رنگ و نور جلد ہفتم
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (329)
نورانی شعلہ
ایمان اور جذبہ
کتنی اونچی نعمت ہے؟
اہل اسقامت کا
مثالی اجتماع…
جہاد سے بیٹھنے
والوں کا انجام…
انسان پر شیطان کس
طرح مسلط ہوتا ہے؟
صحبت رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی برکت نے صحابہ کرام کو کیا دیا؟
صحابہ کرام کے
ایمانی جذبات اور جہادی ولولوںکا اجمالی تذکرہ…
دل کے نورانی شعلے
کو بجھنے نہ دو…!
تاریخ اشاعت
۲۷محرم؍۱۴۳۳ھ بمطابق۲۳دسمبر۲۰۱۱
شمارہ (۳۲۹)
نورانی شعلہ
اللہ تعالیٰ ’’
استقامت‘‘ عطاء فرمائے…
شیطان پوری محنت کرتا ہے کہ…
ہمارے دلوں سے ایمان کی روشنی چھین لے…
ماشاء اللہ مخلص مجاہدین کی محنت ہر سطح پر اپنا رنگ دکھا
رہی ہے… بلکہ اب تو اچھی
طرح سے رنگ جما رہی ہے…
ایٹم بموں کے مالک’’مذاکرات‘‘ کے لئے غریب مجاہدین کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں …اور
ٹینکوں کے مالک ’’ابابیلوں‘‘ کے خوف سے کانپ رہے ہیں…
ابھی تو ان شاء اللہ دنیا بہت عجیب مناظر دیکھے گی…
بہاولپور میں’’دیوانوں‘‘ کا اجتماع ہوا…
بڑے بڑے عقلمندوں کی عقلیں اُڑ گئیں…
ماشاء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ …
بارک اللہ کیا ایمان پرور مناظر تھے…
ہم نے تو دور سے سنا اور محسوس کیا…
وہ جو خود شریک تھے اُن کی کیا حالت ہو گی…
یقیناً انوارات اور اونچے جذبات کی بارش تھی…
جی ہاں باقاعدہ بارش… کوشش تھی
کہ چار ہزار تک افراد آجائیں…
جگہ اور انتظام بھی اتنے ہی افراد کا تھا…
دوہزار پہلے اجتماع میں اور دو ہزار دوسرے میں…
مگر پہلے میں ساڑھے تین ہزار اور دوسرے میں ساڑھے چار ہزار…
یعنی چار دن میں آٹھ ہزار افراد نے شرکت کی…
حکومت مجاہدین کو کھلے عوامی اجتماعات نہیں کرنے دیتی…
ان آٹھ ہزار افراد کے جذبات دیکھ کر صاف پتا چل رہا تھا کہ…
اگر عمومی اور عوامی اجتماع ہو تو لاکھوں مسلمان فیض یاب ہو سکتے ہیں…
کبھی تو ان شاء اللہ ’’پابندیاں‘‘ ٹوٹیں گی اور اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کو بھی زمین پر کوئی جگہ
ملے گی… ہم الحمدﷲ پُر
امید ہیں، اچھے حالات کا انتظار کرنا اوراُن کے لئے پُر امید رہنا بھی ایک عبادت
ہے… گیارہ سالہ
خوفناک صلیبی اور برہمنی جنگ کو بیک وقت برداشت کرنے والے افراد…آٹھ
ہزار کی تعداد میں جمع ہوئے تو ماشاء اللہ
اُن کے ایمان اور جذبے پہلے سے بھی زیادہ
بلند تھے…دیکھا آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور شان کو…
آج کل تو دو ماہ کی جنگ بڑے بڑے لشکروں کا کچومر نکال دیتی ہے…اور
چار مہینے کی پابندی بڑی سے بڑی جماعتوں کا حُلیہ بگاڑ دیتی ہے…
مگر آپ اس اجتماع کے بیانات سن لیں، نظموں کو سماعت کریں یا نعرے سنیں…
ذرہ برابر بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ایک چار رُخی جنگ کے زخمی ہیں…
وہ جو شہید ہو گئے وہ تو یوں لگتا تھا کہ اجتماع میں حاضر ہیں…
بار بار اُن کے تذکرے تھے اور اُن کے ہم ذوق نوخیز جوان ہر طرف گھوم پھر رہے تھے…
اور چند ایک ذکر و دعاء میں مشغول تھے…
اوروہ جو بیٹھ گئے ان کی کمی کسی نے محسوس نہیں کی…
اللہ تعالیٰ نے ’’سورۂ محمد‘‘ کے آخر میں اُن کا
فیصلہ واضح الفاظ میں سنا دیاہے کہ…
جہاد سے بیٹھنے اور بھاگنے والوں کی کمی کبھی بھی محسوس نہیں کی جائے گی…
اور یہ کہ وہ جو اُن کی جگہ آئیں گے وہ بہت اچھے لوگ ہوں گے…
پورا مسئلہ سمجھنا ہو تو قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کی’’سورہ محمد‘‘ کا اختتام
پڑھ لیجئے… اسی خوف کی وجہ
سے تو آج کی مجلس کا آغاز’’استقامت‘‘ کی دعاء سے کیا ہے…
اور آج کل پاکستان میں جو سیاسی ماحول ہے اسے دیکھ کر مجھے تو…واقعی
دین پر’’استقامت‘‘ کا بہت گہرا سبق ملا ہے…
زرداری صاحب بیمار تھے…
مگر صدارت سنبھالنے واپس آگئے…اُن
کو معلوم ہے کہ یہ عہدہ عارضی ہے…
آج نہیں تو کل اُن کو چھوڑنا ہی ہے…
اور یہ بھی اُنہیں معلوم ہے کہ اس عہدے کا اُنہیں آگے چل کر کبھی بھی کوئی فائدہ
ملنے والا نہیں…ہاں دنیا اور
آخرت میں اس کی وجہ سے نقصان ہو سکتا ہے…
دنیا میں قید، پھانسی یا جلاوطنی…
اورآخرت میں مظالم، لوٹ مار اور کتاب اللہ نافذ نہ کرنے کی سزا…
مگر پھر بھی وہ گرتے پڑتے لڑکھڑاتے واپس آگئے…
اور اب رات دن پھر ڈیوٹی دے رہے ہیں…
ملاقاتیں، باتیں، صفائیاں، دُھائیاں…
پریشانیاں، بے خوابیاں…
اور طرح طرح کے امراض… حالانکہ اچھے
خاصے مالدار ہیں… کچھ عرصہ
پہلے اُن کے بعض اثاثوں کی تفصیل شائع ہوئی تو میں نے اپنے کیلکولیٹر پر اُن کی
زکوٰۃ کا حساب نکالا… کہ اگر
کبھی اُن کو اپنی قبر، آخرت کا دھیان آئے اور وہ زکوٰۃ نکالیں تو کتنی بنے گی…
کافی دن پہلے کی بات ہے اس لئے اچھی طرح تویاد نہیں مگر…
سالانہ اربوں روپے صرف زکوٰۃ کے بنتے تھے، یعنی مال کا چالیسواں حصّہ…
اب اتنا مالدار آدمی چاہے تو زندگی کے کچھ دن چلو آرام اور سکون سے ہی گزار دے…
مگراقتدار اور عہدے کی ہوس چین سے نہیں بیٹھنے دیتی…
نہ کوئی مقصد ہے نہ کوئی مشن…
نہ کوئی جذبہ ہے اور نہ کوئی پروگرام صرف اور صرف چار دن کی چاندنی ہے…
اور وہ بھی ایسی تکلیف دہ کہ الامان الحفیظ…
صبح صبح اٹھ کر بیوٹی پارلر میں…
چہرے کی رگڑائی، بالوں کی رنگائی، جُھریوں کی بھرائی اور کیا کیا…
پھرسارا دن پروٹوکول کی جکڑن…
امریکہ کی رضا جوئی اور اپنی فوج اور ایجنسیوں کی منتیں اور ترلے…
رات گئے تک یہی سلسلہ… نہ آرام
نہ سکون… نہ حال نہ مستقبل…
اہل دل کہتے ہیں کہ… شیطان جب
کسی پر مسلّط ہوتا ہے تو اُس کے اندر تین’’خارشیں‘‘ پیدا کر دیتا ہے…
مال کی خارش، عہدے کی خارش اور نشے کی خارش…
جسے مال کی خارش ہو جائے وہ ساری زندگی مال جمع کرنے، مال بنانے، مال کمانے ، مال
گننے…اور مال بڑھانے
میں لگا رہتا ہے… مگر دل پر
لگی خارش کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی…
بلکہ مزید بڑھتی جاتی ہے اور بالآخر انسان اسی میں مر کھپ جاتا ہے…
یہی حال عہدے اور عزت کی خارش کا ہے…
اس کی خاطر لوگ اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں کہ…
کسی طرح ہمیں منصب، عہدہ اور عزت مل جائے …
آرام غارت، سکون برباد اور طرح طرح کی ذلتیں…
پرویز مشرف کو دیکھ لیں اڑسٹھ سال کی عمر میں پھر اقتدار پانے کیلئے پاکستان آنا
چاہتا ہے… حالانکہ یہاں
اُسے قید بھی ہو سکتی ہے اور موت بھی…
اپنی مقبولیت کا بھی اُسے پتہ ہے کہ کتنے جوتے یہاں اُس کے لئے تیار ہیں…
مگر شیطان نے خارش کا جو انجکشن لگایا ہے وہ چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا…
حالانکہ مسلمانوں کو اور اُن کی زمین کو بیچ کر وہ اتنا مالدار ہو چکا ہے کہ…
اپنی زندگی کے یہ چندآخری دن دنیوی طور پر آرام سے گزار سکتا ہے …
مگر گارڈ آف آنر اور سیلوٹ کا شوق اُس کے بڑھاپے کو رسوا کرنے پرتُلا ہوا ہے…آپ
یقین کریں پاکستان کے ان تمام لیڈروںکے پاس نہ کوئی بامقصد مشن ہے…
اور نہ کوئی دینی یا دنیوی پروگرام…یہ
بس اقتدار کی کرسی کا جھولا جھولنے کے مشتاق اور اپنے اثاثے بڑھانے کے
شوقین ہیں… عوام کی خدمت یا
ملک کی حفاظت کا ان کے ہاں کوئی تصور تک نہیں …
ورنہ عمران خان سے لیکر نواز شریف تک یہ تمام لیڈر صرف اپنے بڑھاپے کو ڈھانپنے کے
لئے… روزآنہ جتنا
پیسہ بیوٹی پارلروں میں خرچ کرتے ہیں…
اُس سے بھی سینکڑوں بھوکے افراد کو ’’روزگار‘‘ دیا جا سکتا ہے…
مُلک کی حفاطت کا ان سب کے نزدیک تصور بس اتنا ہے کہ…
مُلک میں مدرسے اور مسجدیں نہ ہوں کیونکہ ان کی وجہ سے مُلک بدنام ہوتا ہے…
اوربھارت سمیت ہرملک کے ہر مطالبے کو مان لیا جائے اور غیرت اور عزت کے نام پر
پابندی لگا دی جائے …ان سب کے
بچے باہر ملکوں میں پڑھتے، پلتے اور بڑھتے ہیں…
اور یہ بھی ماہانہ بنیادوں پر باہر ممالک میں اپنی جائیداد کی دیکھ بھال کے لئے
جاتے ہیں… تیسری خارش جو
شیطان اپنے غلاموں کو لگاتا ہے…
وہ نشے کی خارش ہے… شراب،
چرس، ہیروئن، گانجا اور معلوم نہیں کیا کیا…
ہم نے اگر دین پر استقامت کا سبق سیکھنا ہو تو ان نشہ بازافرادکو دیکھ لیں…
وہ نشے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں اور پھر نشے میں بڑھتے جاتے ہیں
بڑھتے جاتے ہیں… اور اُن کی خواہش
یہ ہوتی ہے کہ نشے کی خاطر، نشے کی حالت میں جان دے دیں…
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ، کراچی میں مجھے ایک ہیرونچی کے ساتھ کئی مجالس کا اتفاق
ہوا… وہ ہمارے کسی
دوست کا بھائی تھا اور اُس کی والدہ محترمہ نے مجھے پیغام بھیجا کہ…
آپ اس کی اصلاح کریں… وہ میری
باتوں کو بہت غور، فکر اور درد کے ساتھ سنتا مگرآخر میں…
اپنا مقصد ہی حل کراتا…
جناب! آپ کی باتیں دل کو لگی ہیں مگر آج مجھے نشہ خریدنے کے پیسے دے دیں بس اس
کے بعد سچی توبہ… جناب ان
باتوں نے تو میری سوچ ہی بدل دی ہے مگر اس وقت میں ٹینشن میں ہوں کچھ پیسے دیں
تاکہ… نشہ کر کے سیٹ ہو
جاؤں اور آپ کی باتوںپر غور کروں…
شیطان کے یہ انجکشن بہت خطرناک ہیں…
اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی ان سے حفاظت فرمائے…
اور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر رحم فرماتا ہے تو اُس کے
دل میں ایمان کی روشنی عطاء فرما دیتا ہے…اور
اُس کے قلب میں خدمت دین کا جذبہ پیدا فرما دیتا ہے…
ایمان اور جذبے کا یہ’’شعلہ‘‘ جس کے دل میں جس قدر روشن اور طاقتور ہوتا ہے…
اُسی قدر اُسے اپنی آخرت کے لئے محنت کی ہمت اور توفیق ملتی ہے…
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں جو شعلہ اور نور
پیدا ہوا… وہ بہت مستحکم
اور مضبوط تھا… حالات بہت خطرناک
اور تنگ ہو جاتے تب بھی وہ شعلہ بلند رہتا …
اورحالات بہت ہی زیادہ اچھے ہوجاتے تب بھی وہ شعلہ سرد نہ پڑتا…
حالانکہ عام عادت اس کے برخلاف ہے…
جب حالات بہت تنگ ہو جائیں تو دل کے جذبے عام طور پر مرجھا جاتے ہیں…
اوراچھے خاصے لوگ دین کا راستہ چھوڑکر امن کی راہیں ڈھونڈنے لگتے ہیں…
اسی طرح جب حالات بہت کُھل جائیں تب بھی دل کا شُعلہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے…
مگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھیں…
اُن پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے…
ش، ش ، ش… اُن کی کس کس
آزمائش کو یاد کیا جائے…
یقینا ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہ سکے…
یہ اُن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا…
غزوہ اُحد کو دیکھیں… حضرت
سیدنا عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ کو دیکھیں…
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر آنے والی اُن کے دور خلافت کی آزمائشیں دیکھیں…
ایسی سخت آزمائشیں کہ پہاڑوں پر پڑیں تو اُن کو ریزہ ریزہ کر دیں…
مگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نہ تو ایمان میں کوئی فرق آیا
اور نہ اُن کے جہاد میں اور کام میں کوئی کمزوری آئی…
اب دوسری طرف آسانیوں کو دیکھیں…
ماشاء اللہ …
مال کی اُن پر ایسی بوچھاڑ ہوئی کہ آج کے حساب دان اُس مال کو شمار کرتے ہوئے
پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں…روم
کے خزانے، فارس کے خزانے…
آج کے مجاہدین کو اتنا مال مل جائے تو بعض افراد کو چھوڑ کر دیگر کو جہاد کی خاطر
تلاش کرنے کے لئے… مسجدوں کے
لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کروانا پڑے…
ایک ایک کے حصے میں سو، سو غلام…
آج اگر کسی کو مل جائیں تو کپڑے بھی خود نہ پہنے غلاموں کے ذمہ لگا دے…
اُس زمانے کے غلام آج کے نوکروں کی طرح نہیں تھے…
بلکہ وہ مکمل طور پر انسان کی ملکیت ہوتے تھے…
پھر روم کی حسین و جمیل باندیاں، شرعاً بالکل حلال باندیاں…
جی ہاں! اُن کے حُسن و جمال کے تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں…
آپ کا ذہن نہ بھٹک جائے اس لئے نہیں لکھتا…
ایسی دوچار باندیاں آج کل کسی کو مل جائیں تو وہ…
ایمان، جہاد اور عبادات میں کس قدر سست ہو جائے؟…
مگر آفرین ، ہزار آفرین! حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر…
اس قدر مال و دولت، اس قدر غلام اور باندیاں اوراس قدر فراخی کے باوجود…
نہ اُن کے ایمان میں کمزوری آئی …
نہ اُن کی عبادت میں کمی آئی…
اور نہ اُن کے جہاد میں کوئی رکاوٹ آئی…
جب بھوک اور فاقہ کی وجہ سے اُن کے پیٹ پر پتھر بندھے تھے تب بھی وہ مکمل جوش اور
جذبے سے جہاد کرتے رہے…
اور جب اُن کے تجارتی قافلے میلوں لمبے تھے تب بھی وہ پہلے کی طرح جہاد میں لگے
رہے… یہ حضرت سیدنا
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں چھ ماہ معزز مہمان
رہے ہیں… یہ چاہتے تو اسی
سعادت کو اپنے گلے کا ہار بنا کر آرام سے گھر بیٹھ جاتے…
مگر وہ دیکھو! بڑھاپے کے عالم میں اسلامی لشکر کے ساتھ ساتھ جارہے اور
پھر آگے دیکھو! اُن کا جنازہ بھی لشکر کے ساتھ ساتھ جا رہا ہے…
بالآخر قسطنطنیہ کی دیوار کے پاس پہنچ کر مدفون ہوئے…
دل میں ایمان اور جذبے کا جو شعلہ تھا وہ قبر میں بھی منور رہا…
رات کو قبر سے ایسی روشنیاں اور انوارات لوگوں نے دیکھے کہ وہ پورا علاقہ مسلمان
ہو گیا… یہ حضرت مقداد بن
اسودرضی اللہ عنہ ہیں… آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل فخر شہسوار…
یہ بڑھاپے میںملک شام کے شہر’’حمص‘‘ بیٹھے جہاد میں نکلنے کا انتظار فرما رہے ہیں…
یہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ہیں…
مکہ کے تاریخی سردار، بہت دیر سے مسلمان ہوئے مگر ایمان اور جذبے کی جو شمع دل میں
روشن ہوئی… وہ بہت مستحکم
اور مضبوط تھی… انتہائی بڑھاپے
میں جب آنکھیں بھی زیادہ کام نہیں کر رہی تھی اسلامی لشکر کے ساتھ ساتھ یرموک تک
پہنچے ہوئے ہیں… ایک لڑائی میں
مسلمانوں کے پاؤں اُکھڑے تو یہی حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بڑا سا لٹھ لیکر
کھڑے ہو گئے اوربھاگنے والوں کو مار مار کر میدان جنگ کی طرف لوٹا رہے تھے…
اور یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مایہ ناز خطیب…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ …
بڑھاپے میں بے جگری سے لڑ رہے ہیں…
اورپھر زمین میں گڑھا کھود کر اس میں کھڑے ہوئے ہیں کہ میدان جہاد سے پاؤں پیچھے
نہ ہٹیں… کِس کِس کو یاد
کیا جائے؟… ہرایک دوسرے سے
بڑھ کر ہے… اورتو اور نابینا
سعادت مند صحابی… جن کا
تذکرہ قرآن پاک میں مذکور ہے…
بڑھاپے کے عالم میں کُوفہ کی لڑائی میں اپنی لمبی زرہ باندھے…
اُسے شوق جہاد میں لشکروں کے درمیان گھسیٹتے پھر رہے تھے…
ہاں میرے بھائیو! ایمان اور جذبے کی شمع اگر دل میں مضبوط اور مستحکم ہو تو…
پھر نہ کوئی تکلیف انسان کو بے کار بناتی ہے…
اور نہ مال، شادی اور کاروبار انسان کو غافل کرتے ہیں…
سیاستدانوں کو دیکھو!… ایک بے
مقصد گناہ کے لئے دن رات خود کو تھکا رہے ہیں…
مالداروں کو دیکھو!…بے کار
پیسے کے لئے جو پوری زندگی اُن کے کام نہیںآتا…
رات دن خود کو کھپارہے ہیں…
نشہ بازوں کودیکھو!… چند منٹ
کے نقلی سکون اور خود فراموشی کے لئے…
نشے کے ساتھ ہمیشہ کے لئے جڑے رہتے ہیں…
تو پھر… کلمے اور جہاد
والے کیوں تھک جاتے ہیں؟…
اپنے رب کی رضا کے طالب کیوں میدان سے بھاگ جاتے ہیں؟…
حورعین اور شراب طہور کے متوالے کیوں حالات سے گھبرا کر بیٹھ جاتے ہیں؟…
ارے بھائیو! اسی کام میںکامیابی ہے…
اور اسی کام میں سعادت ہے…
’’کلمہ طیبہ‘‘ سے اونچی کوئی چیز نہیں…
نماز سے اونچا کوئی کام نہیں…
جہاد سے اونچا کوئی عمل نہیں…
اجتماع میںآپ نے وعدہ کیا…
اب اس وعدے کو نبھائیں…
مسلمان متوجہ ہیں اور بات سُن رہے ہیں…
اللہ تعالیٰ کی نصرت ہر طرف مجاہدین کے ساتھ نظر
آرہی ہے… اب اپنے دل کے
شعلے کو بجھنے نہ دو… نہ ہی
بُرے حالات سے مایوس ہو کر…
اور نہ ہی اچھے حالات میں غافل ہو کر…
ہاں شیطان پورا زور لگا رہاہے کہ اس روشنی کو بجھا دے…
اسی لئے اپنے رب سے ہم سب استقامت مانگیں…
یا اللہ استقامت نصیب فرما…
آمین یا ارحم
الراحمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (330)
قسمت کا حال
شیطان کا سب سے
پہلا حملہ انسان پر کیا ہوتا ہے؟
مال پر…؟ نہیں!
اولاد پر…؟ نہیں!
جوانی اور صحت پر…؟ نہیں!
بلکہ ایمان اور
عقیدے پر…
مسلمانو! وہم سے،
لکیروں سے اورجادو سے نکلو!
کلمہ طیبہ سے
مضبوط کوئی وسیلہ نہیں…
نماز سے مسائل حل
کراؤ…
جہاد میں جان و
مال لگاؤ…
ایمان کی حفاظت
اور کامیابی کی راہ دکھائی…
ایک چشم کشا تحریر…
تاریخ اشاعت
۴صفر؍۱۴۳۳ھ بمطابق۳۰دسمبر۲۰۱۱
شمارہ (۳۳۰)
قسمت کا حال
اللہ تعالیٰ میری
اور آپ سب کی جادو اور جادوگروں سے…
نجومیوں، دست شناسوں اور قسمت بتانے والے عاملوں اور پروفیسروں سے حفاظت فرمائے…
یہ سب ایمان کے ڈاکو اور جہنم کے ٹریول ایجنٹ ہیں…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف سمجھا دیا ہے کہ…
جو کسی کاہن، نجومی اور غیب کی خبریں دینے والے کے پاس جائے گا تو اُس نے’’کفر‘‘
والا کام کیا… اور ایسے آدمی
کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہو گی…
بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک دلچسپ بات سن لیں…
کہتے ہیں کہ پُرانے امریکہ میں آج سے پانچ ہزار ایک سو پچیس سال پہلے اُس زمانے
کے بڑے بڑے نجومی جمع ہوئے…
ا نہوں نے ستاروں کی چال ڈھال میں مغزماری کے بعد یہ پیشین گوئی کی کہ…۲۰۱۲ء میں یہ دنیا
ختم ہو جائے گی… یعنی2012ء اس
زمین کی زندگی کاآخری سال ہو گا…
لیجئے کل سے2012ء شروع ہے…
ہم تو نجومیوں کو اور ان کی پیشین گوئیوں کو نہیں مانتے…
جومانتے ہیں وہ اپنی زندگی کا بلکہ زمین کی زندگی کاآخری سال گزار لیں…
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے…
ان نجومیوں نے جوکیلنڈر بنایا تھا وہ ’’مایا کیلنڈر‘‘کہلاتا ہے اور بازاروں سے مل
جاتاہے… عجیب بات ہے کہ
لوگوں کوآگے کی خبریں جاننے کا معلوم نہیں کیوںاتنا شوق ہوتاہے…
شیخ سعدی پ نے ’’گلستان‘‘ میں قصہ لکھا ہے کہ ایک مشہور نجومی تھا لوگوں کو اُن کے
مستقبل کے حالات بتاتاتھا مگر خود اُس کی بیوی’’بدکار ‘‘تھی…
ایک بار نجومی گھر آیا توبیوی کسی کے ساتھ تھی…
آواز سُن کر اُس نے اپنے’’یار‘‘ کو چارپائی کے نیچے چھپا دیا…
اور غیب کی خبریں بتانے والے نجومی کو پتا ہی نہیںچلا…
تب کسی نے ایک شعر کہا کہ…
تجھے آسمان کے ستاروں کی چال کاکیا پتا؟ تو تو یہ بھی نہیں جانتا کہ تیری چارپائی
کے نیچے کون ہے؟… نجومی اور
کاہن کی کمائی بالکل حرام کی ہوتی ہے…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی حُرمت کو بیان
فرمایاہے… ایسی حرام کمائی
گھر آئے گی تو بیوی اور اولاد کا کردار کیاہو گا؟…
یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے…
پندرہ بیس سال پہلے ’’پی آئی اے‘‘ میں ایک ملازم تھا…
اُسے دعویٰ تھا کہ ہاتھ کی لکیروں سے قسمت کا حال دیکھ لیتا ہے…
کیا پائلٹ اور کیا ائیر ہوسٹس سب اُس کے ارد گرد منڈلاتے تھے اور اپنا ہاتھ اُسے
دکھاتے تھے… ایک دن جہاز اُڑا
اور پھر حادثے میں اُڑ گیا وہ صاحب بھی جہاز میں تھے…
ہاتھ کی لکیروں اور غیبی علم نے اتنا نہ بتایا کہ بابا!آج کی فلائٹ میں اڑان نہ
بھرو… تھوڑا ساسوچیں…
دنیا کے سارے نجومی، عامل، کاہن اور عرّاف اپنے اپنے وقت پر مر گئے…
اکثر نے ناکام زندگیاں گزاریں…
پھر اس باطل علم نے انہیں کیا فائدہ دیا…
اور پھر جادو… یا اللہ توبہ، یا اللہ پناہ…
کسی بھی دل میں ایمان اور جادو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے…
ایمان ہوگا تو جادو نہیں رہے گا اور جادو ہو گا تو ایمان نہیں رہے گا…
فرعون کے جادوگروں کے دلوں میں’’جادو‘‘تھا تو وقت کے ’’پیغمبر‘‘ کے مقابلے میں
آکھڑے ہوئے… اور پھر جب ایمان
دل میں آیا تو جادو کا ایک ذرہ بھی نہ رہا…
تب سیدھے فدائی مجاہدین بن گئے اور فرعون کو للکارنے لگے…
جا! جو کچھ کرنا ہے کر لے ہم ایمان سے ایک قدم دستبردار نہیں ہو سکتے…
ہاتھ پاؤںکٹ گئے، سولیوںپر لٹک گئے مگرایمان نہ چھوٹا…
ایسے کامیاب ہوئے کہ رشک آتاہے…
قرآن پاک نے بار بار اس قصہ کو سنایا اور سمجھایا…
کامیابی جادو میں ہے یا ایمان میں؟…
اس قصہ کو پڑھنے کے بعد کوئی نام کا مسلمان جادو کرتا ہے، یا جادو کراتا ہے…
یا جادو سیکھتا ہے یا جادوگروں کے پاس جاتا ہے تو پھر ایسے بد نصیب کا کیا علاج؟…
دنیا میں تکلیفیں تو ہر کسی پر آتی ہیں…
اور یہ تکلیفیں گناہوں کومعاف کراتی ہیں اور درجات کو بلند کراتی ہیں…
یہ تو جائزنہیں کہ تکلیف کو دور کرنے کیلئے انسان کفر اور شرک والے کام کرنے لگے
اور ایمان جیسی عظیم نعمت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے…
آج پاکستان کی پوری سیاست نجومیوں، پروفیسروں اور جعلی عاملوں کے زور پر کھڑی ہے…
زرداری صاحب کے اپنے نجومی اور عامل ہیں…
روزانہ ایوان صدر میں کالا بکراذبح ہوتا ہے…
شریف برادران کے اپنے نجومی اور عامل ہیں جو اُن کو چھبیس سال کے لئے وزیراعظم
بنانے پر تلے ہوئے ہیں…
اور عمران خان کے اپنے پروفیسر اور نجومی ہیں جو آئندہ کی پیشین گوئی اور مستقبل
کا علم رکھنے کے دعویدار ہیں…
توبہ، توبہ،توبہ… کس درجہ
شرمناک کیفیت ہے کہ… مسلمان
کہلانے والے بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی بجائے ان شرکیہ توہمات
میں لگے ہوئے ہیں… ان
نجومیوں اور پروفیسروں سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر آپ لوگوں کے پاس ایسی
تأثیر ہے تو پھر آپ خود کیوں نہیں صدر اور وزیراعظم بن جاتے…
یا کسی غریب کو اس عہدے پر کیوں نہیں لے آتے…
سچ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک کھجور کی گٹھلی بھی نہیں بنا سکتے اور نہ ہی ان کو اپنی
چارپائی کے نیچے کی خبر ہے…
بس لوگوں میںحرص اور ہوس زیادہ ہوگئی ہے اور یہ نفسیات کے ماہر اُن کو بیو قوف
بناتے ہیں… دوسری طرف امریکی
سی آئی اے نے بھی کئی بزرگ اور دانشور اسلام آباد ، لاہور اور آس پاس کے
علاقوںمیں بٹھا دیئے ہیں…
یہ حضرات ٹیکنالوجی کے زور پر کرامتیں دکھاتے ہیں اور سیاستدانوں اور مالداروں کو
شکار کرتے ہیں… قصہ مشہور ہے کہ …
کشمیر کے ایک پیر صاحب کو کسی نے ایک’’ٹارچ‘‘ یعنی بیٹری لادی…
اُس زمانے میں یہ چیزیں لوگوں نے نہیں دیکھی تھیں…
وہ پیر صاحب نیم تاریک کمرے میں بیٹھ کر اپنے مریدین پر توجہ ڈالتے اور پھر کسی
ایک کو فرماتے… کیا آج ہم
تمہیں’’نور‘‘ دکھا دیں؟…
پھر اس مرید کا سر اپنے فرن، کرتے اور جیکٹ کے اندر اپنے سینہ پر لاتے اور اندر وہ
ٹارچ جلا دیتے … روشنی دیکھ کر
مرید کا تو عجیب حال ہوجاتا اور وہ اس نور کے بارے میں ہر جگہ بتاتا پھرتا…
یوں پیر صاحب کا حلقہ وسیع تر ہوتا گیا…
ایک بار تو ایک مرید نے اس نور کو دیکھ کر زور سے نعرہ لگایا اور جان دے دی…
یوں پیر صاحب کی جعلی کرامت’’قاتل‘‘ بھی بن گئی…
آج کل بھی لوگوں کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں…
مختلف ذرائع سے اہم شخصیات کے فون نمبر حاصل کئے جاتے ہیں…
این جی اوز کی خواتین کے ذریعہ اہم شخصیات کو کمزوریوں میں پھنسایا جاتا ہے …
تب اچانک کسی دن فون کی گھنٹی بجتی ہے کہ…
بیٹا! میں فلاں پروفیسر بول رہا ہوں، آپ میں فلاں کمزوری ہے اور آپ کو فلاں
مسئلہ درپیش ہے، آپ یہ عمل کریں تو جلد ترقی ہو جائے گی…
اور فلاں پریشانی دور ہو جائے گی…
وہ آدمی سر پکڑ کر رہ جاتا ہے کہ…
یہ بات تو بہت خاص اور پرائیویٹ تھی ’’حضرت‘‘ کو کیسے پتا چل گیا…
اور پھر چند دن بعد پریشانی بھی ختم کرا دی جاتی ہے اور ترقی بھی کرا دی جاتی ہے
اور یوں وہ افسر یا تاجر اُس عامل یا پروفیسر کا غلام بن جاتا ہے…
آج آخرت سے غافل لوگوں کو اور کیا چاہئے؟…
پیسہ، عورت ،عہدہ اور آگے کے سہانے خواب…
یہ تمام کام سی آئی اے کی مدد سے وہ پروفیسر آسانی سے کرادیتے ہیں…
جبکہ سامنے والا اسے روحانی تصرفات سمجھتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ان
پروفیسروں کے کام آنے لگتا ہے …
ابھی آج ہی کی خبر پڑھ لیں…
امریکی سفارتخانے نے تین افراد پر مشتمل ایک’’سیل‘‘ قائم کیا ہے…
یہ سیل پاکستان میں جہادی نظریات کے خلاف کام کرے گا…
ابتدائی طور پراُسے پچاس لاکھ ڈالر دیئے گئے ہیں اور یہ رقم اُن اعتدال پسند علماء
اور اسلامی اسکالروں کو دی جائے گی جو جہاد کے خلاف مؤثر آواز اٹھائیں گے…
دیکھا آپ نے مجاہدین اور جہاد کی برکت کو…
اب پچاس کروڑ روپے کی یہ رقم اُن کی برکت سے کئی نام نہاد پیروں، پروفیسروں اور
اسکالروں کے کام آئے گی…
اور ان شاء اللہ جہاد کا کچھ نہیں بگڑے گا…
گزشتہ دس سال میں جہاد کے خلاف پانچ سو ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی جا چکی ہے…
مگر جہادمزید ترقی ہی کر رہا ہے…
پانچ سو ارب ڈالر کے کتنے روپے بنیں گے آپ خود حساب کر لیں…
ہماری حکومت عنقریب ایک ڈالر کی قیمت ایک سو روپے پاکستانی مقرر کرنے کا اعلان
کرنے والی ہے… ہندوستان میں تو
ویسے ہی شرک کا راج ہے…
وہاں کے حکمران، سیاستدان اور فنکار تمام ہی نجومیوں اور کاہنوں کا سہارا لیتے ہیں…
اکثر سیاستدانوں نے اپنے ذاتی نجومی رکھے ہوئے ہیں جو دن رات اُن کو قسمت کا حال
سناتے بتاتے رہتے ہیں… آندھرا
پردیش کا ایک سابق فلمسٹار’’این ٹی راما راؤ‘‘ جب آندھرا پردیش کا وزیراعلیٰ بنا
تو اُس کے نجومیوں نے اُسے بتایا کہ اسمبلی ہال کا دروازہ جس سمت میں ہے وہ سمت
اُس کے لئے’’منحوس‘‘ ہے…یہ
سنتے ہی اُس نے حلف برداری کی تقریب منسوخ کرادی اور تیرہ لاکھ روپے خرچ کر کے
دروازے کو دوسری سمت میں لگوایا…
پھر چند دن بعد اُس کے نجومیوں نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ سے بڑھ کر وزیراعظم بن
سکتے ہیں… مگراس کے لئے آپ
کو تین ماہ تک رات کو عورتوں والا میک اپ کرکے اور ساڑھی پہن کر سوناہوگا…
وہ تین ماہ تک یہ ذلّت ناک مشقت بھی برداشت کرتا رہا…
مگر ابھی نو ماہ ہی ہوئے تھے کہ اسمبلی میں بغاوت ہوگئی اور اُسے معزول کر دیا گیا…
اور چند دن بعد وہ مرگیا…
ہمارے قریبی شہر’’لودھراں‘‘ کا ایک ہندو برہمن…
کرشن لال شرما ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا نائب صدر تھا…
اُس نے جب اپنی سترویں سالگرہ منائی تو نجومیوں نے نامعلوم کتنی آگ ، کتنا گھی،
کتنی موم بتیاںجلا کر کوئی عمل کیا اور اُسے بتایا کہ ابھی آپ کی زندگی…
اور لمبی ہو گی… مگر اس سالگرہ کے
چند دن بعد وہ مر گیا… دراصل
شیطان، انسان کا کھلا دشمن ہے…
اورشیطان کا پہلا حملہ انسان کے عقیدے پر ہوتا ہے…
اور انسان جب اپنی ذاتی غرض کا غلام بن جائے تو وہ بہت جلدہر کفر، ہر گندگی اور ہر
غلاظت میں جاپڑتا ہے… حضرات
انبیاء علیہم السلام بھی بیمار ہوئے…
مگر انہوں نے سمجھایا کہ بیماری کو دور کرنے کی اتنی فکر نہ کرو کہ حرام کام یا
حرام عقیدے میں جا پڑو، حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کاتذکرہ قرآن پاک میں ہے…
ہمارے آقاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بخار ہوا، زخم پہنچے…
سمجھایا گیا کہ یہ سب کچھ ہرانسان کے ساتھ ہوتا ہے…
انسان کو چاہئے کہ… جائز علاج
،دعا اور صدقہ کرے، اللہ تعالیٰ پرتوکل کرے…
اور صبر کرے… ان تین کاموں کے
علاوہ کسی اور مصیبت میں گرفتار نہ ہو…
لیکن جن پرشیطان سوار ہو وہ اُن کی بیماری کو بھی اُن کے جہنم میں لے جانے کا
ذریعہ بنا کر دم لیتا ہے…
مُرارجی ڈیسائی انڈیا کا سابق وزیراعظم بیماری سے حفاظت کے لئے اپنا پیشاب پیتا
تھا… اسی طرح نام کے
مسلمان کئی افرادبھی بیماری ختم کرنے کے لئے نہ کفر سے باز آتے ہیں نہ شرک سے…جو
کچھ بھی بن پڑے بس بیماری ختم ہونی چاہئے…
ان لوگوں میں اتنی بھی عقل نہیں جتنی اُس غریب، مسکین حبشن خاتون میں تھی جن کو
مرگی کامرض تھا… وہ بے ہوش ہو کر
گر پڑتی تھیں اور جسم سے کپڑے بھی ہٹ جاتے تھے…
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی پریشانی عرض کی…
ارشاد فرمایا: چاہو تو دعاء کرتا ہوں کہ اللہ پاک بیماری ختم فرما دے اور چاہو تو صبرکر لو
اور اس کے بدلے میں جنت ملے…
سبحان اللہ ! عقل اسے کہتے ہیں کہ ہمیشہ
ہمیشہ کے فائدے کو دیکھ کر چند دن کی تکلیف کوبرداشت کرنے کا فیصلہ کیا…
بس اتنی دعاء ہو جائے کہ جب بے ہوش ہو کر گروںتو کپڑے جسم سے نہ ہٹیں تاکہ بے
پردگی نہ ہو… حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے سے فرماتے تھے کہ…
دنیا میں کوئی پکا جنتی دیکھنا ہے تو اس خاتون کو دیکھ لو…
آج ایک طرف علاج میں اتنا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ روز نیا ڈاکٹر، روز نیا حکیم …
جائیدادیں بک جاتی ہیں اور قرضوں کے لئے ہاتھ پھیلائے جاتے ہیں…
چلیں علاج تو جائز ہے… مگر پھر
معاملہ کفر اور شرک تک پہنچنے لگتا ہے…
نجومیوں، عاملوں، پروفیسروں کے چکر…
مزاروں کی حاضریاں اور طرح طرح کے غیر شرعی کام…
اے مسلمانو! ایمان اور توحید کا عقیدہ بہت قیمتی ہے بہت ہی زیادہ قیمتی…
اگر ساری زندگی بیماری کا دکھ جھیلنا پڑے مگر ایمان سلامت رہے تو یہ بڑی کامیابی
ہے… لیکن اگر ایمان
چھن گیا تو کیا بنے گا؟…
ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب… اور عذاب
بھی ایسا کہ بس اللہ تعالیٰ کی پناہ…
اللہ کیلئے اپنے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کرو…
نفع اور نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے…
بیماری اور صحت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے…
خیر اور شر کی تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے…کل
کیا ہو گا؟ اس کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا…
کوئی نجومی،دست شناس اور قسمت بتانے والا عامل سچی باتیں بھی بتائے تب بھی اُس کی
بات کا اعتبار نہ کرو… سچ تو
شیطان بھی کبھی کبھار بول لیتا ہے…
یہ لوگ ہواؤں میں اڑیں یا سمندر پر چلیں تو ان سے متاثر نہ ہو…
اُن لوگوں سے بہت دور رہو جو آگے کے حالات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں…
یہ ایمان کے ڈاکو ہیں… اور ان
میں سے بہت سے شیطان اور کفار کے ایجنٹ ہیں…
قرآن پاک نے ہمیں ماضی بھی بتادیا ہے اور مستقبل بھی…
اچھائی اور خیر کا راستہ بھی دکھا دیا ہے اور شر اور برائی سے بچنے کے طریقے بھی
بتا دیئے ہیں… دنیا کا کوئی
جادو، کوئی کلام، کوئی عمل قرآن پاک کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا…
اللہ والوں کے کشف اور اُن کی کرامات کا انکار نہیں…
مگر اللہ والے کبھی بھی لوگوں کو آخرت سے غافل کر کے
قسمت جاننے کی فکر میں نہیں لگاتے…اے
مسلمانو! اس بات کی فکر نہ کرو کہ کل کیا ہوگا…
ہاں اُس کی فکر کرو کہ ہم کل بھی ایمان پر قائم رہیں…
اس بات کی فکر نہ کرو کہ اس تجارت کا کیا انجام ہو گا؟…
ہاں اس کی فکر کروکہ تجارت شریعت کے مطابق ہو اور اُسے شروع کرنے سے پہلے خود
استخارہ کرلو… اس بات کی فکر نہ
کرو کہ یہ سفر کیسا ہوگا؟…
ہاں اس کی فکر کرو کہ سفر شریعت کے مطابق ہو اور سفر سے پہلے صلوٰۃ الحاجۃ اور
صلوٰۃ استخارہ ادا کرلو…
یاد رکھنا موت کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور نہ کسی کے علم میں ہے کہ موت کس وقت آئے
گی… ایک مؤمن کو بس
اس کی فکر کرنی چاہئے کہ مجھے ایمان پر موت آئے اور میرا خاتمہ اچھا ہوجائے…
ارے بھائیو اور بہنو!… وہم سے
نکلو، لکیروں سے نکلو، تعویذوں سے نکلو…
اور اپنے اُس عظیم رب پر توکل کرو وہ رب جو ہر چیز پر قادر ہے…
دل چاہتا تھاکہ آج وہ تمام احادیث مبارکہ لکھ دوں جو ہمارے مہربان، محسن اور
حقیقی خیر خواہ حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجومیوں اور
کاہنوں سے اپنی پیاری اُمت کو بچانے کے لئے ارشاد فرمائی ہیں…
ان شاء اللہ کسی ساتھی کے ذمہ لگادوںگا کہ وہ آج کے اخبار
یا اگلے ہفتے اُن احادیث مبارکہ کو لکھ دے…
آج مسلمانوں کی توہم پرستی اور مفاد پرستی دیکھ دیکھ کر دل رو رہا ہے…
بس اس دنیا کے حقیر سے فائدے کے لئے ایک مسلمان کفر اور شرک کے کاموں میں جا پڑے
یہ بات ناقابل فہم ہے… مجھے کوئی
ایک مسلمان ایسا بتاؤ! جس کو کسی نجومی، یا جعلی عامل سے کوئی حقیقی فائدہ پہنچا
ہو… طرح طرح کی
انگوٹھیاں، طرح طرح کے پتھر اور طرح طرح کے دھاگے…
ایک صاحب ایک بار کچھ مدد مانگنے کے لئے آئے اور ہاتھ میں کالا دھاگہ…
جس طرح ہندو اور باطل پرست باندھتے ہیں…
اُن کو سمجھایا تو انہوںنے دھاگہ اُتار دیا…
اگرا س دھاگے میں کچھ ہوتا تو اُن کو مدد مانگنے کے لئے لوگوں کے دروازے پرکیوں
جانا پڑتا؟… بوڑھے بوڑھے
لوگوں کو دیکھا کہ چار چار انگوٹھیاں…
ارے صاحب کس لئے؟… جی قسمت
جگانے والی ہیں… انا ﷲ وانا الیہ
راجعون… اب جبکہ دنیا سے
جانے کا وقت ہے شیطان نے قسمت کی فکر میں پھنسا رکھا ہے…
جبکہ موت کا دھیان تک نہیں…
قبر میں کیا بیتے گی اس کا خیال تک نہیں…
انہیں نجومیوں اور جعلی عاملوں کی وجہ سے گھر گھر جھگڑے، گھر گھر فسادات اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نصرت سے محرومی…
مجھے کوئی ایک ایسا مسلمان بتائیں جسے ان نجومیوں اور جعلی عاملوں سے کوئی حقیقی
فائدہ ہوا ہو؟… جو بھی ان کے پاس
جاتا ہے زندگی بھر کے لئے نجومیوں اور جعلی عاملوں کا مستقل غلام بن جاتا ہے…
حالانکہ علاج تو یہ ہے کہ ٹھیک ہو جائیں اور دوبارہ نہ جاناپڑے، اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور دیکھو کہ…
کل قیامت کے لئے کیا اعمال بھیج چکے ہو…
اے مسلمانو! کلمہ طیبہ سے تعلق مضبوط بناؤ اس سے طاقتوروسیلہ اور ذریعہ اور کوئی
نہیں… اے مسلمانو! نماز
کی حفاظت کرو، نماز کو قائم کرو…
یہ اللہ تعالیٰ سے اپنا ہر مسئلہ حل کرانے کا ذریعہ ہے…
اے مسلمانو! جہاد فی سبیل اللہ کو مانو اور جہاد میں اپنی جان لگاؤ، جہاد میں
اپنا مال لگاؤ… کامیاب ہو جاؤ
گے… جی ہاں رب کعبہ
کی قسم کامیاب…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (331)
اچھے حالات کا
انتظار
اللہ
تعالیٰ سے اس کا’’ فضل‘‘ مانگنا ہر مسلمان مرد ہو یا عورت سب کی ضرورت ہے…
مگر یہ ’’فضل‘‘ ہے کیا؟
حسد جیسے اذیت ناک
اور تباہ کن مرض سے کس طرح بچا جائے؟
مردوں اور عورتوں
کے لئے کامیابی کا بہترین نصاب اور لائحہ عمل…
بعض نامور مالدار
مگر نا کام ترین انسانوں کے انجام سے عبرت کا سبق…
اللہ تعالیٰ سے
فضل کی امید رکھنے والوں کے لئے حوصلہ افزاء گزارشات…
استغفار مہم کے
حوالے سے ایک وہم کا ازالہ اور پورے دین کا خلاصہ سمجھنے والی ایمان افروز تحریر!
تاریخ اشاعت
۱۱صفر؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۵جنوری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۱)
حالات کا انتظار
اللہ تعالیٰ مجھے
اور آپ سب کو اپنا’’فضل‘‘ عطاء فرمائے…
آپ نے خبر بلکہ خوشخبری سُن لی ہو گی کہ امریکہ نے ’’ملاّ فضل‘‘ صاحب کو رہا کر
دیا ہے… ایک گرفتار
امریکی فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کو گوانتا نا موبے کے عقوبت خانے سے رہا
کرنا طے پایا ہے… ملّا فضل
اخوند، ملّا خیر ا ﷲ خیر خواہ، ملا نورالدّین…
یہ تین حضرات رہا ہو کر ’’قطر‘‘ پہنچ چکے ہیں…
والحمدﷲ رب العالمین… ملّا فضل
اخوند امارتِ اسلامیہ افغانستان کے سپہ سالار یعنی آرمی چیف تھے…
مخلص، جانباز، بہادراور صاحبِ عزیمت…
سقوطِ قندوز کے وقت دوستم کی بدعہدی کا شکار ہوئے…
اور اتنے بڑے عہدے کے باوجود دوسرے عام قیدیوں کی طرح گوانتا نا موبے کے مظلوم
قیدی بنے… یہ تین حضرات تو
رہا ہوچکے باقی دو مزید افراد رہا ہونے ہیں…
اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے…
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمیںحکم فرمایا ہے کہ…
ہم اللہ تعالیٰ سے اُس کا ’’فضل‘‘ مانگا کریں…
وَاسْئَلُوااللّٰہَ
مِنْ فَضْلِہٖ … (النساء ،۳۲)
یعنی اللہ تعالیٰ سے اس کا ’’فضل‘‘ مانگتے رہو۔
قرآن پاک
کی یہ آیتِ مبارکہ’’حسد‘‘ کے موذی مرض کا علاج ہے…
قرآن پاک کا پانچواں پارہ کھولیں اور سورۂ نساء کی آیت ۳۲کو سمجھ کر پڑھ
لیں… یقین کریں اگر دل
میں حسد کی آگ ہو گی تو فوراً بجھ جائے گی…
اور زبان پر یہ دعاء آجائے گی:
اَللّٰھُمَّ
اِنِّی اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ
’’ یا اللہ میں آپ سے آپ کے ’’فضل‘‘ کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
بات بالکل
آسان ہے… دنیا کے اعتبار
سے اللہ تعالیٰ نے کسی کومرد بنایا ہے کسی کوعورت…
کسی کو گورا بنایا ہے کسی کو کالا…
کسی کو خوبصورت بنایا کسی کو کم صورت…
کسی کو باصلاحیت بنایا اور کسی کو سیدھا سادہ…
کسی کولوگوں میں مقبول بنایا اور کسی کو نہیں…
کسی کو مالدار بنایا اور کسی کو غریب…
یہ پہلی بات آپ ذہن میں بٹھا لیں…
اب دوسری بات سمجھیں… جس کو جو
بھی دنیاوی فضیلت ملی وہ اللہ تعالیٰ نے دی…
اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کہ جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے
نہ دے… اس بات کو آپ
اپنے دل میں بٹھا لیں…
اب تیسری
بات سمجھیں… آخرت کی اصل اور
ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں ان چیزوںاور نعمتوں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی…
وہاں نہ تو عہدے دار غیر عہدے داروں سے افضل ہوں گے اور نہ مالدار غریبوں سے اور
نہ گورے کالوں سے… یہ بس
دنیا کی چیزیںہیں، اور یہیں تک ان کی شان محدود ہے…
اور ان میں سے کوئی نعمت بھی اصل کامیابی کا مدار نہیں ہے…
اب چوتھی بات سمجھیں… اصل
کامیابی کا مدار ایمان اور عمل پر ہے اور ایمان اور عمل کا دروازہ ہر کسی پر کُھلا
ہے… جو چاہے جتنے
خزانے جمع کر لے… کوئی عورت
ہو یا مرد، کوئی گورا ہو یا کالا، کوئی امیر ہو یا مامور، کوئی غریب ہو یا مالدار…
اور اب پانچویں بات سمجھیں…
دنیا کی نعمتوں کو دیکھ کر ایک د وسرے سے حسد نہ کرو…
اس حسد سے خود تمہارا ہی نقصان ہو گا اور تمہاری طرف سے اللہ تعالیٰ پر اعترا ض ہوگا کہ فلاں کو یہ چیز
کیوںدی؟… اور مجھے کیوں نہ
دی؟… اور ان چیزوں کی
تمنا بھی نہ کرو… بلکہ اصل
چیز مانگو… ہاںاصل چیز اور
وہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل…
ارے اللہ تعالیٰ کا’’فضل‘‘ مل گیا تو پھر کامیاب ہو جاؤ
گے… ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے کامیاب، سرفراز، سرخرو…
اور خوش نصیب… یہ ہے اس آیتِ
مبارکہ کا مختصر خلاصہ…
آج بہت سی عورتیں کہتی ہیں…
کاش ہم مرد ہوتیں تو جہاد کرتیں…
آپ ایسا نہ کہیں اور نہ ایسا سوچیں…
مالک نے آپ کو ’’عورت‘‘بنایا ہے اسی پر خوش خرم اور راضی رہیں…
اور عورت ہو کر ایمان اور عمل کے ذریعہ کامیابی حاصل کریں…
مرد ہونا کونسی کامیابی کا مدار ہے؟…
پرویز مشّرف بھی مردہے…
توبہ، توبہ… کس قدر نجاست،
غلاظت، خباثت، رذالت، جہالت، حماقت اور شرارت کا مجموعہ ہے…
آج کل لاوارث سیاستدانوں اور لالچی کالم نویسوں پر نوٹوں کی بارش کر رہا ہے کہ…
اُس کی واپسی کا راستہ صاف کریں اور وہ حکومت میںآکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا
اعلان کرے… لوگوں کی سوچ بھی
عجیب ہے… گھر میں بیٹا
پیداہو تو خوشیاںمناتے ہیں اور بیٹیاں زیادہ ہوجائیں تو پریشان ہو جاتے ہیں…
بالکل غلط سوچ ہے… اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے محبوب پیغمبر صلی اللہ
علیہ وسلم کو ’’بیٹیاں‘‘ عطاء فرمائیں…
بس معاملہ ہی ختم ہو گیا…
ہاںبیٹے بھی عطاء فرمائے مگر بچپن میں واپس لے لئے…
’’رب حکیم‘‘ کا کوئی کام ’’حکمت‘‘ سے خالی نہیں…
عورتیںشکوہ کرتی ہیں کہ مرد اُن پر ظلم کرتے ہیں…
میں نے کافی غور کیا توسمجھ میں آیا کہ عورتوں پر اصل ظلم عورتیں ہی کرتی ہیں…
بیٹے کی خواہش مرد کو اتنی زیاد نہیں ہوتی جتنی عورت کو ہوتی ہے…
یعنی عورت ہی عورت کو نہیں جننا چاہتی…
پھر ساس اور بہو کی ’’جنگ عظیم‘‘ یہ بھی عورتوں کے درمیان ہوتی ہے…
نند اور بھابھی کی ’’جنگ عظیم دوم‘‘ یہ بھی عورتوں کے درمیان کا معاملہ ہے…
خیر چھوڑیں اس معاملہ کو…
بات یہ ہے کہ اگر آپ عورت ہیں تو بھی مردوںسے زیادہ جہاد کی خدمت کر سکتی ہیں…
اپنے بیٹے اور بھائی کو تیار کر کے، اپنے خاوند کے لئے راہ جہاد میں آسانی کر کے…
اپنا مال خرچ کر کے… اپنی
دعوت، دعاؤں اور محنت کے ذریعہ…
بہرحال سعادت اور کامیابی کاراستہ…
ہر عورت اور ہر مرد کے لئے کُھلا ہے…
ہر غریب اور ہر امیر کے لئے کُھلا ہے…
بس دل کو دنیا کی خواہشات سے پاک کرنے کی ضرورت ہے…
یہ ٹھیک ہے کہ ہم دنیا میں قارون اوربل گیٹس جتنی دولت جمع نہیں کر سکتے…
تو پھر اس میں نقصان ہی کیا ہے؟…
وہ دونوں کونسے کامیاب ہیں؟…
اور اتنی دولت کا فائدہ ہی کیا ہے؟…
ہاں یہ ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ کلمہ طیبہ …
اخلاص کے ساتھ پڑھیں… یہ اصل
دولت ہے اس سے ہمیں کون روک سکتا ہے؟…
ہم خوبصورت ہوں یا نہ ہوں، ہم لوگوں میں مقبول ہوں یا نہ ہوں…
کیا فرق پڑتا ہے؟… مائیکل
جیکسن لوگوں میں کتنا مقبول تھا…
خبروں میں آیا ہے… مرنے سے
پہلے اُس نے برطانیہ میں جو’’شو‘‘ کرنا تھا اُس کے تمام ٹکٹ کئی ہفتہ پہلے فروخت
ہو چکے تھے… لاکھوں لوگ اُس
کے دیوانے تھے… لاکھوں نہیںشائد
کروڑوں… مگر جب مرا تو
قبر میں کتنے لوگ ساتھ گئے؟…
پیسہ اُس کے پاس بے شمار تھا مگر اُس کا ڈاکٹر کہتا ہے کہ…
ایک لاکھ چالیس ہزار ڈالر کا ایک بل آیا اور کروڑوں کا مالک مائیکل جیکسن سخت
ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو گیا…
یہ مال کی محبت بھی عجیب طرح کی ذلّت ہے…
یا اللہ ہمیں، ہماری آل اولاد، اقرباء اور تمام ساتھیوں
کو اس ذلت سے بچائیے… مائیکل
جیکسن جو اپنے ایک گانے کی فیس کروڑوں ڈالر میں لیتا تھا صرف ایک لاکھ چالیس ہزار
کے بل پر اتنے سخت ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو ا کہ نیند اُڑ گئی…
ڈاکٹر کہتا ہے کہ جیکسن مجھ سے التجا کر رہا تھا کہ مجھے کسی طرح چند لمحوں کے لئے
سُلا دو… اور پھر سکون کی
بہت طاقتور دوائی کی پوری شیشی حلق میں انڈیلی…
اور کہانی ختم…
ع ہوئے نام ور بے
نشاں کیسے کیسے
اس لئے حکم دیا
گیا کہ… ان دنیاوی چیزوں
کی تمنا نہ کرو… جو عورت ہے وہ
عورت رہتے ہوئے کامیابی کا راستہ ڈھونڈے اور جو مرد ہے وہ مرد رہتے ہوئے کامیابی
کی راہ تلاش کرے… جو غریب
ہے وہ مالداروں سے حسد نہ کرے…
اسی غربت میں کامیابی تلاش کرے اور غربت میں کامیابی آسان ہے…
اورجو کم مقبول ہے وہ لوگوں میںمقبولیت کی فکر نہ کرے کہ اس سے کچھ ہاتھ نہیںآتا…
بلکہ اس گمنامی میں کامیابی کا راستہ ڈھونڈے…اورکامیابی
اللہ تعالیٰ کے دین میں ہے…
اور دین نام ہے ’’حکم اللہ ‘‘ اور
’’طریقۂ رسول اللہ ‘‘ کا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ
تھوڑا سا سوچیں…
اور جھوم جھوم کر اپنے رب کا کلمہ پڑھیں کہ اُس نے بے کار چیزوں کومہنگا فرما دیا…
اور کامیابی والی چیزوں کو سستا فرما دیا…
پانچ کلو سونا ایک چڑیا کی بھوک نہیں مٹا سکتا اور ایک گلاس پانی کسی بادشاہ کو
بھی سیراب اور تروتازہ کر دیتا ہے…
پانچ کلو سونا مہنگا ہے یا ایک گلاس پانی؟…
گورا ہونا، خوبصورت ہونا، مقبول ہونا یہ سب کچھ کسی کام آنے والا نہیں…
مگر حُسن اور شہرت کی خاطر لوگ کیا کیا پاپٹر بیلتے ہیں…
جبکہ کلمہ طیبہ، نمازاورجہاد جیسی عظیم الشان نعمتیں…
جی ہاں پہاڑوں سے اونچی…
نہیں نہیں آسمانوں سے بھی اونچی نعمتیں…
اللہ پاک نے سب کے لئے عام فرمادیں…
مالدار کروڑوں کی جائیداد کے باوجود نماز سے محروم…
وہ ایک رکعت نہیں خرید سکتا…
اور اپنی ساری دولت دے کر ایک تکبیر تحریمہ کا اجر نہیں خرید سکتا…
جبکہ ایک فقیر… چاہے تو ساری رات
نماز ہی نماز… نماز ہی نماز…
سبحان اللہ عشق کے سجدے…
واہ نماز، آنکھوں کی ٹھنڈک…
اور ہر مسئلے کا حل… جتنی مرضی
پڑھو… نہ عورتوں کے لئے
رکاوٹ، نہ مردوں کے لئے رکاوٹ…
نہ کالے کے لئے رکاوٹ، نہ گورے کے لئے رکاوٹ…
نہ مالدار کے لئے رکاوٹ، نہ غریب کے لئے رکاوٹ…
پھر لوگ کیوںبات بات پر اللہ تعالیٰ سے’’مایوس‘‘ ہو بیٹھتے ہیں؟…
ویسے کچھ لوگ بھی طوطے کی طرح رٹی رٹائی باتیں یاد کر لیتے ہیں اور لوگوں کو مایوس
کرتے ہیں… استغفار کی مہم
چلی بہت سے لوگوں نے ماشاء اللہ بہت کمایا…
گزشتہ دوبار کی ڈاک پڑھ کر میرادل خوشی سے سرشار ہو گیا…
عمل کے میدان میں آج کل خواتین، مردوں سے آگے ہیں…
ماشاء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ …
مگر کچھ لوگ کہتے ہیں… زبان سے
استغفار پڑھنے سے کیا ہوتا ہے؟…
پھرتصوف کی کتابوں سے بزرگوں کے کچھ اقوال لاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ…
اس طرح استغفار سے کچھ نہیں ملتا…
ارے بھائیو! حضرات صوفیاء کے اقوال اور احوال کو سمجھنے کے لئے بہت بڑا ظرف چاہئے…
اور یہ اقوال اور احوال عمل سے روکنے کے لئے نہیں بلکہ خواص کے معیار کو اونچا
کرنے کے لئے ہوتے ہیں… کہ جب تک
تمام گناہ نہ چھوڑ دو استغفار سے کچھ نہیں ملتا…
میرے بھائیو! اور بہنو!…
استغفار سے بہت کچھ ملتا ہے…
اور صرف زبان سے ہی استغفار کرو تب بھی ضائع نہیں جاتا…
وہ بھی بہت سے فضول کاموں سے بہت افضل ہے…
اور استغفار کے یہ قطرے بالآخر پتھروں میں بھی شگاف ڈال دیتے ہیں…
ہاں یہ سچ ہے کہ دل سے جو عمل کیا جائے اس کی قوت اور طاقت بہت زیادہ ہے…
مگر یاد رکھیں! دل بادشاہ سہی…
مگرکان، آنکھ اور زبان دل کے جاسوس ہیں…
اور بادشاہ اپنے جاسوسوں کی باتیںمانتے ہیں…
زبان کلمہ پڑھتی رہے بالآخر دل بھی پڑھنے لگے لگا…
زبان استغفار پڑھتی رہے بالآخر دل بھی توبہ توبہ کرنے لگے گا…
کوشش کریں کہ ہر عمل اورعبادت دل کی توجہ سے ہو…
لیکن اگر توجہ نہیں بنتی تو پریشان نہ ہوں…
اپنا ورد، اپنا وظیفہ اور اپنا عمل پورا کریں…
ان شاء اللہ بہت فائدہ ملے گا…
بات شروع ہوئی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے…
اس بارے میںقرآن پاک کی آیت مبارکہ تو آپ نے سمجھ لی…
اب ترمذی کی ایک روایت بھی پڑھ لیں…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
{سلوا اللہ من
فضلہ فان اللہ یحب ان یسئل وافضل العبادۃ انتظار الفرج}(ترمذی
ابواب الدعوات)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ سے اُس کے ’’فضل‘‘ کا سوال کرو بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ اُن سے
مانگا جائے… اور افضل عبادت
کشادگی کا انتظار ہے…
حدیث پاک میں پہلا
حکم تو وہی ہے کہ… اللہ تعالیٰ سے اُس کے فضل کا سوال کیا کرو…
آئیے پہلے اس حکم کو پورا کریں…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّا نَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ
یا اللہ ! ہم آپ سے آپ کے فضل کا سوال کرتے ہیں…
دوسری بات
حدیث شریف میں یہ ہے کہ…
اللہ تعالیٰ کو یہ بات محبوب ہے کہ اُس کے بندے اُس
سے سوال کریں… اور دعاء کریں…
اور تیسری بات یہ
ہے کہ… اچھے حالات کا
انتظار افضل عبادت ہے… مطلب یہ
ہے کہ لوگ کسی چیز کی ایک دو بار دعاء مانگتے ہیں اور پھر مایوس ہو کر دعاء مانگنا
بند کر دیتے ہیں کہ قبول نہیں ہوئی…
ارشاد فرمایا کہ… اچھے
حالات کا انتظار کرنا، دعاء کے قبول ہونے کا انتظار کرنا…
تنگی اور مصیبت کے دور ہونے کا انتظار کرنا …
بُرے حالات کے ختم ہونے کا انتظارکرنا…
اور آزمائش کے خاتمے کا انتظار کرنا…
یہ افضل عبادت ہے… یعنی جتنا
عرصہ دعاء قبول نہیں ہوگی وہ تمام عرصہ عبادت میں لکھا جائے گا…
اور عبادت بھی معمولی نہیں بلکہ افضل عبادت …
اس لئے دعاء بھی مانگتے رہو کہ وہ بھی عبادت …
پھر اس کی قبولیت کا انتظار کرتے رہو کہ وہ بھی عبادت…
اور اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھو کہ وہ بھی عبادت…
ہمارے قابل احترام دوست اور مسلمانوں کے محبوب مجاہد جناب ملّا فضل اخوند نے بارہ
سال تک کشادگی اور اچھے حالات کا انتظار کیا…
اور بالآخر جہاد کی برکات کے پھل پکنا شروع ہوئے…
اور آج ہم نے اُن کی رہائی کی خبر بھی سن لی…
اللہ کرے یہ خبر سچی ہو…
اللہ تعالیٰ تمام اسیرانِ اسلام کو باعزت رہائی عطاء
فرمائے… وہ جہاں بھی ہوں
اور جس کی قیدمیں بھی ہوں…
کسی کو ان کی خبر ہو یانہ ہو…
غیروں نے اُن کو پکڑ رکھاہو یا اپنوں کے ہاتھوںستم رسیدہ ہوں…
اللہ تعالیٰ اُن سب کو جانتا ہے…
وہ راہِ وفا کے بندھے ہوئے وفادار اور مسجد عشق کے معتکف ہیں…
وہ ظاہری طور پر بے بس مگر آخرت کے بادشاہ اور برکتوں کے نزول کاذریعہ ہیں…
وہ اُمتِ مسلمہ کا فخر اور راہ جہاد کا قیمتی اثاثہ ہیں…
یا اللہ اُن سب پر اپنا’’فضل‘‘ فرما، اُن سب کو باعزت
رہائی عطاء فرما… اور اُن
کے پیچھے اُن کے اہل خانہ، والدین اور اولاد و اقارب کی حفاظت، اعانت، نصرت اور
کفالت فرما… اور ان اسیران
اسلام کے مثالی عمل اور قربانی کو قبول فرما…
آمین یا ارحم الراحمین……
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (332)
رُخ کِدھر ہے؟
انبیاء
کی بعثت کا مقصد کای تھا؟
بندوں کی رخ ان کے
خالق کی طرف ہو جائے!
دل کا اللہ تعالیٰ
کی طرف متوجہ ہو جانا ہر کامیابی کی کنجی…
کلمہ وہی مقبول…
جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو…
نماز وہی مقبول…
جس میں رخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو…
جہاد وہی طاقتور…
جس میں دل کا رخ اللہ کی طرف…
وہ دل پہاڑوں سے
زیادہ مضبوط، صحراؤں سے زیادہ وسیع، سمندر سے زیادہ گہرا اور آگ اور ہو اسے
زیادہ طاقتور ہے… جس کا رخ
اللہ تعالیٰ کی طرف ہو…
انسان کے لئے پہلا
سبق بھی یہی اور آخری سبق…
بھی یہی کہ دل کا رخ اللہ کی طرف ہو جائے…
یہی: لا الہ الا
اللہ… ہے اور اسی میں
کامیابی…
زندگی کا اہم ترین
راز سمجھنے والی، معرفت کے نور سے لبریز…
خوبصورت تحریر…
تاریخ اشاعت
۱۸صفر؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۲جنوری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۲)
رُخ کِدھر ہے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب پرا پنی رحمت کی نظر فرمائے…
ہوشیار! القلم پڑھنے والو! میں سب سے بڑا نام لکھ رہا ہوں …
ش،ش،ش… واہ کتنا مزہ
آیا آئیں پھر پڑھتے ہیں ش،ش،ش…
ارے بھائیو! اور بہنو! پہلے وہاں فیصلہ ہوتا ہے پھر اُن کا نام دل اور زبان پر
آتا ہے ش،ش،ش… اور جب ہمیں اُن
کا نام لینے کی اجازت اور توفیق ملتی ہے تو وہاں اُن کے ہاںہماراذکر ہوتا ہے…
آہ! کتنی عظیم رحمت اور کتنا عظیم احسان…
آؤ! ڈوب کر پڑھیں… ش،ش،ش…
ایک بات دل میں بٹھا لیں کہ جس کا رُخ ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کی طرف ہو گیا وہ کامیاب ہے…
جی ہاں رُخ ، توجّہ یعنی دل…
جگر مرحوم نے فرمایا تھا ؎
کامل رہبر، قاتل
رہزن
دل سا دوست نہ دل
سا دشمن
دل اگر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے تو پھر یہ ’’کامل
رہبر‘‘ ہے… اور اگر اللہ تعالیٰ سے کٹ جائے تو ’’قاتل رہزن‘‘ ہے…
واقعی دل جیسا نہ کوئی دوست، نہ کوئی دشمن…
آئیے دل کی گہرائی سے…
دل کو سب سے کاٹ کر، ایک ذات سے جوڑ کر پڑھتے ہیں
اللہ ، اللہ ، اللہ …
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ …
سب سے بڑا
نام اُس کا جو سب سے بڑا…ش،ش،ش…
سب سے پیارا نام اُس کا جو سب سے پیارا…
ش،ش،ش… سب سے اونچا نام
اُس کا جو سب سے اونچا…
اللہ ، اللہ ، اللہ …
لاالہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ …
آج سچ سچ
ایک بات بتائیں!… آپ کا
’’رُخ‘‘ کس کی طرف ہے؟…
گاڑی کا جدھر رُخ
ہوتا ہے… اُدھر ہی دوڑتی
اور بھاگتی ہے… انجن بھی اُسی
طرف زور لگاتا ہے اور پہیے بھی اُسی طرف گھومتے ہیں…
تھوڑا سا سوچیں کہ میرا اورآپ کا رُخ کس طرف ہے؟…
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساری دنیا کے کفرکو للکار کر فرمایا تھا…
میں نے اپنا رُخ اُس اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمان و زمین
کو پیدا فرمایا… اور میں نے اُس
کے سوا ہر طرف سے اپنا رُخ ہٹا لیاہے اور میں مشرک نہیں…
تب اللہ تعالیٰ نے اُن کی لاج رکھی…
ہاں بھائیو! اور بہنو!…
جس کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جائے تو اس کی ناکامی کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا… موٹروے پر
جس گاڑی کا رُخ لاہور کی طرف ہو وہ لاہور پہنچتی ہے…
اور جس کارُخ اسلام آباد کی طرف ہو وہ اسلام آباد پہنچ جاتی ہے…
آپ جانتے ہیں گاڑی کا رخ اگر منزل کی طرف ہو…
پھر وہ تیز چلے یا آہستہ…
کبھی خراب ہو کبھی ٹھیک…
بالآخر منزل تک پہنچ ہی جاتی ہے…
لیکن اگر رُخ ہی غلط طرف ہو گیاتو جتنا تیز چلے…
کامیابی اور منزل سے دور ہی ہوتی جائے گی…گاڑی
کمزور چیز ہے… مگردل تو پہاڑوں
سے زیادہ مضبوط … صحراؤں
سے زیادہ وسیع اور سمندر سے زیادہ گہرا…
اور آگ اور ہوا سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے…کب؟
جب اس کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جائے…
تب اس کے لئے فاصلے سمٹ جاتے ہیں، لوہا پگھل جاتا ہے اور آگ اس کے قابو میں
آجاتی ہے…
ش…ش…ش
حضرات
انبیاء علیہم السلام کی محنت کا خلاصہ کیا ہے؟…
بندوں کا رُخ اُن کے خالق کی طرف ہوجائے…
جی ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف …
یہی پہلا
سبق ہے اور یہی آخری سبق …
اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو…
ہاں دل کے یقین کے ساتھ…
’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کہہ دو…
یعنی سب سے کٹ کر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف اپنا رُخ موڑ لو…
کامیاب ہو جاؤ گے… اگر کسی
کے دل کا رُخ اللہ تعالیٰ سے ہٹ جائے…تو
ایسا دل موم سے بھی زیادہ کمزور ہوجاتا ہے…
کوئی لڑکی پر مر رہا ہے تو کوئی لڑکے پر…
توبہ ، توبہ ، توبہ…یا اللہ پستی میں گرنے سے بچا…
ارے بھائیو! اور بہنو! اپنا دل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کونہ دو…
کسی کو دیا تو وہ کھا جائے گا…
انسان گوشت خور ہوتے ہیں…
ارے کسی کو دیا تو وہ پھینک دے گا…
انسان نا قدرے ہوتے ہیں…
قرآن پاک نے سمجھا دیا کہ…
جو اپنا دل ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کو دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اُن کو اندھیروں سے نکال کر…
نور اور روشنی میں لے آتا ہے…
سکون ہی سکون… مزے ہی مزے…عزت،
غیرت اور شان… نہ کسی کی محتاجی…
اورنہ آگے کا کوئی غم…
ارے دنیا بھی ہمارے ’’یار‘‘ کی اورآخرت بھی ہمارے’’یار‘‘ کی…ش،ش،ش…
اور اگر دل… اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو دے دیا تو وہ روشنی سے
گھسیٹ کر اندھیروں میں جا پھینکے گا…
جی ہاں گھٹا ٹوپ اندھیرے…
دنیا بھی ناکام اور آخرت بھی ناکام…
اس لئے آج اپنے دل سے پوچھ لیں کہ…
تیرا رُخ کس طرف ہے؟… اللہ تعالیٰ کی طرف یا دنیا کی طرف؟…
محبوب حقیقی کی طرف یا کسی فانی کی طرف؟…
قرآن پاک اعلان فرماتا ہے…
سب سے اچھی بات اُس کی ہے جو ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کی طرف بلائے…
آج میں اور آپ ، خود اپنے ساتھ یہ اچھی بات کر ہی لیں…
اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں…
ش،ش،ش…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ …
قرآن پاک
اعلان فرماتا ہے… اے لوگو!
دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف …ہاںدوڑو،
دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف…
اور اُدھر سے اعلان ہوتا ہے اے میرے بندے! تو اگر ہماری طرف چل کر آئے گا توہم
تیری طرف دوڑ کر آئیں گے…
اے نبی فرما دیجئے… میرا اور
میری اتباع کرنے والوں کا راستہ یہی ہے کہ ہم ’’ اللہ تعالیٰ‘‘کی طرف بُلاتے ہیں…
اے بندو! ا پنا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر لو…
کامیاب ہو جاؤ گے…
پس آج کی
مجلس کو بہت قیمتی بنا لیں…
اور اپنا رُخ سیدھا کر لیں…
سب سے پہلے’’ اللہ ‘‘ …
سب سے اونچا’’ اللہ ‘‘…
سب سے محبوب ’’ اللہ ‘‘…
اور ہمارا معبود… صرف اور
صرف ’’ اللہ ‘‘… اپنی ذات کا بُت…
عزت اور شہرت کے شوق کا بُت…
مال بنانے اور جوڑنے کا بُت…
اور اس دنیا میں عیش و آرام پانے کابُت…
ہم میں سے کئی کا رُخ صرف اپنی ذات کی طرف ہے…
توبہ، توبہ، توبہ… ایک گندے
قطرے سے پیدا ہونے والا انسان…
ہر وقت گندگی اور غلاظت کو اٹھائے پھرنے والا انسان…
غبارے کی طرح کمزور انسان…
مگر پھر بھی ’’انا‘‘ کا بُت…
خود کو بڑا سمجھنا اور صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کرنا…
توبہ، توبہ، توبہ… اور ہم
میں سے بہت سوں کا رُخ دنیا کی طرف ہے…
ہاںاس فانی دنیا کی طرف…
جس کے ایک ایک ذرّے سے مرُدہ لاشوں کی بو آتی ہے…
بادشاہ مرگئے، وزیرمر گئے…
مالدار ، جاگیردار، بڑے بڑے سردار سب مر گئے…
ہم اُن کے جسموں کی مٹی پر چلتے ہیں…
مگر پھر بھی نہ عبرت، نہ خوف…
صبح شام دنیا کی فکر… ہائے
پیسہ، ہائے کوٹھی، ہائے جاگیر…
اولاد، ماں باپ کی دشمنی…
وجہ، پیسہ… ماں باپ، اولاد
کی دشمنی، وجہ پیسہ… بھائی،
بھائی کا قاتل وجہ مال اوردنیا…
معلوم نہیں ہم نے
کِس کِس کو اپنا رازق سمجھ رکھا ہے…
فلاںروٹھ گیا تو روزی کا کیا ہوگا؟…
فلاں مر گیا تو روزی کا کیا ہوگا؟…
توبہ،توبہ، توبہ… جو خود
اپنی جان کے مالک نہیں وہ ہمارے ’’رازق‘‘ کیسے بن سکتے ہیں؟…
افسوس کہ مسلمانوں کارُخ غلط طرف مُڑ گیا…
ایک شخص اپنے گھر جا رہا ہو…
مگر اچانک اُس کا رُخ دشمنوں کے علاقے کی طرف ہو جائے…
اس شخص کا انجام کیا ہوگا؟…
ہاں تھوڑی ہی دیر میں زمین بھی اس کا تماشہ دیکھے گی…
اور آسمان بھی اس کی چیخوں کو سنے گا…
مجاہدین کا ایک گروپ مقبوضہ کشمیر میںسفر پر تھا…
ایک مجاہد تھک کر گِر پڑا اور بے ہوش ہو گیا…
اُسے اٹھانے، جگانے کی بہت کوشش کی مگرنہ اُٹھ پایا…
اپنے ساتھ اٹھا کر لے جانے کا انتظام نہ تھا…
بالآخر مجبوراً اس کو چھوڑ دیا اور اسلحہ ساتھ رکھ دیا…
قافلہ چلا گیا اس اکیلے مجاہد کو ہوش آیا اور وہ اندازہ لگا کر چلنے لگا…
مگر اُس کا اندازہ غلط نکلا اور رُخ انڈین آرمی کے کیمپ کی طرف ہو گیا…
بس پھر کیا تھا؟… تھوڑی ہی
دیر بعد وہ دشمنوں کے بوٹوں کے نیچے برہنہ پڑا تھا…
کوئی مارتا، کوئی گالیاں دیتا…
کوئی تھوکتا تو کوئی گھسیٹتا…
آہ آج ہم مسلمانوں کا رُخ اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر دنیا کی طرف ہوا تو ہم بے شمار
دشمنوںمیں پھنس گئے… کوئی
ایمان کا ڈاکو، کوئی جان کا ڈاکو…
کوئی عزت کاڈاکو تو کوئی آزادی کا ڈاکو…
ہر چھوٹے سے
چھوٹا دشمن ہم پر طاقتور ہے…
اور ہر مصیبت ہم پر حملہ آور ہے…
کافرہوں، یامنافق، موبائل ہو یا انٹرنیٹ، ٹی وی ہو یا ٹی بی…
فقر و فاقہ ہو یابیماری، ذلت ہویا مسکنت…
ہر کوئی ہم پر شیر ہے… مگر ان سب
کا کیا قصور؟… ہم خود ہی چل کر
ان کے گھیرے میں آئے ہیں…
اب اٹھو، مسلمانو! جلدی اٹھو اور اپنا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر کر دوڑ پڑو، دوڑ پڑو…
ہاں ہاں دوڑ پڑو… ش،ش،ش…
لا الہ الا اللہ ،
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ
بس ہمت کی دیر ہے
اور سب رسیاں ٹوٹ جائیں گی…
اور سارے دشمن منہ دیکھتے رہ جائیں گے…
ہاں! جس دن بلکہ جس لمحے ہمارا رُخ سیدھا ہو گیا…
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گیا…
اُس وقت سے ہمارا’’راستہ‘‘ بھی’’منزل‘‘ بن جائے گا…
اور ہمارے دکھ درد بھی میٹھے ہو جائیں گے…یاد
رکھنا… اللہ تعالیٰ کی طرف رُخ پھیرنے سے ہی ہمیں اصل اور
ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ملے گی…ش،ش،ش…
لا الہ الا اللہ
سنیں،غور سے
سنیں… جس نماز میں
ہمارا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو…
یعنی ہمارا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو…
وہ نماز معراج بن جاتی ہے…
اورایسی نماز ہر مسئلے کا حل ہے… جس
وضو میں ہمارارُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو وہ وضو جسم کے ساتھ روح بھی
دھو ڈالتا ہے… جس جہاد میں
ہمارا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف
ہو وہی جہاد… فرشتوں کو زمین
پر اُتار لاتا ہے اور عالم کفر پر زلزلہ طاری کر دیتا ہے…
وہ صدقہ جس میں ہمارا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو وہ صدقہ اتنا طاقتور ہے کہ…
آسمانوں کے فاصلے چیر ڈالتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ بجھا دیتا ہے…
یہ کیسی نماز کہ کھڑے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہیں اور رُخ اپنی ذات کی طرف ہے
کہ… ہم نیک کہلائیں…
یہ کیسا جہاد کہ نکلے اللہ تعالیٰ کی راہ میں…
اور رُخ اپنی طرف ہے کہ ہمیں یہ ملے اور ہمیں وہ ملے…
یاد رکھنا… وہ ان پڑھ آدمی
جس کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو…
اُس عالم اور علامہ سے بہت اونچا ہے جس کا رُخ دنیا کی طرف مڑچکا ہو…
یا درکھنا… وہ
کمزور اور بے صلاحیت آدمی جس کارُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو…
اُس طاقتور ، باصلاحیت آدمی سے زیادہ ’’کارآمد‘‘ ہے جس کا رُخ عزت، شہرت یا مال
کی طرف ہو… حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف تھا اس لئے ان کا ایک کھجور کا
صدقہ…کسی اور کے پہاڑ
برابر سونا دینے سے بڑھ کر تھا…
اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا کھجوراورکیا سونا؟…
اُس کے ہاںتو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندے کا رُخ کدھر ہے…
اور بندے کی توجہ کِدھر ہے…
وہ دین کا کام بھی وبال جس میں انسان کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو اوروہ دنیا کا کام بھی وبال
جس میں آدمی کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو…
وہ حج بے کار ہے جس میں حاجی کا رُخ…
اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو…
اور بیوی کے منہ میں وہ ایک لقمہ دینا بہت ’’کارآمد‘‘ جس میں خاوند کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو…
حالانکہ حج پر چار لاکھ اور چالیس دن کا خرچ ہے…
اور ایک لقمے میں دوسیکنڈ اور ایک آدھ روپے کا خرچ ہے…
ہاں بے شک اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ ہے…
اوروہی باقی ہے… اورہرچیز فانی…
اُسی کے نام سے ہر چیز قیمتی ہے…
اور اُسی کی مہربانی سے ہر کام ہوتا ہے…
مگر ہم اسے دیکھ نہیں سکتے…
اس لئے ہماری آنکھیں ادھر اُدھر بھٹک جاتی ہیں…
اللہ تعالیٰ پرایمان…
’’ایمان بالغیب‘‘ ہے اور اسی ایمان بالغیب میں کامیابی اور فلاح ہے…
حضرات انبیاء علیہم السلام تشریف لائے…
انہوں نے اپنی دعوت اور اپنے عمل سے انسانوں کو سمجھایاکہ…
اللہ تعالیٰ کی طرف اپنا رُخ پھیر لو…
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب بلقیس کے تخت کو اپنے دربار میں دیکھا تو کیا عجیب
منظر ہوگا… اتنی بڑی اورعظیم
فتح… مگر زبان سے کیا
نکلا… فرمایا!یہ میرے
رب کا فضل ہے… سبحان اللہ !حضرت ایوب علیہ السلام مصیبت میں گِھرے تو
رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم مکہ مکرمہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف…
آج مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے…
کیونکہ اجتماعی طور پر ہمارارُخ غلط راستے کی طرف مُڑ چکا ہے…
سب سے پہلے خود کو دعوت…
لا الہ الا اللہ اور پھر تمام انسانوں کو دعوت لا الہ الا اللہ …
اہلِ سعادت ہمت اور تیاری باندھ لیں…
اسی سلسلے میں ایک مبارک ،پرنور…
پر عزم اور پر جوش ’’مہم‘‘آرہی ہے…
چالیس روزہ’’دعوت ورکنیت مہم‘‘…
باقی باتیں ان شاء اللہ اگلی مجلس میں…
آج کا سبق میرے اور آپ سب کے لئے…
ہم خود کودیکھیں کہ ہمارا رُخ کس طرف ہے؟…
اور پھر اپنے مالک سے، جو دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے…
التجا کریں کہ… ہمارا رُخ صرف
اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجائے…
عقیدے میں بھی، عمل میں بھی، نیت میں بھی،ارادے میں بھی…
نظریات میں بھی…
اور افکار میں بھی… ہمارا رُخ
…یعنی دل کاقبلہ،
دل کی توجہ… صرف اللہ ، صرف اللہ ، صرف اللہ …
ش،ش،ش…
لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اِنِّیْ وَجَّھْتُ
وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآاَناَ مِنَ
الْمُشْرِکِیْن
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (333)
ایک مبارک مہم
دین محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی نصرت ایک اعزاز ہے جسے نصیب ہو جائے…
ایک ایسی مقبول
جماعت کی تاسیس کا تذکرہ…
جسے دنیا بھر نے دبانا چاہا مگر وہ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے…
حکیم الاسلام حضرت
لدھیانوی شہید کی ایک مبارک تحریر اور اس میں امت کے لئے پیغام کی نشاندہی…!
’’دعوت و رکنیت
مہم‘‘ کی ترغیب اور اس کی اہمیت کا تذکرہ…!
جماعت کی چند اہم
اور بنیادی خدمات کا تعارف کرانے والی سبق آموز…
اور عمل پر ابھارنے والی تحریر…
تاریخ اشاعت
۲۵صفر؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۹جنوری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۳)
ایک مبارک مُہم
اللہ تعالیٰ اُن کی نصرت فرمائے جو’’دین محمد
صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی نُصرت کرتے ہیں…
اور اللہ تعالیٰ ہمیں اُن میں شامل فرمائے…
اللہ تعالیٰ اُن کو رسوا فرمائے جو’’دین محمد صلی
اللہ علیہ وسلم ‘‘کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں…
اور اللہ تعالیٰ ہمیں اُن میں شامل ہونے
سے بچائے…
مجھے اُمید ہے آپ
سب حضرات و خواتین یہ دعاء ضرور مانگتے ہوں گے…
نہیں مانگتے تومانگا کریں بہت ضروری اور اونچی دعاء ہے…
عربی الفاظ یوںہیں:۔
اَللّٰھُمَّ
انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍا وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ
خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍا وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ…
آمین
بارہ سال پہلے
انہیں دنوں سردیوں میں جماعت کا اعلان ہو چکا تھا…
دشمنوں کے لئے یہ غیر متوقع جھٹکاتھا…
وہ تو ہمیں زندہ یا کم از کم آزاد دیکھنا نہیں چاہتے تھے…
ملک کی حکومت غیر ملکی دباؤ کے نیچے ہانپ رہی تھی اور جماعت کے اعلان کو روکنے کے
لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی…
گرفتاریاں، چھاپے ، دھمکیاں،ترغیبیں، بُرے نتائج کی وارننگ…
کراچی پریس کلب میں جماعت کا باقاعدہ اعلان ہونا تھا مگرکلب کو بند کر دیا گیا…
پولیس، فوج، بکتربند گاڑیاں اور ناکے…
مگر
وَاللّٰہُ غَالِبٌ
عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
بے شک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے…
وہ غالب ہے غالب… مگر اکثر
لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں ہے…
میں اب بھی سوچتا ہوں کہ اُس دن ہم’’ پریس کلب‘‘ کیسے پہنچے…
اور پھر اعلان کس طرح ہو گیا؟…
واقعی اب تک سمجھ میں نہیںآتا کہ وہ سب کچھ کیسے ہوگیا تھا…
بندہ بھی پہنچ گیا… اور حضرت
شامزئی شہیدرحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مفتی محمد جمیل شہیدرحمۃ اللہ علیہ بھی پہنچ
گئے… بندہ کے رفقاء نے
دیواریںعبور کر کے اندر کا گیٹ کھول دیا…
ہم اندر ایک مسجد میں تھے کہ کراچی کا پولیس سربراہ آیا اور مجھے کہا آپ کی
گرفتاری کا حکم ہے… وہ کافی
ڈرا سہما ہوا تھا… معلوم
نہیں کیوں؟… اُسے مسکرا کر
جواب دیا کہ ضرور گرفتار کرنا مگر پریس کانفرنس کے بعد…
کہنے لگا پریس کانفرنس کی اجازت نہیں ہے…
عرض کیا ہم بغیر اجازت کے ہی کر لیں گے…
وہ چلا گیا اور پریس کلب کی انتظامیہ کو ڈرانے لگا کہ پریس کانفرنس نہیں ہونی
چاہئے… پھر ایک اور پر
اسرار قسم کے صاحب آئے اور کہنے لگے حکومت کے دو اعلیٰ افسر آپ سے ملنا چاہتے
ہیں چلیں اوپر ایک کمرے میں وہ انتظار کر رہے ہیں…
عرض کیا ان کو نیچے لے آئیں…
یعنی ہرکوشش ،ہر سطح پر جاری تھی کہ اعلان نہ ہو…
حکومت کو علم تھا کہ جماعت بن چکی ہے…
مگر وہ چاہتی تھی کہ میڈیا پر اعلان نہ ہو ورنہ وہ دنیا بھر کے کافروں کو اپنا منہ
وغیرہ کس طرح دکھائے گی…
اُس دن ہم نے اللہ تعالیٰ کی اُس نصرت کو اپنے سینے میں محسوس کیا
جسے قرآن پاک نے ’’سکینہ‘‘ کا نام دیا ہے…
اور ’’شرح صدر‘‘ کا مطلب بھی اُس دن اچھی طرح سمجھ میں آیا…
حکومت ہر حربہ استعمال کر کے بے بس تھی اور …
چند غریب فقراء پریس کانفرنس والے کمرے سے چند قدم کے فاصلے پر تھے…
مفتی نظام الدین شامزئی رحمۃ اللہ علیہ تک تو ساتھیوں نے کسی کو پہنچنے ہی نہیں
دیا جبکہ… مفتی محمد جمیل
شہید رحمۃ اللہ علیہ ہر طرح کے شدید دباؤ کو برداشت کر رہے تھے اور توڑ رہے تھے…
بالآخر ہم نے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ پیش قدمی شروع کی راستے کی رکاوٹیں ہٹتی اور
گرتی گئیں جیسے ریت کے گھروندے…
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں تو اور کیا ہے؟…
ہمارا اس میں کیا کمال تھا…
حکومت اگر طاقت استعمال کرتی تو ہم کیا کر سکتے تھے؟…
جنگ کا حکم نہیں تھا کہ لڑتے، بس گرفتار ہو جاتے اور اعلان دب جاتا…
مگر اللہ تعالیٰ کی نصرت جب آتی ہے تو جابروں کی طاقت
خود اُن کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے…
فرعون چاہتا تو اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرادیتا جب آپ اُس کے محل
میں اُسے دعوت دے رہے تھے…
مگر اتنی ہیبت ناک طاقت کے باوجود وہ ایسا نہ کرسکا بلکہ الٹا اپنے پاؤں پر
کلہاڑی مار بیٹھا اور جادو گروں سے مقابلے کا چیلنج دینے لگا…
اور یوں لاکھوں افراد نے فرعون کے بُلائے ہوئے جلسے میں ’’کلیم اللہ ‘‘ کی تجلّیات ، حقانیت اور معجزات دیکھ
لئے… سخت دھکم پیل کے
ساتھ جیسے ہی ہم کانفرنس والے ہال میں داخل ہوئے تو سارا معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا…
ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے سینکڑوں صحافی اپنے آلات کے ہمراہ موجود تھے…
پوراہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا…
اور حکومت ان کیمروں کے سامنے اب کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی…
حضرت مفتی نظام الدین شامزئی رحمۃ اللہ علیہ نے جماعت کا اعلان فرمایا…
صحافیوں کے سوالات کی بوچھاڑ بندہ پر تھی، مفتی محمد جمیل خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ
اس بوچھاڑ کو ٹالتے رہے مگر پھر مجبوراً مجھے جوابات دینے کے لئے کہا…
جمعہ کا دن تھا اور شام تک یہی خبر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر چیخ اور چنگھاڑ رہی
تھی… عالمی رہنماؤں
کے غصیلے تاثرات آرہے تھے اور حکومت پاکستان غم اور غصے کی کیفیت میں تھی…
اگلے ہی دن صبح سویرے بندہ کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے گرفتار کر کے نظر بند کر
دیا گیا… مگر تیر اپنی
کمان سے نکل چکا تھا… آج
الحمدﷲ لاکھوں مسلمان اس جماعت سے دینی اور جہادی فیض حاصل کر رہے ہیں اور اپنی
عاقبت اور اصل زندگی سنوار رہے ہیں…
اور الحمدﷲ ہر آئے دن ان میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے…
ذرائع ابلاغ پر جماعت کے اعلان سے پہلے جب باقاعدہ تشکیل ہو گئی اور جماعت بن گئی…
تو اُسی وقت سے بڑے بڑے اولیاء، صدیقین اور حضرات اکابر نے دل کی گہرائیوں سے
جماعت کے لئے دعائیں فرمائیں…
اوربعض نے تو باقاعدہ جماعت کی بیعت میں شمولیت کا اعلان فرمایا…
انہیں ایام میں ایک دن حضرت حکیم الاسلام حضرت لدھیانوی شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے
ملاقات کے لئے طلب فرمایا…
جامع مسجد باب الرحمت کراچی کے دفترمیں آپ تشریف فرما تھے…
بہت محبت بھری ملاقات ہوئی اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بغیر کسی تقاضے کے فرمایا
ہم آپ کو ایک تحریر دیتے ہیں اُسے اپنے رسالے میں چھاپ دیں…
اس طرح ہمارا بھی حصہ ہو جائے گا…
پھر آپ نے تحریر لکھوائی…
اُن دنوں ہاتھوں میں رعشہ کے عارضے کی وجہ سے تمام تحریری کام ’’اِملا‘‘ کرایا
کرتے تھے… حضرت مفتی محمد
جمیل خان شہیدرحمۃ اللہ علیہ لکھ رہے تھے اور حضرت لدھیانوی شہیدرحمۃ اللہ علیہ
لکھوا رہے تھے… اس طرح سے یہ
تحریر’’ذوالشہیدین‘‘ ہے اور اس تحریر سے جس جماعت کو’’تقویت‘‘ دینا مطلوب تھی وہ
اب ’’ذوالشہداء‘‘ ہے… جی ہاں
سترہ سو سے زائد شہداء کرام کی جماعت…
دل چاہتا ہے کہ القلم کے قارئین بھی یہ مبارک تحریرپڑھیں…
لیجئے ملاحظہ فرمائیے:
بسم اللّٰہ الرحمن
الرحیم
’’اس وقت ہر طرف
انتشار کی کیفیت ہے اور یہ قیامت کی علامات میں سے ہے خاص کر آپ کو اس وقت بہت
زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور طرح طرح کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں مکمل طور پر آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ اپنے ساتھیوں کو
فہمائش کر دیںکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا
مندی کے لیے کام کریں۔ مخلوق پر کوئی نظر نہ رکھیں اور نہ ہی ریاکاری یا دکھاوے کی
نیت ہو۔ کسی سے تعرض یا مجادلہ نہ کریں مثبت انداز میں اپنا کام جاری رکھیں۔ علماء
حق سے وابستہ رہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ اپنے احباب کے
مخلص اور ذی رائے حضرات کی ایک مجلس شوریٰ تشکیل دے دیں اور مشاورت سے جہاد کا کام
جاری رکھیں۔ میں خود بھی جلد افغانستان کی اسلامی حکومت کے علماء کرام اور امیر
المؤمنین ملا عمر کی زیارت کے لیے افغانستان کا سفر کروں گا۔ میری دعاء ہے کہ
اللہ تعالیٰ جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب و کامران فرمائے۔
آمین‘‘
والسلام
اس تحریر سے
آپ اُس شرح صدر کا اندازہ لگالیں جو…
وقت کے اتنے مقبول، مستند اور عظیم مفکر اور عالم دین کو ’’جماعت‘‘ کے بارے میں
عمر کے آخری حصے میں نصیب ہوا…
پھر یہی نہیں بلکہ حضرت نے بندہ کو حکم فرمایا کہ جمعہ میری مسجد میں آپ نے
پڑھانا ہے… حضرت نے اس جمعہ
کے لئے علماء کرام کو خود اپنی طرف سے دعوت نامہ جاری فرمایا…
ماشاء اللہ اُس دن پوری مسجد جید علماء کرام سے بھری ہوئی
تھی… کیا صحن اور کیا
چھتیں باہر تک افراد ہی افراد تھے…
اور پھر اچانک حضرت نے اٹھ کر سب کے سامنے بیعت کا اعلان کیا تومسجد…
نعروںاور جذباتی آہ و بکا سے گونج اٹھی …
بس آنسو ہی آنسو تھے اور ایمانی جذبات کا دریا تھا جو ٹھاٹھیں مار رہا تھا…
اس کے چند دن بعد ایک ملاقات میں…
ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا میں نے رسمی بیعت نہیں کی…
جہاں بھیجنا چاہو بھیج دو اور دیکھنا میں بسترپر نہیں مروں گا…
بے شک انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سچ بولا…
اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو سچا فرمادیا…
بات اگر ’’بشارتوں‘‘ کی طرف نکل گئی تو بہت لمبی ہو جائے گی…
ویسے بھی اس زمانے میںخوابوں اور بشارتوںکا معاملہ کافی خلط ملط سا ہو گیا ہے…
مگر ان حضرات اہل اللہ کا شرح صدر، نیک تمنائیں اور مقبول دعائیں…
الحمدﷲ رنگ لائی ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اس جماعت سے ’’
نصرتِ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کا مبارک کام لیا ہے…
مگر یہ کام اتنا بڑا ہے کہ ہم جس قدر بھی کر لیں وہ تھوڑا ہی رہے گا اور یہ بھی سچ
ہے کہ ہمیں جس قدر محنت کرنی چاہیے تھی…
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم اُتنی محنت نہیں کرپائے…
ورنہ ایک جماعت کے لئے اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ…
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لوگ اُس کی بات سنتے ہوں…
ہاںواقعی سنتے ہیں… جماعت
کوئی بڑی دعوت اٹھائے یا چھوٹی ماشاء اللہ
لاقوۃالا ب اللہ …جو
دعوت بھی اللہ تعالیٰ کی خالص رضا کے لئے اٹھائی گئی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قلوب کو اُس کی طرف متوجہ
فرمایا… سب سے سخت اور
بڑی دعوت اپنی جان شہادت کے لئے پیش کرنے کی ہے…
مسلمان ماشاء اللہ بہت والہانہ شوق کے ساتھ اس دعوت کو قبول کر رہے
ہیں… ابھی میرے سامنے
جو ڈاک رکھی ہے اس میں آٹھ خطوط ہیں تاکید کے ساتھ اس تشکیل کی درخواست ہے…
درود شریف کی طرف دھیان دلایا گیا تو الحمدﷲ آج ہزاروں، لاکھوںافراد روزآنہ کم
از کم ایک ہزار بار درود شریف اپنی زندگی کا پختہ معمول بنا چکے ہیں…
یہ بھی بڑا کام ہے مگر جان دینے سے بہت آسان…
آج کی ڈاک میں کسی نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے ستر لاکھ درودشریف کر لیا ہے اور
ایک کروڑ تک جلد پہنچنا چاہتے ہیں…
اقامتِ صلوٰۃ کی بات اٹھی تو ہزاروںمسلمانوں نے قبول کی…
اُمت کے کئی قیمتی افراد جو دیندار کہلانے کے باوجود نماز کی حقیقت اور اقامت سے
محروم تھے… آج وہ نماز کے
نور سے مالا مال ہیں… اور اب
ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد سامنے ہے جو تکبیر اولیٰ کے چلوں پر چلے کر رہی ہے…
ماشاء اللہ لا قوۃ الا ب اللہ …
اور پھر سب سے زیادہ نفع مسلمانوں نے کلمہ طیبہ اور استغفار مہم سے اٹھایا…
یقینا ان دو مہمات سے جو فوائد، ثمرات اور نتائج سامنے آئے ہیں…
اُن کو بس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی کہا جا سکتا ہے…
انسانی طاقت میں تو یہ سب کچھ ہو ہی نہیں سکتا…
ہمارے ہاں کار گزاری محفوظ رکھنے، سنانے اور چھاپنے کا نظام نہیں ہے…
ورنہ ان دو مہمات پر آنے والے تأثرات اگر کتابی صورت میں شائع کر دیئے جائیں تو
مزید لاکھوں مسلمانوں کو فائدہ ہو…
ایک وقت تھا کہ پورے ملک میں’’قادیانی ملعون‘‘ کا یہ جرثومہ پھیل چکا تھا کہ…
جہاد کا لفظ زبان پر آتے ہی آٹو میٹک مشین چل پڑتی تھی…
جہاد کی اقسام یہ بھی جہاد ہے وہ بھی جہاد ہے…
اور یوں اس ڈھول میں میرے آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ستائیس غزوات
اورمیرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے خون مبارک کی قربانی والا جہاد
بالکل گُم کر دیا گیا تھا…
لوگ’’وضو‘‘ کا معنیٰ واضح سمجھتے تھے کہ’’وضو‘‘ کیا ہے…
سنت مسواک کا مطلب واضح سمجھتے تھے کہ مسواک کسے کہتے ہیں…
حالانکہ وضو کے بارے میں قرآن پاک میں چند ایک آیات ہیں…
اور مسواک کا قرآن پاک میں تذکرہ تک نہیں…
مگر وہ جہاد جسے قرآن پاک کی سینکڑوں آیات میںصراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان
فرمایا گیا ہے… اُس کا جب نام
لیا جاتا تو ایسی تشریح سامنے آتی کہ گویا جہاد کوئی چیز ہی نہیں ہے…
یا ہر چیز جہاد ہے… حلال
کماناجہاد، روٹی کھانا جہاد، لکھنا جہاد، پڑھنا جہاد وغیرہ وغیرہ …
یوں مسلمان قرآن پاک کے اتنے بڑے حصّے اور فریضے سے ناواقف تھے…
اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو توفیق دی اور اُس نے تین
لفظوں میں جہاد کا عقیدہ اُمت کے سامنے رکھ دیا…
اور ساتھ ہزاروں صفحات کے دلائل…
اور سینکڑوں بیانات کی کمک دے دی…
آج ماشاء اللہ لاکھوں مسلمان قادیانی جرثومے سے پوری طرح پاک
ہو چکے ہیں… اور وہ قرآن پاک
کا انکار کرنے کے جرم عظیم سے بچ گئے ہیں…
بات یہ عرض ہو رہی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ بات سُن رہے ہیں تو پھر…
محنت میں کمی اور سستی یقینا ایک طرح کا جُرم ہے…
اسی کوتاہی کے ازالے کے لئے ان شاء اللہ چالیس دن کی مہم آرہی ہے…
دعوت و رکنیت مہم… ان شاء اللہ خوش نصیب ہوں گے وہ جو اس مہم میں پوری جان لڑا
کر… دین محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی نصرت کریں گے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا
اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (334)
قافلہ چل پڑا
ایک ایسے قافلے کا
تذکرہ جو زمانے کی چال پر قابو پانے والا ہے…
اس قافلے کا یقین…
لا الہ الا اللہ… شعار
اقامت الصلوۃ… اور راستہ جہاد
فی سبیل اللہ ہے…
ایمانی ہمت،
ایمانی جذبہ اور ایمانی بجلی کتنی بڑی طاقت ہے…؟
’’غرباء‘‘ کون ہیں…
اور ان کے لئے کیا خوشخبری ہے؟
مایوسی اور کم
ہمتی کے پردے چاک کرنے والی…
اور ایمان و جہاد والے با ہمت قافلے سے جوڑنے والی پر جوش تحریر…
تاریخ اشاعت
۳ربیع الاوّل؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۷جنوری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۴)
قافلہ چل پڑا
اللہ تعالیٰ نے
’’انسان‘‘ کو زمین پر اپنا’ ’خلیفہ ‘‘بنا کر بھیجا…
اور اسے علم، قوت، ہمت اور صلاحیت کے بڑے بڑے خزانے عطاء فرمائے…
تھوڑا سا سوچیں ’’ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ‘‘، اللہ تعالیٰ کا نائب اللّٰہ
اکبرکبیرا… زمین تو بہت
چھوٹی سی جگہ ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی قوت عطاء فرمائی ہے کہ
یہ’’جنت‘‘ کو بھی فتح کر سکتا ہے…
آپ جانتے ہیں کہ جنت آسمانوں سے بھی اونچی اور بڑی ہے…
یہاںہم حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی نقل فرمودہ ایک عبارت
پڑھتے ہیں:
وقت کا فاتح
’’بڑوں بڑوں
کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور سروسامان و اسباب کار فراہم نہیں،
لیکن وقت کا عازم و فاتح اٹھتا ہے، اورکہتا ہے کہ اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں
اُس کو ساتھ لوں گا،اگر سرو سامان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے تیار کر لوںگا، اگر زمین
موافق نہیں، تو آسمان کو اُترنا چاہئے، اگر آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو ساتھ
دینا چاہئے، اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہو گئی ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہئے،
اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ؟ درختوں کو دوڑنا چاہئے، اگر دشمن بے شمار
ہیں تو آسمان کی بجلیوں کی بھی کوئی گنتی نہیں، اگر رکاوٹیں اور مشکلیں بہت ہیں
تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہو گیا کہ راہ صاف نہیں کرتے، وہ زمانہ کا مخلوق
نہیں ہوتا کہ زمانہ اُس سے اپنی چاکری کرائے، وہ وقت کا خالق اورعہد کا پالنے والا
ہوتا ہے، وہ زمانہ کے حکموں پر نہیںچلتا بلکہ زمانہ آتا ہے تاکہ اس کی جنبشِ لب
کا انتظار کرے، وہ دنیا پر اس لئے نظر نہیں ڈالتا کہ کیا ہے، جس سے دامن بھر لوں؟
وہ یہ دیکھنے کے لئے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں ہے، جس کو پورا کروں‘‘( پرانے چراغ،
ص۶۰ج۲)
آخری جملے پر بار
بار غور کرنے کی ضرورت ہے…
میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…
اسلام جب آیا تھا
تو اجنبی مسافر کی طرح تھا…
اور پھر ایسا ہو گا کہ یہ اجنبی مسافر کی طرح ہو جائے گا پس خوشخبری ہو مسافرت کے
بے کَسوں کو… ہاں بے شک زمانے
کے فتنے اسلام کی آواز لگانے والوں کو اجنبی، بے کَس مسافر بنا دیتے ہیں مگر یاد
رکھنا یہ مسافر ہار ماننے والا نہیں …
اور یہ اجنبی ہمت ہارنے والا نہیں…
کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے کہ یہ مسافر اپنے پاؤں کے چھالے سنبھالتے ہوئے اعلان کر
دیتا ہے راستہ صاف کرومسافر آرہا ہے…
اورپھر اسلام کی سچی آواز ہر سمت گونجنے لگتی ہے…
بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنے دلوں کو روشن کرنے والا ایک منظر دیکھتے ہیں…
وہ دیکھیں
مکہ کے
بازاروں میں
حضرت طارق بن عبد
اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں(مکہ
کے) بازار’’ذی المجاز‘‘ میں تھا کہ اچانک ایک نوجوان آدمی گزرا جس نے سرخ دھاریوں
والا جوڑا پہنا ہوا تھا اور وہ یہ کہہ رہا تھا اے لوگو!’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کہہ دو کامیاب ہو جاؤ گے…
اور اُس کے پیچھے ایک آدمی تھا جس نے اس نوجوان کی ایڑیوں اور پنڈلیوں کو زخمی کر
رکھا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اے لوگو! یہ جھوٹا ہے اس کی بات مت مانو! میں نے
پوچھا یہ کون ہے؟ کسی نے کہا یہ بنی ہاشم کا نوجوان ہے جو اپنے آپ کو ’’ رسول اللہ ‘‘ بتاتا ہے اور دوسرا آدمی اُس کا چچا
عبدالعزی(ابولہب) ہے۔
دیکھا آپ
نے ہمت کسے کہتے ہیں؟ اور آسمانی مدد زمین پر کیسے اُترتی ہے؟…
کہاں وہ مکہ کا بازار اور کہاں آج ہر چند منٹ پر لاکھوں، کروڑوں مسجدوں کے
میناروں سے بلند ہوتی ہوئی صدا …
لا الہ الا اللہ ،
لا الہ الا اللہ …
ساری دنیا
کا نقشہ سامنے رکھیں اور پھر وقت کے فرق کو دیکھیں…
اس وقت بھی یقیناً کلمہ گونج رہا ہوگا اور اذان بلند ہو رہی ہو گی…
ہاں بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت قوت عطاء فرمائی ہے…
پورا قرآن مجید شروع سے لیکر آخر تک انسان کو کامیابی کی طرف بُلاتا ہے…
اور’’ہمت‘‘ کا سبق پڑھاتا ہے…
یہی’’ہمت‘‘ وہ بجلی ہے جو انسان کے دل اور دماغ میں بھر جائے تو پھر دنیا کی ہر
چیز اُس کی غلام بن جاتی ہے…
پہاڑ اُس کے لئے راستہ چھوڑ دیتے ہیں ، سمندر اُس کی خاطر میدان بن جاتے ہیں،
ہوائیں اُس کے حکم پر طوفان اٹھاتی ہیں اور بادل اُس کے اشارے پر چلتے ہیں…
قرآن پاک کے مناظر کو دیکھو!…
یہ قصہ آدم ح کیا ہے؟…
یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور طوفان…
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرودکی بھڑکتی آگ اور پھر تعمیر کعبہ، یہ حضرت
یعقوب علیہ السلام اور یہ زندان یوسف علیہ السلام …
یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا محو پرواز تخت اور یہ حضرت داؤدعلیہ السلام کے
ہاتھ میں موم بنا لوہا…
ذوالقرنین کی تسخیر عالم تک چلے آئیے…
بات ایک ہی سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’انسان‘‘ کو کوئی معمولی چیز نہیں
بنایا… مگر اسی انسان کے
اندر ایک آلہ لگا ہوا ہے وہ آلہ اگر لیک ہو جائے …
یعنی اس میں ایک یا کئی ایسے سوراخ ہو جائیں کہ انسان کی توانائی ضائع ہونے لگے تب
یہ انسان جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے…
اس آلے کا نام’’نفس‘‘ ہے…
اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوجاتے ہیں…
مال کی خواہش، عزت کی خواہش، شہوات کی خواہش…
جو اُن سوراخوں کوبند کر دے اور نفس کے اندر اللہ تعالیٰ نے ’’ہمت‘‘ کی جو بجلی اور طاقت رکھی ہے
اُس کو ضائع نہ ہونے دے تو ایسا انسان…
زمین کا فاتح، جنت کا مستحق اور سعادتوں کا تاجدار بن جاتا ہے…
قرآن پاک سمجھا رہا ہے…
کان لگا کر سنیں…
اَفَمَنْ شَرَحَ
اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ
رَّبِّہٖ (الزمر:۲۲)
ترجمہ: بھلا
جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے
رب کی طرف سے ایک نور پر ہے۔
اللہ اکبر کبیرا…
جی ہاں نور، روشنی، طاقت، پاور ، بجلی…
جو بھی نام دے دیں… بجلی بہت
کمزور سی چیز ہے اسی سے اس طاقتور’’نور‘‘ اور ’’پاور‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ ایمان والے شخص کے دل میں عطاء فرماتا ہے…
بجلی آتی ہے تو بڑے بڑے کارخانے چلنے لگتے ہیں…
اوربجلی بند تو سب کچھ بند…
اللہ تعالیٰ جس کو ’’شرح صدر‘‘ کی نعمت عطاء فرمادیں
اُس کے لیے کوئی کام اور کوئی منزل بھی مشکل نہیں رہتی…
اللہ تعالیٰ آپ میں سے کسی کو توفیق عطاء فرمائے تو
وہ قرآن پاک میں ’’شرح صدر‘‘ کے معنیٰ کو سمجھنے کی کوشش کرے…
سورہ طٰہٰ میں دیکھیں آیت(۲۵)…
حضرت
موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ’’شرح صدر‘‘ کی دعاء مانگ رہے ہیں…
سبحان اللہ ! اتنے طاقتور فرعون کے مقابلے میں…
نہ فوج مانگی اور نہ ہتھیار بلکہ’’شرح صدر‘‘ مانگا کہ…
یا اللہ میرا سینہ اس کام کے لئے کھول دے…
جی ہاں میرے دل میں روشنی،قوت، ہمت، طاقت، حوصلہ اور اپنی بجلی عطاء فرمادے…
پھر دل کی یہ قوت فرعون کی طاقت کو پاش پاش کرنے کے لئے کافی ہے…
سورہ انعام دیکھیں آیت(۲۵)…
اللہ تعالیٰ جسے ہدایت عطاء فرمانا چاہتے
ہیں اُس کو ’’شرح صدر‘‘ کی نعمت عطاء فرماتے ہیں…
سورۂ انشراح دیکھیے پہلی آیت…
اللہ پاک اپنے پیارے محبوب پر احسان کا اعلان فرماتے
ہیں کہ کیا ہم نے آپ کو’’شرح صدر‘‘ کی نعمت عطاء نہیں فرمائی…
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے حضرت شاہ
عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کو کہ انہوں نے ’’تفسیر عزیزی‘‘ میں ’’شرح صدر‘‘ کے معنیٰ
پر کئی صفحات لکھے ہیں…
آج ہم مسلمانوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے…
کمی ہے تو اس بات کی کہ ہمارا سینہ بندہے…
ہم ہمت اور بلند جذبے سے محروم ہیں…
اس لئے ہم میں سے اکثر نے مایوسی کی رسّی اپنی گردن میں ڈال دی ہے…
جی ہم کچھ نہیں کر سکتے…
جی ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟…
بڑے بڑے لوگ
مایوسی کا زہر اپنی تحریروں اور تقریروں میں بانٹ رہے ہیں…
کافروں کے سامنے جُھک جاؤ کہ ان کا مقابلہ اب ممکن نہیں ہے…
سائنس اور ٹیکنالوجی کو سجدہ کرو کیونکہ وہ لوگ چاند اور مریخ تک پہنچ چکے ہیں…
کافروں کی دوٹکے کی نام نہاد ترقی نے ، بہت سے لوگوں کے عقائد اور نظریات تک کو
اُلٹ کر رکھ دیا… حالانکہ
کفار کی طاقت نہ کوئی چیز ہے اور نہ اُن کی ترقی …
اسلام اب بھی زندہ ہے، قرآن پاک اب بھی زندہ ہے…
اور دیکھ لینا کہ بہت کم عرصہ میں اسلام کو ظاہری عروج بھی ایسا زبردست ملنے والا
ہے کہ… کفر کے سردار
مسلمانوں کے بازاروں میں فروخت ہوں گے…
اس وقت مسلمانوں کو ’’شرح صدر‘‘ کی منزل پر لانے کی ضرورت ہے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ…
’’شرح صدر‘‘ کی علامت کیا ہے…
یعنی اگر
ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے’’شرح صدر‘‘ کی نعمت نصیب ہو
جائے تو اُس کی پہچان کیا ہو گی…
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(۱) الانابۃ الی دارا
لخلود
(۲) والتجافی عن دارا
لغرور
(۳) والتأھب للموت
قبل نزولہ
سبحان اللہ …
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ ہی حل فرما دیا…
دنیا دارالغرور یعنی دھوکے کی جگہ ہے…
ایک انسان اگراس حقیقت کو سمجھ لے اور اپنا وقت دنیا کی عارضی اور فانی چیزوں کو
بنانے اور سنوارنے میں ضائع نہ کرے…
اور آخرت دارالخلود ہے یعنی ہمیشہ کا گھر ہے اگر انسان اس حقیقت کو سمجھ لے اور
اپنی آخرت کے ہمیشہ ہمیشہ والے گھر کو بنانے اور سنوارنے میں لگ جائے…
اور موت آنے سے پہلے اس کی تیاری میں لگا رہے تو وہ یہ شخص ہے جس کو شرح صدر نصیب
ہو جاتا ہے… آج ساری دنیا کے
فتنہ پرست کافروں کو دیکھ لیں…
ان کی پوری کوشش ہے کہ…
مسلمان دنیا داری میں پھنس جائے…
یہ طرح طرح کے پیکج، یہ لائف اسٹائل اور ہر پھندا اور جال…
مسلمان دنیا میں پھنستا ہے تو کمزور بن جاتا ہے…
اور طرح طرح کے گناہ اُس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں…
اور اُس کے دل سے ہر طرح کا ایمانی جوش، ایمانی ولولہ اور اونچے عزائم ختم ہو جاتے
ہیں… اسی چیز کو حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الوہن‘‘ سے تعبیر فرمایا…
دنیا کی محبت اور موت سے گھبراہٹ…
یہ’’وہن‘‘ جب مسلمانوں میں آجاتا ہے تو وہ دنیا بھر کی قوموں کا غلام اور ترنوالہ
بن جاتے ہیں… آج کفر کی تمام
تر سیاست، معیشت، قوت اور طاقت اسی پر صرف ہو رہی ہے…
اور خود مسلمانوں میں ’’منافقین‘‘ کا وہ طبقہ طاقتور ہو چکا ہے جو…
مسلمانوں کو ’’بلند ہمتی‘‘ سے دور رکھنے کے مشن پر ہے…
ایسے وقت میں کوئی ایسی دعوت مسلمانوں کو اُن کی عظمت رفتہ واپس نہیں دلا سکتی جس
میں… قوت اور ہمت
کانسخہ نہ ہو… آج الحمدﷲ زمانے
کی چال پر قابو پانے والا’’قافلہ‘‘ وجود میں آچکا ہے…
اس قافلے کی طاقت’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘
پر یقین ہے… یہی کلمہ کامیابی
کا اصل راز اور وہ انسانی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے…
اقامتُ الصلوٰۃ اس قافلے کا شعار ہے…
نماز دراصل وہ عبادت ہے جو زمین وعرش کے فاصلوں کو سمیٹ دیتی ہے اور یہ انسانوں
میں انسانیت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے…
اورجہاد فی سبیل اللہ اس قافلے کا وہ راستہ ہے …
جس پر چلتے ہوئے وہ دنیا اور آخرت میں اپنی منزل تک پہنچتا ہے…
الحمدﷲ آواز لگ چکی ہے…
راستہ چھوڑ دو کہ اب مسافر چل پڑے ہیں…
نہ جان کی پروا نہ مال کی فکر…
نہ شکست کا ڈر اور نہ موت کی گھبراہٹ نہ کچھ چھن جانے کا خطرہ اور نہ کچھ لُٹ جانے
کا ڈر… ارے جس کو لا الہ
الا اللہ محمد رسول اللہ مل
جائے اُسے اور کیا چاہئے…
ہمیں حکم ہے کہ ہم اس کلمے پر جیئیں اور اس کلمے پر مریں…
دنیا کے سارے کفر نے مل کر وہ کونسا ہتھیار ایجاد کر لیا ہے جو موت سے زیادہ کوئی
سزا دے سکے… ہاں اُن کے نزدیک
موت آخری سزا ہے… جبکہ
ہمارے نزدیک موت پہلا انعام ہے…
اور موت ہی وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم اپنے رب کے اصلی انعامات تک پہنچتے ہیں…
اس دنیا کی حکومتیں اور یہاں کے مال و اسباب تو مسلمانوں کے قدموں کی خاک ہیں…
ماضی میں بھی ایمان و جہاد کے قافلے نے جب اپنا سفر شروع کیا تو دنیا کے خزانے اُس
کے قدموں کی دھول بن گئے…
اور اب بھی الحمدﷲ ایسا ہو رہا ہے…
اور آگے چل کر اس سے بھی انشاء اللہ بڑھ کر ہو گا…
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
{ طوبیٰ للغرباء}
مبارک باد ہو، خوشخبری
ہو اُن اجنبی مسافروں کے لئے جو اجنبیت کے دور میں اسلام کے پیغام کو لے کر کھڑے
ہوں گے…
پس اے
بھائیو! جو زندگی گزر چکی وہ گزر چکی…
اب آگے کی زندگی کا ایک لمحہ ضائع نہ ہو…
اسلام کی عظمت کے لئے اور کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کی سربلندی کے لئے…
صبح شام، رات دن محنت ہی محنت…
مکمل یقین کے ساتھ، مکمل شرح صدر کے ساتھ اور مکمل جذبے کے ساتھ…
اے بھائیو! اس بات کا خیال دل سے نکال دو کہ ہم نے اس دنیا سے کیا لینا ہے…بس
اس کا جذبہ دل میں بھر لو کہ ہم نے اس دنیا اور زمین کو وہ سب کچھ دینا ہے…
جس کی اس کو ضرورت ہے… جی ہاں…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر…
اور اس اُمت کے کامیاب اسلاف اور فاتحین کے نقش قدم پر…
اور یاد رکھنا اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے…
اور یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (335)
محبت، محبت ,محبت، محبت
ہر عمل کی ’’جان‘‘
ایمان ہے… مگر ایمان کی
’’جان‘‘ کیا ہے…؟
’’محبت‘‘ اللہ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت…!
محبت کے تقاضے کیا
ہیں؟اور اس پر کتنے اونچے انعام ملتے ہیں؟
اللہ کو سب سے
زیادہ محبوب ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘…
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محبوب کو…
جو امتیازات اور خصوصی شان عطا فرمائی ان کی ایک خوبصورت جھلک!
