشنی اُس کے بہت کام آئی اُس نے مجاہدین کے ساتھ مل کر باقی ساتھیوں کی رہائی کی فکر کی یہ وہ چند مجاہدین تھے جو سالہا سال سے قیدیوں کی رہائی کے لئے ہر پتھر سے زور آزمائی کر رہے تھے وہ کبھی روتے، کبھی بلکتے، کبھی اغوا کے منصوبے بناتے، کبھی جیل پر حملے کی تدبیرسجاتے اور کبھی فضاؤں میں اڑتے طیاروں کو عقابی نظروں سے دیکھتے جیل سے رہا ہونے والے روشن قلب دیوانے نے ان کو اندر کے سارے حالات بتا دیئے اور وہ بھی کسی حد تک ان کا ہم سفر بن گیا اُدھر جیل میں سرنگ کھودنے کی تدبیر بنی اور جماعت اور اجتماعیت کی برکت سے یہ تدبیر آگے چل پڑی ہم نے اُن دنوں  اللہ  تعالیٰ کی نصرت کے وہ مناظر دیکھے جو کبھی نہیں بُھلائے جا سکتے جی ہاں ایسے مناظر! جو کبھی بھی ہمیں  اللہ  تعالیٰ سے مایوس نہیں ہونے دیتے سرنگ کی کھدائی میں جو کچھ ہوا اگر وہ سب کچھ آج کے عسکری ماہرین کو بتایا جائے تو وہ ماننے سے انکار کر دیں گے اور اپنا موٹا سا سر ہلا کر کہیں گے’’اِمپاسِبل‘‘ یعنی ناممکن اور اگر صحافیوں کو وہ سب کچھ بتا دیا جائے تو وہ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ سب کچھ انڈیا خود کرا رہا تھا تاکہ پاکستان کو بدنام کر سکے اتنی سخت جیل کہ جس کی سختی ضرب المثل تھی ایک سکھ ڈی ایس پی کہتا تھا دودھ سے دھی بنتی ہے، دھی سے لسّی بنتی ہے لسّی سے مکھن نکلتا ہے اور مکھن سے گھی بنتا ہے ہماری یہ جیل سیکورٹی میں گھی کی طرح ہے کہ یہاں آخری درجے کے حفاظتی انتظامات موجود ہیں ہاں!مشرک کو کیا پتا کہ  اللہ  تعالیٰ کی طاقت کیا چیز ہے تالوں کی چابیاں بن گئیں موٹی دیواروںمیں انسانوں کے نکلنے کے لئے ایسے سوراخ بن گئے کہ جب چاہا بند کر دیا اور جب چاہا کھول لیا کھدائی کے آلات برابر ہو گئے اور مشرکین کی ناک کے نیچے ساری رات کھدائی ہوتی اور مٹی بھی غائب ہو جاتی باہر موجود مجاہدین سے رابطہ تھا انہوں نے تمام اسیروں کی وصولی کا انتظام شروع کر دیا اسلحہ، سواریاں راستہ دکھانے والے اور تمام ضروری چیزیں تاریخ اور وقت طے ہو گیا جس رات وہ تیار تھے اُس رات ہم نہ نکل سکے اور جب ہم نکلنے کو تیار تھے تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ ابھی آپ چند دن انتظار کریںانتظار کے مسئلے پر’’جماعت‘‘ کا اتحاد لرز گیا جو لوگ سرنگ والے حصّے میں بیٹھے تھے اُن کے لئے خطرات کی وجہ سے انتظار ناممکن تھا اور جو کچھ دور تھے اُن کا خیال تھا کہ باہر کے انتظامات کے بغیر اتنے افراد آخر کہاں جائیں گے؟ بالآخر جماعت عارضی طور پر ٹوٹ گئی ہرایک کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ اپنے لئے جو مناسب چاہے اختیار کر لے تب کچھ دیوانے جماعت ہی سے چمٹے رہے اور انہوں نے اختیار لینے سے انکار کر دیا  اللہ  تعالیٰ کی شان کہ وہ آج بھی اُسی طرح چمٹے ہوئے ہیں  اللہ  تعالیٰ استقامت عطاء فرمائے اور جنت میں سب کو اسی طرح جمع فرمائے

بس اسی کشمکش میں خوفناک راتیں شروع ہو گئیں دھماکے، چیخیں ہولناک آوازیں زخمیوں کی آہ وپکار خوف، لرزہ، بے بسی اور اندھیرا واقعی عجیب مناظر تھے ہم حیران تھے کہ ہم زندہ کیسے ہیں برہمنی سامراج کے پجاری اس طرح دھاڑتے ہوئے حملہ آور ہوتے جیسے پاگل ہاتھی کمزور پودوں کو روند ڈالتے ہیں ساری رات لرزتے دل کے ساتھ ذکر اور دعاء میں گزرتی ہلکے سے کھٹکے پر دل دھڑکنے لگتے رات کے کسی پہر میں بیداری اورنیند کے درمیان تھا مجھے لگا کہ کمانڈر سجاد شہید میرے سیل میں داخل ہوئے مجھے کہا حضرت معاف کرنا میں اوپر جا رہا ہوں میں ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا وہاں نہ سجاد صاحب تھے نہ اُن کا کوئی نشان ہمیں اُن کی شہادت کی اطلاع نہیں تھی صرف اتنا پتا تھا کہ دشمن اُن کو تشدّد کا نشانہ بناتے ہوئے باقی گیارہ بارہ افراد کے ساتھ جیل کی دیوڑھی میں لے گئے ہیں میری پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی اور اگلے دن سہ پہر کے وقت ان کی شہادت کی خبر آگئی  اللہ  تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور اُن کو اعلیٰ علیین کا اونچا مقام عطاء فرمائے اُن کے مبارک خون نے ایک دم حالات بدل دیئے خوف اور مایوسی میں پڑے قیدی انتقام کے جذبے سے زندہ ہو گئے جیل میں نعرے گونجے مشرک بھیڑیئے کے دانت ایک دم غائب ہو گئے اور حالات میں عجیب تبدیلی آگئی ہم نے شرط رکھی کہ ہمیں سجاد صاحب کی زیارت کروائی جائے تمام زخمیوں کا عمدہ علاج کیا جائے اور بندشیں ختم کر دی جائیں شہید کا خون ٹھاٹھیں ما ر رہا تھا کل تک چیخنے دھاڑنے والے مشرک ایک دم بھیگی بلّی بن چکے تھے حالانکہ ہم جیل میں اُن کا کیا بگاڑ سکتے تھے مگر انتقام اور اخوت کا جذبہ بڑی نعمت ہے اگلے د ن جیل حکام مجھے ہتھکڑیاں پہنا کر ہسپتال لے گئے جہاں ہجرت، جہاد اور قید کے زخموں سے دولہا بنا ایک شہزادہ پر سکون انداز میں سو رہا تھا چہرے پر دلکش مسکراہٹ اور ماتھا زندہ لوگوں کی طرح گرم میں نے اُن کے ماتھے پر ہاتھ رکھا سلام کہا اور بھی معلوم نہیں کیا کیا باتیں اور کچھ تلاوتپھر انڈیا کے اُن سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوا جو اتفاقاً تمام مسلمان نام کے تھے اُن سے کہایہ حافظ قرآن،  اللہ  تعالیٰ کے راستے کا سپاہی آج تمہارے پاس ہے ان کی تجہیز و تکفین اسلامی طریقے سے کرنا انہوں نے وعدہ کیا میں نے آخری نظر ڈالی اور باہر نکل آیا ایک ڈی ایس پی، ایک انسپکٹر اور چند سپاہی ساتھ تھے سب ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ عجیب نور تھا اور عجیب مسکراہٹ اور عجیب سکون بات کچھ دور نکل رہی ہے واپس خوفناک راتوں کی طر ف آتے ہیں جب ہم پر یہ حالات ٹوٹے تو شیطان خوشی سے ناچ رہا تھا ہاں مسلمانوں پر جب کوئی ظاہری امتحان آتا ہے تو شیطان خوشی سے رقص کرتا ہے کہ لو! اب اسے شکار کرنا آسان ہو گیا کبھی ایک کان میں کہتا ہے کہاں ہے جہاد؟ کبھی پوچھتا ہے کدھر گئی نصرت؟ کبھی قہقہہ لگاتا ہے کہ ارے تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوتیں چھوڑو دعائیں اور عبادت کبھی ہمدرد بن کر آتا ہے کہچار دن کی زندگی ہے کچھ سکون سے گزار لو کبھی ناصح کے روپ میں آکر کہتا ہے کہ بہت ہو گئی عزیمت اب اگر موقع ملے تو زندگی کچھ اچھے ڈھنگ سے گزارنا کھانا، پینا، عیش کرنا اور کبھی ڈراتا ہے کہ بس اب تمہاری باری ختم، ناکام جئے اور ناکام مرو گے اب کبھی روشنی اور آزادی نہ دیکھو گے اب تم پر مزید امتحان آئیں گے تمہاری نمازیں، تمہارے وظیفے، تمہارے اذکار کس کام کے ہر دن نئی آفت ہے اور نئی مصیبت یہ سب شیطانی آوازیں انسان کے دل اور اعصاب پر حملہ آور ہوتی ہیں اور اُس کو بجھا کر رکھ دیتی ہیں اور بعض اوقات تو اُس کے دل کا نور تک چھین جاتی ہیں جیل میں ہماری آزادی ختم ہو چکی تھی ہمارا سامان اور ہمارے سیلوں کے سوراخ کسی بھی وقت پکڑے جا سکتے تھے اور ہم پرتشدّد کا ایک نیا دورشروع ہو سکتا تھا

مگر  اللہ  تعالیٰ کا فضل اور اُ س کی نصرت بند سلاخوں کے اندر سکینہ بن کر اُتر رہی تھی ماشاء  اللہ  ساتھیوں نے اُس وقت بھی ’’جماعت‘‘ نہ چھوڑی جب انہوں نے جماعت نہ چھوڑی تو نصرت نے بھی اُن کا ساتھ نہ چھوڑا دو تین دن کی دہشت کے بعد ماحول بدل گیا بند سیل کُھل گئے سخت پہرے ٹل گئے اور دُم اٹھا کر دھمکیاں دینے والے دُم دبا کر گُم ہو گئے  اللہ  تعالیٰ کی نصرت جب آتی ہے تو اُس کے کئی رنگ ہوتے ہیں ہم سب پھر قرآن پاک کی طرف متوجہ ہوئے مفصّل درس شروع ہوا تو  اللہ پاک نے قرآنی علوم کھولنا شروع فرمادیئے اب ہر ساتھی کی توجّہ ذکر اور قرآن کی طرف تھی میں درس سے فارغ ہوتا تو تصنیف پر بیٹھ جاتا دیکھتے ہی دیکھتے ’’یہود کی چالیس بیماریاں‘‘ کتاب تیار ہو گئی اور پاکستان بھی پہنچ گئی چند راتوں کے خوف کا مالک نے سب ساتھیوں کو کیا کیا بدلہ دیا یہ تو ہر ساتھی اپنی داستان خود ہی سنا سکتا ہے پھر رجب کا مہینہ شروع ہوا تو سب نے حفظ کی طرف توجہ کر لی شعبان میں پورا وارڈ تلاوت سے جھومتا تھا اور پھر نصرت والا رمضان المبارک آگیا صبح سے رات تک تلاوت، دَور تراویح اور تعلیم وتربیت درمیان میں خبریں بھی سنتے تھے ایک دن افطار کے وقت پتا چلا کہ ایک جہاز اغواء ہو گیا ہے جمعہ کا دن تھا ماحول میں امید کی خوشبو پھیل گئی مگر پرسکون راتوں کی جگہ بے چین اور بیدار راتوں نے لے لیدنیا میںہر نعمت سے پہلے کچھ تکلیف، کچھ آزمائش اور کچھ پریشانی آتی ہے ایک ماں کو بیٹے کی کتنی تمنا ہوتی ہے مگربیٹے کی ولادت سے پہلے ماں جس طرح کی راتیں کاٹتی ہے اگر کوئی بیٹا اُس تکلیف کا دسواں حصہ بھی سمجھ لے تو کبھی اپنی ماں کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولے ایک دن کی متضاد خبروں کے بعد واضح اعلان ہو گیا کہ طیارہ’’مجاہدین کرام‘‘ نے اغواء کیا ہے اور اُن کا مقصد اسیروں کی رہا ئی ہے ہم سب کے نام میڈیا پر آرہے تھے سجاد شہیدس کا تذکرہ بھی زوروں پر تھا مجاہدین نے اپنے مطالبات میں شہید کے جسم کو حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا جیل کی سیکورٹی سخت ہو چکی تھی ساتھی امید، خوشی، خوف اور بے چینی کی کیفیت میں تھےایسے وقت میں اجتماعی ماحول قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے خوشی یہ ہوتی ہے کہ شاید رہائی مل جائے خوف یہ کہ اگر کارروائی ناکام تو دشمن کو ہاتھ چلانے کا موقع مل جاتا ہے اور تمام ایسے افراد کو جن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہو دور دور کی سخت جیلوں میں بکھیر دیا جاتاہے اضطراب یہ کہ جنہوں نے ہماری خاطر اتنی بڑی قربانی دی ہے اُن کے ساتھ کوئی سخت معاملہ نہ ہو جائے ان کیفیات میں خدشہ تھا کہ تعلیم و تربیت کا نظام بکھر جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا ساتھی بے چینی کے عالم میں بھی منزل یاد کر تے اور سناتے رہے اور اسباق بھی باقاعدگی سے جاری رہے البتہ آہ و زاری اور دعاؤں میں اضافہ ہو گیا بالآخر بائیس رمضان جمعہ کا دن’’ فتح مبین‘‘ کی بشارت کے ساتھ طلوع ہوا اور آج الحمدﷲ وہ اکثر ساتھی رہا ہو چکے ہیں جنہوں نے وہ خوفناک راتیں دیکھی تھیں بے شک مایوس وہ ہو جس کا’’ربّ‘‘ نہ ہو دشمنوں سے خوفزدہ وہ ہو جو زندگی اور موت کا مالک  اللہ  تعالیٰ کے سوا کسی کو سمجھتا ہو اور حالات سے پریشان ہو کر کام اورجماعت سے وہ بھاگے جو عزت و ذلت، تقدیر اور روزی کا مالک  اللہ  تعالیٰ کے سوا کسی کو سمجھتا ہو  اللہ  تعالیٰ ایک ہے لا الہ الا  اللہ وہی ہمارا معبود اور ربّ ہے لا الہ الا  اللہ وہی زندگی اور موت کا مالک ہے لا الہ الا  اللہ وہی عزت و ذلت، تقدیر اور روزی کا مالک ہےلا الہ الا  اللہ ہم صرف اس کی رحمت کے امیدوار ہیں لا الہ الا  اللہ اور ہم صرف اُسی سے مدد اور اعانت کی بھیک مانگتے ہیں لاالہ الا  اللہ محمد رسول  اللہ

 اللّٰھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلیم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا  اللہ لا الہ الا  اللہ   لاالہ الا  اللہ

٭٭٭

زور دار محنت

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کلمہ طیبّہ

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 نصیب فرمائے یہی عظیم کلمہ ہماری دنیا ہے اور یہی عظیم کلمہ ہماری آخرت ہے

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اچھا!آپ بتائیں سب سے افضل ذکر کون سا ہے؟ حدیث پاک میں آتا ہے

سب سے افضل ذکر’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ ہے  اللہ  تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے

وَلَذِکْرُ  اللہ  اَکْبَر اور پھر ذکر میں سب سے بڑا ذکر’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ہے توپھر ہم کیوں نہ اپنی زبان سے بھی پڑھ لیں’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ اور اپنی روح سے بھی پڑھیں’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ اچھا آپ بتائیں کہ ایمان کا سب سے اونچا اور اعلیٰ شعبہ کونسا ہے؟ حدیث پاک میں آتا ہے ایمان کے ستّر سے کچھ زائد شعبے ہیں اور ان میں سب سے اونچا اور اعلیٰ شعبہ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کہنا ہے سبحان  اللہ ! ایمان کتنی بڑی نعمت ہے اور پھر ایمان کا سب سے اونچا شعبہ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ ہے

 اچھا آپ یہ بتائیں کہ ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کیا تھی؟ جواب تو آپ کو معلوم ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت تھی کہ لوگو!’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کہہ لو کامیاب ہو جاؤ گے ایک بار جمعہ کے دن میں ایک مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ابھی جمعہ کا خطبہ شروع نہیں ہوا تھا اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے جولا الہ الا  اللہ  کہہ دے گا وہ جنت میں داخل ہو گا میں نے کہا جی ہاں حدیث پاک میں بالکل صراحت کے ساتھ آیا ہے وہ شکرا دا کرنے لگا اور بار بار پڑھنے لگا لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

پھر کہنے لگا میرا دماغ ٹھیک کام نہیں کرتا میری زبان سے گالیاں نکل جاتی ہیں آپ دعاء کریں کہ  اللہ  تعالیٰ مجھے گالیوں سے بچائے وہ اٹھ کر چلا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ’’دیوانہ ‘‘ تھا کبھی دماغ درست ہو جاتا تو مسجد آجاتا سبحان  اللہ ! اُس کی روح میں کلمہ طیبہ اُترا ہوا تھااور ماشاء  اللہ  اُسے اس کلمہ کی قوّت اور تأثیر کایقین بھی تھا آج تو بہت سے ظاہری عقلمند’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کا مطلب ہی نہیں سمجھتے اور نہ اس کی قوّت اور طاقت کو مانتے ہیں ہائے افسوس ہر اُس محروم پر جو’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ سے محروم ہے جو’’محمد رسول  اللہ ‘‘ سے محروم ہے

 اچھا آپ یہ بتائیں کہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  کا جہاد کیا تھا؟

 جواب بالکل واضح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:۔

 اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا  اللہ

 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرتار ہوں یہاں تک وہ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کہہ دیں دیکھا آپ نے!’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کا جہاد کے ساتھ تعلق کتنا مضبوط ہے ذرا چند بار مزے لے کر اس حدیث شریف کے الفاظ پڑھیںیقینا ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ بھی دل میں اُترجائے گا اور جہاد بھی اچھی طرح سے دل میں بیٹھ جائے گا اس لئے تو مجاہدین کلمے کی دعوت بھی دیتے ہیں اورجہاد کی بھی کیونکہ ان دونوں کا رشتہ اورتعلق آپس میں بے حد مضبوط ہے نماز کے بعد’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ پڑھیں نماز قبول صدقہ کے بعد ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘  پڑھیں صدقہ قبول اور اس کلمے کو جتنا زیادہ پڑھتے چلے جائیں دل میں اُسی قدر روشنی بڑھتی چلی جاتی ہے او ردینِ اسلام کو سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہےشکر ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے بارہ سو بار ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کا ورد شروع کر دیا ہے ہر ننانوے کے بعد کلمہ مکمل کیا کریںلا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ اور درود شریف بھی پڑھ لیا کریں درود شریف بہت میٹھی، بہت پیاری، بہت مقبول اور بہت پرنور نعمت اور عبادت ہے

اچھا آپ یہ بتائیں کیا یہ اتنا عظیم کلمہ ہم تک آسانی سے پہنچ گیا؟  اللہ ،  اللہ ،  اللہ اے مسلمانو! اے کلمے کی ناقدری کرنے والو صرف ’’غار ثور‘‘ کے اُس منظر کو یا دکر لو جو قرآن پاک نے بیان فرمایا ہے ہاں یہ کلمہ’’غار ثور‘‘ سے گذر کر آیا ہے خونخوار مشرک اُس غار کے کنارے کھڑے تھے وہ صرف اچھی طرح نیچے جھانک کر دیکھ لیتے تو انہیں حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  صاف نظر آجاتے مشرک تو خون کے پیاسے تھے وہ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کی بنیاد ہی ختم کرنا چاہتے تھے اُن کی ساری دشمنی ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ سے تھی کیسا خوف، دہشت اور غم کا منظر تھا زبان رسالت سے ارشاد ہوا لَاتَحْزَنْ اِنَّ  اللہ مَعَنَا اے صدیق غم نہ کیجئے !  اللہ  تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے یہ کلمہ ہم تک پھولوں کے باغات سے نہیں آیا یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے خون، حضرات صحابہ کرامؓ کے جسموں کے ٹکڑوں اور بے انتہا آزمائشوں اور قربانیوں کے راستے سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے ماضی کے لوگ قربانی نہ دیتے تو میں اور آپ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ سے محروم رہ جاتے اورخدانخواستہ اگر ہم نے آج قربانی نہ دی تو ہم اپنی آئندہ نسلوںکے مجرم ہو ں گےجی ہاں قابل نفرت مجرم جنہوں نے کلمے کی امانت صرف جان اور امن کے خوف سے آگے نہ پہنچائی اس لئے لاز م ہے کہ ہم ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کو اپنے دل میں اُتاریں اور اس کلمے کو اتنا پڑھیں اور ایسا پڑھیں کہ یہ ہمارے سانس اور روح کا حصّہ بن جائے تب ہم اس کلمے کی امانت اٹھانے کے لائق ہو جائیں گے اور کلمے کی طاقت ہمیں اس کلمے کے کام پر کھڑا کر دے گی حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اب فتنوں کا دور ہے اس دور میں صرف دل والا اسلام کام دیتا ہے‘‘ ظاہری آنکھوں سے تو یہی نظر آرہا ہے کہ کفار دنیا بھر پر حکمران ہیں اُن کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے وہ جہاں چاہتے ہیں اُڑتے پِھرتے ہیں اور اُن کی طاقت بظاہر ناقابل شکست ہے یہ ظاہری باتیں جس مسلمان پر اثرکر جائیں تو وہ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کی حلاوت سے محروم ہو جاتا ہے اور اُس کے دل میں دنیا کی عظمت بیٹھ جاتی ہے لیکن وہ مسلمان جو دل کا مسلمان ہو اور اُس کے دل میں ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ اُترا ہوا ہو وہ کفار کی طاقت، قوت اور مالداری سے ہرگز متاثر نہیں ہوتا

ابھی قریبی زمانے کے مجاہدین کو دیکھ لیں کہ انہوں نے کس طرح سے کفر کی طاقت کا مقابلہ کیا دراصل ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘کی دنیا ہی اور ہے یہ کلمہ وہ روشنی دیتا ہے جس سے انسان کو’’حقیقت‘‘ نظر آتی ہے اور وہ دنیا کے دھوکے میں نہیں پڑتا قرآن پاک نے ایک بار نہیں با ر بار ارشاد فرمادیا ہے کہ دنیا کی زندگی محض دھوکے اور دکھلاوے کا سامان ہے اور ایک مسلمان کو کافروں کے اُڑنے، پھرنے اور مال بنانے سے ہر گز ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہئے

وہ تمام آیات اور اُن کا ترجمہ لکھوں تو مضمون کا موضوع بدل جائے گا آپ ماشاء  اللہ  کئی بار ان آیات کو پڑھ چکے ہوں گے مگریہ آیات دل میں اُتریں کیسے؟

کتنے خوبصورت ہوٹل، بنگلے، گاڑیاں جدید ہسپتال اور عجیب مشینیں فضاؤں اور خلاؤں کے سفر اور خوفناک جنگی طاقت روز نئی ایجادات اور ہالی وڈ کی چکا چوند لائٹیں طرح طرح کے کھانے، عجیب و غریب لباس اور مالداری کے ہوشربا تذکرے ان سب سے ایک انسان متاثر تو ہوتا ہی ہے آپ بڑے بڑے دینداروں کو دیکھیں گے کہ وہ کافروں کی ان چیزوں سے بُری طرح متاثر او ر مرعوب ہیں جبکہ قرآن پاک ان سب چیزوں کو دھوکہ ، فریب، عارضی تماشا اور غفلت سے تعبیر کرتا ہے

اب آپ بتائیے کہ سچا کون ہے؟ یقینا قرآن پاک سچا ہے اور قرآن پا ک کی سچائی اُسی کو نظر آتی ہے جس کے دل میں ایمان ہو یعنی وہ دل کا مسلمان ہو اور دل کا مسلمان بننے کے لئے ایک ہی طریقہ ہے کہ

’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ سے اپنے رشتے اور تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے اچھا اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں آتا تو تجربہ کر کے دیکھ لیں چند دن اہتمام کے ساتھ بارہ ہزار سے زیادہ تعداد میں لا الہ الا  اللہ  اور ایک ہزار بار درود شریف پڑھیں صرف سات دن کے بعد آپ اپنے دل میں واضح تبدیلی دیکھیں گے اور اس دل کو کفار کی ترقی بس یوں نظر آئے گی جس طرح بعض مچھر کچھ موٹے ہو جاتے ہیں

 اللہ  تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ اُس نے ہماری ادنیٰ سی جماعت کو توفیق دی ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کولا الہ الا  اللہ  کی دعوت دیں اور انہیں نماز پر لائیں کیونکہ جس نے نماز کو اختیار کیا اُس نے دین کو اختیار کیا اور جس نے نماز کو چھوڑ دیا اُس نے دین کو چھوڑ دیا دین کی ساری عمارت نماز کے ستون پر کھڑی ہے اور ہم ساری دنیا کے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دیں جی ہاں اسلام کی بلند ترین چوٹی جہاد فی سبیل  اللہ اور ہم لا الہ الا اللہ  کی خاطر دنیا بھر کے دشمنان اسلام سے جہاد کریں یہ ہے وہ نصاب جو  اللہ  پاک نے شہداء کرام اور فدائیوں کی مثالی قربانیوں کی برکت سے عطاء فرمایا ہے کلمہ ، نماز اور جہاد مسلمان اگر ان تین چیزوں پرآئے تو انشاء  اللہ  اُن کے لئے سارے دین پر چلنا آسان ہو جائے گا اور دنیا سے کفرکی ہیبت ختم ہو جائے گی ہمارے ایک سرپرست بزرگ تھے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق صاحب نور اللہ  مرقدہ بڑے  اللہ  والے ربّانی عالم تھے حدیث کے اُستاذ، شب بیدار، ذاکر شاغل، مبلّغ اور مجاہد یہ  اللہ  تعالیٰ کی بڑی عنایت اور  اللہ  تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ روزتاسیس سے جماعت کو ’’اولیاء ربّانیین‘‘ کی سرپرستی اور محبت حاصل رہی ہے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جماعت میں کام کرنے والے سب افراد مرتے دم تک جماعت سے جڑے رہیں کئی لوگ راستے میں ٹوٹ اور گِر بھی جاتے ہیں کیا آپ نے قرآن پاک میں شیطان کے نیٹ ورک کی تفصیل نہیں پڑھی؟ شیطان نے کیا قسمیں کھائیں، وہ کس طرح سے حملہ آور ہوتا ہے اور شیطان کے طور طریقے کیا ہیں  اللہ  رب العالمین نے ہمیں پہلے سے سب کچھ بتا دیاہےچنانچہ کئی لوگ شیطان کا شکاربھی ہوجاتے ہیں اور بعض ان میں ایسے ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے فتنہ بھی کرتے ہیں ماضی میں ایک بار ایسا زور دار فتنہ آیا کہ ہمیں دن میں تارے نظر آنے لگے  اللہ  تعالیٰ نے اپنے ایک مخلص ولی حضرت قاری محمد عرفان صاحب نور  اللہ  مرقدہ کے ذریعہ جماعت کی نصرت فرمائی وہ بالاکوٹ تشریف لے گئے اور کافی عبادت اور مراقبے کے بعد بہت جوش میں فرمایا ’’ا ﷲ ایک ہے اور وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہے‘‘ الحمدﷲ وہ فتنہ ایسا سرد ہوا کہ ہم حیران رہ گئے بے شک  اللہ  تعالیٰ کی طاقت بہت بڑی ہے  اللہ تعالیٰ کے یہ مقرّب اولیاء جو گھر بیٹھے کعبۃ  اللہ ا ور مدینہ منورہ سے فیض یاب ہوتے ہیں خاموشی کے ساتھ جماعت کی سرپرستی فرماتے رہتے ہیں حضرت مولانا محمد اسحاق صاحبؒ بھی جماعت کے بے لوث محب اور سرپرست تھے انہوں نے ایک بار بندہ کو خط لکھا جس میں ارشاد فرمایا کہ دین کے ہر عمل کی ایک تأثیر ہوتی ہے اور یہ تأثیر صرف اُسی عمل سے حاصل ہوسکتی ہے کسی اور عمل سے نہیں اور جہاد کی تأثیر یہ ہے کہ اس کی برکت سے کفر اور کفار دونوں ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَن یَّدٍوَّھُمْ صَاغِرُوْن

 آپ مولاناؒ کے اس فرمان پر غور کریں آج مسلمانوں کا بڑا فتنہ یہ ہے کہ وہ کفار سے مرعوب ہیں اُن کو بڑا مانتے ہیں، اُن کو کامیاب سمجھتے ہیں اُن کو اپنے سے افضل قرار دیتے ہیں اُن کی مثالیں اور اُن کے اقوال پیش کرتے ہیں اور نعوذب اللہ  اُن کو نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں مسلمانوں کی اس سوچ اور صورتحال نے اُن کو کلمے اور قرآن سے کاٹ دیا ہے وہ کبھی اپنی شکل بدلتے ہیں،کبھی اپنا دین بدلتے ہیں اور معلوم نہیں کیا کیا خرافات کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ دل میں کفار کی محبت، عظمت اور رعب کا آجانا بہت بڑی مصیبت اور بیماری ہے جی ہاں کینسر سے بھی زیادہ خطرناک بیماری  اللہ پاک ہم سب کی اس بیماری اور مصیبت سے حفاظت فرمائے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کفار کو ایسا مقام ملا کیوں کہ مسلمان اُن سے متاثر ہوں؟ جواب وہی ہے جو حضرت مولاناؒ نے ارشاد فرمایا کہ کفار کی ذلت’’جہاد‘‘میں تھی اور مسلمانوں نے عمومی طور پر جہاد چھوڑدیا تو کفار کی وہ ظاہری ذلّت ختم ہو گئی اور وہ اس پوزیشن میں آگئے کہ مسلمانوں کو اپنی حالت سے گمراہ کرتے ہیں کلمہ طیبہ کی زور دار محنت اپنی ذات پر اپنے خاندان پر اور سب مسلمانوں پر نماز کی زور دار محنت اپنی ذات پر اپنے خاندان پر اور سب مسلمانوں پر دعوت ِجہاد کی زور دار محنت اپنی ذات پر اپنے خاندان پر اور سب مسلمانوں پر  اللہ  تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ

لا الہ الا  اللہ  محمدر سول  اللہ

 کی برکت سے ہم سب کو اس مبارک نصاب کی توفیق عطاء فرمائے اور  اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے

لا الہ الا  اللہ  محمدر سول  اللہ

 نصیب فرما دے

 آمین یا ارحم الراحمین

 اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ  ،لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (306)

 

طاقت، قوّت

 اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم   اللہ  تعالیٰ کے رسول ہیں

 ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘

 اللہ  تعالیٰ جسے’’عزت‘‘ دینا چاہے ساری مخلوق مل کر اُسے ’’ذلیل‘‘ نہیں کر سکتی اور  اللہ  تعالیٰ جسے’’ذلّت‘‘ دے اُسے آسمان و زمین کی تمام مخلوقات مل کر بھی عزت نہیں دے سکتیں

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

آج کی مجلس میں ارادہ ہے کہ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے دو عجیب واقعات عرض کئے جائیں انشاء  اللہ دیکھیں یہ ارادہ پورا ہوتا ہے یا نہیں رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں، گرمی کا موسم ہے دل چاہتا ہے کہ آج کے رنگ و نور کی ہر سطر میں بسم  اللہ ، کلمہ طیبہ اور درود شریف لکھتا جاؤں

 بسم  اللہ  الرحمن الرحیملا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ اللھم صلّ وسلّم علیٰ سیدنا محمّد

تاکہ لکھنے والے کو بھی فائدہ ہو اور پڑھنے والے بھی جتنا پڑھتے جائیں اسی قدر اجرِ عظیم اور نور کے خزانے جمع کرتے جائیں  اللہ  کے بندو! کلمہ طیبّہ کو اپنے ربّ سے حاصل کرو ہم مسلمانوں کے گھر پید اہوئے اورہمیں یہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ یاد کرا دیا گیا یہ بھی بڑی عظیم نعمت ہے مگر معلوم نہیں کہ ہمیں اس کلمے کی حقیقت اور اس کاشعور بھی نصیب ہوا ہے یا نہیں ہاں اگر سب مسلمان پورے یقین اور سمجھ کے ساتھ’’کلمہ طیبہ‘‘ پڑھ لیں تو آج دنیا کا رنگ ہی کچھ اور ہوکیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان موساد یا سی آئی اے کے لئے کام کرے؟ استغفر اللہ ، استغفر اللہ نا ممکن بالکل ناممکن قرآن مجید کی ایک پوری سورت اس بارے میں موجود ہے نام ہے سورۃ الممتحنہہو سکے تو ’’فتح الجوّاد‘‘ میں اُس کی تفسیر ملاحظہ فرمالیں کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان’’را‘‘ یا’’کے جی بی‘‘ کے لئے کام کرے؟ ناممکن بالکل ناممکن حرام بالکل حرام’’کلمہ طیبہ‘‘ پڑھنے والا کبھی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ارے  اللہ  کے بندو! ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ تو اتنا قیمتی کلمہ ہے کہ یہ جس کے دل میں اُتر جائے اُسے ساری دنیا کی دولت دیکر بھی نہیں خریدا جا سکتا میری یہ بات محض دعویٰ نہیں میں اس کے ثبوت میں لاکھوں کروڑوں مثالیں پیش کرسکتا ہوں آج کل افغانستان میں ’’مذاکرات‘‘ کا شور شرابا ہے ان مذاکرات میں وہی لوگ بکیں گے جو کلمے کی حقیقت اور طاقت سے محروم ہیں اور وہ صرف عادۃً یا رسمًا یہ کلمہ پڑھتے ہیں حضرت امیرالمؤمنین تواُس وقت بھی نہیں جُھکے تھے جب اُن سے اقتدار چھینا جا رہا تھا اور وہ ایک حکمران کی مسند سے ہٹا کر روپوشی کے غار میں دھکیلے جارہے تھےہاں بے شک’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کی خاطر اس طرح کی قربانی دینا بہت آسان ہو جاتا ہے آج کل پاک بھارت مذاکرات بھی شروع ہیں کلمے کی خوشبو سے محروم ہمارے مذاکرات کار مشرکوں سے لمبے لمبے وعدے کر رہے ہیں اور مشرک ایک بار پھر خوش ہیں کہ ہمیں عنقریب فتح ملنے والی ہے قرآن پاک ہم سے ایک بات پوچھتا ہے کہ جو لوگ تم سے پہلے گزر گئے بڑے عیش آرام، طاقت اور ٹھاٹھ والے کیا آج تم اُن میں سے کسی کی ہلکی سی آواز یا آہٹ بھی کہیں سنتے ہو؟ آہ!کتنا عجیب سوال ہے بڑی بڑی قومیں، بڑے بڑے ملک اوربڑے بڑے حکمران آج مٹی ہو گئے وہ جن کے چلنے سے زمین لرزتی تھی آج اُن کی ایک آہٹ بھی کوئی نہیں سنتا اور ان میں سے جو کلمے سے محروم تھے اُن کی روحیں صدیوں سے آگ میں تڑپ رہی ہیں، سسک رہی ہیں اور جس دنیا کو انہوں نے بڑی محنت سے آباد کیا تھا وہ اُن کا قبرستان بن گئی ہے کہاں ہیں چنگیز اورہلاکو؟ اور تاتاری لشکر؟؟ خاموشی ہی خاموشی بس پچاس سال اور گزرنے دو دنیا میں کہیں کسی اُبامہ، منموھن، زرداری،گیلانی کی آہٹ تک نہ ہو گی خزانے، گھراور کوٹھیاں یہاں رہ جائیں گی اور ان کے بارے میں ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہو گی اصل بات یہ ہے کہ زندگی تو

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 میں ہے جن کو یہ کلمہ نصیب ہو جاتا ہے وہ زندہ ہو جاتے ہیں عزت کے ساتھ جیتے ہیں سکون کے ساتھ مرتے ہیں اور مرنے کے بعد وہ عیش دیکھتے ہیں جن کا تصور نہ کسی شدّاد نے کیا نہ کوئی فرعون کر سکا اور نہ کوئی بل گیٹس یادنیا کا کوئی کھرب پتی کر سکتا ہے ہاں سچ کہتا ہوں کہ اگر عالم برزخ کا منظر ایک منٹ کے لئے دنیا والوں کو دکھا دیا جائے تو یہاں کے عیش و آرام والے کافر اُسے دیکھتے ہی خوف اور غم سے جل کر راکھ ہو جائیں آج تو یہ کہتے ہوئے بڑا مزا آتاہے کہ اتنے بلین فلاں بنک میں اتنی کوٹھیاں، اتنا بڑابزنس مگر یہ سب کچھ خاک کا ڈھیر ہے اصل نعمت تولا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ  کا یقین اور اقرار ہے مذاکرات کے تماشے چلتے رہتے ہیں ، یہ چلتے رہیں گے جہاد نے قیامت تک جاری رہنا ہے ہمیں اس میں ذرہ برابر شک نہیں کلمہ طیبہ کا نور مسلمان کو جہاد کاراستہ دکھاتا ہے آج اگر کلمہ طیبہ کی زور دار محنت کی جائے تو یقینا تمام محاذ، مجاہدین سے بھر جائیں گےیہی کلمہ طیبہ کا نور تھا جو صحابہ کرام کو بڑھاپے کی حالت میں بھی گھر نہیں بیٹھنے دیتا تھا کلمہ طیبہ کبھی بھی ظاہری طاقت کے توازن کو نہیں دیکھتاکیونکہ یہ کلمہ خود بہت عظیم طاقت ہے اگر کوئی ایسا ترازو بنایا جاسکے کہ جس میں سات آسمان اور سات زمینیں رکھی جا سکیں اور دوسرے پلڑے میںکلمہ طیبہ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ   رکھا جائے تو کلمہ طیبہ والا پلڑا جُھک جائے گا اور سات آسمان اور سات زمینیں اس کے مقابلے میں بادام کے چھلکے کی طرح ہلکی ہو جائیں گی زمین کتنی بڑی ہے؟ آسمان کتنا وسیع ہے؟ ساری دنیا کے سائنسدان مل کر ابھی تک آسمان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے وہ ابھی تک زمین کے مدار میں اُڑنیوالے سیاروں سے سر ٹکرا رہے ہیں پھر ہر اوپر کا آسمان نیچے کے آسمان سے بڑاہے سات آسمان  اللہ  اکبر کبیرا

سارے سیارے اورستارے تمام سورج اور چاند کلمہ طیبہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں ذرا دل کے جذبے سے پڑھیں

لا الہ الا  اللہ ، محمد رسول  اللہ

آسمان فنا ہو جائے گا زمین برباد کر دی جائے گی سورج چاند ستارے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے مگر یہ کلمہ باقی رہے گا اور اس کلمے کو یقین کے ساتھ پڑھنے والے ہمیشہ کی عیش والی زندگی سے سرفراز ہو ں گے

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

مسلمانو! سجدے میں گر کر  اللہ  تعالیٰ سے دعاء مانگو کہ یا  اللہ  ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کلمہ طیبہ

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 نصیب فرما دے ہمیں اس کلمے کا دائمی ایمان عطاء فرمادے ہمیں اس کلمے پر جینا، مرنا نصیب فرما دے ہمیں اس کلمے کااخلاص نصیب فرما دے ہمیں اس کلمے کا نور نصیب فرما دے ہمیں اس کلمے کی قوت اور طاقت نصیب فرما دے ہمیں مرتے وقت اس کلمے کا ورد نصیب فرما دے اور قبر، حشر، آخرت اور جنت میں ہمیں اس کلمے کا ساتھ نصیب فرما دے اور ہمیں اس کلمے کی عظمت کے لئے جہاد فی سبیل ﷲ کی توفیق عطاء فرما دے اور ہمیں اس کلمے پر مقبول شہادت عطاء فرما دے اور ہمیں اس کلمے کے تمام تقاضے سمجھنے اور پورے کرنے کی توفیق عطاء فرما دے اور ہماری اولاد میں نسل د ر نسل تاقیامت اس کلمے کو جاری فرما دے

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 درمیان میں ایک خوشخبری بھی سُن لیں الحمدﷲ مدرسہ اویس قرنی  رضی اللہ عنہ  بہاولپور سے اب تک ایک سو ایک حفاظ نے قرآن پاک کی تکمیل کر لی ہے اور جزوی طور پر استفادہ کرنے والوں کی تعداد تین سو چارہے اور اس وقت الحمدﷲ اکیاون طلبہ مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں آپ جانتے ہیں کہ مدرسہ اویس قرنی  رضی اللہ عنہ کیا ہے؟ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مدرسہ ہے قرآن عظیم الشان کے وہ’’حفاظ‘‘ جو قرآن پاک بھول چکے ہیں انہیں اس مدرسے میں داخلہ دیا جاتا ہے اورالحمدﷲ تین ماہ کے عرصہ میں حفظ کی تجدید کرا دی جاتی ہے اس مدرسہ کو قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا آج جب مجھے مدرسے کے ناظم صاحب کی طرف سے یہ خبر ملی کہ ماشاء  اللہ ’’ایک سو ایک‘‘ حفاظ کرام نے اس مدرسے سے حفظ کی تجدید کی ہے تو دل خوشی سے لبریز ہو کر لا الہ الا  اللہ پڑھنے لگا کسی گھر کے روٹھے ہوئے لاڈلے کو کوئی سمجھا بجھا کر اورمنا کرواپس گھر لے آئے تو گھر والے اُس سے کتنے خو ش ہوتے ہیں حفظ کرنے کے بعد قرآن پاک کوبُھلانے والے بھی روٹھے ہوئے لوگ ہیں جی ہاں قرآن پاک سے بھاگے ہوئے، روٹھے ہوئے شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ واپس نہ آئیں وہ حفظ کی تجدید کو پہاڑ بنا کر پیش کرتا ہے الحمدﷲ مدرسہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ  کے روحانی، اصلاحی ماحول میں یہ مشکل کام آسان ہو جاتا ہے رمضان المبارک قریب ہےکچّے حفاظ سے درخواست ہے کہ آپ جوق در جوق اس مدرسہ میں تشریف لائیں نہ کوئی فیس ہے، نہ ہی داخلے کی کڑی شرائط نہ مار، نہ پٹائی نہ تشہیر نہ کوئی نمائش محض ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کی نسبت سے قائم ہونے والا ایک ادارہ جہاں صرف  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے آپ کی خدمت کی جاتی ہے اور آپ کے لئے حفظ قرآن کی سہولت کو مزید آسان کیا جاتا ہے مسلمانوں کو’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کی برکت سے جو عظیم نعمتیں دنیا ہی میں مل گئی ہیں ان میں قرآن پاک بڑی نعمت ہے  اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے ! قرآن پاک کی طرف جماعت کی توجہ شروع دن سے ہو گئیاس وقت جماعت کے زیر انتظام چھ مقامات پر ’’آیات جہاد‘‘ کا دورہ تفسیر جاری ہے بلوچستان کے دالبندین سے لے کر سرحد کے پشاور تک راولپنڈی، مردان، کوہاٹ اورپتوکی میں’’دورات تفسیر‘‘ جاری ہیں اس سے پہلے’’دیر بالا‘‘ میں مردوں کا اور کراچی میں خواتین کا ’’دورہ تفسیر‘‘ الحمدﷲ بہت کامیاب رہا یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور قابل شکر نعمت ہےجماعت کے زیر انتظام حفظ قرآن اور ناظرہ کے کئی مدارس بھی چل رہے ہیں اس سال بھی الحمدﷲ کئی خوش قسمت افراد نے حفظ قرآن کی تکمیل کی ہےقرآن پاک نے کلمہ طیبہ کی مثال اُس درخت سے دی ہے کہ جس کی جڑیں بہت گہریاورشاخیں آسمان تک بلند ہوتی ہیں اور وہ درخت  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا رہتا ہے واقعی کلمہ طیبہ

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 کی برکت ہے کہ میدان عمل میں غزاۃ کا ہجوم ہے میدان عمل کی تربیت پانے والوں کی تعداد دولاکھ سے بڑھ چکی ہے شہداء کرام سترہ سو مساجد چالیس کے لگ بھگ اور مدارس تیس کے قریب نشریات کا دور دراز ملکوں تک روشنی پھیلاتانظام اور سمندروں اور پہاڑوں سے ٹکراتی دعوت لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد شروع میں دو واقعات عرض کرنے کا تذکرہ تھا لا الہ الا  اللہ  کی بہاروں میں قلم ایسا کھویا کہ کالم کی جگہ پوری ہو چکی اُن دو واقعات میں سے جو مفصل ہے اُسے چھوڑ دیتے ہیں دوسرا جو مختصر ہے اُس پر آج کی مجلس کا اختتام کرتے ہیں امام بیہقی سنے ’’الشعب‘‘ میں بکر بن عبد اللہ  المزنی س سے نقل فرمایا ہے کہ ایک مشرک بادشاہ،  اللہ  تعالیٰ کا بہت سرکش باغی تھا( اُس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ و قتال کی آگ بھڑکا رکھی تھی) مسلمانوں نے اُس کے مقابلے میں جہاد کیا اور اُسے شکست دے کر زند ہ گرفتار کر لیا اب آپس میں مشورہ ہوا کہ ایسے ظالم سرکش کو کس طرح سے قتل کیا جائے؟ بالآخر اس بات پر اتفاق ہوا کہ تانبے کی ایک بڑی دیگ میں اسے ڈال دیا جائے اور اس دیگ کے نیچے آگ جلائی جائے تاکہ یہ تکلیف کا مزہ چکھے چنانچہ اُسے دیگ میں بٹھا دیا گیا اور نیچے آگ جلا دی گئی

 اُسے جب گرمی اور تکلیف پہنچی تو اُس نے اپنے اُن خداؤں اور دیوتاؤں کو پکارنا شروع کیا جن کی وہ پوجا کرتا تھا وہ ان دیوتاؤں کو پکارتا اور کہتا کہ میں نے تمہارے لئے سجدے کئے، تمہارے لئے فلاں فلاں کام کئے مجھے اس تکلیف اورعذاب سے بچاؤدیگ گرم ہو رہی تھی اور کوئی دیوتا اُس کے کام نہیں آرہا تھا جب اُسے یقین ہو گیا کہ یہ سب جعلی معبود اُس کے کسی کام کے نہیں تو اُس نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور کہا

لا الہ الا  اللہ

پھر پورے اخلاص سے  اللہ  تعالیٰ سے دعاء کی اور کہا

 لا الہ الا  اللہ

 پس اُسی وقت  اللہ  تعالیٰ نے بارش بھیج دی جس نے آگ کو بجھا دیا اور ایک زور دار ہوا آئی جو اُس دیگ کو اڑا کر لے گئی اب وہ فضا میں اڑتا جارہا تھا اور پڑھ رہا تھا

 لا الہ الا  اللہ

 پھر ہوا نے اُسے کسی اجنبی قوم میںپھینک دیا جو اُسے نہیں جانتے تھے وہ اس وقت بھی دیگ میں پڑھ رہا تھا

 لا الہ الا  اللہ

لوگوں نے اُسے دیگ سے نکالااور پوچھا کہ تیرا کیا معاملہ ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں فلاں قوم کا بادشاہ ہوں اورمیرے ساتھ یہ یہ معاملہ پیش آیا ہےقصہ سن کر وہ پوری قوم بھی ایمان لے آئی

لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ

 دیکھا آپ نے کلمے کی طاقت اور اُس کی تأثیر کا ایک سچا منظرہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے تمام مسائل اسی کلمے کی تاثیر اور طاقت کے ذریعہ حل کرائیں اور اس کلمے کو اپنی روح اور دل میں اُتاریں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

 

307

سبق آموز واقعہ

سبق آموز واقعہ

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ پر ایمان کامل اور ’’ایمان دائم‘‘ نصیب فرمائے

ہم سب خوش نصیب ہیں کہ  اللہ  تعالیٰ ہمیں اپنے عظیم کلمے کا تذکرہ کرنے کی توفیق عطاء فرما رہے ہیں

الحمدﷲ رب العالمین کیا معلوم کہ یہ ہماری زندگی کے آخری دن ہوں اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس کا آخری قول’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ہو گا وہ جنت میں داخل ہوگا الحمدﷲ رب العالمین

دو واقعات عرض کرنے تھے ایک توگذشتہ کالم میں آگیا دوسرا واقعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے اور کچھ تفصیلی ہے ہم اُس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں

بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص تھا لوگوں سے الگ تھلگ ایک غار میں قیام پذیر بنی اسرائیل اُس کی عبادت گزاری اور نیکی سے متاثر تھے، ایک بار انہوں نے اپنے’’نبی  علیہ السلام‘‘ کے سامنے اُس عابد کا تذکرہ کیا اور اُس کی بہت تعریف کی نبی علیہ السلام نے فرمایا ہاں! اگر وہ شخص ایک سنت کا تارک نہ ہوتا تو وہ ایسا ہی تھا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو بات عابد تک پہنچی وہ پریشان ہو گیا کہ دن بھر روزہ رکھتا ہوں، پوری رات قیام کرتاہوں پھر بھی میں’’تارک ِسنّت‘‘ ہوں تو میں اپنے آپ کو کیوں تھکا رہا ہوں؟ وہ اپنی عبادت گاہ سے اُتر آیا اور نبی  علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا سلام دعاء کے بعد تعارف ہوا اُس نے نبی سے پوچھا کہ آپ کا یہ فرمان مجھ تک پہنچا ہے نبی حنے فرمایا ہاں! تم نے شادی نہیں کی یہ ہے تمہارا سنَّت چھوڑنا عابد نے کہا بس یہی بات ہے؟ نبی نے فرمایا جی ہاں؟عابد نے اس بات کو کچھ ہلکا سمجھا تو نبی نے فرمایا دیکھو! اگر تمام لوگ تمہاری طرح نکاح کرناچھوڑدیں تو یہ نسل کس طر ح سے چلے گی؟ دشمنوں سے مسلمانوں کے بچوں کا دفاع کون کرے گا؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کون کرے گا؟ عابد کو بات سمجھ آگئی انہوں نے عرض کیا اے  اللہ  کے نبی! میں نے نکاح کو خود پر حرام نہیں کیا بلکہ میں ایک فقیر آدمی ہوں نکاح اور بیوی کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا نبی نے فرمایا! میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کرتا ہوں عابد راضی ہو گئے نکاح ہوا اور اُن کا ایک بیٹا پید ا ہوا بنی اسرائیل اس لڑکے کی ولادت پر بہت زیادہ خوش ہوئے وہ کہتے تھے یہ ہمارے نبی اور ہمارے عابد کا بیٹا ہے یہ بہت اونچے مقام والا ہو گا مگر جب وہ لڑکا بڑا ہوا تو مسلمانوں کو چھوڑ کر مشرکین سے جا ملا  بہت سے لوگ بھی مرتد ہو کر اِس سے آملے جب ان مشرکوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو اُس نے ان مشرکوں سے کہا! کیا وجہ ہے کہ ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے پھر بھی یہ مسلمان ہم پر غالب ہیں انہوںنے کہا! ان مسلمانوں کا سردار اور امیر ہے(یعنی یہ ایک جماعت کی صورت میں منظم ہیں) جبکہ ہمارا کوئی سردار نہیں اُس نے پوچھا کہ ان مسلمانوں کا سردار کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ تمہارے نانا ان کے امیر ہیں اُس نے کہا آج سے میں تمہارا سردار ہوں لوگ راضی ہو گئے اور وہ ان سب کا لشکر بنا کر مسلمانوں سے مقابلے کے لئے نکلا اُدھر مسلمانوں کو خبر ہوئی تو اس لڑکے کے نانا یعنی نبی ح اور والد یعنی عابد بھی اپنا لشکر لے کر نکلے انہوں نے اس نوجوان کو پیغام بھیجا کہ  اللہ  تعالیٰ سے ڈرو، بت پرستی چھوڑو یہ کیا ہے کہ تم خود بھی مرتد ہوئے اور اب ان کافروں کے سردار بن کر ہم پر حملہ آور ہو مگر وہ نہیں مانا دونوں لشکروں میں دو دن تک شدید جنگ ہوئی اس جنگ میں نبی علیہ السلام بھی شہید ہو گئے اور عابد بھی مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے بہت سے شہید ہوئے اور بہت سے قیدی بنا لئے گئے اُس نوجوان نے کہا! میں نے عہد کیا ہے کہ ان مسلمانوں کا پیچھا کروں گا اور پہاڑوں میں ان کو چُن چن کر ماروں گا

 باقی ماندہ مسلمانوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو ایک جگہ جمع ہوئے انہوں نے کہا! ہماری سلطنت ختم ہو گئی ہمارے نبی اور عابدشہید ہو گئے اور یہ اب بھی ہمارا پیچھا کر رہا ہے کہ ہم سب کاخاتمہ کر دے آؤ  اللہ  تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کرتے ہیں تاکہ اگر ہم مارے بھی جائیں تو توبہ کی حالت میں قتل ہوں انہوں نے سچے دل سے توبہ کی اور اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر مقرر کیا اور جہاد کے لئے تیار ہوگئے تین دن تک دونوںلشکروں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی جب  اللہ  تعالیٰ نے انہیں ایمان او ر توبہ پر سچا اور ثابت قدم پایا تو اُن پر رحمت کی توجہ فرمائی اچانک ہوا چلنے لگی، مسلمانوں کے امیر نے کہا مجھے امید ہے کہ ہماری توبہ قبول ہو گئی ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ہوا ہماری نصرت کے لئے اُتاری گئی ہے اگر  اللہ  تعالیٰ تمہیں فتح دے تو کوشش کرنا کہ یہ نوجوان زندہ گرفتار ہو جائے لڑائی شروع ہوئی دن کے آخری حصے میں  اللہ  تعالیٰ کی نصرت نازل ہوئی مشرکین کو شکست ہوئی مسلمانوں کو اُن کا علاقہ واپس مل گیا اور وہ نوجوان زندہ گرفتار کر لیا گیا مسلمانوں کے بڑے جمع ہو کر اُس کے بارے میں مشورہ کرنے لگے کہ ایسے مجرم کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کسی نے کہا اسے آگ میں جلا دو کسی نے کہا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو امیر نے کسی کی بات نہ مانی تو سب نے کہا آپ جو مناسب سمجھیں کرلیں امیر نے حکم دیا کہ اسے زندہ سولی پر لٹکا دیا جائے اُسے لٹکا دیا گیا اُس کے ارد گرد سخت پہرہ مقرر تھا وہ تین دن تک اسی طرح بھوکا پیاسا لٹکا رہا تین دن بعد رات کے درمیانی حصے میں اُس کی ہمت جواب دے گئی وہ ایک ایک کر کے اپنے بتوں کو پکارتا رہا مگر کوئی جواب نہ آیا بالآخر اُس کے دل سے سارے بت نکل گئے اور دل میں’’ لا الہ الا  اللہ ‘‘ آگیا اُس نے پکار کر کہا یا  اللہ ! میں تکلیف میں ہوں، میں جن کی پوجا کرتا تھا اگر ان میں کوئی خیر ہوتی تو وہ میری مدد کرتے اے میرے نانا اور والد کے رب میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں آپ مجھے اس مصیبت سے خلاصی عطاء فرمائیے میں توبہ کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں پس اُسی وقت رسی کھل گئی او ر وہ زمین پر آگیا پہرے دار اس کو پکڑ کر اپنے امیر کے پاس لائے امیر نے کہا تمہارا اس کے بارے میں کیا مشورہ ہے انہوں نے کہا ایسے آدمی کے بارے میں ہم کیا مشورہ دیںجسے  اللہ  پاک خلاصی عطا فرما رہاہے چنانچہ اُسے چھوڑ دیا گیا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  اللہ  کی قسم اس کے بعدبنی اسرائیل میں اُس سے بہتر کوئی شخص نہیں تھا (اخرجہ البیہقی فی’’الشعب‘‘)

دیکھا آپ نے’’لا الہ الا  اللہ ‘‘کیسے کیسے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اس نوجوان کے گناہ تو شمار کریں ایک ایک گناہ ایسا ہے کہ زمین لرز جائے مگرجب دل کی سچائی کے ساتھ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘پر آیا تو سب کچھ مٹا دیا گیا

اس واقعہ سے کئی اہم اسباق ملتے ہیں مثلاً

(۱) نکاح تمام انبیاء د کی سنّت ہے نکاح سے ایمان کو قوت اورحفاظت ملتی ہے اس لئے شریعت کے مطابق نکاح کا اہتمام کیا جائے

(۲)     جب کوئی ایسا رشتہ مل جائے جو دین کے اعتبار سے پسندیدہ ہو تو پھر مال وغیرہ کی فکر میں نہ پڑا جائے بنی اسرائیل کے نبی کو ایک ایسا شخص اپنی بچی کے لئے ملا جو اگرچہ بالکل فقیر او ر نادار تھا مگر اُس کی دینی حالت قابل رشک تھی تو انہوں نے خود کہہ کر رشتہ عطاء فرمادیا آج کل بہت سے لوگ اپنی مسلمان بیٹیوں کو صرف مال کی خاطر سود خور، بے نمازی، بددین اور بے ایمان لوگوں کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اوریوں اُس کا اور اُس کی نسل کا پورا مستقبل برباد کر دیتے ہیں اے ایمان والو! خود بھی آگ سے بچو اور اپنے خاندانوں کو بھی اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہوں گے

(۳)     جہاد سابقہ اُمتوں میں بھی مشروع تھا اور بڑا عمل تھا حتیٰ کہ نکاح بھی اس لئے کیا جاتا تھا کہ جہاد کرنے کے لئے افراد پیدا ہوں امام بخاری س نے اس موضوع پر مستقل باب باندھا ہے کہ کوئی شخص اس نیت سے بیوی سے ملے کہ  اللہ  تعالیٰ مجھے جہاد کرنے والا بیٹا عطاء فرمائے

(۴)     اسلامی برادری کی بنیاد’’دین‘‘ پر ہے نہ کہ علاقہ، خاندان یا زبان پر جب وہ لڑکا مرتد ہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے نکلا تو وقت کے نبی اور عابد اُس کے مقابلے میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے خاندانی تعلق دین کے راستے کی رکاوٹ نہ بنا

(۵)     جماعت، تنظیم، نظم و ضبط اور ایک امیر کا ہونا یہ غلبے اور کامیابی کا ذریعہ ہے اور کامیابی کا یہ راز سب کے لئے ہے خواہ مسلمان ہوں یا کفار جو بھی پوری طرح متحد ہوتا ہے اُسے دنیاوی طور پر ترقی اور فائدہ ملتا ہے البتہ مسلمانوں کے لئے یہ اس لئے بھی لازم ہے کہ  اللہ  تبارک و تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہےچنانچہ جو لوگ اپنی ذاتی اغراض اورمفادات کے لئے جماعت کو کمزور کرتے ہیں وہ مسلمانوں کے دشمن اور اُن کی ترقی میں رکاوٹ ہوتے ہیں

(۶)     کفر اور اسلام کے مقابلے میں اسی طرح حق اور باطل کے مقابلے میں کبھی کبھی کچھ وقت کے لئے کفر اور باطل کو غلبہ بھی حاصل ہو سکتا ہےجیسے اس واقعہ میں آپ نے پڑھا کہ مشرکین غالب آگئے حتیٰ کہ مسلمانوں کے نبی اور عابد بھی شہید ہو گئے اور اُن کے علاقے پر بھی کافروں کا قبضہ ہو گیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدانخواستہ کفر برحق تھا بلکہ اس طرح کے حالات میں بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں قرآن پاک میں غزوہ اُحد کے حالات پڑھیں تو اس طرح کی صورتحال کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے

(۷)  جہاد میں شہید ہونا بہت عظیم سعادت ہے یہ محرومی، ناکامی اور ہلاکت نہیں ہے سابقہ اُمتوں میں کئی انبیاء د اور اُن کے  اللہ  والے ساتھی جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے شہادت کی موت ایسی چیز ہے کہ اس میں مارنے والا ناکام اور مرنے والا کامیاب ہوتا ہے سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

(۸)     جب اہل اسلام پر جہاد میں مشکل وقت آئے تو وہ اس فکر میں نہ پڑیںکہ اب ہم نے جان بچانی ہے اور باقی زندگی کسی جگہ امن چین سے گزارنی ہے بلکہ اُن کوفوراً یہ فکر لاحق ہو جانی چاہئے کہ کہیں یہ تمام حالات ہمارے گناہوں کی وجہ سے تو نہیں آئے؟ چنانچہ فوراً استغفار کی طرف متوجہ ہوجانا چاہئے یہی مؤمن اور منافق کا بڑا فرق ہے جب مشکل حالات آتے ہیں تو منافق چیخ پڑتاہے کہ’’ہائے میری جان‘‘ اور مؤمن تڑپ کر کہتا ہے’’ہائے میرا ایمان‘‘ منافق ایسے حالات میں بھگدڑ مچا دیتے ہیں خوف کی باتیں کرتے ہیں اور الگ رہ کر جان بچانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں جبکہ اہل ایمان فوراً توبہ، استغفار میں لگ کر  اللہ  تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرنے کی فکر کرتے ہیں

(۹)     جہاد میں اگر عارضی شکست ہو جائے تو جلد از جلد دوبارہ حملہ کرنے کی ترتیب بنائی جائے اس سے شکست کے بُرے اثرات دُھل جاتے ہیں اور فتوحات کے دروازے کُھل جاتے ہیں

شکست کے بعد اگرآدمی پیچھے ہٹ کر بیٹھ جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ کسی طرح دوبارہ حملہ آور ہو جائے تو اُس کے لئے کامیابی تقریباً یقینی بن جاتی ہے غزوہ اُحد میں ظاہری شکست کھانے والوں نے جب زخمی حالت میں غزوہ حمراء الاسد کا سفر کیا تو حالات کا پورا نقشہ ہی بدل گیا اس واقعہ میں بھی بنی اسرائیل کے بچے کھچے لوگوں نے جب نیا امیر مقررکر کے مقابلہ کیا تو  اللہ  تعالیٰ نے اُن کی نصرت فرمائی

(۱۰) مسلمان کو ہمیشہ  اللہ  تعالیٰ سے وابستہ رہنا چاہئے اور  اللہ  تعالیٰ ہی کے ساتھ جُڑا رہنا چاہئے بڑی اورعظیم شخصیات کا مقام بہت اونچا مگر ہر کسی نے موت کا مزہ چکھنا ہوتاہے جب کوئی آدمی اپنے ایمان یا اپنے دینی کام یا اپنے جذبے کو شخصیات کے ساتھ معلّق رکھتا ہے تو وہ ٹھوکر کھاتا ہے اس واقعہ میں بنی اسرائیل کے نبی شہید ہو گئے عابد شہید ہو گئے بے شمار مسلمان شہید ہو گئےمگر باقی ماندہ افراد نے یہ کہا کہ  اللہ  تعالیٰ تو موجود ہے وہ حیٌّ قیوم ہےہم اُسی سے توبہ کریں اوراُسی کی خاطر لڑیںتو  اللہ  تعالیٰ نے پوری قوم کو بچالیا جہاد کے میدان میں امیر بھی شہید ہو سکتا ہے اور کمانڈر بھیمسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے حادثات کے لئے ہر لمحہ تیار رہا کریں اورجب ایسے حادثات ہو جائیں تو ثابت قدم رہا کریں یہ تو ہوئے دس اسباق مگر سب سے اہم سبق یہ ہے کہ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ہر طرح کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے خواہ و ہ گناہ سمندروں سے بھی بڑے ہوں مگر شرط یہ ہے کہ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے اخلاص کیسے پید ا ہو؟ تو اس کا بھی سب سے مؤثر طریقہ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کثرت سے پڑھنا ہے

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

تین عظیم فوائد

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (308)

 

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو ’’ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کا ’’رنگ‘‘ نصیب فرمائے اور مجھے اور آپ سب کو’’ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کے نور سے منوَّرفرمائے آج بھی انشاء  اللہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے بارے میں چند باتیں ہوں گی ان باتوں کو لکھنے اور پڑھنے سے پہلے میں اور آپ اخلاص کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھ لیں

لا الہ الا  اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ الحمدﷲ ربّ العالمین

 ایک صاحب نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے روزآنہ دس ہزار بار ’’ لاالہ الا  اللہ ‘‘کے ورد کو اپنا معمول بنا لیا ہے  اللہ  تعالیٰ قبول فرمائے ایک صاحب نے پوچھا ہے !کیا میں اپنے تمام وظائف چھوڑ کر ’’ لاالہ الا  اللہ ‘‘ کے وردکو ہی اپنا معمول بنا لوں؟ بقول اُن کے اس سے بہت فائدہ ہو رہا ہے اُن سے عرض کیا کہ تلاوت اور درود شریف بھی ساتھ جاری رکھیں باقی تمام وقت بے شک یہی عظیم کلمہ پڑھتے رہیں لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں الحمدﷲ بہت سے لوگ کلمہ طیبہ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں یہاں ایک خوشخبری بھی سُن لیں’’جامع مسجد نور ڈسکہ‘‘ کا نام تو آپ نے سنا ہوگا لوگ دور دور سے اس دلکش اور حُسن کی پیکرمسجد کو دیکھنے آتے ہیں جی ہاں ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی خوبصورتی، رعنائی اور دلکشی کلمے، نماز اور جہاد کے نور سے منوّر آیاتِ جہاد سے مرصّع اور منقّش ایک بندۂ درویش کی قربانی کا روشن نمونہ  اللہ  تعالیٰ اس مسجد کو تا قیامت آباد رکھے میں آخری بار جب وہاں گیا تھا وہ منظر آج بھی آنکھوں میں ہے راستے کے دونوں طرف جہادی پرچم لہرا رہے تھے میں اُن کی اٹھکیلیاں دیکھ کر کچھ دیر کے لئے ’’کھو‘‘ سا گیاتھا ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے سب خوش اور پرجوش پولیس اور خفیہ والے بھی بہت تھے مگر وہ یوں لگ رہے تھے جیسے اعلیٰ باسمتی کے چاولوں میں چند کالے دانے پھر ایک جلسہ ہوا فلک بوس نعرے اور ایمانی جذبات خیر وہ تو پُرانی بات ہو گئی تازہ خبر یہ کہ کل رات پھر وہاں رونق چمکی ہے مسجد کے ساتھ ایک دیدہ زیب اور دلکش ’’قرآن ہال‘‘ کا افتتاح ہوا ہے جو بھی اس عمارت کو دیکھتا ہے وہ ’’ماشائ اللہ ‘‘ پڑھتا ہے قرآن عظیم الشان کی خدمت کا ایک نیا اسلوب ایک کروڑ دس لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیرہونے والا ایک’’ ہال‘‘ جہاں صرف اور صرف ’’  اللہ  رب العالمین‘‘ کا کلام پڑھاجائے گا یاد کیا جائے گا اور پڑھایا جائے گا کتنے خوش نصیب ہیں وہ پتھر، اینٹیں اور مٹی جو صرف قرآن پاک سنیں گے اور اُن سے بڑھ کر ہیں وہ خوش نصیب جنہیں اس ’’کارخیر‘‘ کی توفیق ملی کل رات گئے تک ایک پرجوش اور پرنور جلسہ ہوتا رہا حفاظ کی دستار بندی ہوئی اور مجاہدین کرام کے بیانات ہوئے میں کچھ دور بیٹھ کر اس بابرکت مجلس میں شریک رہا رات ڈیڑھ بجے دعاء کے ساتھ اختتام ہوا اور یوں ہزاروں افراد تک جہاد کی دعوت پہنچی ہے نا شکر اور خوشی کی بات؟

لا الہ الا  اللہ ، لاالہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ   الحمدﷲ رب العالمین

حضرت شاہ ولی  اللہ  محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کانام گرامی تو آپ نے بارہا سنا ہوگا آپ کی ولادت ۱۱۱۴ھ؁ اور وفات تریسٹھ سال کی عمر میں ۱۱۷۶ھ؁ کو ہوئی آپ نے ایک سو سے زائد کتب تصنیف فرمائیں، ان میں سے بہت سی کتابیں شائع ہو کر’’اُمت مسلمہ‘‘ کے نفع کا ذریعہ بنیں ’’حجۃ  اللہ البالغہ‘‘ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ تصنیف ہے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں’’احکام شریعت‘‘ کی حکمتوں کو بیان فرمایا ہے اور اسلام پر کئے جانے والے عقلی اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا ہے اصل کتاب عربی میں ہے مگر کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی اس مایہ ناز کتاب میں لکھتے ہیں کہ  ’’ لاالہ الا  اللہ ‘‘کے فوائد تو بہت زیادہ ہیں مگر ان میں سے تین فائدے بہت اہم ہیں

(۱)     شرک جلی کو دور کرنا

(۲)     شرک خفی یعنی ریاکاری کو دور کرنا

(۳)      اللہ  تعالیٰ کی معرفت کے راستے میں جو پردے اور حجابات آتے ہیں اُن کو دور کرنا

مطلب آپ سمجھ گئے ہوں گے شرک سب سے بڑا جُرم اور گناہ ہے قرآن پاک میں واضح اعلان ہے کہ  اللہ  تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتا اور شرک کرنے سے انسان کے تمام اعمال بالکل ضائع اور ختم ہوجاتے ہیں شرک سے بچنا اتنا ضروری ہے کہ اگر اس کی خاطر دنیا کی آگ میں جلنا پڑے تو وہ بھی خوشی سے گوارہ کر لینا چاہئے تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوموں کو شرک سے بچنے کا بہت تاکیدی حکم دیا لا الہ الا  اللہ شرک سے بچاتاہے  سبحان  اللہ ! کتنی عظیم تأثیر اور فائدہ ہے شرک کی ایک چھوٹی قسم ’’ریاکاری‘‘ ہے جسے شرک خفی کہتے ہیں یہ بہت موذی، ناپاک اور خطرناک بیماری ہے جو چپکے سے دل میں داخل ہو جاتی ہے اور انسان کے اعمال کو کھا جاتی ہے لا الہ الا  اللہ ریاکاری سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور تیسرا فائدہ یہ بتایا کہ  اللہ  تعالیٰ کی معرفت اور پہچان ایک انسان کے لئے سب سے بڑا علم ہے مگربہت سے ایسے پردے، حجابات اور رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے انسان  اللہ  تعالیٰ کی معرفت، محبت اور پہچان سے محروم رہتا ہے لا الہ الا  اللہ  کی تأثیر یہ ہے کہ وہ ان تمام پردوں اور رکاوٹوں کو دور کر کے انسان کے لئے اپنے مالک، معبود اور خالق کو پہچاننا آسان کر دیتا ہے سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم

 تھوڑا سا سوچیں کہ اگر مجھے اور آپ سب کو ’’  اللہ  رب العالمین‘‘ کی معرفت نصیب ہو جائے تو ہمیں اور کیا چاہئے آئیں اب حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کا ترجمہ پڑھتے ہیں

’’ان (اذکار) میں سے ایک ’’ لاالہ الا  اللہ ‘‘ہے ، اس کے بہت سے بطون(یعنی فائدے اور راز ہیں) پہلا بطن(یعنی فائدہ) شرک جلی کو دور کرنا ہے اور دوسرا شرک خفی کو دور کرنا ہے اور تیسرا  اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچنے سے روکنے والے پردوں کو دور کرنا ہے اور اسی کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان میں اشارہ ہے ’’ لاالہ الا  اللہ ‘‘کے لئے  اللہ  تعالیٰ سے ورے کوئی پردہ نہیں یہاں تک کہ یہ کلمہ سیدھا  اللہ  تعالیٰ تک پہنچتا ہے‘‘(حجۃ  اللہ  البالغۃ، الا ذکار وما یتعلق بھا)

حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تمام ذکروں میں افضل اور سب سے بڑھا ہوا ذکر کلمہ طیبہ ہے کہ یہی دین کی وہ بنیاد ہے جس پر سارے دین کی تعمیر ہے اور یہ وہ پاک کلمہ ہے کہ دین کی چکّی اسی کے گرد گھومتی ہے، اسی وجہ سے صوفیہ اور عارفین اسی کلمہ کا اہتمام فرماتے ہیں اور سارے اذکار پر اس کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی جتنی ممکن ہو کثرت کراتے ہیں، کہ تجربہ سے اس میں جس قدر فوائد اور منافع معلوم ہوئے ہیں کسی دوسرے میں نہیں(فضائل ذکر)

اخلاص پیدا کرنے کے لئے بھی جس قدر مفید اس کلمہ کی کثرت ہے اتنی کوئی دوسری چیز نہیں کہ اس کلمہ کا نام ہی’’جلاء القلوب‘‘(دلوں کی صفائی) ہے اسی وجہ سے حضرات صوفیہ اس کا ورد کثرت سے بتاتے ہیں اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی مقدار میں روزآنہ کا معمول تجویز کرتے ہیں(فضائل ذکر)

ایک مسلمان کو اور کیا چاہئے؟ اخلاص نصیب ہو جائے سبحان  اللہ یہ بہت بڑی کامیابی اور منزل ہے اخلاص کے بغیر نہ نماز قبول، نہ علم قبول، نہ شہادت قبول اور نہ سخاوت قبول

 شرک سے حفاظت ہو جائے یہ بڑی کامیابی ہے شرک سے  اللہ  پاک بہت نفرت فرماتے ہیں ریاکاری سے حفاظت ہو جائے یہ بڑی حصول یابی ہے کہ اسکی وجہ سے اعمال ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں  اللہ  تعالیٰ کی معرفت نصیب ہو جائے یہ تو بہت اعلیٰ مقام ہے  اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو نصیب فرمائے

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا نام بھی آپ نے بارہا سنا ہو گا انہوں نے اپنی معروف کتاب’’احیاء العلوم‘‘ میں ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے فضائل پر کئی احادیث اور روایات ذکر فرمائی ہیں اور لکھا ہے کہ کلمہ طیبہ کے کئی نام ہیں مثلاً

(۱) کلمۂ توحید

(۲) کلمۂ اخلاص

(۳) کلمۂ تقویٰ

(۴) کلمۂ طیبہ

(۵) دعوۃ الحق(سچی پکار)

(۶) عُروۃ الوثقی(مضبوط حلقہ)

(۷) ثمن الجنۃ(جنت کی قیمت)

 اور خود قرآن پاک نے اس کلمہ کو ’’القول الثابت‘‘ یعنی پکّی بات اور مضبوط ترین بات قرار دیا ہے

 لا الہ الا  اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ   اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والحمدﷲ رب العالمین

ایک حدیث شریف میں ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی اُمت کو اس کی تلقین فرمائی ہے کہ لا الہ الا  اللہ  کی کثرت کیا کرو اس سے پہلے کہ وہ رکاوٹ آجائے جو تمہیں اس کلمہ کے پڑھنے سے روک دے یعنی موت آنے سے پہلے پہلے اس کلمے کو پکّا کر لیا جائے تاکہ آگے کی تمام منزلیں آسان ہو جائیں حضرت فقیہ ابو اللیث ثمرقندی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ کثرت سے  ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ پڑھتارہا کرے اور حق تعالیٰ شانہ سے ایمان کے باقی رہنے کی دُعاء بھی کرتا رہے اور اپنے گناہوں سے بچتا رہے(فضائل ذکر)

 ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے فضائل، خواص، فوائد اور تأثیریں بہت زیادہ ہیں انشاء  اللہ  ’’رنگ ونور‘‘ کی کسی محفل میں ان تمام فوائد اور فضائل کا خلاصہ عرض کر دیا جائے گا آج صرف ایک حدیث شریف پڑھتے ہیں کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کس تاکید کے ساتھ حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو ہاتھ اٹھوا کر کلمہ طیبہ پڑھایا کرتے تھے اس روایت کو پڑھ کر آپ کو بھی یہ اندازہ ہوگا کہ رنگ ونور میں کئی ہفتے سے ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے موضوع کو اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے

’’حضرت شدّاد  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں اورحضرت عُبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت فرمایا:کوئی اجنبی (یعنی غیر مسلم) تو مجمع میں نہیں؟ ہم نے عرض کیا یا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوئی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دروازے بند کرنے کاحکم فرمایا اور ارشاد فرمایا اپنے ہاتھ اٹھاؤ اور کہو’’ لا الہ الا  اللہ ‘‘ ہم نے تھوڑی دیر ہاتھ اٹھائے رکھے(اور کلمہ طیبہ پڑھتے رہے) پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا الحمدﷲ! یا  اللہ  آپ نے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا ہے اور اس کلمہ پر جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور آپ وعدہ خلافی نہیں فرماتے اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے فرمایا کہ خوش ہو جاؤ، بے شک  اللہ  تعالیٰ نے تمہاری مغفرت فرما دی ہے(مسند احمد از فضائل ذکر)

 بے شک کلمہ طیبہ بہت ہی عظیم نعمت ہے، یہ ایمان کی جڑ ہے، اسی لئے اس کی جتنی بھی کثرت کی جائے گی اتنی ہی ایمان کی جڑ مضبوط ہوگی

لا الہ الا  اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمین

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ  

٭٭٭

309

لذیذ تھکاوٹ

 اللہ  تعالیٰ اپنا فضل فرما کر مجھ سے اور آپ سب سے اپنے دین کا مقبول کام لے اور ہم سب کو’’کارآمد‘‘ بنا دے کراچی میں ایک اور ذمّہ دار ساتھی’’شہید‘‘ کر دیئے گئے جناب قاری سلیم صاحب شہید  اللہ  تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے، اُن کی شہادت قبول فرمائے اور اُن کی نیکیوں کا بہترین بدلہ انہیں عطاء فرمائےاور اُن کے خاندان کو صبر جمیل نصیب فرمائے انا ﷲ وانا الیہ راجعون کراچی کو’’کلمہ طیبہ‘‘ کی ناقدری کے عذاب نے کھا لیا’’ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ پڑھنے والے جب خود کو مسلمان کہنے اور سمجھنے کی بجائے  اپنی نسبت زبانوں، قبیلوں اور علاقوں کی طرف فخر سے کرنے لگیں تو پھر وہ کہیں کے نہیں رہتے جی ہاں  اللہ  تعالیٰ کی غلامی سے نکلنے والے لوگ ہمیشہ ’’بدکار ظالموں‘‘ کے غلام بن جایا کرتے ہیں کراچی پر ظلم کا عفریت مسلّط ہے مگر پھر بھی بہت سے لوگ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ خود کو مسلمان کہتے اور مسلمان سمجھتے ہیں وہ گلی گلی نماز اور جہاد کی دعوت دیتے ہیں ایسے لوگ جب ناحق مارے جاتے ہیں تو پھر اُن کی عظمت اورشہادت میں کیا شبہہ رہ جاتا ہے بھائی سلیم صاحب! آپ کی روح کو ہمارا سلام پہنچے، آپ آگے چلے گئے ہم سب بھی آپ کے پیچھے آنے والے ہیں انشاء  اللہ  اللہ  تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کی بھی موت کا وقت مقرر ہے اور موت سے ڈرکر دین کا کام چھوڑ دینا اور جہاد سے بیٹھ جانا بڑی بیوقوفی اور ناکامی ہے لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمینڈسکہ میں’’قرآن محل‘‘ کی تعمیر سے دل بہت خوش ہے محترم چوہدری صاحب اور جس جس نے اس کار خیر میں حصہ لیا اُن سب کو مبارک گزشتہ رات جماعت کی کارگزاری سُن رہا تھا الحمدﷲ صرف اس سال تیس سے زائد افراد نے حفظ قرآن مکمل کیا ہے اور جن بُھولے ہوئے حفاظ نے دوبارہ یاد کیا ہے اُن کی تعداد ان کے علاوہ ہے واقعی شکر کا مقام ہے والحمدﷲ رب العالمین ابھی جب’’رنگ و نور‘‘ لکھنے بیٹھا تو خبر آئی کہ الحمدﷲ ’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ کی پہلی چھت پڑ گئی ہے سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم جامع مسجد سبحان  اللہ  کی پہلی چھت  اللہ ،  اللہ ،  اللہ کتنا مزہ آیا مسجد میرے  اللہ  کا گھر ہے نماز، اذان اور سجدوں کی جگہ اسلام اور مسلمانوں کی مرکزیت کا مقام ماشاء  اللہ  اتنی بڑی چھت تھی کہ ایک سو افراد دو تین دن تک مسلسل لگے رہے اس خوشی کی کِس کِس کو مبارک دوں آپ سب کو ہی مبارک اور سب سے بڑھ کر پیارے حضرت اباجی رحمۃ اللہ علیہ  کو مبارک وہ جب سے ہمیں چھوڑ کر وہاں گئے ہیں اُن کی مرقد کے ارد گرد ماشاء  اللہ  آبادی ہی آبادی ہے ایک دارالقرآن بن رہا ہے مدرسہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ  زوروں پر ہے اور اب جامع مسجد سبحان  اللہ لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمین

 ایک وقت تھا جب مجاہدین کے پاس اپنی مساجد نہیں تھیں دنیا دار کمیٹیوں والے خوف کی وجہ سے جہاد کا بیان نہیں کرنے دیتے تھےاستغفر اللہ ، استغفر اللہ جہاد،  اللہ  تعالیٰ کا محکم اور قطعی فریضہ ہے اس کی مخالفت کوئی سچا مسلمان کر ہی نہیں سکتا مگر قادیانی اثرات اور حبّ دنیا نے غضب ڈھا رکھا ہےجہاد کی مخالفت بڑی بدقسمتی ، بڑی نحوست اور کسی گندے گناہ کے اثرات کی وجہ سے ہوتی ہے اللہ  تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے قرآن پاک کی ایک آیت کا انکار بھی سنگین جُرم اور کفر ہے جبکہ جہاد وقتال کی آیات سے قرآن پاک بھرا ہو ا ہے مساجد کی کمیٹیوں میں عام طور پر مالدار لوگوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ بل اور تنخواہیں ادا کرنا آسان رہے اور مالدار لوگ اکثر جہاد سے محروم رہتے ہیں سوائے اُن کے جن پر  اللہ  تعالیٰ کا خاص فضل اور رحمت ہو اب الحمدﷲ پورے ملک میں جگہ جگہ ایسی مساجد آباد ہیں جن میں جہاد سمیت پورے دین کو بیان کیا جا سکتا ہے اس سال تو ہم نے مساجد کے پلاٹ لینے میں کافی سختی کی اکثر درخواستیں منظور نہیں کی گئیں فی الحال ہم اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ جو بھی پلاٹ دے اُس پر مسجد بنا سکیں اور پھر اُسے آباد بھی کریں

صرف مسجد بنانا ہی کافی نہیں ہوتا اُسے مسجد نبوی شریف کے اعمال سے آباد کرنا اصل کام اور مقصد ہے فی الحال بیالیس مساجد میں نماز، اور جمعہ کے علاوہ روزآنہ کی تلاوت، روزآنہ درس قرآنبالغ افراد کی دینی تعلیم اور فضائل جہاد کی تعلیم کو قائم کرنے کی محنت کامیابی کے قریب ہے یہ مرحلہ مکمل ہو تو انشاء  اللہ  کام کو آگے بڑھایا جائے بہر حال کافی سختی کے باوجود کئی پلاٹوں کی درخواستیں منظور ہوئیں یہ  اللہ  پاک کا فضل اور شکر ہے کہ اُس نے مجاہدین کو ان کاموں میں لگاکر اُن کے جہاد کو ترقی، قبولیت اور حفاظت عطاء فرمائی ہے ورنہ محاذوں سے آنے کے بعد مجاہدین بے کار کاموں میں اپنا وقت اور اجر ضائع کرتے تھے اور دفاتر کا زہریلا ماحول اُن کے ایمان کو چاٹ لیتاتھا اب ماشاء  اللہ  نئی مساجد کے پلاٹوں کا کام جاری ہے کاغذات وغیرہ درست ہو جائیں اور جامع مسجد سبحان  اللہ  قائم ہو جائے تو پھر انشاء  اللہ  جلد ہی ان پلاٹوں پر مساجد کی تعمیر شروع ہوگی واہ میرے مالک واہ محاذوں سے لے کر مساجد تک  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر

لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد

ہم مسلمانوں کا اذان سُن کر اتنا دل خوش ہوتا ہے کہ کیا بتائیں لوگ بدبودار فنکاروں کے گانے سُن کر خوش ہوتے ہیں مگر کلمے والے اذان سُن کر ایسا لطف لیتے ہیں کہ اُس کے سامنے کیا موسیقی اور کیا نغمے  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر

خطوط میں کئی افراد نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے تکبیر اولیٰ کے ساتھ چالیس دن کی نمازوں کامبارک چلّہ پورا کیا ہے ایک محبوب شخصیت نے بتایا کہ انہوں نے ماشاء  اللہ  دو چلّے پورے کئے ان سب کو دل کی گہرائی سے مبارک ہو مسلمان کی زندگی میں نماز کا آجانا تکبیر اولیٰ کی فکر پیدا ہونا جماعت کے ساتھ نماز کا شعور نصیب ہونا بڑی سعادت والی بات ہے یہ سچ ہے کہ جس کی نماز نہیں اُس کا دین نہیں دل چاہتا ہے کہ نماز کے بارے میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی  اللہ  عنہ کے اُس فرمان کو سونے کی روشنائی سے لکھ کر اپنے تمام ساتھیوں کو ہر روز بھیجا کروں جو آپؓ نے اپنے زیر حکومت تمام صوبوں کے گورنروں کو تحریر فرمایا تھا

 انّ اھَّم امور کم عندی الصلوٰۃ من حفظھا و حافظ علیھا حفظ دینہ ومن ضیعھا فھو لما سواھا اضیع

ترجمہ: تمہارے تمام کاموں میں میرے نزدیک سب سے اہم کام نماز ہے جس نے نماز کا مکمل طور پر اہتمام کیا اور اس کی خوب حفاظت کی تو اُس نے اپنے پورے دین کی حفاظت کر لی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ دین کے دوسرے کاموں کو اور زیادہ برباد کرنے والا ہو گا( مؤطا امام مالکؒ)

یہ حکمنامہ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ نے’’فارغ‘‘ افراد کو نہیں بھیجا تھا کہ آپ لوگ چونکہ فارغ اور بے کار ہیں اس لئے نمازوں میں لگے رہا کریں بلکہ یہ حکمنامہ اپنے اُن گورنروں کو بھیجا تھا جو دن رات عوام کی خدمت، بہبود اور دشمنان اسلام سے جہاد میں مشغول تھے

ان گورنروں پر ایک طرف یہ سختی تھی کہ ہر مظلوم کی مدد کریں ہر حق دار تک اُس کا حق پہنچائیں اپنے دروازے ملنے والوں کے لئے کھلے رکھیں اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کے حقوق اداکریں اور جہاد کی تیاری اور عملی جہاد میں لگے رہیں اُس زمانے کا کوئی بھی شخص ان گورنروں کی شکایت امیر المؤمنین تک پہنچا کر ان کی پیشی لگوا سکتا تھا پھر یہ گورنر کوئی معمولی لوگ نہیں زمانے کے افضل اور معزز ترین افراد تھے حضرات صحابہ کرام اور حضرات تابعین ایسے مصروف، مشغول اور معتمد افراد کو فرمایا جارہا ہے کہ آپ لوگوں کے کاموں میں سب سے زیادہ اہم، سب سے زیادہ قابل اہتمام اور سب سے زیادہ توجّہ کے لائق جو چیز ہے وہ ’’نماز ‘‘ ہے اسی سے اندازہ لگا لیجئے کیا ہم اُن حضرات سے زیادہ مشغول ہیں؟ کیا ہم اُن سے زیادہ کام اور جہاد کر رہے ہیں؟ ہر گز نہیں تو پھر ہمیں بھی اپنی اصل کامیابی کے لئے دینِ اسلام کے ’’سر‘‘یعنی نماز کو حاصل کرنے کی پوری محنت کرنی چاہئے اور اسے اپنا سب سے اہم کام بنانا چاہئے ہماری نماز جتنی مضبوط اور طاقتور ہوتی چلی جائے گی اُسی قدر ہمارے ایمان اور اعمال میں قوَّتْ آتی جائے گی اس لئے کہ  اللہ  تعالیٰ نے قوت حاصل کرنے کا ذریعہ نماز اور صبر کو بنایا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم نماز کی زیادہ دعوت دیا کریں اپنے گھر والوں کو ، دوستوں کو اور تمام مسلمانوں کویہاں ایک بات اورسمجھ لیں اگر  اللہ  تعالیٰ نے ہمیں یہ صفت دی ہو کہ لوگ ہماری بات سنتے ہوں تو اس نعمت کا جلد از جلد بھرپور فائدہ اٹھا لیںجی ہاں ایسا فائدہ جو ہمارے وہم وگمان سے بھی زیادہ ہو ہم میں سے بعض افراد ایسے ہیں کہ اُن کی بات آٹھ دس افراد سنتے اور مانتے ہیں بعض ایسے ہیں کہ سو، دو سو لوگ اُن کی بات سنتے ہیں اور بعض کے سامنے  اللہ  تعالیٰ بڑے بڑے مجمعے بٹھا دیتا ہے اور وہ پورا مجمع اُن کی بات سنتا اور اثر لیتا ہے بس یہی موقع ہوتا ہے ’’فائدہ‘‘کمانے اور اٹھانے کا  اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اُس سے زیادہ اچھی اور خوبصورت بات کس کی ہو سکتی ہے جو  اللہ  تعالیٰ کی طرف بُلائے……سبحان  اللہ   ہمیں طریقہ سمجھ آگیا ہم ہر اُس فرد کو جو ہماری بات مانتا ہو  اللہ تعالیٰ کی طرف بُلائیں یہ ایسا عظیم عمل ہے کہ اس کا فائدہ ہمارے وہم و گمان سے بھی زیادہ ہے کلمہ طیبہ کی دعوت، نماز کی دعوت، اور جہاد فی سبیل  اللہ  کی دعوت

 چھوڑیں اِدھر اُدھر کی باتوں کو بھول جائیں اپنی ذات اور اُس کی عزت وذلت کو بس ایک شوق، ایک ولولے ایک درد اور ایک کڑھن کے ساتھ  اللہ  تعالیٰ کے بندے کو  اللہ  تعالیٰ کا راستہ دکھا دیںیہ وہ بیج ہے جو آپ نے زمین میں بو دیا اب اس بیج سے کتنی نیکیاں نکلیں گی اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے بہت سے لوگ اپنی اس نعمت کوغیبت، فضول گوئی اور بد گوئی میں ضائع کر دیتے ہیں جو بھی اُن کی بات سنتا ہو اُسے اپنی ملکیت اور پراپرٹی بنانے کی کوشش کرتے ہیںبڑے بڑے پیر،بزرگ،علماء، مجاہدین اور خطباء اس معاملے میں گھاٹا کھا گئے انہوں نے  اللہ  تعالیٰ کے بندوں کو  اللہ  تعالیٰ سے جوڑنے کی بجائے اپنی ذات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور اُن کو غلط راستے پر ڈال کر خود کو بھی نقصان پہنچایا  اللہ  تعالیٰ نقصان اور گھاٹے سے ہم سب کی حفاظت فرمائےہم سب اپنے ارد گرد دیکھیں کہ میرے پاس آخرت کا کتنا ’’کیش ‘‘ ہے جی ہاں کتنے لوگ میری بات مانتے اور سنتے ہیں بس پھر فوراً ان سب کو  اللہ  تعالیٰ کی طرف بلائیں  اللہ  تعالیٰ سے جوڑیں،  اللہ  تعالیٰ کے فرائض پر لگائیں اور  اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت ان کے قلوب میں پیوست کرنے کی محنت کریں اور ساتھ ساتھ اپنے دل میں کہتے جائیں کہ یا  اللہ  اس محنت کی مزدوری میں صرف آپ سے لوں گا ان اجری اِلاّ علی  اللہ بس یہ وہ عمل ہے جو آپ کے لئے سعادتوں اور نیکیوں کے سمندر جاری کر سکتا ہے

 بہرحال بات اُن ساتھیوں کی چل رہی تھی جنہوں نے تکبیر اولیٰ کا چلّہ  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے پورا کر لیا ہے ان سب کو یہ سعادت مبارک ہو اب اسی کو اپنا مستقل طریقہ اور معمول بنالیں شیطان کہتا ہے کہ کچھ آرام کرو، کچھ آزاد زندگی گزارو اور کچھ ہلکے ہوجاؤ دراصل وہ ظالم ہمیںاپنا نوکر اور غلام بناناچاہتا ہے آپ نے اُن لڑکوں اور لڑکیوں کودیکھا ہو گا جو موبائل اٹھائے ہر وقت گناہ کی آگ میں جلتے رہتے ہیں نہ دن کو چین نہ رات کو آرام دین کا کام تو انسان کو نہیں تھکاتا مگر جب انسان، شیطان کے ہاتھوں شکار ہو جائے تو وہ تھکا تھکا کر مار دیتا ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرات صوفیاء کرام کی صحبت پائی اور اُن سے صرف یہ دو سبق سیکھے

(۱) وقت تلوار ہے اگر تم اسے نہیں کاٹو گے تو یہ تمہیں کاٹ دے گا یعنی اپنے وقت کو اچھے کاموں سے کاٹو ورنہ یہ تمہیں کاٹ کررکھ دے گا یعنی ضائع اور برباد کر دے گا

(۲) اپنے نفس کو حق کاموں میںمشغول رکھو ورنہ یہ تمہیں باطل کاموں میں مشغول کر دے گا

کلمہ، نماز…… اور جہاد کی محنت میں دن رات خود کو تھکانے والے جانبازو! یہ محنت اور تھکاوٹ تمہیں مبارک ہو!

لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (310)

 

دو یاد گار تحفے

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’رمضان المبارک کی قدر‘‘ اور ’’لیلۃ القدر‘‘ ایمان اور یقین کے ساتھ نصیب فرمائے کیا آپ کو وہ’’رمضان المبارک‘‘ یاد ہے جب افغانستان میں ’’امارت اسلامیہ‘‘ کا سقوط ہو رہا تھا؟وہ بھی عجیب وقت تھا سب کچھ لرز رہا تھا اور لوگوں کے خیالات اور نظریات تیزی سے بدل رہے تھے غم، مصیبت اور شکست کو ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا یہ ایمان والوں کا کام ہے اُن کے دل میں اگر’’ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘  سلامت ہو تو اُن کے لئے کوئی غم، غم نہیں، کوئی مصیبت، مصیبت نہیں اور کوئی شکست، ہزیمت نہیں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

درمیان میں پُرانا سبق بھی دُھرالیں کہ رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کا حکم ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے

(۱) لاالہ الا  اللہ (۲) استغفار  (۳) جنت کا سؤال  (۴)جہنم سے پناہ

بس اس وظیفے کو پکّا پکڑ لیں انشاء  اللہ  بڑے بڑے خزانے ہاتھ آجائیں گے

 لَااِلٰہَ اِلَّا  اللہ ، اَسْتَغْفِرُ اللہ ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ

اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے صبح، شام، رات دن دل میں خیال آیا کہ فلاں کو فون کرو سوچیں کہ کتنا ضروری ہے؟ ضروری نہیں تو کیوںوقت برباد کریں رمضان المبارک کی گھڑیاں پھر پتا نہیں نصیب ہوں یانہ ہوں فوراً پڑھنا شروع کر دیں

  لَااِلٰہَ اِلَّا  اللہ ، اَسْتَغْفِرُ اللہ ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ

دل میں مذاق سوجھا زبان پر آہی رہا تھا کہ خیال آیا کہ رمضان المبارک کے ایام تشریف لائے ہوئے ہیں رمضان، جی ہاں  اللہ  تعالیٰ کا مہینہ مذاق والی بات کو منسوخ کر کے لا الہ الا  اللہ  اور استغفار میں لگ گئے

یہ ’’زبان‘‘ جو ہے نا یہ بڑی ظالم ہے اس کو قابو کرنا سیکھیں ورنہ یہ برباد کر دیتی ہے چپ رہنا اگر اس کے بس میں نہ ہو تو اسے ’’ لا الہ الا  اللہ ‘‘ میں لگا دیں دنیا اور آخرت کی سب سے سچی، سب سے پکّی بات

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 سچ بول بول کر ہماری زبان انشاء  اللہ  سچ کی عادی ہو جائے گی اورجھوٹ، غیبت اور گناہ سے بچنا اس کے لئے آسان ہو جائے گا

ہاں توایک وہ ’’رمضان‘‘ تھا دنیا بھر کی فوجیں اور لشکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے بمباری، خوف، بھاگ دوڑ، پریشانی اور اندھیرا

 لوگ کہتے تھے اب کیا ہوگا؟ اُن کو قرآن پاک کی آیات سناتے کہ انشاء  اللہ  خیر ہو گی تو مذاق اڑایا جاتا نہیں نہیں ان طاقتوں سے مقابلہ ناممکن ہے جہاد کے حامی جہاد کے مخالف بن گئے فتح پرست طبقہ ایک دم گُم ہو گیا لوگ اپنی چال بھی بدل رہے تھے اور کھال بھی مگر ’’ لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کو سمجھنے والے وہ دیکھ رہے تھے جسے آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے انخلاء، انخلاء، انخلاء اور خود کو ’’سپر ‘‘ کہنے والے بن گئے بیت الخلاء اب قرآن پاک کی بہت سی آیتیں پڑھیں یوں لگتا ہے کہ ابھی نازل ہوئی ہیں جی ہاں قرآن پاک زندہ اور تازہ کتاب ہے یہ ہر زمانے میں زندہ اور تازہ رہتی ہے اور ہر مسئلے کا جواب بیان فرماتی ہے

ذرا وہ آیات پڑھیں کہ کفار مسلمانوں کے خلاف بہت مال خرچ کریں گے اور پھر بے حد پچھتائیں گے اور ناکام ہوجائیں گے

سبحان  اللہ  وبحمدہ سبحان  اللہ  العظیم آج ہر کوئی قلم کَس کے لکھ رہا ہے کہ پینتالیس کھرب کا نقصان ہوا امریکہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے یہ سب’’کلمہ طیبہ‘‘ کا کمال، قرآن پاک کا اعجاز اور جہاد کی برکت ہے سوکھی روٹی کھانے والے شہداء نے اتنے بڑے ہاتھی کو اپنے خون کی دلدل میں غرق کر دیا  اللہ  اکبر کبیرا تھوڑا سا اُن آیات کو پڑھیں کہ  اللہ  تعالیٰ نے کافروں کو اُن کے غم، غیظ اور غصے میں بھرا ہوا ناکام واپس لوٹا دیا اور اُن کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا اور  اللہ  پاک لڑائی میں مسلمانوں کی طرف سے کافی ہوگیا لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

واقعی آج جو کچھ نظر آرہا ہے وہ سب بظاہر ناممکن تھا مگردنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام، جہاد اور مسلمانوں کو مٹانا ناممکن ہے ہم مسلمان آخری اُمت ہیں اور ہمارے بعد’’قیامت ‘‘ ہے کہاں گیا سوویت کا سرخ ریچھ؟ اور کہاں گئے گورے، کالے، نیلے پیلے ہاتھی؟ افغانستان سے انخلاء اس تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے جیسے موت اِن کے تعاقب میں ہو اس بات سے انکار نہیں کہ سازشوں کے جال پاکستان تک بچھ چکے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوگی یہ بھی سچ ہے کہ فوری طور پر اسلامی حکومت کے قیام کا امکان نہیں ہے مگر جو کچھ ہو رہا ہے اُسے غور سے دیکھیں ، اُسے قرآن پاک کے آئینے میں سمجھیں انشاء  اللہ  اسلام کے غلبے کا مسکراتا ہوا دور زیادہ دُور نظر نہیں آئے گا بس ضرورت ہے کہ مسلمان مسلمان بن جائیں کلمے والے ، نماز والے اور جہاد والے

 لَااِلٰہَ اِلَّا  اللہ ، اَسْتَغْفِرُ اللہ ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ

اس رمضان المبارک سے دو’’یاد گار‘‘ نعمتیں حاصل کرلیں جی ہاں بہت زیادہ کام آنی والی اور بہت دور اور دیر تک کام آنے والی نعمتیں

پہلی یہ کہ اپنی قضاء نمازوں کو اسی رمضان المبارک سے ادا کرنا شروع کردیں ہم اپنے ماضی کے داغ، دھبّے اور زخم دھوئیں گئے تو ہمارا حال اور مستقبل اچھا ہو گا شیطان ملعون کی چال دیکھیں وہ لوگ جن کی کئی کئی سال کی نمازیں’’قضاء‘‘ ہیں وہ رمضان المبارک میں ’’نوافل‘‘ میں لگے رہتے ہیں  اللہ  کے بندو! ایک فرض نماز بھی معاف نہیں ہے اگر آپ رمضان المبارک میں ایک سو نفل پڑھتے ہیں تو ان نوافل کی جگہ فرض اور واجب نمازیں قضاء کر لیں ایک سو رکعتوں میں تو ماشاء  اللہ  پانچ دن کی نمازیں ادا ہو جائیں گی اگر روزآنہ پانچ دن کی قضا نمازیں ادا کریں تو تیس دن میں ڈیڑھ سو دنوں کابوجھ ہلکا اور عظیم گناہ دُھل جائے گا

آپ جانتے ہیں ہر مسلمان پر روزآنہ بیس رکعتیں فرض اور واجب ہیں فجر کی دو، ظہر کی چار، عصر کی چار، مغرب کی تین اور عشاء کی چار رکعت یہ سترہ رکعتیں ہوئیں اور تین رکعت وتر کُل بیس زیادہ طاقت نہیں تو ایسا کر لیں کہ روزآنہ ہر نماز کے ساتھ ایک قضاء نماز ادا کرلیں فجر کے ساتھ ایک فجر ظہر کے ساتھ ایک ظہر اوراسی طرح ہر نماز کے ساتھ ایک نماز اس کی خاطر نفل چھوڑنے پڑیں تو چھوڑ دیں سنت غیر مؤکدہ چھوڑنی پڑیں تو چھوڑدیں رمضان المبارک کے لئے اتنا کافی ہے کہ روزہ رکھیں، رات کو تراویح ادا کریں باقی نوافل کے اوقات میں اپنی قضاء نمازیں ادا کریں آپ کو معلوم ہے کہ رمضان المبارک میں ایک فرض، ستر فرائض کے برابر وزنی ہو جاتا ہے اورنفل عبادت کا اجر فرض کے برابر ہو جاتا ہے وہ خوش نصیب مسلمان جن کے ذمہ فرض نمازوں کی قضا نہیں ہے وہ زیادہ نوافل کا اہتمام کریں ایسے لوگ کم ہی ہوں گے اکثر مسلمانوں پرقضا نمازوں کی گٹھڑیاں لدی ہوئی ہیں اور افسوس کہ انہیں اس کی فکر تک نہیں

ہمارے ساتھ جیل میں فلسطین کے ایک مجاہد تھے زندگی اور جوانی غفلت میں گُزری  اللہ  تعالیٰ کی نظر کرم ہوئی ایسی مصیبت کا شکار ہوئے جس مصیبت میں نور تھا، توبہ تھی اور آخرت کا ذخیرہ تھا  اللہ  تعالیٰ ہمیں سمجھ عطاء فرمائے ہم لوگ مصیبت کے وقت بہت’’بے صبری‘‘ اور ’’بے ہمتی‘‘ دکھاتے ہیں حالانکہ روایات میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ مسلمانوں کو  اللہ  پاک اُن کی تکلیفوں کا اجر عطاء فرمائے گا تو وہ لوگ جن کی زندگی راحت میں گزری ہو گی یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں ہمارے جسم لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جاتے تاکہ آج کی مستقل زندگی میں ہمیں بھی یہ اجر وثواب ملتا آپ نے کبھی قرآن پاک کی ’’سورہ یونس‘‘ کو غور سے پڑھا ہے یہ عظیم سورہ’’لقاء  اللہ ‘‘ یعنی  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا اہم مسئلہ سمجھاتی ہے کبھی موقع ملے تو کوئی مستند تفسیر دیکھ لیجئے گا اس کے بعد سورۂ ھود میں یہ راز سمجھایا گیا کہ وہ لوگ جو مصیبت اور تکلیف کے وقت ’’بے صبرے‘‘ اور مایوس ہو جاتے ہیں وہ ناکام لوگ ہیں اسی طرح جو لوگ راحت اور خوشی کے وقت فخر اور غرور میں غافل ہوجاتے ہیں وہ بھی ناکام لوگ ہیں

 کامیاب وہ ہیں جنہیں ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کا یقین نصیب ہے اور وہ مصیبت کے وقت’’صبر‘‘ کرتے ہیں اور راحت کے وقت نیک اعمال کرتے ہیں لیجئے ان آیات کا ترجمہ پڑھ لیں اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

ترجمہ:(۱) اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھا کر پھر اُس سے وہ چھین لیتے ہیں تو وہ مایوس اور ناشکرا ہو جاتا ہے(۲) اور اگر ہم اُسے مصیبت پہنچنے کے بعد نعمتوں کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری سختیاں جاتی رہیں،بے شک وہ اترانے والا اور فخر کرنے والا ہے

(۳) مگر جو لوگ صبر کرتے ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں، اُن کے لئے مغفرت اور بڑا ثواب ہے(ھود،۹،۱۰،۱۱)

اس’’مرض‘‘ کی وجہ کیا ہے؟ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اُس نے  اللہ  تعالیٰ سے ملنا ہے  اللہ  تعالیٰ کی ملاقات کا یقین دل سے نکلتے ہی انسان اسی دنیا کی مصیبت اور راحت کو اصلی سمجھنے لگتا ہے مگر جن لوگوں کو’’لقاء  اللہ ‘‘ یعنی  اللہ  تعالیٰ سے ملاقات کا شوق اور یقین ہوتا ہے وہ ہمیشہ  اللہ  تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتے ہیں اور اُن چیزوں کو پسند کرتے ہیں جو آخرت میں زیادہ کام آنے والی ہیں ایک مفسر لکھتے ہیں:

’’ اس آیت میں انسان کی بڑی کمزوری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب کوئی نعمت اُس سے چھین لی جاتی ہے اور اُس کو تکلیف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے تووہ دل چھوڑدیتا ہے ذرا بھی صبر نہیںکرتا اور مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے بلکہ پچھلی نعمت کو بھی بھول جاتا ہے اور اُس پر  اللہ  تعالیٰ کا شکر نہیں کرتا، اور اگر تنگی کے بعد  اللہ  تعالیٰ خوشحالی نصیب کرتا ہے تو بہت خوشیاں مناتاہے، فخر و غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن ایمان والے ایسا نہیں کرتے، وہ تو مصیبتوں پر صبر اور نعمتوں پر شُکر کرتے ہیں اور ہر حال میں نیک عملی کی راہ پر ثابت قدم رہتے ہیں، یقیناً ایسے ہی لوگ  اللہ  تعالیٰ کی بخشش اور ثوابِ عظیم کے مستحق ہیں‘‘(حاشیہ اورنگ آبادی)

 یہاںایک لطیفہ بھی سُن لیں قرآن پاک نے انسان کی یہ جو بیماری بیان فرمائی ہے یہ آج کل بہت عام ہے اسی لئے بہت سے افراد سمجھیں گے کہ ’’رنگ و نور‘‘ میں اُن کی طرف اشارہ ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیںاپنی اور آپ سب کی ’’اصلاح‘‘ مطلوب ہے اور جوکچھ بیان ہوا ہے وہ قرآن عظیم الشان کا فرمان ہے اگر ہمیں اپنے اندر یہ بیماری اور کمزوری محسوس ہو تو اصلاح کی دعاء اور فکر کریں تاکہ ہم سب  اللہ  تعالیٰ سے راضی رہیں اور ہر حالت میں یہی سمجھیں کہ میرے رب نے جو فیصلہ فرمایا ہے اس میں میرے لئے خیر ہے وہ رب ہے، معبود ہے اور ہم بندے اور غلام ہیں غلام کا کام یہ ہے کہ اپنے آقا کے ہر فرمان پر راضی رہے بات جیل کے فلسطینی ساتھی کی چل رہی تھی وہ درس وغیرہ میں اہتمام سے بیٹھتے تھے اوراردو بھی سمجھ اور بول لیتے تھے جب  اللہ  تعالیٰ نے اُن کے قلب پر نماز کی اہمیت کا راز کھولا تو اُن کی عجیب کیفیت ہو گئی وہ سارا دن اور بعض اوقات ساری رات’’نماز‘‘ میں لگے رہتے اُن پر سالہا سال کی نمازیں’’قرض ‘‘ تھیں مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اُن نمازوں کو ادا کرنا شروع کر دیا ’’نماز‘‘ کا دراصل ایک خاص نصاب ہے انسان اگر اُس نصاب تک پہنچ جائے تو پھر نماز اُس کی روح میں اُتر جاتی ہے اور اُس کے لئے ذرہ برابر بوجھ نہیں رہتی بلکہ اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے تب نماز ادا کرنے میں اونچے مقامات الگ ملتے ہیں اور لذّت الگ نصیب ہوتی ہے  اللہ  تعالیٰ یہ ’’مقام‘‘ اور درجہ مجھے اور آپ سب کو نصیب فرمائے

لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

یہ تو ہوئی پہلی یاد گار نعمت جب عید کا دن آئے گا اور رمضان المبارک ہم سے رخصت ہو گا تو ہم انشاء  اللہ کم از کم تیس دنوں یا ایک سو پچاس دنوں کے بڑے قرض اوربڑے گناہ سے پاک ہوں گے اور اگرعادت نصیب ہو گئی تورمضان المبارک کے بعد یہ سلسلہ جاری رکھنا آسان ہو جائے گاکہ ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز بھی ادا کرتے رہیں دوسرا تحفہ اور نعمت اس بار یہ حاصل کریں کہ قرآن پاک کی چند سورتیں اس رمضان المبارک میں یاد کر لیں رمضان چونکہ قرآن کا مہینہ ہے اس لئے اس میں سورتیں یاد کرنا آسان ہوتا ہے پھر ان سورتوں کو اپنی نمازوں میں پڑھا کریں ہم جب دنیا سے جائیں گے توکوٹھی، کار، کاروبار، پیسہ یہاں رہ جائے گا مگر یہ سورتیں ہمارے ساتھ قبر میں جائیں گی اور انشاء  اللہ  بہت کام آئیں گی

لا الہ الا  اللہ ، استغفر اللہ ، اللھم انی اسئلک الجنۃ واعوذبک من النار

اللھم صل علٰی سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ …… محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (311)

شامِل ہو جائیں

 

 اللہ  تعالیٰ ’’ایک‘‘ ہے وحدہ لا شریک لہ سورۂ اخلاص میں فرمایا گیا

قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ

آپ کہہ دیجئے  اللہ  تعالیٰ ایک ہے لا الہ الا  اللہ سبحان  اللہ  لاحول ولا قوۃ الا ب اللہ

یہ دنیا کے کمزور سے لوگوںکو دیکھو! پانی کے بلبلے کی طرح کمزور یہ کہتے ہیں(نعوذ ب اللہ ) ہم سپر پاور ہیں افغانستان کے صوبہ میدان وردک میں امریکی ہیلی کاپٹر منہ کے بل گرا تیس سے زائد میرین فوجی جل کر کوئلہ ہو گئے مرنے کے بعد لاش کے لئے سب پاسپورٹ برابر ہوجاتے ہیں کوئی امریکی ہو یا غریب نیپالی کوئی یورپین ہو یا غریب صومالی کوئی جاپانی ہو یا غریب افریقی موت آئی تو بس نئی دنیا شروع وہاں نہ کوئی امریکہ ہے نہ انڈیا وہاں کی کرنسی، وہاںکا پاسپورٹ اور وہاں کا عیش آرامپتا ہے کون سی چیز ہے؟

 لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

جو اس کلمے سے محروم وہ مرتے ہی ماراگیا یا  اللہ  رحم،یا  اللہ  رحم ہاں سچ کہہ رہا ہوں جو کلمے سے محروم وہ مرتے ہی ماراگیا آگ، تنگ قبر، بدبو اور عذاب بڑے بڑے سانپ، موٹے موٹے بچھو اندھیرا، خوف اور وحشت اس لئے دل میں ہر وقت ٹٹول کر دیکھتے رہنا چاہئے کہ کلمہ موجود ہے یا نہیں؟ اور جسے کلمہ نصیب ہو گیا اور اُس نے کلمے کے حق کو ادا کیا وہ مرتے ہی نوازا گیا مؤمن کی موت کا منظر جیسے سخت گرمی کے روزے کی افطاری ٹھنڈا پانی ، میٹھا شربت طرح طرح کے پھل میوے اور بہت کچھ

یہ تو بس مثال ہے آج افطار کے وقت توجّہ رکھیے گا کوئی مثال، اصل کے برابر تو نہیں ہو سکتی پہاڑ کا فوٹو پہاڑ جتنا نہیں ہوتا بس سمجھنے کے لئے عرض کیا کہ گرمی کاروزہ کُھل گیا اب نعمتیں ہی نعمتیں اسی طرح مؤمن کی موت آگئی تو روزہ کھل گیا اب نعمتیں ہی نعمتیں

شہید کو  اللہ  تعالیٰ کی زیارت اور جو ملاقات نصیب ہوتی ہے اُسے کِس مثال سے سمجھاؤں؟ میرے پاس تو ایسی کوئی مثال نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی دنیا بھر کے حسینوں کو حُسن دینے والے محبوب مالک کے حُسن کا کیا منظر ہو گا  اللہ ،  اللہ ،  اللہ

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمین

اہل علم عجیب نکتہ بیان فرما گئے حدیثِ پاک میںآتا ہے کہ کوئی جنّتی شخص جنّت میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے واپس دنیا میں آنے کی تمنا نہیں کرے گا سوائے شہید کے شہید یہ تمنا کرے گا کہ اُسے بار بار دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ بار بار شہادت پائے اس حدیث کو ذہن میں رکھیں اب دوسری روایت دیکھیں بخاری شریف کی روایت ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ  اللہ  تعالیٰ کے راستے میں شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے دنیا ہی میں وہ تمنا فرما دی جو عام شہید جنت میں جا کر کرے گا اس کی کئی وجوہات ہیں ایک نکتہ یہ ہے کہ عام شہید کو شہادت کی حقیقت کا علم شہید ہونے کے بعد ہو گا جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو شہادت کی حقیقت کا علم  اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں عطاء فرما دیا تھا سبحان  اللہ !شہادت اتنی عظیم نعمت ہے کہ جب شہید ہونے والا اس کی حقیقی لذت کو پا لیتا ہے تو پھر جنت میں جاکر بھی اُس کی یہ خواہش رہتی ہے کہ اسے شہادت کی لذت اورشہادت کا مقام اور اعزاز بار بار ملے جی ہاں محبوب کی خاطر کٹ مرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور اس مزے کی اصل حقیقت مزہ پانے کے بعد ہی پتا چلے گی تو پھر مثالوں کے ذریعہ اس مسئلے کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے؟ میرا سلام ہو اُن خوش نصیبوں کو جو ’’شہادت‘‘ کے لئے گھر سے نکل چکے ہیں جو شہادت کا راستہ پکڑ چکے ہیں جو شہادت کے انتظار میں ایک ایک گھڑی بے چینی سے کاٹ رہے ہیں اور جو شہادت کے لئے یوں مچل رہے ہیں جس طرح شیر خوار بچہ ماں کے دودھ کے لئے مچلتا ہے ہاںمیرے دل کا سلام ان عاشقوں کو پہنچے جو اپنے دل سے اس دنیا کو نکال چکے یہ غافل کرنے والی دنیا، یہ ذلیل و رسوا کرنے والی دنیا، یہ دھوکا دینے والی دنیا سلام ہو فدایانِ اسلام کو

سلام ہو دل سے کلمہ طیبہ پڑھنے والوں کو

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

امریکی ہیلی کاپٹر سعید آباد کے ضلع میں گرا مجاہدین نے گرایا یا براہ راست ربّ المجاہدین نے ایک ہی بات ہے سب کچھ  اللہ  تعالیٰ ہی کرتا ہے

فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ

امریکی سپیشل فورسز کے تیس سے زیادہ فوجی ایک جھٹکے میں پار ہو گئے خود کابل کی کرزئی حکومت نے تصدیق کی ہے یعنی نقصان چھپایانہیں جا سکا ویسے کافی بڑا نقصان ہے جو کفر کی حالت میں مرگئے اُن کو اب کسی ملک کی طاقت، سیاست، معیشت اور ٹیکنالوجی کام نہیں دے گی رمضان المبارک میں مسلمانوں کے لئے یہ ایسی خبر ہے جسے سنتے ہی ہاتھ دعاؤں کے لئے اٹھ جاتے ہیں آپ پوچھیں گے کہ وہ بھلا کیسے؟ جواب قرآن پاک سے پیش ہے جب حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا بی بی مریم کے پاس بے موسم کے پھل رکھے ہیں اور وہ چھوٹی سی معصوم بچی ان پھلوں سے لطف اندوز ہو رہی ہیں اور پوچھنے پر فرماتی ہیں

ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہ

یہ سب میرے  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے ہے بس اُسی وقت حضرت زکریا علیہ السلام کے ایمان نے ایک اور بلند منزل عبور کر لی بے موسم کے پھل دینے والا ربّ مجھے بے موسم کی اولاد عطاء فرما دے یقین تو پہلے سے تھا کہ  اللہ  تعالیٰ ہر چیز پر قادرہے مگر انبیاء ح ’’ادب‘‘ کے اونچے درجے پر فائز ہوتے ہیں وہ دعاء کے معاملے میں بھی ادب سے اور قانون الہٰی سے تجاوز نہیں فرماتےعام قانون تو یہی جاری ہے کہ اولاد کی پیدائش کے لئے میاں بیوی کا تندرست ہونا ضروری ہے یہاں خود بہت بوڑھے اور اہلیہ محترمہ بانجھ مگر جب ’’نصرتِ الہٰی‘‘ کا عجیب منظر بے موسمی پھلوں کی صورت میں دیکھا تو دعاء کے لئے ہاتھ اٹھ گئے

ھُنَالِکَ دَعَازَکَرِیَّا رَبَّہٗ

 حضرات انبیاء د کا ایمان کامل اور مکمل ہوتا ہے اس ایمان میں کمی نہیں آتی مگر اس کی قوت اور کیفیت میں ترقی ہوتی رہتی ہے لا الہ الا  اللہ بہت اونچا کلمہ ہے اس کی بلندی کی آخری حد تو کسی کو معلوم نہیں بس جن کی قسمت اچھی ہوتی ہے وہ اس کی بلندی کی طرف اونچے اڑتے جاتے ہیں اوپر، اوپر اور بہت اوپر

بلند…… مزید بلند اور زیادہ بلند……

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

ہمارے حضرت قاری عرفان صاحب نور اللہ  مرقدہ مجاہدین سے فرمایا کرتے تھے آپ لوگ’’جہاز والی نصرت‘‘ کو یاد کر کے دعاء کیا کریں یا  اللہ  آپ نے پانچ کمزور مجاہدین کی نصرت فرما کر انہیں پورے عالم کفر پر فتح عطاء فرمائی یا  اللہ  جس طرح آپ نے اُن کی نصرت فرمائی اور اُن پر رحم فرمایا اُسی طرح ہم پر بھی نصرت اور رحمت فرمائیے

دراصل اس طرح کے واقعات سے انسان کے دل میں  اللہ  تعالیٰ سے محبت بڑھ جاتی ہے  ایک عجیب سی یقین اور احسان مندی والی کیفیت طاری ہو جاتی ہےتو ایسے وقت میں دعائیں قبول ہوتی ہیں

جہاز کا واقعہ دس سال پہلے رمضان المبارک میں پیش آیا انڈیا کا ایک جہاز مجاہدین کا ایسا قیدی ہواکہ اُس کے فدیے میں کئی مسلمان قیدی رہا ہوئے

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمین

آج مختصر لکھنے کا ارادہ ہےرمضان المبارک کی قیمتی گھڑیاں ہیں مگر بات پھربھی لمبی ہوتی جارہی ہے امریکی ہیلی کاپٹر کا واقعہ بھی ایسا ہے کہ اسے سنتے ہی ہاتھ دعاؤں کے لئے اُٹھ جاتے ہیںیا اللہ  اُمتِ مسلمہ کو فتوحات اور اسلام کو غلبہ عطاء فرما یا  اللہ  اسیرانِ اسلام کو باعزت رہائی عطاء فرما یا اللہ !مجاہدین کرام کی ہر محاذپر نصرت فرما

رمضان المبارک میں  اللہ  تعالیٰ کی نصرت کا اتنا بڑا واقعہ دیکھ کر دل میں امیدیں انگڑائیاں لینے لگی ہیں کہ انشاء  اللہ  اب فتوحات کا دور شروع ہو جائے گا وہ رمضان المبارک ہی تھا جب ’’یوم الفرقان‘‘ برپا ہوا اسلامی فتوحات کا سنگ بنیاد’’غزوہ بدر‘‘

امام غزالی س نے لکھا ہے کہ کئی عارفین کے نزدیک ’’لیلۃ القدر‘‘ سترہ رمضان المبارک کی رات ہے کیونکہ اسی رات کے بعد والے دن’’غزوہ بدر‘‘ پیش آیا تھا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ پوری رات دعاؤں اور التجاؤں اور زاریوں میں گزاری تھی ’’لیلۃ القدر‘‘ کے بارے میں یہ ایک قول ہے باقی جمہور کی رائے آخری عشرے کی طاق راتوں کے بارے میں ہے ہاں وہ بھی رمضان المبارک تھا جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تھا جہاد کی برکت سے حج اور عمرے کا دروازہ مسلمانوں کے لئے قیامت تک کُھل گیا رمضان المبارک کا خصوصی تعلق قرآن پاک کے ساتھ ہے اور قرآن پاک کا خصوصی تعلق جہاد کے ساتھ ہے صرف’’فتح الجواد‘‘ میں جن آیات جہاد کو صراحۃً یا اشارۃً بیان کیا گیا ہے اُن کی تعداد۸۶۵( آٹھ سو پینسٹھ) ہے

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲرب العالمین

رمضان المبارک میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ایک عظیم نصرت کی برکت سے الحمدﷲ ایک جماعت قائم ہوئی آج الحمدﷲ اس جماعت کی شاخیں، اس جماعت کے شہداء کی قبریں اور اس جماعت کے اسیروں کی آہیں بہت دور دور تک پھیل چکی ہیں

اس وقت ہزاروں دیوانے صبح شام رات دن دعوتِ جہاد میں مصروف ہیں ماشاء  اللہ  عجیب پرنور اور قابل رشک محنت ہے میں جب بھی ان میں سے کسی کو بھاگتے، دوڑتے،بیانات کرتے، چادریں بچھاتے اور گرمی میں اخلاص کے ساتھ پسینے بہاتے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں سے آنسو اور دل سے دعائیں جاری ہو جاتی ہیں بے خوف، بے غرض اور مخلص  اللہ  تعالیٰ ان کو ایمان کامل کا بلند درجہ نصیب فرمائے ان کی محنتوں کو ان کے لئے ذخیرہ آخرت بنائے اور ان کی جوانیوں اور عمروںمیں برکت عطاء فرمائے حقیقت میںان کی محنت قابل رشک ہے ماشاء  اللہ  جہاد کے موضوع پر قرآن مجید کی روشنی میں ایسی پنی تُلی بات کرتے ہیں کہ سینکڑوں لوگوں کے دلوں سے نفاق کا زنگ اُتر جاتا ہے اپنی ناک اور عزت کو قربان کر کے مسجدوں میں چادریں پھیلا کر چندا کرتے ہیں تاکہ محاذوں کی گرمی اور وارثینِ شہداء کے چولہوں کی آگ ٹھنڈی نہ ہو جائے میں نے خود ان کے بیانات میں جید علماء کرام کو روتے اور آنسو بہاتے دیکھا ہے حالانکہ بیان کرنے والا عالم نہیں ہوتا مگر اُس کے دل میں اُمتِ مسلمہ کی حفاظت، عظمت اورعزت کا غم ہوتا ہے

اور اُس کے دل و دماغ میں اپنے شہداء اور اسیر ساتھیوں کی خوشبو بھری ہوتی ہے آپ قرآن پاک میں’’عذاب‘‘ کا مسئلہ غور سے پڑھ لیں آج بہت سے لوگ موبائلوں پر’’عذاب‘‘ سے ڈراتے اور دھمکاتے رہتے ہیں مگر مسئلے کا حل نہیں بتاتے قرآن پاک اعلان فرماتا ہے کہ جہاد چھوڑنے سے عذاب آتا ہے

اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا

اور قرآن پاک اعلان فرماتا ہے کہ جہاد کرنے سے  اللہ  تعالیٰ کا عذاب ٹل جاتا ہے

تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ

یہ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے دیوانے مجاہدین آج مسجد مسجد، گلی گلی اور کوچہ کوچہ ’’حی علی الجہاد‘‘ کی صدا لگا کر پوری اُمتِ مسلمہ پر احسان کر رہے ہیں مسلمانو! سچ کہتا ہوں کہ یہ معمولی لوگ نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ’’رحمت‘‘ ہیں القلم کے تمام قارئین اورقارئات ان ’’ اللہ  والوں‘‘ کے لئے دعاء کا معمول بنائیں ان کی قدر کریں اور ان کے ساتھ ان ہی میں شامل ہونے کی کوشش کریں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمین

اللھم صل علٰی سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (312)

دعوتِ فکر

 اللہ  تعالیٰ نے مجھے اور آپ سب کو ’’بے کار‘‘پیدا نہیں فرمایا یہ بات آپ نے کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچی؟ نہیں سوچی تو اس رمضان المبارک میں سوچ لیں پہلے ہم’’مٹی‘‘ تھے پھر کتنے مراحل سے گزر کر پانی کا ایک قطرہ پھر خون کاایک لوتھڑا پھر کچا پکّا گوشت پھر جسم میں روح بچپن، جوانی بڑھاپا اور موت

 کیا یہ سب کچھ بے کار اور کھیل ہے؟ ایک بات یاد رکھیں جس نے بھی اس بات کو دل سے سمجھ لیا کہ  اللہ  تعالیٰ نے مجھے’’بیکار‘‘پیدا نہیں فرمایا اُس کے لئے دنیا اور آخرت میں ترقی کا ہر دروازہ کُھل جاتا ہے اوپر دیکھیں آسمان ہی آسمان ہے دن کو آٹھ بجے چمکتے سورج کو دیکھیں رات کو روشنی بکھیرتے گول مٹول چاند کو دیکھیں یہ سب کچھ  اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا فرمایا اور انسان کو اپنے لئے پیدا فرمایا اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں ضرور زندہ کیا جائے گا قیامت حق ہے جی ہاں قیامت برحق ہے بس آنے ہی والی ہے اور لوگ اس سے غفلت میں پڑے مکانات، دکانیں، اور بلڈنگیں بنا رہے ہیں دعاء کریں میں اور آپ اُن لوگوں میں سے نہ ہو جن کو  اللہ  تعالیٰ نے پیدا ہی جہنم کے لئے فرمایا ہے ہائے جہنم، ہائے جہنم میرے رب کے غضب کی جگہ اے رحمت والے رب! ہم سب پر رحم فرما کر ہمیں جہنم سے بچا

رب تعالیٰ مالک ہے اُس کی مرضی جس کو جس چیز کے لئے پیدا فرما دے قرآن پاک میں اعلان فرمایا ہم نے بہت سے جنّات اور انسانوں کو جہنم کے لئے پیدا فرمایا ہے ان کے دل ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں اُن کے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر کھانا پینا مستی کرنا اور دنیا، دنیا ، دنیاکرنا

مالک کی مرضی جس کو خنزیر بنائے جس کو بکری بنائے، جس کو کتا بنائے اور جس کو انسان بنائے اُن سے کون پوچھ سکتا ہے؟ مگر جس پر وہ اپنی رحمت کی نظر فرماتے ہیں، اُسے اپنی رضا کی تلاش میںلگا دیتے ہیں اور اُسے اپنا کامیابی والا کلمہ سکھا دیتے ہیں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

ایک عام سا انسان ہماری طرح کھانے پینے کا محتاج ہماری طرح خون گوشت سے بنا ہوا ہماری طرح بیت الخلاء جانے کا محتاج مگر وہ  اللہ  تعالیٰ کا اونچا ولی کیسے بن جاتا ہے؟ سانس لے تو خوشبو پھیلے، بولے تو پھول برسیں اور آہ کھینچے تو عرش تک پہنچے یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ یہ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ یہ سب انسان تھے آج تک اُن کا عمل جاری ہے اور اُن کی ولایت کی خیر تقسیم ہو رہی ہے کبھی عبد اللہ  بن مبارک  رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر غور کیا؟ آج بھی اُن کا تذکرہ کسی مجلس میں ہوجائے تو برکت محسوس ہونے لگتی ہے اُن کو دنیا سے گئے ایک ہزار سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا مگر اُن کی کوئی چیز نہ پرانی ہوئی ہے نہ گلی نہ سڑی لوگ بڑی بڑی جاگیریں بنانے والوں کو بھول گئے بڑے بڑے کارخانے لگانے والے تاریخ کے دھویں میں چھپ گئے بڑے بڑے نامور بادشاہوں کو دیمک کے کیڑوں نے مٹا دیا مگر نور الدین زنگیؒ صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ بایزید یلدرم رحمۃ اللہ علیہ اورنگ زیب عالمگیررحمۃ اللہ علیہ اور سید احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ سے لوگ آج بھی ملتے ہیں اور اُن سے فیض اور روشنی پاتے ہیں ایک بات اپنے دل میں بٹھا لیں جس نے اپنے وقت کو  اللہ  تعالیٰ کے لئے خرچ کیا اُس کا وقت قیمتی اور محفوظ ہوگیا جس نے اپنے مال کو  اللہ  تعالیٰ کے لئے خرچ کیا اُس کا مال قیمتی اور محفوظ ہو گیا اور جس نے خود کو  اللہ  تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے وقف کر دیا تو اللہ  تعالیٰ اُس کا ہو گیا اور پھر  اللہ  تعالیٰ نے محبت کے ساتھ اُس کی جان کو اور اُس کے مال کو اپنی رضا اور جنت کے بدلے خرید لیا واہ جنت، واہ میرے پیارے رب کی رضا کی جگہ

 لا الہ الا  اللہ ، استغفر اللہ ، اللھم انی اسئلک الجنۃ و أعوذبک من النّار

رمضان المبارک کا مغفرت والا عشرہ جاری ہے ہم سب کی بڑی تمنا ہے کہ  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے ’’مغفرت‘‘ کا فضل ہو جائے ماشاء  اللہ  قضاء نمازوں کی ادائیگی ہر طرف شروع ہے کچھ باہمت ایسے ہیں جو قضاء نمازیں بھی ادا کر رہے ہیں اور نوافل بھی ادا کرتے ہیں کچھ ہوشمند ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے تمام نوافل اور سنن غیر مؤکدہ کی جگہ قضا فرض نمازیں ادا کرنا شروع کر دی ہیں کوئی ایک دن کی کرتا ہے اور کوئی پانچ دن کی اور کوئی باہمت دس دن کی جی ہاں دو سو نوافل پڑھتے تھے اب دو سورکعت قضاء نمازیں ادا کرتے ہیں یوں ہر دن دس دنوںکا بوجھ اتر جاتا ہے ماشاء  اللہ  ایک مہینے میں تقریباً ایک سال کا قرضہ اُتاردیں گے کسی کتاب میں دیکھا تھا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں گناہ گار کی توبہ قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے قضا شدہ فرض روزے اور فرض نمازیں ادا کرنا شروع کر دے بے شک توبہ سے گناہ معاف ہو جاتا ہے مگر قرضہ تو نہیں اُترتاماضی میں فرض نمازیں چھوڑنے کا عظیم گناہ کیا بہت بڑا گناہ جی ہاں بہت ہی بڑاگناہ بے نماز کے دین کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کئی بڑے ائمہ کے نزدیک تو فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنے سے انسان کفر میں داخل ہو جاتا ہے العیاذ ب اللہ ، العیاذ ب اللہ

  اللہ  تعالیٰ ہمیں کفر کے دھویں سے بھی بچائے آگ، آگ، ہمیشہ کی آگ یا  اللہ  رحم کفر نام ہی آگ کا، عذاب کا ہے کافر دنیا بھر کا بادشاہ بن جائے تب بھی دنیا کے سب سے بدتر جانور سے بھی اچھا نہیں بلکہ بُرا ہوتا ہے اے بھائیو! اے بہنو! کفر سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں یہ ہمارے دل اور ہمارے گھر میں داخل نہ ہوجائے اُس دن خبریں دیکھ رہاتھا ایک مولوی عیسائی ہو گیا، کسی شادی کے چکّر میں مرتد ہو گیا خبر پڑھ کر خوف کی وجہ سے مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی یا  اللہ  کلمے کی دولت نہ چھن جائے لا الہ الا  اللہ  کی عظیم نعمت نہ چھن جائے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے اور اُن گناہوں سے بچتے رہنا چاہئے جو ایمان کی دولت کو کمزور کرتے ہیں بات یہ چل رہی تھی کہ ماضی میں کسی نے فرض نماز چھوڑی یہ بڑا سخت جُرم کیا اب  اللہ  تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی توبہ قبول ہوئی نماز چھوڑنے کا جُرم معاف ہوگیا مگر نماز تو معاف نہیں ہوئی وہ ضرور ادا کرنی ہے اور توبہ کے قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ انسان کو اپنی قضا نمازیں اور قضا روزے ادا کرنے کی فکر اور توفیق نصیب ہو جائے انسان اپنی طاقت کے مطابق شروع کر دے اورہر روز کرتا رہے پوری ہو گئیں تو بہت اچھا کچھ رہ گئیں تو چونکہ ادا کرناشروع کر دی تھیں اس لئے انشاء  اللہ  خیر کی امید کی جاسکتی ہے رمضان المبارک کی برکت دیکھیں کہ ماشاء  اللہ  ہزاروں مسلمان نہایت توجہ اور فکر کے ساتھ اپنا یہ دینی قرضہ اداکرنے لگ گئے ہیں

 لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ، اللھم صل علٰی سیدنا محمد والحمد ﷲ رب العالمین

 اپنی زندگی کو کامیاب اور بامقصد بنانے کے لئے اسی رمضان المبارک میں کبھی تنہائی میں غور کریں یا  اللہ  آپ نے مجھے عبث اور بے کار پیدا نہیں فرمایا انسان تو زمین پر  اللہ  تعالیٰ کا خلیفہ بن کر آیا  اللہ  تعالیٰ نے زمین وآسمان کی کتنی چیزوں کو انسان کے لئے مسخّر فرما دیا اور انسان کو عقل اور دل کی نعمت عطاء فرمائی اور پھر جس پر رحم کی نظر فرمائی اُس کے دل کو اور عقل کو لا الہ الا  اللہ کا علم اور یقین نصیب فرما دیا کبھی خلوت میں عرض کریں یا  اللہ ! اے میرے مالک! آپ نے مجھے بے کار پیدا نہیں فرمایا یہ آپ کا ارشاد ہے اور مجھے اس پریقین ہے اے عظیم مالک اے میرے رب آپ ہی میرے رب ہیں اور میں آپ کا بندہ ہوں آپ مجھے اپنا بنا لیجئے اور مجھ سے اپنی رضا والا کام لے لیجئے بس یہ عرض اور مناجات تنہائی میں ہوتی رہے تو کسی وقت آنسوؤں کے درمیان رحمت چمکے گی اور دل بول اٹھے گا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 اس کلمے کا کمال دیکھیں کہ جو محنت اس کے ساتھ وابستہ ہو جائے وہ کامیاب ہوجاتی ہے اور مقبول ہوجاتی ہے یہ الرحمت ٹرسٹ والے جو سالہا سال سے جہاد کی دعوت دیتے پھرتے ہیں صرف اسی کے اثرات کا کوئی اندازہ لگانے کی کوشش کرے دنیا نے جہاد کو روکنے اور مٹانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرلیا اورہر سازش رچالی ظاہری طور پر یہ ہونا چاہئے تھاکہ جہاد ایک گالی بن جاتا اور پوری دنیا میں اس کا کوئی نام لینے والا نہ ہوتا میں کئی تحریکوں اور شخصیات کی مثال پیش کر سکتا ہوں جب دنیا نے اُن کے خلاف اپنے اسباب استعمال کئے تو وہ تحریکیں مٹ گئیں اور وہ شخصیات گالی بن گئیں

مگرجہاد کے خلاف اتنی شدید محنت اور مزاحمت کے باوجود جہاد ماشاء  اللہ  اور روشن ہوگیا ہے زیادہ ابھرا ہوا، زیادہ خوشبو دار اور زیادہ دلکش ساری دنیا مل کرجہاد کو نہ ہٹلر بنا سکی اور نہ مسولینی آج جہاد کو سمجھنے والے افراد دس سال پہلے کی تعداد سے زیادہ ہیں سینکڑوں کی تعداد میں فدائی مجاہدین ایک ایک منٹ  اللہ  تعالیٰ کی ملاقات کے شوق میں گُھل رہے ہیں مجاہدین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے محاذِ جنگ پہلے سے زیادہ آباد ہیں اور بڑھ چکے ہیں دعوتِ جہاد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور قوت آ چکی ہے جہادی کیسٹیں پہلے سے زیادہ جہادی کتب پہلے سے زیادہ ابھی کل رات مجھے برادر عزیز مولانا طلحہ السیف حفظہ  اللہ  تعالیٰ کی کتاب’’صدائے سیف‘‘ ملی ماشاء  اللہ  کیا خوب، کیا مؤثر،کیا مدلّل اور کیا دلکش کتاب ہے یہ سب’’دعوت جہاد‘‘ کے اثرات ہیں اور انشاء  اللہ  یہ اثرات آئندہ نسلوں تک اور قیامت تک جاری رہیں گے ساری دنیا کا میڈیا اور ساری دنیا کے تھنک ٹینک مل کر بھی جہاد کو ایک رتی برابرنقصان نہیں پہنچا سکے رمضان المبارک میں ’’دعوتِ جہاد‘‘ کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے ایک زمانہ تھا کہ بندہ بھی مکمل جوش و خروش کے ساتھ اس مہم میں نکلتا تھا گزشتہ رات کئی مناظر یادآرہے تھے بعض ایمان افروز اور بعض دلچسپ رمضان مہم میں شرکت کرنے والے اسے معمولی کام نہ سمجھیں ارے ایمان والو یہ دین کی بہاریں تو قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہیں

 لا الہ الا اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

آج ایک دو اور ضروری باتیں بھی لکھنی تھیںمگر بجلی چلی گئی اور کاغذ کو پسینے نے گیلا کر دیا میںآپ کے لئے اور آپ میرے لئے دعاء کریں قسمت رہی تو انشاء  اللہ  اگلی مجلس میں ملاقات ہوگی

 لا الہ الا اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علٰی سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

 لا الہ الا اللہ ، لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

دعوت

جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ بہاولپور میں انشاء  اللہ  آخری عشرے کا اعتکاف اُمت مسلمہ کے مجاہدین، غزاۃ، فاتحین اور مستقبل کے شہداء کی ایمان افروز صحبت اور موثر اصلاحی نصاب سعدی فقیر کی طرف سے اہل دل کو جو استطاعت رکھتے ہوں شرکت کی دعوت ہے

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (313)

مرکز کی رونق

 اللہ  اکبر  اللہ  تعالیٰ سب سے بڑا ہے جب مسجد سے اذان کی آواز آئے  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر تو مؤمن وہ ہے جس کی نظر میں ہر چیز  اللہ  تعالیٰ کے بُلاوے سے چھوٹی ہو جائے ارے بھائی  اللہ  تعالیٰ نے نماز کے لئے بُلایا ہے اور  اللہ  تعالیٰ سب سے بڑا ہے  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر اب کوئی کام ایسا نہیں جو  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے بڑا ہو نہ دکان نہ فیکٹری نہ گاہک نہ دوست احباب اور نہ اولاد اور گھر والے آدمی جواب دے  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر ہاں ہاں بے شک میرا  اللہ  تعالیٰ سب سے بڑا ہے اورمیں اُس کی عبادت کے لئے جا رہا ہوں سب کو چھوڑ کر، سب کچھ چھوڑکرسجدے کرنے، رکوع کرنے اور اپنے عظیم رب سے مناجات کرنے  اللہ  اکبر،  اللہ  اکبر، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

میرے بھائیو اور بہنو! بس اس بات کی کوشش کرو کہ’’کلمہ طیبہ‘‘ ہمارے دل پر نقش ہو جائے آپ کو معلوم ہے کہ  اللہ  تعالیٰ کے عرش پر کیا لکھا ہوا ہے؟ کئی روایات میں آیا ہے کہ عرش عظیم پر ’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ لکھا ہواہے  اللہ  اکبر کبیرا یہ سوچتے ہی دل پر وجد طاری ہو جاتا ہے اور دل بے اختیار پڑھنے لگتا ہے لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

عرش کتنا بڑا ہے ہم اس کاتصور بھی نہیں کر سکتے ہم تویہ تک نہیں جانتے کہ آسمان کتنا بڑاہے پھر اس آسمان کے اوپر چھ آسمان ہین وہ اِس آسمان سے بھی بڑے ہیں جنت کتنی بڑی ہے اور جہنم کتنی بڑی ہے؟یقیناً جنت اور جہنم تمام آسمانوںسے زیادہ بڑی ہیں اور پھر  اللہ  تعالیٰ کی ’’کُرسی‘‘ سبحان  اللہ  وہ تو جنت اور جہنم سے بھی بڑی ہے اور  اللہ  تعالیٰ کا عرش  اللہ  تعالیٰ کی کرسی سے بھی بڑا ہے اس چھوٹے سے انسان کو دیکھو! کہ ایک قطرے سے پیدا ہو کر  اللہ  تعالیٰ کے بارے میں نعوذ ب اللہ  شک کرتا ہے اور باتیں کرتا ہے وضرب لنا مثلاً ونسی خلقہ  اللہ  تعالیٰ کاعرش اتنا بڑا، اتنا بڑا کہ ہمارے خیال اور تصور میں بھی نہیں آسکتا اور اس عرش پر لکھا ہوا ہے

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

تو پھر وہ مؤمن کتنا خوش نصیب جس کو  اللہ  تعالیٰ یہ کلمہ نصیب فرما دے سبحان  اللہ اور وہ کتنا خوش نصیب جس کو اس کلمے کی حقیقت نصیب ہو جائے اور وہ کتنا خوش نصیب جو اس کلمے کی دعوت دے اور وہ تو کتنا ہی خوش نصیب جو اس کلمے کی عظمت کے لئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے میرے بہت ہی عزیز’’ ریاض حسین‘‘ کی طرح جن کو بچے پیار سے’’خان بابا‘‘ کہتے تھے یا  اللہ  میرا سلام اُن تک پہنچا دیجئے وہ کلمے کو پڑھنے والے اور کلمے کو سمجھنے والے انسان تھے اور بالآخر وہ کلمے کے اونچے مقام تک پہنچ گئے اور کلمے کی عظمت کے لئے خوشبو کی طرح بکھر گئے

 لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 آج سے سات سال پہلے جب بہاولپور کی ’’جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ‘‘ میں اعتکاف شروع کرنے کی کوشش کی تھی تو اپنے ساتھ دس افراد کو منتخب کیا تھا ریاض حسین اُن میں سب سے پہلے نمبر پر تھے مسجد اور مرکز کی تعمیر میں اُن کی دعائیں اور پسینہ شامل تھا اور وہ ہمارے مرکز کی رونق تھے آج الحمدﷲ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اس وقت مسجد عثمانؓ وعلیؓ میں ماشاء  اللہ  آٹھ سو کے لگ بھگ معتکفین  اللہ  تعالیٰ کے در پر اپنے گناہوں کی مغفرت کے لئے گڑ گڑا رہے ہیں رکوع اور سجدے کر رہے ہیں  اللہ   اللہ  پکار کر نور پا رہے ہیں اور مستقبل کے شہداء کی صحبت میں دین اسلام کی روشنی حاصل کر رہے ہیں  اللہ  تعالیٰ ریاض حسین شہید کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے باقی رفقاء کے درجات بھی بلند فرمائے اور اُن کی عظیم قربانی کی برکت سے  اللہ  تعالیٰ ہم سب کو اپنی پیاری ملاقات کا شوق نصیب فرمائے لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

الحمدﷲ دیوانوں کی محنت رنگ لا رہی ہے اس سال مُلک کے حالات اچھے نہیں تھے کراچی میں آگ لگی ہوئی ہے مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ نے غریبوں کی کمر توڑ دی ہے اور ملک مختلف طاقتوں نے آپس میں بانٹ رکھا ہے ایسے حالات میں اعتکاف کی آواز لگائی گئی اعتکاف بڑی عاشقانہ عبادت ہے بس سب کو چھوڑا اور مالک کے درپر آپڑے  اللہ  اکبر کبیرا آج جب معتکفین کی حاضری لگی تو تعداد ماشاء  اللہ  سات سو نوّے تھی یہ تو سنت اعتکاف والے ہیں سنّت کا لفظ کتنا میٹھا ہے سنّت، سبحان  اللہ  سنتِ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ارے ساری دنیا کے نوافل مل کر ایک سنت کے برابر نہیں ہو سکتے اور رمضان المبارک میں ہر سنت کا اجر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے سنتوں کو زندہ کرنا ایمان کی علامت ہے اور سنت ہی وہ سیدھا راستہ ہے جو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے  اللہ  تعالیٰ ہم سب کو’’بدعات‘‘ سے بچائے بدعت ایک آگ ہے اور سنت نور ہے میرے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبودار ، معطر اور منوّر طریقے ہائے کاش ہر مسلمان کایقین بن جائے کہ ہماری کامیابی صرف رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقوں میں ہے کاش مسلمان ’’سنت‘‘ کے شیدائی بن جائیں اور اپنی شکل وصورت، اپنی خوشی،غمی اور اپنے تمام معاملات سنت کے مطابق بنائیں حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتنے پیار اور کتنی تاکید سے ارشاد فرمایا

