رنگ و نورجلد سوم
سکون
کی تلاش میں
’’ شرح صدر‘‘ کا
لفظ آپ نے بار ہا سنا ہوگا… مگر اس کے حقیقی معنیٰ کیا ہیں؟… کبھی آپ نے غور کیا؟…
حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرعون اور اس کے لشکر کے مقابلے کے لئے اﷲ
تعالیٰ سے فوج نہیں ’’شرح صدر‘‘ مانگا… حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعہ
کے بعض عجیب پہلو… قیدی بھائیوں کا تذکرہ
مایوس دلوں کے لئے مناجات کا مرہم… اﷲ تعالیٰ کا فضل گناہگاروںپر بھی ہوتا
ہے… سکون کا راستہ بتانے والی … اور شکستہ دلوں کو حوصلہ دلانے والی ایک تحریر
تاریخ اشاعت ۲۰؍ محرم ۱۴۲۸ھ
بمطابق ۹ فروری ۲۰۰۷ ء
شمارہ نمبر ۸۳
سکون کی تلاش میں
اﷲ
تعالیٰ ہمیں شرح صدر نصیب فرمائے، ہمارا سینہ کھول دے… اگر ہمیں یہ نعمت نصیب ہوگئی
تو ہم کامیاب ہوجائیں گے… ورنہ معاملہ بہت مشکل ہے بہت مشکل… حضرات انبیاء علیہم
السلام نے خود کو کبھی بے بس نہیں سمجھا… حالانکہ ان پر وہ مشکلات آئیں کہ اگر
پہاڑوں پر آجاتیں تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے… ایک شخص سمندر میں ہے اور اس کو ایک بہت
بڑی مچھلی نے نگل کر اپنے معدے میں اتارلیا ہے… مگر وہ شخص نہ ہی اﷲ تعالیٰ سے
غافل ہوا اور نہ ہی اس نے خود کو بے بس سمجھا … کیا ایسی خوفناک صورتحال کا ہم اور
آپ مقابلہ کرسکتے ہیں؟… ہم تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے بس اور مایوس ہو کر… کفر
اور گناہ کے راستے پر نکل کھڑے ہوتے ہیں … ایک اور شخص ہے… وہ بچپن سے امتحانات کا
شکار ہے… مگر وہ ایک لمحہ بھی مایوس نہیں ہوا… بچپن میں وہ اپنی ماں سے جدا ہوا
اور ایک صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کردیا گیا… ش ش کیا عجیب منظر ہے… ماں اپنے بیٹے کو دشمنوں
کے خوف سے خود ہی صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال رہی ہے… اور اس کی بے قرار بہن
دریا کے ساتھ ساتھ دوڑتی جارہی ہے… میرا بھیّا… کہاں جاتا ہے؟ … اس کا نصیب اسے
کہاں لے جاتا ہے؟… اور پھر معلوم ہے کیا ہوا؟… وہ صندوق دریا کی لہروں سے اس نہر کی
طرف مڑ گیا جو بڑے دشمن کے محل میں جارہی تھی… ش ش عجیب منظر ہے … جس ظالم سے بچانے کے لئے دریا میں
ڈالا تھا… دریا کی لہروں نے اسی کے گھر کی طرف دھکیل دیا… بہن اپنا دل پکڑ کر رہ
گئی… مگر وہ انجام سے بے فکر نگرانی میں لگی رہی… اس نے دیکھا کہ دشمن کی بیوی نے
صندوق کو نہر سے نکال لیا ہے… اور بچے کو اپنا بیٹا بنانے کا اعلان کردیا ہے… پھر یہ
بچہ جوان ہوا… اور اس کے ہاتھ سے ایک کافر مارا گیا… بڑادشمن جو بیوی کی وجہ سے اب
تک اپنا ہاتھ روکے ہوا تھا کھلی دشمنی پر اُتر آیا… اس نے اجلاس بلایا… وزراء، فوجی
کمانڈر اور بڑے سردار سب نے یہی مشورہ دیا کہ اس نوجوان کو قتل کردیا جائے… وہاں ایک
آدمی یہ سب کچھ سن رہا تھااور وہ دل سے اس نوجوان کا خیر خواہ تھا… ابھی اجلاس جاری
ہی تھا کہ وہ دوڑ کر آیا اور اس نے نوجوان کو بتادیا کہ… قتل کا حکم جاری ہوچکا ہے
جلدی سے نکل جاؤ… بچپن کے مسافر کے سامنے اب ایک اور سفر تھا… اسے نہ منزل معلوم
تھی نہ راستہ، اس نے اوپر نگاہیں اُٹھائیں اپنے رب سے دعاء مانگی اور چل پڑا… کوئی
اور ہوتا تو کہتا اب میں کہاں جاؤں… مگر وہ نکل پڑا… جس رب سے اس نے دعاء مانگی تھی…
اس نے راستہ بھی دکھادیا اور اچھے لوگوں کے پاس پہنچادیا… آٹھ دس سال گزر گئے… اب
وہ ایک اور سفر پر روانہ ہوا… ش ش! حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی زندگی بھی عجیب ہے… ایک سفر کے بعد دوسرا سفر… ایک آزمائش کے
بعد دوسری آزمائش… کبھی صندوق میں پڑے دریا میں تیر رہے ہیں… کبھی خوف کی حالت میں
مدین کی طرف دوڑ رہے ہیں… کبھی مدین سے مصر کی طرف جارہے ہیں… پھر مصر سے راتوں
رات نکل کر ارض مقدس کی طرف جارہے ہیں… پھر کبھی مجمع البحرین کا سفر ہے… اور زندگی
کے آخری تمام سال وادی تیہ کے صحراء میں چلتے چلتے بیت گئے… مگر وہ کبھی مایوس نہیں
ہوئے، کبھی غافل نہیں ہوئے… اور نہ کبھی انہوں نے خود کوبے بس سمجھا…
اب
وہ کتنے مزے میں ہیں اور کتنے سکون میں… میرے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں
قبر میں نماز پڑھتے دیکھا… یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے… اور آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے آسمانوں پر ان سے ملاقات کی… جبکہ فرعون اب بھی روزانہ آگ میں جلایا
جاتا ہے… قرآن پاک نے ہمیں یہ سچی خبر سنائی ہے… آٹھ دس سال مدین گزارنے کے بعد
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کے ساتھ جارہے تھے… انہوں نے اچانک روشنی دیکھی…
اسے وہ آگ سمجھ کر اس کی طرف گئے تاکہ… گھر والوں کے لئے ’’حرارت‘‘ کا بندوبست
کرسکیں… وہاں جا کر حکم ملا کہ جوتے اتار و اور ہماری بات سنو… ش ش کیسا عجیب منظر ہے… وہ شخص جس کو بچپن سے جوانی
تک دشمنوں نے مارنے کی ہر کوشش کی… دیکھتے ہی دیکھتے اﷲ تعالیٰ کا ’’کلیم‘‘ بن گیا…
کلیم اﷲ، کلیم اﷲ، کلیم اﷲ… علیہ الصلوٰۃ والسلام… یہ لفظ کتنا میٹھا ہے ’’کلیم اﷲ‘‘…
آپ بھی ایک بار کہیں کلیم اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام… یعنی وہ جو اﷲتعالیٰ سے باتیں
کرتا ہے… اور اﷲ تعالیٰ اس سے باتیں کرتا ہے… مجازی عاشقوں سے پوچھیں کسی خوبصورت
لڑکی سے باتیں کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے؟… لوگ گھنٹوں موبائل پر یہ ناپاک رس چوستے
رہتے ہیں… عقیدت مند مریدوں سے پوچھیں اپنے شیخ سے بات کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے؟…
لوگ اس کے لئے ترستے رہتے ہیں، تڑپتے رہتے ہیں… دنیا پرستوں سے پوچھیں کہ صدر اور
وزیر اعظم سے بات کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے؟… لوگ ملاقاتوں کے فوٹو اپنے ڈرائنگ
روم میں سجاتے ہیں… فلم پرستوں سے پوچھیں کہ اداکاراؤں سے بات کرنے میں کتنا مزہ
آتا ہے؟… لوگ چند منٹ کی ملاقات پر لاکھوں روپے نچھاور کردیتے ہیں… ش ش … حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خوش بختی دیکھیں
کہ اﷲ پاک خود ان سے کلام فرماتا ہے… درمیان میں کوئی فرشتہ بھی نہیں ہوتا… آہا کس
قدر اونچا مقام ہے… کس قدر اونچا … حسینوں کا حسن جس اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا…
بزرگوں کو بزرگی جس اﷲ تعالیٰ نے عطاء فرمائی… بادشاہوں کو بادشاہت جس مالک نے دی
وہ خود کیسا ہوگا… اس کا کلام کیسا ہوگا… یہی وجہ ہے کہ کوہِ طور پر موسیٰ علیہ
السلام ’’بے حال ‘‘ ہوگئے… اور مزید قرب کے لئے مچل گئے… رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ
اِلَیْکَ … اے میرے رب اپنی ایک جھلک تو دکھا دے… ایک جھلک میرے رب… ایک جھلک… انبیاء
تو بہت مضبوط ہوتے ہیں انہیں اپنے اوپر قابو نصیب ہوتا ہے … مگر کلام میں اتنا لطف
تھا اتنا مزہ تھا اتنی لذت تھی کہ دل بے تاب ہوگیا… اور بے اختیار رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ
اِلَیْکَ …پکار اٹھا… خیر عشق کی یہ داستان بہت طویل ہے اور آج ہمارا یہ موضوع بھی
نہیں ہے… تھوڑی دیر کلام کے بعد حکم ملا کہ اے موسیٰ… آپ فرعون کے پاس جائیں اسے میری
وحدانیت کا پیغام سنائیں… اور یہ ذمہ داری دی گئی کہ بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات
دلائیں… ش ش کیسا عجیب منظر ہے… ایک تنہا
شخص، ایک مسافر شخص… جس کو آٹھ سال کی مزدوری کے بعد شادی ملی… جس کے پاس اتنے
وسائل بھی نہیں تھے کہ اپنی بیوی کے لئے سفر میں گرمی اور حرارت کا بندوبست کر
سکتا… اسی لیے تو آگ کا ایک انگارہ ڈھونڈتا پھر رہا تھا… اس کو حکم ملا کہ فرعون
کو جا کر توحید کی دعوت دیں اور بنی اسرائیل کو اس کے ظلم سے نجات دلائیں… کوئی
اور ہوتا تو اتنے بڑے بوجھ کی وجہ سے یا تو مرجاتا… یا پاگل ہوکر قہقہے لگانے
لگتا… مصر میں داخلہ ہی مشکل تھا… وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر قتل کا مقدمہ
تھا… پھر فرعون تک رسائی بظاہر ناممکن تھی… رسائی ہو بھی جاتی تو فرعون کہاں سنتا…
اپنے کسی سنتری کو اشارہ کرتا اور گردن کٹ کر زمین پر جاگرتی… فرعون ستر ہزار
شہروں کا تاجدار بادشاہ تھا… اور اس کو ’’ربِّ اعلیٰ‘‘ یعنی ’’بڑارب‘‘ مانا جاتا
تھا… مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کچھ نہ پوچھا… صرف ایک دعاء مانگ لی…
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ
لِیْ صَدْرِیْo وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ (طٰہٰ ۲۵۔۲۶)
ٹھیک ہے میرے رب تیرا
غلام حاضر ہے… بس آپ میرا سینہ کھول دیں اور میرا کام آسان کردیں… انسان کا سینہ
اگر کھل جائے تو پھر سب کچھ آسان ہے… سب کچھ آسان… ع
وسعتِ دل ہے بہت
وسعتِ صحرا کم ہے…
سینہ کھل جانے کا
آسان ترجمہ ہے… یا اﷲ مجھے ہمت دے دے… ع
اگر ہمت کرے پھر کیا
نہیں انسان کے بس میں
سینہ
کھل جانے کا اصل مطلب یہ ہے کہ… انسان فنا فی اﷲ ہوجائے… یعنی سینے میں اﷲ تعالیٰ
کے نور کی ایسی تجلی اترے کہ دل… بزدلی، کم ہمتی، شہوت پرستی اور حب دنیا سمیت ہر
گندگی سے پاک ہوجائے… تب انسان کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ نے کرنا
ہے… میں نے تو صرف محنت کرنی ہے… حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہ فوج مانگی… نہ مال
مانگا… نہ حمایت کرنے والے عوامی جتھے مانگے… نہ پناہ گاہ مانگی… نہ شیلٹر مانگا…
بس یہی مانگا کہ… اے میرے رب میرے دل کو اپنا بنالے… کیونکہ جس کے دل پر… اﷲ تعالیٰ
کا نور اترتا ہے… اﷲ تعالیٰ ہی اس کا سب کچھ بن جاتا ہے… یہ دعاء قبول ہوگئی تو
اسباب میں سے دو چیزیں مانگیں… ایک یہ کہ میری زبان میں ایسی فصاحت دے دے کہ میری
بات لوگوں کے دلوں پر اثر کرے…
وَاحْلُلْ عُقْدَۃً
مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ(طٰہٰ۲۷،۲۸)
اور
میرے بھائی کو میرا وزیر بنا کر میرے کام میں میرے ساتھ کردے… تاکہ ہم جماعت بن
جائیں … ہم دو ہو جائیں… اس لیے کہ اکیلی ذات صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی اچھی ہے… وزیر
کہتے ہیں… بوجھ اٹھانے والے کو… یعنی میں تیرے کام میں لگا رہوں… اور میرا بھائی میرا
ہر طرح سے معاون بنا رہے… اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ… ’’شرح صدر‘‘ کتنی بڑی
نعمت ہے… انبیاء علیہم السلام کو یہ نعمت نصیب ہوتی ہے اس لیے وہ بے بسی اور مایوسی
محسوس نہیں کرتے… حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ دیکھیں… حضرت یوسف علیہ السلام کی
آزمائشیں دیکھیں… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مشکلات دیکھیں… ان سب کو ’’شرح صدر‘‘
نصیب تھا… سینہ کھل چکا تھا… ہمت مکمل ہوچکی تھی… دل پر اﷲ تعالیٰ کے نور کی ایسی
تجلی تھی کہ یہ حقیر سی دنیا اور اس کی پریشانیاں ان کے عزائم کو کمزور نہیں کرسکتی
تھیں…
اور
پھر ’’شرح صدر‘‘ کی یہ نعمت… ہمارے آقا حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب سے
زیادہ نصیب ہوئی… اور اﷲ تعالیٰ نے اپنا یہ احسان ان الفاظ میں ذکر فرمایا…
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ
صَدْرَکَ… (الشرح۱)
کیا
ہم نے آپ کو شرح صدر کی نعمت عطاء نہیں فرمائی… ش ش … کیسا عجیب منظر ہے… اگر سینہ کھل جائے تو پیٹ
پر پتھر بندھے ہوئے ہیں اور روم وفارس کے محلات فتح ہونے کی خوشخبریاں سنائی جارہی
ہیں… اور اگر سینہ نہ کھلے تو ایک کتے کے بھونکنے پر بھی انسان مایوسی اور بے بسی
کے اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے… آج ہم مسلمانوں کا مرض یہی ہے کہ ہمارا سینہ بند
ہے… اور ہم اس عظیم نعمت سے تقریباً محروم ہیں… ورنہ اﷲ تعالیٰ تو وہی ہے… اور اس
کی قوت بھی وہی ہے… مگر ہم اپنے دل اور سینے کی تنگی کی وجہ سے قدم قدم پر خوار ہیں…
اگر ہمارا سینہ کھلا ہوتا تو یہ دنیا ہمیں بہت چھوٹی نظر آتی… مگر ہمیں تو یہاں کے
پلاٹ اور کوٹھیاں بھی بڑی نظر آتی ہیں… اسی لیے زمین ہم پر تنگ ہوتی جارہی ہے… یا
اﷲ رحم فرما… اور اپنا فضل فرما کر ہمارا سینہ بھی کھول دے… ہمیں بھی شرح صدر عطاء
فرما… یا اﷲ یہ ٹھیک ہے کہ ہم گناہگار ہیں… سر سے لے کر پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے
ہوئے ہیں… ہر طرف حرام روزی ہے… موبائل فون پر گناہ… کمپیوٹر پر گناہ… گلی گلی میں
گناہ… ہر طرف مسلمان صبح سے شام تک بس تیری نافرمانی ہی کی فکر میں ہیں… مگر میرے
اﷲ آپ تو غفور ہیں… آپ تو غفّار ہیں… معاف فرمادیجئے… آپ ’’تو ّاب‘‘ ہیں… ہم سب کو
توبہ کی طرف کھینچ لیجئے… آپ ’’جبّار‘‘ ہیں ہماری بگڑی بنادیجئے … اور آپ ’’ہادی‘‘
ہیں ہمیں ہدایت دے دیجئے… ہم نام تو آپ ہی کا لیتے ہیں… اور سجدہ بھی صرف آپ ہی کو
کرتے ہیں… یا اﷲ ہمارے گناہ بہت سہی مگر آپ تو موجود ہیں… ہمیشہ ہمیشہ کے لئے… پھر
سینہ کھول دیجئے نا… پیارے رب ہم اور کہاں جائیں… یا اﷲ یہ ٹھیک ہے… امریکہ طاقتور
ہے، روس کے پاس بہت قوت ہے… بھارت بھی بڑا ملک ہے… ہمارے حکمران عزت بیچ کر عزت
پانے کے خواہشمند ہیں… ہر طرف ہمارے لیے راستے بند ہیں… اور جیلیں کھلی ہیں… مگر میرے
رب آپ تو موجود ہیں… امریکہ تو ایک ستارہ نہیں بنا سکتا آپ نے اربوں کھربوں ستارے
بنادئیے… امریکہ پانی کا ایک قطرہ نہیں بنا سکتا… آپ نے سمندروں کے سمندر بنادئیے…
یہ زمین اور اس کی طاقتیں آپ کے عرش اور کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے صحرا میں پڑی
ایک چھوٹی سی انگوٹھی… آپ موجود ہیں… پھر بھی ہم ان چھوٹے چھوٹے کافروں سے دب گئے
… اس لیے کہ ہمارے دل پر نور کی تجلی نہیں ہے… ہم شرح صدر سے محروم ہیں… یا اﷲ اب
کافروں کے نخرے بہت بڑھ گئے ہیں… وہ تیرے بندوں کو گمراہ کر رہے ہیں… انہوں نے ہر
طرف گناہ ہی گناہ … پوری کوشش کے ساتھ پھیلا دئیے ہیں… اور اہل اسلام خود کو مجبور
سمجھ کر ان کے سامنے بے بس ہیں… یا اﷲ ہمیں مایوسی اور بے بسی سے آپ کے سوا اور
کون نکال سکتا ہے؟… آپ کے سوا اور کون ہے جو ایسا کرسکے… کوئی نہیں… میرے رب… کوئی
نہیں… پھر ہمارا سینہ کھول دیجئے نا… صرف رحمت کی ایک نظر فرما کر… اپنے فضل والی
ایک نظر فرما کر… اگر آپ نے اپنی مغفرت اور رحمت والی نظر نہ فرمائی تو ہم تباہ
ہوجائیں گے… ہم برباد ہوجائیں گے… شیطان ہمیں گندے گندے گناہوں میں ڈال دے گا… اور
دنیا کا جبر ہمیں کفر کے سامنے مصلحت کی زنجیر ڈال کر جھکادے گا…
یا
اﷲ … یہ ٹھیک ہے ظاہری طور پر حالات بہت خراب ہیں … امیر المؤمنین در بدر ہیں…
ابوجندل جودھ پور میں سسک رہے ہیں… نصراﷲ منصور وارانسی میں اپنے بالوں کو سفید
ہوتا دیکھ رہے ہیں… مجاہدین پر پابندی لگ چکی ہے… جہاد کے معاونین نے منہ موڑ لیا
ہے… بڑے بڑے اہل دین کافروں اور منافقوں سے مصلحت کی باتیں کر رہے ہیں… قلمکاروں
کے قلم زہر اُگل رہے ہیں… بے حیائی نے ہر شخص کو مفلوج کردیا ہے… مسلمانوں میں
ہندوؤں کی رسومات عام ہو چکی ہیں… مالدار کنجوس اور مسرف بن چکے ہیں… غریب لالچی
اور حاسد بن چکے ہیں… ہر طرف رسومات کی چوکھٹ پر پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی
سنت ذبح کی جارہی ہے… نوجوان بے فکری میں اپنی خواہشات کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں…
اہل علم کم ہمت اور جامد ہوچکے ہیں… اور ہم سب پر شیطان اور نفس کے حملے ہیں… کالے
سانپ کے حملے… کالے سانپ کے حملے… مگر میرے اﷲ آپ تو موجود ہیں… اور آپ فتّاح ہیں
… حالات اور دروازے کھولنے والے… آپ رحمن ہیں… آپ رحیم، عطوف، کریم اور رؤف ہیں…
آپ کے سامنے ان حالات کی کیا حیثیت ہے… گوانٹانامو بے کے پنجرے آپ کے سامنے کیا چیز
ہیں … اور امریکہ آپ کے سامنے کیاہے… میرے مالک آپ قادر ہیں قدیر ہیں… قوی ہیں اور
مقتدر ہیں… قھّار ہیں اور وہّاب ہیں… اور آپ ہی مالک الملک اور ذوالجلال والاکرام
ہیں… اور آپ تو حیّ قیوّم ہیں… اے حلیم اے عظیم… ہم آپ کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں…
صرف آپ کی طرف… صرف آپ کی طرف…
کئی
لوگ مایوس ہوگئے… انہوں نے نشے میں سکون ڈھونڈا… مگر کہاں؟… اب وہ کسی کے نہیں
رہے… کسی نے کافروں سے ہاتھ ملانے میں سکون ڈھونڈا… مگر کہاں؟… اب وہ خارش زدہ
جانوروں سے بھی زیادہ پریشان ہیں… کسی نے دوستیوں اور کھیلوں میں سکون ڈھونڈا… مگر
کہاں؟… وہ تو غفلت میں جا پڑے… میرے مالک حالات ہیں ہی ایسے کہ مسلمان… اپنا منصب
بھول کر نشے، رسومات، فلموں… اور عشق بازیوں کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں… اے میرے مالک
کیا آپ ہم سے ناراض ہیں… ہم تو آپ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم اور حبیب صلی اﷲ علیہ
وسلم کی امت ہیں… آپ کی رحمت تو آپ کے غضب سے بہت آگے ہے… اے میرے مالک آپ ناراض ہیں؟…آپ
کو آپ کی رحمت کا واسطہ ہے… ہمیں معاف فرما دیجئے… یا اﷲ ہم نے آپ کا نام لیا تو
سب سے کٹ گئے… سب ہمارے دشمن بن گئے… مگر پھر شیطان اور نفس کے کالے سانپ نے ہم سے
انتقام لیا … اور ہمیں آپ کی نظر رحمت کے قابل بھی نہ چھوڑا… ٹھیک ہے ہم قابل نہیں…
مگر نا اہلوں کو اہل کون بناتا ہے… صرف آپ ہی تو بنا سکتے ہیں… اگر آپ نے ہمیں
معاف نہ فرمایا تو ہم… دنیا آخرت میں خسارہ پانے والے بن جائیں گے… اے ہمارے رب ہم
نے قصہ سنا ہے… تیرا ایک بندہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا اور رو رو کر دعاء مانگ رہا
تھا… یا اﷲ مجھے ’’عصمت‘‘ عطاء فرما دے… مجھے ایسا معصوم بنادے کہ میں تیری
نافرمانی کر ہی نہ سکوں … تب کعبہ سے آواز آئی اے ابراہیم… ہم اگر سب کو معصوم بنا
دیں تو پھر اپنا فضل کس پر کریں گے… اے میرے رب ہمیں معلوم ہے آپ ’’گناہگاروں‘‘ پر
اپنا فضل فرماتے ہیں… پھر ہم پر اپنا فضل فرمادیجئے نا… اس بھری دنیا میں ہم سے زیادہ
محتاج اور کون ہوگا… ہم سے زیادہ محتاج اور کون ہوگا… امریکہ ہمیں مٹانا چاہتا ہے…
برطانیہ ہمیں ختم کرنا چاہتا ہے… اقوام متحدہ ہماری دشمن ہے… ناٹو اتحاد ہمارا جنگی
مخالف ہے… اسلامی دنیا کے حکمران ہمیں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں… شیطان ہمیں رسوا
کرنا چاہتا ہے… نفس امّارہ ہمیں ہلاک کرنا چاہتا ہے… بزدلی ہمیں ذلیل کر رہی ہے…
بخل ہمیں برباد کر رہا ہے… کم ہمتی نے ہم سے سکون چھین لیا ہے… اور سستی نے ہمیں
گھریلو جانور بنادیا ہے… یا اﷲ اگر آپ ہمارا سینہ کھول دیں تو ہم … ان سب دشمنوں
سے ٹکرا جائیں… اور زمین پر تیرا نام اور تیرا نظام بلند کردیں… یا اﷲ ہمارا سینہ
کھلے تو دنیا کی گندی فکریں ہم پر مسلط نہ ہوں… اور ہم زمان و مکان کی قید سے آزاد
ہوکر… دیوانوں کی طرح دوڑتے چلے جائیں… تیرا قرآن لے کر… اور تیرا دین لے کر… آج
ہم بیماریوں، علاجوں، شادیوں، مکانوں، دکانوں اور رسومات میں اپنا وقت برباد کر
رہے ہیں… اگر ہمیں شرح صدر نصیب ہوجائے تو ہم… تیرا پیارا دین لے کر پہاڑوں اور
سمندروں سے ٹکرا جائیں… اور حضرات صحابہ کرام کی طرح دور دور اپنی قبریں بنائیں…
اے میرے مالک آپ نے قرآن مجید میں واضح اشارہ دیا ہے کہ آپ… انبیاء علیہم السلام
کے علا وہ… اور لوگوں کو بھی… شرح صدر کی نعمت عطاء فرماتے ہیں… آپ کا فرمان ہے:
اَفَمَنْ شَرَحَ اﷲُ
صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ (الزمر۲۲)
اﷲ تعالیٰ جس کا سینہ
اسلام کے لئے کھول دیتا ہے وہ اپنے رب کی طرف سے نور اور روشنی میں ہوتا ہے…
اور سورۃ الانعام میں
آپ کا پیارا ارشاد گرامی ہے:
فَمَنْ یُّرِدِ اﷲُ
اَنْ یَّہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ (الانعام۱۲۵)
اﷲ تعالیٰ جسے ہدایت
دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے…
یا
رب آپ کا ہر فرمان بلا شبہ سچا ہے… اور آپ ہی نے فرمایا ہے کہ… آپ مانگنے والوں کو
عطاء فرماتے ہیں… آج سعدی مسکین بھی جھولی پھیلا کر بیٹھاہوا ہے… اور القلم کے
پڑھنے والے بھی… یا اﷲ آپ ہمارا سینہ اسلام کے لئے کھول دیجئے… اور ہمیں ضائع ہونے
سے بچا لیجئے… اے کریم کرم فرما کر… یہ دعاء قبول فرمالیجئے… ہمارے ہر طرف آگ ہی
آگ ہے… اگر آگے جا کر بھی آگ ہی ملی تو ہم برباد ہوجائیں گے… ہمیں نفاق سے اور قول
وفعل کے تضاد سے بچا لیجئے… اور سب سے بڑی دعاء یہ ہے کہ… اپنی ناراضی سے بچا لیجئے…
اگر آپ راضی ہیں تو ہمیں حالات کی کوئی پروا نہیں… اور اگر آپ ناراض ہیں؟… ش ش رحم
فرمائیے آپ کی ناراضی کا لفظ جب اتنا بھاری ہے تو اس کی حقیقت کتنی تلخ ہوگی… ہم
زبانوں سے آپ کا نام لے رہے ہیں… آپ ہمارے دلوں میں بھی اپنا ذکر جاری فرمادیجئے…
وہ ذکر جس سے قلوب کو چین اور اطمینان ملتا ہے…
اَلاَ بِذِکْرِ اﷲِ
تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ…
یا ارحم الراحمین…
رحمت کی ایک نظر فرما کر… اپنا ذکر… ہمیں عطاء فرمادیجئے… ہمارے دل کو سکون دے دیجئے…
سکون دے دیجئے… سکون دے دیجئے… اور اپنی رحمت سے ہمارا سینہ کھول دیجئے…
رَبِّ اشْرَحْ
صُدُوْرَنَا وَیَسِّرْلَنَا اُمُوْرَنَا… آمین یا ارحم الراحمین…
وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر
خلقہٖ سیدنا محمد وآلہٖ واصحابہٖ وسلم تسلیما…
٭٭٭
ایک خاص عمل
شکر
انسان کو کن بلندیوں پر لے جاتا ہے؟…ناشکری انسان کو کہاں گراتی ہے؟… قارون نے مال
بنایا وہ مال اسکو زمین میں دھنسا رہا ہے… صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے مال لٹایا تو
زمین کے مالک اور خلفیہ بن گئے… اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار مجاہدین نے دنیا کے حالات ہی
پلٹ کر رکھ دیئے… جو نعمت جتنی قیمتی اور ضروری ہوتی ہے شیطان اسی قدر اس نعمت کی
ناقدری انسان کے دل میں ڈالتاہے… حمد اور شکر پر مبنی دو مسنون دعائیں…
اور… بہت سی مفید باتیں
تاریخ اشاعت ۲۷؍
محرم ۱۴۲۸ھ
بمطابق ۱۶
فروری ۲۰۰۷ ء
شمارہ نمبر ۸۴
ایک خاص عمل
اﷲ
تعالیٰ کے بندے جب اس کا شکر ادا کرنے پر آتے ہیں تو فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں…
لیکن جب کسی انسان پر ناشکری کا دورہ پڑتا ہے تو وہ شیطان کو بھی حیران کردیتا ہے…
شکر گزاری بہت بڑی نعمت ہے… مگر اس نعمت کو پانے والے بندے بہت تھوڑے ہیں… اﷲ تعالیٰ
کا فرمان ہے:
اِعْمَلُوْا اٰلَ
دَاوُدَ شُکْرًا وَّقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ (سبا۱۳)
ترجمہ: عمل کرو اے
داؤد کے گھر والو اﷲ تعالیٰ کا احسان مان کر اور میرے بندوں میں احسان ماننے والے
تھوڑے ہیں…
ہر
انسان سر سے لے کر پاؤں تک اﷲ تعالیٰ کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے… مگر ان احسانات
کو مان کر شکر کرنے والے بہت تھوڑے ہیں… عرش سے لے کر فرش تک اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں
ہی نعمتیں ہیں… اور مسلمان پر تو اتنی نعمتیں ہیں کہ کوئی شمار نہیں کرسکتا… اﷲ
پاک کو کیا ضرورت تھی اتنی بڑی جنت بنانے اور سجانے کی… دودھ، شہد اور شراب کے دریا…
مشک وعنبر کے پہاڑ اور موتیوں کے محلات… اور پھر دلکش پاکیزہ حوریں اور سب سے بڑھ
کر اﷲ پاک کا دیدار… یہ سب کچھ ایمان والوں پر اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ… چھوٹی سی
تاریک قبر تاحد نظر کشادہ ہوجاتی ہے اور جنت کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے…
اﷲ
اکبر کبیرا… مگر اس سب کے باوجود ’’ناشکری‘‘ کی آگ ایمان کو جلا رہی ہے… ہم میں سے
ہر ایک حالات کا رونا رو رہا ہے… اس وقت اﷲ تعالیٰ کے شکر کی بے حد ضرورت ہے… شکر
ہوگا تو ہم میں قوت پیدا ہوگی… ہم اپنے اوپر اﷲ تعالیٰ کے احسانات کو محسوس کریں
گے… ہم ان احسانات کی قدر کریں گے… ہم ان احسانات اور نعمتوں کو درست استعمال کریں
گے… تب ہم ہر طرح کے گھاٹے اور عذاب سے بچ جائیں گے… ارشاد باری تعالیٰ ہے…
مَا یَفْعَلُ اﷲُ
بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ وَکَانَ اﷲُ شَاکِرًا عَلِیْمًا (نساء۱۴۷)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ تمہیں
عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بنو اور ایمان لے آؤ اور اﷲ تعالیٰ قدردان
ہے سب کچھ جاننے والا…
اس
وقت ’’حالات‘‘ تیزی سے بدل رہے ہیں… ہر گھنٹے بعد ایک نئی خبر آتی ہے… اور اگلے
گھنٹے وہ تبدیل ہوجاتی ہے… پرسوں اطلاع ملی کہ ’’لال مسجد‘‘ کے اردگرد پاکستان کی
بہادر سپاہ نے اپنا گھیرا ڈال لیا ہے… ممکن ہے وہ حملہ کریں اور مسلمان بچیوں پر گیس
کے گولے اور گولیاں برسائیں… تب ہر طرف مصلے بچھ گئے… سجدے ہوئے، آنسو ٹپکے، جذبات
ابلے… ایک شور تھا اور ایک غم بھرا سناّٹا بھی… مگر گیارہ بجے مطلع صاف ہوگیا… پولیس
والے واپس چلے گئے… بے صبرے لوگ اس وقت بھی ذکر و شکر کی بجائے یہی پکار اٹھے…
ہائے افسوس… پھر معلوم ہوا کہ حضرات علماء کرام مذاکرات کے لئے تشریف لائے ہیں… آج
کے اخبار میں اطلاع ہے کہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور اب کسی بھی لمحے آپریشن کا
خطرہ ہے…
اس
وقت مسلمان متفقہ قیادت سے محروم ہیں… اس لیے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کیا کیا جائے
اور کیا نہ کیا جائے؟… اﷲ تعالیٰ اس معاملے کو خیر وعافیت کے ساتھ حل فرمائے… اور
اہل ایمان کی خاص نصرت فرمائے … اب اس موضوع پر مزید کیا لکھا جائے کیونکہ کچھ
معلوم نہیں کہ حالات کس رخ پر جائیں گے… تحریکوں میں تدبیریں اور پینترے بدلے جاتے
ہیں… جو لوگ خود اس کام میں نکلے ہوئے ہیں فیصلہ انہیں پر چھوڑ دیا جائے… وہ کچھ
مطالبات منوا کر پیچھے ہٹیں تو انہیں ’’پسپائی‘‘ کا طعنہ نہ دیا جائے… اور وہ
حالتِ مظلومیت تک پہنچیں تو انہیں خود کو ہلاکت میں ڈالنے والا قرار نہ دیا جائے…
اس پورے واقعے میں شکر کے جو پہلو ہیں ان پر غور کرکے… اﷲ تعالی کے احسانات کو
مانا اور پہچانا جائے… شیطان دراصل ’’کفور‘‘ یعنی بہت بڑا ناشکرا ہے… چنانچہ وہ
ناشکری کے راستے سے انسانوں کو ڈستا ہے… ایک آدمی تھوڑا سا بیمار پڑتا ہے… اﷲ تعالیٰ
اسے اس بیماری کے ذریعے گناہوں اور مصیبتوں سے چھٹکارے کا راستہ دیتا ہے… تب شیطان
اس پر حملہ آور ہو کر اس سے اتنی ناشکری کراتا ہے کہ… وہ شخص بیماری کی تکلیف بھی
جھیلتا ہے… اور گناہ کا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے… ایک شخص کو اﷲ تعالیٰ لوگوں پر زیادہ
خرچ کرنے کی توفیق دیتا ہے… اس خرچ کے بدلے اس کے درجات بلند ہوتے ہیں… اس کے گناہ
معاف ہوتے ہیں … اور اس کو روزی ملتی ہے… اچانک شیطان اس پر ناشکری کا حملہ کرتاہے
کہ تو تو فلاں فلاں کو کھلا رہا ہے… تب یہ انسان بھول جاتا ہے کہ کھلانے والا اور
دینے والا تو اﷲ تعالیٰ ہے… میں تو ماں کے پیٹ سے خالی ہاتھ آیا تھا… اور مال تو
ہوتا ہی والدین، اہل وعیال، اقارب اور دین کے کاموں پر خرچ کے لئے ہے… قارون نے
دولت جمع کی تو وہ دولت اسے زمین میں دھنسا کر اپنے ساتھ لے گئی… اور صدیق اکبرؓ
نے سب کچھ لٹایا تو زمین کے خلیفہ بن گئے… بس جیسے ہی انسان ناشکری اور تنگ دلی میں
پڑتا ہے تو اسے ناشکری کا وبال چکھنا پڑتا ہے… پھر یا تو اس کی روزی بند کردی جاتی
ہے… یا اسے خزانے کا سانپ بنادیا جاتا ہے کہ… بس نوٹ گنتا رہے، ان کے کم ہونے پر
جلتا رہے… ان کے زیادہ ہونے پر مزید اضافے کے لئے تڑپتا رہے… ایک انسان کو اﷲ تعالیٰ
’’جماعت‘‘ عطاء فرماتا ہے… اس جماعت کے ذریعے اسے دین کے وسیع کام کی توفیق ملتی
ہے… دنیا آخرت میں عزت کا سامان بنتا ہے… اعمال میں جڑنے کی ترغیب ملتی ہے… اور قیامت
تک کے لئے صدقہ جاریہ چھوڑنے کا موقع ملتا ہے… اچانک شیطان اس پر ناشکری کا حملہ
کرتا ہے… اور اسے جماعت بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے… شیطان اس کے کان میں کہتا ہے کہ
تو تو اکیلا اچھا ہے… تو تو اکیلا بہت کچھ ہے… تو تو اکیلا بڑی چیز ہے… اکیلا ہونے
میں آزادی اور عزت ہے… اور جماعت میں پابندی اور ذلت ہے… تب یہ شخص ناشکری کرتا
ہے… اور اﷲ تعالیٰ کی نعمت ’’جماعت‘‘ سے الگ ہو کر شیطان کا آسان لقمہ بن جاتا ہے…
اور ایک لمحے کے فیصلے سے کروڑوں اربوں نیکیوں سے محروم ہو کر… بے کاری اور غیبت کی
مکھیاں مارنے میں مشغول ہوجاتا ہے… ہم میں سے ہر مرد غور کرے اور ہر عورت غور کرے
کہ… ہم پر اﷲ تعالیٰ کی جتنی بھی ’’اصل نعمتیں‘‘ ہیں… شیطان ان تمام نعمتوں کی قدر
ہمارے دل میں کم کراتا رہتا ہے… اور ہمیں سمجھاتا رہتا ہے کہ… یہ سب کچھ تم پر
بوجھ ہے… تب ہم میں سے کتنے لوگ ’’شیطانی حملے‘‘ سے بچتے ہیں؟… غور کریں تو آیت
مبارکہ کا مطلب آسانی سے سمجھ آجائے گا کہ… قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ
… اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار بندے… احسان ماننے والے بندے تھوڑے ہیں… آج ہماری ’’ناشکری‘‘
کا نتیجہ ہے کہ ہر نعمت ہم سے چھنتی چلی جارہی ہے… اور ہم محروم سے محروم تر ہوتے
چلے جارہے ہیں… اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم اﷲ تعالیٰ سے شکر کی توفیق مانگا کریں…
سنت اور نفل نمازوں کے سجدے میں تڑپ تڑپ کر… بِلک بِلک کر کہا کریں:
اَللّٰہُمَّ
اجْعَلْنِیْ مِنْ عِبَادِکَ الشَّکُوْرِ
اے میرے پروردگار
مجھے اپنے شکر گزار بندوں میں سے بنادے…
اور کہا کریں:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ
اَسْئَلُکَ شُکْرَ نِعْمَتِکَ (کنزالعمال ص۷۹ج۲)
اے میرے پروردگار میں
آپ سے آپ کی نعمتوں پر شکر کی توفیق مانگتا ہوں…
اور کہا کریں:
اَللّٰہُمَّ
اجْعَلْنَا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِہَا قَابِلِیْہَا وَاَتِمَّہَا
عَلَیْنَا…
’’اے ہمارے
پروردگار ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر کرنے والا ان نعمتوں کی قدر کرنے والا ان کا
استقبال کرنے والا بنا اور ان نعمتوں کو ہم پر مکمل فرما‘‘
دراصل شکر ایک بنیادی
نعمت ہے… جس کو یہ نعمت نصیب ہوجاتی ہے اس کے لئے ہر نعمت کا دروازہ کھلتا چلا
جاتا ہے… قرآن پاک جیسی عظیم الشان کتاب کی پہلی آیت میں بھی شکر سکھایا گیا:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… (الفاتحہ)
اس
لئے کہ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار بندے شرک نہیں کرتے… وہ تو ہر چیز میں اﷲ تعالیٰ کی
نعمت کو پہچان لیتے ہیں… اور پھر ان کا دل اﷲ تعالیٰ ہی کے سامنے جھکا رہتا ہے…
نماز جیسی افضل عبادت کے فوراً بعد جو دعائیں سکھائی گئی ہیں… ان میں بھی شکر کی
توفیق مانگی گئی ہے… آپ جانتے ہیں کہ فرض نماز کے فوراً بعد دعاء کی مقبولیت کا
خاص وقت ہوتا ہے… بہت ہی زیادہ خاص… اس وقت جو دعائیں پڑھنا مسنون ہے… ان میں سے ایک
دعاء یہ بھی ہے:
اَللّٰہُمَّ
اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ (ابوداؤد)
اے
میرے پروردگار میری مدد فرما اپنے ذکر پر اپنے شکر پر اور اپنی اچھی عبادت پر…
یہ
دعاء اتنی اہم ہے کہ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ کاہاتھ
پکڑ کر انہیں سکھائی… اور فرمایا اے معاذ مجھے آپ سے محبت ہے میں آپ کو وصیت کرتا
ہوں کہ ہر نماز میں یہ دعاء ضرور کیاکریں…
اب
ہم خود ہی اندازہ لگا لیں کہ شکر کتنی بڑی نعمت ہے… شکر اصل میں دل کے اندر ہوتا
ہے… انسان کا دل اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو محسوس کرنے لگتا ہے… وہ ان نعمتوں کی قدر
کرتا ہے… اور ان نعمتوں کو اپنے اوپر اﷲ تعالیٰ کا احسان اور فضل سمجھتا ہے… دل میں
جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو زبان بھی ساتھ دیتی ہے… یوں شکر زبان سے بھی ادا ہوتا ہے…
اور جب زبان ادا کرتی ہے تو جسم کے سارے اعضاء بھی دل اور زبان کا ساتھ دیتے ہیں
اور انسان اس نعمت کو… اﷲ تعالیٰ کی رضا کے مطابق استعمال کرتا ہے… آپ خود سوچئے
کہ ایک آدمی اگر کسی کو ہر مہینے ایک لاکھ روپے دیتا ہو تو… لینے والا اس آدمی کی
کتنی عزت کرتا ہے… ا س کے دل میں اس کا کس قدر احترام آجاتا ہے… حالانکہ اﷲ پاک نے
ہمیں ایسی بے شمار نعمتیں دی ہیں جن کی کوئی قیمت ادا کرہی نہیں سکتا… اﷲ پاک نے
ہمیں روح عطاء فرمائی ہے… دنیا کا کوئی بادشاہ روئے زمین کے تمام خزانے خرچ کرکے
بھی اپنے مرے ہوئے بیٹے کے لئے روح نہیں خرید سکتا… ایک نابینا شخص اگر اربوں روپے
کا مالک ہو… وہ چاہے گا کہ اپنی ساری دولت دے کر ’’بینائی‘‘ خریدلے… جبکہ اﷲ پاک
نے ہمیں مفت آنکھیں عطاء فرمادی ہیں… الغرض کس کس نعمت کا تذکرہ کیاجائے… ایمان
کتنی بڑی نعمت ہے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونا کتنی بڑی نعمت
ہے… پیاس کے وقت پانی کا ملنا کتنی بڑی نعمت ہے… ہمارے کچھ نوجوان بھائیوں نے اﷲ
تعالیٰ کی نعمت جہاد کی قدر کی… انہوں نے ٹریننگ لی… اور اپنی جان کھانے پینے اور
پیشاب پاخانہ کرنے میں ہی لگائے رکھنے کی بجائے میدانوں میں نکل گئے… ان کی اس شکر
گزاری نے پوری دنیا میں اسلام کو ایک نئی
قوت … اور مسلمانوں کو ایک نئی زندگی بخشی… خود یہ نوجوان، کشمیر، عراق،
افغانستان… اور فلسطین میں شہید ہو کر… جنت کے وسیع محلات، خوشبودار قبروں، مشک
اور عنبر کے پہاڑوں… اور حسن کا شاہکار حوروں کے مالک بن گئے… اور یہاں ان کے خون
نے ایسا رنگ دکھایا کہ اﷲ تعالیٰ کے دشمن پھر ایک دوسرے سے لڑنے پر اتر آئے ہیں…
سوویت یونین کے انحلال کے بعد امریکہ خود کو دنیا کی واحد بڑی طاقت کے روپ میں پیش
کر رہا تھا… مگر جب اسلام کے شکر گزار فدائیوں نے امریکہ کو آئینہ دکھایا تو اب…
روس نے پھر انگڑائی لی ہے… اور روس کا صدر پرسوں اپنی ایک تقریر میں امریکہ پر ایسا
غرّایا ہے کہ مزہ آگیا… حالانکہ امریکہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ… اب قیامت
تک اسے روس سے ایسی زبان سننے کو ملے گی… چنانچہ روسی صدر کا زوردار بیان کئی
گھنٹے تک میڈیا پر اکیلا گونجتا رہا… اور تمام تبصرہ نگار امریکہ کے رد عمل کے
انتظار میں اپنی گھڑیاں دیکھتے رہے… تقریباً پورا دن گزر گیا… امریکہ پر سکتہ طاری
رہا اور بالآخر بارہ گھنٹے بعد ایک پھسپھسا سا بیان جاری ہوا… اﷲاکبرکبیرا … ہمیں
روس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے یہ ملک مسلمانوں کا مجرم اور قاتل ہے… مگر ان دو کفریہ
طاقتوں کا آپس میں پھر سینگ اڑانا… شہداء کرام کے خون کی واضح اور زندہ کرامت ہے…
ادھر وینزویلا کاصدر شاویز بھی جب امریکہ پر برستا ہے تو پنجاب کے جلسے یاد آجاتے
ہیں… فیڈرل کاسترو بوڑھا ہوگیا مگر پھر بھی امریکہ سے نہیں ڈرتا… شمالی کوریا
والوں کو امریکہ نے ڈرایا تو انہوں نے فوراً ایٹمی دھماکہ کردیا… جبکہ چشم بددور
ہمارے حکمران تو امریکہ کے خلاف دھماکہ اور بیان تو درکنار… اس کے ڈرسے وضو بھی
احتیاط سے توڑتے ہیں… ان حکمرانوں کا ہم پر مسلط ہونا بھی ناشکری کی وجہ سے ہے…
افغانستان میں سولہ سال تک جہاد کا بازار سجا رہا… ٹریننگ سینٹر کھلے عام دعوت
جہاد دیتے رہے… مگر پاکستان والوں نے اس دینی سوغات سے فائدہ نہ اٹھایا وہ اپنی
ذات میں مگن رہے یا اس جہاد کو روس امریکہ کی جنگ کہتے رہے… پھر جب افغانستان میں
طالبان منظم ہوئے تو پاکستان کے اہل دین کے لئے متحد ومنظم ہونے کا بہترین موقع
تھا… مگر ناشکری کا وبال غالب رہا اور کوئی بھی اپنی انفرادی اینٹ کو چھوڑنے پر تیار
نہ ہوا… جس کا نتیجہ آج نکل رہا ہے… اور اب بھی بعض لوگوں کی پوری کوشش ہے کہ جو
دوچار افراد متحد ہیں… ان کو توڑ دیا جائے… ان ظالموں کے نزدیک بیعت علی الجہاد
کوئی حیثیت نہیں رکھتی… وہ ’’بیعت‘‘ جس کی بدولت اﷲ تعالیٰ کی نصرت زمین پر اترتی
ہے… جب لوگوں نے اس کی بے قدری کی تو پھر… انہیں کافروں اور منافقوں کا نوکر اور
ترجمان بننا پڑا…
خلاصہ
یہ ہے کہ… ’’ناشکرا‘‘ شیطان ہم پر ’’ناشکری‘‘ کے حملے کرکے… ہمیں ایک ایک نعمت سے
محروم کرتا جارہا ہے… خالص دینی تعلیم کے مدارس پر اب کمپیوٹر کا بخار ہے… دین کی
خاطر آزاد مساجد پر نگرانی اور کنٹرول کے پھندے ہیں… اہل دین علماء پر… دنیاداری،
دنیا پرستی اور حب دنیا کے حملے ہیں… ماضی کی حسین سادگی پر ملمع سازی کے پردے ہیں…
آہ… ہم سے کیا کچھ چھن گیا… اور کیا کچھ چھینا جارہا ہے… مگر اس کے باوجود شکر ہی
کی طرف لوٹنے میں خیر ہے… جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم اس پر شکر ادا کریں… اس کی پوری
پوری قدر کریں… اور اسے ٹھیک ٹھیک استعمال کریں… ہم دنیا کی ہر تکلیف کو عذاب سمجھ
کر… شکوے کے آنسو نہ بہائیں… اور نہ ہی اس دنیا کو ایسا مقصود بنائیں کہ اس کے نفع
ونقصان کے ساتھ ہمارا دل… اور بلڈ پریشر وابستہ ہوجائے… اﷲ تعالیٰ کا شکر اتنی بڑی
نعمت ہے کہ شکر گزار انسان فرشتوں سے بھی بھاری ہوجاتا ہے… روایات میں آیا ہے کہ…
بعض صحابہ کرام نے جب والہانہ الفاظ میں اﷲ تعالیٰ کی حمد کی… اور اس کا شکر ادا کیا
تو فرشتے اس شکر اور حمد کی عظمت کی وجہ سے اسے لکھ ہی نہ سکے… اور اﷲ تعالیٰ کے
پاس پہنچ کر عرض کرنے لگے کہ ہم ان بھاری کلمات کو کس طرح لکھیں…
ایسی
ہی دو دعائیں یہاں عرض کی جاتی ہیں… ہم آج ہی اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرلیں…
کل جب ہم مرجائیں گے تو اعمال کا دروازہ بند ہوجائے گا… اور ایک بار ’’سبحان اﷲ‘‘
کہنے کا موقع بھی نہیں ملے گا… اس لیے شکوے شکایتوں کا رونا بند … حالات پر ماتم
بند… دل ہر طرح کے شکوے سے پاک… چند لمحے کی تنہائی… اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد…
نعمتوں کی کثرت پر بہتے آنسو … اور پھر دل بھی کہے الحمدﷲ… اور زبان بھی پکارے
الحمدﷲ…
پہلی
دعاء
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ حَمْدًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ عَلٰی کُلِّ
حَالٍ حَمْدًا یُوَافِیْ نِعَمَہٗ وَیُکَافِیُٔ مَزِیْدَہٗ (الترغیب والترہیب)
دوسری
دعاء
اَللّٰہُمّ
لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ وَلَکَ الْمُلْکُ کُلُّہٗ وَبِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہٗ
وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ عَلَانِیَتُہُ وَسِرُّہُ لَکَ الْحَمْدُ
اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ اِغْفِرْلِیْ مَا مَضَیٰ مِنْ ذُنُوْبِیْ
وَاعْصِمْنِیْ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ وَارْزُقْنِیْ اَعْمَالًا زَاکِیَۃً
تَرْضٰی بِہَا عَنِّیْ وَتُبْ عَلَیَّ (الترغیب والترہیب)
…آمین یا رب
العالمین…
٭٭٭
اسلام…
بم دھماکے… جمعۃ المبارک
٭ایک پنڈت کا
اسلام کے بارے میں علم
٭ایک ہندو سپاہی
کا دعویٰ کہ وہ بھی ’’جہاد‘‘ کر رہا ہے
٭ فوجی حکمران کی
دین بیزاری اور مجاہدین پراس کے مظالم
٭فوجی حکمران کے
مظالم کے جواب میں ہونے والے دھماکے
٭حکومت کی طرف
سے اسلام، اسلام کی دُہائی
٭کیا حکومت نے
کوئی پالیسی بناتے وقت اسلام کا خیال رکھا؟
٭سرکاری ایجنسیوں
کے عقوبت خانے،
جہاں کے مظالم نوجوانوں کو مرنے مارنے پر
مجبور کرتے ہیں۔
٭مجاہدین کے
چھوٹے چھوٹے گروپ اور ان کا طرز عمل
٭جہاد میں جانے
سے عمر کم نہیں ہوتی… ایک مثال
٭فتنوں سے حفاظت
کے لئے ’’جمعۃ المبارک‘‘ کا نصاب
٭اے مسلمانو!
جمعتہ المبارک کے دن کی قدر پہچانو اور اس دن کی برکتیں حاصل کرو
تاریخ اشاعت ۵؍صفر ۱۴۲۸ھ
بمطابق ۲۳
فروری۲۰۰۷ ء
شمارہ نمبر ۸۵
اسلام… بم
دھماکے… جمعۃ المبارک
اﷲ
پاک ہم سب کو اسلام کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے… آج کل اخبارات میں دو طرح کی خبریں
زوروں پر ہیں… ایک تو ان ’’دھماکوں‘‘ کی خبریں ہیں جن کی شد ّت سے پورا پاکستان
لرز رہا ہے… اور دوسری طرف حکمرانوں کے یہ بیانات ہیں کہ ان ’’دھماکوں‘‘ سے اسلام
بدنام ہورہا ہے… اور دنیا والوں کی نظروں میں پاکستان کا امیج خراب ہورہا ہے… یعنی
ہمارے حکمرانوں کو ان دھماکوں میں بے گناہ مرنے والوں کی اتنی فکر نہیں ہے جتنی
فکر انہیں اسلام کی عزت اور مسلمانوں کے وقار کی ہے… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ
العظیم… ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ’’اسلام‘‘ پر نئے حملوں کا آغاز ہے… برصغیر پر
انگریزوں نے اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لئے ’’اسلامی نظریات‘‘ پر جو حملے کیے
تھے… اب امریکہ بھی اُنہیں تجربات کو آزما رہا ہے… سنا ہے کہ امریکی سفارتخانے کے
اہلکار لاہور اور دوسرے شہروں میں مزاروں کے چکر کاٹ رہے ہیں… اور ایک ’’نئے صوفی
اسلام‘‘ کی تشکیل میں مصروف ہیں… ایسا ’’اسلام‘‘ جو امریکہ کے سامنے سرجھکانے کی
ترغیب دے… اور مسلمانوں کو غیر مسلح کرسکے…
ش ش کیا وقت آگیا ہے… اے رب کریم ہمارے دین اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرما…
اپنے حکمرانوں کی زبان سے ’’اسلام کی بدنامی‘‘… اور ’’اسلام کی درست تشریح‘‘ جیسے
الفاظ سن کر مجھے دو واقعات شد ّت سے یاد آرہے ہیں…
جموں
کی ایک جیل میں ہمارا تیسری بار ’’انٹروگیشن‘‘ ہورہا تھا… تفتیشی افسر بچپن سے لیکر
جوانی تک کے تمام حالات پوچھتے تھے… ان دنوں چوبیس گھنٹے ہتھکڑی لگی رہتی تھی…وہ
بہت عجیب دن تھے… کمانڈر سجاد خان شہید، کمانڈر نصراﷲ منصور حفظہ اﷲ تعالیٰ اور دیگر
کئی رفقاء کرام سب زیرِ تشدد اور زیرِ تفتیش تھے… اس جیل میں خفیہ پولیس کا ایک
پنڈت اہلکار بہت متعصب اور بدزبان تھا… اس کے ذمے ہمارے بیانات کو ٹائپ کرنے کا
کام تھا… ایک بار میری تفتیش چل رہی تھی… ایک کرسی پر تفتیشی افسر ہاتھ میں ڈنڈا لیے
بیٹھا تھا… جبکہ دوسری میز کرسی پر وہ پنڈت میرا سابقہ بیان ٹائپ کر رہا تھا… بیان
ٹائپ کرتے ہوئے وہ اچانک میری طرف مڑا اور چیخ کر کہنے لگا… تو نے شادی تو کی نہیں
پھر حج کیسے کرلیا؟… تیرا حج نہیں ہوا… اسلام میں شادی سے پہلے حج جائز نہیں ہے… میں
نے کہا تمہیں کس نے یہ غلط مسئلہ بتایا ہے؟… کہنے لگا مجھے اسلام کا علم ہے محمد
صاحب (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ شادی سے پہلے حج نہیں ہوتا… اس کی یہ بات
سن کر میرا پارہ چڑھ گیا… اور میں نے ہتھکڑی اور ڈنڈے کی پرواہ کیے بغیر اسے سختی
سے کہا… اسلام کے بارے میں زیادہ منہ نہ مارو… خاموشی سے بیان ٹائپ کرو… تمہارا
اسلام سے کیا واسطہ… اور معلوم نہیں میں نے غصے میں اور کیا کچھ کہا تو وہ خاموش
ہوگیا… اور آہستہ آواز میں گالیاں دے کر بیان ٹائپ کرنے لگا…
دوسرا
واقعہ بھی جموں کا ہے… مجھے جب پیشی کے لئے دو چار بار عدالت لے گئے تو وہاں لوگوں
کا رش لگ جاتا تھا… کوئی تعویذ کی فرمائش کرتا تھا تو کوئی دم کرانے کی… لوگوں کی
دیکھا دیکھی پولیس والوں کو بھی شوق چڑھ جاتا اور وہ بھی میرے کان کے قریب منہ
کرکے اپنے مسائل بتانے لگتے… پولیس کا ایک ہندو اہلکار میری ہمدردی لینے کے لئے
کہنے لگا… جناب ہم بھی تو ’’جہاد‘‘ کر رہے ہیں… سارا دن وردی پہن کر ڈیوٹی دیتے ہیں…
اور لوگوں کی حفاظت اور سیوا (خدمت) کرتے ہیں… یہ جہاد نہیں تو اور کیا ہے؟… آج جب
میں اپنے حکمرانوں کی زبان سے اسلام اور جہاد کا نام سنتا ہوں تو مجھے پنڈت کا
’’اسلام‘‘ اور ہندو کا ’’جہاد‘‘ یاد آجاتا ہے… ہمارے حکمران حضرات نے کب اور کون
سا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سوچا کہ… اسلام کا اس بارے میں کیاحکم ہے؟… مگر اب یہ
لوگ بدحواس ہوچکے ہیں اور انہیں بھی سمجھ آچکا ہے کہ اسلام کا نام لیے بغیر گزارہ
نہیں ہوسکتا… حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ آپ نے اب تک جو فیصلے کیے… ان کا اسلام
سے کوئی تعلق نہیں تھا… آپ نے امریکہ کی صلیبی جنگ میں اس کا ساتھ دیا… آپ نے اپنی
بغل میں کتے اٹھا کر فخر کیا… آپ نے ناچ گانے اور فحاشی کی سرپرستی کی… آپ نے سینہ
ٹھونک کر بسنت کا تہوار منایا… آپ نے کھلم کھلا حدود اﷲ کے خلاف زبان چلائی… آپ نے
مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا… آپ نے مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کرکے انعامات لیے…
آپ نے مساجد کو شہید کیا… آپ نے مدارس پر بمباری کی… آپ نے داڑھی اور برقعے کا ہر
روز مذاق اڑایا… آپ نے جہاد کو دہشت گردی قرار دیا… اور آپ نے بارہا کہا کہ ہم امریکہ
اور یورپ کی نظروں میں مقبول ہونا چاہتے ہیں… الغرض آپ نے ہر کام اپنی ذات، اپنے
مفاد اور اپنی سوچ کے تحت کیا… اب جن لوگوں کو آپ نے ستایا تو ان میں سے بھی بعض
آپ کی طرح کے ہتھکنڈوں پر اتر آئے … انہوں نے پورے ملک میں دھماکوں کا جال بچھادیا…
اور یہ بھی نہ دیکھا کہ کون کس کو مار رہا ہے… ان لوگوں کی اس روش کو دیکھ کر آپ
بوکھلا گئے… اور اب آپ کو اسلام کی عزت اور بدنامی کا مسئلہ یاد آرہا ہے…
کاش
پالیسیاں بنانے… اور حرام نوٹوں کے انعامات سے جیب بھرنے سے پہلے آپ اسلام اور
قرآن کی طرف دیکھ لیتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی… ہم نے بہت پہلے عرض کردیا تھا …کہ آپ
لوگ بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر انگاروں سے کھیل رہے ہیں… مگر آپ نے اس وقت ہماری
بات کا مذاق اڑایا تھا… اور کہا تھا کہ آپ لوگ دھمکیاں دے رہے ہیں… ہم ہر کسی سے
نمٹنا جانتے ہیں… ہم نے بہت پہلے عرض کیا تھا کہ… منظم جہادی تنظیموں کو توڑوگے تو
بے شمار چھوٹے گروپ وجود میں آئیں گے… اور ان گروپوں پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا…
مگر آپ نے ایک نہ سنی اور پوری دہشت گردی کا مظاہرہ کرکے تنظیموں کو توڑا اور ستایا…
اور اس کے بدلے گوروں سے شاباش وصول کرکے خوشی منائی… اب پورے ملک میں سینکڑوں تنظیمیں
ہیں اور سینکڑوں امیرالمؤمنین… بے شمار لوگوں نے دودو چار چار افراد کو اپنے ساتھ
جوڑ کر ان سے مرنے مارنے اور اپنی اطاعت کرنے کے حلف لے لیے ہیں… ان ’’امیروں‘‘ میں
سے اکثر کمپیوٹر کے کھلاڑی ہیں… جو سی ڈیز دیکھ کر مجاہد بنے… اور ویب سائٹوں سے
انہوں نے تربیت حاصل کی… ان لوگوں کو بھی حکمرانوں کی طرح اسلام اور جہاد کی پوری
سمجھ نہیں ہے… مگر وہ کمپیوٹر کے زعم میں خود کو امام اور خلیفہ سمجھتے ہیں… اور
جب انہیں کوئی سادہ دل نوجوان مل جاتا ہے تو اس کے جسم سے دوچار گرینیڈ باندھ کر
اسے آگے روانہ کردیتے ہیں… ان میں سے بعض لوگ اغوا برائے تاوان کا جرم بھی کر
گزرتے ہیں… کیونکہ وہ کمپیوٹر پر وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جو انہیں پاگل بنانے کے لئے
کافی ہے… تلواروں سے کٹتے مسلمان… بے آبرو ہوتی معصوم بہنیں… تڑپتے ہوئے بچے… اور
ملبوں کے نیچے دبے ہوئے بوڑھے مسلمان… ماضی میں جہادی جلسے ہوتے تھے… مدارس میں
جہاد کی بات ہوتی تھی تو ان جذبات کو… اسلام کے مطابق ڈھال لیا جاتا تھا… ان
نوجوانوں کوسمجھایا جاتا تھا کہ… بے گناہ کو …مارنا کتنا بڑا جرم ہے… ان نوجوانوں
کو بتایا جاتا تھا کہ… ظلم جتنا بھی ہوجائے مگر ہم اﷲ تعالیٰ کے احکامات کے پابند
ہیں… اور ہم اسلامی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتے … حکومت نے جہادی جلسے بند کرادئیے
… جہاد کی بات پر پابندی لگادی تو اب جس کو جو سمجھ آرہا ہے وہ کر رہا ہے… اور ابھی
تو آغاز ہے آگے آگے دیکھئے… حالات کی آگ کہاں تک پہنچتی ہے… اس لیے کہ حکومت نے اب
بھی اپنا طرز عمل نہیں بدلا… اب بھی وہی سخت زبان ہے… اب بھی ہر طرف پولیس گردی کی
دہشت ہے… اب بھی خفیہ ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں گمنام چیخیں ہیں… اور اب بھی ہر
داڑھی والا… اور ہر نمازی مشکوک ہے… اس لیے اب جو بھی حملہ یا دھماکہ ہوتا ہے اس
کا قصوروار نہ تو اسلام ہے اور نہ جہاد… ان حملوں کی ترغیب خود حکومت کی پالیسیوں
نے دی ہے… اور ان حملوں کے لئے ماحول خود حکومت ہی نے بنایا ہے…چنانچہ اسلام اور
جہاد کی بدنامی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… ہمارے حکمرانوں نے کبھی اسلام کو
پڑھنے اور سمجھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی… یہ لوگ کسی کو وضو تک نہیں سکھا سکتے…
اور نہ دو رکعت نماز کی امامت کراسکتے ہیں… یہ لوگ فخر کے ساتھ نماز چھوڑتے ہیں…
اور روزے کھاتے ہیں… حج نہیں کرتے… زکوٰۃ کی جگہ سود کے نظام کو مسلط کرتے ہیں…
اور جہاد کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں… اب ان لوگوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اسلام
کے حوالے دے کر کسی کو کچھ سمجھائیں… یا کسی کو کسی کام سے روکیں… آپ کے پاس طاقت
ہے… آپ وہ استعمال کر رہے ہیں… اور جن لوگوں کو آپ نے ستایا وہ اپنی طاقت استعمال
کر رہے ہیں… اسلام کا خیال نہ آپ نے رکھا نہ وہ صحیح طور پر رکھ رہے ہیں… آپ نے ان
پر ظلم کیا… اب وہ آپ پر کر رہے ہیں… اور اب آپ نے ان کو ڈھونڈنے کے لئے مزید
مظالم کا پیکج تیار کیا ہے… ان مظالم کے نتیجے میں مزید ظلم وجود پائے گا… اور
’’ہرج‘‘ کا وہ ’’فتنہ‘‘ سامنے آجائے گا… جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ… قاتل کو پتا نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا
ہے… اور مقتول کو علم نہیں ہوگا کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے… حکمرانوں کو اگر عالمی
برادری کی پوجا سے فرصت ملے تو کبھی اپنے تفتیشی مراکز کا دورہ کریں… جہاں دن رات
خود کش حملہ آور تیار کیے جاتے ہیں… ماں کی گالی، بہن کی گالی… نماز پڑھنے کی
اجازت مانگنے پر نعوذباﷲ نماز کو گالی… جسموں سے اترے کپڑے… بے حیائی پر مبنی
تشدد… اور فرقہ وارانہ باتیں… جو شخص بھی چند ماہ اس طرح کی کسی جہنم میں گزار کر
باہر آتا ہے… وہ ایک لمحہ بھی اس دنیا میں زندہ نہیں رہنا چاہتا… ان لوگوں کو
سمجھایا جائے تو کہتے ہیں … کل کوئی دھماکہ ہوگا تو سب سے پہلے ہمیں ہی اٹھایا
جائے گا… پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے تو تعداد پوری کرنی ہوتی ہے… اور جن لوگوں کا
نام ایک بار ان کی فہرست میں آجائے… وہی سب سے پہلے اٹھائے جاتے ہیں… تو جب ہم نے
بے گناہ ماریں کھانی ہیں… غلیظ گالیاں سننی ہیں… بے ہودہ زبانیں سہنی ہیں تو اس سے
اچھا ہے کہ ہم خود ہی مرجائیں… ہزاروں شریف اور غیرتمند لوگ پولیس اور ایجنسیوں کے
اس ظلم سے بچنے کے لئے ملک بھر میں چھپتے پھر رہے ہیں… یہ غیور لوگ گالیاں نہیں
سہہ سکتے… تب حکومت کے عقلمند لوگ مونچھوں پر تاؤ دے کر کہتے ہیں… یہ جو سامنے نہیں
آرہے یہ ضرور کسی جرم میں ملوث ہوں گے … سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم … ملک کے
یہ مونچھوں والے محافظ بہت لاڈلے ہیں… وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ستاتے رہیں… اور
لوگ ان کے سامنے سرجھکا کر پیش ہوتے رہیں… اور ان کے وحشیانہ اور غلیظ مظالم سہتے
رہیں… انہیں لوگوں کے رویے کی وجہ سے پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہوا… انہیں لوگوں
کے رویے کی وجہ سے بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوا… اور اب یہی لوگ
کشمیری مہمانوں کو اپنے پروٹوکول کے جوتوں تلے روند کر انہیں بھی اپنا دشمن بنانے
پر تلے ہوئے ہیں… میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اپنا رویہ ٹھیک کرلیں… اپنا
لہجہ ٹھیک کرلیں… ہر مسلمان کو شک کی چبھتی نگاہوں سے دیکھنا چھوڑ دیں… غیروں کے
مفادات کے لئے اپنوں کو ذبح کرنا چھوڑ دیں تو حالات میں بہت مثبت تبدیلی آسکتی ہے…
مگرہدایت تو قسمت والوں کونصیب ہوتی ہے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کی قسمت اچھی کرے… اس وقت
ملک کے حالات حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں… ستائے ہوئے لوگ بے شمار گروپوں میں
بٹ گئے ہیں… غیر ملکی دباؤ اسی بات کے لئے بڑھتا جارہا ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں…
وزیرستان کا معاہد توڑنے کے لئے امریکہ سے واضح احکامات آچکے ہیں… یوں سمجھ لیں ایک
کالی آندھی ملک پر مسلط ہوچکی ہے… حکمرانوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ حالات کو
درست کرنے کی کوئی مثبت کوشش کریں گے… کیونکہ یہ لوگ مکمل طور پر غیر ملکی طاقتوں
کے دباؤ میں ہیں… ان حالات میں ہم اﷲ تعالیٰ ہی سے رہنمائی، عافیت اور استقامت کا
سوال کرتے ہیں… اور اسی سے مدد مانگتے ہیں:
نَسْتَعِیْنُ
بِاﷲِ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ… حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ وَلاَ حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمُ…
اب
اس بات کا خدشہ بھی بڑھ چلا ہے کہ شاید حکمران… بوکھلا کر ملک کے دینی طبقے کو مزید
تنگ کریں… اور ملک کو مزید انارکی میں دھکیلیں… اس پر ڈرنے کی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ
کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے… انسان کے ساتھ وہی کچھ پیش آتا ہے جو اس کی قسمت میں
لکھا ہوتا ہے… اس لیے امن کی خاطر دین سے دستبردار نہ ہوں… اور جہاد کے ساتھ بے
وفائی نہ کریں… ہم سب اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ایک دوسرے کے لئے استقامت کی
دعاء کریں… جہاد کا برملا اعلان کرنے والے بھی اپنے وقت پر ہی مرتے ہیں… اور جہاد
کے منکروں کو بھی موت اپنے وقت پر آدبوچتی ہے… جہاد کے خلاف زبردست مہم چلانے والے
ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر کا حال ہی میں جواںسالی کی عمر میں انتقال ہوا ہے… مفتی
نظام الدین شامزئی شہیدؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ… جہاد کے نعرے لگاتے ہوئے
بھی باون سال کی عمر جی گئے… اور پھر شہادت کی زندگی پا گئے… مگر جہاد کے خلاف سر
توڑ مہم چلانے والے اخبار کے ایڈیٹر صاحب سینتیس سال کی عمر میں چل بسے… مجھے ان کی
موت پر دکھ ہوا… اﷲ تعالیٰ ان کے ساتھ اپنے رحم کا معاملہ فرمائے… امریکی اہلکار
’’نیاصوفی اسلام‘‘ متعارف کرانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں… جس اسلام کا پہلا رکن
انکار جہاد… یا تحریف جہاد ہے… اس لیے خانقاہوں والے ہوشیار رہیں اور اسلام کے سچے
صوفیاء کرام کی طرح جہاد کی دعوت کو اپنے بیانات کا حصہ بنائیں… اور عام مسلمان ان
لوگوں سے دور رہیں جو بزرگی اور تصوّف کی آڑ میں اسلام کے اہم فریضے جہاد کا انکار
کرتے ہوں… اسی طرح مسلمان شرک اور قبر پرستی سے بھی بچیں… اور حقیقی اولیاء کرام
سے خوب محبت رکھیں… جمعۃ المبارک کا دن… الحمدﷲ… ہم مسلمانوں کے پاس فتنوں سے بچنے
کا بہترین ذریعہ ہے… اس لیے جمعۃ المبارک کے دن کو قیمتی بنالیں… تب کوئی امریکی یا
کوئی انگریز بھیس بدل کر ہمیں دھوکا نہیں دے سکے گا… برٹش آرمی کا ایک مشہور کرنل
لاہور میں کتنا عرصہ تک نقلی ’’شاہ جی‘‘ بن کر مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہا… حق کی
پہچان دوچیزوں میں ہے ایک دین کا علم اور دوسرا جہاد فی سبیل اﷲ… جن کے پاس یہ دو
چیزیں ہوں وہی اﷲ تعالیٰ کے سچے ولی ہوتے ہیں… اور جو جہاد کے منکر ہوں ان کا تو
مسلمان ہونا بھی یقینی نہیں ہے… جمعۃ المبارک کے دن سب سے پہلے سورۃ الکہف … یا اس
کی پہلی اور آخری دس آیات کی تلاوت کرلی جائے… یہ مسنون عمل دجّالی فتنوں سے حفاظت
کا بہترین ذریعہ ہے… پھر نماز جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی خرید وفروخت اور تمام کام
چھوڑ کر مسجد کی طرف جلدی جانا چاہئے… اس سے ’’حب دنیا‘‘ کے سانپ کو شکست ملے گی…
جمعہ کے خطبہ کے دوران پوری توجہ سے وعظ سننا چاہئے… اس سے دین کا علم نصیب ہوگا…
دونوں خطبوں کے درمیان دعاء مانگنی چاہئے… اس سے دنیا آخرت کی خیریں نصیب ہوں گی…
جمعہ کے لیے جاتے یا آتے وقت کچھ صدقہ دیا جائے … اس سے مال کی محبت کم ہوگی… اور
مصیبتیں ٹلیں گی… جمعہ کی نماز پہلی صف میں اداء کریں… اس سے مقبول صدقے کا اجر
ملے گا… عربی خطبہ بھی پوری توجہ، ادب اور اہتمام سے سنیں… اس سے فرشتوں کی خاص
رفاقت نصیب ہوگی… جمعہ نماز کے بعد… سورۃ فاتحہ، اور چاروں قل سات سات بار پڑھ لیں…
اس سے اگلے جمعہ تک شیطان سے انشاء اﷲ حفاظت رہے گی… جمعہ کے دن عصر تا مغرب کا
وقت درود شریف، عبادت اور دعاء میں گزاریں تو بے شمار خیریں نصیب ہوں گی… دراصل
جمعہ کا دن ہمیں دین کے ساتھ جمع کردیتا ہے یعنی اچھی طرح جوڑ دیتا ہے… اس دن کے
غسل کی بھی کافی فضیلت ہے اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے… کتابوں میں لکھا ہے کہ…
ماضی کے مسلمان جمعۃ المبارک کی فضیلت، مقام اور اہمیت سمجھتے تھے جس کی وجہ سے وہ
دس گیارہ بجے ہی غسل کرکے مسجد کی طرف چل پڑتے تھے… چنانچہ بارہ بجے کے قریب مساجد
کے راستے لوگوں کے رش کی وجہ سے بند ہوجاتے تھے… اﷲ اکبر کبیرا… آج ہم لوگوں کا کیا
حال ہے؟… جمعہ کے دن کو ضائع کرنے کی وجہ سے ہم فتنوں کا شکار ہو رہے ہیں… ہمیں
چاہئے کہ ہم جمعۃ المبارک کے دن کا پورا ’’اسلامی نصاب‘‘ اپنا کر… ایک ہفتے کے لئے
اپنے ایمان اور دل کی بیٹری کو چارج کرلیا کریں… اور سارا دن نماز، تلاوت، ذکر،
درود شریف، صدقہ، تعلیم وتعلم… اور دعوت جہاد اور دعوت خیر میں گزارا کریں… تب ان
شاء اﷲ کوئی امریکی، برطانوی… اور نفاقی مذہب… اسلام کے نام پر ہمیں گمراہ نہیں
کرسکے گا…
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا دَائِمًا۔ وَاَسْئَلُکَ قَلْبًا خَاشِعًا۔
وَاَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا۔ وَاَسْئَلُکَ یَقِیْنًا صَادِقًا۔ وَاَسْئَلُکَ
دَوَامَ الْعَافِیَۃِ وَاَسْئَلُکَ الشُّکْرَ عَلَی الْعَافِیَۃِ۔ وَاَسْئَلُکَ
الْغِنٰی عَنِ النَّاس۔
آمین
یارب العالمین
وصلی
اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
٭٭٭
بسنت نہیں میوے
٭ ایک گمراہ
عورت نے اخبار میں حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کے خلاف مضمون لکھا…اس مضمون کے بعض
مندرجات کا جواب
٭ ٹی وی کے ذریعہ
اسلامی شخصیات کو بھیانک دکھانے کا سلسلہ جاری ہے، مسلمان ہوشیاررہیں۔
٭ پاکستان میں ایک
سوچی سمجھی تدبیر کے تحت’’ ہندوثقافت‘‘ کو عام کیا جا رہا ہے۔
٭بسنت میں قیامت
کی خوفناک علامات
٭پاکستان میں
قائم انڈین سفارتخانے کی ایمان کُش سرگرمیاں
٭مسلمانوں کو
مسجد کی طرف لوٹنے کی دعوت
٭خواتین جنت کے
پھل کیسے کھائیں؟
تاریخ
اشاعت ۱۳؍ صفر ۱۴۲۸ھ
بمطابق
۲ مارچ ۲۰۰۷ء
شمارہ
نمبر ۸۶
بسنت نہیں میوے
اﷲ
تعالیٰ کے پیارے اولیاء سے محبت ایمان کی علامت ہے… جب دنیا میں بدی اور برائی کا
غلبہ ہونے لگتا ہے تو نیک لوگوں کو بدنام کیا جاتا ہے… تاکہ لوگ ان سے محبت نہ کریں
اور نہ ہی نیکی کے راستے میں کوئی کشش محسوس کریں… میں کئی سال تک انڈیا میں رہا
وہاں مسلمانوں کے نامور بادشاہ حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کے خلاف باقاعدہ ذہن سازی کی
جاتی ہے… اخبارات میں اب بھی ان کے خلاف مضامین چھپتے ہیں… سنا ہے کہ کئی فلمیں بھی
ان کے حسین کردار کو بدنما دکھانے کے لئے بنائی گئی ہیں… ہندو لیڈر اورنگزیب کے
لفظ کو گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں… کسی بھی شخص کو برا بتانا ہو تو کہا جاتا
ہے کہ اس میں اورنگزیب کا خون آگیا ہے… اورنگزیب کے خلاف ہندوستان میں جاری یہ
پروپیگنڈہ تو سمجھ میں آتا ہے… کیونکہ اورنگزیبؒ ایک پکے سچے مسلمان تھے اور انہوں
نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج اور تنفیذ کے لئے کافی کام کیا… ہندوؤں کے نزدیک
اورنگزیبؒ کا یہ جرم ناقابل معافی ہے… مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی
کچھ عرصہ سے اورنگزیب عالمگیرؒ کے خلاف اخبارات میں ایک منفی مہم چل نکلی ہے… کالے
دانتوں والی بعض پان خور عورتوں نے ان کے خلاف مضمون لکھے ہیں… روشن خیالی کی کیچڑ
سے بعض مورخ بھی پھن اٹھا کر نکل آئے ہیں… ان کے نزدیک اکبر بادشاہ ہیرو اور
اورنگزیب ظالم تھا… یہ مورخ غزنویؒ، غوریؒ اور ان سے پہلے محمد بن قاسمؒ کے خلاف
بھی دھڑا دھڑ لکھ رہے ہیں… بلکہ صورتحال کچھ ایسی بن چکی ہے کہ… اخبارات کے کالم
پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پر ہندوؤں کا قبضہ ہوچکا ہے… اور پاکستان
بھارت کا ایک صوبہ بن چکا ہے… اورنگزیب عالمگیرؒ مسلمانوں کے قابل فخر حکمران تھے…
اگر آپ نے ان کے بارے میں ٹھیک ٹھیک جاننا ہو تو… مورخ اسلام حضرت مولانا محمد میاں
صاحبؒ کی کتاب ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ کی جلد اوّل کا مطالعہ کریں… اورنگزیبؒ
پر جتنے بھی اعتراضات آج دہرائے جارہے ہیں ان سب کا جواب آپ کو اس کتاب میں مکمل
تفصیل کے ساتھ مل جائے گا… صاحب فضائل القرآن لکھتے ہیں…
’’اورنگزیب
عالمگیرؒ ہندوستان کے بادشاہ گزرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو بارہ ہزار احادیث مع
السند یاد تھیں۔ قرآن کریم حفظ تھا۔ علوم دینیہ پر کامل عبور تھا۔ بخارا اور ہرات
سے لیکر برما تک ان کی سلطنت تھی۔ ہندوستان اور پاکستان سب اس میں شامل تھے۔ اتنی
بڑی سلطنت کے باوجود فرض نماز تو کجا تہجد بھی کبھی ناغہ نہ ہوئی۔ عالمگیرؒ ہی کا
ارشاد ہے کہ ’’وہ شخص (پکاسچا) مسلمان نہیں جو نماز فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت
نہ کرے۔‘‘ (فضائل القرآن ص۱۳۶۹)
اورنگزیبؒ
اپنے ہاتھ سے قرآن پاک کی کتابت فرمایا کرتے تھے میں نے کراچی کے ایک سید صاحب کے
پاس اورنگزیبؒ کا کتابت کردہ قرآن پاک کا اصل نسخہ خود دیکھا ہے… ماشاء اﷲ کیا خوب
اور عمدہ خط تھا… آج کل کے کمپیوٹروں کا خط تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے…
اس زمانے میں اورنگزیبؒ کے دشمن مورخین بھی کہا کرتے تھے کہ اس شخص کے اعصاب لوہے
کی تاروں سے بنے ہیں کہ عین جنگ کے دوران باجماعت نماز ادا کرتا ہے… اورنگزیبؒ کی
داستان بہت میٹھی اور لذیذ ہے… مگر مجھے آج یہ داستان بیان نہیں کرنی بلکہ اس
طوفان کی طرف اشارہ کرنا ہے… جو روشن خیالی کے نام پر ہم مسلمانوں سے ان کا ماضی
تک چھین لیناچاہتا ہے…
مجھے
یقین ہے کہ بہت سے ٹی وی چینل بھی… مسلمانوں کی عظیم ہستیوں کو بدنام کرنے کا
مکروہ کام سرانجام دے رہے ہوں گے… اﷲ پاک کا شکر ہے کہ میرے پاس ٹی وی نہیں ہے…
دراصل تصویر انسان کے دل ودماغ پر بے حد اثر کرتی ہے… ٹی وی دیکھنے والے لوگوں کو
نمازمیں بھی طرح طرح کی تصویریں ہی نظر آتی ہیں… اور ٹی وی کافروں کا کام آسان کردیتا
ہے… بس کوئی گندی شکل والا بھیانک شخص کھڑا کردیا جائے… اور ٹی وی کے کسی ڈرامے میں
اسے اورنگزیب عالمگیرؒ قرار دے دیا جائے… اب جو بچہ اور جوان اسے دیکھے گا اس کے
دماغ میں مسلمانوں کے ایک عظیم حکمران اور دینی رہنما کا غلط منظر راسخ ہو جائے
گا… انڈیا والوں نے یہی کیا کہ اورنگزیبؒ پر فلمیں بنائیں اور اس میں ان کی شکل
بہت بھیانک دکھائی… بظاہر یہ معمولی بات ہے… مگر حقیقت میں یہ بہت بھاری فتنہ ہے… یہ
ہم مسلمانوں کے پاکیزہ خیالات کو گدلا اور خراب کرنا چاہتے ہیں… اورنگزیب مغل تھا…
مغلوں کا حسن دنیا میں مشہور ہے… اس کا چہرہ عبادت وریاضت کے نور سے منور تھا…
مسلمان عبادت گزار تو سنگ مرمر کی مورتیوں سے زیادہ حسین اور ملیح ہوتے ہیں… پھر
وہ ایک بہادر، طاقتور اور جنگجو انسان تھا… بہت کم عمری کے زمانے میں اس نے ایک
بدمست ہاتھی کا مقابلہ کیا اور اسے مار دیا… وہ جنگ کے میدان میں گھمسان کی لڑائی
کے وقت ناشتہ کرتا تھا اور نماز ادا کرتا تھا… ایسے جوان تو خوابوں سے بھی زیادہ
حسین ہوتے ہیں… فلمیں دیکھنے والے فارمی انڈوں کو کیا پتہ کہ سنت اور شجاعت والا
مردانہ حسن کتنا دلکش ہوتا ہے… مگر ٹی وی کا فتنہ بہت خطرناک ہے… ہمارے مسلمانوں
کے دماغ میں نعوذباﷲ رام اور ہنومان کے عکس بٹھائے جارہے ہیں… وہ انڈین فلموں میں
بھگوان کو گالیاں کھاتا دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کے دل سے اﷲ پاک کی عظمت نکل
جاتی ہے… وہ لکشمی دیوی کے حسن کے پجاری بنتے جارہے ہیں… اور ہندو ثقافت ان کے دل
ودماغ پر حاوی ہوتی جارہی ہے…
آخر
یہ بسنت کیا ہے؟… ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے سالہا سال ہوچکے ہیں … مگر اس
’’ہندوساز‘‘ حکومت سے پہلے کبھی ہم نے بسنت کا یہ شور نہیں سنا تھا… غافل لوگ کچھ
نہ کچھ مستی ضرور کرتے تھے مگر… سرکاری سرپرستی میں اتنا جشن… اتنا شور کبھی سنائی
نہیں دیتا تھا… اور اس بات کا تو تصور بھی نہیں تھا کہ ملک کا صدر خود ان تقریبات
کا ’’دیوتا‘‘ بن کر لاہور میں موجود ہوگا… اور لاہوری اس کے چرنوں (قدموں) میں انیس
مسلمانوں کی بلی (قربانی) چڑھائیں گے… یہ دراصل پاکستان کو ہندوستان کا حصہ بنانے
کی ایک کوشش ہے… اسی کوشش کے تحت سرحدوں پر جنگ بندی نافذ ہے… اسی کوشش کے تحت
نصاب تعلیم میں ہندو رہنماؤں کا تعارف شامل کیا جارہا ہے… اسی کوشش کے تحت
بھانڈوں، کنجروں، میراثیوں کا سرحد کے آر پار آنا جانا لگا ہوا ہے… اسی کوشش کے
تحت اخبارات میں منفی مضامین لکھوائے جارہے ہیں … اور اسی کوشش کے تحت بسنت کے
تہوار کو ’’عیدین‘‘ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ منایا جارہا ہے… معلوم نہیں ہم پاکستان
کے مسلمانوں نے کون سا ایسا جرم کرلیا ہے کہ اب ہماری حکومت اس ملک کو ہندوستان کا
حقیر سا صوبہ بنانے پر تُلی ہوئی ہے… آپ حیران ہوں گے کہ بسنت کے موقع پر اسلام
آباد کا انڈین سفارتخانہ بے حد مصروف ہوتا ہے… یہی سفارتخانہ لاہور کے غافلوں کو
شراب اور دیگر نجاستیں فراہم کرتا ہے… اﷲ اکبر کبیرا… عجیب حالات آگئے ہیں کہ کشمیری
مجاہدین پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں… اور اب ان کی تمام قیادت کو گرفتار کرنے کے
پروگرام ہیں جبکہ… انڈین سفارتخانہ مکمل آزادی کے ساتھ پاکستانیوں کے رابطے میں
ہے… اور اسی کی نگرانی میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے… چلیں اگر اس بحث کو چھوڑ
بھی دیں کہ بسنت ہندوؤں کا تہوار ہے یا کوئی موسمی میلہ… تب بھی صرف بسنت کے انداز
کو دیکھ لیں… قیامت کی کونسی علامت ہے جو وہاں نہیں ہوتی… الامان الامان… منافقت کی
کونسی نشانی ہے جو وہاں نظر نہیں آتی… الامان الامان… اور کافروں کا کونسا طریقہ
ہے جو وہاں زندہ نہیں ہوتا… الامان الامان… لاہوری مسلمان اگر عمومی عذاب سے بچنا
چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ کم از کم ایک خاموش مظاہرہ ہی بسنت کے خلاف کر ڈالیں…
تاکہ اس بات کا پتہ تو چلے کہ اس بستی میں اﷲ تعالیٰ کے کچھ وفادار بندے بھی ہیں…
اگر چند ہزار افراد بھی کسی جگہ جمع ہو کر صرف اتنا اعلان کریں کہ… کفر وفساد کے
اس تہوار سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے… یہ بسنت کلاشنکوف اور ٹی وی کے زور پر منوائی
گئی ہے… اور پھر یہ چند ہزار افراد آنکھوں میں آنسو لے کر اﷲ تعالیٰ کے حضور توبہ
کریں، استغفار کریں… توبہ ربّا توبہ… معافی ربّا معافی… لاہور والو یاد رکھو… اس
قدر کھلم کھلا گناہوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہ کرنا… اﷲ تعالیٰ کے عذاب
کو زمین پر لاسکتا ہے… واہگہ بارڈر زیادہ دور نہیں ہے… اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا
رکھنے والے فوجی لاہور پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں… ہمارے ملک کے محافظ اپنوں کو مارنے
میں مصروف ہیں… کشمیری مجاہدین جو پاکستان کی ڈیفنس لائن تھے زخمی زخمی ہیں…
افغانستان کے ایک بڑے حصے پر ’’را‘‘ کا قبضہ ہے… متعصب ہندوؤں نے سمجھوتہ ایکسپریس
پر حملہ کرکے ساٹھ مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشوں کا تحفہ بھیج دیا ہے… ملک کے خفیہ
ادارے کشمیری مجاہدین کو پکڑنے کے لئے اپنی فہرستوں کو آخری شکل دے رہے ہیں… انڈین
حکمران پاکستان پر قبضے کے خواب دیکھ کر… صبح کا ناشتہ امرتسر اور دوپہر کا کھانا
لاہور میں کھانے کی بات کر رہے ہیں… پاکستان جل رہا ہے… اور ملک کا سپہ سالار پتنگ
اڑا رہا ہے… بسنت منا رہا ہے… اور مسلمانوں کو تھوک کے حساب سے گالیاں دے رہا ہے…
ان حالات میں ہم پاکستان کے مسلمانوں کا اﷲ تعالیٰ کے سوا کونسا سہارا ہے… بسنت کی
بدبو عذاب کو بلا رہی ہے… اس لیے ہم اﷲ تعالیٰ کو منالیں… اور روشن خیالی کے تمام
ناپاک اقدامات سے کھلم کھلا برأت کا اعلان کریں… ہم گذشتہ سات سالوں میں یہی دیکھ
رہے ہیں کہ جس کسی نے بھی اپنا دین پیچھے رکھ کر اس حکومت کا ساتھ دیا وہ ضرور ڈسا
گیا… روشن خیالی کا عفریت خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ چالاک بھی ہے… وہ ایک ایک کرکے
اور الگ الگ کرکے دین کے نشانات کو کھا رہا ہے مٹا رہا ہے… اس لیے اب اپنے
’’بچاؤ‘‘ کا وقت نہیں دین اور شعائر دین کی حفاظت کا وقت ہے… روشن خیالی کے
علمبرداروں نے بارہا کہا ہے کہ ہم… ایک نیا اسلام لا رہے ہیں… اور ہم آہستہ آہستہ
سب کچھ بدل دیں گے… اورنگزیب عالمگیرؒ کے خلاف تبرّے بازی… اور بسنت کے میلے اسی
تبدیلی کی طرف جانے والے قدم ہیں… ہمیں یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود اپنے دین کا اور
قرآن پاک کا محافظ ہے…
اِنَّا نَحْنُ
نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ
اور
اﷲ پاک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے اس طوفان کا رخ بھی موڑ دے گا… مگر
ہمیں بھی کچھ کرنا ہے… اور سب سے پہلے ہمیں اپنے ایمان، عقیدے اور نظرئیے کو محفوظ
بنانا ہے… اس لیے ٹی وی سے بچیں… کالے دانتوں والی پان خور عورتوں کے مضمون… اور
دل کی کالک سے کالم لکھنے والے صحافیوں کے مضامین نہ پڑھیں… ہم قرآن پاک کی زیادہ
سے زیادہ تلاوت کریں… ہم قرآن پاک کو علماء کرام کی نگرانی میں سمجھنے کی کوشش کریں…
اور دور جدید کی ترقی کو بڑی چیز نہ سمجھیں… سب سے بڑا اﷲ تعالیٰ ہے… اور سب سے بڑی
چیز ایمان ہے… اور سب سے بڑی کامیابی حسن خاتمہ اور شہادت ہے… ہم اﷲ تعالیٰ کے اولیاء
کرام اور مجاہدین سے محبت رکھیں… خواہ وہ ماضی کے حضرات ہوں یا حال کے… اور ہم اﷲ
تعالیٰ کے نافرمانوں سے اپنے دل کو دور رکھیں…
اﷲ
پاک کا شکر ہے کہ… ہمارے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ’’مسجد‘‘ جیسی پاکیزہ،
معطر، نورانی جگہ ہمیں دے گئے ہیں… مسجد میں اﷲ تعالیٰ کا پیار اور فرشتوں کی صحبت
ملتی ہے… ہم مساجد سے دل لگائیں اور ان میں پورے ادب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت
گزاریں… اور ہمارا طریقہ یہ بن جائے کہ جیسے ہی ہم پر کسی مصیبت یا گناہ کا حملہ
ہو تو ہم… مسجد کی طرف دوڑ پڑیں اور وضو کرکے مسجد کے سائے میں اس طرح پناہ لے لیں…
جس طرح چیل سے خوفزدہ مرغی کے بچے مرغی کے پروں میں پناہ لیتے ہیں… دل پہ شہوت کا
حملہ ہو یا غضب کا… موت بھول جائے یا آخرت… کوئی پریشانی آجائے یا مصیبت ہم فوراً
جنت کے باغات یعنی مساجد میں جاکر … جنت کے پھل کھانا شروع کردیں… آپ خود سوچیں
جنت کے پھلوں میں کتنی شفاء ہوگی… اور کتنا سکون؟… یہ نسخہ ہمارے مہربان آقا مدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود بیان فرمایاہے … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مساجد کو جنت کے
باغات قرار دیا اور وہاں جاکر سبحان اﷲ والحمدﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر… پڑھنے کو
جنت کے پھل قرار دیا… اپنے مہربان ترین محبوب کی بات مان کر ایک بار تو جنت کے کسی
باغ میں… خود کو اﷲ پاک کا مہمان سمجھ کر جا بیٹھیں… اور پھر پوری محبت اور توجہ
سے پڑھیں…
سبحان
اﷲ… والحمدﷲ… ولا الہ الا اﷲ… واﷲاکبر… پھر دیکھیں دل پر کیسی عید گزرتی ہے… ہماری
مسلمان خواتین پوچھیں گی کہ ہم کیا کریں؟… ہم تو عام طور پر مساجد جا نہیں سکتیں …
مساجد میں پردے کی جگہ بھی نہیں ہوتی… اور زمانہ بھی فتنوں کا ہے… اور احادیث
مبارکہ کے مطابق عورت کی نماز گھر میں زیادہ افضل ہے… اور گھر میں بھی الگ اپنے
کمرے میں زیادہ افضل ہے… پھر ہم کیا کریں؟… جواب مدینہ منورہ کی پاک فضاؤں سے بہت
پہلے مل چکا ہے… مگر عمل میں بہت غفلت ہے… مہربان آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
طرف سے حکم ملا تھا کہ ہر گھر میں نماز کے لئے ایک جگہ بنادو… پھر اسے خوب پاک صاف
رکھو… اور اسے خوشبو سے مہکاؤ… مگر اب تو گھروں میں عورتوں کی نماز… بچوں کے پیشاب
والی قالینوں اور چٹائیوں پر ہوتی ہے… ہر گھر کے ہر کمرے میں اٹیج باتھ… کئی کئی
باورچی خانے… ڈائننگ ہال… ڈرائنگ روم اور معلوم نہیں کیا کیا؟… مگر نماز کے لئے
کوئی مخصوص جگہ نہیں … ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب سے پہلے نماز کی الگ جگہ مقرر
کرلی جاتی… مسجد کی نیت سے نہیں مصلے کی نیت سے… پھر اس کو خوب پاک کیا جاتا…
روزانہ وہاں خوشبو مہکائی جاتی… اور منظر یہ ہوتا ہے کہ… ایک خاتون آرہی ہے اور
دوسری جارہی ہے… کوئی سجدے میںہے تو کوئی تلاوت میں اور کوئی درود شریف میں مگن
ہے… گھر کی سرپرست ماں جی نے سب کو بلا کر حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ سنایا کہ…
اﷲ پاک نے ان کے خاندان کو شکر کا حکم دیا تو انہوں نے گھر میں عبادت کی جگہ بنادی…
اور سب گھر والوں کی باری مقرر کردی… یوں چوبیس گھنٹے حضرت داؤد علیہ السلام کے
گھر میں عبادت کی ترتیب بن گئی… اﷲاکبرکبیرا… کیسا پیارا، کیسا حسین اور کیسا دلکش
منظر ہے… کاش آج بھی کسی گھر میں ایسا ہو… کاش آج بھی ہر گھر میں ایسا ہو… چلیں
پوری نقل نہیں تو ادھوری نقل تو کی جاسکتی ہے… نافرمانوں نے اپنے گھروں میں بڑے
بڑے ٹی وی لاؤنج بنادئیے… کیا اﷲ پاک کے سچے فرمانبردار عاشق اپنے گھر میں تین گز
جگہ نماز اور تلاوت کے لئے مقرر نہیں کرسکتے… جب یہ جگہ مقرر ہوجائے خواہ وہ ایک
مصلے کی جگہ ہی کیوں نہ ہوتو وہاں… خوب صفائی کریں اور یوںمحبت کے ساتھ عطر لگائیں
کہ یہ محبوب حقیقی سے باتیں کرنے کی جگہ ہے… پھر وہاں بیٹھ کر پوری محبت سے پڑھیں…
سبحان اﷲ والحمدﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم …
بسنت منانے والے لوگ حرام کھاتے ہیں تو کھاتے رہیں… آپ مزے اڑائیں اور جنت کے پھل
کھائیں، جنت کے پھل… جی ہاں جنت کے پھل…
سبحان
اﷲ والحمدﷲ ولا الہ الا اﷲ
واﷲ
اکبر… ولا حول ولا قوۃ
الا
باﷲ العلی العظیم…
٭٭٭
قافلۂ سخت جاں
ہفت روزہ القلم کے
گلدستے سے تیار ہونے والی ایک مہکتی ہوئی کتاب پر دلچسپ تبصرہ
٭ غزوۂ واُحد
والی کیفیت
٭ وفا کی خوشبو
٭ عربی ادب سے
ہم آہنگ
٭ شانِ حنیفی
٭اِنْ اَجْرِیَ
اِلاَّ عَلَی اﷲِ
٭ غیرتِ ایمانی
٭’’ وفاداری و
حق گوئی نہ کارے ہر کسِ باشد‘‘
’’وفاداری اور
حق گوئی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے‘‘
تاریخ اشاعت ۱۹؍
صفر ۱۴۲۸ھ
بمطابق ۹ مارچ ۲۰۰۷ ء
شمارہ نمبر۸۷
قافلۂ سخت جاں
اﷲ اکبر کبیرا… بے حد
شکر اور خوشی کا مقام ہے کہ… ایک ایمان افروز ، دلکش، نظریہ ساز اور مفید و مؤثر
کتاب منظر عام پر آرہی ہے…
الحمدﷲ الذی بنعمتہ
تتم الصالحات
کتاب
کا نام ہے ’’قافلۂ سخت جاں‘‘ اور اس کے مصنف ہیں صاحبِ عرفان… جی ہاں اپنے محترم
عرفان صدیقی صاحب… اﷲ تعالیٰ ان کو سلامت رکھے… انہوں نے عشق ومحبت سے معمور… اور
جذبۂ اخوت وغیرت سے لبریز جو مضامین ہفت روزہ القلم کے لئے تحریر فرمائے ہیں… ان
دلپذیر اور پرکشش مضامین کا مجموعہ… اب الحمدﷲ کتاب کی صورت میں شائع ہورہا ہے…
کتاب کا مکمل مسوّدہ میرے سامنے موجود ہے… یہ عجیب کتاب ہے جہاں سے بھی نظر ڈالیں
مضمون کی عبارت انسان کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے… اور پڑھنے والے پر سحر طاری کردیتی
ہے… ماشاء اﷲ ہر کالم اس قدر دلنشین اور دلپذیر ہے کہ… حافظِ شیراز کا یہ شعر یاد
آجاتا ہے ؎
نہ ہر کو نقش نظم زد
کلامش دلپذیر آمد
تذورِ طرفہ میگرم کہ
چالاک ست شاہینم
یعنی
ایسا نہیں کہ ہر لکھنے والے کا کلام دلپذیر بھی ہو، میں اس لئے اونچے مضامین کو
شکار کرلیتا ہوں کہ میری فکر شاہین کی طرح تیز اور برق رفتار ہے۔
اور حافظؒ کا یہ
مصرعہ ملاحظہ فرمائیں ؎
وفاداری وحق گوئی نہ
کارِ ہر کسے باشد
یعنی
وفاداری اور حق گوئی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے… جی ہاں یہ دو بلند صفات اﷲ تعالی
کے خاص بندوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں… آپ جب بھی اس کتاب کو پڑھیں گے آپ کو اس میں
وفاداری کی خوشبو اور حق گوئی کی مہک ضرور محسوس ہوگی… اس کتاب میں بعض عجیب کیفیات
ہیں… اور اس کتاب کی بعض انمول خصوصیات ہیں… میں صرف دو کیفیات کا تذکرہ کرتا ہوں
اور اس کے بعد انشاء اﷲ چند خصوصیات کا…
غزوۂ
اُحد والی کیفیت
آہ!