امت پر سب بڑے غم
کے لمحات…’’وصال نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم ‘‘…کے آنسو…
غم سے لبریز ان
دنوں کے چند رلا دینے والے مناظر…
محبوب نبی کے
آخری دو پیغام… نماز اور جہاد…
جہادی قافلوں کی
روانگی کے فوائد… اور جہادی
قافلوں کے رک جانے کے نقصانات…
محبت رسول صلی
اللہ علیہ وسلم … کا نور
بکھیرتی اور عشق رسول کے آنسو رلاتی انمول تحریر…
تاریخ اشاعت
۱۰ربیع الاوّل؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۳فروری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۵)
محبت، محبت ,محبت، محبت
اللہ تعالیٰ نے جن
کا نام خود بلند فرمایا…
وہ کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے جن کی ’’محبت‘‘ کو لازم قرار دیا وہ
کون ہیں؟… اللہ تعالیٰ نے خود جن کی نعت اور تعریف اپنی عظیم
کتاب میں بیان فرمائی ہے وہ کون ہیں؟…
اللہ تعالیٰ نے جن کے اسم مبارک کو کلمے، اذان،
اقامت، اطاعت اور محبت میں اپنے عظیم نام کے ساتھ جوڑ دیا وہ کون ہیں؟…
اللہ تعالیٰ نے جن کو دنیا اور آخرت کا سردار،
تاجدار اور محبوب بنایا وہ کون ہیں؟…
ان سوالوں کا جواب پوچھیں…
ہاں اپنے دل سے پوچھیں…
زمین و آسمان سے پوچھیں…
جبریل ح میکائیل حسے پوچھیں…
سورج، چاند اور ستاروں سے پوچھیں…
ایک ہی جواب ملتا ہے:
محمد صلی
اللہ علیہ وسلم …محمد صلی
اللہ علیہ وسلم …محمد صلی
اللہ علیہ وسلم
سبحان اللہ ! کیسا محبوب اور میٹھا نام ہے…
محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
اے مسلمانو! اپنی خوش نصیبی پر شکر کے سجدے کرو کہ…
ہم اُن کی اُمت ہیں جن کا نام مبارک’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہے…
واقعی عظیم سعادت، بہت ہی عظیم سعادت…
یا اللہ قدر کرنے اور قدر سمجھنے کی توفیق عطاء فرما…
اور ہم سب کو ’’محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کا’’جام‘‘ پلا…
اے مسلمانو! یاد رکھنا، ہر عمل کی جان’’ایمان‘‘ ہے…
ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں…
آؤ اپنے ایمان کی تجدید کریں:
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اور یاد
رکھنا’’ایمان‘‘ کی جان’’محبت‘‘ ہے
محبت محبت، محبت
محبت
بڑا لطف دیتا ہے
نام محبت
ہاں بے شک
ایمان کی جان’’محبت‘‘ ہے…
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت…
محبت مل گئی تو ایمان بہت آسان…
سارے اعمال آسان… اور
اگر’’محبت‘‘ نصیب نہ ہوئی تو خطرہ ہی خطرہ…
زہر ہی زہر اور اندھیرا ہی اندھیرا…
شیطان ملعون کے
بارے میں کہتے ہیں کہ… ظالم کے
پاس بہت علم ہے، عمل بھی بہت کرتا تھا مگر’’محبت‘‘ سے محروم تھا…
’’محبت‘‘ تو آدمی کو ’’محبوب’’ کا غلام بے دام بنا دیتی ہے…
دُکھ ملے یا سُکھ، پسندیدہ حکم ملے یا مشکل…
عاشق نے کیا دیکھنا؟… اُس کا
کام تو محبوب کو راضی کرنا ہے…
وہ دیکھو! سیدنا سعد بن ربیع ذ اُحد کے میدان میں زخموں سے چور چور پڑے ہیں…
ایسے زخم کہ نام کی محبت ہوتی تو چیخوں، شکووں اور بد گمانیوں میں بدل جاتی…
مگر یہاں سچی محبت تھی، سچا عشق تھا پوچھ رہے ہیں! ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کا کیا حال ہے؟…
او انصاریو! اگر حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہوا اور تم زندہ
رہے تو کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے پاس جاؤ گے…
یہ آخری الفاظ تھے… اورپھر
روح نے زخمی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا… ؎
لب پر درود، دل
میں خیال رسول ہے
اب میں ہوں اور
کیفِ وصال رسول ہے
یہاں ایک مبارک
حدیث پڑھ لیتے ہیں… اللہ کرے دل میں اُتر جائے…
پھربات آگے بڑھاتے ہیں:
عن انسذ قال قال
رسول اللہ ا لَایُوْمِنُ اَحَدُکُمْ
حَتّٰی اَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہٖ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ
اَجْمَعِیْنَ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
:تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک ’’مؤمن‘‘ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کو اپنے
ماںباپ، اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری ’’محبت‘‘ نصیب نہ ہو…
غور فرمائیں…
حضرت محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی’’محبت‘‘ کے بغیر ’’ایمان‘‘
ہی نہیں… اور محبت بھی
ایسی جو اپنی اولاد… حتی کہ
اپنی جان سے بھی زیادہ ہو…
یہ حدیث اپنے دل کو یاد کرائیں…
اور اپنی اولاد کو بھی…
کیونکہ قیامت آر ہی ہے…
اور حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’شفاعت‘‘ کے ہم سب بے حد محتاج
ہیں… ’’محبت‘‘ کسے
کہتے ہیں؟… تھوڑا سا وقت
نکال کر حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھ لیں…
جی ہاں’’کشف المحجوب‘‘ میں ’’محبت‘‘ پر ایک پورا باب ہے…
اور اس میں محبت کے کئی ایمان افروز معانی بیان فرمائے ہیں…
اسی باب میں ایک واقعہ لائے ہیں کہ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ…
جو حضرت جنیدبغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے مُرشد تھے ایک بار اُن پر جنون کا غلبہ تھا…
کچھ لوگ ملنے آئے… فرمایا تم
کون لوگ ہو؟… جواب ملا’’احبائُ
لکَ‘‘ ہم آپ سے محبت کرنے والے ہیں…
شبلی پ نے پتھر اٹھائے اور اُن کو مارنے لگے وہ بھاگ گئے…
فرمایا:
{لو کنتم احبائی
لما فررتم من بلائی فاصبروا علی بلائی}
اگر تم مجھ
سے محبت کرنے والے ہوتے تو میرے تکلیف دینے پر مجھ سے نہ بھاگتے…
محب تو وہ ہوتا ہے کہ… محبوب کی
طرف سے میٹھا ملے یا کڑوا…
اُس کے لئے سب میٹھا ہی میٹھا…
محبوب کی طرف سے نرمی ہو یا سختی…
اُس کے لئے سب کچھ لذت ہی لذت…
خیر!… جب توفیق ملے یا
دل میں محبت کا شوق اٹھے تو ایک بار کشف المحجوب دیکھ لیجئے گا…
آج تو ’’القلم‘‘ کے نصیب جاگے ہیں کہ’’ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں لگا
ہے… حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرنے سے محبت میں ترقی ہوتی ہے…
اور محبت بڑھتی ہے تو اطاعت کی توفیق ملتی ہے…
اور اطاعت کی وجہ سے محبت مقبول ہوتی ہے…
اورمحبت جب مقبول ہوتی ہے تو پھر فوراً جواب آتا ہے…
جی ہاں اُس کے بدلے میں انسان اللہ تعالیٰ کا’’محبوب‘‘ بن جاتا ہے…
اورجب کوئی اللہ تعالیٰ کا محبوب بنتا ہے تو وہ ساری مخلوق
کا’’محبوب‘‘ خود بخود بن جاتا ہے…
یہ سب کچھ لکھنا
اور کہنا آسان… مگر محبت پانا،
محبت نبھانا اور محبت سے محبوبیت کا سفرآسان نہیں، یا اللہ نظر کرم فرما…
ہم سب کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور
وفاداری نصیب فرما…
محبت کے رستے میں
کانٹے ہی کانٹے
مگر اُس کی منزل
بڑی ہی سہانی
زباں سے محبت کا
دم بھرنے والو
محبت نہیں ہے فقط
دُر فشانی
میرے محبوب آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے آخری ایام اور لمحات کو
یاد کرنے کا آج ارادہ ہے…
مگر دل پھٹتا ہے… کیا قیامت
کا حادثہ تھا… بُدھ کا دن تھا
اور مہینہ’’صفر‘‘ کے آخری ایام…
حضرت محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب رب کے پاس
تشریف لے جانے کی تیاری باندھ لی…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اٹھے اپنے غلام کو جگایا اور فرمایا
کہ… مجھے حکم ہوا ہے
کہ ’’اہل بقیع‘‘ کے لئے استغفار کروں…
’’بقیع‘‘ مدینہ منورہ کا قبرستا ن …
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آرام گاہ…
قبرستان سے واپسی پر طبیعت مبارک ناساز ہو گئی…
آخری حج مبارک… حجۃ الوداع کے
بعد سے ہی آثار لگ رہے تھے کہ…
ہدایت کا سورج اب پردہ فرمانے کی تیاری میں ہے…
قرآنی آیات بھی اشارے دے رہی تھیں…
مگر کون تھا جو اس صدمے کو برداشت کرنا تو دور کی بات صرف سوچ ہی سکتا…
صدیق اکبر ذ جیسے راز دان حضرات آثار دیکھ رہے تھے…
مگر وہ ان دردناک خیالات کو جھٹک دیتے اور دل کو تسلیاں دیتے…
لیکن فیصلہ ہر دوطرف ہوچکا تھا…
محبوب رب تعالیٰ نے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا کہ…
ہمارے پاس آجائیں یا وہاں رہیں…
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ’’محبت‘‘ کے جس مقام پر تھے…
اُسے کون ماپ اور ناپ سکتا ہے…
فوراًہی ’’ملاقات‘‘ کے لئے تیار ہو گئے…
اپنے آنسوؤں کو وقفہ دینے کیلئے آئیے’’تفسیر عزیزی‘‘ اٹھاتے ہیں…
چوتھی جلد اور سورۃ الضحیٰ کی تفسیر…
سبحان اللہ …
شاہ عبدالعزیز س عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مست نظرآرہے ہیں اور
صفحات پر صفحات لکھ رہے ہیں…
اور جھوم جھوم کر شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما
رہے ہیں… ایک جھلک ہم بھی
دیکھتے ہیں:
’’جو کسی سے محبت
رکھتا ہو اُسے ممتاز شان دیتا ہے…
اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے زیادہ محبوب نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کو بہت سے امتیازات اور بہت سی ایسی خصوصیات عطاء فرمائیں جو
کسی اور کو نصیب نہیں ہوئیں…
اور وہ خصوصیات بھی عطاء فرمائیں جو دوسرے انبیاء د کو عطاء فرمائیں…
(۱) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک کھارے( نمکین) پانی کو میٹھا کر دیتا
تھا… صلی
اللہ علیہ وسلم
(۲) دودھ
پینے والے بچے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لعاب مبارک کا ایک قطرہ
چکھاتے تو وہ بچہ سارا دن پیٹ بھرا رہتا دودھ نہ مانگتا… صلی
اللہ علیہ وسلم
(۳) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھتے تھے اور روشنی کی
طرح اندھیرے میں بھی آپ سب کچھ ملاحظہ فرماتے تھے…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۴) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں سفید رنگ، اُجلی شفاف تھیں اور ان میں
بالکل بال نہیں تھے… صلی اللہ
علیہ وسلم
(۵) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز مبارک اتنی دور تک جاتی تھی کہ اوروں کی
آواز اُس کے دسویں حصے تک بھی نہ پہنچتی تھی…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۶) آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو جاتی تھیں مگر دل جاگتا رہتا تھا…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۷) آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری عمر‘‘جمائی‘‘ نہ آئی…
کبھی احتلام نہ ہوا… صلی اللہ
علیہ وسلم
(۸) آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک مشک سے زیادہ خوشبودار تھا…
جس راستے سے گزرتے لوگ بعد میں بھی اُس خوشبو سے پہچان جاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم گذرے ہیں…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۹) آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی جب ولادت مبارک ہوئی تو بدن بالکل پاک تھا…
آپ زمین پر سجدہ فرماتے ہوئے اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دنیا
میں تشریف لائے اور آپ کی ولادت کے وقت ایک نور چمکا اور ایسی روشنی ہوئی کہ آپ
کی والدہ محترمہ نے اُس روشنی میں ’’شام‘‘ کے محلات دیکھے…
اور فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھولا جھولتے اور چاند جھولے میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتا تھا اور جب اشارہ فرماتے توآپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھکتا اور بادل دھوپ کے وقت ہمیشہ آپ پر
سایہ کرتے تھے… اور جب درخت کے
نیچے سے گزرتے تو اُس کا سایہ فوراً آپ کی طرف متوجہ ہو جاتا…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۱۰) آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس مبارک پر مکھی نہ بیٹھتی تھی اور آپ اگر
جانور پرسواری فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی مدّت لید،
پیشاب نہ کرتا… صلی اللہ علیہ
وسلم
(۱۱) عالم
ارواح میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، اور’’الست
بربکم‘‘کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے بلٰی فرمایا…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۱۲) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فرشتوں کو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے لشکر کا حصہ بنایا گیا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی طرف سے قتال فرمایا…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۱۳) حشر
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر لایا جائے گا اور ستر ہزار
فرشتے اُس سواری کے چاروں طرف ہوں گے…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی’’عرشِ عظیم‘‘ کے دا ہنی طرف کرسی پر
بٹھایا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’مقام محمود‘‘ نصیب ہوگا
اور’’لواء الحمد‘‘ یعنی حمد کا جھنڈا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ
میں ہوگا… اور حضرت آدم
علیہ السلام اور اُن کی تمام اولاد اس جھنڈے تلے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پیچھے چلیں گے…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’شفاعت عظمیٰ‘‘ کا منصب ملے گا…
صلی اللہ علیہ وسلم
(۱۴) پل
صراط پر سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزریں گے اور پھر تمام
لوگوں کو حکم ہو گا کہ اپنی آنکھیں بند کر لو تاکہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا پل صراط سے تشریف لے
جائیں… صلی اللہ علیہ
وسلم
(۱۵) آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن’’جناب الٰہی‘‘ سے قرب اور منزلت میں
ایسے ہوں گے جیسے وزیر بادشاہ کے…
صلی اللہ علیہ وسلم …(تفسیر
عزیزی تسھیل و تلخیص)
او رُشدی ملعون!
تیرے جسم کو کُتے کھائیں اور تیری گردن کا خون ہمارے پیاسے خنجر پیئیں…
تو نے کس ذات اقدس کی بے ادبی کا جرم کیا ہے…
لعنت ہو تجھ پر اور تجھ جیسوں پر…
او! خاکے بنانے والے گورے بندرواور سورو! زمین تم کو نگل جائے تم نے کس آسمان کی
طرف جسارت کی انگلی بڑھائی ہے…
اس زمانے میں کسی ماں نے تم جیسے ملعون اور بدنصیب نہیں جنے…
ہائے کاش…
مسلمان اپنے دلوں اوراپنے بچوں کو…
وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سکھائیں جو…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نصیب تھا…
محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت سخت ناساز ہو گئی…
اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاکے گھر کی باری تھی، ازواج مطہرات تشریف
لائیں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہایہ تکلیف دیکھ کر بے تاب ہوئیں فرمایا…
یا اللہ میری یہ تمنا اور آرزو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے بدلہ یہ تکلیف مجھ کوہو جائے…
بدھ سے لے کر پیر کے دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف کے باوجود ترتیب
کے مطابق ازواج مطہرات کے گھر تشریف لے جاتے رہے…
مگر پیر کے دن کے بعد سب کی خوشی اور رضامندی سے…
حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہاکے گھر منتقل ہو گئے…
گھر کیا تھے؟ بس ایک ایک کچا کمرہ…
ان کمروں میں اُمت مسلمہ کی مائیں خوشی خوشی رہتی تھیں…
نہ سامان نہ درہم و دینار…
واہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم …
آہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم …
اتنی شدید
علالت کے باوجود… دو عمل
ایسے تھے جن کی طرف میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت زیادہ
توجہ تھی… ایک جہاد اور ایک
نماز… معلوم نہیں محبوب
دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ درد مندانہ بے تابیاں
اُمتِ مسلمہ نے کیسے بُھلا دیں…
کاش بارہ ربیع الاول کو جشن منانے والے اُس دن…
جمع ہو کر ان دو فرائض کی سخت پابندی کا عزم کرتے تو…
گھر بیٹھے ان کو مدینہ منورہ کی خوشبوئیں، انوارات اور گنبد خضراء کے سلام پہنچتے…
وہ دیکھو! میرے محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے علیل ہیں کہ…
چلنا پھرنا مشکل… دو
آدمیوں کے سہارے آتے ہیں اور پاؤں مبارک زمین پر نہیں ٹکتے…
مگر نماز جاری، امامت نماز جاری…
وہ دیکھو! بدھ کی بیماری کے اگلے دن یعنی جمعرات کو میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ
وسلم اپنے کمانڈر حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کو باوجود علالت
کے اپنے دست مبارک سے جہاد کا علامتی جھنڈا بنا کر دے رہے ہیں…
اور فرما رہے ہیں:
{ اغزباسم اللہ وفی سبیل اللہ فقاتل من کفر ب اللہ }
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نام پر، اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرو اور کافروں سے لڑو…
آہ! عجیب منظر
تھا… حضرت اُسامہ رضی
اللہ عنہ کو حکم تھا کہ جلدی روانہ ہوں…
مگر وہ اور اہل لشکر ایک قدم آگے، ایک قدم پیچھے…
بیماری اتنی سخت نظر آرہی تھی کہ کسی کا دل گوارہ نہ کرتا تھا کہ…
اپنی سب سے محبوب ہستی کو چھوڑکر جائے…
مگر اِدھر سے حکم تھاکہ جلدی جاؤ …اور
لشکر میں ابو بکر، عمر، علی اور عباس ڑبھی شامل تھے…
اے مسلمانو! اُس عجیب منظر کو یاد کرو…
لشکر مدینہ منورہ سے نکل کر مقام’’جُرف‘‘ میں خیمہ زن تھا…
بڑے صحابہ کرام امیر لشکر کی اجازت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
تیمارداری کے لئے مدینہ منورہ آگئے تھے…
پیر کے دن… جی ہاں یوم
الوصال اہل لشکر کو خبر ملی کہ طبیعت مبارکہ اچھی ہے…
لشکر کوچ کرنے لگا کہ وہ خبر آگئی جو اُن کے لئے پہاڑوں کو سر پر اٹھانے سے زیادہ
بھاری… اور تلواروں کی
دھار سے تیز تھی… اُسامہ
اور اہل لشکر روتے بلکتے، گرتے پڑتے مدینہ منورہ پہنچے…
غمزدہ اُسامہ ذ کو کیا سوجھی کہ…
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے بنا ہوا جہادی جھنڈا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کے دروازے پر نصب کر دیا…
مسلمانو! کیا تمہیں وہ جھنڈا نظر نہیں آیا کہ…
ابھی تک جہاد کو نہیں اٹھے…
اے اہل علم و دانش… میرے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر لگا یہ جہادی پرچم دیکھنے کے باوجود…
آپ حضرات کو جہاد سمجھ نہیں آتا؟
وہ دیکھو! چند اور
مناظر بھی دل سے آنسو کھینچ رہے ہیں:
میرے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارکہ اتنی ناساز کہ…
بولنا بھی مشکل… اسی حالت میں
حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر سے نکل کر عیادت کو آگئے…
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا اٹھا کر اشارے سے دعائیں دیتے
رہے… واہ جہاد تیری
شان ! واہ مجاہد تیرا مقام…
وہ دیکھو! میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں مسجد
نبوی کے منبر پر تشریف فرما ہوئے ہیں…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سراپا شوق بنے سن رہے ہیں کہ کیا حکم
ہوتا ہے … ارشاد فرمایا…
اُسامہ کے لشکر کو روانہ کرو…
ایک اور منظر
دیکھیں… علالت کی حالت
میں بُری خبر آئی… تین
گستاخوں نے دعویٰ نبوت کر دیا ہے…
اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور طلیحہ اسدی…
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً صحابہ کرام کو وصیت فرمائی کہ ان
مرتدین کے خلاف جہاد کرنا ہے…
اور پھر انصار کی ایک جماعت کو’’اسود عنسی‘‘ سے لڑنے روانہ بھی فرما دیا…
واہ خوش قسمتی انصار کی…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک دن پہلے اسود عنسی کو واصل جہنم
کر دیا… ایک اور منظر
دیکھیں… میرے محبوب آقا
صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی آگئی…
آنکھ مبارک کھلی افاقہ ہواتو فوراً پوچھا…
لوگوں نے نماز ادا کر لی؟…
اماں عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا…
یا رسول اللہ ! سب آپ کے انتظار میں ہیں…
پانی منگوا کر غسل فرمایا اُٹھنے لگے کہ غشی چھا گئی…
پھر افاقہ ہوا تو وہی سوال، وہی جواب…
پھر غسل فرمایا اٹھنے لگے تو غشی ہوگئی…
تب حکم ہوا… ابوبکررضی اللہ
عنہ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں…
مسلمانو! تھوڑا سا
سوچوکہ… نماز کیا ہے…
اور آج نماز کے ساتھ ہمارا کیا برتاؤ ہے؟…
بالکل آخری لمحات ہیں…آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وصیت فرمائی…اس
میں ارشاد تھا…الصلوٰۃ،الصلوٰۃ…
اے مسلمانو! نماز… اے
مسلمانو! نماز… علالت کے بعد
آخری جمعرات کے دن مغرب کی نماز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود
امامت فرمائی… اس کے بعد یہ ذمہ
داری پیر کے دن تک… آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ…
کے سپرد رہی… پیر کے دن طبیعت
مبارکہ بہتر ہوئی اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا دیدار کیا…
شوق اور محبت کا ایسا ولولہ کہ قریب تھا کہ نمازیں توڑ دیتے…
مگر اشارہ ہوا کہ نماز جاری رہے…
سب کے قلوب میں تسلّی آئی، غمزدہ دلوں کو اتنے ایام کے بعد اُمید کی جھلک نظر
آئی کہ… اُسی دن…آہ
اُسی دن… آگے نہ مجھے
لکھنے کی تاب… نہ آپ کو پڑھنے
کی…سیدہ فاطمہ ز پر
کیا بیتی … کیسے لکھوں؟…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین …
اور ازواج مطہرات ژ کی کیا حالت تھی؟ کیسے بیان کروں؟…
مگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اور اہل بیت کو اللہ تعالیٰ نے حوصلہ دیا…
اور انہوں نے حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور آپ کی محبت کو
سنبھال لیا… اور اُن دو کاموں
پر خاص توجہ فرمائی جو علالت کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
توجّہ کے مستحق بنے… چنانچہ جب
صدیق اکبرذ نے خلافت سنبھالی تو پہلا کام یہ کیا کہ…
اُسامہ ذکے لشکر کو روانہ فرمایا…
اسی طرح جہادی لشکر پے در پے روانہ ہوتے رہے اور پھر چند ہی سال میں وہ لوگ بھی
کلمہ پڑھنے لگے جنہوں نے حضرت محبوب آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو
دیکھا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی تھی…
جہادی لشکر چلتے ہیں تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی آگے
بڑھتا ہے… اور جب لشکر رک
جاتے ہیں تو خود مسلمانوں کے گھروں سے دین نکل جاتا ہے…
اے مسلمانو! حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا…
ایمان، نماز اور جہاد کو اپنانا…
پورے دین کو اپنانا… اورآگے
دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہے…
مبارک مہم شروع ہے… اے مدینہ
پاک کے دیوانو!… دیوانہ وار محنت
کرو…
حسبنا اللہ و
نعم الوکیل
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (336)
ایمان،اقامتِ
صلوٰۃ، جہاد فی سبیل اللہ
پورے دین پر لانے
والے تین نکاتی ’’نصاب‘‘ کا جامع تعارف…
لا الہ الا اللہ…
کے نور سے دلوں کو روشن کرنے والی…
باتیں مسلمانوں پر
مسلط ’’ظالم ناگ‘‘ کون ہیں…
اور ان کا کردار کیا ہے؟
’’دعوت و رکنیت‘‘
مہم کی حقیقت اور اہمیت سمجھانے والی ایک بنیادی تحریر…
تاریخ اشاعت
۱۷ربیع الاوّل؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۹فروری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۶)
ایمان،اقامتِ
صلوٰۃ، جہاد فی سبیل اللہ
اللہ
تعالیٰ’’أَحَد‘‘ ہے ’’واحد‘‘ ہے، ’’صمد‘‘ ہے…
قل ھو اللہ احد… اللہ الصَّمد
اللہ تعالیٰ’’ ایک ‘‘ ہے…
سب اُس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ سب سے ’’بے نیاز‘‘ ہے…
انٹرنیٹ پر طرح طرح کی معلومات کے لئے وقت ضائع کرنے والے یہی وقت اُن ضروری
معلومات کو حاصل کرنے پر لگا دیں…جن
کے بغیر کسی مسلمان کا گزارہ ہی نہیں ہے…
کلمہ طیبہ… لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
سات آسمانوں اور سات زمینوں سے زیادہ بڑا قیمتی اور بھاری کلمہ…
اس کلمے کا مطلب کیا ہے؟…
اس کے فضائل کیا ہیں؟… اس کلمے
کے تقاضے کیا ہیں؟… اگر کوئی
اعلان کر دے کہ صرف پانچ دن کی نوکری ہے اور تنخواہ ہے پانچ کروڑ…
لاکھوںلوگ اس نوکری کے لئے بھاگیں گے…
صرف پانچ کروڑ… حالانکہ زمین کے
نیچے سونا ہی سونا ہے اور طرح طرح کے خزانے…
جبکہ’’لا الہ الا اللہ ‘‘… ان
سب سے زیادہ قیمتی ہے… اور پھر
سات آسمان… کہتے ہیں کوئی
آسمان سونے کا بنا ہے، کوئی ہیرے کا اور کوئی چاندی کا…
اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا سونا اور کیا مٹی…
خزانے ہی خزانے… اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے قدر، بے وقعت…
جبکہ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو قیمت دنیا اور کائنات کے
تمام خزانوں سے زیادہ ہے…
ارے دل کے اخلاص کے ساتھ ایک بار پڑھ لو…
اور مالک بن جاؤ ربّ کی جنّت کے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کوئی شخص زمین کے تمام
ملکوں کا’’بادشاہ‘‘ بن جائے…
بادشاہ اس لئے لکھا کہ آج کل ’’صدر‘‘ اور وزیراعظم بے چارے تو بے اختیار ہوتے ہیں…
’’اُبامہ‘‘ بے چارے کو دیکھیں عدالت میں جا کر اُسے اپنا’’امریکی‘‘ ہونا ثابت کرنا
پڑ رہا ہے… اور اب تو مدّتِ
صدارت بھی ختم ہو رہی ہے…
جن ’’طالبان‘‘ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اعلان تھا اُن سے مذاکرات کی بھیک مانگی
جارہی ہے… کوئی’’وزیراعظم‘‘
بے چارا سپریم کورٹ کے چکر کاٹ رہا ہے…
اور کوئی صدر’’بے چارہ‘‘ رات کو پستول لے کر سوتا ہے کہ فوج یا آئی ایس آئی والے
گرفتار کرنے نہ آجائیں…
ہائے بے چارے نہ دنیا کے رہے نہ آخرت کے…
شیش ناگ کی طرح بڑے بڑے خزانے تو انہوں نے جمع کر لئے مگر ان خزانوں سے سکون کے دو
منٹ بھی نہ خرید سکے… سوئٹزر
لینڈ والے عجیب چالاک لوگ ہیں…
طرح طرح کے بینک کھولے بیٹھے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہر چور، ڈاکو، اسمگلر اور
حاکم… الغرض ہر شیش ناگ
اپنا خزانہ ہمارے ہاں جمع کرادے،ہم حفاظت کریں گے…
ساری دنیا کے کالے سانپ اور شیش ناگ اپنا کالا دھن وہاں جمع کرا آتے ہیں…
اورپھر مرجاتے ہیں… اکثرکا
اکاؤنٹ چونکہ خفیہ ہوتا ہے تو کوئی وارث بھی نہیں بنتا…
یوں سارا مال بینک والے اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں…
دنیا بھر کے مسلم حکمران…
جی ہاں کلمے، نماز، زکوٰۃ، حج…
اور جہادسے محروم… مگر نام
کے مسلمان… صرف مسلمان ہی
نہیں بہت پکّے مسلمان کہ خود کو مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتے ہیں…
یہ سب’’سوئٹزر لینڈ‘‘ میں ضرور اپنا اکاؤنٹ کھولتے ہیں…
قذافی صاحب جیسے انقلابی لیڈر اور اُن کے روشن خیال صاحبزادے سیف الاسلام کے بھی
اربوں ڈالر وہاں رکھے ہیں…
اب کس کے کام آئے؟… غریب
مسلمان دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں جبکہ یہ ’’ظالم ناگ‘‘ مسلمانوں کا مال
کافروںکے پاس جمع کرا آتے ہیں…
نہ ان کے کام آتا ہے اور نہ کسی اور مسلمان کے…
بات یہ چل رہی تھی کہ اگر کوئی شخص ’’روئے زمین‘‘…
کا بادشاہ بن جائے…’’بادشاہ‘‘
بالکل مالک کی طرح ہوتے تھے یعنی زمین کے تمام ملکوں کا مالک بن جائے…
اور مرنے کے بعد زمین کے یہ تمام خزانے اُس کے ساتھ دفن کر دیئے جائیں…
اور پھر وہ یہ تمام خزانے دے کر جنت کا ایک’’سیب‘‘…
یا جنت میں ایک مرلہ زمین لینا چاہے تو نہیں ملے گی…
اسی طرح اگر وہ یہ تمام خزانے دیکر اپنا کوئی ایک گناہ معاف کرانا چاہے…
یا جہنم میں ایک گلاس ٹھنڈا پانی لینا چاہے تو نہیں خرید سکے گا…
اب اس سے اندازہ لگائیں کہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کتنا قیمتی کلمہ ہے کہ ا س کے ذریعہ
تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جنت مل جاتی ہے…
بہت بڑی جنت، نہریں، محلّات اور نظریں جھکائے سراپاحیا، حسین و جمیل حوریں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
مسلمان’’ کلمہ‘‘
بھول گیا… بس اسلام اور
مسلمانی کا نام رہ گیا کیونکہ پیدا جو مسلمانوں کے گھر ہو گئے…
اورپھرخیر سے چند رسومات بھی ایسی ادا ہو گئیں کہ مسلمان کہلانے لگے…
نہ عقیدہ اسلام کے مطابق، نہ عمل اسلام کے مطابق، نہ مزاج اسلام کے مطابق…نہ
سوچ اور خیالات اسلام کے مطابق …اور
اگر زبان سے کلمہ پڑھ بھی لیا مگر اس کا مطلب نہیں سمجھا…
اور کلمے کی حقیقت پر ایمان نہیں لایا…
تب بھی دھکّے ہی کھاتا ہے اور کافروں کی نوکری، چاکری کرتا ہے…
قبروں مزاروں کے سجدے کرتا ہے…
اور اگر تھوڑا سا نیک نظر آئے تو خود کو سجدے کرانے لگتا ہے…
ابھی پنجاب میں ایک خبیث نقلی پیر پکڑا گیا ہے…
یہ ظالم شخص لوگوں کو اپنے سامنے سجدہ کراتا تھا…
ہائے اُمتِ مسلمہ! ہائے اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
کیسے کیسے ظالموں کے درمیان پھنس گئی…
کلمہ طیبہ دل میں اُتر جائے تو…
انسان ہر گمراہی، ہر فتنے اور ہر نقصان سے بچ جاتا ہے…
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ…
جماعت کی دعوت مہم میں’’کلمہ طیبہ‘‘ گونج رہا ہے…
اسی کو سب سے مقدّم رکھیں…
یہ سب سے اونچا کلمہ ہے لوگ اس کو سرسری بیان کرتے ہیں اور زیادہ زور اور چیزوں پر
دیتے ہیں… بعض کم عقل لوگ
تو اس کے ’’ورد‘‘ کو بھی بے کار سمجھتے ہیں…
حالانکہ اس کے عاشقانہ ورد نے اُمت مسلمہ کو باوفا جانباز عطاء کئے ہیں…
دعوت دینے والے ساتھی بھی کلمے کے ساتھ اپنے تعلق کو جتنا مضبوط بناتے جائیں گے…
اسی قدر اُن کی دعوت میں قوت اور برکت آتی جائے گی…
اب یہ تین نکاتی
نصاب ہے… کلمہ، اقامت
صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ …
یہ پورا دین نہیں، پورے دین کو تو کوئی شخص ایک تقریر،ایک کتاب یا ایک مضمون میں
بیان نہیں کر سکتا…
مسلمان کا دین چند
رسومات کا نام نہیں ہوتا…
یہ دین اُس کی دنیا کے ہر کام پر حاوی ہوتاہے…
عقیدہ، عمل، معاملات، اخلاق…
اور معیشت و معاشرت… آج سب سے
بڑا عذاب یہ ہے کہ… دین،
مسلمانوں کے لئے اجنبی ہوتا جارہا ہے…
آپ کسی پڑھے لکھے شخص کے سامنے’’سود‘‘ کی حرمت بیان کریں…
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھے گا کہ یہ کیا بات ہے؟…
آپ حیران ہوں گے کہ مسلمانوں میں ایسے افراد بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر ہیں جن
کو’’وضو‘‘ کا طریقہ نہیں آتا…
اللہ معاف فرمائے…
لکھتے ہوئے دل روتا ہے کہ…
مسلمانوں کے گھروں میں بہنوں کی عزت اپنے سگے بھائیوں سے محفوظ نہیں ہے…
موبائل نے تو اپنی استطاعت کے مطابق ہر شخص کو برباد کر رکھا ہے…
ناجائز دوستیوں، یاریوں اور گپ شپ نے باقاعدہ گناہوں کی انڈسٹری قائم کر دی ہے…
نماز… جی ہاں اقامتِ
صلوٰۃ اس خوفناک گناہی سیلاب…
بلکہ سونامی کا توڑ ہے…
اس لئے نماز کی دعوت بہت اہمیت سے دینے کی ضرورت ہے…
تاکہ مسلمان کا کعبۃ اللہ اور مساجد سے ربط ہو جائے…
ماحول کی تبدیلی بہت بڑی چیز ہوتی ہے…
دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو…
بازار میں ماریں… بازار بھی
ضروری ہے… مگر بازار ہی کا
ہو کر رہ جانا… موت ہے موت…
آپ اسے مسجد میں لے آئے…
مسجد ما شاء اللہ مسجد…
خیر کا مرکز ہے… نیکیوں کا مجموعہ…
بعض بڑے بڑے عادی گناہ گار ایک بار مسجد آئے…
اور پھر ایسے بدلے کہ… صف شکن
مجاہد اور عارف ب اللہ ولی بن گئے…
سوائے اُن لوگوں کے جو مسجد میں ’’جاسوسی‘‘ کے لئے آتے ہیں، ہر مسلمان کو’’مسجد‘‘
سے فائدہ ہوتا ہے… مساجد میں
کیا کیا رحمتیں اور فوائد ملتے ہیں یہ ایک تفصیلی موضوع ہے…
اسی طرح جو عورت’’اقامتِ صلوٰۃ‘‘ پر آجائے اُس کو بھی اپنے گھر میں ’’مسجد‘‘ نصیب
ہوجاتی ہے… بے شک اقامتِ
صلوٰۃ… لاکھوں برائیوں
کا توڑ اور اللہ تعالیٰ سے اپنا ہر مسئلہ
حل کرانے کا ذریعہ ہے… اورنماز
کی مکمل پابندی کا اصل فائدہ اُس وقت معلوم ہوگا جب ایک زور دار جھٹکے کے بعد…
ہماری دنیا بدل جائے گی…
جی ہاں ایک
جھٹکا… جسے موت کہتے
ہیں، انسان کا سب کچھ بدل دیتا ہے…
پھر تو بینک سے پیسے بھی نہیں نکلوا سکتے…
تب معلوم ہوگااور قیامت کے دن معلوم ہو گا کہ…
نماز کیا چیز ہے؟… میںپورے
یقین کے ساتھ عرض کرتاہوں کہ…
آج مسلمانوں میں جو رزق کی پریشانی اورتنگی کا مسئلہ ہے…اقامتِ
صلوٰۃ سے یہ آسانی کے ساتھ حل ہو سکتا ہے…
نماز کی پابندی، نماز کا اہتمام…
نماز کی قدر، نماز میں حتی الامکان خشوع وخضوع…
اور نماز کی فکر… الفاظِ
نماز اور ارکان نماز کی درستگی اور اُس سے پہلے ٹھیک ٹھیک طہارت…
باقی رہے وسوسے تو ان سے نہ گھبرائیں…
جتنے آتے ہیں آتے رہیں…
جب بہت آئیں تو شیطان سے کہا کریں ’’اے ملعون دشمن!…
اس سے دس گنا زیادہ وسوسوں کے آن ائر چینل ہمارے دماغ پر چلا…
ہم نماز نہیں چھوڑیں گے انشاء اللہ ‘‘…
وسوسوں کے علاج پر پہلے کئی بار بات ہو چکی ہے…
اور انشاء اللہ ایک مستقل کالم بھی اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ
ہے… فی الحال اتنا
عرض ہے کہ… وسوسوں سے ڈرنے،
گھبرانے اور بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے…
اور ان کے بارے میں زیادہ پریشان ہو کر اعمال چھوڑنا بہت بُری بات ہے…
اللہ کے بندو! خود کو انسان سمجھو فرشتہ نہیں…
انسان کو پیشاب بھی آتا ہے، قضائے حاجت کی ضرورت بھی پڑتی ہے، خون بھی آتا ہے…
شہوت بھی ہوتی ہے، بھوک بھی لگتی ہے…
اور بالکل اسی طرح وسوسے بھی آتے ہیں…خود
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں وسوسوں کے آنے کی شکایت عرض کی…
لیجئے! مسئلہ حل ہو گیا…
اُمت میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ افضل اور بڑا کون ہو
سکتا ہے؟…
اب آخری بات…
مسلمان کلمہ پڑھے، نماز ادا کرے…
دیگر فرائض بھی پورے اداکرے مگر اس میں غیرت ایمانی نہ ہو…
اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینے کا جذبہ نہ ہو…
اسلام کی خاطر مر مٹنے کی ہمت نہ ہو…
اپنے گھر، ملک، ناموس اور دین پر حملہ کرنے والوں کے مقابلے کی سوچ نہ ہو…
حرمتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان
ہونے کا ولولہ نہ ہو؟… تو کیا اس
کاایمان کامل، مکمل اور محفوظ ہو سکتا ہے؟…
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم باربار تاکید
سے فرمایا ہے… اور خود اپنے
محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار جہاد میں نکالا ہے تو…
معلوم ہوا کہ… مسلمان کی دینی
اور دنیوی کامیابی میں’’جہاد‘‘ کا بڑا کردار ہے…
احادیث و روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کو… حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے اس لئے منتخب فرمایا کہ اُن کے دل اللہ تعالیٰ نے پسندیدہ فرمائے اور ان میں دین کی
خاطر لڑنے اور قربان ہونے کا جذبہ عطاء فرمایا یعنی اگر اُن کے قلوب میں یہ جذبہ
نہ ہوتا تو انہیں یہ مقام نہ دیا جاتا ظاہر بات ہے جو لوگ لڑنا، مرنا اور قربان
ہونا نہ جانتے ہوں وہ کسی سے وفاداری کا حق زیادہ دیر تک ادا نہیں کر سکتے…
بلکہ خطرہ پڑتے ہی اُن کی وفاداری ختم ہوجاتی ہے…
جہاد کی دعوت اس
لئے ہے کہ… جہاد کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے خالص ہونے کا معیار قرار دیا
ہے… اور یہ نفاق سے
حفاظت کا بڑا ذریعہ ہے…
اوریہ مبارک عمل مسلمانوں کے اندر دین کو پختہ اور مضبوط بناتاہے…
اور اُن کے لئے فتح، غنیمت ، غلبے اور عظمت و سعادت کے دروازے کھولتا ہے…
جہاد کا دوسرا پہلو… اسلام اور
مسلمانوں کے دفاع کا ہے…
اُمتِ مسلمہ کی مظلومیت سب کے سامنے ہے…
اور جہاد کا تیسرا پہلو’’کلمۃ اللہ ‘‘ کے
غلبے اور دین کے نفاذ کا ہے…
الغرض… جہاد ایک اہم
فریضہ، ایک بڑی نعمت ایک لازمی ضرورت…
اورایک لافانی سعادت ہے…
ان تین چیزوں سے ایک مسلمان ایسے ماحول، ایسے مزاج اور ایسے حالات میں آجاتا ہے
کہ اُس کے لئے… پورے دین کو
ماننا اور پورے دین پر عمل کرناآسان ہو جاتا ہے…
الحمدﷲ مہم کے اچھے اور مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں…
اور یہ اثرات ہمیں مزید محنت کی دعوت دے رہے ہیں…
حسبنا اللہ و
نعم الوکیل
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
و بارک وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (337)
آزادی کی پہلی
شرط
غلامی کتنی خوفناک
ذلت اور کتنا پسنی والا مقام ہے؟
وہ لوگ کون ہیں…
جو سخت غلامی کا شکار ہونے کے باوجود خود کو آزاد سمجھتے ہیں؟
مسلمانوں کی ترقی
جدید ٹیکنالوجی میں ہے یا جہاد کے ذریعے آزادی حاصل کرنے میں؟
آزادی کی شرط کیا
ہے اور اس کا نصاب کیا ہے؟
اسلامی خلافت اور
حکومت سے لا تعلقی کیوں؟
جب کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم ہمیں دین کے ساتھ دینی خلافت بھی دے کر گئے…
بنی اسرائیل کا
قصہ کیا پیغام دیتا ہے…؟
دنیا بھر کے
مسلمانوں کو ’’آزادی‘‘ کا راستہ دکھانے والی اور آزادی کا ’’نصاب‘‘ سمجھانے والی
تحریر…!
تاریخ اشاعت
۲۴ربیع الاوّل؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۶فروری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۷)
آزادی کی پہلی
شرط
اللہ تعالیٰ ہم سب
مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنائے اور ہمیں خلافت اور آزادی کی نعمت عطاء فرمائے…
عجیب بات ہے کہ بعض دیندار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ…
مسلمانوں کو نماز، روزہ، ذکر اذکار میں تو خوب لگنا چاہیے مگر حکومت اور خلافت
حاصل نہیں کرنی چاہئے… یہ بالکل
غلط، ناجائز اور حرام سوچ ہے…
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم مسلمانوں کو دین بھی دے کر گئے اور دینی حکومت و خلافت بھی…
اس لئے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے وصال کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کے لئے خلیفہ، حاکم
اور حکمران کا تقرر کیا…
کبھی اللہ تعالیٰ توفیق دے تو قرآن پاک کی سورۃ النصر کو
توجہ سے پڑھ لیں…یہ تین
آیات کی مختصر سی سورۃ مبارکہ آپ کی آنکھیں کھول دے گی…
مفسرین فرماتے ہیں کہ… سیدھے
راستے ، سچے دین اور حق سے انسانوں کو ہٹانے والی چار چیزیں ہیں:
(۱) شیطان (۲) نفس(۳) کفار جو طاقت
رکھتے ہوں (۴) منافقین
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کو دین حق دے کر بھیجا…
اور آپ کو ان چاروں سے مقابلے کا الگ الگ نصاب عطاء فرمایا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں رکاوٹوں کو توڑا اور جہاد فی سبیل اللہ کے
ذریعہ خلافت کبریٰ اور حکومت قائم فرمائی…
اورجب یہ ساری ترتیب اُمت کے حوالے فرما دی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
اپنے پاس بُلا لیا… اور پھر
مسلمان اسی ترتیب اور نصاب کو لے کر آگے بڑھتے گئے اورچند سالوں میں انہوں نے
دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلامی خلافت نافذ کر دی…
زمین پر مسلمانوں کی خلافت اور حکومت صدیوں تک قائم رہی…
پھر جب یہ نصاب کمزورہونے لگا…
ایمان کے قلعے میں ’’حبّ دنیا‘‘ اور بزدلی کی دراڑیں پڑ گئیں تو کفار نے چاروں طرف
سے مسلمانوں کو گھیرنا شروع کیا…
اور بالآخر مسلمانوں کا حکومتی زور ٹوٹتا چلا گیا…
ملکوں کے مُلک اور علاقوں کے علاقے اُن کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے…
خلافت کی آخری نشانی ترکی کی خلافت عثمانیہ ختم ہو گئی تو مسلمانوں پر…
غلامی کا دور شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے…
ہم میں سے بہت سے
مسلمان ان مُلکوں میں رہتے ہیں جہاں کافروں کی باقاعدہ حکومت ہے…
یہ مسلمان بھی’’غلام‘‘ مگر ایسی نشہ آور غلامی کہ خود کو غلام نہیں سمجھتے خوش
نصیب سمجھتے ہیں… ان اللہ وانا الیہ راجعون…
اور وہ مسلمان جو نام کے اسلامی ملکوں میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے حکمرانوں کے توسّط
سے کافروں کے غلام ہیں…
بلکہ زیادہ سخت غلام… مگر
جمہوریت کا تماشہ کہ یہ بھی خود کو ’’غلام‘‘ نہیں سمجھتے…
بلکہ داڑھی پگڑی والے دو چار افراد اسمبلی میں پہنچ جائیں تو اس کو بڑا کارنامہ
سمجھا جاتا ہے… نہ قرآن نافذ،
نہ اسلام نافذ… نہ حدود اللہ قائم، نہ جہاد قائم…
نہ قوانین اسلامی، نہ آئین قرآنی…
پھر کیسی آزادی اور کونسی آزادی؟…
کیا آزادی
اسی کا نام ہے کہ… ہمیں کسی
نہ کسی طرح زندہ رہنے دیا جائے یا نماز ادا کرنے دی جائے؟…
تیس سال تک مصر پر ایک شیطان فرعون کی حکومت تھی…
حُسنی مبارک!… نام تو یہ بھی
مسلمانوں جیسا ہے مگر اُس کے دور حکومت میں کون سا کفر ہے جو وہاں آزاد نہیں تھا…
ان مُلکوںمیں فوجیں مسلمانوں کی ہیں مگروہ لڑتی ہمیشہ کافروں کے لئے ہیں…
معاشی نظام بھی کافروں کی طرف سے آتا ہے اور سیاسی و عدالتی نظام بھی انہیں کا
مسلّط ہے … بہت عجیب لگتا ہے
جب کوئی دانشور کہتا ہے کہ …
مسلمانوں کی ترقی… سائنس،
ٹیکنالوجی اور جدید اعلیٰ تعلیم میں ہے…
کونسی ترقی اور کیسی ترقی؟…
آزادی حاصل کئے بغیر نہ سائنس سے ترقی مل سکتی ہے اور نہ جدید ٹیکنالوجی سے اور
نہ جدید تعلیم سے… ہم نہ
سائنس کے مخالف ہیں اور نہ ٹیکنالوجی کے دشمن…
ہم نہ جدید تعلیم کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ جدید چیزوں کے استعمال کو…
لیکن جب ایک قوم پوری طرح سے غلام ہو تو اُس کے سائنسدان اور اُس کے جدید تعلیم
یافتہ لوگوں سے فائدہ کون اٹھائے گا؟…
آپ آج کسی جگہ صرف پانچ پکّے مسلمان ، نماز کے پابند…
اورجہاد کے ماننے والے سائنسدان بٹھا دیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے کوئی اسلحہ ایجاد
کریں… کیا اس کو برداشت
کیا جائے گا؟… ہم میں سے تو جو
بھی اعلیٰ جدید تعلیم حاصل کرتاہے…
وہ انہیں دشمنوں کا نوکر، غلام، ایجنٹ اور اثر زدہ بن جاتا ہے…کیمرج
اور ھارورڈ سے تعلیم حاصل کرنے والے کتنے مسلمانوں نے اسلام کی کوئی خدمت کی؟…
ہم میں سے تو کوئی کمپیوٹر کا ماہر پیدا ہو جائے تووہ اسے فوراً اپنے پاس اٹھا کر
لے جاتے ہیں کہ… مسلمانوں کے کسی
کام نہ آئے… ٹیکنالوجی اور
جدید اعلیٰ تعلیم تو وہ جال ہیں جن میں انہوںنے مسلمانوں کی اعلیٰ صلاحیت کو بُری
طرح شکار کر رکھا ہے…
اور اُس کا طریقہ
یہ ہے کہ… مسلمانوں میں
ایسے دانشور بٹھا دیئے ہیں جو دن رات یہی لکھ اوربول رہے ہیںکہ…
مسلمانوں کی ترقی جدید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے…
اور ٹیکنالوجی سیکھنے میں ہے…
اُن کے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر جو مسلمان اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے لئے
کافروں کے پاس جاتے ہیں وہ پھرلوٹ کر واپس ہی نہیں آتے…
بلکہ انہیں کے بن کر رہ جاتے ہیں…
اور پھر ان میں سے بعض کو حکمران بنا کر مسلمانوں پر مسلّط کر دیا جاتا ہے…
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو آزادی عطاء فرمائے…
پھر وہ اسلامی ماحول میں ایک طالب علم کو ضروری دینی تعلیم کے ساتھ…
سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دیں…
پھر دیکھیں کہ مسلمان کیا کیا ایجاد کرتے ہیں…
اور کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ بے پناہ
صلاحیتیں عطاء فرمائی ہیں جن کا غیر مسلم تصور بھی نہیں کر سکتے…
لیکن پہلے آزادی اور پھر باقی کام…
یہی قرآن پاک کی ترتیب ہے…
قرآن پاک کے اٹھائیس پاروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے…
جگہ جگہ فرعون کا تذکرہ ملتا ہے…
یہ واقعہ صرف اس لئے بیان نہیں ہوا کہ…
لوگوں کو تاریخ اور کہانی معلوم ہو جائے کہ ایک تھا فرعون اور ایک تھے موسیٰ ح…
یہ واقعہ دراصل احکام اور مفید اسباق سکھاتا ہے…
اس میں ایک اہم ترین سبق…
آزادی کی قدر وقیمت کا ہے…
اور دوسرا سبق آزادی حاصل کرنے کا نصاب…
اور بھی بے شمار اسباق جو نظر والوں کو قیامت تک حالات کے مطابق سمجھ آتے رہیں گے…
بنی اسرائیل مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آئے…
اور پھر رفتہ رفتہ مقامی آبادی اور قوم نے اُن کو غلام بنالیا…
غلامی شروع میں بُری اور کڑوی لگتی ہے…
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چرس، ہیروئن اور افیون کی طرح مزہ دینے لگتی ہے…
جی ہاں وہی مزا جو ہلاک کرتا ہے، ذلیل کرتا ہے، تباہ کرتا ہے اور ناکام کرتا ہے…
ممکن ہے بنی اسرائیل نے شروع میں مزاحمت کی ہو لیکن قرآن پاک جس جگہ سے اُن کا
قصہ شروع فرماتا ہے تو اُس وقت وہ…
غلامی کے اُس مرحلے میں تھے جہاں غلامی خون میں رچ بس جاتی ہے…
اورغلام قوم اسے اپنی تقدیر سمجھ کر ہمیشہ کے لئے قبول کر لیتی ہے…
فرعون اُن کے بچوں کو ذبح کر رہا تھا…
مگر مجال ہے کہ کوئی مزاحمت اٹھتی…ہر
ایک نے اپنے بچے کی گردن فرعون کی تلوار کے لئے کھول رکھی تھی…
فرعون اُن کی عورتوں کو اپنے گھروں کی نوکرانیاں بنا چکا تھا…
مگر مجال ہے کہ بنی اسرائیل میں سے کسی کو اس پر کوئی غصہ آتا ہو کہ…
ان کی بہن،بیٹی اور ماں دوسروں کے گھروں میں ذلت اور مشقت سے دوچار ہے…جب
کسی قوم کے دل سے اپنی بیٹیوں اور عورتوں کا درد…
اور ان کی حفاظت کا جذبہ نکل جائے تو واقعی یہ…
غلامی کی سب سے بڑی بلا کے مسلّط ہونے کی علامت ہے…
جیسے آج کل کے مسلمان…
اُن کے بیٹے کفر اور ارتداد کی چھری سے ذبح ہو رہے ہیں…
اور اُن کی عورتیں کافروں کی عملی اور فکری باندیاں بنی ہوئی ہیں…
مگر کوئی غم نہیں، کوئی درد نہیں اور تحفظ کی کوئی فکر نہیں…
بلکہ اس پر خوش ہیں، اور اسے عزت اور روشن خیالی کا نام دیتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل پر رحم فرمانے کا
ارادہ کیا تو… سب سے پہلے اُن
کے لئے آزادی کی ترتیب بنائی…
غلامی میں رہتے ہوئے نہ تو اُن کی مکمل اصلاح ممکن تھی…
اور نہ اُن کو پورا دین سمجھانا ممکن تھا…
آپ غور کریں… آج کے جدید
تعلیم یافتہ مسلمان کو’’جہاد‘‘ سمجھانا کتنا مشکل ہے؟…
آپ اُسے لاکھ بتائیں کہ جہاد اللہ تعالیٰ کا حکم ہے…
یہ قرآن پاک کی سینکڑوں آیات میں بیان ہوا ہے…
مگر اُس کی غلام سوچ اندر سے آواز لگاتی ہے کہ…
غیر مسلموں کے ایٹم بم، طیارے، سیارچے اور عسکری طاقت…
ان کے ہوتے ہوئے جہاد، خلافت اور نفاذ اسلام ناممکن ہے ناممکن…
معلوم ہوا کہ غلاموں کو اللہ تعالیٰ کی باتیں سمجھانا بہت مشکل کام ہے…
خصوصی طور پر جب غلامی دل میں اُتر چکی ہو اور نظریئے میں شامل ہو چکی ہو…
بنی اسرائیل بھی یہی سمجھتے تھے کہ فرعون کا غلام رہنا اب اُن کا ایسا مقدّر ہے جو
کبھی نہیں ٹل سکتا… اور
فرعونی اقتدار کے خاتمے کا سوچنا…
پاگلوں والی بات ہے… اتنی بڑی
طاقت، اتنی بڑی قوت ختم ہو جائے یہ بالکل ناممکن ، ناممکن…
ہمارے بہت سے دانشور بھی آج یہی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ امریکہ اوریورپ کا سورج
کبھی غروب نہیں ہوگا… اس لئے اب
ہماری نجات اُن کی غلامی میں ہے…
پھر قرآن پاک بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کا قصہ بار بار سناتا ہے…
اور اس میں آزادی کی ترتیب بھی سمجھا دیتا ہے …
اور پھر بنی اسرائیل کے واپس اپنے وطن’’ارض مقدّس‘‘ تک پہنچنے کا قصہ اور نصاب…
آپ یقین کریں ’’مصر سے لے کر ارض مقدس تک‘‘ وہ قصہ اور نصاب ہے جو کسی بھی غلام
اور کمزور ترین قوم کو…
طاقتور ترین دشمن سے آزادی حاصل کرنے کی کامیاب تدبیریں سکھاتا ہے…
اور الحمدﷲ یہ پورا قصہ ہمارے پاس قرآن مجید میں موجود ہے…
یہ اسلام پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جیسا بھی غلامی کادور
آجائے قرآن پاک محفوظ رہتا ہے…
جب قرآن پاک محفوظ رہتا ہے تو وہ مسلمانوں کو پھر غلبے اور آزادی کے راستے پر لے
آتا ہے… اسی لئے بڑے بڑے
طوفان آئے… بڑے خوفناک
سونامی اسلام کے خلاف اٹھے…
مگر جب ان طوفانوں کی گرد ختم ہوئی تو اسلام اور مسلمان زندہ نظر آئے…
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے
اور اس وعدے میں اس بات کا اعلان ہے کہ…
اسلام اور مسلمان قیامت تک رہیں گے…
کیونکہ قرآن پاک’’آب حیات‘‘ ہے…
وہ پانی جو مُردوں کو زندہ کر دے…
یہ وہ صُور ہے جو پھونکا جاتا ہے تو غلامی کی قبروں میں دفن مُردے کپڑے جھاڑتے
ہوئے… اُٹھ کھڑے ہوتے
ہیں… بنی اسرائیل کی
آزادی کا نصاب پڑھیں… اس میں
آپ کو ایمان، نماز اور جہاد چمکتے ہوئے نظر آئیں گے…
الحمدﷲ مسلمانوں کے جہاد نے سوویت یونین کے سونامی کو واپس ماسکو بھیج دیا…
اور اب یہی جہاد یورپی افواج کو پسپائی کی طرف دھکیل رہا ہے…
جہاد کشمیر پر اپنوں کی چھری نہ چلتی تو اب تک برصغیر میں بھی آزادی کا بگل بج
چکا ہوتا… پھر بھی دشمن خوش
نہ ہوں کشمیری تو اپنی کانگڑی کی آگ کئی کئی دنوں تک ٹھنڈی نہیں ہونے دیتے اور
بالآخر راکھ کے نیچے سے کوئی جلتا انگارہ برآمد کر ہی لیتے ہیں…
تو ایسی قوم خونِ شہداء کی گرمی کو کہاں ٹھنڈاہونے دے گی…
الحمدﷲ…
ایمان، نماز اور جہاد کی مہم…
اللہ تعالیٰ کی نصرت سے کامیاب جارہی ہے…
ایمان ایسا جو ہر طرح کی ذہنی اور فکری غلامی سے آزاد کر دے…
نماز ایسی کہ مؤمن کو طاقت کا سمندر بنا دے…
اورجہاد ایسا جو غلامی کے ہر پھندے اور زنجیر کو توڑ دے…پھر
وہ بات یاد رکھیں جو شروع میں عرض کی گئی…
ہمارے محبوب آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دین کے ساتھ دینی
خلافت… اور اسلام کے
ساتھ اسلامی حکومت بھی دے کر گئے…
اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے اور یہ غاروں اور جنگلوں کا دین نہیں…
قیصر وکسریٰ کے تخت پر حکومت کرنے والا دین ہے…
یہ بات ہم اپنے دل میں اُتاریں گے تو ہمیں…
غلامی سے نفرت اور آزادی سے محبت پیدا ہو گی…
اور کسی بھی قوم کی آزادی کے لئے …
یہ پہلی شرط ہے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
و بارک وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (338)
شاندار
ایمان کی تجدید
اور ایمان کی دعوت اس زمانے کی شدید ضرورت!
دعوت الی اللہ کے
فوائد و ثمرات کا ایک جامع اور مختصر خاکہ…
جہاد کی دعوت
’’دعوت الی اللہ‘‘ میں شامل ہے یا نہیں…؟
دعوت الی اللہ کا
صحیح مفہوم کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں…؟
’’دعوت و رکنیت
مہم‘‘ میں شریک اراکین جماعت کے لئے کچھ ضروری نصائح…
ایک اونچے کام اور
وسیع میدان عمل کی طرف بلانے والی پر اثر تحریر!
تاریخ اشاعت
۱ربیع الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۴فروری؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۸)
شاندار
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
ماشاء اللہ دین کے دیوانوں نے اچھی محنت کی ہے…
ابھی مہم جاری ہے… چند دن
میں ان شاء اللہ مکمل ہو جائے گی…
ایمان کی دعوت… واقعی ہر مسلمان
کو تجدید ایمان کی باربار ضرورت پڑتی ہے…
قرآن پاک بھی فرماتا ہے…
اے ایمان والو! ایمان لے آؤ…
اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ…
آج کل تو چاروںطرف زہریلا ماحول ہے…
ایمان کی دعوت… اور تجدید ایمان
کی دعوت بہت بڑی نعمت ہے جس کا پہلا فائدہ خود’’داعی‘‘ کو ہوتا ہے…
اہل علم نے دعوت کے فضائل اور ثمرات پر کتابیں لکھ دی ہیں…
جب قرآن پاک دعوت اور داعی کی فضیلت بیان فرماتا ہے توپھر علماء کرام کتابیں کیسے
نہیں لکھیں گے… دعوت تو جناب
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کاراستہ ہے…
قرآن پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی پوری وضاحت فرماتا ہے…
اے نبی! آپ فرما دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ تعالیٰ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دیتا ہوں…
اور جو میری اتباع کرنے والے ہیں اُن کا بھی یہی راستہ ہے…
اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت…
ایمان کی دعوت… پورے دین کی دعوت…
کلمہ طیبہ اور تمام فرائض کی دعوت…
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ…
اور جہاد کی دعوت… اُمتِ
مسلمہ کو بیدار ہونے اور اپنے مقام کو سمجھنے کی دعوت…
مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کی دعوت…
مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کی دعوت…
شعائر اسلام کی عظمت کی دعوت…
اور دین اسلام کے غلبے کی دعوت…
ماشاء اللہ پورے ملک میں آواز لگی…
اور چند دن میں یہ مبارک دعوت الحمدﷲ لاکھوں افراد تک پہنچ گئی…
قرآن پاک کو دیکھئے کس طرح تاکید کے ساتھ دعوت کا حکم فرماتا ہے…
اور دعوت کا طریقہ اوراسلوب بھی سکھاتا ہے…
احادیثِ مبارکہ کو دیکھئے…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ دیکھئے!
(۱) دعوت الی اللہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر…
اور جہاد فی سبیل اللہ اس اُمت کو ’’خیر اُمت‘‘ کے مقام کا مستحق بناتے
ہیں…
(۲) دعوت
الی اللہ ، پر اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں’’فلاح‘‘ یعنی
کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے…
(۳)
اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والوں کی
بات سب سے اچھی اور پسندیدہ بات ہے…
جی ہاں! اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ…
(۴) دعوت
الی اللہ کا کام کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت برستی ہے…
(۵) دعوت
الی اللہ کا کام کرنے والوں کا اجر وثواب جاری رہتا ہے…
جو بھی اُن کے بُلانے سے دین پر آتا ہے…
اُس کے ایمان اور اعمال کا اجر’’داعی‘‘ کو بھی ملتا ہے اور خود عمل کرنیوالے کے
اجر میں کوئی کمی نہیں آتی…
اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے…
(۶) دعوت
الی اللہ …
تمام انبیاء د اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے…
(۷) دعوت
الی اللہ کی برکت سے خود’’داعی‘‘ کو دین پر ثابت قدمی اور
استقامت نصیب ہوتی ہے۔
(۸) دعوت
الی اللہ …
کی برکات داعی کے اہل و عیال اور اولاد کو بھی پہنچتی ہیں…
(۹) دعوت
الی اللہ کی برکت سے…
داعی کے اردگردایسا ماحول اور معاشرہ قائم ہوجاتا ہے جو اُس کے دینی کام کی قوت کا
ذریعہ بنتا ہے…
(۱۰) دعوت
الی اللہ کی برکت سے…
گمراہی کی دعوت کا زور ٹوٹتا ہے…
(۱۱) دعوت
الی اللہ کی برکت سے…
لوگ ایمان اور اعمال صالحہ پر آتے ہیں…
فضائل بے شمار ہیں…
اور دعوت کے نتائج اور ثمرات بے انتہا ہیں…
سیدنا نوح ح کے الفاظ قرآن پاک بیان فرماتا ہے…
میں نے اپنی قوم کو رات بھی دعوت دی اور دن بھی دعوت دی…
مگر وہ بدکتے رہے… اور مزید
بھاگتے رہے…
جہاد فی سبیل اللہ کی
دعوت… پورے دین کی دعوت
میں شامل ہے… دین، جہاد کے
بغیر’’کامل‘‘نہیں ہوتا …
عجیب بات ہے! جب دین جہاد کے بغیر ’’کامل‘‘ نہیں ہوتا تو کوئی مسلمان…
بغیر جہاد کے کیسے’’کامل‘‘ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے…
بات دور نہ نکل
جائے اس لئے یہ سمجھیں کہ…
جہاد کی دعوت، پورے دین کی دعوت میں شامل ہے…
جی ہاں! ’’دعوت الی اللہ ‘‘ کے معنیٰ ہیں…
اللہ تعالیٰ کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی طرف لوگوں کو بُلانا…
ان احکامات میں’’حکم جہاد‘‘ بھی ہے …
لیکن اس کے باوجود… جہاد کی
دعوت کے لئے الگ حکم جاری فرمایا گیا …
اے نبی! آپ ایمان والوں کو قتال پر ابھاریئے…
حَرِّضْ کا لفظ قرآن پاک نے استعمال فرمایا…
ایک بار نہیں دو بار… اے نبی
آپ خود بھی قتال کیجئے آپ پر آپ کے علاوہ کسی کی ذمہ داری نہیں اورایمان والوں
کو بھی قتال پر ابھاریئے…
یہ دو الگ
الگ آیتیں ہیں… حَرِّضْ کے معنی،
بہت زور دار، بہت جاندار دعوت…
بندہ نے اپنی کسی تحریر میں تحریض کے معنیٰ کی تحقیق بیان کر دی ہے…
خلاصہ یہ ہے کہ… ایسی دعوت جو
کمزور سے کمزور انسان کو بھی’’جہاد‘‘ پر کھڑا کر دے…
اسی طرح ’’نماز‘‘ کی دعوت بھی پورے دین کی دعوت میں شامل ہے…
مگر نماز کی دعوت کا الگ سے بھی حکم دیا گیا …
آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور خود بھی مضبوطی سے اسے تھامیں…
ایمان تو بنیاد ہے… نماز ستون
ہے اور جہاد بلندی… اور کھرے
کھوٹے کاامتحان ہے کہ… ایمان کا
دعویٰ تو سب کرتے ہیں ، مگر وہ کون ہیں جو ایمان کی خاطر…
اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان ہونے کوتیار ہیں…
آج عملِ جہاد کے ساتھ ساتھ…
دعوتِ جہاد کی بے حد ضرورت ہے…
الحمدﷲ اب مسلمانوں کی اس طرف توجہ ہو رہی ہے…
مہم میں چند دن باقی ہیں…
زمین بہت پیاسی ہے… صرف چالیس
دن سے کام چلنے والا نہیں…
یہ چالیس دن تو ایک مشق تھی اور ایک آغاز…
ابھی اس مبارک مشق میں بھی چند دن باقی ہیں…
کوشش کریں کہ
یہ دن بہت قیمتی بن جائیں…
آخرت کا سرمایہ اور اعمال کے ترازو کا وزن بن جائیں…
مسلمانوں پر ہر طرف سے حملہ ہے…
کوئی اُن کو غلام بنا رہا ہے تو کوئی قوم پرست…
توبہ توبہ مسلمان ہو کر اسلام کے علاوہ کسی چیز پر فخر؟…
مجھے تو سن کے بھی
اک عار سی معلوم ہوتی ہے
کوئی مسلمانوں کو
کافر بنانے کے مشن پر ہے تو کوئی انہیں گمراہ کرنے کی محنت میں…
کہیں مسلمانوں پر توپوں، طیاروں اور میزائلوں سے حملہ ہے تو کہیں فضائی چینلوں کے
ذریعہ اُن کے عقیدے، اخلاق اور اعمال پر حملہ ہے…
مگر نہ تو دین اسلام ختم ہو سکتا ہے…
اور نہ ہی مسلمان ختم ہو سکتے ہیں…
ہم آخری اُمت ہیں… ہمیں غوطہ
دینے والے خود ڈوب مریں گے…
مسلمانوں کو… لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے
نورسے منّور ہونے کی ضرورت ہے، بس اسی کلمے سے مسلمانوں کے تعلق کو دوبارہ جوڑنے
کی محنت کریں… کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر قبروں کے پجاری بن گئے…
اُن کو قبروں سے اٹھا کر مسجدمیں لے آئیں تاکہ وہ سجدے کی حقیقی لذت کو حاصل کریں…
کچھ لوگ جیتے جی بزدلی اور حب دنیا کی قبروں میں دفن ہو گئے ہیں…
اُن کو شہداء کرام کا معطر خون یاد دلائیں…
اور آیات جہاد کے ذریعہ اُن کو قبروں سے نکال کر زندگی کے محاذ پر لے آئیں…
کچھ لوگ ختم نبوت کے عقیدے میں دراڑیں ڈالنے کی ناپاک جسارت میں ہیں…
ہر مسلمان کے خون میں عقیدہ ختم نبوت دوڑا دیں…
اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے، مالک ہے…
اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں…
اور اللہ تعالیٰ جیسا کوئی بھی نہیں، کوئی بھی نہیں…
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کے بندے اور اُس کے آخری رسول ہیں…
اور مخلوق میں حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی بھی نہیں،
کوئی بھی نہیں… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد زمانے کو نہ کسی اور نبی کی ضرورت ہے
اور نہ خواہش… اور نہ ہی قانونِ
فطرت میں اس کی گنجائش…
کام پورا ہو چکا…
روشنی مکمل ہو چکی اب بعد والوں کا کام اس روشنی کو دور دور تک پھیلانا اور اس
روشنی کی حفاظت کے لئے خود کو آ ہنی حصار بنانا ہے…
بہت سے مسلمان…
آج کفار کی قید میں ہیں…
بڑے بڑے عقوبت خانے اہل اسلام کی آہوں اور سسکیوں سے کانپ رہے ہیں…
ان مظلوموں کے لئے خود مسلمانوں کو ہی بہت کچھ سوچنا ہوگا…
بہت سے مسلمان طرح طرح کے توہمات اور خرافات میں مبتلا ہو گئے…
کوئی مستقبل کا حال بتا دے، کوئی قسمت اچھی کرادے…
کوئی حاجتیں پوری کرادے…
ان مسلمانوں کو ایمان، نماز اور جہاد کی قوت سے آشنا کردیں…
تاکہ وہ سمجھ جائیں کہ وہ دنیا میں ہاتھ پھیلانے کے لئے نہیں…
بلکہ ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں…
قرآن مجید اسے ’’مقام فُرقان‘‘ سے تعبیر کرتا ہے…
بہت سے مسلمان کافروں کے اُکساوے میں آکر…
قوم پرستی، علاقہ پرستی اور لسانیت کی آگ میں چھلانگ لگا رہے ہیں…
ان سب کو مدنی عربی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں
لاکر ایک بنانے کی محنت کریں…
الغرض… کام بہت ہے، اور
بہت اونچا کام ہے… میدان
وسیع ہے اور بہت شاندار میدان ہے…
آپ کسی سے نہ الجھیں نہ ہی بحث کریں، نہ کسی کی اہانت کریں نہ کسی کو طعنہ دیں…
آپ کے پاس جماعت، مفید اور شاندار نصاب ہے…
کلمہ، نماز اور جہاد… بس اسی
نصاب کے ذریعے مسلمانوں کو پورے دین پر لائیں…
ایک طرف محاذوں کی خوشبو ہے…
تو دوسری طرف دعوت کے زمزمے ہیں…
اللہ تعالیٰ…
اس محنت کو قبول، مقبول…
اور مشکور فرمائے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (339)
شکر گزار گھوڑے
قرآن نے ’’جہادی
گھوڑوں‘‘ کی قسمیں کھا کر…
ایمان کادعویٰ کرنے والوں کو کسی چیز پر غیرت دلائی ہے…
ایک مبارک خاندان
جس پر علم، معرفت اور جہاد…
کے دروازے کھولے گئے کا دل نشین تذکرہ…
جہادی گھوڑوں کے
قابل رشک جہادی کارناموں کا ولولہ انگیز نظارہ!
’’الکنود‘‘ کے
معنی کی تشریح و تفسیر کے کئی علمی اقوال…
ایک بڑی مصیبت سے
مسلمانوں کو بچانے والی قرآن کے نور سے منور تحریر…!
تاریخ اشاعت
۸ربیع الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲مارچ؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۳۹)
شکر گزار گھوڑے
اللہ تعالیٰ نے
جہاد میں دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم کھا کر فرمایا…
’’بے شک انسان
اپنے ربّ کا بڑا نا شکرا ہے‘‘( سورۃ العادیات: ۶)
آیت مبارکہ
میں اَلْکَنُودْ کا لفظ استعمال ہوا ہے…
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ…
اَلْکَنُودْ کسے
کہتے ہیں؟… آج کی مجلس میں
ان شاء اللہ اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے…
یوں انشاء اللہ درس قرآن کا ثواب بھی مل جائے گا…
قرآن پا ک کا علم بھی حاصل ہوگا…
اور ایک بڑی مصیبت سے بچنے کی باہمی ترغیب بھی ہو جائے گی…
سبحان اللہ ! جہادی گھوڑے…
گھوڑوںکی
قسمت جاگی… قرآن پاک میں
اتنا والہانہ تذکرہ… اور
احادیث مبارکہ میں تو فضائل ہی فضائل…
شرط یہ ہے کہ گھوڑا جہاد کا ہو…
تب اُس کی لید اور پیشاب بھی نیکیوں کے میزان میں تولی جائے گی…
اور ان گھوڑوں کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن تک خیر ہی خیر رکھ دی ہے…
اجر و ثواب بھی اور مال غنیمت بھی…
اس سورۃ مبارکہ میں تو جہادی گھوڑوں کی تعریف فرما کر…
انسان کو غیرت دلائی گئی ہے کہ…
اے انسان! تو اپنے مالک کا ویسا وفادار کیوں نہیں بنتا…
جیسی وفاداری مجاہد کا گھوڑا اپنے مالک کے ساتھ کرتا ہے…
وہ مسلمان جن کے د ینی جذبات بالکل ٹھنڈے پڑ چکے ہیں…
اور وہ جنگ، جہاد اور قتال کے نام سے(نعوذ ب اللہ ) نفرت کرتے ہیں…
ناک چڑھاتے ہیں… وہ اس سورۃ
مبارکہ کی ابتدائی آیات پڑھیں…
شاید اُن کو’’فالج‘‘ کی ٹھنڈک سے نجات ملے…
سبحان اللہ !…
تیز رفتار ہانپتے جہادی گھوڑے…ش،ش،ش…
ایسی طاقتور رفتار کہ ٹھنڈی زمین سے بھی غبار کا طوفان اڑا رہے ہیں…
اور ایسی زور دار ٹاپیں کہ…
پتھروں سے آگ نکال رہے ہیں…
اور صبح صبح دشمنوں پر ایسا حملہ…
جو اُن کے غرور اور طاقت کو غارت کر دے…
ارے افسانے نہیں… یہ میرے
ربّ تعالیٰ کا محکم کلام ہے…
ش،ش،ش… کسی جذباتی مجاہد
کی تقریر نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا ’’ اخلاق‘‘ سکھانے والا سچا کلام ہے…
کسی نے خوب نقشہ کھینچا:
’’جہادی گھوڑوں کو
دیکھ! کس طرح مجاہدین کے اشارہ پر بے تحاشہ دوڑتے ہیں، گردو غبار اڑاتے اور ٹاپوں
سے بجلیاں گراتے ،صبح کے وقت دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں…
اور گھمسان کے معرکوں میں بے دھڑک گھس جاتے ہیں…
تلواروں کی بجلیوں سے وہ نہیں گھبراتے، گولیوںکی بوچھاڑ سے وہ نہیں ڈرتے…
بس وہ اپنے مالک کے حکم پرجان قربان کرنے میں اپنی زندگی جانتے ہیں‘‘
واقعی قرآن
پاک کا عظیم کمال ہے… گھوڑے کو
بطور مثال کے پیش فرمایا…
اس پرتفسیر عزیزی دیکھیں، حضرت شاہ عبدالعزیزپ…
اپنی تفسیر میںجہاد کو خوب اجاگر فرماتے ہیں: اس پورے خاندان پر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہوا…
حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ
علیہ اُن کے چاروں فرزند…
علم میں بھی مثالی، مقام سلوک و تقوے میں بھی ممتاز…
اورجہاد کے بے باک ترجمان…
یہ کسی عالم پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوتا ہے کہ…
وہ فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کو اچھی طرح سمجھ لے اور پھر مسلمانوں کو
سمجھائے… حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے چاروں فرزندوں پر…
علم، معرفت اور جہاد کے بڑے بڑے دروازے کُھلے اور علم حدیث تو ماشاء اللہ اس
خاندان کا امتیازی تاج رہا…
بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ…
اپنی تفسیر میں بھی جہاد کو بغیر تاویل کے نمایاں فرماتے ہیں…
اور آپ شیخ اور مرشد ہیں حضرت سید احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے…
بلکہ آپ ہی کی خاص نظر توجہ سے حضرت سید احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ کو جہاد کے
بہترین رفقاء ملے… اور آپ
ہی کے مشورے سے سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’احیاء جہاد‘‘ کی تحریک شروع فرمائی…
دوسرے بیٹے شاہ عبدالقادررحمۃ اللہ علیہ…
سبحان اللہ ! طویل عرصہ تک مسجد میں مقیم
رہے اور قرآن پاک کی ایسی تفسیر لکھی کہ صدیوں کا سفر…
دنوںمیں طے فرمالیا… ’’تفسیر
موضح قرآن‘‘… اس کو’’موضح
القرآن‘‘ بھی کہتے ہیں…
دراصل یہ ابجد کے حساب سے تاریخِ تصنیف ہے…
بڑے بڑے اہل علم کو دیکھا کہ اس تفسیر کی شان میں رطب اللسان رہتے ہیں…
اور آپ کا دوسرا بڑا کارنامہ حضرت سید احمد شہیدرحمۃ
اللہ علیہ کی تربیت…
بڑے بھائی حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید شہیدرحمۃ اللہ علیہ کو
بیعت کے بعد اپنے چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبدالقادررحمۃ اللہ علیہ کے سپرد فرما دیا…
تمام اذکار و روحانی اسباق سید صاحب پ نے وہاں پورے کئے…
حضرت شاہ عبدالقادررحمۃ اللہ علیہ ایک طرف تو جہادی تفسیر لکھ رہے تھے…
اور دوسری طرف ایک جہادی رہبر اور سچا مجاہد بھی تیار فرما رہے تھے…
تیسرے بیٹے شاہ رفیع الدین…
ان کے جہادی ذوق شوق اور جذبے کا یہ عالم تھا کہ…ایک
بہت قیمتی،نایاب، دیرپا اور مضبوط تلوار بنوائی اس کو بے حد قیمتی نیام میں رکھا…
حج پر ساتھ لے گئے… کعبۃ اللہ کے
متولّی سے تعلق جوڑا اور انہیں تلوار پیش کی…
کس کے لئے؟… فرمایا! آپ کا
خاندان قیامت تک کعبہ کا متولّی ہے…
ازراہ کرم یہ تلوار امانت رکھ لیں اور وصیت جاری فرمادیں کہ جب امام مہدی ذ کا
ظہور ہو تو اُس وقت کا متولی یہ تلوار انہیں پیش کر دے…
تاکہ اُن کے جہاد میں میرا حصہ شامل ہو جائے…
دراصل جس نے بھی قرآن پاک کو دل کی آنکھوں سے پڑھا…
اور جس نے بھی سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق کی آنکھوں سے
مطالعہ کیا… وہ اسی طرح جہاد
کا شیدائی اور آرزو مند ہوتا ہے…
چوتھے بیٹے شاہ عبدالغنی پ…
ان کا ماشاء اللہ جہاد میں بڑا حصہ ہے…
کیونکہ تاریخ اسلام کے ایک بڑے مجاہد حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ان کے
فرزند ارجمند ہیں… دیکھیں
بات کہاں سے کہاں نکل گئی…
یوںسمجھیں کہ کالم بھی گھوڑوں پر سوار ہو کر میدان جہاد جا پہنچا…
حالانکہ ان تمام باتوں کو لکھنے کا میرا بالکل ارادہ نہیں تھا…
آج تو مبارک مہم پر شکرانے کا موقع ہے تو…
اَلْکَنُودْ کے معنیٰ عرض کرنے تھے…
تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں…
اور’’ناشکری‘‘ کی مصیبت سے بچیں…
تذکرہ شروع ہوا
تھا شاہ عبدالعزیزپکا… وہ تفسیر
عزیزی میں بحث فرماتے ہیں کہ سورۃ ’’العادیات‘‘ کا شان نزول کیا ہے؟…
پہلے تووہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گھڑ سوار جہادی دستے کا
مشہور واقعہ سناتے ہیں…
اور لکھتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی اور اُن صحابہ
کرام کے گھوڑوں کا اور دشمنوںمیں گُھس کر حملہ کرنے کا تذکرہ اس سورۃ میں فرمایا
تاکہ مسلمانوں کو تسلّی ہو کہ…
منافقین کی خبریں جھوٹی ہیں اور مسلمانوں کا جہادی دستہ سلامت ہے‘‘(تفسیر عزیزی
تسھیل)
پھر آگے
تحریر فرماتے ہیں:( تھوڑا غور سے پڑھیں)
’’لیکن اس شان
نزول میں ایک خدشہ ہے، اس واسطے کہ یہ سورۃ مکّی ہے جبکہ لشکر بھیجنے کا واقعہ
مدینہ منورہ میں پیش آیا، پس یہ واقعہ اس سورۃ کا شان نزول نہیں ہو سکتا اور صحیح
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ اس دین میں
جہاد کا طریقہ مقرر فرمائے تو اُس کا اشارہ اس سورۃ میں منظور ہوا تاکہ خوشخبری ہو
مسلمانوں کو اس بات کی کہ اُن کو طاقت جہاد کی اور گھوڑوں اور فوج اور لشکر کی
عنایت ہوگی کہ پورا بدلہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے لیں اور اُن کی جمعیت کو
بکھیر دیں اور مال و مُلک اُن کا اپنے قبضے میں لاویں‘‘…(تفسیر
عزیزی تسھیل)
اب آتے ہیں
اَلْکَنُودْ کے معنیٰ کی طرف…
حضرات مفسرین کے کئی اقوال ہیں…
اور قرآن پاک کے جامع لفظ میں ان تمام اقوال کو سمیٹنے کی گنجائش موجود ہے…
(۱) اَلْکَنُودْ
کے معنیٰ اَلْکَفُورْ یعنی بہت ناشکری کرنے والا…
ناشکری تین طریقے
سے ہوتی ہے جو ان شاء اللہ آگے چل کر عرض کریں گے…
یہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
اور دیگر جمہور کا قول ہے…
(۲) اَلْکَنُودْ
کا مطلب ہے:
’’الذی یعد
المصائب وینسی النعم‘‘
یعنی جو مصیبتوں
کو تو شمار کرتا ہے جبکہ نعمتوں کو بھول جاتا ہے…(بیہقی،
البغوی)
اللہ پاک حفاظت فرمائے…
بہت سے لوگوں میں یہ بُری عادت ہوتی ہے…
اللہ تعالیٰ کی ان گنت، بے شمار نعمتوں کو بھول جاتے
ہیں… اور ادنیٰ سے
ادنیٰ مصیبت کو گنتے ہیں اور اُس پر واویلا کرتے ہیں…
یہ حسن بصری پ کا قول ہے…
(۳) اَلْکَنُودْ
کا معنٰی ہے:
’’قلیل الخیر‘‘…
اور بخیل
یعنی وہ جس
کی’’خیر‘‘ کم ہو… لازمی بات
ہے کہ خیر کم ہوگی تو شر زیادہ ہوگا…
پس ہر وہ انسان جو بخیل ہو اور اُس کی’’خیر‘‘ کم ہو وہ اَلْکَنُودْ کہلائے گا…
اور جو بہت’’خیر‘‘ پھیلانے والا ہوگا وہ اس مصیبت سے بچ جائے گا…
یہ ابو عبیدہ کا قول ہے…(
تفسیر معالم التنزیل)
(۴) اَلْکَنُودْ
وہ شخص ہے:
’’الذی لایعطی فی
النائبۃ مع قومہ‘‘
یعنی جو مصیبت اور
مشکل کے وقت اپنے لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا…
حالات اچھے
ہوں تو اپنے لوگوںکے ساتھ ساتھ رہتا ہے…
لیکن جب کوئی مصیبت اپنے لوگوں پر آجائے تو اُن کا ساتھ نہیں دیتا… بھاگ
جاتا ہے، یا غیر جانبداری کا اعلان کر دیتا ہے یا دشمنوں سے جا ملتا ہے…
کھانے، پینے، عزت اور نفع اٹھانے میں ساتھی…
اور پریشانی اور مصیبت کے وقت ہرجائی…
یہ مشہور تابعی مفسر حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ (البغوی)
(۵) اَلْکَنُودْ
کے معنیٰ العاصی یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا…
یہ عربوں کے
قبیلہ کندہ کی لغت ہے… اس لُغت
میں نافرمان کو ’’اَلْکَنُودْ‘‘ کہا جاتا ہے…
(معالم التنزیل)
ہمارے حضرت
لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی قول کو اختیار فرمایا ہے…
وہ لکھتے ہیں:
’’انسان
اپنے ربّ کا نافرمان ہے ،اور وہ اس پر گواہ ہے ، اور نافرمانی کا باعث(یعنی
سبب) حُبّ مال ہے…
(حاشیہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ)
ابھی
اَلْکَنُودْ پر مزید بات کریں گے انشاء اللہ …
یہاںایک دلچسپ نکتہ سُن لیں…
وہ کفار جو اللہ تعالیٰ کے ناشکرے بھی ہیں…
ایسے ناشکرے کہ کفر اور شرک تک میں مبتلا ہیں…
اور وہ بخیل اورقلیل الخیر بھی ہیں…
مال کے انبار جمع کرتے ہیں اور انسانوںکو بھوکا مارتے ہیں…
اور وہ مال کے ایسے لالچی اور حریص ہیںکہ…
اس کی خاطر نسلوں کی نسلیں تباہ کر دیتے ہیں…
تو ایسے ظالموں پر اگر جہادی گھوڑے دوڑائے جائیں اور اُن کو ان گھوڑوں کے نیچے
رونداجائے… اور انسانیت کو
ان درندوں سے نجات دلانے کے لئے گھوڑوں کے دستے ان پر حملہ آور ہوںتو…
یہ تمام انسانوں کے لئے کتنی بڑی نعمت اور نوید آزادی ہوگی…
اب اس نکتے کو ذہن میں رکھ کر اس سورۃ مبارکہ کو دوبارہ پڑھیں…
آپ کی نظروں میںصدیوں کی تاریخ گھوم جائے گی…اور
بہت سے سوالات کا جواب مل جائے گا…
دنیا سرمایہ داری نظام میں جکڑی سسک رہی ہے…
کمیونزم بھی سرمایہ داری کی ایک بھونڈی اور بھیانک شکل ہے…
کہیں افراد اور کہیں حکومت جب تمام وسائل پرسانپ بن بیٹھتی ہے تو…
زمین معاشی ناہمواری سے لرزنے لگتی ہے…اور
اس پوری صورتحال اور بیماری کا علاج…
جہاد فی سبیل اللہ ہے…
والعادیات ضبحاً… تفسیر
عزیزی میں ایک اور عجیب نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ…
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین کو جو سزا دے گا…
اُس کا نقشہ دنیا میں… جہاد اور
مجاہدین کے گھوڑے ہیں… تفصیل آپ
خود پڑھ لیں… یا اگر موقع ملا
تو انشاء اللہ اگلی نشست میں عرض کر دی جائے گی…
دعوت ورکنیت کی ’’مبارک مہم‘‘ اختتام پذیر ہوئی…
اس کی کچھ تفصیل… اور اس پر
شکر گزاری کے لئے آج چند الفاظ لکھنے تھے…
مگر جہادی گھوڑے… پورے کالم
پر چھا گئے… اللہ پاک مجاہدین اور اُن کے گھوڑوں کو سلامت
رکھے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (340)
شَکُور یا کَنُود؟
سورۃ
العادیات کے مرکزی مضمون کی مفصل وضاحت نا شکری کی تین اقسام…
عرب کے تین ضرب
المثال افراد کا تذکرہ…
نا شکری کیوں پیدا ہوتی ہے؟
حجاج بن یوسف کی
تین بیماریاں…
سورۃ العادیات کا
درس اور پیغام…
محاسبہ نفس کرنے
والی ایک فکر انگیز تحریر…
تاریخ اشاعت
۱۵ربیع الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۹مارچ؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۴۰)
شَکُور یا کَنُود؟
اللہ تعالیٰ مجھے
اور آپ سب کو نعمتوں پر شکر گزاری کی توفیق عطاء فرمائے…
اور ہم سب کوالکنود بننے سے بچائے…
بات چل رہی تھی…
اِنَّ
الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْد
بے شک انسان اپنے
رب کا ناشکرا ہے…
حضرت شاہ صاحب
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نا شکری تین طرح سے ہوتی ہے…
(۱) نعمت
کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کرے بلکہ اُسے اپنا کمال سمجھے
یا کسی اور کی طرف منسوب کرے…
ہمیں یہ بیٹا فلاںبزرگ اور پیر نے دیا ہے…
ہماری یہ بیماری فلاں نے ختم کی ہے…
قارون کہتا تھا کہ… سارا مال
میںنے اپنے ہنر اور عقلمندی سے حاصل کیا ہے…
(۲) کسی
نعمت سے وہ فائدہ نہ اٹھائے جس کے لئے وہ نعمت دی گئی ہے…
بلکہ اُس سے گناہ اوربُرائی کمائے…
زبان ملی ذکر،تلاوت، دعوت اور اچھی باتوں کے لئے…
اب اُسے گالی، غیبت اور جھوٹ میں لگایا…
یہ بھی ناشکری ہے…
(۳) کسی
نعمت میں ایسا مشغول ہو جائے کہ نعمت دینے والے کے حقوق سے غفلت کرنے لگے…
یعنی اُس نعمت کی محبت اُس کے دل پر ایسی غالب ہو جائے کہ اس میں غرق ہو جائے اور
نعمت دینے والے کو بھول جائے…
جیسے دنیا دار لوگ کہ دُنیا کی محبت ایسی غالب ہوجاتی ہے کہ دن رات اُسی میں پھنسے
رہتے ہیں ، یہاں تک کہ اُس کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھول جاتے ہیں…(مفہوم
مع اضافہ تفسیر عزیزی)
بات کو مختصر کرتے
ہیں… آج کی مجلس میں
دو کام کرنے ہیں… ایک تو
الکنود کا معنیٰ اچھی طرح سمجھنا ہے…
اور دوسرا یہ کہ ہم خود کو دیکھیں…
ہم’’کنود‘‘ ہیں یا ’’شکور‘‘…
اگر خدانخواستہکنود ہیں تو پھر اپنی اصلاح کی فکر کریں…
کیونکہ ’’کنود‘‘ ایک جہنمی صفت اور بیماری ہے…
اصل میںالکنود کا
لفظ… انکار کے معنیٰ
میں آتا ہے… یعنی وہ شخص جو
اس بات کو محسوس اور تسلیم ہی نہیں کرتا کہ…
اللہ تعالیٰ نے اُس پر انعام اور احسان فرمایا ہے…
یہ ایک خاص طبیعت ہے… آپ نے
بعض لوگوں کو دیکھاہوگا کہ…
کسی کے احسان کو نہیں مانتے…
آپ اُن کے ساتھ لاکھ اچھائی کریں اُن کے دل میں یہ نہیں آتا کہ اُن پر کسی نے
کوئی احسان یا اچھائی کی ہے…
بس یہ ہے اس بیماری کی اصل جڑ…
اب اس جڑ سے کیا کیا کڑوے پھل اور کانٹے نکلتے ہیں…
وہ اُن مختلف روایات اور اقوال میں آپ پڑھ سکتے ہیں جن میں’’الکنود‘‘ کا معنیٰ
بیان کیا گیا ہے… مثلاً
الکنود کا ایک معنیٰ البخیل ہے…
کنجوس… جو آدمی نہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو مانتا ہو…
نہ اُسے یہ احساس ہو کہ اُس کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے…
اور مخلوق کے اُس کے ذمہ حقوق ہیں…
ایسا آدمی لازماًبخیل ہوتا ہے…
اوربخل کا آغاز بھی’’انکار‘‘ اور ناشکری سے ہوتا ہے…یہاں
تھوڑا سا اپنی معلومات میں اضافہ کر لیں…
عربوںمیں تین افراد تین کاموں میں ضرب المثل تھے…
(۱) حاتم
طائی سخاوت میں… اللہ تعالیٰ نے اُن کے بیٹے حضرت عدی بن
حاتم رضی اللہ عنہ کو اسلام اور صحابیت کا شرف بخشا…
(۲) ’’ابوحباب‘‘
بخل اور کنجوسی میں… اُس کی
کنجوسی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھر میں آگ بھی اُس وقت جلاتا تھا جب سب لوگ سو جاتے…
تاکہ اُس کی آگ سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر لے…
روشنی، گرمی وغیرہ… ویسے بخل
کا ترقی یافتہ درجہ یہ ہوتا ہے کہ…
خود کسی کو فائدہ نہ پہنچائے…
اور اگر کسی اور کو دیکھے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے تو اُس پر بھی اس کا دل
دُکھنے لگے… العیاذ ب اللہ
(۳) ’’اشعب
بن جبیر‘‘… لالچ اور حرص میں…
ان کے حرص اور لالچ کے عجیب واقعات ہیں…
یہ جب کسی کو گردن کُھجاتے دیکھتے تو سمجھتے کہ یہ آدمی اپنی قمیض اُتار رہا ہے
تاکہ مجھے دے دے… جب کسی
گھر سے دھواں اٹھتا دیکھتے تو سمجھتے کہ ابھی ضرور اس گھر سے میرے لئے کھانا آئے
گا… جب کسی بارات کو
دیکھتے توفوراً اپنے گھر کے سامنے جھاڑو دیتے کہ ابھی لوگ آئیں گے اور دلہن (نکاح
کے بعد) میرے سپرد کر دیں گے…
اُنہیں خود اپنے حرص کا اعتراف تھا…
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شکر اور قناعت نصیب فرمائے…
اور ناشکری اور حرص سے بچائے…
ایک روایت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الکنود کا معنی ان
الفاظ میں بیان فرمایا…
{الذی یاکل وحدہ
ویضرب عبدہ ویمنع رفدہ}
یعنیالکنود وہ ہے
جو اکیلے کھاتا ہو… اپنے غلام
کو مارتا ہو اور کسی کو کچھ نہ دیتا ہو…
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس پر جن چیزوں کاانعام فرمایا اُن
میں سے کچھ بھی لوگوں کو نہ دیتا ہو…
غور فرمائیں اصل جڑ اور بنیاد’’انکار‘‘ ہی نظر آئے گا…
پکی مٹی کی بنی ہوئی وہ گولچی جس میں بچے اپنے پیسے جمع کرتے تھے…
اب بھی بعض جگہ نظر آتی ہے…
آپ اس میں سکے ڈالیں یا تہہ کر کے نوٹ…
سب اندر چلے جاتے ہیں… لیکن جب
کچھ نکالنا چاہیں تو… انکار…
جتنا الٹا کریں، جھٹکے دیں کچھ نہیں نکلتا…
ہاں جب ٹوٹ جائے یعنی مرجائے تو…
سب کچھ نکل آتا ہے…
الکنودکا ایک
ترجمہ کیا جاتا ہے لوّام لربّہ یعنی وہ شخص جو نعوذ ب اللہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو ملامت کرتا رہتا ہے…
مجھے یہ کیوں نہیں دیا؟…
مجھے فلاں مصیبت کیوں دی؟…
میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟…
میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا ہے؟…
انکار، انکار، انکار… یعنی
کروڑوں اربوں نعمتوں کا خیال تک دل میں نہیں آتا…
بس جو دو چار مصیبتیں یا آزمائشیں ہوں اُن پر اللہ تعالیٰ سے شکوے کرتا رہتا ہے…
یہ نہیں سوچتا کہ میں بندہ ہوں اور وہ میرا رب ہے…
میں غلام ہوں اور وہ مالک مطلق اور مختار کل ہے…
بالآخر انکار کا سلسلہ کفر، شرک اور الحاد تک چلا جاتا ہے…کوئی
کافر بنتا ہے، کوئی مشرک بنتاہے…
کوئی دہریہ، ملحد اور زندیق بنتا ہے…
وہ دیکھو! گھوڑا اپنے مالک سے چار دانے کھا کر اُس کی وفاداری میں جان دے رہا ہے…
اور جہاد کے میدانوں میں ہانپ رہا ہے…
جبکہ انسان جسے اللہ پاک نے پیدا فرمایا…
ماں کے پیٹ میں روزی دی…
اور طرح طرح کے کروڑوں انعامات دیئے…
اپنی خود غرضی، نفس پرستی اور ناشکری کی وجہ سے…
ان انعامات کو مانتا ہی نہیں…
اگر مانتا تو کبھی اپنے رب کی ناشکری نہ کرتا…
مگر یہ کفر اور نفاق میں جا پڑتا ہے…
اپنی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کرغیروں کے دروازوں پر گرتا اور
جھکتا ہے… اور کبھی بھی
اپنے رب سے راضی نہیں ہوتا…
’’الکنود‘‘ کا ایک ترجمہ بعض مفسرین نے یہ کیا ہے:
{الذی لا یشکر
الکثیر وینسی الیسیر}
یعنی اگر اللہ تعالیٰ اُسے کوئی چھوٹی نعمت دے تو اُسے بھول
جاتا ہے… اور اگر بڑی نعمت
عطاء فرمائے تو اُس پر شکر ادا نہیں کرتا…
وہی انکار…
کسی بھی نعمت اور احسان کو احسان نہ سمجھنا…
وہی خود غرضی کہ نہ اپنا ماضی یاد رہے اور نہ اپنے مستقبل (یعنی آخرت) کی فکر ہو…
بس اپنے حال میں مغرور…
کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ بس میرا ہے اور میں ہی اس کاحقدار ہوں…
اس سے بھی انکار کہ یہ نعمت پہلے میرے پاس نہیں تھی…
اور اس سے بھی انکار کہ میں اس نعمت پر شکر گزار اور فرمانبردار بن جاؤں…
الکنود کا ایک ترجمہ ان الفاظ میں کیا جاتا ہے:
{ الحسود الحقود}
بہت حسد
کرنے والا… بہت کینہ رکھنے
والا… کسی جگہ پڑھا تھا
کہ حجاج بن یوسف میں یہی تین عیب تھے…
{الحسود، الحقود،
اللجوج}
بہت حاسد، بہت بغض
اور کینہ رکھنے والا… بہت ضدی…
ایک بار خلیفہ نے اُس سے پوچھا کہ حجاج! تم اپنے اندر کوئی عیب دیکھتے ہو…
حجاج جواب سے بچنے کی کوشش کرتا رہا…
مگر جب خلیفہ نے حکم دیا تو اپنے یہی تین عیب بتائے…
خلیفہ نے کہا… حجاج! ابلیس یعنی
شیطان میں بھی اس سے زیادہ کوئی شر نہیں ہے…
جڑ وہی انکار…
کسی اور کو نعمت کیوںملی؟…
دل جلنے لگا… اور کوئی
کیوںباعزت اور بامقام ہوا…
دل بغض اور کینے سے بھر گیا…
اور ضد تو نام ہی انکار کا ہے…
انسان اگر ہر لمحہ اُن نعمتوں کو محسوس کرے اوردل سے مانے جو اللہ تعالیٰ اُسے عطاء فرماتا ہے تو کبھی…
وہ حاسد اور کینہ پرور نہ ہو…
مگر انسان الکنود ہے… یہ بات اللہ تعالیٰ نے جہادی گھوڑوں اور اُن کے جہادی مناظر
کی قسم کھا کر ارشاد فرمائی ہے…
سبحان اللہ ! ایک طرف تو عظیم رب تعالیٰ
نے ان گھوڑوں کی قسم کھا کر…
جہاد کی عظمت اور مقام کوبیان فرمایا…
دوسری طرف مسلمانوں کو جہاد کا بے حد شوق دلایا کہ…
ارے بندو! خود کو ایسی حالت میں لے آؤ…
جس حالت کی قسم اللہ تعالیٰ خود کھاتے ہیں…
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو ان مناظر سے محبت ہے…
تیسری طرف مسلمانوں کو…
جہادی آلات، جہادی سواریاں اور جہادی تیاری کی ترغیب دے دی کہ…
یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا ذریعہ ہیں…
اور چوتھی طرف ایک بڑی بیماری کا علاج بھی ارشاد فرما دیا کہ…
ناشکری اور حب دنیا کا علاج خود کوموت کے محاذوں پر لے جانا ہے…
الکنود کا ایک اور ترجمہ بعض مفسرین نے کیا ہے:
{الجاحد للحق}
یعنی حق کا
انکار کرنے والا… یعنی
انسان کے اندر’’انکار‘‘ کا آلہ ایسا الٹا ہو جائے کہ…
غلط چیزوں کی بجائے ٹھیک چیزوں کا انکار کرنے لگے…
آپ جانتے ہیں … اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں ماننے کا جذبہ بھی رکھا
ہے… اور انکار کرنے
کا جذبہ بھی… ایمان کا آغاز
انکار سے ہوتا ہے… ’’لا الہ
الا اللہ ‘‘…
نہیں کوئی معبود اللہ تعالیٰ کے سوا…
پہلے انکار آیا… اُس نے
جگہ صاف کی تو پھر اثبات آیا اور دل میں بیٹھ گیا…
ہاں صرف ایک اللہ ، ایک اللہ ، ایک اللہ …
لیکن کافر اور بدقسمت انسان کے دل میں لگے یہ دو آلے الٹے کام کرتے ہیں…
بری چیزوں کا اقرار… اور اچھی
چیزوں کا انکار… یعنی فطرت ہی
الٹی ہو گئی… لیجئے اب ایک بار
پوری سورۃ مبارکہ کا ترجمہ پڑھتے ہیں…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’ان تیز دوڑنے
والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپ اٹھتے ہیں…
پھر پتھروں پر ٹاپ مار کر آگ نکالتے ہیں…
پھر صبح کے وقت حملہ کرتے ہیں…
پھر اس میں گرد اٹھاتے ہیں…
پھر اُس وقت(دشمنوں کی) فوج میں جا گھستے ہیں…
کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا یعنی(احسان نہ شناس) ہے…
اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے…
اور وہ مال سے سخت محبت کرنے والا ہے…
کیا وہ اُس وقت کو نہیں مانتا کہ جو قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے…
اور جو(راز) دلوں میں ہیں وہ ظاہر کر دیئے جائیں گے…
بے شک اُن کا رب اُس روز اُن سے خوب واقف ہوگا…
(العادیات)
پڑھ لیا آپ نے
گیارہ آیات کا ترجمہ… دیکھا آپ
نے میرے رب کے امر جہاد اور حکم جہاد کو…
اور دیکھ لیا آپ نے کہ اللہ تعالیٰ کو ناشکری، اور مال کی محبت کرنے والوں
سے کتنی ناراضی ہے… اور دیکھ
لیا آپ نے انسان کا انجام…
قبر، حشر، حساب اور آخرت…
اب ضروری ہواکہ… ناشکری چھوڑیں،
حب دنیا سے توبہ کریں… جہادی
گھوڑوں کی پیٹھ پر جگہ پکڑیں…
اور ربّ خبیر کی محبت حاصل کریں…پچھلے
رنگ و نور میں… اور آج الکنود
کے کئی معانی ہم نے پڑھ لئے…
ایمان اور جہاد کے ذریعہ اس کمزوری اور بیماری کا علاج ممکن ہے…
پکّا سچا ایمان… اور جان و مال سے
جہاد… اللہ تعالیٰ نے ’’دعوت و رکنیت مہم‘‘ کے ذریعہ ہم سب
پر جو انعام اور احسان فرمایا ہے…
ہمیں چاہئے کہ ہم کنود نہیں شکور بنیں…
اُس احسان کو دل سے مانیں اور اُس کی روشنی میں اپنے رُخ کو…
مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر لیں…
اور اپنی آئندہ زندگی…
اللہ تعالیٰ کے لئے اور نصرت دین محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کے لئے وقف کردیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (341)
ہدایت نامہ
اکابرعلماء کرام
کی سر پرستی و مشاورت… مجاہدین
اور اسیرانِ اسلام کی تمناؤں اور مسلمان ماؤں اور بہنوں کی دعاؤں سے قائم ہونے
والی ایک مبارک جماعت ’’جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے تمام اراکین کے لئے اہم
ہدایات پر مشتمل واضح نصاب…
امیر المجاہدین
حضرۃ مولانا محمد مسعود ازہر اور ان کی جماعت کے دعوتی نصب العین اور دینی مزاج سے
متعارف کرنے والا خود امیر جماعت کی طرف سے تحریر کردہ ’’جماعتی دستور‘‘
آپ بھی پڑھیے اور
پھر بیعت علی الجہاد کی سنت کو زندہ کرنے کے لئے جماعت میں شمولیت کے لئے قدم بڑھا
دیجئے…!
تاریخ اشاعت
۲۲ربیع الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۶مارچ؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۴۱)
ہدایت نامہ
اللہ تعالیٰ کا
محبوب دین’’اسلام‘‘ … حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق زمین کے ہر کچے پکے گھر اور خیمے
میں داخل ہو گا… عزت والوں کو عزت
دے کر اور ذلیل لوگوں کو ذلت اور رسوائی دے کر…
اسلا م میں کسی کو زبردستی داخل نہیں کیا جاتا…
اور نہ ہی مجبوراً صرف زبان سے کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہوتا ہے…
جب تک کوئی اپنے دل کی خوشی اور تصدیق کے ساتھ کلمہ نہ پڑھے وہ اسلام میں داخل
نہیں ہوتا… اس لئے زور
زبردستی کی توگنجائش ہی نہیں…
ہاں! قوت، طاقت اور جہاد کے ذریعے اسلام کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا جاتا ہے…
ایک ابو جہل کا سر اڑا تو ہزاروں لوگوں کے لئے اسلام کا راستہ کُھلا…
ہر انسان فطری طور پر اسلام کی طرف لپکتا ہے…
لیکن کفر کی طاقت، شوکت اور ظاہری عزت وہ فتنہ ہے جو فطرت کو مسخ کر دیتا ہے…
تب نام کے مسلمان بھی کفر کی طرف لپکتے ہیں…
یہی وجہ ہے کہ… آج(نعوذ ب اللہ )
مسلمانوں کو تیسری دنیا کا فرد قرار دیا جاتا ہے…
حالانکہ تیسری دنیا وہ ہے جہاں ایمان نہیں، اسلام نہیں…
کلمے والے مسلمان تو پہلی اور افضل دنیا کے لوگ ہیں…
وہ لوگ جو کلمے سے محروم ہیں…
بادشاہ ہوں یا وزیر، سرمایہ دار ہوں یا قارون، سائنسدان ہوں یا فضاؤں میں اڑنے
والے… وہ سب ناکام ہیں،
رسوا ہیں، ذلیل ہیں… اور
جانوروں سے زیادہ حقیر ہیں…
دلیل یہ ہے کہ… وہ سب مرجاتے
ہیں، بوڑھے ہوتے ہیں، اُن کا عیش و آرام اور ایجادات اُن کے کچھ کام نہیں آتیں…
وہ ہمیشہ کی کامیاب زندگی کے اصل راز سے محروم ہیں…
اور وہ راز ہے … لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
ماشاء اللہ چالیس روزہ مہم خوب چلی…
نور اور سکون کی ایک بارش تھی جو ماشاء اللہ جم
کر برسی… لاکھوں افراد نے
دین اسلام کا مکمل پیغام سنا…
جی ہاں بلا مبالغہ لاکھوں افراد نے…
ان میں سے
الحمدﷲ… دو لاکھ کے لگ
بھگ افراد نے جماعت کی رکنیت لی…
ایک سائبان، ایک ڈھال، ایک قوت، ایک سکینہ، اور ایک چھت…
جماعت کے بارے میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ
لیجئے… نئے اور پرانے
’’اراکین‘‘ کے لئے امیر جماعت کی طرف سے پہلا’’ہدایت نامہ‘‘ جاری کر دیا گیا ہے…
فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا ایک آسان نصاب…
ہدایت کایہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کی مدد رہی تو ان شاء اللہ آگے بھی جاری رہے گا…
خوش نصیب افراداس پہلے’’ہدایت نامہ‘‘ کے ایک ایک لفظ کو دل میں اُتاریں…
اس پر باقاعدہ عمل کی ترتیب بنائیں…
اور اسے اپنی زندگی پر نافذ کریں…
زمین پر اچھی تبدیلی کی باتیں کرنا آسان ہے…
مگر یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم خود اپنے اندر تبدیلی لائیں…
لیجئے ملاحظہ فرمائیے ضروری اور مفید ہدایات پر مشتمل’’ہدایت نامہ‘‘
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدایت نامہ برائے
اراکین
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ
۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ
الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَََلَاالضَّآ لِّیْنََ ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ
عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ
وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد ۔
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی
اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔ (بخاری)
دین اسلام
دین اسلام کی
بنیاد کلمہ طیبہ
’’لا الہ الا
اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ پر ہے…
حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سابقہ تمام ادیان منسوخ ہو چکے ہیں۔ اب
کامیابی صرف اور صرف دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔ اور اس دین
کا نام ’’دین اسلام‘‘ ہے۔ دین اسلام سب سے بڑی نعمت، اصل ہدایت اور کامیابی کی
واحد ضمانت ہے… عزت اور کامیابی
صرف اسلام میں ہے… نہ کہ
مال، منصب، قوم قبیلے میں…
اور نہ ہی دنیا کی ظاہری چمک دمک میں…
ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اندر اور تمام مسلمانوں میںاس بات کا شعور پیدا کریں کہ
اسلام ہی اصل عزت اور کامیابی ہے…
اور اسلام کے بغیر نہ کوئی عزت ہے اور نہ کامیابی…
اللہ تبارک و
تعالیٰ کا ارشاد گرامی:
(۱) اَلْیَوْمَ
اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ
لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
ترجمہ: آج
ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور
تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ۔ (المائدہ:۳)
(۲) اِنَّ
الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ…
ترجمہ: دین
تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔ (آل عمران: ۱۹)
(۳) وَمَنْ
یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی
الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
ترجمہ:اور جو شخص
اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور
ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ۔ (آل عمران: ۸۵)
(۴) اَلَّذِیْنَ
کَفَرُوْا وَصَدُّوْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعْمَالَھُم O وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا
بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ کَفَّرَعَنْھُمْ
سَیِّاٰتِھِمْ وَاَصْلَحَ بَالَھُمْ۔
ترجمہ: جن
لوگوں نے کفر کیا اور (اَوروں کو) اللہ کے رستے سے روکا۔ اللہ نے ان کے اعمال
برباد کر دیئے ۔ اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو (کتاب) محمد صلی
اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ ان کے پروردگار کی
طرف سے برحق ہے ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنوار دی۔(محمد:۱،۲)
(اس موضوع پر
ایمان افروز تفصیلات کے لیے ’’فتح الجوّاد‘‘ جلد۳ میںسورۂ
محمد کی ابتدائی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں)
حق جماعت
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن یُّرِدِ اللہ بِہِ خَیْرَا یُّفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَلَا
تَزَالُ عِصَابَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ یُقَاتِلُونَ عَلٰی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ
عَلٰی مَنْ نَاوَاہُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث ۳۵۴۹)
ترجمہ: ’’جس کے
متعلق اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی
سمجھ عطاء فرماتا ہے اور مسلمانوں میں ایک جماعت تاقیامت ایسی رہے گی جو حق کی
خاطر جہاد کرے گی اور اپنے دشمنوں پر غالب رہے گی۔‘‘
مَن مَّاتَ وَلَمْ
یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہِ نَفْسَہُ مَاتَ عَلیٰ شُعْبَۃٍ مِّنَ النِّفَاقِ۔
(صحیح مسلم، رقم
الحدیث ۳۵۳۳)
ترجمہ: ’’جو
شخص مرگیا اور اس نے جہاد نہ کیا اور نہ جہاد کی نیت اس کے دل میں آئی وہ شخص نفاق
کے ایک حصے پر مرے گا۔‘‘
ان دو احادیث
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی برحق جماعت قیامت تک موجود رہے گی اور اس کی
دو علامتیں ہوں گی۔
(۱) دین
کا علم (۲) جہاد
فی سبیل اللہ
اسلام کے اہم
فرائض
(۱) نماز
(۲) رمضان المبارک کے
روزے
(۳) زکوٰۃ
(۴) حج
(۵) جہاد فی سبیل اللہ
یہ تمام فرائض
قرآن پاک سے قطعی دلائل کے ساتھ ثابت ہیں۔ ان تمام فرائض کو دینِ اسلام کا فریضہ
ماننا لازم ہے اور ان فرائض کا انکار کفر ہے۔ اور جب شرائط پوری ہونے پر یہ کسی کے
ذمہ فرض ہو جائیں تو ادا کرنا لازم اور چھوڑنا سخت گناہ ہے۔
جماعت کے مقاصد
(۱) مکمل دین
اسلام پر ایمان لانا
(۲) دین
اسلام پر عمل کرنا
(۳) دین
اسلام کی دعوت دینا
(۴) دین
اسلام کے غلبے کی محنت کرنا
(۵) دین
اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کرنا
بنیادی دعوت
(۱) ایمان…
کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں…
جی ہاں! تمام انبیاء کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول۔
(۲) اقامت
صلوٰۃ… نماز دین اسلام
میں اس طرح ہے جس طرح انسانی جسم میں سر…
نماز ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے اہم کام بن جائے۔
(۳) جہاد
فی سبیل اللہ… جہاد اسلام کی
بلند ترین چوٹی … اسلام اور
مسلمانوں کی عزت، آزادی، سرفرازی اور کامیابی کی ضمانت ہے اور جہاد سے ایمان کے
کھرے یا کھوٹے کا امتحان ہوتا ہے۔
ان تین لازمی امور
کی دعوت اور ترتیب کے ذریعہ پہلے خود کو اور پھر تمام مسلمانوں اور تمام انسانیت
کو پورے دین اسلام پر لانے کی محنت کرنا…
جماعت کے التزامات
(۱) مسلمانوں
کو شعوری مسلمان اور مؤمن بنانے کی فکر…
یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تمام درجات کو زندہ کرنا…
(۲) قرآن
پاک اور دینی تعلیم کا فروغ…
مساجد سے محبت اور مساجد کی آبادی…
(۳) فرائض
اور سنتوں کا معاشرے میں احیاء…
(۴) خدمت
خلق…
(۵) کفر،
ظلم اور نفاق کا مقابلہ…
(۶) مظلوم
مسلمانوں کی بھرپور مدد…
اور اُن کے ساتھ مکمل یکجہتی…
(۷) امانت،
حیاء ، شجاعت اور ایثار کا احیاء…
(۸) اُمت
مسلمہ میں اتحاد کی کوشش…
(۹) فرد
اور معاشرے کی اصلاح… تزکیہ نفس…
(۱۰) اخلاص
اور مسلسل محنت…
جماعت کی نظریاتی
بنیاد
(۱) کتاب
اللہ
(۲) سنت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مطالعاتی نصاب…ابتدائی
(۱) تعلیم
الاسلام (مفتی محمد کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
(۲) حیات
الصحابہ (مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ)
(۳) دستور
حیات (مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ)
(۴) زادِ
مجاہد (مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ)
(۵) دروس
جہاد (مولانا محمد مسعود ازہرحفظہ اللہ تعالیٰ)
(۶) فضائل
نماز (مولانامحمدزکریاکاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
(۷) سات
دن روشنی کے جزیرے پر (مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ)
مطالعاتی نصاب…
متوسط
(۱) سیرت
المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ
اللہ علیہ)
(۲) تاریخ
الاسلام (مولانا محمد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
(۳) تعلیم
الجہاد (مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ)
(۴) فضائل
جہاد (مولانا محمد مسعود ازہرحفظہ اللہ تعالیٰ)
(۵) بہشتی
زیور (مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ)
(۶) معارف
الحدیث جلد ۱ تا ۷ (مولانا
محمد منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ)
(۷) فضائل
ذکر (مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ)
مطالعاتی نصاب…بلیغ
(۱) تفسیر
عثمانی (مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ)
(۲) ترجمہ
حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ (حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ)
(۳) فتح
الجوّاد (مولانا محمد مسعود ازہرحفظہ اللہ تعالیٰ)
(۴) سیرت
سید احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ (مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ
علیہ)
(۵) اسلامی
عقائد (مولانا ڈاکٹر عبدالواحد صاحب)
(۶) ریاض
الصالحین (امام محی الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ)
(۷) یہود
کی چالیس بیماریاں اور دیگر تمام کتب امیرِ جماعت…
جماعت کا تربیتی
نصاب
(۱) دورہ
اساسیہ… پندرہ روز
(۲) دورہ
تفسیر آیات الجہاد… سات روز
(۳) دورہ
تربیہ… سات روز
(۴) دورۂ
خیر… چالیس روز
تمام اراکین جماعت
ان دوروں میں شرکت کی فوری ترتیب بنائیں۔ اور پھر ان چار دوروں کے بعد والے ضروری
دوروں میں شرکت کریں۔
معمولات یومیہ
(۱) ایمان
کی تجدید، تازگی اور مضبوطی کے لیے روزانہ بارہ سو بار ’’لا الہ الا اللہ ‘‘کا ورد…
ہر ایک سو پر کلمہ پورا کریں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
اور درود شریف
(۲) چار
تسبیحات…
کلمہ
طیبہ مکمل … تیسرا کلمہ…
درود شریف… استغفار
(۳) روزانہ
قرآن پاک کی تلاوت…
(۴) اپنی
قضاء نمازوں اور روزوں کی ادائیگی کی ترتیب…
(۵) روزانہ
کچھ وقت دینی مطالعہ، مطالعاتی نصاب میں سے یا امیرِجماعت کے مشورے سے
(۶) روزانہ
ایک سو بار یہ دعاء…
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
ترجمہ: یا اللہ
میں آپ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی اور سیر چشمی کا سوال کرتا ہوں۔
(۷) موت
کی یاد… اور روزانہ پچیس
بار یہ دعا
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ
(۸) استغفار
اور درود شریف کی جس قدر ممکن ہو کثرت کریں۔
(۹) ہو
سکے تو اسم ’’اللّٰہ‘‘ کا ورد روزانہ ایک ہزار بار…
(امیر جماعت سے اصلاحی بیعت والے حضرات و خواتین کے ضروری معمولات میں یہ شامل ہے)
(۱۰) اپنے
نفس کا محاسبہ… نیکیوں پر شکر
اور گناہوں پر استغفار…
اور جو امراض نظر آئیں ان کی اصلاح کے لیے دعاء۔
روزانہ کا کام
(۱) نماز
پانچ وقت پابندی… باجماعت
مسجد میں حاضری کے ساتھ…
مساجد سے دل لگائیں، مساجد کو آباد کریں…
(۲) ایمان،
توبہ اور اپنے عہد کی ہر دن تجدید کرنا…
کوئی بھی وقت مقرر کر لیں…
(۳) روزانہ
فضائل جہاد کی تعلیم کرانا…
یا اس میں شرکت کرنا… مسجد میں
ہو یا گھر، دکان یا کسی بھی جگہ…
(۴) معمولاتِ
یومیہ کی حتی الوسع پابندی کرنا…
(۵) جہاد
فی سبیل اللہ کی نیت سے کچھ ورزش کرنا…
(۶) والدین،
رشتہ داروں اور تمام مخلوق کے شرعی حقوق کی ادائیگی…
باقی کام
(۱) جماعت
کی ہفتہ واری مجلس… اور
ماہانہ مشورے میں شرکت کرنا
(۲) جماعت
کے اخبار اور دیگر نشریات کو پڑھنا اور پھیلانا
(۳) ہر
ماہ اپنی آمدن میں سے کچھ حصہ ( کم از کم پچاس روپے) جماعت اور جہاد میں دینا
(۴) امت
مسلمہ، برسرِپیکار مجاہدین اور اسیران کے لیے دعاء کرنا
(۵) روزانہ
یا ہر ہفتے چند افراد کو …کلمہ
(ایمان)… نماز اور جہاد کی
دعوت دینا
اطاعت امیر
(۱) اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے:
یٰٓاَیُّھَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی
الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء:۵۹)
ترجمہ: اے
ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب
اختیار ہیں ان کی بھی ۔
(۲) حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ اَطَاعَنِی
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَمَنْ اَطَاعَ
الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصَی الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ
(بخاری)
ترجمہ: جس شخص نے
میری(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی) اطاعت کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی
اورجس نے میری (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی) نافرمانی کی اُس نے
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے امیرکی اطاعت کی اُس نے میری(نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی) اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری(نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی) نافرمانی کی۔
ایک اہم فکر
تمام مسلمان بھائی
بھائی ہیں… تمام مسلمان ایک
جسم کی طرح ہیں… یہ
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں آیا ہے…
آج ہمارے مسلمان بھائی اور بہنیں دنیا بھر میں کافروں کے ظلم و ستم کا نشانہ ہیں…
مسلمانوں کے علاقے کافروں کے قبضے میں ہیں…
بہت سے مسلمان غلامی اور قید و بند کی صعوبتوں میں ہیں…
اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے لیے …
اور مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے فکر مند ہونا ایمان کا تقاضہ ہے…
اسی طرح حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حرمت قرآن کے
لیے ہر طرح کی قربانی کے لیے خود کو تیار کرنا بھی ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے۔
شرح صدر
جماعت پر اللہ
تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے…
جماعت میں برکت اور ایمان کی حفاظت ہے…
بیعت علی الجہاد اس امت کے لیے بڑی نعمت اور سکینہ ہے…
ہماری دعوت کسی فرد، شخصیت یا نئے نظرئیے کی طرف نہیں …
ہم مسلمانوں کو… اور تمام انسانوں
کو… ایمان کی طرف
بلاتے ہیں… اللہ تعالیٰ…
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاتے ہیں…
قرآن پاک اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاتے ہیں…
کلمہ طیبہ ، نماز اور جہاد کی طرف بلاتے ہیں…
ہم تمام انسانوں کو… باطل
ادیان چھوڑ کر دین اسلام کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں…
ہم اسلام کی سلامتی اور ایمان کے امن کی طرف دنیا کو بلاتے ہیں…
ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر…
ایک اللہ کی بندگی اور غلامی میں لانے کی محنت کرتے ہیں…
ہم مسلمانوں کو… مدینہ منورہ سے
جوڑنے کی جدو جہد کرتے ہیں…
دین اسلام کی خاطر جینا اور مرنا ہماری سعادت…
اور دین اسلام کی خاطر جان و مال کی قربانی دینا ہماری عزت اور کامیابی ہے…
آئیے! دنیا کے ہر کچے پکے گھر…
اور زمین کے ہر کونے تک دین اسلام کی روشنی پھیلانے اور پہنچانے کی محنت میں شریک
ہو جائیں…
ھُوَ الَّذِیْٓ
اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ
کُلِّہٖ(الفتح:۲۸)
ترجمہ:اُسی اللہ
تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت اور دین حق دے
کر بھیجا تاکہ اس (دین اسلام) کو تمام دینوں پر غالب کرے۔
لا الہ الا
اللہ لا الہ الا اللہ لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللّٰھم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ
محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (346)
لمبی عمر پانے کا
راز
شیر اسلام شیخ
اسامہ شہید اور ان کے والد محترم کے حوالے سے چند بکھری مفید باتیں…
ان کے اہل خانہ کی حفاظت و سلامتی کی دعاء…
کیا جہاد فی سبیل
اللہ انسان کی زندگی اور عمر کو گھٹاتا ہے؟
مجاہد کے مال و
اولاد اور صدقات جاریہ میں برکت…
لمبی عمر حاصل
کرنے کے دو مفید ایمانی طریقے…
آخرت سے غافل اور
دین کی حقیقی قدر سے محروم ’’مسلمان‘‘
کہلانے والے ایک
وفد کا تذکرہ اور اس میں عبرت کا سبق!
