رنگ و نور جلد یازدہم
رنگ و نور…568
استقامت کا مینار
* سیّدناابو
ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا تعارف
وتذکرہ…
* سیّدنا
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی خوش
نصیبی…
* سرکار
دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ان
کے دروازے پر آٹھہری…
* ایک
دلکش منظر… ’’میری موت بھی مجھے جہاد سے نہ روک سکے۔‘‘
* دشمن
پر حملہ آورہوتا ’’جنازہ‘‘…
* وہ
بابرکت شخصیت کہ جن کی قبر ’’ترک خطے‘‘ کو نورِ اسلام میں داخل کرنے کا ذریعہ بنی…
* سیّدنا
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی امتیازی
صفت ’’استقامت‘‘…
* اہل
استقامت پر دنیا وآخرت میں فرشتے نازل ہوتے ہیں…
* حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی دعاء اور اس کا اثر…
*
سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی
زندگی سے حاصل ہونے والا ایک اہم سبق…
* میزبانِ
رسول سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
کے مبارک ومعطر
تذکرے
پر مشتمل ایک ایمان افروز مضمون۔
تاریخِ اشاعت:
۱۷صفر
المظفر ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق18نومبر 2016ء
استقامت کا مینار
اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہو…حضرت سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ پر… ان کا اسم گرامی ہے…خالد بن
زید الخزرجی النجاری… سلام اللہ علیہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ورضی اللہ عنہ وارضاہ…
اللہ تعالیٰ ہماری آج کی اس مجلس اور اس کالم کو قبول فرما
کر اس کا ثواب حضرت سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو عطاء فرمائے…اور ان کی برکت سے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مرتے دم تک… دین اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ پر استقامت
عطاء فرمائے۔
دلکش منظر
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر تشریف فرما ہیں…’’قباء‘‘ سے
مدینہ منورہ کی طرف روانگی ہے… حضرات انصار پروانوں کی طرح اردگرد بھاگتے دوڑتے جا
رہے ہیں… ہر دل میں ایک ہی خواہش دھک دھک کر رہی ہے کہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں قیام فرمائیں… انصار کے قائدین
حضرات نے… دل اور نظریں بچھا رکھی تھیں…اور جگہ جگہ محبت کے ناکے لگا رکھے تھے…
اونٹنی ایک شان کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی… پہلے ناکے پر کچھ سچے عاشق سامنے آ کر
گڑگڑانے لگے… یا حضرت! یہاں قیام فرمائیے جان ، مال ، کنبہ اور سرفروشی حاضر ہے…
سب کچھ آپ پر قربان کر دیں گے اور آپ پر دشمن کا سایہ تک نہیں پڑنے دیں گے…
ارشاد ہوا:…اونٹنی کو چھوڑ دو… یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے… جہاں حکم ہو گا
وہاں بیٹھے گی… وہ عاشق تھے مگر فرمانبردار، وہ سچے محب تھے مگر غلامی ہی ان کا ناز
تھی، دل پکڑ کر راستے سے ہٹ گئے… اگلے محلے پر گذر ہوا تو وہاں بھی بڑے بڑے عزتمند
حضرات بھکاری بنے… راستہ روکے کھڑے تھے… حضرت! یہاں قیام فرمائیے…لشکر، اسلحہ،
جان،مال اور حفاظت سب کچھ پیش خدمت ہے… مگر یہاں بھی وہی جواب ملا… اسی طرح چار
پانچ جگہ ہوا…اب ہر آنکھ ُاس ہستی کو دیکھنے کی مشتاق تھی…جس کے نام سعادت کا
قرعہ نکلنا تھا…بالآخر یہ اونٹنی مسجد نبوی شریف کی جگہ کے قریب… حضرت سیّدنا ابو
ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے دروازے پر تشریف فرما ہوئی… سبحان اللہ! سعادت کا وہ
لمحہ جس کی صدیاں منتظر تھیں… ابو ایوب کے دروازے پر دستک دے چکا تھا… وہ بھاگ
بھاگ کر سامان اُٹھا رہے تھے اور کائنات کے سب سے مبارک مہمان کو اپنے گھر لے جا
رہے تھے…وہ اور ان کی خوش نصیب اہلیہ کھانا تیار کرتے…پھر جب حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم تناول فرما لیتے تو میاں
بیوی میں مقابلہ شروع ہو جاتا کہ…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے نشان والی جگہ کا بچا ہوا
کھانا کس کو ملتا ہے… مبارک ہو ابو ایوب مبارک… اور پھر زمانے کے پچاس سال گذر
گئے… تاریخ کے صفحات ایک اور منظر کی عکس بندی کر رہے ہیں… مسلمانوں کا ایک لشکر
رومیوں کے ساتھ جہاد کرنے جا رہا ہے… لشکر میں گھوڑے، اونٹ اور مجاہدین تو ہوتے ہی
تھے…مگر آج ایک اور چیز بھی ہے… جی ہاں! ایک جنازہ ہے… ہاں!ایک جنازہ بھی لشکر کے
کندھوں پر ہے… اور مجاہدین اسے نہایت احترام سے اٹھا کر آگے بڑھ رہے ہیں… یہاں تک
کہ وہ قسطنطنیہ کی دیوار تک پہنچ گئے… آگے دشمنوں کا لشکر اور اس کے مورچے تھے…
یہاں قبر کھودی گئی… اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا… دراصل وہ راستے ہی
میں انتقال فرما چکے تھے…مگر وصیت کر گئے تھے کہ… میرے جنازے کو بھی جہاد میں ساتھ
ساتھ لے جانا… گویا کہ یوں فرمایا کہ میں نے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام اور جہاد کی بیعت کی ہے… میرا بڑھاپا
مجھے جہاد سے نہیں روک سکا… تو میں چاہتا ہوں کہ…میری موت بھی مجھے جہاد سے نہ روک
سکے… پس جہاں تک لشکر جا سکتا ہو وہاں تک میرا جنازہ لے جایا جائے…اور مجھے وہاں
دفن کیا جائے… استقامت کا یہ مینارجب قسطنطنیہ کی دیوار کے پاس… نصب ہوا تو پورے’’
ترک خطے‘‘ میں اسلام اور جہاد کی لہر دوڑ گئی…لوگوں نے اس قبر سے نور اٹھتے دیکھا…
رومی وہاں جمع ہو کر بارش کے لئے دعاء کرتے تھے… اور پھر یہ پورا خطہ اسلام میں
داخل ہو گیا… سلام ہو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ پر…بے شمار سلام… سلام اللہ علیہ
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ… رضی اللہ عنہ وارضاہ
استقامت کا مینار
حضرت ابو ایوب رضی
اللہ عنہ کی خاص صفت … ’’استقامت‘‘ تھی… اور استقامت ہی سب سے بڑی کرامت ہے… قرآن
مجید سمجھاتا ہے کہ… جس میں استقامت ہو اس پر فرشتے اترتے ہیں… زندگی میں بھی اور
موت کے وقت بھی… ایمان پر استقامت ایسی صفت ہے جو کروڑوںاربوں میل سے فرشتوں کو
کھینچ لاتی ہے…یہ استقامت کی کشش تھی کہ…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اونٹنی…نہ قبیلہ اوس کے سرداروں کے
محلے میں اُتری… اور نہ قبیلہ خزرج کے رؤسا کے دروازوں پر رکی… وہ نہ مدینہ کے
مالداروں کے ہاں ٹھہری… اور نہ مدینہ کے سخیوں اور نامور بہادروں کے پاس رکی…
استقامت تو تمام انصار میں تھی… تمام صحابہ کرام میں تھی… مگر کسی پر کسی چیز کا
رنگ غالب ہوتا ہے… حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ پر ’’استقامت‘‘ کا رنگ ایسا غالب
تھا کہ… اونٹنی سب کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے… ان کے گھر جا اتری… اے
مجاہدو! غور کرو… دین اور جہاد پر استقامت کتنی بڑی طاقت ہے اور کتنی بڑی نعمت…
اور یہ کیسی کیسی سعادتوں کو… آپ کے دروازے پر لے آتی ہے۔
جب اونٹنی کے اترنے کا واقعہ پیش آ رہا تھا تو… اس وقت کسی
کو معلوم نہیں تھا کہ…کون آگے چل کر کیا کرے گا؟… مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا
کہ… ابو ایوب اس امت کے لئے استقامت کا وہ روشن مینار بنیں گے کہ… جن کو دیکھ کر
ٹوٹتے حوصلے مضبوط ہو جایا کریں گے… اور مضمحل اعصاب میں بجلی دوڑ جایا کرے گی…
چنانچہ ایسا ہی ہوا … غزوۂ بدر سے لے کر غزوہ ٔتبوک تک…دور نبوی کے ہر جہاد میں
اللہ کے نبی کا یہ سچا عاشق دیوانہ… پہلی صف میں شریک رہا… بلکہ غزوۂ خیبر کے
موقع پر تو بہت عجیب واقعہ ہوا…فتح کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا… وہیں رخصتی کا انتظام کیا گیا…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر نکاح اللہ تعالیٰ کے حکم سے… اور اس اُمت
کی بھلائی کے لئے تھا… جنگ ختم ہو چکی تھی… کسی طرف سے مزاحمت کا کوئی خطرہ،
اندیشہ نہیں تھا… اس لئے اسلامی لشکر اطمینان سے سویا… حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم جب صبح خیمہ مبارک سے باہر
تشریف لائے تو دیکھا… ابو ایوب ہاتھ میں تلوار لئے مستعد پہرہ دے رہے ہیں… وجہ
پوچھی تو عرض کیا… مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ کا نکاح یہودیوں کے سردار کی بیٹی سے
ہوا ہے تو آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے تو… ساری رات اسی طرح پہرہ دیتا رہا… آپ
صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور دعاء دی۔
یا اللہ! ابو ایوب کی حفاظت فرما جس طرح انہوں نے پوری رات
میری حفاظت کے لئے پہرہ دیا اسی مبارک دعاء کا اثر تھا کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو قتل ہونے والی شہادت نہیں ملی…
بلکہ وفات والی شہادت ملی… اور بعض اوقات وفات والی شہادت کا مقام قتل ہونے والی
شہادت سے بڑا ہوتاہے۔
پھر خلفاء راشدین کا دور شروع ہوا تو… ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر …حضرت علی
المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے زمانے تک… مسلسل
جہاد میں حصہ لیا…صرف ایک لشکر میں نہیں گئے… اور اس پر بھی خود کو ہمیشہ ملامت
کرتے تھے…ہاں! ایک بات رہ گئی…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں… مدینہ کے منافقین بعض اوقات مسجد
نبوی میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف سازشیں اور مسلمانوں کی غیبتیں کرتے تھے… حضرت ابو
ایوب رضی اللہ عنہ نے ایک بار ان کو دیکھ
لیا…’’استقامت‘‘ انسان کو ہمیشہ ایک رنگ پر رکھتی ہے… اور کبھی دو رنگی یا مداہنت
اختیار نہیں کرنے دیتی… مدینہ کے یہ منافق اوس اور خزرج کے معزز لوگ شمار ہوتے
تھے… اور ان میں سے بعض تو ماضی میں اپنے قبیلوں کے سردار بھی رہے تھے… مگر حضرت
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اپنی یا
اپنے نام کی کوئی فکر نہیں تھی… وہ اسلام کے تھے، جہاد کے تھے اور حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے اور بس… چنانچہ
آگے بڑھے اور ایک منافق کے پاؤں پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے مسجد سے باہر پھینک
آئے… وہ چیختا رہا …عار دلاتا رہا…
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ قبیلہ خزرج سے تھے…اور جس کو
گھسیٹ رہے تھے وہ خزرج کا سردار رہ چکا تھا…وہ قوم پرستی جگانے کی کوشش کرتا رہا…
مگر کہاں ابو ایوب استقامت کے مینار اور کہاں بدبودار قوم پرستی… اس کو باہر پھینک
کر پھر مسجد میں گئے اور دوسرے کو پکڑ کر تھپڑ لگائے اور گھسیٹ کر باہر لے
آئے…فرمایا …رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں… ایسی باتیں کرنے والوں کو ابو ایوب
برداشت نہیں کر سکتا… بے شک! ہر کسی کی ہاں میں ہاں ملانے والے… کبھی سچی استقامت
کی خوشبو نہیں پا سکتے۔
مقویٔ اعصاب
گذشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ…آج کل کا جو جہاد ہے وہ بہت
طویل اور اعصاب شکن ہے… آج یہ عرض کرنا تھا کہ مجاہدین اپنے اعصاب کو کس طرح سے
مضبوط رکھ سکتے ہیں… طویل جنگ جس طرح بڑے بڑے ملکوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی
ہے… اسی طرح وہ جماعتوں، تنظیموں اور افراد کو بھی تھکا کر گرا دیتی ہے… مگر الحمد
للہ… مسلمانوں کے پاس … اعصاب اور حوصلے کو مضبوط رکھنے کے بڑے بڑے نسخے موجود
ہیں… آج ان میں سے بعض نسخے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے عرض کرنے تھے…اور کالم کا
نام رکھنا تھا ’’مقویٔ اعصاب‘‘… اس میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ… کئی ایسے افراد
جو بیماریوں اور دوائیوں کے شوقین ہوتے ہیں وہ بھی… اس گمان سے کالم پڑھ لیتے کہ…
شاید قوت و طاقت کی کوئی خاص ’’دواء‘‘ ہاتھ آ جائے… اسی کالم کے لئے مواد اور
دلائل کو ذہن میں سوچ رہا تھا کہ… استقامت کے روشن اور خوبصورت مینار نے دل کو
اپنی طرف کھینچ لیا…جی ہاں! حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا تذکرہ، ان کی یادیں… اور ان کی
باتیں… ایک ٹوٹتے مسلمان کو بھی تھام لیتی ہیں… حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ … قرآن مجید کی آیت
مبارکہ…’’اِنْفِرُوْ اخِفَافًا وَّثِقَالًا‘‘(التوبہ:۴۱) کی چلتی پھرتی تفسیر تھے… اور وہ اس آیت مبارکہ کا حوالہ بھی دیتے تھے کہ…
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر حال میں…جہاد میں نکلنے کا حکم فرمایا ہے… اور وہ فرمایا
کرتے تھے کہ…جہاد کو چھوڑ کر …اپنے گھر بار اور کاروبار کی فکر و اصلاح میں لگ
جانا… یہ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے… اور اللہ تعا لیٰ نے ہمیں…
خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ
اِلَی التَّھْلُکَۃِ﴾(البقرۃ:۱۹۵)
اگر کوئی اس وجہ سے جہاد چھوڑتا ہے کہ …اس نے بہت کام کر
لیا ہے تو وہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ
کو دیکھے… انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی میزبانی سے لے کر بدر و
رضوان جیسے کارنامے سرانجام دئیے مگر پھر بھی نہ بیٹھے… اگر کوئی کسی صدمے کی وجہ
سے جہاد چھوڑتا ہے تو وہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو دیکھے… انہوں نے حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت اور چار خلفاء
راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رحلت و
شہادت جیسے عظیم صدمے دیکھے… مگر جہاد میں چلتے رہے… اگر کوئی بڑھاپے کی وجہ سے
جہاد چھوڑ رہا ہے تو وہ حضرت ابو ایوب رضی
اللہ عنہ کو دیکھے کہ… نوے سال سے زائد کی عمر میں بھی انہوں نے کسی لشکر سے پیچھے
رہنا گوارہ نہ کیا…اگر کوئی مسلمانوں کے داخلی انتشار اور اختلافات کو دیکھ کر
جہاد سے دل برداشتہ ہوتا ہے تو وہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو دیکھے… انہوں نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ…اور جمل ، صفین اور نہروان جیسے
واقعات قریب سے دیکھے مگر پھر بھی جہاد فی سبیل اللہ میں چلتے رہے…
ہاں! بے شک استقامت کا یہ مینار… ہمارے لئے کوئی عذر، کوئی
بہانہ نہیں چھوڑتا… تو پھر کیوں نا… ہم بھی بھاگنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے
’’استقامت‘‘ مانگ لیں… وہ اللہ تعالیٰ جو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو ’’استقامت‘‘ عطاء فرما سکتا ہے…
وہ ہمیں بھی یہ نعمت دینے پر قادر ہے…
’’اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ
قَدِیْرٌ‘‘
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…570
استقامت کا ایک نسخہ
* ’’استقامت‘‘
قرآن عظیم کا ایک اہم اور تاکیدی حکم…
* غزوات
نبوی سے ملنے والےاستقامت کے اہم اسباق…
* جہادِ
افغانستان، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز…
* غلامی
کے اثراتِ بد کا تذکرہ… افغان جہاد کے تین مراحل…
* افغان
جہاد میں ثابت قدم رہنےوالے اور پیچھے ہٹنے والے…
* مولانا
محمد یونس خالص رحمہ اللہ اور ان کا ایک تاریخی جملہ…
* مولانا
جلال الدین حقانی رحمہ اللہ اور ان کے خاندان کی استقامت…
* اہلِ
کشمیرواہلِ فلسطین کی عزیمت واستقامت…
* راستہ
بدلنے اور بھاگنے والوں کا برا انجام بزبان قرآن…
* حضرت
سیّدہ آسیہ رضی اللہ عنہا کی استقامت…
* استقامت
کا ایک بڑا نسخہ، کلمہ طیبہ سے یاری…
ان
تمام موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ایک پرنور تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲ربیع
الاوّل ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق2دسمبر 2016ء
استقامت کا ایک نسخہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’اسلام‘‘ پر زندہ رکھے اور ’’ایمان
‘‘ پر موت عطاء فرمائے…
رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا
مُسْلِمِیْنَ
غزوۂ بدر نے ہمیں سکھایا کہ …اگر تمہیں شاندار فتح مل جائے
، مال غنیمت کے انبار مل جائیں تب اس مال کے جھگڑے اور مصروفیت میں گم نہ ہو جاؤ
… بلکہ ایمان اور جہاد پر لگے رہو، ڈٹے رہو…
غزوۂ اُحد نے ہمیں سکھایا کہ …اگر تمہیں ظاہری شکست پہنچے
اور تم غموں اور زخموں سے چور چور ہو جاؤ تب مایوسی اور کمزوری میں نہ ڈوب جاؤ
…بلکہ ایمان اور جہاد پر لگے رہو، ڈٹے رہو…
غزوۂ احزاب نے ہمیں سکھایا کہ…اگر ساری کفریہ طاقتیں …اور
منافقین متحد ہو کر تم پر اندر اور باہر سے حملہ آور ہو جائیں تو…خوف ، بزدلی اور
پستی میں نہ گرو… بلکہ ایمان اور جہاد پر لگے رہو ، ڈٹے رہو… غزوۂ حدیبیہ نے ہمیں
سکھایا کہ… جب تمہارے منصوبے اُلٹ جائیں اور حالات تمہاری سمجھ سے بالاتر ہو جائیں
تو… شک، تردداور بے یقینی میں نہ لڑھک جاؤ …بلکہ ایمان اور جہاد پر لگے رہو، ڈٹے
رہو… اور غزوۂ تبوک نے ہمیں سکھایا کہ …سفر جتنا لمبا ہو،منزل جتنی دور ہو،
نقصانات جتنے زیادہ ہوں… تھکاوٹ، اُکتاہٹ اور بے چینی میں نہ پھنسو، بلکہ … ایمان
اور جہاد پر لگے رہو، ڈٹے رہو…
یا اللہ! ہم سب کو ایمان اور جہاد پرا ستقامت عطاء فرما
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ
ہم تھکے نہیں
افغانستان کا جہاد…اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہے… یہ
جہاد جب سے شروع ہوا آگے ہی بڑھ رہا ہے… افغان مسلمانوں نے پہلے ’’برطانیہ‘‘ کو
شکست دی یوں وہ ’’غلامی ‘‘ سے محفوظ رہے… ’’غلامی‘‘ بڑی خطرناک چیز ہے… یہ انسانوں
کے عقائد، اخلاق اور مزاج تک کو بدل دیتی ہے… برصغیر پونے دو سو سال تک انگریز کی
غلامی میں رہا… آپ دیکھیں یہاں کیسے کیسے لوگ پیدا ہو گئے… غلامی پر فخر کرنے
والے… غلامی کو کامیابی سمجھنے والے…اور مسلمان کہلوا کر بھی اسلام کے دشمن… افغان
مسلمانوں کو ’’ برطانیہ ‘‘ غلام نہ بنا سکا… اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے بڑا کام
لینا تھا… اور بڑا کام وہی کرتے ہیں جو ذہنی غلامی سے آزاد ہوتے ہیں… سوویت یونین
نے افغانستان پر ڈورے ڈالے… ایک طبقہ کمیونزم کا ذہنی غلام بن گیا… دو پارٹیاں
وجود میں آ گئیں… ایک کا نام ’’خلق‘‘ تھا اور دوسری کا ’’پرچم ‘‘ … خلق اور پرچم
سے تعلق رکھنے والے ’’افغان ‘‘ ایمان، عزت اور
غیرت سے محروم ہوتے چلے گئے… یہ روس اور کریملن جاتے، وہاں تعلیم پاتے اور
واپس آکر افغانستان میں گندگی پھیلاتے … جب یہ دو پارٹیاں مضبوط ہو گئیں تو انہوں
نے … افغانستان میں کھلم کھلا ’’ کمیونزم ‘‘ کا پرچار شروع کر دیا… مگر افغان
’’آزاد‘‘ تھے… انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر جہاد شروع کیا… سوویت یونین اپنے
حلیفوں کی مدد کے لئے افغانستان میں کود پڑا اور یوں … افغان جہاد کا پہلا بڑا
مرحلہ شروع ہوا… لمبی داستان ہے…آج عرض یہ کرنا ہے کہ جب اس مرحلے کے جہاد نے
طاقت پکڑی اور مجاہدین کو پاکستان کی صورت میں ایک چھاؤنی مل گئی تو … اس وقت
افغان مجاہدین کی سات بڑی تنظیمیں بن گئیں… ان سات تنظیموں میں ’’حزب اسلامی‘‘
زیادہ نمایاں تھی… پھر حزب اسلامی بھی دو حصوں میں بٹ گئی… ایک حصے کی قیادت
گلبدین حکمت یار کے پاس تھی… جبکہ دوسرے کی کمان مولوی محمد یونس خالص صاحب رحمہ اللہ کے پاس تھی … مولانا یونس خالص نہایت با اصول ،
دیانتدار ، جری اور صاحب علم بزرگ تھے…زندگی کے آخری چالیس سال ایک گردے کے ساتھ
گزارے مگر … صحت اور مصروفیت قابل داد تھی … اسی جہادی مرحلے کے دوران ایک بار
لاہور تشریف لائے… بندہ اُن کے ساتھ تھا… اُردو سمجھ لیتے تھے مگر بول نہیں سکتے
تھے…ان کی عربی بہت عمدہ تھی… چنانچہ وہ عربی میں بات کرتے اور بندہ اردو میں ان
کی ترجمانی کرتا… ایک اہم ملاقات کے دوران انہوں نے بڑی عجیب بات فرمائی… کہنے
لگے… لوگ تاریخیں گن گن کر ہمیں تھکانے کی کوشش کرتے ہیں کہ… جہاد کو دس سال ہو
گئے،بیس سال ہو گئے…حالانکہ ہم تھکنے والے لوگ نہیں ہیں… ہم آج بھی اسی طرح پر
عزم اور پرجوش ہیں جس طرح جہاد کے آغاز میں تھے… بندہ اس وقت جہاد میں نیا نیا
آیا تھا… اس لئے مولانا خالص مرحوم کی یہ بات اچھی طرح نہ سمجھ سکا… بس سن لی،
یاد کر لی اور آگے ترجمہ کر دیا…مگر بعد میں معلوم ہوا کہ … تھکاوٹ کیا چیز ہوتی
ہے؟… کیسے کیسے عزیمت کے ستون …تھک ہار کر منہ کے بل جا گرے… کیسے کیسے نامور پہاڑ
تھک کر مٹی کا ڈھیر بن گئے … اور کیسے کیسے اونچے نام تھکاوٹ کا شکار ہو کر
’’بدنام ‘‘ ہو گئے… استاد سیاف… پہلے جھٹکے ہی میں امریکہ کے اتحادی بن گئے…
پروفیسر ربانی کتنا جلدی لڑھک گئے… پیر جی گیلانی کا تو اتا پتا ہی بدل گیا… اور
مجددی صاحب کتنے دور نکل گئے…اور اب سنا ہے کہ گلبدین نے بھی بڑھاپے میں اپنا پرچم
گرا دیا ہے…
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے… افغان قوم واقعی نہ تھکنے والی قوم
ہے… آج وہ افغان جہاد کا تیسرا مرحلہ لڑ رہی ہے… اس کے دشمن ایک ایک کر کے کمزور
ہو رہے ہیں…
مگر مولوی جلال الدین حقانی کا خاندان …افغان جہاد کے پہلے
مرحلے سے… آج تیسرے مرحلے تک اپنے درجنوں جنازے اُٹھا کر بھی… اطمینان سے میدان
میں ڈٹا ہوا ہے… اللہ تعالیٰ اہل کشمیر کو بھی جزائے خیر دے… کشمیری اگرچہ افغانوں
کی طرح ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کے نہیں ہیں… مگر انہیں بھی ماشاء اللہ پہاڑوں جیسی
استقامت نصیب ہے… اور فلسطینی تو ہزاروں سال سے… اپنی استقامت کی ایک الگ تاریخ
رکھتے ہیں… اسی لئے اُن کا جہاد بھی جاری ہے… جبکہ اسرائیل آگ اور پارلیمنٹ میں
گونجنے والی اذان کے شعلوں میں جھلس رہا ہے … ہاں !بے شک میدان چھوڑ کر بھاگنے
والے بھی بالٓاخر مر جاتے ہیں… اور اہل استقامت بھی بالآخر مر جاتے ہیں…مگر دونوں
کی موت میں کتنا فرق ہے… کتنا عظیم فرق… اے مسلمانو! کبھی اس فرق کو قرآن پاک میں
جھانک کر دیکھو… پھر رات کی تنہائیوں میں …آنسو بہا بہا کر…اللہ تعالیٰ سے ایمان
اور جہاد پر استقامت مانگو گے۔
استقامت کا بڑا نسخہ
قرآن مجید نے صاف سنا دیا ہے کہ… جو راستہ بدل کر بھاگ
جائے گا… وہ صرف اپنا ہی نقصان کرے گا… پچھلے اعمال غارت، ماضی کی ساری محنت تباہ
اور انجام بھی خراب… معلوم ہوا کہ… دین پر استقامت…ہماری اپنی ضرورت ہے… یہ
استقامت کیسے ملے گی؟ … قرآن مجید نے استقامت کے مضبوط اور مؤثر نسخے ارشاد فرما
دئیے ہیں… اور ساتھ ساتھ اہل استقامت کے عجیب عجیب واقعات بھی سنا دئیے ہیں… آپ
قرآن مجید میں صرف حضرت سیّدہ آسیہ رضی
اللہ عنہا کا قصہ پڑھ لیں… فرعون کی بیوی …ناز و نعمت میں پلی بڑھی ایک عورت… اس
کے پاس نہ حسن و جمال کی کوئی کمی تھی… اور نہ مال ودولت کی… زمانے کے ایک بڑے
بادشاہ اور حکمران کی…لاڈلی بیوی… اتنے زیادہ اختیارات کی مالک کہ…آج کی کوئی
عورت ان اختیارات کا خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتی… اس کے خاوند نے خدائی کا
جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا… اور وہ اس جعلی خدائی کی ملکہ تھی… مگر وہ اس ماحول میں
بھی… ایمان لے آئیں… تب آزمائشوں کا دور شروع ہوا… یہ آزمائشیں… فورتھ شیڈول سے
بہت زیادہ سخت تھیں… یہ آزمائشیں آج کل کی جیلوں اور عقوبت خانوں سے زیادہ
بھیانک تھیں…یہ آزمائشیں اُن بہانوں سے بہت زیادہ شدید تھیں جو آج کل… شیطان ہمیں
سُجھا کر جہاد سے بھگاتا ہے… ہماری آج کل کی مسلمان خواتین تو… صرف خاندان والوں
کی باتوں سے بچنے کے لئے معلوم نہیں کتنے گناہ،کتنی رسومات او رکتنی بدعات کر
گذرتی ہیں… مگر وہ جنت کی ملکہ سیدہ آسیہ اس وقت بھی ڈٹی رہی… جب خاندان والے اس
کے جسم میں کیلیں گاڑ رہے تھے اور بڑے بڑے ہتھوڑوں کی ضربوں سے …یہ کیلیں اس کے
ہاتھوں اور قدموں میں اُتار رہے تھے… ایک ظالم قصائی تیز چھری لے کر…اس کے سامنے
کھڑا تھا… اور پھر وہ ان کے جسم کی کھال اُتارنے لگا… یہ سب کچھ کہنا آسان ہے…
مگر حقیقت میں بے حد مشکل… مگر استقامت تو استقامت ہوتی ہے…یہ نصیب ہو جائے تو
انسان… آسمان و زمین سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو جاتا ہے… ہمارے آج کے
مسلمانوں کو… حضرت سیّدہ آسیہ رضی اللہ
عنہا کے حالات پر غیرت کھانی چاہیے کہ… ہم
کتنی چھوٹی چھوٹی آزمائشوں پر…ایمان سے بھاگ جاتے ہیں ، جہاد سے بھاگ جاتے ہیں…
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے ’’استقامت‘‘ کی دولت عطاء فرمائے… ’’کلمہ طیبہ‘‘
استقامت کا سب سے بڑا نسخہ ہے… یہ عجیب نکتہ ہے کہ…کلمے پر استقامت ، کلمے کے
ذریعے نصیب ہوتی ہے… کلمہ طیبہ… ’’قَوْل ثَابِت‘‘ ہے… یہ دلوں کو مضبوط کرنے اور
قدموں کو جمانے والا وظیفہ ہے… یہ کلمہ انسان کے دل کو…عرش سے جوڑتا ہے… اور عرش
کے فیض کو دل تک پہنچاتا ہے… الحمد للہ جماعت میں… جب سے ’’ کلمہ طیبہ‘‘ کی دعوت
اور مہم ایک خاص انداز سے جاری ہوئی ہے… ترقی اور استقامت کے عجیب عجیب حالات
سامنے آ رہے ہیں… الحمد للہ لاکھوں مسلمان اس دعوت کی برکت سے… کلمہ طیبہ کاکثرت
سے ورد کرنے والے بن گئے ہیں… وہ ایک دوسرے کو کلمہ طیبہ سناتے اور سمجھاتے
ہیں…اور کلمہ طیبہ کی برکت سے…دین کے ہر کام میں ترقی اور استقامت پاتے ہیں… کلمہ
طیبہ ہی سب سے بڑی نعمت… اور سب سے بنیادی اور ضروری نعمت ہے…کلمہ طیبہ کے بغیر
کوئی عمل قبول نہیں ہے… اور کلمہ طیبہ پر استقامت ہی ہر مسلمان کی سب سے بڑی فکر
ہونی چاہیے… کلمہ طیبہ پر یہ استقامت… کلمہ طیبہ کے ذریعے مل سکتی ہے… اس کلمہ کو
یقین سے پڑھیں… اس کو سمجھیں، اس میں غور کریں، اس کا کثرت سے وردکریں… اس کلمہ کو
محسوس کریں… اس کی قوت اور نور کو محسوس کریں…اس کلمہ کی دعوت دیں، اس کلمہ کو
مشرق و مغرب تک پہنچائیں… اس کلمہ کی بلندی کے لئے قتال کریں…اس کلمہ کے تقاضوں کو
پورا کریں… اور اس کلمہ سے ہمیشہ کی پکی یاری لگائیں۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔شمارہ :546
اصل بیانیہ
* حضرت
مولانا طلحہ السیف دامت برکاتہم العالیہ کی مایۂ ناز کتاب
’’جہاد کا بیانیہ‘‘ کا خوبصورت اور جامع تعارف
اور اسے پڑھنے
اور پھیلانے کی ترغیب…
مزید فوائد
١
جہاد مسلمانوںاور کافروں سب کے لیے باعث رحمت ہے…
٢
جہاد میں صرف انسانیت ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کا نفع پوشیدہ ہے…
٣ مسلسل
دعوت جہاد کی ضرورت واہمیت…
٤ دشمنانِ
جہاد کی دورنگی…
٥ دعوت
ایک’’عبادت‘‘ نہ کہ’’ٹھیکیداری‘‘…
٦ دعوت
کونسی مقبول اور مؤثر ہوتی ہے؟…
٧
جماعت کی دعوت جہاد اور اس کا اسلوب…
تاریخ اشاعت:
19 شعبان المعظم ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق 27 مئی 2016ء
اصل بیانیہ
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…چمنستان عشق میں ایک نیا پھول کھلا
ہے…جہادی کتب خانے میں ایک وقیع اضافہ ہوا ہے…دیوانوں کی دنیا میں ایک نئی بہار
پھوٹی ہے…شہداءِ کرام کا معطر خون قلم و قرطاس پر جگمگایا ہے… عزم و عزیمت کے ساغر
میں ایک نئی مستی اُبھری ہے… دلیل، حجت اور برہان کی ایک دلکش روشنی چمکی ہے… اردو
ادب میں ایک نیا نگینہ جڑا ہے… اور ہاں! حسن و عشق کے جام میں ایک نیا سرور اُٹھا
ہے… اہلِ ایمان کو مبارک! خود فریبی، دین فروشی اور ضمیر کُشی کے متعفن بیانیوں کے
درمیان… ایک معطر، اصلی اور حقیقی بیانیہ منظر عام پر آیا ہے…نام ہے ’’جہاد کا
بیانیہ ‘‘ … بے شک یہ حق کا سلام اور محبت کا پیام ہے؎
محبت کا بالآخر رقص بے تابانہ کام آیا
نگاہِ شرمگیں اُٹھی سلام آیا پیام آیا
ادب اے گردش دوراں! کہ پھر گردش میں جام آیا
سنبھل اے عہد تاریکی کہ وقتِ انتقام آیا
نہ جانے آج کس دُھن میں زباں پہ کس کا نام آیا
فضاء نے پھول برسائے، ستاروں کا سلام آیا
سبحان اللہ! کیسا
میٹھا نام ہے، جہاد فی سبیل اللہ…زبان کے ساتھ دل بھی پکار اُٹھتا ہے الجہاد،
الجہاد… غزوۂ بدر کا غبار اور غزوۂ اُحد کا خون … اس سے بڑھ کر حسن کا غازہ اور
کیا ہو سکتا ہے؟ … بے شک جہاد ایمان ہے… بے شک جہاد محکم فریضہ ہے…بے شک جہاد
خوشبودار سنت ہے… بے شک جہاد رحمت ہے…بے شک جہاد عشق ہے… بے شک جہاد روشنی ہے…بے
شک جہاد محبت بھی ہے اور محبوبیت بھی… بے شک جہاد مغفرت ہے… بے شک جہاد حسن ہے…بے
شک جہاد عزت ہے… بے شک جہاد زندگی ہے…بے شک جہاد عزیمت ہے… بے شک جہاد ترقی ہے…بے
شک جہاد نجات ہے… بے شک جہاد آزادی ہے… بے شک جہاد صحت، غنیمت اور وقار ہے… بس
اسی ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی دعوت اور ترجمانی کے لئے ایک نئی کتاب آ رہی ہے…
نام ہے ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘… اہل ایمان یقیناً اس سے خوشی اور دلیل پائیں گے … مگر
کئی لوگوں کو اس کتاب سے تکلیف بھی ہو گی… انہیں درد ہو گا کہ اُن کے باطل قلعے
ڈھیر ہو گئے … اور اُن کے بزعم خویش مضبوط براہین… خود اُن کے منہ پر طمانچے
برسانے لگے؎
جو اُٹھا ہے درد اُٹھا کرے
کوئی خاک اس سے گلہ کرے
جسے ضد ہو حسن کے ذکر سے
جسے چڑ ہو عشق کے نام سے
٭…٭…٭
جہاد کے خلاف ہر زمانے میں طرح طرح کے فتنے اُٹھتے رہے ہیں…
یہ فتنے ابتداء میں سمندر کی جھاگ کی طرح یوں پھیلتے ہیں کہ… حقیقت اُن کے تلے دب
جاتی ہے… مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جھاگ نے ختم ہونا ہے اور جو چیز لوگوں کو
نفع دیتی ہے اس نے باقی رہنا ہے…جہاد میں تو انسانیت کے لئے نفع ہی نفع ہے… جہاد
میں صرف مسلمانوں کا ہی نہیں کافروں کا بھی نفع ہے… ان میں سے کتنوں کو جہاد کی
بدولت ایمان نصیب ہوتا ہے… اور کتنوں کو اسلامی نظام کا عدل و انصاف میسر آ جاتا
ہے… جہاد میں صرف انسانوں کا ہی نہیں زمین کی تمام مخلوقات کا نفع ہے… اس لئے جہاد
نے باقی رہنا ہے، موجود رہنا ہے… اور اسے کوئی نہیں مٹا سکتا… جہاد کے خلاف اُٹھنے
والے فتنے جھاگ کی طرح فنا ہو جاتے ہیں…ہم نے جب ’’دعوت جہاد‘‘ کے میدان میں قدم
رکھا تھا تو اس وقت جہاد کے خلاف بعض بڑے اعتراضات ہر زبان پر تھے…مگر الحمد للہ
جہادی دعوت کے دو دو جملوں نے ان طوفانوں کو بے آبرو کر دیا… حتیٰ کہ آج ان
اعتراضات کو کوئی اپنی زبان پر نہیں لاتا… مگر چونکہ شیطان اپنے کام سے نہیں
تھکتا… اور نفاق ہر زمانے میں کروٹ بدل کر نئی شکل میں اُٹھتا ہے…اس لئے جہاد پر
اعتراضات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے… ایک اعتراض کو توڑا جاتا ہے تو اس کی جگہ نیا
اعتراض پیش کر دیا جاتا ہے… اس لئے ’’دعوتِ جہاد‘‘ کی ضرورت مسلسل رہتی ہے… اور یہ
بڑی مہارت کا کام ہے… کیونکہ جہاد کے دشمن بہت ہٹ دھرم ہیں…ان کو جہاد کے خلاف جب
کوئی دلیل ملتی ہے تو وہاں ان کے نزدیک جہاد کا ایک ہی معنٰی متعین ہوتا ہے… یعنی
قتال فی سبیل اللہ… اسی طرح جب انہوں نے جہاد یا مجاہدین کو گالی دینی ہو تو وہاں
بھی ان کے نزدیک جہاد کا معنٰی صرف قتال ہوتا ہے… اسی طرح جب انہوں نے جہاد پر
پابندی لگانی ہو… یا مجاہدین کو پکڑنا ، مارنا یا ستانا ہو تو وہاں بھی ان کے
نزدیک جہاد کے ایک ہی معنٰی متعین ہوتے ہیں… یعنی قتال فی سبیل اللہ …لیکن جب
انہوں نے جہاد کے بارے میں شبہات ڈالنے ہوں… یا مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہوتو وہاں
اُن کے نزدیک جہاد کے ہزاروں مطلب منہ کھول کر سامنے آ جاتے ہیں… اور وہ ہر عمل
کو جہاد قرار دے کر جہاد کے فضائل چوری کرتے ہیں… گالیاں، گولیاں ، جیلیں ،
پھانسیاں ، میزائل اور پابندیاں… چھوٹے جہاد کے لئے اور ہر طرح کا اِکرام بڑے جہاد
کے لئے؟… پھر چونکہ نام کے ان مسلمانوں نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ وہ کبھی جہاد پر
نہیں نکلیں گے… اس لئے وہ ہر وقت جہاد کے خلاف شبہات گھڑتے اور ڈھونڈتے رہتے
ہیں…ایسے حالات میں جہاد پر مسلسل بیانات، مسلسل مضامین اور مسلسل کتابوں کی ضرورت
ہے تاکہ ہر زمانے کے جہاد مخالف فتنوں کو توڑا جا سکے … عزیز مکرم حضرت مولانا
طلحہ السیف کی حالیہ تصنیف ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘ اس سلسلے میں ایک اہم اور قیمتی
پیش رفت ہے
٭…٭…٭
جہاد اللہ تعالیٰ کا حکم ہے… اور ’’دعوت جہاد‘‘ اللہ تعالیٰ
کی طرف سے عطاء ہونے والی ایک انمول نعمت ہے… جہاد انسانی فطرت کا اہم ترین تقاضا
ہے… اس لئے جس میں جتنی انسانیت ہوتی ہے وہ اسی قدر جہاد کو سمجھتا ہے…جہاد اسلامی
فطرت کا اہم ترین سبق ہے…پس جس کا اسلام سلامت ہو وہ جہاد فی سبیل اللہ کو آسانی
سے سمجھ لیتا ہے… دل میں جب ایمان آتا ہے تو ساتھ جہاد بھی آتا ہے … اور دل میں
جب غیرت ایمانی جوش مارتی ہے تو وہ مسلمان کو ’’مجاہد ‘‘ بنا دیتی ہے… دعوت جہاد
بھی جہاد کا ایک بلند مقام ہے… اور یہ مقام قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے… طلحہ
السیف کی خوش نصیبی کہ اسے بچپن کی عمر سے جہاد فی سبیل اللہ کے عملی میدان ہاتھ
آ گئے… خون ریز معرکے ، خون جلاتے محاصرے اور خونی بارڈر…بار بار موت کا سامنا…
اور خطرات سے آنکھ مچولی…
جہاد کا میدان دراصل …حسن و عشق کا بازار ہے… جو ان محاذوں
کی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے… اسے باہر کی دنیا ’’وحشت کدہ‘‘ لگتی ہے … محاذ جنگ
میں عجیب سرشاری اور بے فکری ہوتی ہے… جبکہ ’’دعوت جہاد‘‘ کا کام بہرحال ان لذتوں
سے خالی ہے… طلحہ کی شاید خواہش تھی کہ وہ محاذوں کی لذتوں میں کھویا رہے… مگرا س
کے بڑے چاہتے تھے کہ وہ عشق کی الجھنوں بھری ایک اور منزل پر بھی قدم رکھے… یہ
منزل ہے ایک عملی مجاہد کا جہاد پر قائم رہتے ہوئے ’’داعیٔ جہاد ‘‘ بننا؎
عشق فنا کا نام ہے ، عشق میں زندگی نہ دیکھ
جلوۂ آفتاب بن ذرہ میں روشنی نہ دیکھ
شوق کو رہنما بنا ہو چکا جو کبھی نہ دیکھ
آگ دبی ہوئی نکال آگ بجھی ہوئی نہ دیکھ
موت و حیات میں ہے صرف ایک قدم کا فاصلہ
اپنے کو زندگی بنا ، جلوۂ زندگی نہ دیکھ
طلحہ السیف کو دعوت جہاد کی طرف کھینچنے کا مقصد… اس کی جان
بچانا نہیں تھا… جان تو ایمان اور جہاد میں ہے… اور نہ ہی یہ مقصد تھا کہ وہ خطیب
و مصنف کہلائے…خطیب اور مصنف بہت ہیں… اُمت کو باعمل کرداروں کی ضرورت ہے… بس مقصد
یہ تھا کہ وہ جہاد کا بھی حق ادا کرے اور دعوت جہاد کا بھی… تاکہ ’’قَاتِلْ ‘‘ اور
’’حَرِّضْ‘‘ کا نصاب مکمل ہو… جہاد کی چاشنی اور بے فکری میں کھوئے ہوئے … جہاد کے
عشق میں مدہوش ایک دیوانے کو پکڑ کر منبر پر کھڑا کرنا… اور اس کے ہاتھ میں قلم
پکڑانا آسان کام نہیں تھا… مگر حضرت اباجی رحمہ اللہ موجود تھے… ایک قابل رشک متوکل علی اللہ فقیر…
اور صاحب فراست ہستی…وہ کہتے نہیں تھے مگر منوا لیتے تھے…وہ بعض ایسے رازوں کو
سمجھتے تھے جن کو بڑے بڑے لوگ نہیں پا سکتے… ان کی خاموش اعانت نے ایسی قوت دی کہ
طلحہ کو سمجھانا آسان ہو گیااور یوں اُمتِ مسلمہ کو ایک باعمل داعی مل گیا…
آج جب طلحہ السیف کی کتاب ’’جہاد کا بیانیہ‘‘ شائع ہونے جا
رہی ہے تو خیالات میں حضرت ابا جی رحمہ اللہ بار بار تشریف لاتے ہیں… شکر سے آبدیدہ دلکش
مسکراہٹ کے ساتھ…اپنے نئے ’’صدقہ جاریہ‘‘ کی خوشی میں سرشار… جیسے فرماتے ہوں… اے
میرے بیٹو! میں نہ تمہیں کارخانے دے گیا نہ آف شور کمپنیاں…کارخانے اور کمپنیاں
مٹ جاتی ہیں …مگر دین کے پھول…اور قرآن کے موتی سدا بہار ہیں… سدا بہار…بہت شکریہ
پیارے ابا جی! بہت پیارے، بہت محسن ابا جی…
٭…٭…٭
دعوت وہی مقبول ہوتی ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہو … قرآن
مجید ہمیں دو باتیں تاکید سے سکھاتا ہے …
١
توازن… ٢ حدود کی پاسداری …
شریعت کا کوئی حکم اس طرح بیان کرنا کہ اس سے شریعت کے دیگر
احکامات کی تنقیص یا توہین ہو… یہ ہرگز جائز نہیں…کسی چیز کی دعوت اس طرح سے دینا
کہ اس میں مبالغہ کر کے…اس کی شریعت میں مقرر کردہ ’’قدر‘‘ کو بڑھا دیا جائے یہ
بھی درست نہیں… اسی طرح کسی ایک حکم کے احکامات اور فضائل دوسرے احکامات کے ساتھ
جوڑنا بھی دین کی کوئی خدمت نہیں…دعوت خود ایک عبادت ہے نہ کہ ٹھیکیداری…اور عبادت
وہی قبول ہوتی ہے جو شریعت کی حدود میں قید ہو…جہاد کی دعوت خصوصاً اس زمانے میں
بہت محنت اور احتیاط مانگتی ہے… ہم نے کئی افراد کو دیکھا کہ دعوت جہاد کے لئے
اُٹھے مگر شدید جارحانہ فتوے بازی میں مبتلا ہو گئے…انہوں نے سب سے پہلے ’’فرض عین
‘‘ کا مسئلہ اُٹھایا اور ہر طرف تفسیق کے تیر برسا دئیے کہ … فلاں بھی فاسق، فلاں
بھی فاجر… ایسے افراد کی دعوت نہ چل سکی بلکہ اکثر کو دیکھا کہ وہ خود بھی جہاد
میں نہ چل سکے…اور اپنے فتووں کا مصداق بن گئے… بعض افراد نے جہاد کی دعوت اس
انداز میں شروع کی کہ… دین کے باقی کاموں کا نعوذ باللہ مذاق اُڑانے لگے… اور جہاد
کو ہی ہر عمل کی اصل غایت قرار دینے لگے… یہ لوگ بھی آگے جا کر پھنس گئے…کیونکہ
وہ صریح غلطی پر تھے… اسی طرح بعض لوگوں نے جہاد کو محض ایک جذباتی اور انتقامی
عمل کے طور پر پیش کیا اور کچھ عرصہ خوب دھوم اُڑائی… مگر پھر آگے نہ چل سکے…
جہاد دراصل ایک ایسی عبادت ہے… جو سب سے پہلے خود جہاد کے داعی سے عمل اور قربانی
مانگتی ہے … جہاد میں حفاظت کا پہلو غالب ہے کہ… جہاد پورے دین اور سب مسلمانوں کا
محافظ عمل ہے… اس لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ… جہاد کا نام لے کر دین کے باقی کاموں
کی نفی کی جائے…
بہرحال ان مشکل حالات میں دعوتِ جہاد کے لئے ایک ایسے اسلوب
کی ضرورت تھی… جس میں توازن بھی ہو اور حدود کی پاسداری بھی… جس میں علم بھی ہو
اور دلیل بھی… جس میں درد بھی ہو اور شفقت بھی …جس میں جذبات بھی ہوں اور براہین
بھی… اور جس میں تاکید بھی ہو اور وسعت بھی… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری جماعت
کو ’’دعوت جہاد‘‘ کا یہ قرآنی اسلوب نصیب ہوا… اور وحشت و جارحیت کی بجائے اُلفت،
محبت اور افہام و تفہیم کے ماحول میں جہاد کی بات سنی اور سنائی جانے لگی… ہم نے
لوگوں کے ان سوالات کو نظر انداز کیا جن کا مقصد صرف فتنہ ہوتا ہے… ہم نے مناظرہ
کے انداز کو چھوڑ کر درد، فکر اور کڑھن کے اسلوب میں دعوت جہاد رکھی… ہم نے خود کو
نہ جہاد کا ٹھیکیدار سمجھا اور نہ قرار دیا…بلکہ مجاہدین کی اصلاح کی بھی بات کی…
اور مسلمانوں کے ایمان کو بچانے کی بھی فکر کی… ہم نے جہاد کو اپنا مشن اور مقصد ضرور
بنایا مگر اسے اپنی ایسی ’’ضد‘‘ نہیں بنایا کہ… دین کے دیگر کاموں کی عظمت پر کوئی
آنچ آئے…جماعت میں…دعوت جہاد کو ایمان اور نماز کے ساتھ جوڑ دیا گیا…دعوتِ جہاد
کے ساتھ مسواک تک کی دعوت شامل کی…اور جہاد کے بارے میں بس اتنا ہی کہناکافی سمجھا
جتنا…قرآن و سنت اور اَسلاف نے فرمایا ہے… توازن، اعتدال اور حدود کی پاسداری کی
بدولت… الحمد للہ یہ دعوت مقبول ہوئی…اور دنیا بھر میں پھیلی…اس میں تقریر بھی
شامل رہی … اور تحریر بھی…اور پھر تفسیر آیات الجہاد نے…ہر کمی کوتاہی کا الحمد
للہ مکمل اِزالہ کر دیا… آج الحمد للہ جماعت کے پاس مفسرین، خطباء اور مصنفین اہل
علم کی ایک خاطر خواہ تعداد موجود ہے… یہ حضرات جہاد کو شعوری طور پر سمجھتے بھی
ہیں…اور سمجھا بھی سکتے ہیں…مولانا طلحہ السیف جماعت کے اس ’’دعوتی لشکر‘‘ کی ایک
جامع شخصیت ہیں…انہوں نے ’’فہمِ جہاد‘‘ اور ’’تفہیمِ جہاد‘‘ کو موضوع بنا کر چند
مضامین… ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘کے نام سے لکھے…یہ مضامین الحمد للہ مقبول ہوئے اور
اُمت کی بہترین رہنمائی کا ذریعہ بنے …ایسے اہم اور سنجیدہ موضوع پر…ایسی دلکش اور
پُرکشش تحریر… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور جہاد کی کرامت ہے…آج ساری دنیا کے غامدی
مل کر بھی …جہاد کے خلاف ایسی ایک تحریر نہیں لکھ سکتے …تقاضہ بھی تھا اور ضرورت
بھی کہ… ان مضامین کو یکجا شائع کیا جائے…الحمد للہ اب یہ کتاب تیار ہے…اہل ایمان
سے گذارش ہے کہ …جدل کی نیت سے نہیں عمل کی نیت سے پڑھیں…اور اسے زیادہ سے زیادہ
افراد تک پہنچائیں…
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ
الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور۔ شمارہ: 547
بہترین جانشین
*
امیر المؤمنین حضرت ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کی شہادت، اور ان کو خراج تحسین…
*
ان کے کارنامے، حالات وواقعات اور خوبیاں…
*
ان کی ایک مثالی خوبی اور فضیلت، جو امت مسلمہ کے لئے’’مشعل راہ‘‘ ہے…
*
ملا اختر محمد عثمانی شہید اور ملا اختر محمد منصور شہید رحمہما اللہ کا آپسی
تعلق اور یارانہ…
*
ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ سے ایک ملاقات کے احوال…
*
ملا اختر محمد منصور شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے عوامل اور پس پردہ سازشیں…
*
بہترین جانشینی’’ نسبت صدیقی‘‘ کا ایک اہم رنگ…
*
’’بہترین جانشینی‘‘ کے خدوخال اور ضرورت واہمیت…
حضرت امیر المؤمنین ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کی صفات وحالات اور
کارناموں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ۔
تاریخ اشاعت:
۲۶شعبان المعظم ۱۴۳۷ھ؍
بمطابق 3 جون 2016ء
بہترین جانشین
اللہ تعالیٰ شہادت، مغفرت اور اِکرام کا اعلیٰ مقام عطاء
فرمائے…امیر المومنین ملا اختر محمد منصور بھی شہید ہو گئے… اِنَّا لِلهِ
وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ …
اِنَّ لِلہِ مَا اَعْطٰی وَلَہٗ مَا اَخَذَ وَکُلُّ شَیْ ئٍ
عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی…اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ وَلَا
تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اْجُرْنَا فِیْ مُصِیْبَتِنَا وَاخْلُفْ لَنَا
خَیْرًا مِّنْھَا۔
منتخب اور برگزیدہ
سولہ لاکھ شہدائِ کرام کے خون کی برکت سے مسلمانوں کو…اس
زمانے میں ایک ’’امیر برحق ‘‘ ملا…نام تھا حضرت مُلّا محمد عمر مجاہد…تو اللہ
تعالیٰ کے فضل سے اُمت مسلمہ کے منتخب اور برگزیدہ بندے اُس ’’امیر ‘‘ کے گرد جمع
ہونا شروع ہو گئے؎
تمام رعنائیوں کے مظہر
تمام رنگینیوں کے منظر
سنبھل سنبھل کر سمٹ سمٹ کر
سب ایک مرکز پہ آ رہے ہیں
ایک منظم تحریک اور ایک مثالی حکومت کے لئے جس طرح کے کام
کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے…وہ الحمد للہ حضرت امیر المومنین کو میسر آ گئے … اور
یوں صدیوں بعد زمین نے اسلامی خلافت اور دینی حکومت کے حسین مناظر دیکھے…چند سال
ہی سہی مگر موجودہ دور میں ایسی حکومت کا چند دن قائم رہنا بھی بڑا کارنامہ… اور
بڑی تبدیلی ہے…وہ چیز جو تصور میں بھی نا ممکن سمجھی جا رہی تھی… وہ عملی طور پر
وجود میں آ گئی…اور اس بات کا واضح اعلان کر گئی کہ…موجودہ عالمی ایٹمی نظام
ہمیشہ کے لئے نہیں ہے…بلکہ اس نے جلد ختم ہونا ہے… حضرت امیر المومنین کو اس مبارک
کام کے لئے … کام کے جو اَفراد ملے اُن میں ایک نمایاں نام…ملا اختر محمد منصور کا
ہے۔
دو ’’اختروں‘‘ کی جوڑی
ملا اختر محمد منصور…حضرت امیر المومنین مُلّا محمد عمر
مجاہد کے مامور بھی تھے اور یار بھی…وزیر بھی تھے اور دوست بھی…عاشق بھی تھے اور
وفادار بھی… یہ دراصل دو ’’اختروں‘‘ کی ایک مثالی جوڑی تھی… ایک تھے مُلّااختر
محمد عثمانی اور دوسرے تھے مُلّااختر محمد منصور… حصہ، جثہ اور مجموعی شباہت میں
یہ دونوں ’’اختر محمد ‘‘ آپس میں سگے بھائی لگتے تھے… عثمانی بڑے اور منصور
چھوٹے… دونوں میں حد درجہ محبت اور دوستی تھی… اور آپس میں اتحاد ، بے تکلفی اور
مزاح کا رشتہ تھا… ملاقات میں تاخیر ہو جاتی تو مخابرے(وائرلیس) پر باتیں کرتے…اور
دونوں کی باتوں کے درمیان ہنسی مذاق کی شبنم پھوٹتی رہتی …یہ دونوں مل کر اُلفت کے
ماحول میں امارت اسلامی کی خدمت کرتے …دونوں کے شعبے اور عہدے الگ الگ تھے…مگر اُن
کی باہمی محبت اور دوستی دونوں کے شعبوں اور محکموں کو بھی ایک کر دیتی تھی …یہ
دونوں ’’اختر‘‘ امارت اسلامی افغانستان کے کئی اہم ستونوں میں سے دو تھے…مضبوط،
خوش مزاج، پاک دل اور کار آمد جوڑی…
مُلّا اختر محمد عثمانی…حضرت امیر المومنین کے
ممکنہ جانشینوں میں سمجھے جاتے تھے…مگر مُلّا اختر محمد منصور کے ’’امیر المومنین
‘‘ بننے کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا… وہ کام کرنے اور کام نکالنے والے کارکن مزاج…
اور کھلی ڈلی طبیعت کے آدمی تھے … ان دونوں ’’اختروں ‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے شہادت
عطاء فرمائی… اور اتفاق یہ کہ دونوں کو ایک جیسی شہادت ملی… مُلّااختر محمد عثمانی
کی گاڑی کو ’’ہلمند‘‘ میں نشانہ بنایا گیا… جبکہ مُلّااختر محمد منصور کو پاک
افغان سرحد پر گاڑی میں شہید کیا گیاتھا…دونوں پر حملہ… صلیبی افواج کی فضائی طاقت
سے ہوا… اور یوں وہ حدیث شریف کے مطابق عام شہداء سے دہرے اجر کے مستحق بنے…ماشاء
اللہ! کیا پیاری جوڑی تھی…اور ماشاء اللہ کتنا اچھا انجام پایا…اللہ تعالیٰ اس
مثالی جوڑی کو اپنے پیارے قُرب میں جمع فرمائے…(آمین )
ایک ملاقات کا حال
ایک بار مُلّا اختر محمد منصور سے قندھار ائیر پورٹ پر
ملاقات ہوئی…یہ ہوائی اڈہ اُن کی ’’وزارت‘‘ کے ماتحت تھا… کراچی کے حضرات اَکابر
کا وفد تھا… طالبان نے اَکابر کے اعزاز میں خصوصی طیارہ دیا جو انہیں کابل سے
قندھار لایا… قندھار میں اس قافلے کا استقبال مُلّا اختر محمد منصور نے کیا…وہ
مہمانوں کو وی آئی پی لاؤنج لے گئے …یہ بڑا لاؤنج عربی طرز کے فرنیچر اور صوفوں
سے مزین تھا… اور اس کے آس پاس قطر و امارات کے کچھ افراد منڈلا رہے تھے… مُلّا
اختر محمد منصور اگرچہ بے تکلف طبیعت کے آدمی تھے مگر…با وجاہت اور بارُعب… اُن
کو دیکھ کر کئی افراد دائیں بائیں دبکنے لگے… مُلّا صاحب نے مجھے اپنی دائیں طرف
ایک صوفے پر بٹھایا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگے… فرمایا! اسی صوفے پر (بھارتی
وزیر خارجہ) جسونت سنگھ کو بٹھایا تھا…جس دن وہ آپ کو انڈیا سے قندھار چھوڑنے
آیا تھا… پھر وہ مزے لے لے کر اس دن کی داستان سناتے رہے … فرمایا: جسونت سنگھ نے
مجھے کہا…ہمارے قیدی ابھی تک افغانستان میں ہوں گے…آپ انہیں پکڑ کر ہمارے حوالے
کر دیں…ہم آپ کی حکومت کو مالا مال کر دیں گے…تب میں نے اسے کہا…آپ خود خیریت سے
واپس چلے جائیں یہ بھی بڑی بات ہے… جسونت سنگھ نے جب یہ سنا تو اس کے ہاتھوں اور
ٹانگوں میں کپکپی طاری ہو گئی… مُلّا صاحب نے اس کے ہاتھوں اور گھٹنے کی کپکپی
عملی طور پر دکھائی اور قہقہوں میں ڈوب گئے … بتایا کہ جسونت سنگھ کو چائے پلائی
تھی مگر کپ اس کے ہاتھ میں لرز رہا تھا… پھر اچانک امارت اسلامیہ کا یہ بارُعب
وزیر… طالبعلم بن گیا اور اپنی تعلیم کا حال سنانے لگا… فرمایا: میں نے چھوٹا دورہ
(یعنی مشکوٰۃ شریف تک کا نصاب) تو پورا کر لیا ہے مگر ابھی تک بڑا دورہ ( یعنی
دورہ حدیث) نہیں کر سکا… بہت شوق ہے کہ کسی طرح وہ کر لوں… یہ طالبان کی عجیب صفت
تھی… وہ جو کچھ بھی بن جاتے مگر اُن کی اصل صفت یعنی ’’طالبعلم‘‘ ہونا یہ کبھی
ماند نہیں پڑتی تھی… اُن کے ہاں اصل منصب اور اصل فخر قرآن و سنت کے علوم کا طالب
ہونا ہی تھا…اُن کے کئی بڑے کمانڈروں اور وزراء کو دیکھا کہ وہ دوران گفتگو اچانک
اپنی کمانڈری اور وزارت سے اُتر کر …فوراً ’’طالب‘‘ بن جاتے تھے… اس دن مُلّا اختر
محمد منصور بھی… ملاقات کے آخر میں ایک معصوم طبیعت طالبعلم ہی لگ رہے تھے… نہ کہ
ہوا بازی کے وزیر۔
مسلمانوں کی باری
مُلّا اختر محمد منصور …اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے
امیر تھے…امیر المؤمنین پر ہونے والا یہ حملہ امت مسلمہ کے سینے پر وار ہے…اہل
ایمان یقیناً اس حملے کو معمولی نہیں سمجھیں گے…یہ حملہ کفار و منافقین کے ایک
مثلث، مربع یا مخمس اتحاد نے کیا ہے…اس حملے کے تمام مجرم ان شاء اللہ ضرور بے
نقاب ہو جائیں گے…وہ ایران میں ہوں یا افغانستان و پاکستان میں …
پاکستان کی موجودہ نواز شریف حکومت… دین بیزاری اور جہاد
دشمنی میں پرویز مشرف اور زرداری سے کئی قدم آگے ہے…یہ حکومت پاکستان کے محسنین
کو پاکستان کا دشمن بنانے کی کوشش میں مسلسل مصروف ہے… ایرانی حکومت مسلمانوں اور
طالبان کی سخت دشمن ہے… وہ طویل عرصہ سے تاک میں تھی کہ…طالبان سے حزب و حدت اور
حرکت اسلامی کی شکست کا بدلہ لے… ایرانی حکومت کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ
یاری بھی اب خفیہ نہیں رہی… امریکہ افغانستان میں اپنی ۲۰۱۴ء کی عبرتناک شکست سے تلملایا ہوا ہے اور وہ بہت عرصہ سے ایسی کسی کارروائی
کی کوشش میں تھا…جو اس کی ہزیمت کے داغ کو کچھ چھپا سکے…اور یوں مارکیٹ میں اس کی
عزت بچی رہے… اسی طرح کئی اور نفاقی عناصر بھی… طالبان کو کوئی بڑا جھٹکا دینے کی
فکر میں تھے… آپ اندازہ لگائیں کہ…پندرہ سال کی طویل جنگ …ایک طرف دنیا کے چالیس
سے زائد طاقتور ممالک اور دوسری طرف اکیلے طالبان… مگر ان پندرہ سالوں میں ایک دن
بھی… طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی… حضرت
امیرالمومنین مُلّامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ …تیرہ سال تک اس جنگ کی کمان کرتے رہے
اور دشمن ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا…ایسے حالات میں دشمنوں کی شدید خواہش تھی
کہ وہ کم از کم ایک بڑی کامیابی تو اپنے نام کر سکیں… چنانچہ انہوں نے مل جل کر یہ
کارروائی تیار کی مگر ان کی یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کیونکہ’’ امارت
اسلامی‘‘ نے فوری طور پر نہایت اطمینان اور اتفاق سے نئے امیر کا تقرر کر دیا…
بہرحال مُلّامنصور کو شہید کر کے…تمام دشمنوں نے اپنے دل کی
بھڑاس نکالنے کی کوشش کی ہے… وہ اپنا حملہ کر چکے… اب مسلمانوں کی باری ہے… اُمید
ہے کہ دنیا بہت جلد عجیب مناظر دیکھے گی ان شاء اللہ…
بہترین جانشین
مُلّااختر محمد منصور شہید رحمہ اللہ کے تمام کارنامے اور فضائل اپنی جگہ… مگر اُن کا
ایک کارنامہ، اُن کی ایک فضیلت بہت بھاری ہے… اس میں وہ بڑے بڑے لوگوں کو پیچھے
چھوڑ گئے…اور خود ایک مثال بن گئے… یہ درست کہ وہ مجاہد تھے…اور مجاہد بھی خالص…
یہ سچ ہے کہ وہ تحریک اسلامی طالبان کے بنیادی لوگوں میں سے تھے…یہ بھی حقیقت کہ
وہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے … یہ بھی مسلّم کہ وہ حضرت امیر المومنین
کے وفادار ترین رفقاء میں سے تھے…مگر ان کی سب سے بڑی خصوصیت اور بڑا کارنامہ یہ
ہے کہ…وہ زمانے کے ایک بڑے آدمی کے… بہترین اور برحق جانشین ثابت ہوئے… بہترین
جانشین ہونا…آسان کام نہیں ہے … اہل ایمان میں سے یہ سعادت اُن خوش بختوں کو حاصل
ہوتی ہے… جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
سے خصوصی نسبت رکھتے ہیں… اور اس نسبت صدیقی سے مکمل طور پر فیض یاب ہوتے ہیں…
نسبت صدیقی… ایک بڑی مقبول اور وسیع ’’نسبت ‘‘ ہے… اس نسبت
کے کئی رنگ ہیں… ان میں سب سے اہم رنگ کسی بڑے کا بہترین جانشین ہونا ہے… ایسا
جانشین جو اپنے بڑے یعنی پیش رو کے کام کو سنبھالے… اُسی کے قدم بقدم چلے…اُسی کی
طرز کو مضبوط پکڑے… اُسی کی بنیادوں کو قائم رکھے… اُسی کے کام کو مضبوط کرے… نہ
کام کا رنگ پھیکا پڑنے دے اور نہ کام کا رنگ تبدیل ہونے دے… وہ خود کو بس اپنے پیش
رو کے کام کا چوکیدار سمجھے…اور اپنی ذات کو اسی کام کی خدمت کے لئے وقف کر دے… یہ
سب کچھ لکھنا آسان…مگر کرنا بہت مشکل ہے … ہر آدمی کا اپنا ذہن ہوتا ہے اور اپنا
مزاج… اپنا حلقہ ہوتا ہے اور اپنی کمزوریاں… اسی لئے اکثر جانشین اپنے پیش رو کی
مسند اُلٹ دیتے ہیں… اس کے کام کا رنگ اُجاڑ دیتے ہیں… اور اُس کے نظریات کو بھی
اُس کے ساتھ دفن کر کے اپنے اختیارات کے مزے لوٹنے میں لگ جاتے ہیں … وہ وفا کی
جگہ عقل استعمال کرتے ہیں اتباع کی جگہ اجتہاد سے کام لیتے ہیں…اورجانشینی کو
جانشینی نہیں اپنا مستقل کمال سمجھتے ہیں…یہ ایک بہت لمبی اور مفصل داستان ہے…اس
اُمت میں ’’جانشینی‘‘ کا یہ سلسلہ حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے شروع ہوا…اور تاقیامت جاری رہے
گا…ہر جانے والے کے پیچھے دوسرے نے آنا ہے… یہ سلسلہ اس وقت تک عمومی رہتا ہے… جب
تک امت میں کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں ہوتی… لیکن جب کوئی بڑی شخصیت آ جائے اور وہ
اُمت کے لئے کوئی مفید کام شروع کرے تو… اب جانشینی کا معاملہ بہت اہم ہو جاتا ہے…
ماضی میں کئی بڑے کام ، کئی بڑی تحریکیں… اور کئی بڑے ادارے … اچھے جانشین نہ ملنے
کی وجہ سے اُلٹ گئے…یہ معاملہ امت مسلمہ کی قسمت سے بھی تعلق رکھتا ہے … خیر اس
مفصل داستان میں اترنے کا تو اس وقت موقع نہیں …تحریک طالبان یا امارت اسلامی
افغانستان…اُمت مسلمہ کے لئے ایک نعمت عظمیٰ ہے… اور اس تحریک کے بانی حضرت
مُلّامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ اس اُمت
کے محسن اور ایک عظیم شخصیت تھے … ایسے بھر پور اور منفرد شخص کی جانشینی بڑا مشکل
اور خطرناک کام تھا… یعنی اگر اچھا جانشین بننا چاہو تو یہ بہت مشکل… اور اگر اُس
کے راستے سے ہٹ جانے والا جانشین بنو تو یہ بہت خطرناک…کیونکہ یہ امت مسلمہ کے
ساتھ خیانت ہے… ہر وہ شخص جس نے مُلّااختر محمد منصور کو قریب سے دیکھا ہے … وہ
سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ… ایسی کھلی ڈلی طبیعت کا مالک یہ بے پرواہ سا شخص… اتنی
بڑی امانت اور جانشینی کو اتنے احسن طریقے سے سنبھال لے گا… مگر مُلّامنصور شہید
رحمہ اللہ نے یہ کارنامہ کر دکھایا … اور
یہ ان کے دل میں اُترے ہوئے ایمان کی قوت تھی کہ انہوںنے … مُلّامحمد عمر مجاہد
رحمہ اللہ کے کام کو نہ پھیکا پڑنے دیا…
اور نہ اس کام کے رخ میں کوئی تبدیلی لائی… اور نہ دشمنوں کو مُلّامحمد عمر رحمہ
اللہ کے جانے کی خوشی منانے دی… مُلّااختر
محمد منصور رحمہ اللہ ایک انچ بھی
مُلّامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے راستے
سے نہ ہٹے… بلکہ اُسی راستے پر چلتے ہوئے کام کو مزید بلندی اور وسعت پر لے
گئے…مُلّااختر محمد منصور شہید رحمہ اللہ کا
یہ وہ کارنامہ اور عمل ہے…جو ان شاء اللہ خود ان کے بھی بہت کام آئے گا اور اُمت
مسلمہ کے لئے بھی ایک بہترین مثال بنا رہے گا…لیکن اگر وہ ’’امارت‘‘ کے مزے لوٹنے
میں لگ جاتے… اپنی مستقل شناخت بنانے کے دھوکے میں پڑ جاتے …یا اپنی دنیا کو سرسبز
اور پُر امن بنانے کے فریب میں مبتلا ہو جاتے تو…مسلمانوں کی یہ عظیم تحریک برباد
ہو جاتی… اور مُلّامنصور تب بھی اتنی ہی زندگی پاتے جتنی اب انہوں نے پائی ہے… مگر
اس وقت وہ اپنے ساتھ کیا لے کر جاتے؟… اسلام اور مسلمانوں کی لاج رکھنے ، اتنی بڑی
اسلامی تحریک کو سنبھالنے…اور حضرت امیر المومنین رحمہ اللہ کی بہترین جانشینی کا حق ادا کرنے پر…مُلّااختر
محمد منصور شہید کو سلام… اللہ تعالیٰ اُن کو امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا
فرمائے… آمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔شمارہ: 548
اصل خوشیاں
* اصل
اور پائیدار خوشیاں آخرت کی ہیں…
دنیا کی خوشیاں اور راحتیں بس عارضی اور وقتی
ہیں…
اس لیے سمجھدار لوگ ہمیشہ آخرت کی خوشیاں سمیٹنے کی فکر
میں لگے رہتے ہیں…
ایسے ہی لوگوں کی مدد واعانت کے لئے سال میں ایک بار
’’رمضان المبارک‘‘
تشریف لاتا ہے … اور اہل ایمان کے اعمال کو وزنی کرکے ان کی
پرواز اونچی
کردیتا ہے… تب وہ ایک مہینے میں سالوں کی عبادت کا اجر
اور آخرت کی خوشیوں کا ڈھیر کمالیتے ہیں…
مزید فوائد
١
رمضان المبارک کی قدر ومنزلت اورگرم بازاری سمجھانے
کیلئے
ایک خوبصورت تمثیل…
٢ رمضان المبارک کو پانے کیلئے’’ ایک اہم عمل‘‘…
٣ ایک غلط طرز عمل کی اصلاح…
تاریخ اشاعت:
۴رمضان
المبارک ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق10 جون 2016ء
اصل خوشیاں
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ … اَلْحَمْدُ
لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
مرحبا رمضان !… خوش آمدید رمضان!
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَمَضَانَ
خوشیوں کی بارش
ایک شخص دیہاڑی یعنی روزانہ کی اجرت پر کام کرتا تھا…اُسے
روزانہ پانچ سو روپے ملتے تھے…ایک دن وہ کام پر گیا تو مالک نے کہا … کل سے تمہیں
اجرت پانچ سو ہی ملے گی…مگر یہ پانچ سو پاکستانی روپے نہیں بلکہ کویتی دینار ہوں
گے …پانچ سو کویتی دینار یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے اور مزید تم جتنے گھنٹے زائد
کام کرو گے …اس کی اجرت بھی تمہیں کویتی دیناروں میں ملے گی… یہ اعلان سن کر وہ
شخص کس قدر خوشی میں ڈوب جائے گا…کہاں روزانہ پانچ سو اور کہاں ڈیڑھ لاکھ… وہ اسی
خوشی میں گھر کی طرف روانہ ہوا… وہاں عجیب منظر تھا… اس کا وہ ظالم اور شرارتی
پڑوسی… جو دن رات اسے تنگ کرتا، ستاتا اور ذلت میں ڈالتا تھا… اور دن رات اس کے
گھر کے اندر گندگی اور غلاظت پھینکتا تھا… وہ پڑوسی اپنے چیلوں سمیت زنجیروں میں
جکڑا ہوا ہے… اور کچھ طاقتور لوگ اسے پکڑ کر لے جا رہے ہیں … یہ دوسری خوشی ہو
گئی… ایسے موذی پڑوسی سے جان چھوٹی… وہ دو خوشیاں لئے گھر میں داخل ہوا تو وہاں
بھی کئی خوشیاں اس کی منتظر تھیں… ایک صاحب کا فون آیا کہ میں کل سے آپ کے لئے
سونا سستا کر رہا ہوں… ایک تولے کے پیسے دو اور ستر تولے لے جاؤ…یہ فون سن کر یہ
شخص حیرانی اور خوشی سے اپنا ہاتھ دانتوں سے کاٹ رہا ہے کہ … کہیں خواب تو نہیں
دیکھ رہا… کہاں ایک تولہ اور کہاں ستر تولے… میں تو دنوں میں مالدار ہو جاؤں گا…
انہی خوشیوں میں رات کو سویا … جب صبح اٹھا تو گھر والی کو خوشی سے نہال دیکھا…وہ
کہہ رہی تھی… آج ہماری بھینس نے تین گنا زیادہ دودھ دیا ہے…اور گائے نے چار
گنازیادہ… اور جو ہماری پانی کی موٹر خراب تھی وہ میں نے ویسے ہی بٹن دبایا تو
ٹھیک ٹھاک چلنے لگی… ایک خوشی کے بعد دوسری خوشی…اور دوسری کے بعد تیسری گویا ان
پر خوشیوں کی بارش ہو گئی۔
اصل اور پائیدار خوشیاں
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا اور حکم دیا کہ …تم
دنیا میں رہتے ہوئے اپنی آخرت کا سامان تیار کر کے اپنے لئے آگے بھیجتے رہو…جب
آخرت میں تمہاری ہمیشہ کی زندگی شروع ہو گی تو یہ سامان تمہارے بہت کام آئے
گا…اور جو یہاں رہتے ہوئے اپنے لئے سامان آگے نہیں بھیجے گا وہ وہاں بہت پچھتائے
گا…بہت حسرت کرے گا اور بار بار کہے گا کہ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے … اب
مجھے راز سمجھ آ گیا ہے …میں دنیا میں جا کر اپنی آخرت کے لئے بہت سامان بھیجوں
گا اور دنیا میں جا کر دنیا بنانے میں غافل نہیں ہو جاؤں گا… دنیا میں رہتے ہوئے
اپنی آخرت کے لئے جو سامان بھیجا جاتا ہے …وہ ہے ایمان اور عمل صالح … پھر عمل
صالح یعنی نیک اعمال میں …فرائض ہیں، سنن ہیں اور نوافل و صدقات… تجربہ کار آدمی
جب سفر پر جانے لگتا ہے تو اپنے سامان میں … ضرورت کی ہر چیز رکھتا ہے… اسی طرح
عقلمند آدمی اپنی آخرت کے لئے ہر طرح کی نیکیاں زیادہ سے زیادہ جمع کر کے بھیجتا
ہے…کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی ہے اور اس میں ہر طرح کی نیکیوں کی
مجھے ضرورت پڑ سکتی ہے… یہ عقل والے لوگ دن رات محنت کر کے یہ نیکیاں بناتے ہیں،
کماتے ہیں…اور اپنے لئے آخرت میں بھیجتے ہیں… تب اللہ تعالیٰ کی شانِ بادشاہی اور
شانِ سخاوت جوش میں آتی ہے… اور ان مزدوروں کے لئے ایک مہینہ ایسا بھیج دیا جاتا
ہے…جس میں ہر عمل کی قدر، قیمت اور وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے… اس مہینے میں نفل
عبادت کرو تو وہ فرض کے برابر ہوجاتی ہے… گویا کہ پاکستانی کرنسی اچانک کویتی
دینار بن گئے…اور اس مہینے میں ایک فرض ادا کرو تو اس کا وزن ستر فرائض کے برابر
ہو جاتا ہے … گویا کہ سونا ایک تولے کی قیمت میں ستر تولے… اور ہمارے دشمن اور
موذی پڑوسی یعنی سرکش شیاطین زنجیروں سے باندھ دیئے جاتے ہیں… اور ان کو ایک ماہ
کے لئے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے… اور ہمارے رزق اور اوقات میں خاص برکت عطاء
کر دی جاتی ہے… اور ہمیں ایک رات ایسی دے دی جاتی ہے جس کی عبادت تراسی سال کی
مقبول عبادت کے برابر ہے…
یہ سب اس لئے ہوتا ہے تاکہ …ہم آخرت کے لئے زیادہ سے زیادہ
سامان تیار کر لیں… کیونکہ آخرت کی زندگی بہت بڑی اور بہت لمبی ہے … اور دنیا
مختصر… تو اس مختصر سے وقت میں … اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے اوقات عطاء فرماتا
ہے … جن میں شاہی سخاوت کا قانون حرکت میں آ جاتا ہے اور یوں ہم بہت زیادہ فرائض
، سنن ، نوافل اور عبادت جمع کر کے آگے بھیج سکتے ہیں اور اپنے سفر کے بریف کیس
کو کار آمد چیزوں سے خوب بھر سکتے ہیں… رمضان المبارک کا یہ راز جو لوگ جتنا
سمجھتے ہیں… وہ اسی قدر اس میں محنت کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی زیادہ سے
زیادہ نیکیاں بنانے اور کمانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
کئی نصاب
الحمد للہ کئی سالوں سے رمضان المبارک کے موقع پر…رمضان
المبارک کو پانے کے مختلف نصاب عرض کئے جاتے ہیں… اُن میں عزیمت والے نصاب بھی ہیں
اور آسان نصاب بھی… آپ رنگ ونور کی پرانی جلدوں سے رمضان المبارک کے وہ مضامین
نکال کر ایک بار ملاحظہ فرما لیں… ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی نصاب آپ کے مناسب حال
مل جائے گا… ان شاء اللہ کوشش ہو گی کہ آئندہ سال ان تمام مضامین کو الگ کتابی
صورت میں شائع کر دیا جائے…
الحمد للہ ان نصابوں کی وجہ سے کئی افراد کو قضا نمازیں ادا
کرنے کی توفیق ملی…کئی کو قرآن مجید کی یاری نصیب ہوئی … کئی کو اذکار و مراقبات
حاصل ہوئے…اگر آپ وہ تمام مضامین دوبارہ تلاش نہ کر سکتے ہوں…تو ہمارے پاس الحمد
للہ بہترین چیز موجود ہے… یہ ہے حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کا رسالہ ’’فضائل
رمضان‘‘ …یہ علماء کرام کے لئے بھی مفید ہے اور عوام کے لئے بھی… اور یہ بار بار
پڑھنے کی چیز ہے… فضائل اعمال کتاب ہر جگہ ملتی ہے آپ اس میں یہ رسالہ نکال
کر…پڑھ لیں… امید ہے کہ رمضان المبارک میں غفلت نہیں ہو گی… اور ان دونوں چیزوں سے
بڑھ کر جو چیز ہے وہ ہے خود آپ کی اپنی فکر… کیا آپ رمضان المبارک کو پانا اور
بنانا چاہتے ہیں؟… اگر آپ کے اندر یہ فکر ہو گی تو…پھر آپ اس کے لئے کم از کم دو
رکعت نماز ضرور ادا کر کے دعاء کریں گے … تجربہ سے ثابت ہے کہ …رمضان المبارک کو
پانے کے لئے …یہ دو رکعت… ہر مطالعے، ہر وعظ اور ہر نصیحت سے زیادہ فائدہ دیتی ہے…
آپ مکمل شوق اور رغبت کے ساتھ دو رکعت صلوٰۃ حاجت ادا کریں اور پھر عاجزی سے دعاء
مانگیں کہ …یا اللہ! مجھے یہ رمضان رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی والا عطاء فرما
دیجئے…میرے لئے یہ رمضان آسانی اور قبولیت والا بنا دیجئے… اور مجھے یہ رمضان
اپنی رضا والے اعمال کے ساتھ گذارنے اور پانے کی توفیق عطاء فرما دیجئے… یہ دعاء
جلدی جلدی اور سرسری نہ ہو…بلکہ خوب جم کر مانگیں … اور اس طرح مانگیں کہ آپ خود
کو اس کا محتاج سمجھیں… اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں کہ…وہ ہمیں یہ رمضان المبارک
بہت مقبول اور بہت قیمتی گزارنے کی توفیق اور صلاحیت عطاء فرمائے… دو رکعت کا یہ
عمل جو بھی کرتا ہے وہ ضرور رمضان المبارک کی خیر اور اس کا نفع پانے کی اُمید میں
آ جاتا ہے۔
وبال نہ بنائیں
فرض کو فرض رکھیں…اور نفل کو نفل اور نفل کو اپنے لئے بوجھ
نہ بنائیں …مثلاً رمضان المبارک میں ترتیب بنائی کہ روزانہ ان شاء اللہ دس پارے
تلاوت کرنے ہیں اور سو رکعت نفل پورے کرنے ہیں…ماشاء اللہ اچھی بات ہے بہت شوق سے
کریں… لیکن اتفاق سے کسی دن کچھ کمی رہ گئی… بیماری، مہمان یا دین کے کسی اور کام
کی وجہ سے… اب چہرے پر بارہ بجے ہیں…موڈ آف اور میٹر چڑھا ہوا ہے… ایک ایک سے لڑ
رہے ہیں …بچوں کو مار رہے ہیں… اور بار بار حسرت کا اظہار کہ آج میرے پارے رہ
گئے… یہ طریقہ کار درست نہیں…یہ آپ کو اجر و ثواب سے محروم کرنے والا طرز عمل
ہے…نوافل ادا ہو گئے تو شکر کریں… رہ گئے تو اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگیں… نہ خود
کو ناپاک سمجھ کر دوسروں کو کچا چبائیں … اور نہ فرائض کی ناشکری کریں۔
ستر ہزار کلمہ طیبہ
اس سال دل کی محنت والا رمضان المبارک ہے… ہم سب اللہ
تعالیٰ کی رضا کے لئے نیت کریں کہ ان شاء اللہ اس رمضان المبارک میں …اپنے لئے
آخرت کے سامان میں ستر ہزار کلمہ طیبہ کا عمل بھیجیں گے… خصوصاً ’’رمضان مہم‘‘
میں شریک ساتھی چلتے پھرتے یہ عمل آسانی سے کر سکتے ہیں… اس کے فوائد بے شمار
ہیں۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔شمارہ: 549
اگلا جزیرہ
*
دنیوی اور اخروی زندگی کی حقیقت سمجھاتی ایک خوبصورت تمثیل…
*
ہر انسان اپنی’’آخرت‘‘ خود بناتا ہے، اب اس کی مرضی اچھی بنائے یا بری…
*
ایک اہم قرآنی حکم…کہ اپنی آخرت کی زندگی کے لئے دنیا
میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سامان اور اعمال بھیج دو…
*
عقلمند لوگوں کا شیوہ…
*
رمضان المبارک کی برکات کس کو نصیب ہوتی ہیں؟…
* ’’جہادی
سلسلہ‘‘… ’’اہل رحمت‘‘ کا سلسلہ ہے… ایک وقیع نکتہ…
*
آخرت کے لئے بھیجے جانے والے اعمال کا نصاب اور اس کی درجہ بندی…
یہ ہیں اس مبارک اور معطر تحریر کے اہم موضوعات…
تاریخ اشاعت:
۱۱رمضان
المبارک ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق17 جون 2016ء
اگلا جزیرہ
اللہ تعالیٰ ’’آخرت‘‘ پر ہمارے یقین کو مضبوط فرمائے… اور
ہمیں دنیا سے زیادہ ’’آخرت‘‘ کی فکر عطاء فرمائے۔
کوئی مانے یا نہ مانے
دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان…اپنی ’’ آخرت‘‘ بنا رہا ہے…
کوئی اچھی اور کوئی بری… اندازہ لگائیں ایک موبائل فون پر انسان جو کچھ کرتا ہے…
وہ سارا ڈیٹا کئی جگہ محفوظ ہوتا رہتا ہے… تو کیا انسان کے اعمال اور اقوال بے کار
جا رہے ہیں؟…ہرگز نہیں… ہر انسان کا ہر عمل اور ہر قول آگے جا رہا ہے ، محفوظ ہو
رہا ہے… اور انسان نے آگے چل کر …اپنے انہی اعمال کے ساتھ رہنا ہے…اب کوئی آخرت
کو مانے یا نہ مانے وہ اپنی اچھی یا بری آخرت خود بنا رہا ہے… بس موت آنے کی دیر
ہے، تب آنکھوں سے سارے پردے ہٹ جائیں گے۔
عجیب تمثیل
ایک ملک تھا… خوبصورت، سرسبز اورپُر کشش… اس ملک کے مناظر
بھی حسین و جمیل تھے اور لوگ بھی…یہاں پھلوں، پانی اور عیاشی کی فراوانی تھی… ملک
کی سب سے قیمتی اور پرتعیش جگہ ملک کے بادشاہ کے لئے مختص تھی… وہاں اس کا محل بھی
تھا اور وسیع و عریض باغ بھی… اور دنیا بھر کی عیاشی و سرمستی کا سامان اور عملہ
بھی… اس ملک کا دستور یہ تھا کہ لوگ مل کر ایک شخص کو اپنا بادشاہ بناتے… پھر یہ
سارا عشرت کدہ اس کے حوالے کر دیتے… اس کی بھرپور اطاعت کرتے …اسے بے شمار مال و
دولت دیتے اور اسے ہر طرح کے اختیارات سپرد کر دیتے… بادشاہ کے لئے حکومت کی مدت
تین سال مقرر تھی… تین سال کے بعد ملک کے لوگ جمع ہو کر اس بادشاہ کو ایک بڑے بحری
جہاز پر بٹھاتے اور دور ایک جزیرے پر چھوڑ آتے …اور اپنے ملک کے لئے نیا بادشاہ
مقرر کر دیتے…
یہ سلسلہ سالہا سال سے اسی طرح چل رہا تھا … بادشاہ آتے
اور خوب عیش و عشرت کے مزے لوٹتے… دو چار گھنٹے امور مملکت اور باقی دن رات عیش
اور عیاشی… کھانا ، پینا ، ملنا، ناچنا ، گانا… اور ہر اچھی بری لذت کا حصول… تین
سال اسی مدہوشی میں گزر جاتے، اچانک ملک کے لوگ آتے اور بادشاہ کو اٹھا کر …دور
دراز گمنام جزیرے پر اکیلا چھوڑ آتے… پھر کوئی خبر نہ ملتی کہ… اس بادشاہ کے ساتھ
جزیرے پر کیا بیتی؟… نہ کبھی کوئی وہاں سے واپس آیا…اور نہ کوئی وہاں خبر لینے
گیا… ایک بار ملک کے لوگوں نے ایک نیا بادشاہ مقرر کیا…اور اسے شاہی محل اور عشرت
کدے میں چھوڑ آئے… یہاں ہر چیز دل کو کھینچنے والی اور ہر فکر سے غافل کرنے والی
تھی… مگر یہ نیا بادشاہ ان چیزوں میں نہ کھویا… اسے یہ فکر لاحق تھی کہ … تین سال
بعد کیا ہو گا؟… اور وہ کیسی جگہ ہو گی جہاں میں نے تین سال بعد جانا ہے… یہ
بادشاہ نوجوان تھا اور اسے شدت سے یہ فکر لاحق تھی کہ…تین سال بعد والے جزیرے پر
باقی عمر کیسے گذرے گی… چنانچہ نہ وہ شراب و کباب میں مست ہوا اور نہ حسن و جمال
میں مدہوش ہوا…اس نے ایک بحری جہاز لیا اور ملکی فوج کے ایک دستے کو اس جزیرے کا
جائزہ لینے بھیج دیا… یہ فوجی جب اس جزیرے پر اترے تو وہاں بڑے خوفناک مناظر
تھے…ہر طرف وحشی درندے ، زہریلے سانپ اور خاردار درخت … کسی کسی جگہ سابقہ
بادشاہوں کی کچھ ہڈیاں اور باقیات بھی موجود تھیں…اور باقی ہر طرف خوف، اندھیرا ،
دلدل ، جنگل اور وحشت کا راج تھا… جائزہ رپورٹ جب بادشاہ کو پہنچی تو اس کی فکر
اور بڑھ گئی… اس نے اپنے زیر اختیار تمام اموال جمع کئے… اور اس جزیرے کو درست
کرنے کی ٹھان لی… پہلے اس نے مسلح دستے بھیجے جنہوں نے آگ لگا کر جھاڑ اور کانٹے
ختم کئے… اور درندوں، سانپوں کو ختم کیا…
پھر اس نے وہاں زمینداری کے ماہرین بھیجے…جنہوں نے آبپاشی
اور زمین زرخیزی کا نظام درست کیا…اسی طرح وہ اس جزیرے کو نہایت تیزی سے بدلتا
گیا…وہاں اس نے کچھ پسندیدہ لوگ آباد کئے…اپنے لئے محل تعمیر کروایا …اور پورے
جزیرے کو وحشت کدے سے عشرت کدہ بنا ڈالا… تین سال کا عرصہ بہت کم تھا مگر اس نے
رات دن محنت کی اور اپنے ہاتھ میں موجود ہر چیز… اگلے جزیرے کی بہتری کے لئے لگا
دی… تین سال بعد ملک کے لوگ جب اسے جزیرے پر چھوڑنے جا رہے تھے تو وہ…بے انتہا خوش
تھا…اسے نہ کوئی خوف تھا نہ ڈر… نہ کوئی خدشہ اور نہ پریشانی…وہ راحت اور لذت کے
گھر میں جا رہا تھااور اس کی ہر پسندیدہ چیز پہلے سے وہاں موجود تھی۔
قرآنی حکم
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے… یہاںہمیں چند دن
رہنا ہے اور پھر فرشتے آئیں گے اور ہمیں یہاں سے اُٹھا کر لے جائیں گے … دنیا میں
ہمارے لئے کشش کا سامان بھی بہت ہے اور یہاں پھنسانے اور الجھانے والی چیزیں بھی
بے شمار ہیں… انسان دنیا میں آتا ہے تو اس دنیا ہی میں کھو جاتا ہے… اور دنیا کو
آباد کرنے میں خود کو خرچ کر دیتا ہے…پھر جب اس کی مدت پوری ہوتی ہے تو دنیا کو
چھوڑ کر آگے چلا جاتا ہے…
قرآن پاک ہمیں بار بار حکم فرماتا ہے کہ… آگے کے لئے
تیاری کرو…اپنے لئے آگے سامان بھیجو… تم یہاں رہتے ہوئے جو کچھ بھی آگے بھیجو گے
وہ سب تمہیں وہاں ملے گا… بلکہ اسے مزید بڑھا دیا جائے گا۔
عقلمند لوگ
وہ بادشاہ عقلمند نہیں تھے جنہوں نے تین سال کے عیش وآرام
میں ڈوب کر… اپنی اگلی منزل کو بھلادیا… ان کے پاس اموال بھی تھے اور اختیارات
بھی… مگر وہ غفلت میں پڑے رہے اور وقت ختم ہوگیا … اور پھر وہ درندوں، سانپوں اور
گڑھوںکے حوالے کردئیے گئے…دنیا میں جو انسان آخرت سے غافل زندگی گذارتا ہے… اس کے
ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے… مرنے کے بعد وہ درندوں ،سانپوں اور آگ کے عذاب میں جا
پڑتا ہے… دنیا میں اس نے جو برُے اعمال کئے وہ سب اس کے لئے قبر اور آخرت کا و
بال بن جاتے ہیں… آپ پوری انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں… یہ سچ ہے کہ … جو بھی آیا
اسے جانا پڑا… اور اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ ہم بھی اس دنیا سے چلے جائیں گے… اور
ہمارا چہرہ مٹی کے نیچے دبا ہوگا … نہ سوٹ، نہ بوٹ، نہ گاڑی، نہ خادم… اکیلی قبر،
نئی منزل، گمنام جزیرہ…
لیکن وہ بادشاہ عقلمند تھا جس نے تین سال کے عرصے کو غنیمت
جانا…اس نے خود کو عیاشی اور لہو و لعب میں غافل نہیں ہونے دیا… اس نے اپنے اموال
بھی اپنے لئے آگے بھیج دئیے اور اپنے اختیارات کو بھی… اپنے اگلے گھر کی بہتری پر
لگادیا… یہی حال دنیا میں ان انسانوں کا ہے… جو آخرت کا یقین رکھتے ہیں… اور دنیا
میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کرتے ہیں… وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ راحت کا سامان
آگے بھیجتے ہیں، ان کو یہاں جو مال ملتا ہے وہ سارا مال آگے اپنے لئے بھیج دیتے
ہیں… اور ان کو یہاں جو قوت ملتی ہے… جو اختیارات ملتے ہیں… وہ انہیں بھی اپنے
اگلے گھر کی بہتری کے لئے استعمال کرتے ہیں… یہ عقلمند لوگ ہیں… ان کو موت کے وقت
نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی پریشانی … بلکہ وہ خوشی خوشی جاتے ہیں اور وہاں جا
کر بھی خوشیاں پاتے ہیں… ایسے عقلمند لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ موسم مقرر
فرمادئیے ہیں… ان موسموں میں اللہ تعالیٰ اعمال اور اقوال دونوں کا وزن بہت بڑھا
دیتے ہیں…حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ… رمضان المبارک کی برکات صرف
مسلمانوں کے لئے ہیں… اہل ایمان کو روزے… اورقرآن کی وجہ سے اس مہینے کی برکات
ملتی ہیں… جبکہ کفار اور دشمنان اسلام کا بغض اور شر اس مہینے میں اور بڑھ جاتا
ہے… کیونکہ وہ رحمت والے اعمال سے دور ہیں… اس لئے ان پر زیادہ لعنت برستی
ہے۔(خلاصہ حجۃ اللہ البالغہ)
رمضان المبارک میں ابو جہل کا شر پوری قوت سے بھڑکا… اور وہ
مسلمانوں کو مٹانے کے لئے مکہ مکرمہ سے نکل کھڑا ہوا… رمضان المبارک میں مجاہدین
کی نصرت خاص اور انوکھے انداز سے ہوتی ہے… بدر کے میدان میں مقابلہ ہوا…ایک طرف
اہل رحمت تھے اور دوسری طرف اہل لعنت… اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی نصرت فرمائی
…اور سخت خطرناک مشرکین مقتول ہو کر ایک کنویں میں پھینکے گئے… یہ جہاد کا ایک
باقاعدہ شاندار آغاز تھا… اور یہ جہادی سلسلہ دجال کے قتل تک چلتا رہے گا… ابو
جہل کے قتل سے دجال کے قتل تک… مسلسل جہاد ،مقبول جہاد اور منصور جہاد…
اس رمضان المبارک میں … ہر مسلمان یہ نیت کر ے کہ وہ اس
مبارک جہادی سلسلے میں شامل رہے گا… کیونکہ یہ ’’اہل رحمت‘‘ کا سلسلہ ہے… اور اس
سلسلے کے مقبول افراد کی آخرت بہت تابناک ہے ان شاء اللہ… حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین نے آخرت کی تیاری اور
وہاں کے لئے سامان بھیجنے کا نصاب بار بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور سیکھا… جواب میں فرمایا گیا… ایمان
اور جہاد فی سبیل اللہ، یعنی آخرت میں سب سے زیادہ فائدہ دینے والی چیز ایمان کے
بعد جہاد فی سبیل اللہ ہے…
اور اسی طرح اسلام کے باقی فرائض… نماز، روزہ، زکوٰۃ اور
حج… پھر درجہ ہے خدمت خلق کا… اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے
کام آنا… اور ان کے کام بنانا… پھر درجہ ہے نوافل و صدقات کا… اور پھر درجہ ہے…
لوگوں کو اپنے شر سے بچانے کا …یعنی اگر کوئی نیکی نہیں کر سکتے تو کم ازکم اتنا
کرو کہ… لوگوں کو شر نہ پہنچائو تب یہ عمل بھی آخرت میں کام آئے گا… ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔ شمارہ :550
ایک دعوت
* ’’اعتکاف‘‘
ایک عاشقانہ عمل…
* ’’اعتکاف‘‘
ان اعمال میں سے ایک ہے جن میں اللہ تعالیٰ
کے
ساتھ گہرا جوڑ اور تعلق پایا جاتا ہے…
* ’’اعتکاف‘‘
کی فضیلت…
* ’’اعتکاف‘‘
کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طر زعمل…
* خواتین
کا اعتکاف…
* اعتکاف
کی دعوت اور ترغیب…
* مرکز
شریف کے اجتماعی اعتکاف میں شمولیت کی دعوت…
* رمضان
المبارک کی ایک اہم عبادت ’’دعاء‘‘…
’’اعتکاف
کے اسرار وحکم اور ترغیبات پر مشتمل ایک پر نور تحریر…
تاریخ اشاعت:
۱۸رمضان
المبارک ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق24 جون 2016ء
ایک دعوت
اللہ تعالیٰ ہمیں کام کی چیزوں کا شوق عطاء فرمائے…(آمین)
دل میں جھانکیں
ہم سب اپنے اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں …ہمارے ’’دل جی‘‘
کو کن چیزوں کا شوق ہے اور کن چیزوں کا بالکل شوق نہیں…
آج بات ایک اہم عبادت کی کرنی ہے … وہ عبادت ہے
’’اعتکاف‘‘…کیا ہمارے دل میں ’’اعتکاف‘‘ کا شوق ہے؟… پچھلے سال ایک مسجد میں جانا
ہوتا تھا…امام صاحب نے خوب زور لگایا کہ لوگوں کو اعتکاف کی طرف متوجہ کریں…آخری
عشرہ شروع ہونے سے چند دن پہلے…انہوں نے ہر نماز کے بعد ’’اعتکاف‘‘کی ترغیب دی …
خصوصاً بڑی عمر کے بزرگ حضرات کو…مگر کوئی خاص اثر نہ ہوا…بزرگوں اور جوانوں پر تو
بالکل نہیں…البتہ چند نوجوان اعتکاف میں آگئے… ہنستے، کھیلتے، شور مچاتے…اس لیے
آج رنگ ونور کی محفل میں ہر مسلمان اپنے دل کا جائزہ لے اور پھر اپنے دل کی اصلاح
کرے…اعتکاف کا شوق ہے یا نہیں؟…اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں؟
ایک نسخہ
آج کل رمضان المبارک کے بابرکت ایام چل رہے ہیں…رمضان
المبارک کی ایک اہم ترین عبادت ’’دعاء‘‘ ہے…روزہ، تراویح اور تلاوت کے بعد سب سے
زیادہ توجہ دعاء کی طرف رکھنی چاہیے…لمبی لمبی دعائیں، ہر وقت دعائیں اور عاجزانہ
دعائیں…جو رمضان المبارک میں جتنا زیادہ مانگتا ہے وہ اُسی قدر زیادہ اپنی جھولی
بھرتا ہے…کئی لوگ عبادات میں تو لگے رہتے ہیں مگر دعاء بہت کم مانگتے ہیں…کہتے ہیں
اللہ تعالیٰ کو ہماری حاجتوں کا علم ہے…ارے اللہ کے بندو! دعاء ہر عبادت کا مغز
ہے…دعاء سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں…اور دعاء انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب
کردیتی ہے…اس رمضان المبارک میں ایسا کریں کہ کچھ وقت خاص دعاء کا رکھیں…اس میں دو
،دو رکعت ادا کرتے جائیں…اور ہر دو رکعت کے بعد دعاء کی جھولی پھیلادیں…مثلاً دو
رکعت ایمان کامل کی دعاء کے لیے…دو رکعت حسن خاتمہ کی دعاء کے لیے…دو رکعت اپنے
اخلاق درست کرنے کی دعاء کے لیے…دو رکعت اپنی صحت کی دعاء کے لیے…اس میں یہ بھی
ہوگا کہ ہمارے بہت سے معاملات درست ہو جائیں گے…مثلاً دو رکعت ادا کی…اور دعاء یہ
مانگی کہ یااللہ! میرے ’’شوق‘‘ کا نظام اپنی پسند کے مطابق بنادیجئے…
کبھی دو رکعت اس دعاء کے لیے کہ یا اللہ!میرے تمام مالی
معاملات شریعت کے مطابق بنادیجئے… کبھی دو رکعت ادا کرکے یہ دعاء کہ یااللہ! ایسی
حالت میں موت دیجئے کہ آپ مجھ سے راضی ہوں اور میں آپ سے راضی ہوں…شوق کی اصلاح
کے لیے بھی اگر ہم دو رکعت اور خوب عاجزی والی دعاء کو پکڑلیں تو…ان شاء اللہ
ہمارے دل کے تمام شوق شریعت کے مطابق ہوجائیں گے اور ہم اُن چیزوں کے شوق سے بچ
جائیں گے…جو شوق دنیا وآخرت میں نقصان دینے والے ہیں۔
آتشِ شوق
ہم نے دنیا سے اکیلے جانا ہے…قبر میں کوئی ساتھ نہیں جائے
گا…قبر کی تنہائی اور وحشت کو دور کرنے والی بس چند چیزیں ہیں…یہ چیزیں اگر ہم نے
دنیا میں حاصل کرلیں تو پھر قبر میں ہمارے مزے ہوجائیں گے…ان چیزوں میں سے ایک
’’اعتکاف‘‘ بھی ہے…سبحان اللہ! مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے مخلوق کو چھوڑ کر خالق
کے ساتھ جڑ جانا…یہ وہ عمل ہے جو قبر کی وحشت کو دور کرے گا…اے بندے! تو نے جلوت
میں اللہ تعالیٰ کے لیے…یہ تنہائی برداشت کی…اس کے بدلے تیری قبر کی تنہائی دور
کردی جائے گی…یہ ہوئی شوق کی پہلی چنگاری…
دوسری بات یہ کہ…دنیا میں کچھ اعمال ایسے ہیں، جن میں محبوب
کے ساتھ بہت گہرا جوڑ ہے… بس آدمی اس عمل میں اپنے محبوب کا ہوجاتا ہے اور محبوب
اس کا ہوجاتا ہے…محبوب سے مُراد… محبوب حقیقی اللہ تعالیٰ …ان اعمال کی لذت ایسی
ہوتی ہے کہ جو مرنے کے بعد بھی نہیں بھولتی…اور مرنے کے بعد نصیب بھی نہیں
ہوتی…ایسے عاشق جب دنیا سے جانے لگتے ہیں تو انہیں اور کوئی چیز چھوڑ جانے کی حسرت
نہیں ہوتی…صرف انہی چند اعمال کی حسرت ہوتی ہے کہ یہ اب نصیب نہ ہوں گے…ان اعمال
میں ایک تو شہادت ہے…شہادت کی موت … ایک گرمی کا روزہ ہے…اور ایک اعتکاف… اسی لیے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دنیا سے رخصت ہونے کا
اندازہ ہوا تو آخری سال…دگنا اعتکاف فرمایا…یعنی آخری دو عشروں کا اعتکاف…
کیونکہ دنیا سے جانے کا وقت قریب ہے…پھر دوبارہ اعتکاف تو نہ مل سکے گا…دنیا کو
چھوڑ کر مالک کے پاس آبیٹھنا…اپنا گھر چھوڑ کر مالک کے گھر جا پڑنا…سارے در چھوڑ
کر ایک در پر جا گرنا…ساری مشغولیتیں چھوڑ کر اپنے مالک کے ساتھ مشغول رہنا…یہ
ہوئی شوق کی دوسری چنگاری…
تیسری بات یہ کہ کونسی عبادت زیادہ افضل ہے اور کونسی کم…یہ
مسئلہ دلائل کا ہے لیکن اگر دلائل کو چھوڑ کر دل سے پوچھیں تو وہ بہت عجیب باتیں
بتاتا ہے…مثلاً وہ کہتا ہے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک سال بھی اعتکاف نہ چھوڑا …ہر سال
نہایت پابندی سے اعتکاف فرمایا، ایک سال سفر کی وجہ سےجو یقیناً جہاد کا سفر ہوگا
اعتکاف رہ گیا…تو اگلے سال دگنا اعتکاف فرمایا یعنی گزشتہ سال کی بھی گویا علامتی
قضا فرمائی…آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
زیادہ مصروف کون ہے؟… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے زیادہ ذمہ داریاں کس پر ہیں؟ …آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اعمال کی
فضیلت اور ترتیب سمجھنے والا کون ہے؟…یقیناً کوئی نہیں… پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا
اعتکاف اس قدر اہتمام سے فرماتے ہیں تو ثابت ہوا کہ…یہ بڑا خاص عمل ہے… بلکہ خاص
الخاص عمل ہے… اور اس کی حکمت اُمتِ مسلمہ کے اخص الخواص افراد سمجھتے ہیں…
اسی لیے وہ پورا سال انتظار کرتے ہیں کہ … کب رمضان المبارک
کا آخری عشرہ آئے اور وہ اعتکاف کی سعادت حاصل کریں…
آخری بات یہ ہے کہ…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’اعتکاف‘‘ کے ساتھ اس
قدر ’’دلچسپی‘‘ ہر سچے مؤمن کے دل میں ’’اعتکاف‘‘ کے شوق کو بھڑکا دیتی ہے…
فضائل
اگر کتابوں میں دیکھا جائے تو اعتکاف کے فضائل پر…چند
احادیث مبارکہ ہی ملتی ہیں … مگر دل والوں کے لیے بس یہی ایک حدیث ہی کافی ہے
کہ…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان
کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے…اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل آپ کے
وصال تک جاری رہا …اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال کے رمضان میں آپ نے بیس دن
کا اعتکاف فرمایا…
یہ روایات بخاری ومسلم میں موجود ہیں … ان کے ہوتے ہوئے پھر
کسی اور فضیلت، کسی اور ترغیب یا کسی اور تقریر کی کیا حاجت رہ جاتی ہے؟ حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار اعتکاف فرمانا اور ہمیشہ اعتکاف فرمانا…یہ
سمجھا جارہا ہے کہ … اعتکاف کتنا بڑا عمل ہے…اور یہ کتنا کام آنے والا عمل ہے…یہ
دیکھتے ہوئے تو ہر مسلمان کے دل میں اعتکاف کا ایسا شوق ہونا چاہیے کہ مساجد میں
جگہ نہ ملے…لیکن بات یہ ہے کہ…اعتکاف کا تعلق دل سے ہے…دل والے ہی اس عمل کی شان
سمجھتے ہیں… یااللہ! ہم سب کو اپنی رضا کے لیے اعتکاف کا شوق…اور اعتکاف کی توفیق
عطاء فرما۔
فضیلت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اعتکاف کرنے والا گناہوں سے
محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکی کرنے والوں کے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘
(مشکوٰۃ عن ابن ماجہ)
یعنی اعتکاف میں بیٹھنے کی وجہ سے جو نیکیاں وہ نہیں کرپاتا
وہ وہ بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں…
اور اعتکاف کا سب سے عظیم فائدہ یہ کہ … وہ اللہ تعالیٰ کے
قلعے میں محفوظ ہوکر گناہوں سے بچ جاتا ہے… ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن کے
اعتکاف کی برکت سے اعتکاف کرنے والے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ
ہوجاتا ہے اور یہ فاصلہ آسمان وزمین کی مسافت سے بھی زیادہ ہے…
خواتین اور اعتکاف
اعتکاف کی عبادت …خواتین کے لیے بھی ہے…حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’ازواج مطہرات‘‘ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ اعتکاف فرمایا…
ہماری عظیم المرتبت اُمہات کو اعتکاف کا یہ خاص ذوق حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی صحبت مبارکہ سے نصیب ہوا…خواتین عید اور باورچی خانے کی وجہ سے اپنا
’’رمضان‘‘ ضائع کرتی ہیں…اس لیے اُن کے لیے اعتکاف بہت بڑی نعمت اور بڑی حفاظت
ہے…اے مائوں، بہنو! اس سال ہمت کرلو… اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو نور عطاء فرمائے۔
پہلی دعوت
ہمارے وہ مسلمان بھائی اور بہنیں…جن کے دلوں اور ارادوں میں
کبھی ’’اعتکاف‘‘ آیا ہی نہیں…وہ اپنے دل میں اس مبارک عمل کا شوق بٹھائیں اور
اللہ تعالیٰ سے یہ مبارک شوق مانگیں۔
دوسری دعوت
اس سال زیادہ سے زیادہ مسلمان اعتکاف کی کوشش کریں…اعتکاف
کے مبارک اثرات دور دور محاذوں اور مکمل معاشرے پر پڑتے ہیں…اور اس کی روشنی ہر
طرف پھیلتی ہے… جن کو اللہ تعالیٰ استطاعت دے وہ حرم مکی یعنی کعبہ شریف میں
اعتکاف کریں…یا مسجد نبوی شریف میں…یا مسجد اقصیٰ شریف میں…ان تین مقامات کے
اعتکاف کی فضیلت بالترتیب زیادہ ہے…جو ان تین مقامات کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ
کسی بھی جامع مسجد میں اعتکاف کرے… خصوصاً اپنے محلے کی مسجد میںاور خواتین اپنے
گھر میں اپنی نماز کی جگہ یا نماز کے کمرے یا نماز کے کونے میں اعتکاف کریں۔
تیسری دعوت
ہمارے ہاں الحمدللہ! جامع مسجد عثمان وعلی رضی اللہ
عنہما بہاولپور میں…اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے… اُمت کے
فدائی، جانباز فاتحین ومجاہدین اس اعتکاف میں شریک ہوتے ہیں…صحبت اہل دل اور
مصاحبت اہل قربانی کا بہترین موقع ہوتا ہے …اب تک آنے والوں نے بہت کچھ پایا …
والحمدللہ…آپ میں سے جو تشریف لاسکتا ہو بندہ کی طرف سے قلبی دعوت ہے۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔ شمارہ: 551
مایوسی، خطرناک گناہ
* شیطان
انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس
کرتا ہے تاکہ اس کو اپنا شکار بناسکے…
* اللہ
تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بہت بڑا ’’کبیرہ گناہ‘‘…
اتنا بڑا کہ چوری، قتل اور زنا سے بھی زیادہ سخت…
* مایوسی
کا حملہ کیوں ہوتا ہے؟ اور زیادہ تر کن لوگوں پر ہوتا ہے؟…
* ’’مایوسی‘‘
قتل وزنا سے بڑھ کر کیوں ہے؟ اس کی وجہ؟…
* حضرت
سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا ایک
مبارک فرمان
اور ان کی شہادت کا مختصر تذکرہ…
* اسلاف
کی پیدائش، شہادت اور وفات کی تاریخوں میں اختلاف کی وجہ…
’’مایوسی‘‘ کے گناہ سے نفرت اور اس
سے توبہ کی ترغیب پر مشتمل ایک مبارک تحریر…
تاریخ اشاعت:
۲۵رمضان
المبارک ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق یکم جون 2016ء
مایوسی، خطرناک گناہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر معاملے کا اچھا انجام عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ
کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْاٰخِرَۃِ
حضرت علی رضی اللہ
عنہ کا فرمان
امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ
عنہ نے ایک شخص کوزیادہ گناہوں کے باعث نااُمید دیکھا تو فرمایا: ’’ نااُمید کیوں
ہوتا ہے؟اللہ تعالیٰ کی رحمت تیرے گناہوں سے زیادہ ہے۔‘‘(کیمیائے سعادت)
آج حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر چند باتیں لکھنے کا
ارادہ تھا… حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ سے محبت، تعلق اور عقیدت اللہ تعالیٰ کی قیمتی نعمتوں میں سے… ایک نعمت
ہے … حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے تفسیر عزیزی کی آخری جلد میں… حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر عجیب تقریر فرمائی ہے…
یہ شہادت کیوں ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ اور اس سے اُمت کا کیانقصان ہوا؟… عام روایت یہی
ہے کہ آپ انیس ۱۹ رمضان المبارک کوزخمی ہوئے… اور دو روز بعد یعنی اکیس
رمضان المبارک کو آپ کی شہادت ہوئی… لیکن حضرت ندوی رحمہ اللہ ’’المرتضیٰ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ
’’جمعہ‘‘ کے روز شہید ہوئے، سحر کا وقت تھا… رمضان کے سترہ روزے ہوچکے تھے… صحیح
روایات کے بموجب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے
سترہ رمضان کو صبح صادق کے وقت ۴۰ھ میں تریسٹھ سال کی عمر میںسفر آخرت اختیار فرمایا… آپ
کی خلافت کی مدت چار سال نوماہ ہے… آپ کے جنازہ کی نماز آپ کے صاحبزادہ حضرت حسن
رضی اللہ عنہ نے پڑھائی… کوفہ کے دارالامارہ میں دفن ہوئے۔‘‘ (المرتضیٰ)
تاریخوں میں اختلاف کی ایک وجہ
آپ نے دیکھا ہوگاکہ…مشہور اسلامی شخصیات کی تاریخ ولادت ہو
یا تاریخ شہادت یا وفات… اس بارے میں اکثر کئی کئی اقوال ملتے ہیں… حالانکہ اس
زمانہ کے لوگوں کا حافظہ بہت قوی تھا…وہ مشکل سے مشکل چیزوںکو زبانی یاد رکھنے کے
ماہر تھے… پھر اہم واقعات کی تاریخوں میں اختلاف کس لئے ہوجاتا ہے؟…وجہ دراصل یہ
ہے کہ دن منانا… تاریخیں منانا… یہ اسلامی مزاج کاحصہ نہیں ہے… اسلام جو کچھ منانا
چاہتا ہے وہ اس نے قرآن و سنت میں بتادیاہے… اور پھر دین میں نئی باتوں کے اضافے
پر پابندی لگادی ہے… دو عیدیں عطاء فرمادیں… اب تیسری چوتھی کوئی عید نہیں ہوسکتی…
حج کے ایام اور روزے کا مہینہ مقرر فرمادیا اب اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا…
ہفتے میں ایک دن جمعہ کا مقرر فرمادیا… اب کوئی اور دن مقرر نہیں ہوسکتا… بڑے لوگ
دنیا میں آتے ہیں پھر یہاں سے تشریف لے جاتے ہیں… اگر ہر ایک کے آنے کا جشن اور
ہر ایک کے جانے کا ماتم ہر سال منایا جائے تو انسانی زندگی اسی میں ختم ہوجائے گی
اور مسلمان کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
ایک خطرناک گناہ
حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت وفضیلت کا موضوع مفصل
تھا…اس لیے فی الحال اسے نہ لکھا جاسکا کہ…رمضان المبارک کے ایام ہیں اور مختصر
بات لکھنی ہوتی ہے…اوپر ہم نے حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کے حوالے سے حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول مبارک پڑھا ہے … بس اسی
قول مبارک کے موضوع پر آج کی مجلس سجاتے ہیں…بات دراصل یہ ہے کہ…ہر گناہ بہت
خطرناک ہے مگر ’’مایوسی‘‘ باقی تمام گناہوں سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے…اللہ
تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے مایوسی…اپنے حالات درست ہونے
سے مایوسی …اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مایوسی…مسلمانوں کے حالات ٹھیک ہونے سے
مایوسی…یاد رکھیں! مایوسی کا گناہ چوری، ڈاکے، زنا اور بدکاری کے گناہ سے بھی
زیادہ خطرناک ہے…یہ گناہ انسان کو توڑ دیتا ہے اور اُسے جہنم کی طرف لڑھکا دیتا ہے
… یااللہ! معافی، یااللہ! آپ کی پناہ۔
ہلاکت خیز حملہ
وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جویہ سمجھتے ہیں کہ … اللہ تعالیٰ
انہیں کبھی عذاب نہیں دے گا…اس لیے وہ دل کھول کر گناہ کرتے ہیں…اور مطمئن رہتے
ہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا بننے سے بچائے… مگر وہ لوگ زیادہ بڑی غلطی پر ہیں جو یہ
سمجھ لیتے ہیں کہ…اللہ تعالیٰ انہیں کبھی معاف نہیں فرمائے گا…اللہ تعالیٰ انہیں
نہیں بخشے گا…اللہ تعالیٰ ان کے دنیا وآخرت کے حالات درست نہیں فرمائے گا…یہ لوگ
اپنے بعض گناہوں کو تو سامنے رکھ لیتے ہیں…مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عظمت کو
بھول جاتے ہیں… بظاہر یہ لوگ عاجزی کی حالت میں ہوتے ہیں کہ…اپنے گناہوں کو بڑا
سمجھ رہے ہوتے ہیں…لیکن حقیقت میں یہ بدترین تکبر میں ہوتے ہیں کہ…نعوذباللہ اللہ
تعالیٰ کے وعدوں تک کو کچھ نہیں سمجھتے…مایوسی کی یہ حالت ہر کبیرہ گناہ سے بڑا
کبیرہ گناہ ہے…
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہلاکت دو چیزوں میں ہے: ایک
مایوسی میں اور ایک عجب میں۔‘‘ (الزواجر)
اور ارشاد فرماتے ہیں:
’’کبیرہ گناہ تین ہیں…اللہ تعالیٰ
کی مدد سے بے آس ہوجانا…اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوجانا اور اللہ تعالیٰ کے
عذاب سے بے فکر ہو جانا۔‘‘(طبرانی)
یہ حملہ کیوں ہوتا ہے؟
مایوسی کا یہ خطرناک شیطانی حملہ اکثر نیک لوگوں پر ہوتا
ہے…اور یہ اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ اعمال چھوڑ دیں ، دین کا کام چھوڑ دیں…اور خود
کو شیطان کے حوالے کردیں … آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ لوگ جو برائیوں میں سر تا پا
ڈوبے ہوتے ہیں…دن رات گناہ کرتے ہیں اور گناہ پھیلاتے ہیں اور نعوذباللہ گناہوں کو
گناہ تک نہیں سمجھتے…وہ لوگ اکثر مطمئن پھرتے ہیں … نہ کوئی ڈر نہ کوئی
پریشانی…اگرچہ اُن کے دل سکون سے خالی ہوتے ہیں…مگر اللہ یا آخرت کے بارے انہیں
کوئی فکر نہیں ہوتی…لیکن جو لوگ نیکی کی راہ پر ہوتے ہیں اور دین کا کام کرتے ہیں
… اُن پر اچانک مایوسی کا حملہ ہوجاتا ہے…اصل میں تو یہ حملہ کسی بڑے گناہ یا بڑی
ناکامی کی وجہ سے ہوتا ہے…وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا سارا پچھلا کام ضائع ہوگیا…اور
اب آگے مزید عمل کریں گے تو وہ بھی ضائع ہوجائے گا… اس لیے وہ دل چھوڑ کر بیٹھ
جاتے ہیں اور جب وہ اعمال یا ماحول سے کٹتے ہیں تو شیطان فوراً اُن کا شکار کرلیتا
ہے…
لیکن کبھی کبھار بہت چھوٹی یا معمولی باتوں پر بھی…یہ
شیطانی حملہ شروع ہوجاتا ہے…مثلاً اعتکاف کا ارادہ تھا…اور کوشش بھی کی مگر موقع
نہ ملا…فوراً حملہ شروع ہوگیا کہ میں تو ہوں ہی محروم انسان…مجھ سے تو کوئی نیکی
ہوتی ہی نہیں…بس اسی شیطانی سوچ میں وہ اعمال بھی چھوڑ دیئے جو کررہے تھے اور یوں
رمضان کا آخری عشرہ ضائع کردیا…
اسی طرح صلوٰۃ حاجت پڑھی اور دعاء مانگی مگر وہ قبول نہ
ہوئی…تو فوراً مایوسی اور بد دلی کا حملہ ہوگیا…انسان کو چاہیے کہ خود کو انسان
سمجھے … اس دنیا کو عارضی اور فانی سمجھے…اور اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھے…تب ان
شاء اللہ وہ ایسی خطرناک صورتحال سے بچ سکتا ہے۔
کتنے گندے
تھوڑا سا سوچیں…ہم جب اللہ تعالیٰ سے مایوس ہوتے ہیں تو ہم
کتنے گندے، کتنے ناپاک اور کتنے بُرے ہوجاتے ہیں…وہ عظیم ہوکر فرماتے ہیں آجائو
میں معاف کردوں گا…ہم کہتے ہیں نہیں آپ معاف نہیں کریں گے…وہ فرماتے ہیں تمہارے
گناہ زمین سے آسمان تک پھیل جائیں تب بھی مجھے کیا پرواہ…میرا کیا نقصان…آجائو!