مسلمانوں کو بعض اوقات شکست بھی ہوتی ہے… یہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے… مگر جس شکست کے
دوران چند مسلمان اس وقت ڈٹ جائیں جب اسلامی لشکر پسپا ہو چکا ہو تو… اس شکست کے
بعد مسلمانوں کے عروج کا زمانہ شروع ہوجاتا ہے…
غزوۂ
احد میں اسلامی لشکر کے پاؤں اچانک اکھڑ گئے… مشرکین کے دو سو گھڑ سواروں نے پیچھے
کی طرف سے ان پر حملہ کردیا تھا… یہ اُفتاد بہت اچانک تھی… مسلمان پیچھے مڑے تو
مشرکین کا بھاگتا ہوا لشکر واپس لوٹا اور حملہ آور ہوگیا مسلمان دونوں طرف سے گھر
گئے… ان کی تلواریں غلطی سے ایک دوسرے پر چل گئیں… شیطان نے آواز لگائی کہ محمد
(صلی اﷲ علیہ وسلم) بھی شہید ہوگئے ہیں تو دلوں پر ناامیدی نے حملہ کردیا… اﷲ اکبر
کبیرا عجیب منظر تھا… غم، خوف، زخم… طنزیہ قہقہے، تاریک مستقبل… بس غم ہی غم… اور
غم ہی غم… اکثر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے… مگر میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ڈٹے
رہے… اور چند دیوانے بھی ان کے گرد سائے کی طرح … حق پر ڈٹے رہے… یہ ڈٹے ہوئے لوگ
عجیب تھے… واﷲ بہت عجیب… وہ آقا کی طرف آنے والے تیر اپنے سینے… اور ہاتھوں پر روک
رہے تھے… وہ دفاع بھی کر رہے تھے اور حملہ بھی… وہ چند افراد تین ہزار مشرکوں کو
روکے کھڑے تھے کہ آقا تک … کوئی نہ پہنچ سکے… ہر طرف ہائے واویلا اور منافقت کی بو
پھیل رہی تھی مگر… مجال ہے یہ چند افراد ایک قدم پیچھے ہٹے ہوں… وہ سب کچھ کر رہے
تھے… جنگ بھی لڑ رہے تھے… مسلمانوں کا حوصلہ بھی بڑھا رہے تھے… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی حفاظت بھی کر رہے تھے… مشرکوں کے نعروں کا ترکی بہ ترکی جواب بھی دے رہے
تھے… پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے زخم بھی دھو رہے تھے… اپنے زخمیوں کی خبر گیری
بھی کر رہے تھے… اور خود اپنے زخموں کا درد بھی سہہ رہے تھے… بالآخر مسلمان بچ
گئے… اسلام بچ گیا… کچھ عرصہ شکست کا اثر رہا اور پھر مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ
تک کسی سے شکست نہیں کھائی… آج پھر ایک جنگ ہے… اس جنگ میں بھی دشمنان اسلام کا
نشانہ میرے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا خیمہ ہے… وہ نعوذباﷲ اس خیمے کو اکھاڑنا
چاہتے ہیں… اور ان کے زوردار حملے سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں… اسلامی لشکر
کے اکثر افراد پسپا ہو کر میدان جنگ سے بھاگ چکے ہیں… اور مسلمان کہلانے والے
حکمران کافروں کے ساتھ جاملے ہیں… طاقتور دشمن کبھی میرے آقا کی امت پر بمباری
کرتا ہے… کبھی آقا کے امتیوں کو قید خانوں میں ڈالتا ہے… اور کبھی کارٹون اور خاکے
بنا کر خود آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرتا ہے… دشمنوں کے حملے بہت سخت
ہیں… افغانستان سے لے کر عراق تک زمین پر آگ ہی آگ ہے… مگر ہاں اس بار بھی تمام
مسلمان پسپا نہیں ہوئے… کچھ دیوانے، کچھ فرزانے، کچھ پروانے آج بھی آقا صلی اﷲ علیہ
وسلم کے خیمے کے گرد کھڑے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں… وہ کٹ کٹ کر گر رہے ہیں
مگر آقا کے خیمے کا پہرہ دے رہے ہیں… عجیب جنگ ہے جنگ احد سے بہت ملتی جلتی… نفاق
کا زور ہے مگر ایمان والے بھی عجیب شان پر اترے ہوئے ہیں… ایٹم بموں کے مالک چھوٹے
چھوٹے فدائیوں سے خوفزدہ ہیں… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے خیمے کا پہرہ دیتے ہوئے
زرقاوی شہید ہوگیا… ملا اختر عثمانی شہید ہوگیا… غازی بابا شہید ہوگیا… اور ملا
عمر ابھی تک ڈٹا ہوا بے جگری سے لڑ رہا ہے… اور اس خیمے کے ایک کونے پر ایک شخص
اپنے قلم کو تلوار بنا کر پہرہ دے رہا ہے… اس شخص کا نام عرفان صدیقی ہے… وہ آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف پھینکے جانے والے ہر تیر کا جواب دیتا ہے… وہ تڑپ تڑپ کر
مقابلہ کرتا ہے… طاقتور دشمنوں کو کھری کھری سناتا ہے… وہ کبھی ملاعمر کے چہرے کی
خاک جھاڑتا ہے تو کبھی بوڑھے گیلانی کو جاکر سہارا دیتا ہے… وہ کبھی فلسطینی مجاہدین
کا حوصلہ بڑھاتا ہے تو کبھی دجلہ فرات کے کنارے جا کر حسان بن ثابتؓ کی طرز میں
لشکر اسلام کو ہمت دلاتا ہے… وہ چاہتا تو اپنے سیّال قلم کو بیچ کر امریکہ کے دورے
کرتا پھرتا مگر وہ تو… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے خیمے کا پہرہ دے رہا ہے… آپ
قافلۂ سخت جاں کے ایک ایک مضمون کو پڑھتے
جائیے آپ کو اکثر مضامین میں یہی کیفیت نظر آئے گی… یہی پہرہ نظر آئے گا…
صدیقی
صاحب! مبارک ہو… بہت مبارک … خزاں کے موسم میں بہار کی نگرانی مبارک ہو… اس خزاں
کے بعد پھر بہار ہے… اور اس بہار کی رُتوں میں آپ کا بھی حصہ شامل رہے گا… شہیدوں
کی قبروں پر جب موسم بہار میں پھول کھلیں گے… تو پھولوں کی مہک میں آپ کا حصہ بھی
شامل ہوگا… جی ہاں یہ سب کچھ ’’اصل زندگی‘‘ میں بہت کام آنے والا ہے… آخر حوض کوثر
پر بھی تو ایک تقریب ہونی ہے… مبارک ہو آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے خیمے کے پہرے
دارو! مبارک ہو…
وفا
کی خوشبو
ان
کے پیچھے لوگوں کی قطاریں تھیں… ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ ترستے تھے… پھر
موسم بدل گیا… ان کا نام لینا جرم ٹھہرا… تب قطاریں غائب ہوگئیں… اور بڑے بڑے
مجمعے چھٹ گئے… مگر کچھ لوگ ان کے ساتھ کھڑے رہے… انہوں نے حیرت سے پوچھا تم کیوں
نہیں بھاگے؟… وفاداروں نے جواب دیا ہم نے تم سے جس کی خاطر پیار کیا تھا وہ کل بھی
موجود تھا آج بھی موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا… ہمارا پیار نام اور معدے کے
لئے نہیںاس کے لئے تھا جس نے وفا کو پیدا کیا… اور وہ وفا کرنے والوں سے پیار کرتا
ہے… یہ ہے وہ دوسری کیفیت جو آپ کو صدیقی صاحب کی کتاب میں جگہ جگہ پر محسوس ہوگی…
طالبان اقتدار میں تھے تو ان کے پیچھے لوگوں کی
قطاریں تھیں… اسامہ بن لادن آزاد تھے تو مسلمان ان کے متوالے تھے… علی گیلانی کا
نام پاکستان کے حکمران بھی عقیدت سے لیتے تھے… ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد میں
چلتے پھرتے تو ملاقاتیوں کے میلے ان کے دروازے پر نظر آتے تھے… مگر پھر موسم بدل گیا…
طالبان کا نام لینا جرم ٹھہرا… اسامہ کا تذکرہ دہشت گردی قرار دے دیا گیا… علی گیلانی
پاکستان کی خاطر سب کچھ گنوا کر بھی پاکستان کا مجرم بن گیا… اور ڈاکٹر عبدالقدیر
خان کا تذکرہ بھی ملک دشمنی کے زمرے میں آنے لگا… صورتحال جب یہ ہوئی تو کئی لوگوں
نے وقت کے سامنے سجدہ کیا… اور اپنی گردن جھکادی … مجاہدین کے لئے لوگوں نے اپنے
دروازے بند کردئیے… کالم نویسوں نے ’’ازراہ احتیاط‘‘ ان تمام شخصیات کے تذکرے بند
کردئیے… اور ماضی میں جہاد اور مجاہدین کے حق میں کالم لکھنے والوں نے… اپنے ماضی
کے گناہ دھونے کے لئے… ٹی وی چینلوں اور روشن خیالی کے حق میں مضامین لکھنا شروع
کردئیے… مگر اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے عرفان صدیقی صاحب کو کہ وہ ڈٹے رہے…
آپ اس کتاب کے اکثر مضامین میں ان حضرات کا تذکرہ پائیں گے جواَب… مطلوب اور
کالعدم ہیں… وہ حضرات خود بھی یہ کالم پڑھ کر حیران ہوتے ہوں گے کہ… اکثر لوگ بھاگ
گئے مگر یہ شخص بغیر کسی غرض کے ابھی تک ڈٹا کھڑا ہے… آخر کس کی خاطر؟… جواب واضح
ہے… اسی کی خاطر جس کی خاطر کل آپ لوگوں سے محبت کی تھی… جی ہاں وفا سے پیار کرنے
والے اﷲ تعالیٰ کی خاطر جو وفاداروں کو خوب نوازتا ہے… بہت خوب…
یہ
تو وہ کیفیتیں ہیں جو اس کتاب میں بالکل صاف طور پر محسوس ہوتی ہیں جبکہ… بعض
انمول خصوصیات بھی آپ کو اس تاریخی کتاب میں ملیں گی مثلاً:
۱۔ قرآن وسنت کی درست ترجمانی
صدیقی
صاحب ماشاء اﷲ دینی معاملات میں بہت محتاط ہیں… اﷲ کی شان دیکھئے کہ انسان کا علم
اور تقویٰ جس قدر بڑھتا جاتا ہے… دینی معاملات کے بارے میں اس کی احتیاط میں اضافہ
ہوتا جاتا ہے… حضرات صحابہ کرام میں سے بعض جب کوئی حدیث سناتے تھے تو ان پر خوف
اور احتیاط کی وجہ سے گریہ طاری ہوجاتا تھا کہ کوئی بات غلط نہ نکل جائے… اسلاف میں
سے کسی کا فرمان ہے… لا ادری نصف العلم یعنی یہ بات کہنا کہ ’’میں نہیں جانتا‘‘ یہ
آدھا علم ہے… امام شافعیؒ جیسے امام فرماتے ہیں کہ جیسے جیسے میرا علم بڑھتا جاتا
ہے مجھے اپنی جہالت کا زیادہ پتا چلتا جارہا ہے… صدیقی صاحب پر اﷲ تعالیٰ کا احسان
ہے کہ وہ دینی معاملات میں خود بھی احتیاط کرتے ہیں… اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین
کرتے ہیں…
اسی
کتاب کے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’قابل ذکر پہلو
یہ ہے کہ یہ نام نہاد روشن خیال طبقہ دنیوی علوم پر اپنے آپ کو سند خیال کرتا ہے۔ یہ
ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، کمپیوٹر یا
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے امور میں مداخلت کرے لیکن جب ’’دین‘‘ کا معاملہ آتا ہے تو یہ
’’مجتہد العصر‘‘ بن بیٹھتے اور ’’مفتی اعظم ‘‘ کے انداز میں فتوے جاری کرنے لگتے ہیں۔
انہیں اس بات کا کچھ اندازہ ہی نہیں کہ دینی معاملات، قرآنی نصوص اور سنت نبوی کے
حساس ترین منطقوں میں داخل ہونے کا استحقاق ہر کسی کو نہیں۔‘‘
صدیقی
صاحب کی اسی احتیاط کا نتیجہ ہے کہ وہ اکثر وبیشتر قرآن وسنت کا حوالہ نہیں دیتے
مگر بات قرآن وسنت کی کرتے ہیں… ان کی بعض عبارتیں قرآن و سنت کے عالی احکامات کی
دلنشین تشریح ہوتی ہیں… مثال کے طور پر ان کے یہ جملے ملاحظہ فرمائیے…
’’جب سوچ کے
سارے راستے دنیوی مفادات کی منزلوں کی طرف نکل جائیں اور انسان کی نگاہ دور کے
منظروں سے ہٹ کر سامنے بچھے دسترخوانوں تک محدود ہو کر رہ جائے تو اس کی پوری شخصیت
دنیاداری کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ مادیت کا طلسم اس کے افکار واعمال کو پوری
گرفت میں لے لیتا ہے اور ذرا ذرا سے لذائذ اس کا منتہائے مقصود بن جاتے ہیں۔ جب
انسان ایسے آشوب میں مبتلا ہوجائے تو اس کے پر خودبخود جھڑنے لگتے ہیں، اس کے لہو
کی حرارت پر برف گرنے لگتی ہے، اس کے ایمان ویقین کے قلعے کمزور ہونا شروع ہوجاتے
ہیں اور اس کے دست وبازو کی توانائی خودبخود کسمسانے لگتی ہے۔ یہ کیفیت ہولے ہولے
شیروں کو بھی روبا ہی سکھانے لگتی ہے اور انہیں اپنی ایسی جبلی خصوصیات سے محروم
کردیتی ہے جو ان کے رعب، وقار، دبدبے اور عظمت کی علامت ہوتی ہے۔‘‘
قرآن
وسنت میں ’’حبّ دنیا ‘‘اور’’ وہن‘‘ کو مسلمانوں کے زوال کا اہم سبب قرار دیا گیا
ہے… مذکورہ بالا عبارت میں قرآن وسنت کے اس فلسفے کا جس طرح سے خلاصہ بیان کیا گیا
ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے…
اسی
سلسلے کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے…
صدیقی
صاحب لکھتے ہیں…
’’عراق کے
انتخابات بھی لیپاپوتی کا ایک بہانہ ہیں… لیکن امریکہ کی ساکھ اب اس قدر خراب ہوچکی
ہے کہ وہ اپنے پیراہن صدچاک کو کیسی کیسی خوشبوؤں میں بساتا رہے، اس کے ایک ایک
انگ سے سڑاند اور بساند اٹھتی رہے گی اور عطر بیزی کی ہر کوشش اس کے تعفن میں
اضافہ کرتی رہے گی۔‘‘
یہ
بہت عجیب عبارت ہے… یہ قرآن پاک کی آیت ’’انما المشرکون نجس‘‘ اور بعض دیگر آیات
کا دلچسپ خلاصہ ہے… ہمارے کمزور مسلمان اس وقت امریکہ کی چمک، دمک اور چکا چوند پر
اپنا ایمان قربان کر رہے ہیں… ان حالات میں مسلمانوں کو امریکہ کی سڑاند، بساند
اور تعفن یاد دلانا… کتنا ضروری کام ہے…
میں
اور بھی مثالیں پیش کرتامگر کالم میں اتنی گنجائش نہیں ہے آپ ’’قافلۂ سخت جاں‘‘ میں
شامل صدیقی صاحب کے کالم ’’روشنی کا سفر‘‘ … پلٹ آؤ اپنی اصل کی جانب… اور تلاش ایک
گمشدہ اذان کی… خاص طور سے ملاحظہ فرمالیں… آپ بھی اس حقیقت کے قائل ہو جائیں گے…
۲۔ عربی ادب سے ہم آہنگ
صدیقی
صاحب کے یہ تمام کالم اردو میں ہیں مگر… ان پر ’’عربی ادب‘‘ کا خوبصورت صحرائی رنگ
غالب ہے… بات دراصل یہ ہے … کہ ہم مسلمانوں کی مادری زبانیں تو الگ الگ ہوسکتی ہیں
مگر ہم سب کی فطری اور دینی زبان عربی ہے… پس جو شخص فطری، طبعی طور پر اسلام کے
جس قدر قریب ہوتا ہے اسی قدر وہ عربی زبان کے بھی قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے… اگر
آپ عربی ادب سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھتے ہوں تو آپ کو… صدیقی صاحب کے جملے، ان کی
تشبیہات، ان کے استعارات اور ان کے انداز میں عربی ادب کی لطافت صاف محسوس ہوگی…
صدیقی صاحب بنیادی طور پر ماشاء اﷲ ایک سکّہ بند ادیب ہیں… موجودہ دور میں اخبارات
کے مشہور کالم نویسوں میں سے کوئی بھی… بلامبالغہ … اس میدان میں ان کا ہم پلّہ نہیں
ہے… میں نے کئی بڑے کالم نویسوں کو اردو ادب کے معاملہ میں ٹھوکر کھاتے دیکھا ہے…
مگر صدیقی صاحب! جس موضوع پر بھی لکھیں… زبان وادب کے معیار کو برقرار رکھتے ہیں…
اور سہل نگاری یا اثر انگیزی کی خاطر اپنی تحریر کو رکیک نہیں ہونے دیتے… حرف، لفظ
اور لغت کی پاسبانی بھی ایک بڑی خدمت ہے…
۳۔ شانِ حنیفی
دورِ
حاضر کا ایک بڑا فتنہ ’’وسیع المشربی‘‘ ہے… باصلاحیت اور مقبول افراد کو اس بات کا
چسکہ پڑ جاتا ہے کہ وہ… ہر کسی کے ہاں قابل قبول ہوں بلکہ… مقبول ہوں… خواہ اسکی
خاطر عقیدہ بیچنا پڑے… نظریہ گھمانا پڑے… یا ضمیر کو جنس بازار بنانا پڑے… امت
مسلمہ کے بڑے بڑے قدآور افراد کو اسی شوق نے مٹی میں ملادیا ہے … اور وہ دل بہلانے
والا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں … حالانکہ ہمارے دین کا مزاج ہی ’’حنیفی‘‘ ہے… سب
جہتیں چھوڑ کر ایک جہت کی طرف منہ موڑنا… سب دروازوں کو چھوڑ کر ایک دروازے کا ہو
رہنا… اور اپنے عقائد اور نظریات کو ہر طرح کے شرک اور ملاوٹ سے پاک رکھنا… کیا
ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے کے سب لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوست تھے؟…
کیا سب لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حامی تھے؟… مکہ میں تو اکثریت مخالف تھی… جبکہ
مدینہ منورہ میں بھی یہودیوں اور منافقوں کے بڑے بڑے قلعے سینہ تان کر کھڑے تھے…
مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تو کبھی ’’مقبولیت‘‘ کی فکر میں نہیں پڑے… آپ اپنے سچے عقیدے
اور نظرئیے کی دعوت دیتے رہے اور لوگوں میں سے خوش نصیب افراد اس کے قائل ہوتے چلے
گئے… صدیقی صاحب کے مضامین میں آپ کو یہ اسلامی شان بھی صاف نظر آئے گی… وہ یکجہتی
کو پسند کرتے ہیں… اور بالکل کھلم کھلا امت مسلمہ کی بات کرتے ہیں… وہ اس بات سے
نہیں ڈرتے کہ ان کو ’’متعصب مسلمان‘‘ کی گالی دی جائے گی… بلکہ وہ اس طرح کے الزام
کو ’’تمغۂ سعادت‘‘ سمجھتے ہیں… وہ طالبان کے حامی ہیں تو پھر انہوں نے حامد کرزئی
سے جوڑنے کا کبھی نہیں سوچا… وہ پاکستانی ہیں تو پھر پاکستان کے مفاد میں کسی بھی
ملک کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے سے نہیں رُکتے… یکسوئی کی یہ شان انسان کو معتبر
بناتی ہے اور ایسے افراد ہی امت مسلمہ کی صحیح خدمت کرسکتے ہیں… میں نے ان کی یکسوئی
پر بطور مثال ان کی کئی عبارتیں جمع کی تھیں… مضمون لمبا ہوتا جارہا ہے اور باتیں
بہت باقی ہیں… ویسے بھی ہمارے قارئین عنقریب خود یہ کتاب پڑھ لیں گے…
۴۔ ان اجری اِلاّ علی اﷲ
قرآن
پاک بتاتا ہے کہ… جو نبی بھی تشریف لائے انہوں نے ایمان کی دعوت دینے کے بعد فرمایا…
ان اجری اِلاّ علی اﷲ اے لوگو! میں اس دعوت کے بدلے تم سے کچھ نہیں مانگتا… کچھ نہیں
چاہتا… میرا اجر تو اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہے… مجھے وہیں سے مزدوری ملے گی… انبیاء علیہم
السلام نے صرف زبان سے یہ بات نہیں فرمائی بلکہ اپنے عمل سے بھی ثابت کر دکھایا کہ
ہم دعوت الی اﷲ کے معاملے میں مخلوق سے بے غرض ہیں … اور یہ ’’بے غرضی‘‘ اس بات کی
دلیل ہے کہ ہماری دعوت سچی ہے… انبیاء علیہم السلام کے بعد ان کے سچے امتی دعوت کے
میدان میں اترے تو انہوں نے بھی یہی نعرہ بلند کیا کہ ہمارا اجر، ہمارا بدلہ، ہماری
مزدوری اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے… ہم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے، کچھ نہیں چاہتے… دور
حاضر کے مایہ ناز دانشور جناب عرفان صدیقی صاحب کو بھی اﷲ تعالیٰ نے اس صفت میں سے
حصہ عطاء فرمایا ہے… میں جب یہ مضمون لکھنے کی تیاری کر رہا تھا تو میں نے ان کی
کتاب ’’قافلۂ سخت جاں‘‘ سے بعض فہرستیں
مرتب کیں… ان میں سے ایک فہرست دور حاضر کے ان لوگوں کی تھی جن کی شان اور تعریف میں
صدیقی صاحب اپنا پورا زور قلم صرف کرتے ہیں… مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان میں
سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں ہے کہ… صدیقی صاحب کو سوائے دعاؤں اور آنسوؤں کے کچھ
دے سکے… یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کا نام لینا جرم کے مترادف ہے… ملا محمد عمر مجاہد،
شیخ اسامہ بن لادن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سید علی گیلانی، عامر چیمہ شہید، ابو
مصعب الزرقاوی شہید… مجاہدین افغانستان، مجاہدین کشمیر، مجاہدین عراق، مجاہدین
فلسطین … اہل حماس… اہل مدارس… اہل مساجد… اور دور حاضر کے مظلوم افراد دوسری طرف
صدیقی صاحب کا قلم جن لوگوں کی ناک مٹی میں ملاتا ہے وہ آجکل کے فرعون، ہامان،
قارون … اور ابوجہل ہیں… اگر صدیقی صاحب اپنے قلم کو الٹا کردیں… اور روشن خیالی
کے حق میں ایک قصیدہ لکھ دیں تو ان پر بھی نوٹوں کی برسات ہوسکتی ہے کہ وہ اس
زمانے کے نامور ادیب ہیں… مگر اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے دین کے کام کے لئے چن
لیتا ہے… مقدر کا رزق اور مقدر کی عزت صدیقی صاحب کو اب بھی مل رہی ہے… اور جو کچھ
آگے تیار ہے انشاء اﷲ… اس کا مقابلہ بش کی بادشاہت… اور بلیئر کے خزانے ہر گز ہر
گز نہیں کرسکتے…
۵۔ غیرت ایمانی
حضرت
مفتی نظام الدین شامزئیؒ فرمایا کرتے تھے… کفار کو مسلمانوں کی عبادت اور ظاہری دینداری
سے کوئی ڈر نہیں ہے… وہ تو مسلمانوں کی ’’غیرت ایمانی‘‘ سے ڈرتے ہیں… اور ان کی
پوری کوشش یہی ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں سے ’’غیرت‘‘ کو چھین لیا جائے… صدیقی
صاحب الحمدﷲ غیور مسلمان ہیں… وہ غیرت سے لکھتے ہیں اور غیرت کا بھرپور سبق پڑھاتے
ہیں… غیرت دراصل نتیجہ ہے ’’اخوتِ ایمانی‘‘ کا… مسلمانوں کی باہمی اخوت جس قدر
مضبوط ہوتی ہے اس قدر ان میں غیرت ایمانی پیدا ہوتی ہے… صدیقی صاحب امت مسلمہ کے
ہر مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں… آپ اس کتاب میں دیکھیں گے کہ وہ پورے
عالم پر نظر رکھ کر لکھتے ہیں… اور جہاں کہیں کسی بھی مسلمان کوکوئی مسئلہ درپیش
ہوتا ہے اس پر قلم اٹھاتے ہیں… پاکستان کی میراتھن ریس ہو یا برطانیہ کی بیٹیوں کے
حجاب کا مسئلہ… اسلام آباد کی اذان کی تلاش ہو یا رومی پاپے کا مدلّل محاسبہ… عامر
چیمہ شہیدؒ کی قربانی ہو یا فلسطین کی زمین پر بہنے والا خون… مسئلہ کشمیر ہو یا
مسئلہ لبنان… جہاد افغانستان ہو یاجہاد عراق… صدیقی صاحب کا قلم ہر معاملے پر امت
مسلمہ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے… اسلامی اخوت کے اس وسیع جذبے نے ان کو غیرت ایمانی
کا وقار اور جلال عطاء فرمادیا ہے… وہ جب دشمنان اسلام پر برستے ہیں تو پڑھنے والے
کا خون بھی تیزی سے گردش کرنے لگتا ہے… بلکہ ان کے بعض جملے تو پڑھنے والے پر حال
طاری کردیتے ہیں… کچھ عرصہ پہلے حامد کرزئی نے جب حضرت امیر المؤمنین ملا محمد عمر
مجاہد کو بزدل کہا تو… عرفان کی صدیقی غیرت جوش میں آگئی انہوں نے اس موقع پر جو
تاریخی کالم لکھا وہ اس قابل ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے… کالم کا عنوان ہے ’’یہ
فصل ہماری ہی کاشتہ ہے‘‘… اس مضمون کا آخری حصہ ملاحظہ فرمائیے…
’’اور جو اس
(کرزئی) نے کہا ہے
’’ملا محمد عمر
بزدل ہے‘‘
یہ
اس کے اندر کا خوف ہے
وہ
خوف جو اس طرح کے حشرات الارض کو لاحق رہتا ہے
وہ
خوف جو کسی چمگاڈر کو صبح خوش حال سے ہوتا ہے
کرزئی
جیسوں کی زبان پر اس مرد جری کا نام جچتا ہی نہیں، سامراج کی چاکری کرنے والے کیاجانیں
کہ لا الہ الا اﷲ کی سرمدی لذت کیا ہوتی ہے؟
استعمارکی
چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے والوں کو کیا خبر کہ مصنوعی خداؤں کے گریباں چاک کرنے والے
اہل جنوں کیا ہوتے ہیں؟
ملا
محمد عمر کا نام تو صاحبان عزیمت کی درخشاں تاریخ کا سنہری ورق رہے گا او رحامد
کرزئی کو تاریخ اپنے کوڑادان میں رکھنا بھی اپنی توہین خیال کرے گی… جارج ڈبلیوبش
کے مرغ دست آموز کو ایسے مقدس نام اپنے ہونٹوں پر لانے سے قبل ہزار بار سوچنا
چاہئے۔‘‘
سبحان
اﷲ کتنا دلکش اور پرغیرت کلام ہے… میں نے جب پہلی بار ان جملوں کو پڑھا تو بار بار
پڑھتا ہی چلا گیا… اور کئی دن تک یہ جملے میرے دل ودماغ میں گونجتے رہے… میں نے
چاہا کہ صرف ان جملوں کی ساخت، ترکیبوں اور مضمون پر پورا ایک کالم لکھ دوں…
یہ
تو ایک مثال ہے… اس کتاب کے اکثر مضامین میں اس طرح کے ایمان افروز اور غیرت افزاء
جملوں کی فراوانی ہے…
آخری
بات
میرا
ارادہ تھا کہ کم از کم دس خصوصیات کا تذکرہ کروں گا… مگر میں ابھی تک کچھ بھی نہیں
لکھ سکا… میں نے ’’قافلۂ سخت جاں ‘‘کے چند مضامین الگ نکال کر رکھے تھے کہ ان پر
جی بھر کے لکھوں گا… خاص طور پر … اے روحِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم… مدینہ کیسی بستی
ہے… میں نے کئی مقامات پر نشانات لگائے تھے کہ ان تاریخی جملوں کو… اپنے اس مضمون
میں نقل کروں گا… ابھی تو میں نے القلم والوں کو مبارکباد بھی دینی تھی کہ انہیں یہ
کتاب چھاپنے کی سعادت مل رہی ہے… مگر کچھ بھی نہ ہوسکا اور میرے کالم کی جگہ پوری
ہوگئی… ویسے اچھا ہی ہوا… کیونکہ صدیقی صاحب کی کتاب ہم جیسوں کے خراج تحسین کی
محتاج نہیں ہے… اﷲ تعالیٰ اس کتاب کو خصوصی قبولیت اور مقبولیت عطاء فرمائے… ہاں
آخر میں اتنی بات ضرور کہتا ہوں کہ… مجھے اس کتاب کے جلد چھپنے کا انتظار ہے… یہ
کتاب جب چھپ جائے گی تو میں اس کے کئی نسخے خریدلوں گا … ایک نسخہ تو خود رکھ لوں
گا… جبکہ باقی اپنی محبوب ہستیوں کو بھیج دوں گا… اور دعا کروں گا کہ کسی طرح ایک
نسخہ طالبان تک بھی پہنچ جائے… تاکہ… ان اﷲ کے بندوں کو پتہ چلے کہ سارا پاکستان
ان کا دشمن نہیں ہے … بلکہ یہاں تو عرفان صدیقی جیسے لوگ بھی ان کی یاد میں آنسو
بہا رہے ہیں… اس لیے اے افغان بھائیو ہم سب پاکستانیوں کو اپنے معصوم بچوں کا قاتل
نہ سمجھو… پھر میں کوشش کروں گا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ مقبوضہ کشمیر میں سید علی
شاہ گیلانی صاحب تک پہنچادوں… تاکہ گیلانی صاحب کے بہتے آنسوؤں میں کچھ کمی آئے…
اور ان کو پتا چلے کہ ’’کشمیر فروشی‘‘ کی ذلت سارے پاکستان کی پالیسی نہیں ہے…
اور
ہاں میری خواہش ہوگی کہ… کتاب کے کچھ نسخے شہداء کرام کے اہل خانہ تک پہنچ جائیں
تاکہ… انہیں تسلی ہو کہ! میدان ابھی اجڑا نہیں…
مقابلہ اب بھی جاری
ہے اور…
شہداء کے قافلوں کی
طرف…
مزید قافلے ہاں سخت
جان قافلے…
دوڑتے جارہے ہیں…کچھ
اہل دل… اہل بیاں
دل کی روشنی سے لکھ
رہے ہیں
ان کے قلم امت مسلمہ
کی کڑکتی تلواریں بن کر
اسلامی لشکروں کی حُدی
خوانی کر رہے ہیں
خزاؤں کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر
بہار کا قصیدہ لکھ
رہے ہیں
شہداء کی قبروں کے
پتھر کیوں اداس ہوں
قافلہ تو آگے ہی بڑھ
رہاہے
زخم کھا کھا کر…
خون کی لکیروں پر
یا فتح کی طرف
یا
شہادت کی جانب
ہاں یہی ہے امتِ
مسلمہ کے لئے پیغام ’’قافلۂ سخت جاں‘‘ کا…
٭٭٭
عدالتیں… عدالتیں
مورخہ
۹ مارچ ۲۰۰۷ء …
پاکستان کے فوجی حکمران نے یکایک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری
کو بلا کر ان سے استعفیٰ طلب کیا… جج صاحب کے انکار پر ان کو معزول کر دیا گیا… یہ
تحریر اس موقع پر لکھی گئی…بعد میں سپریم کورٹ کے ایک کل رکنی بینچ نے چیف جسٹس
صاحب کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا… یہ واقعہ مورخہ ۲۰
جولائی ۲۰۰۷ء کو پیش آیا مگر فوجی حکمران نے مورخہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء
کو ملک میں ایمر جنسی لگا کر جج صاحب کو پھر معزول کر دیا…جج صاحب تو شاید پھر
بحال ہو جائیں گے مگر اس پورے کھیل کے دوران فوجی حکمران کی آمرانہ طاقت بری طرح
مجروح ہوئی… اور آجکل وہ خود معزولی کی طرف بڑھ رہے ہیں… ملاحظہ فرمایئے یہ تحریر
جس میں آپ کو ملے گا
٭ اسلام کے عدالتی نظام کا ایک خاکہ
٭ پاکستان کے دینی طبقات کی مظلومیت
کا حال
٭ جج صاحبان کے لئے دینی نقشہ راہ
تاریخ اشاعت۲۶؍
صفر ۱۴۲۸ھ
۱۶مارچ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۸۸
عدالتیں… عدالتیں
اﷲ
تعالیٰ پاکستان کو مکمل آزادی عطاء فرمائے… آج کل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب بھی
اپنے گھر کے ایک کمرے میں نظر بند ہیں… اور اب وہ بھی پاکستان کے مظلوم دینی طبقے
کی طرح فوجی بوٹ کے نیچے کراہ رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ ان کی نصرت فرمائے اور انہیں غم
اور بے بسی کے ان حالات سے چھٹکارا عطاء فرمائے… انگریزوں نے برصغیر کے مسلمانوں
سے خوفناک انتقام لیا ہے… ان بدکردار گوروں کے کالے مظالم آج تک جاری ہیں… انگریز
برصغیر پر قابض بن کر آیا… جب وہ آیا تھا تو یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی… مگر جب
وہ گیا تو حکومت ہندوؤں کو دے گیا… اور مسلمانوں پر اپنا کالا نظام اور کالے غلام
مسلط کرگیا… اب پاکستان ہو یا ہندوستان… کشمیر ہو یا بنگلہ دیش ہر جگہ مسلمان عجیب
ذلت کا شکار ہیں… آہ، آہ کتنی تباہ کن صورتحال ہے… ہم ایک ایسے پنجرے میں بند ہیں
جس میں پھڑپھڑانا بھی جرم ہے… اور ہم ایک ایسی چُھری سے ذبح کیے جارہے ہیں جس کے نیچے
کراہنا بھی غداری ہے… ہمارے حکمران کافروں کے سامنے انتہائی بے عزت ہیں… مگر اپنے
مسلمانوں کے سامنے ان کی انا اور عزت آسمانوں کو چھونے لگتی ہے… بوڑھا اکبر بگٹی
قتل کردیا گیا، جاوید ہاشمی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا… مولوی لیاقت اﷲ بموں کی
آگ سے شہید کردیا گیا… اور بھی بہت کچھ ہوگیا کس کس بات کا تذکرہ کروں… ملک میں
کوئی قانون نہیں، کوئی انصاف نہیں… بس امریکہ کی غلامی کا اعلان ہے اور طاقت کا
ننگا ناچ… ابھی تازہ واقعہ دیکھیں… ملک کے چیف جسٹس کو اچانک حکم ملا کہ حاضری دو…
وہ بے چارہ بھاگ کر آرمی ہاؤس پہنچا… وہاں اسے حکم ملا کہ فوراً استعفیٰ دو… اکھڑ
مزاج جج تھوڑا سا پھڑپھڑایا اور چھری کے نیچے کسمسایا… بس پھر کیا تھا… یہ عظیم
گستاخی برداشت نہ ہوسکی اور جج صاحب نے بھی زندگی کے وہ دن دیکھ لئے جو دن کالعدم
دینی جماعتوں کے رہنما سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں… اب جج صاحب ایک کمرے میں بیٹھے
آنسو بہا رہے ہیں… ان کے دل سے گرم آہیں اٹھ رہی ہیں… وہ بے بسی کے ساتھ سوچتے ہوں
گے کہ اب میں کہاں جاؤں؟… کس عدالت میں اپیل کروں؟… کس کو اپنا غم سناؤں؟… زندگی
کے باقی دن کیسے کاٹوں؟… اﷲ کرے بے بسی کے اس عالم میں جج صاحب کو اصل حاکم کا پتا
چل جائے… وہ وضو کریں اور احکم الحاکمین کے دربار میں اپنی اپیل لگادیں… ہاں جس عظیم
دربار سے سب کو انصاف ملتا ہے… اور ملک کے مظلوم مسلمان اسی عدالت میں اپیل دائر کیے
بیٹھے ہیں… وہ ٹھنڈی رات کس کو بھول سکتی ہے جی ہاں بہت یخ بستہ… ایک کالی رات ۱۲
جنوری ۲۰۰۲ء کی رات… جب ریڈیو پر ایک کرخت اور مکروہ آواز گونج رہی تھی…
میں نے جہادی تنظیموں کو بین کردیا ہے… میں نے پابندی لگادی ہے… اگلی صبح ہزاروں
افراد گرفتار کرلیے گئے… داڑھیوں والے، لمبی زلفوں والے اور پگڑی والے… ہر طرف خوف
کا عالم تھا اور ایک وحشت زدہ ماحول… تب ملک کی کسی عدالت نے مجاہدین کا ساتھ نہ دیا،
وکیلوں سے مشورے ہوئے تو جواب ملا کہ عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں… آپ لوگ وقت اور
سرمایہ ضائع نہ کریں… کچھ لوگ پھر بھی عدالتوں تک گئے… مگر بے رخی، سرد مہری، ڈرے
ہوئے جج، سہمے ہوئے وکیل… اور لمبی لمبی تاریخیں… تب مونچھوں والے امریکی غلام
قہقہے لگا کرکہتے تھے… اور جاؤ عدالتوں میں… تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… مجھے
خود ایک عدالت میں لے جایا گیا… پولیس افسر نے جج صاحب کو بتایا ہم نے ان کو آج
گرفتار کیا ہے آپ دس دن کا ریمانڈ دے دیں… میں نے جج صاحب کو بتایا کہ میں آٹھ مہینے
سے گرفتار ہوں… تمام اخبارات میں میری گرفتاری کی خبریں ہیں… عام لوگوں تک کو
پتاہے کہ میں آج نہیں آٹھ مہینے سے نظر بند ہوں… مگر جج صاحب نے ایک نہ سنی اور ریمانڈ
کا حکم نامہ لکھنے لگے… میں نے کہا جج صاحب ایک دن آپ بھی اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں
پیش ہوں گے… کہیں ایسا نہ ہو کہ اس دن الٹے لٹکائے جائیں… یہ سن کر ان کے چہرے کا
رنگ بدل گیا انہوں نے جلدی سے پولیس کے حق میں فیصلہ لکھا اور اٹھ گئے… بعد میں
پتا چلا انہوں نے حکومت کو درخواست دی کہ مجھے سیکورٹی فراہم کی جائے… مجھے دھمکی
دی گئی ہے اور میری جان کو خطرہ ہے… مجاہدین کے لئے ظلم اور بے بسی کا یہ دور اب
تک جاری ہے… اور ان کا اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے… ملک کی عدالتوں نے
حکومت کے ہر ظلم پر اپنی آنکھیں بند رکھیں… اتنی بڑی بڑی جماعتوں پر بغیر کوئی
قانونی تقاضا پورا کیے پابندی لگادی گئی… اور ان جماعتوں کے لئے عدالتوں سے رجوع
کا دروازہ بھی بند کردیا گیا… ہزاروں افراد کو ان کے گھروں سے اغواء کرکے اندھیرے
عقوبت خانوں میں بند کردیا گیا… اور حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک کی پولیس اور
خفیہ ادارے جس شخص کو چاہیں بغیر عدالتی حکم کے اٹھا سکتے ہیں… اور سالہا سال تک
اپنی قید میں رکھ سکتے ہیں… مصر میں جمال عبدالناصر کے زمانے میں وہاں کے دینی
طبقے پر بھی ایسا ہی ظلم کیا گیا تھا… مصر کی فوج اور خفیہ ادارے ظلم اور کم عقلی
میں اتنے مشہور ہوگئے تھے کہ لوگوں نے ان پر طرح طرح کے لطیفے بنا رکھے تھے… ایک مشہور
لطیفہ یہ تھا کہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ایک قہوہ خانے پر چھاپہ مارا… انہیں
اطلاع ملی تھی کہ وہاں چند انتہا پسند مسلمان قہوہ پی رہے ہیں… چھاپے کی کارروائی
جیسے ہی شروع ہوئی … قہوہ خانے میں موجود تمام لوگ گرفتاری سے بچنے کے لئے اِدھر
اُدھر بھاگنے لگے… وہاں ایک مداری بھی اپنے بندر کے ساتھ موجود تھا… خفیہ پولیس کو
دیکھ کر وہ بندر بھی بھاگ کھڑا ہوا… مداری نے بہت مشکل سے اسے پکڑا اور پوچھا کہ
تجھے ان خفیہ اہلکاروں سے کیا ڈر ہے؟… یہ تو صرف انتہا پسند مسلمانوں کو پکڑتے ہیں…
بندر نے جواب دیا… مجھے ڈرتھا کہ یہ لوگ مجھے گرفتار کرلیں گے … اور چھ مہینے تک
انہیں یہ بات بھی کنفرم نہیں ہوگی کہ میں بندر ہوں یا انسان… اس طرح میری بے گناہی
ثابت ہونے تک میری زندگی کا بڑا حصہ ان کے عقوبت خانوں میں گزر جائے گا…
آج
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی ایک طرح کے عقوبت خانے میں بند ہیں… انہوں نے اگر
استعفیٰ دے دیا تو انہیں آزاد کردیا جائے گا… حکومت کے ہمدرد اہلکار انہیں
’’عقلمندی‘‘ اور ’’دانشمندی‘‘ سے کام لینے کا مسلسل مشورہ دے رہے ہیں… لیکن اگر وہ
ڈٹ گئے تو پھر حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں… ہمارے ملک میں گردن نہ جھکانے کی سزا موت
ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عدالت کے قاضیوں کو بشارت دی ہے کہ وہ اگر ظلم
سے بچیں گے تو اﷲ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوگا… ہمیں معلوم نہیں کہ چوہدری صاحب کی
سابقہ زندگی کیسی تھی… اگر واقعی انہوں نے لوگوں کو انصاف دیا ہے تو اﷲ پاک بھی ان
کی نصرت فرمائے گا… جج یا قاضی کا عہدہ اسلام کے نزدیک ایک اہم، حساس اور بلند
منصب ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت کے بعد یہ شعبہ بھی قائم
فرمایا… اور اسلام کے سب سے پہلے قاضی خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی تھے… لوگ آپ کی
خدمت میں اپنے معاملات اورجھگڑے لایا کرتے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کافیصلہ
اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فرمایا کرتے تھے… قرآن پاک کی کئی آیات میں آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کو اور پھر آپ کے توسط سے امت کے حکمرانوں اور ججوں کو یہ حکم دیا گیا
ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں… اور اﷲ تعالیٰ کے حکم کے
مطابق فیصلہ کریں… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں جب کام بڑھ گیا تو
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو بھی اپنے ساتھ اس شعبے میں شامل
فرما لیا… چنانچہ بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاۃ طیبہ ہی میں
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بطور قاضی کئی مقدمات
کا فیصلہ کیا… پھر جب یمن کا علاقہ بھی فتح ہوگیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت
علی رضی اﷲ عنہ… اور حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو وہاں کا قاضی بنا کر بھیجا…
حضرات
خلفائے راشدین کے زمانے میں قاضی کا منصب بہت اہم اور بلند تھا… اور قاضی کو اس
بات کا مکمل اختیار تھا کہ وہ امیر المؤمنین کو بھی عام ملزم کی طرح عدالت میں طلب
کرے… حضرات خلفائے راشدین کے عدالتی نظام کی بدولت اﷲ تعالیٰ کی زمین انصاف سے بھر
گئی… اور لوگ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے… حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں ایک
بار زلزلہ آنے لگا تو آپ نے زمین پر کوڑا مار کر فرمایا رک جا!… میں نے تجھ پر کوئی
بے انصافی نہیں کی… چنانچہ زمین رک گئی اور زلزلہ برپا نہ ہوا…
ماضی
قریب میں ہمارے بھائی طالبان نے اسلامی عدالت کے نظام کو صدیوں بعد پوری شان و
شوکت سے زندہ کیا… قندھار کے ایک سفر کے دوران اسلامی عدالت کے چیف جسٹس صاحب
ملاقات کے لئے تشریف لائے… وہ ماشاء اﷲ علم اور تقوے کا حسین امتزاج تھے… انہوں نے
طالبان کے عدالتی نظام کی تفصیل بتائی تو سب اہل مجلس حیران رہ گئے… انہوں نے بتایا
کہ اب تو مجرم خود کو ہماری عدالت میں سزا کے لئے پیش کردیتے ہیں… اور بڑے سے بڑے
مقدمے کا فیصلہ چند دن میں ہوجاتا ہے… مجلس کے آخر میں چیف جسٹس صاحب نے کمال
تواضع سے کام لیتے ہوئے مجلس میں موجود علماء کرام سے لجاجت کے ساتھ درخواست کی کہ
آپ حضرات قرآن وسنت کی روشنی میں میری کچھ رہنمائی فرمائیں… تاکہ ہم بالکل خالص
اور درست اسلامی عدالت قائم کرسکیں… ۲۰۰۱ء میں جب طالبان حکومت کا سقوط ہوا تو چوروں اور ڈاکوؤں نے
دوبارہ لوگوں کو لوٹنا شروع کردیا… سننے میں آیا ہے کہ ڈاکو کہا کرتے تھے کہ ہم نے
سات سال طالبان کے انصاف کی وجہ سے یہ کام چھوڑے رکھا… اب طالبان نہیں رہے تو
ہمارے لئے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے… پاکستان کا عدالتی نظام شروع ہی سے عوام کو تیز
اور سستا انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے… اور یہ نظام ہمیشہ فوجی اور حکومتی
مداخلت کا نشانہ رہا ہے… ماضی میں ملک کے مظلوم دینی طبقے کو انصاف نہ مل سکا… تو
انہوں نے عدالتوں کی طرف جانا چھوڑ دیا… اب وہ بس اﷲ تعالیٰ ہی کے سامنے اپنی فریاد
اور اپیل پیش کرتے ہیں … اور انہیں اﷲ
تعالیٰ سے پورا انصاف مل رہا ہے … اور اﷲ تعالیٰ ہی ان کا بہترین محافظ ونگہبان
ہے…
فَا ﷲُ خَیْرٌ
حَافِظًا وَہُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ
مگر
آج انصاف فراہم کرنے والے جج خود انصاف کے محتاج ہیں… پاکستان کا عدالتی نظام ایک
گہری کھائی کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے… جب کسی ملک کا عدالتی نظام گر جاتا ہے تو پھر
لوگ خود فیصلے کرتے ہیں… اور پورا ملک افراتفری کا شکار ہوجاتا ہے… آج وقت ہے کہ
ملک کے تمام جج صاحبان اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں… اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر
آئندہ کے لئے انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کا عزم کریں… عدالتی نظام کو قرآن وسنت کے
مطابق بنائیں… اپنی زندگیوں میں بھی تقویٰ اور احتیاط کو لازم پکڑیں… اور پریشانی
کے ان حالات میں اپنے لیے ہمیشہ کی خیر اور کامیابی کا راستہ ڈھونڈ لیں… حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے قاضیوں اور ججوں کی تین قسمیں بتائی ہیں… ان تین قسموں میں سے
ایک جنتی اور دو قسمیں جہنمی ہیں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…
القضاۃ ثلٰـثۃٌ واحد فی
الجنۃ واثنانِ فی النّار فا مّا الذی فی الجنۃِ فرجل عرف الحق فقضٰی بہٖ ورجل عرف
الحق فجار فی الحکم فہو فی النار ورجل قضٰی للناس علی جہل فہو فی النار۔ (ابوداؤد)
’’یعنی قاضی (جج
حضرات) تین قسم کے ہیں ان میں سے ایک قسم جنتی اور دو قسمیں جہنمی ہیں… جنتی وہ ہے
جس نے حق کو سمجھا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا اور جہنمی وہ ہے جس نے حق کو سمجھا
مگر اس کے خلاف فیصلہ کیا اور وہ بھی جہنمی ہے جو بے علم اور جاہل ہونے کے باوجود
لوگوں میں فیصلے کرے‘‘۔
آج
جج صاحبان طرح طرح کے دباؤ کا شکار ہیں… ایک طرف خود ان کے معاشی مسائل ہیں… اور
دوسری طرف حکومتی دباؤ کے مسائل… چند ماہ پہلے پشاور کے ایک جج صاحب نے اچانک چھٹی
لی… پھر تین دن تبلیغی جماعت میں لگائے… واپس آکر اپنے بچوں کو بازار لے گئے اور
خوب چیزیں خرید کر دیں اور پھر رات کو خود کشی کرلی… لوگ بتاتے ہیں کہ وہ کسی
ظالمانہ فیصلے پر مجبور کئے جارہے تھے… چنانچہ انہوں نے ظلم سے بچنے کے لئے جان دے
دی… واﷲ اعلم اصل مسئلہ کیا ہوگا مگر خودکشی تو حرام ہے… اور بہت بڑا گناہ… اﷲ
تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے وہ جہاد میں چلے جاتے تو ظلم سے بھی بچ جاتے اور ممکن
ہے جام شہادت بھی نصیب ہوجاتا… یہ واقعہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جج صاحبان مشکل
میں تو ہیں مگر… اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر مشکل کا حل موجود ہے… کوئی عام انسان ہو یا
کوئی اونچی عدالت کا جج… سب کے لئے مشکلات کا حل یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے اپنے تعلق
کو ٹھیک کرلیاجائے… اسی نے ہمیں پیدا کیا… اسی نے ہمیںزمین پر ٹھہرایا… اسی نے ہمیں
موت دینی ہے… اور پھر ہم نے دوبارہ زندہ ہو کر اسی کے حضور حاضر ہونا ہے… وہی اوّل
ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے… اور وہی ہر چیز پر قادرہے…
یا اﷲ! ہر اس مظلوم کی
مدد فرما جو دین کی خاطر ظلم کا شکار ہے… آمین یا رب العالمین…
٭٭٭
زمین میں دفن
ہونے سے پہلے
٭ مومن کا دل
مسجد سے جڑ جائے تو اسے اﷲ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہو جاتا ہے۔
٭ قرآن وسنت کے
فرامین کا نچوڑ،مساجد کے بارے میں ایک سوالنامہ آپ خود پڑھیں … اور اپنے آپ سے
جواب طلب کریں۔
٭ روشن خیالوں
کو ایک اور دھکا پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنے کوچ کو دفن کر کے واپس آگئی
٭ ہمارا کسان
اور کاشتکار کیوں پریشان ہے؟ … زمین کی پیداوار میں برکت کیوں نہیں رہی؟… اپنے مال
کو بڑھانے اور محفوظ رکھنے کا اصل طریقہ کونسا ہے؟… عُشْر کسے کہتے ہیں اور اس کا
کیا حکم ہے؟… قرآن وسنت کے ارشادات سے معمور ایک اہم تحریر… جو ہمیں سمجھاتی ہے کہ
زمین میں دفن ہونے سے پہلے زمین کا حق ادا کردو
تاریخ اشاعت۳؍ ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
۲۳ مارچ ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۸۹
زمین میں دفن
ہونے سے پہلے
اﷲ
تعالیٰ کی مسجدیں صرف ایمان والے ہی آباد کرتے ہیں… اﷲ تعالیٰ کے مخلص بندے مساجد
آباد کرنے کی فکر اور دن رات محنت کر رہے ہیں… جبکہ باقی دنیا ’’بازاروں‘‘ اور
گناہ کی جگہوں کو آباد کرنے کی فکر میں دن رات ایک کر رہی ہے… ہاں اپنی اپنی قسمت
ہے… اﷲ تعالیٰ میری اور آپ کی قسمت اچھی بنائے اور ہمیں اپنے پیارے گھروں یعنی
’’مساجد‘‘ کے ساتھ جوڑ دے… آج آپ کی خدمت میں ایک چھوٹا سا سوالنامہ پیش کیا جارہا
ہے… آپ اس سوالنامے کو پڑھ کر اپنے دل سے جواب مانگیں… انشاء اﷲ بہت فائدہ ہوگا…
ادھر اﷲ تعالیٰ کا ایک اور احسان ہوا اور ایک دینی تمنا پوری ہونے کے قریب ہوئی… یقینا
آپ بھی یہ جان کر خوشی محسوس کریں گے کہ القلم کا اگلا شمارہ انشاء اﷲ… زاہد العصر
امام العارفین حضرت مولانا قاری عرفان صاحبؒ کا ’’خصوصی نمبر‘‘ ہوگا… آپ اس میں
بہت کچھ پڑھیں گے… مثلاً حضرت اقدس قاری صاحبؒ کا سوانحی خاکہ… آپ کا ایمان ساز وصیت
نامہ… سرکاری ملازمت کے دوران آپ کے دینی کارنامے… جہاد کے ساتھ آپ کی شیفتگی اور
محبت… آپ کی بعض نادر تحریریں… آپ کا عشق نبوی میں ڈوبا ہوا ایک خطاب… آپ کے بعض
وظائف اور مجربات… آپ کی کرامتیں… اور بہت سی باتیں اور یادیں… القلم والوں کو اﷲ
تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے کہ کیسے کیسے عظیم لوگوں سے اپنے قارئین کی ملاقات
کرواتے رہتے ہیں… پاکستان میں اس وقت حکومت اور عدلیہ کا بحران شدت اختیار کرتا
جارہا ہے… تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں کہ ان واقعات کے
پیچھے سے وہ خیر برآمد ہوجائے جس کا کئی سالوں سے مسلمان شدت سے انتظار کر رہے ہیں…
اﷲ تعالیٰ کے لئے کیا بعید ہے… ملک کے صدر نے جس کرکٹ ٹیم کو دولہوں کی طرح ورلڈ
کپ جیتنے بھیجا تھا وہ ماشاء اﷲ اپنے کوچ کو دفن کرکے واپس آرہی ہے… اﷲ کرے غفلت
اور نام نہاد روشن خیالی کا ہر ستون اسی طرح زمین بوس ہو… اور مسلمان اپنی عزت
کرکٹ میں نہیں اسلام میں تلاش کریں… ان گیارہ بارہ کھلاڑیوں کا ہارنا نہ تو ملک کی
شکست ہے اور نہ اسلام کی… اس لیے غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے… البتہ خوشی کا ایک
پہلو ضرور ہے کہ اب کرکٹ کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کا فتنہ انشاء اﷲ دم توڑ جائے گا…
اور لوگ مصلوں پر بیٹھ کر میچ جیتنے کی دعاء نہیں کریں گے… دراصل اس طرح کی دعائیں
جن میں گناہ کا عنصر شامل ہو… انسان پر ’’قبولیت‘‘ کے دروازے بند کرنے کا باعث بن
سکتی ہیں… اﷲ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے… ادھر ہمارے رفقاء اس سال پورے ملک کے
کاشتکاروں تک اﷲ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانے کی تیاری میں ہیں کہ… زمین کی پیداوار
میں سے اﷲ تعالیٰ کا حق ادا کرو… ’’احیاء عشر‘‘ کی یہ مہم انشاء اﷲ عنقریب شروع
ہونے والی ہے… آج کے اس کالم میں اس پر بھی ایک تحریر پیش خدمت ہے… پہلے ملاحظہ
فرمائیے مسجد کے بارے میں ہر مسلمان سے چند سوالات…
اے مسلمان بھائیو!
کیا آپ نے کبھی سوچا
کہ مسجد کتنی بڑی اور عظیم الشان جگہ ہے؟ مسجد کا کتنا اونچا مقام ہے؟ مسجد اﷲ
تعالیٰ کو کتنی محبو ب ہے؟
اے مسلمان بھائیو!
کیا آپ کو معلوم ہے
کہ مسجد اﷲ تعالیٰ کے انوارات کے نازل ہونے کی جگہ ہے؟ وہ انوارات جن کے ہم سب
محتاج ہیں۔
اے مسلمان بھائیو!
کیا آپ کو معلوم ہے
کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک زمین پر سب سے محبوب جگہ مسجد ہے اور سب سے ناپسندیدہ جگہ
بازار؟… کیا ہم بھی مسجد سے محبت رکھتے ہیں؟
اے مسلمان بھائیو!
کیا آپ جانتے ہیں کہ
مسجد کے ساتھ گہرا تعلق ایک مسلمان کے سچا مومن ہونے کی علامت ہے؟… کیا ہم مسجد کے
ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں؟
اے مسلمان بھائیو!
کیا
آپ کو معلوم ہے کہ جس مسلمان کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو… یعنی مسجد کے ساتھ جڑا
ہوا ہو وہ مسلمان قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں ہوگا… ذرا اپنے دل کا
جائزہ لیجئے کہ وہ مسجد کے ساتھ جڑا ہوا ہے یا نہیں؟
اے مسلمان بھائیو!
مسجد
میں سے کچرا، گندگی اور کوڑا کرکٹ نکالنا حور عین کا مہر ہے، کیا ہم یہ فضیلت حاصل
کرتے ہیں؟
اے مسلمان بھائیو!
کیا آپ نے کبھی سوچا
کہ ہر مسجد تقدس میں کعبۃ اﷲ کا پرتو اور عکس رکھتی ہے اور مسجدیں کعبۃ اﷲ کی بیٹیاں
ہیں… اور مسجدیں اﷲ تعالیٰ کا عظیم دربار ہیں جہاں آنے والے اﷲ تعالیٰ کے مہمان
ہوتے ہیں؟
اے مسلمان بھائیو!
جب ایسا ہے تو پھر ہم
مسجد کی فکر اور خدمت اپنے گھر سے زیادہ کیوں نہیں کرتے؟
اے مسلمان بھائیو!
کیا آپ جانتے ہیں کہ
انبیاء علیہم السلام نے اپنے ہاتھوں سے مسجدیں بنائیں… حضرات صحابہ کرام نے مسجدیں
بنانے میں خود مزدوروں کی طرح کام کیا… خلفاء راشدین نے مسجدوں میں جھاڑو دینے کو
اپنی سعادت سمجھا… کیا ہمارے کندھوں نے بھی کبھی اﷲ تعالیٰ کا گھر بنانے کے لئے پتھروں
اور اینٹوں کا بوجھ اٹھایا ہے؟ کیا ہمارے ہاتھوں کو مسجدوں میں جھاڑو دینے کی
سعادت ملی ہے؟ کیا ہم بھی ہر نماز کے لئے مسجد میں جانے کے انتظار میں رہتے ہیں؟
اے مسلمان بھائیو!
کیا
آپ نے کبھی سوچا کہ دنیا کے مکانات مرنے کے بعد یہاں رہ جائیں گے… اور کچھ عرصہ
بعد کھنڈر بن جائیں گے؟… جبکہ مسجدیں جنت میں بھی ساتھ جائیں گی… اور جو شخص دنیا
میں مسجد بناتا ہے اﷲ پاک اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے… اور جنت کا یہ گھر وہاں
کے مکانات میں اسی طرح ممتاز ہوگا جس طرح دنیا میں مسجد عام گھروں سے ممتاز ہے… جب
ایسا ہے تو پھر کیوں نہ ہم بھی مرنے سے پہلے مسجد بنالیں… یا مسجد بنانے میں حصہ
ڈالیں یا مسجدیں آباد کرنے کی محنت کریں… یا مسجدیں بنانے میں مفت مزدوری کریں… یا
ویران مساجد کو کسی بھی طرح آباد کریں… اے مسلمانو! ہم اﷲ تعالیٰ کا گھر بنائیں گے
اور اس کا گھر آباد کریں گے تو ہمارا گھر بھی آباد رہے گا دنیا میں بھی… اور آخرت
میں بھی…
اے مسلمان بھائیو!
کیا
آپ کو معلوم ہے کہ مسجد مسلمانوں کی اصلاح اور ہدایت کا مرکز ہے مسلمان مسجد سے جس
قدر دور ہوتا ہے اسی قدر شیطان اس کو گمراہ کرتا ہے… کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد
مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کا مرکز ہے… اس لیے کہ مسجد میں سب مسلمان برابر ہوتے ہیں
اور وہ اپنے علاقے زبان اور برادری سے اوپر ہو کر سوچتے ہیں…
آج
مسلمان بکھر گئے ہیں کیونکہ وہ مسجد سے دور ہوگئے ہیں… اگر آج بھی مسلمان مسجد کی
طرف لوٹ آئیں… اور ہماری مسجدیں ان اعمال سے آباد ہوں جو مسجد نبوی (صلی اﷲ علیہ
وسلم) والے اعمال ہیں تو مسلمان پھر متحد ہوسکتے ہیں… کیا ہم اس سلسلے میں کچھ
کردار ادا کرسکتے ہیں؟
اے اﷲ کے پیارے بندو!
یہ چند سوالات ہیں
اور چند باتیں … آپ ان پر غور کریں اور سب سے پہلے اپنی ذات کو عمل کے لئے تیار کریں…
امید ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے دل سے ان سوالات کا جواب مانگے گا… اور اب پیش
خدمت ہے ’’عشر‘‘ کے بارے میں ایک تحریر
زمین میں دفن ہونے سے
پہلے
اﷲ
تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا کہ ان پر زمینوں کی پیداوار میں عشر کو لازم
کردیا… اﷲ تعالیٰ تو غنی اور بے نیاز ہے وہ اگر بندوں سے کچھ لیتا ہے تو اس میں
بندوں ہی کا فائدہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی… پس بہت بڑی خوشخبری اور برکت
ہے ان لوگوں کے لئے جن کے مال میں سے اﷲ تعالیٰ کچھ حصہ قبول فرمالے…
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد
گرامی ہے:
خُذْ مِنْ
اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ
اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ وَاﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌO اَلَمْ یَعْلَمُوْا
اَنَّ اﷲَ ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ
وَاَنَّ اﷲَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُO (التوبہ ۱۰۳،۱۰۴)
ترجمہ: (اے نبی) ان کے مالوں میں سے صدقہ لے کر اس سے
ان کے ظاہر کو پاک اور ان کے باطن کو صاف کردے اور انہیں دعاء دے بے شک تیری دعاء
ان کے لئے تسکین ہے اور اﷲ سننے والا جاننے والا ہے۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اﷲ
تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات لیتا ہے اور بے شک اﷲ تعالیٰ
ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
اس
آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ بندے کا جو مال اﷲ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اس کی برکت سے
انسان کو ظاہری اور باطنی پاکی نصیب ہوتی ہے اور انسان کی روح گناہوں کے اثرات سے
پاک ہوجاتی ہے۔ تُزَکِّیْہِمْ کا ترجمہ بعض مفسرین نے ’’بابرکت کرنے‘‘ کا کیا ہے یعنی
صدقہ انسان کو گناہوں کے اثرات سے پاک صاف کرتا ہے اور اموال کی برکت بڑھاتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
وَماَ اٰتَیْتُمْ
مِنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَاﷲِ
وَمَا اٰتَیْتُمْ مِنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اﷲِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ
الْمُضْعِفُوْنَ۔ (الروم۳۹)
ترجمہ: یعنی جو مال سود پر تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے
مال میں بڑھتا رہے تو اﷲ کے ہاں وہ نہیں بڑھتا اور جو مال دل کی پاکی سے اﷲ کی رضا
چاہتے ہوئے دیتے ہو تو یہ مال بڑھ جاتا ہے۔
حضرت شیخ الاسلامؒ
لکھتے ہیں:
یعنی
سود بیاج سے اگرچہ بظاہر مال بڑھتا دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں گھٹ رہا ہے (یعنی
کم ہو رہا ہے) جیسے کسی آدمی کا بدن ورم سے پھول جائے وہ بیماری یا پیام موت ہے…
اور زکوٰۃ نکالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کم ہوگا فی الحقیقت وہ بڑھتا ہے جیسے کسی
مریض کا بدن مسہل وتنقیہ (یعنی جسم کو صاف کرنے والی ادویات کے استعمال) سے گھٹتا
دکھائی دے مگر انجام اس کا صحت ہو۔ سود اور زکوٰۃ کا حال بھی انجام کے اعتبار سے ایسا
ہی سمجھ لو… یَمْحَقُ اﷲُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (البقرۃ۲۷۶) (یعنی
اﷲ تعالیٰ سود کو مٹادیتا ہے اور صدقات کو بڑھادیتا ہے) حدیث میں ہے کہ ایک کھجور
جو مؤمن صدقہ کرے قیامت کے دن بڑھ کر پہاڑ کے برابر نظر آئے گی۔ (تفسیر عثمانی)
ہم الحمدﷲ مسلمان ہیں…
اور ایک مسلمان کے لئے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان کافی ہے:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ
مِّنْ مِّالٍ (مسلم)
کہ صدقہ سے مال میں
کمی نہیں آتی
ایک صحابی نے آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا صدقہ کیا ہے؟
ارشاد فرمایا:
اَضْعَافٌ مُّضَاعَفَۃٌ
وَعِنْدَاﷲِ الْمَزِیْد (مسنداحمد)
یعنی دنیا میں مال کو
کئی گنا بڑھانے والا اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں سے بہت کچھ دلانے والا۔
سبحان
اﷲ… اب بھی مسلمان پریشان ہیں کہ مال میں برکت نہیں ہوتی… کاش کماتے وقت حلال کا
اور کمانے کے بعد صدقہ اور زکوٰۃ نکالنے کا اہتمام کیا جائے تو مسلمان کے لئے دنیا
آخرت میں برکت ہی برکت اور وسعت ہی وسعت ہے… آج کل ہمارے کاشتکار اور زمیندار بھائی…
غربت، پریشانی اور بخل کا بے حد شکار ہیں… زمینوں کی پیداوار کم ہورہی ہے کھیتی پر
طرح طرح کی بیماریوں کا حملہ ہے… اور کئی کئی اسپرے کرنے پر بہت زیادہ لاگت آتی
ہے… الغرض زمیندار اور کسان مالی تنگی کا شکار ہیں… ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے
کہ وہ… زمین کی پیداوار میں سے سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ کا حصہ نکالا کریں… اور پورے
اہتمام سے ’’عشر‘‘ ادا کیا کریں… پھر دیکھیں کہ زمین میں کتنی برکت ہوتی ہے… یہ
لوگ جب تک زمین پر رہیں گے زمین کی پیداوار بڑھتی رہے گی اور جب یہ لوگ زمین میں
دفن کردئیے جائیں گے تو قبر ان کا خوشی سے استقبال کرے گی… (اگر خاتمہ ایمان پر
ہوا)… لیکن آج کے کاشتکار کو بیس بوری گندم میں سے ایک بوری اﷲ تعالیٰ کے راستے میں
ادا کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے … یہ لوگ سوچتے نہیں کہ… اﷲ پاک ہی نے انہیں یہ سب
کچھ عطاء فرمایا ہے… اور آئندہ بھی وہی عطاء فرمائے گا… یہ سوچتے نہیں کہ ہم اﷲ
تعالیٰ کو دیں گے تو وہ بے نیاز رب ہمیں دنیا آخرت میں بڑھا چڑھا کر دے گا… یہ لوگ
سوچتے نہیں کہ آخر ہم نے مرنا بھی ہے… چلو انیس بوریاں دنیا کی تھوڑی سی زندگی کے
لئے رکھ لیں تو ایک بوری آخرت کی دائمی زندگی کے لئے بھی آگے بھجوادیں… یہ لوگ
سوچتے نہیں کہ کل ہم نے مرجانا ہے… اور ہمیں اسی زمین میں دفن کیا جائے گا… تب ہم
قبر کو کیا منہ دکھائیں گے… اﷲ تعالٰ کا حق کھانے والے… غریبوں کا حصہ کھانے والے…
اور اﷲ تعالیٰ کا حکم نہ ماننے والے نافرمان؟…
زمین کی پیداوار میں
سے ’’عشر‘‘ اداکرنے کا مسئلہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:
وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ
حَصَادِہٖ (الانعام ۱۴۱)
ترجمہ: ’’اور جس دن اسے (یعنی کھیتی اور پھل کو) کاٹو
اس کا حق ادا کرو‘‘
حضرت لاہوریؒ لکھتے ہیں:
’’تمام میوہ جات
تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر مساکین کا حق ادا کرو اور اسراف
نہ کرو‘‘ (حاشیہ حضرت لاہوریؒ)
حضرت شیخ الاسلامؒ
لکھتے ہیں:
یعنی
جو غلے اور پھل حق تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں ان کے کھانے سے بدون سند (یعنی بلادلیل)
کے مت رکو، ہاں دو باتوں کا خیال رکھو ایک یہ کہ کاٹنے اور اتارنے کے ساتھ یہ جو اﷲ
تعالیٰ کا حق اس میں ہے وہ ادا کردو، دوسرے فضول اور بے موقع خرچ مت کرو۔ اﷲ تعالیٰ
کے حق سے یہاں کیا مراد ہے؟ اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، ابن کثیرؒ کی رائے یہ
معلوم ہوتی ہے کہ ابتداء ً مکہ معظمہ میں کھیتی اور باغ کی پیداوار میں سے کچھ حصہ
نکالنا واجب تھا جو مساکین اور فقراء پر صرف کیا جائے مدینہ طیبہ پہنچ کر ۲ ھ میں اس کی
مقدار وغیرہ کی تعیین وتفصیل کردی گئی یعنی بارانی زمین کی پیداوار میں (بشرطیکہ
خراجی نہ ہو) دسواں حصہ اور جس میں پانی دیا جائے بیسواں حصہ واجب ہے۔ (تفسیر
عثمانی)
زمین
کی پیداوار پر لازم اس زکوٰۃ کو ’’عشر‘‘ کہتے ہیں… لفظ عشر کے اصل معنی ہیں
’’دسواں حصہ‘‘… وہ زمینیں جو بارانی ہیں یعنی بارش سے سیراب ہوتی ہیں ان کی پیداوار
میں سے دسواں حصہ اور جن زمینوں کو خود پانی دیا جاتا ہے ان کی پیداوار کا بیسواں
حصہ نکالنا واجب ہے۔ اور شریعت کی اصطلاح میں دونوں کو ’’عشر‘‘ ہی کہتے ہیں…
موجودہ وقت میں جس طرح مسلمانوں نے… دین کے دیگر فرائض اور احکامات میں غفلت بازی
کو اپنا طریقہ بنالیا ہے… اسی طرح ’’عشر‘‘ کے مسئلے میں بھی ہمارے مسلمان کاشتکار
شدید غفلت کاشکار ہیں… بلکہ اب تو اکثر کاشتکاروں کو ’’عشر‘‘ کا مسئلہ ہی معلوم نہیں
ہے… اﷲ تعالیٰ کا حکم توڑنے اور اس کا حق کھانے کا وبال آج زمینداروں اور
کاشتکاروں پر صاف نظر آرہا ہے… وہ اور ان کی اولادیں طرح طرح کے سخت گناہوں اور
جرائم میں ملوث ہو رہی ہیں… جاگیرداروں کے مظالم اور گناہ تو کافروں کو بھی شرمندہ
کر رہے ہیں… جبکہ چھوٹے کاشتکار بخل، حرص اور غربت کا شکار ہیں… ان حالات میں
ضرورت اس بات کی ہے کہ… دین کی فکر رکھنے والے جانباز مسلمان اٹھ کھڑے ہوں… اور وہ
دین کے اس واجب کو زندہ کرنے کے لئے بھی سر توڑ محنت کریں … وہ اﷲ تعالیٰ کا حکم…
اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیغام لے کر ایک ایک کاشتکار کے پاس جائیں… اور
اسے ’’عشر‘‘ کا مسئلہ سمجھائیں… اور اسے ترغیب دیں کہ زمین میں جانے سے پہلے زمین
کا حق ادا کردو… اور اپنی زمین اور آخرت کو برکت سے بھر لو… کچھ عرصہ پہلے جس طرح
ہمارے جانباز بھائیوں نے پورے ملک میں ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ مہم چلائی تھی… اسی طرح اس
سال وہ ’’احیاء عشرمہم‘‘ کے لئے ایک مہینے کی بھرپور محنت کریں… اﷲ تعالیٰ کو اپنے
دین سے پیار ہے… یہ دین اﷲ تعالیٰ کا قانون ہے… جو لوگ حکومت کا قانون نافذ کرتے ہیں
وہ حکومت کے پیارے ہوتے ہیںاور جو لوگ اﷲ تعالیٰ کا قانون نافذ کرنے نکلتے ہیں وہ
اﷲ تعالیٰ کے سپاہی اور اس کے پیارے بن جاتے ہیں… اﷲ تعالیٰ کے ان احکامات کو
لوگوں سے ادا کروانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے… لیکن جب اسلامی حکومت موجود نہ
ہو تو یہ احکامات ختم نہیں ہوجاتے… تب علماء، مجاہدین اور دین کا درد رکھنے والے
مسلمانوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ … اﷲ تعالیٰ کے ان احکامات کو مسلمانوں تک پہنچائیں…
اور پوری قوت اور محنت کے ساتھ ان احکامات کی دعوت دیں… اپنے تمام ساتھیوں سے میری
پرزور عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ… اس ’’مہم‘‘ کو اﷲ پاک کی رضا کے لئے کامیاب بنائیں…
سب سے پہلے صلوٰۃ الحاجۃ ادا کرکے اﷲ تعالیٰ سے اس کام کی توفیق مانگیں… اس کے بعد
اپنے عمل کو درست کریں… یعنی پکا عزم کریں کہ ہم خود انشاء اﷲ زکوٰۃ عشر وغیرہ
اسلامی احکامات پر پورا پورا عمل کریں گے… اور ماضی میں جو غفلت ہوگئی ہو اس پر
خوب توبہ استغفار کریں… اس کے بعد… مرکز کی طرف سے موصول ہونے والی ترتیب کے مطابق
پہاڑوں، گلیوں، شہروں، دیہاتوں… اور قصبوں میں پھیل جائیں اور ایک ایک کاشتکار کے
کانوں اور دل تک اﷲ تعالیٰ کا حکم وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖپہنچادیں…
٭٭٭
قل ہو اﷲ احد: اﷲ
ایک ہے
ایک ’’اﷲ والے‘‘ بزرگ
کا والہانہ تذکرہ… جو فرمایا کرتے تھے ’’ اﷲ ایک ہے‘‘
٭ ان سے پہلی
ملاقات کیسے اور کہاں ہوئی؟
٭ پہلی ملاقات میں
دو دعائیں، دو بشارتیں
٭ ان کے ساتھ ہر
ملاقات میں چھ فائدے ملتے تھے۔
٭ وہ مستجاب
الدعوات تھے، انسان مستجاب الدعوات کیسے بنتا ہے؟
٭ حضرت قاری
صاحبؒ کے مستجاب الدعوات ہونے کی ایک بڑی وجہ
٭ ان کی جہاد کے
ساتھ عجیب والہانہ محبت کے بعض واقعات
٭ تقدیر پر راضی
ہونے کے فوائد اور اس نعمت کے حصول کی بعض مسنون دعائیں
٭بسم اﷲ الرحمن
الرحیم کے مجرب عمل کا قِصّہ
٭ تکبُّر اور
حُبّ دنیا کی مذّمت
تاریخ اشاعت ۱۰
؍ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
۳۰ مارچ ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۰
قل ہو اﷲ احد: اﷲ
ایک ہے
اﷲ
ایک ہے… قل ہو اﷲ احد اے نبی فرمادیجئے ’’اﷲ ایک ہے‘‘… ہمارے محبوب حضرت قاری محمد
عرفان صاحبؒ جوش کے ساتھ فرمایا کرتے تھے ’’اﷲ ایک ہے‘‘… اے القلم کے پڑھنے والو
دل کے یقین کے ساتھ کہہ دو ’’اﷲ ایک ہے‘‘… اس کا کوئی شریک نہیں … ’’اﷲ ایک ہے‘‘…
ہم سب نے اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے… سب کچھ فنا ہوجائے گا… صرف اﷲ تعالیٰ باقی رہ
جائے گا… پھر ہم اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کریں؟… ’’اﷲ ایک ہے‘‘… وحدہ لاشریک لہ
پھر ہم اس کی ناشکری کیوں کریں؟… ’’اﷲ ایک ہے‘‘… ’’اﷲ ایک ہے‘‘… ’’اﷲ ایک ہے‘‘ تو
پھر کیوں نہ ہم اس کے نام پر کٹ مریں… ہاں یہی کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے کہ ’’اﷲ
ایک ہے‘‘ … کوئی اس جیسا نہیں… کوئی اس جیسا ہو ہی نہیں سکتا… میں اسی کا ہوں… ہم
سب اسی کے ہیں… کسی اور کے نہیں، کسی اور کے نہیں… اس نے ہمیں پیدا کیا… اور دنیا
میں ہمیں اپنی بندگی اور غلامی کے لئے بھیجا… اور آخرت کو بدلے کی جگہ بنایا… وہاں
وہ اپنوں کو ایسا نوازے گا، ایسا نوازے گا کہ سب پکار اٹھیں گے کہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘…
اﷲ تعالیٰ کی ایک جلیل
القدر نعمت
ہمارے
محبوب حضرت قاری محمد عرفان صاحب … اﷲ پاک ان کو آخرت کی ساری خوشیاں عطاء فرمائے…
ہمیں ہر مجلس میں یہ سبق یاد دلایا کرتے تھے کہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘… اس لیے مضمون کا
آغاز خود کو اسی سبق کی یاد دہانی سے ہوا… اب چند باتیں ان کے بارے میں جو ہمارے لیے
اﷲ تعالیٰ کی ایک بہت جلیل القدر نعمت تھے… ان کی صحبت بڑی غنیمت تھی… ان کی زیارت
سکون آور تھی… ان کی دعائیں انمول سرمایہ تھیں… ان کی نصیحتیں ایمان افروز تھیں…
اور ان کی موجودگی ایک عظیم الشان نعمت تھی… ان کے ساتھ پہلی ملاقات بھی اچھی طرح یاد
ہے… بالکل ایک حسین روحانی خواب کی طرح… اور ان کے ساتھ آخری ملاقات بھی یاد ہے…
ہاں اس فانی دنیا میں آخری… آگے اﷲ پاک رحم فرمائے… وہ تو اونچے درجوں والے آدمی
تھے… اس دنیا کی ہر خوشی اور راحت بیچ کر آخرت خریدنے والے آدمی… ایسے محنتی، مخلص
اور جفاکش لوگوں کے تو آخرت میں اونچے درجے ہوں گے… اﷲ پاک ہم تن آسانوں پر بھی
رحم فرمائے… پہلی اور آخری ملاقاتوں کے درمیان بہت سی ملاقاتیں ہوئیں… کراچی،
بالاکوٹ، ہری پور، بہاولپور، ملتان… جی ہاں شکر ہے میرے رب کا بہت سی ملاقاتیں ہوئیں…
لمبی لمبی، پیاری پیاری ملاقاتیں ہوئیں… خوب مزہ آیا خوب لطف اٹھایا… خوب پیار پایا…
اور پھر ان کے انتقال کی خبر بھی آگئی… اس وقت جب پر بندھے ہوئے تھے… اور راستہ
بہت دور تھا… وہ تو موت کا یوں بے قراری سے انتظار کر رہے تھے جس طرح مجنوں لیلیٰ
کا… اور جوان دولہا سہاگ رات کا… اپنا کفن ساتھ اٹھائے پھرتے تھے… اور اسے عروسی
کے جوڑے کی طرح اپنے بستر کے بہت قریب رکھتے تھے… ہر آدمی کو اپنی موت کے بارے میں
طرح طرح کی فکریں ہوتی ہیں… ان کو بس ایک فکر تھی کہ کفن دفن میں دیر نہ ہوجائے…
بس روح کے آزاد ہوتے ہی چار گھنٹے کے اندر تدفین ہوجائے… کسی کا انتظار نہ کیا
جائے… بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنی جلدی کیوں تھی؟… ہاں وہ فرمایا کرتے تھے ’’اﷲ ایک
ہے‘‘… ان کا جینا مرنا اسی اﷲ ایک کے لئے تھا تو پھر… اس کے پاس جانے میں دیر کیسی؟…
دنیا میں کس کا انتظار؟… مجھے جلدی رب کے مہمان خانے میں پہنچادینا… مجھے جلدی قبر
میں دفن کر آنا… میرا محبوب ایک ہے… ’’اﷲ ایک ہے‘‘… ’’اﷲ ایک ہے‘‘…
پہلی
ملاقات
اگر
ان کے ساتھ وابستہ یادوں کو لکھنا شروع کروں تو بات بہت لمبی ہوجائے گی… دراصل وہ
ہم پر اﷲ تعالیٰ کا ایک عظیم احسان تھے… میرے مہربان اور رحمن مالک کا احسان دیکھئے
کہ جیسے ہی مجاہدین پر مشکل وقت آنے لگا… اس نے تکوینی طور پر زمانے کے بڑے بڑے
اولیاء کو جہاد اور مجاہدین کے سروں کا سایہ بنادیا… گذشتہ سات سال میں جو کچھ
ہوا… اگر حضرت لدھیانوی شہیدؒ … کی شفقت وسرپرستی اور حضرت قاری محمد عرفان صاحبؒ
کی رہنمائی اور دعائیں نہ ہوتیں تو معاملہ کافی مشکل ہوجاتا… ان دو حضرات کا نام
تو قلم پر آگیا وگرنہ… اولیاء کرام کی ایک قابلِ قدر فہرست الحمدﷲ آنکھوں کے سامنے
ہے… ان میں کچھ اپنے رب کے پاس چلے گئے… اور چند ایک الحمدﷲ موجود ہیں… اﷲ تعالیٰ
ان کی زندگیوں میں برکت عطاء فرمائے… یہ تمام حضرات اپنی ان ذمہ داریوں کو نباہ
رہے تھے جو تکوینی طور پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی تھیں… مگر پھر یکایک اﷲ تعالیٰ
نے ان سب حضرات کے دلوں کو جہاد کی طرف متوجہ فرمادیا… اور ان کی دعاؤں کو مجاہدین
کی قوت بنادیا… اے مسلمانو! موجودہ زمانے کے جہاد کی اس سے بڑھ کر اور کیا حقانیت
ہوسکتی ہے؟… تفسیر اور حدیث کے امام مجاہدین کی سرپرستی کر رہے ہیں… اور زمانے کے
قطب ابدال مجاہدین کے لئے دعائیں اور آنسو بہا رہے ہیں… جب ’’جماعت‘‘ کا قیام عمل
میں آیا تو ایک دن حضرت لدھیانوی شہیدؒ نے مجھے بلایا… اس دن ان پر عجیب کیفیت طاری
تھی اور آنکھیں نور سے چمک رہی تھیں… ارشاد فرمایا! بھائی مخالفت بہت ہوگی بالکل
پروا نہ کرنا… کام انشاء اﷲ خوب چلے گا… بس اپنے کام میں لگے رہنا مخالفین کے پیچھے
نہ پڑ جانا… پھر ایک تحریر لکھوائی… اور اس جماعت کو اپنی جماعت قرار دیا… اب بھی
الحمدﷲ بعض اکابر حیات ہیں… اور وہ جہاد اور مجاہدین کی مکمل سرپرستی فرماتے ہیں…
خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے… عرض یہ کر رہا تھا کہ اگر حضرت قاری صاحبؒ سے وابستہ
تمام یادیں لکھوں تو پوری ایک کتاب بن جائے گی… اس لئے صرف وہی باتیں عرض کرنے کی
کوشش کروں گا جن میں میرے لئے اور پڑھنے والوں کے لئے کوئی سبق ہوگا اور کوئی نصیحت…
یا اﷲ آپ کو آپ کے ایک ہونے کا واسطہ میری مدد فرما دیجئے…
حضرت
قاری صاحبؒ سے پہلی ملاقات بہت اچانک اور بہت دلکش تھی… مجھے ان کے صاحبزادے نے
بتایا کہ میرے والد صاحب ملنا چاہتے ہیں… میں نے عرض کیا ضرور تشریف لے آئیں… میں
اپنی رہائی کے بعد کراچی میں عارضی طور پر مقیم تھا… اور جماعت کے قیام کا اہم ترین
مرحلہ شروع تھا… ہر طرف شور اور گہما گہمی تھی… ایک طرف محبت کرنے والوں کے سمندر
تھے تو دوسری طرف جماعت کے قیام کو روکنے والوں کے بڑے بڑے گڑھے… مجھے اندازہ نہیں
تھا کہ کام کے شروع میں ہی اتنی مشکلات سامنے آجائیں گی…
حافظ
شیرازؒ تو فرماتے ہیں ؎
کہ
عشق آساں نمود اوّل ولے اُفتاد مشکلہا
کہ
شروع میں عشق آسان تھا مگر پھر اچانک مشکلات آگئیں… مگر ہمارے ساتھ تو عجیب ہوا
کہ… عشق شروع ہوتے ہی مشکلات نے اپنے نوکیلے دانت نکال لئے… اس وقت جہادی جماعتیں
آزادی کے ساتھ کام کر رہی تھیں… ملکی اور عالمی سطح پر کوئی خاص رکاوٹیں نہیں تھیں…
پاکستان میں دو درجن سے زائد جہادی جماعتیں موجود تھیں… ان کے کھلے عام دفاتر تھے…
چنانچہ میں نے اور میرے رفقاء نے بھی یہی سوچا کہ ہمارے لئے بھی جماعت قائم کرنا
اور اسے چلانا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا… مگر جیسے ہی ہم نے نام تجویز کیا اور جماعت
کا اعلان کرنے کی تیاری کی… دنیا بھر میں گویا ایک بھونچال آگیا… عالمی طاقتوں نے
حکومت پاکستان سے کہا کہ ان کو روکو یہ عالمی دہشت گرد جمع کریں گے… اور پاکستان میں
قائم بعض جہادی جماعتوں نے حکومت سے فریاد کی کہ ان کو روکو یہ فرقہ پرستی پھیلائیں
گے اور حکومت سے آزاد ہو کر کام کریں گے…
الغرض
ہر طرف سے اتنا دباؤ پڑا کہ حکومت پاکستان نے پوری قوت کے ساتھ جماعت کے اعلان کو
روکنے کا فیصلہ کرلیا… اور یہ طے پا گیا کہ اڑنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹ دیئے جائیں…
دوسری طرف ہم نے اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنی کشتی طوفان میں ڈالنے کا عزم کرلیا
تھا… مگر ہم کمزور تھے اور حکومت بہت طاقتور… میں کئی سال بعد پاکستان آیا تھا…
دفتر تو درکنار اپنے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی… ان حالات میں اچانک حضرت قاری
صاحبؒ میرے کمرے میں داخل ہوئے… جی ہاں اﷲ تعالیٰ کی نصرت بن کر… اور کمرہ خوشبو
سے مہکنے لگا اور روشنی سے چمکنے لگا… وہ اپنے بیٹے کے سہارے چل کر آئے مجھے خوب سینے
سے لگایا اور چند ایسی باتیں فرمائیں کہ میں بوکھلا گیا… ان کی باتوں میں بے پناہ
محبت تھی اور کچھ بشارتیں…
پہلی
ملاقات کا سبق
اس
ملاقات کی کیفیت تو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی… مگر اتنا یاد ہے کہ ان کی آنکھیں
بھیگی ہوئی تھیں… اور ان کے الفاظ سیدھے دل میں اتر رہے تھے… تھوڑی دیر بعد ارشاد
فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ مجھ ناچیز کی دعائیں اپنے فضل سے قبول کرتا ہے… میں نے فوراً
عرض کیا… حضرت ہماری جماعت قائم ہوجائے اس کی دعاء فرمادیجئے… ارشاد فرمایا:… میں
آپ کے لئے دعاء کروں؟… چلیں ٹھیک ہے میرے پاس دلیل موجود ہے کہ چھوٹا بڑے کے لئے
دعاء کرسکتا ہے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے دعاء کی
فرمائش فرمائی تھی… کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں دو رکعت نماز ادا کروں… میں نے ادب
سے سر ہلادیا انہوں نے اپنا رومال بچھایا… دو رکعت نماز بیٹھ کر ادا کی اور پھر
دعاء کے لئے ہاتھ اٹھالئے… یا اﷲ آپ ایک ہیں… آپ نے خود قرآن مجید میں چالیس سے
زائد بار فرمایا ہے… ان اﷲ علٰی کل شیء قدیر… واﷲ علٰی کل شیء قدیر… وہ اسی طرح اﷲ
تعالیٰ سے باتیں کرتے رہے اور دعاء فرماتے رہے… میں نے ایسی دعائیں پہلی بار دیکھی
اور سنی تھی… ہم بھی ہاتھ اٹھا کر ان کے ساتھ شریک تھے… وہ کبھی دعا کرتے اور کبھی
درمیان میں ہمیں کوئی نصیحت… پتہ نہیں چل رہا تھا کہ دعاء ہے یا اصلاحی بیان… پھر
اچانک انہوں نے ہاتھ چہرے پر پھیرے اور مجھے فرمایا… انشاء اﷲ جماعت ضرور بنے گی…
کوئی مائی کا لال نہیں روک سکے گا… اور جماعت خوب چلے گی… اور بھی اس طرح کی چند
باتیں ارشاد فرمائیں…
پھر
انہوں نے وعدہ لیا کہ اگر جماعت بن گئی تو آپ میرے گاؤں میری مسجد میں آ کر بیان
کریں گے… میں نے عرض کیا ضرور انشاء اﷲ… پھر وہ جانے لگے میں نے حاضرین سے آواز
چھپا کر عرض کیا… اولاد کی تمنا ہے دعاء فرمائیں کہ اﷲ پاک صالح اولاد عطاء
فرمادے… شادی چند دنوں تک ہونے والی ہے … وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوئے اور فرمایا
انشاء اﷲ بیٹا ہوگا… اور جتنی کم سے کم مدّت میں صحت مند بچہ پیدا ہوسکتا ہے…
انشاء اﷲ اتنی مدّت میں پیدا ہوجائے گا… پھر مصافحہ ہوا اور وہ ہمیں حیران چھوڑ کر
تشریف لے گئے… اس ملاقات کے محض چند دن بعد حضرت مفتی نظام الدین شامزیؒ اور حضرت
مفتی جمیل خان صاحبؒ نے کراچی پریس کلب میں جماعت کا اعلان کردیا… اور شادی کے نو
مہینے بعد اﷲ پاک نے مجھے بیٹا عطاء فرمادیا… اور یہ حدیث شریف دل و دماغ میں نور
بکھیرنے لگی… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا…
رُبَّ
اَشْعَثَ اَغْبَرَ مَدْفُوْعٍ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اﷲِ لَاَبَرَّہٗ
یعنی
بہت سے پراگندہ حال لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اﷲ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اﷲ
تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور پورا کرے (صحیح مسلم)
حضرت
قاری صاحبؒ کی بعض صفات
حضرت
قاری صاحبؒ کی خدمت میں حاضری سے بہت دینی فائدہ ملتا تھا… وہ عجیب علمی نکتے بھی
بیان فرماتے تھے… ایک بار فرمایا پانی کی آٹھ قسمیں ہیں… آپ لوگ بتائیں کہ ان میں
سے سب سے افضل پانی کونسا ہے؟… پھر ارشاد فرمایا سب سے افضل وہ پانی ہے جو بطور
معجزہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے نکلا تھا… اس کے بعد باقی
سات اقسام بیان فرمائیں… ہم نے یہ نکتہ ان ہی کی زبانی سنا… اسی طرح ایک بار ارشاد
فرمایا کہ جہاد کی قرآنی آیات ایک ہزار ہیں… اب بندہ نے تفاسیر کے مطالعے اور قرآن
پاک کی بار بار تلاوت کے بعد جو فہرستیں مرتب کی ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ…
اگر مکمل تحقیق کی جائے تو مکی سورتوں کے اشاراتِ جہاد سمیت کم و بیش ایک ہزار آیات
میں جہاد کا مسئلہ بیان ہوا ہے… حضرت قاری صاحبؒ کو قرآن پاک کے ساتھ بہت گہرا
تعلق نصیب ہوا تھا… وہ قرآن پاک کے علوم اور تجوید کے متعلق نکتے جمع فرماتے تھے
اور ان کو بیان بھی کرتے تھے… میں نے ان کے کاغذات میں کئی فہرستیں دیکھی ہیں جو
وہ خود مرتب فرمارہے تھے… قرآن پاک کا ذاتی نام ’’قرآن مجید‘‘ قرآن میں کتنی جگہ آیا
ہے؟… علم کا لفظ قرآن پاک میں کتنی جگہ آیا ہے؟… اسی طرح جب بھی حضرت قاری صاحبؒ
کے سامنے کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تو اس کا حل قرآن پاک سے بتانے کی کوشش فرماتے
تھے… اور قرآنی وظائف پر بھی خاصا عبور رکھتے تھے… یہ باتیں اور علمی سوغاتیں تو
ان کی ہر مجلس کا تحفہ تھیں… ہمیں جو اصل فوائد نصیب ہوتے تھے ان میں سے چند ایک
درج ذیل ہیں:
(۱) ’’اﷲ ایک ہے‘‘، اس کا یقین مضبوط ہوتا تھا
(۲) جہاد
سے محبت بڑھتی تھی
(۳) دنیا
سے بے رغبتی پیدا ہوتی تھی
(۴) رضا
بالقضاء یعنی اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا
(۵) ’’توکُّل‘‘
کا مطلب سمجھ آتا تھا
(۶) حضور
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کا شوق اور صحابہ کرام کی محبت تازہ ہوتی تھی۔
حضرت
قاری صاحبؒ بعض اوقات کسی کام کی پیشین گوئی بھی فرما دیتے تھے… چنانچہ کچھ لوگوں
نے کہنا شروع کردیا کہ ہم ان سے بشارتیں اور پیشین گوئیاں سننے جاتے ہیں… حالانکہ
ایسا ہر گز نہیں تھا… ہم تو اس دور میں ماضی کے ایک مبارک انسان کی زیارت کے لئے
جاتے تھے… جو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو چھوڑ چکا تھا… جو اس دنیا کے ہر انسان کو
کچھ نہ کچھ دینے کی فکر رکھتا تھا… اور خود کسی سے کچھ لینے کا آرزومند نہیں تھا…
جو سر سے پاؤں تک بیماریوں، تکلیفوں اور معذوریوں کے باوجود زبان پر شکوہ نہیں
لاتا تھا… اور اﷲ تعالیٰ کے شکر میں مگن رہتا تھا… جو اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی
راضی رکھنے کی فکر نہیں کرتا تھا… جو سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر شکر کرکے کھاتا
تھا… جو چوبیس گھنٹے میں تین گھنٹے سوتا تھا… جو دین کے کاموں کے لئے اسی طرح
تڑپتا تھا جس طرح اہلِ دنیا مال کے لئے تڑپتے ہیں… اور جو ہر وقت موت کی مکمل تیاری
میں رہتا تھا… جی ہاں مکمل تیاری میں… کیا ہم بھی ایسے ہیں؟… نہیں ہم تو اس دنیا کی
راحت، عزت اور مفاد کی خاطر آخرت کی ہر نعمت قربان کردیتے ہیں… جبکہ اس نے آخرت کی
خاطر دنیا کی ہر راحت اور نعمت کو قربان کر رکھا تھا… کیونکہ اس کو یقین تھا کہ
’’اﷲ ایک ہے‘‘…
جہاد
سے والہانہ محبت
ایک
بار انہوں نے ملاقات کے لئے یاد فرمایا… ہم چند ساتھی حاضر خدمت ہوئے تو اس دن کا
منظر حیران کن تھا… حضرت قاری صاحبؒ خاکی رنگ کا لباس پہنے بیٹھے تھے… حیرانی کی
وجہ یہ تھی کہ حضرت ہمیشہ سفید لباس کا شدت سے اہتمام کرتے تھے… اور دوسروں کو بھی
اس کی ترغیب دیتے تھے… یہ ان کا اپنا خاص ذوق تھا اور اﷲ والوں کی اپنی بعض خاص
’’ذوقیات‘‘ ہوا کرتی ہیں… ان کے ہاں سفید لباس کا اہتمام اس قدر تھا کہ اپنی مخصوص
اصلاحی مجالس میں اس لباس کے بغیر شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے… مگر اس دن انہوں
نے خاکی رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی اور طبیعت پر بے حد جوش طاری تھا… ارشاد فرمانے
لگے یہ لباس میں نے خاص طور پر سلوایا ہے صرف جہاد کے لئے … صرف جہاد کے لئے… اب میں
جہاد میں شرکت کے لئے تیار ہوں… پھر اپنا عصا اٹھا کر کھڑے ہوگئے اور جہاد کی شان
میں جوش سے بیان فرمانے لگے… جب ہماری واپسی ہوئی تو گھر سے باہر تک چھوڑنے کے لئے
نکلے اور دروازے سے نکل کر دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہوگئے… اور بہت بلند آوازسے
والہانہ انداز میں جہاد پر بیان فرماتے رہے… اہل محلہ کافی تعداد میں جمع ہوگئے…
وہ سب حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟… مگر جہاد کی محبت میں سرمست حضرت
قاری صاحبؒ کس کی پروا کرتے تھے؟… حضرت قاری صاحبؒ کے جہاد کے ساتھ تعلق کے واقعات
بہت زیادہ ہیں… میں نے خاکی لباس والا واقعہ اس لئے عرض کردیا کہ وہ لوگ جو حضرت
قاری صاحبؒ کو جانتے ہیں… وہ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت قاری صاحبؒ کے
نزدیک جہاد کا کیا مقام تھا کہ انہوں نے اس کی خاطر اپنے لباس تک کو کچھ دیر کے
لئے بدل لیا… حضرت قاری صاحبؒ کئی سال تک مجاہدین کے سروں پر ٹھنڈا سایہ بنے رہے…
وہ مجاہدین کی آمد پر اتنے خوش ہوتے کہ اپنی معذوری کے باوجود نعرے لگاتے ہوئے
باہر نکل آتے… میں کس طرح سے اس منظر کو بھولوں گا کہ ایک مرتبہ جب ہم ا ن کے کمرے
میں داخل ہوئے تو وہ دروازے کے پاس گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر ہم سے ملے… حالانکہ
معذوری اور بیماری کا یہ عالم تھا کہ اپنے بستر سے گھسٹ گھسٹ کر دروازے تک آتے تھے
مگر پھر بھی بے حد خوش تھے… وہ کئی بار مجاہدین کے مراکز میں تشریف لے گئے اور کئی
کئی دن کا بابرکت قیام فرمایا… جہادی جماعتوں پر پابندی لگی تو حضرت قاری صاحبؒ کی
محبت، شفقت اور سرپرستی میں مزید جوش آگیا… وہ مجاہدین کو ہمت دلاتے تھے، دعاؤں سے
نوازتے تھے، ملاقات کے وقت خوب کھلاتے پلاتے تھے اور رخصت کے وقت مالی ہدایا دیتے
تھے… ہماری جماعت پر تو ان کے احسانات شمار سے باہر ہیں… وہ اسے اپنی جماعت سمجھتے
تھے اور صرف اسی جماعت کی سرپرستی فرماتے تھے… جماعت کے قیام کے بعد جماعت کی تعلیم
کے لئے مرکز کا انتظام نہیں تھا… حکومت وقت نے بہت رکاوٹ ڈال رکھی تھی… اور بعض
بااختیار افراد نے تو کہہ دیا تھا کہ ایک سال تک اس کا خیال ہی دل سے نکال دو… ہم
نے حضرت قاری صاحبؒ سے دعاء کی درخواست کی… انہوں نے دعاء فرمائی اور پھر ارشاد
فرمایا مرکز جلدی بنے گا کوئی مائی کا لال نہیں روک سکے گا اور خوب کام ہوگا… اﷲ
پاک نے ان کی دعاء سن لی اور چند دن بعد کئی ہزار افراد کی موجودگی میں انہوں نے
خود اس مرکز کا افتتاح کیا… اور الحمدﷲ پانچ سال میں ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد نے
اس مرکز سے فیض حاصل کیا… حضرت قاری صاحبؒ خود بھی اس مرکز سے محبت رکھتے تھے… وہ
کئی مرتبہ یہاں تشریف لائے… آخری بار اپنی بیماری کے باوجود اہلیہ محترمہ کے ساتھ
تشریف لائے… چند دن قیام فرمایا… ملاقات کے لئے حاضری ہوئی تو بہت خوش تھے… اپنا
کفن دکھا کر فرمایا کہ اگر میرا یہاں انتقال ہو جائے تو چار گھنٹے کے اندر اسی
مرکز میں تدفین کردیں… اور میری اہلیہ یہاں چار مہینے دس دن کی عدت گزاریں گی پھر
اپنے گاؤں چلی جائیں گی… مرکز کے اس قیام کے دوران انہوں نے ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘
کا وہ عمل بھی عطاء فرمایا جو … مجاہدین کے لئے ’’رحمت الٰہی‘‘ اور ’’نصرت ربانی‘‘
کا ذریعہ بنا ہواہے… ماشاء اﷲ ولا قوۃ الا باﷲ…
مختصر
واقعہ اس عمل کے عطاء فرمانے کا یہ ہے کہ … جب حضرت نے مرکز کا آخری سفر فرمایا تو
بندہ بھی زیارت وملاقات کے لئے حاضر ہوا… آپ نے اپنے کمرے کے درمیان چادر لٹکاکر
اس کے دو حصے کردئیے تھے… ایک حصے میں اہلیہ محترمہ کا قیام تھا اور دوسرے میں
حضرت ؒ آنے والوں سے ملاقات کرتے تھے…
میں
حاضر ہوا تو حسب سابق بہت محبت اور تپاک سے ملے… پہلے انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ
آپ کے ساتھیوں نے میرے لئے بہت اچھا انتظام کیا ہے… میں یہاں خوش ہوں… پھر ان کی
آنکھوں میں آنسو آگئے وہ رومال سے آنسو پونچھتے تھے اور فرماتے تھے مجھے سب پتا چل
گیا ہے کہ آپ کے خلاف کیا کچھ کیا جارہاہے… (ان دنوں جماعت میں کافی بحران تھا اور
ہمارے خلاف شدید مہم چلی ہوئی تھی مگر ہم نے حضرت قاری صاحبؒ کو کچھ نہیں بتایا
تھا) مگر یاد رکھیں مولانا! کہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘… یہ لوگ کامیاب نہیں ہوں گے… اس لئے
کہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘ اور وہ آپ کے ساتھ ہے… اگر دو ہوتے تو ایک ان کے ساتھ ہوتا ایک
آپ کے ساتھ … مگر ’’اﷲ ایک ہے‘‘… ہاں بس آپ اتنا کریں کہ میں ایک عمل بتاتا ہوں…
آپ وعدہ کریں کہ یہ عمل اپنے والد صاحب کو بھی نہیں بتائیں گے… میں بھی یہ عمل
کرتا ہوں آپ بھی کریں اور ایک اور ساتھی بھی… انشاء اﷲ مخالفوں کی ہر سازش ناکام
ہوجائے گی… پھر حضرت نے ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کا عمل تلقین فرمایا… ’’بسم اﷲ
الرحمن الرحیم‘‘ تو اﷲ تعالیٰ کے عرش کے خزانوں میں سے ایک بڑا خزانہ ہے… اﷲ پاک
نے اس عمل کے ساتھ کی ہوئی دعا قبول فرمائی اور ہماری جماعت الحمدﷲ محفوظ رہی… اس
کے بعد حضرت ؒ کراچی تشریف لے گئے… بندہ کو ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کے عمل سے
بہت فائدہ ہوا تو مجاہدین کے لئے اس عمل کو عام کرانے کی تمنا پیدا ہوئی… میں نے
حضرتؒ سے ٹیلیفون پر عرض کیا کہ مجاہدین بہت مظلوم اور پریشان حال ہیں… مہربانی
فرمائیں اور اس عمل کو عام فرما دیں… حضرتؒ خلاف عادت تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر
فرمایا ٹھیک ہے… وہ دن ہے اور آج کا دن کہ اﷲ تعالیٰ نے مجاہدین کو ’’بسم اﷲ
الرحمن الرحیم‘‘ کی قوت اور برکت میں سے حصہ عطاء فرمادیا ہے… جو کہ یقینا ہمارے
حضرت قاری صاحبؒ کا فیض اور ان کا صدقہ جاریہ ہے… (قارئین القلم اگر یہ عمل معلوم
کرنا چاہیں تو لطف اللطیف د میں ملاحظہ فرمالیں)…
جہاد
کے ساتھ حضرت قاری صاحبؒ کے تعلق کی داستان بہت طویل ہے… انہوں نے مجاہدین کو بہت
فائدہ پہنچایا… اور مستقبل کے لئے بہت اعلیٰ بشارتوں سے نوازا… اﷲ تعالیٰ پر کسی
کا زور نہیں چلتا کبھی وہ اپنے بندوں کو ’’کرامت‘‘ سے نوازتا ہے اور بشارتوں اور پیشین
گوئیوں کو پورا فرمادیتا ہے… اور کبھی وہ شان بے نیازی پر آتا ہے تو اولیاء اﷲ کی
زبان سے نکلی ہوئی بشارت بھی پوری نہیں ہوتی… کُلَّ یَومٍ ہُوَ فی شأن… اﷲ تعالیٰ
مالک ہے… اور ہم اس کے بندے ہیں… ہماری دعاء ہے کہ حضرت قاری صاحبؒ نے ہم ناکارہ
لوگوں کو جن دعاؤں سے نوازا… جن بشارتوں سے نوازا… اﷲ پاک ان کو محض اپنے فضل سے
پورا فرمادے گا… اس لیے کہ ہمارا تو اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں… اور ’’اﷲ ایک
ہے‘‘…
مقبولیت
دعاء کی وجہ
حضرت
قاری صاحب ؒ ’’مستجاب الدعوات‘‘ تھے یعنی
ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں… دعاء قبول ہونے کی جو شرطیں احادیث مبارکہ میں آئی ہیں
وہ حضرت قاری صاحبؒ میں موجود تھیں… میں نے ان کے ساتھ ایک بار چوبیس گھنٹے کا وقت
گزارا… اس پورے عرصے میں انہوں نے کوٹی ہوئی برف کے دو چمچے تناول فرمائے… نہ روٹی
نہ سالن نہ چائے ارشاد فرمایا کہ برف لے آئیں… برف کو کوٹ کر دو چمچے کھالئے اور
بس… حالانکہ سفر تھا مگر وہ اس کم خوراکی کے باوجود ہشاش بشاش رہے… رزق حلال کا
بہت زیادہ اہتمام تھا… بلاتحقیق کسی کا ہدیہ تک نہ لیتے تھے… ذکر وعبادت تو ماشاء
اﷲ اسلاف کے طرز کی تھی… جبکہ شریعت کی پابندی اور اتباع سنت میں بھی بہت سخت تھے…
یہ تمام صفات انسان کی دعاء کو جاندار بناتی ہیں مگر حضرت قاری صاحبؒ اپنے
’’مستجاب الدعوات‘‘ ہونے کی ایک خاص وجہ بیان فرمایا کرتے تھے… ارشاد فرمایا کہ ایک
بار میرے شیخ ؒ نے مجھے بلایا… (آپ سلسلہ
نقشبندیہ میں حضرت اقدس مولانا عبدالغفور عباسی مہاجر مدنیؒ سے بیعت تھے) اور
ارشاد فرمایا کہ میں نے آپ کو خلافت دے دی ہے… میں نے عرض کیا حضرت ! میں بہت سخت
ہوں مجھے خلافت نہ دیں… مگر حضرت نے خلافت عطاء فرمادی، پھر فرمایا… اگر آپ اﷲ
تعالیٰ سے شکوہ نہیں کریں گے تو آپ کی ہر دعاء انشاء اﷲ قبول ہوگی… چنانچہ مجھ پر
جیسے بھی حالات آجائیں میں اﷲ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرتا… اﷲ اکبر کبیرا… اﷲ تعالیٰ
کی تقدیر پر راضی رہنا کتنی بڑی صفت… اور کتنی بڑی نعمت ہے…
ہم
میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے خوش ہوجائے… جبکہ ہم خود اﷲ تعالیٰ سے
خوش نہیں ہوتے… حالانکہ ہم اﷲ تعالیٰ سے خوش اور راضی ہوں گے تو وہ ہم سے خوش
ہوگا… ہم نے حضرت قاری صاحبؒ کو ہمیشہ اﷲ تعالیٰ سے خوش اور راضی دیکھا… وہ خود کو
نعمتوں میں ڈوبا ہوا محسوس کرتے تھے… حالانکہ ظاہری طور پر ان کی زندگی اتنی مشکل
تھی کہ عام لوگ دو دن بھی اتنی سخت زندگی نہیں گزار سکتے… میں اکثر عرض کرتا ہوں
کہ ’’مجاہدۂ نفس‘‘ اگر دیکھنا ہو تو حضرت قاری صاحبؒ کی زندگی میں دیکھیں… وہ پیٹ
کی رسولی کی وجہ سے لیٹ تک نہیں سکتے تھے اور ساری رات اور دن بیٹھ کر گزارتے تھے…
اور بیٹھے بیٹھے چند گھنٹے کی نیند کرلیتے تھے… ایک طرف معذوری تھی اور دوسری طرف
غیرت… تو وضو کرنا بھی ایک پہاڑ تھا… مگر وہ خوشی سے ایسی سخت زندگی مکمل عبادت
اور آداب کے ساتھ جی رہے تھے… آج ہم لوگ دو چار تسبیح پڑھ کے اور صرف اصلاحی بیعت
کرکے نفس کے جہاد اور مجاہدے کی بات شروع کردیتے ہیں… حالانکہ نفس کا مجاہدہ اور
جہاد تو تب ہوتا ہے جب جینا مشکل ہوجائے اور انسان اﷲ پاک کی رضاء کے کاموں اور
شکر میں لگا رہے…
حضرت
قاری صاحبؒ علماء کرام سے فتویٰ لے کر دوا تک نہیں کھاتے تھے… اور آپریشن کے تو
لفظ سے ہی انہیں چڑ تھی… اﷲاکبرکبیرا… کتنی سخت مشقت والی زندگی انہوں نے خوشی خوشی
اﷲ پاک کا بندہ بن کر گزاری… اور تو اور جب ان سے حال پوچھا جاتا تھا تو سخت تکلیف
کے عالم میں بھی اپنی بیماری کا تذکرہ نہیں چھیڑتے تھے… بلکہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘ کا
نعرہ لگا کر دینی باتوں میں مشغول ہوجاتے تھے… ہاں بے شک ایک مؤمن کے لئے یہ بہت
بڑی نعمت ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے راضی ہو… آج ہمیں اس نعمت کی سخت
ضرورت ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی کئی مبارک دعاؤں میں ہمیں یہ نعمت
مانگنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے… چونکہ یہی نعمت اور صفت حضرت قاری صاحبؒ کے تمام
کمالات کی بنیاد تھی اس لیے ہم بھی ان مسنون الفاظ میں اس نعمت کی دعاء مانگا کریں:
(۱) اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعِفَّۃَ
وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخَلْقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْرِ (بیہقی، کنزالعمال)
ترجمہ: اے اﷲ میں آپ سے مانگتا ہوں ’’صحت‘‘ اور
’’پاکدامنی‘‘ اور ’’امانت داری‘‘ اور اچھے اخلاق اور تقدیر پر راضی رہنا۔
(۲) اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الرِّضَا بِالْقَضَائِ (کنزالعمال)
ترجمہ: یا اﷲ میں آپ سے مانگتا ہوں تقدیر پر راضی
ہونا۔
(۳) اَللّٰہُمَّ
اَرْضِنِیْ بِقَضَائِکَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا قُدِّرَلِیْ
ترجمہ: یا اﷲ مجھے اپنی تقدیر پر راضی فرمادیجئے اور
جو میرے مقدر میں لکھا ہے اس میں میرے لئے برکت عطاء فرمادیجئے…
روایات میں آتا ہے کہ
سعادت مند آدمی وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے… اور شقی وبدبخت وہ
ہے جو تقدیر پر راضی نہیں ہوتا…
اﷲ پاک مجھے اور آپ
سب کو سعادت مند مسلمان بنائے دراصل تقدیر پر راضی نہ ہونے کی دو بڑی وجوہات ہوتی
ہیں:
(۱) تکبر (۲) حبّ
دنیا
جس
آدمی کے دل میں تکبر ہوتا ہے اس پر جیسے ہی مشکل حالات آئیں تو وہ چیخنے اور ٹوٹنے
لگ جاتاہے کہ میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟… حالانکہ ہم سب اﷲ تعالیٰ کے غلام اور
بندے ہیں اور اس نے ہمیں اپنی غلامی اور بندگی کے لئے پیدا فرمایا ہے…
وَمَا
خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ
اور
جس آدمی کے دل میں حبّ دنیا ہوتی ہے اس کی خواہشیں زیادہ ہوتی ہیں بس جیسے ہی اس کی
کوئی خواہش ٹوٹتی ہے وہ بے صبری کرتا ہے اور چیخنے لگتا ہے… حالانکہ ہم سب نے مرنا
ہے… اور جہنم کا اوپر والا درجہ اس امت کے لوگوں کے لئے ہے… ہمیں تو اس سے بچنے کی
فکر کرنی چاہئے نہ کہ… اپنی خواہشات اور تمناؤں کی… اﷲ پاک میری اور آپ سب کی تکبر
اور حبّ دنیا سے حفاظت فرمائے… ہم سب ان دو بیماریوں سے بچنے کی خاص دعا ء کیا کریں…
اﷲ تعالیٰ نے حضرت قاری صاحبؒ کو تکبر سے بچایا… حبّ دنیا سے بچایا… اور پھر اپنی
رضا پر راضی فرمادیا… اب قاری صاحبؒ اپنی شاندار ایمانی… اور پرمشقت جہادی زندگی
گزار کر اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں… اﷲ تعالیٰ ان کے ساتھ صدیقین والا معاملہ فرمائے… یا
اﷲ ان کے درجات بلند فرما کیونکہ وہ تو یہی کہا کرتے تھے کہ … ’’اﷲ ایک ہے‘‘…
٭٭٭
ربیع الاول کا
مہینہ اور امت کا غم
٭مسلمانوں کے
لئے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے بڑی خوشی اور کونسی ہو
سکتی ہے؟… مگر ہم مسلمان خوشی اور غم منانے میں بھی اپنے محبوب آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی سنت کے پابند ہیں… اور آقا مدنی
صل اﷲ علیہ وسلم نے ہم مسلمانوں کے لئے دو ’’عیدیں‘‘ مقرر فرمائی ہیں…
٭ جشن میلاد کے
موقع پر جو کچھ رواج پا گیا ہے، کیا یہ ’’ اسلامی مزاج‘‘ اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کے مطابق ہے؟
٭ جشن منانا اہم
ہے یا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کا غم کھانا؟
٭ برصغیر میں
انکار جہاد کا فتنہ اور اس کے سدِ باب کی ضرورت
٭ فتح الجوّاد فی
معارف آیات الجہاد کی اس زمانے میں ضرورت
اور
بہت
سی مفید باتوں پر مشتمل … ایک زندہ تحریر
تاریخ
اشاعت ۱۷ ؍ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
۶؍اپریل۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۹۱
ربیع الاول کا
مہینہ اور امت کا غم
اﷲ
تعالیٰ کی شان دیکھئے… ہمارے حضرت قاری محمد عرفان صاحبؒ کی ذات کی طرح ان کا
’’خصوصی شمارہ‘‘ بھی خوب مفید ثابت ہوا… پڑھنے والوں نے حضرت قاری صاحبؒ کی یادوں
اور باتوں سے بہت فائدہ پایا، بہت فیض اٹھایا… الحمدﷲ ہر طرف سے خوشی اور مسرت کے
پیغامات آرہے ہیں… اﷲ تعالیٰ ’’القلم‘‘ والوں کو جزائے خیر عطاء فرمائے اب وہ اس
خصوصی شمارے کو ایک خوبصورت کتابچے کی صورت میں شائع کر رہے ہیں… قارئین کرام دعاء
فرمائیں کہ یہ کتابچہ جلدی آجائے… اﷲ پاک کے ایک سچے اور مخلص عاشق کا تذکرہ ہم سب
کے کتب خانوں کی زینت بنے… معلوم ہوا ہے کہ اس کتابچے میں القلم کے مضامین کے
علاوہ مزید مضامین بھی ہوں گے…
’’الحمدﷲ الذی بنعمتہٖ تتم
الصالحات‘‘
یہاں
ایک اور خوشخبری بھی سن لیجئے… القلم کا اگلا شمارہ بھی ایک ’’خصوصی نمبر‘‘ ہے… جی
ہاں قرآن پاک کی آیات جہاد پر لکھی جانے والی کتاب ’’فتح الجوّاد فی معارف آیات
الجہاد‘‘ پر خصوصی شمارہ… اﷲاکبرکبیرا ربیع الاوّل کے موقع پر یہ ہم سب کے لئے
کتنا قیمتی تحفہ ہوگا… آج ہر طرف ’’عید میلاد النبی‘‘ کے نام پر جشن ہی جشن ہیں…
قورمے، بریانی، حلوے اور نہاری کی بو میں رچے ہوئے ڈکار لینے والے اُمَّتی… میرے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر جلوس نکال رہے ہیں… نعوذ باﷲ! نقلی روضے، گنبد اور
پہاڑ بنا رہے ہیں… دراصل یہ لوگ ’’کرسمس‘‘ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں… اور یہ اپنے
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین اور مزاج کو نہیں پہچانتے… یہ لوگ مکہ کے تیرہ سالوں
کی دہشت زدہ راتیں اور سخت دن بھول چکے ہیں… ان لوگوں کو طائف کا سفر بھی یاد نہیں
ہے… انہیں ہجرت کی رات اور غار ثور کی روپوشی کا بھی ادراک نہیں ہے… انہیں برستے
پتھروں، بھونکتی گالیوں اور شعب ابی طالب کی تنہائیوں کا بھی احساس نہیں ہے… یہ تو
بس جشن میں مست ہیں… طرح طرح کے کھانے، لاؤڈ اسپیکر، پھولوں سے لدے واعظ، گانوں کی
طرز پر نظمیں گانے والے نعت خوان… اور رنگ برنگے سجادہ نشین… ان کو کیا پتا کہ
غزوہ بدر کیا ہے… ان کو کیا معلوم کہ غزوہ احد کا پیغام کیا ہے… ان کو کہاں سمجھ
کہ بئیر معونہ کی ستر لاوارث لاشیں اور پھر میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی آہیں اور
آنسو ہمیں کس راستے اور کس سوچ کی طرف بلا رہے ہیں… ان کو تو بس جشن منانا ہے… اور
اسلام میں ایک نئی عید کا اضافہ کرنا ہے… آج کل جو بھی میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم
کو خواب میں دیکھتا ہے… پریشان اور غمزدہ دیکھتاہے… میرے پاس ایک نہیں کئی خطوط