ایک مسلمان کے لئے
اپنی اولاد کو قرآن پاک…
مساجد اور جہاد سے جوڑنا کتنا ضروری اور مفید ہے؟
ان تمام باتوں کو
سمجھانے والی پر اثر تحریر…
تاریخ اشاعت
۲۸جمادی الاوّل؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۰اپریل؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۴۶)
لمبی عمر پانے کا
راز
اللہ تعالیٰ
ہم سب کو ایمان کامل نصیب فرمائے…
ایمان کامل پر ہمارا خاتمہ فرمائے…
اور ہماری اولاد میں ایمان اور اسلام کو تا قیامت جاری فرمائے…
کل(۲) مئی
پھر آرہا ہے… پچھلے سال2011ء
کے دو مئی کو سانحہ ایبٹ آباد پیش آیا، شیخ اُسامہ بن محمد بن عوض بن لادن شہید
رحمۃ اللہ علیہ … شیخ صاحب
تو اُن مسلمانوں میں سے تھے جو نہ عُرس مناتے ہیں اور نہ ہی برسی…
نہ سالگرہ اور نہ یوم وفات…
دراصل اسلام میں ان دنوں کے منانے کا کوئی ثبوت نہیں…
اسلام کے اپنے’’دن‘‘ ہیں، جن کا تعلق’’دین‘‘ کے ساتھ ہے نہ کہ افراد کے ساتھ…
عیدالفطر منائیں یہ روزے کی خوشی…
عیدالاضحیٰ یہ حج اور قربانی کی خوشی…
اور بس… اگر ہم’’افراد‘‘
کے دن منانا شروع کر دیں تو پھر کونسا دن خالی رہ جائے گا؟…
اوریہ کیسے فیصلہ ہوگا کہ آج جشن ہے یا ماتم؟…
ایک سال کسی دن کوئی خوشی آتی ہے اور اگلے سال اُسی دن کوئی غم…
شکر یہ دین اسلام کا!… جس نے
مسلمانوں کو ہر طرح کی مشقت اور پریشانی سے بچادیا…
اور اُن کو ’’احکام الہٰی‘‘ میں مشغول کر دیا…
اسی اصول کے تحت ہمیں بھی دو مئی یاد نہیں تھا…
مگر خبروں میں دیکھا تو ہر طرف کالے اور گورے دشمنان اسلام دو مئی منانے کی تیاری
میں ہیں… اخبارات ضمیمے
لگا رہے ہیں اور خبروں کے چینل دانشوروںکے میلے…
ایسے ماحول میں پھر تاریخ یاد آہی جاتی ہے…ہمیں
تو زیادہ فکر شیخ کے اہل و اولاد کی تھی…
اُن کا قید میںہونا ایک صدمہ تھا اور اُن کی باعزت رہائی مستقل’’دعا‘‘ تھی…
دشمن کہہ رہے ہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن کے لئے کئی تجاویز زیر غور آئیں…
بی باون کے ذریعہ بمباری، ڈرون حملہ یا چھوٹا مگر مہلک بم…
ایسا ہو جاتا تو اُس گھر کے تمام مکین شہید ہو جاتے مگر اللہ تعالیٰ کا نظام حفاظت بہت مستحکم ہے…
دنیا کے یہ بونے مکڑے اُس نظام حفاظت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے…
چنانچہ وہ مجبور ہوئے کہ کمانڈوز بھیجیں…
کُل چار ہیلی کاپٹر تھے ان میں سے ایک صرف اس لئے تھا کہ گھر کے افراد کو اٹھا کر
لے جائے… مگر جب ایک ہیلی
کاپٹر منہ کے بل گرا اور تباہ ہو ا تو وہ اپنا مقصد پورا نہ کر سکے…
سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ مجاہد کے اہل و عیال کی کس طرح حفاظت
فرماتے ہیں… حدیث شریف کے
امام حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہکو جہاد کا خاص ذوق تھا…
لوگ لڑائی جھگڑے کے لئے’’بخاری شریف‘‘ کے رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کو تو
دیکھ لیتے ہیں مگر ’’بخاری شریف‘‘ کی ’’کتاب الجہاد‘‘ اور ’’کتاب المغازی‘‘ کو
بھول جاتے ہیں… یہ بات دعوے کے
ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی آدمی صرف’’بخاری شریف‘‘ کی ’’کتاب الجہاد‘‘ کو
پڑھ لے… اور امام بخاری س
کے مغازی کو سمجھ لے تو پھر اُس کے لئے فریضہ جہاد کو سمجھنے میں کوئی مشکل اور
کوئی اشکال باقی نہیں رہتا…
بندہ نے الحمدﷲ زندگی کی بعض راتیں اور کئی دن…
صحیح بخاری کے ساتھ گزارے ہیں اور کتاب الجہاد کی بعض احادیث پر کام بھی کیا ہے…
امام بخاری س بہت شرح صدر اور بہت باریکی کے ساتھ جہاد کو بیان فرماتے ہیں…
مثلاً مجاہد کے مال کی برکت ثابت کرنے کا عجیب انداز…
اپنی اولاد کو مجاہد بنانے کی نیت کا ایمان افروز تذکرہ…
ایسے عجیب نکتے دوسری کتابوں میں نہیںملتے…
مجاہد کے مال میں برکت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ…
اُس کی اولاد پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور برکت کانزول ہوتا ہے…
ابھی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے…
موت کے سائے میں زندگی گزارنے والے شیخ اُسامہ س کے اہل واولاد میں برکت اور پھر
اُن کے لئے حفاظت الہٰی کا خصوصی حصار…
ابھی اسی ہفتے ماشاء اللہ اُن کے اہل خانہ اور بچے بحفاظت سعودی عرب پہنچ
چکے ہیں… اللہ تعالیٰ اُن پر رحمت فرمائے اور انہیں ایمان پر
ثابت قدمی نصیب فرمائے…
آج اکثر لوگ لمبی عمر کے خواہشمند نظر آتے ہیں…
دُنیا داروں کو تو چھوڑیں…
وہ چاہتے ہیں کہ کبھی بھی نہ مریں، اسی دنیا میں کھاتے پیتے رہیں…
مگر دین دار لوگ بھی زیادہ لمبی عمر کی تمنا رکھتے ہیں…
وجہ یہ بتاتے ہیں کہ… ہم زیادہ
سے زیادہ نیک اعمال کرنا چاہتے ہیں…
ایسے لوگوں کے لئے’’لمبی عمر‘‘ کا نسخہ یہ ہے کہ…وہ
اپنی اولاد کو نیک وصالح بنانے کی دعاء، محنت اور بھرپور کوشش کریں…
کیونکہ اولاد بھی انسان کی عمر کا حصہ ہے…
اب اگر اُن کے مرنے کے بعد اولاد نیک اعمال کرتی رہے گی تو اُس کا ثواب والدین کو
ملتار ہے گا… گویا کہ والدین
زندہ ہیں اور نیک اعمال کر رہے ہیں…
لیجئے بغیر کوئی دوائی کھائے اور بغیر کوئی علاج کرائے آپ کی عمر لمبی ہوگئی…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہ عَزَّوَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ
الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ اَیْ رَبِّیْ! اَنّٰی لِیْ ھٰذا؟ فَیَقُولُ
بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ (مسند احمد)
بے شک اللہ تعالیٰ نیک آدمی کاجنت میں درجہ اونچا فرماتے
ہیں تو عرض کرتا ہے اے میرے رب! یہ کس عمل کی وجہ سے ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: تیرے بیٹے کے تیرے لئے
استغفار کرنے کی وجہ سے…
چند دن ہوئے کسی
جگہ ایک بہت عجیب بات پڑھی…
لکھا تھا ! اس بات کا حرص کرو کہ تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹی کو تم سے پہلے کوئی
سورہ فاتحہ نہ سکھا دے…
یعنی خود ہی جلدی جلدی سکھا دو…
کیونکہ یہ بچہ اگر بڑا ہوا تو پوری زندگی اپنی ہر فرض اور نفل نماز کی ہر رکعت میں
سورہ فاتحہ پڑھے گا… اس لئے
کوشش کرو کہ اتنا بڑا اوراتنا وسیع اجر حاصل کرنے میں تم سے کوئی سبقت نہ لے جائے…
وہ حدیث شریف تو
آپ نے بارہاسنی ہوگی… صحیح مسلم
وغیرہ حدیث کی کتب میں مروی ہے کہ…
جب کوئی آدمی مرجاتا ہے تو اُس کا عمل بند ہوجاتا ہے…
مگرتین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب اُس کے لئے جاری رہتا ہے…
(۱) صدقہ جاریہ(۲) نفع پہنچانے والا
علم (۳) صالح
اولاد جو اُس کے لئے دعاء کرتی رہے…
لیجئے عمر کو طویل
کرنے کے تین طریقے مل گئے…
اگرآپ واقعی نیک اعمال کے لئے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان تین طریقوں کو…
اختیار کر لیں… تب آپ صدیوں تک
بلکہ قیامت تک زندہ رہ سکتے ہیں…
اور لمبی عمر کا سب سے بڑا طریقہ اور راز شہادت ہے…
شہید کے زندہ ہونے کو قرآن پاک نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے…جو
شک کرے وہ مسلمان ہی نہیں…
شہادت مل گئی تو پھر چھوٹی یا طویل عمر کا قصہ ہی ختم …
زندگی ہی زندگی… ایک کے بعد دوسری…
اور ترقی ہی ترقی… اور زندگی
بھی عام نہیں بلکہ ایسی طاقتور کہ معدہ جنت کی نعمتوں کو ہضم کرنے کی صلاحیت پالے…
شیخ اسامہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی کا نام’’محمد‘‘ تھا…یمن
کے حضرمی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے…
ہماری نحو کی کتابوں میں ایک شہر کا نام آتا ہے’’حضر موت‘‘…
یہ قبیلہ وہاں آباد تھا…
محمد وہاں مزدوری کرتے تھے…
بوجھ اٹھانے والے جنہیں عربی میں’’حمال‘‘ کہتے ہیں…
دل میں اچانک خیال آیا کہ رزق میں وسعت کے لئے ایک ذریعہ’’سفر‘‘ ہے…
اپنے پھٹے پُرانے کپڑے ایک تھیلے میں ڈالے، گھر بیچا اور اونٹ پر سفر کرتے جدّہ
پہنچے… وہاں مزدوری مل
گئی… ماہانہ آمدن تیس
ریال… اور پھر ترقی
شروع ہوئی… اور دیکھتے ہی
دیکھتے مالی اثاثے نو سوملین ڈالر تک جا پہنچے…
عجیب داستان ہے… اللہ تعالیٰ پر توکل اور اللہ تعالیٰ سے وفاداری نے اس شخص کو جو لکھنا پڑھنا
بھی نہیں جانتا تھا کیسی کیسی سعادتوں سے نوازا…
ستر کی دہائی میں جب مسجد اقصیٰ کی دوبارہ تعمیر ہونی تھی تو ’’محمد‘‘ نے وہاں بھی
اپنا مال لگایا… اور یوں تینوں
بڑی مساجد… مسجد حرام،مسجد
نبوی او رمسجد اقصیٰ میں’’محمد‘‘ کا مال لگا…
سبحان اللہ ! اُن لوگوں پر رشک کرنا چاہئے
جن کا مال اللہ تعالیٰ اپنے راستے جہاد فی سبیل اللہ …
اوراپنے گھروں ’’مساجد اللہ ‘‘ میں قبول
فرماتے ہیں… ابھی ماشاء اللہ بہاولپور کی جامع مسجد’’سبحان اللہ ‘‘ تکمیل کے قریب ہے…
جوبھی اس مسجد کو دیکھتا ہے اُس کی زبان سے بے اختیار’’سبحان اللہ ‘‘ نکلتا ہے…
کیسے خوش نصیب ہیں وہ افراد جن کا مال اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کے لئے قبول فرمایا…
فدائیوں کی مسجد، غازیوں اور نمازیوں کی مسجد…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
مسجدکے قریب
’’قرآن منزل‘‘ کی تعمیر تقریباً مکمل ہے…
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو قرآن پاک کے ساتھ…
مسجد کے ساتھ اورجہاد کے ساتھ جوڑدے…
آپ یقین کریں اسی
میں مسلمانوں کی دینی اور دنیوی ترقی ہے…
ہمارے ایک سابق وزیراعظم ایک بڑا وفد لیکر سنگاپور گئے تھے…
وہاں کے ایک سابق صدرسے بڑی مشکل سے وقت لیا صرف یہ معلوم کرنے کے لئے کہ پاکستان
کیسے ترقی کر سکتا ہے… آہ! میرے
اللہ …
خواجہ صاحب س فرماتے ہیں ؎
طلب کرتے ہو داد
حُسن تم پھر وہ بھی غیروں سے
مجھے تو سن کے بھی
اک عار سی معلوم ہوتی ہے
سنگا پور سے میرے
ایک جاننے والے نے خط میں لکھا ہے کہ میں واپس آنا چاہتاہوں…
یہاں بدکاری یوں ہوتی ہے کہ کتے اور گدھے بھی شرما جائیں…
جانوروں سے زیادہ بے حیائی…
وزیراعظم صاحب! اُس کافر کے دربار میں سر جھکائے پاکستان کی ترقی کا راز پوچھ رہے
تھے…اُس بدنصیب اور
محروم نے کہا… آپ کا ملک ترقی
نہیں کر سکتا… وجہ پوچھی! کہنے
لگا(نعوذ ب اللہ ) آپ کا مذہب ہی ایسا ہے…
جب آخرت کو مقصود بناتے ہو تو دنیا میں کیسے ترقی کر سکتے ہو؟…کیسی
احمقانہ،جاہلانہ اور کافرانہ بات تھی…
مگر وفد میں موجود کسی کی غیرت ایمانی نہ بھڑکی کہ کم از کم اُس کو جھڑک ہی دیتے
یا شاگردی چھوڑ کر اٹھ جاتے…
سب ہی اُس کی بکواس پر سر ہلاتے رہے…
آہ! ایمان ہوتا تو اُس کی غیرت بھی ہوتی…
آنکھوں پر چربی، دل پر چربی…
دنیا کے مال کو سب کچھ سمجھنے والے ایمانی غیرت کہاں سے لائیں؟…
مسلمان کا عقیدۂ آخرت…
صرف آخرت کی کامیابی کے لئے نہیں…
اس عقیدے پر کامل یقین سے اُس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے…
آج مسلمانوں پر جو بُرے حالات ہیں وہ اس لئے ہیں کہ مسلمانوں نے اسلام پر عمل
چھوڑدیا ہے… اور کفر کے طریقے
اختیار کر لئے ہیں… کافروں کے
طریقے کافروں کے لئے مفید ہوسکتے ہیں مسلمانوں کے لئے وہ زہر قاتل ہیں…
انسان پانی میں ڈوب کر مرجاتا ہے…
جبکہ مچھلی پانی میں ڈوب کر زندہ رہتی ہے…
اور خشکی پر تازہ ہوا سے مرجاتی ہے…
کلمہ طیبہ کی اپنی ایک فطرت ہے…
اپنا ایک مزاج ہے… اپنی ایک
خوراک ہے… اوراپنی ایک
ممتاز زندگی ہے… کلمے والوں کو…
قرآن، نماز، مسجد… جہاد سے
زندگی اور ترقی ملتی ہے…
محمد بن لادن کے پاس جب مال بڑھا تواُس نے پتا ہے کونسی عیاشی کی؟…
سنیئے! اُس نے ایک ہیلی کاپٹر خریدا تاکہ ایک دن میں تین بڑی مساجد میں ایک ایک
نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل کرے…
ایک نماز مسجد حرام میں، دوسری مسجد نبوی اور تیسری مسجد اقصیٰ میں…
اور ماشاء اللہ اُس کا یہ شوق بھی پورا ہو گیا…
ہمارے مسلمان اپنے محلے کی مسجد میں جانے کا شوق ہی دل میں پیدا کر لیں تو انشاء اللہ بڑی خیر ہو جائے گی…
محمد بن لادن نے
کئی شادیاں کیں… اولاد کی تعداد
تریپن (۵۳) بنتی
ہے… شیخ اسامہ شہید
رحمۃ اللہ علیہ محمد بن لادن کی شامی اہلیہ سے پیدا ہوئے اور ابھی نابالغ تھے کہ…
والد محترم ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے…
یوں’’یتیمی‘‘ کے چند سال بھی دیکھ لئے…
کہتے ہیں کہ والد کی میراث میں سے تین سو ملین ڈالر شیخ س کے حصے میں آئے…
لمبی داستان ہے… کئی محاذ ہیں…
افغانستان سے صومالیہ اور یمن تک…
اور پھر شہادت گاہ ایبٹ آباد اور پھر بحیرہ عرب کی ٹھنڈی ٹھنڈی لہروں کا وسیع
سمندر… دو مئی کے حوالے
سے شور شرابے پر یہ تمام باتیں یاد آگئیں…
ورنہ مجھے تو نہ کسی کی تاریخ پیدائش یاد رہتی ہے اور نہ تاریخ شہادت اور وفات…
اچھی اور صالح اولاد اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا انعام ہے…
آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنی اولادکو قرآن پاک، مساجد اور جہاد سے جوڑ دیں…
ان کے ’’رزق‘‘ کا مالک اور کفیل اللہ تعالیٰ ہے آپ نہیں…
اور اگر یہ دین اسلام کے کسی کام آگئے تو ان کے بھی مزے ہوجائیںگے اور آپ کے بھی…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (347)
بزمِ عشق
وہ عظیم لوگ جو
دینی غیرت کا بہترین نمونہ تھے…
وہ با وفا لوگ جو
اپنے عہد پر قائم رہے…
اور اپنا تن، من،
دھن لٹوا کر اس عہد کی صداقت پر مہر تصدیق
ثبت کر گئے…
وہ با کردار نو
جوان جو حقیقی طور پر اسلام کے لئے جئے اور اسلام کے لئے
اپنی جان قربان کر
گئے…
یہ نوجوان کون
تھے؟ انہوں نے ’’عشق‘‘ کا یہ سودا کسی ’’ولی اللہ‘‘ کی دکان سے حاصل کیا تھا؟
اور آخر میں اپنے
ہم سفر ساتھیوں کے لئے کی پیغام چھوڑ گئے؟
عشق، محبت، حلاوت
اور جذبات کے تلاطم سے لبریز بے خود کر دینے والی تحریر…
(مولانا فقیر عطاء
اللہ شہید اور ان کے رفقاء کی یادیں)
تاریخ اشاعت
۵جمادی الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۷اپریل؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۴۷)
بزمِ عشق
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے…اُن
چار سچے عاشقوں کے… جو آج
میرے قلب و جگر پر چھائے ہوئے ہیں…آج
مجھے کچھ او رلکھنا تھا…
استخارہ کا موضوع بہت اہم اور ضروری ہے…
کاش مسلمانوں میں’’استخارہ‘‘ کی نعمت اور روشنی عام ہو جائے…
عجیب بات ہے لوگ ہر کسی سے رہنمائی لیتے ہیں…
مگر اپنے ربّ سے نہیں لیتے…
جو علیم بھی خبیر بھی ہے…
ارے بھائیو! اور
بہنو! … استخارہ بہت
اونچی چیز ہے مگرشرط یہ ہے کہ خود کیا جائے…
کسی اور سے کرانے کا کوئی فائدہ نہیں، کوئی مطلب نہیں…
کئی ہفتے سے سوچ رہا ہوں کہ اس موضوع پر تمام روایات اور ترغیبات لکھ ڈالوں…
اُدھر کابل میں طالبان نے کفر کے ایوانوں پر عجیب دن اور عجیب وقت میں پُرجوش اور
خوفناک حملہ کیا… ۲مئی کا حملہ…
اُس پر بھی لکھنے کا ارادہ تھا…
اور بھی کئی باتیں دماغ میں تھی…
مگر آج دل اپنے قابو میں نہیں ہے…
فکر منزل ہے نہ
ہوش جادۂ منزل مجھے
جا رہا ہوں، جس
طرف لے جارہا ہے دل مجھے
اب زباں بھی دے
ادائے شکر کے قابل مجھے
درد بخشا ہے اگر
تو نے بجائے دل مجھے
یوں تڑپ کر دل نے
تڑپایا سر محفل مجھے
اُس کو قاتل کہنے
والے کہہ اٹھے قاتل مجھے
اب کدھر جاؤں،
بتا اے جذبۂ کامل مجھے
ہر طرف سے آج
آتی ہے صدائے دل مجھے
ہاں واقعی…
آج میرا دل تڑپ رہا ہے اور وہ مجھ سے اور آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہے…
میں اُس پر کچھ پابندی لگاتا ہوں مگر وہ نہیں مانتا…
ہاں بالکل نہیں مانتا…
روک سکتی ہے تو
بڑھ کر روک لے منزل مجھے
لے اُڑی ہے ایک
موج بے قرارِ دل مجھے
یہ دیکھیں میری
دائیں جانب پانچ خطوط رکھے ہوئے ہیں اگر اُن خطوط کو پورا نقل کروں تو عشق کے کئی
راز کھل جائیں گے،رازوں کو راز ہی رہنے دیں…
لیجئے ایک دعاء پڑھیں…
’’فقیر کی خواہش ،
اور دعاء ہے کہ اللہ عظیم، اس فقیر کی حقیر سی جان کے…
قرآن عظیم کے حروف، نقاط اور حرکات و سکنات کے برابر ٹکڑے کر دے اور ہواؤں کو
حکم دے کہ ان ٹکڑوں اور ذرّوں کو اڑا کر میرے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کے اس راستے پر بکھیر دیں…
جس پر چل کر میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ان حقیر سے خاک آلود ذروں
پر اپنے قدمین مطہرین رکھتے ہوئے میدان محشر کی طرف تشریف لے جائیں‘‘…
اللہ اکبرکبیرا…
پڑھ لی آپ نے دعاء… اور اپنے
اس عمل کے بدلے اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا…
فرماتے ہیں… اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میری، میرے امیر کی اور
پوری اُمت مسلمہ کی مغفرت فرمائے…
اور عافیہ بہن سمیت تمام اسیران اسلام کو رہائی عطاء فرمائے…
ش،ش،ش…
یہ ہے ایمان اور یہ ہے دل…
اور یہ ہے عشق… اور یہ تھے ہمارے
ایک محبوب ساتھی… مولانا
حافظ عطاء اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ …
میں عشق ہوں مکمل،
میں شوق ہوں مسلسل
گویا تمام عالم
میری ہی داستاں ہے
کوئی نہ گھر ہے
اپنا، کوئی نہ آستاں ہے
ہر شاخ ہے نشیمن،
ہر پھول آشیاں ہے
ایک بار کسی کتاب
میں’’فقیر‘‘ کی تعریف پڑھی تھی…
بہت سے لوگ اپنے نام کے ساتھ ’’فقیر‘‘ لکھتے ہیں…
ہمیں کسی پر کوئی اعتراض نہیں…
اور آج تو شہداء کرام کی محفل ہے…
اورشہید بھی ایک نہیں… پورے چار…
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا…
بہترین رفقاء چار ہیں… شہداء
کرام کی مجلس میں کسی پر تنقید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…
’’فقیر‘‘ کی تعریف کافی سخت تھی…
فقیر وہ ہے جو مخلوق سے کسی طرح کی کوئی غرض نہ رکھتا ہو…
نہ مال کی نہ عزت کی ، نہ رشتے کی نہ اکرام کی…
نہ اچھے سلوک کی اور نہ کسی احترام کی…
اور اللہ تعالیٰ سے بے حد محبت رکھتا ہو…
مگر ایسی محبت نہیں جس میں کوئی شرط ہو کہ…
میری دعاء ضرور قبول ہو…
میرے ساتھ ایسا معاملہ ہو…
نہیں بس ایسی محبت کہ… اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ کرنا چاہتا ہو اور کرتا ہو…
اور اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ لٹانا چاہتا ہو…
اور لٹا دے… کافی مفصل تعریف
تھی… تب دل میں شوق
پیدا ہوا کہ کوئی ایسا ’’فقیر‘‘ اللہ تعالیٰ مجھے بھی دکھا دے…
اورتمنا بھی پیدا ہوئی کہ…
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی ایسا بنا دے…
ابھی تو ہم اس کے قریب بھی نہ پھٹک سکے…
پھر مجھے ایک دن ایک خط ملا…
خط کے نیچے نام لکھا تھا…
فقیر عطاء اللہ …
اور پھر اُن سے ایک آنسوؤں بھری ملاقات بھی ہو گئی…
اور پھر دوسرا، اور تیسرا خط بھی ملا…
اور پھر ایک گھڑی ملی جو جاتے وقت وہ میرے لئے چھوڑ گئے …
یہ فقیر واقعی فقیر تھا…
قرآن پاک کا حافظ… صرف حافظ
نہیں ملازم… ارے صرف ملازم
نہیں بلکہ عاشق… ملازم اُسے کہتے
ہیں جو کسی چیز کو لازم پکڑ لے…
انہوں نے قرآن پاک کو لازم پکڑ رکھا تھا…
مگر عشق کا مقام اس سے بھی آگے ہے…
انہیں تلاوت قرآن کا عشق تھا…
آپ میں سے بہت سوں نے انہیں اکثر قرآن پاک زبانی پڑھتے دیکھا ہوگا…
جہاں بھی رہے قرآن پاک کے ساتھ رہے…
اور پھرقرآن پاک پڑھتے ہوئے…
قرآن پاک کے حروف کے برابر ذرّوں میں تبدیل ہو کر…
بہت اونچی فضاؤں میں گم ہو گئے…
زندگی کے آخری دو سال’’فقیری‘‘ کا اصل مقام پایا…
کسی سے کوئی غرض نہیں… اور اپنے
مالک سے ملنے کے لئے بے قرار…
جی ہاں! حد سے زیادہ بے قرار…
وہ لوگوں کے درمیان رہتے تھے…
مگر اُن کے جذبات، خیالات اور تصوّرات کہیں اور کی سیر کرتے تھے…
جو چپ بیٹھوں تو
اک کوہ گراںمعلوم ہوتا ہوں
جو لب کھولوں تو
دریائے رواں معلوم ہوتا ہوں
جو ہوں دراصل صورت
سے کہاں معلوم ہوتا ہوں
بہار بے خزاں ہوں
گو خزاں معلوم ہوتا ہوں
میں یوں تو زاہدو!
اک قطرۂ ناچیز ہوں بے شک
مگر پی لوں تو بحر
بے کراں معلوم ہوتا ہوں
تصور نے کسی کے
میری دنیا ہی بدل ڈالی
کہاں معلوم ہوتا
تھا کہاں معلوم ہوتا ہوں
کسی کی یاد نے کیا
رفتہ رفتہ کر دیا مجھ کو
بس اب اک پیکر وہم
و گماں معلوم ہوتا ہوں
نیازو ناز کی
دُنیا میں جس دم جا پہنچتا ہوں
تو آزادِ زمیں و
آسماں معلوم ہوتا ہوں
دم تیغ آزمائی
کھلتے ہیں فولاد کے جوہر
میں جو کچھ ہوں
بوقت امتحاں معلوم ہوتا ہوں
اپنے محبوب مولیٰ
سے لقاء… یعنی ملاقات کے
لئے انہوں نے طویل، صبر آزما انتظار کیا…
آخری ملاقات کے دوران میں نے اُن سے کہا…
بھائی! محبوب کے در پر بیٹھ کر ملاقات کا انتظار کرنا سچے عاشقوں کا شیوہ ہے تو
اُن کی آنکھیں خوشی کے انوارات برسانے لگیں…
یوں لگا کہ اس جملے نے اُن کے ہجر میں زخمی دل پر مرہم رکھ دیا ہے…
بس پھر باقی دن ا نہوں نے کبھی اطمینان میں، کبھی بے قراری میں…
اور کبھی شوق میں تڑپتے بسر کئے…
؎
کسے دیکھ کر آج
ہم آرہے ہیں
کہ آنکھوں سے
انوار برسا رہے ہیں
جدھر جذب ہم کو
لیے جا رہا ہے
کئے بند آنکھیں
اُدھر جا رہے ہیں
میں ہوں نزع میں
پھر بھی دیکھو وہ کیسے
خراماں خراماں چلے
آرہے ہیں
نہیںمانتا ہے،
نہیں مانتا ہے
بہت دل کو ہم اپنے
سمجھا رہے ہیں
اچھا میری باتیں
چھوڑیں… اُن کے خط کا ایک
اور حصہ پڑھتے ہیں…
’’ اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پرفقیر کا دشمنان اسلام کو
چیلنج ہے کہ قرآن مقدس و مطہر کے ایک ایک حرف و حرکت ونقطہ کا انتقام تم سے لیا
جائے گا غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں
گے جب تک ایک ایک حرف کا انتقام نہ لے لیں گے انشاء اللہ …
اس کا واضح ثبوت رکنیت مہم کی شاندار کامیابی ہے…
اللّٰھم زد فزد… فقیر کی دعاء ہے
کہ اللہ تعالیٰ جیش کو بہت وسائل عطاء کرے، جیش کے فدائی
جانباز قرآن کے انتقام کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح…
دشمن اسلام پر بجلی بن کر ٹوٹ پڑیں…‘‘
آپ نے ایک
سچے مسلمان کی سچی عبارت پڑھ لی…
اسے کہتے ہیں جذبہ عشق کا کمال ؎
اللہ ، اللہ یہ
کمال جذبۂ پنہانِ عشق
جو گرا آنکھوں سے
آنسو حُسن کا دریا ہوا
بڑھتے بڑھتے
آفتابِ روزِ محشر بن گیا
دل کی خاکستر میں
اک شعلہ تھا جو بھڑکا ہوا
آپ پوچھیں گے کہ
یہ تو ایک خط ہوا… باقی چار
خطوط کیا فرماتے ہیں؟ ہاں! بھائیو!…
وہ خطوط بھی بہت قیمتی ہیں اور بہت اہم ہیں…
کل کی ڈاک میں ایک خط تھا…
فتویٰ پوچھ رہے تھے کہ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز ہے یانہیں…
جواب میں لکھا … جہاد تو عشق
والوں کا کام ہے… فتوے سے
کوئی جہاد میں نہیں نکلتا…
الٹا ایک نئی بحث چھڑجاتی ہے…
لفظوں کی جنگ اور حقیقی محبت سے محرومی…
جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں سچے ہوتے ہیں وہ تو…
’’لقائِ یار‘‘ کے لئے تڑپتے ہیں، لڑتے ہیں…
وہ قرآن مقدس کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتے…
وہ اسلام کی ظاہری مغلوبیت دیکھ ہی نہیں سکتے…
اُن کو جہاد سمجھانے کے لئے ایک آیت، ایک حدیث یا ایک غزوہ کافی ہوتا ہے…
اور جو اسی دنیا کو مقصود بنا لیں اُن پر کسی فتوے کا کیا اثر ہوگا…
والدین بھی مسلمان ہوں تو اولاد کوجہاد سے کہاں روکتے ہیں؟…
اگر کچھ غافل ہوں تو ان کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے…
مگر ان چار خطوط میں تو ایک الگ دنیا آباد ہے…
بس جلد از جلد فدا ہونے کا شوق ہی نہیں بلکہ جنون…
کس کس کا تذکرہ کروں… ڈیرہ
اسماعیل خان کے دراز قد نعمان شہید کا؟…
اُسے سب ’’عبدالرحمن‘‘ کہتے تھے…
جو آخری سانس ہی نہیں بلکہ شہادت کے بعد بھی…
جہاد اور جماعت کی خدمت میں لگا ہوا ہے…
وہ کیسے؟ یہ ایک ایمان افروز داستان ہے…
اُسی کا خط سب سے مختصر مگر…معنیٰ
خیز اور جامع ہے… بڑی اونچی
بات… یہ چھوٹے سمجھے
جانے والے مجاہد کہہ جاتے ہیں…
لکھتے ہیں… ’’یا اللہ ! جو
دل سے شہادت کا طالب ہو اُسے شہادت عطاء فرما‘‘…
سبحان اللہ ! دل کی طلب…
کیا صوابی کے … محمد توفیق کا
تذکرہ کروں؟… ماضی کا ماہر
پینٹر… جو جہادی تاریخ
میں اپنے خون سے رنگ بھر گیا…
جماعت کے ذمہ دار تو اُس کے اخلاق اور ذہانت سے متاثر تھے…
درخواست کی کہ کچھ عرصہ تشکیل تبدیل کرالیں…
اور ہمارے ساتھ کام کریں…
یہ سنتے ہی توفیق کو ایک سو چار درجے کاشدید بخار ہو گیا…
ارے عشق اسے کہتے ہیں… اور وہ
چھوٹا سا نوجوان… ہنستا
مسکراتا رضوان… ویسے نام تو
احسان اللہ تھا مگر رضوان اُس پر جچتا تھا…
غضب کا نشانے باز اور باہمت…
پشاور والے اُس پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں…
یہ چار دوست تھے… لودھراں
کے مولانا عطاء اللہ …
سے لیکر… رضوان تک…
ایک عجیب دستہ… ہاں ان میں سے
ایک کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں…
وہ شہادت سے دو روز پہلے بھی خواب میں آکر ملا…
اور شہادت کے اگلے دن بھی…
ہنستا مسکراتا مجھ غریب کی تنہائی کا ساتھی بنا…
شکریہ! سچے
فقیر، سچے شہید عطاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا…
دل نے کچھ ایسی
دُھن میں آج نغمۂ شوق گا دیا
عشق بھی جھوم جھوم
اٹھا، حُسن بھی مسکرا دیا
آتشِ تر نے
ساقیا! کچھ نہ مجھے مزہ دیا
آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کے تو نے یہ کیا پلا دیا
جذب جنوں نے آج
تو گل ہی نیا کھلا دیا
خود وہ گلے لپٹ
گئے، عشق کا واسطہ دیا
خوش رہو شہیدو!
خوش رہو… اللہ تعالیٰ تمہارے درجات بلند فرمائے…
اور اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کے ساتھ…
اپنے مقام محبت میں جمع فرمائے…
میری عادت تو نہیں… مگر
مجھے’’فقیرعطاء اللہ شہید‘‘ سے حیاء آتی ہے کہ میں اُن کی وصیت کو
چھپا دوں… وہ یقیناً عارف ب
اللہ تھے اور واصل ب اللہ ہوئے…
صاحب ایمان تھے اور صاحب فراست تھے انہوں نے ساتھیوں کے لئے جو کچھ لکھا وہ یقیناً
ساتھیوں کی خیر خواہی ہی میں لکھا ہوگا…
اس لئے میں اُن کا مختصر وصیت نامہ نقل کر رہا ہوں…
’’میری تمام
جماعتی ساتھیوں و اراکین کو وصیت ہے کہ جیش و امیر جیش کے ساتھ وفاداری کا ثبوت
دیں اور مخلص رہیں اور اُن کی اطاعت کو لازم پکڑیں ، کسی قسم کے منافقین کے کسی
بھی پروپیگنڈے میں نہ پڑیں اوراُن کی سازشوں اورپروپیگنڈوں سے اپنے آپ کو دور
رکھیں اور جماعتی احکام و اصول کے منافی کوئی بھی سازش و بغاوت ہو تو اس کو کچل
دیں، اس کو دبادیں‘‘
والسلام
بندہ فقیرمحمد
عطاء اللہ لودھری
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (348)
حضرت قاری صاحب کی
یاد میں
کیا عقلمند انسان
وہ وہ جو موت اوربعد والی زندگی سے غافل ہو…؟
ہرگز نہیں! تو پھر
اصل عقلمند کون ہے؟
اسلام نے موت اور
بعد والی زندگی کی تیاری کے لئے کیا نصاب مقرر کیا ہے؟
ایک ایسے عاشق اور
خادم قرآن کا معطر تذکرہ جو ’’اصل عقلمند‘‘ انسان تھے…
اس ’’عقلمند‘‘
انسان کی جہاد اور مجاہدین سے والہانہ محبت کے سبق آموز چند واقعات
آپ بھی پڑھیے اور
ان واقعات سے سبق حاصل کیجئے…!
(حضرت قاری عمر
فاروق عباسی نور اللہ مرقدہٗ کی یادمیں)
تاریخ اشاعت
۱۲جمادی الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۴مئی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۴۸)
حضرت قاری صاحب کی
یاد میں
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’عقلمندی‘‘ نصیب
فرمائے… محترم و مکرم
قاری عمر فاروق صاحب بھی آگے چلے گئے…
بے شک ہم سب نے بھی جانا ہے…
انا ﷲ وانا الیہ
راجعون
موت کا آنا…
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے بندوں پر کوئی ظلم نہیں…
اللہ تعالیٰ’’ظلم‘‘ سے پاک ہے…
ایک بات تو یہ ہے کہ ’’موت‘‘ انسان کے سفر کا لازمی حصہ ہے…
عالم ارواح سے یہ سفر شروع ہوتا ہے …
وہاں سے ماں کا پیٹ… پھر دنیا
کا پیٹ… پھر قبر و برزخ
کا پیٹ اور پھر آخرت کا ہمیشہ ہمیشہ والا جہان…
یا جنت یا جہنم… دوسری بات یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے لئے ایک پورا نصاب اور
نظام اس بارے میں مقرر فرما دیا ہے کہ…
اگر ہم اُس پر عمل کریں تو موت ہمارے لئے راحت اور خوشی کا ذریعہ بن جائے…
اور تیسری بات یہ ہے کہ شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ…
انسان موت سے غافل ہو جائے…
ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکے…
طرح طرح کے مفروضوں پر بہت سے لوگ…
بلکہ اکثر لوگ خود کو موت سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں…
اور اسی خیال میں رہتے ہیں کہ ابھی میرا وقت بہت دور ہے…
کسی کو یہ خیال ہے کہ فلاںآدمی نے میرے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر بتا دیا تھا کہ
تمہاری عمر لمبی ہے… استغفر
اللہ ، استغفر اللہ
کسی کو یہ خیال ہے
کہ ابھی تو میرے والدین بھی زندہ ہیں…
میرانمبر تو اُن کے بعد آئے گا…
کسی کو یہ یقین کہ پانچ، دس روپے صدقہ کرتا ہوں…
اور صدقہ سے عمر بڑھ جاتی ہے…
صدقہ کی برکت میں کوئی شک نہیں…
لیکن ایسے اعمال بھی تو ہیں جو برکت کو توڑ ڈالتے ہیں…
شیطان کے عجیب جال ہیں…
ابھی ایک پروفیسر صاحب کھڑے ہوگئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ موت کا وقت مقرر نہیں…
ویسے اُن کا بھی قصور نہیں سگریٹ اور فلموں کے درمیان حاصل کئے گئے ’’تصوف‘‘سے
ایسی ہی غلط باتیں دل میں اُترتی ہیں…
ویسے بھی آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے…
آدمی بوڑھا ہوتا ہے تو اس میں دو چیزیں جوان ہوجاتی ہیں
(۱) مال کا حرص (۲) عمر کا حرص…(صحیح
مسلم)
افسوس اس بات کا
ہے کہ بہت سے لوگ اُس پروفیسر صاحب کی بات سنتے اور مانتے ہیں…
فوج اور پولیس کے بڑے افسر اُن کے مرید ہیں…
اور کئی نامور پاپ گلوکار بھی اُن سے فیض حاصل کرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے…
خلاصہ یہ ہے کہ اکثر انسان’’موت‘‘ سے غافل ہیں…
موت کی سچی یاد انسان کو ایک منٹ بھی نصیب ہو جائے تو دل نور سے بھر جاتا ہے…
مگر جنہوں نے نہ مرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے…
اُن کو یہ یاد کیسے نصیب ہو؟…
ایک بیمار آدمی
کے پاس جانا ہوا… اُن کو
بیماری کی شدّت سے موت کا احساس ہو رہا تھا…
رو رو کر کہنے لگے…میں مرگیا
تو میرے والدین کا کیا بنے گا…
میری بیٹی کا کیا بنے گا…
حالانکہ اُن کے والدین کو ا ﷲ تعالیٰ اُس وقت سے کھلا پلا رہا ہے جب یہ صاحب پیدا
بھی نہیں ہوئے تھے… اور بیٹی
کا رازق بھی اللہ تعالیٰ ہے…
جو’’حیّ قیوم‘‘ ہے… معلوم ہوا
کہ موت کی یاد بیماری میں بھی نہ آئی…
ورنہ یہ فکر پیدا ہوتی کہ میرا کیا بنے گا؟…
آگے اہم مراحل ہیں…
(۱) موت
کی سکرات
(۲) سؤال
قبر
(۳) عالم
برزخ کا ثواب یا عذاب
(۴) دوبارہ
زندگی
(۵) میدان
حشر
(۶) پوری
زندگی کا حساب کتاب
(۷) میزان
اعمال
(۸)
اللہ تعالیٰ کے روبرو پیشی
(۹) جسم
کے اعضا اور زمین کی گواہی…
(۱۰) پل
صراط…
اور پھر
آخری فیصلہ… امام مزنی پ
فرماتے ہیں: کہ میں امام شافعی پ کے مرضِ وفات میں اُن کے پاس گیا…
اور عرض کیا… اے ابو عبد اللہ !
کیا حال ہے؟… امام شافعی
پ نے فرمایا…
بس حال یہ ہے کہ… دنیا سے
کوچ کر رہا ہوں، دوستوں بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں…
اپنے بُرے اعمال سے ملاقات کرنے والا ہوں، موت کا جام پینے والا ہوں اور اپنے رب
سبحانہٗ و تعالیٰ کے ہاں پیش ہونے والا ہوں…
مجھے نہیںمعلوم کہ میری روح جنت کی طرف جارہی ہے تو اُسے مبارک باد دوں…
اور اگر جہنم کی طرف جارہی ہے تو اُس کے ساتھ تعزیت کروں…
حیرانی کی بات یہ
ہے کہ… قرآن مجید میں
جگہ جگہ موت کا تذکرہ ہے…
ہمارے چاروں طرف جنازے ہی جنازے ہیں…
ہمارے ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں…
مگر ہمیں نہ موت یاد آتی ہے…
اور نہ اس ضروری سفر کی تیاری کی فکر دل میں پیدا ہوتی ہے…
چوبیس گھنٹے میں صرف ایک لمحہ تو کم از کم ہر مسلمان کو پورے یقین کے ساتھ موت کو
یاد کرنا چاہئے کہ… میں ابھی
مرنے والا ہوں… دعاء بھی سکھا دی
گئی…
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لِیْ فی الْمَوْتِ وَ فِیْمَا بَعْدَالْمَوْتِ
معلوم ہوا کہ…
موت کوئی سزا نہیں… بلکہ یہ
برکت والی چیز ہے اور اس کے بعد بھی برکتیں ہیں…
مگر اُن کے لئے جو موت کا یقین رکھتے ہیں اور موت کی تیاری کرتے ہیں…
اور اُن کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے…
کتنے خطرے کی بات ہے کہ اچانک موت آجائے اور اُس وقت کسی گناہ میں مشغول ہوں…
کسی بے ایمانی یا ظلم کا ارادہ کررہے ہوں…
عربوں نے انٹرنیٹ پر طرح طرح کی چیزیں لگا دی ہیں…
ایک آدمی جو محبوبہ کی یاد میں شعر پڑھتے مر گیا…
ایک آدمی جو کسی عورت کے ساتھ گناہ کی حالت میں جل مرا…
ہوٹل کے کمرے کو آگ لگ گئی…
ایک لڑکی جو رقص کرتے ہوئے گری اور مر گئی اور اُس کے جسم نے کفن کو قبول نہ کیا…
جب بھی کفن پہناتے تو وہ جسم سے ہٹ جاتا اور وہ حصے کھل جاتے جن کو کھول کر وہ
ناچتی تھی… آج خواتین میں
کھلے گلے اور کھلے بازوؤں والے بے پردہ لباس بُری طرح عام ہو رہے ہیں…
کفن یادہو تو لباس ٹھیک ہوجاتا ہے…
مگر کفن تو ایمان والوں کو یاد رہتا ہے…
ہمارے حضرت قاری عرفان صاحب رحمۃ اللہ علیہ زندگی کے آخری کئی سال سفر حضر میں
اپنا کفن اپنے ساتھ رکھتے تھے…
اور جس جگہ بھی جاتے تو اور باتوں سے پہلے موت کے بارے میں وصیت فرماتے کہ…
اگر میرا یہاں انتقال ہو جائے تو اسی کفن میں کفنا کر جلد نماز جنازہ ادا کریں اور
اسی شہر میں دفنا دیں… وغیرہ
وغیرہ…
یعنی اُن کو اصل
مسئلے کی پہلے فکر تھی…
باقی دنیا کے کام کاج تو چلتے ہی رہتے ہیں…
اسلام نے موت کا کیا نصاب مقرر فرمایا…
ایک چھوٹی سی جھلک پیش کرتا ہوں…
تفصیل،زندگی رہی تو پھر کبھی انشاء اللہ …
(۱) زندہ
انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کثرت سے موت کو یاد کرتے رہیں…
صرف زبان سے موت، موت نہیں…
بلکہ دل کو یہ بات سمجھائیں کہ موت بغیر دستک دیئے آسکتی ہے تیار رہو، تیار رہو…
اور تیاری کرو… اس بارے میں
قرآن پاک کی کئی آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی
احادیث موجود ہیں…
(۲) دو
چیزیں جو انسان کی موت کو خراب کرتی ہیں اُن سے نہایت تاکید کے ساتھ روکا گیا…
ایک حرص اور دوسرا لمبی لمبی دنیاوی امیدیں…
تھوڑا سا غور کریں کہ یہ دو روگ کس طرح سے انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں…
اور اُس کے خاتمے کو خراب کرتے ہیں…
(۳) عقلمندی
کا معیار دو چیزوں کو قرار دیاگیا…
ایک اپنے نفس کو اپنے قابو میں لیکر شریعت کا تابع بنانا…
اور دوسرا ایسے اعمال کرنا جو مرنے کے بعد کام آئیں…
یعنی دنیا مقدّر ہو چکی اور آخرت کیلئے محنت کا حکم ہے…
(۴) ایسے
اعمال اور ایسی دعائیں سکھا دی گئیں جو موت کی سکرات کے وقت کام آئیں…
موت کو شربت کی طرح میٹھا بنائیں…
اور موت کے بعد راحتوں کا دروازہ کھلوائیں…
ہمیں یہ سب دعائیں یاد کرنی چاہئیں اور دنیا کی حاجتوں سے زیادہ ان دعاؤں کو
مانگنا چاہئے… حسن خاتمہ کی
دعاء… آخری وقت کلمہ
طیبہ جاری ہونے کی دعاء…
غفلت کی موت سے حفاظت کی دعاء…
مقبول شہادت کی دعاء… موت کے
وقت آسانی کی دعاء… عذاب
قبراور منکر نکیر کے فتنے سے حفاظت کی دعاء…
اور آخرت کی باقی منازل کی دعائیں…
(۵) قبرستان
جانا، صالحین کی صحبت میں بیٹھنا…
جنازوں میں شرکت کرنا… غافلوں کی
صحبت سے بچنا… لمبی لمبی امیدیں
نہ باندھنا… دنیا میں جو کچھ
میسر ہو اُسی کو بہت اور کافی سمجھنا…
یہ سب کام سکھائے گئے تاکہ دنیا کے شور شرابے کے درمیان موت یاد رہے…
(۶) عمر
جیسے جیسے بڑھتی جائے موت کی یادکازیادہ سے زیادہ انتظام کیا جائے…مالی
معاملات سے دور رہا جائے…کیونکہ
اس عمر میں حرص کے پیدا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے…
حالانکہ خاتمے کا وقت قریب ہوتا ہے…
یہ ابتدائی نصاب
ہے… اس کے بعدمزید
کئی نصاب ہیں… وجہ یہ ہے کہ موت
کا سفر یقینی ہے… موت کا
سفر لمبا اور طویل ہے… اور موت
کے بعد یا بڑی راحت ہے یا بڑا درد ہے…
دنیا تو بہت چھوٹی اور معمولی سی چیز اورجگہ ہے…
یہاں کوئی انسان تنہائی برداشت نہیں کرتا…
تو برزخ جیسے وسیع جہان میں تنہائی کتنی سخت ہوگی…
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں وہاں کی وحشت اور
تنہائی سے بچائے… اور وہاں
قرآن پاک اور اونچی صحبت نصیب فرمائے…
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں…
میں نے دیکھا کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس رکھے
پیالے میں ہاتھ ڈالتے پھر یہ پانی اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتے…
پھر فرماتے…
اَللّٰھُمَّ
اَعِنیِّ عَلیٰ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَکَرَاتِ الْمَوْتِ
یا اللہ ! موت کی شدّت اور سختی میں میری مدد
فرمائیے … (ترمذی)
بخاری اور مسلم
میں… حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہاسے روایت ہے کہ آخری وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان
مبارک پر یہ دعاء جاری تھی…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ
یا اللہ میری مغفرت فرمائیے اور مجھ پر رحم فرمائیے اور
مجھے رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملائیے…
چلیںیہ دو دعائیں
یادکر لیں… ویسے اس موضوع کو
ہمیں اپنی دعاؤں میں خاص اہمیت دینی چاہئے…
اگلے ہفتے انشاء اللہ کوشش ہوگی کہ…
موت اور اُس کے تمام مراحل کی مسنون دعائیں ایک ہی کالم میں آجائیں…
ہمارے مخدوم مکرم قاری عمر فاروق صاحب س کافی عرصہ سے بیمار تھے…
وہ قرآن پاک کے خادم تھے اور قرآن پاک کے ساتھ اُن کا جینا مرنا تھا…
موت کو اکثر یاد کرتے تھے…
ابھی چند ہفتے پہلے اُن کا سلام اور یہ پیغام ملا کہ مجھے انتقال کے بعد…
حضرت ابّا جی رحمۃ اللہ علیہ کے قریب دفن کیا جائے…
بندہ نے جواب بھیجا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر عطاء فرمائے…
ہماری طرف سے ’’تدفین‘‘ کی وصیت منظور ہے…
مگر مٹی کا نظام بھی اوپر سے طے شدہ ہے…
انسان اُسی مٹی میں مدفون ہوتا ہے جہاں کی خاک سے وہ بنایا جاتا ہے…
اس بارے عجیب روایات، حکایات اور معارف کا ایک خزانہ کتابوں میں ملتا ہے…
کہتے ہیں دو چیزیں انسان کو بہت دور سے اپنے پاس کھینچ لیتی ہیں…
ایک رزق اور ایک قبر کی مٹی…
حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال اسلام آباد میں ہوا…
یعنی وہ اپنے پیدائشی علاقے ’’مری‘‘ کے قریب تھے…چنانچہ
تدفین بھی مری میں ہوئی…
اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے…
اور اُن کو ’’مغفرت‘‘ کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے…
اُن کا اور ہمارا تعلق بہت میٹھا، محبت بھرا…
اور باہمی اکرام والا تھا…
جب اُن کے انتقال
کی خبرآئی تو دل پر افسردگی چھا گئی…
اور حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ ساتھ گزرے ہوئے کئی مناظر دماغ میں تازہ ہو گئے…
بالاکوٹ کی مسجد خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ میں…
میرے بیان کے درمیان کھڑے ہو کر اُن کا تاحیات بیعت کا اعلان…
اور پورے مجمع کی چیخیں نکلوا دینے والا جذبات سے لبریز خطاب …
وہ منظر مجھے بار بار یاد آرہا تھا…
مسجد جا کر دعاء کی… یا اللہ ! اُس دن حضرت قاری صاحب نے سب سے سبقت لی…
اور ہزاروں ٹوٹے اور زخمی دلوں پر مرہم رکھا…
یا اللہ ! اب وہ آپ کے پاس ہیں اُن کو
اُس دن کے عمل کا ایسا بدلہ اور اکرام عطاء فرمائیے کہ…
وہ خوش اور راضی ہوجائیں…
حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جماعت کے ساتھ محبت بہت عجیب تھی…ہمیشہ
جماعت کی ترقی کے آرزو مند…
اور مخالفانہ خبروں کے مقابلے میں صابر…
ایک زمانے بہت
خوفناک فتنہ آیا… کئی لوگ
صرف یہ بات پھیلانے کے لئے ہر طرف سفر کر رہے تھے کہ…
جماعت ختم ہو گئی ہے اور اب ان لوگوں کا نام لینا بھی کوئی گوارہ نہیں کرتا…
حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھی ایک وفد یہی’’خبر‘‘ کان میں ڈالنے کے
لئے پہنچا… اور ڈال آیا…
وفد کے لوگ معززتھے… لوگ اُن
کی بات سن لیتے تھے… اسی طرح
چند اور افراد نے بھی یہ بات قاری صاحب س کو جا کر بتائی…
حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ دل ہی دل میں بہت پریشان تھے…
محبت، ادب اور اکرام کی وجہ سے وہ ہمیں کبھی کوئی اعتراض نہ بتاتے تھے اور نہ
سناتے تھے … بس خود ہی دل میں
کڑھتے رہے… انہیں دنوں
استاذمحترم حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا…
بندہ نمازجنازہ کے لئے ’’طاہر والی‘‘ پہنچا…
حضرت قاری عمر فاروق رحمۃ اللہ علیہ بھی رحیم یار خان سے تشریف لائے…
نماز جنازہ کے بعد میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تو قاری صاحب س کو بھی ساتھ لے لیا…
اُسی وقت لوگ مصافحہ کے لئے ٹوٹ پڑے…
بندہ اس مجمع کے درمیان پھنس گیا…
حارسین ساتھی بڑی مشکل سے حصار بنا کر بندہ کو گاڑی تک لائے…
تب مجمع نے گاڑی کو گھیر لیا…
مگر میں گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اور شیشے نیچے کر کے مصافحہ کر رہا تھا…ہمارے
لئے یہ روز مرہ کا معمول تھا…
اسی لئے نہ تنگی محسوس ہوتی تھی اور نہ دل میں کوئی بڑائی…
اور نہ ہی یہ کوئی عجیب معاملہ لگتا تھا…
کچھ لوگوں سے مصافحہ اور باقی مجمع سے بچ کر بھاگنے میں ہمارا قافلہ تاک ہو چکا
تھا… مگر یہ کیا؟…
مجھے گاڑی کی پچھلی سیٹ سے زور زور سے بولنے اور تقریر کرنے کی آواز آرہی تھی…
اُدھر توجہ کی تو معلوم ہوا حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہایت جذب اور جذبے کی
حالت میں دونوں ہاتھ لہرا لہرا کر…
کچھ لوگوں کے نام لیکر پکار رہے تھے…
او فلاں! اوفلانے… آؤ،
مرجاؤ، یہاں دیکھو! تم کہتے ہو ان کا نام لینے والا کوئی نہیں…
یہاں لوگ مصافحہ کے لئے پروانوں کی طرح گر رہے ہیں…
اوفلانے، او فلانے… ایٹم بم
مار دو پھر بھی ان کی محبت لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتے…
حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر رقت طاری تھی اور وہ اپنے قابو میں نہیں تھے…
اور جن کا وہ نام لے رہے تھے وہ سب اُن سے سینکڑوں میل دور تھے…
بندہ نے ارادہ کیا کہ قاری صاحب سسے عرض کروں کہ وہ لوگ تو بہت دور ہیں…
مگر حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حالت دیکھ کر میں نے ہمت نہ کی…
اور گاڑی چلنے کے بعد بھی کافی دیر اُن کی یہی حالت رہی…
دراصل اُن کا دل زخمی اور بے تاب تھا اور بار بار ایک ہی بات سن کر اُن کو بھی اُس
کی صداقت کا خیال ہو چکا تھا…
اب جب دل پر مرہم لگا تو خوشی اور جذبات سے مغلوب ہوگئے…
کون کون سا واقعہ
لکھوں… حضرت قاری صاحب
رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بارعب اور پروقار جلسے…
اُن کی اخلاص بھری دعوتیں…
اُن کے ساتھ خوشگوار اسفار…
اور اُن کی بے لوث خدمات…
جماعت میں شعبہ احیاء سنت قائم ہوا تو…
نظامت کے لئے اُنہیں پر نظر پڑی…
وہ دل اور آنکھوں میں’’حیا‘‘ کی عجیب نعمت رکھتے تھے…
ماشاء اللہ انہوں نے یہ شعبہ خوب چلایا…
اور اس وقت تک چلاتے رہے جب تک اُن کی صحت نے انہیں کام کرنے کی اجازت دی…
اُدھر کل کراچی سے یہ افسوسناک خبر ملی کہ حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمۃ
اللہ علیہ کو بھی شہید کر دیا گیا…
حضرت مولانا مفسر قرآن اور داعی اسلام تھے…
کئی کتابوں کے مصنف اور کامیاب دینی مدرس…
ایک زمانے تک اُن کے ساتھ بہت…
کریمانہ اور خوشگوار مراسم رہے…
درس قرآن سے واپس آرہے تھے کہ…
گمنام اور شقی قاتلوں نے اُن پر حملہ کر دیا…
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اوراُن کے
درجات بلند فرمائے… اور اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو موت یاد رکھنے، اور
موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطاء فرمائے…
اور ہم سب کو’’حُسن خاتمہ‘‘ نصیب فرمائے…
آمین یا
ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…سعدی
کے قلم سے( 349)
حسن خاتمہ
کامیاب انسان وہ
جسے حسن خاتمہ یعنی ’’اچھی موت‘‘ نصیب ہو…
ہر مسلمان کی
خواہش اور تمنا کہ اسے حسن خاتمہ نصیب ہو…
مگر حسن خاتمہ کسے
کہتے ہیں…؟
اس کو حاصل کرنے
کا نصاب کیا ہے؟ اور اس کی تیاری کیسے ہوگی؟
ان سوالوں کو جواب
اوراس حقیقت کا بیان کہ ’’سوء خاتمہ‘‘ یعنی بری موت
سے حفاظت کے لئے
سب سے بہترین صورت ’’شہادت‘‘ ہے…!
تاریخ اشاعت
۱۹جمادی الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۱مئی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۴۹)
حسن خاتمہ
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اپنے فضل سے’’حسن
خاتمہ‘‘ نصیب فرمائے… آج باتیں
بہت سی ہیں اور دعائیں بھی…
اس لئے مختصر شذرے بناتے ہیں تاکہ…
یاد رکھنے میں آسانی ہو…
موت کو زیادہ یاد
کرو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لذتوں کو ختم کرنے والی چیز(یعنی موت) کا زیادہ تذکرہ کیا کرو…(ترمذی)
حضرت آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان آگیا…
لبیک، لبیک… آج ہم موت کا
زیادہ تذکرہ کریں گے… اپنے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانیں گے…
آج بھی آئندہ بھی… خلوت میں
بھی، جلوت میں بھی… انشاء اللہ
مسلمان مرو
اللہ تعالیٰ نے ہمیں تاکید کے ساتھ حکم فرمایا ہے کہ…
ہم مسلمان مریں…یعنی ایسی محنت،
کوشش، فکر اور دعاء کریںکہ…
جب موت آئے تو ہم ایمان پر ہوں…
اسلام پر ہوں… اور ہمارا خاتمہ
اچھا ہو جائے… ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اے ایمان
والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس طرح اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور
تم صرف اسلام ہی پر مرو…(یعنی
تمہارا خاتمہ اسلام پر ہونا چاہئے)(آل عمران ۱۰۲)
محنت مرتے دم تک
ہے
مسلمان کو عبادت
کا حکم ہے… عبادت کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا کرنا…
جی ہاں! سارے احکامات… عقائد بھی
فرائض بھی… محنت بھی، قربانی
بھی… اور اس میں
کامیابی یہ ہے کہ… انسان
مرتے دم تک لگا رہے… ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
اور اپنے رب کی
عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہاری موت آجائے…(الحجر ۹۹)
اعتبار تو صرف
خاتمے کا ہے
بالکل واضح سمجھا
دیاگیا کہ… اصل اعتبار خاتمے
کا ہے… دیکھیں بخاری
شریف کی یہ روایت:
حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّمَا
الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم…
ترجمہ: اعمال کا
دارومدار تو اُن کے انجام پر ہے…(صحیح
بخاری)
ایک آدمی اچھے
اعمال کرتے کرتے جنت کے دروازے تک جا پہنچتا ہے…
اچانک ایسا عمل کر بیٹھتا ہے کہ سیدھا جہنم میں جا گرتا ہے…
اور دوسرا بُرے اعمال کرتے کرتے جہنم کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے اور پھر…
ایسا عمل کر گزرتا ہے کہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے…
اسی لئے جن کے دلوں میں ایمان ہوتا ہے اُن کو سب سے زیادہ فکر…
ایمان پر خاتمے کی ہوتی ہے…
ایک ایک گھڑی ایک ایک لمحہ وہ اسی فکر میں رہتے ہیں کہ…
آخری وقت اچھا ہو… ایمان پر
ہو…
انبیاء دکی وصیت
حضرت ابراہیم علیہ
السلام… اور حضرت یعقوب
علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کیا وصیت فرمائی؟…
ہمیں بھی اس کو پڑھ سمجھ کر اپنی اولاد کے لئے ایسا ہی مستقبل ڈھونڈنا اور سوچنا
چاہئے… دیکھئے قرآن پاک…
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: اور
ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اسی دین
کی وصیت کی( اور کہا) اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دین(اسلام ) کو پسند
فرمایا ہے اس لئے تم صرف دین اسلام ہی پر مرنا…(البقرہ ۱۳۲)
یہ ہے اپنی اولاد
کے لئے ایک مسلمان کی حقیقی فکر…
کہ وہ دین پر رہیں اور دین پر مریں…
رہائش کی فکر، کھانے کی فکر، نوکری کی فکر فضول ہے…
لیجئے اب دو کام ہو گئے…
اپنے حسن خاتمہ کی فکر اور محنت بھی کرنی ہے…
اور اپنی اولاد کے حسن خاتمہ اور محنت کی فکر بھی کرنی ہے…
وجہ یہ ہے کہ بس ایک لمحہ اچھا ہو گیا توآگے کروڑوں اربوں سال سے بھی زیادہ مدت…
یعنی ہمیشہ ہمیشہ آرام، عیش اور راحت…
اور اگر ایک لمحہ بُرا ہو گیا تو آگے ہمیشہ ہمیشہ کی تکلیف، عذاب اور دردناک مشقت…
ایک لمحہ کونسا ہے؟… جی ہاں!
خاتمے کا لمحہ… جب روح کو جسم سے
الگ کیا جاتا ہے… اور یہ
لمحہ ہر جاندار پرضرور آناہے…
ایک دعاء سمجھ لیں
اور یاد کر لیں
اوپر جو بات عرض
کی… ایک لمحہ والی…
اس کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی اس دعاء میں سمجھنے
کی کوشش کریں… یہ دیکھیں حدیث
شریف کی مشہور کتاب صحیح مسلم…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک دعاء…
اَللّٰھُمَّ
اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ہُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ
دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ آخِرَتِیَ الَّتِیْ
فِیْھَا مَعَادِیْ، وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ
وَّاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ (مسلم حدیث رقم: ۲۷۲۰)
ترجمہ: یا اللہ ! میرے اُس دین کو درست فرما دیجئے جو میرا
بچاؤ ہے… اور میری اُس
دنیا کو درست کر دیجئے جس میں میرا معاش ہے، اور میری اُس آخرت کو درست فرمادیجئے
جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور زندگی کو میرے لئے ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا
دیجئے اور موت کو میرے لئے ہرشر سے راحت کا ذریعہ بنا دیجئے…
ماشاء اللہ !…
کیسی جامع اور زبردست دعاء ہے…
دین بھی سیدھا ہو جائے…
دنیا بھی سیدھی ہو جائے…
آخرت بھی اچھی ہو جائے…
اور زندگی قیمتی بن جائے اور موت راحت بن جائے…
معلوم ہوا کہ… اچھے خاتمے والی
موت راحت ہی راحت ہے… اور
آزادی ہی آزادی… بلکہ مزے
ہی مزے… اس پر ایک واقعہ
پڑھ لیں…
ایک واقعہ
امام غزالی س نے
احیاء العلوم کی چوتھی جلد میں…
اچھے اور برے خاتمے پر تفصیلی بات کی ہے…
اس میں وہ یہ واقعہ بھی لکھتے ہیں:
’’ اپنے
خاتمے کے بارے میں ڈرنے والے ایک شخص نے اپنے کسی بھائی کو وصیت کی کہ جب میں مرنے
لگوں میرے سرہانے بیٹھنا، اگر دیکھو کہ میرا خاتمہ توحید پر ہوا تو میرا تمام مال
لے کر اس کے بادام اور شکر خرید کر شہر کے بچوں میں تقسیم کرنا اور کہنا کہ ایک
شخص قید سے آزاد ہوا ہے یہ اُس کی شیرینی ہے اور اگر میرا خاتمہ توحید پر نہ ہو
تو لوگوں کو خبر دینا کہ یہ شخص توحید پر نہیں مرا‘‘…الخ،(احیاء
العلوم)
حضرت سفیان ثوری
رحمۃ اللہ علیہ کی موت کا وقت آیا تورونے لگے اور بہت ڈرے ہوئے تھے لوگوں نے ان
سے کہا آپ کو امید کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی معافی آپ کے گناہوں سے بڑی ہے…
حضرت سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں گناہوں کی وجہ سے نہیں روتا اگر مجھے یہ
معلوم ہو جائے کہ خاتمہ توحید پر ہوگا تو مجھے کچھ پرواہ نہیں اگرچہ میرے ساتھ
پہاڑوں کے برابر گناہ جائیں…(احیاء
العلوم)
بعض صحابہ کرام سے
یہ بات مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ…
جو شخص موت کے وقت ایمان چھن جانے سے ڈرتا ہے اس کے لئے خیر ہے…
اور جو اس خوف سے بے فکر رہتا ہے اس کا ایمان چھن جانے کا خطرہ رہتا ہے…یعنی
جو ڈرتے ہیں…… وہی بچتے
ہیں…
وجہ کیا ہے؟
صحیح بخاری میں
حضرت ابن ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے…
میں تیس صحابہ کرام سے ملا وہ سب اپنے بارے میں نفاق سے ڈرتے تھے…
بُرے خاتمہ کا خوف ہمارے سب اسلاف پر طاری رہا…
لوگوں نے اس پر صفحات کے صفحات لکھے ہیں…
دراصل انسان کے اندر جو حالت پختہ ہوتی ہے وہ موت کے وقت ظاہر ہوجاتی ہے…
عام زندگی میں تو لوگ رکھ رکھاؤ سے بہت کچھ چھپا لیتے ہیں…
دوسری بات یہ کہ… شیطان اُس
وقت بہت زور لگاتا ہے اور اپنے تمام لشکروں اور آلات کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے…
اور انسان کی کمزوریوں کے راستے اُس کے حواس پر قبضہ کرتا ہے تاکہ…
موت کے وقت اُسے غافل کر دے…
کسی کو مال میں، کسی کو حرص میں، کسی کوعشق میں…
کسی کو اپنی عزت و شہوت میں…
بس بھائیو! اور بہنو!…بڑا مشکل
وقت ہوتا ہے… اللہ تعالیٰ ہی اپنا فضل فرمائے…
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر دین کو مضبوط کریں…
ایمان اور تقوے کو مضبوط کریں…
اور ساتھ ساتھ نہایت آہ وزاری اور اہتمام کے ساتھ حسن خاتمہ کی دعاء بھی مانگتے
رہیں…
عقلمند لوگ حسن
خاتمہ کی دعاء مانگتے ہیں
قرآن پاک کی سورۃ
آل عمران میں… اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو’’اولی الالباب‘‘…
کا لقب عطاء فرمایا ہے…
یعنی عقل والے… جن کو اللہ تعالیٰ عقلمند فرمائے اُن سے بڑھ کر عاقل کون ہو
سکتا ہے؟…پورا تذکرہ آپ
سورۃ آل عمران کے آخری رکوع میں پڑھ لیجئے…
یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ…
ان عقلمندوں کی ایک صفت اور علامت یہ بھی ہے کہ…
وہ حسن خاتمہ کی فکر کرتے ہیں اور اس کے لئے مسلسل دعاء مانگتے ہیں…
دعاء یہ ہے…
’’رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا
ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار‘‘
ترجمہ: اے ہمارے
رب!ہمارے گناہ معاف فرما، ہم سے ہماری برائیاںدور فرما اور ہم کو نیک لوگوںکے ساتھ
موت دے…(آل عمران۱۹۳)
لیجئے بات بھی
سمجھ آگئی… اور ایک قرآنی
دعاء بھی مل گئی…
اس دعاء کو یاد کر
لیاجائے… توجہ سے مانگی
جائے اور معمولات کا حصہ بنائی جائے…
اس میں’’استغفار‘‘ بھی ہے اور’’حسن خاتمہ‘‘ کی دعاء بھی…
مقبول تائبین اور
حسن خاتمہ کی فکر
قصہ آپ نے بارہا
سنا ہوگا… رنگ ونور میں بھی
آچکا… وہ بڑے خوش نصیب
جو پہلے فرعون کے جادو گر تھے…مگر
اللہ تعالیٰ کا ایسافضل ہوا کہ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے صحابی…
اور شہداء کرام بن گئے…
اُن کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے کہ …
ایک طرف انہوں نے فرعون کو للکارا کہ ہم ایمان لا چکے ہیں جو کرنا ہے کر لے تو اسی
لمحے دوسری طرف انہوں نے…
اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر حسن خاتمہ کی درخواست
پیش کر دی… اور وہ قبول ہو
گئی…
قرآن پاک اُن کی
دعاء بیان فرماتا ہے…
رَبَّنَآ اَفْرِغْ
عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ…(الاعراف ۱۲۶)
اے ہمارے
پروردگار! ہمیں استقامت نصیب فرما اور ہمیں اسلام پر موت دے…
لیجئے مل گئی ایک
اور دعاء حسن خاتمہ کی…
اس میں صبرو استقامت کی دعاء بھی ہے…
اور ایمان پر خاتمے کی بھی…
الفاظ بھی قرآن پاک کے ہیں…
اور جنہوں نے مانگی تھی اُن کو حسن خاتمہ نصیب بھی ہوا…
پس اسے بھی یاد کر لیجئے…
اب کیا کریں؟
آج جو باتیں
لکھنی تھیں… ان میں سے آدھی
ہو چکیں اور آدھی باقی ہیں…
بعض بہت اہم دعائیں بھی باقی ہیں…ساری
آج لکھ دوں توآپ پر بوجھ ہوگا…
اس لئے انشاء اللہ اگلے ہفتے اس موضوع کو مکمل کرنے کی کوشش کریں
گے… آج کی آخری بات
سن لیں… امام غزالی پنے
لکھا ہے: بُرے خاتمہ سے حفاظت کی سب سے محفوظ صورت یہ ہے کہ…
کسی انسان کو اللہ تعالیٰ شہادت کی نعمت نصیب فرما دیں…
پس ہمیں چاہئے کہ دل کے اخلاص کے ساتھ ہر خوف نکال کر…
شہادت کی دعاء مانگا کریں…
اور خود کو شہادت کا اہل بنانے کی فکر اور محنت بھی کیا کریں…
آپ میں سے جو بھی
یہ کالم پڑھے یا سنے… میری اُس
کیلئے دعاء ہے کہ…
یا اللہ ، یا کریم! اُسے حسن خاتمہ…
ایمان کامل پر نصیب فرما…
اور میری آپ سب سے گزارش ہے کہ…
آپ میرے لئے حسن خاتمہ ایمان کامل…
اور شہادت پر ہونے کی دعاء مانگ لیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم سلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…سعدی
کے قلم سے( 350)
پاکیزہ اور معطر
فکر
دنیا میں ہر انسان
کی آنکھ انسو بہاتی ہے مگر صرف ایک آنسو قیمتی ہے…
جو اللہ کے خوف و
خشیت یا محبت سے ٹپکا ہو…
کچھ بڑے لوگوں کی
طرف سے ’’حسن خاتمہ‘‘ کی فکر کے انمول نمونے…
حضرت یوسف علیہ
السلام کی فکر اور دعاء کی روشن کرنیں!
حسن خاتمہ کے لئے
کچھ نبوی وظائف اور اسغفار کی اہمیت…
اس اہم اور ضروری
موضوع پر دیگر مفید نکات سے بھر پور اصلاح افروز تحریر…
تاریخ اشاعت
۲۶جمادی الثانی؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۸مئی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۰)
پاکیزہ اور معطر
فکر
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو وہ ’’آنسو‘‘ نصیب
فرمائے… جو تنہائی میں
صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے ٹپکا ہو…
یہ دیکھیں! حضرت عبد اللہ بن عمرو بن
العاص رضی اللہ عنہم فرما رہے ہیں…
’’میرے لئے اللہ تعالیٰ کے خوف سے ایک آنسو بہانا ہزار دینار
صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے‘‘
جی ہاں! حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ فرما لیا ہے کہ…
دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیںچھوئے گی…
ایک وہ آنکھ جو جہاد کی پہرے داری میں جاگی ہو…
اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف
سے روئی ہو… پچھلے ہفتے والے
موضوع کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں…تاکہ
میرے اور آپ سب کے دل میں’’حسن خاتمہ‘‘ کی فکر پیدا ہو جائے…
کھانے پینے سے بھی زیادہ، مکان، دکان سے بھی زیادہ…
علاج اور صحت کی فکر سے بھی زیادہ…
شہرت اور عزت کی فکر سے بھی زیادہ…
خاوند اور بیوی کی ایک دوسرے کو قبضے میں لینے کی فکر سے بھی زیادہ…
زیادہ جینے اور زیادہ مال بنانے کی فکر سے بھی زیادہ…
یہ فکر کہ ہمارا خاتمہ اچھا ہوجائے…
ایمان پر ہو جائے…
حضرت حسن بصری
رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار ایک حدیث بیان فرمائی جس میں اُس آدمی کا تذکرہ تھا جو
ایک ہزار سال تک جہنم میں رہے گا…
پھر وہاں سے نکال کر جنت میں بسایا جائے گا…
فرمانے لگے کاش میں ہی وہ آدمی ہو جاؤں…
کیونکہ سزا کاٹ کر سہی اُس کا جنت میں جانا تو یقینی ہے…
جبکہ میرا پتہ نہیں کہ…
موت ایمان پر آئے گی یا نہیں…
خدانخواستہ ایمان پر نہ آئی تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب ہو گا…
یا اللہ امان! یا اللہ امان…
آہ! کتنے لوگ عین
موت کے وقت ایمان پر نہ رہے…
اور اُن پر وہ فکر سوار ہو گئی جو انہوں نے دنیا میں اپنی اصل فکر بنائی…
اُسی کے لئے جیتے مرتے رہے…
کاش ہم ایمان کی قدر سمجھیں…
کاش ہم ایمان کو ہی سب سے بڑی دولت ، سب سے بڑی نعمت سمجھیں…
امام غزالیؒ نے عجیب حکایت لکھی ہے…
انبیاء د میں سے ایک نبی پر بہت آزمائشیں آئیں…
ایسی سخت آزمائشیں کہ اُن کا تصور بھی مشکل ہے…
بھوک، فاقہ، افلاس اور ہر تکلیف…
بالآخر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنا شکوہ عرض کیا…
جواب آیا: اے ہمارے بندے! کیا تمہارے لئے ہماری یہ نعمت کافی نہیں کہ ہم نے تمہیں
کفر سے بچایا ہوا ہے… یہ سنتے
ہی وہ سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے کہ…
واقعی اتنی عظیم نعمت مجھے نصیب ہے کہ …
ایمان پر ہوں اور کفر سے محفوظ ہوں…
آج تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے…
’’حبّ دنیا‘‘ نے دلوں کی دنیا ہی ویران کر دی ہے…
ہر گندی سے گندی چیز کی قدر دل میں ہے…
اگر قدر نہیں تو ایمان کی نہیں…
ہر چیز کی فکر میں روتے ہیں، مرتے ہیں، اور کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں…
اگر فکر نہیں تو ایمان پر خاتمے کی نہیں…
یا اللہ ! ہم پر رحم فرما…
حضرت
یوسف علیہ السلام کی فکر…
اور دعاء
مصیبت کے وقت بہت
سے لوگ’’موت‘‘ کو یاد کرتے ہیں…
موت کی باتیں کرتے ہیں…
مرجانے کی دھمکیاں دیتے ہیں…
مگر جب انسان نعمتوں کے عروج پر ہو اُس وقت وہ موت کو یاد رکھے اور اچھی موت…
یعنی حسن خاتمہ کی فکر کرے…
یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے…
یہ دیکھیں! میرے سامنے سورۃ یوسف کے انوارات ہیں…
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی ساری
آزمائشیں ختم فرما دیں…
جیل سے رہائی ملی… مصر کی
حکومت اور خزانے ملے… زمین پر
شاندار تمکین ملی! ایسی کہ جہاں چاہیں گھر بسائیں…
والدین کی جدائی ختم ہوئی…
خواب کی تعبیر پوری ہوئی…
بھائیوں کا ظلم اورحسد…
ایک دم محبت اور اطاعت میں تبدیل ہوگیا…
الغرض وہ سب کچھ مل گیا جو کسی انسان کو اس دنیا میں بہت مشکل سے ہی ملتا ہے…
ایسے حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام ان نعمتوں میں کھو جانے کی بجائے…
اللہ تعالیٰ کا قُرب اور حسن خاتمہ کی دعاء فرما رہے
ہیں… پوری بات تو آپ
کو تب سمجھ آئے گی جب آپ سورہ یوسف کی آیات(۹۹) تا (۱۰۱) دیکھیں گے…
فی الحال ایک آیت کا ترجمہ دیکھیں:
’’(حضرت
یوسف علیہ السلام نے ان نعمتوں کے تذکرے کے بعد دعاء فرمائی) اے میرے
رب! آپ نے مجھے حکومت عطاء کی اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا…
اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! آپ ہی دنیا اور آخرت میں میرے کار
ساز ہیں، مجھے اسلام پر موت دیجئے اورنیک بندوں میں شامل فرمائیے‘‘(یوسف، ۱۰۱)
اس میں جو دعاء
سکھائی گئی اُس کے الفاظ یاد کر لیں…
{فَاطِرَ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ
مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ}
اس دعاء کو بھی
معمولات میں شامل کیا جائے…
اور دنیوی دعاؤں کے مقابلے میں زیادہ فکر ، توجہ اور اہمیت سے مانگی جائے…
مفسرین کرام نے لکھا ہے:
حضرت یوسف علیہ
السلام کی اس دعاء سے نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کے دل میںہمیشہ یہ تمنا
بیدار رہنی چاہیے کہ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اُس کا خاتمہ ہو…
اور آخرت میں انبیاء، شہداء، اولیا، اور صالحین کی رفاقت نصیب ہو…
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر خاتمہ سب سے بڑی سعادت ہے…
لیجئے حسن خاتمہ
کے بارے میں قرآن پاک کی تین دعائیں آپ تک پہنچ گئیں…
دو گزشتہ کالم میں اور ایک یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی دعاء…
حدیث پاک سے ایک
دعاء
طبرانی، مسند احمد
وغیرہ میں… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم فرمودہ
ایک بڑی جامع دعا ہے… اور اس
دعاء کے بارے میں فرمایا ہے…
{من کان ذلک دعائہ
مات قبل ان یصیبہ البلاء}
یعنی جو اس
دعاء کو اپنائے گا اس کی موت ابتلاء سے انشاء اللہ محفوظ ہوگی…
دعاء کے الفاظ یہ ہیں:
{اَللّٰھُمَّ
أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُ مُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ
الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ}
ترجمہ: یا اللہ میرے تمام کاموں کاانجام اچھا فرما دیجئے
اورمجھے دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لیجئے…
اسی طرح یہ دعاء
بھی مسنون ہے:ـ
{یَا وَلِیَّ
الْاِسْلاَمِ وَاَھْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ بِہٖ حَتّٰی اَلْقَاکَ}
ترجمہ: اے اسلام
اور اہل اسلام کے مولیٰ! آپ مجھے اسلام پر اس وقت تک ثابت قدم رکھیں یہاں تک کہ
مجھے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے…
یعنی میری موت آجائے…
اسی طرح یہ مسنون
دعاء بہت اہم اور مفید ہے:
{اَللّٰھُمَّ
لَقِّنِیْ حُجَّۃَ الْاِیْمَانِ عِنْدَ الْمَمَاتِ}
یا اللہ مجھے مرتے وقت ایمان کی حجت ( یعنی کلمہ طیبہ)
کی تلقین نصیب فرمائیے…
ایک مضبوط نصاب
یہ موضوع بہت طویل
ہے… حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین ’’حسن خاتمہ‘‘ کی فکر میں…
اللہ تعالیٰ کی خشیت سے اتنا روتے تھے کہ…
بعض کے چہروں پر آنسوؤں نے نشانات بنا دیئے تھے…
اُن کو اپنے چہرے سنوارنے، بال سجانے اور خود کو خوبصورت دکھانے کی فضول فکریں
نہیں تھیں… وہ تو اس غم میں
روتے تھے اور اپنے حسین چہروں کو سجدوں اور آنسوؤں کے داغوں سے سجاتے تھے کہ…
خاتمہ ایمان پر ہو جائے…
اور اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر جانا ہے…
یہ پیشی آسان ہو جائے…
بات دراصل عقل کی ہے اور سمجھنے کی ہے…
قرآن پاک کی کتنی آیات میں…
ایمان والوں کی صفت بیان ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ’’لرزتے‘‘ ہیں، کانپتے ہیں…
اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لٹا کر بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ…
ہم نے اُس کے سامنے پیش ہونا ہے…کوئی
مالک اپنے غلام کو بازار بھیجے کہ فلاں کام کر آؤ اور فلاں فلاں نہ کرنا…
اور مالک غلام پرنگرانی بھی رکھے…
اور واپس آکر غلام نے سارا حساب کتاب بھی دینا ہو…
تو اندازہ لگائیں کہ وہ اپنے مالک کے احکامات کی کس قدر پابندی کرے گا…
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے…
کچھ کام ارشاد فرمائے ہیں…
نگرانی کا ایسا انتظام ہے کہ دل کے بھید بھی اُس سے پوشیدہ نہیں…
اور پھر واپسی بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جہاں دنیا کا حساب کتاب دینا
ہے… تو کیا ایک بندے
کو زیب دیتا ہے کہ وہ دنیا کے بازار میں آکر…
اپنے مالک کے احکامات کو بھول جائے…
اور اسی بازار میں اپنے لئے دکانیں اور مٹی گارا خریدتا رہے…
اور جب واپس جائے تو سب کچھ یہیں چھوڑ جائے…
اور مالک کے سامنے جواب دینے کے قابل بھی نہ ہو…
مجھے ایک بابا جی کی بات دل کو لگی…
جس مسجد میں نماز کو جاتا تھا وہاں دو بڑی عمر کے نمازی تھے…
دونوں باہم دوست… چند دن تک
ایک ’’باباجی‘‘ غیر حاضر رہے…
چار پانچ دن بعد آئے تو دوسرے بزرگ نے خیریت پوچھی…
میں ساتھ بیٹھا سن رہا تھا …
’’بابا‘‘ نے بتایا کہ سخت بیمار تھا…
دوسرے’’بابا‘‘ نے صحت کی دعاء دی اور فرمایا: ایک بات یاد رکھنا…
موت کا وقت مقرر ہے اللہ کرے خیر والی آئے…
علاج میں زیادہ نہ الجھنا…
اپنی اولاد پر علاج کا زیادہ بوجھ نہ ڈالنا…
موت تو ٹلتی نہیں، اپنا اور اولاد کا بہت کچھ برباد ہوجاتا ہے…
سبحان اللہ ! ایک ان پڑھ سے آدمی کو مسجد
کی پہلی صف نے معرفت کا کیسا راز سمجھا دیا…
آج کل علاج ہی علاج میں دین، دنیا اور معلوم نہیں کیا کچھ برباد ہوجاتا ہے…
صحت تو ایک فانی چیز ہے…
یہ ضرور کمزور ہوتی ہے اوراکثر چھن بھی جاتی ہے…
پھر نہ ڈاکٹر یہ واپس لا سکتے ہیں، نہ حکیم اور نہ عامل…
ہر علاج مزید بیماریاں لاتا ہے…
ہسپتالوں کا ماحول ایمان کا دشمن ہے…
علاج کی مشینیں کروڑوں روپے کی ہیں…
ڈاکٹروں نے وہ قیمت نفع کے ساتھ پوری کرنی ہوتی ہے…
ڈاکٹروں میں دینداری اور ایمانداری بہت کم ہے…
اور ہر ڈاکٹر کی رائے دوسروں سے مختلف ہے…
لوگ علماء کے اختلاف پر چیختے چنگھاڑتے ہیں…
کبھی ڈاکٹروں کی ایک دوسرے کے بارے میں رائے سنیں تو حیران رہ جائیں…
بیماری کا علاج سنت ہے جبکہ بیماری پر صبر کا بدلہ جنت ہے…
علاج میں زیادہ فکر اور مبالغہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے غافل اور شاکی کر دیتا ہے…
اور شیطان انسان کو اُس کے جسم اور صحت کے بارے میں ہر وقت ناشکری میں ڈالتا ہے…
تاکہ علاج کی فکر میں مرتے رہیں…
موٹوں کو کمزورہونے کی…
اور کمزوروں کو موٹا ہونے کی فکر ہے…
ایسی ایسی بیماریوں کا علاج آچکا ہے کہ…
اُن کا علاج شریعت میں جائز ہی نہیں…
انسانوں کو چاہئے کہ اپنی صحت کے بارے میں شکر کریں…
اپنے سے زیادہ کمزور لوگوں کو دیکھیں…
میں ایک بار پیدل جا رہا تھا، ٹانگ میں شدید درد نے دل میں تھوڑا سا غم پیدا کیا…
اچانک سامنے دیکھا ایک شخص آرہا تھا اس کے دونوں پاؤں الٹے مڑے ہوئے تھے…
میں شرم اورشکر میں ڈوبا ہی تھا کہ کھٹ کھٹ کی آواز پر سر اٹھایا ایک صاحب بغیر
ٹانگ کے بیساکھیوں پر آرہے تھے…
تب مجھے اپنی سوچ سے نفرت اور اپنے درد سے پیار محسوس ہونے لگا…
اللہ کے بندو! دنیا میں ہم جان اور صحت بنانے کے لئے
نہیں بھیجے گئے… ایمان اور ایمان
کے تقاضوں کے لئے آئے ہیں…
شکر، صبر اور اعتدال میں رہتے ہوئے علاج…
اور بعض بیماریوں پر صبر…
یہ بہترین نسخہ ہے… ایسا نہ
ہو کہ… صحت کی زیادہ فکر
سوار ہو جائے اور موت کے وقت بھی کلمہ طیبہ کی بجائے ڈاکٹر ، نرسیں اور دوائیاں
یاد آرہی ہوں… بندہ نے کئی
افراد کو … جو ہروقت علاج،
صحت اور دوائیوں کی فکرمیں لگے رہتے تھے یہ بات سمجھائی…
اُن میں سے بعض کے دل میں اُتر گئی اب وہ اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہیں…
اور بندہ کو بھی دعائیں دیتے ہیں کہ…
کیسی فضول آفت سے نجات ملی…
یہ مرض آج کل بہت عام ہے اس لئے معلوم نہیں کتنے افراد میری ان باتوں کو اپنی طرف
اشارہ سمجھیں گے… ارے
بھائیو! میں موت اور حسن خاتمہ کے غمناک موضوع میں کسی مسلمان بھائی پر تنقید کیوں
کروں گا؟… پھر کسی کی اس
عادت سے میرا کیا نقصان ہے کہ میں اُس پر طنز کرنے لگوں…
اور خود میرے عیب کونسے کم ہیں کہ میں اُن کو بھلا کر دوسروں کے عیب دیکھنے لگوں؟…
اللہ تعالیٰ اس فانی دنیا کی کوئی بھی فکر…
میرے اور آپ کے دل پر ایسی سوار نہ کرے…
کہ ہمارا نقصان ہوجائے…
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرماتے تھے…
{اَللّٰھُمَّ لَا
تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَھَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا}
یا اللہ ! دنیا کو ہمارے لئے بڑی فکر اور ہمارے علم
کا مبلغ نہ بنائیے…
مال، عہدے،
منصب، مکانات… جائیداد، شادیاں،
صحت، جسامت… یہ سب دنیا کی
فکریں ہیں… جو صرف ایک حد تک
جائز ہیں… بات چل رہی تھی…
حسن خاتمہ کے لئے ایک مضبوط نصاب کی…
تو سنیئے! بہت غور وفکر کے بعد نہایت مضبوط سند کے ساتھ…
دو روایات ملتی ہیں… ایک تو
سید الاستغفار کے بارے میں…
صحیح بخاری میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پکا وعدہ ہے کہ…
جو صبح پڑھ لے شام تک مرے گا تو جنت میں جائے گا…
اور شام کو پڑھ لے تو صبح تک اگر مرے گا تو جنت میں جائے گا…
شرط یہ ہے کہ ’’یقین‘‘ کے ساتھ پڑھے…
بھائیو! اور بہنو!
یہ بہت بڑی ضمانت… استغفار
کی بہت بڑی فضیلت ہے… اور جناب
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کے لئے بہت بڑا تحفہ اور
احسان ہے…
حدیث پاک کے الفاظ
دیکھیں:
{من قالھا من
النھار موقنا بھا فمات من یومہ قبل ان یمسی فھو من اھل الجنۃ ومن قالھا من اللیل
وھو مؤقن بھا فمات قبل ان یصبح فھو من اھل الجنۃ (رواہ البخاری)}
یعنی ’’جو صبح
یقین سے پڑھ لے پھر اُس دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہے اور جو رات کو یقین
سے پڑھ لے پھر اُسی رات صبح ہونے سے پہلے مرجائے وہ جنتی ہے‘‘…
جب حضرت
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آگیا…
اور اتنی مضبوط سند سے آگیا توہمیں شک کرنے کی ضرورت نہیں…
البتہ اہتمام ایسا ہو کہ صبح صادق طلوع ہوتے ہی یہ استغفار پڑھیں…
اور شام سورج غروب ہوتے ہی یہ استغفار یقین کے ساتھ پڑھیں…
اس استغفار کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سید
الاستغفار‘‘ یعنی استغفار کا سردار قرار دیا ہے…
الفاظ یہ ہیں…
{اَللّٰھْمَّ
اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا
عَلٰی عَہْدِکَ وَ وَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ
اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ
فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ}
ترجمہ: یا اللہ ! آپ میرے رب ہیں، آ پ کے سوا کوئی معبود
نہیں، آپ نے مجھے پیدا فرمایا…
اور میں آپ کا بندہ ہوں…
اور میں اپنی استطاعت کے مطابق آپ کے عہد اور وعدے پر قائم ہوں…
(یعنی ایمان اور فرمانبرداری پر) میں اپنے کردار سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں…
میں اپنے اوپر آپ کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا
ہوں پس آپ میرے گناہوں کو بخش دیجئے…
بے شک آپ ہی گناہوں کوبخشنے والے ہیں…
درست الفاظ…
اورالفاظ کے ساتھ ترجمہ سمجھ کر اسے پورے شوق اور یقین کے ساتھ اپنا معمول بنالیا
جائے… اس قسم کی دعاؤں
کی برکت سے انسان کا عقیدہ، عمل اور بہت سے کام سیدھے ہونے لگتے ہیں…
اور دوسرامضبوط
عمل آیۃ الکرسی کا ہے…
ہر نما زکے بعد نہایت توجہ سے ایک بار پڑھ لی جائے…
اس کی تفصیل پھر کبھی انشاء اللہ …
ویسے بھی آپ حضرات اس عظیم آیت کے فضائل و مناقب سنتے رہتے ہیں…
تحفہ عزیزی
حضرت شاہ
عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ…
جو ہمارے جہادی شیخ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مرشدتھے…
اُن کے فرامین کو ان کے بھتیجے حضرت مولوی ظہیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جمع
فرمایا ہے… حضرت شاہ صاحب
رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا:…
موت کے وقت جو سکرات اور تکلیف ہوتی ہے اس سے حفاظت کے لئے کچھ ارشاد ہو…
جواب میں فرمایا:
’’روایت سے ثابت
ہے کہ سکرات الموت آسان ہونے کے لئے ہمیشہ آیۃ الکرسی اور سورۃ الاخلاص پڑھنی
چاہئے… اور یہ بھی حدیث
میں آیا ہے کہ عذاب قبر دفع ہونے کے لئے ہمیشہ سورۃ ’’تبارک الذی‘‘ عشاء کے بعد
سونے سے قبل پڑھنی چاہئے، اور ایسا ہی سورۃ ’’الدخان ‘‘پڑھنے کے بارہ میں روایت ہے…(کمالات
عزیزی۔ ص:۵۳)
کسی نے پوچھا!
گناہوں کی معافی اور خاتمہ بالخیر کے لئے کیا پڑھنا چاہئے!…ارشاد
فرمایا: گناہوں کی معافی کے لئے استغفار نہایت مفید ہے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے
لئے کلمہ طیبہ کا ذکر کرنا اور نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنا نہایت مفید ہے…(کمالات
عزیزی:ص ۵۱)
آخری گزارش
صحیح حدیث سے ثابت
ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچے دل کے ساتھ شہادت کی دعاء مانگے…
اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا مقام عطاء فرماتے ہیں خواہ
وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرا ہو…
یہ حسن خاتمہ کا بہترین نسخہ ہے…
شہادت… یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اللہ تعالیٰ کے راستے میں مقتول ہونا…
یہ بڑی عظیم الشان نعمت ہے…
اس کی دعاء اور تمنا ایمان والوں کو نصیب ہوتی ہے…
اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے ملاقات کے شوق…
اور اس کے دین اور کلمے کی غیرت میں شہادت کی تمنا رکھتے ہیں…
مصیبتوں سے گھبرا کر نہیں…
لوگوں سے تنگ آکر نہیں…
بوڑھے ہونے کے بعد کی شرط کے ساتھ نہیں…
بس شہادت ملے… ابھی ملے یا جب
بھی مالک عطاء فرمائے… کوئی شرط
نہیں، کوئی خوف اور الجھن نہیں…
بس شوق اور دل کی آرزو…
جس طرح مجنوں کو لیلیٰ کی…
اور کسی عاشق کو اپنی محبوبہ کی…
جن کو اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے وہ دل کی صداقت کے
ساتھ مانگیں… دل ساتھ نہ دے تو
دل کی اصلاح کی دعاء مانگیں…
حسن خاتمہ کے لئے کلمہ طیبہ پکا کرنا چاہئے…
یقین بھی اور ورد بھی… استغفار
کی کثرت کرنی چاہئے… تلاوت اور
درود شریف کا اہتمام کرنا چاہئے…
اموال میں خیانت اور حرص سے بہت بچنا چاہئے…
ناجائز دوستیوں اور غلط دوستوں سے دور رہنا چاہئے…
جہاد اور ذکر کے ماحول کو اپنانا چاہئے…
عہدوں اور مناصب کی خواہشات سے پاک رہنا چاہئے…
دین کا کام جنونی محنت کے ساتھ کرنا چاہئے…
اپنے ذمہ جو قرضے اور حقوق ہوں اُن کو لکھ کر کسی کے پاس رکھوانا چاہئے…
اور اپنی تمام فکروں پر…
حسن خاتمہ کی فکر کو غالب کرناچاہئے…
اللہ تعالیٰ سے خوف، خشیت، امید اور حسن ظن
رکھناچاہئے…
اعتراف عجز
بندہ کو اعتراف ہے
کہ… تین قسطوں کے
باوجود اس موضوع کا حق ادا نہ ہو سکا…
کئی کتابیں پاس رکھی تھیں مگر اُن میں سے کچھ نہ لکھ سکا…کئی
مزید دعائیں بھی لکھنے کا ارادہ تھا…
جو تحریر میں نہ آسکیں…
یہ ایک بے حد اہم موضوع ہے کیونکہ موت ہم سب پر لازماً آنی ہے…
اور ہم سب اس سے غافل ہیں…
عجیب عجیب اور فضول فکریں ہمارے دل و دماغ پر سوار ہیں…
آنسو ہیںمگر خوف اور خشیت کے نہیں…
ناشکری اور شکوے کے… وظیفے اور
دعائیں ہیں ساری کی ساری اس فانی دنیا کے لئے…
اسی دنیا کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہم ایک دم قبر میں جاگرتے ہیں اور تب پتہ چلتا ہے
کہ… اپنے ساتھ کچھ
بھی نہ لاسکے… ایسے ماحول میں
اس موضوع کو جتنا پھیلایاجائے مفید ہے…
کم از کم دل میں فکر تو پیدا ہو جائے…
کم از کم ایک آنسو تو سچی خشیت والا ٹپک پڑے…
کم از کم کسی تنہائی میں ایک بار تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ…
مالک آپ کے پاس آنا ہے اور دامن خالی ہے…
حسن خاتمہ نصیب فرما دیجئے…
بس یہ فکر دل میں پیدا ہوتے ہی انسان کام والا بن جاتا ہے…
مخلص، محنتی اور نہ تھکنے والا…
اور دنیوی اغراض پر نہ گرنے والا…
یہ فکر مؤمن کو چست اور متحرک بناتی ہے اور اُس کی زندگی کو سکون، نور اور خوشبو
سے بھر دیتی ہے… یہ وہ فکر نہیں
ہے جو انسان کو گھر بٹھا دے…
یہ تو وہ فکر ہے کہ کٹی ٹانگ کے ساتھ بھی جہاد میں آگے چلاتی ہے کہ…
میں نے اپنے مالک سے ملنا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرکے…
قربانی دے کر راضی کروں…
اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ پاکیزہ اور معطر فکر نصیب
فرمائے… اورآپ سب کو بھی…
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ایمان والا…
اطاعت و اسلام والا حسن خاتمہ نصیب فرمائے…
آمین یا
ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (351)
لشکر شکن
حسن و جمال کے
پیکر… جن پر خود
خوبصورتی کو بھی ناز تھا…
یعنی صاحب مقام
محمود اور حامل لواء الحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و
عقیدت ان کے غلاموں کو کس طرح عروج اور ترقی عطاء کرتی ہے…
غلامان محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کا جہادی نظریہ کیسا ہوتا ہے؟
خاتم النبیین صلی
اللہ علیہ وسلم کے ایک بد ترین دشمن قادیانی کس طرح امت مسلمہ میں
’’زہر‘‘ پھیلاتے ہیں؟
مسلمانوں پر صبح و
شام طعن و طنز کرنے والے…
ایک ’’کالم نگار‘‘ کی اپنی حیثیت کی پردہ کشائی…
دینی اداروں کو
دنیاوی بنانے والے صاحبان فکر کے رویے پر مختصر مگر جامع تبصرہ…
تاریخ اشاعت
۴رجب؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۵مئی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۱)
لشکر شکن
اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی سمجھ عطاء فرمائے…
کتنا عظیم اور کتنا واضح’’فریضہ‘‘ ہے…
اللہ تعالیٰ نے بار بار حکم
فرمایا’’قاتلوا‘‘… مسلمانو!
قتال کرو… اور رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم تلوار لیکر زرہ باندھ کر میدان میں تشریف لے گئے…
ڈٹ کر قتال فرمایا، کافر کو قتل فرمایا…
خود زخم کھائے… اب بتائیے! مزید
کسی دلیل کی کیا ضرورت ہے؟…
ایک بات یاد رکھیں… جو کوئی
بھی’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘ کی عظمت کو کم
کرتا ہے… اپنے بیان کے
ذریعہ… کسی ضعیف روایت
یا واقعہ کے ذریعہ… کسی ایس
ایم ایس کے ذریعہ… وہ قرآن
پاک کا مجرم ہے… قرآن پاک ’’قتال
فی سبیل اللہ ‘‘ کی عظمت کو بڑھاتا ہے،
سمجھاتا ہے…ایک بار نہیں،
باربار… سینکڑوں بار…
بالکل واضح الفاظ میں… سورتوں کی
سورتیں… کیوں؟…
تاکہ مسلمان’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘ کی
عظمت کو سمجھیں… اور مانیں…
بغیر کسی تنقید کے عرض کرتا ہوں کہ…
وہ لوگ مرنے سے پہلے پہلے توبہ کر لیں جو اپنے کسی قول، عمل، تحریر…
یا تقریر کے ذریعہ’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘
کی عظمت اور اہمیت کو گھٹاتے ہیں…
فائدہ خود اُن کا اپنا ہو گا…
قرآن پاک کی شکایت اور فریاد سے بچ جائیں گے…
یہ بات اس لئے بطور خیر خواہی عرض کردی کہ…
ڈاک میں ایک خط تھا کہ ایک صاحب…
کوئی میسج چلا کر لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ…
نعوذ ب اللہ ’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘ چھوٹا
اور اصغر عمل ہے… استغفر
اللہ ، استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
جس عمل کو اللہ تعالیٰ نے ’’فوز عظیم‘‘ قرار دیا…
جس عمل کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی علامت قرار دیا…
جس عمل کو اللہ تعالیٰ نے افضل ترین قرار دیا…
اُس کے بارے میں ایسی بات پھیلانے کا مقصد…
اُس کی عظمت اور اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟…
عربی سے ناواقف لوگ نہ اکبر کا معنیٰ سمجھتے ہیں اور نہ اصغر کا…
نہ اُن کو اسم تفضیل کا استعمال معلوم ہے اور نہ روایات کا سیاق و سباق…
خیریہ تو ہوئی ایک بات…
آج ارادہ تھا کہ چند چھوٹی چھوٹی دلچسپ اور مفید باتیں عرض کی جائیں…
آئیے اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں…
باتیں تو پانچ ہیں… دیکھیں
کتنی کو جگہ ملتی ہے…
قادیانی کو تعویذ
عالم کفر کے
لاڈلے، اسلام کے بدترین دشمن’’قادیانی‘‘…
جہاد اور مجاہدین کے خلاف ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں…
یہ بڑا، منحوس، ظالم اور گہرا فتنہ ہے…
سنا ہے آج کل یہ لوگ مسلمانوں میں ’’ایڈز‘‘ پھیلانے کے مشن پرہیں…
کمپیوٹر اور فون کے چیٹنگ اور دوستی فورمز پر یہ نوجوانوں کو پھنساتے ہیں…
اور پھر انہیں بدکاری پر لے آتے ہیں اور ’’ایڈز زدہ‘‘ عورتوں سے ملاتے ہیں…
اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر رحم فرمائے…
کوشش کیا کریں کہ نوجوانوں کو فون اور نیٹ کی دوستیوں سے بچائیں…
بات یہ عرض کرنی تھی کہ جب ہم’’جموں‘‘ کی کوٹ بھلوال جیل میں تھے تو وہاں انڈین
پولیس کا ایک اہلکار’’قادیانی‘‘ تھا…
پورا زہریلا… جیسا کہ ہر
قادیانی ہوتا ہے… اور پکا
منافق جیسا کہ ہر مرزائی ہوتا ہے…
مجاہدین کو میٹھی چھری سے ذبح کرتا تھا…
کچھ عرصہ ہمارے وارڈ میں اُس کی ڈیوٹی لگی…
ہم سب کی نفرت سے وہ گھبراتا تھا مگر وہاں مجبوری کا ماحول تھا…
ایک بار اُس نے میری بہت منت کی کہ میرے دو بیٹے بیمار ہیں آپ اُن کے لئے
’’تعویذ‘‘ دے دیں… جیل میں
ہماری’’عملیات‘‘ کے عجیب چرچے خواہ مخواہ پھیلے ہوئے تھے…
وہ بھی ان چرچوں سے متاثر تھا…
ایک بے ہودہ، کانے، مخبوط الحواس اور پاگل شخص کو(نعوذ ب اللہ ) نبی ماننے والا
شخص… اپنی غرض کے لئے
ہر کسی کے سامنے جھک سکتا ہے…
ارے یہ تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی مقام ہے کہ…
اُن کی غلامی میں آنے والا پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا…
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے حضرت حافظ شیراز
کو… ایسا شعر کہا کہ
جب میں اسے پڑھتا ہوں تو پڑھتا ہی رہ جاتا ہوں…
فرماتے ہیں:
گرم صدلشکراز
خوباں بقصد دل کمیں سازند
بحمد اللہ والمنہ بتے لشکر شکن دارم
ارے اگر حسینوں کے
ایک سو لشکر میرے دل پر قبضہ کرنے کے لئے…
اپنے تمام حسن اور ناز و انداز کے ساتھ میرے دل پر حملہ کریں تووہ ناکام ہو جائیں
گے… کیوں؟…
اس لئے کہ میں نے یہ دل جس محبوب کو دیا ہوا ہے وہ حسینوں کے ہزاروں لشکروں کو
شکست دے دیتا ہے… یعنی کسی
کا حسن اُس کے حسن کے سامنے اس قابل ہی نہیں رہتا کہ دل اُس کی طرف متوجہ ہو…
سبحان اللہ ، سبحان اللہ
مدینے والے آقا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال…
اور شان و کمال کو دل میں اُتارنے والے…
پھر کسی قارون، فرعون، بش…
اوبامہ ، روم ، فارس… اور کسی
نام نہاد سپر پاور کے سامنے نہیں جھکتے…
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد… اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد
آپ بتائیں ایسا
ہے یا نہیں؟… رب کعبہ کی قسم!