سچے دل سے معافی مانگ لو میں ان تمام گناہوں کا نام ونشان تک مٹادوں گا…ہم کہتے
ہیں نہیں جی … آپ معاف نہیں کریں گے…میرے گناہ زیادہ ہیں… میں بدنصیب ہوں …وہ
فرماتے ہیں کہ …اے گناہوں سے اپنی جانوں کو برباد کرنے والو! تم مایوس نہ ہو…ہم
کہتے ہیں نہیںجی…ہم تو مایوس ہوں گے کیونکہ ہم بہت گِر چکے ہیں…
اندازہ لگائیں…یہ کیسی بُری اور گندی حالت ہے…تھوڑی سی
آزمائش آئی اور فوراً مایوسی میں جاگرے کہ اگر ہمارا کام مقبول ہوتا تو ہم پر
نصرت اُترتی…نصرت نہیں اُترتی تو بس ہمارا کام بھی مقبول نہیں…حالانکہ کیا معلوم
نصرت اُتری یا نہیں؟…اللہ تعالیٰ کی نصرت کے کئی رنگ ہیں …اللہ تعالیٰ کی رحمت کے
کئی رنگ ہیں…اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے کئی رنگ ہیں…حضرات انبیاء علیہم السلام کو لوہے کے آروں سے چیرا گیا … اُن کے جسم کا
گوشت کاٹا گیا…کیا وہ برحق نہیں تھے؟…بے شک وہ برحق تھے…مگر وہ کبھی بھی اللہ
تعالیٰ سے مایوس نہیں ہوتے تھے…
بھائیو! اور بہنو!…اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو …اور اس کی رحمت
کے اُمیدوار رہو…اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…ہمیشہ اسی کے
ساتھ جڑے رہو اور اسی سے مانگتے رہو۔
آخری عشرے کا تحفہ
رمضان المبارک کا آخری عشرہ گزر رہا ہے …رات دن اللہ
تعالیٰ کی رحمت برس رہی ہے اور روزانہ بے شمار لوگ جہنم سے نجات پا رہے ہیں …
گناہوں میں سے ایک خطرناک کبیرہ گناہ ہمارے سامنے آگیا…یہ ہے ’’مایوسی‘‘ کا
گناہ…بس سچے دل کے ساتھ اس گناہ سے توبہ کرلیں…اب تک جتنی بار ہوگیا…یااللہ! معاف
فرمائیے … ہم بہت نادم ہیں… اور آئندہ اس گناہ سے ہماری حفاظت فرمائیے
…استغفراللہ، استغفراللہ…اللہ تعالیٰ سے مایوس ہونا؟جو رحمان اور رحیم ہے اور ارحم
الراحمین ہے …استغفراللہ، استغفراللہ…
یااللہ! آپ کا احسان کہ…مایوسی جیسی گندی حالت میں ہمیں
موت نہیں دی… آپ جیسے رب سے مایوس ہونا؟…استغفراللہ، استغفراللہ…
آپ کی رحمت، آپ کے انعامات، آپ کی پردہ پوشی…اور آپ کا
فضل بے شمار…یااللہ! آپ کی نعمتیں بے حساب…الحمدللہ، الحمدللہ … استغفراللہ،
استغفراللہ…
آجائو گناہگارو! آجائو! سارے گناہ چھوڑ کر …اپنے رب سے
سچی توبہ کرلو…وہ ہر گناہ معاف فرمادیتا ہے…بار بار معاف فرماتا ہے… آجائو،
آجائو اپنے رب کی طرف…اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللّٰھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔ شمارہ:
552
بڑا پاگل خانہ
دنیا کے سب سے بڑے پاگل خانے ’’فیس بک‘‘ کے بارے میں ایک
مبنی بر حقیقت تحریر … جس میں اس پاگل خانے کی حقیقت، اس کے خدو خال ، اس کے
نقصانات اور اثرات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے… اور ساتھ ساتھ… اہل ایمان کو اس
پاگل خانے سے دور رہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے اور ایک اہم وعدہ لیا گیا ہے…
مزید فوائد
پاگل پن سے حفاظت کی مسنون دعاء…
تاریخ اشاعت:
۹شوال
المکرم ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق 15 جولائی 2016ء
بڑا پاگل خانہ
اللہ تعالیٰ ہمارے’’اوقات‘‘اور’’لمحات‘‘ میں خیر اور برکت
عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْئَلُکَ صَلَاحَ السَّاعَاتِ
وَالْبَرَکَۃَ فِی الْأَوْقَاتِ
عجیب دنیا
جو لوگ پاگل ہوجاتے ہیں… وہ کئی قسم کے ہوتے ہیں… ہر پاگل
کی اپنی قسمت… بعض پاگلوں کو اُن کے گھر والے سنبھال لیتے ہیں… بعض پاگل طاقتور
ہوجاتے ہیں تو اُن کا پاگل پن بھی عقلمندی قرار پاتا ہے…جبکہ بعض پاگلوں کو… پاگل
خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے… اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے…یہ پاگل خانے جیل بھی ہوتے
ہیں اور ہسپتال بھی… آج انہی پاگل خانوں کے بارے میں بات کرنی ہے اور ایک بڑے
پاگل خانے کا تعارف کرانا ہے… مگر پہلے ہم سب ’’پاگل پن‘‘ سے حفاظت کی مسنون دعاء
پڑھ لیں:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُذَامِ
وَالْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَسَیِّیِٔ الْاَسْقَامِ
’’یا اللہ! میں آپ کی حفاظت چاہتا
ہوں… کوڑھ، برص، پاگل پن اور گندی بیماریوں سے۔‘‘
یہ دعاء حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو سکھائی ہے،
یاد کرائی ہے۔
عجیب ماحول
کسی پاگل خانے کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا … البتہ پاگل
خانوں کے واقعات عربی اور اردو میں کافی پڑھے ہیں…پاگل خانوں کی تاریخ بھی بہت
پرانی ہے…خلیفہ ہارون الرشید کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک پاگل خانے کا دورہ
کیا تھا …اور وہاں کے ایک پاگل نے ان کو اپنے سوالات سے بیوقوف بنادیا تھا… عربی
زبان میں پاگلوں کے واقعات پر کافی مواد موجود ہے…
کہتے ہیں کہ جو شخص بھی’’اور یجنل پاگل‘‘ ہوتا ہے وہ پاگل
خانے ہی میں خوش رہتا ہے اور وہ کبھی بھی پاگل خانے سے نہیں نکلنا چاہتا… ہاں! جو
نقلی پاگل ہوں وہ پاگل خانے میں خوش نہیں رہتے… پاگل خانے کا ماحول عجیب ہوتا ہے…
ہر پاگل خود کو دنیا کا سب سے عقلمند انسان سمجھتا ہے…کوئی پاگل بادشاہ ہوتا ہے تو
کوئی وزیر اعظم… ہر پاگل کا اپنی ذات کے بارے میں کوئی نہ کوئی بڑا دعویٰ ضرور
ہوتا ہے… مگر غامدیوں کے نظریات کی طرح یہ دعوے بھی بدلتے رہے ہیں… پاگل کو کیا
شرم کہ … ایک دن و ہ سپہ سالار بن جائے اور اگلے دن میراثی اور فنکار…اس نے خود ہی
سوچنا ہے،خود ہی دعویٰ کرنا ہے… خود ہی فیصلہ کرنا ہے اور خود ہی اپنا دعویٰ بدلنا
ہے…کہتے ہیں کہ… جب برصغیر کی تقسیم ہو رہی تھی تو پاگل خانوں میں بھی ماحول گرم
تھا…ہر پاگل اپنے آپ کو کوئی مشہور لیڈر قرار دیتا … چھوٹے پاگل اس کے گردجمع
ہوجاتے… اچانک کوئی دوسرا پاگل اس کے خلاف محاذ کھول دیتا …پھر کچھ پاگل فیصلہ
کرنے والے بن جاتے… اور یوں پورے پورے علاقے، صوبے اور ضلعے پاگلوں کے درمیان
تقسیم ہوجاتے…تب سارے پاگل خوش کہ ہم نے بڑا کام کرلیا…پاگلوں کے ہاں گنتی کا بڑا
مقام ہے… آپ کسی بھی پاگل سے مل لیں وہ ضرور کوئی نہ کوئی چیز’’ گن ‘‘رہا ہوگا،
شمار کر رہا ہوگا…مگر گنتی اس کی اپنی ہوگی…ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنا قصہ لکھا ہے کہ
ایک دن میں پاگل خانے اپنی ڈیوٹی پر گیا…جیسے ہی اندر داخل ہوا تو میرے کانوں سے
آواز گونجی…بیس،بیس ،بیس … میں حیران ہوا اور اندازہ لگانے لگا … جلدہی پتا چل
گیا کہ پاگلوں کے بڑے کمرے میں سے آواز آرہی ہے… اور سارے پاگل مل کر کہہ رہے
ہیں… بیس، بیس ، بیس … پہلے تو میں نے نظر انداز کیا مگر جب ان کی آواز نہ رکی تو
مجھے تجسس ہوا … وہاں دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا ساسوراخ تھا، جس سے نگرانی کرنے
والے چھپ کر پاگلوں پر نظر رکھتے تھے… میں اس سوارخ تک پہنچا اور آنکھ لگا کر
دیکھنے لگا… اچانک اندرسے جھاڑو کا تیزتنکا میری آنکھ میں لگا…اور پاگلوں کی
آواز گونجی اکیس،اکیس، اکیس… یعنی وہ مجھ سے پہلے اس طرح کے بیس شکار کر چکے تھے
اور میں ان کا اکیسواں شکار تھا… اب یہ پاگل خوشی اور فخر سے مرے جارہے تھے اور
چلّا رہے تھے اکیس، اکیس…پاگلوں کی فتوحات، ان کی شکست، ان کی رعایا، ان کی
مقبولیت یہ سب خیالی معاملات ہوتے ہیں… مگر وہ ان کو حقیقی سمجھتے ہیں اور ان میں
مست رہنا چاہتے ہیں۔
ویلکم ٹو ’’بڑا پاگل خانہ‘‘
اب آجائیں اس دنیا کے سب سے بڑے پاگل خانے کی طرف…یہ ہے
’’فیس بک‘‘…پورا کا پورا ماحول پاگل خانے والا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر…یہاں ایک
خیالی سلطنت قائم ہے…ایک یہودی گماشتہ اس سلطنت کا سامری ہے، سلطان ہے… یہاں ہر
شخص گم ہے، مست ہے اور مدہوش ہے… کہیں کوئی بادشاہ ہے اور اس کی رعایا … کہیں کوئی
دانشور ہے اور اس کے فین اور پنکھے … کہیں گنتی چل رہی ہے… میرے اتنے فالوور تیرے
اتنے فالوور… کہیں کوئی فخر سے پھٹ رہا ہے کہ مجھے اتنے لائکس ملے اور فلاں کو
اتنے کم… کہیں کوئی کسی کی دم پکڑ کر کھینچ رہا ہے تو کوئی کسی کے منہ پر کالک مل
رہا ہے…یہاں کوئی مرد،عورت بن کر ہزاروں پاگلوں کو بے وقوف بنارہا ہے تو کوئی عورت
مرد بن کر اپنی سہیلیوں کا کردار چیک کر رہی ہے… یہاں نقلی خیالات، نقلی عقائد،
نقلی بادشاہت، نقلی مقبولیت… اور نقلی بحث مباحثے گرم ہیں… قیمتی سے قیمتی افراد
اس پاگل خانے میں داخل ہوکر دو ٹکے کے رہ جاتے ہیں… بھکاریوں کی طرح ایک ایک
’’لائک‘‘ کو ترستے … بے عزت عورتوں کی طرح ایک ایک کی گالی سہتے … اور بے کار
لوگوں کے ساتھ اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے…ہر بے عزت اس پاگل خانہ میں باعزت ہے…
کیونکہ اس کے فالوورز زیادہ ہیں … یہ فالوورز کون ہیں؟ کہاں ہیں؟ کیوں فالوورز
ہیں؟… پاگلوں کو ان باتوں کے سوچنے کی فرصت نہیں… یہاں ہر پاگل دوسروں کو بے وقوف
اور خود کو عقلمند سمجھتا ہے… اور سامری کے اس گندے ہول میں ہر شخص پھنسا ہوا…
اپنی زندگی کے بہترین لمحات برباد کررہا ہے…مگر کوئی نہیں سوچتا کہ وہ کیا کررہا
ہے؟ کیوں کررہا ہے؟ اور اس سے کیا پارہا ہے؟ اور اس میں کیا لگا رہا ہے؟… کاش!
اُمت مسلمہ کے قیمتی دماغ جب اس پاگل خانے میں دوچار گھنٹے گزارکر نکلا کریں تو
صرف گھڑی دیکھ کر خود سے پوچھیں کہ… زندگی کے ایک سو بیس منٹ کا کیا حساب ہوگا؟…
یہی وقت عبادت میں لگتا تو کتنے فرائض اور نوافل ادا ہوجاتے… تلاوت میں لگتا تو
کتنا قرآن یاد ہوجاتا… کسی کو دعوت دینے یا کسی کی ذہن سازی میں لگتا تو کتنے
افراد بدل جاتے… اپنے جسم کے پٹھے اورمسلز مضبوط کرنے میں لگتا تو جسم کتنا آسودہ
ہوجاتا… اپنی بوڑھی ماں اور بوڑھے باپ کے قدموں میں بیٹھ کر یہ وقت ان کادل خوش
کرنے میںلگتا تو میری قسمت کو کتنے چاند لگ جاتے… یہی وقت خدمت خلق میں لگتا تو
میرے لئے آخرت کا کیا ذخیرہ بن جاتا… یہی وقت اپنی بیوی سے باتیں کرنے میں گزرتا
تو اس اللہ کی بندی کے دل کے کتنے زخم دُھل جاتے… یہی وقت اپنی اولاد کی تربیت
میںلگتا تو صدقہ جاریہ کا درخت کتنا تنا ور ہوجاتا… مگر کچھ بھی نہ ہوا دوچار
گھنٹے پاگل خانے میں… کسی کی دم کھینچنے، کسی کی دم پکڑنے، کسی کا منہ چڑانے… کسی
کو ہنسانے… اور چند پاگلوں کے لائکس سمیٹنے اور کچھ لوگوں کے بدبو دار فضلے کو
سونگھنے اور پھر اس بدبو پرتبصرے کرنے میں گزر گئے… اور یوں زندگی کے یہ قیمتی
لمحات ایک یہودی قبرستان میں دفن ہوگئے… اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ
رٰجِعُوْنَ ۔
پُرکشش
فیس بک کا پاگل خانہ… ایک سامری کے دماغ کا جادو ہے… اور
جادو میںکشش ہوتی ہے… یا پھروہ دماغ کو چھوٹا کردیتا ہے… چھوٹے بچے ویڈیو گیم پر
بہت سے آدمی مار ڈالتے ہیں… سانپوں کے مقابلے جیت جاتے ہیں… کاروں کی ریس میں
زیادہ نمبر لے جاتے ہیں… حالانکہ سب کچھ خیالی ہوتاہے… مگر چونکہ بچے کا دماغ
چھوٹا ہوتا ہے تو اس لیے وہ خوشی محسوس کرتا ہے… کسی عقلمند یا ذمہ دار شخص کو ان
چیزوں سے خوشی یافتح کا احساس نہیں ہوتا… فیس بک پر آتے ہی… انسان کا دماغ چھوٹا
ہوجاتا ہے اور وہ ان چیزوں میں خوشی اور کشش محسوس کرتا ہے جو اس کے کسی کام کی
نہیں… نہ دنیا میں ، نہ آخرت میں… پر ویز مشرف کو فیس بک پر … چالیس لاکھ فالوورز
ملے تو اس کا دماغ لرز گیا… وہ بھاگتا ہوا پاکستان پہنچا مگر ایئر پورٹ پر چالیس
فالوورز بھی نہیں پہنچے تھے… فیس بک کے فالوورز نے تو فیس بک پر ہی ملنا تھا … ان
کا ائیر پورٹ پر کیا کام؟…
مجھے خود ایک بار تجربہ ہوا… کسی قریبی کے فیس بک اکاؤنٹ
سے عرب علماء اور دانشوروں کے صفحات میں جااُترا… وہاں علمی بحثیں چل رہی تھیں…
میں نے ایک دانشور کے ساتھ سینگ اڑا دیئے… کچھ دیر مقابلہ چلا وہ ناک آؤٹ ہوگیا
… میں نے کہا کہ اب اپنی پوسٹ ہٹاؤ… اس نے جیسے ہی ہٹائی میرا دل خوشی اور احساس
فتح سے بھر گیا حالانکہ یہ کون سی فتح تھی اور کیسی خوشی؟ مگر فیس بک تو انسان کو
بہت چھوٹا بنا دیتی ہے… پھر اسی طرح دوتین بارہوا… اب جب ان واقعات کو سوچتا ہوں
تو خود پر شرم آتی ہے… ایک بیو قوف کے ساتھ میرااتنا وقت برباد ہوگیا… میں
نہیںجانتا کہ وہ کون ہے… مجھے نہیں معلوم کہ اس کے مزید کتنے نظریات غلط ہیں؟…
مجھے نہیں علم کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرکے پھر باز آیا یا اگلے دن پھر اس نے وہی
پوسٹ لگادی… مجھے نہیں علم کہ اس نے کوئی فائدہ اُٹھایا یا صرف مجھے پھنسانے کے
لئے … اپنی ہار مان لی تاکہ میں روز اس کے ساتھ پاگل پن کھیل سکوں؟… یہی وقت جو
میں نے اس کے ساتھ لگایا … اگر کسی سامنے، زندہ یا دور جاننے والے فرد کی تربیت پر
لگاتا تو میرے لئے کتنا اچھا ہوتا… مگر ستم یہ ہے کہ جن کے پاس اپنے شاگردوںاپنے
بچوں اور اپنے والدین کے لئے وقت نہیں… وہی فیس بک کے پاگل خانے میں بھرپور وقت
گذارتے ہیں… اور اب فیس بک کی دیکھا دیکھی اس طرح کے کئی مزید پاگل خانے بھی قائم
ہوچکے ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
آئینہ
لوگ طرح طرح کے دھوکوں میں… اپنا وقت فیس بک وغیرہ پر ضائع
کررہے ہیں…پہلے جو لوگ نیٹ پر گندی تصویریں، فلمیں دیکھتے تھے …ان کو کم ازکم اتنا
احساس تو ہوتا تھا کہ ہم نے غلط کام کیا ہے… چنانچہ وہ توبہ، استغفار بھی کرلیتے
تھے…مگر فیس بک کے پاگل خانے میں… کئی افراد تو خود کو گویاعبادت میں مشغول سمجھتے
ہیں … وہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اتنے چوہے مارے، اتنے گیدڑ شکار کئے… اور اتنے لوگ
سدھارے … چنانچہ وہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع ہونے پر توبہ استغفار بھی نہیں
کرتے… اور یوں پاگل پن کا مرض بڑھتا جاتا ہے…
اس لئے مناسب سمجھا کہ سامری کے اس جادو کو توڑنے کے
لئےسلیمانی آئینہ دکھایا جائے شاید کئی افراد اس میں اپنا اصل چہرہ اور اصل مقصد
دیکھ کر…پاگل خانے سے باہر نکل آئیں … باقی نصیب اپنا اپنا…آج کے یہ چند الفاظ
بس اسی مقصد کے تحت لکھے ہیں کہ… آپ کی توجہ اس پہلو کی طرف بھی مبذول ہوجائے…یا
اللہ! ان الفاظ کو…میرے لئے اور پڑھنے والوں کے لئے نافع بنا دیجئے۔
دواء کے بنڈل
لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ فیس بک اگر پاگل خانہ ہے تو پھر آپ
لوگوں کی نشریات وہاں کس لئے لگائی جاتی ہیں؟… جواب یہ ہے کہ ہمارے رفقاء پاگل
خانے کی دیوار تک جاتے ہیں… اور وہاں سے صحت مندغذا اور دوائوں کے پیکٹ… اندر پاگل
خانے میں پھینکتے ہیں… تاکہ اگر کوئی ان کو کھائے تو وہ پاگل خانے سے باہر نکل
آئے … ہاں! البتہ پاگل خانے کی دیوار تک جانے میں بھی … ان رفقاء میں سے بعض کے
دماغ پر تھوڑی دیر کا’’پاگل پن‘‘ آجاتا ہے اور وہ ’’لائکس‘‘ اور’’کمنٹس‘‘ شمار
کرنے لگتے ہیں… یا تھوڑی دیر کسی مباحثے میں لگ جاتے ہیں…حالانکہ ان کو اس سے بھی
بچنا چاہئے۔
نہ حسد نہ دل آزاری
جو لوگ’’ فیس بک‘‘پر مقبول ہیں…ہمیں ان سے کوئی حسد نہیں…
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی مقبولیت… اور ایسی مقبولیت کے شوق سے محفوظ رکھے…اس لئے آج
جو کچھ لکھا گیا وہ کسی حاسدانہ جذبے کے تحت نہیں ہے…اسی طرح کسی کی دل آزاری بھی
مقصود نہیں…انسان اپنی زندگی میں بار بار پھسلتا ہے، غلطی کرتا ہے…فیس بک پر مشغول
افراد بھی ان معروضات پر غو ر فرمالیں … اگر اپنی غلطی کا احساس ہو تو تو بہ کرلیں
اور شکر کریں کہ زندگی کے قیمتی اوقات بچ گئے…
اگر آپ کو اپنی غلطی محسوس نہ ہو تو ہمیں کوئی شکوہ
نہیں…البتہ ایک کام میں آپ سب سے تعاون مانگتا ہوں… فیس بک کو ’’مارک زکر برگ‘‘
کی سلطنت کہا جاتا ہے… حالانکہ یہودیوں کے لئے ’’سلطنت‘‘حرام ہے… آپ سب اتنا
تعاون کریں کہ… فیس بک کو…’’ مارک زکر برگ‘‘ کا پاگل خانہ کہا کریں… ٹھیک ہے نا؟…
ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللّٰھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔شمارہ:
553
بابرکت تحریک
* ’’جہاد
کشمیر‘‘ کی تحریک ایک بابرکت تحریک ہے…
کیونکہ یہ تحریک ’’غزوۂ ہند‘‘ کا حصہ ہے…
ختحریک کشمیر کی کامیابی یقینی ہے، ان شاء اللہ…
* آسمان
سے برستا پانی اور شہداء کا خون، یہ دو چیزیں ایسی ہیں
جو
اپنے نتائج حاصل کرکے ہی رہتی ہیں…
* جہاد
کشمیر میں آنے والے نشیب وفراز، اور ان کی وجوہات…
* جہاد
کشمیر کے پاکستان میں زیادہ مقبولیت نہ پانے کی وجوہات…
* جہاد
کشمیر کے مخالفین سے چند کھری کھری باتیں…
* اہل
کشمیر کی عزیمت وقربانی…
* جہاد
کشمیر کے فوائد وثمرات…
* جہاد
کیسے چھوڑیں؟…
تاریخ اشاعت:
۱۶شوال
المکرم ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق 22 جولائی 2016ء
بابرکت تحریک
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ نصرت کا وعدہ فرمایا
ہے…اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا اور برحق ہے۔
ایک بات پکی ہے
ان شاء اللہ’’کشمیر‘‘نے ضرور آزاد ہونا ہے … یہ مبارک
تحریک اپنے اُن تمام امتحانات سے گذرچکی ہے جو کسی بھی تحریک کو ختم کرنے کے لئے
کافی ہوتے ہیں… مگر تحریکِ کشمیر ختم نہ ہوئی…آج کل کے دور میں کوئی تحریک دس سال
تک چل جائے تو بڑی بات ہوتی ہے… مگر اہل کشمیر تقریباً تیس سال سے اپنا لہو اس
تحریک کو دے رہے ہیں… جہاد افغانستان کی روشنی سے آنکھیں کھولنے والی تحریک
کشمیر… طوفانوں اور اندھیروں کے کئی سمندر عبور کرچکی ہے …
نائن الیون کے بعد جب ’’جہاد‘‘ کے خلاف ساری دنیا متحد
ہوگئی تو… جہاد کشمیر کو مٹانے کی بڑی مؤثر چال چلی گئی…یہ چال ایسی خطرناک تھی
کہ ’’جہاد کشمیر‘‘واقعی ڈوبتا محسوس ہوا… مگر اچانک تہاڑ جیل سے ایک آئینہ سورج
کی طرح چمکا… اور پوری وادی’’الجہاد الجہاد‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھی… اور پھر
جہاد کشمیر نے اپنے شعلے دوردور تک برسا دئیے … واقعی یہ عجیب تحریک ہے… بابرکت
غزوۂ ہند …اس تحریک کی گود میں…معلوم نہیں کتنے افضل گرو…کتنے غازی بابا… کتنے
سجاد افغانی اور کتنے برہان وانی…پل رہے ہیں… ایسی تحریک کے بارے میں کون کہہ سکتا
ہے کہ…یہ ناکام ہوگی … آسمان سے برسنے والا پانی…اور شہید کی گردن سے بہنے والا
خون… اپنے نتائج حاصل کر کے رہتا ہے…مجھے یقین ہے… سوفیصدیقین کہ… یہ تحریک ضرور
کامیاب ہوگی ان شاء اللہ … ان شاء اللہ… ان شاء اللہ
قریب کے مناظر
الحمدللہ میں نے کشمیر اور تحریک کشمیرکو قریب سے دیکھا ہے…
اس تحریک کی خوبیاں بھی اور خامیاں بھی… الحمدللہ خوبیاں زیادہ ہیں اور خامیاں کم
… ہر جگہ جب عزیمت چمکتی ہے تو نفاق بھی سراُٹھاتا ہے … مگر کشمیر میں عزیمت زیادہ
ہے اور نفاق کم… چودہ صدیاں پہلے عزیمت اور نفاق کا مقابلہ مدینہ منورہ میں ہوا
تھا …عزیمت جیت گئی تھی اور نفاق ہار گیا تھا… الحمدللہ کشمیر والے مدینہ منورہ کے
عاشق ہیں… ’’اخوان‘‘ کی نفاقی یلغار کتنی سخت تھی… صرف تصور کریں تو کلیجہ منہ کو
آتا ہے… مگر آج اخوان کا وہاں نام و نشان تک نہیں…جبکہ عزیمت ہر آئے دن یوں
مسکراتی ہے کہ…دل جھوم اُٹھتا ہے… انڈیا نواز وزیر اعلیٰ کے جنازے میں…چند سو
افراد… اور ایک نو خیز مجاہد کے جنازے میں کئی لاکھ…یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے… سچی
بات یہ ہے کہ اگر پاکستانی حکومت کے ارادوں میں سوراخ نہ ہوتے تو تحریک کشمیر
مشرقی پنجاب سے آگے تک بڑھ چکی ہوتی… مگر یہ بھی اس تحریک کی حقانیت ہے کہ جب
…پاکستان کا صدر اس تحریک سے ہاتھ دھو چکا تھا …اور وہ اپنی نگرانی میں انڈیا کو
باڑ لگانے کی سہولت دے رہا تھا… اور مجاہدین کے لئے آمد ورفت کے تمام دروازے وہ
بند کر چکا تھا…تب بھی ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے یہ تحریک چلتی رہی… اور ایک دن کے
لئے بھی نہ رکی…میں نے قریب سے دیکھا کہ کشمیر کا محاذ… دنیا کا مشکل ترین محاذ
ہے… اور شاید دنیا کا سب سے اونچا محاذ بھی…یوں سمجھ لیں کہ پورا کشمیر انڈین فوج
کی ایک چھاؤنی ہے… آپ کشمیر کا کل رقبہ دیکھیں اور پھر انڈین آرمی اور فورسزکی
تعداد … آپ مان جائیں گے کہ کشمیر ایک فوجی چھاؤنی ہے… ہر موڑ پر مورچہ ،ہر چوک
پر بینکر … ہر گلی میں پہرہ اور ہر سڑک پر گشت…آپ دنیا بھرکے عسکری ماہرین کو
کشمیر کی یہ صورتحال دکھائیں وہ بیک آواز کہیں گے کہ یہاں چڑیا بھی پر نہیں مار
سکتی… مگر اسی چھاؤنی کے اندر ستائیس سالوں سے جہاد جاری ہے اور جہاد بھی معمولی
نہیں…بھرپور جہاد…زوردار جہاد اور فدائی جہاد … میں نے اس چھاؤنی میں خوشی اور
اطمینان کے ساتھ گھومتے مجاہد دیکھے اور اسی چھاؤنی میں ہانپتے کانپتے خوف سے
لرزتے انڈین فوجی بھی بارہا دیکھے …ان فوجیوں کے خوف بھرے تبصرے، اپنی حکومت کو دی
جانے والی غلیظ گالیاں اور جلد ازجلد کشمیر سے واپسی کی آرزو۔
میں نے کشمیر کے عقوبت خانوں اور جیلوں میں … وہ بوڑھے
کشمیری بزرگ بھی دیکھے… جن کی ہڈیاں تشدد سے چٹخ چکی تھیں… مگر ان کے عزائم کپواڑہ
کے پہاڑوں سے بلند تھے… اور سب سے بڑھ کر کشمیری مسلمان مائیں اوربہنیں…ان کی ہمت،
جرأت اور عزیمت کی داستانیں … ہزاروں صفحات کی کتابیں بھی نہیں سمیٹ سکتیں…
ہم جب عقوبت خانوں اور جیلوں میں تھے تو ان مائوں نے…ہمارے
لئے اپنے سگے بیٹوں سے بھی زیادہ اچھے کپڑے اور کھانے بھجوائے اوراپنی ایمان افروز
دعائوں سے ہمارا حوصلہ بڑھایا…دور سے بیٹھ کر تبصرے اور فتوے داغنا اہل ایمان کو
زیبا نہیں… کشمیر پر بات کرنے سے پہلے ذرا کشمیر میں جھانک کر تو دیکھوتب اپنا
ایمان بہت کمزور نظر آئے گا… اپنا قد بہت چھوٹا نظر آئے گا اور اپنی آنکھیں اس
نیم نابینا کشمیری خاتون سے بھی کمزور نظر آئیں گی جو اپنے گھر مجاہدین کو بیٹا
بنا کر رکھتی تھی… پھر ایک دن اُس کے یہ بیٹے قریب کے کھیت میں مقابلہ کرتے ہوئے
شہید ہوگئے تو وہ چلّاتی ہوئی دیوار سے کود گئی کہ… میرے بیٹوں کی بندوقیں مشرک نہ
لے جائیں…وہ برستی گولیوں کے درمیان کھیت میں اُتری… اور چار کلاشنکوفیں اُٹھا
لائی… تاکہ دوسرے مجاہدین تک پہنچا سکے…ارے! ستائیس سال کا عرصہ مذاق نہیں ہوتا…
یہ جہاد ہے، عزیمت ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود انڈیا ابھی تک اپنی فتح کا
اعلان نہیں کر سکا… اور ہر دن اسے اپنے فوجیوں کی لاشیں ڈھونی پڑتی ہیں… جہاد
کشمیر پر آوازے کسنے والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو… ہاں! اللہ تعالیٰ سے ڈرو…اپنی ان
مسلمان مائوں سے شرم کرو جن کے چار چار لخت جگر اس تحریک میںقربان ہو چکے ہیں…اور
کچھ نہیں اپنے کلمے کا تو شرم کرو… وہاں ایک طرف کلمہ طیبہ پڑھنے والے ہیں اور
دوسری طرف بتوں کے پجاری مشرک…کیا کلمہ پڑھنے والے تمہارے یہ بھائی… تمہاری دعاء
اور تمہاری تائید کے بھی مستحق نہیں ہیں؟
آنکھیں ہوں تو نظر آئے
یہ بات درست ہے کہ ستائیس سال کی لڑائی کے باوجود…کشمیر
آزاد نہیں ہوا… مگر یہ ناکامی کی بات نہیں ہے… اگر کشمیر آزاد نہیں ہوا تو انڈیا
کو بھی فتح نہیں ملی… باقی رہے جہاد کشمیر کے نتائج… اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو
بصیرت والی آنکھیں دی ہوں تو …جہاد کشمیر کے حیر ت انگیز نتائج کھلی آنکھوں سے
نظر آتے ہیں…پاکستان کے حکمرانوں کی… کمزوری، بزدلی اور وطن دشمنی کی وجہ سے
انڈیا کے حوصلے بہت بلند ہوگئے تھے…وہ پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈبھارت کے خواب
اور منصوبے جوڑ رہا تھا…جہاد کشمیر نے انڈیا کو کشمیر کی چڑھائیوں، ڈوڈہ کی
کھائیوں اور جموں راجوری کی اُترائیوں میں پھنسا دیا … انڈیا کا بے حیا فلمی کلچر
جس تیزی سے کشمیر کی خوبصورتی کو فحاشی اور بددینی میں دھکیل رہا تھا… جہاد کشمیر
نے کشمیر کو غازیوں،شہیدوں اور اولیاء کی سرزمین بنا دیا … اس تحریک کی برکت سے
وہاں اہل ایمان اور اہل ولایت کی ایسی کھیپ تیار ہوئی کہ… صدیوں کی محنت بھی ایسے
اولیاء پیدا نہیں کر سکتی… میں نے کشمیر میں کم سن نوجوان اولیاء کرام کے منور
چہرے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں… جہاد کشمیر کی برکت سے پاکستان کے کتنے گھرانوں
اور کتنے نوجوانوں کو ایمان ،جہاد اور توبہ کی نعمتیں نصیب ہوئیں…یہ ایک مستقل
دلکش داستان ہے… جہاد کشمیر کی برکت سے پاکستان ، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دور
قریب کے کئی علاقوں میں ایمان اور دین کی ہوائیں چلیں… اور بے شمار مسلمانوں کو…
سچا مسلمان بننے کی توفیق ملی…
ہاں! بے شک…جہاد کشمیر کے مثبت نتائج بے شمار ہیں… مگر یہ
اُنہی کو نظرآتے ہیں جن کی آنکھیں سلامت ہوں۔
شرم آتی ہے
جہاد نہ ہماری دکانداری ہے اور نہ ہی ہمارا پیشہ … ہم جہاد
میں اس وجہ سے نہیں آئے کہ روٹی کی کمی تھی یا گاڑیوں کی ضرورت… اللہ تعالیٰ کا
بے حد شکر کہ الحمدللہ یہ سب کچھ میسر تھا… یہ منافقین کا پروپیگنڈہ ہے کہ لوگ
بیروزگاری اور جہالت کی وجہ سے جہاد میں آتے ہیں… یہ جھوٹ ہے… بیروز گاری اور
جہالت کی وجہ سے تو لوگ چور بنتے ہیں، ڈاکو بنتے ہیں، میراثی اور فنکار بنتے ہیں
…شوبزاور بے حیائی کے پیشوں میں جاتے ہیں… سیاستدانوں کے کن ٹٹے بدمعاش اور
وڈیروں،جاگیرداروں ، چودھریوں اور خانوں کے غلام بنتے ہیں… جہاد میں توعلم والے
آتے ہیں… جن کے پاس عرش سے اُتر نے والے نورانی علم کی روشنی ہوتی ہے … جہاد میں
تو وہ اُترتے ہیں جو کمانے کی بجائے لگانے پر یقین رکھتے ہیں… جہاد میں درد دل
والے اُترتے ہیں جو اپنی ذات کے خول میں قید نہیں ہوتے بلکہ… اسلام اور مسلمانوں
کا سوچتے ہیں…
ایک بارکسی مؤثر ہستی نے مجھے کہا…مولانا! اب تو جہاد
چھوڑو کچھ علمی کام کرو…تمہارے اندر علمی استعداد موجود ہے… بندہ نے ان سے عرض
کیا: جناب والا! جہاد چھوڑتے ہوئے شرم آتی ہے… مسلمان ہر طرف مظلوم ہیں… اُن پر
ظلم کرنے والوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں… ظالموں کو روکنے والا کوئی نہیں …ہم چند
لوگ جہاد میں چلے گئے تاکہ مظلوم مسلمانوں کو ڈھار س ملے کہ وہ لا وارث نہیں… پھر
یہ ہوا کہ ہم جو چند افراد جہاد کے لئے کھڑے ہوئے تو ہمارے کئی رفقاء شہید ہوگئے …
وہ آگے نکل گئے… ان کے جانے کے بعد ہم پیچھے ہٹ جائیں اور راستہ بدل لیں تو بہت
شرم آتی ہے… بہت شرم… یا اللہ!خاص اپنے فضل سے استقامت عطا ء فرما۔
جہاد کشمیر کی تازہ لہر
افغانستان میں علماء اور طلبہ کی کثرت تھی… وہاں جہاد شروع
ہوا تو’’مہاجرین کرام‘‘میں بڑی تعداد علماء اور طلبہ کی بھی تھی…یہ حضرات جہاد کو
سمجھتے بھی تھے اور سمجھا بھی سکتے تھے… چنانچہ جہاد افغانستان کو پاکستان اور
دنیا بھر میں اچھا تعارف اور اچھی پذیرائی ملی… کشمیر کا معاملہ البتہ ایسا نہ
تھا… کشمیریوں نے بہت ظلم دیکھا اور بہت خوفناک غلامی … پھر بھی کرامت ہے کہ … وہ
اسلام پر رہے… مگر نہ اُن میں زیادہ علماء تھے اور نہ دینی طلبہ… ابتداء میں جہاد
کشمیر کی پکار لے کر جو حضرات پاکستان آئے اُن کا حلیہ اور لباس پاکستان کے دینی
طبقے کے لئے اجنبی تھا… وہ انگریزی سے آلودہ اردو میں جہاد کی ٹوٹی پھوٹی بات کر
سکتے تھے… مجھے یاد ہے ۱۹۹۰ میں وہاں سے ایک دانشور تشریف لائے… اقبالیات میں ڈاکٹریٹ
کی ڈگری ان کے پاس تھی … چہرے پر مختصر داڑھی اور لباس آدھا مشرقی آدھا مغربی
…ہم اُن کو جلسوں میں لے جاتے تو وہ اپنے آنسوئوں اور اقبال کے اشعار سے دعوت
جہاد دیتے … جب انہوں نے میرے جہادی بیانات سنے تو قرآن و حدیث کے دلائل پاکر بے
حد مسرور اور جذباتی ہوئے … اور بیانات کی کیسٹیں کشمیر لے گئے اور ان کو بہت
پھیلایا … بہر حال جہاد کشمیر کو پاکستان کے دینی طبقے میں زیادہ مقبولیت نہ ملی…
انڈیا کا پاکستان میں گہرا اثر ہے… آواز لگ گئی کہ جہاد کشمیر ایجنسیوں کا جہاد
ہے… یہ ظالم جملہ اُن کی زبان سے بھی نکلا جو انتخابات لڑکر… خود حکومت کا وزیر
مشیر یعنی خود ایجنسی والا بننے پر فخر کرتے ہیں… اسی طرح اور بھی بہت سے اعتراضات
جہاد کشمیر پر آتے رہے… مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ… دعوت جہاد مسلسل چلتی
رہی… دین کے دیوانے مسلسل سرگرم رہے تو الحمدللہ جہاد کشمیر کے لئے افرادی قوت بھی
میسر رہی اور مالی طاقت بھی بنتی رہی … پھر نائن الیون اور بش، مشرف، واجپائی
اتحاد نے…جہادِ کشمیر پر فیصلہ کن وار کیا…تحریک کشمیر کا جنون قدرے کمزور ہوا…
اور مجاہدین کے راستے بند… مگر جہاد تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے… وہی جہاد کی توفیق
دیتا ہے… اور وہی جہاد کو چلاتا ہے… جہاد نہ حکومتوں کا محتاج ہے اور نہ ہی
ایجنسیوں کا … اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے دشمنوں اور منکروں کو بھی جہاد اور
مجاہدین کی خدمت پر مجبور فرما دیتا ہے… اب ایک بار پھر…جہاد کشمیر کے شعلے لپکے
ہیں… پٹھانکوٹ میں مجاہدین نے ایک بڑاحملہ کر کے اہل کشمیر کے حوصلے بلند
کردئیے…اور اب بعض مجاہدین کرام کی شہادت نے پوری کشمیری قوم کو کھڑا کردیا ہے…اس
موقع پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ… ہم ہر طرح سے کشمیری مسلمانوں کی مدد کریں… اور
جہاد کشمیر کے جھنڈے اور علَم کو ہرگز، ہرگز نہ گرنے دیں … اے مسلمان بھائیو! اگر
ہم زندہ ہوئے اور جہاد کشمیر کا جھنڈا گِرگیا… اور ہماری زندگی میں مشرکوں نے فتح
کا جشن منایا تو سوچو! ہماری زندگی اور ہماری جوانی کس کام کی؟
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔ شمارہ:
554
اُمّ المؤمنین والمومنات
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
*
اُمت مسلمہ اور مظلوم مسلمانوں کے لئے حفاظت کی دعاء…
*
اُمت مسلمہ کے خلاف ظلم کی گرم بازاری پر درد مندی اورافسوس کا اظہار…
*
ایک ’’احراری‘‘ کے سچے اشعار اور اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو سلام…
*
جہاد کشمیر کی تازہ لہر پر ’’صبح انقلاب‘‘ کے دو اقتباسات…
*
ایک شاندار ’’فاروقی وظیفہ‘‘…
*
ایک نام نہاد صوفی اور ایک شعر…
*
خوش نصیب ’’اہل ڈاڑھی‘‘ کو ایک نصیحت…
*
اماں جی حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
کا مبارک تذکرہ اور حالات…
*
’’سودہ‘‘ کا معنٰی و مطلب…
*
بیٹیوں کا نام ’’سودہ‘‘ رکھنے کی ترغیب…
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم مضامین
ملاحظہ
فرمائیے!
تاریخ اشاعت:
یکم ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ؍ بمطابق 5 اگست 2016ء
اُمّ المؤمنین والمؤمنات
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
اللہ تعالیٰ ’’انسانوں ‘‘ کی حفاظت فرمائے… ’’حیوانوں‘‘ کے
شر سے
فَاللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ
الرَّاحِمِیْنَ۔
کشمیر میں روزانہ شہداء کے جنازے…اور ہسپتالوں میں زخمیوں
کا ہجوم… شام کے پیارے شہر ’’حلب ‘‘ پر انسانیت کش حملے… ہمارے پنجاب میں سینکڑوں
بچوں کا لرزہ خیز اغواء اور ہرآئے دن ظالمانہ پولیس مقابلے… لیبیا پر امریکہ کی
تازہ بمباری کا آغاز… ایران کی یمن، عراق اور شام میں کھلم کھلادرندگی… افغانستان
پر ڈرون حملوں کی بوچھاڑ… اور فلسطین آہ! فلسطین… آئے دن جنازے…یا اللہ! امت
مسلمہ کی حفاظت…
اِنَّ رَبِّی عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ۔
سچے اَشعار
ایک زمانہ تھا، مجلس احرارِ اسلام آزادیٔ کشمیر کی تحریک
میں سرگرم تھی… احرار کے ایک سپاہی کو جیل میں ڈالا گیا انہوں نے وہاں چند اشعار
کہے… آج ایک پرانی کتاب میں یہ اشعار نظر آ گئے؎
ہے غلامی ایسی قوموں پر نثار
مرد جن کے سست و کاہل ہو گئے
روحِ آزادی وہاں آتی نہیں
فرض سے اپنے جو غافل ہو گئے
ہیں مبارک باپ وہ جن کے پسر
غازیوں میں جا کے شامل ہو گئے
راہِ حق میں لڑنے والوں کی نہ پوچھ
جان دی جنت میں داخل ہو گئے
جان دے راہِ خدا میں اور سمجھ
طے تصوف کے مراحل ہو گئے
ہے جہاد اسلام کا اصلِ اصول
ہم تو اس نکتے کے قائل ہو گئے
اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو سلام! ایک ماہ سے زائد
عرصہ بیت گیا…مگر وہ ڈٹے کھڑے ہیں، جیسے ہی کرفیو اُٹھتا ہے وہ جہادی پرچم لے کر
نکل آتے ہیں اور دوچار شہداء پیش کر دیتے ہیں… ثابت ہو چکا کہ …انڈیا کو کشمیر پر
حکمرانی کا کوئی حق نہیں… وہاں بندوق کے زور پر بس ناجائز قبضہ ہے…یاد رکھنا!
انڈیا کا ظلم اب اپنی تمام حدود سے تجاوز کر چکا ہے…اس لئے اب جنگ کا میدان آگے
بڑھے گا…ہاں! ضرور…ان شاء اللہ وہاں تک آگے بڑھے گا جہاں تک کسی کے وہم و گمان
میں بھی نہیں ہو گا…اے امت مسلمہ کی پاکیزہ ماؤں اور بہنو! اہل کشمیر ، تحریک
کشمیر اور مجاہدین کشمیر کے لئے دعاء کے ہاتھ پھیلا دو۔
اُٹھ جاگ مسافر
اہل اسلام کے لئے ’’صبح انقلاب ‘‘ سے ایک اقتباس:
’’چمگادڑوں نے سمجھا تھا…اندھیری
رات کبھی ختم نہ ہوگی… پہرہ دار ہمیشہ گہری نیند سوتا رہے گا… ہم اسی طرح اونچی
شاخوں میں جھولتے اور پکے پھلوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے…خیال اچھا تھا اور اچھے
خیال دیر تک نہیں رہا کرتے … مشرق میں اُجالے کا پرچم نمودار ہوا…فقیر نے ’’اُٹھ
جاگ مسافر ‘‘کا گیت شروع کیا…پہرہ دار کی آنکھ کھل گئی…باغ کی تقدیر جاگ اُٹھی…
اندھیرے کی طاقتیں رات کے دامن میں پناہ لینے کے لئے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔‘‘
اور تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ایک اور اقتباس:
’’چنگاریوں سے کہا گیا…تمہارا
مستقبل تاریک ہے…انگاروں کو ڈرایا گیا تمہاری قسمت میں روسیاہی لکھی ہے، چنگاریاں
مدتوں راکھ میں سہمی پڑی رہیں…آخر ایک چھوٹے سے انگارے نے سر اُٹھا کر گرد وپیش
دیکھا…سوکھی گھاس کے تنکے اسے دبانے کے لئے بڑھے…انگارہ اُن کی طرف لپکا… تھوڑی
دیر میں تمام جہاں شعلہ زار بن گیا… اب لوگوں کو یقین آیا…جہاد زندہ ہے، تحریک
کشمیر زندہ ہے۔‘‘
بہت شاندار وظیفہ
انسان کو اچانک وسوسہ آتا ہے کہ…اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض
ہے… بس پھر جسم پر تھکاوٹ کا ایسا حملہ ہوتا ہے گویا کہ جسم میں جان ہی نہیں…نہ
اعمال کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کچھ اورکرنے کی…ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے…
رہنمائی ایک بڑے عظیم انسان نے فرمائی… اُن کے نام کی ہیبت سے شیطان بھاگتا ہے اور
اُن کا تذکرہ دلوں کو قوت دیتا ہے …وہ ہیں حضرت سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ… سبحان اللہ! نام میں کتنی مٹھاس
ہے ، کتنا جلال ہے اور کتنی محبت ہے سلام اللہ علیہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ… ان کو جب
کبھی یہ خطرہ لاحق ہوتا کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات سے ناراض ہیں تو وہ فوراً کہتے:
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ
بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا۔
اللہ ، اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے اعلان کے بعد جھٹ دعاء مانگ لیتے:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِ اللّٰہِ وَ غَضَبِ
رَسُوْلِہٖ۔
’’میں اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس
کے رسول کے غضب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں۔‘‘
عجیب وظیفہ ہے، بہت عجیب وظیفہ… کبھی دل میں آئے کہ تمہارے
پاس تو کچھ بھی نہیں تو فوراً کہیں:
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ
بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نَبِیًّا۔
میرے پاس اللہ تعالیٰ ہے…میرے پاس اسلام ہے، میرے پاس حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے…اور کیا چاہیے؟…اور یاد رکھیں کہ
تسبیح بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کو دور کرتی ہے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ
الْعَظِیْم۔
اور صدقہ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضی کو دور کرتا
ہے۔
اَلصَّدَقَۃُ تُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِ۔
یا اللہ!ہمیں ہمیشہ اپنے غضب سے بچا۔
ایک مزے دار شعر
ایک صاحب تھے اُن کو ’’صوفی‘‘ ہونے کا دعویٰ تھا…یا یوں کہہ
لیں کہ مغالطہ تھا…انہوں نے سر پر لمبی اور گھنی زلفیں رکھی ہوئی تھیں… مگر چہرے
پر داڑھی نہیں تھی… آج کل بھی کئی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ’’ کلین شیو‘‘ ہو کر
تصوف کی منزلیں طے کرتے ہیں…حالانکہ ڈاڑھی تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے…اور یہ دین اسلام میں واجب ہے …خیر وہ
کلین شیو صوفی لکھنؤ میں ایک شاعر صاحب سے ملنے گئے…شاعر صاحب سنت کے پابند تھے
…انہوں نے فوراً یہ شعرکہا؎
تیرے بالوں کی لمبائی کا تیرے سر پہ کیا کہنا
اِنہیں بالوں کو تو داڑھی بنا لیتا تو اچھا تھا
ڈاڑھی والے خوش نصیب حضرات ایک نکتہ یاد رکھیں …آپ نے
ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے آپ کو بہت مبارک…ہر وہ جگہ اور ہر وہ شخص جس کے سامنے جا کر
آپ کو اپنی ڈاڑھی (نعوذ باللہ) بری لگنے لگے تو یاد رکھیں وہ جگہ بھی آپ کی دشمن
ہے اور وہ شخص بھی آپ کا دشمن ہے… اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت کے لئے ایسی
جگہوں اور ایسے افراد سے ہمیشہ دور رہیں۔
ایک مبارک نام
ہر مسلمان پر اپنی اولاد کے جو حقوق لازم ہیں …اُن میں سے
ایک یہ ہے کہ آپ اُن کا اچھا سا نام رکھیں… اس رمضان المبارک کی ایک دوپہر اچانک
مجھے… ایک بہت محترم، مقدس اور عظیم شخصیت کی یاد نے شرف بخشا…یہ تھیں حضرت اُمّ
المومنین سیّدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ
عنہا … میں اُن کی عظمتوں اور یادوں میں ایسا کھویا کہ میری آنکھیں بھیگ گئیں…
میں نے اُن کی خدمت میں سلام بھیجا…
سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْھَا وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ
بَرَکَاتُہ۔
اور اُن کے لئے ایصال ثواب کرنے لگا…مکہ مکرمہ کے ابتدائی
دردناک حالات میں اُن کا اسلام قبول فرمانا اُس وقت جب اسلام قبول کرنا موت، تشدد
اور خطرات کے سمندر میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا…اُنہوں نے اسلام کو سمجھا اور
قبول فرمایا… سبحان اللہ! سابقین اولین ایک سو بیس افراد جو اسلامی معاشرے کی
بنیاد بنے وہ اُن میں شامل تھیں…
پھر اسی پر بس نہیں… اُنہوں نے اپنی مؤثر دعوت کے ذریعہ
اپنے خاوند کو اور اپنے قبیلے کے کئی افراد کو مسلمان کیا…پھر جب حبشہ کی طرف ہجرت
کا حکم آیا تو…ہماری یہ عظیم امی جی حبشہ کی طرف ہجرت فرما گئیں… پھر حبشہ سے
واپس مکہ مکرمہ آ گئیں جہاں اُن کے خاوند وفات پا گئے…
اُن کی ہمت، جرأت، استقامت ، سنجیدہ و باوقار شخصیت… اور
اسلام کے ساتھ اُن کی وفاداری اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ…اُن کے لئے بڑی
خوش نصیبی کا فیصلہ ہو گیا… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں گھر میں اکیلی ہو گئیں… عجیب غم
اور پریشانی کے حالات تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دے دیا… اُنہوں نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی چہیتی ، لاڈلی اور صاحب مقامات
بیٹیوں کی دل وجان سے پرورش کی…پھر جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ہوئی تو مسجد نبوی
کے متصل جو پہلا حجرہ بنا…جی ہاں! وہ حجرات جن کا تذکرہ قرآن مجید میں چمکتا ہے…
اُن حجرات میں پہلا حجرہ حضرت سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا… بہرحال اُن کے فضائل و مناقب اور حالات
بہت مفصل اور سبق آموز ہیں… خاص طور پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اُن کی
اطاعت، عبادت، صدقات اور خیرات کے واقعات بہت عجیب ہیں… حتٰی کہ انہوں نے حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حج کا سفر
تک نہ فرمایا کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو کہ
آپ نے گھر میں رہنے کا فرمایا تھا… حجۃ الوداع کے موقع پر وہ حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا فرض حج ادا
فرما چکی تھیں… اور جہاد میں غزوۂ خیبر کے موقع پر شاندار شرکت فرما چکی تھیں…
مجھے اچانک یہ خیال آیا کہ کئی دوست احباب مجھ سے اپنے بچوں کا نام رکھواتے رہتے
ہیں… اور میں نے اب تک کسی بچی کا نام ’’سودہ‘‘ نہیں رکھا… یہ احساس مجھے شرمندہ
اور نادم کر رہا تھا اور میں دعاء کر رہا تھا کہ اس کی تلافی کی صورت بن جائے…
اتفاقاً اسی دن کسی نے رابطہ کر کے اپنی بچی کا نام پوچھا، میں نے فوراً ’’سودہ‘‘
بتا دیا … اور ساتھ بتایا کہ’’ سودہ‘‘ کے معنٰی کالی نہ سمجھنا… یہ ’’سیّدہ‘‘ کے
معنٰی میں ہے اور بھی اس نام کے اچھے اچھے معانی لغت کی کتابوں میں لکھے ہیں… اس
کے بعد سے اب تک الحمد للہ کئی بچیوں کا یہ نام رکھوا چکا ہوں… والحمد للہ رب
العالمین… عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ …اللہ تعالیٰ اگر آپ میں سے کسی کو ’’بیٹی
‘‘ کی نعمت دیں تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بنات مطہرات اور ازواج مطہرات اور حضرات
صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں پر اُن کے نام رکھیں اور اُن میں
’’سودہ‘‘ نام بھی یاد رہے…
لیجئے! آج حضرت امی جی سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے اس مبارک تذکرے پر اپنی مجلس ختم کرتے ہیں…
رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا وَاَرْضَاھَا وَ سَلَّمَ
عَلَیْھَا وَ بَارَکَ عَلَیْھَا وَ تَحَنَّنَ عَلَیْھَا
لا الہ الا اللّٰہ ، لا الہ الا اللّٰہ ، لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور ۔ شمارہ: 555
مجرب عمل
*
دوسروں کے لئے استغفار کرنااللہ تعالیٰ کا حکم…
*
دوسروں کے لئے استغفار کرناحضرات انبیاء علیہم السلام کی سنت…
*
دوسروں کے لئے استغفار کرناحضرات صحابہ و اسلاف کا معمول…
*
دوسروں کے لئے استغفار کرنے کے فوائد و ثمرات…
*
استغفار کی برکت کا ایک واقعہ…
*
اگر کسی کو کوئی ’’اللہ والا‘‘ مل جائےتو وہ اس سے کس
طرح
کا اور کیا فائدہ حاصل کرے؟ ایک اہم نصیحت…
*
حضرات مجاہدین کرام کے لئے استغفار کرنے کی ترغیب…
استغفار کے قیمتی نکات اور فوائد و ثمرات سے روشناس کراتی
ایک معطر تحریر
تاریخ اشاعت:
۸ذوالقعدہ
۱۴۳۷ھ؍ بمطابق12 اگست 2016ء
مجرب عمل
اللہ تعالیٰ کے پیارے بندو! اپنے لئے بھی زیادہ استغفار کرو
اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی…استغفار بڑی عبادت ہے… استغفار بڑی برکت ہے…استغفار
بڑی دعاء ہے…استغفار سب سے مؤثر دوا اور علاج ہے…استغفار بڑی رحمت ہے…استغفار بڑی
راحت ہے…
اَللّٰھُمَّ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ
لِأَھْلِیْ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ
وَالْمُسْلِمَاتِ أَلْاَحْیَاءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔
عجیب تجربہ
دوسرے مسلمانوں کے لئے استغفار کرنا … یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے… یہ حضرات ملائکہ علیہم السلام کی سنت ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اللہ
تعالیٰ کا حکم ہے … چنانچہ دوسروں کے لئے استغفار کرنے کے فوائد بھی بے شمار ہیں
…کافی عرصہ سے یہ عادت بن گئی ہے کہ جب مسجد جانا ہوتا ہے اور نماز کھڑی ہونے لگتی
ہے تو… اپنے دائیں اور بائیں والے عارضی پڑوسیوں کے لئے استغفار کرتا ہوں، پھر
مؤذن صاحب کے لئے، پھر امام صاحب کے لئے کچھ زیادہ اور پھر تمام نمازیوں کے لئے…
فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دائیں بائیں والے اس استغفار کی برکت سے تنگ نہیں کرتے
اور نماز خراب نہیں ہوتی… آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض اوقات کوئی صاحب آپ کے ساتھ
نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر اذیت اور پریشانی کا دور شروع ہو جاتا ہے… وہ
نماز میں بار بار ہاتھ ہلاتے ہیں ، کبھی خود جھومتے ہیں، کبھی دھکے دیتے ہیں …کبھی
اُن کے کپڑوں کی بو یا منہ سے آنے والی سگریٹ وغیرہ کی بدبو دماغ ہلاتی ہے… اکثر
مسلمانوں کو چونکہ مسجد کا ’’مقام‘‘ معلوم نہیں… اس لئے وہ شادی ہالوں میں تو بن
سنور کے خوشبو لگا کر جاتے ہیں جبکہ مسجد میں بدبودار لباس یا منہ کے ساتھ آ جاتے
ہیں … نماز میں خشوع کی اہمیت چونکہ تقریباً ختم ہے اس لئے نماز میں بھی ہلتے جلتے
رہتے ہیں…الحمد للہ جب سے استغفار کا یہ عمل شروع ہوا ہے آس پڑوس کے ایذاء کا یہ
سلسلہ تقریباً بند ہو گیا ہے… استغفار یعنی دعائے مغفرت بہت بڑی چیز ہے یہ تو اس
کا ایک ادنیٰ سا فائدہ عرض کیا ہے ورنہ دوسروں کے لئے ’’استغفار‘‘ کے فوائد بے
شمار ہیں۔
حیرت انگیز دنیا
سچی بات یہ ہے کہ…استغفار کے فوائد ہم سب سنتے ہیں، پڑھتے
ہیں اور بیان کرتے ہیں …مگر زیادہ استغفار کی توفیق قسمت والوں کو ہی ملتی ہے …
اکثر لوگ یا تو منصوبے بناتے رہتے ہیں کہ فلاں وقت شروع کریں گے…جبکہ بعض لوگ چند
دن زور لگا کر پھر چھوڑ دیتے ہیں … حالانکہ گناہ روز بلا ناغہ کرتے ہیں… اگر ہم
صرف اپنے زبان کے گناہوں کو ہی شمار کریں تو تھک جائیں… جھوٹ، غیبت، گالی ،دھوکہ،
جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے ، فحش گوئی،لغویات ، فخر بازی اور معلوم نہیں کیا
کیا؟ بس اللہ تعالیٰ جس بندے پر مہربان
ہوتے ہیں اسے استغفار کی سمجھ اور توفیق عطاء فرما دیتے ہیں اور پھر اس بندے کے
ہاتھ میں بے شمار خزانوں سے لبریز ایک بڑا خزانہ آ جاتا ہے…
آج ہی ایک صاحب کا واقعہ پڑھ رہا تھا … اُن پر شدید جادو
تھا، بے روزگار تھے…قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے… جادو اس قدر شدید اور جناتی تھا کہ …
جنات چیزیں تک غائب کر دیتے تھے…اللہ تعالیٰ نے اُن کو استغفار کی روشنی دی …وہ
روز ہزاروں بار استغفار میں لگ گئے … اُٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت استغفار…
تین ماہ تک تو کچھ نہ ہوامگر وہ نہ تھکے نہ مایوس ہوئے… تین ماہ بعد جادو ٹوٹ
گیا…پھر روزگار لگ گیا …پھر قرضہ اُتر گیا… پھر مالدار ہو گئے…اور پھر اُن کی ہر
دعاء اور ہر آس پوری ہوتی چلی گئی …سب سے بڑی بات یہ ہے کہ استغفار کی برکت سے
انسان کا دل ٹھیک ہو جاتا ہے اور اس کی آخرت بن جاتی ہے…اور اسے فکروں سے آزادی
مل جاتی ہے… باقی مسائل تو خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں…بات اپنے موضوع سے دور
جا رہی ہے …اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو سچا استغفار نصیب فرمائے…عرض یہ کرنا
چاہتا ہوں کہ اگر ہم قرآن و سنت میں جھانک کر دیکھیں کہ …ایک مسلمان کا دوسرے
مسلمان کے لئے ’’استغفار‘‘ کرنا کتنا عظیم الشان عمل ہے تو …ہم خود کو ایک حیرت
انگیز دنیا میں پائیں گے…
ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ اپنے سب سے
پیارے اور مقرب بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہے ہیں کہ… آپ ایمان والے مردوں
اور عورتوں کے لئے استغفار کریں… ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں کہ …حضرت نوح علیہ السلام دوسرے ایمان والوں کے لئے استغفار فرما رہے
ہیں…ہم قرآن مجید میں پاتے ہیں کہ… حضرت ابراہیم علیہ السلام سب ایمان والوں کے لئے استغفار فرما رہے ہیں…
ہم قرآن مجید میں سنتے ہیں کہ… عرش اُٹھانے والے فرشتے
زمین کے ایمان والوں کے لئے استغفار فرما رہے ہیں…ہم احادیث میں دیکھتے ہیں
کہ…صحابہ کرام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لئے استغفار کی درخواست کر رہے ہیں… ایک
صحابی جہاد میں زخمی ہو گئے جب اُن کے بچنے کی کوئی اُمید نہ رہی تو انہوں نے اپنے
رفقاء سے فرمایا… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور درخواست
کرنا کہ میرے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم استغفار فرما دیں …ایسے کئی واقعات حدیث کی
کتابوں میں موجود ہیں …ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں سے اپنے لئے
استغفار کرانا… دور نبوت میںکتنا اہم تھا… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقرب صحابہ کرام کو اپنے ایک پیارے امتی
حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کی علامات ارشاد فرمائیں اور صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کو تلقین فرمائی کہ…اُن
سے اپنے لئے اور اُمت کے لئے استغفار کرانا… سبحان اللہ! یہ ہے اولیاء اللہ کا اصل
مصرف… ہمیں آج کوئی ولی یا مقرب بندہ ہاتھ آ جائے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ فوراً اپنے
دنیا کے مسائل حل کرانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں… کوئی اپنا بچہ اس کی گود میں ڈال
دے گا کہ اسے نظر کا دم کر دیں… کوئی اپنے قرضے کا رونا روئے گا…کوئی فیکٹری کا
مسئلہ حل کرائے گا…اور کوئی چاہے گا کہ وہ اس کی جسمانی بیماریوں کا فوری علاج کر
دے… اپنی اس عادت کی وجہ سے ہم نے کیسے کیسے سنہری مواقع اپنی زندگی میں کھو دئیے
…ہم میں سے ہر انسان کی زندگی میں اولیاء ، فقراء اور مقربین کچھ دنوں کے لئے آتے
ہیں… اگر ہم آخرت کو سمجھتے اور مانتے ہوں تو…ہمیں فوری طور پر پہلا کام یہ کرنا
چاہیے کہ نہایت ادب کے ساتھ …بغیر ایذاء پہنچائے اور بغیر اصرار کئے …اُن سے اپنے
لیے مغفرت کی دعاء کرا لیں… ارے بھائی! مغفرت مل گئی تو …اس کی آڑ میں صحت، برکت
سب آ جائے گی… نہ بھی آئی تو کیا حرج؟ …انسان بیمار ہوتا ہے، حضرات انبیاء علیہم
السلام پر بھی تکالیف آئی ہیں… مگر مغفرت
تو ہمارا اصل مسئلہ ہے… اسی لئے ایمان کی دعاء کرانا … ایمان پر خاتمے کی دعاء
کرانا… شہادت کی دعاء کرانا… یہ اصل فائدہ ہے… ہمیں اللہ تعالیٰ کے ایک ولی کی
زیارت ہوئی اور ہم نے جھٹ اس سے ایک تعویذ لکھوا لیا تو ہم نے کیا پایا؟ …ٹھیک ہے
ضرورت کے درجے میں ان مسائل کے لئے مشورہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں… مگر یاد
رکھیں!اللہ والوں کا یہ مصرف ہرگز نہیں… ان سے تو جو مانگا جائے وہ اپنی استطاعت
کے مطابق دینے کی کوشش کرتے ہیں… مگر ان کے پاس جو اصل دولت ہوتی ہے… اس سے بہت کم
لوگ ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں … جیسے ایک جیب کترا کسی ولی کے پاس چلا جائے تو…اُن کی
جیب سے پانچ سات سو روپے اُڑا کر خود کو کامیاب سمجھتا ہے… حالانکہ اگر وہ ان سے
استغفار اور دعاء کراتا تو معلوم نہیں کیا کچھ پا لیتا… ہم پر بھی وقتی تقاضوں اور
وقتی خواہشات کا حملہ رہتا ہے… اور ہم کعبہ شریف ، حجر اسود اور حضرات اولیاء کرام
رحمہم اللہ سے بھی… اپنے عارضی مفادات
حاصل کر کے خوش ہوتے ہیں… معافی چاہتا ہوں …بات پھر دور جا رہی ہے… واپس اپنے
موضوع پر آتے ہیں … ہم حدیث شریف کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ… اگر کسی نے کسی پر
احسان کیا ہو تو اس کا بہترین بدلہ بھی… اس کے لئے استغفار ہے…
ایک تابعی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد محترم کو… جو حضرات
صحابہ کرام میں سے تھے ہمیشہ دیکھتا تھا کہ جب بھی جمعہ کی اذان سنتے تو حضرت اسعد
بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے… مغفرت کی
دعاء یعنی استغفار فرماتے… ایک بار میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ… اُن کا
ہم پر احسان ہے کہ ہمیں سب سے پہلے جمعہ کی نماز اُنہوں نے پڑھائی تھی …اسی طرح ہم
حدیث شریف کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ…حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے دو افراد کا اگر آپس میں کچھ اختلاف ہو
جاتا …ایک دوسرے کے لئے کوئی سخت لفظ بول دیتے تو اس کی تلافی استغفار کے ذریعہ
کراتے …اور ایک دوسرے سے اپنے لئے استغفار کراتے… اس پر حضرات شیخین کریمین …یعنی
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے… حضرت صدیق اکبر
نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ میرے لئے استغفار کریں… اس طرح کے
کئی واقعات حدیث شریف کی کتابوں میں موجود ہیں۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ
اے رنگ و نور پڑھنے والے مسلمانو! میں اپنے لئے اور آپ سب
کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا سوال کرتا ہوں…
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ… اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَلَھُمْ… یَغْفِرُ اللّٰہُ لِیْ وَلَکُمْ جَمِیْعًا
آپ سے بھی التجا ہے کہ … میرے لئے استغفار فرما دیں… بعض
آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مسلمان کے لئے چالیس ایمان والے ’’استغفار‘‘ کریں تو
اسے مغفرت مل جاتی ہے…
بات یہ ہے کہ آج صرف یہ عرض کرنا تھا کہ …ایک تو آپ اہل
کشمیر، اہل شام ، اہل افغانستان ، اہل فلسطین ، اہل عراق وغیرہ کے تمام اہل حق…
مجاہدین کے لئے استغفار کا معمول بنا لیں… اس سے اُن کی تحریک ِجہاد کو قوت ملے
گی… اور آپ کا حصہ اُن کے عمل میں شامل ہو جائے گا… دوسرا یہ عرض کرنا تھا کہ…جس
مسلمان سے آپ کو تکلیف یا ایذاء کا خطرہ ہو تو اُس کے لئے استغفار کریں…ان شاء
اللہ اس کا شر خیر میں بدل جائے گا… مثلاً جو بیویاں اپنے خاوندوں کے ظلم کا شکار
ہوں یا جو خاوند اپنی بیویوں کے مظالم سے دوچار ہوں وہ ایک دوسرے کے لئے استغفار
کریں ان شاء اللہ آپس کے تعلقات میں بہتری ہو جائے گی …اصل یہی دو باتیں تھیں
…مگر موضوع بہت مفصل ہے… اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے کہ میں اسے …دلائل کے ساتھ
مکمل تفصیل سے لکھ سکوں …
آج بس اتنا ہی…
یَغْفِرُ اللّٰہُ لِیْ وَلَکُمْ… یَغْفِرُ اللّٰہُ لِیْ
وَلَکُمْ۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 556
بہترین تحفہ
* دوسروں
کے لئے استغفار کرنا ایک عظیم الشان عمل…
* دوسروں
کے لئے استغفار اسلاف کا مضبوط عمل…
* دوسروں
کے لئے استغفار کرنے کے دس بڑے فائدے…
* کوئی
تو ایسا بنے…
* بغض
ونفرت کے دروازے…
* دینداروں
میں باہمی نفرت کی اہم وجوہات…
* نئے
دینداروں کا ایک غلط طرز عمل اور ا س کی اصلاح…
* سوشل
میڈیا کا بھیانک کردار…
*
دوسروں کے لئے استغفار کرنے کی ترغیب…
* استغفار
کے چند اہم مواقع، اثرات اور فوائد وثمرا ت
پر
مشتمل ایک پر نور تحریر۔
تاریخ اشاعت:
۱۵ذوالقعدہ
۱۴۳۷ھ؍ بمطابق19 اگست 2016ء
بہترین تحفہ
اللہ تعالیٰ سے جو کچھ دوسرے مسلمانوں کے لئے مانگا جائے…وہ
مانگنے والے کو خود بخود مل جاتا ہے…
آئیے! ہم اللہ تعالیٰ سے سب مسلمانوں کے لئے ’’مغفرت‘‘
مانگیں…اور اُمید رکھیں کہ اس عمل کی برکت سے ہمیں ’’مغفرت‘‘ کا عظیم تحفہ مل جائے
گا…
١ رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ
وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔
٢ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّۃِ
مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
٣ اَللّٰھُمَّ رَبِّ اغْفِرْلِیْ
وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔
٤ اَللّٰھُمَّ رَبِّ اغْفِرْلِیْ
وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِاَھْلِیْ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ اَلْاَحْیَائِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔
کوئی تو ایسا بنے
آج ہر مسلمان دوسرے مسلمانوں کے لئے دل میں دشمنی، بغض اور
حسد لئے پھرتا ہے… کتنے مسلمان ہر روز گھر سے نکلتے ہیں تاکہ دوسرے مسلمانوں کو
ماریں، لوٹیں اور تکلیف پہنچائیں… آج ہر گھر میں جھگڑا ، ہر خاندان میں دشمنی… ہر
جماعت کے کارکنوں میںباہمی رنجش…آہ افسوس! ہمارے دلوں سے ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی قدر
نکل گئی… حتٰی کہ مسجد میں جاؤ تو مقتدی امام سے ناراض اور امام اپنے مقتدیوں سے
شاکی… ہر مجلس میں غیبت… ہر گھر میں چغل خوری…
ایسے حالات میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں جو…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے محبت کریں… اور اپنے دل میں اُن کے
لئے خیر خواہی جگائیں… وہ اُن کے لئے صبح شام اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں…کسی
گاڑی میں بیٹھیں تو گاڑی میں موجود تمام مسلمانوں کے لئے استغفار کریں …کیونکہ
عارضی پڑوسی کا بھی حق ہوتا ہے… مسجد میں جائیں تو تمام نمازیوں کے لئے استغفار
کریں … مسجد میں تو ان شاء اللہ سب مسلمان ہی آتے ہیں…کسی مسلمان پر تنقید اور
اعتراض کی نظر پڑے تو فوراً… اپنے لئے اور اس کے لئے استغفار کریں… یہ عادت نصیب
ہو گئی تو خیر کے بہت سے دروازے کھل جائیں گے… اور دل بغض اور حسد سے پاک ہوتا چلا
جائے گا، ان شاء اللہ۔
فوائد بے شمار
ایک آدمی کے دل میں اچانک جذبہ اُبھرتا ہے کہ …میں ابھی
تھوڑے سے وقت میں بے شمار نیکیاں کروں…بستر پر پڑا ہے…وضو کر کے نماز نفل کی ہمت
نہیں… کوئی ساتھ نہیں کہ ہدیہ، صدقہ ، خیرات یا نصیحت کی نیکی کر سکے… وہ اچانک
اپنے دل میں ایمان والوں کے لئے خیر خواہی بھر کر اُن کے لئے استغفار میں لگ جاتا
ہے … تو اسے ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت ، ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت کے
بدلے ایک ایک نیکی مل جاتی ہے…حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک… گنتی کریں کہ کتنے مومن اور مسلمان
مرد اور عورتیں ہیں… یقیناً اربوں، کھربوں ، بے شمار… اسی لئے ہمارے اسلاف کے
معمولات میں یہ شامل تھا کہ وہ روزانہ بلا ناغہ تمام اہل ایمان اور اہل اسلام کے
لئے استغفار کرتے تھے…علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ اسلاف کا ایسا معمول تھا جسے
وہ کبھی نہیں چھوڑتے تھےاور فرمایا کہ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی پابندی سے روزانہ ستر بار یہ عمل کرتے تھے
(انتہیٰ)…اندازہ لگائیں کہ…ستر بار کی ترغیب کسی حدیث شریف میں نہیں ہے…
ایک روایت میں ستائیس بار کا تذکرہ ہے …مگر ہمارے اسلاف نے
دیکھا کہ… استغفار کے ساتھ ’’ستر‘‘ کے عدد کو خاص مناسبت ہے… کیونکہ قرآن مجید
میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے
فرمایا گیا… آپ اگر ان منافقین کے لئے ستر بار بھی استغفار کریں گے تو اللہ
تعالیٰ انہیں معاف نہیں فرمائے گا…
اسی طرح اسلاف نے دیکھا کہ …ایمان والوں کے لئے استغفار
اسلام کے ذوق کا حصہ ہے … یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کا عمل ہے… یہ حضرات ملائکہ کا عمل ہے… تو انہوں
نے اس عمل پر پابندی کے لئے…ستر بار استغفار کا معمول اختیار فرما لیا… یہ نہ بدعت
ہوئی اور نہ دین میں کوئی تحریف… بلکہ دین پر عمل کی ایک منظم صورت بن گئی…
اب اس استغفار کے فوائد پر نظر ڈالیں تو… انسان حیران رہ
جاتا ہے… آپ نے تمام اہل ایمان، اہل اسلام کے لئے استغفار کیا تو کیا ملا؟
١
تمام اہل ایمان اور اہل اسلام کی تعداد میں نیکیاں۔
٢
اہل ایمان کے لئے خیر خواہی کا اجر۔
٣
خود آپ کے لئے فرشتے کی دعاء کہ ’’یا اللہ!اسے بھی یہ عطاء فرما… جو اس نے دوسروں
کے لئے مانگا ہے۔‘‘
٤
رزق کی ایسی برکت کہ … اب آپ کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی رزق ملے گا۔
٥
دل سے حسد اور بغض و کینہ کی پاکی۔
٦
حضرات انبیاء علیہم السلام اور حضرات
ملائکہ کی اتباع کا اجر۔
٧
اہل ایمان کے دلوں میں آپ کے لئے مقبولیت… اور محبت…کیونکہ آپ نے اُن کے ساتھ
خفیہ نیکی کی تو اب روحانی لہروں کے ذریعہ اُن کے دلوں میں خود بخود آپ کی محبت
آ جائے گی۔
٨
دعاء کے تمام فائدے۔
٩
استغفار کے تمام فائدے۔
١٠ دل میں کلمہ طیبہ اور ایمان کی قدرو قیمت کا بڑھ جانا۔
اور بہت سے فوائد۔
بغض و نفرت کے دروازے
آپ نے ایک عجیب بات دیکھی ہو گی… جو لوگ دنیاداری اور
گناہوں میں غرق ہیں ان کی آپس میں زیادہ مخالفت نہیں ہوتی… بددین گھرانوں میں ساس
اور بہو کا جھگڑا کم ہوتا ہے… مگر جیسے ہی دینداری آتی ہے ایک دم جھگڑے شروع ہو
جاتے ہیں… اس کی بڑی وجہ تو واضح ہے کہ…شیطان دین داروں پر زیادہ حملہ کرتا ہے …جو
لوگ دن رات کفر، فسق اور کبیرہ گناہوں میں غرق رہتے ہیں شیطان کو ان کی کیا فکر؟
وہ تو شیطان کی جماعت میں پہلے سے بھرتی ہیں… چور ہمیشہ خزانے کی تاک میں رہتا ہے…
پس جہاں ایمان کا خزانہ ہو گا وہیں شیطان ڈاکہ ڈالے گا…مگر آج کل دینداروں میں جو
باہمی نفرت ہے اس کی ایک وجہ علم کی کمی بھی ہے… جو لوگ نئے نئے دیندار ہوتے ہیں…
وہ دین کا بنیادی علم حاصل نہیں کرتے… بس چند مسائل کو دین سمجھ لیتے ہیں… پھر جو
بھی انہیں ان مسائل کی خلاف ورزی کرتا نظر آئے اس سے نفرت شروع کر دیتے ہیں…حالانکہ
خود ماضی کی پوری زندگی کبیرہ گناہوں میں گذار چکے… مگر اب کسی کو کوئی مستحب
چھوڑتا بھی دیکھ لیں تو اسے جہنمی سمجھنے لگتے ہیں… اور ہر کسی کی ٹوہ میں لگے
رہتے ہیںکہ… فلاں آدمی نے نماز میں ہاتھ کہاں رکھے تھے… سجدہ میں جاتے ہوئے گھٹنے
پہلے رکھے یا ہاتھ … کھانے کے بعد پلیٹ پوری طرح صاف کی یا نہیں؟ حالانکہ دینی
مسائل میں کافی وسعت ہے … اور انسان کو عذر بھی ہو سکتا ہے…اور ہر حکم کی ایک
تفصیل بھی ہے… مگر جس طرح ’’ نو دولتیے‘‘ مال کے ذریعہ گناہ اور تکبر کماتے ہیں
اسی طرح کئی ’’نو دینئے‘‘ اپنے محدود دینی علم کی وجہ سے… تکبر اور نفرت میں پڑ
جاتے ہیں۔
یاد رکھیں! جس شخص پر بھی اللہ تعالیٰ ’’ دینداری‘‘ کا
احسان فرمائیں… اور اسے توبہ کی توفیق عطاء فرمائیں تو سب سے پہلے وہ دین کا
بنیادی علم حاصل کرے… آغاز اختلافی مسائل سے نہیں …کلمہ طیبہ، بنیادی عقائد اور
نورانی قاعدے سے کرے… پھر اسلامی فرائض سیکھے …پھر سنتوں کا علم حاصل کرے… اور پھر
آداب اور ان کی حدود معلوم کرے۔
جب تک وہ لازمی اور ضروری علم نہ سیکھ لے اس وقت تک… فتویٰ
بازی، تنقید بازی اور الزام بازی میں نہ پڑے… خود نماز کا فریضہ ٹھیک طرح سے ادا
کرنا نہ آتا ہو اور دوسروں پر اعتراضات شروع کر دے تو… زیادہ عرصہ دینداری پر
قائم نہیں رہ سکے گا… خود مکمل حلال کا اہتمام کرے مگر دوسروں کو حرام خوری کے
طعنے نہ دے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کی سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ کرے… سیرت کا
مطالعہ انسان کو بہت سے فتنوں سے بچاتا ہے… یہ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ
کئی لوگ تو بہ کر کے دینداری پر آتے ہیں… اور پھر اپنے محدود علم کی وجہ سے اپنی
دینداری کے فخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں …ا ور پھر طرح طرح کی گمراہیوں کا شکار ہو
جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے آپ کو توبہ کی توفیق بخشی تو… اب اپنے لئے اور تمام اہل
اسلام کے لئے استغفار کو اپنا معمول بنا لیں… استغفار کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے
کہ…یہ انسان کو تکبر اور نفرت میں نہیں پڑنے دیتا… بار بار استغفار، زیادہ استغفار
اور دوسروں کے لئے استغفار ایسا عمل ہے… جو انسان کے چھپے ہوئے گناہوں کو اس کے
سامنے لاتا ہے، تب ان گناہوں سے توبہ کی توفیق ملتی ہے… یہ عمل انسان کو اس کی
کمزوریاں دکھاتا ہے، جنہیں دیکھ کر انسان زیادہ فکر اپنی اصلاح کی کرتا ہے… اور یہ
عمل انسان کے اندر اس کے ایمان اور دینداری کو مضبوط کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کا کردار
سوشل میڈیا نے مسلمانوں کے درمیان ناجائز محبتوں اور
دوستیوں کو مضبوط کیا ہے… ہر گناہ اور جرم پر اس گناہ سے محبت کرنے والے جمع ہوگئے
ہیں… روایات میں آتا ہے کہ… قیامت کے دن ہر طرح کے گناہ گاروں کے الگ الگ ٹولے
ہوں گے… پھر اس کے ساتھ دوسرا ستم یہ ہوا کہ…اہل دین کے درمیان عداوتیں اور دوریاں
اس سوشل میڈیا کی نحوست سے بڑھ گئیں … اب ہر معاملہ پر رائے مانگی جاتی ہے…اگر آپ
کی رائے پسند نہ آئے تو فوراً نفرت اور دشمنی شروع …اسی طرح اُمت مسلمہ کی مقبول
شخصیات اور مقرب بندوں کے خلاف طرح طرح کے شوشے چھوڑ کر منٹوں میں انہیں ہر طرف
پھیلا دیا جاتا ہے… ظاہر بات ہے کہ انسان ہر پڑھی ہوئی چیز کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور
لیتا ہے… چنانچہ اس طرح کے شوشوں سے مسلمانوں کے درمیان مایوسی اور نفرت تیزی سے
پھیل رہی ہے… ہم ان تمام افراد کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو … سوشل
میڈیا پر حق کی دعوت کے لئے اُترتے ہیں … اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور
انہیں ان کے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے…مگر انہیں پھر بھی اپنے دل، اپنی نیت اور
اپنے طرز عمل کی خود نگرانی کرتے رہنا چاہیے… کیونکہ شیطان کے پھندے بہت خطرناک ،
نفس کے حیلے بہت خوفناک…اور زندگی کے دن بہت تھوڑے ہیں … اور ہر شخص کو اپنے دل کی
خبر ہے کہ…اس میں اصل نیت کیا پوشیدہ ہے۔
ترتیب
کچھ عرصہ پہلے تک… دوسروں کے لئے استغفار کرنا اور دوسروں
سے اپنے لئے استغفار کرانا یہ ہمارے معاشرے میں تقریباً متروک ہوتا جا رہا
تھا…الحمد للہ اس بارے میں آواز لگی اور بار بار لگی تو کئی افراد اس طرف متوجہ
ہوئے اور انہوں نے یہ نعمت پا لی…مگر اس بارے مزید محنت کی ضرورت ہے… دوسروں کے
لئے استغفار کی ایک مختصر ترتیب عرض کی جا رہی ہے…اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب
فرمائے…
١ سب ایمان والے مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار… اس
کے کچھ فوائد اوپر عرض ہو چکے۔
٢ اپنے
مسلمان والدین کے لئے استغفار … یہ بڑا عظیم اور بھاری عمل ہے… اس کا فائدہ والدین
کو بھی پہنچتا ہے اور خود اولاد کو بھی… اور یہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بہترین
طریقہ ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کا بڑااہتمام فرماتے تھے… حتی کہ بعض صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے
سجدے کی دعاء ہی یہی بنا رکھی تھی…یعنی اپنے والدین کے لئے استغفار۔
٣ اپنے
اہل احسان کے لئے استغفار … جس کسی نے آپ پر احسان کیا ہو کوئی دینی یا دنیوی تو
اُن کے لئے استغفار کا معمول بنائیں… اس میں شکر گذاری بھی آ جائے گی کیونکہ جو
بندوں کا احسان نہیں مانتا وہ اللہ تعالیٰ کا احسان بھی فراموش کرتا ہے… اس میں تو
یہاںتک ثابت ہے کہ جو آپ کو ایک وقت کا کھانا کھلائے تو اسے بھی مغفرت کی دعاء
دیں…یعنی اس کے لئے استغفار کریں۔
٤
اپنے بڑوں کے لئے استغفار… شرعی امام ،امیر، شیخ، استاذ، خاندان کے بزرگ …اس
استغفار کی برکت سے انسان پر فیوض اور نسبتوں کے دروازے کھلتے ہیں…ان شاء اللہ
٥
اپنے چھوٹوں کے لئے استغفار… رعایا، مامورین، شاگرد، خاندان کے چھوٹے… اس استغفار
کی برکت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مدد ملتی ہے، ان شاء اللہ۔
٦
اہل فضل کے لئے استغفار… وہ افراد جو کسی چیز میں آپ سے آگے ہیں یا زیادہ ہیں
اور شیطان آپ کے دل میں اُن کی عزت، مال یا ترقی کے بارے میں حسد ڈالتا ہے تو آپ
اُن کے لئے استغفار کریں… اس کی برکت سے ان شاء اللہ آپ کا دل غنی ہو گا اور حسد
سے نجات پائے گا…
٧
اہل توجہ کے لئے استغفار… ایسے مسلمان افراد جن کی طرف آپ کے دل کی توجہ جاتی ہو
کہ… وہ آپ کی حاجات پوری کریں … یا جن کی طرف گناہ کی توجہ جاتی ہو…یا جن کو
نقصان پہنچانے پر دل اُکساتا ہو…ایسے افراد کے لئے استغفار آپ کو بہت سے گناہوں ،
لالچ اور حرص وغیرہ سے بچا دے گا۔
٨
مقیم اور عارضی پڑوسیوں کے لئے استغفار…یہ آپ کے اندر خیر خواہی اور مقبولیت پیدا
کرنے کابہترین ذریعہ ہے… تب آپ ایسے سخی کی طرح ہو جائیں گے جو کسی کو بھی خالی
ہاتھ نہیں لوٹاتا… آپ کے ساتھ جو بھی تھوڑی دیر کے لئے آیا آپ نے آہستہ سے اسے
مغفرت کی دعاء کا تحفہ دے دیا… یہ کتنی سخاوت والا اور کتنے نفع والا عمل ہے۔
٩
ایذاء پہنچانے والوں کے لئے استغفار … مسلمانوں کو معاف کرنا اور ان سے درگذر کرنا
یہ عزیمت والا عمل ہے… اور اس عمل کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی معافی
ہے۔
پس ایسے مسلمان جنہوں نے آپ کو ایذاء پہنچائی… آپ نے
انہیں معاف کیا اور اُن کے لئے استغفار کیا تو آپ مقام عزیمت پر آ گئے… جو کہ
عظیم سعادت ہے۔
١٠ اہل حقوق اور اہل مظالم کے لئے استغفار… یہ بہت اہم
اور ضروری ہے… وہ مسلمان جنہیں آپ نے کبھی ایذاء پہنچائی …جن کی غیبت یا حق تلفی
کی…جن کو گناہوں میں اُتارا یا جن کا مذاق اُڑایا اور انہیں حقیر سمجھا… ایسے
مسلمانوں کے لئے روز استغفار کرنا چاہیے… تاکہ اُن بھاری گناہوں کا بوجھ اس
استغفارکی برکت سے اُترتا چلا جائے۔
یہ ہے دوسرے مسلمانوں کے لئے استغفار کی ایک مختصر ترتیب…
ذہن میں قرآن و سنت کے جو دلائل موجود ہیں اُن کو سامنے رکھ کر یہ ترتیب عرض کی
ہے… اس میں والدین کے بعد اپنے اہل و عیال یعنی خاوند، بیوی ، اولاد… اور پھر بہن
بھائیوں کے لئے استغفار کا خاص مقام ہے…
یہ فہرست مکمل اور جامع نہیں… اگر دلائل میں غور کیا جائے
تو اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے… بہرحال گذشتہ رنگ و نور(بعنوان:’’مجرب عمل‘‘)…
اور آج کی اس مجلس کو یکجا کر کے اس موضوع کو پڑھ لیا جائے تو… اُمید ہے دین
اسلام کا یہ ’’بہترین تحفہ‘‘ ہمیں نصیب ہو جائے گا، ان شاء اللہ…
اَللّٰھُمَّ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِاَھْلِیْ
وَمَنِ اسْتَغْفَرَلِیْ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ
وَالْمُسْلِمَاتِ اَلْاَحْیَائِ مِنْھُمْ وَالْاَمَوَاتِ۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 557
ایک مہلک بیماری
* ’’شحُ‘‘
کیا ہے؟
* ’’شحُ‘‘
کا مطلب، حقیقت اور تعریف…
* اللہ
تعالیٰ کا فیصلہ…
* ایک
شخص کا واقعہ…
* ’’شحُ‘‘
بخل سے زیادہ سخت اور مضر…
* ’’شحُ‘‘
کا ایک خاص معنٰی\…
* ’’شحُ‘‘سے
نجات پانے کی ماثور دعاء…
* حضرت
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا واقعہ…
* ’’قرآنی
دعائوں‘‘ کی دو قسمیں…
* ’’شحُ‘‘
سے بچو…
* عجیب
تجربہ…
* ’’شحُ‘‘
نامی خطرناک روحانی بیماری کے تعارف اور
اس
سے حفاظت کی دعائوں پر مشتمل ایک مؤثر تحریر…
تاریخ اشاعت:
۲۲ذوالقعدہ
۱۴۳۷ھ؍ بمطابق26 اگست 2016ء
ایک مہلک بیماری
اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے:
وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ
الْمُفْلِحُونَ*
’’جو بھی اپنے نفس کے حرص سے بچا
لیا گیا پس وہی کامیاب ہے۔‘‘(الحشر:۹)
اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے آج ہم مسلمانوں میں ’’شح‘‘ کی
بیماری بہت عام ہے… اسی بیماری کی وجہ سے مسلمان جہاد سے دور ہیں…اسی بیماری کی
وجہ سے بازار آباد اور مساجد ویران ہیں…اسی بیماری کی وجہ سے چوری، ڈاکہ اور
خیانت عام ہے… اسی بیماری کی وجہ سے بدکاری ، بے حیائی اور فحاشی کا ہر طرف طوفان
ہے … آئیے دعاء مانگتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ
وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ
’’یا اللہ! مجھے اپنے نفس کی لالچ
اور حرص سے بچا لیجئے اور مجھے کامیاب فرما دیجئے۔‘‘
’’شح‘‘ کا مطلب
قرآن مجید میں دو جگہ فرمایا گیا کہ…جو اپنے نفس کے ’’شح‘‘
سے بچا لیا جائے گا وہی کامیاب ہے…معلوم ہوا کہ…ہر آدمی کے نفس میں ’’شح‘‘ کی
بیماری موجود ہوتی ہے… اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بیماری سے پاک ہونا ممکن ہے…اور
یہ بھی معلوم ہوا کہ جسے اللہ تعالیٰ اس بیماری سے مکمل شفاء عطا فرما دے وہ دنیا
میں بھی کامیاب ہے …اور آخرت میں بھی…اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’شح‘‘ کی بیماری
جب تک ہمارے اندر رہے گی ہم کامیابی سے دور دور رہیں گے۔
’’شح‘‘ کا معنی ہے…اَلْبُخْلُ مَعَ
الْحِرْصِ … یعنی کنجوسی اور لالچ دونوں جمع ہو جائیں تو یہ ’’شح‘‘ کہلاتا ہے…
’’شح‘‘کسے کہتے ہیں… اُمت کے بڑے محدث حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما سمجھاتے ہیں:
’’اِنَّمَا الشُّحُّ أَنْ
تَطْمَعَ عَیْنُ الرَّجُلِ اِلٰی مَا لَیْسَ لَہٗ‘‘(الدر المنثور للسیوطی: ۱۰۷؍۸)
’’شح‘‘ کا مطلب ہے انسان اُن چیزوں
کی خواہش کرے جو اُس کے لئے نہیں ہیں۔‘‘
ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا…حضرت! شادی سے
پہلے جب صرف منگنی اور نسبت طے ہوئی تھی تو مجھے اپنی ہونے والی بیوی …دنیا کی
ساری عورتوں سے زیادہ حسین اور پسندیدہ لگتی تھی… مگر اب شادی کے کچھ عرصہ بعد ہر
دوسری عورت مجھے اپنی بیوی سے زیادہ حسین اور مرغوب لگتی ہے… اور میرا نفس ان کی
طرف اپنی بیوی سے زیادہ مائل ہوتا ہے… بزرگ نے فرمایا: ایک بات کہتا ہوں ناراض نہ
ہونا…اگر دنیا کی تمام خوبصورت عورتیں تمہیں دے دی جائیں اور تم ان سے نکاح اور
رخصتی کر لو تو پھر تمہیں کسی گندی نالی کے پاس لیٹی ہوئی ’’کتیا‘‘ جو خود گندگی
سے لتھڑی ہوئی ہو گی… وہ تمہیں ان تمام عورتوں سے زیادہ مرغوب لگے گی … وہ آدمی
حیران ہوا اور کہنے لگا…حضرت یہ کیسے؟ ایک گندی ’’کتیا‘‘ بھی مجھے مرغوب لگے گی؟
بزرگ نے فرمایا: جی ہاں! کیونکہ آپ کے اندر ایک بیماری ہے اور وہ ہے ’’شح نفس‘‘
یعنی نفس کی لالچ اور حرص…یہ بیماری ایسی ہے کہ اس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا …اور یہ
انسان کو ایک ذلت کے بعد دوسری ذلت میں ڈالتی ہے …ایک نشے کے بعد دوسرا نشہ… ایک
چوری کے بعد دوسری چوری… ایک خیانت کے بعد دوسری خیانت… ایک شہوت کے بعد دوسری
شہوت … وہ لوگ جن کو عورتیں ہی عورتیں میسر ہوتی ہیں…مگر پھر بھی ان کا دل نہیں
بھرتا اور وہ مزید کسی خباثت میں جا پڑتے ہیں…اس لئے اے بھائی! تمہاری بیوی اب بھی
پہلے کی طرح ہے مگر خرابی تمہارے نفس میں ہے…اپنے نفس کو ’’شح‘‘ کی بیماری سے پاک
کر لو تو تمہیں پھر اپنی بیوی پہلے سے بھی زیادہ پسندیدہ اور مرغوب ہو جائے گی…
ہم نے ’’شح‘‘ کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما
کا فرمان پڑھ لیا… اب دیکھئے اُمتِ
مسلمہ کے فقیہ حضرت سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان… وہ فرماتے ہیں:
’’شح کا مرض ’’بخل‘‘ سے زیادہ سخت
ہے… کیونکہ جسے شح کا مرض لگ جائے وہ ان چیزوں کے بارے میں بخل کرتا ہے جو اس کے
پاس ہوں … اور ان چیزوں کی لالچ رکھتا ہے جو دوسروں کے پاس ہوں… جبکہ بخیل صرف ان
چیزوں میں بخل کرتا ہے جو اس کے پاس ہوں۔‘‘ (طبرانی ۹؍۲۱۸، ابن ابی شیبہ۹؍۹۸)
یعنی ’’شح ‘‘ میں دو خرابیاں ہیں…جو کچھ اپنے قبضے میں آ
گیا اس میں کنجوسی اور تنگ دلی شروع کر دی اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اسے دیکھ
کر حرص اور لالچ کی رال ٹپکنے لگی کہ مجھے یہ سب کچھ مل جائے… بعض مفسرین کرام رحمہم اللہ نے ’’شح‘‘ کا عجیب مطلب لکھا ہے:
’’شح‘‘ یہ ہے کہ جن چیزوں سے اللہ
تعالیٰ نے روکا ان کو پانے کی کوشش کرتا ہو…اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے دینے
اور کرنے کا حکم دیا …ان کو نہ دیتا ہو نہ کرتا ہو۔‘‘
مطلب یہ کہ…شح وہ خطرناک بیماری ہے جو انسان کی طبیعت اور
فطرت کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا مخالف بنا دیتی ہے… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
یہ کام نہ کرو تو یہ بیماری نفس کو اسی کام پر اُبھارتی ہے… اور اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ یہ کام کرلو تو یہ بیماری نفس کو اسی کام سے روکتی ہے… آپ آج کل
کے جدت پسندوں اور غامدیوں کو دیکھ لیں… دن رات اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو
حلال کرنے میں لگے رہتے ہیں …اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے اوامر سے رخصتیں ڈھونڈتے
رہتے ہیں…آئیے! دل کی گہرائی سے دعاء مانگ لیں…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ
الْمُفْلِحِیْنَ۔
ایک نکتہ
یہ دعاء قرآن مجید میں نہیں ہے…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ
الْمُفْلِحِیْنَ
مصنف ابن ابی شیبہ…اور تفسیر ابن کثیر میں یہ دعاء حضرت
سیّدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے
منقول ہے… حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ اور
بعض دیگر سلف نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے… یہ
دعاء مسلسل مانگتے سنا…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ۔
بعد میں ان سے پوچھا کہ آپ صرف یہی ایک دعاء کیوں مانگ رہے
تھے؟ یعنی دعائیں اور حاجتیں تو اور بھی بہت ہیں…تب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ …جو نفس کے شح یعنی
حرص سے بچا لیا گیا وہی کامیاب ہے…اگر میں نفس کے ’’حرص‘‘ سے بچ گیا تو نہ چوری
کروں گا نہ زنا کروں گا اور نہ کوئی اور برا کام … مطلب یہ کہ یہ دعاء بہت جامع
اور کامیابی کا خاص نسخہ ہے… دیلمی رحمہ اللہ نے مسند فردوس میں البتہ یہ دعاء ان الفاظ کے
ساتھ ایک حدیث شریف میں نقل کی ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُحِّ نَفْسِیْ
وَاِسْرَافِھَا وَوَسَاوِسِھَا۔
نکتہ اس میں یہ عرض کرنا ہے کہ …قرآنی دعائیں دو طرح کی
ہیں… ایک وہ دعائیں جو خود قرآن مجید میں بطور دعاء آئی ہیں…مثلاً
رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی
الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(البقرۃ:۲۰۱)
اور دوسری وہ دعائیں جو قرآن مجید کے مضمون اور الفاظ سے
بنا لی جائیں ، جیسا کہ آیاتِ مبارکہ میں آیا ہے…
وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ
الْمُفِلُحُوْنَ۔
’’اور جو اپنے نفس کے حرص سے بچا
لیا گیا تو وہی کامیاب ہے۔‘‘(الحشر:۹)
اب اس مضمون سے یہ دعاء بنا لی گئی…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ
الْمُفْلِحِیْنَ۔
’’یا اللہ! مجھے میرے نفس کے حرص
سے بچا لیجئے اور مجھے کامیاب فرما دیجئے۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری آیتِ مبارکہ کے مضمون سے یہ دعاء بنا لی
گئی:
اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ الْاِیْمَانَ وَ زَیِّنْہُ
فِیْ قَلْبِیْ وَکَرِّہْ اِلَیَّ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ۔
بہرحال جس دعاء پر آج ہم بات کر رہے ہیں …وہ ایک بڑے صحابی
جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے ان سے منقول ہے… اور دیگر بعض احادیث مبارکہ میں بھی
آئی ہے…
اللہ تعالیٰ اس دعاء کو میرے اور آپ سب کے حق میں قبول
فرمائے …اور ہمیں ’’شح نفس‘‘ کی خبیث قید سے رہائی عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ ، اَللّٰھُمَّ قِنِیْ
شُحَّ نَفْسِیْ ، اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ
’’شح ‘‘ سے بچو
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث مبارکہ میں اپنی پیاری اُمت کو
’’شح‘‘ کی بیماری سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے… ایک روایت میں تو یہاں تک فرمایا کہ
’’ایک دل میں ایمان اور شح کبھی جمع نہیں ہو سکتے‘‘…اور ساتھ ’’شح‘‘ کا علاج بھی
ارشاد فرما دیا کہ… ’’جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اسی پر راضی خوشی رہو تو
تم لوگوں میں سب سے زیادہ غنی بن جاؤ گے۔‘‘
حدیث شریف میں ’’شح‘‘ کے باب میں بہت سی روایات موجود
ہیں…ہم آج کی مجلس میں دو روایات پر اکتفا کرتے ہیں… آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے
خیر خواہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مبارک فرامین کو سرسری نہ پڑھیں …بلکہ
انہیں بار بار پڑھیں اور ان میں غور کریں…
١
ارشاد فرمایا:
’’شح سے بچو کیونکہ اسی شح نے تم
سے پہلے والوں کو برباد کیا ہے، اسی شح یعنی حرص نے انہیں قطع رحمی کا حکم دیا تو
انہوں نے قطع رحمی کی ( یعنی حرص اور لالچ کی وجہ سے رشتے توڑے، زمینوں ،
جائیدادوں کے جھگڑوں میں اپنوں سے دشمنیاں کیں، مال کی لالچ میں قریبی رشتہ داروں
سے جھگڑے اور جدائیاں کیں) اور اسی شح یعنی حرص نے انہیں بخل کا حکم دیا تو انہوں
نے بخل کیا اور اسی ’’شح‘‘ نے انہیںگناہوں کا حکم دیا تو وہ گناہوں میں جا پڑے۔‘‘(
مسند احمد)
مطلب یہ کہ…شح کی بیماری سراسر بربادی ہی بربادی اور ہلاکت
ہی ہلاکت ہے…اور یہ بیماری انسان پر ایسی مسلط ہو جاتی ہے کہ…اسے جس برائی کا حکم
دیتی ہے انسان فوراً اس میں کود پڑتا ہے… نہ رشتہ داریاں دیکھتا ہے، نہ حقوق کا
خیال رکھتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی پرواہ کرتا ہے…
٢
ارشاد فرمایا:
’’شح‘‘ سے بچو، کیونکہ اسی شح (
یعنی حرص وبخل) نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کیا اور انہیں خون بہانے اور حرمتوں
کو حلال کرنے پر اُبھارا۔‘‘ ( مسلم)
معلوم ہوا کہ شح یعنی حرص صرف مال میں نہیں ہوتا… مال میں
سب سے زیادہ ہوتا ہے اور پھر اس کے ساتھ عہدے، منصب، شہوات ، لذات اور ہر چیز میں
یہ حرص آ جاتا ہے اور ایک مسلمان کو خونی قاتل اور حرمتوں کو پامال کرنے والا بنا
دیتا ہے … آئیے! عاجزی سے دعاء مانگ لیں…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ ، اَللّٰھُمَّ قِنِیْ
شُحَّ نَفْسِیْ ، اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ
عجیب تجربہ
’’شح‘‘ یعنی حرص کی بیماری سے… وہی
بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ بچا لے… اور اللہ تعالیٰ جن کو بچا لیتا ہے ان کی
کامیابی پکی ہو جاتی ہے… قرآن مجید نے بطور مثال حضرات انصار کو پیش کیا…ان کو
اللہ تعالیٰ نے ’’شح‘‘ کی بیماری سے بچایا تو انہوں نے …اپنا وطن ، اپنا گھر ،
اپنا مال اور اپنا سب کچھ…دین اسلام اور حضرات مہاجرین کے لئے پیش کر دیا… اور
ایسی عظیم سعادتیں پا لیںکہ…آج تک ان کے نیک اعمال جاری ہیں … اور تا قیامت جاری
رہیں گی…
اللہ تعالیٰ جن کو شح سے بچا لیتا ہے…ان پر دنیا اور آخرت
کے خزانے کھول دیتا ہے… اور ان کے نفس کو ایک بڑی سخت قید سے بچا لیتا ہے … شح سے
بچنے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ کوئی انسان…اپنی جان کے بارے میں بھی بخل نہ
کرے…بلکہ اسے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربانی کے لئے پیش کر دے… عربی کا ایک شعر
ہے:
یجود بالنفس ان ضنَّ البخیلُ بھا
و الجود بالنفس اعلی غایۃ الجود
خیر یہ ایک مفصل موضوع ہے…آپ سب حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ
…قرآن مجید میں جہاں جہاں ’’شح‘‘ کا لفظ آیا ہے…ان آیات کو الگ کریں …اور پھر
ان کی مستند تفسیر پڑھ لیں … چند گھنٹوں اور چند دنوں کی یہ محنت… آپ کی زندگی
بدل دے گی، ان شاء اللہ…
’’فتح الجوّاد‘‘ کی تصنیف کے دوران
…رنگ و نور میں یہ دعاء عرض کی تھی…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ
اور اس پر تفسیر ابن کثیر سے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی عرض کیا تھا… اس کے
بعد بعض بیانات میں بھی…اس دعاء اور اس مرض کی طرف توجہ دلائی تھی…الحمد للہ کئی
افراد نے یہ دعاء اپنا لی… کوئی سجدے میں بار بار مانگتا ہے تو کوئی ہر فرض نماز
کے بعد پابندی سے کم از کم اکیس بار۔
عجیب تجربہ یہ ہوا کہ …جس نے بھی اس دعاء کو اخلاص کے ساتھ
اور اپنی ضرورت سمجھ کر اپنایا اس کی زندگی میں عجیب تبدیلیاں رونما ہونے لگیں
…یوں لگا کہ ہمارا نفس کچھ سخت اور ناپاک زنجیروں میں بندھا ہوا تھا…اور اب ان میں
سے کئی زنجیریں ٹوٹ گری ہیں اور کھل گئی ہیں …کئی افراد کو جہاد پر خرچ کرنے کی
توفیق ملی…کئی کو اپنے والدین کے ساتھ ناجائز بخل کرنے سے نجات ملی…کئی کے گھریلو
مصارف کا نظام درست ہو گیا…اور کئی کو قربانی اور دیگر عبادات میں کھلا ہاتھ نصیب
ہوا… ورنہ مال ہوتا ہے اور انسان اس کے ثمرات سے محروم رہ کر بس اسے رکھنے، چھپانے
، بڑھانے اور گننے میں لگارہتا ہے … اور اس دوران سعادت کے کئی راستے اس کے لئے
بند ہو جاتے ہیں…
اس دعاء کی برکت سے کئی افراد کو… عہدے، منصب ، اپنی عزت
کرانے اور ذاتی جگا گیری کے شوق سے نجات ملی… اور ان کا نفس اور دل آزاد ہو گیا…
اللہ تعالیٰ ہم سب کو …یہ دعاء اور اس کے مبارک ثمرات…اور اس کی قبولیت عطاء
فرمائے اور ہم جب قبر میں اُتارے جائیں تو… یہ خبیث بیماری ہمارے ساتھ قبر میں نہ
اُترے…
اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ ، اَللّٰھُمَّ قِنِیْ
شُحَّ نَفْسِیْ ، اَللّٰھُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ۔
آمین یا اَرحم الراحمن
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 558
دل سے دل تک
* اللہ
تعالیٰ دلوں کو دیکھ رہے ہیں…
* جس
کا دل جتنا پاک اور صاف وہ اتنا ہی مقرب ومعتبر…
* قرآن
کریم کا ایک اہم موضوع’’دل‘‘…
* ایمان
کے رہنے کی جگہ اور مقام’’دل‘‘…
* ’’دل‘‘
کی طاقت اور روشنی ایک ’’نعمت عظمیٰ‘‘…
* ’’دل‘‘
کو روشن بنانے کا ایک ’’قرآنی نسخہ‘‘…
* ’’دل‘‘
سے غافل کرنے کے لئے شیطانی جال…
* لوگ
اگر غور کرتے تو…
* زمین
پر بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں…
* لاشوں
کی صفائی کا وقت قریب ہے…
* ’’امن‘‘
کے اسباب وذرائع…
* ’’دل‘‘
کی آنکھیں اور ان کی ایک مثال…
* ’’اصلاحِ
دل‘‘ کی اہمیت اجاگر کرتی ایک الہامی تحریر ۔
تاریخ اشاعت:
۲۹ذوالقعدہ
۱۴۳۷ھ؍ بمطابق2 ستمبر 2016ء
دل سے دل تک
اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہے ہیں…میرے دل کو بھی دیکھ رہے
ہیں…اور آپ سب کے دلوں کو بھی…ہمارے دلوں کے ارادوں کو بھی… خیالات کو بھی… ہاں!