 علیکم بسنّتی

 کہ اے ایمان والو اے کلمے والو میری سنت کو لازم پکڑلو رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ’’سنت مؤکدہ‘‘ ہے مگر علی الکفایۃ یعنی اگر ہر محلے اور علاقے سے چند لوگ یہ سنت ادا کرلیں تو کافی ہو جاتا ہے وہ لوگ جن کے دلوں میں  اللہ  تعالیٰ کا عشق ہوتا ہے وہ پورا سال رمضان المبارک کے آخری عشرے کا انتظار کرتے ہیںکہ کب اپنے عظیم اور محبوب مالک کے لئے سب کچھ چھوڑچھاڑ کر مسجد شریف جا بیٹھیں

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصوّر جاناں کئے ہوئے

اچھا ایک بات سوچیں میری اور آپ کی زندگی کے کتنے’’رمضان‘‘ باقی ہوںگے؟ کچھ بھی علم نہیں ممکن ہے یہ آخری رمضان ہو پھر یہ غفلت کیسی؟  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہو گیا کہ ایک رات کی عبادت چوراسی سال کی مقبول عبادت سے افضل ہے پھر بھی شیطان بہکاتا ہے کہ ذرا جوس پی آؤ ہوٹل سے کھانا کھا آؤ ارے باقی سارے کام تو پورا سال بھی ہو سکتے ہیں مگر رمضان المبارک اور لیلۃ القدر پورا سال نہیں ہوتے شیطان اور نفس کے بچھائے ہوئے فتنوں کا بہترین علاج ’’اعتکاف ‘‘ ہے نہ غیبت نہ گپ شپ نہ بازار نہ بد نظری بس  اللہ ، اللہ  اور لا الہ الا  اللہ  کی صدائیں اور عبادت ہی عبادت، نور ہی نور مزے ہی مزے

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ  

سنت اعتکاف میں شریک افراد ماشاء  اللہ آٹھ سو کے لگ بھگ ہیں اب میں اور آپ تو دور بیٹھے ہیں ان اعتکاف والوں کے عمل میں شرکت کا آسان اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے لئے دعاء کا معمول بنا لیں یا  اللہ  ان سب کو ایمان کامل نصیب فرما ان سب کو اپنی پیاری اور میٹھی ملاقات کا شوق نصیب فرما ان سب کو دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامیابی نصیب فرما اور ان سب کو اہل سعادت اور اہل جنت میں سے بنا سنت اعتکاف کے علاوہ نفل اعتکاف والے حضرات بھی آتے رہتے ہیں اور آخری عشرے میں اُن کی تعداد اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جامع مسجد سبحان  اللہ  کو  اللہ  تعالیٰ جلد قائم اور آباد فرمائے مسجد عثمانؓ وعلیؓ تو اس سال پوری نہیں پڑرہی  اللہ  تعالیٰ قادر ہے ہم اس کے سامنے’’جامع مسجد سبحان  اللہ ‘‘ کی تعمیر اور آبادی کے لئے جھولی پھیلاتے ہیں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

آخر میں ایک چھوٹی سی بات سمجھ لیں اگر آپ پیٹ بھر کر کھانا کھائیں اتنا کہ پیٹ اکڑجائے اور پھول جائے اوپر دو چار بوتلیں بھی پی لیں اور کچھ میٹھا بھی کھا لیں حالت یہ ہو جائے کہ اُلٹے ڈکار اور متلی آنے لگے ایسے میں کوئی آپ کے سامنے کسی کھانے اور’’ڈش‘‘ کی تعریف کرے کیا آپ کے دل میں یہ آئے گاکہ میں ابھی جا کر وہ ’’ڈش‘‘ یا کھانا کھالوں؟ ہرگز نہیں بلکہ غصہ آئے گا مگر جب گرمی کا روزہ ہو تو شام کے وقت پانی کا خیال، شربت کا خیال قورمے پلاؤ اور بریانی کا خیال بلکہ کوئی دال کا تذکرہ کرے تو وہ بھی اچھی لگتی ہے ٹھیک بات ہے نا؟ اب اگلی بات سمجھیں کھانے کے خیالات اور وسوسے اُسی کو آتے ہیں جس کا روزہ ہو اور پیٹ خالی ہو تو کیا ان وسوسوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ جواب بالکل واضح ہے ہرگز نہیں اب اگلی بات سمجھیں انسان اگرگمراہی اور گناہوں سے بھرا پڑا ہو تو نہ اُسے زیادہ بے چینی ہوتی ہے اور نہ وسوسے آتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ایمان اور دین کا راستہ اختیار کریں تو بس وساوس کا دریا بہہ پڑے گا اسی لئے علماء کرام نے لکھا ہے کہ جس کو ذکر  اللہ  کے بعد وسوسے زیادہ آئیں تو یہ اُس کے ذکر کے قبول ہونے کی علامت ہے اور جس کو عقائد کے بارے میں وسوسے زیادہ آئیں تو اُس کے ایمان کی نشانی ہے کیونکہ شیطان ’’چور‘‘ ہے اور چور وہیں حملہ کرتاہے جہاں خزانہ موجودہو آپ واقعات پڑھیں حضرات انبیاء د کے بعد سب سے اونچا، سب سے مقبول اور سب سے مضبوط ایمان حضرات صحابہ کرام  ڑکا تھا مگر حضرات صحابہ کرام ڑکو بھی وسوسے آتے تھے کئی مجاہدین نے بتایا کہ جب سے جہاد میں لگے ہیں وسوسے زیادہ آرہے ہیں اُن سے عرض کیا کہ جہاد چھوڑ دوو سوسے بند ہو جائیں گےشیطان چاہتا ہی یہی ہے کہ آپ جہاد چھوڑ دو اس لئے شیطان کی بات نہ مانیں وہ ہزار نہیں لاکھ وسوسے ڈالے بس جہاد پر ڈٹے رہو وسوسوں کا علاج یہ ہے کہ اُن کی طرف توجہ نہ کی جائے اور نہ اُن کو اہمیت دی جائے بس جیسے ہی وسوسہ آئے اُسے جھٹک دیں اوراعلان کر دیں اٰمَنْتُ بِ اللہ  وَ رُسُلِہِ

میں ایمان لایا  اللہ  تعالیٰ پر اور اُس کے رسولوں پر اور پھر آنکھوں میں پانی بھر کر دل سے پڑھنا شروع کر دیں

لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا  اللہ محمد رسول  اللہ

 اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا  اللہ محمد رسول  اللہ

٭٭٭

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (314)

 

افضل گورو اور لیبیا

 اللہ تعالیٰ کا دین دنیا میں’’غالب‘‘ ہونے کے لئے آیا ہے خوش نصیب ہیں وہ ’’مسلمان‘‘ جو دین اسلام کے غلبے کی فکر اور محنت کرتے ہیں اور اس کی خاطر اپنا مال اور اپنی جان قربانی کے لئے پیش کرتے ہیں آپ نے سن لیا ہو گا کہ انڈیا کی حکومت مجاہد اسلام جناب افضل گورو صاحب کو پھانسی دینے کی تیاری کر رہی ہےویسے یہ حرکت انڈیا کو بہت مہنگی پڑے گی انشاء  اللہ اُدھر لیبیا میں کرنل قذافی کا بیالیس سالہ اقتدار تقریباً خاتمے پر ہے ایک نئی خانہ جنگی اور بّراعظم افریقہ میں جہاد کی تربیت کا یہ ایک نیا محاذ کھل گیاہے مُلک شام کی منافق باطنی حکومت دھڑا دھڑ  مسلمانوں کو شہید کر رہی ہے نیٹو کو وہاں بمباری کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی حالانکہ وہاں کے حالات لیبیا سے زیادہ خطرناک ہیں حضرات انبیاء کی سرزمین پرشہداء کے سرخ جنازے ضرور اپنا رنگ دکھائیں گے امریکہ کو طوفانوں نے گھیر رکھا ہے آئرین طوفان کی بلا خیز موجیں امریکی ساحلوں کو تاراج کررہی ہیں اور نام نہادسپرپاور کے ہوش اُڑے ہوئے ہیں دیکھیں قرآن پاک کیا فرما رہا ہے :

وَکَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ م بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَا( القصص ۵۸)

ترجمہ: اور ہم نے بہت سے شہروں کو تباہ کر دیا جنہیں اپنی معیشت پر بڑا ناز تھا

لوگ بھاگ رہے ہیں شہروں کے شہر ویران پڑے ہیں اور کوئی ٹیکنالوجی اورمیزائل ایسا نہیں جو منہ زور ہواؤں کا رُخ بدل دے ہمارا شہر کراچی لاشیں اٹھا اٹھا کر ہلکان ہے اتنے لوگ نہ وزیرستان اور نہ سوات میں مارے گئے جتنے کراچی میں قتل کئے جارہے ہیں پورے پاکستان میں چوروں اور ڈاکوؤں کو کھلی آزادی ہے رات کووہ جہاں چاہتے ہیں ناکہ لگا کر لوگوں کو لوٹتے اور قتل کرتے ہیں رمضان المبارک میں ہمارے جامعۃ الصابر کے ایک ہونہار طالب علم کو شیخوپورہ میں ڈاکوؤں نے شہید کر ڈالا حکومت کا کوئی وزیر چوروں اورڈاکوؤں کے خلاف نہیں بولتا کیونکہ یہ چور اورڈاکو اگرچہ قاتل ہیں مگر امریکہ اور انڈیا ان سے ناراض نہیں اس لئے اُن کی مرضی وہ جتنے مسلمانوں کوقتل کریں ان تمام حالات میں پاکستان کی وزارت داخلہ اورخفیہ ادارے ایک نئے اور بڑے آپریشن کی تیاری کر رہے ہیں چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف نہیں کراچی کے ٹارگٹ قاتلوں کے خلاف نہیں لوگوں کے گُردے نکال کر فروخت کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف نہیں بھتہ خوروںاوربدعنوان آفیسروں کے خلاف نہیں اغوا اور بدکاری کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف نہیں ہیروئن اور چرس کے سمگلروں کے خلاف نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے دینی حلقوں کے خلاف مساجد اور مدارس اوردینی جماعتوںکے خلاف یقیناً یہ آپریشن بھی مُلک کو مزید ذلّت اور بدامنی میںمبتلا کرے گا مگر حکمرانوں کو اس سے کیا غرض انہیں تو امید ہے اس ظلم اور بیوقوفی کے بدلے انہیں دو چار ارب ڈالر کی امداد مل جائے گییہ ہیں چند تازہ خبریں، کوشش کریں گے کہ ان میں سے بعض پر کچھ تفصیلی بات ہو جائے افضل گورو، ایک کشمیری مجاہد ہیںجنہیں بھارت کی عدالتوں نے سیاسی بنیادوں پر سزائے موت سنائی ہوئی ہے وہ دھلی کی تہاڑجیل نمبر3 میں کئی سال سے قید ہیں اسی جیل میں کشمیری رہنما مقبول بٹ کو پھانسی دے کر شہید کیا گیا اور مزیدظلم یہ کہ اُن کو تہاڑجیل ہی میں سپرد خاک کر دیا گیا جمہوریت کے دعویدار عوامی احتجاج سے کس قدر ڈرتے ہیں؟ ان دنوں بھارت کی کانگریس حکومت بدعنوانی کے الزامات سے لرز رہی ہے اور اگلے انتخابات کا وقت قریب آرہاہے مسلمانوں کے پاس چونکہ’’خلافت‘‘ کی نعمت نہیں ہے اس لئے وہ دنیا بھر کے ظالموں کا نشانہ ہیں اب کانگریس نے ووٹ لینے ہیںتو اس کے لئے اُسے مسلمانوں کے خون کی ضرورت ہے اس سے پہلے بی جے پی بھی مسلمانوں کو قتل کر کے اقتدار میں آئی تھیایڈوانی اور اُس کی رتھ یاترا بابری مسجد اور مسلم کُش فسادات تب مشرکوں نے ’’بی جے پی‘‘ کو دل کھول کر ووٹ دیئے تھے گجرات میں نریندر مودی تیسری بار اسی لئے وزیر اعلیٰ بنا کہ وہ دن رات مسلمانوں کا خون پیتا ہےمہاراشٹرمیںبال ٹھاکرے اور اُس کے بھتیجے راج ٹھاکرے کی تمام تر قوت کا راز مسلمانوں کی خونریزی میں ہے مسلمانوں کے پاس ایک بھی ایسا حکمران نہیں جو’’مسلمان‘‘ کی بات کرتا ہو ہماری قسمت میں تو مسلمانوں کو بیچنے اور مارنے والے حکمران لکھے ہیں ابھی پاکستان کی ایک عدالت نے پرویز مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات دیئے تو ہم اُس کی جائیداد کی تفصیلات پڑھ کر حیران رہ گئے ایک تنخواہ دار سرکاری ملازم اتنی جائیداد آخر کہاں سے بنا سکتا ہے؟ یہ سب حرام کا مال مسلمانوں کو مارنے اور بیچنے کے بدلے کمایا گیا اور اب حکومت اس میں سے بچے کھچے کو ضبط کر رہی ہے جبکہ اصل دولت وہ اپنے ساتھ برطانیہ لے بھاگاہے کانگریس حکومت خطرے میں ہے تو وہ افضل گورو کو شہید کر کے اپنا اقتدار بچانا چاہتی ہے تاکہ انتخابات میں عوام کو بتا سکے کہ ہم نے ایک مجاہد مسلمان افضل گورو کو پھانسی دی ہے اس لئے ہمیں ووٹ دو یہ تو معلوم نہیں کہ انڈین حکومت یہ بھاری پتھر اُٹھا سکے گی یا نہیں افضل گورو جیل میں استقامت کے پہاڑ بنے بیٹھے ہیں ہروقت تلاوت، نماز، ذکر اور درود جو بھی اُن سے مل کر آتاہے وہ ایمان کی تازگی کا اعتراف کرتاہے پچھلے دنوں سید علی گیلانی اُن سے مل کر آئے توکہنے لگے! افضل گورو کی زیارت سے میرے ایمان کو قوت اور تازگی ملی ہے افضل گوروہر سچے مجاہد کی طرح’’شہادت‘‘ کے بھی شوقین اور طلب گار ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پھانسی اُن کے لئے ایک بڑا انعام ہو گی انڈین حکومت نے ارادہ تو باندھ لیا ہے وہاں کی وزارت داخلہ نے’’زنانہ صدر‘‘ کو درخواست دی ہے کہ وہ جلد سزائے موت کی توثیق کر دےلیکن سچی بات یہ ہے کہ افضل گورو کوئی لاوارث انسان نہیں ہے وہ شعلہ صفت فدائیوں کا محبوب دوست اورساتھی ہے اور روزآنہ ہزاروں ہاتھ اُس کے لئے دعاء کے لئے اٹھتے ہیں زندگی کا وقت مقرر ہے اور مؤمن دنیا کو قید خانہ سمجھ کر اس سے آزادی کا خواہش رکھتا ہے ممکن ہے افضل گورو کی دعائیں رنگ لے آئیں اور اسے دنیا کے قید خانے سے تختہ دار پر رقص کرتے ہوئے آزادی مل جائے مگر یہ انڈیا کے لئے بہت بھاری ہوگا جی ہاں بہت زیادہ بھاری ہاں ساری دنیا والو! کان کھول کر سُن لومسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کوکبھی امن نہیںمل سکتا کبھی بھی نہیں کسی کا تو نام بتاؤ جو مسلمانوںسے ٹکرایا ہو اور پھر سلامت رہا ہو وقتی طورپر کئی قومیں مسلمانوں پرغالب آئیں مگر آج اُن کا نام و نشان بھی نہیں جبکہ مسلمان الحمدﷲ پوری دنیا میں موجود ہیں ابھی تو صرف بارہ یا چودہ سال انتظار کرو ہاں جس کو تاریخ لکھنی ہو وہ  اللہ  تعالیٰ کے بھروسے پر آج ہی لکھ کر رکھ لے کہ بارہ یا چودہ سال میں اسلام کے غلبے کے مکمل آثار انشاء  اللہ  ساری دنیا دیکھ لے گی یہ نہ تو کوئی نجومیانہ پیشین گوئی ہے اور نہ ستاروں کا حساب فن نجوم اور پامسٹری سے ہزاروں بار  اللہ  تعالیٰ کی پناہ اسی طرح یہ نہ تو کشف ہے اورنہ الہام اولیاء کرام کو کشف اورالہام ہونا برحق ہے مگرہم تو ادنیٰ درجے کے مسلمان ہیں یہ بارہ اور چودہ سال کا عرصہجہادی رفتار ہے جہاد الحمدﷲ ترقی کی طرف جارہا ہے  اللہ  تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ ہم نے ’’جہاد مبارک‘‘ کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اب ماشاء  اللہ  جہاد اپنے ’’فدائی دور‘‘ میںداخل ہو چکا ہے سائنسدان جس طرح سیاروں کی چال اور رفتار پہچانتے ہیں تو اسی طرح جہاد کی چاکری میں جوانی کھپانے والے مسلمان جہادکی رفتار کو پہچانتے ہیں اب ماشاء  اللہ ’’جہاد‘‘ خلاؤں سے بھی اوپرپہنچ چکا ہے اب دنیا کا کوئی میزائل، کوئی بم اور کوئی جنگی جہاز ’’جہاد‘‘ کو نشانہ نہیں بنا سکتا اب جتنے مجاہد شہید ہوتے جائیں گے جہاد اُتنی ترقی کرتا چلا جائے گابلکہ جہادی قیادت کی شہادت سے بھی جہاد کو نقصان نہیں بلکہ ترقی ہو گی آپ تھوڑا سا غور کریں ایک فدائی مجاہد کی دعاؤں کا کیا مقام ہوتا ہے؟ کیا وہ  اللہ  تعالیٰ سے کوٹھی اور کار مانگتاہے؟ کیا وہ خوبصورت بیوی اور چالو فیکٹری مانگتا ہے؟ کیا وہ یہ مانگتاہے کہ دنیا میں لوگ اُس کی عزت کریں؟ کیا وہ اپنے معدے اورجگر کی بیماریوںکی شفاء مانگتا ہے؟ کیا وہ اپنی محبوبہ سے نکاح کی دعاء مانگتاہے؟ کیا وہ قرضوں سے نجات اور اہل اولاد کی فرمانبرداری مانگتا ہے؟ کیا وہ جسمانی صحت اور مردانہ قوت مانگتاہے؟ارے اُسے ان چیزوں کی کیا فکر اور اُس کے نزدیک ان چیزوں کی کیا قیمت اُس کے لئے یہ بڑے بڑے مسائل تو مٹی کی طرح بے قیمت ہو چکے ہوتے ہیں جی ہاں وہ مسائل جن کے لئے عام لوگوں گھنٹوں و ظیفے کرتے ہیں مہینوں تک چلّے کاٹتے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں آپ کسی عامل کے پاس جائیں رش ہی رش ہو گا آپ کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جائیں رش ہی رش ہو گا اور آپ دنیا کی خاطر تعویذ دینے والوں کے پاس جائیں ہجوم ہی ہجوم ہوگا فدائی کے لئے یہ سب کچھ بے قیمت ہے اسے نہ روٹھے محبوب کو منانے کی فکر ہے اور نہ کسی چور ڈاکو کا ڈر اسے نہ جادو کا خوف ہے اور نہ جنات کا ڈر اسے نہ کسی کی تعریف کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی مذمت کا ڈر اللہ  اکبرکبیرا وہ تو خالص  اللہ  تعالیٰ کا ہو چکا خالص بالکل خالص اپنے نفس کی ہر خواہش سے آزاد اوردنیا کے ہر غم سے بے فکر  اللہ ،  اللہ  ، اللہ عجیب نور، عجیب مٹھاس اور عجیب حلاوت اُس کے دل میں اُتر آتی ہے اور وہ لاکھوں پریشانیوں اور الجھنوں سے بالکل آزادہو کر ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے اب ایسے شخص کی دعاؤں اور  اللہ  تعالیٰ کے عرش کے درمیان کیا پردہ رہ جاتا ہے؟ کوئی بھی نہیں اسی لئے تو دنیابھر کے سیارچے، دوربینیں اور جاسوسی نیٹ ورک اُسے اپنے مقام تک پہنچنے سے نہیںروک سکتے کیونکہ وہ خالص  اللہ  تعالیٰ کا ہوجاتا ہے ایسا فدائی مجاہد اپنے آخری دنوں میں  اللہ  تعالیٰ سے کیا مانگتاہے؟ اسلام کی عظمت، اسلام کا غلبہ، مسلمانوں کی عزت وحرمت اور اسلام کی شوکت اور بالآخر وہ یہی دعائیں مانگتا مانگتا ہوائوں میں بکھر کر اونچے جہان جا پہنچتا ہے اور وہاں کی لذتّوں اور اکرام میں ڈوب جاتا ہے

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایسے خالص مؤمن کی دعائیں بے کارجاتی ہیں؟ مجھے تو اسلام کا غلبہ ریاض حسینؒ کے سورج کی طرح چمکتے چہرے میں یوں صاف نظر آرہاہےجس طرح آسمان پر سورج نظر آتاہے وہ رب تعالیٰ جو عابدوں کے آنسوضائع نہیں فرماتاوہ شہداء خصوصاًفدائیوں کے خون کاحقیقی قدردان ہے تبدیلی کا عمل تیز ہو چکا ہے کفار اپنی کم عقلی اور بے وقوفی سے جگہ جگہ بمباریاں کر کے جہادی مراکز کھلنے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں صدام حسین کے زمانے عراق میں جہاد کا نام لینا جُرم تھا مگر کافروں کی موت اُنہیں عراق لے گئی اُنہوں نے طاقت کا استعمال کیا تو صدام حسین بھی مجاہد بن گیا اور عراق میں عربوںکی جہادی تربیت کے سینکڑوں مراکز کُھل گئے براعظم افریقہ تو شروع سے مجاہدین کا مرکز رہا ہے حضرت موسیٰ بن نصیرؒ اور حضرت طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ کے ناموںسے کون واقف نہیں اورابھی ماضی قریب میںسنوسی مجاہدین کی تحریک مگر افریقہ کا عرب علاقہ کافی عرصہ ہوا جہاد سے کٹ گیا تھا مشرق کی طرف سے توصومالیہ کا چراغ کئی سالوں سے روشنی بکھیر رہا ہے مگر عربی افریقہ کا صحرا سالہا سال سے جہادی اذانوںکو ترس رہا تھا قذافی نے اپنے دور اقتدار میں جہاد اور مجاہدین کو بہت دبا کر رکھا اور امریکی اداروں کے ساتھ مل کرلیبیا کے جہاد پسند عناصر کو پوری دنیا سے پکڑا قذافی نے اپنے اقتدار کے آخری سالوں میں امریکہ اور یورپ سے تعلقات بناکرچلنے کے لئے کئی ذلّتیں بھی اٹھائیں اور اپنا ایٹمی پروگرام بھی مکمل طورپر بندکر دیا اُس نے لاکربی بم دھماکے کے متاثرین کو کروڑوں ڈالر جرمانہ ادا کیااور یورپی ممالک کی انتخابی مہمات میں لیبیا کے مسلمانوں کا پیسہ پانی کی طرح خرچ کیا یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ یورپ کے دل کو نہ جیت سکا کیونکہ ایک زمانے تک وہ انقلابی لیڈرکا کردار ادا کرتا رہا تھا اور اب بھی اس میں اتنی اسلامی غیرت باقی تھی کہ جب یورپ گستاخی رسول پر اُترا تو قذافی نے بلند آواز سے جواب دیا وہ ایک ملی جلی شخصیت کا حامل شخص ہے صحرائی اونٹ کا ہمشکل اور سخت جان ناچنے گانے والا مگر جمعہ کی خود امامت کرنے والا جہاد کا مخالف مگر عیسائیت کو للکارنے والابے پردگی کا علمبردار مگر اسلام کی دعوت دینے والا ابھی پرسوں۲ ستمبر کے دن اُس نے اپنے اقتدار کی بیالیسویں سالگرہ منائی تھی مگر اقتدار بکھرگیا اب لیبیا کا جہاد آشنا صحرا پھر آزاد ہو رہا ہے اگر نیٹو نے زمینی دستے اُتارے تو طارق بن زیادس اور امام سنوسی سکے فرزندپورے افریقہ سے لیبیا کا رُخ کریں گے لیبیا میں کئی جہادی دستے قائم ہو چکے ہیں جو لوگوں کو دعوت جہاد اورتربیت دے رہے ہیں اے کفر کے علمبردارو تم جس قدر ظلم و ستم بڑھاتے چلے جاؤ گے مسلمان اسی قدراونچے ہوتے جائیں گےکیونکہ کامیابی کا جو اصل راز ہے وہ مسلمانوں کے پاس ہے اور تم اُس سے محروم ہو اور کامیابی کا اصل راز ہے لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمدرسول  اللہ

ابتدائی فہرست کی دو باتیں آگئیں اور باقی سب رہ گئیں انشاء  اللہ  موقع ملا تو پھر کبھی

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ و صحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمدرسول  اللہ

٭٭٭

315

سیلاب

اللّٰھم صلِّ علیٰ سیدنا مُحَمّد  اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو دنیا اور آخرت میں اپنے ’’عذاب‘‘ سے بچائے ہمیں کبھی بھی  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف اور بے پرواہ نہیں ہونا چاہئے دیکھو! قرآن مجید صاف اعلان فرما رہا ہے:

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی  الخ( سورۃ الاعراف ۹۷ تا ۹۹)

ترجمہ:                توکیا بستیوں  کے رہنے والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ اُن پر ہمارا عذاب راتوں رات آئے جب وہ پڑے سوتے ہوں اور کیا بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہیں کہ اُن پر ہمارا عذاب دن چڑھے نازل ہو جب وہ کھیل کودمیں مشغول ہوں، کیا یہ لوگ  اللہ  تعالیٰ کی اچانک پکڑ سے بے خوف ہیں، تو یاد رکھو  اللہ  تعالیٰ کی اچانک پکڑ سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہوتے ہیں

دیکھا آپ نے کتنی واضح آیات ہیں موبائل ہاتھ میں ہوتاہے اور آنکھوںسے گناہ چھلک رہے ہوتے ہیں کہ اچانک  اللہ  تعالیٰ کے عذاب کا کوئی جھٹکا آلگتا ہے وہ لوگ شکر کریں جنہیں ایسا چھوٹا جھٹکا لگتا ہے کہ جان نہیں جاتی اور توبہ کے لئے وقت مل جاتا ہے ورنہ عذاب کے بعض جھٹکے توبہ کا موقع بھی نہیں دیتے  اللہ ،  اللہ ،  اللہ وہ دیکھو! سندھ کے شہروں اور دیہاتوں پر پانی چڑھ آیا ہے آہ سندھ ڈوب رہا ہے اور ہمارے اعمال نے پانی جیسی میٹھی نعمت کو عذاب بننے پر آمادہ کر دیا ہے چالیس لاکھ افراد بے گھر ہوگئے مگر منہ زور پانی ہے کہ رکتا ہی نہیں اور اب اُس کا رخ پنجاب کی طرف ہے ابھی پچھلے سال کے سیلاب کی تباہ کاریاں مندمل نہیں ہوئی تھیں کہ یہ نیا سیلاب ٹوٹ پڑا ہے آہ مُلکِ پاکستان! دس سال کے عرصے میںا ندر باہر سے زخمی زخمی ہو گیا کبھی زلزلے، کبھی سیلاب کبھی بمباریاں اور کبھی لڑائیاں کبھی دھماکے تو کبھی آپریشن ایک پاگل بن مانس اس ملک کو آگ لگا کر بھاگ گیا اور اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو بٹھا گیا جو ا س آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں  اللہ  تعالیٰ کو چھوڑ کر ’’طاغوت‘‘ کی غلامی اختیار کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے امریکہ نے افغانستان پر اپنی تمام تر قوت سے حملہ کیا مگر وہاں اتنے لوگ شہیدنہیں ہوئے جتنے اس دوران پاکستان میں مارے جا چکے ہیں پھر بھی حکمرانوں کو دعویٰ ہے کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دیکر پاکستان کو بچالیاہے ان اللہ  وانا الیہ راجعون

اے مسلمان بھائیو! اور اے مسلمان بہنو! صرف حکمرانوں کو کوسنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ ہم سب کو اپنے گریبانوں میں بھی جھانکناہوگا وہ دیکھو! سیلاب کا پانی سر پر آپہنچا ہے اب تو غور کرو کہ ہم دین کے معاملے میں آگے جارہے ہیں یا پیچھے ہمارا رُخ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف ہمارے ایمان میں ترقی ہو رہی ہے یا تنزّل ؟ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ہم فلاں نیک کام کرتے تھے اب نہیں ہوتا یہ تنزّل کی علامت ہے مؤمن وہ ہے کہ جس کی زندگی کا ہر آنے والا دن ایمان میں پچھلے دن سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ  محمد رسول  اللہ جتنا پُرانا ہوتا جاتا ہے اُسی قدر اپنارنگ پختہ کرتا جاتا ہے اگر ہم پہلے اچھے تھے اور اب بُرے ہوگئے ہیں تو یہ بہت خوف کا مقام ہے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم کلمے سے کٹ گئے ہیں کلمے کے پاور ہاؤس سے جڑے ہوتے تو ہر دن نئی قوت ملتی ہر دن نیا کرنٹ ملتا اور ہر گھڑی نئی منزل طے ہوتی وہ دیکھو پانی سیلاب بن کر آرہا ہے اب تو ہم سب دل کی گہرائی سے پڑھ لیں

لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول  اللہ

ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  دعاء فرمایاکرتے تھےاللّٰھُمَّ لَاتُؤْمِنَّا مَکْرَکَ

یا  اللہ ! ہمیں اپنی اچانک پکڑ سے بے خوف نہ فرما ’’مَکْرُ اللہ ‘‘ یعنی  اللہ  تعالیٰ کی پوشیدہ تدبیر اور  اللہ  تعالیٰ کی اچانک پکڑ جب کوئی انسان کسی گناہ کو نیکی سمجھنے لگے یا وہ اس بات پرجری ہوجائے کہ مجھ پر تو  اللہ  تعالیٰ کا عذاب آہی نہیں سکتا میں فلاں نیکی کرتا ہوں اور فلاں نیک کام کرتا ہوں  اللہ ،  اللہ ،  اللہ حضرات صحابہ کرام ڑکو دیکھو! اتنے اونچے اعمال کر کے بھی وہ  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے تھے، لرزتے تھے اور کانپتے تھے ادھر ہم ہیں کہ ریاکاری سے آلودہ دو چار نیکیاں کر کے  اللہ  تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہوجاتے ہیں ارے ہم اپنے گناہوں کو تو شمار کریں کوئی بے نمازی ہے تو کسی کی نماز سستی کی ماری اور بے جان ہے جھوٹ ہے کہ منہ کا ساتھ چھوڑتا نہیں فخر، تکبر، ضد اور ریاکاری کی گندی بوریاں ہم پر لدی ہیں چہرے اور لباس سنت کے مطابق نہیں شادیاں ہر طرح سے غیر شرعی اور بدعات، رسومات کے میلے ہر گھر میں فحاشی،عریانی اور بے حیائی اور تو اور بیوی کی زبان تک میں خاوند کے لئے پردہ نہیں  اللہ  تعالیٰ نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس اور ایک دوسرے کی عزت بنایا مگرآج ہر گھر میں یہ لباس تار تار اور یہ عزت رسوا ہے آنکھیں بے حیا، زبانیں بے حیا چہرے بے حیا اور خیالات تک بے حیا تنہائی ملتے ہی ہرکوئی یہ بھول جاتا ہے کہ میر ا  اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے رشوت، چوری، خیانت، اور سود اجتماعی اموال میں عیاشیاں اور بے احتیاطیاں اور ہر کسی کو بس دنیا کی فکر لائف اسٹائل اور برائٹ فیوچر  اللہ ،  اللہ  ، اللہ اے مسلمان تجھے کیا ہوگیا مال کی اتنی محبت؟ توبہ، توبہ، توبہ مال کی خاطر بھائی بھائی کا دشمن اور مال کی خاطرگھر گھر میں جھگڑا آخر کس منہ سے  اللہ  تعالیٰ کے سامنے حاضری ہوگی کوئی ہے جو آج سچے دل سے توبہ کرے اور دنیا کی محبت سے  اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگے کوئی ہے جو سچے دل سے توبہ کرے’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ کی مضبوط رسّی کو تھام لے  اللہ  تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور حِلْم دیکھو! کہ ہروقت توبہ کا دروازہ کُھلا ہوا ہے کوئی آکر تو دیکھے

حضرت ابراہیم بن شیبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے ساتھ ایک بیس سالہ نوجوان تھا ایک بار شیطان اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا اے جوان آدمی تم نے توبہ میں جلدی کرلی ابھی کچھ دن اور دنیا کے مزے لوٹ لو توبہ تو تمہارے ہاتھ میں ہے کچھ جوانی ڈھلے تو توبہ کر لینا وہ شیطان کی باتوں میں آکر دوبارہ گناہوں میں ڈوب گیا مگر فطرت اور قسمت اچھی تھی چند دن کی غفلت کے بعد اُسے ہوش آگیا وہ تنہائی میں جا بیٹھااور نیکی کے دنوں کو یاد کر کے رونے لگا کہ وہ کیسے پیارے دن تھے اور کہنے لگا اب پتہ نہیں  اللہ  تعالیٰ مجھے قبول فرمائیں گے یا نہیں؟ اچانک اُسے آواز آئی

اے فُلان! تم نے ہماری عبادت کی توہم نے تمہاری قدر کی پھر تم نے ہماری نافرمانی کی تو ہم نے تمہیں مہلت دی اور اب پھر تم اگر واپس آؤگے تو ہم تمہیں قبول کر لیں گے(بیہقی)

نسخہ آسان ہے دین کے معاملے میں اپنے اور  اللہ  تعالیٰ کے درمیان کسی کو نہ رکھوخالص  اللہ  تعالیٰ سے محبت خالص  اللہ  تعالیٰ کا خوف اور ہر عمل خالص  اللہ  تعالیٰ کے لئے کوئی مسلمان اپنی زندگی کا ایک دن تو اس طرح سے گزار کر دیکھے اگر اُس کے جسم میں کلمے کانور نہ دوڑنے لگے تو بات کرے ہم نے اپنے دین کو لوگوں کے ساتھ لٹکا رکھا ہے لوگ دیکھیں تو ہم پکے مسلمان اور جب کوئی نہ دیکھے تو پھر ہر گناہ جب بھی کوئی نیکی ہو تو بس اس کی فکر کہ لوگوں کوپتہ چل جائے خواہ کسی بھی بہانے سے ہو اور اگر چھپ کر نیکی کی تو پھر اس کی توقع کہ لوگ میری قدرکریں مجھے نیکی کے بدلے عزت دیں ایسی نیکیاں زیادہ دن ساتھ نہیں دیتیں یہ دنیا ہی میں چھوٹ جاتی ہیں آخرت میں کیا کام دیںگی ارے بھائیو! اری بہنو! دین کا معاملہ خالص  اللہ  تعالیٰ کے لئے کرلو دیکھو! سیلاب کا پانی گھروں کے دروازوںتک آپہنچا ہے اگر ہمارا دین ٹھیک ہوگیا تو پھر نہ سیلاب کی پرواہ ہے نہ زلزلے کی نہ جل کر مرنے میںکوئی نقصان ہے اور نہ کٹ کر مرنے میںلیکن اگر توبہ نصیب نہ ہوئی تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے  اللہ  تعالیٰ ہمارا رب ہے وہ ہمارا خالق بہت مہربان ہے اُسی نے ہمیں پیدا کیا اور ہم نے مر کر اُسی کی طرف جاناہےآؤ آج سے پکا عزم کرلیں کہ ہم نے  اللہ  تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور اللہ  تعالیٰ کا ہر حکم ماننا ہے بس یہ عزم جس کو نصیب ہوگیا وہ  اللہ  تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے گا اور  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ماضی کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتے ہیں کتاب التوّابین میں لکھا ہے مدینہ منورہ میں ایک عبادت گزار خاتون تھیں اُس خاتون کا ایک بیٹا تھا بہت غافل، بہت گناہ گار خاتون کو جب موقع ملتا تو اُسے سمجھاتی اے بیٹے توبہ کر لے دیکھ!ماضی میں غفلت کی زندگی گزارنے والے کیسی بُری موت مرے اور اُن کا کتنا بُراانجام ہوا اے بیٹے موت کو یاد کر اور اُس کی تیاری میں لگ جا مگر بیٹے پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوتا وہ ماں کی تقریر سن کر گانا گاتا ہوا باہر نکل جاتا اور کہتا کہ  اللہ  تعالیٰ کا فضل بہت بڑا ہے اسی طرح دن رات گزرتے رہے ایک بار اہل حجاز کے مشہور دردمند واعظ حضرت ابو عامر البنانیؒ رمضان المبارک میں مدینہ منورہ تشریف لائے لوگوں نے اُن سے ’’بیان‘‘ کی درخواست کی چنانچہ شب جمعہ تراویح کی نماز کے بعد اُن کا ’بیان‘‘طے ہوا لوگ جمع ہوگئے قسمت کی خوبی کہ وہ نوجوان بھی مجلس میں آبیٹھا شیخ نے  اللہ  تعالیٰ کی توفیق سے وعظ شروع فرمایا کبھی ترغیب اور کبھی ترہیب کبھی جنت کا شوق تو کبھی جہنم کا خوف سچے رب کی سچی باتیں سامنے آئیں تو مردہ دل زندہ ہونے لگےاُس نوجوان کا رنگ بدل گیااور نصیحت اُس کے دل میں اُتر گئی وہ مجلس سے اُٹھ کر اپنی والدہ کے پاس آیا اور بے ساختہ رونے لگا اے ماں! آج توبہ نے میرے جسم کے تالے کھول دیئے ہیں اے ماں! رب تعالیٰ کے راستے کے حُدی خواں کی حُدی نے شیطانی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اے میری ماں! میں نے بھی اس پکار پر لبیک تو کہہ دیا ہے مگر کیا میرا مالک مجھ جیسے بُرے انسان کو قبول فرمالے گا؟ ہائے اگر انہوں نے مجھے قبول نہ فرمایا تو میرے لئے بہت بُرا ہوگا پھر وہ نوجوان عبادت میں لگ گیا سارا دن روزہ اور رات بھر عبادت اور  اللہ تعالیٰ کا ذکر ایساکہ نہ زبان رُکے اور نہ جسم تھکے چند دن ہی گزرے تھے کہ شدید بخار ہوا چار دن وہ بخار اور کمزوری میں دن رات عبادت کرتا رہا ایک دن اُس نے دعاء میں کہا

یا الہٰی! جب میں طاقتور تھا تو آپ کی نافرمانی کرتا رہا جب کمزور ہوا تو اطاعت میں لگا جب مضبوط تھا تو آپ کو ناراض کرتا رہا جب نحیف ہوا تو آپ کے کام میں لگا ہائے کاش آپ مجھے قبول فرما لیں یہ کہتے ہوئے بے ہوش ہو کر گر گیا ماں نے آوازیں اور دلاسے دیکر ہوش میں لایا تو کہنے لگا امی جی! وہ وقت آگیا ہے جس سے آپ مجھے ڈارتی تھیںہائے افسوس اُن دنوں پر جو عبادت سے خالی گزرے مجھے ڈر ہے کہ میرے گناہوں کی وجہ سے مجھے طویل عرصہ آگ کی قید کاٹنی پڑے گی اے ماں! آپ کو  اللہ  کا واسطہ اُٹھ کر اپناپاؤں میرے چہرے پر رکھ دیں تاکہ میری اس ذلت کو دیکھ کر میرے رب کو مجھ پر رحم آئے ماں نے ایسا ہی کیا کہ اُس کا انتقال ہو گیا جمعہ کی رات ماں نے خواب میں دیکھا کہ اُس کے بیٹے کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا ہے اُس نے پوچھا اے بیٹے!  اللہ  تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ فرمایا اُس نے کہا بہت اچھا معاملہ فرمایا اور مجھے اونچا درجہ عطاء فرمایا ماں نے پوچھا ابو عامر کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ ابو عامر وہی واعظ جن کاوعظ سُن کر اس نوجوان کو ہدایت ملی تھی اور وہ بھی انتقال فرما چکے تھے جوان نے کہا امی جی کہاںہم اور کہاں ابو عامر! پھر اُس نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ ہے:

ابوعامر کو ایسے قبّے میں رکھا گیا ہے کہ جس کی نچلی چوبیں بھی دوسرے جنتیوں کے لئے عرش کی طرح اونچی ہیں وہ ایسی حوروں کے درمیان ہیں جو انہیں پیالے بھر بھر کر پیش کرتی ہیں اور ترنم سے  کہتی ہیںلیجئے، لیجئے مبارک ہو آپ کو اے لوگوں کو نصیحت کرنے والے(کتاب التوابین)

اے مسلمانو! توبہ کا دروازہ کُھلا ہوا ہے دیکھو! کسی وقت اچانک بند نہ ہو جائے بس بہت ہوگئی غفلت اور بہت ہو گئے گناہ آج ہی سے بلکہ ابھی اسی وقت سے ہم دل کے یقین کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھیں لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کریں نماز کا معاملہ درست کریں جہاد فی سبیل  اللہ  کی نیت کریںاور  اللہ  تعالیٰ کی رضا اور آخرت کو اپنا مقصود بنا لیںتوبہ کا راستہ دلکش ہے، پرنور اور پرسکون ہے

لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (316)

 

مال ساتھ لے جائیں

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو’’سخاوت‘‘ کی صفت عطاء فرمائے اور ہم سب کو بخل اور کنجوسی کی مصیبت سے بچائے کبھی آپ نے غور فرمایا قرآن پاک کی پہلی آیت ہی ہمیں’’سخاوت‘‘ کا سبق سکھاتی ہے الحمدﷲ ربّ العالمین پالنے والا’’  اللہ  تعالیٰ‘‘ ہے ہم نہ خودکو پال سکتے ہیں اور نہ اپنی اولادوں کو سب کو  اللہ  تعالیٰ پالتا ہے اور سب کو  اللہ  تعالیٰ پالے گا اس حقیقت پر غور کریں تو دل سے بخل اور کنجوسی کے تالے ٹوٹ گریں ’’سخاوت‘‘ دراصل ایک درخت ہے جو  اللہ  تعالیٰ نے جنت میں لگایا ہے اس درخت کی شاخیں’’زمین‘‘ پر ہیں پس جو سخاوت کی شاخ کو پکڑ لیتا ہے تو وہ شاخ’’لفٹ‘‘ کی طرح اُسے جنت میں کھینچ کر لے جاتی ہے یہ میری گھڑی ہوئی بات نہیں بلکہ حدیث پاک کا مفہوم ہے  اللہ  تعالیٰ جب کسی بندے سے خوش ہوتے ہیں تو اُسے’’سخی‘‘ بنا دیتے ہیں اور اُس کے ہاتھ سے لوگوں کی حاجتیں پوری فرماتے ہیں جو شخص لوگوںکو کھانا کھلاتاہے  اللہ  تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اُس پر فخر فرماتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جنت سخی لوگوں کا گھر ہے‘‘ ایک روایت میں آیا ہے بندوں کے لئے رزق کی چابیاں عرش کے سامنے ہیں، جس قدر کوئی بندہ خرچ کرتاہے اس قدر  اللہ تعالیٰ اُس کے لئے بھیج دیتا ہے جو زیادہ کرتا ہے اُس کے لئے زیادہ اور جو کم کرتا ہے اُس کے لئے کم میرے بھائیو اور بہنو! ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا بخل یعنی کنجوسی’’کفر‘‘ کی صفت ہے اور’’سخاوت‘‘ ایمان کی صفت ہے پس جس نے دل سے’’لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ ‘‘ پڑھاہے وہ کبھی کنجوس نہیں ہو سکتا آؤ ہم سب دل کی گہرائی سے پڑھ لیں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ محمد رسول  اللہ

ہمارا رب  اللہ تعالیٰ’’جوّاد‘‘ ہے ’’جوّاد‘‘ کا مطلب بہت سخی اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سخیوں کے امام اور سردار ہیں اور ہمارے رہبر حضرات صحابہ کرامؓ ایسے سخی تھے کہ دنیا کی کوئی قوم اُن جیسی سخاوت کی مثال نہیں لا سکتیپھر ہمارے دلوں میں یہ بخل اور کنجوسی کی نحوست کہاں سے آگئی؟ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’بخل‘‘ جہنم کا درخت ہے، جس کی شاخیں زمین پر ہیں پس جو اس کی کوئی شاخ پکڑلیتا ہے وہ شاخ اُس کواپنے ساتھ باندھ کر جہنم میں لے جاتی ہے ویسے بھی آپ بخیل آدمی کو دیکھ لیں بندھا بندھا سا لگتا ہے پیسہ کم نہ ہو جائے، پیسہ خرچ نہ ہو جائے کہیں کروڑپورا کرنے کی فکر تو کہیں لاکھ پورے کرنے کی دوڑ کیسا عذاب ہے کہ جان پیسے میں اٹکی ہوئی ہے حالانکہ پیسہ اس لئے تھا کہ جان کو فائدہ دے مگر بخیل کا پیسہ تو اُس کو کھا جاتا ہے صحت ختم، جوانی ختم، سکون ختم، خوشی ختم بس پیسہ بناؤ، پیسہ بناؤ کوئی مانگ لے توغصے سے دماغ گرم کوئی چھین لے تو غم کا پہاڑ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مالک ناراض توبہ، توبہ، توبہ ہمارا مالک  اللہ  تعالیٰ ہم سے ناراض ہو گیا تو پھرکُتّا بھی ہم سے اچھا سور، ریچھ اور گدھے بھی ہم سے اچھے  اللہ  تعالیٰ مال اس لئے دیتاہے تاکہ آدمی اس سے اپنی جائز ضرورتیں پوری کرے اور اس مال کو  اللہ  تعالیٰ کے دین کے لئے لگائے اوراس مال سے  اللہ تعالیٰ کے بندوں کی حاجت پوری کرے تھوڑا سا سوچیں آپ ایک مالدار آدمی ہیں آپ کسی کو اپنے مال کا ناظم بناتے ہیں اب اس خزانچی یا ناظم کا کام کیا ہے؟ یہی ناکہ آپ اُسے جہاں خرچ کرنے کے لئے کہیں وہ خوشی خوشی خرچ کرتا جائے لیکن اگر وہ آپ کے حکم کے مطابق خرچ نہ کرے یا خرچ کرنے میں ناک بھویں چڑھائے تو آپ اُسے کتنے دن نوکری پر رکھیں گے؟ اور ایسا شخص ہر کسی کے نزدیک قابل نفرت ہوگا کیونکہ وہ اپنے نہیں دوسرے کے مال میں بھی کنجوسی کر رہا ہے اے  اللہ  کے بندو! ہر مال کا اصل مالک  اللہ  تعالیٰ ہے یہ بات قرآن مجید کی کئی آیات میں سمجھائی گئی ہے ویسے بھی سوچیں کہ ہم کیا ہیں؟ کل دنیا میں آئے اور چند دن میں یہاں سے چلے جائیں گے ہر چیز کا مالک اور وارث  اللہ  تعالیٰ ہے اب  اللہ  تعالیٰ اپنا یہ مال اپنے بعض بندوں کو دیتا ہے اور اُن کو حکم فرماتا ہے کہ اس میں سے زکوٰۃ ادا کرو فطرانہ ادا کرو والدین، اہل وعیال اور اقربا کے حقوق ادا کرو اسے جہاد فی سبیل  اللہ  میں لگاؤ اس میں سے صدقہ کرو اس سے غریبوں، یتیموں، بیواؤں کو کھلاؤ اس سے بے آسرا لوگوں کو سہارا دو اس سے بے گھر لوگوں کو گھر دو تب جو خوش نصیب ہوتے ہیں وہ ہر حکم پر کہتے ہیں لبیک یاربی لبیک یا ربی حاضر، حاضر میرے  اللہ مال تو آپ کا ہے مجھے مفت کا ثواب ملتا ہے توکیوں نہ کماؤںگا ایسے لوگوں سے  اللہ  پاک راضی ہوتا ہے وہ اُن کو اپنا ولی بناتا ہے وہ اُن کے مال میں عجیب برکات دیتا ہے وہ ان کی عمر اور صحت میں برکت ڈالتا ہے اور اُن کو مخلوق کا محبوب اور جنت کا مستحق بناتا ہے اور اُن کو اولیاء ابرار کا مقام عطاء فرماتا ہے مگر کچھ بدنصیب آدمی کہتے ہیں کہ یا  اللہ ! میں کہاں کہاں خرچ کروں؟ ابھی کل تو صدقہ نکالا ہے چندہ بھی دیاہے اور میں کیا کروں؟ یہ میرا مال ہے میں کِس کِس کو دوں؟ چنانچہ ہر حکم پر اُس کا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے اورہر خرچے پر اُس کا دل غم سے مرنے لگتاہے ایسے لوگوں سے  اللہ  تعالیٰ نفرت فرماتے ہیں اور  اللہ  تعالیٰ کی مخلوق بھی اُن سے نفرت کرتی ہے اور بالآخر یہ مال اُن کے لئے دنیا اور آخرت کی مصیبت بن جاتا ہے کہ دنیا میں کما کما کر، جمع کر کر کے اور حساب جوڑ جوڑ کر تھکتے،مرتے تھے اورآخرت میں انہیں اس مال کا حساب دینا ہوگا جو بہت مشکل کام ہوگا آہ! افسوس کہ مال تو پیچھے چھوڑ آئے مگر اُس کا بوجھ اور گند،اپنے ساتھ قبر میں اپنے اوپر لاد آئے