واشنگٹن اور یورپ کی رنگینیاں …مدینہ
پاک کی خاک مبارک کے سامنے غلاظت کا ڈھیر نظر آتی ہیں…
اسی لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے غلام…
سوویت یونین سے ٹکرا گئے…
اُس وقت ظاہر پرست لوگ سوویت یونین کا کلمہ پڑھتے تھے…
پھریہی دیوانے امریکہ اورنیٹو سے ٹکرا گئے…
ارے جن کی آنکھوں میں…
مدینہ پاک کا نورہو… اُن کے
نزدیک کیا امریکہ، کیا انڈیا…
اور کیا نیٹو…
بحمد اللہ والمنّہ بتے لشکر شکن دارم
مگر قادیانی…
منحوس، بدنصیب اور بے چارے…
ہاں’’بے چارے‘‘ ہی ہیں…
نہ دنیا نہ آخرت… نہ گھر نہ
گھاٹ… کتوں اور خنزیروں
سے بھی بدتر… یہ مدینہ پاک سے
کیا کٹے کہ اب ہر کسی کے سامنے جھکتے ہیں…
امریکہ، برطانیہ ، اسرائیل…
اور انڈیا ان کے باپ… یعنی’’گاڈ
فادر‘‘ بنے ہوئے ہیں… اُس انڈین
قادیانی سپاہی نے تعویذ کے لئے میری منت کی…
طبیعت میں بہت جوش اور غصہ آیا…
مگرمیں وہاں ساتھیوں کا ذمہ دار تھا…
میری لڑائی میں سب کود پڑتے تھے…
اس لئے احتیاط سے لڑنا پڑتا تھا…
الحمدﷲ بہت لڑے… مگر کس کس سے
لڑتے… ہر طرف دشمن ہی
تو تھے… اچانک مجھے ایک
عجیب بات سوجھی میں نے اندرونی جذبات پر قابو پا کر کہا…
کل آنا بہترین اور مؤثر تعویذ دوں گا…
وہ چلا گیا او رمیں نے تعویذ تیار کیا…
سفید کاغذ پر عربی میں ایک عبارت لکھی جس کا ترجمہ یہ تھا…
’’ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ہر اُس شخص پر جو میرے آقا
اور محبوب حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ
کرے… اور لعنت ہو اُن
تمام لوگوں پر جوکسی ایسے جھوٹے مدعی کی پیروی کریں‘‘
لیجئے دو تعویذ
تیار… اگلے دن اُس کو
دے دیئے… کہ دونوں بچوں کے
گلوں میں ڈال دو… سبحان اللہ ! قادیانی کے بیٹوں کی گردن میں ’’عقیدہ
ختم نبوت‘‘ کے تعویذ… دو چار دن
بعد وہ آیا تو بہت خوش تھا کہ تعویذوں سے بہت فائدہ ہوا ہے…
بے شک سچی بات کا فائدہ تو ہونا تھا…
ممکن ہے بعض قارئین یہ سوچتے ہوںکہ…
میں جب بھی قادیانیوں کا تذکرہ کرتا ہوں تو …
الفاظ کافی سخت ہو جاتے ہیں…
جبکہ مجھے ہمیشہ یہ ندامت رہتی ہے کہ…
الفاظ کچھ ہلکے رہ گئے…
کیونکہ سخت الفاظ لکھنے کی عادت نہیں…
جبکہ قادیانیوں کے لئے جتنی بڑی گالی بھی لکھی جائے وہ چھوٹی محسوس ہوتی ہے…
یہاں ایک اور دلچسپ بات سنیں…
قادیانیوں نے ایک ادارہ بنایا ہوا ہے وہ ہر مہینے ایک رپورٹ مرتب کرتا ہے کہ…
کس کس اخبار، رسالے یا عالم دین نے اُن کے خلاف کچھ لکھا یا چھاپا ہے…
پھر یہ رپورٹ پوری دنیا میں …
قادیانی اپنے ماموں، چاچوں کو بھیجتے ہیں …
اور شور مچاتے ہیں کہ دیکھو! ہم تو پاکستان میں ’’مختاراں مائی‘‘ بنے ہوئے ہیں…
فلاں نے یہ کیا، فلاں نے یہ لکھا…
ہر مہینہ باقاعدگی سے یہ رپورٹ بنتی اور چلتی ہے…
یہ ظالم اتنا نہیں سوچتے کہ جس مذہب کی بنیاد ہی…
یہود، نصاریٰ اور مشرکین سے بھیک مانگنے پر ہے…
وہ مذہب تمہیں مرنے کے بعد کیا کام آئے گا…
ایک مذہبی رہبر… جو تمہیں ایسا
مذہب نہ دے سکا جو تمہیں عزت، غیرت اور خود استقلالی نصیب کرتا…
وہ تمہارا خیر خواہ کس طرح ہو سکتا ہے…
مرزا قادیانی خود بھی انگریزوں کے جوتے پالش کرتا مرا…
اوراپنے بدنصیب پیروکاروں کو بھی کافروں کی غلامی پر لگا گیا…
اگر کسی قادیانی میں تھوڑی سی بھی عقل ہو تو وہ ایسے ناجائز اور بے غیرت مذہب پر
تھوک دے… مگر شیطان نے بھی
اپنے ساتھ جہنم کے ساتھی جمع کرنے ہیں…
دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ قادیانیوں…
اور تمام دشمنان اسلام کے شر سے اُمت مسلمہ کی حفاظت فرمائے…
عجیب خیر خواہ
ایک صاحب بہت سخت
’’کالم‘‘ لکھتے ہیں… یہ سختی
کسی کافر کے خلاف نہیں ’’مسلمانوں‘‘ کے خلاف ہوتی ہے…
مسلمانوں نے بجلی کیوں ایجاد نہیں کی؟…
بلب کیوں نہیں بنایا؟… مسلمانوں
کو یہ تک پتہ نہیں کہ بجلی کے موجد کا نام کیا تھا؟…
وغیرہ وغیرہ… طعنے دینے کا یہ
انداز بالکل یوں ہوتا ہے جیسے کسی مالدار شخص کا بدزبان لاڈلا بیٹا…
کسی غریب آدمی کے لڑکے کو طعنے دے کہ…
میرے ابو کے پاس گاڑی ہے…
بنگلہ ہے… تم جاہل، اجڈ،
گندے، پلید، غریب… نکمے کے
باپ کے پاس کیا ہے؟… میں نے
کافی غور کیا کہ ان باتوں کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟…
کچھ سمجھ نہیں آیا… پھر سوچا
کہ یہ صاحب خود بڑے باکمال سائنسدان ہوں گے…
روزآنہ کوئی نئی ایجاد…
کوئی نئی دریافت… اللہ تعالیٰ کا انتقام دیکھیں کہ اُس دن اُن کا قلم
پھسل گیا اور ایک سچی نگری میں جا پہنچا…
انہوں نے لکھا… مجھے موبائل
استعمال کرنا نہیں آتا…
بہت کوشش کی… مگر آن اور آف
کے دو بٹنوں کے علاوہ میں اپنے موبائل کا کوئی بٹن نہیں سمجھتا…
پھر لکھا کہ رات کو بھوک لگی گھر والے کسی تقریب میں گئے تھے…
اٹھ کر ’’مائیکروویو‘‘ پر سالن گرم کرنے لگا تو طریقہ معلوم نہیں…
کئی بٹن دبا ڈالے تب ’’مائیکروویو‘‘ میں پٹاخے اور دھماکے ہونے لگے…
اور فرمایا:… اپنی گاڑی کے
آٹو میٹک بٹن بھی نہیں سمجھتا…
سردیوں میں غلط بٹن دبا کر پیچھے کا شیشہ کھول لیتا ہوں…
وغیرہ وغیرہ…لیجئے! یہ صاحب
ساری دنیا کے مسلمانوں سے ناراض ہیں کہ…
ان میں کوئی سائنسدان کیوں نہیں؟…
اور غیر ملکی سائنسدانوں کا یوں فخر سے تذکرہ کرتے ہیں کہ نعوذ ب اللہ …
مسلمانوں کو اپنی حقارت کا احساس ہونے لگے…
استغفر اللہ ، استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
اب لیجئے ایک اورصاحب کو!…
یہ اچھے کالم لکھتے ہیں…کبھی
دینی اور کبھی جذباتی… کبھی کبھی
فارسی کے اشعار بھی لکھ ڈالتے ہیں مگر…فارسی
اتنی سمجھتے ہیںکہ…
شامت اعمال ما …
صورت نادر گرفت
کاترجمہ یوں کرتے
ہیں… ہمارے اعمال کی
شامت نادر شاہ کی گرفت کی صورت میں ہم پر آگئی…
اس ترجمے پر فارسی سمجھنے والے…
یقینا اتنا ہنس رہے ہوں گے کہ ’’القلم‘‘ اُن کے ہاتھ سے چھوٹ رہا ہوگا…
تھوڑا مضبوطی سے سنبھالیںگرنے نہ دیں…
چند دن پہلے میری شامت اعمال کہ اُن کے ایک کالم کی گرفت میں آگیا…
دراصل اپنے ایک پرانے دوست اور بزرگ عالم دین کی شہادت پر افسردہ تھا اور اُن کے
بارے میں لکھے گئے کالم ڈھونڈ رہا تھا…
انہوں نے ’’عالم صاحب‘‘ کا تذکرہ تو چند حرفی کیا…
مگر اپنے درد دل کی داستان کو بہت طول دیا…
فرمایا فلاں جامعہ کے صحن میں جب بھی کھڑا ہوتا ہوں…
حسرت سے یہی خیال آتا ہے کہ…
یہاں ایک میڈیکل کالج بھی ہونا چاہئے…
یا اللہ رحم!…
قرآن پاک کی تعلیم کو اتنا چھوٹا اور حقیر سمجھنا…
دینی تعلیم کے چند ہی خالص ادارے ہیں اُن کو برباد کرنے کی فکر میں گھلنا…
کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں جا کر نہ رونا کہ یہاں دارالقرآن نہیں…
دارالتفسیر نہیں… دارالحدیث
نہیں…
صرف مدارس ہی کو…
جدید بنانے کی فضول اور بے کار فکر…
اور پھر شیطان نے یہ فکر ان کے قلوب میں ایسی مزین کر دی کہ…
اسے نیکی سمجھتے ہیں… معلوم ہوا
کہ دینی تعلیم کی قدرو قیمت کو نہیں جانتے…
معاشرے کے مجموعی مزاج کو بھی نہیں سمجھتے…
دنیاکو اصل سمجھتے ہیں اور دین کو اُس کا تابع…
اسی لئے روحانی مراکز کو اجاڑنے اور علماء کو خالص دنیا دار بنانے کی فکر میں رہتے
ہیں… اللہ تعالیٰ اہل دین…
اور اہل جہاد کی ایسے خیر خواہوں سے حفاظت فرمائے…
اس موضوع پر انشاء اللہ کسی اور مجلس میں تفصیل سے عرض کروں گا…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (352)
بیداری مہم
علم نافع کا ایک
مفہوم …
خواب کا انسانی
زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے…
اور لوگ ان میں فطرف طور پر دلچسپی بھی حد سے زیادہ لیتے ہیں…
چنانچہ خواب اور
ان کی تعبیر کے بارے میں چند مفید اور چشم کشا باتیں…
حضرت یوسف علیہ
السلام کی چند آزمائشوں کا تذکرہ…
’’المؤمنات مہم‘‘
کا چار نکاتی نصاب…
تاریخ اشاعت
۱۱رجب؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱جون؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۲)
بیداری مہم
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادرہے ’’ان اللہ علی کل شیٔ قدیر‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو
خوابوں کی تعبیر کا کامِل علم عطاء فرمایا…
یہ نعمت اُن کے لئے آسانی کا ذریعہ بن گئی اُسے بھی کہتے ہیں’’علم نافع‘‘ یعنی
نفع دینے والا علم… بعض
نعمتیں آزمائش کا ذریعہ بنتی ہیں…
جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کی ’’محبوبیت‘‘ اور حسن و جمال…
’’محبوبیت‘‘ کے معنیٰ آپ سمجھتے ہیں؟…
یعنی محبوب ہونا کہ لوگ محبت کرنے لگیں…
حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ نعمت حاصل ہوئی مگر اپنے ساتھ آزمائشیں
لائی… پہلے پھوپھی
صاحبہ کو اتنی محبت ہوگئی کہ جدائی گوارہ نہیں…
بالآخر چوری کا الزام لگا کر اپنے ساتھ لے گئیں…
اس وقت چور کی یہ سزا ہوتی تھی کہ وہ جس کا مال چوری کرے وہ اسے کچھ عرصہ غلام بنا
کر اپنے پاس رکھتا تھا…
والد محترم کو بھی بے حد محبت تھی جس کی وجہ سے باقی بھائی حسد میں مبتلا ہو گئے…
اور کنویں میں پھینک آئے…
پھر عزیز مصر کی بیگم محبت کرنے لگی جس کے نتیجے میں جیل جانا پڑا…
مگر جیل سے رہائی کس نعمت کی وجہ سے ملی؟…
خوابوں کی تعبیر کے علم کی وجہ سے…
وہاں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر ارشاد فرمائی…
دونوں تعبیریں لفظ بہ لفظ پوری ہوئیں…
ان میں سے ایک قیدی مصر کے بادشاہ کا ساقی تھا…
پھر بادشاہ نے ایک خواب دیکھا…
مصر جیسے بڑے ملک کا سارا علم اُس خواب کو نہ سمجھ سکا…
وہ ’’ساقی‘‘ جیل جا پہنچا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھ
آیا… اوریوں رہائی اور
آسانی کا ذریعہ ہو گیا…
خوابوں کی تعبیر کا علم بہت مفید مگر مشکل علم ہے…
قرآن و حدیث میں اس علم کے بنیادی قوانین موجود ہیں…
سب سے پہلے یہ سمجھنا کہ کونسا خواب اصلی خواب ہے…
اور کونسا شیطانی ڈرامہ؟…
یہ بھی بہت مشکل کام ہے…
اورپھر خوابوں کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ…
اصل تعبیر تک پہنچنا آسان کام نہیں…
بس اللہ تعالیٰ جسے یہ روشنی اپنے فضل سے عطاء فرما دے…
اس علم کے ذریعہ صرف خواب دیکھنے والا ہی نہیں بلکہ پورا ملک اور پوری قوم بہت سی
آفتوں سے بچ جاتے ہیں…
آپ غور فرمائیں… مصر کے
بادشاہ کے خواب کی اگر صحیح تعبیر سامنے نہ آتی تو…
لاکھوں انسان، جانور، پرندے اور دوسری مخلوقات سخت تکلیف میں مبتلا ہوجاتیں…
مگر خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی تو قحط کے سات سال ایسے گزر گئے کہ کسی کو ادنیٰ سی
مشقت بھی نہ ہوئی… دراصل
قرآن و سنت کا حقیقی اور گہرا علم ہی انسانوں کی دنیوی اور اخروی ترقی کا ضامن ہے…
دوسری طرف اگر خوابوں کی درست تعبیر معلوم نہ ہو تو کئی بڑے بڑے نقصانات ہوجاتے
ہیں… ایک نقصان تو یہ
کہ انسان خوشی کے خواب کو بُرا خواب سمجھ کر سخت پریشان ہوتا ہے، روتا چیختا ہے
اور بعض اوقات کوئی غلط کام بھی کر گزرتا ہے…
مثلاً خواب میں دیکھا کہ ہاتھوں میں ہتھکڑی پڑی ہے…
یا پاؤں میں بیڑی… یہ بہت
اچھا خواب ہے… مگر لوگ پریشان
ہوجاتے ہیں… اسی طرح اگر کوئی
خواب میں دیکھے کہ اُس کا بیٹا مر گیا ہے تو صبح کو…
وہ روتا پھرتا ہے… حالانکہ
اس کی تعبیر یہ ہے کہ بہت اچھا اور اہم کام اس کے ہاتھوں پورا ہونے والا ہے…
اسی طرح کوئی خواب میں دیکھتا ہے کہ اُس کا بھائی انتقال کر گیا ہے تو بس…
پریشانی ہی پریشانی… حالانکہ
یہ خوشخبری ہوتی ہے کہ الجھا ہوا کام درست ہوجائے گا…
اور پریشانی دور ہوجائے گی انشاء اللہ …
ہم لوگ چونکہ اجتماعی طور پر’’حب دنیا‘‘ کے مریض ہیں اس لئے…
ہم موت کو مصیبت سمجھتے ہیں…
حالانکہ ہر موت مصیبت نہیں ہوتی…
بلکہ بعض موتیں تو زندگی سے زیادہ لذیذ ہوتی ہیں…
چونکہ خواب کی دنیا’’ حقائق‘‘ پر مبنی ہے…
اس لئے وہاں کے ضابطے الگ ہیں…
ہمیںجیسے ہی نیند آتی ہے تو ہماری ایک روح سفر پر روانہ ہوجاتی ہے…
اور معلوم نہیں کہاں کہاں گھوم آتی ہے اور کیا کچھ پڑھ اور دیکھ آتی ہے…بہت
آگے یعنی مستقبل کے بہت سے حالات اور مناظر ہماری روح دیکھ آتی ہے…
مگر اُس کی زبان ہم نہیں سمجھتے…
حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کا خواب سنا تو فوراً سمجھ گئے…گائے
سے مُراد سال… دبلے اور موٹے سے
مُراد خوشحالی اور تنگدستی…
اور ’’سنابل‘‘ سے غلے کی فراوانی اور قحط کو سمجھ لیا…
احادیث مبارکہ میں
خوابوں کے بہت عجیب و غریب واقعات آتے ہیں کہ…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح سے بعض خوابوں کی تعبیر
ارشاد فرمائی… خوابوں کا یہ
سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا…
جھوٹے خواب گھڑنا اوربیان کرنا ہماری شریعت میں سخت جرم اور گناہ ہے…
جو شخص جھوٹا خواب گھڑے گا اور بتائے گا اُسے قیامت کے دن حساب کتاب سے بھی پہلے
دردناک سزا اور مصیبت میں مبتلا ہونا پڑے گا…
معلوم نہیں اتنی سخت وعیدوں کے باوجود بعض لوگ کس طرح سے جھوٹے خواب بنانے کی ہمت
کرتے ہیں… ایسے لوگوں کی
وجہ سے علم کا یہ روشن اور منور سلسلہ مدہم ہوجاتا ہے…
کیونکہ پتہ نہیں چلتا کہ کونسا خواب سچا ہے اور کونسا گھڑا ہوا…
اسی طرح بعض لوگ امراض معدہ میں مبتلا ہوتے ہیں…
اوربعض کو دماغی مالیخولیا ہوتا ہے…
معدے کے مریض تو ہررات پچاس ساٹھ خواب آسانی سے دیکھ لیتے ہیں…
کیونکہ اُن کا سفر تیز رفتار گیس پر ہوتا ہے…
گیس ایسی چیز ہے کہ… بڑے بڑے
جہازوں کو سینکڑوں سواریوں سمیت تیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑاتی ہے…
گیس کے مریض بھی جہازی رفتار سے خواب دیکھتے ہیں…
اور ستم یہ ہے کہ ان خوابوں کو سناتے بھی ہیں…
دوسری طرف دماغی سودا کے مریض…
ان بے چاروں کو اچھا خواب بہت کم نصیب ہوتا ہے…
بس ہر وقت ڈراؤنے خواب اور پریشان خیالات…
خوفناک اور ڈراؤنے خوابوں کا تو بہترین علاج یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی کو نہ
بتائے جائیں… بس بائیں طرف
تھوک دیں… کچھ صدقہ دے دیں…
اور اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیں…
اُس خواب کے شر سے… اچھا
چھوڑیں خوابوں کو… بات جو
کہنی تھی وہ ابھی تک لکھی نہیں…
اور کالم کی آدھی جگہ چٹ ہو گئی…
آپ کو معلوم ہے کہ آج کل المؤمنات مہم کا دوسرا مرحلہ جاری ہے…
جماعت کے دو’’دعوتی وفد‘‘ سفر پر ہیں…
ایک وفد نے کراچی، سکھر، رحیم یار خان…
اور بہاولپور میں اجتماعات کرنے ہیں…
اور دوسرے وفد نے ڈیرہ غازی خان، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد…
اور پشاور میں خواتین کے اصلاحی اجتماعات کرنے ہیں…
کل نوشہر، دو جماعتیں، دس اجتماعات…
اور چھ دن… ہدف یہ ہے کہ…بلاواسطہ
اور بلواسطہ ایک لاکھ مسلمان خواتین تک چار نکاتی نصاب کی دعوت پہنچ جائے…چار
نکاتی نصاب یہ ہے…
(۱) ایمان
، کلمہ طیبہ…
(۲) اقامتِ
صلوٰۃ…
(۳) معاونت
جہاد…
(۴) حیاء،
پردہ…
ماشاء اللہ پانچ اجتماعات ہوچکے ہیں…
چھٹا ابھی اس وقت جبکہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں جاری ہے…
اور اگلے تین دنوں میں انشاء اللہ باقی چار اجتماعات ہوجائیںگے…
اب تک کے پانچ اجتماعات میں الحمدﷲ تیرہ ہزار سے زائد خواتین…
اور بہت سے مرد حضرات نے براہ راست شرکت کی ہے…
کلمہ، نماز، جہاد… اور پردے
پر ایمان افروز بیانات ہوئے ہیں اور ہر طرف سے اچھے اثرات اور نتائج کی حوصلہ
افزاء خبریں آرہی ہیں…
آپ پوچھیں گے کہ… خوابوں کا
اس بات سے کیا تعلق؟… بات دراصل
یہ ہے کہ بندہ کو تو اچھے خواب بہت کم آتے ہیں…
دوسرے لوگوں کے اچھے اچھے اور اونچے اونچے خواب سن کر رشک آتا ہے کہ…
کبھی کوئی اچھا خواب راستہ بھٹک کر ادھر بھی آجائے…
ناشکری نہ ہو… الحمدﷲ بعض اچھے
خواب بھی آئے… اللہ کرے سچے ہوں…
مگر ذہن چونکہ ہر وقت مشغول، سرگرم اور زیر حوادث رہتا ہے اس لئے…
خوابوں کا معاملہ بھی نیند کی طرح دربدر ہی رہتا ہے…
دوسری طرف خوابوں کے معاملے میں دل بہت خوفزدہ رہتا ہے کہ کوئی غلط بیانی نہ ہو
جائے…کیونکہ یہ بدترین
جھوٹ اور سخت سزا والا جرم ہے…
اس لئے اپنے اچھے خواب بھی سنانے کی ہمت نہیں ہوتی…
جہاں تک دوسروں کے خوابوں کا تعلق ہے تو ہر مسلمان سے یہ حسن ظن ہے کہ وہ انشاء اللہ جھوٹ نہیں بولتا ہوگا…
مگر اس کے باوجود لوگوں نے جماعت اوربندہ کے بارے میں جو خواب اب تک سنائے یا لکھے
ہیں ہماری طرف سے ان کو عام نہیں کیا گیا…
ہماری جماعت کے بارے میں ماشاء اللہ کئی بزرگوں، ساتھیوں اور خواتین نے عجیب بشارات
دیکھیں… لیکن ہم نے نہ تو
ان کو چھاپا، نہ نشر کیا، نہ ہی جماعت کے ماحول کو خوابوں، بشارتوں کے حوالے کیا…
وجہ یہ ہیکہ… جب اس قسم
کاماحول بن جائے تو بہت نقصان ہوتا ہے…اصل
بنیاد کمزور ہوجاتی ہے…
اور دھوکہ باز لوگوں کے لئے فتنے داخل کرنے کاراستہ کھل جاتا ہے…
ہر دن نیا خواب اور اُس کے ساتھ نیا فتنہ…
اورکئی خوابی مزاج لوگ…
نعوذب اللہ خوابوں پر قرآن وسنت سے بھی
زیادہ اعتبار کرنے لگتے ہیں…
اس لئے جب کوئی اچھا اور بشارت والا خواب سامنے آتا ہے…
تو اس کو سن اور پڑھ لیتے ہیں…
اس پر شکر ادا کرتے ہیں…
اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتے ہیں…
اور اُس خواب کو عموماً نشر نہیں کرتے …
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے…
یہ تو یاد نہیں کہ کتنے سال ہو گئے…
غالباً جامعہ میں تعلیم کا آخری سال تھا…
اور بندہ ایک مسجد میں جمعہ کا بیان بھی کرتا تھا…
ایک بار جمعہ کے بیان میں ایک بڑی عمر کے صاحب سامنے بیٹھے تھے اوربیان میں مسلسل
رو رہے تھے… بعض اوقات اُن کے
رونے کی آواز کچھ زیادہ بلند بھی ہوجاتی تھی…
نمازکے بعد انہوںنے الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی…
اس ملاقات میں انہوں نے بندہ سے متعلق اپنا کوئی مفصل خواب سنایا…
اور یہ خواب انہوں نے مدینہ منورہ میں دیکھا تھا…
خواب لکھنا تو مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس میں…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ مبارکہ ہے…
اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد پوری طرح سے اُن کے الفاظ بھی یاد نہیں…
اورخواب میں بندہ کے بارے میں جو کچھ ہے بندہ خود کو اس کے قریب بھی نہیں پاتا…
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مغفرت فرمائے…
بہرحال اس خواب میں خواتین میں وسیع پیمانے پر دینی کام کے بارے میں کوئی بشارت
تھی… بندہ اس وقت کم
عمر تھا… اٹھارہ یا اُنیس
برس کا نوجوان…ابھی تعلیم بھی
جاری تھی… کوئی تنظیم یا
جماعت بھی نہیں تھی اور نہ کوئی تعارف…
بس خواب سن لیا اور زیادہ تر یہ سوچا کہ ان صاحب کو آدمی پہچاننے میں غلطی ہوگئی
ہوگی… ممکن ہے انہوں نے
خواب میں میرے علاوہ کسی کو دیکھا ہو اور پھر کسی مشابہت کی بنا پر مجھے وہی سمجھ
لیا ہو… مگر اس خواب کے
بعد قدرتی طور پر خواتین اسلام میں دینی کام کے بعض راستے کھل گئے…
ایک دوست کے گھر ہفتے میں دو بیانات کا سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا…
ہر مہینے خواتین کے کچھ باپردہ جلسے مختلف مقامات پر ہوجاتے تھے…
پھر باہر ملکوں میں جانا ہوا…
عرب ممالک سے لیکر برطانیہ تک خواتین کے بڑے بڑے اجتماعات میں بیانات ہوئے…
بعض کیسٹیں بھی جاری ہوئیں…
پھر انڈیا سے رہائی کے بعد ماہنامہ بنات عائشہز کا اجراء ہوا…
ملک میں خواتین کے کئی ایمان افروز بڑے اجتماعات ہوئے…
پھر بہاولپور میں پندرہ روزہ نشست کا الحمدﷲ کامیاب اجراء ہوا…
اور پھر المؤمنات مہم کا پہلا…
اور اب یہ دوسرا مرحلہ…
بات تو بالکل واضح ہے… دین اسلام
جس طرح مردوں کے لئے ہے اُسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے…
صرف بعض احکامات میں فرق ہے…
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو…
خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں…
اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے…
عورتوں کی تخلیق بے کار یا عبث نہیں ہوئی…
ان کے ذمے بھی دین کی نسبت سے بہت بڑے بڑے کام ہیں…
اور یہ بھی واضح ہے کہ…
عورتوں کے مخلصانہ تعاون کے بغیر اکیلے مرد…
نصرت دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا نہیں کر سکتے…
مسلمان بہن! کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنا ہوگا…
اسے بھی میک اپ ،فیشن، ساس بہو کے جھگڑے اور روزروز کی بیماریوں سے اوپر اُٹھ کر
اپنی آخرت کے لئے… اور دین
اسلام کے لئے محنت کرنا ہوگی…
اسے بھی اپنے گھر، ماحول اور پردے میں رہتے ہوئے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا
ہوگا جو… پوری دنیا میں
کفر و اسلام کے درمیان برپا ہے…
الحمدﷲ…
اصلاح اور بیداری کی مہم بہت کامیاب جارہی ہے…
اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے …
بہت عمدہ نتائج سامنے آرہے ہیں…
اللہ تعالیٰ خاص فضل فرمائے اور ہماری تمام مسلمان
عورتوں کو… ’’المؤمنات‘‘
بنا دے… آج اسی محنت کے
بارے میں سوچتے ہوئے اچانک وہ خواب والا واقعہ یاد آگیا…
اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ کرے وہ خواب سچا ہو اور یہ دینی کام وسیع پیمانے
پر جاری ہو جائے… اور اللہ تعالیٰ کے ہاںقبول اور مقبول ہو جائے…آمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (354)
مفید سبق
استغفار اس امت کی
’’امان‘‘ ہے…
اللہ کے عذاب سے
جو مختلف شکلوں میں گناہ کرنے اور استغفار نہ کرنے پر نازل ہوتا ہے…
قرآن کریم نے اس
عظیم عمل کی بڑی ترغیب دی ہے…
استغفار کی دو
قسمیں ہیں:
(۱) اپنے لئے استغفار
کرنا… (۲) دوسروں کے لئے
استغفار…
پہلی قسم سے بہت
لوگ واقف ہیں… مگر دوسری قسم سے
کتنے لوگ واقف ہیں؟
اس بارے میں قرآن
نے کیا احکام دئیے ہیں؟
دوسروں کے لئے
استغفار کرنے کے ’’دس‘‘ احکام…
ایک اہم ترین مگر
بھولے ہوئے موضوع کا خوبصورت احاطہ کرنے والی …سبق
آموز تحریر…
تاریخ اشاعت
۲۵رجب؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۵جون؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۴)
مفید سبق
اللہ تعالیٰ میری ، آپ سب کی…
اور تمام ایمان والوں کی مغفرت فرمائے…
بات چل رہی
تھی… دوسروں کے لئے
استغفار کرنے… اوردوسروں سے
اپنے لئے استغفار کرانے کی…
یہ بہت اہم اور فضیلت والا عمل ہے…
اور آج یہ عمل مسلمانوں میں دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے…
آج’’قرآن عظیم الشان‘‘ کو لیتے ہیں…
اور کوشش کرتے ہیں کہ ایک ہی مجلس میں اس موضوع کی تمام آیات مبارکات سامنے
آجائیں…
دیکھیںکتنا
بڑا تحفہ… اور اللہ تعالیٰ کا فضل کہ ایک مختصر سے مضمون میں…
قرآن پاک کے ایک پورے موضوع کا خلاصہ آجائے…
چلیںپہلے دل کے اخلاص کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اب آئیں…
اپنے تمام کبیرہ صغیرہ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں…
{اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ
الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ}
اب اپنے والدین
اور تمام مسلمانوں کے لئے استغفار کرتے ہیں…
{اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ اَلْاَحْیَائِ
مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ}
اب اخلاص کے
ساتھ درود شریف پڑھتے ہیں…
تاکہ قبولیت ساتھ ہوجائے…
{اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا}
اب سنیں! قرآن
پاک میں دوسروں کے لئے استغفار کی آیات دو طرح کی ہیں…
ایک وہ جن میں دوسروں کے لئے استغفار کی ترغیب ہے…
یعنی کوئی مسلمان… اپنے
علاوہ دوسروں کے لئے بھی…
اللہ تعالیٰ سے مغفرت، اور معافی مانگے…
اور دوسر ی وہ آیات جن میں بعض لوگوں کے لئے ’’استغفار‘‘ کرنے کی ممانعت آئی ہے…
یعنی زمین پر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لئے نہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے’’استغفار‘‘ کرتے ہیں…
اور نہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ُان کے لئے استغفار کریں…
یہ بد نصیب لوگ…
مشرکین،کفار اور منافقین ہیں…
پہلے ان آیات کو پڑھ لیتے ہیں تاکہ…
وہ لوگ معلوم ہو جائیں جن کے لئے ہم استغفار نہیں کر سکتے…
دیکھئے یہ ہے دسواں پارہ، سورۃالتوبہ آیت(۸۰)
ترجمہ: (اے نبی)
چاہے آپ ان کے لئے استغفار کریںیا نہ کریں(دونوں برابر ہیں) اگر آپ ان کے لئے
ستر بار بھی استغفار کریں گے تب بھی ا ﷲ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہیں فرمائے گا،
یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا…(التوبہ
،۸۰)
یہ منافقین
کے بارے میں نازل ہوئی…
جو زبان سے اسلام لائے تھے اور دل سے کافر تھے…
جب جہاد کا حکم ملا تو اُن کا’’نفاق‘‘ کھل گیا…
ایسے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار سے بھی فائدہ
نہیں ہوتا…
دوسری آیت
دیکھیں! یہ گیارھواں پارہ ہے سورۃ التوبہ آیت(۱۱۳)
ترجمہ: نبی(
صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اور مسلمانوں کو جائزنہیں کہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں
اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں اس بات کے واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ لوگ جہنمی
ہیں… (التوبہ ۱۱۳)
اس آیت میں تمام
مشرکوں اور کافروں کے لئے…
استغفار کرنے کی ممانعت آگئی…
خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نزول کے بعد اپنے
چچا’’ابو طالب‘‘ کے لئے ’’استغفار‘‘ کرنا چھوڑدیا…
ہاں زندہ مشرکوں اور کافروں کے لئے ہدایت کی دعاء کرنا جائز ہے…
یہ دو واضح آیات
سامنے آگئیں… مزید یہ مسئلہ جن
آیات میں بیان ہوا ہے ان کاحوالہ عرض کیا جارہا ہے تاکہ آپ قرآن مجید میں دیکھ
لیں…
(۱) سورۃ
التوبہ آیت (۱۱۴)
(۲) سورۃ
الفتح آیت (۱۱)
(۳) سورۃ
الممتحنہ آیت (۴)
(۴) سورۃ
المنافقون آیت (۶)
ان آیات میں دو
طرح کے منافقین کا تذکرہ ہے…
ایک وہ جو اوپر اوپر سے ہی سہی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کی
درخواست کرتے تھے… اور دوسرے
وہ موذی، متکبر اور گھمنڈی منافق…
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لئے
استغفار کرانا ہی نہیں چاہتے تھے…
اللہ تعالیٰ میری اورآپ سب کی ’’نفاق‘‘ سے حفاظت
فرمائے… آئیں! اخلاص کے
ساتھ ایمان تازہ کر لیں
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ایک بات
مکمل ہو گئی کہ… ہم کسی مشرک ،
کافر اور عقیدے کے منافق کے لئے استغفار نہیں کر سکتے…
اب آتے ہیں دوسرے اور اصل موضوع کی طرف…
قرآن پاک میں دوسروں کے لئے استغفار کے جو احکامات ہیں ہم ان کو درج ذیل عنوانات
سے سمجھ سکتے ہیں…
(۱) فرشتوں
کا عمل کہ وہ زمین پر موجود ایمان والوں اورتوبہ کرنے والوں کے لئے استغفار کرتے
ہیں… معلوم ہوا کہ
دوسروں کے لئے استغفار کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب ہے کہ…
عرش اٹھانے والے مقرب فرشتوں اور دیگر بے شمار ملائکہ کو اس عبادت میں لگا دیا ہے…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم…
(۲) کسی
مسلمان کا تمام مؤمنین اور مؤمنات کے لئے استغفار کرنا…
(۳) اپنے
والدین کے لئے استغفار کرنا
(۴) والدین
کا اپنی اولاد کے لئے استغفار کرنا
(۵) کسی
مسلمان کا اپنے بھائی…یا بھائیوں
کے لئے استغفار کرنا
(۶) بڑوں
کا اپنے چھوٹوں کے لئے استغفار کرنا
(۷) چھوٹوں
کا اور بعد میں آنے والوں کا…
اپنے بڑوں اور اپنے سابقین کے لئے استغفار کرنا
(۸) توبہ
کے لئے آنے والی خواتین کے لئے استغفار کرنا…
(۹) جو
کسی واقعی سچے عذر کی وجہ سے کسی فضیلت یا سعادت سے محروم ہوئے ہوں…
اُن کے لئے استغفارکرنا
(۱۰) جو
گناہ گارلو گ اللہ تعالیٰ سے توبہ اور معافی مانگتے ہوں اُن کے لئے
استغفار کرنا…
اب ان تمام
عنوانات کو… بغیر ترتیب کے
آگے چلاتے ہیں…
حضرت
موسیٰ علیہ السلام…
اپنے بھائی حضرت ہارون ح پر ناراض ہوئے کہ…
قوم گمراہ ہو گئی آپ نے سمجھایا تک نہیں…
اسی ناراضی میں بال بھی پکڑ لئے…
بھائی نے صورتحال بتائی تو فوراً حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اور اپنے بھائی
کے لئے استغفار کے ہاتھ پھیلا دیئے…
دیکھئے:سورۃ
الاعراف آیت ۱۵۱…
ترجمہ:(حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے دعاء کی) اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو
معاف فرما اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور آپ سب سے بڑھ کر رحم کرنے
والے ہیں( الاعراف ۱۵۱)
دوسرا واقعہ سورۃ
یوسف میں ہے… جہاں حضرت
یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لئے استغفار فرمایا:
ترجمہ:(حضرت
یوسف علیہ السلام نے) کہا کہ آج کے دن (میری طرف سے) تم پر کوئی سزا
نہیں اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے والوں
سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے…(یوسف ۹۲)
نکتہ: بھائیوں کے
ایک دوسرے کے لئے استغفار میں…
دونوں جگہ اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک’’ارحم الراحمین‘‘ استعمال
ہوا ہے…
اپنی اولاد کے لئے
استغفار کا مسئلہ بھی سورۃ یوسف میں ہے…
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد محترم حضرت
یعقوب علیہ السلام سے اپنے لئے ’’استغفار‘‘ کی درخواست کی…
والد محترم نے درخواست قبول فرمائی کہ عنقریب تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کروں گا…
ترجمہ:
بیٹوں نے کہا اے ہمارے ابو جی! ہمارے گناہوں کی معافی کے لئے ہمارے لئے استغفار
کیجئے، بلاشبہ ہم خطا کار تھے،(حضرت یعقوب علیہ السلام نے) کہا: عنقریب
میں اپنے رب سے تمہارے لئے ’’استغفار‘‘ کروں گا بلاشبہ وہ بخشنے والا اور مہربان
ہے۔ (یوسف ۹۶،۹۷)
ایک بات بتائیں،
بالکل سچ سچ… کیا آپ نے کبھی
اپنے والدین سے اپنے لئے استغفار کرایا؟…
آہ! کتنوں کے والدین تو چلے گئے…
مگر جن کے پاس یہ انمول نعمت موجود ہے، انہوں نے کب اس سے یہ عظیم فائدہ اٹھایا…
ارے بھائیو! اور بہنو! والدین کا ’’استغفار‘‘ بڑی سعادت ہے…
رعب اور رسم کے انداز میں نہیں…
ندامت اور التجا کے انداز میں…
اپنی ضرورت سمجھ کر والدین سے اپنے لئے استغفار کرالیں…
اور کراتے رہیں… ارے بھائیو! اور
بہنو! والدین کے سامنے تواضع اختیار کرو…
اونچا بھی نہ بولا کرو…
اور اُن پر رعب جھاڑنا تو بیو قوفی ہے اور بدفطری…
ہاں بالکل بدفطری… یا اللہ ہم
سب کی حفاظت فرما… ہم سب کو
معاف فرما… آئیں اخلاص کے
ساتھ ایمان تازہ کر لیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
قرآن پاک
کی سورۃ الممتحنہ کے آخر میں…
عورتوں کی ’’بیعت اسلام‘‘ کا تذکرہ ہے…
خواتین کی اصلاح کے لئے یہ آیت مبارکہ…
بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے…
ہر مسلمان عورت کو لازمی چاہئے کہ اس آیت مبارکہ کو ترجمے کے ساتھ پڑھے، سمجھے ،
مانے… اور اس پر پوری
مضبوطی سے عمل کرے… اس آیت
مبارکہ کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ…
جو عورتیں یہ چند شرطیں جو آیت میں مذکور ہیں قبول کرلیں تو آپ ان کو بیعت فرما
لیجئے اور اُن کے لئے استغفار فرمائیے…
دیکھئے اٹھائیسواں پارہ…سورۃ
الممتحنہ آیت۱۲…
معلوم ہوا
کہ… امیر،شیخ،استاذ
اور دیگر اہل رُتبہ اپنے مریدین اور استفادہ کرنے والی خواتین اسلام کے لئے
استغفار کیا کریں… اب آتے
ہیں والدین کے لئے استغفار کی طرف…
یعنی اولاد اپنے والدین کے لئے استغفار کرے…یہ
عمل اللہ تعالیٰ کے محبوب انبیاء د نے اختیار فرمایا…
اور اُن کا اپنے والدین کے لئے استغفار کرنا قرآن پاک کی آیات بنا…
حضرت ابراہیم ح کا عمل…
اگرچہ ان کو بعد میں اس عمل سے روک دیا گیا کیونکہ اُن کے والد…
مسلمان نہیں ہوئے تھے… اسی طرح
حضرت نوح علیہ السلام کا عمل…
دیکھئے انتیسواں پارہ، سورہ نوح کی آخری آیت…
ترجمہ:(پھر حضرت
نوح علیہ السلام نے دعاء کی) اے میرے رب! مجھے بخش دیجئے اور میرے
والدین کو اورجو ایمان قبول کر کے میرے گھر آئے…
اور تمام ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو…
اور ظالموں کے لئے اور زیادہ تباہی بڑھا دیجئے(نوح ۲۸)
اس موضوع پر
مزید یہ آیات دیکھئے…
(۱) سورۃ ابراہیم
آیت ۴۱ (۲) سورۃ
مریم آیت ۴۷(۳) سورۃ
الشعراء آیت ۸۶
اور والدین کے لئے
استغفار کی ایک دعاء قرآن پاک نے خود سکھا دی ہے…
رَبَّنَا
اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَاب
اے ہمارے رب!
میرے، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی حساب کے دن مغفرت فرما…(سورۃ
ابراہیم ۴۱)
اب آتے ہیں …ایمان
والوں کے لئے ملائکۃ اللہ کے استغفار کی طرف…
یہ قرآن پاک میں دو جگہ پر ہے…
پارہ چوبیس سورۃ المومن آیت۷… اس میں’’حملۃ
العرش‘‘ یعنی عرش کو اٹھانے والے عظیم الشان اور مقرب فرشتوں کا تذکرہ ہے کہ…
وہ ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں…
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ…
یہ عمل اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبوب ہے…
پھر دیر کیسی آپ بھی آج سے یہ عمل شروع کردیں کہ…
بہت توجہ اور خشوع کے ساتھ تمام ایمان والوں کے لئے…
زندہ ہوں یا اموات… روزآنہ
صبح شام استغفار کیا کریں…
جتنا زیادہ ہو سکے اچھا ہے…
ورنہ کم از کم ستائیس بار روزآنہ…
جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے…
اور اسی طرح پارہ پچیس سورۃ الشوریٰ آیت (۵) میں فرمایا گیا ہے کہ…
فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بھی کرتے ہیں اور زمین
والوں کے لئے استغفار بھی کرتے ہیں…
ان دونوں آیات کا ترجمہ ایک بار ضرور پڑھ لیں تاکہ…
اس موضوع کی اہمیت دل میں اُتر جائے…اسی
موضوع کو آگے بڑھاتے ہیں…
ا ﷲ تعالیٰ نے اپنے سب سے محبوب اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کو حکم فرمایا کہ…
آپ ایمان والوں کے لئے استغفارفرمایا کریں…
دیکھئے چھبیسواں پارہ سورۃ محمد آیت (۱۹)…
ترجمہ: (اے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم ) یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اپنے
اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگئے (یعنی استغفار کرتے
رہیں) (محمد،۱۹)
یہ امت کو بڑی
مفید تعلیم ہو گئی کہ… لا الہ
الا اللہ …
پر استقامت اور ترقی کے لئے اپنے لئے بھی خوب استغفار کریں…
اور سب مؤمنین اور مؤمنات کے لئے بھی استغفار کواپنا معمول بنائیں…
معلوم ہوا کہ بہت ہی اہم اورعظیم عمل ہے…
اب رہا اپنے رفقاء
کے لئے… اور اپنے چھوٹوں
کے لئے استغفار کا حکم…
تو دو مقامات دیکھ لیجئے…
ایک تو سورۃ آل عمران کی آیت (۱۵۹)… اور دوسرا سورۃ
النور کی آیت (۶۲)… پہلی
آیت غزوہ اُحد کے تناظر میں ہے…
ظاہر بات عجیب پریشانی اور افراتفری کا وقت تھا…
لشکر اسلام غموں سے چور چور تھا…
اور ساتھ اس بات کا دکھ بھی کہ ہم سے حضرت آقا صلی اللہ علیہ
وسلم کی نافرمانی ہوئی ہے…
تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ!!!…
ان کومعاف
فرمائیے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیجئے اور اپنے کاموں میں ان
سے مشورہ لیجئے…(آل عمران، ۱۵۹)
دوسری آیت میں…
دو بڑے سبق ہیں… اجتماعی کاموں سے
چھٹی لینے کی ترتیب… کوئی بھی
بغیر اجازت اجتماعی کاموں سے غائب نہ ہو…
اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھٹی یا رخصت اپنے کسی عذر کی وجہ سے
مانگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم …
جسے چاہیں رخصت دیں… اب چونکہ
رخصت پرجانے والا شخص معذور ہے…
مگر اجتماعی عمل کی سعادت سے محروم ہوا…
تو چونکہ وہ عذر کی وجہ سے گیا ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے لئے
استغفار فرمائیں… معلوم ہوا
کہ استغفار کی برکت سے بہت سے کاموں کی تلافی بھی ہو جاتی ہے…
دیکھئے سورۃالنور آیت (۶۲)…
معلوم ہوا
کہ… جو کسی مُلک،
جماعت، ادارے… یا خاندان کا
بڑاہو وہ اپنے ماتحتوں اور مأمورین کے لئے استغفار کیا کرے…
آج کوئی کرتا ہے؟… ارے
بھائیو! اور بہنو! سعادت کے راستوں کو سمجھواور اختیار کرو…
آج بڑوں نے چھوٹوںکو حقیر بنا رکھا ہے…
اور چھوٹوںنے بڑوں کو بوجھ اور مذاق…
جبکہ ہر دو طرف کے لئے استغفار جیسے تحفے اور عمل کا حکم ہے…
چھوٹوں کی طرف سے بڑوں کے لئے استغفار کا حکم اٹھائیسویں پارے کی سورۃ الحشر کی
آیت (۱۰) میں
بہت عجیب ترتیب اور شان کے ساتھ آیا ہے…
ملاحظہ کیجئے!
مال فئے کے مصارف
بیان ہورہے ہیں… دشمنان اسلام اگر
ہتھیار ڈال دیں تو جو مال اُن سے مسلمانوں کو ملتا ہے…
بغیر لڑائی اور جنگ کے…
صرف اسلامی لشکر کے رعب کی برکت سے…
اُس کو ’’مال فئے‘‘ کہتے ہیں…
حکم قرآن پاک میں موجود ہے مگر آج کے مسلمانوں نے یہ مال چکھا تک نہیں…
یہ ترک جہاد کا وبال ہے…
خیر مال فئے کا حصہ بیان فرماتے ہوئے اُن لوگوں کو بھی شریک کیا گیا جو بعد میں
ایمان لائے… مگر وہ اپنے پہلے
والوں کے ایسے خیر خواہ ہیںکہ اُن کے لئے استغفارکرتے ہیں…
ترجمہ:
اور(مال فئے) ان کے لئے بھی ہے جو مہاجرین کے بعد آئے اور دعاء مانگا کرتے ہیں کہ
اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے اُن بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے
ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ قائم نہ ہونے پائے اے ہمارے رب!
بے شک تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے…(الحشر ۱۰)
بعد میں
آنے والے اور چھوٹے… اپنے بڑوں
کے لئے استغفار کر رہے ہیں…
اور اللہ تعالیٰ اس عمل کو پسند فرما رہے ہیں…
کیا آج کے بعد والے اور چھوٹے بھی یہ مبارک عمل زندہ کریں گے؟…
ارے بھائیو! استغفار عجیب نعمت ہے…
بندے کو رب سے تو جوڑتی ہی ہے خود مسلمانوں میں بھی باہمی اتفاق اور محبت پیدا کر
دیتی ہے…
بس یہ موضوع…
کسی حد تک مکمل ہوا اور اس میں ایک آیت مبارکہ رہ گئی…
اُ س آیت مبارکہ سے استغفار کے کئی مسائل اور مقامات معلوم ہوتے ہیں…
اس لئے اچھا ہے کہ پہلے آیت مبارکہ ہی پڑھ لیں…
یہ دیکھیں! پانچواں پارہ سورۃ النساء آیت (۶۴)
ترجمہ: اور جب
انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا (تو) آپ کے پاس آتے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور رسول بھی اُن کے لئے
استغفار کرتے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول فرمانے والا، رحم کرنے والا
پاتے…(النساء ۶۴)
آپ اس
آیت کی مکمل تفسیر پڑھیں تو کئی احکامات معلوم ہوں…
بس اتنا سمجھ لیں کہ… جب کوئی
بڑا گناہ ہو جائے تو انسان فوراً خود بھی استغفار کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں سے بھی اپنے لئے استغفار
کرائے…
اسی طرح جو دین کے
پیشوا ہیں اُن کے پاس اگر گناہ گار لوگ…
استغفار کرتے ہوئے آئیں…
اور اُن سے اپنے لئے استغفار کی درخواست کریں تو وہ اُن کے لئے استغفار کر لیں
یعنی اللہ تعالیٰ سے اُن کے لئے معافی مانگیں…
یہ دو مسئلے تو بالکل واضح معلوم ہو گئے…
استغفار کی
درخواست کرنے والوں کے لئے ضروری نہیں کہ وہ …
اپنا گناہ بھی بتائیں… خصوصاً
آج کل جبکہ فساد عام ہے اپنا گناہ نہ بتائیں صرف استغفار کی درخواست کریں…
کیونکہ معلوم نہیں کہ… سامنے
والا کتنے ظرف کا ہے… بعض لوگ
اتنے کم ظرف ہوتے ہیں کہ اُن کو اگر کسی کا ایک گناہ بھی معلوم ہو جائے تو زندگی
بھر اپنا دل اُس سے صاف نہیں کر سکتے…
خواہ وہ توبہ کر کے صدیقین کے مقام تک پہنچ چکا ہو اور اس کا وہ گناہ بھی نامۂ
اعمال میں نیکی بن چکا ہو…
اسی طرح اگر آپ کے پاس کوئی استغفار کی درخواست لے کر آئے کہ…
میرے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں تو آپ اُس
سے اُس کا گناہ نہ پوچھیں…
اور نہ ہی اس ٹوہ میں پڑیں کہ یہ کون کون سے گناہ کرتا ہے…
بلکہ یہ سوچیں کہ کتنا اچھا مسلمان ہے جو…
اللہ تعالیٰ کے خوف سے استغفار کرانے آیا ہے…
اور میں کتنا ناقص ہوں کہ مجھے اپنے گناہوں کی معافی کی فکر ہی نہیں…
الحمدﷲ… اس موضوع کا
خلاصہ مکمل ہوا… قرآن پاک کے کسی
ایک موضوع کا احاطہ بھی ممکن نہیں…
بس اپنی سی کوشش ہوتی ہے …
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
اور نافع بنائے… اگر کسی مسلمان
بھائی یا بہن کو اس سے فائدہ ہو تو وہ بندہ کے لئے ایمان کامل اور حسن خاتمہ کی
دعاء اور استغفار کردے…
احسان ہو گا…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَاب
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (355)
تشکر اور ندامت کے
درمیان
جماعت کی طرف سے
مسلمانوں کی دینی تربیت کے لئے چالیس روزہ ’’دعوت و رکنیت مہم‘‘ چلی اور خوب چلی…
اس کی تکمیل پر تشکر کے چند کلمات اور اس کی ترغیب…
’’لا الہ الا
اللہ‘‘ کی قدر و قیمت سمجھانے کا ایک انوکھا طرز بیان…
حضرت مجدد الف
ثانیؒ کی ’’دینی انقلاب‘‘ کی قوت اور حکمتِ عملی کی نشاندہی…
پریشان حال،
غمزدہ، مصیبت زدہ… اور قرضوں
کے بوجھ تلے مسلمانوں کے لئے ایک وظیفہ…
تاریخ اشاعت
۲شعبان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲جون؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۵)
تشکر اور ندامت کے
درمیان
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں’’بے شمار‘‘ ہیں…
الحمدﷲ رب العالمین… اور ہماری
غفلتیں، گناہ اور ناقدریاں بہت زیادہ ہیں…
استغفر اللہ ربی…
بس ایک مؤمن کی زندگی…
الحمدﷲ اور استغفر اللہ کے درمیان گزرے تو
بہت اچھا ہے… اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دیکھے، محسوس کرے اور اُن کی
قدر کرے اور کہے… الحمدﷲ رب
العالمین… کیا آپ ایک سوال
کا جواب دے سکتے ہیں؟ حدیث شریف میں آیا ہے…
سب سے افضل دعاء’’الحمدﷲ‘‘ ہے…
’’الحمدﷲ‘‘ کا معنیٰ ہے…
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں…
تو یہ جملہ دعاء کیسے بن گیا؟…
اور عام دعاء بھی نہیں بلکہ افضل ترین دعاء…
دل کو دماغ کو جوڑ کر سوچیں تو زندگی کا ایک عظیم راز معلوم ہوجائے گا…
فرمایا افضل ترین ذکر’’لا الہ الا اللہ ‘‘
ہے … بے شک سب سے افضل
اور اونچا ذکر… ماشاء اللہ دیوانوں نے چالیس دن محنت کی اب الحمدﷲ…
لاکھوں مسلمان روزآنہ بارہ سو بار’’لا الہ الا اللہ ‘‘کا ورد کرتے ہیں…
اور یہ ایسا کلمہ ہے جس کی تأثیر ضرور ظاہرہوتی ہے…
اس کلمے اور عرش کے درمیان کوئی پردہ نہیں…
عرش بہت دور ہے… بہت دور…
چاند ستارے سورج تو ہمارے پڑوسی ہیں…
یہ کرۂ زمین کے خدمت گارہیں…
مگر ان کے آگے جہاں اور بھی ہیں…
آسمان … اورہر آسمان کے
بعد دوسراآسمان… کل سات
آسمان… عرش اُن سے بھی
بہت اونچا… مگرلا الہ الا اللہ فوراً عرش تک پہنچتا ہے…
جیسے کسی کو ملک کے صدر کا موبائل نمبر معلوم ہو جائے…
ہو گاوہ بھی عام ہندسوں کا…
صفر، آٹھ، پانچ وغیرہ…
مگر ترتیب سے بڑا فرق پڑتا ہے…
انہیں ہندسوں کو ایک ترتیب سے ملائیں گے تو صدر کا نمبر بن جائے گا…
اور آپ کی آواز سیدھی ایوان صدر میں جا پہنچے گی…
اور یہی ہندے کسی اور ترتیب سے ملائیں گے تو کسی بھنگی کا نمبر بن جائے گا…
آپ گھر کا گٹر صاف کرانے کے لئے رابطہ فرمالیں…
اب تو موبائل ہر کسی کے پاس ہے…
کوئی صدر ہو یا مزدور… بعض لوگ
اپنے دینی معمولات اور دینی مشغولیات کی وجہ سے موبائل نہیں رکھتے…
یہ اچھی بات ہے… کافی پرسکون
زندگی ہو گی ایسے حضرات کی…
مگر بعض لوگ’’تکبر‘‘ کی وجہ سے نہیں رکھتے…
اور تکبر بڑا موذی مرض ہے…
یہ گناہوں کی بنیاد اور جڑ ہے…
ایک صاحب قصہ سنا رہے تھے کہ…
کراچی کے ایک سیٹھ صاحب موبائل نہیں رکھتے…
ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے…
ایک بار کہیں جا رہا تھا…
دو بھنگی گٹرصاف کر رہے تھے…
جو گٹر کے اندر تھا… وہ موبائل
فون پر باہر والے کوہدایات دے رہا تھا کہ…
صفائی والا بانس اس طرح مارو…
میں نے یہ منظر دیکھا توموبائل استعمال کرنا چھوڑ دیا…
بندہ کو یہ قصہ بُرا اور قابل نفرت لگا…
سیٹھ جی نے موبائل تو چھوڑ دیا کہ…
یہ بھنگیوں کے پاس بھی ہوتاہے…
مگر ابھی تک اپنی آنکھیں، ناک، کان وغیرہ نہیں چھوڑے…
حالانکہ یہ بھی تمام غریبوں کے پاس ہوتے ہیں…
اور بھی سارے اعضاء… یعنی اُن
کے نزدیک ’’موبائل‘‘ مالداری اور تکبر کی علامت تھی…
بڑائی کا استعارہ… توبہ،توبہ…
ایک انسان… اور بڑائی، توبہ
توبہ… صبح شام گند،
غلاظت… پیشاب، بیت
الخلاء… بیماریاں، تھوک،
بلغم ، خون… گند ہی گند…
پھر کس بات پر بڑائی… ابھی
گندگی کر کے نکلتے ہیں اور دوسروں کو حقارت سے گالی دیتے ہیں…
او پنجابی! او پٹھان… او مہاجر…
استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
اے آدم کے بیٹو! … سب ایک
جیسے ہو… بالکل ایک جیسے…
پھر پنجابی قابل نفرت کیوں؟…
کونسی چیز تم میں اُن سے زیادہ ہے…پٹھان
قابل نفرت کیوں؟…کون سی چیز
اُن میں تم سے کم ہے… مہاجر
قابل نفرت کیوں؟… کون سی
کمی مالک نے اُن میں رکھی ہے؟…
رب کعبہ کی قسم!
جس نے مٹی اور نطفے سے انسان کو پیدا فرمایا…
وہ لوگ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں جو انہیں قوم پرستی اور علاقہ پرستی پر لگا
رہے ہیں۔ کوئی پنجابی ہو، یا بلوچی، کوئی پختون ہو یا سرائیکی، کوئی اردو بولنے
والا ہو یا سندھی… سب مسلمان
ایک جسم کے ٹکڑے… اور ایک
جان کے حصے ہیں… کلمہ طیبہ…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
سب کو بلندی عطاء کرتا ہے…
مُلک کے صدر کا موبائل نمبر ملائیں تو…
اتناہی خرچہ ہوتا ہے جتنا کسی غریب آدمی کا نمبر ملانے پر ہوتا ہے…
مگر ہندسوں کی ترتیب نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ…
وہی پانچ، آٹھ،سات… یا تو آپ
کو ایوان صدر میں لے جاتے ہیں…
یا کسی چرس خانے میں…’’لا الہ
الا اللہ ‘‘ کا کلمہ بھی حروف تہجی سے بنا
ہے… اور نعوذ ب اللہ کوئی کفر کا کلمہ ہو وہ بھی حروف تہجی سے بنتا
ہے…
دیکھا آپ نے کہ
ترتیب کے فرق سے… کتنی
تبدیلی آجاتی ہے… لا الہ
الا اللہ …
جب عرش تک پہنچتا ہے تو دل پر بھی اثر کرتا ہے…
اس لئے جو کہتے ہیں کہ…
طوطے کی طرح رٹا لگانے سے کیا ہوتا ہے وہ سمجھدار لوگ نہیں ہیں…
اچھا تو یہی ہے کہ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کا
ذکر توجہ سے اور دل لگا کر کیا جائے…
لیکن اگر کسی کوخیالات کا عارضہ ہو اور اسے توجہ نصیب نہ ہو تو بھی…
پابندی سے ذکرکرتا رہے…
انشاء اللہ کسی دن یہ ذکر دل کے تمام گوشوں کو منور کر دے
گا… حضرت مجدد الف
ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے کارناموں سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں…
پورے پورے ادارے اُن کے مکتوبات اور ملفوظات پر کام کر رہے ہیں…
کئی بڑے مصنفین نے اپنے قلم…
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت پر وقف کر دیئے ہیں…
مگر آپ دیکھیں کہ خود حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اُن کا کام اتنا
وسیع نظر نہیں آتا … برصغیر کا
بادشاہ اُن سے ناراض تھا اور اُس نے انہیں قید میں بھی رکھا…
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہ کے خلاف بغاوت نہیں کی…
اور اپنے مریدین کو بھی روکا…
آپ ایک چھوٹے سے قصبے’’سرہند‘‘ میں مقیم رہے…نہ
کوئی زیادہ مجمع اور نہ زیادہ اسفار…
پھر یکایک دنیا نے دیکھا کہ اکبری فتنے کانام و نشان ہی غائب ہوگیا…
اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کانام اور کام پوری اسلامی دنیا میں
گونجنے لگا… اور اُن کے کام
کی جو دوسری ، تیسری فصل سامنے آئی تو موسم ہی بدل گیا…
یہ سب کیا تھا؟… اتنا بڑا حکومتی
فتنہ بالکل غائب… اور ایک
غریب درویش کا طریقہ اور مسلک ہر طرف رائج…
یہ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کی برکات کا واضح
ظہور تھا… حضرت مجدد رحمۃ
اللہ علیہ نے مسلمانوں کو اس کلمے کی طرف متوجہ کیا…
مسلمان جب بھی پوری قلبی توجہ کے ساتھ اس مبارک کلمے کی طرف آتاہے تو…
خود اُس کے اور پھر زمین کے حالات یوں بدل جاتے ہیں کہ…
جہاں اکبر کا کفرستان تھا وہیں اسی تخت پر اورنگ زیب کا مضبوط اسلامستان قائم
ہوگیا… یونہی نہیں
فرمایا گیا کہ یہ کلمہ زمین اور آسمانوں سے بھاری ہے…
یہ مبالغے والی افسانوی باتیںنہیں ہیں…
مسلمان دراصل اس کلمے سے کٹ جاتے ہیں تو پھر کٹی ہوئی پتنگ کی طرح رسوا ہوتے ہیں…کلمے
سے کٹ جاتے ہیں تو پھر نہ انہیں جہاد نصیب ہوتا ہے اور نہ سچی نماز…
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ جب جیل میں تھے…
یہ ایک فوجی چھاؤنی تھی …
جہانگیر کی لشکر گاہ… حضرت مجدد
رحمۃ اللہ علیہ اسی میں نظر بند تھے اس قید کے دوران آپ جب بھی اپنے گھر والوں کو
کوئی خط یا پیغام بھیجتے تو اس میں تاکید فرماتے کہ…
بارہ سو بار’’ لاالہ الا اللہ ‘‘ کے ورد
کا اہتمام کریں… الحمدﷲ چالیس دن
کی رکنیت مہم کے بعد اب ہزاروں، لاکھوں مسلمان کلمہ طیبہ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں…
اس محنت کے اثرات انشاء اللہ بہت دور دور
تک جائیں گے… اورکئی زمانوں تک
چلیں گے… انشاء اللہ محنت کرنے والوں کے لئے…
صدقات جاریہ کے انبار بنتے جائیں گے…
ابھی صرف جون کے مہینے میں جو مبارک اثرات سامنے آئے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں…
پچاس ہزار سے زائدافراد تک ایمان، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ …
اور دین کامل کی دعوت پہنچی…
پورے ملک میں تین ہزار سے زائد افراد نے اسی ایک مہینے میں آیات جہاد کا دورہ
تفسیر پڑھا… ہزاروں مائیں،
بہنیں ، بیٹیاں دینی دعوت اور دینی جذبے سے مستفید ہوئیں…
الحمدﷲ، الحمدﷲ… الحمدﷲ رب
العالمین… شعبان کا مبارک
مہینہ شروع ہوا … صرف
ابتدائی سات دنوں میں جماعت کے مختلف اجتماعات میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد
چھبیس ہزار سے متجاوز تھی…
الحمدﷲ رب العالمین… دوسری طرف
اپنے حالات، اپنی کوتاہیاں…
اور اپنی غفلتیں دیکھیں تو…
{استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ}
بس ایک مؤمن کی
زندگی… الحمدﷲ اور
استغفر اللہ کے درمیان رہتی ہے…
اور رہنی بھی چاہئے… اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں…الحمدﷲ…
اور ہماری بہت زیادہ غفلتیں…
استغفر اللہ … اللہ تعالیٰ ہمیں شکر بھی نصیب فرمائے…
اور استغفار بھی… تسبیح بھی
نصیب فرمائے… اور استغفار بھی…
{لا الہ الا انت
سبحانک انی کنت من الظالمین}
حضرت عبدالرحمن بن
عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ…
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میرے بھائی یونس
(ح) کی دعاء عجیب تھی… اس کی
ابتداء تہلیل(یعنی لا الہ الا اللہ ) ہے…
درمیانی حصہ تسبیح اور آخری حصہ گناہ کااقرار…
لا الہ الا انت
سبحانک انی کنت من الظالمین
جو پریشان حال،
غمزدہ، مصیبت زدہ اور مقروض روزآنہ تین بار ان کلمات کے ذریعہ دعاء کرے تو اس کی
دعاء ضرور قبول کی جاتی ہے(الدیلمی، کنز العمال)
لیجئے!
وظیفہ مل گیا… اب دل کی گہرائی
سے یہ آیت کریمہ اور دعاء پڑھ کر دعاء کریں کہ…
پینتالیس دن کی مہم… جو پندرہ
شعبان سے یکم شوال تک چلنی ہے…
ایماندار ہو، شاندارہو، جاندار ہو…
اور عند اللہ قبول اور مقبول ہو…
لا الہ الا انت
سبحانک انی کنت من الظالمین…
لا الہ الا انت
سبحانک انی کنت من الظالمین…
لا الہ الا انت
سبحانک انی کنت من الظالمین…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
والحمد ﷲ رب
العالمین
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (356)
کیسے روکو گے؟؟
پاکستانی حکومت نے
افغانستان پر مسلط ’’صلیبی کافرانہ جنگ‘‘ کے لئے ’’نیٹو سپلائی‘‘ کی بحالی کا
فیصلہ…
(۱)یہ ایک خالص
ظالمانہ فیصلہ ہے …
(۲)اللہ تعالیٰ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ظالموں سے برائت اور لاتعلقی
فرماتے ہیں…
(۳) جب تک یہ ظلم جاری
رہے اللہ تعالیٰ کا غضب انہیں گھیرے رہتا ہے…
(۴) ظالموں کی مدد
کرنے والے ان کے ظلم اور گناہ میں برابر کے شریک رہتے ہیں…چنانچہ
اس حرام فیصلے نے ملک پاکستان کو تباہ کر دیا ہے…
مسلم ممالک کی
مسلح افواج کی شرمناک کارکردگی کا افسوناک حال…
حکمرانوں نے چند
جلسے اور جلوس تو روک لئے…
مگر آسمان سے جو لعنت اترے گی…
اسے کیسے روکیں گے…؟
تاریخ اشاعت
۹شعبان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۹جون؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۶)
کیسے روکو گے؟؟
اللہ تعالیٰ’’ظالموں‘‘ کو ہدایت عطاء نہیں
فرماتا… آہ افسوس!
پاکستان کی سڑکوں سے ظالموں کی سپلائی بحال ہو گئی…
انا ﷲ وانا الیہ راجعون…
جس دن یہ سپلائی بند ہوئی تھی اُسی دن اندازہ تھا کہ بہت جلد بحال ہو جائے گی…
جن حکمرانوں کے مہنگے گھر امریکہ اور برطانیہ میں ہیں…
جن کے بچے وہاں پڑھ رہے ہیں…
اور خرمستیاں کر رہے ہیں…
جن کے قلوب ایمان اور اسلام کی حلاوت سے خالی ہیں…
اُن سے یہ توقع رکھنا کہ وہ’’عزیمت‘‘ کا کوئی قدم اٹھائیں گے خود بیوقوفی ہے…
کتنے شرم، عاراورنفرت والی بات ہے کہ ہماری سرزمین اور ہماری صلاحیت مسلمانوں کے
قتل عام کے لئے استعمال ہو رہی ہے…ایسے
عظیم گناہ سے تو موت بہت بہتر ہے…اور
ہمارے حکمران مُردوں سے بھی زیادہ بے کار اور کمزور ہیں…
شام کے’’بشار الاسد‘‘ کو دیکھو! کس بے دردی سے مسلمانوں کو ذبح کر رہا ہے…
اس کے باپ’’حافظ الاسد‘‘ نے بھی یہی کچھ کیا…
لیکن جب ان کا مقابلہ اسرائیل سے ہوتا ہے تو…
چوہوں کی طرح بھاگتے ہیں…
جولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے ہاتھوں گنوادیں…
مگر اپنے ملک کے لوگوں کو مارنے میں ان کی بہادری حد سے بڑھی ہوئی ہے…
تقریباً یہی حال تمام اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کا ہے…
کتنے درد اور افسوس کی بات ہے کہ…
کسی بھی ایک اسلامی ملک کی کسی ایک فوج کے پاس ایک بھی ایسی’’فتح‘‘نہیں…
جسے وہ عزت اور فخر سے بیان کر سکے…
شکست ہی شکست… عار ہی عار اور
فرار ہی فرار… مگر ان کی اکڑ
دیکھو! تو پورے فرعون لگتے ہیں…
شاید فرعون سے بھی دو گز آگے…
تکبر، غرور، ظلم، اور پروٹوکول…
اپنے ملک کی کوئی مسجد گرانی ہو تو یہ بہادر…
اپنے ملک کا کوئی مدرسہ بندکرنا ہو تویہ جرأت مند…
اپنے ملک کے دینی طبقے کو مارنایا ستانا ہوتو یہ ماہر نشانہ باز…اپنے
ملک کے نہتے لوگوں کو قتل کرنا ہو تو یہ جانباز جیالے…
لیکن جب کفر سے لڑنا ہو یا کفار سے آنکھیں ملانی ہوں تو…
یہ گیدڑ، بزدل، بھکاری اور مفرور بھگوڑے…
نہ قرآن پاک ان کے دل پر اثر کرتا ہے…
اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرامین…
ان کی آنکھیں ہیں مگر بصیرت اور حقیقی بصارت سے محروم…
ان کے کان ہیں مگر حق، سچ سننے سے محروم …
ان کے دل ہیںمگر زنگ آلودہ تالوں اور زنجیروںمیں جکڑے ہوئے…
کچھ بھی سمجھنے سے محروم…
ان میں عقل ہوتی تو… صدر نجیب اللہ کے
انجام سے عبرت پکڑتے… قذافی کے
آخری لمحات کو دیکھتے…
پرویز مشرف کے کالے انجام کو سمجھتے…
جیل میں تڑپ تڑپ کر مرنے والے اژدھے حسنی مبارک کے انجام کو دیکھتے…
مگر کہاں!… یہ تو کافروں کی
ایجاد کردہ مشینیں ہیں…
جو کافروں کا ہر کام کرتی ہیں…
اپنے گندے مفادات حاصل کرتی ہیں…
اور پھر موت کے بھیانک گڑھے میں جا گرتی ہیں…
ساری دنیا میں شور تھاکہ…
قذافی کا جانشین کون ہوگا؟…
خود اس بیچارے نے بھی کئی بار گھنٹوں سوچا ہوگا…
معلوم نہیں اس معاملے پر کتنے بچے، بھائی خوش اور کتنے ناخوش ہوئے ہونگے…
معلوم نہیں اس کی خاطر کتنا وقت اور سرمایہ برباد کیا ہوگا کہ…
جانشین کون ہوگا؟… مگر سب نے
دیکھا کہ نہ’’جا‘‘ رہی نہ اس کا کوئی ’’نشین‘‘ رہا…
’’جا‘‘ کہتے ہیں جگہ اور منصب کو…
اور ’’نشین‘‘… بیٹھنے والے کے
معنیٰ میں آتا ہے… (جب کسی
اسم کے بعد ہو)… یعنی اس کے بعد
اس کی جگہ پر کون بیٹھے گا؟…
اللہ اکبر کبیرا…
وہ مالک الملک جسے چاہتا ہے اختیار دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم فرما دیتا ہے…
اتنی پکی حکومت تھی کہ…
اگلی کئی نسلوں میں جاری رہنے کا سب کو یقین تھا…
اسی لئے بعض اوقات دعوے بہت اونچے ہوجاتے تھے…
اللہ کے بندو!…
اگر کوئی تمہاری بات مانے تو اس پرفخر نہ کیا کرو…
یہ عارضی معاملہ ہے…فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جایا کرو…
بڑائی اور خدائی کے دعوے اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں…
تھوڑا سوچیں! قذافی کو اس کا کون سا عمل کھا گیا؟…
ظالموں کی مدد… جی ہاں’’ظالموں
کی مدد کرنا‘‘ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو بالکل برباد کر دتیا ہے…
بالکل برباد…
نیٹو کی افواج کو
کھانا، پینا، اسلحہ، شرابیں…
اور دیگر سامان پہنچانا…
ظالموں کی مدد کرنا ہے…
بلکہ خود ظلم میں شریک ہونا ہے…
ہمارے آقا اور رہبر… تمام
انسانیت کے معلّم اور رسول…ہادی
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بار بار…
اس مہلک گناہ سے بچنے کی تاکید فرمائی…
کہ ظالموں کی مدد نہ کرنا…
وجہ یہ کہ… اس گناہ کی نحوست
سے… اللہ تعالیٰ کی امان اٹھ جاتی ہے…
اور انسان ذلت، ہلاکت اور مصیبت کا شکار ہو جاتا ہے…
اور پوری قوم عمومی عذاب کی لپیٹ میں آجاتی ہے…
احادیث مبارکہ پر غور فرمائیں…
جو بھی کسی ظالم کی مدد کرتاہے…
وہ کئی طرح کے عذابوں اور سزاؤں…
کی لپیٹ میں آجاتا ہے…
مثلاً
(۱) لعنت…
ایسے لوگوں پر رحمت نہیں لعنت برستی ہے…
جو ظالموں کی مدد کرتے ہیں…
(۲)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ایسے لوگوں سے اعلان براء ت فرماتے ہیں…
توبہ،توبہ، استغفر اللہ …
جب اللہ تعالیٰ ہی کسی کو اکیلا چھوڑ دے…
تو پھر اُسے ہلاکت سے کون بچا سکتا ہے؟
(۳) جب
تک ظالموں کی مدد بند نہیں کرو گے…
اللہ تعالیٰ کے غصے اور ناراضی میں رہوگے…
(۴) ظالموں
کی مددکرو گے تو اُن کے ظلم اور گناہ میں تم بھی برابر کے شریک ہو جاؤ گے…
ہمارے حکمرانوں کو
بھی دعویٰ ہے کہ… وہ حضرت
آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی ہیں…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں…
تو پھر یہ ان فرامین پر غور کیوں نہیں کرتے؟…
ایک طرف یہ بار بار کہتے ہیں…
کہ ہم اپنی سرزمین… کسی ملک
کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے…
اور دوسری طرف خود اپنی سرزمین…
مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں…
افغانستان کے طالبان… اور
افغانستان کے عوام نے پاکستان کا کیا بگاڑا ہے؟…
وہ سب کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اُ ن کے خلاف ایک
کافرانہ صلیبی جنگ برپا ہے…
وہ بلاشبہ مسلمان اور بلاشبہ مظلوم ہیں…
پھراُن کے خلاف صلیبیوں کی مدد کرنے کا کیا جواز ہے؟…
ہم نے ماضی میں بھی اس’’ظلم‘‘ کا وبال بھگتا…
آسمانوں سے عذاب اترے، زلزلوں نے نیچے کی زمین اوپر کر دی اور پہاڑوں کو زمین میں
دھنسا دیا… بڑے بڑے گلیشیئر
ہواؤں میں اڑتے ہوئے گرے…
شاید ہی اتنا بڑا بم کوئی دشمن گراسکے…
پورا ملک طرح طرح کی قتل و غارت میں لہو لہو ہوا…
ملک میں سے امن نام کی نعمت مکمل طور پرختم ہوگئی…
اب نئی نسل کو تو امن کا مطلب ہی معلوم نہیں…
معاشی طور پر ہم اندھے کنویں میں جا گرے…
حالانکہ معاشی استحکام کے نام پر ہی یہ کفر کیا جارہا ہے…
ارے جسم فروشی سے حاصل کیا ہوا پیسہ جب نجس اور حرام ہے تو ایمان فروشی سے حاصل
کیا ہوا پیسہ کتنا زہریلا اور خطرناک ہوگا…
آج پورا ملک اس زہر کی شدت سے تڑپ اور سسک رہا ہے…
اور ملک کا دفاع ناقابل یقین حد تک کمزور ہوا…
بھارت تیزی سے ہم پر چڑھا آرہا ہے…
اور ملک کی کوئی سرحد بھی محفوظ نہیں ہے…
اور پورا ملک غیر ملکی جاسوسوں کا اڈہ بن کر رہ گیا ہے…
ایک کافر مزاج، کم عقل…
بلکہ پاگل شخص نے… اپنے ملک
کو بیچا… اور وجہ یہ بتائی
کہ اس سے ہمیں معاشی استحکام ملے گا…
اور ہم دفاعی طور پر ناقابل شکست ہوجائیں گے…
مگر نتیجہ کیا نکلا؟…بارہ سال
کا تجربہ کافی نہیں تھا کہ اپنی پالیسی بدل لی جاتی؟…
ماضی میں جس پالیسی نے ملک کو ’’آگ‘‘ دی وہ پالیسی مستقبل میں کیسے ’’پھول‘‘ اُگا
سکتی ہے؟… پاکستان سے نیٹو
کی سپلائی بحال ہو چکی ہے…
ملک کے سینے پر شکست کا ایک اور تمغہ لٹکا دیا گیا ہے…
وہ حکمران جن کے گھر اور دل باہر ملکوں میں ہیں…
وہ خوش ہیں… اُن کے لئے نیٹو
سپلائی کے بند ہونے کے دن بہت بھاری تھے…
بڑے بڑے ٹرک مسلمانوں کے قتل کا سامان ظالموں کے ہاتھوں تک پہنچانے کے لئے…
دھڑا دھڑ روانہ ہو رہے ہیں…
مسلمانوں کے ٹیکس سے تنخواہیں لینے والے اسلحہ بردار…
ان ٹرکوں کی حفاظت کر رہے ہیں…
امریکی اور انڈین حکومتیں پاکستان کی بے بسی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں…
حکمرانوں کے محلّات میں جشن کا سماں ہے کہ…
اب وہ کافروں کومنہ وغیرہ دکھانے کے قابل ہو چکے ہیں…
امریکی سفارتخانے… اور سی
آئی اے کو پاکستانی حکمرانوں کے رابطے دھڑا دھڑ جارہے ہیں…
ہر کوئی بتا رہا ہے کہ یہ میرا کارنامہ ہے…
آگے میرا خیال رکھا جائے تاکہ میں آپ کی مزیدخدمت کر سکوں…
حرام خور تاجر خوش ہیں کہ اب اُن کی روزی…
پھر بحال ہوگئی… انہیں نوٹ ملنے
چاہئیں خواہ کفر کر کے ملیں…
ہاں ہر طرف… ٹرکوں کا شور ہے…
بدنما، ناخوشگوار شور… مگر…
اصل فیصلے یہاں نہیں… کسی اور
جگہ ہوتے ہیں… اور وہاں…
معلوم نہیں کیا فیصلہ ہوا ہو گا…
وہاں تو سب کی سنی جاتی ہیں…
اُن کمزوروں کی بھی… جو ٹرکوں
کے اس شور کو سن کر… کسی مسجد
کے کونے میں بیٹھے… چپکے چپکے
آنسوبہارہے ہیں… ان کی بھی
جو راتوں کے اندھیرے میں انصاف مانگنے کے لئے سجدوں میں گرے پڑے ہیں…
ہاں! اُن کی بھی جن کی دنیا میں کوئی نہیں سنتا…
حکمرانو!… تم نے بہت بُرا
فیصلہ کیا… انشاء اللہ اس
کا عبرتناک انجام آسمانوں سے تمہارے لئے اترے گا…
اور جب سخت پکڑ والا پکڑنے پر آجائے تو دنیا میں کوئی بچانے والا نہیں رہتا…
یہ بڑے بڑے ایٹم بردار ملک اُس کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں…
تم نے مظلوم مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کا فیصلہ کرکے کلمہ طیبہ کی اہانت کی
ہے… اور تم نے اپنی
جانوں پر… اور پورے ملک
پرظلم عظیم کیا ہے … یہ پیارا
ملک… یہ سرسبز ملک…
یہ اذانوں سے گونجنے والا ملک…
یہ مہاجروں کے خون اور مجاہدین کے عزم سے آباد ملک…
تم نے اپنی ہوس پرستی کے لئے برباد کر دیا ہے…تمہیں
طاقت ملی مگر وہ تم نے دین کے خلاف استعمال کی…
تمہیں اسباب ملے مگر اُن سے تم نے کوئی خیر نہ کمائی…
تمہیں اختیارات ملے مگرتم اپنے نفس اور شیطان کو پالتے رہے…
پھر چند دن کے وقفے کے بعد…
تم نے ظالموں کی بھرپور مدد پھر شروع کر دی…
صرف اتنا بتاؤ!… اس فیصلے
کے خلاف لانگ مارچ تم روک لو گے…
جلسے جلوس تم روک لو گے…
مگر عرش سے جو لعنت، عذاب اور پکڑ آئے گی…
اُس کو تم کیسے روکو گے؟؟؟…
اللھم اغفرلنا
ذنوبنا واسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا
وانصرنا علی القوم
الکافرین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (357)
خوش آمدید
سعادت، رحمت،
مغفرت اور نجات دینے وال ایک عظیم مہمان…
جو ہر سال پورے ایک مہینے کے لئے مسلمانوں کی جھولیاں بھرنے آتا ہے…
ہاں…!
رمضان المبارک…
اسے خوش آمدید…
کہنے پر ایک ایمان افروز واقعہ…
رمضان کی ایک اہم
عبادت ’’کلمہ طیبہ کا کثرت سے ذکر‘‘ کے حوالے سے حضرت مجدد الف ثانیؒ…
کے پر اثر عجائب و نکات…
رمضان اورروزے کی
برکات سے محروم کرنے کی سازشیں…
ان سازشوں کا توڑ
کرنے کے لئے چھ نکاتی نصاب…
تاریخ اشاعت
۱۶شعبان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۶جولائی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۷)
خوش آمدید
اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان…
رمضان المبارک کی نعمت…
سبحان اللہ ! روزہ…
جہنم کی آگ کے لئے مضبوط ڈھال…
سبحان اللہ …
تراویح، قرآن… اور مغفرت کے
خزانے… یا اللہ ! آپ کے احسانات بے شمار…
اوران احسانات میں سے ایک بڑا احسان…
رمضان المبارک ہے… شکر کا حق
ہم کہاں ادا کر سکتے ہیں؟…
آپ توفیق دے دیجئے کہ ہم…
رمضان المبارک کی صحیح قدر کریں…
اور یہ مہینہ ہمارے لئے…
مغفرت، رحمت اور جہنّم سے نجات کا’’موسم بہار‘‘ بن جائے…
ایک’’عالم دین‘‘ نے عجیب قصہ لکھا ہے…
اُن کی ملاقات ایک ’’نو مسلم‘‘ سے ہوئی…
بہت پکّا ، نیک اور سچا مسلمان…
پوچھا! اسلام کی توفیق کیسے ملی؟…
کہنے لگا… ہمارے گاؤں میں
ایک دن شام کے وقت میں نے مسلمانوں کو دیکھا کہ…
جمع ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں…
ان کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی اور ایسا شوق کہ میں حیران رہ گیا…
یوں لگتا تھا کہ آسمان سے کوئی بہت بڑا خزانہ اترنے والا ہے اور یہ اس پر جھپٹنے
کے لئے بیتاب ہیں… اچانک ایک
مسلمان نے چیخ کر کہا… ھلال ،
ھلال… باقی تمام
مسلمانوں نے خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا…
اور مسرّت سے ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں…
میرے لئے یہ پورامنظر حیران کن تھا…
میں نے ایک مسلمان سے تفصیل پوچھی، اس نے بتایا کہ…
رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ہے…
اور اسی کی خوشی میں سرشار ہیں…
رمضان المبارک میں کیا ہو گا؟…
میں نے پوچھا… مسلمان نے بتایا
کہ روزہ رکھیںگے … تراویح
پڑھیں گے… روزہ کیا چیز ہے؟…
بتایا کہ بارہ پندرہ گھنٹے روزآنہ بھوکے پیاسے، بیوی سے دور…
اور تراویح رات کو ڈیڑھ دو گھنٹے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کا کلام سننا…
میری حیرت حد سے بڑھ گئی…
ساری دنیا کھانے پینے اور شہوت پوری کرنے کے لئے مر رہی ہے، آپس میں لڑ رہی ہے…
انہیں چیزوں کو پانے کے لئے لاکھوں افراد قتل کئے جاتے ہیں…
اور دن رات محنت کی جاتی ہے…
مگر یہ مسلمان… انہیں چیزوں کو
پورا مہینہ چھوڑے رکھیں گے…
اور اس پر وہ خوشیاں بھی منار ہے ہیں…
بھائی اس پر تمہیں کیا ملے گا…
جواب آیا… اللہ تعالیٰ ملے گا، اس کی مغفرت ، رحمت ملے گی…
جنتِ فردوس ملے گی… دل کو
سکون ملے گا… مسلمان کی باتوں
نے میرے دل پر دستک دی…
اور میں نے ارادہ کر لیا کہ…
کل سے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھوں گا…
اور تراویح ادا کروں گا…
ابھی اسلام قبول نہیں کیا…
روزے کا طریقہ سیکھا… صبح سحری
کھا تا اور مغرب کی اذان کے ساتھ افطار کرتا…
رات کو تراویح میں شامل ہو جاتا…کچھ
آتا جاتا تھا نہیں… قیام،
رکوع سجدے مسلمانوں کو دیکھ کر اُن کے ساتھ کرتا رہتا…
مگر یہ کیا؟… میرے دل کی حالت
بدلنا شروع ہو گئی… ہر روزے
کے ساتھ نئی قوت… اور ہر
تراویح کے ساتھ نیا سکون…
چند ہی دن میں میری دنیا ہی بدل گئی…
میرے اندر ایسی کیفیت سکون اور اطمینان کی پیدا ہوئی کہ…
جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا…
کیا ایک انسان اتنا پُر سکون بھی ہو سکتا ہے؟…
پندرہ دن گزر گئے… ایک دن
امام صاحب نے مجھے دیکھ لیا…
اُن کو اجنبیت محسوس ہوئی تو مجھے بُلا کر تعارف پوچھا…
میں نے ساری کہانی سُنا دی…
امام صاحب بے حد خوش ہوئے اور پوچھا اب کیا ارادہ ہے؟…
میں نے کہا اسلام… انہوں نے
مسلمانوں کو جمع کیا اور ساری تفصیل بتائی تو پوری مسجد تکبیر کے نعروں سے گونجنے
لگی… میں نے کلمہ طیبہ
پڑھا… اور مسلمان ہو
گیا… مسلمانوں نے مجھے
کہا… آپ کو رمضان
المبارک نے مسلمان کیا ہے…
اس لئے آپ کا نام’’رمضان‘‘ رکھ دیتے ہیں…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
رمضان المبارک کی
برکت سے’’کلمہ طیبہ‘‘ جیسی عظیم دولت ہاتھ آگئی…
کیا خیال ہے؟… اس رمضان المبارک
میں ہم بھی اپنے ’’دل‘‘ کو کلمہ طیبہ پڑھا دیں؟…
ظالم کبھی کہاں بھٹکتا ہے اور کبھی کہاں؟…
اللہ تعالیٰ میرے اور آپ سب کے دل کو کلمہ طیبہ کی
حقیقت نصیب فرمائے… حضرت
مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈاکرنے والی اس کلمہ سے
زیادہ کوئی چیز نفع بخش نہیں‘‘…
یعنی ہمارے بُرے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا جو غضب آتا ہے اُسے سب سے زیادہ
ٹھنڈا کرنے والی چیز یہی کلمہ طیبہ ہے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
آگے ایک عجیب
نکتہ لکھتے ہیں… دل سے پڑھیں تو
حال طاری ہو جائے… فرماتے
ہیں:
’’یہ فقیر اس کلمہ
طیبہ کو رحمت کے اُن ننانوے خزانوں کی کنجی محسوس کرتا ہے جن کو آخرت کے لئے
ذخیرہ کیا گیا ہے‘‘
سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ایک رحمت زمین پر اتاری…
اسی رحمت کی بدولت ماں بیٹے سے اور تمام مخلوقات ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے ہیں…
جبکہ ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لئے ذخیرہ فرما دیں…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اُن ننانوے رحمتوں کو حاصل کرنے کی کنجی’’لا الہ
الا اللہ ‘‘ ہے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
آگے تحریر فرماتے
ہیں:
’’نیز اس کلمے کے
فضائل میں سے بھی کچھ سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
:
{من قال لا الہ
الا اللہ دخل الجنۃ(مشکوٰۃ) }
جس نے (صدق دل سے)
لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا…
کوتاہ نظر تعجب کرتے ہیں کہ صرف ایک مرتبہلا الہ الا اللہ کہنے سے کس طرح جنت میں داخلہ میسّر ہو جائے گا،
لیکن وہ لوگ اس کلمہ طیبہ کی برکات سے واقف نہیں…
اس فقیر کو محسوس ہوا ہے کہ اگر تمام عالم کو بھی صرف ایک مرتبہ کلمہ طیبہ(صدق دل
سے) پڑھ لینے پر بخش دیں اور جنت میں بھیج دیں تو بھی گنجائش ہے…
اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس مقدس کلمہ کی برکات کو اگر تمام عالَم پر تقسیم کر
دیں… تو ہمیشہ کے لئے
سب کو کافی ہوں گی… اور سب کو
سیراب کر دیں گی‘‘…(مکتوبات
تسھیل)
سبحان اللہ …
رمضان المبارک آرہا ہے…
بھائیو! او ربہنو! ہم سب کلمہ طیبہ حاصل کر لیں…
زیادہ سے زیادہ اس کلمہ کا ذکر کریں…
اسے اپنے دل میں بٹھائیں…
اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو اس کی طرف متوجہ کریں…
اور اس کلمہ طیبہ کی عزت و عظمت کے لئے جہاد فی سبیل اللہ میں زیادہ محنت کریں…
کسی نے بہت عجیب نکتہ لکھا ہے…
فرماتے ہیں…
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ روزہ کمزور کرتا ہے…
حالانکہ مسلمانوں کی اہم ترین فتوحات رمضان المبارک میں ہوئیں…
معلوم ہوا کہ روزہ انسانوں کو طاقتور کرتا ہے…
ان کی روح بھی طاقتور ہو جاتی ہے…
اور جسم بھی طرح طرح کی بیماریوں اور آلائشوں سے پاک ہو جاتاہے…
تیونس کا نام تو آپ نے سنا ہوگا؟…
یہ ایک اسلامی ملک ہے… عرب ممالک
میں جو عوامی احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں…
اُن کا آغاز تیونس سے ہوا…
اور عوام کا احتجاج کامیاب رہا…
تیونس کے سابق حکمران بھی…
پاکستانی حکمرانوں کی طرح دین میں مداخلت کرتے رہتے تھے…
ایک حکمران نے باقاعدہ علماء کی ایک شوریٰ بنائی اور اس کے ذمہ یہ کام لگایا کہ …
رمضان المبارک کے روزے منسوخ کر دیئے جائیں…
وجہ یہ ہے کہ گرمی زیادہ ہوتی ہے…
دن لمبے ہوتے ہیں… اور روزہ
رکھ کر سرکاری ملازم دفتری کام کاج کا حق ادا نہیں کر سکتے…
جبکہ دفتری کام بے حد ضروری ہوتا ہے…
علماء کہلانے والوں میں بھی طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں…
کچھ غامدی جیسے… کچھ وحید الدین
جیسے… کچھ ذاکر نائیک
جیسے… اس طرح کے کچھ
علماء بھی حکومت کی تائید کرنے لگے کہ…
دین اسلام آسانی والا دین ہے جبکہ روزہ مشکل ہے…
دنیا کے حالات اور موسم تبدیل ہوچکے ہیں…
چنانچہ روزہ منسوخ کر کے کچھ تھوڑا بہت فدیہ مقرر کر دیا جائے…
الحمدﷲ روئے زمین پر حقیقی علماء، مجاہدین اور اہلِ عزیمت کی کمی نہیں ہے…
تیونس کے مشہور عالم الشیخ طاہر نے اس فتنے کا مقابلہ کیا…
اور جب حکومت نے انہیں ٹی وی پر روزے کی منسوخی کا فتویٰ دینے کے لئے بٹھایا تو…
انہوں نے قرآن پاک میں سے روزے کی فرضیت والی آیت پڑھی…
اور فرمایا اللہ تعالیٰ سچ فرماتے ہیں اور ہمارے حکمران جھوٹے
ہیں… بس اسی وقت اس
فتنے کا دروازہ بند ہو گیا…
یاد رکھیں!… رمضان المبارک کی
اصل عبادت روزہ ہے… اور روزہ
ایسا مقبول عمل ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود عطاء فرمائیں گے…
اس وقت اسلام آباد میں کچھ لوگ اس موضوع پر لیکچر دیتے پھر رہے ہیں کہ…
روزہ کی جگہ فدیہ دے دو…
کوئی مسلمان اُن کی باتوں میں نہ آئے…
یہ لوگ مسلمانوں کو اسلام سے کاٹنا چاہتے ہیں…
اور انہیں کمزوری کی آخری حد میں پھینکنا چاہتے ہیں…
یہ لوگ دعویٰ’’تصوف‘‘ کا کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو کبھی …
روز ے سے روکتے ہیں… کبھی حج
سے روکتے ہیں… کبھی قربانی کے
خلاف اکساتے ہیں… اور کبھی
جہاد کے خلاف اُن کی ذہن سازی کرتے ہیں…
روزہ ایک ایسی طاقتور عبادت ہے جو مسلسل چودہ پندرہ گھنٹے جاری رہتی ہے…
اور اس دوران روزے دار کی زندگی کا ہر منٹ اور ہر سیکنڈ عبادت میں شمار کیا جاتا
ہے… روزے دار سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ارشاد فرماتے
ہیں… روزہ میرے لئے ہے…
سبحان اللہ ! فرمایا روزہ میرے لئے ہے…
اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا…
یا میں خود ہی اس کا بدلہ ہوں…
یعنی روزے دار کو اللہ تعالیٰ مل جاتا ہے…
رمضان المبارک کی اصل اور بڑی عبادت’’روزہ‘‘ ہے…
اس لئے اپنے روزے کو بہترسے بہتر بنانے کی محنت کرنی چاہئے جس کے کچھ طریقے ہیں…
(۱) روزے
کے فضائل معلوم کریں… انشاء اللہ القلم اس سلسلے میں آپ کے ساتھ تعاون کرے گا…
اور روزے کے فضائل پر مضامین آتے رہیں گے…
(۲) روزے
کے لئے رزق حلال کا اہتمام کریں…
(۳) روزے
کے مسائل معلوم کریں تاکہ کسی غلطی کی وجہ سے یہ عظیم المرتبت عبادت خراب نہ ہو
جائے…
(۴) سحری
تأخیر سے کرنے اور افطاری جلدی کرنے کا اہتمام کریں…
(۵) روزے
میں اپنے تمام اعضاء اور حواس کو بھی روزہ رکھوائیں خصوصاً زبان…
آنکھ… کان…
اوردل کی خاص حفاظت رکھیں…
(۶) کھانے
پینے میں اعتدال سے کام لیں…
زیادہ کھانے سے روزہ اور رمضان دونوں متأثر ہوجاتے ہیں…
آج رمضان
المبارک کی’’خصوصیات‘‘ پر کچھ لکھنا تھا…
مگر جگہ پوری ہو گئی… اور موقع
نہ ملا… مبارک ہو ان
مسلمانوں کو جو رمضان المبارک میں…
ایک مبارک ایمانی مہم میں محنت کرکے اپنی آخرت کے لئے…
بڑا ذخیرہ جمع کر رہے ہیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (358)
مجلسِ
ولی رحمۃ اللہ علیہ
ایک عالم ربانی جو
وقت کے عظیم محدث بھی تھے اور علم فقہ و فتاویٰ کے ماہر شناور بھی…
جو بلند پایہ با عمل صوفی بھی تھے…
اور جہادی نسبتوں کے روح رواں بھی…
جی ہاں! حضرت اقدس
مفتی ولی حسن ٹونکیؒ…
ان کی صحبت و
رفاقت میں امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر نے کیا دیکھا اور کیا پایا؟
انہیں رمضان اور
قرآن سے کیسا تعلق اور والہانہ نسبت حاصل تھی؟
اس ’’ولی اللہ‘‘
کے قلم سے رمضان المبارک کے موضوع پر ایک قیمتی تحریر کے خوبصورت اور سبق آموز
اقتباسات آپ بھی پڑھیے اور تصورات میں ان روحانی مجالس سے لطف اٹھائیے!
تاریخ اشاعت
۲۳شعبان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۳جولائی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۸)
مجلسِ
ولی رحمۃ اللہ علیہ
اللہ تعالیٰ کی رحمتیں رمضان المبارک میں موسلا دھار
برستی ہیں… ماشاء اللہ اس
سال بھی خوب برس رہی ہیں…
آج رنگ و نور کی تیاری میں تھا کہ…
اپنے مرشد اورشیخ سحضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے علمی اور روحانی
ملاقات نصیب ہو گئی… کسی زمانے
حضرت شیخ کے ساتھ رمضان المبارک کے چند دن مکہ مکرمہ…
اور چند دن مدینہ منورہ میں گذارنے کی توفیق ملی تھی…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پیری مریدی کا نظام عام خانقاہوں سے بالکل مختلف تھا…
نہ دعوے نہ کشف… نہ خواب نہ
خیالات… حضرت رحمۃ اللہ
علیہ کا کوئی مرید جب کسی دوسرے بزرگ کے ہاں جاتا تو بعض اوقات احساس کمتری کا
شکار ہو جاتا… دعوے، خواب
،مکاشفات اور معلوم نہیں کیا کیا…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ تو اکثر خاموش رہتے تھے…
اورجب بھی اپنے بارے میں کچھ فرماتے تو اس میں دعویٰ تو دور کی بات ا پنی کمزوری
اور تواضع ہی ہوتی تھی…
ایک صوفی صاحب کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی دعاء سے فائدہ ہوا، اٹھارہ سال بعد…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے دم کئے ہوئے انڈے استعمال کئے تو اللہ تعالیٰ نے اولاد عطاء فرمادی…
بڑی بات تھی اس لئے اُن کو عقیدت ہو گئی…
سفر میں ساتھ ہو لئے اور پھر دل پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا؟…
سادگی ہی سادگی… نہ بات بات پر
ٹوکنا اور نہ اپنے فضائل بولنا…
صوفی جی کا فی بدمزہ ہوئے…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ مزا ح بھی فرماتے تھے…
کبھی کوئی علمی لطیفہ بھی سنا دیتے تھے…
اور مجلس میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ٹوکنے کی بالکل عادت نہیں تھی…
صوفی صاحب! شائد ان جگہوں کے عادی تھے کہ…
جہاں داخل ہوتے ہی احکامات اور آداب کی بارش برس پڑتی ہے…
سلام کریں تو فوراً اصلاح کہ اس طرح نہیں…
یوں کرتے ہیں… پھر بیٹھیں تو
فوراً حکم کہ اس طرح نہیں بیٹھتے، یوں بیٹھتے ہیں…
پھرمصافحہ کریں تو فوراً گرفت کہ یہ کیا؟…
مصافحہ کا طریقہ بھی نہیں آتا؟…
ایک لمبا درس اور مصافحہ کے آداب پر سیر حاصل گفتگو…
معلوم نہیں یہ طریقہ اچھا ہے یا نہیں…
مگر میرے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بالکل نہیں تھا…
کافی عرصہ پہلے
ایک بار دبئی جانا ہوا…
وہاںایک صوفی صاحب کو ہم سے کچھ عقیدت ہوگئی…
کھانے پر اپنے گھر لے گئے…
کھانے سے پہلے’’ہمارے‘‘ ایمان کاامتحان لینے کے لئے کیلے لے آئے کہ…
یہ سنت کے مطابق کھاتے ہیں یا نہیں؟…
ہم نے بھی جان بوجھ کر صوفی صاحب کے پسندیدہ طریقے کے برخلاف کھائے…
بس پھر کیا تھا… غم، افسوس اور
درد کی وجہ سے اُن کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا…
بات کرتے تو آواز گلے میں دھنس جاتی…
عجیب بے کلی، بے تابی اور بے چینی میں کروٹیں بدل رہے تھے کہ…
ہماری اصلاح کس طرح کریں…
بالآخر اپنی چھوٹی سی بچی کو اٹھا کر لائے اور کہا بیٹی! سنت کے مطابق کیلا کھا
کر دکھاؤ… اُس بچی نے باپ
کی سنت کے مطابق کھایا…
تب ہم نے صوفی صاحب کی کلاس لے لی…
عرض کیا… آپ نے جہاد میں
کچھ وقت گزارہ ہے؟… اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار آپ کو نصیب ہوا ہے؟
کشمیر میں ہزاروںمسلمان شہید ہوئے کبھی آپ کو اس طرح کی بے کلی، بے چینی اور غم
اُن پر بھی پہنچا؟… عجیب لوگ
ہیں… چھوٹی چھوٹی
باتوں کو دین کی بنیاد سمجھ رکھا ہے…
اور لوگوں کی زندگی عذاب میں ڈال رکھی ہے…
کسی بزرگ کو کوئی لفظ پسند نہیں تو…
اُن کے مرید وہ لفظ بولنے پر بڑے بڑے علماء اور مجاہدین کو ٹوک دیتے ہیں…
بہت محبت سے کسی کی کتاب اٹھائیں گے…
اس میں’’انقلاب‘‘کا لفظ آتے ہی کتاب پھینک دیں گے…
ارے اللہ کے بندو!…
کسی کو انقلاب کا لفظ پسند نہیں…
تو نہ ہو… اچھی بات ہے مگر
یہ لفظ حرام کیسے ہو گیا؟…
اور حق اور باطل کا معیار کیسے بن گیا؟…
اسلام میں سلام
کرنے اور ملاقات کرنے کے بارے میں بہت وسعت ہے…
دو ہاتھ کامصافحہ بھی آیا ہے…
امام بخاری سنے باقاعدہ باب باندھا ہے…
اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کی بھی گنجائش ہے…
باقاعدہ روایت موجود ہے…
ملنے جلنے کے لئے بھی کئی طرح کے الفاظ آئے ہیں…
آنے اور رخصت ہونے کے لئے بھی کئی طرح کے طریقے مختلف حالات میں وارد
ہوئے ہیں… خلاصہ یہ کہ…
بہت گنجائش والا مسئلہ ہے…
مگر آپ بعض لوگوں کو دیکھیں گے کہ اس معاملے پر…
اچھے خاصے لوگوںکی برسر عام بے عزتی کر دیتے ہیں…
اور پھر نعوذب اللہ اسے اپنا کارنامہ
سمجھتے ہیں… اسلام کے فرائض…
اور محکم عقائد کا لوگوںکو پتا نہیں…
اور ان حضرات نے اپنے ’’ذوق‘‘ اور اپنے ’’ آداب‘‘ کو دین بنا دیا ہے…
ایک بار افریقہ جانا ہوا…
ایک بزرگ نے حال پوچھا تو عرض کیا الحمدﷲ خیریت ہے…
یہ سنتے ہی وہ اصلاح فرمانے لگے کہ…
مدینہ منورہ میں ایک بزرگ ہیں انہوں نے منع فرمایا ہے کہ…
خیریت ہے… کے الفاظ نہ کہا
کرو… اس زمانے میں
کہاں خیریت ہے؟… ہمارے ساتھ ایک
عالم دین تھے مشکوٰۃ تک کتابیں پڑھاتے تھے انہوں نے اصلاح کرنے والے بزرگ…
اور اُن کے پیچھے جو بزرگ تھے دونوں کی کلاس لے لی کہ…
کیسی فضول اور جاہلانہ بات آپ لوگ اتنے ڈنکے کی چوٹ پر پھیلا رہے ہیں…
کئی احادیث میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ…
میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک فلاں کام کرتی رہے
گی… ایسے کئی کام
الحمدﷲ آج بھی اُمت میں موجود ہیں…
سعودی عرب میں ایک بیان کے خطبے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے لئے’’سندنا‘‘…
کے الفاظ ادا کر دیئے…
شیخ البانی سکے
ایک مرید بیان کے بعد الگ لے گئے اور اصلاح کرنے لگے…
اُن کی توجہ’’مسند احمد‘‘ کتاب کے نام تک نہیں تھی مگر…
اپنے شیخ کا ذوق نافذ کرنے کی ان کو فکر تھی…
ویسے عربوں میں اب بیان کرنے والوں کو…
بڑی سہولت ہوگئی ہے… کوئی بھی
روایت بیان کر کے کہہ دیں…
صححہ الالبانی… بس پھر نہ امام
بخاری سکے نام کی ضرورت…
اور نہ امام ذہبی سکی توثیق کی…
بات دور نکل گئی… حضرت شیخ
مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں…
مجالس میں زیادہ روک ٹوک کی ترتیب نہیں تھی…
وہ صوفی صاحب جو عقیدت میں ساتھ چل پڑتے تھے ان کی نظر سحری اور افطاری کی پلیٹوں
پرہوتی تھی… بڑا دسترخوان
لگتا تھا اور حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اس دسترخوان کے منتظم ہوتے تھے…
ان کی قیادت میں دستر خوان لگتا…
اور پھر وہ اور چند دیگر ہم جیسے چھوٹے آخر میں دستر خوان پرکھانا بھی کھاتے اور
صفائی بھی کردیتے… صوفی جی!
سب کچھ بھول گئے… حضرت مفتی
ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا علم، تقویٰ…
فتویٰ میں مثالی مہارت…
سالہا سال سے بخاری اور ترمذی کا درس حدیث…
پاکدامن اور عفیف زندگی…
مال کی محبت سے بے حد دوری…
تصنع اور بناوٹ سے نفرت…
اور بہت سے خصائل حمیدہ…
خاص طور پر دنیا کے ایک بڑے خطے پر پھیلا ہوا دینی کام…
حقیقت میں سچا پیر اور مرشد برحق وہی ہوتا ہے کہ…
جس سے بیعت کرنے کے بعد خدمت دین کے دروازے کھلنا شروع ہو جائیں…
ساری دنیا کے انسان خسارے میں ہیں…
مگر وہ لوگ خسارے سے بچ جاتے ہیں…
جو ایمان و عمل پر بھی ہیں…
اور دین کی بھرپور ، قربانی والی خدمت اور کام بھی کر رہے ہیں…
سورۃ العصر پر غور فرما لیجئے…
مگر صوفی جی کے ہاں حضرتؒ کے نیک ہونے کے لئے ضروری تھا کہ…
آپ دستر خوان پر بیٹھ کر اپنے رفقاء کے لقمے ٹھیک کراتے رہیں…
اُن کے منہ کی آواز پر سلینسر دباتے رہیں…
اور آخرمیں ایک ایک کو ٹوک کر پلیٹیں چمکاتے رہیں…
کھانے کی سنتوں… اور ان سنتوں کے
اہم ہونے سے قطعاً انکار نہیں…
ہر مسلمان کو بھرپور اہتمام کرنا چاہئے…
مگر ہر چیز کی دعوت کا الگ مقام اور موقع ہوتا ہے…
اور اصلاح کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں… صوفی
جی نے بالآخر درد و غم میں تڑپ کر بندہ کے سامنے شکوہ کر ہی دیا…
کہ حضرت کے ہوتے ہوئے یہ منظر بہت بُرا لگتاہے…
اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ…
صوفی جی یہ بات کر کے کافی پچھتائے…
کیوں؟… یہ آپ خود سوچ
لیں… رمضان المبارک کے
بارے میں… حضرت رحمۃ اللہ
علیہ کا ذوق کیا تھا… اسے
سمجھنے کے لئے حضرتؒ کامضمون…
رمضان اور قرآن… پڑھ لیجئے…
انشاء اللہ دل کی آنکھیں کھل جائیں گی…
آج کی مجلس میں اس مضمون کے چند اقتباسات سے روشنی حاصل کرتے ہیں …
حضرت رحمۃ اللہ
علیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہماکی روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے
زیادہ سخی تھے… اور رمضان میں سب
سے زیادہ سخی ہو جاتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرئیل
ملتے تھے… وہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس رمضان کی ہررات آتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے قرآن کا دور کرتے تھے…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادبہاری سے
زیادہ خلق اللہ کی نفع رسانی میں سخی تھے‘‘…(یعنی
ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے)
حافظ ابن
حجرس عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
قرآن کریم
کا دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں غناء نفسی زیادہ کر دیا کرتا تھا…(یعنی
دل کا غناء اور سخاوت) اور غناء نفسی ہی جودو سخا کا سبب ہوتا ہے…
علاوہ ازیں رمضان کامبارک مہینہ اللہ تعالیٰ کی خیر رسانی کا زمانہ ہے…
(یعنی اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو زیادہ خیریں عطاء فرماتے
ہیں) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اپنے بندوںپر اس مہینہ
میں بہت زیادہ ہوتی ہیں ، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم اللہ تعالیٰ کی اس سنت(یعنی طریقے) کا اتباع کرتے تھے، غرض یہ سب
چیزیں آپ کو سخی سے سخی تر بنا دیتی تھیں…
اس حدیث سے بہت سے
فوائد حاصل ہوئے جن میں چند درج ہیں:
(۱) مسلمانوں کوہر
زمانہ میں سخاوت اختیار کرنی چاہئے(۲) رمضان میں سب سے زیادہ سخی ہونا
چاہئے(۳)اہل
صلاح اور تقویٰ سے ملاقات کا فائدہ بھی حاصل کرنا چاہئے کہ ان کی ملاقات
سے اچھے اخلاق میں اضافہ ہو(۴) رمضان میں قرآن کریم کی سب سے
زیادہ تلاوت کرنی چاہئے(۵) قرآن
کریم سب سے افضل ذکر ہے کیونکہ اگر اس سے افضل کوئی ذکر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اختیار
فرماتے۔(رمضان اور قرآن تسھیل)
تحریر فرماتے ہیں:
’’رمضان کی وجہ
تسمیہ کے بارے میں امام رازی سنے چار قول نقل کئے ہیں، ہم صرف دوپر اکتفا کرتے ہیں…
(۱) خلیل
بن احمد نحوی نے کہا کہ یہ’’رمضا‘‘ سے بنا ہے،’’رمضا‘‘ وہ بارش ہے جو موسم خریف سے
پہلے ہوتی ہے اور زمین کو غبار سے پاک و صاف کر دیتی ہے اسی طرح رمضان کا بابرکت
مہینہ جسم و روح کو پاک و صاف کر دیتا ہے۔
(۲) بعض
نے کہا کہ رمضان اصل میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور اسی پر اس مہینہ کا نام
رکھا گیا… مطلب یہ ہے کہ
جیسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سامنے گناہ گاروں کے گناہ جل
کر ختم ہوجاتے ہیں، اسی طرح اس مہینہ کی برکتوں کی وجہ سے گناہ گاروں کے گناہ جل
جاتے ہیں…(رمضان اورقرآن)
اللہ تعالیٰ توفیق دے تو پورا مضمون پڑھ لیں…
انشاء اللہ ایمان کو قوت اور تازگی نصیب ہوگی…
رحمتوں والا مہینہ… اللہ تعالیٰ کی بے حد سخاوت والا مہینہ…
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ سخاوت والا مہینہ…
نوافل کو فرضوں جیسا قیمتی اور فرائض کو ستر گنا طاقتور کرنے والا مہینہ…
مسلمانوں کی مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ…
اسلام کی عزت، عظمت اور فتوحات والا مہینہ…
رمضان المبارک تیزی سے جارہا ہے…
تین روزے گذر گئے اور چوتھے کی رات جاری ہے…
دن بھی رحمت اور رات بھی رحمت…
انفاق فی سبیل اللہ کی مہم…
ان رحمتوں کو لوٹنے کا بہترین ذریعہ ہے…
یا اللہ اس مہم پر خصوصی رحمت، نور اورسکینہ نازل
فرمائیے… اور اس مہم میں
شریک ہر فرد کو اپنی خاص رحمت، نور، نصرت ، مغفرت اور سکینہ عطاء فرمائیے…
آمین یا ارحم
الراحمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور سعدی کے
قلم سعدی(359)
قیمتی اعمال
رمضان المبارک کی
ہر گھڑی اور ہر لمحہ قیمتی ہے…
مگر شرط یہ ہے کہ…
ان اوقات کو قیمتی
اعمال سے زندہ رکھا جائے…
یہ قیمتی اعمال
بہت سے ہیں… مگر تین بالکل
نمایاں اور واضح ہیں:
(۱) جہاد فی سبیل
اللہ (۲) تلاوت قرآن
کریم (۳) انفاق فی سبیل اللہ…
اب کتنے لوگ ایسے
ہیں جو ان تین کاموں کی قیمت کا اندازہ لگائیں اور…
ان کی برکت سے اپنے رمضان کو بھی اپنی آخرت کے لئے قیمتی بنا لیں؟
حضرت ابو ذرؓ…
کا مال کے بارے میںایک عجیب اور پر اثر تبصرہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب…
رمضان اور جہاد کی
نسبت اور پھر اس جہاد کے عالمگیر اثرات کو سمجھانے والی ایک قیمتی تحریر…
تاریخ اشاعت
۱رمضان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۰جولائی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۵۹)
قیمتی اعمال
اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو اس رمضان المبارک میں…
اپنی رحمت اور مغفرت عطاء فرمائے…
رمضان المبارک کو جو لوگ جانتے تھے اور سمجھتے تھے…
ان کی کوشش ہوتی تھی کہ رمضان المبارک میں تین کاموں کا زیادہ اہتمام کریں…
(۱) جہاد
فی سبیل اللہ …(۲) تلاوت قرآن کریم(۳) اللہ تعالیٰ کے راستے میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ
کرنا…
ہم جیسے کم سمجھ
لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ رمضان المبارک کا کیا مقام ہے؟…
پھر بھی ہمیں اپنے سمجھدار اسلاف کی نقل اتارنی چاہئے…
کیا بعید کہ کسی دن ہمیں بھی رمضان المبارک کی حقیقت معلوم ہو جائے…
ایک اورستر(۷۰) کے
درمیان کتنا فرق ہوتا ہے؟…
اگر کسی بڑی مارکیٹ میں اعلان ہو جائے کہ آج یہاں ستر روپے والی چیز ایک روپے کی
ملے گی… اور ہر سامان ستر
گنا سستا ملے گا تو اندازہ لگائیں کہ…
وہاںکتنی مخلوق ٹوٹ پڑے گی؟…
ستر لاکھ والی گاڑی ایک لاکھ میں…
پانچ سو روپے والا کپڑا صرف چھ روپے میں…
سترروپے کلو والا پھل ایک روپے میں…
رمضان المبارک کا عام دنوں کے ساتھ نفع کا فرق کم از کم سترگنا ہے…
عام دنوں میں ستر روپے خرچ کرنے پر جو اجر ملتا ہے وہ رمضان المبارک میں ایک روپیہ
خرچ کرنے پر مل جاتا ہے…
آپ سوچیں کہ فرض اور نفل کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے؟…
کہتے ہیں کہ ساری دنیا کے نوافل مل کر ایک فرض کے برابر نہیں ہو سکتے…
مگر رمضان المبارک میں نفل کو فرض والا اجر عطاء کر دیا جاتا ہے…
میرے عظیم رب کی سخاوت بھی بے اندازہ ہے…
اچھا یہ بتائیں کہ ایک اور تیس ہزار میں کتنا فرق ہے؟…
اگر کوئی تاجر اعلان کر دے کہ میرے کاروبار میں ایک روپیہ لگاؤ میں اس ایک روپے
کو… تیس ہزار بنا دوں
گا… دو روپے لگاؤ تو
ساٹھ ہزار بنا کر واپس کروں گا…
ممکن ہے کوئی اس کی بات کا یقین ہی نہ کرے…
کہاں ایک روپیہ اور کہاں تیس ہزار؟…
یہاں گوجرانوالہ میں ایک’’ڈبل شاہ‘‘ تھا…
بعد میں حکومت نے پکڑ لیا اس کا دعویٰ تھا کہ وہ رقم کو دگنا یعنی ڈبل کر دیتا ہے…
یعنی ایک روپیہ کے دو روپے…
لوگوں کی بھیڑ اس پر ٹوٹ پڑی…
کتنے لوگوں نے صرف ڈبل کے لالچ میں لاکھوں کروڑوں روپے گنوا دیئے…
مگر رمضان المبارک میں…
ایک سے تیس ہزار بنانے کا سچا اعلان ہے…
پھر بھی ہم اس مہینے کو غفلت اور سستی میں ضائع کرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ مجھ پر اور آپ سب پر رحم فرمائے…
فرمایا لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے…
ایک ہزار مہینوں میں تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں …
تو ایک رات کا اجر و ثواب…
تیس ہزار راتوں سے زیادہ…
ہماری بڑی کمزوری یہ ہے کہ…
ہم اپنی ذات کا فائدہ کم سوچتے ہیں…
ہمیں ہروقت دوسروں کی فکر لگی رہتی ہے…
اپنی ذات کا فائدہ یہ ہے کہ…
ہم اپنی ذات کو جہنّم اور گرم عذاب سے بچانے کیلئے زیادہ محنت کریں…
زیادہ خرچ کریں… اور زیادہ قربانی
دیں… ہم جو مال بچا
بچا کر رکھتے ہیں یہ تو ہمارا نہیں ہے…
ہماری ذات کو اس سے کیا فائدہ؟…
سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں…
اے لوگو! تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا
ہے… پھر تم میں سے
کچھ لوگ بخل کرتے ہیں… اور جو
بخل کرتا ہے وہ اپنی ذات ہی پر بخل کرتا ہے…
یعنی اپنے آپ سے کنجوسی…
کیونکہ اگر خرچ کر دیتے تو اپنا فائدہ ہوجاتا، اپنی ذات کا بھلا ہو جاتا…
خرچ نہیں کیا تو یہ مال یا ورثاء کھا جائیں گے یا چور،ڈاکو اور ڈاکٹر…
اوراپنی ذات کا نقصان ہوا کہ خرچ کرنے سے اسے آخرت کی جوراحت ملنی تھی وہ نہ ملی…
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بہت اونچی اور عجیب باتیں فرمایا کرتے تھے…
اُن کے ایک فرمان کا مفہوم سنیں!…
تمہارے ما ل کے پیچھے کئی چیزیں لگی ہوئی ہیں…
یہ چیزیں تمہارا ہر طرح کا مال جھپٹنے کے لئے تیار رہتی ہیں…
وہ مال قیمتی ہو یا گھٹیا…
پہلی چیز تقدیر ہے…اچانک چوری
ہو گئی… ڈاکہ پڑ گیا…
مال گم ہو گیا… کوئی ایسی بیماری
آئی کہ علاج پر سب کچھ لگ گیا…
مال جل گیا یا ڈوب گیا…
وغیرہ وغیرہ… تقدیر کے یہ
فیصلے جب آتے ہیں تو ہر طرح کا مال سمیٹ کر لے جاتے ہیں…
دوسری چیز
موت ہے… موت اچانک آتی
ہے اور سارا مال چھین لے جاتی ہے…
بڑے سے بڑے بادشاہ اور سیٹھ موت کے ایک جھٹکے سے ایسے فقیر ہوتے ہیں کہ…
ایک پیسہ ان کی ملکیت میں نہیں رہتا…
تیسری چیز ورثاء… وہ
غیرمحسوس طریقے پر مال کے پیچھے ہوتے ہیں…
موت آتے ہی آپ کا مال فوراً ان کی ملکیت میں چلا جاتا ہے…
یہ تین چیزیں… ہر طرح کا مال لے
جاتی ہیں… مگر اے انسان ایک
چوتھی چیز بھی ہے… وہ ہے
جہاد میں خرچ کرنا… صدقہ
خیرات کرنا… یہ وہ مال ہے جو
تیرااپنا ہے… یہ وہ مال ہے جو
تم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا…
یہ وہ مال ہے جو تمہاری ذات کے کام آئے گا…
مگر ہوتا کیا ہے؟… اسی مال
میں انسان کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم دے…
گھٹیا سے گھٹیا دے… اوربہت
تھوڑا دے…جیب سے نوٹ نکالتے
ہیں… پانچ ہزار،ایک
ہزار، پانچ سو والوں سے تیزی سے گزر کر دس اور پانچ والے نوٹوںتک پہنچتے ہیں اور
پھر ایک پرانا سا نوٹ نکال کر دیتے ہیں…
اسے کہتے ہیں اپنی ذات کے ساتھ بخل اور اپنی جان کے ساتھ زیادتی…
بیماری بڑے نوٹ کھا جاتی ہے…
ڈاکو بڑے نوٹ لوٹ جاتے ہیں…
ڈاکٹر بڑے نوٹ مانگتے ہیں…
موت سارے نوٹ کھینچ جاتی ہے…
ورثاء سارے نوٹ قبضے میں لیتے ہیں…
مگر اپنی ذات، اپنی قبر اور اپنی آخرت کے لئے سب سے چھوٹا نوٹ…
ہے نا نقصان والی بات؟…
آج رمضان المبارک کا دسواں دن ہے…
بھائیو! اوربہنو! اس مہینے کی ہر گھڑی رمضان ہے…
رمضان المبارک کی قیمت اور مقام بہت زیادہ اونچا ہے…
ہم سب دعاء اور کوشش کریں کہ باقی دن اور باقی راتیں قیمتی ہو جائیں…
امت کے کامیاب لوگ رمضان المبارک میں…
جہاد کا رخ کرتے تھے… اسلام کا
سب سے نمایاں، سب سے کامیاب، سب سے بڑا غزوہ…
غزوہ بدر اسی مہینے میں ہوا…
بعض اہل دل کا قول ہے کہ لیلۃ القدر بھی سترہ رمضان المبارک کی رات ہے…
کیونکہ اسی رات اور اسی دن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے سب سے بڑے اور افضل معرکے کے
لئے منتخب فرمایا… لیلۃ
القدر کے بارے میں زیادہ مضبوط اقوال تو…
آخری عشرے کے ہیں… مگر سترہ
رمضان کا بھی ایک قول ہے…
پھر غزوہ بدر سے جس جہادی تحریک کا آغاز ہوا تھا اس کا عروج…
فتح مکہ کی صورت میں رمضان المبارک ہی میں ہوا…
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے
بارے میں آتا ہے کہ… رمضان
المبارک کے معرکوں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے…
اُن کا وہ مشہور واقعہ جو آپ نے بارہا پڑھا اور سنا ہو گاکہ…
اپنا چہرہ چھپا کر ایک بڑے جنگجو مبارز کافر کو قتل فرمایا…
اُس واقعہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں پیش آیا…
جہاد فی سبیل اللہ بلا شبہ افضل ترین عمل اور عبادت ہے…
اور کوئی عمل جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہے…
اسی طرح رمضان المبارک افضل ترین زمانہ ہے…
اور کوئی زمانہ اور مہینہ رمضان المبارک کے برابر نہیں…
جب افضل ترین وقت میں افضل ترین عمل کیا جائے تو اس کے اجر و ثواب اور مقام کا
اندازہ لگانا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے…
اور اس عمل کے جو اثرات ظاہر ہوتے ہیں وہ بھی بہت گہرے اور نمایاں ہوتے ہیں…
الحمدﷲ ثم الحمدﷲ ہماری جماعت کا آغاز بھی رمضان المبارک میں …
رمضان المبارک کے جہاد کی برکت سے ہوا…
اور الحمدﷲ اس کے اثرات اور نتائج بھی پوری دنیا نے دیکھے…
آج رمضان المبارک میں اس جماعت کے ہزاروں کارکن…
جہاد، دعوت، عبادت اور خدمت کے کام میں مگن ہیں…
سب مسلمانوں کو چاہئے کہ…
ان کے ساتھ اس مبارک کام میں شریک ہوں…
اور انہیں اپنی دعاؤں سے نوازیں…
رمضان المبارک کا دوسرا بڑا عمل…
تلاوت قرآن پاک ہے… حضرت امام
احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ…
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی کتاب بند کر دیتے اور فرماتے…
ھذا شہر القرآن…کہ یہ
قرآن مجیدکا مہینہ ہے…
امام مالک س کے بارے میں آتا ہے کہ…
رمضان المبارک آتے ہی افتا اور تدریس بند کردیتے اور فرماتے…
ھذا شہر القرآن حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ رمضان المبارک میں…
ساٹھ بار قرآن مجیدکا ختم کرتے…
یعنی ہر دن رات میں دو ختم…
تلاوت اور ذکر کی ایک عجیب شان ہے اسے جو انسان جتنا بڑھاتا جائے اسی قدر اس کے
وقت میں وسعت اور برکت ہوتی چلی جاتی ہے…
اور اسے جس قدر گھٹایا جائے تو وقت بھی اتنا کم اور بے برکت ہو جاتا ہے…
چنانچہ کئی لوگ ساری دن رات میں چند تسبیحات بھی بہت مشکل سے کرتے ہیں…
اسلاف میں سے ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ جب اُن کی موت کا وقت آیا…
تو ان کے بیٹے ان کے پاس بیٹھے رو رہے تھے…
فرمایا رونے کی ضرورت نہیں…
میں اس مسجد میں ہر رمضان…
مسجد کے ہر ستون کے پاس دس قرآن پاک ختم کرتا رہا ہوں…
مسجد کے کل چار ستون تھے…
یعنی ہر رمضان المبارک میں چالیس ختم…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
مہم میں شریک
ساتھی پوچھتے ہیں کہ… ہم زیادہ
تلاوت کس طرح کریں؟… اول تو یہ
ہے کہ محنت کر کے وقت نکالیں…
نیند،کھانے اور دیگر ضروریات سے وقت بچائیں…
سعادت حاصل کرنے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے…
دوسرا یہ کہ جو حافظ نہیں ہیں وہ دوران سفر قرآن پاک کی سورتیں پڑھتے رہا کریں…
سورۃ یٰس تو یاد ہوگی… پانچ بار
پڑھی تو ایک پارہ کے برابر تلاوت ہو گئی…
بس ذوق اور رغبت ہو تو راستے خود مل جاتے ہیں…
جبکہ حفاظ کرام کے لئے آسانی ہی آسانی ہے…
چلتے جائیں پڑھتے جائیں پڑھتے جائیں پڑھتے جائیں…
تیسرا عمل رمضان المبارک میں زیادہ مال خرچ کرنا ہے…
سب سے افضل تو قرآن پاک کی رو سے جہاد فی سبیل اللہ میں مال لگانا ہے…
اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں…
احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان
المبارک میں بے حد سخاوت فرماتے تھے…
یہاں تک کہ ایک بار ایک صاحب نے آپ سے وہ چادر مانگ لی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اوڑھی ہوئی تھی… اس زمانے میں
چادر سے قمیص کا کام بھی لیا جاتا تھا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اتار کر مسکراتے ہوئے اُن کو دے دی…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اُن صاحب پر غصہ کیا…
وہ کہنے لگے اللہ کی قسم یہ چادرمیں نے اپنے کفن کے لئے مانگی ہے…
اور میں اس سے بہتر کوئی اور کفن نہیں پاتا کہ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو آتی ہے…
رمضان المبارک میں غریبوں، مسکینوں کا خاص خیال رکھیں…
اپنے دستر خوان کو کھلا رکھیں…
اور دین کے ہرکام پر مال لگائیں…
یہی مال آپ کا اپنا ہوگا…
الرحمت ٹرسٹ کے جانباز اہل ایمان آپ کے پاس پہنچیں تو اُن کے ذریعہ سے…
اپنے مال کو قیمتی بنائیں
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (360)
شکر گزار
موت تو ہر انسان
کو آنی ہے مگر کچھ لوگوںکے لئے یہ موت حیات جاودانی کا ذریعہ بن جاتی ہے…
ایک ایسے ہی ’’شکر
گزار‘‘ بندے کی یادیں…
جس نے رمضان مبارک
کے مہینے اور جہادی تشکیل کے سفر میں ’’موت‘‘ کو گلے سے لگایا…
اور ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کے عہد کو نبھا کر پیچھے رہ جانے والوں کے لئے بڑا سبق
چھوڑ گئے…!
مرکز عثمان و علیؓ
بہاولپور… کی رونق اور ہر
دلعزیز بزرگ شخصیت ’’سید سلیس احمد صاحبؒ‘‘ کی شہادت پر لکھی گئی تحریر جس میں ان
کے کچھ حالات بھی ہیں اور سبق آموز واقعات بھی!
تاریخ اشاعت
۸رمضان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۷جولائی؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۰)
شکر گزار
اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحمت فرمائے…
محترم سید سلیس احمد صاحب س برصغیر کی تقسیم سے پہلے ’’قاضی پور‘‘ میں پیدا ہوئے…
اب یہ علاقہ ہندوستان کا حصہ ہے اور وہاں کی ریاست ’’اترپردیش‘‘ میں واقع ہے…
پاکستان وجود میں آیا تو سید صاحب کی عمر سات سال تھی…
اس چھوٹی سی عمر میں ’’ہجرت‘‘ کا کٹھن سفر طے کیا اور پشاور میں مقیم ہوئے…
معاش کے سلسلے میں سرکاری ملازمت کی، جلد سازی میں مہارت رکھتے تھے اور یہی آپ کی
ڈیوٹی تھی… زندگی کے آخری
سالوں میں دینی تشکیل کے تحت بہاولپور منتقل ہو گئے…
اور ابھی دس رمضان المبارک کا روزہ افطار کر کے جام شہادت نوش کر گئے…
اور بہاولپور ہی میں جامع مسجد سبحان اللہ
کے پڑوس میں مدفون ہوئے…
ان اللہ و انا الیہ راجعون
دورہ تفسیر کا شوق
ان کو پہلی مرتبہ
کراچی میں دیکھا… بندہ کے
پاس دورہ تفسیر آیات الانفال پڑھنے کے لئے آئے تھے…
اس دورہ میں سینکڑوں افراد شریک تھے، مگر اُن کے ذوق، شوق اور اہتمام کی وجہ سے وہ
نظروں میں آگئے… مختصر
ملاقات اور تعارف ہوا… اگلا دورہ
تفسیر سرحد میں تھا وہاں بھی موجود تھے…
سبق لکھنے، غور سے سننے اور آگے آگے بیٹھنے کا اہتمام تھا…
بندہ نے پہچان لیا اور ملاقات کے لئے بلایا تو عجیب والہانہ انداز میں لپکے…
وہ منظر اب بھی یاد ہے…
تیزی سے معانقہ کرتے ہوئے تقریباً گرگئے اور پہچاننے پر بے حد خوش ہوئے…
بندہ نے اُن کی رہائش وغیرہ کا الگ اور بہتر انتظام کرا دیا…
اس پران کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی…ویسے
ہی ماشاء اللہ شکر گزار…
طبیعت کے مالک تھے… ہروقت خوش
باش اور شکر میں ڈوبے نظر آتے تھے…
شکر گزاری اللہ تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے…
شکر گزار طبیعت
شکر کون ادا کرتا
ہے؟… وہی جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور نعمتوں کو محسوس کرتا ہے…
اور دنیا میں اپنی امیدیں بہت کم اور محدود رکھتا ہے…
آپ بڑے بڑے حکمرانوں سے ملیں…
سیاستدانوں سے ملیں… بڑے
کامیاب فنکاروں اور اداکاروں سے ملیں…
سب ہی روتے اور حسرتیں پیٹتے نظر آئیں گے…
دل کا سکون نہیں… دل خوش
نہیں… حسرتیں پوری نہیں
ہوئیں… دنیا کے کتنے
نامور لوگوں نے خودکشیاں کر لیں…
خواہشات پوری نہیںہوئیں…
امیدیں بہت زیادہ اور خواہشات بے انتہا…
اس دنیا میں کیسے پوری ہوں؟…
ایک بڑے نامور انسان کا ریڈیو پر انٹرویوسنا…
دل عبرت سے لرز گیا… بس صرف رو
ہی رہے تھے کہ میری بڑی ناقدری ہوئی…
میری بہت سی امیدیں اور حسرتیں پوری نہیں ہوئیں…
حالانکہ بڑے مشہور نام کے مالک تھے…
چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی…
کروڑوںروپے کے مالک اور کاروں کوٹھیوں والے تھے…
مگر چاہتے تھے کہ بیماری کا علاج حکومت کرائے…
میری جیب سے کچھ خرچ نہ ہو…
انسان جب ناشکری،
لمبی امیدوں اور خواہشات میں پڑجائے تو کبھی خوش اور مطمئن نہیں ہوتا…
دنیا اطمینان کی جگہ ہے ہی نہیں…
یہاں تو صرف وہ مطمئن ہوتا ہے جو یہاں مسافر بن کر رہے…
اور اپنی خواہشات اور امیدیں زیادہ نہ بڑھائے…
اسی طرح وہ لوگ بھی کبھی شکر گزار نہیں ہوتے جو خود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بڑا سمجھتے ہیں…
ایسے لوگ کسی نعمت کو محسوس ہی نہیں کرتے…
رزق آسانی سے مل رہا ہے…
تو کیا ہوا؟… رہنے کی جگہ
میسّر ہے… تو کیا ہوا؟…
ارے آپ کی صحت اچھی ہے…
تو کیا ہوا؟… ایسے لوگ نعمتوں
کی ناقدری کرتے ہیں… اور اپنی
ذات کے تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں…
اسی طرح جس انسان کی نظر اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر نہ ہو وہ بھی شکر گزار نہیں
ہوتا … بس جیسے ہی کوئی
تکلیف آئی تو ساری نعمتوں کو بھول گیا…
اور یہ نہ سوچا کہ میرے گناہوں کی سزا تو اس تکلیف سے بہت بڑی تھی مگر…
اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور گناہ کے مطابق سزانہیں
دی، بس تھوڑی سی تکلیف آئی ہے…
جو انشاء اللہ دور ہو جائے گی…
اور دور نہ ہوئی تو میں صبر کرلوں گا…
اسی طرح وہ انسان بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا جو نعمتوں کی ترتیب اور مقام کو نہیں
سمجھتا کہ… کونسی نعمت بڑی
ہے اور کونسی چھوٹی… کون سی
نعمت ضروری ہے اور کون سی ضروری نہیں…
ایسے انسان کا دل بعض اوقات کسی چھوٹی یا فانی چیز کو اصل نعمت سمجھ لیتا ہے…
اور جب تک اسے وہ نعمت نہ ملے باقی تمام نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کرتا رہتا ہے…
اور جس نعمت کو وہ مقصود بناتا ہے وہ اس کی قسمت میں ہوتی نہیں…
اس طرح اس کی پوری زندگی ناشکری میں گذر جاتی ہے…
اصل اور بڑی نعمت ایمان ہے…
اسی طرح قرآن پاک بڑی اور اصل نعمت ہے…
اسی طرح فرائض کی ادائیگی کی توفیق بڑی عظیم نعمت ہے…
اسی طرح دین کے کام کی توفیق ملنا بڑی عظیم نعمت ہے…
اسی طرح اچھا ماحول اور گناہوں سے پاک مقام نصیب ہونا بڑی نعمت ہے…
ایک آدمی کو یہ ساری نعمتیں نصیب ہوں تو اگر اس کے پاس دنیا کی فانی نعمتوں میں
سے کوئی بھی نہ ہو تو وہ فائدے، فوز، کامیابی اور نفع میں ہے…
لیکن اگر وہ دنیا کی کسی عارضی نعمت کو اپنا اصل مقصد بنا لے اور پھر اسی کے لئے
آہیںبھرتا رہے تو اسے…
شکر گزاری کہاں نصیب ہو سکتی ہے؟…
یہ ایک طویل موضوع ہے… مختصر یہ
کہ شکر گزاری ایک ایسی صفت ہے جو بہت سی صفات کی جامع ہے…
اور یہ صفت ایمان والے مخلص بندوں کو نصیب ہوتی ہے…
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ…
میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہیں…
الحمدﷲ ہمارے محترم سید سلیس احمد صاحب…
اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھے…
اور شکر گزاری کی بدولت مسلسل ترقی کی طرف گامزن تھے…
اللہ تعالیٰ نے ان کو جہاد کا راستہ دکھلایا…
جماعت میں اُن کو مقام عطا فرمایا…
اُن سے بڑھاپے میں دین کے بڑے بڑے کام لئے…
زندگی کے آخری حصے میں ان کو مثالی عزت عطاء فرمائی…
ان کی زندگی کا آخری دور مسجد کے ماحول میں گزرا…
اور ان کی زندگی کا آخری عمل یہ کہ…
وہ ایمان وجہاد کے کام میں نکلے ہوئے تھے…
اور بالآخر اُن کو شہادت کا بلند مقام…
ماشاء اللہ …
نصیب ہوا… اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو مزید بلندی عطاء فرمائے…
ایمان افروز خطوط
سید صاحب سبیعت کے
بعد بڑی پابندی سے اصلاحی خطوط بھیجتے تھے…
اُ ن کا لفافہ الگ طرز کا ہوتا تھا…
وہ کاغذ سے خود ہی لفافے تیار کر لیتے تھے…
لکھائی بہت صاف، نستعلیق اور خوبصورت تھی…
اُن کے ہرخط سے مجھے فائدہ ہوا اور کبھی کسی خط سے کوئی الجھن نہیں ہوئی…
خط زیادہ مفصل اور غیر ضروری باتوں پر مشتمل ہو تو پریشانی ہوتی ہے…
کئی لوگ خط کی جگہ پوری کتاب لکھ بھیجتے ہیں…
سیدصاحب س کا ہر خط ایک صفحے پر ہوتا تھا اور اُن کے معمولات کی پابندی اور شوق
دیکھ کر مجھے رشک آتا تھا…
ابتداء میں معمولات کا پورا پرچہ فوٹو کاپی کرا کے ساتھ بھیجتے اور ہر معمول پر
لکھاہوتا…’’مکمل ربط ہے‘‘…
یعنی میرا
اس پر پابندی سے عمل ہے…
پھر رنگ و نور میں کوئی دعاء آتی یا درود شریف، کلمہ اور استغفار کی کوئی مہم
چلتی تو وہ بھی ان کے معمولات میں شامل ہو جاتی…
تہجد کا بڑا ذوق تھا… کمزوری
اور بڑھاپے میں نہایت شوق کے ساتھ سورہ بقرہ یاد کر لی تھی تاکہ…
تہجد میں پوری پڑھ سکیں…
سورۃ بقرہ بڑی سورت ہے…
بار بار بھولتے اور پھر پڑھتے اور یوں اپنی رات کو قیمتی بنا لیتے…
کلمہ طیبہ، استغفار اور درود شریف کا خاص ذوق پیدا ہو گیاتھا…
کسی خانقاہ میں ہوتے تو ضرور’’خلافت‘‘ پاتے…
مگر جماعت میں تو دین کا کام ہی خلافت ہے…
اور ماشاء اللہ اُن کو کام کا پوراجنون پیدا ہو گیا تھا…
دعوت و رکنیت مہم میں جان لڑا کر محنت کی…
اور اب انفاق فی سبیل اللہ مہم میں پورے جذبے سے نکلے ہوئے تھے کہ…
پندرہ دن ہی میں پرچہ حل کر لیا…
امتحان پورا ہوا اور ملاقات کا پیغام آگیا…
کام اور دام
غالباً
شعبان یا رجب میں… کمر توڑ
مہنگائی کو دیکھتے ہوئے ساتھیوں کے وظائف میں کچھ اضافہ کیا گیا…
سید صاحب سجب تشکیل میں آئے تھے تو وظیفہ نہیں لیتے تھے…
بندہ نے ملاقات میں پوچھا تو بادشاہی استغناء کے ساتھ کہنے لگے…
جناب! پنشن ملتی ہے اور ہم دونوں میاں بیوی مل کر ختم نہیں کر سکتے…
اور پیسے کیا کریں گے؟…
پھر جب گھر بھی مرکز میں منتقل ہوا تو معمولی سا وظیفہ لیتے تھے…
یہ بھی ایک دینی سعادت ہے…
عار کی بات ہرگزنہیں… حضرات
خلفاء راشدین کے دور میں اس کی بہترین مثالیں ملتی ہیں…
خیر جب وظائف میں اضافہ ہواتو سید صاحب سکا بہت دلچسپ پیغام ملا…
فرما رہے تھے… جناب! سوچا تھا
کہ اب آپ کی طرف سے ہمیں مزید کام ملے گا…
مگر یہ کیا… کام تو مزید ملا
نہیں اور دام مل گئے… بندہ نے
جواب عرض کیا کہ یہ کام کے دام نہیں…
اللہ تعالیٰ کا رزق ہے جس سے کوئی نہیں بھاگ سکتا…
اور باقی رہا کام تو وہ آپ پہلے بھی خوب کر رہے ہیں اور انشاء اللہ مزید بھی ملے گا…
اندازہ لگائیں!… چوھتر سال کی
عمر،بڑھاپا… عبادت کی مسلسل
مشقت… مگر اس کے باوجود
نہ بیماری اور علاج کی باتیں…
نہ اپنی حسرتوں کا رونا…
بلکہ مزید کام کرنے کا جذبہ اور جنون…
حالانکہ وہ جماعت کے ایک پورے شعبے کو سنبھالے ہوئے تھے…
اور یہ واحد شعبہ تھا جس میں ان کے علاوہ کوئی اور عملہ بھی نہیں تھا…
شعبہ احیاء سنت… جب حضرت قاری عمر
فاروق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سخت بیمارہو گئے تو اس شعبہ کا کام سید صاحب سکے سپرد
کیا گیا تھا… بندہ نے مختصر
طور پر اس کام کے فضائل عرض کئے…
اور کہا: جناب! ہر رشتہ اس طرح کرانا ہے جس طرح اپنی سگی بیٹی ہو…
سید صاحب س کی آنکھوں میںعجیب نورانی چمک اٹھی اور کہنے لگے…
ضرور ضرور آپ دعاء کر دیجئے انشاء اللہ اسی طرح ہوگا…
اور ماشاء اللہ بالکل اسی طرح ہوا اور انہوں نے کئی سال تک یہ
شعبہ جماعت کی توقعات سے بھی بڑھ کر چلایا…
کار گزاری سناتے وقت بعض اوقات رو پڑتے تھے کہ…
ہماری آخرت کا کچھ سامان اس شعبے کی خدمت سے ہوجائے…
سید صاحب سکے ذمہ اور بھی کئی کام تھے…
اُن کاموں کے لئے تو افراد ذہن میں ہیں…
مگر شعبہ احیائے سنت کو کون اتنی لگن، محنت ، اخلاص، حیاء، عفت اور پاکیزگی سے
چلائے گا… یہ سوچ کر
آنکھیںدعاء کے لئے اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہیں…
اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور رحمت فرما کر بہترین انتظام
فرمائے…
قیمتی ہدیہ
سید صاحب
س’’مکتوبات خادم‘‘ بہت توجہ اور شوق سے پڑھتے تھے…وہ
پابندی، حکم اور مصروفیت کو سعادت سمجھنے والے انسان تھے…
اس لئے جو گزارش بھی اُن تک پہنچی تو عمل کے لئے کمر کس لیتے…
انہوں نے ایک ڈائری بھی بنا رکھی تھی ہر تازہ مکتوب اس میں نقل کر لیتے تھے…
شہادت سے پہلے عصر کے بعد آخری مکتوب اپنی ڈائری میں منتقل کیا…
استغفار کے سلسلہ میں جاری ہونے والے ایک مکتوب میں …
خادم نے یہ لکھا تھا کہ میرا حق تو نہیں کہ آپ سے کچھ مانگوں…
مگر پھر بھی آپ سب سے اپنے لئے استغفار اور دعاء کی درخواست کرتا ہوں…
یہ مکتوب پڑھ کر سید صاحب س تڑپ اٹھے…
فرمایا آپ نے یہ کیا لکھ دیا کہ…
آپ کا کوئی حق نہیں… جناب آپ
کے تو ہم پر اتنے حقوق ہیں کہ ادا کرنے کا تصور بھی نہیں پاتے…خیر
آپ نے استغفار کا فرمایا ہے تو آج سے…
روزآنہ ایک ہزار استغفار کا ہدیہ پیش ہے…
بندہ نے عرض کیا… آپ نے
ماشاء اللہ بہت قیمتی ہدیہ دیا ہے…
جزاکم اللہ خیرا…
اس کے بعد سے سید صاحب س روزآنہ بندہ کے لئے ایک ہزار بار استغفار کا اہتمام
فرماتے تھے… الحمدﷲ استغفار
مہم کی برکات… خود ہماری جماعت
نے بھی خوب اٹھائیں… اور دیگر
جماعتوں اور طبقوں میں بھی الحمدﷲ اس مہم کی برکت سے’’استغفار‘‘ کا شعور اجاگر ہوا
ہے… اور اب مسلمان
اپنے لئے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے استغفار کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے…
سید صاحب س ہماری جماعت کے رکن شوریٰ تھے…
وہ اس زمانے کے عبادت گزاروں کی زینت…
اور جہاد فی سبیل اللہ کے جانباز پروانے تھے…
انہوں نے جماعت سے خوب دینی اوراخروی فائدہ اٹھایا…
اور جماعت کو اپنی محنت اور اخلاص سے بہت فائدہ پہنچایا…
موجودہ’’انفاق فی سبیل اللہ مہم‘‘ ان کے خون سے رنگین ہوئی…
ابھی چند دن باقی ہیں… تمام
ساتھی ایمانی جذبے کے ساتھ…
اپنی آخرت کی کھیتی تیار کریں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (361 )
جامع نسخہ
جہاد واحد شہادت
کے حوالے سے حضرات صحابہ کرامؓ کا نظریہ اورسوچ کیا تھی…؟
آج جہاد اور
شہادت کا درجہ کم کرنے کے لئے کس طرح بعض واقعات کو غلط مفہوم پہنا کر پھیلایا
جاتا ہے؟
ہمارے دنیاوی
مسائل… کے علاوہ اصل
آخرت کے مسائل کتنے زیادہ ہیںاور کتنے اہم ہیں؟
ان تمام مسائل کو
حل کروانے کے لئے ایک نسخہ ایسا ہے جو تمام مسائل کے لئے کافی ہو جاتا ہے اوروہ ہے
’’شہادت فی سبیل اللہ‘‘
آپ بھی یہ مضمون
پڑھیے… شاید اس نسخے کی
کنجی آپ کے ہاتھ آ جائے…!