سب کچھ دیکھ رہے ہیں…کس دل میں ایمان ہے اور کس میں نفاق… کس دل میں اخلاص ہے اور
کس میں ریاء…
کس دل میں محبت ہے اور کس میں خیانت…کس دل میں دنیا کی لالچ
ہے اور کس دل میں آخرت کی چاہت… ہمارے دل بظاہر چھپے ہوئے ہیں…مگر اللہ تعالیٰ کے
سامنے وہ کھلی کتاب کی طرح ہیں… جس کا دل جتنا پاک وہ اسی قدر معتبر… جس کا دل جس
قدر صاف وہ اسی قدر اپنے رب کے قریب… جس کا دل جس قدر سادہ وہ اسی قدر عقلمند اور
ہوشیار… قرآن مجید نے کھل کر ’’دل‘‘ پر بات فرمائی ہے… آج کل جو نسخے قرآن مجید
کے اکثر چھپتے ہیں… اُن میں تیسرے صفحے سے ہی دل کا باقاعدہ تذکرہ شروع ہو جاتا
ہے… فرمایا ’’ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ‘‘ …منافق کا دل بیمار ہوتا ہے… پھرہم دل
کا تذکرہ …جگہ جگہ قرآن مجید میں پڑھتے جائیں گے… کہیں اچھے دل، کہیں اندھے
دل…کہیں کامیاب دل، کہیں ناکام دل…یہ سلسلہ قرآن مجید کی آخری سورت کی آخری
آیات تک چلا جاتا ہے… خناس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ…وہ خناس جو انسانوں کے
دل میں ’’وسوسے‘‘ ڈالتا ہے …یہ ’’خناس‘‘ جنات میں سے بھی ہوتے ہیں…اور انسانوں میں
سے بھی… اندازہ لگائیں… دل کا معاملہ کتنا اہم ہے… قرآن کے آغاز سے بات شروع
ہوئی… اور قرآن کے آخر تک چلتی گئی…قرآن کی سب سے بڑی دعوت ہے ایمان… اور ایمان
کے رہنے کی جگہ کون سی ہے؟… جی ہاں! دل ، صرف دل… وہ جن کے دلوں میں ابھی ایمان
نہیں اترا تھا… مگر وہ زبان سے کلمہ پڑھ چکے تھے…دل میں کفر بھی نہیں رکھتے
تھے…سورۂ حجرات میں ان کو کہہ دیا گیا کہ… ابھی خود کو ’’ایمان والا‘‘ نہ کہو…صرف
اتنا کہو کہ ہم نے فرمانبرداری کا اقرار کر لیا ہے… جگہ جگہ ایک بات سمجھا دی کہ
فیصلے دل کے مطابق اُترتے ہیں…جیسا دل ویسے فیصلے… تمہارے دل سیدھے رہیں گے تو
اوپر سے فیصلے بھی تمہارے حق میں اُتریں گے… اور جب تک تمہارے دل سیدھے راستے سے
نہیں ہٹیں گے …اس وقت تک فیصلے تمہارے حق میں اُترتے رہیں گے…
قرآن مجید دل کی طاقت کو بیان کرتا ہے…اس طاقت سے انسان سب
کچھ پا سکتا ہے… جی ہاں! وہ سب کچھ جوپایا جا سکتا ہے… اور قرآن مجید دل کی
کمزوری کو بیان کرتا ہے… دل کی کمزوری زندہ انسان کو مردوں میں شامل کر دیتی ہے…دل
کی بیماری کیا ہے؟ دل کا علاج کیا ہے؟ …دل کی زندگی کیا ہے؟… دل کی موت کیا ہے؟…
دل کا اطمینان کیا ہے؟…اور دل کا سکینہ کیا ہے؟… قرآن مجید نے ہر سوال کا جواب
دیا ہے…کیونکہ انسان کی روح اس کے دل میں رہتی ہے… اور انسان کی کامیابی اور
ناکامی کا مدار اُس کے ’’دل‘‘ پر ہے… اس لئے ہر بات کھول کر سمجھا دی…قرآن مجید
کی ایک سورۂ مبارکہ کا نام ہے… ’’سورۂ نور‘‘… یہ سورۃ دل کو روشن بنانے کا طریقہ
سکھاتی ہے… ایک طاقچہ، اس طاقچے میں شیشے کا ایک ظرف… اور اس شیشے کے ظرف میں ایک
چراغ… اور اس چراغ میں زیتون کا خالص تیل… انسان کا سینہ، اس میں شیشے کی طرح شفاف
دل… اور اس دل میں اللہ تعالیٰ کے نور کا چراغ… اور اس چراغ میں… اخلاص کا ایندھن…
ش… ش… ش
نور کہتے ہیں روشنی کو… طاقت اور پاور کو…آج کی زبان میں
بجلی اور توانائی کو…دل کے لئے جس بجلی، روشنی اور توانائی کی ضرورت ہے…وہ ہے اللہ
تعالیٰ کا نور… ’’اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘… آج مصنوعی بجلی کی
روشنی بہت ہے مگر دلوں میں تاریکی ہے، موت ہے ، بیماری ہے… شیطان نے ہر طرف غفلت
کے جال بچھا دئیے …تاکہ کوئی اپنے دل کے بارے سوچ ہی نہ سکے… فلم شروع ہوئی تین
گھنٹے گزر گئے… نہ دل یاد، نہ دل کی روشنی یاد… میچ شروع ہوا دس گھنٹے گزر گئے… نہ
دل کی طرف توجہ، نہ دل کا کوئی دھیان… بس ایک گول گیند کے پیچھے دماغ دوڑ رہا ہے…
اور اپنے سینے میں رکھی ہوئی گیند یاد نہ رہی کہ… اس کو بھی غذاء دینی ہے… اس کو
بھی چارج کرنا ہے… قرآن مجید جگہ جگہ ہمیں سوچنے، غور کرنے اور تدبر کرنے کی
تاکید فرماتا ہے… کیا ہمارے پاس دس منٹ بھی فارغ ہیں کہ…ہم سوچ سکیں؟… ہم اپنے
اندر جھانک سکیں…ہم کچھ غور و فکر کر سکیں؟… آج پوری دنیا اندھوں کی طرح دوڑ رہی
ہے… کسی کے پاس اپنے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کا وقت نہیں… اگر لوگ غور کرتے
تو کفر کیوں کرتے؟… اگر لوگ غور کرتے تو نفاق میں کیوں گرتے؟…اگر لوگ غور کرتے تو
دن رات پیسہ کیوں جمع کرتے… اگر لوگ غور کرتے تو مشینوں، صنعتوں اور عمارتوں میں
اتنا غلو کیوں کرتے کہ…آج زمین تباہ ہونے کے دہانے پر ہے… اگر لوگ غور کرتے تو
انسانوں کے اعضاء نکال کر کیوں بیچتے؟… اگر لوگ غورکرتے تو زمین پر امیر اور غریب
کے درمیان اتنا فرق کیوں ہو جاتا ؟… مگر حرص، لالچ،غفلت کی دوڑ ہے… کشتیوں اور
ریسلنگ کے مقابلوں پر وقت برباد کرو… بعد میں پتا چلتا ہے… سب جھوٹ تھا، فریب تھا…
وہاں بھی مافیاز اور جوئے بازوں کا راج ہے… مرضی کے پہلوان کو ہرایا جاتا ہے …اور
مرضی کے پہلوان کو جتایا جاتا ہے… مگر انسانوں کا کتنا پیسہ اور کتنا وقت برباد ہو
گیا… یہی حال تقریباً ہر پروفیشنل کھیل کا ہے… ہاں! بے شک دنیا تقریباً پاگل ہو
چکی ہے… ہاں! بے شک زمین والوں نے زمین پر رہنے کا حق کھو دیا ہے… عورتوں کی
شادیاں عورتوںسے اور مردوں کی شادیاں مردوں سے کرائی جا رہی ہیں… نہ کوئی شرم نہ
کوئی سوچ اور نہ کوئی ندامت… اسی لئے اب دنیا تیزی سے…تباہی کی طرف جا رہی ہے… بہت
بڑی تباہی…کیونکہ دل جب مر جائے تو انسان مردہ شمار ہوتا ہے… اور مردے زیادہ ہو
جائیں تو بدبو اور تعفن پھیل جاتا ہے… اور بالآخر قدرت پھر صفائی کا عمل شروع
کرتی ہے… ہاں! زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں… کیونکہ آج زمین کے اکثر
لوگ بے اختیار ہو چکے… کسی کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے اور سوچنے کا اختیار
نہیں…اور اقتدار اُن کے ہاتھ میں ہے … جو اندھے ہیں، مردہ ہیں …اور متعفن ہیں
…کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ … روز روز کے سیکورٹی پلان بنانے سے زمین پر امن
آ جائے گا… کوئی امن آنے والا نہیں… کیونکہ مردہ لاشوں میں کیڑے پڑتے ہی رہتے
ہیں…
امن کے لئے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے… امن کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید
اُتارا… امن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور ہر جن کو…ایمان کی دعوت دی… امن
کے لئے اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف عطاء فرمایا… مگر دنیا کی اکثریت امن کے ان
جھرنوں سے کٹ گئی… اور پھر ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی… اور اب وہ وقت زیادہ دور
نہیں جب لاشوں کی صفائی کے لئے…زمین پر بڑے بڑے واقعات ہوں گے… اور پھر ایمان
والوں کو ایک بار پھر دنیا کی قیادت دے دی جائے گی… مگر ہم اس وقت جس مرحلے میں
ہیں … وہ بڑی آزمائش والا ہے… بظاہر دور دور تک کوئی روشنی نظر نہیں آ رہی…
ظاہری انتظام ایسا ہے کہ … صدیوںتک مسلمانوں کی اسلامی حکمرانی کا کوئی امکان ہی
نہیں… اس مرحلے پر قدم ڈگمگا جاتے ہیں… انسان پہلے جہاد سے کٹتا ہے… اور پھر اسلام
سے ہی دور ہوتاچلا جاتا ہے… اس وقت جو چیز ہمیں بچا سکتی ہے وہ ہے… دل کا ایمان…
دل کی روشنی…دل کی طاقت…اور دل کا غور و فکر… ہاں! دل کی اپنی آنکھیں ہوتی ہیں…
اور دنیا کی سب سے طاقتور دوربینوں سے بھی زیادہ دور دیکھ سکتی ہیں… کیا مکہ مکرمہ
میں اسلام کے غالب ہونے کا کوئی امکان تھا؟… نہیں، بالکل نہیں… صدیوں تک بھی کوئی
امکان نظر نہیں آ رہا تھا…مگر دار بنی ارقم میں… جو چالیس افراد بیٹھے تھے وہ دل
بنا چکے تھے…ان کا دل دور دور تک دیکھ رہا تھا…اس لئے وہ جمے رہے، ڈٹے رہے…اور
صدیوں کا فاصلہ انہوں نے بیس سال میں طے کر لیا… اور پھر اگلے تیس سال میں ساری
دنیا کوہی بدل دیا… وہ دنیا جس کے تبدیل ہونے کا ایک ہزار سال تک کوئی امکان نظر
نہیں آتا تھا… اب بھی حالات اس وقت سے کچھ ملتے جلتے ہیں… کفر نے حد درجہ طاقت
بڑھا لی ہے… اور اہل ایمان ہر طرح سے کمزور ہیں … اب اگر دین پر رہنا ہے…جہاد پر
رہنا ہے تو دل والا ایمان ہی کام آ سکتا ہے… ان شاء اللہ حالات اہل ایمان کے حق
میں بہتر ہوں گے … اور دنیا فانی اور آخرت ہمیشہ کی ہے…اس لئے بھائیو اور بہنو!
کچھ وقت اپنے دل کے لئے … کچھ فکر اپنے دل کی اور کچھ توجہ اپنے دل کو بنانے،
جگانے، چمکانے… منور کرنے اور زندہ کرنے کی…
میں بھی اس کا محتاج ہوں کہ…اپنے دل پر محنت کروں… اور آپ
سب کو بھی اس کی ضرورت ہے… یا اللہ ہمارے دلوں کو ایمان، زندگی، قوت، روشنی ،
بہادری ،سخاوت، قناعت ، رقت، مضبوطی، نرمی اور پاکی عطاء فرما… آمین یا ارحم
الراحمین
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭
رنگ و نور 559
اللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر، لاالٰہ الا اللّٰہ
* اللہ
تعالیٰ سب سے بڑے ہیں…
* اللہ
تعالیٰ کی بڑائی کا اقرار و اظہار ہر حال میں اور ہر مقام پر ضروری…
* اللہ
تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کے خاص الخاص ایام…
* عشرہ
ذوالحجہ کے فضائل اور اہمیت…
* عشرہ
ذوالحجہ اور ایک عجیب صورتحال…
* دل
کانپتا ہے… ایک قرآنی نکتہ…
* عشرہ
ذوالحجہ اور سوشل میڈیا…
* عشرہ
ذوالحجہ کے بارے غفلت آخر غلطی کس کی ہے؟…
* تھکاوٹ
نہیں سعادت…
* سفر
لمبا، وقت مختصر…
’’عشرہ ذوالحجہ‘‘ اور ’’تکبیر‘‘ کے
فضائل ومعارف
پر مشتمل ایک فکر انگیز تحریر…
تاریخ اشاعت:
۷ذوالحجہ
۱۴۳۷ھ ؍ بمطابق9 ستمبر 2016ء
اللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر، لاالٰہ الا اللّٰہ
اللہ تعالیٰ کے بندو! اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو…یہ
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے…
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے سے …تمہیں ہی بے
شمار فوائد ملیں گے…ایسے فوائد جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے… باقی خود اللہ
تعالیٰ اس بات کا محتاج نہیں کہ کوئی اُس کی بڑائی بیان کرے۔
اَللہُ اَکْبَرُکَبِیْرًا، وَالْحَمْدُ لِلہِ
کَثِیْرًاوَسُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا
اللہ تعالیٰ کے بندو! ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی
کو سب سے بڑا مانو…اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی پکارو…خصوصاً اِن
دنوں میں…جو آج کل ہمیں نصیب ہو رہے ہیں… یعنی ’’ذو الحجہ‘‘ کے ایام …
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے… ہر چیز سے بڑا، ہر حال سے بڑا…
ہر طاقت سے بڑا…اتنا بڑا کہ ہم اس کی بڑائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا
عظیم ہے… کتنا بڑا ہے… ہمارا تصوربھی محدود ، ہمارا خیال بھی محدود اور ہماری سوچ
بھی محدود… جبکہ اللہ تعالیٰ لا محدود… اے غم کے مارو! اللہ تعالیٰ ہمارے غموں سے
بھی بڑا ہے… وہ رحمت کی نظر فرما دے تو سارے غم مٹ جائیں… اے مسائل سے دو چار
انسانو!… اللہ تعالیٰ ہمارے مسائل سے بہت بڑا ہے… اُسی کے سامنے جھولی پھیلاؤ…
اور کسی کے آگے نہیں… اے گناہگارو! اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے… ہمارے گناہ اُس کی
مغفرت کے سامنے ایک ذرے کے برابر بھی نہیں…پس اُسی سے مغفرت مانگو…اور ہاں!… اپنے
دل کو سمجھاؤ کہ بس اللہ تعالیٰ ہی کو بڑا مانے… کتنا بڑا؟… ہاں! سب سے بڑا، سب
سے بڑا… ہم اس کی بڑائی کو سوچ نہیں سکتے، سمجھ نہیں سکتے مگر یہ اُسی کا شکر کہ
ہم اُس کی بڑائی بیان کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں…
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
عجیب صورتحال
ذوالحجہ کا مبارک عشرہ آ گیا … مگر ہمارے ہاں کچھ بھی نہ
بدلا…افسوس ہائے افسوس…
نہ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھی … اور نہ رمضان
المبارک کی طرح فجر کی نماز میں جوتوں تک صفیں بنیں… کیوں ؟ معلوم نہیں کیوں؟… نہ
بازاروں کی صورتحال تبدیل ہوئی … نہ جگہ جگہ نیکیوں کے بازار سجے … حالانکہ
…ذوالحجہ کے پہلے دس دن…انسانی زندگی اور دنیا کے افضل ترین دن ہیں…اوراہل علم کے
نزدیک یہ دن …رمضان المبارک کے دنوں سے زیادہ افضل ہیں… ان دنوں کے اعمال کے بارے
میں احادیث مبارکہ میں کئی الفاظ آئے ہیں …ہر لفظ دوسرے لفظ سے زیادہ بھاری، وزنی
اور دلنشین ہے… کہیں ’’اَحَبّ‘‘ کا لفظ آیا کہ…ان دنوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے
نزدیک باقی تمام دنوں کے اعمال سے زیادہ محبوب ہیں …کہیں ’’اَفْضَل‘‘ کا لفظ آیا
کہ ان دنوں کے اعمال سب سے زیادہ افضل ہیں…کہیں ’’اَزْکٰی‘‘ کا لفظ آیا کہ …ان
دنوں کے اعمال باقی سب دنوں کے اعمال سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ پاک کرنے والے
ہیں… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کہیں ’’تقرب‘‘ کا لفظ آیا کہ…ان دنوں کے اعمال سے
انسان اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل کر سکتا ہے… ایک مومن کو اور کیا چاہیے؟ اللہ
تعالیٰ کے ’’قرب ‘‘ سے بڑھ کر کیا چیز ہے… لوگ بادشاہوں ، حکمرانوں اور افسروں کے
قرب پر فخر کرتے ہیں…جبکہ ایک مومن کی اصل منزل اللہ تعالیٰ کا قرب ہے…اور ان دنوں
کے اعمال سے یہ قرب بہت آسانی سے نصیب ہوتا ہے… مگر افسوس! کہ یہ دن آ جاتے
ہیں…اور چلے جاتے ہیں… اور ہم کچھ بھی نہیں بناتے، کچھ بھی نہیں کماتے…
یا اللہ ! تکبیر کی برکت سے ہم پر رحم فرما…
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
دل کانپتا ہے
قرآن مجید نے ایک عجیب نکتہ سمجھایا ہے … بعض لوگ ایسے
محروم اور بد نصیب ہوتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ ان کو نیکی پر لانا پسند ہی نہیں
فرماتے …یا اللہ! معافی، یا اللہ! رحم …یا اللہ! معافی، یا اللہ! رحم…دیکھئے!
منافقین کے بارے میں فرمایا:
وَلٰکِنْ کَرِہَ اللہُ انْبِعَاثَھُمْ (التوبہ: ۴۲)
’’اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا کہ
وہ جہاد پر نکلیں۔‘‘
کیونکہ اُن کے دلوں میں نفاق تھا…اُن کے دلوں میں کھوٹ
تھی…ایسے نجس اورناپاک دل کسی پاک جگہ پر کیسے بٹھائے جا سکتے ہیں…یہ اللہ تعالیٰ
کا ظلم نہیں…بلکہ اللہ تعالیٰ کا انصاف ہے…
تھوڑا سا سوچیں کہ ہم جب کہتے ہیں کہ آج کل نماز میں سستی
ہو رہی ہے… آج کل تلاوت کرنے کی ہمت نہیں ہوتی … آج کل معمولات کا وقت نہیں
بنتا… سوچیں کہ خدانخواستہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ناپسند فرما رہے
ہیں… اور وہ ہم سے ناراض ہیں … اس لئے ہمیں نیک اعمال کی توفیق نہیں دے رہے …اوپر
والی آیت پر غور کریں اور پھر ہم اپنی حالت دیکھیں تو خوف سے دل کانپتا ہے…
آئیے! دل سے تکبیر پڑھیں تاکہ ہمارے دل سے نفاق اور سستی کے جالے صاف ہو جائیں۔
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
کچھ تو خوف کرو
ایک صاحب علم فرما رہے تھے…ذوالحجہ کا عشرہ آتے ہی اپنے
موبائل کو الوداع کہہ دینا چاہیے… نہ فضول میسج، نہ ای میل ، نہ چیٹنگ ، نہ پوسٹیں
اور نہ تبصرے…اس سے ہمارا بہت سا وقت بچ جائے گا اور ہم اس وقت کو’’ اعمال صالحہ
‘‘ میں لگا سکیں گے …کیونکہ’’ عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے نفل اعمال بھی … اللہ تعالیٰ کے
ہاںفرض اعمال سے زیادہ محبوب اور زیادہ مقرب ہیں…جبکہ ان دنوں کے فرض اعمال کی تو
شان ہی الگ ہے… ان دنوں کی فرض نمازیں سارے سال کی فرض نمازوں سے زیادہ افضل
ہیں…ان دنوں کی تکبیر تحریمہ سارے سال کی تکبیر تحریمہ سے زیادہ افضل ہے …ان دنوں
کا جہاد سارے سال کے جہاد سے زیادہ محبوب ہے …اور ان دنوں کے روزے، صدقات، خیرات ،
ذکر اور تلاوت باقی سارے سال کے ان اعمال سے افضل ہے… ان دنوں تو کسی مسلمان کی
تہجد تک نہیں چھوٹنی چاہیے… اور نہ اسے کسی ایک نماز میں سستی کرنی چاہیے… ان دنوں
دین کے لئے مال لگانے کی بڑی شان ہے … اس لئے بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا چاہیے…ایسا نہ
ہو کہ یہ دن گزر جائیں اور مال فضول پڑا رہے اور ہم اسے چھوڑ کر مر جائیں… خلاصہ
یہ کہ … موبائل سے جان چھڑا کر یہی وقت اعمال صالحہ پر لگایا جائے… مگر ظلم کی
انتہا دیکھیں کہ…ان مبارک ایام میں بھی کئی ظالم افراد سوشل میڈیا پر …طرح طرح کی
پوسٹیں چھوڑ کر مسلمانوں کو اُلجھاتے رہتے ہیں… اور ان کا قیمتی وقت اپنی فضول اور
بے کار باتوں میں ضائع کرتے رہتے ہیں… چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ان ایام میں سوشل
میڈیاپر …لوگوں کو حج،جہاد، روزے ، قربانی اور تکبیرات کی طرف متوجہ کرتے مگر وہ
ایسا نہیں کرتے… بلکہ مسلمانوں کو فضول بحثوں اور فضول باتوں میں الجھاتے رہتے
ہیں… اور اپنے اس بد عمل پر نہ نادم ہوتے ہیں اور نہ شرمندہ…
آئیے! موبائل بند کرتے ہیں…فیس بک اور ٹوئٹر پر تالا ڈالتے
ہیں…ای میل اور تبصرے بازی کو طلاق دیتے ہیں …اور جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں …
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
غلطی کس کی ہے…؟
مسلمان تو تسلیم کے خوگر ہیں…یعنی بات سننے اور بات ماننے
والے… اگر مسلمانوں کو وہ آیات بار بار سنائی جائیں جن میں… عشرہ ذی الحجہ کی
فضیلت کا بیان ہے… اور ان کو وہ احادیث سنائی جائیں جن میں اس مبارک عشرے کے عجیب
و غریب فضائل ہیں…تو یقینی بات ہے کہ پورا ماحول ہی بدل جائے گا…مساجد کا رنگ
رمضان جیسا… اور ان کی رونق اعتکاف جیسی ہو جائے گی…
بازاروں میں گانوں کی جگہ تکبیریں گونجیں گی …اور ہر طرف
اعمال صالحہ کا نور ہی نور نظر آئے گا… مگر افسوس کہ…جن کے ذمہ دین بیان کرنا تھا
… انہوں نے کچھ غفلت سے کام لیا اور کچھ بے توجہی کی کہ وہ مسلمان جن کی بات سنی
جاتی ہے …انہوں نے بھی اس بارے میں اپنی ذمہ داری محسوس نہ کی…اور نہ دعوت دینے
والوں نے … ان آیات اور احادیث کی دعوت کا پر اثر ماحول بنایا … صرف قربانی کی
بات اور دعوت خوب چلی … اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے… الحمد للہ قربانی
کا ماحول خوب سجتا ہے اور یہ امت مسلمہ کی سعادت ہے… کئی ظالم لوگ ’’قربانی ‘‘ کے
خلاف بھی سرگرم ہوتے ہیں مگر ان کا ناپاک جادو …بہت کم اور بد نصیب لوگوں پر ہی
چلتا ہے… اب ضرورت اس بات کی ہے کہ…اُمت مسلمہ کے علماء، خطباء، واعظین، مبلغین
اور اہل قلم عشرہ ذی الحجہ کے موضوع پر محنت کریں …اس موضوع کو ازسرنو پڑھیں،
سمجھیں اور پھر اس دعوت کو وقت آنے سے پہلے ہی ہر طرف پھیلائیں، بہت امید ہے کہ
اس کی برکت سے امت مسلمہ کو یہ نعمت دوبارہ اجتماعی طور پر نصیب ہو جائے گی…اور ہر
طرف نیکی ، قربانی، عبادت اور تکبیرات کا ماحول بن جائے گا، ان شاء اللہ۔
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
کون نیت کرتا ہے؟
ابھی الحمد للہ اس مبارک عشرے کے چند دن باقی ہیں …آپ میں
سے کون نیت کرتا ہے کہ ان شاء اللہ… اس عشرے کے باقی ایام …اللہ تعالیٰ کے لئے ،
اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی محنت میں گذاریں گے؟… الحمد للہ بہت سے مسلمان پہلے سے
ہی اس بارے میں بیدار ہیں…میں اپنے اردگرد ایسے افراد کو دیکھ رہا ہوں جو الحمد
للہ ان ایام کو پانے اور کمانے کے لئے… خوب محنت کر رہے ہیں…وہ جہاد کا کام پہلے
سے زیادہ کرتے ہیں …وہ روزانہ روزے رکھتے ہیں، کیونکہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم ان نو دنوں کے روزے کا اہتمام
فرماتے تھے…اسی طرح وہ تکبیر، تسبیح اور تہلیل میں بھی محنت کرتے ہیں … اور حسب
استطاعت مال بھی خرچ کر رہے ہیں…لیکن جو ابھی تک بیدار نہیں ہوئے اور سستی میں پڑے
ہیں وہ باقی دنوں کو غنیمت جان لیں… ’’افضل ایام الدنیا‘‘ کتاب میں عشرہ ذوالحجہ
کا نصاب اور اعمال ذکر کر دئیے ہیں …آپ انہیں پڑھ لیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے عطا
فرمودہ ان دنوں کو …اپنے لئے آخرت کا خزانہ اور آخرت کا سرمایہ بنا لیں… بہترین
قربانی… حسب استطاعت نفل قربانی … روزانہ کاروزہ… نمازوں کی بہترین پابندی،
تکبیرات کی کثرت… تیسرے کلمے کی فراوانی …مریضوں کی عیادت… غریبوں کی مدد… غیبت،
بد نظری اور دیگر گناہوں سے اجتناب… مسلمانوں کو معاف کرنا…کثرت سے توبہ،
استغفار…اور جہاد کی بھرپور محنت…
یا اللہ! میری اور تمام نیت کرنے والوں کی مغفرت فرما اور
ہمیں’’ تکبیر‘‘ کی حقیقی برکات اپنی رحمت سے عطاء فرما…
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
تھکاوٹ نہیں ، سعادت
کوئی سوچے کہ آخر ہم کیا کیا کریں؟ … ابھی رمضان المبارک
کی محنت تھی اور اب عشرہ ذی الحجہ کی محنت…آخر دنیا کے کام کاج بھی تو کرنے ہیں…
یہ سوچ درست نہیں …دنیا کے ضروری کام کاج سے نہ کسی نے روکا ہے اور نہ کوئی روک
سکتا ہے… نہ رمضان میں اور نہ ذو الحجہ میں … مگر سال میں بار بار ایسے سنہری
مواقع کا آنا… ہمارے لئے سختی نہیں سعادت ہے…اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے عمریں
چھوٹی دی ہیں… پچاس سے ستر سال… کوئی کوئی آگے بھی نکل جاتا ہے… اور کوئی کوئی
پہلے بھی چلا جاتا ہے…مگر اوسط عمر بہرحال اتنی ہے…جبکہ اس امت کا مقام … پچھلی
تمام امتوں سے آگے اور اونچا ہے … انہوں نے جو سفر دو سو سال کی عبادت سے طے کیا
ہم نے اس سے بڑا سفر بیس ، چالیس سال کی عبادت سے طے کرنا ہے… حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے
اس امت کو خصوصی ایام اور خصوصی اوقات عطاء فرما دئیے … یہ اس اُمت پر اللہ تعالیٰ
کا خاص فضل ہے… ایک رات لیلۃ القدر کی عبادت ایک صدی کی عبادت سے بڑھ کر بنا دی…
اور عشرہ ذی الحجہ کے اعمال کو بے حد وزنی اور قیمتی بنا دیا…ہمارے لئے فخر کی بات
ہے کہ… ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں … اور ہمارے پاس’’ کلمہ طیبہ‘‘ جیسی
بے مثال نعمت موجود ہے… حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی اُمتِ اجابت میں سے
ہونا…ہمارے لئے وہ شان ہے جو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا…اسی شان کی برکت سے اللہ
تعالیٰ ہمیں اپنے قرب کے خاص ایام اور خاص گھڑیاں عطاء فرماتے ہیں… ہمیں اُکتانا
نہیں چاہیے بلکہ خوشی منانی چاہیے… اور اللہ تعالیٰ کی ان انمول نعمتوں سے فائدہ
اُٹھانا چاہیے۔
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہ ِالْحَمْدُ۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 560
اصل طاقت کا مالک
* اصل
طاقت اور قوت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ…
* انڈیا
اور جھوٹ ہی جھوٹ…
* انڈیا
کا اپنی عوام کو دھوکہ…
* انڈیا
میں ذات پات کا خوفناک فرق…
* انڈیا
کی پس پردہ جنگ ہردم جاری…
* انڈیا
سامنے کی جنگ نہیں لڑسکتا…
* انڈیا
تباہی کے کنارے پر…
*
انڈیا فطرت کے انتقام کا شکار…
* انڈیا
سے یاری کرنے والےبھی ڈوبیں گے…
* اگر
انڈیا تباہی سے بچنا چاہتا ہے تو…
* ’’اوڑی
حملہ‘‘ اور اس کے مابعد حالات…
* جہاد
مسلمان کے خون اور فطرت میں شامل ہے…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں یہ چشم کشا تحریر …
تاریخ اشاعت:
۲۱ذوالحجہ
۱۴۳۷ھ؍ بمطابق23 ستمبر 2016ء
اصل طاقت کا مالک
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ، وہی ہوتا ہے… ہر طرح کی اصل قوت
اور طاقت کا مالک صرف’’اللہ تعالیٰ‘‘ہے…
مَاشَآءَ اللّٰہُ کَانَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا
بِاللّٰہِ۔
موضوع خود آ گیا
آج صبح سے اس سوچ میں تھا کہ…کس موضوع پر لکھا جائے؟…
پچھلے شمارے کا ناغہ تھا، اس لئے ’’تسلسل‘‘ ٹوٹ گیا…کئی موضوع ذہن میں طلوع
ہوئے…ابھی کچھ حتمی طے نہیں کیا تھا کہ… ’’اوڑی‘‘ کے واقعہ پر اُٹھنے والے شور
شرابے نے سارے موضوع اُڑا دئیے…اب اگر میں کسی اور موضوع پر لکھوں تو کئی لوگ
پریشان ہو جائیں گے…مثلاً
* پاکستان
میں موجود انڈیا کے باقاعدہ یا بے قاعدہ جاسوس…جو اس انتظار میں تڑپ رہے ہیں کہ
ہماری طرف سے کوئی بات آئے… اور وہ اسے جلد از جلد انڈین حکومت اور انڈین میڈیا
کو فروخت کر کے کچھ مال کما سکیں۔
*
انڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینل جو ’’القلم‘‘ کے تازہ شمارے اور تازہ ’’رنگ و
نور‘‘ کا اس ہفتے بہت بے چینی کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں…تاکہ پروپیگنڈہ اور شور
شرابا کرنے میں آسانی رہے … اور وہ’’ رنگ و نور‘‘ میں اپنے الزامات کے لئے دلائل
ڈھونڈ سکیں…
یہ تو ہوئے دو طبقے… باقی اور بھی بہت سے لوگ ہیں… اللہ
تعالیٰ ہی ان سب کو جانتا ہے…
وَآخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْج لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج
اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ۔(الانفال:۴۰)
جھوٹ کا وبال
انڈیا میں جھوٹ عام ہے…وہاں سچ صرف اس وقت بولتے ہیں جب وہ
’’دارو‘‘ یعنی شراب کے نشے میں پوری طرح مدہوش ہو جاتے ہیں…باقی ہر وقت جھوٹ ہی
جھوٹ… جھوٹا مذہب ، جھوٹے خدا، جھوٹی عزت، جھوٹی طاقت، جھوٹے دعوے، جھوٹی
فلمیں…اور جھوٹی سیاست… آپ خود سوچیں کہ…’’برہمن‘‘ کو پاک اور عزتمند کہنا اور
’’دلت‘‘ کو ناپاک اور اچھوت کہنا کتنا بڑا ظلم اور کتنا بڑا جھوٹ ہے… حالانکہ ساہو
کار برہمن کے جسم میں دلت کے جسم سے زیادہ بدبودار غلاظت ہوتی ہے… یہ بھی انسان ،
وہ بھی انسان… پھر اتنا بڑا فرق کیوں کہ …شودر کے ہاتھ لگانے سے پانی ناپاک ہو
جائے؟… چلیں چھوڑیں اسے یہ بڑی دردناک اور بھیانک داستان ہے… بات یہ عرض کر رہا
تھا کہ…انڈیا نے اپنی طاقت کے بارے میں … اپنی عوام سے اتنا جھوٹ بول دیا ہے کہ…
اب ہر واقعہ پر اس کی عوام فوراً اپنی حکومت سے پاکستان پر حملے کا مطالبہ کرنے
لگتی ہے… ۱۹۷۱ء کی حادثاتی فتح نے ان کے دماغ پہلے ہی خراب کر رکھے
ہیں…مزید کام ’’بالی وڈ‘‘ کی فلموں نے کر دیا ہے… ان فلموں کے وہ’’ چوہے ہیرو‘‘ جو
اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں… وہ فلموں میں دن رات انڈیا کو مضبوط اور پاکستان کو
کمزور دکھاتے رہتے ہیں… ایسے ہیرو بھی جو گیس کے مریض ہیں اور ہر پانچ منٹ بعد جن
کی ہوا نکل جاتی ہے … وہ فلموں میں پاکستان پر حملے کرتے ہیں … یہاں آ کر کیمپ
تباہ کرتے ہیں…یہاں سے مجاہدین اور ان کے قائدین کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں …وہ
چونکہ ہیرو ہوتے ہیں اس لئے ان پر ہزاروں گولیاں چلتی رہیں …ان کو ایک بھی نہیں
لگتی… جبکہ ان کی ایک ایک گولی سے پوری عمارتیں اُڑ جاتی ہیں اور کئی کئی مجاہد
ڈھیر ہو جاتے ہیں…انڈین عوام دن رات یہ مناظر دیکھ کر واقعی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ
انڈیا ناقابل تسخیر ہے اور اس کے فوجی فلموں کے ہیرو ہیں… حالانکہ منظر یہ ہے کہ
چار افراد کے حملے میں اٹھارہ فوجی مارے گئے اور درجنوں زخمی ہو گئے…
اس سے ابھی چند دن پہلے ایک حملے میں انڈین فوج کے دو کرنل
اور کئی فوجی مارے گئے … اب انڈیا میں ہر طرف شور ہے کہ …پکڑو، مارو …حملہ کر
دو…اُٹھا لو…ارے مینڈک کی اولادو! یہ سب کچھ فلموں میں آسان ہے زمین پر
نہیں…انڈیا صرف پس پردہ شرارتی جنگ لڑ کر نہتے شہریوں کو مارنا جانتا ہے…مشرقی
پاکستان سے کراچی تک اور ڈھاکہ سے بلوچستان تک وہ پاکستان کے خلاف ایک پس پردہ جنگ
مسلسل لڑ رہا ہے … سامنے آنے کی اس میں ہمت نہیں… جبکہ پس پردہ جنگ اس نے کبھی
روکی نہیں… جب واجپائی لاہور آیا تھا اس وقت بھی انڈیا کی پراکسی جنگ کراچی میں
خون بہا رہی تھی… اور ہم بوریوں میں غریب مزدوروں کی لاشیں دیکھ رہے تھے… اور جب
مودی لاہور اُترا اُس وقت بھی انڈیا کی یہ جنگ بلوچستان میں جاری تھی… اور ہم اپنے
مسلمان بھائیوں کی لاشیں اُٹھا رہے تھے … انڈیا سامنے آ نہیں سکتا… وہ اس وقت
آتا ہے جب ہم مسلمان ایک دوسرے کو کاٹ چکے ہوتے ہیں… تب کوئی ’’ جنرل اروڑہ‘‘ کسی
گندی ’’اروڑی‘‘ سے نمودار ہوتا ہے… مگر انڈیا نے اپنی طاقت کا اتنا جھوٹا
پروپیگنڈہ کر دیا ہے کہ…اب اس کی عوام سنبھالے نہیں سنبھلتی… ٹی وی کے بد شکل
اینکر اور اینکرنیاں … نیکر اور نیکرنیاں پہن کر…چیختے ہیں کہ… اینٹ سے اینٹ بجا
دو … اُشامہ جیسا ایکسن کر ڈالو… میجائل چلا دو … چین کو سبق سکھا دو… پاکستان کو
نقشے سے مٹا دو وغیرہ وغیرہ… بھارت کا موجودہ وزیر اعظم ’’مودی‘‘ چونکہ غیر سنجیدہ
جانور اور ماضی کا مشہور دہشتگرد ہے تو وہ بھی ان اینکروں کے سُر میں سُر ملا کر
دھمکی آمیز بیانات دیتا ہے… مگر جب وہ اپنے کمانڈروں میں بیٹھتا ہے تو اسے آخری
مشورہ یہی ملتا ہے کہ …
’’شر جی! بش اپنے ابا امریکہ کو
سکایت لگا دو … آٹھ دش اور کسمیری مار ڈالو… کراچی، بلوچشتان یا پنجاب میں دھماکہ
کروا دو… شر جی!!‘‘
مٹنے کی علامات
انڈیا والے دل کے اندھے ہیں … اُن کے نجومی ، تانترک ،
جیوتشی اور یوگی سب جھوٹے ہیں… اُن میں سے کسی کے پاس بھی تھوڑا سا روحانی علم
ہوتا تو وہ دیکھ لیتا کہ…انڈیا اب تباہی کے کنارے پر آ چکا ہے… جب ظلم اور بے
انصافی کسی ریاست کا قانون بن جائیں تو وہ ریاست ضرور تباہ ہوتی ہے… مودی کے
حکمران بنتے ہی انڈیا میں ہر ظلم اور ہر خباثت اب ریاستی قانون بن چکا ہے… وہاں
پہلے بھی مسلمانوں کو مارا جاتا تھا…مگر بہرحال یہ ریاست کا باقاعدہ قانون نہیں
تھا… وہاں پہلے بھی دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو مارا اور جلایا جا رہا تھا مگر یہ سب
کچھ ریاست کا باقاعدہ قانون نہیں تھا… انڈیا والے سالہا سال سے کراچی، گلگت اور
بلوچستان میں…مسلمانوں کا قتل عام کروا رہے تھے مگر وہ اس کا اعلان نہیں کرتے تھے
جبکہ… مودی نے لال قلعے پہ کھڑے ہو کر اپنے ان ناپاک جرائم کا اعتراف کیا…یہ وہ
حالات ہیں جو کسی بھی ریاست کو بدترین تباہی پر لے جاتے ہیں… مجھے اپنی وہ دو
مظلوم بوڑھی مسلمان مائیں یاد آ رہی ہیں …جن کو انڈیا میں ایک ریلوے اسٹیشن پر
اتنی بے دردی سے مارا گیا کہ…وہ لہولہان اور بے ہوش ہو گئیں… اور پھر پولیس آئی
تو اُنہی کو پکڑکر لے گئی … اور ان پر گوشت رکھنے کا مقدمہ درج کر دیا … مجھے
میوات کے تاریخی مسلمان علاقے کی ان دو مسلمان خواتین کا غم بے چین کر رہا ہے …
جنہیں حکومت کی سرپرستی میں اجتماعی بے حرمتی کا نشانہ بنایا گیا… اس ظلم سے میوات
کا مردم خیز خطہ ابھی تک خون کے آنسو رو رہا ہے… اخلاق احمد کو گوشت رکھنے کے
شبہے میں شہید کر دیا گیا … جبکہ یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا…
ہر دن مسلم کش فسادات… ہر دن ’’ دلت کش‘‘ فسادات… ظلم ہی
ظلم… اور یہ سب کچھ ریاستی چولے میں … اور اب کشمیر میں ساٹھ دن کی وحشت ناک
بربریت … وہاں کا ہر پتھر خون اُگل رہا ہے اور ہر گھر قبرستان بنا ہوا ہے…یہ سب
کچھ آخر کب تک؟ کب تک؟ قدرت اور فطرت ایک وقت تک ڈھیل دیتی ہے…مگر ہمیشہ نہیں …
انڈیا بربادی کی طرف جا رہا ہے… جو انڈیا کے ساتھ یاری کرے گا وہ بھی اس بربادی کا
حصہ بن جائے گا…انڈیا اب فطرت اور قدرت کے قہر کے سامنے ہے…تم ایک مجاہد نہیں سارے
مجاہد مار دو تم ایک جہادی قائد نہیں … سارے قائدین مار دو… اس سے تمہاری بربادی
اب رکنے والی نہیں…کیونکہ تمہاری بربادی کی وجہ خود تمہارے کرتوتوں میں چھپی ہے…
انڈیا اگر بچنا چاہتا ہے تو بس ایک ہی راستہ ہے انڈیا والے مودی، ایڈوانی ، راج
ناتھ سنگھ…آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے لیڈروں کو …پکڑ کر سڑکوں پر لٹا
دیں… تب ممکن ہے انڈیا کو مزید مہلت مل جائے … لیکن اگر یہی لوگ حکمران رہے…یہی
قاتل ملک کے نگہبان رہے تو سن لو… یہ ملک اب عبرتناک تباہی کا سامنا کرے گا… ان
شاء اللہ رب الشہداء۔
ارے! اوڑی تو اُڑ گیا
شروع میں عرض کیا تھا کہ …’’اوڑی‘‘ کے واقعہ نے باقی سارے
موضوعات اُڑا دئیے… مگر اب جب کہ ’’ کالم ‘‘ مکمل ہونے والا ہے تو اندازہ ہوا کہ
’’اوڑی‘‘ کا تذکرہ بھی اُڑ گیا…اور بات انڈیا پر چلی گئی…
چلیں تھوڑا سا تذکرہ ’’اوڑی‘‘ کا بھی ہو جائے… اوڑی مقبوضہ
کشمیر کے ایک پہاڑی قصبے کا نام تھا…انڈیا کی قابض فوج نے یہاں ایک بڑا ’’ ہیڈ
کوارٹر‘‘ بنا رکھا تھا…کل اس پر حملہ ہوا اور بہت سے انڈین فوجی مارے گئے… انڈیا
نے اس حملے کا الزام بھی ہم پر ڈال کر …ہماری تقریریں سنانا شروع کر دی ہیں… اور
ہماری جماعت کو ختم کرنے اور ہمیں مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں… انڈیا کی
اطلاع کے لئے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پٹھان کوٹ کے حملے کے بعد جب اس نے ہماری
جماعت کا اور ہمارا نام اُچھالا… اور اپنے ٹی وی چینلوں پر ہمارے بیانات سنائے تو
انہیں سن کر سینکڑوں ، ہزاروں افراد جہاد فی سبیل اللہ کے مقدس فریضے کے حامی بن
گئے… بہت سے نوجوانوں نے توبہ کی اور بری زندگی چھوڑ کر …با ایمان اور با مقصد
زندگی پر آ گئے… اور الحمد للہ لاکھوں ایسے افراد تک ’’دعوتِ جہاد‘‘ پہنچی جو اس
سے پہلے ’’ جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ سے ناواقف تھے…بعض افراد نے خطوط میں بتایا ہے
کہ… انہوں نے پٹھان کوٹ کے واقعہ کے بعد جب میڈیا پر ہمارا نام سنا تو فوراً …
’’علامہ گوگل‘‘ سے ہمارے بارے میں پوچھا… وہاں انہیں کئی بیانات، کئی تقریریں ،
کئی خطبات اور کئی کتابیں مل گئیں… وہ ان بیانات کو سنتے اور تحریروں کو پڑھتے
پڑھتے بالآخر مجاہد بن گئے… جہاد فی سبیل اللہ چونکہ ہر مسلمان کے خون اور اس کی
فطرت میں شامل ہے…اس لئے جب اس تک قرآن مجید کی سچی دعوتِ جہاد پہنچتی ہے تو وہ
فوراً…جہاد فی سبیل اللہ کو مان لیتا ہے، پہچان لیتا ہے…اب معلوم نہیں…اوڑی پر
حملہ کن خوش بختوں نے کیا مگر نام پھر ہمارا لگ گیا… اور دعوت جہاد ہر سو گونجنے
لگی… بے شک یہ صرف اور صرف قرآنی دعوت جہاد کی کرامت ہے… بس یہ ہیں آج تک کی
خبریں… کل کیا ہو گا… ہم نہیں جانتے… بس وہی ہو گا جو ہمارا رب اللہ تعالیٰ چاہے
گا…کیونکہ ہر طرح کی اصل قوت اور اصل طاقت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے…
مَاشَآءَ اللّٰہُ کَانَ، وَمَالَمْ یَشَأْلَمْ یَکُنْ
وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 561
بہت سے پول
* سب
سے بڑا گناہ شرک…
* مسلمانوں
کے سب سے بڑے دشمن یہود اور مشرک…
* اللہ
تعالیٰ کے دشمنوں کا دشمن ہونا بہت بڑی سعادت…
* مجاہدین
اسلام اور شہداء کرام کا شکریہ…
* خونِ
شہداء کی کرامت…
* انڈیا
کی آہیں اور سسکیاں…
* شہداء
کا خون دہلی کی طرف بڑھ رہا ہے…
* زندگی
تو گذر ہی جاتی ہے، ایک عظیم قرآنی نکتہ…
* حقیقی
امن پسندی کیا ہے؟…
* امن
اور سلامتی کیسے آئے گی؟…
* اللہ
تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانا ضروری…
* وفا
دار بن جائو…
ان
سب موضوعات پر مشتمل ایک جامع تحریر …
تاریخ اشاعت:
۲۸ذوالحجہ
۱۴۳۷ھ؍ بمطابق30 ستمبر 2016ء
بہت سے پول
اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ سوال ہے… اپنے لئے اور آپ سب
مسلمانوں کے لئے…ایمان کامل، دائم کا…عافیت دارین کا اور حسن خاتمہ کا … یا اللہ!
عطاء فرما، یا اللہ! عطاء فرما، یا اللہ! عطاء فرما…آمین
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر
ہاتھ خالی، دامن خالی، دل خالی، جھولی خالی … پھر بھی اللہ
تعالیٰ کا فضل اور احسان کہ…اللہ تعالیٰ کے دشمن ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں…الحمد
للہ ، الحمد للہ، الحمد للہ… یہ وہ نعمت ہے کہ جس کا اگر دن رات لاکھوں بار شکر
ادا کریں تو حق ادا نہ ہو … قرآن و سنت کو دیکھ لیں…سب سے بڑا گناہ ’’ شرک‘‘ ہے…
قرآن و حدیث پڑھ لیں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی اور مشرک ہیں … سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ لیں ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ ایذائیں اور تکلیفیں مشرکوں نے
پہنچائیں… گالیاں، دھمکیاں، تشدد ، سازشیں اور تمسخر… قرآن مجید کو غور سے دیکھ
لیں …اللہ تعالیٰ جن کو نجس اور ناپاک قرار دے رہے ہیں… وہ ہیں مشرک… بتوں کے
پجاری … لاکھوں کروڑوں خدا ماننے والے… بے شمار دیوی دیونیوں کو پوجنے والےیعنی
موجودہ زمانے میں ہندو… یہ مشرکین سب سے بڑے گناہگار، سب سے بڑے مجرم، سب سے بڑے
گستاخ ، سب سے زیادہ نجس و ناپاک اور سب سے بڑے دشمن ہیں… اللہ اور اس کے رسول کے
یہ دشمن… اگر ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں تو… الحمد للہ یہ بڑی سعادت کی بات ہے…
مَاشَآءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
ہم تو اپنے ’’رب تعالیٰ‘‘ اور اس کے دین کی وفاداری میں کچھ
نہ کر سکے… یہ احسان ہے اُن شہداء کرام کا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کیا …
مشرکین سے قتال کیا…وہ غازی جنہوں نے معرکے لڑے… وہ شہداء جو جانوں سے گزر گئے …
وہ بہادرجنہوں نے خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں…دین اسلام کے وہ وفادار جو
دشمنوں پر بجلی بن کر گرے …وہ سرفروش جنہوں نے انڈین کالے سانپ کو کیچوا بنا دیا…
ہم چونکہ ان کے خادم ہیں، نوکر ہیں…ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو…الحمد للہ ہمارا
نام بھی … اس فہرست میں آ گیا… وہ فہرست جس سے دشمنان اسلام کے دل جلتے ہیں … اس
فہرست میں نام آنے کے بعد زندگی اگرچہ تنگ اور مشکل ہو جاتی ہے… مگر ایک اُمید
جاگ اُٹھتی ہے… بڑی دلکش اُمید …مغفرت کی اُمید… اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید…
قیامت کے دن رسوائی سے حفاظت کی اُمید…
یااللہ!،یااللہ!،یااللہ!
بہت سے پول کھل گئے
یہ صدی بڑی عجیب ہے… اس میں بڑے بڑے پول کھل گئے… جھوٹی
طاقت کے پروپیگنڈے کر کے جو لوگ …دنیا کے ’’دادا ‘‘ بنے ہوئے تھے…اُن میں سے بہت
سے بے نقاب ہو چکے ہیں… اور کئی ایک ہونے والے ہیں… یہ ساری کرامت شہداء کے خون نے
دکھائی… آپ آج کل انڈین میڈیا پڑھیں اور سنیں… بس چیخیں ہی چیخیں ہیں… حملے کے
بعد جو شور تھا کہ…ماردو، پکڑ لو…اور گھس کر مارو … وہ شور اب آہوں،سسکیوں اور
حسرتوں میں بدل چکا ہے… اب کہا جا رہا ہے کہ… ہمارے اندر کے بھیدیوں نے نقصان
پہنچایا… کبھی کہا جا رہا ہے کہ ہماری فوج نکمی اور ناکارہ ہے… اپنے کیمپ کی حفاظت
نہ کر سکی حالانکہ مجاہدین کو چھ جگہ روکا جا سکتا تھا…کبھی کہا جا رہا ہے کہ
ہماری فضائی طاقت کمزور ہے … ساٹھ فی صد طیارے چلنے کے قابل نہیں… کبھی کہا جا رہا
ہے کہ ہم جنگ کریں گے مگر غربت کے خلاف …بے روزگاری کے خلاف… واقعی یہ سب جہاد فی
سبیل اللہ کی کرامت ہے… یہ کشمیر کے مظلوم خون کی کرامت ہے… یہ خون اب انڈیا کے
گلے تک سرایت کر چکا ہے… اور اب اس خون کا سفر انڈیا کے دماغ کی طرف شروع ہو چکا
ہے… جو اللہ تعالیٰ آنسو کے ایک قطرے سے کسی کی جہنم بجھا سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ
شہید کے خون کے قطرے سے…بڑی بڑی طاقتوں اور طوفانوں کو بجھا دیتا ہے۔
افضل گورو شہید رحمہ اللہ ، برہان وانی شہید رحمہ اللہ …
اور کشمیر کے ایک لاکھ شہداء کا خون اب دہلی کی طرف بڑھ رہا ہے… بہت شان سے ، بہت
رعب سے …اور بہت تیزی سے… اسی لئے انڈیا کے اوسان خطاء ہیں… وہاں کے لیڈروں کی
عقلیں اور فوج کا حوصلہ… دونوں ایک ساتھ اُڑ چکے ہیں … یہ جو آپ ہر طرف ’’اوڑی
اوڑی‘‘ کا شور سن رہے ہیں …یہ دراصل اُڑی ہوئی عقل … اُڑے ہوئے حوصلے اور اُڑی
ہوئی عزت کا ماتم ہے۔
زندگی کا کمال
یہ جو قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا کہ … رات دن کے
آنے جانے میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں…ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ …
زندگی رکتی نہیں گذر جاتی ہے … گذرتی جاتی ہے… تنگ زندگی بھی گزر جاتی ہے اور کھلی
زندگی بھی… مالدار زندگی بھی گذر جاتی ہے اور فقر و فاقے والی زندگی بھی…رات دن
آتے جاتے ہیں اور زندگی کی گاڑی بغیر رکے چلتی رہتی ہے… آپ کے پاس پا سپورٹ ہو،
اس کے ہر صفحے پر کسی ملک کا ویزہ ہو، آپ کا کریڈٹ کارڈ آخری ہندسے پر ہو…آپ کا
ہر دن نئے ملک میں… آپ کے دستر خوان پر ہر دن نئی قسم کے کھانے…اور آپ کے جسم پر
ہر دن نیا لباس …یہ زندگی بھی گزر جائے گی… جب کوئی درد، بڑھاپا یا بیماری آئے گی
تو پچھلا کوئی عیش کام نہ آئے گا…اور اگر آپ کی زندگی تنگ ہو، آپ ایک سیل، ایک
کمرے، ایک گھر تک محدود ہوں …نہ کہیںجا سکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے ملک کی سیر کر
سکتے ہیں… آپ کا کھانا، پہننا سب گزارے لائق تو…یہ زندگی بھی گزر جائے گی… اور
ماضی کی کوئی پریشانی آپ کے ساتھ نہیں چلے گی… یہ وہ نکتہ ہے جو حکمت والی محکم
کتاب قرآن مجید بار بار سمجھاتی ہے… تاکہ انسان اپنی زندگی کی آسانی،عیاشی اور
راحت کے لئے… اپنے ایمان کا سودا نہ کرے…اپنے ضمیر کا سودا نہ کرے… اپنی آخرت کو
نہ بیچے… یا اللہ! سمجھ اور استقامت کا سوال ہے۔
تعریف یا مذمت
امریکہ میں ایک مسلمان عالم دین کو … صلیبی قاتل نے شہید کر
دیا…اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے… اُن عالم دین کے اہل خانہ میں سے کسی نے
بیان دیا کہ…وہ بڑے پر امن آدمی تھے … اُنہوں نے کبھی مکھی کو بھی نہیں مارا تھا
پھر اُنہیں کیوں شہید کیا گیا؟… آپ بتائیے یہ اُن بزرگوں کی تعریف تھی یا
مذمت؟…مجھے یقین ہے کہ وہ ایسے نہیں ہوں گے اسی لئے تو انہیں نشانہ بنایا گیا…اسی
طرح کئی لوگ اپنے بارے میں بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ…ہم پر امن مسلمان ہیں ہم نے
بندوق تو درکنار کبھی ہاتھ میں پستول اور چھری تک نہیں پکڑی… آپ بتائیں … یہ لوگ
اس جملے سے اپنی تعریف کر رہے ہوتے ہیں یا مذمت؟ … دنیا میں امن کا پیغام حضرات
انبیاء علیہم السلام لے کر آئے اور حضرات انبیاء علیہم السلام نے جہاد کیا، اسلحہ اُٹھایا … دشمنوں کو قتل
فرمایا…زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کرنے کے لئے اہل فساد کو ختم فرمایا… دراصل بعض
لوگ اپنی طبعی بزدلی کو اپنی ’’امن پسندی‘‘
سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ’’امن پسند‘‘ نہیں ہوتے… آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ
کی صفات میں سے ’’النافع‘‘ بھی ہے نفع پہنچانے والا… اور ’’ الضارّ ‘‘ بھی ہے یعنی
ضرر اور نقصان کا مالک… حضرت ہود ، حضرت صالح اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوموں کا فساد جب حد سے بڑھ گیا تو … اُن کو
ضرر اور نقصان پہنچایا گیا…کیونکہ جو مجرموں کو ضرر اور نقصان نہ پہنچا سکتا ہو وہ
عدل اور انصاف قائم نہیں رکھ سکتا…اگر ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور اُبی بن خلف کو ضرر
اور نقصان پہنچا کر بدر کے کنویں میں نہ ڈالا جاتا تو عرب کے انسانوں کو اسلام کی
نعمت نصیب نہ ہوتی… اور اسلام دنیا بھر میں نہ پھیلتا … ہم مسلمانوں کو یہ سکھایا
گیا کہ … اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپناؤ… اللہ تعالیٰ کی صفات کی روشنی میں اپنے
اخلاق کی تعمیر کرو… جن کو نفع پہنچانے کا حکم ہے ان کو نفع پہنچاؤ اور جن کو
نقصان پہنچانے کا حکم ہے ان کو نقصان پہنچاؤ… تم دنیا میں امن پسندی کے ایوارڈ
لینے کے لئے نہیں بھیجے گئے… بلکہ امن پھیلانے کے لئے بھیجے گئے ہو اور امن آئے
گا ’’ایمان ‘‘ سے اور سلامتی آئے گی’’اسلام ‘‘ سے… اور ایمان و اسلام دونوں جہاد
فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہیں …کیونکہ جہاد کے بغیر فساد ختم ہو ہی نہیں سکتا۔
ایک کوشش کریں
اگر کوئی اپنے والد کے دشمن سے دوستی کرے تو لوگ اسے کیا
کہتے ہیں؟ بے وفا، غدار، بے غیرت… تو پھر اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے ’’دوستی‘‘ کرنے
والوں کو کیا کہا جائے گا؟…بھائیو اور بہنو! کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کے وفادار
بنو…دین اسلام کے وفادار بنو … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار بنو… بہت سے لوگ جو عمل میں بہت کمزور
تھے مگر وہ ’’وفادار ‘‘ پکے تھے… وہ کامیاب ہو گئے… اور بڑے بڑے مقامات پا گئے…
کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر دشمنیاں مول لیں… جنگیں لڑیں اور خطرے
اُٹھائے…اللہ تعالیٰ کی غیرت گوارا نہیں فرماتی کہ ایسے وفاداروں کو حساب کے کٹہرے
میں کھڑا کیا جائے… اس لئے آئیے! جہاد کے راستے کو اپنائیے … تاکہ وفاداروں میں
شامل ہو جائیں…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 562
بوکھلایا ہوا کون؟
خ ’’آیۃ
الکرسی‘‘ علم، قوت، حفاظت اور رزق کا خزانہ…
خ ’’آیۃالکرسی‘‘
توحید کا جام…
خ ’’آیۃا
لکرسی‘‘ ہر قسمی مسائل کا حل…
خ ’’جہاد‘‘
کا عظیم الشان سفر…
خ چراغ
سے سورج، اور تالاب سے دریا بننے کا
یادگار سفر…
خ جہاد
اور ’’وسط ایشیا‘‘…
خ جہاد
اور ’’ہندوستان‘‘…
خ براعظم
افریقہ پر جہاد کی یلغار…
خ اس
وقت دنیا کاسب سے اہم اور بڑا مسئلہ ’’جہاد‘‘ہے…
خ خونِ
شہداء کی طاقت…
خ بوکھلایا
ہوا کون ہے؟ مجاہدین کرام یا انڈیا؟…
خ انڈیا
کے ڈیم توڑے جاسکتے ہیں…
ان
تمام حقائق سے پردہ اٹھاتی ایک روشن تحریر
تاریخ اشاعت:
۵محرم
الحرام ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق7اکتوبر 2016ء
بوکھلایا ہوا کون؟
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ
سبحان اللہ! ’’آیۃ الکرسی‘‘ علم کا خزانہ، قوت
کا راز، حفاظت کا حصار، رزق کی چابی اور فتوحات کا نشان…آئیے! پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
آیۃ الکرسی پڑھتے وقت کتنا مزا آتا ہے … کتنا سکون ملتا
ہے اور کتنا نور دل میں اُترتا ہے… ترجمہ ذہن میں رکھ کر پڑھتے چلے جائیں … ایک
ایک جملے کو دل میں اُتارتے چلے جائیں… اور پھر اپنے عظیم رب کی محبت اور اس کی
صفات میں گم ہو جائیں… بتوں کے پجاری کیا جانیں کہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ کیا ہے؟ یہ تو
’’توحید‘‘ کا ایسا جام ہے جو انسان کو آسمانوں سے بھی بلند لے جاتا ہے… آئیے!
ایک بار پھر پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
یا اللہ! آپ کا شکر ہے آپ نے ہمیں… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے… ’’آیۃ الکرسی‘‘ عطاء فرمائی… یا
اللہ! ہمیں اس کا نور، اس کی قوت، اس کی برکت… اور اس کی روشنی عطاء فرما۔
اے مجاہدین کرام!… آیۃ الکرسی پڑھو، آیۃ الکرسی سمجھو،
آیۃ الکرسی کو اپناؤ…اور آیۃ الکرسی کا نور اپنے اندر بھرو…پھر دیکھو! تمہاری
فتوحات اور تمہاری یلغار کہاں تک پہنچتی ہے۔
ایک یادگار سفر
’’آیۃ الکرسی‘‘ پر مزید بات پھر
کبھی… آج بس اتنا ہی عرض ہے کہ… آپ میں سے جس کو جو مسئلہ یا پریشانی لاحق
ہو…وہ’’ آیۃ الکرسی ‘‘ کو مضبوط پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنا مسئلہ حل کرالے… آپ پر کوئی جسمانی تکلیف ہو یا باطنی… کوئی
مالی تنگی ہو یا گھریلو پریشانی… ذہن کا اُلجھاؤ ہو یا حال کی غفلت… جادو کا تیر
ہو یا نظر کا تندور … قرضے کا وبال ہو یا محتاجی کا خوف… آیۃ الکرسی ان سب کا
کافی اور شافی علاج ہے… بغیر تھکے پڑھتے جائیں اور یقین کے ساتھ مانگتے جائیں۔
اچھا اب آتے ہیں…یادگار سفر کی طرف … یہ واقعی عجیب سفر
ہے…اس سفر میں ہم نے چراغ کو سورج بنتے… اور غار کو محل بنتے دیکھا ہے… اگر آپ
پانی کے ایک چھوٹے سے تالاب کو دیکھیں کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا دریا بن جائے
تو کیا آپ یہ منظر کبھی بھلا سکیں گے؟…
جی ہاں… یہ یادگار سفر…جہاد کا سفر ہے … ہم نے جب جہاد سے
بیعت کی اور دوستی جوڑی تو…جہاد ایک چراغ تھا…اور پھر اسی سفر میں ہم نے اسے
ناقابل شکست سورج بنتے دیکھا… وہ ایک چشمہ تھا مگر اب وہ ایک دریا ہے جو…سمندر
بننے والا ہے… جب ہم جہاد کے خیمے میں آئے تو نہ کشمیر میں جہاد کی کوئی شاخ تھی
…اور نہ عراق و شام میں جہاد کی بجلیاں تھیں…
بس دو ہی محاذ تھے… ایک افغانستان اور دوسرا فلسطین…ایک
محاذ کھلا تھا اور ایک بند … نہ کوئی بڑے خواب تھے اور نہ کوئی بڑے نام … بس کچھ
غریب لوگ اسلام کا یہ فریضہ پورا کر رہے تھے… گمنام شہداء اور گمنام غازی… مگر ان
کا خون وہاں پہنچ رہا تھا…جہاں سے فیصلے اُترتے ہیں… اور ان کا خون اس زمین پر گر
رہا تھا…جو کچھ نہیں بھولتی، جو کوئی چیز نظر انداز نہیں کرتی… وہ چھوٹے سے بیج کو
اپنے اندر سمو کر…اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک بڑا درخت بنا دیتی ہے… شہداء کے اس
گمنام خون نے زیر زمین سفر شروع کیا … ایک طرف وہ ’’وسط ایشیا‘‘ کی طرف بڑھا… اور
دوسری طرف اس نے ’’غزوۂ ہند‘‘ کا چراغ روشن کر دیا… اب مجاہدین کے بیانات میں چار
، پانچ محاذوں کا تذکرہ گونجنے لگا… مگر شہداء کے خون کا سفر کہاں رکنے والا تھا؟…
اس نے ’’وسط ایشیا‘‘ میں اپنی ایک ٹھوکر سے … شراب خانوں کو
گرا کر ان کے نیچے دبی مساجد کو اُٹھایا…اور پھر ہزاروں میناروں سے اللہ اکبر،
اللہ اکبر کی اذاں گونجنے لگی… حالانکہ یہ وہ علاقے تھے جہاں نعوذ باللہ کمیونسٹوں
نے…اللہ تعالیٰ کا جنازہ نکال کر کہا تھا کہ…اس زمین پر اب کبھی ’’ اللہ ‘‘ کا نام
نہیں لیا جائے گا… تاجکستان، پھر ازبکستان … پھر قفقاز، پھر چیچنیا اور پھر
سائبیریا …کہیں چند ماہ، کہیں چند سال… اور کہیں ابھی تک…مگر ایک طبقہ تو بن
گیا…اہل جہاد کا طبقہ، اہل عزیمت کا طبقہ… دوسری طرف ’’غزوۂ ہند‘‘ کا چراغ روشن
ہوا تو ’’برہمنی سامراج‘‘ کے وہ تمام عزائم چکنا چور کر گیا… جو وہ ایک سو سال سے
دل میں پالے بیٹھا تھا… آپ ’’جہاد کشمیر ‘‘ سے پہلے والے انڈیا کو دیکھیں… اور
پھر جہاد کشمیر کے بعد والے انڈیا کو دیکھیں… آپ کو واضح فرق نظر آئے گا…ہم نے
اس یادگار جہادی سفر میں… انڈیا کو اژدھے سے کیچوا بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا…
اکھنڈ بھارت کا وہ خواب… جس کے لئے ستر سال تک خونی محنت کی گئی تھی… ایسا ذلیل
ہوا کہ… اب انڈیا کا ایک ایک انگ زخمی ہے، کس کس شکست کا تذکرہ کروں؟
انڈیا کی ذلت کی داستان… اس کے ’’ راج بھون‘‘ سے لے کر
’’قندھار‘‘ تک پھیلی پڑی ہے … بس رہ سہہ کر طاقت کا ایک بھرم قائم تھا… جو پٹھان
کوٹ اور اوڑی نے خاک بنا کر اُڑا دیا… اب جھوٹے دعوے ہیں…اور کانپتی ٹانگیں… کیا
آج کی سٹیلائٹ دنیا نے ایسا کوئی حملہ یا سرجیکل سٹرائیک دیکھا ہے جو… کسی کو
کہیں بھی نظر نہیں آ رہا…
پٹھان کوٹ کا حملہ چار کشمیری مجاہدین نے کیا…وہ پوری دنیا
کو نظر آ گیا… اور کئی دن تک وہ دیکھا اور دکھایا جاتا رہا… اوڑی کا حملہ چار
کشمیری مجاہدین نے کیا…وہ ساری دنیا نے دیکھا اور سنا… جبکہ ’’انڈیا‘‘ کا ’’سرجیکل
سٹرائیک ‘‘ جو بقول اس کے…ہیلی کاپٹروں اور سینکڑوں کمانڈوز کے ساتھ کیا گیا… اب
تک نہ کسی آنکھوں والے کو نظر آیا… اور نہ کسی اندھے کو… دراصل جہاد کشمیر جو
غزوۂ ہند ہے… اس نے انڈیا کی رگوں کا خون نچوڑ لیا ہے… اس لئے اب نہ تو ڈھاکہ ہے
اور نہ اس کا پلٹن گراؤنڈ… اب تو رات دن ذلت ہی ذلت ہے…عبرتناک ذلت۔
بات یادگار سفر کی چل رہی تھی…جہاد کا سفر اور شہداء کرام
کے خون کا سفر براعظم افریقہ میں داخل ہوا…وہاں کئی محاذ کھل گئے… عراق و شام میں
داخل ہوا جہاں ہر طرف محاذ کھل گئے…
سبحان اللہ! ایک چشمہ کس طرح سے ٹھاٹھیں مارتا دریا بنا
کہ…آج دنیا کا سب سے اہم مسئلہ ’’جہاد‘‘ ہے… آج دنیا کا سب سے نمایاں مسئلہ جہاد
ہے… جہاد آج میڈیا سے لے کر کافروں کے حواس تک…ہر جگہ ’’وکٹری سٹینڈ‘‘ پر کھڑا ہے
… اب ان حالات میں جہاد کی آیات پڑھیں تو دل جھومنے لگتا ہے… ہر آیت کا نقشہ
زمین پر موجود ہے… ان حالات میں جہاد کے ابواب پڑھیں تو آنکھیں چمکنے لگتی ہیں…
جہاد کا ہر باب آج زمین پر نظر آ رہا ہے… اور تو اور آپ جہاد کی جزئیات پڑھ لیں
… آپ کو ان کی عملی تصویر اپنے زمانے میں نظر آ جائے گی… ارے مسلمانو! اب تو
جہاد کی محبت دل میں ایسی بٹھا لو کہ… ہمارے مرنے کے بعدہماری قبر کی مٹی سے بھی…
الجہاد الجہاد کی خوشبو آئے۔
بوکھلایا ہوا کون ہے؟
اس وقت ’’انڈیا‘‘ نے پاکستان کے خلاف جو اقدامات اُٹھائے
ہیں…مقبوضہ کشمیر کے المناک مناظر دیکھ کر یہ سب کچھ پاکستان کو کرنا چاہیے تھا…
سارک کانفرنس میں شرکت ہو یا کنٹرول لائن پر فائرنگ کی ابتداء…جب ہماری شہہ رگ
کشمیر میں… نوے دن سے ظلم و جبر کا طوفان برپا ہے تو ہمیں چاہیے تھا کہ… ہم سارک
کانفرنس خود منسوخ کرتے… اور کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ بھی خود ختم کرتے…
نوے دن میں ہمارے کتنے مسلمان شہید کئے گئے اور کتنے معذور اور زخمی…
مگر ہمارے ہاں ٹھوس فیصلوں کی کمی ہے … بھارت اگر اپنے
اٹھارہ فوجیوں کے لئے یہ سارے اقدامات کر سکتا ہے تو ہم اپنے ہزاروں کشمیری شہداء
کے لئے یہ سب کچھ کیوں نہیں کر سکتے؟ … باقی رہا پانی بند کرنے کا معاملہ تو انڈیا
یہ پہلے سے کرتا چلا آ رہا ہے… مگر اب وہ مزید کچھ نہیں کر سکے گا… اگر ان کے پاس
ڈیم اور بند بنانے والے آلات ہیں تو ہمارے پاس ان سب کو توڑنے کا بہترین انتظام
موجود ہے… ایک بزدل قاتل مودی کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ہمیں پیاسا
مارنے کی کوشش کرے…انڈین میڈیا بار بار یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ…انڈیا کے حالیہ
اقدامات کی وجہ سے ہم بوکھلائے ہوئے ہیں… حالانکہ انڈیا نے اب تک جو کچھ بھی کیا
ہے… اس پر یا تو خوشی منائی جا سکتی ہے یا خون کو جوش دلایا جا سکتا ہے… یا کم از
کم ہنسا جا سکتا ہے… ہر دن نئی بات، نئی حماقت اور نئے لطیفے…حقیقت میں دیکھا جائے
تو…اس وقت انڈین حکمران اور انڈین میڈیا دونوں بری طرح سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں…
کیا بولیں اور کیا نہ بولیں …کیا کریں اور کیا نہ کریں؟۔
انڈیا اس وقت شدید ذہنی شکست کا سامنا کر رہا ہے…حکومت
پاکستان اگر کچھ ہمت دکھائے تو اس وقت کشمیر کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے اور
پانی کا بھی… اور کچھ نہیں تو حکومت صرف مجاہدین کا راستہ کھول دے… تب ان شاء اللہ
71ء کی تمام کڑوی یادیں… 2016ء کے حسین فاتحانہ مناظر میں گم ہو جائیں گی۔
لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الا اللّٰہ،لاالہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 563
’’آیۃ الکُرسی‘‘
* قرآن
عظیم کی سب سے عظیم آیت، آیت الکرسی…
* آیۃ
الکرسی ’’سردار آیت‘‘…
* آیۃ
الکرسی کے فضائل وخواص…
* آیۃ
الکرسی سے باطل کے ایوانوں میں تہلکہ…
* شیاطین
وجنات آیۃ الکرسی کے سامنے بے بس ولاچار…
* ایک
صحابی رضی اللہ عنہ کا واقعہ…
* آیت
الکرسی کا نصاب…
* برما
حکومت پر مجاہدین کا حملہ…
* مقبوضہ
کشمیر کا معصوم شہید، جنید شہید رضی اللہ
عنہ…
* جہادِ
کشمیر کے بارےمیں ایک غلط سوچ…
* کشمیر
کا قضیہ ’’جہاد‘‘ کی برکت سے تسلیم ہوا…
اور
جہاد ہی سےیہ مسئلہ حل ہوگا…
یہ سب کچھ جاننے کے لئےملاحظہ فرمائیں یہ معطر تحریر
تاریخ اشاعت:
۱۲محرم
الحرام ۱۴۳۸؍ بمطابق14اکتوبر 2016ء
’’آیۃ الکُرسی‘‘
اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ کی سب سے زیادہ عظمت
والی آیت کون سی ہے؟ آیۃ الکرسی ، بے شک آیۃ الکرسی…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
بے شمار فضائل و خواص
قرآن مجید سب سے بلند کلام…پھر قرآن مجید میں سورۂ بقرہ
بلند ترین… اور پھر سورۂ بقرہ میں آیۃ الکرسی سب سے بلند…
حضرت علی رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے:
’’مہینوں کا سردار ’’محرم‘‘ ہے،
دنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ ہے… کلاموں کا سردار ’’قرآن‘‘ ہے… قرآن کی سردار
’’بقرہ‘‘ ہے… بقرہ کی سردار ’’آیۃ الکرسی‘‘ ہے۔ سنو! اس آیت میں پچاس کلمے ہیں
اور ہر کلمہ میں پچاس برکتیں ہیں۔‘‘ ( مسند الفردوس للدیلمی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ’’آیۃ الکرسی‘‘
سے بڑی کوئی چیز پیدا نہیں فرمائی، نہ آسمان، نہ زمین ، نہ جنت، نہ جہنم۔‘‘(
درمنثور)
آیۃ الکرسی کے فضائل بے شمار ہیں…اور اس کے خواص بھی بے
شمار ہیں…ایک چھوٹے سے مضمون میں ان فضائل و خواص کو بیان نہیں کیا جاسکتا… بہرحال
بات شروع کی ہے تو ’’آیۃ الکرسی‘‘ پڑھ کر دعاء کرتا ہوں کہ کچھ جامع خلاصہ آج آ
ہی جائے…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
ہاں! ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کی ضروری باتیں بھی چلتی رہیں
گی، ان شاء اللہ ۔
ایک اچھی خبر
برما کی ظالم حکومت پر حملے کا آغازہو گیا ہے … اُمت مسلمہ
بارش کے جس پہلے قطرے کے انتظار میں تھی وہ بالآخر زمین پر اُتر آیا ہے…برما کی
پولیس پر حملہ ہوا ہے اور ا س کے کئی اَفراد بری طرح مارے گئے ہیں… برمی مسلمان
دراصل عربی نسل کے غیّور مسلمان ہیں…ان کے پاس اگر کوئی ’’دارالہجرۃ‘‘ قریب ہوتا
تو وہ برما کی حکومت کو کبھی کا لرزا چکے ہوتے… ان کے پڑوس میں ایک طرف قاتل مودی
تو دوسری طرف ’’حسینہ ناگن ‘‘ ہے… پھر بھی جذبے دلوں میں سلگ رہے تھے… الحمد للہ
آغاز ہو گیا…اب یہ سلسلہ نہیں رُکے گا، ان شاء اللہ۔
شہدائِ برما کو دل کی گہرائی سے سلام… اور نئے غازیانِ برما
کو خوش آمدید…
باطل کے ایوانوں میں تہلکہ
حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جب آیۃ الکرسی نازل ہوئی تو
پوری دنیا میں تمام بت گر گئے، تمام بادشاہ گر گئے، اُن کے سروں سے تاج گر گئے،
شیاطین ہڑبونگ میں ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے ہوئے بھاگ پڑے اور ابلیس کو آ کر یہ
واقعہ بتایا۔ اس نے حکم دیا کہ وہ سب جا کر تحقیق کریں کہ دنیا میں کون سا نیا
واقعہ پیش آیا ہے، جس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی، شیاطین مدینہ منورہ پہنچے
تو انہیں معلوم ہوا کہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ نازل ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے یہ ساری
ہلچل مچ گئی ہے۔ (تفسیر قرطبی)
آیۃ الکرسی کی روحانی سلطنت اور طاقت کا اندازہ
لگائیں…سبحان اللہ! ظاہری اور باطنی ہر چیز پر ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا اثر پڑتا
ہے…مثلاً بے برکتی اور نحوست کو لے لیں…یہ ظالم چیز انسانوں پر بھی مسلط ہو جاتی
ہے اور ان کے گھروں اور رزق پر بھی…مگر’’آیۃ الکرسی‘‘ اس باطنی دشمن کو بھی بھگا
دیتی ہے…
حضرت اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
’’ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس کے گھر کی چیزوں میں بہت ’’بے
برکتی‘‘ ہے۔ فرمایا:تم ’’آیۃ الکرسی‘‘ سے کہاں غافل ہو؟ جس کھانے اور سالن پر بھی
وہ پڑھی جائے گی اس کی برکت میں اللہ تعالیٰ اضافہ اور زیادتی فرما دیں گے۔‘‘ ( در
منثور)
آئیے! باطل کے ایوانوں اور بتوں کے پجاریوں پر… زلزلہ لانے
کے لئے ہم بھی دل کی توجہ سے پڑھیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
اخبار میں آیات مبارکہ کی بے ادبی اور بے حرمتی نہ ہو…اس
لئے پوری آیت نہیں لکھتا … بس ابتدائی حصہ لکھ کر خود بھی پوری ’’آیۃ الکرسی‘‘
پڑھ لیتا ہوں…اور آپ کو بھی اس کی دعوت دیتا ہوں…تاکہ مطالعہ اور تلاوت دونوں
ساتھ ساتھ چلیں۔
معصوم شہید
مقبوضہ کشمیر میں ظالم بزدلوں نے…ایک گیارہ سال کے معصوم
بچے ’’جنید احمد‘‘ کو شہید کر دیا ہے… اب حالیہ احتجاجی لہر میں شہید ہونے والوں
کی تعداد سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے… آخر اس معصوم بچے کا کیا قصور تھا؟… کس جرم
میں اسے سرعام سزائے موت دی گئی؟… جنید شہید کا خون مسلمانوں کے ذمہ قرض ہے…خصوصاً
پاکستان کے اُن حکمرانوں کے سر…جو اتنے المناک حالات میں بھی…کشمیریوں کی مدد کرنے
کی بجائے… مودی کی خوشنودی کے لئے …پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کو ڈھونڈتے پھرتے
ہیں…بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے …اپنے کشمیری مسلمان بچوں کے قاتلوں کو پکڑنے
کی کوئی کوشش نہیں… جبکہ انڈین فوجیوں سے اتنی محبت ہے کہ… ان کے قاتلوں کو پکڑنے
کے لئے اپنے ملک کے امن کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے… یا اللہ! ایسے حکمرانوں
سے…اُمت مسلمہ کو نجات عطاء فرما…یا اللہ! ’’آیۃ الکرسی‘‘ کی قوت سے ان حکمرانوں
کو ان کی کرسی سے اُکھاڑ دے… آئیے! دل کے درد کے ساتھ پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
پیارے بیٹے جنید! شہادت اور جنت کے باغات مبارک ہوں… ہم ان
شاء اللہ تمہارا خون نہیںبھلائیں گے…ان شاء اللہ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ
شیطان کی ذلت اور رسوائی
شیطان موجود ہے…اور شیطانوں کا ایک طاقتور نیٹ ورک پوری
دنیا میں چل رہا ہے… اس نیٹ ورک کا سربراہ ’’ابلیس لعین‘‘ ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھایا ہے کہ شیطان جن بھی ہوتے ہیں
اور انسان بھی … شیطان ظاہری حملے بھی کرتے ہیں اور باطنی بھی … اور یہ کہ شیطان
ہمارے بدترین دشمن ہیں… آپ روایات و احادیث پر غور کریں تو…’’آیۃ الکرسی‘‘
شیاطین کے لئے موت کی طرح ہے… احادیث مبارکہ میں کئی سچے قصے آئے ہیں کہ … کس طرح
سے ’’آیۃ الکرسی‘‘ نے شیاطین کو بھگایا اور انہیں شکست دی… یہ جو جن، جادو ،
آسیب وغیرہ ہوتے ہیں… یہ بھی شیطان کے اثرات ہیں… اور بے برکتی ، نحوست بھی شیطان
کے ہتھیار ہیں… آیۃ الکرسی کس طرح سے ہر طرح کے شیاطین کو شکست دیتی ہے… یہ ایک
مفصل موضوع ہے… اور اس پر بہت سی روایات اور سچے قصے موجود ہیں… ہم ان میں سے صرف
ایک روایت یہاں ذکر کرتے ہیں… اس سے پہلے ایک بات یاد آ گئی… تہاڑ جیل دہلی میں
کئی ہندو،بدھ جادوگر تھے… ہمارے ساتھی جب ان کے سامنے آیۃ الکرسی پڑھتے تو…وہ
ہانپ جاتے اور کہتے کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے اور ان کا جادو اور عمل فوراً رُک
جاتا تھا… لیجئے! ایک مفصل روایت کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے:
ایک صحابی غالباً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک شیطان جن سے کشتی ہوئی…آپ
نے اسے گرا دیا…اس شیطان نے کہا کہ دوبارہ کشتی کرو اگر اس بار بھی تم نے مجھے
پچھاڑ دیا تو میں تمہیں ایسی چیز سکھاؤں گا جو تمہیں فائدہ پہنچائے گی … صحابی نے
فرمایا: بہت اچھا…کشتی ہوئی صحابی نے دوبارہ اس شیطان کو پچھاڑ دیا، اس شیطان جن
نے کہا تم ’’آیۃ الکرسی‘‘ پڑھا کرتے ہو؟ تم جس گھر میں بھی ’’آیۃ الکرسی‘‘ پڑھو
گے ،اس میں سے شیطان اس ذلت سے بھاگ کھڑا ہو گا کہ وہ گدھے کی طرح ہوا خارج کرتا
ہو گا۔ ( تفسیر قرطبی)
روایت میں ’’ خبج کخبج الحمار‘‘ کے الفاظ آئے ہیں…یعنی جس
طرح گدھا آواز کے ساتھ گوز مارتا ہے…ہوا خارج کرتا ہے … اسی طرح شیطان کا حال ہو
گا…
آئیے! دل کی محبت سے ’’آیۃ الکرسی‘‘ پڑھتے ہیں:
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
ایک غلط سوچ
کئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ…اگر ’’مجاہدینِ کشمیر‘‘ عسکری
کارروائیاں نہ کریں تو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ جلد حل ہو سکتا ہے… عسکری کارروائیوں کی
وجہ سے ہمیں عالمی حمایت نہیں ملتی… اور یوں انڈیا پر دباؤ نہیں بنتا… یہ بہت
عجیب و غریب سوچ ہے … اگر کشمیر میں ’’عسکری کارروائیاں ‘‘ نہ ہوتیں تو انڈیا
مسئلہ کشمیر کو ماننے پر بھی آمادہ نہ ہوتا… یہ جہاد اور عسکری کارروائیوں کی
برکت ہے کہ وہ آج ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو اپنے گلے کی ہڈی مان رہا ہے… عالمی دباؤ
نام کی کوئی چیز کبھی مسلمانوں کے کام نہیں آئی… اس دنیا میں تجارتی مفادات اور کافرانہ
مفادات کا دور چل رہا ہے…پوری دنیا میں ’’ اقوام متحدہ‘‘ سے بڑا کوئی فورم ہے اور
نہ عالمی ادارہ … اقوام متحدہ نے کشمیر پر قراردادیں منظور کیں …انڈیا نے اس دباؤ
کا کیا اثر لیا؟ آپ ساری دنیا میں اپنے عیاش وزراء کے وفد بھیج دیں… سوائے ملکی
خزانہ برباد ہونے کے اور کیا ہاتھ آئے گا؟…
مسئلہ کشمیر ’’جہاد‘‘ کی برکت سے تسلیم کیا گیا ہے… اور ان
شاء اللہ یہ مسئلہ جہاد سے ہی حل ہو گا۔
آیۃ الکرسی کا نصاب
’’آیۃ الکرسی‘‘ کے ذریعہ دعاء کر
کے بے شمار مسائل کو حل کرایا جا سکتا ہے…
آیۃ الکرسی کتنی بار پڑھی جائے؟ چند عدد یاد کر لیں…
خ ایک
بار… خ سات بار…خ اکیس بار…خ پچاس بار…خ ایک سو ستر
بار…خ تین سو تیرہ بار…خ ایک ہزار بار…
*
ایک بار ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی فضیلت احادیث مبارکہ میں آئی ہے…ایسا شخص
اللہ تعالیٰ کے ذمے اور حفاظت میں رہتا ہے … اس کے اور جنت کے درمیان صرف اس کی
موت حائل ہوتی ہے اور وہ امن پاتا ہے وغیرہ… اسی طرح سوتے وقت بھی ایک بار پڑھنے
پر کئی روایات موجود ہیں…اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت بھی ایک بار
پڑھنا… بے حد نافع ہے۔
* سات
بار …صبح اور شام سات بار پڑھنا، بہت باعث برکت و حفاظت ہے…اور اگر ہر نماز کے بعد
سات بار پڑھے تو عجیب فوائد کا مشاہدہ کرے گا۔
* اکیس
بار…یہ حفاظت کے لئے بڑا اکسیر عمل ہے۔
*
پچاس بار… آیۃ الکرسی کے کلمات کی تعداد پچاس ہے… پس جو اس تعداد کی مقدار پڑھتا
ہے وہ ہر طرح کی حفاظت اور رزق و قبولیت پاتا ہے۔
* ایک
سو ستر بار… آیۃ الکرسی کے حروف کی تعداد ایک سو ستر ہے… حضرت امام بونی رحمہ
اللہ نے اس کے ایسے عجیب و غریب فوائد
لکھے ہیں کہ… عقل حیران ہو جاتی ہے… جو چاہتا ہو ’’شمس المعارف الکبریٰ‘‘ میں دیکھ
لے۔
*
تین سو تیرہ بار… یہ بڑے مشکل کاموں اور بڑی رکاوٹوں کو دور کرنے کا عدد ہے۔
*
ایک ہزار بار… یہ آیۃ الکرسی کا باقاعدہ عامل بننے کا عدد ہے یعنی روزانہ ایک
ہزار بار پڑھے۔
دل چاہتا تھا کہ…آیۃ الکرسی کے اس نصاب پر
اَسلاف و اَکابر کی چند عبارتیں بھی نقل کر دوں مگر جگہ مکمل ہو رہی ہے…بس اتنا
عرض کرتا ہوں کہ…پریشانیوں سے نکلیں، غفلت چھوڑیں، عاملوں اور نجومیوں سے جان
چھڑائیں… اور اللہ تعالیٰ کے عظیم ترین کلام کی سب سے عظیم ترین اور طاقتور آیت
مبارکہ کو اپنا لیں…آپ کا جو بھی مسئلہ ہو چند دن تک توجہ کے ساتھ روزانہ ایک سو
ستر بار پڑھیں اور دعاء کریں… اتنا نہیں پڑھ سکتے تو کم پڑھ لیں آپ خود محسوس
کریں گے کہ آپ کے اندر کتنی روشنی اور روحانی طاقت آ رہی ہے… مخلوق میں جب کوئی
چیز ’’آیۃ الکرسی‘‘ سے بڑی نہیں ہے… نہ آسمان ، نہ زمین ، نہ جنت ، نہ جہنم … تو
پھر کون سا مسئلہ ہے جو ’’آیۃ الکرسی‘‘ کے سامنے ٹھہر سکے گا؟… اللہ تعالیٰ کا
کلام، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے… اور ہم اس کلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پا
سکتے ہیں…
آئیے! آخر میں ایک بار پھر ’’آیۃ الکرسی ‘‘
پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لاالہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 564
بڑاخزانہ
* آیۃ
الکرسی، قرآن کریم کی سب سے افضل واعلیٰ آیت…
* آیۃ
الکرسی کا اہتمام چار طبقات کونصیب ہوتا ہے…
* و
ہ چار طبقات کون کون سے ہیں؟…
* آیۃ
الکرسی کے بارے میں ایک غلط طرزِ عمل…
* آیۃ
الکرسی شیطان اور شیطانی اثرات وکیفیات کا علاج…
* آیۃ
الکرسی جادو، جنات اور نظر بد سے حفاظت کا مضبوط قلعہ…
* آیۃ
الکرسی اور جہاد…
* آیۃ
الکرسی کا ضروری نصاب اور ایک اہم وظیفہ…
* مودی
کی رسوائی اورذلت…
* امریکہ
بے آبرو اور اس کی سپر پاور لیک…
* آیۃ
الکرسی کے معارف اور چند اہم زمینی حقائق سے
* روشناس
کراتی ایک مبارک تحریر …
تاریخِ اشاعت:
۱۹محرم
الحرام ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق21اکتوبر 2016ء
بڑاخزانہ
اللہ تعالیٰ کا کلام… قرآن مجید سارا کا سارا بہت افضل،
بہت اعلیٰ اور بہت شاندار ہے…پھر اس عظیم کلام میں سب سے افضل، سب سے اعلیٰ اور سب
سے بہتر…آیۃ الکرسی ہے…
آئیے! توجہ سے پڑھ لیتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
چار طبقے
’’آیۃ الکرسی‘‘تقریباً ہر مسلمان
کو یاد ہوتی ہے… یہ آیت مبارکہ آسان بھی ہے… اکثر مسلمانوں کو یہ بھی علم ہے کہ
یہ آیت قرآن مجید کی سب سے زیادہ عظمت والی آیت ہے… اکثر مسلمان یہ بھی جانتے
ہیں کہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ دنیا کے ہر خزانے اور ہر نعمت سے بڑھ کر ہے… مگر پھر بھی
اکثر لوگ ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے … بات دراصل یہ ہے کہ ’’ آیۃ
الکرسی‘‘ بہت اونچی نعمت ہے… یہ نعمت اللہ تعالیٰ ہر کسی کو عطاء نہیں فرماتے… یہ
بہت بڑا شاہی خزانہ ہے… یہ خزانہ ہر کسی کو نہیں دیا جاتا… یہ ایک خاص قسم کی طاقت
ہے… یہ طاقت ہر کسی کو نہیں ملتی… اس لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ طرح طرح کے
وظائف میں گھنٹوں لگا دیتے ہیں… مگر ’’آیۃ الکرسی‘‘ نہیں پڑھتے… عاملوں کے
دروازوں پر گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں…مگر سب سے بڑا عمل یعنی ’’آیۃ الکرسی‘‘ نہیں
اپناتے…بلکہ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ…اگر آپ سے کوئی شخص کوئی خاص عمل پوچھے
اور آپ اسے ’’آیۃ الکرسی‘‘ بتا دیں تو وہ مایوس نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے…
کیونکہ وہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ کو خاص عمل نہیں سمجھتا… ہاں اگر اجنبی الفاظ والی
دعائیں بتا دو تو وہ خوش ہو جاتا ہے…
یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ …’’آیۃ الکرسی ‘‘ صرف چار طبقوں کو
اہتمام کے ساتھ نصیب ہوتی ہے:
١ انبیاء علیہم السلام کو… اب نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔
٢
صدیقین کو… یہ دروازہ کھلا ہے مگر ’’صدیق‘‘ کا بلند مقام بہت کم افراد کو ملتا ہے…
’’وَقَلِیْلٌ مِّنَ
الْآٰخِرِیْنَ‘‘
٣ وہ
شخص جس سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں…اسے ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا اہتمام نصیب ہوتا
ہے… یہ دروازہ کھلا ہے…اللہ تعالیٰ ہمیں اس طبقے میں شامل فرمائے۔
٤ وہ
شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل یعنی شہید ہونا ہو…اسے ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا
اہتمام نصیب ہوتا ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ میں سے جو چاہتا ہو اسے یہ مقام
عطاء فرمائے۔
بھائیو!اور بہنو ! ’’آیۃ الکرسی‘‘ بڑی نعمت ہے… بہت عظیم
نعمت… زندگی کے سانس باقی ہیں اس نعمت کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ جمع کر لو… آئیے!
دل کے شوق سے پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
مردود کا برا حال
اس زمانے کے ایک بڑے شیطان ’’نریندر مودی‘‘ کا آج کل بہت
برا حال ہے… مودی میں اگر تھوڑی سی غیرت ہوتی تو وہ خود کشی کر لیتا …مگر غیرت
کہاں؟… کشمیر کا احتجاج اس سے سنبھالا نہیں جا رہا …اللہ تعالیٰ اہل کشمیر کو غلبہ
اور نجات عطاء فرمائے… پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد مودی نے بعض بڑے بڑے دعوے کر لئے
…مگر وہ اپنا ایک دعویٰ بھی پورا نہ کر سکا… اوڑی پر حملے کے بعد اس نے کارروائی
کی دھمکی دی… مگر دھوتی میں ہی سرجیکل سٹرائیک ہو گیا… سارک کانفرنس منسوخ کرا کے
پاکستان کو تنہا کرنے کی بات کی …مگر خود اپنی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے ہر جگہ
مشکوک ہو گیا… پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی… مگر خود اس کا اپنا پانی
لداخ کا راستہ بدل گیا… ابھی پانچ ملکوں کے اجلاس میں پھر مجاہدین کا مسئلہ اٹھایا
تو چینی صدر نے ایسا ذلیل کیا کہ مودی کو ’’چنگ چی‘‘ بنا دیا… ایک ذلت کے بعد
دوسری ذلت… ایک رسوائی کے بعد دوسری رسوائی… کاش! پاکستان کی سیاسی حکومت میں کچھ
دم ہوتا تو…اب تک نقشہ ہی بدل چکا ہوتا… اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو سلام…
عظیم عرش اور عظیم کرسی کا مالک… اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ساتھ ہے… آئیے!