موجود ہیں… مسلمان آج کے ہوں یا آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے کے … یہ سب میرے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے اپنے امتی ہیں… میرے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم سے جب
اپنے زمانے کے ستر امتیوں کی لاشیں برداشت نہ ہوئیں… تو آج کی لاشیں کس کی ہیں؟…
اب تو ہر دن ستر نہیں کئی سو مسلمان شہید ہوتے ہیں… ٹکڑے ٹکڑے کئے جاتے ہیں… ہر
طرف خونخوار بھیڑئیے میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کو بھنبھوڑ رہے ہیں… اور
امت کے پاس سر چھپانے کی جگہ تک نہیں ہے… اﷲ تعالیٰ یہ سب حالات جب میرے آقا تک
پہنچاتا ہوگا تو ان کے دل مبارک پر کیا گزرتی ہوگی… ہائے امت… ہائے امت… زمانے کے
بدترین لوگ اس امت کے حکمران بن گئے… ہاں وہی ظالم جو امت کا خون بیچ کر شراب خریدتے
ہیں… اور مسلمانوں کو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم سے دور کھینچتے ہیں… کل میلاد کا
جشن منانے والے آج آدھا دن تو سوئے ہونگے… اور پھر جاگ کر کیا کریں گے؟… کھانے کی
دیگوں کا حساب… چندے اور آمد وخرچ کا حساب… ایک دوسرے پر زیادہ کھانے کے الزامات…
شامیانے، دریاں اور ان پر بکھرے ہوئے چاول… نہ کسی مسلمان کو سنت کی دعوت ملی… نہ
کسی مسلمان کو جہاد کاسبق ملا… نہ کسی غافل کی غفلت دور ہوئی… نہ کسی فاسق کا فسق
توبہ کے آنسوؤں سے دھلا… ہر طرف بجلی چوری ہوئی… عیسائیوں کی طرح جلتی بجھتی لائٹیں…
اور ہندوؤں کی طرح دیوالی کے دئیے جلائے گئے… اﷲ اکبر کبیرا… کہاں مدینہ منورہ کا
باوقار منظر … جو نہ کسی کی پیدائش پر بدلتا تھا اور نہ کسی کی موت سے اس پر کوئی
فرق پڑتا تھا… اور کہاں یہ بازاری میلے… رب کعبہ کی قسم ڈر لگتاہے کہ یہ سب کچھ میرے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہ ہو… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ان چیزوں
سے کیا تعلق… آپ کی شان تو ان تماشوں سے بہت بلند ہے… اور اس بار تومزید ستم یہ
ہوا کہ اپنے لیڈروں کی تصویریں بھی ’’عید میلاد النبی‘‘ کے جلوس کا حصہ بنادی گئیں…
استغفر اﷲ، استغفراﷲ…
ہائے کاش یہ لوگ ان کاموں سے توبہ کرتے… ہائے کاش انہوں نے
اگر کوئی خوشی منانی بھی ہے تو اسے دینی ڈھنگ سے مناتے… اور میرے آقا کی امت کا غم
کھاتے…
ادارہ
القلم اپنے اگلے شمارے میں آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جہاد والے پیغام کو عام
کرنے کا ارادہ رکھتا ہے… ہمارے قارئین کو معلوم ہوگا کہ روئے زمین کا ایک عظیم
دجالی فتنہ ’’قادیانیت‘‘ ہے… اس فتنے کا بانی مرزا غلام قادیانی مشرقی پنجاب کا
رہنے والا ایک سازشی انسان تھا… اس زمانے میں برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی…اور
انگریز مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے خائف تھے… چنانچہ انہوں نے مرزا قادیانی کو کھڑا
کیا جس نے کئی مسلمانوں کے ذہنوں میں جہاد جیسے محکم فریضے کے خلاف وساوس کے بیج
بودئیے… مرزا قادیانی نے اپنی ذات کے بارے میں طرح طرح کے دعوے کئے اور بالآخر اس
ملعون نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک کوشش کی…
مرزا قادیانی کا فتنہ اوّل تا آخر جہاد فی سبیل اﷲ کے خلاف ایک منظم کوشش کا نام
ہے… ہر قادیانی فرقہ پرستی کے خلاف خوب بولتا ہے اور یہی قادیانیوں کی سب سے بڑی
پہچان ہے… حالانکہ قادیانی خود سب سے بڑے فرقہ پرست اور گمراہ ہیں… مرزا قادیانی ۱۹۰۸ء میں
مرگیا… اب اس کی ’’بدقسمت قوم‘‘ اگلے سال یعنی ۲۰۰۸ء میں
صد سالہ جشن منانے کی تیاری کر رہی ہے… ہائے افسوس کے ہر مرتد مدعی نبوت کا فتنہ
جلد ختم ہوگیا… مگر یہ ناسور اب اگلے سال سو سال سے زائد عمر کا ہوجائے گا… ہماری یہ
بدنصیبی اپنی جگہ… مگر الحمدﷲ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتیوں نے مرزا قادیانی
کے تمام جال ٹکڑے ٹکڑے کرد ئیے ہیں… چنانچہ اب جو شخص بھی قادیانی ہوتا ہے وہ دلیل
کے دھوکہ میں نہیں بلکہ مال اور ظاہری امن کے لالچ میں مرتد ہوتا ہے…
مرزا
قادیانی کا سب سے خطرناک جال جہاد کے خلاف وساوس کا تھا… افسوس کہ یہ وساوس مرزا
قادیانی کو نہ ماننے والے مسلمانوں میں بھی عام ہو رہے تھے… حالانکہ جہاد کا مسئلہ
سورج سے زیادہ روشن اور واضح ہے… اب الحمدﷲ قرآن پاک کی آیات جہاد پر مستقل کتاب
منظر عام پر آرہی ہے… اس کتاب میں قرآن پاک کی سینکڑوں آیات جہاد کو مستند حوالہ
جات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے… کتاب کی پہلی جلد جو سورۃ البقرۃ، سورۃ آل عمران،
سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ کے معارفِ جہاد پر مشتمل ہے… اگلے ہفتے تک انشاء اﷲ
قارئین کرام تک پہنچ جائے گی… سورۃ الانفال بھی الحمدﷲ مکمل تفصیل کے ساتھ کئی سو
صفحات پر لکھی جا چکی ہے… اور جہاد کے اصل دلائل تو ملتے ہی سورۃ التوبہ، سورۃ
الانفال اور سورۃ محمد میں ہیں… مگر اس کے باوجود سورۃ بقرۃ اور آل عمران وغیرہ کی
آیات جہاد کو ہی دیکھ لیں تو پورا جہاد سمجھ آجاتا ہے… اور جہاد کے خلاف ہر وسوسہ
اور شبہ زائل ہوجاتا ہے… کئی مسلمان کافی عرصہ سے اس کتاب کا انتظار کر رہے تھے… آیات
جہاد کی تفسیر کیسٹوں میں تو موجود تھی اور الحمدﷲ لاکھوں مسلمانوں تک پہنچ چکی تھی
مگر… مستند حوالہ جات کے ساتھ کتابی صورت میں دستیاب نہیں تھی… اب اﷲ پاک کے فضل
وکرم سے یہ مرحلہ بھی کسی حد تک مکمل ہوچکا ہے… اور الحمدﷲ کتاب کی اشاعت سے پہلے
ہی اس کے بیس ہزار سے زائد نسخوں کا آرڈر مکتبے کو موصول ہوچکا ہے… ’’القلم‘‘ کا
اگلا شمارہ انشاء اﷲ اسی کتاب کے مکمل تعارف پر مشتمل ہوگا… اس شمارے میں آپ کو
جہاں کتاب کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوں گی وہاں قرآن پاک کی آیات جہاد کی
فہرستیں بھی دیکھنے کو ملیں گی… مدنی سورتوں میں آیاتِ جہاد… مدنی سورتوں میں
اشاراتِ جہاد… مکی سورتوں میں درجنوں اشاراتِ جہاد اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
کے نزدیک مزید آیاتِ جہاد… ربیع الاوّل کے موقع پر ’’آیات جہاد‘‘ کا مذاکرہ… ان
حالات سے میل کھاتا ہے جو آج امت مسلمہ کو درپیش ہیں… مرزا قادیانی نے ختم نبوت کا
انکار کیا تو علماء کرام نے قرآن پاک کی دو سو آیات جمع کرکے مسئلہ ختم نبوت کو
بالکل واضح فرمادیا… مرزا قادیانی نے حیات حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا تو
علماء کرام نے قرآن وسنت سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے دلائل کو جمع فرمادیا… اسی
طرح مرزا قادیانی نے جب جہاد فی سبیل اﷲ کا انکار کیا… اور جہاد کے مسئلے کو مشکل
اور مشتبہ بنادیا تو الحمدﷲ… مجاہدین نے قرآن پاک کی آیات جہاد کو جمع کرکے چھاپ دیا
ہے… اب قادیانیوں کے پاس کوئی ایسا سوراخ نہیں بچا جس سے وہ مسلمانوں کو علمی طور
پر ڈس سکیں… باقی رہی مال اور پرتعیش زندگی کی حرص… تو اس کی خاطر طوائفیں جسم بیچتی
ہیں… اسی کی خاطر چور چوری کرتا ہے… اسی کی خاطر ڈاکو جانوں سے کھیلتے ہیں… اسی کی
خاطر مسلمان کہلانے والے لوگ کافروں کے سپاہی بنتے ہیں… مال کے لالچی یہ سارے مجرم
خود کو کوئی مذہبی ٹولا یا جماعت نہیں سمجھتے… اور نہ اپنے ان جرائم کے لئے قرآن
وسنت سے کوئی دلیل گھڑتے ہیں… قادیانی ان تمام مجرموں سے بڑے مجرم ہیں… وہ مال،
عہدے اور ظاہری امن وعیش کی خاطر حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا انکار
کرتے ہیں… وہ مسلمانوں کے خلاف انگریزوں اور امریکیوں کی جاسوسی کرتے ہیں… وہ جہاد
کا انکار کرتے ہیں… اور جہاد کے خلاف طرح طرح کے وساوس عام کرتے ہیں… اور بدبختی کی
انتہا یہ کہ ایک بالکل نیا مذہب گھڑنے کے باوجود وہ مسلمانوں کے جسم کے ساتھ کینسر
کی طرح چپکے رہنا چاہتے ہیں… اور افسوس یہ کہ طوائفوں، چوروں اور ڈاکوؤں کے برخلاف
یہ مجرم ٹولہ اپنے جرائم کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل بھی گھڑتا ہے… آج جبکہ
کافروں کی طاقت ایٹم بم تک پہنچ چکی ہے… اور مسلمانوں کا نہ تو کوئی شرعی خلیفہ
ہے… اور نہ ان کے پاس کوئی دار الھجرۃ… ان حالات میں قادیانیوں کے جہاد کے خلاف پھیلائے
ہوئے وساوس ’’دانشمندی‘‘ اور ’’سرکاری پالیسی‘‘ بن چکے ہیں… اے مسلمانو! بہت سوچنے
کا مقام ہے کہ … میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قتال فی سبیل اﷲ قیامت تک
جاری رہے گا… جی ہاں مسلسل جاری رہے گا… اور مرزا قادیانی نے بکواس کی کہ اب جہاد
بند ہوچکا ہے… اے مسلمانو! کس کی بات سچی ہے؟… جہاد کو فساد کہنے والو! تم کس کا
ساتھ دے رہے ہو؟… اپنے ہر عمل کو شرعی جہاد قرار دینے والو! تمہاری تاویلیں کس کو
فائدہ پہنچا رہی ہیں؟… ہاں رب کعبہ کی قسم میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات ہی سچی
ہے… اور قتال فی سبیل اﷲ جاری ہے… اور تاقیامت جاری رہے گا… جب تک کہ اپنا آخری
ہدف ویکون الدین ﷲ مکمل طور پر حاصل نہ کرلے… میدانوں میں اتر کر جہاد کرنے والو
مبارک ہو… تم آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی حفاظت کر رہے ہو… جہاد کی
درست دعوت دینے والو مبارک ہو… تمہاری دعوت آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک
دعوت کا اتباع ہے…
تمام
مسلمانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر آپ بھی آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خیمے کے
پہرے دار بننا چاہتے ہیں تو پھر جہاد کے ساتھ… اپنا معاملہ ٹھیک کرلیں… جہاد کو ویسے
ہی سمجھیں جس طرح آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سمجھایا… جہاد کو ویسے ہی سمجھیں
جس طرح حضرات صحابہ کرام نے سمجھا… اور جہاد کو ویسے ہی سمجھیں جس طرح ہمارے اسلاف
اور ہمارے اکابر نے سمجھا… اﷲ پاک کے حضور اخلاص کے ساتھ دعاء فرمائیں کہ… کتاب
’’فتح الجوّاد فی معارف آیات الجہاد‘‘ جلد منظر عام پر آجائے… اﷲ تعالیٰ اسے اپنے
دربار میں قبولیت عطاء فرمائے… اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو جہاد سمجھانے کا ذریعہ
بنائے… یاد رکھئے کسی بھی عمل کے لئے دعاء کرنے والا اس عمل کے اجر میں حصے داربن
جاتا ہے…
اور ہاں القلم کے لئے بھی دعاء کیجئے کہ وہ… اگلے ہفتے آپ
تک ایک اور خصوصی شمارہ لانے کی تیاری کر رہاہے…
٭٭٭
فتح الجوّاد فی
معارف آیات الجہاد
کا تعارف
٭ ایک کتاب کا
تعارف اور اس کی داستان …کتاب کے مؤلف کے قلم سے
٭ آیات جہاد کی
چار فہرستیں… ایک عجیب علمی تحفہ
٭تہاڑ جیل ،نیو
دہلی انڈیا میں اس کام کا نقش اوّل ترتیب پایا
٭فتح الجوّاد کے
مآخذ
٭دورہ تفسیر آیات
الجہاد کے اساتذہ کرام کے لئے چند گذارشات
تاریخ اشاعت۲۴
؍ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
۱۳؍اپریل ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۲
فتح الجوّاد فی
معارفِ آیاتِ الجہاد تعارف
بسم
اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ
رب العالمین الرحمٰن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اہدنا الصراط
المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین آمین۔
اَلْحَمْدُﷲ
وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفیٰ… سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین
والحمدﷲ رب العالمین… اللّٰہم صل علٰی سیدنا محمد وعلٰی اٰلِ سیّدنا محمد کما صلیت
علی سیّدنا ابراہیم وعلی اٰلِ سیّدنا ابراہیم انک حمید مجید اللّٰہم بارک علٰی سیّدنا
محمد وعلٰی اٰلِ سیّدنا محمد کما بارکت علٰی سیّدنا ابراہیم وعلٰی اٰلِ سیّدنا
ابراہیم انک حمید مجید… اللہم لک الحمد کما ینبغی لجلال وجہِک ولِعَظِیْمِ سلطانک…
اما
بعد
(۱) اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمائے اس تالیف کا نام ’’فتح
الجواد فی معارف آیات الجہاد‘‘ ہے کتاب کی یہ جلد اوّل سورۃ البقرۃ، اٰل عمران،
النساء اور المائدہ کی ۱۵۹ آیات کے جہادی مضامین پر مشتمل ہے۔ جبکہ اکتیس آیات کے
اشاراتِ جہاد کو بھی مختصراً بیان کیا گیا ہے۔
(۲) کتاب
کی تالیف سے پہلے قرآن پاک کی کئی بار تلاوت کی گئی اور مضامین جہاد کے حوالے سے
چار فہرستیں مرتب کی گئیں۔ یہ چاروں فہرستیں اس کتاب میں پیش کردی گئیں ہیں تاکہ
طلبۂ علم کے لئے آسانی ہو اور اہل علم حضرات تحقیق فرماسکیں۔
(۳) پہلے
ارادہ یہ تھا کہ جلد اوّل سورۃ الانفال تک ہو مگر سورۃ الانفال کے جہادی مضامین
قدرے تفصیل سے لکھے گئے ہیں اس لیے اگر سورۃ الانفال کو بھی جلد اوّل میں شامل کیا
جاتا تو کتاب کی ضخامت بڑھ جاتی اس لیے سورۃ المائدہ تک کے مضامین کو جلد اوّل میں
شائع کیا جارہاہے۔
(۴) اس
کتاب کی تالیف میں مستند عربی اور اردو تفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے اور زیادہ
کوشش اسی بات کی رہی ہے کہ کوئی مضمون بے حوالہ اور غیر مستند نہ رہے۔ تالیف کے
دوران جو بات بھی ذہن میں آئی اس کے لئے مستند تفاسیر سے تائید اور حوالہ ڈھونڈنے
کی پوری محنت کی گئی۔ یوں الحمدﷲ اس کتاب کا بیشتر حصہ مستند اور معتبر مفسرین
حضرات کی علمی تحقیقات پر مشتمل ہے۔
(۵) اس
کتاب میں جن عربی تفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں سرفہرست تفسیر قرطبی، تفسیر
مدارک، تفسیر کبیر، روح المعانی، جلالین، البحر المحیط، ابن کثیر وغیرھا شامل ہیں۔
آپ کو جابجا ان کتابوں کے حوالے اور عبارتیں اس کتاب میں ملیں گی۔ عربی عبارات کا
اردو ترجمہ بھی ساتھ دے دیا گیا ہے بعض مقامات پر عربی عبارات کا ترجمہ اس لیے نہیں
دیا گیا کہ کسی معتبر اردو تفسیر کے حوالے سے وہی بات اسی مقام پر بیان ہوچکی ہے۔
تفاسیر
کا حوالہ دیتے وقت صفحات کا نمبر نہیں دیا گیا صرف تفسیر کا نام دینے پر اکتفا کیا
گیاہے۔ اگر آپ وہ حوالہ اصل تفسیر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اسی آیت کی تفسیر میں
وہ حوالہ آسانی سے مل جائے گا۔
(۶) اردو
کی مستند تفاسیر میں سے زیادہ انحصار حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نور اﷲ مرقدہ کی تفسیر
موضح القرآن (موضح قرآن) پر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کی آیات سے جہادی مضامین کے
سمجھنے اور سمجھانے کے حوالے سے حضرت شاہ صاحبؒ ’’امام‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں باقی
تمام مفسرین اس باب میں ان کے مقتدی ہیں۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے بھی
حضرت شاہ صاحبؒ کے طریقے کو آگے بڑھایا ہے اور اپنے لاجواب حواشی میں مضامین جہاد
کو خوب کھولا ہے۔ حضرت اقدس تھانویؒ نے تفسیر بیان القرآن میں حیرت انگیز علمی شان
کے ساتھ مضامین جہاد کو واضح فرمایا ہے۔ جبکہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے بھی اس موضوع کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش
فرمائی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان چاروں حضرات کے درجاتِ عالیہ کو مزید بلندی عطاء فرمائے
اس کتاب کی تالیف میں ان چاروں حضرات کی تحقیقات کو اکثر لیا گیاہے۔ حضرت شاہ
صاحبؒ، حضرت تھانویؒ اور حضرت لاہوریؒ کے نزدیک مزید کئی آیات کا تعلق بھی جہاد سے
بنتا ہے۔ اس کتاب میں ان آیات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے مگر چونکہ اُن آیات
کا جہاد کے ساتھ تعلق ربط کی بناء پر زیادہ اور مضمون کے اعتبار سے کم ہے اس لئے
باقاعدہ طور پر اُن کے مضامین کو بیان نہیں کیا گیا۔ ان چار تفاسیر کے علاوہ تفسیر
حقانی سے بھی خوب استفادہ ہوا یہ تفسیر دراصل امام رازیؒ کی تفسیر کبیر سے مستفاد
ہے۔ حضرت دریاآبادیؒ کی تفسیر ماجدی نے بھی کئی مقامات پر ساتھ دیا وہ تاریخ اور
جغرافیے کے ماہر ہیں۔ نیز معارف القرآن، تفسیر الفرقان، ترجمان القرآن اور انوار
البیان بھی زیر مطالعہ رہیں۔
اردو
تفاسیر کا حوالہ ڈھونڈنے کا طریقہ بھی وہی ہے کہ بس متعلقہ آیت کھولئے اور حوالہ
ملاحظہ فرمالیجئے دو چار جگہ ایک آیت کا حوالہ دوسری آیت کے ساتھ لگایا گیا ہے تو
ساتھ وضاحت کردی گئی ہے کہ مفسر صاحب نے یہ بات فلاں آیت کی تفسیر میں لکھی ہے۔
حضرت شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا چونکہ بہت احسان ہے اس لیے ان کی عبارتوں کے شروع میں
اکثر کلام برکت کاعنوان دے دیا گیاہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کی تفسیر کا نام ’’موضح
القرآن‘‘ معروف ومشہور ہے مگر بعض اہل علم کاخیال ہے کہ اصل نام موضح قرآن ہے اور یہ
تاریخی نام ہے یعنی ابجد کے حساب سے اس نام میں تاریخ ِ تالیف بیان کی گئی ہے۔
(۷) جہاد
امت مسلمہ کا مقبول موضوع ہے اس لئے حضرات مفسرین اس پر دل کھول کر لکھتے ہیں۔ اگر
مفسرین کے تمام اقوال اور عبارتیں لکھی جاتیں تو کتاب بہت ضخیم ہوجاتی۔ اسی طرح
اگر ہر آیت کے مناسب احادیث مبارکہ اور حضرات فقہاء کرام کے اقوال بھی لکھے جاتے
تو ہر آیت کے مضامین میں کئی صفحات کا اضافہ ہوسکتا تھا۔ اسی طرح اگر دعوت اور وعظ
کا انداز اختیار کیا جاتا اور ہر آیت کے مضمون کو وعظ کے انداز میں بیان کیا جاتا
تو بات کافی لمبی ہوجاتی۔ چنانچہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا گیا ہے اور طریقہ یہ
اختیار کیاگیا ہے کہ ہر آیت کے مضمونِ جہاد کو واضح کردیا جائے اور مستند عبارتوں
کے ذریعے اُس کی پوری وضاحت کردی جائے۔ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک
کی یہ آیت انہیں کیا سمجھا رہی ہے۔ اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ جہاد اسلام
کا ایک محکم اور قطعی فریضہ اور اﷲ تعالیٰ کا بالکل واضح حکم ہے۔
اﷲ
تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ کوشش الحمدﷲ کامیاب رہی ہے اور ہر آیت کا جہادی مضمون اس
طور پر واضح ہوگیا ہے کہ بے شمار اعتراضات اور وساوس کا جواب خود بخود معلوم
ہوجاتاہے۔ اور یہ بات اچھی طرح دل میں بیٹھ جاتی ہے کہ جہاد مولویوں کا گھڑا ہوا
مسئلہ نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کا بالکل واضح اور تاکیدی حکم ہے اور جہاد کا اصل معنیٰ
کیا ہے۔ البتہ بعض آیات کے ساتھ ان سے سمجھے گئے اسباق اور عصر حاضر کے ساتھ ان کی
مطابقت کو بھی عرض کردیا گیا ہے۔
(۸) قرآن
پاک اوّل تا آخر اﷲ تعالیٰ کی سچی اور قدیم کتاب ہے۔ اس پوری کتاب پر ایمان لانا
فرض ہے۔ قرآن پاک کی کسی ایک آیت کا انکار بھی کفر ہے۔ اور ایمان لانے کے اعتبار
سے قرآن پاک کو تقسیم کرنا کہ بعض کو مانا جائے اور بعض کو نہ مانا جائے یہ کافروں
اور ظالموں کا طریقہ ہے۔ ہم پورے قرآن پاک پر ایمان لائے ہیں اور الحمدﷲ ایمان
رکھتے ہیں۔ ماضی میں اسلاف نے قرآن پاک کے مختلف حصوں کی الگ الگ تفاسیر لکھی ہیں۔
کسی نے آیات الاحکام پر تفسیر لکھی تو کسی نے قصص القرآن کو الگ بیان فرمایا کسی
نے شان نزول پر کتاب لکھی تو کسی نے نماز والی آیات کو چھانٹا اور جمع فرمایا۔ اس
لیے ’’جہادی آیات‘‘ کی الگ تالیف کو ئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ بھی قرآن پاک اور
دین کی خدمت کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ اس زمانے میں قرآن پاک کے حکم جہاد کے خلاف
بہت تدبیریں، مکر اور کوششیں ہو رہی ہیں۔ اور مسلمانوں کو اس گمراہی کی طرف بلایا
جارہا ہے کہ وہ غیر جہادی اسلام کو اختیار کریں۔ ان حالات میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کی
توفیق سے قرآن پاک کی ان آیات کو بیان کیا جارہا ہے جن میں جہاد کا بیان ہے۔
کافروں کی طاقت اپنی جگہ، دنیا کے تقاضے اپنی جگہ، مسلمانوں کی کمزوری اپنی جگہ۔ مسلمانوں
سے ہماری صرف اتنی سی درخواست ہے کہ وہ ایک بار ان آیات اور ان کے مستند مضامین کو
پڑھ لیں۔ اور کچھ نہیں تو صرف ان آیات کا ترجمہ ہی پڑھ لیں۔ اور پھر فیصلہ کریں
کہ۔ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ صرف وہی
دین اور اسلام ہی سچا اور معتبر ہوسکتا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایاہے
اور جو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے بیان فرمایا ہے۔
(۹) اس
کتاب میں قرآن پاک کی جن آیات کو بیان کیا گیا ہے وہ آیات جب نازل ہورہی تھیں تو
مسلمان کمزور تھے، بہت کم تھے اور دنیاکے صرف ایک خطے میں موجود تھے۔ ان مسلمانوں
نے ان آیات کو پڑھا تو اپنی کمزوری اور قلت کا عذر نہیں کیا بلکہ ان آیات کو اﷲ
تعالیٰ کا حکم سمجھ کر عمل کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ نتیجہ کیا نکلا یہ ہم سب کے
سامنے ہے اور آج ہم بھی اسی لیے مسلمان ہیں کہ ماضی کے مسلمانوں نے ہمت سے کام لیا
اور قرآن پاک پر عمل کیا۔
آج
پندرھویں صدی ہجری میں جب ان آیات کو جمع کرکے مسلمانوں کی خدمت میں پیش کیا جارہا
ہے تو بھی مسلمان کمزور اور کسی حد تک مغلوب ہیں۔ مگر پھر بھی مسلمانوں کی تعداد
کافی ہے اور ان کے پاس وسائل بھی بالکل ابتدائی زمانے کے مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔
چنانچہ ان آیات کو پڑھ کر یہ کہنا کہ یہ ہمارے لیے نہیں ہیں کیونکہ ہم کمزور ہیں ایک
بہت ہی عجیب بات ہوگی۔ ہم سب کو چاہئے کہ ہم کامیابی اور عزت کے اِن نسخوں اور
غلبے کے ان طریقوں کو عمل کی نیت سے پڑھیں اور اﷲ تعالیٰ سے ایمانِ کامل اور توفیقِ
عمل کی دعاء کریں۔
(۱۰) آیاتِ
جہاد جمع کرنے کا سلسلہ ۱۹۹۵ء سے شروع ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر چارسو سولہ آیات کی
فہرست تیار ہوئی اور تعلیم الجہاد حصہ چہارم کے عنوان سے ان آیات کا ترجمہ اور
مختصر تشریح شائع ہوئی۔ قید سے آزادی کے بعد کتابوں تک رسائی ہوئی اور مطالعہ کا
موقع ملا تو دیگر آیات کے جہادی مضامین بھی علم میں آئے۔ اس دوران دوبار سورۃ
الانفال کا اور دوبار آیاتِ جہاد کا دورہ پڑھانے کی سعادت بھی ملی۔ اس تالیف کے
دوران کراچی، ملاکنڈ، مردان اور کوہاٹ میں منعقد ہونے والے ان دوروں کی تقاریر
(جوکیسٹوں سے لکھی گئی ہیں) الحمدﷲ کافی کام آئیں… کوہاٹ کے دورے کے بعد یہ دورہ
خود تو پڑھانے کی توفیق نہ مل سکی البتہ اﷲ تعالیٰ نے کئی رفقاء کرام کو یہ سعادت
نصیب فرمادی۔ اب الحمدﷲ کئی سال سے یہ چھ حضرات پابندی کے ساتھ یہ دورہ پڑھا رہے ہیں۔
اور اب تک کئی ہزار مسلمان اس دورے کے توسُّط سے قرآن پاک کا حکم جہاد سمجھ چکے ہیں۔
گزشتہ سال ان چھ رفقاء کرام کی خدمت میں جو خط بھیجا گیا تھا وہ بھی اس تعارف کے
آخر میں شامل کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ اہل علم حضرات کو انشاء اﷲ اس خط کے ذریعے
اس دورے کی افادیت سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
(۱۱) قرآن
پاک کے جہادی مضامین جب ہزاروں لاکھوں مسلمانوں تک پہنچے تو اس بات کا تقاضہ بڑھ گیا
کہ آیات جہاد کو تحریری طور پر بھی جمع کرلیا جائے۔ گزشتہ سال عیدالاضحی سے کچھ
پہلے اﷲ تعالیٰ نے یہ کام شروع کرنے کی توفیق عطاء فرمادی۔ پہلے فہرستیں تیار کی
گئیں اور پھر سورۃ البقرۃ سے کام کا آغاز ہوگیا۔ اﷲ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ بہت
کم عرصے میں یہ مشکل کام سورۃ الانفال کے آخر تک جاپہنچا۔ مگر اس کے بعد مزید کام
نہیں ہوسکا۔ اب اگر اﷲتعالیٰ نے چاہا اور اپنا احسان اور فضل فرمایا تو سورۃ
التوبہ سے یہ کام دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ تمام مسلمان قارئین اور قارئات سے دعاء
کی درخواست ہے۔
(۱۲) اب
تک جتنا کام ہوا ہے یہ بھی میرے بس میں نہیں تھا۔ اور نہ ہی میں اس کام کا اہل
ہوں۔ یہ محض اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے توفیق عطاء فرمادی۔ اﷲ تعالیٰ
کا بے انتہا شکر ہے کہ اس نے مجھے مقبول دعائیں دینے والے والدین عطاء فرمائے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کے ان دو بندوں نے دل کی محبت اور توجہ سے مجھے خوب دعائیں دیں۔ جب بھی
کام رُکا وہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے اور مالک الملک نے دروازے کھول دئیے۔ اﷲ
تعالیٰ میرے والدین کریمین کو جزائے خیر اور دنیا آخرت میں ان احسانات کا بہترین
بدلہ عطاء فرمائے۔ اس کتاب کو پڑھنے والے تمام مسلمانوں سے بھی ان کے لئے دعاء کی
التماس ہے۔ اور کس کس کے احسانات کا تذکرہ کروں؟ الحمدﷲ ہر کسی نے اپنی بساط سے
بڑھ کر میرے ساتھ معاونت کی۔ اور خوب خوب دعاؤں سے نوازا۔ کسی کا نام لکھوں تو کسی
کا رہ جائے گا۔ جبکہ ان سب نے یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کیا اور اﷲ تعالیٰ
تو سب کو جانتا ہے اور وہ تو شکور ہے شکور… بے حد قدردان… اسی سے دعاء ہے کہ وہ ان
سب کو اجر عظیم عطاء فرمائے۔
یا
اﷲ اس ادنیٰ سی ناچیز کوشش کو اپنی رضاء کے لئے قبول فرما…قبول فرما…قبول فرما
ربنا
تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم
و
صلی اﷲ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیّدنا محمّد وعلٰی آلہ واصحابہ
وازواجہ
وبناتہ واتباعہ اجمعین وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا۔
محمد مسعود
ازہر
۳؍صفرالخیر ۱۴۲۸ھ،
یوم الاربعاء
آیات جہاد کا دورہ
پڑھانے والے علماء کرام کی خدمت میں ایک گذارش نامہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
وبرکاتہ
چار فہرستیں حاضر
خدمت ہیں:
(۱) مدنی سورتوں میں مضامین جہاد والی آیات کی فہرست۔ اس میں کل
۵۵۸ آیات
کی نشاندہی کی گئی ہے۔
فتح
الجواد کا کام شروع کرنے سے پہلے کئی بار پورے قرآن پاک کی تلاوت کی گئی اور ترجمہ
پڑھا گیا جس کے بعد یہ فہرست مرتب ہوئی ہے۔ جن جدید آیات کو اس فہرست میں شامل کیا
گیاہے اُن کے مضامینِ جہاد کو سمجھنے کے لئے حاشیہ حضرت لاہوریؒ موضح القرآن (موضح قرآن) اور تفسیر کبیر کا
مطالعہ فرمائیں۔
(۲) دوسری
فہرست مدنی سورتوں میں اشاراتِ جہاد والی آیات کی ہے۔ ادنیٰ تامل اور مطالعے سے اس
فہرست کے اشارات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
(۳) تیسری
فہرست مکی سورتوں کی ان آیات مبارکات کی ہیں جن میں جہادی اشارات بالکل واضح ہیں۔
(۴) چوتھی
فہرست ان آیات کی ہیں جو ہماری فہرست میں شامل نہیں ہیں مگر حضرت لاہوریؒ نے ان کو
ربط کی بناء پر (نہ کہ مضمون کی بناء پر) جہادی آیات قرار دیاہے۔
مبارکباد
احادیث
وآثار سے بالکل صاف طور پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ آخری زمانے میں پھر جہاد فی سبیل
اﷲ پوری آب وتاب اور شان وشوکت سے جاری ہوگا اور زمین پر خلافت علی منہاج النبوۃ
قائم ہوگی۔ آپ حضرات کا یہ دورہ آیات الجہاد پڑھانا انہی بشارتوں کے قائم ہونے کا
اشارہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے اور اس نعمت کی جس قدر
ہوسکے قدر کریں۔
اُلجھن
کی حاجت نہیں
باربار
آیات کی تعداد میں تبدیلی سے کوئی الجھن پیدا نہ ہو۔ ہم نے کبھی بھی کسی تعداد میں
حصر کا دعویٰ نہیں کیا۔ مقصد جہاد فی سبیل اﷲ کا احیاء ہے۔ جیسے ہی اس بارے میں
علم کا اضافہ ہوتا ہے ہم یہ امانت مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تفسیر میں
رائے کا دخل نہیں ہے جب بھی اسلاف کی طرف سے مستند اقوال سامنے آتے ہیں ہم ان کی پیروی
کرتے ہیں اور اپنی رائے کو قطعاً کوئی دخل نہیں دیتے۔ ماضی کے دوراتِ تفسیر کی کیسٹیں
سن لیں ہر دورے میں یہی عرض کیا گیا ہے کہ کسی تعداد میں حصر کا دعویٰ نہیں ہے۔ اب
چونکہ تحریری کام شروع کرنا تھا اس لیے ازسر نو محنت کی گئی ہے۔
غزوات
کی تعلیم
دورہ
تو قرآنی ترتیب سے پڑھائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک کی جو ترتیب قائم فرمائی ہے اسی
میں خیر اور حکمت ہے چنانچہ پہلے سورۃ بقرۃ کی آیات پھر اٰل عمران کی اسی طرح ھلمّ جرًّا… مگر جب کسی غزوے یا سریے کی آیات
آئیں تو سیرت المصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم میں سے اس کی تعلیم کرادی جائے۔ اور مزید
جو کچھ کہنا ہو وہ زبانی کہہ دیا جائے۔ اس سے ایک تو طلبہ کی مستند ماخذ تک رسائی
ہوجائے گی دوسرا دورے کا ماحول بھی ان شاء اﷲ پرجوش ہوجائے گا۔
سورۃ
انفال کی تقریر
کراچی
میں سورۃ انفال کا جو دورہ ہوا تھا وہ کافی مفصل تھا اگر تمام اساتذہ کرام ایک بار
اُس کو سن لیں یا اُس کی لکھی ہوئی تقریر پڑھ لیں تو ان شاء اﷲ کافی فائدہ ہوگا…
لکھی ہوئی تقریر میں کتابت کی کافی اغلاط ہیں۔
تازہ
تحفے
کوہاٹ
کا دورہ بھی لکھا جا چکا ہے اور مردان کا بھی۔ لکھائی کافی صاف اور غلطیاں بہت کم
ہیں۔ ان کی نقل (کاپی) حاصل کرلیں تو انشاء اﷲ فائدہ ہوگا… فتح الجواد بھی سورۃ
برأۃ تک ہوچکی ہے (برأۃ شامل نہیں ہے) اگر سہولت سے اس کی کاپی مل جائے تو انشاء
اﷲ مفید رہے گی۔ مگر اس میں ’’خصوصی ابحاث‘‘ کا اضافہ باقی ہے۔
تنقید
سے احتراز
جہاد
پر قرآنی دلائل دلوں کی شفاء کے لئے کافی ہیں اس لیے صراحۃً یا تعریضاً تبلیغی
جماعت اور خانقاہوں وغیرہ پر ہرگز ہر گز تنقید نہ کریں۔ اپنی بات پوری قوت سے بیان
کردیں ان شاء اﷲ وہی کافی ہوجاتی ہے…
تاثرات
اگر
ممکن ہو تو دورے کے بعد طلبہ کو عموماً اور شریک دورہ علماء و خواص کو خصوصاً اپنے
تاثرات لکھنے کی دعوت دی جائے پھر انہیں محفوظ کرکے شعبہ دعوت تک پہنچادیں۔
میں
نہیں
بندہ
کی رائے یہ ہے… میرا خیال یہ ہے… احقر کی رائے یہ ہے جیسے جملوں سے بچیں۔ ہم امت
کے چھوٹے لوگ ہیں ہمیں بڑوں والی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ علم سارا لکھا جا چکا ہے
اس لیے نہ کوئی تازہ تحقیق ہے اور نہ کسی کا تفرّد ۔کوئی بات ذہن میں آجائے اور
پھر کتاب میں مل جائے تو توافق کا نعرہ لگانے سے بچیں۔ آج کل حافظے کمزورہیں اس لیے
اس دعوے میں غلطی ہوسکتی ہے ممکن ہے ماضی میں ہم نے یہ تحقیق کسی سے سنی ہو یا کسی
کتاب میں پڑھی ہو… ویسے بھی اس طرح کے نعرے اور دعوے ہم جیسے طالبعلموں پر علم کا
دروازہ بند کرسکتے ہیں کیونکہ مستکبر کو علم نصیب نہیں ہوتا… بس خود کو اسلاف کی
باتوں کا ناقل بتائیں اور اپنے دل میں بھی خود کو ایسا ہی سمجھیں…
عصرحاضر
اسباق
کے دوران عضر حاضر کی تحریکوں کا تعارف بھی آجائے۔ مسلک حقّہ کی دعوت بھی ضمناً
چلتی رہے اور اپنی جماعت کی طرف پورے شرح صدر کے ساتھ مسلمانوں کو متوجہ کیا جائے۔
ایک
رنگ میں برکت
اگر
سب ساتھی اپنی طرز ایک رکھیں… اور ایک ’’رنگ‘‘ میں پڑھانے کی کوشش کریں تو اس میں
فائدہ ہوگا اور یہ نامعلوم عرصے تک صدقہ جاریہ رہے گا۔ ان شاء اﷲ
دعاء
کا اہتمام
سبق
سے پہلے اور دورے کے دوران صلوٰۃ الحاجۃ اور دعاء کا خاص اہتمام رہے تاکہ اوپر سے
مدد آتی رہے …ایک غریب مسافر بھی آپ کی دعاؤں کا محتاج ہے…
والسلام
خویدم
محمد
مسعود ازہر
شکریہ اہل کوہاٹ
کا
وہ
تاریخ تھی ۲۳ ربیع الاول ۱۴۲۸ھ کی اور وقت تھا عشاء کے بعد کا یعنی ۱۲؍اپریل
۲۰۰۷ئجمعۃ
المبارک کی رات… اور رات کے سوا گیارہ بجے… علاقہ تھا کوہاٹ کا … گائوںکا نام تپّی
اور میدان کا نام ’’وادی الشہداء‘‘… اس لمحے کئی ہزار افراد …نعرۂ تکبیر… اﷲ
اکبر… سبیلنا سبیلنا الجہا د الجہاد کے نعرے بلند کر رہے تھے…
کوئی
آنسو بہا رہا تھا… کوئی ہچکیاں لے رہا تھا… اور کوئی جوش سے بے ہوش تھا… خوشی بھی
تھی… جذبات بھی اور عجیب وغریب یادیں بھی… بہت عجیب منظر… ناقابل فراموش منظر…اسٹیج
پر ایک بزرگ کتاب بانٹ رہے تھے… آیات الجہاد کی کتاب… جی ہاں انکارِ جہاد کے دور میں
آیات جہاد کی کتاب… اﷲ اکبر کبیرا…
فتح الجوّاد فی معارف
آیات الجھاد جلد اول کی تقریب رونمائی کا حال سناتی ایک بے ساختہ تحریر
تاریخ اشاعت یکم ربیع
الثانی۱۴۲۸ھ
۲۰؍اپریل ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۹۳
شکریہ اہل کوہاٹ
کا
اﷲ
تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں… اﷲ اﷲ کیسا عجیب اجتماع تھا… کوہاٹ والے سالہاسال
تک اسے یاد رکھیں گے… اور باہر کے مہمان کوہاٹ والوں کے دینی جذبے اور مہمان نوازی
پر معلوم نہیں کب تک انہیں دعائیں دیتے رہیں گے… ہزاروں مسلمان ایک اﷲ کا نام بلند
کر رہے تھے… ذکر اﷲ کی ایسی محفلوں کو اﷲ تعالیٰ کے پاک اور نورانی فرشتے زمین سے
آسمانوں تک گھیر لیتے ہیں… اﷲاکبرکبیرا… ایک صاحب فرما رہے تھے یوں لگتا تھا کہ میں
جنت میں ہوں… خیر جنت تو بہت اونچی جگہ ہے… مگر ایسی مجالس جنت تک پہنچنے کا ذریعہ
ضرور بن جاتی ہے… حافظ شیرازؒ نے بھی اسی لیے ’’کنارآب رکناباد‘‘ اور ’’گلگشت
مصلّٰی‘‘ کا والہانہ تذکرہ کیا ہے… اب آپ بتائیے کس کس کو اس اجتماع کی مبارکباد دی
جائے… ان کارکنوں کو جنہوں نے اس قدر محنت کی کہ راتوں کو دن بنادیا… ان ذمہ داروں
کو جو ایک ایک لمحہ مشکلات سے ٹکراتے رہے… اس بوڑھے بزرگ کو جو اپنے بیٹے کی کتاب
علماء کرام کی خدمت میں پیش کر رہا تھا… مگر وہ اپنے بیٹے کو نہ دیکھ سکا… پھر بھی
اس کی آنکھیں تشکر کے آنسو بہاتی رہیں… شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کے
جانشین حضرت مکی مدظلہ کو… جو اسی تقریب میں شرکت کے لئے مکہ مکرمہ سے خاص طور پر
تشریف لائے… آپ بتائیے کس کو مبارک باد دی جائے… حضرت حافظ محمد صغیر صاحب مدظلہ
العالی کو… دو شہید بیٹوں کے والد جو بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود رات کے تین بجے…
پورے مجمع کو ساتھ لے کر رب تعالیٰ کے حضور آہ وزاری کر رہے تھے… کربوغہ شریف کے
سادات گھرانے کے انمول موتی… علم وتقویٰ کے حسین امتزاج حضرت مفتی مختار الدین شاہ
صاحب کو جنہوں نے خوبصورت بیان فرمایا… گوجرانوالہ کے علمی وتفسیری خاندان کے چشم
وچراغ حضرت مولانا فیاض سواتی کو… جنہوں نے مجمع کو گرمادیا… یا میرے استاذ حضرت
چنیوٹیؒ کے جانشین حضرت مولنا محمد الیاس کو… ہاں یہ بہت نور بھرا اجتماع تھا… ایسے
اجتماع امت مسلمہ کو کبھی کبھار نصیب ہوتے ہیں… نہ ٹی وی نہ کیمرے اور نہ صحافیوں
کے ناز نخرے… نماز کی دعوت، جہاد کی دعوت، تلاوت قرآن پاک کی دعوت، جان قربان کرنے
کا عزم… اور اﷲ ایک ہے اﷲ ایک ہے کے سچے نعرے… یوں لگتا تھا کہ مدینہ والے پاک نبی
کے فدائی امتی بار بار ایک اعلان کر رہے ہیں کہ… آقا ہم آپ کے ہیں آقا ہم آپ کے ہیں…
مباکباد دینے بیٹھیں تو ایک لمبی فہرست ہے… اس چھوٹے سے مضمون میں کیا ہمت کہ ان
سب کا تذکرہ کر سکے… اس مجمع میں امت مسلمہ کے فاتحین موجود تھے… اس اجتماع میں
عملی میدانوں کی خوشبودار مٹی سنبھالنے والے مجاہد موجود تھے… اس محفل میں مستقبل
کے شہداء اور فدائی موجود تھے… اس محفل میں شہداء کرام کے خوش نصیب ورثاء حاضر
تھے… اس جلسے میں سینکڑوں علماء کرام موجود تھے…
وزیرستان
کے نامور شیخ الحدیث اور اﷲ والے بزرگ مولانا محمد اسحاق صاحب نے پشتو میں خطاب
فرمایا… جبکہ اپنی ایک ٹانگ جہاد میں قربان کرنے والے نامور کمانڈر اور حضرت اقدس
مفتی رشید احمد صاحبؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب خاموش توجہات بکھیر
رہے تھے… برادر محترم مولانا مفتی منصور احمد صاحب نے تاریخ کے موتی بکھیرے تو
مولانا الیاس قاسمی نے انڈین جیلوں کے آنسوؤں کی برسات میں مجمع کو رلادیا… میں آج
کس کس کو مبارکباد دوں… کراچی سے آنے والے مولانا سعداﷲ صاحب کو… آزاد کشمیر سے
تشریف لانے والے مولانا کمال الدین صاحب کو… سندھ سے تشریف لانے والے حضرت مولانا
علی نواز بروہی کو… تلاوت کی مشکبو فضاء قائم کرنے والے قرّاء حضرات کو… دلوں کے
تار ہلادینے والے نظم خوانوں کو… یا ساری رات جم کر بیانات سننے والے مسلمانوں کو…
ہاں یہ بہت لمبی اور بہت خوبصورت فہرست ہے… جب سوا گیارہ بجے کتاب کا افتتاح ہوا
تو وہ منظر دلوں میں اتر گیا… انکار جہاد کے زمانے میں آیات جہاد کی کتاب سینہ تان
کر… میدان میں اتر آئی… صرف ایک اﷲ کی نصرت سے… جی ہاں صرف ایک اﷲ کی نصرت سے…
پانچ سو اٹھاون مدنی آیات جہاد… اﷲاکبر اکتیس مدنی اشارات جہاد… اﷲ اکبر… اور ستر
مکی آیات میں جہاد کے اشارات اور قصے… اﷲ اکبرکبیرا… آہ کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو
اتنی ساری آیات جہاد کا انکار کرتے ہیں… خیر یہ موضوع الگ ہے… بات تو مبارکباد کی
چل رہی ہے… اس کے مستحق تو بہت لوگ ہیں… وہ چھ علماء کرام جن کے سروں پر دستار تحریض
علی القتال سجائی گئی… یاایہا النبی حرض المؤمنین علی القتال… یہ چھ خوش قسمت امتی…
ہر سال مدینہ والے نبی کی دعوت مسلمانوں تک پہنچاتے ہیں… اور آیات جہاد کی تفسیر
پڑھاتے ہیں… اﷲ پاک نظربد سے بچائے یہ حضرات تو ماشاء اﷲ قابل رشک ہیں… کوہاٹ کے
علاقے تپی کے وہ مہمان نواز لوگ… جنہوں نے اپنی مسجدیں، حجرے اور گھر مہمانوں کے
لئے وقف کردیئے… اور ان پر نصرت کا ایسا جنون سوار ہوا کہ صبح وہ مہمانوں کو
ڈھونڈتے پھرتے تھے… ان کی خواتین نے مہمانوں کے لئے پرتکلف کھانے پکائے… کس کس کو
مبارکباد دی جائے… ان مسلمان ماؤں اور بہنوں کو جنہوں نے اجتماع کی کامیابی کے لئے
لمبے لمبے وظیفے کیے… دوپٹے پھیلا کر دعائیں مانگی… اور ان میں سے بعض تو اجتماع
والی پوری رات مصلّے پر آہ وزاریاں کرتی رہیں… اے ربّا خیر… اے ربّا نصرت… اے ربّا
حفاظت… ہاں یہ بہت عجیب اجتماع تھا… اس میں بہت اونچے اونچے وعدے لیے جارہے تھے… یوں
سمجھیں مجمع کو کعبۃ اﷲ اور روضہ رسول اطہر کے ساتھ جوڑا جارہا تھا… اور ان کو
قرآن پاک اور جہاد کا شیدائی بنایا جارہا تھا… مبارکباد کے مستحق لوگوں کے نام تو
لکھنے بیٹھ گیا ہوں… مگر مجھے معلوم ہے کہ بہت سے نام رہ جائیں گے… مسلمانوں کی
صفوں میں ایسے اونچے لوگ بہت ہیں… جو گمنام ہیں… وہ اﷲ تعالیٰ کے ہیں… اور اﷲ تعالیٰ
بھی ان کو صرف اپنا ہی رکھتا ہے… میری
تمنا تھی کہ آج حضرت لدھیانوی شہید… کو نہ بھلایا جائے… حضرت شامزی شہیدؒ کو بھی یاد
رکھا جائے… اور میرے محبوب مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کا ذکر جمیل بھی نہ چھوٹے… اﷲ
پاک نے ساتھیوں کی زبان سے وہ سب کچھ کہلوادیا جو ان حضرات کے لئے اس موقع پر کہا
جانا چاہئے تھا… مجمع فرشتوں کے گھیرے میں ہو… آسمان سے سکینہ نازل ہو رہا ہو تو
پھر خوف اور احتیاط منہ چھپا کر بھاگ جاتی ہے… عزیزم مولانا طلحہ السیف نے وہ سب
کچھ کہہ دیا جو عام طور سے نہیں کہا جاتا… یا نہیں کہا جاسکتا… انہوں نے شکر میں
ڈوب کر اپنے زمانے کو شاندار زمانہ قرار دیا… ہاں شکر گزاری کا یہی بہترین طریقہ
ہے… مبارکباد کے مستحق تو وہ ساتھی بھی بہت ہیں جو کراچی سے بیگ اٹھا کر چلے… اور
چالیس گھنٹے کے سفر کو اﷲ تعالیٰ کے ہاں اپنے لیے قیمتی اجر بنا آئے… اور وہ بھی
جو بلوچستان سے آئے… کہاں کوئٹہ اور کہاں کوہاٹ؟… مگر عشق کی کشش راستے سمیٹ دیتی
ہے… بنوں کے نامور علماء خود کو چھپا کر عام مجمع میں بیٹھے تھے… جبکہ سوات اور
شانگلہ سے درجنوں علماء کرام طویل سفر طے کرکے آئے تھے… اور ہمارے حضرت قاری عمر
فاروق صاحب مدظلہ کو یاد ہی نہ رہا کہ وہ کس قدر بیمار ہیں… ہاں بے شک اﷲ تعالیٰ کی
نعمتیں بے شمار ہیں… اور جہاد اور جماعت نے الحمدﷲ ساتھیوں کو ایک خاندان بنادیا
ہے… جی ہاں قوم، قبیلے، رنگ، نسل زبان اور علاقے سے بلند ایک ’’اسلامی برادری‘‘…
سورۃ انفال کے آخر میں ایسی برادری قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے … اورسورۃ برأۃ میں
اس برادری کے مرکز اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھایا گیا ہے … آج جبکہ ہر طرف لسانیت
کے بدبودار نعرے ہیں… ان سب کے درمیان مدینہ منورہ کے ماحول کی پیروی کرنا… اﷲ پاک
کا خاص فضل ہے…
قریشی،
اموی، حبشی، رومی، فارسی، غفاری… اﷲاکبرکبیرا… سب ایک ہوگئے تھے ناں؟… پھر اب کیوں
پنجابی، پختوں، مہاجر، بلوچ اور سرائیکی کے نعرے ہیں… ان نعروں کا انجام معلوم ہے
کیا ہوگا؟… استغفراﷲ، استغفراﷲ… آخر میں یہی کہا جائے گا کہ جب ہماری قوم ہی سب سے
اونچی، سب سے اعلیٰ، سب سے مہذب، سب سے بہادر اور سب سے بہترین ہے تو پھر نبی بھی…
نعوذباﷲ اپنا ہونا چاہئے… مکہ مدینہ والے عربی نبی تو ہماری قوم سے نہیں تھے… ابھی
چند دن پہلے ایک لسانی لیڈر نے خلفاء راشدین پر اپنی ناپاک زبان چلائی… یہ لوگ
کہاں جارہے ہیں؟… اور مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے علاوہ کن زبانوں اور قومیتوں
پر فخر کر رہے ہیں؟… اسلام نے تو اپنے گھر میں سب کو برابر کی جگہ دی… اسی لیے تو
بڑے ائمہ اور بڑے محدثین اکثر غیر عربی ہیں… کیونکہ اسلام سب کا ہے… اور ہم سب
اسلام کے ہیں… اے ساتھیو! اپنی اس اسلامی برادری کی قدر اور حفاظت کرو… اور اسے مزید
مضبوط بناؤ… الحمدﷲ یہ اجتماع ’’اسلامی برادری‘‘ کا اجتماع تھا… سب شرکاء کو بس یہی
یاد تھا کہ ہم مسلمان ہیں… اﷲ اکبرکبیرا… یہ کتنی بڑی نعمت ہے… قبر میں نہیں پوچھا
جائے گا کہ پختون تھے یا پنجابی… ہاں یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تمہارا دین کیا
تھا؟… اس لیے جو لوگ ہمیں یہ سبق یاد کرا رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں… وہ لوگ ہمارے
محسن ہیں… یہ ہماری دنیا آخرت کامیاب بنانے کی فکر کر رہے ہیں… اﷲ پاک ان کو جزائے
خیر دے… مبارکباد میں تذکرہ اگر حضرت قاری محمد عرفان صاحبؒ کا نہ ہو تو بات بہت
ادھوری رہ جائے گی… آج سے تین سال پہلے حضرت قاری محمد عرفان صاحبؒ کے انتقال کے
فوراً بعد… ایک مکتبہ قائم کیا گیا… اور اس مکتبے کا نام حضرتؒ کے نام پر مکتبہ
عرفان رکھا گیا… حضرت قاری صاحبؒ اﷲ تعالیٰ کے مقبول بندے تھے… الحمدﷲ یہ مکتبہ
خوب چلا… سب سے پہلے لطف اللطیف جل شانہ نامی کتاب اس مکتبہ نے شائع کی… جس کے اب
تک ماشاء اﷲ انیس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں… اور پھر تو کتابوں کا ایک تانتا بندھ گیا…
اور اب فتح الجوّاد کی اشاعت کا تاج بھی اسی مکتبہ کو نصیب ہوا… مکتبہ عرفان والے
رفقاء اس سعادت پر اﷲ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے… اس مجلس کا مرکزی
خطاب تو حضرت اقدس مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب مدظلہ کا تھا… اﷲ پاک نے ان کی آواز
میں عجیب مٹھاس اور نور رکھا ہے… ان کی آواز سنتے ہی یوں لگتا ہے کہ کان دل میں
اتر آئے ہیں یا دل کانوں میں آ بیٹھا ہے… ماشاء اﷲ عجیب لذت اور تازگی اﷲ پاک نے
ان کے خطاب میں عطاء فرمائی ہے… امید ہے کہ اس اجتماع میں کیے گئے ان کے مرکزی بیان
کی کیسٹ انشا ء اﷲ دور دور تک سنی جائے گی… ان کا بیان تو ماشاء اﷲ چشم بددور… مگر
عزیزم مفتی عبدالرؤف صاحب نے بھی دل کھول کر رکھ دیا… اور اس معاملے کی طرف توجہ
دلائی جو اس وقت ملک کے دینی طبقوں کے لئے بے حد اہم ہے… اجتماع سے ایک دن پہلے میں
سوچ رہا تھا کہ اس ہفتے جو کالم لکھوں گا اس کا عنوان ہوگا… ’’ایجنسیوں کے ایجنٹ‘‘
… اجتماع میں جب اﷲ پاک کی توفیق سے عزیزم مفتی صاحب نے اس موضوع کو لیا تو دل سے
دعاء نکلی… آپ یقین جانیں اس ’’مکروہ الزام‘‘ نے پاکستان کے اہل دین کی جڑوں کو
کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے… ہر شخص دوسرے کو ایجنسی کا ایجنٹ قرار دینے پر یوں تلا
ہوا ہے جیسے وہ کوئی فرض ادا کر رہا ہو… اس مکروہ اور ناپاک الزام کی داستان بہت
دردناک اور دلخراش ہے… ہمارے محبوب حضرت مفتی محمد جمیل خان شہید پر یہ الزام میں
نے سب سے پہلے سنا… اﷲاکبرکبیرا… کئی مولوی نما لوگ یہی کہتے پھرتے تھے کہ جمیل
خان ایجنسیوں کا آدمی ہے… پھر کراچی کی ایک گلی میں ایجنسیوں کا یہ ایجنٹ کئی گولیاں
کھا کر اپنے بچوں کے سامنے شہید پڑا ہوا تھا… یہ ایجنٹ اپنے پیچھے چار سو مدارس،
چالیس ہزار قرآن پاک کے طالبعلم، چھ ہزار سے زائد حفاظ… اور جہاد وخدمت کی ایک
انوکھی مثال چھوڑ گیا…
اے
لوگو! کیا ایجنسیوں کے ٹاؤٹ ایسے ہوتے ہیں؟ کیا وہ مفتی جمیلؒ جیسی قابل رشک زندگی
جیتے ہیں؟… کیا وہ مفتی جمیلؒ جیسی موت کو گلے لگاتے ہیں؟… اگر لعنت بھیجنا جائز
ہوتی تو ان لوگوں پر بھیجتا جنہوں نے ایسے عظیم انسان پر ایسا مکروہ الزام لگایا…
پھر یہ الزام کس پر نہیں لگا؟… حضرت مولانا حق نواز شہید کے جلسوں میں لوگ زیادہ
آنے لگے تو اعلان ہوگیا کہ یہ ایجنسیوں کا ایجنٹ ہے… حالانکہ ایجنسیاں تو ملک کے
صدر کے جلسے کو کامیاب نہیں بنا سکتیں وہ ایک غریب مولوی کے جلسے میں اتنا بڑا
مجمع کہاں سے لے آئیں؟ … پچھلے الیکشن میں افغان جہاد کی برکت سے لوگوں نے ایم ایم
اے کو ووٹ دئیے… صوبہ سرحد میں ان کی حکومت بنی… اور بلوچستان میں وہ حکومت کا حصہ
بنے… تو ہر جگہ ایک ہی اعلان تھا کہ یہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں… یہ ملا ملٹری اتحاد
ہے… خیر سیاستدان حضرات کا تو اپنا طریقہ کار ہے… وہ حکومت حاصل کرتے ہیں اور ملک
کے خفیہ ادارے خود حکومت کا حصہ ہیں… اور پاکستان میں چونکہ فوجیانہ نظام حکومت ہے
اس لیے یہاں کی سیاست پر بھی فوج کا پورا تسلط رہتا ہے… مگر اس کے باوجود ہم نے
کبھی بھی دینی سیاسی جماعتوں کو ایجنسیوں کا ایجنٹ نہیں کہا… کیونکہ ہم اس ناپاک اور
مکروہ الزام کی سنگینی کو سمجھتے ہیں… اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اسی الزام کی چھری
سے مجاہدین کو طویل عرصے سے ذبح کیا جارہا ہے… حالانکہ حکومت اور اس کے اداروں نے
جتنی تکلیف مجاہدین اور ان کی قیادت کو پہنچائی ہے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل
ہے… اگر مجاہدین ایجنسیوں کے ایجنٹ ہوتے تو وہ آرام سے حکومت کر رہے ہوتے… مکمل
پروٹوکول کے ساتھ گھوم رہے ہوتے… مگر وہ تو دربدر ہیں… ان کی زندگی بعض اوقات موت
سے بھی مشکل ہوجاتی ہے… ان کے گھر زیر نگرانی میں … ان کے ٹیلیفون سنے جاتے ہیں…
ان کو لمحہ بہ لمحہ ستایا جاتا ہے… اور موقع ملنے پر ان کو مارا اور پکڑا جاتا ہے…
یہ تو جہاد کی کرامت ہے کہ یہ لوگ پر عزم ہیں اور اپنے کام پر ڈٹے ہوئے ہیں… کچھ
عرصہ پہلے وفاق المدارس پر الزام لگاتھا کہ یہ ایجنسیوں کا ادارہ ہے… پھر مولانا
قاری محمد حنیف جالندھری پر الزام کا تیر چلا… جب انہوں نے پنجاب کے ’’قرآن بورڈ‘‘
کی صدارت قبول کی… اور اب ہر اخبار میں بس یہی شور ہے کہ لال مسجد، جامعہ حفصہ اور
جامعہ فریدیہ والے ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں… آخر یہ الزام کس بنیاد پر لگایا جاتا
ہے؟… اسلام میں تہمت لگانا ناجائز ہے… بدگمانی رکھنا جرم ہے… اور بلا ثبوت الزام لگانا
بڑا گناہ ہے… پھر اچھے خاصے دیندار لوگ اپنی قبر اور آخرت بھلا کر یہ الزام اتنی
کثرت سے ایک دوسرے پر کیوں لگا رہے ہیں؟…
کراچی
میں تو ایک پورا گروپ موجود ہے… یہ لوگ باقاعدہ گشت اور ملاقاتیں کرکے لوگوں کو
بتاتے ہیں کہ مجاہدین ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں… معلوم نہیں یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو کیا
منہ دکھائیں گے… پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ سننے والوں پر بھی شیطان کوئی ایسا جادو
کردیتا ہے کہ وہ اس الزام کو فوراً قبول کرلیتے ہیں… حالانکہ اگر تھوڑا سا بھی عقل
سے کام لیا جائے تو اس الزام کا جھوٹا پن واضح ہوجاتا ہے… مثلاً… الزام لگانے
والوں سے پوچھا جائے کہ… ٹھیک ہے وہ لوگ ایجنسیوں کے ٹاؤٹ اور آپ دین کے سچے خادم
اور مجاہد اعظم… تو پھر آپ اتنے امن اور ٹھاٹھ کے ساتھ کیسے پھر رہے ہیں؟… کیا امریکہ،
برطانیہ اور پرویز مشرف کو آپ کا دین پسند ہے؟… اگر مجاہدین ایجنٹ ہیں تو
افغانستان میں کون لڑ رہا ہے؟… کشمیر میں کون پہاڑوں کی برف کو اپنے خون سے سرخ کر
رہا ہے؟… اور گلی گلی جہاد کے نام کو کون زندہ کر رہا ہے؟… مگر لوگ کچھ نہیں
پوچھتے کیونکہ اس الزام کے ساتھ شیطان کی پوری قوت اور کشش جڑی ہوئی ہے… اور اس
الزام نے دینی طبقے کو بے عزت اور بے وقعت بنا کر رکھ دیا ہے… ہائے کاش یہ ظالمانہ
سلسلہ بند ہوجائے… ہائے کاش ان لوگوں کو تو اس الزام سے معاف رکھا جائے جن کی زندگیاں
کانٹوں پر گزر ہی ہیں… کچھ عرصہ پہلے میں نے نامور ملحد حسن نثار کا ایک کالم
پڑھا… اس بدفطرت وبدصورت انسان نے لکھا کہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن سی آئی اے کے
ایجنٹ ہیں … اور دلیل یہ دی کہ امریکہ کو مسلمانوں پر حملے کے لئے بہانے کی ضرورت
تھی… اس نے ان دونوں کو کھڑا کیا انہوں نے امریکہ پر حملہ کیا… بس پھر امریکہ کو
جواز مل گیا… اب جب امریکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہے گا تو وہ ایک
اور ملاعمر اور اسامہ کھڑا کرے گا… پھر ان کو حکم دے گا کہ مجھ پر حملہ کرو… پھر
اس حملے کو بہانہ بنا کر سارے مسلمانوں کو ختم کردے گا… یہ تو اس کے ایک کالم کا
خلاصہ ہے جبکہ دوسرے کالموں میں بار بار لکھتاہے کہ… امریکہ ناقابل تسخیر ہے، امریکہ
کے پاس یہ طاقت ہے وہ طاقت ہے… اب کوئی اس بددماغ سے نہیں پوچھتا کہ امریکہ کو
مسلمانوں پر حملے کے لئے اس طرح کے بہانوں کی کیا ضرورت ہے… جس میں اس کے ہزاروں
افراد مارے جائیں… کچھ عرصہ پہلے گوجرانوالہ کے ایک نجومی نے اخبار میں لکھا کہ…
انڈیا نے اپنا طیارہ جان بوجھ کر اغواء کرایا تھا تاکہ پاکستان کو بدنام کرسکے…
سبحان اﷲ عجیب منطق ہے… میں نے اس نجومی کو فون کیا اور اس کی خبر لی تو معانی
مانگنے لگا کہ بس غلطی سے لکھ دیا… میرا مقصد یہ نہیں تھا، وہ نہیں تھا… اﷲ کے
بندو! اسلام کے دشمنوں کو مسلمانوں پر حملے کے لئے کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی…
وہ جب قوت پاتے ہیں اور ہمت پکڑتے ہیں تو سب کچھ کر گزر تے ہیں… اگر وہ رکے ہوئے ہیں
تو ان کو اﷲ پاک نے مجاہدین کی برکت سے روک رکھا ہے… حکومت پاکستان نے دینی مدارس
کے خلاف جو کچھ کرنا تھا وہ کر رہی ہے… بعض مدارس حکومتی دباؤ کے تحت اپنا رخ بدل
رہے ہیں… وہاں اب دنیا داری اور کمپیوٹر بازی کا شور قرآن وسنت کی آواز پر حاوی ہو
رہا ہے… مگر جو مدارس ڈٹے ہوئے ہیں ان کے ساتھ اﷲ پاک کی نصرت ہے… حکومت کا بس چلے
تو ایک دن میں تمام مدارس بند کردے… مگر اﷲ تعالیٰ موجود ہے… اور اس نے زمین پر
کافروں اور فاسقوں کو اتنی ہمت نہیں دے دی کہ وہ دین کے ہر نشان کو مٹادیں… اب ان
حالات میں حکومت والوں کو جامعہ حفصہ کے بہانے کی کیا ضرورت ہے؟… علماء کرام میں
سے اگر ایک بڑی تعداد کو لال مسجد والوں کے طریقہ کار سے اختلاف ہے تو یہ ان کا
شرعی حق ہے… وہ یہی فرمائیں کہ ہمیں یہ طریقہ پسند نہیں ہے … مگر فوری طور پر ایجنسیوں
کے ایجنٹ ہونے کا دعویٰ کردینا اہل دین کی شان کے خلاف ہے… اور یہ ایسا الزام ہے
جس کا ثبوت شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو… آج مجاہدین کو اور دینداروں کو جو قوت حاصل
ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی نصرت سے ملی ہے ایجنسیوں کی وجہ سے نہیں… کیونکہ ایجنسیاں تو
خود بہت کمزور ہیں… امریکہ، برطانیہ، نیٹو، پاکستان اور افغانستان کی پچاس سے زائد
خفیہ ایجنسیاں مل کر بھی… حضرت ملا محمد عمر صاحب کو نہیں پکڑ سکیں… یہ سب ایجنسیاں
طالبان کو ختم نہیں کرسکیں… یہ سب ایجنسیاں جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی طاقت کو
نہیں توڑ سکیں… یہ سب ایجنسیاں پاکستان کے مدارس کی ایک اینٹ بھی نہیں اکھاڑ سکیں…
یہ سب ایجنسیاں مجاہدینِ عراق کی مزاحمت کو نہیں توڑ سکیں…یہ سب ایجنسیاں کشمیر کی
تحریک کو بند نہیں کرسکیں… یہ سب ایجنسیاں پاکستان اور عالم اسلام میں علماء کرام
کے اثر ورسوخ کو کم نہیں کرسکیں… بلکہ… جب سے ان تمام ایجنسیوں نے جہاد، مجاہدین
اور مدارس کے خلاف عالمی اتحاد بنایا ہے… اس وقت سے الحمدﷲ جہاد، مجاہدین اور
مدارس کی قوت میں اضافہ ہوا ہے… گذشتہ پانچ سال میں دنیا بھر میں مجاہدین کی تعداد
میں چار سو گنا… دعوت جہاد کی قوت میں تین سوگنا… اور مدارس کے طلبہ کی تعداد میں
سوفیصد اضافہ ہواہے… اب ہمارے پاس کہنے کے لئے دو ہی باتیں ہیں… ایک بات یہ ہے کہ
جہاد، مجاہدین، علماء اور مدارس کے ساتھ اﷲ پاک کی نصرت ہے… اور دوسری بات حسن
نثار والی کہ… امریکہ تو نعوذباﷲ خدائی طاقت رکھتا ہے… وہ جان بوجھ کر جہاد، مجاہدین،
علماء… اور مدارس کو ترقی دے رہا ہے تاکہ… وہ حسن نثار جیسے پکے مسلمانوں کو مارنے
کے لئے بہانہ ڈھونڈ سکے… کیونکہ بغیر بہانے کے اگر وہ حسن نثار کو مارے گاتو حسن
نثار کی لاش اس کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کردے گی… اب آپ بتائیے آپ ان دو
باتوں میں سے کس بات کے قائل ہیں؟…
یاد
رکھیں اگر ہم نے اﷲ تعالیٰ کی طاقت کو مانا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کی تو
پھر… مستقبل مسلمانوں کا ہے… لیکن اگر ہم ایکدوسرے کو ایجنسیوں کا غلام کہتے رہے
تو پھر… شاید ہم خود دین کا وہ نقصان کر بیٹھیں جو کافروں اور منافقوں کی پچاس ایجنسیاں
مل کر بھی نہیں کرسکیں… الحمدﷲ… کوہاٹ کے تاریخی اجتماع میں مسلمانوں کی توجہ اس
مسئلے کی طرف بھی بھرپور طریقے پر دلائی گئی… اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کا اثر
ہوگا… اور انشاء اﷲ بہت سے مسلمان اس ظالمانہ الزام سے بچیں گے… اور اس خطرناک
گناہ سے توبہ کریں گے… انہی الزامات کی نحوست سے وزیرستان میں مجاہدین ایک دوسرے
سے لڑ پڑے ہیں…
اﷲ
تعالیٰ تمام اہل دین کی حفاظت فرمائے… بات یہ چل رہی تھی کہ اجتماع کی مبارکباد کس
کس کو دی جائے… چونکہ سب کو مبارکباد دینا ممکن نہیں ہے… اس لئے ہم اصل کام کریں…
اور وہ ہے اس رب تعالیٰ کا شکر جس کی توفیق … اور جس کے فضل سے یہ سب کچھ ہوا… اگر
وہ نہ چاہتا تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا… آئیے سر بھی جھکائیں اور دل بھی جھکائیں…
اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کریں… اور ہم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے یہ کیا… میں
نے وہ کیا… اور ہم میں سے کوئی یہ نہ سوچے کہ سب کچھ میری محنت سے ہوا… میری دعاء
سے ہوا… میرے نام سے ہوا… میری تقریر سے ہوا… بلکہ ہمارا یقین ہو کہ ہم تو نااہل
تھے… سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہوا… اور اس نے ہمیں جو توفیق عطاء فرمائی اس پر
ہم صرف اﷲ تعالیٰ ہی سے بدلے اور اجر کے امیدوار رہیں… اگر ہمیں یہ یقین نصیب ہوگیا
تو ہم… خوش نصیب اور یہ اجتماع ہمارے لئے مبارک… اور اگر ہم نے ’’میںمیں‘‘ شروع
کردی تو پھر جس برتن میں سوراخ ہو اس میں پانی نہیں ٹھہرتا… اﷲ پاک ہم سب کو خوش
نصیب بنائے اور اس اجتماع کی برکات دور دور تک پھیلائے… اور محنت اور شرکت کرنے
والے تمام علماء کرام، بزرگوںاور ساتھیوں کو خوب خوب اجر عطاء فرمائے… کتاب کی پہلی
جلد الحمدﷲ منظر عام پر آچکی ہے… جبکہ آگے کا کام کافی مشکل اور طویل ہے… حضرات
علماء کرام نے اس کتاب کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے … اس نے کتاب کے مؤلف کے
بوجھ، شرمندگی اور احساس کم مائیگی کو اور بڑھا دیا ہے… اب لاکھوں مسلمان دوسری
اور تیسری جلد کا مطالبہ کر رہے ہیں… جبکہ ایک غریب، کم علم، کمزور مسافر اکیلا بیٹھا
سورۃ برأۃ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے… کیا وہ یہ بھاری کام کر پائے گا؟… ظاہر
بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی خاص مدد اور توفیق کے بغیر بالکل ممکن نہیں ہے… ۱۹۹۵ء
کے آخر میں جب اس نے مشرکین کی ایک جیل میں آیات جہاد کو شمار کرنا شروع کیا تب بھی
حالات خراب تھے… اور بہت مشکل… اس سے پہلے یہی کہا جاتا تھا کہ قرآن پاک میں پونے
دوسو آیات جہاد ہیں… تب اﷲ پاک نے خاص رحمت فرمائی… دلی کی تہاڑ جیل نمبر ۲ کے وارڈ نمبر
پانچ کی ایک کوٹھڑی میں یہ کام شروع ہوگیا… اور الحمدﷲ آٹھ دس دن کی شبانہ روز
محنت سے چار سو سولہ آیات مبارکہ کی فہرست بھی بن گئی… ان کا ترجمہ بھی لکھا گیا…
اور مختصر سی تشریح بھی… یہ سب کچھ تعلیم الجہاد حصہ چہارم کے نام سے بار بار شائع
ہوتا رہا… جہاد سے محبت رکھنے والے حضرات بار بار کہتے رہے کہ ان آیات کی قدرے
مفصل تشریح آجائے… مگر موقع نہ ملا… پھر اچانک ایک ایسا سفر پیش آیا جس میں نہ کوئی
گھر رہا نہ کوئی وطن… امید تھی کہ یہ سفر جلد مکمل ہوجائے گا… یا گھر واپسی ہوجائے
گی یا قبر مل جائے گی… مگر سفر لمبا ہوتا چلا گیا… تب اﷲ پاک نے پھر آیات جہاد
گننے کی توفیق دے دی… اب حالات دلی کی تہاڑ جیل سے الحمدﷲ بہتر تھے کہ کچھ کتابیں
میسر تھیں… تہاڑ جیل میں تو بس قرآن پاک کے دو نسخے تھے… ایک پر حضرت تھانویؒ کا
ترجمہ تھا اور دوسرے پر حضرت شیخ الاسلامؒ کا حاشیہ… مگر اب تو عربی اور اردو کی
کئی تفاسیر سامنے تھیں… چند دن کی محنت لگی تو الحمدﷲ چار فہرستیں بن گئیں… اور
اپنی آنکھیں بھی کھل گئیں… اور جہاد کے عجیب قرآنی معارف سامنے آتے چلے گئے…
ابتداء میں ارادہ یہ ہوا کہ ایک پورا قرآن پاک ترجمے کے ساتھ چھاپ دیا جائے… اس میں
آیات جہاد کا ترجمہ سرخ رنگ سے نمایاں کردیا جائے… اور حاشیے میں مختصر تشریح ان آیات
جہاد کی دے دی جائے… خیال یہ تھا کہ جب یہ قرآن پاک گھر گھر پہنچے گا … مسلمان اسکی
تلاوت کریں گے… اور سینکڑوں آیات کے نیچے سرخ ترجمہ دیکھ کر اسے نمایاں طور پر پڑھیں
گے تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی… اور وہ مرزا قادیانی کے جال میں آ کر جہاد کا
انکار نہیں کریں گے… اسی خیال کے تحت پورے قرآن پاک کا ترجمہ تیار کیاگیا… اور بہت
اعلیٰ کتابت میں قرآن پاک کا متن شریف بھی حاصل کیا گیا … مگر وہی ہوتاہے جو اﷲ
پاک چاہتا ہے… اﷲ تعالیٰ نے فرصت اور فراغت کا ایک گوشہ عنایت فرمادیا… عام دنیا
اور اس کے شور سے دور… وہاں جب کام شروع ہوا تو بڑھتا چلا گیا… اور چند مہینے میں
سورۃ انفال بھی مکمل ہوگئی… یہ ساری داستان سنانے کا ایک خاص مقصد ہے… اور آپ سب
حضرات وخواتین سے ایک لالچ ہے، ایک غرض ہے… اور ایک گزارش…
کیا
آپ صرف ایک بار… کسی خاص وقت میں … اس غریب الدیار، کم علم اور کمزور مسافر کو اپنی
مقبول دعاء کا تحفہ دے سکتے ہیں؟… اﷲ پاک جانتا ہے کہ وہ آپ سب کی دعاء کا کس قدر
محتاج ہے…
شب
تاریک وبیم موج وگرداب چنیں ہائل
کجا
دانند حال ما سبکساران سا حلہا
یہ
حافظ شیرازؒ کا شعر ہے قاضی سجاد صاحب نے اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے…
’’اندھیری رات
اور موج کا خوف اور ایسا خوفناک بھنور… ساحلوں کے بے فکرے (لوگ) ہمارا حال کب سمجھ
سکتے ہیں‘‘…
اﷲ
پاک آپ سب سے راضی ہوجائے… آپ کو امن وعافیت عطاء فرمائے… آپ ایک بار دعاء کردیں
کہ… اﷲ پاک فتح الجوّاد کے مؤلف کو آسانی اور قبولیت کے ساتھ… بلا تعطل یہ کام
مکمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… یا اﷲ آسان فرما… یا اﷲ قبول فرما…
کتنے
دلوں میں تمنا ہے کہ جب یہ کتاب مکمل ہوجائے … تب ایک بار پھر دین کے دیوانے جمع
ہوں… وہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘… ’’اﷲ سب سے بڑا ہے‘‘ کے نعرے بلند کریں… کوہاٹ کے مسلمان
پھر مہمان نوازی کا اجر لوٹیں… اور وادیٔ شہداء سے جاتے وقت ہر شخص کہہ رہا ہو…
شکر ہے اﷲ پاک کا… اور شکریہ اہل کوہاٹ کا…
٭٭٭
ضرورت ہے ڈرانے
والے کی
موت
ایک اٹل حقیقت ہے… جنت ایک حقیقت ہے… جہنم ایک حقیقت ہے…ہم ان یقینی چیزوں کو کیوں
فراموش کر دیتے ہیں… دنیا کے عیش اور مسائل میں الجھ کر آخرت کو بھول جانا… بہت
بڑا خسارہ ہے… فکر آخرت کی دعوت دینے والی ایک تحریر جو سمجھاتی ہے کہ حضوراکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم بشیر بھی تھے نذیر بھی۔
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے شفقت فرما کر ہمیں جہنم سے کس طرح ڈرایا اور جہنم سے حفاظت کے
لئے ہمیں کون سے طریقے سکھائے۔
احادیث اور مسنون
دعائوں پر مشتمل رنگ ونور کی برسات
ضرورت ہے ایک ڈرانے
والے کی
تاریخ اشاعت ۷؍ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ
۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۴
ضرورت ہے ڈرانے
والے کی
اﷲ
تعالیٰ نے کافروں کے لئے جہنم کی آگ تیار فرمائی ہے … اور ہم مسلمانوں کو اس آگ سے
بچنے کا حکم دیاہے… ہائے جہنم کی آگ بہت خوفناک ہے بہت خطرناک… دنیا کے سب سے
طاقتور ایٹم بم جو آگ پیدا کرتے ہیں وہ جہنم کی آگ سے انہتر حصے ہلکی ہے…یا اﷲ ہمیں
بچالے…یا اﷲہمیں بچالے… اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کو بھیجا تو
ان کو ’’بشیر‘‘کے ساتھ’’نذیر‘‘ بھی بنایا… یعنی انسانوں کو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے
ڈرانے والا… جہنم سے ڈرانے ولا…
آج
ہم مسلمانوں کو نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایسے ورثاء کی ضرورت ہے جو ہمیں جہنم
سے ڈرائیں … جو ہمیں جہنم کے بارے میں بتائیں… ہاں آج ہم مسلمان کسی مخلص ڈرانے
والے کے سخت محتاج ہیں… کیونکہ ہماری آنکھیں ان آنسوؤں سے خشک ہوچکی ہیں… جو اﷲ
تعالیٰ کے خوف سے نکلتے ہیں…
’’دو آنکھوں کو
جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اﷲ تعالیٰ کے خوف سے روئی ہو اور دوسری
وہ جو جہاد فی سبیل اﷲ میں پہرے داری کرتے ہوئے جاگی ہو۔‘‘ (حدیث رواہ الترمذی)
میں
اور آپ اپنی آنکھوں سے پوچھیں کہ اﷲ تعالیٰ کے خوف والے آنسو کہاں گئے؟… ہمیں دنیا
کے چھوٹے چھوٹے مسئلے تو دن رات رلاتے ہیں… اور ہمارے دماغ پر سوار رہتے ہیں… مگر
ہم اس جہنم کو بھول گئے… جو بھڑک بھڑک کر کالی ہوچکی ہے… جس کا ایک ذرہ زمین پرپھینک
دیا جائے تو ساری زمین جل کر راکھ ہوجائے… ہاں یہ جہنم موجود ہے…اور یہ ہمارے
مسائل میں سے اہم ترین مسئلہ ہے… جو لوگ جہنم کاانکار کرتے ہیں وہ کافر ہوجاتے ہیں
… اور جو جہنم کو بھلادیتے ہیں وہ غافل ہوجاتے ہیں… حالانکہ ہمارے محبوب آقا مدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم نے بار بار…جی ہاں بے شمار بار ہمیں جہنم سے ڈرایا… اور ہمیں یاد
دلایا کہ جہنم تیار ہے… جہنم بھڑک رہی ہے… اس کی گہرائی ہزاروں سال کی مسافت سے زیادہ
ہے… اور اس کے سانپ، بچھو، گرم پانی، زقّوم… ہائے اﷲ آپ کی پناہ… اے رحیم آپ کی
پناہ… حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ دیا…
اور زور زور سے فرمایا اَنْذَرْتُکُمُ النَّارَ، اَنْذَرْتُکُمُ النَّارَ … میں نے
تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرایا ہے… میں نے تمہیں جہنم کی آگ سے خبردار کردیا ہے… آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم بے قراری کے ساتھ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھے سے گر
کر پاؤں پر آپڑی… آج کوئی ہے جو اس طرح تڑپ تڑپ کر جہنم کی خوفناکی سے امت کو
بچانے کی فکر کرے؟… اب تو وعظ کہنے والوں کو یہی فکر ہوتی ہے کہ بس تقریر خوب جم
جائے… اب تو علماء بھی ترقی اور معاشی پیکج پر خطبات دینے لگ گئے ہیں… کون ہے جو
بازاروں میں غرق… اور گناہوں میں مست مسلمانوں کو یاد دلائے کہ بس موت آنے ہی والی
ہے… اے مسلمانو! جہنم سے بچنے کی جان توڑ محنت کرو… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
اطلبو
الجنۃ جُہدکم، واہربوا من النّار جہدکم، فان الجنۃ لاینام طالبہا، وان النّار لاینام
ہاربہا (الطبرانی)
یعنی
جنت کو پانے کے لئے پورا زور لگاؤ اور جہنم سے بچنے کے لئے بھرپور محنت کرو، کیونکہ
جنت کو پانے والا سوتا نہیں اور جہنم سے بچنے والا آرام نہیں کرتا…
آج
کوئی ہے جو جاکر الطاف حسین کو لندن میں جہنم یاد دلائے… یہ شخص کس قدر بے فکری سے
مسلمانوں کو برباد کر رہا ہے… اس کے حکم پر جلسے جلوسوں میں نکلنے والوں کو کہاں یاد
ہے کہ ہم نے مرنا ہے… اور ہم اسلام کے خلاف اور لسانیت پرستی کے حق میں اپنی زندگی
تباہ کر رہے ہیں… کوئی ہے جو ان کو بتائے کہ جو لوگ دنیا میں اﷲ پاک کے خوف سے نہیں
روتے انہیں آخرت میں بہت رونا پڑے گا… جہنم میں جانے والے بدنصیب اتنا روئیں گے کہ
ان کے چہروں پر ان کے آنسو نالیاں بنادیں گے… پھر آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون جاری
ہوجائے گا… اور اتنا بہے گا کہ کشتیاں اس خون میں چل سکیں گی… یا اﷲ آپ کی پناہ…
رب کعبہ کی قسم یہ سب باتیں سچی ہیں… لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ دنیا کہاں تک پہنچ گئی
اور تم جنت جہنم کی باتیں کرتے ہو… ہاں ہم نے مرنا ہے اس لیے یہ باتیں کرتے ہیں…
ہاں یہ باتیں رب تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہیں اس لئے ہم نے انہیں یاد
رکھنا ہے… ہاں یہ باتیں ہمارے ہمدرد اور محبوب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمائی ہیں… اس لیے ہمارے نزدیک یہ باتیں بہت ضروری ہیں… بہت ضروری… ورنہ شیطان تو
ایسا ظالم ہے کہ ہمیں غفلت اور بے کاری کے گڑھوں میں پھینک دیتا ہے… اور ہم کئی دن
اور کئی راتیں اس بات میں گزار دیتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے بارے میں کیا کہا… فلاں
نے ہمارے بارے میں کیا سوچا… اﷲ اکبر کبیرا… ہمیں عام انسانوں کی کی ہوئی ایک چھوٹی
سی بات پریشان کردیتی ہے… جبکہ ہم اس جہنم کو بھول جاتے ہیں جسے قیامت کے دن جب لایا
جائے گا تو اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی… اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں
گے جو اسے کھینچ کر لا رہے ہوں گے۔(صحیح مسلم)
اور
تو اور میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی سب سے لاڈلی… سب سے پیاری بیٹی فاطمہ رضی
اﷲ عنہا تک سے فرمادیا:
یا
فَاطمۃُ انقذی نفسَکِ من النّار، فانی لا املکُ لکم من اﷲ شیئًا۔ (مسلم)
اے
فاطمہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ… میں تمہارے لئے اﷲ پاک کے آگے کسی چیز کا
مالک نہیں ہوں…
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک اہلیہ محترمہ… خوب گڑگڑا کر اﷲ تعالیٰ سے دنیا میں آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت کی دعاء مانگ رہی تھیں… آپ جانتے ہیں کہ یہ کوئی چھوٹی نعمت
تو نہیں ہے… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیوی بن کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ
رہنا… اﷲ اکبر کتنی بڑی نعمت ہے… مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ یہ
دنیا کی چیزیں تو لکھی جا چکی ہیں… تم اگر یہ دعاء مانگتی کہ اﷲ پاک تمہیں جہنم
اور عذاب قبر سے بچائے تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہوتا(صحیح مسلم)
آج
کی مسلمان عورت اگر قبر اور جہنم کو مسئلہ سمجھے اور اس کی فکر کرے تو زمین کے
آدھے جھگڑے ختم ہوجائیں… مگر کون یاد دلائے… انسان کو تو نسیان کا مرض ہے… نبی صلی
اﷲ علیہ وسلم تو بار بار یاد دلاتے تھے… اور ایسا یاد دلاتے کہ عورتیں اور مرد بسا
اوقات بے ہوش ہوجاتے… اور انہیں دنیا کے سارے مسائل بھول جاتے… مگر اب تو واعظوں
کا سارا زور اسلام کو سائنس کے مطابق ثابت کرنے پر ہے… چبا چبا کر انگریزی الفاظ
بولنے پر ہے… ہاں دل والا اسلام اور جذبوں والا اسلام اب ہر جگہ سننے کو نہیں
ملتا… ورنہ آج گلی گلی میں فساد نہ ہوتا… بے نظیر بھٹو جس اعتماد کے ساتھ امریکی
عزائم پورے کرنے کا اعلان کر رہی ہیں… یہ بھی نہ ہو سکتا… کیونکہ مسلمان غفلت اور
لالچ کے اس زنانہ بت کی بات ہی نہ سنتے… مگر اب تو بازار، مارکیٹ، پیسہ، سیاست اور
پروٹوکول کے شور نے… قرآن پاک کے ڈرانے کو بھلادیا ہے… اور میرے آقا صلی اﷲ علیہ
وسلم کی بے قرار تقریریں بھی لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں… اور تو اور اسلام
اور جہاد کا نام لینے والوں کو بھی آخرت، جنت، جہنم، عذاب قبر یاد نہیں ہے… بس میڈیا،
تصویر بازی اور سطحی شورشرابا ہے… کہاں گئی سوز والی تلاوت جو دلوں کو زندہ کرتی
ہے… کہاں گیا دل کی گہرائیوں سے نکلاہوا ذکر جو دنیا سے بے رغبت کرتا ہے… کہاں گیا
جنت کا وہ حسین تذکرہ جو انسان کو دین کی خاطر جان قربان کرنے پر کھڑا کرتا ہے…
کہاں گیا عذاب قبر کا وہ حقیقی منظر جو انسان کو گناہوں سے روکتا ہے… اور کہاں گیا
جہنم کا وہ بیان جو آنسو کھینچ لیتا ہے… اور انسانوں کے اخلاق درست کرتا ہے… قرآن
پاک تو سورۃ فاتحہ سے والناس تک یہ سب کچھ بیان کرتا ہے… کیا ہم بھی ان مسائل کو
’’اہم‘‘ سمجھتے ہیں؟… کیا ہم ان ’’مسائل‘‘ کی فکر رکھتے ہیں؟… کیا ان مسائل کی یاد
میں ہمارا دل روتا ہے؟…
میرے
بھائیو! اور بہنو! اپنے آپ کو دیکھنے اور ٹٹولنے کی ضرورت ہے… آخرت سے غافل ہونے کی
وجہ سے ہم دنیا کے شہوت پرست جانور بن چکے ہیں… جس کی نحوست سے ہم پر ظالم اور بے
حیاء لوگ مسلط ہوچکے ہیں… کاش ہماری زندگی ایمانی ہوتی… کاش ہماری زندگی ’’جہادی‘‘
ہوتی… ہاں رب کعبہ کی قسم جہادی زندگی مسلمانوں کو مکان، دکان، کوٹھی اور ظالم
حکمرانوں سے آزاد رکھتی ہے… جانے والے مسافر کبھی ریلوے اسٹیشنوں پر اپنا وقت اور
سرمایہ برباد نہیں کرتے… اسی طرح جہادی لوگ بھی جنت تک پہنچنے سے پہلے سانس نہیں لیتے…
میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم فرما رہے ہیں:
اِتَّقُوْ
النَّارَ وَلَوْ بِشَقِّ تَمْرَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ
(بخاری)
جہنم
سے بچو اگرچہ ایک کھجور کا کچھ حصہ دے کر… اور اگر وہ بھی تمہارے پاس نہ ہو تو اچھی
بات زبان سے نکال کر جہنم سے بچو…
اے
میرے بھائیو!… اے مسلمان بہنو! جہنم کی آگ بھڑک رہی ہے… انسان اور پتھر اس کا ایندھن
ہیں… یہ آگ بہت خطرناک ہے… آج ہی سے صبح شام اس سے بچنے کی پورے شعور کے ساتھ کوشش
کریں اور اس سے پناہ مانگنے کو ہم سب اپنا معمول بنالیں… صبح شام سات بار
اَللّٰہُمَّ
اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ
اور
رَبَّنَا
اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ
النَّارِ
اور
رَبَّنَا
اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا…
اور
قرآن وسنت میں اس آگ کا منظر پڑھ کر تنہائی میں بیٹھ کر روئیں… رونا نہ آئے تو
رونے کی شکل بنائیں… اور یاد رکھیں خود کومسلمان یا مجاہد کہلوالینا کافی نہیں ہے…
اس آگ کو اپنے سے دور کرنے کے لئے کافی محنت درکار ہے… اس محنت کے لئے آج ہی نکل
کھڑے ہوں… جہاد میں جان دے کر، جہاد میں مال دے کر… صدقات کرکے… عبادات کا اہتمام
کرکے… رزق حلال کا التزام کرکے… اپنے اخلاق، معاملات اور کاروبار کو اسلام کے
مطابق بنا کے… الغرض پورا مسلمان بن کے ہم جہنم سے بچنے کی فکر کریں… اور ان لوگوں
سے بچیں جو غفلت کا پرچار کر رہے ہیں… دنیا دار سیاسی لیڈر، غافل قوم پرست … روشن
خیالی کے ناپاک بھوت… اور گناہوں کے سوداگر… ان سب سے ہم دور رہیں… اور ہر عمل اﷲ
پاک کی رضا کے لئے کرنے کا پورا اہتمام کریں… یا اﷲ محض اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو
جہنم سے بچا… اور ہمیں اپنی رضاء اور جنت نصیب فرما…آمین یا ارحم الرّاحمین
ایک
جامع دعاء
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری اور جامع دعاؤں میں سے ایک یہ بھی ہے:
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ
وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ
(کنز العمال ص۷۶ ج۲)
ترجمہ: اے میرے پروردگار میں آپ سے جنت کا سوال کرتا
ہوں اور ان باتوں اور اعمال کا جو جنت سے قریب کردیں اور میں آپ کی پناہ میں آتا
ہوں جہنم کی آگ سے اور ان باتوں اور اعمال سے جو جہنم کے قریب کردیں…
ایک
بہت ہی اہم دعاء
حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں یہ
دعاء اس طرح (تاکید اور اہتمام) سے سکھاتے تھے جس طرح قرآن پاک کی کوئی سورۃ سکھا
رہے ہوں:
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ
الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ، وَاَعُوْذُبِکَ
مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ (رواہ مالک ومسلم وابوداؤد)
ترجمہ:
اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور آپ کی پناہ میں
آتا ہوں عذاب قبر سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں دجال مسیح کے فتنے سے اور آپ کی
پناہ میں آتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے…
یہ
دعاء یاد کرلیں ہر نماز کے تشہد میں درود شریف کے بعد اس کا ہم سب اہتمام کریں…
اور اس بات کو بھی دل میں بٹھالیں کہ ہمارے اصل ’’مسئلے‘‘ یہ معاملات ہیں نہ کہ وہ
چیزیں، باتیں اور کام جو ہم دن رات سوچتے اور کرتے ہیں… بے شک غربت، بے روزگاری
اور بہت سے سخت مسائل امت کے سامنے ہیں… مگر جو شخص آخرت کا سچا طالب بن جائے اس
کے دنیاوی مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں… اسی لیے کہا جاتا ہے کہ موت کا مراقبہ
کرنے والوں کو مالی تنگی نہیں ستاتی… ہے نا عجیب بات؟… آپ سچے دل سے عمل کرکے دیکھ
لیں آپ کو خود یقین ہوجائے گا… ان شاء اﷲ…
٭٭٭
ایک خطرناک جر
ُم
درد سے تڑپتی تحریر
اے مسلمانو!
اپنے خالق و مالک اﷲ
تعالیٰ کی عظمت اور مقام کو پہچا نو!
اور
اﷲ تعالیٰ کے معاملے میں پوری طرح سے باادب رہو… ان لطیفوں سے بچو جن میں اﷲ جل
شانہ کی شان میں گستاخی کا جرم ہو، اُن شاعروں سے بچو جو رب تعالیٰ کی عظمت کو نہیں
پہچانتے اور اُن کالم نویسوں سے دور رہو جو اﷲ تعالیٰ کا تذکرہ اُس کے مقام عالی
شان کے مطابق نہیں کرتے: ایک پُر سوز دعا اور بہت سی اہم باتوں پر مشتمل ایک رہنما
تحریر جو نعمت ایمان کی حفاظت کا راستہ بتاتی ہے۔
تاریخ اشاعت ۱۶؍
ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ
۴مئی ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۵
ایک خطرناک جر
ُم
اﷲ
تعالیٰ ہمارے دلوں میں وہ نور اور روشنی عطاء فرمائے… جس سے ہم اﷲ تعالیٰ کی عظمت
اور بڑائی کو پہچان سکیں… اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے ہم کئی بار بے ادبی اور گستاخی کے
جرم میں مبتلا یا شریک ہوجاتے ہیں… گستاخی اور وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی… استغفراﷲ …
استغفراﷲ… اس سے بڑا جرم اور کیا ہوسکتا ہے؟ … اﷲ پاک اخبارات کے کالم نویسوں کو
ہدایت عطاء فرمائے … ان میں سے اکثر ظالموں کو اﷲ تعالیٰ کا مقام ہی معلوم نہیں …
کل میں نے ایک ابھرتے ہوئے صحافی کا کالم پڑھنا شروع کیا ابھی چند سطریں ہی پڑھی
تھیں کہ وہ ظالم پٹڑی سے اتر گیا … اور اﷲ پاک کا یوں تذکرہ کر گیا جیسے نعوذباﷲ
کسی عام انسان کا … اس کے الفاظ پڑھ کر میری روح کانپ اٹھی … اور میں نے اخبار بند
کردیا … چند دن پہلے ایک بوڑھا مزاح نگار جو روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھتا ہے
’’تقدیر‘‘ کی توہین کا مرتکب ہوا … ایک اور کالم نویس نے نعوذباﷲ اﷲ پاک کے لئے
’’چھُٹی‘‘ کا لفظ استعمال کیا… ایک اور ظالم نے یہ بکواس لکھی کہ چونکہ دنیا چھ دن
میں بنی ہے اس لئے اتنی جلد بازی میں ایسی بے کار دنیا ہی بن سکتی تھی… استغفراﷲ
استغفراﷲ … یہی حال لطیفے بازوں کا ہے جن کے لطیفوں کی کیسٹیں لوگ شوق سے سنتے ہیں…
یہ لوگ بھی اﷲ پاک کے نام کی بے حرمتی کر جاتے ہیں… ارے ظالمو! مذاق اور مزاح کی
باتوں میں عرش عظیم کے رب کا تذکرہ کس طرح سے ہوسکتا ہے؟
یہ
لوگ لطیفے گھڑتے ہیں کہ مولوی نے کہا میرے ساتھ اﷲ تعالیٰ ہے تو ٹریفک پولیس والے
نے کہا پھر تو ڈبل سواری کا چالان کاٹتا ہوں…
ہائے
میرے رب معاف فرما… لطیفے بکنے والوں کو کیا پتا کہ وہ کس کا نامِ نامی لے رہے ہیں…
اور دوسری طرف عام مسلمان جن کو عقائد تک کا صحیح علم نہیں ہے ان لطیفوں پر قہقہے
لگاتے ہیں… اور یوں اس بھیانک جرم میں شریک ہوجاتے ہیں… ادھر شاعروں کا معاملہ تو
کچھ زیادہ ہی بگڑا ہوا ہے… وہ تو اپنی بدزبانی سے بارگاہ الٰہی کی بے حد توہین کے
مرتکب ہوتے ہیں… فیض ہو یا فراز یہ مسلمانوں کے روپ میں کفر اور بے ادبی کی خدمت
کرتے ہیں… اور ہم صرف اس لئے ان کی ظالمانہ گستاخی برداشت کر جاتے ہیں کہ وہ فن کے
’’استاد‘‘ ہیں … اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت ’’الحلیم‘‘ ہے یعنی بہت زیادہ حلم اور
بردباری والا… جبکہ فیض بکتا ہے ؎
اک
فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے
ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
نعوذباﷲ،
نعوذباﷲ… اﷲ پاک جزائے خیر عطاء فرمائے ’’زہیر‘‘ کو انہوں نے اس شعر کا کچھ یوں
جواب دیا ؎
خود
اپنے منکروں کی بھی کرتا ہے پرورش
دیکھے
ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
ہمارے
علاقے کا ایک شاعر جو کسی زمانے تک اچھے شعر کہتا رہا… مگر پھر روزنامہ خبریں کے
فاسقانہ ماحول میں گیا تو اس ظالم نے بھی عرش کی طرف تھوکنے کی کوشش کی… وہ اپنے ایک
سرائیکی شعر میں کہتا ہے… یا اﷲ ہم جنت میں اکھتر حوروں کے بغیر گزارا کرلیں گے تو
ہمیں دنیا میں پیٹ بھر کر روزی دے دے…
اب
جو بے روزگار مسلمان اس شعر کو پڑھے گا وہ اس بھیانک گستاخی پر عش عش کرے گا…
حالانکہ آج مسلمانوں پر جتنی بھی معاشی تنگی ہے وہ سب ان کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ
ہے…
آخر
کس شریعت نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ شادی بیاہ پر لاکھوں کروڑوں خرچ کریں… اور اس
ہندوانہ خرچے کے لئے بھیک مانگتے پھریں… کس شریعت نے حکم دیا ہے کہ مسلمان مکانوں
پر مکان تعمیر کرتے رہیں … کس شریعت نے حکم دیا ہے کہ سودی نظام کو اپنے اوپر مسلط
کرکے اپنے رزق کے دروازوں کو تنگ کریں… خیر یہ الگ موضوع ہے… مگر ایک مسلمان اﷲ
پاک سے اس طرح تو شکوہ نہیں کرسکتا جس میں طنز کا عنصر شامل ہو… کہاں ہم چھوٹے
چھوٹے کیڑے مکوڑے اور کہاں وہ عظمت والا رب جس کے سامنے سورج چاند اور کُل کائنات
پر نہیں مار سکتے… جس نے سات آسمان ایک کلمہ ’’کُن‘‘ سے پیدا فرمادئیے… جبکہ انسان
ابھی تک ان آسمانوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکا… اﷲ پاک کے پیارے انبیاء نے بھوک
برداشت کی مگر انہوں نے ایسا کوئی شکوہ نہیں فرمایا… اور مسلمان جب اسلام پر عمل
کرتا ہے تو وہ ساری دنیا کو بانٹ بانٹ کر تھک جاتا ہے مگر اس کا مال ختم نہیں
ہوتا… کچھ عرصہ پہلے ایک اخبار نے اپنے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ’’ایک غریب ایک کہانی‘‘
کے نام سے بعض غریبوں کے انٹرویو کئے… میں نے یہ انٹرویو غور سے پڑھے… ایک مسلمان
ہونے کے ناطے مجھے غریبوں سے محبت ہے… میں جب بھی کسی غریب کو دیکھتا ہوں تو فوراً
دعاء کرتا ہوں کہ یا رب العالمین اس کو اپنے فضل سے رزق کی وسعت عطاء فرمائیے… بھیک
مانگتے بچے اور سڑکوں پر بیٹھے خلاؤں کو گھورتے غریب بوڑھے دیکھ کر میرا دل خون کے
آنسو روتا ہے… میں خوابوں خیالوں میں ایسے تندور بناتا رہتا ہوں جہاں سے غریبوں کو
عزت کے ساتھ مفت روٹی ملے… میں خیالات کی دنیا میں ایسے ادارے قائم کرتا رہتا ہوں
جہاں میں غریب بوڑھے لوگوں کو عزت کے ساتھ رہنے اور کھانے پینے کی خدمت فراہم
کرسکوں… بہاولپور میں مرکز عثمانؓ وعلیؓ کی تعمیر کے مشورے کے وقت میں نے ساتھیوں
سے عرض کیا کہ… اس میں ایک حصہ ان لاوارث بزرگوں اور بوڑھوں کے لئے بنائیں جن کو
مسلمانوں نے اور ان کے اہل خانہ نے فراموش کرکے دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا ہے…
ہائے کاش مسلمان مالدار اپنی زکوٰۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے… ہائے کاش مسلمانوں کو
معلوم ہوتا کہ بھوکے کو کھانا کھلانے پر کیا کچھ ملتا ہے… تب وہ اپنے بیٹے اور بیٹی
کو بعد میں کھلاتے پہلے کسی بھوکے کو تلاش کرکے اس کی خدمت میں کھانا پیش کرتے… اے
مسلمانو! اﷲ تعالیٰ نے تو زمین کو رزق سے بھردیا ہے… مگر انسانوں کی ہوس اور
مسلمانوں کی بددینی نے سارے مسائل کھڑے کئے ہوئے ہیں… آج پاکستان میں زمینیں کیوں
مہنگی ہورہی ہیں؟… صرف اس لیے کہ ملک کے فوجی آفیسروں اور سود خوروں نے زمین کا
کاروبار شروع کردیا ہے… چونکہ یہ لوگ ملک کے حکمران بھی ہیں اس لئے اب انسانوں کو
رہنے کے لئے تو درکنار قبر کے لئے بھی زمین آسانی سے نہیں ملتی… اب ان حالات میں اﷲ
تعالیٰ سے شکوہ کرنے کی کیا گنجائش ہے؟… اب حوروں اور جنت پر طنز کا کیا جواز ہے… یہ
شراب خور شعراء ہمیں اپنے رب عظیم سے کاٹنا چاہتے ہیں… میں نے ایک ترقی پسند شاعر
کا مضمون دیکھا… وہ لکھ رہا تھا کہ فیض صاحب لندن میں میرے مکان پر آئے… انہوں نے
مکان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی… میں نے اپنی انگریز بیوی سے کہا کہ فیض صاحب کو
پورا مکان دکھا دے… اب فیض صاحب ایک ہاتھ میں بوتل پکڑے شراب بھی پیتے جاتے تھے
اور میری بیوی کے ساتھ مکان بھی دیکھتے جاتے تھے… جب بھی انہیں مکان کی کوئی چیز
اچھی لگتی بے اختیار میری بیوی کو چومنے لگ جاتے… یوں انہوں نے شراب کی مستی میں
جھوم جھوم کر اور غیر عورت کو چوم چوم کر مکان دیکھ لیا… اب آپ بتائیے کیا ایسا
بدمست انسان مسلمانوں کا خیر خواہ ہوسکتا ہے؟… شراب پی کر شعر کہنے والے… تیز میوزک
لگا کر کالم لکھنے والے… غیر ملکی دوروں کے لئے اپنا ایمان بیچنے والے… ہر گندگی میں
منہ ڈالنے والے یہ قلم فروش لوگ مسلمانوں کے دانشور کس طرح سے ہوسکتے ہیں؟…
اے
مسلمانو! ان ظالم لوگوں سے دور رہو جو نعوذباﷲ اﷲ پاک کا تذکرہ بھی طنز، مزاح اور
بے ادبی کے زمرّے میں کرجاتے ہیں… اور ہم نادانستہ طور پر ان کے کالم پڑھ کر اپنے
ایمان کو خراب کر بیٹھتے ہیں… آپ خود سوچیں قرآن پاک کی عظمت کس لئے ہے؟… اسی لئے
ناں کہ وہ اﷲ جل شانہ کی کتاب ہے… کعبہ کی عزت کیوں ہے؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ پاک کا
گھر ہے… ایمان کسے کہتے ہیں؟… اﷲ پاک کو اور اس کے احکامات کو دل سے ماننے کا نام
ایمان ہے… فرشتے کیوں مقدس ہیں؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ پاک کے فرمانبردار بندے ہیں…
انبیاء علیہم السلام کی شان کیوں بلند ہے؟… اسی لئے کہ اﷲ پاک نے ان کو رسالت اور
نبوت کے لئے منتخب فرمایا… کوئی بزرگ عزت والا کیوں ہوتا ہے؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ
تعالیٰ کا ولی اور دوست ہوتا ہے… مجاہد کا مقام اونچا کیوں ہے؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ
تعالیٰ کے کلمے کی سربلندی کے لئے قربانی پیش کرتا ہے… نماز کیوں اچھی ہے؟… اسی
لئے کہ وہ اﷲ پاک کی یاد ہے… روزہ کیوں افضل ہے؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ پاک کے ساتھ
وفاداری کا اظہار ہے… حج کیوں پسندیدہ ہے؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ پاک کے ساتھ عشق کا
منظر ہے… زکوٰۃ کیوں اچھی چیز ہے؟… اسی لئے کہ وہ اﷲ پاک کے نام پر نکالی جاتی ہے…
اے
مسلمانو! یہی معنیٰ ہے ’’الحمدﷲ رب العالمین‘‘ کا … کہ جس چیز میں جو خوبی بھی ہے
وہ اﷲ پاک کی طرف سے ہے… اور اﷲ پاک کی وجہ سے ہے… اور اﷲ پاک کی نسبت سے ہے… پھر یہ
کونسا طریقہ ہے کہ ہم پیروں اور مرشدوں کا تو احترام کریں… اور اﷲ پاک کی عظمت
بھول جائیں… ہم ہر کسی کو بڑے بڑے القاب دیں اور اﷲ تعالیٰ کا نام بے ادبی سے لیں…
ہم ہر کسی سے ڈریں اور ہمارے دل میں اﷲ پاک کاخوف نہ ہو… ہم ہر کسی کے سامنے دبیں
مگر اﷲ پاک کے سامنے عاجزی نہ کریں… حالانکہ ہمارا کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ سے شروع
ہوتاہے کہ اﷲ پاک کے سوا حقیقت میں کوئی کچھ بھی نہیں ہے… دنیا میں جس چیز کی کوئی
شان ہے … وہ اﷲ پاک کی عطاء اور نسبت سے ہے… اور ہماری نماز کی ابتداء ہے ’’اﷲاکبر‘‘
یعنی اﷲ تعالیٰ سب سے زیادہ عظمت اور بڑائی والا ہے… یہی ہماری اذان کی ابتداء ہے…
اور یہی ہمارا جینا مرنا ہے… پھر کیا بات ہے کہ ہمارے دل اﷲ پاک کی خشیت سے خالی ہیں؟…
ہمارے قلمکار اﷲ پاک کا نام لکھتے ہیں تو ادب کے قرینوں کو بھول جاتے ہیں… ہمارے
لطیفے باز اﷲ پاک کے نام کو لطیفوں میں استعمال کر رہے ہیں… ہم لوگ ان اوراق کی بے
حرمتی کرتے ہیں جن پر اﷲ پاک کا نام لکھا ہوتا ہے… حالانکہ کئی گناہگار اسی لئے
بخشے گئے کہ انہوں نے اﷲ پاک کے لکھے ہوئے نام کو ادب سے اٹھایا… اس کو خوشبو سے
مہکایا اور اونچی جگہ رکھ دیا… ہم لوگوں کے سامنے بن ٹھن کر جاتے ہیں اور نماز میں
اﷲ پاک کے سامنے میلے کچیلے کھڑے رہتے ہیں… آخر یہ سب کیا ہے؟… ہم ایک فوجی افسر یا
تھانیدار کے سامنے بیٹھتے ہیں تو اپنی انگلیوں کو نہیں چٹخاتے… مگر نماز میں ہمیں
اپنے ہر عضو کی خارش یاد رہتی ہے… کسی فوجی کو بتائیں کہ وہ اپنے میجر کے سامنے
خارش کھجاکے دکھائے… ہم جب دنیا میں کسی سے کچھ مانگنے جاتے ہیں تو پوری توجہ اس کی
طرف رکھتے ہیں… مگر دعاء میں ہمارا کیا حال ہوتا ہے؟… حالانکہ ہم عظمت والے رب عظیم
سے مانگ رہے ہوتے ہیں… وہ رب عظیم جن کے سامنے جبرئیل علیہ السلام تھرتھر کانپتے ہیں…
جن کے سامنے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم درخت کی شاخ کی طرح لرزتے تھے… ہاں جو اﷲ
پاک کو جتنا پہچانتا ہے اسی قدر ڈرتا ہے… اسی قدر ادب کرتا ہے … اور اسی قدر محبت
اور خشیت میں ڈوبا رہتا ہے… کاش موذن اذان دیتے وقت یہ سوچتا کہ میں رب کی عظمت کا
اعلان کررہا ہوں… تب اس کی اذان میں بلالی سوز ہوتا… مگر اب تو آواز ہے اور لہجہ…
اور یہ فکر کہ لوگوں کو اذان کیسی لگی؟… اﷲاکبرکبیرا… اﷲ پاک کی یاد ہر عبادت کی
روح ہے… اور ہم اسی روح سے محروم ہوتے جارہے ہیں… بے شک بے ادب بے نصیب ہوتا ہے…
اور بے ادبی بھی جب اﷲ تعالیٰ کی ہو تو اس سے بڑھ کر اور بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے؟…
میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو اﷲ تعالیٰ کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں
کہ
۱۔ ہم سب اﷲ تعالیٰ
کی عظمت کو سمجھیں، قرآن پاک کی اکثر سورتوں کا آغاز اﷲ پاک کی شان اور تعریف کے بیان
سے ہوتا ہے ہم اس پر غور کیا کریں… اور وہ احادیث مبارکہ پڑھیں جن میں اﷲ پاک کی
عظمت کا بیان ہے… اور خود اپنے دل سے پوچھیں کہ اﷲ پاک کے بغیر دنیا اور آخرت میں
رہ ہی کیا جاتا ہے؟
۲۔ ہم جب بھی اﷲ پاک
کانام لیں عظمت سے لیں اﷲ تعالیٰ، اﷲ پاک، اﷲ جل شانہ… اﷲ جل جلالہ … اﷲ العظیم… اﷲاکبر…
اﷲ اجلّ… اﷲ عز اسمہ … اور جب بھی اﷲ پاک کا نام سنیں ہمارے دل ڈر جائیں… سورۃ
انفال میں بیان فرمایا گیا کہ اصل ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اﷲ پاک
کا ذکر آتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں… کالے رنگ کے ایک غلام نے کلمہ پڑھا… کلمہ پڑھتے
ہی اﷲ پاک کی عظمت دل میں بیٹھ گئی … وہ تڑپ کر پوچھنے لگے کہ جب میں گناہ کرتا
تھا تو کیا اﷲ پاک مجھے دیکھتے تھے؟ جواب ملا جی ہاں… بس یہ سنتے ہی چیخ ماری اور
دل پھٹ گیا کہ… میرا محبوب مالک مجھے اپنی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھتا رہا پھر بھی
پردے ڈالتا رہا… اور میں کتنا نالائق کہ اس کے سامنے اس کی نافرمانی کرتا رہا… اﷲ
پاک نے اپنے اس بندے کو بخش دیا کہ اس کے دل میں اﷲ پاک کے لئے ڈر تھا… ادب تھا
اور شرم تھی…
۳۔ عام اخبارات کے
کالم نویسوں کے کالم اور مضامین پڑھنا چھوڑ دیں خصوصاً طنز ومزاح لکھنے والے جو اس
میں بھی اﷲ پاک کا تذکرہ کر جاتے ہیں اور اسلام کے خلاف لکھنے والے… یہ لوگ غیر
محسوس طریقے سے مسلمانوں کے دلوں سے اﷲ پاک کی عظمت کم کرتے ہیں… اور اسلام اور
شعائر اسلام کی توہین کرتے ہیں… قرآن پاک میں واضح حکم ہے کہ دین کا مذاق اڑانے
والوں کے ساتھ جو بیٹھے گا وہ بھی ان ہی میں سے ہوجائے گا… پس ایسے لوگوں کے کالم
پڑھنا ان کے گناہ اور جرم میں شریک ہونا ہے… یہ بہکے ہوئے لوگ ہر گز اس قابل نہیں
ہیں کہ ہم ان کی باتیں پڑھیں یا سنیں… الحمدﷲ اسلامی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک
اچھی کتاب موجود ہے… اسلامی کتب خانہ بہت وسیع ہے… اور اسلام کے خادم قلمکار بھی
کسی دور میں کم نہیں ہوئے… آپ یقین کریں… اﷲ پاک کی گستاخی اور اﷲ پاک کا بے ادبی
سے تذکرہ ایک خطرناک ترین جرم ہے… میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور میں صرف خیر
خواہی کی بناء پر آپ سب کی منت سماجت کر رہا ہوں… اﷲ کے لئے اپنا ایمان بچائیں…
اور میرے عظیم رب کے گستاخوں کو منہ ہی نہ لگائیں… ہم مسلمان گناہگار تو ہوسکتے ہیں
مگر ہم اﷲ پاک کے باغی اور گستاخ تو نہیں ہوسکتے… آپ نے خلافت عثمانیہ کا نام سنا
ہوگا… ساڑھ پانچ سو سال تک یہ خلافت مسلمانوں کی روحانی ماں بنی رہی… اور حجاز سے
لے کر یورپ تک اس خلافت کا پرچم لہراتا رہا… عثمانیہ خاندان کو اﷲ پاک نے یہ عظیم
سعادت صرف ’’ادب‘‘ کی وجہ سے عطاء فرمائی… اس خلافت کا بانی اوّل ایک عام آدمی
تھا… ایک رات غلطی سے وہ قرآن پاک کی طرف پاؤں کرکے سو گیا… جب اسے معلوم ہوا تو
ندامت کے مارے رونے لگا اور ساری رات ادب سے کھڑا رہا… بس پھر کیا تھا اس خاندان
کو اﷲ پاک نے اپنے گھر کعبۃاﷲ اور مسجد نبوی تک کا سینکڑوں سال خادم بنائے رکھا…
ہم سب مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآن پاک کا غایت درجے ادب ملحوظ رکھیں…
۴۔ ایسے لطیفے جن میں
اﷲ پاک کا نام استعمال کیا جائے یا جن میں قرآن پاک یا فرشتوں کی بے حرمتی کا
شائبہ ہو… ان کو ہر گز نہ سنا جائے اور نہ آگے سنایا جائے… مضمون نویس حضرات جب
مزاح لکھنے لگیں تو اس میں انشاء اﷲ اور ماشاء اﷲ جیسے الفاظ تک استعمال نہ کریں…
۵۔ مشرکوں کے نزدیک،
خدا، بھگوان، شیو، برہما، دیوی، دیوتا کا ایک الگ اور غلط تاثر ہے… وہ جب چاہتے ہیں
کسی کو پوجتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اسی کو گالی دیتے ہیں… انڈین فلموں میں بھگوان،
خدا وغیرہ کے الفاظ کا بہت گستاخانہ استعمال ہوتا ہے یہ فلمیں ویسے بھی مسلمانوں
کے لئے زہر قاتل ہیں… مگر ان کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کی وجہ سے مسلمان
کا اپنے رب تعالیٰ کے بارے میں عقیدہ خراب اور کمزور ہوجاتا ہے اور بعض اوقات خالص
کفریہ جملے ان فلموں میں استعمال ہوتے ہیں… آپ خوش نہ ہوں کہ مسلمانوں کا نام
رکھنے والے چند خبیث افراد انڈین فلموں کے ہیرو ہیں… یہ خبیث تو مسلمانوں کے دشمن
ہیں… شاہ رخ ہو یا سلمان خان یا کوئی اور… فلم دیکھنا تو ویسے ہی جائز نہیں مگر
انڈین فلمیں تو ایمان کے لئے ازحد خطرناک ہیں… وہ بھگوان کوخدا کے معنیٰ میں لے کر
پھر اسے گالیاں دیتے ہیں جس سے مسلمانوں کے ایمان میں بھی سوراخ ہونے لگتا ہے…
اس
لئے خود کو اور اپنی اولاد کو ہر طرح کی فلموں سے عموماً اور انڈین فلموں سے
خصوصاً بچائیں… اوروہ علماء کرام جو دین کی خدمت کے لئے ٹی وی پر آنا شروع ہوگئے ہیں…
اﷲ پاک کی رضا کے لئے اپنے اس عمل پر نظر ثانی کریں… کیونکہ اب کئی لوگ ان کا درس
سننے کے لئے ٹی وی خریدیں گے… پھر آدھا گھنٹہ یہ درس ہوگا اور باقی تمام وقت اﷲ رب
العالمین کی گستاخی اور نافرمانی… اور ماضی قریب میں جن مسلمانوں نے ٹی وی جلادئیے
تھے ان کو بھی جواب دینا ہوگا کہ حرمت اور خباثت کا یہ اڈہ اب کس طرح سے حلال ہوگیا
ہے… ٹی وی کو حلال قرار دینے والے حضرات سے نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست ہے کہ…
اپنے اور دوسروں کے گھروں اور ایمانوں کو جلانے سے پہلے ایک بار پھر غور فرمالیں… یا
پھر مساجد میں بھی ٹی وی اور کیبل کی اجازت دے دیں… اس لئے کہ اگر یہ جائز ہے اور
اس پر درس قرآن سننا حلال ہے تو پھر یہ مبارک کام مسجد میں بھی ہونا چاہئے… اﷲ پاک
حفاظت فرمائے…
۶۔ دل میں اﷲ تعالیٰ