تاریخ اشاعت
۱۵رمضان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۳؍اگست؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۱)
جامع نسخہ
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ’’عذابِ قبر‘‘ اور
’’عذاب جہنم‘‘ سے اپنی پناہ عطاء فرمائے…
’’عذاب قبر‘‘ بڑی سخت چیز ہے …
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ …اگر
اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم لوگ خوف کی وجہ سے اپنے مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے
تو تمہیں عذاب قبر دکھا اور سنا دیا جاتا…
اللہ رحم، اللہ رحم یا رحیم یا کریم رحم!…
یعنی اگر لوگوں کو عذاب قبر دکھا اور سنا دیا جائے تو وہ اپنے مُردوں کو دفن کرنا
چھوڑ دیں… اور عذاب قبر سے
زیادہ سخت عذاب ’’جہنم‘‘ کا ہے…
الامان، الامان… قرآن پاک نے جہنم
کے عجیب عجیب نام گنوائے ہیں…
ان میں سے جس کو بھی سمجھ کر پڑھیں تو خوف سے جسم لرزنے لگتا ہے…
النار، الجحیم…سقر، الحطمہ…
وغیرہ وغیرہ… رمضان المبارک
بھی کتنی تیزی سے جارہا ہے…
آج پچیسویں رات ہے… آخری عشرے
کے صرف پانچ دن رہ گئے…
اگلے ہفتے اخبار کا ناغہ ہوگا …اس
لئے بہت سی باتیں ہیں …
کونسی لکھی جائے اور کونسی چھوڑی جائے؟…
ماشاء اللہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کتنے لوگوں کو
جہنم سے نجات عطاء فرمائی جاتی ہے …
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بھی ان میں شامل فرمائے…
ہم کمزور لوگ دنیا کی معمولی سی لوڈشیڈنگ سے لرز اٹھتے ہیں …
جہنم کی آگ تو دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے…
دنیا کی فی الحال خطرناک ترین آگ وہ ہے جو ایٹمی اور کلسٹر بموں میں بند ہوتی ہے…
امریکہ نے افغانستان پر بے شمار ڈیزی کٹر بم برسائے…
ان بموں سے بھی زمین پر آگ لگ جاتی ہے …
اور آکسیجن سمیت ہر چیز کو کھا جاتی ہے …
اس حقیر دنیا کی آگ کا یہ حال تو جہنم کی آگ کیسی ہوگی…
بس اس عشرے میں زیادہ سے زیادہ جہنم کی آگ سے پناہ کی دعا کی جائے …
اور ایسے اعمال کئے جائیں جن سے یہ آگ ٹھنڈی پڑتی ہے…
یعنی ان اعمال کو کرنے والا اس آگ سے بچ جاتا ہے …
اس وقت ’’انکار جہاد‘‘ کا فتنہ جتنا تیزی سے سرگرم ہے اسے دیکھ کر دل بہت پریشان
ہوتا ہے… عجیب عجیب باتیں
ہیں … بالکل مرزا
قادیانی کی مکمل ترجمانی …
بعض لوگوں نے تو نعوذ ب اللہ …
جہاد کے انکار یا جہاد کے معنیٰ تبدیل کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے…
ہر وہ روایت جس سے جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کچھ کم کی جاسکتی ہو …
خوب مزے لے کر بیان کی جاتی ہے …
ایسے میں نہ قبر کی زنجیریں یاد آتی ہیں…اور
نہ جہنم کا عذاب… دوصحابی
تھے… ایک شہید ہوگئے
دوسرے ایک سال بعد وفات پا گئے …کسی
صحابیذ نے خواب میں دیکھا کہ دوسرے صحابی جنہوں نے وفات پائی تھی پہلے جنت میں
داخل ہوگئے …یہ روایت اب ہر
کسی کو یاد ہے … حالانکہ پوری
روایت پڑھیں تو جہاد ہی کی عظمت اور اہمیت اجاگر ہوتی ہے …
حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس واقعہ پر حیران ہونا کس وجہ سے تھا؟…
معلوم ہوا کہ ان کو قرآن مجید نے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
مبارک صحبت نے جو ’’علم‘‘ عطا فرمایا تھا اس کی روشنی میں جہاد اور شہادت کے برابر
کوئی عمل نہیں تھا … ہم بھی
یہی عرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والا
نظریہ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والی سوچ اپنانی چاہئے…
باقی جزوی واقعات سے دین کے کئی مسائل سمجھائے جاتے ہیں …
اس روایت میں بھی سمجھایا گیا کہ …
شہادت کی فضیلت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ …
کوئی بھی زندہ رہنا گوارہ نہ کرے…
مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر عمل اس کے درجات کو بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں…
اس روایت میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ …
دوسرے صحابی نے کبھی جہاد میں شرکت نہیں کی…
یا اُن کے دل میں شہادت کی امنگ اور تمنا نہیں تھی …
یا انہوں نے شہادت کی دعا نہیں مانگی تھی…
جو اخلاص سے شہادت کی دعا مانگے اس کو بھی شہادت کا مقام ملتا ہے …
اور ایک سال کے فرض، سنت اور نفل اعمال ان کے پاس زائد تھے اور اس روایت میں یہ
بھی کہیں مذکور نہیں کہ…
وہ صحابی تمام شہداء سے افضل ہوگئے اور تمام شہداء سے پہلے جنت میں گئے …
جس طرح انبیاء اور صحابہ کے درجات ہیں …
بعض بعض سے افضل ہوتے ہیں …
اس طرح شہداء کے بھی درجات ہیں …
کوئی اعلیٰ درجے کا شہید کوئی اس کے بعد کا…
جبکہ ہمارے پاس صحیح حدیث موجود ہے کہ …
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے لئے شہادت کی تمنا فرمائی …
بات ہی ختم … شہادت کا عام موت
سے افضل ہونا قرآن پاک سے بھی ثابت ہے …
اور احادیث مبارکہ سے بھی …
کوئی ہے جو ایک دلیل اس کے برخلاف پیش کرسکے؟ …
ہاں بعض جزوی واقعات میں …
بعض وفات پانے والے افراد اگر شہید سے افضل ہو جائیں تو یہ ممکن ہے …
مجھے ایک بزرگ نے فرمایا، صدیق کا مقام شہید سے افضل ہے…
پھر حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا تذکرہ فرمایا …
بندہ نے عرض کیا … حضرت! کیا
ایسا شخص جو اللہ تعالیٰ کے لئے جان قربان نہ کرنا چاہتا ہو…
وہ صدیق کا مقام پاسکتا ہے؟ …
ہمیں تو صدیقوں کے ’’صدیق اکبرذ ‘‘ خود بدر، احد میں لڑتے نظر آتے ہیں …
حضرت! مجھے صدیق کے ہاتھ میں تلوار نظر آرہی ہے …
وہ بہت خوش ہوئے اور کافی دیر تک واہ، واہ فرماتے رہے …
واقعی جو اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی دینے کا جذبہ نہیں رکھتا
وہ صدیق کا مقام کیسے پاسکتا ہے؟ …
بزدلی … اور صداقت؟ …
جان سے پیار … اور ولایت؟ …
قرآن پاک کھول کر دیکھو! وہ صادق اور صدیق کن کو قرار دے رہا ہے…
{من المؤمنین
رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ اولئک ہم
الصادقون}
پھر ایک اور عجیب
فتنہ … آپ نے بہت سے
اعمال کی فضیلت پڑھی ہوگی کہ …
اگر فلاں عمل کریں تو سو نوافل نماز کا ثواب ملتا ہے …
فلاں عمل کریں تو ہزاررکعت نوافل کا اجر ملتا ہے…
فلاں عمل کریں تو ساری رات نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے …
فلاں عمل کریں تو اتنے سال نماز پڑھنے کا اجر ملتا ہے …
اب کوئی آدمی سائوتھ افریقہ کے پرتعیش ماحول میں بیٹھ کر …
اپنے چند شاگردوں کو ایسی تمام روایات جمع کرنے پر لگا دے …
اور علمی رعب ڈالنے کے لئے ہر روایت کے نیچے …
کئی کئی کتابوں کے حوالے دے…
اور نتیجہ یہ نکالے کہ اب پانچ نمازوں کی ضرورت نہیں ہے …
جیسے ایک سنت زندہ کرنے پر سو شہیدوں کا اجر ملنے والی روایت سنا کر …
یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ بس سنتیں زندہ کرو …
جہاد کی حاجت اور ضرورت نہیں ہے…
جہاد میں تو صرف ایک شہادت ملتی ہے …
جبکہ سنت زندہ کرنے پر سو شہادتیں …
اسی طرح کوئی ’’محقق‘‘ کہے کہ فلاں عمل کرنے سے تو کئی سال کی نماز کا اجر ملتا ہے…
پھر روزآنہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے؟ …
نعوذ ب اللہ ، استغفر اللہ …
معلوم نہیں لوگوں
کو کیا ہوگیاہے؟ … حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دن رات سنتوں کو زندہ کررہے تھے …
پھر بھی شہادت کے لئے تڑپتے اور روتے تھے …
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کتنی سنتیں زندہ کیں؟ کتنی سنتوں کو
قیامت تک کے لئے مضبوط فرمایا؟ …
مگر دعا کیا ہے؟ یا اللہ شہادت نصیب فرما اور مدینہ منورہ میں نصیب فرما …
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق اور نظریہ دیکھیں کہ حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ کی اس دعاء پر حضرت ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ
عنہانے سوال اُٹھایا … شہادت بھی
اور مدینہ میں یہ کیسے ممکن ہے؟…
دیکھیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر مبارک اور آپ
کے صحابہ کرام کے نزدیک جہاد اور شہادت کا معنیٰ کتنا واضح تھا؟ …
سوال کا مطلب یہ تھا کہ شہادت تو محاذ جنگ پر ملتی ہے اور اب محاذ جنگ مدینہ منورہ
سے بہت دور منتقل ہوگئے ہیں …
اور کافروں میں سے کسی کی ہمت نہیں بچی کہ مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تو پھر …
آپ کو مدینہ منورہ میں کیسے شہادت مل سکتی ہے؟ …
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے کاموں پر غالب ہے …
وہ ان دونوں کو جمع فرما سکتا ہے…
آپ کا جواب درست نکلا اور مدینہ منورہ میں شہادت کا انتظام ہوگیا …
شہادت کوئی معمولی چیز ہوتی تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے
مانگتے؟ … آپ نے تو شہادت
کی خاطر یہاں تک انتظام کررکھا تھا کہ …
اپنی ذات اور مدینہ منورہ کو مجاہدین کی چھائونی قرار دے دیا تھا…
اور اس کی شرعی حیثیت کا اعلان تمام اسلامی لشکروں میں ہوچکا تھا کہ …
تم میں سے جو پلٹ کر آنا چاہے تو میں اس کی چھائونی ہوں …
یہ دراصل ایک شرعی مسئلہ ہے جو سورۃ انفال میں تاکید سے بیان ہوا ہے …
کبھی موقع ہوا تو انشاء اللہ تفصیل سے عرض کردیا جائے گا…
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین…
اور اہل شوریٰ نے محاذ پر جانے سے روک رکھا تھا …
ایک بار آپ اسلامی لشکر کے ساتھ نکل گئے تو مدینہ منورہ کے بڑے صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین آپ کو واپس لے آئے …
امیر مومنین کو مجاہدین کے جہاد کا پورا اجر و ثواب ملتا ہے…
مگر اس کے بعد جہاد میں مزید شمولیت کے لئے آپ نے اعلان فرما دیا کہ …
انا فئتکم
اب ایک شخص
مجاہدین کی پہلی چھائونی میں ہو …
اور وہاں اسے ایک مشرک خنجر سے قتل کردے تو…
یہ محاذ ہی کی شہادت ہوئی …
کیونکہ محاذ جنگ پہلی چھائونی سے شروع ہوکر …
خطِ اوّل تک ہوتا ہے … کیا حضرت
عمررضی اللہ عنہ کو سنت زندہ کرنے والی روایت معلوم نہیں تھی؟ …
کیا حضرت عمر عنہ کو دو صحابیوں کا واقعہ معلوم نہیں تھا کہ …
بعد میں وفات پانے والے آگے نکل گئے …
یقیناً سب کچھ معلوم تھا …
مگر وہ جانتے تھے کہ … ان روایات
کا مقصد سنت اور اعمال کی فضیلت سمجھانا ہے نہ کہ …
جہاد اور شہادت کے رتبے کو کم کرنا …
چکوال کے ایک جلسے
میں ایک بزرگ نے بیان کے دوران سو شہیدوں کے اجر والی روایت پوچھی…
بندہ نے عرض کیا … جناب! اگر
آج اعلان ہو جائے کہ جو شخص فلاں کام کرے گا اسے سو وزرائِ اعظم کی تنخواہ دی جائے
گی … ایک وزیراعظم کی
تنخواہ ایک لاکھ ہے تو …
اس آدمی کو فلاں کام پر سو لاکھ یعنی ایک کروڑ دیا جائے گا…
اس آدمی نے وہ کام کرلیا اسے ایک کروڑ بھی مل گئے …
لیکن کیا اس کو وزیراعظم والا مقام، رتبہ اور اختیارات بھی حاصل ہوں گے؟…
جواب صاف ہے کہ بالکل نہیں…
عرض کیا! … حدیث پاک میں اجر
کا لفظ آیا ہے … یعنی سو شہیدوں
کا اجر … جو یقیناً اس کو
ملے گا… مگر شہید کا رتبہ
اور مقام الگ چیز ہے جو بہت ہی اونچی ہے …
آپ یقین کریں … شہید کے فضائل
پڑھ کر انسان کے دل پر وجد طاری ہو جاتا ہے …
اور بعض اوقات تو دل کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے …
مثلاً ترمذی کی روایت ! …
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا …
اللہ تعالیٰ جس سے بھی بات فرماتے ہیں پردے میں
فرماتے ہیں… مگر تمہارے والد
سے بالکل سامنے بات فرمائی …
اللہ،اللہ،اللہ …سوچیں تو
دل کی دھڑکن تیز ہو جائے …
اللہ جلّ جلالہ وعزّشانہ کا بغیر پردے کے
آمنے سامنے کلام فرمانا …
حضرت عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہ…
احد کے دن شہید ہوئے تھے …
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث مبارک ان کی شہادت کے
بارے ہی میں ارشاد فرمائی ہے…
اب ان لوگوں کا کیا بنے گا جو صبح شام ، رات دن…
جہاد اور شہادت کے مقام کو گرانے کے لئے…
دو چار روایات یاد کئے پھرتے ہیں …
کیا ان کو اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں آتا؟ …
یا اللہ ! امت مسلمہ پر رحم فرما …
آج عذاب قبر، حسن خاتمہ …
اور جہنم سے نجات کے موضوع پر لکھناتھا مگر …
قلم کا رخ کہیں اور ہوگیا …
بس آخری بات آج کی مجلس میں …
اپنے اور آپ سب کے لئے عرض کرتا ہوں کہ …
ہمارے مسائل بے شمار ہیں …
ایمان کامل کیسے نصیب ہو؟…
ایمان پر استقامت کیسے ملے؟…گناہوں
سے کیسے جان چھوٹے؟… توبہ کیسے
پکی ہو اور قبول ہو… موت کی
سختی سے کیسے حفاظت ہو…
عذاب قبر سے کیسے نجات ملے …
آگے پل صراط … حساب کتاب،
میزان، نامہ اعمال … اور پھر
جہنم سے کیسے نجات ملے؟…
ہمیں ان تمام مسائل کے لئے بہت دعاء مانگنی چاہئے…
بہت محنت کرنی چاہئے … خصوصاً
رمضان المبارک کے آخری ایام اور اوقات میں خاص دعائوں کا اہتمام رہے …
مگر… ایک چیز ایسی ہے
جو اگر ہمیں مل جائے تو انشاء اللہ یہ تمام بڑے بڑے مسائل …
جی ہاں! پہاڑوں سے بھی بڑے مسائل خود حل ہو جائیں گے…
وہ چیز ہے’’شہادت‘‘ … شہادت اگر
نصیب ہو جائے تو پھر کوئی بھی مسئلہ مشکل نہیں …
سب جگہ راحت ہی راحت اور اکرام ہی اکرام ہے…
آپ سے گزارش ہے قرآن و سنت میں شہادت کو پڑھیں، شہادت کو سمجھیں …
فضائل جہاد فتح الجواد اور جمال جمیل نامی کتابوں میں آپ کو مستند مواد مل سکتا ہے
… جب شہادت سمجھ
آجائے تو پھر سچے دل سے اس کا سوال کریں …
انشاء اللہ بہت سی فوری اور اگلی تمام منزلوں میں آسانی اور
رحمت ہو جائے گی…
لاالہ الا اللہ ،لاالہ الا اللہ ،لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
و بارک وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (362 )
مہر و برکت
بزرگوں اور بوڑھے
حضرات کے لئے ایک انمول تحفہ…
عصر حاصر میں دین
سے دوری کی وجہ سے اولاد اور نوجوان طبقہ والدین او بوڑسے بزرگوں کے حقوق سے نہ
صرف غافل ہے بلکہ الٹے رخ پر چل نکلا ہے…
مسلمان اپنے
بوڑھوں اور بزرگوں کی قدردانی کیسے کریں…
اور اس کے لئے کیا ترتیب اپنائیں؟
اس موضوع پر ضروری
اور اہم ہدایات اور ایک ادارہ بنام ’’جامعۃ الصابر للشیوخ‘‘ کے قیام کی تجویز اور
اللہ تعالیٰ سے توفیق کی دعاء…
تاریخ اشاعت
۲۲رمضان؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۰؍اگست؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۲)
مہر و برکت
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو دین اسلام پر’’شرح
صدر‘‘ نصیب فرمائے… ارشاد
فرمایا:
اللہ تعالیٰ جس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں
وہ اپنے رب کے نور کو پالیتا ہے…
نور، روشنی، سکون…
اطمینان اور توفیق… یعنی سب
کچھ ٹھیک ٹھیک نظر آتا ہے…
کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟…
کیا حق ہے اور کیا باطل؟…کیا
اچھا ہے اور کیا بُرا… نور اور
روشنی ہوتی ہے تو راستہ روشن رہتا ہے اور منزل صاف…
مجھے اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے’’شرح صدر‘‘ کی دعاء مانگتے رہنا چاہئے…
آج کچھ ضروری باتیں ہیں،توجہ اور غور سے پڑھنے سے انشاء اللہ فائدہ ہوگا…
٭ دین کامل کی
دعوت… پورے دین کی دعوت
اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے ، جو الحمدﷲ جماعت کو
محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصیب ہوئی ہے…
ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دعوت امت مسلمہ کے ہر طبقے تک پہنچے…
امت مسلمہ کا ایک اہم طبقہ’’بزرگ اکابر‘‘ ہیں…
یعنی بوڑھے مسلمان مرد اور عورتیں…
یہ امت کا وہ طبقہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے’’برکت‘‘ کو لازم فرما دیا ہے…
اسلام میں ایک مومن کے لیے بڑھاپا مہر و برکت کا تحفہ ہے…
جہاں بوڑھے مسلمان ہوںگے وہاں برکت اور ترقی ضرور ہو گی…
٭ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہرمسلمان’’فطرت‘‘ کے مطابق
چلے… اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم کو قبول کرے…
اللہ تعالیٰ نے کسی کو بڑا بنایا کسی کو چھوٹا…
کسی کو مالدار بنایا کسی کو غریب…
کسی کو عقلمند بنایا کسی کو سادہ…
کسی کو منصب اور اختیار دیا اور کسی کو بے اختیار رکھا…
حکم یہ ہے کہ حسد نہ کیا جائے بلکہ جس کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا وہ قبول کیا جائے…
فطرت کے مطابق گھر میں ماں اور باپ بڑے ہیں…
اور اولاد چھوٹی… مگر جدید
تعلیم اور جدید معاشرے کی ڈسی ہوئی اولاد اس فطری نظام کو بدلتی ہے…
آج گھروںمیں اولا دبڑی ہے اور ماں باپ چھوٹے…
یہ ظلم ہے، بدفطرتی ہے…
اور ایسا عمل ہے جس نے گھروںسے برکت اور سکون کو چھین لیا ہے…
ہر مسلمان اپنے گھر پر غور کرے اور اس خلاف فطرت عمل کو روکے…
٭ اولاد ماں باپ
کی نافرمانی کرتی ہے… یہ عذاب
اور لعنت والا عمل ہے… عذاب اور
لعنت بھی معمولی نہیں… بلکہ
جبرئیل امین ح کی بددعاء اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین
والی…ایسا عذاب کہ جس
کو نہ رمضان المبارک توڑ سکتا ہے اور نہ لیلۃ القدر…
ایسی لعنت کہ عید کے دن جب رحمت ہی رحمت ہو یہ لعنت اُس اولاد پر برستی رہتی ہے جو
اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرتی ہے…
سب بخشے جاتے ہیں اور وہ رہ جاتے ہیں…
٭ ماں باپ کی
نافرمانی… قرآن پاک کی
نافرمانی ہے… اور قرآن پاک کے
نافرمان کبھی کامیاب نہیں ہوتے…
مسلمانوں کی اجتماعی ہلاکت میں اس گناہ کا بہت دخل ہے…
لیکن تھوڑا سا غور کریں…
ہم اولاد کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ وہ ’’والدین‘‘ کی نافرمانی کا جرم اورکبیرہ گناہ
نہ کرے… لیکن کوئی ماں
باپ کو بھی سمجھانے والا ہے کہ اس جرم اور گناہ میں ساٹھ سے ستر فیصد خود ان کا
قصور ہے… اول تو اولاد کی
بنیاد ڈالتے وقت بسم اللہ اور مسنون دعاؤں کا اہتما م نہیں…
چنانچہ ابتداء سے ہی شیطانی حصہ شامل ہوجاتا ہے…
پھر اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتما م نہیں…
سیدھا ان کو بددینی میں جھونک دیتے ہیں…
اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر کھلی چھوٹ دیتے ہیں اور
اپنی نافرمانی پر جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دیتے ہیں…
اپنے گھر میں ٹی وی، نیٹ اور دیگر شیطانی آلات کی روک تھام نہیں کرتے…
اولاد کو’’حبّ دنیا‘‘ میں پھنساتے ہیں اور’’حبّ دنیا‘‘ کا لازمی نتیجہ’’خود غرضی
‘‘ہوتا ہے ، یہی خود غرضی اُن کووالدین کے خلاف کھڑا کرتی ہے…
اپنی اولاد کو موت کے ڈر سے کئی اہم فرائض سے روکتے ہیں…
اب ایسی اولاد کس طرح سے والدین کی فرمانبردار ہو سکتی ہے؟…
لیکن اگر ایک آدمی ان تمام امور کا خیال رکھے…
بنیاد ڈالتے وقت اللہ تعالیٰ کانام بھی لے…
اولاد کو قرآن پاک اور دین کی تعلیم بھی دے…
اولاد کو شیطانی آلات بھی مہیانہ کرے…
مگر پھر بھی اولاد نافرمان ہو جائے تو اب کیا کرے؟…
جواب یہ ہے کہ اب ناراض ہونے، بددعائیں دینے…
اپنے ادب و احترام پر لیکچر دینے کی بجائے…
اپنی خواہشات کو محدود کر لے…
عبادت میں زیادہ وقت لگائے…
دعاء کو وسیلہ بنائے اور اللہ تعالیٰ کے درپر جا پڑے…
انشاء اللہ یا تو مسئلہ حل ہو جائے گا…
یا کم از کم ’’عذاب‘‘ عام نہیں ہو گا…
کیا امت مسلمہ کے
بزرگوں کو یہ بات سمجھانے اور سکھانے کا کوئی انتظام ہے؟
٭ غزوہ
بدر میں نوجوان مجاہد بھی تھے…
اور بزرگ بوڑھے مجاہد بھی…
مال غنیمت آیا تو دونوں طبقوں میں ایک خوشگوار بحث ہوئی…
آپ سورۂ انفال کا شان نزول پڑھ لیجئے…
نماز میں امامت کا معاملہ آیا تو ایک ترجیح ’’عمر‘‘ کی رکھی گئی کہ بڑی عمر والا
امامت کا زیادہ مستحق ہے…
اسلامی اخلاق کی ترتیب بنی تو مسلمان ہونے کی اخلاقی نشانی میں سب سے پہلا درجہ
بزرگوں کے اکرام کا آیا…
جو بزرگوں کا اکرام نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، علماء کی عزت نہ کرے وہ ہم میں
سے نہیں… سفر میں قافلے کا
امیرکون ہو؟… مجلس میںجماعت کا
ترجمان کون ہو؟… ہمارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہر جگہ بوڑھوں کو جوانوں پر ترجیح عطاء فرمائی…
ان تمام احکامات کو پڑھ کر…
ایک سچے مسلمان کے دل میں…
بوڑھوں، بزرگوں، سفید داڑھی والوں کی ایک عجیب سی عزت، تعظیم اور تکریم دل میں
بیٹھ جاتی ہے… اور ان کے جو
بڑھاپے کے عیوب، مزاج اور بیماریاں ہوتی ہیں ان کی طرف توجہ بھی نہیں جاتی…
یہ اسلام کا حُسن ہے… یہ فطرت
کی اتباع ہے… اور یہی عمل کسی
معاشرے کوقوت عطاء کرتا ہے…
٭ اسلام نے بزرگوں
کے لئے کئی الگ احکامات بھی جاری فرمائے ہیں…
ہر بزرگ مسلمان کو وہ معلوم ہونے چاہئیں…
بزرگوں کے لئے الگ سے مفید دعائیں بھی ارشاد فرمائیں یہ بزرگوں کو یاد ہونی چاہئیں…
بڑھاپے میں کئی طرح کے عذر آجاتے ہیں…
اکثر بزرگوں کو مسائل معلوم نہیں ہوتے…
ان میں سے بعض خوامخواہ کی مشقت اٹھاتے رہتے ہیں…
ایک ایک نماز کے لئے کئی کئی وضو…
اوربعض تھک ہار کر عبادت چھوڑ دیتے ہیں کہ جی! پاکی نہیں رہتی…
حالانکہ احکامات معلوم ہوں تو ان کے لئے کتنی آسانی ہو جائے…ہمارے
ہاں بچوں کے لئے مدارس ہیں…
نوجوانوں کے لئے مدارس ہیں…
مگر بزرگوں کا کوئی مدرسہ نہیں جہاں چھ، نو ماہ میں اُن کواسلام کے تمام ضروری
احکامات سکھا دیئے جائیں…
اور ان میں عبادت، تقوے اور جہاد کا ذوق پید اکیا جائے…
٭ ہمارے معاشرے
میں… بدقسمتی سے
’’بزرگوں‘‘ کی قدروقیمت کم ہوتی جارہی ہے…
نعوذب اللہ … برکت کے ان
خزینوں کو لوگوں نے بوجھ سمجھ لیا ہے…
گھروں میں ان کے رہنے کا بااکرام انتظام نہیں ہوتا…
جوان اولاد کمرے بانٹ لیتی ہے…
اور ما ں جیسی مقدس ہستی اور باپ جیسا برکت کا منبع برآمدوں میں آہیں بھرتے رہتے
ہیں… اس ناقدری نے
بزرگوں کو بھی چڑ چڑا بنادیا…
ان میں بھی کئی طرح کی اخلاقی کمزوریاں پیدا ہو گئیں ہیں…
ناقدری ایک ایسی آزمائش ہے جو اچھے بھلے انسان کو ہر خوبی سے محروم کر سکتی ہے…ہونا
یہ چاہئے تھا کہ بزرگوں کے تجربات، ان کی پختہ عقل…
اور ان کی برکت سے مسلمان فائدہ اٹھاتے مگر ایسا نہ ہوا…
بلکہ اُن کو بوجھ قرار دے کر…اُن
پر گھر کے ادنیٰ اور حقیر کاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے…
جس کی وجہ سے اُن کا تجربہ، عقل اور برکت…
سب کچھ ناشکری کی دھول میں دفن ہوجاتا ہے…
کوئی ہے جو مسلمانوں کے اس قابل رحم طبقے کے بارے میں کچھ سوچے؟…
ظالم کافروں نے تو ’’اولڈ ہاؤسسز‘‘ بنا ڈالے…
مسلمانوں میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ…
چند دن کے لئے ہی سہی ان بزرگوں کو کسی بااکرام ماحول میں لا کر ان کی گردجھاڑے…
ان کو اُن کے مقام پر کھڑا کرے…
ان کو عبادت اور دعاؤں کے ہتھیاروں سے لیس کرے…
ان کو وقار اور تقویٰ کے ایسے گُر سکھائے کہ…
وہ بڑھاپے میں نوٹ گن گن کر چھپانے کی بجائے…
دین کے کام… اور دین کی دعوت…
اور طاقت ہوتو جہاد پر نکل کھڑے ہوں…
٭ کسی بھی کام کا
نتیجہ اس دنیا میں سو فیصد نہیں نکلتا…
کوئی بھی کام بغیر کسی الجھن اور پریشانی کے نہیں ہوتا…
کسی بھی کام میں… خواہ نیت
کتنی اچھی کیوں نہ ہو… کچھ نہ
کچھ کمزوریاں رہ جاتی ہیں…
اور کچھ نقصانات بھی سامنے آتے ہیں…
مگر ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر کام ہی نہ کرنا یہ محرومی والی بات ہے…
بزرگوں کی تعلیم و تربیت کے کام میں بھی الجھن، پریشانی آسکتی ہے…
مگر یہ کام مسلمان کے لئے بے حد ضروری ہے…
٭ مسجد
سے ملحق ایک مدرسہ… نام جامعۃ
الصابر للشیوخ…
دو نصاب…
ایک چھ ماہ کا اور ایک نو ماہ کا…
نصاب میں کچھ تفسیر، کچھ عقائد، کچھ حدیث…
اور کچھ فقہ… اور باقی فضائل…
معمولات یومیہ کا جاندار نصاب اور نظام…
کھانے، پینے علاج، معالجہ کی مکمل سہولت…
یکم محرم سے تعلیم شروع ہو اور رمضان کے آخری عشرے کا مرکزمیں اعتکاف…
آخری سبق ہو… پھر جو تشریف لے
جانا چاہیں… علم، عمل یقین کی
دولت ساتھ لیکر گھروں کو جائیں…
اور جو کام میں جڑنا چاہیں تو کام میں لگ جائیں…
بس یہ ہے ابتدائی خاکہ اور سالہا سال سے دل میں رچا بسا ایک خواب…
ایک سو سفید داڑھی والے مسلمان بزرگ جن کی داڑھی کلمے کے ساتھ سفید ہوئی…
جب کسی جگہ جمع ہو کر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائیں…
سبحان اللہ !…
یہ منظر دیکھنے کی دل میں تمنا ہے…
یہ ادارہ کھولنے کا ارادہ توکر لیا ہے…
انشاء اللہ …
اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا…
اور حضرت امی جی حفظہا اللہ تعالیٰ کی دعائیں مل گئیں تو یہ
کام بھی انشاء اللہ …
پورا ہو جائے گا… اور بہت
امید ہے کہ دیگر دینی جماعتیں بھی اس کے بعد ایسے ادارے ضرور کھولیں گی…
اور اگرمیری اور میرے ساتھیوں کی قسمت میں یہ کام نہ ہوا تب بھی…
الحمدﷲ… اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں…
ایک اچھی سوچ تھی جو آج آگے بڑھا دی ہے…
اچھی سوچ وہ ہوتی ہے جس میں اپنی ذات کا کوئی دنیوی فائدہ مطلوب نہ ہو…
صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور امت مسلمہ کی خدمت اور مفاد
مقصود ہو… اچھی سوچ کی مثال
آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح ہوتی ہے…
یہ بارش تین طرح کی زمینوں پر اترتی ہے…
ایک وہ زرخیز اور باصلاحیت زمین جو بارش کو جذب کر کے…
کھیتیاں، پھول،پودے اگا دیتی ہے…
دوسری وہ چٹیل زمین جو کچھ اگا تو نہیں سکتی پانی کو آگے چلا دیتی ہے…
اور کہیں نہ کہیں یہ پانی پھل، پھول اگا دیتا ہے…
اور تیسری وہ زمین جس پر پانی پڑ کر ضائع ہوجاتا ہے…
کچھ گندے پودے اور کانٹے دار جھاڑیاں اگتی ہیں…
انشاء اللہ ارادہ ہے کہ…
اس اچھی سوچ پر خود عمل کریں…
کراچی، ڈسکہ، پنڈی یا بہاولپور میں یہ ادارہ قائم ہو جائے…
اہل علم کی نگرانی میں نصاب مرتب ہوجائے…
کیا بعید کہ کئی باہمت بزرگ…
اس نصاب کے بعد باقاعدہ مکمل عالم بننے کے لئے داخلے لے لیں…
بندہ نے طالب علمی کے زمانے میں ایک بزرگ ریٹائرڈ میجر صاحب کو کئی کتابیں پڑھائیں…
ان کی عمرپینسٹھ(۶۵) سال
سے اوپر تھی… ماشا ء اللہ صالح اور عبادت گزار تھے…
مسجد میں آجاتے ہمارے ساتھ سبق میں شریک ہوتے …
اور سبق کے بعد بندہ سے باقاعدہ کتابیں پڑھتے…
’’اصول الشاشی‘‘ تو ان کو خو ب اچھی طرح سمجھا کر پڑھائی تھی…
کچھ وقت بچتا تو فوج کے قصے بھی سناتے…
اگر ہم خود یہ کام نہ کر سکے…
ہماری بے بسی اور بے کسی کو اللہ رب العالمین جانتے ہیں تو…
ہم نے چٹیل زمین کی طرح پانی آگے چلا دیا ہے…
بعض دینی مدارس میں بزرگوں کا شعبہ قائم ہے مگر وہ صرف غیر ملکی بزرگوں کو…
فیس پر رکھتے ہیں… جبکہ
ہمارا مقصد… بزرگوں کو دین کی
تعلیم دینا… دینی ماحول دینا…
اور ان کی خدمت اور اکرام کرنا ہے…
اس طرز پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا…
تو انشاء اللہ کسی نہ کسی کو توفیق مل ہی جائے گی…
الحمدﷲ ماضی میں بھی… کئی ایسے
کاموں کا اعلان ہوا جن پر بہت دور کے مسلمانوں نے عمل کر دکھایا…
جماعت کے اصل کام کو مضبوط، منظم، اور مستقل بنیادیں فراہم کرنے کے لئے…
کئی ترتیبات کی ضرورت ہے…
اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا اور مدد فرمانے والا
ہے…
و اللہ المستعان و علیہ التکلان
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (363)
استغفار
استغفار کا موضوع
جس قدرجس قدر اہم اور ضروری ہے، اسی قدر وسیع اور مفصل بھی ہے…
مگر ان سب کا خلاصہ یہ چند نکات ہیں؟
استغفار کسے کہتے
ہیں؟… سچی توبہ کی
شرائط کیا ہیں؟
استغفار پر ملنے
والے انعامات… استغفار اور
تسبیح میں کس کو ترجیح دیں…؟
استغفار رزق کی
تنگی کو دور کرتا ہے… اور دیگر
ڈھیروں فوائد کا تذکرہ…
ایک غلط سوچ کا
ازالہ…دوسروں کے لئے
استغفار کی وضاحت…
توبہ کے قبول ہونے
کی علامت…
رنگ و نور کے
مختلف مضامین سے انتخاب شدہ…
قیمتی نکات…
ہر مسلمان کی
ضرورت…
تاریخ اشاعت
۶شوال؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۴؍اگست؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۳)
استغفار
بعض ناگزیر وجوہات
کی بناء پر تازہ رنگ و نور اس بار شائع نہیں ہورہا۔ افادۂ قارئین کے لیے سابقہ
مضامین کے شذرات پر مشتمل یہ تحفہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
استغفار کسے کہتے
ہیں؟
اللہ تعالیٰ میری اورآپ سب کی ’’مغفرت‘‘ فرمائے…
{اَسْتَغْفِرُ
اللہ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا
ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ}
مغفرت بہت عظیم
الشان نعمت ہے… اندازہ لگائیں کہ
جب قرآن مجید میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے’’مغفرت‘‘ کا
اعلان کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے…
یقیناً وہی مؤمن کامیاب ہے جس کی ’’مغفرت‘‘ ہو جائے…
اسی مغفرت اور معافی کو اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے تو اسے ’’استغفار‘‘ کہتے
ہیں… اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنے عذاب سے بچاناچاہتے ہیں
اُسے’’ استغفار‘‘ کی توفیق اور موقع اور سمجھ عطاء فرما دیتے ہیں…
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ قرآن پاک میںموجود ہے…انسان
کی دعاء اور عرش کے درمیان گناہوں کی وجہ سے جو رکاوٹیں اور پردے آجاتے ہیں…
استغفار اُن سب پردوں اور رکاوٹوں کو دور کر دیتا ہے…(کنجی…
رنگ و نور 323)
سچی توبہ کی شرائط
سچی توبہ کے لئے
کچھ شرطیں ہیں… صرف زبان سے توبہ
توبہ کہنا کافی نہیں ہے…
ان چند چیزوں کا لحاظ رکھ کر توبہ کریں تو وہ توبہ انشاء اللہ قبول ہوتی ہے…
(۱) اخلاص…
یعنی توبہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائے…
بہت سے لوگ صرف اس لئے توبہ کرتے ہیں کہ…
دنیا میں اُن پر کوئی مصیبت نہ آجائے…
(۲) ندامت…
یعنی اپنے گناہ پر نادم اور شرمندہ ہونا…
(۳) اقلاع…
یعنی اُس گناہ کو چھوڑ دینا…
(۴) عزم…
یعنی آئندہ گناہ نہ کرنے کی مضبوط نیت رکھنا…
(۵) وقت…
یعنی موت کی سکرات شروع ہونے سے پہلے پہلے تو بہ کر لینا…
ہم سب کو چاہئے کہ…
ان پانچ باتوں کا لحاظ رکھ کر اپنے تمام گناہوں سے آج ہی توبہ کر لیں…(دروازہ
سب کے لیے کھلا ہے…رنگ و نور
252)
استغفار پر
انعامات
’’استغفار‘‘ پر بے
شمار نعمتوں کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے…
اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں فرماتے…
غور سے دیکھئے قرآن پاک سورہ ھود آیت(۳) میں ارشاد باری تعالیٰ:
ترجمہ: اور(
اللہ تعالیٰ کا حکم) یہ(ہے) کہ تم اپنے ربّ سے
استغفار کرو(یعنی مغفرت اور معافی مانگو) پھر اسی کی طرف رجوع کرو وہ تم کو ایک
وقتِ مقرر(یعنی موت) تک(دنیا میں) خوش عیشی دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو
زیادہ ثواب دے گا (ھود،۳)
یعنی اصل اجر اور
نعمتیں تو آخرت کی ہیں…
مگردنیا میں بھی سکون، چین اور راحت اور طرح طرح کی نعمتیں عطاء فرمانے کا وعدہ ہے…
دوسری جگہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: میں نے
کہاکہ اپنے ربّ سے ’’استغفار‘‘ کرو (یعنی معافی مانگو) وہ بڑا معاف کرنے والا ہے،
وہ تم پر آسمان سے (موسلا دھار) بارش برسائے گا اور مال اوربیٹوں سے تمہاری مدد
کرے گا اور تمہیں باغات عطاء فرمائے گا اورتمہارے لئے نہریں جاری فرمائے گا(نوح،۱۰ تا ۱۲)
آپ صرف ان دو
آیات میں غور کریں تو معلوم ہو گاکہ…
استغفار ہر نعمت اور آسانی کی چابی ہے…
(کنجی… رنگ و نور 323)
استغفار کریں یا
تسبیح؟
علامہ ابن تیمیہ
سسے کسی نے پوچھا کہ ہم تسبیح زیادہ کریںیا استغفار…
فرمایا اگر کپڑے پاک صاف ہوں تو خوشبو اچھی ہوتی ہے…
اور اگر میلے کچیلے اور گندے ہوں توصابن اچھا ہوتا ہے…
اور ہم لوگ تو اکثر میلے کچیلے ہی رہتے ہیں…
یعنی تسبیح خوشبو کی طرح ہے…
اور استغفار صابن کی طرح…
دراصل استغفار… پاکی اور طہارت
کی وہ موسلا دھار بارش ہے…
جو انسان کو اندر باہر سے پاک کر دیتی ہے…
سب سے بڑی پاکی تو یہ ہے کہ نامہ اعمال پاک ہو جاتا ہے… (کنجی…رنگ
و نور ۳۲۳)
استغفار اور کشادہ
رزق
یہ ہے وہ وظیفہ جس
کی تائید قرآن پاک کی کئی آیات اور کئی احادیث سے ہوتی ہے…
اُن سب آیات اور احادیث کو لکھوں تو مستقل ایک بڑے مضمون کی صورت بن جائے…
اس لئے آج صر ف ایک حدیث پاک پر اکتفا کرتے ہیں…
ابو داؤد، ابن
ماجہ اور مسند احمد کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
{قال رسول اللہ امَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہ لَہٗ مِنْ کُلِّ ضَیْقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ کُلِّ
ھَمٍّ فَرَجًا وَرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ}
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو استغفار کو لازم پکڑلے تو اللہ تعالیٰ اُسے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے کا راستہ
عطاء فرمائے گا اور اُسے ہر پریشانی سے نجات عطاء فرمائے گا اور اُسے ایسے راستوں
سے رزق دے گا کہ جن کا اسے گمان بھی نہیں ہو گا…(مسند
احمد)
اس حدیث شریف میں
تین انعامات کا تذکرہ ہے…
جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے طریقے سے رزق ملے گا جو اس کے وہم وگمان میں بھی
نہیں ہوگا… (چند راتیں: رنگ
و نور ۳۰۳)
کثرتِ استغفار کے
فوائد
ایک بات اچھی طرح
دل اور دماغ میں بٹھا لیں کہ…
توبہ،استغفار بہت ہی بڑی اور عظیم نعمت ہے…
مگرافسوس کہ… ہم اس نعمت سے
غافل… اوراس کے ثمرات
سے محروم ہیں… یقین کریں کہ…
اگرمجاہدین میں کثرت سے توبہ، استغفار آجائے تو تمام محاذوں پر اُن کی طاقت بے
پناہ بڑھ جائے… اور دشمنوں
کوبھاگنے کا راستہ نہ ملے…
یقین کریں کہ… اگرعلماء کرام
میں کثرت سے توبہ ، استغفار کا عمل جاری ہو جائے تو اُن کے علوم میں بے پناہ برکت
ہو جائے… اور اُن کے قلم
اور زبانوں پر وہ نصرت نازل ہو جو اسلاف پر نازل ہوئی…
اللہ تعالیٰ تو وہی ہے…
جو پہلے تھا… وہ اول بھی ہے
اور آخر بھی… ظاہر بھی ہے اور
باطن بھی… اسلاف کا ’’ اللہ ‘‘ بھی وہی…
اور اب موجودہ لوگوں کا ’’ اللہ ‘‘ بھی وہی…
آپ یقین
کریں کہ… اگر امت مسلمہ کی
عورتوں میں استغفار اور توبہ کی کثرت ہو جائے تو زمین پراسلام کے غلبے کا راستہ
ہموارہو جائے… عورتیں جب صدقہ
اور استغفار کی کثرت کرتی ہیں تو وہ جہنم کے راستے اور کاموں سے ہٹ کر جنت کی
راہوں اور کاموں پر آجاتی ہیں…
تب وہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’انصار‘‘ بناتی ہیں…
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم فرمایا کہ…
صدقہ اور استغفار کی کثرت کریں…
آپ یقین کریں کہ…
اگر مصیبت زدہ، بیمار، پریشان حال، مقروض اور بدحال مسلمانوں میں…
کثرت سے توبہ، استغفار آجائے تو ان کی حالت تیزی سے درست ہو جائے…
اور وہ ایسی تبدیلی دیکھیں کہ اپنی آنکھیں بھی اعتبار نہ کریں…
آپ یقین کریں کہ… ان باتوں
میں کوئی مبالغہ یا لفاظی نہیں…
بلکہ قرآن پاک کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ…
اس سے بڑھ کر توبہ، استغفار کے فوائد ، خواص…
اور اثرات بیان فرماتی ہیں…
اس لیے جو کچھ عرض
کیا گیا وہ مبالغہ تو کیا…
محض ناقص ترجمانی ہے…
آپ صرف چالیس دن…
پوری توجہ، اخلاص اور کثرت کے ساتھ توبہ، استغفار کا روزآنہ ہزاروں بار اہتمام
کریں… تب آپ سسکیاں
بھریں گے کہ… ماضی میں اس نعمت
کی محرومی سے ہم نے معلوم نہیں کیا کچھ کھو دیا…(مقام
فراموش …رنگ و نور شمارہ۳۵۳)
استغفار کے بارے
میں ایک غلط سوچ
غورکریں بھائیو!
اس میں اور اُس بندے میں بہت فرق ہے جویہ سوچ کر گناہ کرتا ہے کہ…
اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے…
اس لئے میں گناہ کر لیتا ہوں وہ معاف فرما دے گا…یہ
غلط سوچ اور بُری حرکت ہے…
اور اپنے مالک سے کھلی بے وفائی ہے…
ارے اُن کے غفور رحیم ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احسان سے اتنا شرمندہ ہوکہ…
اُسے گناہوں کے خیال سے بھی نفرت ہو جائے…
مگر جس بندے کاحدیث پاک میں تذکرہ ہے…
وہ گناہ نہیں کرتا مگر اس سے گناہ ہو جاتا ہے…
وہ خود کو گناہوں کا حقدار نہیں سمجھتا بلکہ گناہوں سے بچنا چاہتا ہے…
وہ گناہوں پرجرأت نہیں کرتا مگرگناہ اس پر چڑھ دوڑتے ہیں…
تب وہ سچی توبہ کولازم پکڑ لیتا ہے…
اور’’توّاب‘‘ بن جاتاہے …
بار بار توبہ ، ندامت، رونا دھونا…
مگر مایوسی نہیں… بلکہ توبہ…
دل چھوڑنا نہیں… توبہ، توبہ،
اورتوبہ… تب وہ اُن اولیاء
کے برابر پہنچ جاتا ہے…جو
اکثر گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں…
اورپھر جب وہ ’’ محبت الہٰی‘‘ کے مقام پر جا بیٹھتا ہے تو بہت سے گناہوں سے بچ
جاتا ہے… (مقام فراموش،
رنگ و نور شمارہ۳۵۳)
دوسروں کے لیے
استغفار
اب سنیں! قرآن
پاک میں دوسروں کے لئے استغفار کی آیات دو طرح کی ہیں…
ایک وہ جن میں دوسروں کے لئے استغفار کی ترغیب ہے…
یعنی کوئی مسلمان… اپنے
علاوہ دوسروں کے لئے بھی…
اللہ تعالیٰ سے مغفرت، اور معافی مانگے…
اور دوسر ی وہ آیات جن میں بعض لوگوں کے لئے ’’استغفار‘‘ کرنے کی ممانعت آئی ہے…
یعنی زمین پر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لئے نہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے’’استغفار‘‘ کرتے ہیں…
اور نہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ُان کے لئے استغفار کریں…یہ
بد نصیب لوگ… مشرکین،کفار اور
منافقین ہیں…
ایک بات
مکمل ہو گئی کہ… ہم کسی مشرک ،
کافر اور عقیدے کے منافق کے لئے استغفار نہیں کر سکتے…
اب آتے ہیں دوسرے اور اصل موضوع کی طرف…
قرآن پاک میں دوسروں کے لئے استغفار کے جو احکامات ہیں ہم ان کو درج ذیل عنوانات
سے سمجھ سکتے ہیں…
(۱) فرشتوں
کا عمل کہ وہ زمین پر موجود ایمان والوں اورتوبہ کرنے والوں کے لئے استغفار کرتے
ہیں معلوم ہوا کہ دوسروں کے لئے استغفار کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب ہے کہ عرش اٹھانے والے
مقرب فرشتوں اور دیگر بے شمار ملائکہ کو اس عبادت میں لگا دیا ہے…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
(۲) کسی
مسلمان کا تمام مؤمنین اور مؤمنات کے لئے استغفار کرنا…
(۳) اپنے
والدین کے لئے استغفار کرنا…
(۴) والدین
کا اپنی اولاد کے لئے استغفار کرنا…
(۵) کسی
مسلمان کا اپنے بھائی…یا بھائیوں
کے لئے استغفار کرنا…
(۶) بڑوں
کا اپنے چھوٹوں کے لئے استغفار کرنا…
(۷) چھوٹوں
کا اور بعد میں آنے والوں کا…
اپنے بڑوں اور اپنے سابقین…
کے لئے استغفار کرنا…
(۸) توبہ
کے لئے آنے والی خواتین کے لئے استغفار کرنا…
(۹) جو
کسی واقعی سچے عذر کی وجہ سے کسی فضیلت یا سعادت سے محروم ہوئے ہوں…
اُن کے لئے استغفارکرنا…
(۱۰) جو
گناہ گارلو گ اللہ تعالیٰ سے توبہ اور معافی مانگتے ہوں اُن کے لئے
استغفار کرنا…
(مفید سبق …رنگ
و نور شمارہ۳۵۴)
قبولیت توبہ کی
علامات
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو توبہ کی توفیق دیتے ہیں…
اور پھر اُس کی توبہ قبول بھی فرما لیتے ہیں تو…
کچھ ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ…
اس بندے کی توبہ قبول ہو چکی ہے…
اور یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا مستحق بن چکا ہے…
اُن علامات میں سے
چند یہ ہیں…
(۱) اچھی
صحبت… توبہ قبول ہونے
کی بڑی علامت یہ ہے کہ…
انسان کو صدیقین، مجاہدین…
اور صالحین کی صحبت نصیب ہو جاتی ہے…
اور بُرے دوستوں سے جان چھوٹ جاتی ہے…
یاد رکھیں اچھی صُحبت ہزاروں نیک اعمال کو آسان بنا دیتی ہے…
(۲) نیکیوں
کی رغبت… توبہ قبول ہو
جائے تو دل نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے اور گناہوں سے اُسے وحشت ہو تی ہے…
(۳) حُبِّ
دنیا سے چھٹکارا… توبہ قبول
ہونے کے بعد انسان کا رُخ دنیا سے ہٹ کر آخرت کی طرف ہو جاتا ہے…
یعنی اُس کا اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی تیاری بن جاتا ہے…
دنیا اُس کے ہاتھ میں تو رہتی ہے مگر اُس کے دل میں اُتر کر اُس کا مقصود نہیں بن
جاتی کہ… بس اُسی کی خاطر
جیتا مرتا ہو…
اے مسلمانو! توبہ
کا دروازہ سب کے لئے کُھلا ہے…
اللہ تعالیٰ جو ہماراعظیم رب ہے خود ہم سب کو توبہ کے
لئے بُلا رہا ہے…
(دروازہ سب کے لیے
کھلا ہے…رنگ و نور 252)
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (364)
مقامِ سنام
القرآن
قرآن کریم ہدایت
کا سر چشمہ، نور کا منبع، علم کا آفتاب اور شفا کا لا زوال نسخہ ہے…
دنیا بھر کا کوئی
باطل اس کے سامنے ہرگز نہیں ٹھہر سکتا…
اس قرآن کی ایک
سورۃ ’’البقرۃ‘‘ ہے… جو اس
قرآن کی بلندی اور چوٹی ہے…
یہ سورۃ عقائد،
عبادات، معاملات، معاشرت او اخلاقی اصولوں کی جامع ترین سورت ہے…
اسلام کے پانچوں
فرائض: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد کے بارے میں اس سورت نے محکم اور اٹل احکام
سکھائے ہیں…
اس سورت کے اسرار
و رموز کو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے آٹھ سالوں میں سیکھا…
کیا آپ بھی ایک
نظر میں اس سورت کے فضائل، فوائد، احکامات اور اس کی برکات حاصل کرنے کے طریقے
حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
یقینا چاہیں گے!
تو اس مضمون کو پڑھیں شاید خزانہ آپ کو اور کہیں نہ ملے!
تاریخ اشاعت
۱۳شوال؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۳۱؍اگست؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۴)
مقامِ سنام
القرآن
اللہ تعالیٰ کی حمد اور بے شمار شکر کہ…
اُس نے ہم مسلمانوں کو قرآنِ مجید اور سورۃ بقرہ عطاء فرمائی ہے…
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
ایک آدمی کو مار
دیا گیا… قوم میں اختلاف
پڑگیا کہ کس نے قتل کیا ہے؟…
کئی فریق تھے ہر ایک دوسرے پر الزام تھونپ رہا تھا…
معاملہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور کلیم حضرت
موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا…
انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد چاہی…
حکم آیا کہ ایک’’بقرہ‘‘ لاؤ…
اُس’’بقرہ‘‘ کو ذبح کرو اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کو لگاؤ…’’بقرہ
‘‘عربی میں گائے کو کہتے ہیں…
بنی اسرائیل اطاعت کے کمزورتھے…
طرح طرح کے سؤالات کرنے لگے…
تب حکم ملا کہ ایسی’’بقرہ‘‘ ذبح کرو…
جو نہ بچھیا ہو اور نہ بڈھی…
رنگ تانبے کی طرح خوب چمکتا ہوا زرد…
جو دیکھے بس دیکھتا رہ جائے…
کسی کے استعمال میں نہ رہی ہو…
بڑی مشکل سے وہ گائے ملی…
بہت مہنگی… اُسے ذبح کیا گیا
اور جیسے ہی اُس کا گوشت مُردے کے جسم سے ٹکرایا…
مُردہ فوراً زندہ ہو گیا…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم…
قاتل کا نام اُس نے خود بتا دیا…
ایک بڑا مسئلہ حل ہو گیا…
ایک عظیم بحران جو قوم کو توڑ رہا تھا ختم ہو گیا…
اور یہ عقیدہ کہ… مرنے کے
بعد زندہ ہونا برحق ہے…
اور اللہ تعالیٰ کے لئے آسان ہے…
سب لوگوں پرو اضح ہو گیا…
یہی وہ عقیدہ ہے جو کسی بھی انسان کو نصیب ہو جائے تو اُس کے لئے ایمان کی ہر منزل…
اور دین کا ہر کام آسان ہو جاتا ہے…
تھوڑا سا سوچئے… ’’سورۃ البقرہ‘‘
میں جس’’بقرہ‘‘ کا تذکرہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ تأثیر رکھی تھی کہ…
کئی دن کا مرا ہوا انسان اُس کے چھونے سے زندہ ہو گیا…
اب آپ اندازہ لگالیں کہ…
خود’’سورۃ البقرہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے کتنی تأثیر رکھی ہو گی…
ایک انسان اگر اندرونی طور پر مر چکا ہو…
زیادہ گناہوں کی وجہ سے…
کسی کالے سفلی جادو کی وجہ سے…
شیطانی نحوست کی وجہ سے…
غموں اور فکروں کی کثرت کی وجہ سے…
ہاں بالکل اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہو…
بس مایوسی کے آخری گڑھے میں گرنے کو ہو…
وہ اگر’’سورۃ البقرہ‘‘ کو پکڑ لے تو آپ یقین کریں…
اُسے ایک نئی زندگی مل جاتی ہے…
بالکل تروتازہ زندگی… آپ نے
کبھی غور فرمایا!… برکت کسے
کہتے ہیں اور نحوست کسے؟…
ایک آدمی کوئی بھی کام کرتا ہے…
اُسے اس میں کامیابی نہیں ملتی…
جو بھی دعا کرتا ہے قبول نہیں ہوتی…
جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہے بعد میں پچھتاتا ہے…علم
پڑھتا ہے تو یاد نہیںہوتا…
یاد ہو جائے تو آگے نہیں چلتا دین کا کام کرتا ہے تو شرح صدر نہیں ہوتا…
جتنی محنت کرتا ہے نتیجہ کچھ نہیں نکلتا…
جو بیماری لگتی ہے وہ جانے کا نام نہیں لیتی…
ہر کام بیچ میں ادھورا چھوڑنا پڑتا ہے…
نہ دین کا نہ دنیا کا… معلوم ہوا
برکت سے محروم ہے… ہمارے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ البقرہ کے بارے میں ارشاد
فرماتے ہیں:
اِقْرَئُ وْا
سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَاِنَّ اَخْذَھَا بَرَکَۃٌ وَتَرْکَھَا حَسْرَۃٌ وَ لَا
تَسْتَطِیْعُھَا الْبَطَلَۃُ
ترجمہ: سورۃ بقرہ
پڑھا کرو کیونکہ اس سورۃ کو پکڑنا’’برکت ‘‘ ہے اور اُس کو چھوڑنا’’حسرت ‘‘ ہے اور
جادو گر لوگ اس سورۃ کی طاقت نہیں رکھتے…
یعنی نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں…
یہ روایت کسی چھوٹی کتاب کی نہیں…
صحیح مسلم شریف کی ہے… یقینا ،
بلاشبہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا…
سورۃ بقرہ کو پڑھنے والے، یاد کرنے والے، اس کو سمجھنے والے…
اور اس کو اپنانے والے…
’’برکت‘‘ کا راز اور خزانہ پالیتے ہیں…
اُن کا دین بھی بابرکت ہو جاتا ہے اور اُن کی دنیا بھی بابرکت…
اُن کے وقت میں بھی برکت ہو جاتی ہے اور اُن کے کام بھی برکت…
اُن کے اعمال میں بھی برکت آجاتی ہے اور اُن کے احوال میں بھی برکت…
اُن کے اقوال میں بھی برکت ہو جاتی ہے اوراُن کے افعال میں بھی برکت…
اوروہ افسوس اور حسرت سے بچ جاتے ہیں…
اور کوئی جادوگر اور شیطان’’سورۃ بقرہ‘‘ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا…
وہ جادو گر سامری ہو یا افریقی…
مشرک ہو یا عیسائی… صحرائی ہو
یا بنگالی… جادو کرنے والا
یہ جادو کسی مردہ کی کھوپڑی کے ذریعہ کرے…
یا کسی کو کچھ کھلا پلا کر…
یہ جادو آگ ،پانی ، مٹی اور ہوا کے ذریعہ سے ہو یا جنات کے ذریعہ سے…
اس جادو کو کسی اندھے کنویں میں دفن کیا گیا ہویا کسی مردہ انسان کے منہ میں تعویذ
بنا کر اُسے دفنا دیاگیا ہو…
یہ جادو ہلاکت کے لئے ہو یا تفریق کے لئے…
’’سورۃ البقرہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر جادوگر کے ہر جادو کو تہس
نہس کر دیتی ہے… اور اگر پڑھنے
والا توجہ اور پابندی سے پڑھتا رہے تو وہ جادو…
خود جادوگر کی موت بن کر واپس لوٹ جاتا ہے…
وجہ کیا ہے؟… جادو ’’شیطانی
کلام‘‘ ہے… اور قرآن پاک اللہ تعالی کا ’’کلام‘‘ ہے…
اور قرآن پاک’’سیّد الکلام‘‘ ہے…
تمام کلاموں کا بادشاہ…
اورسورۃ البقرہ’’سید القرآن‘‘ ہے…
یعنی قرآن پاک کی بادشاہ…
اور سردار… اور آیۃ الکرسی…
سورۃ بقرہ کی سردار اور بادشاہ ہے…
پھر کسی جادو کی کیا مجال کہ سورۃ البقرہ کے سامنے ٹھہر سکے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
سَیّدُ الْکَلَامِ
الْقُرْآنُ، وَسَیّدُ الْقُرْآنِ الْبَقَرَۃُ وَسَیّدُ الْبَقَرَۃِ آیَۃُ
الْکُرْسِیِّ (مسند الفردوس للدیلمی)
اب ایک دلچسپ اور
ایمان افروز نکتہ سنیں:
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے سورۃ البقرہ کو…
’’سَنَام القرآن‘‘ ارشاد فرمایا…
سنام کہتے ہیں
اونٹ کے کوھان… ہر چیز کے بلند
ترین مقام اور قوم کے سب سے معزز ترین فرد کو۔ ترمذی کی روایت ہے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لِکُلِّ شَیْیٍٔ
سَنَامٌ وَسَنَامُ الْقُرْآنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ وَفِیْھَا اٰیَۃٌ ھِیَ
سَیِّدَۃُ اٰیِ الْقُرْآنِ اٰیَۃُ الْکُرْسِیِّ( ترمذی)
ترجمہ: ہر چیز کی
کوئی چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت تمام
قرآنی آیات کی سردار ہے…
وہ ہے آیۃ الکرسی…
ایک اور
حدیث میں ارشاد فرمایا:
اَلْبَقَرَۃُ
سَنَامُ الْقُرْآنِ وَ ذُرْوَتُہٗ نَزَلَ مَعَ کُلِّ اٰیَۃٍ مِّنْھَا ثَمَانُوْنَ
مَلَکًا
یعنی ’’سورۃ
البقرہ‘‘ قرآن پاک کی چوٹی اور بلندی ہے اس کی ہر آیت کے ساتھ اسّی فرشتے نازل
ہوئے ہیں…
علماء کرام
نے بحث فرمائی ہے کہ… سورۃ
البقرہ کو قرآن پاک کا بادشاہ، سردار، سب سے بلند اور سب سے اعلیٰ درجے کی سورۃ
کس وجہ سے فرمایا گیا… کئی دلچسپ
اقوال ہیں… مگر علامہ ابن
الأثیرپ فرماتے ہیں کہ…
اس مبارک سورۃ میں جہاد کی فرضیت نازل ہوئی…
اور جہاد اسلامی احکامات کی بلندترین چوٹی ہے…
جہاد کے بارے میں بعینہ یہی لفظ ’’سنام‘‘ وارد ہوا ہے کہ…
اسلام کی بلندی کا آخری اور سب سے اونچا مقام جہاد فی سبیل اللہ ہے…
سورۃ البقرہ میں… جہاد کی
فرضیت کا حکم نازل ہوا اور ایسے الفاظ میں نازل ہوا کہ …
نہ کوئی اس کی تأویل کر سکتا ہے اور نہ اُس کے معنیٰ کو پھیلا سکتا ہے…
ارشادفرمایا…
کُتِبَ عَلَیْکُمُ
الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (سورۃ بقرہ:۲۱۶)
تم پر جہاد فرض کر
دیا گیا… اور وہ تمہیں
بھاری لگتا ہے… القتال کا لفظ
استعمال فرما کر… ہر تحریف
اور تأویل کا دروازہ ہی بند فرمادیا…
بعض اہل علم کا قول ہے…
سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے پانچ سو حکمتیں اور پندرہ مثالیں بیان
فرمائی ہیں… جبکہ کچھ اور اہل
علم فرماتے ہیں … سورۃ
البقرہ میں ایک ہزار اوامر، ایک ہزار نواھی، ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار خیر یں
بیان فرمائی گئی ہیں… اس سورۃ
کے ’’معارف‘‘ تو بے شمار ہیں…
آپ نے اُن کی ایک ادنیٰ سی جھلک دیکھنی ہو تو بندہ کی تألیف…’’یہود
کی چالیس بیماریاں‘‘ کا ایک بار مطالعہ فرمالیں…
اس بار کی ڈاک میں بھی بعض افراد نے لکھا ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے اُن کی زندگی
میں بہت صالح تبدیلی… اور اپنی
اصلاح کی فکر پیدا ہوئی ہے…
یہ کتاب سورۃ البقرہ کے سینکڑوں موضوعات میں سے صرف ایک موضوع کے چوتھے حصے پر
مشتمل ہے… ابھی آٹھ دس دن
ہوئے دوبارہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی طرف توجہ عطاء فر مائی…
غور و فکر کے دوران اور مطالعہ سے جو کچھ سامنے آیا تو اُس کے اشارات لکھ لئے کہ…
رنگ و نور میں پیش کئے جائیں گے …
مگر یہ اشارات ہی اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ پوری کتاب کا مواد تیار ہو چکا ہے…
سب سے بڑی بات آپ دیکھیں…
دنیا میں سب سے خطرناک دشمن’’شیطان‘‘ ہے…
قرآن پاک نے ہمیں بتادیا ہے کہ…
شیطان تمہارا دشمن ہے اور تم بھی اس سے دشمنی کرو…
شیطان ایک تجربہ کار، بڈھا، ملعون، طاقتوراور کمینہ دشمن ہے…
وہ ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے…
اس کی بے شمار اولاد ہے…
وہ ہمارے تمام عیوب اور کمزوریوں سے واقف ہے کہ…
اس شخص کو کس راستے سے ڈسا جا سکتا ہے …
شیطان کو مرنے کا بھی خوف نہیں اسے قیامت تک زندگی کا پرمٹ ملا ہوا ہے…
اس کے پاس کئی طرح کے لشکر ہیں…
پیادوں کا الگ، سواروں کا الگ…
تین طرح کی فوجیں بری، فضائی اور بحری…
وہ خود سمندر میں رہتا ہے…
اور بڑے بڑے سانپ اُس کا پہرہ دیتے ہیں…
شیطان کے پاس کئی طرح کے ماہر وزراء اور ایکسپرٹ ہیں…
مثلاً عابدوں کو گمراہ کرنے کے لئے اُس کا ایک جنرل’’الشیطان الابیض‘‘ ہے…
دینی قوتوں کو توڑنے کیلئے اُس کے پاس ایک ماہر سائنسدان…’’الشیطان
الأعور ‘‘ہے… ’’اعور‘‘ کہتے
ہیں کانے کو… ایک شیطان
آنکھوں پر اٹیک کرتاہے…
دل اور سر کی آنکھیں… تب اچھا
بُر ا لگنے لگتا ہے اور بُر ا اچھا…
جو خیر خواہ ہو وہ دشمن نظر آنے لگتا ہے…
اور جو دشمن ہو وہ دوست دکھائی دینے لگتا ہے…
جو خیرہو وہ شر نظر آتا ہے…
اور جو شر ہو وہ خیر…مسلمانوں
کے بڑے بڑے لشکروں میں پھوٹ ڈالنا…
بڑی مقبول جماعتوں کو توڑنا…
مضبوط خاندانوں میں فساد ڈالنا اس شیطان کی مہارت ہے…
وہ کام جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو وہ شیطان کے لئے موت کی
طرح کڑوا ہوتا ہے… اُس کو
بگاڑنے کے لئے وہ اپنے خاص چیلے کو بھیجتا ہے…
خیر یہ ایک الگ اور طویل موضوع ہے اور مقصد یہ نہیں کہ ہم شیطان سے ڈر جائیں…
بلکہ مقصد سورۃ بقرہ کے خواص بیان کرنا ہے…
سورۃ بقرہ کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ شیطان اور اس کے تما م جرنیل اور لشکر مل کر
بھی سورۃ بقرہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے…
اسی لئے بعض محدّثین نے ’ـ’البطلہ‘‘ کا ترجمہ شیاطین سے کیا ہے…
جبکہ مزید کئی واضح احادیث موجود ہیں کہ…
جو شخص سورۃ بقرہ پڑھے شیطان اُ س کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا …
اور جس گھر میں یہ مبارک سورۃ پڑھی جائے شیطان اس میں داخل نہیں ہو سکتا …
شیطان طرح طرح کے وساوس، گندگیاں، گناہ اور پریشانیاں ہمارے دلوں اور گھروں پر
ڈالتا ہے… تب کئی
گھرقبرستان اور کئی دل’’خرابے‘‘ بن جاتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیطان سے بچنے اور شیطان سے لڑنے
کے لئے بہت سے ہتھیار عطاء فرمائے ہیں…
ان میں سے سب سے مؤثر ہتھیار سورۃ البقرہ ہے…حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکیمانہ الفاظ پر غور کریں…
فرمایا:
اپنے گھروں
کو قبرستان نہ بناؤ بے شک شیطان اُس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی
ہے…(مسلم)
آج مسلمانوں کے
کتنے گھر قبرستان بنے ہوئے ہیں…صفحات
پورے ہورہے ہیں اور بہت سی اہم باتیں باقی ہیں…
چلیں خلاصہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں…(جگہ
کی کمی کی وجہ سے خلاصے کا بھی خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جس میں کئی اہم باتیں رہ
گئی ہیں)
(۱) سورۃ
البقرہ کے فضائل پر جو احادیث ہیں وہ ایک بار توجہ سے پڑھ لیں، انشاء اللہ القلم اُن کو شائع کرے گا
(۲) سورۃ
بقرہ میں کئی خاص آیات ہیں ، مثلا ً آیۃ الکرسی، آیت اسم اعظم، آیت سکینہ،
آیت دس قاف، آیت مفتاح العلم ، آیت علاج سحر اور خواتیم وغیرہ…
(۳) سورۃ
بقرہ میں پانچوں فرائض…
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد کا بیان ہے اور جہاد کا بیان زیادہ مفصل ہے…
(۴) سورۃ
بقرہ میں انسان کی تخلیق کا تذکرہ بھی ہے اور اُس کے انجام کا بھی…
(۵) غلام
قومیں کیسے آزادی حاصل کریں…
دینی اور جہادی جماعتیں کیسے کامیاب ہوں، مسلمان کا رزق کس طرح تنگی سے آزاد ہو…
مسلمانوں کا معاشی نظام کیا ہو؟…
مسلمانوں کاعائلی نظام کیا ہو؟…
ان تمام سوالات کے جواب سورۃ البقرہ میں موجود ہیں…
(۶) سورۃ
البقرہ کا ا ٓغاز اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے ہوتا ہے…
اور اس کا اختتام فتح کی دعاء پراور فتح اور شکست جہاد میں ہوتی ہے…
معلوم ہوا کہ عالَم پر کتاب اللہ کے نفاذ کے لئے جہاد کا راستہ ہے…
(۷) حیات
دوچیزوں میں ہے ایک شہادت اور دوسرا قصاص…
اب آتے ہیں سورۃ
البقرہ کے ظاہری فوائد کی طرف…
اُن کا خلاصہ یہ ہے…
(۱) جس
حاجت کے لئے پڑھی جائے وہ پوری ہوتی ہے…
(۲) جادو،
جنات اور مسّ شیطانی اور نظر کا تیر بہدف علاج ہے…
(۳) وساوس
،غم، بے چینی ، بددلی اور تمام بیماریوں کا علاج ہے…
(۴) میاں
بیوی کی باہمی گھریلو زندگی میں جتنی بھی مشکلات ہوں ان کا بہترین حل ہے…
(۵) کنواری
عورتوں کے لئے بہترین رشتہ ملنے کا سب سے مؤثر وظیفہ ہے…
(۶) رکے
ہوئے کام چل پڑیں، کاروبارمیں برکت ہو، لوگوں میں عزت سلامت رہے، اس کے لئے یہ
بہترین وظیفہ ہے…
(۷) دینی
اور دنیوی کاموں میں برکت اور کامیابی کاذریعہ ہے…
(۸) خونی
بواسیر، پیٹ کے تمام امراض اور کینسر کا علاج ہے…
(۹) دفن
شدہ جادو نکالنے… کھایا ہوا
جادو ختم کرنے… سانپ بچھو کے
کاٹنے کا بہترین علاج ہے…
(۱۰) دماغ
کے امراض… مثلاً مرگی،
حافظہ کی کمزوری اور سینے کے امراض مثلاً بلغم اور دل کی کمزوری کا مؤثر علاج ہے…
خواتین کو ماہواری میں بے قاعدگی…
اور تکلیف کا علاج ہے…
اب ایک خلاصہ سورۃ
بقرہ کے بڑے فوائد کا…
(۱) دل
کی اصلاح ہوتی ہے…
(۲)
اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے…
(۳) برکت
نصیب ہوتی ہے…
(۴) قیامت
کے دن حشر کے میدان میں یہ سورۃ سر پر سایہ کر کے ساری دھوپ،غم اور خوف دور کر دے
گی…
(۵) شیطان
سے مقابلے کا مؤثر ترین ہتھیار ہے…دینی
کاموں کی زیادہ توفیق ملنے، علم نافع نصیب ہونے اور نعمتوں کی بقاء کا ذریعہ ہے…
اب ایک خلاصہ اس
کے پڑھنے کے طریقوں کا…
(۱) سات
دن روزآنہ دن کو ایک بار اور رات کو ایک بار پڑھیں…پڑھ
کر اپنے اوپر دم کریں… اور پانی
پر دم کر کے پی لیں… ایسے عجیب
فوائد ملیں گے انشاء اللہ جو بیان سے باہر ہے(اگر کوئی کمزور ہو تو دن رات
میں ایک بار پڑھ لے مگر ایک ہی مجلس میں)
(۲) تین
دن پڑھیں… مگر روزآنہ ایک
ہی مجلس میں دو بار
(۳) چالیس
دن پڑھیں… روزآنہ ایک بار…
وہ خواتین و حضرات جن پر جادو، ٹونے، پریشانیوں، گناہوں کا مسلسل حملہ ہو…
وہ ایک چلہ یا تین چلّے اس کا اہتمام کر لیں…
(۴) زبانی
یاد کر لیں اور تہجد کی دو یا چار رکعت میں پڑھا کریں اس کے فوائد بے شمار ہیں…
جماعت کے ساتھیوں
سے خصوصی گذارش ہے کہ…سات دن
والے معمول کو جلد ہی کر لیں…
دیکھنے میں بھاری لگتا ہے…
مگر جب شروع کر دیں گے تو تیسرے دن دل خود اس کی طرف لپکے گا…
اور یاد رکھیں وقت میں اتنی برکت ہو گی کہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے…
شیطان کا مقابلہ کرنا… اور اللہ تعالیٰ کی رحمت، نصرت اور برکت کو ساتھ لینے کی
محنت کرنا… خود ہمارے ہی
اعلیٰ مفاد میں ہے… ماضی کے
جتنے، فاتحین اور مقبول مجاہدین گذرے ہیں اُن کا قرآن پاک سے بڑا خاص تعلق تھا…
اور اس تعلق نے انہیں فتنوں سے حفاظت…
اور ترقی کے راستے پر ڈالا…
ایسے بھی گذرے ہیں جو گھوڑے کی پشت پر کئی کئی پارے پڑھتے تھے…
ایسے بھی گذرے ہیں جو روزآنہ مکمل قرآن پاک ختم کرتے تھے…
اگر مجاہدین پورے دین پر عمل کریں…
اور پورے دین کی قدر کریں…
تو اُن کے جہاد سے زمین پر انسانو ں کو…
رحمت اور خلافت نصیب ہوتی ہے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 365
معرکے
یہودیوں کی اسلام
اورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی چڑھتے سورج سے زیادہ واضح
حقیقت ہے مگر کیاوہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے؟
ہرگز نہیں! یہ بد
نصیب کل بھی اسلام کے شیروں کے آگے ذلیل و رسوا ہوئے، آج بھی ان کی تمام تر جدید
ٹیکنالوجی انہیں ذلیل و رسوا ہونے سے نہیں بچا رہی…
ان بدبختوں نے
گستاخانہ فلم بنائی تو عشق محمد کا کیسا معجزانہ پہلو ظاہر ہوا؟
جہاد اپنی قوت کس
طرح منوا رہا ہے؟
مشرکین سے دوستی
اوریاری کا انجام کیا ہوتا ہے؟
ان تمام باتوں سے
پردہ اٹھاتی اور آخر میں ’’سورۃ البقرۃ‘‘ کے نورکی بارش بکھیرتی ایمان افروز
تحریر!
تاریخ اشاعت
۲۰شوال؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۷ستمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۵)
معرکے
اللہ تعالیٰ اُن تمام مسلمانوں کو عالی شان جزائے خیر
عطاء فرمائے… جو’’عشق محمد‘‘
صلی اللہ علیہ وسلم میں سرمت ہو کر جہاد فی سبیل اللہ کر
رہے ہیں… اور اُن کو بھی
جو’’حرمتِ ناموسِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی راہ میں جدوجہد کر رہے ہیں…
آج کچھ متفرق باتوں کا مذاکرہ کرتے ہیں…
عشقِ محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کااعجاز
سائنس اور
ٹیکنالوجی ذلیل ہو گئی…
ناکام ہوگئی… افغانستان کے
صوبہ ہلمند میں نیٹو کا ایک فوجی اڈہ کھلے صحراء کے بیچ قائم ہے…
ہر طرح کے جدید اور حسّاس آلات اس اڈے کی تمام اطراف سے نگرانی کرتے ہیں…
اگر کوئی صحرائی خرگوش یا گلہری بھی اس کیمپ کی طرف بڑھے تو دیکھ لی جاتی ہے…
مگر کل رات دس بجے کئی درجن مجاہدین کھلے صحراء سے گزرکر اس چھاؤنی تک پہنچے…
نہ کوئی آنکھ اُن کو دیکھ سکی اور نہ کوئی حسّاس دوربین…
انہوں نے چھاؤنی کی دیوار توڑی…
تکبیر کے نعرے اور چھاؤنی کارنگ ہی بدل گیا…
کئی جہاز، ہیلی کاپٹرز تباہ…
کئی فوجی واصل بالنّاراور ایک شاندار جنگ…
دنیا حیران اور ششدر ہے…مجاہدین
کے ترجمان سے پوچھا گیا تو راز کُھلا…
ایک یہودی ملعون اورایک صلیبی مردود نے امریکہ میں…
گستاخانہ فلم بنائی… مجاہدین
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بے چین ہو کر تڑپے…
تب عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز ظاہر ہوا…
دیکھتی آنکھیں اندھی ہوگئیں…
تمام باریک بین آلات ناکام ہو گئے…
اور گستاخوں کے لئے تابوت بھیجنے کا بہترین انتظام ہو گیا…
ارے ظالمو! تمہارے آباؤ اجداد حضرت سیدنا آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم سے نہ لڑ سکے…
اُن کے صحابہ سے نہ لڑ سکے…
تمہارا روم اور قیصر ملیا میٹ ہو گیا…
تمہاری سلطنت ویٹی کن میں جا سمٹی…
اب تم نے نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ چھیڑی ہے…
تم نے ناموس محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ چھیڑی ہے…
اس جنگ میں تمہارا حشر اصحاب فیل کے ہاتھیوں سے بھی بدتر ہو گا…
تم کیا جانو… نام محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے مقام کو…
مگر اب جان لو گے… اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب اعلان فرما رہی ہے…
ورفعنا لک ذکرک
اللہ تعالیٰ نے نام محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کو بے حد بلندی اور رفعت عطاء فرمائی ہے…
یہ نام مبارک دلوں پر حکومت کرتاہے…
دیکھو! ساری دنیا میں غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سے بپھرے
ہوئے شیروں کی طرح نکل آئے ہیں…
اور تم چوہوں کی طرح لرزرہے ہو…
اس جرم عظیم سے باز آجاؤ…
ورنہ زمین تمہیں نگل لے گی اور آسمان تم پر آگ برسا دے گا…
اور ساری مخلوق تمہارے خلاف جنگ میں کود پڑے گی…
کیونکہ ہمارے آقا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے محسن…
ان سب کے محبوب… اور ان سب کے
سرور ہیں… صلی
اللہ علیہ وسلم ، صلی اللہ علیہ وسلم …
فٹ پاتھوں پر
احساس کمتری کا
شکار ’’دانشور‘‘ مسلمانوں کو…
امریکہ اور یورپ کے سامنے جھک جانے کا مشورہ دیتے نہیں تھکتے…
یہ دیکھیں تازہ اور سچی رپورٹ آگئی ہے…
وہ امریکی جن کے پاس رہنے کو مکان نہیں…
اور وہ فٹ پاتھوں پررہتے ہیں…
ان میں بیس فیصد تعداد اُن فوجیوں کی ہے جو عراق اورافغانستان کی جنگ سے واپس آئے
ہیں… بے چاروں کی
آخرت تو تھی نہیں دنیا بھی اجڑگئی…
تفصیلات بہت حیران کن ہیں…
جیلوں میں جو امریکی قیدی منشیات استعمال کرنے اور بیچنے کے جرم میں سزا کاٹ رہے
ہیں… ان میں سے آٹھ
فیصد تعداد عراق اور افغانستان کی جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں کی ہے…
پاگل پن اور دماغی امراض کے سروے کے مطابق…
جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں سے اکثر طرح طرح کے دماغی امراض کا شکار ہیں…
اور حکومت کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ…
مسلسل اُن کا علاج کراسکے…
چنانچہ یہ فوجی یا تو منشیات میں غرق رہتے ہیں…
یا سڑکوںپر جرائم کرتے ہیں…
یا پھر خود کشی کر لیتے ہیں…
گزشتہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں پچیس فیصد اضافہ ہواہے…
ذرا قرآن پاک کھول کر دیکھیں…
مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے؟…
ہائے کاش مسلمان جہاد کو سمجھیں،جہاد کواپنائیں اور جہاد سے محبت کریں تو وہ زمین
کے حاکم اور جنت کے وارث بن جائیں…
جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کوئی کفریہ طاقت اور اس کی سائنسی
اور جنگی ٹیکنالوجی نہیں ٹھہر سکتی…
اب تو یہ حقیقت ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے…
اڑتیس ملکوں کی طاقتورفوجیں شکست کی زنجیر گلے میں ڈالے بوریا بستر باندھ رہی ہیں…
اور اب گذارہ صرف ناپاک کارٹون، خاکے اور فلمیں بنانے پر ہے…
مرجاؤ اپنے غیظ، غصے اور غم میں گُھٹ گُھٹ کر…
اخلاق کا نیا
ترجمہ
افغانستان میں
آئے روز… ’’افغان فوجی‘‘
کوئی نہ کوئی کارنامہ دکھا دیتے ہیں…
حالانکہ یہ فوجی نہ مجاہدین ہیں اور نہ طالبان…
مگر دل میں چھپاکلمہ طیبہ جب نور کی ایک شعاع برساتا ہے تو…
امریکہ اور نیٹو سے تنخواہ لینے والے یہ فوجی اور سپاہی ایک دم ’’مجاہد‘‘ بن جاتے
ہیں… کل رات بھی ایک
پولیس والے نے چار نیٹو فوجی پھڑکا دیئے…
ہفتے کے دن ایک افغان پولیس افسرنے دو برطانوی فوجی مار دیئے…
رمضان المبارک میں تو ایک افغان فوجی نے چھ نیٹو فوجیوں کو مار کر سحری کی…
صرف اسی سال اس طرح کے دوستانہ حملوں میں مرنے والے امریکی اورنیٹو فوجیوں کی
تعداد پچاس سے زائد ہے…
روز روز کے ان واقعات نے امریکہ اور نیٹو کو لرزا کر رکھ دیاہے…
اور اُن کے فوجی ہر وقت ذہنی اذیت میں رہتے ہیںکہ…
کب کون انہیں بھون ڈالے …
اس صورتحال کے سدّباب کے لئے کرزئی کی نامور حکومت نے…
افغان فوجیوں کے لئے ایک نیا ضابطۂ اخلاق تیار کیا ہے…
یہ ضابطہ اخلاق زبانی بھی تعلیم کرایا جاتا ہے اور اسے بڑی تعداد میں چھاپ کر
فوجیوں میں تقسیم بھی کیا جارہاہے…
اس ضابطہ اخلاق میں افغان فوجیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ…
اگر کوئی امریکی یا نیٹو فوجی…
نہانے کے بعد غسل خانے سے بالکل برہنہ باہر نکل آئے تو آپ لوگ بُرا نہ مانیں…
یہ کوئی ایسی بری بات نہیں کہ آپ طیش میں آجائیں…
اسی طرح اگر کوئی نیٹو فوجی آپ سے گفتگو کے دوران آپ کی بیوی کا نام پوچھے…
آپ سے اس کا فوٹو مانگے تو ناراض نہ ہوں…
یہ بھی کوئی غیر اخلاقی بات نہیں…
اس ضابطہ اخلاق کی تفصیل بہت ہوش ربا ہے…
بس انہی دو شقوں پر غور کریں…
یہ ہے اخلاق کا تازہ ترجمہ…
مہذب دنیا اور کرزئی حکومت کے نزدیک…
بن غازی کے غازی
لیبیا پر’’قذافی‘‘
کی حکومت تھی تو وہاں امریکی محفوظ تھے…
قذافی کا جذبہ انقلاب آخری سالوں میں سرد پڑ چکا تھا…
اس کا بیٹا سیف الاسلام…
اپنے باپ اور خاندان کو روشن خیال ثابت کرنے کیلئے اربوںڈالر پانی کی طرح بہا
رہاتھا… اپنے ہی لیبیائی
مسلمانوں کو پکڑ کر یورپ کے حوالے بھی کیا گیا تاکہ…
قذافی کو باہر گھومنے پھرنے کی آزادی ملے…
مگر امریکہ اور یورپ نے قذافی کے ماضی کو فراموش نہ کیا اور اس کی حکومت اور جان
کا تختہ کر دیا… ہم نے اس وقت عرض
کیا تھا کہ اب عرب افریقہ کے اس صحراء میں…
جہاد کا ایک نیا محاذ کھلے گا…
وہ محاذ کھل چکا…گستاخانہ
فلم کی رسید کے طور پر بن غازی کے غازیوں نے چار بڑے قیمتی تابوت…
ملعون ٹیری جونز کے لئے روانہ کئے ہیں…
ایک توامریکی سفیر تھا ، ایک اہم دفاعی اتاشی…
ایک نیوی کا سیل… اور شائد
ایک جاسوس… امریکہ نے بھی
اپنے دو بحری جہاز لیبیا روانہ کر دیئے ہیں…
دیکھیں بات کہاں تک جاتی ہے…
لیبیا کا یہ خطہ… ماضی قریب
میں درمیان کے پچاس ساٹھ سال چھوڑ کر…
جہاد کا مرکز رہا ہے… اور امام
سنوسی سکی جہادی تحریک اسی خطے میں پروان چڑھی تھی…
جہاد کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی…
کچھ عرصہ چھپ بھی جائے تو جلد ہی واپس اپنا محاذ سنبھال لیتی ہے…
اسی لئے مجاہد اور مرابط کا عمل قیامت تک کے لئے جاری فرمادیاگیا ہے…
ویسے بھی مجاہد اور مرابط اسلام کی حفاظت کے لئے لڑتے ہیں…
تو جب تک اسلام رہے گا ان کا عمل اور ثواب بھی جاری رہتا ہے…
مبارک ہو اے اہل جہاد!!…
آگ کی طرف
قرآن پاک کی سورہ
بقرہ میں… مشرکین کے ساتھ
مسلمانوں کی شادی کو حرام قرار دیا گیاہے…
اور اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی ہے:
اولئک یدعون الی
النّار
یہ مشرکین
آگ کی طرف… جہنم اور ناکامی
کی طرف بلانے والے ہیں…
جوان سے تعلق اور ربط جوڑتا ہے…
وہ آگ،ناکامی اور جہنم کی طرف بے ساختہ لڑھکنے لگتا ہے…
شرک سب سے بڑا گناہ، سب سے بڑی ہلاکت اور سب سے بڑی ناکامی ہے…
مشرک کبھی بھی مسلمانوں کے دوست اور خیر خواہ نہیں ہوتے…
وہ صرف مسلمانوں کو دنیا اور آخرت کی آگ میں جلانے کے لئے…
دوستی، محبت اور پیار کی پینگیں بڑھاتے ہیں…
ہماری زنانہ وزیر خارجہ…
انڈیا کے بے ہودہ وزیر خارجہ کے ساتھ چہک رہی تھی تومجھے بار بار سورہ بقرہ کی یہی
آیت یاد آئی کہ… بد نصیبی
دیکھو!… آج کی دنیا میں
دو ملکوں کے درمیان تعلقات کوئی بُری بات نہیں…
مگر انڈیا کی دشمنی کو بُھلا دنیا اور چھلانگیں لگا کر اس دشمن کے قدموںمیں گرنا…
ناقابل فہم ہے… ایسا وہی کر سکتا
ہے جو آگ میں کودنے اور جلنے کا شوقین ہو…
کشمیر کے شہداء… جموں اور پونچھ
کے شہداء… سانحہ مشرقی
پاکستان… کراچی میں آئے
دن کی ٹارگٹ کلنگ… بلوچستان
میں خوفناک جنگ اوربے چینی…
خشک دریاؤں سے بنجر ہوتا پاکستان…
اور دوسری طرف کرشنا اور حنا ربانی کے قہقہے…
کچھ سمجھ نہیں آتا… کچھ بھی
نہیں…
سورۂ بقرہ کے
انوارات
گزشتہ رنگ و نور
میں…سورہ بقرہ کے کچھ
مختصر فضائل اور خواص کا تذکرہ ہوا تھا…
الحمدﷲ بہت مثبت حالات اور خبریں موصول ہوئیں…
ابھی تازہ ڈاک آئے گی تو مزید تفصیلات معلوم ہونگی…
انٹرنیٹ پر عربی زبان میں ’’سورہ بقرہ‘‘ پر کئی ویب سائٹس اور صفحات موجود ہیں…
نیٹ کے کھلاڑی اس طرح کی چیزوں سے استفادہ کیا کریں…
کئی صفحات تو صرف اُن لوگوں کے تجربات پر مشتمل ہیں جنہوں نے ’‘’سورہ بقرہ‘‘ کے
وردکا فائدہ اٹھایا… واقعی
حیران کن واقعات ہیں… کئی ایسی
خواتین جن کی عمریں تیس سال سے اوپر ہوچکی تھیں اور گھر والوں نے انہیں بوڑھیا کا لقب
دینا شروع کر دیا تھا… وہ جب
سورہ بقرہ کی طرف متوجہ ہوئیں تو…
گرے پڑے نہیں بہترین رشتے انہیں مل گئے…
کئی لوگوں کے گھر پوری طرح بیماریوں، نحوستوں اور آفتوں سے قبرستان بن چکے تھے…
انہیں سورۂ بقرہ کی برکت سے نئی زندگی ملی…
ایسے جوڑے جن کو ڈاکٹروں نے اولاد سے مایوس قراردے دیا تھا…
ان کی گود ہری بھری ہو گئی…
کئی لوگوں کے گھروں میں درخت خود گر گئے اور اس کے نیچے چھپا ہواجادو اور طلسم
باہر نکل آیا… کئی لوگ کام کاج
اور کاروبار سے بالکل معطل ہو چکے تھے…
اُن کا سب کچھ بحال ہو گیا…
تین فائدے تو سب نے لکھے ہیں…
(۱) نعمتوں
میں برکت…
(۲) اچھی
حالت کی حفاظت…
(۳) لوگوںمیں
عزت کی حفاظت…
یہ تو عام دنیوی
فوائد ہیں… جب کہ اصل فوائد…
ایمان کی حفاظت، دل کی اصلاح…
شیطان سے حفاظت، آخرت کا سایہ…
اور اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت وغیرہ…
وہ اصل ہیں… سورۃ بقرہ دراصل
برکت اور قوت کا خزانہ ہے…
اس سورۃ مبارکہ کی بکثرت تلاوت سے انسان کی روح اور نفس مطمئنہ کو ایک عجیب سی قوت
اور طاقت نصیب ہو جاتی ہے…
احادیث مبارکہ میںسورۃ بقرہ کے جو فضائل، مناقب اور خواص بیان ہوئے ہیں وہ آپ
القلم کے اس شمارے میں…
صفحہ ہدایت پر پڑھ لیں…
موقعہ ملاتو انشاء اللہ …
اس موضوع پر رنگ و نور میں بھی مزید تفصیل عرض کی جائے گی…
واعف عنا،
واغفرلنا، وارحمنا، انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (366)
محمد رسول اللہ ’’ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ’’محبت‘‘ ایمان کا لازمی اور ضروری جزو ہے…
اس محبت کی حقیقت
تک رسائی حاصل کرنا… سعادت مند
انسان کو ہی نصیب ہوتا ہے…
سب سے اہم بات یہ
کہ: محبت کسے کہتے ہیں؟
محبت اور عاطفت
میں فرق؟
اور اس محبت کو
حاصل کرنے کا نصاب اور طریقہ کیا ہے؟
’’محبت نبوی‘‘ سے
سرشار اہل ایمان کے جذبات محبت کی چند جھلکیاں…
اور آخر میں ایک
قیمتی نصاب… جو ’’دل‘‘ کو اس
محبت کے نور سے منور کردے…
اور اس کی حلاوت اور مٹھاس رگ رگ میں سما دے!
تاریخ اشاعت
۲۷شوال؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۴ستمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۶)
محمد رسول اللہ ’’ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
اللّٰھم صل علیٰ
محمّد وعلی اٰل محمّد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید…
اللّٰھم بارک علیٰ محمّد وعلیٰ اٰل محمّد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰلِ
ابراہیم انک حمید مجید…
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…
اللہ تعالیٰ کے مبارک نام اور حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم پر’’صلوٰۃ‘‘ سے آج کی مجلس کا آغاز نصیب فرمایا…
مولایَ صلّ وسلم
دائما ابدا
علیٰ حبیبک خیر
الخلق کلھم
ہم سب کو مستقل
دعاء مانگنی چاہئے کہ… ہمیں حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے’’سچی محبت‘‘ نصیب ہو جائے…
آج کوشش کرتے ہیں کہ ’’سچی محبت‘‘ کو سمجھنے کی طرف قدم بڑھائیں…یہ
’’سچی محبت ‘‘ اگر نصیب نہ ہو تو ’’ایمان کامل ‘‘نصیب نہیں ہوتا…
کیا محبت…
محبوب کے ادب و احترام کا نام ہے؟…
یہ ہے پہلا سوال…
کیا محبت…
محبوب کے لئے غیرت اختیار کرنے کا نام ہے؟ یہ ہوا دوسرا سوال…
کیا محبت…
محبوب کی غیر مشروط اطاعت کا نام ہے؟…
یہ ہے آخری سوال…
جہاں تک معاملہ ہے
ادب اور احترام کا… تو لوگ
بغیر محبت کے بھی بہت سے افراد کا ادب کرتے ہیں…
احترام کرتے ہیں… فوجیوں کو
دیکھ لیں اپنے افسر کے سامنے کیسے باادب رہتے ہیں…
اور ان کے احترام میں کتنی مشقت برداشت کرتے ہیں…
جہاں تک غیرت کا سوال ہے تو غیرت کے اسباب مختلف ہیں…
کبھی غیرت اپنی ناک کے لئے ہوتی ہے اور کبھی کسی کی محبت میں…
اور کبھی نفس کے تقاضے سے…
جہاں تک اطاعت کا سؤال ہے تو…
اطاعت بھی بغیر محبت کے ہو سکتی ہے اور دنیا بھر میں ہو رہی ہے…
ایماندار ملازم اپنے مالک کی اطاعت کرتے ہیں…
پولیس اور فوج والے اپنے آفیسروں کی اطاعت کرتے ہیں…
چھوٹے غنڈے اپنے بڑے سردار کی اطاعت کرتے ہیں…
بااصول ملازموں کی اطاعت دیکھ کر تو حیرانی ہوتی ہے کہ…
کس طرح سے خود کو ہر تکلیف میں ڈال کر اپنے مالک کا حکم پورا کرتے ہیں…
لیکن کیا وہ اپنے مالک اور آفیسر سے محبت بھی کرتے ہیں؟…
جواب یہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا…
وہ ریٹائرڈ فوجی افسر جن کے حکم پر اُن کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بھی دھڑلّے سے کر ڈالتے تھے…
آج ملک میں واپس آکر ان ملازموں کو کوئی حکم دے کر دیکھیں…
محبت کا صاف پتا چل جائے گا…
ان تین باتوں کو یاد رکھیں…
درمیان میں ایمان تازہ کرنے والا ایک نکتہ…
جنت کتنی خوبصورت ہے؟… سبحان اللہ ، سبحان اللہ …
ایک عالم نے کتاب لکھی ہے…
حادی الارواح الی بلاد الافراح…
اس میں جنت کے حسن اور جمال کی دلکشی کو قرآن و سنت اور روایات سے بیان کیا ہے…
کتاب پڑھتے ہوئے انسان کی روح سرمستی میں مدہوش ہو جاتی ہے…
قرآن پاک میں ہی… سورۃ
الرحمن میں جنت کا حسن پڑھ لیں…
جنت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے…
اور مخلوقات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ حسن، مقام، شان، دلکشی ،
دلبری اور محبوبیت… ہمارے
آقا حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاء فرمائی ہے…
جی ہاں… حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم جنت الفردوس سے بھی زیادہ حسین، زیادہ وجیہ، زیادہ
دلکش اور زیادہ خوبصورت اور معطّر و منور ہیں…
صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
اب ایک اور سوال…
لوگ’’عاطفت‘‘ کو محبت سمجھتے ہیں…
عاطفت کہتے ہیں’’دل لگی ‘‘ کو…
کسی کی طرف دل کا مائل ہونا…
دل کا مشتاق ہونا… دل کا
متوجہ ہونا… انسان کا دل…شکاری
بھی ہے اور شکار بھی… کبھی کسی
کو شکا ر کرتا ہے … اور کبھی
خود کسی کے ہاتھوں شکار ہو جاتا ہے…
دل کا صرف کسی چیز کی طرف مائل اور متوجہ ہونا’’محبت‘‘ نہیں ہے…
کئی لوگوں کا دل کسی ’’بلّی‘‘ کی طرف مائل ہوجاتا ہے…
کوئی کسی اور جانور سے اُنس رکھتا ہے…
ہر وقت ساتھ رکھنا، اُس کے کھانے پینے کی فکر کرنا…
اُسے کچھ ہو جائے تو غمزدہ ہو جانا…
وہ نظر نہ آئے تو بے قرار ہونا…
لیکن یہ ’’عاطفت‘‘ اُس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ چیز آپ کی فرمانبرداری کرے…
آپ کے ناز اٹھائے اور آپ کو خوش رکھے…
جہاں وہ اس شرط سے نیچے گری وہاں عاطفت ختم…
کئی لوگ اپنے کتے سے بہت اُنس رکھتے تھے…
ہر وقت وہ ان کے قدموں میں یا اُن کے پیچھے…
حد سے زیادہ تعلق… مگر اچانک
کتا بدل گیا… حکم دینے پر آتا
نہیں… بلانے پر دم نہیں
ہلاتا… بلاوجہ بھونکتا
ہے… مہمانوں کو کاٹتا
ہے… تو کچھ ہی دن میں
’’عاطفت‘‘ ختم اور پھر اپنے ہاتھوں سے اُسی کتے کو گولی مار دیتے ہیں…
یا زہر دے دیتے ہیں… اور بہت
زیادہ احسان کریں تو کسی کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں…
کیا یہ ’’محبت‘‘ تھی؟… ہر گز
نہیں… بس نفس کی ایک
خواہش تھی جسے ’’ محبت ‘‘ سمجھ لیا تھا…
وہ خواہش ٹوٹی تو محبت کا نام بھی کہیں نظر نہ آیا…
آج کل اکثر لوگ جس چیز کو’’محبت‘‘ کہتے ہیں وہ محبت نہیں…
’’عاطفت‘‘ اور ’’ہوا‘‘ ہے…
’’ہوا‘‘ یعنی خواہش… محبت میں
صرف دینا ہوتا ہے… جہاں کچھ
لینے اور پانے کی بات آجائے و ہ محبت نہیں رہتی…
اب ہمیں چار باتوں کے جوابات معلوم ہو گئے…
(۱) صرف ادب اور
احترام کا نام’’محبت‘‘ نہیں…
(۲) صرف غیرت کھانے کا
نام’’محبت ‘‘ نہیں…
(۳) صرف اطاعت کا
نام’’محبت‘‘ نہیں…
(۴) صرف دل کے شوق اور
میلان کا نام’’محبت‘‘ نہیں…
ان چار باتوں کو
یاد رکھیں… درمیان میں پھر
اپنے ایمان کو روشنی کی ایک شعاع دیتے ہیں…
مسجد نبوی شریف کی دیواروں پر احادیث مبارکہ لکھی ہوئی ہیں…
ایک بار حاضری ہوئی ریاض الجنۃ کے بالکل سامنے قبلہ والی دیوار پر نظر ایک حدیث
شریف پر جا رکی… ارشاد فرمایا:
’’شفاعتی لاھل
الکبائر من اُمتی‘‘
میری شفاعت میری
اُمت کے اُن افراد کے لئے(بھی) ہو گی جو کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہیں…
سبحان اللہ وبحمدہ…
ایسی رحمت، ایسی شفقت ، ایسی محبت، ایسی رأفت…
صرف حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہوئی…
اتنے بڑے مجرموں کو بھی اپنی شفاعت سے محروم نہیں فرمایا …
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
عزیز بھائیو! اور
بہنو!… حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کرنا اور اس کو پانا ہمارے لئے سانس لینے
سے بھی زیادہ ضروری اور اہم ہے…
کھانے پینے اور مکان کپڑے سے بھی زیادہ لازمی ہے…
ہم اگر انسان بننا چاہتے ہیں تو اسی’’محبت‘‘ سے بن سکتے ہیں…
ہم اگر پاک ہونا چاہتے ہیں تو اسی ’’محبت ‘‘سے ہو سکتے ہیں…
ہم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اسی ’’محبت ‘‘سے ہو سکتے ہیں…
یہ سچی محبت جب دل
میں اُترتی ہے تو… دل کی
دنیا ہی بدل ڈالتی ہے… یہ سچی
محبت جب خون میں چڑھتی ہے…
تو خون کی حیثیت ہی بدل دیتی ہے…
یہ سچی محبت جب روح میں اُترتی ہے تو روح کو عرش کے نیچے سجدہ کرانے لے جاتی ہے…
اس سچی محبت کے بغیر نہ کسی کو انسانیت نصیب ہو سکتی ہے…
نہ اسلام اور ایمان کی حقیقت نصیب ہو سکتی ہے…
اسی لئے فرما دیا کہ جب تک میری محبت تمہیں اپنی اولاد ، اپنے والدین اور تمام
لوگوں سے زیادہ نہ ہو تم ایمان والے نہیں ہو سکتے…
اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمادیا گیا کہ جب تک اپنی
جان سے بھی زیادہ… حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ ہو…
ایمان پورا نہیں ہوتا…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
اب دو باتوں کو
سمجھنا ہے…(۱) محبت کسے کہتے
ہیں؟…(۲) یہ محبت ہمیں کس
طرح سے حاصل ہو سکتی ہے…
یا نصیب ہو سکتی ہے؟… ان دو
سؤالوں کا مختصر اور آسان جواب حاصل کرنے سے پہلے اپنے ایمان کو مدینہ منورہ کی
معطر خوشبو سے ایک خوشگوار جھونکا دیتے ہیں…
ہمارے پاس سب سے بڑی دولت’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ ہے…
یہ دولت ہمیں کس کی برکت اور واسطے سے ملی؟…
ہمیںنماز جیسی عبادت کس کے ذریعے سے نصیب ہوئی؟…
ہمیں جہاد جیسا عمل کس کے واسطے سے نصیب ہوا؟…
ہمیںکعبہ شریف کس کی برکت سے ملا؟…
ہمیں مسلمان ہونے اور مؤمن ہونے کا اعزاز کس کی برکت سے ملا؟…
ہمیں وضو اور غسل کی پاکیزگی کس کے واسطے سے ملی؟…
ہمیں’’خیراُمت‘‘ کا عظیم لقب کس کے طفیل ملا؟…
ہمیں حیاء، امانت، دیانت اور صداقت جیسی نعمتیں کس کے دربارسے ملیں؟…
ہمیں جنت کا راستہ کس نے دکھایا؟…
ہمیں جہنم سے کس نے ڈرایا؟…
ہمیں رمضان المبارک، روزے اور حج کے انعامات کس کی برکت سے ملے؟…
ہاں! یہ درست ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا…
مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں کو ہم تک پہنچانے کا
ذریعہ… حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بنایا…
آج سورہ بقرہ کی تلاوت کرتے ہوئے بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ…
اتنی عظیم سورۃ… اتنا عظیم قرآن…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف اسی ایک احسان کو بھی یاد کریں تو…
ایک جان کیا… لاکھوں جانیں بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر قربان کردیں تو
احسان کا بدلہ نہ ہو پائے…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
محبت کی بات کو
پھیلایا جائے تو… آسان
تعبیر یہ ہے کہ… محبت ان چار
چیزوں کے جمع ہو جانے کا نام ہے…(۱) ادب و احترام(۲) محبوب کے لئے
غیرت(۳) محبوت
کی اطاعت(۴) دل
کا شوق اور میلان… یعنی یہ
چار چیزیں جمع ہو جائیں تو ’’محبت‘‘ بن جاتی ہے …
اور اگر مختصر الفاظ میں سمجھنا ہو تو…
محبت دو چیزوں کا نام ہے(۱) عشق(۲) غلامی…
غلامی بھی بے دام… کچھ زمانہ
پہلے مالک غلام کو خریدتا تھا تو غلام اس کے حکم کو ماننا اپنی پہلی اور آخری ذمہ
داری سمجھتا تھا… مالک اپنے
غلام کو گھنٹوں کھڑا رکھے یا سونے دے…
غلام، غلام ہی رہتا تھا…
کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ غلامی کے بغیر کوئی چارہ نہیں…غلامی
ایسی چیز ہے کہ مشکل حالات میں چھوڑی نہیں جا سکتی…
کوئی قانون اور ضابطہ اس کی اجازت نہیں دیتا…
پہلی چیز عشق… یعنی دل سے ادب،
احترام… دل کا میلان اور
شوق… دل میں قدر و
منزلت… دل میں اُس کے
لئے غیرت… دل میں اُس کے
لئے حددرجہ وفاداری کا جذبہ…
اور دوسری چیز غلامی… یعنی دل
دے کر اب اطاعت بھی کرنی ہے…
حالات جیسے بھی ہوں غلاموں کی طرح جڑے رہنا ہے…
اور اسی کی اطاعت میں جینا اور مرنا ہے…
سبحان اللہ وبحمدہ…
قرآن پاک نے ’’سچی محبت‘‘ کا یہ منظر کس سورۃ میں بیان فرمایا ہے؟…
اہل علم بہتر سمجھتے ہوں گے…
بندہ جیسے کم علم لوگوں کو …
سورۃ الفتح میں ’’سچی محبت‘‘ پوری طرح ٹھاٹھیں مارتی نظر آتی ہے…
اور جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے صحابہ اور ایسی جماعت مل
گئی جو واقعی… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم سے سچی محبت رکھتے تھے تو…
عرش سے مبارک باد کاپیغام آگیا…
اِنَّا
فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا
اے نبی…
آپ کو ہم نے کھلی فتح دے دی ہے…
یعنی اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا میں بڑھنے، چلنے اور
فتح پانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا…
کوئی بھی نہیں…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
غزوہ حدیبیہ کا
پورا سفر امتحان تھا… بہت سخت
اور کڑا امتحان… بلکہ امتحانات کا
ایک پورا نصاب تھا… اور اس
نصاب میں ہر امتحان دوسرے امتحان کے بالکل خلاف اور متضاد تھا…
یعنی اعصاب شکن امتحانات کا ایک پورا سلسلہ…
اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نبوت اور شان تربیت کی صداقت
کے لئے صرف غزوہ حدیبیہ کو پیش کیا جائے تو دنیا کا ہر عقلمند انسان ’’مسلمان‘‘ ہو
کر… اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی غلامی میں آجائے اس غزوہ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین نے جس طرح سے عشق اور غلامی کے امتحانات کو نبھایا…
جب سے دنیا قائم ہوئی ہے کوئی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا…
اللہ تعالیٰ کے سچے، آخری اور سب سے افضل نبی ہی کسی
جماعت کی ایسی تربیت کر سکتے ہیں ورنہ اور کسی کے بس کی یہ بات نہیں ہے…
چنانچہ یہی سورۃ… غزوہ
حدیبیہ کے واقعات کو بیان کر کے اعلان کرتی ہے
مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰہ
محمّد واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں…اور
اُن کی رسالت کی کھلی دلیل اُن کے رفقاء اور ساتھی ہیں…
وَالَّذِیْنَ
مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
’’سورۃ الفتح‘‘ کی
تفصیلات بہت زیادہ ہیں…
صرف ایک نکتہ سمجھ لیں تو انشاء اللہ بات واضح ہوجائے گی…
جب ہندسوں میں ایک ہزار لکھا جاتا ہے تو اس میں تین صفر ہوتے ہیں…
1000… ان تین صفر کے
ساتھ جب(۱) لگتا
ہے تو ہزار بن جاتا ہے اور اگر اس(۱) کو ہٹا دیں تو…
تینوں صفر بے قیمت رہ جاتے ہیں…
محبت میں جو چار چیزیں ہیں…
(۱) ادب ، احترام(۲) دل کا شوق اور
میلان(۳) غیرت……
یہ تینوں قیمتی صفروں کی طرح ہیں…
ان کے ساتھ اطاعت کا (۱) جڑتا
ہے تو یہ ہزار پورا ہوجاتا ہے…
اگر اطاعت کا(۱) نہ
لگے تو باقی تین’’صفر‘‘ ہی رہ جاتے ہیں…
وجہ کیا ہے؟… دراصل مشرکین اور
مؤمنین کی محبت کا فرق ہی یہی ہے…
آپ جب کسی کو دل کا پیار دیتے ہیں…
اس کا ادب و احترام کرتے ہیں…
اس کے نام پر غیر ت کھاتے ہیں تو…
دل کہتا ہے کہ… آپ نے محبوب پر
احسان کیا… اب محبوب کا نمبر
ہے کہ وہ آپ کو یہ دے اور وہ دے…
مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں سے اسی طرح کی ’’محبت‘‘ رکھتے ہیں…
حالانکہ یہ محبت نہیں… عاطفت،
خود غرضی اور ہوا پرستی ہے…
جبکہ مؤمن… اپنا دل اپنی
چاہت، ادب ، احترام اور غیرت سب کچھ دیکر یہ کہتا ہے کہ محبوب میں آپ کا احسان
مند ہوں… میرا کوئی احسان
نہیں… یہ سب میری ضرورت
اور میری ذمہ داری اور میری سعادت ہے اور اب میری غلامی اور اطاعت آپ کے لئے حاضر
ہے… غزوہ حدیبیہ میں…
اطاعت کا امتحان تھا… عمرہ کے
لئے چلو، لڑنا نہیں ہے…
جی حاضر… حالانکہ ہزاروں
سؤالات کئے جا سکتے تھے، مشرکین مکہ سے خونی دشمنی تھی…
چاروں طرف سے حملے شروع ہو گئے…
حکم ملا… لڑنا نہیں ہے،
صرف پکڑنا ہے… جی حاضر…
حالانکہ ہزاروں سؤالات ہو سکتے تھے…
بات نہیں بن رہی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ روک لئے گئے…
اب لڑنا ہے اور موت تک لڑنا ہے، موت پر بیعت کرو…
جی حاضر… حالانکہ سینکڑوں
اعتراضات مچل سکتے تھے…
معاہدہ شروع ہو گیا، کچھ انتظار کرو…
جی حاضر… معاہدے کے دوران
مشرکین کھلی شرارت اور بدمعاشی کر رہے ہیں…
مگر صبرکرو… جی حاضر…
زنجیروںمیں جکڑے ہوئے ابو جندل ذ روتے کراہتے زخمی حالت میں آپہنچے…
حکم ملا ان کو واپس کر دو…
جی حاضر… خیموں کے اندر سے
رونے اور چیخنے کی آوازیں تھیں…
جذبات ابل ابل کر سیلاب بن رہے تھے…
اور ابو جندل ذ زنجیریں گھسیٹتے واپس قید میں جارہے تھے…
معاہدہ ہو چکا تما م شرطیں مسلمانوں کے خلاف ہیں…
یہ معاہدہ قبول کرو… جی حاضر…
مشرکین عمرہ کی اجازت نہیں دے رہے…
چلو اگلے سال آجائیں گے…
سب احرام کھول دو… جی حاضر…
یہ وہ مشکل مرحلہ تھا جب آسمان اور زمین کے حواس بھی گم ہو چکے تھے اور ہوائیں
سانس لینا بھول چکی تھیں…
دنیا کی کوئی بھی جماعت ہوتی ا س موقع پرضرورٹوٹ جاتی…
دنیا کاکوئی بھی ’’محبوب ترین‘‘ انسان ہوتا اسے اس موقع پر نافرمانی اور بغاوت کا
لازمی سامنا کرنا پڑتا…
مگر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت حضرات صحابہ
کرام کو حاصل ہو چکی تھی…
ایک فرد بھی نہ ٹوٹا… ہر لمحہ
امتحان… ہر لمحہ بدلتے
فیصلے… ہر لمحہ جذبات پر
برستے کوڑے… قافلہ واپس لوٹا
تو عرش سے اعلان آگیا کہ…
اے میرے نبی آپ کو فتح مبارک ہو…
جب آپ کی تربیت کا یہ رنگ ہے…
اور جب آپ کی محبت کا یہ عروج ہے تو پھر آپ کے دین کا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے…
قافلہ کے اونٹ واپس جارہے تھے اور عرش سے یکے بعد دیگرے انعامات کا اعلان ہو رہا
تھا … فتح مبارک، مغفرت
مبارک… خیبر کی فتح
عنقریب… مکہ کی فتح بہت
جلدی…غنائم کے ڈھیر…آپ
کے رفقاء کے لئے رحمت، سکینہ، مغفرت، اجر عظیم اور فتوحات…
اوربہت کچھ…اعصاب شکن قیادت
کے بعد عرش سے یہ رحمت برسی تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا
سر مبارک شکر سے جھک گیا…
فرمایا یہ سورۃ مجھے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
بات کچھ لمبی ہو
گئی… تین چار بہت اہم
باتیں رہ گئیں… کیا کریں ایک
مضمون اتنے بڑے موضوع کو کیسے سنبھالے؟…
بس آخر میں محبت پانے کا طریقہ…
(۱) درود شریف کی
کثرت(۲) حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے کی کوشش(۳) حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کے احسانات کو یاد کرنا(۴) مجاہدین اور اہل محبت کی صحبت
اختیار کرنا(۵) حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تکالیف، جہاد اور مجاہد ے کے تذکرے کرنا(۶) حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو معلوم کرنا اور اپنانا(۷) حضو ر اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ معزز، محترم، ترقی یافتہ، کامیاب اور
اپنے لئے سب سے بڑی مثال سمجھنا(۸) حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کے طریقوں کی عظمت دل میں بٹھانا کہ یہی عزت، کامرانی اور کامیابی
کے طریقے ہیں(۹) احادیث
مبارکہ کو ادب و احترام سے پڑھنا اور خود کو بطور امتی اُن کا مخاطب سمجھنا(۱۰) حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے سخت بغض، نفرت اور عداوت رکھنا، اُن پر
لعنت بھیجنا… ان میں جو گستاخ
ہیں اُن کو قتل کرنے کی پوری کوشش کرنا…
اور گستاخی والی کسی بات یا چیز کو نہ دیکھنا، نہ سننا…
بس یہ ہے مختصر سا
نصاب…جلدی میںلکھنے کی
وجہ سے نمبرات میں تقدیم تأخیر ہوئی ہے…
یہ تمام چیزیں ایک دوسرے سے بڑھ کرہیں…
وہ اہم باتیں جو رہ گئیں وہ یہ ہیں…(۱) حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی علامات …
دعوی تو ہر کوئی کرتا ہے…
مگر قرآن پاک نے علامات بیان فرما دی ہیں کہ کس کا دعویٰ سچا ہے…(۲) حضور اقدس کی سچی
محبت پر دنیا میں ملنے والے انعامات(۳) حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی سچی محبت پر آخرت میں ملنے والے انعامات……
اور ایک چھوٹی سی وضاحت…
جن لوگوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب، احترام نصیب ہے…
ان کو بھی مبارک… یہ اگرچہ
مکمل محبت نہیں مگر محبت کا ایک لازمی حصہ اور جزو تو ہے…
جن لوگوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق، اشتیاق، میلان
اور لگاؤ نصیب ہے… ان کو بھی
مبارک… یہ بھی محبت کا
ایک اہم جزو ہے… وہ لوگ جن کو
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے نام اور ناموس سے غیرت نصیب ہے اُن کو بے حد مبارک…
یہ ایسی نعمت ہے کہ اگر اس میں قربانی لگ جائے تو اہل اطاعت سے بھی آگے بڑھا دیتی
ہے… او ر اگر کسی خوش
نصیب مسلمان کو… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ یہ چاروں چیزیں نصیب ہوں…
ادب و احترام، قلبی تعلق، غیرت اور اطاعت…
تو اسے بہت، بہت، بہت مبارک…
ہمارا سلام اُسے پہنچے…
سبحان اللہ ! عاشقی بھی…
غلامی بھی… سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ …
یہ وہ نعمت ہے جو ہمیں اپنے دل کی گہرائی سے…
اپنی دعاؤں میں مانگنی چاہئے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 367
مجلس محبت
حقیقی اور سچی
محبت کی نور بکھیرتی خوبصورت کرنیں…
اس نور سے فیض یاب
ہونے والے ’’سچے‘‘ لوگوں کی ’’سچی‘‘ محبت کا نرالا رنگ…
محبت نبوی کا مقام
اونچا ہے… مگر اس کو نبھانا
بھی مشکل ہے…
کون کتنی محبت کا
حق دار ہے؟
جامعہ اشرفیہ
لاہور کے بانی مفتی محمد حسن کا ایک سبق آموز واقعہ…
محبت نبوی کی طاقت
اور کرشمے…
دلوں پر لگے تالے
کھولنے کا عمل اور دعاء سکھلاتی محبت سے لبریز جذبات انگیز تحریر!