والہانہ جذبے سے پڑھتے ہیں …
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ(الیٰ آخرہا)
عجیب نکتہ
’’آیۃ الکرسی‘‘ کے بارے میں
احادیث ، روایات اور اقوال بہت زیادہ ہیں…اس عظیم الشان ’’آیت مبارکہ‘‘ کی فضیلت
صحیح احادیث میں بھی آئی ہے… اور بہت سی ضعیف روایات بھی اس کے فضائل بیان کرتی
ہیں… امت مسلمہ کے ائمہ ، محدثین اور صوفیا نے اس آیت مبارکہ پر مستقل کتابیں
لکھی ہیں… اور اس کے عجیب و غریب فضائل وخواص بیان فرمائے ہیں …ہمیں اپنی نظر
’’احادیث صحیحہ‘‘ پر رکھنی چاہیے …اور ان سے ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا مقام سمجھنا
چاہیے… ’’احادیث صحیحہ‘‘ میں آیت الکرسی کا ایک خاص فائدہ یہ مذکور ہے کہ… یہ
آیت مبارکہ شیطان کو بھگاتی ہے… شیطان کے شر، وسوسے اور نقصان سے بچاتی ہے… اور
اس کا پڑھنے والا ایک ایسی خاص حفاظت میں آ جاتا ہے جس حفاظت کو شیاطین نہیں توڑ
سکتے… اور آیۃ الکرسی پڑھنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ حفاظت کے خاص فرشتے نازل
فرما دیتا ہے… یہ مضمون کئی احادیث مبارکہ میں آیا ہے… اس سے بعض اہل علم نے یہ
عجیب نکتہ سمجھا ہے کہ… آیۃ الکرسی انسان کو شیطان، جن ، جادو، نظر سے تو بچاتی
ہی ہے …ساتھ ساتھ ہر اس حالت میں یہ کام آتی ہے جسے ہم ’’شیطانی حالت‘‘ یا
’’شیطانی کیفیت‘‘ کہہ سکتے ہیں… یہ شیطانی حالت ہم پر شیطان کے حملے کی وجہ سے طاری
ہوتی ہے… مثلاً بہت زیادہ غصہ، گندی اور ناجائز شہوت کا بھڑکنا… بد نظری کی طرف
مائل ہونا… میاں بیوی کا آپس میں لڑنا… مسلمانوں سے فضول جھگڑا یا گالم گلوچ
کرنا… ایک دم مایوس ہو کر بجھ جانا…غیر اللہ میں سے کسی کے خوف یا ڈر کا مسلط ہو
جانا… وغیرہ وغیرہ…
یہ سب حالتیں اور کیفیات ہم پر… شیطان کے حملے کی وجہ سے
آتی ہیں…وہ شیطان انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے… اب جبکہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ میں
اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ… وہ اصل شیطان کو بھگا دیتی ہے تو پھر …
شیطانی کیفیات کو بھگانا تو اس کے لئے اور زیادہ آسان ہے… پس ہم پر جب ایسے
’’شیطانی حالات‘‘ آئیں تو ہم یقین اور توجہ سے ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا ورد شروع کر
دیں… اس سے ان شاء اللہ یہ کیفیات درست ہو جائیں گی… اسی طرح اگر یہ ’’شیطانی
کیفیات‘‘ ہم پر تو نہ ہوں مگر آس پاس بن رہی ہوں…مثلاً گانے بجانے کی آوازیں، مسلمانوں
کا باہمی جھگڑا … اہل غیبت کی مجلس، چغل خوروں کے فتنے… تب بھی ہم ’’آیۃ الکرسی‘‘
کی امان میں…آکر اپنے آس پاس کی ان شیطانی کیفیات سے خود کو محفوظ کر سکتے ہیں…
آئیے! مکمل یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
یہ دن بھی آنا تھا
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ… امریکہ کو سب نے دنیا کی
اکیلی’’سپرپاور‘‘ تسلیم کر لیا تھا … امریکہ کے مقابلے پر کھڑا سوویت یونین بکھر
چکا تھا … اور یورپ امریکہ کے تلوے چاٹ رہا تھا … مسلمانوں میں گھسے ہوئے ’’لبرل
افراد‘‘ امریکہ کا تذکرہ… نعوذ باللہ ایک ناقابل شکست طاقت کے طور پر کرتے تھے…
اور امریکہ کے خلاف سوچنے کو بھی جرم اور گناہ قرار دیتے تھے… مگر ’’جہاد‘‘ کی
کرامت دیکھیں کہ…امریکہ کا بل سے بغداد تک ایسا ’’بے آبرو‘‘ ہوا کہ آج روس کا
صدر بھی اسے… کمزور امریکا…کا لقب دے رہا ہے… آج صبح کی خبروں میں روسی صدر پوٹن
کا بیان پڑھا… وہ کہہ رہا تھا …کمزور امریکا ہم سے جنگ کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی
کمزوری پر کچھ پردہ ڈال سکے… سبحان اللہ ! جہاد کی شان، جہاد کی کرامت اور جہاد کی
قوت دیکھیں کہ…امریکا کو ’’کمزور‘‘ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے… جبکہ دوسری طرف
سارے اخبارات اور سارا میڈیا … چیخ چیخ کر ’’جہاد‘‘ کو طاقتور کہہ رہا ہے… اور
مجاہدین کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہا ہے…
ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ… اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ
دیکھ سکیں گے…مگر الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا… آئیے! شکر میں ڈوب کر پوری
آیۃ الکرسی پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
آیۃ الکرسی اور جہاد
صاحب فضائل حفاظ قرآن لکھتے ہیں:
’’ترمذی نے اپنی سند کے ذریعے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عالی
نقل کیا ہے کہ ہر چیز کی ایک کوہان و بلندی ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان و بلندی
’’سورۂ بقرہ‘‘ ہے… اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کی تمام آیتوں کی سردار
ہے اور وہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ ہے۔ ( ترمذی)
سورۂ بقرہ کو قرآن کی کوہان اس لئے فرمایا کہ یہ سب سے
لمبی سورت ہے، نیز وہ بہت سے احکام پر مشتمل ہے یا اس لئے کہ اس میں’’ جہاد‘‘ کا
حکم ہے جس سے اسلام کو سربلندی حاصل ہوتی ہے اور ’’آیۃ الکرسی‘‘ کو تمام آیتوں
کی سردار فرمانے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس آیت میں اسم ظاہر اور اسم ضمیر دونوں
ملا کر اللہ تعالیٰ کا نام ’’سترہ‘‘ مرتبہ آ یا ہے، واللہ اعلم ‘‘… (فضائل حفاظ
قرآن)
آپ قرآن مجید میں جہاد کے بارے میں شیطان کا کردار
پڑھیں…وہ کس طرح سے کافروں کو مسلمانوں پر حملے کے لئے اکساتا ہے …کس طرح سے
منافقین کو جہاد کے خلاف استعمال کرتا ہے… وہ کس طرح سے اہل مال پر بخل کے شکنجے
کستا ہے تاکہ وہ جہاد پر مال خرچ نہ کریں… وہ کس طرح سے مسلمانوںمیں کافروں کاخوف
اور رعب پھیلانے کی کوشش کرتا ہے… خلاصہ یہ کہ شیطان ہر سطح پر جہاد اور مجاہدین
کے خلاف سرگرم رہتا ہے… ’’آیۃ الکرسی‘‘ شیطان اور اس کی تمام تدبیروں کا توڑ ہے…
مجاہدین اگر اسے اپنائیں تو وہ مضبوط، غالب اور ثابت قدم رہیں… اور شہادت تک ڈٹے
رہیں… دوسرا یہ کہ’’آیۃ الکرسی‘‘ میں ’’حفاظت‘‘ کی مضبوط تاثیر ہے… جیسا کہ کئی
احادیث صحیحہ سے ثابت ہے…چنانچہ اگر مجاہدین ’’آیۃ الکرسی ‘‘ کا اہتمام کریں تو
وہ دشمنوں کی بہت سی سازشوں اور تدبیروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، ان شاء اللہ…
آئیے! محبت کے ساتھ پوری آیۃ الکرسی پڑھتے ہیں …
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
ایک وظیفہ
آج ’’آیۃ الکرسی‘‘ پر یہ کالم لکھنے کے لئے …اپنے سامنے
’’تفسیرِ مدارک‘‘ بھی رکھی تھی… تاکہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ کی مختصر تفسیر اور ترجمہ
لکھا جائے … احادیث کے کچھ مجموعے بھی رکھے تھے تاکہ بعض احادیث مبارکہ ’’آیۃ
الکرسی‘‘ کے بارے میں آ جائیں… اور شمس المعارف الکبریٰ کا عربی نسخہ بھی رکھا
تھا تاکہ…آیۃ الکرسی کے کچھ خواص و مجربات آ جائیں… نیز انڈیا کے مسخرے میڈیا کا
بھی کچھ تذکرہ کرنا تھا… مگر کالم کی جگہ مکمل ہو گئی اور یہ ساری باتیں رہ گئیں…
زیادہ مفصل کالم لکھا جائے تو پڑھنے والے پچھلی بات بھول جاتے ہیں …اور فائدہ کم
ہوتا ہے… چلیں جو کچھ آ گیا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے… بس آخر میں چند ضروری
باتیں اور ایک وظیفہ… پہلی بات یہ کہ… آپ میں سے جو باقاعدہ قاری نہیں ہیں وہ آج
ہی ’’ آیۃ الکرسی‘‘ کسی عالم یا قاری کو سنا کر الفاظ کی تصحیح کرا لیں… قرآن
مجید کا حق لازم ہے کہ ہم اسے درست تجوید کے ساتھ پڑھیں… قرآن مجید غلط پڑھنے سے
گناہ ہوتا ہے… اس لئے بہت فکر کریں اور اپنی ’’آیۃ الکرسی‘‘ اور ’’باقی تلاوت ‘‘
درست کر لیں… اس بارے میں ہرگز نہ شرمائیں بلکہ یہ ذہن بنائیں کہ مسلمان ہو کر غلط
قرآن پڑھنا بڑی بے شرمی والا کام ہے… دوسری بات یہ ہے کہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا
ترجمہ پڑھ لیں اور سمجھ لیں …اور اس میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر اپنے یقین کو
مضبوط کریں… وعدہ تو نہیں البتہ ارادہ ہے کہ…ان شاء اللہ اگلے کالم میں بندہ بھی
مختصر ترجمہ اور تفسیر لکھ دے گا…تیسری بات یہ ہے کہ پختہ عزم اور وعدہ کریںکہ… ہر
فرض نماز کے بعد ایک بار آیۃ الکرسی پڑھیں گے… فجر اور مغرب کے بعد تین بار… گھر
سے نکلتے وقت اور گھر میں داخل ہوتے وقت…اور رات کو سوتے وقت … یہ آیۃ الکرسی کا
ضروری نصاب ہے… باقی مزید جس کو جتنی توفیق ملے… ان تین باتوں کے بعد وظیفہ حاضر
خدمت ہے…جس مسلمان کو رزق کی تنگی ہو، اسباب بند ہو چکے ہوں…قرضے جکڑ چکے ہوں اور
کوئی ذریعہ وسیلہ نہ بنتا ہو…وہ دو رکعت نماز ادا کر کے با وضو …ایک سو ستر بار
آیۃ الکرسی پڑھے اور اس کے بعد تین ہزار بار… یَا کَافِی، یَا غَنِیُّ ، یَا
فَتَّاحُ، یَا رَزَّاقُ …پڑھے… اور آخر میں دعاء کرے ( اوّل آخر سات سات بار
درود شریف)
یہ عمل اگر آدھی رات کے بعد یا تہجد کے وقت ہو تو بہت
زیادہ مؤثر ہے…ورنہ کسی بھی وقت کر لیں… ان شاء اللہ ایک بار کرنے سے ہی خیر کے
آثار ظاہر ہو جائیں گے… بس یقین رکھیں اور تھوڑا سا صبر اور انتظار کریں… یا
اللہ! ہر مومن مسلمان مرد و عورت کو… رزق حلال وافر وسعت والا عطاء فرما…اور ہم سب
کو ’’ آیۃ الکرسی‘‘ کی خاص برکات عطاء فرما…
آئیے!آج کے کالم میں ساتویں بار آیۃ الکرسی پڑھ لیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ ،لاالہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 565
اُمت کی ضرورت
* اہل
فضیلت کی فضیلت کو تسلیم کرنا ایمان وعقل کی نشانی…
* آیۃ
الکرسی کا ایک لقب ’’ولیۃ اللہ‘‘…
* آیۃ
الکرسی کا ایک شاندار ترجمہ…
* آیۃ
الکرسی کا محرم الحرام سے خاص تعلق…
* آیۃ
الکرسی، ’’اسم اعظم‘‘ والی آیت…
* آیۃ
الکرسی میں ’’سترہ بار‘‘ اللہ تعالیٰ کا ذکر…
* ان
سترہ مقامات کی تعیین…
* آیۃ
الکرسی’’روحانی طاقتوں‘‘ کا سب سے بڑا کوڈ…
* آیۃ
الکرسی علم کا بے کراں سمندر…
* آیۃ
الکرسی کے دس جملے اور ان کے معارف…
* دو
طرفہ تعلق…
* آیۃ
الکرسی کا تقاضہ…
* آیۃ
الکرسی، موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بڑی ضرورت…
ان
تمام حقائق سے پردہ اٹھاتی ایک روشن تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۶محرم
الحرام ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق28اکتوبر 2016ء
اُمت کی ضرورت
اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں… جس کو چاہتے ہیں دوسروں پر
’’فضیلت‘‘ عطاء فرماتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ’’فضیلتوں ‘‘ کو تسلیم کرنا
ایمان اور عقل کی نشانی ہے… اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں… ’’آیۃ الکرسی‘‘ کو
زیادہ فضیلت عطاء فرمائی ہے… پس جو اس آیت مبارکہ سے یاری لگاتا ہے… وہ بھی طرح
طرح کی فضیلتیں پاتا ہے… آیت الکرسی کا ایک لقب ’’ولیۃ اللہ‘‘ ہے… یعنی اللہ
تعالیٰ کی ولی، اللہ تعالیٰ کی پیاری … اور اس آیت مبارکہ کو پڑھنے والے اللہ
تعالیٰ کے ہاں ’’معزز ‘‘ ہیں… دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی… آئیے! سعادت سمجھ
کر پوری ’’آیۃ الکرسی‘‘ پڑھ لیتے ہیں۔
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
کلام برکت
کوشش کریں کہ ’’آیۃ الکرسی ‘‘ کو اچھی طرح سمجھ لیں… پھر
اسے اپنے دل میں اُتاریں … بے شک یہ آیت مبارکہ دل کو اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر
دیتی ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بات کا بڑا اہتمام فرماتے تھے کہ… جب وہ سونے
لگیں تو ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا تازہ نور ان کے دلوں میں ہو… اس لئے سوتے وقت ’’ آیۃ
الکرسی‘‘ کی تلاوت فرماتے تھے… امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت
علی رضی اللہ عنہ کا فرمان نقل فرمایا ہے
کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں…میرے
خیال میں نہیں آتا کہ عاقل آدمی جو مسلمان ہو اور پھر وہ آیۃ الکرسی پڑھے بغیر
رات کو سو جاتا ہو۔ (ابو داؤد)
آیۃ الکرسی کا مفہوم سمجھنے کے لئے… امام المفسرین حضرت
شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کا ترجمہ یہاں
پیش کیا جا رہا ہے…خوب غور سے پڑھیں … حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ میں بڑے اونچے اشارے اور راز ہوتے ہیں…
آپ آیۃ الکرسی کا ترجمہ یوں پیش فرماتے ہیں…
’’ اللہ! اس کے سوا کسی کی بندگی
نہیں، جیتا ہے، سب کا تھامنے والا…نہیں پکڑتی اس کو اونگھ اور نہ نیند … اسی کا ہے
جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، کون ایسا ہے کہ سفارش کرے اس کے پاس مگر اس کے اذن
سے… جانتا ہے جو خلق کے روبرو ہے اور پیٹھ پیچھے… اور یہ نہیں گھیر سکتے، اس کے
علم میں سے کچھ، مگر جو وہ چاہے…گنجائش ہے اس کی کرسی میں آسمان اور زمین کو اور
تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے اور وہی ہے اوپر، سب سے بڑا۔‘‘(موضح قرآن)
سبحان اللہ! کیسا شاندار ترجمہ ہے… اب اسے پڑھ کر اپنے دل
میں جھانکیں …کیا انڈیا اور کیا امریکہ، کیا اسرائیل اور کیا برطانیہ… کیا بل گیٹس
اور کیا زکربرگ… سب کتنے چھوٹے، حقیر ، بلبلے اور غبارے نظر آتے ہیں… ان سب نے
فنا ہونا ہے،مرنا ہے… یہ سب نیند اور اونگھ کے محتاج… نہ آگے کا کچھ جانتے ہیں نہ
پیچھے کا … یہ نہ وقت کو روک سکتے ہیں نہ زمانے کو… اور نہ اپنے بخار کو… نہ دنیا
میں ان کی مرضی چلتی ہے اور نہ آخرت میں … یہ نہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں اور نہ
موت… نہ یہ اپنے فنا کو روک سکتے ہیں اور نہ اپنے بڑھاپے کو… پھر وہ امت ان سے
کیوں ڈرے، کیوں دبے جس کے پاس ’’ آیۃ الکرسی‘‘ ہے… اللہ تعالیٰ کی وہ پیاری ،
بلند اور عظیم آیت… جس کو اللہ تعالیٰ نے ہونٹ بھی عطاء فرمائے ہیں اور زبان بھی…
اور وہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے کے ساتھ کھڑی ہو کر… اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان
کرتی ہے… اتنی عظیم اور بلند آیت جس انسان کے دل میں ہو… وہ اللہ تعالیٰ کے سوا
کسی سے نہیں ڈرتا… کسی سے نہیں دبتا… یا اللہ! ہمیں اس آیت مبارکہ کا حقیقی نور
عطاء فرما … آئیے! وجد کے ساتھ پوری آیت الکرسی پڑھتے ہیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
خصلت نہیںبدلتی
اہل دل کے نزدیک محرم کے مہینے کا ’’آیۃ الکرسی‘‘ سے خاص
تعلق ہے… اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ دل والے ہی جانتے ہوں گے، بہرحال… اس سال محرم
الحرام شروع ہوا تو دل خود بخود ’’آیۃ الکرسی‘‘ کی طرف لپکنے لگا… ایک رات … کئی
قراء حضرات کی آواز میں’’ آیۃ الکرسی‘‘ سنی… قاری عبد الباسط مرحوم تو اس رات
چھا گئے… اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے… یہ سب حضرات کتنے خوش نصیب ہیں کہ…ایسی
پیاری آوازوں میں ایسی پیاری آیت پڑھ گئے کہ… جو بھی سنتا ہے اُن کے لیے دعاء کی
جھولی پھیلا دیتا ہے…
جبکہ دوسری طرف …وہ منحوس اور بد نصیب لوگ ہیں…جو گانے گا
کر مر گئے… موسیقی اور میوزک بجا کر قبروں میں جا گرے… لوگ اب بھی ان کو سنتے ہیں
اور گناہوں کے لئے قوت حاصل کرتے ہیں…نہ کوئی دعاء مغفرت اور نہ کوئی آخرت کا
سرمایہ… یہ گانے بجانے والے لوگ پہلے میراثی، ڈوم اور ڈمان کہلاتے تھے… اور کچھ ان
میں سے ’’ بھانڈ ‘‘ بھی ہوتے تھے… پھر شیطان کی طاقت و حکومت بڑھی تو… اس نے انہیں
فنکار، موسیقار اور سٹار جیسے نام دے دئیے … ماضی کے میراثی اور بھانڈ… اپنی ’’ بے
غیرتی ‘‘ میں مشہور تھے… وہ زبردستی لوگوں کے گھروں اور تقریبات میں آتے… اور
گانا بجانا شروع کر دیتے… لوگ ان کو لاکھ بھگاتے یا دھتکارتے مگر وہ ٹس سے مس نہ
ہوتے… اور کچھ نہ کچھ پیسے وغیرہ لے کر ہی دفع ہوتے… اب جبکہ ان کا نام فنکار،
آرٹسٹ اور معلوم نہیں کیا کیا پڑ گیا ہے… ان کی پرانی خصلت ابھی تک نہیں بدلی…
کئی پاکستانی میراثی اور بھانڈ… فلموں میں کام کرنے کے لئے انڈیا میں ذلیل ہو رہے
ہیں… اب انڈیا والے ان کو دھکے دے دے کر وہاں سے نکال رہے ہیں… مگر یہ لوگ ٹس سے
مس نہیں ہو رہے … اور اپنے ملک اور اپنی مٹی کو کافروں کے سامنے رسوا کر رہے ہیں…
اگر ان میں ایک رائی کے دانے برابر غیرت ہوتی تو… اتنے بدترین سلوک کے بعد کبھی
انڈیا کی طرف تھوکنا بھی گوارہ نہ کرتے … مگر ان میراثیوں کو کون سمجھائے… مال ،
پیسے اور بے حیائی کی لالچ میں یہ خود بھی ذلیل ہو رہے ہیں… اور اپنے ملک کو بھی
رسوا کر رہے ہیں… حکومت کو چاہیے تھا کہ… ایسے لوگوں کا نام فورتھ شیڈول میں
ڈالتی… ان کے اثاثے منجمد کرتی … ان کے پاسپورٹ ضبط کرتی… اور ان سے اچھی طرح
تفتیش کرتی… مگر چونکہ یہ سب لوگ بے دین ہیں، بے نمازی اور بے ریش ہیں… بے حمیت
اور بے عمامہ ہیں… اس لئے حکومت کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں… یا اللہ! ’’آیۃ الکرسی‘‘
کی برکت سے ہمارے ملک کی ’’کرسی‘‘ پر کوئی ایسا مسلمان بٹھا… جس پر ’’آیۃ
الکرسی‘‘ کا توحید والا رنگ ہو… آئیے! اپنی اس دعاء کو اوپر بھیجنے کے لئے… دل کی
گہرائی سے ’’ آیۃ الکرسی‘‘ پڑھتے ہیں
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
اسم اعظم والی
ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ… اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم
ان دو آیتوں میں ہے…
١ ﴿اَللہُ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ اٗلْقَیُّوْمُ﴾… (سورۂ بقرہ)
٢ ﴿الٓمّٓO اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ
الْقَیُّوْمُ ﴾…(سورۂ آل عمران)
( مسند احمد عن اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا )
دوسری روایت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا وہ اسم اعظم
جس کے ذریعے سے مانگی جانے والی دعاء قبول ہوتی ہے… ان تین سورتوں ١ سورۂ بقرہ ٢
سورۂ آل عمران ٣ سورۂ طٰہٰ میں ہے۔(ابن مردویہ)
پہلی دو سورتوں کی آیات تو اوپر والی روایت میں آ گئیں
جبکہ سورۂ طٰہٰ کی آیت مبارکہ یہ ہے۔
﴿وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ
الْقَیُّومِ﴾
ان دو روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے … بعض اہل علم کا قول ہے
کہ… اسم اعظم… ﴿اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ ہے…جبکہ
بعض نے فرمایا ہے کہ…اسم اعظم ﴿ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ ہے… بہرحال ’’اسم اعظم ‘‘
کے بارے میں کئی اقوال ہیں… مگر یہ بات تو واضح ہے کہ ’’آیۃ الکرسی‘‘ میں اسم
اعظم موجود ہے …اور ویسے بھی یہ پوری آیت مبارکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بھری ہوئی
ہے… اس ایک آیت مبارکہ… یعنی آیۃ الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر سترہ بار آیا
ہے… پانچ بار تو ظاہری الفاظ میں… جبکہ بارہ بار ’’ضمائر ‘‘ میں… اکثر لوگ جب شمار
کرنے بیٹھتے ہیں تو ان سے سترہ کا عدد پورا نہیں ہوتا ہے… اس لئے ہم وہ سترہ
مقامات یہاں درج کر رہے ہیں…
١
{اَللہُ}…اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۔
٢
{ھُوَ}…اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۔
٣ {اَلْحَیُّ}
٤
{اَلْقَیُّوْمُ}
٥ {ہ
}… لَا تَأخُذُہٗ۔
٦
{ہ}… لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ۔
٧
{ہ}… مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ۔
٨
{ہ }… اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔
٩
{ھُوَ}… یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَ یْدِیْھِمْ … یَعْلَمُ میں’’ھُوَ ‘‘پوشیدہ ہے۔
١٠ {ہ }… مِنْ عِلْمِہٖ۔
١١ {ھُوَ}… جو’’ بِمَا شَآءَ ‘‘ میں پوشیدہ ہے۔
١٢ {ہ }… کُرْسِیُّہُ السَّمٰوَاتِ وَاْلاَرْضَ ۔
١٣ {ہ}… وَلَا یَؤٗدُہٗ ۔
١٤ {ھو}… یہ ’’حِفْظُھُمَا‘‘ میںپوشیدہ ہے… کیونکہ جب
مصدرمفعول کی طرف مضاف ہو تو فاعل مضمر ہوتا ہے… تقدیر اس طرح ہو گی… وَلَا
یَؤٗدُہٗ أَنْ یَحْفَظَھُمَا أَیْ ھُوَ۔
١٥ {ھُوَ}… وَھُوَ اْلعَلِیُّ اْلعَظِیْمُ ۔
١٦ {اَلْعَلِیُّ}
١٧ {اَلْعَظِیْمُ }
آئیے! سترہ بار اللہ تعالیٰ کے ذکر کو دھیان میں رکھ کر
ایک بار’’ آیۃ الکرسی‘‘ پڑھ لیتے ہیں۔
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
دس جملے
’’آیت الکرسی‘‘ کے مقابلے میں
کوئی ’’باطل کلام‘‘ نہیں ٹھہر سکتا… کوئی جادو، کوئی منتر، کوئی تنتر ، کوئی شعبدہ
یا کوئی شیطانی تصرف… آیۃ الکرسی کے مقابلے میں ذرہ برابر طاقت نہیں رکھتا… ماضی
میں بعض جادوگروں نے سخت محنت کر کے شیطانی طاقتوں کو…اپنے ساتھ لیا اور عجیب
شعبدے دکھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی … ان میں سے کوئی آگ میں کود جاتا
تھا اور کوئی ہوا میں اڑنے لگتا تھا… مگر جب اہل حق میں سے کوئی اس کے سامنے
’’آیۃ الکرسی‘‘ پڑھتا تو اس کا جادو فوراً ٹوٹ جاتا… کیونکہ جادو سفلی کوڈ ہے…
جبکہ آیۃ الکرسی روحانی طاقتوں کا سب سے بڑا کوڈ ہے… آیۃ الکرسی کی تفسیر غورو
فکر سے پڑھی جائے تو اس میں علم کا بے کراں سمندر نظر آتا ہے اور اس کا ہر جملہ
انسان کو عجیب روحانی ترقی اور پرواز عطاء فرماتا ہے… آیۃ الکرسی کی مکمل تفسیر
لکھنے کا تو یہ موقع نہیں…بس مختصر طور پر اس کے دس جملے اور ان کا ترجمہ یہاں پیش
کیا جا رہا ہے…
١ {اَللہُ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ } … اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں … صرف اللہ
تعالیٰ ہی ’’الٰہ‘‘ ہے۔
٢ {الْحَیُّ القَیُّومُ }… وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے
والا… موت اور محتاجی سے پاک۔
٣
{لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ}… نہ اس کو اونگھ دبا سکتی ہے نہ نیند… غفلت
اور کمزوری سے پاک۔
٤
{لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الْاَرْضِ}… آسمانوں اور زمین میں جو کچھ
ہے سب اسی کا ہے… ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے… ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔
٥ {
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّابِاِذْنِہٖ}… ایسا کون ہے جو اس کی
اجازت کے بغیر اس کے ہاں کسی کی سفارش کر سکے…اللہ تعالیٰ کی عظمت ، قہر ، ہیبت
اور جلال کہ…قیامت کے دن کوئی اس کی اجازت کے بغیر نہ بول سکے گا اور نہ کسی کی
سفارش کر سکے گا۔
٦
{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ}… وہ مخلوق کے تمام حاضر اور
غائب حالات کو جانتا ہے… اس کے علم کی وسعت کہ جو ہو چکا ، جو ہو رہا ہے اور جو ہو
گا… جو سامنے ہے یا مخلوق سے اوجھل ہے… وہ سب اس کے علم میں ہے… اس کے علم کے
سامنے زمانے کا کوئی فرق نہیں … حال ہو یا مستقبل۔
٧ {وَ
لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ}… اور وہ اس کی
معلومات میں سے کسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے … اللہ
تعالیٰ کا علم اور معلومات ناقابل تسخیر ہیں …کوئی ان تک نہیں پہنچ سکتا… ہاں! یہ
اس کا فضل کہ… وہ کچھ علم اور معلومات اپنی مخلوق کو عطاء فرماتا ہے …جتنا وہ
چاہتا ہے۔
٨
{وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ}…اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور
زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے…کرسی سے مراد یا تو واقعی ’’کرسی‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ
کے قدموں کی جگہ… جیسا کہ اس کی شان کے مطابق ہو… نہ اس کے قدموں کی کوئی مثال اور
نہ اس کی کرسی کی کوئی مثال… یہ عظیم کرسی اتنی بڑی کہ سات آسمان اور سات زمینیں
اس میں یوں سما جائیں جس طرح… ایک انگوٹھی کسی صحرا میں … اللہ تعالیٰ کی عظیم
الشان مخلوقات بے شمار ہیں… انسان کی سوچ سے بہت بلند ، بہت دور۔
٩ {وَلَا
یؤٗدُہٗ حِفْظُھُمَا}… آسمان و زمین کو سنبھالنا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ دشوار
نہیں… اس نے ہی ان کو بنایا… وہی ان کو چلا رہا ہے وہی ان کی حفاظت فرما رہا ہے
اور وہی جب چاہے گا ان کو ختم فرمائے گا اور یہ سب کچھ اس کے لئے کچھ مشکل نہیں…
عظیم قدرت، عظیم طاقت، عظیم شان۔
١٠ { وَھُوَ اْلعَلِیُّ اْلعَظِیْمُ} …وہ بلند ہے… اور
عظیم ہے… ذات بھی بلند، صفات بھی بلند… سب سے اوپر، سب کے اوپر… سب پر غالب … سب
پر قاہر… اور سب سے عظیم اور بڑا… اللہ اکبر۔
آئیے!… ان دس جملوں کو یقین کے ساتھ دل میں اُتارتے ہوئے
…آیۃ الکرسی پڑھتے ہیں۔
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
دو طرفہ تعلق
سونا قیمتی ہوتا ہے… مگر اُسی کے لئے جس کے پاس ہو… پانی
پیاس بجھاتا ہے مگر اسی کی جو اسے پئے… ’’آیۃ الکرسی‘‘ بڑی عظیم نعمت ہے … مگر
اسی کے لئے جو اسے پائے… ایک مسلمان ’’آیۃ الکرسی‘‘ سے وہ وہ فائدے اٹھا سکتا ہے
جو ارب پتی مالدار اپنے مال سے نہیں اٹھا سکتے … لیکن ’’آیۃ الکرسی‘‘ کا فائدہ
اسی کو ملتا ہے جو اس کے مطالبات اور تقاضے پورے کرے… اگر کوئی شخص شرک کرتا ہو…
غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دیتا ہو … مزاروں پر جا کر منتیں مانتا ہو… نجومیوں
، جادوگروں اور عاملوں کے قدموں میں گرتا ہو…طاغوتوں، ظالم حکمرانوں اور منافقوں
کے تلوے چاٹتا ہو… ایسے شخص کو ’’آیۃ الکرسی‘‘ سے کیا فائدہ ملے گا؟… آیت الکرسی
کا پہلا سبق اور پہلا جملہ ہی یہی ہے کہ…صرف ایک اللہ تعالیٰ سے جڑو… اس کے سوا نہ
کسی کو معبود مانو …نہ مشکل کشا اور نہ حاجت روا… جس پر بھی موت آتی ہو وہ معبود
نہیں ہو سکتا… آیۃ الکرسی کا پہلا تقاضہ یہ ہے کہ… ہم عقیدۂ توحیدپرپختہ ہوں …
ہم آیۃ الکرسی کے ہر جملے پر مکمل ایمان لائیں… اور دل سے یقین رکھیں … ہم آیۃ
الکرسی کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا سیکھیں … اور پھر ہم یقین اور محبت کے ساتھ
آیۃ الکرسی کو اپنا ورد بنا لیں … یاد رکھیں!…یہ آیت بہت بڑا خزانہ ہے… جو اسے
جتنا اپناتا ہے وہ اسی قدر اس سے فائدہ پاتا ہے… آئیے! اخلاص کے ساتھ ایک بار
آیۃ الکرسی پڑھ لیں…
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
بڑی ضرورت
’’آیۃ الکرسی‘‘ موجودہ زمانے میں ہم مسلمانوں
کی بڑی ضرورت ہے… آپ قرآن مجید کے اس مقام کو دیکھیں جہاں ’’آیۃ الکرسی‘‘ آئی
ہے۔ سورۂ بقرۃ میں تیسرے پارہ کا آغاز … وہاں آیات کے ربط سے یہی سمجھ آتا ہے
کہ… جب باہمی لڑائیاں اور اختلافات شدید ہو جائیں… نہ کوئی منزل رہے نہ کنارہ…
اوردنیا محبوب اور آخرت فراموش ہو جائے تو…ایسے وقت میں توحید کا رنگ اور آیۃ
الکرسی کا نور… دلوں اور قوموں کو سنبھالتا ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں یہ نعمت نصیب
فرمائے…آئیے!ایک بار پھر آیۃ الکرسی پڑھ لیتے ہیں۔
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ( الیٰ آخرہا)
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور 566
متفرق باتیں
* حضرت
مولانا حاجی احمد صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر تعزیت…
* حضرت
مولانا مرحوم کی سادگی اور کچھ حالات…
*
کشمیر میں خون کی ہولی اور حکومت پاکستان کی انڈیا نوازی…
* کیا
ایران امریکہ کا مخالف ہے؟…
* کیا
ایران ’’سامراج دشمن‘‘ ہے؟… حقیقت کیا ہے؟…
* یہ
ہیں اس مبارک مضمون کے موضوعات…
ورق
الٹیے اور ملاحظہ فرمائیے
تاریخِ اشاعت:
۳صفر
المظفر ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق4نومبر 2016ء
متفرق باتیں
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ
الْقَیُّوْمُ…اَللّٰہُ اَحَد… اَللّٰہُ نَاصِرُنَا ، اَللّٰہُ حَافِظُنَا،
اَللّٰہُ نَاظِرُنَا، اَللّٰہُ مَعَنَا… لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ
اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ… حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ…
مَاشَآئَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ… وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی
اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ۔
اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے… ان تمام مبارک کلمات کو ایک
بار پڑھ لیں۔
تعزیت
اُستاذ محترم حضرت مولانا منظور احمد نعمانی قدس سرہ کے دست
راست… مایہ ناز فاضل، پیکر عجزوو فا حضرت مولانا حاجی ’’احمد‘‘ صاحب وفات پا گئے…
انا للہ وانا الیہ راجعون… غالباً ۱۹۹۰ء میں اُن سے پہلی ملاقات ’’ افغانستان‘‘ صوبہ خوست کے
جہادی مرکز ’’ژاور‘‘ میں ہوئی تھی … حضرت نعمانی رحمہ اللہ ایک وفد میں وہاں تشریف لائے …بندہ کو میزبانی
کا شرف حاصل ہوا… اپنے مرکز میں حضرت کے بیان کے بعد ہم ان کے وفد کو عربوں کے
معسکر الفاروق لے گئے… وہاں مجاہدین کا مظاہرہ تھا… کچھ مجاہدین کیموفلاج حالت میں
نمودار ہوئے تو حضرت کے وفد میں سے ایک دیہاتی حلیے والے صاحب پکار اُٹھے: ’’او
ڈیکھو گھٹے آندے پِن‘‘ …وہ دیکھو مینڈھے آ رہے ہیں… ان کے اس فرمان پر جہاں
قہقہے بلند ہوئے وہاں وہ خود بھی نظروں میں آ گئے… معلوم ہوا کہ سرتاپا دیہاتی
حلیے میں ملبوس یہ صاحب…مایہ ناز عالم دین اور بلند پایہ مدرس ہیں …مگر اس پورے
سفر میں وہ اپنی یہ بے ساختہ سادگی ہی بکھیرتے رہے… نہ بیان فرمایا اور نہ کبھی
علمیت دکھائی… اللہ تعالیٰ اُن کو مغفرت اور رفع درجات کا اعلیٰ مقام نصیب
فرمائے…اُن کے اہل خانہ اور تلامذہ سے قلبی تعزیت ہے۔
وضاحت
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ…اس نے ’’مکتوب خادم‘‘ کے سلسلے کو
جاری فرمایا ہوا ہے… میرے ذاتی اور پھر جماعتی حالات کے تحت یہ سلسلہ بظاہر مشکل
اور نا ممکن نظر آتا ہے… مکتوب لکھنا، اسے پہنچانا ، اسے چلانا یہ سب مراحل ہمارے
حالات کے پیش نظر آسان نہیں ہیں… لیکن ’’الحمد للہ‘‘ یہ سلسلہ چل رہا ہے اور
’’ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ ‘‘ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا
ہے… مکتوب کے معاملہ میں ہمارے جو رفقاء محنت اور جانفشانی کرتے ہیں اُن کے لئے دل
کی گہرائی سے دعاء نکلتی ہے… اور جو حضرات و خواتین پھر مزید اسے آگے پھیلاتے ہیں
اُن کے لئے بھی دل سے ڈھیروں دعائیں ہیں… مکتوب عمومی طور پر ’’استخارے‘‘ اور
جماعتی حالات و مہمات کے زیر اثر رہتا ہے… مگر کبھی کبھار اس میں کسی کی وفات کی
خبر اور نماز جنازہ کی دعوت بھی آ جاتی ہے… لیکن حقیقت میں یہ ’’مکتوب‘‘ کا اصل
موضوع اور مقصد نہیں ہے… اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہر شہادت اور ہر وفات پر مکتوب
جاری ہو… بعض اوقات رفقاء کی طرف سے تقاضہ آ جاتا ہے کہ… فلاں کی وفات پر مکتوب
آ جائے… یہ تقاضہ طبیعت پر بہت بھاری پڑتا ہے… کیونکہ کبھی سفر، کبھی حضر… کبھی
اسباب دستیاب ، کبھی مفقود… اور ہر مکتوب کم از کم تین چار افراد کی…کم از کم تین
چار گھنٹے کی محنت مانگتا ہے… اس لئے ازراہ کرم ایسا مطالبہ نہ کیا کریں… ویسے بھی
رنگ و نور اور مکتوبات کو سب مسلمانوںکے لئے’’ آزاد اور کھلا‘‘ رہنا چاہیے… اور
ان کو فرمائشوں اور مطالبات کا تابع نہیں بننا چاہیے… اسی لئے کئی افراد مجھے
جماعت کے بارے میں اپنے خواب اور بشارتیں لکھ کر بھیجتے ہیں کہ… ان کو رنگ و نور
یا مکتوب میں دے دیں تو میں ان سے معذرت کر لیتا ہوں کہ… اگر کوئی خواب اچھا ہے تو
اس کی تعبیر خود آ جائے گی…اور ہر شخص اپنے خواب کو خود سنبھالے…اسی طرح اور بھی
کئی فرمائشیں آتی ہیں… جن پر معذرت یا خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے… اللہ تعالیٰ
اپنے فضل سے ہم سب کی نصرت اور رہنمائی فرمائے… اور ہمیں دین کے مقبول کاموں سے
محروم نہ فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین
انڈیا نوازی
ملکی اور سیاسی حالات آپ سب مجھ سے زیادہ جانتے ہیں… اس
وقت جبکہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں…یکم نومبر2016 کی تاریخ ہے…
ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھر چکا ہے…اور سرحدوں پر انڈین
فورسز مسلسل دہشت گردی کر رہی ہیں… ادھر مقبوضہ کشمیر میں… مظالم کی کالی آندھی
بدستور چل رہی ہے… مگر کشمیری ماں اور کشمیری بیٹے چٹانوں کی طرح ڈٹے ہوئے
ہیں…ملکی تاریخ میں یہ پہلا سنہری موقع تھا کہ حکومت موجودہ حالات سے فائدہ
اُٹھاتی اور انڈیا کو اس کی اوقات یاد دلاتی… مگر ملک کی سیاسی حکومت کے انڈیا کے
ساتھ کئی طرح کے خفیہ اور دیرینہ تعلقات ہیں…اسی لئے وہ مجاہدین کشمیر کو دبا کر
انڈیا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے… حسبنا اللہ ونعم الوکیل…
کھلی آنکھوں سے
چند دن پہلے کسی ایران نواز پاکستانی کالم نویس نے… سعودی
حکومت کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے… اس میں وہ ایران کو سامراج دشمن اور سعودیہ کو
سامراج نواز قرار دیتا ہے… حالانکہ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ…آج
’’ موصل ‘‘ پر امریکہ اور ایران ایک دوسرے سے کندھا ملا کر ’’حملہ آور‘‘ ہیں…
پہلے دکھاوے کے لئے ہی سہی مگر یہ دونوں ملک آپس میں ظاہری فاصلہ رکھتے تھے… مگر
’’موصل ‘‘ کی جنگ میں ان کی مکمل یاری، دوستی اور ناجائز تعلقات کی کیفیات کھل کر
سب کے سامنے آ گئی ہیں…اب بھی اگر کوئی شخص ایران کو ’’سامراج مخالف‘‘ سمجھتا ہے
تو اسے کیا کہا جا سکتا ہے؟ … کالم نویس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ… ایران جس ملک
میں بھی مداخلت کر رہا ہے وہاں وہ سامراج کے خلاف لڑنے والی طاقتوں سے تعاون کر
رہا ہے… حالانکہ یہ کھلا جھوٹ ہے… افغانستان میں ’’امارتِ اسلامی‘‘ سامراج کے خلاف
سب سے بڑا جہاد کر رہی ہے… مگر اسے ایرانی حمایت نہیں بلکہ ایرانی دشمنی کا سامنا
ہے… عراق میں بھی ایران اور امریکہ متحد ہیں…باقی رہ گیا شام تو وہاںبھی… اب ایران
اور امریکہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں…
اہل اسلام سے گذارش ہے کہ…وہ حلب اور موصل کے مسلمانوں کے
لئے خاص دعاؤں اور توجہات کا اہتمام کریں… موصل پر دنیا بھر کا کفر چڑھ دوڑا ہے…
دوسری طرف ’’دولت اسلامیہ ‘‘ کے دنیا بھر میں پھیلے نام نہاد بے وقوف حامیوں نے
اپنے کرتوتوں کی وجہ سے… اہل ایمان کی دعاؤں والے ہاتھ باندھ دیئے ہیں…پاکستان ہو
یا افغانستان…سعودیہ ہو یا امارات… دولت اسلامیہ کے نام نہاد حامیوں نے ایسی
بھونڈی حرکتیں کی ہیں کہ…مسلمانوں کے کلیجے چھلنی کر دئیے ہیں… چنانچہ دعاؤں کا
وہ لشکر جو عسکری لشکر کی کمر پر تھا وہ کمزور پڑ گیا…اور اس کا خسارہ عراق و شام
میں دولت اسلامیہ کو بھگتنا پڑا… اللہ تعالیٰ برے حامیوں اور بے وقوف دوستوں سے ہر
اسلامی لشکر کی حفاظت فرمائے… بہرحال جو کچھ بھی ہو… موصل پر کفر کی یلغار اور حلب
پر کفر کے حملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا…دعاؤں کے ہاتھ پھیلا دیں…
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…567
اعصاب شکن
* امریکی
انتخابات اورمتوقع نتائج…
* ہیلری
اور ٹرمپ میں سے زیادہ خطرناک کون؟…
* اگر
ٹرمپ آگیا تو کیا ہوگا؟…
* اسلام
اور مسلمانوں کی فطرت، ایک اہم نکتہ…
* غزوۂ
بدر اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین نمونہ ہیں، بنی اسرائیل نہیں…
* ماضی
کا منظر نامہ اور دو لشکر… ’’مدنی لشکر‘‘ کی بے مثال فتوحات…
* ’’مدنی
لشکر‘‘ پراندرونی، بیرونی یلغاریں…
* چار
سو سالہ دورِ غلامی اور اس کے اثرات…
* ’’مدنی
لشکر‘‘ کی بیداری اور دشمنانِ اسلام کی پریشانی…
* زمین
کا نقشہ اور رنگ بدل رہا ہے…
* ماضی
کی جنگوں اور موجودہ جنگوں کا فرق…
* ’’اعصاب
شکن‘‘ جنگ کا مطلب اور اثرات…
* جہاد
پر استقامت اور جہاد کا تسلسل وقت کا اہم ترین تقاضہ…
یہ ہیں اس معطر ومنور تحریر کے ایمان افروز اور چشم کشا
موضوعات…
دل کی آنکھوں سے پڑھیے اور ایمان کو جِلابخشیے
تاریخِ اشاعت:
۱۰صفر
المظفر ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق11نومبر 2016ء
اعصاب شکن
اللہ تعالیٰ ہی سے دین پر ’’استقامت‘‘ کا سوال ہے…
اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا
عَلیٰ دِیْنِکَ۔
امریکی انتخابات
آج 8 نومبر 2016ء بروز منگل… امریکہ میں صدارتی انتخابات
ہونے والے ہیں…دیکھیں دو فتنوں میں سے کون سا فتنہ مسلط ہوتا ہے… ایک طرف
’’ہیلری‘‘ ہے اور ایک طرف ’’ٹرمپ‘‘… ایک ’’ناگ‘‘ ہے اور ایک ’’ناگن‘‘…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا
ظَھَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ۔
زیادہ امکان ’’ہیلری‘‘ کا ہے… لیکن اگر ’’ٹرمپ‘‘ آ جائے تو
فائدہ ہو گا…کیونکہ’’کفر ‘‘ جتنا سخت اور جتنا واضح ہو…مسلمان اسی قدر جلد بیدار
اور مضبوط ہوتے ہیں… کفر ہر حال میں کفر ہوتا ہے… جس طرح مہلک زہرہرحال میںزہر
ہوتا ہے…لیکن میٹھا زہر اور میٹھا کفر…زیادہ خطرناک ہوتا ہے… جیسے انڈیا میں ’’ بی
جے پی‘‘ کے آنے سے کشمیر کی تحریک پھرگرم ہوئی… انڈیا کے مسلمان زیادہ بیدار ہوئے
اور ان کے دین میں پختگی آئی… ’’کانگریس‘‘ میٹھا زہر تھا… اور ’’بی جے پی‘‘ کڑوا
زہر… کڑوے زہر سے لوگ آسانی سے بچ جاتے ہیں… ’’ٹرمپ‘‘ اگر آ گیا تو جہاد کو بہت
فائدہ ہو گا… بلکہ دنیا دیکھ لے گی کہ امریکہ خود ’’محاذ ‘‘ بن جائے گا…کفر جب بھی
نفاق کا چولا اتار کر کھلی دشمنی پر آتا ہے تو اسلام اور مسلمانوں کو قوت ملتی
ہے… ابو جہل تھا تو ’’غزوۂ بدر‘‘ آیا…
دجال آئے گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی رضی اللہ عنہ جیسے مجاہدین تشریف لائیں گے…
امریکہ کے خفیہ ادارے ’’ٹرمپ ‘‘ کو خود سامنے لائے ہیں…تاکہ مسلمانوں کو ڈرایا جا
سکے کہ…اگر تم باز نہ آئے تو ’’ٹرمپ‘‘ جیسے لوگ بھی آ سکتے ہیں جو مکمل صفایا کر
دیں گے… اب ممکن ہے کہ… ٹرمپ کو ہرا دیا جائے کیونکہ مقصد صرف اس کا خوف پھیلانا
تھا…مگر خفیہ ادارے اسلام اور مسلمانوں کی فطرت کونہیں سمجھتے… ہر مسلمان کو کلمہ
پڑھنے کے بعد اس بات کا مکمل اطمینان ہوتا ہے کہ… اسلام ختم نہیں ہو سکتا اور
مسلمانوں کا صفایا نہیں ہو سکتا… یہ امت آخری امت ہے… اس نے آخر تک رہنا ہے…
دنیا کے سارے ایٹم بم ایک ہی وقت میں چلا دئیے جائیں تب بھی اسلام اور مسلمان ختم
نہیں ہو سکتے… یہ قرآن عظیم الشان کا سچا وعدہ ہے… یہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعاء کا معجزہ ہے… اس لئے مسلمان بے
فکر ہو کر لڑتے ہیں… اور کسی بڑے سے بڑے اور خطرناک سے خطرناک دشمن کی دم پر پاؤں
رکھنے سے بھی نہیں ڈرتے… ہاں! یہ اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے… یہ بنی اسرائیل نہیں…ہاں! واللہ ثم واللہ!
یہ بنی اسرائیل نہیں…غزوۂ بدر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی اس اُمت کے لئے مثال ہیں… نہ کہ بنی اسرائیل…
ہاں! اس اُمت کے بعض بد نصیب لوگوں کے لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ… وہ یہود و نصاریٰ یعنی
بنی اسرائیل کے طریقوں کو اپنائیں گے… اور اُنہی کے طریقوں پر چلیں گے۔
یا اللہ! اس ’’وعید ‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرما۔
ماضی کا منظر نامہ
ساری دنیا پر کفر چھایا ہوا تھا…ہر طرف شیطان کی حکومت
تھی…روئے زمین کا ایک چپہ بھی اس کی حکمرانی سے محفوظ نہیں تھا… حتٰی کہ کعبہ شریف
میں بھی بتوں کی شیطانی پوجا جاری تھی… آسمانی دین بگڑ چکے تھے…بس کچھ لوگ ہی
اسلامی ادیان پر مکمل عمل پیرا تھے وہ بھی کمزور، بے بس، بے اختیار اور دور دور
بکھرے ہوئے تھے…ان حالات میں مکہ مکرمہ میں ایک نور چمکا… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’بعثت ‘‘ہوئی… اور پھر ایک نہ ختم ہونے والی
جنگ اور لڑائی شروع ہو گئی…یہ لڑائی قرب قیامت تک رہے گی… اس لڑائی میں بس دو لشکر
ہیں… ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر… اور ایک کفر و شیطان اور نفاق کا لشکر…
اس جنگ میں … کوئی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا… ہر کسی کو ان دونوں لشکروں میں سے
ایک کا انتخاب کرنا ہو گا… اور اس لڑائی میں حصہ لینا ہو گا… جن کی قسمت اچھی ہوتی
ہے… وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کا حصہ بنتے ہیں… اور جو ( نعوذ باللہ)
شقی، محروم اور بد نصیب ہوتے ہیں… وہ دوسری طرف کے لشکر میں شامل رہتے ہیں…
’’محمدی لشکر‘‘ کے بانی، امام، امیر اور رہبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب غار حرا سے’’ نور نبوت‘‘ لے کر اُتر رہے تھے
تو … یہ لشکر بس ایک فرد پر مشتمل تھا… جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے تو … لشکر میں اضافہ ہوا اور افراد دو
ہو گئے اور اسی دن … دو اور افراد بھی لشکر کا حصہ بن گئے … اور تعداد چار ہو گئی…
دو مرد ، ایک عورت اور ایک بچہ… اور مقابلہ تھا ساری دنیا کے شیطانی طاغوتی نظام
سے … یہ منظر سوچتے ہوئے بھی انسان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں… دنیا میں جو بھی
کسی دعوے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے… اس کے ساتھ کوئی کنبہ ، کوئی قبیلہ، کوئی لسانی
جتھا… کوئی طاقت ہوتی ہے… مگر یہ لشکربس ان چار نفوس پر مشتمل تھا… اور باقی ہر
کوئی دشمن… کام شروع ہوا تو ترقی کم اور مشقت زیادہ تھی… چالیس افراد بنتے بنتے
کئی سال بیت گئے…اور کئی قیامتیں ٹوٹ گئیں۔
مگر مدنی لشکر…کبھی حوصلہ نہیں ہارتا… مدنی لشکر کبھی پیچھے
مڑ کر نہیں دیکھتا… مدنی لشکر کبھی اپنے مقصد کو نہیں بھولتا… استقامت اور مسلسل
محنت اس لشکر کی وہ شان ہے…جو دنیا کے کسی اور لشکر میں نہیں ہے… لشکر مکہ مکرمہ
میں تیار ہو رہا تھا… اور چھاؤنی مدینہ منورہ میں بن رہی تھی… لشکر اور چھاؤنی
اکھٹے ہوتے ہیں تو …جہاد شروع ہو جاتا ہے۔
اور پھر وہ شروع ہو گیا…اور زخم کھاتا، گرتا پڑتا…مسلسل قدم
بڑھاتا… دنیا بھر میں پھیلتا چلا گیا۔
اگلا منظر نامہ
مدنی لشکر کے جہاد کی بھی یہی شان تھی… استقامت اور مسلسل
محنت… چنانچہ وہ نہ فتح میں اِترایا… اور نہ ظاہری شکست میں گھبرایا… وہ نہ کہیں
اَکڑ کر رکا… اور نہ کہیں زخم کھا کر گرا… وہ نہ بانہیں پھیلاتی دنیا کی ہری بھری
گود میں رکا… اور نہ منہ موڑتی صدمے پہنچاتی مصیبتوں میں اَٹکا… وہ چلتا گیا… اور
زمین اُس کے آگے بچھتی گئی… وہ اسلام کو لے کر بڑھتا گیا اور کفر کا نظام دنیا سے
سمٹتا گیا…ہاں! محمدی لشکر یعنی مدنی لشکر نے وہ فتوحات حاصل کیں جو دنیا کی کوئی
قوم کبھی حاصل نہ کر سکی… صرف تیس سال کے عرصہ میں اسلام دنیا کی سب سے بڑی طاقت
بن گیا… ایک ناقابل شکست طاقت… روم کے روما سے بڑی طاقت… فارس کے کسریٰ سے بڑی
طاقت۔
بھیانک منظر نامہ
ایک ہزار سال تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت رہنے والا ’’اسلام‘‘ پھر آزمائشوں کا شکار ہوا…
شیطان نے اپنے حواریوں کو… متحد کر لیا…کفر اور نفاق کا بندھن مضبوط ہوا… اور
مسلمانوں پر اندر باہر سے یلغاریں ہونے لگیں… نہ رکنے اور نہ مڑنے والا مدنی لشکر
بکھر گیا… اسلام کے اندر طرح طرح کے غیر اسلامی فتنوں نے زور پکڑا… حکومت کی کرسی
پر وہ عیاش افراد آ بیٹھے جن کے جسموں میں… نہ غیرت کا خون تھا اور نہ ایمان کا
نور… وہ بزدلی اور شہوت پرستی کا بھوسہ تھے… مدنی لشکر کے اصل افراد اورمجاہد… جان
پر کھیل کر محنت کرتے رہے مگر وہ کمزور ہو چکے تھے… اور یوں بالآخر ایک دن… خلافت
اسلامیہ کا آخری علامتی مینار بھی گر گیا… پورے پورے خطے اسلام اور مسلمانوں سے
خالی کرا لیے گئے… ملکوں اور علاقوں کے نام اور تہذیب کو بدل دیا گیا… ظاہری طور
پر بہت سی زمینیں اور ملک مسلمانوں کے پاس رہے مگر… وہاں اسلامی حکومت کا نام و
نشان نہیں تھا… وہاں مدنی تہذیب پر پابندی تھی… مسلمانوں میں ظاہری عبادات رہ
گئیں… مگر ان میں عزت ، عظمت اور غیرت کی روح کو فناء کرنے کی ہر کوشش کی گئی…
یہاں تک کہ… مسلمان ظاہری طور پرآزاد… مگر حقیقت میں غلام بنا دیئے گئے… سیاسی غلام
، اقتصادی غلام ، تہذیبی غلام ، تعلیمی غلام… حالت یہاں تک جا پہنچی کہ …مسلمانوں
کے لئے نعوذ باللہ ’’سنت‘‘ ایک ذلت بنا دی گئی… اور ’’حیوانیت‘‘ ایک فیشن بن گئی…
غلامی کا یہ دورانیہ… تین سے چار سو سال تک چلتا گیا… مگر اسلام تو اسلام ہے… وہ
ختم نہ ہوا… مسلمان تو مسلمان ہے وہ بھی ختم نہ ہوا… اور پھر اچانک دھند اور دھول
کے اس اندھے طوفان کے سر پر جہاد کا سورج مسکرایا… کفر اور شیطان جو مکمل طور پر
مطمئن ہو چکے تھے…انہوں نے آنکھیں مسل مسل کر دیکھا تو حیران رہ گئے…مدنی لشکر
پھر جمع ہو رہا تھا…جہاد پھر للکار رہا تھا… اور دنیا میں اگلے مرحلے کی جنگ شروع
ہو چکی تھی۔
اعصاب شکن جنگ
چار سو سال کی غلامی…بہت بڑی مدت ہے… ان چار سو سالوں میں’’
کفر ‘‘نے اپنی طاقت حد درجہ بڑھا لی… کفر اور شیطان نے سر جوڑ کر اپنی ایک ہزار
سالہ شکست کے عوامل پر غور کیا… اور پھر قیامت تک کے غلبے کی تیاری باندھی…طرح طرح
کا مہلک اسلحہ… کفر کی غلامی پر فخر سکھانے والا تعلیمی نظام… اور انتہائی خطرناک
معاشی دادا گیری… اور پھر مغربی جمہوریت کا منحوس طریقہ کار… الغرض …مسلمانوں کے
لئے کسی میدان میں کچھ نہ بچا… اور ان کے لئے سوائے سر جھکا کر جینے کے…ا ور کوئی
راستہ نہ چھوڑا گیا… حتٰی کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی قابل فخر، قابلِ رشک… داڑھی مبارک کی سنت
نعوذ باللہ مسلمانوں کے اندر… ایک مذاق بن گئی… اور اسلامی حدود و تعزیرات پر نعوذ
باللہ’’وحشت‘‘ کا لیبل لگا دیا گیا… اور پھر چوکیداری ایسی سخت کہ مسلمانوں کے کسی
ملک میں…اسلام کا ایک قانون بھی نافذ ہو تو ساری دنیا کے کتے مل کر اس قدر زور سے
بھونکنے لگتے ہیں کہ… بالآخر وہ قانون واپس لینا پڑتا ہے… اکثر مسلمانوں سے قرآن
مجید چھین لیا گیا… انہیں قرآن پڑھنا تک نہیں آتا… الغرض… مدینہ پاک کی ہر چیز
کو ہر جگہ شکست، قدامت، رجعت اور پسماندگی کا نشان بنایا جانے لگا… مگر کفر کی یہ
رات بالآخر ختم ہونی تھی… مدنی لشکر کے سپاہی جمع ہونے لگے… وہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی ایک ایک چیز کی
حفاظت کے لئے …سربکف میدانوں میں اُتر آئے… کفر نے جب یہ منظر دیکھا تو انہیں ختم
کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک دی… مگر ’’مدنی لشکر‘‘ جب چل پڑتا ہے تو… ہوائیں اُس
کے ساتھ چلتی ہیں… اور دشمن تقسیم ہو جاتے ہیں…اور شیطان کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے۔
ہاں! آج سے تقریباً سینتیس (۳۷) سال پہلے… مدنی لشکر کے جہاد کا ایک نیا دور شروع ہوا… چار سو سالہ غلامی کو
شکست دینے کے لئے اس لشکر نے عزم و ہمت کے ساتھ ’’مدنی جہاد‘‘ شروع کیا… اور پھر
زمین کا نقشہ اور اس کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا… مگر ماضی کی جنگوں اور اس جنگ میں
ایک بڑا فرق ہے… ماضی کی جنگیں محدود وقت کے لئے ہوتی تھیں… مگر یہ نئی جنگ بہت
لمبی ہے، بہت لمبی… اور آپ جانتے ہیں کہ…لمبی جنگ اعصاب شکن ہوتی ہے… یہ انسانی
اعصاب کو توڑ دیتی ہے… اور بڑے بڑے ملکوں کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ کر گرا
دیتی ہے۔
مثال لیجئے
لمبی جنگ…ملکوں کو بھی تھکا دیتی ہے اور افراد کو بھی… لمبی
جنگ بڑی سے بڑی طاقت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے… آپ سوویت یونین کو دیکھیں وہ
ایک خطرناک طاقت کے ساتھ آگے بڑھا… اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سائبیریا کے
پہاڑوں سے …دریائے آمو تک کے میدانوں کو ہڑپ کر لیا… مگر پھر وہ افغانستان میں
آیا تو یہاں… اسے ایک لمبی اور طویل جنگ کا سامنا کرنا پڑا… لمبی جنگ آپ کو کیا
دیتی ہے؟…
روز کے خر چے، زخمیوں اور معذوروں کے ریلے… مسلسل فکر مندی…
بڑے بڑے قبرستان… مرنے والوں کے ورثاء کے لاوارث جتھے اور اسی طرح کی کئی چیزیں…
یہ سب کچھ سوویت یونین کو اندر ہی اندر سے پگھلاتا گیا… اور صرف دس سال میں دنیا
کا یہ مضبوط ترین ملک اور اتحاد ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا… اور اب امریکہ بالکل
اسی صورتحال سے دوچار ہونے جا رہا ہے… کشمیر کی لمبی لڑائی نے انڈیا کو ایسا
کھوکھلا کر دیا ہے کہ… وہ ساری دنیا کی منتیں کر رہا ہے کہ…میں نے ایک سرجیکل
سٹرائیک کیا ہے… آپ لوگوں کو اگرچہ نظر نہیں آیا مگر مہربانی کر کے آپ اُسے مان
لیں… کیونکہ میں نے وہ سٹرائیک بہت چپکے سے چھوڑا ہے۔
اصل بات
یہ ساری تمہید عرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ…اب جو کفر اور
اسلام کی جنگ شروع ہو چکی ہے… یہ بہت لمبی اور اعصاب شکن جنگ ہے اور اس جنگ میں
صرف وہی فریق جیتے گا…جو زیادہ دیر تک لڑ سکا… آج کل کی جنگ ماضی کی جنگوں جیسی
نہیں ہے کہ… بادشاہ مار دو جنگ ختم …کسی کا امیر مار دو جنگ ختم…بڑا جرنیل مار دو
جنگ ختم …دوچار کرارے وار کردو جنگ ختم… نہیں اب ان چیزوں سے جنگ پر کوئی اثر نہیں
پڑتا… اب صرف اس بات کا اثر پڑتا ہے کہ …کون سا فریق کب تک میدان میں رہتا ہے… اور
کب تک میدان میں رہ سکتا ہے… اس لئے وہ خوش نصیب افراد جو اس زمانے میں ’’مدنی
لشکر‘‘ کا حصہ ہیں وہ …اپنا حوصلہ، اسٹیمنا اور عزم مضبوط کریں… وہ اگر بڑھتی عمر
کے تقاضوں ، مسلسل آزمائشوں اور اُکتا دینے والی صورتحال سے نہ گھبرائے …اور
میدان میں ڈٹے رہے تو اُن کے دشمن ایک ایک کر کے پگھلتے جائیں گے… اسی لئے ضروری
ہے کہ اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہیں… اپنے عزم کو تازہ کرتے رہیں… اور مدنی لشکر
کی اصل شان کے مطابق… استقامت اور مسلسل محنت سے نہ اُکتائیں… آپ کی کوئی محنت
ضائع نہیں جا رہی مگر یہ جنگ ہی ایسی ہے کہ…فوری نتائج نہیں دکھاتی… اس لئے نہ
گھبرائیں…نہ تھکیں ، نہ اُکتائیں اور نہ پیچھے ہٹیں…
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ
الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…569
بت ٹوٹ رہے ہیں
* استقامت،
ایک عظیم نعمت…
* اہلِ
استقامت کی زندگی بھی اچھی اور موت بھی شاندار… ایک خوبصورت تمثیل…
* کرنل
قذافی کا بھیانک انجام اور شیخ عمر مختار رحمہ اللہ کی سعادت بھری شہادت…
* پٹھان
کوٹ کا قضیہ اور حکومتِ پاکستان کا غلط طرزعمل…
* خطرناک
اور سیاہ بڑھاپا… پُرنور بڑھاپا…
* بتوں
کی دو قسمیں… ’’دھاتی بتوں‘‘ کا پسِ منظر…
* مکۃ
المکرمہ اور جزیرۃ العرب سے بتوں کی صفائی…
* ’’بت‘‘
اور شرک استقامت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے…
* ’’مودی‘‘
آر ایس ایس کی محنت اور اس کے بڑے بتوں کا نچوڑ اور خلاصہ…
* آر
ایس ایس کا ناپاک پلان اور اس کی ناکامی…
* اہلِ
ایمان اور اہلِ جہاد کی استقامت کو سلام…
* یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم موضوعات…
ملاحظہ
فرمایئے اور اپنے ایمان کو جلا بخشیے
تاریخِ اشاعت:
۲۴صفر
المظفر ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق25نومبر 2016ء
بت ٹوٹ رہے ہیں
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے… زمانے کے بڑے بڑے ’’بت‘‘ ٹوٹ رہے
ہیں…گر رہے ہیں… اہل ایمان اور اہل جہاد کی استقامت کو سلام…
کاش! اذان دیتے ذبح ہوتا
استقامت بڑی عظیم نعمت ہے… اہل استقامت کی زندگی بھی بہترین
ہوتی ہے اور موت بھی شاندار… مگر جو ’’استقامت‘‘ سے محروم ہو جاتا ہے… وہ کہیں کا
نہیں رہتا… کسی نے بڑی اچھی مثال پیش کی ہے… ایک ’’مرغا‘‘ تھا…اونچی آواز، اُٹھتا
قد اور بلندکلغی والا… اذان دیتا تو میلوں تک آواز جاتی… مگر پھر اس پر امتحان آ
گیا … مالک نے اسے کہا آئندہ اگر اذان دی تو ذبح کر دوں گا… ’’مرغا‘‘ موت کے ڈر
سے جھک گیا… اور اذان چھوڑ دی… چند دن بعد مالک نے کہا تم نے اگر آئندہ مرغیوں کی
طرح آواز نہ نکالی تو ذبح کر دوں گا… مرغے نے جان بچانے کے لئے ’’مرغی‘‘ کی آواز
نکالنا شروع کر دی…چند دن بعد مالک نے کہا تمہارے سر کی اُٹھی ہوئی کلغی اگر نہ
جھکی تو ذبح کر دوں گا… مرغے نے جان بچانے کے لئے… اپنی کلغی زمین پر رگڑ رگڑ کر
توڑ دی… چند دن بعد مالک نے کہا…اگر تم نے کل سے ’’ مرغی‘‘ کی طرح روز ایک انڈہ نہ
دیا تو تمہیں ذبح کر دوں گا… روشن خیال مرغا لرز کر رہ گیا… اب انڈہ کیسے دے…بے
اختیار رونے لگا اور کہنے لگا …ہائے کاش اذان دیتے ہوئے ذبح ہو جاتا… کسی اچھے کام
پر تو جان جاتی…جان بچانے کے لئے اذان سے محروم ہوا… خود کو ’’مؤنث ‘‘ بنایا…ہر
ذلت برداشت کی… مگر ظالم دباتے ہی چلے گئے…اور آج وہ مطالبہ کر دیا جو میں پورا
کر ہی نہیں سکتا… ذبح آج بھی ہونا ہے، دو چار دن پہلے ہو جاتا… لیبیا کا کرنل
قذافی مضبوط رہا، ڈٹا رہا…اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا رہا، مگر جب بڑھاپے میں
جھکنا شروع کیا تو پھر دبانے والے دباتے ہی چلے گئے اور بالآخر جس قوم کی آنکھ
کا تارا تھا… اسی قوم نے لاتوں، مکوں ، گھونسوں سے کچومر نکال دیا…شیخ عمر مختار
رحمہ اللہ بھی اسی لیبیا سے تعلق رکھتے
تھے… اُن کو بھی موت آئی… مگر اذان دیتے ہوئے…لوگ آج بھی اُن کی زندگی محسوس
کرتے ہیں… اور قذافی کو بھی موت آئی مگر کس قدر ذلت ناک… اللہ تعالیٰ کی پناہ… اب
ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے… ’’مودی‘‘ نے پٹھان کوٹ حملے پر شور اُٹھایا
اورپاکستان حکومت پر دباؤ ڈالا… حکومت کے پاس ’’استقامت‘‘ کا راستہ موجود تھا…وہ
مودی کو دو ٹوک جواب دے دیتی کہ…کشمیر کے حالات ٹھیک کرو…یہ حملے کشمیر کی وجہ سے
ہیں… مگر ’’حکومت‘‘ جھک گئی، دب گئی… پٹھان کوٹ کا مقدمہ پاکستان کی سرزمین پر
دائر ہوا… اور پھر بزدلی کے اس فیصلے نے ہر طرف خون ہی خون پھیلا دیا… انڈین
حکمران یہ سمجھ بیٹھے کہ اب ہم پاکستان کو جھکاتے جائیں گے اور اسے کمزور کرتے جائیں
گے… چنانچہ پھر ہر حملے پر انہوں نے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ شروع کر دیا… اور جب
مطالبہ پورا نہ ہوا تو بارڈروں پر آگ لگا دی … کیونکہ ان کے حوصلے بڑھ چکے تھے
اور عادت بگڑ چکی تھی… پس اسی تناؤ میںیہ تماشے کر رہے ہیں…لیکن اگر آج بھی
پٹھان کوٹ مقدمے کی ایف آئی آر ختم کر دی جائے… اس سلسلے میں پاکستان نے جو غلط
اقدامات کئے ہیں وہ واپس لے لئے جائیں تو انڈیا اپنی اوقات پر آ جائے گا… کیونکہ
’’مشرکین ‘‘ استقامت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے… لیکن اگر خدانخواستہ اس وقت انڈیا
کے دباؤ کو قبول کیا گیا تو پھر… تباہی بڑھے گی… اور وہ ’’انڈہ‘‘ دینے کے مطالبے
تک آ جائیں گے… اے ایمان والو!… کافروں کے سامنے نہ جھکو، یہ اللہ تعالیٰ کا
تاکیدی حکم ہے…یہ قرآن مجید کا فرمان ہے… اور اسی میں ہماری نجات، عزت،حفاظت اور
فلاح ہے۔
اچھی قسمت کا سوال
بات استقامت پر چل رہی تھی تو…ایک اور منظر ذہن میں آ گیا…
کئی مسلمان جوں جوں بوڑھے ہوتے جاتے ہیں… اسی قدر موت، قبر اور آخرت سے غافل ہوتے
جاتے ہیں… کئی بوڑھے حضرات کو دیکھا گیا کہ… اُن کی آخری عمر میں یہ فکر بن جاتی
ہے کہ…شہر سے باہر کھلی فضا میں کوٹھی ہو، فارم ہو…کیونکہ اب شہر والے مکان میں دم
گھٹتا ہے… اب اچھا سا کارخانہ اور کاروبار ہو وغیرہ وغیرہ… ہم ان کی بات نہیں کر
رہے جن کو نعوذ باللہ آخری عمر میں حرام قسم کے شوق ہو جاتے ہیں… غیر محرم عورتوں
سے اختلاط، شراب نوشی اور دیگر نشے وغیرہ… بات ان کی ہو رہی ہے جو کچھ نیک
ہیں…اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ، پہچانتے ہیں… مگر بد نصیبی کہ اب
جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا وقت آن پہنچا ہے تو اُن کو… اس کی تیاری کی کوئی
فکر ہی نہیں… بلکہ وہ اپنی اولاد در اولاد مکان در مکان… اور جائیداد در جائیداد
میں اُلجھتے جا رہے ہیں… شہر سے باہر کوٹھی اور فارم بھی بن رہا ہے…مگر جنازہ پہلے
اُٹھ جاتا ہے اور قصہ ختم… اب پیچھے والے اس جائیداد پر لڑتے مرتے ہیں… دوسری طرف
ایسے افراد بھی ہیں کہ… جیسے ہی بڑھاپا آیا فوراً…محبوب سے ملاقات کی تیاری میں
ذوق و شوق سے مصروف ہو گئے … پہلے چلنا آسان تھا اب مسجد جانے میں دشواری ہوئی
تو… عصر سے عشاء تک مسجد میں بیٹھے رہتے ہیں کہ… تین نمازیں پوری کر کے جائیں گے…
کبھی ظہر میں آئے تو عشاء تک مسجد میں ہی رکے رہے… کبھی سوچا کہ فلاں پلاٹ ویسے
ہی پڑا ہوا ہے… چلو آخرت کا گھر بنا لیتا ہوں…وہاں مسجد بنوا لی اور اس کے ساتھ
متصل اپنا اٹیچ باتھ اور حجرہ بنوا لیا… سبحان اللہ! دو قدم اُٹھائے اور مسجد میں…
اب جہاد میں نہیں جا سکتے تو…دو تین مجاہدین کا وظیفہ اور خرچہ اپنے ذمہ لے لیا…
گویا کہ دلہن رخصتی کے انتظار میں آ بیٹھی… اور اب رخصتی کے سوا کوئی سوچ نہیں…
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق تو…رخصتی کے شوق سے بہت بلند،بہت لذیذ اور بہت تسکین
آور ہے… بس قسمت کی بات ہے… کچھ لوگ بڑھاپے میں اولاد کی جھڑکیوں… جائیداد کے زخم
… اور زمانے کی ناقدری کا شکار ہو جاتے ہیں…جبکہ کچھ لوگ… بہت نورانی ، پاکیزہ،
باعزت اور شاندار بڑھاپا گزارتے ہیں…بات وہی استقامت کی ہے…جو لوگ دین، ایمان اور
جہاد پر استقامت رکھتے ہیں… وہ ہر آئے دن مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں… اور اُن پر
اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں… یا اللہ! استقامت کا سوال ہے…
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا
وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ
بت گر رہے ہیں
جب حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں…فریضۂ رسالت سنبھالا تو مکہ
مکرمہ بتوں سے بھرا پڑا تھا… ’’بت‘‘ بہت گندی اور ناپاک چیز ہے…قرآن مجید نے جگہ
جگہ ’’بتوں‘‘ کی حقیقت بیان فرمائی ہے… اور انہیں گندگی ، غلاظت اور بیماری قرار
دیا ہے… اگر کوئی مسلمان کسی ’’بت ‘‘کو دیکھتا ہو اور اس کا دل کراہیت اور نفرت سے
بھر جاتا ہو تو… یہ اس کے ایمان کی علامت ہے… اگر کوئی کتا مکمل خارش شدہ ہو پورے
جسم سے بال اکھڑ گئے ہوں ، کھال کئی جگہ سے پھٹ گئی ہو اور زخموں سے بدبوردار مادہ
بہتا ہو…اس کتے کو دیکھنے سے جتنی نفرت ہوتی ہے… ایک ’’ بت‘‘ کو دیکھنے سے پیدا
ہونی والی گھٹن اور نفرت… اس سے کہیں زیادہ ہے… قرآن مجید نے بتوں کے لئے…
’’رِجْس‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے… انتہائی غلیظ گندگی… اللہ تعالیٰ ہماری… اور
ہماری آل واولاد کی… بتوں کے شر سے حفاظت فرمائے… ’’بت ‘‘ کچھ نہیں کر سکتے… ان
کا شر یہ ہے کہ ان کی ’’پوجا‘‘ کی جائے…جس نے ان کی تعظیم اور پوجا کی وہ ہلاک ہو
گیا اور بے انتہا غلیظ ہو گیا۔
اگر آپ میں سے کسی کو …میری یہ باتیں ’’مبالغہ‘‘ نظر آئیں
تو وہ ازراہ کرم صرف ایک بار قرآن مجید کی وہ آیات مبارکہ پڑھ لے جن میں ’’بتوں
‘‘ کا تذکرہ ہے… تب وہ ضرور ان باتوں سے مکمل اتفاق کرے گا… ’’بتوں ‘‘ کے ساتھ
نفرت ایمان کا اہم تقاضا ہے… آج کل جو تصویر بازی اور پینا فلیکسوں کی بوچھاڑ
ہے…ان کو دیکھ کر بھی دل بہت پریشان اور تنگ ہوتا ہے… خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… بس
آپ سب سے اتنی گذارش ہے کہ…جاندار کی تصویر بنانے سے جس قدر بچ سکتے ہوں بچ
جائیں…آپ ہی کا بھلا ہو گا… مکہ مکرمہ میں دو طرح کے بت تھے… ایک تو پتھر اور
دھاتوں کے وہ ’’بت‘‘ جو کعبہ شریف اور دیگر اہم مقامات پر… پوجا کے لئے رکھے ہوئے
تھے… لات، عزیٰ، منات اور ہُبُل وغیرہ… یہ اصل میں ماضی کی کچھ کامیاب اور مشہور
شخصیتوں کے بت تھے… جو تدریجاً…محبت، ادب ، تعظیم سے ترقی کرتے کرتے نعوذ باللہ
خدا، دیوتا اور بھگوان بنا دئیے گئے… اور دوسرے کچھ ’’بت‘‘ مکہ مکرمہ میں زندہ
موجود تھے… ایسے معروف ، مشہور اور مؤثر افراد جن کے ہر حکم کی پوجا کی جاتی تھی…
اور مرنے کے بعد انہوں نے بھی دیوتا اور بھگوان بن جانا تھا… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محنت اور استقامت نے…مکہ مکرمہ اور جزیرۃ
العرب سے ان دونوں قسموں کے تمام’’ بتوں‘‘ کا صفایا کر دیا… ’’بت‘‘ کبھی بھی
ایمانی استقامت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے…مکہ مکرمہ اور جزیرۃ العرب کے مردہ اور
زندہ بت کیسے ٹوٹے اور گرے… یہ بڑی ایمان افروز داستان ہے… کبھی موقع ملے تو سیرت
مبارکہ میں پڑھ لیں…
آج یہ عرض کرنا ہے کہ …انڈیا بھی ناپاک بتوں کا مرکز ہے…
وہاں پتھر، سونے اور کانسی کے بت بھی ہیں… اور زندہ بت بھی… جنہوں نے آگے چل کر’’
بت‘‘ بننا ہے… ان زندہ شر انگیز بتوں کا ایک خطرناک جتھہ’’ آر ایس ایس‘‘ نے تیار
کیا … یہ بت انڈیا سے توحید کے خاتمے کے لئے ایک بڑی طاقت بن کر اٹھے… ایڈوانی،
رجو بھیا، واجپائی، پرم راج ہنس، بال ٹھاکرے، کرشن لال شرما، سشما سوراج، مرلی
منوہر جوشی اور اوما بھارتی وغیرہ… ان سب’’ بتوں‘‘ نے اپنی تمام تر محنت اور خباثت
کو جمع کر کے …ایک انڈہ دیا، جس کا نام ہے ’’مودی‘‘ … یہ آر ایس ایس کے بڑے بتوں
کا… نچوڑ اور خلاصہ ہے… پھر مشرکین نے اپنی تمام ترسیاسی اور اقتصادی طاقت استعمال
کر کے اور ساری دنیا سے اپنا سرمایہ استعمال کر کے… ’’مودی ‘‘ کے بت کو انڈیا کا
حکمران بنایا …مقصد یہ تھا کہ…اب انڈیا سے اسلام اور مسلمانوں کو مکمل ختم کر دیا
جائے گا… اور افغانستان و ایران کو ساتھ ملا کر… پاکستان کو بھی مٹا دیا جائے گا…
اور یوں ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا سو سالہ خواب پورا ہو جائے گا… مگر اہل ایمان اور اہل
جہاد کی استقامت کو سلام…بت پرستوں کا یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہو رہا ہے… اور اب
تو ’’مودی‘‘ ایک ایسے جال میں پھنس چکا ہے کہ… بھارت کا ہر شخص اسے گالیاں دے رہا
ہے… کل تک جو مودی… اُن کا بھگوان تھا آج وہی…پورے انڈیا میں سب سے قابل نفرت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ…سو سالہ منصوبہ کیسے ذلیل اور
ناکام ہوا…بتوں کا جو طاقتور جتھہ آر ایس ایس نے تیار کیا تھا… وہ آج زرد پتوں
کی طرح بکھر رہا ہے… تین چار تو مر چکے… ایڈوانی، واجپائی اپنی چارپائیوں پر پڑے
ہیں… سشما سوراج کے گردے فیل ہو چکے… اوما بھارتی ذلتوں اور بدنامیوں میں ہے… اور
مودی… آج انڈیا کی سب سے فحش گالی بن چکا ہے… بتوں کے اس بھیانک انجام کو دیکھ
کر…دل چاہ رہا ہے کہ… وجد سے سورۂ اخلاص پڑھوں… چیخ چیخ کر کلمہ طیبہ کی گواہی
دوں … بے شک اللہ ایک ہے…
اَللہُ اَکْبَرُکَبِیْرًا…لَا شَرِیْکَ لَہٗ…لَبَّیْکَ
اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ
وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…571
افضل، بابری، نگروٹہ
* ’’نگروٹہ‘‘
میں مجاہدین کا شاندار سرجیکل سٹرائیک…
* ۶ دسمبر، بابری مسجد کا یوم شہادت…
* آر
ایس ایس کا ناپاک منصوبہ اور اس کی ناکامی…
* انڈیا
اپنے بُرے حالات کا خود ذمہ دار…
* انڈیا
بابری مسجد اور افضل گورو شہید رحمہ اللہ کے انتقام کو نہیں روک سکتا…
* جہادی
کا روائیوں کی اصل اور حقیقی تفصیلات وہی
ہوتی
ہیں جو مجاہدین کی طرف سے آتی ہیں…
* انڈین
میڈیا پابندیوں اور جکڑبندیوں کا شکار…
* نگروٹہ
کاروائی کے بارے چند اہم حقائق اور سوالات…
* اہلِ
کشمیر کی قربانی اور جہاد کشمیر کی مضبوطی…
یہ
ہیں اس مضمون کے اہم موضوعات…ملاحظہ کیجئے
تاریخِ اشاعت:
۹ربیع
الاوّل ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق9دسمبر 2016ء
افضل، بابری، نگروٹہ
اللہ تعالیٰ ’’مجاہدین ‘‘ کو جزائے خیر عطاء فرمائے…شہداء
کرام کی ’’شہادت ‘‘ قبول فرمائے… ’’نگروٹہ‘‘ میں جانبازوں نے کیسا زبردست ’’جہاد
‘‘اُٹھایا…کیسا شاندار ’’حملہ ‘‘ کیا …کیسا واضح نظر آنے والا سرجیکل سٹرائیک کیا
…
اَللہُ اَکْبَرُکَبِیْرًا، وَالْحَمْدُ لِلہِ
کَثِیْرًا وَسُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا
واقعی کشمیری مجاہدین کسی سے کم نہیں … نگروٹہ کے شہداء کو
سلام، اُن کے خوش نصیب والدین کو سلام…کمال کر دیا واقعی کمال… ایک ہی جھٹکے میں
شہید افضل گورو اور کشمیر کے معصوم شہید بچوں کا کیسا جاندار انتقام لیا… یا اللہ!
ان شہداء کرام کو اپنا دیدار اور اعلیٰ مقام عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین۔
6 دسمبر سے 6 دسمبر تک
6 دسمبر کی تاریخ ہمارے جذبات کو
اُٹھاتی ہے، ہماری سستی کو بھگاتی ہے اور ہمارے اندر نئے عزم اور فدائی ولولے
جگاتی ہے… 6 دسمبر 1992ء بندروں کی اولاد نے ہماری ’’بابری مسجد ‘‘ کو شہید کیا
تھا… وہ اسے ہندوستان سے اسلام کے خاتمے کا آغاز قرار دے رہے تھے …اُنہی دنوں آر
ایس ایس نے مزید تین ہزار مساجد کی فہرست جاری کر دی تھی کہ اب ان کو گرایا جائے
گا…مگر شہید بابری مسجد کے پتھر اورمینار جنہوں نے صدیوں سے اذان کی آواز اپنے
اندر بسا رکھی تھی… ایک دَم زندہ ہو گئے… اور پھر کنیا کماری سے کپواڑہ تک مجاہدین
اُٹھنے لگے… کشمیر کی تحریک انڈیا کے دارالحکومت تک جا پہنچی… اور پورا انڈیا جگہ
جگہ سے عدم استحکام کا شکار ہو گیا …جی ہاں! دو واقعات نے ’’غزوۂ ہند‘‘ کو موجودہ
ہندوستان میں بے حد طاقت دی… ایک بابری مسجد کی شہادت اور دوسرا بھائی محمد افضل
گورو کی شہادت… یہ دونوں مظلوم شہید تھے… اور مظلوم شہید اپنے ظالم قاتل پر بہت
بھاری پڑتا ہے… بے حد بھاری … ہندوستان خواہ مخواہ پاکستان کو اپنے مسائل کا ذمہ
دار قرار دیتا ہے… حالانکہ پاکستان نے تو انڈیا توڑنے کے کئی سنہری مواقع گنوا
دیئے …کشمیر کی حالیہ چار ماہ کی خونی تحریک … بنگلہ دیش کی مکتی باہنی سازش سے
بہت طاقتور تھی… انڈیا نے مکتی باہنی سازش کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کو توڑ دیا…
مگر پاکستان نے اتنی سخت ، اتنی گرم اور اتنی وسیع تحریک کا بھی کوئی فائدہ نہیں
اُٹھایا… حقیقت یہ ہے کہ ’’انڈیا‘‘ پاکستان میں بہت زیادہ مداخلت اور دہشت گردی
کرتا ہے… جبکہ پاکستان ’’انڈیا‘‘ میں بہت کم… پھر بھی انڈیا زیادہ شور مچاتا ہے…
انڈیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار خود ’’انڈیا‘‘ ہے… بابری مسجد کی شہادت
کو روکا جا سکتا تھا مگر انڈیا نے نہیں روکا… اب وہ بابری مسجد کے انتقام کو بھی
نہیں روک سکتا … محمد افضل گورو کی شہادت کو روکا جا سکتا تھا مگر انڈیا نے نہیں
روکا… اب وہ افضل گورو کے انتقام کو بھی نہیں روک سکتا… انڈیا میں یہ طاقت نہیں ہے
کہ وہ بابری مسجد اور افضل گورو کی یلغار کو روک سکے… اسی مبارک یلغار کی ایک تازہ
کڑی … نگروٹہ کا حملہ تھا… آج انڈیا رو رہا ہے… جبکہ افضل گورو کی قبر اور بابری
مسجد کی مٹی مسکرا رہی ہے۔
تاخیر کی وجہ
’’معرکۂ نگروٹہ‘‘ کے بارے میں
’’رنگ و نور ‘‘ تاخیر سے آ رہا ہے… وجہ یہ کہ گذشتہ ہفتے جب کالم لکھا جا رہا تھا
تو… یہ مبارک معرکہ جاری تھا … مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی بندش کی وجہ سے مکمل
تفصیل آنے میں دیر ہو جاتی ہے… مگر وہاں کے مجاہدین جدید مواصلاتی نظام کو
استعمال کر کے… پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیر کے حقائق اور جہادی حملوں کی
تفصیلات پہنچاتے رہتے ہیں… اور حقیقی، سچی تفصیلات وہی ہوتی ہیں جو مجاہدین کی طرف
سے آتی ہیں… انڈین میڈیابے چارہ تو ’’پٹھان کوٹ‘‘ اور ’’اُڑی‘‘ کے بعد حکومت کے
عتاب کا شکار ہے …اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگ چکی ہیں … وہ تو اب ہمارے
’’بیانات‘‘ اور ’’رنگ و نور‘‘ بھی نہیں
سناتا… بس ’’رنگ و نور‘‘ کے چند جملے پکڑ کر … اُن پہ تبصرے کرتا رہتا ہے… حقیقی
معلومات تک میڈیا کو رسائی نہیں دی جا رہی … اسے بس یہ کہا جاتا ہے کہ … انڈیا نے
ایک ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کیا ہے… وہ سرجیکل سڑائیک کہیں نظر نہیں آ رہا … مگر تم
اسی کی ’’بین‘‘ بجاتے رہو… چنانچہ میڈیا سرجیکل، سرجیکل کا شور ڈال دیتا ہے… پھر
اسے بتایا جاتا ہے کہ … مجاہدین نے ’’نگروٹہ ‘‘ پر نظر آنے والا حملہ کیا ہے… مگر
تم نے وہ دور، دور رہ کر دیکھنا اور سنانا ہے … چنانچہ میڈیا والے بے چارے اس حملے
سے پانچ سو کلومیٹر دور کھڑے ہو کر موویاں اور ڈرامے بناتے رہتے ہیں… آج انڈیا
بالکل پرانے زمانے والا ’’سوویت یونین ‘‘ نظر آ رہا ہے… وہاں کرنسی پر پابندی
تھی، میڈیا مفلوج تھا… سیکورٹی کے نام پر
لوگوں کو ہر جگہ ستایا جا رہا تھا اور … اپنی فوجوں کی جھوٹی فتوحات کے چرچے تھے…
چنانچہ یہ مصنوعی صورتحال ’’سوویت یونین ‘‘ کو لے ڈوبی… اب
یہ صورتحال انڈیا پر آئی ہے تو اس کو بھی لے ڈوبی گی…ان شاء اللہ
عرض یہ کر رہا تھا کہ… چونکہ نگروٹہ کا معرکہ جاری تھا …
اور نام بھی ہمارے لگناتھا تو اس لئے ضروری تھا کہ …جب مکمل خبریں آ جائیں گی تب
اس موضوع پر لکھا جائے گا… بس اسی وجہ سے تاخیر ہو گئی…
انڈیا پھنس گیا
نگروٹہ کی اتنی منظم ، مضبوط اور مستحکم کارروائی کو دیکھ
کر پہلا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ… اس کارروائی کے لئے انڈین کرنسی کہاں سے آئی…
سامان کیسے خریدا گیا؟… اس سوال کا جواب اس لئے بھی اہم ہے کہ… ’’نگروٹہ‘‘ کی فوجی
چھاؤنی کوئی معمولی ٹارگٹ اور عام ہدف نہیں تھا… یہ انڈین فوج کی اہم ترین
چھاؤنی ہے اور اس کی سیکورٹی فول پروف ہے… اور اسی چھاؤنی میں … جموں ، کشمیر
اور پوری ’’ایل، او، سی‘‘ پر فوجی کارروائیوں کی پلاننگ تیار کی جاتی ہے… ایک ایسی
چھاؤنی جسے انڈین آرمی کی شمالی کمان کا ’’دل‘‘ سمجھا جاتا ہے … اس پر حملہ کرنا
کوئی آسان کام نہیں ہے… اس چھاؤنی کے گرد تین حفاظتی حصار تھے… ان حفاظتی حصاروں
کو توڑنے یا خریدنے پر کتنی رقم خرچ ہو سکتی ہے؟…
چھاؤنی کے اندر کا نقشہ حاصل کرنا… یہ بھی آسان اور سستا
کام نہیں ہے… چھاؤنی کے راستوں اور اندر کے اہداف کی فوٹیج بنانا یا بنوانا یہ
بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے… کوئی ایسا آدمی جو پہلے اس علاقے میں نہ آیا ہو وہ
تو چند قدم چل کر ہی پکڑا اور مارا جا سکتا ہے… اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایسے
افراد استعمال ہوں جو بار بار اس علاقے میں آ چکے ہوں… اور پھر ایک مضبوط حملے کے
لئے…اندر کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے … افضل گورو شہید سکواڈ… کشمیری مجاہدین کا
قابل فخر عسکری بازو ہے…
انہوں نے یہ سارے مرحلے ان حالات میں طے کئے کہ جب …انڈیا
میں ہر جیب خالی ہے … اور ہر شخص کرنسی کے لئے پریشان ہے… مگر اندر کے ذرائع بتاتے
ہیں کہ …مودی حکومت نے کرنسی پر پابندی لگا کر…خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے…
اور وہ خود اپنے جال میں پھنس گئی ہے… دراصل صنعتکاروں اور ’’ منی چینجرز‘‘ کو
پہلے ہی اس پابندی کا علم ہو گیا تھا اور انہوں نے بڑی مقدار میں چھوٹے نوٹ حاصل
کر لئے تھے… یہ نوٹ، ڈالر، پونڈ اور یورو کے عوض آسانی سے ملتے ہیں… اور اب
مجاہدین کے لئے کام کرنے والے افراد بھی ’’ڈالر ‘‘ زیادہ پسند کرتے ہیں… اس طرح
کشمیری مجاہدین ،ماؤ نواز حریت پسند اور خالصتان کے فریڈم فائٹر… کسی بھی طرح کی
مالی مشکلات کا شکار نہیں ہوئے … بلکہ اُن کا کام مزید آسان ہو گیا ہے… جبکہ
انڈین عوام انتہائی سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں… مودی جیسے بے عقل، دہشت گرد
کو اپنا حکمران بنانے والوں کو یہی انجام ملنا تھا جو انہیں مل رہا ہے۔
دوسرا رُخ
لوگ سمجھ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات بہتر ہو رہے ہیں
… وہاں اب ہڑتال ، کرفیو، سنگ بازی اور احتجاج میں کمی آئی ہے… حالانکہ ایسا نہیں
ہے… اہل کشمیر کی اس طویل قربانی نے … کشمیر کے عسکری جہاد کو مضبوط کر دیا ہے…
بہت سے نوجوان اور پڑھے لکھے افراد تحریک میں شامل ہو چکے ہیں… اور وہ اس تحریک کو
اپنی آزادی تک جاری رکھنے کے لئے پُر عزم ہیں… نگروٹہ کا حملہ اسی عزم کا ایک
اظہار ہے … اندرونی ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں درجنوں بھارتی فوجی مارے گئے…
جن میں سے سات کا اعتراف خود بھارتی حکومت نے بھی کیا ہے…بہرحال یہ کارروائی…
جہادکشمیر کو ان شاء اللہ ایک نئی طاقت فراہم کرے گی… پانچ مجاہدین اتنا بڑا حملہ
کریں… تین شہید ہو جائیں… اور باقی دو اگلے ہدف کے قریب جا بیٹھیں …یہ سب کچھ
سوچنا آسان ہے مگر کرنا بہت مشکل ہے… اور جو لوگ اتنی عظیم اور مشکل کارروائیاں
کر لیتے ہوں… اُن کی فتح میں کون شک کر سکتا ہے؟… اللہ تعالیٰ پوری اُمت مسلمہ اور
تمام مجاہدین کو اپنی رحمت، مغفرت، نصرت … اور اعانت عطاء فرمائے … آمین یا ارحم
الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…572
اَللّٰہُ الْقَرِیْبُ
* اللہ
تعالیٰ شہہ رگ سے بھی زیادہ بندوں کے قریب ہیں…
* تو
پھر بندے دور کیوں؟…
* نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کا میدان
کیا تھا؟…
* نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد…
* ’’میلاد‘‘
کا بڑا تحفہ ’’قربِ الہٰی‘‘ کا احساس اور شعور…
* ’’مجیب
الدعوات‘‘ کو کیوں نہیں تلاش کرتے اور اس سے کیوں نہیں مانگتے؟…
* خود
کو ’’رب قریب‘‘ سے دور کیوں سمجھ رکھا ہے؟ وہ تو نیک وبد سب کے قریب ہے…
* ہر
مؤمن ’’اللہ والا‘‘ ہے، بس احساس کی کمی ہے…
* اللہ
تعالیٰ کی کسی سے رشتہ داری نہیں،
وہ
سب کے قریب ہے اور سب کا رب ہے…
* ’’اللہ
والوں‘‘ کی تلاش چھوڑ کر ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی تلاش
میں
لگ جائو تب ’’اللہ تعالیٰ‘‘ بھی مل جائیں گے اور ’’اللہ والے‘‘ بھی…
’’اللہ
القریب‘‘ کی تشریح اور ’’قربِ الہٰی‘‘ و ’’معرفت ربانی‘‘
کی
حقیقت بیان کرتی ایک ایمان افروز اور معطر تحریر
تاریخِ اشاعت:
۱۶ربیع
الاوّل ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق16دسمبر 2016ء
اَللّٰہُ الْقَرِیْبُ
اللہ تعالیٰ ’’قریب‘‘ ہے… اللہ تعالیٰ میرے ’’قریب‘‘
ہے…اللہ تعالیٰ آپ کے ’’قریب‘‘ ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کے ’’قریب ‘‘ہے…ہماری روح
سے بھی زیادہ ’’قریب‘‘ ہماری جان سے بھی زیادہ ’’قریب‘‘… پھر کیوں نہ ہم بھی اللہ
تعالیٰ کے ’’قریب ‘‘ ہو جائیں… قریب، قریب، بہت قریب… ہم اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘
کو محسوس کریں… ہم اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ کا فائدہ اُٹھائیں… ہم اللہ تعالیٰ کے
’’قرب‘‘ کی حلاوت پائیں… اور ہم اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ پر فدا ہو جائیں،
’’قربان‘‘ ہو جائیں…
اَللّٰھُمَّ یَا قَرِیْبُ ، یَا قَرِیْبُ، یَا قَرِیْبُ
قَرِّبْنَا اِلَیْکَ یَا قَرِیْبُ
میلاد کا تحفہ
ہم عید میلاد النبی نہیں مناتے… کیونکہ حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہیں منائی…
حالانکہ وہ سچے عاشق تھے، پکے عاشق تھے…عجیب بات ہے کہ آقا حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کے لئے پورے سال میں صرف ’’ایک
دن‘‘ ؟ … نہیں ہرگز نہیں… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سال کے تین سو چونسٹھ دن … ہمارے نبی ، ہمارے
رسول ، ہمارے آقا ، ہمارے محبوب، ہمارے رہبر اور ہمارے قائد ہیں…
صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم … صلی
اللہ علیہ وسلم
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت یہ تھی کہ… اللہ تعالیٰ کے بندوں کو
براہ راست اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیں… مکہ والے اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے… مگر دور
دور سے … اور درمیان میں طرح طرح کے واسطے رکھ کر… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم نے سمجھایا کہ ایسے ماننے کا کیا
فائدہ… اللہ تعالیٰ قریب ہے… شہہ رَگ سے بھی زیادہ قریب … پھر درمیان میں بتوں کو
کیوں لاتے ہو؟… خود اللہ تعالیٰ کو کیوں نہیں پکارتے…’’لا الہ الا اللہ‘‘… کہہ دو:
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں … پھر تم کامیاب ہو جاؤ گے… مگر مشرکوں کی
عقل میں یہ بات نہیں آئی… کیونکہ وہ ’’قریب‘‘ سے دور ہو چکے تھے… اور دور والوں
سے قریب ہو چکے تھے … بت اُن سے دور دور تھے مگر وہ اُن کو قریب مانتے تھے…
حالانکہ ’’ بت ‘‘ کسی حال میں بھی اُن کے ساتھ نہیں ہوتے تھے … بس کبھی کبھار
تھوڑی دیر اُن کے سامنے ہوتے… بے جان، بے اختیار، بے حرکت ، بے حِس… مگر اللہ
تعالیٰ ہر حال میں بندے کے ساتھ ہے… بندے کے پاس ہے… بندہ ہر حال میں اس کے سامنے
ہے … وہی بندے کو کھلاتا ہے، وہی بندے کو پلاتا ہے … وہی بندے کو سانس لینے کے لئے
ہوا دیتا ہے… پھر بھی ’’بندہ ‘‘ اس کو چھوڑ کر…دور دور والوں کو سجدے کرتا رہے… یہ
شرک ہے، یہ کفر ہے… یہ ناشکری ہے… یہ ناقابل معافی جرم ہے… یہ ذلت ہے۔
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں… اس ذلت سے نکالنے کی محنت فرمائی… ارے!
’’قریب والے ‘‘ کے ’’قریب‘‘ ہو جاؤ… اللہ
وحدہٗ لا شریک لہٗ کے ’’قریب ‘‘ ہو جاؤ… اپنے ’’ اللہ ‘‘ کو پالو… اپنے ’’ اللہ
‘‘ کو منا لو… اپنے ’’ اللہ ‘‘ کو پہچان لو… اپنے ’’ اللہ ‘‘ سے فائدہ اُٹھا لو…
اپنے ’’اللہ ‘‘ کے قرب کو محسوس کرو… بس ایک اللہ … اَللّٰہُ اَحَد … صرف ایک اللہ
… اَللّٰہُ الصَّمَدُ… بے مثال اللہ… لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ… وَلَمْ یَکُن
لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ…
تم ہر جگہ اللہ تعالیٰ کو پا سکتے ہو… تم ہر جگہ اللہ
تعالیٰ کو منا سکتے ہو… تم ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مانگ سکتے ہو… تم ہر جگہ، ہر وقت
اللہ تعالیٰ سے پا سکتے ہو… آ جاؤ … اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ کی قدر کرو… ’’
اِحْفَظِ اللّٰہَ ‘‘… تب تم اسے ہر جگہ اپنے ساتھ پاؤ گے … تَجِدْہُ تُجَاھَکَ…
ہم نے نہ میلاد کے موقع پر دیگیں چڑھائیں … نہ گلی بازار
سجائے… نہ کوئی ایک روزہ جشن منایا… ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد مبارک کی خوشی الحمد للہ… ہر روز اور
ہر وقت نصیب ہے… ہمارے نزدیک ہر دن ’’ جشن میلاد ‘‘ ہے… کیونکہ حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کے احسانات بے شمار ہیں…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ہمیں ’’ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ ‘‘ سے جوڑا… ہم تک اللہ تعالیٰ کا کلام پہنچایا…
ہم تک اللہ تعالیٰ کا دین پہنچایا… دین زندگی کے ہر سانس پر نافذ ہوتا ہے تو…
ہمارے ہر سانس پر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ احسان ‘‘ ہے…
صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم … صلی
اللہ علیہ وسلم
اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ ہم سب کو محسوس ہو جائے، ہم سب کی
سمجھ میں آ جائے … اور ہم سب کو اس کی حلاوت نصیب ہو جائے… یہ ’’ میلاد ‘‘ کا بڑا
تحفہ ہے… بندے اللہ تعالیٰ سے دور دور بھٹک رہے تھے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لائے تو… بندوں کو ’’اللہ
تعالیٰ‘‘ کے ’’قرب ‘‘ کا راستہ دکھایا… ہاں! بے شک جسے ’’ اللہ تعالیٰ ‘‘ مل جائے
اسے سب کچھ مل جاتا ہے… اور جو اللہ تعالیٰ سے کٹ جائے اسے کچھ بھی نہیں ملتا۔
مستجاب الدعوات کی تلاش
کئی لوگوں کی آرزو ہوتی ہے کہ… انہیں کوئی ’’مستجاب
الدعوات ‘‘ بزرگ مل جائیں… ایسے بزرگ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں … تاکہ وہ اُن سے
بہت سی دعائیں کرا سکیں … ایسے ہی ایک شخص نے …ایک فقیر سے کہا… کیا آپ کسی ’’
مستجاب الدعوات ‘‘ بزرگ کو جانتے ہیں؟… فقیر نے کہا… نہیں میں کسی ایسے ’’ مستجاب
الدعوات ‘‘ بزرگ کو نہیں جانتا… ہاں ’’ مجیب الدعوات‘‘ کو جانتا ہوں… ’’مجیب
الدعوات‘‘ یعنی دعائیں قبول فرمانے والا… وہ بہت قریب ہے، بہت قریب… مجھ سے بھی
بہت قریب… اور تم سے بھی بہت قریب… وہ ہر کسی کی سننے والا… وہ ہر کسی کو عطاء
فرمانے والا … کیوں دور دور لوگوں کو ڈھونڈ رہے ہو کہ وہ تمہارے لئے دعاء کریں…
انہوں نے جس سے مانگنا ہے … وہ تو تمہارے بھی اسی قدر قریب ہے جتنا اُن کے قریب
ہے… تو پھر خود کیوں نہیں مانگ لیتے…
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ
’’تمہارے رب نے حکم فرمایا ہے کہ
مجھ سے مانگو میں دوں گا۔‘‘(المؤمن:۶۰)
آخر تم نے خود کو اپنے محبوب رب سے اتنا ’’ دور‘‘ کیوں
سمجھ رکھا ہے؟… کوئی نیک ہو یا گناہگار… وہ سب کے ’’قریب ‘‘ ہے… سب کے ’’قریب‘‘ …
بہت قریب ، بے حد قریب… گناہگار ہو تو معافی مانگ لو… وہ معاف کرنے سے نہیں تھکتا،
نہیں اُکتاتا… مانگنا نہیں آتا تو اسی سے مانگنے کا طریقہ بھی مانگ لو… مگر یہ
کیا بدگمانی کہ وہ تمہاری نہیں سنتا اور دوسروں کی سنتا ہے… توبہ توبہ ایسے محبوب،
ایسے کریم ، ایسے وہاب ’’رب ‘‘ سے بدگمانی… اپنے گمان کو اچھا کرو اور خود اس سے
مانگو… اسے مانگنے والے اچھے لگتے ہیں … پیارے لگتے ہیں… ہاں! اللہ تعالیٰ کے نیک
بندوں سے بھی دعاء کرایا کرو… مجاہدین اور اولیاء سے بھی دعاء کرایا کرو… مگر
تمہاری اپنی دعاء تمہیں اپنے رب کے قریب کر دے گی… بہت قریب، بہت قریب… مانگو،
مانگو دل بھر کر مانگو، دل کھول کر مانگو، دل لگا کر مانگو، دل بِچھا کر مانگو، دل
سجا کر مانگو… دل کے یقین سے مانگو… اور اپنے رب سے اچھا گمان کرو، اچھا گمان… وہ
فرماتا ہے … ’’مجھ سے جیسا گمان کرو گے میں تمہارے ساتھ ویسا معاملہ فرماؤں گا۔‘‘
اللہ والوں کی تلاش
کئی لوگ کہتے ہیں… کاش کوئی ’’اللہ والا ‘‘ مل جائے… اور وہ
ہمیں ’’اللہ تعالیٰ ‘‘ تک پہنچا دے… ایسے لوگوں سے پوچھا جائے کہ… وہ ’’کس والے ‘‘
ہیں؟ ہر مومن ’’ اللہ والا‘‘ ہوتا ہے… ہر مسلمان ’’ اللہ والا‘‘ ہوتا ہے… جب ’’ لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کا دل کی تصدیق کے ساتھ زبان سے اقرار کر لیا تو …
’’ اللہ والا‘‘ بن گیا … اب خود کو ’’ اللہ والا ‘‘ محسوس کرو گے تو ’’ اللہ والے
‘‘ بنتے چلے جاؤ گے … تم خود کو ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ سے دور دور کیوں سمجھنے لگے ہو؟
اللہ تعالیٰ کی کسی سے رشتہ داری نہیں… اللہ تعالیٰ کو کسی قوم اور قبیلے سے خاص
تعلق نہیں … اس کے سب بندے بس اسی کے بندے ہیں…
دوسری اور اصل بات یہ ہے کہ… تم ’’ اللہ تعالیٰ ‘‘ کو پانے
کا پکا عزم کر لو… پھر اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کے لئے… خود تمہیں اپنے مقرب
اولیاء تک پہنچا دے گا… یا اولیاء کو تمہارے دروازے تک پہنچا دے گا…تم پہلے کسی
مدرسے، ادارے ، سکول یا کالج میں داخلہ لیتے ہو … پھر وہ ’’ادارہ ‘‘ خود تمہارے
لئے استاذ کا بندوبست کر دیتا ہے… تلاش کی غلطی نے بڑے بڑے عقلمند کہلانے والوں کو
گمراہ کر دیا… غلطی نہ کرو… اللہ کی تلاش کرو، اللہ والوں کی نہیں… جب تمہارے اندر
اللہ تعالیٰ کو پانے کا جذبہ سچا ہو گا تو… اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا راستہ عطاء
فرما دے گا… وہ تمہیں ’’اللہ والوں‘‘ تک پہنچا دے گا… وہ تمہیں ’’اللہ والا ‘‘ بھی
بنا دے گا… وہ تمہیں دھوکے بازوں سے بھی بچا لے گا… اور وہ تمہیں اندھیروں سے نکال
کر نور کی شاہراہ پر چلا دے گا…
﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ
آمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ﴾(البقرۃ:۲۵۷)
بس آج سے ’’اللہ والوں‘‘ کی تلاش چھوڑ دو … اور ’’ اللہ
تعالیٰ ‘‘ کی تلاش شروع کر دو…تم ہر جگہ، ہر عمل اور ہر لمحہ میں اللہ تعالیٰ کو
تلاش کرو… اذان میں بھی، نماز میں بھی، جہاد میں بھی… تسبیح میں بھی ، ذکر میں
بھی… درود و سلام میں بھی… رکوع میں بھی،سجدے میں بھی …اور اپنی سانسوں میں بھی…
یا اللہ… یا اللہ… یا اللہ… یا اللہ… یا اللہ…
تب تمہیں ہر جگہ اللہ تعالیٰ کا قرب ملے گا، ہر جگہ اللہ
تعالیٰ کی محبت ملے گی، ہر جگہ اللہ تعالیٰ کا نور محسوس ہو گا… تم بندے ہو… تم نے
اپنے حقیقی مالک کو ڈھونڈنا ہے… اسے پانا ہے… اسے منانا ہے…اُسی سے اپنا ہر مسئلہ
حل کرانا ہے… اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے… جب تم اسے پانے کی سچی طلب اپنے
اندر لے آؤ گے تو وہ تمہیں … اپنے مقرب بندوں تک بھی پہنچا دے گا… اور تمہاری
رہنمائی کا انتظام بھی فرما دے گا… یا اللہ، یا قریب، یا قریب، یا قریب… ہمیں اپنا
’’قرب ‘‘ عطاء فرما …
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
سعدی کے قلم سے …رنگ ونور573
ایک بڑی روشنی
* اللہ
تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ پانے کا ایک ذریعہ’’استخارہ‘‘…
* استخارہ
خود کیجئے، دوسروں سے نہ کرائیے…
* اللہ
تعالیٰ سے دور رہنے کی نحوست، ایک مثال…
* اللہ
تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ کے فوائد اور خاصیت…
* ایک
شیطانی نشہ…
* حضرت
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک مؤقر فرمان…
* ’’استخارہ‘‘
قرب الہٰی کا ’’انعام‘‘…
*
’’استخارہ‘‘ نور، روشنی، طاقت، قوت اور خیر کا خزانہ…
* ’’استخارہ‘‘
کی بلندی، ایک واقعہ…
ایک
بچے کا واقعہ…
استخارہ کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کو اجاگر کرتی ایک پر
نور تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۳ربیع
الاوّل ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق23دسمبر 2016ء
ایک بڑی روشنی
اللہ تعالیٰ کے ’’قُرب‘‘کا ایک اہم ذریعہ ’’استخارہ‘‘ ہے…جو
بندہ ’’استخارہ‘‘ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ کو پاتا ہے اور اس ’’قرب‘‘ کو
محسوس کرتا ہے… پھر جو جس قدر زیادہ استخارہ کرتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قریب
ہوتا چلاجاتا ہے… قریب،بہت قریب،بے حد قریب … یہاں تک کہ اس کا دل،اس کی آنکھیں
اور اس کے اعضاء ’’نور‘‘ سے بھر جاتے ہیں،روشن ہو جاتے ہیں… بس ایک بات یاد رکھیں…
یہ سارے فائدے ’’استخارہ‘‘ کرنے کے ہیں…استخارہ کرانے کے نہیں…وہ لوگ جو مسلمان
ہوکر دوسروں سے ’’استخارہ‘‘ کراتے ہیں…معلوم نہیںاُن کی سوچ کیا ہوتی ہے…کیا وہ
خود اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگنا چاہتے؟کیا وہ خود کو اللہ تعالیٰ سے دور سمجھتے
ہیں؟…اگردور سمجھتے ہیں توکیا قریب نہیں ہوناچاہتے؟اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو …استخارہ سکھایا… بہت
اہتمام کے ساتھ،بہت تاکید کے ساتھ… تاکہ ہرکوئی خود ’’استخارہ‘‘ کرے…یہی حکم اُمت
کے ہر فرد کے لیے ہے۔
دور رہنے کی نحوست اور وبال
عرب کے مشرکین اللہ تعالیٰ سے دور ہوگئے تھے…حالانکہ کعبہ
شریف کے پاس بیٹھے تھے… اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کی وجہ سے وہ … بدترین نحوستوں
اورذلتوں میں ڈوبے ہوئے تھے … سفر کے لیے جانے لگتے تو دل میں کھٹکا کہ … معلوم
نہیں سفر خیر کا ہوگا یا شر کا…چنانچہ باہر نکل کر ’’السانح والبارح‘‘ کے چکر میں
پڑ جاتے … کسی پرندے کو دائیں طرف سے بائیں طرف جاتا دیکھتے توکہتے کہ سفر اچھا
ہوگا…اور اگر کسی پرندے کو بائیں طرف سے دائیں طرف اُڑتا دیکھتے تو خوف سے کانپ
جاتے اور سفر روک دیتے…پوری تیاری سے کسی کام پر نکلتے راستے میں کوئی کوّا نظر
آجاتا تو کہتے کہ نحوست آگئی … فوراً گھر لوٹ جاتے… کبھی سورج سے ڈرتے تو کبھی
چاند سے…کبھی ’’الّو‘‘ جیسے پرندے سے ڈرتے تو کبھی بلّی کی آواز سے …ہاں! جواللہ
تعالیٰ سے دور ہوجائے اُس کو ہرچیزڈراتی ہے،ہر چیز ستاتی ہے …بیچارے جانور اور
پرندے جو خود عقل سے محروم…وہ کیا کسی اور کی قسمت کا فیصلہ کریں گے…مگر اللہ
تعالیٰ سے دوری…بڑا وبال ہے بڑا وبال…انسان ہوکر بے جان پتھروں کوسجدے
کرنا…جانوروں کا پیشاب تک پینا…اور سانپ کے سامنے ہاتھ جوڑنا کتنی ذلت کی بات
ہے…مگر کروڑوں انسان یہ سب کچھ کرتے ہیں…کیونکہ ان کے پاس’’اللہ تعالیٰ‘‘ نہیں…
یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان،اللہ تعالیٰ کا قرب اور اللہ تعالیٰ کانور اُن کے پاس
نہیں…وہ اپنی قسمت بنانے کے لیے ہر کسی سے ڈرتے ہیں،ہر کسی کے سامنے جھکتے ہیںمگر
پھر بھی مرجاتے ہیں ، بیمار ہوتے ہیں،تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اور اپنے مقدر سے زائد
ایک لقمہ حاصل نہیں کرسکتے… مسلمانوں میں سے بھی جولوگ قسمت اور مستقبل کے چکر میں
پڑجاتے ہیں…وہ گمراہی اور ذلت میںگرتے چلے جاتے ہیں… نہ کسی کی قسمت بدلتی ہے اور
نہ کسی کو اپنے مستقبل کا پتہ چلتا ہے … بس ایک شیطانی نشہ لگ جاتا ہے کہ … آگے
کی باتیں پتا ہوں،مستقبل کا علم ہو،غیب کا علم ہو …ہر سفر،ہرکام کے بارے میں پہلے
سے معلوم ہو کہ یہ خیر والا ہے یا شر والا…اسی کے لیے ہاتھوں کی لکیریں دیکھی جاتی
ہیں، ستاروں سے قسمت پوچھی جاتی ہے اور طرح طرح کے شرکیہ کام کیے جاتے ہیں…فائدہ
کچھ بھی نہیں ہوتا …ہر کوئی اپنے وقت پر مرتا ہے…اپنی قسمت کا کھاتا ہے… اور اپنے
حصے کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے…مگر ایمان سے محرومی ہوتی چلی جاتی ہے …حضرت امام شافعی
رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ … اللہ
تعالیٰ سے بدگمان ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا:’’ہر وقت مصیبتوں سے ڈرتے رہنا اور
ہر وقت اس پریشانی میں رہنا کہ فلاں نعمت نہ چھن جائے اور فلاں مصیبت نہ آجائے۔‘‘
عرب کے لوگ مشرک تھے…انہوں نے قسمت کا حال جاننے کے لیے طرح
طرح کے طریقے بنارکھے تھے…کچھ لوگ دھوکا دیتے تھے اور باقی دھوکا کھاتے تھے…تیروں
کے ذریعے قسمت معلوم کرنے کا طریقہ معروف تھا…پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی
دولت عطاء فرمائی … انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب مل گیا تو وہ…ان توہمات سے آزاد
ہوئے اور ساری دنیا پر چھا گئے … کہاں وہ وقت تھا کہ وہ کوّوں اور بلیوں سے ڈرتے
تھے…اور کہاں وہ وقت آیا کہ وہ بلاخوف سمندروں میںاُتر جاتے … اور جنگلی شیروں پر
سواری کرتے… یہ ہے فرق اللہ تعالیٰ کے قرب اور اللہ تعالیٰ کی دوری کا…پھر اللہ
تعالیٰ نے ان کو اپنے قرب کا ایک اِنعام عطاء فرمایا…اور وہ اِنعام ہے
’’استخارہ‘‘… سبحان اللہ ،’’استخارہ‘‘…
یعنی ایک روشنی،ایک نور، ایک قوت، ایک طاقت، ایک پروازاور
خیر کا خزانہ…الحمدللہ مکمل دعوے اور شرح صدر سے کہتا ہوں کہ… استخارہ کو اپنا کر
دیکھیں… تب آپ مان لیں گے کہ… جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ محض لفاظی نہیں… بلکہ ہر
لفظ ایک حقیقت ہے…استخارہ واقعی روشنی،نور، قوت، طاقت، پرواز اور خزانہ ہے…بلکہ اس
سے بھی بڑھ کر ہے…
استخارے کی بلندی
ایک خاتون ہیں…اپنے اصلی وطن سے دور ہجرت کی زندگی…پھر شادی
ہوئی تو خاوند سے نہ بنی اور بالآخر جدائی ہوگئی…مگر ان کو اللہ تعالیٰ کا
’’قرب‘‘ نصیب تھا…اس لئے نہ ہجرت سے وہ گھبرائیں اور نہ طلاق سے وہ ٹوٹیں…گھر میں
بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھیں کہ…ایک بہت ہی اونچی جگہ سے رشتے کا پیغام آگیا…ایسا
رشتہ جس میں نہ سوچنے کی کچھ ضرورت، نہ انکارکی کچھ گنجائش …
خوشی ہی خوشی، سعادت ہی سعادت، بلندی ہی بلندی…مگر اللہ
تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ بندے کو نہ خوشی میں غافل ہونے دیتا ہے اور نہ غم میں … لوگ
اکثر خوشی اور غم میں اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں… مگر یہ اللہ والی خاتون اتنی
عظیم خوشی میں بھی اپنے ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کو نہ بھولی… رشتے کا پیغام لانے والے سے
کہا:
مَا اَنَا بِصَانِعَۃٍ شَیْئًا حَتّٰی اُوَامِرَ رَبِّیْ۔
’’میںاپنے رب سے پوچھے بغیر کچھ
بھی کرنے والی نہیں۔‘‘
یہ فرما کر اپنی نماز کی جگہ جا کر نماز استخارہ شروع کردی…
اللہ تعالیٰ کو ان کے ’’قرب‘‘ کا یہ انداز ایسا پسندآیا کہ
…ان کے نکاح کی تقریب اپنے ہاں عرش پر منعقد فرمائی…یہ دنیا کا واحد نکاح ہے جو
حضرت آدم علیہ السلام کے نکاح کے بعد آسمانوں پر ہوا…اور پھر یہ
قرآن پاک کی آیات میں بھی مہکا…یہ اُمّ المؤمنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح ہے… پوری تفصیل صحیح مسلم شریف کی روایت
میں موجود ہے…
کا ش! آج بھی مسلمان… اپنے نکاح کے معاملہ میں ’’استخارہ‘‘
کی روشنی اور قوت حاصل کریں تو زندگیاں اور گھر خوشیوں سے بھر جائیں … مگر
لوگ’’استخارہ‘‘ نہیں کرتے…دوسروں سے استخارہ کرواتے ہیں… وہ استخارہ نہیں ہوتا …
اس سے نہ کوئی روشنی ملتی ہے اور نہ کوئی خیر…
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجائو … وہ شہ رگ سے
زیادہ قریب ہے…اسے پالو،اسی سے خیر مانگ کر… اپنی جھولیاںہرخیر سے بھر لو۔
جہاں سب کا علم ختم ہوجاتا ہے
ایک بچے کا پیشاب رک گیا اور جسم پھولنے لگا…ماں باپ نے
اپنے علم اور تجربے کے مطابق دوائیاں ٹوٹکے استعمال کئے… مگر مرض بڑھتا گیا… آس
پاس کے حکیموں کو دکھایا انہوں نے اپنے علم کے مطابق علاج کیا مگر بچے کی حالت
خطرے تک جاپہنچی… اب پریشانی سے تڑپتے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے…ڈاکٹر اس کی حالت
دیکھ کر چیخنے لگے کہ اتنی دیر کیوں کردی … اب ڈاکٹروں نے اپنے علم کے مطابق ٹیسٹ
شروع کئے…ان کے علم اور ان کی مشینوں نے فیصلہ دیا کہ…بچے کا فوری آپریشن کیا
جائے اور گردوں کی دھلائی ہوگی اور اس میں تاخیر موت کا سبب بن سکتی ہے… ماں باپ
تیار ہوگئے، ڈاکٹر نے کاغذ لا کر رکھا کہ اس پر دستخط کردوتاکہ … آپریشن شروع ہو…
والدین دستخط کے لئے مکمل تیار تھے کہ ایک اللہ والے نے پوچھا:آپ نے ’’استخارہ‘‘
کیا ہے؟والدین نے کہا: اس میں استخارہ کی کیا بات ہے… سب کا علم یہی فیصلہ دے رہا
ہے اور اب اگر تاخیر ہوئی توہمارا لخت جگر مرجائے گا… اللہ والے نے کہا:…دیکھو!