کی عظمت اور بڑائی کا نور پیدا ہوجائے… اس کے لئے ہم خاص طور سے دعاء کیا کریں… ایسی
کئی دعائیں حضرت آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہیں… مناجات مقبول کی
دعائیں ترجمے کے ساتھ ملاحظہ فرمالیں اس موضوع کی کئی دعائیں مل جائیں گی… اگر میری
قسمت میں ہوا تو انشاء اﷲ اسی کالم میں کبھی وہ دعائیں آپ کی خدمت میں عرض بھی
کردوں گا… آج صرف ایک دعاء بیان کی جارہی ہے… یہ بہت عجیب عاشقانہ اور والہانہ
دعاء ہے… یہ دعاء ایک بزرگ حضرت ابراہیم کرمانی
ؒ سے مروی ہے وہ سجدے میں یہ دعاء مانگا کرتے تھے… اور فرمایا کرتے تھے کہ
میں جب بھی یہ دعاء مانگتا ہوں مجھے حکم دیاجاتاہے کہ اسے خوب اچھی طرح سے مانگو…
اس دعاء میں بھی اﷲ تعالیٰ سے ادب کی التجاء کی گئی ہے:
اَللّٰہُمَّ
اُمْنُنْ عَلَیَّ بِـإِقْبَالِی عَلَیْکَ وَاِصْغَائِیْ اِلَیْکَ وَاِنْصَاتِیْ
لَکَ وَالْفَہْمِ عَنْکَ وَالْبَصِیْرَۃِ فِی اَمْرِکَ وَالنَّفَاذِ فِیْ
خِدْمَتِکَ وَحُسْنِ الاَْدَبِ فِیْ مُعَامَلَتِکَ…
ترجمہ: اے میرے پروردگار مجھ پر احسان فرما کہ میں تیری
طرف متوجہ رہوں اور تیرے احکامات کو کان لگا کر سنوں اور تیرے حکموں کو سنتے وقت
خاموش رہوں اور تیری باتوں کو سمجھوں اور تیرے حکم کو پہچانوں اور تیرے کاموں میں
لگا رہوں اور تیرے معاملے میں خوب اچھی طرح سے با ادب رہوں…
آمین
یا ارحم الراحمین… وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ وسلم تسلیما
کثیرا…
خاص
گزارش
اﷲ
تعالیٰ کے نام کی قسمیں زیادہ نہ کھائیں، خصوصاً کاروبار میں اﷲ پاک کا نام غلط
استعمال نہ کریں… کسی پر لعنت نہ بھیجیں… بات بات پر اﷲ گواہ ہے، اﷲ گواہ ہے نہ کہیں…
اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر خود کو، دوسروں کو اور بچوں کو بددعاء نہ دیں کہ خدا غرق
کرے وغیرہ… اﷲ تعالیٰ کے نام پر کسی کو دھوکہ نہ دیں… یہ تمام باتیں چونکہ سخت بے
ادبی کے زمرے میں آتی ہیں اس لئے ہم سب ان سے بچنے کا پورا اہتمام کریں…
٭٭٭
دعاء کا رنگ
٭مختصر تذکرۂِ
حضرت مولانا عبدالقیوم چترالی نور اﷲ مرقدہ
٭پرویز مشرّف کی
حکومت کے زوال کا آغاز… مظلوموں کی دعائیں رنگ لا رہی ہیں اور روشن خیالی کا بت ’’
لا الہ الا اﷲ‘‘ کے نعرے سے گرنے کے قریب ہے۔
٭ ’’ فتح
الجوّاد کی تصحیح کے سلسلے میں ایک ضروری وضاحت۔
تاریخ اشاعت ۲۳؍
ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ
۱۱؍مئی ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۶
دعاء کا رنگ
اﷲ تعالیٰ اُن کے
درجات بلند فرمائے… وہ اﷲتعالیٰ کے شکر گذار بندے تھے… ان کا نام تھا ’’عبدالقیوم‘‘
اور وہ چترال سے تعلق رکھتے تھے مگر طویل عرصہ سے کراچی میں مقیم تھے… عالم باعمل،
عبادت گذار، متقی اور قناعت پسند بزرگ تھے… جی ہاں حضرت مولانا عبدالقیوم چترالی استاذ
جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی انتقال فرما گئے ہیں… اﷲ تعالیٰ ان
کی قبر کو جنت کا باغ بنائے… وہ حضرت بنوریؒ کے معتمد ساتھی تھے… ایک زمانے تک
جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں ان کا ’’صرف‘‘ کا سبق معروف تھا… مجھے بھی
ان سے علم ’’صرف‘‘ اور ترجمہ قرآنِ پاک آخری دس پارے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی… وہ
’’پاکباز‘‘ انسان تھے بے حیائی والے گناہوں کا ایسا نقشہ کھینچتے تھے کہ انسان کو
ان گناہوں سے طبعی گھن آنے لگتی تھی… ان کی سب سے قابل رشک صفت ’’قناعت‘‘ تھی اپنی
سائیکل پر بہت خوشی اور شکر کا اظہار کرتے تھے… ایک بار کسی مہمان عالم کو اپنے
گھر لے گئے… اس عالم نے چھوٹا سا مکان دیکھ کر کہا حضرت! آٹھ نو بچوں کے ساتھ اتنے
سے مکان میں کیسے گذارہ ہوتا ہے؟… فرمانے لگے! بھائی کیا کہہ رہے ہو یہ تو بنگلہ
ہے پورا ڈاک بنگلہ اور ہماری ضرورت سے بھی زائد ہے… تہجد کا بہت اہتمام تھا آٹھ
رکعت نماز میں ایک بار یا دو بار سورۃ یس ٓ پڑھتے تھے… اور جمعرات کی رات سورۃ
دخان پڑھنے کی فضیلت بیان فرمایا کرتے تھے… کئی سال پہلے موت ان کے قریب سے گذر گئی…
وہ اس گاڑی میں موجود تھے جس پر فائرنگ کرکے حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالسمیع
صاحبؒ… اور حضرت اقدس مولانا ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار صاحبؒ کو شہید کیا گیا تھا…
قاتلوں نے فائرنگ کے بعد گن پاؤڈر چھڑک کر گاڑی میں آگ بھی لگادی تھی… مگر حضرت
مولانا عبدالقیوم صاحبؒ اس وقت بالکل محفوظ رہے… اور جلتی گاڑی میں سے صحیح سالم
نکل کر خود مدرسہ پہنچ گئے… بے شک موت کا وقت مقرر ہے اور اٹل ہے… اﷲ پاک یہ حقیقت
ہمارے دلوں میں اُتار دے تو ہمارے بے شمار مسائل حل ہوجائیں… اﷲ تعالیٰ حضرت
مولاناؒ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان کے دلوں پر صبر برسائے… انّا ﷲ
وانّا الیہ راجعون… اللّہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ… آمین یا رب العالمین…
’’القلم‘‘ کے قارئین سے حضرت استاذ محترم ؒ کے لئے دعاؤں کی گذارش ہے…
دعائیں رنگ لارہی ہیں
محترم جناب جسٹس
افتخار محمد چوہدری نے لاہور کا مقابلہ بھی جیت لیاہے… اﷲ پاک کبھی مچھر کے ذریعے
نمرود کو ہلاک فرماتا ہے… اور ہاتھیوں کا لشکر ابابیلوں سے تباہ کرواتا ہے… کہاں
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب جیسے قد آور انسان… اﷲاکبرکبیرا… اسلامی دنیا کا پہلا
مسلمان سائنسدان جس نے خود اپنے زور پر ایٹم بم بنایا… ایک بہادر، مقبول اور نیک
انسان… مگر جنرل پرویز مشرف ان کو بھی آسانی سے دبا گئے… اور پورا ملک خاموش
تماشائی بنااپنے قومی ہیرو کی تذلیل دیکھتا رہ گیا… صدر صاحب کا معدہ کافی طاقتور
ہے کیونکہ اس معدے پر امریکی تندور لگا ہوا ہے… نواز شریف ہضم، بے نظیر ہضم، اکبر
بگٹی ہضم، اپنے پرانے فوجی رفقاء ہضم، دو وزراء اعظم ہضم… تعجب کیجئے جمالی صاحب
بھی ہضم… حالانکہ وہ کافی موٹے تازے انسان ہیں… پھر افغان پالیسی ہضم، طالبان سفیر
ہضم، کشمیر پالیسی ہضم، ’’حدود‘‘ والا بل ہضم… چھ سو مجاہدین ہضم… قرآن پڑھنے والے
معصوم بچے ہضم… وزیرستان اور بلوچستان کے سینکڑوں مسلمان ہضم… اور معلوم نہیں کیا
کچھ ہضم… مگر اب اچانک ایک ایسا لقمہ گلے میں اٹک گیا ہے… جس کے اٹکنے کا تصور بھی
نہیں تھا… چیف جسٹس صاحب اسلام آباد سے لاہور پہنچے تو راستے میں عوام ہی عوام
تھے… یہ لوگ چیف جسٹس کی محبت میں نہیں… بلکہ جنرل پرویز مشرف سے تنگ آنے کی وجہ
سے سڑکوں پر نکلے ہیں… عوام کے دل کے زخم اب اُبھر رہے ہیں… ’’میںمیں‘‘ کرکے ظلم
وستم ڈھانے والی روشن خیالی اب تیزہواؤں میں لرز رہی ہے… حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول
چکے ہیں… اونچے ایوانوں کے خفیہ کمروں میں مارشل لا یا ایمرجنسی لگانے کے مشورے ہو
رہے ہیں… مجاہدین کو شکار کرکے مونچھوں کو تاؤ دینے والے شکاری اب اپنے اوپر بھونک
رہے ہیں… اﷲاکبرکبیرا… قربان ہوجاؤں اپنے مالک کی شان پر کہ وہ کمزور مسلمانوں کی
دعائیں کیسے سنتا اور قبول فرماتا ہے… کچھ دن پہلے اﷲ تعالیٰ کے بندوں نے ’’بسم اﷲ
الرحمن الرحیم‘‘ کی رسّی پکڑ کر عرش تک اپنے نالے پہنچائے کہ… یا اﷲ اس حکومت کا
ظلم وستم اب تمام حدود سے تجاوز کرچکا ہے… ابھی دعائیں گلے میں تھیں کہ پورا ملک
’’گو مشرف گو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا… اگر یہ تحریک علماء چلاتے تو ساری دنیا ان
کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی… اگر یہ تحریک دینی مدارس کے طلبہ چلاتے تو جنگی ہیلی کاپٹر
اور ٹینک حرکت میں آجاتے… مگر اﷲ پاک نے وکیلوں کو کھڑا کیا اور روشن خیالی اپنا
منہ دیکھتی رہ گئی… واہ میرے مالک واہ… آپ کی شان جلّ جلالہ… انتہا پسندی کو جڑ سے
اکھاڑنے والوں کی اپنی جڑیں ان کے ہاتھوں میں آگئی ہیں… کئی دن ہوگئے اخبار اداس ہیں
کہ انتہا پسندی کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا… کوئی دھمکی نہیں چھپی… دعائیں کرنے
والوں سے گذارش ہے کہ… تھوڑی سی مزید ہمت کریں ایک بار پھر مصلّٰی بچھائیں… پھر
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ پھردعائیں…
مظلوم قیدی عقوبت
خانوں میں تڑپ تڑپ کر رو رہے ہیں… دربدر پھرنے والوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا
ہے… گوانتا ناموبے کا قید خانہ ہمارے انہیں حکمرانوں کی ایجاد ہے… وہاں سے ایسے
مسلمانوں کو لایا جارہا ہے جو ذہنی توازن کھوچکے ہیں… اور ان میں سے ایک کا وزن بیس
کلو رہ گیا ہے… کشمیر کے اس پار مجاہدین خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرنے لگے ہیں…
بے حیائی سڑکوں پر نکل آئی ہے… اور داڑھی برقعے کا مذاق اب ملک کا کلچر بنتا جارہا
ہے… یہ سب کچھ ’’عذاب‘‘ ہے جو ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہم پر مسلط ہے… مہنگائی،
بھوک، بے حیائی، بددینی… اور لاقانونیت … ملک ایک جنگل بن چکا ہے… اے دعاء کرنے
والو… ایک بار پھر… ہاں دل کے ساتھ زبان کو ملا کر… اور آنسوؤں کی لڑیاں پرو کر…
وہ دیکھو! دعائیں رنگ
لا رہی ہیں…
فتح الجوّاد کی تصحیح
الحمدﷲ ’’فتح الجوّاد
فی معارف آیات الجہاد‘‘ کو اﷲ پاک نے مسلمانوں کی خوشی کا ذریعہ بنادیا ہے… یہ
کتاب مسلسل دو پریسوں میں چھپ رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں تک پہنچ رہی ہے…
الحمدﷲ
الذی بنعمتہٖ تتم الصالحات… ماشاء اﷲ لا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم … ’’فتح
الجوّاد‘‘ کی کتابت کے بارے میں ایک ضروری وضاحت عرض ہے کہ… اس کتاب کی تصحیح اور
پروف ریڈنگ پر الحمدﷲ کافی محنت کی گئی ہے… چھپائی سے پہلے کم از کم پانچ علماء
کرام نے اس کی الگ الگ پروف ریڈنگ کی ہے… اس لئے الحمدﷲ اس میں غلطیاں نہ ہونے کے
برابر ہیں… جو چند غلطیاں رہ گئی ہیں وہ آئندہ اشاعت میں انشاء اﷲ درست کردی جائیں
گی… اہم بات یہ ہے کہ ہر زبان چند سال بعد اپنا لہجہ اور انداز بدلتی رہتی ہے…
حضرت شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے زمانے کی اردو اور آج کی اردو میں کافی فرق ہے… تفسیر
میں حضرت شاہ صاحبؒ کی اصل عبارتیں ہیں… بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ یہ کتابت کی غلطی
ہے… پھر اکابر میں سے بعض حضرات کا اپنا ادبی اسلوب ہے… مثلاً حضرت مولانا
عبدالماجد دریا آبادی کئی الفاظ کے متعلق اپنی ایک مستقل رائے رکھتے ہیں وہ
’’جغرافیائی‘‘ کے لفظ کو درست نہیں سمجھتے بلکہ اسے ’’جغرافی‘‘ لکھتے ہیں… اسی طرح
ان کے ہاں ’’معاشرتی‘‘ کے لفظ کو ’’معاشری‘‘ لکھا جاتا ہے… اب بعض قارئین جیسے ہی
’’جغرافی‘‘ یا ’’معاشری‘‘ کا لفظ دیکھتے ہیں تو فوراً جیب سے قلم نکال کرغلطی کا
نشان لگادیتے ہیں… اور پھر خط لکھ کر مطلع بھی کرتے ہیں کہ یہ غلطیاں رہ گئی ہیں…
ایسے حضرات سے گذارش ہے کہ وہ اردو حوالوں میں جہاں غلطی محسوس کریں تو پہلے …
موضح القرآن، بیان القرآن، تفسیر حقانی، تفسیر عثمانی، تفسیر ماجدی وغیرہ… الغرض
جس تفسیر کی عبارت ہو پہلے وہاں ملاحظہ فرمائیں… حضرت تھانویؒ کا اسلوب نگارش الگ
ہے… حضرت لاہوریؒ کا الگ ہے… حضرت حقانیؒ کا الگ ہے… مؤلف فتح الجوّاد نے اکثر
مقامات پر ان حضرات کی عبارتیں من وعن نقل کی ہیں… اور جہاں ان کی عبارت زیادہ
مشکل محسوس ہوئی وہاں بریکٹ میں وضاحت کردی ہے… اور بعض جگہ اگر کسی عبارت کو آسانی
کی خاطر تبدیل کیا ہے تو وہاں لکھ دیا ہے کہ یہ اصل عبارت کا خلاصہ یا اس کی تسہیل
(آسان شدہ صورت) ہے… باقی رہا عربی عبارات پر اعراب کا معاملہ تو… کسی بھی عربی
تفسیر کی عبارت پر اعراب نہیں دیکھے گئے… عربی جاننے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے بغیر
اعراب کے عربی کو پڑھا اور سمجھا جاسکے…
باقی
الحمدﷲ ہر عربی عبارت کا آسان اردو ترجمہ کردیا گیا ہے … جس سے عربی نہ جاننے والے
مسلمان پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں…
اﷲ
پاک کا احسان ہے کہ اتنے کم وقت میں… اتنی معیاری چھپائی اور عمدہ کتابت کے ساتھ یہ
کتاب منظر عام پر آگئی ہے… کتاب کے کافی حصے کا پشتو ترجمہ ہوچکا ہے… جبکہ دیگر
زبانوں میں تراجم کے لئے تیاری ہورہی ہے… اﷲ پاک آسان فرمائے… اﷲ تعالیٰ قبول
فرمائے…
آمین
یا ارحم الرّاحمین…
٭٭٭
اب خون لڑے گا
محترم ملک محمد سعید
صاحب مورخہ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء ڈیرہ اسماعیل خان میں جام شہادت
نوش فرما گئے… اُ ن کی
یاد میں چند باتیں
٭ طالبان کے
نامور سپہ سالار ملّا داد اﷲ اخوند مورخہ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء
ہلمند افغانستان میں جام شہادت نوش فرما گئے… اُن کی یاد یں کچھ باتیں
٭ ٹی وی پر درس
دینے والے حضرات علماء کرام سے ایک مؤدبانہ گذارش
٭ زر پرست صحافیوں
کا مجاہدین اور علماء کے خلاف خطرناک کردار
٭چیف جسٹس کی
کراچی آمد کے موقع پر خونریز صدارتی فسادات
تاریخ اشاعت یکم جمادی الاول ۱۴۲۸ھ
۱۸؍مئی ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۷
اب خون لڑے گا
اللہ
تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو ’’شہادت‘‘ کی حقیقت اور فضیلت سمجھا دے… دو دن ہوئے
ہمارے پیارے اور بہادر کمانڈر حضرت ملا داداللہ اخوند جام شہادت نوش فرماگئے… صلیبی
فوجی اور ان کے حواری جنگل کے گیدڑوں کی طرح ’’شیر‘‘ کی لاش پر خوشی سے ناچ رہے ہیں…
آہ ملا داداللہ … کفر کے لئے دہشت کا نشان… آج میٹھی نیند سو گیا… وہ نیند جس کے پیچھے
ایک خوبصورت زندگی ہے… ہاں بہت ہی حسین اور اصلی زندگی… اُدھر ہمارے محبوب ساتھی
اور بزرگ جناب ملک محمد سعید صاحب نے بھی ’’شہادت‘‘ کو پالیا ہے… ڈیرہ اسماعیل خان
میں کل ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی… وہ مجاہدین کے سرپرست بھی تھے اور محبوب بھی…
اُن کی پیار بھری ادائیں ناقابل فراموش ہیں… اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس
فانی دنیا کو سلام کرگئے… اُدھر کراچی میں حکومت نے قاتلوں کے رسّے کھول کر انہیں
مظلوم مسلمانوں پر چھوڑ دیا… برطانیہ کے دارالحکومت لندن سے ہمیشہ مسلمانوں کے
قتلِ عام کے احکامات جاری ہوتے رہے ہیں… اس بار بھی ایسا ہی ہوا… صدرِ پاکستان کو
مبارک ہوکہ انہوں نے ایک بار پھر ’’عوامی طاقت‘‘ دنیا کو دکھا دی ہے… وزیرستان،
بلوچستان اور باجوڑ کے بعد کراچی میں صدر صاحب کی ’’عوامی طاقت‘‘ مسلمانوں پر گولیاں
برساتی رہی… پولیس کو حکم تھا کہ آنکھیں کھلی رکھے اور ہاتھ بند… اور کسی کو
قاتلوں سے بچ کر نہ بھاگنے دے… کراچی خون میں لت پت کراہ رہا تھا… جبکہ اسلام آباد
میں ناچ گانے کاشو… اور ننگے بالوں والی ایک وزیر کے ناز نخرے عروج پر تھے… صدر
صاحب نے ایک بار پھر بازو اٹھائے، ہوا میں مکّے لہرائے… یا اللہ آپ نے تو سب کچھ دیکھا…
باجوڑ سے لے کر کراچی تک کا خون کچھ مانگ رہا ہے… اے میرے مالک بے شک آپ کے ہاں ہر
چیز کا ایک مناسب وقت مقرر ہے… ہماری سعادت اسی میں ہے کہ ہم آپ کی تقدیر پر راضی
رہیں… بات شہادت کی چل رہی تھی… صرف دو دن میں اتنے بڑے بڑے تین واقعات ہوگئے… ہم
انسان ہیں اور اپنی فطری کمزوریوں سے مغلوب ہیں… اسی لئے ملک سعید صاحب کی شہادت
کا سنتے ہی دل پر مکا لگا… کئی دعائیں زبان پر جاری ہوگئیں… پہلی دعا، جو قرآن پاک
نے سکھائی ہے… انا ﷲ وانا الیہ راجعون… یہ دعا بتاتی ہے کہ اللہ پاک نے ظلم نہیں کیا…
اس نے اپنے ہی بندے کو اپنی طرف بلایا ہے… اور آگے بھی ظلم نہیں ہوگا… کچھ دن بعد
سب ہی اللہ پاک کے پاس جمع ہوجائیں گے… دوسری دعا جو کسی مصیبت کے وقت پڑھنے کے
لئے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے… اللّٰہم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی
خیرا منہا… ملک صاحب شہید کی جدائی ہمارے لئے بہرحال ایک نقصان ہے ایسے مخلص، بے
لوث اور قربانی والے حضرات خال خال ہی ملتے ہیں… وہ ہماری جماعت کے لئے اللہ پاک کی
ایک نعمت تھے… جب جماعت پر پابندی لگی تو یوں بے چین تھے جیسے کسی ماں کا بچہ اس سے
چھن گیا ہو… مگر اللہ پاک نے جماعت کو بچا لیا تو ملک صاحب کی خوشی اور بہاریں بھی
لوٹ آئیں… ایک بار مجھے فرمایا کہ جب جماعت پر پابندی لگی تو میں کئی کئی گھنٹے تک
اپنی بچی کے ساتھ صرف اسی موضوع پر باتیں کرتا رہتا تھا… اُن کی محبت عجیب تھی… ایسی
محبت جو کسی حال میں بھی ’’بدگمانی‘‘ کا شکار نہیں ہوتی… میرا آپریشن ہوا تو وہ سیدھے
میرے گھر تشریف لے آئے۔ کچھ علماء کرام کو بعض حضرات نے بتایا تھا کہ میں نے جہاد
کے نام پر بہت مال، کوٹھی اور جاگیر بنالی ہے… ملک صاحب ان کو بھی ساتھ لے آئے اور
ان کا ذہن صاف کرکے گئے… اُن کا گھر مجاہدین کا پُر آرائش مہمان خانہ تھا… جہاں
ملک صاحب ہر آنے والے کا خوب اکرام فرماتے تھے… میں اکثر جس شہر میں بھی جاتا تھا
تو میزبانوں کی کثرت کی وجہ سے اس بات کا فیصلہ مشکل ہوتا تھا کہ کہاں قیام کیا
جائے… مگر ڈیرہ اسماعیل خان میں ملک صاحب شہید کا گھر مجھے اپنے ذاتی گھر کی طرح
لگتا تھا… ہم نہایت سکون سے وہاں چلے جاتے اور آسانی اور بے تکلفی کے ساتھ کھاتے پیتے
اور آرام کرتے… ملک صاحب جس طرح محبت کے ساتھ کھانا کھلاتے تھے وہ منظر میں زندگی
بھر نہیں بھول سکتا… وہ کھانے کے بڑے بڑے تھال دسترخوان پر سجا دیتے اور پھر ہمیں
اس طرح سے کھلاتے… جس طرح ماں اپنے چھوٹے بچوں کو کھلاتی ہے… اے میرے پیارے رب… اب
تو ہمارے ملک صاحب آپ کے پاس ہیں… انہوں نے صرف آپ کی خاطر ہمیں راحت پہنچائی…
ہمارا ان سے دین کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں تھا… اے میرے مالک اب وہ آپ کے پاس ہیں…
آپ نے خود فرمایا ہے کہ آپ شہداء کرام کو کھلاتے پلاتے ہیں… عِنْدَرَبِّہِمْ یُرْزَقُوْن…
ہمارے ملک صاحب کو خوب کھلائیے… اے پیارے رب خوب پلائیے… ان پر اپنی محبت برسائیے…
ان کے اہل خانہ اور بچوں کی حفاظت فرمائیے… انہوں نے اپنے گھر اور اپنی اولاد کو
آپ کے دین پر لگا دیا تھا… بچی ماشا ء اللہ عالمہ… ایک بیٹا حافظ و عالم… دوسرا بیٹا
اس سال عالم بن جائے گا انشاء اللہ اور تیسرا بیٹا گھر کا خدمتگار… اور ان کی اہلیہ
محترمہ مجاہدین کے لئے کھانے بنا بنا کر نہیں تھکتی تھیں… آج مجھے کسی نے بتایا کہ
ماشا اللہ ان کے سب گھر والوں کا صبر بھی قابل رشک ہے… وہ خوشی سے اللہ تعالیٰ کی
تقدیر پر راضی ہیں… حالانکہ ملک صاحب جیسا محبوب ان سے بچھڑ گیا… مگر گھر والے
جانتے ہیں کہ ملک صاحب کہاں گئے ہیں؟ اور شہادت کا مقام کتنا اونچا ہے؟… اللہ پاک
ملک صاحب کے گھر، اولاد اور مال کو اپنی حفظ و امان میں رکھے… اور ان کے خاندان میں
دین اور جہاد کے کام کو مزید ترقی عطا فرمائے… ہم ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی
کے لئے دعائیں کررہے ہیں… قرآنِ پاک کا ایصالِ ثواب کررہے ہیں… اور ان کی نیکیوں،
محبتوں اور وفائوں کو یاد کررہے ہیں… یا ارحم الراحمین ہم سب کو صبر جمیل عطا
فرما… اگر اللہ پاک نے توفیق عطاء فرمائی تو ڈیرہ اسماعیل خان جانا ہوگا… مگر
عمامہ باندھے، کالی سفید داڑھی والا میرا محبوب میزبان گھر کا رستہ دکھانے کے لئے
گاڑی کے آگے بھاگتے ہوئے… دوڑ دوڑ کر کھانا لاتے ہوئے… میٹھی میٹھی باتیں کرتے
ہوئے… اور جہاد کا کام منظم کرنے کے مشورے دیتے ہوئے نظر نہیں آئے گا… ٹھیک ہے جیسے
میرے مالک کی مرضی… میں بھی کسی کے گھر جانے کی بجائے سیدھا قبرستان چلا جائوں گا…
کسی سے پوچھوں گا… یہاں میرے ملک صاحب کا گھر کونسا ہے؟… پھر اپنے ساتھیوں کو دور
چلے جانے کا عرض کروں گا… اور ملک صاحب کے پاس اکیلا بہت دیر تک بیٹھا رہوں گا… یہ
بھی نہ ہوسکا تب بھی ٹھیک ہے… چند دن بعد میں بھی تو اس دنیا کو چھوڑ جائوں گا…
پھر تو انشاء اللہ ملاقات ہوجائے گی… یا ارحم الراحمین ہم سب کمزوروں کی بخشش فرما
… اور ہم سب ساتھیوں کو اپنی رحمت کے سائے میں جمع فرما… ابھی ملک صاحبؒ کا غم
تازہ تھا کہ افغانستان سے یہ دلخراش خبر آئی کے… حضرت ملا داداللہ اخوند صلیبی
بمباری میں شہید ہوگئے ہیں… صلیبیوں کا خنجر ایک بار پھر مسلمانوں کے سینے پر چلا
ہے… کوئی بات نہیں جنگ میں ایسا ہوتا رہتا ہے… مسلمان کا کافروں کے ہاتھوں شہید ہوجانا…
اس کے لئے عظیم کامیابی ہے… جبکہ مسلمان کا کافروں کے ہاتھوں بِک جانا … اور گمراہ
ہوجانا عظیم خسارہ ہے… کافر ایک طرف بمباری کررہے ہیں… اور دوسری طرف ڈالروں اور
بے حیائی کی برسات… جو مسلمان بمباری کا شکار ہورہے ہیں وہ تو خوش نصیب ہیں… موت
تو اپنے وقت پر ہی آتی ہے… جب یہ مہلک اسلحہ ایجاد نہیں ہوا تھا تب بھی لوگ مرتے
تھے… اور بسا اوقات طوفانوں، وبائوں… اور زلزلوں سے ایٹم بم سے بڑھ کر نقصان
ہوجاتا تھا… اس لئے ایٹم بم… اور بمبار طیارے ایسی چیز نہیں ہیں جن کی وجہ سے ہم
کافروں کو سجدہ کرنا شروع کردیں… اور انہیں ناقابل تسخیر قرار دے کر جہاد کی منسوخی
کا اعلان کردیں… ملا داداللہ ایک بڑے جرنیل اور اسلامی تاریخ کے نمایاں فاتح تھے…
انہوں نے سوویت یونین سے پنجہ لڑایا… اور فتح یاب ہوئے… تحریک طالبان میں انہوں نے
شمالی اتحاد کا مقابلہ کیا… اور فتح یاب ہوئے… ان کی ایک ٹانگ قربان ہوچکی تھی مگر
وہ چیتے جیسی پھرتی کے مالک تھے… اور دشمن اُن کو ’’بے رحم‘‘ سمجھتے تھے…
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارْ… ہم نے جب بھی اُن کا نام سنا بہادری، فتح… اور عزیمت
کے عنوان سے سنا… کابل میں ان سے پہلی ملاقات وزیراعظم کے محل میں ہوئی… حضرت امیر
المومنین نے یہ محل اپنے نظامی (فوجی) کمانڈروں کی کچھار بنا دیا تھا… ملا فضل اور
ملا داداللہ نے ہماری دعوت کی تھی… کافی بڑی اور پُر تکلف دعوت… اس دعوت کے دولہا
حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ تھے… حضرت مفتی محمد جمیل خان صاحب شہیدؒ
بھی موجود تھے… اور دیگر کئی اکابر بھی… ملا فضل… اللہ پاک ان کو رہائی عطا
فرمائے… طالبان کے سپہ سالار اور ملا داداللہ ان کے نائب تھے… یہ دونوں میزبان…
علماء کرام کے سامنے یوں ادب سے خاموش بیٹھے تھے جس طرح مدارس کے طلبہ اپنے بڑے
اساتذہ کرام کے سامنے ہوتے ہیں… آہ تحریک طالبان… تیری کس کس ادا کو یاد کرکے آنسو
بہائوں… کتنے آنسو؟ آہ، آہ، آہ… صدیوں سے یہ زمین ایسے حکمران دیکھنے کے لئے ترس
رہی تھی… ملا داداللہؒ خاموش طبع تھے… وہ خالص جنگجو مزاج کے حامل تھے… اُن سے
دوسری ملاقات کراچی میں حضرت مفتی نظام الدین شامزئی ؒ کے گھر میں ہوئی… حضرت لدھیانویؒ
حضرت شامزئیؒ اور حضرت جمیلؒ تینوں شہادت کا تاج پہن کر… خون میں غسل کرکے ایک ہی
جگہ آرام فرما رہے ہیں… اُن کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں… اللہ اکبر کبیرا… ان حضرات کا
آپس میں عجیب تعلق تھا اور عجیب ساتھ… افغانستان پر صلیبی افواج نے… منافقین کے
تعاون سے حملہ کیا تو ملا داداللہ قندوز کے محاذ پر بھیج دیئے گئے… جنرل رشید
دوستم سے طالبان کے مذاکرات ہوئے تو ملا داداللہ نے اپنا پستول ہاتھ میں لے کر
کہا… میں اپنی زندگی میں یہ کسی کے حوالے نہیں کرسکتا… پھر وہ چھپتے چھپاتے واپس
قندھار پہنچ گئے… اس وقت عالم کفر پر سکتہ اور مسلمانوں پر خوشی کا عالم تھا… پھر
کئی بار کافروں نے ملا داداللہ کی شہادت اور گرفتاری کا جشن منایا… مگر اللہ تعالیٰ
کا یہ سپاہی ہربار للکارا کہ میں زندہ ہوں… اور مجھے گرفتار کرنا کافروں کے لئے
کوئی آسان کام نہیں ہے… اللہ اکبر کبیرا … افغانستان کا موجودہ جہاد دنیا کا سب سے
مشکل ترین جہاد ہے… طالبان ظاہری طور پر بالکل اکیلے ہیں… ہر جہاد کی کامیابی کے
لئے ایک ’’دارالھجرۃ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے… طالبان کو کوئی ’’دارالھجرہ‘‘ میسر نہیں
ہے… افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کا قبضہ ہے… اور تمام پڑوسی ممالک طالبان کے
بدترین دشمن ہیں… ایران، ازبکستان اور پاکستان سب ہی عملی یا نظریاتی طور پر امریکہ
کے معاون ہیں… عراقی مجاہدین کو الحمدللہ عرب ممالک کے مالدار مسلمان جھولیاں بھر
کر امداد بھیج رہے ہیں… جبکہ طالبان کی معاونت کے لئے ایسا کوئی مالدار طبقہ موجود
نہیں ہے… پاکستان کے مالدار دینی ادارے دوسرے کاموں اور اپنے بچائو پر مال لٹا رہے
ہیں… افغان جہاد کے سابقہ اکثر کمانڈر امریکہ کے سامنے سر ڈال چکے ہیں… مجددی جیسے
پیر طریقت، گیلانی جیسے بزرگ، سیاف جیسے انقلابی لیڈر، ربانی جیسے مذہبی رہنما…
اور اب سنا ہے کہ حکمتیار بھی… سب ہی نے امریکہ کے سامنے سر جھکانے میں عافیت سمجھی
ہے… ان حالات میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ پنجہ لڑانا… اللہ اکبر کبیرا… بہت بڑا
کام ہے… بہت ہی اونچا کام… اور اس جہاد میں شرکت کرنے والے… اس زمانے کے بڑے اور
سچے مسلمان ہیں… یہی حال کشمیر اور عراق کے جہاد کا بھی ہے کہ … وہاں بھی ظاہری
حالات مجاہدین کے خلاف اور سامنے دشمن انتہائی طاقتور ہے… کاش دنیا کے عقلمند لوگ
ان معرکوں کو غور سے دیکھیں تو اسلام کی حقانیت پر ایمان لے آئیں… مگر بُرا ہو…
نام کے مسلمان صحافیوں کا… یہ ظالم طبقہ مسلمانوں کے ہر جہاد اور ہر کارنامے پر مٹی
اور گندگی ڈال رہا ہے… یہ کم عقل اور مال کے لالچی صحافی مجاہدین کی غلط تصویر پیش
کرتے ہیں… اور باہر کی دنیا کے لوگ اُن کو اندر کا آدمی… اور مسلمان سمجھ کر
اعتبار کرلیتے ہیں… یہی صحافی مجاہدین کو انٹرویو دینے پر مجبور کرتے ہیں کہ… اس
سے بہت فائدہ ہوگا… پھر جب مجاہدین انٹرویو دے دیتے ہیں تو یہی صحافی ان مجاہدین
کے سیٹیلائٹ ٹیلیفونوں کے نمبر کافروں کو دے دیتے ہیں۔ جی ہاں ڈالروں کے عوض… یہ
صحافی مجاہدین کے راز فروخت کرتے ہیں… اور اکثر بڑے مجاہدین ان ہی کی مخبری پر
بمباری کا نشانہ بنا دیئے جاتے ہیں… خود کو دین کا خادم کہنے والے ایک صحافی نے
مجھے بہت مجبور کیا کہ… آپ ایک بار ٹی وی پر آجائیں… اسلام اور جہاد کو بے حد
فائدہ ہوگا… میں نے انکار کیا تو وہ اڑا رہا اور کہنے لگا آپ چہرے پر رومال کا
گھونگھٹ ڈال کر آجائیں… میں نے پوچھا کیا فائدہ ہوگا؟… وہ عجیب عجیب فائدے گنوانے
لگا… میں نے سوچا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا… جو ہماری بات سننا چاہتے ہیں وہ ہم سے
مل سکتے ہیں… جلسوں میں آسکتے ہیں… دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کیسٹیں سن سکتے ہیں…
کتابیں پڑھ سکتے ہیں… مضامین دیکھ سکتے ہیں… لوگوں کو ہماری شکل سے کیا لینا دینا ہے؟…
آواز اور قلم کے ذریعہ پیغام پہنچتا ہے نہ کہ شکل کے ذریعہ… اب جو علماء کرام ٹی وی
پر تشریف لارہے ہیں وہ یہ بتائیں کہ… اُن کے درس کے وقت خواتین کیا کریں؟… اگر
آنکھیں بند یا نیچی کرلیں تو پھر ٹی وی اور ٹیپ ریکارڈ میں کیا فرق ہوگا؟… اور اگر
آنکھیں پھاڑ کر مولانا صاحب کی زیارت سے لطف اندوز ہوتی رہیں تو پھر… ان کے کان تو
قرآنِ پاک سنیں گے… اور آنکھیں گناہ کریں گی… ہمارے علاقے میں مستری اور مزدور جب
کام کرنے کے لئے کسی چھت پر چڑھتے ہیں تو کئی بار یہ اعلان کرتے ہیں!… ’’پردے والو
پردہ کرو ترکھان مزدور کوٹھے تے چڑھدے‘‘… یعنی پردے والو پردہ کرلو… مستری اور
مزدور چھت پر چڑھ رہے ہیں… ٹی وی پر درس کے لئے تشریف لانے والے علماء بھی کم از
کم اپنا پروگرام شروع کرنے سے پہلے… یہ آواز لگا دیا کریں… ’’پردے والو پردہ کرو
مولانا صاحب ٹی وی تے چڑھدے‘‘… مگر وہ تو بے دھڑک ہر کسی کے گھر میں ٹی وی کے ذریعہ
گھس آتے ہیں… اور خواتین آنکھیں پھاڑ کران کو دیکھتی ہیں… اور ممکن ہے بہت سی عورتیں
تو ان غیر محرم علماء کی زیارت کو ثواب بھی سمجھ رہی ہوں… دراصل جو صحافی حضرات دینداروں
کے ’’رہنما‘‘ بن کر اُنہیں زمانے کی اونچ نیچ سکھاتے ہیں… وہی علماء اور مجاہدین
کو گھسیٹ گھسیٹ کر ’’منبر و محراب‘‘ سے گرا کر… ’’اسٹوڈیو‘‘ میں پھینک رہے ہیں… ٹی
وی کے بارے میں اچھی رائے یہ تھی کہ جو مجاہدین اور علماء خالص اچھی نیت سے بلا
ارادہ آجاتے ہیں… اُن کو برا نہ کہا جائے… کیونکہ یہ لوگ نہ تو کسی کو ٹی وی دیکھنے
کی دعوت دیتے ہیں… اور نہ ہی ٹی وی پر آنے کا خود اہتمام کرتے ہیں… اور جو لوگ اپنی
شہرت اور دکھاوے کے لئے آتے ہیں ان کا معاملہ اللہ پاک پر چھوڑ دیا جائے… اور اس
پورے معاملے کو ’’فتوے‘‘ اور ’’تحریر‘‘ کے زور پر جائز نہ کیا جائے… مگر اب تو سنا
ہے کہ یہ معاملہ ’’فتوے‘‘ تک جا پہنچا ہے… اور ٹی وی پر آنے کے لئے ’’دینی اموال‘‘
بھی ٹی وی چینل والوں کو ’’وقت کے کرائے‘‘ کے طور پر دیئے جارہے ہیں… اور بینروں
وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو ٹی وی پر درسِ قرآن دیکھنے اور سننے کی ترغیب بھی دی جارہی
ہے… اللہ پاک رحم فرمائے اور اس مسئلے کو امت مسئلہ میں مزید نزاع کا ذریعہ بننے
سے بچائے… مجاہدین کی کئی جماعتیں کافی عرصہ سے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سی ڈیز
استعمال کررہی ہیں… کئی علماء کرام بھی وقتاً فوقتاً بعض حساس معاملات پر مجبوراً
ٹی وی پر آتے رہتے ہیں… کئی دینی پروگراموں میں صحافی حضرات گھس کر تصاویر اور ویڈیو
کلپس بناتے رہتے ہیں… یہ سب کچھ ہورہا تھا… اور ہوتا رہتا… ہر کسی کا معاملہ اس کی
نیت پر چھوڑ دیا جاتا… مگر فتویٰ، اہتمام، کرایہ ادا کرکے وقت خریدنا اور تشہیریہ
کام نہ ہوتے تو امتِ مسلمہ کے لئے بڑی خیر ہوتی… واللہ اعلم بالصواب… حضرت ملا داداللہ
شہیدؒ پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا سایہ رہا… وہ قندھار سے لیکر وزیرستان تک
آزادانہ گھومتے تھے… وہ مسلسل سفر میں رہتے تھے اور کثرت سے سیٹیلائٹ فون استعمال
کرتے تھے… اُن کا وجود کفر کے لئے ایک طوفان کی طرح تھا… مگر بالآخر ہر ’’فاتح‘‘
نے زمین کو چومنا ہوتا ہے… ہر مزدور کو اجرت لینے کے لئے مالک کے پاس جانا ہوتا
ہے… ہر تھکے ہارے مسافر کو کسی شب بسیرا کرنا ہوتا ہے… ہر ذی روح کو اپنی روح جسم
کے پنجرے سے آزاد کرنی ہوتی ہے… اور ہر مقبول مجاہد کو شہادت کی لیلیٰ سے نکاح
کرنا ہوتا ہے… ملا داداللہ کی فاتحانہ زندگی کا اختتام… بہادرانہ شہادت پر ہوگیا…
عزت، غیرت، عزیمت اور بہادری کا ایک انوکھا باب تاریخ کا حصہ بن گیا… ملا محمد عمر
مجاہد کے اسلامی لشکر کا سپہ سالار… اپنا کام پیچھے والوں کے سپرد کرکے آرام کرنے…
اور اجر پانے چلا گیا… کافروں اور منافقوں کے لئے خوشی کی کوئی بات نہیں ہے… ہر
باعمل مجاہد شہادت سے پہلے اپنا ایک پورا لشکر تیار کرلیتا ہے… اور جب اس کا خون
زمین پر گرتا ہے تو… اس کا لشکر دشمن کی طرف کوچ کا اعلان کردیتا ہے… ہاں اے اسلام
کے دشمنو! کل تک ملادادا اللہؒ خود تم سے لڑتا تھا… اب اس کا خون تم سے لڑے گا…
اور شہید کے خون کو تم شکست نہیں دے سکتے…
٭٭٭
اب وہ یار کے
پاس ہے
٭ کراچی کے ایک
میمن تاجر کی داستان عزیمت و مظلومیت
٭بھائی سعود میمن
کراچی سے جنوبی افریقہ… پھر امریکہ اور پھر گوانتا ناموبے… اور آخر میں پاکستانی
خفیہ اداروں کی قید میں … جہاں انہیں زندہ لاش بنا دیا گیا
٭ بے حس، بے ضمیر
روبوٹوں کا تذکرہ
٭بھائی سعود میمن
خوش نصیب رہے اور اب وہ یار کے پاس ہیں۔
تاریخ اشاعت ۸؍ جمادی الاول ۱۴۲۸ھ
۲۵ مئی۲۰۰۷ء
شمارہ ۹۸
اب وہ یار کے
پاس ہے
اﷲ
تعالیٰ ایمان والوں کو آزماتا ہے… بھائی سعودمیمنؒ کو بھی خوب آزمایا گیا… مگر یکم
جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جمعۃ المبارک کے دن اُس کی آزمائش کے دن ختم ہوگئے… مظلومیت
اور شہادت کی موت زندگی بن کر آئی اور اُسے اپنے ساتھ لے گئی…وہ جب سے گھر واپس آیا
تھا بے شمار لوگ اس کی زندگی اور صحت یابی کی دعائیں مانگ رہے تھے… مگر جنہوں نے
خود جاکر اُسے دیکھا وہ یہی کہتے تھے کہ اب اس کا اپنے محبوب رب کے پاس جانا ہی
بہتر ہے…
اُس
کا وزن اٹھارہ بیس کلو رہ گیا تھا… دماغ کی بعض رگیں پھٹ چکی تھیں… وہ کسی کو نہیں
پہچان سکتا تھا… اس کی زبان ’’اپنی داستانِ غم‘‘ سنانے سے قاصر تھی… کہاں وہ
بھاگتا دوڑتا، ہنستا مسکراتا خوبصورت جوان… اور کہاں یہ ہڈیوں کا ایک مظلوم
ڈھانچہ… ہاں بے شک یہ دنیا فانی ہے… معلوم نہیں یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہم کیوں اس
دنیا سے دل لگاتے ہیں؟… سعودمیمن کو جنوبی افریقہ سے گرفتار کیا گیا تھا… پھر اُسے
گوانٹانامو بے لے جایا گیا… مگر وہ تو پاکستانی حکام کو مطلوب تھا… وہ اسے اپنے
امریکی یاروں سے واپس پاکستان لے آئے… اور پھر وہ سب کچھ ہوا جو پاکستان کے عقوبت
خانوں میں ملک کی حفاظت کے نام پر ہو رہاہے… سعود اگر مجرم تھا تو حکومت اسے عدالت
میں پیش کرتی… مگر کہاں؟… ہم تو ایک ایسے جنگل میں رہتے ہیں… جس میں کالے سانپ اور
موٹے اژدھے آزاد ہیں… اور یہی لوگ قانون کے رکھوالے ہیں… اس جنگل میں انسان ہونا
جرم ہے… اور مسلمان ہونا اس سے بھی بڑا جرم…
کچھ
دن پہلے خبر ملی کہ سعود میمن گھر واپس آگیا ہے… خبر مختصر تھی چنانچہ دل بہت خوش
ہوا… مگر پھر تفصیلات آتی چلی گئیں اور خوشی نے صبر کی گود میں پناہ لے لی…
گوانٹاناموبے سے اور بھی کئی قیدی واپس آئے ہیں… ان قیدیوں نے وہاں کی دلخراش
داستانیں سنائیں… مگر ان کے جسموں میں کچھ طاقت بھی باقی تھی… اور ان کا دماغ بھی
سوچنے اور پہچاننے کے قابل تھا… شاید امریکی فوجی پاکستانی تفتیش کاروں سے بہت کم
ظالم ہیں… میں نے ایک بار فوج کے ایک بڑے افسر سے کہا… آپ لوگ اپنے اہلکاروں کی
اخلاقی تربیت کیوں نہیں کرتے… یہ لوگ ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں… اور قیدیوں کے
ساتھ بے حیائی پر مبنی تشدد کرتے ہیں… کیا راز اگلوانے کے لئے ان دوکاموں کے علاوہ
اور کوئی طریقہ نہیں ہے؟… انہوں نے وعدہ کیا کہ میں دیکھوں گا… مگر کون اس بدنصیب
قوم پر رحم کھاتا ہے… یہاں تو انسانوں کے لئے کوئی قانون نہیں ہے… میں ایک بار زیر
حراست تھا… میری نگرانی پر مامور ایک اہلکار نے مجھے کہا… آپ شکر کریں آپ پر تشدد
نہیں ہورہا… اور آپ کے دو ساتھی بھی آپ کے ساتھ ہیں… ورنہ قریب ہی ایک حراستی مرکز
ہے… وہاں ہر وقت چیخوں کی آواز گونجتی رہتی ہے… ہمارا ایک افسر بہت زبردست تھا… اس
کا آرڈر تھا کہ میں جب بھی یہاں آؤں مجھے صرف اور صرف چیخوں کی آواز آنی چاہیے…
چنانچہ تمام ملازم ہر وقت الرٹ رہتے تھے… انہیں جیسے ہی صاحب کی آمد محسوس ہوتی وہ
لاٹھیاں لے کر قیدیوں پر پل پڑتے… تب صاحب چیخوں کے شور میں مسکراتے ہوئے تشریف لے
آتے… میں نے یہ کہانی سنانے والے اہلکار سے کہا… کوئی بات نہیں تم مجھے نہ ڈراؤ…
ڈرنے کی بات ہی کیا ہے… انسان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو اس کی قسمت میں لکھا
ہوتا ہے… انسان کے اندر بھی تو کبھی کبھار تشدد کے جھٹکے لگتے رہتے ہیں… کبھی پیٹ
کا درد… کبھی سر کا درد اور کبھی کوئی چوٹ اور زخم… اس لئے تشدد ایسی چیز نہیں ہے
جس سے بچنے کے لئے انسان اپنے دین یا نظریات کو بدلے…میں نے کہا یاد رکھنا تمہارا یہ
ظالم آفیسر بہت دردناک موت مرے گا… اور تب اسے پتہ چلے گا کہ مظلوموں کی چیخوں میں
کیا مزہ ہوتا ہے… اس اہلکار نے سر جھکا کر کہا… جی وہ مرگیا ہے، بہت دردناک اور
حسرتناک موت… اور اس کے بیوی بچے بھی اس کے سامنے حادثے میں مرے ہیں… ایکسیڈنٹ
ہوا… اس نے چوٹوں کا درد بھی دیکھ لیا… اپنے سامنے اپنے بیوی بچوں کو تڑپتا، سسکتا
اور مرتا بھی دیکھ لیا… اور پھر گناہوں اور حسرتوں کی گٹھڑیاں اٹھا کر وہ خود بھی
مرگیا…
آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے ظالموں کو تنبیہ فرمائی… مظلوم کی بددعاء سے
بچو… کیونکہ اس کی بددعاء اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے… مگر آقا صلی
اﷲ علیہ وسلم کی بات بھی تو وہی سنتے ہیں… جن کے دلوں میں کچھ ایمان ہو… سوویت یونین
نے افغان مجاہدین سے انتقام لینے کے لئے ’’گلم جم ملیشیا‘‘ کے نام سے ایک فوجی
دستہ بنایا تھا… جنرل عبدالرشید دوستم اسی حیوانی دستے کا سربراہ تھا… ان تمام فوجیوں
کو جنگلوں میں رکھ کر تربیت دی گئی… اور کھرچ کھرچ کر ان کے اندر سے اسلام اور
انسانیت کو نکال دیا گیا… ہر چیز کھاؤ، ہر کام کرو، ہر خواہش جہاں چاہو پوری کرو…
ضمیر کچھ نہیں بس اصل چیز نوکری، پیسہ، عیش اور آفیسر کا حکم ہے… گلم جم ملیشیا کے
یہ جانور جب افغانستان میں اترے تو انہوں نے بہت تباہی مچائی… میں نے ان میں سے کئی
افراد کو قریب سے دیکھا ہے… نشے میں دھت، آنکھیں ہر طرح کے انسانی جذبوں سے خالی…
قتل و غارتگری اور لذت کوشی کا جنون… شاید بھیڑیا بھی کبھی بکریوں پر ترس کھا
جائے… مگر یہ لوگ ہر انسان کو بس اپنا شکار ہی سمجھتے تھے… یہی حال اسلامی ممالک
کے کئی خفیہ اداروں کا ہے… اﷲ اﷲ… یہ کیسے بے حس، ظالم اور وحشت ناک لوگ ہیں… ان
کا کوئی ایمان ہے اور نہ کوئی نظریہ… بس اشارہ ملا اور کسی پر ٹوٹ پڑے… ان کے منہ
سے ہر گالی نکل سکتی ہے… اور ان کا تھپڑ ہر کسی پر برس سکتا ہے… میں نے ایک بار ایک
بڑے فوجی افسر سے کہا… آپ لوگ نماز، جہاد اور داڑھی کی وجہ سے مجاہدین کے ساتھ یہ
سلوک کرتے ہیں… ذرا سوچیں کہ اگر اﷲ پاک صحابہ کرام میں سے کسی کو زندہ کرکے
تمہارے ملک میں لے آئے تو تم کیا کرو گے؟… ان کی بھی داڑھی ہوگی وہ بھی نماز کے
پابند اور جہاد کے متوالے ہوں گے… کیا اس وقت بھی آفیسر کے حکم پر نعوذباﷲ ؟؟؟…
استغفراﷲ استغفراﷲ… ان خفیہ اداروں میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کے لئے کچھ نشانہ باز ہوتے
ہیں… بے حس، بے ضمیر اور محض روبوٹ… بس حکم ملا اور جاکر گولی مار آئے… کاش ایسی
نوکری کرنے سے پہلے یہ لوگ مرگئے ہوتے تو مسلمانوں کا… اور خود ان کا بھی بھلا
ہوجاتا…
آج
میرے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت بہت مظلوم ہے… بے حد مظلوم… کافر خود تو
ہم پر ظلم کر رہے ہیں… مگر انہوں نے جن مسلمانوں کو خرید کر امت مسلمہ کے خلاف
کھڑا کردیا ہے… یہ بہت بے درد اور بہت ظالم ہیں… مصری حکومت کے خفیہ اہلکار… اﷲ
پاک ان کے شر سے ہر مسلمان کو بچائے… ان کے مظالم پر تو انسانیت کا سر شرم سے جھک
جاتا ہے… آخر سعودمیمن پر ظلم ڈھانے والے بھی تو مسلمان کہلاتے ہوں گے… آخر کس نے
ان کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ… ایک جیتے جاگتے انسان کو لاش بنا کر پھینک گئے…
اگر ان کو ملک کی خدمت کرنی تھی تو سعودمیمن کے خلاف چارج شیٹ… عدالت میں پیش کردیتے…
مگر ظلم کرنے والوں کو تو… کافروں نے لگایا ہی اسی کام پر ہے کہ… مسلمانوں کو سر
نہ اٹھانے دو… ان کو ذلیل جانوروں جتنے حقوق بھی نہ دو… اور ان کو انصاف کے لئے
ترساؤ… چنانچہ آج ہر طرف امت مسلمہ پر ظلم ہی ظلم ہے… اﷲ تعالیٰ بھلا کرے مجاہدین
کا… جنہوں نے مسلمانوں کے لئے سر اٹھا کر جینے کا کچھ راستہ ہموار کیا ہے… انہیں
مجاہدین کی قربانی ہے کہ… مسلمانوں میں بھی عزت مند لوگ پیدا ہورہے ہیں… ورنہ
کافروں اور منافقوں کا تو یہی دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان کو سعود میمنؒ بنا کر کسی
گلی میں پھینک جائیں… سعودمیمنؒ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں… حضرت شیخ مفتی رشید
احمد صاحبؒ کے قریب ایک قبر میں جاسویا ہے… پانچ معصوم بچے یتیم ہوگئے… ایک عالمہ،
فاضلہ خاتون نے دین کی خاطر بیوہ ہونے کا اعزاز بھی پالیا… ہزاروں افراد نے سعودمیمنؒ
کے لئے دعاء کے ہاتھ اٹھائے… دنیاداری سے شروع ہونی والی مختصر داستان… دین کی
خاطر مظلومانہ شہادت پر مکمل ہوگئی… اناﷲ وانا الیہ راجعون… اﷲ پاک اس مظلوم جوان
کے درجات بلند فرمائے… وہ ایک مالدار تاجر تھا… مگر اس کی دنیا داری… اس کے کام
آگئی… بے شک بہت کم مالدار ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مال سے اصل فائدہ اٹھاتے ہیں…
سعودمیمن انہی خوش نصیب لوگوں میں سے تھا… جنہوں نے اپنے مال سے آخرت خریدلی… وہ
سب سے پہلے ۱۹۸۹ء میں حضرت مفتی رشید احمد صاحبؒ کے ہاں نظر آیا… اس وقت
گاڑیاں زیادہ نہیں تھیں… مگر وہ گاڑی کا مالک تھا… اس کی شادی بھی دین کی نسبت سے
ہوئی… وہ شریعت کا پابند تھا… اور جوانی میں بھی ’’مسلمان‘‘ تھا… پھر جب حضرت مفتی
صاحبؒ کے ہاں مسلح پہرہ شروع ہوا تو میں نے سعود کے ہاتھ میں پستول دیکھا… میں ہنس
پڑا… کراچی کا ایک نازک سا میمن نوجوان مجاہدین کے روپ میں بہت بھلا لگ رہا تھا…
حضرت مفتی صاحبؒ نے افغانستان کا سفر فرمایا تو وہ ان کے … ان قریبی مریدین میں
شامل تھا جو اس مبارک سفر میں ان کے ہمرکاب رہے… اس سفر کے بعد ’’سعود‘‘ سے دوستی
سی ہوگئی… پھر میں چھ سال کے لئے سفر پر چلا گیا… مجھے ’’سعود‘‘ یاد تھا مگر ان سے
کوئی رابطہ نہیں تھا… رہائی سے دو دن پہلے میں نے اسے خواب میں دیکھا …وہ مجھ سے
گلے ملا اور خوب لپٹ کر اور چہرے سے چہرہ جوڑ کر ملا… اور پھر کسی راستے پر چلا گیا…
میںنے خواب کی تعبیر سمجھی کہ… انشاء اﷲ کوئی سعادت گلے لگانے والی ہے… مگر یہ
خواب مستقبل کی سچی تصویر تھا… رہائی کے بعد میں کراچی آیا تو سعود نظر نہیں آئے…
معلوم ہوا کہ حضرت حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ سے بیعت ہوگئے ہیں… مگر دو دن بعد
رات کے وقت ’’سعود‘‘ آگئے… اور اسی طرح گلے ملے جس طرح خواب میں ملے تھے… اور پھر
اپنے حلقے میں چلے گئے… میں لوگوں کے ہجوم میں تھا… کام بھی زیادہ تھے… کسی آنے
جانے والے سے تفصیلی گپ شپ کا موقع نہیں ملتا تھا… سعود کے ساتھ دوبارہ ملاقات نہ
ہوسکی… بس اتنا معلوم ہوا کہ دین اور جہاد کے کاموں میں پہلے کی طرح تعاون کرتے ہیں…
پھر میں گرفتار ہوگیا… جیل میں خبر سنی کہ ایک یہودی ’’ڈینیل پرل‘‘ مارا گیا ہے… میں
تو ڈینیل پرل کو نہیں جانتا تھا… جیل میں پہلی بار اس کا نام سنا تھا… مگر ’’ڈینیل
پرل‘‘ مجھے ہی ختم کرنے آیا تھا … جیسا کہ بعد کی خبروں سے معلوم ہوا… چنانچہ جب
وہ مارا گیا تو اس کے قریبی حلقوں کی نظر میری طرف اٹھی… جیل میں مجھ سے تفتیش ہوئی…
انہیں دنوں سعود میمن کا نام اخبارات میں آنے لگا… معلوم نہیں ان کا اس معاملے سے
کیا تعلق تھا؟… سعود میمن تو اپنی داستان بھی نہیں سنا سکے… گوانتا ناموبے میں ان
پر کیا بیتی… یہ بات ان کے سینے میں ہے… وہ کسی کو بتا ہی نہیں سکے… اور پھر اپنے
ہم وطن حکمرانوں نے ان کے ساتھ کیا کچھ کیا… ظلم کی یہ داستان بھی سعود کی ہڈیوں میں
گم ہوگئی… وہ گھر تو آگیا مگر کچھ بول نہ سکا… کتنی گالیاں، کتنا ٹارچر… اور کتنا
ظلم؟ وہ ان تمام کی فائلیں اپنے سینے میں دبا کر… بڑی عدالت میں لے گیا… اب تو
سعود کی زبان کھل گئی ہوگی… وہ یہ تمام داستانیں سنا رہا ہوگا… اب تو اس کی روح
آزاد ہوچکی ہے… اسے ظلم کرنے والوں کے بھیانک چہرے یاد ہوں گے… بے حس، بے ضمیر،
سپاٹ اور غیرت سے عاری چہرے… چنگیزخان مر گیا… ہلاکو بھی ہلاک ہوگیا… سب ظالم اپنے
ظلم کا کڑوا انجام بھگتنے کے لئے مرتے ہیں… حجاج بن یوسف بھی حسرت کی موت مرگیا…
سعود میمن کے قاتل بھی مرجائیں گے… تب سعود میمن کو اﷲ پاک کی طرف سے ’’انصاف‘‘
اور ’’عدل‘‘ دکھایا جائے گا… ہاں سعود بھائی! اﷲ تعالیٰ کا انصاف اور عدل پکا ہے…
تب سعود ہنسے گا مسکرائے گا… فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْن…
اور
بھائی سعود کے پانچ معصوم بچے… ہاں دل پر چوٹ لگتی ہے… مگر اﷲ تعالیٰ موجود ہے… وہی
رازق ہے اور وہی وکیل اور کفیل ہے… وہ انشاء اﷲ ایک مظلوم شہید کے بچوں کو ضائع نہیں
فرمائے گا… اﷲ پاک ان بچوں کو اپنی امان میں رکھے… اور ان کو قرآن پاک کا علم،
عمل، راستہ… اور رشتہ عطاء فرمائے…
سعود
کے گھر والے… اور دوست احباب سبھی غمگین ہیں… اﷲ پاک سعود کو قبر میں ایسی خوشی، ایسا
لطف اور ایسا مزہ عطاء فرمائے کہ… اس کے سارے غم دُھل جائیں… اور پھر سعود اتنا
خوش ہو… اتنا خوش ہو کہ اس کی خوشی کے اثرات… اس کے گھر والے، اس کے بچے اوراس کے
دوست احباب بھی محسوس کریں… اور انہیں صبر نصیب ہوجائے… یا ارحم الراحمین یہ ایک
چھوٹی سی دعاء ہے جو اپنے فضل سے قبول فرمالیجئے… سعود کو آپ کے نام پر مارا گیا…دشمنوں
نے اپنی دشمنی اتارلی… اب تو وہ آپ کے پاس ہے… یار کے پاس ہے… اور آپ تو بہت
قدردان ہیں… بہت نواز نے والے ہیں… ہاں ہم سب کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ… بھائی سعود
اب دشمنوں کے پاس نہیں… اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے… یار کے پاس ہے…
٭٭٭
سب سے بڑی نعمت
٭ایمان سب سے بڑی
نعمت ہے ، یہ سبق سمجھنے اور یاد رکھنے کی ضرورت ہے
٭امریکہ ٹوٹ رہا
ہے، امریکہ پھوٹ رہا ہے
٭صرف کعبہ میں
جانا سعادت نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ جانا سعادت ہے
٭صدر پرویز مشرف
کا بیان کہ میں کئی بار کعبہ کی چھت پر چڑھا ہوں
٭دل کی کھیتی کو
عرش سے آنے والے پانی کی ضرورت ہے
٭برطانیہ کے سفیر
پر پاکستانی حکمرانوں کی برہمی
٭فدائی مجاہدین
نے ’’ ایمان کامل‘‘ کی چوٹی کو پالیا ہے
٭ایمان کی طاقت
کے سامنے زمانے کے دجال بے بس نظر آرہے ہیں
تاریخ اشاعت۱۵
؍جمادی الاول ۱۴۲۸ھ
یکم جون ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۹۹
سب سے بڑی نعمت
اﷲ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ایمان کامل نصیب فرمائے… بے شک ’’ایمان‘‘ سب سے بڑی نعمت
ہے سب سے بڑی نعمت… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم دعاء فرمایا کرتے تھے… اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا دَآئِمًا … یا اﷲ میں آپ سے دائمی ایمان کا سوال
کرتا ہوں… دائمی ایمان وہ ہوتا ہے جوہروقت دل میں موجود رہتا ہے… ورنہ کئی کبیرہ
گناہ ایسے ہیں کہ جب انسان ان میں مشغول ہوتا ہے تو اس دوران ایمان اس کے دل سے
نکل جاتا ہے… پھر گناہ کے بعد واپس آتا ہے … زنا، بدکاری، لواطت کے دوران ایمان دل
میں نہیں رہتا… یا حنان الامان الامان … ہمارے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
دعاء فرمایا کرتے تھے… اللہم انی اسئلک ایمانا یباشر قلبی … اے میرے اﷲ میں آپ سے
ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں جو دل میں اترا ہوا ہو… شہوت پرست انسان کے دل میں
’’شہوت‘‘ بھری ہوتی ہے تو… وہ بس اسی کے بارے میں سوچتا ہے… اسی کی خاطر دیکھتا
ہے… اسی کی خاطر سنتا ہے… اسی کی خاطر مال خرچ کرتا ہے… اسی کی خاطر چلتا ہے…
بدنظری، ناجائز دوستی، تصویر بازی، گانا سننا… ناچ دیکھنا اور پتہ نہیں کیا کیا…
کسی بھی چیز سے دل نہیں بھرتا… بلکہ آگ اور خارش مزید بھڑکتی چلی جاتی ہے… امام
غزالیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کا نفس بہت ظالم ہے… اگر یہ کچھ کرنے پر آجائے تو پھر
اسے اﷲ تعالیٰ کا واسطہ دو… تب بھی باز نہیں آتا… تمام انبیاء ، صدیقین، شہداء…
اور اس کے ماں باپ کا واسطہ ہو تب بھی باز نہیں آتا… یہ سب کچھ وہ ’’نفس‘‘ کرتا
ہے… جسے ہم پالتے ہیں… اگر ہم اسے پالنے کی بجائے سنوارتے تو یہ ہمارے ساتھ ایسا
ظلم نہ کرتا… الغرض جب ایمان دل میں اترا ہوا ہو تو پھر انسان… ایمان کے مطابق
سوچتا، کرتا، چلتا… اور خرچ کرتا ہے… اور تو اور اپنی جان بیچ کر اس کے بدلے جنت
خرید لیتا ہے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم دعاء فرمایا کرتے تھے:
اللہم یا مقلب القلوب
ثبت قلبی علی دینک
اے
میرے اﷲ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم فرمادے۔
آپ
نے کبھی سوچا سورج کتنا بڑا ہے… کیسے وقت پر نکلتا ہے… اور کس طرح سے وقت پر غروب
ہوتا ہے… اﷲ کے لئے سورج پر تھوڑا سا غور کریں… کیا یہ خود بخود پیدا ہوگیا… خود
سے تو ایک ’’بلب‘‘ بھی نہیں بنتا… جس کو تھوڑی سی طاقت ملتی ہے وہ سرکش ہوجاتا ہے…
مگر سورج کو کس نے قابو میں کر رکھا ہے… ایٹم بم سے ڈر کر امریکہ کو سجدہ کرنے
والو!… سورج کو پیدا کرنے والے رب سے بھی ڈرو… امریکہ تو بس تباہی کے آخری کنارے
پر کھڑا ہے… ہاں امریکہ پر اﷲ تعالیٰ کا قہر نازل ہونا شروع ہوچکا ہے… امریکہ ٹوٹ
رہا ہے، امریکہ پھوٹ رہا ہے… شہداء کے قافلے اپنا خون ہاتھوں میں اٹھائے… امریکہ کی
طرف بڑھ رہے ہیں… اور امریکہ لرز رہا ہے… میں نہ لفّاظی کر رہا ہوں… اور نہ مبالغہ
آمیزی… امریکہ کے بھروسے پر ظلم کرنے والے فوجی حکمران… اب کعبہ کی چھت کو یاد کر
رہے ہیں… ہاں کعبہ معظمہ مشرفہ… نور اور ہدایت کا مرکز… مسلمانوں کا قبلہ … وہاں
سے ہدایت تقسیم ہوتی ہے… مگر پورے انصاف کے ساتھ… یہ نہیں کہ قریب آنے والے ’’غیر
مستحق‘‘ کو مل جائے… اور دور والے ’’مستحقین‘‘ محروم رہیں… نہیں نہیں رب کعبہ کی
قسم نہیں… کعبہ زمین کا ایسا محور اور مرکز ہے کہ پوری زمین اس کی شعاعوں کی لپیٹ
میں ہے… ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا تھا مگر محروم رہا… اور مدینہ کے انصار
کعبہ سے دور ہر نماز میں کعبہ کے انوارات پاتے تھے… ابوجہل بار بار اندر داخل ہوتا
تھا… مگر جس دل میں رب کعبہ پر ایمان نہ ہو… کعبہ بھی اس پر پیار کی نظر نہیں
ڈالتا… کعبہ کو دیکھنا سعادت، کعبہ میں لگے حجر اسود کو چومنا سعادت، کعبہ کے قریب
ہونا سعادت، کعبہ کے چکر کاٹنا سعادت، کعبہ میں داخل ہونا سعادت… مگر یہ سب انہی
کے لئے جن کے دل کا قبلہ درست ہو… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم دعاء فرمایا کرتے تھے
اللہم
طہر قلبی من النفاق
اے
میرے اﷲ ! میرے دل کو نفاق سے پاک فرمادیجئے …
اور
فرمایا کرتے تھے
اللہم
انی اسئلک ایمانا لا یرتدُّ
یا
اﷲ پکا ایمان عطاء فرما جو بار بار پھرتا نہ رہے…
سڑک
پر لڑکی دیکھی… ایمان غائب… بازار میں پہنچے ایمان غائب… کسی سے لڑائی ہوئی ایمان
غائب… زبان کھولی ایمان غائب… ایسا ایمان جو نہ جھوٹ سے بچائے، نہ بدنظری سے… نہ خیانت
سے بچائے اور نہ حرام خوری سے… کیا وہ ایمان قبر کے عظیم الشان اور سخت عذاب سے
بچا لے گا؟… سچی بات یہ ہے کہ… ہمارا ایمان بہت کمزور، بیمار اور زخمی ہے… اور ہمیں
اس کی اتنی بھی فکر نہیں… جتنی اپنے فانی جسم کی صحت کی ہوتی ہے… ڈاکٹر، دوائیاں،
پرہیز، واکنگ، ہسپتال… اور پتا نہیں کیا کیا… اور ایمان کے لئے اتنا وقت بھی نہیں
کہ روزانہ کم از کم اسے پانی ہی دے دیا کریں… جی ہاں قرآن پاک زندگی عطاء کرنے
والا ’’پانی‘‘ ہے… حدیث پاک طاقت دینے والا پانی ہے… آپ تجربہ کرلیں… روزانہ
تلاوت، اور دینی کتابوں کا بلاناغہ روزانہ مطالعہ کریں… پھر اپنے دل کی حالت دیکھیں…
اور جن دنوں قرآن وسنت پر مبنی مطالعہ، تعلیم یا مذاکرہ نہ کریں ان دنوں اپنی حالت
دیکھیں… آپ کو واضح فرق نظر آئے گا… دل کی کھیتی کو عرش سے آنے والا پانی روزانہ
ملنا ضروری ہے… ورنہ یہ کھیتی سوکھ جاتی ہے… وہاں گندے پودے اُگ آتے ہیں… وہاں
شہوت اور حب جاہ کی دلدل بن جاتی ہے… اور دل کی زمین ایسی سخت ہوجاتی ہے کہ… اس میں
خیر کا نام و نشان باقی نہیں رہتا… اﷲاکبرکبیرا… آپ بازار میں جاکر ایسے افراد کو
دیکھ سکتے ہیں جن کی زندگی کا اوّل آخر ’’پیسہ‘‘ ہے… ان کی آنکھوں سے لالچ، حرص
اور وحشت ٹپکتی ہے… وہ پیسے کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں… یا اﷲ ہمیں ایسے لوگوں میں
سے نہ بنا… اپنی پاک پناہ نصیب فرما… ہمارے حکمران… اﷲ پاک ان کے شر سے حفاظت
فرمائے… کیا کچھ نہیں کر رہے؟… ظلم، قتل وغارت اور جھوٹ کی سیاست… اﷲ تعالیٰ چیف
جسٹس کی تحریک کو کامیاب فرمائے… ابھی تک تو یہ تحریک بہت مثبت جا رہی ہے… اور یہ
اس قابل ہے کہ مسلمان اس کی کامیابی کے لئے دعاء کریں… موجودہ حکومت کی گردن پر
خون کا ایک بڑا پہاڑ سوار ہے… اکابر امت کا خون، دینی مدارس کے طلبہ کا خون، مجاہدین
کا خون… اور مظلوم قبائل کا خون… اس حکومت نے سات سال میں کافروں پر ایک گولی بھی
نہیں چلائی… جبکہ اہل ایمان کو ہر جگہ قتل اور قید کیا ہے… ایسا لگتا ہے کہ اب یہ
خون کھولنے لگا ہے… اور آسمانی ڈھیل کا وقت ختم ہو رہا ہے… برطانیہ کے سفیر نے وردی
اتارنے کا حکم دیا ہے… اس پر ہمارے حکمران ان سے سخت ناراض ہیں… اور تاریخ میں پہلی
مرتبہ … برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفترخارجہ بلا کر احتجاج کیا گیا ہے… سبحان
اﷲ وبحمدہ… برطانیہ نے ہمیشہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی… مگر ہمارے
حکمرانوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا… بلکہ ان کے ہر دباؤ کے سامنے گردن جھکائی… اور
ان کی ہر بات کو عالمی برادری کا حکم سمجھا… برطانیہ جہادی جماعتوں پر بھونکا تو
حکمرانوں نے ان جماعتوں پر پابندی لگا دی… برطانیہ دینی مدارس پر بھونکا تو ہمارے
حکمرانوں نے ان مدارس پر رسّے پھینکنے شروع کردیئے… برطانیہ نے اپنے ایک شہری کی
پھانسی روکنے کا حکم دیا تو حکمرانوں نے لبیک کی پوری تسبیح پڑھ ڈالی… اور تو اور
برطانیہ کے کسی اخبار میں کوئی بات شائع ہوجائے تو ہمارے حکمران اس پر عمل کرنا…
اپنا روشن خیالی فریضہ سمجھتے ہیں… مگر جب برطانیہ نے وردی پر ہاتھ ڈالا ہے تو…
ہمارے حکمرانوں نے خود کو ’’دوشیزہ‘‘ قرار دے کر… برطانیہ کے اس حکم کو ’’دست درازی‘‘
کا نام دے دیا ہے… ہاں بے شک دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں… زمین کے اندر
موجود تیل کے خزانے ختم ہوتے جارہے ہیں… ترقی کے نام پر پھیلائی جانے والی آلودگی
نے زمین کا درجہ حرارت بہت بڑھا دیا ہے… برفانی سمندر اور گلیشئرز پگھلنے والے ہیں…
بڑے بڑے سمندری طوفان اور زلزلے زمین کا سینہ چیرنے کی تیاری کر رہے ہیں… فدائیوں
کا خون عرش کے قدموں میں سجدہ ریز ہے… نوخیز جوانیاں کٹ کٹ کر اسلام کے لئے عزت کی
بھیک مانگ رہی ہیں… اور اﷲ پاک دیکھنے والا اور خوب سننے والا ہے… آپ خود سوچیں بیس
سال کا ایک خوبصورت نوجوان… سینے پر بم سجائے… اﷲ پاک کے در پر ذبح ہونے جارہا ہے…
والدین، بہن بھائی… اور رنگینیوں سے بھری یہ دنیا چھوڑ کر سرکٹانے جارہا ہے… اس کے
جسم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ… اپنے ایک ایک بال کو مزے میں غرق کر سکتا ہے… مگر نہیں
وہ سب خواہشات بھلا کر… اﷲ پاک کی خاطر اپنے جسم کا قیمہ بنانے جارہا ہے… آپ خود
سوچیں زمانے میں اس سے بڑا مسلمان کون ہوگا؟… اس سے بڑا ولی کون ہوگا؟… اس سے زیادہ
سچا کون ہوگا کہ… اس نے اﷲ پاک کا حکم سنا اور اب ٹکڑے ٹکڑے ہونے جارہا ہے… اسے
معلوم ہے کہ اب اس کی زندگی میں چند منٹ باقی ہیں… پھر وہ بارود کے ساتھ اڑ جائے
گا… ان آخری لمحات میں یہ فدائی مجاہد گڑگڑا تا ہے … اے میرے اﷲ اسلام کو عزت دے…
اسلام کو عظمت دے… مسلمانوں کو غالب فرما… اسلام کو غالب فرما… کیا اس کی یہ دعاء
ردّ ہوجائے گی؟… کیا سچے دل سے نکلی یہ آہ رائیگاں چلی جائے گی؟… اے مسلمانو!… دین
کے سارے کام برحق … ساری تحریکیں مبارک… مگر رب کعبہ کی قسم ’’فدائی‘‘ سے بڑا عمل
اس زمانے میں کسی کے دامن میں نہیں ہے… فدائیوں کے کے یہ دستے اب زمین سے عرش تک
پھیل چکے ہیں… میں اگر دنیا کے رنگ دیکھ کر اندازہ لگاؤں تو پھر… واقعی حالات خراب
نظر آتے ہیں… مگر جب اپنا سر اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ذکر کرتے ہوئے فدائی دیکھتا
ہوں تو مجھے … یہی نظر آتا ہے کہ اب اسلام غالب ہونے والا ہے… اور انشاء اﷲ
مسلمانوں کا دور شروع ہونے والا ہے… فدائی مجاہدین نے ’’ایمانِ کامل‘‘ کی چوٹی کو
پالیا ہے… انہیں یقینِ کامل ہے کہ اﷲ تعالیٰ موجود ہے… وہ ایک ہے… وہ سچا ہے… اس
کا فرمان سچا ہے… وہ ہمیں مرنے کے بعد زندگی دے گا… اور قیامت آئے گی… ان تمام
باتوں پر سوفیصد ایمان ہی کسی نوجوان کو اپنی جان قربان کرنے پر کھڑا کرسکتا ہے…
آخری زمانے کے یہ البیلے امتی… پہلے زمانے کے مسلمانوں جیسا ایمان رکھتے ہیں… ان
کا ایمان ہم سب کے لئے ایک سبق بھی ہے… اور ترغیب بھی…
اے
بازاروں میں خود کو برباد کرنے والے مسلمانو!… اے گھریلو معاملات میں پھنس کر
پنجرے میں بند پرندہ بننے والے مسلمانو!… اے نفس پرستی میں غرق مسلمانو!… اے تین تین
مہینے ایک ایک بیٹی کی شادی پر برباد کرنے والے مسلمانو!… اپنے ایمان کو ٹھیک کرو…
تم دنیا میں اس لئے نہیں آئے کہ خالہ، پھوپھی… اور ساس بہو کے جھگڑوں میں بہادری
دکھاؤ… تم دنیا میں اس لئے نہیں بھیجے گئے کہ… مکان پر مکان اور دکان پر دکان
بناتے چلے جاؤ… اے مسلمانو تم بہترین امت ہو… تمہیں تمام انسانیت کی کامیابی کا
کام دے کر بھیجا گیا ہے… تم اسلام کی خاطر ہر قربانی دیتے ہو… اور تم کفر کو
طاقتور بننے سے روکتے ہو… زمین والوں کا تم پر حق ہے کہ تم ان کو… اﷲ تعالیٰ کا
بندہ اور آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانبردار بناؤ… اٹھو اے مسلمانو!… اپنا یہ
فرض ادا کرو… دیکھو ہم تو اﷲ پاک کی خاطر ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں… امت کے فدائی… یہ
پیغام مسلمانوں کو دے کر خود عراق، افغانستان، کشمیر… اور فلسطین میں… ایک نئی تاریخ
لکھ رہے ہیں… ایک شاندار تاریخ… جس میں زمانے کے دجّال… ان کمزور بچوں کے سامنے بے
بس نظر آرہے ہیں… بے شک ایمان کی طاقت بہت بڑی ہے… اور ایمان ہی سب سے بڑی نعمت
ہے… سب سے بڑی نعمت…
٭٭٭
ایک شاندار تحفہ
٭ حضرت اقدس مفتی
اعظم مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکیؒ کے مضامین اور
مقالات پر مشتمل ایک مفید اور دلکش
کتاب کا مختصر تعارف
٭ کیا زیادہ
کتابیں لکھنا ہی کوئی بڑا کمال ہے؟
٭’’ انتخاب مضامین
مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ ‘‘ کے مضامین کی
فہرست
٭ یہ کتاب علم ،
ادب، تحقیق نصیحت اور دینی غیرت کا ایک شاہکار ہے
٭حضرت مفتی ولی
حسن صاحبؒ کے بعض اوصاف و کمالات کا تذکرہ
٭علماء کرام
اپنے اوپر مالدار دنیاداروں کو حاوی اور مؤثر نہ ہونے دیں
٭مساجد کا ادب
ضروری ہے
تاریخ اشاعت ۲۲؍
جمادی الاول ۱۴۲۸ھ
۸؍جون ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۰۰
ایک شاندار تحفہ
اﷲ
رب العالمین کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں… اور اﷲ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ
ہمارے شیخ مرشد اور مربیّ حضرت اقدس مفتی ولی حسن صاحبؒ کے علمی جواہر پارے منظر
عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں… کراچی سے میرے ایک بہت مخلص دوست، بزرگ اور ہم مشرب
ساتھی نے حضرتؒ سے متعلق تین کتابیں بھجوائی ہیں… اﷲ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطاء
فرمائے… ان تین کتابوں میں سے دو کو دیکھ کر تو بے حد خوشی ہوئی… پہلی کتاب ہمارے
حضرت کی شاہکار تصنیف ’’فتنہ انکار حدیث‘‘ ہے… لندن میں قائم ’’ختم نبوت اکیڈمی‘‘
نے نئی کتابت اور عمدہ طباعت کے ساتھ اس علمی تحفے کو شائع کیا ہے… اور ماشاء اﷲ
وہ اس قیمتی کتاب کو مفت تقسیم کر رہے ہیں… یہ کتاب ہمارے حضرت کے عشق رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کا منہ بولتا ثبوت ہے… منکرین حدیث خواہ چکڑالوی ہو یا غلام احمد پرویز یا
نیلام گھر والا طارق عزیز… یہ سب مسلمانوں کے مجرم ہیں… حضرتؒ نے ان کا علمی
محاسبہ فرمایا ہے… اور مسلمانوں کو اپنے اندر ’’دینی غیرت‘‘ پیدا کرنے کی دعوت دی
ہے… آہ دینی غیرت! جی ہاں مسلمانوں کا وہ ایمانی سرمایہ جس سے بہت سے دیندار
کہلانے والے مسلمان بھی محروم ہوتے چلے جارہے ہیں… دوسری کتاب حضرتؒ کے خود تحریر
فرمودہ مضامین کا مجموعہ ہے… اﷲ اکبر کبیرا… کتاب کیا ہے علم، ادب، تحقیق، نصیحت…
اور دینی غیرت کا ایک شاہکار ہے… القلم کے تمام قارئین اور قارئات … خصوصاً علماء
کرام اور طلبہ کرام کو فوراً اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے… اور دوسرے مسلمانوں تک
بھی یہ شاندار تحفہ پہنچانا چاہئے… آپ یقین جانئے آپ کو اس کتاب میں بہت کچھ ملے
گا… یہ کتاب مولانا فصیح احمد صاحب نے ترتیب دی ہے… ۴۸۳
صفحات پر مشتمل یہ علمی ذخیرہ حضرتؒ کے تقریباً بتیس اہم مضامین اور فتاویٰ پر
مشتمل ہے… اﷲ تعالیٰ نے ہمارے حضرت کو دیگر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ لکھنے کی صلاحیت
بھی خوب عطاء فرمائی تھی… آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے تو معلومات اور نصیحت کا
ایک دریا بہا دیتے تھے… یہ سچ ہے کہ حضرتؒ نے بہت زیادہ نہیں لکھا… یہ اﷲ تعالیٰ کی
مرضی تھی… الحمدﷲ ہمارے حضرت ایک شخصیت ساز کارخانہ تھے… انہوں نے اپنے دل کے ایمان
اور قوت سے دین کا بہت کام کیا… انہوںنے ہزاروں ایسے شاگرد چھوڑے جن میں سے بعض
بڑے مصنف بھی بنے… آج حضرتؒ کے شاگردوں کی تصانیف سینکڑوں سے متجاوز ہیں… ملک کے
بڑے بڑے دینی مدارس کے شیوخ الحدیث حضرتؒ کے شاگرد ہیں… اور حضرتؒ کے شاگرد جہاد
سمیت دین کے اہم شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں…
زیادہ
تصانیف کوئی ایسا کمال نہیں ہے جس کو معیار بنا کر… کسی مقبول انسان پر تنقید یا
تحسُّر کا بازار گرم کیا جائے… اﷲ پاک اپنے مقبول بندوں سے جس طرح سے چاہتا ہے کام
لیتا ہے… حضرتؒ نے علم دین پڑھایا… اور ماشاء اﷲ خوب پڑھایا… آپ کا ترمذی کا سبق ایسا
تھا کہ آپ سے بڑے اکابر اس کی تمنا کرتے تھے کہ ہم حضرت مفتی صاحبؒ سے ’’ترمذی‘‘
پڑھیں… آپ کا ہدایہ ثالث کا سبق شہرہ آفاق تھا… آپ فقیہ النفس تھے… آپ کا حلقۂِ
ارشاد ایک چلتا پھرتا بادل تھا جو موسلا دھار برستا تھا… اور آپ کی دینی غیرت ایک
ایسی صفت تھی جس نے زندہ دل علماء اور مجاہدین پیدا فرمائے… حضرت کو ’’دنیادار‘‘
بننے کے بے شمار مواقع ملے مگر آپ کو زیادہ مالداری سے گھن اور نفرت تھی… آپ نے دنیاداری
کے دریا میں اپنے کپڑوں کو تر نہیں ہونے دیا… آپ میں ’’تواضع‘‘ تھی جو آج ڈھونڈنے
سے نہیں ملتی… آج کے دینداروں کی ’’اکڑ‘‘ اور ’’ذوق پرستی‘‘ نے ماحول کو آلودہ کر
رکھا ہے… ہمارے حضرت دینی تحریکوں کے بے لوث حامی تھے… ان سے ملنا آسان تھا… اور
ان سے استفادہ کرنا اس سے بھی زیادہ آسان تھا… پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ… آپ کے
دل میں حکمرانوں اور مالداروں کا ذرہ برابر رعب نہیں تھا… آج کے کئی علماء مستقل
طور پر دنیاداروں کے نرغے میں ہیں… اور حکومتی عہدیداروں کو بھی وافر گھاس ڈالتے ہیں…
مگر ہمارے حضرت ان دونوں طبقوں سے بالکل آزاد رہے… ورنہ بڑے مالدار تو علماء کرام
کے مزاج اور نظریات تک پر اثر انداز ہوجاتے ہیں… ہمارے حضرت کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا
بے حد خوف تھا… ان کا ہر فیصلہ اور ہر قدم اسی خوف اور خشیت کے گرد گھومتا تھا… ٹھیک
ہے ان کی کتابیں بہت زیادہ نہیں ہیں… مگر ہم نے ان کے گھر میں دنیاداری کو چھلکتے
اور ابلتے نہیں دیکھا… وہ لاکھوں روپے کے ہدیئے ٹھکرا دیتے تھے… اور بعض اوقات ان
کے گھر میں مہمانوں کو چائے پلانے تک کی استطاعت نہیں ہوتی تھی… کراچی کے ایک نیک
عالم حضرت مولانا محمد حسین صدیقی صاحب نے بھی حضرتؒ کی سوانح مرتب کی ہے… مگر اس
میں تو حضرتؒ کو ایک دائرے میں محدود کرنے کی دانستہ کوشش صاف نظر آتی ہے… کاش صدیقی
صاحب مدظلہ کچھ وسعت قلبی اور تحقیق سے کام لیتے تو ان کی یہ کتاب ان کے لئے زیادہ
بہتر سرمایۂ آخرت ہوتی… حد سے بڑھی ہوئی مالداری اور اس میں مشغولیت علماء کرام
کے لئے ایک فتنہ ہے… اپنی اولاد کی شاندار اور اسراف زدہ شادیاں علماء کرام کے لئے
فتنہ ہے… اپنے گرد غریبوں اور فقیروں کی جگہ بڑے مالداروں کو رکھنا علماء کرام کے
لئے ایک فتنہ ہے… ہاں اگر یہ مالدار پوری طرح سے علماء کرام کے تابع ہوتے… اور
انہوں نے اپنی حد سے بڑھی ہوئی دنیاداری میں کچھ کمی کی ہوتی… اور ان میں بھی
اخلاق نبوی پیدا ہوئے ہوتے تو پھر بہت اچھا تھا… بہت ہی اچھا… مگر وہ تو بینکوں پر
بینک فیکٹری پر فیکٹری … اور کوٹھی پر کوٹھی بناتے جارہے ہیں… اور الٹا وہ علماء
کرام کو دنیا کے تقاضے بھی سمجھاتے اور سکھاتے ہیں… اور علماء کرام کے گھروں تک پر
اثر انداز ہوتے ہیں… کیا یہ سب کچھ ٹھیک ہے؟… کیا اس سے جہاد اور حق گوئی متاثر نہیں
ہوتی… کیا اس کی وجہ سے قربانی کا جذبہ سرد نہیں پڑتا… بہر حال یہ ایک دردناک پہلو
ہے… الحمدﷲ ہماری آنکھوں نے ایسے علماء کرام کی زیارت کی ہے جو ان چیزوں سے آزاد
تھے… اور ان کے نزدیک ’’پروٹوکول کلچر‘‘ ایک غلاظت کی طرح ناپسندیدہ تھا… ہمارے
حضرت مفتی ولی حسن صاحبؒ علماء کرام کے اس مبارک اور محفوظ طبقے کے سرخیل تھے… اور
حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانیؒ… اور حضرت مفتی عبدالستار صاحبؒ اس طبقے کی
شان تھے… مالدار مسلمان تو دراصل رحم کے قابل ہیں… وہ دنیا میں بری طرح سے پھنس
چکے ہیں… اور مزید پھنستے چلے جارہے ہیں… ان لوگوں کی قسمت میں جہاد اور شہادت بہت
کم… اور دین کی خاطر کوئی قربانی نہ ہونے کے برابر ہے… یہ ٹھیک ہے کہ حضرات صحابہ
کرام میں بڑے بڑے مالدار حضرات موجود تھے… مگر وہ اگلی صفوں میں جاکر جہاد کرتے
تھے… ان کا مال اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کام آتا تھا… ا ور ان کی مالداری
خود ان کے لئے اور مسلمانوں کے لئے رحمت تھی… وہ اگر کروڑوں کماتے تھے تو کافروں
کے بینکوں میں جمع نہیں کراتے تھے… بلکہ پورے کے پورے تجارتی قافلے کھڑے کھڑے اﷲ
تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے… مگر آج کا مسلمان سرمایہ دار تو دین سے بے زار
ہے… اور جو دیندار ہیں ان میں سے اکثر کی بس یہی خواہش ہے کہ مسلمان ہر میدان میں
کافروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں… ان حالات میں ایسے علماء اور داعیوں کی ضرورت
ہے جو … اپنے دل کو دنیاوی اغراض سے پاک کرکے مسلمان مالداروں سے مخاطب ہوں… اور
ان کی اصلاح کی فکر ایسے انداز میں کریں کہ خود ان کے دل میں ان مالداروں کا رعب
نہ ہو… اﷲ کرے طلبہ کرام میں ایسے افراد تیار ہوں… جو فقیری اور مسکینی کی قدر
ومنزلت کو سمجھتے ہوں… اور دنیا کی چمک اور پروٹوکول کو بے حقیقت سمجھتے ہوں…
میرے
سامنے حضرتؒ کے مضامین کا مجموعہ موجود ہے… کتاب کا نام ’’انتخاب مضامین مفتی ولی
حسن ٹونکی رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ ہے… یہ کتاب مکتبہ فاطمیہ، پیٹروڈی سوزا روڈ‘‘ گارڈن ایسٹ
نے شائع کی ہے… اور مکتبۃ الحبیب، بنوری ٹاؤن، کتب مارکیٹ کراچی میں دستیاب ہے…
کتاب کا حرفِ آغاز خود مرتب جناب مولانا فصیح احمد نے تحریر فرمایا ہے… انہوں نے
کئی اچھی باتوں کے علاوہ حضرتؒ کے کم لکھنے کا رونا بھی رویا ہے… جو اس موقع پر بے
جا ہے… اکابر کی زندگی میں کوئی بڑا یا چھوٹا انہیں یہ مشورہ دے تو یقینا یہ ’’نصیحت‘‘
کے زمرے میں آئے گا… اور ہر انسان ’’نصیحت‘‘ کا محتاج ہے… مگر ان کی وفات کے بعد
اس طرح کی باتیں… اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے ایک طرح کا ’’تبرّا‘‘ محسوس ہوتا ہے… اپنے
’’ذوقیات‘‘ پر اس قدر مضبوط ایمان کوئی اچھی بات نہیں ہے… بہرحال مولانا فصیح احمد
ہم سب کے محسن اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنا جلیل القدر تحفہ ہم تک
پہنچایا ہے… کتاب کا ابتدائیہ حضرتؒ کے صاحبزادے ڈاکٹر مسعود حسن صاحب نے بہت
خوبصورت تحریر فرمایا ہے… ’’ابتدائیہ‘‘ کے بعد حضرتؒ کی مختصر سوانح حیات استاذ
محترم حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار شہیدؒ کے قلم سے ہے … حضرت ڈاکٹر صاحبؒ
منجھے ہوئے قلمکار اور مصنف تھے انہوں نے مختصر سے مضمون میں کافی باتوں کا احاطہ
فرمایا ہے… اﷲ پاک ان کے درجات بلند فرمائے… کتاب کے صفحہ ۱۷ سے
حضرتؒ کے مضامین، مقالات اور فتاویٰ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے… حضرتؒ کے درج ذیل مضامین
اس مجموعہ میں شامل ہیں:
۱ اس دور کا عظیم
فتنہ
۲ احکام شرعیہ میں
رائے عامہ کی حیثیت
۳ اسلامی قانون میں
حد کا تصور
۴ مرزا غلام قادیانی
کو مجدد ماننے والوں کا حکم
۵ قادیانیوں کے
ساتھ موالات
۶ کفریات پرویز
۷ رافضی کی نماز
جنازہ
۸ فرمان مصطفوی کے
نام سے شائع شدہ اشتہار کا حکم
۹ مغربی ممالک میں
اوقات نماز سے متعلق ایک اہم استفتاء
۱۰ نماز کے بعد صلوٰۃ
وسلام
۱۱ عید الفطر
۱۲ ذبح کا مسنون طریقہ
اور مشینی ذبح کے متعلق مسائل
۱۳ زکوٰۃ سے متعلق ایک
اہم استفتاء اور اس کا جواب
۱۴ طلاق ثلاثہ
۱۵ عائلی قوانین
(پوتاپوتی نواسا نواسی کی وراثت)
۱۶ نقد وتبصرہ
برکتاب مجموعہ قوانین اسلام
۱۷ اسلام اور بیمہ
انشورنس
۱۸ پاک وہند کے حجاج
کے لئے میقات کا مسئلہ
۱۹ زکوٰۃ عبادت ہے ٹیکس
نہیں
۲۰ مستدرک حاکم کی ایک
حدیث
۲۱ جواہر حدیث
۲۲ رمضان اور قرآن
۲۳ مساجد کی شرعی حیثیت
۲۴ رجم
۲۵ زمین اور اس کے
مسائل اسلامی اور معاشی نقطہ نظر سے
۲۶ عظیم سانحہ
۲۷ محدث العصر (حضرت
بنوری نور اﷲ مرقدہ)
۲۸ مولانا محمد شاہ
امروٹی
۲۹ میدان علم وسیاست
کا شہسوار
۳۰ چوں کفر از کعبہ
برخیزد
ان
مضامین میں سے بعض تو علماء کرام کے لئے مفید ہیں جبکہ اکثر مضامین عوام وخواص سب
کے لئے بہت نفع مندہیں… دینی مدارس کے طلبہ کرام سے میری پرزور درخواست ہے کہ وہ
اس کتاب کے مضمون نمبر ۲۷ ’’محدث العصر‘‘ کا ضرور اور جلد مطالعہ فرمائیں… ان شاء اﷲ یہ
مضمون آپ پر علم، تحقیق اور عمل کا ایک عجیب دروازہ کھولے گا… مالدار طلبہ اس
مضمون کی فوٹو کاپیاں کرا کے غریب طلبہ بھائیوں کو ہدیہ کردیں… دل چاہتا ہے کہ
کتاب کے اس تعارف میں حضرتؒ کی بعض عبارات بھی آخر میں شامل کی جائیں… ایسی عبارات
تو بہت زیادہ ہیں… مگر بطور نمونہ ایک دو عبارتوں کو یہاں نقل کیا جاتا ہے…
حضرت ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’حدیث کا آخری
جملہ ہے
’’ومن ابطا بہ
عملہ لم یسرع بہ نسبہ‘‘
جس کو اس کے عمل نے پیچھے
کردیا، اس کا نسب اس کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔
حدیث
شریف کا یہ جملہ بھی بڑا معنی خیز ہے اور ایک بڑی حقیقت بیان کی جارہی ہے۔ انسان ایک
عرصہ تک اس وہم میں مبتلا رہا کہ نسب وحسب اس کی نجات کا ضامن ہے، یہود کا تو
مستقل نعرہ تھا کہ
’’نحن ابناء اﷲ
واحباء ہ‘‘
ہم اﷲ کے بیٹے اور اس
کے دوست ہیں۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم انبیاء
کی اولاد ہیں۔ قرآن کریم نے ان کے اس جاہلانہ تصور کی بار بار تردید کی ہے اور
واشگاف الفاظ میں اظہار کیا کہ مدارِ نجات عمل ہے نسب نہیں، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم بھی اسی حقیقت کو بیان فرما رہے ہیں اور ذہن نشین کرا رہے ہیں کہ عمل سے بلند
درجات نصیب ہوتے ہیں۔ جو شخص کو تاہ عملی کی وجہ سے بلند درجات حاصل نہ کرسکا تو
اس کا نسب اس کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ اس راز کا دنیا میں بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں
کہ جو لوگ لگن، محنت سے کام کرتے ہیں وہ مقصود حاصل کرلیتے ہیں اور عالی نسب جو
صرف اپنی نسبتوں پر فخر ومباہات کرتے ہیں، کام، محنت سے جی چراتے ہیں بہت پیچھے رہ
جاتے ہیں، جب دنیا میں نسب کام نہیں آتا تو آخرت میں کیا کام دے گا‘‘۔ (ص۳۰۵)
حضرت ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’تابعی جلیل
حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ عنہ کو جب مشہور ظالم حجاج بن یوسف ثقفی نے شہید کیا تو
اس زمانہ کے ایک شیخ نے کہا تھا
’’لقد مات سعید
بن جبیر وما علی ظہر الارض احد الا وہو محتاج الی علمہ‘‘
(سعید بن جبیر ایسے
وقت دنیا سے رخصت ہوئے جبکہ روئے زمین کا ہر شخص ان کے علم کا محتاج ہے)
سعید
بن جبیر رضی اﷲ عنہ کے قتل وشہادت کا واقعہ ۹۵ھ
کو پیش آیا۔ جب کہ پہلی صدی بھی ختم نہیں ہوئی تھی، رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
جمال جہاں تاب کو دیکھنے والے چند نفوس باقی تھے، تابعین کی بڑی تعداد علم وعرفان
کی شمع فروزاں کئے ہوئے تھی، محدثین کبار اور فقہاء عظام کے حلقہ ہائے درس کی وجہ
سے حدیث وفقہ کے چرچے عام تھے، زہد واتقا عام مسلمانوں کا شعار تھا لیکن سعید بن
جبیر رضی اﷲ عنہ کی شہادت ایک بجلی تھی جو امت مسلمہ کے ایوان پر گری اور اس سے یہ
ایوان متزلزل ہوگیا، ہر شخص نے اس کو محسوس کیا اور آہ وفغاں کا ایک سیلاب عالم
اسلام کے قلوب کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ اس
وقت کچھ فتنے عالم اسلام کی پرسکون اور حیات آفرین سطح پر ابھر رہے تھے۔ اعتزال،
رفض اور تشیع، خروج جنم لے رہے تھے۔ پھر سب سے بڑا فتنہ تو حجاج کا ظلم اور اس کی
سفاکیاں تھیں۔ ان سارے فتنوں کا مقابلہ حضرت سعید بن جبیر مردانہ وار کر رہے تھے،
ان کے وجود سے لوگوں کو بڑی ڈھارس تھی۔ قدرتی طور پر ان کی شہادت لوگوں پر بڑی شاق
گزری۔ اور اب تو فتنے ہی فتنے ہیں۔ سارا عالم فتنوں سے گھرا ہوا ہے اور سب سے بڑا
فتنہ تو یہ ہے کہ مسلمان دین ومذہب سے کوسوں دور نکلے جارہے ہیں۔ (ص۳۷۶)
حضرتؒ
کی اس عبارت میں بھی یہی درد چھپا ہے کہ… مسلمانوں کو ہر دور میں ایسے علماء کرام
کی ضرورت رہی ہے جو ظلم سے ٹکرانے والے اور قربانی دینے والے ہوں… اﷲ تعالیٰ
مولانا فصیح احمد صاحب کو بہت جزائے خیر عطاء فرمائے… اور انہیں حضرتؒ کے دیگر
مضامین کو بھی جمع کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… امید ہے کہ دین کی غیرت رکھنے والے
مسلمان اس کتاب کو حاصل کریں گے… اور اپنی راتوں، اپنے اوقات اور اپنے ایمان کو اس
کتاب سے مہکائیں گے…
ایک ضروری گزارش
مسجد
اﷲ تعالیٰ کا گھر ہے… یہ اﷲ تعالیٰ کا پر عظمت دربار ہے… اور تمام مساجد جنت کے
باغات ہیں… مسلمان بہت ذوق وشوق سے مساجد کا اہتمام فرمائیں… مگر یہ اہتمام ادب کے
اعلیٰ درجے کے ساتھ ہو… دیکھنے میں آرہا ہے کہ… بعض لوگ مساجد میں شور مچاتے ہیں…
آوازیں بلند کرتے ہیں… اﷲ کے بندو! یہ سخت جرم ہے اور قیامت کی علامت ہے… اسی طرح
بعض لوگ مساجد میں دنیاوی گپ شپ اور فون کالیں کرتے ہیں… بعض لوگ تعلیم وغیرہ کے
بعد گپ شپ کی بلند آواز مجالس منعقد کرتے ہیں… آپ کو معلوم ہے کہ… آپ کی آواز سے
اگر ایک نمازی کو بھی خلل ہوا تو آپ نے اﷲ تعالیٰ کے مہمان کو ایذاء پہنچائی…
مساجد میں تو تلاوت اور ذکر بھی اتنی آواز میں کرنا درست نہیں جس سے نمازیوں کو
تکلیف ہو… بعض حضرات دائیں بائیں دیکھے بغیر زور زور سے تلاوت اور ذکر کر کے نمازیوں
کو پریشان کرتے ہیں… اے اﷲ تعالیٰ کے بندو! اﷲ سے ڈرو… کوئی سنتری اپنے آفیسر کی
مجلس میں کیسے بیٹھتا ہے؟… مرید اپنے شیخ کی مجلس میں کتنا باادب بیٹھتے ہیں… اور
وہ اچھا کرتے ہیں… مگر سب سے زیادہ ادب اور خشیت کا مقام مسجد ہے… خوب اہتمام
فرمائیے… خوب زیادہ…
واجرکم علی اﷲ
٭٭٭
نہیں ملتی یہ
نعمت ہر کسی کو
٭’’ شہادت ‘‘ کی
فضلیت اور یاد میں ایک عجیب تحریر
٭ کیا ہم نے کبھی
’’ شہادت ‘‘ مانگی ہے؟
٭ محبت کا ایک
دلکش خفیہ جذبہ
٭ حضرت سیدنا حسین
رضی اﷲ عنہ کی محبت
٭ جہاد اور
شہادت کی قبولیت کے لئے فتح اور فوری نتیجہ ضروری نہیں
٭’’ شہادت
‘‘ پانے کی کوشش کا تین نکاتی نصاب دعاء،
بیعت اور استقامت
٭ مجاہدین کی
قسمیں اور ان لوگوں کے شر سے بچنے کی ضرورت جو چند دن جہاد کر کے
گھر بیٹھ گئے ہیں اور اب وہ مجاہدین کی غیبت
کرتے ہیں
تاریخ اشاعت ۲۹؍جمادی
الاول ۱۴۲۸ھ
۱۵؍ جون۲۰۰۷ء
شمارہ۱۰۱
نہیں ملتی یہ
نعمت ہر کسی کو
اﷲ
تعالیٰ جن مسلمانوں کی جان ومال جنت کے بدلے خرید لیتا ہے… وہ مسلمان بے حد خوش نصیب
ہوتے ہیں… بہت ہی زیادہ خوش نصیب… مگر آہ! ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ محبوب رب
اسے خرید لے… آہ شہادت! آہ شہادت… ایک میٹھی موت … نہیں موت نہیں زندگی… بہت میٹھی،
بہت سکون والی… اے مسلمانو! تھوڑا سا سوچو! کیا موت اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے؟…
قرآن پاک فرماتا ہے کہ نہیں … کیا موت ایک منٹ مؤخر ہوسکتی ہے؟… قرآن پاک فرماتا
ہے ’’نہیں‘‘… پھر سچے دل سے شہادت مانگتے ہوئے دل کیوں کانپتا ہے؟… بات واضح ہے کہ
ہر کوئی شہادت کا اہل نہیں ہوتا… ہر کسی کو اﷲ پاک نہیں خریدتا… شہادت کیا ہے؟ کبھی
ہم نے سوچا… ادھر آنکھ بند ہوئی اور ادھر مزے ہی مزے شروع ہوگئے… ارے سارے گناہ
معاف… رہنے کے لئے اونچے اونچے محلاّت… اور پاکیزہ جیون ساتھی… اور ہر لمحہ اﷲ پاک
کے راضی ہونے کی عجیب خوشی، عجیب مستی… پھر بھی ہر کوئی دل سے شہادت کیوں نہیں
مانگتا؟… بات وہی ہے کہ اﷲ پاک کا یہ سودا صرف اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتا ہے… وہ پیارے
جو اﷲ پاک سے ملنے کا شوق رکھتے ہیں… جو اﷲ پاک کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں… ورنہ
سب جانتے ہیں کہ ہم ایک دن مر ہی جائیں گے… زمین میں بیج بویا جاتا ہے، پھر پودا
نکلتاہے، پھر درخت بنتا ہے… اور پھر سوکھ کر بکھر جاتا ہے یا جلا کر راکھ بنادیا
جاتا ہے… انسان بھی اسی طرح بچپن سے گزر کر جوان اور پھر سوکھے درخت کی طرح… ہاں
سب ختم ہو رہے ہیں… مگر شہداء نے کمال کیا کہ یہاں بھی اپنا پورا وقت گزارتے ہیں…
اور مرتے ہی ہر دُکھ، ہر تکلیف، ہر تنگی، ہر بیماری اور ہر پریشانی سے نجات پا
جاتے ہیں… نہ موت کا درد، نہ قبر کی تنگی، نہ منکر نکیر کی سختی اور نہ کوئی غم…
آہ شہادت، آہ شہادت… اﷲ پاک کی قسم! شہادت بہت اونچی اور میٹھی نعمت ہے… اﷲ پاک کی
رضاء کے لئے اس کے دین کی خاطر قربان ہوجانا… بہت بڑی سعادت ہے اور بہت بڑی عقلمندی…
کوئی لاکھ خود کو دھوکا دے مگر اسے ماننا ہی پڑے گا کہ… شہادت جیسی نعمت ایمان کے
بعد اور کوئی نہیں ہے… میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کون سا مقام نہیں تھا…
ربّ کعبہ کی قسم! ان کے پاس تو سب کچھ تھا… مگر تمنا کیا تھی کہ بار بار شہادت
پاؤں، بار بار شہادت پاؤں… ارے محبوب کی خاطر ذبح ہونے کا مزہ ہی کچھ اور ہے… ہم جیسے
بے وفا اسے کیا جانیں… اس مزے کو تو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم جانتے تھے… اور انہی
سے صحابہ کرامؓ نے بھی سمجھ لیا… اس لئے تو آدھی دنیا کا حکمران سیدنا فاروق اعظم
رضی اﷲ عنہ بلک بلک کر شہادت مانگتا تھا… اﷲ پاک نے ایمان والوں کی جان ومال کو خرید
لیا ہے… اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے… وہ قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں… یہ
وعدہ اﷲ پاک کے ذمّے پکا ہے… تورات، انجیل اور قرآن جیسی کتابیں اس وعدے کی گواہ ہیں…
اے لوگو! اﷲ پاک سے بڑھ کر اپنا وعدہ پورا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟… پس جن
لوگوں سے یہ سودا ہوچکا ہے وہ اپنے اس سودے پر خوشیاں منائیں… اور یہی بہت بڑی کامیابی
ہے… یہ ہے قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا مفہوم … اﷲاکبرکبیرا … مبارک ہو اے امت
مسلمہ کے شہیدو!… بہت مبارک ہو… آہ شہادت، آہ شہادت… کیا مجھے اور آپ کو بھی یہ
نعمت مل سکتی ہے؟… اپنے اعمال کو دیکھیں تو ناممکن نظر آتی ہے… مگر جب اﷲ پاک کے
فضل وکرم کو دیکھیں تو بہت امید ہوتی ہے… لیکن کیا ہم نے کبھی سچے دل سے اسے مانگا
بھی ہے؟… حالات سے تنگ ہو کر نہیں، وقتی جوش میں آکر نہیں، مجمع کو گرمانے کے لئے
نہیں، بلکہ خالص اﷲ پاک کی محبت میں… کیا ہم نے کبھی شہادت مانگی ہے؟… باوفا بیوی
کو خاوند کی ملاقات کا کس قدر شوق ہوتا ہے؟… کہتی ہے کہ وہ کب آئیں گے کہ میں اپنا
سب کچھ نچھاور کردوں گی… ایک خفیہ جذبہ، ایک خالص جذبہ… جو کسی کو بھی نہیں بتایا
جاتا… ایک وفادار بندہ بھی اﷲ پاک کی محبت میں ڈوب کر سوچتا ہے کہ… مالک کے لئے کب
ذبح ہوں گا؟… کب میں ان کے نام پر کٹ کر گروں گا… کب؟ کب؟ … ایک خفیہ نورانی جذبہ…
اﷲاکبرکبیرا… میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا… جو سچے دل سے شہادت مانگے گا
اسے شہادت کا درجہ دے دیا جائے گا… اگرچہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرا ہو… کچھ
لوگ جہاد میں آئے… آتے ہی خفیہ جذبے نے انہیں آگے پہنچا دیا… اور وہ فوراً شہادت
سے ہم آغوش ہوگئے… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے، اﷲ پاک نے ان سے بڑے بڑے کام لئے اور
پھر انہیں… شہادت عطاء فرمادی… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے… کچھ کام کیا اور پھر
’’پرانے مجاہد‘‘ بن کر گھر جا بیٹھے… اب وہ صرف ’’غیبت‘‘ کا حرام گوشت کھاتے ہیں…
اپنے اعمال کی دنیاوی قیمت وصول کرتے ہیں… اور کام میں جُڑے ہوئے مجاہدین کے خلاف
نفرت پھیلاتے ہیں… ہاں خود کو مجاہدین کہلوانے والوں کی بھی کئی قسمیں ہیں… قرآن
پاک کی سورۂ توبہ نے ان کے حالات قیامت تک کے لئے بیان فرما دئیے ہیں… کچھ اور
لوگ جہاد میں آئے… اﷲ پاک نے ان سے کام لیا… ان کو آزمائشوں میں ڈالا… مگر وہ ڈٹے
ہوئے ہیں اور شہادت کی راہوں پر گامزن ہیں… ان کو معلوم ہے کہ شہادت اپنے وقت سے
پہلے نہیں آئے گی… ہمارا کام تو میزبانِ رسول ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کی طرح
چلتے رہنا ہے… چلتے رہنا… مدینہ منوّرہ سے لے کر قسطنطنیہ کی دیوار تک… دنیا کے ایک
کونے سے لے کر دوسرے کونے تک… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے… اﷲ پاک نے انہیں دشمنوں
کے ہاتھوں قید کی آزمائش میں ڈال دیا… پھر وہ چھوٹ گئے… مگر انہوں نے کام بند کردیا…
اور غیبت شروع کردی… جبکہ کچھ لوگ چھوٹ کر آئے تو انہوں نے گھر سے پہلے کام کی خبر
لی… اور اﷲ پاک نے انہیں ماضی کی سعادتوں سمیت دوبارہ جوڑ لیا… ہاں میرے بھائیو!
شہادت ہر کسی کو نہیں ملتی… آہ شہادت، آہ شہادت… وہ دیکھو اُحد کے دامن میں ستر
بادشاہ… اﷲاکبرکبیرا … قرآن پاک نے ان کے حالات کھول کر بیان کردئیے… وہ دیکھو بدر
کے میدان میں چودہ (۱۴)خوش نصیب… قرآن پاک نے ان پر آفرین بھیجی… اور پھر بدر و
اُحد کے ان بادشاہوں کا لشکر پھیلتا چلا گیا… آج بھی بھرتی جاری ہے… عراق،
افغانستان، کشمیر، فلسطین اور معلوم نہیں کہاں کہاں… ارے شہادت کا بازار بھی کبھی
ٹھنڈا ہوسکتا ہے؟… ہاں یہ بازار کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا… مگر یہ نعمت قسمت والوں کو
ملتی ہے… آہ شہادت، آہ شہادت… پہلا کام ہے سچے دل سے اس کی دعاء… اور اس میں شرطیں
لگانا چھوڑ دیں… کوئی کہتا ہے امام مہدی کے ساتھ شہید ہوں، اور کوئی کچھ اور جوڑتا
ہے… بابا! مقبول شہادت جب اور جہاں مل جائے وہ بڑی نعمت ہے… ہم کون ہیں شرطیں
لگانے والے؟… ممکن ہے ان شرطوں کے پیچھے نفس کی کوئی خواہش چھپی ہو… پھر قربانی کیسی؟…
شہدائے اُحد تو ایک ایسی جنگ میں شہید ہوئے جس میں مسلمانوں کو ظاہری شکست ہوئی تھی…
مگر دنیا کا کوئی فاتح شہید ان مظلوم شہداء کے ہم پلہ ہوسکتا ہے؟… حضرت سیدنا حسین
رضی اﷲ عنہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے… خارجیوں کا برا ہو کہ ان کے خلاف
نفرت پھیلاتے پھرتے ہیں… ان کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا بھی خیال نہیں…
تاریخ کے حوالوں کو گولی مارو… بس اسی پر فیصلہ کر لو کہ ہم دعاء کرتے ہیں… اﷲ پاک
ہمارا حشر حضرت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ فرمائے… اور اُن کا قاتلانِ حسین کے
ساتھ… حضرت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کن حالات میں ہوئی؟… مقصد یہ ہے کہ دعا
ء میں شرطیں نہ لگاؤ… بس شہادت مانگو کہ ربّا فضل فرما اور اپنے راستے کی مقبول
شہادت نصیب فرما… بعض لوگ ظاہری طور پر بے نتیجہ شہید ہوتے ہیں… مگر اﷲ پاک ان کی
شہادت کو ان کے لئے اور مسلمانوں کے لئے بہت قیمتی بنادیتا ہے… بالاکوٹ کے شہداء
کتنی عجیب حالت میں شہید ہوئے …مسلمانوں کی بے وفائی، مال پرست لوگوں کی طوطا چشمی…
اپنے علاقے سے دوری اور اسباب کے بارے میں بے بسی… ان کی تو لاشیں اٹھانے والا بھی
کوئی نہیں تھا… مگر آج وہ جہاد اور شہادت کا حسین استعارہ بنے ہوئے ہیں… اور ان کے
جہادی آثار لاکھوں مسلمانوں کو جہاد اور شہادت کا مسئلہ سمجھا رہے ہیں…
دوسرا
کام ہے ’’بیعت علی الجہاد‘‘… یعنی اﷲ پاک سے باقاعدہ سودا کرنے کے لئے ایک امیر کے
ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرلو… بیعت علی الجہاد بہت عظیم نعمت ہے… جس کسی نے بھی سچے
دل اور اخلاص سے یہ بیعت کی ہے… وہ اکثر شہادت سے محروم نہیں رہا… آپ قرآن پاک میں
شہادت کی آیات پڑھیں… اور پھر ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کی آیات پڑھیں… آپ کو واضح
مناسبت نظر آئے گی… حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ … قرآن وسنت کے ماہر
عالم دین تھے… انہوں نے ایک بار مسجد میں مجھ سے فرمایا… میں نے جہاد کی رسمی بیعت
نہیں کی، حقیقی بیعت کی ہے… اور دیکھنا میں بستر پر نہیں مروں گا… بیعت کے معنیٰ ہیں
بیچنا، سودا کرنا… کہ اﷲ پاک سے سودا کرلیا ہے… شہادت ہر کسی کو نہیں ملتی… اس لئے
’’بیعت علی الجہاد‘‘ کرنے والے بھی بہت کم ہیں… اور اسے نبھانے والے اس سے بھی کم…
بس جہاں نفس پر یا مفادات پر ذرا سا بوجھ پڑا وہاں بیعت ختم… دنیا کی عورتوں کے
لئے لوگ کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں جبکہ… جنت کی حوروں کو سب نے (نعوذباﷲ) بے قیمت
سمجھ رکھا ہے… آہ شہادت، آہ شہادت…
بیعت
علی الجہاد کے بعد اگلا کام ہے… جہاد کے راستے پر چلتے رہنا چلتے رہنا… جہاں تشکیل
ہوجائے… جب بلاوا آئے… کوئی مجاہد خود کو بھاری نہ ہونے دے… مجاہد بھاری ہوتا ہے
دو چیزوں سے … ایک مال کی لالچ… اور دوسرا عہدے کا حرص… مجاہد تو اپنے امیر کے
ہاتھ پر بیٹھا ہوا وہ ’’باز‘‘ ہوتا ہے… جو اشارہ ملتے ہی اپنے کام پر جھپٹ پڑتا
ہے… مال کے لالچی لوگ جہاد کو اور خود کو نقصان پہنچاتے ہیں… اور عہدے سے چپک جانے
والے شہادت سے اکثر محروم رہتے ہیں… مجاہد کے نزدیک کوئی تشکیل بڑی نہیں ہوتی… اور
نہ کوئی چھوٹی… گاڑی اور سہولتیں مجاہد کے نزدیک گدھے کے برابر بھی حیثیت نہیں
رکھتیں… جو مجاہد اپنے امیر کو اس بات کا حق نہیں دیتے کہ وہ جہاں چاہے ان کی تشکیل
کرے وہ مجاہد نہیں… جہاد کے راستے کی رکاوٹ ہوتے ہیں… انہیں کی وجہ سے فتنے آتے ہیں…
اور انہیں کی بدولت پاکیزہ راستے ناپاک ہوتے ہیں… ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں
جو جہاد دے کر گئے ہیں… بس وہی جہاد ہی شہادت اور کامیابی کا ضامن ہے… اس جہاد میں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مامور ہوتے ہیں… اور کم سن اسامہ
بن زید رضی اﷲ عنہ ان کے امیر…
اے مجاہدو!… اﷲ کے
لئے خود کو ہلکا رکھو… تب تم دشمن پر بہت بھاری پڑو گے… اور جہاد کو زمانے کا کوئی
فرعون، کوئی بش اور کوئی پرویز نقصان نہیں پہنچا سکے گا… خود کو اسباب، عہدے اور
پروٹوکول کا عادی نہ بناؤ… اور نہ جہاد کے اسباب کو گناہ کے کاموں میں استعمال
کرو… تب تمہیں بھی ان شا ء اﷲ شہادت نصیب ہوگی… اور تم بھی اس میٹھی نعمت کے مستحق
بنوگے…
اب ایک بہت ضروری اور
اہم گذارش
اے
مسلمانو!… اگر آپ شہادت کے طلبگار ہو تو ان لوگوں سے بچو… جو جہاد چھوڑ کر دوسرے
کاموں میں لگ گئے ہیں… اور وہ مجاہدین کی غیبت اور مخالفت کرتے ہیں… یہ لوگ آپ کے
ایمان کے لئے بہت خطرناک ہیں، بہت خطرناک… انہوں نے چند دن جہاد میں گزارے… مگر یہ
جہاد کے اہل نہ تھے اس لئے اﷲ پاک نے ان کو ہٹادیا… اگر یہ لوگ مخلص اور سچے ہوتے
اور کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے گھر بیٹھے ہوتے تو یہ کبھی بھی مجاہدین کی مخالفت
نہ کرتے… بلکہ یہ لوگ اپنی محرومی پر بلک بلک کر روتے اور ہر ملنے والے سے اپنے
لئے دعاء اور استغفار کراتے… جی ہاں انسان پر بعض اوقات ایسے حالات آجاتے ہیں کہ
وہ جہاد نہیں کر سکتا… مگر وہ جہاد کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا… بلکہ خوب استغفار
کرتا ہے… خوب روتا اور تڑپتا ہے… مگر یہ لوگ تو ذرّہ برابر نہیں پچھتاتے… یہ تو
جہاد کو خالہ جی کا گھر سمجھ کر گئے تھے … مگر جب انہیں جیلوں میں جانا پڑا…
گوانٹا نامو بے اور دوسرے عقوبت خانوں میں جانا پڑا تو یہ لوگ ثابت قدم نہ رہ سکے…
اب وہ پرُامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں… مگر افسوس یہ کہ وہ دن رات مجاہدین کے خلاف
زہر اُگلتے ہیں… ان کی زبانوں پر دو ہی الزامات ہیں… مجاہدین مال کھا رہے ہیں… اور
مجاہدین ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں… عجیب بات یہ ہے کہ کوئی ان ظالموں سے نہیں پوچھتا
کہ تم خود جہاد پر کیوں نہیں جاتے؟… تم نے کس عذر کی بنا پر جہاد چھوڑ دیا ہے؟…
عراق، افغانستان، کشمیر وغیرہ میں کون لوگ لڑ رہے ہیں؟… کن کو ختم کرتے کرتے ٹونی
بلیئر کا اقتدار ختم ہو رہا ہے؟… کن سے لڑتے لڑتے بش اب ٹُھس ہوگیا ہے؟… کون ہیں
جنہوں نے ہند پر لرزہ طاری کر رکھا ہے؟… کن کو مارنے کے لئے نیٹو کا اتحاد دن رات
اپنی لاشیں گن رہا ہے؟… ہاں کوئی کچھ نہیں پوچھتا… اور یہ ’’پرانے مجاہد‘‘ غیبت کا
حرام گوشت مزے سے کھاتے اور کھلاتے رہتے ہیں… چند دن پہلے ایک خاتون کا خط آیا کہ
مجھے ایک پرانے مجاہد نے جواب کسی جگہ پڑھاتے ہیں بتایا ہے کہ… آپ نے جیل میں
کمانڈر نصر اﷲ منصور کو تھپڑ مارا تھا… استغفراﷲ ، استغفراﷲ… اﷲ پاک کمانڈر صاحب
کو جلد واپس لے آئے … وہی اس جھوٹے بہتان کا زیادہ بہتر جواب دے سکتے ہیں… الحمدﷲ
میرا تو آج بھی ان سے محبت کا رشتہ قائم اور تازہ ہے… لیکن بالفرض اﷲ نہ کرے ایسا
کوئی واقعہ ہوا بھی ہو… تو کیا دو انسانوں کے درمیان کبھی اختلاف اور جھگڑا اور
پھر صلح نہیں ہوتی؟… مگر ’’پرانے مجاہدین‘‘ کی گود میں بس اسی طرح کی جھوٹی باتیں
اور واقعات ہیں… اور کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ… ان حالات میں آپ کا جہاد
چھوڑنا کس طرح سے جائز ہے؟… اور کام میں جڑے ہوئے مجاہدین کے خلاف نفرت پھیلانا
کون سا ثواب ہے؟… میرے ایک اور عزیز ساتھی بتا رہے تھے کہ ان کے گاؤں کا گوانٹا
ناموبے سے رہا ہونے والا ایک شخص… غیبت کا تفصیلی بازار لگاتا ہے… اس سے کوئی بھی
بات کرے تو کہتا ہے … اگر آپ کے پاس ’’تین گھنٹے‘‘ ہوں تو میں ان مجاہدین کی حقیقت
آپ کو بتا سکتا ہوں… تین گھنٹے غیبت… اور غیبت زنا سے بدتر گناہ… استغفراﷲ،
استغفراﷲ…
اے مسلمانو!… ان
لوگوں سے بچو… انہوں نے اپنے اعمال تو ضائع کردئیے ہیں اب یہ دوسروں کے ایمان پر
ڈاکہ ڈال رہے ہیں… جہاد کوئی موسمی میلہ نہیں ہے کہ… جب حالات ٹھیک تھے تو یہ لوگ
جاتے تھے… اب حکومتوں کا خطرہ ہے تو انہوں نے خود کو ’’فریز‘‘ کرنے کی بات شروع
کردی ہے… جو لوگ جہاد چھوڑ کر غیبت کرتے ہیں ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے… یہ
خود جھوٹ گھڑتے ہیں، بدگمانیاں پالتے ہیں اور نفرتیں بیچتے ہیں… اﷲ پاک ان کو توبہ
کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں ان جیسے برے انجام سے اپنی پناہ میں رکھے…
بات
یہ چل رہی تھی کہ… شہادت ایک بہت پیاری اور میٹھی نعمت ہے… مگر یہ نعمت ہر کسی کو
نصیب نہیں ہوتی… ہم سچے دل سے اس کی طلب اپنے اندر پیدا کریں… ہم سچے دل سے اسے اﷲ
پاک سے مانگیں… ہم مقبول لوگوں سے اپنے لئے شہادت کی دعاء کروائیں… والدین اپنے
بچوں کو شہادت کی دعاء دیں… شہادت اور اس کی محبت عام ہوگی تو اسلام کو دنیا بھر میں
غلبہ ملے گا… صرف بارہ ہزار شہادت کے شیدائی مسلمان جہاں جمع ہوجائیں گے… وہاں انہیں
انشاء اﷲ فتح نصیب ہوگی… ہم شہادت پانے کے لئے ان نسخوں پر بھی عمل کریں جن کا آج
کے کالم میں مذاکرہ ہوا ہے… اﷲ پاک ہم پر اپنا فضل فرمائے… اور ہمیں اپنے پیارے
راستے کی مقبول شہادت نصیب فرمائے…
آہ شہادت! آہ شہادت!