تاریخ اشاعت
۵ذی قعدہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۱ستمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۷)
مجلس محبت
اللّٰھم صل علیٰ
محمّد وعلی اٰل محمّد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید…
اللّٰھم بارک علیٰ محمّد وعلیٰ اٰل محمّد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰلِ
ابراہیم انک حمید مجید…
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
آج بھی’’محبت‘‘ کی ’’محبت بھری‘‘ مجلس سجاتے ہیں…
حُبّ النّبی صلی
اللہ علیہ وسلم … حضرت آقا
محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت…
گذشتہ کالم میں ہم
نے محبت کے معنیٰ سمجھے…
آج اُسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں…
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو…
اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت نصیب فرما دے…
آمین یا ارحم
الراحمین… یا رب محمد صلی
اللہ علیہ وسلم …
مشکل ایمان
اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر…
انبیاء د کے بعد اُن جیسا نہ کوئی تھا…
اور نہ کوئی ہو سکتا ہے…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان بہت اونچا تھا…
اور بہت مشکل… یعنی اُن کے لئے
’’ایمان‘‘ لانا، ایمان قبول کرنا…
اور یقین پر رہنا ایک انتہائی مشکل کام تھا…
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اُن مشکلات کا مقابلہ کیا
اورکامیاب رہے… مثال لیجئے…
آج بھی تمام باتیں سورۃ الفتح کی روشنی میں عرض کی جارہی ہیں…
حضرات صحابہ کرام کو خواب سنایا جاتا ہے کہ ہم کعبہ شریف گئے…
امن واطمینان سے عمرہ کیا اور طواف کئے…
اور خیر خوبی سے واپس آگئے…
کون کون عمرہ کے لئے تیار ہے؟…
ماشاء اللہ پورا لشکر تیار ہو گیا…
کسی نے نہ پوچھا کہ مشرکین مکہ کی دشمنی کا کیا بنے گا؟…
اس قافلے کو حدیبیہ جا کر رکنا پڑا…
مشرکین کے ساتھ ایک’’معاہدہ‘‘ ہوا…
اس معاہدے کی ہر شرط ظاہری طور پر مسلمانوں کے لئے ’’عار‘‘ کا باعث تھی…
موت کی بیعت ہوئی کہ لڑنا ہے…
مگر لڑنے بھی نہیں دیا گیا…
معاہدہ نامے پر نام مبارک بھی’’محمد رسول اللہ ‘‘ کاٹ کر…’’محمد
بن عبد اللہ ‘‘ لکھنا پڑا…
یعنی نہ عمرہ ہوا نہ خواب پورا ہوا…
نہ جنگ کی اجازت ملی نہ اپنے قیدی بھائی کو ساتھ لے جانے کی…
بلکہ آئندہ کے لئے بھی مکہ مکرمہ میں محبوس مسلمانوں کے لئے ہجرت کادروازہ اس
معاہدے نے بند کر دیا… قربانی کے
جانور ساتھ تھے وہ بھی مکہ کی قربان گاہ سے دور ذبح کرنے پڑے…
حلق اور قصر ہوا مگر بغیر طواف اور سعی کے…
گویا ظاہری طور پر ناکامی، شکست…
اور آگے کے دروازے بھی بند…
ایسے مواقع پر تو شیاطین کو دلوں پر حملے کا کھلا موقع مل جاتا ہے…
مگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب محفوظ قلعے تھے…
یہ تھکا ماندہ قافلہ بغیر کسی ظاہری کامیابی اور خوشی کے واپس جارہا تھا کہ…
عرش سے آواز آئی…
اِنَّا
فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا
بے شک ہم نے آپ
کو کھلی فتح دے دی…
آپ خود
سوچیں اُس وقت اس آیت پر ایمان لانا کتنا بڑا ایمان…
اور کتنا بڑا امتحان تھا…
کونسی فتح؟… کونسی کھلی اور
واضح فتح؟…
مجھ تک اور آپ تک
تو یہ آیت اُس وقت پہنچی ہے جب بعد کی تمام فتوحات اور وعدے پورے ہو چکے…
مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے یہ آیت اس وقت آئی جب کسی فتح
کا نام و نشان بھی نہیں تھا…
مگر سب نے فوراً یقین کر لیا اور اس آیت پر دل سے ایمان لے آئے…
اور آپس میں مبارک بادیں دینے لگے…
اسے کہتے ہیں ایمان کامل…
اسے کہتے ہیں ایمان بالغیب…
اسے کہتے ہیں تصدیق قلبی…
قافلہ مدینہ منورہ پہنچا اور سورۃ الفتح کے وعدے پورے ہونا شروع ہو ئے اور دو سال
میں پورے جزیرۃ العرب کا منظر نامہ بھی بدل گیا…
مگر جب وعدے پورے ہوئے تو کسی نے نہیں کہا کہ…
مجھے اُن آیات پر دل میں کچھ خلجان تھا وہ اب دور ہوا ہے…
بالکل نہیں… جب خالی ہاتھ
واپسی کو رب تعالیٰ اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح قرار دیا
تو سب نے دل سے قبول کر لیا…
کیا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ یہ کمال کوئی اور دکھا
سکتا ہے؟… بہت سے لوگ اپنی
عبادت اور عقلمندی کے زعم میں کہہ دیتے ہیں کہ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں
پیدا ہوتے… ارے! ہم میں سے
کوئی اتنے بڑے اور اونچے دل والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانے میں پیدا فرما دیتے…
وہ زمانہ تو بڑے کڑے امتحانات کا تھا ہم اپنے دل کو دیکھیں تو وہ ان امتحانات کو
سن کر ہی لرز جاتا ہے… غزوہ احد
میں ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے…
مشرکین لات عزی اور ھبل کے نعرے لگا کر فاتحانہ واپس جارہے تھے…
حضرت سالار قافلہ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور تھے اور
قرآن پاک فرما رہا تھا…
اَنْتُمُ
الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اگر تم ایمان پر
ہو تو تم ہی غالب ہو…
ظاہری طور پر کون
سا غلبہ یہاں نظر آرہا تھا؟…
مگر واقعی حقیقت میں بہت بڑا غلبہ تھا…
اور اس حقیقت پر اُس وقت ایمان لانا…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کا کام تھا …رضی
اللہ عنھم و رضواعنہ… میرے
بھائیو! اور بہنو!…ہم سب
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کریں…
اور اُن سے حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم …یعنی
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا طریقہ سکھیں…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
مشکل محبت
گذشتہ کالم میں ہم
نے دلائل کے ساتھ پڑھ لیا کہ…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حضور پاک صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت… بالکل اعلیٰ درجے
کی سچی محبت تھی… مگر یاد
رکھیں! یہ محبت آسان نہیں تھی…
اس میں قدم قدم پر بے حد مشکلات تھیں…
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بعد کے کچھ لوگوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کے احوال پوچھے…
اورکہنے لگے… کاش ہمیں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور صحبت نصیب ہوتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا یوں یوں اعزاز اور اکرام کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاؤں مبارک زمین پر نہ پڑنے دیتے…
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ…
جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم، آپ کے راز دان اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے خصوصی مہم جو تھے…
فرمانے لگے… بیٹو! وہ آسان
کام نہیں تھا… اس کے بعد آپ نے
غزوہ خندق کا واقعہ سنایا کہ…
کیسی بھوک، کیسا خوف، کیسی سردی…
اور کیسی طویل آزمائش تھی کہ…
ہم آواز مبارک تو سنتے تھے مگر جسم میں اتنی بھی جان نہیں تھی کہ جواب عرض کر
سکیں…یہ واقعہ سنا کر
اشارہ فرمایا کہ… وہ عظیم
محبت ایسی آسان نہ تھی کہ ہر شخص اُس کا اہل ہو سکتا…
مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اُن کڑے حالات میں جب انسان کے حواس
بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں…
محبت کے تمام تقاضے نبھائے…
بھائیو! اور بہنو!… مجھے اور
آپ کو شکر کرنا چاہئے کہ دین ہم تک آسانی سے پہنچ گیا…
اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی آسان ہو گئی…
اب بھی کوئی اس نعمت سے محروم رہے…
ایسا نہیں ہونا چاہیئے…
ایک عجیب نکتہ
مؤمن کی اصل
’’محبت‘‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے…
اُس محبت میں کوئی شریک نہیں ہونا چاہئے…
اس کے بعد مؤمن کی اصل محبت…
حضرت آقامحمدمدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے…
اور اس محبت میں مخلوق میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہونا چاہئے…
یعنی جیسی محبت ہمیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو…
ایسی کسی اور سے نہ ہو…
نہ امیر سے نہ پیر سے… نہ ماں
باپ سے نہ اولاد سے… نہ مال سے
نہ حکام سے… اندازہ لگائیں کہ
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس اہم ’’نکتے‘‘ کی کیسی حفاظت
فرمائی… حضرت صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے یہ اعلان نہیں فرمایا کہ لوگ مجھ سے…
ویسی محبت کریں جیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے…
بلکہ جب آپ کو کسی ایسے فیصلے کا کہا جاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم مبارک
کے خلاف ہوتا تو آپ فرماتے: ابن ابی قحافہ کی کیا مجال کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کے کسی حکم کو تبدیل کرے…
ایک بار کسی شخص نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو ان کی خلافت کے زمانہ میں بہت
بُرابھلا کہا… یعنی حددرجہ
بدزبانی… ایک محبت کرنے
والے ساتھی اُسے قتل کرنے کے لئے اٹھے توصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے روک دیا…
اور فرمایا یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک تھی کہ…
آپ کے گستاخ کو قتل کرنا لازم تھا ہماری یہ شان نہیں ہے…
آج حیرانی ہوتی ہے اور دل دکھتا ہے جب کوئی کسی عہدے، منصب اور مقام کے نشے میں…
لوگوں کو اپنی ویسی اطاعت کا حکم دیتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی اطاعت تھی…
توبہ ، توبہ، توبہ… ایک پیر
کی تقریر سنی وہ اسی بات کو ثابت کر رہا تھا…
بالآخر گمراہ ہوا اور مارا گیا…
ایک صحیح العقیدہ شخص نے بھی ایک بار یہی کہا کہ میرے شیخ کی اطاعت اس طرح کرو جس
طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے
تھے… کئی امراء کو بھی
یہی نشہ چڑھ جاتا ہے… بہت دکھ،
خوف اور توبہ کا مقام ہے…
جس آدمی کے دل میں یہ خیال آئے کہ لوگ اس کی اطاعت اُس طرح کریں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تھی…
یا اُس سے اُسی طرح کی محبت کریں تو…
اُسے چاہئے کہ تنہائی میں بیٹھ کر ایمانداری سے اپنا محاسبہ کرے…
ممکن ہے دل حق بات سوچ لے…
تب اُسے اپنی ذات سے بھی گِھن اور نفرت ہونے لگے لگی…
مدینہ منورہ میں ایک خاندان صدیوں سے چلا آرہا ہے…
یہ بلالی رنگت والے حضرات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر
کی خدمت پر مأمور ہیں…
اندر مرقد مبارک پر جھاڑو کی سعادت بھی انہیں نصیب ہوتی ہے…
آپ میں سے جن کو وہاں حاضری کی سعادت ملی ہو ممکن ہے انہوں نے ریاض الجنہ یا صفہ
پر ان حضرات کو دیکھاہو…
سفید کپڑے اور کمر میں سبز پٹکا اور سر پر عمامہ ہوتا ہے…حضرت
مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ اشرفیہ لاہور…
بڑے جید عالم اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے…
وہ فرماتے ہیں میری ملاقات اس خاندان کے ایک فرد سے ہوئی مصافحہ کرتے ہوئے انہوں
نے فرمایا میں ساٹھ سال سے روضہ اطہر پر جھاڑو دیتا ہوں…
حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ سنتے ہی مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی
اور مجھے یوں لگا کہ میں گندگی کا ایک ڈھیر ہوں اور میرے ہاتھوں نے…
ان پاک ہاتھوں کو گندا کر دیا ہے جو روضہ اطہر پر جھاڑو کی سعادت رکھتے ہیں…
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
محبت کی طاقت
’’محبت‘‘ خود ایک
طاقتور چیز ہے… بے حد طاقتور…
اس لئے’’محبت‘‘ کو خواہشات، شہوات اور وقتی مفادات پر نہیں لگانا چاہئے…
بلکہ اس طاقت کو حاصل کر کے…
اونچی پرواز اور بڑی منزل پانی چاہئے…
مجنوں کی لیلیٰ سے
محبت…سچی تھی…
مگربے کار… پھر بھی طاقت
دیکھیں کہ آج تک ہر زبان پر اُس کا تذکرہ ہے…
ایک بے کار’’محبت‘‘ نے مجنوں اور لیلیٰ کو ’’یادگار‘‘ کردار بنا دیا ہے…بہت
دعاء کرنی چاہئے کہ ہماری’’محبت‘‘ کا رخ کسی غلط طرف نہ ہوجائے…
شیخ شبلیس کی محبت ایک عیسائی لڑکی کی طرف چل پڑی…
ایسی طاقتور کہ ایمان، نسبت، علم کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر گئی…
پھر توبہ ہوئی اور’’محبت‘‘ کا رخ محبوب حقیقی کی طرف پھرا…
تو ایسی طاقت کہ… سب کچھ
کھویا ہوا واپس آگیا…انسان کو
اپنے ’’محبوب‘‘ کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر…
اور اللہ تعالیٰ سے مانگ مانگ کر کرنا چاہئے…
کیونکہ ’’محبت‘‘ کے ذریعہ محبوب کے اثرات…
ریڈیائی لہروں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ محب کی طرف منتقل ہوتے ہیں…
ظاہری طورپر محبت کرنے والا سب کچھ لٹا تا ہے مگر حقیقت میں وہی سب کچھ پاتا ہے…
محبوب اچھا ہوتو اچھائی پاتاہے…
اور محبوب بُرا ہو تو برائی پاتا ہے…
حضرت شیخ ادریس رحمۃ اللہ علیہ نے ’’بینات‘‘ کے ایک مضمون میں یہ مسئلہ خوب
سمجھایا ہے… اور مثال یہ دی
کہ… حضرت شیخ انور
شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بہت شاگرد تھے…
بعض شاگرد سالہا سال آپ کی صحبت میں رہے…
مگر حضرت کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے جو کچھ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے پایا وہ
کوئی اور شاگرد نہ پا سکا حالانکہ حضرت نبوری رحمۃ اللہ علیہ آخری زمانے میں آئے
اور تھوڑا عرصہ ساتھ رہے…
دراصل حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے سچی محبت حاصل
تھی… اس محبت نے استاذ
کے علوم کھینچ کر شاگرد کے سینے میں بھر دیئے…
معلوم ہوا کہ محبت میں قوت جاذبہ بھی ہے اور قوت پرواز بھی…
یہ دومتضاد قوتیں اور کسی چیزمیں نہیں ہیں…
اچھی طرح یاد رکھیں… لوہے سے
زیادہ طاقت آگ میں ہے اور آگ سے زیادہ پانی میں اور پانی سے زیادہ ہوا میں…
اور ہوا سے زیادہ؟… جی ہاں
اخلاص میں… اخلاص کیا ہے؟…
محبت ہی کی ایک ادا ہے…
سورۃ الفتح عجیب باتیں سناتی ہے…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو…
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ملی تو پھر اس محبت کی طاقت
نے کیا کیا کرشمے دکھائے…
قرآن اور عربی سمجھنے والے صرف اس ایک جملے میں غور فرمائیں تو…
روح بھی عش عش کر اٹھے…
لَقَدْ رَضِیَ
اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃ
سبحان اللہ !…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی بدولت…
اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضاء مل گئی…
کالم کی جگہ پوری ہورہی ہے…
محبت بھری داستان کو روکتے ہیں…
سب سے پہلے اور سب سے زیادہ محبت…
اللہ تعالیٰ کے ساتھ…
پھر سب سے زیادہ محبت حضرت آقا محمدمدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ…
اورپھر انبیاء ، ملائکہ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ…
اور پھر اُن کے ساتھ… جن سے
محبت کا حکم اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے…
اور پھر بس… پکا تالا…
مگر اس ظالم تالے کا کیا ہو جو سچی محبت کو دل میں داخل ہونے ہی نہیں دیتا…
بے محبت دل… بنجر اور شور
زمینوں جیسے… یا اللہ یہ تالا کھول دیجئے…
اَللّٰھُمَّ
افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا…
تالا کھلے گا…
ذکر سے، رو رو کر دعاء کرنے سے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت
سے درود بھیجنے سے… اور خوب
استغفار کرنے سے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 368
محفلِ عشق
اللہ تعالیٰ کے
پاک نام کے بعد کس کا نام…
سب سے زیادہ پر تاثیر، پر نور اور پر سکون ہے…؟
وہ کون سا نام ہے…
جو کہیں تو ایمان کی روشنی بڑھا کر ظلمت کدہ دھر کو منور کر دیتا ہے…
اور کہیں اپنے
دشمنوں حس وخاشاک کی طرح مٹا دیتا ہے…
وہ ذات جن کا
’’ذکر‘‘ اونچا ہوا اور آج تک اونچا ہے اور ہمیشہ اونچا ہوتا رہے گا…
کچھ ناپاک لوگوں
نے آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراء ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر نا
پاک گستاخانہ فلم بنائی…
ان بدبختوں کے نام کھلا چیلنج…
محبت کی کرنیں اور
غیرت کے جذبات جگانے والی دل میں جگہ بناتی جگمگاتی تحریر!
تاریخ اشاعت
۱۲ذی قعدہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۲۸ستمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۸)
محفلِ عشق
اللّٰھم صل علیٰ
محمّد وعلی اٰل محمّد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید…
اللّٰھم بارک علیٰ محمّد وعلیٰ اٰل محمّد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰلِ
ابراہیم انک حمید مجید…
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…
آج بھی میٹھے عشق کی عاشقا نہ مجلس سجاتے ہیں…
اپنے آقا مدنی… حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق کی باتیں…
شاعر نے کہاتھا:
بڑا لطف دیتا ہے
نام محبت
میں عرض کرتا ہوں:
بڑا لطف دیتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
دل بہت زخمی ہو
اور پریشان…دل سے قطرے خون کے
ٹپک رہے ہوں، غم،بے چینی الجھن…
یا گناہوں کے ناپاک وساوس کے چھینٹے دل کو گندا کرنے کے لئے برس رہے ہوں…
چپکے سے اٹھیں وضو یا غسل کریں…
مسجد میں یا گھرکے کسی خلوت مقام میں جا بیٹھیں…
روح کو عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوشبودار جھونکا دیں…
اور شروع ہو جائیں درود و سلام پڑھنے میں…
آدھے گھنٹے
میں روح معطر، زبان خوشبودار…
اور دل باغ باغ… وہ جو گرتا جا
رہا تھا اب ایسا اٹھے گا کہ آپ خود سے حیران ہوں گے…
رب کعبہ کی قسم… اللہ تعالیٰ کے پاک نام کے بعد جس نام میں سب سے
زیادہ تأثیر ہے ، خوشبو ہے، نورہے، سکون ہے وہ ہے نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
بڑا چین دیتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
ایک بار درود شریف…
یعنی صلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فوری بدلہ…
اللہ تعالیٰ اُس بندے پر دس صلوٰت یعنی رحمتیں نقد
نازل فرما دیتے ہیں…
پہلے الحمدللہ
’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا بیان کئی کالموں میں ہوا…
اور اب الحمدﷲ… ’’محمد رسول اللہ ‘‘ کو بیان کرنے کی توفیق مل رہی ہے…
مؤمن کے دل میں دونوں ضروری…’’
لا الہ الا اللہ ‘‘ بھی اور ’’محمد رسول اللہ ‘‘ بھی…لوح
محفوظ پر بھی دونوں ساتھ ساتھ لکھے ہوئے ہیں…
اور اللہ تعالیٰ کے ’’عرش عظیم‘‘ پر بھی…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد…
اب اگر کوئی پوری زندگی لا الہ الا اللہ پڑھے…
اس پر پورا یقین رکھے… ہزار سال
عبادت کرے… دنیا کا سارا مال
صدقہ کرے… لیکن وہ …’’محمد
رسول اللہ ‘‘ کو نہ مانے…
تو وہ کافر ہے، جہنمی ہے…
اور ناکام ہے… یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے اور قرآن پاک کا واضح
اعلان ہے… اور اب موذیوں نے
جو فلم بنا ڈالی تو… عشق محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور بھی دل میں چمکا ہے…
اور حبّ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو مزید مچل اٹھی ہے…
بڑا پیارا لگتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
اُس پلید فلم کو
دیکھنا حرام… اس کی اسٹوری
سننا حرام… وہ کسی اور کو
دکھانا اور سنانا بھی حرام…
وہ فلم اور اس کے تمام ذمہ دار…
بہت جلد مٹ جائیں گے، فنا ہو جائیں گے…
رب تعالیٰ کا پکا وعدہ ہے…
اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ…
اے میرے محبوب! آپ کے دشمن بے نام و نشان ہو جائیں گے…
ماضی کے دشمن ہو چکے اور’’حال‘‘ کے دشمنوںکو انشاء اللہ مجاہدین محمد صلی اللہ علیہ وسلم
’’بے حال‘‘ کردیں گے…
بڑی شان رکھتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
باتیں توبہت ہیں…
میرے عظیم آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر…
اب تک کروڑوں صفحات لکھے جا چکے…
مگر عشق کی پیاس ہے کہ بجھتی نہیں…
تذکرے سے مزید بھڑکتی ہے…
خود ربّ جلیل نے… قرآن
عظیم میں ہمارے آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی جوشان بیان
فرمائی ہے… بلا مبالغہ…
اُن آیات کی تفسیر اور تشریح پرلاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں…
اور کمال یہ ہے کہ… ہر لکھنے
والا آخر میں دل سے اعتراف کرتا ہے کہ حق ادا نہیں ہوا…
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ’’الم نشرح‘‘ کی تفسیر میں یہاں تک لکھ
دیا ہے کہ… حضور اقدس کی
حقیقی شان سمجھنا اور لکھنا کسی انسان کے بس میں ہے ہی نہیں…
کون اتنا اونچا کہ اُن تک اُس کی نظر پہنچ سکے…
بڑی آن رکھتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
عرض یہ کی تھی کہ
باتیں بہت ہیں… آج صرف ایک
قرآنی معجزے کا تذکرہ اور پھر حوض کوثر پر…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے نصیب ہونے والے
جام کے لئے پیاسے ہونٹوں پر زبان پھیر کر…
درود پاک…
کوئی حد ہی نہیں
شاید محبت کے فسانے کی
سناتا جا رہا ہے
جس کو جنتا یاد ہوتا ہے
قرآن پاک میں…
اللہ رب العالمین اعلان فرماتے ہیں…
وَرَفَعْنَا لَکَ
ذِکْرَکَ
اے نبی!…
ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے…
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کے ’’ذکر مبارک‘‘…
آپ کے نام مبارک اور آپ کے مبارک تذکرے کی بلندی کا…
الٰہی وعدہ… یہ آیت مکہ
مکرمہ میں نازل ہوئی… سورۃ
’’الانشراح‘‘ کی چوتھی آیت…
سب جانتے ہیں کہ پوری سورۃ مکی ہے…
اس وقت صرف چند لوگ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے تھے…
اور بس… جبکہ وعدہ اتنا
اونچا…
کوئی مسلمان ہو یا
کافر!… دل پر ہاتھ رکھ
کر بتائے کہ یہ وعدہ پورا ہوا یا نہیں؟…
اُس وقت سے لیکر… آج تک…
دنیا میں، ملأ اعلیٰ میں…
حکام میں ، عوام میں…انسانوں
میں، جنات میں… ملائکہ میں، حملۃ
العرش میں… جو نام اللہ تعالی کے نام کے بعد سب سے اونچا ہے…
وہ نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے…
بڑی پہنچ رکھتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
ابھی ہجرت کو چند
سال ہی ہوئے تھے… حضرت ابو
سفیان رضی اللہ عنہ جو اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے ایک تجارتی سفر پر
تھے… روم کے
فرمانروا’’ہرقل‘‘ نے اُن کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں
معلومات لینے کے لئے… اپنے
دربار میں بلایا… روایت
بخاری اور مسلم میں موجود ہے…
ابو سفیان کا تجزیہ یہ تھا…
حیرت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ روم کے بادشاہ تک
بھی پہنچ گیا ہے…
انہ یخافہ ملک بنی
الأصفر
کہ رومیوں کا
بادشاہ بھی اُن سے ڈرتا ہے…
یہ ابھی’’مدنی جہاد‘‘ کا آغاز تھا اور تجزیہ کرنے والے خود بڑے دشمن تھے…
رومی بادشاہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرتا ہے…
ہاں وہ ڈرتا تھا… اور آج
تک کے کافر بادشاہ میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرتے ہیں…
کونسا ملک ہے جس کے صدر ، بادشاہ نے’’ناپاک فلم‘‘ سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا؟…
سب کہہ رہے ہیں کہ ہمارا اس فلم سے کوئی تعلق نہیں…
ایٹم بموں اور خلائی طاقتوں کے مالک تھر تھر کانپ کر…
معذرتیں کر رہے ہیں… ہے نا!
نام مبارک کا رعب… نام مبارک
کی شان… اور ذکر
حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی؟؟…
بڑا رُعب رکھتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
اس آیت مبارکہ کی
تفسیر پر… حضرات مفسرین کے
جملے بڑے ایمان افروز ہیں…
کئی احادیث مبارکہ بھی…’’وَرَفَعْنَا
لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ کے مفہوم کو بیان فرماتی ہیں…
ان کاتذکرہ پھر
کبھی…
آج ہمارا موضوع
یہ ہے کہ… یہ آیت مبارکہ
ایک کھلا معجزہ ہے… آنکھوں
والے غور کریں تو دل بھی زندہ ہو جائے…
مکہ مکرمہ میں آیت مبارکہ اتری…
اس کے بعد نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بجھانے اور مکہ ہی میں سمیٹ
کر ختم کرنے کی ہر کوشش مشرکین نے کر ڈالی…
قتل کے لئے گھر کے باہر جمع ہو گئے…
ہجرت کے سارے راستے کو خونخوار جنگجوؤں نے چھان ڈالا…
بار بار مدینہ منورہ کی طرف چڑھائی کی…
مگر ذکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک نور بن کر پھیلتا چلا گیا…
پھیلتا چلا گیا… نہ وسائل تھے اور
نہ کوئی مادی سلطنت… مکہ مکرمہ
سے مدینہ منورہ… مدینہ منورہ سے
آس پاس کے قبائل… اور پھر
پورا جزیرۃ العرب اور پھر شمال، جنوب، مشرق، مغرب…
ہر جگہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ …
گونجنے لگا… ہر جگہ اذانیں
للکارنے لگیں… مجاہدین محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے دستے خشکی اور سمندر کو سمیٹتے چلے گئے…
دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پورے عالم میں پھیل گیا…
نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
دنیا کا سب سے مقبول اور محبوب نام بن گیا…
کئی یورپی ممالک نے سروے کروائے…
سب سے زیادہ آبادی کا نام محمد…
دنیا میں سب سے زیادہ جس نام کے افراد بستے ہیں…
وہ نام ہے محمد… دنیا میں جس نام
کی اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد سب سے زیادہ تعظیم و تکریم
کی جاتی ہے… وہ ہے نام محمد
صلی اللہ علیہ وسلم …
بڑا پیار دیتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
تھوڑا سا اندازہ
لگائیں… ’’عالم کفر‘‘ نے
مسلمانوں پر کتنی محنت کی…
تاکہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے بڑی چیز’’پیسہ‘‘ بن جائے…
اتنی محنت، اتنی محنت کہ حیرانی ہوتی ہے…
اس محنت میں ان کو خاصی کامیابی ملی بہت سے مسلمان ’’پیسے‘‘ کو سب سے بڑی چیز
سمجھنے لگ گئے… طرح طرح کے فرقے
کھڑے کئے گئے تاکہ کچھ اور نام مسلمانوں کے نزدیک بڑے ہوجائیں…
اس کوشش کا بھی کئی مسلمان شکار ہو گئے…
حددرجہ عسکری طاقت بنائی گئی تاکہ اس کے خوف سے مسلمانوں کے حواس ختم ہوجائیں
اوروہ ان طاقتوں کو ہی سب سے بڑا سمجھیں…
اور ان سے ٹکرانے کا خیال بھی اُن کے دل میں نہ آئے…
اسلامی ملکوں کے حکومتی نظام کو اپنے قبضے میں لیا گیا تاکہ مسلمانوں پر…
منافقین کو مسلط کر دیا جائے جو ان کے ایمانی جذبات کو پگھلا کر رکھ دیں…
جدید کلچر، طرح طرح کے فیشن، ننگی فحاشی اور کھلی بے حیائی کو باقاعدہ عام کیا گیا
تاکہ مسلمانوں کی ترجیحات ہمیشہ کے لئے بدل جائیں…
یہ سب کچھ کرنے کے بعد…
اُن کا خیال تھا کہ اب مسلمان راکھ کا ڈھیر ہو چکے ہیں اب ان کی شہہ رگ کاٹی جائے…
یعنی ان کو… حضرت سرکار دو
عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی طور پر کاٹ دیا جائے…
اسی کوشش میں جب ایک ناپاک فلم سامنے آئی تو…
عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تلاطم خیز موجیں اٹھیں کہ ’’عالم
کفر‘‘ تھر تھر کانپ اٹھا…
نہ کسی نے پیسہ دیکھا اور نہ فرقہ…
نہ حکومت کی کسی نے پروا کی اور نہ منافق دانشوروں کے سمجھانے کی…
نہ کسی کو ایٹم بم سے کوئی خوف محسوس ہوا اور نہ کوئی میزائلوں سے ڈرا…
لاکھوں مسلمان دیوانہ وار تڑپتے ہوئے اٹھے کہ…
نہیں نہیں،نہیںنہیں… آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں…
ہرگز نہیں… کٹ مریں گے اور
کاٹ ڈالیںگے… جل جائیں گے اور
دنیا کو جلا ڈالیں گے… مگر یہ
حرکت برداشت نہیں کریں گے…
سبحان اللہ !…
سالہا سال کی محنت اور…
بڑے بڑے ایٹمی لشکروں کا رعب …
شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شکست کھا گیا…
اور نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی کے سامنے سرنگوں ہو گیا…
بڑا کام کرتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
اے کافرو!…
اب اصل بات سنو… تم نے اب شان
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ چھیڑی ہے…
تم نے اب’’نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی طرف ناپاک انگلی اٹھائی ہے…
اب تمہیں زمین جگہ دے گی اور نہ آسمان سایہ…
’’نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی گستاخی نے مسلمانوں کو مسئلہ جہاد سمجھا دیا
ہے… اور جہاد تمہاری
موت ہے… وہ دیکھو!…
جیشِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
انصارِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
مجاہدین محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
دیکھو!… کیسے شہادت کے
لئے مچل رہے ہیں… اُن کے
لئے زندہ رہنا اب دنیا کا مشکل ترین کام ہے…
محبوب کی گستاخی برداشت کر کے جینا ان کی لغت میں نہیں ہے…
تم عراق سے بھا گ گئے… ہار گئے
نا؟… تم افغانستان سے
بھاگنے والے ہو… شکست کھا گئے نہ؟…
وہ دیکھو! اسلام تمہارے گلی کوچوں میں…
اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی رسالت سنا رہا ہے…
نیلسن منڈیلا کا قریبی رشتہ دار سابق عیسائی پادری اور پر جوش مشنری ’’سیلی‘‘…
اب ابراہیم بنا ہوا… ایک ایک
دروازے پر جا کر اسلام کی دعوت دے رہا ہے…
وہ روتے ہوئے بتاتا ہے کہ…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں زیارت نصیب فرمائی…
اور مجھے’’ابراہیم‘‘ کا نام دے دیا…
اُس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں مگر…
اسے فرصت نہیں کہ انہیں سی لے یا بدل لے…
وہ عاشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن چکا ہے…
وہ دیکھو! ٹونی بلیئر کی سالی…
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر…
دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو چکی ہے…
نائن الیون کے بعد… مجاہدین
کے کارنامے دیکھ کر مسلمان ہونے والوں کی تعداد…
پچاس لاکھ سے بڑھ چکی ہے…
وہ دیکھو!… عبد اللہ ! ماضی
کا یہودی… اور اب اسلام کا
داعی امریکہ کے ایک ایک شخص تک محمد عربی صلی اللہ علیہ
وسلم کا دین پہنچا رہا ہے…
اسے کس نے مسلمان کیا؟…
اسے اس کے اُس امریکی فوجی بھائی نے اسلام کی دعوت دی…
جو فوجی طالبان کی قید میں آیا تو چند ہی دن میں…
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام اور سپاہی بن گیا…
ارے ظالمو!… زمین تمہارے
قدموں کے نیچے سے کھسک رہی ہے…
تمہاری گستاخیوں اور بے ادبیوں نے زمین و آسمان کے تیور بدل دیئے ہیں…
ایک طرف مجاہدین اسلام کی یلغار ہے…
تو دوسری طرف داعیان اسلام کے زمزمے ہیں…
کہاں جاؤگے؟ کہاں جاؤ گے؟ آجاؤ! آجاؤ!…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبت، شفقت اور کامیابی والے
سائے میں… آجاؤ اور اقرار
کر لو …
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اسی میں
تمہاری کامیابی ہے… اور اگر
تم نہ آئے… تو برباد اور
ناکام ہو جاؤ گے… سورج کے
خلاف فلمیں بنا کر… تم سورج
کو ایک انچ نیچے نہیں کر سکتے…
آسمان کے خاکے اڑا کر…
تم آسمان کو آدھا انچ اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتے…
تو پھر… حضرت آقامدنی
صلی اللہ علیہ وسلم ؟… ارے وہ تو
سورج سے اونچے، آسمانوں سے اونچے…
ساری مخلوق سے اونچے… تمہاری
فلموں نے ان کی شان میں کوئی کمی نہیں کی…
اور نہ کر سکتی ہیں… ہاں! اُن
کے عشق و محبت کی خوشبو اور مہک اٹھی ہے…
اور امت مسلمہ کو بیدار فرما رہی ہے…
بڑا زور رکھتا ہے
نام محمد
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (369)
محبت لازمی
جہاد کی قوت اور
مجاہدین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے لوث قربانیوں نے ’’کفر‘‘ کے
سرغنوں کے سر اڑائے… او ان کی
قوت کو ریزہ ریزہ کیا… تو وہ بد
بخت پاگلوں کی طرح ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی ناموس اور عزت کی طرف نا پاک
انگلیاںاٹھانے لگے…
ان حالات میں
مسلمانوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
مسلمان اپنے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں سے کس طرح نمٹیں؟
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت کو کس طرح دل میں جگہ دی جائے؟
ایک ضروری اور
لازمی محبت کے ضروری گوشے دیکھئے اس تحریر میں!
تاریخ اشاعت
۱۹ذی قعدہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۵اکتوبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۶۹)
محبت لازمی
اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم احسان ہے کہ…
اُس نے ہمیں’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ عطاء فرمائے…
کبھی اللہ تعالیٰ موقع دے تو اس عظیم نعمت اور احسان پر غو
ر کریں… دل باغ باغ ہو
جائے گا اورایمان کی روشنی اور محبت کی خوشبو سے چھلکنے لگے گا…
اس وقت ہم مسلمانوں کے لئے سب سے اہم موضوع یہی ہے کہ ہم…
حبُّ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بات کریں…
عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دلوں میں تازہ اور مضبوط کریں…
اور اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے تذکرے اور چرچے
کریں… ممکن ہے کوئی
سوچتا ہو کہ حالات حاضرہ پر کافی دن سے کچھ نہیں لکھا گیا…
صحافتی اور عوامی زبان میں ’’کرنٹ افیئر‘‘…
یعنی تازہ ترین موضوع… بس عشق و
محبت کے تذکرے ہیں… بات یہ ہے
بھائیو! کہ ہمارے نزدیک یہی تازہ ترین موضوع ہے…
اور یہی’’کرنٹ افیئر‘‘ …
اس وقت اربوں ڈالر کی سیاست اور سازش چل رہی ہے کہ…
مسلمانوں کو اس موضوع سے جلدکاٹ دیا جائے…
پہلے یہ شور مچایا گیا کہ مظاہروں میں تشدد کیوں ہوا؟…
خوب مذمتی بیانات آئے تاکہ ’’خوشبوے مدینہ‘‘ کو پھیلنے سے روکا جائے…
اور اب ایک اور فضول ساموضوع پورے میڈیا پر چڑھا دیا گیا ہے…
تاکہ مسلمانوں کی توجہ’’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سے ہٹ جائے…
حالانکہ گستاخانہ فلم ابھی تک کمپیوٹر پر موجود ہے…
فلم کے ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں دی گئی…
سلمان رشدی سے لیکر ملعون ٹیری جونز تک…
ہر کمینے دجّال کی بھرپور حفاظت کی جارہی ہے…
گستاخی بھرا مواد وقفے وقفے سے جاری کرنے کی سازش مکمل تیار ہے…
زمین کا بدترین جُرم… حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی…
اس جُرم کے ردعمل میں عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ پیدا ہوا جس
نے مسلمانوں کو کھڑا کر دیا…
اب قریب تھا کہ… زمین ان گستاخوں
پر تنگ پڑ جاتی اور الجہاد الجہاد کے نعرے پورے عالم میں گونجتے تب بڑی چالاکی اور
عیاری سے میڈیا اور ذہنوں پر…
دوسرے مسائل کا دھاوا بول دیا گیا …
ایک بات اچھی طرح یادرکھیں…
گستاخی کا یہ ناپاک جرم ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے…
بلکہ خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ جُرم ہوا…
یہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ہے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک مسلمانوں کے لئے قیامت تک
کا نمونہ ہے… اس لئے اُس زمانے
میں بھی گستاخی کا جرم ہوا تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین نے اس جُرم کا مقابلہ کس طرح سے فرمایا…
دوکام کرنے کے اور ایک کام نہ کرنے کا…
یہ ہے اس خبیث جُرم کے مقابلے کا نصاب…
جو دو کام کرنے کے
ہیں…
(۱) حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح، ثنا اور شان کو ایسے موقع پر خوب کُھل
کر بیان کیا جائے … اور زیادہ
سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فضائل اور مناقب کا تذکرہ کیا
جائے… آپ حضرت
حسّان رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھ لیجئے…
جب کوئی گستاخ جانور بھونکتا تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی زبان اور
قلم تلوار بن جاتے… اور آپ
رضی اللہ عنہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ اُس مردود کی گستاخی کو تہس نہس فرما دیتے…
اور ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کے لئے حضرت روح القدس…
جبرئیل علیہ السلام کو بھیجتے…
اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت ملتی کہ وہ…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر مبارک پربیٹھ کر عشق
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور مناقب
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے…
ہمارے اکثر قارئین
عربی زبان نہیں سمجھتے…
ورنہ آج کے کالم میں حضرت سیدنا حسّان رضی اللہ عنہ کے بعض اشعار پیش
کر دیئے جاتے… عربی سے اردو میں
ترجمہ کیا جائے تو… عربی
جذبات کی گرمی ٹوٹ جاتی ہے…
یہ صرف ایک مثال ہے… اس سے
ثابت ہوا کہ… جب کائنات کے
ملعون اور مردود ترین افراد…
مدینہ طیبہ کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگیں تو…
مسلمانوں کو چاہئے کہ… حبُّ
النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم …
فضائل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں…
وجہ بالکل واضح ہے… حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور بے ادبی…
انسانیت پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دیتی ہے…
تب ضروری ہوتا ہے کہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے عمومی عذاب سے بچانے کے لئے…
اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی کا تذکرہ کیا جائے…
محبوب کا تذکرہ سن کر غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے…
اور غضب، رحمت میں بدل جاتا ہے…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک تذکرے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں، راضی ہوتے ہیں…
اور رحمتیں نازل فرماتے ہیں…
یہ ہوا کرنے والا پہلا کام…
(۲)… گستاخی کرنے والے
ملعون… مرد ہو ںیا
عورتیں… مسلمان کہلاتے
ہوں یا غیر مسلم… اُن کے
عذابی وجود سے زمین کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے…
ایڈز کے مریض خطرناک… مگر
گستاخی کے مریض اُن سے ہزار گنا زیادہ…
انسانیت، زمین، امن… اور شرافت
کے لئے خطرہ ہیں… یہ وہ ہیں
جن کو قرآن حکیم نے’’ملعونین‘‘ فرمایا…یعنی
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دھتکارے ہوئے…
جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت صبح شام نازل ہوتی ہے…
ایسے لوگوں کو دیکھنا بھی نقصان دہ…
ان کے ساتھ بیٹھنا بھی لعنت کا موجب…
اور اُن کا وجود ہر وقت عذاب کا خطرہ…
دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ…
امریکہ اور یورپ کیسے تباہ ہوتے ہیں…
خود ان کی سائنس ایسی غلطیاں کرے گی کہ…
ملکوں کے نام و نشان تک مٹ جائیں گے…بس
دھواں ہو گا… آگ ہوگی اور
پانی ہی پانی… یہ ہے کرنے کا
دوسرا کام… آپ دور نبوت میں
دیکھ لیجئے…کعب بن اشرف سے
لیکر ابن خطل تک… کئی ملعون
گستاخوں کے سر اُن کے جسموں سے الگ کر دیئے گئے…
اور یوں جزیرہ عرب کو روشنی، پاکی، امن، خوشحالی…
اور ترقی نصیب ہوئی…
تیسرا کام جو نہ
کرنے والا ہے وہ یہ کہ…
گستاخی کے الفاظ… گستاخی کے
مواد… اور گستاخی پر
مبنی چیزوں کو… ہر گز عام نہ کیا
جائے… نہ بطور خبر، نہ
بطور معلومات، یہ تو غلاظت اور ناپاکی ہوتی ہے…
اور ایسی نجس اور گندی چیزوں کو…
نہ دیکھا جاتا ہے اور نہ سونگھا جاتا ہے…
یہ بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں…
یہ مردار خنزیر کے گلے سڑے اعضاء ہوتے ہیں…
ان کو چھپایا جاتا ہے، دفنایا جاتا ہے…
اور انسانوں سے بہت دور پھینکا جاتا ہے…
سیرت اور تاریخ کی کتابیں پڑھ لیں…
آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ…
کعب بن اشرف نے گستاخی بکی تھی…
مگراُس نے کیا بھونکا تھا…
یہ کسی کتاب میں مذکور نہیں…
اور مذکور ہونا بھی نہیںچاہئے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک…
ہر عیب سے پاک ہے… آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ہر صفت…
بشری طور پر کمالات کے سب سے اونچے درجے پر ہے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے…
دین کے معاملے میں تو دور کی بات…
اپنے گھر کے اندرونی معاملات میں بھی…
کوئی ادنیٰ سی خطاء نہیں ہوئی…
آپ کا ہر عمل نور ہے… آپ کاہر
قول روشنی ہے… کوئی لاکھ کوشش
کرے… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو علم اور تحقیق کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنا ہی نہیں
سکتا… ایک پڑھے لکھے
غیر مسلم کے ان الفاظ پر غور کیجئے…
’’میں حضرت محمد(
صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دنیا کا سب سے بڑ اکامل انسان تسلیم کرتا ہوں…
وجہ اُس کی یہ ہے کہ مجھ کو ان کی زندگی میں بیک وقت اس قدر متضاد اور متنوع اوصاف
نظر آتے ہیں جو کسی ایک انسان میں تاریخ نے کبھی یکجا نہیں دیکھے…
بادشاہ ایسا کہ پورا مُلک اس کی مٹھی میں اور بے بس ایسا کہ…
خود اپنے کو بھی اپنے قبضہ میں نہ جانتا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں…
دولت مند ایسا کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے اُس کے دارالحکومت میں آرہے
ہوں… اور فقیر ایسا کہ
مہینوں اُس کے گھر چولہا نہ جلتا ہو…
اور کئی کئی وقت اُس پر فاقے سے گذر جاتے ہوں…
سپہ سالار ایسا کہ مٹھی بھر نہتے افراد کو لیکر ہزاروں کے غرق آہن مسلح لشکر کو
شکست دے رہا ہو… اور صلح پسند
ایسا کہ پُرجوش جانثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذ پر بے چون و چرا دستخط
کر دیتا ہو… شجاع اور بہادر
ایسا کہ ہزاروں کے مقابلہ میں تن تنہا ڈٹا کھڑا ہو…
اور نرم دل ایسا کہ جانوروں پر بھی رحم کھاتا ہو…(طویل
مضمون میں سے ایک اقتباس)
عرض کرنے کا مقصد
یہ ہے کہ… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر
کوئی علمی یا تحقیقی تنقید ہو ہی نہیں سکتی…
کہ اُ س کو پڑھا جائے… یہ تو محض
اپنے دل کی جلن… کفر کا بدترین
اظہار… اور دشمنی کی
انتہا ہوتی ہے… اس لئے…
گستاخ … اور اس کی گستاخی
دونوں کو زمین کے نیچے بہت گہرا دفنا دینا چاہئے…
بات کچھ دور نکل
گئی آئیے اپنی مجلس کو رحمت سے بھرنے کے لئے درود شریف پڑھتے ہیں…
اللّٰھم صل علیٰ
محمّد وعلی اٰل محمّد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید…
اللّٰھم بارک علیٰ محمّد وعلیٰ اٰل محمّد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰلِ
ابراہیم انک حمید مجید…
آج بھی عشق
و محبت کی محفل سجانے کا ارادہ تھا…
مگر اس کی وجہ بتاتے بتاتے جگہ پوری ہو گئی…
پھر بھی چند بہت اہم باتیں پیش خدمت ہیں…
(۱) حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا…
عبادت ہے… جی ہاں! ایسی
عبادت جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں…
وجہ یہ ہے کہ… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے کا
حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے…
اورعبادت کا مطلب اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا کرنا…
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
النبی اولیٰ
بالمؤمنین من انفسھم
دلائل اور بھی ہیں…
غورکریں تو سینہ کھل جائے گا انشاء اللہ …
(۲) حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حکم’’اختیاری‘‘ نہیں ہے کہ…
جو چاہے عمل کرے اور جو چاہے عمل نہ کرے…
یہ لازمی حکم ہے… بے حد
لازمی…
اس لئے کئی روایات
اور احادیث صحیحہ میںسمجھا دیا گیا کہ…
جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت…
کسی مسلمان کے دل میں… اس کی
اولاد، والدین اور جان و مال سے بڑھ کر نہ ہو…
وہ ایمان والا نہیں ہو سکتا…
اس لئے بہت دعاء… محنت اور
کوشش سے دین کی اس ضروری بنیاد کو حاصل کیا جائے…
(۳) یہ
بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ…
اللہ تعالیٰ…
اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے’’محبت‘‘ فرماتے ہیں…
عام نہیں بہت خاص محبت…
اپنی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبت…
اسی لئے آپ کو افضل ترین کتاب عطاء فرمائی…
اپنا خاص قرب نصیب فرمایا…
آپ پر نبوت اور رسالت کو مکمل فرمایا…
اپنی کتاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعریف
فرمائی جو کسی اور کی نہیں فرمائی…
خلاصہ یہ کہ… اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبت حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں بس اسی سے ثابت ہوا کہ…
ایمان کی قبولیت کے لئے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت شرط ہے…
کوئی آدمی اگر یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں…
اور اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتا ہوں…
تو پھر اس کے لئے لازمی ہے کہ…
وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے بھی محبت رکھے…
کیونکہ محبت کا لازمی قرینہ یہ ہے کہ محبوب کا محبوب…
محبوب ہوتا ہے… اگر ہمیں اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جن سے محبت فرماتے ہیں…
وہ بھی ہمارے محبوب ہونے چاہئیں…اگر
ایسا نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ سے محبت کا
دعویٰ بھی جھوٹا ہوگا… عشق کے اس
پیارے نکتے کو سمجھنا ہو تو…
سورۃ الاحزاب کھولئے… اور وہ
آیت پڑھ لیجئے جس میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو حکم فرما رہے ہیںکہ اے
ایمان والو! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام
بھیجا کرو! اس حکم کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی صلوٰۃ کا ذکر فرمایاہے…
یا اللہ ! ہم سب کو اپنی اور اپنے محبوب نبی حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت نصیب فرما دیجئے…
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (370)
مناظرِ عید
تمام اقوام اپنی
قومی اورملی خوشیوں کے کچھ دن مناتی ہیں…
اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو دو دن اجتماعی خوشی کے عطاء کئے…
جو دیگر اقوام کے
خاص دنوں سے بہت افضل، قیمتی…
رب کے پسندیدہ… بلکہ رب تعالیٰ
کی طرف سے انتخاب کردہ ہیں…
اب اور کوئی دن ان کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟
یہ دو دن ہیں: عید
الفطر… عید الاضحی (عید
قربان)
عید قربان اور اس
کے ساتھ چند یکم ذی الحجہ سے تیرہ تاریخ تک کے خاص فضیلت والے خاص اعمال…
قربانی کے جذبات
ابھارنے والی… اور قربانی کے
بارے میں بعض ’’مال پرست‘‘ دانشوروں کی طرف سے پھیلائے جانے والے وسوسے کا توڑ…
آپ بھی پڑھیے اور
ایک بڑی نعمت کا صحیح ادراک حاصل کیجئے…
تاریخ اشاعت
۲۶ذی قعدہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۲؍اکتوبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۰)
مناظرِ عید
اللہ تعالیٰ کا ایک اور عظیم احسان…
عیدِ قربان، عیدِ قربان…
اے انسانو! اے
جنّات !!… اللہ تعالیٰ کی کِس کس نعمت کا انکار کرو گے؟…
فَبِاَیِّ
اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبانِ
بے شمار فضائل
آج کل جو دن اور
راتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نصیب فرمائے ہیں…
یہ بہت اونچے دن اور راتیں ہیں…
ذوالحجہ کے مہینہ کے دس دن…
سبحان اللہ …
ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر…
اور ہررات کی عبادت لیلۃ القدر جیسی…
اور پھر قربانی کا دن…بعض اہل
علم فرماتے ہیں… یہ روئے زمین کا
سب سے افضل دن ہے… اپنے رب
تعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کا دن…
اور پھر ایام تشریق… اللہ اکبر کبیرا…
اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے کے دن…قرآن
مجید جیسی کتاب میں ان دنوں کا بھی تذکرہ ہے اور ان راتوں کا بھی…
فرمایا…وَاذْکُرُوا
اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ…اور
فرمایا وَالْفَجْرِوَلَیَالٍ عَشْرٍ…
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد…
عرفہ کے دن کا
روزہ
خوش نصیب ہوئے وہ
جنہوں نے… پورے’’نو‘‘ روزے
رکھے… یکم ذی الحجہ سے
نو ذی الحجہ تک… حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول مبارک تھا…
کان رسول اللہ ا
یصوم تسع ذی الحجہ ویوم عاشوراء و ثلاثۃ من کل شھر(احمد، داؤد، نسائی)
یعنی حضرت
آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم …
ذوالحجہ کے نو روزے، عاشوراء یعنی دس محرم کا روزہ اور ہر مہینے کے تین روزے رکھتے
تھے… جنہوں نے رکھ لئے
اُن کو مبارک جو نہ رکھ سکے…
وہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھ لیں…
ہمارے ہاں عرفہ کا دن’’جمعہ‘‘ کو پڑیگا…
اس دن کا روزہ… بڑا جاندار ہے…
فرمایا… ایک سال پچھلے
اور ایک سال اگلے کے گناہ معاف…
(صحیح مسلم)
سبحان اللہ ! اور کیا چاہئے؟…
سردیوں کے دن ہیں… عید کے دن
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہوتی ہے…
پاکیزہ حلال گوشت اور تکبیرات و اذکار کی خوشیاں…
اس دعوت سے پہلے اپنے مولیٰ کریم کے لئے بھوکے پیاسے رہیں گے تو انشاء اللہ …
خوشیاں دوبالا ہوجائیں گی…
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد…
پیارا جھگڑا
اہل علم میں ایک
مسئلے پر جھگڑا ہے… بہت
مزیدار اور پیارا جھگڑا…
جی ہاں! کبھی اختلاف بھی رحمت کا باعث بن جاتا ہے…
جب مقصد اونچا ہو اور نفس کی شرارت سے پاک ہو…
سب سے افضل دن کونسا ہے؟…
یوم نحر… قربانی کادن یعنی
دس ذی الحجہ… یا یوم عرفہ یعنی
نو ذی الحجہ؟… دونوں طرف بڑے
خوبصورت دلائل ہیں… ایک
قربانی کا دن ہے… جسے حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اعظم الایام عند اللہ ‘‘ فرمایا ہے…
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا دن…
اور دوسری طرف حج اکبر کا دن…
یوم عرفہ ہے… جس دن کاروزہ دو
سالوں کے گناہوںکا کفارہ…
جس دن سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ ملتا ہے اور جس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا خاص قرب عطاء فرماتے
ہیں… اور فرشتوں کے
سامنے اُن پر فخر فرماتے ہیں…
دونوں دن بڑے قیمتی… کوشش کریں
کہ دونوںکو حاصل کر لیا جائے…
عرفہ کے دن روزہ… اور نحر
کے دن قربانی… اور دونوں دنوں
میں… اللہ تعالیٰ کا خوب ذکر…
خوب تسبیح… اور خوب لا الہ
الا اللہ کا ورد…
یعنی تہلیل… حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام دنوں کے بارے میں سمجھا دیا کہ
اکثروا فیھن من
التھلیل والتکبیر والتحمید…(
رواہ الطبرانی)
ان دنوں میں
تہلیل(لا الہ الا اللہ ) تکبیر( اللہ اکبر
کبیرا) اور تحمید(الحمدﷲ) کی کثرت کیا کرو…
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد…
اعمال کی ترتیب
ایک طرف ذوالحجہ
کے پہلے دس دن ہیں… ان کی
مستقل فضیلت… ان دنوں کے اعمال
اللہ تعالیٰ کو بہت پسند…
پھر ایام تشریق ہیں… اُن دنوں
کے اعمال بھی بہت قیمتی اور پسندیدہ…
کل نصاب چودہ دن کا ہے…
یکم ذوالحجہ سے لیکر تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک…
ان میں سب سے بڑا دن دس ذی الحجہ کا ہے…
ارشاد فرمایا:
ان اعظم
الایام عند اللہ تبارک و تعالیٰ یوم
النحر(ابو داؤد)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا دن قربانی والا
دن ہے… یعنی دس ذی الحجہ
کا دن… ان تمام چودہ
دنوں کے اعمال میں… سب سے
افضل عمل’’حج بیت اللہ ‘‘ ہے…
اسلام کا عاشقانہ فریضہ…
حجاج کرام کو مبارک ہو…
پھر بڑا عمل’’قربانی‘‘ ہے…
جن کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطاء فرمائی…
بہت عمدہ، اعلیٰ اور اچھی قربانی کریں…
قربانی کے پیسے … کسی بھی
بڑے سے بڑے فلاحی کام میں لگادیں…
کچھ ہاتھ نہ آئے گا… ایک واجب
چھوٹے گا… امت میں رخنہ پڑے
گا… ملت ابراہیمی سے
دوری اور محرومی ہو گی…
عقل کو دین پر غالب کرنے کا گناہ ملے گا…
سنت متواترہ کی نافرمانی ہو گی…اورایک
بُری رسم کا اجراء ہو گا…
اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے…
پورا سال غریبوں کو کھانا کھلائیں…
ثواب ہی ثواب… برکت ہی برکت…
فقیروں کی روزآنہ مدد کریں…
دن کو بھی رات کو بھی… ہر طرح کے
فلاحی کام کریں… انسانوں کے لئے
بھی جانوروں کے لئے بھی…
بلکہ ہر ذی روح کے لئے…
اسلام ترغیب دیتا ہے… اسلام کا
مزاج ہی فلاحی ہے…مگر قربانی
کے دن صرف قربانی… مزید
استطاعت ہو تو الگ مال سے غریبوں اور فقیروں کی خدمت کریں…کوئی
نہیں روکتا… مگر قربانی کے
پیسے اِدھر اُدھر لگا کر بد نصیبی کو آواز نہ دیں…
آج کل کے دانشور، دانش سے محروم ہیں…
غریبوں اور فقیروں کے نام پر لوگوں کو ’’قربانی‘‘ سے کاٹنے والے…
ایسے صاحب کردار… نہیں کہ
ان کی باتوں پر دھیان دیا جائے…
یہ خود مال اور پیسے کے پجاری اور بڑی بڑی حرام جائیدادوں کے مالک ہیں…
وہ صرف مسلمانوں سے ایک’’ نعمت‘‘ چھیننا چاہتے ہیں…
قربانی کی نعمت… بہت رغبت اور دل
کی خوشی سے قربانی کریں…
گھر کے سامان میں سے کچھ بیچنا پڑے تو کوئی حرج نہیں…
سعادت ہے… قربانی تو ہوتی
ہی وہی ہے… جس میں
کچھ’’قربان‘‘ ہو…
یہ ہوئے دو عمل…
تیسرا عمل تکبیرات اور روزے ہیں…
اور چوتھا عمل… ان دنوں زیادہ سے
زیادہ نیک اعمال… اور ذکر و
تہلیل… باقی شکر ہے کہ…
مسلمان’’عید‘‘ کی نماز کا اہتمام کرتے ہیں…
اللہ کرے اور زیادہ کرتے رہیں…
اور عید کی طرح روزآنہ کی پانچ فرض نمازوں کا بھی اہتمام کرنے والے بن جائیں…
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد…
رنگ لاتی قربانیاں
حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی…
وہ قربانی رنگ لائی اور انسانوں کو…
اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک عمل نصیب ہوا…
جس کسی کے دل میں’’قربانی‘‘ کے بارے کوئی خلش ہو…
وہ رسالہ’’تحفہ ذی الحجہ‘‘ میں ’’قربانی‘‘ کے بارے میں چالیس احادیث پڑھ لے…
سب سے افضل قربانی تو اپنی جان کی ہے…
اور پھر کسی جانور کی… کوئی
قربانی ضائع نہیں جاتی…
دنیا کا نقشہ اپنے سامنے رکھیں…
پچھلے سال کی عید اور اس سال کی عید میں کتنا فرق ہے…
مصر میں دیندار مسلمان…
پچھلی عید پر معتوب تھے اور دبے دبے…
چالیس سال کا ظلم، پابندیاں اور نگرانیاں انہوں نے جھیلیں…
اس سال وہاں حالات یکسر بدلتے دکھائی دے رہے ہیں…
وہ جو چھپ چھپ کر جیتے تھے…
آج کُھل کُھل کر دین کی بات کرتے ہیں…
اور وہ جو فرعون بنے دندناتے تھے…
اب جیلوں میں سسکتے اور گلیوں میں چھپتے ہیں…
سبحان اللہ ، اللہ اکبر…
یہی حال تیونس کا ہے… ایک مذہبی
رہنما کو پورے چھبیس سال بعد ملک میں داخل ہوتے دیکھا تو دل میں امیدوں کے چراغ
اور زیادہ روشن ہو گئے…
مراکش والوں نے خود ہی سخت قوانین نرم کر دیئے…
اوریمن میں بھی حالات تیزی سے بدلتے ہیں…
لیبیا میں عجیب ظلم تھا…
اب وہاں جہادی دندناتے پھرتے ہیں…
ملک شام کی آزمائش تاحال جاری ہے…
قرب قیامت کے حالات کے مطابق مجاہدین کا اُدھر رخ ہے…
فی الحال ان کی یہ ’’عید‘‘ قربانیوں سے رنگین ہے…
ان پر زیادہ ظلم ایرانی غنڈے…
اور پاسداران انقلاب کر رہے ہیں…
اگر داستان کُھل کر سناؤں تو آپ کا کلیجہ منہ کو آئے…
صرف بیس ماہ میں اٹھائیس ہزار سنی مسلمانوں کو…
بے دردی سے ذبح کر دیا گیا…
مگر ظلم کا یہ کالا دور کب تک؟…
دل دعاء مانگتا ہے کہ اگلی عید شامی بھائیوں کو…
خوشی اور آزادی کی نصیب ہو…
پوری دنیا’’قربانی‘‘ کے انوارات اور اثرات سے جگمگا رہی ہے…
کبھی پاکستان کی قسمت بھی اللہ کرے جاگے گی…
اور باقی رہے محاذ جنگ…
فدائیوں کی مبارک قربان گاہیں…
فلسطین، کشمیر، افغانستان…
عراق… وہاں کے مجاہدین
کوسلام… انشاء اللہ قیمتی قربانی…
ضرور رنگ دکھائے گی بلکہ…
سچ کہتا ہوں… انشاء اللہ رنگ جمائے گی…
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد…
خوشی کا مطلب
عید کے دن نئے
کپڑے نہ ضروری ہیں… نہ مسنون
اور نہ کوئی ثواب والا کام…
مؤمنات بہنوں سے خاص طور پر گذارش ہے …
اس عمل کو اتنا ضروری قرار نہ دیں کہ گناہ اور نا شکری کے کالے دروازے کُھل جائیں…
موریطانیہ میں بیوی نے بچوں کے لئے عید کے کپڑوں پر ضد کی…
رونا دھونااور ناشکری… بے وقوف
خاوند نے بچوں کو قتل کر ڈالا…
استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے صاحب استطاعت لوگوں کو بھی چاہئے کہ…
نئے کپڑوں کا التزام چھوڑ دیں…
عید الفطر پر نئے کپڑوں کے التزام سے…
ہزاروں گناہوں نے جنم لے لیا ہے…
درزیوں کی دکانیں سینماؤں کا منظر پیش کرتی…
اور رمضان کی راتوں کو اجاڑتی ہیں…
مالدار لوگ اگر نئے کپڑے نہ پہنیں…
بس صاف ستھرے اچھے لباس سے سنت پوری کر لیں تو غریبوں کو بھی…
آہیں اور شکوے بھرنے کا موقع نہیں ملے گا…
کئی لوگوں کے پاس توبہت پیسہ ہوتا ہے وہ چاہیں تو روز نیا جوڑا پہن پھینکیں…
عید کے دن کی خوشی مسلمانوں کے لئے یہ ہے کہ…
اللہ تعالیٰ راضی ہو جائیں…
اور بس… حضرت سفیان ثوری
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:…
ہم عید کے دن کا آغاز اپنی نظروں کی حفاظت سے کرتے ہیں…
یعنی پہلا کام یہ کہ… آج خوشی
کا بڑا اور مبارک دن ہے…
ہم اس دن کوئی گناہ اور نافرمانی نہیں کریں گے…
ایک اللہ والے کا فرمان ہے…
مؤمن کی خوشی اُس کے رب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے…
اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہی…
اس کی خوشی اور عیاشی ہوتی ہے…
وہ مسلمان جن کے پاس قربانی کی استطاعت نہیں…
وہ بھی خوش رہیں… اُن کی
غربت خود ایک ’’تقرب الی اللہ ‘‘ والا عمل
ہے… وہ جانور ذبح
نہیں کر سکتے… مگر تکبیر سے
انہیں کون روک سکتا ہے…
تہلیل اور تسبیح سے کونسی چیز مانع ہے…
وہ ذکر اللہ اور اعمال صالحہ کی کثرت کر کے…
مالداروں سے بھی آگے نکل جائیں…
آخری گذارش!!!
الرحمت ٹرسٹ نے… اس سال بھی…
آپ کی قربانی کو اور زیادہ قیمتی اور مفید بنانے کا انتظام کیا ہے…
اس ایمانی ترتیب سے فائدہ اٹھائیں…
اللہ تعالیٰ اس عید پر…
مجھے، آپ سب… اور پوری امت
مسلمہ کو… ایمانی، روحانی،
قلبی…… اور حقیقی
خوشیاں… اپنی رضا، محبت
اور رحمت کی صورت میں نصیب فرمائے…
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و
اللہ اکبر اللہ اکبر وﷲ الحمد
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (371)
میرے برمی بھائی
اسلام کی کرنیں
دور دور تک پھیلیں تو… اسی سفر
میں ملک برما (میانمار)…
میں بھی یہ نور پہنچا… اور وہاں
عرب مسلمانوں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں…
کفار اس نور سے
چندھیانے لگے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے…
اس ملک کے رہائشی کافر ’’بدھ مت‘‘ جو امن پسندی کے مدعی بلکہ ٹھیکے دار بنتے تھے…
مسلمانوں کے خونی قاتل بن کر ابھرے…
ہزاروں بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں…
دنیا بھر کے مسلمان عید کی خوشیوں میں ان غم کو دیکھ کر نڈھال ہوگئے…
ان حالات میں برمی
مسلمانوں کے لئے مدد و نصرت…
اور اسلامی خیر خواہی… کا
’’دونکاتی‘‘ نصاب:…
(۱) رجوع
الی اللہ بصورت استغفار…
(۲) پر
زور جہادی تحریک…
اس وقت دنیا میں
’’فتنے‘‘ کے مراکز اور ان کا توڑ…
ایک دینی جماعت کا
افسوسناک اقدام…
تاریخ اشاعت
۳ذی الحجہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۹؍اکتوبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۱)
میرے برمی بھائی
اللہ تعالیٰ کا بے حد’’شکر‘‘ کہ اس نے اپنے بندوں کو
’’دعاء‘‘ کی نعمت عطا فرمائی…
مسلمان کا ہر مسئلہ ’’دعاء‘‘ سے حل ہو جاتا ہے …
مسئلہ دنیا کا ہو یا آخرت کا…
بس شرط یہ ہے کہ ’’دعاء‘‘ عاجزی اور توجہ کے ساتھ ہو …مسلسل
ہو اور دل کے یقین کے ساتھ ہو…
ہمارے ’’برمی بھائیوں‘‘ کے ساتھ کیا بیت رہی ہے؟ …
عیدالاضحیٰ کی خوشی کے دن انہوں نے موت، غم، خوف اور دہشت کے سائے میں گزارے …
بدھ مت کے پجاریوں نے اُن پر وہ مظالم ڈھائے کہ انسانیت کی تاریخ کو شرمندہ کردیا…
افغانستان میں ’’بدھا‘‘ کے بے جان مجسّمے گرے تو ان ’’ظالموں‘‘ کو بہت دکھ ہوا تھا…
مگر اب قیمتی جانوں کے ضیاع پر ان کی ’’امن پسندی‘‘ ان کی ناپاک دھوتیوں میں گم
ہوگئی ہے …’’بدھا‘‘ کے ماننے
والوں کا دعویٰ تھا کہ وہ …امن
کے داعی ہیں… نہ
گوشت کھاتے ہیں نہ مچھلی …
پرندوں کو خرید کر آزاد کرتے ہیں…
اور گھاس سبزی کھا کر جیتے ہیں…
مگر برما میں ان کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ کاش آٹھ، دس فدائی …
اور دو تین بارود کے ٹرک …
دل روتا ہے اور جلتا ہے۔ کس طرح سے میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے اُمّتی …
اور ہمارے ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے رشتہ دار بھائی اور بہنیں …
مارے اور جلائے جارہے ہیں …
عید کے دن ساری دنیا میں ’’قربانی‘‘ کی خوشی تھی جبکہ…
برما کے مسلمان … لاشیں
اٹھا رہے تھے، خوف سے ہجرت کررہے تھے …
اور ٹھنڈے دریا کی بے رحم موجوں پر تھے…
کاش ان دنوں بنگلہ دیش میں کوئی اچھی حکومت ہوتی …
کاش کسی اسلامی ملک کی فوج یا خفیہ ادارہ …
کلمہ طیبہ کی لاج رکھتا …برمی
حکومت تو دو جھٹکوں کی مار ہے …
مسلمانو! دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائو…
جھولی اور دامن پھیلائو…برما
کے مسئلے کا حل صرف دو نکاتی ہے …
(۱) رجوع
الی اللہ بصورت استغفار (۲ ) دہشت ناک قسم کی
عسکریت … یعنی جہاد فی
سبیل اللہ
سورۃ بقرہ میں بنی
اسرائیل کا واقعہ مذکور ہے …
جالوت کے اندوہناک مظالم …
عورتوں، بچوں کا قتل عام اور جلائو گھیرائو …
بالکل برما جیسے حالات …مظلوم
قوم نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا…
ایک امیر کا انتخاب ہوا …
جہاد کا اعلان ہوا … بہت مختصر
سی لڑائی میں اتنا طاقتور دشمن مارا گیا…
آزادی بھی ملی … اور بھی بہت کچھ
مل گیا…
اے مسلمانو!…
اللہ تعالیٰ کے لئے مرنے پر تیار ہو جائو…
زندگی مل جاتی ہے زندگی …
وہ لوگ جو مرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے زندہ رہ کر بھی …
زندگی کو ترستے ہیں … اور جو
مرنے پر اتر آئیں… زندگی اُن
کے قدموں میں گرتی ہے …
بھاگ بھاگ کر… گُھٹ گُھٹ کر اور
بچ بچ کرمرنے کی بجائے …
سینہ تان کر مرنے کا اعلان کردیا جائے …
برما کا موذی صدر جو آج بات نہیں سنتا …
اگر چند افراد نے قربانی دے دی تو …
خود مذاکرات کے لئے پیچھے دوڑے گا…
آج پوری امت مسلمہ کو …
برما اور شام کے مسلمانوں کے لئے ’’دعاء‘‘ کو اپنا مستقل معمول بنانا چاہیے …
آخر ہم سب ایک خاندان سے ہیں …
اور ہم سب حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں …
ہمارا دین، ہمارا قبلہ اور ہمارا جینا مرنا ایک ہے …
دور سے بیٹھ کر مشورے دینا آسان کام ہے …
مگر جن پر گزرتی ہے وہی جانتے ہیں کہ …
اصل حالات کیا ہیں … برما کے
مسلمانوں کو جس طرح کے تعاون کی ضرورت ہو وہ ’’تعاون‘‘ انہیں ہر مسلمان پیش کرے…
نہایت عزت، تکریم اور اعزاز کے ساتھ …
افسوس کہ آج ہجرت جیسے اعزاز کو (نعوذ ب اللہ ) حقارت کا عنوان سمجھا جاتا ہے …
استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
ارے ہجرت کا لفظ تو اسلام میں ولایت کے لفظ سے بھی بہت اونچا ہے …
کیا کوئی کسی ’’ولی‘‘ کو حقیر سمجھ سکتا ہے؟ …
تو پھر ’’مہاجر‘‘ کو کیوں چھوٹا سمجھا جاتا ہے …
مہاجر ہونا تو عظیم منصب ، عظیم سعادت اور عظیم عبادت ہے …
برما سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کا…
ساری دنیا کے مسلمان عزت، تکریم اور اعزاز کے ساتھ استقبال کریں …
برما کے مجاہد صفت مسلمان …
اگر اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے جہاد فی سبیل اللہ شروع کریں گے تو …
انشاء اللہ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔ دنیا الحمد ﷲ تیزی سے
اچھے حالات کی طرف بڑھ رہی ہے …
مگر حالات کی اس تیز رفتار کی وجہ سے ہمیں مایوسی اور پریشانی کے چکّر آرہے ہیں…’’محترم
سینڈی طوفان صاحب‘‘ نے آئندہ کے حالات کا اشارہ دے دیا ہے…
سُبْحَانَ مَنْ تَعَزَّزَ بِالْقُدْرَۃِ وَقَھَرَ الْعِبَادَ بِالْمَوْت…
کیا دہشت تھی
سینڈی کی … خبریں سن سن کر
مزہ آرہا تھا … نام نہاد سپر
پاور کے ہوش اُڑے ہوئے تھے …
اور ٹیری جونز کا نیویارک کسی نئی بیوہ کے مکان کی طرح اُجڑا پڑا تھا…
20 ہزار جہاز، جنگی طیارے بے بس تھے…
6 ہزار ہیلی کاپٹر کچھ نہیں کر پا رہے تھے …
اور سینڈی جی پوری شان کے ساتھ امریکہ کے ساحلوں کی طرف بڑھ رہے تھے …
کئی سالوں سے شور ہے کہ امریکی اور یورپی سائنسدانوں نے …
موسمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے…
شعاعوں کے ذریعہ ہوا اور پانی کا رخ موڑنا …
سمندر کے اندر شگاف ڈال کر سیلاب برپا کرنا …
اور آنے والے سیلاب کو کسی اور کی طرف بہا دینا…
مگر سینڈی جی نے سب کچھ فیل کردیا …
سنا ہے کہ ہوا اور بادلوں کو ماپنے والی تمام مشینوں کی سوئیاں دس کے آخری ہندسے
سے ٹکرا رہی تھیں …
اور سائنسدانوں کے دماغ مائوف ہوچکے تھے…
پھر جو طوفانی ہوائیں اٹھیں تو قوم عاد کے زمانے کو یاد دلا دیا …
بڑے بڑے درخت جڑوں سے اُکھڑ کر اُڑنے لگے اور زمین ہی کیا فضاء کے راستے بھی
بجلیوں سے بھر گئے … سترہ ہزار
سے زائد پروازیں منسوخ ہوئیں …
اربوں ڈالرکا نقصان ہوا …اور
لاکھوں لوگ بے گھر … طوفان
بالکل اندھا تھا … منہ زور
اور ناقابل فہم … ایک مشہور
امریکی سائنسدان کہہ رہے تھے کہ …
اس طوفان نے ہمارے پچھلے تمام اندازے غلط ثابت کردیئے …
اور اب ہمیں اگلے کئی سال تک اس طوفان کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی …
ارے ظالمو! جاہلو! تم کیا سمجھو گے…
میرے رب کی تو ہر دن ایک نئی شان ہے …
کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ
فِیْ شَأن (الرحمن)
عرش کے اوپر سے
نئے نئے فیصلے آتے ہیں …
اور عجیب مربوط نظام …یہ فیصلے
ہمارے لئے نئے ہوتے ہیں…
سائنس نے بعض غلط جگہوں پر قدم رکھ دیا ہے …
اور اب یہ قدم ان سائنسی ملکوں کو لے ڈوبے گا…
کائنات کے سردار حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
مبارک اور نام مبارک سے جنگ چھیڑ کر …
ان بدنصیبوں نے کائنات کی ہر چیز کو اپنا دشمن بنا لیا ہے …
سینڈی تو بس ایک اشارہ تھا بلکہ ایک استعارہ …
وہ ان کی ناکامیوں کا صرف اعلان تھا …
اور ابتدائی امتحان… ابھی آگے
آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا…
قرآن پاک میں کفر کی جس حالت کو…’’فتنہ‘‘
قرار دیا گیا ہے… اس کے
مطابق اس وقت ’’فتنہ‘‘ کے بنیادی مرکز تین ہیں:
(۱ ) اسرائیل…
(۲ ) امریکہ…
(۳) انڈیا…
باقی سب ان کے
تابع… یا فی الحال
مصلحت کے تحت مقام فتنہ پر نہیں آئے …
یہی تین طاقتیں… اس وقت
’’انسانیت‘‘ کی اصل دشمن ہیں…
انسانیت کو اپنی فلاح کے لئے …لاالہ
ال اللہ کی ضرورت ہے…
اور انسانیت کو اپنی نجات کے لئے …
محمد رسول اللہ کی ضرورت ہے…
یہی تین طاقتیں … اس مبارک
کلمے … یعنی کامیابی کے
راز تک پوری انسانیت کو نہیں پہنچنے دے رہیں…
آپ آج کل اخبارات کے کالم پڑھ لیں …
مسلمان کہلانے والے کالم نویس کفر اور کافروں کی تعریف کے قصیدے پڑھ رہے ہیں …کیوں؟…
صرف امریکہ وغیرہ کی ظاہری شوکت اور ترقی کی وجہ سے …
بس یہی وہ حالت ہے جو ’’فتنہ‘‘ کہلاتی ہے…
اب آپ بتائیے کہ سینڈی طوفان سے تباہ حال ’’فتنے‘‘ کو …
ایک دینی جماعت کی طرف سے امداد دینے کی پیشکش جائز ہے؟…
افسوس، صد افسوس … نہ عراق
کے چھ لاکھ مسلمان یاد آئے جن کو …
امریکہ نے کاٹ اور جلا ڈالا…
اور نہ افغانستان کے لاکھوں مظلوم مسلمان …
بس خود کو روشن خیال دکھانے کے لئے…
امداد کا اعلان کر ڈالا تاکہ …
اس فانی دنیا میں کچھ آسانیاں ہو جائیں …
امریکہ نے تو حقارت کے ساتھ اس پیشکش کو ٹھکرا دیا …
مگر پیشکش کرنے والوں نے جو کچھ کھو دیا اسے واپس حاصل کرنے میں وقت لگے گا…
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت
فرمائے … بھائیو اور بہنو!…
یاد رہے اس ہفتے کا سبق…
برما اور شام کے مظلوم مسلمانوں کے لئے …
خصوصی دعا کا اہتمام …
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے( 372 )
مبارک
اسلام کا اولین
موذی دشمن ’’ابو جہل‘‘ مرا تو…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے…
آج کے دور کا ایک موذی مشرک ’’بال ٹھاکرے‘‘ موت کے شکنجے میں آیا…
تو امیر المجاہدین نے مسلمانوں کو مبارکباد دی…
ایک نو تعلیم
یافتہ عرب مسلمان کس طرح ملحد بنا…
اور پھر ایمان کی طرف کیسے پلٹا؟
عیسائیوں کے پادری
اپنے سالانہ اجلاس میں آپس میں کیوں لڑ پڑے…
اسم مبارک
’’ذوالجلال والاکرام‘‘ پر مشتمل ایک جامع دعاء…
اور قرض سے خلاصی
کا مجرب وظیفہ…
تاریخ اشاعت
۱۷ذی الحجہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق۲؍نومبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۲)
مبارک
اللہ تعالیٰ میرے اور آپ سب کے لئے ’’دعا‘‘ کا دروازہ
کھول دے … بندے کا کام ہے
اپنے مالک سے مانگنا… اور
مانگتے رہنا … اور مالک بھی
ایسا جو ہر چیز پر قادر …
اور جو خود مانگنے کا حکم فرماتا ہے …
اور مانگنے پر خوش ہوتا ہے …
اور مانگنے والوں کو نوازتا ہے…
وَقَالَ رَبُّکُمُ
ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ…
آپ نے سن لیا ہوگا
کہ … دشمنان اسلام میں
سے ایک بڑا اور نمایاں موذی…
بال ٹھاکرے موت کے شکنجے میں تڑپ رہا ہے …
آج بمبئی، مہاراشٹر اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو انتظار تھا کہ …
بال ٹھاکرے کی خوشخبری آجائے گی …
خس کم جہاں پاک … یہ تو خس
ہی نہیں خسیس ہے … سینکڑوں
مسلمانوں کا قاتل… مگر ایسے
لوگوں کی روح آسانی سے کہاں نکلتی ہے …
تڑپاتی ہے تڑپاتی … اللہ تعالیٰ کی پناہ …
عرب دنیا کے ایک مشہور ڈاکٹر جو ٹی وی کے اینکرپرسن بھی ہیں …
بُری صحبت اور غلط مطالعے سے مغلوب ہوکر ’’ملحد‘‘ ہوگئے تھے…
سیکولر ، بددین … بس کفر کے
قریب قریب … آج پاکستان میں
بھی ریفرنڈم ہو رہا ہے کہ …
سیکولر پاکستان چاہئے یا مذہبی؟…
اللہ تعالیٰ کی پناہ …
اس ملک پر فتنے کالی رات کے اندھیروں کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں …
کوئی کلمہ گو مسلمان… اس
بدبودار ریفرنڈم میں حصہ نہ لے …
یہ سب سی آئی اے اور را کاکھیل ہے …
دشمنان اسلام کی بے چینیاں عروج پر ہیں اور وہ پریشانی کی دلدل میں ہاتھ پائوں مار
رہے ہیں … مگر اسلام پھیلتا
جارہا ہے، پھیلتا جارہا ہے …
آپ کو معلوم ہے ’’ویٹی کن‘‘ میں کیا ہوا؟ …
عیسائیوں کے سالانہ مرکزی جلسے میں ’’کارڈنیل‘‘ آپس میں لڑ پڑے…
گتھم گتھا، مکے گھونسے…پوپ
نے بڑی مشکل سے اجلاس سنبھالا…
’’کارڈنیل‘‘ عیسائیوں کے سب سے بڑے درجے کے پادریوں کو کہتے ہیں…
پادری اور عیسائیوں کے فادر …
کارڈنیل بننے تک ’’بڈھے‘‘ ہوجاتے ہیں …
یہی ’’کارڈنیل ‘‘ نئے پوپ کا انتخاب کرتے ہیں …
اور ساری دنیا میں عیسائیت کی تبلیغ کا کام سنبھالتے ہیں …
یہ ہر سال اپنا ایک سالانہ مرکزی اجلاس کرتے ہیں، جس میں اگلے سال کی مکمل حکمت
عملی طے کی جاتی ہے… اس سال
اجلاس میں کسی نے وہ فلم چلا دی، جس میں دکھایا گیا ہے کہ یورپ میں اسلام کس تیزی
سے پھیل رہا ہے … سنا ہے یہ
’’ڈاکومنٹری‘‘ یعنی دستاویزی فلم ’’یوٹیوب‘‘ پر موجود ہے…
یقیناً آپ میں سے بہت سوں نے دیکھ رکھی ہوگی …
ہم نے نہیں دیکھی… دنیا کے
وہ ممالک جن میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے ان میں امریکہ، فرانس اور سری لنکا
نمایاں ہیں … پادری یہ فلم
دیکھ کر بھڑک اٹھے… کسی نے
سوال اٹھایا کہ آخر ہمارا دل جلانے کو یہ فلم کیوں دکھائی گئی؟ …
بات تو تو، میں میں سے بڑھی …
اور میدان ’’جوتا برسائی‘‘ کا محاذ بن گیا…
بس اسی غم اور بے چینی میں …
دشمنان اسلام اپنی شکست کو روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے آزما رہے ہیں …
پاکستان کو سیکولر قرار دینے کا ریفرنڈم بھی اسی کا حصہ ہے …
اور یہ لوگ لاکھ ریفرنڈم کرلیں زمینی حقائق کو نہیں بدل سکتے …
شاندار مساجد،گرجدار اذانیں، خوشبودار مدارس، رعب دار محاذِ جہاد…
اور قرآن عظیم الشان کے پُرنور زمزمے…
جاری ہیں … اور شان
رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی پُر بہار ہوائوں نے تو …
دنیا کا انداز ہی بدل دیا ہے…
ابھی ماشاء اللہ حج بیت اللہ کا
فریضہ ادا ہوا … کیا شان تھی اور
کیا گرم بازار عشق… چالیس
لاکھ مسلمان … ایک لباس، ایک
آواز… اور ایک ہی رخ…
لَبَّیْک
اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک …
وہ عربی ڈاکٹر…
بری صحبت اور غلط مطالعے کی نحوست سے ’’ایمان‘‘ کھو بیٹھے…
جو لوگ ہر وقت کافروں کی ظاہری ترقی دیکھ دیکھ کر مرعوب ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا
انجام یہی ہوتا ہے … کوئی نہیں
سوچتا کہ … حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے مقابلے میں جو ’’نمرود‘‘ بادشاہ تھا وہ کتنا ترقی یافتہ تھا …
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بت توڑ ڈالے …
آج کل کی دانش کیا فرماتی ہے ؟…قوم
کی ترقی کے لئے ’’نمرود‘‘ کا ساتھ دینا چاہئے تھا یا …
بتوں کو توڑنے کا عمل …
جو نعوذ ب اللہ دانشوروں کی نظر میں
’’تخریب کاری‘‘ کہلاتا ہے…
بدنامی، بدنامی … اور
بدنامی … استغفر اللہ ،
استغفر اللہ ، استغفر اللہ …
فرعون بھی ترقی یافتہ تھا…
دریائوں کے رخ تک بدل دیتا تھا …
اور میڈیکل سائنس میں اتنا ماہر کہ …
چار سو سال کی عمر تک کبھی بیمار نہیں پڑا …
آج کی دانش کیا فرماتی ہے؟ …
اگر امریکہ اور یورپ اپنی ظاہری ترقی کی وجہ سے حق پر ہیں تو فرعون میں کیا کمی
تھی؟…
مسلمانو! اللہ کے
لئے اپنی آنکھوں کا قرآن مجید سے علاج کروا لو…
قرآن پاک دنیا کو ایک فانی کھیل تماشا قرار دیتا ہے …
اور ہم نے دیکھ لیا کہ چاند پر قدم رکھنے والا بھی آج زمین کی گہرائی میں دفن ہے…
یہ کیا ترقی ہے جو پچاس ساٹھ سال میں انسان کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے…
اصل ترقی تو وہ ہے جو کبھی بھی انسان کا ساتھ نہ چھوڑے…
اور وہ ترقی ہے ایمان…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
وہ عربی ڈاکٹر
ملحد ہوا اور ٹی وی پر اپنے ’’الحاد‘‘ کا پرچار بھی کرنے لگا…
مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی غلطی اور جرم پر درگزر کا
فیصلہ تھا… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ …
کسی کو ماضی میں ایسے عمل کی توفیق مل جاتی ہے جو آگے چل کر توبہ کا ذریعہ بن جاتا
ہے… یہ ڈاکٹر ایک
ہسپتال میں پریکٹس بھی کرتا تھا…
ایک بار ایک مریض نے اسے چیخ چیخ کر بلایا…
اور کہنے لگا کہ … ابھی کچھ
لوگ میرے کمرے میں گھس کر مجھے مار رہے ہیں …
کوئی چہرے پر مارتا ہے اور کوئی پیٹھ پر …
وہ دیکھو وہ دروازے کے پیچھے …
وہ دیکھو دائیں طرف … وہ دیکھو
پھر مارنے آرہے ہیں …
یہ پرائیویٹ کمرہ
تھا … ڈاکٹر حیرانی سے
دائیں بائیں دیکھتا… کوئی بھی
نہیں تھا مگر مریض برابر چیخ رہا تھا …
دردناک چیخیں … اور ساتھ ساتھ
بتا بھی رہا تھا … اور پھر
اسی حالت میں جان نکل گئی …
قرآن پاک کی آیت مبارکہ …
اہل کفر کو موت کے وقت فرشتے مارتے ہیں …
اس ڈاکٹر کو یاد آئی … ترقی،
ترقی کی عینک آنکھوں سے گری اور آخرت کی منازل میں ذہن اترا تو ایمان واپس آگیا …
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اب وہ ماشاء اللہ اسلام کے بے لاگ مبلغ ہیں …
اور مسلمانوں کو ایمان اوردین کی طرف بلاتے ہیں …
اور ترقی کا نام ہی نہیں لیتے کہ اس کی حقیقت انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے…
جبکہ پہلے کہتے تھے کہ …
علماء نے مسلمانوں کو جنت، جہنم ، فرشتوں اور حوروں میں الجھا رکھا ہے اور امریکہ،
یورپ چاند تک جا پہنچے ہیں…
اب الحمدﷲ ان کو چاند سے آگے کی دنیا نظر آگئی ہے …
اور ان کی زندگی کا رُخ سیدھی طرف ہوچکا ہے …
اب معلوم نہیں بال ٹھاکرے کی کتنے دن پٹائی ہوتی ہے …
آج وہ تشویشناک حالت میں پڑا ہے اور اس کے بے جان بتوں کو اس کی حالت کا کچھ علم
نہیں ہے … بہرحال وہ ابھی
مرتا ہے یا چند دن بعد …
ہندوستان کے مسلمانوں کو …
اس خوشی کے موقع پر پیشگی مبارک …
ابوجہل کے مرنے پر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا تھا تو …
اس وقت سے یہ سنت ٹھہری کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے زمین سے ’’سجّین‘‘ کی طرف
دفع ہونے پر خوشی اور مسرت محسوس کی جائے …
جیسا کہ عراق اور افغانستان کے مسلمان سی آئی اے کے سربراہ …
جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے ذلت ناک انجام پر خوش ہورہے ہیں…
قصہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ …
ساٹھ سالہ جنگجو بابا… ایک شادی
شدہ عورت کے شکنجے میں کئی سال سے پھنسا ہوا تھا …
سی آئی اے ساری دنیا کے لوگوں کو پھنساتی ہے…
جبکہ خود اس کا سربراہ ایک یہودی لاک میں پھنسا پڑا تھا …
اب بیچارے اوبامہ کو… جسے
امریکیوں نے مزید چار سال کے لئے اپنا ’’صدر‘‘ رکھ لیا ہے…
اپنی مایہ ناز خفیہ ایجنسی کے لئے نیا سربراہ ڈھونڈنا ہے …
اُدھر سمندری اور موسمی طوفان ہیں کہ ایک جاتا ہے اور دوسرا آتا ہے …
مسلمانوں کو ’’دعاء‘‘ کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے …اور
کبھی بھی مایوس ہوکر ’’دعاء‘‘ سے محروم نہیں ہونا چاہئے …
قرآن پاک کے تمام وعدے سچے ثابت ہو رہے ہیں …
اور اسلام الحمدﷲ ہر طرف ’’جیت‘‘ رہا ہے …
آخر میں دعاء کی قوت کا ایک واقعہ …روض
الافکار میں مرقوم ہے …
حضرت فضیل بن فضالہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں …
مجھ پر قرضہ چڑھ گیا … قرض بڑی
خوفناک مصیبت ہے … اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس آفت سے حفاظت فرمائے…
احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے نام مبارک …’’ذوالجلال
و الاکرام‘‘ کی بہت فضیلت آئی ہے …
کبھی موقع ملا تو انشاء اللہ رنگ و نور میں عرض کی جائے گی …حضرت
فضیل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس قرض اتارنے کی کوئی سبیل نہیں تھی …
انہوں نے اسی اسم مبارک ’’ذوالجلال والاکرام‘‘ کو لازم پکڑ لیا …
وہ نہایت آہ و التجا کے ساتھ دعاء میں یہ الفاظ کہتے تھے…
یَا ذَاالْجَلالِ
وَالْاِکْرَامِ (تین بار) بِحُرْمَۃِ وَجْھِکَ الَقَدِیْمِ اِقْضِ عَنِّیْ
دَیْنِیْ
اے جلال و اکرام
والے رب … اپنے وجہ قدیم کی
برکت و حرمت سے میرا قرضہ اتار دیجئے…
چند دن گزرے تھے کہ خواب میں ایک شخص نے آکر کہا …
اے فضیل! اتنے بڑے نام کو لیکر اتنے چھوٹے سے مسئلے پر اتنی آہ و زاری …
جائو فلاں جگہ اتنا مال پڑا ہے وہ لے لو اور قرضہ اتار دو …
صبح جاگ کر وہاں پہنچے تو مال موجود تھا فوراً قرضہ اتارا اور روح کو آزاد کرالیا …
ہر مسلمان کو یہی چاہئے کہ جیسے ہی اس کے پاس مال آئے تو پہلے اپنا قرضہ اتارے …
ایک دن کی تاخیر بھی نہ کرے …
ورنہ اپنی جان اور روح پر ظلم کرنے والا ہوگا …
حضرت فضیل رحمۃ
اللہ علیہ نے یہ قصہ اپنے دوستوں کو سنایا تو …
اُن کے ایک صاحب معرفت دوست نے اسی اسم مبارک سے ایک جامع دعاء بنا کر …
اپنا معمول بنالی …
یَا ذَاالْجَلالِ
وَالْاِکْرَامِ (تین بار) بِحُرْمَۃِ وَجْھِکَ الَقَدِیْمِ اَعْطِنِیْ صِحَّۃً
فِیْ تَقْویٰ وَ طُوْلَ عُمُرٍ فِیْ حُسْنِ عَمَلٍ وَسِعَۃَ رِزْقٍ وَلَا
تُعَذِّبْنِیْ عَلَیْہ
یعنی اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کا واسطہ دیکر تین چیزیں
مانگیں…
(۱) صحت
… تقویٰ کے ساتھ
(۲ ) لمبی
عمر … اچھے اعمال کے
ساتھ
(۳) وسعت
رزق … مگر ایسا رزق جس
پر قیامت کے دن سوال اور عذاب نہ ہو۔
لوگوں نے دیکھا کہ
… ان بزرگوں کی یہ
تمام دعائیں قبول ہوئیں …قرضہ
کے بارے میں تو… الحمد ﷲ ہم نے
بھی اس دعاء کا سو فیصد اثر دیکھا ہے …
والحمد ﷲ رب
العالمین … ماشاء اللہ لاقوۃ الا ب اللہ
بہرحال…
مقصد یہ ہے کہ شیطان … مسلمانوں
کو دعاء سے روکتا ہے … جبکہ اللہ تعالیٰ بار بار دعاء مانگنے …
اور اسماء الحسنیٰ کے ذریعے دعاء مانگنے کی تاکید فرماتے ہیں …دعاء
کو حاصل کریں … اور مجاہدین، امت
مسلمہ اور مظلوم مسلمانوں کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (373 )
محرم۱۴۳۴ھ
مسلمانوں کا نیا
سال ’’محرم‘‘ سے شروع ہوتا ہے…
اس موقع پر کیا
عزم ہونا چاہیے؟…
اورمسلمان کے لئے
’’روحانی عید‘‘ کے کون سے دن ہیں؟
مسلمان اس وقت سخت
آزمائشوں میں ہیں… فلسطین کے
مسلمان کس حال میں ہیں؟ حماس کا طرز عمل کیا ہے؟
جماعت کے چند ان
رفقاء کا تذکرہ… جو ۱۴۳۳ھ میں ہم سے بچھڑ
گئے…
محرم کے آغاز میں
مسلمانوں پر… ایک ’’فرقہ‘‘ کی
فضول اور منحوس… رسومات کے اثرات
بد… اور ان سے
چھٹکارے کی آرزو…
کلمہ شہادت کے
ساتھ نئے سال کو …خوش آمدید…
تاریخ اشاعت
۲۴ذی الحجہ؍۱۴۳۳ھ بمطابق ۹نومبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۳)
محرم۱۴۳۴ھ
اللہ تعالیٰ کا تحفہ…
نیا سال … اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے کہ…
ہم اپنے وقت کی زیادہ سے زیادہ قدر کریں…
اور ہر لمحہ نیکی کمانے، آخرت بنانے…
اور اپنے ’’ترازو‘‘ کوبھاری کرنے کی فکر کریں…پچھلا
سال کیسا گزرا؟… کیا کھویا، کیا
پایا… ہمارا ہر جانے
والا دن کہتا ہے… میں چلا
گیا اب کبھی بھی لوٹ کر نہ آؤں گا…۱۴۳۳ھ کا پورا سال
گزر گیا… ضرورت ہے کہ
استغفار کے ذریعہ اپنے ’’نامہ اعمال‘‘ کی صفائی کرتے رہیں…
سوچیں پچھلے سال کیا کیا گناہ کئے؟…
کتنے فرائض چھوٹے؟… رمضان
المبارک ٹھیک گذارا یا غفلت میں جھونک دیا؟…روحانی
عید کتنے دن ملی؟… آپ سوچتے
ہوں گے کہ روحانی عید کونسی؟…
کسی نے خوب فرمایا… ایک
مسلمان کے لئے تین دن عید کی طرح ہیں…
(۱) پہلا
وہ دن جس میں وہ اپنے تمام فرائض ادا کرلے…
اور گناہوں سے محفوظ رہے…(۲) دوسرا وہ دن جس
میںوہ سچی توبہ کر کے اپنے کسی موذی گناہ سے مستقل جان چھڑالے…
(۳) تیسرا
وہ دن جس میں وہ حُسن خاتمہ اورعمل مقبول کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملے…
یعنی موت کا دن… لقاء محبوب کا دن…
آپ نے ہمارے سید سلیس صاحب پ کو دیکھا؟…
ماشاء اللہ رمضان المبارک میں روزہ افطار کر کے…
جہاد کا کام کرتے کرتے چلے گئے…
اور ہمارے نوجوان بھائی…
مولانا محمد یوسف طاہر رحمۃ اللہ علیہ …
القلم چلاتے چلاتے خود ہی چلے گئے…
القلم میں کیا ہوتا ہے؟…
تفسیر، سنت، حدیث، دین کامل کی دعوت…
جہاد کا پیغام… اور کامیاب لوگوں
کے تذکرے… وہ خود بھی حافظ
تھے اور اُن کے والد گرامی بھی حافظ…
دورہ حدیث خیر المدارس ملتان سے کیا…
جماعت کے نظریاتی مجاہد، بہترین داعی…
اور انتھک مبلغ تھے… جمعہ کے
دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف ملا…
کسی بدنصیب مردود نے گولی ماری…
پچھلے سال اور بھی کئی ساتھی آگے اور اوپر چلے گئے…
سب یاد آتے ہیں اور دعاؤں میں مہکتے ہیں …
وہ عبدالماجد… وہ محمد امین…
وہ یاسر… وہ شہزاد اور
صخیم… اُن سے پہلے…
مولانا فقیر عطاء اللہ …
عبدالرحمن… توفیق اور احسان
ش… کچھ ساتھی کشمیر
اور جیلوں کی طرف … اورکچھ
کراچی کی شہادت گاہ میں…
ظالموں نے دینی مدارس کے طلبہ کو بھی نہیں چھوڑا…
جامعہ احسن العلوم کے کئی طلبہ جام شہادت نوش فرما گئے…
قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں …
ہمارے ایک قریبی ساتھی کے گھر کراچی سے دو جوان جنازے ایک ساتھ اٹھے…
اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کرام کے درجات بلند فرمائے…
ویسے آج تو کئی مسلمان…
بال ٹھاکرے کی خوشی منا رہے ہیں…
کئی جگہوں سے مبارک باد کا پیغام آچکا ہے…
اللہ تعالیٰ اس سال مسلمانوں کو ایسی بہت سی خوشیاں
عطاء فرمائے… فی الحال’’غزہ‘‘
کے واقعات کی وجہ سے عالم اسلام غم میں ڈوبا ہوا ہے…
فلسطین کے مسلمان ایک پنجرے میں بند ہیں اور اُن پر مسلسل بمباری جاری ہے…
حماس کے عسکری قائد… شیخ احمد
جابری پاور اُن کے نائب کو اسرائیل نے شہید کر دیا…
حماس والے کب خاموش بیٹھتے تھے…یہ
دنیا کی واحد اسلامی تنظیم ہے جو جہاد بھی کرتی ہے اور دینی سیاست بھی…
دشمنوں سے لڑتی بھی ہے اور اپنوں کی خدمت میں بھی پیش پیش ہے…
لبنان کی ’’حزب اللہ ‘‘ نے بھی یہی نظام
قائم کیا ہے مگر وہ یہودیوں سے زیادہ مسلمانوں کو مارناپسندکرتی ہے…
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرونی طور پر امریکہ سے اس کے گہرے روابط ہیں…
ابھی حال ہی میں ایک محقق نے امریکہ، ایران کے باہمی تعلقات پر سے بھی کئی پردے
چاک کئے ہیں…
صدام حسین کے پاس
کوئی جوہری کیمیاوی ہتھیار نہیں تھا…
مگر ایک جھوٹا بہانہ بنا کر عراق کو روند ڈالا گیا…
جبکہ ایران خود اپنے ہتھیاروں کا اعلان کرتا ہے…
مگر ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے…
یہی دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں ملک ایک دوسرے کو صرف دھمکیاں ہی دیتے رہتے ہیں…
اور بس…ایک ہی وقت میں
کامیابی کے ساتھ… جہاد اور
دینی سیاست کو اکٹھا لے کر چلنا مشکل اور محنت طلب کام ہے…
مگر جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے اُن کے لئے کوئی مشکل …
مشکل نہیں رہتی… شیخ احمد یسین
شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نیت سچی کی …
اپنے آپ کو ایک عظیم مقصد کے لئے وقف کیا…
اور اللہ تعالیٰ پرتوکل اور اعتماد کیا…
اگر حماس وجود میں نہ آتی تو…
وہی ہوتا جو دنیا میں اکثر ہو رہا ہے کہ…
مجاہد قربانیاں دیتے ہیں اور جب ان کی قربانیوں سے زمین پر جگہ نصیب ہوتی ہے تو…
بددین، سیکولر قسم کے سیاستدان حکومت بناتے ہیں…
فلسطین میں’’الفتح‘‘ موجود تھی…
وہ تقریباً بددین یا بے دین لوگوں پر مشتمل ہے…اُن
کاموجودہ سربراہ محمود عباس تو مسلمانوں کے لئے کافی خطرناک…
ایک مذہبی گروہ سے تعلق رکھتا ہے…
یاسر عرفات اس سے کچھ بہتر تھے…
اس لئے قتل کر دیئے گئے…
اب جو تھوڑا سا فلسطین مسلمانوں کے پاس ہے اس کے بھی دو حصے ہو گئے…
غزہ کی طرف حماس کا قبضہ ہے اور دوسری طرف…
محمود عباس اورالفتح کا…
اسرائیل، حماس کو اپنے لئے ’’خطرۂ جان‘‘ سمجھتا ہے…
حماس نے اپنے دونوں کاموں کو…
باقاعدہ ترتیب کے ساتھ تقسیم کر رکھا ہے…
چنانچہ جیسے ہی شیخ احمد الجابری پپر حملہ ہوا تو حماسی ابابیلیں اپنے چھوٹے چھوٹے
راکٹ لیکر… حملہ آور ہو
گئیں… تین یہودی پہلی
قسط میں مارے گئے… اور کئی
زخمی… دعاء کریں کہ…
اللہ تعالیٰ اہل فلسطین، اہل غزہ اور حماس کی حفاظت
فرمائے… اوران کی نصرت کے
لئے ملائکہ اور ہواؤں کو…
نازل فرمائے… ہم عید کے تین
دنوں کی بات کر رہے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ…
روحانی عید کے جو تین دن ہوتے ہیں…
ان میں سے ایک تو موت کے وقت نصیب ہو گا…
اللہ کرے وہ واقعی خوشی اور عید کا دن ہو…ہمیں
اس دن کی خاص تیاری کرنی چاہئے …
کبھی جہاد کو نکلیں تو دل سے کہا کریں…
یا اللہ ! اس عمل کا اجر اور فضل اسی لمحے
عطاء فرمائیے… جب آپ سے ملاقات
نصیب ہو… مجھے اور کوئی
بدلہ اس کا نہیں چاہئے…
اسی طرح جب کوئی اچھا اور بھاری صدقہ کریں تو…
یہی الفاظ دل ہی دل میں…
دل کے یقین کے ساتھ کہہ لیا کریں…
بھائیو! اور بہنو!… انسان
کبھی نیکی میں ہوتا ہے اور کبھی گناہ میں…
کبھی دل ایسا زندہ اور بیدار کہ عرش سے باتیں کرتا ہے اور کبھی ایسا غافل ، گندا
اور مردارکہ… غلاظتوں کو ہی
سوچتا ہے… اب معلوم نہیں کہ…
موت کس حالت میں آتی ہے؟…
کوئی انسان ہر وقت چوبیس گھنٹے…
اچھی حالت اور کیفیت پر نہیں رہ سکتا…
اس لئے بہت التجاء، بہت اصرار…
بہت عاجزی اور بہت آہ وزاری کے ساتھ…
حسن خاتمہ کی دعاء مانگنی چاہئے کہ…
اللہ پاک فضل فرمائے کہ اس وقت ملاقات کا لمحہ آئے
جب دل اچھا ہو اور ایمان پر ہو…اور
ہم کسی اچھے کام میں ہوں…
عید کا یہ دن… زندگی کے آخر
میں بس ایک بار ہی آتاہے مگر باقی دو دن…
ایک وہ جس میں فرائض پورے اور گناہوں سے حفاظت رہے…
اور دوسرا جس میں کسی گناہ سے سچی توبہ اور خلاصی نصیب ہو…
ایسے دن پچھلے سال ہمیں کتنی بار نصیب ہوئے؟…
سوچیں! یاد کریں!… اگر نصیب
ہوئے تو دل کی گہرائی سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں…
اور عزم کریں کہ… ان شاء اللہ اس
سال کا ہر دن… عید جیسا گزارنا
ہے… گناہوں سے حفاظت
کا ایک نسخہ یہ بھی ہے کہ…
انسان اپنے کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھے…
اور دوسروںکے گناہوں کو بالکل نہ دیکھے…
جو لوگ دوسروں کے گناہ دیکھتے ہیں وہ خود بہت موذی گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں…
خصوصاً کسی مسلمان کے ننگے گناہوں کا تو کبھی کسی مجلس میںتذکرہ نہ کریں …
خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہوں…
ننگے… یعنی جنسی گناہوں
کے تذکرے اور غیبت بالکل نہ کریں…
ایسا کرنے سے اپنا خاتمہ خطرے میں پڑ جاتا ہے…
ایک شخص نے چالیس سال تک مفت دین کی خدمت کی…
مگرمرتے وقت کفر میں چلا گیا…
وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ننگے گناہوں کی ٹوہ میں رہتا تھا…
کس کا کس سے تعلق ہے؟… کون کیا
کرتا ہے؟…اور پھر اُن کا
تذکرہ اور غیبت… اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے…
ہر دن… زندگی کا آخری
دن ہو سکتا ہے… اور ہررات زندگی
کی آخری رات… اس لئے احتیاط کے
ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہے…
آج ۲ محرم۱۴۳۴ھ کی تاریخ ہے…
ہم اپنی زندگی میں ایک نئے سال کا دوسرا دن دیکھ رہے ہیں…
کیا ہی اچھا ہوتا کہ… مسلمانوں
کے سال کاآغاز… عبادت، ذکر ،امن
اور باہمی محبت سے ہوتا…
مگر ظالم دشمنان اسلام نے ایسی سازش رچی کہ…مسلمانوں
کے سال کا آغاز… خوف، دہشت
، بدامنی… اور قتل و غازت
سے ہونے لگاہے حالانکہ اسلام کی پوری تاریخ شہادتوں سے بھری پڑی ہے…
حضرت فاروق اعظم شہیدرضی اللہ عنہ ہوئے…
حضرت عثمان ذی النورین شہید رضی اللہ عنہ ہوئے…
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے…
بدر میں تیرہ اور احد اور بیئر معونہ میں ستر ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین شہید ہوئے… مگر کسی
کی شہادت پر نہ کتاب اللہ نے جلوس اور ماتم کا حکم فرمایا…
اورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے…
دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کی عبادت…
جلوس نکالنا اور گالیاں دینا ہو…
پھر مسلمانوں پر یہ منحوس طریقے کیوں مسلّط کئے گئے؟…
اہل بیت کی محبت سے الحمدﷲ ہمارا دل سرشار ہے…
اور شہداء کربلا کے زخموں کی کسک ہر مسلمان کے دل میں ہے…
مگر… شہادت ایک اعزاز
ہے تعزیہ نہیں… شہادت ایک مقام
ہے جلوس نہیں…اور شہادت ایک
سعادت ہے ماتم نہیں… جب ایک
غلط اور بری رسم مسلمانوں میں جاری کی گئی تو…
اس کے بُرے اثرات بھی ہر طرف پھیل گئے…
اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی سال کا مبارک آغاز خوف، دہشت اور بدامنی کی نذر ہو
گیا…
انا ﷲ وانا الیہ
راجعون
ہماری حکومتیں
محرم الحرام میں… امن و
امان کے نام پر مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیتی ہیں…
مگر اُن سے اتنا نہیں ہوسکتا کہ…
کچھ لوگوں کو پابند کردیں کہ آپ نے اپنی جو عبادت، پوجا اور رسم کرنی ہے…
اپنے عبادت خانوں میں کرو…
خود ان کی مذہبی کتابوں میں…
کسی جلوس اور ہنگامے کا حکم نہیں ملتا…
بس ایک سیاست ہے اور ایک نحوست…
ہم جب بھی مسلمانوں کی اس بد نصیبی کو یاد کرتے ہیں کہ…
اُن کے سال کا آغاز کتنا خوفناک، دہشت ناک اور پریشان کن ہوتا ہے تو…
یقین کریں کہ دل رونے لگتا ہے…سال
کا آغاز ہو تو… مسلمان ایک دوسرے
کے لئے سلامتی کا پیغام بنیں…
ایک دوسرے کی مددکریں… ہر طرف
عبادت کے انوارات… اور امن
کی ہوائیں نظر آئیں… مگر یہ
کیا… اب کوئی اپنے گھر
سے بھی نہیں نکل سکتا… بس ہر طرف…
پکڑ دھکڑ اور بدامنی ہی بدامنی ہے…
اللھم ارحم اُمۃ
محمدا
بہرحال…کبھی
تو ان شاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب یہ بلا بھی…
مسلمانوں کے سرسے ٹل جائے گی…
ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے…
کلمہ شہادت کے ساتھ ۱۴۳۴ھ کو خوش آمدید کہتے ہیں…
نشھدان لا الہ الا
اللہ وحدہ لا شریک لہ
و نشھدان سیدنا
محمدا عبدہ و رسولہ
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (374 )
مقام محرم الحرام
محرم الحرام
اسلامی سال کا آغاز… تاریخ میں
بہت سے عظیم الشان اور مبارک واقعات اس ماہ پیش آئے…
پھر یہ منحوس کیسے ہو سکتا ہے؟
بعض ظاہری شرور
میں کتنی خیر پوشیدہ ہوتی ہے؟
ایک واقعے سے اس
کی وضاحت…
۱۴۳۴ھ کا سال شروع ہوا…
اور بعض نامور لوگ (اچھے یا برے ) یہ دنیا چھوڑ گئے…
اسی سال ’’اجمل
قصاب‘‘ کو مشرکین نے پھانسی پہ لٹکایا اور…
حضرت سعدی کا قلم ان کے مرقد پر پھول نچھاور کرنے لگا…
اس کے علاوہ محرم
کے حوالے سے بہت سی ضروری باتیں سمجھاتا کالم پڑھئے…
تاریخ اشاعت
۲محرم الحرام؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۱۶نومبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۴)
مقام محرم الحرام
اللہ تعالیٰ’’اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ پر
رحم فرمائے… تازہ خبر آپ نے
سن لی ہو گی… سندھ کے
ضلع’’تھر‘‘ کا ایک ہندو ٹھاکر…
جو مسلمانوں کا اور پاکستان کا سخت دشمن تھا…
اور سندھ میں بیٹھ کر انڈین فوج کی جاسوسی اور مدد کرتا تھا…
وہ1977ء میں انڈیا جا بسا تھا…
بمبئی کے حملوں کے سلسلے میں جب’’اجمل قصاب شہید‘‘ کا مقدمہ چلا تو اس کی بڑی
خواہش تھی کہ اجمل کو پھانسی لگے…
اکیس نومبر کے دن بھارتی حکومت نے ’’اجمل قصاب‘‘ کو پھانسی دیکر قتل کر دیا تو یہ
بڑا خوش تھا… بہت خوش مگر…
دو دن بعد موت کے فرشتے نے خود اس کو پھانسی دے دی…
خس کم جہاں پاک… یہ۱۴۳۴ھ کا سال بھی
عجیب شروع ہوا ہے… ابھی
گیارہ دن ہی گذرے ہیں کہ…
کئی نامور اور مشہورلوگ اس دنیا کو چھوڑ گئے…
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ…
مشہور اور نامور افرادکو اپنا بوریا بسترباندھ کر رکھنا چاہئے…
ان میںجو مسلمان ہیں وہ اپنے وصیت نامے بھی لکھ دیں…
اگرکسی کا کچھ لین دین ہو…
بال ٹھاکرے مر گیا… الحمدﷲ…
اردشیر کاؤس جی مر گیا…
الحمدﷲ… دو چار بڑے فلمی
اور ٹی وی فنکار بھی پچھلے پانچ دن میں رخصت ہوگئے…
’’کاؤس جی‘‘ کراچی کا پارسی تھا…
پارسی یعنی آتش
پرست… آگ کے پجاری…
یہ فرقہ دنیا سے بہت تیزی کے ساتھ ختم ہورہا ہے…
کراچی اور بمبئی میں ان کی آبادی موجود ہے…
عجیب بدنصیب اور واہیات قسم کے لوگ ہیں…
ہمارے سابق وزیراعظم شوکت عزیز…
سودخور… اگرچہ مسلمان
کہلاتے تھے مگر’’عدی‘‘ نام کے ایک پارسی پروفیسر کے خاص الخاص شاگرد تھے…
اور اُس آتش پرست استاد سے فیض لیتے رہتے تھے…
اندراگاندھی کے زمانے میں انڈین آرمی کا ایک چیف’’جنرل مانک شاہ‘‘ بھی پارسی گذرا
ہے… دنیا بھر میں
موجود ان تھوڑے سے ’’پارسیوں‘‘ میں سب سے زیادہ…
خطرناک، بدزبان، متعصب اور دشمن ملّت…
یہی’’کاؤس جی‘‘ تھا جو…
دو روزہوئے زمین کی جان چھوڑ گیا…
ڈان اخبار میں کالم لکھتاتھا اور اس ’’بے وقوفانہ کالم‘‘ کا اردو ترجمہ…
کئی اخبار چھاپتے تھے… ایک بار
میں نے پاکستان کے ایک اردو اخبار کے مدیر کو جیل سے خط بھی لکھا کہ…
اس ظالم کے کالم چھاپ کر آپ اپنی اُس ’’والدہ‘‘ پر ظلم کرتے ہو جس نے چودہ حج کر
رکھے ہیں… والدہ پر ظلم کا
کیا مطلب؟… یہ ایک مشکل
داستان ہے… میرے لئے لکھنا
ممکن نہیں… آپ سمجھ گئے ہیں
تو اچھی بات ہے… نہیں سمجھے تو
اُس سے بھی زیادہ اچھی بات ہے…
اس ’’محرم الحرام‘‘ میںجو مشہور اور نامور لوگ دنیا سے چلے گئے ان میں…
اجمل قصاب بھی تھے… ہم نے اُن
کا نام ’’میڈیا‘‘ پر سنا…
نہ پہلے کوئی تعارف تھا نہ بعد میں…
انڈیا نے الزام لگایاکہ وہ بمبئی پر حملہ کرنے والے دس افراد میں سے ایک تھے…
آپ سوچتے ہوں گے کہ… یہ لفظ
بمبئی ہے یا مُمبئی… یہ لفظ
دراصل صدیوں سے’’بمبئی‘‘ ہی تھا پھر بال ٹھاکرے نے ہندو مذہبی بنیاد پر…
اس کا نام’’مُمبئی‘‘ کرا دیا…
یہ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے…
اسی طرح مدراس جیسے تاریخی شہر کو بھی ایک گندا نام’’چِنّئی‘‘ دے دیاگیا ہے…
بی جے پی کی حکومت کے یہ سب کارنامے ہیں…
مزید بھی کئی شہروں کے نام بدل رہے تھے کہ حکومت کا وقت ختم ہو گیا…
چار سال پہلے بمبئی پر حملے ہوئے تھے…
عوامی مقامات پر عام انسانوں کو مارنا…
اسلام اور جہاد کا سبق نہیں ہے…
اس لئے ہم اُن حملوں پر خاموش رہے…
نہ تائید کی کہ… جہادی شان نظر
نہیں آرہی تھی…اور نہ تردید کی
کہ… ہمارا کیا واسطہ…
انڈیا ہرو قت الٹی حرکتیں کرتا رہتا ہے…
ہمیں کیا پڑی کہ ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں کے ’’قاتل‘‘ سے کوئی دکھ اور تعزیت یا
اظہار افسوس کرتے… ان حملوں
کے فوراً بعد جو نام سب سے زیادہ مشہور ہوا وہ اجمل قصاب کا تھا…
انڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ حملہ آوروں میں سے تھے…
اور یکے بعددیگرے تمام عدالتوں نے…
انہیں موت کی سزا سنائی…
ہم نے انڈیا کے
عدالتی نظام کو بہت قریب سے دیکھا اور بھگتا ہے…
اس لئے اُن کے کسی دعوے پر’’اعتبار‘‘ کی گنجائش نہیں پاتے…
مگر ایک بات تو بالکل پکی ہے کہ…
انڈیا کا عدالتی نظام بہت طویل، پیچ دار اور سست ہے…
تہاڑ جیل دہلی میں ایک نامی گرامی مجرم سے ملاقات ہوئی وہ گیارہ سال سے ایک ایسے
جرم میں عدالتی ٹرائل بھگت رہے تھے…
جس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا دو سال بنتی ہے…
اُن کا کہنا تھا کہ میں بیس سال تک یہ مقدمہ لمبا کھینچوں گا تاکہ…
تھائی لینڈ کی حکومت اُن کو نہ لے جا سکے…
اور تھائی لینڈ میں بیس سال گذرنے پر مقدمہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے…
ایک نہیں درجنوںمثالیں ہمارے سامنے ہیں…
ابھی ایک متعصب ہندو تنظیم کے بعض رہنماؤں نے اعتراف کر لیا ہے کہ…
سمجھوتہ ٹرین کے دھماکے انہوں نے کئے تھے…
جبکہ انڈین حکومت نے اس دھماکے کی مد میں کئی مسلمانوں کو سالہاسال سے پکڑ رکھا ہے…
اور اب بھی اُن کو صرف ضمانت پر رہا کیا گیا ہے…
خلیل چشتی صاحب کا معاملہ سب کے سامنے ہے وہ بیس سال سے ایک مقدمے کی پیشیاں بھگت
رہے ہیں… تاحال فیصلہ نہیں
ہوا… اُدھر راجیو
گاندھی کے قتل کا مقدمہ بھی تاحال…
مکمل نہیں ہوا… حالانکہ راجیو
گاندھی جب قتل ہوا تھا تو ہم بچے تھے…ابھی
کچھ دن پہلے ایک پاکستانی فوجی کو انڈیا کی جیل سے رہائی ملی…
ظالموں نے اس کی زبان تک کاٹ دی ہے…
یہ فوجی1971ء میں گرفتار ہوئے تھے…
آپ ذرا انگلیوں پر گنیں کہ کتنے سال بنے…1971ء
تا 2012ء اب اندازہ لگائیں کہ…
اسی انڈیا میں اجمل قصاب کا مقدمہ چار سال میں نمٹا دیا گیا…
اور پھانسی بھی دے دی گئی…اسے
کہتے ہیں مسلمانوں سے دشمنی…
پاکستان سے دشمنی… اور بے
غیرتی کی حد تک بڑھا ہوا ظلم…
بھارتی صدر کے پاس سزائے موت کے خلاف رحم کی ایک سو درخواستیں موجود ہیں…
اور قانون کے مطابق ہر درخواست کو ایک نمبر دیا جاتا ہے…
اور بھارتی صدر اسی نمبر کی ترتیب سے ان درخواستوں پر فیصلہ کرتا ہے…
جناب افضل گورو(حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ و نجّاہ) کی درخواست کا نمبر ساٹھ
کے بعد آتا ہے… جبکہ اجمل قصاب
کا نمبر آنے تک تو بھارت کے کم از کم پانچ صدر مزید گزر سکتے تھے…
مگرایوان صدر نے بھی پھرتی دکھائی…
اورایک مسلمان کو پھانسی پر لٹکانے میں کوئی دیر نہیں کی…
ہم نہیں جانتے کہ… اجمل قصاب
کا کیا قصور تھا… مگراتنا
معلوم ہے کہ وہ مسلمان تھے…
اور ہمیں ان کی پھانسی پر قلبی دکھ اور رنج پہنچا ہے…
اور پاکستانی حکمرانوں نے…
اس واقعہ پر جو ردعمل پیش کیا ہے اُس پر بھی بہت افسوس ہوا ہے…
چاہئے تو یہ تھا کہ… اجمل قصاب
کی پھانسی کے اگلے دن… میانوالی
جیل میں بھارتی قاتل اور جاسوس’’سربجیت سنگھ‘‘ کو پھانسی دے دی جاتی…
سپریم کورٹ اس کو پھانسی کی سزا سنا چکی ہے اور نظرثانی کی درخواست بھی مسترد ہو
چکی ہے… اور اس کی رحم کی
اپیل ہمارے ایوان صدر میں پڑی ہے…مگر
غیرت نام تھی جس
کا گئی تیمور کے گھر سے
آج ارادہ
تھا کہ محرم الحرام… اور
عاشوراء کی فضیلت پر کچھ باتیں عرض کی جائیں گی…
مگر قلم ایک غریب الدیار کی مرقد پر پھول نچھاور کرنے لگا…
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی قربانیاں قبول فرمائے…
کہاں کہاں قبریں بن رہی ہیں…
نہ کوئی میت اٹھانے والا…
نہ کوئی غسل کفن دینے والا…
نہ قبر کا کوئی نشان اور نہ تعزیت کے دو حروف…
کوئی سمندر میں ڈالا جارہا ہے تو کوئی گمنام اجتماعی قبروں میں گم کر دیا جاتا ہے…
بوسنیا کے مسلمانوں کی قبریں…
فلسطین کے مسلمانوں کے جنازے…
اور کشمیر کے گمنام اجتماعی مقبرے…
ہاں عشق اسی طرح ہوتا ہے…
بے پرواہ، بے نیاز اور بے ساختہ…
1990ء میںپہلے پہل افغانستان جانا ہوا تو…
ژاور کے علاقے میں ایک ابھری ہوئی جگہ دکھائی گئی…
معلوم ہوا کہ پچاس عرب مجاہدین آرام فرماتے ہیں…
آرام کیا عیش فرماتے ہوں گے…
سوویت بمباری نے اُن کے لئے شہادت اور مقبرہ دونوں کا انتظام بیک وقت کر دیا تھا…
کئی لوگوں نے وہاں سے تلاوت کی آوازیں سنیں…
اُن سننے والوں کو ہم نے خود دیکھا…
بالکل جھوٹے نہیں لگتے تھے…
اجمل قصاب کے واقعہ پر بہت ڈھونڈا کہ کسی خبر یا کالم میں کوئی ایک لفظ ہمدردی کا…
یا دو آنسو تعلق کے مل جائیں…
مسلسل دو دن کی تلاش کے باوجود ناکامی ہوئی…
سوچا لوگوں نے اس دنیا میں جینا ہے یہاں کون کسی کا…
مرثیہ سنا کر اپنی زندگی تنگ کرے گا…
اس لئے بات کا رخ… محرم
الحرام سے دوسری طرف پھر گیا…
چلیں ابھی کچھ جگہ باقی ہے…
دو چار باتیں’’محرم الحرام‘‘ کی کر لیتے ہیں…
یاد رکھیں یہ مہینہ… اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ، مقام اور بڑی آبرو والا
ہے…ہم پرلازم ہے کہ…
ہم اپنے رب کی اطاعت بھی کریں اور جیسے وہ چاہیں ہم اُسی کے موافق…
چلیں… انہوں نے جن
مقامات کو فضیلت دی… ہم ان کی
تعظیم واکرام کریں… کعبۃ اللہ ، روضۂ اطہر…
مسجد نبوی… منیٰ،عرفات،
مزدلفہ وغیرہ… اسی طرح انہوں نے
جن مہینوں اور دنوں کو افضلیت اور اعزاز بخشا ہم بھی…
انہیں افضل مانیں اور ان کا اعزاز کریں…
محرم الحرام کے فضائل پر اہل علم نے باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں…
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ…
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کو’’شہر اللہ ‘‘…
یعنی اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے…
مہینے تو سارے ہی اللہ تعالیٰ کے ہیں مگر…
یہ وہ خاص مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے
انسانیت کو عطاء فرمایا ہے…
اور اس مہینے کا ایک دن…
’’ایام اللہ ‘‘ میں سے ہے…’’ایام
اللہ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے دن…
یعنی وہ دن جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی خاص قدرت، نعمت اور شان کو
ظاہر فرمایا… عاشوراء…(اس
کو عاشورہ لکھنا غلط ہے)…
اُن ’’ایام اللہ ‘‘ میں سے ہے جس کا تذکرہ…
قرآن پاک میں سب سے زیادہ آیا ہے…
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ…
بنی اسرائیل کو… ’’ایام اللہ ‘‘ کی یاد دہانی کراتے رہیں…
وَذَکِّرْھُمْ
بِاَیَّامِ اللہ …(ابراہیم:۵)
ان ’’ایام اللہ ‘‘ میں…
سب سے اہم دن وہ تھا جس میں فرعون غرق ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی
قوم کو آزادی اور نجات نصیب ہوئی…
آپ قرآن پاک میں شمار کرتے جائیں کہ…
یہ واقعہ کتنی بار مذکور ہوا ہے؟…
تب اس واقعہ کے ضمن میں…
’’عاشوراء‘‘ بھی آجاتا ہے…
اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ…
موجودہ نسل انسانی کی بقاء میں بھی…
’’عاشوراء‘‘ کی برکت شامل ہے…
کیونکہ مسند احمد کی روایت کے مطابق اسی دن…
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی…
جودی پہاڑ پر لنگرانداز ہوئی…
اور اس کشتی کے مسافروں کی نجات سے آگے کی انسانی نسل چلی…
چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ…
حضرت نوح علیہ السلام نے بھی ’’عاشوراء‘‘ کا روزہ رکھا…
قریش مکہ’’عاشوراء‘‘ کا روزہ رکھتے تھے اور اسی دن کعبہ شریف کو پردہ پہناتے تھے…
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ…
عاشوراء کا روزہ… حضرت
ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی رکھتے تھے…کیو
نکہ قریش مکہ میں جو بھی اچھی عادت باقی تھی وہ ملت ابراہیمی سے آئی تھی…
عاشوراء کے روزہ کی جس طرح سے اسلام میں فضیلت آئی ہے…
اس کے پیش نظر اس اُمت کے اسلاف اور اخیار…
اس روزے کا بہت اہتمام فرماتے تھے…
حتیٰ کہ کئی حضرات تو سفر میں بھی اس کا ناغہ گوارہ نہ کرتے تھے…
یہ موضوع بہت مفصل ہے… انشاء اللہ کسی اور مجلس میں سمیٹیں گے…
آخر میں ایک اہم بات عرض ہے…
کیا وہ مہینہ منحوس ہو گیا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
دنیا سے پردہ فرمایا؟… کتنا عظیم
غم اور صدمہ تھا حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ لیں…
کیا وہ مہینہ منحوس ہو گیا جس میں خلفائے راشدین…
ازواج مطہرات اوربنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت یا وفات پائی؟…
یقینا جواب نفی میں ہوگا…
پھر محرم کومنحوس سمجھنا کیا یہ…
اللہ تعالیٰ سے کھلی بغاوت اور مخالفت نہیں ہے؟…
اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو حرمت…
یعنی عزت، مقام،درجہ اور آبرو عطاء فرمائی…حتی
کہ اہل علم کی رائے یہ ہے کہ…
حرمت و عزت والے چار مہینوں میں سب سے افضل مہینہ محرم ہے…
اور روایات سے ثابت ہے کہ رمضان المبارک کے بعد افضل مہینہ محرم ہے…
کئی محققین کے نزدیک… رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے لاڈلی صاحبزادی…
حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کا نکاح’’محرم‘‘ میں ہوا…
جبکہ زیادہ مشہور قول’’صفر‘‘کا ہے…
محرم الحرام کومنحوس سمجھنا…
اس مہینے میں نکاح کو غلط سمجھنا…
فطرت کے خلاف ہے… اور ترتیب
الٰہی کی مخالفت ہے…مسلمانوں
کو اس بارے میں اپنا طرز عمل درست کرنا چاہئے…اب
آخری بات… مصیبت کا وقت
مقرر ہوتا ہے… کس نے کب مرنا ہے
یہ بات طئے شدہ ہے… مگربعض
اوقات کوئی مصیبت کسی نیکی اور عبادت کے ساتھ آجاتی ہے…
مثلاً کسی نے کوئی عبادت یا بڑی نیکی کی…
اور اسی وقت اس پر کوئی دنیوی آزمائش یا مصیبت آگئی…
تب شیطان کو اور برے لوگوں کو موقع مل جاتا ہے کہ…
وہ اس مصیبت کو اُس نیکی کے ساتھ جوڑدیتے ہیں اور وسوسہ ڈالتے ہیں کہ…
لوبھائی! آئندہ ایسی نیکی نہ کرنا ورنہ تمہارے ساتھ یہی ہوگا…
ایک آدمی گناہوں میں ہوتا ہے اور بالکل ٹھیک ٹھاک…
مگر جیسے ہی نیکی میں لگتا ہے تو کوئی پریشانی آجاتی ہے…
تب یہ وسوسہ آتا ہے کہ نیکی چھوڑو…
کراچی میں ہمارے ایک قریبی ساتھی نے ماشاء اللہ محرّم میں اپنے دو صاحبزادوں کی شادیاں کیں…
اورنکاح بھی’’جہادی علماء‘‘ سے پڑھوائے…
ماشاء اللہ قابل رشکی نیکی ہے…
مگر کیا ہوا؟… ولیمہ کے دن جب
کھانا تیار تھا خاندان میں حادثہ ہوا اور بھابھی صاحبہ چل بسیں…
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں…
قارئین سے بھی دعاء اور ایصال ثواب کی درخواست ہے…
اب ولیمہ کیا ہوتا… شریعت میں
تین دن کا سوگ ہے اور یہ تو پہلا دن تھا…
چنانچہ سارا خاندان ہی صدمے میں ڈوب گیا اور کھانا ایک دینی مدرسہ میں بھجوا دیا
گیا… اب اگر کسی کمزور
عقیدے کے آدمی کو یہ واقعہ سنائیں تو وہ حادثے کو محرم کی شادی کے ساتھ جوڑ دے گا…
نعوذ ب اللہ ، استغفر اللہ …
حادثہ تو ہونا تھا…
خاتون کی زندگی اتنی ہی تھی…
مگر یہ حادثہ ایک نیکی کے ساتھ جڑ کر آگیا…
اب قرآن پاک سمجھاتا ہے کہ…
ایسے مواقع پر نیکی نہ چھوڑو…
اور نہ ہی یہ خیال دل میں لاؤکہ…
ایسا نیکی کی وجہ سے ہوا ہے…
سورہ حج میں تفصیل مذکورہے…
بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ…
اس حادثے میں کیا کیا خیر پوشیدہ ہے…
خیر ولیمہ بھی ہو گیا مگر کیسا؟…
تمام کھانا علماء، طلبہ اور مہمانان رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے کھایا…
اور خوشی کی غفلت کی بجائے…
سارے خاندان نے ذکر، تلاوت ، آنسوؤں…
اور فکر آخرت کے ساتھ عاشوراء پایا…
شادیاں نہ بھی ہوتیں تو جانے والی نے اسی دن…
اور اسی لمحے جانا تھا…
وقت تو سب کا مقرر ہے… بس یہ ایک
مثال تھی… ہر مسلمان
کوچاہئے کہ… دین، جہاد،عبادت
اور نیکی کو دنیا کے نفع،نقصان کے ساتھ نہ جوڑے…
بلکہ جیسے بھی حالات آئیں استقامت کے ساتھ…
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے…
دین اور دین کے کاموں پر ڈٹے رہنا چاہئے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (375)
مدنی ارواح
نیک روح اور بد
روح کا نام توآپ نے کئی بار سنا ہوگا…
مگر’’مدنی ارواح‘‘ کا لفظ یقینا نیا معلوم ہو رہا ہوگا…
تو یہ کالم اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہا ہے…
مختلف روحیں ایک
دوسرے کی طرف کس طرح کھینچی چلی آتی ہیں…
ایک نام کے مسلمان
کی روح آتش پرست کی طرف کس طرح لپکی؟…
دو پاکیزہ اور
مدنی ارواح کیسے ملیں اور پھر کہاں جا پہنچیں؟
شہید اسعد ایوب
مدنی کاپیغام… اور دو خواہشات…
تاریخ اشاعت
۹محرم الحرام؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۲۳نومبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۵)
مدنی ارواح
اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق ہیں…
اللّٰہُ خَالِقُ
کُلِّ شَیْء (القرآن)
’’جسم بھی اللہ تعالیٰ نے بنایا …
اور ’’روح‘‘ کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے…
یہ ہوئی پہلی بات … کوئی
’’روح‘‘ اچھی ہوتی ہے …
اور کوئی روح بُری یعنی خبیث …
آپ نے ’’بد روح‘‘ کا لفظ تو بار بار سنا ہوگا …
بد روح یعنی بُری روح …
دنیا میں اچھی روح… اپنے ہی
جیسی اچھی ارواح کی طرف کھنچتی ہے …
اور بُری روح… اپنے ہی جیسی
بُری ارواح کی طرف بھاگتی ہے…
مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی…
مزّاحہ یعنی بہت ہنسی مزاح کرنے والی …
وہ سفر فرما کر مدینہ طیبہ آئی اور سیدھی ایک مدنی خاتون کے گھر جا پہنچی …
نہ کسی سے پوچھا اور نہ کسی نے بتایا…
خود ہی بالکل سیدھی وہاں پہنچ گئی…
معلوم ہوا کہ وہ بھی بہت ہنسی مزاح کی عادی ہیں…
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو قصہ پہنچا کہ …
مکی مزّاحہ سیدھی مدنی مزّاحہ کے گھر پہنچ گئی ہے …
نہ پہلے سے کوئی تعارف اور نہ جان پہچان …
حضرت سیدہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: بے شک میرے محبوب صلی
اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا:
{الارواح جنود
مجندۃ}
کہ روحیں ایسے
لشکر ہیں جن کو ترتیب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے …
اچھی روحوں کا الگ لشکر …
بُری روحوں کا الگ لشکر…
پھر اچھی ارواح میں مختلف اچھائیوں کے اعتبار سے الگ الگ دستے…
اور بُری ارواح میں برائیوں کے اعتبار سے الگ الگ دستے …
جیل میں عجیب بات دیکھی …
چرس اور نشے سے تعلق رکھنے والے افراد منٹوں میں ایک دوسرے کو پہچان لیتے …
اور فوراً ان میں دوستی ہو جاتی…
نشہ مل جاتا تو باہم شریک اور نہ ملتا تو مل بیٹھ کر زبانی نشہ سے تسکین پاتے …
یعنی پرانی داستانیں ایک دوسرے کو سناتے …
حالانکہ کئی حضرات سالہاسال سے نشہ چھوڑ چکے تھے اور پکے تائب تھے اور اُن کے چہرے
مہرے سے نشہ کے اثرات اور کھنڈرات بھی زائل ہوچکے تھے…
مگر جیسے ہی وہ کسی نئی جیل شفٹ ہوتے …
یا ان کی جیل میں کوئی نیا نشئی آتا تو فوراً دوستی ہو جاتی…
زیادہ حیرت انگیز بات یہ دیکھی کہ …
سچی توبہ کرنے والے نشئی بھی …
صرف انہی افراد کو اپنا دوست بناتے تھے جو ماضی میں نشئی رہے ہوں اور اب تائب
ہوچکے ہوں، لیجئے! حضرت سیدنا عبد اللہ بن
مسعودرضی اللہ عنہ بہت عجیب نکتہ ارشاد فرماتے ہیں…
’’اگر ایک کھلے
اور بڑے چٹیل صحرا میں بے شمار لوگوں کو جمع کردیا جائے اور وہ سب مؤمن ہوںاور ان
میں صرف دو افراد کافر ہوں …
تو یہ دو کافر ضرور ایک دوسرے کے ساتھ جاملیں گے…‘‘
یعنی خود بخود …
روح کی مقناطیسی کشش ان دو کافروں کو آپس میں جوڑ دے گی …
آپ اندازہ لگائیں … ایک شخص
کراچی کے کافر آتش پرست خاندان میں پیدا ہوا …
اور دوسرا چکوال کے ایک مسلمان گھرانے میں …
آتش پرست تو کفر ہی میں پلا بڑھا…
مگر چکوال والے کا تعلق چونکہ مسلمان گھرانے سے تھا اس لئے …
اس نے بچپن میں قرآن پاک بھی پڑھا …
پھر فوج میں بھرتی ہوا …
پھر اچانک کسی دن اسے کراچی کے آتش پرست نے خود ہی فون کرکے ملنے کی دعوت دی …
ملاقات ہوتے ہی یوں لگا کہ دو قریبی روحیں سالہاسال کی جدائی کاٹ کر اکٹھی ہوگئی
ہیں…بس پھر کیا تھا؟ دونوں
کفر گوئی سے لے کر بادہ خواہی تک یک جان ہوگئے …
پچھلے رنگ و نور میں جب ’’اردشیر کائوس جی‘‘ کے بارے میں لکھ رہا تھا تو …
ایک جملہ بار بار قلم کی نوک پر آتا اور میں اسے جھٹک دیتا کہ …
کسی مسلمان کی توہین نہ ہو…
وہ جملہ یہ تھا … آج کل
’’ایاز امیر‘‘ نے اپنے کالموں میں ’’کائوس جی‘‘ کی کمی پوری کردی ہے…
قرآن پاک کا مذاق … نعوذ ب
اللہ …
احادیث نبویہ کا مذاق …
نعوذ ب اللہ … جہاد اور مقدس
حوروں و غلماں پر بازاری جملہ بازی استغفر اللہ …
اور اسی طرح کی ڈھیروں بکواسات…
بڑی مشکل سے قلم پر قابو پایا اور ’’ایاز امیر‘‘ کا تذکرہ کالم میں نہیں کیا …
مگر اگلے ہی دن ’’ایاز امیر‘‘ کا کالم اخبارات میں چھپا اور راز فاش ہوگیا کہ …
اس کی اور ’’کائوس جی‘‘ کی کتنی گہری دوستی تھی اور اس نے کائوس جی سے کون کون سے
’’بدکام‘‘ سیکھے… واقعی …
الارواح جنود
مجندۃ…
’’ایاز امیر‘‘ کا
کالم پڑھ کر تکلیف تو بہت ہوئی مگر …
جب اس نے ’’کائوس جی‘‘ کو نعوذ ب اللہ مرنے کے بعد سنہرے باغات میں داخل کیا تو مجھے
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک کی
سمجھ آگئی … وہ حدیث کونسی ہے
اور اس میں کیا بات سمجھ آئی یہ انشاء اللہ پھر کبھی …
کئی سال ہوچکے تھے کہ حدیث شریف کا وہ حصہ سمجھ نہیں آرہا تھا …
اب آگیا … والحمدﷲ رب
العالمین … یہاں ایک اور
دلچسپ بات بھی سن لیں… برصغیر پر
انگریزوں کے قبضے کے دوران ایک انگریز گورنر کی بیوی ہندوستان آئی …
وہ ہر وقت سانپوں کو ڈھونڈتی رہتی تھی…
ایک بڑا سا کالا سانپ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا…
انگلینڈ واپس گئی تو اس سانپ کو ساتھ لے گئی …
وہ خاوند سے زیادہ سانپ سے اُنس پاتی تھی…
بالآخر خاوند نے طلاق دے دی تو وہ مطمئن رہی کہ سانپ اس کے ساتھ تھا …
اور اس سے طلاق کا کوئی خطرہ نہیں…
اپنی بوڑھی ملازمہ اور اس سانپ کے ساتھ رہتی تھی اور جب طبیعت اداس ہوتی تو …
چڑیا گھروں میں جاکر سانپوں کو دودھ پلاتی اور خوش ہو جاتی …
اللہ پاک حفاظت فرمائے…
اس کی روح کا تعلق انسانوں سے کم اور سانپوں سے زیادہ تھا…
علامہ ابن جوزیؒ نے بہت کام کی بات لکھی ہے …
شاید اسی طرح کا کوئی واقعہ دیکھ کر ان کی روح کانپی تو دوسروں کو بھی سمجھا گئے …
فرمایا! جب تمہاری روح میں ان لوگوں کے لئے نفرت پیدا ہو جو دینی طور پر صاحب
فضیلت اور صاحب صلاح ہیں تو فوراً اپنا محاسبہ کرو کہ …
تم سے کیا گناہ یا کیا غلطی سرزد ہورہی ہے جس کی وجہ سے تمہاری روح اچھے لوگوں سے
متنفر ہورہی ہے… چنانچہ فوراً
اپنا علاج کرو … چلیں حضرت
سیدناعبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہاکی
بات کو آگے بڑھاتے ہیں …فرمایا!