جہاں مخلوق کا سارا علم ختم ہوتا ہے وہاں سے اللہ تعالیٰ کا علم شروع ہوتا ہے… اور
استخارہ کا مطلب اللہ تعالیٰ کے اسی علم سے روشنی اور خیر حاصل کرنا ہے …چند منٹ
کا کام ہے غفلت نہ کرو…والدین مان گئے فوراً دونوں ہسپتال کی مسجد میں گئے… وضو
کیا اور دو رکعت قرب والی نماز…صلوٰۃ استخارہ ادا کی… یا اللہ! خیر کا سوال، یا
اللہ! آپریشن میں خیر ہے تو کرا دے، خیر نہیں تو بچالے،استخارہ کی مسنون دعاء
پڑھی…ان کو پریشانی کی حالت میں شیطان نے ہڑبونگ مچا کر اللہ تعالیٰ سے دور کر
دیاتھا… استخارہ کی دورکعتوں نے وہ دوری ’’ دور ‘‘ کردی… انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب
ملا…دعاء کر کے واپس آئے تو ڈاکٹروں کی ٹیم جو پہلے آپریشن کا اِصرار کررہی
تھی…اب مذبذب تھی …کیونکہ بچے کا جسم بہت پھول چکا تھا اور اسے کٹ لگانے سے پورا
جسم بکھر سکتا تھا…چنانچہ کچھ دواء دینے اور انتظار کرنے کافیصلہ ہوا … والدین
دواء لے کر بچے کو گھر لے آئے تو اس کی حالت بدلنے لگی…طویل قصہ ہے … مختصر یہ کہ
تین دن میں وہ بالکل تندرست ہوگیا…
اب ڈاکٹر کہنے لگے کہ اگر اس دن والدین دستخط کردیتے اور
آپریشن ہوجاتا تو یہ بچہ ختم ہوجاتا…
غلطی کا احساس
پچھلے کالم میں اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘کا بیا ن تھا… وہ
کالم خود اپنے دل اور دماغ پر اللہ تعالیٰ کے قرب کی شعاعیں روشن کرتا رہا تو…ذہن
استخارہ کے موضوع کی طرف متوجہ ہوا… تب اپنی ایک غلطی کا احساس ہوا…بخاری شریف میں
استخارہ کی جو روایت آئی ہے… اس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ… رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم ہمیںہر کام میں استخارہ کا حکم
فرماتے تھے اور ہمیں استخارہ یوں سکھاتے تھے جس طرح قرآن مجید کی آیات سکھائی
جاتی ہیں…یعنی ’’استخارہ‘‘ بہت اہتمام سے سکھایاجاتا تھا…مجھے احساس ہوا کہ ہم نے
اپنی جماعت میں استخارہ سکھانے کا اب تک ایسا کوئی باقاعدہ اہتمام نہیں کیا…چنانچہ
یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے رُفقاء بھی… دوسروں سے استخارہ کرانے کی ’’بدعت‘‘ میں
مبتلا ہورہے ہیں اور اصل استخارے کی برکات سے بہت سے ساتھی دور ہیں…
اگرچہ استخارہ کی بات اور ترغیب وقتاً فوقتاً جماعت میں اور
مضامین میں چلتی رہتی ہے… اور اصلاحی خطوط کے جواب میں بھی استخارہ کی ترغیب دی
جاتی ہے… مگر اس مبارک عمل کے لئے جو خصوصی اہتمام ہونا چاہیے تھا وہ ہم اب تک نہ
کر سکے…اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں…
اَسْتَغْفِرُاللہَ الَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ
الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ
استخارہ کیا ہے؟…استخارہ کیسے کیا جاتا ہے؟استخارہ کب کیا
جاتا ہے؟استخارہ کتنی بار کیا جاتا ہے؟ استخارے کا نتیجہ کیسے معلوم ہوتا ہے؟اور
استخارہ کی اصل اہمیت کیا ہے؟
ان تمام باتوں کے مذاکرے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی استخارہ
کی مسنون دعاء یادکرانے کا اہتمام بھی مطلوب ہے…
آج سے الحمدللہ… اس کالم کے ذریعہ … ’’تعلیم استخارہ‘‘ کی
یہ مبارک مہم شروع کی جا رہی ہے… باقی تفصیل مکتوبات اور اگلے کالم میں آجائے گی،
ان شاء اللہ …
جماعت کے تمام رفقاء کرام سے… درد مندانہ گزارش ہے کہ…
استخارہ کی دعاء ترجمہ کے ساتھ یاد کریں… استخارہ کا مسنون طریقہ سیکھیں … جن کو
دعاء یا د ہے… وہ کم ازکم دس افراد کو یہ دعاء یادکرائیں… پوری زندگی اپنے تمام
کاموں میں استخارہ سے روشنی، قوت اور طاقت لیں…کبھی بھی کسی دوسرے سے اپنے لئے
’’استخارہ‘‘ہرگز، ہرگز،ہرگز نہ کرائیں… یہ شیعوں کا طریقہ اور بُری بدعت ہے…ہاں!
اللہ والوں اور اہل علم سے مشورہ کرتے رہا کریں… جبکہ استخارہ خود کریں، ہردن
کریں، ہر رات کریں اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘پاتے چلے جائیں ، پاتے
چلے جائیں۔
لاالہ الا اللّٰہ، لاالہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد و آلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…574
استخارہ !مسلمانو!
استخارہ
* استخارہ
کا مطلب ومعنٰی…
* استخارہ،
فرشتوں جیسا بننے کا مجرب نسخہ…
* استخارہ
کے بارے میں مسند الہند
حضرت
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا کلام برکت…
* دوسروں
سے استخارہ کرانے کا کوئی فائدہ نہیں…
* استخارہ
میں خواب وغیرہ یا کچھ نظر آنا ضروری نہیں…
* استخارہ
کرنا انسان کی خوش قسمتی کی علامت…
* استخارہ
کے بارے میں محدث العصر
حضرت
مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی ایک وقیع عبارت…
* استخارہ
کی اشاعت وتعلیم کے لئے جماعت کے تحت
چلائی
جانے والی’’نورانی مہم‘‘ کے دو اہم مقاصد …
یہ
ہیں اس پرنور تحریر کے روشن مضامین…ملاحظہ کیجئے
تاریخِ اشاعت:
۳۰ربیع
الاوّل ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق30دسمبر 2016ء
استخارہ !
مسلمانو! استخارہ
اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی مانگنے کو ’’استخارہ‘‘ کہتے
ہیں… ’’استخارہ ‘‘ سے بندے کو اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ ملتا ہے… اور وہ فرشتوں جیسا
بنتا چلا جاتا ہے… یعنی اللہ تعالیٰ کا ’’مقرب‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’استخارہ فرشتوں جیسا بننے کے لئے
ایک تیر بہدف مجرّب نسخہ ہے جو چاہے آزما کر دیکھ لے۔‘‘
(حجۃ اللہ البالغہ)
وجہ اس کی یہ ہے کہ استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے
نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے… فرشتے بھی
ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتے ہیں… اور استخارہ کرنے والا بھی
اپنی رائے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے اس کی مرضی اور خیر مانگتا ہے، پس جو بندہ بکثرت
استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتہ صفت ہو جاتا ہے…
( مفہوم حجۃ اللہ البالغہ)
ایک بڑی مصیبت سے نجات
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’استخارہ ‘‘ کی بڑی حکمت یہ بتائی ہے کہ… اس
کے ذریعے انسان کو فال نکالنے کے عمل سے نجات ملتی ہے… زمانہ جاہلیت میں مشرکین
تیروں کے ذریعہ فال نکالتے تھے… کوئی سفر ہوتا یا تجارت، کوئی شادی طے کرنی ہوتی
یا کوئی اور فیصلہ تو وہ کعبہ شریف کے مجاور کے پاس جاتے… اس مجاور کے پاس ایک
تھیلے میں کچھ تیر رکھے رہتے تھے …بعض تیروں پر لکھا ہوتا تھا ’’اَمَرَنِیْ
رَبِّیْ‘‘ … اور بعض پر لکھا ہوتا تھا ’’نَہَانِیْ رَبِّیْ‘‘… اور بعض تیر خالی
ہوتے… مجاوروہ تھیلا ان کے سامنے رکھتا وہ ہاتھ ڈال کر تیر نکالتے…
اگر’’اَمَرَنِیْ رَبِّیْ‘‘ والا تیر نکلتا
تو کہتے کہ یہ کام بہتر ہے کیونکہ’’اَمَرَنِیْ رَبِّیْ‘‘ کا مطلب ہے میرے رب نے مجھے حکم فرمایا ہے… اور
اگر ’’نَہَانِیْ رَبِّیْ‘‘( میرے رب نے مجھے منع فرمایا ہے) والا تیر نکلتا تو وہ
اس کام سے رُک جاتے اور اگر خالی تیر نکلتا تو وہ دوبارہ فال نکالتے… اس عمل کو
’’اِسْتِقْسَام بِالْاَزْلَام ‘‘ کہا جاتا تھا… یعنی تیروں سے قسمت معلوم کرنا…
قرآن مجید کی سورۂ مائدہ میں اس عمل کو حرام قرار دیا گیا کیونکہ اس میں دو بڑی
خرابیاں تھیں…
١
یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے، کیونکہ جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈال کر
تیر پکڑا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر تو ضرور ہاتھ آئے گا…
٢
اس میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افتراء باندھنا ہے… اللہ تعالیٰ نے کہاں حکم
فرمایا اور کہاں منع فرمایا؟ تیروں کی عبارت کو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قرار دے دینا
اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے اور یہ حرام ہے…
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ’’فال ‘‘ کی جگہ ’’استخارہ‘‘ کی
تعلیم دی… اور اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ اپنے علیم رب سے رہنمائی کی التجا
کرتا ہے اور اپنے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتا ہے تو گویا کہ وہ اپنی
مرضی چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے در پر جا پڑتا ہے کہ… یا اللہ! آپ کے نزدیک جو خیر
ہو وہ عطاء فرما دیں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد اور رہنمائی ضرور فرماتے
ہیں۔ (خلاصہ حجۃ اللہ البالغہ)
معلوم ہوا کہ… استخارہ ایک انسان کو قسمت معلوم کرنے کے
شرکیہ طریقوں سے بچاتا ہے… اور اسے خوش قسمت بھی بناتا ہے… پس ہر مسلمان کو اپنے
جائز کاموں میں کثرت سے خود استخارہ کرنا چاہیے اور دوسروں سے استخارہ نکلوانے سے
بچنا چاہیے …کیونکہ دوسروں سے استخارہ کرانے کا نہ کوئی مطلب ہے اور نہ فائدہ… اور
نہ ہی استخارہ سے دوسروں کو کوئی خیر یا فیصلہ معلوم ہوتا ہے… پھر جو لوگ اپنے
گمان کو اللہ کا فیصلہ قرار دے دیتے ہیں وہ اوپر فال والے معاملے میں جو کچھ لکھا
گیا ہے اس میں غور کریں۔
اہل علم نے وضاحت فرمائی ہے کہ استخارہ میں نہ کوئی خواب
آنا ضروری ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی علامت ظاہر ہونا ضروری ہے… یہ جو لوگوں نے
بنا رکھا ہے کہ گردن اِدھر مڑ جائے یا اُدھر یہ سب غلط باتیں ہیں۔
ایک بات سوچیں
لوگ ہاتھوں کی لکیروں سے قسمت معلوم کرتے ہیں… کچھ لوگ
ستاروں سے اپنی تقدیر پوچھتے ہیں… کچھ لوگ تاریخوں اور اعداد سے قسمت کا حال پتا
کرتے ہیں… کوئی طوطے اور پرندے سے مدد لیتے ہیں… وجہ کیا ہوتی ہے؟ …بس یہی کہ کہیں
سے اچھی قسمت کی کوئی خبر مل جائے… حالانکہ ان چیزوں سے بد قسمتی اور بد نصیبی تو
ملتی ہے اچھی قسمت نہیں… جبکہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’استخارہ‘‘ کو خوش قسمتی کی علامت قرار دیا
ہے… ارشاد فرمایا:
مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ اِسْتَخَارَتُہُ اللّٰہَ
’’یعنی ابن آدم کی خوش قسمتی میں
سے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا رہے۔‘‘
اور فرمایا:
وَمِنْ شِقْوَۃِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُہُ اسْتَخَارَۃَ
اللّٰہِ۔
’’ابن آدم کی بد نصیبی میں سے یہ
بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے۔‘‘
( ترمذی، مسند احمد)
اب آپ سوچیں ، غور فرمائیں کہ ایک طرف وہ طریقے ہیں …جن سے
قسمت بنتی نہیں بلکہ ان کے جھوٹے دعوے کے مطابق بھی… صرف قسمت معلوم ہوتی ہے…
کیونکہ نہ ہاتھ کی لکیریں تبدیل ہوتی ہیں اور نہ ستاروں کے برج اور نہ پیدائش کی
تاریخیں… جبکہ دوسری طرف ایک عمل ہے جس کے ذریعہ …خوش نصیبی ملتی ہے… یعنی قسمت
بنتی ہے… انسان کے کام درست ہوتے ہیں …اس کے فیصلوں میں روشنی آتی ہے… اور وہ
اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘ پاتا ہے … اور اللہ تعالیٰ کے قرب سے بڑھ کر اپنی قسمت اور
کیا ہو سکتی ہے؟
استخارہ میں خیر ہی خیر ہے
استخارہ کے بارے میں حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ
اللہ کی یہ عبارت مکمل توجہ سے ملاحظہ
فرمائیں:
’’واضح ہو کہ استخارہ مسنونہ کا
مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمہ جو کام تھا وہ اس نے کر لیا اور اپنے آپ کو حق تعالیٰ
کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالے کر دیا، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ
داری سے سبکدوش ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اگرکوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص
سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق
اس کی اعانت بھی کرتا ہے، گویا استخارہ کیا ہے؟ حق تعالیٰ سے مشورہ لینا ہے، اپنی
درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کر دی، حق تعالیٰ سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے؟ اس
کا کرم بے نظیر ہے، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے، اب جو صورت انسان کے حق میں
مفید ہو گی ، حق تعالیٰ اس کی توفیق دے گا اس کی رہنمائی فرمائے گا، پھر نہ سوچنے
کی ضرورت، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہو گا وہی ہو گا،
چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے… اطمینان و سکون فی الحال حاصل
ہو یا نہ ہو…ہوگا وہی جو خیر ہو گا، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب، اسی لئے تمام
اُمت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیاہے ۔
( دور حاضر کے فتنے اور ان کا
علاج)
’’نورانی مہم‘‘ کے اغراض و مقاصد؟
سنت استخارہ کی تعلیم ، ترغیب اور اشاعت کے لئے جماعت میں
جو دس روزہ ’’نورانی مہم‘‘ چلائی گئی اس کے دو اہم مقاصد تھے…
پہلا یہ کہ… ہمارے محسن ہمارے آقا حضرت محمدمدنی صلی اللہ
علیہ وسلم نے… اپنے صحابہ کرام کو استخارہ
کی تعلیم اتنی اہمیت کے ساتھ دی جیسے کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تعلیم دیتے تھے… اور قرآن مجید کی
تعلیم دینا آپ کے لازمی فرائض میں سے تھا …مگر آج ہم مسلمان استخارہ کی اس عظیم
اور اہم نعمت سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں… اور اس کی وجہ سے ہمارے کاموں اور
ہمارے فیصلوں میں نور اور خیر کی بہت کمی ہو گئی ہے… شادی سے لے کر علاج تک کے
معاملات میں ہم غلطی اور دھوکے کا شکار ہوتے ہیں… اوراگر علاج سے پہلے ہم استخارہ
کی عادت ڈال لیں تو… آج ڈاکٹروں کے پاس اس قدر ہجوم نہ رہے… اور ہم ہر وقت ایک
ٹیسٹ کے بعد دوسرے ٹیسٹ میں پریشان نہ ہوتے رہیں… اور اگر شادیوں میں استخارہ آ
جائے تو ہر گھر سکون اور راحت کا گہوارہ بن جائے… یہ تو محض دو مثالیں ہیں…ہمیں دن
رات بہت سے کام پیش آتے ہیں… اگر ہم روز چار پانچ بار استخارہ کر لیا کریں تو
ہمارے قدم درست اُٹھیں گے اور ہمارے کاموں میں خیر ، برکت اور اللہ تعالیٰ کی مدد
آئے گی…
مگر شیطان نے استخارہ کو ایک ’’بوجھ ‘‘ بنا دیا ہے… لوگ
استخارہ کو حج کی طرح مشکل کام سمجھتے ہیں… اور اکثر مسلمانوں کو استخارہ کا طریقہ
اور استخارہ کی دعاء تک یاد نہیں… اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ’’استخارہ ‘‘
کی نعمت واپس دلانا یہ نورانی مہم کا پہلا مقصد تھا… جبکہ دوسرا مقصد یہ تھا کہ
آج کل استخارہ کے نام پر طرح طرح کے غلط کام شروع ہو چکے ہیں… سنا ہے ٹی وی پر
استخارہ کے نام سے پروگرام چل رہے ہیں …اس میں لوگ اپنے سوال بھیجتے ہیں اور کوئی
’’ لیپ ٹاپی بابا‘‘ ان کو استخارہ کے ذریعہ ( نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کے فیصلے
سناتا ہے کہ فلاں چیز خیر ہے اور فلاں شر… پہلے یہ معاملہ شیعوں میں بہت زیادہ تھا
انہوں نے مشرکین کی طرح فال نکالنے کے کئی طریقے گھڑے ہوئے ہیں… زیادہ معروف طریقہ
تسبیح کے دانوں اور گٹھلیوں سے خیر و شر معلوم کرنے کا ہے… اور وہ اسے استخارہ کا
نام دیتے ہیں… پھر اہل بدعت بھی اس غلطی میں کود پڑے… اور اب اچھے خاصے اہل حق
کہلوانے والے لوگ بھی اسی طرح کے استخارے کرواتے نظر آتے ہیں … حضرت آپ استخارہ
دیکھ کر بتائیں کہ… یہ تجارت اچھی ہے یا نہیں، یہ رشتہ اچھا ہے یا نہیں؟…
اب کسی کو استخارہ سے تو پتا چل نہیں سکتا کہ …تجارت اچھی
ہے یا نہیں، رشتہ اچھا ہے یا نہیں … اور اگر لوگوں کو سمجھائیں کہ…بھائی استخارہ
خود کیا جاتا ہے… اوراس طرح خیر اور شر کے فیصلے پوچھنا جائز نہیں بلکہ گناہ کا
کام ہے… اور استخارہ سے کوئی خیر پتا نہیں چلتی بلکہ خیر کا راستہ خود آسان اور
مقدر ہو جاتا ہے تو… لوگ یہ بات مانتے نہیں …اور فوراً اہل بدعت یا روافض کے پاس
پہنچ جاتے ہیں… تو اس مجبوری کو بہانہ بنا کر …اب کئی اہل حق نے بھی…لوگوں کے لئے
استخارے نکالنا شروع کر دئیے ہیں… حالانکہ انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے،
کیونکہ لوگوں کو… جب ہر معاملے میں مستقبل معلوم کرنے کی عادت پڑ جائے تو پھر وہ
’’استخارے‘‘ پر بریک نہیں لگاتے …بلکہ نجومیوں، کاہنوںاور جادوگروں کے دروازوں پر
جا گرتے ہیں…جبکہ مؤمن کے ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ… وہ بن دیکھے غیب پر ایمان
لائے…جب یہ شرط ختم ہو جائے اور ہمیشہ مستقبل معلوم کرنے کا شیطانی نشہ پڑ جائے تو
پھر… ایمان سے نکلنے میں دیر نہیں لگتی… بندہ طویل عرصہ سے…اہل اسلام کو اس کی
دعوت دے رہا ہے کہ خود استخارہ کریں… دوسروں سے استخارہ نہ کرائیں… ہمیں نہ کسی
عامل سے حسد ہے اور نہ کسی کی مقبولیت سے کوئی تکلیف… میں نے خود عملیات سیکھے
ہیں… اور آج کے کئی بڑے بڑے معروف عاملوں سے زیادہ عملیات کی سمجھ رکھتا ہوں …
کوٹ بھلوال جیل میں جب ہم کشمیری مجاہدین کے ساتھ تھے تو …سینکڑوں مجاہدین رجوع
کرتے تھے اور الحمد للہ جنات سے لے کر لا علاج امراض تک کا… منٹوں میں علاج ہو
جاتا تھا…
وہ سب اللہ تعالیٰ کے راستے کے مجاہدین تھے … اور مجھے ان
کی خدمت کر کے خوشی ہوتی تھی … اور اس علاج کے ضمن میں…ان کی نظریاتی اور اخلاقی
تربیت کا کام بھی آسان رہتا تھا… پاکستان آنے کے بعد … جب لوگ دوبارہ ان معاملات
میں رجوع کرنے لگے تو مجھے اپنے دینی، جہادی فرض کام کی وجہ سے… فرصت نہیں ملتی
تھی تو بعض کتابوں میں مجربات لکھ دئیے تاکہ… لوگ خود ہی فائدہ اٹھا لیں… اور میرا
وقت اس کام پر ضائع نہ ہو…دراصل قرآن مجید کی آیات … اور رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی مبارک دعاؤں کے ہوتے
ہوئے…کسی بھی علاج کے لئے … مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے…پھر بھی اُمت مسلمہ کے
اکابر نے…حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر ہمارے زمانے تک اپنے مجربات لوگوں کو
بتائے… تاکہ… لوگ ان سے بھی فائدہ اُٹھائیں… اور فائدہ اسی کو ملتا ہے جو خود… ان
دعاؤں اور وظائف کو پڑھے… مگر لوگ خود کچھ نہیں پڑھنا چاہتے… ان کی خواہش ہوتی ہے
کہ عامل ہی سارا کام کر دے اور وہ پیسے دے کر … ہر شفاء اور ہر خیر پا لیں…
لوگوں کے اس طرز عمل کی وجہ سے عاملوں کا دھندہ اور کام بڑھ
گیا ہے… اور اب ہر طرف عاملوں کے دروازوں پر لوگوں کی لائنیں ہیں… بے مقصد، لا
حاصل اور دین و آخرت سے غافل … نہ امت مسلمہ کی مظلومیت کا درد… نہ اسلام کے غلبے
کا کوئی شوق یا جنون… اور نہ اپنے ایمان اور اپنے حسن خاتمہ کی فکر… میں تو جہاد
کا کام چھوڑ کر عملیات میں مشغولیت کو گناہ سمجھتا ہوں… اور اکثر رجوع کرنے والوں
سے یہی عرض کرتا ہوں کہ مجھے معاف رکھیں اور جو عمل معلوم کرنا ہو میری کتابوں سے
فائدہ اُٹھا لیں… اور اپنی زندگی کو بامقصد اور مصروف بنا لیں ان شاء اللہ بہت سے
وہم اور بہت سی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی… اب جس طرح سے استخارہ کے نام پر طرح
طرح کی خرابیاں اور بدعات اُمت میں عام ہو رہی ہیں… اور لوگ تیزی سے نجومیت اور
کہانت کی طرف جا رہے ہیں… یہ سب کچھ تشویش ناک ہے … اُمت مسلمہ کو اس خطرے سے
آگاہ کرنا ’’نورانی مہم ‘‘ کا دوسرا مقصد تھا… الحمد للہ آج جبکہ مہم کا پانچواں
دن ہے… ماشاء اللہ بہت تسلی بخش اور حوصلہ افزاء نتائج سامنے آ رہے ہیں… کئی
مسلمانوں نے استخارہ کا طریقہ اور دعاء سیکھ لی ہے… کئی افراد نے کثرت استخارہ کو
اپنے معمولات کا حصہ بنا لیا ہے… اور کئی افراد نے اپنے استخارہ کے بہترین نتائج
سے بھی آگاہ کیا ہے… ابھی پانچ دن مزید باقی ہیں…
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مہم کا نور اور اس کی برکات عطاء
فرمائیں …آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
رنگ و نور…575
ایک درد
* ’’جہاد‘‘
نماز کی طرح اسلام کا ایک محکم اور قطعی فریضہ…
* ’’جہاد‘‘
کے لئے وہی ایمان کافی ہے جو نماز کے لئے کافی ہو…
* ’’جہاد‘‘
کے لئے کسی’’سپیشل ایمان‘‘ کا شریعت محمدی میں کوئی تقاضہ نہیں کیا گیا…
* ’’نماز‘‘
جہاد سے زیادہ ’’اہم‘‘ اور ’’جہاد‘‘ نماز سے زیادہ ’’افضل‘‘ …
*
سب سے اہم فریضہ یعنی ’’نماز‘‘ کے لئے سپیشل ایمان
* کی
کوئی قید نہیں تو جہاد کے لئے کیونکر ہوسکتی ہے؟…
* ایمان
بنانے کا سب سے اہم، ضروری اور مضبوط طریقہ، فرائض کی پابندی،
اور
فرائض میں سے ایک اہم فرض ’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘
* نماز
کے وقت کی طرح جہاد کا وقت بھی خود ہی آجاتا ہے، ایک اہم نکتہ…
* اُمت
محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معیار
اور نمونہ
* سیرت
نبوی و سیرت صحابہ رضوان اللہ علیہم
اجمعین نہ کہ بنی اسرائیل…
* بدر
واحد سمیت تمام غزوات تا قیامت روشن دلیل اور مثال ہیں…
* ایک
درد، ایک کڑھن، ایک فکر…
’’فریضۂ
جہاد‘‘ پر پڑے تلبیس کے پردے چاک کرتی ایک پُر مغزتحریر
تاریخِ اشاعت:
۷ربیع
الثانی ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق6جنوری 2017ء
ایک درد
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر نماز فرض فرمائی…وَاَقِیْمُو
الصَّلٰوۃَ… اور قائم کرو نماز کو…
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر جہاد فرض فرمایا…
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ…
فرض کیا گیا تم پر قتال…
یعنی نماز سے پہلے بھی ’’ایمان ‘‘ ضروری… بے ایمان کی نماز
نہیں ہوتی… اور جہاد سے پہلے بھی ’’ایمان‘‘ ضروری…بے ایمان کا جہاد نہیں ہوتا…
امید ہے کہ یہ بات آپ کے ذہن میں بیٹھ گئی ہو گی… اب آئیے اگلی بات کی طرف… نماز
کے لئے جتنا ایمان ضروری ہے بس اتنا ہی ایمان جہاد کے لئے ضروری ہے… جہاد کے لئے
کسی الگ سپیشل ایمان کی ضرورت نہیں… بلکہ… جتنے ایمان سے نماز ادا ہو جاتی ہے اتنے
ایمان سے جہاد بھی ادا ہو جاتا ہے… ایک آدمی نماز ادا کر رہا ہے معلوم ہوا کہ وہ
خود کو ایمان والا سمجھتا ہے… اب اگر اسے جہاد کے لئے کہا جائے تو وہ فوراً اپنے
ایمان کا انکار کر دے اور یہ کہے کہ… پہلے میںایمان بناؤں گا پھر جہاد کروں گا یا
پھر جہاد کو مانوں گا… تو یہ بڑی خطرناک غلطی اور گمراہی ہے… اُمید ہے کہ ان شاء
اللہ یہ بات بھی آپ کے دل میں اتر گئی ہو گی… اب آئیے اگلی بات کی طرف…
نماز زیادہ افضل ہے یا جہاد؟… اس بات پر تو اہل علم کا
اتفاق ہے کہ نماز کی فرضیت بھی قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے… اور جہاد بمعنیٰ قتال
فی سبیل اللہ کی فرضیت بھی قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے… چنانچہ یہ دونوں دین
اسلام کے اہم فرائض ہیں… ان کا انکار کرنا ’’کفر‘‘ ہے… اور ان کو چھوڑنا بہت بڑا
کبیرہ گناہ ہے… مگر ان دونوں میں سے زیادہ اہم کون سافریضہ ہے… حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نے کبھی نماز کی وجہ سے جہاد کو
نہیں چھوڑا… اور کبھی جہاد کی وجہ سے نماز کو نہیں چھوڑا… ہاں! جہاد کی مشقت میں
چند نمازیں قضاء ضرور ہوئیں مگر ان کو فوراً بعد میں ادا کر لیا گیا… اور ان کے
قضاء کروانے پر مشرکین کو سخت بددعاء دی گئی…
جہاد اور نماز کا آپس میں کوئی ٹکراؤ بھی نہیں… البتہ
دونوں ایک دوسرے کو قوت اور سہولت دیتے ہیں… چنانچہ جہاد میں ایسی نماز کی بھی
اجازت ہے…جو چلنے پھرنے اور لڑنے سے نہیں ٹوٹتی… اور دو قسطوں میںادا ہوتی ہے… اسے
’’صلوٰۃ خوف‘‘ کہتے ہیں… معلوم ہوا کہ جہاد بھی بہت اہم ہے… اور نماز بھی بہت اہم
ہے… مگر سوال وہی کہ ان دونوں میں سے زیادہ اہم کون سا فریضہ ہے؟… اہل علم کے
مختلف اقوال ہیں… بندہ کم علم کو جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ… نماز جہاد سے
زیادہ ’’اہم‘‘ ہے اور جہاد نماز سے زیادہ ’’افضل‘‘ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب…
اب جب کہ ہم یہ مان رہے ہیں کہ… نماز زیادہ اہم ہے تو پھر
نماز کے لئے زیادہ ایمان کی ضرورت ہو گی یا جہاد کے لئے؟ …اگر آج ہم کسی مسلمان
سے کہیں کہ بھائی نماز ادا کرو… وہ جواب دے کہ نہیں جی!… میرا تو ایمان ہی نہیں
بنا… میں تو کچا مسلمان ہوں پھر میں ایسے کچے ایمان اور اسلام کے ساتھ مسجد میں
کیسے جاؤں؟… اللہ تعالیٰ کے سامنے کیسے کھڑا ہوں؟ … میں پہلے ایمان بناؤں گا پھر
نماز ادا کروں گا… آپ بتائیے کہ اس آدمی کی بات ٹھیک ہے؟… آپ یہی جواب دیں گے
کہ… نہیں جی! اس کی بات ٹھیک نہیں ہے… ایمان لانے کے بعد ایمان بنانے کا سب سے
ضروری طریقہ یہ ہے کہ… فرائض کی پابندی کرو… نماز ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو،
زکوٰۃ دو، حج کرو، جہاد کرو… جب تم فرائض کی پابندی کرتے چلے جاؤ گے تو…تمہارا
ایمان بنتا چلا جائے گا… لیکن اگر تم فرائض چھوڑ کر ایمان بنانے کی کوشش کرو گے تو
قیامت تک تمہارا ایمان نہیں بنے گا… نماز اور جہاد سے پہلے ایمان لانے کی ضرورت
ہے… اب ایمان بنانے کے لئے تمہیں نماز بھی ادا کرنی ہو گی اور جہاد بھی کرنا ہو
گا… اور یہ کہنا کہ پہلے ایمان بناؤں گا پھر جہاد کروں گا… پہلے ایمان بناؤں گا
پھر نماز ادا کروں گا… یہ بالکل غلط شیطانی وسوسہ ہے جو وہ انسانوں کو گمراہ کرنے
کے لئے… ان کے دل میں ڈالتا ہے…دیکھو! سورۂ حجرات میں واضح اعلان ہو رہا ہے کہ…
’’ایمان والے تو صرف وہی ہیں جو
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے
مال اور جان سے لڑے یہی لوگ سچے ہیں۔ ‘‘( الحجرات: ۱۵)
اُمید ہے کہ ان شاء اللہ یہ بات بھی آپ سمجھ گئے ہوں گے
…اب آئیے اگلی بات کی طرف… نماز تب فرض ہوتی ہے جب نماز کا وقت داخل ہو جائے…
بالکل جہاد بھی اس وقت فرض ہوتا ہے جب جہاد کا وقت آ جائے… مگر یہ کون بتائے گا
کہ وقت آیا یا نہیں؟ تو اس میں فطری بات یہ ہے کہ… وقت خود آ جاتا ہے نہ وہ کسی
کے اعلان کا محتاج ہے اور نہ کسی کی تصدیق کا… ہر دن صبح صادق خود آ جاتی ہے…
ساتھ فجر کی نماز بھی اتر آتی ہے… سورج اللہ تعالیٰ کے حکم سے زوال پذیر ہوتا ہے
تو ظہر آ جاتی ہے… اسی طرح جہاد کا وقت بھی خود آ جاتا ہے… کسی کے اعلان یا کسی
کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی… جہاد کے اوقات خود قرآن مجید نے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ نے طے فرمادئیے ہیں … اور یہ
وہ اوقات ہیں جو ہر زمانے میں آتے رہتے ہیں…جس طرح نماز کے اوقات ہر زمانے میں
آتے رہتے ہیں… اب کسی نے نماز نہ پڑھنی ہو… اور وہ اعلان کر دے کہ جی! ہم تو
حالات کے بھنور میں پھنس گئے ہیں … اور ہم اب بنی اسرائیل سے روشنی پائیں گے… اور
بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ…اپنے گھروں میں نماز ادا کرو… اور صرف دو نمازیں ادا
کیا کرو…ہم چونکہ کچے مسلمان ہیں… مسجد نبوی ہمارے لئے مثال نہیں بن سکتی… اس لئے
ہمیں بہت دور، بہت پیچھے جا کر اپنے لئے مثال اور روشنی ڈھونڈنی ہو گی… ہمیں بنی
اسرائیل کے دور میں داخل ہو کر ان سے سبق پڑھنا ہو گا… اور بنی اسرائیل کو حکم تھا
کہ ’’ وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً‘ ‘ … کہ اپنے گھروں میں نماز ادا کرو…
ہم بھی آج سے ہر نماز گھر میں پڑھا کریں گے… اور بنی اسرائیل کے لئے چونکہ دو
نمازوں کا حکم تھا تو ہم بھی پانچ کی جگہ دو نمازیں پڑھا کریں گے… آپ بتائیے کہ
یہ بات درست ہے یا غلط؟… اگر یہ غلط ہے تو پھر جہاد سے جان چھڑانے کے لئے… خود کو
بنی اسرائیل کے زمانے میں کیوں لے جایا جا رہا ہے؟… اگر صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین سے مثال اور روشنی لینی ہے
تو نماز میں بھی لینی ہو گی… اور جہاد میں بھی… اور اگر بنی اسرائیل سے روشنی اور
مثال لینی ہے تو… وہ نماز میں بھی لینی ہو گی اور جہاد میں بھی… یہ نہیں ہو سکتا
کہ نماز کے بارے میں تو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مثال بنایا جائے… اور جہاد کے بارے میں …
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اپنا رشتہ اور تعلق توڑ کر… خود کو بنی
اسرائیل کا پیروکار بنا دیا جائے… بات بالکل واضح ہے…حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو مثال بنائیں گے تو نماز
کا وقت بھی نظر آ جائے گا… اور جہاد کا وقت بھی… مگر چونکہ جہاد مشکل فریضہ ہے…
اس لئے لوگ جہاد سے اپنی جان بچانے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ…ابھی جہاد کا وقت نہیں
آیا… ان سے پوچھا جائے کہ جہاد کا وقت کب آتا ہے؟…کفر بھی موجود ہے اور اس کا
فتنہ بھی… مسلمانوں پر حملے بھی موجود ہیں اور قبضے بھی…شعائر اسلام پر پابندی بھی
ہے… اور حرمتوں کی پامالی بھی… اور ان سے پوچھا جائے کہ اگر آپ کے نزدیک جہاد کا
وقت کبھی آ بھی گیا تو آپ نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ جہاد کی تیاری تو
ہر وقت اور ہر حال میں فرض اور لازم ہے… اُمید ہے کہ ان شاء اللہ یہ بات بھی آپ
کے دل و دماغ میں سما گئی ہو گی۔
اب آئیے اگلی بات کی طرف… اوپر جو چند باتیں عرض کی گئیں
ان کا مقصد کسی کی تنقیص یا توہین نہیں… بس دل میں یہ درد اور کڑھن ہے کہ…کوئی
مسلمان اس حال میں نہ مرے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کا منکر ہو… قرآن مجید کی ایک
ہزار کے لگ بھگ جہادی آیات کا انکار… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی جہادی سیرت کا انکار… حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کی ہزاروں جہادی احادیث کا
انکار… اسلام کے ان غزوات کا انکار جن پر قرآن مجید نے سورتیں نازل فرمائیں… کیا
اللہ تعالیٰ نے اتنی آنکھیں بھی نہیں دیں کہ…مسلمانوں کو وہ تلوار نظر آ جائے جو
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے ہاتھ مبارک میں اٹھائی اور چلائی… کیا مسلمانوں کی آنکھیں اس خون کو نہیں
دیکھ رہیں جو جہاد میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ٹپکا… اگر یہ سب کچھ نظر آ رہا
ہے تو بات ہی ختم… آپ ان لوگوں کا کیوں اعتبار کرتے ہیں جو آپ کے آقا حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کے…عملی
مخالف ہیں… ذرا دل پر ہاتھ رکھیں… اگر اسلحہ اٹھانا ہر حال میں دہشت گردی ہے
تو…حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
جو اسلحہ اٹھایا ، جو اسلحہ چلایا، جو اسلحہ سکھایا، جو اسلحہ خریدا، جو اسلحہ
سجایا، جو اسلحہ بنایا… اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اے مسلمانو! آپ کے محبوب نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں گیارہ
تلواریں تھیں… تو وہ لوگ آپ کی کس طرح سے درست رہنمائی کر سکتے ہیں جو دن رات…
تلوار اور اسلحہ کے خلاف ذہن سازی کرتے ہیں… اور نعوذ باللہ حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کے غزوات کوبھی… اپنے لئے مثال
نہیں سمجھتے… کیا میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد میں نکلنا… بار بار نکلنا اور زخم
کھانا… یہ اُمت کے لئے نہیں تھا؟… کیا یہ اُمت کے لئے مثال نہیں ہے؟… تو کیا نعوذ
باللہ، نعوذ باللہ یہ سب کچھ فضول تھا؟… اے مسلمانو! میڈیا، شوبز اور کرکٹ کی بدبو
سے باہر نکل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات مبارکہ کو پڑھو… انہی غزوات کو اللہ
تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے لئے ’’اسوہ حسنہ‘‘ اور بہترین مثال بنایا ہے۔
ٹھیک ہے آپ جہاد نہیں کر سکتے تو… اس پر توبہ، استغفار کر…
اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق مانگو… اور دل میں شرمندگی اور ندامت اختیار کرو…
مگر یہ کونسا دین ہے کہ…خود کو کچا مسلمان کہہ کرجہاد کا انکار کرو اور پھر اپنے
کارناموں پر فخر بھی کرو… اور خود کو سب سے افضل اور اعلیٰ بھی سمجھو… ہائے کاش !
ہائے کاش! ہائے کاش!… کوئی مسلمان قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت کا انکار نہ کرے… بس
یہی درد ہے، یہی فکر ہے…اور اسی کے لئے یہ چند باتیں لکھی ہیں… یا اللہ! قبول
فرما… یا اللہ! ہم سب پر رحم فرما …آمین یا ارحم الراحمین۔
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…577
بھاری اعمال ناموں والے
خ زندگی
اور موت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں…
خ زندگی
بغیر موت کے عذاب اور موت بلا زندگی بے مقصد…
خ خوش
نصیب وہ جس کا جینا مرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہو…
خ سلطان
العلماء حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور
سلطان العارفین حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب
نور اللہ مرقد ھما کی رحلت…
خ بزرگوں
کی رحلت کے وقت کیے جانے والے
کاموں
کی تفصیل اور دس نکاتی نصاب…
خ حسینوں
کے خطوط…
اسلامی
معاشرت کے چند اہم اور خوبصورت پہلوؤں پر مشتمل ایک معطر تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۱ربیع
الثانی ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق20جنوری 2017ء
بھاری اعمال ناموں والے
اللہ تعالیٰ نے ’’موت ‘‘ کو بھی پیدا فرمایا… اور زندگی کو
بھی… موت نہ ہوتی تو زندگی عذاب بن جاتی… اور زندگی نہ ہوتی تو موت بے مقصد رہ
جاتی…زندگی بھی ضروری، موت بھی ضروری… زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور موت بھی
اللہ تعالیٰ کی مخلوق… بس خوش نصیب ہے وہ… جس کا جینا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو
اور مرنا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے…
اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
ایک کی خوشی سب کا غم
جب کوئی ’’ اللہ والا‘‘ مومن دنیا سے اٹھتا ہے… تو ہر طرف
غم پھیل جاتا ہے… آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی… اور ایمان والے کمی، غم اور
صدمہ محسوس کرتے ہیں… مگر وہ ’’اللہ والا‘‘ بہت خوش ہوتا ہے …وہ جس کا تھا اس کے
پاس چلا گیا…وہ تکلیف سے راحت کی طرف منتقل ہو گیا… وہ فراق سے نکل کر وصال کی
دنیا میں پہنچ گیا… وہ ’’کرنے ‘‘ کی مشقت سے نکل کر ’’ پانے ‘‘ کے مقام پر جا
اترا… وہ دکھوں اور غموں کی وادی سے نکل کر…آرام اور اکرام کے باغات میں جا
پہنچا… موت آئی اور اسے اپنے نرم سینے سے لگا کر… اس کے محبوب کے پاس چھوڑ آئی…
وہ خوش خوش چلا گیا… پیچھے والے روتے ، تڑپتے رہ گئے… یہی ’’ماضی ‘‘ میں ہوتا رہا
، یہی ’’ حال‘‘ میں ہو رہا ہے… اور یہی ’’مستقبل ‘‘ میں ہوتا رہے گا…
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ
دو دن میں دو صدمے
اُمت مسلمہ کو دو دن میں دو بڑے صدمے پہنچے… پہلے خبر آئی
کہ سلطان العلماء حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحلت فرما گئے… ابھی غمزدہ
مسلمان ان کی مرقد سے اٹھے ہی تھے کہ خبر آ گئی… سلطان العارفین حضرت اقدس مولانا
عبد الحفیظ مکی صاحب وصال فرما گئے…
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ … اِنَّا لِلهِ
وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کو مغفرت کا بلند مقام … اور
اُمت مسلمہ کی طرف سے بہترین بدلہ عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُمْ وَارْحَمْھُمْ… اَللّٰھُمَّ لَا
تَحْرِمْنَا اَجْرَھُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَھُمْ
کیا کرنا چاہئے؟
جب ایسے بھاری اعمال ناموں والے بابرکت اکابر کے انتقال کی
خبر آئے تو کیا کرنا چاہیے؟
١
فوراً ان کے لئے دعاء مغفرت اور ایصال ثواب … جس قدر زیادہ ہو سکے۔
٢ اگر
کسی بھی طرح نماز جنازہ میں شرکت کا موقع ہو تو اس میں ہرگز کوتاہی نہ کی جائے…
سفر، خرچے اور تکلیف کو نہ دیکھا جائے… ان بزرگوں کے جنازے، مغفرت اور خیر کے
دروازے ہوتے ہیں… وہاں جانے والوں کو… بہت کچھ عطاء فرمایا جاتا ہے… کیونکہ جو بھی
جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نام اور دین کی نسبت سے جاتا ہے… اس لئے اللہ تعالیٰ کی
طرف سے اسے انعام یا انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
٣
زندگی میں کبھی ان بزرگوں کو کوئی تکلیف پہنچائی ہو یا ان کی حق تلفی یا ناقدری کی
ہو تو… وفات کی خبر ملتے ہی استغفار کریں… اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور ان
بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کریں۔
٤
اگر زندگی میں ان وفات پانے والے بزرگ کی طرف سے … آپ کو کوئی تکلیف ، ایذاء یا
پریشانی پہنچی ہو …اور اس کا اثر دل میں باقی ہو تو… وفات کی خبر ملتے ہی فوراً ان
کو معاف کر دیں… بزرگ وہ نہیں ہوتا جس سے غلطی نہ ہوتی ہو…اللہ والا وہ نہیں ہوتا
جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو… ولی اور مقرب وہ نہیں ہوتا جس کی ہر عادت ہر کسی
کو پسند ہو… اولیاء اور مقربین سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں، گناہ بھی ہوتے ہیں… ان کی
کئی عادات کئی افراد کے لئے ناپسندیدہ بھی ہوتی ہیں … مگر پھر بھی وہ اپنے اخلاص ،
اپنی توبہ اور اپنے مقبول عمل کی وجہ سے… اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں… ان کی خیر
ان کے شر پر غالب ہوتی ہے… ہم اگر ان کی چند عادتوں یا باتوں کو چھوڑ کر ان کے
دینی کام، دینی خدمات اور خیروں پر نظر ڈالیں تو… دور دور تک ان کا فیض پھیلا نظر
آتا ہے… ابھی دو دن پہلے میں… حضرت اقدس مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے بارے میں سوچ رہا تھا… ان کے دینی کارنامے
اور ان کی اعلیٰ صفات تو اپنی جگہ… ہم اگر ان کے صرف دو چار شاگردوں کو ہی دیکھ
لیں تو… عقل ان کی خوش قسمتی پر حیران رہ جاتی ہے… حضرت مفتی ولی حسن ، حضرت
مولانا سلیم اللہ خان صاحب، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر… رحمہم اللہ … یہ سب حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد اور ان کی علمی نسبت کو عالم بھر میں
پھیلانے والے تھے… یہ صرف تین نام عرض کئے… اگر تفصیل میں جائیں تو سینکڑوں نام مل
جائیں گے… مگر آپ صرف ان تین حضرات کے شاگردوں کو شمار کریں، ان کی علمی اور دینی
خدمت کو دیکھیں … اور پھر یہ سب کچھ حضرت مدنی رحمہ اللہ کے پلڑے میں ڈالیں تو… کتنا بھاری اعمال نامہ
سامنے آتا ہے… اس لئے سطحی باتوں کو چھوڑ کر ان اکابر حضرات کی ہمیشہ قدر کرنی
چاہیے، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی…
٥
جب کسی اللہ والے کی وفات کی خبر سنیں تو اوپر والے چار حقوق ادا کرنے کے بعد…
فوری طور پراس اللہ والے سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں… مثلاً ان کے حالات زندگی
پڑھیں… ان کے بیانات سنیں… ان کی تحریریں اور کتابیں پڑھیں… دراصل وفات کے وقت اور
ابتدائی دنوں میں… دل اور روحانی لہروں کا ایک جوڑ ہوتا ہے اور دل میں نرمی ہوتی
ہے تو بات زیادہ اثر کرتی ہے۔
٦
اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی وسعت دی ہے تو… وفات پانے والے بزرگ کے اہل خانہ
اور پسماندگان کی خبر لیں… اگر ان کو ضرورت مند پائیں تو اخلاص اور خاموشی سے ان
کی خدمت کریں… یہ عمل آپ کو بہت سی برکات اور سعادتوں سے ہمکنار کر دے گا… ان شاء
اللہ
٧ کسی بھی بزرگ اور ولی کی وفات کے
بعد… فتنوں سے حفاظت کی دعاء کا اہتمام بڑھا دیں… خصوصاً اس وقت جبکہ آپ کا ان
بزرگ سے براہ راست تعلق رہا ہو… بزرگوں کے جانے کے بعد… زور دار فتنے حملہ آور
ہوتے ہیں…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا
ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔
٨ کسی بزرگ کی وفات کے وقت ان کی
تعزیت کرتے ہوئے یا ان کی صفات بیان کرتے ہوئے یا ان پر کوئی مضمون لکھتے ہوئے…
دیگر بزرگوں پر تنقید اور طعنہ زنی نہ کریں… کم از کم موت کے ان لمحات میں… منفی
ذہنیت کا شکار نہ ہوں… اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی عزت
کریں… تحقیر ، تذلیل اور طعنہ زنی کی عادت سے توبہ کریں۔
٩
ان بزرگوں کے پسماندگان اور اہل خانہ سے
مسنون تعزیت کریں۔
١٠ جو اللہ والے، بزرگ، اکابر ، اولیاء زندہ ہیں… ان کی
قدر کرنے کی نیت کر لیں۔
یہ دس باتیں فوری طور پر ذہن میں آئیں تو عرض
کر دیں…ورنہ اس بارے میں حقوق اور بھی ہیں، اگر دل میں سچی محبت ہو تو…بہت سے
راستے خود سامنے آ جاتے ہیں۔
حسینوں کے خطوط
رات ارادہ تھا کہ… آج کی مکمل مجلس ’’رنگ ونور‘‘ حضرت اقدس
مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ کے بارے میں ہو گی… رات مغرب کے بعد
ماہنامہ المرابطون میں ایک مختصر سا مضمون اسی موضوع پر لکھا… اور آج مفصل رنگ و
نور کا ارادہ تھا… مگر رات ساڑھے دس بجے کے قریب… حضرت اقدس مولانا عبد الحفیظ مکی
صاحب کے سانحۂ ارتحال کی خبر بھی آگئی… تب دل مزید غمگین اور ذہن منتشر ہو گیا…
دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کی الحمد للہ توفیق ملی مگر… غم اور یادوں کے طوفان نے
مضمون بکھیر دیا… ویسے بھی مجھ جیسے بے علم اور بے معرفت انسان کے لکھنے سے کیا
بنتا ہے؟… حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس زمانے کے ’’سلطان العلماء ‘‘ تھے…
مسند تدریس و علم کے امام اور میرے استاذوں کے استاذ… ان کی بلند پایہ علمی،
روحانی اور انتظامی شخصیت پر اہل علم ہی بہتر لکھ سکتے ہیں اور اُمید ہے کہ ان شاء
اللہ لکھیں گے… ان کے کئی نامور اور فیض رساں شاگرد تو ان کی زندگی میں ہی انتقال
فرما گئے… حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب… حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید… حضرت
مفتی نظام الدین شامزئی شہید… رحمہم اللہ …وغیرہم…
مگر ہزاروں کی تعداد میں آپ کے تلامذہ حیات اور برسرعمل
بھی ہیں… بندہ کو حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ سے… صرف چند
ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا… اور حضرت کا ایک یادگار خط بھی میرے پاس محفوظ ہے…
دوسری طرف حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب نور اللہ مرقدہ سے بھی دیرینہ تعلق رہا
ہے… وہ قابل رشک اخلاق، وسعت قلبی اور حسن توفیق کے ’’مُرقَّع ‘‘ تھے… ان کے بارے
میں اصحاب معرفت زیادہ بہتر لکھیں گے ان شاء اللہ…
میرے پاس تو بس کچھ یادیں ہیں… اور کچھ خطوط…
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…578
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ
* استخارہ
ایک عظیم الشان سنت اور نور…
* استخارہ
کے بارے میں مسلمانوں کی سستی اور غفلت…
* اصل
مسنون استخارہ کا طریقہ اور دعاء…
* استخارہ
میں کی گئی شیطانی پیوند کاری،
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ
کی زبانی…
* استخارہ
میں پیوندکاری کے اسباب ومحرکات… کثرت سوال کی نحوست…
* حدیث
استخارہ کی تشریح…
* حضرت
بنوری رحمہ اللہ کی تحریر کا ایک اہم اقتباس…
* استخارہ
کیوں ملا؟ استخارہ کے بارے میں پھیلی بدعات…
* طالع
سعید اور خوش نصیب کون؟…
* آگے
کا حال معلوم کرنے کا شوق گمراہی ہے…
*
استخارہ کے بارے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ایک اہم اقتباس…
* ایک
اہم نکتہ… استخارہ کی مسنون دعائیں…
استخارہ
کی عظمت، اہمیت، اغراض ومقاصد، تفصیلات اور استخارہ
کے
نام پر پھیلی بدعات ورسومات سے پردہ اٹھاتی ایک جامع تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۸ربیع
الثانی ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق27جنوری 2017ء
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ
اللہ تعالیٰ ہی سے ’’خیر ‘‘ کا سوال ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ۔
استخارہ کا موضوع
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ’’استخارہ‘‘ کی نورانی مہم چلی…بہت
سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا… کئی مسلمانوں نے ’’استخارہ‘‘ کی سنت کو سمجھا اور
اپنایا… اب یہ تقاضا زور پکڑ رہا ہے کہ ’’نورانی مہم‘‘ کے دو رنگ و نور اور
مکتوبات یکجا شائع کر دئیے جائیں… استخارہ کے بارے میں بعض ضروری باتیں آج کے رنگ
و نور میں عرض کی جا رہی ہیں … پھر ان شاء اللہ ان سب کو ایک رسالے کی صورت میں
شائع کر دیا جائے گا… اللہ تعالیٰ آسان فرمائیں، قبول فرمائیں…{ FR 3302 }؎
تازہ واقعہ
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی… ان کی عمر ساٹھ سال سے کچھ اوپر
ہے… ان کی کئی بیٹیاں اور بیٹے عالم وفاضل ہیں… اور خود وہ بھی ماشاء اللہ پکے
دیندار، مسجد کے خدمتگار اور بزرگوں کی خدمت میں حاضر باش…انہوں نے اپنی ایک فکر
اور پریشانی کا تذکرہ کیا کہ… فلاں کام کرنا چاہتا ہوں مگر راستہ نہیں مل رہا… آپ
مشورہ دیں… ان سے عرض کیا کہ استخارہ کریں… ان شاء اللہ راستہ بھی مل جائے گا اور
مدد بھی… ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں… مگر پھر کچھ پریشان سے ہو کر کہنے
لگے… استخارہ کا کیا طریقہ ہے؟ ان کو عرض کیا کہ بالکل آسان طریقہ ہے… وہ طریقہ
ان کو بتا دیا …پوچھنے لگے: پھر مجھے اس کا نتیجہ کیسے معلوم ہو گا؟ خواب آئے گا
یا کچھ اور… عرض کیا:…نہ خواب ضروری نہ الہام بس ’’خیر‘‘ آ جائے گی، ان شاء اللہ…
تفصیل سے بات سمجھائی تو وہ خوش ہوئے اور سمجھ گئے… مگر مجھے حیرانی ہوئی کہ… اتنی
عمر مسجد اور دینداری کے ماحول میں گذارنے والے مسلمان کو بھی استخارہ کا علم نہیں
… جبکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو… اتنی اہمیت سے استخارہ
سکھاتے تھے جیسے کہ یہ قرآن پاک کی آیت ہو… قرآن مجید کے بعد جو صحیح ترین کتاب
امت مسلمہ کے پاس ہے… وہ ہے ’’صحیح البخاری‘‘ جسے ہم ’’بخاری شریف‘‘ کہتے ہیں …
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے استخارہ کی
حدیث اور دعاء اس کتاب میں تین جگہ بیان فرمائی ہے… اس حدیث میں استخارہ کا مکمل
طریقہ اور نصاب موجود ہے… آج کے رنگ و نور میں ان شاء اللہ … یہ حدیث شریف بیان
کی جائے گی تاکہ ہم اونچی اور صحیح سند کے
ساتھ ’’استخارہ ‘‘ کی نعمت اور دعاء حاصل کر سکیں۔
بدعت کی نحوست
’’سنت‘‘ ایک ’’نور‘‘ ہے… جبکہ
’’بدعت‘‘ ایک بڑی گمراہی اور اندھیرا ہے… ہمارے آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
اپنی امت کو ’’استخارہ‘‘ جیسی طاقت اور
روشنی دے گئے… تاکہ امت مسلمہ اپنے ہر معاملے اور کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل
کر سکے … مگر لوگوں نے ’’استخارہ‘‘ کے نام پر طرح طرح کی ’’بدعات‘‘ ایجاد کر لیں…
ان ’’بدعات ‘‘ کی نحوست نے ایسا ظلم ڈھایا کہ آج اکثر مسلمانوں کو ’’استخارہ‘‘ کا
پتہ تک نہیں…وہ ’’استخارہ‘‘ جو ہمیں سورۂ اخلاص کی طرح یاد ہونا چاہیے آج اچھے
خاصے دیندار مسلمانوں کو بھی یاد نہیں… وہ ’’استخارہ‘‘ جو دن رات ہمیں بار بار
کرنا چاہیے وہ آج مسلمان کی پوری زندگی میں ایک بار بھی نہیں … وہ ’’استخارہ‘‘ جو
ہمیں اہتمام کے ساتھ سیکھنا اور سکھانا چاہیے وہ آج ہمارے لئے ایک اجنبی عمل بن
چکا ہے…ہاں بے شک! سچ فرمایا حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ…استخارہ انسان کی خوش نصیبی ہے اور
استخارہ چھوڑنا انسان کی بدنصیبی ہے۔
اصل مسنون استخارہ
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے استخارہ والی حدیث شریف… صحیح بخاری میں تین
جگہ بیان فرمائی ہے…
١
کتاب التہجد میں: حدیث نمبر : ۱۱۶۲
٢ کتاب
الدعوات میں: حدیث نمبر: ۶۳۸۲
٣ کتاب
التوحید میں: حدیث نمبر: ۷۳۹۰
( میرے سامنے اس وقت جو بخاری شریف
کا نسخہ ہے وہ دارالکتب العلمیہ بیروت سے شائع ہوا ہے)
حضرت جابر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَۃَ فِی الْاُمُوْرِ
کُلِّھَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوَرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ۔
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کی
تعلیم اس طرح فرماتے تھے جس طرح کہ آپ ہمیں قرآن مجید کی سورت سکھاتے تھے۔‘‘
یَقُوْلُ اِذَاھَمَّ اَحَدُکُمْ بِالْاَمْرِ فَلْیَرْکَعَ
رَکَعَتَیْنِ مِنْ غَیْرِ الْفَرِیْضَۃِ ثُمَّ لْیَقُلْ…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے…’’جب تم میں سے کوئی کسی کام کا
ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے پھر کہے‘‘… آگے استخارہ کی دعاء
ہے اور آخر میں ارشاد فرمایا:
وَیُسَمِّی حَاجَتَہٗ۔
’’اور وہ اپنی حاجت کا نام لے‘‘…
یعنی اپنی حاجت بیان کرے۔ (صحیح بخاری)
بس یہ ہے …مسنون اور طاقتور ترین استخارہ… جب
بھی کسی کام کا ارادہ ہو… تو دو رکعت نماز ادا کرے… پھر استخارہ کی دعاء مانگے اور
اپنی حاجت بیان کرے… اب لوگوں نے اتنے مفید اور اتنے آسان عمل میں معلوم نہیں کیا
کیا مشکلات پیدا کر دیں اور بالآخر اس عمل کو مسلمانوں کے لئے ناممکن بنا دیا…
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں…
’’اب دیکھئے! یہ (استخارہ) کس قدر
آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگا دئیے ہیں…
١ پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کئے
بغیر سو جاؤ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا…
٢
دوسرا پیوند ( شیطان نے) یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر…
٣
تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو…
٤
چوتھا پیوند( شیطان نے) یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو، استخارہ
کے دوران خواب نظر آئے گا…
٥ پانچواں
پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہو گا فلاں نظر
آئے تو بہتر نہیں…
٦
چھٹا پیوند ( شیطان نے) یہ لگایا کہ خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار
کیجئے کہ وہ خواب میں آ کر سب کچھ بتا دے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ
کون ہو گا؟ اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آ جائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ
یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھیے! ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں۔
بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں اللہ تعالیٰ ان
لکھنے والے مصنفین پر رحم فرمائیں۔‘‘(خطبات الرشید)
کثرت سوال سے منع
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تاکید کے ساتھ اپنی اُمت کو زیادہ
سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے…زیادہ سوالات کے بہت زیادہ نقصانات ہیں… اور اس عادت
کی وجہ سے انسان کے اندر عمل کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے… آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض
لوگ زیادہ سوالات نہیں کرتے مگر بڑے بڑے کام کر لیتے ہیں جبکہ بعض سوالوں میں
الجھے رہتے ہیں… بعض لوگوں سے آپ کہیں کہ یہ پہاڑ اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کر دو
تو فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے کام میں لگ
جاتے ہیں … ایسے افراد کی اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں…اور ان سے عظیم الشان کام
لیتے ہیں… جبکہ بعض افراد سے آپ کہیں کہ… یہ کاغذ اٹھا کر میز پر رکھ دو تو وہ اس
پر بھی دس سوال پوچھ لیتے ہیں… ابھی اٹھاؤں یا بعد میں؟… ایک ہاتھ سے اٹھاؤں یا
دونوں سے؟ ابھی میرا وضو نہیںہے اگر اس حالت میں اٹھا لوں تو حرج تو نہیں ہو گا؟…
اٹھا کر میز پر کس جگہ رکھوں؟ وغیرہ وغیرہ…
ایسے لوگ خود بھی مشکل میں پڑتے ہیں … کام بتانے والے کو
بھی مشکل میں ڈالتے ہیں اور اکثر بڑے کاموں سے محروم رہتے ہیں… اب استخارہ کا
معاملہ دیکھ لیں… حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے جن غلط باتوں کو شیطانی اضافہ قرار دیا وہ
تمام باتیں بزرگوں کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں… یہ باتیں کیوں پیدا ہوئیں؟… وجہ
اس کی یہی زیادہ سوالات کی بری عادت ہے۔
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جامع الفاظ میں استخارہ کی ہر بات سکھا
دی… مثلاً
١
استخارہ ہر کام میں ہے… صرف شادی وغیرہ بڑے کاموں کے لئے نہیں۔
٢
استخارہ صرف تردد کے وقت نہیں… بلکہ جب بھی کسی کام کا ارادہ ہو… اس میں تردد ہو
یا نہ ہو اللہ تعالیٰ سے خیر مانگ لو کہ… یا اللہ خیر ہے تو ہو جائے خیر نہیں تو
مجھے اس سے بچالیجئے۔
٣
دو رکعت فرض کے علاوہ ادا کرنی ہے…یعنی دو رکعت نفل ادا کرو۔
٤
دو رکعت کے بعد استخارہ کی دعاء پڑھنی ہے… اور اپنی حاجت کا نام لینا ہے۔
اب ایک باعمل مسلمان کے لئے… اس میں کوئی پوچھنے والی بات
باقی نہیں رہ گئی …بلکہ مزے ہو گئے کہ اتنا آسان عمل مل گیا… لیکن سوالات کرنے
والوں نے فورا ًسوالات کی توپیں کھول دیں…
استخارہ میں نیت کیا کرنی ہے؟…دو رکعت کس وقت پڑھنی ہے؟… دو
رکعت میں سورتیں کون سی پڑھنی ہیں؟ …یہ دو رکعت الگ پڑھنی ہیں یا کسی اور نفل
مثلاً اشراق ، تحیۃ الوضوء میں بھی اس کی نیت ہو سکتی ہے؟ … استخارہ کی دعاء کتنی
بار پڑھنی ہے؟ …اس دعاء سے پہلے کیا پڑھنا ہے؟ … اس دعاء کے بعد کیا پڑھنا
ہے؟…استخارہ کی نماز کے بعد سونا ہے یا جاگنا؟ …سونا ہے تو بائیں کروٹ سونا ہے یا
دائیں؟ …باوضو سونا ہے یا بے وضو؟ …باوضو سوئے مگر ابھی جاگ رہے تھے کہ وضو ٹوٹ
گیا اب کیا کرنا ہے؟… استخارہ کتنی بار کرنا ہے؟ … استخارہ دن کو کرنا ہے یا رات
کو؟
بس سوالات ہی سوالات… اب اہل علم نے دیگر احادیث اور قوانین
کو سامنے رکھ کر ان سوالات کے ہر شخص کے مطابق جوابات دئیے …اس طرح وہ ’’جوابات‘‘
بھی استخارہ کی اصل حقیقت کا حصہ بنتے گئے… اور یوں استخارہ مشکل سے مشکل ترین
ہوتا چلا گیا… اور بالآخر بے شمار مسلمان اس نعمت سے محروم ہو گئے…حالانکہ یہ
ایسی نعمت ہے جو انسان کو طرح طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچانے کا ذریعہ ہے
…بلکہ بڑے بڑے فتنوں سے بچانے کا بھی اہم ذریعہ ہے…آج لوگ ہر کسی کی بات سننے اور
بیان سننے بھاگ جاتے ہیں…اور پھر طرح طرح کی غلطیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہو
جاتے ہیں… اگر مسلمانوں میں استخارہ کا عمل ہو… اور وہ دو رکعت کی اس عبادت کی
قیمت سمجھیں تو بڑے بڑے فتنوں سے بچ جائیں… مگر افسوس کہ مسلمان کے پاس موبائل اور
نیٹ کے لئے گھنٹوں کا ٹائم ہے… جبکہ دو رکعت کے لئے پانچ منٹ نہیں ہیں…
حضرت اقدس بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’دور حاضر میں امت کا شیرازہ جس
بُری طرح سے بکھر گیا ہے، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر
نہیں آتا… جب استشارے کا راستہ بند ہو گیا ( یعنی مشورے کا راستہ بند ہو گیا،پتا
نہیں چلتا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر، تو کس سے مشورہ کیا جائے؟) تو اب صرف
’’استخارہ‘‘ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے، حدیث شریف میں تو فرمایا تھا:
مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَمَا نَدِمَ مَنِ
اسْتَشَارَ۔
’’جو استخارہ کرے گا خائب و خاسر (
یعنی نقصان اور خسارہ اٹھانے والا) نہ ہو گا اور جو مشورہ کرے گا وہ پشیمان و
شرمندہ نہ ہو گا۔‘‘ عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر
جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کر کے عمل کرے اور اُمید ہے کہ استخارہ کے
بعد اس کا قدم صحیح ہو گا۔‘‘ (دورِ حاضر کے فتنے اور ان کا سدباب)
استخارہ کیوں ملا؟
ہر زمانے میں گمراہ لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ… وہ
قبائلی بدمعاشوں کی طرح لوگوں کے راستے میں ’’ گیٹ‘‘ بنا دیتے ہیں… اس گیٹ پر ان
بدمعاشوں کو رقم دو تو آگے جا سکتے ہو ورنہ نہیں … اسی طرح گمراہ لوگ…گیٹ بنا کر
بیٹھ جاتے ہیں کہ… ہمیں مال دو، خوش کرو تو ہم اللہ تعالیٰ سے تمہارے مسائل حل کرا
دیں گے… ہم اللہ تعالیٰ سے تمہاری قسمت پوچھ دیں گے… ہم اللہ تعالیٰ سے تمہاری
حاجت پوری کرا دیں گے… ان گمراہ لوگوں کے ہاتھوں بیوقوف بننے والے یہ تک نہیں
سوچتے کہ یہ لوگ جو گیٹ بنا کر بیٹھے ہیں … یہ اگر اللہ تعالیٰ کے اتنے ’’مقرب‘‘
ہوتے تو یہ اپنے مسائل بھی اللہ تعالیٰ سے حل کراتے… اپنی قسمت بھی اللہ تعالیٰ سے
اچھی کراتے… اور لوگوں سے خیرات، نذرانے اور پیسے نہ لیتے…
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر… یہ سارے گیٹ توڑ دئیے… اور سارے
بدمعاشوں کو بھگا دیا… اور اللہ تعالیٰ کا راستہ ہر ایک کے لئے کھول دیا کہ… ہر
کوئی خود اللہ تعالیٰ سے مانگے، اللہ تعالیٰ سب کی سنتا ہے… اور سب کو دیتا ہے…
استخارے کا عمل بھی اسی لئے عطاء فرمایا…لوگ سفر سے پہلے یا کسی کام سے پہلے
پنڈتوں ، نجومیوں اور عاملوں کے پاس جا کر فال نکلواتے تھے، ستاروں کا حال پوچھتے
تھے… اور قسمت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام
کاموں کو غلط قرار دیا اور فرمایا کہ… اے مسلمانو! استخارہ کرو…ہر کام سے پہلے
اللہ تعالیٰ سے خیر مانگ لیا کرو… کیونکہ اصل خیر کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے…
یوں ہر مسلمان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر حاصل کر سکتا ہے… ماضی
میں مسلمان بڑے اہتمام سے استخارہ کرتے تھے… ہر کوئی ہر کام میں خود استخارہ کرتا
تھا…اس لئے ان کے ہر کام میں برکت تھی، خیر تھی… مگر پھر شیطان نے گمراہ لوگوں کو
کھڑا کر دیا اور اب پھر جگہ جگہ گیٹ لگ گئے کہ… ہم سے استخارہ کراؤ… ہم سے
استخارہ نکلواؤ… یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ تمہاری نہیں سنتا صرف ہماری سنتا
ہے… اس لئے ہم تمہارا استخارہ نکالیں گے… استغفر اللہ ، استغفر اللہ، استغفر اللہ…
جس گمراہی کو ختم کرنے کے لئے ’’استخارہ‘‘ آیا تھا… آج
استخارہ کے نام پر وہی گمراہی ہر طرف پھیل رہی ہے… کیا کوئی ایک حدیث یا روایت بھی
ایسی پیش کر سکتا ہے کہ…کسی صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہو کہ یا رسول اللہ! آپ میرے لئے
استخارہ فرما دیجئے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے زمانے میں یہ بدعت کہاں سے آ گئی ؟
کیسے آ گئی؟
اے مسلمانو! استخارہ سیکھو،استخارہ اپناؤ اور خود استخارہ
کرو… اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا ضرور کرو کہ… کسی سے اپنے لئے
استخارہ نہ کرایاکرو… اگر آپ نے دوسروں سے ’’استخارہ ‘‘ کرایا تو زمانے کی ایک
بڑی گمراہی میں آپ بھی حصہ دار بن جائیں گے… اور اپنے رب اور نبی کی سنت سے بہت
دور جا گریں گے۔
طالع سعید، خوش نصیب ترین
کئی لوگ ستاروں کے ذریعہ ، نام کے ذریعہ یا عدد کے ذریعہ
’’طالع ‘‘ معلوم کرتے ہیں… قسمت اچھی ہے یا بری… قسمت میں مالداری ہے یا غریبی…
قسمت میں عروج ہے یا زوال … پھر ان کے گمان کے مطابق بعض لوگوں کا طالع ’’بلند‘‘
ہوتا ہے اور بعض کا ’’منحوس‘‘ … حضرت علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں عجیب نکتہ لکھا ہے… وہ
کہتے ہیں کہ جس مسلمان کو استخارہ اور اس کی دعاء نصیب ہو گئی… بس وہی ’’طالع
بلند‘‘ یعنی خوش نصیب ترین انسان ہے…
وجہ یہ کہ… مؤمن کی خوش نصیبی اور خوش قسمتی دو چیزوں میں
ہے…
١
توکل… ٢
رضاء بالقدر…
جب آپ نے ہر کام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگی تو ثابت
ہوا کہ آپ کے اندر ’’توکل‘‘ ہے … آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے… اسی لئے صرف
اسی سے خیر مانگ رہے ہو…اور استخارہ کے بعد جو کچھ ہوا اس پر دل مطمئن کہ… اللہ
تعالیٰ نے جو کیا اچھا کیا… تو یہ تقدیر پر راضی ہونا ہو گیا…پس یہی خوش بختی کی
علامت ہے۔
آگے کا حال
مشرکین کی عادت ہے کہ… ان کو آگے کا حال معلوم کرنے کا شوق
ہوتا ہے… اسی کے لئے وہ طرح طرح کے شرک کرتے ہیں… اسلام نے سمجھایا کہ آگے کا حال
معلوم کرنے کی فکر میں نہ پڑو… بلکہ جو آگے کا مالک ہے… معاملہ اس کے سپرد کر
دو…اور اس سے آگے کی خیر مانگ لو… اور پھر مطمئن ہو جاؤ کہ… وہ ان شاء اللہ ضرور
خیر دے گا… یوں تم شرک سے بھی بچ جاؤ گے اور خیر بھی پا لو گے… اور ہر وقت برے
مستقبل کے ڈر سے اپنا ’’حال‘‘ بھی خراب نہیں کرتے رہو گے… استخارہ اسی لئے آیا…
مگر ظلم دیکھیں کہ لوگوں نے استخارہ کو بھی… آگے کا حال جاننے کا طریقہ سمجھ لیا…
جو بڑی خطرناک گمراہی ہے… حضرت حکیم الامۃ تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’استخارہ سے مقصود محض طلب خیر ہے
نہ کہ استخبار ( یعنی آگے کا حال معلوم کرنا) استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ
ایک دعاء ہے جس سے مقصود صرف طلب اعانت علی الخیر…یعنی استخارہ کے ذریعہ بندہ اللہ
تعالیٰ سے دعاء کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں اسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے
لئے خیر نہ ہو وہ کرنے ہی نہ دیجئے…پس جب استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ
سوچے کہ میرے دل کا زیادہ رجحان کس بات کی طرف ہے۔‘‘ ( بوادرالنوادر)
ایک نکتہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ مبارک اگر کسی مسلمان کے پاس ہو تو وہ
اس کی کتنی قدر کرے گا؟ … حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’بال مبارک‘‘ اگر کسی مسلمان کے پاس ہو تو
وہ خود کو کتنا خوش نصیب سمجھے گا؟… یاد رکھئے کہ …حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات میں سب سے زیادہ بابرکت چیز… آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ’’احادیث مبارکہ‘‘
ہیں… یہ ایسا ’’تبرک ‘‘ ہے جو دیگر ’’تبرکات‘‘ سے بہت بڑھ کر ہے… یہ وہ مبارک
الفاظ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
مبارک سانس، مبارک زبان، مبارک دہن اور مبارک ہونٹوں کے بوسے لے کر… طلوع ہوئے…
اور ان میں نور، ہدایت اور برکت کا سدا بہار سامان ہے … اس لئے کسی بھی صحیح حدیث
یا مسنون دعاء کو … اسی طرح یاد کرنا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک صحیح سند کے ساتھ پہنچی ہے… یہ برکت
اور خوش نصیبی کی بات ہے… پھر ان دعاؤں میں … استخارہ کی خاص اہمیت یہ ہے کہ یہ
دعاء حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت
اہتمام کے ساتھ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھائی ہے… ہم یہاں بخاری شریف کی روایت سے
یہ دعاء نقل کر رہے ہیں… ہر مسلمان اسے اچھی طرح سمجھ کر درست تلفظ اور درست
اِعراب کے ساتھ یاد کر کے…اس عظیم تبرک کو اپنے سینے میں محفوظ کرے…
١ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ
أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ
فَضْلِکَ الْعَظِیمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا
أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ
أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِی دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ
أَمْرِیْ( اَوْ کَمَا قَالَ) عَاجِلِ أَمْرِیْ وَآجِلِہٖ فَاقْدُرْہُ لِیْ
وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہٖ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا
الْأَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ(
اَوْکَمَا قَالَ) عَاجِلِ أَمْرِیْ وَآجِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ
عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِی
( بخاری، کتاب التہجد)
٢
بخاری کتاب الدعوات میں جو دعاء ہے…اس میں آخری الفاظ’’ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ‘‘
ہیں… اسی طرح کتاب التوحید میں بھی ’’ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ‘‘ کے الفاظ ہیں…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…579
برکات
* وہ
مبارک کلمات جن سے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں…
* آیات،
احادیث اور دعائیں یاد کرنے کا وقت اور زمانہ…
* انسانی
مشینری اور طریقۂ کارکردگی…
* ا
نسان کو عبادت گزار بننا چاہئے یا وظیفہ باز؟…
* وظیفے
کرتے وقت اصل نیت کیا ہونی چاہئے؟…
* خالص
عبادت بندے کا اصل وظیفہ اور ذمہ داری ہے…
* خالص
شرعی جہاد کی برکات…
* شرعی
جہاد کی ایک اہم خاصیت…
* دورِحاضر
کے شرعی جہاد کے نتائج…
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے موضوعات ، ملاحظہ کیجئے
تاریخِ اشاعت:
۵جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق3 فروری 2017ء
برکات
اَللہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا…وَّالْحَمْدُ لِلہِ
کَثِیْرًا…وَّسُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً
یہ مسنون اور مبارک الفاظ جن کو یاد نہ ہوں… وہ یاد کر لیں
اور کبھی کبھار ان کا ورد کیا کریں…
اَللہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا…وَّالْحَمْدُ لِلہِ
کَثِیْرًا…وَّسُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً
یہ مبارک کلمات جو پڑھتا ہے ، اس کے لئے آسمانوںکے دروازے
کھل جاتے ہیں … حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما نے جب ان کلمات کی یہ فضیلت حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم سے سنی تو پھر زندگی بھر ان کو
نہیں چھوڑا۔
یاد رکھیں! آیات اور دعائیں یاد کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے…
بچپن، جوانی اور باہوش بڑھاپا…پھر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ … انسان کچھ بھی یاد
نہیں کر سکتا… وہ وقت آنے سے پہلے اپنے دل و دماغ میں زیادہ سے زیادہ ’’نور ‘‘
بھر لیں… میں نے خود ایک بڑی عمر کے صاحب کو دیکھا کہ وہ کئی دنوں تک رات کو سونے
کی مسنون دعاء یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے…
اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْییٰ
مگر یاد نہ کر سکے… ایک اور صاحب کو دیکھا کہ پورا ایک
مہینہ مسجد میں داخل ہونے کی دعاء یاد کرنے کی محنت میں رہے مگر دعاء یاد نہ ہوئی…
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مشین ہے … یہ مشین دنیا کی
عام مشینوں سے بہت مختلف ہے… اس مشین کو چلانے اور درست چلانے کے لئے… جو کتاب
ساتھ آئی ہے وہ قرآن مجید ہے…انسان کا دماغ اور دل جس قدر زیادہ اور اچھا
استعمال ہو یہ اسی قدر طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے … عام مشینیں زیادہ استعمال سے
خراب اور کمزور ہو جاتی ہیں… مگر انسان ’’بے کار‘‘ رہنے سے خراب اور کمزور ہوتا
ہے… اور زیادہ محنت کرنے سے مضبوط اور توانا ہوتا ہے… آپ جس قدر زیادہ قرآنی
آیات، احادیث مبارکہ اور مسنون دعائیں یاد کرتے جائیں گے… آپ کا دماغ اسی قدر
زیادہ مضبوط ، طاقتور اور روشن ہوتا چلا جائے گا۔
عبادت گذار یا وظیفہ باز
یہاں ایک ضروری گذارش یاد آ گئی جو آپ سے بھی کرنی ہے اور
خود سے بھی… وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عبادت گذار بندے بنیں… عبادت کہتے ہیں
غلامی کو اور بندگی کو… یعنی ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے… زیادہ سے زیادہ
عبادت کریں… کیونکہ وہ ہمارا رب ہے …ہمارا مالک ہے… ہمارا مولیٰ ہے… ہم اس سے محبت
کرتے ہیں، ہم اسی سے ڈرتے ہیں اور اس نے ہمیں اپنی عبادت کا حکم فرمایا ہے… نماز
بھی اسی کو راضی کرنے کے لئے اور جہاد بھی اسی کو راضی کرنے کے لئے۔
فَادْعُوْا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (المؤمن:۱۴)
مگر آج ہم لوگ ’’عبادت گذار‘‘ کم… اور ’’وظیفہ باز ‘‘
زیادہ بن گئے ہیں… طرح طرح کے وظیفے، طرح طرح کے عملیات اور طرح طرح کے چلّے… مقصد
یہ ہوتا ہے کہ… روزی بہت ملے، لوگوں میں عزت اور قبولیت ملے…دنیا کے سارے مسئلے
ہماری مرضی کے مطابق حل ہو جائیں … وغیرہ وغیرہ…
پھر ظلم یہ کہ یہ وظیفے اور چلّے کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی
رضاء کی نیت بھی نہیں ہوتی… بس یہ نیت کہ اللہ تعالیٰ میرے مسئلے حل کر دے… یاد
رکھیں! یہ نیت بھی کچھ بُری نہیں… ایسے لوگ اس اعتبار سے بہت اچھے ہیں کہ وہ اللہ
تعالیٰ سے مانگتے ہیں، لوگوں سے نہیں مانگتے… وہ اپنی حاجت پوری کرانے کے لئے کوئی
شرکیہ کام نہیں کرتے… یقیناً وہ قابل تعریف ہیں… مگر وہ یہ بھی تو سوچیں کہ روزی
لکھی جا چکی ہے… دنیا کے معاملات طے شدہ ہیں… ہم اگر ان وظیفوں میں اتنا وقت لگانے
کی بجائے یہی وقت خالص عبادت کے لئے لگائیں تو کتنا اچھا ہو گا… بس مالک راضی ہو
جائے، بس محبوب خوش ہو جائے …ایک زمانہ تھا کہ سچے عاشق ’’جنت‘‘ اور ’’جہنم‘‘ کی
فکر کو بھی رکاوٹ سمجھتے تھے… اور کہتے تھے کہ… جنت میری راہ سے ہٹ جا… جہنم تو
مجھے نہ ڈرا… میری عبادت نہ جنت کی خواہش میں ہے… اور نہ جہنم کے خوف سے… میں تو
صرف اپنے مالک و محبوب کی رضاء اور خوشی چاہتا ہوں…حالانکہ جنت کی چاہت اور جہنم
کے خوف سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا کوئی بری بات نہیں…
لیکن پھر بھی خاص اور مقرب لوگوں کو… یہ نیت اچھی نہیں لگتی
تھی… مگر آج ہماری عبادت کس نیت سے ہوتی ہے… بیوی تابع ہو جائے، دکان پر گاہکوں
کا رش لگ جائے… جو سامنے آئے بس میری عزت میں لگ جائے وغیرہ وغیرہ…
بھائیو! اور بہنو! …اللہ تعالیٰ کے بندے بنو، غلام بنو، سچے
عاشق بنو، سچے مومن بنو…اس کو راضی اور خوش کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ اخلاص والی
عبادت کرو…نماز ہو یا جہاد کا کام … سب کچھ بس محبوب کی رضاء کے لئے ہو…
آج کل چونکہ ’’وظیفے بازی‘‘ زوروں پر ہے … اس لئے اس گذارش
کی ضرورت محسوس ہوئی … شرعی حدود میں وظیفے بھی کریں… اور ان میں بھی اوّل نیت
اللہ تعالیٰ کی رضاء کی رکھیں… مگر زیادہ محنت… اُس کام میں کریں جس کے لئے ہمیں
پیدا کیا گیا ہے… عبادت، بندگی ، اخلاص والی عبادت…اللہ تعالیٰ کی رحمت کی
اُمید،اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف… بس صرف اللہ، صرف اللہ، صرف اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
نماز، ذکر، جہاد، قربانی… سب اعمال اللہ تعالیٰ کو راضی
کرنے کے لئے ہوں… پھر ان اعمال کے بعد روزی زیادہ ملے یا کم… دنیا کی عزت ملے یا
لوگوں کے تھپڑ… اپنوں کی وفاداری ملے یا دوستوں کی بغاوت… ہمیں اس کی فکر نہ ہو …
اور نہ ان معاملات کی وجہ سے ہماری عبادت میں کوئی فرق آئے… عبادت جاری رہے،
عبادت بڑھتی رہے… باقی رہے دنیا کے مسائل تو ان کے لئے… اللہ تعالیٰ سے دعاء …
استخارہ … اور مسنون وظیفے۔
خالص جہاد کی برکات
امریکہ کا صدر ’’ٹرمپ‘‘ جب عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد
پہلا خطاب کر رہا تھا تو اس نے کہا… میں امریکہ کی عزت و عظمت واپس بحال کروں
گا…معلوم ہوا کہ امریکہ کی عزت لٹ چکی ہے اور نام نہاد عظمت پامال ہو چکی ہے… یہ
سب کچھ کہاں اور کب ہوا؟…
جواب ایک ہی ہے کہ… افغانستان پر حملے کے بعد…اس سے پہلے
’’سوویت یونین‘‘ جو خود کو سپرپاور کہتا تھا…وہ اپنا وجود نہ سنبھال سکا اور بکھر
گیا…یہ سب کچھ کہاں اور کب ہوا؟… جواب ایک ہی ہے کہ…افغانستان پر حملے اور اس حملے
میں شکست کھانے کے بعد… افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ… دنیا کا ہر
’’طاغوت‘‘ہر ’’جالوت‘‘ وہاں جا کر ’’تابوت‘‘ بن جاتا ہے… دنیا کا ہر بڑا بت وہاں
جا کر مٹ جاتا ہے… اور ہر ’’سپر پاور‘‘ کی کھال یوں اُترتی ہے کہ …وہ اندر سے
’’صفر پاور‘‘ ظاہر ہو جاتا ہے … وجہ صرف ایک ہے… اور وہ یہ کہ افغانستان میں
الحمدللہ… خالص شرعی اسلامی جہاد موجود ہے … اور اس جہاد کی قیادت راسخ العلم
علماء کرام… اور اہل دل اہل تقویٰ کے ہاتھوں میں ہے… اور جہاد کی ایک خصوصیت یہ ہے
کہ… یہ ’’کَافِرُوْن‘‘ کو ’’صَاغِرُوْن‘‘ بنا دیتا ہے… یعنی ان کو حقیر ، ذلیل اور
رسوا کر دیتا ہے…آپ کل کا امریکہ دیکھیں… بارعب، پر امن، باوقار، دنیا کو اشاروں
پر نچانے والا بدمعاش… اور ہر طرح سے پُرسکون… مگر آپ آج کا امریکہ دیکھیں …بے
رعب، بے آبرو، انتشار زدہ، خوفزدہ، بے سمت اور بے قرار… ابھی تو کچھ آگے چل کر
آپ دیکھیں گے کہ…وہاں کس قدر بے چینی اور کشیدگی بڑھتی ہے… یہ سب کچھ قرآن عظیم
الشان نے… بہت پہلے سے بتا دیا ہے… کاش! مسلمان قرآن مجید میں جہاد کو دیکھیں ،
جہاد کو سمجھیں… اور جہاد سے یاری لگائیں… الحمد للہ ہمارے زمانے کا شرعی جہاد…
اپنے بھرپور نتائج دور دور تک حاصل کر رہا ہے… اسی جہاد کی برکت سے دنیا کا نقشہ
بدل رہا ہے… دنیا کا نظام بدل رہا ہے… اور دنیا کا رنگ بدل رہا ہے… آپ اندازہ
لگائیں کہ… وہ بڑی قومیں جو ساری دنیا کو ’’روشن خیالی‘‘ کا سبق پڑھا رہی تھیں…
آج ایسی حواس باختہ ہوئیں کہ… ریلوے اسٹیشن … اور لاری اڈے کے دو کن ٹٹے بدمعاشوں
کو … اپنا صدر اور وزیر اعظم بنا بیٹھی ہیں… اس دن ’’روشن خیالی‘‘ شاید اپنے
’’کوٹھے‘‘ سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لے گی… جس دن ’’ٹرمپ‘‘ اور ’’مودی‘‘ ایک
جگہ مل بیٹھیں گے…
اسلام زندہ باد… جہاد فی سبیل اللہ زندہ باد
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…580
اَلْحَمْدُ لِلہِ کَثِیرًا
*
اللہ تعالیٰ کا شکر ایک عظیم الشان مقبول عبادت…
* قرآن
کریم کا پہلا سبق ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ‘‘ یعنی شکر…
* انسان
کے دل میں ناشکری کیوں آتی ہے؟
* اس
کی وجوہات و اسباب…
* زندگی
کا ایک دن تو شکر کے نام کرکے دیکھیں…
* کلمہ
طیبہ فرعون کی حکومت اور قارون کے
* خزانوں
سے زیادہ قیمتی اور بھاری نعمت ہے…
* وظائف
کے بارے میں ایک اشکال اور اس کا جواب…
* ’’ناشکری‘‘
زنا، شراب نوشی اور چوری سے بڑھ کر کبیرہ گناہ…
* دنیا
وآخرت میںخسارہ اٹھانے والے لوگ…
شکر
کی حقیقت سمجھاتی اور ناشکری سے نفرت دلاتی ایک ایمان افروز تحریر
تاریخِ اشاعت:
۱۲جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق10 فروری 2017ء
اَلْحَمْدُ لِلہِ کَثِیرًا
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…الحمد للہ، الحمد للہ… آپ بھی سب دل
سے پڑھ لیں …الحمد للہ ، الحمد للہ… آج ہم مسلمانوں میں ’’شکر‘‘ کی کمی ہے…
استغفر اللہ، استغفر اللہ… بہت کم لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو دل سے اللہ تعالیٰ کا
شکر ادا کرتے ہوں اور دل سے کہتے ہوں الحمد للہ، الحمد للہ… اللہ تعالیٰ نے ہماری
ہدایت کے لئے ’’قرآن مجید‘‘ اُتارا تو پہلا سبق ہمیں یہی پڑھایا کہ کہو…الحمد للہ
رب العالمین… اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے جو کام شروع ہو وہی
بابرکت ہوتا ہے… وہی کامیاب ہوتا ہے الحمد للہ، الحمد للہ… دراصل ہمارے دل دنیاوی
خواہشات سے بھرے پڑے ہیں اور دنیا کی ہر خواہش پوری ہوتی نہیں… پوری ہو بھی جائے
تو فوراً نئی خواہش سر اٹھا لیتی ہے… اس لئے ہر دل شکوے رو رہا ہے…ہر آنکھ سے
ناشکری برس رہی ہے… استغفر اللہ، استغفر اللہ… کوئی اپنی غریبی پر ناشکری کر رہا
ہے… حالانکہ غریب مسلمان… جنت میں مالدار مسلمانوں سے بہت پہلے داخل ہوں گے… کتنے
حضرات انبیاء علیہم السلام نے غریبی کی زندگی گزاری… اللہ تعالیٰ نے ایمان
والوں سے دنیا میں… ’’حیات طیبہ‘‘ کا وعدہ فرمایا ہے… اچھی زندگی، پاکیزہ زندگی…
کفر سے پاک، شرک سے پاک، بدکاری سے پاک، حرص سے پاک، بغض سے پاک، عذاب سے پاک،
تنگی سے پاک زندگی… دل میں ایمان ہو تو غربت بھی اچھی لگتی ہے اور مالداری بھی…
ایمان نہ ہو تو غربت بھی عذاب، مالداری بھی عذاب… کاش! ہم شکر گزار بن جائیں… ہمیں
سکھایا گیا کہ کھانا کھا لو توفوراً شکر ادا کرو… بلکہ کھاتے وقت بھی ادا کرتے
رہو…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا
وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ
اور ایک شکر تو ایسا سکھایا کہ اسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ
جاتی ہیں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ’’شکر‘‘ کے یہ الفاظ سوتے وقت ادا فرماتے تھے…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَآوَانَا فَکَمْ مِّمَّنْ لَا
کَافِیَ لَہٗ وَ لَا مُؤوِیَ۔
’’ شکر اور حمد اس اللہ تعالیٰ کے
لئے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، ہماری ضرورتیں پوری فرمائیں اور ہمیں ٹھکانہ دیا۔
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی نہ کوئی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور نہ ان کو (
باعزت) ٹھکانہ دینے والا۔‘‘
اللہ، اللہ، اللہ… کیسی پرکیف دعاء ہے… انسان کے اندر شکر
کا احساس بڑھاتی ہے… ہماری وہ مسلمان خواتین … جن کو باپردہ گھروں میں دستر خوان
پر کھانا مل جاتا ہے… کبھی کسی مسجد کے باہر بھیک مانگتی خواتین کو جا کر دیکھیں…
ان میں سے کئی تو پیشہ ور ہوتی ہیںمگر بعض حقیقی بے بس، بے سہارہ، جھکے سر، شرماتے
چہرے اور ٹپکتی آنکھیں… ان کو گھر کا باعزت دستر خوان میسر نہیں… ارے! جن کو یہ
نعمت ملی ہوئی ہے وہ تو دل سے کہہ دیں الحمد للہ، الحمد للہ۔
آپ جو بھی یہ کالم پڑھ رہے ہیں میری ایک بات مان لیں… صرف
ایک دن… جی ہاں! پورا ایک دن اللہ تعالیٰ کے شکر میں گذاریں… آپ کو اندازہ ہو
جائے گا کہ ’’شکر‘‘ کتنی بڑی نعمت ہے… اور ہم اس نعمت سے کس قدر محروم ہیں… صبح
فجر سے الحمد للہ پڑھنا شروع کریں اور مغرب تک چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے پڑھتے
جائیں… الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ…
کبھی ایمان کی نعمت کو یاد کر کے… کبھی قرآن کی نعمت کو
سامنے رکھ کر… کبھی نماز کی نعمت پر … کبھی والدین کی نعمت پر… کبھی صحت، عزت و
عافیت کی نعمت پر… صرف ایک دن… ہاں! صرف ایک دن… الحمد للہ، الحمد للہ… اس دن اپنے
دل کو ناشکری نہ رونے دیں… نہ غربت پر، نہ بیماری پر… نہ کسی کی بے وفائی پر اور
نہ اپنی ناقدری پر… بس نعمتیں یاد کرتے جائیں… ایک ایک اولاد، ایک ایک عضو… ایک
ایک روپیہ… ایک ایک نیکی… سب کچھ یاد کرتے جائیں اور شکر ہی شکر… شکر ہی شکر… اس
دن نا شکری کو چھٹی پر بھیج دیں… اور شیطان خبیث ناشکرے سے ہاتھ چھڑا لیں… ہزاروں
بار دل کی خوشی سے پڑھ ڈالیں الحمد للہ، الحمد للہ… اگر اپنا کوئی درد یاد آئے تو
کہیں کوئی بات نہیں الحمد للہ کینسر تو نہیں ہے الحمد للہ، الحمد للہ… اپنا کوئی
غم یاد آئے تو کہیں کوئی بات نہیں …جنت میں سب غم دھل جائیں گے الحمد للہ، الحمد
للہ… بھائیو! اور بہنو! صرف ایک دن… سچا شکر ، گہرا شکر ، پکا شکر… ارے! مالک کے
احسانات تو اتنے زیادہ ہیں کہ پوری زندگی شکر کرتے رہیں تو شکر ادا نہ ہو
الحمدللہ، الحمد للہ… خود سوچیں کہ ہمارے پاس جو کلمہ طیبہ ہے…
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
یہ فرعون کی چار سو سالہ حکومت سے زیادہ قیمتی
ہے… یہ قارون کے کھربوں کے خزانے سے زیادہ قیمتی ہے… یہ ہامان کی ذہانت اور عیش و
عشرت سے زیادہ قیمتی ہے… یہ ابو جہل کی سرداری اور تکبر سے زیادہ قیمتی ہے… خود
سوچیں کہ اگر ہم سے کہا جائے کہ… تم فرعون جیسی حکومت ، محلات اور صحت لے لو اور
یہ کلمہ دیدو… کیا ہم کلمہ دے دیں گے؟ اگر خدانخواستہ دے دیں گے تو فائدہ اُٹھائیں
گے یا نقصان؟ … کوئی مسلمان فرعون اور قارون کے خزانوں کے بدلے یہ کلمہ دینے پر
تیار نہیں ہو گا تو پھر… اس بات پر کیوں روتے ہو کہ مکان نہیں… فلاں چیز نہیں…
کلمہ کا شکر ادا کرو… الحمد للہ، الحمد للہ… گذشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ… عبادت
گذار بنو وظیفہ باز نہ بنو… کسی نے سوال کیا کہ… آپ نے خود وظیفوں کی کتابیں لکھی
ہیں… اب وظیفوں سے روک رہے ہیں؟… جواب عرض کیا کہ… روک نہیں رہا، ترتیب ٹھیک کرا
رہا ہوں… مسلمان کی نظر میں جب دنیا اور اس کے مسائل پہلے نمبر پر آ جائیں اور
آخرت دوسرے نمبر پر چلی جائے تو وہ … ناشکرا بن جاتا ہے… اور ناشکری… کبیرہ گناہ
ہے… بہت بڑا کبیرہ… شراب، زنا اور چوری سے بھی زیادہ سخت گناہ… جب دنیا اور اس کی
حاجتیں مقصود ہوں تو انسان کبھی راضی نہیں ہو سکتا… کیا آج دنیا کے ارب پتی خوش
اور راضی ہیں؟… گذشتہ دنوں ایک ارب پتی بڑی حسرت سے کہہ رہا تھا کہ کاش! میرے پاس
اتنا مال نہ آتا… میں اس وقت زیادہ خوش تھا جب میری تنخواہ بارہ سو روپے تھی…
دنیا مقصود بن جائے تو انسان اللہ تعالیٰ سے سودے کرتا رہتا ہے… حاجت پوری ہو گئی
تو اللہ تعالیٰ سے خوش… اور حاجت پوری نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ سے ناراض… ایسے
لوگوں کے بارے میں ’’سورۂ حج‘‘ میں فرمایا گیا:
خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ
ایسے لوگ دنیا میں بھی ناکام اور آخرت میں بھی ناکام…
کون سے لوگ؟ …وہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک کنارے پر کھڑے
ہو کر کرتے ہیں… اس عبادت سے دنیا کے مزے ملتے رہے تو عبادت پر جمے رہے اور جب
دنیا میں تنگی آئی تو عبادت چھوڑ دی… آخرت ان لوگوں کو اس لئے نہیں ملے گی کہ…
آخرت ان کا مقصود تھی ہی نہیں… باقی رہی دنیا تو… یہ کسی کو جتنی بھی مل جائے چند
دن کی ہوتی ہے … اور پھر ختم اسی لئے فرمایا:
خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ
جہاد میں مزے ملتے رہے تو جہاد زندہ باد… آزمائشیں آئیں
تو جہاد کو چھوڑ دیا… نماز کے بعد مال ملتا رہے تو پکے نمازی… اگر خسارہ ہو جائے
تو نماز بھی اِدھر اُدھر… حالانکہ ’’عبادت‘‘ فرض ہے… اور عبادت کے بارے میں ایک
پکا سودااللہ تعالیٰ سے ہو چکا ہے کہ… ایمان اور عبادت کے بدلے اللہ تعالیٰ کی
رضاء اور جنت ملے گی اور یہ بہت کامیابی والا سودا ہے… باقی دنیا میں کیا ملے گا ،
کیا نہیں ملے گا اس کا ’’عبادت‘‘ کے ساتھ تعلق نہ جوڑا جائے… ورنہ حضرات انبیاء
علیہم السلام پر دنیا کی کوئی تکلیف نہ
آتی… کیونکہ ان سے بڑھ کر عبادت گذار کوئی نہیں تھا… ایک مومن عبادت میں پکا ہو…
نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ ، جہاد یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خالص رضاء کے لئے کرے…
اور دنیاوی نتائج سے بے پرواہ اور بے غرض ہو کر کرے… روزانہ کی اخلاص والی تلاوت
کا معمول بنائے… اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے…مسنون نوافل، تہجد، اشراق، چاشت،
اوابین پکے کرے… رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم پر اخلاص و محبت کے ساتھ درودو سلام
بھیجے… اپنے گناہوں پر استغفار کرے… صبح شام کے مسنون اذکار کا اہتمام کرے… اور
اللہ تعالیٰ سے راضی ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے الحمد للہ، الحمد للہ
، الحمد للہ… جب معمولات کا یہ ’’عبادت‘‘ والا نصاب پورا ہو جائے تو اب شرعی حدود
میں رہتے ہوئے وظیفے بھی کر سکتاہے… اور اللہ تعالیٰ سے اُمید یہ ہے کہ…جو عبادت
کے نصاب پرآجائے گا…اسے ان شاء اللہ زیادہ وظیفوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی…اور
عبادت سے ان شاء اللہ…اسے’’شکر گزاری‘‘ کی نعمت بھی ملے گی…
الحمدللہ، الحمدللہ
کسی نے پوچھا کہ معمولات پورے نہیںہوتے…انہیں عرض کیاکہ جو
عمل ہوجائے اس پرشکر ادا کیاکریں…ان شاء اللہ اس’’شکر‘‘کی برکت سے مزید کی توفیق
ملے گی…خود مجھے الحمدللہ اس کاتجربہ ہوا کبھی طبیعت بھاری اور بوجھل ہو اور کئی
سورتیں پڑھنی ہوں تو…ایک سورت پڑھ کر شکر ادا کیا… الحمدللہ، الحمدللہ…پس فوراً طبیعت میںدوسری
سورت پڑھنے کی طاقت آجاتی ہے… الحمدللہ، الحمدللہ…مگر شیطان بڑا دشمن ہے…وہ ہمیں
ان نعمتوں پر بھی شکر ادا نہیں کرنے دیتا جو ہمارے پاس موجود ہیں…وہ ڈراتا رہتا ہے
کہ یہ چیز تم سے ضرور چھن جائے گی…یہ نعمت عنقریب تمہارے ہاتھوں سے لے لی جائے
گی…چنانچہ نعمت موجود ہوتی ہے اور ہم ناشکری کررہے ہوتے ہیں… استغفراللہ،
استغفراللہ…اور پھر جو مصیبت ابھی ہم پر آئی نہیں ہوتی… اس سے بھی ڈرا کر ’’نا
شکری‘‘میں لگائے رکھتا ہے کہ…بس عنقریب تم پر یہ آفت آجائے گی…یافلاں مرگیا تو
تم کہاں سے کھائوگے؟فلاں نے دینا بند کردیا تو تمہاری روزی کا کیا ہوگا؟
استغفراللہ، استغفراللہ…ابھی مصیبت آئی نہیں مگر’’ناشکری‘‘ایڈوانس میں چل رہی
ہے…حالانکہ جو نعمتیں موجود ہیں ان پر بھی شکر واجب بنتا ہے… الحمدللہ، الحمدللہ…
اور جو مصیبتیں نہیں آئیں ان پر بھی شکر واجب ہے… الحمدللہ، الحمدللہ…کئی لوگ ہر
وقت ’’نظربد‘‘ سے ڈرتے رہتے ہیں… کئی ہر وقت جادو کے خوف سے کانپتے رہتے
ہیں…حالانکہ مومن کی شان اللہ تعالیٰ پر ’’توکل‘‘ ہے… نظرحق ہے… جادو بھی ہوجاتا
ہے… مگر اللہ تعالیٰ بھی موجود، اُس کا کلام بھی موجود… اس کی حفاظت کا بھی یقین،
اس کی قدرت اور محبت پر بھی بھروسہ…الحمدللہ، الحمدللہ
اس بار حکومت نے یوم یکجہتی کشمیر سے پہلے …خوف کی فضا
بنادی تھی…بعض جماعتوں پر پابندی، بعض افراد کی نظر بندی…انڈین فلموں کی آزادی
مگر الحمدللہ…دین کے دیوانے بے خوف ہو کر نکلے…
کراچی سے پشاور تک…اور کوئٹہ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک خوب
شاندار، جاندار… بلکہ سچی بات ہے کہ ’’ایماندار‘‘ ریلیاںاور اجتماعات
ہوئے…الحمدللہ،الحمدللہ…یہ ریلیاں اور اجتماعات گذشتہ سالوں سے زیادہ پُرنور، منظم
اور پُر رونق تھے… الحمدللہ،الحمدللہ… اہل کراچی کو مبارک اور وہاں کے ’’دیوانوں‘‘
کے لئے دعائے مغفرت و رحمت کہ…انہوں نے بہت بڑا اجتماع اُٹھایا…اہل پشاور کو مبارک
کہ ان کی ریلی بڑی شاندار تھی… اور راولپنڈی کے دیوانے مبارکباد کے مستحق کہ…
انہوں نے خوب جمود توڑا… الحمدللہ ، الحمدللہ،الحمدللہ، الحمدللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…581
مخالفت کا وبال
* جہاد
کی محنت باعث رحمت اور جہاد کی مخالفت باعث لعنت…
* معارف
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ …
* کافروں
کا دل جلانا سنت نبوی اور اسوۂ حسنہ کا حصہ…
* جب
عمرہ کا پر امن قافلہ جہاد کا طوفانی لشکر بنا…
* ابو
جہل کا اونٹ…
* جہاد
کرنے اور سمجھنے کے لئے قلب سلیم ہونا ضروری…
* دل
کی سلامتی کی مسنون دعاء…
جہاد
کے چند اہم معارف سمجھاتی ایک معطر تحریر
تاریخِ اشاعت:
۱۹جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق17 فروری 2017ء
مخالفت کا وبال
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ’’رحمت‘‘ عطاء فرمائے…
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ… ’’جہاد فی سبیل اللہ کو ادا کرنے
کی محنت کرنا اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت چھا جانے کا ذریعہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’لعنت‘‘ سے بچائے…
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ…’’ جہاد کے خلاف کوشش کرنا دراصل
’’لعنت‘‘ چھا جانے کا سبب ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
خلاصہ یہ کہ…جہاد فی سبیل اللہ کی خدمت سے مسلمانوں پر
عمومی رحمت برستی ہے… اور جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت سے ان پر عمومی لعنت اور
عذاب کا ماحول بن جاتا ہے…
وجہ کیا ہے؟… وجہ بالکل واضح ہے کہ… جہاد فی سبیل اللہ،
اللہ تعالیٰ کا ’’حکم‘‘ ہے…اور ’’مجاہد‘‘ اللہ تعالیٰ کا ’’محبوب‘‘ ہے… اللہ
تعالیٰ سب سے بڑا ہے… اس کا حکم بھی سب سے اونچا ہے… اللہ تعالیٰ زمین پر جو
تبدیلیاں چاہتے ہیں… ان کے لئے وہ اپنے خاص الخاص بندوں کو استعمال فرماتے ہیں…
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ عرب و عجم پر غضبناک
ہو گیا اور اس نے ان کی حکومت اور سلطنت کو برباد کرنے کا فیصلہ فرما لیا چنانچہ
اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ کے صحابہ کے دل میں… القاء فرمایا
کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑیں… تاکہ مقصد حاصل ہو جائے۔‘‘ ( یعنی عرب و عجم
کے کفار کی سلطنت ختم ہو جائے)۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
اس لئے جہاد کی مخالفت کرنا… لعنت پانے کا ذریعہ ہے…اور
’’مجاہدین کرام‘‘ کو ایذاء پہنچانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کے مترادف