٭٭٭
عجیب مہمان
٭دو امریکی
اہلکاروں ’’ نیگرو پونٹے‘‘ اور’’ رچرڈ بائوچر‘‘ کے دورہ پاکستان کا تجزیہ
٭چار بد ترین
جرم جن میں امریکہ اور یورپ کے کفار مبتلاء ہیں
٭آفرین ہو
افغانستان والوں پر جنہوں نے اپنا ملک کھنڈر بنوا لیا مگر کفر کی غلامی
قبول نہیں کی
٭مجاہدین نفرت
نہیں پھیلاتے وہ تو محبت کا درس دیتے ہیں
٭قرآنی آیات کی
روشنی میں لکھی ہوئی ایک عبرت خیز تحریر
تاریخ اشاعت ۵؍جمادی الثانی ۱۴۲۸ھ
۲۲؍جون ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۱۰۲
عجیب مہمان
اﷲ تعالیٰ کا سورۃ
توبہ میں ارشاد گرامی ہے:
یرضونکم بافواہہم
وتابیٰ قلوبہم (التوبۃ۸)
یعنی
یہ مشرکین اور کفار اپنی زبانی باتوں اور الفاظ سے تمہیں خوش کرتے ہیں جبکہ ان کے
دل تمہاری دشمنی سے بھرے پڑے ہیں…
ابھی
ہمارے ملک پاکستان میں ’’امریکی مہمان‘‘ آئے ہوئے ہیں۔ دو نائب وزیر خارجہ اور ایک
فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ… ان تینوں مہمانوں سے ملنے کے لئے ہمارے ’’مسلمان لیڈروں‘‘
کا ایک ہجوم قطار لگائے کھڑا ہے… ہر کوئی ان سے محبت اور وفاداری کا بڑھ چڑھ کر
اظہار کر رہا ہے…
انا
ﷲ وانا الیہ راجعون
کسی
کے سینے میں ’’مسلمان دل‘‘ اور منہ میں ’’پاک زبان‘‘ ہوتی تو ان مجرموں سے پوچھتا
کہ… ساری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں کر رہے ہو؟…
سورۃ
توبہ کی آیت ۷ تا ۹ …
قرآن پاک نے چار جرائم کا تذکرہ فرمایا ہے کہ یہ بدترین
جرائم ہیں…
۱۔ اﷲ پاک کے ساتھ
شریک ٹھہرانا… (امریکی حکام عیسائی ہیں اور عیسائی تین خدا ماننے کی وجہ سے مشرک ہیں)
۲۔ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ ماننا (امریکی حکام
ہمارے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکر ہیں)
۳۔ مسلمانوں سے دشمنی رکھنا (امریکی حکام لاکھوں مسلمانوں کے
قاتل اور مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں)
۴۔ دنیا پرستی میں اتنا مگن ہوجانا کہ دنیا ہی اصل مقصود بن
جائے اور دنیا پرستی کی خاطر ایمان قبول نہ کرنا (امریکیوں کی مادہ پرستی سب کے
سامنے ہے)…
قرآن
پاک کے نزدیک یہ چار بہت گندے، بہت برے اور قابل نفرت جرائم ہیں… کیاآج کا مسلمان
بھی ان چیزوں کو ’’جرم‘‘ سمجھتا ہے؟…
اگر
جرم سمجھتا تو پھر کافروں کا غلام کیسے بنتا… افسوس صد افسوس کافروں نے جہاد کو
دہشت گردی کا نام دے کر ’’جرم‘‘ قرار دیا… اور پھر اپنے غلاموں کو ساتھ لے کر اس
جرم کے خاتمے کے لئے جنگ شروع کردی… حالانکہ جہاد اﷲ پاک کا ’’حکم‘‘ ہے… امریکی اس
’’حکم الٰہی‘‘ کو ختم کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں… پھر بھی وہ ہمارے محبوب اور ہیرو ہیں…
اے
مسلمانو!… کچھ تو سوچو، کچھ تو سمجھو… کیا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا کوئی چھوٹا
جرم ہے؟… کیا ہمارا اپنے رب سے یہی تعلق ہے کہ ہم اس کے منکروں اور دشمنوں کو اپنا
یار بنائیں؟…
پھر
کس منہ سے قیامت کے دن اﷲ پاک کے سامنے پیش ہوں گے؟… کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو نہ ماننا چھوٹا جرم ہے؟… کیا لاکھوں مسلمانوں کو بمباری سے روند ڈالنا چھوٹا
جرم ہے؟… کیا دنیا کو عیش پرستی اور بے حیائی سے بھر کر ایمان اور آخرت سے لوگوں
کو غافل رکھنا چھوٹا جرم ہے؟…
آہ
عراق کی پاکیزہ عصمتیں!… کون ہے ان کا وارث؟ …
اجمع
العلماء علی انہ اذا سبیت امراۃ واحدۃ اصبح الجہاد فرض عین علی کل المسلمین حتی
تنقذ المرأ ۃ…
یعنی
امت کے اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر ایک مسلمان عورت کو کافر اپنا قیدی بنا لیں تو
تمام مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہو جائے گا یہاں تک کہ اس عورت کوچھڑا لیا جائے…
آہ
صرف ایک مسلمان بیٹی… مگر آج تو ایک نہیں ہزاروں ادھڑے ہوئے آنچل… بوسنیا سے لے کر
فلسطین تک… کشمیر سے لے کر عراق تک… افغانستان سے لے کر فلسطین تک…
کیوں؟
کیوں؟… ہماری فوجیں گونگی دیواریں، کافروں کے فرنٹ لائن اتحادی… ہمارے سیاستدان
رنگیلے… اور ہمارے واعظ بے زبان… معلوم نہیں عبداﷲ بن مبارکؒ کہاں سو گئے؟… فرمایا
کرتے تھے:
کیف
القرار وکیف یہدئُ مسلم
والمسلمات
مع العدوّ المعتدی
ارے
ایک مسلمان کو کیسے سکون اور قرار آئے جبکہ… ہماری مسلمان بہنیں ظالم دشمن کے قبضے
میں ہیں…
کسی
نے رچرڈ باؤچر سے عراق اور افغانستان کی بیٹیوں کا حساب مانگا؟… کسی نے نیگرو
پونٹے سے دجلہ وفرات میں بہتی لاشوں کا جواب مانگا؟… احساس کمتری کی چمکیلی بوریاں
کیسے ان کافروں کے سامنے سر اٹھا کر بولتیں… دل میں کفر کی محبت ہے… دل میں مال کا
لالچ ہے… دل میں عہدے کی ہوس ہے… دل میں ترقی کا رعب ہے … دل میں امریکہ کی دہشت
ہے… ہاں جو دل ’’اﷲاکبر‘‘ سے خالی ہوں… جو دل ’’سبحان اﷲ‘‘ سے خالی ہوں… جو دل
’’الحمدﷲ‘‘ سے خالی ہوں… ہاں جو دل ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ سے محروم ہوں… وہ دل نہیں
ہوتے… انہیں دل کہنا د ل کی توہین ہے… جس اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیں… اندھیرا نظر
آتا ہے … صرف اندھیرا… بزدلی کا اندھیرا، احساس کمتری کا اندھیرا… اور دنیا کی ہوس
کا اندھیرا… کالم نویس انٹرنیٹ سے دنیا کی بڑی کمپنیوں کا پروفائل پڑھ کر… حرص اور
لالچ میں تڑپنے لگتے ہیں… اور پھر قلم اٹھا کر مسلمانوں کو یہی سبق دیتے ہیں کہ…
بس دنیا پرست بنو… اپنے پاس ڈھیر ساری گندگی جمع کرو… اور آخرت کو نہ مانو… کیونکہ
جو آخرت کو مانتے ہیں وہ دنیا میں ترقی نہیں کرسکتے… نعوذباﷲ، استغفراﷲ…
آفرین
ہو افغانستان والوں پر… انہوں نے اپنا ملک کھنڈر بنوالیا مگر غلامی کو قبول نہیں کیا…
افسوس ہم تو بالکل غلام بن گئے… اپنی بلڈنگیں اور سڑکیں بچانے کے لئے ہم نے اپنی
عزت کو نیلام کردیا… امریکی وزیر خارجہ یہاں ایسے بول رہے تھے جس طرح پاکستان امریکہ
کی ایک حقیر سی کالونی ہو… کتنے ظالم اور قابل نفرت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے ملک
اور قوم کو امریکہ کا غلام بنادیا ہے… آفرین ہو عراق والوں پر… چھ لاکھ لاشیں دے
کر بھی انہوں نے امریکہ کے سامنے سر نہیں جھکایا… ہم نے بھی تو زلزلے میں ایک لاکھ
افراد گنوادئیے… اگر ہم بھی اپنی اسلامی غیرت اور عزت کو بچا لیتے تو شاید اس سے
بھی کم قربانی دینی پڑتی… مگر افسوس، دنیا بھر کی اقوام میں ’’بے عزتی‘‘ کے وکٹری
اسٹینڈ پر ہم نے ہی کھڑے ہونا تھا…
کوئی
ہے جو مسلمانوں کو سمجھائے کہ… کافروں کے ملکوں میں مال کمانے کے لئے دھڑا دھڑ نہ
جاؤ… تمہاری اس حرص نے مسلمانوں کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے… کوئی ہے جو مسلمانوں
کو سمجھائے کہ محبت اور نفرت کا قرآنی معیار کیا ہے؟… لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں
کہ ہم نفرت پھیلاتے ہیں… حالانکہ ہم تو محبت کا درس دیتے ہیں… اے بندو اپنے پیدا
کرنے والے رب، اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو… اپنے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے
محبت کرو… تمام انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین سے محبت کرو… اہل بیت، صحابہ کرام
اور اولیاء اﷲ سے محبت کرو… ہر ایمان والے فرد سے محبت کرو… ہر غریب، مسکین، یتیم،
محتاج سے محبت کرو… محبت، محبت اور محبت… ہم تو جانوروں پر ظلم کو حرام سمجھتے ہیں…
ہم تو ایک چیونٹی کو بلاوجہ مارنا برا سمجھتے ہیں… مگر تم ہمارے بچوں کے چیتھڑے
اڑاؤ اور ہم تم سے محبت کریں… اس بات کو بھول جاؤ… رب کعبہ کی قسم ساری دنیا کے
مسلمان شرعی طور پر ایک جان کی طرح ہیں… تم بوسنیا کی بیٹیوں کو حرام کے حمل
اٹھانے پر مجبور کرو… تم ہماری آبادیوں پر ڈیزی کٹر بم برساؤ… اور ہم تم سے محبت
کریں… اس بات کو بھول جاؤ… تم ہمارے ملکوں کو اپنی انسانی شکارگاہیں بناؤ… اور ہم
تمہیں مہذب اور ترقی یافتہ سمجھیں… اس کو بھول جاؤ… جو لوگ تمہاری نوکری کر رہے ہیں…
انہیں یا تو تمہاری طاقت کا ڈر ہے… یا تمہارے ڈالروں کی ہوس … ہم تو الحمدﷲ تم سے
اتنا بھی نہیں ڈرتے جتنا کوئی مچھر سے ڈرتا ہے… ہم موت کے انتظار میں زندگی گزارنے
والے صحابہ کرام کی روحانی اولادیں ہیں… اور ہمیں تمہارے ڈالر غلاظت سے زیادہ
ناپاک لگتے ہیں… اس لئے تم سے محبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… میں تم سے محبت
کروں تو قندوز کے کنارے ڈیزی کٹر بم سے جل جانے والے جمعہ خان شہید کو کیا منہ
دکھاؤں… میں تم سے محبت کروں تو کنٹینر میں سسک سسک کر شہید ہونے والے سلطان بھائی
کو کیا منہ دکھاؤں…
ملا
اختر عثمانی کے قاتلو… ملا داد اﷲ کے قاتلو… ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قاتلو… تم
سے محبت کرکے میں اپنے ایمان سے محروم نہیں ہونا چاہتا… تمہارے پاس کون سی ایسی چیز
ہے جو مجھے متاثر کرے؟… اﷲ تعالیٰ کی توحید سے تم محروم ہو… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی غلامی سے تم محروم ہو… انسانی قدروں اور حیاء سے تم محروم ہو… تمہارے ڈالر
تو فانی ہیں… یہ مرنے کے بعد کسی کام نہیں آئیں گے… تمہارے منہ سے مسلمانوں کا خون
ٹپک رہا ہے… جو مجھے چین کی نیند نہیں سونے دیتا… تمہاری ترقی نے زمین کا حسن چھین
لیا ہے… تم نے فضاء کو آلودگی سے بھر دیا ہے… تم نے انسانوں کو نوٹ گننے اور گیس
بنانے والی مشینیں بنادیا ہے… تم نے دنیا کو معاشی ناہمواری کے دلدل میں پھنسا دیا
ہے… اﷲ کی قسم جس شخص کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو… اور اسے یاد ہو کہ میں نے
مرنا ہے اور مرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کو حساب دینا ہے… وہ کبھی بھی تم سے متاثر نہیں
ہوسکتا… تمہیں اپنی طاقت پر ناز ہے تو یہ ناز محض ایک فریب ہے… تم اپنے زر خرید ایجنٹوں
کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے… تم عراق اور افغانستان سمیت ہر جگہ بدترین
شکست سے دو چار ہو… تم وہ جادوگر ہو جس کی جان مسلمانوں کی ایک کمزوری میں پوشیدہ
ہے… ہاں دنیا کی محبت کی کمزوری… مسلمانوں میں ’’دنیا کی محبت‘‘ آگئی ہے… اس لئے
تمہارا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے… جس دن مسلمانوں کی اس کمزوری کا علاج ہوگیا… اس
دن تم واپس اپنی اوقات پر آجاؤ گے… امام مہدی کے لشکر میں کل بارہ ہزار افراد ہوں
گے… مگر یہ بارہ ہزار مسلمان دنیا کی محبت سے آزاد ہوں گے… ان کے نزدیک خیمہ اور
کوٹھی ایک جیسے ہوں گے… ان کے نزدیک ریشم اور ٹاٹ میں کوئی فرق نہیں ہوگا… ان کے
نزدیک کھانے کا مطلب بھوک مٹانا اور پہننے کا مطلب جسم چھپانا ہوگا… اور وہ موت کی
تلاش میں گھوم رہے ہوں گے… تب یہ لشکر دنیا کے ایک بڑے حصے کو فتح کرلے گا… آج کا
مسلمان بھی حب دنیا سے نجات پالے… فائیو اسٹار کلچر اور پروٹوکول کے خرخشوں سے
آزاد ہوجائے … شادی، لباس اور کھانے کو ضرورت کی چیز سمجھے … اور اسلام کے علاوہ
کسی چیز میں عزت نہ ڈھونڈے… اور شہادت کا طلب گار ہو تو پھر امریکہ اور یورپ کو
اپنی اصل اوقات نظر آجائے گی… آج چند فدائیوں نے دنیا کی سپر طاقتوں کا ناک میں دم
کیا ہوا ہے… زمینوں، پلاٹوں، کوٹھیوں، کاروں، جوتوں، لباسوں… اور چمکیلی چیزوں سے
آزاد یہ فدائی مجاہدین… اصل اور حقیقی مسلمان ہیں…
حکومت
والوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ… مسلمانوں کے اس ملک کو کافروں کے ہاتھوں فروخت کرنے
سے پرہیز کریں… یہ ملک آپ کی جائیداد نہیں ہے اور نہ آپ نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے…
اپنی خواہشات کی خاطر آئندہ نسلوں کو غلامی کا طوق ورثے میں دے کر جانا کسی ’’شریف
انسان‘‘ کا شیوہ نہیں ہے… اور امریکی مہمانوں سے ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ آپ…
مہمان بن کر آیا کریں، مسلمان مہمانوں کا اکرام کرتے ہیں… خواہ وہ مہمان غیر مسلم
ہی کیوں نہ ہوں… مگر ہمارے آقا بن کر آنے کی ضرورت نہیں ہے… ہم مسلمان غلامی پر
موت کو ترجیح دیتے ہیں… اور ہمارا خون بہت کڑوا ہے جو کسی کو بھی ہضم نہیں ہوسکتا…
ہاں اگر ہمارے مسلمان کہلانے والے چند لوگ آپ کے ’’وفادار غلام‘‘ بن چکے ہیں تو آپ
ان کو اپنے ساتھ لے جائیے…
٭٭٭
رشدی خبیث انگریزوں کا سر
٭ ملکہ برطانیہ
نے خبیث رشدی کو ’’ سر‘‘ کا خطاب دیا(مورخہ ۱۶جون
۲۰۰۷)
٭ خنزیر کا نام
لینے سے زبان ناپاک نہیں ہوتی، زبان نے اگر کسی کا نام لینے سے ناپاک ہونا ہوتا تو
پھر ابوجہل، بش، ملکہ برطانیہ اور ٹونی بلیئر کا نام لینے سے ناپاک ہوتی
٭ انگریزی اعزاز
کوئی عزت والی چیز نہیں
٭ گستاخانِ
رسول(ﷺ) کے قتل پرانعامات کا اعلان؟ کیا یہ طرز عمل ٹھیک ہے؟
٭ ناموس رسالت
پر امام مالکؒ کا عاشقانہ کلام
٭انگریزوں کا سر
غیر محفوظ ہو گیا ہے
٭ دینی غیرت اور
عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے لبریز ایک زندہ تحریر
تاریخ اشاعت ۱۲
جمادی الثانی ۱۴۲۸ھ
۲۹؍ جون ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۱۰۳
رشدی خبیث انگریزوں کا سر
اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت عطاء فرمائے… اصل بات
عرض کرنے سے پہلے چند تمہیدی باتیں عرضِ خدمت ہیں…
زبان ناپاک نہیں ہوتی
پہلے
آج کے کالم کا نام رکھا تھا… رشدی خنزیر، انگریزوں کا سر… مگر پھر خنزیر کا لفظ
کاٹ دیا… دراصل بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’خنزیر‘‘ کا نام لینے سے زبان ناپاک
ہوجاتی ہے… حالانکہ یہ مسئلہ غلط ہے… اگر کسی کا نام لینے سے زبان ناپاک ہوتی تو
پھر ابوجہل، شیطان اور کعب بن اشرف کا نام لینے سے ناپاک ہوتی… بش، ٹونی بلیئر اور
ملکہ برطانیہ کا نام لینے سے ناپاک ہوتی… مرزا قادیانی، فرعون اور نمرود کا نام لینے
سے ناپاک ہوتی… ان تمام لوگوں کی گندگی اور ناپاکی کے سامنے تو خنزیر بیچارہ
شرمندہ ہوجاتا ہے… انسان کی زبان چلتا پانی ہے… یہ زبان آسانی سے ناپاک نہیں ہوتی…
ہاں اگر ان ناپاک لوگوں کا نام محبت سے لیا جائے… اور ان کی محبت دل میں بھی اتاری
جائے تو اس وقت… سب کچھ ناپاک ہوجاتا ہے… رشدی ملعون کے لئے خنزیر اور سور کا لفظ
ہی کچھ مناسب تھا… لیکن سب لوگوں کو مسئلہ معلوم نہیں ہے… اس لئے مضمون کا عنوان
بدلنا پڑا… رشدی خبیث، انگریزوں کا سر… ضرور کٹے گا… ضرور کٹے گا…
انگریزی اعزاز میں
کوئی عزت نہیں
برطانیہ
کی ملکہ نے… اﷲ پاک اسے ذلیل فرمائے… ہم مسلمانوں کے بدترین دشمن ’’رشدی خبیث‘‘ کو
’’سر‘‘ کا خطاب دیا… میں نے یہ خبر پڑھی مجھے نہ دکھ ہوا نہ افسوس… میں نے کبھی
انگریزوں سے خیر کی توقع رکھی ہی نہیں… میں نے کبھی انگریزوں کو ’’اپنا‘‘ سمجھا ہی
نہیں… انگریز تو لاکھوں مسلمانوں کے قاتل اور تاریخ کے بدترین مجرم ہیں… اب رشدی جیسے
خبیث کو انگریز عزت نہیں دیں گے تو اور کون دے گا؟… ہمیں تو اس بات کا دکھ ہے کہ
رشدی زندہ ہے… ہمیں تو اس پر شرمندگی ہے کہ میرے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا
گستاخ دشمن ابھی تک سانس لے رہا ہے… چند کتّے کسی ایک کتے کی گردن میں کوئی ہار
ڈال دیں تو کتّا انسان نہیں بن جاتا… انگریز بھی ناپاک اور رشدی بھی ناپاک… ایک
قاتل نے دوسرے کی گردن میں ہار ڈالا ہے… ایک سور نے دوسرے سور کی گردن میں رسہ
ڈالا ہے… کونسا اعزاز اور کون سی عزت؟… اچھا ہوا انگریزوں نے رشدی کو اپنا ’’سر‘‘
بنادیا… ایسا ناپاک سر انگریزوں کی گردن کو بھی بری طرح غیر محفوظ بنا دے گا… میں
اس موضوع پر بالکل نہ لکھتا… کیونکہ رشدی کا نام لکھنے سے بھی دل پر چوٹ لگتی ہے… یہ
ملعون تو گندا کیڑا اور بدترین انسان ہے… مگر ہماری حکومت نے اس واقعہ پر… جس پھیکے
احتجاج کا ڈرامہ رچایا… اس نے دل کے زخم تازہ کردئیے… عجیب ظالمانہ الفاظ میں
احتجاج ہے کہ… برطانیہ کے اس طرح کے اقدامات سے انتہا پسندوں کو فائدہ پہنچے گا…
دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی… یہ احتجاج ہے یا اپنے باپ سے شکوہ… ہائے ظالمو!
تمہیں حوض کوثر والے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت وحرمت کا خیال کم… اور انتہا
پسندی کا ڈر زیادہ ہے… وہ جو پتھروں سے لہولہان ہو کر ’’امتی امتی‘‘ پکارتے تھے…
ان کی امت کے لیڈر اتنے پھیکے عاشق… اگر تمہیں آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق
کا پاس ہوتا تو برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیتے… افغانستان میں برطانیہ
اور امریکہ کے ساتھ اپنا ناپاک اتحاد توڑ دیتے… اور برطانوی سفیر کو ملک سے دفع
ہونے کے لئے کہتے… مگر کہاں؟
ابھی
کل ہی ٹونی بلیئر کی خاطر فیصل مسجد میں اذان بند کرائی… ابھی کل ہی ٹونی بلیئر سے
دینی مدارس کی اصلاح کے نام پر پیسہ لیا… یہ عجیب احتجاج ہے… بہت ظالمانہ احتجاج…
کل تک ہمارے حکمران خود کو روشن خیال ثابت کرنے کے لئے کپڑوں سے باہر نکل رہے تھے…
مگر جب پاکستان کے غیور مسلمانوں نے روشن خیالی پر تھوک دیا تو اب خود کو مسلمان
ثابت کرنے کی کوشش زوروں پر ہے… ٹھیک ہے مسلمان بننا ہے تو دروازے کھلے ہیں… مگر
پورے مسلمان بنو… اگر برطانیہ کو تکلیف پہنچانی ہے … اور اس سے احتجاج کرنا ہے تو
صرف جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پابندی ختم کرنے کا اعلان کردو… برطانیہ سر سے
پاؤں تک لرز جائے گا… تب تم اسے کہنا کہ تم نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
گستاخ دشمن کو نوازا تو ہم نے… حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے جانثاروں سے پابندی ہٹادی…
ہائے کاش تم ایسا کرتے مگر کہاں؟… مگر کہاں؟…
یہ
انعامات کیسے؟
ایک
اور تکلیف دہ معاملہ… رشدی کے قتل پر انعامات کا اعلان ہے… کیا میرے آقا رحمت دو
عالم کی عزت کو ڈالروں میں تولا جاسکتا ہے؟… یہ کیا فضول حرکت ہے؟… کوئی کہتا ہے
جو رشدی کو مارے گا اسے اتنے لاکھ ڈالر… کوئی کہتا ہے جو رشدی کو قتل کرے گا اسے
اتنا سونا… کیا انعامات مقرر کرنے والوں کے اپنے ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں؟… کیا ان کا آقا
صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہی رشتہ ہے کہ وہ آقا کے دشمنوں کو کرائے کے قاتلوں سے مروائیں…
ہاں اسلامی لشکر کا امیر انعامات کا اعلان کرتا تھا… مگر ساتھ ہی اپنے سپاہیوں کو
اس کام کے لئے آگے بھی بڑھاتا تھا… خمینی نے رشدی کے قتل پر انعام کا اعلان کیا…
مگر اپنی لاکھوں سپاہ میں سے کسی کو نہیں بھیجا… یہ کیا مذاق ہے؟… ہر مسلمان کا
فرض ہے کہ وہ رشدی کو قتل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے… کئی مسلمانوں نے کوشش کی
مگر کامیاب نہ ہوسکے… اﷲ پاک ان کو اجر عطاء فرمائے… اور کئی ایک کوشش میں ہیں…
انعامات کا اعلان کرنے والے تو چھپ جائیں گے… کوئی رشدی کے قاتلوں کے گھر پانی تک
نہیں پہنچائے گا… مگر خوش نصیب لوگ اس کی تاک میں لگے رہیں گے… بالآخر کوئی نہ کوئی
تو پہنچ ہی جائے گا… تب جو پہنچے گا وہ حوض کوثر پر آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے
قدموں میں بیٹھا ہوگا… ہاں اسی انعام کی خاطر کوئی نہ کوئی یہ سعادت پا ہی لے گا…
ڈالروں کے انعامات کا اعلان کرنے والو… بس کرو، مزید مذاق اسلام کی عزت کے ساتھ نہ
کرو… اگر تمہارے دل میں درد ہے تو یہ ڈالر ابھی سے جاکر ان عزت مند مسلمانوں کو دے
دو… جو افغانستان اور عراق میں برطانیہ اور امریکہ کو ماں کا دودھ یاد دلا رہے ہیں…
وہ ان پیسوں سے اسلحہ خرید لیں گے… اور تمہارا اجر اﷲ تعالیٰ کے ہاں پکا ہوجائے
گا… کاش ایسا ہوتا… مگر کہاں؟… مگر کہاں؟…
عشق
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر خطرات سے ٹکرانے والے مسلمان بہت تھوڑے ہیں…
امام
مالکؒ کا عاشقانہ کلام
عباسی
خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے پوچھا… نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں
گستاخی کرنے والے کا کیا حکم ہے؟…
امام
مالکؒ نے ارشاد فرمایا:
ما
بقائُ الامّۃ بعد شتمِ نبیّہا
اس
امت کی کیا زندگی ہے جس کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں۔
امام
قرطبیؒ اپنی مایہ ناز تفسیر میں یہ جملہ تحریر فرماتے ہیں:
اجمع
عامۃ اہل العلم علیٰ انّ من سبّ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم علیہ القتل (القرطبی)
یعنی
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی بکنے والے کی سزا اجماعی طور پر
قتل ہے… امت مسلمہ اس مسئلے میں شروع سے بہت حساس ہے… اور یہ اس امت کی خوش بختی
ہے… رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گستاخ کی سزا قتل ہے… یہ مسئلہ قرآن پاک نے بھی بیان
فرمایا ہے… حدیث رسول میں بھی اس کا ثبوت ہے… اور حضرات صحابہ کرام نے عملی طور پر
اس مسئلے کو بارہا نافذ فرمایا ہے … فتح مکہ کے موقع پر سب کو معاف کردیا گیا… مگر
گستاخان رسول کو کعبۃ اﷲ میں بھی نہیں بخشا گیا… وجہ صاف ہے کہ اس ناپاک جرم سے زمین
وآسمان لرز اٹھتے ہیں… اور جب تک ایسے مجرموں کو مار نہ دیا جائے اس وقت تک امت
مسلمہ کی گردنوں پر بوجھ رہتا ہے… اس وقت بدنصیبی سے مسلمانوں کے پاس کسی جگہ بھی
اپنی حکومت اور اپنی فوج نہیں ہے… ہاں نام کی اسلامی حکومتیں ہیں جن کا کام کافروں
کی نوکری، چاکری کرنا… اور مسلمانوں کو مارنا ہے… اس کے باوجود الحمدﷲ مسلمان جہاد
کر رہے ہیں… قربانیاں دے رہے ہیں… اور اس کی برکت ہے کہ… سلمان رشدی حقیر چوہے کی
طرح کانپتا پھرتا ہے… وہ ہر ملک میں نہیں جاسکتا… وہ آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں
سکتا… اس کافر پر دنیا کی زندگی بھی تنگ ہوچکی ہے… اور آگے بھی خوفناک آگ دہک رہی
ہے… ہزاروں عقابی فدائی آنکھیں رشدی خبیث کے تعاقب میں ہیں… کبھی تو کسی کے ہاتھ
آہی جائے گا یہ چوہا… اور پھر عبرتناک موت مارا جائے گا… کروڑوں درود و سلام میرے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم پر… ان کا دشمن مارا جائے گا تو آسمان بھی مسکرائے گا… زمین
بھی خوشی سے سرشار ہوجائے گی… ہاں کسی مسلمان ماں نے تو … کسی ایسے شیر کو دودھ
پلایا ہوگا… جو رشدی کو مار دے گا… یا رشدی کو مروا دے گا…
انگریزوں
کاسر
اسلام
کے علاوہ دوسرے مذاہب میں … دین اور مذہب کو گالی دینا اور پیغمبروں کا مذاق اڑانا
کچھ جرم نہیں… جب یہ مذاہب سچے تھے اس وقت تو یقینا یہ سب کچھ جرم ہوگا… مگر پھر
ظالموں نے اپنے دین بدل ڈالے… انہوں نے گستاخوں کو لگام نہ دی… چنانچہ دین محفوظ
نہ رہ سکے… گستاخ شروع میں گستاخ ہوتا ہے… لیکن اگر اس کو نہ مارا جائے… اور نفرت
کا نشان نہ بنایا جائے تو وہ… لیڈر اور رہبر بن جاتا ہے… اور اس کی بکواس مذہب کا
حصہ قرار پاتی ہے… آپ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابیں پڑھ لیں… توبہ توبہ… ہر
گستاخی مذہب کا حصہ بن گئی … آفرین ہو اسلام پر… اس نے مسئلہ سمجھایا کہ ایسے خبیثوں،
ملعونوں کو ماردو… آفرین ہو اسلام کے جانثاروں پر کہ انہوں نے ایسے ہر خبیث کو
مارا یا نفرت کا نشانہ بنایا… چنانچہ اسلام الحمدﷲ محفوظ ہے… کوئی گستاخی اور بے
ادبی دین کاحصہ نہیں بن سکی… مگر اس بات کو امریکی اور برطانوی خچر کیسے سمجھیں…
ان کے ہاں تو عزت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں… صدر کلنٹن نے اپنی سوانح حیات میں
لکھا ہے کہ… میرے باپ سے طلاق … لینے کے بعد میری ماں ایک کالے بالوں والے شخص سے
ملتی تھی… وہ اکثر ہمارے گھر آتا تھا… ایک بار اس نے مجھے گالف کھیلنے والی اسٹک
بھی تحفے میں دی… ایک اسٹک اور کلنٹن خوش… واہ رے عزت، واہ رے غیرت… مگر برطانیہ
کے انگریز اپنی ملکہ کے بارے میں… پچھتر گز کی ناک رکھتے ہیں… لندن کے ہائیڈپارک میں
ہر کسی کو گالی دی جاسکتی ہے … مگر برطانیہ کی ملکہ کو نہیں… ہم مسلمان تو گالیاں
دینے کے عادی نہیں ہیں… ورنہ ملکہ کی حقیقت اور اس کا شجرہ نسب کھول کر رکھ دیتے…
خیر بات کو مختصر کرتے ہیں… ہمارے لوگ ہر گورے کو انگریز کہتے ہیں … حالانکہ انگریز
ایک خاص اور گندی قوم کا نام ہے… جس کا وطن برطانیہ ہے… اسی برطانیہ کے انگریزوں
نے سلمان رشدی کو ’’سر‘‘ کا خطاب دے کر… اس کو ’’جناب‘‘ قرار دیا ہے… ہم تو سر کے
لفظ کو اردو ہی میں لیں گے… یعنی اب برطانیہ نے رشدی خبیث کو اپنا ’’سر‘‘ بنالیا
ہے… میرے خیال میں یہ برطانیہ کی تباہی کا آغاز ہے… رشدی کی لعنت اب برطانیہ کو لے
ڈوبے گی… ماضی میں بھی برطانیہ نے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے… تندوروں میں
مسلمانوں کے جسم جلائے… ترکی کی خلافت عثمانیہ کوختم کیا… اور بے شمار مظالم … بے
شمار جرائم… اب مسلمانوں کے سامنے برطانیہ کا دھڑ بھی مجرم ہے… اور اس کا سر بھی
مجرم ہے… ایسا لگتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے شہداء کی روحوں نے کروٹ لی ہے… میں اﷲ تعالیٰ کے
بھروسے پر کہتا ہوں کہ … برطانیہ کو یہ سب کچھ بہت مہنگا پڑے گا… بہت مہنگا… غلامی
کے اثرات ساٹھ سال کے شوگر زدہ بوڑھے کی طرح کھانس رہے ہیں… اور آزادی کا سورج
افغانستان کے پہاڑوں کے پیچھے سے مسکراتا ہوا طلوع ہورہا ہے… وہ دیکھو دجلہ اور
فرات کے شفاف پانی میں… آزادی کے سورج کا عکس چمک رہا ہے…
اﷲ
اکبر کبیرا … اﷲ اکبر کبیرا…
٭٭٭
منافقوں کے پردے
چاک کرنے والی
٭کیا ہم اپنی ہر
عبادت اور نیکی کا بدلہ دنیا ہی میں دیکھنا چاہتے ہیں؟
٭حکمرانوں کے عجیب
عبرتناک حالات
٭’’سورۂ توبہ‘‘
کا ایک مفید اور دلکش خلاصہ
۱۔’’ جہاد فی سبیل
اﷲ‘‘ کی حکمتیں
۲۔وہ پانچ باتیں
جو جہاد سے رکنے کا عذر نہیں بن سکتیں
۳۔اہل کتاب کے
خلاف جہاد
۴۔خود کو جہاد سے
مستثنی رکھنا نفاق کی علامت ہے
۵۔جہاد کی بدولت
منافق بے نقاب ہو جاتے ہیں
۶۔ترک جہاد پر
سخت وعیدیں
۷۔فرضیت و افضلیت
جہاد
۸۔طریق جنگ کی
تعلیم
۹۔سورۂ انفال کا
تتمہ اور مسلمانوں کا ایک خالص مرکز
۱۰۔سورۂ
برأۃ کے چھ حصے
تاریخ اشاعت۲۰
جمادی الثانی ۱۴۲۸ھ
۶جولائی ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر ۱۰۴
منافقوں کے پردے
چاک کرنے والی
اﷲ
تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرامؓ کو عجیب مزاج عطاء فرمایا… وہ دین کا کام کرکے اس کا
بدلہ دنیا میں نہیں چاہتے تھے… کیا آج کوئی ایسا انسان موجود ہے؟… ہم تو ہر عبادت،
ہر نیک کام کا فوری بدلہ دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں… حضرات صحابہ کرام مزے کی زندگی
گزار رہے تھے مگر جب انہوں نے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کی تو ان
پر تکلیفوں کے طوفان ٹوٹ پڑے… اسلام قبول کرنے سے پہلے کس میں ہمت تھی کہ حضرت صدیق
اکبرؓ پر ہاتھ اٹھاتا؟… وہ مکہ کے مالدار اور معزز ترین لوگوں میں سے تھے… مگر جب
اسلام قبول کیا تو ان کو اتنا مارا جاتا تھا کہ بے ہوش ہوجاتے تھے… اور چہرہ اتنا
سوج جاتا تھا کہ جاننے والے بھی نہ پہچان سکتے تھے… مگر وفاداری دیکھیں… جیسے ہی
ہوش آتا آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا پوچھتے… اور جب تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خیریت
معلوم نہ ہوجاتی نہ کھانا کھاتے نہ دوا لیتے… ان کی سوچ کیا تھی؟… یہ نہیں کہ حضور
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی وجہ سے ہم پر تکلیفیں آرہی ہیں… وہ ایسی سوچ کو کفر
سمجھتے تھے… ان کے دل اور دماغ میں تو ایک ہی بات تھی کہ… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا
ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں اﷲتعالیٰ کا راستہ… ہدایت کا راستہ دکھایا… مفاد
پرستی والا مذہب تو مشرکوں کا ہے جودنیا کے مفادات کے لئے پوجا کرتے ہیں… عبادت
کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں… مگر اب مسلمانوں میں شرک کے یہ جراثیم پھیل رہے ہیں…
اب ان پیروں، فقیروں کے ہاں مسلمانوں کا ہجوم ہوتا ہے جو… مستقبل کی پیشین گوئیاں
کرتے ہیں، قسمت کا حال بتاتے ہیں… دنیا بنانے کے وظیفے اور طریقے سمجھاتے ہیں… اور
دنیا کے مسائل حل کرتے ہیں… ان کے ہاں اسلام کی عظمت، دین کی عزت، شریعت کی غیرت،
مسلمانوں کی مظلومیت… اور دین کی خاطر قربانی کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا… اب
مسلمانوں کا یہ مزاج بن رہا ہے کہ جس عبادت کے بعد کوئی تکلیف آجائے وہ عبادت چھوڑ
دیتے ہیں… دین کے جس کام کے بعد کوئی آزمائش آجائے اسے ترک کردیتے ہیں… اﷲ پاک ہم
سب کوقرآن پاک کی سمجھ عطاء فرمائے… حضرت ایوب علیہ السلام کی تکالیف، حضرت یونس
علیہ السلام کی آزمائش اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات کو ہم بھول گئے…
اگر عبادت اور دین کی خدمت کا مطلب دنیا کے مزے پانا ہے تو پھر… ان انبیاء علیہم
السلام کے اعمال میں کیا کمی تھی؟… وہ تو عبادت کے بہت اونچے مقام پر فائز تھے … خیر
یہ ایک لمبا موضوع ہے… آج آپ کسی مسلمان کو دو وظیفے بتائیں… ایک کا فائدہ یہ کہ
دنیا خوب ملے گی، روزی بارش کی طرح برسے گی… اور دوسرے کا فائدہ یہ کہ قبر کے عذاب
سے حفاظت ہوگی… آپ دیکھیں گے کہ وہ پہلے عمل کو بہت جلدی اور رغبت سے کرے گا… اور
دوسرے عمل کو شاید کرے ہی نہ یا کیا تو بعد میں اور بے رغبتی سے… دنیا کی اسی فکر
نے ہمیں دنیا کا غلام بنادیا ہے… آج پھر ملک میں سیلاب کے ریلے ہیں… کبھی زلزلے،
کبھی سیلاب اور کبھی حکومتی آپریشن… ہم سب کو مل کر خوب دعاء کرنی چاہئے… خوب توبہ
کرنی چاہئے… اور ان مواقع پر ایک دوسرے کے کام آنا چاہئے… ہر مسلمان مرد اور عورت
کم از کم ان مصیبت زدہ لوگوں کے لئے دعاء کا تو اہتمام کرے… ہم ایک امت ہیں… ایک
جسم کی طرح ہیں… ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی تکلیف کو اپنے اوپر محسوس کرنا
چاہئے… اس موقع پر حکومت پر کیا تنقید کی جائے… حکومت کے لوگ تو سیلاب اور زلزلے
سے بھی بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں… دن رات گناہ کرنا… جھوٹ بولنا، سود کی لعنت کو
عام کرنا، غریبوں کا خون نچوڑ کر بلڈنگیں بنانا، ملک کو لوٹ کر اپنے غیر ملکی
اکاؤنٹس کے پیٹ بھرنا، کافروں کے سامنے صبح، شام جھکنا… اسلام کے دشمنوں کی مدد
کرنا… اﷲ پاک رحم فرمائے یہ کتنی سخت مصیبتیں ہیں جن میں حکمران طبقہ مبتلا ہے… ان
کے دلوں میں بے سکونی کی آگ جل رہی ہے… اور وہ چند دن بعد آنے والی قبر سے غافل ہیں…
ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے گناہ کرتے ہیں… اور ان کی بیویاں ان کے قابو سے
باہر ہیں… وہ ایک ایسے عذاب میں پھنس چکے ہیں … جس سے نکلنے کے راستے بہت کم ہیں…
ان کے گرد مفاد پرست جانوروں کے غول ہیں… وہ خود پروٹوکول آفیسروں کے ہاتھوں یرغمال
ہیں… شیطان ان کے ساتھ کھیلتا ہے… اور نفس ان پر سانپ کی طرح پھنکارتا ہے…
اﷲ
پاک ہم سب پر رحم فرمائے… بات حضرات صحابہ کرام کی چل رہی تھی… انہوں نے ہر سعادت
کو پالیا مگر پھر بھی ان میں قربانی دینے کا جذبہ بڑھتا چلا گیا… دراصل وہ اپنی نیکیوں
کا پورا بدلہ چاہتے تھے… اور نیکیوں کا پورا بدلہ اﷲ تعالیٰ کی رضا ہے… اور اﷲ
تعالیٰ کی رضا جنت سے بھی بڑی نعمت ہے… حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی جھولی میں کونسی
سعادت نہیں تھی؟… وہ السابقون الاوّلون میں سے تھے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
مدینہ منورہ میں میزبان تھے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شرکت کی سعادت
سے بار بار منور ہوئے تھے… مگر وہ بڑھاپے میں بھی جہاد میں چلتے رہے… کوئی سمجھاتا
کہ اب تو بس کریں تو سورۃ توبہ کی ایک آیت سناتے کہ یہ آیت گھر نہیں بیٹھنے دیتی…
حضرت مقداد بن اسودؓ کتنے بڑے صحابی ہیں… اﷲاکبر کیا کہنے ان کی سعادت کے… بڑھاپے
میں جسم بھاری ہوگیا تھا مگر جہاد میں جارہے تھے… آج لوگ کہتے ہیں کہ جہاد کرنا
حکومت کا کام ہے… اور خود مزے سے گھر بیٹھ جاتے ہیں… دیکھنے والوں نے دیکھا کہ
حضرت مقدادؓ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، جسم مبارک بھاری ہوگیا ہے… انہوں نے سمجھایا کہ
آپ نہ جائیں… اس وقت مجاہدین کی کمی نہیں تھی… اور مسلمانوں کا کوئی علاقہ کافروں
کے قبضہ میں بھی نہ تھا… اسلامی حکومتیں جہاد کے احیاء کو اپنا پہلا کام سمجھتی تھیں…
چنانچہ جہاد فرض کفایہ تھا… فرمانے لگے یہ سورۃ توبہ جو منافقوں کے احوال کرید کرید
کر بیان کرتی ہے… یہ مجھے گھر نہیں بیٹھنے دیتی… ہاں سورۃ توبہ نہیں مانتی کہ میں
گھر بیٹھ جاؤں… چنانچہ جہاد پر نکل کھڑے ہوئے… بے شک سورۃ توبہ جہاد کو عجیب طریقے
سے سمجھاتی ہے… اﷲ پاک کی توفیق سے بندہ نے پچھلے چار ہفتے سورۃ توبہ کے ساتھ
گذارے… اﷲ اکبر کبیرا… کیسی عجیب سورۃ ہے… انسان کو پسینہ آجاتا ہے اور بار بار ایک
ہی دعاء دل سے نکلتی ہے کہ… یا اﷲ نفاق سے بچا، یا اﷲ نفاق سے بچا… سورۃ توبہ ہر
مسلمان پر (جو سخت معذور نہ ہو) جہاد اور اس کی تیاری کو فرض کرتی ہے… اور ان
لوگوں کو منافق بتاتی ہے جو جہاد کی بالکل تیاری نہیں رکھتے… ان لوگوں کو بھی
منافق بتاتی ہے جو کہتے ہیں… اگر ہم جہاد میں گئے تو ہم کمزور ہیں، گناہ کر بیٹھیں
گے اور ہم جہاد کا حق ادا نہیں کرسکیں گے… اسی طرح وہ منافقوں کی قسمیں بیان کرتی
چلی جاتی ہے کرتی چلی جاتی ہے… صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم ڈر گئے کہ یہ سورۃ تو
کسی کو نہیں بخشے گی…
دراصل
سورۃ توبہ ایک سوال پوچھتی ہے… سوال یہ کہ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم خود جہاد میں
لڑنے جارہے ہیں… اب بتاؤ جو نہیں جاتے اور خود کو جہاد سے بالاتر سمجھتے ہیں ان کے
پاس کیا عذر باقی رہ جاتا ہے؟… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑا کوئی معلم ہے؟…
آپ سے بڑا کوئی داعی ہے؟… آپ سے بڑا کوئی ذاکر ہے؟… آپ سے بڑا کوئی مرشد ہے؟… آپ
سے زیادہ کوئی مصروف ہے؟ آپ سے زیادہ کسی پر ذمہ داری ہے؟… آپ سے بڑا کوئی مبلغ
ہے؟ … آپ سے زیادہ کوئی قیمتی ہے؟… نہیں نہیں بالکل نہیں… تو پھر جو نہیں جارہے یہ
کون ہیں؟… چنانچہ ایسے لوگوں کو منافق کہنا کوئی سخت بات نہیں ہے… جو دین کے نام
پر دنیا کو مقصود بنالیں… جو اﷲ تعالیٰ سے محبت کے دعوے تو کریں مگر موت یعنی اﷲ
تعالیٰ سے ملاقات سے ڈریں… یہ کیسے مسلمان ہیں؟… ایسے ہی مسلمان کافروں کے ہاتھوں
بِکتے ہیں… اور دین سے بے وفائی کرتے ہیں … سورۃ توبہ کے اس مطالعے کے دوران بندہ
نے اس کے چند خلاصے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے لکھ لئے… تاکہ ان کی اس
مبارک سورۃ کی طرف توجہ ہوجائے… سورۃ توبہ نے منافق مردوں کے ساتھ ساتھ منافق
عورتوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے… ہاں عورتیں بھی منافقہ ہوتی ہیں… جہاد کے راستے کی
رکاوٹ، دین کے احکامات کی باغی… اور دنیا پرست… اﷲ پاک ہم سب کو نفاق سے بچائے… اﷲ
کے لئے سورۃ توبہ کو ایک بار غور سے، دل کی آنکھوں سے پڑھ لیں… یہ سورۃ اﷲ پاک نے
ہم مسلمانوں ہی کے لئے نازل فرمائی ہے تاکہ ہم… اﷲ پاک کی مرضی اور اس کے احکامات
کو سمجھیں… رسالے، ڈائجسٹ بہت پڑھ لئے، اخباری کالم بہت پڑھ لئے، فون اور کمپیوٹر
سے بہت کھیل لیا… اب چند لمحے سورۃ توبہ کے لئے بلکہ اپنی نجات کے لئے بھی ہم نکالیں…
بندہ نے سورۃ توبہ کے جو چند خلاصے جمع کئے ہیں ان میں سے ایک آپ کی خدمت میں آج کی
مجلس میں پیش کر رہا ہے… آپ خود بھی پڑھیں، سمجھیں اور دوسرے مسلمانوں تک بھی
پہنچائیں… اور اس خلاصے کی روشنی میں پوری سورۃ توبہ کو کسی بھی مستند ترجمے اور
تفسیر کی مدد سے پڑھ لیں…
سورۃ توبہ کے بعض
جہادی مضامین کا عجیب خلاصہ
سورۃ
توبہ اوّل تا آخر جہادی معارف اور مضامین سے لبریز ہے اور یہ سورۃ چونکہ آخر میں
نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے اس لئے اس کے تمام مضامین محکم، قطعی اور حرف آخر
ہیں… یہ سورۃ مبارکہ اسلام کے کئی اہم غزوات کو بیان فرماتی ہے… جیسے فتح مکہ،
غزوۂ تبوک غزوۂ حنین… حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سورۃ کی آیت قاتلوہم یعذبہم
اﷲ بایدیکم (آیت۱۴) میں فتح مکہ کی ترغیب ہے… اور آیت انفروا خفافاً وثقالاً (آیت۴۱) کے
ذریعے مشکل ترین جہادی سفر غزوۂ تبوک کی ترغیب ہے یعنی اس سورۃ میں جہاد کا مکمل
نصاب موجود ہے… جہاد کی فرضیت، جہاد کی ترغیب، فرضیت جہاد کی وجوہات اور حکمتیں،
جہاد کے فضائل، جہاد چھوڑنے کی وعیدیں، جہاد کرنے کے فائدے، شہادت کے عجیب فضائل،
مشرکین کے خلاف جہاد، اہل کتاب کے خلاف جہاد، جہاد کے بارے میں منافقین کا طرز
عمل، جہاد کے مخالف منافقین کی اقسام، ان منافقین کے سدا بہار بہانے، مسلمانوں کے
لئے ایک عظیم اور خالص مرکز کا قیام، فضیلت ہجرت ونصرت، جہاد میں مال خرچ کرنے کی
اہمیت اور فضیلت ، جنگ کرنے کا طریقہ ، منافقین کا طرز عمل اور ان سے نمٹنے کے طریقے
اور بہت کچھ…
طلبۂ
علم کی سہولت کے لئے سورۃ مبارکہ کے بعض ضروری جہادی مضامین کا خلاصہ درج ذیل ہے،
ہر مضمون کے آخر میں اس آیت کا نمبر بھی لکھا جارہا ہے جس میں یہ مضمون مذکور ہے:
۱۔ جہاد فی سبیل اﷲ کی سات حکمتیں اور فائدے
قتال
تو نام ہے لڑائی کا۔ کیا اس لڑائی میں کچھ فائدے اور حکمتیں ہیں کہ اﷲ پاک نے اس
کا حکم دیا؟ جی ہاں قتال فی سبیل اﷲ میں بہت عظیم الشان ظاہری وباطنی حکمتیں اور
فائدے ہیں سورۃ توبہ کی آیت (۱۴)
اور (۱۵)
میں سات بہت اونچی حکمتیں بیان فرمائی گئی ہیں:
۲۔ وہ پانچ باتیں جو جہاد سے رکنے کا عذر نہیں بن سکتیں
پانچ
چیزیں ایسی ہیں جن کو عذر قرار دے کر لوگ جہاد سے رک سکتے ہیں سورۃ توبہ نے بیان
فرمایا کہ یہ پانچ عذر جہاد چھوڑنے کا بہانہ نہیں بن سکتے :
(۱) دشمنان
اسلام اگر بعض نیک کام کرتے ہوں تو ان کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد رک نہیں جائے گا،
مشرکین مکہ حرم شریف کے مجاور اور خادم تھے مگر اس نیکی کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد
ترک نہیں کیا گیا۔ آیت(۱۷)
(۲) مسلمان
مسجد میں بیٹھ کر ذکر و فکر کرنے اور مساجد آباد رکھنے کو جہاد چھوڑنے کا عذر نہیں
بنا سکتے۔ آیت(۱۹)
(۳) دشمنان
اسلام سے اگر کوئی دنیاوی تعلق یا خونی رشتہ ہو تو اس کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد
بند نہیں ہوگا۔ آیت(۲۳)
(۴) قلت
تعداد مانع جہاد نہیں ہوسکتی یعنی کم تعداد کو عذر بنا کر جہاد چھوڑنا ٹھیک نہیں
ہے۔ آیت(۳۵)
(۵) اگر
دشمنان اسلام سے جہاد کرنے میں مسلمانوں کو اپنے اقتصادی اور مالی نقصان کا خطرہ
ہو تو اس کی وجہ سے جہاد ترک نہیں کیا جائے گا یعنی اگر دشمنان اسلام سے مسلمانوں
کو کچھ مالی مفادات مل رہے ہوں اور ان کے خلاف جہاد کرنے سے ان مفادات کو نقصان
پہنچنے کا خطرہ ہو تو اس کی قطعاً پرواہ نہ کی جائے۔ آیت(۲۸)(مفہوم
تقریر حضرت لاہوریؒ)
۳۔ اہل کتاب کے خلاف جہاد
اہل
کتاب یہود ونصاریٰ کے خلاف بھی جہاد ہوگا… سورۃ توبہ نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے
کہ اہل کتاب کے خلاف کب تک جہاد جاری رکھا جائے گا؟… اہل کتاب کے خلاف جہاد کیوں کیا
جاتا ہے؟… اہل کتاب میں کون کون سی ایسی خرابیاں آگئی ہیں جن کی وجہ سے ان کو
مغلوب کرنا ضروری ہے؟ (ورنہ ان کی یہ خرابیاں دنیا میں پھیل جائیں گی) آیت (۲۹ تا
۳۵)
۴۔ اپنے آپ کو جہاد سے مستثنیٰ رکھنا نفاق کی علامت ہے
کسی
شرعی عذر کے بغیر جہاد سے رخصت مانگنا اور خود کو جہاد سے مستثنیٰ رکھنا نفاق کی
علامت ہے اس اہم مضمون کا آغاز آیت (۴۵)
سے ہوتا ہے… اور پھر سورۃ توبہ نے وہ پانچ طرح کے افراد بیان
فرمائے ہیں جو خود کو جہاد سے مستثنیٰ رکھتے ہیں اور نفاق کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں:
(۱) وہ
لوگ جو جہاد میں نکلنے کی تیاری نہیں کرتے پھر جب جہاد کا وقت آتا ہے تو بہانے بنا
کر خود کو مستثنیٰ رکھتے ہیں اور رخصت مانگتے ہیں۔ آیت(۴۶)
(۲) وہ
لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم جہاد میں نکل بھی گئے تو ہم کمزور ہیں ہم کچھ نہیں کرسکیں
گے بلکہ ہم گناہوں اور فتنوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آیت (۴۹)
(۳) وہ
جو اﷲ پاک کی رضا کے لئے نہیں مال کی خاطر جہاد کرتے ہیں بس جب ان کو مال کم ملتا
ہے تو بگڑ جاتے ہیں اور ناراض ہو بیٹھتے ہیں۔ آیت (۵۸)
(۴) وہ
جو حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم خیال نہیں ہیں اور وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے
بدگمان ہیں، ایسے لوگ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی خاطر لڑنے کو درست نہیں
سمجھتے۔ آیت (۶۱)
(۵) وہ
جو عہد کرتے ہیں کہ ہمیں جب وسعت اور آسانی ملے گی تو ہم جہاد کریں گے پھر جب وسعت
مل جاتی ہے تو اسی کے مزے میں پڑ جاتے ہیں اور جہاد نہیں کرتے۔ آیت (۷۵)(مفہوم
تقریر حضرت لاہوریؒ)
۵۔ جہاد کی بدولت منافق بے نقاب ہوجاتے ہیں
بہت
سے منافق جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور جماعت اسلام میں گھسے رہتے ہیں ان کی اصل
حقیقت تب بے نقاب ہوتی ہے جب انہیں اسلام کے اہم فریضے جہاد فی سبیل اﷲ میں جانی
اور مالی شرکت کے لئے بلایا جاتا ہے… نفاق اور منافقت کو سمجھنے کے لئے سورۂ توبہ
کے مضامین بے حد صاف، واضح اور مفصل ہیں… اس میں منافقین کی اقسام کا بھی بیان ہے۔
مثلاً آیت (۱۰۱) میں ان منافقین کا تعارف ہے جو ’’ناقابل معافی‘‘ ہیں کیونکہ
ان کا نفاق اعتقادی ہے اور ان کا نصب العین افتراق بین المسلمین ہے… جبکہ اس کے
بعد والی آیت میں کئی مفسرین کے نزدیک ان منافقین کا بیان ہے جو ’’قابل معافی‘‘ ہیں
کیونکہ ان کا نفاق عادی ہے اعتقادی نہیں۔ اس طرح آیت (۶۷) میں
منافقین کا نصب العین اور ان کی سزا بیان کی گئی ہے جبکہ آیت (۱۰۷) میں
مسجد ضرار کا تذکرہ ہے کہ کس طرح سے مسلمانوں میں گھسے ہوئے منافق اسلام دشمن
کافروں کو مسلمانوں کے خلاف مدد، تعاون، مراکز اور اڈے فراہم کرتے ہیں۔ الغرض
منافقین کی سوچ، ان کے خیالات ان کے طرز عمل، ان کے منشور اور ان کے طریقہ کار کو
سمجھنے کے لئے سورۂ توبہ کے مضامین حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اوپر چند مثالیں پیش
کردی گئی ہیں باقی تفصیل آیات کے ترجمے، تفسیر اور معارف سے انشاء اﷲ واضح ہوجائے
گی کیونکہ اگر ان تمام مضامین کا صرف خلاصہ بھی لکھا جائے تو وہ بھی بہت مفصل
ہوجائے گا۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نفاق، منافقت اور منافقوں سے حفاظت کے لئے
سورۃ توبہ کو اچھی طرح پڑھے اور سمجھے۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ منافقین کی جہاد سے دوری،
جہاد سے نفرت اور پہلو تہی، جہاد میں نہ جانے کے لئے ان کے نقلی عذر اور بہانے اور
ان کے بہانوں کا جواب۔ یہ سورۃ توبہ کا ایک اہم ترین موضوع ہے۔
۶۔ ترک جہاد پر سخت وعیدیں
سورۂ
توبہ کا ایک موضوع فریضہ جہاد کے ترک پر وعیدیں ہیں۔ ظاہر بات ہے یہ وعیدیں غزوۂ
تبوک کے بیان کے ضمن میں آئی ہیں تو اس سے جہاد کا معنی بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کون
سا جہاد چھوڑنے پر یہ تمام وعیدیں آئی ہیں… ترک جہاد پر یہ وعیدیں کئی آیات میں
وارد ہوئی ہیں مثلاً آیت (۱۳)، (۱۶)، (۲۴)، (۳۸)، (۳۹)، (۴۲)، (۴۵)، (۴۶)، (۴۷)، (۸۷)، (۹۳)، (۹۵)…
اور بہت سی آیات…
دراصل
سورۂ توبہ میں ترک جہاد پر منافقین کو بہت سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں چنانچہ اگر
ان تمام آیات کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ فہرست کافی لمبی ہوجائے گی۔
تمام
مسلمانوں سے گذارش ہے کہ وہ ان آیات کو جن کے نمبرات یہاں عرض کیے گئے ہیں ایک بار
توجہ سے پڑھ لیں اور پھر ان آیات کی روشنی میں جہاد کے بارے میں اپنے عقیدے، فکر
اور عمل کی اصلاح فرمائیں۔
۷۔ فرضیت وافضلیت جہاد
سورۂ
توبہ جہاد فی سبیل اﷲ کی فرضیت کو بھی بیان فرماتی ہے اور دوسرے اعمال پر جہاد کی
افضلیت کو بھی چنانچہ ملاحظہ کریں درج ذیل آیات: (۱۹)، (۲۰)، (۲۱)، (۲۲)، (۸۸)، (۸۹)، (۱۱۱)، (۱۱۲)، (۱۳۰)، (۱۳۱)، (۳۹)، (۳۶)، (۴۱)، (۴۴)، (۷۱)، (۷۲)، (۷۳)، (۱۱۷)، (۱۲۳) اور
دیگر کئی آیات۔
اگر
صرف یہی آیات ترجمے اور مختصر تشریح کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لی جائیں تو انشاء اﷲ
جہاد کی فرضیت، فضیلت اور عظمت سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔
۸۔ طریق جنگ کی تعلیم
سورۂ
توبہ میں مسلمانوں کو جنگ کے طریقے کی تعلیم بھی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیے
آیات (۱۲)،(۱۲۳)
۹۔ سورۂ انفال کا تتمہ اور مسلمانوں کا ایک خالص مرکز
سورۂ
انفال کے آخر میں مسلمانوں کی ایک عالمی برادری اور جماعت قائم فرمائی گئی تھی اب
اس جماعت اور برادری کے لئے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی جو ان ہی کے لئے خاص اور
خالص ہو اس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے سرزمین حجاز کو منتخب فرمایا اور اس مرکز کی ترتیب
کا پورا نقشہ سورۂ برأۃ میں نازل فرمادیا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے
خلفاء کرام نے اسی نقشے کے تحت اسلامی مرکز کو قائم فرمایا جس کے بعد اسلام پوری
دنیا پر چھاتا چلاگیا۔
سورۂ
برأۃ کی ابتدائی آیات میں مسلمانوں کے لئے خالص مسلمان بننے اور زمین پر اﷲ تعالیٰ
کے نظام کو قائم کرنے کے لئے واضح حکم اور سبق موجود ہے۔
۱۰۔ سورۂ برأۃ کے
چھ حصے
شیخ
عبداﷲ عزام شہیدؒ کے بیان کے مطابق سورۃ توبہ چھ اہم موضوعات پر مشتمل ہے:
(۱) المقطع
الاوّل: من الآیۃ الاولیٰ الی الایۃ الثامنۃ والعشرین وہذہ کلہا تعلن الحرب علی
مشرکی الجزیرۃ العربیۃ الخ۔
یعنی
سورۂ برأۃ کا پہلا حصہ اور موضوع جو ابتدائی اٹھائیس آیات پر مشتمل ہے وہ ہے
مشرکین عرب سے عمومی اعلان جنگ، معاہدوں وغیرہ کے ختم ہونے کی تفصیلات، چار مہینے
کی مہلت، مشرکین سے قتال کرنے کی وجوہات وغیرہ۔
(۲) المقطع
الثانی: حملۃ شدیدۃ علی اہل الکتاب، مبررات قتالہم
یعنی
سورۃ کا دوسرا حصہ اور موضوع اہل کتاب کے خلاف قتال کے حکم اور ان کے خلاف قتال کی
وجوہات پر مشتمل ہے۔
(۳) المقطع
الثالث: تہدید ووعید وتانیب وتبکیت للذین یقعدون عن الجہاد مالکم اذا قیل لکم
انفروا فی سبیل اﷲ اثاقلتم الی الارض (التوبۃ۳۸)
سورۃ
کا تیسرا حصہ اور موضوع ان لوگوں کے لئے سخت تنبیہ، وعید، ڈانٹ پر مشتمل ہے جو
جہاد پر نہیں نکلتے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مالکم
اذا قیل لکم۔ الآیۃ
(۴) المقطع
الرابع: وہو نصف السورۃ تقریباً کشف صفات المنافقین (ومنہم من عاہد اﷲ) (ومنہم الذین
یوذون النبی) (ومنہم من یقول أذن لی) (والذین اتخذوا مسجدا ضراراو کفرا) الی آخرہ:
ہذا نصف السورۃ تقریبا، سمیت البحوث لانہا بحثت عن عیوب المنافقین قال ابن عباسؓ:
مازالت التوبۃ تنزل وتقول منہم ومنہم حتی قلنا لاتدع احدا بینت نہائیا صفاتہم ومؤ
امراتہم، تخللہم فی داخل المجتمع المسلم، بث الاراجیف، الفساد تثبیط المسلمین عن
الجہاد۔
یعنی
سورۃ کا چوتھا حصہ اور موضوع جو تقریباً آدھی سورۃ پر مشتمل ہے وہ ہے منافقین کے
حالات اور صفات کا انکشاف۔ سورۃ توبہ کا ایک نام سورۃ ’’البحوث‘‘ بھی ہے کیونکہ وہ
منافقین کے عیوب کو کرید کرید کر نکالتی اور دکھاتی ہے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما
فرماتے ہیں سورۃ توبہ کی آیات برابر نازل ہوتی رہیں اور بتاتی رہیں کہ ان منافقوں
میں سے وہ بھی ہیں۔ اور وہ بھی ہیں۔ یہاںتک کہ ہم نے کہا یہ سورۃ کسی کو نہیں
چھوڑے گی… اس سورۃ نے قطعی طور پر منافقین کی صفات، ان کی سازشیں، اسلامی معاشرے میں
ان کا گھسنا، مسلمانوں میں خوف پھیلانا، فساد مچانا، مسلمانوں کو جہاد سے روکنا سب
کچھ بیان فرمادیا۔
(۵) المقطع الخامس: تصنیف المجتمع المسلم
یعنی
سورۃ کا پانچواں موضوع اسلامی معاشرے میں موجود افراد کی قسمیں بیان کرنا ہے۔
(۱) السابقون
الاوّلون۔ یعنی ایمان اور ہجرت ونصرت میں سبقت کرنے والے مہاجرین وانصار۔ (۲)وہ
کمزور ایمان والے جنہوں نے نیک وبداعمال خلط کیے۔ (۳) منافقین۔
(۴)وہ جن کی توبہ کا معاملہ مؤخر رکھا گیا۔ (۵) وہ
جنہوں نے مسجد ضرار بنائی۔ (۶)بیعت رضوان والے۔ (۷)بدروالے۔ (۸)احد
والے وغیرہ وغیرہ۔
(۶) المقاطع
السادس: و مقطع طبیعۃ البیعۃ لہذا الدین (ان اﷲ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم
واموالہم بان لہم الجنۃ)
یعنی
سورۃ کا چھٹا حصہ اور موضوع ان خاص مسلمانوں کے مزاج اور صفات کا بیان ہے جو اس دین
کی خاطر خود کو بیچ دیتے ہیں یعنی جان ومال کی قربانی دیتے ہیں اور کسی بھی حالت میں
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنے سے پیچھے نہیں رہتے جیسے یہ آیات:
ان
اﷲ اشتریٰ (الآیۃ)
ماکان لاہل المدینۃ
(الآیۃ)۔ (فی ظلال سورۃ التوبۃ)
لال خون
پاکستان کی تاریخ کے
المناک ترین دن (مورخہ ۳ جولائی ۲۰۰۷ تا ۱۰ جولائی ۲۰۰۷)
جب حکومت نے لال مسجد
اورجامعہ حفصہؓ پر حملہ کر دیا
ظلم، دہشت اور بربریت
کی المناک داستان
زیر
نظر تحریر اس خونی اور ظالمانہ آپریشن کے آغاز میں لکھی گئی… اس وقت آپریشن جاری
تھا… جو چند دن میں ختم ہو گیا… مولانا غازی عبدالرشیدؒ، مولانا مقصود احمدؒ… اور
سینکڑوں طلبہ اور طالبات شہید ہو گئے… اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں جامعہ
حفصہ کو شہید کر دیا گیا… اور لال مسجد پر تالے ڈال دیئے گئے…
اس
مضمون کے آخر میں ’’دوسچی باتیں‘‘ کے عنوان سے حکومت وقت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی…
مگر حکومت نے ایک نہ سنی اور آج وہ دونوں باتیں پوری ہو چکی ہیں…
تاریخ اشاعت۲۷جمادی
الثانی۱۴۲۸ھ
۱۳؍جولائی ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۱۰۵
لال خون
اﷲ
تعالیٰ امت مسلمہ پر رحم فرمائے… ہر طرف خون ہی خون ہے… لال خون، سرخ خون… مگر
ڈرنے، گھبرانے اور جھکنے کی ضرورت نہیں ہے… قرآن پاک کی سچی آیتیں جھوم جھوم کر
جنت کا تذکرہ سنا رہی ہیں… ہاں اﷲ پاک کے راستے میں ستائے جانے والے، اور مارے
جانے والے اس پیاری جنت میں جائیں گے… یہ بات قرآن پاک خود بتاتا ہے… اے مسلمانو!
کیا اﷲ پاک کی بات میں شک ہوسکتا ہے؟ … آج بہت سی باتیں کرنے کا ارادہ تھا… ہمارے
عزیز اور محترم ساتھی مولانا محمد مقصود احمد بھی شہید ہوگئے… غازی علم دین، ابن
احمد شیخ اور سوچتے رہ جانے والا نورانی… یہ سب ایک دم شہید ہوگئے… ارادہ تھا کہ
ان کی کچھ باتیں کچھ یادیں عرض کروں گا… انڈیا کی قید سے کئی مجاہدین رہا ہوئے… ان
کو بھی مبارکباد پیش کرنی تھی… مگر لال مسجد کا خون… اور جامعہ حفصہؓ کی مظلومیت
اپنا حق مانگ رہی ہے…
وہاں
ابھی تک آپریشن جاری ہے… معصوم بچوں کے لئے دودھ نہیں ہے وہ ماؤں کی گود میں تڑپ
رہے ہیں… امت مسلمہ کی بیٹیاں اپنے ہی ملک میں ’’اجتماعی قبر‘‘ میں دفنائی جا رہی
ہیں… معلوم نہیں ملک پر کس کا قبضہ ہے… حکمرانوں کا غرور اس چوٹی پر پہنچ چکا ہے…
جس کے آگے انشاء اﷲ ڈھلوان ہے… لال مسجد کا موضوع کافی طویل اور پیچیدہ ہے… ہر
زبان پر الگ تبصرہ ہے… اور ہر کسی کو بس اپنی ’’صفائی‘‘ کی فکر ہے… اور لوگوں کی
زبانیں قینچیوں کی طرح چل رہی ہیں… مگر ہم نہ تو اپنی صفائی دیتے ہیں… اور نہ کسی
پر اعتراض کرتے ہیں… ہماری فکر یہ ہے کہ اس وقت لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ پر ظلم
ہورہا ہے… یہ ظلم بند ہوجائے … آئیے اس موضوع کے بعض پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش
کرتے ہیں…
یہ خوف اور ڈر کا وقت
نہیں ہے
بی
بی سی کا صحافی ’’عامر احمد خان‘‘ کہہ رہا تھا کہ اس آپریشن نے پاکستان کی سب دینی،
جہادی جماعتوں کے حوصلے توڑ دیئے ہیں… اور وہ سب سہمے ہوئے لگ رہے ہیں… نہیں عامر
احمد خان یہ سب تمہاری غلط فہمی ہے… پاکستان کے دینی، جہادی لوگ سہمے ہوئے نہیں
بلکہ بپھرے ہوئے ہیں… اے انگریزوں کے تنخواہ خور! اس آپریشن میں ڈرنے کی کیا بات
ہے؟… جہاد میں تو لوگ آتے ہی مرنے کے لئے ہیں… شہادت تو رب تعالیٰ کی مہمانی ہے…
حوروں کا دولہا بننے کے لئے مجاہد تڑپتے ہیں… پھر ڈرنے کی کیا بات ہے؟… لوگ تو
زلزلے میں بھی مر جاتے ہیں… تو کیا پھر زمین پر رہنا چھوڑ دیں؟… لوگ تو سیلاب سے
بھی مرجاتے ہیں… تو کیا پھر صحراؤں میں جا بسیں؟… ارے کم عقل!… گولی سے مرنا اور
وہ بھی اﷲ کے راستے میں… یہ تو بیوی کے ساتھ ملنے سے زیادہ لذیذ ہے… کتنے مجاہد ہیں
جن کو گولی لگنے کے بعد احتلام ہوجاتا ہے… ہاں اﷲ کی قسم شہادت بہت لذیذ ہے اور
جنت بہت مزیدار ہے… ان حالات میں جو ڈرے گا وہ ممکن ہے منافق ہو جائے… اﷲ پاک نفاق
سے ہماری حفاظت فرمائے…
الحمدﷲ
کوئی ڈر نہیں، کوئی خوف نہیں … کوئی اندیشہ نہیں… ہاں افسوس ہے، غم ہے… اور صدمہ
ہے… ہماری آنکھوں میں جو آنسو نظر آرہے ہیں… یہ خوف کے نہیں غم کے آنسو ہیں… بہنیں
مر رہی ہوں تو بھائیوں کو صدمہ ہوتا ہی ہے… اﷲ پاک مظلوموں کی نصرت فرمائے…
سب
مجاہد وہاں کیوں نہیں گئے؟
بعض
لوگ جو اپنے کہلاتے ہیں… مگر وہ اپنے نہیں ہیں… وہ خود کوئی عمل نہیں کرنا چاہتے …
مگر دوسروں پر اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں… وہ پوچھتے ہیں فلاں جماعت وہاں کیوں
نہیں گئی؟… آپ لوگ وہاں لڑنے کے لئے موجود کیوں نہیں تھے؟… ان اﷲ کے بندوں کو کون
بتائے کہ لال مسجد کسی ’’محاذ جنگ‘‘ کا نام نہیں تھا کہ سب مجاہد وہاں جا بیٹھتے…
وہ ایک مسجد تھی اور ایک مدرسہ… انہوں نے ایک پر امن تحریک شروع کی… انہوں نے
لوگوں سے کہا کہ جو آئے صرف بستر اور ڈنڈا لائے… ان کا اپنا گمان بھی یہی تھا کہ
حکومت آپریشن نہیں کرے گی… وہ صبح شام چوہدری شجاعت سے لیکر ننگِ انسانیت اعجاز
الحق تک سب سے مذاکرات کر رہے تھے… کیا ان حالات میں سب مجاہدین کا شرعاً وہاں
جاکر مورچے کھول لینا ٹھیک تھا؟… ہمیں کوئی ندامت نہیں ہے کہ جیش محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کے مجاہدین وہاں نہیں تھے… لال مسجد والوں نے کوئی اعلان جنگ نہیں کیا تھا…
اب جو اسلحہ وہاں نظر آرہا ہے… ایسا لگتا ہے کہ آخری دنوں میں انہوں نے جمع کیا…
اور اس وقت جو لڑائی نظر آرہی ہے یہ اسلحے کی جنگ نہیں … بلکہ اﷲ تعالیٰ مظلوموں کی
مدد کر رہا ہے… اعتراضات داغنے والوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کو غم کے اس موقع پر معاف
کریں اور اعتراضات کرنے کی بجائے… دعاؤ ں اور استغفار میں لگیں…
اسلامی
حجاب کی توہین
کہا
جاتا ہے کہ مولانا عبدالعزیز صاحب برقعے میں گرفتار ہوئے… اس پر دین دشمن عناصر نے
خوب مذاق اڑایا… پھر حکومت نے بھی دین دشمنی کے مزے لئے اور اس جلیل القدر عالم دین
کو برقعے میں ٹی وی پر پیش کیا … اب جس اخبار کو اٹھا کر دیکھیں… ہر بدزبان، بے ضمیر
کالم نویس برقعے کے خلاف اپنے پیلے دانت نکال رہا ہے… یقینا یہ سب کچھ اہل دین کے
لئے ایک آزمائش ہے… لال مسجد پر حملے کے بعد ملک بھر میں مسلمان احتجاجی مظاہرے کر
رہے تھے… برقعہ والے واقعے کے بعد وہ مظاہرے بھی کمزور پڑ گئے… اﷲ پاک مسلمانوں پر
رحم فرمائے… اور مولانا عبدالعزیز کو اﷲ پاک عزت اور عافیت کے ساتھ رہائی عطاء
فرمائے… ہمیں کیا معلوم کہ وہ کس طرح گرفتار ہوئے؟ … ممکن ہے حکومت نے مذاکرات کا
دھوکہ دے کر گرفتار کیا یا کسی جھوٹے جذباتی نے انہیں کوئی خواب سنا کر باہر
نکالا… گرفتاری کے بعد تو انسان اپنی مرضی سے کچھ نہیں بول سکتا… جہادی جماعتوں کے
کمانڈر اپنے ساتھیوں کو یہی وصیت کرتے رہتے ہیں کہ… اگر ہم گرفتار ہوجائیں تو
گرفتاری کے بعد ہمارے کسی بیان کا اعتبار نہ کرنا… اور نہ گرفتاری کے بارے میں
گھڑے گئے واقعات کو درست ماننا… انسان
گوشت اور ہڈی کا بنا ہوا کمزور سا ڈھانچہ ہے… تشدد، بے عزتی اور بے حیائی کے ذریعہ
قیدیوں سے کیا کچھ کہلوایا جاتا ہے… مولانا عبدالعزیز جہادی کمانڈر تو نہیں ہیں…
وہ ایک مخلص عالم دین ہیں… اور انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق ایک تحریک شروع کی… اس
وقت وہ آزمائش میں ہیں… گرفتاری ایک خوفناک آزمائش ہے… ہمیں ان کے لئے جھولی پھیلا
کر دعا ء کرنی چاہئے… پھر بھی یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے کہ وہ برقعے میں گرفتار
ہوئے… انڈیا کی جیل میں آرمی کا ایک میجر مجھ پر ڈنڈے برساتا تھا… پھر اپنا بوٹ
داڑھی پر رکھ کر اچھلتا تھا… اور طرح طرح کی گالیاں دیتا تھا… اس کا مطالبہ یہ تھا
کہ میں ٹی وی پر آ کر کہوں… انڈین آرمی کشمیر میں لوگوں کی خدمت کر رہی ہے… اور
مجاہدین عوام پر ظلم کر رہے ہیں… مظلوم قیدی دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک بے بس
کھلونا ہوتا ہے… اگر اﷲ پاک میری نصرت نہ فرماتا تو میرا اس طرح کا کوئی بیان نشر
ہوجاتا… اور مزے سے گھر بیٹھے ہوئے لوگ کہتے… دیکھا اس کو بہت چیختا تھا… اب جہاد
کے خلاف بولتا ہے… اﷲ پاک کافروں اور منافقوں کا تختۂ مشق بننے سے ہم سب کی حفاظت
فرمائے…
رَبَّنَا
لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃَ لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ
مِنَ الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ۔
اس
وقت کی دعاء
قرآن
پاک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ… اس وقت ہم مسلمانوں کو وہ دعاء بہت کثرت سے
پڑھنی چاہئے… جو حضرات انبیاء علیہم السلام کے مجاہد ساتھی دشمنوں کے ہاتھوں تکلیف
اٹھانے پر پڑھتے تھے… قرآن پاک بتاتا ہے کہ… جب ان اﷲ والوں کو جہاد میں شکست، زخم
اور تکلیفیں پہنچتیں تو ان کی زبان پر صرف یہی دعاء ہوتی تھی…
رَبَّنَا
اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا
وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ۔ (آل عمران ۱۴۷)
پھر
اﷲ تعالیٰ نے اس دعاء کی برکت سے انہیں دنیا آخرت میں بہترین بدلہ عطاء فرمایا…
اگر ہوسکے تو ’’فتح الجوّاد‘‘ یا کسی تفسیر میں سورۃ آل عمران کی آیات (۱۴۷) تا
(۱۴۸) کی تفسیر اس موقع پر ضرور پڑھ لیں… اس مبارک دعاء میں بے حد
قوت اور تاثیر ہے… جو اس کو جتنی کثرت سے پڑھے گا… اور جتنی توجہ سے پڑھے گا اسی
قدر انشا ء اﷲ فائدہ پائے گا… فتح الجوّاد کے مؤلف لکھتے ہیں:
’’انبیاء علیہم
السلام کے ساتھ مل کر جن اﷲ والوں نے جہاد کیا وہ غم، پریشانی اور مصیبت کے وقت ایک
طرف تو ثابت قدمی سے جہاد کرتے رہے اور دوسری طرف وہ اﷲ تعالیٰ سے یہ دعائیں
مانگتے رہے:
(۱) یا
اﷲ ہمارے گناہ معاف فرما
(۲) اس
جہاد کے عمل میں ہم سے جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ معاف فرما
(۳) ہمیں
ثابت قدمی عطاء فرما
(۴) ہمیں
دشمنوں پر غلبہ عطاء فرما‘‘… آگے چل کر لکھتے ہیں:
فائدہ: آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(۱) جہاد
میں شکست اور مصیبت کے وقت عام لوگوں کو جان کی فکر پڑ جاتی ہے مگر مخلص اﷲ والے
مجاہدین کو ایمان کی فکر لگ جاتی ہے اور وہ استغفار کرنے لگتے ہیں۔
(۲) جہاد
میں شکست کے وقت عام لوگ دنیوی سہارے ڈھونڈتے ہیں مگر مخلص مجاہدین اﷲ تعالیٰ کے
سامنے جھولی پھیلا کر اس کا سہارا مانگتے ہیں۔
(۳) جہاد
میں شکست کے وقت عام لوگ ایک دوسرے کی غلطیاں اچھالنے لگتے ہیں جبکہ مخلص اﷲ والوں
کی نظر فو راً اپنے گریبان پر پڑتی ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں کی معافی
مانگنے لگ جاتے ہیں۔
(۴) جہاد
میں شکست کے وقت عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم کبھی دشمن پر غالب نہیں آسکتے مگر
مخلص مجاہدین اﷲ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں امید ہوتی ہے کہ وہ دشمن پر
غالب آسکتے ہیں چنانچہ وہ اﷲ تعالیٰ سے اس کی دعاء کرتے ہیں۔ (فتح الجوّاد ص۲۵۷ج۱)
ایک غیر متوقع جنگ
حکومت
نے اس وقت جو جنگ مسلط کی ہے وہ غیر متوقع ہے… وہاں ہزاروں کی تعداد میں بچیاں
موجود تھیں… جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ لوگ جنگ نہیں چاہتے… مگر حکومت نے
اپنی دوسری پریشانیوں سے نکلنے کے لئے مسلمانوں کا خون بہایا… اب بھی وقت ہے کہ
حکومت اپنی غلطی کو محسوس کرے اور فی الفور اس جنگ کو بند کردے… اگر یہ جنگ جاری
رہی تو اس کا دائرہ بہت پھیل جائے گا… یہ کوئی دھمکی نہیں بلکہ سچی بات ہے… ہم
مسلمان ہیں اور الحمدﷲ مسلمانوں کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں… اگر ۱۹۷۱ء میں
کافروں کے سامنے ہتھیار ڈالے جاسکتے ہیں تو پھر آج … مسلمانوں کا خون بچانے کے لئے
ہتھیار رکھے بھی جاسکتے ہیں… اس وقت حکومت کا فرض ہے کہ… صحافیوں کی انگلیوں پر نہ
ناچے بلکہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اس جنگ کو بند کردے…
دوسچی
باتیں
آخر
میں اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر دو باتیں عرض کر رہا ہوں… میں زندہ نہ بھی رہا تو
انشاء اﷲ… زندہ رہنے والے ان باتوں کی سچائی دیکھ لیں گے… پہلی بات یہ ہے کہ
موجودہ آپریشن کا نقصان صرف اور صرف اس حکومت اور ملک کی فوج کو ہوگا… ظاہری طور
پر لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کا نقصان نظر آرہا ہے… مگر حقیقت میں نقصان مظلوم کا
نہیں ظالم کا ہورہا ہے… جو بچے وہاں شہید ہو رہے ہیں ان کی موت کا یہی وقت مقرر
تھا… کوئی بھی شخص اپنے وقت سے پہلے نہیں مر سکتا… مگر حکومت مسلسل خسارے کی طرف
بڑھ رہی ہے… ایسا خسارہ جو کافی زیادہ ہوگا…
دوسری
بات یہ ہے کہ بددین صحافی اور غیرملکی حلقے حکومت کو شہہ دے رہے ہیں کہ … وہ اس
آپریشن کو اسی جگہ تک محدود نہ رکھے… بلکہ اسے بڑھا کر تمام دینی قوتوں کو ختم
کردے… حکومت نے ان بدخواہوں کے دباؤ میں آ کر… آپریشن کو پھیلانا شروع کردیا ہے… یقینا
یہ بہت بڑی غلطی ہے…
یہ
ملک اسلام کے لئے بنا ہے… دین اسلام ہی اس ملک کی بقاء ہے… ملک کے دینی طبقے مکڑی
کا جالا نہیں ہیں جو آپریشن سے ختم کردیئے جائیں گے… زمین کے پلاٹوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں
چلانے والے… جنت کے محلاّت والوں کو کبھی ختم نہیں کرسکتے… کبھی نہیں کبھی نہیں…
انشاء اﷲ، انشاء اﷲ ، انشاء اﷲ…
اﷲ
پاک کا کلمہ بلند ہو کر رہے گا…
واﷲ
غالب علیٰ امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون۔۔۔
٭٭٭
پاگیا ’’مقصود‘‘
حضرت مولانا محمد
مقصود احمد شہیدؒ کی یاد میں لکھی گئی ایک بکھری ہوئی تحریر
(سوانحی خاکہ
حضرت مولانا محمد مقصود احمد شہید ؒ)
مولانا
مقصود احمد شہید ؒ ولد میجر(ر) احمد محمود فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی اٹک کے رہنے
والے تھے… آپ نے زمانہ طالب علمی سے قلم اور تلوار کے ساتھ رشتہ جوڑا، امارت اسلامیہ
طالبان کے درخشندہ دور میں کئی محاذوں پر داد شجاعت دی اور جسم پر جہادی زخموں اور
صعوبتوں کے نشان سجائے اور اپنے برق رفتار قلم سے کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں سے
نو کتابیں ان کی زندگی میں منصہ شہود پر آچکی تھیں اس کے علاوہ کئی رسالوں اور
اخباروں میں مختلف ناموں سے کالم لکھتے تھے۔ آپ کا آخری جہادی اور قلمی رشتہ
الرحمت ٹرسٹ اور ہفت روزہ القلم کے ساتھ تھا، لال مسجد اسلام آباد پر جب حکومت کا
ظالمانہ آپریشن شروع ہوا تو یہ اپنی صحافتی ذمہ داری نبھانے کے لئے وہاں گئے، ۴جولائی ۲۰۰۷
صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے پاکستانی فوج کی گولی کا
نشانہ بنتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے… صرف ۲۹
سال کی عمر میں آخرت کے لئے کئی بہترین عمل اور صدقات جاریہ سمیٹ کر پسماندگان کے
لئے دعوت و عزیمت کی عجیب داستان چھوڑ گئے۔ (ازمرتب)
تاریخ اشاعت ۴ ؍رجب ۱۴۲۸ھ
۲۰جولائی ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۱۰۶
پاگیا ’’مقصود‘‘
اللہ
تعالیٰ بھائی مقصود احمد کی شہادت قبول فرمائے… اور اُن کو خوب اعلیٰ مقام عطاء
فرمائے… وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے، اُس کے دین کی خدمت کرنے والے… اور
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق رکھنے والے انسان تھے… انہوں نے چھوٹی سی عمر پائی
مگر… کام ماشاء اللہ خوب کرگئے… دراصل اس پیارے انسان پر اللہ تعالیٰ کی بہت رحمت
اور فیّاضی تھی… اللہ پاک نے اُسے صلاحیتوں سے مالا مال کر رکھا تھا… اور اُس کوایک
خاص قسم کی برکت اورمحبوبیت عطاء فرمائی تھی… مقصود شہید کی زندگی پر نظر ڈالیںتو
اُن کے لئے کئی الفاظ ذہن میں اُتر آتے ہیں… مثلاً صلاحیتوں کا پہاڑ، دلِ بیقرار،
لاپرواہی کی حد تک بہادر، قربانی کی حد تک وفادار، شہداء کا ترجمان، مقبول قلمکار،
ایک شرمیلا انسان، با ادب ساتھی… اور اُمت مسلمہ مظلومہ کا غمخوار…
آپ
یقین کریں ان ناموں میں ذرّہ بھر مبالغہ نہیں ہے… اللہ پاک نے اپنے اس شہید بندے میں
اتنی صفات جمع فرمادی تھیں کہ یہ نام بھی اُس کا پورا نقشہ نہیں کھینچ سکتے… ہاں
مقصود شہید میں ایک خامی بھی تھی،… مگر اس خامی میں اُس کا قصور نہیں تھا… حضرت یوسف
علیہ السلام کو اللہ پاک نے حُسن اور محبوبیت عطاء فرمائی تو… اُنکی یہ خوبی اُن
کے لئے کئی پریشانیوں کا باعث بنی… بچپن میں پھوپھی نے اُن پر قبضہ جمانے کا فیصلہ
کیا… مگر والد کہاں چھوڑتے تھے؟… تب پھوپھی نے محبوب بھتیجے کو پانے کے لئے اُن پر
چوری کا الزام لگایا… اور بطور سزا ساتھ لے گئیں… پھر اسی حُسن اور محبوبیت نے
بھائیوں کو حسد میں ڈالا تو انہوں نے کنویں میں پھینک دیا… پھر اسی محبوبیت کا اثر
تھا کہ زلیخا نے قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا… مگر جب اُس کے ہاتھ میں بھی نہ چڑھے
تو اُس نے جیل میں ڈلوا دیا… ہمارے بھائی مقصود کو بھی اللہ پاک نے ’’محبوبیت‘‘
عطاء فرمائی تھی… چنانچہ وہ بھی پوری زندگی قبضہ جمانے والوں کی کھینچا تانی کا
شکار رہے… جو بھی اُن کی صلاحیتوں کو دیکھتا تھا فوراً اُن پر قبضہ کرنے کا فیصلہ
کر لیتا تھا… بھائی مقصود اپنے مشن اور اپنی جماعت کے ساتھ یکسو رہنا چاہتے تھے…
وہ شروع تا آخر مجاہد رہنا چاہتے تھے… اُنکی روح ایک بڑے مجاہد کی روح تھی… مگر
طبیعت میں شرمیلا پن اور مروّت تھی… کسی کو انکار نہیں کرسکتے تھے… چنانچہ چکّی کی
طرح اُن سے کام لیاگیا… جس کی وجہ سے سوا چھ فٹ اونچا اور تگڑا مجاہد جوانی ہی میں
بیمار ہوگیا… اللہ پاک اُسکو خوب سکون اور مزے عطاء فرمائے… وہ بہت تھکا اور بہت
کام کرتا رہا… بھائی مقصود شہیدؒ کی بعض صفات بہت عجیب تھیں… اب وہ یاد آتے ہیں
تو میں گھنٹوں کوئی کام نہیں کرسکتا… بس اُن کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں… اور پھر
چونک کر اُنہیں دعائیںدینے لگتا ہوں… ماشاء اللہ ہماری جماعت کا شعبہ نشر و اشاعت
اللہ پاک کے فضل سے عالمی معیار کا مضبوط ادارہ ہے… آپ کو معلوم ہے کہ بھائی
مقصود شہیدؒ اس ادارے کے بنیادی معمار اور ستون تھے… دراصل وہ خود ایک مکمل ادارہ
تھے… جماعت بنی تو وہ پورے جذبے کے ساتھ شامل ہوگئے… مجھے فکر تھی کہ جماعت کا
رسالہ کون چلائے گا… طویل عرصہ تک مجاہدین کے نشر اشاعت اور دعوت کے شعبے میرے پاس
رہے تھے… چنانچہ ان شعبوں کے بارے میں میرا ذہن کچھ اونچا سوچتا تھا… ساتھیوں نے
بتایا کہ بھائی مقصود کو رسالہ دے دیں… چنانچہ اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرکے اُن کو پہلا
رسالہ دے دیا گیا… اللہ اکبر کبیرا اُس رسالے کے چند شماروں نے ہی پاکستان اور بیرون
پاکستان دھوم مچا دی… وہ دن اور ۴ جولائی ۲۰۰۷ یعنی اپنی شہادت کے دن تک بھائی مقصود نے اس گھوڑے کی
لگامیں پوری مضبوطی سے تھامے رکھیں… پہلے پندرہ روزہ جیش محمد ﷺ… پھر ’’الاصلاح‘‘،
پھر ’’شمشیر‘‘، پھر ’’راہِ وفا‘‘… اور اب ’’القلم‘‘… کچھ عرصہ تک اداریہ میںخود
لکھتا رہا پھر وہ بھی بھائی مقصود کے سپرد ہوگیا…
’’بناتِ عائشہؓ‘‘ کے معمارِ اوّل بھی ہمارے بھائی مقصود شہیدؒ تھے… بعض اوقات میں اُن کو زبانی کوئی موضوع یا
مضمون بتا دیتا… وہ سر جھکا کر سنتے رہتے
اور صبح صاف ستھرا مضمون لاکر حوالے کر دیتے… اُن کا دماغ کمپیوٹر کی طرح اور قلم
مشین کی طرح چلتا تھا… آجکل مجاہدین میں یہ وباء عام ہے کہ پولیس اور گرفتاری سے
بہت ڈرتے ہیں… بس ایک پولیس والا دیکھا اور بھاگ دوڑ شروع… اورکام بند… مگر بھائی مقصود تو اس بارے میں
لوہے کی چٹان تھے… حکومت نے اُن کے زیرادارت چلنے والے چار رسالے بند کئے… کئی بار
چھاپا پڑا… کئی بار دفتر اُلٹ دیئے گئے، ایک بار دفتر بم دھماکے سے اڑا دیا گیا…
مگرمقصود شہید نے ایک بار بھی خوف، ڈر اور بدحواسی کا کوئی جملہ زبان سے نہیں
نکالا… وہ خود کو اللہ پاک کی امانت سمجھتے تھے… اپنی جان جنت کے بدلے بیچ چکے
تھے… مزار شریف سے زندہ بچ کر آنے کے بعد اُن کے دل میں زندہ رہنے کا کوئی شوق
باقی نہیں رہاتھا… چنانچہ وہ ہر دم موت کے لئے تیار رہتے تھے… قلم انکی جیب میں
ہوتا تھا… اور پورا رسالہ اُن کے دماغ میں… ہر رسالہ بند ہونے کے بعد وہ بس اپنے
مرکز سے نئے رسالے کا نام پوچھتے تھے… اور پھر کسی بھی جگہ بیٹھ کر رسالہ تیار کر
لیتے تھے… کراچی کی زمین جب دینی رسائل کے لئے تنگ ہوئی … تو وہ اپنے مرکز کے کہنے
پر لاہور اُٹھ آئے… ہاں اس جنت مکیں شخص کا کوئی وطن نہیں تھا… کوئی سامان نہیں
تھا… چنانچہ اُسے علاقہ بدلنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی تھی جتنی دیر … تکلّف کے
مارے ہوئے لوگ کپڑے بدلنے میں لگا دیتے ہیں… اسلام ہر مسلمان کو ’’آفاقی‘‘ دیکھنا
چاہتاہے… یعنی ایسا انسان جو پوری دنیا کو اسلام کے رنگ میں لانے کے لئے ہر دم
حرکت، جستجو اور جہادمیں رہتا ہو… اسلام کو ’’گھریلو انسان‘‘ پسندنہیں ہیں… جو
مرنے سے پہلے اپنے گھریلو مسائل کی قبر میں دفن ہو جاتے ہیں… وہ لاہور سے ’’راہِ
وفا‘‘ نکال رہے تھے… اور خوب نکال رہے تھے… پھر اللہ پاک نے ’’القلم‘‘ عطاء فرمایا
تومقصود بغیر کسی توقف کے اسلام آباد آبیٹھے… ہاں یہ سب قابلِ رشک صفات ہیں… لوگ
کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے والے لوگ بہادر نہیں ہوتے مگر مقصود شہید تو بلا کے
بہادرتھے… کراچی میں ایک بار کچھ لوگ ہمارا پیچھا کر رہے تھے… ہم نے انہیں بھانپ لیا
تو وہ بھاگنے لگے تب شیردل مقصود اُن کے پیچھے لگ گئے … اور تھوڑی دیر بعد ان میں
سے ایک کو اسطرح اُٹھاکرلائے… جس طرح کسی بچے کو اُٹھایا جاتا ہے… اس کے علاوہ بھی
اُنکی بہادری کے بہت سے واقعات ہیں… وہ ہمیشہ محاذ پر جانے کے خواہشمند رہے اور
محاذ ہی کو سب سے افضل تشکیل سمجھتے رہے…
مجھے
انکی عجیب و غریب صلاحیتوں کا ہمیشہ اعتراف رہا… کئی بار اُن کے مضامین پر اُنکو
انعام بھی پیش کیا… اور کئی بارانکی بعض صفات دیکھ کر خوشی اور حیرت بھی ہوئی… ایک
بار میں ہری پور سے پنڈی کی طرف آرہا تھا… چلتی گاڑی ہی میں پتہ چلا کہ ہمارا
سندھ کا جماعتی منتظم کافی گڑ بڑ کر رہاہے… میں نے دعاء کی تو میرے ذہن میں بھائی
مقصود کا ’’نورانی چہرہ‘‘ آگیا… میں نے صوبائی منتظم کو فون کرکے بتایا کہ آپ کی
تشکیل ختم ہے… اور پھر بھائی مقصود کو فون پر کہا کہ آپ کراچی اور سندھ کا کام
سنبھال لیں… میرا تجربہ ہے کہ کوئی بھی ساتھی اسطرح کی فوری تشکیل سے گھبرا جاتا
ہے… اور کچھ نہ کچھ ’’چوں چوں‘‘ ضرور کرتا ہے… مگر بھائی مقصود کا جواب تھا ’’جی
ٹھیک ہے‘‘… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم… وہ فوراً نشریات کے دفتر سے
اُٹھے اور صوبائی مرکز پہنچ کر ایک نئے محاذ پر ڈٹ گئے… وہ تقریر بہت کم کرتے تھے
جبکہ سابق منتظم کافی تیز مقرر تھے… مگر اخلاص کے سامنے تقریروں کی کیا چلتی ہے…
انہوں نے کراچی کا کام ایسا سنبھالا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے… اور آج تک وہ
کام الحمدللہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے… جس میں بھائی مقصود شہید کا بلا واسطہ صدقہ
جاریہ شامل ہے…
اللہ
پاک نے اُن کو ’’ادب‘‘ کا اونچا مقام دیا تھا… اپنے ولیٔ کامل والد محترم کا بہت
ادب کرتے تھے… اپنے بڑے بھائیوں کا بہت ادب کرتے تھے… اور جماعت میں بھی اپنے سے
بڑوں کا ادب پوری طرح ملحوظ رکھتے تھے… دراصل ادب کا امتحان تب ہوتا ہے جب کسی کو
… اُسکی غلطی اور عیب بتایا جائے… ایسے وقت میں تو اکثر لوگ اپنے والد، امیر اور پیر
کے ادب کو بھی بھول جاتے ہیں… اور اپنی صفائی میں اتنا کیچڑ اچھالتے ہیں کہ الامان
والحفیظ… مگر بھائی مقصود شہیدؒ بہت عجیب تھے… ایک بار جماعت میں اُن کے خلاف کچھ
طوفان اُٹھا… باصلاحیت افراد پر ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں… میں نے تمام لوگوں
کی باتیں سنکر سب کو باہر بھیج دیا اور بھائی مقصود شہیدؒ کو بلایا … وہ اندر آئے
تو چہرے پر غم کے اثرات تھے… مجھے اُن سے محبت تھی تو یہ حالت برداشت نہ ہوئی… میں
کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا تو اُنہوں نے جیب سے ایک کاغذنکالا اور دونوں ہاتھوں
سے مجھے دے دیا… اللہ اکبر کبیرا خط کیاتھا ایمان کا شاہکار، انابت الی اللہ اور
جماعت سے اظہار محبت کا مرقع تھا… انہوں نے کوئی صفائی نہیں دی تھی… نہ کسی پر کوئی
جوابی الزام لگایا تھا … اور نہ خط میں کسی طرح کے شکوے کی کوئی بو آرہی تھی… خط
کے آخر میں تھا کہ اللہ پاک کی خاطر مجھے جماعت کے کاموں سے محروم نہ کیا جائے…
خط پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اورمقصود شہید کا قد میرے دل میں اور زیادہ
بلندہوگیا… میں نے وہ خط اُن کو واپس کر دیا اور عرض کیا کہ اسے ضائع فرما دیں اور
بے فکر ہو کر کام کریں… ابھی کچھ عرصہ پہلے غالباً ڈیڑھ سال قبل میں نے ملک کے ایک
قومی روزنامے میں بھائی مقصود شہید کا مضمون دیکھا… یہ مضمون ناقدری کے ساتھ ادارتی
صفحہ دوم پر لگا ہوا تھا… مضمون پڑھا تو اندازہ ہوا کہ اسمیںکانٹ چھانٹ ہوئی ہے…
تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ واقعی مضمون کو کانٹا چھانٹا گیا ہے… یہ سب دیکھ کر مجھے
تکلیف پہنچی… میری نظرمیں مقصود شہید بہت اونچے قلمکار اور امت مسلمہ کا سرمایہ
تھے… اور اللہ پاک نے انہیں مقبول اخبارات میںلکھنے کا کھلا موقع بھی عطاء فرمایا
ہوا تھا… تو پھر اس طرح ناقدری کے ساتھ ان نفاق زدہ اخبارات میں مضمون بھیجنے کی کیا
ضرورت تھی؟… انہیں دنوں میں نے اُن کے پاس اخبار کے لئے کچھ کاغذات بھجوائے تو
اوپراُن کا نام القاب کے ساتھ لکھ دیا… اچھی طرح تو یاد نہیں غالباً میںنے اُن کا
نام اسطرح لکھا… ’’قاطع محدودیت وسیع الحلقہ برادر عزیز مولانا مقصود احمد صاحب‘‘…
مجھے معلوم تھا کہ بھائی مقصود شہیدؒ کو کچھ عرصہ سے یہ مشورہ بھی دیا جارہا تھا
کہ … ایک جماعت میں خود کومحدود نہ کریں بلکہ کھلا اور وسیع کام کریں… میںنے اسی
کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اُن کے نام کے ساتھ یہ القاب لکھ دئیے… دراصل میرے نزدیک ’’محدودیت‘‘
بہت بڑا کمال ہے… طاقت جب ایک مرکز میں محدود ہوتی ہے تو ’’ایٹم بم‘‘ بن جاتی ہے…
اور ایک مرکز میں محدود و مضبوط ہونے والے انسان ہی دنیا کو فتح کرتے ہیں… وسعت
پسندی تو محض ایک دھوکہ اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی چیز ہے… میری خواہش تھی کہ
بھائی مقصود شہیدؒ زیادہ سے زیادہ لکھیں… خوب کتابیں لکھیں… اور یہ کتابیں جماعت ہی
کے مکتبے سے چھپیں اور تقسیم ہوں… خیر میں نے اُن کو کاغذات بھجوا دئیے… مجھے یہ
توقع نہیں تھی کہ مقصود شہیدؒ ان دو الفاظ کو اتنی سنجیدگی سے لیں گے… مگر وہ تو
وفا کی بلندی پر فائز تھے… دو چار روز ہی میں اُن کا خوبصورت خط مجھے مل گیا… وہ
فرما رہے تھے… میں کچھ اپنی ذاتی مجبوریوںکی وجہ سے… اور دوسرا اس خیال سے کہ آپکی
کی طرف سے اجازت ہے ان اخبارات میں لکھتا ہوں… اگر حکم فرمائیں تو ابھی چھوڑ دوں،
میں اپنے عہد پر الحمدللہ پوری طرح سے قائم ہوں… میں نے انہیں جواب بھیجا کہ خوب
شرح صدر سے لکھتے رہیں… اللہ پاک مدد فرمائے… بھائی مقصود شہیدؒ کو اللہ پاک اُن
کے اُن محبوب کرداروں کے ساتھ اعلیٰ علیین میں جمع فرمائے… جن کا وہ والھانہ تذکرہ
لکھتے تھے… ہم تو اُن کے جانے سے غمگین بھی ہیں…
اور پریشان بھی … انا للہ و انا الیہ راجعون… اور یہ دعا پڑھ رہے ہیں:
اللّٰھم
اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منھا…
عجیب
بات ہے کہ ساڑھے سات سال کے اس ہنگامہ خیز عرصے میں میری بھائی مقصود شہیدؒ سے کبھی
ادنیٰ سی تلخی بھی نہیں ہوئی … اور ہم نے ایک دوسرے کو کبھی ’’نہ‘‘ نہیں کہا… اس پورے عرصے میں انہوں نے کبھی کوئی مطالبہ نہیں
کیا… اور نہ میںنے انکی زبان سے دنیا یا مال کا کوئی لفظ سنا… وہ بعض چیزوں میں
مثالی اعتدال کے حامل تھے… وہ تمام جہادی تحریکوں کے بے باک اور بے لوث حامی تھے…
آجکل بعض لوگ افغان جہاد کو مانتے ہیں مگر کشمیر کے جہاد پر زبان چلاتے ہیں… جبکہ
بعض کشمیر کے جہاد کو مانتے ہیں مگر افغان جہاد پر شکوک رکھتے ہیں… مگر بھائی
مقصودشہیدؒ تو گویا پیدا ہی جہاد اور مجاہدین کی خدمت اور وکالت کے لئے ہوئے تھے…
افغانستان، کشمیر، عراق، فلسطین… اور چیچنیا سب تحریکوں پر اُنکی گہری نظر تھی…
اور وہ درست اور تحقیقی معلومات رکھتے تھے… میں نے اوپر عرض کیا کہ ہم نے کبھی ایک
دوسرے کو ’’نہ‘‘ نہیں کہا… ہاں ایک واقعہ اس سے مستثنیٰ ہے… انہوں نے زندگی میں دوبار مجھ سے اپنی ’’تصانیف‘‘
پر تقریظ لکھنے کی فرمائش کی… پہلی بار تو حالات اچھے تھے میں نے فوراًہاں کردی…
اُن کی کتاب کا مسوّدہ لیا مختصر سی تحریر لکھ دی… مگردوسری بار حالات ٹھیک نہیں
تھے … انہوں نے قیدیوں کے موضوع پر لکھی ہوئی اپنی کتاب کا تذکرہ کیا تو میں نے
قلبی خوشی کا اظہار کیا… اور اُن کو بہت مبارکباد دی… انہوں نے کہا اگر تکلیف نہ
ہو تو تقریظ لکھ دیں… میں نے عرض کیا حالات آپ کے سامنے ہیںاگرموقع ملا تو انشاء
اللہ ضرور لکھ دوں گا اور اگر نہ لکھ سکا تو آپ کتاب چھاپنے میں تاخیر نہ کریں…
انہوں نے مسکرا کر سر جھکا دیا جی ٹھیک ہے… اللہ اکبر کبیرا… ہمارے جامعہ میں دبئی
کا رہنے والا ایک پاکستانی طالبعلم پڑھنے آیا تھا… وہ بہت موٹا تھا مگر عمر کافی
کم یعنی نو دس سال کے لگ بھگ تھی… شام کو چھٹی کے بعد وہ بچوں کے ساتھ کھیلتاتھا
اور گیند کی مار سے بچنے کے لئے… بھاگ کر
ایک چھوٹے سے ستون کے پیچھے چُھپ جاتا تھا… وہ خود کو اپنی عمر کے مطابق چھوٹا
سمجھتا تھا مگر اُس کا موٹا بدن ستون کے پیچھے کہاں چھپتا تھا؟… چنانچہ بچے اُسکو
پکڑ لیتے اور گیندسے مارتے تو وہ حیران ہوتا کہ میں تو چھپا ہوا تھا… بھائی مقصود
شہیدؒ کی روح پر ایمانی انوارات تھے… وہ تواضع کی وجہ سے خود کو چھوٹا سمجھتے تھے…
مگر اللہ پاک نے ان کو لمبا چوڑا جسم اور چٹانوں، ستاروں جیسی صفات عطاء فرمائی تھیں…
مجھے اُن کے شرما کر سر جھکانے پر بہت پیار آتا تھاکہ… ایک پہاڑ، ایک ستارہ کسطرح
خود کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے… اب مقصود شہید کی یاد آتی ہے تو اُن کے اللہ
والے والدین کے صبر پر رشک آتا ہے… اُن کے محبت کرنے والے بھائیوںکی ہمت پر رشک
آتا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی آہوں کو چھپا رہے ہیں… اللہ پاک اُن کو بہت اجر اور
بے انتہاسکون عطاء فرمائے… اُن کو اپنے پیارے لال کی شہادت پر مبارکباد پہنچے…
ہمارے مخدوم مکرّم مفتی محمد منصور احمد صاحب نے مقصود شہیدؒ پر مضمون لکھا تو اسے
پڑھ کر مجھے… سمندرکا وہ سفر یاد آگیاجسمیں
ہماری لانچ لہروں کی زد میں آگئی تھی… اونچی اونچی لہروں پرہماری کشتی تنکے کی
طرح ڈول رہی تھی… ایک لہر کشتی کو نیچے پھینکتی تو دوسری اوپر اُٹھا لیتی… مفتی
منصور احمد صاحب کے دل میں غم اور یادوں کی لہریںاُن کے مضمون کو اوپر نیچے پھینک
رہی تھیں… مگر وہ صبر کے چپّو چلاتے ہوئے کسی طرح مضمون کی کشتی کو کنارے تک لے
گئے… ہاںمفتی صاحب! ایسے ہی مواقع پر صبر اللہ پاک کی محبت کو کھینچ لیتا ہے…
واﷲ
یحب الصابرین… ان اﷲ مع الصّابرین…
بھائی
مقصود شہیدؒ نے ساتھیوں کی شہادت پر جو مضامین لکھے… اُن کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے
کہ انکی روح شہادت کے لئے کتنی بے چین تھی…
شکر
ہے مالک کا جس نے مانگنے والے کی دعا قبول فرمائی… اور اُسے شہادت کا تاج پہنایا… معلوم نہیں
’’مقصود‘‘ کس کا ’’مقصود‘‘ تھا… مگر ’’مقصود‘‘ کا اپنا ’’مقصود‘‘ اللہ پاک کی رضا
اور شہادت تھی… اللہ پاک نے اسکی آرزو کی لاج رکھی اور مقصود نے اپنے مقصود کو
پالیا…
و
آخردعواھم أَن الحمدﷲ رب العالمین…
٭٭٭
کردار اپنا اپنا
ایک ہنستی، ہنساتی،
روتی، رُلاتی تحریر…
جس کا ہر جملہ مزاح
کے روپ میں حقیقت ہے… ایک خیالی قصّہ…ایک تلخ حقیقت
٭ خیال جی اور
پرواز
٭ سوچ ایک راستے
الگ
٭ ایک عجیب
واقعہ
٭ دل ہاتھوں سے
نکل گیا
٭ میرے رب نے
مجھے جوڑ لیا
٭پرواز حیران رہ
گیا
٭ پرواز غضبناک
ہو گیا
٭ میرا ایمان
متزلزل ہونے لگا
٭ غزوہ بدر میں
ابو جہل کا کردار
تاریخ اشاعت۱۱؍
رجب۱۴۲۸ھ
۲۷جولائی ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۰۷
کردار اپنا اپنا
اﷲ تعالیٰ کے بندوں
نے رجب کا مہینہ شروع ہوتے ہی یہ دعاء مانگی…
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ
لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
صبح،
شام، رات، دن یہ دعاء مانگی جارہی ہے… اور الحمدﷲ ایسا لگتا ہے کہ قبول بھی ہورہی
ہے… ابھی رجب کا آغاز ہے اور امت مسلمہ پر خوشیوں اور برکتوں کی بارشیں نازل ہونا
شروع ہوگئی ہیں… چیف جسٹس صاحب بحال… حکومت کا غرور ایسا ٹوٹا کہ تعزیت کرنے کو دل
چاہتا ہے… ظاہری حالات تو یہ تھے کہ ۲۰؍جولائی کے اخبارات میں یہ اشتہار شائع ہوتا کہ… چیف جسٹس کی
گرفتاری کو ایک سو چونتیس دن ہوگئے… مگر اﷲ پاک کی شان کہ خبر کچھ اور چھپی… ادھر
صدر بش کو کینسر ہوگیا ڈاکٹروں نے بے ہوش کیا تو ڈک چینی امریکہ کا صدر ہوگیا…
ڈاکٹروں نے کینسر کے پانچ لوتھڑے نکال لئے ہیں… ہاں مظلوموں کا خون اب کینسر کی
صورت میں بش کو کاٹ رہا ہے… ادھر طالبان نے غزنی میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے
جنوبی کوریا کے مشنریوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے… اس واقعہ نے ویٹی کن کے پاپے
کو ہلا کر رکھ دیا ہے… طالبان نے اپنے قائدین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے… اﷲاکبرکبیرا…
ادھر فلسطین میں ڈھائی سو قیدی یہودیوں کی جیلوں سے رہا ہوگئے ہیں… ابھی مزید
ساڑھے تین سو رہا ہوں گے تو گرفتار یہودی فوجی کو مجاہدین چھوڑیں گے… سبحان اﷲ
وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم… اے ہمارے پروردگار رجب اور شعبان کو ہمارے لئے برکت
والابنا اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچا… آج اس موضوع پر کچھ لکھتا مگر ’’خیال جی‘‘
کا اصرار ہے کہ آج اس کی خیالی باتوں کو موقع دیا جائے… خیال جی اپنے حق میں تین
دلائل دیتے ہیں… (۱) بہت عرصہ ہوا آپ صرف ’’دل جی‘‘ کی باتیں لکھ رہے ہیں آخر
’’خیال جی‘‘ کا بھی تو کچھ حق ہے (۲)جس طرح چیف جسٹس صاحب بحال ہوئے ہیں اسی طرح مجھے بھی بحال
کیا جائے (۳)القلم کے قارئین کافی عرصہ سے میری کمی محسوس کر رہے ہیں…
خیال
جی کے ان دلائل کے بعد اب انکار کی گنجائش نہیں ہے… لیجئے آج آپ خیال جی کی ’’خیالی
دنیا‘‘ اور ’’خیالی باتوں‘‘ کا لطف اٹھائیے:
خیال
جی اور پرواز
میرا
نام ’’خیال جی‘‘ ہے… اور میرے دوست کا نام ہے ’’پرواز‘‘… ہم دونوں ہندوستان میں
پاکستان بننے سے پہلے پیدا ہوگئے تھے… ابھی ہم چھوٹے چھوٹے تھے کہ پاکستان بن گیا…
اور ہمارے گھر والے ہمیں اٹھا کر ادھر لے آئے… پھر اچانک ہم ترکی چلے گئے… وہاں جا
کر ہمیں معلوم ہوا کہ اصل اسلام کیا ہے… نائٹ کلب، ڈانس، کتے پالنا اور یاریاں
کرنا… میں اور پرواز جب ترکی کی لڑکیوں کو نیکر پہنے دیکھتے تو آپس میں گلے لگ کر
روتے کہ… ہمارے ملک کی عورتیں ابھی تک برقع کیوں پہنتی ہیں… مسلمانوں کی اسی فکر میں
ہم دونوں کبھی کسی نائٹ کلب جا بیٹھتے اور وہاں کے پاکیزہ ماحول میں مولوی، داڑھی،
جہاد اور برقع کے خلاف آپس میں جذباتی باتیں کرتے… ہم کہتے کاش ہمارے ملک میں بھی
نائٹ کلب چلیں، لڑکیاں نیکر پہنیں اور میوزک کے شور میں اصل اسلام کا بول بالا ہو…
وہاں ہماری دوستی کچھ انگریزوں سے ہوئی تو انہوں نے ہمیں ’’کتے‘‘ پالنے کے فوائد
سے آگاہ کیا… بس پھر کیا تھا ہم نے فوراً کتے پال لئے… اب جس وقت ہم امت مسلمہ کی
ترقی کی فکر کرتے تو ہماری بغل میں کتے بھی ہوتے تھے… سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ
انسان جس جانور کے ساتھ رہتا ہے اس کی عادتیں انسان میں آجاتی ہیں… سائنسدانوں کی یہ
بات سچی نکلی اور کتوں کی تمام خوبیاں ہمارے اندر تیزی سے پیدا ہوتی چلی گئیں…
مثلاً بہت زیادہ بھونکنا، ہر بات بھونک جانا یعنی بول جانا… چنانچہ ایسا بھی ہوا
کہ ہمارے مشیروں اور دوستوں نے ہمیں کوئی بات بولنے سے منع کیا تو ہم نے فوراً…
صحافی بلوائے اور ان کے سامنے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کی شرط کے ساتھ بات بول دی… یوں
بات بھی پیٹ میں نہ رکھنی پڑی اور مشیروں کے مشورے کا بھرم بھی برقرار رہا… کتوں کی
خاص عادت ہے کہ اپنوں کو چھوڑو نہیں غیروں کو چھیڑو نہیں… کتے اپنے ہم نسل کتوں سے
لڑتے ہیں جبکہ انسان کی غلامی کرتے ہیں… ہم نے بھی فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کو
چھوڑیں گے نہیں اور کافروں کو چھیڑیں گے نہیں… الغرض لمبی داستان ہے خلاصہ یہ سمجھ
لیں کہ… ہم کتوں کی تمام عادتوں سے مالا مال ہوگئے… اور پھر ہم پاکستان آگئے۔
سوچ
ایک راستے الگ
میں
اور پرواز ایک دوسرے کے مکمل ہم خیال تھے… مگر روزی کی تلاش نے ہمیں الگ الگ کردیا…
پرواز فوج میں چلے گئے اور میں کاروبار میں لگ گیا… کبھی کبھار ہم مل بیٹھتے تھے
تو پھر وہی باتیں کرتے تھے… ترکی کی روشن خیالی اور پاکستان کی انتہا پسندی… مگر
ہم خوش تھے کہ چلو ہم تو روشن خیال ہیں… اور اصل اسلام پر عمل کرتے ہیں… داڑھی
منڈاتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے، جہاد کو گالیاں دیتے ہیں، مولویوں اور برقعے کے دشمن
ہیں… اور امریکہ اور یورپ کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں… بالآخر ناچتے گاتے ہماری
جوانی گذر گئی… اب ہم دونوں کافی مالدار تھے… پھر اچانک پرواز نے ایک پرواز سے اتر
کر ملک کی صدارت سنبھال لی… اور میں نے بھی اپنے کاروبار کی شاخیں ہرطرف پھیلادی…
میں نے پرواز کے صدر بننے کے بعد اس کا فوٹو دیکھا کہ اس نے کتوں کو بغل میں اٹھایا
ہوا ہے تو مجھے اس پر بہت پیار آیا… اور مجھے پاکستان کے بارے میں اپنے خواب پورے
ہوتے نظر آئے… شروع میں تو پرواز کچھ دب دب کر روشن خیالی کا چرچہ کرتا تھا مگر
اچانک نائن الیون نے اس کے پروں کی طاقت بڑھادی… اب وہ کھلم کھلا جہاد، داڑھی،
انتہا پسندی، مولویت، مدرسہ کے خلاف بولتا تھا… اور بہت زیادہ بولتا تھا… میں کبھی
کبھار اس سے ملنے جاتا تو وہ بہت جوش کے ساتھ بتاتا کہ اب پاکستان بھی اتاترک کا
ترکی بننے والا ہے… بس تم تھوڑا سا انتظار کرو…
ایک
عجیب واقعہ
اصل
اسلام پر کاربند ہونے کی وجہ سے میں مسجد میں بہت کم جاتا تھا… کتوں کے ساتھ رہنے
کی وجہ سے کپڑے بھی ناپاک ہوتے تھے… اور اتنے سارے داڑھی والے نمازیوں کو دیکھنا میرے
جیسے روشن خیال مسلمان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا تھا… چنانچہ سال میں ایک آدھ بار
ہی کسی مجبوری کی وجہ سے میں مسجد جاتا تھا… مگر ایک بار میرے ایک رشتے دار مجھ سے
ملنے آگئے… وہ کچھ مذہبی آدمی تھے… ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے کہا خیال جی
مجھے مسجد لے جائیے… میں نے بھاگ دوڑ کر صاف کپڑے پہنے… اور آدھا پونا وضو بنایا
اور ان کو لے کر مسجد چلا گیا… محلے کے لوگ مجھے شلوار قمیص اور ٹوپی میں دیکھ کر
حیران ہو رہے تھے… کیونکہ میں تو رات کو بھی ٹائی باندھ کر سونے کا عادی تھا کہ کہیں
غیر انگریزی لباس میں موت نہ آجائے… خیر امام صاحب نے نماز پڑھائی تو سلام کے بعد
ایک نوجوان کھڑا ہوگیا… چہرے پر بلا کی معصومیت اور تھوڑا سا رعب… پوری داڑھی اور
لمبے بال… اور سر پر فلسطینی مجاہدین والا رومال… اس نے اعلان کیا کہ سنتوں کے بعد
چند منٹ تشریف رکھیں… میں فوراً بھانپ گیا کہ یہ دہشت گرد ہے… مجھے پتا تھا کہ آج
کل ’’پرواز‘‘ دہشت گردوں کو پکڑتا ہے … اور امریکہ کے حوالے کرتا ہے… میں نے سوچا
کہ اس کی تقریر اپنے موبائل میں ٹیپ کروں گا… اور پھر فوراً پرواز کو فون کھڑ کا
دوں گا کہ پولیس کو بھیج دے… یوں میں انتہا پسندی ختم کرنے میں پرواز کا کچھ تو
ہاتھ بٹادوں گا… یہ تمام باتیں سوچتے ہی میرا دل جرمن کتے کی طرف خوشی میں اچھلنے
لگا… اور میری آنکھوں میں ’’جیمزبانڈ‘‘ جیسی چمک آگئی… اور مسجد میں آنے کی وجہ سے
مجھے جو پریشانی ہو رہی تھی وہ اب مسرت میں بدل گئی… لو بھائی میرا مسجد میں آنا
بھی کام آگیا… میرے مہمان سنتوں سے فارغ ہو چکے تھے… انہوں نے واپسی کا اشارہ کیا
تو میں نے کہا… ایک شکار ہاتھ لگا ہے… اس کو سرکار کا مہمان بنوا کر پھر چلتے ہیں…
مسجد میں آئے ہیں تو بغیر نیکی کئے کیسے واپس چلے جائیں؟…
دل
ہاتھوں سے نکل گیا
سنتوں
کے بعد وہ نوجوان کھڑا ہوگیا… میں نے موبائل کو ریکارڈنگ پر لگادیا… مگر اچانک فضا
ہی بدل گئی… وہ نوجوان بولتا کم تھا اور روتا زیادہ تھا… اے بھائیو! اے مسلمانو!