اگر ایک میدان میں
بے شمار لوگوں کو جمع کردیا جائے اور ان میں صرف دو مؤمن ہوں …
اور باقی سب کافر … تو یہ دو
مؤمن خود بخود ایک دوسرے سے آ ملیں گے …
سبحان اللہ !
دو مؤمن …
دور دور رہتے ہیں اور پھر کیسے ایک دوسرے کی طرف آکھنچتے ہیں…
اور پھر کیسے ایک ہی مقام پر دونوں فائز ہوتے ہیں…
بس یہی وہ تازہ داستان ہے جس نے آج کا یہ کالم لکھوا دیا…
کہاں لودھراں … اور کہاں
بہاولنگر؟… جی
ہاں … فقیر عطاء اللہ کا
دوست … اسعد ایوب مدنی
ان سے جاملا… ہمارے لئے…
ان اللہ وانا الیہ راجعون
اور ان کے لئے
انشاء اللہ …
فَرِحِیْنَ
بِمَآاٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (آل عمران: ۱۷۰)
کیا عجیب دوستی
تھی اور مثالی محبت… پہلے جانے
والے کی وصیت یہ تھی کہ میرے بعد ان کا نمبر جلد لگایا جائے …
کم از کم دو خطوط صرف اسی تڑپ میں لکھے…
یہ فدائی ارواح بھی … ایک مستقل
’’روحانی جماعت‘‘ اور ’’روحانی دستہ‘‘ ہیں…
ایک جیسی عادتیں … ایک جیسے
انداز… اور ایک جیسی
ادائیں …
میرے خیال میں…
دورحاضر کی سب سے بامقام ارواح…
سب سے باسعادت ارواح اور سب سے افضل اور پاکیزہ ارواح…
یہ دور دور ہوتے ہیں پھر اچانک اکٹھے ہو جاتے ہیں …
اور پھر بہت تیزی سے اپنے جسموں کی قید سے آزاد ہوکر خالص روح کی دنیا میں جااترتے
ہیں… شہداء کی کمان
مدینہ طیبہ میں ہے اس لیے ہم ان کی ارواح کو ’’مدنی ارواح‘‘ کہہ سکتے ہیں…
روح دراصل اس دنیا میں ’’پردیسی‘‘ ہے …
اور جن ارواح کا آگے اچھا ٹھکانہ ہو وہ اس دنیا میں بے چین رہتی ہیں…
جیسے کسی بادشاہ کو بڑے محلات سے نکال کر پنجرے میں ڈال دیا گیا ہو تو …
اس کی سدا تمنا واپس اپنے محلات میں جانے کی ہوتی ہے…اور
وہ پنجرے میں کبھی چین نہیں پاتا…
ہاں مگر! جن اروح نے آگے چل کر آگ میں جانا ہو …
وہ دنیا کے اس پنجرے میں بہت خوش رہتی ہیں …
اور ہمیشہ سدا اسی پنجرہ میں رہنا چاہتی ہیں…
کچھ دن پہلے ایک لفافہ پاس رکھا تھا…
از طرف فقیر عطاء اللہ …
اور آج ایک لفافہ دائیںطرف پڑا ہے …
از طرف محمد اسعد ایوب مدنی …
ہاں دونوں یار چلے گئے…
محمد اسعد ایوب نے اپنا تمام مال جہاد کے لئے وقف کردیا اور پھر جان بھی لٹا دی …
واقعی ’’اسعد‘‘ یعنی زیادہ سعادت مند نکلا …
خط بھی جاتے ہوئے بہت عجیب لکھا …
اس کے خط کے چند جملے نقل کرنے ہیں مگر …
پہلے حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہا کا فرمان مکمل ہو جائے…
ارشاد فرمایا!
اگر کوئی مؤمن
کسی مسجد میں داخل ہو اور اس مسجد میں ایک سو افراد ایسے موجود ہوں جن میں مؤمن
صرف ایک ہو… (باقی منافق ہوں)
تو یہ مؤمن سیدھا اُسی ایک مؤمن کے پاس آکر بیٹھے گا…
اور اگر کوئی منافق کسی مسجد میں داخل ہو اور اس میں ایک سو افراد موجود ہوں اور
ان میں صرف ایک منافق ہو…
(باقی سب مؤمن ہوں) تو یہ منافق خودبخود اسی منافق کے پاس آ بیٹھے گا (انتہی)…
یہ ہے روحانی مقناطیسی کشش جو اپنے جیسے افراد کو اپنی طرف کھینچتی ہے …
سبق یہ ملتاہے کہ … اپنی روح
کو اچھی ارواح کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے …
محنت، مجاہدہ اور دعاء سے بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے…
اگر کسی کی روح ہمیشہ برے افراد کی طرف مائل ہوتی ہو تو وہ …
محنت کرے، مجاہدہ اختیار کرے اور بہت زیادہ دعا کرے تاکہ …
روح کو پاکیزگی اور سیدھا راستہ نصیب ہو…
اور روح صراط مستقیم پر چلتے ہوئے …
انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی مبارک ارواح کے ساتھ جا ملے …
محترم شہید محمد اسعد ایوب مدنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’اے دشمن اسلام!
پہلے تم امت مسلمہ کی چیخ و پکار سنا کرتے تھے…
لیکن اب تمہاری چیخیں مسلمان سنا کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ…
اے دشمنو! اب تم رویا کرو گے اور مسلمان خوشیاں منائیں گے…
اللہ مجیب سے دعاء کریں کہ بندہ ناچیز کی ایک حقیر سی
جان کو قبول و مقبول فرمائے …
اور یہ کام بندہ، اس کے ساتھیوں اور تمام اراکین کی طرف سے گستاخانہ خاکوں اور
حرمت قرآن، حرمت مساجد اور تمام مظلوم مسلمانوں کابدلہ ہوگا‘‘…
یہ ایمان افروز خط
تین بڑے صفحات پر مشتمل ہے …
ہاں! شہید نے دو خواہشیں بھی ظاہر کی ہیں…
اُن سے شہید کی فکر کا اندازہ لگائیں …
پہلی خواہش یہ ہے کہ … فضائل
جہاد کتاب کا چینی زبان میں ترجمہ شائع کیا جائے …
اور دوسری خواہش یہ ہے کہ …
شہید کے علاقے اور گائوں میں جماعت کا کام تیز کیا جائے…
آفرین اے پاکیزہ روح … آفرین…
لاالہ الا اللہ ،لاالہ الا اللہ ،لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
و بارک وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (376 )
مظلوم بابری مسجد
کی کرامت
محب، محبوب کو
کیسا تحفہ دیتا ہے؟ … اسی تناظر
میں ایک ’’دعاء محبت‘‘ کا تذکرہ…
’’ذکر اللہ‘‘ کی
یاد دہانی…
مظلوم بابری مسجد
کے بارے میں معلومات افزاء باتیں…
اور ایک نئی کتاب کا منظر عام پر آنا…
اور اس کے فوائد…
شرک کی نحوست نے
انڈیا کے مشرکین کو… کس ذلت
آمیز گڑھے میں ڈال رکھا ہے…؟
مسلمان ’’سورہ
اخلاص‘‘ کو توجہ سے سمجھ کر پڑھیں…
ایمان اور توحید کی حلاوت بڑھے گی…
تاریخ اشاعت
۱۶محرم الحرام؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۳۰نومبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۶)
مظلوم بابری مسجد
کی کرامت
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو قوّت عطاء فرمائے…
توفیق عطاء فرمائے…
(۱) ذکر
اللہ کی… (۲) شکر
کی… (۳) مقبول
عبادت کی…
ایک دن حضرت
آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا
ہاتھ پکڑا…
سبحان اللہ !…
کیا خوش نصیبی اور محبت کا منظر ہے…
ارشاد فرمایا… اے مُعاذ! انہوں
نے عرض کیا… لبیّک…
میں حاضر ہوں… یا رسول اللہ ! جی یا رسول اللہ ! ارشاد فرمایا…
{انیّ أُحبّک}
میں تم سے محبت
رکھتا ہوں…!!…
ش،ش،ش… کیا مقام تھا
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اور کیا عظیم سعادت…
محبوب دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت مُعاذ رضی اللہ عنہ سے اپنی
مَحبت کا اظہار فرما رہے ہیں…
جواب میں سچے غلام نے عرض کیا:
{وانا و اللہ أُحبک}
یا رسول اللہ …
میں بھی اللہ کی قسم آپ سے محبت رکھتا ہوں…
ادب تھا، رعب تھا…
اور سراج منیر کی کرنیں…
دل میں کیا کیا طوفان ہوگا مگر کیسے بولتے؟…
بس ادب کے ساتھ اتنا ہی عرض کر سکے…
اور بات چونکہ سچی تھی تو کافی رہی…
محبت تو اُن حضرات کے ایک ایک قول اور عمل سے چھلکتی تھی…
فدائی محبت جی ہاں!… فدائی
محبت… ارشاد فرمایا!
کیا میں تمہیں ایسے’’کلمات‘‘ نہ سکھا دوں جو تم ہر نماز کے بعد کہا کرو…
عرض کیا… جی یا رسول اللہ ! ارشاد فرمایا…
یہ کلمات کہا کرو…
اَللّٰھُمَّ
اَعِنِّیْ عَلیٰ ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکْ
یا اللہ ! مجھے طاقت دیجئے…
میری اعانت فرمائیے… مجھے
توفیق دیجئے ذکر اللہ کی…
شکر کی… اور مقبول عبادت
کی…
سبحان اللہ !…
محبت کا اظہارفرمایا اور ایسی جامع دعاء تعلیم فرما دی…
اب اگر ہم اس دعاء کو’’دعاء محبت‘‘ کا نام دیں تو غلط نہ ہو گا…
معلوم ہوا کہ سچی محبت کا تحفہ اسی طرح کا ہوتا ہے…
ذکر اللہ ! کتنی عظیم چیز ہے…
ہر عمل کی جان! نماز ہو یا جہاد…
کامیابی اور قبولیت ذکر سے ہے…
اللہ تعالیٰ کی یاد…
اللہ تعالیٰ کی محبت…
لوگ پوچھتے ہیں! اخلاص کے کیا معنیٰ ہیں؟…
اور اخلاص کیسے پیداہو؟…
ایک عام سے آدمی نے سادہ سے الفاظ میں بات سمجھا دی…
ارے ہر عمل اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیا کرو…
بس یہی ہے اخلاص… ابھی کالم
پڑھتے ہوئے تجربہ کر لیں…
اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب کر کہیں’’سبحان اللہ ‘‘…ایک
بار آیۃ الکرسی پڑھ لیں کہ…
اللہ تعالیٰ کی محبت میں پڑھتاہوں…
نہ بوجھ، نہ پریشانی نہ کوئی اور غرض…
بس وہ مالک ہیں ان کی یاد میں ڈوب کر…
اُن کا احسان مان کر… عمل کریں…
دوسری چیز شکر… شکر بڑی نعمت ہے…
ہر نعمت کی حفاظت کا ذریعہ …
اور شیطان کا مکمل توڑ…
شیطان خود بھی ناشکرا… اور
وہ’’ناشکری‘‘ کی چُھری سے ہمارے ایمان کو ذبح کرتاہے…
اور مقبول عبادت!… یعنی ہر
عبادت مکمل سنت کے حُسن سے مزین ہو…
بس جس کسی سے محبت ہو تو دل چاہے کہ اس کو یہ تین نعمتیں نصیب ہو جائیں…
ذکر، شکر اور مقبول عبادت…
اور خود اپنے بارے میں بھی یہی فکر ہو کہ…
مجھے بھی یہ تین نعمتیں حاصل ہو جائیں…
یہ جو اوپر حدیث شریف نقل کی ہے یہ امام بخاری پکی کتاب’’الادب المفرد‘‘ سے لکھی
ہے… ویسے ابو داؤد،
نسائی اور مسند احمد میں بھی موجود ہے…
حضرت امام بخاری رضی اللہ عنہ نے ’’الادب المفرد‘‘ بہت کمال کی کتاب لکھی ہے…
اللہ تعالیٰ اُن کو پوری امت کی طرف سے جزائے خیر
عطاء فرمائے… انڈیا کی قید کے
زمانے سے اس کتاب کے ترجمے اور ہلکی سی تشریح کا ارادہ کر رکھا ہے…
مگر ابھی تک صرف ارادے کا ثواب ہی کمایا ہے …
تصنیفات کے لئے اور بھی اس طرح کے کئی ارادے دل میں پالے ہوئے ہیں…
اللہ تعالیٰ ہی توفیق عطاء فرماتے ہیں…
دمشق کے’’دار ابن کثیر‘‘ نے ’’الادب المفرد‘‘ کا ایک نسخہ جناب محمد الیاس بارہ
بنکوی کی تحقیق کے ساتھ شائع کیا ہے…
ایک دوست نے بھیج دیا جزاہ اللہ خیرا…
دیکھ کر دل بہت خوش ہوا…
آج دراصل تین باتیں عرض کرنے کے لئے قلم تھاما تھا…(۱) بابری مسجد پر ایک
نئی کتاب(۲) پچھلے
رنگ و نور میں ایک حدیث شریف کو سمجھنے کا تذکرہ آیا تھا اس کی کچھ تفصیل(۳) یا ذاالجلال
والاکرام…
ابھی دو روز ہوئے
کہ… بابری مسجد کی
شہادت کو بیس سال پورے ہو گئے… ۶ دسمبر۱۹۹۲ء اس دلخراش
واقعہ کی تاریخ ہے… مسلمان جو
روئے زمین کی سب سے بڑی آبادی ہیں اورپچاس سے زائد ملکوں کے حکمران ہیں…
ان کی موجودگی میں’’بابری مسجد‘‘ کی المناک شہادت ہوئی…
اس سال انڈیا میں کئی ہندو تنظیموں نے چھ دسمبر کو’’یوم جشن‘‘ منایا…
دلّی اور یوپی کے کئی علاقوں میں بندر اور خنزیر جمع ہوئے اور دل کھول کر آتش
بازی کی… آخر اسی آتش ہی
میں ان کوجانا اورجلنا ہے…
مسلمان تنظیموں نے’’یوم سوگ‘‘ منایا اور بابری مسجد کے شہداء کے وارثوں نے…
یوم آنسو… ہندو تنظیمیں تو
شائد اپنی خفّت مٹانے کی کوشش میں تھیں…
بیس سال ہو چکے وہ اپنا ’’رام مندر‘‘ تعمیر نہیں کر سکے جسے وہ اپنے’’مذہب‘‘ کا
’’کعبہ‘‘ قرار دے چکے ہیں…
اُن کے بقول اُن کا بھگوان’’رام‘‘ اسی جگہ پیدا ہوا تھا…
چنانچہ اس کی’’جنم بھومی‘‘ پر مندر ہونا چاہئے…
بابری مسجد کئی سو سال سے آباد تھی…
میں نے ایسے افراد سے بھی ملاقات کی ہے جنہوں نے بابری مسجد کی اذان خود سنی ہے…
اور اس میں جمعہ کی نماز ادا کی ہے…
یاد رہے کہ…۱۹۵۲ء سے یہ’’مسجد شریف‘‘ بند ہے اور
اس میں اذان، نماز، جمعہ کی پابندی تھی…۱۹۴۹ء میں ہندوؤں نے
اس مسجد پررات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا…
مؤذن صاحب کو مار کر بھگا دیا گیا اور مسجد میں’’رام‘‘ کی مورتی یعنی بت رکھ دیا
گیا… اور صبح پورے ملک
میں پوسٹر تقسیم ہو گئے کہ رات کو ایک ’’کرشمہ‘‘ ہوا ہے کہ…
رام کا بُت خود بخود بابری مسجد میں آبیٹھا ہے…
بے جان مورتی، بے حس بُت، ناپاک نجس مجسَّمہ خود بخود مسجد میں؟ بس اس وقت سے
تنازعہ شروع ہوا اور پھر کچھ عرصہ بعد مسجد شریف کو سیل کر دیا گیا…
یہاں تک کہ۱۹۹۲ء
میں اسے باقاعدہ شہید کر دیا گیا…
ہندوؤں کا خیال تھا کہ…
ایک آدھ سال میں مندر تعمیر ہو جائے گا…
پوری دنیا کے مشرکین نے چندے کئے…
افریقہ سے سونے کی اینٹیں تک آئیں…
عمارت کا مکمل ڈھانچہ مختلف فیکٹریوں میں اس طرح تیار کیا گیا کہ…
بس چند دنوں میں اسے نصب کیا جا سکے…
مگر بابری مسجد کے وارث تڑپ اٹھے…
بابری مسجد کے بیٹے بے قرار ہو کر دیوانگی پر اُتر آئے…
اور اسّی کروڑ ہندو مل کر بھی بیس سال میں اپنا مرکزی مندر نہ بنا سکے…
اس دوران دو بار ہندوستان پر بی جے پی کی حکومت آئی…
بی جے پی ہی مسجد کی شہادت کی اصل ذمہ دار تھی اور اس کا نعرہ تھا کہ…
مندر ضرور بنے گا… مگر اٹل
بہاری واجپائی اور ایڈوانی اسی خواب میں کھوکھلے ہوگئے…
واجپائی بستر مرگ پر ہے او رایڈوانی اپنی رسو ازندگی کے آخری گڑھے میں ہاتھ پاؤں
مار رہا ہے… پرم راج ھنس اسی
خواہش کو لے کر چتا پر راکھ ہو گیا…
بابری مسجد شہید کرنے والے حملہ آوروں میں سے ڈیڑھ سو سے زائد افراد’’مسلمان‘‘ ہو
چکے ہیں… اور وہ جو سب سے
پہلے’’گنبد شریف‘‘ پر چڑھا تھا اب مسلمان ہو کردو سو سے زائد مساجد آباد کر چکا
ہے… اور اس کی بھی
بڑی تمنا… ہماری طرح بابری
مسجد کے میناروں سے اذان سننے کی ہے…
بابری مسجد میں اذان دینے…
اور اللہ اکبر کہنے کے لئے بہت دور دور سے بہت پاکیزہ اور
کڑیل ’’مسلمان بیٹے‘‘ بھی گئے…
مگر ’’ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر قربان ہو گئے…بابری
مسجد کی آہوں نے ہزاروں مسلمانوںکو جہاد کا مقدس اور منور راستہ دکھایا…
اور بابری مسجد ’’دعوتِ جہاد‘‘ کا ایک اہم ستون بن گئی…
ہاں! قرضہ ابھی تک نہیں اترا…
مسئلہ تاحال ماضی کی طرح سنگین ہے…
اوراسے فراموش کر دینے کا کوئی شرعی جواز مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے…
ہر کلمہ گو مسلمان کو… بابری
مسجد کی دوبارہ تعمیر اور آبادی کے لئے اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق کردار ادا
کرنا چاہئے… ’’دعاء‘‘ سے لیکر’’غَزَا‘‘
تک… پیازی آنسو سے
لیکر سرخ خون تک… مال سے
لیکرجان تک… بابری مسجد سے
ہمارا رشتہ… لا الہ الا اللہ کا ہے…
کوئی سیاسی نہیں… بابری
مسجد سے ہمارا تعلق… محمد رسول
اللہ کا ہے…
کوئی وقتی نہیں… بابری مسجد سے
ہماری محبت… اللہ تعالیٰ کی خاطرہے…
اور انشاء اللہ رہے گی…
یہ ایک مسلط کردہ’’جنگ‘‘ ہے…
اور مسلمان ’’جنگ‘‘ سے پیٹھ پھیر کر اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت نہیںدیتا…یہ
ایک’’چیلنج‘‘ ہے اور مسلمان ہر’’چیلنج‘‘ کی دھجیاں بکھیرنا اپنا منصب سمجھتا ہے…
بابری مسجد کے حوالے سے ابھی ایک’’تازہ کتاب‘‘ منظر عام پرآنے کو ہے…
انڈیا کے ایک بڑے اخبار نے اس کتاب کے اقتباسات شائع کر دیئے ہیں…
کتاب کا نام…’’ایودھیا، دی
ڈارک نائٹ‘‘ ہے… کتاب کے مصنف دو
افراد ہیں… کرشنا جھا اور
دھریندرجھا… اس کتاب میں بیان
کردہ حقائق… ’’بابری مسجد
شہید‘‘ کی ایک زندہ کرامت ہیں…
ناقابل تردید ثبوت، عینی شاہدین اور مستند حوالہ جات سے اس کتاب میں یہ ثابت کیا
گیا ہے کہ… بابری مسجد میں
کوئی کرشمہ ظاہر نہیں ہوا تھا…
ہندوؤں نے ایک منظم سازش کے تحت…
اس کرشمے کا’’ڈھونگ‘‘ رچا تھا…
اس سازش میں شریک افراد کے کام تین حصوںپر تقسیم تھے…
ایک گروہ نے رات کی تاریکی میں ’’بابری مسجد‘‘ میں مورتی رکھنی تھی…
دوسرے گروہ نے اس واقعہ کی ملکی سطح پر تشہیر کرنی تھی…
چنانچہ انہوں پہلے سے پوسٹر تیار کروا لئے تھے…
اور تیسرے گروہ نے قانونی مددفراہم کرتے ہوئے مسجد پر سیل اور تالے لگوانے تھے…
ان دونوں مصنفین کا ایک قریبی رشتہ دار خود اس گروہ میں شامل تھا جس نے رات کو
مسجد میں مورتی رکھی تھی…
سبحان اللہ ! میرے مالک کا نظام بھی کتنا
اونچا اورعظیم ہے… مصر کا
ایک شیر خوار بچہ… حضرت
یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دے رہا ہے…
سازش میں شریک مصر کی کافر عورتیں…
بالآخر خود اعلان کر رہی ہیں…
حَاشَ لِلّٰہِ مَا
عَلِمْنَا عَلَیْہَ مِنْ سُوٓئٍ…(یوسف:۵۱)
یعنی حضرت یوسف
علیہ السلام پاکدامن اوربے قصور ہیں…
ایسی گواہیوں کے
کتنے واقعات… ماضی کی تاریخ
میں ہمارے سامنے موجود ہیں…
اللہ تعالیٰ نے کفار کے ذریعہ…
گواہی دلوا کر اہل ایمان کی حقانیت کو اُن کے دشمنوں پر واضح فرمایا…
اور اب دو ہندو مصنف… بابری
مسجد کے لئے گواہی دینے میدان میں اتر آئے ہیں…
اس سے آپ مسجد کی شان، مقام…
اور عند اللہ حیثیت کا اندازہ لگائیں…
اور بابری مسجد کے معاملے کی اہمیت کو بھی سمجھیں…
اور اس قوم کے مکرو فریب کو بھی دیکھیں جو…
اپنے’’بھگوان‘‘ کے ساتھ بھی دھوکہ بازی…
اور چارسو بیسی سے باز نہیں آتی…
وہ مسلمانوں کی کب خیرخواہ ہو سکتی ہے؟…
کوئی اپنے
’’معبود‘‘ کے ساتھ بھی ایسی حرکت کرتاہے؟…
رام کی بے بسی کا اندازہ اسی سے لگائیںکہ…
اس کی مورتیاں خود ہندوؤں نے رکھ دیں اور نسبت رام کی طرف کر دی کہ وہ…
خود اپنا’’بُت‘‘ یہاں رکھ گیا ہے…
ایسے بے بس معبود… کیا اس
قابل ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے…
واقعی… شرک سب سے بڑا
جرم، سب سے بڑاظلم اور سب سے بڑی گندگی ہے…
حکمت کے بادشاہ ،حضرت سیدنالقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو سب سے
بڑی حکمت سمجھائی وہ یہی تھی کہ…
اِنَّ الشِّرْکَ
لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان:۱۳)
اے بیٹے شرک بالکل
نہ کرنا… بے شک شرک ہی سب
سے بڑا ظلم ہے…ہر مسلمان کو
چاہئے کہ… شرک سے بے حد
نفرت کرے اور شرک کی ہر شکل سے بچنے کی بھرپور محنت کرے…
اپنے پیروں، مرشدوں کی تصویریں سامنے رکھ کر…
اُن کے مراقبے کرنا… ان کی بے
جان تصویروں میں نور ڈھونڈنا…
قبروںپر جا کر سجدے اورنذرانے پیش کرنا…
اے مسلمانو!… اے ایک اللہ کے
عابدو!… یہ سب کچھ بہت
خطرناک ہے،بہت خطرناک… اور ریا
کاری ان سب سے زیادہ خطرناک ہے…
اپنی دعاؤں میں… شرک
اورریاکاری سے حفاظت کی دعاء کو اہمیت کے ساتھ مقدم رکھیں…
{اَللّٰھُمَّ
اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ أَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ…
وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہٖ}
یا اللہ جان بوجھ کر شرک کرنے سے…
آپ کی پناہ پکڑتا ہوں…
اور جو کچھ لاعلمی اور غلطی سے ہو جائے اس پر معافی چاہتا ہوں…
سورۃ اخلاص کو…
پڑھیں، سمجھیں، دل میں بٹھائیں…
اور اپنا ورد بنائیں… معذرت
چاہتاہوں جگہ پوری ہوگئی…
اور دو باتیں رہ گئیں… یا اللہ معاف فرما …
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (377 )
موت کا پیغام
شیخ الحدیث مولانا
محمد زکریا کے ایک خلیفہ عالم با عمل مولانا عبدالرحیم متالا کی وفات پر چند کلمات…
موت کی یاد دہانی
کرانے والی کچھ قیمتی باتیں…
موت کو یاد کرنے
کے فوائد اور موت سے غافل رہنے کے نقصانات…
قبر کی پکار…
کہ وہ غافل غانسان کو کس طرح جگاتی ہے؟
امریکہ میں پیش
آنے والا ایک بھیانک واقعہ اور اس پر تبصرہ…
جو بہت سی باتوں
سے پردہ ہٹاتا ہے…
تاریخ اشاعت
۲۳محرم الحرام؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۷دسمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۷)
موت کا پیغام
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’موت‘‘ کی یاد نصیب
فرمائے… موت کی تیاری کی
توفیق عطاء فرمائے… اور اُن
اعمال کی توفیق عطاء فرمائے جو مرنے کے بعد کام آئیں…
اورہم سب کو اپنے فضل سے بہت اچھی موت عطاء فرمائے…
ایک اللہ والے بزرگ حضرت مولانا عبدالرحیم متالی صاحب…
انتقال فرما گئے ہیں… انڈیا کے
صوبہ گجرات کے ضلع سورت میں ولادت ہوئی…
دین کا علم پایا… خوشخطی
سیکھی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت
ہوئے… آپ کے کاتب رہے…
خلافت پائی اور افریقہ کے ملک’’زیمبیا‘‘ تشریف لے گئے…
چپاٹا نامی شہر میں ایک بڑا دینی مدرسہ’’معہد الرشید‘‘ قائم فرمایا…
ان کی حسنات میں سے ایک بھاری نیکی یہ بھی تھی کہ…
جہاد فی سبیل اللہ سے محبت رکھتے تھے اورحسب استطاعت تعلق قلبی بھی…
اچھے مدرس اور شیخ طریقت تھے…
عملیات میں بھی مہارت تھی…
دینی وجاہت کا یہ عالم تھا کہ…
وہاں کے لوگ انہیں کنگ یعنی ’’بادشاہ‘‘ کہتے تھے…
افریقہ کے مدارس وغیرہ میں انگریزی زبان ہی چلتی ہے…
زبان کوئی اچھی یا بری نہیں ہوتی…
صرف’’عربی‘‘ کو فضیلت حاصل ہے…
باقی سب زبانیں برابر ہیں…
ان زبانوں میں اچھا کام کرو تو اچھا ہے…
بُرا کام کرو تو بُرا ہے…
بلکہ کوئی عربی میں کفر والحاد بکے…
اور دوسرا انگریزی میں دین کی دعوت دے تو یہاں انگریزی والا ہی کامیاب ہوا…
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو جب ہم نے دیکھا تھا تو ماشاء اللہ کمزوری اور بڑھاپے سے بہت دور تھے…
روزآنہ ورزش اور چہل قدمی کا معمول تھا…
ہاتھ اور دل کے سخی اور بڑے دسترخوان والے مہمان نواز تھے…
ذکر اللہ بہت سوز اور توجہ سے کرتے تھے…
انتقال کی خبر ملی تو دکھ ہوا…
عمر کی تحقیق کی تو اڑسٹھ سال معلوم ہوئی…
ماشاء اللہ اچھی عمر ہے اور ساری دین اور دین کے ماحول میں
گزری… اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے…قارئین
سے بھی اُن کے لئے… دعاء اور
ایصال ثواب کی درخواست ہے…
آج کل تو ہمارے چاروں طرف بس موت ہی کا رقص نظر آرہا ہے…ہمارے
مہربان اور محبوب آقا حضرت مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کثرت کے
ساتھ موت کو یاد کرنے کا حکم فرمایا ہے…
ایک ’’امام‘‘ فرماتے ہیں!موت کو کثرت سے یاد کیا کرو…
تین انعامات ملیں گے:
(۱) جلدی
اور سچی توبہ…
(۲) دل
کی قناعت… یعنی دنیا میں جو
کچھ ہے وہی کافی ہے… مزید کی
حرص نہیں…
(۳) عبادت
میں نشاط… یعنی دل لگنا…
اور جو موت کو
بھول جاتا ہے اُسے تین سزائیں ملتی ہیں…
(۱) توبہ
میں سستی… ٹال مٹول…
یعنی یہ خیال کہ کچھ عرصہ بعد کر لیں گے…
(۲) قناعت
سے محرومی یعنی ہروقت مزید بنانے…
مزید پانے اور مزید حاصل کرنے کی فکر اور پریشانی…
(۳) عبادت
میں سستی…
اللہ تعالیٰ نے موت بھی عجیب چیز بنائی ہے…
بالکل حتمی، بالکل یقینی اور بالکل اجنبی…
بس ایک جھٹکا لگتا ہے… اور
قصور(یعنی محلّات) کے بسنے والے قبور میں جا گرتے ہیں…
وہ جوسب کچھ کھاپی رہے تھے اب خود کیڑوں کی خوراک بنے پڑے ہیں…
وہ جو خوب بن سنور رہے تھے اب مٹی میں آلودہ اور بارش ہو توکیچڑ میںلت پت ہیں…
وہ جو حسین بدنوں
کے ساتھ کھیلنے کی فکر میں گھلتے تھے…
اب بدنما سانپ ان کے بدن سے کھیل رہے ہیں…
اور زمین کے اندرونی جانور ان کی حسین آنکھیں نکال کر کھا رہے ہیں…
{سبحان من تعزَّز
بالقدرۃ وقھر العباد بالموت}
یہ دنیا بھی…
بڑی غفلت کی جگہ ہے… انسان کو
چاہئے تو یہ تھا کہ… اپنی موت
کو یاد کرے… اپنی موت کو
سامنے رکھے تب وہ بہت سی غلطیوں …
اور گمراہیوں سے بچ جاتا ہے…
مگرغفلت دیکھیں! لوگ دوسروں کی موت سے اپنی زندگی کو سجانا چاہتے ہیں…فلاں
مر جائے تو میرا یہ فائدہ…
فلاں مر جائے تومجھے یہ آزادی…
فلاں مر جائے تو مجھے یہ سہولت…
کبھی کبھار قدرت اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کو ڈھیل بھی دیتی ہے…
اورپھر جب رسّی کھینچتی ہے تو کچھ بھی نہیںبچتا…
آگے بھی اندھیرا اور پیچھے بھی اندھیرا…
شدّاد کو ڈھیل ملی کہ… جنت بناتا
جائے، بناتا جائے… اپنی ہر
خواہش جمع کرتا جائے، کرتا جائے…
سب کچھ تیار ہو گیا تو قدرت نے رسّی کھینچ لی…
اسی طرح بعض اوقات حُبّ دنیا کے مریضوں کے لئے…
ان کی راہ میں رکاوٹ تمام افراد مرجاتے تھے…
مکمل اختیارات، مکمل آزادی اور مکمل سہولتیں…
مگر اچانک رسی کھینچ لی جاتی ہے…
تب مرنے کے بعد پہلا افسوس یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے مرنے کا انتظار کرنے کی بجائے…
اپنی موت کو مدنظر رکھ کر زندگی گزارتا تو کتنااچھا ہوتا…تب
اُن چیزوں کی خواہش ہی پیدا نہ ہوتی…
جن کو پانے کی خاطر دوسروں کی موت چاہتا رہا…
تھوڑا سا سوچیں… ایک شخص کسی جہاز
میں ہو… تیس ہزار فٹ کی
بلندی پر… اچانک اس کی سیٹ
کے نیچے سوراخ ہو جائے اور وہ گر پڑے…
کیسا منظر ہوگا؟… آنکھیں
بند کر کے اندازہ لگائیں…
کیا اس کے ہوش وحواس سلامت رہیں گے؟…
حالانکہ یہ شخص ضروری نہیں کہ مرجائے…
بچ بھی سکتا ہے… اور بلندی بھی
تیس ہزار فٹ کی ہے… مگر جوموت
کا اصلی جھٹکا لگے گا… وہ ایک
عالَم یعنی جہان سے دوسرے جہان میں گرنا ہوگا…
اور بچنے کا کوئی امکان نہیں…بتائیے!
اس وقت کیا حالت ہوتی ہوگی…
اسی لئے تو موت کے وقت آنکھیں پتھرا جاتی ہیں…
ان حالات میں کلمہ طیبہ یاد رہے…
اللہ تعالیٰ کا ذکر یاد رہے…
اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے…
اور کلمہ کو دل میں بٹھانے اور جمانے کی ضرورت ہے…
ایک اورمثال دیکھیں… کسی الگ
تھلگ صحرا میں رات کی شدید تاریکی میں…
آپ اکیلے جارہے ہیں… اچانک
کوئی بہت بڑا سانپ یا جن بالکل سامنے آکر…
آنکھوں میں آنکھیں ڈال دے…
یا شیرحملہ کر دے… ہوش سلامت
رہے گا؟… حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہم سے زیادہ’’شہادت‘‘ کے فضائل معلوم تھے…
اوروہ ہم سے زیادہ شہادت کے طلب گار اور مستحق تھے…
اور ان کے اعمال ہمارے اعمال سے بہت زیادہ اونچے اور امید افزا تھے…
مگروہ موت کو یاد کرتے تو روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں…
قبروں پر جاتے تو روتے روتے داڑھیاں تر ہوجاتی تھیں…اور
موت کا تذکرہ کرتے تو اس جہان کی ہر چیز اُن کو مٹی سے بھی کمتر لگنے لگتی…
وجہ کیا تھی؟… وہ موت کو جانتے
تھے… دنیا کی سب سے
بڑی مصیبت… موت…
قرآن پاک فرماتا ہے…
فَاَصَابَتْکُمْ
مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ (مائدۃ:۱۰۶)
دنیا کی سب سے بڑی
ہیبت ناک خبر… موت…
اوردنیا کا سب سے خوفناک منظر موت…
یہی وہ امتحان کا وقت ہے کہ…
جس میں کامیابی ہمیشہ کی کامیابی ہے…
اور جس میں ناکامی ہمیشہ کی ناکامی ہے…
یہی ساری زندگی کی محنت کا حاصل ہے کہ…
انجام کیسا ہوتا ہے؟… اچھا ہو
جائے تو… موت خیر
ہے،موت’’حیاۃ‘‘ہے… موت سعادت
ہے… اورموت راحت ہے…
اور اگرخدانخواستہ بُرا ہو جائے تو موت واقعی…
عظیم ترین مصیبت ہے… اس لئے
ضروری ہے کہ جب بھی کوئی نیک عمل کریں…
موت کو یاد رکھیں… اور اچھی
موت کی دعاء مانگنا نہ بھولیں…
کسی مقبول بندے سے دعاء کرانے کا موقع ملے تو حسن خاتمہ اوراچھی موت…
خصوصاً شہادت کی دعاء پہلے کرائیں…دنیا
کے مکان اورمسائل کی بعد میں…
اپنے پاس کوئی امانت ہو تو موت کو یاد کر کے اس کی ادائیگی کی فکر کریں کہ…
میرے مرنے کے بعد یہ میرے لئے وبال نہ بن جائے…
کسی امانت یا اجتماعی چیز کو ایک منٹ کے لئے بھی نہ چھپائیں…
کیا پتہ اسی وقت موت آجائے…
معلوم نہیں اس چیز کو استعمال کون کرے گا؟…
مگر اس کا عذاب چھپانے والے کو بھگتنا پڑے گا…
بہت غصہ آئے تو… اسے نافذ
کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ…
میں نے مرنا ہے… بہت تفکرات پیدا
ہوں تو… یقین کریں کہ میں
نے مرجانا ہے ان میں سے کونسی فکر ٹھیک ہے اور کونسی غلط؟…
لوگ صدیوں کی فکروں میں اپنا وقت اور اپنا دین ، ایمان برباد کرتے رہتے ہیں…
اولاد تو اولاد پوتوں، نواسوں کے لئے بھی…
حرام جمع کرنے سے دریغ نہیں کرتے…
زمین غافل انسان
پر آواز لگاتی ہے…
او میری پیٹھ پر
چلنے والے… کل تو میرے پیٹ
کے اندر ہو گا…
اے میری پیٹھ پر
ہنسنے والے… عنقریب تو میرے
پیٹ میں روئے گا…
اے میری پیٹھ پر
خوشیاں منانے والے… عنقریب تو
میرے پیٹ میں بہت غم دیکھے گا…
اے میری پیٹھ پر گناہ کرنے والے…
عنقریب تو میرے پیٹ میں عذاب پائے گا…
آج چاروں طرف موت کا رقص ہے…
مگر موت کویاد کرنے والے…
یعنی دل کی گہرائی سے اس بات کا یقین کرنے والے کہ…
ہم کسی بھی لمحے مر سکتے ہیں…
تواس کے لئے کچھ تیاری کریں…
بہت کم لوگ ہیں… اسی لئے ظلم،
فساد اور گناہ عام ہیں…
موت کی یاد انسان کو ترقی دیتی ہے…
انسان کو پاکیزہ بناتی ہے…
انسان کے اخلاق کو اچھا کرتی ہے…
اور انسان کو انصاف پر لا کر ظلم سے بچاتی ہے…
امریکہ میں ایک نوجوان شخص نے…
اسکول میں گھس کر بیس چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل کر دیا…
سات دیگر افراد کے ساتھ اپنی ماں کو بھی قتل کردیا…
بڑا بھیانک واقعہ ہے… پاکستان
میںہوتا اور خدانخواستہ کسی مسلمان کے ہاتھ سے ہوتا تو میڈیا کے واہیات شور سے کان
پھٹتے… مدارس پر تنقید
ہوتی… اسلام کا مذاق
اڑایا جاتا… اقوام متحدہ کے
ریلے چلتے… طرح طرح کے فنڈ
اور ایوارڈ قائم ہوتے… اسلام،
جہاد اور مسلمانوں کو ہر گالی دی جاتی…
انگریزی، عصری تعلیم کو عام کرنے پر لمبے لمبے لیکچر ہوتے…
اسلامی معاشرے کی وحشت اور مغربی معاشرے کی امن پسندی پر کالموں کی برسات ٹرٹراتی…
اور سب سے زیادہ ہدف جہاد فی سبیل اللہ کو بنایا جاتا…
مگر اب ایک مہیب سی خاموشی ہے…
کیونکہ قاتل مسلمان نہیں عیسائی تھا…
کسی مدرسے کا طالب علم نہیں…
جدید تعلیم یافتہ تھا… کسی
قبائلی معاشرے کا نہیں…
امریکی شہری تھا… اس لئے نہ
سؤالات ہیں نہ خدشات …
نہ تعلیم کو کوئی خطرہ ہے نہ تہذیب کو…
نہ تجزیئے ہیں اور نہ ناپاک مشورے…
بس تھوڑا سا افسوس ہے جو چند دن میں ختم ہو جائے گا…
چھوٹے بچوں کا قتل کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے…
لاشیں دیکھ کر ہمارا دل بھی بھر آتا ہے کہ…
بچہ بہرحال بچہ ہوتا ہے …
الفت، معصومیت اور محبت کا حسین استعارہ…
کاش امریکہ والے اس واقعہ سے سبق حاصل کریں…
موت کے اس پیغام کو سمجھیں…
اور دنیا بھر میں مسلمان بچوں کے لئے…
انہوں نے جو مذبح خانے کھولے ہیں ان کو بند کر دیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (378 )
مینارۂ علم وکمال
گزشتہ صدی کا آخر
اور رواں صدی کا آغاز…
جن بلند پایہ ’’علماء‘‘ کے ناموں سے گونجتا رہا …
ان میں ایک نام تھا:
مناظر اسلام حضرت
مولانا عبد الستار تونسوی
ان کی وفات کا
سانحہ ایک بڑا سانحہ تھا…
ان کی یاد میں
حضرت سعدی نے بھی یہ سطور تحریر کیں…
ان کا علم کیسا
تھا…؟ ان کے رعب کا
کیا عالم تھا…؟
ان کی آواز میں
کیسا کمال تھا…؟ ان کا علم کہاں
کہاں سیراب کرتا رہا…؟
’’خالص دینی علم‘‘
کی چلتی پھرتی تصویر کیسی ہوتی ہے؟
تاریخ اشاعت
۳۰محرم الحرام؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۱۴دسمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۸)
مینارۂ علم وکمال
اللہ تعالیٰ نے’’علم‘‘ اور’’علماء‘‘ کو بہت اونچا
مقام عطاء فرمایا ہے…
یَرْفَعِ اللّٰہُ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (مجادلہ:۱۱)
لوگ’’مُردہ‘‘ ہیں
جبکہ اہل علم’’زندہ‘‘ ہیں…
عالم کا مقام دوسرے ایمان والوں سے سات سو درجے اونچا ہے…
علماء آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جن سے لوگ روشنی اور راستہ پاتے ہیں…
اللہ تعالیٰ جس انسان کو اپنی’’خیر‘‘ اور
’’مہربانی‘‘ عطاء فرمانا چاہتے ہیں…
اُسے دین کا مضبوط علم عطاء فرما دیتے ہیں…
مخلوق میں سب سے افضل حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں…
اورحضرات انبیاء کے وارث’’علماء‘‘ ہیں…
یہ بہت اونچا اور وجد آفرین جملہ ہے کہ…’’علماء‘‘
انبیاء دکے وارث ہیں… آج اگر
کسی کو ’’بل گیٹس‘‘ یا دنیا کے کسی اور ارب پتی کا وارث بنا دیا جائے تو…
سارے دنیا پر ست اُس پر رشک کرنے لگیں…
حالانکہ فانی مال کے چند قطرے…
وہ بھی چند دنوں کے لئے…
جبکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی ’’وراثت‘‘ میں جو کچھ ملتا ہے…
وہ فناء ہونے والا نہیں…
ہمیشہ ہمیشہ کام آنے والا ہے…
علم کااٹھ جانا اور جَہالت کا غلبہ پالینا علاماتِ قیامت میں سے ہے…
ان من اشراط
الساعۃ ان یرفع علم ویثبت الجھل(بخاری، مسلم)
اورعلم
اٹھتا ہے… علماء کرام کے
اٹھ جانے سے… ارشاد فرمایا:
ولکن یقبض
العلم بقبض العلماء(بخاری)
کہ علم ایک
دم زمین سے اچک نہیں لیا جائے گا…
بلکہ علماء کے اٹھنے سے یہ علم اٹھا لیا جائے گا…
اور لوگ’’جاہلوں‘‘ کواپنا سردار بنا لیں گے…
امام غزالی پ نے روایت لائی ہے کہ…
ایک پورے قبیلے کا مرجانا ایک عالم کے مرنے سے بہت ہلکا ہے…
یعنی کم نقصان دہ ہے…
احیاء
العلوم میں روایت نقل فرمائی ہے کہ:
درجہ نبوت کے
زیادہ قریب اہل علم اور اہل جہاد ہیں…
(احیاء العلوم)
علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے…
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام
پر وحی بھیجی کہ اے ابراہیم! میں’’علیم‘‘ ہوں…
اور ہر علم والے کو دوست رکھتا ہوں…(احیاء
العلوم)
اہلِ علم…
اس اُمت کے تاج ہیں، مینار ہیں…
اور محسن ہیں…آسمان کے فرشتوں
سے لے کر سمندر کی مچھلیوں…
بلوں کی چیونٹیاں اور تمام حیوانات تک علماء کے مقام کو محسوس کرتے ہیں…
اور اُن کے لئے ’’استغفار‘‘ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں…
دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارے میں حکم دیا گیا ہو کہ…
اس میںمزید اضافہ مانگو…
صرف علم کے بارے میں فرمایا گیا…
{وَقُلْ رَّبِّ
زِدْنِیْ عِلْمًا}
اے نبی دعا مانگئے
کہ… اے میرے رب میرے
علم کوبڑھا دیجئے… علم کے
فضائل بے شمار ہیں… قرآن پاک
کی آیات… رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی احادیث…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوراسلاف کے اقوال…
علم اور علماء کی فضیلت کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں…
روئے زمین پر… اصلی اور حقیقی
علماء… بہت کم رہ گئے
ہیں… اور وہ بھی ایک
ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں…
حضرت مولانا عبدالستار صاحب تونسوی رحمۃ اللہ علیہ …
اُن ’’علماء‘‘ میں سے تھے جن کے پاس واقعی دین کا مضبوط اور راسخ علم تھا…
علم کے فضائل انہی جیسے ’’علماء کرام‘‘ کے لئے ہیں…
اُن کی وفات کو دو روز بیت گئے…
دل میںہوک سی اٹھتی ہے اوربہت سے مناظر تازہ ہو جاتے ہیں…
ساری امت کے لئے صدمے کا مقام ہے…
انا ﷲ وانا الیہ
راجعون…
بچپن میں اُن کا
ایک جلسہ سنا… ماشاء اللہ کیارعب تھا اور کیا آواز…
شیروںجیسی گرج… اُس زمانے علماء
کرام کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا تھا…
حضرت اسٹیج پر تشریف لائے تو…
اُن کے جسم پر پستول سجا ہوا تھا…
یہ منظر دل کو اچھا لگا…
پھر سامنے میز پر کتابیں سجائی گئیں…بیان
شروع ہوا تو یوں لگا کہ…
دریا کا بند کھول دیا گیا ہے…
بلند موجیں اور اونچی لہریں…
یہاں ایک عجیب بات سنیں…
حضرت علّامہ تونسوی رحمۃ اللہ علیہ حقیقت میں’’جہیر الصوت‘‘ تھے…
بہت خوبصورت اونچی، گرجدار اور بلند آواز کے مالک…
مگرعام گفتگو میں اتنا نرم اور آہستہ بولتے تھے کہ…
کوئی اندازہ ہی نہ لگا سکے کہ ان کی آواز اس قدر بلند اور گرجدار ہو گی…
بیان میں کتابوں کے حوالے دیتے…
صفحہ نمبر اور سطر نمبر زبانی سناتے اور پھر وہ کتاب اٹھا کر…
اس کا رخ مجمع کی طرف کرتے…
سبحان اللہ !…
عجیب علم تھا… باطل فرقے کے
تمام علماء کو چیلنج فرماتے کہ…
روئے زمین کا کوئی عالم اس بات کا جواب دے دے تو میری سزا پھانسی اور حکومت کے لئے
میرا خون معاف… حضرت کے یہ ولولے
اور چیلنج محض خطابت نہیںتھے…
اللہ تعالیٰ نے آپ پر خاص فضل فرمایا تھا اور علم
وتحقیق کے دروازے آپ کے سینے پر کھول دیئے تھے…
بندہ نے خود ان کو… بڑھاپے کی
حالت میں باادب بیٹھ کر گھنٹوں مطالعہ میں گُم دیکھا…
کتابوں کی کتابیں ازبر یاد تھیں…
اور علم دین کی ہر صنف پر مکمل عبور رکھتے تھے…
زمانے کے بڑے بڑے اساطین علم ان کی صحبت میں بچوں کی طرح بیٹھ کر استفادہ کرتے تھے…
حضرت چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ جیسے مشہور زمانہ عالمی مبلغ…
حضرت تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور اپنے اس تعلق کو بیان کرنا اپنی
سعادت سمجھتے تھے… حضرت
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت علّامہ تونسوی رحمۃ اللہ
علیہ کے سامنے دو زانو بیٹھتے تھے…
ایک بار اپنے گھر پر دعوت کی…
معزز مہمان کو حضرت شہید رحمۃ اللہ علیہ کے گھر لانا میرے ذمہ لگا…
اس پوری دعوت میں… حضرت
لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ …
علّامہ تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے مکمل باادب رہے اور آخر میں جب ہدیہ پیش کیا
تو وہ بھی لفافہ میں بند اور دونوں ہاتھوں سے…
جامعۃ العلوم
الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں…
حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ اہتمام تھا…
شعبان کی چھٹیوں میں ملک بھر کے ’’جبال العلم‘‘ جامعہ میں جمع ہوجاتے تھے…
واقعی عجیب منظر… جامعہ کی
مسجد کے دوبلند مینار… اور نیچے
جامعہ میں علم و تحقیق کے بلند مَنارے…
یہ چالیس دن کا ’’مناظرہ کورس‘‘ تھا جو بہت اہتمام سے ہر سال منعقد کیا جاتا تھا…
دورہ حدیث کا امتحان دینے والے طلبہ کے لئے اس میں شرکت لازمی تھی جبکہ باقی طلبہ
کے لئے اختیاری… علم و فضل کے
اُن’’میناروں‘‘ میں جو سب سے بلند مینار جامعہ کو شرف بخشتاتھا…
وہ حضرت تونسوی رحمۃ اللہ علیہ تھے…
اپنی نادر کتابوں کے کئی بکسوں کے ساتھ تشریف لاتے…
اور بہت محبت اور لگن سے طلبہ کرام کو پڑھاتے باقی حضرات میں…رد
عیسائیت کے لئے… حضرت مولانا
عبدالرحیم منہاج رحمۃ اللہ علیہ ،…
حضرت مولانا بشیر احمد شورکوٹی رحمۃ اللہ علیہ …
ردّ مرزائیت حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر رحمۃ اللہ علیہ …
اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ ، ردّ غیر مقلدیت کے لئے حضرت
مولانا محمد امین صاحب صفدر اکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ …
اور عمومی چومکھی کے لئے حضرت علامہ خالد محمود صاحب مدظلہ العالی…
آج ان حضرات میں
سے… صرف حضرت علامہ
خالد محمود صاحب مدظلہ العالی حیات ہیں…
اللہ تعالیٰ اُن کے علم و عمر میں برکت عطاء فرمائے…
بلاشبہ وہ ’’جبل من جبال العلم‘‘ ہیں…
باقی تمام حضرات چلے گئے، جانا تو سب نے ہے…
علم دین اس اُمت کی ضرورت ہے…
اہم ترین ضرورت…
حضرت امام
بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:علم کی ضرورت کھانے پینے کی اشیاء سے بھی زیادہ
ہے… کیونکہ کھانے
پینے کا انسان دن میں ایک دو بار محتاج ہوتا ہے…
جبکہ علم کی ضرورت ہر سانس کے ساتھ پڑتی ہے…
معاشرے میں اگر راسخ علم والے علماء کرام موجود ہوں…
اور ان علماء کرام کی قدر کی جاتی ہو تو…
فرقہ واریت کا اژدھا اتنا طاقتور نہیں ہوتا،جتنا کہ آج ہر طرف نظر آرہا ہے…
فرقے ہی فرقے ہیں… اورہر شخص
کا الگ فرقہ ہے… افغانستان کے
علماء کرام… اپنے علم میں
راسخ تھے… وہاں جب تک کسی
کو تمام مروّجہ دینی علوم میں مہارت حاصل نہ ہوتی وہ خود کو ’’مولوی‘‘ کہلانا حرام
سمجھتا تھا… چودہ سے بیس سال
تک علم پڑھنے اور دس پندرہ سال علم پڑھانے کے بعد کسی کو’’مولوی‘‘ کا لقب ملتا تھا…
باقی سب’’مُلّا‘‘ کہلاتے تھے…
’’ملّا‘‘ وہاں چھوٹے عالم یا آخری درجے کے طالب علم کو کہا جاتا ہے…
افغانستان میں ’’علماء کرام‘‘ کی قدرو منزلت بھی تھی اس لئے وہ بے شمار مسائل اور
فرقوں سے محفوظ رہے…
صرف’’چاند‘‘ کا مسئلہ ہی لے لیں…
وہاں پورے ملک میںایک عید…
ایک رمضان اور ایک اسلامی تاریخ چلتی ہے…
احناف کا اصول ہے کہ… چاند کے
’’مطالع‘‘ کے اختلاف کا اعتبار نہیں…
یہ اصول افغان علماء کرام نے اپنا لیا…
اور تواتر کی حد تک پہنچنے والی خبر کو گواہی کے طور پر منظور کر لیا…
اب جیسے ہی عرب دنیا میںچاند نکلتا ہے تو…
مسلمانوں کا چاند ایک… کے اصول
کے تحت افغانستان میں بھی…
رمضان و عید کا اعلان ہو جاتا ہے…
نہ رؤیت ہلال کمیٹی، نہ اصلی اور جعلی گواہ…
اور نہ الگ الگ عیدیں… بات دل کو
لگتی ہے… مثال کے طور پر
آج اگر… حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ ہوتا اوراسلام پاکستان افغانستان تک
پہنچ چکا ہوتا … خبر ملتی کہ
مدینہ منورہ میں چاند ہو گیا ہے اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم روزہ سے ہیں…
آپ بتائیں! اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کا کیا طرز عمل ہوتا؟…
وہ روزہ رکھتے یا دوربینیں اٹھا کر اپنا اپنا چاند تلاش کرنے میں لگ جاتے ؟…
خیر یہ ایک مثال تھی… ویسے بھی
افغانستان میں مذہبی فرقہ بندی بہت کم تھی…
کیونکہ علماء کا علم راسخ تھا اور معاشرے میں ان کی قدرو منزلت تھی…
چنانچہ نہ وہاں سوویت یونین قبضہ کر سکا…
اور نہ امریکہ، نیٹو اور اُن کے حواری اپنے لئے وہاں کوئی جائے پناہ دیکھتے ہیں…
علم کی برکات بہت زیادہ ہیں…
شرط یہ ہے کہ… علم پختہ ہو، فقہ
اور سمجھ کے ساتھ ہو… علم والے
خود اپنے علم پرعمل کرتے ہوں…
اور ان کے قلوب دنیا اور دنیا داروں کے رعب سے پاک…
اور اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہوں…
اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایسے خالص علماء کرام…
اسی طرح ضروری ہیں جس طرح جسم کو زندگی کے لئے روح کی ضرورت ہوتی ہے…
علماء کے علم کے بغیر… ملک ویران
ہوجاتے ہیں… جہاد، فساد بن
جاتا ہے… سیاست، خباثت میں
تبدیل ہو جاتی ہے… اور زمین
اندھیرے سے بھر جاتی ہے…ہمارے
جو دانشور اور قلم کار ہر وقت علماء کرام کو’’جدید‘‘ بنانے کی فکر میںگھلتے رہتے
ہیں… یہ حضرات
نادانستہ طور پر دین دشمنی کے جرم میں مبتلا ہوتے ہیں…
ان سے ادب کے ساتھ درخواست ہے کہ…
آپ کسانوں اور کاشتکاروں کے پاس جائیں اور ان کو لیکچر دیں کہ…
کیا کھیتی باڑی میں لگے ہوئے ہو…
لوگ چاند تک جا پہنچے ہیں اور اب مریخ پر اترنے والے ہیں…
چھوڑو کھیتی باڑی… سائنس
پڑھو، ٹیکنالوجی پڑھو… اور چاند
پرجاؤ… اگر یہ لیکچر
کامیاب ہو گیا تو… یقیناً
تمام انسان بھوکے مرجائیں گے…
کوئی بم ، جہاز، برتن اور بجلی کھا کر نہیں جی سکتا…سب
امیر اور غریب اب تک آٹا، چاول، اناج ، سبزی اور پھل کھا کر جیتے ہیں…
معلوم ہوا کہ کچھ کسانوں اور کاشتکاروں کی بھی…
دنیا کو ضرورت ہے… یہ نہ رہے
تو دنیا اپنی ظاہری ترقی کے باوجود…
سسک سسک کر مر جائے گی…
کیک اور برگر بھی مشینوں سے نہیں نکلتے ان میں بھی آٹا، اناج گندم وغیرہ استعمال
ہوتی ہے… کاشتکاری میں
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف اسی حد تک ہی ہے کہ…
جیسے کوئی عالم گاڑی میں بیٹھ کر مدرسہ چلا جائے…
اتنے استعمال کا کوئی مخالف نہیں…
بات صرف یہ ہے کہ انسانیت کو باقی رہنے کے لئے…
زیادہ نہ سہی آبادی کے تناسب سے خالص علماء کرام کی ضرورت ہے…
اور سچ یہ ہے کہ جتنے علماء کی ضرورت ہے اتنے موجود نہیں ہیں…
علّامہ مولانا اور مفتی کہلانا کافی نہیں…
علم ایک بڑی اور الگ چیز ہے…اب
اگر چند ادارے امت مسلمہ کی یہ ضرورت پوری کرنے کی محنت کر رہے ہیں تو…
آپ اُن کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟…
کیا صرف انہی چند افراد کے سائنس پڑھ لینے سے…
مسلمان اور پاکستان ترقی کر جائیں گے؟…
یہ مدارس نہ تو اسکول کے طلبہ کو اغوا کر کے لاتے ہیں اور نہ کالج، یونیورسٹی پر
دھاوا بولتے ہیں… اسکول اور
کالج عصری طلبہ سے بھرے پڑے ہیں…
یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ملتا کہ اتنا رش ہے…
پھر وہاں سے’’ترقی‘‘ کی ہوائیں اور بادل کیوں نہیں اٹھ رہے؟…
سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے شمار تعلیمی ادارے ملک میں ہیں پھر ملک کیوں ترقی نہیں
کر رہا؟… کیا وہاں کے طلبہ
کو بھی مدارس والے جا کر مدرسوں میں اٹھا لاتے ہیں؟…
بس فضول باتیں ہیں اور بے کار فلسفے…
جو دانشور کھلم کھلا ملحد اورسیکولرہیںاُن کی باتوں سے تو کوئی دکھ نہیں ہوتا…
مگر جو دین دار کہلاتے ہیں وہ جب اس موضوع پر لکھتے اور بولتے ہیں تو دل دکھتا ہے…
باقی رہی’’انتہا پسندی‘‘ تو مدارس میں اس کا کوئی وجود نہیں…
مدارس تو دور کی بات… جو جہادی
تنظیمیں اہلِ علم کی باقاعدہ اطاعت میں چل رہی ہیں…
ان میں بھی دور دور تک کسی انتہا پسندی کا نام و نشان نہیں ہے…
حضرت علامہ مولانا عبدالستار تونسوی رحمۃ اللہ علیہ چلے گئے…ان
کے حوالے سے کئی واقعات ذہن میں تھے جو نہ لکھے جا سکے…
وہ بندہ کے استاذ محترم بھی تھے…
اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے…
آج کا کالم پڑھ کر… انشاء اللہ جو
مسلمان اپنے بچوں کو خالص عالم دین اور مجاہد فی سبیل اللہ بنانے کی …
نیت کریں گے اس کا ثواب اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی
روح کو عطاء فرمائے… قارئین سے
حضرت علّامہ رحمۃ اللہ علیہ کے لئے دعاء اور ایصال ثواب کی درخواست ہے…
ان ﷲ ما اعطیٰ ولہ
ما أَخذ وکل شی عندہ باجل مسمٰی
اللّٰھم لاتحرمنا
اجرہ ولا تفتنا بعدہ
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (379 )
مجمع ہی مجمع
ملک میں اچانک
جلسوں کا سیلاب آیا…
ان جلسوں میں عوام
نے کس طرح سب کا ساتھ دیا؟
کیا میڈیا پر آنا
کامیابی… اور میڈیا پر نہ
آنا پیچھے رہ جانا ہے؟
ایک ’’شیخ‘‘ نے
مینار پاکستان پر مجمع لگا دیا…
اس کے کردار پر ایک نظر…
پشتو زبان کے
معروف خطیب مولانا بجلی گھر کے انتقال…
اور کراچی کی عالمگیر مسجد کے ’’امام‘‘ کی شہادت پر تعزیتی کلمات…
تاریخ اشاعت
۷صفر المظفر؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۲۱دسمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۷۹)
مجمع ہی مجمع
اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی…
شرک، کفر، تکبر، حبّ جاہ، حبّ دنیا اور ریا کاری سے حفاظت فرمائے…
آج کل پاکستان کے عوام نے سب کو خوش کرنے کی ٹھان رکھی ہے…
جو بھی جلسہ ہو یا اجتماع…
جس کا بھی ہو اور جیسا بھی…
ہر طرف مجمع ہی مجمع ہے…
مجمع ہی مجمع… اب یہ فیصلہ کرنا
مشکل ہے کہ لوگ کس کے ساتھ ہیں؟…
جو بھی کھڑا ہو جائے اور جہاں بھی کھڑا ہو جائے…
ہزاروں لاکھوں افراد جمع ہوجاتے ہیں…
اور لیڈروں کی روح کو اندر تک خوش کر دیتے ہیں…
تب ہر لیڈر خود کو بہت مقبول سمجھ کر طرح طرح کی حرکتیںکرنے لگتا ہے…
مینارپاکستان کو ہی لے لیں…
پچھلے کچھ عرصہ میں وہاں کس کا جلسہ ناکام ہوا ہے؟…
کپتان جی کا جلسہ کامیاب رہا…
ایسا کامیاب کہ وہ فوراً خود کو وزیراعظم سمجھنے لگے…
اس جلسے کے چند دن بعد اخبار میں ایک کالم پڑھا کہ…
ایک صاحب’’کپتان جی‘‘ کی منّت سماجت کر رہے تھے کہ…
آپ نے اپنے مخالفین سے کوئی حکومتی انتقام نہیں لینا…
کپتان جی نے کافی سوچ بچار اور لیت ولعل کے بعد کہا…
چلو جی!ٹھیک ہے !! کسی سے بدلہ شدلہ نہیں لیں گے…
دفاع پاکستان کونسل والے آئے ان کا جلسہ بھی کامیاب رہا…
گلوکار ابرار نے جلسہ کیا…
وہ بھی کامیاب رہا… اور
اب’’شیخ جی‘‘ نے بھی بڑا جلسہ کر ڈالا ہے…
اور مجمع دیکھ کر وہ بھی وزیراعظم سے کم کسی عہدے کے لئے خود کو مناسب نہیں سمجھ
رہے… اُدھر کراچی میں
مزارجناح کے قریب چوپال سجا…
کپتان جی… دفاع پاکستان…
جمعیۃ علماء… اور پھر خواتین
کا جلسہ… سب ہی زور دار
رہے اور عوام نے ہر کسی کو خوب نوازہ اور مغالطے میں ڈالا…
عجیب بات یہ ہے کہ کسی کا جلسہ کسی سے کم نہیں تھا…
البتہ ہر ایک کا دوسرے سے بڑا تھا…
اور تو اور پرویز مشرف کا جلسہ بھی وہاں ایسا کامیاب رہا کہ…
اُس نے دھوکا کھا کر فوراً واپسی کی تاریخ دے ڈالی…
آج اس تاریخ کو سال سے زیادہ گزر چکا ہے…
پاکستان کے شہر تو درکنار…
کسی نالی یا گٹر میں بھی پرویز مشرف نامی جرثومہ دریافت نہیں ہو سکا…
لیکن اس بے بسی اور بے کسی کے باوجود آج اگر وہ کہیں جلسہ رکھے توپھر…
مجمع ہی مجمع ہوگا… کیونکہ
عوام نے ہر جلسے میں جانے، ہر لیڈر اور پارٹی کو بے وقوف بنانے…
اور ہر کسی کو دھوکے میں ڈالنے کا پکا فیصلہ کر رکھا ہے…
حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ صورتحال نہیں تھی…
لوگ بہت کم اور بہت سوچ سمجھ کر جلسوں میں جاتے تھے…
دوسری طرف میڈیا ہے کہ…
اُس نے بھی ہر کسی کو کیمرے کی روشنی میں نہلا دیا ہے…
یہاں تھوڑا سا سوچیں… مجمع بہت
ہے… اور کیمرے بھی ان
گنت ہیں… مگر زمینی
صورتحال یہ ہے کہ نہ مجمع کسی کے کچھ کام آرہا ہے اور نہ میڈیا پر مقبولیت سے کسی
کا کوئی مسئلہ حل ہو رہا ہے…
دفاع پاکستان والوں کا بارعب مجمع…
اپنے پہلے مطالبے کو نہ منواسکا…نیٹو
سپلائی کے ٹرک دھڑا دھڑ پاکستان سے گزر کر…
صلیبی فوجیوں کو چارج کر رہے ہیں…
شراب سے لے کر پیمپر تک…
خنزیر کے گوشت سے لے کر اسلحے تک…
تیل اور ڈیزل سے لے کر چائے کافی تک…
ہر چیز اُن تک پاکستان کے راستے جار ہی ہے…
جلسوں میں گھوڑے بھی دوڑے…
نعرے بھی گرجے، دھمکیاں بھی چمکیں…
اور مجمع اتنا کہ شیخ رشید اور اعجاز الحق نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا…
مگر مسئلہ ابھی تک
ایک بھی حل نہیں ہوا… مقصد
تنقید نہیں ہے…ہمیں تو دیندار
لوگوں کا مجمع اچھا لگتا ہے…
بتانا یہ مطلوب ہے کہ ہر طرف مجمع بہت ہے مگر سمندر کی جھاگ ہے…
کپتان نے ڈرون حملوں کے خلاف مارچ چلایا…
لانگ مارچ… پتا نہیں کہاں
کہاں سے جن، بھوت ،پریاں بلوائیں…
چلو لوگ کسی طرح تو جمع ہوجائیں…
میڈیا پر بہت دھوم دار مہم چلی…واقعی
لوگ جمع ہوئے… پچیس ہزار گاڑیاں
اور ہزاروں افراد… نتیجہ کیا
ملا؟… ڈرون حملوں میں
مزید شدّت آگئی… اب کپتان
اگر اسی مجمع سے یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ…
وہ اُسے وزیراعظم بنا ڈالے گا تو اس غلط فہمی کا کیا علاج کیا جا سکتا ہے؟…
حید رآباد میں نئے پیر پگاڑا صاحب نے جلسہ بلایا…
ہر طرف مجمع ہی مجمع تھا…
کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ افراد جمع تھے…نتیجہ
کیا نکلا؟… پنجاب میں پیرجی
کا رہنما بھاگ کر دوسری پارٹی کے تیر پر اڑتا ہوا لاہور کے گورنر ہاؤس میں جا گرا…
ہم خوش نصیب پاکستانیوں کا نیا لیڈر…
بلاول بھٹو زرداری ، برطانیہ سے پڑھ لکھ کر واپس آیا ہے…
پہلے جلسے میں ہر طرف مجمع ہی مجمع تھا…
اور اس مجمع میں ایک ولایتی بچہ لکھی ہوئی تقریر سناتا رہا…
مجمع سنتا رہا،جھومتا رہا، داد دیتا رہا…
اُدھرنون لیگ والوں کے جلسے دیکھیں…
وزیراعلیٰ پنجاب نے قومی ترانے کے لئے دسیوں ہزار کا مجمع جوڑ کر…
عالمی ریکارڈ تہس نہس کر دیا…
خلاصہ یہ ہے کہ کسی کے پاس آج کل مجمع کی کمی نہیں ہے…
ہر لیڈر خوش ہے، ہر پارٹی مطمئن ہے…
ہرخطیب کا سر بلند ہے… اور ہر
شہرت پسند کی باچھیں کِھلی ہوئی ہیں…
اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والے نہ مجمع کی
سوچتے ہیں اور نہ شہرت کی…
وہ تو اپنا سب کچھ لُٹا کر اور اپنا سب کچھ مٹا کر دین کو چمکانا چاہتے ہیں…
میڈیا پر کسی کا نام سن کر اُن کے منہ سے رال نہیں ٹپکتی کہ یار! ہم تو رہ گئے…
فلاں بڑا آدمی ہوگیا… استغفر
اللہ … میڈیا پر نام
آنے سے کوئی بڑا ہوتا تو…
نعوذب اللہ ! کیسے گندے اور ناپاک گلوکار، فنکار بڑے لوگ ہوجاتے…
کسی کی ظاہری شہرت دیکھ کر دل میں حسرت یا لالچ کا آنا…
بدترین ریاکاری اور بہت بُری ناکامی ہے…
نام تو مجرموں کے بھی خوب اچھلتے ہیں…دنیا
کا مال و اسباب اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے پاس…
اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے زیادہ ہے…
جب روم و فارس کے بادشاہ…
ریشم کے بستروں اور سونے کے تخت پر تھے تو…
سب سے بڑے انسان… حضرت
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے…
اور جناب عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم
مبارک پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر رو رہے تھے…
تب انہیں تنبیہ فرمائی گئی کہ…
ایسا سوچنا درست نہیں ہے…
وہ کافر ناکام … اُن کو چار دن کا
عیش یہیں دنیا میں مل گیا ہے…
اور پھرہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی، عذاب اور آگ ہے…
کیا ایسے عارضی عیش و آرام کو کامیابی سمجھا جا سکتا ہے؟…
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں عجیب بات تحریر فرمائی…
لکھتے ہیں:
یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے اولیاء کی بھی دشمن ہے…
اور اللہ تعالیٰ کے اعداء(یعنی باغیوں) کی بھی دشمن ہے…
یہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو رنج پہنچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو مغالطہ(دھوکہ) دیتی ہے…(احیاء
العلوم)
واقعی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو…
دنیا میں اپنی کامیابیاں اور ترقی دیکھ کر دھوکہ ہونے لگتا ہے کہ…
وہ برحق ہیں… وہ کامیاب ہیں
اور اُن کا طریقہ ٹھیک ہے…
لیکن مرتے ہی پتا چلتا ہے کہ سب کچھ دھوکہ تھا خالی دھوکہ…
یہاں کی کوئی بھی ظاہری ترقی آگے ساتھ نہ جا سکی…
مسلمان تو کبھی بھی شہرت اور مال کا پجاری نہیں تھا…
خصوصاً مجاہدین اور دیندار لوگ…
ہمیشہ خود کو مٹاتے رہے…
اپنے عمل کو چھپاتے رہے…
مگر اب میڈیا پر مقابلہ ہے اور شہرت پسندی کے وہ مناظر ہیں کہ دل افسوس کے ساتھ
روتا ہے کہ… اے مسلمان! تجھے
کیا ہو گیا ہے؟… یاد رکھیں! میڈیا
اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا سب سے خطرناک دشمن ہے…
یہ ایسا سانپ ہے کہ جس کی دُم کی طرف بھی مُنہ ہے…
بہت زہریلا، بہت خطرناک…
اگر کسی نے اپنے جہاد، اپنے دین اور اپنے عمل کو بچانا ہے تو…
اُسے میڈیا سے کچھ فاصلہ رکھنا ہو گا…
اور اپنے خالص اسلامی ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنا ہو گا…
باقی جب آپ کا کام مضبوط اور رخ سیدھاہو گا تو…
میڈیا مجبور ہو کر خودآپ کو نمایاں کرے گا…
مگر اس وقت بھی کسی چکر میں پھنسنے کی حاجت نہیں…
رشک کے قابل یہ بات نہیں کہ فلاں کا اتنا نام آگیا…
رشک کے قابل تو یہ ہے کہ فلاں نے اتنی بڑی قربانی دے دی اور اس کا نام تک کہیں
نہیں آیا… ہاں! وہ عقلمند
اپنا سارا عمل ہی اپنے لئے بچا کر لے گیا…
رشک کے قابل یہ نہیںکہ فلاں کے پاس اتنے اسباب، اتنے اختیارات…
اور اتنا پروٹوکول ہے… سب عارضی،
سب فانی… سب پانی کے بلبلے
کی طرح وقتی… رشک کے قابل تو
یہ بات ہے کہ فلاں نے دین کا کتنا کام کیا؟…
ہم بھی کچھ اخلاص اور قربانی کے ساتھ کر کے اپنے رب تعالیٰ سے ملاقات کا منظر اور
لمحہ حسین بنائیں… حضرات
صحابہ کرام اور اسلافِ اُمت کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کے مقبول کام…
اور بڑی بڑی قربانیوں کے بعد لوگوں میں عزت اور شہرت عطا فرما دی تو وہ…
اور زیادہ خوفزدہ رہنے لگے…
اور زیادہ عبادت کرنے لگے…
اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونے اور گڑ گڑانے لگے…
یا اللہ !…
ہمارے اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں ہمیں نہ دے دیجئے…
یہ تو کل ختم ہو جائے گی…
یا اللہ ! لوگوں کی شہرت اور عزت سے ہمیں
شیطان کسی دھوکے، فریب اور غفلت میں نہ ڈال دے…
یا اللہ !…
لوگوں کی محبت اور اطاعت ہمیں ظالم نہ بنا دے کہ…
اپنے ماتحتوں پر ظلم کرنے لگیں…
یا اللہ ! لوگوں کی محبت اور اطاعت کو ہم
اصل نعمت سمجھ کر اسی میں الجھ کر نہ رہ جائیں کہ…
ہر وقت اسی کو بچانے اور بڑھانے کی فکر میں گُھلتے رہیں…
اور اپنی ناک، عزت اور عہدے کی خاطر ناحق خون بہائیں…
حرمتوں کو پامال کریں… اور اپنی
آخرت کو ویران کریں… ایک بزرگ
نے اپنے ایک مرید اور شاگرد کو دیکھا کہ…
لوگوںمیںبہت مقبول اور محبوب ہو چکا ہے…
ہر کوئی اس کی خدمت اور اطاعت میں لگا ہوا ہے…
انہوں نے فرمایا…بیٹا!
تمہارے لئے حالات خطرناک ہو چکے ہیں …
تواضع کے لئے ایک نسخہ بتایا کہ روزآنہ یہ کام کیا کرو…
مگر مرید کی ناک بڑی ہو چکی تھی اور اس کے لئے لوگوں کی عزت گلے کی رسّی بن چکی
تھی… وہ سمجھا شیخ
صاحب! کو حسد ہو گیا ہے …
اُن سے میرا مقام برداشت نہیں ہو رہا…
اب مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں…
چنانچہ نسخہ پرعمل سے انکار کر دیا…
کچھ عرصہ بعد زمین نے کروٹ بدلی…
اوربڑھاپے کی حالت میں وہ لوگوں کے دروازے پر بھیک مانگ مانگ کر کھانے پر مجبور ہو
گیا… ہمیںمجمعوں کی
گونج اور میڈیا کی چمک کے دوران کبھی…
کسی اداس شام قبرستان بھی جانا چاہئے تاکہ پتا چلے کہ…
انسان نے اپنے ساتھ کیا لے جانا ہے…
حالانکہ لوگ مال، ناک اور عزت کی خاطر قتل جیسا عظیم گناہ تک کر ڈالتے ہیں…
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے عاملوں…
یعنی گورنروں اور عہدیداروں کو تحریر فرمایا: ’’تم کو آج لوگوں پر ظلم کرنے کی
قدرت حاصل ہے… مگر جب کسی پر
ظلم کا ارادہ کرو تو یادرکھنا کہ تمہارے اوپر بھی اللہ تعالیٰ قادرہے…
اور اس بات کو خوب سمجھ لینا کہ جو کچھ ظلم و ستم تم لوگوں پر کرو گے وہ اُن پر
گذر جائے گا مگر تم پر باقی رہے گا اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں کے انتقام میں ظالموں کو پکڑے
گا‘‘…(احیاء العلوم)
طاہر القادری صاحب
کو سب سے پہلے حرم شریف میںدیکھا تھا…
مسجد حرام کی تیسری چھت پر…
اس وقت وہ جوان تھے سیاہ اور پوری ڈاڑھی…
تازہ تازہ ٹی وی پر آئے تھے…تو
حرم میں بھی لوگوں نے پہچان لیا اور کئی لوگ مصافحہ کو آئے…
بندہ اُن کے ساتھ بیٹھا تھا مگر مصافحہ کی سعادت حاصل نہ کی…
حرم شریف میںلوگوں سے ملنے ملانے کی طرف توجہ کم ہی جانی چاہئے…
اُس وقت وہ مبلغ اور خطیب تھے پھر سب نے دیکھا کہ انہوں نے کیا کیا روپ بدلے…
اُس دن مینار پاکستان پر اُن کے جلسے کی تصویر آئی تو ایک نئے روپ میں نظر آئے
اور داڑھی برائے نام ہی رہ گئی ہے…
امریکہ کے ایک مسلمان صحافی نے بہت عجیب حالات لکھ کر بھیجے ہیں کہ…
گذشتہ دو ڈھائی سال میں طاہر القادری صاحب کو امریکہ میں کس طرح سے مسلمانوں کے
خلاف قابل استعمال بنایا گیا ہے…
انہوں نے اُن امریکی عہدیداروں کے باقاعدہ نام دیئے ہیں جو قادری صاحب کے سرپرست
ہیں… جہاد اورمجاہدین
کے خلاف لکھ اوربول کر…
باسٹھ سال کی عمر میں دشمنان اسلام کے ہاتھوںاس طرح کھیلنا؟…
دل واقعی لرزتا ہے… پاکستان
کی خفیہ ایجنسیاں جو اکثر فضول کاموں میں لگی رہتی ہیں اُن کو چاہئے کہ…
قادری صاحب سے تفتیش کریں تاکہ…
پاکستان غیر ملکیوں کے ناپاک عزائم کی چراگاہ نہ بنا رہے…
قادری صاحب سے بھی گزارش ہے کہ…
زندگی کے کتنے دن باقی ہوں گے؟…
اب اللہ تعالیٰ کے لئے بس کریں…
کیا کوئی مسلمان اس طرح سے کافروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن سکتا ہے؟…
پاکستان میں امکان ہے کہ عنقریب ایک نگران حکومت قائم کر دی جائے…
قادری صاحب کو اگر اس حکومت میں لیا گیا تو یہ بات مسلمانوں کے لئے…
اور اہل پاکستان کے لئے انتہائی خطرناک ہوگی…
اللہ کرے پاکستان کو اچھے، ایماندار اور دیندار
حکمران نصیب ہو جائیں… آپ یقین
کریں… یہاں پر اگر اچھی
حکومت آگئی تو ایک ہفتہ میں امن قائم ہو سکتا ہے…
آخر میں یہ افسوسناک خبر کہ…
منبر و محراب کی بلند قامت شخصیت حضرت مولانا محمد امیر بجلی گھر صاحب رحمۃ اللہ
علیہ … آج وفات پاگئے
ہیں…
{انا ﷲ وانا الیہ
راجعون}
چند دن پہلے علم،
تحقیق اورمناظرہ کے بلند مینار حضرت تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال ہوا…
اور اب تبلیغ و خطابت کے سدا بہار شاہکار مولانا بجلی گھر رحمۃ اللہ علیہ بھی چلے
گئے… مولانا کی تقاریر
میں… ظرافت اور مزاح
کا رنگ غالب تھا… اور اُن
کے لئے اُس زمانہ میں سننے والے بڑے ’’مجمع‘‘ کی کمی نہیں تھی…
جب لوگ ہر کسی کی تقریر میں نہیں جاتے تھے…
اور خطباء بڑے مجمع کو ترستے تھے…ہمارے
طالب علمی کے زمانہ میں وہ ایک بار کراچی تشریف لائے تو…
اُن کے جلسہ کا ’’مجمع‘‘ دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے…
وہ ہنساتے تھے اور ہنسی کے لبادے میں دین کی بات سمجھاتے تھے…
اخلاص کا یہ عالم تھا کہ بڑھاپے میں بھی افغانستان سے مجاہد قیدیوں کو…
اپنے اثر و رسوخ سے چھڑا کر لائے اور کسی سے داد تک وصول نہ فرمائی…
معروف اوربڑے لوگوں کے جانے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے آج ہی کراچی میںمعروف عالم
دین اور کراچی کی صاحب خیر’’عالمگیر مسجد‘‘ کے امام…
قاری رفیق الخلیل صاحب کو گولیاںبرسا کر شہید کر دیا گیا ہے…
دین کی خاطر محنت اور قربانی والے لوگوں کے لئے آگے کا جہان اس دنیا سے بہتر ہے…
مگر صدمہ تو ہوتا ہے… خلا بھی
محسوس ہوتا ہے… اور دکھ بھی
رُلاتا ہے… حضرت مولانا بجلی
گھر رحمۃ اللہ علیہ کے اہل خانہ اور پسماندگان ہماری طرف سے…
تعزیت قبول فرمائیں…
اللہ تعالیٰ آپ سب کو صبر جمیل …
اور مولانا مرحوم کے فیوض و برکات عطاء فرمائے…
محترم قاری رفیق الخلیل صاحب کے اہل خانہ اور پسماندگان بھی…
شہادت کی مبارک اور جدائی کی تعزیت قبول فرمائیں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (380 )
مقام مغفرت
شیطان کے ہاتھوں
ستائے ہوئے اور روتے ہوئے لوگ تو بہت ہیں…
مگر خود شیطان کب روتا ہے اور چیختا چلاتا ہے؟
مغفرت کتنی اونچی
نعمت ہے؟ اوراس سے مسلمانوں کو کیا ملتا ہے؟
استغفار کے موضوع
پر ’’دو سو‘‘ سے زائد قرآنی آیات تک رسائی…
کا تذکرہ…
مغفرت کی نعمت
پانے کے چند مفید وظائف…
جنت کی نعمتوں میں
خوش عیشی کرنے والے ’’چار‘‘ خوش نصیبوں کا تذکرہ…
تاریخ اشاعت
۱۴صفر المظفر؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۲۸دسمبر؍۲۰۱۲
شمارہ (۳۸۰)
مقام مغفرت
اللہ تعالیٰ رحمن ہے…
ا ﷲ تعالیٰ رحیم ہے… اللہ تعالیٰ ارحم الرحمین ہے…
یا اللہ رحم، یا اللہ رحم، یا اللہ رحم…
بات شروع کرنے سے پہلے ایک مفید و ظیفہ سیکھ لیتے ہیں…
قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ ہے…
یہ آیت نازل ہوئی تو شیطان بہت رویا،بہت چیخا…
اس نے اپنے سر پر خاک ڈالی اور چیخ چیخ کر اپنے تمام چیلوں کو جمع کر لیا…
جو سمندر میں تھے وہ بھی جمع ہوئے اور جو خشکی میں تھے وہ بھی آگئے…
بس پھر کیا تھا لاکھوں کروڑوں کا مجمع…
مجمع ہی مجمع… آپ کو معلوم ہے
وہ کونسی آیت مبارکہ ہے؟…
پوری روایت مصنَّف عبدالرزاق میںموجود ہے…
جی ہاں! یہ وہ آیت ہے جس کے بارے میں اس اُمت کے بہت بڑے فقیہ…
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے
فرمایا…
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی ’’آیت‘‘ عطاء فرمائی
ہے جو میرے نزدیک دنیا و مافیھا سے زیادہ محبوب ہے…
(ابن المنذر)
لیجئے یہ ہے سورۃ
آل عمران کی آیت رقم (۱۳۵)… قرآن
مجید لیکر چوتھا پارہ کھولیں…
وَالَّذِیْنَ
اِذَافَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْٓااَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوااللّٰہَ
فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَمَنْ یَّغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ
وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ
مفہوم اس آیت
مبارکہ کا یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ کے متقی بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ جب
اُن سے کوئی کھلایاچھپا…
چھوٹا یا بڑا گناہ ہو جاتا ہے…کوئی
بے حیائی والا کام ہو جاتا ہے…
تو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے گناہ پر توبہ
اور استغفار کرتے ہیں… اور وہ
جانتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی
گناہوں کومعاف نہیں کر سکتا …
وہ اپنے گناہ اور غلطی پر اڑے اور جمے نہیں رہتے…
ایسے لوگوں کے لئے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے…
اچھا ہوگا کہ
قرآن مجید کھول کر یہ آیت (۱۳۵) آج ہی یاد کر لیں…
اس کے ساتھ ایک اور آیت بھی ہے…
اُن دونوںکوملانے سے ایک شاندار وظیفہ اور جاندار عمل بنتا ہے…
وہ دوسری آیت ابھی آتی ہے…
پہلے ایک بات سن لیں… ’’مغفرت‘‘…
اللہ تعالیٰ کی بہت ہی عظیم نعمت ہے…
مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ ایمان قبول ہو گیا اور اعمال قبول فرما لئے گئے…
سبحان اللہ ! اور کیا چاہئے؟…
ایمان کا دعویٰ تو بہت لوگ کرتے ہیں…
سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کے شروع میں دیکھیں…
کچھ لوگ کہتے ہیں، ہم ایمان لے آئے…
حالانکہ وہ’’مؤمن‘‘ نہیں ہیں…
اسی طرح اعمال بہت لوگ کرتے ہیں…
مگر کتنے ایسے بد نصیب ہوتے ہیں جن کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاںمقبول نہیں ہوتے…
’’مغفرت‘‘ وہ نعمت ہے کہ جسے بھی اللہ تعالیٰ یہ نصیب فرما دیتے ہیں…
اُس کابیٹرہ پارہوجاتا ہے…
اُس کا ایمان بھی قبول…
اُس کے اعمال بھی قبول…
اسی لئے تو جب ’’سورۃ الفتح‘‘ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری اور محبوب ترین نبی حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے’’مغفرت‘‘ کا اعلان فرمایا تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی…
ہمارے ہاں لوگ’’ مغفرت‘‘ کو چھوٹی چیز سمجھتے ہیں…
کسی بزرگ کے انتقال پر اگر اُن کے لئے’’مغفرت‘‘ کی دعاء کر دیں تو…
اُن کے معتقد اور چاہنے والے ناراض ہو جاتے ہیں کہ…
کیا ہمارے شیخ گناہ گار تھے؟…
اس لئے درجات کی بلندی کی دعاء دی جاتی ہے…
حالانکہ کسی کے لئے مغفرت کا دروازہ کھلے گا تو اُسے درجات ملیں گے…
مغفرت نہ ملی تو کونسے درجات اور کونسی بلندی؟…
حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے’’مغفرت‘‘ کے اعلان پر خوشی فرمائیں…
اورہمیں یہ لفظ چھوٹا لگے…
واقعی جہالت کی بات ہے…
دراصل ’’مغفرت‘‘ کے معنیٰ اور مغفرت کی حقیقت کو اکثر لوگ نہیں سمجھتے…
چند دن پہلے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی کہ قرآن پاک کی
آیات مغفرت، استغفار ، توبہ اور کفارہ کو دیکھا جائے…
ایک عالم و حافظ ساتھی مل گئے…
کسی زمانے اُن کے ساتھ بیٹھ کر’’ آیات جہاد‘‘ کو جمع کیا تھا، اب انہیں کے ساتھ
دو طرفہ تلاوت کی ترتیب بنی…
وہ پڑھتے تھے میں سنتا اور میں پڑھتا تو وہ سنتے…
ساتھ ساتھ نشانات بھی لگاتے گئے…
فہرست میرے سامنے رکھی ہے…
دو سو سے زائد آیات میں یہ مسئلہ قرآن مجید نے سمجھایا ہے…
اب سمجھ نہیں آرہی کہ ان سب آیات کا ترجمہ لکھا جائے یا خلاصہ…
تشریح کی جائے یا اجمال سے کام چلایا جائے؟…
سبحان اللہ ! استغفار عجیب نعمت ہے…
اور توبہ اس سے بھی بڑھ کر…
الحمدﷲ مسلمان کافی تعداد میں…
توبہ اور استغفار کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور خوب نفع اور فائدہ جمع کر رہے ہیں…
اکثر رفقاء اور اہل تعلق نے ایک ہزار بار استغفار کواپنا معمول بنا لیا ہے…
بارہ سو بار کلمہ طیبہ…
ایک ہزار درود شریف اور ایک ہزار بار استغفار…
اور تلاوت کلام پاک یہ چار معمولات بنیادی ہو گئے…
مگرعاشقوں کو’’ اللہ اللہ ‘‘ کے ورد سے بھی شغف رہتا ہے…
اور تسبیح… یعنی سبحان اللہ والے اذکار…
ایک بات یاد رکھیںجہاں تسبیح اور استغفار مل جائیں وہاں عجیب رحمتیں اور نعمتیں
نازل ہوتی ہیں… آخری پارے میں
سورۃ النصر کی تفسیر پڑھ لیں پوری بات سمجھ آجائے گی…
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہ…
اس آیت مبارکہ کے
نزول کے بعد… میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح اور استغفار کو جن الفاظ
سے جمع فرمایا اُن کو پڑھیں تودل…
حلاوت، نور اور مٹھاس سے بھرجاتا ہے…
مثلاً
سُبْحَانَکَ
اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ…
(بخاری)
اب ایک اور بات
سمجھیں… اگر کلمہ طیبہ،
تسبیح اور استغفار تینوں کسی دعاء میں جمع ہوجائیں تو اس میں…’’اسم
اعظم‘‘ کی تأثیر آجاتی ہے…
ایسا اسم اعظم کہ سمندر کی گہرائی میں مچھلی کے پیٹ سے پکارا جائے تو…
سیدھا عرش تک جا پہنچے…
حضرت سیدنا یونس علیہ السلام کی ’’دعاء‘‘ جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں
مانگی… اس میں تینوں
چیزیں ہیں… لا الہ الا انت…
یہ ہوا کلمہ مبارکہ… یاد رکھیں
کلمہ طیبہ کئی طرح سے پڑھا جاتا ہے
لا الہ الا اللہ …
لا الہ الا انت… لا الہ الاّ ہو…
مگر جب صرف کلمہ
کا ذکر کریں تو’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کے
الفاظ سے کریں… ’’سبحانک‘‘ کے
الفاظ میں تسبیح آگئی…
اور’’انی کنت من الظالمین‘‘ کے الفاظ سے استغفار ہو گیا…
لَّا اِلٰہَ
اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ۔ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
کلمہ بھی، تسبیح
بھی… اوراستغفار بھی…
اس لئے اس مبارک دعاء میں اسم اعظم کی تأثیر آگئی ہے…
قرآن مجید کی آیات توبہ، آیات استغفار، آیات مغفرت اور آیات کفّارہ کو ایک
بار پڑھ لیں تو ’’مغفرت‘‘ کی ایسی عظمت دل میں بیٹھ جائے کہ…
پھر ہر موقع پر تڑپ تڑپ کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں…
مقبولیت کے جتنے مقامات ہیں اور جتنے اوقات…
میدان جنگ میں جہاد کی لڑائی کا وقت…
حج کے ارکان… اذان و اقامت کے
اوقات…ہر موقع پر اللہ تعالیٰ سے ’’مغفرت‘‘ مانگنی چاہئے…
ارے کوئی ہے جو اتنے عظیم مالک کا حق ادا کر سکے؟…
کل سورج کے بارے میں سوچا کہ اس میں اتنی روشنی ہے، اتنی گرمی ہے تو اسے ’’چارج‘‘
کون کرتا ہے؟… کتنی صدیوں سے وہ
چمک رہاہے… اور معلوم نہیں
کب تک وہ روشنی اور حرارت بکھیرتا رہے گا…
آج کل بجلی نہیں ہوتی تو ’’چارج‘‘ ہونیوالے آلات سے کام چلاتے ہیں…
آج کے کالم کا آغاز بھی اسی طرح کی چارج شدہ روشنی میں ہوا…
تب سورج کا خیال آتا ہے کہ اس کی چارجنگ ختم ہی نہیں ہوتی…
سبحان اللہ !…
میرے مالک کی ایک ادنیٰ سی مخلوق کی یہ شان اور قوت ہے…
تو خود اللہ تعالیٰ کی شان اور قوت کیا ہوگی؟…
کیا ایسے عظیم مالک کا حق ہم ادا کرسکتے ہیں؟…
بالکل نہیں… بس یہی صورت ہے
کہ اُن کے احکامات پورے کریں اور ساتھ ساتھ معافی بھی مانگتے جائیں…
استغفار کرتے جائیں… ان کی نظر
کرم سے جس کو’’مغفرت‘‘ اور معافی مل گئی بس وہ کامیاب ہو گا…
باقی سب ناکام… اچھا اب اپنے
’’وظیفہ‘‘ کی طرف واپس آتے ہیں…
یہ وظیفہ اس اُمت
کے عظیم فقیہ اور محسن حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے اور
حدیث شریف کی کئی کتابوں میں موجود ہے…
مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ،طبرانی اوربہیقی وغیرہ…
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قرآن مجید میں دو
آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی بندے نے گناہ کیا اور پھر ان دو آیات کو پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا تو اسے (ضرور) ’’مغفرت‘‘
عطاء کر دی جاتی ہے… یعنی اُس
کا گناہ معاف کر دیا جاتا ہے …پہلی
آیت تو وہی سورۃ آل عمران(۱۳۵) اور دوسری آیت سورۃ النساء(۱۱۰)
وَمَنْ یَّعْمَلْ
سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِاللّٰہَ یَجِدِاللّٰہَ
غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
ترجمہ: اور جو
کوئی بُرائی کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے…
(یعنی اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور معافی مانگے…
تووہ اللہ تعالیٰ کوبخشنے والا مہربان پائے گا…‘‘
سبحان اللہ !…
کتنا آسان وظیفہ ہے… آج ہی
کوشش کر کے دونوں آیات کو ترجمے کے ساتھ یاد کر لیں…
جب بھی گناہ اور غلطی ہووضو کر کے نماز ادا کرکے…
ان دو آیات کو توجہ سے پڑھیں اور پھر سچے دل سے استغفار کریں…
اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور معافی کی پکی امید رکھیں…
ویسے بھی استغفار
سے پہلے ان دو آیات کو پڑھ لیا کریں تو…
ان شاء اللہ استغفار میںزیادہ تأثیر آجائے گی…
اور وضو کرنا اور نماز ادا کرنا بھی کچھ ضروری نہیں مگر بہت بہتر ہے…
یہ آیت مبارکہ آئی تو ایک اور بات سامنے آگئی…
ہمارے حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ النساء کی اس آیت(۱۱۰) کو بھی بطور مثال
کے ’’جہادی مفہوم‘‘ کے ساتھ بیان فرمایا ہے…
وہ فرماتے ہیں کہ من یعمل سوئً ا کہ جو شخص کوئی بُرا کام کرے…
تو اس بُرے کام کی مثال یہ دی کہ مثلاً جہاد کی فرضیت کا انکار کرے…
اور او یظلم نفسہ یا اپنے نفس پر ظلم کرے…
کی مثال یہ دی ہے کہ نماز باجماعت ادا نہ کرے…
ایسے آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ توبہ استغفار کرے…
اگر وہ سچے دل سے استغفار کریگا تو اللہ تعالیٰ نے معافی اور مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے…
حضرت لاہوری پ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’قرآن شریف کی
تعلیم میں رخنہ ڈالنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ ’’روحِ تعلیم‘‘ اڑا دی جائے…
مثلاً جہاد فرض قرار دیا گیا ہے…
ایک جماعت پیدا ہو کہ وہ جہاد کی فرضیت کو اڑا دے تو یہ یعمل سوئً ا میں داخل ہوگا…
اور دوسری صورت یہ ہے کہ حکم کی صورت کو توڑ دیا جائے تو یہ یظلم نفسہ ہوگا…
مثلاًکوئی شخص باجماعت نماز پڑھنے میں نقص(یعنی کمی کوتاہی) پیدا کردے…
ان(دو) جرموں کا مرتکب بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے گا…
تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف فرما دے گا۔‘‘
( حاشیہ لاہوری
تفسیر آیت (۱۱۰) سورۃ
النساء)
آج کا اصل موضوع
آیا ہی نہیں اور جگہ پوری ہورہی ہے…
آج دراصل’’وقت مقیّد‘‘ پر بات کرنی تھی کہ…
انسان اپنے جس وقت کو پابند، قید اور مقیّد کردے وہی وقت قیمتی بن جاتا ہے…
علم ہو یا سعادت سب’’وقت مقیّد‘‘ ہی سے حاصل ہوتے ہیں…
جبکہ ’’آزاد وقت‘‘ ایک خسارہ اور عذاب ہے…
یہ کافی اہم اور ضروری موضوع ہے…
قسمت کی بات کہ آج قلم کی نوک پر آکر رہ گیا…
ان شاء اللہ پر کبھی…
آج کی مجلس بھی… چونکہ
مجلس استغفار بن گئی ہے…
اس لئے اس کا اختتام استغفار کی ایک مبارک حدیث پر کرتے ہیں…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
{اربعۃ فی حدیقۃ
قدس الجنۃ}
چار طرح کے افراد
جنت کے خاص مقدس باغیچے میں ہوں گے…
(۱) لا
الہ الا اللہ ، کو مضبوطی سے تھامنے والا
جو اس میں شک نہ کریں…
(۲) وہ
شخص جو نیکی کرے… تو اسے
خوشی ہو… اور وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے…
یعنی شکر ادا کرے…
(۳) اور
وہ شخص جو گناہ کرے… تو اسے
بُرا لگے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفارکرے…
(یعنی مغفرت مانگے)
(۴) اور
وہ جسے کوئی مصیبت پہنچے تو وہ ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ راجِعُوْنَ‘‘
کہے…
(البہیقی عن ابی
ہریرۃ ذ)
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (381 )
مقید وقت
اس دنیا میں اللہ
نے ہر انسان کو آزمائش کے لئے بھیجا ہے…
اس لئے یہاں کا
’’ہر لمحہ‘‘ اہم ہے… جسے
’’رضاء الٰہی‘‘ میں صرف کر کے ’’قیمتی‘‘ بھی بنایا جا سکتا ہے…
اور غفلت میں پڑنے پر یہ وقت ضائع بھی ہو جاتا ہے…
اور گیا وقت پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا…
سعادت مند افراد
نے اپنے ’’اوقات‘‘ کو کس طرح قیمتی بنایا…
اور دنیا کی جھولی
میں کتنی بھلائیں بھر گئے…
علامہ سیوطیؒ کے
حوالے سے ’’استغفار‘‘ کا ایک مقبول وظیفہ…
انسان کا وقت کس
طرح ’’قیمتی‘‘ بنتا ہے…
اور زیادہ آزمائش میں کون لوگ ہیں؟
وقت کی قدر و قیمت
سمجھانے والی ایک رہنماء تحریر…!