ہے۔
ابو جہل کا اونٹ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم … ۶ ہجری میں… اپنے چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ ’’عمرہ‘‘ کے لئے تشریف لے گئے…
عمرے کا یہ پر امن سفر … بعد میں جہادکا سفر بن گیا… کیونکہ اس سفر میں ’’حدیبیہ‘‘
کے مقام پر… ’’بیعت علی الجہاد‘‘ ہوئی… تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر جہاد کی بیعت کی… اس ’’بیعت‘‘
کا عنوان تھا… ’’ہم زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہیں گے،اور میدان جہاد سے پیٹھ
نہیں پھیریں گے‘‘… سفر’’ عمرہ‘‘ کا تھا مگر پھر یہ جہاد کا سفر بن گیا… اس لئے اس
سفر کا نام ہے’’غزوہ حدیبیہ‘‘… غزوہ اس جہادی سفر کو کہتے ہیں جو حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ہوا ہو… حضرت
امام بخاری رحمہ اللہ جیسے بلند پایہ محدث
سے لے کر… علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ جیسے
نامور مفسر و مؤرخ تک… سب حضرات اس واقعہ کو ’’غزوہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں…
معلوم ہوا کہ ہمارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک عظیم سنت یہ بھی ہے کہ…
مومن کو ہر وقت ’’ جہاد‘‘ کے لئے تیار رہنا چاہیے… ’’حدیبیہ‘‘ میں جہاد کی بیعت
کرنے والے حضرات …گھر سے جہاد کے لئے نہیں نکلے تھے… وہ ’’عمرہ‘‘ ادا کرنے جا رہے
تھے… مگر اچانک ایک مسلمان کی جان اور حرمت کا معاملہ سامنے آگیا… تب احرام میں
ملبوس… یہ قافلہ ایک دَم طوفانی جہادی لشکر بن گیا… حالانکہ احرام میں جنگ کرنا
ممنوع ہے… پھر یہ مہینہ بھی’’ذوالقعدہ‘‘ کا تھا… اور ’’ذوالقعدہ‘‘ حرمت والے
مہینوں میں سے ہے… اور پھر جس جنگ کی بیعت کی جا رہی تھی وہ جنگ حدود حرم میں لڑی
جانی تھی… حالانکہ حدود حرم میں جانور مارنا اور درخت کاٹنا بھی جائز نہیں… مگر جب
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے
کی خبر آئی تو … تمام احکامات تبدیل ہو گئے… احرام کے لباس اور نیت کے باوجود جہاد
کی بیعت ہوئی… اور اس بیعت کے رعب نے…مشرکین مکہ کو ان کے اپنے گھر میں شیر سے بلی
بنا دیا…
بات کچھ دور نکل رہی ہے…عرض یہ کر رہا تھا کہ حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم جب عمرے کے اس سفر پر
روانہ ہو رہے تھے تو آپ نے… قربانی کے لئے جانور بھی ساتھ لئے… اور ان میں خاص
طور پر… وہ اونٹ اپنے ساتھ لیا جو ابوجہل کا قابل فخر اونٹ تھا اور ابو جہل نے اس
اونٹ کو چاندی کے زیورات پہنا رکھے تھے… غزوہ ٔبدر میں جب ابو جہل مارا گیا تو یہ
اونٹ بطور مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے سفر میں یہ اونٹ خاص طور پر ذبح
کرنے کے لئے اپنے ساتھ لیا… ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھا ہے کہ… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اس کے ذریعہ سے مشرکین کو غم ، غیظ
اور تکلیف میں ڈالنا چاہتے تھے… اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ… مسلمان،
کافروں کا دِل جلائیں۔
القلم کے قارئین میں سے کئی افراد کو آج کی یہ باتیں عجیب
سی لگ رہی ہوں گی… کیونکہ آج کئی لوگوں کے بیانات میں… بس اخلاق، اخلاق کا شور
ہوتا ہے… اور اخلاق کے پردے میں غلامی سکھائی جاتی ہے… حالانکہ ’’اخلاق‘‘ وہ ہیں
جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے… اور ’’اخلاق‘‘ وہ ہیں جو حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں…اسلام
دشمن کافروں کا دِل جلانا… ان کو غم و غیظ میں ڈالنا یہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنت ہے… ’’زاد المعاد‘‘ میں
دلیل کے ساتھ اس سنت کا ثبوت موجود ہے… پس وہ لوگ کتنے مبارک ہیں… جن کے وجود سے
ہی مشرکین اور کفار جلتے ہیں… ڈرتے ہیں اور غم و غیظ میں مبتلا ہوتے ہیں… اب آپ
غور فرمائیں کہ عمرے کے پر امن سفر میں بھی… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کا اونٹ ساتھ لے کر… اپنی ایک جہادی
ادا کا اظہار فرمایا… کیونکہ ’’جہاد‘‘ اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین عمل ہے… اور کوئی
مسلمان کسی حال میں بھی… جہاد سے غافل نہیں رہ سکتا … پس وہ لوگ جو جہاد کی مخالفت
کرتے ہیں… حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ نے سچ فرمایا کہ… وہ معاشرے میں ’’لعنت‘‘
پھیلانے کا جرم کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی ’’لعنت‘‘ سے حفاظت
فرمائے… لعنت بہت بری چیز ہے… اور اس کا مطلب ہے پھٹکار، ذلت اور اللہ تعالیٰ کی
رحمت سے محرومی۔
دِل کی سلامتی
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک دعاؤں میں سے ایک دعاء ’’قلب سلیم‘‘
کی بھی ہے… یعنی بندہ اللہ تعالیٰ سے اپنے دل کی سلامتی مانگے… وَاَسْئَلُکَ
قَلْبًا سَلِیْمًا… روحانی بیماریوں اور شیطانی تیروں اور زخموں سے محفوظ دل… حضرت
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یہ تحقیق بھی
فرمائی ہے کہ… جہاد وہی مسلمان کرتا ہے
اور وہی مسلمان سمجھتا ہے جس کا دل سلامت ہوتا ہے… اور اس دل میں دین بہت پختہ اور
راسخ ہوتا ہے… اور وہ دل شیطانی اور حیوانی شرور سے پاک ہوتا ہے…اب آپ اپنے
معاشرے پر نظر ڈالیں…آج جہاد فی سبیل اللہ ہر کافر کی نظر میں سب سے بڑا عیب ہے…
آج جہاد فی سبیل اللہ ہر منافق کی نظر میں سب سے بڑا جرم ہے… آج جہاد فی سبیل
اللہ ہر مشرک اورہر ملحد کی نظر میں سب سے بڑا فساد ہے… اور دنیا کے بیشتر حصوں پر
حکومت بھی انہی کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کی ہے… آپ جہاد کا نام لیتے ہیں تو
آپ دنیا بھر میں آسانی سے سفر نہیں کر سکتے… آپ جہاد کو مانتے ہیں تو… پھر آپ
دنیا والوں کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں… اب آپ بتائیے کہ ان سارے حالات میں…
کوئی کمزور دل والا شخص… جہاد کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے؟؟ مگر دوسری طرف… قرآن
مجید کی سینکڑوں آیات ہیں جو جہاد کا حکم سناتی ہیں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث ہیں… جو جہاد کی طرف بلاتی
ہیں… خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک غزوات… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خون ہے… جو ہمیں جہاد کی دعوت دیتا ہے…
پس وہ شخص جس کا دل ’’سلیم‘‘ ہو گا… اور اس دل میں ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہی سب سے بڑا
ہو گا…اور اس دل میں دین مکمل راسخ ہو گا… وہی جہاد کو مانے گا اور جہاد پر نکلے
گا… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو… دل کی سلامتی او دین کی سلامتی عطاء فرمائے…
بات بالکل واضح ہے کہ… جہاد فی سبیل اللہ کی محنت کرنے سے رحمت پھیلتی ہے… اور
جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت کرنے سے لعنت پھیلتی ہے… آئیے! ہم سب ’’رحمت‘‘ پانے
… اور لعنت سے بچنے کی دعاء اور کوشش کریں۔
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…582
بھیانک جرم… قتل ناحق
* قتل
ناحق عنداللہ بڑے جرائم میں سے ایک…
* قتل
ناحق کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت کم گنجائش باقی رہتی ہے…
* قتل
ناحق جانور اور کافر کا بھی جائز نہیں…
* قتل
نا حق کے بارے حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل…
* قتل
ناحق کے بارے میں حضرت ہابیل علیہ السلام کا طرز عمل…
* قتل
ناحق کی پرویزی آگ میں جلتا پاکستان…
خکسی کو ناکام وبدنام کرنے کا ایک معروف ہتھکنڈا…
* یہی
ہتھکنڈا طالبان اور جہاد کو بدنام کرنے کے لئے استعمال ہوا… کیسے؟
* اصل
طالبان اور نقلی طالبان… جمہوری نظام کی ایک خرابی…
* وطن
عزیز پاکستان میں طالبان اور جہاد کے نام پر بھڑکائی جانے
والی
اندھی جنگ کے پس پردہ عوامل، اسباب و محرکات اور اس کا انجام…
* جب
پاکستان میں جہاد کے نام پر فساد کھڑاکیا گیا، جب وطن عزیز میں حکومتی رٹ اور
دہشتگردی کے نام پر قتل نا حق کا بازار گرم کیا گیا،جب شہباز قلندر کے مزار پر خون
ناحق کی ہولی کھیلی گئی تو… ایک مردِ قلندر کے قلم میں ارتعاش آیا… اور پھروہ اس
حساس اور اہم موضوع کے ایسے ایسے رازوں سے پردہ اٹھاگیا کہ عقلیں دنگ رہ گئیں… اور
حقائق کھل کر سامنے آگئے… تو آپ بھی ملاحظہ کیجئے نا… یہ چشم کشا تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۶جمادی
الاولیٰ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق24 فروری 2017ء
بھیانک جرم… قتل ناحق
اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے جرائم میں سے ایک خطرناک جرم…
’’قتل ناحق‘‘ ہے… ناحق قتل نہ کسی انسان کا جائز ہے اور نہ چند مخصوص جانوروں کے
سوا کسی جانور کا… ’’قتل ناحق‘‘ نہ مسلمان کا جائز ہے نہ کافر کا… نہ کسی دیندار
کا جائز ہے اور نہ کسی فاسق کا… نہ کسی متقی کا جائز ہے اور نہ کسی بدعتی کا۔
ایک انسان جب تک ’’قتل ناحق‘‘ کے جرم میں مبتلا نہیں ہوتا…
اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت گنجائش رہتی ہے… لیکن جیسے ہی وہ ناحق خون بہاتا
ہے تو اس کے لیے گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے… اللہ معاف فرمائے ایسے لوگوں کو
’’توبہ‘‘کی توفیق بھی کم ملتی ہے اور اُن میں سے کئی… ایمان اور اسلام سے بھی
محروم ہو جاتے ہیں… زمین پر گناہوں کا آغاز اسی ’’قتل ناحق‘‘ کے بھیانک گناہ سے
ہوا… اس گناہ سے پہلے زمین بہت خوبصورت تھی… مگر اس ایک گناہ نے پورے خطۂ زمین
کو… کانٹوں، کڑواہٹوں اور دُکھوں سے بھر دیا… کسی کو قتل کرنا نہ کوئی بہادری ہے
اور نہ کوئی عزت… ناحق قتل سے اللہ تعالیٰ کا غضب اور اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل
ہوتی ہے…اگر کوئی شخص کسی چڑیا کو بھی بلاوجہ ناحق قتل کر کے پھینک دے گا تو وہ
چڑیا قیامت کے دن اس پر دعویٰ کرے گی کہ میری جان کیوں ضائع کی؟ …اور احکم
الحاکمین کا ’’قہر‘‘ قیامت کے دن قاتلوں پر خوفناک برسے گا… اسلام نے ’’قتل ناحق‘‘
کا دروازہ بند کرنے کے لئے بڑے بڑے اقدامات فرمائے… ان دروازوں کو بند کیا جن سے
یہ موذی جرم امت میں داخل ہوتا ہے… اور قتل ناحق پر ایسی شدید وعیدیں نازل فرمائیں
کہ… جو مسلمان بھی انہیں پڑھ لے وہ کبھی قتل ناحق کی جرأت نہیں کر سکتا… یہ
وعیدیں اتنی سخت اور شدید ہیں کہ انہیں پڑھ کر دل خوف سے کانپنے لگتا ہے… حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان
وعیدوں اور احکامات کو سن کر اس معاملے میں ایسے حساس تھے کہ… قتل ناحق سے بچنے کے
لئے اپنی بڑی سے بڑی توہین برداشت فرما لیتے تھے… یہاں تک کہ خود قتل ہونا بھی
گوارہ کر لیتے تھے… اور یہی کامیاب ترین انسانوں کا دستور ہے کہ… وہ قتل ناحق سے
بچنے کے لئے اپنی جان تک دے دیتے ہیں مگر ’’قتل ناحق‘‘ سے اپنے ہاتھ آلودہ نہیں
کرتے۔
حضرت ہابیل علیہ
السلام نہ اپنے بھائی سے کمزور تھے اور نہ
وہ لڑنے سے عاجز تھے… وہ نہ بزدل تھے اور نہ اپنے بھائی کی نیت سے غافل تھے… مگر
وہ ’’قتل ناحق‘‘ سے بچنے کے لئے ’’مقتول‘‘ اور ’’شہید‘‘ ہو گئے… اور یوں ہمیشہ کے
لئے زندہ ہو گئے… ان پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں… جبکہ ’’قابیل‘‘ نے اپنی
انا، اپنی ضد اور اپنے حسد کی پیروی کی…وہ قتل ناحق کے جرم میں مبتلا ہو کر … دنیا
میں بھی مر گیا اور آخرت میں بھی زمین پر ہونے والے ہر… ’’قتل ناحق‘‘ کی سزا میں
حصہ دار بن گیا… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ کے زمانے میں ایک شخص نے آپ کی شان میں بہت سخت گستاخی کی… آپ کے رفقاء میں
سے ایک ’’صاحب‘‘ اس کو قتل کرنے کے لئے اُٹھے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے
سختی سے منع فرمادیا… اور فرمایا کہ یہ حکم حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے کہ… ان کے گستاخ کو قتل کرنا’’
برحق ‘‘ ہے ان کے بعد کسی کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں … ’’قتل ناحق‘‘ کا جرم چونکہ
اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت کا سبب ہے اس لئے… اس کے اثرات دور دور تک پھیلتے
ہیں… اور ایک قتل کئی مزید ہلاکتوں کا باعث بنتا چلا جاتا ہے… پاکستان اس وقت اس
عذاب کا شکار ہے… ایک طرف ’’تخریب کار‘‘ ہیں … جن کے نزدیک ’’قتل ناحق‘‘ نعوذ
باللہ ثواب کی چیز ہے… اور دوسری طرف حکومت ہے جس کے نزدیک ’’قتل ناحق‘‘ ملک کے
امن کے لئے ضروری ہے… ’’قتل ناحق‘‘ کا یہ بھیانک سلسلہ ’’پرویز مشرف‘‘ نے شروع
کرایا… اور پورے ملک کو ایک آگ میں دھکیل دیا…پرویز مشرف ہم پر یہ الزام لگاتا ہے
کہ… ہم نے اس کے قتل کی کوشش کی… اسی طرح جماعت سے بھاگے ہوئے بعض افراد نے بھی یہ
دعویٰ کر رکھا ہے… حالانکہ الحمد للہ ثم الحمد للہ… ہم نے ’’قتل ناحق‘‘ کے جرم سے
بچنے کے لئے… پاکستان میں کبھی نہ کوئی کارروائی کی اور نہ اس کی ترتیب بنائی…
پرویز مشرف یا کسی اور کو مارنا کوئی ایسا ناممکن کام بھی نہیں تھا مگر ہم… اس آگ
میں مزید انگارے نہیں ڈالنا چاہتے تھے، کیونکہ یہ جہاد نہیں… ایک آگ ہے اور ایک
سازش۔
مارکیٹوں میں یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ جب کسی
کا کوئی ’’برانڈ‘‘ بہت مقبول ہو جائے تو اس کے مخالف… اس ’’برانڈ‘‘ کو ناکام اور
بدنام کرنے کے لئے… اسی نام کی نقلی اور نقصان دہ چیز بازار میں لے آتے ہیں…
مثلاً کسی جگہ ’’ محمد بدر‘‘ نام کا ’’ حلوہ‘‘ بہت مشہور بہت مقبول ہو گیا… ہر
کوئی یہی حلوہ خرید رہا ہے… اور دُکان پر ہر وقت بھیڑ رہتی ہے… اب مخالفوں نے
’’محمد بدر‘‘ کے نام اور پیکٹ کے ساتھ ’’نقلی حلوہ‘‘ مارکیٹ میں چلا دیا… اس حلوے
کو جو کھاتا ہے اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے اور وہ الٹیاں کرنے لگتا ہے…
اب اصلی ’’محمد بدر‘‘ کمپنی والے ہر جگہ اپنی صفائیاں دیتے
ہیں…لوگوں کو اصلی، نقلی کا فرق سمجھاتے ہیں… مگر اب ان کی شہرت اور مقبولیت پہلے
جیسی نہیں رہتی… اور پھر جب ان کی دکان پر مخالفین سرکاری چھاپہ ڈلواتے ہیں تو
لوگ… ان کی مدد کے لئے بھی نہیں نکلتے… کیونکہ نقلی حلوہ اپنا کام دکھا چکا ہوتا
ہے… اللہ تعالیٰ نے امارت اسلامی افغانستان کے ذریعہ ’’جہاد‘‘ کو بے پناہ مقبولیت
اور شہرت عطاء فرمائی… امارت اسلامی افغانستان کے حکام ’’ طالبان ‘‘ کہلاتے تھے…
اور طالبان کا نام… عزت و وقار ، امن و سکون اور امانت و دیانت کا ’’برانڈ ‘‘ بن
چکا تھا… آج جو آپ پاکستان اور اس کے آس پاس اور دور دور تک اسلام، دینی مدارس
اور مساجد کی ترقی دیکھتے ہیں… اس کے پیچھے ’’طالبان‘‘ کی محنت و دیانت کا بڑا
ہاتھ ہے… انہی کے زمانے میں لوگ جوق در جوق جہاد پر آئے اور انہی کے زمانے میں
مسلمانوں کے مالدار اور پڑھے لکھے طبقے نے دین پر خرچ کرنے کے لئے اپنا ہاتھ اچھی
طرح کھولا… طالبان کی وجہ سے اسلام اور جہاد کو الحمد للہ عزت و شوکت ملی… اب جب
’’عالم کفر‘‘ نے طالبان پر حملہ کیا تو ضروری تھا کہ طالبان کی شہرت کو بھی نشانہ
بنایا جائے… چنانچہ طالبان کے نام سے ایسے افراد کھڑے کئے گئے… جنہوں نے اغوا
کاری، بھتہ خوری اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا… یہ سب کچھ امریکہ اور پرویز
مشرف کی قیادت میں ہوا… انہوں نے خود ایسے افراد مقرر کئے جو …نوجوانوں کو ملک میں
کارروائیوں پر ابھارتے تھے اور ان کی فنڈنگ کرتے تھے… پھر انہوں نے سرکاری اداروں
کے ذریعہ جہادی جماعتوں کو توڑا اور ان میں سے ایسے افراد نکالے جو جذباتیت کا
شکار ہو سکیں… پھر انہوں نے مجاہدین پر مظالم ڈھائے تاکہ وہ غصے اور انتقام میں آ
کر کارروائیاں کریں… پھر انہوں نے مساجد و مدارس پر مظالم کی آگ برسائی تاکہ… اس
کے منفی ردعمل میں… نوجوان شدید انتقامی جذبے کا شکار ہوں… اور پھر ان نوجوانوں کو
’’طالبان‘‘ اور ان کی کارروائیوں کو ’’جہاد‘‘ کا نام بھی دلوایا… اور یوں وہ
’’اصلی طالبان‘‘ لوگوں کو بھول گئے… جن طالبان کی مثالیں دے کر لوگ اپنے ملکوں کے
حکمرانوں کو جوتے دکھاتے تھے… ’’طالبان‘‘ کی وہ مقبولیت اسی طرح برقرار رہتی تو
ہزاروں لاکھوں مسلمان پوری دنیا سے… افغانستان کا رخ کرتے اور ’’طالبان‘‘ پر حملہ
کرنے والی طاقتوں کو عبرت کا نشان بنا دیتے… وہ افراد جو پاکستان وغیرہ میں
کارروائیاں کرتے رہے اگر یہ سب افغانستان چلے جاتے اور وہاں کارروائیاں کرتے تو
آپ اندازہ لگائیں کہ حملہ آور اتحاد کا کتنا برا حشر ہوتا… اسی لئے ایک سازش کے
تحت کئی ریٹائرڈ افراد، کئی مشکوک پیر، کئی ظاہری دیندار… اپنے ہاتھوں میں بریف
کیس لے کر مجاہدین کی صفوں میں گھس گئے… اور نوجوانوں کو پاکستان میں کارروائیاں
کرنے پر اُبھارنے لگے… ساتھ انہوں نے یہ نعرہ بھی عام کر دیا کہ… پاکستان کے جو
مجاہدین افغانستان اور کشمیر میں لڑ رہے ہیں وہ ایجنسیوں کے ایجنٹ اور چابی والے
خرگوش ہیں… ان کو بڑی بڑی رقمیں ملتی ہیں… اور یہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے…
چنانچہ سیدھے سادے جذباتی نوجوان ان باتوں کا شکار ہو کر وزیرستان کا رخ کرنے لگے
… اور یوں ایک نیا سلسلہ چل پڑا… اس وقت جو نوجوان اس سازش کا شکار ہوئے… وہ اکثر
بے قصور تھے… ان کو جس طریقے سے جذبات دلائے گئے اور جس طرح سے بھڑکایا گیا… اس کو
سن کر کسی مسلمان کے لئے سوائے اسے قبول کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا…
اور پھر لال مسجد کے واقعے نے… اس جنگ کو مستقل بنیادوں پر کھڑا کر دیا…امریکہ اور
پرویز مشرف کی ایجنسیوں کے پلان میں یہ بھی شامل تھا کہ…اس طرح کے جذباتی افراد کو
استعمال کر کے… ایک طرف تو اصلی طالبان کو بدنام کیا جائے گا… اور دوسری طرف ان
نوجوانوں کی کارروائیوں کو جواز بنا کر پاکستان سے جہادی جماعتوں ، مدارس اور دینی
جماعتوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا… چونکہ لوگ اغوا کاری، بھتہ خوری، عوامی قتل عام
سے تنگ ہوں گے تو یوں اس کے پردے میں … پاکستان کے دینی طبقے کو مجرم قرار دے کر
اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا… اور یہ ملک ایک سیکولر لبرل ریاست بن جائے گی… مگر
امریکہ، نیٹو اور ان کے پالتو پرویز مشرف کی یہ سازش مکمل کامیاب نہ ہو سکی… وجہ
اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا، اپنے بندوں کا اور جہاد کا محافظ ہے… وہ
تحریک جسے جذبات کے جھٹکے لگا کر… کچھ مقاصد کے لئے کھڑاکیا گیا تھا وہ اتنی مضبوط
ہو گئی کہ… حکومت کو بھی چکر آنے لگے… جمہوری نظام حکومت کی ایک خرابی یہ بھی ہے
کہ… لوگ آتے ہیں جاتے ہیں، افسر بدلتے ہیں، اداروں کے سربراہ تبدیل ہوتے ہیں…
پالیسیاں تسلسل سے جاری نہیں رہتیں… کئی افراد کو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر ہٹنا
پڑتا ہے… اور نئے افراد کو پرانوں کے کارناموں کا علم تک نہیں ہوتا… بس یہی کچھ
یہاں ہوا…جذبات کے تندور میں جلائے جانے والے نوجوان ایک منظم تحریک بن گئے… پورا
ملک دو طرفہ ’’قتل ناحق‘‘ کی آگ میں جلنے لگا… پہلے جو جنگ محض جذبات پر مبنی
تھی… اب اس میں تنظیمی اصول اور طرح طرح کے سرپرست آتے گئے… تب ریاست نے ان کے
خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا… تو ان لوگوں کو افغانستان نے جگہ دے دی… آپریشن
ضرب عضب شروع ہوتے وقت بندہ نے جو ’’رنگ ونور‘‘ لکھا تھا اسے ملاحظہ فرما لیجئے…
آپ حیران ہوں گے کہ اس میں آئندہ کے جن حالات کی نشاندہی کی گئی تھی وہ کھلی
آنکھوں سے سب کے سامنے آ گئے… اب آپ دیکھیں…پہلا مقصد طالبان کو بدنام کر کے ان
کو اکیلا کرنا تھا اور انہیں شکست دینی تھی… الحمد للہ یہ مقصد پورا نہ ہوا… امارت
اسلامی افغانستان آج بھی قائم ہے، میدان میں ہے اور فاتح ہے… اگرچہ اس فتح میں
وقت زیادہ لگا… اور یہ بھی درست ہے کہ طالبان کی پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک
میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں رہی… مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟… میدان میں وہ آج
بھی فاتح ہیں… اور ان کا دشمن خود شکست تسلیم کر رہا ہے… دوسرا مقصد … پاکستان میں
قائم شرعی جہادی جماعتوں کو ختم کرنا اور مدارس و مساجد کا ناطقہ بند کرنا تھا…
سول سوسائٹی کے نام سے میراثیوں کا ایک پورا لشکر… اور میڈیا کے نام سے کئی غیر
ملکی ایجنٹوں کا ایک پورا ٹولہ… اسی کام کے لئے وقف ہے کہ… جیسے ہی پاکستان میں
کوئی تخریبی کارروائی ہوتی ہے تو وہ فوراً شور ڈال دیتا ہے کہ … ہر دیندار کو
مارو، ہر مدرسہ بند کرو، ہر جماعت پر پابندی لگاؤ…اور ملک سے دین کا خاتمہ کرو…
مگر الحمد للہ یہ مقصد بھی آج تک پورا نہیں ہو سکا… اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس
ملک کو قائم رکھنا ہے تو یہ مقصد کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔
خلاصہ یہ کہ امریکہ اور پرویز مشرف نے… ’’قتل ناحق‘‘ کا یہ
دو طرفہ سلسلہ جن مقاصد کے لئے شروع کرایا تھا وہ تو پورے ہوئے نہیں … جبکہ
پاکستان کے خلاف مستقل ایک جنگ کے اسباب تیار ہو گئے… اب بھی اس لڑائی کو بند کیا
جا سکتا ہے مگر نہ حکومت ایسا چاہتی ہے اور نہ غیر ملکی طاقتیں… بلکہ غیر ملکیوں
کی تو یہ خواہش ہے کہ وہ لوگ جو ابھی تک پاکستان کے خلاف نہیں لڑ رہے… پاکستان
حکومت ان کو بھی اتنا مجبور اور تنگ کرے کہ وہ بھی لڑنے پر اتر آئیں… دوسری طرف
وہ افراد جو… فوجی آپریشن سے بچنے کے لئے افغانستان جا بیٹھے ہیں وہاں ان کو
عالمی طاقتیں اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ… وہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ
کارروائیاں کریں … اور ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان کو ختم کرنے میں ان کی مدد
کریں…زمانے کا انتقام دیکھیں کہ وہ لوگ جو کل تک…پاکیزہ کشمیری مجاہدین اور باہمت
افغان مجاہدین کو… ’’آئی ایس آئی‘‘ کا ایجنٹ کہتے تھے آج سب لوگ اُن کو ’’را‘‘
کا ایجنٹ کہہ رہے ہیں…بے شک جھوٹی گالی بالآخر گولی بن کر گالی دینے والے کی طرف
واپس لوٹتی ہے۔
ہم نے کئی بار کوشش کی کہ… یہ جنگ کسی طرح بند ہو یا کم ہو…
مگر ہماری نہ تو حکومت سنتی ہے… اور نہ مسلح جنگجو… کیونکہ دونوں طرف کے عزائم بھی
بڑھ چکے ہیں، مجبوریاں بھی بڑھ چکی ہیں… اور مظالم بھی بڑھ چکے ہیں…
یہاں تک کہ جو ان کو سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ اسے بھی قتل
کرنا ضروری سمجھتے ہیں… اور یہ جنگ اب جنگل کے قانون سے بھی زیادہ بے اصول ہو چکی
ہے… آخر ’’شہباز قلندر رحمہ اللہ ‘‘ کے مزار پر دھمال ڈالنے والوں کا اس جنگ سے
کیا تعلق تھا؟ وہ اچھے لوگ تھے یا بُرے، مگر ان کے جسموں میں اللہ تعالیٰ نے جان
رکھی تھی… اسلام نے کسی بھی جان کے ’’قتل برحق‘‘ اور ’’قتل ناحق‘‘ کے جو اٹل اصول
ارشاد فرمائے ہیں ان کی رو سے ان افراد کا قتل… ’’قتل ناحق‘‘ بنتا ہے… پھر دوسری
طرف حکومت نے بھی دیر نہیں لگائی، جیلوں اور تفتیشی مراکز میں سے ایک سو افراد کو
نکالا اور ان کا ’’قتل ناحق‘‘ کر دیا… اور یوں ملک میں ’’قتل ناحق‘‘ کا عفریت ہر
طرف چھا گیا…
اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے… اہل پاکستان کے لئے یہ دعاء اور
استغفار کی گھڑی ہے۔
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…583
بھاری دن
* قیامت
کا دن ایک برحق اور سخت ترین دن…
* روزِ
قیامت عذاب سے بچ جانے والا ہی اصل کامیاب…
* ایک
مالدار آدمی کا واقعہ…
* سیّدنا
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک قول…
* اُمت
محمدیہ کا بڑا امتحان، مال…
* صحیح
بخاری کی ایک روایت اور ایک دردناک منظر…
* حدیثِ مبارک
کی تشریح…
* وہ
پانچ مالی حقوق جن میں جلدی کرنی چاہئے…
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم موضوعات… ملاحظہ فرمایئے
تاریخِ اشاعت:
۳جمادیٰ
الثانیہ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق3 مارچ 2017ء
بھاری دن
اللہ تعالیٰ ’’قیامت‘‘ کے دن کی سختی، ذلت اور عذاب سے ہم
سب کی حفاظت فرمائے…
﴿ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقّ﴾(النبا:۳۹)
’’وہ دن ’’برحق‘‘ ہے۔‘‘
بہت بڑا دن … صدیوں کے برابر ایک دن… بدلے اور حساب کا دن…
بہت مشکل دن … بہت بھاری دن…بہت سخت دن…
﴿اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ
شَیْئٌ عَظِیْمٌ﴾ (الحج:۱)
ایک ایسا دن جس کی سختی اور ہیبت بچوں کو بھی بوڑھا بنا دے
گی…یا اللہ! رحم
قرآن مجید نے جگہ جگہ قیامت کے دن کے ہولناک مناظر بیان
فرمائے ہیں…
مگر کامیاب لوگوں کے لئے وہ دن… بہت میٹھا ہو گا… اعزاز،
اکرام، راحت اور عزت والا دن… ہاں! جو اس دن عذاب سے بچ گیا وہی کامیاب ہے… اور جو
اس دن کامیاب ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتا…
﴿وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ
فَوْزًا عَظِیْمًا﴾(الفتح:۵)
ایک حکایت
ایک مالدار آدمی نے اپنے بڑے سے محل کے ساتھ ایک ’’باغیچہ
‘‘ بھی بنوایا… وہ کبھی کبھار سیر و تفریح کے لئے اس باغیچے میں جاتا اور پھولوں
اور پھلوں کے درمیان چہل قدمی کرتا… اسے یہ خیال آیا کہ میرا باغیچہ چھوٹا ہے اسے
مزید بڑا ہونا چاہیے… باغیچے کے ساتھ ایک غریب کسان کا کھیت تھا… مالدار آدمی نے
اپنے نوکروں اور بدمعاشوں کو حکم دیا تو انہوں نے وہ کھیت قبضے میں لے کر باغیچے
میں شامل کر دیا… اب ’’باغیچہ ‘‘ بڑا ہو گیا… جبکہ غریب کسان روتا رہ گیا… ایک بار
اس کسان نے دیکھا کہ وہ مالدار آدمی باغیچے میں اکیلا چہل قدمی کر رہا ہے… کسان
اپنے کندھے پر ایک خالی بوری رکھ کر اس کے پاس پہنچ گیا اور منت کر کے کہنے لگا…
جناب والا! کچھ مٹی کی ضرورت ہے اجازت دیں تو یہ ایک بوری بھر لوں؟… مالدار نے
اجازت دے دی… کسان نے اپنی بوری مٹی سے بھری اور زمین پر بیٹھ گیا… اور مالدار کی
دوبارہ منت کرنے لگا کہ جناب یہ بوری اٹھا کر میرے کندھے پر رکھ دیں… مالدار آدمی
نے بوری اُٹھانے کی کوشش کی تو ہانپ گیا اور کہنے لگا مجھ سے یہ بوری نہیں اُٹھائی
جاتی… تم خود اُٹھا لو… کسان نے کہا… جناب آپ مٹی کی ایک بوری نہیں اُٹھا سکتے…
تو قیامت کے دن میرا پورا کھیت کندھے پر کیسے اُٹھا کر کھڑے ہوں گے؟ قیامت کا دن
تو صدیوں کے برابر ہو گا… یہ سن کر مالدار آدمی کو پسینہ آ گیا اور اس نے فوراً
اس کسان کا کھیت اسے واپس لوٹا دیا۔
ہاں بے شک! قیامت کے بھاری دن… وہی کامیاب ہو گا جو اس طرح
کے بوجھ سے ہلکا ہو گا…مشہور محدث اور فقیہ ، زمانے کے عظیم مجاہد اور امام حضرت
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مجھے ایک درہم مشتبہ مال کا لوٹا دینا چھ لاکھ درہم خیرات کرنے سے زیادہ محبوب
ہے۔‘‘
یعنی وہ مال جس میں حرام اور حلال کا شبہ ہو … اسے واپس
لوٹا دینا اتنے بڑے اجر اور فضیلت والا کام ہے… تو پھر جو مال خالص حرام ہو اسے
لوٹانا کتنا ضروری اور اہم ہو گا؟… اور کسی کی امانت اور کسی کا حق لوٹانے کا کیا
مقام ہو گا؟ اے ایمان والو! اپنے مال کی تلاشی لو، اپنی جیب کی تلاشی لو، اپنی
جائیداد کی تلاشی لو… اپنی الماریوں کی تلاشی لو…کوئی حرام مال، کسی کی کوئی
امانت، کوئی مشتبہ مال… ہمارے پاس نہیں ہونا چاہیے، ہم نے پل صراط پر سے گزرنا ہے…
ہم نے اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہے… مال ہمارے ایمان کا سب سے بڑا امتحان ہے… یا
اللہ! ہم سب کو امانت دار بنا… امانت دار اُٹھا… قیامت کے دن امانت دار کھڑا
فرما…یاد رکھیں!… کسی اور کی ایک سوئی بھی اپنے قبضے میں رکھنا ہمارے لئے دنیا و
آخرت میں خطرناک ہے… بہت خطرناک۔
بڑا ہی دردناک منظر
صحیح بخاری میں ایک روایت ہے… اس روایت کو انسان جتنی بار
پڑھے خوف سے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں… ہم مسلمانوں کو بار بار یہ حدیث پڑھنی
چاہیے… اس مبارک حدیث میں قیامت کے دن کا ایک خوفناک منظر بیان کیا گیا ہے… حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے درد کے
ساتھ اپنی امت کو سمجھاتے ہیں کہ… میں قیامت کے دن تمہیں اس حالت میں نہ دیکھوں کہ
تمہاری گردن پر بکری یا گھوڑے لدے ہوئے ہوں… یا تمہاری گردن پر اونٹ بیٹھا آوازیں
نکال رہا ہو … یا تمہاری گردن پر کپڑوں کے ڈھیر پڑے ہوں… اور تم مجھے پکار پکار کر
کہو کہ… اے اللہ کے رسول! ہماری مدد فرمائیے اور میں جواب دوں کہ… میں تمہارے بارے
میں کسی چیز کا مالک نہیں… میں نے تو اللہ تعالیٰ کا حکم تم تک پہنچا دیا تھا…
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت میں خیانت کی… اجتماعی
اموال میں گڑ بڑ کی… لوگوں کی امانتوں میں خیانت کی… لوگوں کا حق اپنے قبضے میں
لیا…
قیامت کے دردناک دن وہ ایسی شرمناک صورت میں حاضر ہوں گے
کہ… ان کے کندھوں پر وہ چیز زندہ بیٹھی ہو گی جس میں انہوں نے خیانت کی تھی… یہ
اللہ تعالیٰ کا ظلم نہیں… اس کا انصاف ہو گا… اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں دین پر سب
کچھ لگانے اور لٹانے کا حکم دیا… اللہ تعالیٰ نے ہم سے بار بار رزق کا وعدہ
فرمایا… اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ میں برکت کا اعلان فرمایا… اللہ تعالیٰ نے صدقہ میں
مال کی ترقی کا اثر عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی اور والدین کی مالی خدمت
کو دنیا میں مالداری کا ذریعہ بنایا…اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے بڑے اونچے وعدے
فرمائے جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں… اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں… مگر ایک
مسلمان ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دے… اور اجتماعی مال اور امانتوں میں بھی
خیانت کرنے لگے تو کیا معلوم ہوا؟… یہی معلوم ہوا کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی کسی
بات پر یقین نہیں ہے… یہ اپنی عقل اور اپنی چالاکی کو اپنا ’’رازق‘‘ سمجھتا ہے اور
یہ خیانت ہی میں اپنی عزت اور ترقی دیکھتا ہے…
چنانچہ ایسا شخص …قیامت کے دن سب کے سامنے سخت ذلت سے دوچار
کیا جائے گا… اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی مدد فرمانے سے انکار کر دیں گے…
یا اللہ! آپ کی پناہ… یا اللہ! آپ کی پناہ…
جلدی کرنی چاہیے
مال کے بارے میں بہت سے کام جلدی کرنے چاہئیں… کیونکہ تاخیر
سے وہ ’’ بیماری ‘‘ پکی ہو جاتی ہے…مثلاً
١
زکوٰۃ ادا کرنے میں ایسی جلدی ہو… کہ سال گذرتے ہی پہلے دن ساری زکوٰۃ الگ کر کے
ادا کر دی جائے…بلکہ پہلے سے ہی زکوٰۃ کا مال الگ کر دیں، جیسے ہی اگلے سال کا
پہلا دن آئے تمام زکوٰۃ ادا ہو جائے۔
٢
جائیداد ، جاگیر اور مال میں اگر کسی رشتہ دار کا حصہ ہو، خصوصاً رشتہ دار خواتین
کا… تو وہ فوراً ان کو الگ کر کے دے دینا چاہیے… جتنا عرصہ وہ حصہ کوئی اپنے قبضے
میں رکھے گا اسی قدر بے برکتی، مالی پریشانی اور گناہ کا بوجھ اس پر بڑھتا جائے گا
… اور اگر موت آ گئی تو مستقل وبال بن جائے گا۔
٣
کسی کی کوئی امانت ہو… کسی کا کوئی مال ہو… وہ فوراً اس کو ادا کر دینا چاہیے… روک
روک کر دینا… یا بغیر اجازت استعمال کرنا یہ سب خود اپنے لئے ہی نقصان دہ بن جاتا
ہے۔
٤ جب کسی صدقے یا دینی خرچے کا خیال دل میں آئے تو
اسی وقت اُٹھ کر وہ الگ کر دے یا ادا کر دے… اس میں جس قدر تاخیر ہو گی شیطان اسی
قدر محرومی میں ڈالتا جائے گا۔
٥
کسی کا قرض واپس کرنے میں بے حد جلدی کرنی چاہیے…جیسے ہی قرض واپس کرنے کی رقم
ہاتھ میں آئے تو نہ دن دیکھے نہ رات فوراً اپنی روح کو آزاد کرانے کے لئے قرضہ
ادا کر دے… کئی لوگ اس میں غلطی کرتے ہیں… اور پھر بے برکتی اور پریشانی کا شکار
ہوتے ہیں… دوسروں کا مال آپ کے مال میں خلط ہو گا تو آپ کا مال آگے ترقی نہیں
کر سکے گا… اس لئے دوسروں کا مال اور حق الگ کریں، اب آپ اپنے مال میں عجیب ترقی
اور برکت دیکھیں گے… ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…584
اپنا گھر
* اللہ
تعالیٰ کے پڑوسی کون لوگ؟…
* اللہ
تعالیٰ کے پڑوسی ہونے کا کیا مطلب؟…
* ایک
بندۂ مومن کا اصلی ’’اپنا گھر‘‘ کون سا ہے؟…
* انسانوں
کا اصل وطن کون سا ہے؟…
* روئے
زمین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے محبوب جگہ کون سی ہے؟…
* اللہ
تعالیٰ کےراستوں میں سب سے زیادہ قریب ترین راستہ کون سا ہے؟…
* عورت
کا وہ وصف کمال کیا ہے جس کی بدولت وہ جنت کی طرف لپکتی ہے؟…
* مساجد
کی تعمیر میں عورتیں زیادہ حصہ کیوں لیتی ہیں؟…
* مساجد
کی تعمیر کے بارے میں مسلمانوں کے جذباتی مزاج
اور شوق وذوق کے عوامل کیا ہیں؟…
ان
تمام سوالات کا جواب لئے خوبصورت واقعات
سے
مزین ایک ایمان افروز تحریر
تاریخِ اشاعت:
۱۰جمادیٰ
الثانیہ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق10 مارچ 2017ء
اپنا گھر
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعلان فرمائیں گے… کہاں ہیں میرے
پڑوسی؟ کہاں ہیں میرے پڑوسی؟… فرشتے عرض کریں گے: اے ہمارے رب! آپ کا پڑوسی بننے
کی کس کو مجال ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے:
اَیْنَ عُمَّارُ الْمَسَاجِدِ؟
کہاں ہیں مسجدیں آباد کرنے والے؟
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے … اس حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں اور محدثین نے اسے ’’حدیث صحیح
‘‘ قرار دیا ہے…یہ ’’حدیث قدسی‘‘ ہے… ’’حدیثِ قدسی‘‘ وہ ہوتی ہے جس میں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم … اللہ تعالیٰ کا کوئی
فرمان … اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سناتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے…
حدیث شریف کے الفاظ دوبارہ پڑھیں… مسجدیں تعمیر کرنے والے، مسجدیں آباد کرنے
والے، مسجدوں سے محبت رکھنے والے… مسجدوں کا اہتمام کرنے والے… اللہ تعالیٰ کا شکر
ادا کریں… اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا پڑوسی قرار دیا ہے … یعنی اللہ تعالیٰ کے
’’قرب‘‘ کا اعلیٰ مقام… قریب ،بہت قریب… بے شک مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے… اللہ
تعالیٰ غیرت و جلال والا ہے… اپنے ’’ گھر‘‘ کی خدمت کے لئے اپنے قریبی بندوں کو ہی
توفیق دیتا ہے… دنیا میں ان کو مال دے کر ، ان کو توفیق دے کر ان سے اپنا گھر
بنواتا ہے… اور اس کے بدلے جنت میں ان کے لئے اپنے’’قرب‘‘ میں گھر بناتا ہے… اللہ
تعالیٰ کو نہ گھر کی ضرورت نہ مکان کی… دنیا میں وہ جو اپنا ’’گھر‘‘ بنواتا ہے… وہ
بھی اس کے بندوں کے کام آتا ہے… بندے اس گھر میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا ’’قرب‘‘
پاتے ہیں، سکون پاتے ہیں… اور طرح طرح کی انمول نعمتیں پاتے ہیں اور پھر اس
’’گھر‘‘ کے بدلے اللہ تعالیٰ جنت میں ہمیں جو ’’گھر‘‘ عطاء فرمائیں گے… وہی ہمارا
’’اپنا گھر‘‘ ہو گا… خالص اپنا گھر… نہ کوئی ہمیں وہاں سے نکال سکے گا نہ کوئی
ہمیں وہاں ستا سکے گا … اس گھر پر نہ چھاپے پڑیں گے اور نہ ڈاکے… اس گھر میں نہ غم
ہو گا نہ موت… اس میں نہ ذلت ہو گی نہ قلت… وہ گھر ایسا ہے کہ جس کی شان میں قرآن
کی آیات اُتری ہیں… یا اللہ! ہم سب کو’’ اپنا گھر‘‘ عطاء فرما۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: … ’’جو اللہ تعالیٰ کے لئے
مسجد بنائے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائیں گے‘‘… یہ حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے اُمتیوں کے
لئے ’’سچا وعدہ‘‘ ہے …رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وعدہ سچا ہے… مسجد کے بارے میں تو یہاں تک
فرمایا کہ جو ایک چڑیا کے گھونسلے جتنی مسجد بنائے گا… اس کے لئے بھی جنت میں گھر
بنے گا… یعنی مسجد کی تعمیر میں اخلاص کے ساتھ اتنا حصہ کہ… ایک چڑیا کے گھونسلے
جتنی جگہ ہماری طرف سے بن جائے… اللہ تعالیٰ کا شکر کہ اُس نے…ہمارے لئے اتنا عظیم
انعام مقرر فرمایا … رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ کہ انہوں نے ہماری اس عظیم عمل کی طرف
رہنمائی فرمائی…
صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارا وطن کون سا ہے؟
سائنسدان جو کہتے ہیں کہتے رہیں… وہ روز اپنی بات اور اپنی
تحقیق بدلتے ہیں… قرآن مجید نے ہمیں بتایا ہے…اور یہی اٹل سچ ہے کہ… ہم انسانوں
کا اصل وطن ’’ جنت‘‘ ہے… اس لئے تو زمین پر ہم جیسی کوئی مخلوق نہیں…اور زمین کی
کوئی مخلوق ہم جیسی نہیں… تھوڑی بہت مشابہت تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ایک دوسرے
کے ساتھ ہوتی ہی ہے … مگر یہ پکی بات ہے کہ ہم ’’زمین‘‘ کے رہنے والے نہیںہیں…
ہمارے والد حضرت آدم علیہ السلام اور ہماری والدہ حضرت حوا علیہا السلام ’’ جنت‘‘ کے رہنے والے تھے… جنت ہی ہمارا اصل
وطن ہے… اسی لئے ہم میں سے جو بھی سچی فطرت پر ہوتا ہے… وہ ہمیشہ ’’ جنت‘‘ کا
مشتاق رہتا ہے… ہمارے اندر ایک خفیہ جستجو اس بات کی رہتی ہے کہ… ہم اپنے اصلی
’’وطن‘‘ میں واپس جائیں… اس لئے زمین پر ہمارا دل نہیں لگتا… ہمیں مکمل اطمینان
نہیں ملتا… ہمیں ’’زمین‘‘ پر ایک ’’مسافر‘‘ کی طرح بھیجا گیا ہے … زمین ہمارے لئے
ایک امتحان گاہ ہے… جہاں ہم نے پرچہ دینا ہے… اور یہاں سے چلے جانا ہے … اب آگے
ہمارے لئے دو کام ہیں… ایک راستہ … اور ایک منزل یا مکان… زمین سے جنت تک کا راستہ
بہت دور اور بہت مشکل ہے… یہ چاند اور مریخ سے بہت آگے ہے… یہ آسمانوں سے بھی
آگے ہے … پھر جب ہم یہ راستہ عبور کر کے جنت پہنچ جائیں گے تو وہاں ہمیں… منزل
اور مکان چاہیے… جنت ہی وہ جگہ ہے جو انسان کے شایان شان ہے… جنت ہی میں انسان کی ہر خواہش، ہر تمنا پوری
ہوسکتی ہے… زمین سے جنت تک کا راستہ ہمارے لئے تب آسان ہو گا جب ہم دنیا میں اللہ
تعالیٰ کے راستے پر چلیں گے… اس راستے کو مانیں گے، اس کو اپنائیں گے… اس پر جان
ومال لگائیں گے… اور جنت میں ’’ اپنا مکان ‘‘ ہمیں تب ملے گا جب ہم دنیا میں اللہ
تعالیٰ کے گھر سے جڑ جائیں گے…بعض اعمال اور بھی ہیں جن کی برکت سے جنت کا مکان
ملتا ہے… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں دنیا میں اپنے راستے جہاد فی سبیل
اللہ کے ساتھ جوڑا ہے… اور اپنے گھر یعنی خانہ کعبہ اور مساجد کے ساتھ منسلک فرما
دیا ہے… اللہ تعالیٰ کے راستوں میں سب سے قریب راستہ جہاد فی سبیل اللہ کا ہے… اور
اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین جگہ ’’مسجد ‘‘ ہے…
عورت کا کمال
یہاں ایک بات اپنی مسلمان ماؤں اور بہنوں کے لئے عرض کر
رہا ہوں… اللہ تعالیٰ نے ’’عورت‘‘ میں بے شمار صفات رکھی ہیں… اس کی ایک صفت ’’ضد
‘‘ ہے… ہر عورت ’’ضدی‘‘ ہوتی ہے… یعنی اپنی بات اور اپنے نظریات پر پکی… آپ جانتے
ہیں کہ ہر ’’صفت‘‘ اچھے کاموں میں بھی استعمال ہو سکتی ہے اور برے کاموں میں بھی…
مثلاً مال کے بارے میں کھلا ہاتھ… یہ ایک صفت ہے… اس صفت کو صحیح استعمال کیا جائے
تو اس کا نام ’’سخاوت‘‘ ہے… جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ صفت ہے… لیکن اگر کھلا ہاتھ
گناہ کے کاموں میں خرچ کرنے میں ہو تو … یہ ’’اسراف اور تبذیر‘‘ ہے جو کہ شیطانی
صفت ہے… عورت کی ’’ضد‘‘ اگر اچھے کاموں میں ہو تو وہ اسے ایمان کی بلندیوں تک
پہنچا دیتی ہے… حضرت آسیہ علیہا السلام کو دیکھ لیں کہ… ایمان پر کیسے جم گئیں؟ … اور
اگر یہ ضد برے کاموں میں ہو تو… عورت شیطان کا سب سے مضبوط ہتھیار بن جاتی ہے… ابو
لہب کی بیوی کو دیکھ لیں کہ… اس ضدی عورت نے کتنے بڑے خاندان کو جہنم کا ایندھن
بنا دیا… یعنی ’’ضد‘‘ عورت کی فطرت اور اس کے خمیر کے اندر موجود ہے… اسی لئے حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے مردوں
کو سمجھایا کہ… عورت کو زیادہ سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو… یہ ٹوٹ جائے گی مگر اپنی
ضد نہیں چھوڑے گی… ویسے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی اصلاح پر خاص توجہ فرمائی… اور اسی
اصلاح ہی کے لئے زیادہ نکاح بھی فرمائے کہ… عورت کو دین پر اور اچھے کاموں پر
’’ضدی‘‘ بنا دیا جائے… چنانچہ یہ محنت کامیاب رہی اور اسلام اور دین پر مضبوطی سے
قائم ضدی عورتوں نے…اسلام کی وہ خدمت کی ہے جو مرد بھی نہیں کر سکے… بات کچھ دور
نکل رہی ہے… واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں… موضوع یہ ہے کہ… دنیا میں ’’مسلمان
عورت‘‘ کا گھر کونسا ہوتا ہے؟…آپ غور کریں تو حیران ہوں گے کہ… دنیا میں ’’مسلمان
عورت‘‘ کا کوئی گھر نہیں ہوتا… وہ جس گھر میں پیدا ہوتی ہیں … وہ ماں باپ کا گھر
کہلاتا ہے… اور ماں باپ اس تاک میں رہتے ہیں کہ… کب اس کے لئے اچھا رشتہ آئے تو
اسے اپنے گھر سے روانہ کریں … اب یہ دوسرے گھر چلی گئی… وہ گھر شوہر کا گھر کہلاتا
ہے … اس گھر میں بوڑھی ہوئی تو… اب یہی گھر اولاد کا گھر بن گیا…
کئی عورتوں کو وراثت وغیرہ میں ’’مکان ‘‘ مل بھی جاتا ہے…
مگر آپ غور کریں تو وہ گھر بھی اس کی طرف منسوب نہیں ہوتا… اور خود اسے بھی یہی
فکر ہوتی ہے کہ اپنا گھر اپنی اولاد کو دے دے… وجہ کیا ہے؟… وجہ یہ ہے کہ عورت ضدی
ہے… اسے جنت سے نکالا گیا …یہ زمین پر آ گئی… مگر ا س کے اندر یہ ضد چھپی ہوئی ہے
کہ میں نے واپس اپنا اصلی گھر ہی لینا ہے… یعنی جنت والا گھر… اسی لئے اس نے دنیا
کے کسی گھر کو ’’اپنا گھر‘‘ قرار نہیں دیا… ضدی جو ہوئی… اور اللہ تعالیٰ کی پیاری
بھی… اسے ندامت ہے کہ مجھے اپنی غلطی کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا…اب میں اپنے رب
کو منا کر واپس جنت ہی میں گھر حاصل کروں گی… اور جب تک جنت والا گھر نہیں مل جائے
گا… زمین پر کسی گھر کو اپنا گھر نہیں کہوں گی… آپ حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کے ان الفاظ پر غور کریں جو قرآن مجید کی آیت
بن چکے ہیں…
﴿رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ
بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ﴾(التحریم:۱۱)
’’یا اللہ! میرے لئے اپنے پاس جنت
میں گھر بنا دے۔‘‘
فرعون کے بڑے بڑے محلات میں اسے چین نہ آیا… ان محلات میں
نہریں بہتی تھیں اور دنیا کی ہر راحت وہاں موجود تھی…مگر ایمان والی عورت اپنی ضد
پر کھڑی ہے کہ… جنت کا گھر چاہیے… فرعون کا گھر نہیں چاہیے… آپ ازواج مطہرات کے
حجروں پر غور کریں… کائنات کی یہ ملکائیں اور شہزادیاں کس طرح سے کچے کمروں میں
خوش حال رہیں… اور بالآخر ان کے یہ کمرے بھی ان کے جنت کے گھروں کا حصہ بن گئے…
کیونکہ وہ سب مسجد نبوی میں شامل ہو گئے۔
میں نے خود ایسی کئی مساجد دنیا بھر میں دیکھی ہیں جو…
مسلمان عورتوں نے تعمیر کرائیں… اور اب بھی کویت، امارات وغیرہ میں…مساجد کی تعمیر
کے اکثر اداروں کے پیچھے مسلمان خواتین کا مال ہے … ابھی کچھ عرصہ پہلے ’’مصر‘‘
میں ایک مسجد کی توسیع کا معاملہ تھا… سامنے عیسائیوں کا گرجا تھا جو زیادہ قیمت
دے کر آس پاس کے پلاٹ خریدتا جا رہا تھا تاکہ مسجد دب جائے… گرجے والوں کے اس طرز
عمل کی وجہ سے وہاں پلاٹوں کی قیمت بھی آسمانوں کو چھونے لگی… تب چند مسلمانوں نے
مسجد سے متصل پلاٹ مسجد کے لئے خریدنے کا ارادہ کیا تاکہ… گرجے کی یلغار کو روکا
جا سکے اور مسجد کی توسیع کی جا سکے… بس اعلان ہونے کی دیر تھی کہ مسلمان ٹوٹ پڑے
اور اس میں اکثر ’’چندہ ‘‘ مسلمان عورتوں کا تھا … ایک نئی دلہن نے تو سارا زیور
اتار کر چندے کی جھولی میں ڈال دیا… اور جب زیورات سے خالی ہوئی تو خوشی سے روتی
ہوئی سجدے میں گر گئی… مسجد کے چندے میں عورتوں اور مردوں کا تناسب نوے اور دس کا
رہتا ہے… نوے فی صد مال عورتیں دیتی ہیں … اور دس فی صد مرد… اس مسجد کا تذکرہ آ
گیا تو اس میں دو واقعات اور بھی… ایمان میں اضافے کے لئے عرض کر دیتا ہوں…کہتے
ہیں کہ… مسجد کے معززین مسجد کے باہر کھڑے ہو کر چندے کا اعلان کر رہے تھے تو ایک
معصوم بچہ اپنے لئے جو دہی کا ڈبہ خرید کر گھر جا رہا تھا جوش سے آگے بڑھا… اس نے
وہ ’’ڈبہ‘‘ حوالے کر دیا کہ اسے مسجد کی تعمیر میں لگا دیں…جو لوگ وہاں جمع تھے وہ
بہت متاثر ہوئے … مسجد والوں نے اعلان کر دیا کہ …کون یہ دہی کا ڈبہ خریدتا ہے…
لوگوں میں سے ایک نے کافی اچھی رقم دے کر وہ خرید لیا… اور وہ رقم مسجد کے چندے
میں ڈال دی گئی…پھر وہ آدمی جس نے ڈبہ خریدا تھا بچے کو الگ لے گیا کہ بیٹا یہ
دہی واپس لے جاؤ اور اسے کھا لو… بچے نے کہا…ہرگز نہیں …وہ تو میں نے اپنے پیارے
رب کو دے دی ہے… اب واپس نہیں لے سکتا… اسی مسجد میں دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ
ایک معذور مسلمان دو بیساکھیوںپر چلتا ہوا مسجد میں نماز ادا کرنے آیا…اس نے
’’تعمیر مسجد‘‘ کا اعلان سنا تو نماز کے بعد اپنی دونوں بیساکھیاں چندے والے کپڑے
پر ڈال دیں… اور خود زمین پر گھسٹ گھسٹ کر گھر جانے لگا… لوگوں نے یہ منظر دیکھا
تو زار و قطار رونے لگے… دراصل مسجد کے بارے میں سچے مسلمانوں کا یہ ذوق… حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کا
نتیجہ ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد
نبوی کی تعمیر شروع فرمائی تو خود مزدوری میں لگ گئے … اپنی چادر اُتار کر زمین پر
ڈال دی اور اینٹیں اُٹھانے لگے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ منظر دیکھا تو اپنی چادریں اُتار کر
پھینکنے لگے اور تیزی سے کام کی طرف دوڑے… اور انہوں نے یہ شعر پڑھا…
لئن قعدنا والنبی یعمل
ذاک لعمر اللّٰہ عمل مضلل
’’ اگر ہم بیٹھے رہیں اور رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کام کر رہے
ہوں تو اللہ کی قسم یہ ہمارے لئے بڑی گمراہی اور خسارے کی بات ہے۔‘‘
وہ لوگ جو مجاہدین کے مساجد بنانے پر اعتراض کرتے ہیں… ان
کی خدمت میں بھی یہی مذکورہ بالا شعر پیش کیا جاتا ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین نے جو کام کیا… مجاہدین
اگر سچے ہیں تو وہ بھی وہی کام کریں گے ۔
بات یہ چل رہی تھی کہ… ایمان والی عورت اس ضد میں پکی ہے
کہ… اس نے واپس اپنے وطن یعنی جنت میں ہی… اپنا گھر بنانا ہے… چنانچہ اس کی خاطر
وہ فرعون کے محلات کو ٹھکرا دیتی ہے… اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی…روایات
میں آتا ہے کہ… جب اہل جنت مرد اپنے محلات کی طرف جائیں گے تو ان کی ایمان والی
بیویاں پہلے ہی ان محلات کے دروازوں پر موجود ہوں گی… اصلی مالکن…اپنے اصلی وطن
میں اپنے اصلی گھر کے دروازے پر اپنے خاوند کا استقبال کرے گی… اے مسلمان ماں!… اے
مسلمان بہن!… تجھے تیری یہ مبارک ضد… مبارک ہو، ہزار مبارک…
جماعت میں ہر سال ، دو سال کے بعد…تعمیر مساجد کی مہم چلتی
ہے… اب تک الحمد للہ درجنوں مساجد تعمیر اور آباد ہو چکی ہیں… اب اس سال ایک ماہ
کے لئے یہ مبارک مہم بدھ کے دن سے شروع ہے … اور اس مہم کا نام رکھا گیا ہے… اپنا
گھر مہم…
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو … اپنے ’’قرب‘‘ میں ہمارا
’’ اپنا گھر‘‘ عطاء فرمائے… آئیے ہم سب اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں… اور مکمل
اخلاص کے ساتھ، خالص اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اس مہم میں اپنا حصہ ڈالیں…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…585
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍ
* درود
وسلام خیر، برکت اور حمت کا خزانہ…
* درودشریف
عشق ووفا کا اظہار اور اونچی روحانی سیر…
* درود
شریف تزکیۂ نفس، قبولیت دعاء اور تکمیل حاجات کا ذریعہ…
* درود
وسلام حسن ہی حسن بلکہ مجسمۂ حسن…
* مقابلہ
حسن کیا ہے؟… مقابلۂ حسن کے اعمال…
* یوپی
میں مودی کی جیت اور مستقبل کے خطرات…
* اگر
بابری مسجد شہید کی جگہ دوبارہ مندر
بنانے
کی کوشش کی گئی تو پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟…
* جب
اعداء اللہ دشمنی پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ
’’انصار
اللہ‘‘ کو خود کھڑا فرمادیتےہیں، ایک لطیف نکتہ…
قیمتی
نکات سے پردہ اٹھاتی اور درود وسلام کا نور برساتی ایک معطر تحریر
تاریخِ اشاعت:
۱۷جمادی
الثانیہ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق17 مارچ 2017ء
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍ
اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے ’’درود و سلام ‘‘ میں بڑی
خیر، برکت اور رحمت رکھی ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ
وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ
دل چاہتا ہے کہ کسی دن بھی… درود شریف کے عمل کا ناغہ نہ
ہو… درود شریف ہمیں اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے… درود شریف ہمیں حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم سے جوڑتا ہے…درود شریف ہمیں مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں سے جوڑتا ہے… درود شریف ہمیں ’’رحمت‘‘ سے جوڑتا ہے…
درود شریف ہمیں ’’شفاعت‘‘ سے جوڑتا ہے… درود شریف ہمیں ’’ مغفرت‘‘ سے جوڑتا ہے…
درود شریف ہماری ملاقات فرشتوں سے کراتا ہے… درود شریف ہمیں اونچی روحانی سیر
کراتا ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ
وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ
درود شریف میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہے… حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی ہے… درود
شریف میں دعاء بھی ہے… درود شریف میں عقیدہ بھی ہے… درود شریف میں عمل بھی ہے…
درود شریف میں محبت بھی ہے… درود شریف میں ’’وفاداری‘‘ بھی ہے… درود شریف میں عشق
بھی ہے… درود شریف میں طہارت اور پاکی بھی ہے…اور درود شریف میں اللہ تعالیٰ کا
قرب بھی ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَدَدَ مَا
صَلّٰی عَلَیْہِ الْمُصَلُّوْنَ
درود شریف میں اونچی پرواز ہے… درود شریف میں دعاؤں کی
قبولیت ہے، درود شریف میں حاجات کی تکمیل ہے… درود شریف میں نفس کی اصلاح ہے… درود
شریف میں دل کا تزکیہ ہے… درود شریف میں آنکھوں کی روشنی ہے…درود شریف میں آخرت
کی آسانی ہے… درود شریف میں دنیا کی برکت ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِیْ اَوَّلِ
کَلَامِنَا وَ فِیْ اَوْسَطِ کَلَامِنَا وَفِیْ اٰخِرِ کَلَامِنَا
کئی افراد جنہوں نے ہمارے جمعہ کے ’’مقابلۂ حسن‘‘ کا تذکرہ
بعد میں سنا ہے… وہ پوچھتے ہیں ’’مقابلۂ حسن‘‘ کیا ہے…جواب یہ کہ… جمعہ کی رات
اور جمعہ کے دن درودشریف کی کثرت کو… ہم ’’مقابلۂ حسن‘‘ کہتے ہیں… اللہ تعالیٰ
’’الجمیل‘‘ ہے… حسن والا، حسن کا خالق، حسن کا مالک… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے
زیادہ ’’حسین ‘‘ ہیں… ظاہری حسن اور باطنی حسن کا شاہکار مرقع… درود شریف میں ہم
ان دونوں کا تذکرہ کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ سے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص رحمت مانگتے ہیں… ’’صلوٰۃ‘‘ کہتے ہیں
حسین ترین رحمت کو… درود شریف کی برکت سے اللہ تعالیٰ درود شریف پڑھنے والوں پر
صلوٰۃ، رحمت اور ان جیسی اور کئی حسین نعمتیں برساتے ہیں… درود شریف کی برکت سے
ہمارا نامۂ اعمال حسین ہوتا ہے… ہمارا دل، ہمارا چہرہ، ہماری زبان، ہماری سانس
اور ہماری قبر حسین ہوتی ہے…درود شریف کی برکت سے ہمارا ایمان حسین ہوتا ہے، ہمارا
عمل حسین ہوتا ہے… ہمارا عقیدہ حسین ہوتا ہے… درود شریف اوّل تا آخر حسن ہی حسن
ہے… اصل حسن، حقیقی حسن، کبھی زائل نہ ہونے والاحسن… اسی لئے دل سے آواز آئی ہے
کہ اس عمل کو ’’مقابلۂ حسن‘‘ کہا جائے تاکہ ’’مقابلۂ حسن‘‘ کا لفظ ان بدبودار
مناظر سے نجات پائے… جو مناظر شیطان سے بھی زیادہ بے حیا اور بدصورت ہیں… جمعہ کی
رات اور جمعہ کے دن حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خود کثرت درود
شریف کا حکم فرمایا ہے… حسن والوں کی طرف سے آیا ہوا حکم کتنا حسین ہو گا… کتنا
خوبصورت اور کتنا حسین؟
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بِقَدَرِ
حُسْنِہٖ وَجَمَالِہٖ وَکَمَالِہٖ
جمعرات اور جمعہ کے دیگر بھی کئی اعمال ہیں… مثلاً جمعہ کی
رات زیادہ دعاء کا اہتمام… اس رات بڑی دعائیں قبول ہوتی ہیں… جمعہ کی فجر نماز خاص
طور سے جماعت کے ساتھ ادا کرنا… اس کی حدیث شریف میں خاص فضیلت آئی ہے… جمعہ کے
دن فجر نماز سے پہلے تین بار یہ استغفار پڑھنا۔
اَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ
وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
اس کی فضیلت والی روایت… ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب میں ملاحظہ
فرما لیں…جمعہ کے دن غسل کا اہتمام کرنا… مسواک کرنا، خوشبو لگانا… خواتین کا اس
دن ظہر کی نماز جلد ادا کرنا… مردوں کا جمعہ نماز کے لئے بہت جلد مسجد جانا… جمعہ
کے دن صدقہ دینا… جمعہ میں ایک گھڑی خاص قبولیت کی ہے اس کو حاصل کرنا…جمعہ نماز
کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کی تلاش میں نکلنا… جمعہ نماز کے لئے پاک صاف لباس
پہننا… خوشبو لگانا… جمعہ کے دن اپنی مساجد میں خوشبو مہکانا… جمعہ کے دن اپنے
مرحوم والدین کی قبور پر جانا… جمعہ کے دن کسی جنازے اور کسی نکاح میں شرکت کرنا…
جمعہ کے دن محاذ جنگ پر خطبے کے وقت دشمنوں پر حملہ کرنا … جمعہ کے دن کسی مریض کی
عیادت کرنا… جمعہ کے دن عصر سے مغرب تک کے وقت میں ذکر اللہ ، درود شریف ، تلاوت
اور دعاء میں مشغول رہنا… جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرنا… جمعہ کے دن سورۂ
یٓس اور سورۃ الصافات پڑھ کر اپنی حاجات کے لئے دعاء کرنا… یہ سارے اعمال بھی
’’مقابلۂ حسن‘‘ کا حصہ ہیں… مگر خاص عمل جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن ’’درود و
سلام‘‘ کی کثرت ہے…
صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَآلِہٖ
وَسَلَّمَ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَ رِضَا نَفْسِہٖ وَ زِنَۃَ عَرْشِہٖ وَ مِدَادَ
کَلِمَاتِہٖ
آج کل ہماری ’’مساجد مہم‘‘ چل رہی ہے…نام ہے ’’ اپنا گھر‘‘
مہم… الحمد للہ ’’درود و سلام‘‘ کی برکت سے اب تک اس مہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت
فضل و کرم نظر آ رہا ہے… پانچ دن میں اللہ تعالیٰ نے پانچ مساجد کا انتظام فرما
دیا ہے… ابھی ’’پانچ مساجد‘‘ باقی ہیں… سب دیوانے صبح سویرے دو رکعت نماز ادا کر
کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگا کریں اور پھر ’’درود و سلام‘‘ پڑھتے ہوئے… دل کے شوق
اور جذبے کے ساتھ اس مبارک مہم پر نکل کھڑے ہوئیں… ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مساجد‘‘ سے ’’عشق‘‘ تھا… ہم بھی اس ’’عشق‘‘
کو اپنے دل میں بھریں… اس سے ہمارے ’’جہاد‘‘ کو بھی قوت ملے گی… اور ہمارے جسم و
جان کو بھی
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا
یَنْبَغِیْ لَنَا اَنْ نُّصَلِّیَ عَلَیْہِ وَکَمَا اَمَرْتَنَا اَنْ نُّصَلِّیَ
عَلَیْہِ۔
ہندوستان میں ’’مودی‘‘ نے ایک اور ریاست میں اپنی حکومت
قائم کر لی ہے… اس ریاست کا نام ہے ’’یوپی‘‘یعنی اترپردیش… اس ریاست کے دارالحکومت
کا نام ’’ لکھنؤ‘‘ ہے… لکھنؤ سے کچھ فاصلے پر’’فیض آباد‘‘… اورفیض آباد کے
مضافات میں ’’ایودھیا‘‘ … اور ’’ایودھیا‘‘ میں بابری مسجد شریف… مودی کی پارٹی ’’
بی جے پی‘‘ کافی عرصہ سے… اس ریاست میں ناکام تھی… 1992ء میں اس پارٹی کی
’’یوپی‘‘ پر حکومت تھی اور وزیر اعلیٰ مردود کا نام تھا ’’ کلیان سنگھ‘‘ …ایڈوانی
اور کلیان سنگھ نے مل کر تحریک چلائی اور ’’بابری مسجد‘‘ کو شہید کر دیا…مسجد کے
ملبے پر ایک عارضی مندر قائم کر دیا گیا… اس واقعہ پر پورے ہندوستان میں فسادات
پھوٹ پڑے… اور عالم اسلام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی… بی جے پی نے اعلان کیا کہ
’’بابری مسجد‘‘ کی جگہ رام مندر بنایا جائے گا… اور ہندوستان کی مزید تین ہزار
مساجد کو گرایا جائے گا… ’’رام مندر‘‘ کے لئے پوری دنیا میں چندہ کیا گیا… مگر امت
مسلمہ جاگ اٹھی… ’’آہ! بابری مسجد‘‘ کی پکار نے ہندوستان کی زمین کو لرزا دیا…
اور فدائیوں کی یلغار نے دو سال کے منصوبے کو پچیس سال کی کھائی میں پھینک دیا…
ملعون ایڈوانی بوڑھا اور ریٹائرڈ ہو گیا…رام مندر کا متولی اور سرگرم داعی ’’پرم
راج ہنس‘‘ شمشان گھاٹ کی چتا پر راکھ ہو گیا… خارش زدہ دہشت گرد بال ٹھاکرے شراب
پی پی کر مر گیا مگر رام مندر ابھی تک نہ بن سکا… اب مشرک اپنے نئے ’’ابو جہل‘‘
یعنی ’’مودی‘‘ کو میدان میں لائے ہیں… اور ’’مودی‘‘ نے ’’یوپی‘‘ کی حکومت بھی حاصل
کر لی ہے… اب ممکن ہے کہ ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر کا معاملہ دوبارہ اٹھے… تب ہم کیا
کریں گے… ہم یہ کریں گے کہ ان شاء اللہ ایک درخت ڈھونڈیں گے اور درخت اللہ تعالیٰ
کی زمین پر بہت ہیں… پھر ہم اس درخت کے نیچے بیٹھ جائیں گے اور پھر کلمہ طیبہ اور
درود شریف پڑھ کر… ’’بیعت رضوان‘‘ کی سنت زندہ کریں گے… ہاں! ان شاء اللہ، ہاں! ان
شاء اللہ ، ہاں! ان شاء اللہ… موت پر بیعت کریں گے… اور موت ہمیں بُری نہیں
لگتی…اور بیعت کرنے والے سب فدائی ہوں گے…اور فدائی اس امت میں الحمد للہ بہت ہیں…
اور تب ’’غزوۂ ہند‘‘ کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا، ان شاء اللہ… کوئی یہ بات
نہ بھولے کہ اللہ کے دشمن جب ’’دشمنی‘‘ پر اترتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے
’’دوستوں‘‘ کو کھڑا فرماتا ہے… اور ان کی مدد فرماتا ہے… جب دجال آئے گا تو اللہ
تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کو اُٹھائیں
گے… مودی اور ٹرمپ آ گئے تو کیا فکر؟… اُمت مسلمہ کی گود سے بھی اب صلاح الدین
ایوبی اور محمود غزنوی آنے کو ہیں…یہ حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہے… نہ مٹنے والی، نہ دَبنے والی،نہ
جھکنے والی… کیونکہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم خود… مجاہد تھے، نبی السیف اور نبی الملاحم…
آئیے؟ ان پر درود و سلام بھیجیں… صبح، شام ، رات ، دن … کبھی ناغہ نہ ہو… کبھی
ناغہ نہ ہو
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ…صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ…صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم… صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…586
اصل بات’’ یقین‘‘ ہے
* حصولِ
نعمت کے وقت اہل ایمان کو کیا کرنا چاہئے؟…
* درود
وسلام کی کثرت سے حاجات پوری ہونے کا وعدۂ نبوی…
* یہود
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین
دشمن…
* آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور بے ادبی
کی
* ہر
کوشش وتحریک کے محرک یہودی…
* گستاخوں
کا اصل علاج، اسوۂ نبوی کی روشنی میں…
* ’’حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف
بھیجنےسے ہر دعاء قبول
ہوتی
اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔‘‘
ایک
مسلمان کا ایمان ویقین سے بھرپور قول…
* ایک
ایمان افروز واقعہ…
درود شریف کی برکات وثمرات سے بھرپور ایک معطر تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۴جمادیٰ
الثانیہ ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق24 مارچ 2017ء
اصل بات’’ یقین‘‘ ہے
اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور معافی کا سؤال ہے…
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ
الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ
ہر حمد، ہر تعریف اور ہر پاکی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ
الْعَظِیْمِ
جب ایمان والوں کو کوئی نعمت ملے تو ان کو چاہئے کہ… اللہ
تعالیٰ کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ پکاریں اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں… قرآن
مجید کی سورۃ ’’النصر‘‘ میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو… اور پھر پوری اُمت کو یہی سبق پڑھایا گیا
ہے…
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ
تَوَّابًا
الحمد للہ ’’ اپنا گھر‘‘ مہم پر اللہ تعالیٰ نے خاص فضل
فرمایا… وہ مہم جو تقریباً ایک ماہ چلنی تھی دس دن میں سمٹ گئی اور کل چودہ دنوں
میں… مکمل ہو گئی … ابتدائی ہدف جو دس مساجد کی تعمیر کا تھا… وہ الحمد للہ دس دن
میں پورا ہوا… اب ان شاء اللہ اسی مہم سے مزید بھی دو مساجد بن جائیں گی ان شاء
اللہ… ہم سب پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور احسان پر تسبیح ، حمد اور
استغفار کا اہتمام کریں…
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ
رَبِّ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ
مہم میں چندہ دینے والوں، محنت کرنے والوں، دعائیں اٹھانے
والوں، فکر فرمانے والوں… اور خاموش تعاون کرنے والوں کا دل کی گہرائی سے شکریہ…
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی مغفرت، اپنا فضل… اور بہترین جزاء عطاء فرمائے اور
مجھے اور آپ سب کو جہنم سے بچا کر… براہ راست اپنا حقیقی گھر عطاء فرمائے…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ
الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَ لَکُمْ
گذشتہ ہفتے کے کالم میں درود شریف کی یاد دہانی تھی… وہ
الحمد للہ بہت مفید رہی … اور اس کی برکات مہم پر بھی واضح نظر آئیں… اور کئی طرف
سے ’’کثرت درودوسلام‘‘ کی جو کارگذاری پہنچی ہے وہ ماشاء اللہ قابل شکر ہے… ہر طرف
سے کروڑوں درود و سلام کی خبریں ہیں…
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ
الصَّالِحَاتُ
ایک واقعہ کسی جگہ پڑھا تھا… اختصار اس کا یہ ہے کہ ایک
یہودی کسی مسلمان کا پڑوسی تھا… ہمارے ہاں جب اسلامی حکومتیں ہوتی تھیں تو… جو غیر
مسلم ذمی بن کر ہمارے ساتھ رہتے تھے… اُن کے حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا تھا…
ہماری حدیث شریف اور فقہ کی کتابوں میں… ان ’’ذمیوں‘‘ کے مسائل اور حقوق پر بہت
مفصل ہدایات موجود ہیں… چنانچہ اس یہودی کے ساتھ… اس کا مسلمان پڑوسی بہت اچھا
سلوک کرتا تھا…
آگے کا قصہ پڑھنے سے پہلے درود شریف سے اپنے دل اور زبان
کو مہکا لیتے ہیں…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ
رَسُوْلِکَ وَ صَلِّ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ وَ الْمُوْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ
وَ الْمُسْلِمَاتِ…
اس مسلمان کی عادت تھی کہ… وہ ہر تھوڑی دیر بعد یہ جملہ
کہتاتھا:
’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے
اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے‘‘… جو کوئی بھی اس مسلمان سے ملتا… وہ مسلمان
اسے اپنا یہ جملہ ضرور سناتا… اور جو بھی اس کے ساتھ بیٹھتا اسے بھی ایک مجلس میں
کئی بار یہ جملہ مکمل یقین سے سناتا تھا کہ…
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے
اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کُلَّمَا
ذَکَرَہُ الذَّاکِرُوْنَ وَکُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ۔
اس مسلمان کا یہ جملہ اس کے دل کا یقین تھا… اور وہ خود اس
جملے کے فوائد و ثمرات دن رات اپنی زندگی میں دیکھتا تھا… اور واقعی اس جملے میں
کوئی ’’مبالغہ ‘‘ یا ’’مغالطہ‘‘ بھی نہیں ہے… خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک مقرب صحابی کو یہ وظیفہ ارشاد
فرمایا کہ… اگر وہ اپنے اوراد کاتمام وقت درود شریف میں گذاریں گے تو… اللہ تعالیٰ
ان کی دنیا و آخرت کی تمام حاجتیں پوری فرمائیں گے… ماضی میں کئی ایسے گناہگار
مسلمان بھی گذرے ہیں جن سے گناہ نہیں چھوٹتے تھے… مگر انہوں نے ہمت کی… اور اپنی شفاعت کے لئے ’’درود شریف‘‘
کا عمل کبھی نہ چھوڑا چنانچہ انجام اور خاتمے کے وقت… اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ
مغفرت و رحمت کا معاملہ فرمایا…
ہاں بے شک!… درود شریف، بہت قیمتی نعمت، بہت مقبول وظیفہ
اور بہت اعلیٰ عبادت ہے… اور یہ عبادت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے… اور اللہ تعالیٰ
کے حکم سے ہے… اور یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَدَدَ مَنْ
صَلّٰی مِنْ خَلْقِکَ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا
یَنْبَغِیْ لَنَا اَنْ نُّصَلِّیَ عَلَیْہِ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا
اَمَرْتَنَا اَنْ نُّصَلِّیَ عَلَیْہِ۔
اس مسلمان کے اس جملے سے… یہودی کو بہت تکلیف ہوتی تھی…
’’یہودی ‘‘حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سخت حسد اور عداوت رکھتے ہیں… اور وہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
مبارک سننے کی ہمت بھی نہیں رکھتے… ہمارے زمانے میں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کی شان مبارک میں… بے ادبی کی جتنی بھی
ناپاک تحریکیں چل رہی ہیں… اُن کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ، یہودیوں کا مال ،
یہودیوں کی ترغیب… اور یہودیوں کا میڈیا ہے… ’’ یہودی‘‘ ابھی تک ’’ بنی قریظہ‘‘ کے
جہاد کو نہیں بھولے… اُن کو ’’ بنی نضیر‘‘ اور ’’بنی قینقاع‘‘ کے معرکے اب تک یاد
ہیں… اُن کو’’ خیبر‘‘ کا جہاد ابھی تک کانٹے کی طرح چبھتا ہے… ’’یہود‘‘ دنیا کی
بدترین ، غلیظ ترین او رسازشی ترین ’’قوم‘‘ ہے… اور اسلام دشمنی اس قوم کی گھٹی
میں پڑی ہے… اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ مسلمانوں کو… یہودیوں کی طرف سے کس
صورتحال کا سامنا ہو گا… چنانچہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورت … اور سب سے اونچی
سورت… یعنی ’’سورۂ بقرہ‘‘… یہودیوں سے مقابلے کا طریقہ… اس اُمت کو سکھاتی ہے…
اور یہودیوں کے تمام عزائم ، امراض اور سازشوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرتی ہے… آج
کے زمانے میں… جو افراد… رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں… گستاخی کے مرتکب ہیں…
مسلمانوں کو ان کا حشر… کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع یہودی جیسا کرنا ہو گا…تب
ان شاء اللہ یہ مکروہ سلسلہ رکے گا یا کمزور پڑے گا… اگر رسول اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرنے والے
زندہ پھرتے ہیں تو پھر اس اُمت کے زندہ رہنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہ جاتا…
ہماری جان، ہماری اولاد حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس مبارک پر قربان…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ
الْفَرْقِ وَالْفُرْقَانِ وَ جَامِعِ الْوَرْقِ مِنْ سَمَائِ الْقُرْآنِ وَعَلٰی
اٰلِہٖ وَسَلِّمْ۔
اس مسلمان کے جملے سے، اس کے پڑوسی’’ یہودی‘‘ کو تکلیف بہت
ہوتی تھی… مگر وہ کیا کر سکتا تھا… اسے اپنے کاموں اور ضروریات کے لئے بار بار اس
مسلمان سے ملنا ہوتا… اور ان ملاقاتوں کے دوران اسے بار بار یہی جملہ سننے کو ملتا
کہ:
’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے
اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔‘‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلٰوۃً
تُنْجِیْنَا بِہَامِنْ جَمِیْعِ الْاَھْوَالِ وَالآفَاتِ وَتَقْضِیْ لَنَا بِھَا
جَمِیْعَ الْحَاجَاتِ۔
بالآخر اس یہودی نے اس مسلمان کو ’’جھوٹا‘‘ کرنے کی ٹھان
لی… اس نے ایک سازش تیار کی تاکہ… اس مسلمان کو ذلیل و رسوا کیا جائے… اور ’’درود
شریف‘‘ کی تاثیر پر اس کے ’’ یقین ‘‘ کو کمزور کیا جائے… اور اس سے یہ جملہ کہنے
کی عادت چھڑوائی جائے… یہودی نے ایک زرگر یعنی ’’سنار‘‘ سے سونے کی ایک انگوٹھی
بنوائی… اور اسے تاکید کی کہ ایسی انگوٹھی بنائے کہ اس جیسی انگوٹھی پہلے کسی کے
لئے نہ بنائی ہو… ’’زرگر‘‘ نے انگوٹھی بنا دی… وہ ’’ یہودی‘‘ انگوٹھی لے کر مسلمان
کے پاس آیا… حال احوال کے بعد مسلمان نے اپنا وہی جملہ ، اپنی وہی دعوت دہرائی …
کہ…
’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے ہر
حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے‘‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہٖ
صَلٰوۃً اَنْتَ لَھَا اَھْلٌ وَ ھُوَ لَھَا اَھْلٌ
آپ غور فرمائیں … اس مسلمان کا یہ جملہ بظاہر تو صرف درود
شریف کی دعوت نظر آتا ہے… مگر حقیقت میں یہ اسلام و ایمان کی دعوت بھی ہے… کیونکہ
درود شریف تو وہی بھیجے گا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانے گا…
یہودی نے دل میں کہا کہ… اب بہت ہو گئی… بہت جلد یہ ’’جملہ
‘‘ تم بھول جاؤ گے…
کچھ دیر بات چیت کے بعد ’’ یہودی‘‘ نے کہا… میں سفر پر جا
رہا ہوں… میری ایک قیمتی انگوٹھی ہے… وہ آپ کے پاس امانت رکھ کر جانا چاہتا ہوں…
واپسی پر آپ سے لے لوں گا… مسلمان نے کہا… کوئی مسئلہ نہیں آپ بے فکر ہو کر
انگوٹھی میرے پاس چھوڑ جائیں… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے
اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے…
صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ… صَلَّی
اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ۔
یہودی نے وہ انگوٹھی مسلمان کے حوالے کی… اور اندازہ لگا
لیا کہ مسلمان نے وہ انگوٹھی کہاں رکھی ہے… رات کو وہ چھپ کر اس مسلمان کے گھر
کودا… اور بالآخر انگوٹھی تلاش کر لی اور اپنے ساتھ لے گیا… اگلے دن وہ سمندر پر
گیا اور ایک کشتی پر بیٹھ کر سمندر کی گہری جگہ پہنچا اور وہاں وہ انگوٹھی پھینک
دی… اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا… اس کا خیال تھا کہ جب واپس آؤں گا… اور
اس مسلمان سے اپنی انگوٹھی مانگوں گا تو وہ نہیں دے سکے گا… تب میں اس پر چوری اور
خیانت کا الزام لگا کر… خوب چیخوں گا اور ہر جگہ اسے بدنام کروں گا… وہ مسلمان جب
اپنی اتنی رسوائی دیکھے گا تو… اسے خیال ہو گا کہ درود شریف سے کام نہیں بنا اور
یوں وہ اپنا جملہ اور اپنی دعوت چھوڑ دے گا … مگر اس نادان کو کیا پتا تھا کہ…
درود شریف کتنی بڑی نعمت ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہٖ
وَعِتْرَتِہٖ بِعَدَدِ کُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّکَ
یہودی واپس آ گیا… سیدھا اس مسلمان کے پاس گیا اور جاتے ہی
اپنی انگوٹھی طلب کی… مسلمان نے کہا: ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے
اور ہر حاجت اور مرادپوری ہوتی ہے‘‘… آپ اطمینان سے بیٹھیں، آج درود شریف کی
برکت سے میں صبح دعاء کر کے شکار کے لئے نکلا تھا تو مجھے ایک بڑی مچھلی ہاتھ لگ
گئی… آپ سفر سے آئے ہیں وہ مچھلی کھا کر جائیں… پھر اس مسلمان نے اپنی بیوی کو
مچھلی صاف کرنے اور پکانے پر لگا دیا… اچانک اس کی بیوی زور سے چیخی اور اسے
بلایا… وہ بھاگ کر گیا تو بیوی نے بتایا کہ مچھلی کے پیٹ سے سونے کی انگوٹھی نکلی
ہے… اور یہ بالکل ویسی ہے جیسی ہم نے اپنے یہودی پڑوسی کی انگوٹھی امانت رکھی تھی…
وہ مسلمان جلدی سے اس جگہ گیا جہاں اس نے یہودی کی انگوٹھی رکھی تھی… انگوٹھی وہاں
موجود نہیں تھی… وہ مچھلی کے پیٹ والی انگوٹھی یہودی کے پاس لے آیا اور آتے ہی
کہا:
’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے
اور ہر حاجت پوری ہوتی ہے…‘‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ
اَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ ذُرِّیَّتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی
اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
پھر اس نے وہ انگوٹھی یہودی کے ہاتھ پر رکھ دی… یہودی کی
آنکھیں حیرت سے باہر، رنگ کالا پیلا اور ہونٹ کانپنے لگے… اس نے کہا یہ انگوٹھی
کہاں سے ملی؟… مسلمان نے کہا… جہاں ہم نے رکھی تھی وہاں ابھی دیکھی وہاں تو نہیں
ملی… مگر جو مچھلی آج شکار کی اس کے پیٹ سے مل گئی ہے… معاملہ مجھے بھی سمجھ نہیں
آ رہا مگر الحمد للہ آپ کی امانت آپ کو پہنچی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے پریشانی
سے بچا لیا… بے شک ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے اور ہر
حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔‘‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی
اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ
اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
یہودی تھوڑی دیر کانپتا رہا…پھر بلک بلک کر رونے لگا…
مسلمان اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا… یہودی نے کہا: مجھے غسل کی جگہ دے دیں… غسل کر
کے آیا اور فوراً کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھنے لگا…
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ
لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
وہ بھی رو رہا تھا اور اس کا مسلمان دوست بھی… اور مسلمان
اسے کلمہ پڑھا رہا تھا اور یہودی یہ عظیم کلمہ پڑھ رہا تھا… جب اس کی حالت سنبھلی
تو مسلمان نے اس سے ’’وجہ‘‘ پوچھی، تب اس نومسلم نے سارا قصہ سنا دیا… مسلمان کے
آنسو بہنے لگے اور وہ بے ساختہ کہنے لگا…
’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے …
اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔‘‘
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ وَ تَحَنَّنْ
عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…587
مولانا مامون اقبال صاحب رحمہ اللہ
* حضرات
علماء، انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث…
*
حضرات انبیاء علیہم السلام وصحابہ رضوان
اللہ علیہم اجمعین کے بعد’’ علماء‘‘ کا
درجہ ہے…
* علم
کی فضیلت ومقام…
* مولانا
مامون اقبال رحمہ اللہ کی رحلت…
* مولانا
مامون اقبال رحمہ اللہ کا تعارف وخدمات…
* مولانا
مامون اقبال رحمہ اللہ دوراتِ تفسیر کے ایک مقبول مدرس…
علم
وجہاد سے مزین، خوبصورت زندگی گزار کر،
راہیٔ عالمِ بقا ہونے والے ایک نوجوان عالم دین
کا مبارک تذکرہ…
ملاحظہ
کیجئے…
تاریخِ اشاعت:
۲رجب
المرجب ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق31 مارچ 2017ء
مولانا مامون اقبال صاحب رحمہ اللہ
اللہ تعالیٰ کے وہ خوش نصیب بندے… جو اللہ تعالیٰ کے دین کا
علم سیکھتے اور سکھاتے ہیں… ان کا درجہ بہت بلند اور ان کی شان بہت اونچی ہے… یہ
بات میں نہیں بتا رہا… یہ بات ’’قرآن مجید ‘‘ بتا رہا ہے… ایک آیت میں نہیں کئی
آیات مبارکات میں… ہاں بے شک! ایسے لوگوں کا مقام اتنا عالی شان ہے کہ… حضرات
انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد انہی کا درجہ ہے… بس شرط یہ ہے کہ وہ ’’
دین کا علم ‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے سیکھیں اور سکھائیں… اور اس علم پر عمل
بھی کریں… ایسے علماء اور ایسے طلباء جب اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں تو ان کی جدائی
کے صدمے میں زمین بھی روتی ہے اور آسمان بھی روتا ہے… اور ہر زندہ دل مسلمان ایسی
خبر سن کر گہرے آنسو روتا ہے… آہ! مولانا مامون اقبال… ایک درویش صفت نوجوان
عالم باعمل… مجاہد، مدرس اور داعیٔ جہاد… وہ گذشتہ کل اچانک ہم سے رخصت ہو گئے…
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ
نام کیسے کاٹیں؟
اس وقت میرے سامنے ایک فہرست ہے… اس فہرست میں ہر وہ بات ہے
جس پر دل کی گہرائی سے ’’ الحمدللہ‘‘ نکلتا ہے… یہ اس سال رجب اور شعبان میں ہونے
والے مجوزہ ’’دورات تفسیر آیات الجہاد‘‘ کا برنامج ہے… اس میں لکھا ہے کہ اس سال
ان شاء اللہ اکیاون مقامات پر ’’دوراتِ تفسیر‘‘ ہوں گے… الحمد للہ، الحمد للہ…پہلے
جب یہ دورہ شروع ہوا تھا تو سال میں صرف ایک دو مقامات پر ہوتا تھا… یعنی اللہ
تعالیٰ نے اس میں پچاس گنا ترقی عطا فرمائی ہے الحمد للہ، الحمد للہ… اس سال کل
انتیس اساتذہ یہ اکیاون دورے پڑھائیں گے الحمد للہ ، الحمد للہ… پہلے ان دورات کا
استاذ صرف ایک تھا… اب اللہ تعالیٰ نے اس میں اٹھائیس گنا ترقی عطا فرمائی ہے
الحمد للہ ، الحمد للہ… ان اساتذہ میں سے بعض ایک مقام پر اور بعض مختلف تاریخوں
میں دو مقامات پر یہ دورے پڑھائیں گے الحمد للہ، الحمد للہ… یہ مبارک دورے ملک کے
چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، اور قبائلی علاقہ جات تک میں ان شاء اللہ ہوں گے الحمد
للہ، الحمد للہ… ان دورات سے الحمد للہ، الحمد للہ ہزاروں مسلمان مرد و خواتین
استفادہ کرتے ہیں… اور اپنے ایمان ، عقیدے اور عمل کی اصلاح کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ
نے دورات تفسیر کا یہ منفرد سلسلہ اس زمانے میں عطا فرمایاہے جب کہ… جہاد فی سبیل
اللہ کو مٹانے کے لئے… دنیا بھر کا اسلحہ، دنیا بھر کے دماغ اور دنیا بھر کے خزانے
استعمال کئے جا رہے ہیں… مگر ایسے میں کچھ ’’صاحبِ علم‘‘ فقراء اٹھتے ہیں… اور وہ
مسلمانوں کو ’’آیاتِ جہاد‘‘ سنا کر بتاتے ہیں کہ… ’’ جہاد‘‘ ہماری بات نہیں اللہ
تعالیٰ کا حکم ہے… آؤ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات سنو ، سمجھو اور پھر خود فیصلہ
کرو… یہ خوبصورت فہرست اس وقت میرے پاس ہے… اور اس کی ہر سطر مجھے الحمد للہ،
الحمد للہ پڑھوا رہی ہے… مگر یہ کیا… اس میں دو سطریں ایسی ہیں جن کو میں دیکھتا
ہوں تو انا للہ، انا للہ پڑھنے لگتا ہوں… ایک سطر میں شہر کا نام ڈیرہ اسماعیل خان
اور مدرس کا نام مولانا مامون اقبال… اور دوسری سطر میں شہر کا نام ’’ ہری پور‘‘
اور مدرس کا نام مولانا مامون اقبال…
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ … اِنَّا لِلهِ
وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ …
ہمارے مولانا مامون اقبال صاحب کئی سال سے یہ ’’ مبارک دورہ
‘‘ مکمل ذوق و شوق اور تحقیق کے ساتھ پڑھا رہے تھے… ان کے تدریسی اور تفہیمی انداز
کو پسند کیا جاتا تھا…اس سال بھی انہوں نے دو جگہ یہ ’’دورہ ‘‘ پڑھانا تھا… مگر کل
وہ خاک کی چادر اوڑھے… آفاق میں گم ہو گئے… اب اس فہرست میں سے ان کا نام کیسے
کاٹیں، کیسے کاٹیں؟
ایک سچا قصہ سن لیں
حافظ ابن بطّال القرطبی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ یہ واقعہ لکھا ہے… بندہ آپ
کے سامنے اس کا خلاصہ پیش کر رہا ہے… امام یحییٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں
علم حاصل کرنے کا شوق الہام فرمایا تو میں سفر کرکے اپنے رفقاء کے ساتھ ’’مدینہ
منورہ‘‘ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا… پہلے ہی دن امام مالک
رحمہ اللہ نے مجھ سے میرا نام پوچھا جو
میں نے عرض کر دیا… میں اپنے تمام رفقاء میں کم عمر نوجوان تھا… حضرت امام مالک
رحمہ اللہ نے مجھے فرمایا:
’’یَا یَحْییٰ! اَللہُ، اَللہُ
عَلَیْکَ بِالْجِدِّ فِیْ ہٰذَا الْاَمْرِ‘‘
’’یعنی امام صاحب نے اللہ، اللہ
فرما کر مجھے تاکید فرمائی کہ علم حاصل کرنے میں خوب محنت کرنا… میں تمہیں عنقریب
ایک ایسا واقعہ سناؤں گا کہ جسے سن کر تمہارے اندر علم کا شوق بڑھ جائے گا اور
دوسری چیزوں سے تم بے رغبت ہو جاؤ گے ‘‘پھر امام صاحب نے یہ قصہ سنایا:
’’ہمارے ہاں مدینہ منورہ میں ملک
شام سے تمہاری عمر کا ایک نوجوان علم حاصل کرنے آیا تھا… وہ تحصیل علم میں بہت
محنت کرتا تھا… مگر اچانک اس کا انتقال ہو گیا… میں نے اس کے جنازے میں ایسی چیزیں
دیکھیں جو اس سے پہلے میں نے کسی عالم یا طالبعلم کے جنازے میں نہیں دیکھی تھیں…
میں نے دیکھا کہ مدینہ کے سارے علماء اس کے جنازے کی طرف بڑھ چڑھ کر دوڑ رہے تھے،
جب مدینہ کے گورنر نے یہ منظر دیکھا تو اس نے جنازے کی نماز رکوا دی اور اعلان کیا
کہ… اہل مدینہ اپنے سب سے محبوب عالم اور بزرگ کو آگے کریں… عوام اور علماء نے
حضرت امام ربیعہ کو آگے کیا… اور امام ربیعہ نے اس زمانے کے بڑے اہل علم کو ساتھ
لے کر اس نوجوان طالبعلم کو قبر میں اتارا اور اس کی تدفین اور جنازے کے تمام
مراحل پورے کرائے… تدفین کے تیسرے دن مدینہ منورہ کے ایک مشہور بزرگ نے اس نوجوان
کو خواب میں دیکھا، وہ بہت حسین و جمیل شکل میں سبز عمامہ باندھے ایک عمدہ گھوڑے
پر سوار ہے اور آسمان سے اتر رہا ہے… اور کہتا ہے مجھے یہ مقام علم کی برکت سے
ملا ہے… اللہ تعالیٰ نے علم کے ہر اس ’’باب‘‘ کے بدلے جو میں نے پڑھا تھا جنت میں
میرا ایک درجہ بلند فرمایا… مگر پھر بھی میں ’’ اہل علم‘‘ کے ’’درجے‘‘ تک نہ پہنچ
سکا… تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا… میرے انبیاء کے وارثوں کو زیادہ دو میں نے اپنے
اوپر اس بات کی ضمانت لے لی ہے کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ وہ میری سنت اور
میرے انبیاء کی سنت کا عالم ہو گا یا اس کا طالبعلم ہو گا تو ان سب کو ایک درجے
میں جمع فرما دوں گا…
اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد مجھے بھی اہل علم کے درجے میں
پہنچا دیا گیا… اور اس درجے میں ہمارے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو درجوں کا فاصلہ ہے… ایک وہ
درجہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف
فرما ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
گرد حضرات انبیائِ کرام علیہم السلام ہیں…
اور دوسرا وہ درجہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف فرما ہیں… پھر ان کے بعد ’’ اہل علم‘‘ کا
درجہ ہے… مجھے وہاں لے جایا گیا یہاں تک کہ جب میں ان کے درمیان پہنچا تو اہل علم
نے مجھے ’’مرحبا مرحبا‘‘ فرمایا… یہ تو ہوا میرا درجہ… اس کے علاوہ بھی بہت کچھ
مزید اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمایا ہے… بزرگ نے پوچھا… وہ مزید کیا ہے؟ اس نوجوان نے
کہا… اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ حشر کے دن اللہ تعالیٰ اہل علم
سے فرمائیں گے… اے علماء کی جماعت! یہ میری جنت ہے جو میں نے تمہارے لئے حلال فرما
دی ہے… اور یہ میری رضا ہے جو میں نے تمہیں عطاء فرما دی ہے… مگر تم اس وقت تک جنت
میں نہیں جاؤ گے جب تک مجھے اپنی ہر تمنا اور اپنی ہر شفاعت نہ بتا دو تاکہ میں
تمہاری ہر تمنا پوری کر دوں اور تم جس کے بارے میں بھی شفاعت کرو میں اسے بخش دوں…
یہ اس لئے کہ تمام لوگ میرے ہاں تمہارے اعزاز ومقام کو دیکھ لیں…
مدنی بزرگ نے صبح اٹھ کر یہ خواب اہل علم کو سنایا اور
دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر ہر طرف پھیل گئی… مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو
پہلے ہمارے ساتھ علم حاصل کرتے تھے مگر پھر چھوڑ گئے تھے… انہوں نے یہ واقعہ سنا
تو وہ بھی مکمل ہمت اور جذبے کے ساتھ واپس لوٹ آئے… اور آج وہ اس شہر کے اہل علم
میں شمار ہوتے ہیں… بس اے یحییٰ! … اللہ، اللہ… علم میں خوب محنت کرو‘‘ حضرت امام
مالک رحمہ اللہ کی نصیحت اس نوجوان کے دل میں اتری اور وہ بھی
زمانے کے معروف و مقبول اہل علم میں شمار ہوئے۔
یہ واقعہ کافی پہلے پڑھا تھا… کل بھائی مامون صاحب کے
انتقال کی خبر آئی تو اسی وقت سے یہ واقعہ ذہن میں چمکنے لگا… مولانا مامون اقبال
صاحب کی مختصر سی پوری زندگی علم اور جہاد کی محنت میں گذری… زندگی کے آخری دن تک
وہ دین کی ان دو عظیم نسبتوں سے مکمل طور پر جڑے رہے… بچپن میں قرآن مجید حفظ
کیا… پھر دینی تعلیم حاصل کرنے میں لگ گئے… اور پھر یہی دینی علم پڑھاتے رہے… اور
ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کی خدمت بھی کرتے رہے… نہ کوئی وقفہ، نہ کوئی چھٹی اور نہ
کوئی آفت…
ساری زندگی سعادت ہی سعادت… اور موت ایسی تشکیل میں آئی
اور ایسی محبت سے آئی کہ ہر دیکھنے والا شہادت، شہادت پکارنے لگا… پیشانی کا
پسینہ، چہرے پر مسکراہٹ اور سکون… اور ہر طرف ’’محبوبیت‘‘ کے عجیب والہانہ مناظر…
بظاہر خاموش طبع فقیر مزاج مولانا… کس طرح سے مسلمانوں کے دلوں میں بستے تھے… یہ
ان کی وفات کے وقت معلوم ہوا… ہاں بے شک! وہ ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے دروازے اور
اللہ کے راستے پر پڑے رہے تو… اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر قبولیت و محبوبیت کے
انوارات برسا دئیے…
آخری دن بھی گھر سے نکل کر مدرسے میں آئے، سبق پڑھایا پھر
اگلے سبق کے لئے جانے والے تھے کہ… بے ہوش ہو گئے، ہسپتال لے جایا گیا… مگر وہاں
جانے کے چند گھنٹوں کے بعد وفات پا گئے اور واپس اپنے مدرسے میں آ کر مدرسہ کے
قبرستان میں اپنے محبوب چچا جی کے پڑوس میں… اپنے باغات پر چلے گئے…
کئی رشتے
مولانا مامون اقبال صاحب رحمہ اللہ پوری زندگی میرے خاموش ہمسفر اور معاون رہے… ان
کے ساتھ میرے کئی رشتے تھے… وہ میرے چچا زاد بھائی بھی تھے اور خالہ زاد بھائی
بھی… وہ اول دن سے جماعت کے قیمتی رکن تھے… ان کا اصلاحی بیعت کا سلسلہ بھی مجھ ’’
بے کار‘‘ سے تھا اور میری ہر محنت میں مکمل طور پر شریک اور معاون تھے… اور اب
انہوں نے ’’ جامعۃ الصابر‘‘ کا نظام اتنی عمدگی سے سنبھالا ہوا تھا کہ… کل جامعہ
کا ہر پتھر اور ہر پتا رو رہا تھا… ان تمام ’’ اہل محبت‘‘ کا شکریہ جنہوں نے غم کے
اس موقع پر تعزیت کی اور مولانا مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کیا… اللہ
تعالیٰ مولانا مامون صاحب کو اپنے خاص جوار میں مغفرت ، شہادت اور اکرام کا مقام
عطاء فرمائیں… ان کے والدین، اہل خانہ ، بھائیوں اور تمام غمزدہ پسماندگان کو صبر
جمیل عطا فرمائیں… اور مولانا کے چاروں معصوم یتیموں کو ایمان اور اچھی قسمت کا
’’دریتیم ‘‘ بنائیں…
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…588
موت، وصال یار
*آخرت کا سفر بہت لمبا اورطویل ،
ایک عالم سے دوسرے عالم تک
اور
ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک…
* موت
کی تیاری کرنے والوں کی زندگی آسان ہوجاتی ہے…
* دنیوی
زندگی مشکل کیوں بن جاتی ہے؟ …
* موت
کی حقیقی تیاری کیا ہے؟…
* کفر
وشرک سے حفاظت پر رب العالمین کا بے انتہا شکر…
* ہندوستان
کے مسلمانوں کی حالت زار…
* ہندوستان
کے کمزور مسلمان کیسے طاقتور بن سکتے ہیں؟…
* ’’ٹچ
ٹیکنالوجی‘‘دجالی طاقت …
* دجال
کے کچے انڈوں کا علاج، موت سے یاری…
* ’’موت
کی محبت ‘‘دجال سے زیادہ طاقتور عمل…
تاریخِ اشاعت:
۹رجب
المرجب ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق7اپریل 2017ء
موت، وصال یار
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ
وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
الحمد للہ ’’ رجب‘‘ کا عزت، احترام اور مقام والا مہینہ
شروع ہے… اللہ تعالیٰ سے’’ برکت ‘‘ کا سوال ہے… عمر ختم ہو رہی ہے … آگے بہت لمبا
سفر ہے… زمین سے خلاء تک نہیں… زمین سے چاند تک نہیں… زمین سے مریخ تک کا بھی
نہیں… اس سے بہت آگے، بہت دور، بہت دور… زمین سے برزخ تک کا سفر… یعنی ایک عالم
سے دوسرے عالم تک کا سفر… ایک زمانے سے دوسرے زمانے اور ایک جہان سے دوسرے جہان تک
کا سفر… کروڑوں نوری سالوں سے بھی آگے کا سفر… راستہ معلوم نہیں کیسا ہو گا؟
ٹھنڈا یا گرم… سفر اوپر کی جانب ہو گا یا نیچے کی جانب؟… ہماری کمزور سی روح… اور
آگے اتنا لمبا سفر… تیاری کچھ بھی نہیں… بس دنیا کی فکر میں اُلجھے ہوئے ہیں…
یہاں کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں… عبادت بھی دنیا کے لئے… وظیفے بھی
دنیا کے لئے…محنت بھی دنیا کے لئے… فکر بھی دنیا کے لئے… دعاء بھی دنیا کے لئے…
تعلقات بھی دنیا کے لئے… ہم تو پیر اور بزرگ بھی وہ ڈھونڈتے ہیں جو دنیا کے مسائل
حل کرانے کا دعویٰ رکھتا ہو…بس انہی کاموں اور فکروں میں لگے ہوتے ہیں کہ اچانک
موت آ جاتی ہے… تب معلوم ہوتا ہے کہ… اصل سفر کی تو تیاری ہی نہیں کی تھی… اصل
زندگی کے لئے تو کچھ بنایا ہی نہیں… خالی ہاتھ اور آگے اتنا لمبا سفر… یا اللہ!