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم احد کے میدان میں زخمی ہوئے… ہائے میرے آقا کا خون …
ہائے میرے آقا کا خون… اس کے یہ الفاظ سن کر موبائل میرے ہاتھوں سے گر گیا… وہ
نوجوان کبھی آیتیں پڑھتا… کبھی حدیثیں سناتا، کبھی جیلوں میں بند مسلمانوں کے
واقعات دہراتا… کبھی جہاد کی بات کرتا، کبھی نماز کی دعوت دیتا… اور کبھی جنت کے
تذکرے چھیڑ دیتا… آخر میں اس نے سوال کیا… اے مسلمانو! دین وہ ہے جو آقا مدنی صلی
اﷲ علیہ وسلم لائے… یا دین وہ ہے جو کافروں سے مغلوب ہونے والے ہمارے حکمران پیش
کر رہے ہیں؟… اس کی باتوں نے مجھے رلا دیا… وہ بار بار پوچھتا تھا کہ اتنا مال جمع
کرنے کا کیا فائدہ ہے؟… جبکہ ہم نے کل مرجانا ہے… پھر جب اس نے جہاد کی کرامتوں کا
تذکرہ چھیڑا تو میرا دل ہاتھ سے نکل گیا… آنسوؤں کے قطرے میرے چہرے پر رم جھم کرنے
لگے… بیان ختم ہوگیا… لوگ چندہ دینے لگے مگر میں بیٹھا رہا… میں آج مال نہیں اپنا
دل دینا چاہتا تھا … سب لوگ چلے گئے تو میں اس کے پاس گیا… باتیں شروع ہوئیں تو میری
آنکھیں کھلتی چلی گئیں… میں نے اسے کہا میں مالدار شخص ہوں… تم غریب نوجوان ہو میں
تمہاری مالی مدد کرنا چاہتا ہوں… وہ ہنس کر بولا کہ جناب میری نہیں جماعت اور جہاد
کی مدد کیجئے… میں نے کہا اور تمہیں کچھ نہیں چاہئے؟… اس نے حسرت سے آہ بھری دو
آنسو اس کی آنکھوں سے پھسلے اور وہ بولا… چچا مجھے شہادت چاہئے آہ شہادت آہ شہادت…
میں نے پوچھا… ’’پرواز‘‘ نے ملک میں جہاد اور جماعتوں پر پابندی لگادی ہے تم کس
طرح سے کھلم کھلا کام کر رہے ہو؟… اس نے کہاچچا! اﷲ کے نور کو کوئی نہیں چھپا سکتا
… کوئی نہیں روک سکتا… میں نے اپنی جیب کے سارے پیسے نکال کر اس کے رومال میں
ڈالے… اس نے مجھے ایک کیسٹ دی اور ایک کتاب… اور میں تھکے تھکے قدموں کے ساتھ واپس
گھر آگیا…
میرے
رب نے مجھے جوڑ لیا
رات
کو میں نے اپنے کمرے میں بند ہو کر کیسٹ سنی تو لرز کر رہ گیا… میری زبان سے پہلی
بار نکلا یا اﷲ توبہ یا اﷲ توبہ… معلوم نہیں وہ کون سی گھڑی تھی کہ میری توبہ رنگ
لے آئی… میں نے کتاب کھولی تو نام تھا فضائل جہاد… میں نے پڑھنا شروع کی تو پڑھتا
چلا گیا… یوں لگتا تھا کہ کوئی چیز میرے دل سے زنگ اتار رہی ہے… جب میں شہیدوں کے
تذکرے اور جنت کے احوال تک پہنچا تو میری حالت بدل گئی… میں چیخیں مار رہا تھا…
اور بچوں کی طرح زمین پر لوٹ رہا تھا… مجھے اپنے ماضی کی کالی زندگی زہریلے سانپ کی
طرح کاٹ رہی تھی… اور مجھے اپنی بربادی پر سخت شرم آرہی تھی… کتاب پڑھتے پڑھتے
اچانک میرے کانوں سے اذان کی آواز ٹکرائی… آج یہ آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی
جبکہ پہلے میں اذان کی آواز سن کر موذن اور مولویوں کو گالیاں دیتا تھا… موذن نے
کہا… اشہد ان محمدا رسول اﷲ… محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام سن کر میری آنکھوں میں
آنسو آگئے … دل چاہا کہ اڑ کر مدینہ چلا جاؤں… آج مجھے اس نام میں عجیب اپنائیت
محسوس ہو رہی تھی… میں اٹھ کر باتھ روم میں گیا… خوب اچھی طرح نہایا… اور مسجد میں
حاضر ہوگیا… نماز کے بعد امام صاحب سے اس نوجوان کا پتہ پوچھا تو وہ گھبرا گئے… مجھ
سے کہنے لگے جناب بچہ ہے معاف کردیں، اس کو نہ پکڑوائیں… میں نے کہا امام صاحب اب
خیال جی وہ نہیں ہے آپ بے فکر ہو کر پتہ بتائیں… انہوں نے مجھے نوجوان سے ملادیا…
میں نے اسے بتایا کہ مجھے نہ تو درست کلمہ آتا ہے… نہ وضو اور نماز کا طریقہ … اس
نے کہا آپ سامان لائیں پندرہ دن میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا… میں کپڑے بریف کیس میں
ڈال کر لے آیا… وہ مجھے اپنے مرکز لے گیا… وہاں تو عجیب ماحول تھا… ہر طرف اﷲ اﷲ کی
صدائیں… خوب رونا دھونا… اور جہاد کی باتیں، شہادت کی امنگیں… میں بھی ان کے ساتھ
دورہ تربیہ اور پھر اساسیہ میں شامل ہوگیا… انہوں نے مجھ چونسٹھ سال کے بڈھے کو
باپ کا احترام دیا… مجھے نماز سکھائی… تلاوت سکھائی… اور دین پڑھایا… اور پھر ایک
دن ظہر کی نماز کے بعد اﷲ اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے مجھے اپنے دل میں کچھ اترتا ہوا
محسوس ہوا… ہاں بس اس دن میرے اﷲ پاک نے مجھے اپنے سے جوڑ لیا… اب میں ایک سال سے
ان مجاہدین کے ساتھ کام کرتا ہوں… اور مجھے امید ہے کہ ماضی کی کالی زندگی مجھے میرے
رب نے معاف فرمادی ہے… اس پورے عرصے میں مجھے کچھ یاد نہ رہا… اور نہ میری پرواز
سے ملاقات ہوئی… اچانک ایک دن میں نے اپنا پرانا نمبر کھولا تو پرواز کا میسج آیا
ہوا تھا… یار اتنا عرصہ ہوگیا کبھی آؤ مل کر ڈیٹ مارنے چلیں… میں نے سوچا ٹھیک ہے
پرواز کو جاکر سمجھاتا ہوں … ممکن ہے وہ بھی جہاد کے انکار سے توبہ کرلے… اور
مجاہدین کو ستانا بند کردے… چنانچہ اگلے دن میں پرواز کی طرف روانہ ہوگیا… اور
سارا راستہ جہاد کے دلائل یاد کرتا گیا…
پرواز
حیران رہ گیا
پرواز
کو جیسے ہی میرے پہنچنے کی اطلاع ملی اس نے مجھے فوراً بلالیا… مگر مجھے دیکھتے ہی
ہکا بکا رہ گیا… چہرے پر داڑھی، مولویوں جیسا لباس اور شلوار ٹخنوں سے اوپر… وہ چیخا
خیال جی! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟… میں نے آگے بڑھ کر ان کو گلے سے لگایا اور
پوچھا تم تو سیّد ہو نا پرواز؟… کہنے لگا ہاں بالکل!… میں نے کہا سیّد کس کی اولاد
ہیں… کہنے لگا حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی… میں نے کہا پرواز ان کی داڑھی تھی،
ان کا ازار بھی ٹخنوں سے اوپر ہوتا تھا… اس حلیے سے نفرت بہت بڑا عیب ہے اپنے چہرے
کی شکنیں ٹھیک کرو… ہماری بچپن کی دوستی تھی… پرواز ہنس پڑا اور کہنے لگا… انتہا
پسندی میرے دوستوں تک بھی پہنچ گئی… مگر میرا عزم ہے کہ میں بش کی مدد سے اسے ختم
کرکے دم لوں گا… اچھا یہ بتاؤ کیا پیو گے؟… آف دی ریکارڈ… میں نے کہا سادہ پانی،
امرت کولا یا گُڑ کا شربت… وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگا… خیر اس نے بادام کا شربت
منگوالیا… اور کہنے لگا اچھا پہلے گپ شپ کرو گے یا میرے کتوں سے ملو گے؟… میں نے
کہا اب کتوں سے یاری ختم ہے… اﷲ پاک نے انسانوں سے ملادیا ہے… وہ مجھے پھر شک کی
نگاہوں سے دیکھنے لگا… اب میں نے گلا صاف کرکے… اسے دین کی، جہاد کی اور مجاہدین
کو تنگ نہ کرنے کی دعوت دینا شروع کی… وہ بے زاری سے سنتا رہا… پھر مجھے روک کر
کہنے لگا… یار اب یہ ناٹک بند کرو، بہت ہوگیا مذاق… میں پہلے ہی چیف جسٹس کی وجہ
سے پریشان ہوں… میں نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح اس کی مونچھیں بھی
قید میں سفید کرادوں گا… مگر یہ تو مجھے ہی توڑ گیا… اب اوپر سے تم نے یہ فضول بک
بک شروع کردی ہے… چھوڑو اس مذاق کو اور کچھ مزے کی باتیں کرو… یار تمہیں ترکی کی
وہ لڑکی… میں نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا… پرواز بیٹیوں کا پردہ قرآن کا حکم ہے…
میں مذاق نہیں کر رہا … خود سوچو ہم دونوں چونسٹھ سال کے بڈھے ہوگئے ہیں… آج کل میں
مرجائیں گے… ہم نے قبر کے لئے کیا تیاری کی ہے؟… ہم نے آخرت کا کیا سامان کیا ہے؟…
کیا بش ہمیں وہاں کے عذاب سے بچا لے گا؟… پرواز! اب بس کرو اور جہاد کی مخالفت
چھوڑ دو… میرے ساتھ چل کر دورہ اساسیہ کرو اور پھر دورہ تربیہ میں اﷲ اﷲ کرو…
پرواز مزہ آجائے گا حقیقی مزہ… اصل مزہ…
پرواز
غضبناک ہوگیا
جب
پرواز نے دیکھا کہ میں واقعی سنجیدہ ہوں تو غصے سے اس کا رنگ بدل گیا… مجھے کہنے
لگا خیال جی بس کرو، بس کرو… میری زبان نہ کھلواؤ… میں نے کہا پرواز کھل کے بولو
کوئی حرج نہیں… وہ غصے میں کھڑا ہوگیا… اس نے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے…
اور کھڑکی کی طرف منہ کرکے بولا… خیال جی مجھ سے جہاد کو وہ فائدہ پہنچ رہا ہے… جو
تم جیسے کئی ہزار افراد مل کر بھی نہیں پہنچا سکتے… ارے پرواز تم اور جہاد کو
فائدہ؟… میں چیخ پڑا اور میں بھی کھڑا ہوگیا… وہ بولا… اچھا یہ بتاؤ آج سے پانچ
سال پہلے پاکستان میں جہاد کی کتنی تنظیمیں تھیں؟… میں نے تھوڑا سا سوچ کر کہا چھ
سات ہوں گی… وہ مسکرا کر بولا اب کتنی ہیں؟… میں نے کہا کم از کم دو سو… وہ بولا…
پانچ سال پہلے پاکستانی مجاہدین میں خود کش کتنے تھے؟ جنہیں تم فدائی مجاہد کہتے
ہو… میں نے کہا دو چار یا آٹھ دس… اس نے کہا اور اب؟… میں نے کہا ہزاروں… اس نے
قہقہہ لگایا… اور کہنے لگا پاکستان کے کس علاقے پر پانچ سال پہلے مجاہدین کا
کنٹرول تھا؟… میں نے کہا کسی علاقے پر نہیں… کہنے لگا اور اب؟… میں نے کہا بہت سے
علاقے عملاً مجاہدین کے قبضے میں ہیں… اب تو گویا پرواز پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا…
وہ خاص اسٹائل سے کرسی پر بیٹھا… اور میز پر مکاّ مار کر کہنے لگا… چھ سات تنظیموں
سے دو سو تنظیمیں بن گئیں… آٹھ دس فدائیوں سے ہزاروں فدائی پیدا ہوگئے … علاقوں کے
علاقے مجاہدین کے قبضے میں چلے گئے… وزیرستان سے لے کر کراچی تک مجاہدین دندناتے
پھر رہے ہیں… کل تک ان کے لیڈروں کے پاس لائسنس والے سیمی آٹو میٹک ہتھیار تھے…
اور آج وہ راکٹوں، توپوں اور گولوں کے مالک ہیں… کل تک وہ پولیس والوں سے بھی
بھاگتے پھرتے تھے… اور آج ان میں سے بعض آرمی کے قافلے اڑا رہے ہیں… کل تک وہ مسکین
نظر آتے تھے… اور آج شیروں کی طرح دھمکیاں دیتے ہیں… خیال جی… اب تم خود ہی بتاؤ میں
نے جہاد کو نقصان پہنچایا ہے یا فائدہ؟… پرواز نے یہ سوال کرکے میری آنکھوں میں
آنکھیں گاڑ دیں… اور میں تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں چلا گیا…
میرا
ایمان متزلزل ہونے لگا
پرواز
کی وزنی باتیں سن کر میرا ایمان متزلزل ہونے لگا… چند دن پہلے میرے محلے کی ایک
پتلی سی چودھرانی نے بھی مجھے یہ طعنہ دیا تھا کہ… مجاہدین ایجنسیوں کی پیداوار ہیں…
اور کچھ لوگوںنے مجھے بتایا تھا کہ حکومت خود ان مجاہدین کو پال رہی ہے… مگر اس
وقت مجھ پر جہاد کا نشہ اور ذکر کی لذت حاوی تھی… اور میں نے بعض غازیوں اور عملی
مجاہدین کے ’’نورانی‘‘ چہرے بھی دیکھ لئے تھے… اس لئے مجھے یہ سارے الزامات غلط
لگے تھے… مگر آج پرواز نے مجھے ہلا کر رکھ دیا… مگر میں ہار ماننے والا کہاں تھا…
میں ایک خاص اسٹائل سے پرواز کی کرسی کی پشت کی طرف آیا اور میں نے… اس کے گلے میں
بانہیں ڈال کر کہا… پرواز یار سچ بتاؤ… کیا تم واقعی جہاد کے حامی ہو؟… کیا تم
مجاہدین کی باقاعدہ سرپرستی کر رہے ہو؟… یا واقعی جہاد کی یہ تمام بہاریں تمہارے
دم سے ہیں؟… پھر میں نے جذباتی ہو کر اس کے کندھے پکڑ لئے اور زور دے کر کہا…
پرواز آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف کردو… اور اپنے پرانے دوست کے سامنے
اپنا دل کھول کر رکھ دو… پرواز نے اپنے کندھے چھڑوائے اور مجھے کہا… خیال جی آج غم
کی رات ہے… بلکہ رونے کی رات ہے… چیف جسٹس بحال ہوچکا ہے… آج میں غم غلط کرنے کے
لئے سب کچھ سچ سچ بتاؤں گا… تم سامنے بیٹھو اور آرام سے بات سنو… میں سامنے کی کرسی
پر بیٹھ گیا… پرواز نے کہا… سنو خیال جی… میں نہ جہاد کا حامی ہوں نہ مجاہدین کا
سرپرست… اور نہ میں نے اپنے وہ نظریات بدلے ہیں جن کے تم ترکی کے زمانے سے گواہ
ہو… مگر قسمت کا کھیل کہ مجھ سے جہاد کو بے انتہا فائدہ پہنچا… خیال جی… میں اسلام
کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا مگر مجھے اتنا پتہ ہے کہ اسلام مشکل حالات میں مضبوط
ہوتا ہے… میں نے حالات کو سیکولرازم کے موافق پا کر جہاد کو مٹانے کی پوری کوشش کی
مگر… جہاد مضبوط تر ہوتا چلا گیا… میں نے جب ہر تقریر میں انتہا پسندی کے خلاف بات
کی تو لوگ … انتہا پسندی کے ہمدرد بنتے چلے گئے… میں نے مجاہدین کے گھر اجاڑے تو
انہوں نے جنگلوں اور پہاڑوں پر بسیرا کرلیا اور وہاں چھا گئے… میں نے مجاہدین کو
لاشوں کے تحفے دئیے تو… ان لاشوں نے ان کے جذبات کو آسمانوں تک پہنچادیا… اور سنو
خیال جی! میں نے تو جہاد کی دعوت بھی آسان کردی… وہ کس طرح پرواز؟… تم تو دعوت
جہاد کے سخت مخالف ہو… پرواز نے کہا… خیال جی جہاد کا مسئلہ ایک زمانے تک علماء
سمجھا سکتے تھے… کیونکہ ہم روشن خیالوں نے جہاد کے خلاف اتنے وسوسے پھیلا دیئے تھے
کہ جہاد کو سمجھانا اور لوگوں سے منوانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی… مگر میں نے
قوم پر ایسے مظالم ڈھائے کہ اب کالج کا کوئی نوجوان لڑکا کھڑے ہو کر… ان مظالم کو
گنوا کر درجنوں لوگوں کی جہاد پر تشکیل کردیتا ہے… نہ کوئی قرآنی آیت نہ حدیث… بس
میرے کارنامے سنائے… علماء کی لاشیں، مجاہدین کے جنازے، مدارس پر بمباری، مساجد کی
مسماری، جہادی تنظیموں پر پابندی، علماء کی زبان بندی… اور کنجروں میراثیوں کی
حوصلہ افزائی… اور اسی طرح کے اور کارنامے… اور یہ جو میں دن رات کہتا ہوں کہ ہم
امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں… میرے اسی جملے کو لے کر لوگ جہاد کی پوری تقریر تیار
کرلیتے ہیں کہ… دیکھو پرواز امریکہ کا یار اور اس کا مددگار ہے… بس یہ بات سنتے ہی
لوگ جہاد پر تیار ہوجاتے ہیں… وہ دیکھو میں نے ایک عورت ’’پیلو خر چھلانگ یار‘‘ کو
وزیر بنایا… وہ جا کر گوروں سے لپٹ گئی… یہ بات بھی لوگوں کو جہاد پر ابھارتی ہے…
اور جو کمی کوتاہی رہ گئی تھی وہ لال مسجد پر میرے حملے نے پوری کردی… اب کسی
مسلمان کو جہاد پہ کھڑا کرنے کے لئے بس یہی ایک واقعہ سنادینا کافی ہے… پرواز نے ایک
لمبا سانس لیا اور مجھ سے کہا… خیال جی تم نے کتنے مجاہد اب تک تیار کیے ہیں؟… میں
نے انگلیوں کے پوروں پر گِنا تھوڑا سا سوچا اور کہا شاید سات یا آٹھ آدمیوں کو اب
تک تیار کیا ہوگا… پرواز نے خوفناک قہقہہ لگایا اور کہنے لگا صرف سات آٹھ… اور
آگئے مجھے دعوت دینے … دیکھو میں نے ہزاروں کو کھڑا کردیا ہے ہزاروں کو… اور میرا
ارادہ تو ان مجاہدین کو ٹینکوں سے روندنے کا تھا… مگر ملک کا ماحول ساتھ نہیں دیتا…
مگر خیال جی اگر میں ان پر ٹینک چڑھا دیتا تو ان کی تعداد اب لاکھوں میں ہوتی… دیکھو
عراق میں ایک مجاہد بھی نہیں تھا بش نے طیارے اور ٹینک چڑھائے تو اب چھ لاکھ مجاہدین
کی پوری اسلامی آرمی بن گئی ہے وہاں…
یہ
بات بتا کر پرواز خلاء میں گھورنے لگا… یہ اس کی بچپن کی عادت ہے کہ اچانک گم
ہوجاتا ہے… میں اس کی ان عجیب باتوں سے حیران تھا… میں نے گلا صاف کرکے کہا… پرواز
اگر تم جہاد کے حامی ہو تو… اب مجاہدین کو تنگ کرنا چھوڑ دو… اگر لاشوں کے تحفے دیناہی
جہاد کی خدمت ہے تو تم اپنا بھی تو سوچو کہ آخر تم نے… اس سارے خون کا حساب دینا
ہے…
پرواز
نے سر جھٹک کر کہا… مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے… ہر زمانے کے اپنے اپنے کردار
ہو تے ہیں… میں نے بھی اپنے لئے ایک کردار چوائس کرلیا ہے… مجھے میرے حال پر چھوڑ
دو… میں نے کہا کونسا کردار؟… پرواز نے کہا تمہیں غزوہ بدر کا علم ہے؟… میں نے کہا
ہاں میں نے اسے خوب پڑھا ہے… پرواز نے کہا… غزوہ بدر میں مسلمان ننگے پاؤں، پھٹے
کپڑے، لاٹھیاں اٹھا کر میدانوں کی طرف کیوں شیروں کی طرح گرجتے ہوئے بھاگ رہے تھے؟
تم نے شاید غور سے نہیں سوچا؟… ان کے اس جذبے کے پیچھے کئی عوامل تھے کئی وجوہات
تھیں… یہ ٹھیک ہے قرآن نے انہیں جہاد کا حکم دیا تھا… یہ بھی ٹھیک ہے کہ حضور پاک
صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے… یہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں اﷲ تعالیٰ کی نصرت کا
بھروسہ تھا… مگر ان کے طوفانی جذبے کے پیچھے ایک اور کردار بھی تھا… اور وہ تھا
ابوجہل کا کردار… مسلمانوں کو معلوم تھا کہ مشرکین کے لشکر میں ابوجہل موجود ہے…
بس اس کی وجہ سے ان کے غصے، جذبے اور یلغار میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا… ابوجہل
کے مظالم ان کی آنکھوں میں خون کی طرح اتر آئے تھے… اور ان کے جسم میں بجلیاں
دوڑنے لگی تھیں… یقین کرو اگر ابوجہل اس لشکر میں نہ ہوتا تو شاید مسلمانوں کے
جذبے میں اتنا طوفان نہ ہوتا… خیال جی… جہاد کے لئے قرآنی آیات بھی ضروری، احادیث
بھی ضروری… سیرت کے واقعات بھی ضروری، مگر یاد رکھو… ظالم کا ظلم اور ابوجہل کی
ظالمانہ جہالت بھی جہاد کو فائدہ پہنچاتی ہے…
جاؤ
تم اپنا کردار ادا کرو… اور مجھے اپنا کردار ادا کرنے دو اور سنو آئندہ مجھ سے
ملنے مت آنا… ورنہ… کسی اخبار میں سعود میمن… اور لال مسجد کی کہانی پڑھ لینا… یہ
کہہ کر پرواز کرسی سے اٹھ کر اندر چلا گیا… اور میں … یعنی خیال جی چونسٹھ سالہ
دوستی کا یہ انجام دیکھ کر… قبر کو یاد کرتے ہوئے باہر نکل آیا…
٭٭٭
ایک سدا بہار
واقعہ
٭غزوہ تبوک کے
موقع پر ہجرت کا نو سال پرانا واقعہ یاد دلایا گیا… اس کی بعض حکمتیں
٭غزوہ تبوک کی
دلکش جھلکیاں
٭مسلمان اس بات
سے محفوظ ہیں کہ کوئی کافر طاقت ان کا مکمل خاتمہ کر دے
٭امریکہ کی زیر
قیادت نیٹو اتحاد کا ایک اہم اجلاس مسلمانوں کے خلاف منعقد ہوا… اخبار میں اس
اجلاس کی خبریں اور تصویریں دیکھ کر… ہجرت کا واقعہ یاد آگیا… مسلمانوں کو ہمت
دلانے والی ایک تحریر
تاریخ اشاعت ۱۸؍رجب۱۴۲۸ھ
۳؍اگست ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۱۰۸
ایک سدا بہار
واقعہ
اﷲ
تعالیٰ نے یاد دلایا کہ ہجرت کے موقع پر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو کون بچا کر
لایا تھا؟… شام کی طرف سے مدینہ منورہ میں زیتون کا تیل لایا جاتا تھا… زیتون کا
درخت بھی برکت والا اور اس کا پھل اور تیل بھی برکت والا… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے لگاؤ… زیتون کے تیل کو قرآن پاک نے ایک
بڑی مثال میں بھی بیان فرمایا ہے… اس بار شام کے جو تاجر زیتون کا تیل لائے وہ
اپنے ساتھ ایک خبر بھی لائے… روم کی عیسائی سلطنت مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع
کرچکی ہے… چالیس ہزار کا ایک لشکر سرحد تک پہنچ چکا ہے… یہ ۹ ہجری کا زمانہ
تھا… مسلمانوں نے جزیرہ عرب کو تقریباً پاک کردیا تھا… مکہ مکرمہ پر ایک نوجوان
مسلمان صحابی عتاب بن اسید رضی اﷲ عنہ گورنر تھے… حنین اور طائف کا مسئلہ بھی نمٹ
چکا تھا… موسم سخت گرمی کا تھا، کھجور تیار تھی، دھوپ سخت اور سائے کی جگہ خوشگوار
تھی… اور کچھ آثار قحط اور خشک سالی کے بھی تھے… اور دوسری طرف روم کی طاقتور اور
اپنے زمانے کی سپرپاور حکومت کا رعب تھا… مسلمانوں کی خوش بختی کے عروج کا آخری
زمانہ تھا… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے سروں پر موجود تھے… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی مبارک زندگی کے آخری دو سال… اﷲاکبرکبیرا… حکم فرمایا کہ سب نکل پڑو… کوئی
بھی پیچھے نہ رہے، نہ خواص نہ عوام… نفیر عام کا ڈنکا بجا… مدینہ منورہ کی مسجد
اور گلیاں ’’حی علی الجہاد‘‘ ’’حی علی الجہاد‘‘ کے نعرے سے گونج اٹھیں… مقابلہ روم
کی سپرپاور سے ہے، اور ان کے حملہ کرنے سے پہلے ان پر حملہ کرنا ہے… قرآن پاک نور
کی بارش برسا رہا ہے کہ عیسائیوں سے جہاد کرنا کیوں ضروری ہے… یہ لوگ کتنے برے اور
کتنے گندے ہیں … نعوذ باﷲ، اﷲ تعالیٰ کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں… یہ لوگ زمین کو
معاشی نا ہمواری کے ظلم سے بھرتے ہیں… ان کی مذہبی قیادت فتویٰ فروش لالچیوں کے
ہاتھ میں ہے… اے مسلمانو! ان سے لڑو … ان سے طاقت چھین لو… یہ تمام آیتیں سورۃ
توبہ میں موجود ہیں… جی ہاں وہی سورۃ توبہ جسے پاکستان کے حکمرانوں نے نصاب کی
کتابوں سے نکال دیا ہے… مگر یہ سورۃ قرآن پاک میں موجود ہے… اور موجود رہے گی… یہ
اﷲ پاک کا کلام ہے، جسے کوئی بد دماغ نقصان نہیں پہنچا سکتا… اور خوش نصیب مسلمان
سورۃ توبہ پر عمل کرتے رہیں گے… اور انشاء اﷲ کامیاب ہوتے رہیں گے… غزوۂ تبوک عجیب
غزوہ تھا… یہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری غزوہ تھا… جی ہاں وہ آخری اسلامی
لشکر جس کی کمان حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم خود فرما رہے تھے… اس غزوہ میں تیس
ہزار مسلمان شریک ہوئے… جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان عام (جس کو شریعت کی
اصطلاح میں نفیر عام کہا جاتا ہے) فرمایا تو لوگوں کی چھ قسمیں ہوگئیں … قرآن پاک
نے ان تمام قسموں کو بیان فرمایا… جلدی جلدی بھاگ بھاگ کر جہاد میں شریک ہونے
والے… صدیق اکبر اپنی ملکیت کا تمام سامان لے کر… اﷲاکبرکبیرا… صدیق اکبر مسلمان
ہوئے تھے تو چالیس ہزار درہم رکھنے والے مکہ کے سیٹھ تھے… پھر یہ مال دین پر اور
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم پر خرچ ہوتا رہا، مسلمان غلام خرید خرید کر آزاد ہوتے
رہے، آٹھ سو درہم کی دو اونٹنیاں ہجرت کے لئے خریدیں… ہجرت کے وقت پانچ ہزار درہم
بچ گئے تھے وہ آقا کی خدمت کے لئے ساتھ لے لئے… اور پھر ان سے مسجد نبوی کی زمین
خریدی گئی… اور جب انتقال فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بقول ایک درہم بھی
پاس نہیںتھا…
حضرت
فاروق اعظمؓ آدھا سامان… حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بڑی بڑی رقمیں اور
ابو عقیل انصاریؓ ساری رات ایک کھیت میں مزدوری کرتے رہے، انہیں اس کے بدلے دو سیر
کھجوریں ملیں تو وہ لا کر پیش خدمت کردیں… پہلی قسم وہ لوگ جو بھاگ بھاگ کر خود بھی
آرہے تھے، سامان بھی لا رہے تھے… دوسری قسم وہ لوگ جنہیں تھوڑی دیر دنیا نے اپنی
طرف کھینچا مگر پھر ان کا ایمان غالب آگیا اور وہ لشکر اسلامی میں شامل ہونے کے
لئے دوڑ پڑے… تیسری قسم وہ لوگ جو جانے کے لئے تڑپ رہے تھے، رو رہے تھے، مچل رہے
تھے مگر معذور تھے کسی کے پاس سامان نہیں تھا تو کوئی چلنے سے معذور تھا۔ چوتھی
قسم وہ لوگ جو مسلمان تھے مگر سستی کا شکار ہوگئے… انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف
کرلیا اور خود کو سزا کے لئے پیش کردیا… پانچویں قسم وہ لوگ جو منافق تھے، انہوں
نے طرح طرح کے بہانے بنائے اور جہاد میں شریک نہیں ہوئے… چھٹی قسم وہ لوگ جو منافق
تھے مگر وہ جاسوسی کے لئے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لئے
لشکر میں شامل ہوگئے تھے… اﷲ پاک نے ان تمام قسم کے افراد کے بارے میں آیتیں نازل
فرمائیں…
یہ
ایک تفصیلی موضوع ہے… آج عرض یہ کرنا ہے کہ غزوۂ تبوک کا اعلان ہوچکا تھا… کچھ
لوگ سستی کر رہے تھے… اور کچھ گھبرا بھی رہے تھے… اس وقت قرآن پاک نے ساڑھے نو سال
پرانا ایک واقعہ یاد دلایا… جی ہاں حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کا واقعہ…
اور لوگوں کو سمجھایا کہ اﷲ پاک تمہارا محتاج نہیں ہے… اﷲ پاک کا دین بھی تمہارا
محتاج نہیں ہے… اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تمہارے محتاج نہیں ہیں… اگر تم
لوگ جہاد پر نہیں نکلو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے… عظیم الشان جنت سے محروم رہو
گے… اور دنیا کی فانی زندگی پر آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کو قربان کرنے والے کم عقل
بنو گے… اﷲ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا… ہجرت کے موقع پر رسول اﷲ علیہ
وسلم کے ساتھ صرف ایک ساتھی، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ تھے… وہاں اﷲ پاک نے کیسے
نصرت فرمائی… اور کس کس ڈھنگ سے نصرت فرمائی… اور اپنے نبی کو مدینہ منورہ تک
بحفاظت پہنچادیا…
سورۂ
توبہ کی آیت رقم (۴۰) ہجرت کے عجیب واقعہ کو یاد کراتی ہے… اور مسلمانوں کو جہاد
اور قربانی کی دعوت دیتی ہے… حضرت صدیق ا کبر ہجرت کی رات بھی کامیاب رہے اور تبوک
کے دن بھی کامیاب رہے… اﷲ پاک ان کی ایمانی فراست کا کچھ حصہ ہم لوگوں کو بھی عطاء
فرمائے جو ہر امتحان میں ناکام رہتے ہیں… اور ادنیٰ چیزوں کے پیچھے خود کو برباد
کرتے رہتے ہیں… صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنی ہر چیز آخرت کے لئے قربان کردی… اﷲ
پاک نے دنیا میں بھی ان کو کسی کا محتاج نہیں فرمایا… اور آخرت میں بھی کتنا اونچا
مقام ان کے لئے مقدّر فرمایا… ہجرت کے موقع پر تو ان کے ایمان نے وہ کارنامے
دکھائے کہ آسمان کے فرشتے بھی حیران رہ گئے… جب غارثور کی طرف جا رہے تھے تو ان پر
عجیب کیفیت طاری تھی… کبھی حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے چلتے، کبھی پیچھے اور
کبھی دائیں اور بائیں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پوچھنے پر عرض کیا… کسی طرف سے دشمن
آپ پر حملہ آور نہ ہوجائے اسی فکر میں یہ سب کچھ کر رہا ہوں… اور فرمایا کہ میں
چاہتا ہوں کہ آپ بچ جائیں اور میں قتل ہوجاؤں… اور فرمایا کہ اگر میں مارا گیا تو
ایک آدمی مرے گا اور آپ کو کچھ ہوا تو امت ہلاک ہوجائے گی… پھر غار ثور کو صاف کیا…
سانپ نے کاٹا… ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کندھے پر بھی اٹھا کر چلے اور پاؤں
کے نشانات چھپانے کے لئے اپنے پنجوں کے بل چلتے رہے، جس سے پاؤں زخمی ہوگئے…
آہ
قربانی… صدیق اکبر کی ساری تھکاوٹیں اور زخم دور ہوگئے اور اجر ومقام کا زمانہ
شروع ہوگیا… وہ لوگ سوچیں جو سارے مزے اور آرام اسی زندگی میں پانا چاہتے ہیں… اور
سو سو کر اپنی جوانیاں بستروں پر ذبح کر رہے ہیں… بات یہ عرض ہو رہی تھی کہ غزوۂ
تبوک کے موقع پر ہجرت کا واقعہ یاد دلایا گیا تو اس میں بے شمار حکمتیں تھیں… اور
قربانی پر آمادہ کرنے کے لئے ہجرت کا واقعہ ایک خاص تاثیر رکھتا ہے… اور اس میں یہ
سبق بھی ملتا ہے کہ مسلمان مشکل حالات میں ہجرت کے واقعہ سے سبق لیا کریں… آج
ہمارے چاروں طرف ایسے کئی مناظر نظر آرہے ہیں جو ہمارے دلوں کو زخمی کرتے ہیں… ایسے
وقت میں ہجرت کے واقعات زخموں پر مرہم کا کام دیتے ہیں… دراصل کافروں نے تو اپنے
گمان میں ہجرت کی رات اسلام کو ختم کردیا تھا… کتابوں میں لکھا ہے کہ ہجرت کی رات
جب ایک سو مسلح کافروں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رکھا
تھا تو ابوجہل کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی… وہ قہقہے لگا رہا تھا اور اپنے
ساتھیوں سے کہہ رہا تھا کہ… محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کہتے تھے کہ میرے ساتھی غالب
ہوں گے اور وہ تمہیں قتل کریں گے اور تم جہنم میں جاؤ گے اور وہ جنت میں جائیں گے،
آج دیکھو سب کچھ ختم ہونے والا ہے… ہجرت کی رات جب کافر اسلام کو ختم نہ کرسکے
حالانکہ یہ خاتمہ تلوار کے ایک وار کے فاصلے پر تھا… اور ظاہری طور پر آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے بچنے کا ذرہ برابر امکان نہیں تھا… مگر اﷲ پاک نے بچایا… تو اب اس دین
کو کون ختم کرسکتا ہے… ہاں کافر اپنی باتوں سے ایسا ماحول ضرور بنا لیتے ہیں کہ
محسوس ہونے لگتا ہے کہ… اب اسلام ختم اور اب مسلمان ختم… امریکی اٹھیں گے اور وزیرستان
پر ایک بم ماریں گے تو وزیرستان ختم… پھر افغانستان پر ایٹم بم ماریں گے تو
افغانستان ختم… مگر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں… امریکی توعراق میں ایسے پھنسے ہیں کہ
واپسی کا راستہ نہیں مل رہا… اور ایٹم بم چلانے والے خوب جانتے ہیں کہ ان کا واسطہ
کس قوم سے ہے… نائن الیون والے جہاز امریکہ کے کسی ایٹمی ری ایکٹر پربھی گر سکتے
تھے… اور مسلمان الحمدﷲ اس بات سے محفوظ ہیں کہ کوئی ان کا مکمل خاتمہ کردے… یہ
جاپانی نہیں ہیں کہ ایٹم بم کھا کر چپ بیٹھ جائیں گے… یہ دشمن کا ہر قرضہ اتارنے
والی قوم ہے… ماضی میں ہمیں ختم کرنے کا خواب دیکھنے والوں کا اب نام ونشان بھی
باقی نہیں ہے… کوئی جائے اور منگولیا نامی چھوٹے سے ملک میں تاتاریوں کی ہڈیاں
تلاش کرے… وہ تاتاری جنہیں لوگ یاجوج ماجوج سمجھ کر اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑدیتے
تھے…
آج
میں نے اخبار میں بعض تصویریں اور خبریں دیکھیں تو پھر ہجرت کے مناظر یاد آگئے…
دارالندوہ مکہ میں مشرکین کے نیٹو جیسے اتحاد کا ہیڈکوارٹر تھا… وہاں مشورہ ہو رہا
تھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا کیا جائے؟ … بالآخر طے پایا کہ ہر قبیلے
سے ایک جوان آدمی لیا جائے پھر یہ تمام لوگ مل کر حملہ کریں… اس طرح آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے قبیلے والے لوگ تمام قبائل سے نہیں لڑ سکیں گے… بالآخر دیت پر فیصلہ ہوگا
تو تمام قبائل مل کر ادا کریں گے… اسی دارالندوہ سے متحدہ فورسز کا لشکر نکلا تھا
اور اس نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر مبارک کا محاصرہ کرلیا تھا… گھر میں
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ تھے… آج جب کسی جگہ اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف اسی طرح کا اجلاس ہوتا ہے تو ہجرت کی رات یاد آجاتی ہے… اس رات میرے
آقا محاصرے میں تھے… اور آج آقا کا دین اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی محاصرے میں
ہیں… اور کافروں مشرکوں کے عزائم بالکل ویسے ہی ہیں… مگر اﷲ پاک اپنے دین کا اور
مسلمانوں کا محافظ ہے… وہ دارالندوہ ۸ھ میں مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا… اور حضرت معاویہ رضی
اﷲ عنہ کے زمانے میں اس کے مسلمان مالک نے اسے بیچ کر تمام رقم اﷲ پاک کے راستے میں
دے دی تھی… انشاء اﷲ آج کے وہ ہیڈکوارٹر جہاں زمانے کے طاقتور لوگ بیٹھ کر… اسلام
اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں… ایک دن مسلمانوں کے قبضے میں آئیں
گے… بس شرط یہی ہے کہ مسلمان اپنے گھروں سے چمٹے رہنے کی بجائے ہجرت اور جہاد کے
عمل کو زندہ کریں… آج جب مسلمانوں کے کچھ قاتل خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر
فوٹو کھنچواتے ہیں تو مسلمانوں کے دل سے ہوک اٹھتی ہے کہ… ملا محمد عمر کعبہ شریف
نہیں جاسکتے… اکثر جہادی مسلمان کعبہ شریف نہیں جاسکتے… اور یہ مسلمانوں کے قاتل
جب چاہتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں… اس کا جواب بھی ہجرت کا واقعہ دیتا ہے… آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم آنکھوں میں آنسو لئے مکہ مکرمہ سے نکل رہے تھے… بلکہ نکالے جارہے تھے…
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے…
ما
اطیبک من بلد واحبک الی ولو لا ان قومی اخرجونی ما سکنت غیرک
’’اے مکہ تو
کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھ کو بہت ہی محبوب ہے اگر میری قوم مجھ کو نہ نکالتی تو
میں تیرے علاوہ کسی اور جگہ سکونت اختیار نہ کرتا…‘‘
ابوجہل
اور دوسرے مشرکین خانہ کعبہ کے متولّی بنے ہوئے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ثور
پہاڑ کی ایک تاریک غار میں روپوش تھے… اور پھر سات سال تک آپ خانہ کعبہ نہ آسکے…
کعبہ شریف نے اپنی مبارک آنکھوں سے ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں… کعبہ شریف کا خادم
اور عابد حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کعبہ کے نزدیک سولی پر لٹکا ہوا تھا… اور
حجاج جیسا ظالم و قاتل کعبہ کا حاکم قرار پایا تھا… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کافروں کے لشکر کے ساتھ غزوۂ بدر میں آئے تھے اور اس
وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے… حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان سے بات کی کہ چچا ایمان
لے آتے تو ہجرت اور جہاد کا اجر عظیم پاتے… چچا بھتیجے کی بات کچھ بڑھ گئی اور
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے خیر خواہی کے تحت کچھ تلخی بھی کرلی… اس پر حضرت عباسؓ نے
فرمایا تم لوگ ہماری برائیاں تو گنواتے ہو مگر ہماری نیکیوں کا تذکرہ نہیں کرتے…
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حیرت سے پوچھا کہ چچا! آپ لوگوں کی کوئی نیکی بھی ہے؟…
انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم خانہ کعبہ کی خدمت کرتے ہیں… اسے آباد رکھتے ہیں، اس کی
تعمیر کرتے ہیں، حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں، ان کی خدمت کرتے ہیں… اس پر قرآن پاک کی
آیات نازل ہوئیں کہ خانہ کعبہ کی خدمت، آبادی اور حاجیوں کو پانی پلانا ایمان لانے
اور جہاد کرنے کے برابر ہر گز نہیں ہوسکتا… بلکہ جہاد کا درجہ ان خدمات سے بہت
اونچا ہے… الغرض ہجرت کا واقعہ مسلمانوں کو کسی بھی وقت مایوس نہیں ہونے دیتا…
بلکہ ہر موقع پر ان کی رہنمائی کرتا ہے… اور انہیں حوصلہ دیتا ہے کہ اﷲ پاک نے
کتنے مشکل وقت میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کو بچایا ہے… وہ اﷲ
تعالیٰ اب بھی موجود ہے… وہ حی ّ قیوم ہے… اسے اونگھ اور نیند تک نہیں آتی… وہ پاک
اور بلند ہے… اس کی نصرت آج بھی ان پر اترتی ہے… جو ہجرت اور جہاد کے عمل کو زندہ
کرتے ہیں… ہم میں سے ہر مسلمان صرف ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ میں
نے… دین کی خاطر کیا چھوڑا ہے… اور میں نے دین کی خاطر کیا قربانی دی ہے…
٭٭٭
لہو کی دلدل
٭امریکہ کے
صدارتی امیدوار نے ’’ کعبۃ اﷲ‘‘ اور’’ مسجد نبوی‘‘ پر حملے کی بات
بکی تو… اس تحریر میں امریکہ کو آئینہ
دکھایا گیا ہے
٭امریکہ کبھی بھی
دنیا کو فتح نہیں کرسکتا
٭مسلمان
حکمرانوں اور فوجیوں کو دعوت جہاد
٭حضور اقدس صلی
اﷲ علیہ وسلم کا باتدبیر جہاد…
اور دل کو گرمانے والی بہت سی مفید
باتیں
تاریخ اشاعت ۲۵
رجب ۱۴۲۸ھ
۱۰؍ اگست ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۰۹
لہو کی دلدل
اﷲ
تعالیٰ نے ہاتھی والوں کے لشکر سے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی… اس وقت چھوٹے چھوٹے
پرندے ’’ابابیل‘‘ خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے… اﷲ پاک کا لشکر بن گئے تھے… وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُو …
جی ہاں بے شک اﷲ تعالیٰ کے لشکروں کو خود اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے… بس اتنا اندازہ
ہے کہ اس بار کے ’’ابابیل‘‘ وہ فدائی مجاہدین ہوں گے جو خانہ کعبہ کی طرف ٹیڑھی
آنکھ سے دیکھنے والے ناپاک امریکیوں کو جہنم کے آخری کونے تک پہنچا دیں گے… دراصل
امریکی اب مکمل طور پر پاگل ہوچکے ہیں… ان کے ساتھ جو کچھ عراق اور افغانستان میں
ہو رہا ہے اس کا انہوں نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا… کل تک ’’کٹی ٹانگوں‘‘
اور ایک بازو والے لوگ کابل اور قندھار میں نظر آتے تھے… مگر آج نیویارک، واشنگٹن
اور کیلی فورنیا میں ’’کٹی ٹانگوں‘‘ والے امریکی عبرت کا نشان بنے پھرتے ہیں… امریکہ
ایک طرف دنیا کا مالدار اور عیاش ملک بھی رہنا چاہتا ہے … اور دوسری طرف دنیا کا
فاتح بھی بننا چاہتا ہے… یہ دونوں باتیں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں… دنیا کا فاتح وہی
بن سکتا ہے جو سوکھی روٹی خوشی سے کھاتا ہو… مگر امریکی تو برگر خور، شرابی اور
جنسی دیوانے… یہ لوگ کسی کو مار تو سکتے ہیں مگر فتح نہیں کرسکتے… ٹھیک ہے ان کے
پاس ایٹم بم ہیں … کوئی حرج نہیں، کوئی ڈر نہیں … یہ بے شک خوشی سے پوری دنیا کو
کھنڈر بنادیں… تب ان کھنڈروں سے بھی گھوڑوں کے لشکر اٹھیں گے… اور ان پر قرآن
پڑھنے والے سوار ہاتھوں میں اسلام کا جھنڈا اٹھائے… سمندروں کو روند ڈالیں گے… ہاں
یہ بحری جہاز نہیں گھوڑے … اور یہ جہادی گھوڑے سمندروں کو روند ڈالیں گے… ارے
ظالمو! شیر تو ہوتے ہی جنگلات میں ہیں… اور اسلام ایک صحراء سے اٹھا… ایک چٹیل
پہاڑ کی غار میں اس کا نزول شروع ہوا … اور اسلام نے ہجرت اور جہاد کی گود میں قوت
پائی… دنیا کا موجودہ نظام تو اسلام، خلافت اور جہاد کے راستے کی رکاوٹ ہے… عراق میں
دنیا کا نظام رائج تھا تو صدام نے جہاد کا گلا دبائے رکھا… مگر جب تم نے عراق کو
کھنڈر اور جنگل بنایاتو صدام بھی شیر بن گیا… اور چھ لاکھ مجاہدین بھی تمہاری موت
بن گئے… رب کعبہ کی قسم تمہارے ایٹم بموں سے کوئی منافق ہی ڈرتا ہوگا… مسلمانوں کو
کیا ڈر… چند دن پہلے قرآن پاک سے باتیں کرتے ہوئے صفحات الٹے تو جنت کا تذکرہ شروع
ہوگیا… اﷲ اکبرکبیرا… قرآن پاک نے ایسی جنت دکھائی کہ دل بے قرار ہوگیا… ارے جنت
کو ماننے والوں کے لئے زندگی کے دن… قید کے دن ہیں… کہ کب ختم ہوں گے تو آزادی ملے
گی… تم اور تمہارا ناپاک منہ اور خانہ کعبہ؟… شیخ سعدیؒ نے ایک نجومی کا قصہ لکھا
ہے کہ ایک بار بے وقت گھر آگیا تو بیوی کو غیر مرد کے ساتھ پایا… کسی نے اس پر
پھبتی کسی کہ تجھے آسمان اور ستاروں کی خبر کا تو دعویٰ ہے اور اپنی چار پائی کا
پتہ نہیں کہ اس پر کون ہے؟… امریکیو! اپنے گھر کی خبر لو… خانہ کعبہ کے بارے میں
زبان سنبھال کر بات کرو ورنہ رب کعبہ کی قسم یہ زمین تمہیں پناہ نہیں دے گی… مدینہ
منورہ کا پاک نام اپنے ناپاک منہ سے نہ لیا کرو ورنہ مدینہ منورہ کے خادم تمہیں
ہواؤں میں بکھرا ہوا بھوسا بنادیں گے… ابھی تو تم بغداد کو دیکھو… فلوجہ کو بھگتو…
اور بصرہ کی آگ میں جلو… قندھار سے کابل تک موت کے پتھروں سے سنگسار ہونے والو!…
کعبہ بہت دور ہے… کعبہ بہت اونچا ہے… مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے والے کرزئی! اب تو
کچھ شرم کر… استاذ سیّاف … اب تو اپنی کسی پرانی تقریر کو سن کر مسلمانوں والا
کلمہ پڑھ… صبغت اﷲ مجددی!… اﷲ کے لئے اپنے خاندان اور بزرگوں کی لاج رکھ…
افغانستان کے فارسی بانو! امام ابوحنیفہؒ کے ہم نسلو!… خانہ کعبہ پر حملے کی باتیں
ہو رہی ہیں اب تو قوم پرستی کی دلدل سے نکلو… اور پنج شیر کی گھاٹیاں امریکیوں کا
قبرستان بنادو… اے ازبکو! اے بلخ کے شہزادو! امام شامل اور امام بخاری کو یاد کرو…
تمہارا لیڈر دوستم نہیں بلکہ امام بخاریؒ ہے… پرویز مشرف!… او خود کو سیّد کہنے
والے! او کعبہ کی چھت پر نعرے لگانے کا دعویٰ کرنے والے… اب تو غیرت کی انگڑائی
لے… اور امریکہ سے رشتہ توڑ کر مدینہ والے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے رشتے کی لاج
رکھ… اے پاکستان کی افواج!… اے اسلحہ بردار فوجیو! تم نے بھی حوض کوثر پر پانی اور
دیدار مانگنا ہے… آج تمہاری آڑ لے کر کعبۃ اﷲ اور مسجد نبوی گرانے کی باتیں ہو رہی
ہیں… اﷲ کے لئے اب تو بندوقوں کا رخ پھیر کر… اپنے مسلمان ہونے کی لاج رکھ لو… اے
خورشید قصوری، اے چوہدری شجاعت ، اے وزیرو!… اے مشیرو! اب تو حد ہوگئی… قومی اسمبلی
کی قراردادوں سے کام نہیں چلے گا… مذمت کے بیانات سے بات نہیں بنے گی… یاد رکھو
کعبہ روٹھ گیا توکہاں جاؤ گے؟… اور آقا روٹھ گئے تو کہاں مرو گے؟… امریکہ
افغانستان میں فتح پانے کے لئے… وہاں کی جنگ پاکستان میں منتقل کرنا چاہتا ہے…
تاکہ وہ افغانستان پر آسانی سے قبضہ کرلے… اور پھر اس پورے خطے کو کفر کی نجاست میں
ڈبودے… امریکہ چاہتا ہے کہ قندھار، ہلمند اور ارزگان میں امریکی قافلوں پر پھٹنے
والے بم اسلام آباد، پشاور… اور وزیرستان میں پھٹتے رہیں… تاکہ دنیا پر امریکی
قبضہ آسان ہوجائے… پاکستان کی حکومت میں گھسے ہوئے امریکی ایجنٹ… ایسے اقدامات کر
رہے ہیں کہ پاکستان کے دیندار طبقے میں اشتعال پھیلے… اور ساری جنگ اسی خطے میں
سمٹ کر رہ جائے… وہ دو کلو بارود جس سے چار کافر فوجی مر سکتے ہیں… وہ چار پاکستانی
فوجی مارنے پر خرچ ہوجائے… مسلمان، مسلمان کو قتل کرے اور امریکہ پوری دنیا سے میرے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کو مٹا دے… لال مسجد پر حملہ اسی لئے کیا گیا… امریکہ
نے خود تسلیم کیا کہ یہ ہماری پالیسی کا حصہ تھا… لال مسجد والے حضرات تو آخری دم
تک لڑائی ٹالتے رہے… مگر انہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کردیا گیا… اور پھر پورا ملک
خاک و خون اگلنے لگا… معصوم بچوں اور بہنوں کی کٹی، جلی لاشوں نے مسلمانوں کو
پکارا… تو پورا ملک لرز کر رہ گیا… ادھر وزیرستان میں بھی جان بوجھ کر آگ بھڑکائی
گئی… بالکل صاف معاہدے کے باوجود فوجی چوکیاں مسلط کرنے کا آخر کیا جواز تھا؟… کیا
ہماری فوج کے کمانڈر اس بات کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے کہ امریکہ ان کو اپنی جگہ
مرنے والا چارہ بنا رہا ہے؟…
امریکہ
پوری دنیا پر قبضہ چاہتا ہے… اور اس کے لئے اس نے دو مرکزی خطے منتخب کئے ہیں… ایک
عراق اور دوسرا افغانستان… عراق ہاتھ آئے تو مشرق وسطیٰ قبضے میں آتا ہے… اور
افغانستان ہاتھ آئے تو وسط ایشیا پر قبضہ آسان ہوتا ہے… دنیا کا اکثر تیل مشرق وسطیٰ
اور وسط ایشیا کی زمین میں چھپا پڑا ہے… اور امریکی، یہودی دجال اسی تیل کی طاقت
سے اسلام کو مٹانا چاہتا ہے… مگر قرآن پاک کو سمجھنے والے مجاہدین اپنے اصل دشمن
کو پہچان گئے… انہوں نے خود کو مقامی لڑائیوں میں کھپانے کی بجائے اسلام کے اصل
دشمن کی گردن ناپی … تب عراق اور افغانستان میں اسلام مسکرانے لگا… اور فدائی جہاد
مسرت کے قہقہے لگانے لگا… اب امریکہ کُڑکی کے چوہے کی طرح پھنس کر آخری ہاتھ پاؤں
مار رہا ہے… مگر فدائی جہاد ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا … مسلمانوں کی مائیں بھی
عجیب ہیں کہ کیسے شاندار بیٹوں کو جنم دیتی ہیں اور مسلمان نو جوان تو ماشاء اﷲ…
جنت کی شان ہیں… اﷲاکبرکبیرا… ایک دن بھی ان فدائیوں نے امریکہ اور اس کے حواریوں
کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا… کہاں مشرق وسطیٰ… اور کہاں وسط ایشیا اب تو عراق سے
بھاگنے کی قراردادیں بش کے منہ کی کالک بن رہی ہیں… اور ٹونی بے چارہ تو سفیر بن گیا
ہے ہاں ایک سفیر بالکل حقیر… واہ میرے اﷲ واہ… سلام ہو امت کے ان فدائیوں پر…
جنہوں نے ایمان کا حق ادا کیا … اور جنہوں نے ایمانی فراست سے کام لیتے ہوئے دشمن
کو پہچانا… ہاں مسلمانوں کے اس وقت اصل اور خطرناک دشمن تین ہیں… اسرائیل کے یہودی،
امریکہ، برطانیہ کے استعماری… اور بھارت کے مشرک… باقی سب ان کے چمچے کڑچھے اور
لونڈی غلام ہیں… قرآن پاک نے… اور ہمارے سپہ سالار اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
دشمنوں کی پہچان سکھائی ہے … اور نمبر لگا لگا کر بتایا ہے کہ پہلے یہ پھر وہ… مدینہ
کے منافقین نے مسلمانوں کو کتنا اشتعال دلایا… مگر آقا صلی اﷲ علیہ وسلم صبر
فرماتے رہے… اشتعال بھی ایسا ویسا نہیں بہت خوفناک… اگر میں اور آپ ہوتے تو پھٹ
پڑتے اور وہیں خروج کرکے اسلام کی ترقی کو روک دیتے … مگر وہ صحابہ کرام تھے اور
ان کے سروں پر آقا صلی اﷲ علیہ وسلم موجود تھے… سبحان اﷲ کیسی باتدبیر جنگ لڑی …
صرف ۶ہجری سے ۹ہجری تک کی کاروائیاں دیکھ لیں… ادھر مشرکین سے صلح اور
ادھر یہود کا صفایا… پھر مشرکین نے عہد توڑا تو ان کی طرف خروج… پھر حنین اور
طائف… مگر طائف جان بوجھ کر ادھورا چھوڑا… تو وہ خود اسلام کی گود میں آگرا… اور
جب جزیرہ عرب کا معاملہ نمٹا تو روم کی طرف روانگی… سبحان اﷲ کیا ترتیب ہے… کاش آج
کے مجاہدین بھی جہاد کو قرآن پاک اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت سے سمجھیں تو
ہر کتے کے پیچھے دوڑ نہ لگادیں… اور نہ ہی اصل دشمن کو چھوڑ کر… روبوٹوں پر اپنی
زندگیاں قربان کرتے رہیں… خیر بات دور نکل گئی… امریکہ کے صدارتی امیدوار نے انتہا
پسندی کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ… نعوذباﷲ حرمین شریفین پر حملہ کردیا جائے… اس بیان
نے امت مسلمہ کے دلوں میں غم کی آگ لگادی ہے… حرمین شریفین تو اﷲ تعالیٰ کی حفاظت
میں ہیں… ان پر تو ان امریکی یہودیوں کا باپ دجال بھی حملہ نہیں کرسکے گا… مگر ان
بیانات کے بعد مسلمانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ… بھرپور جواب دیں… اور ایسی
قوتوں کو ہی صفحہ ہستی سے مٹادیں جو ایسے گندے عزائم رکھتی ہیں… میری اس بات پر
ہنسنے کی ضرورت نہیں… ہاں آج بھی مسلمان اگر مسلمان مجاہد بن جائیں تو ان چوہوں کو
عبرتناک انجام سے دو چار کرسکتے ہیں… مگر افسوس کہ مسلمان جہاد سے دور ہیں اور
مسلمانوں پر نفاق زدہ طبقہ مسلط ہے… میں امت مسلمہ کی طرف سے امریکی صدارتی امیدوار
سے کہتا ہوں:… ’’تیرے جیسے ناپاک کعبہ شریف تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے… انشاء اﷲ
کبھی نہیں… ہم مسلمان تیرے اور کعبہ کے درمیان اپنے لہو کی ایسی دلدل بنادیں گے جس
میں تم سب ذلیل ہو کر غرق ہو جائو گے… انشاء اﷲ، انشا ء اﷲ…
…اﷲاکبر، اﷲ
اکبر، اﷲاکبر…
٭٭٭
بابے کیلئے خیر
مانگیں
پاکستان کے ساٹھویں یوم
آزادی پر اہل اسلام کے نام ایک درد بھرا پیغام
اور مقبوضہ کشمیر میں
قائم انڈیا کے ایک آرمی کیمپ کی داستان
تاریخ اشاعت۲ شعبان ۱۴۲۸ھ
۱۷؍ اگست ۲۰۰۷ء
شمارہ۱۱۰
بابے کیلئے خیر
مانگیں
اللہ
تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ نصرت دیکھئے… انڈیا کا وہ ’’فوجی کیمپ‘‘ تباہ و
برباد ہو گیا ہے جہاں کمانڈر سجاد شہیدؒ کو گیارہ دن تک بدترین تشدد کا نشانہ بنایا
گیا تھا۔ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت ’’کھندرو آرمی کیمپ‘‘ میں آگ
بھڑک رہی ہے… اور دھماکوں پر دھماکے ہو رہے ہیں…مبصرین بتا رہے ہیں کہ ابھی یہ آگ
تین دن تک مزید بھڑکے گی…اللہ اکبر کبیرا… اس ’’رجب‘‘ کی برکتیں دیکھیں کہ انڈیا
جو گولہ بارود کشمیری مسلمانوں پر چلانے کے لئے لایا تھا وہ خود اس کے اپنے فوجیوں
کے لئے جہنم بن گیا ہے… اللہ اکبر کبیرا… انڈیا والوں کو اپنی اس فوجی چھائونی پر
بڑا ناز تھا… فروری ۱۹۹۴ء کے گیارہ ٹھنڈے دن ہم نے اس چھائونی میں ایک ’’قیدی‘‘ کے
طور پر گزارے تھے… یہ بہت بڑا کیمپ تھا… انڈین افسر بڑے فخر سے بتا تے تھے کہ اگر
پاکستان سے جنگ چھڑ گئی تو اسلحے کی سپلائی کے لئے ہماری یہ ایک چھائونی کافی ہے…
وہاں ہر تھوڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر یا جنگی جہازوں کے اترنے ، چڑھنے کی آوازیں آتی
تھیں… اس وقت ایک سکھ جنرل اس چھائونی کا انچارج تھا… ہم چونکہ ’’بڑے قیدی‘‘ تھے
اس لئے اس نے فتح کا جشن منانے کے لئے ہم سے ملاقات کی… وہ کہہ رہا تھا کہ اگر آپ
لوگ پورے کشمیر کو بھی گھیر لیں تو ہمیں جنگ جاری رکھنے کے لئے یہی ایک چھائونی
کافی ہے… کمانڈر سجاد خان شہیدؒ کو مجھ سے الگ رکھا گیا تھا… آخری دو دن ہم پھر
اکٹھے کر دیئے گئے تو ان کے جسم پر زخموں کے نشان تھے… ہم نے یہ دو دن نماز پڑھنے،
آنسو بہانے اور آہستہ آواز میں ایک دوسرے کو تسلی دینے میں گزارے… پھر ہمیں ایک
ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا… وہ بدنصیب خود کو مسلمان کہہ رہا تھا اور ہم پر خوب
گرج برس رہا تھا… وہ بار بار کہتا تھا کہ پاگلو! زندہ رہنا سیکھو، زندہ رہنا سیکھو…
معلوم نہیں وہ کس زندگی کی بات کر رہا تھا…
ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر بھی عجیب آزمائش ہے… ان میں سے بہت سے تو
مشرکوں کی نوکری کر کے اسلام سے بہت دور نکل گئے ہیں… اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں پر
رحم فرمائے… مقبوضہ کشمیر میں فوج کے ہر تشدد کے بعد… اور ہر انٹروگیشن کے بعد ’’میڈیکل
چیک اپ‘‘ کا قانون ہے… ہم روزے سے تھے اور کچھ کچھ زخمی تھے اور وہ ہمیں گالیاں دے
رہا تھا… ہاں بے چارہ اپنی ’’دیش بھگتی‘‘ اور ’’ ملکی وفاداری‘‘اپنے ہندوساتھیوں
کو دکھا رہا تھا… اس دن شدید سردی تھی اور ’’کھندرو کیمپ‘‘ میں ہر طرف سفید برف نے
زمین اور چھتوں کو ڈھانپ رکھا تھا… ہم سردی سے تھر تھر کانپ رہے تھے… اور زنجیروں
میں کھینچے جا رہے تھے… پھر جب ہمیں گاڑیوں کے کانوائے کی طرف لیجایا جا رہا تھا
تو بعض دفعہ ہم گھٹنوں تک برف میں دھنس جاتے تھے… اور ہماری زنجیریں کھینچنے والے
بھی ادھر ادھر پھسلتے تھے… مجھے ’’کھندرو چھائونی‘‘ سے رخصت کا منظر اچھی طرح یاد
ہے… آج الحمد للہ وہ چھائونی اپنے ظلم کی آگ میں جل رہی ہے… بی بی سی کا نمائندہ
جب خبر سنا رہا تھا تب بھی دھماکوں کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ اللّٰھم بارِک لَنَا فِی رجب و شعبان و بلغنا
رمضان…عجیب بات ہے کہ چند دن پہلے ہندوستان کی صدر ایک ’’عورت‘‘ کو بنایا گیا… جب
وہ حلف اٹھا رہی تھی تو مجھے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ یاد
آئی… وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جو اپنے معاملات کو عورت کے سپرد کر دے… انڈیا
میں صدارت کا عہدہ اگرچہ زیادہ بااختیار نہیں ہے… مگر پھر بھی صدارت، صدارت ہی ہوتی
ہے… ایک بوڑھی، متعصب مشرکہ ہندو عورت کے آنے کے بعد ہم امید کر سکتے ہیں کہ انشاء
اللہ انڈیا زوال کا منہ دیکھے گا… کھندرو کیمپ میں پھٹ پڑنے والا اربوں روپے کا
اسلحہ… اسی کی امید دلا رہا ہے… معلوم نہیں کتنے فوجی مارے گئے ہونگے؟… اس بات کا
کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا… یہ فوجی بھی عجیب مظلوم لوگ ہوتے ہیں… اپنے حکمرانوں
کی خاطر ہر ظلم اور ہر گناہ کرتے ہیں… ان کے زور پر ہرظالم کی فرعونی اور منافقوں
کی حکمرانی قائم رہتی ہے… مگر جب یہ مرتے ہیں تو بہت عبرت کی موت مرتے ہیں… لاشوں
تک کا پتہ نہیں چلتا… حکومتیں خود ہی ان کو دریائوں، سمندروں میں ڈال دیتی ہیں… یا
گڑھے کھود کر دفنا دیتی ہیں تاکہ اپنے نقصان اور شکست کو چھپا سکیں… کھندروکیمپ بھی
آج انڈین فوجیوں کا ’’شمشان گھاٹ‘‘ بنا ہوا ہے… یہ شہداء کے خون کی کرامت ہے… آج
صبح ہی ہمارے ایک مخلص، جانباز ساتھی بھائی مغیرہؒ راجوری میں شہید ہو گئے… وہ
جہاد کشمیر کے شاہین تھے اور عرصہ دراز سے ’’مشرکین انڈیا‘‘ کے خلاف برسرپیکار
تھے… ابھی خبروں میں انڈین حکومت کا ایک اہلکار بتا رہا تھا کہ شہید ہونے والا یہ
مجاہد’’جیش محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا ڈویژنل کمانڈر تھا… اور بابری مسجد
کی جگہ بنائے گئے مندر پر حملے کا پشتیبان تھا… اللہ تعالیٰ’’بھائی مغیرہؒ ‘‘ کی شہادت کو قبول فرمائے… ان کا حشر’’غزوہ
ہند‘‘ کے شہداء میں فرمائے… اور بابری مسجد کے ’’بیٹوں‘‘ میں انہیں اعلیٰ مقام
عطاء فرمائے۔ ہمارے ہاں تو کوئی ایسی ’’منحوس فضا‘‘ قائم ہو رہی ہے جس میں جہاد کے
اہم محاذوں کو بھلایا جا رہا ہے… اور مسلمانوں کے اہم معاملات پر مٹی ڈالی جا رہی
ہے… جہاد کشمیر اب کس کو یاد ہے؟… ہزاروں شہداء اور لاکھوں قربانیاں… اللہ کرے
مسلمان اس تحریک کو یاد رکھیں… اور اس سے غافل نہ ہوں… اور بابری مسجد کو بھی
مسلمان بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ مسجد بھلانے کی چیز نہیں ہوتی… قریب ہو یا دور
ہر مسجد ہم سب مسلمانوں کی ہے… بابری مسجد ہو یا لال مسجد… ہر ایک کا اپنا حق ہے
اور ہر ایک کی اپنی پکار… افغانستان کے شہر کابل کے جرگے میں شریک ضمیر فروش لوگ کیا
جانیں… ایمان کیا ہے اور غیرت کسے کہتے ہیں… بش اور کونڈا لیزا کے حکم پر جمع ہونے
سے پہلے مر جاتے تو زیادہ فائدے میں رہتے…
اتنے بڑے گناہ سے تو بچ جاتے… قرآن پاک ہمیں سمجھاتا ہے کہ … کامیاب وہ نہیں جو دنیا
میں کچھ پالے… بلکہ کامیاب وہ ہے جو اپنا
’’فرض‘‘ ادا کر لے… جی ہاں فرض ادا کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا کامیابی ہے… اور
فرض چھوڑ کر سات زمینوں کی بادشاہت پا لینا سراسر خسارہ ہے… اور ذلت… بات انڈیا کے
’’کھندرو کیمپ‘‘ کی چل رہی تھی کہ عورت کی حکمرانی کے اثرات شروع ہو گئے ہیں…
پاکستان کے مسلمانوں کو چاہئے کہ ’’بے نظیر‘‘ کے شر سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے
خوب دعائیں مانگیں… اور اگر آپ کے جاننے والوں میں سے کوئی بے نظیر کا حامی ہو تو
اس کو سمجھائیں… اور اللہ تعالیٰ کا خوف دلائیں… آج کل بے نظیر بھٹو کی پھرتیاں
عروج پر ہیں… کبھی لندن تو کبھی واشنگٹن… اور ہر جگہ ایک ہی بات کہ میں پاکستان جا کر… انتہا پسندوں کو ختم
کر دوں گی… بی بی صاحبہ! پاکستان آپ کے خاندان کی جاگیر نہیں ہے۔ وہ جن کو آپ ختم
کرنے آ رہی ہیں وہ بھی اس ملک کے شہری… اور اس زمین کے باشندے ہیں… آپ کی تو عمر کا اکثر حصہ یورپ کی
رنگینیوں میں گزرا ہے… اور آپ نے یہاں کے لوگوں کا خون چوس کر وہاں جائیدادیں بنائی
ہیں… بی بی صاحبہ اللہ تعالیٰ سے نہ ٹکرائیں اور نہ ہی امریکہ کی محبت میں بے ہوشی
اور مدھوشی کی باتیں کریں… پاکستان کا دینی طبقہ سمندر کی جھاگ نہیں ہے کہ آپ اس
پر اپنا پائوں رکھ دیں گی تو وہ ختم ہو
جائے گا… اتنی کفر پرستی اچھی نہیں ہوتی اور اس کا انجام بھی کوئی زیادہ اچھا نہیں
ہوتا… پاکستان کے دینی طبقے کوچاہئے کہ اپنے اختلافات بھلا کر بے نظیر کے اقتدار
سنبھالنے کا راستہ روکیں… ملک کا صدر تو اس کو لانے پر تلا ہوا ہے اور یہ دونوں مل
کر پورے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں… مسلمان اپنے ان اجتماعی مسائل سے غافل نہ
ہوں… بلکہ ابھی سے دعائوں کا اور محنتوں کا آغاز کر دیں… اور ان دونوں سے بچنے کی
فکر کریں… کافروں، ظالموں… اور فاسقوں کی حکمرانی سے بچنا ایک اسلامی حکم اور شرعی
تقاضا ہے… قرآن پاک نے جگہ جگہ اس مسئلے کو بیان فرمایا ہے… مگر ہم نے اسے ’’سیاست‘‘ کا نام دے کر ایک غلط
کام سمجھ رکھا ہے… یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہے… سورۃ بقرہ جیسی عظیم الشان سورۃ کا
اختتام بھی اسی دعا پر ہوا ہے کہ … اے ہمارے مولا ہمیں کافروں پر غلبہ عطاء فرمایئے…
معلوم ہوا کہ اللہ پاک چاہتے ہیں کہ ایمان والے اس بات کی فکر رکھیں کہ انہیں
کافروں، ظالموں پر غلبہ نصیب ہو جائے… اسی لئے تو انہیں دعا سکھا دی تاکہ انہیں یہ
فکر پیدا ہو جائے… کیونکہ انسان اسی چیز کی دعا مانگتا ہے جس کی اس کو فکر ہوتی
ہے… آج گیارہ اگست ہے چند دن بعد پاکستان ساٹھ سال کا ’’بابا‘‘ بن جائے گا… اور
قمری حساب سے تو باسٹھ، تریسٹھ سال کا ہو جائے گا… باسٹھ سال کا یہ بابا… مسلمان
ہے… ملک کے ’’روشن خیال غلام‘‘ اس بابے کو کافروں کا نوکر… اور ناچنے گانے والا بے حیاء بڈھا بنانا چاہتے ہیں…
ان حالات میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس بابے کو غلامی اور بے حیائی سے بچائیں…
اور باسٹھ سال کی باوقار عمر میں… اسے ایک باوقار مسلمان ملک بنا دیں… یاد رکھیں
جس زمین پر گناہ کئے جاتے ہیں وہ زمین گناہ کرنے والوں سے روٹھ جاتی ہیں… اور ان
سے سخت ناراض ہوتی ہے… باسٹھ سال کا
’’بابا پاکستان‘‘ روشن خیال غلاموں کے بوجھ تلے دب کر کراہ رہا ہے… اور بے نظیر
بھٹو اس ’’بابے‘‘ کے کندھے پر اچھلنے کودنے کی تیاریاں کر رہی ہے… اے مسلمانو!… اس
’’بابے‘‘ کے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگو… بس یہی ہے مسلمانوں کے لئے اس ’’یوم
آزادی‘‘ پر ایک غریب مسافر کا پیغام۔
٭٭٭
ہدایت کے جزیرے
٭امریکہ کے حکم
پر روشن خیال حکمران ایک نیا مذہب متعارف کرا رہے ہیں… جس کانام ’’صوفی ازم‘‘رکھا
گیا ہے…یعنی ناچنے گانے والا غیر جہادی مذہب جس کو ’’نعوذباﷲ‘‘ اسلام کہا جا رہا
ہے…اور کفر و اسلام کے فرق کو مٹانے کی محنت کی جارہی ہے۔
٭قومی اخبارات
کے بعض کالم نویس بھی کفر و اسلام کے فرق کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٭مسلمانوں کے
لئے چند مفید کتابوں کا انتخاب … یہ کتابیں گمراہی کے سمندر میں ہدایت کے جزیروں کی
طرح ہیں۔
تاریخ اشاعت۱۰شعبان
۱۴۲۸ھ
۲۴؍اگست ۲۰۰۷ء
شمارہ نمبر۱۱۱
ہدایت کے جزیرے
اﷲ
تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے اور ہم اس کے ’’بندے‘‘ ہیں… اﷲ تعالیٰ نے ہم پر کچھ چیزیں
لازم فرمادی ہیں… ان چیزوں کے بغیر ہم اﷲ تعالیٰ کو نہیں پاسکتے… اور نہ کامیاب
ہوسکتے ہیں… ان ’’لازمی چیزوں‘‘ میں سب سے زیادہ ضروری چیز ’’ایمان ‘‘ ہے…
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’حج اکبر‘‘ کے موقع پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے جن چار
باتوں کا ’’اعلانِ عام‘‘ کروایا… ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جنت میں صرف ایمان
والے داخل ہوں گے… اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد صرف وہی ایمان
قابل قبول ہے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے قرآنی طریقے کے مطابق ہو…
مشرکین
ہوں یا یہود و نصاریٰ یہ جب تک حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ کا آخری
نبی نہیں مانتے… اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر ایمان نہیں لاتے یہ سب ’’کافر‘‘
اور ناکام ہیں… یہ کسی مولوی کا فتویٰ نہیں قرآن پاک کا واضح فیصلہ ہے… جو قرآن
پاک نے بار بار سنایا ہے… مولوی نہ تو تنگ نظر ہیں اور نہ غلط فتویٰ بازی کے شوقین…
اور جنت بھی اﷲ تعالیٰ کی ہے… مولویوں کو کیا ضرورت کہ کسی کو ’’کافر‘‘ کہیں یا کسی
کو جہنمی… مگر جب اﷲ تعالیٰ خود ایک بات بیان فرمادے تو پھر مولوی ہو یا غیر مولوی
کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بات کا انکار کرے… ان تمام باتوں کو سمجھنے کے بعد
اب اس اسلام پر غور کریں جو صوفی ازم کے نام سے مسلمانوں کو سکھایا جا رہا ہے… یہ
کیسا اسلام ہے؟… استغفراﷲ، استغفراﷲ… مومن اور کافرتک کا فرق ختم کردیا گیا… کوئی
شخص حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مانے یا نہ مانے وہ ایک برابر… عجیب و غریب باتیں
آج کل اخبارات میں چھپ رہی ہیں… آج ہی ایک کالم نویس نے حضرت شیخ علی ہجویریؒ اور
گرونانک کو ایک برابر قرار دے دیا… اور دونوں کو ’’کامیاب روحانی ہستیاں‘‘ قرار دیا…
حالانکہ گرونانک کا اسلام قبول کرنا ثابت نہیں ہے… کل ایک اور کالم نویس نے چھوٹی
نیکیوں کی ترغیب دیتے ہوئے اسلامی عبادات کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی … حالانکہ
اسلام نے نیکیوں سے کب روکا ہے؟… اسلام نے تو ’’خدمت خلق‘‘ کے وہ احکامات پیش
فرمائے ہیں جن کی مثال دنیا کے پاس نہیں ہے… تو پھر ’’خدمت خلق‘‘ کی ترغیب دیتے
ہوئے اسلامی عبادات کے خلاف زبان چلانے کی کیا ضرورت ہے؟ … کچھ دن پہلے اس کالم نویس
نے ایک عیسائی شرابی کو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا شاگرد اور خلیفہ قرار دے دیا…
معلوم نہیں یہ لوگ ان باتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں… کیا مسلمان نماز چھوڑ کر
غریب بچوں میں جوگر بوٹ تقسیم کرتے پھریں؟ … کیا ان کا یہ عمل نماز کے قائم مقام
بن سکتا ہے؟… غریبوں کی خدمت بہت بڑی چیز ہے مگر یہ نماز چھوڑے بغیر ہو تو کامیابی
ہے… اور نماز چھوڑ کر ہو تو غفلت ہے…
ہمارے
وہ کالم نویس بھائی جن کی روح کو ’’فرانس‘‘ میں جا کر چین ملتا ہے وہ صرف دنیاوی
موضوعات پر ہی لکھا کریں تو کتنی بڑی خیر ہوجائے… ان کو نہ قرآن پاک کا علم ہے نہ
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا… ان کو نہ اسلامی تاریخ سے کوئی
تعلق ہے اور نہ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے… مگر پھر بھی وہ ’’اسلامی موضوعات‘‘
پر لکھتے ہیں… اور اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرتے ہیں… ہائے کاش مسلمان ان
لوگوں کی گمراہی سے بچ جائیں… اور ان کے فتنے سے محفوظ رہیں… آج کل مسلمان ویسے ہی
دین سے دور ہیں … اور یہ کالم نویس ان کو مزید ’’بددین‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں…
کبھی قربانی کے خلاف مضمون، کبھی جہاد کے خلاف شوشے، کبھی اسلامی عبادات کی تحقیر…
اور کبھی یہ جملہ کہ ’’اﷲ تعالیٰ مسجد میں نہیں ملتا‘‘… جی ہاں فائیو اسٹار ہوٹلوں
کو آباد کرنے والے مفکرین مسجدوں کو ویران کرنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں… ان
میں کچھ لوگوں کے قلم میں شیطانی تاثیر ہے… وہ ہر بات کو کہانی اور افسانہ بنا کر
دلچسپ کردیتے ہیں… اور پھر جو کچھ ان کے دماغ میں آتا ہے اس کو ’’دین‘‘ بنا کر
لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں… اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی حفاظت فرمائے… اور انہیں اپنی رضا
والے کاموں میں جوڑ دے… آج کتنے مسلمان ہیں جن کو درست قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا…
آپ خود سوچیں کیا یہ چھوٹا عیب ہے؟… جب قرآن پاک ٹھیک نہیں ہوگا تو نماز بھی درست
نہیں ہوگی… آپ خود سوچیں یہ کتنا بڑا خسارہ ہے… حق تو یہ ہے کہ جن مسلمان مردوں
اور عورتوں کو درست قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا وہ اپنی محرومی پر چیخیں مار کر روتے…
اور رات دن ایک کرکے قرآن پاک پڑھنا سیکھتے… قرآن پاک اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے نازل
فرمایا ہے… اگر ہم مسلمان اسے نہیں پڑھیں گے تو اور کون پڑھے گا؟… یہ کتاب نور ہے
اور ہدایت اور اس میں دلوں کی شفاء ہے… یہ اﷲ تعالیٰ کا عظیم کلام ہے… کلام اﷲ،
کتاب اﷲ… اﷲ پاک کی باتیں اور ہم ان سے محروم … علماء نے لکھا ہے کہ جس کو قرآن
پاک ٹھیک پڑھنا نہ آتا ہو وہ نفل نمازوں اور اذکار میں وقت لگانے کی بجائے قرآن
پاک سیکھے اور اگر اتنی روزی موجود ہو کہ فاقے کی نوبت نہ آتی ہو تو روزی کمانے کا
وقت بھی قرآن پاک سیکھنے پر لگائے… اور کچھ نہیں تو سورۃ فاتحہ اور ایک دو چھوٹی
سورتیں تو پوری جان لگا کر ٹھیک کرلے تاکہ نماز تو ادا کرسکے… میرا خیال ہے کہ
’’صوفی ازم‘‘ اور ’’معرفت‘‘ کی اونچی اونچی باتیں کرنے والے کالم نویسوں کو سورۃ
فاتحہ بھی صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں آتی… ہمارے حکمرانوں اور وزیروں کو وضو کا ٹھیک
طریقہ تک نہیں آتا… اسلام کی روایت تھی کہ جمعہ کا خطبہ اور نمازوں کی امامت
مسلمانوں کے حکمران خود کراتے تھے… بنو امیہ کے زمانے میں جب بعض خلفاء نے بیٹھ کر
خطبہ دینا شروع کیا تو اہل دل تڑپ اٹھے کہ اب ’’خطبے‘‘ کو زوال آرہا ہے… اور پھر
مامون الرشید کے بعد حکمران اس نعمت سے محروم ہوتے چلے گئے… اور آج یہ حالت ہے کہ
مسلمانوں کا صدر دو رکعت نماز کی امامت نہیں کراسکتا… مگر اس کو فخر ہے کہ وہ بہت
بڑا مسلمان ہے… اور وہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاتا ہے… دراصل ’’صوفی ازم‘‘ کا یہ نیا
نعرہ مسلمانوں کو جہاد، قرآن، نماز اور پورے دین سے محروم کرنے کی ایک سازش ہے… بس
قوالی سنو، مزاروں کے چکر کاٹو، قبروں پر چادریں چڑھاؤ، مستقبل کی پیشین گوئیاں
کرو… اور کافروں کو مسلمانوں کے برابر سمجھو اور ہر طاغوت کے سامنے گردن جھکاؤ…
اور دین کے نام پر دنیا بناؤ… یہی ہے صوفی ازم… اور یہی ہے بش کا بنایا ہوا وہ دین
جس کو نعوذباﷲ اسلام کا نام دیا جارہا ہے… یہاں ایک بات اور بھی یاد رکھیں… اﷲ
تعالیٰ اپنے اولیاء کو طرح طرح کی کرامتیں عطاء فرماتا ہے… اور کئی بزرگوں کو
تھوڑا بہت ’’کشف‘‘ بھی ہوتا ہے… ہم نے الحمدﷲ ایسے بعض بزرگوں کی زیارت کی ہے جن
کو ’’کشف‘‘ ہوتا تھا … مگر یہ لوگ شریعت کے پورے پابند اور توحید کے مکمل قائل
تھے… اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا ’’ڈاکیا‘‘
ہے… فارسی زبان میں ’’ڈاکیے‘‘ کو ’’پیغامبر‘‘ یا ’’پیغمبر‘‘ کہتے ہیں… اور ’’پیمبر‘‘
بھی اسی کا ہم معنیٰ ہے… پیغام لانے والا، پیام لانے والا… اب اخبارات میں ایسے
بزرگوں کا بھی تذکرہ آرہا ہے جو خود کو اﷲ تعالیٰ کا ڈاکیا قرار دے رہے ہیں… اور
’’صاحب کشف‘‘ ہونے کے مدّعی ہیں… اﷲاکبرکبیرا… میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے اﷲ
تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبت تھی… مگر ان کی پوری زندگی ہجرتوں، مشکلوں اور جہاد میں
گزر گئی… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے برملا سمجھایا کہ مجھے غیب کا علم حاصل نہیں
ہے… میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ساری زندگی
جن محنتوں اور تکلیفوں میں گزاری ان کا تصور بھی مشکل ہے… مگر آج کا ’’صوفی ازم‘‘
کیا ہے… صرف آرام، آرائش، آسائش اور دنیا کے ڈھیر… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوری
زندگی مسجد کو آباد فرمایا جبکہ ان لوگوں کے مراکز یا تو فائیو اسٹار ہوٹل ہیں یا
بزرگوں کے مزارات… مسلمان تھوڑا سا غور کریں تو وہ حقیقت حال کو سمجھ سکتے ہیں… آج
بھی الحمدﷲ ’’اصل صوفیاء کرام‘‘ موجود ہیں… مگر وہ تو ایک نماز کی تکبیر اولیٰ
قضاء کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے… اور نہ مالداروں کے دروازوں کے چکر کاٹتے ہیں… اور
نہ خود کو اﷲ تعالیٰ کا ’’ڈاکیا‘‘ قرار دیتے ہیں… وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں،
اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں… اور جہاد اور ہجرت کے راستے سے قربانی دینے
کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں…
اے
مسلمان بھائیو… اور اے مسلمان بہنو! اپنے ایمان کی حفاظت کرو… ایمان سے بڑی کوئی
دولت نہیں ہے… صبح شام رات دن اس نعمت کا شکر ادا کرو… اور عقیدے کی خرابی سے بچو
اور فکر کی گمراہی سے دور رہو… اسلام وہی ہے… جو قرآن پاک نے بیان فرمایا ہے… اور
جس کی قولی اور عملی تشریح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہے… اور جس کو
امت کے فقہاء کرام نے مرتب فرمایا ہے… نیکی وہی ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نیکی قرار دے
ورنہ تو ایک طوائف بھی اپنے کام کو ’’خدمت خلق‘‘ قرار دے سکتی ہے… اور گناہ وہی ہے
جسے اﷲ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے گناہ قرار دیا ہے… وحی کا
دروازہ بند ہوچکا ہے اور آسمان سے اب کسی پر کچھ نازل نہیں ہوتا… اپنا عقیدہ ٹھیک
رکھو… اپنی فکر کو درست رکھو… اسلامی فرائض کو ٹھیک ٹھیک مانو… اور جہاد کا ہرگز
انکار نہ کرو… اے مسلمانو!… اﷲ پاک کے گھر ’’مسجدوں‘‘ کو خوب آباد کرو… وہاں جا کر
دنیا کی باتیں اور شور شرابا نہ کرو… اور وہاں اپنی آواز بلاوجہ بلند نہ کرو…
مساجد جنت کے باغات ہیں وہاں جا کر سکون حاصل کیا کرو… اے مسلمانو! قرآن پاک پڑھنا
سیکھو اور اپنی عورتوں کو بھی سکھاؤ… اور قرآن پاک کو علماء کرام کی نگرانی میں
سمجھنے کی پوری محنت کرو… اے مسلمانو! عمل کی کوتاہی توبہ سے معاف ہوجاتی ہے … مگر
عقیدے اور فکر کی کوتاہی انسان کو توبہ تک نہیں کرنے دیتی… ایک شخص گناہگار ہے اور
وہ توبہ کرتا ہے… یہ اس شخص سے بہت افضل ہے جو غریب بچوں میں جوگر بوٹ تقسیم کرنے
کو فرض نماز سے بہتر سمجھتا ہے… یہ شخص توبہ نہیں کرے گا بلکہ اپنے جرم پر فخر کرے
گا… اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا…
مسلمانوں
کو چاہئے کہ عام اخبارات کے کالم نویسوں کے مضامین پڑھنے کی بجائے… یہی وقت اپنی
آخرت کے لئے کچھ سامان کرلیا کریں… مسجد میں جاکر تین آیتیں پڑھنا دنیا کی تمام
فانی نعمتوں سے بڑھ کر ہے… اور دین کا علم حاصل کرنا افضل ترین اعمال میں سے ایک
مقبول عمل ہے… آپ اپنی استطاعت کے مطابق چند کتابیں خرید کر اپنے گھر رکھ لیں… اور
جو وقت اخبارات کے کالم پڑھنے میں لگاتے ہیں وہ وقت ان کتابوں کے مطالعے کے لئے
وقف کردیں… یاد رکھیں اﷲ پاک کی رضاء کے لئے چند منٹ دین کا علم حاصل کرنا ہمیں
ابدالآباد کی نعمتوں کا مستحق بنا سکتا ہے… جی ہاں ہمیشہ کی نعمتیں… نہ ختم ہونے
والی نعمتیں … آپ مفتی کفایت اﷲؒ کی ’’تعلیم الاسلام‘‘ خرید لیں… اور مفتی
عبدالشکور لکھنویؒ کی علم الفقہ… انشاء اﷲ عقیدہ ٹھیک ہوجائے گا اور پاکی، پلیدی
اور وضو، نماز کے مسائل معلوم ہوجائیں گے… آپ یقین کریں اتنا علم بھی بہت بڑی نعمت
ہے… اور یاد رکھیں کہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے نمازی بنے بغیر کبھی بھی ’’اچھے
انسان‘‘ نہیں بن سکتے… یہ لوگ جو غریبوں کا رونا رو کر دوسروں کو ’’قربانی‘‘ نہ
کرنے کی دعوت دیتے ہیں خود یہی لوگ روزانہ اپنے دسترخوان پر ایک ’’قربانی‘‘ کی قیمت
کا کھانا لگاتے ہیں… ان کو غریبوں کا درد ہوتا تو یہ خدمت کا آغاز اپنی ذات سے
کرتے … مگر ان کی تو شادیوں پر لاکھوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور اس میں ان کو نہ
کوئی غریب یاد آتا ہے نہ فقیر… میں کسی پر ذاتی تنقید نہیں کر رہا… ہم سب اصلاح
اور توبہ کے محتاج ہیں… اور ہم ہر مسلمان کو اپنے سے افضل اور اچھا سمجھتے ہیں…
مگر اﷲ پاک کے دین میں ’’کمی بیشی‘‘ ہم سے برداشت نہیں ہوتی… حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ
عنہ نے فرمایا تھا…
أینقص
الدین وانا حی … دین میں کمی کی جائے اور میں زندہ ہوں یہ ممکن نہیں ہے… اسی طرح
آپ حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ لے لیں… یا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد کی
’’مسائل بہشتی زیور‘‘ … انشا ء اﷲ ہر صفحہ آپ کو دین کے قریب کرے گا … اور پھر
حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ کی ’’حیات الصحابہ‘‘ لے لیں… اور مولانا محمد ادریس
کاندھلویؒ کی ’’سیرت المصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ … اﷲاکبر کبیرا… دونوں کتابیں
ماشاء اﷲ ایمان افروزی کا خزانہ ہیں…
روزانہ
چند صفحات پڑھ لیں تو دل کی سیاہی اترتی محسوس ہوتی ہے… اور آپ حضرت تھانویؒ کی
’’مناجات مقبول‘‘ لے لیں… اور حضرت پھولپوریؒ کی ’’معرفت الٰہیہ‘‘ … آپ کو معلوم
ہوجائے گا کہ اصل تصوف اور اصل روحانیت کیا ہے… اور آپ حضرت مولانا محمد زکریاؒ کی
’’آپ بیتی‘‘ لے لیجئے… زندگی گزارنے کا ڈھنگ آجائے گا… میرے شیخ ؒ فرماتے تھے کہ اس کتاب کو پڑھنے والا آدھا ولی
تو بن ہی جاتا ہے… اور آپ حضرت مولانا محمد زکریاؒ کی ’’فضائل اعمال‘‘ لے لیجئے…
سبحان اﷲ زندگی کو منور کرنے والی کتاب فضائل اعمال… اور آپ حضرت مفتی رشید احمد
صاحبؒ کا وعظ ’’ترک منکرات‘‘ لے لیجئے انشاء اﷲ بہت کچھ سمجھ آجائے گا… اور آپ اگر
پورے دین کو مختصر الفاظ میں سمجھ کر اپنی زندگی اﷲ پاک کی رضا کے مطابق گزارنا
چاہتے ہیں تو ایک چھوٹی سی کتاب لے لیجئے… اس کتاب کا نام ہے ’’دستورحیات‘‘ اور اس
کے مصنف ہیں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ … آپ اس کتاب کو پڑھ کر ایک عجیب
نورانی علم پائیں گے اور ایک عجیب قسم کا سکون آپ کو نصیب ہوگا… اور آپ مولانا
محمد میاں صاحبؒ کی کتاب ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ خرید لیں… آپ کو ایک نئی دنیا
سے تعارف نصیب ہوگا اور آپ کو برصغیر کے حالات سمجھنے اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی تحریک کو سمجھنے میں خاص مدد ملے گی… اور
آپ ’’تفسیر عثمانی‘‘ لے لیں… اور مولانا عاشق الٰہی صاحبؒ کی ’’تفسیر انوار البیان‘‘
… ان دونوں تفسیروں کی مدد سے آپ قرآن پاک کو انشاء اﷲ آسانی سے سمجھ لیں گے… اور
مزید مدد کے لئے حضرت اقدس لاہوریؒ کا ترجمہ اور حاشیہ اپنے ساتھ رکھ لیں… اور آپ
مولانا منظور احمد نعمانی ؒ کی ’’معارف
الحدیث‘‘ لے لیں… اور مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کی ’’ترجمان السنّہ‘‘ … آپ کو رسول
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی… اور آپ امام
غزالی ؒ کی کتاب ’’منہاج العابدین‘‘… اور
’’کیمیائے سعادت‘‘ لے لیں آپ کو نفس کی اصلاح کے اور دینی و روحانی ترقی کے راز
معلوم ہوجائیں گے… کتابوں کے ناموں کی فہرست تو بہت طویل ہے… آپ ایسا کریں کہ حضرت
مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی کتابوں کا مکمل سیٹ خرید لیں… اور ایک طویل عرصہ تک
علم ، عمل، اخلاص اور دینی معلومات کے سمندر میں مز ے کے غوطے لگائیں… آپ حضرت
مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتابوں کا پورا سیٹ لے لیں اور دین و دنیا کے مزے
لوٹیں… آپ حضرت مفتی رشید احمد صاحبؒ کے مواعظ لے لیں اور اپنے تقوے کو مضبوط سے
مضبوط تر بنالیں… اور آپ حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدر دامت برکاتہم کی کتابیں لے
لیں اور اپنے عقیدے کو پورے اعتماد سے درست کرلیں… الحمدﷲ اہل علم حضرات نے ہم
مسلمانوں کے لئے شبانہ روز دماغ سوز محنت کرکے دین کے مفاہیم کو بے حد آسان تحریر
فرمادیا ہے… ہمیں چاہئے کہ ہم ان محنتوں سے فائدہ اٹھائیں… لاہور کے مکتبہ عرفان…
اور کراچی کے مکتبہ حسن کی کتابیں ہمارے لئے بہترین رہنما ہیں… جو ہمیں ایمان والی
زندگی اور کامیاب خاتمے کا طریقہ بتاتی ہیں…
گمراہی
کے سمندر میں نور اور ہدایت کے یہ جزیرے ہمیں اپنی طرف بلا رہے ہیں… وقت تیزی سے
گزر رہا ہے ہمیں جلد ازجلد خود کو آخرت کے لئے تیار کرنا چاہئے… اﷲ پاک میری بھی
مدد فرمائے اور آپ سب کی بھی…
آمین یاارحم الراحمین
٭٭٭
بہترین کام
الحمدﷲ مورخہ ۱۰
شعبان ۱۴۲۸ھ تا ۲۵شعبان۱۴۲۸ھ پاکستان کے درج ذیل شہروں میں دورہ تفسیر آیات الجہاد کا
اہتمام کیا گیا صوابی، فیصل آباد، کوئٹہ، بہاولپور، کوہاٹ، کراچی، پشاور، ٹنڈوالہ یار،
شکارپور، مظفر آباد، کوٹلی
فریضہ جہاد کا احیاء اس وقت مسلمانوں کی اہم ترین
ضرورت ہے… ان دوراتِ تفسیر کے تناظر میں لکھی گئی ایک سبق آموز تحریر
تاریخ اشاعت۱۷شعبان
۱۴۲۸ھ
۳۱؍اگست ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۲
بہترین کام
اﷲ
تعالیٰ کا پیارا مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ بس آنے ہی والا ہے… آج شعبان کی ۱۴
تاریخ ہے… کئی لوگ آج رات ’’آتش بازی‘‘ کی تیاریاں کر رہے ہیں … اﷲ پاک ان کو ہدایت
اور سمجھ عطاء فرمائے… مسلمانوں کا ان فضول چیزوں سے کیاتعلق؟… یہ تو کافروں اور
مشرکوں کے طریقے ہیں… مسلمان دکانداروں کو چاہئے کہ وہ ’’آتش بازی‘‘ کا سامان اپنی
دکان پر رکھا ہی نہ کریں… رمضان المبارک کے استقبال اور تیاری کے لئے شعبان ہی سے
محنت شروع کر دینی چاہئے… اہل علم فرماتے ہیں کہ شعبان کی نیکی کا رمضان المبارک
کے ساتھ گہرا تعلق ہے… پس جو لوگ ’’شعبان‘‘ اچھا گزارتے ہیں وہ رمضان المبارک کو
بھی خوب کماتے ہیں… ہم سب لوگ بہت تیزی کے ساتھ ’’موت‘‘ کی طرف جا رہے ہیں… اور ہم
ایسے عجیب لوگ ہیں کہ جا آگے رہے ہیں اور تیاری پیچھے کے لئے کر رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ
مجھے اور آپ کو آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطاء فرمائے … قبر کا منہ صاف نظر
آرہا ہے اور ہاتھ اعمال سے خالی ہیں… رمضان المبارک بخشش کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ
مسلمانوں کے لئے اﷲ تعالیٰ کا خاص تحفہ ہے… اس وقت پاکستان میں ’’سیاسی موسم‘‘ سخت
گرم ہے… اور ملک کے فوجی صدر کو ہردن ایک نئی شکست کا سامنا ہے… جی ہاں بے شک عزت
کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے… وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے… صدر
صاحب نے جن لوگوں کو رسوا کرنے کی کوشش کی وہ تو سب ’’عزت مند‘‘ ہوگئے ہیں… اور ان
کا قد مزید اونچا ہوگیا ہے… جبکہ صدر صاحب خود زمین میں دھنستے جارہے ہیں… کل تک
وہ دوسروں کو ’’کالعدم‘‘ قرار دیتے تھے آج ان کے ہر فیصلے کو ’’کالعدم‘‘ کیا
جارہاہے … یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ’ ’گندگی کے پہاڑ‘‘ کو چیف جسٹس صاحب
اپنے بیلچے سے صاف کرسکیں گے؟… جی ہاں ظالم اور نفس پرست حکمرانوں کی وجہ سے
پاکستان پر مسائل کا ایک پہاڑ سوار ہے… اور لاقانونیت خود حکمرانوں کا ہتھیار بن
چکی ہے… ان حالات میں ایک جج کیا کچھ کرسکے گا… اس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں
کہا جاسکتا… البتہ ہر طرف خوشیاں منائی جا رہی ہیں… اور لوگ خوش ہیں کہ ظالم
حکمرانوں کی گردن کچھ تو جھکی ہے… ابھی ’’لال مسجد‘‘ کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں
زیر بحث ہے… اﷲ تعالیٰ اس معاملے پر بھی عدالت کو ہمت عطاء فرمائے اور انصاف کے
ساتھ فیصلہ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… امریکہ کا صدر خود کہہ چکا ہے کہ لال مسجد
کا آپریشن ہمارے مشن کا حصہ تھا… یعنی امریکہ کی خوشنودی کے لئے مسجد اور مدرسہ کو
ظلم کا نشانہ بنایا گیا… اور امت مسلمہ کی بیٹیوں کا خون بہایا گیا… امید ہے کہ
عدالت انصاف کرے گی اور اگر وہ ایسا نہ بھی کرسکی تو … مظلوموں کا خون انصاف کا
راستہ ڈھونڈ ہی لے گا… لال مسجد کے حساس معاملے پر لکھنے والے اہل دین قلم کاروں
سے گزارش ہے کہ وہ… ایسی باتیں لکھیں جن کا خود ان کو اور پڑھنے والوں کو دینی
فائدہ پہنچے… خواہ مخواہ کی تنقید اور تبرّے بازی سے کیا ملتا ہے؟… ہر کسی کی ذمہ
داری ہے کہ وہ اپنے ’’فرض‘‘ کو سمجھے اور اس کو ادا کرے … آپ نے خود جو کچھ کیا وہ
لکھیں… اور اب مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے وہ لکھیں… اس کے علاوہ کی باتیں ’’دینی
فائدے‘‘ کے زمرے میں نہیں آتیں …اس میں کچھ شک نہیں کہ ’’بعض افراد‘‘ اور ’’بعض
اداروں ‘‘ سے غلطیاں ہوئی ہیں… اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ’’مجاہدین‘‘ کو خاص
طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے … مگر اس کے باوجود ہمارے ساتھیوں کو اپنے
’’مثالی طرز عمل‘‘ پر قائم رہتے ہوئے صبر سے کام لینا چاہئے… اس وقت اہل حق کی
باہم مخالفت کا فائدہ براہ راست ’’ظالم حکومت‘‘ کو پہنچے گا… اور وہ دینی قوتوں کو
مزید کمزور کرنے میں کامیاب ہوجائے گی… اﷲ پاک نے ہم لوگوں کو الحمدﷲ ’’بہترین
کام‘‘ عطاء فرمایا ہوا ہے … ہم ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کے کام میں
لگے ہوئے ہیں… ہم الحمدﷲ مسلمانوں کو جہاد کا مسئلہ سمجھاتے ہیں اور جہاد کی دعوت
دیتے ہیں… یہ اﷲ تعالیٰ کی ایسی عظیم الشان نعمت ہے جس کی فضیلت بیان سے باہر ہے…
آج ہر طرف جہاد کا انکار ہے… اور جہاد کا انکار قرآن پاک کا انکار ہے… ان حالات میں
الحمدﷲ ہمارے ساتھی گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جاکر ’’آیاتِ جہاد‘‘ کا سبق پڑھا رہے ہیں…
کیا یہ چھوٹی نعمت ہے؟… کیا یہ معمولی سعادت ہے؟… ارے یہ تو ایسی سعادت ہے کہ اس کی
خاطر ہر گالی برداشت کی جاسکتی ہے … کافر چاہتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیاتِ جہاد کو
مٹا دیا جائے… منافق چاہتے ہیں کہ ان آیات پر نعوذباﷲ مٹی ڈال دی جائے… اربوں
کھربوں ڈالر کا سرمایہ اور زمینی فضائی طاقتیں جہاد کو مٹانے کے لئے دن رات خرچ ہو
رہی ہیں… ایسے میں اﷲ تعالیٰ چند فقیر لوگوں کو کھڑا فرمادیتے ہیں جو گلی گلی
جاکر… الجہاد الجہاد کی آواز لگاتے ہیں… یہ لوگ قرآن پاک کے اصلی اور سچے خادم ہیں…
فیصل آباد میں حضرت مولانا ضیاء القاسمی نور اﷲ مرقدہ کی مسجد … اور پھر صوابی،
کوئٹہ، بہاولپور، کوہاٹ، کراچی، پشاور، ٹنڈوالہ یار، شکار پور … مظفر آباد، کوٹلی…
اے مسلمانو! قرآن پاک جہاد بیان کر رہا ہے… لوگوں کی باتیں غلط ہوسکتی ہیں… مگر جو
کچھ قرآن پاک فرما رہا ہے وہ تو حق ہے، سچ ہے… اے میرے دوستو! … کیا ہمارے لئے یہ
بہتر نہیں کہ ہم قرآن پاک کا پیغام مسلمانوں تک پہنچاتے رہیں… الحمدﷲ کتنے
مسلمانوں نے انکارِ جہاد کے گناہِ عظیم سے توبہ کرلی ہے… اور کس طرح سے دورہ تربیہ
نے مسلمانوں کو اﷲ پاک کی طرف بلایا اور جوڑا ہے… ہمیں اپنی صفائی پیش کرنے کی کیا
ضرورت ہے… ہمارے شہداء ساتھی مسکراتے ہوئے محو پرواز ہیں… اے میرے بھائیو اور ساتھیو
کام کرو کام… اور اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو… دین کی خدمت اور جہاد کی
دعوت ایک عظیم الشان نعمت ہے… اگر ہم بھی خدانخواستہ جہاد کے منکر یا مخالف ہوتے
تو ہمارے لئے کتنا بڑا عذاب ہوتا… جب بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو سینکڑوں آیاتِ
جہاد کے سامنے شرمندہ ہوتے… جب بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پڑھتے تو
غزوات کے تذکرے سے آنکھیں چراتے… جب بھی صحابہ کرام کے واقعات پڑھتے تو جہادی
تذکروں پر غوطے کھاتے… اﷲاکبرکبیرا… جہاد کو نہ ماننا کتنا بڑا عذاب ہے کہ اب بعض
زبانیں غزوہ بدر کے خلاف بھی تاویلات پھونکنے لگی ہیں… استغفراﷲ، استغفراﷲ… جس
غزوہ کو اﷲ پاک نے خود مسلمانوں کے لئے ’’نشانی‘‘ قرار دیا اسی کے بارے میں کہا
جارہا ہے کہ وہ مثال اور نشانی نہیں ہے… ہاں بے شک جہاد کا انکار ایک ایسا عذاب ہے
جو انسان کو گندہ کردیتا ہے… قرآن پاک کی تاویل، غزوات کی تاویل، رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے خون سے روگردانی… اور جھوٹی مثالیں اور فضول باتیں… اﷲ
پاک کا شکر ہے کہ جہاد کو ماننے کی برکت سے قرآن پاک کی کسی آیت کو سن کر چہرے پر
ناگواری نہیں آتی… آپ تجربہ کرلیں جہاد کے منکر اور مخالف بعض آیات کو سن کر بدک
جاتے ہیں اور بھڑک اٹھتے ہیں… آہ قرآن پاک سن کر بدکنا اور بھڑکنا کتنا بڑا عذاب
ہے کتنا سخت عذاب… اﷲ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جہاد کو سمجھنے اور ماننے کی
توفیق محض اپنے فضل سے عطاء فرمائی ہے… اور اب دعوتِ جہاد کی شمع ہر طرف روشنی پھیلا
رہی ہے… کتنا مزہ آتا ہے کہ سامنے ’’قرآن پاک‘‘ ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر جہاد
کو سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے… نہ کوئی جھگڑا نہ کوئی اختلاف … قرآن پاک کی بالکل
صاف صاف اور واضح آیات … الحمدﷲ ثم الحمدﷲ … اور کئی ساتھیوں نے اس کی بھی اطلاع دی
ہے کہ انہوں نے ’’فتح الجواد‘‘ کی جلد اوّل کا مطالعہ مکمل کرلیا ہے… ہماری مسلمان
خواتین کو بھی چاہئے کہ وہ قرآن پاک کی آیات جہاد کو اچھی طرح سے پڑھ اور سمجھ لیں
تاکہ ’’انکارِ جہاد‘‘ کے ’’عذاب‘‘ سے محفوظ رہیں… معلوم ہوا ہے کہ عورتوں میں بھی
’’انکارِجہاد‘‘ کے جراثیم پھیلائے جارہے ہیں… عام حالات میں اگرچہ عورتوں پر جہاد
فرض نہیں ہے مگر فرض عین ہونے کی حالت میں عورتوں کو بھی جہاد کرنا پڑتاہے… اور
عام حالات میں بھی عورتوں کے تعاون کے بغیر مردوں کا جہاد میں نکلنا آسان نہیں
ہوتا اس لئے خواتین کو بھی ’’فریضہ جہاد‘‘ سمجھانے اور سکھانے کی ضرورت ہے… معلوم
ہوا ہے کہ حالیہ دورات تفسیر میں بعض مقامات پر خواتین نے بھی شرکت کی ہے اور ان میں
سے بعض نے سند بھی حاصل کی ہے… الحمدﷲ ثم الحمدﷲ… اور اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان
’’دو رات تفسیر‘‘ کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے… انشاء اﷲ ان کے اختتام پر مفصل
کارگزاری آپ ’’القلم‘‘ میں ملاحظہ فرمالیں گے… بات یہ چل رہی تھی کہ ’’رمضان
المبارک‘‘ کی آمد قریب ہے… اور شعبان کا برکت والا مہینہ آدھا گزر چکا ہے… ملک
کے گرم سیاسی حالات اور ہر طرف پھیلی ہوئی
افراتفری ہمیں اپنے اصل مقاصد سے غافل نہ کردے… اور ہم دین کی خدمت اور آخرت کی تیاری
سے ہٹ کر کسی فضول کام میں نہ لگ جائیں یہ ہے ہماری آج کی مجلس کا اصل موضوع…
امت
مسلمہ کے اجتمای مسائل اب بھی سلگ رہے ہیں … عراق میں جہاد زوروں پر جاری ہے اور
برطانیہ نے بصرہ سے اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے… ادھر افغانستان میں
’’ڈانس جرگہ‘‘ کے باجود تاریخ اسلامی کا ایک اہم معرکہ جاری ہے… چند بے سروسامان
لوگ پوری دنیا کے کفر سے ٹکرا رہے ہیں… اور برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ چالیس
سال تک افغانستان میں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے… ہائے برطانیہ بے چارہ! ایک دم کٹا
بادشاہ جو دنیا پر دوبارہ حکومت کے خواب دیکھتا رہتا ہے… یقینا یہ خواب انشاء اﷲ
کبھی پورے نہیں ہوں گے… کشمیر میں الحمدﷲ جہاد جاری ہے… اﷲ تعالیٰ مجاہدین کو قوت،
ہمت اور استقامت عطاء فرمائے… شہداء کرام کے گھروں اور خاندانوں کی دیکھ بھال بھی
مسلمانوں کے ذمے ہے… اور مسئلہ جہاد کو امت مسلمہ کے سامنے بیان کرنا بھی ایک ضروری
کام ہے… الغرض ایک بڑی جنگ جاری ہے اور جو بھی اس جنگ میں سانس لے گا… یا پیچھے
ہٹے گا وہ شکست کھا جائے گا… شعبان ہو یا رمضان یہ سب ہمیں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ
جوڑتے ہیں… قرآن پاک کے ساتھ جوڑتے ہیں … اﷲ تعالیٰ ہمارے لئے شعبان میں برکت عطاء
فرمائے… اور ہمیں رمضان المبارک اپنی رضاء کے مطابق گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے…
آمین
یا ارحم الراحمین…
٭٭٭
خطوط، لال مسجد
اور اہل استقامت کو سلام
٭اصلاحی خطوط کی افادیت
٭سانحہ لال مسجد پر اہل دین کا موقف
٭حوادث کے وقت استقامت دکھانے والوں
کو سلام
تاریخ اشاعت یکم
رمضان المبارک ۱۴۲۸ھ
۱۴؍ ستمبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۴
خطوط، لال مسجد
اور اہل استقامت کو سلام
اﷲ
تعالیٰ کا شکر ہے کہ کچھ دن کے ناغے کے بعد پھر ’’ڈاک‘‘ پڑھنے کی توفیق ملی… بیس
کے قریب خطوط ہوں گے… کچھ اصلاحی اور کچھ دوسرے موضوعات پر… دو یا تین خطوط
’’سانحہ لال مسجد‘‘ کے بارے میں تھے… کافی جذباتی جی ہاں روتے رُلاتے خطوط… کمپیوٹر
اور موبائل کے اس دور میں ’’خطوط‘‘ اور ڈاک کا سلسلہ تقریباً ختم ہو رہا ہے… مگر
اس کے باوجود الحمدﷲ میرے پاس کافی ڈاک آتی ہے… گذشتہ چند ماہ سے خط لکھنے والوں
کو یہ شکایت ہے کہ ان کو جوابی خطوط نہیں پہنچ رہے… حالانکہ ہم الحمدﷲ پوری پابندی
اور اہتمام کے ساتھ جوابی خطوط ارسال کرتے ہیں… معلوم نہیں محکمۂ ڈاک گڑبڑ کرتا
ہے یا سرکاری جِنّاتْ … بہرحال پھر بھی الحمدﷲ یہ سلسلہ جاری ہے… اصلاحی خطوط
لکھنے والے بعض باہمت بھائیوں اور بہنوں کو گذشتہ پانچ مہینے سے جوابی خطوط نہیں
پہنچ رہے مگر وہ پابندی کے ساتھ خط لکھ رہے ہیں…
اﷲ پاک ان سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے… اور ان کو دینی، دنیاوی اور ظاہری
وباطنی ترقیات سے نوازے… ہر ماہ اصلاحی خط لکھنا خط لکھنے والے کو بہت فائدہ
پہنچاتا ہے ، خواہ جواب ملے یا نہ ملے… میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص
اصلاح کے لئے خط لکھتا ہے تو جواب ملنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرمادیتا
ہے… کیونکہ خط لکھنے والے نے ثابت کردیا کہ وہ اپنی اصلاح چاہتا ہے اور وہ اپنے
روحانی امراض سے خوش نہیں ہے… پس جب اس نے سچی نیت کا ثبوت دیاتواﷲ تعالیٰ کی رحمت
اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے…
بعض
خطوط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ الحمدﷲ مسلمانوں کو ’’لطف اللطیف جل شانہ‘‘ کتاب سے
کافی فائدہ ہورہا ہے… اور بہت سے لوگ جعلی عاملوں اور تعویذ فروشوں سے بچ کر اس
کتاب کے ذریعے آسودگی حاصل کر رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ اس کتاب کو مزید نافع بنائے اب
تک الحمدﷲ اس کے بیس کے قریب ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، اﷲتعالیٰ قبول و مقبول
فرمائے…
میری
اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے درخواست ہے کہ عام وظائف اپنی جگہ مگر زیادہ
توجہ تلاوت قرآن پاک کی طرف رکھیں… اور اﷲ تبارک وتعالیٰ کے ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ سے
خوب خوب فائدہ اٹھائیں… جب بھی کوئی حاجت یا پریشانی ہو تو دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ
پڑھیں… قرآن پاک کی تلاوت کریں اور اکیس بار تمام اسماء الحسنیٰ پڑھ کر دعاء کریں…
انشاء اﷲ پہاڑوں کی طرح مشکل نظر آنے والے مسائل بھی اﷲ پاک کے فضل و کرم سے حل
ہوجائیں گے… ’’لطف اللطیف‘‘ کتاب میں اسی بات کی دعوت ہے جن مسلمانوں کے پاس یہ
کتاب نہ ہو وہ اسے خرید لیں اور ساتھ ساتھ اسماء الحسنیٰ کی کتاب ’’تحفہ ٔ سعادت‘‘
بھی حاصل کریں اور اس کو ایک بار محبت سے پڑھ لیں… حیرانی کی بات یہ ہے کہ
مسلمانوں کے پاس اﷲ تعالیٰ کا کلام ’’قرآن مجید‘‘ موجود ہے… مسلمانوں کے پاس
’’اسماء الحسنیٰ‘‘ موجود ہیں… اور مسلمانوں کے پاس ’’صلوٰۃ الحاجۃ‘‘ موجود ہے اس
کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ فلاں جادو، فلاں اثر… ارے بھائی کونسا جادو اور کونسا
اثر قرآن پاک اور اسماء الحسنیٰ کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے؟… ہاں دل میں یقین کی
کمی ہوتو پھر الگ بات ہے…
بعض
خطوط میں ’’فتح الجواد‘‘ کا بھی تذکرہ ہے… ایک عالم دین نے خبر دی ہے کہ انہوں نے
’’فتح الجواد‘‘ کا مطالعہ مکمل کرلیا ہے اور انہیں الحمدﷲ اس سے کافی فائدہ پہنچا
ہے… اور اب وہ دوسری جلد کا بے تابی کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں… ان کی اور ان جیسے
دوسرے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ ’’فتح الجواد‘‘ کی تکمیل کے لئے خصوصی دعاؤں کا
اہتمام فرمائیں… الحمدﷲ سورۃ توبہ آیت ۶۰ تک کے فوائد اور معارف جہاد لکھے
جاچکے ہیں اور سائز کے اعتبار سے دوسری جلد کا مواد مکمل ہے مگر ناشرین کا ارادہ
ہے کہ سورۃ توبہ مکمل ہونے پر دوسری جلد شائع کی جائے … اﷲ تبارک وتعالیٰ کے لئے کیا
مشکل ہے وہ نظر رحمت فرمائے تو سب کچھ آسان ہوجاتا ہے…
اس
بار کی ڈاک میں چند خطوط لال مسجد کے سانحہ کے بارے میں تھے… دو خط پاکستان سے اور
ایک خط سعودیہ سے… جبکہ بعض دیگر خطوط میں بھی اس اندوہناک سانحے کا سرسری تذکرہ
موجود تھا … بعض طالبعلم بھائیوں نے لکھا ہے کہ اس واقعہ نے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا
ہے اور دل پر مایوسی کے بادل چھا گئے ہیں… پڑھائی میں دل نہیں لگتا اور طبیعت بے چین
رہتی ہے… کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں… ان بھائیوں کی خدمت میں
عرض ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد مایوسی اور بددلی کا شیطانی حملہ اہل ایمان پر
ہوتا ہے… مگر ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے… غزوۂ احد کا سانحہ کتنا بڑا
تھا… اور بئر معونہ کا غم کتنا خوفناک تھا… اور إفک (تہمت) کا ظلم کتنا عظیم تھا…
مگر مایوسی اور بددلی کبھی جائز نہیں ہوتی، یہ شیطانی حملہ بہت خطرناک ہوتا ہے…
بندہ نے لال مسجد کے سانحہ سے دو دن پہلے تفصیل سے عرض کردیا تھا کہ یہ خوف اور بے
دلی کا وقت نہیں ہمت، جرأت اور استقامت کا وقت ہے… آپ وسوسوں کے غوطے کھانے کی
بجائے غزوۂ احد اور بئر معونہ کا واقعہ … اور قرآن پاک کی آیات جہاد کا ایک بار
پھر مطالعہ کریں، انشاء اﷲ دل کھل جائے گا اور دماغ درست سوچنا شروع کردے گا …
سانحہ لال مسجد پر کچھ لوگوں نے ’’شیعوں‘‘ اور ’’رافضیوں‘‘ کی طرز پر سوچنا، بولنا
اور لکھنا شروع کردیا ہے… ایسے لوگ ’’شہداء لال مسجد‘‘ کے وفادار نہیں بلکہ ان کے
مقدس مشن کے دشمن ہیں… کربلا کے میدان میں جب نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا
حسین رضی اﷲ عنہ اپنے خاندان کے کئی افراد کے ساتھ مظلومانہ طور پر شہید کردئیے
گئے تو ’’شیعوں‘‘ اور ’’رافضیوں‘‘ نے خود کو شہداء کا وارث قرار دے کر حضرات صحابہ
کرام کے خلاف تبرّے کا بازار گرم کردیا… یہ لوگ ہائے حسین، ہائے حسین کہتے اور
ساتھ ساتھ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے کہ وہ اس موقع پر کہاں چلے گئے تھے؟… انہوں
نے کربلا کے شہداء کو بچایا کیوں نہیں؟… حالانکہ کربلا کے واقعہ پر پوری امت مسلمہ
رو رہی تھی اور غم سے نڈھال تھی… اور اس وقت جو صحابہ کرام موجود تھے ان کا اس
واقعہ میں کوئی قصور نہیں تھا… مگر رافضی کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہر مقدس گریبان
پر ہاتھ ڈال دیا اور یوں امت مسلمہ پر مزید غموں اور پریشانیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے…
اس وقت ’’انصاف پسند‘‘ لوگوں نے شور مچانے والے رافضیوں سے پوچھا کہ تم لوگ سب کو
قصوروار ٹھہرا رہے ہو حالانکہ تم خود بھی تو کربلا میں لڑنے نہیں پہنچے… بلکہ تمہارا
کردار قاتل کا رہا… مگر ہائے حسینؓ، ہائے حسینؓ کا شور مچانے والے رافضیوں نے کسی
کی کوئی بات نہ سنی اور انہوں نے مسلمانوں کے سینے میں ظلم کا خنجر اتار دیا… اس
وقت بھی بعض لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر شیعوں کی زبان استعمال کر رہے ہیں… یہ
لوگ شہداء لال مسجد کے وارث بن کر… اکابر علماء کرام کو گالیاں دے رہے ہیں… جہادی
جماعتوں پر الزامات لگا رہے ہیں… اور امت کے ہر مقدس گریبان پر ہاتھ ڈال رہے ہیں…
حالانکہ یہ لوگ خود بھی لال مسجد میں شریک اور شہید نہیں ہوئے … مگر فسادی لوگوں
کو تو گریبان پکڑنے کے لئے کوئی بہانہ چاہئے… آج ان لوگوں کے شور کی وجہ سے لال
مسجد کا مسئلہ ’’اختلافی‘‘ بنتا جارہا ہے اور قاتل حکومت … ایک مسجد کو تالے ڈال
کر اور ایک مدرسے کو مٹی میں ملا کر اطمینان سے بیٹھی ہوئی ہے… حالانکہ یہ وقت
اختلاف کا نہیں ہے… اﷲ پاک کا گھر اور اس کے مینار اذان کو ترس رہے ہیں… مولانا
عبداﷲ شہیدؒ کی اس مسجد کا منبر کسی غیور خطیب کی یاد میں اشک بہا رہا ہے … جبکہ
’’شیعہ صفت‘‘ لوگ کسی کو کچھ کرنے ہی نہیں دے رہے… جو عالم دین یا بزرگ کھڑے ہوتے
ہیں ان پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے کہ پہلے وہ کہاں تھے؟… اور سب سے زیادہ
ان مجاہدین کو ستایا جارہا ہے جو ایک منٹ کے لئے بھی فریضہ جہاد سے غافل نہیں ہوئے
بلکہ… جہاد کے بڑے بڑے محاذوں پر ڈٹ کر کام کرتے رہے… آج ہر طرف سے ہر مسلمان کا
مطالبہ ہے کہ جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر اور فعال کیا جائے تو معلوم ہوا کہ جامعہ
حفصہ ایک مدرسہ تھا کوئی محاذ جنگ نہیں تھا… ظالم حکومت نے ایک مدرسے کو پامال کیا
اور بئر معونہ کے وارث حفاظ و حافظات کو شہید کیا… اب دیکھیں ایک طرف تو امت مسلمہ
کا یہ نقصان ہوا… غازی عبدالرشیدؒ اور مولانا محمد مقصود احمد ؒ جیسے لوگ شہید
ہوگئے… اور دوسری طرف امت مسلمہ کو یہ نقصان پہنچایا جارہا ہے کہ حضرت شیخ مولانا
سلیم اﷲ خان صاحب جیسے اکابر کی توہین وتنقیص کی جارہی ہے… گویا کہ آج ہر غم اور
ہر تباہی کا دروازہ ’’امت مسلمہ‘‘ اور ’’علماء و اہل حق‘‘ پر ٹوٹ پڑا ہے… ایسے وقت
میں تبرّا باز ’’شیعہ صفت‘‘ طبقے کی زبان کو روکنے کی سخت ضرورت ہے… ان بے عمل،
بدعمل اور زبان دراز لوگوں نے کبھی کوئی کام نہیں کیا… افغانستان کی امارت اسلامیہ
ختم ہوئی تو ان لوگوں نے صرف طعنے دیئے… اور آج لال مسجد خون خون ہوئی تو ان لوگوں
نے طعنوں کا بازار پھر گرم کردیا… آخر کوئی تو ان سے پوچھے کہ یہ چاہتے کیا ہیں؟…
لال مسجد کے نام پر شور اور بغاوت کا بازار گرم کرنے والے مجھے بتائیں کہ ان کے
پاس کیا پروگرام ہے؟… اگر واقعی ان کے پاس کوئی مفید عملی ترتیب ہوئی تو ہم ان شاء
اﷲ ان کا ساتھ دیں گے مگر ان کے پاس تو سوائے غیبت، شور اور طعنوںکے کچھ بھی نہیں
ہے…
اس
وقت اگر وفاق المدارس والے حضرات اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں تو ہمیں
چاہئے کہ ان کا احترام کریں اور ان کا ساتھ دیں تاکہ… مسجد کو دوبارہ آباد کیا
جاسکے… مولانا عبدالعزیز صاحب کو چھڑایا جاسکے… اور قاتلوں کو تختہ دار تک پہنچایا
جاسکے… اس موقع پر اگر ہم آپس میں الجھے رہے تو قاتل بچ جائیں گے اور ہمارے نوجوان
گستاخ شیعوں اور خارجیوں کی طرح اپنے اکابر کے گریبان پکڑتے رہ جائیں گے… اور بہت
ممکن ہے کہ کسی موقع پر ایک دوسرے کا خون کرنے پر بھی اتر آئیں… اﷲ تعالیٰ امت
مسلمہ پر رحم فرمائے… رمضان المبارک کی برکتیں عطاء فرمائے… اور ہمیں دینی معاملات
کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے… امارت اسلامیہ کے سقوط کے وقت جن لوگوں نے شور
مچایا تھا، جماعتیں توڑی تھیں اور جذبات میں مکے مار کر میزیں توڑیں تھیں… ان
لوگوں نے بعد میں کیا کیا؟ میں نے ان سب سے عرض کیا تھا کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں وہ
بتائیں مگر ان کی زبانوں پر ایک ہی بات تھی کہ سب بے غیرت ہوگئے ہیں… اور اب ہم کسی
کی اطاعت نہیں کرسکتے… ہم نے ان سے اور سب سے عرض کیا تھا کہ دشمن نے اپنا وار کرلیا
ہے اب شہرت اور باتوں سے ہٹ کر جہاد کی طرف توجہ کرو اور حملہ آور دشمن کے مقابلے
کی تدبیر کرو… مگر وہ لوگ غیبت کا گوشت کھاتے رہے اور شور مچاتے رہے… آج کوئی ان
سے جاکر پوچھے انہوں نے کیا کیا؟ … وہ آج بھی زندہ ہیں اور اسی ملک میں رہ رہے ہیں…
جبکہ ُاس وقت جو لوگ مخلص رہے وہ الحمدﷲ کامیاب ہوئے… اور اﷲ پاک نے ان سے بڑے بڑے
کام لئے … اور آج کے اخبار کی ایک بڑی سرخی تھی کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست
فاش ہوچکی ہے مگر وہ اسے تسلیم کرنے کی ہمت نہیں رکھتا…
میں
’’اہل استقامت‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں… مجاہدین کو چاہئے کہ ’’میڈیا‘‘ اور
شہرت سے دور رہیں اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جڑے رہیں اور اپنے کام کو مقدم رکھیں اور
نام کی فکر نہ کریں… جو اہل ایمان ساتھی رمضان المبارک مہم کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں…
ان سب کو میرا عقیدت اور پیارا بھرا سلام … میں آپ سب کے لئے دعاء گو ہوں … آپ بھی
اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھیں…
٭٭٭
روح کی پرواز
٭رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے
آسان، مفید اور مستند طریقے
٭اﷲ تعالیٰ سے توڑنے والی تین چیزیں
٭رمضان المبارک کا اثر پورے سال پر
ہوتا ہے
٭ایک آسان مگر خاص عمل
٭رمضان المبارک کے بارے میں ایک بڑی
غلطی
٭چار چیزوں کی کثرت
٭ روح کی پرواز…روح کو طاقتور بنانے
کا طریقہ
تاریخ اشاعت۸رمضان المبارک۱۴۲۸ھ
۲۱؍ ستمبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۵
روح کی پرواز
اﷲ
تعالیٰ ’’رمضان المبارک‘‘ کا نور ہم سب کو نصیب فرمائے… آج الحمدﷲ چوتھا روزہ ہے
اور فضاء میں ہر طرف ایک خاص سکون نظر آرہا ہے… بے شک رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کا
مہینہ ہے، بہت برکت والا، بہت نور والا، بہت سکون والا… اﷲ کرے ہم سب اس مہینے کو
کمالیں، حاصل کرلیں اور ہم سب کی اس میں بخشش ہوجائے… آئیے اس کے لئے چند باتوں کا
مذاکرہ کرتے ہیں
اﷲ
تعالیٰ سے توڑنے والی تین چیزیں
ایک
مسلمان کو تین چیزیں اﷲ تعالیٰ سے توڑتی ہیں: (۱)زیادہ
کھانا پینا۔ (۲)لوگوں سے زیادہ میل جول۔ (۳)ضرورت
سے زیادہ باتیں کرنا۔
علامہ
ابن القیم ’’زادالمعاد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’کھانے پینے کی
زائد مقدار، لوگوں سے زیادہ میل جول، ضرورت سے زیادہ گفتگو وہ چیزیں ہیں جن سے جمعیت
باطنی میں فرق آتا ہے اور انسان اﷲ تعالیٰ سے کٹ کر مختلف راستوں پر بھٹکنے لگتا
ہے۔ (زاد المعاد)
یہ
اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک اور روزہ نصیب فرمایا جس میں ہم
اپنی ان تینوں بیماریوں کا علاج کرسکتے ہیں اور اپنی روح کو پاک کرسکتے ہیں… پس
ضروری ہے کہ رمضان المبارک میں کم کھائیں… لوگوں کے ساتھ فضول گپ شپ کی مجلسیں نہ
کریں اور اپنی زبان کو بہت قابو میں رکھیں…
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے، جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالا
جائے (نسائی)۔
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کس چیز سے پھاڑ ڈالے؟ ارشاد فرمایا: جھوٹ یا
غیبت سے۔
اے
مسلمانو! رمضان المبارک نور ہی نور ہے… پس اس کے ایک ایک منٹ کو اﷲ تعالیٰ کے لئے
وقف کردو… اور اپنی زبانوں کو بہت قابو میں رکھو۔
رمضان
المبارک کا اثر پورے سال پر ہوتا ہے
رمضان
المبارک بہت قیمتی ہے… یہ بندوں پر اﷲ تعالیٰ کا احسان اور انعام ہے… پس جو لوگ
رمضان المبارک کو ٹھیک طرح گزارتے ہیں ان کا پورا سال بلکہ پوری زندگی اچھی گزرتی
ہے… اور جو لوگ رمضان المبارک کو ضائع کردیتے ہیں ان کا پورا سال خراب گزر تا ہے
اور شیطان ان کو ذلت اور گناہ میں ڈالتا ہے… حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے ایک بہت عجیب
نکتہ لکھا ہے، اس نکتے کو سمجھ کر بار بار پڑھیں تو رمضان المبارک کا ایک منٹ ضائع
کرنا بھی گوارہ نہ ہو…
حضرت
مجدّدؒ لکھتے ہیں:
’’اس مہینہ کو
قرآن مجید کے ساتھ بہت خاص مناسبت ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قرآن مجید اسی مہینہ
میں نازل کیا گیا، یہ مہنیہ ہر قسم کی خیر وبرکت کا جامع ہے، آدمی کو سال بھر میں
مجموعی طور پر جتنی برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہ اس مہینہ کے سامنے اس طرح ہیں جس طرح
سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ، اس مہینہ میں جمعیت باطنی (یعنی دل کے سکون واطمینان)
کا حصول پورے سال جمعیت باطنی کے لئے کافی ہوتا ہے اور اس میں انتشار اور پریشان
خاطری (یعنی دل کا ادھر اُدھر بھٹکنا) بقیہ تمام دنوں بلکہ پورے سال کو اپنی لپیٹ
میں لے لیتی ہے، قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جن سے یہ مہینہ راضی ہو کر گیا، اور
ناکام وبدنصیب ہیں وہ جو اس کو ناراض کرکے ہر قسم کی خیر وبرکت سے محروم ہوگئے۔‘‘
(مکتوبات)
اس
عبارت میں اشارۃً یہ بھی بتادیا کہ رمضان المبارک میں قرآن پاک کی تلاوت زیادہ
کرنے سے رمضان المبارک کی برکتیں زیادہ نصیب ہوتی ہیں… پس خوب دل لگا کر زیادہ سے
زیادہ قرآن پاک پڑھا جائے… دن کو تلاوت، رات کو تراویح میں پڑھنا اور سننا اور
چلتے پھرتے وہ سورتیں اور آیتیں پڑھتے رہنا جو زبانی یاد ہیں… اگر ہم نے چار منٹ
باتیں کیں تو ہمیں کیا ملے گا؟… اور اگر انہی چار منٹوں میں ایک بار سورۃ یس ٓ پڑھ
لی تو آخرت کا عظیم خزانہ ہمارے ہاتھ آجائے گا… رمضان المبارک میں تو ہرعبادت کا
ثواب ستر گنا سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے… بس اے مسلمانو! قرآن پاک سے دل لگاؤ… اور اس
کی خوب تلاوت کرو… خوب تلاوت
ایک
کام تو کرلیں
رمضان
المبارک میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ہوجاتا
ہے… اس میں شک کی گنجائش نہیں… پھر ہم اتنے بڑے ثواب کو حاصل کیوں نہیں کرتے؟…
رمضان المبارک میں صرف اتنا کرلیں کہ تراویح کا پورا اہتمام کریں… اور ہر نماز کے
ساتھ جو غیر مؤکدہ سنتیں اور نوافل ہیں ان کا بھی اہتمام کرلیں تو تقریباً چالیس
رکعت نفل ہوجائیں گے… اﷲ اکبر! رمضان المبارک کے اسّی سجدے ہمیں نصیب ہوجائیں گے…
ان سجدوں کا کتنا اجر ہوگا، کتنا نور ہوگا اور ان نوافل کی وجہ سے ہم اﷲ تعالیٰ کے
کتنے قریب ہوجائیں گے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا… اور کچھ نہیں تو ہم
سب ایک عمل کا اہتمام کرلیں… وہ عمل یہ ہے کہ روزانہ دو رکعت ’’صلوٰۃ الحاجۃ‘‘ پڑھ
کر دعاء کرلیا کریں کہ یا اﷲ ہمیں رمضان المبارک اپنی رضا کے مطابق گزارنے کی توفیق
عطاء فرما… اور اس رمضان المبارک میں ہماری بخشش فرما… انشاء اﷲ یہ مختصر سا عمل
ہمیں بڑے اعمال پر کھڑا کردے گا… خود سوچیں ان لوگوں کے لئے کتنا اجر ہے جو رمضان
المبارک میں جہاد کا فریضہ زندہ کرتے ہیں… اور جہاد کا کام کرتے ہیں… یعنی سب سے
افضل مہینے میں سب سے افضل کام… اﷲ اکبرکبیرا … اسلام کا سب سے فضیلت والا غزوہ…
غزوۂ بدر بھی اس مہینے میں ہوا… یہ مبارک غزوہ قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ایک
روشن مثال، ایک واضح دلیل اور ایک چمکتا ہوا نشانِ راہ ہے…
ایک
بڑی غلطی
رمضان
المبارک ’’صبر‘‘ کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے… یہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ
وسلم کا فرمان ہے… رمضان المبارک کا مقصد نفس کی اصلاح ہے یعنی مسلمان کو تقویٰ نصیب
ہوجائے… حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ لکھتے ہیں:
’’یہ (روزہ)
دراصل اخلاقی تربیت گاہ ہے جہاں سے آدمی کامل ہو کر اس طرح نکلتا ہے کہ خواہشات کی
لگام اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے، خواہشات اس پر حکومت نہیں کرتیں بلکہ وہ خواہشات پر
حکومت کرتا ہے، جب وہ محض اﷲ کے حکم سے مباح اور پاک چیزوں کو ترک کردیتا ہے تو
ممنوعات اور محرمات سے بچنے کی کوشش کیوں نہ کرے گا؟ جو شخص ٹھنڈے میٹھے پانی اور
پاکیزہ ولذیذ غذا کو خدا کی فرمانبرداری میں چھوڑ سکتا ہے، وہ حرام اور نجس چیزوں
کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا کیسے گوارہ کر سکتا ہے اور یہی ’’لعلکم تتقون‘‘ کا
مفہوم ہے۔‘‘ (ارکان اربعہ)
مگر
آج ہم لوگوں نے صبر اور روزے کے اس مہینے کو ’’کھانے پینے‘‘ کا مہینہ بنادیا ہے…
استغفراﷲ، استغفراﷲ… بس ہر کسی کی زبان پر کھانے اور پینے کا تذکرہ ہے… طرح طرح کی
سحری اور طرح طرح کی افطاری… بازاروں میں کھانے پینے کے نئے نئے آئٹم… یہ کھاؤ وہ
پیئو کے بڑے بڑے اشتہار… عجیب شیطانی چکر ہے کہ پورا مہینہ چیزیں خریدنے، پکانے
اور کھانے میں گزر جاتا ہے اور آخری عشرہ عید کی خریداری کی نذر ہوجاتا ہے… ہائے
بدقسمتی کہ اتنا قیمتی رمضان جس کے ذریعے ہم جنت کی ہمیشہ ہمیشہ والی بڑی بڑی نعمتیں
حاصل کرسکتے تھے طرح طرح کے کھانے بنانے میں گزر جاتا ہے… استغفر اﷲ، استغفراﷲ …
امام
غزالیؒ لکھتے ہیں:
’’پانچواں ادب یہ
ہے کہ افطار کے وقت حلال غذا میں بھی احتیاط سے کام لے اور اتنا نہ کھائے کہ اس کے
بعد گنجائش ہی باقی نہ رہے، اس لئے کہ حلق تک بھرے ہوئے پیٹ سے زیادہ بڑھ کر کوئی
بھر جانے والی چیز اﷲ کے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ہے… اگر روزہ دار افطار کے وقت دن
بھر کی تلافی کردے اور جو دن بھر کھانا تھا وہ اس ایک وقت کھالے تو اﷲ کے دشمن پر
غالب آنے اور شہوت کو ختم کرنے میں روزہ سے کیا مدد ملے گی؟ یہ عادتیں مسلمانوں میں
اتنی پکی اور عام ہوچکی ہیں کہ رمضان کے لئے بہت پہلے سے سامان خوراک جمع کیا جاتا
ہے اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اور نفیس کھانا کھایا جاتا ہے جو اور دنوں میں
نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے
تاکہ تقویٰ کی صلاحیت پیدا ہوسکے، اب اگر معدہ کو صبح سے شام تک کھانے پینے سے
محروم رکھا جائے اور شہوت اور بھوک کو خوب امتحان میں ڈالنے کے بعد انواع واقسام
کے کھانوں سے پیٹ بھر لیا جائے تو نفس کی خواہشات اور لذتیں کم نہ ہوں گی اور بڑھ
جائیں گی، بلکہ ممکن ہے کہ بہت سی ایسی خواہشات جو ابھی تک خوابیدہ تھیں وہ بھی بیدار
ہو جائیں، رمضان کی روح اور اس کا راز ان طاقتوں کو کمزور کرنا ہے جن کو شیاطین
اپنے وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ بات ’’تقلیل غذا‘‘ ہی سے حاصل ہوگی،
یعنی یہ کہ شام کو اتنا ہی کھائے جتنا اور دنوں میں کھاتا تھا۔ اگر کوئی دن بھر کا
حساب لگا کر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔
بلکہ
یہ بھی آداب میں داخل ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے، تاکہ بھوک پیاس کا کچھ مزہ
معلوم ہو، قُویٰ کے ضعف کا احساس ہو، قلب میں صفائی پیدا ہو، اسی طرح ہر رات کو
اپنے معدہ کو اتنا ہلکا رکھے کہ تہجد اور اوراد میں مشغولی آسان ہو اور شیطان اس
کے دل کے پاس منڈلا نہ سکے اور دل کی اس صفائی کی وجہ سے عالم قدس کا دیدار اس کے
لئے ممکن ہو۔ (احیاء العلوم)
باقی
یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ رمضان المبارک میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے… اور
مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ خوب ہمدردی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو افطار کراتے ہیں…
اس کی وجہ سے عام دنوں کی بنسبت کھانے پینے کی چیزوں میں کچھ اضافہ ہو ہی جاتا ہے…
تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ ہم اپنی عبادت اور محنت میں بھی اضافہ کردیں… جو پہلے
ایک پارہ پڑھتا تھا وہ اب دس یا پانچ پارے پڑھے… چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ان چار
چیزوں کی کثرت کی جائے:
(۱) کلمہ
طیبہ۔ (۲)استغفار۔ (۳)جنت کا سوال (۴)جہنم سے پناہ…
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ، اَسْتَغْفِرُاﷲَ، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ
وَاَعُوْذِبَکَ مِنَ النَّارِ
اسی
طرح نوافل بھی بڑھا دیئے جائیں… اور جتنا کھانا اپنے گھر میں کھائیں اتنا یا اس سے
زیادہ مجاہدین، مہاجرین اور غریبوں تک پہنچائیں… اس طرح حساب برابر ہو جائے گا اور
افطار وسحری کی زیادہ چیزیں ہمارے روزے کو خراب نہیں کرسکیں گی… امام ابن قیمؒ
لکھتے ہیں:
روزہ
ظاہری اعضاء اور باطنی قوتوں کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے، فاسد مادہ کے جمع
ہوجانے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔
(زادالمعاد)
ایک
اور جگہ لکھتے ہیں:
اس
لحاظ سے یہ (روزہ) اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور ابرار و مقربین کی ریاضت
ہے۔ (زادالمعاد)
یعنی
سب مسلمان ’’روزے‘‘ کے محتاج ہیں اور ’’روزہ‘‘ ہم سب کی ضرورت ہے خواہ کوئی مجاہد
ہو یا بہت بڑا ولی… اور روزہ کا مقصد اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب غذا میں کچھ کمی کی
جائے… پس اے مسلمانو! روزے کا مزہ حاصل کرو اور یہ مزا بھوکا رہنے میں ہے نہ کہ
اتنا کھانے میں کہ پیٹ سخت ہوجائے…
روح کی پرواز
ہر زندہ انسان میں دو
چیزیں ہوتی ہیں ایک روح اور دوسرا جسم… یاد رکھیں ہماری روح اوپر سے آئی ہے… جی
ہاں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے عالم غیب سے عالم قدس سے … اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ونفخت فیہ من روحی
(حجر۲۹)
’’اور میں نے (یعنی
اﷲ تعالیٰ نے) اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی‘‘
اور ہمارا جسم زمین کی
مٹی سے بنا ہے… لیس دار مٹی، چپکنے والی مٹی… سڑی ہوئی مٹی سے… اسی لئے تو انسان میں
چپکنے کی عادت ہے… دنیا کی چیزوں پر یہ انسان گرتا ہے اور ہر چیز سے چپکتا ہے…
انا خلقنا ہم من طین
لازب (الصّٰفّٰت۱۱)
’’ہم نے ان
لوگوں کو چپکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا
اگر آپ نے یہ بات
سمجھ لی تو اب اگلی بات سمجھیں… انسان کی روح اسے اوپر لے جانا چاہتی ہے… اﷲ تعالیٰ
سے ملاقات کرانا چاہتی ہے کیونکہ روح اوپر سے آئی ہے… پس جن لوگوں کی روح ٹھیک اور
طاقتور ہوتی ہے وہ اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق رکھتے ہیں اور جنت کی نعمتوں کو یاد
کرکے وہاں جانے کے لئے بے قرار ہوجاتے ہیں… مگر جن لوگوں کی روح جسم کے قبضے میں
آجاتی ہے تو ایسے لوگ جانوروں کی طرح صرف اپنی خواہشات پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں…
آپ ایسے لوگوں کو بھی دیکھیں گے جن کو پوری زندگی میں ایک منٹ بھی جنت کا شوق پیدا
نہیں ہوتا… اور نہ اﷲ تعالیٰ سے ملاقات ان کو اچھی لگتی ہے… یہ لوگ بس کھاتے ہیں
کماتے ہیں اور دنیا بناتے ہیں… اور دنیا کی چیزوں پر گرتے ہیں… اگر یہ بات بھی آپ
کو سمجھ آگئی تو اب اگلی بات سمجھیں!