یا اللہ  بخل سے بچا بہت بڑی مصیبت ہے بہت ہی بڑی جہانگیر کے زمانے ایک قاضی تھا بہت بخیل مگرعالم بہت بڑا تھا آہ! ایسے عمل کا کیا فائدہ؟ اُس نے اپنے علم کی بدولت بہت مال کمایا بے اولاد تھا گھر میں صرف وہ تھا اور اُس کی بیوی اور دونوں مال کے لالچی اور بخیل مال زیادہ جمع ہو گیا تو پریشان ہوئے کہ کیا کیا جائے لوگ نہ دیکھ لیں چنانچہ گھر کے ایک کمرے میں قبریں بنا کر اُن میں مال دفن کر دیا لوگوں کو بتاتے کہ ہمارے بڑوں کی قبریں ہیں بالآخر دونوں مر کھپ گئے اور راز فاش ہوا تو بادشاہ نے وہ سب خزانہ اٹھا کر بیت المال میں جمع کر لیا دیکھیں بخل انسان کو کتنا رسوا کرتا ہے بخل کے بارے میں قرآن پاک کی آیات اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ لکھوں تو آپ یقین کریں کہ دل دہل جائیں گےآج تو بخل کو عقلمندی سمجھا جاتا ہے استغفر اللہ ، استغفر اللہ یہ بھی کوئی عقلمندی ہے کہ انسان خزانے کا سانپ بن جائے یہی بخل جب بڑھتاہے تو انسان کو حرام مال پر لگاتا ہے دوسروں کا مال بھی دبا کر رکھو بندہ ہر ایک کوجو بھی میرے رابطے میں ہو عرض کرتا رہتاہے کہ قرضہ ایک دن بھی اپنے سر پر نہ رکھو بس جیسے ہی مال ہاتھ آئے اُسی وقت قرضہ اتار دو شیطان کہے گاکہ یار کل دے دینا مہینے بعد حساب برابر کرلینا فلاںمال آئے تب دے دینا تب اُس مردود پر لعنت بھیج کر کہیں کہ کل کا کیا پتہ زندگی ہو گی یا نہیں دوسروں کا مال بلاوجہ اپنے پاس پھنسا کر رکھنے سے بے برکتی آتی ہے طرح طرح کی آفتیں آتی ہیں اور انسان میں مال کی حرص اور لالچ پیدا ہوتی ہے ضرورت سے زائد مال اپنے پاس پڑا رہے تو کیا یہ مال انڈے بچے دے گا؟  اللہ  کے بندو! قرضہ اتارو اور اس مال کو اپنا بناؤ ایک معروف بزرگ حضرت احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کے ہاتھ سے ایک درہم لیا اور پوچھا یہ کس کا ہے؟ اُس نے کہا یہ میرا ہے فرمایا تیرا تو تب ہوگا جب تیرے ہاتھ سے کسی اچھی جگہ خرچ ہو جائے گا بخل بڑی مصیبت ہے، بخل بڑامرض ہے بخل ایک عذاب ہے بخل ایک بیماری اور آفت ہے ہم سب کو چاہئے کہ رو رو کر اللہ  تعالیٰ سے پناہ مانگا کریں ورنہ ایسا بھی وقت آسکتاہے کہ بخل سے پناہ مانگنے سے بھی ڈرنے لگیں کہ اگر ہم بخیل نہ رہے تو پھر سخی ہوجائیں گے اور جب سخی ہو جائیں گے تو مال خرچ کرنا پڑے گا اس لئے ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں پیسہ ہمارے کام نہیں آرہا مگر ہے تو ہمارے پاس اور ہم کروڑ پتی ہیں یا  اللہ  توبہ، یا  اللہ  توبہ، یا  اللہ توبہ آئیے مل کر بخل سے پناہ مانگتے ہیں

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخُلِ وَالْجُبُنِ

ترجمہ: یا  اللہ  ہم آپ کی پناہ پکڑتے ہیں کنجوسی اور بزدلی سے

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمدرسول  اللہ

 دوسری طرف سخاوت عجیب نعمت ہے سخی کے مال کی تلواریں راہ جہاد میں چمکتی ہیں یاد رکھو ان تلواروں کے سائے تلے جنت ہے سخی کے مال کے گھوڑے میدان جہاد میں ہانپتے ہیں ارے ان کے ہانپنے کی قسمیں  اللہ  تعالیٰ قرآن پاک میں کھاتا ہے سخی کو والدین کی دعائیں ملتی ہیں اور والدین کی دعائیں جنت کی ہوائیں ہیں سخی کے دستر خوان پر  اللہ  تعالیٰ کے بندے شکم سیر ہو کرکھاتے ہیں اورسخی کی چھت کے نیچے باعزت لوگ پردہ حاصل کرتے ہیں سیدنا ابو بکرصدیقذ سخی تھے اُن کا مال کس کے کام آیا؟ ذرا دل تھام کر سوچیں سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ اُن کامال سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے کام آیا ہے کوئی اس سعادت کی مثال؟ غزوہ تبوک میں اپنے گھر کا سب کچھ اُٹھا لائے  اللہ  تعالیٰ نے قبول فرمایا اور اُن کو مسلمانوں کے تمام بیت المال کا متصرف بنا دیا کہ اب جہاںچاہیں دل کھول کر مشرق و مغرب میں خرچ کریں کتنا مزہ آئے اگر  اللہ  پاک اپنے فضل سے مجھے اور آپ کو سخی بنا دے ارے سارا مال  اللہ  تعالیٰ قبول فرمالے اگر اس کے بدلے اُس کی محبت اور جنت مل جائے تو سودا بہت سستا اور بہت نفع والا ہے اسلام کے فدائیوں کو دیکھو کہ اپنے جسم کا ہر ٹکڑا  اللہ  تعالیٰ کی راہ میں نچھاور کرتے ہیں ایسی قربانی کے سامنے مال کی کیا حقیقت ہے سندھ کے مسلمان سیلاب سے آفت زدہ ہیں آپ نے رمضان میں بہت خرچ کیا ہو تب بھی اس موقع پر فائدہ اٹھائیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک شخص جنت میں مزہ سے کروٹیں لیتا دیکھا، اس نے راستے سے ایک درخت کاٹا تھا جو لوگوں کو ایذاء پہنچاتا تھا(احیاء العلوم)

آپ  اللہ  تعالیٰ کے بندوں کی مدد کریں تو  اللہ  تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا آپ دنیا میں مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کریں گے تو  اللہ  تعالیٰ قیامت کے دن کی بڑی تکلیفوں کو آپ سے دور کرے گا ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے جانباز دیوانے سیلابی علاقوں میں خدمت کے لئے اُتر چکے ہیں ان کے ساتھ مل کر آپ بھی نیکی کے اس کام میں اپنا حصہ اور اجر حاصل کریںدیکھو! کلمہ پڑھنے والے مسلمان بارش اور سیلاب میں  اللہ  تعالیٰ کو پکار رہے ہیں مسلمانو! سخاوت کا وقت ہے سخی  اللہ  تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور یاد رکھنا یہ مال چھوڑ کر ہم نے کسی اور جہان جانا ہے اچھا ہے مال کو رحمت بنا کر اپنے ساتھ لے جائیں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (317)

آپ کا دیوانہ ہو جائے

 

 اللہ  تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اپنے علم کا’’نور‘‘ اور روشنی عطاء فر مائے آج چند باتیں عرض کرنی ہیں

امریکہ والے پریشان

وہ جو اکڑتے ہوئے آئے تھے، اب چلاّتے ہوئے واپس جارہے ہیں واہ میرے  اللہ  تعالیٰ کی شان امریکہ کو افغانستان میں کیسی ذلّت ناک شکست ہوئی  اللہ  اکبر کبیرا کوئی کافر دل سے غور کرے تو مسلمان ہو جائے کوئی منافق آنکھیں کھولے تو نفاق سے تائب ہو جائے کہاںامریکہ کی ہوشر با طلسماتی طاقت اور کہاں کمزور نہتے طالبان دونوں کی طاقت کا موازنہ کریں اور پھر دس سالہ جنگ کے نتائج دیکھیں تو دل بے اختیار پڑھنے لگے گا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ والحمدﷲ رب العالمین

امریکی فوج کا سربراہ مائیک مولن شکست کا داغ سجائے ریٹائر ہو رہا ہے اُس کے ہر حربے اور تدبیر کو  اللہ  تعالیٰ نے ناکام فرمایا اب وہ اس شکست کی کالک پاکستان کے منہ پر ملنا چاہتا ہے کیا آئی ایس آئی امریکہ سے زیادہ طاقتور ہے؟ کیا حقانی نیٹ ورک کوئی آسمانی عذاب ہے؟ طالبان پورے افغانستان میں موجود ہیں اور ہر جگہ فاتح ہیں کئی علاقوں میں اُن کی باقاعدہ حکومت ہے غیر ملکی کمپنیاں ٹھیکے لینے سے پہلے طالبان سے اجازت لیتی ہیں طالبان کی پرچی پر موبائل کمپنیاں اپنی سروس منقطع یا بحال کرتی ہیں راستوں کی راہداریاں طالبان کے کمانڈر جاری کرتے ہیں خوست سے لے کر غزنی اور میدان تک کے دیہات طالبان سے اٹے پڑے ہیں قندھار، ہلمند اور زابل میں طالبان کی غیر مرئی حکومت ہے قلاّت کا صحرا طالبان کی جولان گاہ ہے قندوز میں طالبان کے اپنے مراکز ہیں جبکہ امریکی حکومت کے اہم ترین عہدیدار اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں برہان الدین ربانی اپنے گھر ہی میں مارے گئے امریکہ اور اُس کے اتحادی ان تمام حقائق سے آنکھیں بند کر کے صرف ایک حملے کا شور مچا رہے ہیں اور حقانی نیٹ ورک کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور اس کو بہانہ بنا کر پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں مقصد اپنی شکست کو چھپانا پاکستان کو مزید تباہ کرنا اور اپنے واپس جانے والے فوجیوں کے لئے محفوظ راہداری لینا ہےکیونکہ امریکہ بہت پریشان ہے بہت ہی زیادہ پریشان

دیکھو! قرآن پاک کیا فرماتا ہے:

ترجمہ:                اور (اے مسلمانو!) تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو نا جو (مسلمانوں سے لڑنے کے لئے مسلّح ہو کر) اکڑتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے گھروں سے نکلے تھے اور وہ  اللہ  کی راہ سے روکتے تھے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں  اللہ  تعالیٰ اُس کا احاطہ کرنے والا ہے اور جس وقت شیطان نے اُن کے اعمال کو اُن کی نظروں میں خوشنما کر دیا اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں پھر جب دونوں فوجیں سامنے ہوئیں تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا میںتمہارے ساتھ نہیں ہوں میںایسی چیز دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں  اللہ  سے ڈرتا ہوں(انفال ۴۷،۴۸)

برطانیہ والے پریشان

برطانیہ چالاک انگریزوں کا مُلک اور انگریز مسلمانوں کے بدترین دشمن افغانستان میں انہوں نے تندور گرم دیکھا تو فوراً اپنی فوج بھی اُتار دی تاکہ اپنی سابقہ شکست کا بدلہ چُکا سکیں مگر یہاں تو لینے کے دینے پڑ گئے ایسی مار پڑی کہ اندر باہر سے کانپ اٹھے اور تو اور برطانیہ کی مضبوط معیشت اور سیاست بھی لرز کر رہ گئی ہے  اللہ  اکبر کبیرا اب ایک دلچسپ بات سنیں طالبان کے سابق سفیر مولوی عبدالسلام ضعیف صاحب آج کل کابل میںمقیم ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ بھی ’’طالبان‘‘ کے ساتھ ہیں اور طالبان قیادت سے رابطہ میں ہیں گوانتا نا موبے سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ میدان میں نہیں اُتر سکے اُن کے قریبی ذرائع کا بتانا ہے کہ برطانیہ حکومت کے کئی وفود نے اُن سے گزشتہ دنوںتقریبا دس بار ملاقات کی ہے اور ملاقات کا مقصد صرف ایک گزارش! جی !ہم تو بیک بینی و دوگوش افغانستان سے واپس جارہے ہیں آپ طالبان کو سمجھائیں کہ اب ہم پر مزید حملے نہ کریں ہمیں آرام سے جانے دیں کم از کم پسپائی تو سکون سے کرنے دیں  اللہ  اکبر کبیرا دیکھا آپ نے پریشانی  اللہ  تعالیٰ چاہے تو کمزور لوگوں کے ہاتھوں بدمست طاقتوں کو رسوا کر دے بے شک  اللہ  تعالی’’قوی‘‘ اور ’’عزیز‘‘ ہےدیکھو قرآن پاک کیا فرماتا ہے:

ترجمہ:                اور جو’’کافر‘‘ تھے اُن کو  اللہ  تعالیٰ نے(غم اور) غصہ میںبھرا ہوا واپس لوٹا دیا اور وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے اور جنگ میں  اللہ  تعالیٰ ایمان والوں کی طرف سے خود ہی کافی ہوگیا اور  اللہ  تعالیٰ بڑی قوت والااور غالب ہے(الاحزاب ۲۵)

حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اور  اللہ  تعالیٰ نے مسلمانوں کی لڑائی اپنے ’’ذمہ‘‘ لے لی اور  اللہ  تعالیٰ نے کفار کو ناکام و نامُراد واپس فرمایا(حاشیہ لاہوریؒ)

کفار نامُراد، ناکام پریشان واہ میرے  اللہ  آپ کی شان

لاالہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

حکمران پریشان

ہمارے حکمران اس اُمید میں تھے کہ کافروں کے لئے اتنی قربانیاں دیں اب کچھ صلہ ملے گا اسّی ارب ڈالر کا نقصان پینتس(۳۵) ہزار پاکستانیوں کی جانیں چھ سو القاعدہ قیدیوں کی حوالگی ہزاروںمجاہدین لاپتہ اور پورا مُلک جنگل ہی جنگل نہ مسجدیں محفوظ اور نہ فوجی بارکیں مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے کا جُرم کبھی زلزلہ بن کر ٹوٹا تو کبھی سیلاب اور ایک اچھا خاصّا مُلک کمزوری کی آخری حد تک جا پہنچا یادرکھیں! حکمرانوں نے جس دن اس جُرم سے توبہ کر لی اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا بند کر دی پاکستان اُسی دن انشاء  اللہ  سنبھل جائے گا مگر یہ بات کون سمجھائے حکمران تو خوف، بزدلی اور لالچ کے اندھیروں میں کھڑے ہیں اور جس پالیسی نے مُلک کو برباد کیا اُسی کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں اور انہیں اس پر کوئی پریشانی بھی نہیں تھی مگر اب پریشانی کا وقت آگیا ہے امریکہ منہ بھر کر پاکستانیوں کو گالیاں دے رہا ہے اور دانت پیس کر دھمکیاں داغ رہا ہے اور یہ بے چارے اپنی ماضی کی وفاداریاں سنا سنا کر بھیک مانگ رہے ہیں اس وقت دونوں ملکوں کے حالات بے حد کشیدہ ہیں امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لاکر ایک ایسی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے کہ جس کے بعد شاید کچھ بھی نہ بچےفی الحال فوجی قیادت نے ہمت سے جواب دیاہے اور جمہوری انتقامی حکومت نے بھی اُس کی سُر میں آواز ملائی ہے مگر حکمرانوں کی پریشانی حد سے زیادہ ہے  اللہ  پاک اُن کو ایمان اور ہمت عطاء فرمائے یہ وقت ڈرنے اور جھکنے کا نہیں بلکہ سنبھلنے اور سمجھنے کا ہے ہو سکے تو تھوڑا سا غور قرآن پاک کی ان آیات مبارکہ پر کر لیں

ترجمہ: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے اُن کے ساتھ دوستی کر لے تو وہ انہیں میں سے ہے  اللہ  تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا پھر آپ اُن لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے کہ وہ دوڑ کر اُن(یہود ونصاریٰ) سے جا ملتے ہیں( اور اس کی وجہ بتاتے ہوئے) کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پرزمانہ کی گردش (یعنی مصیبت) نہ آجائے، پس قریب ہے کہ  اللہ  تعالیٰ( مسلمانوں کے لئے) جلدی فتح ظاہر فرمادے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے(المائدہ ۱۵، ۵۲)

 اللہ  کرے ہمارے حکمران بھی شرمندہ ہو کر توبہ کر لیں اور ہلاکت خیز حرام پالیسی کو تبدیل کردیں دیکھیں حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ عجیب بات فرما رہے ہیں:

’’نفاق کا خاصہ’’بزدلی‘‘ ہے اور توحید کا خاصہ’’جرأت‘‘ ہے(حاشیہ لاہوری)

آئیے دل کی گہرائی سے کلمہ توحید پرھتے ہیں:

لاالہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

’’وبا‘‘ میں گھرے ہوئے لوگ پریشان

پہلے ایک مختصر مگربالکل سچا قصہ سُن لیں

دس صحابہ کرام ڑجن کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے صراحت اور وضاحت کے ساتھ یقینی طور پر’’جنت‘‘ کی بشارت عطاء فرمائی وہ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ کہلاتے ہیں ان میں سے ایک حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح  رضی اللہ عنہ  ہیں آپ کا نام’’عامر‘‘ والد کا نام عبد اللہ  اور دادا کا نام الجرّاح تھا آپ  رضی اللہ عنہ حسین و جمیل، پرنور چہرے والے بہت بہادر اور جنگوں کے ماہر تھے دربار نبوت سے آپ کو ’’امین الاُمت‘‘ کا لقب ملاتھا حضرت سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت میںآپ ملک شام میں ایک محاذ پر تھے آپ کی کمان میں چھتیس ہزار مسلمانوں کا لشکر تھا وہاں اچانک’’طاعون‘‘ کی وبا پھوٹ پڑی اور لوگ دھڑا دھڑ وفات پانے لگے ظاہری بات ہے وباء پھوٹتی ہے تو لوگ پریشان ہوتے ہیں جس طرح آج کل ’’لاہور‘‘ والے پریشان ہیں مگر حضرت ابوعبیدہ  رضی اللہ عنہ اس وبا کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو’’ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہ ‘‘کی قیمت اور مقام کا احساس تھا انہوں نے ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہ کو فوراً واپسی کا حکم بھیجا اور لکھا کہ مجھے آپ سے ضروری کام ہے حضرت ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہ نے خط پڑھ کر فرمایا میں امیر المؤمنین کا کام سمجھ گیا ہوں ، وہ ایسے شخص کو بچانا چاہتے ہیں جو اب یہاں رہنے والا نہیں ہے اے امیر المؤمنین! آپ مجھے اپنے اس حکم سے آزاد فرما دیں، میں مسلمانوں کے لشکر میں ہوں اور خود کو ان پر ترجیح نہیں دیتا حضرت عمر رضی  اللہ  عنہ جواب پڑھ کر رو پڑے ( اور اپنا حکم واپس لے لیا) انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اب مسلمان اپنے اس قیمتی سرمائے یعنی حضرت ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہ  سے محروم ہونے والے ہیں اُدھر سیدنا ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہ کی مُراد پوری ہوئی طاعون کا پھوڑا ہاتھ کی انگلی پر نکلا آپ اس پھوڑے کو محبت سے دیکھتے اور فرماتے یہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے جی ہاں! محبوب حقیقی سے ملانے کا ذریعہ ہے یہ تو ہوا ایک سچا قصہ سبق یہ ملا کہ لاہوریوں کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے زیادہ پریشانی ’’وبا‘‘ کو طاقتور اور مصیبت کو’’تیز تر‘‘ کر دیتی ہے وہ مسلمان جو اب تک ڈینگی سے محفوظ ہیں وہ یہ دو دعائیں صبح و شام سات سات بار پڑھ لیا کریں انشاء  اللہ  حفاظت رہے گی

(۱) اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ  اللہ  التَّامَّاتِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّھَامَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ

(۲) اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ  اللہ  التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقْ، بِسْمِ  اللہ  الَّذِیْ لَا یُضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْیٌٔ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَآئِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَسَیِّئِی الْاَسْقَامِ

اور جن مسلمانوں پر’’ڈینگی‘‘ کا اثر ہو چکا ہے وہ روزآنہ اکتالیس بار سورہ فاتحہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں اور پانی پر دم کرکے پی لیں چند دن پابندی سے یہ عمل کریں تو انشاء  اللہ  ٹھیک ٹھاک ہوجائیں گے اور چند ہفتے پہلے’’معوذتین‘‘ کے فضائل اور خواص عرض کئے تھے وہ ہر چیز سے پناہ کا بہترین ذریعہ ہیں

مجذوب خوش

آپ نے پڑھ لیا کہ سب پریشان ہیں مگر’’مجذوب‘‘ خوش ہے مجذوب کی خوشی کا راز اُس کی’’دیوانگی‘‘ ہے اور وہ’’دیوانہ‘‘ ہے اپنے محبوب مالک کا اُس کا عقیدہ یہ ہے کہ میں بندہ ہوں اور  اللہ  تعالیٰ مالک ہے بندے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کے ہر فیصلے پر خوش اور راضی رہے مسلمان پریشان تب ہوتا ہے جو وہ نعوذ ب اللہ  خود کو’’خدا‘‘ سمجھنے لگتا ہے کہ سب کچھ میری مرضی سے ہو اور میں جو دعاء مانگوں  اللہ  تعالیٰ ہر حال میں قبول فرمائے استغفر اللہ ، استغفر اللہ

ارے اپنی مرضی کو مالک کے حکم اور مرضی کے مطابق بنانے والے ہی  اللہ  تعالیٰ کے محبوب اور خالص بندے ہوتے ہیں کبھی جا کر کسی سر سبز پہاڑ پر بیٹھے  اللہ  تعالیٰ کے راستے کے فدائیوں، کو دیکھو ! تب معلوم ہوگا کہ خوشی کسے کہتے ہیں

خواجہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

کسی کو رات دن سرگرمِ فَریاَدُ و فُغاں پایا

کسی کو فکرِ گونا گوں سے ہر دَم سَر گِراں پایا

کسی کوہم نے آسودہ نہ زیر آسماں پایا

بس اک مجذوبؔ کو اس غم کدہ میں شادماں پایا

جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہو جائے

ارے واہ کیسے مزے کے اشعار ہیں

جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہو جائے

آئیے محبت اور دیوانگی سے اپنے عظیم مالک کو یاد کریں

لاالہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (318)

ہم کس سے ڈریں؟

 

 اللہ  تعالیٰ’’معاف‘‘ فرمائے آج’’خیال جی‘‘ قلم آزمائی کرنا چاہتے ہیں آئیے خیالی باتیں سنتے ہیں

گرما گرم پکوڑے

میرا نام’’خیال جی‘‘ ہے آج مجھے کالم لکھنے کا حکم ملا ہے تو آپ کو اپنے دوست’’ندیم لاہوری‘‘ کی کہانی سناتا ہوں ندیم اچانک ایک دن لاہور کے ایک ہسپتال میں پیدا ہو گیا اُس کا رنگ سانولا تھا مگر ماں باپ کو اچھا لگا ویسے ہر ماں باپ کو اپنا بچہ ہی اچھا لگتا ہے اچھے خاصے بد شکل بچوں کو اُن کے ماں باپ نظر لگادیتے ہیں ہسپتال سے گھر لائے تو نام رکھنا تھا اُن دنوں’’ندیم‘‘ ایک ماڈرن نام تھا چنانچہ یہی نام رکھ دیا بچہ بڑا ہواتو ماں باپ کو اُسے مسلمان بنانے کی فکر نہیں تھی یہ فکر تھی کہ ڈاکٹر، انجینئر بنے یا چور، ڈاکو بس پیسے کمانے والابنے گھر کے قریب مسجد تھی، مدرسہ تھا مگر وہاںنہ بھیجا کہ کلمہ، نماز اور قرآن سیکھتا گھر سے دور ایک اسکول تھا وہاں بٹھا دیا وردی اور فیس والا اسکول پینٹ اور ٹائی والا اسکول اے بی سی والا اسکول نہ سورۃ فاتحہ، نہ آیۃالکرسی نہ نماز، نہ روزہ خیر ندیم نے میٹرک کی تو کالج میں داخلہ ملا ایف اے کیا تھا کہ تعلیم چھوڑ دی گھر کے حالات خراب تھے نوکری ڈھونڈی وہ ہاتھ نہ آئی تو کچھ پیسے جوڑکر پکوڑوں کی ریڑھی لگا لی اب ندیم تھا اور گرما گرم پکوڑے۔

ارے یہ کیا ہوا

ندیم صبح آٹھ دس بجے اٹھتا باتھ روم جا کر داڑھی مونڈتا انگریزی تعلیم سے اور کچھ نہ ملا بہرحال یہ کام تو سیکھ لیا پھر اپنے چھوٹے بھائی اور بہنوں کے ساتھ پکوڑوں کی تیاری میں لگ جاتا بوڑھی ماں بھی ہاتھ بٹاتی مسجد سے ظہر کی اذان سنائی دیتی تو وہ تھوڑی دیر کے لئے گانے کا ٹیپ بند کر دیتا بیسن، آلو، مصالحے، مرچیں، تیل، کڑاھی گیس والا چولہا اور مزیدار چٹنی ویسے بھی لاہوری کھانے پینے کے شوقین چرغے اور پائے کھانے والے اُن کو پکوڑے کِھلانا آسان کام نہیں تھا اس لئے معیاری پکوڑے،سموسے کا سامان کرنے میں کافی محنت لگتی سہ پہر وہ ریڑھی لیکر نکل جاتا ایک مسجد کے قریب اُس کا اڈہ تھا نماز کو تو وہ کبھی نہ گیا البتہ اذان سنتا تو اُس کے جسم کے بال کھڑے ہو جاتے وہ جلدی سے گانے بند کر دیتا زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ ایک دن اچانک ایک آدمی اُس کے پاس آیا وہ ندیم کے اسٹول پر بیٹھ کر پکوڑے کھانے لگا پھر اُس نے ندیم سے منّت کے انداز میں کہا بھائی! گانے سننا حرام ہیں، مجھے سخت بھوک لگی ہے تم یا تو ٹیپ تھوڑی دیر کے لئے بند کر دو یا میں ایک کیسٹ دیتا ہوں وہ لگا دو شور شرابے کا عادی’’ندیم‘‘ وہ کیسٹ لگانے پر آمادہ ہو گیا ارے یہ کیا؟ کیسٹ میں کسی مجاہد کا بیان تھا آواز بلند اور لہجہ پرسوز وہ آدمی تو پکوڑے کھاتار ہا جبکہ ندیم کے ہوش اُڑ گئے پہلے بے چین ہوا، پھر زیادہ متوجہ ہوا اور پندرہ منٹ بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ارے میری بھی کوئی زندگی ہے؟ نہ کلمہ، نہ نماز نہ کوئی مقصد اور نہ جہاد نہ قبر کی تیاری نہ آخرت کی فکر نہ کوئی عزم نہ کوئی ولولہ بس پیٹ کی فکر اور پیسہ، پیسہ کی سوچ

رُخ بدل گیا

کہانی لمبی ہے مختصر یہ کہ ندیم نے وہ کیسٹ رکھ لی اور بار بار سنتا رہا پھر اُس آدمی سے دوستی ہوگئی تب مسجد کا نورانی دروازہ ندیم کے لئے کُھلا  اللہ  اکبر ایک نئی پاک صاف اور پرسکون زندگی اب اُس کی ریڑھی پردینی بیانات بجتے تھے علماء سے ملنا جلنا ہوا توسمجھ آئی کہ نماز فرض ہے سجدے کئے تو سنت سے محبت دل میں اُٹھی بُرش اور کریم کو نالی میں ڈالا اور چہرے پر سنت کا نور سجا لیا پھر سر بھی ڈھانپ لیا پکوڑے تولنے کا ترازو پہلے ڈنڈی مارتا تھا مگر اب وہ بالکل سیدھا تولتا تھا پھر اور ترقی ہوئی ’’ندیم‘‘ مجاہدین کے ایک تربیتی مرکز سے عسکری تربیت لے آیا اب اُس کے بال بھی سنت کے مطابق لمبے ہو گئے اور وہ ورزش کا بھی پابندہو گیاپھر اُسے توفیق ملی تو ایک محاذ پر کچھ وقت لگا آیا اب اُس کے دل میں عزائم اور آنکھوں میں عقابی چمک آئی وہ راتوں کو اُٹھ کر نمازیں پڑھتا تو اُس کی دعاؤں سے مصلّیٰ بھیگ جاتا وہ دین اور جہاد کی بات کرتا تو لوگ توجہ سے سنتے اب اُسے نہ مال سے رغبت تھی اور نہ موبائل پر ناجائز یاری دوستی وہ ایک جہادی تنظیم کاسرگرم رکن بن گیا ساتھ ہی اُس نے پکوڑوں کا کام بھی جاری رکھا تاکہ اپنے گھر والوں کے لئے روزی کا بندوبست کر سکے

اُفتاد مشکلہا

حافظ شیرازؒ فرماتے ہیں عشق شروع میں مزیدار اور آسان ہوتا ہے مگر آگے چل کر بڑی بڑی مشکلات آجاتی ہیں تب عشق کے سچا یا جھوٹے ہونے کا امتحان ہوتا ہے ندیم لاہوری چہرے پر پرنور داڑھی، سر پر سنت جہادی عمامہ زبان ذکر اور تلاوت سے معمور اورجہاد کا ذوق شوق اس دوران اُس نے قرآن پاک پڑھنا بھی سیکھ لیا مگر اچانک نظر لگ گئی نظر لگتی ہے تو چار طرف سے آفت گھیرتی ہے گھر والوں نے ندیم کا رشتہ دنیا دارگھرانے میں کر دیا منگنی ہوئی تو سسرال والوں سے ملنا جلنا شروع ہوا وہ جہاد کے دشمن، دین کے مخالف اور مال کے لالچی لڑکی بھی کچھ آوارہ کبھی ندیم کو محبت بھرے میسج کرتی تو کبھی مس کالیں شروع میں ندیم ڈٹا رہا، ہر کسی کو دین اور جہاد کی دعوت دیتا رہا مگر کب تک؟ اُدھر خفیہ پولیس کا اہلکار روزآنہ ندیم کو آکر ڈراتا یار اپنی جوانی پر ترس کھاؤ حکومت آپریشن کرنے والی ہے جوانی جیل یا ٹارچر سیل میں گزر جائے گی یہ جہاد کا زمانہ نہیں حلال کمانا بھی تو جہاد ہے اب ندیم دوسری طرف سے بھی پھنس گیا مگر ابھی تک اُس کا ایمان سلامت تھاکہ اچانک مُلک کے صدر نے امریکہ کا دورہ کیا اور واپس آتے ہی مجاہدین کے خلاف آپریشن شروع چھاپے، گرفتاریاں، کریک ڈاؤن، خوف اور دھمکیاں ندیم کے فون پر منگیتر کا میسج آیا کہ اب تو باز آجاؤ کیوں میری زندگی برباد کرتے ہو پھر وہ خود کال کر کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہتے ہیں بددین عورت کے آنسو شیطان کامیزائل ہوتے ہیں یہ میزائل جس پر گِرے اُس کے ایمان کو برباد کر دیتا ہے سوائے اُن کے جن کی حفاظت  اللہ  تعالیٰ فرمائے ندیم نے فون بند کیا اور سوچوں میں ڈوب گیا اچانک نیلی آنکھوں والا ایک شخص اُس کے پاس آیا اور اُسے ایک کاغذ دکھا کر کہنے لگا کہ امریکہ اورانڈیا نے تمہاری تنظیم کے جن جن لوگوں کو قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے ان میںتمہارا نام سرفہرست ہے بس ایک دو روز بعد تمہاری لاش کسی ویرانے سے ملے گی پھر وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا ندیم! تم پڑھے لکھے نوجوان ہو زندگی بہت حسین چیز ہے میںتمہارا خیر خواہ ہوں یہ میرا موبائل نمبر لو اور آج رات مجھ سے مل لو

آہ! سب کچھ چھن گیا

 ندیم نے خود کو بہت سمجھایا کہ موت وقت سے پہلے نہیں آسکتی دین بڑی نعمت ہے مگر حملہ بہت سخت تھا منگیتر فون پر فون کر رہی تھی گھر میں بہنیں الگ رو رہی تھیں اور اُف وہ نیلی آنکھوں والا رات کو ندیم نے اُسے فون کیا اور ہارے ہوئے جواری کی طرح بوجھل قدموں کے ساتھ اُس کی عالیشان کوٹھی میں جاپہنچا اُس نے ندیم کو بہت اعزاز اور اکرام سے بٹھایا اور طرح طرح کے مشروبات منگوا کر اُس کی تواضع کی اور پھر اُس کی تقریر شروع ہو گئیاسلام ہمیں لڑنا نہیں سکھاتا، اسلام امن والاد ین ہے آج مسلمان اس لئے پیچھے رہ گئے کہ انہوں نے وقت کی آواز کو نہیں سمجھا اور پرانی باتوں میں پڑے رہے جدید تعلیم، جدید ٹیکنالوجی اور عالمی برادری سے دوستی یہ تین کام مسلمان کریں تو یورپ اور امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیں ہم امریکہ سے نہیں لڑسکتے اپنی قوم کو مروانا کونسی عقلمندی ہے؟ امریکہ کو کیا ہے ایک ایٹم بم اٹھا کر مارے گا اورہم سب ختم ہمیں اپنی جان بھی بچانی ہے اور آگے بھی بڑھناہے

پھر اُس نے ندیم کو بہت سے تحفے کچھ کتابیں اور پمفلٹ دیئے اور آئندہ ملنے کا وعدہ لیا اُس کی کئی باتیں ندیم کے دل ودماغ میں گونج رہی تھیں واقعی ہم امریکہ سے نہیں لڑسکتے دنیا میں بھی انسان کے پاس روشن مستقبل ہونا چاہئے ملاقاتیں جاری رہیں اور بالآخر’’ندیم‘‘پھر تبدیل ہونے لگا نیلی آنکھوں والے نے لوہا گرم دیکھا تو فوراً پیشکش کر دی میں آپ کو اپنے ایک امریکی دوست سے ملاتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ داڑھی کچھ چھوٹی یا ختم ہو جائے ارے سارادین داڑھی میں تو نہیں رکھا سوٹ کے پیسے میں دوں گا وہ تم اچھا ساخرید لینا وہ امریکی تمہیں’’جاب‘‘ کی آفر کرے گا دس ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ لاہور میں ایک اچھا سا گھر اور کالے رنگ کی گاڑی باتوں میں خود کو ماڈریٹ ثابت کرنا وغیرہ وغیرہ پیسے کا جادو چل چکا تھا ندیم کی قینچی اُس کی داڑھی میں اُتری ،تھوڑی دیر تو وہ سکتے میں آکر رونے لگا گنبد خضریٰ اُس کی آنکھوں کے سامنے آیا مگر پھر ڈالر کی چمک سے منظر دھندلا ہو گیا نیا سوٹ پہن کر وہ اپنے دوست کے ساتھ ’’ امریکی اہلکار‘‘ سے ملنے روانہ ہو گیا ندیم نے آٹھ، دس سال دین سے جو کچھ پایا تھا وہ سب چھن گیا

سب کچھ مل گیا

پکّی عمر کے موٹے امریکی نے بہت تپاک سے استقبال کیا نیلی آنکھوں والے نے ندیم کا تعارف بڑھا چڑھا کر پیش کیا یہ مجاہدین کا ایکس کمانڈر ہے یہ جہادی تنظیم میں ہائی پروفائل تھا اور قیادت کے بہت قریب سر! بہت محنت سے میں نے ان کو اپنے ساتھ کام پر تیار کیا ہے امید ہے بلیک واٹر اپنے اس نئے اہلکار کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی امریکی نے خوشی سے سرہلایا اور عیاری سے آنکھیں گھما کر ندیم سے تعارف پوچھا

مائی نیم از ندیم لاہوری میں کالج میں پڑھتا رہا، میرے فادر کی ڈیتھ ہوئی تو میں نے پکوڑیز اور سموسیز کی ٹرالی جوائن کر لی میں پٹیٹو کو کاٹ کر اُسے بیسن میں سوئمنگ کراتا ہوں اور پھر اُسے ڈانس کرنے کیلئے گرم کڑاھی میں چھوڑ دیتا ہوں میرے گاہکز یعنی کسٹومرز میںمسلمز اور نان مسلمز سبھی ہیں میں کوئی فرق نہیں کرتا حتیٰ کہ لاہور کے مشہور بھنگیز بھی گٹرزکلین کر کے میرے پاس پکوڑیز کھانے آتے تھے میں مسلمز کی ترقی اس میں دیکھتا ہوں کہ وہ آپ کے ساتھ مل کر کام کریں جدید تعلیم حاصل کریں جدید ٹیکنالوجی حاصل کریں اور جنگ و جہاد کی باتیں چھوڑ کر عالمی برادری کا حصّہ بنیں ویل ڈن، ویل ڈن امریکی نے خوشی سے کہا کیا تمہیں مجاہدین قیادت کے ٹھکانے معلوم ہیں ندیم نے اثبات میں سر ہلایا تو امریکی نے خوشی سے اُسے گلے لگا لیا تھوڑی دیر میں تمام تفصیلات طے ہو گئیں اور ندیم نے جس دنیا کا رُخ کیا تھا اس میں اُسے سب کچھ وافر مل گیا

چین ہی چین

اب نہ ریڑھی کی مشقت تھی اور نہ گرفتاری اور چھاپے کا خطرہ نہ مال کی کمی تھی اور نہ سامان کی قلّت وہ لاہور کے ایک پوش علاقے میں آبسا تھا اُس نے کئی مجاہدین کی مخبری کی جس پر اُسے بڑے انعامات ملے وہ کئی ملکوںمیں بھی گھوم آیا تھا اور اُس کے پاس ایسے کارڈ تھے جنہیں دکھا کر وہ ہر جگہ جا سکتا تھا اور پولیس والے ان کارڈوں کو دیکھ کر اُسے سیلوٹ کرتے تھےدنیا کی سب سے بڑی طاقت کا اعتماد اُس کو حاصل تھا ندیم جب پاکستانی تھا تو ایک شہر سے دوسرے شہر بھی اطمینان سے نہیں جا سکتا تھا جگہ جگہ پولیس روکتی ٹوکتی ٹٹولتی تھی مگر جب امریکی بنا تو جہاں چاہتا اطمینان سے جاتا وہ ایک دن لندن میں ہوتا تو اگلی رات پیرس میں اُس کے گرد لڑکیوں کا جھمگٹا رہتا اور وہ آئے دن نئی ماڈل کی کاریں بدلتا رہتاپاکستان کے حکمران اور ادارے سب اُس کا ادب کرتے اورمجاہدین سے اُسے کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ اُس کا تمام کام خفیہ تھا

ظاہری طور پر وہ ایک کامیاب بزنس مین کے طور پر جانا جاتا تھا کہاں وہ وقت کہ وہ پائی پائی کا محتاج اور کہاں آج وہ کروڑوں ڈالر اور ایک بڑی کمپنی کا مالک کہاں وہ وقت کہ اُسے ملکی اورغیر ملکی ایجنسیوں سے موت کا خوف مگر اب وہ اتنا محفوظ کہ اس کا نام اُن لوگوں میں شامل تھا کہ جنہیں ملک پر کسی بھی حملے کی صورت میں پہلے ہی امریکہ بُلالینا طے تھا پہلے وہ خود پکوڑے تلتا تھا اب کئی خانساماں رات دن اُس کے لئے کھانے پکاتے تھے وہ کبھی کبھار فخر سے سوچتا کہ اب مجھے کس کا ڈر! میں سپر پاور کا آدمی ہوں میں سپر پاور کا دوست ہوں

پھر بھی حملہ ہو گیا

دوسال کی اس عیاشی اور فراخی نے اُس کا وزن بڑھا دیا بڑے ڈاکٹروں نے اُسے واکنگ یعنی پیدل چلنے کی تاکید کی اور اُسے بتایا کہ آپ ابھی کم عمر ہو جلد وزن کم کرو تاکہ صحت اچھی رہے ندیم نے قریب کے پارک میں واکنگ شروع کر دی ایک دن واکنگ سے واپس آیا تو اُس کے جسم میں شدید درد ہونے لگا اُس کے نوکر اُسے دبانے لگے مگر درد بڑھتا گیا اور اب سر بھی سخت بھاری ہو گیا فوراً سپیشلسٹ ڈاکٹر بلائے گئے ٹیسٹ ہوئے تو تپا چلا کہ ڈینگی مچھر نے کاٹا ہے اور اس کا زہر اندر تک اثر کر گیا ہے تھوڑی دیر میں اُسے پرائیویٹ ہسپتال منتقل کر دیا گیا مگر طبیعت بگڑتی چلی گئی دو سال سے اُس کی سوسائٹی اونچی ہو گئی تھی اونچی سوسائٹی کے لوگوں کو کہاں ٹائم کہ کسی کی عیادت اور دیکھ بھال کریں سب نے فون پر عیادت شروع کی تو ندیم نے تنگ آکر موبائل پھینک دیا بیوی کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ اُسے شاپنگ کرنے اورپینٹنگز کی نمائشیں دیکھنے سے وقت نہیںملتا اب اُس کے ارد گرد صرف ملازم تھے اور وہ بھی ڈر ڈر کر خدمت کرتے کہ کہیں وائرس ہمیں نہ لگ جائے اس صورتحال نے بیماری کو بڑھا دیا گزشتہ رات ساتھ والے وارڈ میں ڈینگی کا ایک مریض چل بسا تو ندیم کے ہوش اُڑ گئے میری کوٹھی کس کو ملے گی؟ میری تین گاڑیوں کو کون لے جائے گا؟ اور کروڑوں ڈالر؟ کیا اب مجھے لوگ مٹی میں دفن کردیں گے؟ طبیعت بگڑتی جارہی تھی اور اُسے درد کے ساتھ یہ خیال آرہا تھاکہ سپر پاور کون ہے امریکہ یا ڈینگی؟ امریکہ اُسامہ کے خون کا پیاسا تھا مگر پھر بھی بیس سال تک اُن کو نہ مار سکا سوڈان، الجزائر اورافغانستان میں اُسامہ پر کئی حملے کئے اور جب بڑی جنگ شروع ہوئی تو اسامہ اپنی تین ایمان والی وفادار بیویوں اور اپنے پیارے بچوں کے ساتھ نو سال تک زندہ رہے جبکہ ڈینگی نے مجھے تین دن میں موت کے پاس کھڑا کر دیا ہے؟ کیا میں ڈینگی کو بھی سپر پاور مان لوں؟ اس ظالم مچھر نے میری جیب میں پڑے امریکی حفاظتی کارڈ بھی نہ دیکھے اور نہ اُن سے ڈرا اور مجھے کاٹ لیا ہائے مجھے داڑھی منڈانے سے کیا ملا؟ مجھے دین اور نماز چھوڑنے سے کیا ملا؟ مجھے جہاد سے دشمنی کر کے کیا ملا؟ مجھے مجاہدین کو نقصان پہنچا کر کیا ملا؟ جوکچھ ملاوہ تو یہاں رہ جائے گا اور جو کچھ مجھے آگے ساتھ لے جانا چاہئے تھا وہ سب کچھ مجھ سے چھن گیاکہاں ہے وہ نیلی آنکھوں والا شیطان کیا وہ مجھے موت سے بچا سکتا ہے؟ کہاںہے وہ موٹا امریکی اور ان لمحات میں میری کیا مدد کر سکتا ہے؟ہائے، ہائے، ہائے بد نصیبی

اب کون میرا جنازہ پڑھے گا؟ اور کون مرنے کے بعد میرے لئے کچھ ایصال ثواب کرے گا؟ کیا مزے کی زندگی تھی وضو، پاکی، تلاوت، نماز اور جہاد اور حلال روزی اُس حال میں بیمار ہوتا تو میرے سر کے پاس بیسیوں حافظ قرآن پاک پڑھ رہے ہوتے جبکہ آج یہ ملازم آنکھیں بچا کر مجھے گالیاں دیتے ہیں اُس حالت میں مرتا تو مرنے کے بعد دفن ہونے تک سینکڑوں قرآن پاک کا ثواب مجھے بھیجا جاتا اور خود میں سنت شکل اور نماز ، قرآن اور جہاد کے اجر کے ساتھ دفن ہوتا ندیم انہی سوچوں میں کبھی روتا اور کبھی اپنے ہاتھ کاٹتا تب اُس نے کسی طرح اپنے اُس دوست کا نمبر حاصل کیا جس نے اُسے کیسٹ دی تھی بات ہوئی تو وہ دوڑا ہوا آیا اور سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ندیم تم نے خود کو کیوںبرباد کیا؟ ندیم نے کہا یار میں اپنے گناہوں کا کفارہ چاہتا ہوں میں اپنا سارا مال جہاد میں دے دیتا ہوں شائد میری بخشش ہو جائے اُس نے فوراً اپنے منیجر کو فون کیا معلوم ہوا کہ کمپنی، گاڑی،اورگھر ہر جگہ بیوی اور نیلی آنکھوں والے نے قبضہ کر لیا ہے دراصل ڈاکٹروں نے ٹیسٹ دیکھ کر اُن کو بتا دیا تھا کہ اس کا بچنا اب ممکن نہیں ہے ندیم نے آہ بھری اور اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھوڑا سا قرآن پاک سناؤ دوست نے پرسوز آواز میں تلاوت شروع کی ندیم کے آنسو اُس کے تکیے کو گیلا کرنے لگے تلاوت سُن کر ندیم نے کہا یار مجھ سے کلمہ سنو پھروہ بار بار کلمہ پڑھنے لگا پھر اُس نے اپنے دوست سے کہامیں تو اب جارہا ہوں درد جس تیزی سے دل کو لپیٹ رہا ہے اس میں میرا بچنا مشکل ہے میرے گناہ بہت زیادہ ہیں پتا نہیں میرا کیا بنے گا؟ بس میراایک پیغام دنیا والوں کو پہنچا دینا کہمسلمانو! صرف اور صرف  اللہ  تعالیٰ سے ڈرو وہی زندگی موت نفع نقصان کا مالک ہے امریکہ اور کسی مخلوق سے نہ ڈرو اور اے دانشورو! مسلمانوں کو اللہ  تعالیٰ سے ڈراؤ امریکہ سے نہیں صرف زندہ رہنا اور جان بچانا کوئی کمال نہیں ایمان پر مرنا کمال والی نعمت ہے دیکھو! امریکہ کے دوست،بلیک واٹر کے افسر’’ندیم‘‘ کو ایک چھوٹے سے مچھر نے موت کے دروازے پر لاکھڑا کیاہے ہاں!میرا یہ پیغام سب کو پہنچا دینا ممکن ہے کسی کا ایمان بچ جائے پھر ندیم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مجاہد دوست کا ہاتھ پکڑکراپنے سینے پر رکھااور کہا کچھ عرصہ پہلے لاہور سے ایک فدائی مجاہد جارہا تھا میں نے اُس کے لئے سامان اور کرائے کا بندوبست کیا تو وہ بہت خوش ہوا تب میں نے اُس سے درخواست کی تھی کہ دعاء کردو مجھے آخری وقت کلمہ نصیب ہو جائے شاید اُس کی دعاء رنگ لے آئی ہے ندیم نے کلمہ پڑھا اور اُس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی……

خیال جی کا افسانہ ختم آئیے ہم سب بھی اخلاص سے کلمہ پڑھ لیں

لاالہ الا  اللہ  ،لا الہ الا  اللہ ،لاالہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (319)

المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

 

 اللہ  تعالیٰ راضی ہو گئے حضرت سیدنا’’علی  رضی اللہ عنہ ‘‘ سے جی ہاں! امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  اللہ  اکبر! کتنا میٹھا اور پیارا نام ہے اورکتنی عظیم اور محبوب شخصیت ہیں حضرت سیدناعلی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ وہ  اللہ  تعالیٰ کے محبوب ہیں اور جناب محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بھی محبوب اب اس کے بعد اُنہیں کسی اور کی محبت کی کیا ضرورت؟ ہاںہماری ضرورت اور سعادت ہے کہ ہم اُن سے’’محبت‘‘رکھیں اور اُن کے عظیم الشان مقام کو پہچانیں آئیے ’’محبت‘‘ کی اسی کیفیت میں چند واقعات پڑھتے ہیں