رحم، یا اللہ! رحم…
اللہ تعالیٰ ہمارے اوقات میں برکت دے کہ… ہم آخرت کی کچھ
تیاری کر لیں… اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال میں برکت دے کہ… ہم آخرت کے لئے کچھ
سرمایہ جمع کر لیں…
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ
وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
جسے جینا ہو
جو لوگ موت کی تیاری کرتے رہتے ہیں… ان کی دنیا بہت آسان
ہو جاتی ہے… ہماری دنیا جو اتنی مشکل بن گئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ… ہم موت کی
حقیقی تیاری کرتے ہی نہیں… ہم نے اسی دنیا کو اپنے سر پر چڑھا رکھا ہے… اور جو اسے
سر پر چڑھاتا ہے… یہ اسے بہت ستاتی ہے… ہم میں سے کئی لوگ اپنے مرنے کی باتیں کرتے
رہتے ہیں… مگر وہ صرف زبان کی باتیں ہوتی ہیں… آس پاس والوں کی ہمدردی حاصل کرنے
کے لئے… اور زبان کا چسکہ لینے کے لئے… موت کی حقیقی یاد رکھنے والے موت کا تذکرہ
نہیں بلکہ موت کی تیاری کرتے ہیں… اور موت کی تیاری یہ ہے کہ… دنیا سے دل ہٹا لیتے
ہیں، ہر عمل خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے لئے کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ مجھے
اور آپ سب کو موت کی حقیقی تیاری کی توفیق عطاء فرمائے… آج ہم مسلمانوں کے لئے
دنیا میں جگہ بہت تنگ ہوتی جا رہی ہے… آپ ہندوستان کو دیکھ لیں… ہر ہندو کا الگ
مذہب ہے اور الگ خدا… ’’ بی جے پی‘‘ میں وہ لوگ بھی ہیں جو رام کو بھگوان مانتے
ہیں…اور وہ بھی ہیں جو رام کے دشمن ’’راون‘‘ کو بھگوان مانتے ہیں… مگر یہ سب ایک
بات میں متحد ہیں…وہ ہے… ’’مسلمان دشمنی‘‘ اسلام دشمنی… ان کا نہ مذہب ایک، نہ
نظریہ ایک، نہ بھگوان ایک، نہ رخ ایک، نہ طرز عبادت ایک… مگر صرف ایک بات میں
اتفاق ہے کہ… اسلام کو ختم کرنا ہے، مسلمان کو مارنا ہے… پہلے ’’مودی ‘‘ آیا جو
’’کریلا‘‘ تھا اب ’’ یوگی‘‘ آ گیا جو کریلا بھی ہے اور نیم چڑھا بھی… ایسا ناپاک
اور نجس انسان جو دن رات میں کئی بار پیشاب اور غلاظت کرتا ہے… مگر پھر بھی خود کو
’’ بھگوان‘‘ کہلا کر باقاعدہ اپنی پوجا کرواتا ہے… انسان کی اس سے بڑھ کر اور کیا
تذلیل ہو سکتی ہے کہ وہ گندگی اور غلاظت سے بھری ہوئی ایک زرد بوری کو اپنا خدا
مان لے نعوذ باللہ، نعوذ باللہ… یا اللہ! آپ کا بے حد شکر کہ آپ نے ہمیں شرک کی
لعنت اور شرک کی نجاست سے بچایا ہے… رب العالمین کی قسم! شرک سے حفاظت، بہت عظیم
نعمت ہے، بہت ہی عظیم… اب ہندوستان کے مسلمانوں کو ڈرایا جا رہا ہے… مسلمان جب موت
سے ڈرتا ہے تو وہ بھوسے کا ڈھیر بن جاتا ہے… آج ہندوستان کے مسلمان موت کی تیاری
شروع کر دیں اور موت سے محبت کرنے لگیں تو… آپ دیکھ لیں گے کہ مودی اور یوگی ان
کے پاؤں چاٹیں گے… دراصل موت کی حقیقی یاد اور حقیقی تیاری رکھنے والا مسلمان بہت
طاقتور ہوتا ہے… اسے نہ ڈرایا جا سکتا ہے اور نہ دبایا جا سکتا ہے… ؎
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لئے تیار ہو جائے
ہم جب نہیں مرنا چاہتے تو ہر کوئی ہمیں مارتا ہے… اور ہم ہر
لمحہ مرتے ہیں… اور موت ہمیں چاروں طرف سے ڈراتی اور مارتی ہے… لیکن جب ہم دل کی
گہرائی سے یہ ٹھان لیتے ہیں کہ ہم نے مرنا ہے… اور پھر ہم موت کی تیاری میں لگ
جاتے ہیں تو پھر… ہمیں کوئی نہیں ڈرا سکتا اور زندگی ہمارے قدموں میں گرتی ہے… اور
فتوحات کے دروازے اس امت پر کھل جاتے ہیں…اس لئے دن رات’’ حفاظت‘‘ کے وظیفے کرنے
والو! کچھ وظیفے اپنی قبر اور آخرت کے لئے بھی شروع کر دو… دن رات ’’ رزق‘‘ کے
انبار ڈھونڈنے کے عمل کرنے والو! کچھ اعمال اپنی موت، قبر اور آخرت کے لئے بھی
شروع کر دو… دن رات دنیا کے مسائل حل کرانے والے پیر اور بزرگ ڈھونڈنے والو!… کوئی
ایسا پیر بھی ڈھونڈلو جو تمہیں آخرت کی ہمیشہ والی زندگی سنوارنے کا سبق پڑھائے…
دن رات لوگوں کو اپنی موت سے ڈرانے والو! چند لمحوں کے لئے خود بھی اپنی موت سے ڈر
جاؤ اور سوچو کہ قبر میں کیا لے کر جاؤ گے، آخرت کے لئے کیا سامان بنایا ہے…
اور موت کی کیا تیاری کی ہے؟…
دجّال کے کچے انڈوں کا علاج
آخری زمانے میں ’’دجّال‘‘ نے آنا ہے… ہر نبی نے اپنی اُمت
کو اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی اُمت کو ’’دجّال‘‘ کے فتنے سے
’’خبردار‘‘ فرمایا ہے… معلوم ہوا کہ یہ ’’فتنہ‘‘ ہمارے وہم وگمان سے بھی بڑھ کر
خطرناک ہو گا… ہر مسلمان ہر نماز کے آخر میں یا بعد میں دجّال کے فتنے سے اللہ
تعالیٰ کی پناہ مانگا کرے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ
الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ
اب دجّال کے آنے سے پہلے اس کے چھوٹے چھوٹے انڈے دنیا میں
اُبھرنے شروع ہو گئے ہیں… دجّال کے پاس جو خطرناک طاقت ہو گی وہ ’’ٹچ ٹیکنالوجی ‘‘
ہے… یعنی ٹچ کرنے اور چھونے سے بڑے بڑے کام ہو جائیں گے… اب دنیا میں ٹچ موبائل سے
لے کر ٹچ عمارتیں تک آ گئی ہیں…دجال مکمل طور پر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہو
گا اور وہ حکمران ہو گا… اب ٹرمپ ، مودی اور یوگی جیسے دجّالی انڈے دنیا کے حکمران
بننا شروع ہو گئے ہیں… یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں پر کھلم کھلا بھونکتے ہیں… اور
اپنی محدود طاقت اور قوت مسلمانوں کے خاتمے کے لئے استعمال کرنے سے دریغ نہیں
کرتے… دجّال کے دور میں دنیا کے فاصلے سمٹ جائیں گے… آج یہ فاصلے واقعی سمٹتے جا
رہے ہیں… مہینوں اور سالوں کا سفر گھنٹوں اور منٹوں میں طے ہو رہا ہے… بہرحال
خلاصہ یہ کہ دنیا میں ’’دجال ‘‘ کے آنے کا راستہ تیزی سے ہموار ہوتا جا رہا ہے…
اب وہ خود کب آتا ہے یہ بات تو اس کے بس میں بھی نہیں… یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم
میں ہے… یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ…وہ مسلمان جو ’’موت ‘‘ کی حقیقی یاد رکھتے ہیں اور
موت کی تیاری کرتے ہیں… دجّال بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا… یعنی موت سے محبت
اور موت کی تیاری یہ ایسا عمل ہے جو ’’دجال‘‘ سے زیادہ طاقتور ہے اور یہ عمل دجّال
کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ ہے…
تو پھر دجّال کے یہ چھوٹے چھوٹے کچے انڈے …ٹرمپ ، مودی،
یوگی ، نیتن یاہو … ان مسلمانوں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں… جو مسلمان موت کے لئے تیار
رہتے ہیں اور موت کی تیاری میں لگے رہتے ہیں… یا اللہ! ہمارے ایمان ، ہماری نیت
اور ہمارے اوقات میں برکت عطاء فرمائیے … تاکہ ہم آپ سے ملاقات کی سچی اور حقیقی
تیاری کر سکیں اور موت کو وصال یار سمجھ سکیں…
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ
وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ… اٰمِیْن یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…589
مثبت خبریں
* رات
کو نیند نہ آرہی ہو یا آنکھ کھل جائے اور
بے
چینی وخوف محسوس ہوتو اس وقت کا وظیفہ…
* شیطان
کی چھیڑ چھاڑ سے بچنے کا نسخہ…
* حج
وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے والوں سے ایک اہم گزارش…
* چند
مثبت خبریں اوران کے اثرات ونتائج…
* بشارکی
فوج پر امریکی حملہ…
* کل
بھوشن یادو کوسزائے موت…
* شمالی
کوریا کے حالات…
* کشمیر
میں اہلِ اسلام کی شہادتیں…
*
ایک فطری اور تکوینی اصول…
یہ ہیںاس مبارک تحر یر کے اہم موضوعات، ملاحظہ فرمائیے
تاریخِ اشاعت:
۱۶رجب
المرجب ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق14اپریل 2017ء
مثبت خبریں
اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی
الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں
عطاء فرمائے…جہنم کے عذاب سے بچائے…رات کا آخری پہر ہے… لکھنے کی بجائے مانگنے پر
دل آمادہ ہے… مگر لکھنا بھی ضروری ہے… اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے
اس کا فضل مانگتا ہوں…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ
پہلے ایک کام کی بات سن لیں… اگر رات کو کبھی آنکھ کھل
جائے مگر اُٹھنے کی ہمت نہ ہو تو لیٹے لیٹے تیسرا کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کریں…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
یہ مبارک کلمہ بہت سے اعمال کا قائم مقام بن جاتا ہے… اور
بہت سی کمی کوتاہی کا ازالہ فرما دیتا ہے… پھر جب یہ کلمہ دس بار پڑھ چکیں تو دعاء
مانگ لیا کریں… اس مبارک کلمہ کے بعد دعاء قبول ہوتی ہے… ویسے جو ’’وظیفہ‘‘ حدیث
شریف میں آیا ہے… اس میں چوتھا کلمہ اور تیسرا کلمہ دونوں پڑھنے کا فرمایا گیا
ہے… یعنی اگر رات کو نیند نہ آ رہی ہو… یا سوتے ہوئے اچانک نیند اُڑ جائے … یا بے
چینی، خوف طاری ہو جائے تو یہ الفاظ پڑھیں…
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ
لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ… اَلْحَمْدُ
لِلہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا
حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ …
اس کے بعد دعاء مانگ لیں… مثلاً’’ اَللّٰھُمَّ رَبِّ
اغْفِرْلِیْ‘‘ یہ بڑاتاثیر والا عمل ہے…
ہر بار یہ الفاظ پڑھتے جائیں اور دعاءمانگتے جائیں اور ایک
ہی دعاء یا کئی دعائیں مانگتے جائیں… اس طرح رات قیمتی ہو جائے گی، قیام اللیل کا
اجر بھی ملے گا… اور ان شاء اللہ دعائیں بھی قبول ہوں گی اور آئندہ شیطان آپ کو
تنگ کرنے میں کچھ احتیاط کرے گا… اکثر لوگ چونکہ نیند ٹوٹنے اور نیند خراب ہونے پر
تنگی، نا شکری اور غم کا اظہار کرتے ہیں تو شیطان… اُن سے خوش ہوتا ہے اور اُنہیں
بار بار تنگ کرتا ہے تاکہ وہ اپنے نامہ اعمال میں ناشکری کی سیاہی بھرتے رہیں…
لیکن اگر آپ جاگتے ہی اس قیمتی ذکر میں لگ جائیں گے تو شیطان ناکام ہو جائے گا
اور اس کو تکلیف پہنچے گی… آئیے! اب آج کی مجلس رنگ و نور شروع کرتے ہیں… ہمارے
چاروں طرف منفی خبروں کا انبار ہے… اس منفی انبار میں سے مثبت باتیں تلاش کرتے
ہیں… مگر ہاں! ایک بہت اہم بات یاد آ گئی…
آج کل الحمد للہ بہت سے مسلمان ’’عمرہ ‘‘ کی سعادت حاصل
کرنے جا رہے ہیں… مجھے تقریباًروزانہ ہی کسی نہ کسی کے جانے کی اطلاع ملتی ہے…
ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ… دل خوش ہوتا ہے، دعائیں دیتا ہے…ابھی حج پالیسی کا
اعلان بھی ہونے والا ہے… اُمید ہے کہ اس سال بھی اہل شوق اور اہل سعادت بڑھ چڑھ کر
اس عاشقانہ فریضے کی طرف لپکیں گے… حرمین شریفین کی حاضری اور زیارت ایک انمول
نعمت ہے…انسانی زندگی کو بے حد قیمتی بنانے والی نعمت… عرض یہ کرنا ہے کہ اللہ
تعالیٰ جب آپ کو حرمین شریفین کی زیارت نصیب فرمائیں… اور پھر آپ وہاں سے خیر و
عافیت کے ساتھ واپس لوٹ آئیں … تو اب آپ ایک کام اپنے ذمہ لے لیں… وہ یہ کہ وہاں
کی کوئی منفی بات کبھی بھی اپنی زبان پر نہیں لائیں گے… مثلاً کئی لوگ واپس آ کر
دوسروں کو وہاں سے ڈراتے ہیں کہ… توبہ توبہ وہاں بہت رش ہوتا ہے… بہت گرمی ہوتی
ہے… بہت مشکل ہوتی ہے… مہنگائی ہوتی ہے…وغیرہ وغیرہ…
ارے اللہ کے بندو! حرمین شریفین سے لوگوں کو متنفر کرتے
ہو؟… وہاں رش نہیں ہو گا تو پھر کہاں رش ہونا چاہیے؟… یوں کہا کرو الحمد للہ
،الحمد للہ وہاں ماشاء اللہ بہت لوگ آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور لوگوں کو بھی لائے…
پھر بھی سب طواف کر لیتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں … کوئی تنگی نہیں
ہوتی… ساری دنیا بھی وہاں چلی جائے تو اللہ تعالیٰ کا گھر اور حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی مسجد سب کو سمیٹ سکتی
ہے… ماشاء اللہ وہاں کا موسم بھی عجیب ہے… گرمی سے پسینہ، پھرہوا سے ٹھنڈک، ٹھنڈے
پانی خاص طور سے زمزم کا لطف… حقیقت ہے بھی یہی… یہ نہ کوئی مبالغہ ہے اور نہ
جھوٹ… جو بھی اخلاص و ایمان کے ساتھ جاتا ہے… نہ محروم واپس آتا ہے اور نہ بھوکا
… نہ کوئی کعبہ کے طواف سے رہ جاتا ہے اور نہ کوئی وہاں کی نماز سے… نہ کوئی زمزم
سے پیاسا رہتا ہے… اور نہ کوئی مسجد نبوی کی خوشبو سے… ہر ایک کو اس کے ظرف کے
مطابق بھر بھر کر جام ملتے ہیں…بس کچھ کمزور طبیعت ناسمجھ لوگ وہاں کی بعض مشکلات
کو ذہن پر سوار کر کے… واپسی پر لاشعوری طور پر بتاتے رہتے ہیں…جو کہ بہت بری بات
ہے… آپ تو جب وہاں سے آئیں تو وہاں کے’’ سفیر‘‘ بن کر آئیں جو بھی آپ کی مجلس
میں بیٹھے… چند منٹ میں اُس کو حرم کا دیوانہ بنا دیں اور شوق کی سوغات اُس تک
پہنچائیں… اور ہاں! وہاں سے اپنی تصویریں ہرگز ساتھ نہ لائیں بلکہ حرمین شریفین کی
برکتیں اور یادیں ساتھ لائیں … اور انہیں مسلمانوں میں پھیلائیں… چلیں یہ بات بھی
ہو گئی… اب آتے ہیں خبروں کی طرف ۔
پہلی اچھی خبر یہ ہے کہ بھورے زہریلے سانپ پر ’’حملہ ‘‘ ہوا
ہے… ملک شام کا زہریلا کوبرا ’’بشار الاسد‘‘ لاکھوں مسلمانوں کا وحشی قاتل … قاتل
بن قاتل… ظالم بن ظالم… اس نے شام کے مسلمانوں پر کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ کیا…
اللہ تعالیٰ اُسے ہلاک فرمائے… امریکہ کے نئے صدر ’’ٹرمپ‘‘ نے بشار کے ایک فضائی
اڈے پر ’’59‘‘کروز میزائل داغ دئیے … یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کاایک انداز
ہے … ٹرمپ جیسے آدمی کے ذریعہ …مظلوموں کا انتقام… ہے نہ اللہ تعالیٰ کی نصرت؟…
حدیث شریف میں وضاحت کے ساتھ ’’نصرت‘‘ کی اس قسم کا تذکرہ موجود ہے… ٹرمپ کے اس
حملے میں کئی مثبت پہلو ہیں…
١
بشار درندے اور اس کی فوج کو نقصان پہنچنا…
٢
ایران کا شور اور ماتم برپا کرنا… اپنے ہم مذہب ’’اُبامہ‘‘ کے زمانے اس نے بہت پر
کھول لئے تھے۔
٣ امریکہ
کے’’59‘‘ کروز میزائل جن کی قیمت چھ ارب روپے پاکستانی تھی… اُن کا خرچ ہو جانا…
یہ میزائل اگر بشار کی فوج کی بجائے مسلمانوں پر گرتے تو یقیناً بہت دکھ ہوتا۔
٤
امریکہ اور روس کی تلخی کا بڑھنا جو کہ روئے زمین کے تمام انسانوں کے لئے نیک شگون
ہے۔
٥
اُن بہت سے کیمیاوی ہتھیاروں کا تباہ ہو جانا جو عنقریب مسلمانوں پر گرائے جانے
والے تھے…
اللہ تعالیٰ اہل شام کے ایمان والوں کی نصرت فرمائے…
دوسری مثبت خبر پاکستان سے ہے… انڈین جاسوس ’’کل بھوشن
یادو‘‘ کو موت کی سزا سنا دی گئی ہے… الحمد للہ یہ ایک اچھی اور مثبت پیش رفت ہے…
اب انڈیا اور پاکستان کے ’’انڈین نواز‘‘ افراد اس’’ سزا‘‘ کو رکوانے کی بھرپور
کوشش کریں گے… مگر اس’’سزا‘‘ کا رکنا اہل پاکستان اور اہل کشمیر پر ایک بھیانک ظلم
ہو گا… اور اس کے نتائج بے حد منفی ظاہر ہوں گے… حکومت پاکستان نے جس پھرتی کے
ساتھ ایک بے گناہ شخص… غازی ممتاز قادری شہید رحمہ اللہ کو پھانسی چڑھا دیا… اس کے بعد اگر وہ ’’بھارتی
جاسوس‘‘ کی پھانسی میں تاخیر کرتی ہے تویہ بات نہ فطرت کو گوارا ہو گی اور نہ
مسلمان عوام کو… حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد اس سزا پر عمل در آمد کر کے قانون
اور انصاف کے تقاضے پورے کرے۔
تیسری خبر ’’شمالی کوریا‘‘ کی طرف سے ہے… سمجھ نہیں آ رہی
کہ اس کو ’’مثبت ‘‘ کہا جائے یا ’’منفی‘‘… حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اب ’’شمالی
کوریا‘‘ پر کوئی آفت آنے ہی والی ہے… مسلمانوں میں ’’شمالی کوریا‘‘ کے لئے
’’ہمدردی‘‘ کے جذبات پائے جاتے ہیں… کیونکہ ایک تو وہ ’’سامراج مخالف‘‘ حکومت ہے
…اور دوسرا یہ کہ اس کے ’’چین‘‘ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں… امریکہ اور نیٹو نے جن
الزامات کی وجہ سے عراق، افغانستان اور لیبیا پر حملہ کیا… وہ تمام الزامات
’’شمالی کوریا‘‘ پر زیادہ شدت سے ثابت ہوتے ہیں … مگر چونکہ وہ مسلمانوں کا ملک
نہیں ہے… اس لئے اس پر حملے میں جلدی نہیں کی گئی…فطرت کے کچھ اصول ہیں… تکوینی
اصول… ان اصولوں سے نہ کوئی انسان باہر قدم رکھ سکتا ہے نہ کوئی جانور اور پتھر…
جب بیٹا باپ کو قتل کرے اور یہ قتل مال یا اقتدار کے لئے ہو… اللہ کے لئے یا دین
کے لئے نہیں… تو وہ سلطنت اور خاندان برباد ہو جاتا ہے… اسی طرح جب ایک بھائی اپنے
بھائی کو …حسد ، اقتدار، اختیار اور مال کی خاطر قتل کرے تو پھر زمین پر بڑی تباہی
پھیل جاتی ہے… شمالی کوریا کے حکمران نے ابھی حال ہی میں اپنے ایک باپ شریک بھائی
کو قتل کروایا ہے… اس کے بعد سے یہی لگ رہا ہے کہ اب اس ملک کے لئے کچھ بھی
’’انہونی‘‘ ہو سکتی ہے … بہرحال کچھ ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ اس میں امت مسلمہ کو
خیر عطاء فرمائے… اور قرآن مجید کے وہ راز جو رشتہ داریوں کے بارے میں ہیں اُمت
مسلمہ کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے … آخری خبر ’’پیارے کشمیر‘‘ سے جہاں پھر
کالے قاتل کے دانتوں سے خون ٹپک رہا ہے… مگر اس کا سر جھکا ہوا ہے… ذلیل ، ناکام…
جبکہ عزت ، غیرت اور شان سے اُٹھنے والے دس جنازے… پورے بھارت کی زمین کو ’’بد
نصیب ‘‘ بنا رہے ہیں… اور غاصبوں کے منہ پر آزادی کے طمانچے برسا رہے ہیں…کشمیری
مسلمانوں کی غیرت و ہمت کو سلام…
یا اللہ! اس خون کا شاندار بدلہ چکانے کی جلدتوفیق عطاء
فرما…
اٰمِیْن یَا رَبَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ
لاالہ الااللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…590
انتہاء پسندی کیا ہے؟
* انتہاء
پسندی آخر کیا چیز ہے؟ انتہا پسندی کے خدو خال…
* انتہا
پسند کیا صرف مسلمان ہیں یا دیگرا قوام بھی؟
* انتہا
پسندی کی اصل وجوہات اورمحرکات کیا ہیں؟
* کیا
شعائرِ اسلامی کی کھلم کھلا توہین انتہا پسندی نہیں؟
* کیا
انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام انتہا پسندی نہیں؟
* اگر
نیتن یا ہو، ٹرمپ اور مودی جیسے انتہا پسند دنیا کو قبول ہیں تو
ملا محمد عمر مجاہد اور ملاہیبت اللہ کیوں
ناقابل قبول؟ کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟
* کیا
مسلم ممالک کے دین بیزار حکمرانوں کی دین دشمنی انتہا پسندی نہیں؟
* اگر
دنیا سے نام ونہاد انتہاء پسندی ختم کرنی ہے
تو کافروں، منافقوں کو اپنی حقیقی انتہا پسندی
ختم کرنا ہوگی…
* مسلمانو!
اللہ کے لئے سوشل میڈیا سے دور ہوجائو…
نام
نہاد انتہا پسندی کے بخیے ادھیڑتی، انتہا پسند کافروں، منافقوں
اور
لبرلوں کو آئینہ دکھاتی ایک چشم کشا تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۳رجب
المرجب ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق21اپریل 2017ء
انتہاء پسندی کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کی ’’ابتداء‘‘ کا مالک ہے…اور اللہ
تعالیٰ ہی ہر چیز کی ’’انتہاء‘‘ کا مالک ہے…
وہی اول … وہی آخر… وہی ظاہر…وہی باطن…
﴿ھُوَ الْاَوَّلُ وَالآخِرُ
وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ﴾(الحدید:۳)
آج آپ سب سے ایک سوال پوچھنا ہے… یہ ’’انتہا پسندی‘‘ کیا
ہوتی ہے؟ مردان کی یونیورسٹی میں ایک لڑکا قتل ہو گیا… اب ہر طرف شور ہے… مذہبی
انتہا پسندی آ گئی، مذہبی انتہا پسندی ختم کرو وغیرہ وغیرہ۔
آپ بتائیں
یہ قتل ایک ’’یونیورسٹی‘‘ میں ہوا… اگر ایسا کوئی ایک واقعہ
’’دینی مدارس ‘‘ کی طرف سے ہو جاتا تو آج ماحول کیا ہوتا… دینی مدارس کے چند سو
طلبہ کسی مدرسہ سے نکلتے اور کسی ایک ’’شخص‘‘ کو قتل کر دیتے تو آج ملک کے تمام
دینی مدارس پر ٹینک اور بلڈوزر دوڑا دئیے جاتے…انسداد دہشت گردی کی کئی نئی
کمیٹیاں بن جاتیں… اور منہ کھول کھول کر مدارس کو گالیاں دی جاتیں… ان کو دہشت
گردی کا مرکز قرار دیا جاتا اور مدارس پر پابندی کی باتیں شروع ہو جاتیں… مگر یہاں
واقعہ ایک ’’یونیورسٹی‘‘ میں ہوا اس لئے مکمل احتیاط برتی جا رہی ہے کہ… انگریزی
تعلیم کے اداروں پر کوئی بات نہ ہو… ان پر پابندی کا کوئی تذکرہ نہ ہو… کیا یہ
انتہا پسندی نہیں ہے؟
عجیب بے انصافی ہے
آج دنیا کے کئی ممالک کے حکمران… مکمل ’’انتہا پسند‘‘ ہیں…
ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک ایک یہودی کے بدلے دنیا کے تمام مسلمانوں کا
قتل جائز ہے… ان میں ایسے بھی ہیں جو ایک گائے کے بدلے ہزار مسلمانوں کو قتل کرنا
لازمی سمجھتے ہیں… ان میں ایسے بھی ہیں جو اپنا ہر بم صرف اور صرف مسلمانوں پر
گرانا چاہتے ہیں… ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کو سرعام کتوں سے بدتر اور
حقیر قرار دیتے ہیں… ان میں ایسے بھی ہیں جو ہر دن کم از کم ایک سو مسلمانوں کو
قتل کر رہے ہیں…
کیا یہ سب کچھ ’’انتہا پسندی‘‘ نہیں ہے؟… آج تو دنیا میں
غیر مسلم انتہا پسندوں کی باقاعدہ حکومتیں ، باقاعدہ ادارے اور باقاعدہ فوجیں ہیں…
مگر مسلمانوں کے پاس کیا ہے؟ ہمارے حکمران تو خود کو مسلمان کہلانا گوارا نہیں
کرتے… نہ عمل مسلمانوں والے، نہ شکل مسلمانوں والی… جہاں بیٹھتے ہیں اسلامی
احکامات کے خلاف بولتے ہیں… حتٰی کہ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو نعوذ باللہ
اذان سے نفرت کرتے ہیں… مساجد سے بغض رکھتے ہیں… وہ غیر مسلموں اور مشرکوں کے
درمیان ہوں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے… اور جب مسلمانوں کے درمیان ہوں تو ان کے
چہروں پر بارہ بجے رہتے ہیں… کیا یہ سب کچھ ’’انتہا پسندی‘‘ نہیں ہے… میں یقین سے
کہتا ہوں کہ اگر ہمارے مسلمان کے ملکوں کے حکمران… صرف ترکی کے ’’صدر‘‘رجب طیب
اردگان جتنے مسلمان بھی ہو جائیں تو… تمام اسلامی ملکوں سے نوّے فیصد ’’دہشت
گردی‘‘ ختم ہو جائے گی… ترکی کے صدر نے داڑھی نہیں رکھی… مگر اسے داڑھی سے بغض
نہیں ہے… وہ کسی مسجد کا مولوی نہیں ہے مگر مسجد سے نفرت نہیں رکھتا… اذان کا مذاق
نہیں اڑاتا… وہ انگریزی لباس پہنتا ہے… مگر اسے عمامے سے کوئی عداوت نہیں ہے… وہ
خود کو فخر سے مسلمان کہتا ہے… دنیا بھر کے مسلمانوں کے جنازوں میں جاتا ہے… اور
اگر کسی جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو تو بے چین ہو کر آواز ضرور اُٹھاتا ہے…
اسی لئے آج وہ ترکی کی عوام میں بھی مقبول ہے… اور امت
مسلمہ کی آنکھوں کا بھی تارا ہے… ہم میں سے ہر شخص اس کے لئے اپنے دل میں محبت
اور احترام کے جذبات محسوس کرتا ہے… اور کوئی مسلمان جس کو دین کی بنیادی باتوں کا
علم ہو… کبھی بھی اس کے خلاف کوئی مسلح تحریک چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا… کیا
باقی اسلامی ملکوں کے حکمران… صرف اتنا اسلام بھی اختیار نہیں کر سکتے؟… آخر
مسلمان قوم سوچتی ہے کہ… یہودیوں کے پاس ’’بنیامین نیتن یاہو‘‘ جیسا حکمران ہے جو
یہودیوں کی لاشوں تک کی حفاظت کرتا ہے…اوردنیا میں کسی یہودی کو کانٹا چبھے تو وہ
فوراً اس کی مدد کو پہنچتا ہے… ہندؤوں کے پاس ’’مودی‘‘ جیسا حکمران موجود ہے، جو
ہندو تو کیا گائے کی حفاظت کے لئے جان لینے پہ آجاتا ہے… عیسائیوں کے پاس ٹرمپ ،
اولاندوفرانسو اور پاپے جیسے حکمران موجود ہیں جو خود… عیسائی مشنریوں کا حصہ ہیں…
مگر مسلمانوں کے پاس کیا ہے؟… کوئی ایک حکمران جو صرف ہمارے آقا اور مولیٰ حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس
ہی کا تحفظ کر سکے… دنیا بھر کے پاگل کتے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ ہر گالی دے رہے ہیں… کارٹون بنا
رہے ہیں… کیا کسی مسلمان حکمران کے کان پر جوں رینگی؟… بس کبھی کبھار مجبور ہو
کرکھو کھلے بیانات اور بس… حالانکہ یہی حکمران جب اذان ، مسجد اور مدرسہ کے خلاف
بولتے ہیں تو لگتا ہی نہیں کہ… یہ کسی مسلمان کی اولاد ہیں…
جب حالات ایسے بن جائیں تو پھر … کئی مسلمان احساس محرومی
اور جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں… تب شور مچ جاتا ہے… اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی
انتہا پسندی، اسلامی دہشت گردی…
آہ! میرے اللہ… اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر رحم فرما۔
آخر یہ کیا چاہتے ہیں؟
تھوڑا سا سوچیں کہ… ان غیر مسلموں نے ’’افغانستان‘‘ پر حملہ
کیا… حملہ صرف ایک شیخ اسامہ بن لادن کی خاطر… حملہ بھی معمولی نہیں… دنیا کے
چالیس ممالک اکٹھے ہو کر افغانستان پر ٹوٹ پڑے… ان سب کو معلوم تھا کہ شیخ کہاں
ہیں؟… مگر ڈیزی کٹر بموں کی کارپٹ بمباری پورے افغانستان پر ہو رہی تھی… وہاں کے
مسلمان اس بمباری سے قیمہ بن رہے تھے… تو کیا افغانی مسلمان سر جھکا کر مرتے
رہتے؟… آخر وہ بھی انسان ہیں، وہ بھی مسلمان ہیں… انہوں نے مقابلے کا فیصلہ کیا
تو فوراً ان کو انتہا پسند قرار د ے دیا گیا… عجیب بات ہے نا؟… کسی ملک پر وحشیانہ
حملہ کرنے والے ’’ انتہا پسند‘‘ نہیں… مگر خود اس ملک کے باسی اگر اپنے ملک کے
دفاع کے لئے کھڑے ہوں تو وہ انتہا پسند… آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟… اور کہاں کی
لغت؟
انڈیا کے فوجی روزانہ دس بیس کشمیری مسلمانوں کو بھون
ڈالیں… جو بھی احتجاج کے لئے نکلے اس پر گولی برسائیں… اگر بچے پتھر پھینکیں تو اس
کے جواب میں ان کا قتل عام کیاجائے… کیا کشمیری انسان نہیں ہیں؟… پھر جب وہ اپنے
دفاع کے لیے کھڑے ہوں تو ان کو انتہا پسند اور دہشت گرد قراردے دیا جائے… یہ کون
سا انصاف ہے؟
آج مسلمانوں کے کم از کم دس ممالک پر غیر ملکی فوجیں دن
رات بمباری کر رہی ہیں… یہ فوجیں جو کچھ کرتی رہیں وہ ٹھیک… اور اگر مسلمان ان کے
سامنے کھڑے ہو جائیں تو وہ انتہا پسند اور دہشت گرد؟… آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟… اگر
ان کی خواہش ہے کہ… تمام مسلمان ’’برائلر مرغی‘‘ کی طرح ہو جائیں… یہ جس کو چاہیں
ذبح کریں اور مسلمان خوشی سے ذبح ہوتے جائیں… یہ دن رات ہمارے آقا حضرت محمدمدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں کریں اور
سب مسلمان اس پر خوشی سے تالیاں بجائیں… یہ دن رات مسلمانوں کو ذلیل کریں اور
مسلمان خوشی سے ہر ذلت گوارہ کرتے جائیں… تو ساری دنیا سن لے کہ… کافروں کی یہ
خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی… ہاں رب کعبہ کی قسم! یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو
سکتی… ہاں رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
قسم! یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی… تم جہاں بھی مسلمانوں پر حملہ کرو گے تمہیں
جواب ملے گا… تم جب بھی اسلامی مقدسات پر کیچڑ پھینکو گے تو تمہیں اپنے سامنے
اسلام کے سرفروش نظر آئیں گے… شاید یہی تکلیف تمہیں برداشت نہیں ہو رہی تو اب
مسلمانوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی گالی دیتے ہو… اور ذلیل میراثیوں کی طرح
شور مچاتے ہو…مسلمانو! اللہ کے لئے، اللہ کے لئے سوشل میڈیا سے اپنا ایمان بچاؤ…
یہ خبیث میڈیا اگر اسی طرح تمہارے ذہنوں پر مسلط رہا تو یہ تمہیں مسلمان بھی نہیں
رہنے دے گا… تمہیں کیا ضرورت ہے کہ فیس بک پر جاتے ہو… ٹوئٹر پر اور واٹس ایپ پر
جا کر… اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں سہتے ہو… چھوڑ کیوں نہیں دیتے ان
خبیث برائیوں کو… یقین کرو سوشل میڈیا کی طاقت صرف اسی وقت تک ہے جب تک تم اس پر
موجود ہو… اگر تم اسے چھوڑ دو تو یہ حقیر مکڑی کا جالا ہے۔
مثال ہمارے سامنے ہے… مردان کی یونیورسٹی میں قتل ہونے والا
نوجوان… آج سوشل میڈیا کا ہیرو ہے… لاکھوں کروڑوں افراد اس کے ساتھ ہیں… لیکن جب
وہ قتل ہو رہا تھا تو یہ میڈیا، اس کے فالورز اور اس کے لورز کہاں تھے؟… آپ فیس
بک پر بیٹھ کر جو دنیا دیکھ رہے ہو… اپنے گھر سے باہر گلی میں آپ کو اس دنیا کا
وجود نظر نہیں آئے گا… وہ جو اس میڈیا پر طاقت کے فرعون نظر آتے ہیں… جب گھر سے
باہر نکلتے ہیں تو کوئی عام آدمی ان کو پکڑ کر ان کی ایسی تیسی کر دیتا ہے… بس
فریب ہے فریب… دھوکہ ہے دھوکہ… نمازوں سے غفلت، مساجد سے دوری، اپنے اہل حقوق پر
ظلم… اور فیس بک کے چیمپئن… مسلمانو! کچھ تو سوچو! کچھ تو سوچو!
ایک بات سب کو ماننی ہو گی
اگر ’’انتہا پسندی‘‘ بری چیز ہے تو پھر… اسے ہر سطح پر ختم
کرنا ہو گا… یہ نہیں ہو سکتا کہ… ایک طرف تو انتہا پسندی اس عروج پر ہو کہ… اذان
تک برداشت نہ ہو ، مسواک تک کا مذاق اڑے… دینی تعلیم کو ناجائز قرار دیا جائے…
مساجد آنکھوں میں چبھیں، مدارس سے دل جلیں… اور داڑھی پگڑی تک کو دیکھ کر دل کے
وال بند ہونے لگیں… اور دوسری طرف یہ مطالبہ ہو کہ… مسلمانوں میں کوئی ’’انتہا
پسند‘‘ پیدا نہ ہو… جب تم اسلام کے خلاف ایسی خوفناک ’’انتہا پسندی‘‘ اُٹھاؤ گے
تو… مسلمانوں میں سے بھی ’’انتہا پسند‘‘ اُٹھیں گے… تم اسلام کے خلاف ’’انتہا
پسندی‘‘ بند کر دو… میں یقین سے کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں سے ’’انتہا پسندی‘‘ خود
ختم ہو جائے گی… مسلمان حکمران اگر شرعی جہاد کو راستہ دے دیں تو کون پاگل مسلمان
فساد اور دہشت گردی کی طرف جائے گا… تم اگر یہودیوں کے لئے بنیامین نیتن یاہو …
اور ہندوؤں کے لئے ’’مودی‘‘ کو گوارہ کرتے ہو تو مسلمانوں کے لئے ملا محمد عمر
رحمہ اللہ ، ملا منصور رحمہ اللہ اور ملا ہیبت اللہ جیسے پڑھے لکھے ، روشن خیال
اور معتدل ’’علماء‘‘ کی حکمرانی برداشت کر لو… تم اگر دنیا بھر کی عیسائی مشنریز
کو گوارہ کرتے ہو تو مسلمانوں کے دینی مدارس کو بھی برداشت کر لو… تم اگر ملکہ
برطانیہ کی گستاخی کو ناجائز قرار دیتے ہو تو… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کے اڈے بھی بند کردو…تم اگر غیر مسلم
ممالک پر متحدہ بمباری نہیں کرتے ہو تو مسلمانوں کے ممالک پہ بھی بمباری بند کردو…
تم اگر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو حق خود ارادیت دیتے ہو تو
کشمیریوں اور فلسطینیوں کو بھی حق خود ارادیت دے دو…تب دنیا میں امن قائم ہو جائے
گا…لیکن تم انتہاپسند مودی کو گلے لگاؤ اور ملا منصور پر بم گراؤ تو کیا اس سے
’’انتہا پسندی‘‘ ختم ہو جائے گی؟
ابھی تو مسلمانوں میں انتہا پسند بہت تھوڑے ہیں… اکثر تو حق
اور انصاف کی دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں… لیکن اگر غیر مسلموں کی انتہاپسندی اسی طرح
بڑھتی رہی تو خطرہ ہے کہ …مسلمانوں میں بھی انتہا پسند زیادہ ہو جائیں گے… تب اس
’’خطۂ زمین‘‘ کا اکثر حصہ تباہ ہو جائے گا… ہمارا کام حق کی دعوت ہے… اس لئے ہم
تمام مسلمانوں کو ’’شرعی جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی طرف بلاتے ہیں… اور فساد و انتہا
پسندی سے روکتے ہیں…
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…591
اخلاص
* اُمت
محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل کہ اسے نیت پر بھی اجر ملتا ہے…
* دنیا
مسائل کی جگہ، یہاں مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں مگر دو کام ممکن ہیں…
* وہ
’’دو کام‘‘ کیا ہیں؟…
* ’’فکر
آخرت‘‘ کے حصول اور’’ دنیوی افکار‘‘ سے نجات پانے کی دعا اور چار کام…
* ’’ریا
کاری‘‘ کیا ہے؟…
* ’’ریا
کاری‘‘ کی حقیقت اور ’’ریاکاری‘‘ سے حفاظت
کی دعا…
* ’’اخلاص
‘‘کیا ہے؟ اخلاص کی حقیقت…
* ایک
خطرناک شیطانی وسوسہ…
* ’’اخلاص‘‘
اور’’ ریا کاری‘‘ کی وضاحت پر مشتمل سات اہم نکات…
* ’’شہر
رمضان‘‘ کتاب کا تعارف…
* رمضان
کی وجہ تسمیہ اور اس میں چھپے معارف ونکات…
* یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم مضامین… ملاحظہ فرمائیں
تاریخِ اشاعت:
یکم شعبان المعظم ۱۴۳۸ھ؍
بمطابق28اپریل 2017ء
اخلاص
اللہ تعالیٰ کا پیارا مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ ہر سال آتا
ہے… اس اُمت پر’’اللہ تعالیٰ ‘‘کا یہ احسان ہے کہ…اسے اچھی نیت پر بھی’’ اجر‘‘
ملتا ہے… اسی لئے ’’رمضان المبارک ‘‘ کے آنے سے پہلے پہلےا ہم اس کے لئے بہت سی
اچھی اور پکّی نیّتیں باندھ لیا کریں۔
ترجیح کس کو؟
ہم دنیا میں رہتے ہیں… اور دنیا مسائل کی جگہ ہے… انسان کی
عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے ’’دنیا‘‘ کے بارے میں اس کی’’ فکریں‘‘ بھی بڑھ جاتی
ہیں…خاندان ، اولاد، صحت، روزی اور بہت سے تفکرات… یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان
دنیا کی فکروں سے مکمل نجات پا لے… مگر دو کام ممکن ہیں اور وہ ہمیں ضرور کرنے
چاہئیں… پہلا یہ کہ دنیا ہی کی فکروں کو مقصود نہ بنا لیں…اور دوسرا یہ کہ دنیا کی
فکروں کو مزید بڑھنے سے روکیں… اب میں بھی اپنے حالات پر غور کروں اور آپ بھی…
کہ…
١
ہمیں دنیا کی فکر زیادہ ہے یا آخرت کی؟
٢
دنیا کے بارے میں ہماری خواہشات اور فکریں بڑھتی تو نہیں جا رہیں؟
اکثر جب ہم مکمل یکسوئی کے ساتھ ان دو سوالات پر غور کرتے
ہیں تو نتیجہ افسوسناک اور خطرناک سامنے آتا ہے… جب نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ…
ہم دنیا کی فکر کو آخرت کی فکر پر ترجیح دے رہے ہیں تو یقینی بات ہے کہ… ہم
گھاٹے، نقصان اور خسارے میں جا رہے ہیں اور اگر ہر آئے دن ہماری دنیوی فکریں
بڑھتی جا رہی ہیں تو… معاملہ اور زیادہ افسوسناک ہے… اب ہم کیا کریں؟ جواب یہ ہے
کہ نہایت درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں:
’’ یا اللہ! دنیا کی فکروں کو
ہمارا مقصود نہ بنا‘‘…
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَھَمِّنَا
وَلَامَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَاغَایَۃَ رَغْبَتِنَا۔
باربار یہ دعاء مانگیں کہ… ’’یا اللہ! ہمیں آخرت کی حقیقی
فکر عطاء فرما اور اس کی تیاری کی توفیق عطاء فرما اور ہماری دنیا کی فکروں کو کم
فرما، ختم فرما۔‘‘
دوسرا یہ کہ کبھی کبھار تنہائی میں بیٹھ کر… موت کو یاد کر
کے اپنی دنیا کے کچھ منصوبے ختم کیا کریں… یا کم کیا کریں…
تیسرا یہ کہ اگر محاذ پر نہ ہوں تو مسجد میں زیادہ سے زیادہ
وقت گزارہ کریں اور خواتین اپنے مصلّے پر… اور کچھ وقت خالص آخرت کی فکر والی
دعائیں مانگا کریں…حسن خاتمہ، اچھی موت، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق… نزع کے وقت
کی آسانی… قبر کے عذاب سے حفاظت، حشر، پل صراط اور میزان پر رسوائی سے حفاظت
وغیرہ… اور چوتھا یہ کہ روز یہ دیکھا کریں کہ آج میں نے اپنی آخرت کے لئے کیا
کیا ہے؟ میں نے آگے کے لئے کیا بھیجا ہے؟
پس جو آخرت کی فکر کو دنیا کی فکر پر ترجیح دے گا وہ ان
شاء اللہ کامیاب ہو جائے گا۔
ایک اہم مسئلہ
اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ جو مانگا جائے وہ ملتا ہے… ہم
جب اللہ تعالیٰ سے آخرت کی فکر مانگیں گے تو ان شاء اللہ ہمیں یہ مبارک فکر ضرور
نصیب ہو گی… اور جس کو آخرت کی فکر نصیب ہو جاتی ہے اس کی دنیا کی فکریں کم ہونا
شروع ہو جاتی ہیں… اور اسے نیک اعمال کی زیادہ توفیق ملنے لگتی ہے… مگر اب شیطان
ایک پرانا وار کرتا ہے… یہ وار ہے ریاکاری کا وسوسہ… جیسے ہی کوئی نیک اعمال میں
لگا اسی وقت شیطان ملعون نے اسے ڈرانا شروع کر دیا کہ… تو ’’ریاکار‘‘ ہے، تو یہ سب
کچھ دکھاوے کے لئے کر رہا ہے… یہ وسوسہ اکثر انسانوں کی ہمت توڑ دیتا ہے… اس لئے
اس معاملے کو اچھی طرح سے سمجھ لیں…
١ ریاکاری کا وسوسہ ریاکاری نہیں ہے… اگر روزے دار کو
وسوسہ آئے کہ وہ شربت پی رہا ہے… بریانی کھا رہا ہے تو کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے
گا؟
٢
آپ کے عمل کا کسی کو پتا چلنا یہ بھی ’’ریاکاری‘‘ نہیں ہے… خود اللہ تعالیٰ قرآن
مجید میں فرماتے ہیں کہ تم اگر صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بہت اچھا ہے اور اگر
چھپا کر دو تووہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے… ظاہر نیکی کی برکت سے نیکی پھیلتی ہے
اور نیکی کا ماحول بنتا ہے… اس لئے بعض اوقات ظاہر نیکی چھپی ہوئی نیکی سے افضل ہو
جاتی ہے… جیسے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب تبوک کا چندہ دے رہے تھے تو سب کچھ ظاہر تھا
اور اس سے قیامت تک کے مسلمانوں کو ہمت اور ترغیب ملی… اگر ہر نیکی چھپانا
ہی’’اخلاص‘‘ ہوتا تو پھر…ہمارے سامنے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین …
اور حضرات اسلاف رحمہم اللہ کی نیکیاں نہ
آتیں … بعض لوگ اس بارے میں بہت غلط راہ پر ہیں… اُن کے سامنے اگر کوئی بھی اپنی
نیکی بتا دے تو وہ یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ بس یہ نیکی ضائع ہو گئی ، ختم ہو گئی…
اس میں ریاکاری ہو گئی… یہ دراصل اُن لوگوں کی اپنی شیطانی سوچ ہوتی ہے … جو بھی
اس سوچ میں مبتلا ہو … وہ اپنی اصلاح کی فکر کرے۔
٣
آپ کے کسی عمل پر اگر لوگ آپ کی تعریف کریں تو یہ بھی ریاکاری نہیں ہے… بلکہ یہ
اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی آزمائش ہے…جواپنی تعریف سن کر اسے اللہ تعالیٰ کا
فضل سمجھے وہ کامیاب ہے… جو یہ تعریف سن کر اپنی نیکیاں بڑھا دے وہ بھی اچھا ہے…
مگر جو یہ تعریف سن کر اسے اپنا کمال سمجھے اور تکبر میں مبتلا ہو وہ غلط ہے اور
بُرا ہے۔
٤
چھپا کر نیکی کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنی ہر نیکی کو چھپانے کی زیادہ کوشش کرنا یہ
خطرناک ہے۔ آپ نیکی کریں اور پھر اس سے بے فکر ہو جائیں کہ وہ چھپی رہی یا ظاہر
ہوئی… مالک کی مرضی وہ جو معاملہ چاہے کرے۔
٥
آپ اگر ایک عمل ہر حال میں کرتے ہیں… خواہ کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو یہ
آپ کے اخلاص کی علامت ہے… اب کوئی لاکھ دیکھتا رہے تو اس کے دیکھنے سے
’’ریاکاری‘‘ نہیں ہو گی… مثلاً آپ کا معمول ہے کہ اشراق کے نوافل ادا کرتے ہیں…
اکیلے ہوں یا لوگوں کے درمیان… اب اگر کبھی زیادہ لوگوں کے درمیان اشراق ادا کرتے
ہوئے… شیطان ’’ریاکاری‘‘ سے ڈرائے تو ہرگز نہ ڈریں… کیونکہ اگر یہ لوگ موجود نہ
ہوتے تب بھی آپ نے اشراق ادا کرنی تھی۔
٦
اخلاص ایک ’’مخفی‘‘ چیز ہے… یہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان وہ راز ہے جو کسی
کو نظر نہیں آ سکتا … قرآن مجید میں سورۂ اخلاص موجود ہے… اس پوری سورۃ
میں’’اخلاص‘‘ کا لفظ نظر نہیں آتا… معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ
ماننا اور اس کی رضا کے لئے عمل کرنا یہ اخلاص ہے… اس لئے کسی کو حق نہیں کہ وہ
کسی اورکو غیر مخلص اور ریاکار سمجھے… ریاکار صرف وہی ہے جو لوگوں کو دکھانے کے
لئے عمل کرتا ہو… یعنی جب لوگ دیکھ رہے ہوں تو عمل کرے اور جب نہ دیکھتے ہوں تو اس
عمل کے قریب بھی نہ آئے… ریاکار وہ ہے جو لوگوں کی خاطر عمل کرتا ہو…جیسا کہ
مدینہ کے منافقین تھےوہ نماز کو مانتے ہی نہیں تھے مگر خود کو مسلمان دکھانے کے
لئے نماز پڑھتے تھے۔
٧
ریاکاری سے حفاظت کا عظیم تحفہ… وہ دعاء ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے امت کو ملی… اس دعاء
کو جس قدر توجہ اور محبت سے پڑھا جائے اسی قدر شرک اور ریاکاری سے نفرت ہونے لگتی
ہے… اور اخلاص مضبوط ہو جاتا ہے …اور اس دعاء کو پڑھنے والے کے لئے ’’ریاکاری‘‘ کا
خطرہ ہی نہیں رہتا…
دعاء کا خلاصہ یہ ہے کہ… ’’یا اللہ! جان بوجھ کر شرک و
ریاکاری کرنے سے بچا لیجئے اورجو نادانی میں ہو جائے وہ معاف فرما دیجئے۔‘‘
معلوم ہوا کہ یہ بندہ… شرک سے انتہائی نفرت کرتا ہے… اور
ریاکاری بھی شرک کا حصہ ہے… اس لئے اہل علم فرماتے ہیں کہ… ہر مسلمان کو چاہیے کہ
یہ دعاء صبح شام تین بار ضرور پڑھا کرے اور کبھی ناغہ نہ کرے… تاکہ شرک و ریاکاری
سے ہمیشہ بچا رہے… دعاء یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ
شَیْئًا وَاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہٖ
’’یا اللہ! میں آپ کی پناہ اور
حفاظت چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں جان بوجھ کر کسی چیز کو آپ کے ساتھ شریک کروں…
اور میں آپ سے معافی چاہتا ہوں اس کے بارے میںجو بغیر جان بوجھ کے ہو جائے۔‘‘
شھررمضان
الحمد للہ کئی سال کی تمنا اس سال… ان شاء اللہ پوری ہونے
کو ہے… رمضان المبارک کی ’’گرمیٔ عشق‘‘ اور’’ گرمیٔ بازار ‘‘ کو پانے کے لئے… ایک
کتاب تیار ہو چکی ہے… اور ان شاء اللہ بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہو گی… بندہ نے
دو روز قبل اس کتاب کا مختصر تعارف لکھا ہے جو کہ یہاں پیش خدمت ہے۔
تعارف
اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہر’’حمد‘‘ ہر’’شکر‘‘ ہر’’ثنا‘‘ اور
ہر بڑائی ہے… اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا، وَالْحَمْدُلِلہِ کَثِیْرًا،
وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں …اس کتاب کا نام ہے’’شھر
رمضان‘‘…’’شھر‘‘ عربی زبان میں ’’مہینے‘‘ کو کہتے ہیں… اسلامی ،ہجری، قمری سال کے
بارہ مہینے ہوتے ہیں…ان میں سے نویں مہینے کا نام’’رمضان‘‘ ہے… اسلام کا ایک
محکم،بنیادی اورقطعی فریضہ اس مہینے میں ادا ہوتا ہے… اس فریضے کا نام’’صیام
رمضان‘‘…یعنی رمضان کے روزے۔
’’رمضان‘‘ کی فضیلت کچھ’’ظاہر‘‘ ہے
…اور کچھ ’’مخفی‘‘…اگر یہ فضیلت مکمل طور پر ظاہر ہو جائے تو ہر مسلمان کی خواہش
ہو کہ…پورا سال رمضان رہے… زندگی پوری’’رمضان‘‘ میں کٹے… اور موت تک کبھی’’رمضان‘‘
سے جدائی نہ ہو۔
’’رمضان‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے…اس
لفظ میں گرمی، حرارت، روشنی… اور جلانے، کوٹنے کا معنی چھپاہوا ہے…
اس لئے بعض حضرات نے فرمایا…
’’سُمِّیَ رَمَضَانَ لِأَنَّہٗ
یُرْمِضُ الذُّنُوْبَ اَیْ یُحَرِّقُھَا‘‘
’’رمضان‘‘ کو اس لئے رمضان کہتے
ہیں کہ یہ گناہوں کوجلا دیتا ہے۔‘‘
بعض نے فرمایا کہ…یہ ’’رَمْضُ الصَّائِمِ‘‘ سے ہے کہ روزے
کی وجہ سے روزہ دار کے معدے میں بھوک پیاس کی گرمی پیدا ہوتی ہے اور یہ گرمی اس کے
’’باطن‘‘ کو مضبوط کردیتی ہے…
بعض نے کہا کہ… رمضان میں انسانی دل حرارت،
روشنی اور گرمی پاتے ہیں…دلوں کی غفلت، سستی اور ٹھنڈک دور ہوجاتی ہے…
بعض نے فرمایا کہ…یہ ’’رَمَضْتُ النَّصْلَ‘‘ سے ہے… تیر اور
نیز ے کی دھار کو دو پتھروں کے درمیان کوٹ کر تیز کیا جاتا ہے…عرب کے
جنگجو’’رمضان‘‘ میں اپنے ہتھیار تیز کرتے تھے تاکہ… شوال میں خوب جم کر لڑائی کر
سکیں اور حرمت والے مہینے’’ذوالقعدہ‘‘ کے آنے سے پہلے اپنی جنگ نمٹادیں… رمضان
بھی ایک مؤمن کے ایمان کو ایسا تیز کردیتا ہے کہ پورا سال یہ ایمان درست رہتا ہے
او ر ٹھیک کام کرتا ہے… اس لئے وہ شخص تو ’’خسارے‘‘ کی انتہا پرہے جو ’’رمضان‘‘ کو
ضائع کردے…
خلاصہ یہ ہوا کہ رمضان میں گرمی ہے ،حرارت ہے،
روشنی ہے…ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا نام ہے… اس قول کی تائید
میں وہ حدیث پیش کی جاتی ہے… جس میں فرمایا گیا کہ… ’’رمضان نہ کہا کرو کیونکہ
’’رمضان‘‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، بلکہ شھرِ رمضان کہا کرو یعنی
رمضان کا مہینہ۔‘‘ (بیہقی)
مگر اس حدیث کو حضرات محدثین نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے…
چنانچہ وہ قول بھی ضعیف ہوگیا…اس لئے ہم وہی بات دوبارہ عرض کرتے ہیں کہ’’رمضان ‘‘
کے لفظ میں ’’گرمی‘‘ تشریف فرما ہے…’’گرم مہینہ‘‘…آپ تاجروں سے پوچھ لیں وہ زیادہ
نفع والے دن کہتے ہیں’’آج بازار گرم‘‘ ہے…جس دن کسی جگہ زیادہ رونق اور مجمع ہوتا
ہو اسے ’’گرم جوشی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے… رمضان واقعی گرم مہینہ ہے…قرآن مجید
اس کانام لیتا ہے … اور بتاتا ہے کہ میں اسی میں نازل ہوا… اسی مہینے میں اللہ
تعالیٰ کی رحمت گرم جوشی سے اہل ایمان کوسینے سے لگاتی ہے … رمضان گرم مہینہ… ایک
ایک لمحہ… گرم ،قیمتی، حرارت بخش، روشن …اور پھر گرمی کا رمضان تو…سبحان اللہ… اس
کی گرمیٔ بازار کے کیا کہنے!۔
مؤمن کا ایک خاص ’’رنگ‘‘ ہوتا ہے… مؤمن اللہ تعالیٰ کے
رنگ میں’’رنگا‘‘ ہوتا ہے… گناہوں کی کثرت اس’’رنگ‘‘ کو پھیکا کر دیتی ہے …اور
اس’’رنگ‘‘پر’’ زنگ‘‘ کی میل جمادیتی ہے… گناہ کہتے ہیں اپنی ناجائز خواہشات کو
پورا کرنا … تب’’گرم رمضان‘‘ تشریف لاتا ہے … اس کی گرمی اور حرارت مؤمن کے
اصل’’رنگ‘‘ کو نکھاردیتی ہے… اور اس کے ’’رنگ‘‘پر جمے’’زنگ‘‘ کو دور کردیتی ہے…
کہاں وہ وقت کہ وہ ناجائز خواہشات پوری کررہا تھا… اور کہاں یہ وقت کہ وہ اپنے
محبوب کی خاطر جائز خواہشات کو بھی رو کے بیٹھا ہے…واقعی اگر’’رمضان‘‘نہ آئے تو اکثرلوگ
تباہ ہوجائیں… یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ…ہر سال ہماری صفائی،دھلائی،ترقی اور
چارجنگ کے لئے’’رمضان المبارک‘‘کو بھیج دیتے ہیں…مگر رمضان کافائدہ اُسی مسلمان کو
پہنچتا ہے جو…رمضان المبارک کی قدر کرے… اور اس کے فوائد کو حاصل کرنے کی کوشش
کرے…گذشتہ کئی سالوں سے…رمضان المبارک کے موقع پر اپنی اور اہل ایمان کی یاددہانی
کے لئے…کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں… کبھی مضمون کی صورت میں اور کبھی مکتوب کی شکل
میں…اب الحمدللہ ان’’باتوں ‘‘کو اختصار کے ساتھ کتابی صورت میں پیش کیا جارہا
ہے…عزیز مکرم مولانا عبیدالرحمن صاحب نے اس کام میں بھرپور تعاون کیا اور احادیث
بھی انہوں نے جمع کیں… اللہ تعالیٰ ان کو فیض تام عطاء فرمائے… اوربھی بعض رفقاء
کابہت گرمجوش تعاون رہا…اللہ تعالیٰ انہیں کامل جزائے خیر عطاء فرمائے…کتاب آپ کے
ہاتھوں میں ہے…رمضان المبارک بھی قریب ہے… بندہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت ورحمت کا
محتاج ہے…
آپ سب سے’’حسب سہولت‘‘ دعاء کی درخواست ہے۔
لاالہ الا اللّٰہ،لاالہ الا اللّٰہ،لاالہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمدوالہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا
کثیرا
لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
۲۴ رجب ۱۴۳۸یوم السبت
22 اپریل 2017ء
٭٭٭
رنگ و نور…592
مکہ… مدینہ
خمکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کا عشق ایمان کا حصہ ہے…
* حج
وعمرہ اور مکہ ومدینہ کی محبت جگانا بھی عبادت ہے…
* مدینہ
منورہ کا تو نام بھی خوشبو میں رچا ہوا ہے…
* مدینہ
منورہ کے نام پر دھوکہ کھانا بھی اچھا لگتا ہے…
* مکہ
و مدینہ کی محبت اور کشش بہت سی غفلتوں
اور
غلطیوں سے بچائو کا ذریعہ…
* اچھا
اور نیک شوق بہت بڑی روحانی طاقت…
* مجاہد
اور مکہ ومدینہ …جہاد اور مکہ ومدینہ…
* اللہ
تعالیٰ سے مانگنے کا مبارک ذوق اور بابرکت ہستیوں کا تذکرہ…
* حرمین
شریفین کی محبت جگاتی ایک معطر تحریر
تاریخِ اشاعت:
۸ شعبان
المعظم ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق5مئی 2017ء
مکہ… مدینہ
اللہ، اللہ، اللہ…کتنا پیارا نام ہے… مکہ، مکہ، مکہ…کتنا
میٹھا نام ہے مدینہ، مدینہ، مدینہ
دل تڑپ اُٹھا
ابھی ایک دو روز کی بات ہے…ایک ’’سائل‘‘ نے گھیر لیا…
بزرگوں نے سمجھایا ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کو کچھ دینا گناہ کا کام ہے… خصوصاً وہ
جو مساجد میں مانگتے ہیں… طرح طرح کے بھیس بدل کر… طرح طرح کے قصے سنا کر…یہ لوگ
نمازیوں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں اور مساجد کے ماحول کو بھی…اہل علم فرماتے ہیں
کہ اُن کو بھیک نہیں دینی چاہیے…یہی مال کسی اچھے نیک کام میں لگادینا چاہیے…جس
’’سائل‘‘ نے مجھے گھیرا وہ بھی تمام علامات سے ’’پیشہ ور‘‘ لگتا تھا…جو ’’پیشہ
ور‘‘ نہ ہو وہ ضرورت پوری ہونے پر فوراً گھر چلا جاتا ہے… مگر یہ تو پوری ڈیوٹی
دیتے ہیں… سارا دن مانگتے ہیں اور ہمیشہ مانگتے ہیں…ان کے اندر جو مانگنے کا ذوق
ہے…وہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح نصیب فرمائے کہ ہم اسی طرح اللہ تعالیٰ سے مانگنے
والے بن جائیں…
سارا دن مانگیں، ساری رات مانگیں، مانگ مانگ کر مانگیں…اور
ہمیشہ مانگتے ہی رہیں…صرف ایک اللہ تعالیٰ سے…صرف ایک اللہ تعالیٰ سے…یہ ذوق حضرت
سیّد احمد شہید رحمہ اللہ کو بہت زیادہ
حاصل تھا…وہ اللہ تعالیٰ کے پکے فقیر تھے… مانگنے سے نہ تھکتے تھے، نہ اُکتاتے
تھے…اسی لیے تھوڑی سی عمر میں اتنی لمبی ہمیشہ کی زندگی اور مزے پاگئے اور ابھی تک
اُن کے اعمال جاری ہیں، اُن کی نوکری جاری ہے… اور اُن کی ترقی جاری ہے…پھر ایک
اور بزرگ دیکھے … یہ ہمارے حضرت قاری عرفان صاحب رحمہ اللہ تھے…ان کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور منوانے کا
ذوق اور طریقہ حاصل تھا…ہم لوگ تو بس دو چار بار ہی مانگ کر تھک جاتے ہیں…مایوس
ہونے لگتے ہیں اور طرح طرح کے وساوس میں پڑ جاتے ہیں…لیکن جن کو مانگنے کا مقام
معلوم ہوجائے…اور مانگنے کی لذت سے آشنا ہوجائیں وہ ایک ہی دعاء بغیر قبول ہوئے
اسّی سال تک …روزانہ سینکڑوں بار مانگنے سے بھی نہیں تھکتے…مجنوں، لیلیٰ کے پاس
بار بار جاتا تھا…روٹی یا کچھ اور مانگنے…اور ہر بار اس کی خواہش ہوتی تھی کہ
لیلیٰ نہ دے تاکہ وہ دوبارہ اس کے پاس مانگنے جاسکے…اسی مانگنے کے دوران اس کا
دیدار کرسکے…اس کے پاس بیٹھ سکے…اس کی منت سماجت کرسکے…اس سے باتیں کرسکے…دعاء
مانگنے والا اپنے محبوب اور کریم رب کے عرش کے نیچے پہنچ جاتا ہے…وہ اپنے محبوب رب
سے ہمکلام ہوتا ہے…وہ اس کے قرب کے مقام میں جا بیٹھتا ہے…اس ’’پیشہ ور‘‘ سائل نے
مجھے گھیر لیا…میں گاڑی میں بیٹھا تھا…میں نے سر جھکالیا تاکہ وہ چلا جائے…مگر وہ
پینترے بدل بدل کر دعائیں دیتا رہا…مگر میرا نظریہ پختہ تھا کہ اس کو نہیں
دینا…اچانک اس نے دعاء دی…’’اللہ تمہیں مدینے لے جائے‘‘…مدینہ کا لفظ سنتے ہی میرا
ہاتھ تیزی سے جیب کی طرف بڑھا…نوٹ نکالا اور اُسے دے دیا…ہاں! مدینہ کے نام پر
دھوکہ کھانا بھی مجھے اچھا لگا…اور مدینہ جانے کے شوق نے اور سب کچھ بھلادیا…ہائے
وہ دیکھو! میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ’’مدینہ پاک‘‘ جارہے ہیں…دونوں پائوں
مبارک پھٹ چکے ہیں…پاک خون ان مبارک قدموں سے ٹپک ٹپک کر پتھروں کو رنگ رہا ہے…اور
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو اپنے کندھے پر اُٹھا رہے ہیں…
ارے! مدینہ جانا کوئی معمولی بات ہے؟ ارے! مدینہ جانا کوئی چھوٹا کام ہے؟…
لوگ ’’پیرس‘‘ کو خوشبوئوں کا شہر کہتے ہیں … نادان کہیں
کے…’’مدینہ‘‘ کے تو نام سے ہی خوشبو آتی ہے اور سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے … آپ
ابھی سانس کھینچیں…مدینہ، مدینہ، مدینہ… دل اور جان خوشبو سے بھرجاتے ہیں…اللہ،
اللہ، اللہ…کتنا پیارا نام ہے مکہ، مکہ، مکہ… کتنا میٹھا نام ہے مدینہ، مدینہ،
مدینہ۔
حج اور عمرے کے قافلے
’’حج بیت اللہ‘‘ اسلام کا ایک محکم
اور قطعی فریضہ ہے… اس لئے’’ حج بیت اللہ‘‘ کی دعوت دینا بھی عبادت ہے اور
مسلمانوں میں مکہ اور مدینہ کی محبت جگانا بھی… عبادت ہے… الحمدللہ گذشتہ سال حج
کے موضوع پر ایک دو کالم لکھے… اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں میں مقبولیت عطا ء
فرمائی…ابھی ایک اور صاحب کا پیغام آیا کہ حج اور عمرے کی یاددہانی پر مزید لکھا
جائے … ہاں اُن کی بات ٹھیک ہے… مسلمانوں کے دلوں میں جب تک کعبۃ اللہ، حجر اسود،
مکہ اور مدینہ کی کشش رہتی ہے… اُن کا دل بہت سی غفلتوں اور بہت سی غلطیوں سے بچا
رہتا ہے…جب ان کے دل میں… کعبہ شریف، روضہ اقدس، حرم شریف اور مسجد نبوی کا شوق
اُبھرتا ہے تو …بہت سے فاصلے سمٹ جاتے ہیں… اس سال الحمدللہ سرکاری حج اسکیم میں
تین لاکھ سے زائد مسلمانوں نے… درخواستیں جمع کرائیں… پچاسی ہزار افراد کا نام نکل
آیا جبکہ باقی دل تھام کر رہ گئے… اب پرائیویٹ گروپوں میں داخلے شروع ہوں گے… ان
کی قیمت زیادہ ہوتی ہے…
آج کل کے مالدار مسلمانوں میں یہ غلطی عام ہے کہ… وہ اپنی
معمولی سی آرائشوں اور آسائشوں کے لئے مہنگائی پھیلادیتے ہیں… حالانکہ انہیں
ایسا نہیں کرنا چاہئے… مسلمانوں کے مالدار افراد ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے تھے
کہ… ان کے مال کی وجہ سے… غریبوں کا دل نہ دکھے اور نہ غریبوں پر بوجھ زیادہ ہو،
بہرحال پرائیویٹ داخلے بھی پورے ہو جائیں گے… پھر کئی مسلمان اور طریقوں اور ویزوں
کے ذریعہ حرمین شریفین تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیں گے… حرم شریف کا عشق واقعی
بہت عجیب ہے… مجھے یاد ہے کہ ایک بار کراچی میں ہمارے حج ویزے بند ہو گئے تو …
ہمارے بزرگ تڑپ اُٹھے…یوں لگتا تھا کہ غم سے جان نکل جائے گی…حضرت مفتی جمیل خان
صاحب شہید رحمہ اللہ صبح سے نکلتے اور رات تک کوشش میں لگے رہتے… ذوالحجہ کا مہینہ
شروع ہوچکا تھا… آخری حج فلائٹ سات ذوالحجہ کو جانی تھی … پانچ تاریخ تک ہر کوشش
ناکام ہوگئی…مگر کسی نے نہ دعاء روکی، نہ شوق کم ہونے دیا اور نہ محنت میں کمی
کی…چھ تاریخ دوپہر کے وقت اللہ تعالیٰ نے شوق کے آنسوؤں کو…قبولیت دے دی… اچانک
سعودی قونصلیٹ اپنی کرسی سے اُٹھا اور اس نے چالیس ویزے جاری کردئیے…یوں لگا کہ
عید پر عید آگئی، کوئی شاپر میں دوجوڑے رکھ کر بھاگا تو کوئی بغیر سامان ہی
دوڑپڑا اور بالآخر سات ذوالحجہ کو یہ قافلہ کعبۃ اللہ کے سامنے کھڑا… تشکر کے
آنسو بہارہا تھا… بے شک اچھی چیز کا شوق… بے حد طاقتور روحانی نسخہ ہے… یہ ناممکن
کو ممکن بنادیتا ہے…
مسلمانو! اپنے دل سے موبائل کا شوق نکالو…ویڈیو اور تصویر
کاشوق نکالو… یورپ امریکہ کا شوق نکالو…وہاں کچھ نہیں ہے،وہاں کچھ نہیں ہے… ارے!
اپنے دل میں مکہ مکرمہ کا شوق بھرو… اللہ کی قسم! وہاں بہت کچھ ہے… وہاں سب کچھ
ہے…اپنے دل میں مدینہ منورہ کا شوق بھرو رب کعبہ کی قسم وہاں بہت کچھ ہے…وہاں بہت
کچھ ہے…ہم نے تو مکہ اور مدینہ کے لئے کوئی قربانی نہیں دی… حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھو کہ… مکہ
کیا ہے؟ مدینہ کیا ہے؟
مکہ اور مدینہ تو بڑی چیز… جس دل میں مکہ اور مدینہ کا عشق
اور شوق سچائی کے ساتھ اتر جائے… وہ دل بھی قیمتی اور خوشبودار ہوجاتا ہے… پاک اور
طاقتور ہوجاتا ہے…اے حجاج کرام! مکہ اور مدینہ جانے سے پہلے… مکہ اور مدینہ کو
سمجھ کر جانا… اے عمرہ کے قافلو!… وہاں کی فضائوں کو ہم غریبوں کا سلام کہنا اور
بتانا کہ تمہارے عاشق اور قدردان صرف وہی نہیں جو یہاں آگئے… اور بھی بہت سے
تمہارے سچے عاشق ہیں… وہ تو اپنی جان پر چل کربھی آنے کو تیار ہیں… مگر نہیں
آسکتے، مگر نہیں آسکتے…اللہ، اللہ ، اللہ… کتنا پیارا نام ہے مکہ، مکہ ، مکہ…
کتنا میٹھا نام ہے مدینہ، مدینہ، مدینہ۔
مجاہد کا مقام
مکہ اور مدینہ… ہر
مسلمان کوہجرت اور جہاد کی یاد دہانی کراتے ہیں… مشرکین نے مکہ کو جب مکہ نہ رہنے
دیا تو ایمان نے مکہ سے ہجرت کی… مدینہ نے ایمان کو گھر دیا… اس لیے مدینہ دار
الایمان تھا اور آج بھی دارالایمان ہے… ایمان نے مدینہ میںجہاد کو پایا… اور پھر
جہاد کی اس سواری پرایمان مکہ کو لوٹا اور مکہ کو دوبارہ مکہ بنادیا… اور پھر
ایمان جہاد کی سواری پر… ساری دنیا کو مکہ اور مدینہ سے جوڑنے کے لیے… چلتا گیا
چلتا گیا… یوں ہر مسلمان کے لیے کامیابی کا ایک واضح نصاب سامنے آگیا… مکہ ،
مدینہ، ہجرت، جہاد… اور پانچویں چیز نصرت…
سورۂ انفال کے آخر میں غور فرمالیجیے…دل باغ باغ ہوجائے
گا… اب ایک مومن کو اپنے دل میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ… اس میں مکہ، مدینہ،
ہجرت، جہاد اور نصرت ہے یانہیں؟ اگر موجود ہے تو الحمد للہ، الحمدللہ… اور اگر
کوئی کمی ہے تو بڑے خطرے کی بات ہے…استغفر اللہ، استغفراللہ… اسی طرح ہر مومن کو
اپنے اعمال نامے میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ… اس میں مکہ، مدینہ،ہجرت، جہاد اور
نصرت ہے یانہیں ؟
اب آئیے! اصل بات کی طرف!… وہ ہے دل کا شوق، دل کا ذوق…
کیا ہمارے دل کا شوق… مکہ، مدینہ، ہجرت، جہاد اور نصرت سے جڑا ہوا ہے یا نہیں؟
جڑا ہو ا ہے تو بہت مبارک، صد مبارک… محاذوں والے مجاہدین
کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان کی روح مکہ ، مدینہ میں ہوتی ہے… ان کو اگر جنگ چھوڑ کر
مکہ ، مدینہ جانے کا کہاجائے تو آنسوؤں سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ… سرجھکالیتے
ہیں اور جنگ کے میدان سے نہیں ہٹتے… اور بالآخر شہادت کے بعد… ان کو آخرت کے اس
مقام کی نیشنلٹی اور شہریت مل جاتی ہے جو زمزم اور جبل اُحد کے ساتھ جڑا ہوتا
ہے…تب ان کی روحیں مکہ کی سیر کرتی ہیں اور مدینہ کے مزے لوٹتی ہیں… اور ان کا مکہ
اور مدینہ جنت تک پھیل جاتا ہے… یا اللہ!نااہل سہی پھر بھی… مقبول شہادت کا سوال
ہے…
اللہ اللہ اللہ… کتنا پیارا نام ہے مکہ، مکہ، مکہ… کتنا
میٹھا نام ہے مدینہ، مدینہ، مدینہ۔
لا الٰہ الا اللّٰہ… لا الٰہ الا اللّٰہ… لا الٰہ الا
اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…593
محبوب نعمت
* اللہ
تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی ناراضی دور
کرنے
کے لئے، اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات پوری کرانے
کے
لئے، اللہ تعالیٰ کی جنت کو پانے کے لئے ایک
مضبوط
ترین ذریعہ اور عمل ’’دو رکعت‘‘ نماز…
* ’’دو
رکعت نماز‘‘ میں ’’اسم اعظم ‘‘کی تاثیر پائی جاتی ہے…
* شیطان
کو ’’دو رکعت نماز‘‘ سے بہت تکلیف ہوتی ہے…
* حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورا سلاف اُمت ’’دو رکعت‘‘ کے عاشق تھے…
* کوئی
’’دو رکعت‘‘ پر غور کرکے دیکھے اس میں کتنے خزانے چھپے ہوئے ہیں…
* ’’دو
رکعت‘‘ کی بلندیاں روایات کی روشنی میں…
* ’’دو
رکعت‘‘ کی طاقت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں…
* ’’اسم
اعظم‘‘ کی تاثیر والی چار دعائوں پر مشتمل ایک خوبصورت تحفہ…
* ’’دو
رکعت نماز‘‘ کے فضائل، معارف، انوارات
اور
حقائق پر مشتمل ایک حسین گلدستہ
تاریخِ اشاعت:
۱۵ شعبان
المعظم ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق12مئی 2017ء
محبوب نعمت
اللہ تعالیٰ کے’’ قرب‘‘ کو پانے کا بہترین طریقہ…دورکعت
نماز
اللہ تعالیٰ کی ’’محبت‘‘پانے کا آسان ذریعہ …
دو رکعت نماز
اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات پوری کرانے کا مؤثر
راستہ …دو رکعت نماز
اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ معاف کرانے کا شاندار
نسخہ …دو رکعت نماز
اللہ تعالیٰ کی جنت کوپانے کامضبوط وسیلہ … دورکعت نماز
بھائیو!اور بہنو!… دو رکعت نماز بڑی طاقت ہے … دو رکعت نماز
بڑی دولت ہے … دو رکعت نماز عظیم نعمت ہے…کاش! مجھے اور آپ کو دو رکعت نماز کا
’’ذوق ‘‘نصیب ہوجائے … تب ہرکام آسان ،ہر منزل آسان…کاش! مجھے اور آپ کو دو
رکعت نماز کی حقیقت معلوم ہوجائے … اور اس بارے میں ہمارے اندر جو شیطانی سستی ہے
وہ دور ہوجائے تو پھر … ان شاء اللہ دنیا بھی آسانـ، آخرت بھی آسان … سجدے کے
دشمن شیطان کو دو رکعت نماز سے بہت تکلیف پہنچتی ہے …کیونکہ دو رکعت نماز میں چار
سجد ے ہوتے ہیں اوریہ سجد ے انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتے ہیں … جی ہاں !