انسان اگر اپنی روح
کو طاقتور بنالے تو وہ فرشتوں کے مقام تک جا پہنچتا ہے بلکہ بعض اوقات فرشتوں سے
بھی افضل ہوجاتا ہے… اور اگر انسان اپنے جسم کے تقاضوں کو پورا کرنے میں لگا رہے
تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے… اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ
کَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ
مَثْوًی لَّہُمْ (محمد۱۲)
’’اور جو کافر ہیں
وہ عیش کر رہے ہیں اور کھا (پی) رہے ہیں جس طرح چوپائے (جانور) کھاتے ہیں آگ ہی ان
کا ٹھکانا ہے‘‘
اب اﷲ تعالیٰ نے
مسلمانوں پر رحم فرمایا کہ… ان کو رمضان المبارک اور روزہ نصیب فرمایا… اس روزے کی
برکت سے انسان کی روح اس کے جسم پر غالب آجاتی ہے اور اسے اوپر کی طرف لے جاتی ہے
جی ہاں ایمان کی طرف، ترقی کی طرف اور جنت کی طرف… پس ہمیں رمضان المبارک اور روزے
کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس مبارک موسم سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر اپنی
روح کو مضبوط بنانا چاہئے… ایک حدیث قدسی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’روزہ میرے لئے
ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا…‘‘
اﷲ اکبرکبیرا… اﷲ
تعالیٰ نے جس بدلے کو روزے دار کے لئے چھپا رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ میں وہ خود
اسے بلاواسطہ دوں گا وہ کتنا بڑا بدلہ ہوگا… کتنا عظیم کتنا مزیدار… یا اﷲ ہم سب
کو نصیب فرما… ہم سب کو نصیب فرما… (آمین یا ارحم الراحمین)
٭٭٭
ایک قیمتی تحفہ
ایک مسنون دعاء جو سیدھی
عرش تک پہنچتی ہے
اور جس کے اہتمام سے
بے شمار ظاہری، باطنی اورروحانی فائدے نصیب ہوتے ہیں… احادیث مبارکہ کی روشنی میں
اس مبارک دعاء کا تین نکاتی نصاب
اور
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کا رمضان المبارک
اور
جہاد کشمیر میں حضرت
لاہوریؒ کا حصہ
تاریخ اشاعت ۱۵
رمضان المبارک ۱۴۲۸
۲۸؍ستمبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۶
ایک قیمتی تحفہ
اﷲتعالیٰ
توفیق عطاء فرمائے… ایک تحفہ آپ سب کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے… بہت قیمتی
اور بہت شاندار تحفہ… میں جب بھی اس ’’تحفے‘‘ کے فضائل اور فوائد پڑھتا ہوں تو دل
چاہتا ہے کہ ہر مسلمان اس قیمتی خزانے کا مالک بن جائے… اب الحمدﷲ رمضان المبارک
کے پیارے پیارے دن اور میٹھی میٹھی راتیں ہیں، اب تو اس تحفے کی قیمت اور زیادہ
بڑھ گئی ہے… میری آپ سب سے عاجزانہ درخواست ہے کہ رمضان المبارک ہی میں اس پر عمل
شروع فرمادیں… انشاء اﷲ اس کی برکت سے رمضان المبارک کے انوارات بھی خوب خوب حاصل
ہوجائیں گے… وہ ’’تحفہ‘‘ آپ کی خدمت میں پیش کرنے سے پہلے دو باتیں…
(۱) علامہ ابن القیمؒ زاد المعاد میں لکھتے ہیں:
رمضان
المبارک میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ مبارکہ یہ تھا کہ آپ مختلف عبادات کی
کثرت فرماتے تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان المبارک میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے تشریف لاتے تھے… جن دنوں حضرت جبرئیل علیہ
السلام آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آتے آپ ان دنوں چلتی ہواؤں سے بھی زیادہ سخاوت
فرماتے، ویسے بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے جبکہ رمضان
المبارک میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سخاوت اور بڑھ جاتی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
رمضان المبارک میں صدقہ، احسان، تلاوت قرآن، نماز، ذکر اور اعتکاف کی کثرت فرماتے
تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خاص طور پر رمضان المبارک میں دیگر مہینوں سے زیادہ
عبادت کا اہتمام فرماتے تھے۔(زادالمعاد ص۲۵ ج۲)
ہم
نے اور آپ نے اپنے رہبر و آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا عمل پڑھ لیا… آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی ہی میں ہمارے لئے خیر ہی خیر ہے… ہم ’’امت
مسلمہ‘‘ کے افراد ہیں ہمارے لئے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع ہی میں کامیابی
ہے… ہم یہودی نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل میں اپنے لئے ’’نمونے‘‘ ڈھونڈیں… پس اے بھائیو
اور بہنو… رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی کو قیمتی بنانے کی فکر ہم سب کو کرنی
چاہئے… یاد رہے کہ رمضان المبارک کا ہر لمحہ ’’رمضان‘‘ ہے… اس لئے روزہ افطار کرنے
کے بعد شرارتوں میں لگ جانا ٹھیک نہیں ہے…
(۲) ہمارے
اکابر میں سے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کو اﷲ تعالیٰ نے امتیازی
شان بخشی تھی … آپ قرآن پاک کی جہادی تفسیر بیان فرماتے تھے اور خود بھی جہاد کے
لئے تیار رہتے تھے… انتقال کے بعد آپ کی قبر مبارک سے خوشبو آتی تھی… آپ نے پوری
زندگی رزق حلال کا خاص اہتمام فرمایا… آپ پختہ عالم دین اور صاحب کشف ولی اﷲ تھے…
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ جیسے اکابر نے آپ سے علمی وروحانی
فیض حاصل کرنے کو سعادت سمجھا… اتنے اونچے مقام کے عالم اور ولی کا ’’جہاد‘‘ کے
بارے میں کیا طرز عمل تھا؟… ملاحظہ فرمائیے یہ عبارت:
جہاد
کشمیر میں حضرت لاہوریؒ کا حصہ
کشمیر
کی جنگ میں مجاہدین کی کمی نہ تھی، کمی تھی تو سامان حرب اور دیگر ضروریات کی… جس
کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی حضرت (لاہوریؒ) اس جہاد میں حصہ لینے کی خاطر ہزاروں
روپے کی وہ رقم جو شیرانوالہ مرکز میں جمع ہوتی خود لے کر روانہ ہوتے اور اس وقت کی
ذمہ دار شخصیت کے سپرد کردیتے، اس کا واپسی پر باقاعدہ اعلان کردیتے، شب و روز اہمیت
جہاد کا ذکر ہوتا، فرماتے: دل کی تمنا یہی ہے کہ ڈوگروں کے مقابلے میں فرنٹ پر
پہنچ کر صف اوّل میں شریک ہوجاؤں، سینے میں گولی لگے اور شہادت نصیب ہوجائے، ہوتا
وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ کو منظور ہو، مجاہدین کی ضروریات کا مہیّا کرنا زیادہ ضروری
تھا اس کام میں حضرتؒ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔(مرد مؤمن ص۱۲۹)
مبارک
ہو ان خوش قسمت ساتھیوں کو جو مسجد نبوی سے لے کر حضرت لاہوریؒ کی مسجد تک کے
سلسلے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں… مسجد نبوی شریف میں تبوک کے مجاہدین کے لئے آقا مدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم نے چادر بچھائی اور آقا کے سچے غلام حضرت لاہوریؒ نے کشمیری
مجاہدین کے لئے چادر بچھائی… مبارک ہو جہاد کے خادموں کو، مبارک ہو شہداء کے
خدمتگاروں کو… بہت مبارک بہت مبارک…
ایک
قیمتی تحفہ
ان
دو باتوں کے بعد اب اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں… تحفہ، جی ہاں بہت قیمتی تحفہ یہ
ہے کہ ہم سب فجر کی نماز کے بعد ایک سو بار ایک عظیم الشان کلمہ پڑھ لیا کریں:
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ
وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ…
جی
ہاں سو بار… پوری محبت اور توجہ سے پڑھ لیا کریں… یقین کریں اتنا کچھ ملے گا جو بیان
سے باہر ہے… یہ ایسا طاقتور کلمہ ہے جو فوراً عرش عظیم تک جا پہنچتا ہے اور انسان
کے لئے رحمت، قبولیت اور حفاظت کا دروازہ کھلوا دیتا ہے… اور ایک مسلمان کو اونچے
درجے کا مسلمان بنادیتا ہے … اﷲ اکبر کبیرا… حضرت امام بخاریؒ نے یہ حدیث مبارک
روایت کی ہے… پوری محبت سے پڑھیں کہ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سے کیا فرما رہے ہیں:
حضرت
ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس
نے دن میں سو مرتبہ پڑھا:
لا
الہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر (ترجمہ: اﷲ
تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی بادشاہت کا
مالک ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے) تو اس کو دس
غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا اور اس کے نامۂ اعمال میں سو نیکیاں لکھی جائیں گی
اور سو گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس دن شام تک کے لئے یہ دعاء شیطان سے اس کی
حفاظت (کا ذریعہ) ہوگی اور اس سے کوئی شخص افضل نہ ہوگا لیکن جس نے اس سے بھی زیادہ
پڑھا ہو۔ (صحیح بخاری)
اﷲ
اکبر کبیرا… اندازہ لگایئے کہ کتنی زیادہ فضیلت ہے اور کتنی زیادہ حفاظت… لوگ
پوچھتے ہیں ایک کلمے میں اتنی طاقت؟ جی ہاں یہ اﷲ پاک کے کلمات ایٹمی اسلحے کے ’’ڈیجیٹل
کوڈ‘‘ سے زیادہ طاقتور ہیں… نمبر تو سب ایک، دو تین ہوتے ہیں مگر بعض نمبر ملائیں
تو کسی بھنگی سے بات ہوتی ہے اور بعض نمبر ملائیں تو ملک کا بادشاہ فون اٹھاتا ہے…
ریموٹ دھماکے میں بھی چند نمبر ملاتے ہیں اور منٹوں میں زمین لرز جاتی ہے… زبان سے
’’قبول ہے‘‘ کا جملہ کہا تو غیر عورت حلال ہوگئی… اور صرف لفظ ’’طلاق‘‘ کے استعمال
سے حلال بیوی سے تمام رشتے ختم… اﷲ پاک کے اسماء الحسنیٰ اور اﷲ پاک کے کلمات پورے
پورے جہانوں کے مالک ہیں… پانچ چھ فٹ کا انسان اتنے بڑے جہانوں کا تصور بھی نہیں
کرسکتا… اﷲ پاک کے ستاروں میں سے بعض ستارے پوری زمین سے ایک سو گنا بڑے ہیں… اور
اﷲ پاک کے کلمات ان ستاروں سے بھی بڑے ہیں… ایک روایت کا مفہوم ہے کہ لا الہ الا اﷲ
وحدہ لاشریک لہ ایسا کلمہ ہے کہ اگر آسمان وزمین حلقہ بنا کر رکاوٹ بن جائیں تب بھی
یہ کلمہ اور اس کلمے کا ذکر اس رکاوٹ کو توڑ دے گا ( اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں
پہنچ جائے گا) اور اگر آسمان وزمین ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں اور دوسرے پلڑے میں
یہ کلمہ ہو تو کلمے والا پلڑا جھک جائے گا اور آسمان وزمین سے بھاری ہوجائے گا…
(کتاب الزہد)
بعض
روایات میں یہاں تک آتا ہے کہ اس کلمے کو پڑھنے والے کی حفاظت کے لئے اﷲ پاک آسمان
سے خاص فرشتے نازل فرماتا ہے… اور شیطان اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا… اور
شرک کے علاوہ کوئی گناہ اس شخص تک نہیں پہنچ سکتا… ویسے تو ’’وجد‘‘ کے ساتھ یہ
’’کلمہ‘‘ صبح شام چلتے پھرتے پڑھتے رہنا چاہئے… وحدہ وحدہ کی رٹ لگانے سے دل کو
سکون ملتا ہے کہ ہم ایک کے غلام ہیں… اور ہمارا رب ایک ہے… اﷲ ایک ہے، اﷲ ایک ہے…
اور لہ الملک کہنے سے یقین بنتا ہے کہ دنیا کے بادشاہ اور حکمران کچھ نہیں… اصل
مالک، اصل شہنشاہ صرف اﷲ ہے… مگر اس کلمے کا زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں…
اور جو مسلمان ان تین طریقوں کی پابندی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس کی
جھولی بھر جاتی ہے… خصوصاً شرم گاہ کے گناہوں میں پھنسے ہوئے لوگ… اور ہاتھوں سے
بدکاری کرنے والے لوگ جب اس عمل کو کرتے ہیں تو ان کو سکون نصیب ہوجاتا ہے… اور سچی
توبہ کی توفیق مل جاتی ہے… دراصل اس کلمے کی برکت سے بندے کی زندگی اچھے اعمال کی
طرف مڑ جاتی ہے… اور یوں وہ ’’افضل ترین مسلمانوں‘‘ کے مقام تک جا پہنچتا ہے…
پڑھنے کے تین طریقے درج ذیل ہیں:
(۱) صبح فجر کے بعد اور رات کو مغرب یا عشاء کے بعد ایک سو بار
پڑھیں
(۲) فجر
اور مغرب کی نماز کے بعد اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دس بار پڑھیں مگر اس میں یحیی ویمیت
کے الفاظ بڑھادیں
لاَ
اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ
وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
اس
کے بے شمار فضائل ہیں… رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو
کوئی فجر کی نماز کے بعد تشہد کی حالت میں بیٹھے بیٹھے کوئی گفتگو کرنے سے پہلے دس
بار یہ کلمہ پڑھ لے اﷲ تعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دے گا (دوسری روایت کے
الفاظ میں ہے کہ دس مقبول نیکیاں لکھ دے گا) اور اس کے دس گناہ مٹا دے گا (دوسری
روایت میں ہے کہ دس ہلاک کرنے والے گناہ مٹا دے گا) اور اس دن وہ ہر ناگوار چیز سے
محفوظ رہے گا اور شیطان سے حفاظت میں رہے گا اور شرک کے سوا کوئی گناہ اس تک نہیں
پہنچ سکے گا۔(ترمذی، الترغیب)
اور
نسائی کی روایت میں ہے کہ جو مغرب کے بعد دس بار پڑھے گا وہ صبح تک یہ سارے فضائل
اور فوائد حاصل کرے گا… اور اﷲ تعالیٰ اس کے لئے محافظ فرشتے اتارے گا جو اس کی شیطان
سے حفاظت کریں گے۔(نسائی، الترغیب)
(۳) جب
بازار میں ہوں تو اس کلمے کو بہت کثرت سے پڑھیں اور اس میں مزید وَہُوَ حَیٌّ لَّا
یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ کے الفاظ بڑھا دیں… بازار میں صرف ایک بار یہ کلمہ
پڑھنے سے اﷲ تعالیٰ ہزاروں ہزار… یعنی لاکھوں بے شمار نیکیاں عطاء فرماتا ہے۔
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ
وَ یُمِیْتُ وَہُوَحَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ
قَدِیْرٌ…
امام
ترمذیؒ نے ’’جامع ترمذی‘‘ میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو
کوئی بازار گیا اور اس نے پڑھا
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ
وَ یُمِیْتُ وَہُوَحَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ
قَدِیْرٌ…تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے ہزاروں ہزار نیکیاں لکھ دے گا اور اس کے ہزاروں
ہزار گناہ مٹا دے گا اور اس کے ہزاروں ہزار درجے بلند کردے گا اور اس کے لئے جنت میں
محل بنائے گا۔(ترمذی)
حدیث
شریف میں ’’اَلْف اَلْف‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ بعض علماء ’’دس
لاکھ‘‘ کرتے ہیں اور بعض ’’ہزاروں ہزار‘‘ … ویسے یہ لفظ عربی زبان میں کسی چیز کی
کثرت بیان کرنے کے لئے بولا جاتا ہے…
جب
کوئی دشمن کے سامنے حق بولے تو وہ اچھا لگتا ہے… بازار شیطان کا اڈہ ہے پس جو مومن
وہاں جاکر بھی اﷲ تعالیٰ کو نہیں بھولتا… بلکہ ان طاقتور اور جامع الفاظ کے ساتھ
اس کی وحدانیت اور عظمت کا اعلان … اور اپنی وفاداری کا اظہار کرتا ہے تو وہ اﷲ
تعالیٰ کو بہت پسند آتا ہے… چنانچہ اس کے لئے رحمتوں اور فضیلتوں کے دروازے کھل
جاتے ہیں…
خلاصہ
یہ ہوا ہے کہ اس باعظمت اور بابرکت کلمے کا پورا فائدہ حاصل کرنے کے لئے یہ تین
نکاتی نصاب پیش کیا گیا ہے کہ صبح شام سو سو بار پڑھ لیں، فجر اور مغرب کے بعد دس
دس بار پڑھ لیں (یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ کے اضافے کے ساتھ) اور جب بازار جائیں یا
بازار سے گزریں تو کم از کم ایک بار اور زیادہ سے زیادہ جتنا ہو سکے اس کا اہتمام
کریں… (یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ کے
اضافے کے ساتھ) … اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو آسانی اور قبولیت کے ساتھ اس کی توفیق
عطاء فرمائے…اور اس عظیم کلمے کا پورا پورا فیض عطاء فرمائے… آئیے مضمون کے خاتمے
پر میں بھی پڑھ لوں اور آپ بھی
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ
وَ یُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ…
٭٭٭
ایمان کی قوت
٭ایمان کی طاقت
٭وساوس کا علاج
٭موبائل فون کے
فتنے
٭صدارتی
انتخابات کا ڈھونگ
اور
٭فدائی مجاہدین
کے سامنے صلیبی فوجوں کی بے بسی
تاریخ اشاعت۲۲
رمضان المبارک۱۴۲۸ھ
۵؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۷
ایمان کی قوت
اﷲ
تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے، جنہوں نے رمضان المبارک پایا اور اپنی بخشش
کرالی… ملک کے سیاسی حالات کافی گرم ہیں… عدالتوں کو ’’مشکل کشا‘‘ سمجھنے والوں کو
مایوسی کا دھکا لگا ہے… اور ادھر ’’بے نظیر صاحبہ‘‘ کی بے تابی عروج پر ہے اور وہ
جلدی سے جلدی ’’کرسی‘‘ پر بیٹھنے کے لئے… پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر کافروں کے
حوالے کر رہی ہیں… شیطان کا دھوکا بھی عجیب ہے، بے چاری ابھی تک ملک میں واپس آئی
نہیں… اس کے مشیر جنرل پرویز مشرف کے پاؤں چاٹ رہے ہیں کہ وہ بے نظیر پر سے مقدمات
ختم کردے… ادھر جان کا خطرہ اتنا ہے کہ کروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑی منگوائی جارہی
ہے… مگر اس کے باوجود سخاوت کا یہ عالم ہے کہ کبھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان امریکہ کے
حوالے، کبھی جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم والے انڈیا کے حوالے… کبھی داؤد ابراہیم
بھارت کے حوالے… کبھی ملک کے سائنسدان اقوام متحدہ کے حوالے… ایسا لگتا ہے بی بی
صاحبہ اس ملک میں اکیلی رہنا چاہتی ہیں… ادھر ہمارے کرکٹ کھلاڑی رمضان المبارک کی
برکت سے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتنا چاہتے تھے… قوم کے روزے دار ان کے لئے دعائیں
کر رہے تھے… استغفراﷲ، استغفراﷲ… کرکٹ کا شوق رکھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ اس کھیل
کو دین، رمضان اور دعاء کے ساتھ نہ جوڑیں… کھیل بس کھیل ہوتا ہے، اس کی ہار جیت سے
نہ تو کوئی دین ہارتا جیتتا ہے اور نہ کوئی ملک… ویسے اگر پاکستان کی ٹیم جیت جاتی
تو ملک کا کافی نقصان ہوتا… ہمارے سخی بہادر ’’صدرصاحب‘‘ اس غریب ملک کے کروڑوں
روپے ’’فاتح کھلاڑیوں‘‘ میں بانٹ دیتے… ان کھلاڑیوں کے استقبال پر بہت سے لوگ اپنے
روزے خراب کرتے… اخبارات میں ان ’’شودوں‘‘ کے بڑے بڑے فوٹو لگتے… اور کشمیر اور سیاچن
پر ہندوستان کے قبضے میں کوئی فرق نہ آتا… ادھر ہندوستان میں اپنی ٹیم کی فتح پر
خوشیاں منائی جارہی ہیں… وہ ملک جہاں کی ۳۳ فیصد آبادی بھوکی ننگی ہے وہاں ٹیم
کے ہر کھلاڑی کو اسّی لاکھ روپے دیئے گئے ہیں… بعض کھلاڑیوں کو مکانات بھی ملے ہیں…
کرکٹ کا نشہ بھی عجیب ہے کچھ عرصہ بعد بنگلہ دیش ’’ورلڈچیمپیئن‘‘ بن جائے گا… کافر
چاہتے ہیں کہ مسلمان انہی فتوحات میں خوش رہیں اور وہ پوری اسلامی دنیا پر قبضہ
کرتے چلے جائیں… ابھی ہمارے ملک میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں… یہ عجیب
’’دہشت گرد انتخابات‘‘ ہیں… گولی، ڈنڈا، وردی، بدمعاشی، بے حیائی اور غیروں کی
غلامی… معلوم نہیں ایسے انتخابات کی ضرورت ہی کیا ہے؟… نتیجہ تو سب کو معلوم ہے …
اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلمان کہلانے والے حکمرانوں کو آخرت کی فکر عطاء
فرمائے…
؎ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
آخرت
کے حساب کتاب سے بے خوف آنکھیں بند کرکے وہ اپنے اقتدار کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں…
ایوب خان، یحییٰ خان اور ان سے پہلے سکندر مرزا … یہ سب کہاں گئے؟… گہری قبریں،
خوفناک کھائیاں اور سخت منزلیں… کاش کوئی یاد رکھے، کاش کوئی یاد رکھے… بات یہ چل
رہی تھی کہ پاکستان کا سیاسی ماحول کافی گرم ہے… ہم دن کے وقت تو اخبار سے دور
رہتے ہیں… روزے کی حالت میں اخبار پڑھنا ایک ظلم اور بوجھ محسوس ہوتا ہے… مشکوک
خبریں، جھوٹے کالم، فتنہ انگیز تصویریں… اور دھوکے باز اشتہارات… روزے کی حالت میں
یہ تمام کام ممنوع ہیں… اور روزہ نہ بھی ہو تب بھی اخبارات کی تصاویر اور اشتہارات
سے نظروں کی حفاظت کرنی چاہئے… ’’موبائل فون‘‘ تو اب باقاعدہ فتنہ بنتا جارہا ہے…
روزانہ نئے نئے پیکج اور پھر ان پیکیجوں کے اشتہارات… معلوم نہیں روز کتنے گھرانے
اس موبائل فون کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں… جمعہ کے دن شرعی مسائل والے صفحے پر تھا
کہ میاں بیوی میں موبائل فون کی وجہ سے طلاق ہوگئی … یا اﷲ رحم فرما… موبائل فون
تو حیاء اور تقوے کا قاتل بنتا جارہا ہے… یہ ایسا سانپ ہے جو کسی کو ڈس لے تو قبر
کے عذاب اور ذلت میں جا پھینکتا ہے… خیر دن کو تو اخبار کسی تکیے کے نیچے روپوش
رہتا ہے مگر رات کو کبھی کبھار تھوڑا سا دیکھ لیتے ہیں اور بی بی سی کی اردو خبروں
سے بھی کچھ حالات معلوم ہوجاتے ہیں… کاش ہمارے فوجی حکمران رمضان المبارک کے تقدس
کا خیال رکھتے ہوئے ’’صدارتی ڈرامہ‘‘ کچھ عرصہ کے لئے موخر کردیتے… مگر جسٹس
افتخار محمد چودھری کے ڈر سے صدر صاحب جلد از جلد قانون کی کھال پہننا چاہتے ہیں…
چنانچہ پولیس، فوج، رینجرز اور سیاستدان، ان سب کے روزے صدر صاحب نے خراب کردیئے ہیں…
شاید دنیا کا ہر گناہ موجودہ حکمرانوں کی قسمت میں لکھا ہوا ہے… رمضان المبارک کے
مہینے میں بھی قبائلی مسلمانوں کے خلاف آپریشن جاری ہے… اورادھر نیٹو والوں کی
خدمت بھی پورے جذبے کے ساتھ کی جارہی ہے…
یہاں
ایک دلچسپ بات یاد آگئی… اﷲ تعالیٰ مجاہدین کو جزائے خیر عطاء فرمائے، انہوں نے
قرون اولیٰ کی فتوحات کی یادیں تازہ کردی ہیں… ایک دوروز پہلے افغانستان میں تعینات
صلیبی فوجوں کے کمانڈر نے کہا کہ ہم جو علاقہ فتح کرتے ہیں کرزئی کے فوجی اس علاقے
کی حفاظت نہیں کرسکتے… اور طالبان وہ علاقے دوبارہ فتح کرلیتے ہیں… اب اس سال جو
علاقے ہم نے فتح کیے تھے اگلے سال ان کی خاطر ہمیں پھر جنگ کرنی پڑے گی… اﷲ اکبر
کبیرا… یہ ہے عالمی قوتوں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی بے بسی… ان مسلمانوں کے سامنے جو
رمضان المبارک میں سوکھی روٹی کھا کر جہاد کر رہے ہیں… اﷲاکبرکبیرا… دراصل ’’ایمان‘‘
سب سے بڑی طاقت ہے… وہ لوگ اس طاقت کو کیا جانیں جنہوں نے ’’ایمان‘‘ کا مزہ چکھا ہی
نہیں… یہ کہنا کہ ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا ایک خطرناک گناہ ہے… کل کوئی کھڑے ہو
کر کہے گا کہ حج کا فریضہ تو پکے مسلمانوں کے لئے تھا ہم کچے مسلمان ہیں ابھی
ہمارے لئے حج کا وقت نہیں آیا… اسی طرح کوئی نماز کا انکار کردے گا اور کوئی زکوٰۃ
کا…کیونکہ قرآن پاک کی کسی آیت کے شروع میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ حکم پکے
مسلمانوں کے لئے ہے اور یہ کچے مسلمانوں کے لئے… یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا کہ
نماز اور روزہ ہر مسلمان کے لئے ہے اور جہاد صرف پکے مسلمانوں کے لئے ہے… الحمدﷲ میرے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محنت
ایسی کمزور نہیں ہے کہ ابھی سے پکے مسلمانوں کی نسل ہی ختم ہوجائے… اس زمانے کے جو
’’فدائی مجاہدین‘‘ ہیں ان کے ایمان کے سامنے پوری دنیا کا کفر لرزہ براندام ہے… بیس
سال کا نوجوان مسکراتا ہوا، کلمہ پڑھتا ہوا، ذکر کرتا ہوا… اپنے جسم کے ہزاروں
ٹکڑے کروادیتا ہے… آخر کس لئے؟ … صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے… صرف اﷲ پاک کے لئے… ہاں اس
نوجوان کو اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر پکا یقین ہوتا ہے، بالکل پکا ایمان … اسی لئے تو
وہ خوشی سے آخرت کی کامیابی کو گلے لگا لیتا ہے… ایمان کا نعرہ اتنا طاقتور ہے کہ…
شیطان کے تمام جال ٹوٹ جاتے ہیں… آجکل لوگ کثرت سے ’’وسوسوں‘‘ کی شکایت کرتے ہیں
کہ مجھے یہ وسوسہ آتا ہے وہ وسوسہ آتا ہے… میرے پاس جو ڈاک آتی ہے اس میں بھی ایسے
خطوط کافی مقدار میں ہوتے ہیں جن میں وسوسوں کی پریشانی کا اظہار ہوتا ہے… ہمارے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے وساوس کا ایسا علاج ارشاد فرمایا ہے کہ جس کے کرتے ہی
فوراً… تمام وساوس اور وساوس ڈالنے والے شیاطین دُم دبا کر بھاگ جاتے ہیں… آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے سکھایا کہ جب ’’وسوسہ‘‘ آئے تو فوراً اعلان کردو
اٰمنت
باﷲ ورسولہ
ترجمہ:
میں ایمان لایا اﷲ پر اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر…
آپ یقین
کے ساتھ یہ عمل کرکے دیکھ لیں … جیسے ہی دل میں کوئی وسوسہ اﷲ تعالیٰ کے بارے، اس
کے انبیاء کے بارے … حضرات صحابہ کرام کے بارے، دین کے بارے، جہاد کے بارے میں آئے
فوراً کہیں…
اٰمَنْتُ
بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ…
وہ
وسوسہ انشاء اﷲ اسی وقت غائب ہوجائے گا اور دل ایمان سے بھر جائے گا… اس میں
’’تجربے‘‘ کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ ایک یقینی اور پکا علاج ہے… دراصل ’’ایمان‘‘
بہت بڑی طاقت ہے… ایک کافر ستر سال تک پہاڑوں کے برابر گناہ کرتا رہے اور پھر ایمان
لے آئے… ایمان اس کے کروڑوں اربوں گناہ مٹا کر رکھ دے گا… ایمان کی طاقت کا اندازہ
اس سے لگائیں کہ جہنم سات زمینوں کے نیچے ہے اور جنت سات آسمانوں کے اوپر ہے… ایک
شخص کفر کی وجہ سے جہنم کی پستی میں ہوتا ہے پھر وہ اچانک ایمان لے آتا ہے تو وہ
جنتی بن جاتا ہے… دنیا کا کون سا راکٹ اتنا لمبا سفر طے کر سکتا ہے… چاند جو زمین
کے بالکل قریب ہے اس تک جاتے ہوئے بھی ایک راکٹ کے کئی کئی انجن جل جاتے ہیں… جبکہ
جنت تو بہت دور ہے بہت اونچی ہے آسمانوں سے بھی دور اور اونچی… مگر ایمان کی طاقت
ایک بندے کو زمین سے اٹھا کر جنت تک لے جاتی ہے… اﷲاکبرکبیرا… ویسے ’’وسوسوں‘‘ کا
حکم یہ ہے کہ ’’وسوسہ‘‘ آنا نقصان دہ نہیں ہے وسوسہ لانا نقصان دہ ہے… یعنی جو وسوسے
خود آتے ہیں ان کی فکر اور پرواہ نہ کریں… اگر روزے دار کو پوری ایک دیگ چاول
کھانے کا وسوسہ آئے تو کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؟… ایک بزرگ نے فرمایا کہ انسان
کا ذہن سڑک کی طرح ہے … سڑک پر ہر طرح کی ٹریفک چلتی رہتی ہے… گاڑیاں، گدھے،
گھوڑے، انسان سب سڑک پر چلتے ہیں… گدھے گھوڑے سڑک پر لید بھی کردیتے ہیں مگر بعد میں
گزرنے والے ٹرک اس لید کو صاف کردیتے ہیں… اسی طرح انسان کو بھی ہر طرح کے اچھے
برے خیالات اور وسوسے آتے رہتے ہیں… بس کوشش یہ کرے کہ ٹریفک کو رکنے نہ دے… یعنی
کسی وسوسے کو پکڑ کر نہ بیٹھ جائے بلکہ
برے وساوس کو آگے گزاردے… اور پیچھے اچھے خیالات اور ذکر کی ٹریفک چلا دے… وسوسے
ہر کسی کو آتے ہیں اور جو لوگ معدے کے مریض ہوتے ہیں ان کو زیادہ آتے ہیں… اس لئے
زیادہ وسوسوں سے بچنے کے لئے معدہ ٹھیک رکھیں اور وسوسوں کی وجہ سے کوئی نیکی نہ
چھوڑیں، کوئی عبادت نہ چھوڑیں اور نہ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں… بلکہ وسوسوں کو جھٹک
دیں اور جب وسوسہ آئے خوب توجہ سے یہ نعرہ لگائیں
اٰمنت
باﷲ ورسولہ
ارے
میں تو اﷲ تعالیٰ کا ہوں اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہوں… ایمان کا اعلان
انشاء اﷲ ہر وسوسے کو بھگا دے گا… بات یہ چل رہی تھی کہ طالبان کی یلغار کے سامنے
الحمدﷲ نیٹو افواج بے بسی محسوس کر رہی ہیں… یہ سب ایمان کی برکت ہے جبکہ ہمارے
بدنصیب حکمران نیٹو کی صلیبی افواج کا ساتھ دے رہے ہیں… اﷲ پاک ہم سب پر رحم
فرمائے، رمضان المبارک کا سب سے قیمتی موسم یعنی آخری عشرہ آنے والا ہے… آج ماشاء
اﷲ سولھواں روزہ ہے… اعتکاف والے ایک ایک منٹ گن کر اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں
جب وہ اﷲ تعالیٰ کے مہمان بن جائیں گے… لیلۃ القدر کی حسین رات آسمانوں کے اوپر سے
جھانک رہی ہے… اﷲ پاک مجھے بھی نصیب فرمائے اور آپ سب کو بھی… آمین یاار حم الراحمین
٭٭٭
دو سورج
ہندو ستان میں ایک
جنازہ اٹھ رہا تھا اور دہلی سے ایک جہازاڑ رہا تھا…
۲۲رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ
۳۱؍ دسمبر۱۹۹۹ء… جمعتہ المبارک کا دن
ماضی قریب کے ایک
مفکر اسلام کا حال سنانے والی
اور ایک عجیب واقعہ
سنانے والی ذکر اﷲ سے معمور تحریر
دو سورج
تاریخ اشاعت ۲۹
رمضان المبارک۱۴۲۸ھ
۱۲؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۸
دو سورج
اللہ،اللہ
،اللہ رمضان المبارک مکمل ہونے والا ہے… یہ سوچ کر دل اداس ہوتا ہے کہ صرف چار
پانچ دن باقی رہ گئے ہیں… اللہ،اللہ ،اللہ ، کبھی آپ نے سوچا کہ نماز کا آغاز کس
نام سے ہوتا ہے؟…
ہم
’’اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر نماز شروع کرتے ہیں یعنی لفظ ’’اللہ‘‘ سے نماز شروع ہوتی ہے…
اور نماز کا اختتام بھی اسی مبارک نام پر ہوتا ہے جب ہم سب کہتے ہیں ’’السلام علیکم
ورحمۃ اﷲ‘‘… آخر میں لفظ ’’اللہ‘‘ ہی زبان سے نکلتا ہے… یعنی نماز نے سکھادیا کہ
ابتداء بھی ’’اللہ‘‘ کے نام سے اور انتہا بھی ’’اللہ‘‘ کے نام پر… اسی لئے تو آج
رمضان المبارک کے اختتام پر میرا دل اللہ،اللہ ،اللہ پکار رہا ہے… اور دل چاہتا ہے
کہ پورا کالم اسی ایک نام سے بھر دوں … اور کچھ بھی نہ لکھوں بس اللہ،اللہ ،اللہ لکھتا
جاؤں … اور پھر میں بھی پڑھوں اور آپ بھی اللہ،اللہ ،اللہ … اس مضمون کو پڑھتے وقت
جب بھی اﷲ پاک کا نام مبارک آئے تو آپ بھی ساتھ پڑھ لیں اللہ،اللہ ،اللہ … آپ اذان
کو دیکھیں وہ ’’اللہ‘‘ سے شروع ہوتی اور ’’اللہ‘‘ پر ختم ہوتی ہے… آغاز اﷲ اکبر…
اور اختتام لا الہ الا اﷲ … ایک مسلمان جب پیدا ہوتا ہے تو پہلی آواز اس کے کان میں
پڑتی ہے اﷲ اکبر… اور مرتے وقت آخری لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے ’’اللہ‘‘ … لا الہ
الا اﷲ … اے مسلمانو! اپنے بچوں کو سب سے پہلے ’’اللہ‘‘ کا نام سناؤ تاکہ مرتے وقت
ان کی زبان کا آخری لفظ ’’اللہ‘‘ ہو… رمضان المبارک کا آغاز بھی ’’اللہ‘‘ کے نام
سے ہوا، چاند نکلا تو اذان کی آواز گونجی اﷲاکبر… پھر مسلمان اﷲ پاک کی خاطر تراویح
میں کھڑے ہوگئے… اور پھر رات کے آخری حصے میں ’’اللہ کے نام پر لوگوں نے ایک دوسرے
کو ’’سحری‘‘ کے لئے جگایا … اﷲ کے پیارو! سحری کھالو… اﷲ کی بندی اٹھو روٹی پکاؤ…
اﷲ کے بندے دہی تو لے آؤ … بس سب کی زبان پر ’’ اللہ،اللہ ،اللہ ‘‘ … اﷲپاک کے لئے روزہ … اﷲ پاک کے لئے رات کا قیام،
اﷲپاک کے لئے جہاد، اﷲ پاک کے لئے صدقات، خیرات … اور اﷲ پاک کے لئے گناہوں سے دوری
… رمضان نے تو مسلمانوں کے مزے کرادیئے اور ان کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جوڑ دیا اور
ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ فضاء سے بھی ’’ اللہ،اللہ ،اللہ ‘‘ پڑھنے کی آواز محسوس
ہوتی ہے… اور آسمان کے تارے بھی پڑھتے ہیں اللہ،اللہ ،اللہ … آپ کبھی رات کو تنہائی
میں آسمان کی طرف دیکھیں، رمضان المبارک کا آسمان اور طرح کا محسوس ہوتا ہے… ہاں
بھائی یہ معمولی مہینہ تو نہیں ہے، یہ اﷲ پاک کا اپنا خاص مہینہ ہے… بہت خاص، بہت
پیارا، اتنا پیارا کہ اﷲ پاک نے اس میں قرآن مجید کو نازل فرما دیا… اور قرآن پاک
تو عرش اور کرسی سے بھی عظیم اور افضل ہے، دنیا کے آسمان زمین تو اس کے سامنے کوئی
حیثیت ہی نہیں رکھتے… اللہ،اللہ ،اللہ رمضان المبارک میں قرآن پاک پڑھنے میں کتنا
مزہ آتا ہے، جیسے دل کو کسی نے شہد اور نور سے بھر دیا ہو… پھر دیکھیں آسمان سے
نصرت اس مہینے میں یوں نازل ہوتی ہے جیسے موسلا دھار بارش… غزوۂ بدر اسی مہینے میں
ہوا اور قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے مثال بن گیا… مفسرین نے لکھا ہے کہ غزوۂ بدر
میں اﷲ تعالیٰ نے جن فرشتوں کو جہاد کی وردی پہنادی ہے وہ قیامت تک اسی وردی میں
رہیں گے… اور مجاہدین کی نصرت کے لئے اترتے رہیں گے … اللہ،اللہ ،اللہ وردی کے
تذکرے سے یاد آگیا کہ قوم نے اس رمضان المبارک میں یہ عظیم الشان خوشخبری بھی سنی
کہ جنرل پرویز مشرف چند دن تک اپنی وردی اتار دیں گے… بے شک یہ مظلوم پاکستانیوں
کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے اور اﷲ پاک کی بہت بڑی نصرت… آپ یقین کریں کہ اگر اﷲ
پاک کی نصرت نہ ہوتی تو یہ جنرل مرنے کے بعد بھی خوشی سے وردی نہ اتارتا… اور اس کی
وردی مزید کئی سالوں تک مسلمانوں کے لئے مصیبت بنی رہتی… مگر اﷲ پاک نے اس کو
مجبور کردیا ہے… وہ خوشی سے یہ فیصلہ نہیں کر رہا… وردی تو اس کی کھال ہے… اب
انشاء اﷲ یہ کھال اتر جائے گی… اﷲ پاک کا بہت شکر اور رمضان المبارک کا بہت شکریہ
… صدر صاحب کی وردی تو انشاء اﷲ اتر جائے گی مگر ’’جہادی فرشتوں‘‘ نے وردی نہیں
اتاری… وہ قیامت تک زمین پر اترتے رہیں گے انشاء اﷲ… وہ غزوۂ حنین میں بھی اترے اور
غزوۂ خندق میں بھی… اور وہ بنوقریظہ کے محاصرے میں بھی شریک ہوئے… افغانستان کے
جہاد میں ان فرشتوں کو روسی کافروں نے دیکھا اور ان میں سے کئی ایک یہ مناظر دیکھ
کر مسلمان ہوگئے… اللہ،اللہ ،اللہ … ڈاکٹر عبداﷲ عزامؒ نے افغان جہاد کی کرامتوں
پر کتاب لکھی تھی… آیات الرحمٰن فی جہاد الافغان … کشمیر کے جہاد میں بھی اﷲ تعالیٰ
کی نصرت خوب نازل ہوئی… اگر یہ نصرت نہ ہوتی تو انڈین آرمی ایک مہینے میں جہاد کشمیر
کے ہر نشان کو مٹا دیتی… پانچ، دس ہزار مجاہدین کا سات لاکھ آرمی سے مقابلہ ہے… اس
رمضان المبارک میں الحمدﷲ کشمیری مجاہدین نے انڈین آرمی پر خوب حملے کیے ہیں … اللہ،اللہ
،اللہ … نصرتوں والا رمضان المبارک جا رہا ہے… اور دل پر اداسی کے بادل چھا رہے ہیں…
پورے آٹھ سال پہلے ۲۲ رمضان کو جمعۃ المبارک کا دن تھا… اور اس سال بھی ۲۲
رمضان جمعۃ المبارک کے دن آیا ہے… اللہ،اللہ ،اللہ … یاد کریں ۲۲رمضان
المبارک جمعہ کا دن آٹھ سال پہلے… انڈیا میں جب ایک جنازہ اٹھا تھا اور ایک جہاز
اڑا تھا… جنازہ تو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا تھا… غلاموں
کے ملک میں بسنے والا ایک ’’آزادمسلمان‘‘ … ایک ’’بڑا مسلمان‘‘ ایک ’’مثالی
مسلمان‘‘ … اللہ،اللہ ،اللہ … بے شک مولانا ابوالحسن ندویؒ جن کو ’’علی میاں‘‘ کہا
جاتا تھا اس زمانے میں مسلمانوں کے ’’فکری امام‘‘ تھے… انہوں نے ہمیشہ ’’اسلام کی
عظمت‘‘ کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے رکھا … اور ہندوستان کے مسلمانوں کو برملا
کہتے رہے کہ ہم نے دوبارہ اس زمین کو حاصل کرنا ہے… اور ہم مسلمان غلامی کے لئے پیدا
نہیں ہوئے… حضرت علی میاں جہاد کے عاشق تھے وہ حضرت سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے
تھے… انہوں نے مسلمانوں کو جہاد پر کھڑا کرنے کے لئے بہت کچھ لکھا … جی ہاں ماشاء
اﷲ بہت کچھ لکھا … وہ سید احمد شہیدؒ… کے قافلے کی داستانیں عرب و عجم کو سناتے
رہے اور اسلام کی تاریخ عزیمت مسلمانوں کو سمجھاتے رہے… زندگی کے آخری سالوں میں
انہوں نے بڑے بڑے غم دیکھے ان کی پاک آنکھوں نے دہلی کے تخت پر واجپائی اور ایڈوانی
جیسے متعصب درندوں کو ناچتے دیکھا … ان کے دینی ادارے ’’ندوۃ العلماء‘‘ پر پولیس
نے چھاپہ ڈالا … اور بھی بہت کچھ ایسا ہوا جو مایوس کرنے والا تھا… مگر حضرت علی میاںؒ
نے مایوسی کو اپنے قریب نہ آنے دیا… ان کو بارہا کہا گیا کہ آپ عرب ممالک میں
رہائش اختیار کرلیں وہاں کے حکمران اور عوام آپ کے عقیدتمند ہیں… اور عرب دنیا میں
آپ کی تصنیفات کی دھوم ہے… مگر وہ ہندوستان میں ڈٹے رہے اور فرماتے رہے یہ ہم
مسلمانوں کا ملک ہے… آج نہیں تو کل مسلمان اسے ضرور حاصل کرلیں گے… اللہ،اللہ ،اللہ
… ایک اﷲ کا ولی، مسلمان دانشور ساری زندگی اسلامی فتوحات کی کہانیاں مسلمانوں کو
سناتا رہا… وہ غازیوں اور جانبازوں کے تذکرے کر کرکے امت کو سنبھالتا رہا… اس نے
اپنی زندگی میں ایک مجاہد کے ہاتھ بھی چومے اور آنکھوں سے لگائے جب اسے پتہ چلا کہ
اس مجاہد نے اپنے ہاتھوں سے جہاد میں حصہ لیا ہے… مگر جب وہ اس دنیا سے جا رہا تھا
تو اس کے ملک پر ایڈوانی اور واجپائی کی حکومت تھی … اور ہندوستان میں دور دور تک
جہاد اور عزیمت کا کوئی جھنڈا نظر نہیں آرہا تھا… ان حالات میں اگر وہ ’’سیدزادہ‘‘
اپنی آنکھیں بند کرلیتا تو بہت عجیب سا لگتا کہ ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ اور … ’’جب ایمان کی بہار آئی‘‘ کا مصنف کس قدر غم
اور گھٹن کے ماحول میں دنیا سے جارہا ہے… مگر اللہ بہت بڑا ہے، اللہ ایک ہے، اس نے اس اسلامی مورخ کو ایک بڑی فتح
دکھا کر دنیا سے رخصت فرمایا … جی ہاں انہیں دنوں پانچ مجاہدین نے انڈیا کا ایک طیارہ
پکڑ لیا تھا… وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے… انڈیا پہلے ایک
دو دن تو گرجا اور دھاڑا کہ ہم نہیں جھکیں گے مگر رمضان المبارک میں اﷲ پاک کی
نصرت مسلمانوں پر بارش کی طرح برس رہی تھی… دو دن بعد انڈیا کو اندازہ ہوا کہ وہ
ہر طرف سے پھنس چکا ہے… تب انڈیا کے حکمرانوں نے وہاں کے علماء کے پاؤں پکڑے… آپ
ہمارا مسئلہ حل کرا دیجئے… ایک بڑی ذلت اور شکست انڈیا کے دروازے پر دستک دے رہی تھی…
ایڈوانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں اتنی
شرمناک شکست پہلے کبھی نہیں ہوئی… جی ہاں بہت عجیب شکست … پانچ مجاہدین نے ایک منی
سپرپاور کو بے بس کردیا … انڈیا نہ لڑ سکتا تھا اور نہ بھاگ سکتا تھا… ادھر اس
واقعے کی وجہ سے طالبان کو خوب عالمی تشہیر مل رہی تھی جس سے مسلمانوں کے دل خوشی
سے لبریز تھے… اور کئی مسلمانوں کو تو پہلی بار معلوم ہوا تھا کہ طالبان ایک
باقاعدہ طاقت اور حکومت کا نام ہے… ورنہ وہ اسے محض ایک دھڑا اور پارٹی سمجھتے
تھے… الغرض اس واقعے سے اسلام اور مسلمانوں کو عزت ہی عزت مل رہی تھی… اور حضرت علی
میاںؒ جیسے دل کے مجاہد اپنی مسرور آنکھوں سے اپنی زندگی کا یہ آخری منظر دیکھ رہے
تھے… انڈیا کی حکومت کے بڑے بڑے اہلکار ان کے دروازے کے باہر بھکاریوں کی طرح کھڑے
تھے… اور ملک کے حکمران ان کی اور حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒکی فون پر منتیں کر
رہے تھے… اللہ،اللہ ،اللہ … کتنا عجیب منظر تھا … حضرت آپ طالبان کو سمجھائیں…
علماء فرماتے آپ تو طالبان کو مانتے ہی نہیں تھے، اور نہ ہمیں ان کے پاس جانے دیتے
تھے… اور آپ کا کہنا تھا کہ طالبان کچھ بھی نہیں ہیں… نہیں حضرت ہم غلطی پر تھے
طالبان بہت بڑی قوت ہیں ہم پھنس چکے ہیں … ملک کے وقار کا مسئلہ ہے، دوسو افراد کی
جانوں کا مسئلہ ہے… آپ کچھ کریں، آپ کچھ کریں… تاریخ کی کتابوں میں فاتحین کے
گھوڑوں کو تصور کی آنکھوں سے دیکھ کر خوش ہونے والے … حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ
نے اپنی حقیقی آنکھوں سے اسلام کی فتح کا منظر دیکھ لیا …جب ان کی قوم کے پانچ
بچوں نے… اﷲ تعالیٰ کی نصرت سے ہندوستان کے غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا… اور
پھر ایک بہت عجیب منظر زمین وآسمان نے دیکھا … اللہ،اللہ ،اللہ … ایک جہاز جموں کے
ائیر پورٹ پر تیار کھڑا تھا … ایک جہاز دہلی کے ایئرپورٹ پر تیار کھڑا تھا… دو
جہاز قندھار کے ائیر پورٹ پر تیار کھڑے تھے… یہ سب کس کے لئے؟ … ایک غریب مسلمان
کے لئے جو ایک چھوٹا سا مجاہد تھا … اور انڈیا والوں نے اسے رکشے پر سفر کرتے ہوئے
کمانڈر حضرت سجاد شہیدؒ کے ساتھ گرفتار کیا تھا… جی ہاں ایک چھوٹے سے غریب مجاہد
کے لئے یہ چار پانچ جہاز تیار کھڑے تھے… اپنے نہیں دشمن کے جہاز … یہ ہے جہاد کی
کرامت اور یہ ہے جہاد کا کمال … جموں والے جہاز نے اس کو دہلی پہنچانا تھا، ملک کا
وزیر اعظم ایک دن پہلے سے جموں میں بیٹھا اپنی شکست کے معاملات کنٹرول کر رہا تھا
… دہلی والے جہاز نے اس مجاہد کو قندھار لے جانا تھا… بغیر ٹکٹ، بغیر ویزے کے …
اور وزیر خارجہ بھی گردن جھکائے ساتھ تھا… قندھار کے ایک جہاز نے اس کے وہاں
پہنچنے کے بعد آزاد ہونا تھا… اور قندھار کے دوسرے جہاز نے اس کی رہائی کے بعد
آزاد ہونے والے مسافروں کو واپس لے جانا تھا… اللہ،اللہ ،اللہ … کیسی عجیب نصرت تھی
اور کیسے عجیب لمحات … حکومتِ ہندوستان نے
اپنی شکست کو ہلکا کرنے کے لئے کروڑوں، اربوں ڈالر خرچ کیے… اسلام آباد کے کئی
صحافی خریدے گئے جو اس واقعہ کو ’’انڈین سازش‘‘ قرار دیں … خفیہ ایجنسیوں کے کئی
لوگ خریدے گئے جو فتح اور رہائی پانے والے مجاہدین کے خلاف رپورٹیں لکھ لکھ کر ان
پر زمین تنگ کریں …
جی
ہاں کافر جانتے ہیں کہ … اس طرح کے واقعات کی تشہیر سے اسلام کو کتنا فائدہ ملتا
ہے… اور مسلمانوں کا حوصلہ کتنا بلند ہوتا ہے… اب تو بہت کچھ ماضی کا حصہ بن گیا …
ورنہ اس واقعہ نے تو مسلمانوں میں ایک نئی جان پھونک دی تھی… میں کیسے عرض کروں کہ
اس وقت کیا حالات تھے… ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مفسرین کی بات سمجھ آگئی کہ جہادی
فرشتوں نے وردی نہیں اتاری… وہ اب بھی مسلمانوں کی نصرت کے لئے اترتے ہیں اور قیامت
تک اترتے رہیں گے… انڈیا نے اس طیارے کو چھڑانے کے لئے فضائی حملے کی ترتیب بنائی
… مگر جائزہ لینے کے بعد منہ کی کھائی … قندھار میں مقیم عرب مجاہدین بغیر کسی کے
حکم کے… ائیر پورٹ کے گرد راتوں کو پہرہ دے رہے تھے اور ایمانی جوش سے ان کے دل شیر
بن چکے تھے… وہ راتوں کو گھاس میں چھپے رہتے تھے… حالانکہ ان کا اس ’’ہائی جیکنگ‘‘
سے کوئی تعلق نہیں تھا … مگر اللہ کا نام تھا اور اسلام کا رشتہ … طالبان نے ایئرپورٹ
پر اسٹنگر میزائل کی گاڑیاں لا کھڑی کیں تو خوف اور غم سے بنیئے کی آنکھیں ابل پڑیں…
اور پھر جب فتح ہوئی تو ایک ہی نام گونج رہا تھا … جی ہاں اللہ کا نام صرف اللہ کا نام … اللہ،اللہ ،اللہ …
اسلام کی یہ عظیم فتح حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے لئے دنیا میں آخری بشارت
تھی کہ … آپ نے اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر جو کچھ لکھا ہے وہ انشاء اﷲ ہو کر رہے گا…
۲۲ رمضان جمعہ کے دن… تاریخ دعوت وعزیمت کا مصنفؒ اسلامی عزیمت
اور فتح کا ایک تازہ واقعہ آنکھوں میں سجائے… اس دنیا سے جارہا تھا… اور دہلی سے ایک
طیارہ قندھار کی طرف اڑ رہا تھا… اللہ،اللہ ،اللہ … ہندوستان کے ایک عالم نے فرمایا
… آ ج کا دن بھی کتنا عجیب ہے ایک سورج غروب ہو رہا ہے… اور ایک سورج طلوع ہو رہا
ہے… بے شک اسی دن جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا سورج طلوع ہوا… جس نے مولانا
ابوالحسن علی ندویؒ کی بہت سی تمناؤں کو اﷲ پاک کے فضل و کرم سے پورا کیا… یا ارحم
الراحمین رمضان المبارک کے ان پاک لمحات میں دعاء ہے کہ … اس پاک جماعت اور لشکر کی
حفاظت فرما… اسے خوب ترقیات عطاء فرما… اور اسے اپنی رضا والی جماعت بنا … یا اللہ،اللہ ،اللہ … یا اللہ،اللہ ،اللہ … پیارا رمضان المبارک جارہا
ہے… ہم سب کی بخشش فرما … آمین
یا اللہ،اللہ ،اللہ …
٭٭٭
دیر نہ کیجئے!
جامع مسجد عثمانؓ و
علیؓ بہاولپور میں ایک ’’تعلیمی نصاب‘‘
پڑھایا جاتا ہے
صرف پندرہ دن کا یہ
نصاب
الحمدﷲ! بہت سے نام
کے مسلمانوں کو کام کا مسلمان بنا چکا ہے
وہ افراد جن کو ٹھیک
طرح سے کلمہ طیبہ پڑھنا نہیں آتا تھا وہ اس نصاب سے
گزرنے کے بعد شعوری
مسلمان بن گئے
اس تعلیمی نصاب کا
نام ہے ’’ دورہ اساسیہ‘‘ آپ بھی اس سے فائدہ اٹھایئے
اور
دیر نہ کیجئے
تاریخ اشاعت ۱۳؍
شوال ۱۴۲۸ھ
۲۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۱۹
دیر نہ کیجئے!
اﷲ
تعالیٰ کی نعمتیں ہم سب پر بے شمار ہیں… ہمیں ان نعمتوں کو ہر وقت یاد کرتے رہنا
چاہئے اور خود کو ناشکری اور مایوسی سے بچانا چاہئے… اﷲ پاک نے ہم سب کو ’’بے
کار‘‘ پیدا نہیں فرمایا… امام رازیؒ نے لکھا ہے کہ یہ دنیا تو ختم ہوجائے گی مگر ایک
مومن جنت میں داخل ہونے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے گا… یعنی یہ دنیا تو فانی ہے
جبکہ مومن کے لئے ہمیشہ کی زندگی ہے… پس ایک مومن کو اس دنیا کے واقعات اور حادثات
سے نہیں گھبرانا چاہئے… مومن اس دنیا سے زیادہ مضبوط ہے… اﷲ اکبرکبیرا کتنا عجیب
اور کتنا سچا نکتہ ہے اور اﷲ پاک کو مسلمانوں سے کتنا پیار ہے… امارت اسلامیہ
افغانستان کے سقوط کے بعد لال مسجد کا سانحہ بے شک بہت بڑا ہے… مگر اہل ہمت نے
افغانستان میں ہار نہیں مانی اور وہ پوری دنیا کی بڑی ایٹمی طاقتوں کے سامنے ڈٹ
گئے تب اﷲ پاک نے ان کی نصرت فرمائی… اور آج بڑی طاقتوںکے حکمران اپنے فوجیوں کی
مسخ شدہ لاشوں سے پریشان ہیں… لال مسجد کے معاملہ میں بھی امت مسلمہ کو مایوس نہیں
ہونا چاہئے، انشاء اﷲ یہاں بھی کامیابی اہل ایمان کی ہوگی… شرط صرف ایک ہے کہ ہمت
سے کام لیا جائے … امریکہ نے صلیبی جنگ میں شکست کے بعد ’’ بی بی بے نظیر‘‘ کو
اپنا سپاہی بنا کر پاکستان بھیجا ہے… صدر مشرف نے خود اعتراف کیا ہے کہ ’’بی بی‘‘
کی واپسی میں امریکہ کا ہاتھ ہے… پھر بی بی کے استقبال پر جو کروڑوں اربوں روپے
خرچ ہوئے وہ بھی امریکہ سے آئے… اور پھر امریکی پلان کے مطابق ’’بی بی‘‘ کو بال
بال بچا کر دو دھماکے کیے گئے… تاکہ ’’بی بی‘‘ ملک کی مقبول لیڈر بن جائے… اور ان
دھماکوں کو بہانا بناکر ملک کے دینی، جہادی طبقے کی گردن ناپنا آسان ہوجائے… مگر یہ
سب تدبیریں انشاء اﷲ ناکام ہوں گی اور اسلام انشاء اﷲ غالب ہو کر رہے گا… بے نظیر
کا خود کہنا ہے کہ اسے اس حملے کی پہلے سے خبر تھی… سبحان اﷲ وبحمدہ… اور اس حملے
کی اطلاع ایک دوست پڑوسی ملک نے دے دی تھی… پڑوس کے دوست ملک سے مراد بھارت ہے یا
کرزئی کا افغانستان… اور اب بی بی کا مطالبہ ہے کہ حملے کی تفتیش بھی ’’غیرملکی‘‘
آکر کریں… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم… یہ ہے ملک کے ساتھ وفاداری اور یہ ہے
جنگل کا تماشا… غیر ملکیوں نے بھیجا، غیر ملکیوں نے حملے کی خبر دی اور اب تفتیش
بھی غیر ملکی کریں تاکہ بی بی ملک پر حکومت کرسکے… یا اﷲ ہمارے گناہوں کو معاف
فرما اور ہم پر ایسے ظالموں کو مسلط نہ فرما… ہمارے وہ مسلمان بھائی جو ’’بی بی‘‘
کے دیوانے ہیں اﷲ پاک کی خاطر اپنی قبر اور آخرت کو سامنے رکھ کر ان تمام باتوں پر
غور فرمائیں… آج ہم مسلمانوں کو بری طرح سے مارا جارہا ہے بی بی کے جلوس میں مرنے
والے بھی مسلمان تھے… غیرملکیوں کے اس کھیل میں معلوم نہیں کتنے اور مسلمانوں کو
تباہی کے گڑھے میں دھکیلا جائے گا… حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ٹی وی چینلوں سے
دور رہنا چاہئے یہ ٹی وی چینل ایک عجیب قسم کا زہر پھیلا رہے ہیں … اور مسلمانوں
نے ان چینلوں پر اندھا اعتماد شروع کردیا ہے… اسی لئے ہر طرف پریشانی اور مایوسی
پھیل رہی ہے… اے مسلمانو! اﷲ پاک کا کلام ’’قرآن مجید‘‘ ہمارے پاس موجود ہے کسی بھی
معاملے پر رہنمائی لینی ہو تو قرآن پاک سے لیں… اور ٹی وی چینلوں کے شور سے اپنے
نظریات کو دور رکھیں… پچھلے ہفتے ہمارے اخبار نے بھی چھٹی منائی ہے اس لئے آج بہت
سی باتیں دل اور دماغ میں جمع ہیں وہ سب باتیں تو شاید نہ ہوسکیں کیونکہ اذان میں
صرف بیس منٹ باقی ہیں… ان بیس منٹوں میں چند باتوں کا تذکرہ کرلیتے ہیں…
اہل رمضان المبارک کو
مبارک باد
جن مسلمان بھائیوں
اور بہنوں نے رمضان المبارک اور عیدالفطر کی دینی خوشیاں اور بہاریں لوٹیں ہیں ان
سب کی خدمت میں مبارکباد عرض ہے…
آج
ایک ساتھی بتا رہے تھے کہ انہوں نے ماشاء اﷲ اس رمضان المبارک میں قرآن پاک کے تیئس
ختم مکمل کیے… اور دس دن کا اعتکاف بھی کیا… ماشاء اﷲ لاقوۃ الا باﷲ… ڈاک میں بھی
ایسے خطوط تھے جن سے معلوم ہوا کہ ماشاء اﷲ بہت سے بھائیوں اور بہنوں نے رمضان
المبارک خوب کمایا ہے… مجاہدین نے بھی افغانستان، عراق اور کشمیر میں اس رمضان
المبارک کو بہت قیمتی بنایا … بہاولپور کی جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ میں تین سو سے
زائد افراد نے آخری عشرے کا اعتکاف کیا اور دورہ تربیہ کے اعمال کا روحانی لطف
اٹھایا… ہاں بے شک یہی چیزیں کام آنے والی ہیں باقی تو سب کچھ بے کار جارہا ہے…
زمانہ گواہ ہے کہ انسان خسارے میں گر رہا ہے … سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان
کے ساتھ نیک اعمال کیے… اور حق پر مضبوطی سے ڈٹے رہے اور ایک دوسرے کو صبر،
استقامت اور ہمت کی دعوت دیتے رہے… قرآن پاک کی سورۃ ’’العصر‘‘ یہی سکھاتی ہے
غالباً امام شافعیؒ کا قول ہے کہ اگر پورے قرآن پاک میں سے صرف یہی ایک سورۃ نازل
ہوتی تو انسانیت کی کامیابی اور ہدایت کے لئے کافی تھی…
خوشخبری
اپنے
محسنین کو یاد رکھنا، کامیاب انسانوں کے تذکرے سے اپنے دلوں کو زندہ رکھنا… اور
اپنے اسلاف سے وابستہ رہنا اہل ایمان کا شیوہ ہے… اسی عمل کو زندہ رکھتے ہوئے ہفـت روزہ القلم نے
اس سال اپنے محسن اکابر میں سے کئی حضرات کے خصوصی شمارے نکالنے کا ارادہ کیا ہے…
حکیم الاسلام حضرت لدھیانوی شہیدؒ، سفیر ختم نبوت حضرت چنیوٹیؒ، خطیب اسلام حضرت
قاسمیؒ، استاذ العلماء حضرت نعمانیؒ کے خصوصی شمارے انشاء اﷲ اس سال اگلے رمضان سے
پہلے شائع کیے جائیں گے… تمام بھائی اور بہنیں خصوصی دعاء فرمائیں کہ… اﷲ تعالیٰ
اس عمل کو آسان فرمائے، قبول فرمائے اور مقبول بنائے… پہلے خصوصی شمارے کی تیاری
شروع کردی گئی ہے… اہل قلم حضرات اس نیکی میں اپنا حصہ شامل فرمائیں…
خراج
تحسین
رمضان
المبارک کے آخری ایام میں وزیرستان کے مسلمان شدید آزمائش کا شکار ہوئے… اپنے طیاروں
نے اپنے لوگوں پر بمباری کی… باپردہ عورتیں، روزے دار بزرگ اور کمزور بچے جان بچا
کر بنوں کی طرف دوڑے… کھلا آسمان، سردی کا موسم اور حالات کی بے رخی… ان حالات میں
الرّحمت ٹرسٹ کے کارکنوں نے اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر ’’بنوں‘‘ کا رخ کیا… اور ان
روزے داروں کے منہ تک کھانا پہنچایا جو پریشانی اور خوف سے خلاؤں میں گھور رہے
تھے… اﷲ تعالیٰ ان مخلص کارکنوں کو جزائے خیر عطاء فرمائے، میری معلومات کے مطابق
ان میں سے کئی ایک نے تین دن اور تین راتیں مسلسل جاگ کر کام کیا… انہوں نے بے
آسرا مسلمانوں کو بستر پہنچائے، مریضوں کا علاج کیا اور ہزاروں افراد کے لئے کھانے
کا بندوبست کیا… اے قدردان رب ان سب کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور ان سب کے عمل کو
قبول فرما…
ایک
موقع
ایک
زمانے میں جہاد کی تربیت بے حد آسان تھی… ہم اس وقت اپنے مسلمان بھائیوں کی منّت
سماجت کرتے رہے کہ اﷲ کے لئے اس موقع کا فائدہ اٹھالو… جہاد اﷲ تعالیٰ کا حکم اور
اسلام کا محکم فریضہ ہے… اس عمل کو سیکھ لو اور خود کو اسلام کی خدمت کا اہل بناؤ
ممکن ہے کچھ عرصہ بعد یہ نعمت اتنی آسان نہ رہے… تب کچھ لوگوں نے بات سنی اور مانی
جبکہ اکثر مسلمان جہاد کی تربیت سے محروم ہے… انا ﷲ وانا الیہ راجعون… آج جہاد کی
تربیت پہلے کی طرح آسان نہیں رہی کہ تین سو روپے خرچ کرکے لوگ افغانستان جاتے تھے
اور اسلام کا ایک قطعی فریضہ سیکھ آتے تھے… یقینا محروم رہنے والے لوگوں کو اپنی
محرومی پر رونا چاہئے اور اﷲ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہئے… اور دعاء کرنی چاہئے
کہ اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو شرعی جہاد کی سمجھ اور تربیت عطاء فرمائے… اور جہاد کے
نام پر زمین پر فساد پھیلانے سے بچائے… آج اکثر لوگ امام مہدیؓ کے تشریف لانے کی
بات کرتے ہیں یہ لوگ سوچیں کہ امام مہدیؓ تو جہاد کو قائم فرمائیں گے… تب وہ لوگ کیا
کریں گے جنہوں نے جہاد کو سراسر اپنی زندگی سے نکال دیا ہے اور خود کو بنی اسرائیل
کا پیروکار اور ’’کچامسلمان‘‘ قرار دے کر جہاد کے انکار کا ایک اور دروازہ کھول دیا
ہے… اﷲ پاک انہیں اور ہم سب کو ہدایت عطاء فرمائے…
دورہ
اساسیہ
دین
کو سمجھنے، عقیدے کو سمجھنے، جہاد کا مسئلہ یاد کرنے، اپنا وضو درست کرنے، نماز ٹھیک
کرنے، اپنی تجوید کو درست کرنے… اور حلال حرام کے مسائل یاد کرنے کی ہر مسلمان کو
ضرورت ہے… کئی مسلمان ایسے ہیں جن کو کلمہ طیبہ کا تلفظ ٹھیک طرح سے نہیں آتا… وضو
اور طہارت کے مسائل سے کئی مسلمان بے خبر ہیں… آپ خود سوچیں کہ جب کوئی شخص ناپاک
ہوگا تو اس کی نماز کس طرح سے قبول ہوگی… کئی مسلمان جہاد کا معنیٰ تک نہیں سمجھتے
حالانکہ جہاد کا مسئلہ قرآن پاک کی سینکڑوں آیات میں بیان ہوا ہے … اور کئی
مسلمانوں کو اسلامی عقیدے تک کی خبر نہیں ہے … کیا آپ چاہتے ہیں کہ صرف پندرہ دن میں
آپ کو یہ تمام نعمتیں نصیب ہوجائیں؟… جی ہاں صرف پندرہ دنوں میں تین اہم کتابوں کا
درس… تعلیم الاسلام، تاریخ اسلام اور تعلیم الجہاد … اور کلمے سے لے کر وضو، اذان،
اقامت، تجوید اور نماز کی درستگی اور اصلاح … اور کئی احادیث مبارکہ زبانی حفظ… جی
ہاں یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ممکن ہے اور اب تک سینکڑوں افراد ’’دورہ اساسیہ‘‘
کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل کرچکے ہیں… دیر نہ کیجئے آج ہی سے اپنی زندگی کے پندرہ دن
فارغ کرکے ’’دورہ اساسیہ‘‘ کرنے کی ترتیب بنائیے… یہ دورہ ہر مہینے جامع مسجد
عثمانؓ و علیؓ بہاولپور میں مخلص اور جید علماء کرام کی نگرانی میں کرایا جاتا ہے…
خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں اور بھائیوں، بیٹوں کو اس دورے کے لئے
بھجوائیں … اور دنیا کے کاموں میں مشغول مسلمانوں کو چاہئے کہ فوراً دین کی بنیادی
باتیں سیکھنے کے لئے یہ آسان کورس کرنے کی ترتیب بنائیں… زندگی تیزی سے موت کی طرف
دوڑ رہی ہے وقت کم ہے اور آگے کی منزلیں بہت کٹھن اور مشکل ہیں… دیر نہ کیجئے اور
اس نعمت اور موقع سے جلد از جلد فائدہ اٹھالیجئے…
اﷲ
پاک ہم سب مسلمانوں پر رحم فرمائے اور ہمیں ہدایت اور صراط مستقیم کی نعمت عطاء
فرمائے…
آمین
، آمین، آمین
٭٭٭
حیاتِ قاسمیؒ ہجرت سے جہاد تک
خطیب اسلام حضرت
مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی یاد میں لکھی گئی ایک تحریر
(سوانحی خاکہ
حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ)
اسم
گرامی: محمد… لقب: ضیاء… حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی سے والہانہ عقیدت کی
بناء پر ’’القاسمی‘‘ کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا لہٰذا مولانا ضیاء القاسمی کے نام
سے مشہور ہوئے… والد محترم: حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب…مقام پیدائش: جالندھر…
قوم: گجر… سن پیدائش: ۱۹۳۷ء…
والد محترم جید عالم شیخ اور طبیب حاذق تھے رئیس المحدثین مولانا خلیل احمد
سہارنپوریؒ کے شاگرد تھے۔
ہندوستان
سے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے لاہور کے ایک مہاجر کیمپ میں والد محترم
کا انتقال ہو گیا اس کے بعد آپ کے خاندان نے فیصل آباد کی طرف ہجرت کی اور تاحیات یہاں
مقیم رہے حضرت مفتی محمودؒ اور مولانا غلام اﷲ خان صاحبؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا
خطابت
آپ کو ورثہ میں ملی، تعلیمی دور ہی سے تقریر میں مشاق ہوگئے تھے پھر آپ نے اپنی
خطابت کا جادو صرف برصغیر میں ہی نہیں جگایا بلکہ یورپ ودیگر ممالک میں بھی دینی
اجتماعات میں لوہا منوایا، آپ کی ساری زندگی توحید اور ناموس رسالت کا پرچار کرتے
ہوئے گذری اور اسی سلسلے میں کئی تحریکوں کے ساتھ وابستہ رہے، مجاہد اسلام حضرت حسین
احمد مدنیؒ سے سلسلہ طریقت جوڑا اور عمر بھر اسی نسبت پر فخر کرتے رہے جبکہ بیعت
جہاد حضرت مولانا محمد مسعود ازہر دامت برکاتہم کے ہاتھ پر کی
شوال
۱۴۲۱ھ
کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ (ازمرتب)
تاریخ
اشاعت ۲۰شوال ۱۴۲۸ھ
۲؍نومبر ۲۰۰۷ء
شمارہ
۱۲۰
حیاتِ
قاسمیؒہجرت سے جہاد تک
اﷲ
تعالیٰ کے اس بہادر بندے نے بھرپور زندگی گزاری… نام تو ان کا ’’محمد‘‘ تھا مگر ہر
جاننے والا انہیں ’’مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ‘‘ کے نام سے جانتا ہے… زندگی کا
آغاز ہجرت سے ہوا جی ہاں وہ نو سال کے تھے کہ پاکستان بن گیا اور ان کا مردم خیز
علاقہ ’’جالندھر‘‘ خاک وخون میں ڈوب کر انڈیا کے قبضے میں چلا گیا… جالندھر کی
دھرتی نے پاکستان کے لئے بڑے قیمتی تحفے بھیجے… یقین نہ آئے تو ملتان کا ’’خیرالمدارس‘‘
اور فیصل آباد کا جامعہ قاسمیہ دیکھ لیں… ہجرت کے بعد ایک اور سنت زندہ ہوئی، جی
ہاں والد محترم چل بسے اور چھوٹا سا ’’محمد‘‘ یتیم ہوگیا… زندگی کا آغاز ہجرت اور یتیمی
سے ہوا اور زندگی کا شباب دین اور توحید کی خدمت میں کٹ گیا… اور بڑھاپا اہل عزیمت
کی سرپرستی کرتے ہوئے گزرا… اور زندگی کا اختتام دین کے افضل اور بلند ترین شعبے
جہاد فی سبیل اﷲ کی بیعت پر ہوا… اور آخری وقت زبان سے کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘
بلند ہوا… کیا آپ میں سے کسی نے ان کو تقریر کرتے دیکھا ہے؟… یقین کیجئے وہ بلاشبہ
’’خطابت کے بادشاہ‘‘ تھے… میں نے دو تین بار ہی آمنے سامنے ان کی تقریر سنی ہے… اﷲاکبرکبیرا…
کیا خوب انداز تھا اور کتنا رعب اور جلال… کراچی میں ختم نبوت کی مجلس عمل کا جلسہ
تھا … تمام مکاتب فکر کے مایہ ناز خطباء جمع تھے… بندہ کا طالبعلمی کا زمانہ تھا
اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں طلبہ پر جمعرات کے علاوہ جلسوں میں
جانے پر پابندی تھی… ہم جامعہ کے گیٹ پر جلسوں کے اشتہارات پڑھتے تھے اور بڑے
خطباء حضرات کے نام پڑھ کر منہ میں پانی بھی آتا تھا کہ ضرور جانا چاہئے… مگر
جامعہ کے قانون کو توڑنے کی ہمت نہیں تھی… ختم نبوت کا یہ جلسہ اتفاق سے جمعرات کو
تھا اور کراچی کا نشتر پاک عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا… مگر ابھی تک جلسہ جما
نہیں تھا لوگ گھوم پھر رہے تھے اور ادھر ادھر دیکھ رہے تھے… اچانک اعلان ہوا کہ
حضرت مولانا ضیاء القاسمی خطاب کے لئے آرہے ہیں… بس پھر کیا تھا ایک دم فضاء ہی
بدل گئی… حضرت قاسمیؒ پانچ منٹ آسمانی بجلی کی طرح گرجے، کڑکے اور بادل کی طرح
برسے… اور پھر بیٹھ گئے… پانچ منٹ کے اس خطاب نے اجتماع کا رنگ ہی بدل دیا اور
فضاء نعروں سے گونجنے لگی… میرے لئے یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا پانچ منٹ میں تو
مشکل سے خطبہ پورا ہوتا ہے… پانچ منٹ میں تو خطباء اپنے حواس کو درست نہیں کر
پاتے… پانچ منٹ تو خطباء مجمع کی نبض ٹٹولنے میں لگا دیتے ہیں… مگر یہ کیسا ’’خطیب‘‘
ہے کہ پانچ منٹ میں اس نے سب کچھ کہہ لیا اور سب کچھ کرلیا… نہ تو جلدی کی وجہ سے
اس کی زبان لڑکھڑائی اور نہ آواز کی بلندی نے اس کے موضوع کو خراب کیا… وہ پر
اعتماد جارحانہ لہجے میں جچے تلے الفاظ کے ساتھ حکومت اور قادیانیوں تک مسلمانوں
کے جذبات پہنچانے میں کامیاب رہے… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم… ’’خطابت‘‘ کا
جوہر بھی اﷲ تعالیٰ کسی کسی کو عطاء فرماتے ہیں… یہ نعمت نقّالی، بناوٹ اور تصنّع
سے نہیں ملتی… خطابت بھی علم کا حصہ ہے اور علم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وراثت
ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے بڑے خطیب تھے آپ جیسا خطیب نہ کوئی گزرا اور
نہ کوئی آئے گا… پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے علم کے اس شعبے کو بھی سکھایا کیونکہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ’’معلّم‘‘ تھے… حضرات صحابہ کرام نے علم کے دوسرے شعبوں کی
طرح اس شعبے کو بھی سیکھا… حضرات خلفاء راشدین بہت اونچے پائے کے خطباء تھے… اور
حضرت کعب بن مالکؓ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے خطیب کہلاتے تھے… خطابت کو لوگ فن سمجھتے ہیں جو ایک غلطی ہے… خطابت کا فن
اور فنکاری سے کوئی تعلق نہیں ہے… یہ ایک ’’علم‘‘ اور ’’صفت‘‘ ہے جو اﷲ پاک اپنے
بعض بندوں کو عطاء فرماتا ہے… پھر جس کے دل میں دین کا جتنا درد اور اخلاص ہوتا ہے
اُسی قدر اس کی ’’خطابت‘‘ میں نکھار آتا ہے… اور اس سے اﷲ تعالیٰ کے بندوں کو
فائدہ نصیب ہوتا ہے… پانچ منٹ کا یہ خطاب تو خوشبو کے ایک تازہ جھونکے کی طرح گزر
گیا اور ان کی تقریر دوبارہ سننے کے لئے دل میں ایک امنگ سی پیدا ہوگئی… اس واقعہ
کے کئی سال بعد یہ خواہش بھی پوری ہوگئی … کراچی میں کلفٹن کی طرف جاتے ہوئے تین
تلوار سے الٹی طرف دو محلے ہیں… ایک کا نام ’’دہلی کالونی‘‘ اور دوسرے کا ’’پنجاب
کالونی‘‘ ہے… پنجاب کالونی میں ایک جلسہ تھا اور اس کے مہمان خصوصی حضرت قاسمیؒ
تھے… میں طالبعلمی کے آخری زمانے میں دہلی کالونی میں رہتا تھا اور ایک مسجد کا
’’امام‘‘ تھا اور جمعہ بھی پڑھاتا تھا… مسجد کی امامت ایک بڑی سعادت ہے… حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم خود مسجد نبوی شریف کے’’امام‘‘ تھے… اور آپ کے بعد حضرات خلفاء
راشدین خود ’’امامت‘‘ فرماتے تھے… انگریز کی غلامی کے منحوس اثرات میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ ’’امامت‘‘ جیسے عظیم منصب کو نعوذباﷲ چھوٹا سمجھا جاتا ہے… چنانچہ آج
اگر کسی عالم سے پوچھا جائے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو وہ بتائیں گے فلاں مسجد کا ’’خطیب‘‘ ہوں… حالانکہ خطابت
تو ایک بار جمعہ کے دن ہوتی ہے جبکہ امامت روزانہ پانچ وقت ہوتی ہے… مگر چونکہ آج
’’امامت‘‘ کا لفظ نعوذباﷲ بھکاری کی طرح حقیر سمجھا جاتا ہے اور چھوٹے علماء پر بھی
اس کا اثر ہے اس لئے وہ خوشی اور سعادتمندی کے ساتھ یہ نہیں کہتے کہ میں فلاں مسجد
کا ’’امام‘‘ ہوں… اس رات مجھے حضرت قاسمیؒ کا خطاب بہت قریب سے ان کے نزدیک بیٹھ
کر سننے کی سعادت ملی… یقینا وہ ہوش اڑا دینے والا خطاب کرتے تھے… تقریر کے دوران
وہ یخنی یا قہوہ بھی پی رہے تھے مگر اس سے ان کی روانی، جولانی اور تسلسل میں کوئی
فرق نہیں آرہا تھا… وہ توحید بیان کر رہے تھے مگر عشق رسالت میں سرشار ہو کر… اور
ان کے خطاب میں ’’آسمانی فیض‘‘ صاف چھلک رہا تھا… ’’آسمانی فیض‘‘ سے مراد ہے ’’وحی
کا فیض‘‘ … میری اس آسان سی گزارش کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں… جس ’’خطیب‘‘ کی
خطابت پر اﷲ تعالیٰ کے کلام اور وحی کا فیض نازل ہوتا ہے وہ خطابت بارش کی طرح ہوتی
ہے… کصَیِّبٍ من السماء (القرآن) … جی ہاں بارش کی طرح مفید، جاندار، مسلسل … اور
پائیدار… سوکھی زمین تر ہوجائے … مردہ زمین زندہ ہوجائے… بنجر زمین زرخیز ہوجائے …
پیاسوں کی پیاس بجھ جائے… انسان اور جانور نہا دھو کر اپنی میل کچیل دور کرلیں … شیطانی
نجاست اور گندگی کو دھو دیا جائے … میلے اور ناپاک کپڑے دھل کر پاک ہوجائیں… اور
بچا ہوا پانی زمین کے سوتوں میں محفوظ ہو کر آئندہ آنے والے انسانوں کے کام آئے… کیا
بارش میں یہ تمام فائدے نہیں ہوتے؟… جی ہاں ان کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہوتے ہیں…
بالکل اسی طرح جس خطیب کی خطابت پر وحی کا اثر ہوتا ہے تو اس کی تقریر بھی بارش کی
طرح ہوتی ہے… کافر مسلمان ہوتے ہیں، گناہگار توبہ کرتے ہیں، مردہ دل لوگوں کے دل
زندہ ہوتے ہیں، ناپاک لوگ پاک ہوتے ہیں، غمزدہ پیاسے لوگوں کی پیاس بجھتی ہے … اور
روحانی بیماریوں میں مبتلا افراد شفاء پاتے ہیں… اور یہ تقریریں آئندہ نسلوں کی بھی
رہنمائی کرتی ہیں… مگر آپ جانتے ہیں کہ آسمانی بارش میں تین اور چیزیں بھی ہوتی ہیں
… بجلی، گرج (کڑک) اور اندھیرا…
فیہ
ظلمت ورعد وبرق (القرآن)
کہ
اس بارش میں اندھیرے بھی ہیں اور کڑک بھی اور بجلی بھی… بے شک قرآن کے فیض یافتہ
خطیبوں کی تقریر میں بھی یہ تین چیزیں ہوتی ہیں… وہ اسلام کی عظمت کا ایسا نقشہ کھینچتے
ہیں کہ کافروں اور منافقوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگتا ہے… وہ اﷲ تعالیٰ کے
وعدے اور وعید سناتے ہیں تو کافروں اور منافقوں کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا
جاتا ہے… اسی لئے تو ایسے خطیبوں پر پابندی لگادی جاتی ہے جن کی تقریروں سے زمانے
کے فرعون بڑے بڑے لشکر رکھنے کے باوجود ڈرتے ہیں… اور ان کی تقریروں میں آسمانی
بجلی کی کڑک، گرج اور روشنی ہوتی ہے… وہ جب للکارتے ہیں تو کافر اور منافق ڈر اور
خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں…
یجعلون
اصابعہم فی اذانہم من الصواعق حذر الموت (القرآن)
رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وارث خطباء… اسلام کے دشمنوں پر موت کی بجلیاں برساتے ہیں
اور جہاد کے اس عمل کی دعوت دیتے ہیں جس عمل میں کفر اور نفاق کے لئے ناکامی اور
موت ہے… حضرت قاسمیؒ کا خطاب بھی قرآن پاک یعنی وحی الٰہی کے فیض سے منور تھا… اﷲ
پاک نے ان کو دین کا درد بھی عطاء فرمایا… اور بولنے کا سلیقہ بھی سکھایا…
خلق
الانسانo علمہ البیان (القرآن)
اور
پھر اﷲ پاک نے ان کو اچھے رفقاء اور دین کا کام کرنے کی توفیق بھی عطاء فرمائی…
اگر ’’توفیق‘‘ نہ ہو تو صلاحیتوں سے کچھ ہاتھ نہیں آتا… آپ دیہاتوں میں چلے جائیں
آپ کو ’’بولنے والے‘‘ ایسے لوگ ملیں گے جن کی بولنے کی صلاحیت بڑے بڑے خطباء سے زیادہ
ہے… مگر ان کا بولنا بس اسی کام آتا ہے کہ وہ رات کو چند افراد کے درمیان بیٹھ کر
لوگوں کی نقلیں اتارتے ہیں… اور قصے کہانیاں سناتے ہیں… دنیا میں بہادر بہت ہوتے ہیں
مگر جس کو توفیق ملتی ہے وہی ’’فاتح‘‘ بنتا ہے ورنہ کتنے بہادر لوگ … سور کا شکار
کرنے، سانپ مارنے اور جنگلوں کی خاک چھاننے میں ختم ہوجاتے ہیں… دنیا میں ’’صاحب
علم‘‘ بہت ہیں مگر جسے توفیق ملتی ہے اسی کا علم مفید ہوتا ہے ورنہ کئی بڑے بڑے
علماء بادشاہوں اور حکمرانوں کی چاپلوسی میں غرق ہوگئے… اکبر بادشاہ کے دربار میں
ایسے علماء موجود تھے جو فقید المثال تھے مگر وہ دین کی اتنی خدمت بھی نہ کرسکے
جتنی ایک ان پڑھ بزرگ پالن حقانی نے اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے کرلی… حضرت قاسمیؒ کو اﷲ
تعالیٰ نے دین کے کام کا میدان بھی عطاء فرمایا اور توفیق بھی… وہ جب چھوٹے تھے تو
اپنے بڑوں کی سرپرستی کو سعادت سمجھتے رہے… ان کی اسی سعادتمندی نے ان کو حضرت مدنیؒ
کا مرید بنادیا… حالانکہ حضرت مدنیؒ بہت دور تھے مگر قاسمیؒ کی قسمت بہت اونچی تھی…
پھر ان کو حضرت مفتی محمودؒ جیسے جامع الصفات استاذ اور حضرت ہزارویؒ جیسے درد دل
رکھنے والے قائد ملے… رفقاء کے معاملے میں بھی ان کی قسمت اچھی رہی ان کو حضرت
تونسوی مدظلہ، حضرت چنیوٹیؒ…اور حضرت علامہ خالد محمود مدظلہ جیسے حضرات کے ساتھ
کام کی لذت نصیب ہوئی… اﷲ پاک نے ان کو قبولیت بھی خوب عطاء فرمائی کہ جس طرف رخ
فرمایا زمین ان کے لئے ہموار ہوتی چلی گئی… اور یوں یورپ کی وادیوں میں بھی انہوں
نے اسلام کی اذان بلند کی… جوانی میں وہ ’’جارحیت پسند‘‘ انداز کو نبھاتے رہے اور
اس کی خاطر ماریں بھی کھائیں اور جیلیں بھی کاٹیں… مگر بڑھاپے میں وہ ’’مفاہمت
پسند‘‘ نظر آئے … اور مفاہمت پسندی کا یہ انداز انہوں نے اپنے ’’چھوٹوں‘‘ کی
سرپرستی اور حفاظت کرنے کے لئے اختیار کیا… ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو جوانی میں
بڑوں کی سرپرستی کو سعادت سمجھیں… اور جب خود بڑے ہوجائیں تو اپنے چھوٹوں کی
سرپرستی کو اپنی ذمہ داری سمجھیں… حضرت قاسمیؒ بہت قسمت والے تھے… وہ چھوٹے تھے
توحضرت مدنیؒ کی سرپرستی میں آگئے… اور جب بڑے ہوئے تو انہوں نے حضرت جھنگویؒ کو
اپنی سرپرستی میں لے لیا… مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے انتقال سے تقریباً ایک ڈیڑھ
سال پہلے بندہ کراچی میں تھا… پیغام ملا کہ حضرت قاسمیؒ ملاقات کرنا چاہتے ہیں…
مجھے کافی خوشی محسوس ہوئی اور میں نے فوراً وقت طے کرلیا… حضرت مفتی محمد جمیل
خان شہیدؒ کے گھر یہ مفصل اور محبت بھری ملاقات ہوئی… حضرت قاسمیؒ کے ساتھ حضرت
مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ اور چند دیگر احباب بھی تھے… حضرت قاسمیؒ بہت تپاک
اور گرم جوشی سے ملے … اور ملاقات کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ آپ جہاد کا جو کام کر
رہے ہیں اس میں اگر حکومتی طور پر کچھ رکاوٹیں ہوں تو میری خدمات حاضر ہیں… بندہ
نے ان کا شکریہ ادا کیا اور حکومت کے ساتھ جاری جھڑپوں کا احوال سنایا تو بہت خوش
ہوئے اور فرمایا بس ٹھیک ہے آپ بالکل ٹھیک چل رہے ہیں … پھر انہوں نے اپنے گھر
حاضری کی دعوت دی … بندہ فیصل آباد حاضر ہوا یہ دن زندگی کے اچھے دنوں میں سے ایک
تھا… وہ اپنے رفقاء کے جھرمٹ میں اپنے گھر کے باہر انتظار میں کھڑے تھے ہمارا
قافلہ پہنچا تو چہرہ خوشی سے دمکنے لگا… افسوس کہ اسی وقت میرے پاس ایک بڑے بزرگ
کا فون آگیا جس کی وجہ سے مجھے گاڑی سے اترنے میں تاخیر ہوئی، فون والے بزرگ فوری
جواب پر مصر تھے… حضرت قاسمیؒ باہر کھڑے تھے اورمیں گاڑی میں بے چین… اس بے ادبی
پر دل کافی رنجیدہ ہوا… اور اب جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو ان کے ایصال ثواب کے
لئے کچھ پڑھ کر بخشتا ہوں… اﷲ کرے انہوں نے محسوس نہ فرمایا ہو … گاڑی سے نکلا تو
انہوں نے اپنے بازوؤں میں لیکر بوسوں کی بارش فرمادی اور خوب سینے سے لگایا… اﷲ
پاک ان کو اس شفقت پر بہت جزائے خیر عطاء فرمائے… کھانے کے دوران محبت کے کئی
مناظر دیکھے اپنے ایک ساتھی کو بلا کر میرے ساتھ بٹھایا اور اسے فرمایا دیکھ لیا!