ہجرت سے پہلے بُت شِکنی

حضرت سیدنا علی مرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  ارشاد فرماتے ہیں:

ایک دن ہم اور رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور ’’کعبہ‘‘ کے در پر آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور میرے کاندھوں پر پیر رکھ کراونچے ہوئے اور کہا کہ کھڑے ہوجاؤ، میں کھڑا ہوا مگر میری کمزوری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محسوس فرما لیا، فرمایا بیٹھ جاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھ گئے اور مجھ سے کہا کہ میرے کاندھوںپر سوارہو جاؤ ، جب ایسا کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  مجھے اٹھا کر کھڑے ہو ئے تو مجھے ایسا لگا کہ میں اتنا اونچا ہو رہا ہوں کہ آسمان کی بلندی تک پہنچ جاؤں گا میں اس طرح ’’کعبہ‘‘ کی چھت پر پہنچ گیا اور وہاں جو پیتل یاتانبے کا بنا ہوابُت رکھا ہوا تھا، اس کو میں دائیں، بائیں موڑنے لگا اور آگے پیچھے جُھکانے لگا یہاں تک کہ اُسکو اپنے قابو میں لے آیا، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس کو گرادو ! میں نے گرایا تو وہ ایسا چُور چُور ہو گیا جیسے شیشے کے بنے ہوئے برتن ، پھر وہاں سے اُترا اور ہم دونوں تیز قدم چلتے ہوئے گھروں کے پیچھے آگئے کہ کہیں کوئی ہمیں دیکھ نہ لے   (المرتضیٰ بحوالہ مسند احمد والبخاری فی التاریخ)

(۱)     حضرت علی  رضی اللہ عنہ  اُس وقت کم عُمر تھے آپ نو یا دس سال کی عمر میں ایمان لائے آپ نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی جبکہ مکہ مکرمہ سے ہی’’بت شکنی‘‘ کا کام شروع فرمایا اور یہ پوری زندگی جاری رہا فتح مکہ کے بعد بھی بتوں کو توڑنے کے مبارک کام پر آپ کی تشکیل ہوئی رضی  اللہ  تعالیٰ عنہ

(۲)     مکہ مکرمہ میں جہاد اپنے شرعی اور اصطلاحی مفہوم یعنی قتال فی سبیل  اللہ  کے معنیٰ میں فرض نہیں تھا مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلمان کفر، شرک اور اُن کے مظالم کے سامنے مستقل گرے پڑے تھے بُت گرانے کا واقعہ آپ نے پڑھ لیا

صحیح روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام مکہ مکرمہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے مشرکین مکہ وہاںجا پہنچے اور مسلمانوں کو گالیاں اور طعنے دینے لگےیہاں تک کہ لڑائی پر اُتر آئے تب حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ نے ایک مشرک کے سرپر اونٹ کے جبڑے کی ہڈی ماری اور اُس کا سر پھاڑ دیایہ پہلا خون تھا جو اسلام کے لئے بہایا گیا(سیرت ابن ہشام وغیرھا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں جب مشرکین کسی مسلمان سے لڑائی کرتے تو وہ بھی جوابی وار کرتا( تاریخ عمرؓ بن الخطاب لابن جوزی)

اور حضرت سیدنا حمزہ  رضی اللہ عنہ  کے اقوال اور واقعات تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہوں گے

مثالی جانثاری اور گہری نیند

مشرکین مکہ کے سردار’’ دارالندوہ‘‘ میں جمع ہوئے اور اس تجویز پر سب متفق ہو گئے کہ ہر قبیلہ سے ایک مضبوط اور باہمت آدمی لیا جائے اور یہ سب مل کر اس طرح رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  پر وار کریں کہ سب مل کر ایک ہاتھ بن جائیں اس طور پر خون کی ذمّہ داری تمام قبائل پر ہو گی  اللہ  تعالیٰ نے اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس سازش سے آگاہ فرما دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی رضی  اللہ  عنہ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور فرمایا’’آپ کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘ یہ کام آسان نہیں تھا اور کوئی بھی اُن کی جگہ ہوتا تو اس کی پلک سے پلک نہ لگتی یعنی تھوڑی سی نیند بھی نہ آتی کیونکہ اس بات کا واضح اندیشہ تھا کہ جب مشرکین کو معلوم ہو گا کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اُن کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں تو اپنی تسکین نفس کی خاطر اُن کی جگہ لیٹے ہوئے شخص کی بوٹی، بوٹی کردیں گے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ  ان باتوں کو خاطرمیں نہ لائے اور بستررسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر لیٹ گئے اور گہری نیند سو گئے یہ کام صرف وہی شخص کر سکتا تھا جسے

ز              اللہ  تعالیٰ پر مضبوط ایمان نصیب ہو

ز             جو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بے حد محبت اور جانثاری کا تعلق رکھتا ہو

ز             جو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان مبارک پر کامل یقین رکھتا ہو

ز             جو خود کو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پرقربان کرنے کا بلند جذبہ رکھتا ہو

 اور یہ چاروں صفات اس میں بہت بلند درجے کی موجود ہوں جیسا کہ حضرت علی رضی  اللہ  عنہ کو نصیب تھیں رضی  اللہ  تعالیٰ عنہ(المرتضیٰ ص ۶۰)

قدموں کی اونچی سعادت

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  ارشاد فرماتے ہیں:

جب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت کی نیت سے مدینہ تشریف لے گئے تو مجھے حکم فرمایا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد یہاں (مکہ میں) ٹھہرا رہوں تاکہ وہ امانتیں جو لوگوں کی رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تھیں وہ سب اُن کے مالکوں کو پہنچا دوں میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تشریف لے جانے کے بعد تین روز رہا، میں لوگوں کے سامنے آتا جاتا، میں ایک روز بھی غائب نہیں رہا ان تین دنوںکے بعد رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جس راستہ سے(مدینہ کی طرف) گئے تھے میں اس پر چلتا ہوا بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں پہنچا وہاںرسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف رکھتے تھے میں بھی مکتوم بن ہدم کے مکان پرپہنچا جو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قیام فرمانے کی جگہ تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ (اس سفرمیں) راتوں کو چلا کرتے اور دن کو کہیں چُھپ رہتے اس طرح مدینہ پہنچے ، آپ کے پاؤں پھٹ پھٹ گئے تھے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاعلی رضی اللہ عنہ  کو بلاؤ، لوگوں نے عرض کیا وہ چل نہیں سکتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خود اُن کے پاس تشریف لے گئے، گلے سے لگایا اور اُن کے پاؤں کے ورم کو دیکھ کر رو پڑے ، پھر اُن پر لعاب دھن لگایا اور دست مبارک اُن کے قدموں پر پھیرا، جس کا یہ اثر تھا کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے دن تک پھر کوئی پیروں کی تکلیف نہیں ہوئی  (المرتضیٰ ص ۶۱ بحوالہ الکامل)

محبت ہو تو ایسی

حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی سعادت دیکھیں اُن کا نکاح رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے لاڈلی اور چھوٹی صاحبزادیجنت کی عورتوں کی سردار حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے ارشاد فرمایا:

میں نے تمہارا نکاح اپنے اھل بیت کے بہترین فرد سے کر دیا ہے، پھر اُن کو دعائیں دیں اور اُن دونوں پر پانی چھڑکا حضرت علی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: میں نے فاطمہ بنت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا تو میرے یا اُن کے پاس ایک مینڈھے کی کھال کے سوا کوئی بستر نہ تھا اور ہمارے پاس کوئی خادم نہ تھا اس تنگدستی کے باوجود حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو یہ فکر رہتی تھی کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دعوت الی  اللہ  اور جہاد کے کام کے لئے زیادہ سے زیادہ راحت اور سہولت پہنچا سکیں ابن عساکر حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں، فرمایا!۔

’’ایک دن رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر فاقہ تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو یہ معلوم ہوا تو وہ کسی مزدوری کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے تاکہ اس سے اتنا مل جائے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ضرورت پوری ہو جائے، اس تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ کی سینچائی کا کام اپنے ذمّہ لیا، مزدوری یہ تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اُجرت ایک کھجور، حضرت علی رضی  اللہ  عنہ نے سترہ ۱۷ ڈول کھینچے یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ جس قسم کی کھجوریں چاہیں لے لیں، حضر ت علی  رضی اللہ عنہ  نے ’’عجوہ‘‘ کھجور کے سترہ دانے لے لئے اور رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پیش کر دیئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جناب یہ کہاں سے لائے؟ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا یا نبی  اللہ ! مجھے پتہ چلا کہ آج آپ کو فاقہ درپیش ہے ، اس لئے کسی مزدوری کی تلاش میں نکل گیا کہ کچھ کھانے کا سامان کرسکوں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: آپ کو  اللہ  اور اُس کے رسول کی محبت نے اس پر آمادہ کیا تھا؟ عرض کیا جی ہاںیا رسول  اللہ !(المرتضیٰ ص ۷۰ بحوالہ کنز العمال)

مصیبت کی گھڑی ، اولوالعزمی

غزوہ اُحد میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے تو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  ثابت قدم رہے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد اسلامی لشکر کا ’’عَلَم‘‘ آپ نے سنبھالا اور اُس دن آپ نے سخت جنگ کی لا تعداد مشرکوں کو ٹھکانے لگایا اور رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرۂ مبارک سے بہتے ہوئے خون کو دھویا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر مبارک پر سخت چوٹ لگی تو اُس سے خون بہنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نیچے کا ایک دندان مبارک بھی شہید ہو گیا اُس وقت حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہاتھ کا سہارا دیا اور حضرت طلحہ بن عبد اللہ  رضی  اللہ  عنہ نے اٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زخموں کو دھو رہی تھیں اور حضرت علی رضی  اللہ  عنہ اپنی ڈھال میں پانی لا کر دے رہے تھے  (المرتضیٰ ص ۷۳،۷۴)

ہم نے غزوہ بدر کے واقعہ کو ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ بہت معروف ہے، اس میں حضرت علی رضی  اللہ  عنہ اسلامی لشکر کے پہلے تین مبارزین میں سے تھے اور کئی مفسرین کے نزدیک قرآن پاک کی سورۂ حج کی آیات(۱۹) تا (۲۴) میں ان مبارزین کے اونچے مقامات اور اُن کے مدّمقابل آنے والے مشرکین کے برے انجام کو بیان فرمایا گیا ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے’’فتح الجوّاد سورۃ الحج‘‘

اور غزوہ خندق کے موقع پر حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  نے مشرکین کے سب سے بڑے تلوار باز پہلوان عمرو بن عبدودّ کو قتل فرمایا اُس دن وہ ظالم چیخ چیخ کر مسلمانوں سے کہہ رہا تھا کہاں ہے وہ جنت جس کے متعلق تمہارا عقیدہ ہے کہ جو ’’شہید‘‘ ہوا وہ اس میں داخل ہو جائے گا؟ کسی کو میرے سامنے کیوں نہیں لاتے؟

 تب حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت سے میدان میں اُتر کر اُس کو جواب دیا اور مختصر مقابلے میں ہی اُس کا خون اور غرور دونوں خاک میں ملا دیئے…… یہ واقعہ اور غزوہ خیبر کے موقع پر یہودی پہلوان’’مرحب‘‘ کاقتل حضر ت علی  رضی اللہ عنہ  کے جہادی کارناموں کا سنہری حصہ ہیں کئی سال پہلے بدقسمتی سے میں نے کراچی کے ایک خطیب ’’شاہ بلیغ الدین‘‘ کی ایک کیسٹ سنی وہ ان دو واقعات کا بھی مذاق اڑا رہا تھا  اللہ  تعالیٰ ایسے ظالم و جاہل لوگوں کے شر سے اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے

دلوں کا غبار دھونے والا واقعہ

حَجَّۃ الوداع کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’مدینہ منورہ‘‘ کی طرف کوچ فرمایا اور آپ’’غدیر خُم‘‘ پر پہنچے تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک خطبہ دیا ’’غدیر خُم‘‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے راستے میں ایک کنویں اور مقام کا نام ہے اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی ’’خصوصیت‘‘ اور ’’شان‘‘ کا ذکر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا میں جس کا دوست اور حامی ہوں علی اُس کے دوست اور حامی ہیں، پھر دعاء فرمائی

اَللّٰھُمَّ وَالِ مَن وَّالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ

ترجمہ: یا  اللہ  جو علی رضی اللہ عنہ  کی حمایت کرے آپ اُس کی حمایت فرمائیں اور جو ان سے دشمنی کرے آپ اُس سے دشمنی فرمائیں

دراصل بعض لوگوں نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی بے جا شکایت کی تھی اور اُن پر اعتراض اور تنقید کا اظہار کیا تھا قصہ یہ تھا کہ جن دنوں حضرت علی رضی اللہ عنہ  یمن میں تھے بعض مقامات میں انہوں نے انصاف کی بات کہی تھی اور صحیح طرزِ عمل اختیارکیا، لیکن کچھ لوگوں نے اس کو’’زیادتی‘‘ ’’بخل‘‘ اور تنگی پرمحمول کیا تھاحالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  اس معاملہ میں حق بجانب تھے

ابن کثیرس کا بیان ہے!۔

’’جب رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مناسک حج ادا فرما چکے اور مدینہ منورہ کی طرف کوچ کیا، ۲۸ ذی الحجہ کو ایک اہم خطبہ دیا یہ اتوار کا دن تھا اور مقام’’غدیر خُم‘‘ کا تھا ایک درخت کے سایہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوئے اور مختلف باتیں ذکرفرمائیں اور حضرت علی رضی  اللہ  عنہ کے ’’اوصاف حمیدہ‘‘ کا ذکر کیا، ان کی’’امانت‘‘ اور ’’عدل‘‘ کو سراہا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات سے جو اُن کا تعلق تھا اس کو بیان فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس تقریر سے بعض لوگوں کے دلوں میں جو غبار تھا وہ دُھل گیا‘‘(المرتضیٰ ص ۸۸ بحوالہ ابن کثیر)

سبحان  اللہ ! حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کے بارے میں دلوں پر کوئی غبار ہو تو اسے حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم  دور فرماتے ہیں پس وہ لوگ جو حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے فیض پاتے ہیں وہ حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سے بہت محبت رکھتے ہیں اور اُن پرتنقید کر کے اپنی زبانوں اور دلوں کوناپاک نہیں کرتے مگر جو لوگ’’فیض نبوی‘‘ سے محروم ہوں اُن کاکیا علاج تحقیق، نئے مطالعے، اور عجمی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے دعویدار کئی’’ڈاکو‘‘ مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہیں مسلمان اُن سے ہوشیار رہیں یہ لوگ نہ جہاد کرتے ہیں اور نہ دین کی کوئی اور خدمت بس ہروقت تاریخ کے دلدل سے گندا کیچڑ جمع کر کے اچھالتے رہتے ہیں تمام ’’صحابہ کرام‘‘ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور کسی بھی ’’صحابی ‘‘ پر تنقید کرنے کا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہے حضرات صحابہ کرام ستاروں کی طرح ہیں اور حضرات انبیاء کرام کی طرح ان میں سے بعض، دوسرے بعض سے افضل ہیں سب سے زیادہ فضیلت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو حاصل ہے اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ اُن کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ اوراُن کے بعد حضرت سیدنا علی بن ابی طالب کرم  اللہ  وجہہ یہ چاروں خلفائے راشدین ہیں اور ان کی خلافت کا وعدہ قرآن عظیم الشان میں مذکور ہے اپنے دلوں کو ٹٹول کردیکھیں کہ کیا ان میں حضرت علی رضی  اللہ  عنہ کی مَحبَّت اور مقام کسی غبار یا جرثومے کی وجہ سے پھیکا تو نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو بڑی محرومی اور بد نصیبی کی بات ہے اس پر توبہ، استغفار کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک فرامین سے اپنے دلوں کا یہ غبار دور کریں یہ مبارک دین ہم تک حضرات صحابہ کرام کے ’’قلوب‘‘ سے گزر کر پہنچا ہے اگر ہم اس راستے کو ہی اپنی بدنصیبی سے گدلا کردیں گے تو یقین کریں صاف اور اصل دین ہم تک نہیں پہنچ سکے گا آج کئی واقعات بیان کرنے تھے مگر کالم پورا ہو گیا آخر میں عربی کے ایک نامور ادیب کی ایک عبارت پرآج کی مجلس ختم کرتے ہیں اس عبارت میں آپ کو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ایک اور بلند صفت اورشان سے واقفیت حاصل ہو گئی استاذ احمد حسن الزیّات’’تاریخ الادب العربی‘‘ میں لکھتے ہیں

’’رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد گزشتہ زمانوں میں یا بعد کی آنے والی نسلوں میں کوئی بھی حضرت علی ر رضی اللہ عنہ سے زیادہ’’فصیح البیان‘‘ ہمیں نظر نہیں آیا، خطابت میں بھی ایسا کوئی شخص نظر نہیں آیا، جو ایسا زبان آور اور قادر الکلام ہو، وہ حکیم تھے، حکمت کے چشمے اُن کے بیان سے پھوٹتے تھے وہ خطیب تھے ،بلاغت کا دریا ان کی زبان سے رواں تھا، واعظ تھے قلب و نگاہ پر چھا جانے والے، رواں و شاداب قلم جن کے دلائل بڑے قوی اور عمیق ہوتے تھے، کلام وبیان پراس درجہ قدرت تھی کہ جس بات کو چاہتے اور جس طرح چاہتے ادا کرتے، اس پر سب کا اتفاق اور اجماع ہے آپ مسلمانوں کے سب سے بڑے خطیب اور انشا پردازوں کے امام تھے‘‘  (المرتضی ص ۲۸۵ بحوالہ تاریخ الادب العربی)

کئی اہم واقعات رہ گئے حضرت علی ر ضی اللہ عنہ  علم، جہاداور طریقت کے ساتھ ساتھ ’’صبر‘‘ میں بھی’’امام‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں آپ نے بہت آزمائشیں اور تکلیفیں جھیلیں اوراپنے رفقاء کی طرف سے بے وفائی، بزدلی اور ناقدری کا معاملہ بھی برداشت کیا سیرت علی رضی اللہ عنہ  میں ایک طرف عظمتیں ہیں تو دوسری طرف آزمائشیں انشاء  اللہ  موقع ملا تو کسی اور مجلس میں ان باتوں کا مذاکرہ کریں گے مجلس کے اختتام سے پہلے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ سے مروی ایک’’حدیث مبارکہ‘‘ پڑھتے ہیں

’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں! رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جبرئیل حسے نقل کرتے ہیں کہ  اللہ  عزّوَجلّ کا ارشاد ہے: میں ہی  اللہ  ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا میری ہی عبادت کیا کرو جو شخص تم میں سے اخلاص کے ساتھ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ کی گواہی دیتا ہوا آئے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہو جائے گا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے امن میں ہوگا(فضائل ذکر بحوالہ ابو نعیم وغیرہ)

آئیے اخلاص کے ساتھ ’’لا الہ الا  اللہ ‘‘ پڑھتے ہیں

لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

(ملاحظہ) المرتضیٰ مصَّنفہ حضرت ندوی  رحمۃ اللہ علیہ سے واقعات نقل کرنے میں عبارت کی قدرے تسہیل کی گئی ہے)

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (320)

محبوبیت کا تاج

 اللہ ، اللہ، اللہ عجیب منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں، حالانکہ آنکھوں نے اُن کو دیکھا نہیں مگر سچی خبریں مشاہدے سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہیں وہ دیکھو! سترہ رمضان المبارک، صبح سویرے کا وقت جی ہاں! عجیب تاریخ اور عجیب وقت تاریخ تو وہ جس دن یوم الفرقان برپا ہوا تھا اور فرشتے غزوہ بدر لڑنے زمین پر اُترے تھے اور وقت فجر کی نماز کا جس میں فرشتے خصوصی طور پر نازل ہوتے ہیں وہ اپنے گھر سے باوضو نکلے پانی کا وضو الگ اور تہجد کے آنسوئوں کا وضو الگ جی ہاں پوری طرح باوضو اور نماز کے لیے جگانے کی پرزور، پرسوز آواز الصلوٰۃ، الصلوٰۃ واہ: الصلوٰۃ الصلوٰۃ مسلمانو!اٹھو نماز ، نماز گھر سے مسجد کی طرف جا رہے ہیں اچانک بدبخت، موذی سامنے آیا اور اُسکی تلوار کا وار سر پر اُس جگہ پڑا جہاں آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارہ دے کر فرمایا تھا کہ اس اُمت کا بدبخت شقی یہاں وار کرے گا اس ظالم نے بہت مہنگی تلوار خریدی تھی اور انتہائی مہلک زہر میں چھ ماہ تک بُجھائی تھی اور اس گناہ کا عزم اُس نے کعبہ شریف میں بیٹھ کر کیا تھا اور اس عہد میں اُس کے ساتھ دو اور بدبخت شقی بھی تھے ایک نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کو شہید کرنے کا اور اور دوسرے نے حضرت عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ  کو شہید کرنے کا ’’حلف‘‘ اٹھایا تھا جبکہ اس ابدی بدبخت اور بدنصیب نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  پر وار کرنے کی ذمہ داری سنبھالی آہ کیسی عظیم بدنصیبی ہے اور کتنی بُری تشکیل اور ظلم یہ کہ خود کو بہت نیک ، پارسا، حق پرست غیرت مند اور متقی سمجھتا تھا اور ظاہری فکر بھی بہت اونچے فریب والی کہ اسلام کو نعوذ باللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  اور حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے خطرہ ہے ان کو ماردو تو اسلام ترقی کرے گا اور جہاد آگے بڑھے گا ایک شیطانی خیال جو اُن کا عقیدہ بن چکا تھا وہ اُس قرآن کو پڑھ رہے تھے جس قرآن میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی شان بیان کی گئی ہے ایک آیت میں نہیں کئی آیات میں کوئی ہے جو حساب کے زور پر حضرت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے فضائل و مناقب کو شمار کر سکے؟ قرآن پاک ’’السابقون الاولون‘‘ کی فضیلت پکارتا ہے حضرت علیؓ اس مبارک جماعت کے بھی ہر اول تھے قرآن مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والوں کی شان ابھارتا ہے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  اُن میں بھی ایک انوکھی شان کے ساتھ شامل ہیں قرآن پاک غزوہ بدر کو بار بار اُجاگر کرتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ  غزوہ بدر کے اسلامی مبارزین میں سے ہیں قرآن پاک ’’اصحاب حدیبیہ‘‘ پر ایک پوری سورت میں رضوان اور مغفرت کے پھول نچھاور کرتا ہےحدیبیہ کی تحریر لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ  تھے گذشتہ کالم میں ’’سورۂ حج‘‘ کی آیات کا حوالہ آپ پڑھ چکے اور ایک منظر تو ایسا ہے کہ اُسے دیکھ کر پتھر بھی محبت سے پگھل جائیں غزوۂ خیبر برپا تھا سرزمین حجاز میں یہودیوں کی آخری اور مضبوط ترین کمین گاہ آج بھی کسی یہودی کے سامنے خیبر کا نام لو تو بُری طرح جَل بھُن جاتا ہے فلسطینی مجاہدین پتھر پھینکتے وقت کبھی یہ نعرہ اُٹھاتے ہیں

خیبر خیبر یا یہود جیش محمدؐ سوف یعود

یعنی یہودیو! خیبر کو یاد کرو ہاں خیبر کو حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا لشکر عنقریب لوٹ کر آنے والا ہے

مسلمانوں نے کئی قلعے فتح کر لیے مگر ایک مرکزی قلعہ بار بار کے حملوں کے باوجود فتح نہ ہو سکا تب وہ منظر سجا جو دلوں کو محبت کی روشنی عطاء کرتا ہے حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا

’’میں کل یہ (اسلامی) جھنڈا اُس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ خیبر کو فتح کرائے گا اور وہ شخص ایسا ہے جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اُس سے محبت فرماتے ہیں  (بخاری و مسلم)

اللہ اکبر کبیرا کتنی عظیم سعادت ہے اللہ اور رسول سے محبت کا دعویٰ تو ہر مسلمان کر سکتا ہے مگر یہ سعادت کہ اللہ اور رسول بھی اُس سے محبت فرماتے ہیں یقین جانیں بہت ہی عظیم نعمت ہے بغیر مثال اور تمثیل کے سوچیں دنیا کے بڑے لوگوں سے کتنے لوگ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں؟ مگر یہ بڑے لوگ اگر کسی کو اپنا ’’محبوب‘‘ قرار دے دیں تو اُس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں محبت کرنا بھی مشکل ہے مگر پھر بھی انسان یہ مشکل کام کر لیتا ہے لیکن کسی بڑے انسان کا ’’محبوب‘‘ بننا کہ وہ بھی آپ سے محبت کرے بہت زیادہ مشکل کام ہے لیلیٰ کے کتنے دعوے دار تھے مگر لیلیٰ کی جوابی محبت صرف ’’مجنوں‘‘ کو ملی بادشاہوں سے کروڑوں لوگ محبت کرتے ہیں مگر یہ بادشاہ اپنے ان محبین میں سے دو چار کو ہی اپنا ’’محبوب‘‘ بناتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ محبت ہر کسی کی ’’قبول‘‘ نہیں ہوتی ایک شخص بادشاہ کی بیٹی سے محبت کرتا ہے چلتے اٹھتے بیٹھتے اُسی کا نام لیتا ہے ہر وقت اُسی کے بارے میں سوچتا ہے مگر نہ نہاتا ہے نہ دھوتا ہے جسم بدبو سے لبریز، دانت اور منہ گٹر کی طرح متعفن کپڑے غلاظت سے رنگین ناخن جانوروں سے بڑے اور بالوں میں دنیا بھر کا گند بس ہر وقت بادشاہ کی بیٹی کا نام، اُس کا تذکرہ اُس کو پانے کی آرزو اور اس سے ملنے کا جنون اب اس شخص پر ’’محبت‘‘ کے اثرات تو ضرور ظاہر ہوں گے محبوبہ کا نام سُن کر وجد اور حال آجانا اُسی کے خیال میں ایسا کھو جانا کہ کسی اور کا دھیان نہ رہے اور نہ دائیں بائیں کی خبر ہویہ سب ٹھیک لیکن کیا یہ اپنی محبت کا جواب بھی پا سکتا ہے؟ اگر یہ بادشاہ کی بیٹی کے لیے رشتہ بھیجے اور وہ محبوبہ اپنے عاشق کو ایک نظردیکھ لے تو شاید خواب میں بھی ڈر جائے اور اس کا دل نفرت سے بھر جائے کیونکہ اس کے عاشق نے محبت کے ایک حصے کو تو پور اکیا مگر دوسرا حصہ چھوڑ دیا اور وہ ہے خود کو اپنے محبوب کے قابل بنانا اللہ، اللہ، اللہ مجھے بے ساختہ ریاض حسین شہید یاد آگیا جس نے جان توڑ محنت کرکے خود کو محبوب کی ملاقات کے ’’قابل‘‘ بنانے کی کوشش کی مسلسل عبادت، محنت اور ریاضت کے اثرات نے اُس کے چہرے کا رنگ اُڑا دیا وہ جب اصلاحی خط میں اپنے معمولات لکھتا تو مجھے رشک آتا اور حیرت ہوتی جو کتاب بھی اُسے بتائی وہ چند دن میں پڑھ ڈالی فضائل جہاد سے فتح الجواد تک حیاتُ الصّحابَہ سے تفسیر عثمانی تک بہشتی زیور سے سیرت المصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم  تک درود شریف کی مہم چلی تو اُن کی مقدار سب سے زیادہاقامتِ صلوٰۃ میں تو وہ ویسے ہی مضبوط تھے اور انفاق فی سبیل اللہ کے لیے اُن کا تمام مال اور جان ہر وقت حاضر تھی ہر گناہ سے نفرت اور ہر نیکی کا شوق جہاد کا بڑا درجہ ’’رباط‘‘ یعنی پہرے داری کا ہےاور رباط میں بڑا رباط امیر جہاد کی پہرے داری ہے ریاض حسین نے اپنے امیر کے دروازے پر رباط کا ڈیرہ ڈالا امیر وہاں سے چلا گیا مگر ریاض حسین نے اپنا مورچہ نہ چھوڑا خدمت کے بارے میں حضرت مولانا مفتی جمیل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ کا طرز عمل بہت متاثر کُن تھا بے ریا خدمت، بے ایذاء خدمت اکثر لوگوں کی خدمت ریاکاری یا ایذا رسانی سے برباد ہو جاتی ہےمفتی جمیل خان صاحب سکی خدمت ریا اور ایذاء سے محفوظ تھی پھر ریاض حسین شہیدس کو اُن کے نقش قدم پر پایا بے ریا خدمت، بے ایذاء خدمت ریاض حسین کا آخری خط میرے پاس رکھا ہے اس میں بار بار اس ندامت کا اظہار ہے کہ خدمت کا حق ادا نہیں ہوا معاف کیا جائے سبحان اللہ! یہ ایمانی کیفیات اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو عطاء فرماتے ہیں جی ہاں وہ بندے جو اللہ تعالیٰ سے محبت بھی کرتے ہیں اور خود کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے قابل بھی بناتے ہیں یہ موضوع طویل، بات زیادہ نہ پھسل جائے ہم واپس غزوہ خیبر کے منظر کی طرف چلتے ہیں ذرا دل کی آنکھوں سے پیارے آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک الفاظ دیکھیں

یُحِبُّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ

’’یعنی کل جس شخص کو جھنڈا عطاء کیا جائے گا وہ اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اُس سے محبت فرماتے ہیں۔

ظاہر بات ہے بہت غیر معمولی اور اونچی بشارت تھی حضرات صحابہ کرام ذتو اسی کی خاطر سب کچھ قربان کرچکے تھے اور کر رہے تھے چنانچہ

’’کُلُّھُمْ یَرْجُوْنَ اَنْ یُّعْطَاھَا‘‘

سب کی تمنا اور امید جاگ اٹھی کہ یہ واضح بشارت اور سعادت مجھے نصیب ہو آپ کو معلوم ہے کون یہ ’’عظمت‘‘ لُوٹ گیااور کس کے سر پر ’’محبوبیت‘‘ کا یہ تاج سجا؟ جی ہاں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ اور اُس دن آپ کی آنکھوں کو بھی حضرت آقا مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا لعاب مبارک نصیب ہوا اور آگے دیکھیں صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں

قسم ہے اُس ذات (یعنی اللہ تعالیٰ) کی جو دانے کو پھاڑ کر پودا نکالتا ہے اور جس نے جانداروں کو پیدا فرمایا کہ نبی اُمّی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے خاص طور سے فرمایا کہ مجھ سے (یعنی حضرت علیؓ) سے صرف وہی محبت کرے گا جو (سچا) مؤمن ہوگا اور مجھ سے صرف وہی شخص بغض رکھے گا جو منافق ہوگا (مسلم)

اللہ تعالیٰ ’’نفاق‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے امید یہ ہے کہ آپ سب صبح شام کم از کم سات بار نفاق سے پناہ کی دعا ضرور مانگتے ہوں گے جیسا کہ پچھلی ایک مجلس میں تاکید کے ساتھ عرض کیا گیا تھا ٭ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ النِّفَاقِ یا  ٭ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَ سُوْئِ الْاَخْلاقِ اچھے دنوں کی بات ہے کہ ایک بار اپنے شیخ حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ کراچی سے لاہور، رائے ونڈ اور شیخوپورہ کا سفر ملا حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ  نور اللہ مرقدہ کی صحبت بھی اس سفر میں حاصل رہی سفر کئی دن کا تھا تو اچھی باتیں بھی دل بھر کر سننے کو ملیں ایک بار حضرت لدھیانوی شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ایک رات میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت آہ و زاری کے ساتھ دعاء کی یا اللہ مجھے میرے سب سے بڑے گناہ کا پتہ چل جائے اور اُس سے توبہ کی توفیق بھی مل جائے بار بار یہی دعاء ، یہی التجا تب دل میں آیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی محبت دل میں کم ہے جی ہاں جو اُن کا مقام ہے اور جس قدر اُن سے محبت مطلوب ہے اس میں کمی ہے غور کیا تو بات ٹھیک نکلی کچھ تاریخ اور کچھ بعض کتابوں کی نحوست سے واقعی دل میں یہ عیب پیدا ہو چلا تھا میں نے فوراً سچے دل سے توبہ کی اور پھر میرے دل میں حضرت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کی محبت بڑھتی گئی بڑھتی گئی یہاں پر ایک اور بات چھیڑنے پر دل مچل رہا ہے کہ محبت سے کیا کیا اور کیسے کیسے ملتا ہے؟ اور اگر کسی سے سچی محبت ہو جائے تو اس کا فیض دل میں کس طرح سے اُترتا ہے؟ مگر چھوڑیں اس بات کو کوفہ کا وہ منظر سترہ رمضان المبارک کا دن صبح کا وقت اور مسجد کا ہی راستہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی داڑھی مبارک خون سے تر قاتل پکڑا گیا اُسے ذرہ بھر ندامت نہ تھی منافق خارجی یہ سمجھتا تھا کہ اُس نے اسلام اور مسلمانوں کی بڑی خدمت کی ہے حالانکہ اُس کے اس ظلم سے زمین بھی کانپ اُٹھی تھی ہاں! حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی محبت سے محروم لوگ ہمیشہ دین کا لبادہ ہی اوڑھتے ہیں اور اپنی اس بدنصیبی کو ’’حق پرستی‘‘ سمجھتے ہیں کلمہ طیبہ کی محنت جاری ہے جہاد اور اقامتِ صلوٰۃ کی آواز لگ رہی ہے لا الہ الا اللہ محمّد رسول اللہ کے مبارک انوارات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے دل حضرات صحابہ کرام ڑکی محبت سے لبریز ہو جائیں

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ صحبہ وبارک وسلم تسیلماً کثیراً کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (321)

کرنل سے مشورہ کر لیں

 

 اللہ  تعالیٰ اُمت مسلمہ پر’’رحم‘‘ فرمائے ساری دنیا میں مسلمانوں کے درمیان باہمی’’خانہ جنگی‘‘ کا بیج بویا جا رہا ہے کفرکی طاغوتی طاقتوں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ خود مسلمانوں سے نہیں لڑسکتے سوویت یونین میدان میں آیا مگر بُری طرح مار کھا گیا اور ابھی تک کھا رہا ہے اور باز نہ آیا تو انشاء  اللہ  مزید کھائے گا امریکہ اور یورپ توخود کو ناقابل تسخیر سمجھ رہے تھے مگراب اُن کی چیخیں ساری دنیا سُن رہی ہےاور’’وال سٹریٹ ‘‘ نعروں سے کانپ رہی ہے کوئی پاگل بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ نیٹو افواج کوعراق اور افغانستان میںشکستِ فاش ہوئی ہےلڑائی کے میدان میں ہارنے والی یہ نام نہاد طاقتیں اب مسلمانوں کو آپس میں لڑاکرمارنا چاہتی ہیں اسی تدبیر کے تحت پاکستان پر’’ڈومور‘‘ کا دباؤ ہے کچھ عرصہ سے پاکستان میں دھماکے اور لڑائی قدرے کم ہوئی تھی جو کفار کو برداشت نہیں امریکی وزیر خارجہ چلّا چلّا کر پاکستانی حکمرانوں کو حکم دے رہی ہے کہ فوراً شمالی وزیرستان پر چڑھ دوڑو تاکہ حکمران وہاں کے مسلمانوں کو ماریں اور وہاں کے لوگ پاکستان میں حکومت اور مسلمان عوام کو ماریں افغانستان میں پہلے سے ہی خانہ جنگی کا ماحول تھا مگر اب اسے باقاعدہ منظم شکل دی جارہی ہے اس نئے انتظام کے تحت امریکہ اور اُس کے اتحادی افغانستان سے نکل جائیں گے البتہ اپنے دس بیس ہزار فوجی اور جاسوس وہاں محفوظ پناہ گاہوں میں بٹھا جائیں گے اورپھر تاجکوں اور ازبکوں کو پختونوں کے خلاف لڑنے کیلئے چھوڑ دیا جائے گا اور پھر انہیں پاکستان کا راستہ دکھا یا جائے گاکہ تمہارا اصل دشمن پاکستان ہے چنانچہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ تخریبی کارروائیاں کرو انڈیا کو اسی مقصد کے لئے افغانستان میں جمایا جارہا ہے وہ افغان مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرے اور جھونکے آپ تھوڑا سا غور کریں کہ’’قذافی‘‘ کی موت نیٹو کی بمباری سے ہوئی اُن کے فوجی قافلے پر فرانسیسی طیاروں نے وحشیانہ بمباری کی یہ لوگ کئی ماہ سے اس کی تاک میں تھے قذافی کے رفقاء اس بمباری سے شہید ہوئے اور قذافی خود زخمی ہو گئے تب انہیں مقامی مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا آج نیٹو والے یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم نے’’قذافی‘‘ کو مارا ہے بلکہ ایک بڑی خانہ جنگی کے لئے اس خبر کو مضبوط کیا جارہا ہے کہ قذافی کو اُن کے مخالف مسلمانوں نے قتل کیا ہے فی الحال تو وہاں خوف کی فضاء ہے لیکن جب ماحول کی گرد کچھ بیٹھے گی تو قبائلی عصبیت میں جکڑے ہوئے لیبیا میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور یوں مسلمان ایک دوسرے کو گاجر، مولی کی طرح کاٹیں گے اور اس وقت بھی وہاں مرنے والا ہر شخص ’’ مسلمان‘‘ ہی کہلاتا ہے

اس وقت ’’میڈیا‘‘ یا ’’صحافت‘‘ ایک دشمن کی طرح مسلمانوں پر حملہ آور ہیں اور افسوس یہ کہ مسلمانوں نے اس دشمن کو اپنے گھروں میں لا بٹھایا ہے دین کا نام لینے والے چند لوگوں نے اپنے دو چار چینل کھول کر اوراپنے دو چار اسلامی پروگراموں کی خاطرمیڈیا کے پورے کافرانہ نظام کو حلال قرار دے دیا ہے یہ وہ ظلم ہے جس کی سزاآج پوری اُمتِ مسلمہ بُھگت رہی ہے اور میڈیا مسلمانوں کے اتحاد اور اُن کے حوصلے کو مزید پارہ پارہ کر رہا ہے ابھی حال ہی میں صدام حسین س کے ایک وکیل ’’خلیل یزدانی‘‘ نے بعض اسلامی رسالوں میں بہت عجیب حقائق کا انکشاف کیا ہے خلیل یزدانی نے قید کے دوران صدام حسین سسے ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات کی تھی صدام حسین سکو جب انہوں نے اُن کی گرفتاری کا وہ قصہ سنایا جو میڈیا پر ساری دنیا سے منوایا گیا تو ‘‘صدام شہید س‘‘ حیران رہ گئے انہوں نے کہا نہ تو میں کسی فارم ہاؤس کے زیر زمین خفیہ کمرے میں تھا اور نہ ہی مجھے اُس حالت میں گرفتار کیا گیا جو آپ بتارہے ہیں بلکہ میں اپنے رفقاء(جن کی تشکیل میرے لئے حفاظتی انتظامات کرنے پر تھی) میں سے ایک کے گھر پر تھا عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد غروب آفتاب سے کچھ پہلے میں اگلی نماز کیلئے مصلّے پر جا بیٹھا اور قرآن پاک ہاتھ میں لے کر اُس کی تلاوت میں مشغول ہو گیا میرا اسلحہ مجھ سے کچھ فاصلے پر رکھا تھا اذان سننے کے بعد میں نے قرآن پاک رکھا اور جیسے ہی مغرب کی نماز شروع کی تو چاروںطرف سے امریکی فوجی مجھے اپنے گھیرے میں لے چکے تھے اب معلوم نہیں کہ میرے اسی رفیق نے غداری کی یا وہ بے چارا بھی آزمائش میں آیا اور کسی اور ذریعہ سے امریکیوں کو میرا ٹھکانہ معلوم ہوا مجھے نماز کی حالت ہی میں پکڑ لیا گیا اگر میرا اسلحہ میرے پاس ہوتا  اور مجھے کچھ موقع مل جاتا تو میں شہید ہونے کو گرفتاری پرترجیح دیتا یعنی حسب استطاعت دشمنوں سے لڑائی کرتا صدام حسین رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی کہا کہ مجھے پورا اندازہ تھا کہ امریکہ اور یورپ کے لوگ فلمی کہانیوں کی طرح اپنے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر کے پیش کرتے ہیں تاکہ اُن کا رعب دنیا پر بیٹھے اور وہ اپنے لوگوں کا حوصلہ بڑھا سکیں مجھے گرفتاری کے بعد دو دن تک بہیمانہ تشدّد کا نشانہ بنایاگیا جس سے میری ایک ٹانگ سخت متاثر ہوئی اور مجھے ذلیل کرنے کاہر حربہ استعمال کیا گیا اور مجھے اس بات پر مجبور کیا گیا کہ کہ میں’’ابراہیم عزت دوری‘‘ اور اپنے اُن دیگر ساتھیوں کو پکڑوادوں جو غیر ملکی افواج کے خلاف’’مزاحمت‘‘ کر رہے ہیں لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اگر وہ لوگ میری آنکھوں میں بھی چھپے ہوئے ہوں تو میں ان کی حفاظت کے لئے اپنی پلکوں کو ہمیشہ کے لئے بند کر لوں گا صدام حسینس نے بتایا کہ مجھے میرے کئی گرفتار ساتھیوں کے بارے میں وثوق سے بتایا گیا کہ وہ اب مجھے گالیاں دیتے ہیں مگر میں نے ان باتوںپر دھیان نہیں دیا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ ہمارے درمیان غلط فہمیاں ڈالنا چاہتے ہیں اس ملاقات کے دوران صدام حسین باحوصلہ اور خوش تھے وہ کہہ رہے تھے کہ عراقی مزاحمت سے میرا دل مطمئن ہے اور میں نے کبھی بھی’’حلبجۃ‘‘ پر زہریلی گیس سے حملہ نہیں کیا تھا اُس وقت تو میں ایران کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا تھا تب ایران نے کُردوں کو میرے خلاف منظم کرنے کے لئے ’’حلبجۃ‘‘ پر زہریلی گیس سے حملہ کیا جس کا الزام مجھ پر لگایا گیا حالانکہ اُس وقت تک عراق نے ایسی گیس بنائی تک نہیں تھی صدام حسین نے فلسطینی تحریک کا حال پوچھا اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر دعائیں دیتے رہے اور انہیں اس بات پر تشویش تھی کہ ایران سے پچیس لاکھ افراد کو عراق میں بسایا گیا ہے اور ان کے نام ووٹر لسٹوں میں درج کردیئے گئے ہیں تاکہ انتخابات میں اہل ایران کے حامی لوگوں کی فتح یقینی بنائی جاسکے یہ مفصل انٹرویو بہت عجیب ، بہت عبرتناک اور بعض پہلوؤں سے بہت دردناک ہے ضروری نہیں کہ اُسکی تمام باتیں درست ہوں مگر کئی باتیں کھلی آنکھوں سے یقینی لگتی ہیں صدام حسینس کی گرفتاری کی جو ویڈیو جاری کی گئی تھی اس میں پس منظر میں کھجوروں کے درخت دکھائی دے رہے تھے اور اُن پر لگی کھجوریں اُس تاریخ کی تکذیب کر رہی تھیں جس تاریخ کو گرفتاری کا اعلان کیا گیا تھا

خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو میڈیا سے دور رہنے اور اپنی سادہ اور سچی صحافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے آج ہرطرف جھوٹ در جھوٹ در جھوٹ پھیلاہوا ہے اسی میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے عقائد، نظریات اور اخلاق کو برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمارے وہ اکابر دور اندیش تھے جو مسلمانوں کو ٹی وی، ڈش اورکیبل سے روکتے تھے اگر ہم اُن کی تعلیمات کے مطابق اپنی دعوت کو جاری رکھتے تو بہت سے فسادات، نقصانات اور فتنوں سے بچ جاتے مگر افسوس کہ ہم نے بہت جلد ہتھیار ڈال دیئے اور مسلمانوں کوباندھ کر میڈیا کے موذی بھیڑیئے کے سامنے پھینک دیا ابھی ’’قذافی‘‘ کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں آپ دیکھ لیں گے کہ چار چھ ماہ بعد ان میں سے نوے فیصد جھوٹی ثابت ہوں گی مگر اس وقت کیا فائدہ ہو گا؟ آج جو خبریں یقین کے ساتھ سنی جارہی ہیں وہ مسلمانوں میں خانہ جنگی کے جنون کو تیز کر رہی ہیں پاکستان کی وزیر خارجہ نے ہیلری کے پہلو میں بیٹھ کر پاکستان میں ایک نئی جنگ کا اشارہ دے دیا ہے  اللہ  تعالیٰ خیر فرمائےاگر واقعی پاکستانی فورسز نے شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں کسی نئے فوجی آپریشن کا آغازکیاتو یہ ’’بُرا عمل‘‘ ہر مسلمان اور ہر پاکستانی کیلئے سخت نقصان دہ ہو گا خواہ وہ عوام میں سے ہو یا افواج میں سے اگر ہمارے حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے کی کچھ تھوڑی سی صلاحیت بھی ہو تو وہ لیبیا کے شہر’’مصراتہ‘‘ کے ایک گوشت فریز کرنے والے کارخانے میں پڑی ’’کرنل قذافی‘‘ کی لاش سے کچھ سبق سیکھ لیں آ پ یقین کریں کہ اگر ’’قذافی‘‘ امریکہ اور یورپ کے سامنے وہ پسپائی اختیار نہ کرتے جو چند سالوں سے انہوں نے اپنا لی تھی تو اُن کے ساتھ یہ سب کچھ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی کرنل قذافی کے عقائد و نظریات سے ہمیں ہمیشہ اختلاف تھا اور آج بھی ہے ان کی’’الکتاب الأخضر‘‘یعنی سبز کتاب کو ہم پہلے بھی اسلام کے مطابق نہیں سمجھتے تھے اور نہ آج سمجھتے ہیں

قذافی کے وہ مظالم جن کا شکار لیبیا کے ’’اسلام پسند‘‘ عناصر ہوئے ان سے ہم بری ہیں لیکن پھر بھی’’قذافی‘‘ ایک مسلمان حکمران تھے اور وہ عزت اور غیرت کی بات کرتے تھے انہوں نے مسلمانوں کو ایک قوت بنانے کا خواب بھی دیکھا مگر انگریزی تعلیم کی نحوست کہ وہ اپنے اس خواب کے لئے درست راہِ عمل نہ پا سکے سالہا سال سے امریکہ اور یورپ کی خواہش تھی کہ وہ اس سر پھرے مسلمان لیڈر کا خاتمہ کر دیں مگر کسی کا بس نہ چلا یورپ نے جب ’’گستاخیٔ رسول‘‘ کا جرم عظیم کیا تو قذافی نے لاکھوں مسلمانوں کے کئی اجتماعات کر کے یورپ کی سخت مذمت کی اور حرمتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر مسلمانوں کے مر مٹنے کا عزم ظاہر کیا مگر معلوم نہیں کس دشمن نے انہیں’’طاغوت‘‘ کے سامنے ’’پسپائی‘‘ اور نام نہاد’’اعتدال پسندی‘‘ کی دلدل میں دھکا دیا انہوں نے سب سے بڑا جرم یہ کیا کہ اپنے کچھ مسلمان ساتھیوں کو پکڑکر یورپ کے حوالے کر دیا اور اپنا ایٹمی پروگرام کنٹینروں میں بند کر کے امریکہ کے سپرد کر دیا شاید یہی وہ لمحہ تھا جب قدرت کے موسم نے اپنے تیور بدل لئے ورنہ قذافی پر یہ موسم بہت مہربان تھا وہ طرح طرح کے تماشے، عجوبے اور اقدامات کرتے رہے دنیا چلتی رہی مگر لیبیا اور اُس کے لیڈر کا کچھ نہ بگڑا تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک دنیا بھر کی اقتصادی پابندیوں کے باوجود اتنا مالدار تھاکہ غریب ملکوں کے لوگ وہاں مزدوری کے لئے جاتے تھے اور قذافی خاندان کے اثاثوں اور خزانوں کے دنیا بھر میں چرچے تھے ہرسال کئی اسلامی ممالک کے علماء کو طرابلس بُلایا جاتا تھا اور اُن کی دل کھول کر خدمت کی جاتی تھی لیکن جب قذافی کا قدم پسپائی کی کھائی میں اُترا تو وہ گرتے ہی چلے گئے آج باغیوں کے سب سے بڑے رہنما وہ شخص ہیں جو قذافی کو ’’سیدنا‘‘ کہتے تھے تقدیر کے موسم نے جب یہ منظر دیکھا کہ قذافی اپنے دو ساتھیوں کو کافروں کے حوالے کر رہا ہے اور مسلمانوں کا اسلحہ کافروں کے سپرد کر رہا ہے بالکل ڈھاکہ کے اُس اسٹیڈیم کی طرح جہاں جنرل نیازی اپنا پسٹل سکھ جنرل اروڑہ کے سپر د کر رہا تھا تب فطرت کے موسم نے اپنا رنگ بدل لیا لیبیا کا ہر دل عزیز لیڈر نفرت کا ایسا نشانہ بناکہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اُس کے ہاتھ سے نکل گیا اور آج ا سکی لاش چار دن سے قبر کی گود کا انتظار کر رہی ہے اور پورے لیبیا میں دس افراد بھی کوئی تعزیتی اور احتجاجی جلسہ نہیں کررہے  اللہ  اکبر کبیرا حالانکہ اسی لیبیا میں کرنل قذافی کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لاکھوں لیبیائی باشندے گھنٹوں نہیں، دنوں تک سڑکوں پر بیٹھے رہتے تھے بے شک دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے ہمارے ملک کے ایک ظالم اور بزدل حکمران نے امریکہ کے سامنے پسپائی اختیار کی اپنے ہی لوگوں کو پکڑ کر اُن کے حوالے کیا اپنی زمین اُن کے ہاتھوں سستی فروخت کی اور انہیں مسلمانوں پر بم برسانے کی ہر سہولت سے نوازہ وجہ یہ بتائی کہ اس’’بُرے عمل‘‘ کے نتیجے میں ہم محفوظ ہو جائیںگے ہمار اایٹمی پروگرام محفوظ ہو جائے گا اور مسئلہ کشمیر میں نئی جان آجائے گی مگر نتیجہ کیا نکلا؟ آج کوئی پاکستانی محفوظ نہیں ہے ہمارا ایٹمی پروگرام کفار کا سب سے پہلا ہدف ہے اور مسئلہ کشمیر پر ہم شہداء کے سامنے شرمندہ ہیں جبکہ امریکہ کا پیٹ بھر کے ہی نہیں دے رہا وہ ہر دو سال بعد کہتا ہے کہ اب آپ لوگوں کے لئے آخری موقع ملا ہے ہمیں صاف جواب دو کہ آپ کس کے ساتھ ہو؟ آج پھر وہی سوال ہے کہ صاف بتاؤ تم حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ہو یا ہمارے ساتھ ہو؟ اگرہمارے ساتھ ہو تو اٹھو اور اسلام کے نامور سپہ سالار جلال الدین حقانی اور اُس کے مجاہدین پر حملہ کر دو معلوم نہیں ہمارے حکمران اس موقع پر کیا کرتے ہیں میری صرف اتنی سی گذارش ہے کہ وہ پسپائی کی طرف مزید گرنے سے پہلے’’کرنل قذافی‘‘ سے ضرور مشورہ کر لیں کہ دشمنان اسلام کے سامنے پسپائی سے کیا حاصل ہوتا ہے