تاریخ اشاعت
۲۱صفر المظفر؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۴جنوری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۱)
مقید وقت
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اپنی’’عُمر‘‘ قیمتی
بنانے کی فکراور توفیق عطاء فرمائے…
کسی ’’ اللہ والے‘‘ کا فرمان ہے…
ضیاع الوقت أَشدّ من الموت…
وقت کا ضائع کرنا موت سے زیادہ سخت ہے…کیونکہ
وقت ضائع کرنے والے… اللہ تعالیٰ سے کٹ جاتے ہیں، اُن کے دل سخت اور دماغ
کمزور ہو جاتے ہیں… اور ان کی
آخرت خسارے میں چلی جاتی ہے…اچھا
ایک بات بتائیں… ایک شخص ساٹھ سال
کی عمر پاتاہے… ان ساٹھ سالوںمیں
وہ کتنے سال نیند میں گزار دیتا ہے؟…
تھوڑا سا سوچیں! جی ہاں کم ازکم بیس سال تو نیند میں گزر جاتے ہیں…
بلکہ کچھ زیادہ… ہائے افسوس…اور
کتنا وقت بیت الخلاء میں گذر جاتاہے؟…
اور کتنا وقت گپ شپ میں؟…
انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے…
اس کی عمر کا وقت اتنا قیمتی کہ…
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اُس کی قسم کھاتے ہیں…
جی ہاں انسان کی عمر کے زمانے کی قسم…
والعصر… اور آگے کیا
ہوگا؟… ترمذی میں حضرت
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے … کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
انسان کے قدم میدان حشر سے اُس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اُس سے چارچیزوں کاحساب
نہیں لے لیا جائے گا… پہلی چیز…
عن عمرہ فیما افناہ… کہ اپنی
عمر کو کس کام میں فناء کیا؟…
تھوڑا سا رک کر ایک عقلمند انسان کی قابل رشک قیمتی زندگی دیکھتے ہیںیہ ہیں امام
ابو حامد غزالی پ، آپ نے بارہا اُن کا نام سنا ہوگا…
اُن کی کل عمر پچپن برس سے کچھ کم بنتی ہے…یہ
بھی قمری حساب سے… اگر شمسی
حساب لگائیںتو صرف تریپن سال…
مگر اُن کی تصانیف کی تعداد اُن کی عمر کے سالوں سے تقریبا دُگنی(یعنی ڈبل) ہے…
یعنی عمر کے ہر ایک سال میں دو تصانیف…
آپ جانتے ہیں کہ کوئی شخص پیدا ہوتے ہی کتابیں لکھنا شروع نہیں کر دیتا…
اور کتابیں بھی قینچی والی نہیں…
بہت بلند پایہ اورعلمی…
چھوٹی چھوٹی بھی نہیں…بلکہ
ہرکتاب کافی ضخیم اور کئی تو بڑی بڑی جلدوںوالی…
امام صاحب نے تصنیف کا کام بیس سال کی عمر میں شروع فرمایا…
یعنی تیئس سال کے عرصے میں یہ سب کتابیں لکھیں…
اور اس تیئس سال کے زمانے میں بھی دس یا بارہ سال سفر اور اپنی اصلاح کے لئے خاک
گردی میں گزارے… قرآن مجید اور
دین اسلام کے علاوہ آپ نے عمر کا ایک حصہ تورات اور انجیل کے مطالعہ اور تحقیق پر
بھی صرف کیا تاکہ… اسلام کی
حقانیت کو خوب مدلّل بیان کر سکیں…
پھر عبادت اور معمولات بھی روزآنہ کئی گھنٹوں کے تھے…
تو پھر اتنی زیادہ تصانیف کیسے ہو گئیں؟…
بے شک جو اپنی عمر کو قیمتی بنانے کی فکر، دعاء اور محنت کرتا ہے…
اللہ تعالیٰ اُس کے اوقات کو قیمتی اور بابرکت بنا
دیتے ہیں… ایک بات یہ بھی
سن لیں کہ… امام غزالیؒ کا
نام’’محمد‘‘ ہے… آپ کے والد
محترم کا نام بھی محمد…
اور دادا جی کا نام بھی محمد گویا نسب نامہ یوں بنا…محمد
بن محمد بن محمد… واقعی
نام’’محمد‘‘ میں بڑی تأثیر اور عجیب برکت ہے…
امام صاحب کی کامیاب زندگی کا اختتام پتا ہے کیسے ہوا؟…
سبحان اللہ ! یہ جمادی الآخر۵۰۵ھ پیر کا دن تھا…
امام صاحب صبح کے وقت بستر سے اٹھے، وضو کیا، نماز ادا کی پھر فرمایا…
میرا کفن لے آؤ… کفن آیا
تو اسے آنکھوں سے لگاتے ہوئے فرمایا…
آقا کا حکم سر آنکھوں پر…
یہ کہہ کر پاؤںپھیلا دیئے…
لوگوں نے دیکھا تو انتقال فرماچکے تھے…
اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے…
احیاء العلوم جیسی کتاب لکھ کر پوری اُمت مسلمہ پر احسان فرمایا…
ہو سکے تو احیاء العلوم کا مطالعہ کریں، اردو ترجمہ ہو چکا ہے اور چار جلدوں میں
ملتاہے… اگر وہ مشکل لگے
تو امام صاحب نے خود ہی اُس کا خلاصہ ’’کیمیائے سعادت‘‘ کے نام سے کیا تھا…وہ
پڑھ لیں، آنکھیں روشن ہو جائیں گی…
کیمیائے سعادت کا ترجمہ بھی بازار میں آسانی سے مل جاتا ہے…
اگر کیمیائے سعادت کا مطالعہ بھی نہ کر سکیں تو کم از کم…
منہاج العابدین پڑھ لیں…
یہ زیادہ بڑی کتاب نہیں بس دوڈھائی سو صفحات کی ہے…
اور ماشاء اللہ لاجواب ہے، کچھ عرصہ پہلے ایک کالم نویس’’حسن
نثار‘‘ نے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف لکھا تو پڑھ کر دل کو سخت تکلیف
ہوئی، مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے
کہ اہل کشف نے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا انعام پا گئے…
سبحان اللہ ! مغفرت کا انعام…
یعنی سب کچھ قبول اور مقبول…
استغفار کے معنیٰ بھی مغفرت مانگنے کے آتے ہیں…
جو اللہ تعالیٰ سے ہر وقت معافی اور مغفرت کی بھیک
مانگتے رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے بہت مقرب بندے بن جاتے ہیں…
اور اللہ تعالیٰ ان پر اپنے خاص انعامات کے دروازے دنیا
ہی میں کھول دیتے ہیں… امام
غزالی پ نے احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت میں استغفار اور توبہ پر عجیب اور مفید
صفحات لکھے ہیں… ان کی بعض بحثیں
آج کل کے اعتبار سے مشکل اور طویل ہیں…
الحمدﷲ… اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بندہ نے اُن کا خلاصہ اور
تسہیل لکھ دی ہے… ان شاء اللہ جلد قارئین کے سامنے آجائے گی…
استغفار کی بات آئی تو اُمت مسلمہ کے ایک اور قیمتی عمر والے بزرگ کا تحفہ بھی لے
لیں… یہ ہیںامام جلال
الدین سیوطی پ… نوجوانی میں
قرآن حکیم کی ایسی تفسیر لکھنے والے کہ…
صدیاںگزر گئیں بوڑھے علماء کرام بھی…
اس نوجوان کی تفسیر پڑھا کر خوش ہوتے ہیں…
اللہ تعالیٰ کی دَین ہے جس کو اپنے فضل سے جو عطاء
فرما دے… اور بھی کئی
حضرات ہیں جنہوں نے بظاہر چھوٹی عمر پائی مگر صدیوں کاکام کر گئے…
امام شافعیپ کو دیکھ لیجئے…
امام شامی پکو لے لیجئے…
ہمارے شیخ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ لیجئے…
پیتالیس سال کی عمر میں شہید ہوئے…
مگر آج بھی یوںلگتا ہے کہ…
کبھی افغانستان کے محاذ پر ہوتے ہیں تو کبھی کشمیر کے محاذ پر…
دو صدیاں گذر گئیں نہ اُن کا جہاد پُراناہوا اورنہ ان کے تذکرے میں کوئی بوسیدگی
آئی… اُسی طرح جذبات
سے لبریز اور ایمان سے منوّر…
اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی…
اورجہاد فی سبیل اللہ کے فریضہ کے احیاء کیلئے کیسا ایمان افروز
’’لانگ مارچ‘‘ فرمایا… لکھنؤ سے
پنجتار تک اور پنجتار سے بالاکوٹ تک…
ہر قدم پر نئے ایمانی نقوش…
اور ہر منزل پر جہاد کا نیا جذبہ…
اُس مبارک ’’لانگ مارچ‘‘ میں ایمان تھا، جہاد تھا…
قربانی تھی… اور اعلیٰ مقاصد…
اب تک ہزاروں صفحات اُس عظیم سفر پر لکھے جاچکے…
بے شک ایک مؤمن کے لئے جہاد سے زیادہ قیمتی کام اور کوئی نہیں…
شرط یہ ہے کہ جہاد شرعی ہو…
قربانی والا ہو اور اچھی نیت والا ہو…
آج کل بھی ایک منحوس لانگ مارچ جاری ہے…امریکہ،
کینیڈا اور برطانیہ کے حکم پر…
ڈھول باجے، بے پردگی اور جھوٹے خوابوں والا لانگ مارچ…
مسلمانوں کو اِس لانگ مارچ سے کیا ملے گا؟…
اور کونسی تاریخ اس حرام ڈرامے کو یاد رکھے گی؟…
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسانوں کو کامیابی کی
جو’’تعلیم‘‘ دی ہے… اس تعلیم
کی ایک روح ہے… اور ایک صورت…
یہ دونوں ضروری ہیں… اور روح
زیادہ ضروری ہے… جہاد کی فرضیت
کوماننا اس تعلیم کی روح کا حصہ ہے…
حالیہ لانگ مارچ کا لیڈر…
جہاد فی سبیل اللہ کا منکر ہے…
اندازہ لگائیں کتنی بڑی بد نصیبی ہے…
کتنی عظیم بد نصیبی… ابھی چند
دن پہلے اُس نے’’جہاد کشمیر‘‘ کے خلاف فتویٰ دیا …
اور جہاد کے خلاف کتاب لکھ کر غیر ملکی ’’شہریت ‘‘حاصل کی…
یا اللہ ! اُس کے شر سے اُمتِ مسلمہ کی
حفاظت فرما، بات علامہ جلال الدین سیوطی پ کی چل رہی تھی انہوں نے استغفار کا ایک
عمل لکھا ہے آج القلم کے قارئین یہ تحفہ قبول فرمائیں، علامہ سیوطی پفرماتے ہیں:
جو کوئی روزآنہ نماز فجر کے بعد تین مرتبہ ان الفاظ کے ساتھ استغفار کرے…
تو اسے تین فائدے… ان شاء اللہ نصیب ہوتے ہیں…
(۱) علم
کی فہم اور سمجھ
(۲) مال
کی کثرت
(۳) رزق
میں وسعت
استغفار کے الفاظ
یہ ہیں:
{اَسْتَغْفِرُ
اللہ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ
اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا
بَیْنَھُمَا مِنْ جَمِیْعِ جُرْمِیْ وَ اِسْرَافِیْ عَلیٰ نَفْسِیْ وَ اَتُوْبُ
اِلَیْہٖ}
اس کا ترجمہ کسی
عالم سے پوچھ لیں اور معمولات کا حصہ بنا لیں…
اوپر کے تین فائدے شائد آپ کو کھٹکے ہوںکہ…
مال کی کثرت اوررزق میں وسعت توایک ہی بات ہوئی…
نہیں جناب! ایک بات نہیں…
دونوںالگ الگ ہیں… ہر مال
رزق نہیں بنتا… بہت سا مال انسان
کوملتا ہے اور وہ ضائع ہو جاتا ہے…
بہت سا مال انسان کا رزق تو دورکی بات الٹا وبال بن جاتا ہے…
اور بہت سا مال انسان کے کسی کام نہیں آتا بلکہ وہ اپنی یہ ساری محنت اور دولت
چھوڑ کر مر جاتا ہے… نہ خود اس
سے کوئی فائدہ اٹھاتاہے…
اور نہ اپنی زندگی میں اور کسی کو اس سے فائدہ اٹھانے دیتا ہے بس کالے سانپ کی طرح
اس مال پر کنڈلی جما کر بیٹھا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی حالت سے حفاظت فرمائے…
حضرات تبع تابعین میں سے ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں…
حضرت احمد بن الحواری رحمۃ اللہ علیہ وہ فرماتے ہیں:
’’دنیا گندگی کا
ڈھیر اور کتوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے اور وہ آدمی تو کتوں سے بھی کم درجہ کا ہے
جو ہر وقت اس دنیا پر گرا رہتا ہے اس لئے کہ کتا تو گندگی کے ڈھیر سے اپنی ضرورت
پوری کر کے واپس لوٹ جاتا ہے لیکن دنیا سے محبت کرنے والا ہر وقت اس سے چمٹا رہتا
ہے اور کسی حال میں بھی اس کو نہیں چھوڑتا‘‘ (کشف المحجوب)
اب آپ
پوچھیں گے کہ پھر ایسا وظیفہ کیوں لکھا جس سے مال میں کثرت ہوتی ہے؟…
جواب یہ ہے کہ حقیقی مؤمن کے لئے زیادہ مال بڑی نعمت ہے…
اُس کے مال سے دین کو فائدہ پہنچتا ہے اوردکھی انسانیت سکون پاتی ہے…
اُس کے مال سے محاذوں کا جہاد گرم ہوتا ہے…
اسیران اسلام کو رہائی ملتی ہے…
شہداء کے خوش قسمت بچوں کی کفالت ہوتی ہے…
جہادی گھوڑے اور اسلحہ کی کثرت ہوتی ہے …
غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد ہوتی ہے…
مساجد پر مساجد تعمیر ہوتی ہیں…
بھوکے کھانا کھاتے ہیں، پیاسے پانی پیتے ہیں…مقروضوں
کے قرض اتارے جاتے ہیں، علم دین اور خدمت خلق کے ادارے قائم ہوتے ہیں…
اور خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں…
کیا خیال ہے؟… یہ مال جو لانگ
مارچ کے فضول تماشے پر لگ رہا ہے…
اگر یہ کسی مؤمن کامل کے ہاتھ میں ہوتا تو…
دین کے کتنے شعبے مضبوط ہوتے اور خیر کے کتنے نئے کام کھڑے ہوتے…
چلیں واپس اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں جبکہ…
کاغذ کا صرف آدھا صفحہ باقی ہے…
انسان اگر اپنا مال ضائع کرے یہ بھی ظلم…
اگر اپنا گھر جلا دے تو یہ بھی ظلم…
لیکن سب سے بڑاظلم جو انسان اپنی ذات کے ساتھ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ…
اپنے وقت اور اپنی عمر کو ضائع کردے…
اس میں سوائے تباہی اور خسارے کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا…
پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے اندر اس چیز کا شعور اور فکر پیدا کی جائے کہ…وقت
ضائع نہیں کرنا، عمر کو برباد نہیں کرنا…
دوسرایہ کہ… اپنے وقت کو نظم
و ضبط کی چھری سے کاٹ کاٹ کر مقید کرتے جائیں تو…
آخرت اور دنیا دونوں میں کامیابی کاراستہ بنتاہے…
وقت دراصل ایک تلوار ہے…
اگرآپ اس کو نہیں کاٹیں گے تو وہ آپ کوکاٹ دے گا…
ایک بڑا حلال جانور جو خطرناک ہو چکا ہو…
اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے ذبح کر دیں…
اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس سے مزے اڑائیں…
اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو وہ آپ کو دو ٹکّروں سے ہلاک کر دے گا…
روزآنہ ایک گھنٹہ قید کر کے اگر حفظ شروع کیا جائے تو انسان ایک دو سالوں میں…
ابدالآباد کے لئے قرآن مجید کو پالیتا ہے…
دراصل’’مقید وقت‘‘ ہی انسان کے کام آتا ہے…
اب اس میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں…
ایک تووہ خوش نصیب جن کے اوقات کو اللہ تعالیٰ خود اپنے نظام سے مقید فرما دیتے ہیں…
اُن کے سروں پر ایسے خیر خواہ سرپرست ہوتے ہیں جن کی اطاعت لازماً کرنی ہی پڑتی ہے…
یا اُن کے شاگرد… یا ان کی
معاشی مجبوری… ان کے اوقات کو
مقید کر دیتی ہے… بہرحال ان
کی زندگی پوری طرح دین کے کاموں کے لئے قید ہوجاتی ہے…
تب وہ سعادتوں پر سعادتیں پائے جاتے ہیں…
مگر کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو مجبور اور پابند کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا…
ان پر معاشی مجبوری بھی ایسی نہیں آتی کہ اپنے وقت کو قید کر دیں…
اُن کے پاس ایسے شاگرد یا مأمورین بھی نہیں ہوتے جنہیں مقرر وقت دینا اُن پر ہر
حال میں لازمی ہو…ایسے افراد
بہرحال ایک طرح کی آزمائش میں ہوتے ہیں…
وہ اگر اپنے مالک حقیقی…
اپنی آخرت اور دین اسلام کی خاطر اپنے اوقات کو…
ایسا مقید کردیں کہ… کوئی
ایماندار ملازم بھی اتنی پابندی نہ کرتا ہوتو…
ایسے افراد سے خیر کے تاقیامت جاری رہنے والے چشمے پھوٹتے ہیں…
بہرحال یہ ایک طویل اور ضروری موضوع ہے…
آج چند باتیں ہو گئیں…
اللہ کرے میں بھی عمل کروںاور آپ بھی…
کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ اس کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (382 )
مُحَمَّد رَحْمَۃ
لّلعَالَمِیْن صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے دامن میں
کیا چیز ہے جس پر ہم کچھ بھروسہ کر سکیں…؟
یقینا کچھ نہیں…
سوائے!…’’رحمت‘‘…
کے
اللہ کی ’’رحمت‘‘ …
اور اس رحمت کا بہترین نمونہ…
’’رحمۃ للعالمین‘‘…
یعنی …’’محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘…
ان کی رحمت کا
مقام کیا ہے؟… ان کی رحمت کہاں
کہاں ہے؟…
ان کی رحمت سے کون
کون فیضیاب ہوتا ہے؟… ان کی
رحمت کس طرح اثر انداز ہوتی ہے…؟
نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ’’مقام رحمت‘‘ کواجاگر کرنے اور دل میں ’’رحمت‘‘ کا نور
بھرنے والی تحریر…
تاریخ اشاعت
۲۸صفر المظفر؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۱۱جنوری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۲)
مُحَمَّد رَحْمَۃ
لّلعَالَمِیْن صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ تعالیٰ’’رحمن‘‘ ہیں…
رحیم ہیں اور ارحم الراحمین ہیں…
سبحان اللہ ! رحمت ہی رحمت…
ہمارا رب رحمت کاخالق، رحمت کا مالک اور رحمت کو نازل فرمانے والا…
اورہمارے
آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم …
رحمۃ للعالمین ہیں… جی ہاں!
تمام مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت…
سب سے بڑی رحمت سراپا رحمت…
بے شک رحمت ہی رحمت …
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آج حضرت رحمۃ للعالمین
صلی اللہ علیہ وسلم … کی رحمت
والی ذات کا رحمت والا تذکرہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے…
الحمدﷲ رب العالمین… اچھا ایسا
کرتے ہیںکہ بات شروع کرنے سے پہلے ایک درود شریف پڑھ لیتے ہیں…
جب آج کے کالم کی تیاری میں لگا تو درودشریف کے یہ میٹھے الفاظ خود بخود ذہن میں…
اور پھر زبان پر آگئے…
آئیے آپ بھی پڑھ لیجئے:
اَللّٰھُمَّ یَا
رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن…
صَلِّ عَلیٰ مَنْ اَرْسَلْتَہُ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن…
یا اللہ !
اے رحمن یا رحیم… یاارحم
الراحمین… رحمت نازل
فرمائیے اُن پرجنہیں آپ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا…
سبحان اللہ ! رحمت ہی رحمت…
بھائیو! اور
بہنو!… ہم سب رحمت کے بے
حد محتاج… دنیا میں بھی،
مرتے وقت بھی، قبر میں بھی…
اور حشر میں بھی… جہاں
ہمیں’’رحمت‘‘ مل جاتی ہے، ہم کامیاب ہوجاتے ہیں…
اورجہاںرحمت سے محرومی…
وہاںعذاب ہی عذاب، زحمت ہی زحمت…
یا اللہ رحم فرما…
قرآن مجید میں ’’اصحاب کہف‘‘ کا قصہ آپ نے پڑھا ہے؟…
چند نوجوان ساری قوم سے باغی ہوکر اللہ تعالیٰ کے وفادار بن گئے…
بس پھر کیاتھا… دشمنی، نفرت
اوربالآخر قتل کافیصلہ…
انہوں نے ہجرت کی… مگرکہاں
جاتے؟… دور دور تک دشمن
ہی دشمن تھے… آہ! عجیب امتحان…
قریب کوئی اپنا ہمدرد مُلک ہو…اپنی
ہم عقیدہ قوم ہو تو ہجرت کسی قدر آسان ہو جاتی ہے…
مگر جہاں ہر طرف مگرمچھ منہ پھاڑے کھڑے ہوں تو ہجرت کرنے والا کہاں پناہ لے؟…
اصحاب کہف کی ہجرت بہت سخت اور بہت مشکل تھی کیونکہ انہیں پناہ دینے والا کوئی
نہیں تھا… مگر وہ اللہ تعالیٰ کے سہارے نکل پڑے، عارف لوگ تھے…
اندر کی باتیں جانتے تھے…
اور اندر کی بات یہ ہے کہ جس کے ساتھ اللہ
تعالیٰ کی’’رحمت‘‘ ہو جائے اسے کسی سہارے
کی ضرورت نہیں رہتی… وہ ایک
غار میں جا چھپے… پھرانہوں
نے اپنے رب کو درخواست پیش کر دی…
سبحان اللہ ! غور کیجئے…
دل تھامئے! وہ نوجوان تھے مگر بڑے ذہین اور بڑے عقلمند…
انہوں نے پتا ہے کیا مانگا؟…
اے ہمارے رب ہمیں اپنی’’رحمت‘‘ دے دیجئے…
اللہ اکبر کبیرا…
وہ رحمت کو سمجھتے تھے…
وہ رحمت کو جانتے تھے… انہوں نے
نہ پناہ گاہ مانگی… اورنہ
پناہ دینے والے لوگ… انہوں نے
نہ مدد گار مانگے اور نہ کوئی محفوظ منزل اورمقام…
بس
رَبَّنَآ اٰتِنَا
مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً (کہف:۱۰)
اے ہمارے رب ہمیں
اپنی طرف سے’’رحمت‘‘ عطاء فرمائیے…
رب تعالیٰ نے رحم فرمایا اور رحمت آگئی…
تین سو نو سال تک وہ بحفاظت سوتے رہے…
نہ کھانے کی حاجت نہ پینے کی ضرورت…
نہ محافظ گارڈ نہ کوئی دروازہ اور آڑ…
’’رحمت‘‘ جو آگئی تھی تو اب کسی اور چیز کی کیا ضرورت؟…
سارے کام اسی’’رحمت‘‘ سے خود ہو تے گئے…
ان کو حفاظت کی ضرورت تھی…
رحمت الہٰی ان کی حفاظت کرتی رہی…
دشمنوں کا ملک تھا… مگر کوئی
فوجی ، کوئی دستہ، کوئی مخبر ان تک نہ پہنچ سکا…
ان کو آرام اور سکون کی ضرورت تھی…
رحمت نے بندوبست کر دیا کہ مزے سے سوتے رہو…
بہت خوف دیکھا، بہت تھکاوٹ جھیلی…
اے اللہ کے شیرو! اب رحمت کی آغوش میں آرام سے لمبی
نیند لوٹو… کھانے پینے کی
ضرورت تھی تو’’رحمت‘‘ ان کی خوراک بن گئی، ان کی غذا بن گئی…
اب بھلا جو’’رحمت‘‘ جیسی لطیف ،پاکیزہ اور روحانی غذا کھا رہا ہو…اس
کا جسم کہاںگل سڑ سکتا ہے؟…
ان کو پیشاب یا قضائے حاجت کی ضرورت کہاں ہو سکتی ہے؟…
اُن کو امن کی ضرورت تھی رحمت الٰہی اُن کاامن بن گئی…
ایک تو اس قصے پر غور کریں تاکہ ’’رحمت‘‘ کے معنیٰ سمجھ آجائیں…
اور دوسرا حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے پر غور کریں کہ…
نفس امّارہ کی شرارتوں سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جسے اللہ تعالیٰ کی’’رحمت‘‘ مل جائے…
اِنَّ النَّفْسَ
لَاَ مَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ…
(یوسف:۵۳)
نفس کے ظالم
دھوکے ، تباہ کن حملے… اور ہلاکت
خیز شرارتیں… بھائیو! اور
بہنو! انسان کا نفس امّارہ بڑا سخت جان دشمن ہے…
توبہ توبہ، بہت ہی ظالم دشمن…
کس طرح سے رسوائیوں میں ڈالتا ہے…
اورکس طرح سے اعمال برباد کرتاہے…
کبھی غصے میں ڈالے تو پاگل کر دے…
شہوت میں ڈالے تو جانور بنا دے…
حرص میں ڈالے تو ذلیل کر دے…
مایوسی میں ڈالے تو اندھا کر دے…
مگر جس کو اللہ تعالیٰ کی ’’رحمت‘‘ نصیب ہو جائے…
اس کا نفس… نفس مطمئنہ بن
جاتا ہے… جی ہاں! مسلمان
نفس ، مؤمن نفس… رحمت کا
یہ معنیٰ بھی ذہن میں رکھیں اور اب دیکھیں قرآن پاک ہمارے لئے…
ایک عظیم رحمت کا اعلان فرما رہا ہے…
وَمَآ
اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (انبیاء:۱۰۷)
اے نبی
محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ کو تمام جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے…
بات ذہن میں آئی؟…
ہم سب دنیا اور آخرت میں’’رحمت‘‘ کے محتاج ہیں …
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا…
اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی’’رحمت‘‘ ہیں…
تو اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیں تو پھر رحمت ہمیں مل جائے
گی بہت بڑی رحمت بس رحمت ہی رحمت…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
رحمت کے معنیٰ بہت
وسیع ہیں… قرآن مجید
میں’’رحمت‘‘ کا تذکرہ سینکڑوں آیات میں ہے…
صرف’’رحمۃ‘‘ لفظ اناسی(۸۹) یعنی
ایک کم اسّی بار آیا ہے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’رحمت الٰہی‘‘ ہونا بھی کئی آیات
میں مذکور ہے… اللہ تعالیٰ کا نام’’الرحمن‘‘ قرآن مجید میں چھپن(۵۶) مقامات پر آیا ہے…الرحیم(رحیم)
چورانوے(۹۴) بار…’’رحیماً‘‘
بیس بار اور ارحم الراحمین چار بار…
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے…
حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جگہ’’رحمۃ‘‘ قرار دیا…
اور کسی جگہ’’رؤف‘‘ اور’’رحیم‘‘ فرمایا…
اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو…
’’رحماء بینھم‘‘ کا لقب عطاء فرمایا…
یہ ساری تفصیل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ رحمت والا موضوع بہت طویل ہے…
سچی بات ہے بہت لذیذ موضوع ہے…
اوربہت وسیع بھی…
ہمارے کالم میں
گنجائش تھوڑی ہے اس بڑے موضوع کو…
آسان الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں…
چلیں دل کی محبت سے درود شریف پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ یَا
رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن…
صَلِّ عَلیٰ مَنْ اَرْسَلْتَہُ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن…
(۱) پہلی
بات ہم یہ سمجھیں کہ… حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو’’رحمت‘‘ ماننا فرض ہے…
اس میں شک کرنا کفر ہے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی رحمت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی صفات بھی رحمت…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال بھی رحمت اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے افعال بھی رحمت…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تب بھی رحمت اور اب پردہ فرما گئے تب
بھی رحمت…’’رحمت‘‘ حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی لازمی صفت…
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے…
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل رحمت ہے…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
(۲) حضرت
آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم صرف’’رحمت‘‘ ہی نہیں…
بلکہ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہیں…
یعنی تمام جہان والوں کے لئے رحمت…
وہ انسان ہوں یا جنات… حیوانات
ہوں یا نباتات… سمندر ہوں یا
جمادات… وہ زمین ہوں یا
آسمان… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ان سب کے لئے’’رحمت‘‘ ہیں…
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی’’رحمت‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا دین بھی ’’رحمت‘‘…
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا قریب وہ اسی قدر زیادہ رحمت کا
مستحق… اور جو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے جتنا دور اور محروم وہ رحمت سے اسی قدر محروم…
ارے جس کو رحمت پانی ہو وہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی
میں آجائے…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
(۳) رحمتِ
الٰہی دو طرح کی ہے… ایک رحمتِ
رحمانی… اورایک رحمتِ
رحیمی… ’’رحمت رحمانی‘‘
کا مطلب ہے’’عام رحمت‘‘ جو سب کے لئے ہے…
کوئی مسلمان ہو یا کافر…
کوئی ماننے والا ہو یا دشمن…
اللہ تعالیٰ روزی سب کو دیتے ہیں…
ہوا پانی سب کو دیتے ہیں…
ظاہری آرام اور دنیوی اسباب سب کو دیتے ہیں…
اس رحمت کو… رحمانی رحمت کہتے
ہیں… اوردوسری رحمت ہے…بڑی
خاص… وہ صرف ایمان
والوں کو ملتی ہے… ماننے
والوں کو ملتی ہیں… جیسے جنت،
حوض کوثر… ہمیشہ ہمیشہ کی
خوشیاں اور کامیابیاں… اس رحمت
کو’’رحیمی رحمت‘‘ کہتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا تو…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’رحمت رحمانی‘‘ بھی بنایا…
اوررحمت رحیمی بھی بنایا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام رحمت ہونا سب کے لئے ہے…
کوئی کافر ہو یا مسلمان…
کوئی اپنا ہو یا دشمن… یہ سب
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان تلے ہیں…
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں…وہ
لوگ جو ایمان نہیں لائے ان کو بھی…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت ہونا…
بڑے بڑے دنیوی عذابوں سے بچاتا ہے…
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ہے کہ…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد…
مکمل خاتمے والے عذاب بند ہو گئے…
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر کیسا تباہ کن عذاب آیا…
ایک کافر نہ بچا… حضرت
لوط علیہ السلام کی قوم پر کیسا درد ناک عذاب آیا کہ…
ایک خبیث بھی زندہ نہ بچا…
مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری نے…
ایسے عذابوں کاراستہ روک دیا…
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’رحمت رحیمی‘‘ بھی ہیں کہ…
جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے گا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
کامیابی اور جنت پائے گا…
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبت سے نام لے گا فوراً رحمتوں کے سمندر
میں غوطہ زن ہو جائے گا…
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنائے گا…
وہ رحمتوں سے اپنی جھولیاں …
دنیا اورآخرت میں بھر جائے گا…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
(۴) رحمت
کی پھر دو قسمیں ہیں… ایک رحمت
فوری… اور ایک رحمت
دائمی… میرے آقا حضرت
محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم …
فوری رحمت میں بھی کامل…
اوردائمی رحمت میں بھی کامل…
دراصل کسی جگہ فوری رحمدلی، ہمدردی اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے…
اور کسی جگہ مستقل ہمدردی اور رحمت کی حاجت پڑتی ہے…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پڑھ لیں…
رحمت ہی رحمت نظر آتی ہے…
انسانوںپر رحمت، جانوروں پر رحمت، پرندوں پررحمت…
پہاڑوں پر رحمت… کھجور کے تنے پر
رحمت… ماحولیات کے لئے
رحمت… بوڑھوں کے لئے
رحمت… بچوں کے لئے رحمت…
کمزوروںکے لئے رحمت…
اللہ تعالیٰ…
اہل علم کو جزائے خیرعطاء فرمائے انہوں نے وہ تمام احادیث اور واقعات جمع کر دیئے
ہیں جن میں… میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی’’شانِ رحمت‘‘ موسلا دھار بارش
کی طرح…ہر ایک پر برس رہی
ہے… اور رحمت کے ان
واقعات نے… انسانی معاشرے کو
رحمدلی اور ہمدردی کے مبارک ماحول کا تحفہ دیا ہے…
اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم …
اللہ تعالیٰ کی ’’دائمی رحمت‘‘ بن کر تشریف لائے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت سے لیکر اب تک اربوں انسانوں…
اور جنات کو… کفر کے اندھیرے
سے نکال کر ایمان کی روشنی کا راستہ دکھایا…
بے شمار انسان جہنم سے بچ گئے…
اور اللہ تعالیٰ کی دائمی رحمتوں کے مستحق بن گئے…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
(۵) رحمت
کی اقسام ابھی چل رہی ہیں…
موقع ملا تو انشاء اللہ پانچ قسمیں بیان کی جائیں گی…
یہاں ایک ضروری بات … اپنوں کے
ساتھ رحمدلی اور ہمدردی ہر کوئی کر سکتاہے…
اورکرتا ہے… مگر دشمنوں کے
ساتھ رحمدلی اور ہمدردی کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا…
حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم ’’رحمت‘‘ ہیں…
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن مشرکین، کفار، منافقین اور یہود و
نصاریٰ تھے… ان سب کے لئے ایک
لفظ بولا جائے تو’’کفار‘‘ کا لفظ سب پر ٹھیک بیٹھتا ہے…آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان جانی اور سخت دشمنوں کے لئے بھی ’’رحمت‘‘
بنا کر بھیجے گئے… اوراہلِ
علم نے اس رحمت کو دس مناظر میںتقسیم کیا ہے…جگہ
کم ہے… ہم صرف ایک منظر
کو آج بیان کر سکتے ہیں…
وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں’’جہاد‘‘ فرمانا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لئے…
بڑی’’رحمت‘‘ تھی… لوگ حیران
ہوں گے کہ جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ …
کافروں کے لئے کیسے رحمت؟…
جواب یہ ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد…
کافروں کے لئے’’رحمت‘‘ بنا…
وہ اس طرح کہ اسی جہاد سے ان کی قوت و طاقت ٹوٹی توان میں سے بے شمار لوگ مسلمان
ہوئے… اسی جہاد کی برکت
سے کفار کو… ظالمانہ نظاموںسے
چھٹکارا ملا اور خلافت کا عدل و انصاف والا نظام نصیب ہوا…
جہاں کفر و شرک کی حکومت اور غلبہ ہو وہاں لعنت نازل ہوتی ہے…
اسی جہاد کی وجہ سے بہت سے کافر مارے گئے…
وہ مزید زندہ رہتے تو اور گناہ کرتے اور اُن کا عذاب اور زیادہ بڑھتا…
بھائیو! اور بہنو!… دو روایات
آپ پڑھ لیں… یقینا آپ حیران
ہوں گے … روایات کسی
معمولی کتاب کی نہیں… صحیح
بخاری شریف کی ہیں… لیجئے دل
کی محبت اور توجہ سے رحمت والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت والا
کلام پڑھیں…
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشادفرمایا:
اللہ تعالیٰ (زیادہ) خوش ہوں گے ایسے لوگوں پر جو
زنجیروں میں بندھے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے…(صحیح
بخاری، حدیث ۳۰۱۰)
زنجیروںمیں بندھے
ہوئے جنت میں داخل ہونے کا کیا مطلب ہے؟…
اگلی روایت میں دیکھتے ہیں…
اور ساتھ ایک بڑا تحفہ کہ اُس روایت سے ہمیں قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا
حقیقی مفہوم بھی معلوم ہو جائے گا…
لیجئے یہ ہے بخاری
شریف کی روایت نمبر چار ہزار پانچ سو ستاون…
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے …
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
کُنْتُمْ
خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران:۱۱۰)
کہ تم
بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے…
فرمایا… تم لوگوں میں
بہترین ہو(اُن) لوگوں کے لئے کہ تم اُن کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر انہیں لاتے
ہو… یہاں تک کہ وہ
اسلام قبول کر لیتے ہیں…سبحان
اللہ !…
دونوں روایات کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ سے ہے…
اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس اُمت کے بہترین اور افضل ہونے کی وجہ…
جہاد فی سبیل اللہ ہے…
کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے اونچا
درجہ ہے… اور یہ بھی ثابت
ہوا کہ جہاد کی برکت سے بے شمار لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں…
وہ جہاد کی برکت سے جنت میں جانے والے اور جہنم سے بچنے والے بنتے ہیں…
اسی کو زنجیروں میں باندھ کر جنت میں جانے سے تعبیر کیا…
مطلب یہ نہیں کہ انہیں زبردستی کلمہ پڑھوایا جاتا ہے…
زبردستی کلمہ پڑھنے سے نہ کوئی مسلمان…
ہوتا ہے اور نہ جنتی بنتا ہے…
بلکہ مطلب یہ ہے کہ… مسلمانوں
نے انہیں جہاد میں قید کیا…
وہ قیدی بن کر لائے گئے اورپھر اہلِ اسلام کے اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگئے…
جہاد نہ ہوتا تو یہ دین پر کیسے آتے…
یا جہاد کی وجہ سے ان کا غلبہ ٹوٹا وہ مسلمانوں کے محکوم بنے اور پھر ابتداء میں
اوپر اوپر سے مجبوراً مسلمان ہوئے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں تھا…
مگر پھر ماحول میں آکر اُن کا رنگ بدل گیا اور وہ مخلص مؤمن بن گئے…
میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد بھی رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا لایا ہوا ’’نظام‘‘ بھی رحمت…
صرف جہاد کے رحمت ہونے کو بیان کیا جائے تو مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے…
آہ! کاش مسلمان اپنے رحمت والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت والی
سیرت کوپڑھیں، سمجھیں اور اپنائیں تو…
دنیا اور آخرت میں رحمتیں ہی رحمتیں پائیں…
صلی اللہ
علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم … صلی اللہ علیہ
وسلم
بہت سی باتیں رہ
گئیں… بہت معذرت…
آپ سب کو مبارک، بے حد مبارک کہ ہم سب بن مانگے اس عظیم نعمت اور رحمت کے دائرے
میں آگئے کہ… حضرت رحمۃ
للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن گئے…
تمام امتوں سے افضل… شکر کریں،
قدرکریں… اور حضرت آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی غلامی اور اتباع ہم سب اختیار کریں…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ …
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے (383 )
مادر علمی کے نام!
’’خیر‘‘ کے وہ سر
چشمے… جن کی بنیاد
اخلاص… اور جن کا کردار
’’دین کی اشاعت‘‘… ان میں
ایک نمایاں نام… ’’جامعۃ العلوم
الاسلامیہ‘‘ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی…
جس کی تاریخ…
علم، عمل، تحقیق، قیادت، اصلاح اور جہاد و شہادت کی عظیم قربانیوں سے جگمگا رہی ہے…ان
قربانیوں میں اضافہ:
حضرۃ مولانا مفتی
عبد المجید دین پوری
اور ان کے رفقاء
کی مظلومانہ شہادت
پر اسی جامعہ کے
تابندہ ستارے ’’حضرت سعدی‘‘ کا قلم اپنے مادر علمی کی ’’عظمت‘‘ اور اس کے کردار
میں ڈوب گیا… آپ بھی پڑھئے…
ایک ’’عظیم
جامعہ‘‘ کا کردار … اس کے
’’عظیم فرزند‘‘ کے قلم سے…
تاریخ اشاعت
۶ربیع الاوّل؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۱۸جنوری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۳)
مادر علمی کے نام!
اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر رحم فرمائے…
کراچی کے حالات دیکھ کر دل غم سے پگھلتا اور درد سے کراہتا ہے…’’مرکزِ
علم‘‘ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کے ’’صدر مفتی‘‘ اور ’’معاون
مفتی‘‘ گولیوں کا نشانہ بن گئے…
آہ! لوگوں کو کیا پتہ کہ’’مفتی‘‘ کون ہوتا ہے؟…ایک
حقیقی اور جیّد مفتی بننے کے لئے کم از کم پچیس سال کی کمر توڑ محنت درکار ہوتی ہے…
مگر جانوروں سے بدتر قاتلوں کے لئے’’مفتی‘‘ بس ایک آسان شکار…
دین کی سمجھ رکھنے والے علماء کرام کی تعداد پہلے ہی کافی کم ہے…
مدرسہ سے فاضل ہونے والا ہر شخص’’عالم دین‘‘ نہیں ہوتا…
علم ایک اونچی اور مشکل منزل ہے اس تک خاص لوگ ہی پہنچتے ہیں…
بہت محنتی، مستقل مزاج، مخلص اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے…علم
کا کوئی ایک چراغ بجھتا ہے تو دور دور تک تاریکی محسوس ہوتی ہے اور تمام مخلوقات
اس کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتی ہیں…’’القول
الجمیل‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے…
’’عالم ربّانی‘‘ کے لئے پانچ شرطیں لکھی ہیں…
فرماتے ہیں جو ان پانچ امور کا مکمل التزام کرتاہو…
وہی عالم ربانی ہے اور ایسے علماء ہی حضرات انبیاء اور رسولوں کے وارث ہیں…
اور اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق اُن کے لئے دعاء کرتی ہے…
حتیٰ کہ سمندر کی تہہ میں مچھلیاں بھی…
ایسے اہل علم کا وجود اور ان کی صحبت…
’’الکبریت الأحمر‘‘ ہے…
یعنی مٹی کو سونا اور لوہے کو ہیرا بنانے والی…
’’جامعۃ العلوم الاسلامیہ‘‘ روئے زمین کے چند بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہے…
یہ ادارہ ایک’’ اللہ والے‘‘ کے اخلاص اور
جان توڑ محنت کا ثمرہ ہے…عام
دینی مدرسے ابتدائی کتابوں کی تعلیم سے شروع ہوتے ہیں…
یہ شائد دنیا کا واحد علمی ادارہ ہے جس کا آغاز’’تخصص‘‘ سے ہوا…
یعنی آخری تکمیلی درجے سے…
کل دو اساتذہ تھے اور دس طلبہ…
رہائش کے لئے کوئی کمرہ، نہ آسانی کے لئے کوئی انتظام…
بس ایک مسجد تھی… اس میں نہ
غسل خانہ، نہ بیت الخلاء…
صرف وضو کے لئے چند عارضی ٹوٹیاں تھیں…
اور بس… طلبہ مسجد ہی میں
رہتے، وہیں پڑھتے اور وہیں سوتے…
جو تھوڑا بہت سامان تھا وہ بھی مسجد میں رکھتے…اور
یہ سامان بھی بسا اوقات چوری ہوجاتا تھا…
حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا لطف اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ دو اساتذہ بھی طلبہ کے
ساتھ رہتے… اور بلند دینی
وجاہت اور غیر معمولی علمی مقام کے باوجود…
نہ کوئی رہائش اور نہ بچوں کو ساتھ رکھنے کا انتظام…
دن بھر طلبہ کے ساتھ رہتے اور رات کو ایک دوست کے گھر عارضی قیام…
اور دن کو بھی وضو وغیرہ کی حاجت کے لئے اسی دوست کے گھر جانا پڑتا…
آپ سوچتے ہوں گے کہ شائد ان دو اساتذہ کو پڑھانے کے لئے کوئی اچھی جگہ نہیںملی
ہوگی تو مجبوراً… یہ سب کچھ
جھیلتے ہوں گے… نہیں جناب!…
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ہر طرف سے دعوتیں اور بلاوے تھے…
حتیٰ کہ ڈابھیل جیسے عالمی شہرت یافتہ جامعہ کے شیخ الحدیث کے منصب…
بھاری تنخواہ، اور پُر آسائش رہائش گاہ کی پیشکش موجود تھی…
مگر بڑے کام بڑی آزمائشوں سے ہی وجود میں آتے ہیں…
اور جنت کو فتح کرنے کے لئے ’’مکروہات‘‘…
یعنی مشکلات کے خار دار جنگل میں قدم لہو لہو کرانے پڑتے ہیں…
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ ایک عجیب جملہ ارشاد فرمایا کرتے تھے…
’’بھائی اگر دینی
مدرسہ دنیا کے لئے بنانا ہے تو یہ آخرت کا سب سے بڑا عذاب ہے اور اگر آخرت کے
لئے بنانا ہے تو دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے‘‘…
حضرت بنوری رحمۃ
اللہ علیہ آخرت کی کامیابی کے لئے…
اپنی دنیا کو کڑوا بناتے رہے…تھوڑا
ساسوچیں… خود کراچی میں
تھے اور گھر والے اور بچے ٹنڈو الہیار میں…
گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تھا صرف عورتیں تھیں اور بچے…
ایک جان پہچان والے عالم دین نے خدمت کا اجر کمایا، وہ گھر کا سودا سلف پہنچا دیتے…
اور خود حضرت مہینہ میں ایک بار تشریف لے جاتے…اُس
وقت پہلے کراچی سے حیدر آباد جانا پڑتا پھر وہاں سے دوسری ٹرین پر ٹنڈو الہیار…اس
سفر میں جو مشقتیں اس عالم جلیل نے دیکھیں اُن کو صرف لکھنا اور پڑھنا آسان ہے…
مگر جھیلنا ہر کسی کے بس میں نہیں…
ایک رات اسٹیشن پر بجلی نہ تھی، کوئی قلی بھی نہ ملا…
اُدھر سردی، بارش اور اندھیرا…
معارف السنن کا مصنف اپنے سر پر ایک من وزن کا سامان اٹھائے…
ٹھوکریں کھاتا ہوا گھر کی طرف پیدل جارہا تھا…
اللہ تعالیٰ نے اسی رات کو آزمائش کی آخری گھڑی بنا
دیا… فقیر کے ہاتھ
اٹھے اور غنی کی طرف سے رحمت ٹوٹ برسی اور کراچی میں رہائش کا بندوبست ہو گیا لوگ
کیا جانیں! عرب و عجم کے علماء حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کو ترستے تھے…
ایک بار ہمارے سامنے امام کعبہ حضرت شیخ عبد اللہ بن سبیل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بنوری رحمۃ اللہ
علیہ کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا…یہ
عالم دین حدیث کے پہاڑ تھے…
آج عرب دنیا سے چھپنے والی کتنی ہی کتابوں میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی
’’معارف السنن‘‘ کا حوالہ ملتا ہے…
اور آپ کے شاگرد… اور اُن
شاگردوں کے شاگرد پورے عالم اسلام میں علم وجہاد کی خدمت میں ہمہ تن مشغول ہیں…
اور خود جامعۃ العلوم الاسلامیہ جس کا آغاز میں ایک کمرہ بھی نہ تھا…
پھرٹین کی چھت کا کمرہ بنا…
آج وہ اور اس کی شاخوں کی عمارتیں…
کئی کئی ایکٹر پر پھیلی ہوئی ہیں…
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ بیٹیاں عطاء فرمائی تھیں…
اور بیٹے صرف دو… ان دو میں
سے بھی ایک کی پیدائش وفات سے صرف تین سال پہلے ہوئی…
بات یہ بتانی ہے کہ آپ کی لاڈلی صاحبزادی’’فاطمہ‘‘ کی بینائی بھی انہیں آزمائشوں
کی نذر ہو گئی… حضرت کراچی میں
تھے اور بیٹی ٹنڈو الہیار میں …
آنکھوں کی تکلیف شروع ہوئی…
مگر کون علاج کراتا؟… جب کراچی
میں علاج کی سہولت ملی تو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا…
حضرت کو اسی بیٹی سے بہت محبت تھی…
دعاء میں رو رو کر فرماتے تھے…
اس دینی مدرسہ کے لئے ہم نے اپنی عزیزہ لخت جگر کو بھی قربان کر دیا، اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول فرمائے…
اور جس عظیم مقصد کے لئے ہم نے اپنے آپ کو، اہل و عیال کو قربان کیا ہے، اپنی
رحمت سے اس مقصد میں ہمیں کامیاب فرمائے…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی دعاء بھی قبول ہوئی اور قربانی بھی…
جامعہ نے اتنی تیزی سے حیرت انگیز ترقی کی کہ…
اسے نہ الفاظ میں سمویا جا سکتا ہے اور نہ کسی مشین پر پرکھا جا سکتا ہے…
وہ مدرسہ جو قرض پر شروع ہوا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرح کے اسباب ووسائل سے مالا
مال ہو گیا اور جو اس کامقصد تھا…
علم دین کی حفاظت، فروغ اور ترویج اس میں اسے کراماتی کامیابی ملی…
ایک قابل قدر عرصہ تک یہ جامعہ پورے ملک کے مدارس میں تعلیمی معیار…
طلبہ کے رجوع اور دین کے ہر شعبہ کی خدمت کے لحاظ سے…
تمام مدارس میں پہلے نمبر پر رہا…
جامعہ کی بات آگے بڑھانے سے پہلے درمیان میں…تھوڑا
سا وقت حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ گذارتے ہیں…
ابھی آپ نے پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کو بیٹیاں
زیادہ… اور بیٹے کم عطاء
فرمائے تھے اس پر امام غزالی پ کی ایک عبارت یاد آگئی…
امید ہے کہ ہر مسلمان کو اس عبارت سے فائدہ ہو گا…
آج روز روز خبریں آرہی ہیں کہ…
مسلمان عورتیں نعوذب اللہ …
الٹرا ساؤنڈ کے ذریعہ معلومات لیکر بیٹی والے حمل کو ضائع کرا دیتی ہیں…
وہ چاہتی ہیں کہ بیٹے پیدا ہوں…
یعنی عورتیں ہی عورتوں کی دشمن اور قاتل…
چین میں اس رجحان کی وجہ سے اب خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہوگئی ہے…
ہندوستان میں ہندو معاشرہ پوجا تو ’’دیوی‘‘ کی کرتا ہے مگر گھر میں بیٹی پیدا ہو
توماتم برپا ہوجاتا ہے…
وہاں بھی کئی بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے مار دیا جاتا ہے…
انسانیت کا یہ شیطانی مرض چونکہ ہمیشہ رہناتھا اس لئے قرآن حکیم نے اس معاملہ کو
نہایت تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے…
بہرحال کافر جو چاہیں کریں کہ وہ آگ کی طرف دوڑتے ہیں مگر مسلمانوں کو کیا ہوا؟…
لیجئے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عبارت پڑھیں…
ممکن ہے بہت سے دلوں کا مرض دور ہو جائے…
فرماتے ہیں:’’ اور چاہئے کہ لڑکی کی ولادت پر کراہیت(یعنی ناپسندیدگی) کا اظہار نہ
کرے اور نہ ہی لڑکے کی پیدائش پر حد سے زیادہ مسرّت و شادمانی کے جشن منائے جائیں…کون
جانتا ہے کہ ’’خیر‘‘ کس کی ولادت میں ہے؟…
اور لڑکی کی ولادت مبارک تر ہے اور اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے…
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص
کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کی خاطر رنج و مشقت برداشت کرے اور اُن
کے کام بنائے سنوارے تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کرتا ہے…
کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! اگر دو ہی
ہوں تو؟… فرمایا…
تب بھی… ایک اور(صاحب) نے
کہا اگر ایک ہی ہو تو؟…
فرمایا… تب بھی…(رحمت
نازل ہوتی ہے)اور فرمایا…
جس شخص کی ایک بیٹی ہو وہ رنجور ہے…
جس کی دو بیٹیاں ہوں وہ گرانبار ہے اور جس کی تین ہوں، اس کی تو اے مسلمانو! مدد
کرو کہ وہ میرے ساتھ جنت میں ہے، جیسے کہ دو انگلیاں…
یعنی وہ میرے بہت قریب ہے…
اور فرمایا!جو شخص بازار سے نیا میوہ(پھل وغیرہ) خرید کر گھر لے جائے تو یہ ایسا
ہی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ دے…
اور چاہیے کہ اس شئے کو تقسیم کرتے وقت بیٹی کو پہلے دے اور بعدمیں بیٹے کو…
کیونکہ جو شخص بیٹی کو خوش کرتا ہے، وہ ایسا ہی ہے گویا اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا ہو اور حق تعالیٰ کے خوف
سے رونے والے پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے‘‘…(کیمیائے
سعادت)
حضرت بنوری رحمۃ
اللہ علیہ کے بعد… اُن کے اس
دینی، علمی اور روحانی مرکز کی قیادت حضرتؒ کے داماد حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن
صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سنبھالی وہ اپنے استاذ اور شیخ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ
کی محبت اور اطاعت میں فناتھے…
ان کے بارے میں یہاں تک مشہور تھا کہ…
انہیں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے اس قدر محبت اور موافقت حاصل ہے کہ…
اگر حضرت رحمۃ اللہ علیہ دن کو رات فرمائیں تو مفتی احمدالرحمن صاحب کو اس میں بھی
شک نہیں ہوگا حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جوانی، اور زندگی
ایک شمع کی طرح گھُلا اور پگھلا کر…
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے دینی کام اور مرکز کی خدمت کی…
انہوں نے اپنی ذات کو ہمیشہ پیچھے رکھا اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کام کومقدّم
رکھ کر… جان توڑ محنت
فرمائی… حضرت مفتی احمد
الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کادور اہتمام…
جامعہ کے مثالی عروج کا زمانہ تھا…
سبحان اللہ ! جامعہ کا کیا رعب تھا اور
کیا مقام… کیا دبدبہ تھا
اور کیا معیار… دین کے ہرشعبے کی
قیادت گویا کہ جامعہ کی گود میں تھی…
اور عزیمتوں کے ہر خط راستے پر جامعۃکامیابی کے ساتھ گامزن تھا…
پھر اچانک مفتی صاحب پ امام غزالی پ جتنی عمر پاکر…
رفیق اعلیٰ کو چلے گئے…
اُن کے کچھ عرصہ بعد جامعہ…
طرح طرح کی آزمائشوں سے دوچار ہو گیا…
جامعہ کے مہتمم اور اہم اساتذہ…
شہید کر دیئے گئے… پھر حضرت
لدھیانوی پھر حضرت شامزئی، حضرت مفتی جمیل، مولانا جلالپوری اور اب حضرت مفتی دین
پوری رحمۃ اللہ علیہ ،جامعہ لہو لہو…
جامعہ زخموں سے چوراور جامعہ اشکبار…
مگر یقین ہے کہ اخلاص اور تقویٰ پر جس عمارت کی بنیاد ہو وہ کبھی نہیں گرتی…
کبھی نہیں جھکتی… دل چاہتا
ہے… اپنے غمزدہ جامعہ
کی چوکھٹ کا ایک بوسہ لوں…
تعزیت کروں… اور جامعہ کے
دشمنوں کو بتاؤںکہ… یہ سمندر
بہت گہرا ہے… تم ذلتوں میں فنا
ہو جاؤ گے…اور جامعہ کے بلند
میناروں سے سدا… ’’ اللہ اکبر‘‘ کی اذان بلند ہوتی رہے گی…
اے محبوب مادر علمی!… تجھے
عقیدت بھرا سلام…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 384
محمد افضل گورو
شہیدؒ!
جہاد کشمیر، غزوۃ
الہند کا ایک عظیم حصہ ہے…
اس جہاد میں قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں…
انہیں انمٹ نقوش کو مزید گہرا کیا…
محمد افضل گورو شہید نے اپنے خون سے سیراب کر کے…
مشرکین کتنے موذی
ہوتے ہیں؟ مشرکین کیسے رنگ بدل بدل کر دنیا کو…
اور خاص کر مسلمانوں کو دھوکے دیتے ہیں؟
انڈیا کا اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف غلیظ کردار ہے؟
مسلمانوں کو ان
مشرکین سے کس طرح نمٹنا چاہیے؟
غزوۃ الہند کے
عظیم سپاہی محمد افضل گوروؒ کی مظلومانہ شہادت پر مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے
خاتمے کی ظرف بلانے والی چشم کشا تحریر…!
تاریخ اشاعت
۱۳ربیع الاوّل؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۲۵جنوری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۴)
محمد افضل گورو
شہیدؒ!
اللہ تعالیٰ،
بھائی محمد افضل گوروپ کی شہادت قبول فرمائے اور اُن کے قاتلوں کو عبرتناک سزا
عطاء فرمائے… آمین…
آج کچھ ٹوٹی
پھوٹی، بکھری بکھری بے ربط سی باتیں ہیں…
دل غمزدہ کیوں؟
بھائی محمد افضل
گورو پ کی شہادت پر دل غمزدہ ہے…
اُن کے ساتھ ہمارے بہت سے رشتے تھے…
اللہ تعالیٰ نے انہیںہمارا بھائی بنایا…
’’اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘‘ (سورۃ الحجرات:۱۰)
حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارے جسم کا حصہ فرمایا…
’’المسلمون کجسد
واحد‘‘
جماعت کی نسبت سے
ہم اور وہ ایک روحانی لشکر کا حصہ تھے…
الارواح جنود مجنّدۃ… وہ مجاہد
تھے، اسیر ہند تھے، مظلوم تھے، بہادر تھے…
وہ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کی اذان دینے والے
اور’’محمدرسول اللہ ‘‘ کا اقرار کرنے والے
تھے…وہ ہم سے تھے، ہم
اُن سے تھے… ایک کلمہ،ایک
عقیدہ، ایک قبلہ، ایک روح، ایک جسم…
بتوں کے پجاریوں نے ان کی گردن میں پھندا ڈالا، اُن کو تو نہ درد ہوا اور نہ تکلیف…
وہ پھندا اُن کے لئے حور کا حسین بازو تھا جو ناز کے ساتھ گلے سے لپٹ جائے…
مگر اس پھندے کا درد ہماری گردن سے نہیں جارہا، اس کی جلن ہمارے سینے سے جدا نہیں
ہورہی… معلوم نہیں یہ
درد کب تک… یہ درد کب تک؟…
ارے افضل میاں! اپنی کچھ مٹھاس اِدھر بھی…
انڈیا مشرک
شرک سب سے بڑا
جرم، سب سے بڑا گناہ، سب سے بڑی گندگی اور سب سے بڑی بدبو ہے…
افسوس کہ مسلمانوں کی غفلت سے’’اسلامی ہند‘‘ مشرکوں کے قبضے میں چلا گیا اور
وہ’’بھارت‘‘ بن گیا، انڈیا بن گیا…
یہ جھوٹ ہے کہ انڈیا سیکولر ملک ہے، نہیں! وہ مشرک ملک ہے…
راجیو گاندھی کے قاتل ہندو تھے…سالہا
سال بیت گئے انہیں ابھی تک پھانسی نہ ہو سکی…
حالانکہ تمام قانونی تقاضے پورے ہیں…
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ ’’بے انت سنگھ‘‘ کے قاتل کو پھانسی نہ ہو سکی…
مگر ہمارا بھائی محمد افضل پھانسی پا گیا…
ہندوستان کی زمین مظلوم مسلمانوں کی لاشوں سے پھٹنے کو ہے…
کبھی مُسلم کُش فسادات ، کبھی جلتی ہوئی ریل گاڑیاں…
کبھی سولیاں ، کبھی پھانسیاں…
ایک ہزار سال تک ہمارے غلام رہنے والے مشرکوں کو چار دن کی حکومت ملی تو انہوں نے…
اہل توحید کا جینا دوبھر کر دیا…
ہمیں مشرکوں سے کوئی شکوہ نہیں، اُن کو یہی کرنا تھا جو وہ کر رہے ہیں…
ان کی تاریخ قرآن مجید میں موجود ہے، ان کی فطرت کا بیان اللہ تعالیٰ نے خود فرمادیا ہے…
وہ نہ دل رکھتے ہیں نہ دماغ…
بس ظلم، کمینگی، گندگی اور موقع پر ستی…
وہ کمزور ہوں تو پُرامن اور طاقتور ہوںتو درندے…
شکوہ مسلمانوں سے ہے کہ انہوں نے مشرکوں کے ساتھ وہ نہیں کیا جو انہیںکرنا چاہئے…
اسی لئے مظلوم لاشیں لٹک رہی ہیں، اور تندروں میںجلتے بچے اللہ ، اللہ پکارتے دم توڑ رہے ہیں…
مسلمانو! اب تو اپنی حالت پر رحم کرو…
دیکھو! رب تعالیٰ فرما رہے ہیں…
ان تمام
مشرکوںسے اسی طرح لڑو جس طرح وہ تم سب سے لڑ رہے ہیں…
او! پیارے بھائی افضل تم لڑتے لڑتے کٹ گئے…
یاد رکھنا تمہاری قبر کی طرف فدائیوں کے دستے ضرور پیش قدمی کریں گے…
ہاں! کوئی نہیں روک سکے گا، کوئی نہیں…
انڈیا نجس ، ناپاک
جو کچھ اللہ تعالیٰ فرما دے وہی حق ہے، وہی سچ ہے…
جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کو’’گالی‘‘ کہے وہ بے عقل ہے…
انڈیا مشرک ہے اور میرے رب نے فرمادیا ہے کہ…
مشرک نجس ہیں… اِنَّمَا
الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ(سورۃ التوبہ:۲۸)… ناپاک غلاظت کو
دھو کر ختم نہ کیاجائے تو گندگی پھیل جاتی ہے…
آج یہ گندگی دور دور تک پھیل گئی ہے…
انڈین نجاست کی گندی بو نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ایمان کی خوشبو سے محروم کر
رکھا ہے… انڈین فحاشی بھی
نجاست، انڈین فلمیں بھی نجاست…
انڈین طاقت بھی نجاست… انڈین
گانے بھی نجاست… جو شخص ان کی ایک
فلم دیکھ لے اُس کا دل اور دماغ غلیظ اورناپاک گندگی سے بھر جاتا ہے…
وہ گندگی جو کتے کے پیٹ سے نکلتی ہے…
مسلمانوں کو(نعوذ ب اللہ )…
فلموں کا چسکا پڑ گیا ہے تو مشرکوں نے فلموں کے ذریعہ کفر اور شرک کو پھیلانا شروع
کر دیا ہے… محمد افضل گورو
شہید رحمۃ اللہ علیہ ایک زبردست نظریاتی مجاہد تھے…
انڈیا نے اپنی فلموں کے ذریعہ پہلے اُن کے چہرے کو بگاڑا…
خوبصورت افضل کا کردار مکروہ شکل کے مشرکوں نے اداکیا…
اور افضل کو ایک لالچی انسان دکھایا…
ایسا نوجوان جو پیسے کے لئے بہک گیا…
او ظالمو! اگر ایسا ہوتا تو تم اسے پھانسی کیوں دیتے؟…
وہ تو اپنے ایمان، اپنے نظریہ اور اپنی عزیمت کی وجہ سے تمہارے گلے کی پھانس تھا…ہاںتم
چونکہ خود مال اور پیٹ کے پجاری ہو…
مال کی خاطر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اکبر بادشاہ اور دوسرے بادشاہوں کے محلّات
میںبٹھا آتے تھے…ساری دنیا
میں مال کی خاطر جسم فروشی کا کاروبار تم سے ہی آباد ہے…
مال کی خاطرتم اپنی ہر چیز بیچ سکتے ہو…
اس لئے مال سے آگے تمہارا ذہن کام ہی نہیں کرتا…
محمد افضل گوروشہید رحمۃ اللہ علیہ نے مشرکین کے خلاف جہاد کیا…
اے مسلمانو! جو بھی مشرکین کے خلاف جہاد کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے…
وہ اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کا انتقام لینے والا خوش
نصیب بن جاتا ہے… وہ زمین
کو نجاست سے پاک کرنے والا انسانیت کا محسن بن جاتا ہے…
وہ غزوۃ الہند کا سپاہی بن جاتا ہے…
اور غزوۃ الہند کے مجاہدین کے لئے جہنم سے نجات ہے…
محمد افضل وہ نہیں تھا جسے انڈین فلموں نے دکھایا…
مت دیکھیں وہ فلمیں… محمد افضل
وہ ہے جسے مشرکوں نے پھانسی پر لٹکایا…
محمد افضل وہ ہے جس نے مجھے خط میں لکھا کہ میں نے بھارتی صدر سے رحم کی کبھی اپیل
نہیں کی… میرے بارے
میں جتنے بیانات آرہے ہیں سب جھوٹ ہیں، میں تو شہادت کالمحہ لمحہ گن
کر انتظار کر رہا ہوں…
واہ بھائی افضل،
آپ کا انتظار تو ختم ہوا…
مگر ہم کب تک انتظار کرتے رہیں!
انڈیا بزدل، کمینہ
مشرکوں کو ہماری
بدقسمتی نے اتنا بڑا ملک دلوادیا، مگر دل اُن کا وہی گیدڑ والا بزدل…
ملک بڑا ہو گیا مگر دل بڑا نہ ہو سکا…
کیسے بڑا ہو؟ لاکھوں کی پوجا کرنے والا دل…
اپنے مالک وحدہ لاشریک لہ کا باغی اور مجرم دل…
شرک کی پیپ سے بھرا ہوا بیمار دل…
انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہو اتو انڈیا کے ہوش و حواس اڑ گئے…
حملہ کرنے والے تمام شاہین ان کی قید میں نہ آئے…
اپنا کام کر کے پرواز کر گئے…
جب انڈیا کے حواس بحال ہوئے تو اپنی خفت ،ذلّت اور شکست کا داغ مٹانے کے لئے
کشمیری مسلمانوں کو پکڑ لیا…
ایک جھوٹی داستان میڈیا اور فلموں کے ذریعہ عام کی گئی…
اور بالآخر ایک کشمیری مسلمان کو شہید کر کے اپنے دل کا بغض اور کینہ نکالاگیا…
مگر اس کمینگی کے ساتھ بزدلی بھی کہ…
شہید کی میت ورثا کے حوالے نہیں کی گئی کہ تکبیر کے نعروں سے مشرک کی جان جاتی ہے…
گھر والوں کی آخری ملاقات بھی نہیں کرائی گئی کہ کہیں خبر عام نہ ہوجائے…
بس اچانک ایک رات کے آخری حصے میں ایک بے بس قیدی کو پکڑ کر پھانسی دے دی گئی…
کیا اس وقت دنیا میں اس سے بڑی کمینگی اور بزدلی اور کوئی ہوگی؟؟…
مسلمانو! بھائی محمد افضل تمہارے کیا لگتے تھے؟…
کیا وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کو ماننے والے نہیں تھے؟…
کیا وہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے تمہارے بھائی
نہیں تھے؟… کیا انہیں اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک لہ نہ ماننے والوں نے
قتل نہیں کیا؟… جواب دو نوجوانو!
جواب دو… کیا تم پر اپنے
بھائی کے قاتلوں سے بدلہ لینا لازمی نہیں ہے؟…
کب تک خون معاف کرتے رہو گے…
معاف کرتے کرتے ہمارا خون پانی سے سستا ہو گیا…
او نوجوانو! افضل پوچھ رہا ہے…
ہاںمحمد افضل پوچھ رہا ہے…
انڈیا بے غیرت،
ذلیل
لوگ کہتے ہیں کہ
اگر انڈیا سے جہاد کرو گے تو وہاںرہنے والے مسلمانوں کا کیا بنے گا؟…
بھائیو! ایک بات بتاؤ…
کیا انڈیا کے مسلمان کرائے کے مکان میںرہتے ہیں؟…
کیا انڈیا واجپائی اورکالے چوہے پرناب مکھر جی کے باپ کی جاگیر ہے؟…
کیا انڈیا ایڈوانی اور نریندر مودی کی ملکیت ہے؟…
کیا انڈیا کے مسلمان کسی اور ملک سے آکر وہاںآباد ہوئے ہیں؟…
ارے نہیں… انڈیا کے مسلمان
انڈیا کے مالک ہیں… وہ اس
زمین کے وارث ہیں… وہ ہزار
سال تک پورے ہند کے حکمران رہے…
پھر بداعمالی کی نحوست کہ وہاںغلیظ انگریز آگئے…
انگریز روئے زمین پر مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں…
انہوں نے اپنے دور حکومت میںمسلمانوں کو دبایا اور مشرکوں کو اٹھایا اور جاتے جاتے
ایسا انتظام کر گئے کہ …
ہم مسلمان صبح بھی مرتے ہیں اور شام بھی مرتے ہیں…
ہمارا خون پورے برصغیرمیں سستا ہوگیا…
انڈیا ہو یا کشمیر، بنگلہ دیش ہو یا پاکستان…
ہمیں کاٹ کاٹ کر کھایا جاتا ہے…
انگریز ہمارے لئے یا پھانسی کے پھندے چھوڑ گیا یا اپنے کتوں کی طرح پالتو نام کے
مسلمان جاگیردار اور جدّت پسند حکمران…
اب برصغیر میں ہم مسلمانوں کے لئے اگر کوئی خیراور نجات کی چیز ہے تو وہ جہاد
افغانستان ہے، جہاد کشمیر ہے، دینی مدارس ہیں، مساجد ہیں اور تبلیغ کا کام ہے…
اور بس… باقی سب کچھ
ہماری ہلاکت کے لئے تیار کئے ہوئے پھندے اور تندور ہیں…ہم
جہاد میںلگیں گے تو برصغیر کی نحوست ٹلے گی…
نجاست سے جان چھوٹے گی اور ہماری عظمت رفتہ بحال ہوگی…
یاد رکھنا مسلمانو! اس وقت انڈیا مسلمانوں کا خطرناک ترین دشمن ہے…
مگر چونکہ مشرک بے غیرت بھی ہوتا ہے اور ذلیل بھی…
اس لئے وہ اپنی اداؤں، اپنے حسن اور اپنی چالاکی سے دوستی کا جال بچھاتا ہے…آپ
انڈین فلموں… اور انڈین وفود
سے نظریں ہٹا کر کبھی گجرات کی کسی مسلمان بہن کو بھی دیکھ لو…
سینکڑوں مشرک جب اسے گھیر کر بے عصمت کرتے ہیں اور پھربے جان کر کے بھی نہیں
چھوڑتے…آپ شاہ رخ،سلمان
اور دوسرے خبیثوں سے نظر ہٹا کر کبھی…
جموں کے ہسپتال میں سجاد شہید کا زخموں سے بھرا جسم بھی دیکھ لو…
آپ دوستی دوستی اور امن کی آشا کے نعرے لگانے والے شرابیوں سے نظریں ہٹا کر کبھی
تہاڑ جیل نمبر3کے ایک وارڈ میں…
محمد افضل اورمقبول بٹ جیسے شہداء کی قبریں بھی دیکھ لو…
میں نے ایک بار گجرات کے چند جلے مکان دیکھے…
تو دل تڑپ تڑپ کر رونے لگا…اور
ایک بار اپنی آنکھوں سے بابری مسجد کے اندر ہونے والی بت پرستی…
اور اشک بہاتا ہوا بابری مسجد کا ملبہ دیکھا…
اُس وقت سے زندگی جیلوں،دھکّوںا ور بربادیوں میں گزر رہی ہے…
مگردل کی آگ ہے کہ کسی طرح نہیں بجھتی…بھائیو!
کوئی ذاتی انتقام نہیں…
سوچو، خود سوچو کہ آخر ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین
کے خلاف جہاد کس لئے فرمایا؟…
آہ! میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم…
آہ! میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خون…
آہ! محمد افضل گورو کی تنہائیوں اور بے بسی میں لٹکی لاش…
آہ! مسلمانو!…
آہ! توحید کے علمبردارو…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 385
محترم حضرۃ
الاستاذ
موت برحق ہے…
ہر انسان نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے…
مگر کچھ لوگ موت کی تیاری کر کے اسے ’’محبوبہ منکوحہ‘‘ بنا لیتے ہیں…
علم دین اور عمل
صالح کی مبارک نسبتیں اور دینی جدوجہد سے اپنی آخرت کا اچھا سامان جمع کر لیتے
ہیں…
انہی مبارک ہستیوں
میں ایک نام ہے:
حضرۃ مولانا محمد
یحییٰ مدنیؒ
خلیفہ مجاز حضرۃ
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ
ایک صاحب نسبت
عالم دین کا سبق آموز تذکرہ…!
تاریخ اشاعت
۲۰ربیع الاوّل؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۱فروری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۵)
محترم حضرۃ
الاستاذ
اللہ تعالیٰ نے موت کو پیدا فرمایا اورحیات کو بھی…
اور وہ خود حیٌّ قیوم ہے…
یہ سال کیا شروع
ہوا کہ بس رنگ و نور میں…
جانے والے محبوبوں کا تذکرہ ہی جگہ پاتا ہے…
ارادہ تھا کہ گذشتہ کالم کے موضوع کو آگے بڑھائیں گے کہ کراچی سے غمناک خبر آگئی…
حضرت استاذ محترم مولانا محمد یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ وفات پاگئے…
انا ﷲ وانا الیہ
راجعون…
وہ حضرت شیخ
الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے…
’’سلسلہ‘‘ سے تھے… جی ہاں
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز…
اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں دو کام بنیادی ہیں…
(۱) ذکر
اللہ کی کثرت…
(۲) موت
کی یاد…
یہ حضرات موت کو
اتنا یاد کرتے ہیں کہ موت ایک محبوبہ نظر آنے لگتی ہے…
مگر محبوبہ بھی منکوحہ جو غیروں کے ساتھ مشغول نہیں ہونے دیتی…
حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصہ اپنے شیخ کی صحبت میں رہے
اور خوب رنگ پایا… مدینہ
منورہ میں قیام تھا اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ مہاجر مدنی تھے سہارنپور اور کاندھلہ
چھوڑ کر مدینہ منورہ جا بسے اور اب وہیں آسودہ ہیں، جنت البقیع میں محل مل گیا…
اللہ تعالیٰ مغفرت کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے…
یہاں ایک قیمتی بات سن لیں…
اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں، اولیاء کرام…
اور حضرات شہداء کرام کے لئے مغفرت کی دعاء کرتے رہنا چاہئے…
اس سے انسان کو بڑا فائدہ ملتا ہے…
تفصیل کا تو مقام نہیں بس ایک روایت سے خود اندازہ لگالیں…
یہ روایت حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمائی ہے…
واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت
فرماتے تھے… ان کی والدہ
عیسائی تھیں…مگر حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء مبارک کی برکت سے مسلمان ہوگئیں…
ماشا ء اللہ ! صحابیہ کا مقام…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کو خوشخبری سنائی کہ والدہ محترمہ نے اسلام قبول کر لیا ہے اور
ساتھ درخواست پیش کر دی…
{ادع اللہ لی
ولاُِمّی}
’’حضرت! میرے لئے
اور میری امی کے لئے دعاء فرما دیجئے!‘‘
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء فرما دی:
{اللّٰھم عَبْدِکَ
ابو ھریرۃ و اُمُہ أَحِبَّھما اِلی النّاسِ}
یا اللہ !
آپ کا بندہ… ابو ہریرہ اور ان
کی والدہ ان دونوں کو’’محبوبیت‘‘ عطاء فرما دیجئے۔(الادب المفرد للبخاری)
سبحان اللہ …!
دعاء کی تأثیر دیکھیں کہ ہر جگہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام مہکتا
ہے… آپ نے کوئی ایسی
دینی کتاب دیکھی جس میں اُن کااسم گرامی نہ ہو؟…
حضرت آقامدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ماں، بیٹے کو محبوبیت کی دعاء سے نوازہ تو خود ان
دونوں کی باہمی محبت بھی لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھتے تھے…
حضرت ابوہریرہ
ذرضی اللہ عنہ جب بھی کام پر جانے لگتے تو پہلے والدہ کے پاس حاضر ہوتے اور آواز
لگاتے:
{السلام علیک یا
اُمَّتَاہ ورحمۃ اللہ و برکاتہ}
یعنی اے پیاری امی…
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ…
وہ جواب میں
فرماتیں:
{وعلیک یا بُنَیَّ
ورحمۃ اللہ و برکاتہ}
اے پیارے بیٹے…
آپ پر بھی سلامتی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہو…
پھر دونوں ایک
دوسرے کو دعاء دیتے… حضرت
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہا فرماتے:
{رحمک اللہ کما رَبّیتَنی صغیرا}
اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت فرمائے جیسے آپ نے بچپن میں
مجھے پالا…
وہ ارشاد فرماتیں:
{رَحِمَک اللہ کما بَرَرتَنی کبیرا}
اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہو جیسے آپ نے بڑے ہو کر
میرے ساتھ نیکی کی…
اور کبھی فرماتیں:
{فجزاک اللہ خیراً ورضی اللہ عنکَ کما بررتنی کبیرا}
اے بیٹے! اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے اور تجھ سے راضی ہو
جائے جیسے تم نے بڑے ہو کر میرے ساتھ بھلائی کی…
(الادب المفرد للبخاری)
اب آئیے اصل بات
کی طرف… والدہ کے انتقال
کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اُن کے لئے استغفار فرماتے تھے…
یعنی مغفرت کی دعاء… اور پھر
اس دعاء میں ایک ایسی’’دعاء‘‘ شامل کر دی…
کہ قیامت تک اپنی والدہ کے لئے دعاؤں کا راستہ کھول گئے…
اب ہم سب اُن کی والدہ کے لئے استغفار کرتے ہیں…
وہ کس طرح؟… حضرت محمد بن
سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں…
کہ ہم ایک رات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے…
انہوں نے یہ دعاء مانگی…
{اللّٰھم اغفر
لابی ھریرۃ، ولاُِمّی ولمن استغفرلھما}
’’یا اللہ میری اور میری والدہ کی مغفرت فرما دیجئے اور جو
بھی میرے لئے اورمیری والدہ کے لئے استغفار کرے اس کی مغفرت فرما دیجئے‘‘…
حضرت محمد بن
سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اب ہم اُن دونوں کے لئے استغفار کرتے ہیں…
یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کے لئے تاکہ ہم حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ کی دعاء میں داخل ہوجائیں…
(الادب المفرد للبخاری)
آج بھی اگر کوئی
چاہے کہ عظیم اور مقبول صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء میں شامل ہو تو
وہ ان الفاظ سے استغفار کرے…
{اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِاَبِی ھُرَیْرَۃَ وَِلاُِمّہٖ}
یا اللہ ! حضرت ابوہریرہ اور ان کی والدہ کی مغفرت
فرما دیجئے…
آپ ابھی یہ دعاء
دل کی توجہ سے چند بار پڑھ لیں عجیب سی خوشی دل میں محسوس ہوتی ہے…
کہ ہم حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء میں شامل ہوگئے…
کیونکہ جو بھی ان کیلئے اور ا ن کی والدہ کے لئے مغفرت مانگتا ہے…
اس کی مغفرت کی دعاء حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی فرما دی ہے…
حضرت شیخ الحدیث
رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کرام کی تعداد ایک سو سے کچھ زیادہ ہے…
حضرت مولانا یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی ان میں شامل ہیں…
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سلسلے میں چونکہ موت کو ہمیشہ یاد رکھنے کی بار بار
تاکید کی جاتی ہے… اس لئے
’’موت‘‘ کو کسی حادثے کی صورت نہیں لیاجاتا، چنانچہ اسی نسبت کا رنگ تھا کہ حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے اپنے والد گرامی کے انتقال پر غمزدہ تو بہت تھے مگر…
دین اور صبر کا دامن اُن کے ہاتھ سے نہ چھوٹا…
ماشاء اللہ ! تمام صاحبزادے صاحب علم اور
صاحب عمل ہیں اور دینی خدمات میں مشغول ہیں…
جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا ادارہ حضرات اولیاء کا مرکز رہا ہے…
اپنے طالب علمی کے زمانہ میں وہاں یہ عجیب بات دیکھی کہ بڑے بڑے صاحب علم اور صاحب
نسبت اساتذہ کرام چھوٹی اور ابتدائی کتب بھی پڑھاتے تھے…
بعد میں یہ سمجھ میں آیا کہ اصل علمی اور روحانی تربیت کا وقت تو بچپن اور
ابتدائی جوانی کا ہوتا ہے…
اس وقت اگر انسان کو باطنی روشنی اور روحانی قوت مل جائے تو دل میںدین کی مضبوط
بنیاد پڑجاتی ہے جو آگے چل کر…
مزید طاقتور اور وسیع ہوتی چلی جاتی ہے…
اور اگر ابتدائی بلوغت میں کھوٹ رہ جائے تو آگے چل کر اس کی تلافی میں بہت محنت
درکار ہوتی ہے… بنوری ٹاؤن میں
بڑے بڑے اساتذہ چھوٹے درجات کی ابتدائی کتابیں پڑھاتے تھے تو…
بچوں اور نوجوانوں کے قلوب میں دین کی جڑیں جگہ پکڑ لیتی تھیں…
درجہ اولیٰ اور ثانیہ میں حضرت اقدس مولانا بدیع الزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ …
حضرت اقدس مفتی احمد الرحمن صاحب، حضرت اقدس مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب، حضرت اقدس مولانا محمد یحییٰ مدنی…
اور حضرت اقدس مفتی محمد جمیل خان شہیدرحمہم اللہ وغیرہم جیسے اکابر حضرات کے
اسباق تھے، عربی لغت کی’’بسم اللہ ‘‘ حضرت
مولانا محمد یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی…
الطریقۃ العصریہ اور الطریقۃ الجدیدہ…
اور ماشاء اللہ اس’’بسم اللہ ‘‘ میں بڑی برکت ہوئی کہ آگے چل کر عربی
بول چال میں کافی آسانی رہی…
اورعربی میں تدریس کا موقع بھی اللہ تعالیٰ نے عطاء فرما یا…
پھر فقہ کی دو ابتدائی کتابیں ، نورالایضاح اور قدوری بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے
پڑھنے کی سعادت ملی… یہ سلسلہ
شاید آگے بھی چلتا مگر حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بہادر آبادکراچی میں اپنا دینی
ادارہ… معہد الخلیل
الاسلامی اور اپنے شیخ کی محبت میں مکتبہ الشیخ قائم فرمایا اور اسی میں مشغول ہو
گئے… طالب علمی کے
زمانے تو ان کا رعب ان کی شفقت پر غالب رہا، ذی وجاہت تھے…
اور کم وقت کے لئے جامعہ تشریف لاتے تھے…
سبق کے دوران اصلاحی گفتگو میں زیادہ زور معاملات کی صفائی پر دیتے تھے…
ترغیب اور واقعات کے ذریعے طلبہ کے دل میں مال حرام کی نفرت، خیانت کی نفرت اور
مال حلال کے التزام کا بیج بوتے تھے…
حضرت شیخ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے:
مہنہ گاؤں میں
ایک بار حضرت شیخ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے سرہانے اپنی عادت کے مطابق
تنہا بیٹھا تھا کہ میں نے ایک سفید کبوتر کو دیکھا کہ وہ آیا اور اس کپڑے میں چھپ
گیا جو قبر پر پڑا ہواتھا، میں سمجھا کہ شاید کسی کے ہاتھ سے چھوٹ کر آیا ہوگا کہ
یہاں چھپ گیا… لیکن میں نے کپڑا
ہٹا کر دیکھا تو کوئی چیز وہاں موجود نہ تھی۔ دوسرے اور پھر تیسرے روز بھی اسی طرح
مجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا…
ایک رات میں نے حضرت ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا تو وہ واقعہ ان سے
پوچھا، انہوں نے فرمایا:
وہ کبوتر میرے
معاملہ کی صفائی ہے… جو ہر روز
قبر میں میرے ساتھ مصاحبت کرتا ہے…
(کشف المحجوب)
مالی معاملات میں
احتیاط، امانت کے التزام اور خیانت سے مکمل پرہیز کے بغیرکوئی انسان ولی اور مجاہد
تو درکنار… ایک اچھا مسلمان
بھی نہیں بن سکتا… ’’خیانت‘‘
منافق کی سب سے بڑی علامت ہے اور شیطان اندر ہی اندر دل میں’’نفاق‘‘ کی خندق
کھودتاہے اور طرح طرح کی تاویلیں بتا کر انسان کو خیانت پر لاتا ہے…
اور جب کوئی انسان خیانت پر آجائے تو پھر شیطان اس سے بے فکر ہوجاتا ہے…
طالب علمی کے بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا، آپ پابندی
کے ساتھ جامعہ کے دارالحدیث میں جمعہ کی مجلس ذکر میں تشریف لاتے تھے…
اور خود آپ کے علمی ادارے میں بھی حضرات مشائخ کا آنا جانا لگا رہتاتھا…
انڈیا کی قید سے رہائی کے بعد…
کراچی واپسی ہوئی تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو ایک نئے انداز میں پایا…
جہاد فی سبیل اللہ کے شیدائی، دونوں ہاتھ کھول کر انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے…
اپنی دعاؤں اور نصائح سے مجاہدین کو نوازنے والے، مظلوم مسلمانوں کا بے انتہا درد
رکھنے والے، کفریہ طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے والے اور مجاہدین کی حددرجہ
حوصلہ افزائی کرنے والے…
ایک بار تنہائی کی ایک مجلس میں اپنے شوق شہادت کا ایسانقشہ کھینچا کہ دل بھر آیا…
حدیث شریف کے مصداق جو بھی صدقِ دل سے شہادت کا متلاشی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا مقام عطاء فرماتے ہیں،
خواہ اس کا انتقال اپنے بستر پر ہی کیوں نہ ہواہو…
اُن دنوں جب بھی کراچی جانا ہوتا، حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایسی شفقت اور محبت کا
معاملہ فرماتے کہ دل ان کی خورد نوازی پر بے حد شرمندہ ہوتا…
وہ صاف دل، پاک زبان اور صاف معاملہ رکھنے کے عادی تھے اور ان کی کوئی بھی مجلس
نفع سے خالی نہ ہوتی تھی…
اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے احسانات کا بہترین بدلہ
عطاء فرمائے… انہیں اپنے جوار
میں مغفرت اور رحمت کا مقام نصیب فرمائے…
{اللّٰھم لا
تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ}
اللہ تعالیٰ انہیں دار آخرت کی ہر خوشی نصیب فرمائے…
اور وہاں کی ہرتنگی سے اُن کی حفاظت فرمائے…
اور ان کی آل اولاد میں دین کامل اور اس کی خدمات کو جاری و ساری فرمائے…
آمین یا
ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 386
مہکتا گلاب
تختۂ دار پر
عاشقانہ جھولنا…
سنت سیدنا خبیبؓ
ہے…
کیا ہمارے پیارے
بھائی افضل گورو شہید…نے بھی
اپنے لئے ایسی ہی دعاء مانگی تھی؟؟…
جہاد کشمیر…
عصر حاضر میں شہداء کرام کے معطر خون سے مہکتا ایک پیارا گلشن…
کیا اس پر خزاں آ
جائے گی؟؟…
ہرگز نہیں…
افضل گورو…
جیسے فدائی بلبل اپنے ’’خون جگر‘‘ سے اس گلشن کے گلابوں میں رنگ بھرتے رہیں گے…
اور اس کی مہک فدائی روحوں کو اپنی طرف کھینچتی رہے گی…
خون دل سے لکھی
ایک معطر تحریر…
تاریخ اشاعت
۲۷ربیع الاوّل؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۸فروری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۶)
مہکتا گلاب
اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے…
آج ایک مہکتے گلاب کی مہکتی باتیں عرض کرنی ہیں…
آئیے پہلے اُن کے لئے استغفار کر لیں…
{اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لِعَبْدِکَ مُحَمَّدْ اَفْضَل}
یا اللہ ! اپنے بندے محمد افضل گوروشہید رحمۃ اللہ
علیہ کو مغفرت عطاء فرما دیجئے…
سنت سیدنا خبیب ذ
حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے جیش…
یعنی لشکر کے ایک سپاہی حضرت سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے
سولی پر لٹکا کر شہید کیا…
وہ’’جیشِ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے سولی پانے والے پہلے مجاہد تھے…
قصہ آپ نے بارہا سنا ہو گا…
یہ ۴ھ
کا واقعہ ہے… ۴ھ میں حضرت سیدنا
خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کو ’’مشرکین مکہ‘‘ نے سولی پر شہید کیا…
اور۱۴۳۴ھ
میں بھائی محمد افضل گوروشہید ذ کو’’مشرکین ہند‘‘ نے سولی دے کر شہید کیا…
حضرت سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے شہادت سے پہلے دو رکعت نماز کی مہلت
مانگی جو مل گئی… حضرت
کاندھلوی ذلکھتے ہیں:
حضرت
خبیب رضی اللہ عنہ سولی پر لٹکائے گئے اور شہید ہو ئے ذ اور آئندہ کے
لئے یہ سنت قائم فرما گئے کہ جو شخص قتل ہو وہ دو رکعت نماز ادا کرے (سیرت
المصطفیٰ بحوالہ زرقانی)
ہمارے بھائی محمد
افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی پھانسی سے پہلے نماز
ادا کی… مقصد یہ واقعہ
لکھنا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے سولی پر
جاتے ہوئے مشرکین پر ایک دعاء فرمائی:
{اَللّٰھُمَّ
اَحْصِھِمْ عَدَداً وَاقْتُلْھُمْ بَدَداً وَلَا تُبْقِ مِنْھُمْ أَحَداً}
یا اللہ اُن کو چن چن کر ہلاک فرما دیجئے اور
ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑیئے…
کیا بھائی افضل
شہید پنے بھی یہ دعاء کی تھی؟…
ویسے وہ کافی پڑھے لکھے، صاحب مطالعہ اور شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے مسلمان تھے…
تصوف اور تاریخ پر بھی اُن کا مطالعہ وسیع تھا…
ان کو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا واقعہ اور دعاء بھی یقینا معلوم ہو گی…
اور وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے بددعاء کرنا ایک محبوب
عبادت اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے…
اب دیکھیں! نو(۹) فروری
ہفتہ کے دن بھائی محمد افضل گورو رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کیا گیا اور اس کے ٹھیک
بارہ دن بعد قدرت کا انتقام دیکھئے انڈیا پر موت کا پہلا جھٹکا برسا…
جی ہاں حیدر آباد دکن دھماکوں سے لرز اٹھا، بہت سے لوگ مارے گئے اور سینکڑوں زخمی
ہوئے… افضل شہید رحمۃ
اللہ علیہ کی خوشیاں منانے والوں کے چہرے غم اور خوف سے کالے ہو گئے…
بھائیو! بات یہ ہے کہ شہید کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام بڑا اونچا ہے، خصوصاً
اگرکوئی مظلوم شہید ہو تو اس کی طاقت اور قوت کو اللہ تعالیٰ بہت بڑھا دیتے ہیں اس پر واقعات لکھوں تو
کئی صفحے اسی میںصرف ہو جائیں گے، بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ تھے
اور وہ بھی مظلوم، ہاں! ایسے مظلوم کہ ابھی بھی اُن کے آخری لمحات کا سوچ کر دل
غم سے پگھلنے لگتا ہے…
چاروں طرف دشمن ہی
دشمن… کوئی بھی اپنا
نہیں، کوئی بھی شناسا نہیں…
کافروں اور مشرکوں کے مکروہ چہرے، ان کی گندی آوازیں، اُن کے بدبودار قہقہے، ان
کی متعفن باتیں… وارڈ کا اداس
کمرہ، قرآن مجید کو الوداعی بوسہ…
دور دور تک کوئی آواز سننے والا نہیں…
دروازہ کھلنے کی چیختی آواز اور کالے بوٹوں کی دھمک…
خوبصورت ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے اور چہرے پر موٹی سیاہ ٹوپی…
ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کا بھائی اور یہ بے بسی…
ایک جہادی لشکر کا سپاہی اوریہ بے کسی…
ہاں بھائیو! جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جتنا بے بس بنایا جاتا ہے
وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی قدر اونچا، مقرَّب اور طاقتور
ہو جاتا ہے… اس کی اپنے رب
تعالیٰ کے ساتھ ملاقات بڑی میٹھی اور خالص ہوتی ہے…
وہ غیروں کے نرغے سے نکل کر اپنے محبوب سے جا ملتا ہے…اس
کے آخری لمحات کی دعائیں آسمانوں اور پہاڑوں کو لرزا دیتی ہیں…
وہ اس وقت اپنی زندگی نہیں مانگتا…
کیونکہ وہ اصل زندگی کی طرف جا رہا ہوتا ہے…
وہ تو اس وقت اُمت کے لئے مانگتا ہے، مسلمانوں کے لئے مانگتا ہے…
اور دشمنان اسلام کے لئے موت کا سوال کرتا ہے…
بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کی مانگی دعائیں رنگ لا رہی ہیں…
بے شک ابھی اور رنگ لائیں گی…
انشاء اللہ بہت گہرا رنگ…لوگو!
ایک بات یاد رکھنا بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کے پھانسی نامے پر
دستخط کرنے والا… ناپاک
چوھا پرنب مکھر جی ان شاء اللہ بہت درد ناک موت مرے گا، بہت عبرتناک، بہت اذیت
ناک…
اجڑتے باغ کا
فدائی بلبل
ایک باغ تھا بڑا
حسین، بہت خوبصورت… پھلوں اور
پھولوں سے بھرا ہوا، لاکھوں انسانوں اور پرندوں کی زندگی اسی سے تھی…
وہ اچانک زرد پڑنے لگا، مرجھانے لگا…
باغ کے مالیوں نے بڑا زور لگایا، طرح طرح کے وظیفے، دعائیں اور طرح طرح کی دوائیں…
مگرباغ تیزی سے سوکھ رہا تھا اور اس کے سوکھنے کے ساتھ ہزاروں زندگیاں موت کی طرف
بڑھ رہی تھیں… ایک وقت تھا کہ
باغ میں خوشیوں کے قہقہے اور خوشبوؤں کا ڈیرا تھا…
اور اب یہ حالت صرف سسکیاں تھیں، خوف تھا اور گہری اداسیاں…
ہر اگلے دن کچھ مزید درخت سوکھ جاتے، پودے زمین پر سر جھکا دیتے اور سبزے کی جگہ
پیلاہٹ کا راج ہوجاتا… سارے مالی
سر جوڑ کر بیٹھے، ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو…
طویل مشورہ ہوا آخر طئے پایا کہ پرانے بوڑھے مالی کو منا کر لایا جائے وہی اس باغ
کے مزاج کو جانتا ہے وہی تشخیص کر سکتا ہے کہ…
آخر باغ کو کیا بیماری اور مرض لگا اور علاج کیا ہے…
سارے دوڑ کر گئے پرانے مالی کو منا لائے جس نے اپنے ہاتھوں سے باغ لگایا تھا…
وہ آیا تو زرد باغ کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، ارے یہ کیا؟…
اب ہزاروں لاکھوں زندگیوں کا کیا بنے گا؟…
بابا! رونے کا وقت نہیں علاج اور مرض بتاؤ…
مالی بابا ایک طرف دوڑا، وہاں گلاب کا ایک پرانا پودا تھا اور اُس پر ایک ہی گلاب
کا پھول کھلتاتھا… جا کر
دیکھاتو سرخ گلاب کا پھول سوکھ رہا تھا…
مالی نے کہا! بھائیو! یہ پھول اس باغ کی جان ہے، یہ سرخ ہو تو پورا باغ زندہ رہتا
ہے اور یہ مرجھا جائے تو باغ بھی مرجھا جاتا ہے…
ابھی یہ پھول گرانہیں… یاد رکھو!
جس دن یہ گر گیاباغ پورا خاک کا ڈھیر بن جائے گا…
یہ کہہ کر بوڑھا مالی پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور سارے مالی حیران کہ…
اتنے بڑے باغ کی زندگی کا راز صرف اس ایک پھول میں ہے؟…
بابا! یہ پھول کیسے سرخ ہوگا؟…
ہم اس کے پودے کو پانی لگاتے ہیں…
کوئی پانی لگانے لگا اور کوئی کھاد دینے لگا…
اسی پھول کے گردسب نے گھیرا ڈال رکھا تھا…
مگر ہر تدبیر کے ساتھ پھول مزید مرجھا جاتا…
شام کے سائے پھیل گئے… مالی بابا
نے گلاب کو دیکھا! ایک زور دار سسکی بھری اور کہا! بس ایک رات ، ایک دن…
ہاں! اگر آج رات یا صبح تک گلاب سرخ نہ ہوا تو گر جائے گا…
اور گلاب کیا گرے گا کہ پورا باغ ہی جل گرے گا…
سب مالی اور بابا وہیں بیٹھے فکر میں روتے رہے…
کیا کریں؟ کیا نہ کریں؟…
دیررات سب کو نیند آگئی…
صبح اُن کے کانوں میں پرندوںکا شور گونجا تو جاگ اٹھے…
اُجڑے باغ میں پرندوں کا شور؟…
انہوں نے دائیں بائیں دیکھا تو حیران رہ گئے…
تمام درخت اور پودے ہرے بھرے تھے اور پورا باغ زندگی اور خوشبو سے آباد تھا…
بابا نے بڑھ کر گلاب کو دیکھا تو وہ پہلے سے زیادہ سرخ ، گردن تانے
مسکرا رہا تھا… اور اس کی
مسکراہٹ پورے باغ کو زندگی تقسیم کر رہی تھی…
وہ خوش بھی تھا اور حیران بھی کہ یہ ایک رات میں ایسا کیا ہوا کہ گلاب جی اٹھا اور
باغ بھی زندہ ہو گیا… اچانک اُس
کے کان میں رونے کی آواز آئی…
اس نے دیکھا کہ ایک بلبل رو رہا ہے…
پرانا مالی اسے پہچانتا تھا…
جا کر پوچھا کہ اے خوش آواز بلبل…
یہ آج رونا کیسا، آج تو سب خوشیاں منا رہے ہیں…
بلبل نے پودے کے نیچے دیکھنے کا اشارہ کیا ، مالی نے دیکھا تو وہاں اس بلبل کا
ساتھی… مُردہ پڑا تھا…
قصہ یہ ہوا کہ جب سب مالی سو گئے تو…
ایک بلبل گلاب کو منانے آیا…
اے گلاب! تو کیسے سرخ ہوگا…
گلاب نے افسردہ لہجے میں کہا! آج زندگی کی آخری رات ہے اور پھر میرے
ساتھ یہ ساراباغ بھی ختم ہو جائے گا…
بلبل نے غور سے گلاب کو دیکھا ، آنکھوں سے ایک آنسو ٹپکایا اور ایک جذبے کے ساتھ
جا کر گلاب کے ساتھ لگے کانٹے کو اپنے سینے سے بھینچ لیا…
بلبل نے زور لگا کروہ کانٹا اپنے سینے میں اُتارا اور اپنے دل سے پار کر دیا…
دل میں موجود خون کا قطرہ اُس کانٹے کے ذریعہ گلاب تک پہنچا تو…
گلاب ایک دم جی اٹھا… ہاں!گلاب
جی اٹھا… اُس کے جینے سے
سارا باغ جی اٹھا… اور باغ
کے جینے سے لاکھوں لوگ جی اٹھے…
مگر بلبل کی لاش کسی نے نہ دیکھی کہ وہ اسی پودے کے نیچے پڑی تھی…
جہاد کشمیر کا باغ، غزوہ ہند کا باغ…
ہاں بہت مرجھایا ہوا باغ…
آج ایک نئی زندگی محسوس کر رہا ہے…
خوشبو تیزی سے مہک رہی ہے…
اور ہر طرف حرارت دوڑ رہی ہے…
ہاں! مگر یہ بھی تو دیکھ لو کہ…
اس درخت کے نیچے میرے بھائی افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی لاش پڑی ہے…
سلام اے شہید
اسلام… سلام، سلام، سلام
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 387
میٹھی نعمت
محبت ایک فطرف
جذبہ ہے جو قدرت نے انسان کو عطاء کیا ہے…
یہ محبت کبھی بلندی کی طرف پرواز کرتی ہے…
اور ایسی محبت ’’میٹھی نعمت‘‘ ہے…
جو انسانوں پر آنے والی ہر تکلیف اور ہر درد وغم کو آسان بنا دیتی ہے…
اللہ کی سچی محبت
کا تذکرہ… اللہ کے ایک سچے
عاشق کی پہچان… اور اس کی حقیقی
نمونہ…
’’قتال فی سبیل
اللہ‘‘ ایک قطعی فرض ہے…
اور اس کی اہمیت کو گھٹانا…
ایک قبیح جرم… اس قبیح جرم کی
ایک مثال اور اس سے توبہ کی ترغیب…
جہاد کہاں کہاں
پھیل رہا ہے؟… مجاہدین کو کن
صفات کی زیادہ ضرورت ہے اور یہ صفات کس طرح حاصل ہوتی ہیں…؟
محمد افضل گورو
شہید کے محبت بھرے تذکرے میں کئی قیمتی باتیں …!
تاریخ اشاعت
۴ربیع الثانی؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۱۵فروری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۷)
میٹھی نعمت
اللہ تعالیٰ کی’’محبت‘‘ تمام مقامات سے اونچا مقام ہے…
اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے’’محبت‘‘ رکھے…
بھائیو! آج ’’محبت‘‘ کی باتیں ہونگی…
مجھے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں لکھوں…
اور آپ کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں پڑھیں…
اللہ…اللہ…اللہ…اللہ
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اعمال میں افضل ترین عمل کون سا ہے؟
فرمایا اللہ تعالیٰ کی محبت…
اور اس کی رضا پر راضی رہنا…(کیمیائے
سعادت)
امام غزالی پبھی
بڑے عجیب اللہ والے ہیں…
محبت الہٰی پر لکھتے ہی چلے گئے، درجنوں صفحات لکھ ڈالے…
بہت اچھا کیا، بہت اچھا کیا…
مگر’’محبت‘‘ تب سمجھ آتی ہے جب انسان کسی سچے عاشق کو دیکھ لے…
قریب سے دیکھ لے یا دور سے دیکھ لے…
بس عاشق سچا ہو… بالکل سچی محبت
رکھنے والا اُسے دیکھتے ہی محبت سمجھ میں آجاتی ہے اور دل میںاُتر جاتی ہے…
امام صاحب پ نے بھی محبت کے باب میںلکھتے لکھتے آخر میں…
عاشقوں کے قصے ہی لکھ ڈالے، اُن قصوں کو پڑھ کر دل میں زندگی محسوس ہوتی ہے…
اللہ تعالیٰ کے دیدار کا شوق…
آہ!محبوب حقیقی کا دیدار…
سبحان اللہ ، سبحان اللہ …
اللہ تعالیٰ کا دیدار…
وُجُوْہٌ
یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ٭ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ ٭ (القیامۃ۲۲،۲۳)
ارے جب تک اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ ہوگا…
جنت کی نعمتوں کا بھی حقیقی مزہ نہیں آئے گا…
ابھی ہم اپنے زمانے کے ایک سچے عاشق کو دیکھ رہے ہیں…
محترم جناب بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ …
آپ نے القلم کے گذشتہ شمارے میں اُن کا خط پڑھا؟…
سچی بات ہے اُس خط کوپڑھنا بھی مشکل ہے آنکھیں سمندر میں ڈوبنے لگتی ہیں اور دل
ہچکولے کھانے لگتا ہے… پھانسی کے
پھندے سے دس گز کے فاصلے پر اپنی موت سے صرف ایک گھنٹے دور…
سبحان اللہ ! کیسی محبت اور شکر میں ڈوبی
تحریر ہے… کیسی جاندار،
کیسی باوقار اور کیسی پر شکوہ…
آپ سب سے درخواست
ہے کہ اس مبارک تحریر کو فریم کرا کے اپنے کمرے میں لگا لیں…
پلاٹوں، مکانوںپر شکر کرنے والے بہت، سواریوں پر شکر کرنے والے بہت…
صحت اور مالداری پر شکر کرنے والے بہت…
ان نعمتوںپر بھی
شکر ادا کرنا چاہئے… ضرور
کرناچا ہئے مگر… پھانسی پر شکر،
اپنی بے بسی اور بے کسی پر شکر…
تنہائی میں دشمنوں کے ہاتھوںقتل ہونے پر شکر…
ہاں! یہ وہی ادا کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کے مقام پر فائز ہو…
جس کا قلب مطمئن ہو، جس کا نفس، نفس مطمئنہ ہو اور جو اپنے محبوب سے ملنے جارہا ہو…
محبت کے یقین کے ساتھ…
جان دے دی ہم نے
اُن کے نام پر
عشق نے سوچا نہ
کچھ انجام پر
آج سے چودہ سو
تیس سال پہلے… اسلام کی خاطر
سولی پانے والے حضرت سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھیں، جو انہوں
نے سولی پر جاتے ہوئے ارشاد فرمائے اور پھر بھائی محمد افضل گورو رحمۃ
اللہ علیہ کی تحریر پڑھیں…
سبحان اللہ ! کیسے ملتے جلتے جذبات ہیں…
وہ فرما رہے تھے:
لَسْتُ اُبَالِی
حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِماً
عَلٰی اَیِّ شِقٍّ
کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
مجھے کچھ پرواہ
نہیں کہ جبکہ میں مسلمان ماراجاؤں، خواہ کسی بھی کروٹ پر مروں…
جبکہ میرا قتل ہو کر گرناخالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو…
تھوڑا سا غور کریں… نعمت
اسلام کا کیسا والہانہ شکرا دا کیا جارہا ہے…
مظلو میت کی حالت میں جو مرنے جارہا ہو اس کے دل میں تو شکوہ ہوتا ہے کہ یہ میرے
ساتھ کیا ہو رہا ہے؟… میرے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں اُتری؟…
میری حفاظت کے لئے فرشتے کیوں نہیں آئے؟…
میرے ساتھی، رفقا میری جماعت والے کہاں مر گئے؟…
میری زندگی ضائع ہو گئی؟…
وغیرہ وغیرہ… طرح طرح کے
شیطانی وساوس… میں نے کیا پایا؟…
میرا تو سب کچھ لُٹ گیا…
مگر اللہ تعالیٰ سے محبت کے مقام پر فائز دیوانے ان
وسوسوں سے محفوظ رہتے ہیں…
اور وہ شکر ادا کرتے ہیں کہ محبوب نے اپنے عاشق کو قربانی کے لئے چُنا اور اب چند
لمحات بعد…وصال ہی وصال…
دیدار ہی دیدار…
محترم بھائی محمد
افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ اللہ پاک کا لاکھ شکریہ کہ اس نے مجھے اس مقام کے لئے
چنا‘‘
اچھا بھائیو!…
محبت کے ساتھ ایک حدیث پڑھتے ہیں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں…
جب موضوع ہی محبت،… عشق اور
دیوانگی کا ہے تو الفاظ میں کیا ربط اور مضمون میں کیا سلیقہ…
لیجئے حدیث مبارک میںڈوب جائیے…
بھائی محمد افضل گورو پ نے…
اسی حدیث شریف سے’’محبت‘‘ کا راستہ معلوم کیا تھا…
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
{جَاھِدُوا
الْمُشْرِکِیْنَ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ} (ابو داؤد)
جہاد کرو مشرکین
کے خلاف اپنی جان سے، اپنے مال سے اور اپنی زبانوں سے…
یہ ہے محبت کا
وسیع ترین میدان… جی ہاں!
میدان جہاد اور وہ بھی مشرکین کے خلاف…
اور اس میں بھی اتنی وسعت کہ جان بھی لگا دو، مال بھی لگا دواور زبانوں کو بھی خوب
استعمال کرو… یعنی زبان سے
بھرپور دعوت جہاد دو… ان کی
شدید مذمت کرو… اور ایسی باتیں
کرو جن سے انہیں تکلیف ہو…
اور مسلمانوں کواُن کے خلاف قتال پر اُبھارو…
جوش دلاؤ اور اُن کے لئے زمین تنگ کرو…
محبت کا اعلیٰ مقام حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے…
سولی کی طرف بڑھتے ہوئے سمجھا دیا…
وَذٰلِکَ فِی
ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَشَاْء
یُبَارِکْ عَلٰی
اَوْصَالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعٍ
اللہ تعالیٰ مظلوم شہداء کے جسموں پر بھی برکت نازل
فرماتے ہیں… حتیٰ کہ اُن کا
نام لینے اور اُن کا تذکرہ کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے…
تہاڑجیل کے ایک تاریک وارڈ میں آسودۂ خاک’’عاشق‘‘ کا پیغام آج پوری دنیا میں
گونج رہا ہے… کشمیری مسلمانوں
میں ایک نیا جذبہ دوڑ رہا ہے…
مجاہدین کے فدائی دستے صف بندیاں کر رہے ہیں…
کیا مشرق اور کیا مغرب…
حتیٰ کہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کے نعرے گونج
رہے ہیں… وہ جو انڈیا کے
سحر میں مبتلا تھے وہ بھی دل بھر کر مشرکین کو گالیاں دے رہے ہیں…
اوربھائی افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح مسکرا رہے ہیں جس طرح وہ ہتھکڑیاں پہن
کر مسکرایا کرتے تھے… یہاں ایک
اہم بات پوری توجہ سے سمجھ لیں…
قتال فی سبیل اللہ ،یعنی اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے…
اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑنا، جنگ کرنا…
یہ اسلام کا قطعی فریضہ ہے…
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ…
آپ ایمان والوں کو قتال پر اُبھاریں…
اب کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ…
کوئی ایسی بات کہے یا لکھے جس سے ’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘ کی اہمیت کم ہوتی ہو…
یا اس سے جہاد پر ابھارنے کی بجائے، جہاد سے بٹھانے کا ماحول بنتا ہو…
یاد رکھیں جس مسلمان نے بھی اپنی زندگی میںیہ گناہ کیا ہو اُسے چاہئے کہ…
مرنے سے پہلے پہلے توبہ کر لے…
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
یٰٓاَیُّھَا
النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَال (الانفال۶۵)
اے نبی! آپ ایمان
والوں کو جہاد پرابھارئیے…
اس میں’’تحریض‘‘
کالفظ استعمال ہوا ہے… یعنی قتال
کی دعوت بہت پر زور ہو، بہت مؤثر ہو ، بہت واضح ہو…
اور بہت جاندارہو … حَرْضٌ
کہتے ہیں ایسی کمزوری کوجو ہلاکت میں ڈالنے والی ہو…
اس اعتبار سے تحریض کا معنیٰ(سلب مأخذکے قانون سے) یہ ہوگا کہ قتال کی ایسی دعوت
دیجئے جو دل سے ہر طرح کی کمزوری کو دور کر دے…
اور ایک مسلمان کو شوق کی ہواؤں میں اڑاتی ہوئی…
میدان جہاد کی طرف لے جائے…
چند دن پہلے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’الادب المفرد‘‘ پر ایک
ہندوستانی عالم کی تحقیق دیکھی…
پہلے وہ حدیث شریف آئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین اعمال یہ ہیں
(۱) نماز
اپنے وقت پر ادا کرنا…
(۲) والدین
کے ساتھ حسن سلوک کرنا…
(۳ ) جہادفی
سبیل اللہ کرنا…
انہوں نے نہ
توصلوٰۃ یعنی نماز کے لغوی معنیٰ اور اس کے مقاصد بیان کئے…
نہ برالوالدین کی لغوی تحقیق کی…
مگر جہاد فی سبیل اللہ پر دونوں ہاتھ کھول کر پل پڑے…
جہاد کے لغوی معنیٰ… فلاں چیز
بھی جہاد، فلاں چیز بھی جہاد…
اور آخر میں یہاں تک ستم کہ جہاد کا مقصد کیا ہے؟…
یہ مقصد دیگر اعمال سے بھی حاصل ہو سکتا ہے…
بالکل وہی دلیل جو نماز کا منکر ذکری فرقہ دیتا ہے کہ’’نماز‘‘ کا مقصد ذکر ہے…
تو اصل مقصد حاصل کرو نماز کی ضرورت نہیں…
جیسے بھی بن پڑے ذکر میں لگے رہو…
بندہ نے ‘’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ پر اُن کی
یہ ساری تحقیق پڑھ کر سوچا کہ دو صفحے کی اس عبارت کو پڑھنے کے بعد…
کون سا ایسا مسلمان ہو گا جو جہاد میں جانا گوارہ کرے گا؟…
ایک طرف اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ قتال پر اُبھارو…
اور دوسری طرف اس طرح کی تحقیقات ہیں کہ جن کو پڑھ کر قتال پر جانا تو دور کی بات
کبھی زندگی میں قتال فی سبیل اللہ کا خیال تک دل میں نہ آئے…
پھر ستم دیکھئے کہ اسی کتاب میں چند صفحات بعد ایک روایت آئی…
ایک صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت مانگی…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے والدین کی خدمت میںرہنے کا حکم
فرمایا… بندہ نے سوچا کہ
محقق صاحب یہاں بھی ’’جہاد‘‘ کے لغوی معنیٰ بیان فرمائیں گے…
جہاد کے وسیع مفہوم کو اجاگر فرمائیں گے…
جہاد اکبر اور اصغر کے مسئلے کو چھیڑیں گے کہ…
والدین کی اجازت کے بغیر کوئی بھی جہاد جائز نہیں…
مگریہاں وہ خاموش رہے اور یہی اشارہ دیا کہ یہاں…
جہاد کا معنیٰ قتال فی سبیل اللہ ہے…یعنی
مقصد صرف اور صرف… اسلام کے
محکم فریضے’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘ کی
اہمیت کو کم کرنا ہے… اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو ہدایت عطاء فرمائے…
کاش یہ غزوہ بدر
کو دیکھیں… کاش یہ غزوہ اُحد
کو دیکھیں… کاش یہ آیات
جہاد کو دیکھیں اور جہاد میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے
بہنے والے مبارک خون کو دیکھیں…
یہ حضرات خود جہاد میں نہیں نکل سکتے تو نہ نکلیں…
مگر دوسروں کو روکنا، قتال کی اہمیت کو کم کرنا…
اور تحریف کے راستے کو اپنانا کسی بھی طرح خود ان کے اپنے مفادمیں بھی نہیں ہے…
زمانے کا رنگ تیزی سے بدل رہا ہے اور اب پوری دنیا میں عمومی جہاد کا دور شروع
ہونے والا ہے… ہر ٹھنڈے اور گرم
علاقے تک جہاد کی دعوت پہنچ چکی ہے…
ہر پہاڑی اور صحرائی ملک میں جہاد انگڑائی لے رہا ہے…
میدانوں اور سمندروں میں جہادی دستے منظم ہو رہے ہیں…
شہداء کی لاشیں کہیں سولیوں پر…
کہیں ٹکڑوںمیں اور کہیں سمندروں میں قرون اولیٰ کی حکایتیں زندہ کر رہی ہیں…
مغرب بعید سے لیکر مشرق اقصیٰ تک کے علاقے فدائیوں کی یلغار میں ہیں…
شائد اب تک دنیا کے کئی ملکوں میں مجاہد مسلمانوں کی حکومتیں بھی قائم ہو چکی
ہوتیں… مگر مجاہدین میں
چند صفات کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ…
مکمل غلبہ حاصل نہیں کر پا رہے …
ایک امیر کی اطاعت… کسی بھی
جماعت اور لشکر کو ناقابل شکست بنا دیتی ہے…
اسی طرح ذکر اللہ کی کثرت…
اورشریعت کا التزام جہاد کی رفتار کو تیز اورمضبوط بنانے کے ذریعے ہیں…
ایک مجاہد کے لئے یہ سب کچھ آسان ہو جاتا ہے…
اگر اسے اللہ تعالیٰ کی ’’محبت‘‘ نصیب ہو…
اور اس کا ہر عمل … اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہو…
بے شک! اللہ تعالیٰ کی محبت تمام مقامات سے اونچا مقام…
اور تمام نعمتوں سے میٹھی نعمت ہے…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …سعدی
کے قلم سے 388
مبارک کلمہ
کیا ہم خود گناہوں
سے بچنے کی پوری طاقت رکھتے ہیں؟
جب کہ نفس ہر لمحے
ہمارے پیچھے پڑا ہے…
کیا ہم خود نیکی
پر پوری طرح قادر ہیں؟ حالانکہ شیطانی وساوس اور دنیاوی خواہشات ہر لمحے ہمیں
الجھائے رکھتی ہیں؟… نہیں نا؟
لیکن ایک اللہ کی
توفیق اور مدد ایسی چیز ہے جو مل جائے تو گناہ سے بچنا بھی آسان اور نیکی پر
استقامت کا ملنا بھی آسان…
ایک مبارک…
مسنون… بہت سے فضائل
رکھنے والا… جنت کے خزانوں سے
ہوا کلمہ:
’’لاحول ولا قوۃ
الا باللّٰہ‘‘
اس کلمے کے مقام…
اہمیت… فضائل…
ضرورت… اثرات سے روشناس
کرانے والی تحریر جس کا مطالعہ آپ کا بہت کچھ دے جائے گا…!
تاریخ اشاعت
۱۱ربیع الثانی؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۲۲فروری؍۲۰۱۳
شمارہ (۳۸۸)
مبارک کلمہ
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ہر نیکی ممکن ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
اللہ تعالیٰ قوت عطاء فرمائے تو انسان گناہوں اور
برائیوں سے بچ سکتا ہے…ورنہ
نہیں
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
کوئی انسان چاہے
کہ اس کی ’’حالت‘‘بدل جائے…
بری حالت، اچھی حالت میں تبدیل ہوجائے…
تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم اور قوّت سے ہی ممکن ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
نفس بہت طاقتور ہے…
کوئی چاہے کہ اپنے نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام ڈال کر اپنے قابو میں کر لے تو کوئی
انسان خود اس کی طاقت نہیں رکھتا…
ہاں! اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی قوت عطاء فرمائے تو نفس کو
قابو کرنا بھی ممکن ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
شیطان بہت موذی،
مکار اور تجربہ کار دشمن ہے…
شیطان کے شر سے بچنا اسی کے لئے ممکن ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اس کی قوت عطاء فرمائے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
دو عجیب قسم کی
بیماریاں انسان کو لگ جاتی ہیں…
ایک کا نام ہے’’غمّ‘‘ اور دوسری کا نام ہے’’ ھمّ‘‘…
’’غمّ‘‘ انگاروں سے بھرے ہوئے تندور میں قید کر دیتا ہے…
اور’’ھمّ‘‘ انسان کا اندر ہی اندر سے خون چوس لیتا ہے…’’غمّ‘‘
کا ترجمہ اردو میں گھٹن کر سکتے ہیں اور’’ھمّ‘‘ کا مطلب فکر اور پریشانی…
ان دونوں بیماریوں کی دنیا میں کوئی’’حِسّی دواء‘‘ دستیاب نہیں ہے…
بس اللہ تعالیٰ قوت اور ہمت عطاء فرمائے تو انسان ان
دونوں کے شر سے بچ سکتا ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج رنگ و نور کی ساتویں
جلد مکمل ہو رہی ہے… آج کا
کالم’’ساتویں جلد‘‘ کا آخری مضمون ہے…
الحمدﷲ چھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور ان شاء اللہ ساتویں جلد ایک دو ماہ میں آجائے گی…
اوریوں’’رنگ و نور‘‘ کے نام سے جاری یہ کتاب ان شاء اللہ مکمل ہو جائے گی…
یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ہے…
مَا شَائَ اللہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
اس کو ناواقفیت
کہا جائے یا جہالت… ہمارے
ہاں’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ کا مبارک کلمہ پریشانی اور حیرت
کے اظہار کے لئے پڑھاجاتا ہے…
بعض لوگ تو مذاق میں بھی پڑھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز درست نہیں…
یاد رکھیں جس کلمے میں’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کا
نام مبارک ہو اسے مزاح، مذاق اور طنز میں بالکل استعمال نہ کریں…
آج کل کے کالم نویس’’ماشاء اللہ ‘‘ کے
کلمے کو بطور طنز استعمال کرتے ہیں…حالانکہ’’ماشاء
اللہ ‘‘ قرآن مجید میں وارد ہونے والا
بہت طاقتور اور بابرکت کلمہ ہے…
ارے بھائیو!’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ کا
مبارک کلمہ…
اسلام اوراستسلام والا کلمہ ہے…
یہ رحمت کو زمین پر کھینچ لانے والا کلمہ ہے…
یہ بندے کی طرف سے اپنے رب تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور تواضع ظاہر کرنے والا کلمہ
ہے… یہ حیرت اور غم
والاکلمہ نہیں… بلکہ حیرت اورغم
کو دور کرنے والا کلمہ ہے…
اسے سمجھ کراور پڑھ کر تو دیکھیں تب پتا چلے گا کہ اس کا مقام کتنا اونچا ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
آپ سوچیں گے
کہ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ اگراتنا اونچا کلمہ ہے تو اکثر
مسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اور کیوں نہیں اپناتے…
جواب یہ ہے کہ یہ کلمہ عرش کے خزانوں میں سے ایک ہے…
جی ہاں! عرش کے نیچے جنت کا ایک عظیم خزانہ ہے، اس خزانے سے یہ کلمہ’’لَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ زمین پر اتاراگیا اور بندوں کو عطاء
فرمایا گیا…
غور فرمائیں…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے’’کنز الجنۃ‘‘ کا لفظ ارشاد
فرمایا…’’کنز‘‘ کہتے ہیں
خزانے کو… کیا
خزانے کو ہر ایک پالیتاہے؟…
زمین میں کتنے’’کنوز‘‘ ہیں…
سونے، چاندی، ہیرے اور معدنیات کے’’کنوز‘‘…
ہر ایرا غیرا ان’’کنوز‘‘ اور ان خزانوں کو نہیں پاسکتا…
پس حدیث شریف میں اشارہ مل گیا کہ یہ قیمتی کلمہ بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے…
اور جنہیں نصیب ہوتا ہے وہ خزانے کے مالک بن جاتے ہیں…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جہاد کے بابرکت موضوع پر
لکھنے کا کام جب شروع کیا تو اس موضوع پر لکھنے والے بہت کم تھے…
یوں کہیں کمیاب یا تقریباً نایاب…
اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی تو ایک جہادی رسالہ
نکالا… رسالے اوراخبار
کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک موضوع پر لکھنے والوں کو ایک جگہ کھینچ لاتے
ہیں…صدائے مجاہد کراچی
سے نکلا تو جہاد پر لکھنے والے اس میں جمع ہونے لگے…
زمانے کے اکابر اس رسالے کو محبت سے پڑھتے اور پسند فرماتے تھے…
کئی لکھنے والوں نے جہاد پر لکھنا شروع کیا تو عجیب عجیب باتیں لکھ بھیجتے…
معلوم ہوا کہ جہاد کی سمجھ رکھنے والے افراد کم ہیں کیونکہ اس موضوع پر…
مستقل اور واضح تحریریں موجود نہیں تھیں…
تب الحمدﷲ جہادی کتب اور رسائل کا سلسلہ شروع ہوا…
اور اب ماشاء اللہ جہاد کے موضوع پر لکھنے والوں کی…
ایک پوری کھیپ بلکہ یوں کہیں کہ پورا لشکر موجود ہے…
بالکل واضح… صاف اور درست
ترجمانی کرنے والا قلمی لشکر…
مگر پھر بھی جہادی کتب خانے کو مزید مدلل اور باوقار بنانے کے لئے مزید کم از کم
بیس کتابوں کی ضرورت ہے…
اللہ تعالیٰ اس موضوع پر لکھنے والوں کی خاص مدد
فرمائے کہ… اس کی توفیق اور
طاقت کے بغیر… ایک درست سطر
لکھنا بھی ممکن نہیں…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے جو بڑے بڑے تحفے لئے ان میں سے ایک…
لا حول ولا قوۃ الا ب اللہ بھی ہے…
احادیث مبارکہ میں اس کلمے کے بہت سے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں…
مثلاً
(۱) یہ
کلمہ جنت کے خزانوں میں سے ہے…
(۲) یہ
کلمہ عرش کے نیچے سے آیا ہے…
(۳) یہ
ننانوے بیماریوں کی دواء ہے…
جن میں ادنیٰ بیماری ’’ھمّ‘‘ اورغم یعنی فکر و پریشانی اور گھٹن ہے…
(۴) جب
کوئی بندہ یہ کلمہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اسلم عبدی واستسلم‘‘ کہ میرے
بندے نے میرے سامنے اپنی فرمانبرداری اور خود سپردگی کا اعلان کر دیا ہے…
(۵) یہ
کلمہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے…
(۶) یہ
کلمۂ کفایت ہے… یعنی جو اسے پڑھے
اس کے لئے تمام معاملات میں کفایت اور آسانی ہوجاتی ہے…
(۷) یہ
شیطان کو بھگانے والا کلمہ ہے…
(۸) یہ
گناہوں کو معاف کرانے والا کلمہ ہے…
(۹) یہ
قید سے آزادی دلانے والا کلمہ ہے…
(۱۰) یہ
وہ کلمہ ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض
صحابہ کو ’’اکثروا‘‘ کا حکم فرمایا کہ اسے کثرت سے پڑھو…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ، لَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
برصغیر میں مرزا
قادیانی اور عرب ممالک میں کئی ملحد اور مستشرق مصنفین نے جہاد کے معاملے کو
بگاڑنے کے لئے کتابیں لکھیں…
مرزا قادیانی ملعون نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے جہاد کے خلاف اتنی کتابیں لکھی ہیں
کہ اُن سے پچاس الماریاں بھر جائیں…
اور ان کتابوں کا دوسری زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے…
انگریزوں کے عروج کے زمانے برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں میں جہاد کے بارے میں باقاعدہ
سیل قائم تھے… ان اداروں کا کام
جہاد کے خلاف مسلمانوں کی ذہن سازی کرنا، جہاد کے معنیٰ کو بدلنا…
اور مسلمانوں کو جہاد سے دور اور متنفر کرنا تھا…
آج بھی دنیا کے بڑے بڑے جاسوسی اداروں میں سب سے اہم مسئلہ…
جہاد فی سبیل اللہ سے نمٹنا درج ہے…
ابھی چند دن پہلے اسلام آباد میں قائم کئی غیر ملکی سفارتخانوں میں جہاد مخالف
سیل موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے…
اور یہ سیل اُن مذہبی رہنماؤں کی بھرپور مالی معاونت کرتے ہیں جو جہادکے خلاف
لکھتے، بولتے ہوں…یا قتال فی
سبیل اللہ کی اہمیت مسلمانوں کے دلوں سے گھٹاتے ہوں…
خلاصہ یہ کہ جہاد
فی سبیل اللہ کے خلاف بہت وسیع پیمانے پر محنت جاری ہے اور اس
محنت کے لئے خود مسلمانوں کی زبانوں اور قلموں کو خریدا اور استعمال کیاجارہا ہے…
اس لئے امت مسلمہ کا درد رکھنے والے اہل علم اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ…
وہ جہاد فی سبیل اللہ پر زیادہ سے زیادہ لکھیں اور بہت واضح لکھیں…
اورایسا لکھیں جس میں’’تحریض‘‘ کی شان ہو نہ کہ’’تثبیط‘‘ کی…
یعنی جہاد پر
ابھارنا ہو نہ کہ جہاد سے بٹھانا…
جہاد کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے کیونکہ جہاد ہی سب سے بڑا صدقہ جاریہ ہے…
اہل قلم کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر اسی کی مدد سے…
خالص اسی کی رضاء کے لئے جہاد کے موضوع پر زیادہ سے زیادہ لکھیں
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
الحمدﷲ ’’رنگ
ونور‘‘ کی سات جلدیں مکمل ہو رہی ہیں…
اگر آگے بھی انشاء اللہ یہ کالم لکھنے کا سلسلہ چلتا رہا تو اگلا مجموعہ
کسی اور نام سے شائع کیا جائے گا…
رنگ ونور میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کئی باتوں کو اہمیت سے بیان کیا گیا…
الحمدﷲ مسلمانوں میں ان باتوں کی اہمیت کا شعور بیدار ہوا…
کئی ہفتے سے ارادہ تھا کہ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ پر کم از
کم دو کالم آجائیں… ویسے خطوط
میں تو کافی عرصہ سے مسلمانوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا سلسلہ شروع
ہے… بندہ کے استاذ
اور شیخ محترم حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو’’لَا
حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ پڑھنے کی طرف متوجہ فرماتے تھے…خصوصاً
وہ لوگ جن سے گناہ نہیں چھوٹتے اور ان کا دل گناہوں اور گمراہیوں میں ہروقت بھٹکتا
رہتا ہے… اسی طرح وہ لوگ
جن کی بری حالت بدلتی ہی نہیں…
مثلاً بیمار ہیں تو صحت نہیں پاتے…
تنگدست ہیں تو کشادگی نہیںپاتے…
کنوارے ہیں تو شادی نہیں کر سکتے…
غم اورٹینشن میں مبتلا ہیں تو کبھی خوشی اور سکون نہیں پاتے…
گمراہی ، تکبر اور عجب میں مبتلا ہیں تو روشنی کی طرف نہیں آتے…
بس ایک ہی حالت پر ہیں اور وہ اچھی حالت نہیں ہے تو…
حول یعنی حالت بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے قوت مانگنا کام آتا ہے…
اور اس کا وظیفہ ہے… لَا
حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ …
زیادہ فائدہ کے لئے کم از کم مقدار روزآنہ پانچ سو بار…
باوضو اور باتوجہ پڑھیں اور اول آخر درود شریف کا زیادہ اہتمام کریں تو انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا مگر ایک ہزار بار روزآنہ پڑھنا
اور چالیس دن تک ناغہ نہ کرنا انسان کی بُری حالت خواہ وہ کوئی بھی ہو کی اچھی
تبدیلی کے لئے بے حد مفید ہے…
آپ نے قصہ پڑھاہو گا کہ ایک صحابی کو روزآنہ ایک ہزار بار’’لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ پڑھنے پر دشمنوں کی قید سے رہائی ملی…
اوریہ وظیفہ خود حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…
اسے کہتے ہیں حالت
کی تبدیلی کہ قید اور مفلسی سے آزادی اور’’غِنیٰ‘‘ نصیب ہوگیا…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ
کئی بار اس موضوع
پر لکھنے کا ارادہ باندھامگر…
دیگر تازہ موضوعات جگہ پکڑتے گئے…
اب جبکہ’’رنگ و نور‘‘ کتاب ہی کا اختتام ہو رہا ہے تو سوچا کہ آخری کالم میں اس
کی طرف کچھ توجہ دلا دی جائے…
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے چند اشارے عرض کر دیئے…
پھر جب توفیق ملی تو انشاء اللہ مزید بھی لکھا جائے گا…
بس اتنا ہم سب یاد
رکھیں کہ…’’لَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ ایک بہت ہی قیمتی اور نفیس خزانہ ہے …
اور اسے پڑھنے اور برتنے کا ثواب انسان کے لیے ’’جنت‘‘ میں ذخیرہ ہوجاتا ہے…
اور اس کی کثرت سے انسان کے دل، اعمال اوراخلاق کی ایسی اصلاح ہوتی ہے کہ وہ تنگی
اور پریشانی سے نکل کر…جنت
کے وسیع دروازے کے انوارات محسوس کرتا ہے…
اور اس کی زندگی کا رخ جہنم سے ہٹ کر جنت کی طرف ہوجاتاہے…
کیونکہ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ ‘‘ جنت کے خزانوں میں سے ایک
خزانہ … اور جنت کے
دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ …
لَا حَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِ اللہ …
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ
اِلَّا بِ اللہ …
اللّٰھم صل علیٰ
سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