اتنا قریب کہ وہاں تک شیطان کی پہنچ نہیں ہوتی … اس لئے شیطان ہمیشہ
انسانوںکو’’دورکعت‘‘ ـ سے دور رکھنے کی محنت میں لگا رہتا ہے … وہ انسان کی کمر
میں تالے لگاتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ جس انسان کو ’’دو رکعت ‘‘کا ذوق نصیب
ہوجائے وہ کامیابی کی بڑی بڑی منزلیں پالیتاہے…
پہلے ایک تحفہ
دورکعت کے موضوع پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک شاندار
تحفہ قبول فرمائیں … کئی لوگ ’’اسم اعظم ‘‘کی تلاش میں رہتے ہیں …یعنی اللہ تعالیٰ
کا وہ نام جس کے ذریعے جو دعاء مانگی جائے وہ قبول ہوجاتی ہے … ’’اسم اعظم‘‘کے
بارے میں طرح طرح کے اقوال ہیں …اور طرح طرح کے ذوق … سچی بات یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ کا ہر نام ہی ’’اسم اعظم‘‘ہے… بس دل کے ایمان ، دل کے اخلاص اور دل کی محبت
کو ساتھ ملانا ضروری ہوتا ہے … اور اس میں بھی شک نہیں کہ …بعض کلمات،بعض اسماء
اور بعض دعاؤں میں بڑی زوردار تاثیر ہوتی ہے …اور یہ بھی غور کرنے کی بات ہے
کہ…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دو
رکعت ‘‘نماز کے جو فضائل ارشاد فرمائے ہیں … اور جس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ’’دو رکعت ‘‘نماز کا ذوق اپنی اُمت میں
اُبھارا ہے … اور جس طرح سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے’’دو رکعت ‘‘کے فوائد حاصل فرمائے ہیں … اسے
دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ … اللہ تعالیٰ کی خالص رضاکے لئے دو رکعت نماز ادا
کرنا بھی ’’اسمِ اعظم‘‘ کی تاثیر رکھتا ہے… بہرحال ’’اسم اعظم‘‘کی بحث بہت طویل
اور بہت لذیذہے …اگر اس بحث کی کچھ تفصیل دیکھنی ہو تو بندہ کی کتاب’’لطف اللطیف‘‘میں
ملاحظہ فرمالیں … آج جو تحفہ پیش کرنا ہے وہ چار دعائیں ہیں … جو بہت آسان بھی
ہیں اور پرکیف بھی … اور ان کے بارے میں کئی مفسرین اور اہل علم نے فرمایاہے کہ …
یہ دعائیں ’’اسم اعظم‘‘کی تاثیر رکھتی ہیں … ان چاروں دعاؤں کو یاد کرلیجئے…
یااپنے پاس لکھ کر رکھ لیجئے …اور جب بھی کوئی جائز حاجت ہوتو ان دعاؤں کوپڑھ کر
اللہ تعالیٰ سے وہ حاجت مانگ لیجئے اور ساتھ درود شریف پڑھ لیجئے… آج تو چونکہ
’’دو رکعت‘‘کا موضوع چل رہا ہے تو ان چاروں دعاؤں کو پڑھ کر …ہم سب اللہ تعالیٰ
سے ’’دورکعت ‘‘کا سوال کر لیں کہ … اللہ تعالیٰ ہمیں دو رکعت کا ذوق عطاء فرمادے …
ہمیں دو رکعت کی قدر وقیمت سمجھا دے … ہمیں دو رکعت کی یہ طاقت ،نعمت اور قوت
مستقل نصیب فرمادے …وہ چار دعائیں یہ ہیں:
١ یَااِلٰھَنَا
وَاِلٰہَ کُلِّ شَیْئٍ اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآاِلٰہَ اِلَّااَنْتَ ۔
’’اے ہمارے الٰہ اور ہرچیز کے الٰہ
ایک ہی الٰہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘
بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ … حضرت سیّدنا سلیمان علیہ السلام کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ کے پاس
یہ کلمات تھے اور انہی کے ذریعے انہوں نے بلقیس کاتخت پلک جھپکتے اُٹھوا لیا تھا۔
(واللہ اعلم بالصواب)
٢ اَللّٰہُ،اَللّٰہُ،اَللّٰہُ
الَّذِیْ لَآاِلٰہَ اِلَّاہُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔
’’اللہ ،اللہ ،اللہ جس کے سوا کوئی
معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے ۔‘‘
یہ دعاء اہل بیت کی معروف شخصیت حضرت زین العابدین رحمہ اللہ سے منقول ہے۔
٣ اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِانَّکَ مَلِکٌ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
وَمَاتَشَآئُ مِنْ اَمْرٍ یَکُوْنُ ۔
’’یااللہ! میں آپ سے سوال کرتا
ہوں بے شک آپ بادشاہ ہیں اور آپ ہر چیز پر قادر ہیں اور جو کام آپ چاہتے ہیں
وہی ہوتا ہے ۔‘‘
یہ دعاء سیّدالتابعین حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے منقول ہے۔
٤ یَابَدِیْعَ
السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔
’’اے آسمان و زمین کے موجد! اے
جلال و اکرام والے۔
یہ دعاء حضر ت سری سقطی رحمہ اللہ سے منقول ہے۔‘‘
’’دورکعت‘‘ پر غور فرمائیں
دورکعت پر کبھی غور فرمائیں کہ اس میں کتنے بڑے بڑے خزانے
چھپے ہیں …چار سجدے، سبحان اللہ … دو رکوع ،سبحان اللہ … دو قیام ، سبحان اللہ …
دوبار سورۂ فاتحہ ،سبحان اللہ … دوبار قرآن مجید کی تلاوت،سبحان اللہ …ایک
تشہد،ایک درود شریف …پانچ سلام … تکبیر تحریمہ، اللہ اکبر سے لے کر آخر تک
باربار’’ اللہ اکبر،اللہ اکبر‘‘…کئی بار تسبیح ،کئی بار تحمید … ثنا …آخر کی دعاء
اور التحیات کے والہانہ کلمات … اَلتَّحِیَّاتُ لِلہِ وَالصَّلَوٰتُ
وَالطَّیِّبَاتُ… یااللہ! میرا سب کچھ آپ کا ہے… قولی عبادت بھی آپ کے لئے فعلی
عبادت بھی آپ کے لئے …مالی عبادت بھی آپ کے لئے …
انسان اگر دورکعت نماز پر … اللہ اکبر سے سلام تک باریکی سے
غور کرے تو پھر وہ ان دو رکعتوں کا اسی طرح دیوانہ عاشق ہوجائے جس طرح حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہمارے
اسلاف تھے …ان دو رکعتوں سے پہلے طہارت ہے … محبوب کے لئے شاندار تیاری …پاکی ہی
پاکی … مسواک سے لے کر خلال تک …سبحان اللہ … سوچ کر وجد طاری ہوجاتا ہے … کون
اپنے محبوب کے لئے اس طرح تیاری کرتا ہوگا…دل بھی پاک، اعضاء بھی پاک اورپھر رخ
بھی سیدھا … یعنی موٹر وے پر آگئے … قبلہ رخ ہوکر سیدھی طرف پہنچ گئے …اور
پھر’’اللہ اکبر‘‘کا نعرہ اور پرواز شروع … اُڑتے جارہے ہیں، اُڑتے جا رہے … اور
بالآخر سجدے میں گرے اور عرش کے نیچے جا پہنچے …
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ
الْعَظِیْمِ۔
دو رکعت کی بلندیاں
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی سیر کے دوران … وہاں حضرت سیّدنا بلال
رضی اللہ عنہ کے قدموں کی چاپ سنی … واپس
تشریف لاکر پوچھا کہ کونسا ایسا عمل کرتے ہو کہ اتنی اونچی پرواز ہے … عرض کیا… ہر
وضو کے بعد دو رکعت … اللہ ،اللہ ،اللہ… ہم مسلمان صرف اسی ایک سچی پکی روایت پر
غور کریں تو ’’دو رکعت‘‘کی بلند ی کو سمجھ لیں … حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوئی
معمولی انسان نہیں تھے … وہ تو سعادتوں کے بادشاہ تھے… میں جب بھی اُن کے بارے میں
سوچتا ہوں … بہت دور تک گم سم ہوجاتاہوں … کونسی سعادت تھی جو بلال کے قدموں میں
نہ تھی … کونسا عمل تھا جو’’ بلال جی ‘‘کے نامہ اعمال میں نہ تھا …غور کریں تو
حیران رہ جائیں … مگر وہ فرماتے ہیں کہ جنت میں اتنے اونچے اور پیشگی مقام کا سبب
… دو رکعت ہے … ہاں بیشک!دورکعت میں جو بندگی ہے،جوعاجزی ہے …جو محبت ہے
،جووفاداری ہے…اسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے اولیاء اور اہل کشف کے امام ہی
سمجھ سکتے ہیں… دورکعت میں جو طاقت ہے اسے حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ جیسے
روشن خیال اور صاحب علم جلیل القدرخادم رسول ہی سمجھ سکتے ہیں… یااللہ ! حضرت
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ پر آپ نے جو’’
فضل عظیم‘‘فرمایااس کے صدقے مجھے بھی دورکعت کا ذوق عطاء فرما دیجئے۔
دورکعت کی طاقت
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جومسلمان وضوکرے اور وضو اچھی
طرح کرے پھر کھڑے ہوکر دو رکعت نماز ادا کرے ان دو رکعتوں میں اپنا دل متوجہ رکھے
(یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کے ساتھ ادا کرے)تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔‘‘
(صحیح مسلم )
دوسری روایت میں وضوکا طریقہ سکھا کر ارشاد فرمایا:
’’جومیرے اس وضوکی طرح وضو کرے پھر
دو رکعت نماز ادا کرے اوراس میں دوسرے خیالات دل میں نہ لائے تو اس کے پچھلے تمام
گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری ،مسلم)
ان دو روایات پر غور فرمائیں …یہ دو رکعت نفل کا مقام ہے
اور دورکعت نفل کی عظیم الشان قیمت…جنت کا واجب ہونا… اور گناہوں کا معاف ہونایہ
دو بہت بھاری نعمتیں ہیں …معلوم ہوا کہ…دو رکعت نماز بہت طاقتور عمل ہے … جب یہ
انسان کو جنت تک پہنچا سکتا ہے تو پھر باقی حاجات تو بہت چھوٹی اور بہت قریب کی
ہیں … اسی لئے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہمارے اسلاف دو رکعت نماز کی طرف یوں لپکتے
تھے جس طرح شیر خواربچہ بھوک کے وقت دودھ کی طرف لپکتا ہے … مسجد میں داخل ہوئے
تودورکعت …وضوکیا تو دو رکعت… کسی کے ہاں مہمان بنے تو دو رکعت … راہ چلتے مسجد
نظر آگئی تو سفر روک کردو رکعت … جہاد پر جانے لگے تو دو رکعت … واپس لوٹ کر آئے
تو گھر جانے سے پہلے دو رکعت… کوئی معاملہ پیش آیا تو دو رکعت …موسم کے تیوربگڑے
تو دو رکعت … چاند و سورج پر گرہن آیاتو دو رکعت …کوئی خوشی ملی تو دو رکعت …
کوئی صدمہ پہنچا تو دو رکعت… کوئی نعمت آئی تو دو رکعت… کوئی مصیبت آئی تو دو
رکعت … کوئی حاجت آئی تو دو رکعت … کوئی ترددآیا تو دورکعت …دراصل یہ حضرات …
اللہ تعالیٰ کی محبت اور یار ی میں ڈوبے ہوئے تھے… اور ’’دورکعت ‘‘نماز اُن کی اُن
کے یار سے ملاقات اور بات چیت کراتی تھی … اسی لئے وہ’’دورکعت‘‘کے عاشق بن چکے تھے
… یااللہ!ہمیں بھی اس سچی اور پاکیزہ یاری کاایک مقبول قطرہ نصیب فرما۔
دورکعت کے انوارات
چند ہفتے پہلے جب میں نے ’’دورکعت‘‘نماز پر کالم لکھنے کا
ارادہ کیا تو اس وقت سرسری طور پر دو رکعت کے فضائل پر ایک نظر ڈالی تھی … اس
سرسری مطالعہ کے اشارات ایک کاغذ پر لکھ لئے تھے آج اگر وہی اشارا ت ہی لکھ دوں
تو مزید کئی صفحات کا مواد بن جائے گا … جبکہ مقصدتفصیل نہیں بلکہ صرف مسلمانوں کو
اس موضوع کی طرف متوجہ کرنا ہے …
چند اشارات ملاحظہ فرمائیں …
فجر کی دورکعت سنتوں پر کئی احادیث و روایات موجود ہیں ۔
تہجدکی دورکعت نماز پر والہانہ فضائل موجود ہیں۔
فجر کی نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر اذکار
میں لگے رہنے اور اشراق کے وقت دو رکعت ادا کرنے پر ایک حج اور ایک عمرے کے اجر کا
وعدہ مذکور ہے اور فرمایا کہ تامہ،تامہ،تامہ…یعنی مکمل حج اور مکمل عمرے کا اجر
لکھا جاتا ہے۔
مسلمان سے کوئی گناہ ہوجائے… تو فرمایا کہ دو رکعت نماز ادا
کرکے معافی مانگے… تو مغفرت کا وعدہ ہے۔
مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے یا اس کے بندوں سے کوئی حاجت پیش
آجائے تو فرمایا کہ دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر دعاء بھی سکھا دی گئی۔
استخارہ کی دو رکعت تو ایک بڑی اور جامع نعمت ہے
… رنگ و نور کے کئی مضامین میں آپ استخارہ کی فضیلت اور مقام پڑھ چکے ہیں ۔
ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت میں مرافقت کی دعاء کی درخواست کی … آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء فرمائی اور
ساتھ یہ فرمایا کہ زیادہ سجدوں کے ذریعے میری دعاء کو طاقتور بناتے رہنا۔
خلاصہ یہ کہ …دو رکعت نماز ایک مؤمن کے لئے دنیا و آخرت
کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ سے پانے کا بہترین ذریعہ ہے … اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ’’
نعمت‘‘ عطاء فرمائے …آمین یا ارحم الراحمین
لاالہ الااللّٰہ ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ ونور…شمارہ 594
مجھے قریب والے سے دور تونہیں کررہی؟
* ’’سامری
یہودی‘‘ نے ایک بچھڑے کے ذریعے قوم کو گمراہ کردیا تھا…
وہ بچھڑا سامری کی قابلیت اور ٹیکنالوجی کا
شاہکا ر تھا۔
اب
ایک اور یہودی مارک زکر برگ ’’فیس بک‘‘ نامی بچھڑے کے ذریعے
انسانیت کو گمراہ کرنے اور دنیا پر صہیونی تسلط
قائم
کرنے
کے لئے میدان میں اتر ا ہے …
لیکن
’’سامری‘‘ کی طرح یہ بھی ناکام ہوگا، ان شاء اللہ…
* پاکستان
میں نام نہاد روشن خیالوںاور دانش خوروں کی پرانی
کھیپ
’’بڈھی‘‘ اور ناکارہ ہوگئی تو کافروں نے ایک نئی کھیپ
لانچ
کردی… اس کھیپ میں کون کون شامل ہے؟
اس کھیپ کا انجام کیا ہوگا؟… ان’’ روشن خیالوں‘‘
کے
آقائوں کو ایک’’ مفید مشورہ‘‘ اور ان کے لئے
ایک بری خبر…
مزید فوائد:
١
دنیا میں کس کی قدر بڑھتی ہے اور کس کی کم ہوتی ہے؟
٢
قدر بڑھانے کا نسخہ اور دو اہم راز۔
تاریخِ اشاعت:
۲۲ شعبان
المعظم ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق19مئی 2017ء
مجھے قریب والے سے دور تونہیں کررہی؟
اللہ تعالیٰ ہمیں دن رات’’عبرت‘‘کے نمونے دکھاتے ہیں۔
ملک شام کی معروف ’’اداکارہ‘‘کاانتقال ہوگیا … اس کے بارے
میں کہا جاتا تھا کہ لاکھوں دلوں پر راج کرتی ہے … کسی نے لکھا کہ وہ لاکھوں دلوں
کی دھڑکن تھی … لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اُمڈپڑتے تھے …مگر جب مرگئی تو
جنازے میں کل نو افراد شریک تھے … وہ ساری زندگی جن کے لئے ناچتی رہی،گاتی رہی ،
فلمیں بناتی رہی وہ جنازے تک میں نہ آئے … کیوں آتے؟ کیاکرنے آتے؟وہ تو مرچکی
تھی …
’’اللہ تعالیٰ برے انجام سے ہم سب
کی حفاظت فرمائے۔‘‘
بعض لوگ ہر آئے دن کے ساتھ اپنی قدر کھوتے چلے جاتے ہیں …
اور بعض لوگوں کی ’’قدر‘‘ مرتے دم تک بڑھتی چلی جاتی ہے … فنکار،کھلاڑی ،سیاستدان
،عہدے دار اور گلوکار اکثر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ’’بے قدر‘‘ ہوتے چلے جاتے
ہیں…آخر کیوں؟جبکہ اللہ والے،علم والے، دین والے،جہاد والے… ان کی قدر ومنزلت ہر
آئے د ن بڑھتی چلی جاتی ہے … آخر کیوں؟
اگر کبھی اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس راز … اور اس’’ کیوں
‘‘پر ضرور غور فرمائیں…
تب آپ کو دو راز
معلوم ہوجائیں گے…
١ جو
دنیا میں اپنی قدر کروانے کی فکر نہیں کرتے … اُنہی کی قدر بڑھتی ہے۔
٢ جو
دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں …اُن کی قدر بڑھتی چلی جاتی
ہے۔
نئی کھیپ
کافروں کی ہربات اچھی ہے …مسلمانوں کی ہر بات بری
ہے…مسلمانوں کی عزت کافروں کی تعلیم ،کافروں کی پیروی اور کافروں کی غلامی میں
ہے…مسلمانوں کو آگے بڑھنا ہے تو انہیںمغرب کی ہر چیز کو اپنانا ہو گا…غیرت کے نام
سے نفرت کرو…بے غیرتی کو ہر گھر میں داخل کرو…ہر گناہ کی وکالت کرو،ہر نیکی کے
خلاف ڈٹ جاؤ… مسجد، مدرسہ، مولوی اور مجاہد کے خلاف دن رات محنت کرو… بدکاری ،بے
حیائی اور فحاشی کو مسلمانوں کی ہر گلی اور ہر کوچے تک پھیلادو…یہ ہے بعض لوگوں کا
کھلا منشور … آپ ان لوگوں کو کوئی بھی نام دے سکتے ہیں … ویسے قرآن مجید میں
ایسے افراد کو ’’منافقین ‘‘ کا لقب دیاگیا ہے…مگر یہ خود کو دانشور بھی کہتے ہیں …
اورسماجی کارکن بھی… کبھی کبھار یہ اپنا نام ’’روشن خیال ‘ـ‘ بھی رکھ لیتے ہیں
…اورکبھی انسانی حقوق کے علمبردار …پاکستان میں اس طبقے کے پرانے لوگ اب بڈھے اور
بوسیدہ ہوتے جارہے ہیں … نہ پہلے سی چمک نہ پرانی دمک… اب کون عاصمہ جہانگیر کے
ساتھ بیٹھنا پسند کرتا ہے…اور کون نجم سیٹھی کی سنتا ہے… اس طبقے کی ایک بڑی صفت
مال کی حرص ہے … اور یہ جوں جوں بڈھے ہوتے جاتے ہیں ان کی یہ حرص بھی بڑھتی چلی
جاتی ہے … مگر بڈھوں پر مال کون لگائے؟…چنانچہ اب پاکستان میں ان ’’حیوانوں‘‘ کی
ایک نئی نسل تیار کی جارہی ہے … ان میں سے بعض پاکستان میں لانچ بھی ہوچکے ہیں…
اہم نام ’’جبران ناصر‘‘کا ہے… سرتاپا غلاظت،خباثت اور منافقت کا ایک مجموعہ…
ادھر’’ ملالہ ڈالر زئی‘‘کو پاکستان کے اگلے حکمران کے طور پر تیار کیا جارہا ہے…
مجھے ان سب کو دیکھ کر کافروں کی بے عقلی پرہنسی آتی ہے… ارے کن بے کار پرزوں پر
اپنا مال لٹا رہے ہو … یہ اب تک کیا کرسکے ؟اور آگے کیا کرلیں گے؟ … الحمدللہ
پاکستان میں دین بھی بڑھ رہاہے اور دینی غیرت بھی …مساجد بھی بڑھ رہی ہیں اور
مدارس بھی … جہاد بھی بڑھ رہا ہے اور مجاہد بھی…اور تمہارے لئے سب سے افسوسناک بات
یہ کہ… جس’’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کو مٹانے کے لئے تم ان ’’بے رنگ لفافوں
‘‘پر کروڑوں ڈالر لٹا رہے ہو… وہ’’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ہر طرف ٹھاٹھیں ماررہا ہے…
مردان کے واقعہ پرحکمرانوں نے بے شرمی اور تشدد کی انتہا کردی… ان کا خیال تھا کہ
ہم قوم کو … ایساڈرادیں گے کہ آئندہ کوئی ’’ناموس رسالت‘‘کا نام تک نہیں لے گا …
سینکڑوں افرادکو گرفتار کیا گیا … درجنوں افراد کو مار مار کر معذور کردیا
گیا…اسلامی پختون معاشرے کو پامال کرنے کے لئے چھاپوں کے دوران چادر اور چارد
یواری کے تقدس کو روندا گیا … مگر نتیجہ کیا نکلا؟نتیجہ یہ نکلا کہ چترال جیسے
ٹھنڈے علاقے میں ہزاروں مسلمان ناموس رسالت کے لئے نکل کھڑے ہوئے … مسجدکا مولوی
اس شخص کو بچاتا رہا جس پر گستاخی کا الزام تھا… جبکہ عام مسلمان اسے قتل کرنے کے
لئے پولیس کی لاٹھیوں اور شیلنگ کے درمیان آگے بڑھتے رہے اور کئی دن تک سڑکوں پر
رہے … پھر سیالکوٹ میں مسلمان عورتیں میدان میں اُتر آئیں… پھر بلوچستان میں
ہزاروں مسلمان دیوانہ وار سرپر کفن باندھ کر نکل آئے … ارے ظالمو!تم کیا سمجھو کہ
عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز ہے؟…
تم خواہ مخواہ جبران ناصر ،ملالہ ڈالر زئی،عاصمہ جہانگیرجیسے لوگوں پر اپنا سرمایہ
ضائع کررہے ہو… تم یہی پیسہ اپنے گھر کے کتوں کو کھلا دیا کرو تو وہ تمہارے کچھ
کام تو آجائیں گے… جبکہ یہ لوگ تو صرف تمہیں لوٹ رہے ہیں …
یہ جب اپنی قوم اور اپنے دین کے وفادار نہیں تو تمہارے
وفادار کہاں سے بن جائیں گے … ان میں سے کئی لوگ سوویت یونین کی پوجا کرتے تھے…
مگر جیسے ہی وہ کنگال ہو ایہ فوراً امریکہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے اور کئی نے
انڈیا سے وفاداری کا عہد نباہ لیا…یادرکھو!جس طرح تمہاری پرانی کھیپ … ناکام رہی
…یہ نئی کھیپ اس سے بھی زیادہ ناکام ثابت ہوگی …اسلام زندہ باد،جہاد زندہ باد۔
سامری کا بچھڑا
حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے’’کوہ طور‘‘پرحاضری کا حکم
فرمایا… یہ اللہ تعالیٰ کا خاص نظام ہے، وہ زمین کے بعض ٹکڑوں کو خاص فضیلت عطاء
فرماتے ہیں … خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو کوئی زمین یا پلاٹ خرید کر … اسے مسجد کے
لئے وقف کرتے ہیں … یہ لوگ بڑی اونچی نسبت اور سعادت پاتے ہیں … جبکہ بعض لوگ ساری
زندگی پلاٹوں پر لڑتے رہتے ہیں پھر ان پلاٹوں کو چھوڑ کرکسی کچی قبر میں دفن
ہوجاتے ہیں … اور ان کے مقدمات ان کی اولادیں عدالتوں میں لڑتی رہتی ہیں… جو زمین
گناہوں سے پاک ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں … حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’طور‘‘پر بلایا گیا … وہ پاک اور مقدس زمین
تھی …
پاک اور مقدس جگہ کو صرف وہی انسان پہچان سکتا ہے جو ’’شرک
‘‘سے پاک ہو … ’’مشرک‘‘بے عقل ہوتا ہے اور خود غرض … وہ چونکہ اپنی خواہشات کا
غلام ہوتا ہے اس لئے وہ ’’مقدس مقامات ‘‘کو نہیں پہچانتا… جس آدمی کے اندر شرک
اور بدعت کے جراثیم ہوں وہ آدمی… ہمیشہ غلط پیروں ،غلط عاملوں اور مشرک نجومیوں
کے ہاتھ جا پھنستا ہے … انڈیا کے مشرکوں نے دو دریاؤں کو مقدس سمجھ رکھا ہے… ایک
گنگااور ایک جمنا … اور پھر سارا ہندوستان مل کر اپنی غلاظت انہی دو دریاؤں میں
بہادیتا ہے … مشرک کو اگر کوئی مقدس چیز مل جائے تو اس کو بھی خراب کردیتا ہے …مکہ
کے مشرکوں کو’’بیت اللہ‘‘جیسا مقدس مقام ملا تو انہوں نے وہاں ناپاک بت رکھ دئیے
…مسلمانو!اللہ کیلئے،اللہ کیلئے،اللہ کیلئے شرک اور بدعت سے بچو … جادو،ٹونے ،محبت
اور تسخیر کے دھوکے میں عاملوں کے پاس نہ جاؤ… اللہ تعالیٰ کے پاس جایا کرو … دو
رکعت نماز میں معراج والی طاقت بھری ہے …یہ دو رکعت تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب
کردیتی ہے… پھرجوچاہو مانگو… ایمان بھی سلامت رہے گا اور حاجت بھی ان شاء اللہ
پوری ہوگی … انڈیا کے مشرک اتنے بے عقل ہیں کہ گائے کی پوجا کرتے ہیں… ایک جانور ،
پیشاب اور گوبر سے لت پت…استغفراللہ ،استغفراللہ …
ایک جانور جو اپنی رسی خود نہیں کھول سکتا … وہ کہاں سے
بھگوان بن گیا…مگرہمارے نادان حکمران …انڈیاسے ہندو پنڈتوں ،نجومیوں اور تانترکوں
کو بلواتے ہیں …ان پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں …ارے! گائے کی پوجا کرنے والے کس
طرح روحانی طاقت کے مالک ہو سکتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو ’’طور‘‘پر بلایا …وہاں’’طویٰ‘‘نامی ایک پاک اور مقدس وادی تھی…وہاں اللہ
تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا… مسلمانو! اپنے بستروں اور گھروں
کو پاک رکھا کرو… اپنے لباس کی پاکی کی خاص فکر کیا کرو … خواتین کپڑے دھوتے وقت
ان کو پاک کرنے کا خاص اہتمام کیا کریں… نوکر اور نوکرانیوں سے کپڑے دھلوائیں تو
ضرور جائزہ لے لیں کہ وہ پاک کرتے ہیں یا نہیں… اگر کپڑے پاک نہیں ہوں گے تو نماز
نہیں ہوگی…گھر ناپاک ہوں گے تو برے جنات اُن میں ڈیرے ڈال لیں گے …بستر پاک نہیں
ہوں گے تو شیطان ان پر بیماریاں اور نفرتیں اُگا دے گا۔
ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے’’تورات‘‘لے رہے
تھے جبکہ پیچھے قوم ایک ’’جادوگریہودی ‘‘کے قبضے میں چلی گئی … اس نے ایک بچھڑا
بنایااس میں اپنی ٹیکنالوجی سے آواز بھری … کچھ کشش ڈالی اور ساری قوم کو شرک میں
پھینک دیا … اس جادوگر کا نام ’’سامری‘‘تھا…یہ فیس بک والا’’مارک زکر برگ‘‘بھی
یہودی جادوگر ہے … اس کی تنی ہوئی گردن اور منحوس چہرہ دیکھ کر ’’سامری‘‘یاد
آجاتا ہے … یہودی اپنے نام کے ساتھ اپنے خاندان کا نام ضرور جوڑتے ہیں… کوئی
’’پرل‘‘ہے تو کوئی’’باٹا‘‘اورکوئی’’برگ‘‘…سامری کے بچھڑے کے سامنے لاکھوں لوگ گرے
رہتے تھے … فیس بک پر روزانہ لاکھوں جوانیاں اپنی زندگی کے بے شمار قیمتی لمحات
ضائع کرتی ہیں … کوئی پوسٹس پھینکتا ہے کوئی لائیکس اور کوئی کمنٹس… نہ وقت کا پتا
لگتا ہے اور نہ زندگی گزرنے کا … مارک زکر برگ کا منصوبہ دنیا پر قبضے کا ہے … اس
کا منصوبہ یہ ہے کہ پہلے لوگوں کی عقل کو اپنی گرفت میں لو پھر لوگوں کے ’’اوقات
‘‘یعنی ٹائم پر قبضہ کرو… اور پھر ان کے جسموں پر حکومت کرو … وہ امریکی صدر بننا
چاہتا ہے … اور پھر امریکی طاقت کو اپنے پنجے میں لے کر پوری دنیا پر صہیونیت کی
بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے … مجھے یقین ہے کہ ’’سامری‘‘کی طرح ’’برگ ‘‘بھی ان
شاء اللہ ناکام ہوگا…مگرجولوگ مسلمان ہوکر اس وقت اس بچھڑے پر گرے پڑے ہیں وہ اپنی
حالت پر ضرور غور کریں …وہ جب دو چار گھنٹے فیس بک پر لگایا کریں توآخر میں دو
منٹ یہ ضرور سوچا کریں کہ… میں نے ان دوچار گھنٹوں میں کیا پایا؟کیا کھویا؟…کیا
میں اسی لئے پیدا ہوا؟اسی طرح وہ اپنے دل پر ایک نظر ڈالا کریں کہ … فیس بک پر
گرنے کے بعد یہ دل کہیں سختی اور قساوت کاشکار تو نہیں ہوگیا؟…کہیں ایساتو نہیں کہ
فیس بک دور دور والے افراد کو تو میرے قریب کررہی ہے مگر وہ جو میری شہہ رگ سے
زیادہ قریب ہے مجھے اس سے دور کررہی ہے ؟؟
لاالہ الا اللّٰہ ،لاالہ الا اللّٰہ ،لاالہ الا اللّٰہ
محمدرسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمدوالہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لاالہ الا اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ ونور…شمارہ 595
امن چاہتے ہو؟
* جہاد
کا ایک اہم فائدہ اور خاصیت یہ ہے کہ اس سے انسان میں’’ اصل حقیقت‘‘ کو پہچاننے کی
صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ’’دھوکے‘‘ سے محفوظ رہتا ہے۔
* ’’ٹرمپ‘‘
اپنی انتخابی مہم میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف خوب بولتا تھا… ایسا لگتا تھا
کہ یہ شخص امریکہ کا حکمران بنتے ہی مسلمانوں پر چڑھ دوڑے گا… لیکن حکومت میں آنے
کے بعد جب حقائق اس کے سامنے آئے اور فدائیوں کے مسکراتے قافلے دکھائی دئیے… تو
اس کے حوش اُڑ گئے… اور وہ کھسیانی بلی کی طرح صفائیاں دینے لگا… یہ سب جہاد کی
برکات اور ثمرات ہیں…
* اسلام
اور اہل اسلام کے خلاف دشمن ایک بار پھر پورے زور وشور سے پرانے ’’وار‘‘ پر عمل
کرنے چل نکلے… وہ’’ وار‘‘ ہے ’’مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ختم کرو‘‘… لیکن یہ
وار بھی خطا جائے گا ان شاء اللہ، کیونکہ…
ایک ایمان افروز
تحریر
تاریخِ اشاعت:
۲۹ شعبان
المعظم ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق26مئی 2017ء
امن چاہتے ہو؟
اللہ تعالیٰ سے ’’ایمان کامل‘‘… ایمان پر استقامت اور ایمان
پر خاتمے کا سؤال ہے…اللہ تعالیٰ ہمیں دن رات … اپنی قدرت اور طاقت کی نشانیاں
دکھاتے رہتے ہیں۔
کل تک
امریکی تاجر … ارب پتی سودے باز…رنگین مزاج کٹر عیسائی
…یہودیوں کا گہرا دوست…مسلمانوں کا سخت ناقد…’’ڈونلڈٹرمپ‘‘ جب انتخابی مہم میں تھا
تو …اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منہ بھر کر بول رہا تھا …اس کی آواز میں صلیبی
جنگجوؤں کی دھمکی تھی…اور اس کے انداز میں ایک’’نائٹ ‘‘کا تعصب تھا… یوں لگتا تھا
کہ اگر یہ شخص صدر بن گیا تو امریکہ کے تمام مسلمانوں کو جمع کرکے یا تو انہیں مار
دے گا یا نکال دے گا… اور اپنی صلیب اور فوجیں لے کر اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑے گا…
یہودیوں اورہندوؤں نے اسے بھرپور تعاون دیا…اسلحہ کے تاجر بھی ا س کی پیٹھ پر
آکھڑے ہوئے …آج دنیا میں سب سے بڑی تجارت اسلحے کی ہے … اور اسلحہ کے تاجر دنیا
کے مالدار اور مؤثر ترین افراد ہیں …ان تاجروں کی اپنی خفیہ ایجنسیاں ہیں …یہ
ایجنسیاں جگہ جگہ جنگ بھڑکاتی ہیں …اور یوں ان تاجروں کا اسلحہ دھڑادھڑ بکتا ہے
…اسلام اور مسلمانوں کے خلاف … زوردار تقریریں کرنے والے ’’ٹرمپ ‘‘کوامریکہ کا صدر
بنادیا گیا…اب انتظار تھاکہ … ٹرمپ کب مسلمانوں پر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے …مگر یہ
کیا ہوا؟ …
آج تک
ٹرمپ جب وائٹ ہاؤس پہنچا …وہاں اس نے خفیہ فائلوں کو پڑھا…
دنیا کے حالات کا جائزہ لیاتواس کے ہوش اُڑ گئے …ہرطرف مسلمان،ہرجگہ مسلمان،قدم
قدم پر فدائی مسلمان…گلی گلی میں دیوانے مسلمان …ہررنگ کے مسلمان ،ہرنسل کے مسلمان
… ہر براعظم میں مسلمان …دور دور تک پھیلے مسلمان …اسلام پر ڈٹے ہوئے مسلمان
…ہرمیدان کے فاتح مسلمان… ہرمزاج کے مسلمان…
ٹرمپ چکر اگیا …ٹرمپ جس قوم کو محض چند دھمکیوں اور چند
بموں کی مار سمجھتا تھا وہ نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اپنی اس کمزوری کے زمانے میں بھی … دنیا
کی سب سے طاقت ور اور بااثر قوم ہے…
وہ لوگ جوتل ابیب ،دہلی اور ویٹی کن میں دور بین لگائے
بیٹھے تھے کہ …کب اُن کا جنگجو ٹرمپ…اپنی فوجوں اور اپنے اسلحہ کے ساتھ مسلمانوں
پر حملہ آور ہوتا ہے …
انہوں نے دیکھا کہ …ہنستا،مسکراتاٹرمپ اپنی بیٹی
اور بیوی کے ساتھ مسلمانوں کے ملک ’’سعودی عرب‘‘کے ائیرپورٹ پراُتررہا ہے… وہ اپنے
پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز ایک اسلامی ملک سے کررہا ہے …اور اپنی تقریرمیں …
باربار صفائیاں دے رہا ہے کہ میں اسلام کا دشمن نہیں…میں مسلمانوں کا دشمن نہیں …
اور اپنے خطاب میں … اپنی پرانی ’’قے‘‘ کوباربار چاٹ رہا ہے…
وہ ٹرمپ جس کے چہرے کی کرختگی کیمروں کے شیشے دھندلادیتی
تھی … اب اس کی مسکراہٹ ایک منٹ کے لئے چہرے سے غائب نہیں ہورہی تھی ۔
دوجملوں پر غور کریں
ٹرمپ نے صدر بننے کے فوراًبعد…امریکی کانگریس سے خطاب کیا
تھا… اس وقت تک وہ حالات سے لاعلم تھا…اُن بیوقوف لوگوں کی طرح…جواسلام اور
مسلمانوں کے خاتمے کو آسان اور ممکن سمجھتے ہیں … چنانچہ اس نے … اپنی تقریر میں
اعلان کیاکہ ہم … اسلامی انتہا پسندی کو روئے زمین سے مٹا دیں گے … مگر پھر جب
ٹرمپ نے … حالات دیکھے اور سمجھے تو کل سعودی عرب میں اس نے کہا… اسلامی ملکوں کے
حکمران خود اپنے ملکوں سے اسلامی انتہاپسندی کا خاتمہ کریں … اور اس انتظار میں نہ
رہیں کہ امریکہ آکر یہ کام کرے گا… سبحان اللہ !اللہ تیری قدرت … مجھے معلوم نہیں
ہے کہ’’ اسلامی انتہا پسندی‘‘ کہاں رہتی ہے ؟اگرمعلوم ہوتا تو آج ضرور اسے
مبارکباد دینے جاتاکہ… اس نے دنیا کے سب سے بڑے’’ انتہاپسند‘‘کادماغ بھی ٹھکانے
لگادیا … کل تک ٹرمپ یہ سمجھتا تھا کہ… اسلامی انتہا پسندی کو امریکہ اکیلے ختم
کرسکتا ہے مگر آج اس کا موقف ہے کہ … نہیں ! امریکہ کچھ نہیں کرسکتا…مسلمانوں کے
حکمران خود اپنی عوام کا گلا کاٹیں …خود مسلمانوں کا صفایا کریں … اور خود اسلامی
جہاد کو ختم کریں … اور امریکہ کے انتظار میں نہ بیٹھے رہیں۔
الحمدللہ ،الحمدللہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم الشان میں ’’جہاد فی سبیل اللہ
‘‘کاحکم نازل فرمایا…اورپھرقرآن مجیدمیں جہادکے ہر طریقے ،ہرفائدے اور ہر فضیلت
کوکھول کھول کر بیان فرمادیا …جہاد کا ایک فائدہ یہ بیان فرمایا کہ … جہاد کی برکت
سے انسان کو ’’حقیقت‘‘ نظر آتی ہے … او ر وہ ’’دھوکے ‘‘سے بچ جاتا ہے… آپ دنیا
میں کفر کی طاقت،کفر کی جنگی صلاحیت،کفرکی ظاہری ترقی اور چمک دمک دیکھیں تو … یہ
دھوکہ ہونے لگتا ہے کہ … اب نعوذباللہ ’’اسلام‘‘کازمانہ نہیں رہا …اس زمانے میں
نعوذباللہ پرانااسلام نہیں چل سکتا… اوراگرہم نے دنیا میں عزت سے رہنا ہے تو ہمیں
… پرانے اسلام کو چھوڑنا ہوگا… یہ دھوکہ اتنا خطرناک ہے کہ … بڑے بڑے عقلمندوں کو
گمراہ کردیتا ہے …شیطان کافروں کی ایک ایک طاقت اور ایک ایک ترقی دکھاکر کہتا ہے
کہ سوچو !اب اسلام کی کیا جگہ ہے؟…اب اسلام کیسے غالب آسکتا ہے ؟مسلمان جہاں بھی
اسلام کا نظام نافذکریں گے کافر وہاں ایٹم بم پھینک کر سب ختم کردیں گے وغیرہ
وغیرہ…مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۹۴ ء فروری کے ٹھنڈے مہینے میں … ہم مقبوضہ کشمیرکے ضلع
اسلام آباد (اننت ناگ)میں گرفتار ہوئے تو ہمیں … ابتدائی تشدد کے بعد
’’کھندرو‘‘کے فوجیکیمپ کے ایک کمرے میں اکیلا ڈال دیاگیا … وہاں ایسا ماحول بنایا
گیا تھا کہ… دشمنوں کی طاقت ہزار گنازیادہ نظر آئے اور انسان خود کو ایسا حقیر
،ذلیل سمجھے کہ … وہ ہرخیر سے مایوس ہوجائے … چوبیس گھنٹے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں
کی گھن گرج … ہزار والٹ کی تیز روشنی… فوجی بوٹوں کی دھمک … طرح طرح کے تشدد اور
دھمکیاں، عجیب مایوس کن خبریں … اور ہماری کمزوری کا کھلم کھلا مذاق…
ہر وقت گالیاں اور قہقہے کہ…بڑے آئے کشمیرکو آزاد کرانے
والے … انڈیا سے لڑنے کی کس میں طاقت ہے؟وغیرہ وغیرہ …ایسے سخت ماحول میں انسان
زیادہ سے زیادہ دو چار دن ہی اپنا حوصلہ برقرار رکھ سکتا ہے … اورپھر نمک کی طرح
پگھلنے لگتا ہے …تب ایمان کے سودے ہوتے ہیں، وفاداریا ں بدلی جاتی ہیں … اور
نظریات کے جنازے دفن ہوجاتے ہیں …
ابتداء میں میرے حواس بھی جواب دے گئے … زندگی ایک دم اس
طرح بدلے گی یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا … کہاں جہاد اور دعوت جہاد کی آزاد اور
شاہانہ زندگی … اور کہاں یہ ذلت ناک لمحات … مگراللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا…اور
اپنے قرب کا احساس نصیب فرمایا… دل کو موت کے لئے تیار کیاتو پھر نہ طاقت طاقت نظر
آئی نہ کمزوری کوئی کمزوری …
طاقت اور کمزوری کا چکر توزندہ رہنے والوں کے لئے ہے … کوئی
انسان مرنے کا ارادہ کرلے تو پھروہ اس دنیا کی طاقت اور کمزوری سے بے نیاز ہوجاتا
ہے …اور اس کی فکر اگلے جہان کو سنوارنے پر مرکوز ہوجاتی ہے … ہر نماز آخری نماز
،ہر سجدہ آخری سجدہ …اور بس دنیا سے الوداع … اس حالت نے …اردگرد کے ماحول
کوبالکل بے اثر کردیا … نہ طیاروں کی آواز مسئلہ رہی اور نہ بوٹوں کی دھمک… بلکہ
فکر یہ ہوئی کہ جلد از جلداللہ تعالیٰ کو راضی کیا جائے کیونکہ اسی کے پاس جانا ہے
… ایک ایک گناہ پر توبہ ،ایک ایک غلطی پر آہیں …یوں الحمدللہ تیرہ دن اس وحشت ناک
قبر میں ایسے گزرے …کہ اُلٹا دشمن پر رعب چھا گیا …ایک جنرل نے ملاقات کی اور
تعویز دم کی فرمائش کرنے لگا…شاید تفتیش کاروں اور سنتریوں نے اسے کچھ بتا دیا
ہوگا…اللہ تعالیٰ کا فضل اور ا س کی طاقت دیکھیں کہ ایسی جگہ پر وہ ہمیں توڑنے کی
بجائے خود ہمارے سامنے ٹوٹنے بکھرنے لگے… اوراپنی کمزوریاں بتانے لگے … اور پھر
اللہ تعالیٰ نے آزادی بھی واپس عطاء فرمائی … اور الحمدللہ جہاد کی خدمت بھی نصیب
فرمائی … عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ …وہاں جن حالات میں ایک ’’مظلوم انسان‘‘طاقتور
دشمن کے پنجے میں بیٹھا تھا … کون سوچ سکتا تھا کہ … یہ انسان کبھی رہا بھی ہوگا؟…
اور جہاد کی ان چوٹیوں پر پہنچے گا جہاں انڈیا کے حکمران بھی رونے پر مجبور ہوں
گے…
یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کی نشانیاں ہیں … آج
آپ کافروں اور منافقوں کی طاقت ، شور اور چمک دمک دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ … بس
اب زمانہ بدل گیا …اب اسلام کے لئے کوئی جگہ نہیں …اب جہاد کے لئے کوئی جگہ نہیں
…لیکن جب آپ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جہاد کو مانتے ہیں… جہاد کو سیکھتے ہیں
،جہاد میں نکلتے ہیں تو …آپ کو حقیقت نظر آنے لگتی ہے …اور حقیقت یہ ہے کہ…
اسلام نے ضرور دوبارہ غالب ہونا ہے … اور یہ بالکل ممکن ہے … اور جہاد میں ہمیشہ
کامیابی ہے… اوریہ کامیابی ہر مخلص اورسچے مجاہد کو ملتی ہے …اور جہاد کے نتائج
اور ثمرات ہمیشہ بہت دور دور تک پھیلتے ہیں …
آج کفریہ طاقتیں مجاہدین کے سامنے بے بس ہوچکی ہیں … ان کے
بڑے بڑے دماغ یہ اعلان کررہے ہیں کہ ہم مسلمانوں سے مسلسل ہار رہے ہیں … اور
مجاہدین مسلسل جیت رہے ہیں …اور اب ہمیں مجاہدین کا خود سامنا نہیں کرنا چاہیے
بلکہ مسلمانوںکو آپس میں لڑاکر ختم کرنا چاہیے …
یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا
مسلمانوںکو آپس میں لڑانے کا منصوبہ …ماضی میں بھی باربار
آزمایا گیا … اور اب اسے نئی طاقت کے ساتھ دوبارہ آزمایاجارہا ہے …بات یہ ہے کہ
یہ منصوبہ اگرچہ مسلمانوں کا کافی نقصان کرتا ہے مگراس آپس کی لڑائی کے ذریعہ …
مسلمانوں کو لڑنے ،مرنے اورمارنے کا بہت تجربہ ہوجاتاہے … مسلمان جب جنگ کے عادی
اور خوگر بن جائیں تو پھر انہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا… اور چونکہ اسلام
اور مسلمانوں کی حفاظت کا آسمانی وعدہ موجود ہے … اور یہ امت آخری امت ہے …اور
دنیا سے اسلام اسی وقت ختم ہوگا جب اللہ تعالیٰ دنیا کوہی ختم فرمانے والے ہوں گے
… اس لئے مسلمانوں کی باہمی لڑائی سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا…
البتہ بہت سے مسلمانوں کو لڑنے کا طریقہ آجاتاہے …اور جب یہ لوگ کفار کے خلاف
جہاد میں نکلتے ہیں توان کی جنگ بہت زورداراورشاندارہوتی ہے …ویسے بھی اب دنیابہت
چھوٹی ہوچکی ہے …بہت بے پردہ ہوچکی ہے… اوربہت قریب قریب ہو چکی ہے …اب کسی کے بس
کی بات نہیں رہی کہ وہ دوسرے کے گھر میں آگ لگائے اوراپنے گھر کواس آگ سے بچائے
رکھے …وہ دوسروں پر چنگاریاں پھینکے اور خود اپنے دامن کو بچالے …
اب جنگ شروع ہوچکی ہے …اور دنیا سمٹ چکی ہے…امن صرف’’ایمان
‘‘میں ہے اور سلامتی صرف’’اسلام‘‘میں ہے…اسلام اورمسلمانوں کومٹانایا اسلام کو
تبدیل کرنا یہ کسی کے بس میں نہیں ہے… ہاں!دجال کے بس میں بھی نہیں …دنیا اگر
واقعی امن چاہتی ہے تو اسے … دھوکے اور خواب سے نکل کر … حقائق کو تسلیم کرنا
ہوگا۔
لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول
اللّٰہ
اللھم صل وسلم وبارک علیٰ سیدنامحمدوالہ وسلم تسلیماکثیرا
کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…596
اللہ تعالیٰ کے ’’ بھلانے‘‘ کا مطلب
* جو
بندہ دنیا کو مقصد بنا کر رب تعالیٰ کو بھلا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے بھلا
دیتے ہیں ، تب وہ آخرت سے غافل ہوجاتا ہے ، اسے آخرت کی فکر اور اللہ تعالیٰ کا
ذکر نصیب نہیں ہوتا، پھر اسی غفلت میں اس کی موت آجاتی ہے…
* کچھ
لوگ سود اور حرام کا ایک پیسہ بھی کھا لیں تو پکڑ میں آجاتے ہیں اور کچھ کروڑوں
کھا کر بھی بے فکر اور آزاد… یہ فرق کیوں؟
* اللہ
تعالیٰ تو بھول چوک سے پاک ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے بھلانے کا کیا مطلب؟
* اللہ
تعالیٰ کے بھلادینے کی علامات اور نشانیاں…
* کامیابی،
ناکامی کا مدار کیا ہے؟…
* رمضان
المبارک اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا بہترین ذریعہ…
* ’’شہررمضان‘‘
کتاب کے مطالعہ کی دعوت…
*
یہ ہیں اس معطر مضمون کے اہم موضوعات… ملاحظہ فرمائیے
تاریخِ اشاعت:
۶ رمضان
المبارک ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق2جون 2017ء
اللہ تعالیٰ کے ’’ بھلانے‘‘ کا مطلب
اللہ تعالیٰ کی پناہ اس بات سے کہ… اللہ تعالیٰ ہمیں بھلا
دے…
سورۃ التوبہ میں بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا…
’’نَسُوْااللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ ‘‘
(التوبہ: ۶۷)
ترجمہ: ’’انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو بھلا
دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ بھول چوک سے پاک ہے… وہ کسی چیز کو نہیں
بھولتا… کوئی چیز چھوٹی ہو یا بڑی اس کے علم سے اوجھل نہیں ہو سکتی… پھر ’’ بُھلا
دینے‘‘ کاکیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے اُن کی
رہنمائی نہیں فرماتا… اُن کی پرواہ نہیں فرماتا، اُن پر خاص رحمت نہیں فرماتا… اُن
کو آخرت اور نیکی کی طرف متوجہ نہیں فرماتا… بس اُن کو چھوڑ دیتا ہے، پھینک دیتا
ہے کہ… وہ چند دن مزے لوٹ لیں اور پھر عذاب ہی عذاب، آگ ہی آگ… یا اللہ! آپ کی
پناہ۔
آپ نے دیکھا ہو گا
آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد… کسی کو ایک تھپڑ بھی ناحق
مار دیں تو… انہیں کوئی سزا یا تنبیہ فوراً مل جاتی ہے… کبھی ہاتھ ٹوٹ جاتا ہے یا
کوئی اور تکلیف اُن کو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دیتی ہے…تب وہ معافی
مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں… مگر بعض افراد روز کئی کئی قتل
کرتے ہیں…مگر اُن کو بخار تک نہیں ہوتا… حکمران، خفیہ ادارے، انڈر ورلڈ مافیا… اور
بے وقوف بدمعاش یہ سب روز ناحق خون بہاتے ہیں …زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدلتے
ہیں اور لاشوں کو بے دردی سے جلاتے، چھپاتے اور ڈبوتے ہیں… مگر اُن کو فوری کوئی
سزا نہیں ملتی… دراصل اُن بد نصیبوں کو اللہ تعالیٰ نے بھلا دیا ہے… اب وہ اُن کا
ہاتھ نہیں پکڑتا کہ انہیں گناہوں سے روکے …یہ لوگ درندوں کی طرح قتل وغارت کرتے
ہیں … بس اُن کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے… اس وقت کے آنے تک اُن کو ڈھیل اور
آزادی دی جاتی ہے…پھر وہ وقت آجاتا ہے اوریہ افراد ایسے عذاب میں ڈال دئیے جاتے
ہیں جس کا ہراگلا لمحہ پچھلے لمحہ سے زیادہ سخت ہو گا… اور وہاں یہ روتے چیختے
رہیں گے… مگر اُن کی کوئی نہیںسنے گا… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پھینک دیا،
چھوڑدیا،بھلا دیا… ’’یا اللہ آپ کے بھلانے سے آپ کی پناہ‘‘
کامیابی نہیں پھندا
آج کل ’’دنیا پرست‘‘ افراد ایک موضوع بڑی دلچسپی سے بیان
کرتے ہیں… فلاں شخص سائیکل چلاتا تھا آج وہ پچاس گاڑیوں کا مالک ہے… فلاں شخص
دیہاڑی مزدوری کرتا تھا آج وہ ارب پتی ہے… فلاں شخص باورچی تھا آج وہ ملٹی نیشنل
کمپنیوں کا مالک ہے… فلاں شخص کچرا اُٹھاتا تھا آج اس کے جہاز سمندر میں چل رہے
ہیں… وغیرہ وغیرہ… افسوس یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کو ’’کامیابی ‘‘ کا نام دیا
جاتا ہے… جو کہ سراسر ظلم ہے… آپ اسے ’’مالداری‘‘ کا نام دے دیں… آپ اسے
’’قارونیت‘‘ کا لقب دے دیں… آپ اسے ’’سرمایہ داری ‘‘ کہہ لیں…
مگر آپ اسے کامیابی نہیں کہہ سکتے… اگر ’’کامیابی ‘‘ اسی
کا نام ہے تو نعوذ باللہ آپ کو کئی بڑے بڑے ظالموں، کافروں اور فسادیوں کو ’’
کامیاب‘‘ سمجھنا پڑے گا… کیونکہ وہ سب مالدار تھے اور غریبی سے مالدار بنے تھے…
اگر آپ ’’ مالداری‘‘ کو کامیابی قرار دیں گے تو آپ کو بہت سی مقدس ہستیاں نعوذ
باللہ ’’ناکام‘‘ نظر آئیں گی… کیونکہ وہ مال سے دور رہے اور وفات تک غریب رہے…
اچھا اب ایک بات پرغور فرمائیں… آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد اگر ایک روپے کا
سودی کاروبار کر لیں تو… سخت پکڑ میں آ جاتے ہیں… وہ اگر خیانت کر لیں تو
فوراًکوئی مصیبت آ جاتی ہے … وہ اگر کسی کا تھوڑا سا مال دبا لیں تو طرح طرح کی
آفتوں کا شکار ہو جاتے ہیں … کئی افراد جو اپنے حلال کاروبار کی وجہ سے خوب
مالدار تھے انہوں نے جیسے ہی بینک کا سودی قرضہ لیا…ایک دم آسمان سے زمین پر گرے
اور قرضے اور غربت کا شکار ہوگئے… یہ دراصل وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے
بھلایا نہیں بلکہ یاد رکھا … اور انہیں حرام خوری اور حرام کاری سے زبردستی باہر
کھینچ لیا… یہ دنیا میں وقتی طور پر غریب ہو گئے مگر آخرت کے ہمیشہ والے عذاب سے
بچ گئے… دنیا کی ساری زندگی کے مزے آخرت کے ایک منٹ کے عذاب سے ختم ہو جائیں گے…
اب یہ لوگ مالدار نہیں مگر اللہ سے جڑے ہوئے ہیں … توبہ استغفار کرتے ہیں… اور
اپنے گناہ پر نادم رہتے ہیں…
مگر دوسری طرف آپ کو ایسے افراد مل جائیں گے جو … روز
کروڑوں کا سودی کاروبار کرتے ہیں… ان کی معیشت کا سارا دارومدارحرام رشوت پر ہے …
وہ ہر ناجائز اور حرام مال کو لیتے اور کھاتے ہیں …مگر ان پر نہ تو کوئی پکڑ آتی
ہے اور نہ سزا…بلکہ اُن کا کاروبار ایک ملک سے دوسرے ملک…اور ایک کمپنی سے دوسری
کمپنی تک پھیلتا چلا جاتا ہے…یہ وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بھُلا
دیا…یعنی چھوڑ دیا، پھینک دیا، وہ اُن کا ہاتھ کسی حرام سے نہیں روکتا …اور وہ
انہیں کسی خیر کی طرف متوجہ نہیں فرماتا…دراصل ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر موقع
پہ بُھلایا…بالآخر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بُھلا دیا کہ…اب حرام کماتے ہیں،
حرام کھاتے ہیں، حرام جمع کرتے ہیں، حرام میں جیتے ہیں…اور بالآخر حرام میں
مرکر…آگ میں جاگریں گے…جہاں ان کی کچھ بھی نہ سنی جائے گی…یااللہ! آپ کی پناہ۔
اپنا جائزہ
ہم نے آیت مبارکہ پڑھ لی کہ…منافق اللہ تعالیٰ کو بُھلا
دیتا ہے…تو اللہ تعالیٰ بھی اُسے بُھلادیتے ہیں…اللہ تعالیٰ کو بُھلانے کا مطلب یہ
ہے کہ…نہ زبان اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے نہ دل میںاللہ تعالیٰ کی یاد ہو…اور نہ اپنے
کاموں اور معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا لحاظ ہو…مؤمن کا ’’اللہ‘‘ ہر
وقت اُس کے ساتھ ہے…وہ جو کام بھی کرتا ہے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اس میں اللہ
تعالیٰ کا کیا حکم ہے…مگر منافق کی زندگی میں ’’اللہ تعالیٰ‘‘ نہیں ہوتا…وہ ہر
معاملے میں اللہ تعالیٰ کو بُھلاتا ہے…تب اللہ تعالیٰ بھی اس کو بُھلادیتے ہیں…
اللہ تعالیٰ کسی بندے کو بُھلادیں اس کی علامت یہ ہے کہ…اس
بندے کو ’’آخرت‘‘ بالکل بھول جاتی ہے…تب وہ اپنی ذات کے لیے آخرت میں کچھ بھی
جمع نہیں کرتا…
حالانکہ اصل زندگی ’’آخرت‘‘ ہے…اصل ’’کھانا ‘‘ آخرت میں
ہوگا… اصل ’’پینا‘‘ بھی آخرت میں ہوگا…اصل عیش وعشرت بھی آخرت میں ہوگی …اصل
جینا بھی آخرت کا جینا ہوگا…اصل مزے بھی آخرت کے ہوں گے…
بس جو آخرت میں کامیاب رہا اُس نے سب کچھ پالیا…اور جو
آخرت میں ناکام رہا وہ بڑا محروم ہے…پس جس مسلمان کو ’’آخرت‘‘ یاد ہے…اور وہ ہر
وقت اپنی آخرت کی اصل زندگی کا سامان تیار کرتا رہتا ہے…یہ وہ مسلمان ہے جس کو
اللہ تعالیٰ نے یاد رکھا ہوا ہے…اور اسے بُھلایا نہیں ہے…اور جس شخص کو آخرت یاد
نہیں…اور وہ آخرت کی تیاری نہیں کررہا…یہ وہ بدنصیب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے
بُھلادیا ہے…یعنی پھینک دیا ہے، چھوڑ دیا ہے۔
اب ڈرتے دل کے ساتھ ہم اپنا جائزہ لیں…کیا ہم اُن لوگوں میں
ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بُھلایا؟…تب الحمدللہ، الحمدللہ…اور اگر ہم اُن
لوگوں میں ہیں جن کو آخرت کی کوئی یاد، کوئی فکر نہیں…تو پھر بہت ڈرنے کا مقام ہے
کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بُھلاہی نہ دے…تب تو کوئی نصیحت بھی ہم پر اثر نہ کرے
گی۔
اُمید کی روشنی
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ بُھلا دیتے ہیں…اُن لوگوں پر نصیحت
کی بات اثر نہیں کرتی…نہ ہی اُن کو اپنے گناہوں پر ندامت ہوتی ہے…اور نہ ہی انہیں
اپنی اصلاح کا خیال آتا ہے…الحمدللہ ہماری یہ حالت تو نہیں ہے…جتنے بھی سیاہ کار،
گناہگار ہیں…مگر اللہ تعالیٰ سے جڑے رہنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر
عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں…اور اپنی اصلاح چاہتے ہیں…یہ اس بات کی علامت ہے
کہ…اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں بُھلایا…ہمیں نہیں پھینکا…اب ضرورت اس بات کی ہے
کہ…ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے رشتے کو مزید مضبوط بنائیں…اور اپنی آخرت کے لیے
زیادہ سے زیادہ سامان آگے بھیجیں…
اس کے لیے…اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’رمضان المبارک‘‘ کا تحفہ
عطا فرما دیا ہے…یہ وہ مہینہ ہے جس کی ہر گھڑی اور ہر لمحہ ہمیں…اللہ تعالیٰ کے
قریب کرتا ہے…پس ہم سب اس مہینے کی بھرپور قدر کریں…اس مہینے کو پانے کی ترتیب
بنائیں …اور اس مہینے میں غفلت ومحرومی کا شکار نہ ہوں …ہم اللہ تعالیٰ کو اخلاص
کے ساتھ یاد کریں … اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت اور اپنے فضل کے ساتھ یاد فرمائے
گا…اگر ہوسکے تو ’’شھر رمضان‘‘ کتاب کا ضرور مطالعہ فرمالیں…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…597
ایک روپے کی طاقت
* جہاد
پر مال لگانےکا اجرہر ایک مصرف سے بڑھ کر ہے، یہاں تک کہ کعبۃ اللہ اور حرم شریف
کی خدمت پر مال لگانے سے بھی زیادہ، لیکن پھر بھی موجودہ زمانے کے اکثر مسلمان
جہاد پر مال نہیں لگاتے، وجہ؟…
* اس
کی بڑی اور اہم وجوہات چار ہیں…
* وہ
تین اہم راز جن سے قرآن پردہ اٹھاتا ہے…
* غریب
مسلمان کے ایک روپے کی طاقت…
* ’’سخی
انسان‘‘… اللہ تعالیٰ اور جنت کے قریب…
* ’’اَضْعَا
فًامُّضَاعَفًا‘‘ کی ایک نایاب اور مشاہداتی تفسیر…
یہ
سب کچھ جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں، یہ چشم کشا تحریر…
تاریخِ اشاعت:
۱۳ رمضان
المبارک ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق9جون 2017ء
ایک روپے کی طاقت
اللہ تعالیٰ ’’ایمان والوں‘‘ کا مددگار ہے… اُن کا وہ ’’یار
‘‘ ہے…
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوا(البقرۃ: ۲۵۷)
سب سے کم چندہ
رمضان المبارک میںمسلمان ’’سخی‘‘ ہو جاتے ہیں … ہونا بھی
چاہیے… ہر مسلمان کو ہمیشہ ’’سخی‘‘ ہونا چاہیے کیونکہ آسمانوں سے زمین پر جو
رحمتیں، دعائیں اور برکتیں اُترتی ہیں… ان کا زیادہ حصہ ’’سخی مسلمانوں‘‘ کو ملتا
ہے…
سخی اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے، جنت کے قریب ہوتا ہے…
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’سخی ‘‘ بنائے… رمضان المبارک میں زیادہ سخاوت… یہ حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سخی تھے مگر
رمضان المبارک میں بہت زیادہ سخی… اسی سنت کی پیروی میں الحمد للہ مسلمان بھی
رمضان المبارک میں زیادہ سخی ہو جاتے ہیں… ہر جگہ دسترخوان سجتے ہیں، زکوٰۃ تقسیم
ہوتی ہے… غذائی مواد کے پیکٹ بٹتے ہیں… اور دین کے کاموں پر خوب خرچے ہوتے ہیں…
الحمد للہ، الحمد للہ… ہر انسان کو اپنے مال سے محبت ہوتی ہے… اس لئے وہ چاہتا ہے
کہ اس کا مال ایسی جگہ لگے… جہاں اجر اور آخرت کا نفع زیادہ بنے…قرآن و حدیث میں
غور کیا جائے تو ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ پر مال لگانے کی فضیلت سب سے زیادہ ہے…
جہاد میں مال لگانے سے ایک تو اپنا فرض بھی ادا ہوتا ہے… کیونکہ جان و مال سے جہاد
کرنا مسلمانوں پر فرض ہے… اور پھر جہاد پر مال لگانا بہت بڑا صدقہ جاریہ بھی ہے…
اور جہاد پر مال لگانا کعبہ شریف کی خدمت پر مال لگانے سے بھی افضل ہے… آپ جانتے
ہیں کہ کعبہ شریف اور حرم شریف میں ایک روپیہ خرچ کرنے کا اجر ایک لاکھ کے برابر
ہے… جبکہ جہاد میں خرچ کرنا اس سے بھی افضل ہے… اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان
اپنا مال زیادہ سے زیادہ جہاد فی سبیل اللہ پر لگاتے مگر… آج کل ایسا نہیں ہوتا…
اگر رمضان المبارک میں ہونے والے چندوں کو دیکھا جائے تو… سب سے کم چندہ ’’جہاد فی
سبیل اللہ‘‘ کے لئے ہوتا ہے… آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
وجوہات کئی ہیں
١
جہاد فی سبیل اللہ کے حقیقی فضائل اکثر مسلمانوں کو معلوم نہیں ہیں… مسلمانوں میں
اس موضوع پر بیانات بہت کم ہو گئے ہیں…اس لئے مسلمان جہاد پر خرچ نہیں کرتے… ورنہ
آپ ماضی کے واقعات پڑھ لیں …جب مسلمانوں میں جہاد کے تذکرے عام تھے تو ہر شخص بڑھ
چڑھ کر جہاد میں مال لگاتا تھا… کسی نے کوئی نذر ماننی ہوتی تو جہاد پر خرچ کرنے
کی مانتا… کوئی وصیت کرتا تو پہلاخرچہ جہاد فی سبیل اللہ کا بتاتا…مالداروں نے
ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر جہاد اور مجاہدین کے خرچے اپنے ذمہ لے رکھے
تھے…مسلمان عورتیں جہاد میں مردوں سے زیادہ مال لگاتی تھیں… کیونکہ وہ خود جہاد
میں شریک نہ ہوسکنے کی اپنی کمی پورا کرنے کی فکر میں رہتی تھیں… اب مساجد و منابر
پر جہاد کے تذکرے بہت کم رہ گئے تو خرچ کرنے والے بھی کم ہو گئے…
٢
حکومتی پابندیاں، عالمی سازشیں اور منافقین کے پرانے ہتھیار… قرآن مجید نے تین
راز سمجھائے ہیں… پہلا یہ کہ مال ہو یا نہ ہو جہاد چلتا رہتا ہے… مال کی کمی سے
جہاد پر فرق نہیں پڑتا اور جو جہاد تھوڑے مال سے کیا جائے وہ زیادہ طاقتور اور
مؤثّر ہوتا ہے اس لئے مجاہدین مال کی فکر نہ کریں، جہاد کو جاری رکھنے اور شریعت
کے مطابق جہاد کرنے کی فکر کریں… مال خود اُن کے قدموں میں آجائے گا… دوسرا راز
یہ سمجھایا کہ مسلمان اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی چاہتے ہیں تو وہ اپنا
مال زیادہ سے زیادہ جہاد میں لگائیں… اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے جہاد کے لئے قرضہ
مانگتا ہے… فرماتا ہے کہ مجھے قرض حسنہ دو… جہاد میں خرچ کرنے کی اس سے بڑی فضیلت
اور کیا ہو سکتی ہے؟… ساتھ یہ بھی سمجھا دیا کہ جو مسلمان جہاد میں مال خرچ نہیں
کرتے وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اور خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں… تیسرا راز یہ
سمجھایا کہ … منافقین کا یہ نظریہ ہے کہ مسلمانوں کا جہاد پیسے اور چندے سے چلتا
ہے… پس کسی طرح ان کے جہادی چندے کو بند کرا دو تو جہاد بھی ختم ہو جائے گا اور
مسلمان بھی ختم ہو جائیں گے…
﴿لَا تُنْفِقُوا عَلٰی مَنْ عِنْدَ
رَسُوْلِ اللّٰہْ﴾(المنٰفقون:۷)
اللہ تعالیٰ نے منافقین کو جواب دیا کہ… میرے پاس زمین و
آسمان کے خزانے ہیں … پر اے منافقو! تمہیں سمجھ نہیں ہے۔
ہمارے زمانے میں بھی کفار و منافقین کا زیادہ زور… جہادی
چندہ بند کرانے پر ہے… چنانچہ مالداروں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے… اور دہشت کا ایسا
ماحول بنایا جاتا ہے کہ کوئی مالدار مسلمان جہاد پر اپنا مال نہ لگائے …خوف اور
دہشت کی اس فضا نے اکثر مسلمان مالداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے… وہ ہر سال
کروڑوں روپے دیگر کاموں پر خرچ کرتے ہیں مگر جہاد پر ایک روپیہ بھی نہیں لگاتے۔
٣
جہاد کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں … یہ کام کئی نیک اور کئی بُرے لوگ مل
جل کر، کر رہے ہیں… وہ جہاد کے خلاف منہ بھر کر بولتے ہیں…جب ان کو کہا جائے کہ
جہاد کا انکار کفر ہے تو فوراً پینترا بدل لیتے ہیں… اور کہتے ہیں کہ ہم جہاد کے
منکر نہیں ہیں بلکہ فلاں فلاں جہادی تحریک کو غیر شرعی سمجھتے ہیں… حالانکہ یہ سب
ان کے حلق کی باتیں ہیں… یہ لوگ جہاد کے دل سے منکر ہیں… انہوں نے کبھی ایک لمحہ
بھی جہاد کرنے کی نیت نہیں کی… انہوں نے کبھی ایک کلمۂ خیر جہاد کے بارے میں نہیں
بولا… انہوں نے کبھی ایک روپیہ جہاد میں نہیں لگایا… انہوں نے کبھی ایک منٹ کے لئے
تلوار اٹھانے اور جان دینے کا تصور نہیں کیا… یہ لوگ جہاد کے خلاف طرح طرح کے
وساوس پھیلاتے ہیں… اور جہاد کے معنٰی اور مفہوم کو مشکوک بناتے ہیں… یہ لوگ اُمت
کا مال فضول کاموں میں لگواتے ہیں… مگر جہاد میں مال لگانے سے روکتے ہیں۔
جہاد میں کم چندہ ہونے کی وجوہات اور بھی کئی ہیں… جب کوئی
’’بیماری‘‘ بہت پکی ہو جائے تو اس کے اسباب کا شمار مشکل ہو جاتا ہے… جہاد میں مال
خرچ نہ کرنا ایک خطرناک بیماری ہے… مگر یہ بیماری خواص و عوام میں پکّی ہو چکی ہے…
چنانچہ اس کی وجوہات شمار کرنا آسان کام نہیں ہے… ہم نے تین وجوہات بطور مثال عرض
کر دی ہیں… جبکہ ایک زیادہ اہم وجہ اور بھی ہے۔
اہم وجہ
جہادی چندہ کم ہونے کی ایک اہم وجہ… جہاد کی عظمت ہے… جہاد
ایک عظیم الشان فریضہ ہے… یہ عشق و محبت کا سب سے اونچا بازار ہے… چنانچہ جہاد
میں… اللہ تعالیٰ ہر کسی کے مال کو قبول نہیں فرماتے… قرآن مجید میں اس بارے واضح
اشارہ موجود ہے کہ… جہاد میں ہر کسی کا مال قبول نہیں کیا جاتا… آج امت کے اکثر
مالدار حلال و حرام کے فرق سے باہر نکل چکے ہیں…سود اور رشوت آج کی معیشت کے دو
ستون بن چکے ہیں… حرام سے جو کمایا جائے وہ حرام ہی ہوتا ہے… پھر جب امت کے مالدار
دین کی خاطر… ادنیٰ سی قربانی دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں تو ان کے اموال پر
بھی ’’مہر‘‘ لگا دی گئی ہے… چنانچہ ان کو جہاد میں مال لگانے کی توفیق ہی نہیں
ملتی… ہماری جماعت رمضان المبارک کی پوری مہم میں جتنا ’’چندہ ‘‘ جمع کرتی ہے…
کراچی، لاہور، گوجرانولہ، فیصل آباد اور پشاور کا ایک ایک سیٹھ اکیلا اس سے زیادہ
چندہ مختلف کاموں میں دیتا ہے… یعنی اگر ان سیٹھوں میں سے صرف ایک…اپنا سارا چندہ
جہاد میں دے دے تو… یہ ہماری پوری مہینے کی مہم سے بھی دو تین گنا زیادہ ہوگا…مگر
یہ سیٹھ حضرات… اپنا سارا پیسہ دوسرے کاموں میں لگا دیتے ہیں… پہلے تو یہ خیر تھی
کہ یہ پیسہ الحمد للہ مساجد، مدارس اور دینی کاموں پر لگ جاتا تھا… جو یقیناً بہت
اچھے مصارف ہیں… مگر پھر ان سیٹھوں کی بدنصیبی جاگ اٹھی… اب طرح طرح کے ادارے،
ٹرسٹ اور چیرٹیز آ گئی ہیں… جو حرام کاموں میں مسلمانوں کا پیسہ خرچ کرتی ہیں اور
اپنے غلط مصارف کے لئے زکوٰۃ تک وصول کرتی ہیں… کوئی علاج، کوئی تعلیم… اور کوئی
ترقی کے نام پر…مسلمانوں کو لوٹ رہا ہے اور ان کی رہی سہی نیکیوں کا بھی جنازہ
نکال رہا ہے…
بہرحال جیسی روح، ویسے فرشتے… جیسا مال ویسے مصارف…
اب کیا بچا؟
اب تک جو باتیں عرض ہوئی ہیں ان کا خلاصہ ذہن میں رکھ لیں…
١
جہاد میں مال خرچ کرنا بے حد افضل ہے مگر آج کل جہادی چندہ سب سے کم ہوتا ہے۔
٢
اس کی کئی وجوہات ہیں… کم علمی، خوف اور شکوک وغیرہ… جبکہ اہم وجہ یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ ہر کسی کا مال جہاد کے لئے قبول نہیں فرماتے۔
آج مسلمانوں کے تمام سیٹھ جہاد سے بھاگ گئے… مالدار،
زمیندار ، سرمایہ دار جہاد میں مال خرچ کرنے سے ڈرنے لگے… سیاستدان اور بااختیار
مسلمان… جہاد کے خلاف ہو گئے تو اب جہادی چندے کی اس جھولی میں کیا بچا… جو جھولی
خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
مسجد نبوی سے شروع فرمائی تھی… جواب یہ ہے کہ اس جھولی میں… غریب مسلمانوں اور
متوسط مسلمانوں کے پانچ روپے، دس روپے اور ایک روپے بچ گئے… مگر یہ چھوٹے نوٹ اتنے
بھاری ہیں کہ ان کے خوف سے …دنیا کی سپر طاقتیں کراہ رہی ہیں…
غریب ماؤں، بہنوں کے ہلکے زیورات اور یہ چھوٹے سکّے اتنے
طاقتور ہیں کہ ان کے خوف سے بڑی بڑی حکومتیں لرز رہی ہیں، کانپ رہی ہیں… روز نئے
نئے اتحاد، نئے نئے آلات… نئے نئے اسلحے… نئے نئے منصوبے… مگر آخر میں ایک ہی
رپورٹ کہ جہاد بڑھ گیا…مجاہدین بڑھ گئے… دہشت گردی پھیل گئی …خطرات بڑھ گئے…ارے
ظالمو! گذشتہ بیس سال کے عرصے میں اپنی ایک فتح تو دکھاؤ… نہیں دکھا سکو گے…جبکہ
جہاد کا دامن فتوحات سے بھرا ہوا ہے… سلام ہو ان غریب مسلمانوں کو!… سلام ہو ان
ماؤں بہنوں کو!… جو جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرتے ہیں… ان کو اس مال کا اصل
بدلہ تو آخرت میں ملے گا ان شاء اللہ… مگر دنیا میں وہ اپنے اس مال کی طاقتکا خود
مشاہدہ کر سکتے ہیں… یہ چند روپے آج اربوں کھربوں ڈالر کے بجٹ سے ٹکرا رہے ہیں…
اور ان پر غالب آ رہے ہیں… واہ میرے اللہ واہ!… کیا نکتہ سمجھا دیا… قرآن مجید
میں وعدہ دیا گیا کہ جہاد پر مال خرچ کرو گے تو… اللہ تعالیٰ اسے ’’اَضْعَافًا
مُّضَاعَفًا‘‘ یعنی کئی کئی گنا بڑھا دیں گے… ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ اِضافہ
آخرت کے اَجر میں ہو گا… یہ اضافہ مال خرچ کرنے والے کے مال میں ہو گا… یہ بھی سب
ٹھیک ہے…مگر آج سمجھ میں آیا کہ جو روپیہ تم دو گے اللہ تعالیٰ اس کو بھی کئی
کئی گنا بھاری ، وزنی اور مؤثر بنا دے گا… ایک ایک روپے کے جھولی چندے سے ہونے
والے جہاد کی شان دیکھو کہ… دشمن اَربوں روپے خرچ کر کے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر
پا رہا…اللہ اکبر کبیرا
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…598
اے دیوانو!سلامت رہو، سرفراز رہو
* ہر
شخص جہاد میں نہیں نکلتا… جہادمیں صرف وہ جاتا ہے …
جس
میں تین صفات موجود ہوں…
* وہ
تین صفات کون سی ہیں؟
مزید فوائد:
١
اہل علم کو’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘کی ’’کتاب الجہاد ‘‘کےمطالعے کی دعوت…
٢
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے خاندان کی
ایک اہم صفت’’ جہاد‘‘…
٣
’’جہاد‘‘ کوئی اجنبی اور نئی چیز نہیں…
٤
جہاد ہر زمانے میں مشکل رہا ہے اور مشکل رہے گا…
٥
جہاد کو ناممکن سمجھنے والے لوگ…
٦ ’’جہاد‘‘
اور’’ دعوت جہاد‘‘دو الگ الگ مستقل فریضے…
٧
جماعت کے داعین جہاد کو دعائیں…
تاریخِ اشاعت:
۲۰ رمضان
المبارک ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق16جون 2017ء
اے دیوانو! سلامت رہو، سرفراز رہو
اللہ تعالیٰ کی راہ میں کون’’ جہاد‘‘ کرتا ہے؟ حضرت شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کی تحقیق
فرمائی ہے…وہ فرماتے ہیں:
’’جہاد ایک مشقت والا عمل ہے… اس
میں سختیاں بھی آتی ہیں اور جان و مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور اپنے وطن اور
اپنی خواہشات کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے… اس لئے جہاد پر صرف وہی مسلمان نکلتا ہے…جس
کا دین اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو … مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ جو دنیا پر
آخرت کو ترجیح دیتا ہو… جس کا اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد سچا ہو۔‘‘ (حجۃ
اللہ البالغہ)
ان تین صفات میں غور کریں… جس مسلمان کو یہ تین صفات نصیب
ہو جائیں اس کی کامیابی میں کیا شک رہ جاتا ہے… جہاد ہر زمانے میں مشکل رہا ہے…
اور ہر زمانے میں مشکل رہے گا… ظاہری آنکھوں سے دیکھا جائے تو جہاد کبھی بھی ممکن
نظر نہیں آتا… غزوۂ بدر سے لے کر آج کے غزوہ ہند تک… بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ…
اتنے طاقتور دشمنوں سے لڑنا ممکن ہی نہیں ہے… چنانچہ ایک طبقہ ہر زمانے میں ایسے
افراد کا موجود رہتا ہے… جو اپنے زمانے میں جہاد کو نا ممکن قرار دے کر کہتا ہے
کہ… ابھی جہاد کا وقت نہیں ہے… یہ طبقہ ماضی میںبھی تھا، آج بھی موجود ہے اور
آئندہ بھی موجود رہے گا… ملاحظہ فرمائیے یہ روایت:
’’حضرت اسلم رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر
ایسا زمانہ بھی آئے گا، جب ان میں سے کچھ قرآن پڑھنے والے لوگ کہیں گے کہ یہ
جہاد کا زمانہ نہیں ہے۔ پس جو شخص اس زمانے کو پائے ( تو یاد رکھے کہ) وہی زمانہ
جہاد کا بہترین زمانہ ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی شخص یہ کہہ
سکتا ہے کہ اب جہاد کا زمانہ نہیں رہا؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں! وہ لوگ یہ بات کہیں گے جن پر
اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو گی اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی بھی۔‘‘ (فضائل جہاد
بحوالہ شفاء الصدور)
چنانچہ جہاد پر وہی مسلمان نکل سکتا ہے… جو اللہ تعالیٰ کا
اور اس کے دین کا’’ مخلص ‘‘ہو… اس کا دین خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو… دنیا اس کا
مقصود نہ ہو… نہ عزت، نہ مال، نہ راحت ، نہ آرام ، نہ کچھ اور…
اور وہ آخرت کو ترجیح دیتا ہو… اور اس کا اللہ تعالیٰ پر
اعتماد اور توکل سچا ہو…
ایسا مسلمان جہاد میں نکلتا ہے… اور دین کا سب سے اونچا اور
افضل مقام پاتا ہے…
ایسے افراد کی روح زندہ ہوتی ہے… اور موت کے وقت اس روح کا
کوئی نقصان نہیں ہوتا… بلکہ وہ صحیح سالم ، بیدار ، پرسکون سیدھی اللہ تعالیٰ کے
عرش کے نیچے پہنچ جاتی ہے… اور اسے اُڑنے اور پرواز بھرنے کی طاقت بھی دے دی جاتی
ہے… یا اللہ! مقبول جہاد اور مقبول شہادت عطاء فرما۔
جہادی، علمی خاندان
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ تھوڑی سی مشکل
کتاب ہے… اس لئے عوام کو تو اس کے مطالعے کی دعوت نہیں دیتا… مگر جو اہل علم ہیں
وہ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں جہاد کے باب کا ضرور مطالعہ فرمائیں… حضرت شاہ صاحب
رحمہ اللہ نقلی، عقلی ، الہامی علوم کے
امام ہیں… قرآن و سنت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں… اور ان کا پورا خاندان علم اور
جہاد کے رنگ سے منور ہے…
آپ کی سوانح میں لکھا ہے کہ… آپ کے آباؤ اجداد دو چیزوں
میں نمایاں مقام رکھتے تھے… ایک منصب قضاء اور دوسرا عسکری مہارت… چنانچہ آپ کے
دادا محترم تک اکثر بزرگ قاضی اور مجاہد رہے۔
دراصل جس کا علم راسخ ہو وہ جہاد سے دور اور محروم نہیں رہ
سکتا… بلکہ کسی نہ کسی طرح جہاد کی خدمت ضرور کرتا ہے… حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے بزرگوں نے جہاد میں بڑے کارنامے سر انجام
دئیے اور انہوں نے اپنی زندگیاں کفار کے خلاف جہاد کرنے اور اسلام کی شوکت کو بلند
کرنے میں گذاریں… حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے دادا محترم شیخ وجیہ الدین زندگی بھر کفار کے
خلاف جہاد کرتے رہے… اور انہوں نے میدان جہاد میں اپنی شجاعت اور بہادری کی ایک
تاریخ رقم کی اور بالآخر سلطان محی الدین محمد عالمگیر کے عہد میں شہادت پائی…
پختہ علم اور خاندانی نسبت کی بدولت… حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ اور آپ کے چاروں بیٹوں نے ’’جہاد فی سبیل
اللہ‘‘ کو خوب سمجھا اور خوب سمجھایا … اور آپ کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل شہید
رحمہ اللہ نے عملی جہاد میں حیرت انگیز
کارنامے سر انجام دئیے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ … جہاد کوئی اجنبی یا نئی چیز
نہیں ہے… یہ ہمارے دین کا ایک محکم، ضروری اور قطعی حصہ ہے… مگر آج کل جہاد کے
خلاف ہر طرف شبہات پھیلائے جا رہے ہیں… ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں حضرت شاہ صاحب
رحمہ اللہ نے جہاد فی سبیل اللہ کو بھی
بہت مدلل طریقے سے بیان کیا ہے… اہل علم حضرات مطالعہ فرمائیں اور ان مشکل اور
اونچے مضامین کو آسان کر کے امت تک پہنچائیں… بندہ کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس پر
خود کام کرے…مگر فی الحال نہ وعدہ ہے اور نہ ارادے کی ہمت۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے
کہ ’’شھر رمضان‘‘ شائع ہو گئی… الحمد للہ مسلمانوں کی طرف سے اس کتاب پر بہت مثبت
آراء سامنے آ رہی ہیں… اب عید الفطر کے بعد ان شاء اللہ ’’تحفہ ذی الحجہ‘‘ میں
اضافے کا ارادہ ہے… ذوالحجہ کے عشرہ کی فضیلت و احکام کی طرف کئی سالوں سے
مسلمانوں کو متوجہ کیا جا رہا ہے… جس کا الحمد للہ بہت فائدہ ہوا… اب ان شاء اللہ
’’تحفہ ذی الحجہ‘‘ میں اضافے اور تکمیل سے یہ دعوت بھی مضبوط ہو جائے گی۔{ FR 3098 }؎
ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ
جہاد ایک مستقل عبادت ہے… اور جہاد کی ترغیب اور دعوت دینا
یہ ایک الگ مستقل عبادت ہے… اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں عبادتوں کا حکم دیا گیا… اور آپ کے
ذریعہ سے اُمت کو یہ حکم جا ری کیا گیا… ایک حکم ہے ’’فَقَاتِلْ‘‘ کہ آپ قتال
کیجئے… یعنی جہاد کیجئے اور دوسرا حکم ہے ’’وَحَرِّضْ‘‘ یعنی جہاد پر اُبھارئیے…
’’حَرِّض‘‘ اصل میں کہتے ہیں کمزوری کو… چنانچہ ( سلب مأخذ کے قانون کے تحت)
’’تحریض‘‘ کا مطلب ہو گا… جہاد کی ایسی دعوت دینا جو دل کی کمزوری … عزم کی
کمزوری… اور جذبے کی کمزوری دور کر دے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں احکامات کو ان کی شان کے مطابق پورا
کیا… ستائیس غزوات… اور جہاد کی ترغیب پر ہزاروں احادیث مبارکہ… اب امت کے لئے کام
آسان ہو گیا… قرآن مجید کی آیات جہاد اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جہاد کو… یاد کریں اور سمجھیں اور
بیان کریں تو… دعوت جہاد کی عبادت ادا ہو جائے گی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جہاد ایسی جامع، ایسی واضح اور ایسی
پرجوش ہیں کہ… ان کو بیان کرنے کے بعد مزیدکسی تشریح اور اضافے کی ضرورت بھی نہیں
پڑتی…الحمدللہ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان دونوں عبادتوں کو…ادا
کرنے کی کوشش کررہی ہے…
ایک طرف ’’فَقَاتِلْ‘‘ کے حکم کوپورا کرنے کے لیے…ہر وقت
محاذوں کو گرم اور آباد رکھا جاتا ہے… تو دوسری طرف ’’ وَحَرِّضْ‘‘ کے حکم پر عمل
کرنے کے لیے دعوت جہاد کی وسیع منصوبہ بندی کی جاتی ہے…الحمدللہ رمضان المبارک کی
’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ مہم کا اصل مقصد بھی … دعوت جہاد ہوتا ہے…اس مہم کے دوران
جماعت کے بعض رفقاء کے بیانات سننے کا اتفاق ہوا…دل سے دعاء نکلی اور دل خوش ہوا
کہ ماشاء اللہ بہت خوب جہاد کو بیان کرتے ہیں…ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ… جہاد
کو سمجھتے بھی ہیں اور سمجھا بھی سکتے ہیں…ان بیانات سے معلوم نہیں کتنے مسلمانوں
کا ایمان بچتا ہوگا… اور اجروثواب کا کیسا کارخانہ سجتا ہوگا…اس کا اندازہ لگانا
بھی مشکل ہے…
بھائیو! کام اگرچہ مشقت کا ہے…مگر ہے بالکل سچا…اور بہت نفع
والا…اس لیے لگے رہو، جمے رہو، جڑے رہو…آپ کی محنت، قربانی اور دعوت رائیگاں نہیں
جائے گی ان شاء اللہ…آپ کے درد، فکر اور دعوت کو سن کر دل سے دعاء نکلتی ہے…اے
جیش والو! قیامت تک سلامت رہو… قیامت میں سرفراز رہو۔
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…599
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
* ان
مسلمان بھائیوں اور بہنوںسے چند درد بھرے سوال
جو
رمضان المبارک کے بعد اپنے دین سےروٹھے روٹھے نظر آتے ہیں…
* کیا
اسلام صرف رمضان المبارک تک محدود ہے؟
* کیا
رمضان المبارک کے بعد اللہ تعالیٰ کا کوئی حق نہیں؟
* کیا
رمضان المبارک کے بعد مساجد نمازیوں کو ترستی رہیں گی؟
* کیا
رمضان المبارک کے بعد مسلمان بہنیں اور بیٹیاں
* پھر
بازاروں کا رخ کرلیں گی؟
* اور
ایک اہم پیغام مجاہدین کرام کے نام… کہ…
رمضان
المبارک کے بعد لمبی چھٹی سے اجتناب…
رمضان
کے بعد ایک دن عید اور پھر کام اور کام…
تاریخِ اشاعت:
۲۷ رمضان
المبارک ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق23جون 2017ء
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
اللہ تعالیٰ کے لئے سب تعریفیں ہیں جو سب جہانوں کا پالنے
والا ہے… بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے…بدلے کے دن کا مالک ہے…( یا اللہ!) ہم
تیری ہی عبادت کرتے ہیں… اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں… ہمیں سیدھا راستہ دکھا…
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا… نہ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب
ہوا… اور نہ اُن لوگوں کا جو گمراہ ہوئے…
آمین… یا اللہ! دعاء قبول فرما۔
یہ ہے قرآن عظیم الشان کی عظیم سورۃ… سورۂ فاتحہ کا
ترجمہ…
ہر مسلمان اس سورۃ کا ترجمہ، مفہوم اور پیغام دل میں
بٹھائے… اللہ تعالیٰ اس سورۃ کی برکت سے ہمارے دلوں کے تالے کھول دے… بے شک یہ
سورۃ’’ فاتحہ‘‘ ہے… کھولنے والی، بندشوں کو توڑنے والی، تالوں اور زنجیروں کو پاش
پاش کرنے والی۔
روٹھے ہوئے مسلمانوں کے نام
آج بہت اہم بات عرض کرنی ہے… اس لئے آغاز سورۃ فاتحہ کے
ترجمہ سے کیا ہے تاکہ…بات میں وزن اور تاثیر آ جائے…بات یہ ہے کہ آج رمضان
المبارک کی پچیس تاریخ ہے… چار یا پانچ دن بعد ’’رمضان المبارک‘‘ تشریف لے جائے
گا… کیا اس کے جاتے ہی مسجدیں دوبارہ خالی خالی ہو جائیں گی؟… حجاموں کی دکانوں پر
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت داڑھی
منڈوانے والوں کا رش لگ جائے گا؟… وہ مسلمان بہنیں جو گھروں میں اور اعتکاف میں
بیٹھی ہیں بازاروں میں نکل آئیں گی؟… فجر کی نماز میں مسجد کی پچھلی تمام صفیں غم
سے روتی رہ جائیں گی؟… الماریوں میں بند موبائل فون اپنی تمام خباثتوں کے ساتھ
باہر آ جائیں گے؟…پیارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت دوبارہ شیطان کو اپنا رہنما بنا لے گی؟…
اے پیارے مسلمانو! اگر ایسا ہوا تو یہ کتنا دردناک ہو گا؟…
کیا ہم صرف رمضان کے مسلمان ہیں… کیا اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمارا رب نہیں ہے؟ … کیا
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہمارے نبی اور ہمارے رہبر و رہنما نہیں
ہیں؟… اے محترم مسلمانو! تھوڑا سا سوچو، تھوڑا سا سوچو کہ رمضان المبارک کے بعد
اگر ہم مسجد کو چھوڑ گئے تو ہم اپنا کتنا بڑا نقصان کریں گے… یہ مسجدیں زمین پر
جنت کے مہمان خانے ہیں… انہیں نہ کوئی ہندو آباد کرے گا نہ عیسائی… وہ تو ان
مساجد کے دشمن ہیں… اور اُن کے لئے ان مساجد میں کوئی نعمت نہیں ہے…مگر ہمارے لئے
تو یہ مساجد خیر کا خزانہ ہیں… یہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کا مقام ہیں… اچھا
ہوا کہ رمضان المبارک میں آپ نے ان مساجد کو آباد کیا… فجر کی نماز میں اکثر
مساجد بھر جاتی ہیں… اب ہمت کریں کہ مسجد کے ساتھ اپنے اس رشتے کو کمزور نہ ہونے
دیں… تب ثابت ہو گا کہ آپ نے رمضان المبارک سے فائدہ پایا ہے… اے مسلمان بہن!
تیرا بازار میں کیا کام؟ ہر طرف شیطانی نگاہیں اور غفلت و بے حیائی کے مناظر… اچھا
ہوا رمضان المبارک میں تو نے… سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی بننے کی محنت کی… پورا دن روزہ رکھا، ڈٹ
کر تلاوت کی… اور کتنے روزے داروں کو تو نے کھانا بنا بنا کر کھلایا… مگر یہ کیا؟
رمضان جاتے ہی تو بازار چلی گئی… بغیر محرم کے اکیلے جانا تو بہت برا… خالص لعنت
والا کام… اور محرم کے ساتھ بھی بلاضرورت جانا تیری شان کے خلاف… تو تو اللہ والی
ہے… تیرے حیا اور تیرے ایمان سے دنیا میں اسلام کو قوت ملتی ہے… کیونکہ تیرا حیا
اور تیری تربیت ہی اسلام کے لشکر اُٹھاتی ہے… اے مسلمان بہن! اے مسلمان بیٹی!
رمضان کے آخری ایام ہیں… کچھ غور کر لے، کچھ سوچ لے… اور سورۃ فاتحہ پڑھ پڑھ کر،
آنسو بہا بہا کر اللہ تعالیٰ سے پکی اور مستقل ہدایت مانگ لے…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ…اِھْدِنَا الصِّرَاطَ
الْمُسْتَقِیْمَ
رمضان المبارک کے بعد… دین سے روٹھ جانے والے مسلمانو!
رمضان کے آخری ایام میں عہد کر لو کہ ان شاء اللہ بالکل نہیں روٹھیں گے… جیسے
رمضان المبارک میں تھے رمضان المبارک کے بعد اس سے بھی زیادہ اچھا بننے کی کوشش
کریں گے… آج سے روزانہ دو رکعت نماز اور کم از کم سات بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر دعاء
کیا کریں کہ … یا اللہ! پکی ہدایت نصیب فرما … دائمی ایمان نصیب فرما… ہمیشہ کا
نور نصیب فرما…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ…اِھْدِنَا الصِّرَاطَ
الْمُسْتَقِیْمَ
چھُٹی خطرناک
ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کا لازمی حکم ہے کہ … ہم ہمیشہ دین
پر قائم رہیں… ہمیشہ ہدایت والے راستے پر چلیں… ہمیشہ فرائض ادا کریں، ہمیشہ اللہ
تعالیٰ کا قرب ڈھونڈیں… ہمیشہ گناہوںسے بچیں… یہ حکم رمضان المبارک کے لئے نہیں…
بلکہ پوری زندگی کے لئے ہے… ماحول کی وجہ سے ہم صراط مستقیم سے کچھ دور ہونے لگتے
ہیں تو… اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح اور حفاظت کے لئے سال میں ایک بار رمضان المبارک
بھیج دیتے ہیں… رمضان آتا ہے اور ہماری میل کچیل، غفلت اور گمراہی کو جلا پھینکتا
ہے، دھو ڈالتا ہے… تاکہ ہم دوبارہ بالکل سیدھے سیدھے صراط مستقیم پر چل پڑیں…
رمضان المبارک کا یہ مقصد نہیں ہے کہ… ہم پورا سال جان بوجھ
کر غفلت اور برائیوں میں گذاریں اور جب رمضان آ جائے تو ایک مہینے کے لئے…
’’رمضانی مسلمان‘‘ بن جائیں… اور جب رمضان المبارک چلا جائے تو ہماری دینداری بھی
اس کے ساتھ چلی جائے… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو صرف ’’رمضانی‘‘ نہیں
’’ربانی‘‘ مسلمان بنائے…پورا سال مسلمان ، دن رات مسلمان، خلوت وجلوت میں مسلمان،
خوشی و غم میں مسلمان… مرتے دم تک ہر لمحہ مسلمان … اور پھر قبر میں مسلمان۔
ہمارے مجاہد ساتھیوں میں ایک غلط چیز چل پڑی ہے … وہ ہے عید
الفطر کے بعد لمبی چھٹی کی خواہش… یہ سچ ہے کہ رمضان المبارک میں زیادہ محنت ومشقت
ہوتی ہے… اور انسان کا نفس ایسی مشقت کے بعد راحت مانگتا ہے… مگر یہ بھی تو سوچیں
کہ… یہ راحت ہمارے لئے کتنی نقصان دہ ہوتی ہے… رمضان المبارک کے تمام انوارات
جنہوں نے ہمیں پورا سال چارج رکھنا تھا چھٹی کے دس پندرہ دنوں میں ضائع ہو جاتے
ہیں… اسلام کی پیاری ترتیب دیکھیں کہ رمضان کے بعد چھٹی نہیں دی بلکہ شوال کے نفل
روزوں کی ترغیب دی… اور ان روزوں کو بھاری انعام حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا … یہ
اسلام کی ہمارے ساتھ’’ ہمدردی‘‘ اور’’ محبت ‘‘ہے… کیونکہ رمضان المبارک کے فوراً
بعد شیطان اور نفس پوری قوت سے حملہ کرتے ہیں… اور وہ چاہتے ہیں کہ… ہم نے رمضان
المبارک میں جو کچھ کمایا جو کچھ بنایا وہ سب لوٹ لیں… تب اسلام نے ان دشمنوں کے
مقابلے میں ہماری مدد فرمائی… اور شوال کے روزے عطاء فرمادئیے… اور ساتھ یہ اشارہ
دے دیا کہ… شوال کی چھٹی خطرناک ہے، بے حد خطرناک… ہم کئی سال سے کوشش کر رہے ہیں
کہ… رمضان المبارک کے بعد جماعت کے رفقاء میں غفلت، چھٹی اور آرام کا ماحول نہ
بنے… آرام کرنا ہے تو شوال کے بعد اگلے مہینے ذو القعدہ میں تھوڑا سا کر لیں…
ویسے بھی آرام ایک دھوکا ہے اور لوگ آرام کے نام پر خود کو گناہوں میں تھکاتے
ہیں… میری تمام مجاہدین سے درخواست ہے کہ … شوال کی چھٹی بالکل نہ کریں… اپنی
رمضان کی عظیم محنت ضائع نہ کریں… بس ایک دن عید… اور اگلے دن سے اعمال، کام اور
محنت…
بھائیو! یہ ترتیب ہم میں سے جس کو نصیب ہو گئی وہ بڑا خوش
نصیب ہو گا کہ … اپنی رمضان کی محنت اور سرمائے کو بچا لے گا… ان شاء اللہ
آج بس اتنا ہی … کیونکہ یہ بہت ضروری بات ہے… اس میں مزید
باتیں آ گئیں تو کہیں اصل بات بھول نہ جائے… اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے بعد
بھی…ہم سب کو اپنی خاص نظر رحمت اور نصرت عطاء فرمائے… اور ہمیں دائمی ایمان نصیب
فرمائے… آمین …
آپ سب کو ’’عید‘‘ کی پیشگی مبارکباد…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ ونور600……سعدی کے قلم سے
آہ! ہندوستان کے مسلمان
ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کیا گیا، مودی
اوریوگی جیسے ننگ انسانیت لوگ ہندوستان کے حکمران بن بیٹھے… اور اہل اسلام کو گاجر
مولی کی طرح کاٹا جانے لگا…تب حضرت سعدی دامت برکاتہم العالیہ کا قلم جوش میں آیا
اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہمت، جرأت، بہادری، عزیمت، قربانی، جہاد اور موت سے
محبت کا درس دیتا چلا گیا… اور ساتھ ساتھ ’’اعداء ‘‘کو بھی متنبہ کرگیا کہ ان کا
ظلم ان پر پلٹ کر رہے گا اور ان سے مظلوموں کا انتقام لیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
مزید فوائد:
١
ہندوستان کے مظلوم شہداء کے لئے دعاء مغفرت اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت…
٢
ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مظالم سے نجات پانے کا لائحہ عمل اور راستہ…
٣ مسلمانوں کا خاتمہ بالکل ناممکن…
٤ دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے…
٥ موت کی تیاری اور جہاد کی ترغیب…
تاریخِ اشاعت:
۱۲ شوال
المکرم ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق7جولائی 2017ء
آہ! ہندوستان کے مسلمان
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ’’سچا مسلمان‘‘اور’’ سچا
مؤمن‘‘ بنائے…تاکہ ہمیں اپنی ’’ذات‘‘سے زیادہ’’اسلام‘‘اور ’’ایمان‘‘کی فکر نصیب
ہوجائے۔
پانی سر سے اوپر
انڈیا میں حالات آئے دن بگڑتے جارہے ہیں … بالکل ناقابل
برداشت ،بے انتہاقابل نفرت حالات…ایک لیڈر نے بیان دیا کہ … گائے کے تحفظ کے لئے
ہزاروں انسانوں کا خون بہانا پڑا تو بہائیں گے… بیانات تو پہلے بھی آتے رہتے تھے
…مشرکین کی زبان غلاظت سے بھرپور ہوتی ہے… گندگی جو کھاتے ہیں،پیشاب پیتے ہیںاور
سب سے بڑی غلاظت یہ کہ …اللہ تعالیٰ کے ساتھ طرح طرح کے شریک ٹھہراتے ہیں …مگر جب
سے’’ مودی‘‘ آیا ہے معاملہ بیانات سے بھی آگے نکل چکا ہے …میرے جیسے انسان کے
لئے اب انڈیا کی خبریں پڑھنابے حد مشکل ہوچکا ہے …کس طرح سے جگہ جگہ مسلمانوں کو
شہید کیا جارہا ہے …کوئی ایک بندر اعلان کرتا ہے کہ فلاں مسلمان گائے کا گوشت لے
کر جارہا ہے …بس اسی وقت بندروں،لنگوروںاورسوروں کا ہجوم اُمڈآتاہے اور تھوڑی
دیرمیں کلمہ گومسلمان کی لاش …ہم مسلمانوں سے بے شمار سوالات پوچھتی ہوئی ٹھنڈی پڑ
جاتی ہے… جموں میں سفید داڑھی والے بزرگوں کو مارا گیا … ان کی خواتین روتے روتے
بے ہوش ہو گئیں… ریل گاڑیوں میں مسلمان خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے… اور
اسٹیشن پر پولیس اُنہی زخمی خواتین کو پکڑ کر تھانے جاپھینکتی ہے…آخر یہ سب کچھ
کیا ہے ؟…آخر یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا؟…
انڈیا کے مسلمان وہاں کرائے پر نہیں رہتے … ہندوستان کسی
ہندو کے باپ کی جاگیر نہیں ہے… ہندو بھی وہاں بعد میں بنے اور مسلمان بھی بعد میں
بنے …ان سب سے پہلے وہاںاور مذاہب تھے… مسلمانوں نے پورے ہندوستان پر حکومت کی
…آج تک کوئی ہندو راجہ مہاراجہ پورے ہندوستان پر حکومت نہیں کرسکا…منحوس انگریز
ہندوستان آیا تو جاتے وقت حکومت ہندوؤں کودے گیا…انگریز مسلمانوں کا کل بھی
بدترین دشمن تھا آج بھی ہے … ہندوستان تقسیم ہوگیا توجوعلاقہ ہندوستان بنا وہاں
کے مسلمان اقلیت بن گئے اور پھران پر زندگی تنگ کی جانے لگی…اوراب پانی سر سے اوپر
جاپہنچا ہے …قسم ہے اس ذات کی! جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے …اور وہ وحدہ
لاشریک لہ ہے …قسم ہے رب کعبہ کی! …ہندواس وقت بہت بڑی غلطی کررہے ہیں …ایسی غلطی
جس کاانہیں بدترین خمیازہ بھگتناہوگا…ہندواس وقت بہت بڑا ظلم ڈھارہے ہیں …ایسا ظلم
جوعنقریب دس گنا طاقتور ہوکر ان کے گھروں کا رخ کرے گا…مودی اور یوگی …اپنی قوم
کواس ہلاکت کی طرف لے جارہے ہیں … جس ہلاکت کی طرف فرعون اپنی قوم کو اور ابوجہل
بدر میں اپنے لشکر کو لے کرگیا تھا … مسلمانوں کو خاک کا ڈھیر سمجھنے والو!تم بڑی
بھول میں ہو…بہت بڑی بھول میں …آج پوری امت مسلمہ کے دل تمہارے مظالم کی وجہ سے
زخمی ہیں …اورامت مسلمہ کے زخمی دل جب’’آہ‘‘برساتے ہیں تو… دشمنوں کے گھروں اور
شہروں میں آگ لگا دیتے ہیں … بہت بھیانک آگ…دوردورتک پھیلی ہوئی آگ۔
اظہار تعزیت
مودی اور یوگی کے مظالم سے… ہندوستان میں ہمارے جو بھائی
اور بہنیں شہیدہوچکے ہیں… ان کی شہادت کوسلام،ان کی مظلومیت ظلم کارخ ضرور بدلے گی
…اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت اور شہادت کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں، انہیں مکہ مکرمہ
کے ہجرت سے پہلے والے شہداء کے قدموں میں جگہ عطاء فرمائیں …ان شہداء کرام کے
غمزدہ اہل خانہ سے قلبی تعزیت …اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل ،اپنی حفاظت
اوراجرعظیم عطاء فرمائے اور آپ کواپنی آنکھوں سے…قاتلوںکے گھروں کا ماتم دکھائے…
اے ہندوستان کے مسلمانو!اے فاتحین کی اولاد!اللہ تعالیٰ آپ کو آزادی ،عزت اور
اپنے اسلاف کا نقش قدم نصیب فرمائے …آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، مسلمان اللہ
تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا…آپ خود کو اکیلا نہ سمجھیں …جس کے پاس کلمہ توحید
ہے وہ کبھی اکیلا ہوہی نہیں سکتا…اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے … آپ خود کو
بے بس نہ سمجھیں… آپ کے پاس ایمان ،قرآن اور اسلام جیسی قوت موجود ہے…بس زندہ
رہنے کا شوق دل سے نکالیں ،دنیا بنانے اوردنیا بسانے کی فکر سے آزادی حاصل کریں
…سیّداحمد شہید رحمہ اللہ اور اور نگ زیب
عالمگیر رحمہ اللہ جیسے اپنے آباء واجداد
کی سیرت پڑھیں… حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اورحضرت گنگوھی رحمہ اللہ سے پھرایک نیا سبق پڑھیں …حافظ ضامن شہید رحمہ
اللہ سے مسئلے کا حل پوچھیں … وہ لوگ آپ
کے لیڈر نہیں جو بزدلی کو مصلحت پسندی اور سیاست قرار دے رہے ہیں …وہ لوگ آپ کے
رہنما نہیں جو آپ کے تحفظ کے نام پر غلامی کی زنجیروں کو مزید جکڑ رہے ہیں …اپنے
دل میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق بھریں… اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے حسن ظن
بھریں …اللہ تعالیٰ سے نور ،روشنی اور قوت مانگیں …اپنے جسم کے پٹھوں کو مضبوط
کریں… باہرسے کسی مدد کے انتظار میں نہ بیٹھے رہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مدد
کے لائق بنائیں۔
مسلمانو!ہمت،ہمت،ہمت…اللہ کے لئے ہمت…اللہ تعالیٰ ہمارے سب
گناہ اس وقت معاف فرمادیتا ہے جب ہم اس کے لئے قربانی دینے کا عزم کرتے ہیں …گلی
محلوں میں غنڈہ گردی کرنے والے دادے دل سے توبہ کرلیں اور میدان سنبھال لیں … مودی
اور یوگی جیسے بندرجنگلوں میں جا چھپیں گے یاآگ میں کوئلہ بن جائیں گے …
مسلمانو!قرآن پکاررہاہے…مسلمانو!غلامی کو اپنی قسمت نہ سمجھو…مسلمانو!آسمان جھک
جھک کربدراور احزاب کے مناظر کی جھلک دیکھنے کو بے تاب ہے …مسلمانو!ظلم بہت چھا
گیا…برداشت آخر کب تک؟کب تک؟… بندروں کے ہجوم سے ڈنڈے کھا کھا کر مرنے سے یہ بہتر
نہیں کہ …حضرت ٹیپوسلطان رحمہ اللہ کی طرح
دھاڑتے ہوئے سینے پر زخم کھاؤاور مسکراتے ہوئے موت کو گلے لگاؤ… موت نے توایک دن
ضرور آناہے…مگرمسلمان توموت کو شکست دیتاہے …موت سے شکست نہیں کھاتا۔
کوئی ڈر نہیں
مجھے معلوم ہے میرے اس کالم پرانڈیا ضرور واویلاکرے گا…کرتا
رہے مجھے کوئی ڈر نہیں …اب جو بھی کارروائی ہندوستان میں ہوگی وہ بھی میرے کھاتے
میں ڈالے گا …ڈالتا رہے مجھے کوئی فکر نہیں…کشمیرسے کنیاکماری تک انڈیا کے خلاف ہر
کارروائی بے شک ہماری جماعت پر ڈال دو… پابندیاں ،گرفتاریاں ،سولیاں اور طرح طرح
کی سازشیں مسلمانوں کو نہیں ڈرا سکتیں … ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم
…اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والی بربریت نے ہمارے دلوں میں آگ لگا رکھی ہے …آپ
یقین کریں وہاں کے مظالم پڑھ کرمیں سکتے میں آجاتا ہوں اور غم،درداور پریشانی کی
وجہ سے پوری خبر نہیں پڑھ سکتا…ابھی چنددن پہلے ہریانہ میں ایک اٹھارہ سال کے
مسلمان نوجوان کو… مارمار کر شہید کیا گیا…میں نے خبر پڑھنا شروع کی تو تن بدن میں
آگ لگ گئی …وہ نوجوان تصور میں پوچھ رہا تھا …کیا میںڈیڑھ ارب مسلمانوں کا بھائی
اور بیٹا نہیں تھا؟…کیا میں محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی نہیں تھا؟…پھر مجھے یوں کس لئے
تڑپاتڑپا کر مارا گیا…اور کہیںسے بھی میرے بدلے یا انتقام کی آواز نہ اُٹھی؟…
ساٹھ مسلمان ممالک کی لاکھوں فوج …لاکھوں پولیس اور موٹے
تازے حکمران …کوئی بھی ایک لفظ نہ بولا…کسی نے بھی دردکی ایک آہ بلند نہ کی …کسی
نے بھی بے چینی کی ایک کروٹ نہ بدلی… میں وہ خبرپوری نہ پڑھ سکا … میری آنکھوں
اور اس خبر کے درمیان گرم پانی حائل ہوگیا … اور مجھے اپنے بعض نظریات سے شرم آنے
لگی …ہمارا نظریہ ہے کہ نہتے لوگوں پر … خواہ وہ کوئی بھی ہوں ہاتھ نہ اٹھایا جائے
… مجھے اپنایہ نظریہ دریا توی کے خونی پانی کی موجوں میں بہتا ہو امحسوس ہوا …
آخر ان ظالموں نے مسلمانوں کو کیا سمجھ رکھا ہے؟… ہم جنگ بھی کرتے ہیں تواصولوں
کے ساتھ … مگر ہمارے دشمن کسی اصول کے پابند نہیں … ان کو بس مسلمانوں کا خون
بہانا ہے … ان کو بس مسلمانوں کا خاتمہ کرناہے … مودی یاد رکھنا …یوگی یاد رکھنا …
مسلمان کا خون بہت مہنگا ہے…بہت مہنگا…اور مسلمانوں کا خاتمہ ناممکن ہے …بالکل
ناممکن …پاکستان میں کاش کوئی ایک درد دل رکھنے والا مسلمان حکمران آجائے توتم چا
ردن میں سیدھے ہوسکتے ہو…مگر پھر بھی کوئی بات نہیں … حکمران نہیں تو کیا ہوا …
مسلمان تو یوپی سے لے کر کرناٹک تک موجود ہیں …کراچی سے خیبر تک موجود ہیں …ہر
پہاڑ پر اور ہر ساحل پر موجود ہیں … ان شاء اللہ تمہیں اپنے مظالم کا حساب دینا
پڑے گا…یہ دھمکی نہیں حقیقت ہے … بالکل سچی ،پکی حقیقت۔
دنیا سمٹنے کو ہے
ایک بات ہر مسلمان غور سے پڑھے … آج دنیا میں وہ گناہ بہت
عام ہوگئے ہیں جواللہ تعالیٰ کے غضب کو زمین پر اُتارتے ہیں … وہ گناہ جن کی وجہ
سے ماضی کی قومیں اُلٹی پھینک دی گئیں اور ان کا نام و نشان مٹ گیا … آج وہ گناہ
ہر طرف پھیل گئے …ان گناہوں کی نحوست کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنا غضب برسایااور
انسانوں کی عقل چھین لی … ان بے عقل انسانوں نے ایٹم بم ایجاد کرکے اپنے ملکوں میں
رکھ لئے …ہائیڈروجن بم بنا کراپنے شہروں میں چھپادئیے … مہلک گیسیں بناکراپنے
ملکوں میں ذخیرہ کرلیں …پھران بے عقلوں نے یہ سارا نظام کمپیوٹر اور ریڈیائی لہروں
کے کنٹرول میں دے دیا… پھر ان بے عقلوں نے سیارچے بنابناکر فضامیں چھوڑ دئیے … اب
ان حالات میں ان ملکوں اور دنیاکی تباہی کتنی آسان ہوگئی ہے؟… غلط فہمی سے کوئی
جنگ چھڑ ی توکروڑوں انسانوں کو خاک بنا دے گی …کسی ایک شخص کا دماغ پھرا اوراس
کوخفیہ کوڈ معلوم ہوئے تو وہ آدھی زمین کو تباہ کردے گا…کسی ایک ہیکرکی انگلی کسی
بٹن تک پہنچ گئی تو وہ تمام سیارچے زمین پر گرا دے گا… کسی ایک خاتون سائنسدان
کواپنے شوہر پر شک ہوا تو وہ چند بٹن دباکرکئی ممالک کو راکھ بنا دے گی … اب دنیا
بارود کے ڈھیر پر جابیٹھی ہے…اور اس ڈھیر پر بیٹھ کر بدکاریاں اور کفر و شرک کررہی
ہے… بس ایک تیلی لگنے کی دیر ہے …تب دنیا کا اکثر حصہ تباہ ہوجائے گا…نہ موت سے
ڈرنے والے بچیں گے اور نہ موت سے بھاگنے والے … وہ جنہوں نے اپنے گرد حفاظتی حصار
بناکرمستیاں شروع کررکھی ہیں …سومیل دور پھٹنے والے بم کی زد میں آکر مارے جائیں
گے اور وہ وقت بس آیا ہی چاہتا ہے …مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسا وقت آنے سے
پہلے پہلے توبہ کرلیں…ایمان اور جہاد کاراستہ اختیارکرلیں …موت اور مصیبت کے ڈر سے
غلامی قبول نہ کریں …ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق دل میں بڑھاتے رہیں …تب
جو موت آئے گی وہ حسرت نہیں راحت والی ہوگی۔
شک کی کیا گنجائش ہے
جس دنیا میں ٹرمپ اور مودی جیسے بے عقل مجرم حکمران ہوں …اس
دنیا کی تباہی میں شک کی کیا گنجائش ہے؟جس دنیا میں اسلامی ممالک کے حکمران وہ لوگ
ہوں …جوسب سے زیادہ نفرت اسلام اور جہاد سے کرتے ہوں …اس دنیا کی تباہی میں کیا شک
ر ہ جاتا ہے؟… وہ دنیاجس میں انسان کی قدر وقیمت دم اُٹھا کر پیشاب کرنے والی گائے
سے بھی کم رہ جائے … وہ دنیا جس میں ہردن رات ہزاروں بے قصور انسان مارے جاتے ہوں
… وہ دنیا جس کے مسلمان حکمران ہر گناہ کے عادی اور ہر نیکی سے دور ہوں …وہ دنیا
جس میں مرد مردوں سے ،عورت عورتوں سے … اور انسان جانوروں سے شادی کررہے ہوں …ایسی
دنیا کی تباہی میں مزید کیا کسر رہ جاتی ہے ؟…میری اس بات سے کوئی مایوس نہ ہو…جس
انسان کے پاس کلمہ طیبہ،کلمہ توحید اور حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا تاج ہے… اس کے لئے زندگی بھی اچھی
اورموت بھی اچھی …
مقصدان حقائق کو بیان کرنے کایہ ہے کہ …دنیا تو ویسے ہی موت
کی طرف جارہی ہے… توپھرکیوں نہ زندگی کے باقی دن…ایمان،غیرت ،جہاد اور آزادی کے
ساتھ گزارے جائیں؟…
یہ سبق ہم سب مسلمانوں کے لئے ہے…اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس
پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے اور آپ سب کو بھی… خصوصاًہندوستان کے مسلمانوں
کو…آمین یاارحم الراحمین۔
لاالہ الااللّٰہ ،لاالہ الااللّٰہ ،لاالہ الااللّٰہ
محمدرسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنامحمدوالہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماً
کثیراًکثیراً
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭٭٭
رنگ و نور…601
اِنْتِصَارْ
* صبح
شام اللہ تعالیٰ سے دانستہ ونادانستہ شرک سے پناہ کی دعاء ضرور مانگنی چاہئے…
* مسلمانوں
کے سب سے زیادہ سخت اور نمبر ایک دشمن یہودی اور مشرک ہیں…
* ہندوستان
کے مسلمان فاتحین نے ہندوئوں کا خاتمہ کیوں نہیں کیا؟
ایک چبھتے ہوئے سوال کا جواب…
* ہندو
شیطانی فطرت پر ہوتا ہے اس لئے وہ رنگ و روپ بدلنے کا ماہر ہوتا ہے…
* ہندوستان
کے مسلمان اگر مظالم اور موجودہ حالات
سے
نکلنا چاہیں تو انہیں دو کام کرنے ہوں گے…
* ترتیب
الہٰی کو سمجھنے کی ضرورت ہے…
* مودی
اور یوگی کا نشہ ٹوٹنے والا ہے،کیونکہ’’انتصار‘‘ کا بٹن دب چکا ہے…
ہندوئوں، مشرکوں کی فطرت سے آگاہ کرتی اور ہندوستان کے
مسلمانوں کو آزادی وعزت کا راستہ دکھاتی ایک چشم کشا تحریر
تاریخِ اشاعت:
۱۹ شوال
المکرم ۱۴۳۸ھ؍ بمطابق14جولائی 2017ء
اِنْتِصَارْ
اللہ تعالیٰ کی پناہ ’’شرک‘‘ سے… ’’شرک‘‘ سب سے خطرناک چیز…
شرک پکا ہو جائے تو سارے عمل برباد اور مغفرت کی اُمید ختم…یا اللہ! شرک سے بچا…
شرک کی حالت میں موت آئے اس سے بچا… یا اللہ! شرک سے شدید نفرت عطاء فرما… یا
اللہ! شرک سے مکمل حفاظت عطاء فرما… ہم مسلمان جب تک صبح شام یہ دعاء نہ مانگ لیں
نہ چین آتا ہے، نہ سکون … دعاء یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ
شَیْئًا وَّ اَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہٖ۔
( ترجمہ): ’’یا اللہ! جان بوجھ کر
شرک کرنے سے اپنی حفاظت اور پناہ عطاء فرما… اور اگر لاعلمی میں شرک والا کوئی کام
ہو گیا ہو تو معافی عطاء فرما۔‘‘
اوپر جو چند سطریں لکھی ہیں… ان کو بار بار پڑھنے کی گذارش
ہے… ان کو دل میں اُتارنے اور بسانے کی اِلتماس ہے… اب آئیے چند ضروری نکتوں کی
طرف!
نمبر ایک دشمن
قرآن مجید نے بتایا ہے کہ… مسلمانوں کے نمبر ایک دشمن
یہودی اور مشرک ہیں… حضور اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام جنگیں انہی دو دشمنوں سے ہوئیں… جن کو
قرآن ہمارا دشمن قرار دے رہا ہے وہ کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے… ہمارے خیرخواہ
نہیں بن سکتے… یہ پہلا نکتہ یاد رکھیں… آج کل یہودیوں کی طاقت ’’اسرائیل‘‘ میں
اور مشرکوں کی طاقت ’’انڈیا‘‘ میں پَل رہی ہے۔
بہترین مسلمان
عجیب نکتہ سمجھیں … مشرک اسلام کے بدترین دشمن ہیں… لیکن جب
کوئی مشرک اخلاص کے ساتھ اسلام قبول کرتا ہے تو وہ بہترین مسلمان ہوتا ہے… یہی حال
یہودیوں کا ہے … حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا جائزہ لیں… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جتنے صحابہ کرام تھے… ماضی میں ان کی
’’وفاداری‘‘ کس مذہب کے ساتھ تھی؟… مگر جب شرک چھوڑ کر اخلاص سے کلمہ طیبہ پڑھا تو
وہ کیسے عظیم مسلمان بنے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک مشرک اسلام قبول کرنے کے بعد
بہترین مسلمان کیوں بنتا ہے… دوسرے مسلمانوں سے بہت آگے ؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت
ہے مگر یہ تفصیل طلب ہے… آج اس موضوع کو اس لئے نہیں چھیڑ سکتے کہ اس میں ڈوب کر
ہمارا اصل موضوع رہ جائے گا۔
بہترین رعایا
ہمارے نوجوان جب ہندوستان کی تاریخ پڑھتے ہیں تو انہیں ایک
سوال بہت چبھتا ہے… وہ سوال یہ کہ ہندوستان کے مسلمان فاتحین اور بادشاہوں نے
ہندوؤں کا خاتمہ کیوں نہیں کیا؟ … چلیں رنگین مزاج اکبر بادشاہ کو چھوڑیں… کم ہمت
جہانگیر کو چھوڑیں… نرم طبیعت شاہجہان کو چھوڑیں… مگر اورنگ زیب عالمگیر نے یہ
کارنامہ کیوں سر انجام نہیں دیا؟…
وہ نہ تو رنگین مزاج تھا… نہ کم ہمت اور نہ نرم خو… وہ دین
کا عالم ، قرآن کا کاتب، اللہ تعالیٰ کا ولی… مرد میدان مجاہد… اور مضبوط اَعصاب
کا مالک فاتح تھا… بہادر، زاہد، موحد، صوّام ( بہت روزے رکھنے والا)، قوّام (
راتوں کو قیام کرنے والا) اور باوقار انسان… عیاشی اس کے قریب سے بھی نہ گذری تھی…
تلوار اس کی محبت تھی… جہاد اس کا جنون تھا… اور میدان جنگ اس کی سرشاری اور خوشی
کا مقام تھا… ہمارے بے علم کالم نگار اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف طرح طرح کی باتیں
لکھتے ہیں… یہ باتیں پڑھ کر دُکھ ہوتا ہے… وہ اپنے بھائیوں کا ہرگز قاتل نہیں تھا
… اس کے بھائی خود ہی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے… سکھ مذہب کے پیروکار اورنگ
زیب عالمگیر کے کٹر دشمن ہیں… کیونکہ ان کا قابل فخر اور بہادر ترین گورو… عالمگیر
کے ہاتھوں مارا گیا … مگر’’ سکھ‘‘ آج تک ’’عالمگیر‘‘ کی روحانی طاقت کے قائل ہیں…
وہ حقیقی مسلمان بادشاہ تھا … ایسا کہ اس جیسے انسان صدیوں میں جنم لیتے ہیں… مگر
سوال یہ کہ … عالمگیر نے مشرکوں کا صفایا کیوں نہیں کیا؟… افغانستان سے لے کر
آج کے پاکستان اور مکمل ہندوستان پر اس
کی پچاس سال سے زائد عرصہ حکومت رہی… جواب یہ ہے کہ… مشرک یعنی ہندو جب کسی کے
نیچے آ جائیں تو وہ’’ بہترین رعایا‘‘، بہترین غلام اور بہترین خادم بن جاتے ہیں…
وفادار، محنتی، عاجز، مسکین اور ہر خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار … آپ کو میری بات پر
یقین نہ آئے تو امارات ، سعودیہ، بحرین، قطر اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے
ہندوؤں کے حالات معلوم کر لیں… وہاں کے لوگ ہندو ملازم کو ترجیحی بنیاد پر ملازمت
دیتے ہیں… کیونکہ اگر وہ سرجن ڈاکٹر ہے… مگر آپ کو اپنے گھر کا گٹر صاف کرانا ہے
تو وہ فوراً دونوں ہاتھ جوڑ کر حامی بھر لے گا… اور دس ریال میں سارا کام کر دے
گا… جبکہ مسلمان ڈاکٹر ہزار ریال میں بھی ایسے کام پر راضی نہیں ہو گا… مجھے کئی
عرب ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے … وہاں جب میں ہاتھ جوڑے ، دانت نکالے ہندو
ملازمین کو دیکھتا تو یقین ہی نہ آتا کہ… یہی لوگ کشمیر میں اتنے مظالم ڈھا رہے
ہیں… انہی نے بابری مسجد شہید کی ہے… یہی لوگ ہندوستان میں جگہ جگہ مسلم کش فسادات
بھڑکاتے ہیں… ایک عرب دوست نے کھانے پر بلایا… جو ملازم کھانا لایا وہ انڈیا کا
ہندو تھا… میں نے حیرانی کا اظہار کیا تو اس نے بتایا کہ یہ سستے ملتے ہیں …کئی
اَفراد کا کام ایک فرد کر لیتا ہے…کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتے… ہر وقت ہاتھ
جوڑ کر جی حضوری میں لگے رہتے ہیں… تب مجھے تصور میں ہندوستان کے وہ دھاڑتے،
چنگھاڑتے مجمعے یاد آئے جو مسلمانوں کے خون سے دریاؤں کو سرخ کردیتے ہیں… دراصل
مشرک کی فطرت اور طبیعت الگ ہے… وہ شیطان کا پجاری ہوتا ہے … اس لئے بہت جلدی اپنا
رنگ اور روپ بدل لیتا ہے… ہمارے ہندوستان کے فاتحین ان راجوں مہاراجوں سے تو لڑے
جو مقابلے پر آئے مگر ہاتھ جوڑے عوام کا وہ کیا کرتے؟ جھکے جھکے، سہمے سہمے، ہر
بات ماننے والے، ہر حکم قبول کرنے والے اور خوف سے تھر تھر کانپنے والے… مسلمانوں
کی طرح اِن کی تلوار بھی باعزت، باغیرت اور با اصول ہوتی ہے… وہ جھکی ہوئی، کانپتی
ہوئی گردنوں پر چلنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے… چنانچہ مسلمان فاتحین اطمینان سے
حکومت کرتے رہے… اور ہندو ان کی بہترین رعایا بنے رہے… انگریز آیا تو اس نے برہمن
کی دھوتی کو لنگوٹ بنا کر اسے اکھاڑے میں کھڑا کر دیا … تب آر ایس ایس وجود میں
آئی… اور پھر اس کی ناپاک گود سے ایک کے بعد دوسری دہشت گرد تنظیم جنم لیتی رہی۔
بدترین حکمران
مشرک بت پرست … دراصل شیطان کا پجاری ہوتا ہے… اسے جب حکومت
ملتی ہے تو وہ بدترین حاکم ، بدترین ظالم، بدترین بے حیا اور بدترین دھوکے باز بن
جاتا ہے… وہ بظاہر سبزی کھاتا ہے مگر وہ خون آشام عفریت بن جاتا ہے … وہ اہل
توحید، اہل اسلام کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتا ہے… اور شیطان کی طرح اسلام کے
خاتمے کے خواب دیکھتا ہے…
مکہ کے مشرک جب حالت شرک میں… مکہ کے اور جزیرۃ العرب کے
حاکم تھے تو’’ جزیرۃ العرب‘‘ کی کیا حالت تھی؟ بات بات پر خون ریزی، دفن ہوتی
معصوم بچیوں کی چیخیں… ہر منہ سے بہتی شراب ، ہر چوتھا گھر فحاشی کا اڈہ… اور ہر
طرف ظلم ، دادا گیری اور بربریت… روئے زمین کا دل ’’جزیرۃ العرب‘‘ ان دنوں ایسی
حالت میں تھا کہ دنیا کی کوئی مہذب قوم وہاں قدم رکھنے کے لئے تیار نہیں تھی… اور
ہر کوئی ہر برائی کی مثال کے طور پرعربوں کو پیش کرتا تھا… آج وہی حالت ہندوستان
کی ہے، وہاں کی جہالت ، بدبو ، گندگی ، بے حیائی… ظلم ، بربریت ، درندگی کو اگر
کھول کر بیان کروں تو آپ کو متلی آنے لگے لگی … ہر منہ میں شراب، ہر زبان پر
گالی، ہر دل میں ہوس کا جال… جھوٹ، دھوکہ، بے حیائی… اور ظلم…
آہ ہندوستان کے مسلمان… آج کس آفت میں پھنس گئے ہیں… وہ
کل تک حکمران تھے، بادشاہ تھے… جبکہ آج وہ لنگوروں ، بندروں اور سوروں کے مظالم
کا شکار ہیں… بی جے پی جو کہ آر ایس ایس کی نوے سالہ محنت کا’’ نچوڑ‘‘ ہے …اور
مودی جو مشرکوں کی تمام خباثتوں کا ’’مرکب‘‘ ہے… وہ آج وہاں حکمران ہے… ہندوستان
کے مسلمانوں کے لئے… نہ کوئی ہجرت کا مقام قریب ہے… اور نہ ان کے آس پاس ان کی
فکر کرنے والا کوئی مسلمان ملک یا حکمران ہے… پاکستان کے موجودہ جمہوری حکمران تو
ہندوؤں کی محبت میں سرتاپا غرق ہیں… تب ایسے حالات میں ہندوستان کے مسلمان کیا
کریں؟۔
ترتیبِ الٰہی سمجھیں
ہندوستان کے مسلمان کہیں بھی نہ جائیں … وہ ہندوستان کے اصل
باشندے اور اس کے ماضی اور مستقبل کے حکمران ہیں… وہ بس دو کام کریں… پہلا یہ کہ
وہ پکے سچے شعوری مسلمان بن جائیں… کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید کریں…
شرک سے پکی توبہ کریں… گناہوں سے توبہ کریں… اسلام کے پانچ محکم فرائض کو دل کے
یقین سے مانیں… نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ… اور ان فرائض کی
پابندی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائیں… دوسرا کام یہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی
بنائی ہوئی ترتیب کو سمجھیں… ہم مسلمان جو جگہ جگہ مار کھا رہے ہیں اس کی ایک بڑی
وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی بنائی ترتیب کو اُلٹ دیا ہے… ہم کہتے ہیں کہ
پہلے اللہ تعالیٰ ہمیں طاقت دے، ٹھکانہ دے، اسلحہ دے، سامان دے، وسائل دے، فرشتے
دے تو ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کریں گے… جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب بیان
فرمائی ہے کہ… اے مسلمانو! تم پہلے اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے آگے بڑھو
پھر اللہ تعالیٰ تمہیں ہر چیز عطاء فرمائیں گے… طاقت بھی، سامان بھی، نصرت بھی ،
فرشتے بھی…
اِنْ تَنْصُرُوااللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ(محمد:۷)
یہ پکی ترتیب اور پکا وعدہ ہے… بدر کی لڑائی میں حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین نے کوئی شرط نہیں رکھی…
وہ خود دین کی نصرت کے لئے ایک ناہموار جگہ پر نہتے پہنچ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ
نے نصرت کے وہ اَنداز دِکھائے کہ عقلیں حیران رہ گئیں … بدر کے بعد آج تک ہر
تحریک میں یہی ہوتا رہا ہے… اور قیامت تک یہی ہوتا رہے گا…
ہندوستان کے مسلمان بھی اگر عزم و ہمت سے کام لیں… اور
زیادہ دن زندہ رہنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھنا چھوڑ دیں تو پھر… اللہ تعالیٰ کی
طرف سے ضرور نصرت اُترے گی… ضرور اُترے گی، ضرور اُترے گی… اس میں نہ شک کی گنجائش
ہے اور نہ کسی شبہے کی… آپ لوگ کب تک اپنی ’’حبّ الوطنی‘‘ کی صفائیاں دے کر زندگی
کی بھیک مانگتے رہیں گے… صفائیاں دینا چھوڑو … صفائی شروع کرو… اللہ تعالیٰ ایمان
والوں کے ساتھ ہے۔
نشے میں نہ رہو
’’مودی‘‘ ابھی ابھی ’’ یہودی‘‘ سے
مل آیا ہے …ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ… مشرک اور یہودی جب بھی مل کر مسلمانوں کے
خلاف کوئی سازش یا اِتحاد بناتے ہیں تو… خود ان کی اپنی ’’ ذلت‘‘ کے دن شروع ہو
جاتے ہیں … آپ غزوۂ اَحزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے آس پاس کی تاریخ پڑھ لیں تب
آپ کے دل سے یہ جملہ نکلے گا کہ…
’’ مودی کا دورۂ اسرائیل مسلمانوں
کو مبارک ہو۔‘‘
مودی اور یوگی دراصل اپنی طاقت اور دنیا بھر میں اپنی حمایت
کے نشے میں چور ہیں… ان کا یہ نشہ ان شاء اللہ عنقریب ان کے دردِ سر میں تبدیل
ہونے والا ہے… ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں میں بے چینی تیزی سے پھیل رہی ہے اور
ان میں جہاد کا جذبہ بہت سرعت سے اُبھر رہا ہے… مسلمان نوجوان جب اپنی قوم کا
انتقام لینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرماتے ہیں… ہم نے
گذشتہ پچیس تیس سال کے جہاد میں یہ بارہا دیکھا ہے کہ… جب مسلمان مجاہدین اپنے
شہداء اور مقتولین کے اِنتقام کی نیت کر کے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ان کی
کارروائی میں غیبی مدد اور قوت شامل ہو جاتی ہے … اور اب تو اِنتقامی جہاد… جسے
قرآن مجید ’’اِنتصار‘‘ کا پیارا نام دیتا ہے… روایتی اسلحہ کا محتاج نہیں رہا…اب
بم ، گولی، بارود، بندوق، لانچر اور ٹریننگ کی بھی ضرورت نہیں رہتی… گاڑی،
بجلی،پیٹرول،کھاد،ریت اور دوائیوں کے ذریعہ لوگ بڑی بڑی کارروائیاں کر لیتے ہیں…
مودی اور یوگی نشے میں نہ رہیں… ان کے مظالم نے ’’انتصار‘‘ کی بجلی کا بٹن دبا دیا
ہے… اب نہ کسی بھڑکانے والے کی ضرورت ہے اور نہ کسی ماسٹر مائنڈ کی… خود تمہارے
مظالم اب واپس تمہاری طرف لوٹنے والے ہیں… ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