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لاالہ الا  اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (322)

 

فیصلہ کریں

 اللہ  تعالیٰ کا عظیم الشان احسان عیدِقربان  اللہ  تعالیٰ پوری اُمتِ مسلمہ کو’’قربانی‘‘ کا جذبہ نصیب فرمائے یہ وہ جذبہ ہے جو قوموں کی زندگی اورترقی کی ضمانت ہے ابھی ایک دو روز سے ماشاء  اللہ  ہر طرف دلکش رونق نظر آرہی ہے موٹے تازے بکرے، پلے ہوئے دنبے چمکتی دوڑتی گائیں اورلشکارے مارتی جوان بھینسیں

فتبارک  اللہ  احسن الخالقین

دنیا میں بہت سے بے وقوف لوگ’’گوشت‘‘ نہیں کھاتے وہ اپنے اس عمل کو بڑی پارسائی سمجھتے ہیں کہ ہم’’جاندار‘‘ کو نہیں مارتے جن کی عقل ماری جائے اُن کا کیا علاج یہ لوگ آسمانی ہدایت اور وحی کے نور سے محروم اگر ساری دنیا اُن کی طرح’’بے عقل‘‘ہو جاتی تو زمین کب کی تباہ ہو چکی ہوتی تھوڑا سا سوچیں کہ اگر روزآنہ سمندر سے لاکھوںکروڑوں مچھلیاں نہ نکالی جاتیں تو سمندر کا پانی بے لگام ہو کر زمین پر نہیں چڑھ دوڑے گا؟  اللہ  تعالیٰ نے جس چیز کو حلال فرمایا اُس کے حلال ہونے میں اتنے فائدے ہیں کہ انسان شمار نہیں کر سکتا زندگی تو درختوں میں بھی ہوتی ہے پھر یہ لوگ پھل اور سبزیاں کیوں کھاتے ہیں؟ زہریلے جراثیم کو کیوںمارتے ہیں؟ وہ بھی تو جاندار ہوتے ہیں ہم جب قیدمیں تھے تو ایک ہندو فوجی نے فخر کے ساتھ بتایا کہ میںنے پوری زندگی میں انڈہ اور گوشت چکھاتک نہیں قیدیوںمیںسے ایک کی زبان سے بے ساختہ نکلا’’ خسرالدنیا والآخرۃ‘‘ یعنی دنیا میں بھی خسارہ اور آخرت میں بھی ویسے آپ باریکی سے غور کریں تو پنڈت، برہمن، اوربدھشٹ کا مذہب انسانیت کا بدترین دشمن ہے انڈہ نہیں کھاتے ساری دنیا پر احسان گوشت اور مچھلی نہیں کھاتے بڑی پارسائی مگر انسانوں کو کھا جاتے ہیں اور انہیں زندگی ہی میںشودر اور چمار قرار دے کر مُردہ سے بدتر بنا دیتے ہیں

ساری دنیا کان کھول کر سُن لے ہم الحمدﷲ گوشت کھاتے ہیں اور اسے اپنے لئے نعمت، عزت اور اکرام سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے آقا حضرت محمد مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم  گوشت تناول فرماتے تھے اور ایسا وہ  اللہ  تعالیٰ کے حُکم سے کرتے تھے اور  اللہ  تعالیٰ ہی جانتاہے کہ کون سی ’’چیز‘‘ ہے اور کونسی ’’غلط‘‘ ارے پیدا کرنے والا نہیں جانے گا تو پھرکون جانے گا:

الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر

لا الہ الا  اللہ ،لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 اللہ  تعالیٰ کا’’قُرب‘‘ حاصل کرنے کے لئے’’قربانی‘‘ کا عمل اُس وقت سے موجود ہے جب سے یہ انسان زمین پر آیا ہے آپ سب کو یاد ہو گا کہ پہلے ہم جنت میں بستے تھے ہمارے والد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام اور ہماری امی حضرت حواء علیہا السلام وہاں مزے سے رہتے تھے، خوب کھاتے پیتے کھیلتے تھے پھر اچانک کچھ ہوا آپ سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا پھر بھی عورتوں کی باتوں میں آتے ہیں خیر ایک واقعہ ہوا جو قرآن پاک میں مذکور ہے اور ہم زمین پر آگئے یوں مرتبے اور مقام کے اعتبار سے ہم  اللہ  تعالیٰ سے کچھ دُور ہو گئے اب اس دُوری کو’’قُرب‘‘ میں بدلنے کے لئے  اللہ  تعالیٰ کے عاشق بندے  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی محبوب چیزوںمیں سے جو چیز بھی ’’فِدا‘‘ کرتے ہیں اُسے عربی میں’’ قُربان‘‘ کہا جاتا ہے اور ہم اردو والوں نے اُسے ’’قربانی‘‘ بنا دیا ہے

’’القُربان‘‘ ہو اسم لما یتقرب بہ الی  اللہ  تعالیٰ من ذبیحۃ او صدقۃ

’’قُربانی‘‘ وہ ذبح ہونے والا جانور یا صدقہ جس سے آدمی  اللہ  تعالیٰ کا’’قُرب‘‘ حاصل کرتا ہے سبحان  اللہ ، سبحان  اللہ  اللہ  تعالیٰ کا ’’قُرب‘‘ خوشی سے جان نکلتی ہے،  اللہ  تعالیٰ کا قُرب ارے کوئی مجازی عاشق سے پوچھے کہ محبوب کا قُرب کیا چیز ہوتی ہے لوگ اپنے محبوب کا قُرب پانے کیلئے کیا کچھ لٹادیتے ہیں امریکہ کے ایک عاشق نے اپنی گرل فرینڈ کو تحفے میں پورا بوئنگ جہاز دے دیا تاکہ ملاقات آسان ہو ایک ناپاک چیز کا قُرب پانے کے لئے پورا بوئنگ جہاز توبہ توبہ یا اللہ  اپنی حقیقی محبت نصیب فرما دیجئے کہ ہم آپ کا قرب پانے کے لئے اپنا سب کچھ لٹانا اپنی سعادت سمجھیں انسان زمین پر آگیا یہاںاُس کی چھانٹی ہو گی پھر خوش نصیب لوگ واپس اپنے اصلی وطن’’جنت‘‘ میں جا بسیں گے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جی ہاںہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ وہ لوگ ہیں جو زمین پر رہ کر  اللہ  تعالیٰ کا’’قُرب‘‘ تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس کی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کرتے ہیں قرآن پاک اُس زمانے کی ’’قربانی‘‘ کا تذکرہ فرماتاہے جب ہم تازہ تازہ جنت سے زمین پراُترے تھے دیکھئے سورۃ المائدہ آیت(۲۷) سے شروع ہونے والا قصہ

واتل علیھم      الایۃ

ترجمہ:                آپ ان کو آدم (ح) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیں جب اُن دونوں نے قربانی کی ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی نہ ہوئی، اُس(دوسرے) نے کہا میں تجھے قتل کر دوں گا اُس (پہلے) نے جواب دیا  اللہ  تعالیٰ پرہیز گاروں سے ہی قبول فرماتاہے(المائدہ ۲۷)

یہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ ہے ’’قابیل‘‘ بڑا بیٹا جو قاتل بنا ’’قابیل‘‘ اور ’’قاتل‘‘ دونوں کے شروع میں قاف یہ علامت یاد رکھ لیں کئی لوگ بھول جاتے ہیں کہ قاتل کون تھا اور مقتول کون اور ہابیل چھوٹا بیٹا بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے حسد کیا اور پھر روئے زمین پر گناہوں کا بیج پڑ گیا قرآن پاک عجیب شان والی کتاب ہے بھائیوں کی جوڑیاں بنا بنا کر سمجھاتی ہے کہ کونسے بھائی کامیاب اور کونسے بھائی ناکام آج کل کے اکثر بھائی آپس میں ہابیل، قابیل جیسا رشتہ بناتے ہیں العیاذ ب اللہ ، العیاذب اللہ ارے بھائی تو بھائی ہوتا ہے کتنا میٹھا نام اور کتنا میٹھا رشتہ لعنت ہو شیطان مردود پر کہ وہ بھائیوں میں بھی حسد ڈال دیتا ہے یہ حسد کبھی تو اتنا سخت ہوتا ہے کہ توبہ تلافی کی گنجائش ہی نہیں رہتی جیسے ہابیل علیہ السلام اور قابیل قاتل کا قصہ اور کبھی یہ حسد کچھ ہلکا ہو جاتا ہے اس میں توبہ، تلافی کی گنجائش مل جاتی ہے جیسے حضرت سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے بھائیوں کا اُن سے حسد مگر مثالی بھائی کونسے ہوتے ہیں؟ جی ہاں آئیڈیل قرآن پاک موسیٰ اور ہارون کو پیش فرماتاہےج آج ہر مؤمن، مسلمان قرآن پاک میں ان دونوں بھائیوں کی کامیاب زندگی اور سچی محبت کو پڑھ کر سلام بھیجتا ہے

سلامٌ علیٰ موسیٰ و ھارون

 یہ موضوع بھی بڑا دلچسپ ہے چند دن پہلے کسی کی ایک نظم پڑھی کہ کراچی میں ہر زبان اور قبیلے کے لوگ بستے ہیں مگر زبان اور قبیلوں کے اختلاف کے باوجود وہ بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں جی ہاں بھائی بھائی بالکل ہابیل اور قابیل کی طرح خیر ہم’’قربانی‘‘ کی طرف واپس آتے ہیں تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ ہابیل ح جو دنیا کے پہلے مظلوم شہید اور بڑے عظیم رتبے اور مقام والے تھے انہوںنے اپنے جانوروں میں سب سے موٹا، اونچا، قیمتی اور پسندیدہ جانور خوشدلی سے قربانی کے لئے پیش کیا جبکہ قابیلجو دنیا کا پہلا ظالم، قاتل جس کے نامہ اعمال میں قیامت تک کے ہر مظلوم مقتول کا گناہ بھی شامل ہوتا ہے اُس نے اپنے کھیتوں میں سے گھٹیا قسم کے غلّے کی ایک مٹھی پیش کی  اللہ  تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول فرمائی اور قابیل کی قربانی ردّ فرما دی

قصہ بہت مفصل اور مفید ہے بس اتنا ذہن میں رکھ لیں کہ  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کو قربان کرنے کاعمل بہت قدیم ہے یہ  اللہ  تعالیٰ کا پسندیدہ عمل ہے اور  اللہ  تعالیٰ اہل تقویٰ کی قربانی قبول فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ اتنے قدیم اور عظیم عمل کو عصر حاضر کے کم عقل اور دانشور منسوخ نہیں کر سکتے حالانکہ ہمارے زمانے میں تو قربانی کے گوشت کو کھایا جاتاہے اس کی کھال اور ہڈی کو بھی کام میں لایاجاتا ہے جبکہ پرانے زمانے میں اس کی اجازت نہیں تھی آسمان سے ایک آگ آتی اور مقبول قربانی کو جلا کھاتی اب تھوڑا سا آگے بڑھیں قرآن پاک کی سورۃ الحج کھولیں اور اس کی آیت(۳۴) کو پڑھیں

ولکل اُمۃ     الایۃ

ترجمہ:                اور ہر اُمت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کر دی تھی تاکہ  اللہ تعالیٰ نے جو چوپائے(اونٹ، گائے، بکری وغیرہ) اُن کو دیئے ہیں اُن پر  اللہ  تعالیٰ کا نام یاد کیا کریں پھر تم سب کا معبود تو صرف ایک  اللہ  تعالیٰ ہی ہے پس اُسی کے فرمانبردار رہو اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئیے (الحج،۳۴)

حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت پر لکھتے ہیں:

خدائے قدّوس کے نام پر قربانی کا رواج ہر اُمت میں رہا ہے اور ایسی تواضع کرنے والوں کے لئے بارگاہ الہٰی سے پیغام بشارت ہے(حاشیہ لاہوریؒ)

سبحان  اللہ ارشاد فرمایا ولکل اُمۃ یعنی ہر اُمت کے لئے کسی ایک اُمت کا استثنا بھی نہیں یعنی ہر وہ دین اور شریعت جو  اللہ  تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل فرمائی اس میں’’قربانی‘‘ کا عمل بھی مقرر فرمایا تاکہ وہ حلال جانوروں کو  اللہ  تعالیٰ کی رضا کے لئے  اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں اور اس کے بدلے بڑے بڑے انعامات پائیں اور ان انعامات میں سب سے بڑا انعام ’’قُرب الہٰی‘‘ ہے  اللہ  اکبر کبیرا غور فرمائیں ’’قربانی‘‘ کتنا اہم عمل ہے کوئی بھی شریعت ایسی نہیں جس میں یہ حکم نہ اُترا ہو معلوم ہوا کہ ہر انسان کو اس عمل کی ضرورت ہے اور وہ اس کا محتاج ہے کیا ایسا متواتر عمل جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  تک تمام انبیاء دنے اہتمام کے ساتھ جاری رکھا غریبوں کی مدد کے نام پر منسوخ کیا جا سکتا ہے؟ یا  اللہ ! عقل و دانش کی محرومی سے حفاظت فرمائیے اب تھوڑا سا اورآگے بڑھیں قربانی کا عمل ترقی کر رہا ہے منیٰ کے میدان میں حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی چُھری  اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرکے حضر ت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چل رہی ہے اللہ  اکبر کبیرا بات مختصر!!! سمجھنے والوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور پھر’’مدینہ منورہ‘‘ جہاں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے دستِ مبارک سے قربانی کے دنبے ذبح فرمارہے ہیں

ایک سچے مسلمان کے لئے قربانی کی عظمت کو سمجھنے کے لئے اور کس دلیل کی ضرورت باقی رہی؟ الرحمت ٹرسٹ کے جانباز کارکن جو ہمہ وقت  اللہ  تعالیٰ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں آپ کی قربانی کا گوشت اُن مسلمانوں تک پہنچاتے ہیں جن میں سے کوئی آپ کے گھر آکر آپ کی دعوت کھائے تو آپ خود کو خوش نصیب محسوس کریں

امید ہے کہ آپ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اور اب آج کی آخری بات سُنا ہے ایپل کے ’’ آئی فون‘‘ میں چار ہزار گانے محفوظ ہوجاتے ہیں چار ہزار مکروہ اورناپاک گانے مگر قربانی کے ایک دُنبے اور بکرے کو ذبح کرنے سے اُس دنبے اور بکرے کے بالوں کے برابر نیکیاں محفوظ ہو جاتی ہیں کوئی کیلکولیٹر ہے جو ایک دُنبے اور بکرے کے بال گِن سکے؟ اب آپ ہی فیصلہ کر لیں کہ آئی فون بڑی ایجاد ہے یا قربانی کا عمل اور مرنے کے بعد اور اِس زندگی میں بھی گانے کام آئیں گے یا نیکیاں اورحسنات

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (323)

 

کنجی

 اللہ  تعالیٰ میری اورآپ سب کی ’’مغفرت‘‘ فرمائے

اَسْتَغْفِرُ اللہ  الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

مغفرت بہت عظیم الشان نعمت ہے اندازہ لگائیں کہ جب قرآن مجید میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے’’مغفرت‘‘ کا اعلان کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  بے حد خوش ہوئے یقیناً وہی مؤمن کامیاب ہے جس کی ’’مغفرت‘‘ ہو جائے اسی مغفرت اور معافی کو  اللہ  تعالیٰ سے مانگا جائے تو اسے ’’استغفار‘‘ کہتے ہیں  اللہ  تعالیٰ جس قوم کو اپنے عذاب سے بچاناچاہتے ہیں اُسے’’ استغفار‘‘ کی توفیق اور موقع اور سمجھ عطاء فرما دیتے ہیں حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ قرآن پاک میں موجود ہےانسان کی دعاء اور عرش کے درمیان گناہوں کی وجہ سے جو رکاوٹیں اور پردے آجاتے ہیں استغفار اُن سب پردوں اور رکاوٹوں کو دور کر دیتا ہے

 حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ایک بار سفر میں تھے عراق کے کسی دور دراز گاؤں میں رات آپڑی نہ کوئی تعارف تھا اورنہ ٹھکانہ ارادہ فرمایا کہ مسجد میں رات گزاریں گے مسجد گئے تو چوکیدار نے داخل ہونے سے منع کر دیا اُسے بہت سمجھایا مگر وہ ضد کا پکّا کسی طرح نہ مانا امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں پھر اسی جگہ سو جاتا ہوں، مسجد کے باہر فرش اُسی پر لیٹ گئے، مگر چوکیدار پیچھے پڑا تھا وہ آپ کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر مسجد سے دور کر رہا تھا ایک نانبائی(روٹی پکانے، بیچنے والے) نے یہ منظر دیکھا تو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے گذارش کر کے اُن کو اپنے گھر رات گزارنے کے لئے لے گیا اور آپ کا بہت اکرام کیا پھر وہ آٹا گوندھنے باہر نکلا امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا اور سنا کہ وہ چلتے، پھرتے، آٹا گوندھتے مسلسل’’استغفار‘‘ کر رہا ہے صبح اُس سے پوچھا تو کہنے لگا جی! یہ میرا مستقل معمول ہے فرمایا اس کا کوئی ظاہری فائدہ اور ثمرہ بھی دیکھا کہنے لگا جی ہاں! جو دعاء بھی کرتا ہوں قبول ہو جاتی ہے اب تک صرف ایک دعاء قبول نہیں ہوئی پوچھا کونسی؟ کہنے لگا امام احمد بن حنبل کی زیارت کی دعاء فرمایا میں احمدبن حنبل ہوں، تمہاری یہ دعاء بھی قبول ہوئی اور مجھے گھسیٹ کر تمہارے پاس لایا گیا

استغفار کے فضائل، فوائد اور اثرات بہت ہی زیادہ عجیب ہیںمگر عام طور پر لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں ہوتی یہ بھی گناہوں کی ایک نحوست ہے کہ استغفار کے اتنے بڑے بڑے فائدے قرآن وسنت میں پڑھ کر بھی لوگ’’استغفار‘‘ کو اختیار نہیں کرتے قرآن مجید میں توبہ اور استغفار کے جو فضائل اور فوائد بیان ہوئے ہیں آج اگر انہی کو بغیر تشریح کے لکھوں تو ’’کالم‘‘ اخبار کے آٹھ صفحات پر پھیل جائے گا چند دن پہلے ایک عرب عالمہ کی ایک عبارت نظروں سے گزری اُنہیں  اللہ  تعالیٰ نے استغفار کی بڑی بڑی برکتیں اور فوائد نصیب فرمائے وہ لکھتی ہیں اے غموں، مصیبتوں اور پریشانیوں میں جلنے والی مسلمان بہن اے رو رو کر خود کو ہلاک کرنے والی بہن اے آزمائشوں، ناقدریوں اور تکلیفوں میں پِسی ہوئی بہن استغفار کی دوا کیوں نہیں استعمال کرتی یہ ہر زخم کا مرہم اور ہر پریشانی ، غم ، فکر اور مصیبت کا علاج ہے یقیناً یہ تمام باتیں سچ ہیں اور استغفار کے فوائد کی محض ایک جھلک ہے ورنہ جو بار بار معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرلے اُسے دنیا اور آخرت کی کونسی چیز ہے جو نہیں ملے گی

ایک خاتون نے اپنا واقعہ لکھا ہے وہ تیس سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی اور ساتھ پانچ بچے نہ رہنے کی معقول جگہ اور نہ کھانے پینے کا کوئی مستقل انتظام پانچ بچے اور ایک اکیلی بیوہ عورت غم اور پریشانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اضطراب اور قلق کے انہی ایام میں انہوں نے ریڈیو پر یہ حدیث شریف سنی

مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ  اللہ  لَہُ مِنْ کُلَّ ھَمٍّ فَرْجًا وَّمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجًا وَّرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ

رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو استغفار کو لازم پکڑے یعنی ہمیشہ کثرت سے کرے تو  اللہ  تعالیٰ اُسے ہر پریشانی سے نجات اور ہر مصیبت سے خلاصی عطاء فرماتے ہیں اور اُسے بے گمان رزق دیتے ہیں

وہ ایمان والی بندی تھی کہنے لگی بس سارے مسئلے حل ہو گئے اُس نے خود بھی اور اپنے بڑے بچوں کو صبح شام استغفار میں لگا دیا رات دن استغفار،ہزاروں بار استغفار ابھی چھ ماہ گزرے تھے کہ کوئی جدّی پشتی جائیداد کے کاغذات مل گئےدیکھتے ہی دیکھتے اپنا گھر، لاکھوں کروڑوں روپے اور ہر آسودگی سبحان  اللہ !  اللہ  تعالیٰ کو معافی مانگنے والے بہت محبوب ہیں وہ انہیں کسی دوسرے کا محتاج نہیں فرماتا اُس  اللہ  تعالیٰ کی بندی نے شکر کیا اور استغفار کو جاری رکھا اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم اور حفظ میں لگا دیا بندہ کو چند سال پہلے ایک بزرگ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا وہ سخت شرائط والے ’’ولی‘‘ تھے بعض  اللہ  والے بہت نرم ہوتے ہیں اوربعض شرعی حدود میں سخت دونوں طرح کے بزرگوں سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے ہمارے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث میں جن چیزوں کو ’’شفاء‘‘ فرمایا گیا ہے ان میں’’شہد‘‘ بھی ہے اور’’حجامہ‘‘بھی دونوں میں  اللہ  تعالیٰ نے شفاء رکھی ہے بس اسی طرح  اللہ  تعالیٰ کے مقبول اولیاء ہوتے ہیں کوئی شہد یعنی نرمی سے علاج کرتا ہے اور کوئی حجامہ یعنی سختی سے وہ بزرگ سخت تھے اکثر بیعت کے لئے آنے والوں سے بیعت منظور نہیں فرماتے تھے اور اگر کسی پر نرمی کرتے تو فرماتے تین دن روزے رکھو اور ان تین دنوں میں سوا لاکھ بار استغفار پورا کرو سبحان  اللہ ! استغفار کی کثرت کے عجیب ثمرات ظاہر ہوتے کسی کو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت نصیب ہوتی تو کسی کو کوئی اور فوری نعمت ملتی قاضی ابو علی الحسن التنوخی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ہے’’کتاب الفرج بعد الشدّۃ‘‘ یعنی سخت حالات کے بعد کشادگی اور راحت یہ مختصر مگربہت مفید اور مؤثر کتاب ہے اُس میں وہ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ مجھے دشمنوں نے قید کر لیا اور اُن کا ارادہ مجھے قتل کرنے کا تھا میں نے قید کے ان ایام میں حضرت یونس علیہ السلام کی دعاء بہت کثرت سے پڑھی اس دعاء میں توحید بھی ہے، تسبیح بھی ہے اور استغفار بھی

لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن

فرمایا کہ صرف نو(۹) دن کے مسلسل ورد کی برکت سے مجھے ایسی سخت قید سے خلاصی مل گئی ایک عرب نوجوان نے اپنا واقعہ لکھا ہے اور  اللہ  تعالیٰ کی قسم کھائی ہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ سچ ہے ’’میںایک غریب اور پریشان حال شخص تھا کوڑی کوڑی کے لئے محتاج کسی طرح سعودیہ گیا کہ کچھ کما سکوں مگر وہاں گرفتار ہو گیا مجھے معلوم تھا کہ سعودیہ میں گرفتارہونے والا اگر بے گناہ ہو تب بھی اُسے چھوٹتے چھوٹتے سال دو سال لگ ہی جاتے ہیں میں نے ’’استغفار‘‘ کا معمول اپنایا رات دن استغفار روزآنہ ہزاروں بار استغفار تب صرف چوراسی(۸۴) دن بعد میں چھوٹ گیا اور اگلے دن کسی نے مجھے ساٹھ ہزار ریال ھدیہ کر دیئے اور پھر حالات مستقل بہتری کی طرف بڑھتے گئے‘‘ یہ بالکل سچے واقعات ہیں اور یہ اُس سمندر کے چند قطرے ہیں جواستغفار میں پوشیدہ ہیں آج میں نے آپ کے لئے کئی واقعات چھانٹ کر رکھے تھے مگر اب اُن کو تفصیل سے نہیں لکھتا مثلاً

(۱)     یہ ایک ڈاکٹر صاحب ہیں ہسپتال کے پانچ ڈاکٹروں نے ان کے خلاف سازش کر کے ان کو نوکری سے نکلوادیا کہتے ہیں میں نے اس مسنون استغفار کا کثرت سے ورد کیا

اَسْتَغْفِرُ اللہ  الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

چند دن ہی میں نوکری بحال ہو گئی اور حاسدوں کا ایسا بُرا حشر ہوا کہ  اللہ  تعالیٰ کی پناہ

(۲)     یہ ایک خوش نصیب جوڑا ہے مگر بے اولاد دنیا کے کئی ملکوں میں علاج کرایا مگر لاحاصل پھر قرآن پاک کی وہ آیت سنی جس میں فرمایا گیا کہ استغفار کرو  اللہ  تعالیٰ تمہیں خوب مال و اولاد عطاء فرمائے گا سب علاج بند اور استغفار شروع اب ماشاء  اللہ  اُن کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں

(۳)     یہ ایک خاتون ہے خاوند صبح شام گالیاں بکتا ہے، مارتا ہے اور تذلیل کرتا ہے اس مؤمنہ بندی نے استغفار کو اپنایا ایک دن خاوند نے بہت مارا یہ اُس کے جانے کے بعد استغفار کرتی رہی بے حد غمزدہ اور زخمی دل کے ساتھ اپنے رب سے شکوہ نہیں معافی مانگتی رہی اچانک دھماکہ ہوا اور گھر میں ایک جگہ سے کوئی ٹونا، تعویذ باہر نکل آیا معلوم ہوا خطرناک جادو تھا اُس کو گھر سے نکال دیا شام کو خاوند آیا تو آتے ہی بیوی سے معافیاں مانگنے لگا اور پھر وہ ایسا تبدیل ہوا کہ زندگی ہی بدل گئی

(۴)     یہ ایک مسلمان بہن ہے چاہتی ہے کہ نیک،صالح، مجاہد اور  اللہ پاک کا ولی خاوند ملے استغفار کا معمول بناتی ہے روزآنہ پندرہ سو بار

اَسْتَغْفِرُ اللہ  الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

 اور اس کے علاوہ چھوٹے استغفار کی کثرت

اَسْتَغْفِرُ اللہ  رَبِّیْ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

اب ماشاء  اللہ  شادی شدہ ہے عالم، مجاہد اور محبت کرنے والا خاوند اُسے نصیب ہوا

(۵)     ایک عورت کو کینسر ہوا استغفار کی کثرت کی، جب دوبارہ ٹیسٹ کرایا تو نام و نشان ہی نہیں تھا

(۶)     ایک عورت کو شادی کے تیس سال بیت گئے اولاد نہیں کسی نے استغفار کا بتایا تو دن رات اُسی میں لگ گئی تیس سال بعد  اللہ  تعالیٰ نے اولاد عطاء فرمائی

قصے اور واقعات بہت ہیں اور ان کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ قصوں سے عمل کی ترغیب ملتی ہے اور ان قصوں میں کوئی مبالغہ نہیں ہےکیونکہ ’’استغفار‘‘ پر بے شمار نعمتوں کا وعدہ خود  اللہ  تعالیٰ نے فرمایا ہے اور  اللہ  تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں فرماتے غور سے دیکھئے قرآن پاک سورہ ھود آیت(۳) میں ارشاد باری تعالیٰ:

 ترجمہ: اور(  اللہ  تعالیٰ کا حکم) یہ(ہے) کہ تم اپنے ربّ سے استغفار کرو(یعنی مغفرت اور معافی مانگو) پھر اسی کی طرف رجوع کرو وہ تم کو ایک وقتِ مقرر(یعنی موت) تک(دنیا میں) خوش عیشی دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا (ھود،۳)

یعنی اصل اجر اور نعمتیں تو آخرت کی ہیں مگردنیا میں بھی سکون، چین اور راحت اور طرح طرح کی نعمتیں عطاء فرمانے کا وعدہ ہے

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:

ترجمہ:                میں نے کہاکہ اپنے ربّ سے ’’استغفار‘‘ کرو (یعنی معافی مانگو) وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے (موسلا دھار) بارش برسائے گا اور مال اوربیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں باغات عطاء فرمائے گا اورتمہارے لئے نہریں جاری فرمائے گا(نوح،۱۰ تا ۱۲)

آپ صرف ان دو آیات میں غور کریں تو معلوم ہو گاکہ استغفار ہر نعمت اور آسانی کی چابی ہے اسی لئے قرآن پاک بار بار توبہ،استغفار کا حکم فرماتا ہے اور ہمارے آقا و محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ایک طرف تو معصوم ہونے کے باوجود خود بہت زیادہ استغفار کا اہتمام فرماتے تھے ایک ایک مجلس میں سو سو بار صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے استغفار کو سنااور دوسری طرف آپ نے اُمت کو اس کی بہت زیادہ تلقین فرمائی آپ صرف مسنون دعاؤں کو ہی دیکھ لیں اکثر دعاؤںمیں ’’استغفار‘‘ ملتا ہے تھوڑی دیر پہلے میں وضو کر رہا تھا وضو کی مسنون دعاء میں بھی استغفار تھا پھر مسجد جانے لگا تو مسجد جاتے ہوئے راستے میں پڑھنے والی مسنون دعاء میں بھی استغفار تھا نماز سے فارغ ہوئے تو مسنون عمل یاد آیا اور وہ ہے تین بار استغفار ہمارے شفیق، رحیم اور کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اتنا زیادہ استغفار سکھایا تو خود اندازہ لگالیں کہ اُمت کے لئے استغفار میں کتنے فائدے ہیں ایک روایت میں آیا ہے کہحضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا:

 اے میرے پیارے بیٹے! اپنی زبان کو’’اَللَّھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ کا عادی بناؤ کیونکہ  اللہ  تعالیٰ کے نزدیک بعض اوقات ایسے ہیں جن میں وہ کسی سائل کی دعاء رد نہیں فرماتے دیکھیں’’مغفرت‘‘ کتنی ضروری چیز ہے کہ ہر وقت مانگتے رہنے کا حکم فرمایا قتادہ س فرماتے ہیں! یہ قرآن پاک تمہاری بیماری بھی بتاتا ہے اوراُن کا علاج بھی پس تمہاری بیماری’’گناہ‘‘ ہیں اور تمہاری دوا ’’استغفار‘‘ ہے ابو المنہال سفرماتے ہیں:قبر میں کسی بندے کے لئے استغفار سے زیادہ محبوب ساتھی اور کوئی نہیں ہوگا علامہ ابن تیمیہ سسے کسی نے پوچھا کہ ہم تسبیح زیادہ کریںیا استغفار فرمایا اگر کپڑے پاک صاف ہوں تو خوشبو اچھی ہوتی ہے اور اگر میلے کچیلے اور گندے ہوں توصابن اچھا ہوتا ہے اور ہم لوگ تو اکثر میلے کچیلے ہی رہتے ہیں یعنی تسبیح خوشبو کی طرح ہے اور استغفار صابن کی طرح دراصل استغفار پاکی اور طہارت کی وہ موسلا دھار بارش ہے جو انسان کو اندر باہر سے پاک کر دیتی ہے سب سے بڑی پاکی تو یہ ہے کہ نامہ اعمال پاک ہو جاتا ہے یہی نامہ اعمال کسی کو دائیں ہاتھ میں اور کسی کو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ایک فلم دیکھنے میں نامہ اعمال کتنا سیاہ ہوتا ہے؟ جھوٹ بولنے سے نامہ اعمال کتنا کالا ہوتا ہے؟ زیادہ بولنے والے تو نان سٹاپ بولتے ہیں فرائض میں کوتاہی اور بدنظری حرام خوری اور خیانت کس کس گناہ نے آج اُمت کو گھیرا ہوا ہے، فہرست لکھی جائے تو پوری کتاب بن جائے اس کے مقابلے میں توبہ کتنی ہے؟اور استغفار کتنا ہے؟ گناہ دراصل اُس چربی کی طرح ہیں جو دل کی شریانوںمیں جم جاتی ہے تو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے گناہ اُس جالے کی طرح ہیں جو موتیا بن کر آنکھوں پر آجاتا ہے تو آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں گناہ اُس کچرے کی طرح ہیں جو پانی کے پائپ میں پھنس جائے تو پانی رک جاتا ہے گناہ اس میل کچیل کی طرح ہیں جو کسی جگہ جمع ہو جائے تو کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں گناہ اُس زنگ کی طرح ہیں جو بڑی بڑی کارآمد مشینوں کو بیکار کر دیتا ہے اور گناہ اُس زہر کی طرح ہے جو خون یا کسی عضو پرآجائے تو کینسر ہو جاتا ہے اور ’’استغفار‘‘ ان سب کا علاج ہے ہمارے گناہوں نے اُن غیر مرئی پائپوں، لائنوں اور راستوں کو بند کر رکھا ہے جن سے رحمت، سکون، قوت اور رزق حلال اترتا ہے اور جن سے گزر کر ہماری دعائیں اوپر عرش تک جاتی ہیں ہم زیادہ استغفار کر کے ہر دکھ، ہر محرومی، ہر ذلت، ہرغم، ہر بیماری، ہر صدمے اور ہر آفت سے بچ سکتے ہیں اور اصل اجر اور ثواب تو آخرت کا ہے جس کے بارے میں اماں عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہاکا فرمان ہے

طوبیٰ لمن وُجد فی صحیفتہ استغفارا کثیرا

بہت عظیم خوشخبرییعنی  اللہ  پاک کی رضا اور جنت اُس کے لئے ہے جس کے نامہ اعمال میں زیادہ استغفار ہوگا کلمہ طیبہ، نماز اورجہاد کی برکت سے’’جماعت‘‘ کو الحمدﷲ کثرتِ استغفار کی طرف رہنمائی ہوئی ہے کلمہ طیبہ کا ورد ہرگز نہ چھوڑیں کم از کم مقدار بارہ سو  اللہ  کیلئے بہت اہتمام کریں تلاوت اور درود شریف ہر گز نہ چھوڑیں ’’عشرہ استغفار‘‘ کے دوران جو’’مکتوبات‘‘ جماعت میں جاری ہوئے ان میں اہم نکات کی طرف اشارہ ہے وہ آج کے اخبار میں آپ (قربانیاستغفار) میں ملاحظہ فرمالیں گے مجلس کا اختتام حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے فرمان پر کرتے ہیں:

العجب ممن یھلک و معہ النجاۃ قیل وماھی قال: ’’الاستغفار‘‘

 حیرت ہے اُس پر جو ہلاک ہوا حالانکہ اُس کے پاس نجات کا نسخہ موجود تھا عرض کیا گیا نجات کا نسخہ کیا ہے فرمایا : استغفار

اَسْتَغْفِرُ اللہ  الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَاوَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (324)

فرعون کی ناکام سیاست

 اللہ  تعالیٰ کی بندگی اور غلامی اختیار کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے دل کی گہرائی سے اعلان کر دیجئے

اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَُ

یا  اللہ  ہم صرف اورصرف آپ کی بندگی اور غلامی اختیار کرتے ہیں اور صرف اور صرف آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں حضرت جعفر بن محمدرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

من خاف  اللہ ، خاف منہ کل شیٔ ومن لم یخف  اللہ  اخافہ  اللہ  من کل شیء

یعنی جو  اللہ  سے ڈرتاہے، ہر چیز اُس سے ڈرتی ہے اورجو  اللہ  تعالیٰ سے نہیںڈرتا  اللہ  تعالیٰ اُسے ہر چیز سے ڈراتے ہیں یعنی اُس کے دل میں ہر چیز کا خوف پیدا ہو جاتاہے دیکھا آپ نے امریکہ کے لاڈلے ’’حسین حقانی‘‘ کوآج وہ خوف اور ذلت سے تھرتھر کانپ رہا ہے بہت پڑھا لکھا اور چالاک’’حسین حقانی‘‘ امریکہ اور انڈیا کا گویاکہ کھلم کھلّا جاسوس پاکستان کے دینی اورجہادی طبقے کاپرزور مخالف اور دشمن امریکہ جا کر کتاب لکھی وہ بھی پاکستان کے مسلمانوں اور یہاںکی فوج کے خلاف تب امریکیوں نے اُس کو اپنا’’یار‘‘ قرارد ے دیا اس سے بڑا عذاب اور ذلت ایک مسلمان کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کے لئے کام کرے مگرقدرت ایک وقت تک ڈھیل دیتی ہے اورجب پکڑنے پر آتی ہے تو پھر کوئی نہیں بچاسکتا بہت کوشش کی کہ امریکہ سے پاکستان نہ آنا پڑے بس استعفے سے کام چل جائے مگرکام نہیں بنا اور اب تفتیش ہے اور خوف اگر کسی بندے کو یہی خوف  اللہ  تعالیٰ سے نصیب ہو جائے تو اس کی بگڑی بن جائے حضرت کعب  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

بنی اسرائیل کے ایک شخص سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا وہ اس پر سخت غمگین ہوا اسی غم کی حالت میں کبھی اِدھر جاتاکبھی اُدھر اور کہتا میں اپنے رب کو کیسے راضی کروں؟ میں اپنے رب کو کیسے راضی کروں؟ اللہ  تعالیٰ نے اُسے’’صدیقین‘‘ میں شامل فرما لیا۔(شعب الایمان للبیہقی)

دیکھا آپ نے ندامت اور خوف نے ایک گناہ گارکو ’’صدیق‘‘ کے مقام تک پہنچا دیا یقیناً توبہ اور استغفار بہت بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت اُن کو نصیب ہوتی ہے جو  اللہ  تعالیٰ سے ڈرتے ہیں کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک بار بہت زور کا قحط پڑا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم میں سے ستر(۷۰) نیک افراد منتخب فرمائے اور ان کو لے کر توبہ،استغفار اور دعاء کے لئے باہر نکلے سب نے مل کر خوب آہ وزاری کی مگر آسمان پرکوئی تبدیلی نہ آئی، سورج سینہ تان کر گرمی برساتارہا اور بارش و بادل کا دور دورتک کوئی نام و نشان نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے  اللہ  تعالیٰ سے التجا کی یا  اللہ ! اتنی آہ وزاری، اتنی توبہ اور اتنی فریاد کے باوجود کوئی قبولیت نہیں ارشاد ہواان ستر(۷۰) میں سے ایک ایسا ہے جس نے ابھی تک توبہ نہیں کی وہ اپنے گناہ پر ڈٹاہواہے جب تک تم اُسے اپنے میں سے نہیں نکالو گے تمہاری دعاقبول نہ ہوگی اُس کو نکال کر دعاء کرو گے تو قبول ہو گی حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے اعلان فرما دیا کہ وہ شخص جو توبہ نہیں کررہا وہ نکل آئے اُس شخص نے جب اعلان سنا تو رسوائی کے ڈرسے دل کی حالت بدل گئی دل میں  اللہ  تعالیٰ کا خوف آیا اور اُس نے دل ہی دل میں سچی توبہ کر لی اسی وقت ہوائیں جھوم اٹھیں، بادل چھاگئے اور بارش موسلا دھاربرسنے لگی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی یا اللہ ! وہ شخص ابھی نکلا نہیں اور آپ نے دعاء قبول فرمالی ارشاد ہوا: اے موسیٰ! اُس نے سچی توبہ کر لی ہے عرض کیا وہ کون ساشخص ہے؟ ارشادہوا اے موسیٰ! وہ ہماری نافرمانی کرتا تھا توہم اُس پر پردہ ڈالتے رہے اب وہ تائب ہو چکا تو کیا ہم اُسے رسوا کردیں؟

سبحان  اللہ  اللہ  تعالیٰ کی رحمت بھی عجیب ہے اپنے مجرموں کو اپنا بندہ کہہ کر بلاتے ہیں اور کھلی معافی کا اعلان فرماتے ہیں اور معافی مانگنے والوں کواونچے اونچے مقامات اور ہر طرح کی نعمتوں سے نوازتے ہیں کوئی ہے جو اپنے مجرم کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرسکتا ہو؟ پھر بھی ہم  اللہ  تعالیٰ کو چھوڑ کرغیروں کے سہارے ڈھونڈتے ہیں اور کبھی ایک لمحہ بھی اپنے آپ کو  اللہ  تعالیٰ کے لئے خالص اور مخلص نہیں کرتے شیطان کی پوری کوشش ہے کہ وہ ہمیں توبہ، استغفار سے روکے کبھی نیکی کے تکبّر میں ڈال کر اورکبھی گناہ سے مایوس کر کے جب کوئی بندہ اپنے گناہوں سے مایوس ہو کر توبہ چھوڑ دیتا ہے تو شیطان اپنی کامیابی پر خوشی مناتا ہے اورجب کوئی بندہ اپنی نیکی کے زعم میں توبہ نہیں کرتا تو شیطان اُسے اپنا شکار بنا لیتا ہے

حضرت طلق بن حبیبؒ فرماتے ہیں:

 اللہ  تعالیٰ کے حقوق مکمل ادا کرنا کسی بھی بندے کے بس میں نہیں ہے پس اسی لئے صبح بھی توبہ کرو اور شام بھی توبہ کرو (البیہقی)

حضرت ابن عمر رضی ر فرماتے ہیں:

جب کسی بندے کو اپنا گناہ یاد کر کے دُکھ ہو اور اُس کا دل ڈر جائے تو بس اُسی وقت اُس کا وہ گناہ اُس کے نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے یہ کیفیت کن لوگوں کو نصیب ہوتی ہے؟ انہیں جو  اللہ  تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کو مانتے ہیں؟  اللہ  اکبر  اللہ  سب سے بڑا ہے آپ سورج کو دور سے دیکھیں، کتنا چھوٹا سا نظرآتاہے بس ایک دوفٹ کا جی ہاں! ہمیں سورج اپنے سے بھی چھوٹا نظر آتاہے کیونکہ ہم سورج سے دور ہیں اب اگر ہم سورج کی طرف سفرکریں اور اُس کے قریب ہوتے جائیں، قریب ہوتے جائیں تو سورج بڑاہوتا جائے گا اور ہم چھوٹے اور گر ہم سورج کے بالکل قریب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟ ہم خود کواُس کے مقابلے میں ایک ذرہ کے برابر بھی نہیں پائیںگے کیونکہ سورج زمین سے کئی گنا بڑا ہے اور ہم زمین تو کیا زمین کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی چھوٹے ہیں اب بغیر تشبیہ کے سمجھیں جو شخص  اللہ  تعالیٰ سے جتنا دور ہے وہ  اللہ  تعالیٰ کی عظمت کونہیں سمجھتا وہ خود کو اور اپنے نفس کو بڑا سمجھتا ہے اسی لئے تو  اللہ  تعالیٰ کے حکم اور  اللہ  تعالیٰ کے نام پر وہ کھڑا نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے آدمی  اللہ  تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے تو اس کے دل میں  اللہ  تعالیٰ کی عظمت بڑھتی جاتی ہے، بڑھتی جاتی ہے اور اس کی عظمت کی کوئی حد ہی نہیں ہے سورج تو بہت چھوٹا ہے  اللہ  اکبر  اللہ  تعالیٰ ہر چیز سے بڑے ہیں اسی لئے جب عشق و محبت میں ڈوب کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کر دی اے میرے رب مجھے اپنی زیارت کر ادے ارشاد ہوا لن ترانی اے موسیٰ! آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے دنیا کی آنکھیں تو ایک پہاڑ کو پورا نہیں دیکھ سکتیں ایک سمندر کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور  اللہ  تعالیٰ کی عظمت کے سامنے یہ چیزیں کچھ بھی نہیں دنیا کی آنکھوں میں کہاں طاقت کہ وہ  اللہ  تعالیٰ کو دیکھ سکیں  اللہ  تعالیٰ جسم سے پاک، جہت سے پاک اور مثال سے پاک اُن جیسا کوئی ہے ہی نہیںکہ اُس چیز کا خیال لا کر اندازہ لگایاجاسکے ہاں آخرت میں اہل جنت کو ایسی آنکھیں دی جائیں گی جن سے وہ ’’رؤیتِ باری تعالیٰ‘‘ کی عظیم ترین نعمت حاصل کر سکیں گے اتنے عظیم رب کا حق کون ادا کر سکتا ہے؟ اسی لئے استغفار ہے اتنے عظیم رب کی نافرمانی؟ توبہ توبہ اسی لئے توبہ ہے اور اُدھر اتنی عظمت کے باوجود اتنی رحمت کہ ہرگناہ سے توبہ کا دروازہ کُھلا ہےبلکہ اپنے بندوں کو بُلایا جارہا ہے کہ آجاؤ، آجاؤ توبہ کر لو اور پھر معافی بھی اتنی جلدی کہ تصور سے باہر حضرت عبد اللہ  بن سلام  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں تمہیں جو باتیں بتاتا ہوں یا تو وہ کسی نبی کا فرمان ہوتی ہیں یا کسی آسمانی کتاب کا فرمان بے شک جب کوئی بندہ گناہ کرتاہے اورپھر اُس پر پلک جھپکنے کے برابر نادم ہوتا ہے تو اُس کا وہ گناہ پلک جھپکنے سے بھی جلدی معاف ہوجاتا ہے(الطبرانی) اے مسلمانو! صبح استغفار، شام استغفار اے مسلمانو! بار بار توبہ، باربار استغفار اے مسلمانو!  اللہ  تعالیٰ کی عظمت کو مان کر دل کی ندامت کے ساتھ استغفار آج اُمتِ مسلمہ استغفار کی بے حد محتاج ہے ظالم حکمرانوں نے اس اُمت کو لوٹ لیا، بربادکر دیا کافروں نے ہر اسلحے کا رخ مسلمانوں کی طرف پھیر دیا ہمارا ایمان گناہوںنے لوٹ لیا اور ہمارا سکون دنیا کی محبت نے غارت کر دیا ان حکمرانوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں عمران خان کو ’’مسیحا‘‘ سمجھنے والے بہت بڑے مغالطے میں ہیںکرکٹ کا یہ کپتان کسی نہ کسی طرح کرسی تک پہنچنا چاہتا ہے پہلے پرویز مشرف کی چاپلوسی کی ایسی کہ کوئی غیور انسان اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتاتب کام نہ بنا اب پھر ہرطرف انقلاب کا شور ہے کیسا انقلاب اور کس طرح کا انقلاب؟ وہی چہرے ہیں اور وہی کردار نہ زرداری سے خیر کی توقع ہے اور نہ شریف برادران سے نہ عمران اس قوم کا درد رکھتا ہے اور نہ کوئی مجاور قریشی یہ سب غیر ملکی آقاؤں کی خاطر ملک و قوم کو فروخت کرنے والے ہیں حسین حقانی نے بدفطرت مائک مولن کو جو خط پہنچایا اُسے پڑھ کر دل روتا ہے یہ ظالم! اپنی قوم کو بیچتے ہیں اور کتنا سستا بیچتے ہیں منصور اعجاز جس کے بارے میں مشہور ہے کہ’’قادیانی‘‘ ہے وہ کسی شخص کا نہیں ایک بھیانک کردار کا نام ہے غلامی کے یہ دلاّل ہر حکمران کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں نواز شریف بھی اپنے دور اقتدار میں اسی طرح کے لوگوںکے گھیرے میں تھے اور عمران خان کی ایک کامیاب جلسے کے بعد غیر ملکی سفیروں کے سامنے حاضری اور جی حضوری شروع ہے معلوم نہیں کون کون اس مظلوم قوم کو دھوکہ دیتا رہے گا ملک میںدینی طبقے کو بالکل اُسی طرح غلام بنا کر رکھا گیا ہے جس طرح فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا ہوا تھا قرآنِ پاک نے عالمی سیاست کا یہ عجیب نکتہ بار بار سمجھایا ہے فرعون نے اپنی ہی قوم کو دوحصوں میں بانٹ دیاتھا ایک حصّہ حاکم اور دوسراحصہ محکوم سیاست کا یہ ظالمانہ طرز زیادہ عرصہ نہیں چلتااور جو بھی اس فرعونی پالیسی کو اپناتا ہے اُس کا حشر’’فرعون‘‘ جیسا ہی ہوتا ہے پاکستانی حکمرانوں کا حشر دیکھ لیں توبہ، توبہ اکثر کا کیسا بُرا انجام ہوا خود حکمران ہی نہیں اُن کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوا مگر بعد والوں نے کوئی عبرت نہ پکڑی وہ آنکھیں بند کر کے فرعونی پالیسی کواپنائے بیٹھے ہیں ملک کا سیکولر طبقہ حاکم اور دیندار طبقہ محکوم سیکولر طبقہ معتمد اور دینی طبقہ مشکوک وزارت داخلہ کی فائلوںمیں آج بھی انگریزی دور حکومت کی طرح علماء کرام اور دیندار مسلمان ’’نگرانی‘‘ کے خانے میں آتے ہیں مدارس پر شک، مساجد پر حملے، پابندیاں اور دینی جماعتوں اور رہبروں کے راستے بند یہ عجیب اسلامی مُلک ہے جہاں ’’سینما‘‘بنانا آسان اور مسجد بنانا مشکل یاد رکھیں! جب تک اس ملک میں دینی طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو آزادشہری کے حقوق نہیںملیںگے یہ ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ یہاں امن قائم ہو سکتا ہے فرعون کا نظام خود فرعون کو کامیاب نہ کر سکا تو کسی اور کو کس طرح سے کامیاب بنا سکتا ہے اے مسلمانو! استغفار، توبہ، استغفار صبح شام استغفار اے مجاہدینِ کرام! حبّ دنیا سے حفاظت کی دعاء کلمہ طیبہ یعنی ایمان کی زور دار محنت اقامتِ صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل  اللہ  کی انتھک محنت اور صبح شام استغفار

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اَسْتَغْفِرُ اللہ  الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

٭٭٭

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (325)

 

تبدیلی

 اللہ  تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے تین باتیںعرض کرنی ہیں(۱) ایک قرآنی تحفہ(۲) قبل از وقت مار کُٹائی(۳) کبھی گدھے،کبھی انسان

ایک قرآنی تحفہ

 قرآن پاک کی تفسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چارانتہائی مؤثر اور طاقتور’’وظائف‘‘ پر مشتمل ایک عبارت پر نظر پڑی آپ بھی ملاحظہ فرمائیے :

حضرت جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔

(۱)     تعجب ہے اُس پر جو کسی مصیبت اور غم میں پھنس چکا ہو کہ وہ یہ دعاء کیوںنہیں پڑھتا

’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘

کیونکہ  اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

فَاسْتَجَبْنَالَہٗ الآیۃ (الانبیاء،۸۸)

کہ جب حضرت یونس  علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعاء پڑھی

’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘

تو ہم نے اُن کی دعاء قبول فرمائی اور انہیں غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں(جب وہ ہمیں پکارتے ہیں)

(۲)     تعجب ہے اُس پر جسے کسی مصیبت کااندیشہ ہو کہ مجھ پر مصیبت آنے والی ہے تو وہ کیوں نہیں کہتا

’’حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘

کیونکہ  اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ الآیۃ (آل عمران ،۱۷۴)

یعنی جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے یہ خبر سنی کہ دشمن اُ ن کے خلاف بھرپورتیاری کر رہا ہے اور حملہ آور ہونے والا ہے توانہوں نے کہا:۔

’’حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘

تو وہ  اللہ  تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ خیر سے واپس لو ٹ آئے اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی

(۳)     تعجب ہے اُس پر جسے لوگوں (یعنی دشمنوں) کی سازشوں کا ڈر ہو اور وہ یہ نہ پڑھے

’’وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ‘‘ (المومن ،۴۴)

کیونکہ  اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں

 فَوَقٰہُ  اللہ    الآیۃ (المومن ۴۵)

کہ جب آل فرعون میں سے ایمان لانے والے مرد نے یہ کلمات پڑھے

’’وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ‘‘

 تو  اللہ  تعالیٰ نے اُسے فرعونیوں کی سازشوں کے شر سے بچالیا

(۴) تعجب ہے اُس پر جو جنت کی رغبت رکھتا ہو تو وہ کیوں نہیں پڑھتا:

’’مَا شَآئَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘

کیونکہ  اللہ  تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَعَسیٰ رَبِّی الآیۃ  (الکہف، ۴۰)

یعنی ایمان والے شخص نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ  اللہ  تعالیٰ مجھے تیرے باغ سے اچھا باغ عطاء فرمائے گا (تفسیر حدائق الروح والریحان ص ۱۷۹،ج ۱۸)

چار وظیفے معلوم ہو گئے ان کی طاقت اور تأثیر میں کوئی شبہ نہیں ہے ان چاروں وظائف کا تعلق چار قرآنی واقعات سے ہے آپ کسی مستند اردو یا عربی تفسیر میں یہ چاروں واقعات پڑھ لیں تب ان شاء  اللہ  تأثیر کا اندازہ ہو جائے گا پہلا عمل تو آیۃ کریمہ کا ہے آیۃ کریمہ کو حضرات علماء کرام نے اسم اعظم کی تأثیر والی’’آیت‘‘ بتایا ہے یہ خاص طور پر اُن حضرات و خواتین کے لئے ہے جو کسی آفت، مصیبت، گناہ اور معصیت میں بُری طرح پھنس چکے ہیں ایسے کہ نکلنے کی کوئی صورت ہی نہ ہو اندھیرا ہی اندھیرا ہو،مایوسی ہی مایوسی کا ماحول اُس وقت اس آیت کریمہ کے ورد میں نجات، روشنی، امید اور خلاصی رکھی گئی ہے

ترجمہ: مطلب اور مفہوم ذہن میں رکھ کر پڑھیں دوسرا وظیفہ اُن کے لئے ہے جو مصیبت میں آئے تو نہیں مگرانہیں کسی سخت مصیبت میں گِھر جانے کا خطرہ ہے ایسے میں وہ نعرہ لگائیں کہ  اللہ  تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے تیسرا عمل اُن کے لئے ہے جن کے خلاف دشمنوں نے سازشوں کے جال بچھا دیئے ہوں جیسا کہ فرعونیوں نے ایک ’’مرد مومن‘‘ کے خلاف بچھائے تھے اور چوتھا عمل دنیا اور آخرت میں نعمتوں کی ’’برقراری‘‘ اور حفاظت اور ترقی کے لئے ہےاہل نعمت اس کا ورد کریں تو عجیب برکات دیکھیں گے اور کامیاب وہی ہے جو اس پر یقین رکھے کہ سب کچھ  اللہ  تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے اور انسان جو خیر اور نعمت بھی پاتاہے وہ  اللہ  تعالیٰ کے فضل اور قوّت سے ملتی ہے

قبل از وقت مار کٹائی

پرانے زمانے میں جب’’عرب‘‘ صحراؤں میں خانہ بدوش تھے اُس وقت کا ایک قصہ مشہور ہے یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ عربوں کے قافلے وہاں پڑاؤ ڈالتے رہتے تھے جہاں پانی وغیرہ ہو پھر چند سالوں بعد وہاں سے کوچ کر جاتے ایسے ہی ایک پانی پر ایک بڑا قافلہ آکر ٹھہرا وہاں قبیلہ’’طئے‘‘ کے کچھ خاندان پہلے سے مقیم تھےانہیں خاندانوں میں سے ایک میاں اور بیوی آپس میں باتیں کرتے رہتے تھے معلوم نہیں بیوی نے کیا کھایا تھا کہ اُس کا دماغ اُڑنے لگا خاوند سے بولی جب یہ قافلہ چلا جائے گا تو میں ان کے کچرے میں سے جانوروں کے بال اور کمبلوں کے ریشے وغیرہ جمع کر لوں گی پھر اُن سے سوت کاتوں گی پھر اُس سوت سے کپڑا بناؤں گی پھر کسی طرح وہ کپڑا فلاں علاقے میں بھیج دوں گی وہ فروخت ہوگا تو اُن پیسوں سے اونٹ خریدوں گی اورپھر اونٹ پر بیٹھ کر جہاں دل چاہے گا جایا کروں گی خاوند بولا نہیں تم مجھے اکیلا چھوڑ کر نہ جاؤ اُس اونٹ پر میں گھوموں گا عورت نے کہا بالکل نہیں وہ اونٹ میراہے خاوند کو غصہ آیا اُس نے بیوی کو مارنا شروع کیا چیخ و پکار ہوئی تو اُس عورت کی ماں آگئی اُس نے پوچھا کیوں لڑتے ہو؟ جب قصہ سنا تو زور زور سے رونے لگی اور خود کو مارنے پیٹنے لگی لوگ جمع ہو گئے تو بُڑھیا نے کہا دیکھو! میرے ظالم داماد کو کہ میری بیٹی سے اُس کے ہاتھ کی کمائی کا اونٹ چھین رہا ہے اور ساتھ مار بھی رہا ہے لوگوں میں سے کسی عقلمند نے کہا ابھی تو قافلہ گیا نہیں اور مستقبل کے پلان پر اتنی بڑی لڑائی؟ پاکستان میں اس وقت حکومت کی تبدیلی اور نئے انتخابات کا شور ہے بعض پارٹیوں نے بڑے جلسے کر کے اپنے لیڈر کو وزیراعظم اور خود کو مختلف عہدوں کا ذمہ دار سمجھ لیا ہے صحافیوں کی امیدیں جاگ اٹھی ہیں اور وہ اپنے کالموں میں ایک دوسرے پرشدید تیراندازی کر رہے ہیں قافلہ گیا نہیں، دھاگہ کاتانہیں، کپڑا بُنا نہیں، چادر بکی نہیں ، اونٹ خریدا نہیں مگر اسی اونٹ پر ایک دوسرے سے شدید جنگ ہے ایک صحافی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ پنجاب کے گورنر ہاؤس کے گرد چکر کاٹ آیا ہے اور کہتا ہے کہ بس اب چند دن کی بات ہے مجھ درویش کا آشیانہ یہ کُٹیا ہوگی کُٹیا یعنی جھونپڑی ہم اہل پاکستان بھی عجیب قسم کے سیاستدانوں، حکمرانوں، صحافیوں اور دانشوروں میں پھنس گئے ہیں ایمان سے محروم، دل کی روشنی سے محروم، نماز سے محروم، زکوٰہ سے محروم، جہاد سے محروم عقل سے محروم ہر طرف پیشین گوئیاں کرنے والے پروفیسر بیٹھے ہیں اور مستقبل بتانے والے عامل یا  اللہ  ہم پر اور ہماری قوم پر رحم فرما

کبھی گدھے، کبھی انسان

اس واقعہ کو لکھنے والے غالباً ’’ابن الجوزی س‘‘ ہیں یا کوئی اور ٹھیک طرح تحقیق نہیں مگر ہم اپنے گردوپیش میں مسلسل یہ واقعہ دیکھ رہے ہیں پرانے وقتوں کی بات ہے ایک صاحب بہت بھولے بھالے اور سیدھے سادے تھے ایسے لوگ جن کو دائیں بائیں کی کچھ خبر نہ ہو عربی میں اُن کو’’ مُغَفَّلْ‘‘ بھی کہتے ہیں پس وہ مغفّل صاحب ایک بار اپنے ’’گدھے‘‘ کی رسّی تھامے آگے آگے جارہے تھے اور گدھا اُن کے پیچھے پیچھے ایک چالاک ٹھگ نے دیکھا تواپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو! میں اس کا گدھا اس کی آنکھوں کے سامنے کیسے چُراتا ہوں ساتھیوں نے کہا ممکن تو نہیں لگتا اُس نے کہا ابھی خود دیکھ لینا تم لوگ میرے ساتھ آؤ جب میں گدھے کے گلے سے رسّی نکال لوں تو تم گدھا لیکر فرار ہو جانا باقی سارا کام میرے ذمّے وہ آہستہ سے گدھے کے پاس آیا اُس کے گلے سے رسّی نکالی اور وہ رسّی اپنی گردن میں ڈال لی اُس کے ساتھی گدھا لے گئے اور وہ گلے میں رسّی ڈالے’’مغفّل جی‘‘ کے پیچھے پیچھے چلتا رہا کچھ دور جا کر اچانک رک گیا مغفّل نے دو چار بار زور سے کھینچا، نہیں چلا تو اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھاارے یہ کیا؟ میرا گدھا کیا ہوا؟ ٹھگ نے کہا جی میں ہی وہ گدھا ہوں مگر تم تو انسان نظر آرہے ہو جی میں پہلے انسان تھا پھر میں نے اپنے والدین کی نافرمانی کی تو اُس کی سزا میں مجھے گدھا بنا دیا گیا آپ نے مجھے خرید لیا ابھی میری والدہ نے میری خطاء معاف کی ہے تو مجھے دوبارہ انسان بنا دیا گیا ہے مغفّل نے کہا: اوہ! تو میں پھر کیوں تمہیں باندھے پھرتارہوں، جاؤ میں نے تمہیں آزاد کیا مغفّل اپنے گھر خالی ہاتھ آیا تو بیوی نے گدھے کا پوچھا اُس نے پورے درد سے واقعہ سنا دیا وہ بھی مسز مغفّل تھی شرمانے لگی کہ ہائے ہائے گھر میں پردے کا دھیان بھی نہیں رہتا اور یہ موا! گدھانہیں غیر مرد تھا چند دن گزرے تو بیوی نے کہا گدھے کے بغیر گزارہ نہیں پانی اور سامان لانا ہوتا ہے کوئی گدھا خرید لاؤ وہ بازار گیا جہاں گدھے بکتے تھے دیکھا کہ اُس کا وہی پُرانا گدھا ’’برائے فروخت‘‘ موجود ہے ’’مغفّل‘‘ نے اُسے دیکھا تو نہایت عقلمندی اور راز داری سے اُس کے پاس گیا اور اُس کے کان کے قریب اپنا منہ کر کے آہستہ سے کہا بیوقوف! لگتا ہے تم نے پھر اپنے والدین کی نافرمانی کر ڈالی پاکستان میں انتخابات کی گھنٹی بجتے ہی ماحول بالکل اسی قصے سے ملتا جلتا نظرآرہا ہے ہمارے سیدھے سادھے عوام کو جمہوری سیاستدان جس طرح سے چاہتے ہیں لوٹتے ہیں جب انہیں حکومت ملتی ہے تو امریکہ اور بھارت کے گدھے بن جاتے ہیں اور جب انتخابات قریب ہوں تو انسان بن کر اچھی اچھی باتیںکرنے لگتے ہیں ماہر سیاستدان پہلے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ فوج کس پارٹی کے ساتھ ہے پھر دھڑا دھڑ اُسی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اوراپنی پارٹی کو کرپٹ قرار دیتے ہیں حالانکہ خود اسی پارٹی کے سائے تلے سالہا سال تک قوم کو بیو قوف بنا چکے ہوتے ہیں تھوڑا سا مشکل وقت آتا ہے تو مُلک سے بھاگ جاتے ہیں باہر ملکوں میں ان کے اپنے گھر، اپنی کوٹھیاں اور اپنے سسرال ہیں ان کی اولاد بھی وہاں پڑھتی ہے اور وہیں پلتی ہے پھر جب حالات ساز گار ہوں تو انسان بن کر پاکستان آجاتے ہیں اور ووٹ لیکر امریکہ اور انڈیا کی باربرداری میں لگ جاتے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ انڈیا کوتجارت کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دے دیا گیا ہے نیٹو نے بمباری کر کے ملک کے چوبیس فوجی مار دیئے مگر پھر بھی دوستی میں فرق نہیں آرہا یہ نظام اور یہ سیاستدان اس ملک میں تبدیلی نہیں لاسکتے اس ملک میں تبدیلی  اللہ  تعالیٰ کے وہ بندے ہی لائیں گے جو  اللہ  تعالیٰ کے وفادار اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کے جانثار ہیں اور جن کے جان و مال دین اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے وقف ہیں

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

 

 

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (326)

 

دیر کیسی؟

 اللہ  تعالیٰ بہت رحیم ہے،بہت رحیم بے حد رحیم اور مہربان اللہ ، اللہ ،  اللہ  

ذرا سا غور کریں کہ کیسے کیسے لوگوں کو اور کیسے کیسے گناہوں کو  اللہ  تعالیٰ نے معاف فرما دیا ایک شخص  اللہ  تعالیٰ کے سب سے محبوب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقابلے میں تلوار سے لڑ رہا ہے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ ڑ پر حملے کر رہا ہے پھر اُس نے کلمہ پڑھا، توبہ کی تو  اللہ  تعالیٰ نے فوراً معاف فرمادیا اب اُن کا نام لیں تو ساری اُمت کہتی ہے  رضی اللہ عنہ کہ  اللہ  تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا گناہ کی شدّت کا اندازہ لگائیں اور پھر  اللہ  تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں اب تو مان جاؤ! گناہگار بھائیو! اور بہنو! کہ  اللہ  تعالیٰ رحیم ہے پھر توبہ اور استغفار میں دیر کیوں؟ جھجک کیوں؟

وہ دیکھو! سنو پیارے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان:

 اگر تم نے گناہ کئے ، یہاں تک کہ تمہارے گناہوں سے زمین اور آسمان کے درمیان کاحصہ بھر جائے اور تم نے  اللہ  تعالیٰ سے معافی مانگ لی تو وہ تمہیں بخش دے گا (الحدیث)

سبحان  اللہ ہمارے نزدیک زمین بھی بڑی اور آسمان بھی بڑا مگر ہمارے رب کے نزدیک نہ زمین بڑی نہ آسمان بڑا اور نہ اُن دونوں کے درمیان کا خلا بڑا انہوں نے تو رحمت کی ایک نظرفرمانی ہے اور سارے گناہ نیکیوںمیں تبدیل ہو جانے ہیں پھر بھی توبہ میں دیر؟ پھر بھی استغفار میں تأخیر؟

چھوڑیں منصور اعجاز قادیانی کو ایک ناپاک، ظالم اور گندا دشمن ختم نبوت کا ہر منکر پاکستان کا دشمن ہے اسلام اور مسلمان کا دشمن ہے آج منصور اعجاز یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ اپنی سازشوں سے ملک کو تباہ کر دے گا پوری قادیانی لابی خوشی سے تالیاں پیٹ رہی ہے مگران نامرادوں کا یہ خواب بھی ’’نا مُراد‘‘ ہو گا ان شاء  اللہ  ثم ان شاء  اللہ  

 چھوڑیں حسین حقانی کو ایک مفاد پرست، جھوٹا اور مکّار انسان جہاد اور مجاہدین کا دشمن  اللہ  تعالیٰ کے دین کاباغی وطن فروش اور اُس جیسے کئی اور دن رات کوشش کرتے رہیںکہ پاکستان سے اِسلام اور جہاد کا نام مِٹ جائے مگر نہیں مٹتا الحمدﷲ اور کیسے مٹے؟ قرآن پاک کا لکھا ہوا کون مٹا سکتا ہے جہاد قرآن پاک کا حکم ہے یہ کسی انسان کے ہاتھ کا فرمان نہیں یہ’’احکم الحاکمین‘‘ کے کلام کا انمٹ حصّہ ہے اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے خود روسیاہ ہو کر مٹ جاتے ہیں بس  اللہ  کرے پاکستان والے’’ لا الہ الا  اللہ ‘‘ کے ساتھ جُڑ جائیں ’’محمد رسول  اللہ ‘‘ کو اپنا لیں نماز کے عاشق بن جائیں اور جہاد کے دیوانے، متوالے بن جائیں رب کعبہ کی قسم کوئی بھی ان کو نہیںمٹا سکے گا دراصل شیطان نے ہم مسلمانوں پر’’مایوسی‘‘ کا ایٹم بم دے مارا ہے مایوسی اور وہ بھی  اللہ  تعالیٰ کی رحمت سے توبہ، توبہ، توبہ ارشاد ہوتا ہے:

  اللہ  تعالیٰ کی رحمت سے تو وہی مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں (یوسف،۸۷)

 ارے ہمت والو! تھکو نہیں، بس کسی لمحے قبولیت کی آواز آجائے گی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں:

بندہ  اللہ  تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے برابر لگا رہتا ہے تو  اللہ  تعالیٰ جبرئیل ح سے فرماتے ہیں

میرا فلاںبندہ مجھے راضی کرنے کی کوشش میںلگاہوا ہے خوب سن لو اُس پر ہماری رحمت ہے جبرئیل ح(یہ سن کر) فرماتے ہیں’’رحمۃ  اللہ  علیٰ فلان‘‘ یعنی اُس پر  اللہ  تعالیٰ کی رحمت ہے پھر عرش اٹھانے والے فرشتے بھی یہی کہتے ہیں اور اُن کے ارد گرد والے یہاں تک کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے پھر یہ حکم(رحمت والا) زمین پر اُتار دیا جاتا ہے(مسند احمد)

وضو کر رہے ہیں کیوں؟  اللہ  پاک راضی ہوجائے نماز کو دوڑ رہے ہیں  اللہ  تعالیٰ راضی ہو جائے روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیںذکر اذکار میں لگے ہیں جہاد میں تھک رہے ہیں لوگ گانے سن رہے ہیں اور یہ گانوں سے دور فلموں سے دور بدنظری سے دور کیوں؟ تاکہ  اللہ  تعالیٰ راضی ہو جائے صبح شام استغفار درود، کلمہ کا ورد خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت امانت ایسی کہ دل خوش ہو جائے تواضع ایسی کہ زمین رشک کرے کیوں؟ تاکہ  اللہ  تعالیٰ راضی ہوجائے صبح، شام، رات دن کام ہی کام بالآخر محبت کا یہ رقص بے تابانہ کام آہی جاتا ہے اور ’’س‘ ‘کی صدا سے سات آسمان گونج اٹھتے ہیں ذرا محبت کی آنکھیں کھولیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  کی چنداحادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

(۱)     جب  اللہ  تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو ایک بات لکھی اور وہ  اللہ  تعالیٰ کے پاس عرش کے اوپر ہے ( وہ بات یہ ہے کہ)

’’بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی‘‘(متفق علیہ)

  اللہ  ،  اللہ ،  اللہ میرا رب بہت رحیم ہے بہت رحیم ہے بہت رحیم جب گناہوں کے بعد مسجد جانے کی توفیق ملے تب سوچیںکہ میرا رب کتنا عظیم ہے اور رحیم ہے کہ اپنے مجرم کو اپنے گھر آنے کی اجازت اور توفیق دی لوگ تو ٹانگیں توڑ دیتے ہیں مگریہاں مجرم کو اپنے گھر میں اپنے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت  اللہ ،  اللہ ،  اللہ

(۲)      اللہ  تعالیٰ کے ہاں ایک سو ’’رحمتیں‘‘ ہیں اُن سو میں سے صرف ایک رحمت کو  اللہ  تعالیٰ نے زمین پر نازل فرمایا ہے اسی رحمت کے سبب جنات، انسان، مویشی اور حشرات آپس میں نرمی اور محبت کرتے ہیں اور اسی کے سبب وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور ننانوے رحمتیں  اللہ  تعالیٰ نے مؤخر رکھی ہیں کہ ان کے ذریعہ  اللہ  تعالیٰ اپنے بندوں پر قیامت کے دن رحم فرمائیں گے(بخاری ، مسلم)

ساری مخلوق زمین کی پیدائش سے لیکر قیامت تک صرف ایک’’رحمت‘‘ کے بل بوتے طرح طرح کی محبتوں، خدمتوں، اور تعلقات سے سرشار ہے ہر ماں کی بچے سے محبت اولاد کی والدین سے محبت خاوند بیوی کا پیار اور معلوم نہیں کیا کیا یہ ہوئی ایک رحمت اور جب قیامت کے دن ننانوے رحمتیں ٹھاٹھیں ماریں گی تو پھر ساری مخلوق کہہ اٹھے گی:

بے شک  اللہ  تعالیٰ بہت رحیم ہیں بہت رحیم ہیں بہت رحیم اورمہربان

(۳)  اگر مؤمن  اللہ  تعالیٰ کی سز اکو جان لے تو کبھی جنت کی توقع نہ کرے اور اگر کافر  اللہ  تعالیٰ کی رحمت کو جان لے تو کبھی اُس کی جنت سے مایوس نہ ہو(بخاری، مسلم)

کوئی شک نہیں عظیم مالک شدید العقاب ہے سخت سزا والا سخت پکڑ والا قارون زمین میں دھنستا جا رہا ہے دھنستا جا رہا ہے توبہ،توبہ فرعون روز آگ میں جلایا جاتا ہے نہ آگ ختم ہوتی ہے، نہ درد ختم ہوتا ہے اور نہ عذاب ختم ہوتا ہے وہاں کے خزانے ختم ہونے والے نہیں مگر رحمت بھی تو ایسی کہ اِدھر توبہ اٹھی نہیں کہ اُدھر سے رحمت موسلا دھار برستی ہے ایسی رحمت کہ کافر کو اُس کی حقیقت معلوم ہو جائے تو کفرپر مرنے کے باوجود جنت کی امید لگانے لگے اور ہم اپنے آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان میں پڑھ چکے ہیں  اللہ  تعالیٰ نے خود لکھ دیا ہے

رحمتی سبقت غضبی

کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی

ایمان تو نام ہی خوف اور امید کا ہے ایسا خوف جس کے آخری سرے پر مایوسی نہیں اُمید ہو اور ایسی اُمید جس کے آخری سرے پر غفلت نہیں خوف ہو جس کو یہ کیفیت نصیب ہوجائے وہ مبارک باد کا مستحق ہے شیطان ظالم یا تو مایوسی میں گرا پھینکتا ہے یا غفلت میں بھٹکا دیتا ہے مگر شیطان اُن مسلمانوں سے بہت تنگ ہے جو توبہ، استغفار، کسی حال میں بھی نہیںچھوڑتےوہ اُن سے گناہ کرواتا ہے اور یہ توبہ کر کے اُس گناہ کو نیکیوں سے بدلوا لیتے ہیں شیطان سمجھاتا ہے کہ تم گندے ہو گئے، خائن ہو گئے، ناپاک ہو گئے اب کیسی توبہ بس گناہ کرو مگر  اللہ  تعالیٰ کے بندے پھر اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر رونے لگتے ہیں معافی مالک، معافی مالک، توبہ مالک توبہ تب شیطان روتاہے، پچھتاتا ہے کہ کاش میں ان سے گناہ ہی نہ کرواتا

(۴)     میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری اُمت میںسے ستر ہزار افراد کو بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا اور پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور تین مٹھیاں میرے رب کی مٹھیوں میں سے(احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

سبحان  اللہ ہرہزار کے ساتھ سترہزار اور  اللہ  تعالیٰ کی تین مٹھیاں یہ سمجھانے کے لئے فرمایا ہرآدمی اپنے ہاتھ کے تناسب سے مٹھی بھرتا ہے جس کا ہاتھ جتنا بڑا اُس کی مُٹھی بھی اتنی بڑی  اللہ  تعالیٰ جسم سے اورتشبیہ سے پاک ہے سمجھانا یہ ہے کہ دنیا میں جب کوئی کسی سے خوش ہوتا ہے تو اُسے مٹھی بھر بھر کے مال دیتا ہے  اللہ  تعالیٰ بھی رحمت کے ہاتھوں سے بھر بھر کے اس اُمت کے افراد کو جنت میں بلا حساب داخل فرمائیں گے بلا حساب جنت یہ لفظ پڑھ کر دل کو وجد آجاتا ہے یا  اللہ  ہمیں بھی اپنی رحمت سے ان میں شامل فرما اُمت محمدیہ پر  اللہ  تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں اس اُمت میںشامل ہونے کا ٹکٹ

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

 ہے اور نماز اور جہاد اس کلمے کی صداقت کی دلیل ہیں کہ واقعی ہم نے دل سے کلمہ پڑھا ہے ایک روایت میں تو یہاں تک آتا ہے کہ قیامت کے دن  اللہ  تعالیٰ ہنستے ہوئے تجلّی فرمائیں گے اور ارشاد ہو گا اے مسلمانو! میں نے تم میں سے ہر ایک کے بدلے جہنم میں اُس کی جگہ کسی یہودی یا نصرانی کو ڈال دیا ہے

 اللہ  اکبر کبیرا یہ رحمت بھی اس اُمت کے افراد پر ہو گی ہاں مگر یہ بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اس اُمت کے کئی افراد بھی اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے جہاںسزا بھگت کر پھر وہ جنت میں آئیں گے یا  اللہ ! جہنم سے آپ کی پناہ

  اللہ  ،  اللہ ،  اللہ رحمت یا  اللہ ، رحمت یا  اللہ جہنم بہت شدید ہے،بہت سخت ہے بہت ہی مشکل ہے

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار

(۵)     جو  اللہ  تعالیٰ سے اس حال میں ملا کہ وہ دنیا میں کسی کو  اللہ  تعالیٰ کے برابر نہیں سمجھتا تھا پھر اگر اُس پرپہاڑوں کے برابر گناہ بھی ہوں گے تو اُسے بخش دیا جائے گا(رواہ البیہقی)

اعلان کر دو مسلمانو! لا الہ الا  اللہ  اللہ  تعالیٰ جیسا کوئی بھی نہیں وہ اپنی ذات میں بھی ایک اپنی صفات میں بھی ایک اپنی اطاعت میں بھی ایک نہ کوئی اُس کا شریک نہ کوئی اُس کا مقابل اورنہ کوئی اُس کا ہمسرعبادت صرف اُسی کے لئے جینا مرنا صرف اُسی کے لئے قربانی صرف اُسی کے لئے صرف وہی مشکل کشا، صرف وہی حاجت روا اور وہی محبوت حقیقی ہم اُسی سے ڈرتے ہیں اُس جیسا ڈ ر کسی اور سے نہیں ہم اُسی سے محبت کرتے ہیں اُس جیسی محبت کسی اور سے نہیں ہمارا دل بھی اُسی کے لئے ،ہماری جان بھی اُسی کے لئے اور وہ بہت رحیم ہے ، بہت رحیم ہے بے حد رحیم ہے بہت مہربان

میرے سامنے اپنے عظیم رب کی رحمت کو بیان کرنے والی بہت سی احادیث مبارکہ چمک رہی ہیں  اللہ ، اللہ ،  اللہ اور اُن سے بڑھ کر قرآن پاک کی بعض آیات جن میں بہت امید ہے اور رحمت کا کھلا پیغـام مگرآج اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں اے مسلمانو! استغفاربہت بڑی نعمت ہے یہ انسان کو ادنیٰ درجے سے اٹھاکر اونچے درجے تک لے جاتاہے اورگندے کاموں سے بچا کر  اللہ  تعالیٰ کے محبوب اعمال میں لگاتا ہے اور ناقص اعمال کو کامل اعمال میں بدلتا ہے

 اللہ  تعالیٰ کی رحمت دل میں بٹھاؤ اور استغفار کی صبح، شام رات دن اور سحری کے وقت کثرت ان شاء  اللہ  اجتماعی، اور انفرادی مسائل بھی حل ہوں گے اورہم اپنے عظیم رب کی رحمت کے بھی ان شاء  اللہ  مستحق بن جائیں گے

استغفر اللہ  الذی لا الہ الا ھوالحی القیوم و اتوب الیہ

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭

نعمت

رنگ و نور سعدی کے قلم سے  (327)

 اللہ  تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

واما بنعمۃ ربک فَحدِّث  (الضحیٰ،۱۱)

ترجمہ:                اور اپنے ربّ کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہا کرو

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان مبارک ہے:

التحدّث بالنعم شکرٌ وترکہ کُفرٌ

 حضرت شاہ عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

’’اپنے اوپر اور اپنے ساتھ وابستہ لوگوں پر  اللہ  تعالیٰ کی جو نعمتیں ہوں اُن کو ظاہر کرنا اور کہہ سنانا ’’سنت ‘‘ہے مگر شرط یہ ہے  کہ نیت خالص ہو اور وہ یہ کہ  اللہ  تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی نیت ہو اور دوسرے لوگوںکو شکر کی ترغیب دینامقصود ہو لیکن اگر کسی کو فخر اور خود پسندی کاڈر ہو تو اُس کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ نعمت کو چھپائے اور کسی کو نہ بتائے‘‘  (تفسیر عزیزی تسھیل)

تفسیر عثمانی میں ہے:

’’مُحسن کے احسانات کا بہ نیتِ شکر گزاری( نہ  بقصد فخرو مباہات) چرچا کرنا شرعاً محمود ہے‘‘ (تفسیر عثمانی)

 قرآن پاک حضرت یوسف  علیہ السلام کا قصہ بیان فرماتے ہوئے اُن کا قول ارشادفرماتا ہے:

وقال یٰاَبت  الآیۃ

ترجمہ:                اے میرے ابّا جی! یہ میرے اُس پہلے خواب کی تعبیر ہے، اُسے میرے رب نے سچّا کر دکھایا اور اُس نے مجھ پر احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا اورآپ لوگوں کو گاؤں سے (یہاں) لے آیا، اس کے بعد کہ شیطان مجھ میں اورمیرے بھائیوں میں جھگڑا ڈال چکا تھا بے شک میرا رب جس کے لئے چاہتا ہے مہربانی فرماتا ہے،بے شک وہی جاننے والا، حکمت والاہے۔ اے میرے رب! تونے مجھے حکومت دی ہے اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم سکھایا ہے۔ اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے، تومجھے اسلام پر موت دے اورمجھے نیک بختوںمیںشامل کر دے(یوسف،۱۰۰،۱۱۱)

دو دن بعد، بہاولپور کی’’ جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ‘‘ میں جماعت کے کارکنوں کا تربیتی اجتماع شروع ہونے والا ہے اللہ  کرے قبول ہو، مقبول ہو اور کامیاب رہے ہم اپنے آپ کو جانتے ہیں بے کار، ناکارہ، اور نالائق مگر  اللہ  تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے آج سے بارہ سال پہلے یہی دسمبرکا مہینہ تھا اور رمضان المبارک کے مقدّس ایام تب نہ یہ جماعت تھی اور نہ اس کے مراکز کوٹ بھلوال کی سخت جیل تھی اور مشرکوں کی سختی اور دور دور تک رہائی کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا جیل حکام اپنے قانون کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کوگیارہ یا سترہ روپے کا راشن ہر روز دیتے تھے ہم خود لکڑیاں جلاتے، سالن بناتے اور روٹی پکاتے تھے صبح شام ہماری حاضری ہوتی تھی رات کو چھوٹے چھوٹے سیلوںمیں دروازے بند کر کے ہمیں ڈال دیا جاتا اور صبح فجر کے بعد ایک مختصر سے صحن میں کھول دیا جاتا بس یہی ہماری دنیا تھی اور یہی ہماری زمین  اللہ  تعالیٰ مالک الملک ہے جس پر چاہتا ہے زمین کو کھول دیتا ہے اور جس پرچاہتا ہے بند فرما دیتا ہے جیل منصوبوں اورسوچوں کی جگہ ہے جی ہاں! اونچی اونچی سوچیں اور پھر اپنی بے بسی دیکھ کر دل کاٹنے والی اُداسی چھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ قید کی رسیاں اور سخت ہوتی جارہی تھیں اس عرصہ میں ہم سری نگر بھی رہے اور اننت ناگ بھی دہلی بھی ہو آئے اور تالاب تلوبھی مگر ہر جگہ ہاتھوں میں زنجیر، آنکھوں پر پٹی اور جسم پر تشدّد یہی دسمبر کا مہینہ رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہا تھا اور سال تھا1999ء کا ساری دنیا نئی صدی میں داخلے کی تیاری میں تھی جی ہاں اکیسویں صدی اور ہم اپنے قید کے دن رات کاٹنے کی فکر میں تھے اچانک ایک خبر ریڈیو پر گونجی اور پھر گونجتی ہی چلی گئی انڈین ائر لائن کا ایک طیارہ اغواء کر لیا گیا ہے جمال شہیدس ریڈیو ہاتھ میںلیکر کبھی ادھر دوڑتا اور کبھی اُدھر آہ جمال شہیدؒ! دو سال ہوئے کہ جودھ پور کی جیل میں شہید ہو گیا اُسے خبریں سننے، اُن پر تبصرہ کرنے اور تبصرے لینے کا شوق تھا خبر پہلے مبہم تھی اور پھر واضح ہوتی چلی گئی ہم اپنے اوپر  اللہ  تعالیٰ کی جس نعمت کو دیکھتے ہیں وہ محض  اللہ  تعالیٰ کا فضل ہی نظر آتا ہے اپنا کوئی ذرہ برابر کمال ہو تو انسان سوچے دشمن چاہتے تو اُن قیدیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے جن کی رہائی کا مطالبہ جہاز اغواء کرنے والے مجاہدین کر رہے تھے مگر  اللہ  تعالیٰ قوت اور قدرت والا ہے ایک ہفتے کی کشمکش کے بعد اکتیس دسمبرآپہنچا مسلمانوں نے اس دن ایک اچھی خبر سنی تھی اور ایک دوسری المناک خبر جی ہاں! اُسی دن اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کا خواب بیدار رکھنے والے مسلمانوں کے مایہ نازمفکر حضرت مولانا ابو الحسن ندویؒ انتقال فرما گئے اور اچھی خبر اسلام اور مسلمانوں کی فتح تاریخ اسلام کا ایک روشن واقعہ کہ انڈیا نے مجاہدین کے سامنے گھٹنے ٹیک د یئے اور تین مسلمان قید سے رہا ہو گئے الحمدﷲ،الحمدﷲ الحمد ﷲ رب العالمین آج بہاولپور کے اجتماع کا سوچا تو یہ پرانے مناظر اور بہت سے منور چہرے آنکھوں کے سامنے آگئے  اللہ  تعالیٰ کی کِس کس نعمت کا شکرادا کریں شُکر تو بڑی چیز ہے ہمارے لئے ان نعمتوں کو شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے ہاں افسوس ہے کہ بہت سی نعمتوں کی ہم قدر نہ کر سکے  اللہ  پاک نے احسان فرمایا کہ ہمیں ایک’’جماعت‘‘ عطاء فرمائی کراچی میں جماعت کے تین مقاصد کا اعلان ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان اور کئی ممالک میں جماعت کا کام پھیل گیا عجیب بات ہے کہ ظاہری حالات ہمیشہ ناموافق رہے اور دنیا بھر کا کفر و نفاق ہمیشہ مخالف رہا مگر  اللہ  تعالیٰ کی نعمت اور اُس کا فضل کہ جماعت کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوتے رہے اور آج الحمدﷲ سترہ سو شہداء کرام کی یہ جماعت کلمہ، نماز اور جہاد فی سبیل  اللہ  کی ایک مقبول تحریک بن چکی ہے گیارہ سال کے اس عرصہ میں  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار زبان سے کلمہ طیبہ اور شکر ادا ہوتا ہے

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ  والحمدﷲ رب العالمین

 اور ان نعمتوں کے باوجود اپنی نالائقی اور نا اہلی کو دیکھتے ہیں تو دل اور زبان استغفار میں مشغول ہوجاتے ہیں

اَسْتَغْفِرُ اللہ  الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ

 آج سے سات سال پہلے مجھے خیال گزرا کہ اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ اب تک جماعت نے کتنے افراد کو جہاد فی سبیل  اللہ  کی تربیت دی ہو گی دو ساتھیوں کو اس کام پر لگایا ان میں سے ایک کو  اللہ  تعالیٰ رہائی عطاء فرمائے کہ مشرکوں کی قید میں ہے اور دوسرے کی قربانی کو  اللہ  تعالیٰ قبول فرمائے کہ جام شہادت پی چکا ہے ان دونوں نے رات دن محنت کر کے جو ابتدائی فہرست تیار کی اس کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے نام سامنے آئے یہ سات سال پہلے کی بات ہے اور فہرست بھی مکمل نہیں بنی تھی کہ یہ کام روکنا پڑا ہمارے ہاں کار گزاری محفوظ رکھنے کا رواج نہیں اور حالات نے بھی کبھی اس کا موقع نہیں دیا ورنہ  اللہ  تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھ کر بہت سے دل ایمان کی حلاوت محسوس کرتے شہداء کرام کا سلسلہ تو مسلسل جاری رہا الحمدﷲ اُن کے مکمل کوائف محفوظ ہیں اور ان میں سے سینکڑوں کے گھروں کی کفالت کا کام بھی گیارہ سال سے جاری و ساری ہے ماشاء  اللہ  لا قوۃ الا ب اللہ سب سے نمایاں نعمت جو  اللہ  تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو نصیب ہوئی وہ دعوتِ دین، دعوتِ قرآن اور دعوتِ جہاد کا میدان ہے اس نعمت پر ہم  اللہ  تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے بلامبالغہ ان گیارہ سالوں میں  اللہ  تعالیٰ کے فضل و کرم سے جہاد کے موضوع پر لاکھوں صفحات لکھے گئے، لاکھوں بیانات ہوئے اور بے شمار مسلمانوںتک دین ،قرآن اور جہاد کی دعوت پہنچی الحمدللہ ’’معرکہ‘‘ کا سفر’’ رنگ و نور‘‘ تک پہنچا پندرہ روزہ جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے القلم تک کا سفر طے کیا بنات عائشہ، مسلمان بچے اور المرابطون بھی ہم رکاب رہے فضائل جہاد سے فتح الجوّاد تک اسلامی کتب خانے کو جہاد کے موضوع پر چالیس سے زائد مستند کتب نصیب ہوئیں آیات جہادکا نور ایسا چمکا کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں ماشاء  اللہ  لا قوۃ الا ب اللہ

 آج ہر گمراہ فرقہ مسلمانوں کو مسجد اور مدرسہ سے کاٹ رہا ہے پروفیسر قسم کے نام نہاد اسلامی اسکالر مسجد اورعلماء کے نام سے وحشت کھاتے ہیں یہ ٹی وی کے اسٹوڈیو، ہوٹلوں کے ہالوں اور عوامی مقامات پربیٹھ کر دین بیان کرنا پسند کرتے ہیں حالانکہ مسجد مسلمانوں کی’’ماں‘‘ ہے مسلمانوں کو ہدایت سے لے کر خلافت تک ہر نعمت مسجد ہی سے ملتی ہے ضرورت تھی کہ جہاد کومسجد سے جوڑا جائے اور مسلمانوں کو مسجد میں واپس لانے کی فکر کی جائے الحمدﷲ اس کے لئے اقامتِ صلوٰۃ کی مستقل دعوت اٹھی مساجد کی تعمیر کا اعلان ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے الحمدﷲ کئی مساجد آباد ہوگئیں اور الحمدﷲ ہزاروںلاکھوں مسلمانوں کا رُخ مسجد کی طرف پھر گیا مسلمان مسجد میںآتا ہے تو اُسے پورا دین سمجھانا آسان ہوجاتا ہے آج بھی الحمدﷲ ہماری دعوت کا دوسرا اہم ستون ’’اقامتِ صلوٰۃ‘‘ ہے اے مسلمانو! نماز کو حاصل کرو نماز نصیب ہو گئی تو نہ دنیا میں بے سہارا رہو گے اور نہ آخرت میں جس نے نماز قائم کی اُس نے دین کو قائم کیا اور جس کی نماز برباد اُس کا دین اور سب کچھ برباد الحمدﷲ مسلمان اس دعوت کو سُن رہے ہیں، مان رہے ہیں اور جوق در جوق مساجد کی طرف آرہے ہیں بس افسوس اس کا ہے کہ محنت کرنے والوں کی کمی ہے دل میں تمنا تھی کہ مسلمانوں کو قرآن پاک کی طرف بُلایا جائے قرآن پاک پر یقین، قرآن پاک سے محبت، قرآنِ پاک کی سمجھ قرآن پاک پر عمل، قرآن پاک کا ادب، قرآن پاک کی اشاعت، قرآن پاک کی دعوت قرآن پاک کا حفظ، قرآن پاک کا علم قرآن پاک کا نفاذ الحمدﷲ خدمتِ قرآن کے ہر شعبے میں  اللہ  تعالیٰ نے فضل فرمایا اور الحمدﷲ اب تک لاکھوں مسلمان قرآن پاک سے فیض یاب ہو چکے ہیں اور ہزاروں ہو رہے ہیں چند دن پہلے بطور شُکر اس بات کا خیال آیا کہ جماعت کے اداروں سے اب تک حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والوں کی تعداددیکھی جائے ماشاء  اللہ  حیرت انگیز خوشی ہوئی الحمدﷲ یہ تعداد سینکڑوں میں ہے آج الحمدﷲ جہاد فی سبیل  اللہ  کی برکت سے پوری دنیا میں تبدیلی کی فضا بن چکی ہے کیمونزم ناکام ہو چکا ہے سرمایہ داری نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے کیپٹل ازم اور سوشلزم اپنی موت آپ مر رہے ہیں اور مادرپدرآزاد جمہوریت اب دنیا کو قابل قبول نہیں رہی ہم نے  اللہ  تعالیٰ کے بھروسے پر بہت پہلے عرض کر دیا تھا کہ دنیا کا نظام اور زمین کا رنگ بدل رہا ہے اور دنیا کا نقشہ بھی تیزی سے تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے آپ مشرق و مغرب میں دیکھیں آپ کو زنجیریں ٹوٹتی اور کفر سسکتا نظر آئے گا وہ جو ساری دنیا کو غلام بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے آج اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں  اللہ  تعالیٰ جو عابد کی آنکھ کا آنسو ضائع نہیں فرماتا اُس کے نزدیک شہید کی گردن کے خون کی بہت قیمت ہے شہداء اسلام کا خون اقصیٰ سے حضرت بل تک دجلہ و فرات سے دریائے آموتک اور کابل سے قفقاز تک بہہ رہا ہے اور مہک رہا ہے دنیا کا طاغوتی نظام جسے ناقابل شکست سمجھاجارہا تھا مکڑی کا جالا ثابت ہوا ہے اب ضرورت ہے کہ مسلمان منظم ہو کر اپنے کام کو تیز کر دیں خود بھی کلمہ طیبہ پڑھیں اور سمجھیں یہی کلمہ کامیابی کا مدار اور سرفرازی کا راز ہے اور یہی انسان کی زندگی کا حاصل اور عمر کا بہترین سرمایہ ہے دل سے کلمہ پڑھ کر مسلمان کلمے کا پہلا حکم نماز زندہ کریں نماز ہی سے کلمہ کی طاقت اور  اللہ  تعالیٰ کی مدد مسلمان کو نصیب ہوتی ہے اور پھر اس کلمے کی عظمت،سربلندی اور اشاعت کے لئے ہرمسلمان جان و مال کی قربانی کا عزم کرے یاد رکھیں جان وہی قیمتی جو  اللہ  تعالیٰ کے لئے لگ جائے اور مال وہی اچھا جو  اللہ  تعالیٰ قبول فرما لے آج ہی سے ہر مسلمان اس محنت میں پوری طاقت کے ساتھ جُڑ جائے ان شاء  اللہ  یہ زمین بھی مسلمانوں کی ہے اوردنیا اورآخرت کی کامیابی بھی اہل ایمان کا حصہ ہے

لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ ، لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا  اللہ  محمد رسول  اللہ

٭٭٭