تمہاری خواہش پوری کردی اب خوب دل بھر کر مل لو… بندہ صحافیوں سے دور رہتا تھا مگر
حضرت قاسمیؒ صحافیوں میں بہت مقبول تھے اور اس دن بھی ان کے کئی چہیتے صحافی جمع
تھے… مجھے حکم دیا کہ ان سے بات کرلیں… میں نے صحافیوں کے کارنامے اور مظالم جو
ہمارے ساتھ جاری تھے عرض کیے تو فرمایا میں ان کو سمجھاتا ہوں اور آپ تھوڑی سی بات
کرلیں… یوں انہوں نے دونوں فریقوں کو راضی کردیا… اور پھر لاہور میں ایک جلسہ تھا
… وہ اسٹیج پر تقریر فرما رہے تھے، ان کے گرجنے، برسنے کی آواز مجھ تک مہمان خانے
میں پہنچ رہی تھی مگر جلسہ کے منتظمین تقریر سننے کی میری خواہش کے باوجود مجھے
اسٹیج پر نہیں لے جا رہے تھے… ان کا خیال تھا کہ میرے جانے سے مجمع اٹھ جائے گا
اور نعرے لگائے گا جس سے حضرت قاسمیؒ کا خطاب متاثر ہوگا … جب ان کا خطاب ختم ہوا
تو مجھے اسٹیج پر لے جایا گیا… جب بیان کرنے کے لئے بیٹھا تو حضرت قاسمیؒ … حضرت
مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ہمراہ مائک کی طرف بڑھے، میں ان کو دیکھ کر کرسی سے
کھڑا ہوگیا… انہوںنے مائک کے سامنے آکر ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کا اعلان کردیا… یہ
اعلان بہت اچانک اور انتہائی غیر متوقع تھا… وہ بہت بڑے آدمی تھے اور میں ایک ادنیٰ
سا انسان… اور عمر میں ان سے پورے تیس سال چھوٹا… مگر اسلام اپنا اصلی رنگ ہر
زمانے میں دکھاتا ہے… حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما بیس سال کے امیر لشکر تھے…
اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ان کے مامور سپاہی… بے شک جہاد ہر زمانے میں اپنا
رنگ دکھاتا ہے کہ… زمانے کے مقبول لوگ کفن اوڑھنے سے پہلے جہاد کی وردی زیب تن
کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں… وہ بیعت کا اعلان کر رہے تھے، مجمع طوفانی نعرے لگا رہا
تھا … اور میں حیرت زدہ طالبعلم یہ منظر دیکھ رہا تھا… حضرتؒ نے باقاعدہ بیعت کے
الفاظ ادا کیے اور میرے ہاتھوں میں اپنے دونوں ہاتھ دے دیئے… ہزاروں مسلمانوں کے
سامنے اس طرح سے ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کا نمونہ پیش کرنا حضرت قاسمیؒ کی طرف سے
’’دعوت جہاد‘‘ کو قوت پہنچانے کیلئے تھا… میں الحمدﷲ خود کو اچھی طرح سے جانتا ہوں
اس لئے اپنے بارے میں کسی بڑائی یا غلط فہمی کا شکار نہیں ہوا… البتہ میرے دل میں
جہاد کی عظمت اور زیادہ بڑھ گئی… کیونکہ حضرت اقدس لدھیانوی شہیدؒ جیسے فقیہ، حضرت
اقدس مولانا محمدشریف اﷲ مولویانوی مدظلہ جیسے نابغۃ العصر مفسر اور حضرت قاسمیؒ جیسے
خطیب اسلام کا جہاد کے لئے بیعت کرنا… قرآن پاک کی آیات جہاد کی اس زمانے میں عملی
تفسیر ہے… یہ حضرات رسماً یا تکلّفاً بیعت کرنے والے نہیں ہیں… حضور اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم کی واضح احادیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب فتنے بہت زیادہ ہوجائیں گے اور
بارش کی طرح برسیں گے تب دو طرح کے لوگ ہی محفوظ رہیں گے… ایک وہ جو دنیا سے کٹ کر
پہاڑوں میں گوشہ نشین ہوں، وہاں بکریاں چرائیں اور ان سے اپنی غذا کا بندوبست کریں
اور دوسرے وہ جو جہاد کے ساتھ پوری طرح سے وابستہ ہوجائیں… ان احادیث مبارکہ سے
صاف سمجھ آتا ہے کہ جب فتنے بہت زیادہ ہوجائیں گے تب بھی جہاد رہے گا… اور اس جہاد
کے ذریعہ مسلمانوں کو ایمان کی سلامتی نصیب ہوگی… یعنی جہاد کسی زمانے میں بند یا
موقوف نہیں ہوگا… پس جو لوگ کہتے ہیں کہ آج کل جہاد کا وقت نہیں ہے وہ بہت بڑی غلطی
میں جا پڑے ہیں… الحمدﷲ زمانے کے افضل ترین اور اعلم ترین اکابر نے بیعت علی
الجہاد کرکے اس قرآنی مسئلے کو تحریف سے بچایا ہے… اﷲ پاک ان سب حضرات کو اپنی شایان
شان جزائے خیر عطاء فرمائے… اس زمانے میں صدر بش، صدر مشرف اور بے نظیر جیسے لوگوں
کا جہاد کی مخالفت کرنا بجائے خود جہاد کے حق ہونے کی دلیل ہے… یعنی اس زمانے کا
جہاد بھی شرعی جہاد ہے اسی لئے تو ’’دشمنان اسلام‘‘ اس سے اس قدر خوفزدہ اور لرزیدہ
ہیں… حضرت قاسمیؒ نے اپنی سرپرستی کا ہاتھ ہمارے سروں پر رکھا تو دل کو بہت تسلّی
ملی… وہ بھی دین کے ان بڑے خادموں میں سے ایک تھے جن کے کردار کو داغدار کرنے کے
لئے… طرح طرح کی فضول باتیں مشہور کی گئی تھیں… غیبت جس طرح زنا سے بڑا گناہ ہے اسی
طرح وہ زنا سے زیادہ لذیذ بھی ہے… اسی لئے اکثر لوگ غیبت میں بہت آسانی سے مبتلا
ہوجاتے ہیں… دین کے ان خادموں کی غیبت کرنا جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلام کے
لئے وقف ہے، یہ بہت بڑا گناہ ہے… حضرت قاسمیؒ کے بارے میں بھی فضول اور بے ہودہ
لوگوں نے بعض باتیں دشمنان اسلام کے بہکاوے پر مشہور کر رکھی تھیں… ہم نے جب ان کو
قریب سے دیکھا تو ان فضولیات سے بہت بلند محسوس کیا… وہ تو ایک زندہ دل بڑے انسان
اور خادم اسلام تھے… اگر ان کے دل میں دین کی تڑپ نہ ہوتی تو خود کراچی جاکر اپنی
خدمات پیش کرنے کی ان کو کیا ضرورت تھی؟ … وہ عزت اور شہرت کے اس مقام پر تھے جہاں
انہیں کسی اور کے نام کی ضرورت نہیں تھی … بے شک وہ دین کے کام کو اپنی ڈیوٹی اور
اپنے چھوٹوں کی سرپرستی کو ذمہ داری سمجھتے تھے … ہم ان کی سرپرستی کی ابتدائی خوشی
ہی میں تھے کہ ان کے بلاوے کا وقت آگیا… یہی شوال کا مہینہ تھا اور ۱۴۲۱ھ
کا سن … خبر ملی کہ وہ چلے گئے…
ہم
ان کی سرپرستی کا زیادہ وقت نہ پا سکے… مگر نسبتیں، یادیں اور نیکیاں نہیں مرتیں… یہ
’’باقیاتِ صالحات‘‘ ہیں… اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے… القلم نے آج اپنے اس
محسن کے لئے یادوں کی یہ محفل سجائی ہے… تمام قارئین کچھ تلاوت کریں اور پھر دعاء
کریں، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی نور اﷲ مرقدہٗ کے لئے …
اﷲ
پاک ان کے درجات بلند فرمائے… ان کی حسنات کو قبول فرمائے… انسان جتنا بڑا بھی ہو
پیچھے والوں کی دعاؤں سے اس کو فائدہ پہنچتا ہے… اس لئے آج ہم سب دعاء کرکے حضرت
قاسمیؒ کو فائدہ پہنچائیں… جنہوں نے پوری زندگی ہمیں فائدہ پہنچایا…
اللہم
اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسّع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج
والبرد… واجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ … اللہم برّد قبرہ وطیّب آثارہ… آمین یا
ارحم الراحمین یا اﷲ
٭٭٭
الحمدﷲ، الحمدﷲ
٭اﷲ تعالیٰ کی ’’حمد‘‘ ایک
بہت بڑی نعمت ہے
٭’’حمد ‘‘کی ایک مؤثر
دعاء
٭اگر کچھ لوگ جماعت سے کٹ
جائیں تو ؟؟
ایک ہمت افزاء تحریر
تاریخ اشاعت ۲۷شوال
۱۴۲۸ھ
۹؍نومبر۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۲۱
الحمدﷲ، الحمدﷲ
اﷲ
تعالیٰ نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا… وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہاں ہم خود
’’ظالم‘‘ ہیں… ہر گناہ اور خیانت کو ہم نے حلال کر لیا ہے … اور ہر برائی کو ہم نے
اپنی مجبوری سمجھ لیا ہے… موجودہ حالات کا اندھیرا ہمارے اعمال کی وجہ ہے… ہم آج ہی
توبہ کرلیں تو اندھیرا دور ہوجائے گا… مگر کہاں؟
ہم تو ’’ڈبل مجرم‘‘ ہیں پہلے خوب گناہ کرتے ہیں پھر جب ان گناہوں کی نحوست
ہمیں گھیر لیتی ہے تو ہم توبہ کی جگہ ایک اور گناہ کر ڈالتے ہیں … مایوسی اور
ناشکری کا گناہ …
اﷲ
تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا خود ایک خطرناک اور مہلک گناہ ہے… اسی لئے ہمارے
غموں کی رات طویل ہوتی جارہی ہے اور ہم مزید پھنستے اور ا لجھتے جارہے ہیں …
مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ نے ’’جماعتی زندگی‘‘ کی نعمت عطاء فرمائی تاکہ ہم ایک دوسرے
کا سہارا بنیں اور ایک دوسرے سے کندھا ملا کر قوت اور ہمت حاصل کریں … مگر ہم تو ایک
دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں… اﷲ پاک امت مسلمہ پر رحم فرمائے…
حضرت
یونس علیہ السلام کی قوم نے گناہ کیے اور بڑی غلطیاں کیں … اﷲ تعالیٰ نے ان پر
عذاب بھیجا … انہوں نے مایوس ہونے کی بجائے توبہ کا راستہ اختیار کیا… ساری قوم
اپنے بچوں اور جانوروں کو لیکر میدان میں آگئی اور رورو کر، گڑ گڑا کر اﷲ تعالیٰ
سے معافی مانگنے لگی… اﷲ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا اور ’’عقلمندی‘‘ پسند آئی اور
عذاب ٹل گیا اور ’’نبی‘‘ بھی واپس مل گئے… شیطان پہلے گناہ کرواتا ہے تاکہ مصیبت
آجائے اور جب مصیبت آجاتی ہے تو مایوس کرتا ہے تاکہ مصیبت پکّی ہوجائے … ہم اس وقت
شیطان کے دوسرے حملے کی زد میں ہیں … وہ ہمیں مایوس کر رہا ہے حالانکہ مایوسی کی
کوئی بات نہیں ہے… اﷲ تعالیٰ موجود ہے، وہ رحمن اور غفور ہے… وہ رحیم اور ودود ہے…
بہت پیار کرنے والا، بہت رحم فرمانے والا … اس نے ہمارے لئے کتنے پیار سے جنت بنائی
ہے… اور اپنی اتنی بڑی بڑی مخلوقات میں سے ہم چھوٹے سے انسانوں کو اپنی ’’خلافت‘‘
کے لئے منتخب فرمایا ہے… اتنا بڑا آسمان ایک نہیں سات آسمان، اتنا بڑا سورج، سات
زمینیں، کروڑوں اربوں ستارے اور سیارے… اﷲ اکبرکبیرا انسان تو اتنی بڑی مخلوقات کے مقابلے میں ایک
ذرّہ برابر بڑائی نہیں رکھتا… سمندر، پانی، ہوا، مٹی، لوہا اور آگ، اﷲ پاک کی
مخلوقات کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا … انسان نے دور بینوں کی مدد سے جو کچھ دیکھ
لیا ہے وہ بھی بہت بڑا ہے… اگر ہر انسان کو زمین سے دس گنا بڑی جگہ دی جائے تب بھی
کائنات کا ایک کونہ نہیں بھرے گا… اور جو کچھ انسان نے ابھی تک نہیں دیکھا وہ تو
بہت زیادہ اور بہت بڑا ہے… پھر اﷲ پاک کی ’’کرسی‘‘ ان تمام سے بڑی ہے اور اﷲ پاک
کا عرش اس سے بھی بڑا ہے… اور اﷲاکبر… اﷲ پاک تو سب سے بڑا ہے… اس عظیم رب نے اس
چھوٹے سے انسان کو آسمانوں، زمینوں اور سیاروں پر فضیلت دی اور اسے اپنا خلیفہ بنایا
… اور سمجھادیا کہ اے انسان جب تو مجھے یاد کرتا ہے تو میں تجھے یاد کرتا ہوں… اﷲ
اﷲ اﷲ … کیسی عجیب اور سرشار کرنے والی بات ہے… یا اﷲ ہمیں اپنے ذکر کی توفیق عطاء
فرما… ذکر نصیب ہوگیا تو سارے غم دُھل جائیں گے… اور انسان اپنی ذات اور ناک کو
بھول کر ’’بامقصد انسان‘‘ بن جائے گا…
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم پر جو بڑے بڑے احسانات فرمائے ان میں سے ایک بڑا
احسان یہ بھی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اﷲ تعالیٰ سے جوڑنے والی دعائیں
سکھائیں … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اﷲ تعالیٰ کی ’’حمد‘‘ کرنے اور اس کا شکر
ادا کرنے کے ایسے طریقے سکھائے جن کی برکت سے آسمان بھی جھوم اٹھتے ہیں … ویسے بھی
ہر کامیاب مسلمان اس زمین سے بہت بڑی جنت کا مالک ہے… زمین کے چھوٹے چھوٹے پلاٹوں
پر قبضے کرنے والے اور ان پلاٹوں کی خاطر اپنے ایمان کو خراب کرنے والے اﷲ تعالیٰ
سے ڈریں … جو کسی کی تھوڑی سی زمین پر بھی قبضہ کرے گا قیامت کے دن سات زمینوں کو
طوق بنا کر اس کے گلے میں لٹکایا جائے گا … اور زمینوں کا یہ بوجھ اسے جہنم میں جا
پھینکے گا … اﷲ تعالیٰ کی ’’حمد‘‘ ایک بڑی نعمت ہے اﷲ تعالیٰ کو اپنے ’’حمّاد‘‘
بندوں سے پیار ہے … ’’حمّاد‘‘ اس کو کہتے ہیں جو اﷲ پاک کی خوب حمد و تعریف کرتا
ہے… ایسے لوگوں کے لئے جنت میں ایک عالیشان مقام ہے جس کا نام ’’بیت الحمد‘‘ ہے…
اور قیامت کے دن ان لوگوں کو جو جھنڈا دیا جائے گا وہ بھی ’’لواء الحمد‘‘ حمد کا
جھنڈا ہوگا … اﷲ پاک کے شکر گذار بندے جنہوں نے دل اور زبان سے اﷲ تعالیٰ کی حمد کی
وہ اس جھنڈے کے نیچے آرام سے جنت تک پہنچیں گے … دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی سب سے زیادہ
حمد ہمارے آقا حضرت محمد مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی ان کو اﷲ پاک ’’مقام محمود‘‘
عطاء فرمائے گا … اﷲ پاک کی حمد کرنے والے بندے اﷲ پاک سے ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور
اﷲ پاک بھی ان کی دعا ہر آن سنتا اور قبول فرماتا ہے… ہم روزانہ کئی بار کہتے ہیں
سمع
اﷲ لمن حمدہ
یعنی
اﷲ پاک ان کی دعاء سنتا اور قبول فرماتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں … ربنا
ولک الحمد … حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اﷲ تعالیٰ کی مقبول حمد کرنے کے
کئی طریقے اور الفاظ سکھائے… آج ہم سب ’’حمد‘‘ پر مشتمل ایک مسنون دعاء یاد کرلیں
اور پھر دنیا آخرت میں اس دعاء کے مزے اٹھائیں …
دعاء
کے الفاظ یہ ہیں:
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ الَّذِیْ تَوَاضَعَ کُلُّ شَیْئٍ لِعَظْمَتِہٖ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ
ذَلَّ کُلُّ شَیْئٍ لِعِزَّتِہٖ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَضَعَ کُلُّ شَیْئٍ
لِمُلْکِہٖ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اِسْتَسْلَمَ کُلُّ شَیْئٍ لِقُدْرَتِہٖ
ترجمہ : تمام
تعریفیں اس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس کی عظمت کے سامنے ہر شئے جھکی ہوئی ہے … اور
تمام تعریفیں اس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس کی عزت کے سامنے ہر چیز ذلیل اور تابع ہے
… اور تمام تعریفیں اس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس کی بادشاہت کے سامنے ہر چیز
فرمانبردار ہے اور تمام تعریفیں اس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس کی قدرت کے سامنے ہر چیز
سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے…
اﷲ
اکبر کیسی عجیب حمد اور کیسی عجیب دعاء ہے… ترجمہ ملحوظ رکھ کر دل سے پڑھیں تو
انسان پر وجد طاری ہوجاتا ہے اور دنیا کے حکمرانوں، نظاموں اور طاقتوں کا رعب دل
سے فوری طور پر نکل جاتا ہے… اور یہ دعاء ایسی ’’عجیب التاثیر‘‘ ہے کہ اسے پڑھ کر
جو کچھ مانگا جائے وہ (ان شاء اﷲ) ضرور ملتا ہے … اور انسان کے لئے قبولیت کا ایک
دروازہ کھل جاتا ہے…
حضرت
ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے:
قال
سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول : من قال : الحمد ﷲ الذی تواضع کل شیئٍ لعظمتہ
الخ ، فقالہا یطلب بہا ما عند اﷲ کتب اﷲ لہ بہا الف حسنۃ، ورفع لہ بہا الف درجۃ
وَوُکّل بہا سبعون الف ملک یستغفرون لہ الی یوم القیٰمۃ (الطبرانی، الترغیب)
ایک
ہزار نیکیاں، ایک ہزار درجات بلند اور ستر ہزار فرشتوں کی قیامت تک استغفار … اﷲ
اکبرکبیرا … حقیقت میں حمد بہت بڑی چیز ہے… اس وقت ملک میں جو حالات ہیں ہم ان پر
مایوس ہونے کی بجائے ’’حمد‘‘ کریں… یہ ’’حمد‘‘ ہمیں استغفار کی طرف لے جائے گی کیونکہ
اﷲ پاک کی نعمتیں انسان کو یاد رہیں تو نظر اپنے گناہوں پر پڑتی ہے… اور جب ہم
’’استغفار‘‘ اور توبہ کریں گے تو ان شاء اﷲ حالات ٹھیک ہوجائیں گے …
الحمدﷲ،
الحمدﷲ، الحمدﷲ، نستغفر اﷲ ونتوب الیہ
اور
جو تھوڑی سی پریشانی اس وقت ہماری مبارک جماعت پر آئی ہے اس پر بھی ہم اﷲ تعالیٰ کی
حمد کریں
الحمدﷲ،
الحمدﷲ، الحمدﷲ
اور
اﷲ تعالیٰ سے استغفار کیں
نستغفر
اﷲ ونتوب الیہ
اور
مایوس ہونے کی بجائے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرکے کام کو تیز کردیں اور یقین رکھیں
کہ اﷲ تعالیٰ کے ہر کام میں خیر اور بڑی مصلحت ہوتی ہے… ساداتِ کربوغہ کے مسند نشین
… ولی کامل حضرت مولانا مفتی مختار الدین شاہ صاحب مدظلہ العالی اپنی کتاب ’’آئینہ
ایمان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر کسی
آزمائش کی وجہ سے آپ سے (کچھ) لوگ کٹ گئے اور آپ کی جماعت پہلے کی نسبت (کچھ) کم
رہ گئی تو اس سے قطعاً نہ گھبرائیں، ایسا (ہونا) ضروری بھی ہے، کیونکہ جب گندم کے
دانے پک جاتے ہیں تو پھر ہم کو یہی بتایا گیا ہے کہ گندم کو بھوسہ سے نکالنے کے
لئے تمام کٹی ہوئی فصل پر بیل، ٹریکٹر یا تھریشر وغیرہ چلائیں اور اس کو ہوا میں
اڑائیں تاکہ گندم بھوسہ علیحدہ کیا جائے … اور ا ﷲ تعالیٰ کا یہی قانون جماعت حقہ
(حق والی جماعت) کے لئے بھی ہوتا ہے کہ ان پر ایک آزمائش لاتا ہے تاکہ اس جماعت میں
سچوں کو جھوٹوں سے الگ کردیا جائے اور اس آزمائش میں سچوں کی صلاحیتیں اور قوتیں
مزید ابھر کر آجاتی ہیں اور ان کا کھوٹ اور کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں اور جو جھوٹے
اور کھوٹے ہوتے ہیں وہ جماعت سے پھینک دیئے جاتے ہیں اور جماعت صاف و ستھری ہو کر
رہ جاتی ہے۔ (آئینہ ایمان ص۲۱۳)
چند
افراد چلے گئے، اﷲ پاک کا شکر ہے… کوئی شکوہ نہیں کوئی دکھ نہیں … ہاں اتنا افسوس
ضرور ہے کہ ’’دینی جذبات‘‘ کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر جانے والے ’’دینی احکامات‘‘ کے
مطابق جاتے تو ہم ان کو ’’مجبورِ غیرت‘‘ سمجھتے … مگر دین کے واضح احکامات کو توڑ
کر دین کی خدمت کے دعوے ایک مذاق معلوم ہوتا ہے… اور یہ قانون ہے کہ دین اور جماعت
کا مذاق اڑانے والے خود ایک مذاق بن کر رہ جاتے ہیں…
اﷲ
تعالیٰ ہم سب مسلمانوں پر رحم فرمائے… اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا …
ہاں بندے خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں…
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ الَّذِیْ تَوَاضَعَ کُلُّ شَیْئٍ لِعَظْمَتِہٖ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ
ذَلَّ کُلُّ شَیْئٍ لِعِزَّتِہٖ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَضَعَ کُلُّ شَیْئٍ
لِمُلْکِہٖ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اِسْتَسْلَمَ کُلُّ شَیْئٍ لِقُدْرَتِہٖ
وصلی
اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیرا
٭٭٭
سرخ آندھی
حکومت جہادی تنظیموں
کو آپس میں لڑانا چاہتی ہے
اور ایسا وہ …امریکہ
کے حکم پر کر رہی ہے…
ان حالات میں اس سرخ
آندھی سے بچنے کے چند نسخے
اور
نفاق کی مذّمت
تاریخ اشاعت ۵ذیقعدہ ۱۴۲۸ھ
۱۶؍ نومبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۲۲
سرخ آندھی
اﷲ
تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا فرمائی ہے… اس مخلوق کی تعداد کے برابر سبحان اﷲ، الحمدﷲ،
اﷲاکبر … لاالہ الا اﷲ، ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ…
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا ایک بار کھجور کی چار
ہزار گٹھلیاں سامنے رکھ کر تسبیح کر رہی تھیں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیا
میں آپ کو اس سے زیادہ تسبیح کرنے کا طریقہ نہ سکھاؤں؟ … انہوں نے عرض کیا ضرور یارسول
اﷲ! … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: … یوں پڑھو
سُبْحَانَ
اﷲِ عَدَدَ خَلْقِہٖ
یعنی
اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے برابر سبحان اﷲ … میں پاکی بیان کرتی ہوں اﷲ تعالیٰ کی اس کی
مخلوق کی تعداد کے برابر …
اور
ایک روایت میں اسی طرح الحمدﷲ، اﷲ اکبر، لاالہ الا اﷲ اور ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ
کا بیان ہے … اس لئے آج کے ’’کالم‘‘ کی پہلی سطر آپ بھی دل اور زبان کو ایک ساتھ
ملا کر پڑھ لیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا فرمائی ہے اس مخلوق کی تعداد کے
برابر سبحان اﷲ، الحمدﷲ، اﷲ اکبر … لا الہ الا اﷲ، ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ … ہمارے
ملک میں ایمرجنسی لگی ہوئی ہے جو یقینا ایک مصیبت اور آزمائش ہے اور ہر طرف غم اور
گھٹن کا ماحول ہے… ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی ’’حمد وتسبیح‘‘ اور زیادہ کرنی چاہئے
اور قرآن پاک کے سائے میں پناہ لینی چاہئے
عن
ابی قتادۃ الانصاری رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من قرأ آیۃ الکرسی
وخواتیم سورۃ البقرۃ عند الکرب اعانہ اﷲ عز و جل (ابن السنی)
یعنی
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس نے مصیبت کے وقت آیۃ الکرسی اور سورۃ
بقرۃ کی آخری (تین) آیات پڑھ لیں اس کی اﷲ جل شانہ نصرت فرمائے گا…
ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کے بعد اب ایک اور مجرم ’’جسٹس افتخار محمد چودھری‘‘ حکومت کے زیر
عتاب ہے … اس شخص کا جرم یہ ہے کہ اس نے غریب انسانوں کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش
کی … انگریز نے برصغیر سے جاتے ہوئے پاکستان کی عوام کو پولیس، فوج اور جاگیرداروں
کے حوالے کردیا تھا … جج صاحب نے انگریز کے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان کی
عوام کو ’’آزادی‘‘ دلانے کی کوشش کی … چنانچہ اب وہ خود ’’قید‘‘ کے مزے لے رہے ہیں…
اور ملک میں ہر طرف پکڑو، مارو اور بند کرو کا شور اور بھاری بوٹوں کی دھمک ہے۔
ہمارے حکمران بھی عجیب لوگ ہیں، اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ان کا کام عوام کو راحت
پہنچانا ہے نہ کہ تکلیف … اور اتنا بھی یاد نہیں رکھتے کہ ایک دن وہ بھی مرجائیں
گے اور اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے… دراصل ہمارے ملک کو مظلوموں کی آہوں … اور
مقتولوں کے خون نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس لئے اب یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے…
افغانستان میں ہونے والے ہر ظلم کے پیچھے ہمارے حکمرانوں کی مدد تھی … اور اب تک
ہے … ہزاروں مسلمان صلیبی بمباری اور مظالم کا نشانہ بن گئے … اور ہم ناچ ناچ کر
کہتے رہے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ … اور اب ’’بے نظیر بھٹو‘‘ کی صورت میں ایک اور
عذاب اور مصیبت ہم پر مسلط ہونے کی تیاری کر رہی ہے… امریکہ کی لاڈلی ’’بے نظیر
بھٹو‘‘ صبح شام امریکہ امریکہ کا ورد کر رہی ہے اور امریکہ بھی اس کی ایک رات کی
نظر بندی کو گوارہ نہیں کر رہا … آپ خود سوچیں یہ صورتحال ملک کو کس طرف لے جارہی
ہے؟ … انڈیا کے وزیر دفاع نے اپنی فوج اور ایجنسیوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے
کہ عنقریب ہمیں پاکستان میں امن کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کرنا ہے …
اﷲ
تعالیٰ حفاظت فرمائے مسلمانوں کا ملک پاکستان اب ایک خطرناک تقسیم کی طرف بڑھ رہا
ہے… جب ایک ملک کی عوام اور فوج ایک دوسرے کو ذبح کر رہے ہوں تو اس سے زیادہ برے
حالات اور کیا ہوسکتے ہیں؟ … ملک میں ایمرجنسی کا لگنا ہی ا س بات کی علامت ہے کہ
ملک کے حالات بدتر دور میں داخل ہوچکے ہیں وہی دور جس کی نشاندہی بہت پہلے ’’کالی
آندھی‘‘ نامی ایک مضمون میں کردی گئی تھی … حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اخبارات،
ٹی وی اور صحافیوں کا منہ بند کرکے حالات کو چھپا سکتے ہیں حالانکہ یہ ان کی غلط
فہمی ہے … زیادہ پابندیوں کی وجہ سے تو حالات اور زیادہ خراب ہوتے ہیں اور طرح طرح
کی افواہیں جنم لیتی ہیں … ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان کے ایٹمی اثاثے
قابو کرنے کا پورا انتظام کرلیا ہے … یہ ہے نتیجہ امریکہ نواز پالیسیاں اختیار
کرنے کا… علماء کرام کو شہید کرنے کا… جہاد پر پابندی لگانے کا … اور مساجد ومدارس
پر بم برسانے کا…
کیا
اب بھی وقت نہیں آیا کہ ملک کے حکمران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں… خیر یہ تو
ان کی اپنی مرضی ہے مگر ان حالات میں ملک کے دینی طبقے کو کیا کرنا چاہئے؟ … اسی دینی
طبقے کو ختم کرنے کے لئے ہی ساری تدبیریں ہیں … اور اب ’’آخری تدبیر‘‘ یہ ہے کہ
پورے ملک میں دینی طبقے کو آپس میں لڑا کر ختم کروایا جائے … اس وقت کروڑوں، اربوں
ڈالر اس منصوبے پر خرچ کیے جا رہے ہیں اور پاکستان کے دینی طبقے کو بری طرح سے
’’تقسیم‘‘ اور ’’اختلافات‘‘ میں ڈالا جارہا ہے…
اﷲ
تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں وہ دن دیکھنے سے بچائے جب ’’خارجیوں‘‘ کی طرح خود کو
مجاہد کہنے والے کچھ کم عقل گروپ علماء اور مجاہدین کو قتل کرنے کے لئے قرآن پاک
پر حلف اٹھا رہے ہوں … اور ان لوگوں کے ہاتھ پر وفاداری کی بیعت کر رہے ہوں جن کے
پاس دین اور جہاد کا علم ہی نہ ہو… اور جن کے چہرے خود بے وفائی اور عہد شکنی کی
کالک سے سیاہ ہوں …
یا
اﷲ رحم فرما … یا اﷲ رحم فرما … اسلام میں خارجیوں کا فتنہ بہت خطرناک تھا … یہ کم
عقل لوگ خود کو حق پر سمجھتے تھے … اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اﷲ
عنہ جیسے حضرات کو اسلام کے راستے کی رکاوٹ سمجھتے تھے … ان کے نزدیک قتل کرنا ہی
ہر مسئلے کا حل تھا اور وہ بے دریغ لوگوں کی جانوں سے کھیلتے تھے …
خارجیوں
کا دماغ اور مزاج رکھنے والے لوگ ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں … انڈیا میں گرفتاری
کے دوران ہمارے ساتھ ایک نوجوان مجاہد بھی قید تھے … اﷲ پاک ان کو جلد رہائی عطاء
فرمائے وہ دین کا واجبی علم بھی نہیں رکھتے تھے، نماز وغیرہ فرائض بھی پوری طرح
ادا نہیں کرتے تھے مگر ان کے نزدیک ہر مسئلے کا حل ’’قتل کرنا‘‘ اور ٹھوک دینا (یعنی
ماردینا) تھا …
وہ
میرے درس میں شریک ہوتے تھے کبھی درس میں بے پردگی کے خلاف بات ہوتی تو درس کے بعد
غصے میں کانپتے ہوئے آتے کہ حضرت جی! ان تمام بے پردہ عورتوں کو قتل کرنا جائز ہے؟
میں جواب دیتا نہیں، بالکل نہیں تو وہ الجھ پڑتے اور حیرانی سے مجھے دیکھتے …
کبھی
فحاشی، عریانی کی بات ہوتی تو ان کا فتویٰ ہوتا کہ سب فلم بنانے اور دیکھنے والوں
کو ٹھوک دیا جائے … داڑھی کا مسئلہ بیان ہوتا تو ان کے نزدیک داڑھی کٹوانے والے سب
لوگ ’’واجب القتل‘‘ قرار پاتے … میں ان کی حالت دیکھ کر کہتا تھا کہ اﷲ پاک اس شخص
کو طاقت نہ دے اگر اس کو طاقت مل گئی تو یہ ’’عدّی امین‘‘ اور ’’حجاج بن یوسف‘‘ کو
پیچھے چھوڑ دے گا… میں پوری کوشش کے باوجود اس کو یہ نہ سمجھا سکا کہ ’’قتل‘‘ ایک
بڑی سخت چیز ہے… یہ اگر اسلامی احکامات کے مطابق ہو تو بہت بڑا ثواب اور معاشرے کا
بہت نافع علاج ہے لیکن اگر یہ اسلامی احکامات کے خلاف ہو تو شرک اور کفر کے بعد
جہنم میں لے جانے کا سب سے بڑا ذریعہ … اور اﷲ پاک کے غضب کو دعوت دینے والا سب سے
بڑا کام ہے… اﷲ پاک کو اپنی ’’مخلوق‘‘ سے پیار ہے اس لئے وہ اس بات کو پسند نہیں
کرتا کہ کوئی اپنی ذات کے لئے یا فساد کے لئے اس کی مخلوق کو مارے … اسی طرح ہر
آدمی کو اس بات کا شرعی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے ہاتھ پر لوگوں سے بیعت لے کر ان
سے فدائی حملے کرائے … ایسے امیر کے لئے اسلام میں کچھ شرائط ہیں … اور محض
’’جذبات‘‘ سے کوئی کام حلال نہیں ہوجاتا … حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں
بعض بڑے واقعات ہوئے… ایسے واقعات کہ آج بھی جب ہم ان کو پڑھتے ہیں تو جذبات اور
غصے سے روح کانپنے لگتی ہے… مگر ان واقعات پر بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’قتل‘‘
کا دروازہ نہیں کھولا … حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا پر تہمت کا
واقعہ کتنا سخت اور اذیت ناک تھا … ہمارے بزرگ استاذ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب
میرٹھیؒ جب مسلم شریف میں یہ واقعہ پڑھا رہے تھے تو انکی چیخیں نکل گئیں … خود
قرآن پاک نے ’’سبحانک ہذا بہتان عظیم‘‘ فرمایا … میں سوچتا ہوں کہ ایسا خطرناک
واقعہ آج کے کسی بڑے مقبول مذہبی رہنما کی اہلیہ کے ساتھ ہوجائے تو معلوم نہیں
کتنے افراد قتل ہوجائیں گے … مگر مدینہ منورہ میں اس واقعہ پر ایک قتل بھی نہیں
ہوا … حالانکہ پورا مدینہ منورہ رو رہا تھا … ہر طرف غم اور اداسی سے دل پھٹے جا
رہے تھے … آپ یہ سوچیں کہ تہمت کتنی عظیم ہستی پر لگی تھی… مگر اسلام اسلام ہے اس
نے اس موقع پر بھی اپنے ماننے والوں کو اپنے قابو میں رکھا اور کوڑوں کی اس سزا پر
اکتفا کرایا جو اسلام کا حکم تھا … دراصل ایسے مواقع پر ’’اطاعت‘‘ سے ہی اسلام
مضبوط ہوتا ہے اور دنیا پر حکومت کرتا ہے… لیکن جب ’’خارجیوں کی طرح اپنے جذبات کو
خدا بنالیا جائے تو پھر مسلمانوں کو آپس کی لڑائیوں ہی میں محدود رہنا پڑتا ہے…
اور کافر خوشی سے بغلیں بجاتے ہیں …
خلاصۂ
کلام یہ ہے کہ … ایمرجنسی کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ملک کے دینی طبقے کو آپس میں
لڑانے اور مروانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں … میں اس خطرے کو ’’سرخ آندھی‘‘ کی طرح
زمین پر اترتے دیکھ رہا ہوں … وزیرستان سے لے کر کراچی تک میں اس کا ماحول بنایا
جارہا ہے…
ہمیں
آج سے ہی اس آندھی … کو روکنے کی کوشش شروع کردینی چاہئے… تمام دینی طبقوں اور
جماعتوں کا اتحاد اور اتفاق تو بظاہر فی الحال ممکن نہیں ہے مگر چند آسان سے
اقدامات کرکے اﷲ تعالیٰ کے اس عذاب سے حفاظت کا سامان کیا جاسکتا ہے … (۱)دین
کا کام کرنے والے تمام افراد، جماعتیں اور ادارے اپنے اندر اخلاص پیدا کریں، ریاکاری
اور شہرت کے دلدادہ عناصر کو قیادت سے دور کردیں (۲)جہاد
و قتال کے شرعی احکامات کا آپس میں خوب مذاکرہ ہو (۳)اﷲ
تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنانے والے اعمال کو زندہ کیا جائے اور اﷲ تعالیٰ کی
نافرمانی سے بچا جائے (۴)دین کے کام پر پوری محنت صرف کی جائے جب محنت زیادہ ہوگی تو
فتنے کم آئیں گے اور جب قیادت ’’تن آسان‘‘ ہوجائے گی اور سارا وزن کارکنوں پر آپڑے
گا تو ہر طرف فتنے پھیل جائیں گے (۵)ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں سے بچا جائے…
یہ
چند اقدامات تو قسمت والے مسلمان کریں گے مگر ایک کام ان تمام سے زیادہ ضروری ہے …
اور وہ ہے نفاق سے بچنا …
اے
مسلمانو! نفاق بہت خطرناک جرم ہے، اسلام میں دورنگی اور دو رُخی کا تصور ہی نہیں
ہے… پورا قرآن پاک ہمیں اوّل تا آخر ’’خالص مسلمان‘‘ بننے کی دعوت دیتا ہے… اس لئے
’’نفاق‘‘ اور ’’دورنگی‘‘ سے بچیں … اﷲ تعالیٰ کے سوا ہمیں کوئی نہیں مار سکتا …
اور اﷲ تعالیٰ کے سوا ہمیں کوئی روزی سے محروم نہیں کرسکتا … تو پھر ڈرنے اور نفاق
کا راستہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر
آپ کسی کے ساتھ ہیں تو پھر مکمل اخلاص اوروفاداری سے اس کے ساتھ رہیں اور اگر آپ
کا دل کسی سے کٹ چکا ہے تو پھر اس کو صاف صاف بتادیں … ایک جماعت میں رہتے ہوئے اسی
جماعت کی جڑیں کاٹنا کسی مسلمان کا شیوہ تو ہر گز نہیں ہوسکتا … اور ایمان کے بعد
اخلاص و وفاداری جیسی خوشبودار چیز دنیا میں اور کوئی نہیں ہے …
یا
اﷲ ہم سب کو اخلاص نصیب فرما … اخلاص نصیب فرما …
…آمین یا ارحم
الراحمین…
سبحان
اﷲ، الحمدﷲ، اﷲاکبر، لا الہ الا اﷲ، ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ
اﷲ
تعالیٰ کی تمام مخلوق کی تعداد کے برابر … تمام مخلوق کے ہم وزن سبحان اﷲ، الحمدﷲ،
اﷲاکبر، لا الہ الااﷲ … ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ…
٭٭٭
ایک خطرناک بیماری
اور اس کا علاج
آج مسلمان… کفار کے
غلام بنتے جا رہے ہیںجبکہ… مسلمانوں میں سے بھی اکثر افراد دوسرے مسلمانوں کو اپنا
غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں… اپنی ذاتی اطاعت کرانے کا شوق…ایک خطرناک اور موذی بیماری
ہے…
اور یہ بیماری
مسلمانوں کے دینی طبقے میں بھی سرایت کر رہی ہے اس گندی بیماری کے نقصانات … اور
اس سے چھٹکارہ پانے کے چند طریقے
تاریخ اشاعت ۱۲ذیقعدہ
۱۴۲۸ھ
۲۳ نومبر۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۲۳
ایک خطرناک بیماری
اور اس کا علاج
اﷲ
تعالیٰ اپنی خاص رحمت فرما کر ہم مسلمانوں کو ’’آزادی‘‘ عطاء فرمائے… ہم تو ساری
دنیا میں ’’غلام‘‘ بنا دئیے گئے ہیں… یااﷲ اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت پر
رحم فرما… عرب مسلمان بھی غلام … ترک مسلمان بھی غلام … افغان مسلمان بھی غلام … سیّد
بھی غلام، مغل بھی غلام، گورے بھی غلام، کالے بھی غلام … اور دکھ یہ کہ اس غلامی
پر خوش اور مطمئن اور ہر گلی میں الگ خلیفہ اور ہر پانچ قدم پر الگ سلطنت … بے شک
غلاموں میں بادشاہ بھی زیادہ ہوتے ہیں، حکمران بھی بے شمار ہوتے ہیں، قبیلے بھی ان
گنت ہوتے ہیں… اور ہر شخص کو اپنی اطاعت کروانے کاشوق خوب ذلیل کرتا ہے خوب ذلیل …
آخر امریکہ کا نائب وزیر خارجہ ’’نیگرو پونٹے‘‘ حکمران بن کر پاکستان کیوں آیا؟ …
کیا ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں؟ … صدر مشرف کو شوق ہے کہ قوم ان کے بوٹوں کے نیچے
رہے… اور قوم میں بھی ہر دوسرا آدمی لوگوں کو اپنے قدموں پر گرانے کی فکر میں ہے…
ہر استاذ کی خواہش ہے کہ اس کے شاگرد اس کی ’’ہربات‘‘ مانیں… ہر افسر کی خواہش ہے
کہ اس کے ماتحت اس کے زرخرید غلام بن کر رہیں … ہر پیر کی خواہش ہے کہ اس کے مرید
اس کی پیغمبر کی طرح اطاعت کریں … ہر لیڈر کی خواہش ہے کہ عوام اس کے قدموں کا کیڑا
بنے رہیں … میں اس وقت حیران ہوتا ہوں جب کسی مسجد کا منّا سا خطیب … جس کی ابھی
داڑھی آرہی ہوتی ہے… اور وہ کسی مدرسے میں درجہ خامسہ، سادسہ کا طالبعلم ہوتا ہے
وہ جمعہ کے خطبہ میں ’’اپنی اطاعت‘‘ کے موضوع پر تقریر کر رہا ہوتا ہے… جی ہاں وہ
سورۃ حجرات کی آیات سے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی آواز سے اونچی آواز میں بولنا بھی
لوگوں کے لئے جائز نہیں ہے…
استغفراﷲ،
استغفراﷲ… آخر ہم سب کو کیا ہوگیا ہے؟ … ہم میں سے ہر شخص پر ’’خدا‘‘ بننے اور
لوگوں کو اپنے سامنے جھکانے کا شوق سوار ہے… اسی لئے تو ساری دنیا ہمارے سر پر
سوار ہے… ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں پر من موہن اور سونیا گاندھی سوار ہیں…
فلسطین
والوں کے سر پر یہودی سوا رہیں … افغانیوں کی گردن پر امریکہ اور نیٹو سوار ہیں …
روسی چینی مسلمانوں کے سروں پر کیمونسٹ سوار ہیں … فلپائنی مسلمانوں پر عیسائی
سوار ہیں … اور ہم پاکستانی، ترکی، سعودی مسلمانوں کے سروں پر غلامی کا گند سوار
ہے… اب کون اس سچے دین اسلام کو پوری دنیا تک پہنچانے کی فکر کرے… ہم سب مسلمان تو
بس ایک دوسرے کو اپنے نیچے لگانے کی فکر میں ہیں … ہمار ایک ساتھی تھا … اﷲ پاک اس
کو معاف فرمائے … وہ ساتھیوں سے چھپ چھپ کر اپنی اطاعت کا حلف ’’قرآن مجید‘‘ پر لیتا
تھا … استغفراﷲ، استغفرﷲ … کیا قرآن پاک اسی لئے نازل ہوا ہے؟ … اتنی عظیم الشان
کتاب کا استعمال اتنے گھٹیا مقاصد کے لئے ؟ … اﷲ جل شانہ کے عظیم کلام کا استعمال
اپنے نفس کی اطاعت کے لئے؟ … قرآن پاک ہاتھ میں دے کر یہ عہد کہ میں جو بھی کہوں
گا تم مانو گے اور جس کام کا حکم دوں گا اسے پورا کرو گے… کیا قرآن پاک جو اﷲ پاک
کا کلام ہے اسی چیز کا سبق دیتا ہے؟ … بے شک اسلام میں امیر کی اطاعت کا تاکیدی
حکم ہے… اور مسلمانوں کی کامیابی، غلبے اور اجتماعیت کا راز بھی ’’اطاعت‘‘ میں ہے…
مگر اطاعت کس کی؟ … لوگوں نے حضرات خلفاء راشدین کی اطاعت غلاموں سے بڑھ کر کی…
مگر یہ ’’خلفاء کرام‘‘ کیسے لوگ تھے؟ … انہوں نے لوگوں سے اپنی نہیں اﷲ تعالیٰ اور
اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کروائی … انہوں نے لوگوں سے ذاتی مفادات
حاصل نہیں کیے بلکہ ہر کسی کو خود نفع پہنچایا… اور انہوں نے ہر آدمی کو دین کے
کام میں جوڑا … آپ خود دیکھیں لاکھوں کروڑوں انسان ان کے فرمانبردار تھے … مگر وہ
پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے … زمین پر سر رکھ کر سوجاتے تھے … بازار میں جاکر
خود بھاؤ تاؤ کرکے سودا خرید لاتے تھے … ضرورت کے وقت تجارت بھی کرتے تھے… اور خود
کو ’’عام انسان‘‘ بنا کر رکھتے تھے…
نیگروپونٹے
پاکستان میں ایک حکمران کی طرح ناچتا پھر رہا تھا … صدر مشرف اس کو یقین دلا رہے
تھے کہ میں آپ کی فرمانبرداری میں ’’بے مثال‘‘ ہوں، جبکہ بے نظیر اس کو پیغام بھیج
رہی تھی کہ … نہیں یہ پوری فرمانبرداری نہیں کر رہے مجھ ناچیز کنیز کو موقع دیا
جائے میں آپ کی ہر خدمت پورے خلوص سے سرانجام دوں گی … گویا مسلمانوں کی لاشوں کا
’’ٹینڈر‘‘ کھلا ہوا تھا … ہر کوئی بولی لگا رہا تھا اور اب آخری فیصلہ بش کے ہاں
سے ہوگاکہ … مسلمانوں کے قتل عام کا ٹھیکہ کس کو دیا جائے؟…
ہاں
جب ہم میں سے ہر شخص کو اپنے سامنے ’’سجدے کروانے‘‘ کا شوق ہے تو ہمارا یہی حال
ہونا ہے… حالانکہ ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اس ’’ناپاک شوق‘‘ سے منع
فرمایا ہے… ایک نہیں کئی احادیث مبارکہ ہیں اور اسلام کا مزاج ہی ’’فرمانبرداری‘‘
والا ہے… مگر ہم تو فرمانروائی کے شوقین بن کر ذلیل ہو رہے ہیں … جو تھوڑا سا دین
پڑھ لیتا ہے وہ چاہتا ہے لوگ اس کی اطاعت کریں … جو تھوڑا سا بدمعاش بن جاتا ہے وہ
چاہتا ہے کہ لوگ اس کو ’’دادا‘‘ مانیں … جو نورانی قاعدہ پڑھا لیتا ہے وہ چاہتا ہے
لوگ اس کے غلام بن جائیں … جو کسی پارٹی میں کوئی عہدہ حاصل کرلیتا ہے وہ چاہتا ہے
کہ باقی لوگ اس کی پوجا کریں … جو تھوڑی سی تقریر کرلیتا ہے وہ چاہتا ہے لوگ اس کو
کندھوں سے نیچے نہ اتاریں … جس کو کہیں سے ’’خلافت‘‘ ہاتھ آجاتی ہے وہ چاہتا ہے مرید
اس کی اجازت کے بغیر پیشاب بھی نہ کریں … اور جس کو لکھنا آجاتا ہے وہ چاہتا ہے کہ
لوگ اس کو آنکھوں کا تارا بنا کر رکھیں … ہاں بے شک ہمارا معاشرہ متکبر لوگوں سے
بھر چکا ہے … اکڑنے والے، دوسروں کو اپنے سامنے جھکانے والے… اور لوگوں کی اطاعت
سے دل کا سرور محسوس کرنے والے پاگل ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں … ان حالات میں ہمیں
کافروں کی غلامی کے سوا اور کیا مل سکتا ہے؟ … ہم اس بات کو بھول گئے کہ مسلمانوں
کا معاشرہ تو … تواضع کرنے والے، خدمت کرنے والے اور ایک دوسرے کا اکرام کرنے والے
لوگوں سے بھرا ہوتا ہے … معاشرے کے اسی رُخ کو ’’رحماء بینہم ‘‘ کے الفاظ سے سمجھایا
گیا ہے … اس معاشرے کا ’’داخلی نظام‘‘ رحمت اور محبت سے بھرا ہوتا ہے … سب لوگ ایک
دوسرے کی خدمت کرتے ہیں اور خود کو دوسروں سے کم تر سمجھتے ہیں … سب لوگ اپنے ذمہ
داروں کی اطاعت کرتے ہیں اور ذمہ دار اپنی اطاعت کروا کے خوش نہیں ہوتے… اور نہ وہ
ذاتی اطاعت کرواتے ہیں … بلکہ اﷲ اور رسول کی اطاعت پر لوگوں کو مضبوط کرتے ہیں …
اسلامی معاشرہ پروٹوکول کی لعنت سے پاک ہوتا ہے اور اس معاشرے کا سب سے معزز مقام
’’مسجد ‘‘ ہوتاہے … اسلامی معاشرے میں کوئی ایسے ’’رنگین بت‘‘ نہیں ہوتے جن کی
’’شان‘‘ نعوذباﷲ انبیاء سے بھی بڑھ کر ہو کہ … بازار میں جاکر سودا خریدنے اور گھر
میں جھاڑو دینے کو بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہوں …
اسلامی
معاشرہ خالص جہادی معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہجرت اور جہاد کی ہر وقت تیاریاں ہوتی ہیں
… لمبی لمبی شادیاں، بڑے بڑے بنگلے اور بے تحاشا دنیاداری کا اسلامی معاشرے میں
کوئی تصور ہی نہیں ہے… وجہ بالکل واضح ہے کہ… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ
کے آخری نبی ہیں … اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دین پوری انسانیت کے لئے اور قیامت
تک کے لئے ہے… اب یہ دین ساری دنیا تک ہم مسلمانوں نے پہنچانا ہے اور اس دین کو
غالب رکھنے کی محنت بھی ہم نے کرنی ہے … کیا ہم یہ محنت کر رہے ہیں ؟ … کاروبار میں
مست مسلمان اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں … گھریلو جھگڑوں میں مشغول خواتین ایک
نظراپنی مصروفیات پر ڈالیں … ہاں افسوس کہ ہم مسلمان اﷲ کے دین کی فکر سے غافل
ہوچکے ہیں … افریقہ کے جنگلوں تک اس دین کو کون لے جائے گا؟ … یورپ کے غرور اور
ناپاک رنگینیوں سے کون نمٹے گا؟ … کافروں کی ہولناک قوت کو دینی دعوت کے راستے سے
کون ہٹائے گا؟ … برہمن کے جال سے کروڑوں مسلمانوں کو کون نکالے گا؟ … یہودیوں کے
جبڑوں کو توڑ کر مسجد اقصیٰ کو کون آزاد کرائے گا؟ … کیا اس کی فکر ان لوگوں کو ہے
جن کا نام اگر کوئی بے اکرامی سے لے لے تو سارا دن درد سے جلتے رہتے ہیں … کیا اس
کی فکر ان عورتوں کو ہے جو اپنے خاوند پر بلاشرکت غیرے حکومت کو ہی زندگی کی کامیابی
سمجھتی ہیں … اے اﷲ کے بندو… اور اے اﷲ کی بندیو! … اﷲ تعالیٰ سے بامقصد زندگی کی
دعاء مانگو… اپنے لئے بھی اور میرے لئے بھی… اور اپنے دل سے اپنے اکرام اور اطاعت
کا شوق نکال دو… مگر کہاں؟… یہ ظالم شوق آسانی کے ساتھ دل سے نہیں نکلتا … یہ
کُتّے کی خارش ہے جو ہر وقت بڑھتی ہی رہتی ہے…
اسی کی خاطر لوگ ’’نقلی سید‘‘بنتے ہیں … اس کی خاطر لوگ طرح طرح کے جھوٹ
بولتے ہیں اور سارا دن بکری کی طرح’’ میں میں‘‘ کرتے ہیں کہ … میں ایسا میں ایسا …
اسی کی خاطر لوگ اپنی جھوٹی کرامتیں گھڑتے ہیں … اسی کی خاطر لوگ جھوٹے خواب بناتے
ہیں … اسی کی خاطر لوگ علاقہ پرستی اورقوم پرستی کا بدبودار نعرہ اٹھاتے ہیں … اور
اسی کی خاطر لوگ قوت اور پیسے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں … ہاں یہ ظالم شوق کتے
کی خارش کی طرح ہے جو انسان سے ہر بُرا کام کرواتا ہے… اور یہ شوق ہر گھڑی بڑھتا ہی
جاتاہے …اور ہم اس شوق کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ سے دور ہوتے جا رہے ہیں، دور، بہت دور…
ہاں اﷲ تعالیٰ اس دل میں نہیں آتا جس میں تکبرّ ہو… جس میں خود کو بڑا سمجھنے کا
’’گند‘‘ ہو… اﷲاکبرکبیرا … ہم اس ’’ظالم شوق‘‘ کی وجہ سے کتنے نقصانات اٹھا رہے ہیں
:
(۱)اﷲ
تعالیٰ سے دور ہو رہے ہیں جو سب سے بڑانقصان ہے …
(۲)ریاکار
بنتے جارہے ہیں کیونکہ ہر وقت خود کو’’اچھا‘‘ اور ’’بڑا‘‘ دکھانے کی فکر انسان کو
ریاکار بنادیتی ہے …
(۳)ہم
غلام بنتے جارہے ہیں اس لئے کہ جن کے دل میں اپنی اطاعت کروانے کا شوق ہو وہ اونچے
مقاصد اور جہاد سے دور ہوجاتے ہیں اور ان کا معاشرہ تفریق کا شکار ہو کر کمزور
ہوجاتا ہے… ہاں بے شک جس معاشرے میں لاکھوں معبود، لاکھوں بادشاہ، لاکھوں خلیفہ،
لاکھوں امراء، لاکھوں ملکان، لاکھوں خوانین، لاکھوں دادے، لاکھوں جگّے، لاکھوں جاگیردار
حکومت کر رہے ہوں … وہ معاشرہ غیروں اور کافروں کا غلام ہی بنتا ہے …
(۴)اپنی
اطاعت کروانے کا شوق انسان کو ہمیشہ پریشان اور غمگین رکھتا ہے… کوئی اکرام میں
کھڑا نہ ہوا تو پریشان … کسی نے نام بے ادبی سے لے لیا تو پریشان … کسی کے سامنے
کوئی کمزوری ظاہر ہوگئی تو پریشان … بس انسان کو اپنی ناک کی فکر ہر وقت غم میں
ڈالے رکھتی ہے…
(۵)اپنی
اطاعت کا شوق انسان کو لوگوں کا محتاج بنادیتا ہے… جس طرح ایک بھکاری ہاتھ میں پیالا
لے کر ایک ایک آدمی سے بھیک مانگتا رہتا ہے اسی طرح … انسان کا دل بھی بھکاری کا پیالا
بن جاتا ہے اور ہر آدمی سے اپنی اطاعت اور اکرام کی بھیک مانگتا رہتا ہے…
(۶)اطاعت
کروانے کے شوقین آدمی کا یہ شوق بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتاہے کہ … وہ اپنی دعاء قبول
نہ ہونے پر بھی بگڑ جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے میری بات کیوں نہ مانی… نعوذباﷲ،
نعوذباﷲ … اﷲ تعالیٰ تو رب اور مالک ہے اس کی مرضی دعاء قبول فرمائے یا نہ فرمائے…
ہم کون ہیں شکوہ اور شکایت کرنے والے … ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی تقدیر اور فیصلے
پر راضی رہیں … اور دل کی تنگی اور شکوے کے بغیر اس سے مانگتے رہیں …
بہرحال
یہ ایک طویل موضو ع ہے … خلاصہ بس یہی ہے کہ … اطاعت کروانے کا شوق ایک خطرناک بیماری
ہے جس نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے… کیا ہم اس رسوا اور ذلیل کرنے والی بیماری
سے بچنا چاہتے ہیں؟ … جی ہاں اگر بچنا چاہتے ہیں تو ہم آج سے چند کام شروع کردیں :
(۱)خوب
توجہ اور فکر سے دعاء کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس گندی بیماری سے نجات اور آزادی
عطاء فرمائے … یقین کریں اگر ہمیں اس سے نجات مل گئی تو ہماری زندگی سکون سے بھر
جائے گی … اور ہم لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے انسان بن جائیں گے …
(۲)وہ
لوگ جو مختلف ذمہ داریوں اور عہدوں پر ہیں یا افسر ہیں وہ خود کو اپنے ماتحتوں سے
افضل نہ سمجھیں … اور اس کا طریقہ اپنے گناہ یاد رکھنا اور دوسروں کے عیبوں پر نظر
نہ ڈالنا ہے… اور اس بات کو سمجھنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ’’انسان‘‘ کی کتنی
عزت اور عظمت ہے… کوئی استاذ ہو یا شاگرد، پیر ہو یا مرید، افسر ہو یا کلرک ،
کمانڈر ہو یا مجاہد… یہ سب ’’انسان‘‘ ہونے میں تو برابر ہیں اور ’’مسلمان‘‘ ہونے میں
بھی برابر ہیں اور ممکن ہے کہ مسلمان ہونے میں کئی چھوٹے اپنے بڑوں سے افضل ہوں …
اس لئے کسی ’’عہدے‘‘ ’’لیڈری‘‘ … آفیسری اور استاذی کی وجہ سے کوئی خود کو دوسروں
سے افضل نہ سمجھے … فضیلت کا معیار تقویٰ ہے …
(۳)اپنی
زندگی کو تکلّفات سے پاک رکھیں ، اپنے ہاتھ سے اپنا جوتا صاف کریں… کبھی کبھار
کپڑے اور برتن دھویا کریں … بازار میں جاکر خرید وفروخت کیا کریں … پیسوں کا حساب
کیا کریں اور اپنے ہاتھ سے ریزگاری لیا اور دیا کریں … الغرض کسی بھی جائز انسانی
کام کو … اپنی شان کے خلاف نہ سمجھیں اور نہ بننے دیں … بلکہ انبیاء علیہم السلام
اور حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی طرح … اپنی زندگی کو سادہ اور بے
تکلّف رکھیں …
(۴) جو
لوگ ماتحت ہوں ان کو اپنی ذاتی اطاعت کی ترغیب نہ دیں … بلکہ اﷲ اور اس کے رسول
اور دینی کاموں میں ان کی اطاعت کو خرچ کریں …
(۵) ایسے
پرندے اور جانور نہ پالیں جو انسانی اشاروں پر تیزی سے اطاعت کرتے ہیں … کیونکہ
انسان کمزور ہے چناچہ وہ کتے کے دُم ہلانے سے بھی اپنے آپ کو کچھ سمجھنا شروع کردیتا
ہے…
(۶) جماعت
کے نیچے کے عہدیدار اپنے ماتحت ساتھیوں کو یہی بتائیں کہ آپ پر ہماری اطاعت واجب
نہیں ہے، صرف امیر کی اطاعت واجب ہے اور ہم اس کے احکامات پہنچانے اور انہیں نافذ
کرنے کا ایک ذریعہ ہیں…
(۷) حضرات
انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا
مسلسل مطالعہ اور مذاکرہ کیا جائے اور زمانے کے لوگوں کے مزاج کو دین سمجھنے کی
بجائے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ
علیہم اجمعین کے حالات سے دین کا مزاج سمجھا جائے…
(۸) ذاتی
انتقام پر معاف کرنے کو ترجیح دی جائے اور قوت کا استعمال صرف اﷲ پاک کے دین کے
لئے کیا جائے… اور اپنی ذات کے بارے میں خود کو قوت ہونے کے باوجود کمزور سمجھا
جائے …
(۹) لینے
کی بجائے دینے والا مزاج بنایا جائے کہ میں کس طرح سے مسلمانوں کو… عزت، راحت،
فائدہ اور اکرام دے سکتا ہوں… جس آدمی پر بھی نظر پڑے یا جس کا بھی خیال آئے فوراً
یہ سوچیں کہ میں اس کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہوں… اور نہیں تو دعاء دے سکتا ہوں …
سلام کرسکتا ہوں … خوش اخلاقی سے مل سکتا ہوں … کوئی اچھی بات بتا سکتا ہوں … یہ
فکر بہت مبارک ہے…
(۱۰) حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ارشاد فرمودہ مسنون دعاء کا اہتمام کریں…
اللّٰہم
اجعلنی صغیراً فی عینی وکبیراً فی أعیُنِ النَّاس
اے
پروردگار! مجھے میری اپنی نظروں میں چھوٹا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنادیجئے …
یہ
دعاء اسی مفہوم کے ساتھ مختلف الفاظ سے آئی ہے جو الفاظ یاد ہوں ان سے پڑھ لیں …
دن رات میں کئی بار اس دعاء کا اہتمام کریں… اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس
خطرناک مرض سے آزادی عطاء فرمائے…
یا
اﷲ، یارحم الراحمین آپ ہمارے رب ہیں اور ہم آپ کے بندے … آپ نے ہم پر اپنی اطاعت
اور اپنے رسول اور شرعی امراء کی اطاعت لازم فرمائی ہے… یا اﷲ ہمیں اس کی توفیق
عطا فرمائیے… اور اپنی ذاتی اطاعت کروانے کا شوق ہمارے دلوں سے دور فرما دیجئے…
اور نفس کی غلامی سے ہمیں بچا لیجئے… یاارحم الراحمین … ہمارے دل اپنی محبت سے،
اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت سے، جہاد کے جذبے سے، شہادت کے شوق سے،آخرت کی
فکر سے، اسلام کی غیرت سے، دین کو دنیا پر غالب کرنے کے شوق سے بھر دیجئے … اور ہمیں
لوگوں کی محتاجی سے بچا لیجئے … یا ارحم الراحمین ہم مسلمانوں کو آزادی عطاء فرما
دیجئے، آزادی عطاء فرمادیجئے … اور ہمیں دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچا لیجئے…
آمین یا ارحم الراحمین…
(تنبیہ) اس
مضمون کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ شاگرد استاذ کی، مرید اپنے شیخ کی اور مجاہد
کمانڈر کی اطاعت نہ کریں، دینی اطاعت تو مسلمان کا شیوہ ہے … مقصد یہ ہے کہ کسی کے
دل میں ذاتی اطاعت کروانے کا شوق پیدا ہونا ایک خطرناک مرض ہے…
٭٭٭
بڑا دروازہ
٭مغرب کی طرف ایک
بہت بڑا دروازہ ہے
٭توبہ کا دروازہ
٭نیکیاں محفوظ
رکھنے اور گناہوں کو مٹانے والی ایک مسنون اور مؤثر دعاء
٭فالج سے حفاظت
کی دعاء
٭بوڑھے والدین کی
ناقدری کا مرض معاشرے میں پھیل رہا ہے۔
تاریخ اشاعت ۱۹ذیقعدہ
۱۴۲۸ھ
۳۰ نومبر ۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۲۴
بڑا دروازہ
اﷲ
تعالیٰ نے کتنا بڑا فضل فرمایا کہ جس دن زمین و آسمان پیدا فرمائے اسی دن ’’توبہ
کا دروازہ‘‘ بھی بنادیا … اور یہ دروازہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک سورج مغرب کی
طرف سے طلوع نہیں ہوتا… اﷲ اکبر کبیرا کتنا بڑا فضل ہے اور کتنا بڑاا حسان… توبہ
کا یہ دروازہ ’’مغرب‘‘ کی طرف ہے اور بہت بڑا ہے… ستّر سال تک کوئی سوار اپنی سواری
پر دوڑتا رہے تو اس کی چوڑائی ختم نہ ہو … ہم سب کو چاہئے کہ سچی توبہ کرکے اس
دروازے میں داخل ہوجائیں … اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے… جی ہاں
ان مجرموں، گناہگاروں کو جو سچے دل سے توبہ کرلیں اﷲ تعالیٰ پسند فرماتا ہے… اﷲ
تعالیٰ کے پاس مغفرت کی کمی نہیں ہے … اس کی رحمت بہت بڑی ہے بہت ہی بڑی … اچھا اس
بات کو یہاں روک کر پہلے ایک دعاء یاد کرلیتے ہیں … آج کل فالج کا مرض بہت عام ہے…
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے حفاظت کاعمل بیان فرمایا ہے … حضرت قبیصہ بن
المخارق رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں
بوڑھا ہوچکا ہوں میری ہڈیاں کمزور پڑ گئی ہیں آپ مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے
جس سے اﷲ تعالیٰ مجھے نفع عطاء فرمائے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا فجر کے
بعد تین بار یہ دعاء پڑھ لیا کریں
سُبْحَانَ
اﷲِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ
آپ
اندھے پن، کوڑھ اور فالج سے بچ جائیں گے اور آپ ان الفاظ سے دعاء کیا کریں
اَللّٰہُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِمَّا عِنْدَکَ وَأَفِضْ عَلَیَّ مِنْ فَضْلِکَ وَانْشُرْ
عَلَیَّ مِنْ بَرَکَاتِکَ
اے
میرے پروردگار! میں آپ سے ان نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو آپ کے پاس ہیں اور مجھ پر
اپنا فضل فرما دیجئے اور اپنی برکتیں مجھ پر برسا دیجئے…
(مسند احمد وفی
اسنادہ راو لم یسمّ)
حدیث
کی سند تو ظاہر ہے زیادہ مضبوط نہیں ہے مگر بندہ نے اہل علم کو یہ وظیفہ بتاتے سنا
ہے … اور ہمارے ایک استاذ محترم فرمایا کرتے تھے کہ میاں فجر کے بعد تین بار
سبحان
العظیم وبحمدہ ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم
پڑھا
کرو، انشاء اﷲ چلتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہوگے … بعد میں ہم نے دیکھا کہ ان کا
انتقال اسی حالت میں ہوا کہ خود چلتے پھرتے تھے اور کسی کے محتاج اور معذور نہیں
تھے… حقیقت میں یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان کسی کا محتاج نہ ہو خصوصاً اس زمانے میں
جبکہ ’’خدمت کا جذبہ‘‘ اور ’’بڑوں کا ادب‘‘ بہت کم ہوچکا ہے … اور اکثر لوگوں کی
اولاد نالائق، گستاخ اور نافرمان ہے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی نافرمانی اور ایذاء
رسانی سے بچائے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن گناہوں کو ’’کبیرہ گناہ‘‘ قرار دیا
ہے ان میں سے ایک والدین کی نافرمانی بھی ہے… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بشارت
بھی سنائی ہے کہ بوڑھے والدین کی خدمت کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں بھی
بہت سی نعمتیں عطاء فرماتا ہے جن میںسے ایک نعمت یہ ہے کہ بڑھاپے میں انہیں
خدمتگار نصیب ہوجاتے ہیں…
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ما
اکرم شاب شیخا لسنہ الا قیض اﷲ لہ من یکرمہ عند سنہ
یعنی
جو جوان آدمی کسی بوڑھے کا اس کی عمر کی وجہ سے اکرام کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کے
بڑھاپے کے زمانے میں ایسے افراد مقرر فرمادے گا جو اس کا اکرام کریں گے۔(ترمذی)
ایک
اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا جتنا ادب اور جلال
ہوگا اسی قدر وہ بوڑھے مسلمانوں کا اکرام کرے گا…
ان
من اجلال اﷲ تعالیٰ اکرام ذی الشیبۃ المسلم
کہ
اﷲ تعالیٰ کی عزت وشان میں یہ بھی شامل ہے کہ مسلمان بوڑھے کا اکرام کیا جائے…
(ابوداؤد)
یہ
موضوع کافی طویل ہے اور آج کل اس معاملے میں مسلمانوں کی غفلت بہت دردناک ہے…
بوڑھے بیچارے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے گھروں میں ’’اجنبی مسافروں‘‘ کی زندگی
گزار رہے ہیں اور جوان اولاد نے ان کو حسرت کی آہیں بھرنے کے لئے پھینک دیا ہے… اﷲ
تعالیٰ ہم سب پر اس معاملے میں رحم فرمائے… جوان اولاد کو تو سمجھانا کافی مشکل ہے
کیونکہ جوانی کی مستی انسان کو بہت کم سوچنے دیتی ہے… اور قسمت والے جوانوں کو ہی
توبہ نصیب ہوتی ہے… مگر بوڑھے حضرات تو سمجھدار ہوتے ہیں وہ ان حالات کو تھوڑی سی
محنت کرکے تبدیل کرسکتے ہیں … بس طریقہ یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی یاد، عبادت اور
محبت میں خود کو لگادیں، اولاد سے کوئی غرض نہ رکھیں، اور اپنی تمناؤں کو سمیٹ لیں
… پھر انشاء اﷲ ان کے بڑھاپے میں ایک ’’خاص نور‘‘ آجائے گا اور اولاد ان کو شر نہیں
پہنچا سکے گی … بات یہ چل رہی تھی کہ چلتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہوجانا ایک نعمت
ہے کیونکہ انسان اگر معذور اور محتاج ہوجائے تو کافی پریشان ہوتا ہے اور نا اہل
لوگ اسے بوجھ سمجھنا شروع کردیتے ہیں … حالانکہ کمزوروں اور ضعیفوں کی برکت سے
مسلمانوں پر رحمت اور نصرت نازل ہوتی ہے اور ان کی خدمت سے اﷲ تعالیٰ کا قرب نصیب
ہوتا ہے… مگر ناچ گانے، موبائل اور انٹرنیٹ کے اس زمانے میں اس حقیقت کو سمجھنے
والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں …
اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور شہادت پر خاتمہ نصیب فرمائے، ہر طرف ظلم اور گناہ کی
آندھیاں چل رہی ہیں… بس وہی بچ سکتا ہے جس کو اﷲ تعالیٰ بچائے اور اﷲ تعالیٰ اس کو
بچاتا ہے جس میں بچنے کی فکر ہو… ہمیں چاہئے کہ اپنی ہر مجلس کا اختتام اﷲ تعالیٰ
کی تسبیح، ذکر اور استغفار پر کرنے کی پختہ عادت ڈال لیں … کیونکہ موت بھی زندگی کی
اس مجلس کا خاتمہ اور اگلی مجلس کا آغاز ہے
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من
جلس فی مجلس فکثر فیہ لغطہ فقال قبل ان یقوم من مجلسہ ذلک سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ
وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ
اِلَیْکَ الا غفرلہ ما کان فی مجلسہ ذلک
یعنی
جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور وہاں فضول، لغو اور بے فائدہ باتیں زیادہ ہوتی رہیں
تو اگر وہ مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ کلمات پڑھ لے تو اس مجلس کے گناہ اس کے لئے
معاف کردیئے جائیں گے
سُبْحَانَکَ
اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ
وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ (ترمذی)
سبحان
اﷲ کتنی بڑی نعمت ہے… احادیث سے ثابت ہے کہ گناہ کی مجلسیں انسان کے لئے قیامت کے
دن کا بڑا خسارہ ہوں گی … آج کل تو گناہ کی مجلسیں بے شمار ہیں … ٹی وی کی مجلس،
موبائل گیمز کی مجلسیں، کمپیوٹر اور نیٹ کی مجلسیں … اوّل تو ہمیں ان مجالس سے
بچنا چاہئے لیکن اگر شیطان پھنسا لے تو ہم اس دعاء کو پڑھنا نہ بھولیں … انشاء اﷲ
گناہ مٹ جائیں گے … اور اگر ہم اس دعاء کا دل کی توجہ سے اہتمام کرتے رہے تو بہت سی
بری مجلسوں سے انشاء اﷲ ہماری جان چھوٹ جائے گی … ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے کہ
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی مجلس سے اٹھتے تو اس دعاء کا اہتمام فرماتے، اس
پر ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ معمول پہلے تو نہیں تھا … آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ذلک
کفارۃ لما یکون فی مجلس
کہ یہ
کلمات مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہیں (ابوداؤد)
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم تو گناہوں سے پاک اور معصوم تھے مگر امت کی تعلیم کے لئے… اور
اپنے عظیم درجات کی مزید بلندی کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان مبارک کلمات کا
اہتمام فرماتے تھے… بلکہ ایک روایت سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ… ان کلمات کے دو
عظیم الشان فائدے ہیں پہلا فائدہ یہ ہے کہ مجلس میں جو نیکی ہوئی ان پر ان کلمات کی
برکات سے قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے کہ اب یہ نیکی ضائع نہیں ہوگی اور دوسرا فائدہ
وہی ہے کہ مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے… چنانچہ اچھی مجلس، تلاوت کی مجلس،
ذکر و نماز کی مجلس، دعوت وبیان کی مجلس کے بعد بھی اس کا اہتمام کرلیا جائے …
نسائی کی روایت میں بالکل واضح طور پر آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی
مجلس میں بیٹھتے یا نماز ادا کرتے تو یہ کلمات پڑھتے تھے، اس پر حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ عنہا نے ان کلمات کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان
تکلم بخیر کان طابعاً علیہن الی یوم القیمۃ وان تکلم بشرٍّ کان کفارۃ لہ
یعنی
اگر مجلس میں اچھی بات کہی ہے تو اس پر قیامت کے دن تک کے لئے حفاظت کی مہر لگ جاتی
ہے… اور اگر بری بات کہی ہے تو اس کے لئے یہ کلمات کفارہ بن جاتے ہیں … (نسائی)
دوسری
ایک روایت میں ’’مجلس ذکر‘‘ کی تصریح ہے کہ اگر مجلس ذکر میں یہ دعاء پڑھے تو وہ
مجلس اس کے لئے قیامت تک محفوظ ہوجاتی ہے
فقالہا
فی مجلس ذکر کان کالطابع یطبع علیہ، ومن قال فی مجلس لغوٍ کان کفارۃ لہ (نسائی)
بعض
روایات میں اس دعاء کو تین بار پڑھنے کا تذکرہ ہے اس لئے تین بار پڑھنا زیادہ مفیدہے
حقیقت
میں یہ دعاء بہت بڑا خزینہ ہے… ہر نیکی کے بعد اور ہر غلطی کے بعد اس کا اہتمام ہو
تو ’’حسن خاتمہ‘‘ کی منزل انشاء اﷲ آسان ہوجائے
سُبْحَانَکَ
اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ
وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ
ترجمہ: اے میرے اﷲ آپ پاک ہیں اور تمام تعریفیں آپ کے
لئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں آپ سے معافی
چاہتا ہوں اور آپ کی طرف توبہ کرتا ہوں
جن
مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو یہ دعاء یاد ہے وہ اس کے پڑھنے کا اہتمام کریں … آج ہی
سے جب تلاوت کریں، یہ مضمون پڑھیں اور کسی بھی اچھی یا برُی مجلس میں بیٹھیں یا
اٹھیں تو یہ دعاء توجہ سے پڑھ لیں … انشاء اﷲ دل میں عجیب سا سکون محسوس ہوگا … نیکیاں
محفوظ ہوتی اور گناہ مٹتے محسوس ہوں گے … بعض لوگ کہتے ہیں اتنی دعائیں ہیں کس کس
کو معمول بنائیں ؟ … ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انسان کی زبان بولنے سے نہیں تھکتی
… سبزی بیچنے والے کتنی آوازیں لگاتے ہیں؟ … بسوں کے کنڈیکٹر کتنا بولتے ہیں ؟ …
جن لوگوں کو بک بک یا گپ شپ کی عادت ہو وہ کتنا بکتے ہیں؟ … حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کی دعائیں تو ایمان والوں کے لئے سانس لینے کی طرح سکون آور ہیں … خود آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے دین کا جتنا کام کیا کوئی اور اتنا کرسکتا ہے؟ … ہر گز نہیں … پھر
اتنے کام کے باوجود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دعاؤں کو معمول بنایا تو معلوم ہوا
کہ ہم فارغ لوگوں کے لئے تو اور زیادہ ممکن ہے … بس دل میں اﷲ تعالیٰ کے ذکر کا
ذوق اور شوق پیدا ہوجائے اور یہ بات ذہن میں بیٹھ جائے کہ … ہم نے ذکر کے ذریعے
اپنی جنت کو آباد کرنا ہے… لوگ دنیا کا گھر بنانے کے لئے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں؟ …
جنت تو بہت قیمتی ہے … بہت قیمتی …
اس
دعاء کے آخر میں بھی توبہ کا ذکر ہے… یا اﷲ میں آپ کی طرف توبہ کرتا ہوں … اﷲ تعالیٰ
نے زمین و آسمان بناتے وقت ہی توبہ کا بہت بڑا دروازہ مغرب کی طرف بنادیا ہے تاکہ
اس کے بندے اس دروازے سے گزر کر اس تک پہنچیں … شیطان ملعون ہمیں جہنم کی طرف کھینچ
رہا ہے … ہمارا نفس شیطان کا تعاون کر رہا ہے… شیطان تھوڑی دیر بھی چین سے نہیں بیٹھتا،
اس نے قسم کھائی ہے کہ میں انسانوں کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف سے ان پر
حملے کروں گا … اس نے قسم کھائی ہے کہ میں انسانوں کو گمراہ کروں گا …اس نے قسم
کھائی ہے کہ میں انسانوں کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جانے کی زوردار محنت کروں گا …
شیطان اپنے پیادے اور سوار لشکر کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہے… وہ طرح طرح کے روپ
بدلتا ہے … وہ ہمیں آخرت سے غافل کرتا ہے… وہ ہمارے وقت کو برباد کرتا ہے… وہ ہمیں
گندی دوستیوں میں پھنساتا ہے… وہ ہمیں جہاد سے دور کرتا ہے… وہ ہمیں دنیا کی
الجھنوں میں پھنساتا ہے … اور ہم کمزور لوگ طوفان میں گھری کشتی کی طرح ہچکولے کھا
رہے ہیں … ہمارے نیچے جہنم کی گہرائی ہے اور جنت بہت اوپر ہے بہت دور … عجیب پریشانی
اور غم کا ماحول ہے … ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ، ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی …
اور ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی … شیطان آواز لگا رہا ہے کہ تم تو جنت کے قریب
بھی نہیں جاسکتے اس لئے محنت چھوڑو … اور دنیا میں تو چند دن آرام اور مزے کرلو …
اور ہمارا نفس شیطان کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے کہ نیکی کا راستہ بہت مشکل ہے …
اور تم کمزور ہو … مایوسی کے اس اندھیرے میں … قرآن پاک کے الفاظ نور بن کر برستے
ہیں … میرا اﷲ شیطان سے فرما رہا ہے:
اِنَّ
عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانُ
(اے شیطان جتنا
بھی زور لگا لے ) ان انسانوں میں جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا زور نہیں چلے گا…
اﷲ
تعالیٰ کے بندے، اﷲ تعالیٰ کے سچے غلام … ان کی بڑی صفت ’’اخلاص‘‘ ہے کہ ہر عمل اﷲ
تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں … اور توبہ کے دروازے کی طرف دوڑتے چلے جاتے ہیں … دوڑتے
چلے جاتے ہیں … شیطان ان کو گراتا ہے وہ اٹھ کر پھر دوڑ پڑتے ہیں … نفس ان کو
بٹھاتا ہے وہ کھڑے ہو کر پھر دوڑ پڑتے ہیں … اﷲ تعالیٰ کی طرف، توبہ کے دروازے کی
طرف دوڑ رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں … وہ جانتے ہیں کہ ان کے گناہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے
زیادہ نہیں ہیں … وہ جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ کا نظام دنیا کے لوگوں کے نظام سے
مختلف ہے… ایک دن میں ستر گناہ ہوجائیں تب بھی توبہ مل جاتی ہے… ایک آنسو جہنم کی
آگ بجھا دیتا ہے… وہ جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے کہ … جس کی طرف
ہمیں پناہ ملے… اور اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے… آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اﷲ
تعالیٰ ہر رات اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دن کا گناہگار توبہ کرلے اور ہر دن
اپنا (رحمت والا) ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گناہگار توبہ کرلے… اور یہ سلسلہ اس
وقت تک جاری رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا (صحیح مسلم)
اﷲ
اکبر کبیرا … اﷲ تعالیٰ کا رحمت والا ہاتھ !!!… ہمیں یہ رحمت نصیب ہوجائے تو پھر شیطان
ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے … اﷲ پاک بلا رہاہے … اپنی رحمت کی طرف، توبہ کے دروازے کی
طرف
تُوْبُوْا
إِلَی اﷲِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (النور)
اے
ایمان والو! تم سب اﷲ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ …
فَفِرُّوْا
إِلَی اﷲِ (الذّاریات)
پس
اﷲ تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑو …
اے
مسلمانو! … آ ج کا سورج بھی مشرق کی طرف سے نکلا ہے… معلوم ہوا کہ توبہ کا دروازہ
کھلا ہے اور اﷲ تعالیٰ کا رحمت والا ہاتھ ہمیں اپنی طرف بلا رہا ہے… رب عظیم کو
ہماری ضرورت نہیں مگر وہ پھر بھی ہمیں بلا رہا ہے… پھر دیر کس بات کی؟ … ہم گناہ
چھوڑ دیں، ہم مایوسی کو پرے پھینک دیں … اور دوڑ پڑیں اپنے رب کی طرف اپنے پیدا
کرنے والے، پالنے والے مالک کی طرف …
یا
اﷲ توبہ، یا اﷲ توبہ، یا اﷲ توبہ
سُبْحَانَکَ
اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ
وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ
٭٭٭
وسیع کام میں
شمولیت
٭صدر پرویز مشرف
کی وردی اتارنے پر چند باتیں
٭الرحمت ٹرسٹ کی
طرف سے اجتماعی قربانی کا اشتہار
اور
ایک ایسی جماعت کا
تعارف جو ماشاء اﷲ
پورے دین کو مانتی ہے
اور پورے دین پر عمل کی محنت کرتی ہے
تاریخ اشاعت ۲۶ذیقعدہ
۱۴۲۸ھ
۷؍دسمبر ۲۰۰۷ء
شمارہ۱۲۵
وسیع کام میں
شمولیت
اﷲ
تعالیٰ کے سوا سب کچھ فانی ہے… پاکستان کی برّی افواج کے سربراہ نے بھی حالات سے
مجبور اور بے بس ہو کر بالآخر وردی اتار ہی دی… اﷲاکبر کبیرا عجیب منظر تھا،
آنکھوں میں آنسو، چہرے پر غموں کی بوچھاڑ، لڑکھڑاتی زبان … اور حسرت ہی حسرت … دنیا
نے صدام حسین کو پھانسی چڑھتے دیکھا مگر صدام نے ان لمحات میں بھی اپنے حواس اور
اپنی آواز پر قابو رکھا ہوا تھا اور اس کی گردن تنی ہوئی تھی… مگر جنرل پرویز مشرف
وردی اتارنے کے لمحے اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے … وہ کافی بوڑھے لگ رہے تھے اور
انتہائی غمگین … ہاں! جب یہ فانی انسان کسی چیز کے سہارے خود کو خدا سمجھ بیٹھتا
ہے اورہر بات میں اپنی ’’میں‘‘ کو اونچا رکھتا ہے تو جب اس کا سہارا باقی نہیں
رہتا تو وہ اونچی دیوار کے ساتھ لٹکے ہوئے اس انسان کی طرح بے بسی محسوس کرتا ہے
جس کی ٹانگوں کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی گئی ہو… اس میں ہم سب کے لئے بے شمار عبرتیں
ہیں … ہم دنیا کے عہدوں اور سہاروں کو سب کچھ نہ سمجھیں … ہم طاقت کے نشے میں ظلم
نہ کریں … ہم فانی چیزوں کا سہارا لیکر ’’میںمیں‘‘ نہ کریں … ہم دنیا کے عہدوں اور
عزتوں کو اپنی کھال نہ سمجھیں … اور ہم دنیا کی نہیں آخرت کی فکر کریں … وردی کا
اترنا ابھی ایک حسرت ناک کہانی کا آغاز ہے … ابھی آگے کیا کچھ ہوگا اﷲ تعالیٰ ہی
بہتر جانتا ہے… ہمیں تو ہر واقعہ سے اپنے لئے ہی سبق اور عبرت لینی چاہئے …
ہم
سب قبر کی طرف جا رہے ہیں … ہم سب اپنے حساب کی طرف جارہے ہیں … دنیا کی زندگی، یہاں
کے اسباب، یہاں کی طاقت ان سب چیزوں کو ہم اﷲ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں لگا دیں…
یہی سب سے بڑا سبق ہے … اور کافروں کا ساتھ دینے والوں کے لئے عبرت ہے کہ … کس طرح
سے امریکہ نے ’’صدرصاحب‘‘ کو اکیلا چھوڑ دیا … اور کس طرح سے ’’نیگروپونٹے‘‘ نے
آخری ملاقات میں ان سے اپنی آنکھیں پھیر لیں …
اﷲ
کرے ’’صدر صاحب‘‘ کسی دن تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ انہوں نے کیا حاصل کیا … اور
کیا کچھ کھودیا؟ … وردی اترنے کے بعد تو ’’صدر‘‘ کی مصروفیات بہت محدود ہوجاتی ہیں
… پاکستان اور ہندوستان میں جو نظام حکومت رائج ہے وہ ’’برطانوی جمہوریت‘‘ یا
’’پارلیمانی نظام‘‘ کہلاتا ہے… دراصل جمہوریت کی بھی دو قسمیں ہیں برطانوی جمہوریت
اور امریکی جمہوریت … برطانوی جمہوریت میں صدر کا عہدہ ایک ’’نمائشی بت‘‘ کا منصب
ہے … بھارت کا صدر سارا دن اسکول کے بچوں میں انعامات تقسیم کرتا رہتا ہے… یا
مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹافیاں چوستا رہتا ہے… یہی حال ہمارے ملک کے صدر کا بھی
ہوتا ہے … مگر جب صدر باوردی ہو تو وہ بہت مصروف ہوتا ہے… ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف
نے بھی بہت مصروف وقت گزارا … کرکٹ سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک کا ہر معاملہ
اپنے ہاتھوں میں رکھا … مگر اب وہ فارغ ہیں اور بتدریج فارغ ہوتے چلے جائیں گے …
ان کے پاس اسمبلی توڑنے کا اختیار ہے مگر ان کے اعصاب کمزور ہوچکے ہیں … اب وہ سوچ
سکتے ہیں … اﷲ کرے سوچیں کہ انہوں نے افغانستان میں ’’مقدس امارت اسلامیہ‘‘ ختم
کرکے کیا حاصل کیا؟ … انہوں نے اپنے ملک کو امریکہ کا اڈہ بنا کر کیا پایا؟ …
انہوں نے جہاد پر پابندی لگا کر کیا کرلیا؟ … انہوں نے انتہا پسندی کے خاتمے کے
لئے انتھک محنت کی مگر کیا پایا؟ … انہوں نے ہر برے اور بے حیا انسان کو ترقی دی …
مگر میراتھن دوڑ میں کپڑے اتار کر دوڑنے والوں نے بھی مشکل میں ان کا ساتھ نہ دیا
… امریکہ افغانستان فتح نہیں کرسکا … پاکستان میں جہاد پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگیا
… روشن خیالی کا لفظ گالی اور انتہا پسندی کا حرف ایک تمغہ بن گیا … جی ہاں صدر
صاحب کے کندھوں پر فتح اور حصولیابی کا ایک بھی نشان نہیں ہے… کاش وہ سوچیں کہ …
انہوں نے باجوڑ کے مدرسے اور لال مسجد پر بمباری کرکے کیا حاصل کیا؟ … دنیا میں ان
کارناموں سے کیا پایا اور آخرت میں کس چیز کے امیدوار ہیں؟ … معصوم بچوں اور قرآن
کے حافظوں کا خون … جی ہاں اب وردی اتر گئی ہے جو کبھی واپس نہیں آئے گی، کبھی نہیں
… مگر خون پکارتا رہے گا، مظلوموں کا خون … قرآن پاک کی حافظہ بچیوں کا خون … طرح
طرح کی شکلیں بدل کر آنکھوں کے سامنے آتا رہے گا … بِأیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ … کہ کس
جرم میں ہمیں مارا گیا … کس جرم میں ہمیں مارا گیا … حجاج بن یوسف جب مرنے کے لئے
بیمار ہوا تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد چیخیں مار کر بیدار ہو جاتا تھا … اردگرد والے
وجہ پوچھتے تو کہتا جیسے ہی آنکھ لگتی ہے حضرت سعید بن جبیرؒ آجاتے ہیں اور میری
گردن دبا کر پوچھتے ہیں … اے ظالم مجھے کس جرم میں قتل کیا تھا؟ …
وردی
اترنے کی کہانی ابھی پہلے مرحلہ میں ہے اس لئے اس کو یہیں چھوڑ کر ہم آپس میں عیدالاضحی
منانے کی چند باتیں کرلیتے ہیں … پچھلے سال اسی کالم میں عید گزارنے کا پورا ’’پیکج‘‘
عرض کیا تھا کہ … ہم مسلمانوں کو کیا کیا کام کرنے چاہئیں … اﷲ کرے وہ مضمون یاد
ہو اور ہم سب اس عید پر بھی اﷲ تعالیٰ کو خوب راضی کریں … الرحمت ٹرسٹ والے احباب
نے القلم اخبار میں اشتہار دیا ہے کہ … ہم ان کے ساتھ مل کر ’’اجتماعی قربانی‘‘ میں
حصہ لیں … اور اپنی قربانی کی کھالیں ان کو دیں … یہ اشتہار اگر کسی عام ادارے کی
طرف سے ہوتا تو نظر انداز کیا جاسکتا تھا مگر جن اﷲ کے بندوں نے یہ اشتہار دیا ہے
ان کی داستان بہت عجیب ہے … یہ دیوانے لوگ صبح شام دین کا کام کرتے ہیں اور ماشاء
اﷲ ایسی قربانیاں دیتے ہیں کہ اسلام کے اچھے زمانوں کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں …
سعدی فقیر نے تو ان کی کارکردگی اور تاریخ دیکھنے کے بعد یہی طے کیا ہے کہ وہ اپنی
قربانی انہیں کے ذریعہ سے کرے گا… کیونکہ یہ شریعت کے اصولوں کی پاسداری کرنے والے
اور پورے دین کی فکر رکھنے والے لوگ ہیں … ان کا کام ماشا ء اﷲ بہت وسیع ہے … ان
کے سروں پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہو کہ ان کے ساتھ ۱۶۳۹
شہداء کرام کے گھرانے وابستہ ہیں … یہ لوگ ہر مہینے سات لاکھ روپے سے زائد کی رقم ۴۶۷ ایسے
گھرانوں تک پہنچاتے ہیں … جن میں سے ہر گھرانہ اپنے اندر عزیمت کی ایک داستان
رکھتا ہے… اس ادارے کا نظام عجیب ہے ان کو جیسے ہی خبر ملتی ہے کہ فلاں ساتھی شہید
ہوگیا ہے تو یہ اس شہید کے بازو بن کر اس کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے شہید
کے گھر جا کراہل خانہ کو اطلاع اور تسلی دیتے ہیں … شہید کا متروکہ سامان اس کے
گھر پہنچا آتے ہیں … پہلی ہی ملاقات میں ہر شہید کے گھرانے کے ساتھ پندرہ سے پچیس
ہزار کا تعاون کرتے ہیں … یہ اس مد میں اب تک پونے دو کروڑ سے زائد کی رقم خرچ کر
چکے ہیں اور پھر اگر حالات معلوم کرنے کے بعد شہید کے اہل خانہ مستقل تعاون کے
مستحق معلوم ہوں تو … صرف ایک اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر اس گھرانے کا ماہانہ وظیفہ
مقرر کردیتے ہیں … ان اﷲ کے بندوں نے ’’اسیران اسلام‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا … یہ
قیدیوں کو چھڑاتے ہیں، ان کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور قیدیوں تک جیلوں
میں راشن دوائیاں اور دیگر سامان پہنچاتے ہیں … آپ اگر ان کے اسی شعبے کو دیکھ لیں
تو حیران رہ جائیں گے کہ یہ کس قدر محبت کے ساتھ ایک ایک قیدی کے لئے پارسل بناتے
اور بھیجتے ہیں … ان پارسلوں میں کپڑوں سے لے کر ضرورت کی تقریباً ہر چیز ہوتی ہے…
یہ اﷲ کے بندے دن رات مظلوموں کی دعاؤں اور تشکر کے آنسوؤں کا اجر پاتے ہیں …
انہوں نے افغانستان سے ایک سو آٹھ قیدی فدیہ دے کر چھڑائے اور اس مد میں پونے چار
کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ کی اور اسیران ہند کی قانونی مدد، رہائی اور خدمت پر
ان کے دو شعبے کروڑوں روپے کی رقم خرچ کر چکے ہیں … پھر ان پر اﷲ تعالیٰ کی نصرت دیکھیں
کہ اس نے تھوڑے سے عرصے میں ان کے کام کو کہاں تک پہنچادیا … پاکستان کے ۹۸
اضلاع کی ۲۷۱ تحصیلوں میں ان کے ہزاروں نمائندے اور رضاکار صبح شام دین
اور خدمت کا کام کر رہے ہیں … ان کے صرف ایک شعبہ دعوت کے افراد دینی کام کے لئے
جو سواریاں استعمال کرتے ہیں ان میں سات گاڑیاں ۱۷۲
موٹر سائیکلیں اور ۹ سائیکلیں شامل ہیں … یہ تمام پہیے اﷲ پاک کی رضا اور اسلام
کی سربلندی کی محنت کے لئے گھومتے اور چلتے ہیں … ما شا ء اﷲ لاقوۃ الا باﷲ … ان
کا مالیات کا نظام عجیب ہے تقویٰ، حفاظت اور وقار ان کے تین اصول ہیں … یہ شعبہ ہر
ماہ اوسطاً ایک کروڑ روپے مختلف مصارف میں خرچ کرتا ہے اور کبھی اس سے بھی بہت زیادہ
… اس شعبے میں شریعت کا حکم ہی سب سے طاقتور اتھارٹی ہے جبکہ افراد کا عمل دخل
بطور خدمت کے ہے … ماشاء اﷲ لاقوۃ الا باﷲ … اﷲ تعالیٰ ان کو ’’نظربد‘‘ اور ’’نفاق
وشقاق‘‘ سے بچائے رکھے زمانے کے اولیاء اور اقطاب نے ان پر اعتماد کیا … ایک صاحب
بتا رہے تھے کہ ان کے نانا محترم حرم پاک میں مقیم ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں نے
خود کو اس جماعت کے لئے دعائیں کرنے پر وقف کر رکھا ہے … ہاں بے شک ان دیوانوں کا
حق ہے کہ ہم ان کو دعائیں دیں اور ان کو اپنے لئے نعمت سمجھیں … کئی لوگ جہاد میں
آئے تو مسجد سے دور ہوگئے ان لوگوں نے دوبارہ مسجد نبوی کے ماحول کی بات کی اور
ملک بھر میں مساجد کا ایک نورانی سلسلہ شروع کردیا … درجنوں مسجدیں آباد ہوگئیں
مگر ان کی سوچ کا شاہین ۳۱۳ مساجد کی طرف پرواز کر رہا ہے… ایک زمانے تک پورے دین کی
دعوت دینے والا لٹریچر عام نہیں تھا جہاد پر کتابیں نہیں ملتی تھیں مگر ان لوگوں
کو اﷲ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی… کتابوں پر کتابیں لکھتے گئے اور مکتبوں پر
مکتبے کھولتے گئے جن سے اب تک دعوت جہاد کا اتنا کام ہوا ہے جس کی نظیر ماضی قریب
میں نہیں ملتی… لاکھوں کیسٹیں، لاکھوں کتابچے اور معتبر کتابوں کے لاکھوں نسخے …
ماشاء اﷲ لاقوۃ الاباﷲ … ظاہری طور پر سادہ نظرآنے والے ان افراد پر اﷲ تعالیٰ کا
خاص کرم ہے کہ اس نے ان کو دین کے تمام شعبوں کی فکر اور سمجھ عطاء فرمائی ہے…
ان
کے پاس تعلیم کا شعبہ ہے… اور ایک ایسا کورس بھی ہے کہ صرف پندرہ دن میں ایک
نومسلم کو اچھا خاصا باشعور مسلمان بنا دیتے ہیں … ان کے پاس تزکیہ کا شعبہ بھی
ہے… ماشاء اﷲ خوب روتے ہیں خوب آنسو بہاتے ہیں اور اپنے نفس کو سنوارنے کی فکر
رکھتے ہیں… ان کے پاس تربیت کا شعبہ بھی ہے… جو کافی وسیع ہے اگر بیان کروں تو میرے
قلم کے پر جلنے لگیں … اور حقیقت میں یہ عملی لوگ ہیں … مدرسے چلاتے ہیں، مساجد
آباد کرتے ہیں، ہسپتال چلاتے ہیں، مکتبے چلاتے ہیں، اجتماعات کرتے ہیں، اخبار اور
رسالے نکالتے ہیں، ویب سائٹس لانچ کرتے ہیں، زلزلہ زدگان اور مہاجرین کی مدد کرتے
ہیں، ذکر، تلاوت، تعلیم اور تزکیہ کی مجالس سجاتے ہیں، نمازکی دعوت دیتے ہیں، جہاد
کا شرعی مسئلہ بیان کرتے ہیں، تربیتی دورے
کرتے ہیں … دورہ تفسیر پڑھاتے ہیں … اور اپنی جانیں اﷲ تعالیٰ کو بیچ دیتے ہیں…
مجھے خوشی ہوگی کہ میں اپنی قربانی ان کے ساتھ کروں … ممکن ہے اس کا گوشت کسی خوش
قسمت شہید کا بچہ کھا لے … اﷲ اکبر کتنا مزہ آئے گا … یا اﷲ تعالیٰ کے راستے کا
کوئی مہاجر یا میدان کا کوئی جانباز مجاہد … ارے یہ لوگ تو ہمارے گھر آجائیں تو ہم
ان کی دعوت کے لئے بکرے کاٹ دیں … ’’الرحمت‘‘ والے ہماری دعوت خود ان کے گھروں تک
پہنچا آتے ہیں… اس لئے مالدار مسلمانوں سے میری گذارش ہے کہ … الحمدﷲ گھر میں کئی
کئی قربانیاں ہوتی ہیں اور گوشت کی کمی نہیں ہوتی آپ چند قربانیاں الرحمت ٹرسٹ
والوں کے ذریعے سے کرلیں… کراچی کے لوگ تو ماشاء اﷲ قربانیوں کا ذوق رکھتے ہیں …
امارت اسلامیہ کے پرنور زمانے میں کراچی کے ایک صاحب پانچ سو قربانیاں امارت اسلامیہ
کو بھجوایا کرتے تھے … الحمدﷲ ان کے مال میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ … برکت اور
اضافہ ہی ہو ا …اسی طرح اپنی قربانیوں کی کھالیں بھی ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کو جمع کروائیں
… ان کھالوں سے انشاء اﷲ دین کے بڑے بڑے کام ہوں گے تو آپ کے اجر میں اضافہ ہوگا …
اور آپ ایک مبارک تحریک کے وسیع دینی کاموں میں شریک ہوجائیں گے … ابھی سے نیت کریں
اور خود جاکر اور ڈھونڈ کر پہنچانے کی کوشش کریں … باقی اجر تو اﷲ پاک ہی دینے
والا ہے… واجرکم علی اﷲ … ٭٭
عید کی خوشی
٭ایک چھوٹا سا
کام
جسے کر کے آپ اپنی عید
کی خوشی کو دوبالا کرسکتے ہیں… اور خوشیاں بانٹ سکتے ہیں
٭انتخابی مہم کے
دوران تصاویر اور مجسموں کا استعمال
٭برُے ماحول میں
دین پر عمل کرنے کا بڑا اجر
تاریخ اشاعت ۳ذی الحجہ ۱۴۲۸ھ
۱۶؍دسمبر۲۰۰۷ء
شمارہ۱۲۶
عید کی خوشی
اﷲ
تعالیٰ رحم فرمائے ایسا لگتا ہے کہ ہم ہندوستان میں گھوم پھر رہے ہیں… جی ہاں! ہر
طرف بت ہی بت نظر آرہے ہیں… آخر سیاستدانوں کو یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی کہ وہ
مسلمان بھی ہیں اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے… کیا اسلام کا عمومی
مزاج اس قدر ’’بت سازی‘‘ کی اجازت دیتا ہے؟… میں جب پہلی بار ہندوستان گیا تو وہاں
کے بازار اور گلی کوچوں کو دیکھ کر دل کراہیت سے بھر گیا … بلکہ ’’یوپی‘‘ کے بعض
علاقوں کو دیکھ کر تو بہت گھِن آئی … ہر چوک پر کوئی مجسمہ، ہر گلی میں کوئی بت
اور ہر موڑ پر بڑی بڑی تصویریں… وہاں کے ہر بدصورت اور بدشکل لیڈر کی بس یہی خواہش
ہے کہ اس کا مجسمہ کسی جگہ لگادیا جائے … مجسموں، بتوں اور تصویروں کی نحوست سے
مسلمانوں کا سانس بند ہونے لگتا ہے … مگر اس وقت تو پاکستان کا ہر شہر رنگ برنگے
بتوں سے عجیب منحوس منظر پیش کر رہا ہے… ہر سیاسی پارٹی نے بڑے بڑے تصویری سائن
بورڈ ہر طرف لگا دیئے ہیں … فضا میں عجیب گھٹن اور ہوا میں زہریلی آلودگی محسوس ہو
رہی ہے… میں نے ارادہ کیا تھا کہ الیکشن اور انتخابات کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں
گا … مگر اس موضوع پر یہ چند الفاظ اس لئے لکھ دیئے کہ ممکن ہے کوئی عمل کرلے …
انتخابی امیدواروں سے گذارش ہے کہ تصاویر اورمجسموں کو اتنا نہ پھیلائیں … اور اس
بات کا خیال رکھیں کہ ان مجسموں اور تصویروں پر خرچ ہونے والے مال کا ان کو حساب دینا
ہوگا … یہ بات ٹھیک ہے کہ اس وقت غفلت اور تصویر بازی کا دور دورہ ہے… مگر اسلام
کے احکامات اور اسلام کا مزاج بالکل واضح ہے اور غفلت کے اس دور میں جو شریعت پر
عمل کرے گا اس کو بہت زیادہ اجر ملے گا … حدیث شریف کی کتابوں میں دو آدمیوں کا
واقعہ مذکور ہے ایک بار یہ دونوں بازار میں تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:
ہمیں چاہئے کہ ہم غفلت کے اس ماحول میں اﷲ تعالیٰ سے استغفار کریں … چنانچہ دونوں
استغفار میں لگ گئے… پھر ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا، دوسرے صاحب نے انہیں خواب
میں دیکھا تو وہ فرما رہے تھے کہ اس شام کے عمل پر اﷲ تعالیٰ نے ہم دونوں کی بخشش
فرمادی ہے…
بازار
کے غفلت والے ماحول میں دو مسلمانوں کا توبہ استغفار اور اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں
مشغول ہونا، اﷲ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ ان دونوں کی بخشش کردی گئی … اﷲ اکبر
کبیرا… غفلت کے ماحول میں شریعت پر قائم رہنا اﷲ تعالیٰ کو کتنا محبوب ہے… ملاحظہ
فرمائیے اس واقعہ کا اصل متن ۔
عن
ابی قلابۃ رضی اﷲ عنہ قال: التقی رجلان فی السوق، فقال احدہما للآخر: تعال نستغفراﷲ
فی غفلۃ الناس ففعل فحمات احدہما، فلقیہ الآخر فی النوم فقال: علمت ان اﷲ غفر لنا
عشیۃ التقینا فی السوق۔ (رواہ ابن ابی الدنیا وغیرہ (الترغیب))
معلوم
ہوا کہ مسلمان کو ماحول کا بہانہ بنانے کی بجائے ماحول کو بدلنے کی ہمت اور محنت
کرنی چاہئے … زمانہ جس قدر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور مبارک سے دور ہوتا
جارہا ہے اس قدر اس میں فساد زیادہ ہو رہا ہے… مگر فساد کے زمانے میں عمل کا اجر
بھی بڑھتا چلا جارہا ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
للعامل
فیہن مثل اجر خمسین رجلا یعملون مثل عملہ
یعنی
جب دنیا میں فساد زیادہ ہوجائیں گے، لوگ بخل، نفس پرستی، خود رائی اور دنیاداری میں
لگ جائیں گے اس وقت جو دین پر عمل کرے گا
اسے پچاس عمل کرنے والوں کا اجر ملے گا … اور بعض روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام
جیسا اجر ملے گا … (مقام نہیں اجر) … اور ایک روایت میں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فتنوں کے زمانے میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور فرمانبرداری کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی
طرف ہجرت جیسا قرار دیا … سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان العظیم … معلوم ہوا کہ ماحول کی
خرابی کا شور مچا کر حرام کو حلال نہ کیا جائے بلکہ دین پر ثابت قدمی کی ہمت اور
محنت کی جائے … جمہوری انتخابات میں جو مسلمان حصہ لیتے ہیں وہ بھی ماحول سے متاثر
نہ ہوں بلکہ … اہم اسلامی احکامات کی پاسداری کریں اور بڑے بڑے مجسمے، تصویریں
اوربت بنا کر اپنے دین کو خطرے میں نہ ڈالیں … موجودہ ماحول کے اعتبار سے یہ ایک
چھوٹی سی بات ہے مگر حقیقت میں یہ ایک چھوٹی اور سطحی بات نہیں ہے… بلکہ اس سے ایک
مسلمان کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں اسلامی احکامات کی کتنی قدر موجود
ہے …
ادھر
الحمدﷲ عیدالاضحی کا دن بھی قریب ہے… اور حجاج کرام کے قافلے بھی حرمین شریفین کی
طرف رواں دواں ہیں … ہم تمام مسلمان ابھی سے اس بات کا عزم کرلیں کہ انشاء اﷲ ہم عید
کا دن غفلت میں نہیں گزاریں گے بلکہ … اپنی اس عید کو اپنے لئے ایک ’’یادگار‘‘ عید
بنائیں گے … جی ہاں ’’یادگار‘‘ عید وہ ہوگی جو آخرت میں خوب کام آئے … جب ہم اپنے
’’اصل وطن‘‘ میں ہوں گے اور نہ ختم ہونے والی زندگی شروع ہوجائے گی … عید کے دن
کون کون سے کام مسنون ہیں؟ … ہم ’’تحفۂ ذی الحجہ‘‘ نامی کتابچے میں پڑھ لیں اور
پھر محبت کے ساتھ درود شریف پڑھتے جائیں اور عشق کے ساتھ ایک ایک سنت کو پورا کرتے
جائیں … ہم اس سال اپنی استطاعت کے مطابق خوب بڑھ چڑھ کر اچھی سے اچھی قربانی کریں
… یہ بری بات ہے کہ جیب میں موبائل سیٹ پندرہ ہزار کا اور قربانی کے لئے تین ہزار
… مہنگا موبائل سیٹ ہماری ضرورت نہیں وہ تو محض ایک فضول عیاشی اور بے کار نمائش
ہے جبکہ قربانی تو ہماری ضرورت ہے… یہ تو ہمارے بہت کام آئے گی انشاء اﷲ … اس لئے
موبائل سیٹ سستا ہوجائے اور قربانی قیمتی اور بہترین ہوجائے تو یہ نفع کا سودا ہے
اور عقلمندی والی بات …
ہم
میں سے بعض افراد عید کے دن قرآن پاک کی تلاوت کا ناغہ کردیتے ہیں … اﷲ کے بندو! یہ
تو وفاداری والی بات نہ ہوئی … خوشی کے دن تو خوشی والے کام کرنے چاہئیں اور اﷲ
پاک کے کلام کی تلاوت تو بہت خوشی والا عمل ہے… کہاں ہم چھوٹے، حقیر اور ناپاک اور
کہاں اﷲ عظیم وجلیل کا پاک کلام … یہ تو اس کا احسان ہے کہ ہمیں پڑھنے کی اجازت دی…
اور اس پڑھنے کو ہمارے لئے دنیا آخرت کی خوشی کا ذریعہ بنایا … بس اے بھائیو
اوربہنو! عید کے دن تلاوت کا ناغہ نہ ہو … خوب گوشت کھاؤ، خوب ملو جلو، خوب کباب
بناؤ پلاؤ پکاؤ جوس پیو … مگر تلاوت بھی کرلو … اور اگر تمام گھر والے اکٹھے بیٹھ
کر تلاوت کرلو گے تو خوب لطف آئے گا اور خوب اجر ملے گا …
اور
اے مسلمان بھائیو اور بہنو! اس عید پر ایک چھوٹا سا کام تو کرلو … انشاء اﷲ آئندہ
آنے والے مسلمان تمہیں دعائیں دیں گے … اور تم بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائو گے
جنہوں نے دین سے ’’بدعات‘‘ کی جھاڑیوں کو دور کیا … اور سنت کے نور کی حفاظت کی …
عید کے دن نئے کپڑے، نیا جوڑا، نیا جوتا مسلمانوں نے ضروری سمجھ لیا ہے … اور اس کی
وجہ سے بہت سی خرابیوں نے جنم لے لیا ہے… آپ عید کے دنوں پر درزیوں کی دکانوں پر
جائیں … یا کپڑے کی مارکیٹ کو دیکھیں تو ہر طرف شیطان ناچتا نظر آتا ہے … درزیوں
اور دکانداروں کی نمازیں ضائع ہو تی ہیں … عید الفطر پر ان سب کا رمضان المبارک کا
آخری عشرہ ضائع ہوتا ہے… غریب لوگ نئے جوڑے اور جوتے کے لئے قرضہ اٹھاتے ہیں … اور
جن کے بچوں کو یہ چیز میسر نہ آئے وہ ناشکری کی آہیں بھرتے ہیں … معلوم ہوا کہ ایک
بے ضرر سی چیز اب کتنی خوفناک شکل اختیار کر تی جارہی ہے … اس لئے ہم عید کے موقع
پر ’’نیا جوڑا، نیا جوتا‘‘ کی رسم کو بالکل چھوڑ دیں … بس اپنے لباس میں سے جو
اچھا جوڑا ہو اس کو دھو کر پہن لیا کریں اور یہی معاملہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی کریں
… اور جوتا تو کوئی ایسی چیز ہی نہیں کہ اس کی زیادہ فکر کی جائے اپنے استعمال
والے جوتے کو دھو لیں یا پالش کرکے چمکا لیں… آپ یقین کریں آپ کے اس عمل سے کتنے
مسلمانوں کو فائدہ ہوگا اور آپ کو کوئی کمی محسوس نہیں ہو گی … طویل عرصہ ہوگیا کہ
ہم نے الحمدﷲ عید پر نیا جوڑا نہیں پہنا اور نئے جوتے کا تو تصور بھی نہیں مگر
الحمدﷲ عید بہت اچھی گزر جاتی ہے… اور آج تک کسی نے راستے میں روک کر نہیں پوچھا
کہ نیا جوڑا کیوں نہیں پہنا؟ … نیا جوتا کہاں ہے؟ … اﷲ کرے اس سال القلم کے تمام
قارئین … اور ہمارے تمام ساتھی اس بات کا اہتمام کرلیں اور دو تین سال تک کرتے رہیں
تو انشاء اﷲ پورا ماحول ہی بدل جائے گا … اور مالدار لوگ غریبوں کے دلوں کا خون نہیں
کرسکیں گے… نیا جوڑا اس وقت بنایا جائے جب اس کی ضرورت ہو عید ہی کے موقع پر اس کا
التزام نہ کیا جائے … نیا جوتا بھی اس وقت خریدا جائے جب اس کی ضرورت ہو اس کے لئے
عید کا موقع خاص نہ کیا جائے بس یہ ہے وہ چھوٹا سا کام جو ہم اﷲ تعالی کی رضا کے
لئے اس عید سے شروع کردیں … اور ہم اپنا مزاج یہ بنالیں کہ شادی ہو یا غمی … عید
ہو یا کوئی سوگ سب سے پہلے ہمارا ذہن اس طرف جائے کہ اس میں اﷲ تعالیٰ کا حکم کیا
ہے؟ … اس میں جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ کیا ہے؟ … اگر ہمارا طرز عمل
یہ بن گیا تو ہمارے لئے دنیا آخرت دونوں آسان ہوجائیں گی … اور ہم انسانوں کی بنائی
ہوئی ظالمانہ رسومات کے غم اور اندھیرے سے بچ جائیں گے انشاء اﷲ…
٭٭٭
تکبیرات تکبیرات
عیدالاضحی کے ایام اﷲ
تعالیٰ کی بڑائی… یعنی تکبیر پکارنے کے ایام ہیں
تکبیرات کی گونج میں
چند ضروری باتیں
قربانی کی اہمیت
ان غریب مسلمانوں کو
تسلی جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے
تاریخ اشاعت ۱۰ذی
الحجہ ۱۴۲۸ھ
۲۱؍ دسمبر ۲۰۰۷ء
شمارہ۱۲۷
تکبیرات تکبیرات
اﷲ
تعالیٰ کو جن دس دنوں میں نیک اعمال زیادہ پسند ہیں … آجکل وہی دس دن چل رہے ہیں…
جی ہاں آج ذو الحجہ کی چار تاریخ ہے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
ہے:
ما
من ایام العمل الصالح فیہن احب الی اﷲ من ہذہ الایام العشرۃ (صحیح بخاری)
یعنی
اﷲ تعالیٰ کو عمل صالح جتنا ان دس دنوں میں محبوب ہے اتنا کسی دوسرے دن میں نہیں …
اﷲ اکبر کبیرا … خوش نصیب ہیں وہ مجاہد جو ان دس دنوں میں اپنی جان اور مال کے
ساتھ جہاد فی سبیل اﷲ کا فرض ادا کر رہے ہیں… پرسوں بھی اخبار میں ایک فدائی کی
ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے والی گاڑی کی تصویر تھی… اس اﷲ کے عاشق بندے نے قندھار میں نیٹو
کے قافلے سے خود کو ٹکرادیا … اﷲاکبرکبیرا… قربانی کے مہینے میں اپنی جان کی قربانی
دے دی اور ہر غم اور مصیبت سے پاک ہوگیا … شہید کو نہ حساب کتاب کی فکر اور نہ قبر
کی پوچھ تاچھ کا غم ، بس ادھر آنکھ بند ہوئی اور ادھر رحمتوں کے دروازے کھل گئے …
اور شہید ان رحمتوں کے مزے میں کھو گیا …
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
دراصل
ذو الحجہ کا مہینہ اﷲ تعالیٰ کی تکبیر یعنی بڑائی بلند کرنے کا مہینہ ہے خوب زیادہ
تکبیر، خوب زیادہ اﷲاکبر… ان دنوں تو ہمیں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ’’تکبیر‘‘
بلند کرنی چاہئے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
زبان
سے بھی اﷲ اکبر … اور دل سے بھی اﷲ اکبر … سب سے زیادہ خوش نصیب تو فدائی مجاہدین
ہیں جو کفار ومشرکین کے خلاف برسرپیکار ہیں … اور وہ بھی خوش نصیب ہیں جو ان مجاہدین
کی خدمت اور ترتیب میں صبح شام مشغول ہیں … کیونکہ جہاد ایک اجتماعی فریضہ ہے اور
اجتماعی کام میں اگر روٹیاں پکانے والا بھی غائب ہوجائے تو نظام درہم برہم ہونے
لگتا ہے… اس لئے سب کو خوشخبری ہے کہ سب اجر کے مستحق ہیں … انشاء اﷲ… اور جو حج
کرنے پہنچ گئے اور جو جانے والے ہیں انہوں نے بھی بہت کچھ کمالیا اور عشق کا رستہ
پالیا…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
اور
ہم یہاںپیچھے رہ جانے والے حاجیوں کے لئے دعاء کریں … اور مجاہدین کے لئے بھی خوب
دعاء کریں … یوں ہم بھی ان کے عمل کی کچھ خوشبو پالیں گے … ویسے بھی آج کل جو دن
چل رہے ہیں وہ تو اﷲ تعالیٰ کی خاص سخاوت کے دن ہیں …
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
ان
دنوں میں کعبۃ اﷲ پر خصوصی انوارات نازل ہوتے ہیں … ان دنوں خون اور جان دینے
والوں کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے … ان دنوں منیٰ، عرفات اور مزدلفہ پر خاص تجلیات
نازل ہوتی ہیں … ان دنوں بخشش کے عجیب مناظر ہوتے ہیں … بندے اپنا سب کچھ پیش کرتے
ہیں اور انہیں اپنے رب کی طرف سے سب کچھ مل جاتاہے … تھوڑا سا غور کریں … حضرت
ابراہیم علیہ السلام کا امتحان تو بہت عرصہ سے چل رہا تھا مگر اس امتحان کی تکمیل
کب ہوئی… جی ہاں یہی ذوالحجہ کا مہینہ تھا … اور اس کی دس تاریخ …
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
وہ
مسلمان جن کے دل زندہ ہیں ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر ہی بیدار ہوچکے ہیں … دن کا
روزہ اور رات کو حسب استطاعت عبادت … اور نہیں تو گناہوں سے حفاظت … کیونکہ یہ
حرمت والا مہینہ ہے اس کے دن خوشبودار اور راتیں ایسی معطر کہ اﷲ پاک نے قرآن مجید
میں ان کی قسم کھالی ہے… والفجر ولیال عشر … اسلامی سال کا آخری مہینہ … حج اور
قربانی والا مہینہ … وہ مہینہ جس میں اﷲ تعالیٰ کو یہ بات زیادہ پسند ہے کہ اس کے
بندے اس کی بڑائی اور تکبیربلند کریں …
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
خوش
نصیب مسلمان جیب میں نوٹ ڈال کر قربانی کے جانور خریدتے پھرتے ہیں … دنبے، بکرے،
گائے، بھینس اور اونٹ … ہر طرف منڈیاں لگی ہوئی ہیں … مالدار تو کئی کئی خرید رہے
ہیں جبکہ غریب بھی پوری محبت کے ساتھ بڑی قربانیوں میں حصے ڈال رہے ہیں… ہر ایک کے
دل میں ایک ہی آواز ہے کہ… ہمارے رب نے قربانی مانگی ہے تو ہم حاضر ہیں ، ہم حاضرہیں
…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
مسلمان
عورتیں اپنے خاوندوں کو اپنی چوڑیاں دیکر کہتی ہیں کہ ان کو بیچ کرمیری طرف سے
قربانی کا انتظام کردیں … ارے زیور؟ … جی رب نے قربانی مانگی ہے اور قربانی ہوتی ہی
وہ ہے جس میں کچھ ’’قربان‘‘ کیا جائے … زیور تو گل سڑ جائے گا … جبکہ قربانی کا
جانور قیامت کے دن زندہ کرکے لایا جائے گا تب اس کا ایک ایک بال اس مشکل دن کام
آئے گا … بہنیں اپنے بھائیوں سے کہہ رہی ہیں بھیا میری قربانی … اور بیٹیاں اپنے
والدین کے ساتھ سر جوڑ کر قربانی کی ترتیب بنا رہی ہیں … یہ ہے اسلام کی شان اور یہ
ہے اس امت کا حسن
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا … قربانی کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی … اور عید
کے دن قربانی سے زیادہ محبوب عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہیں ہے … آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم نے مدینہ منور ہ کے دس سال مسلسل قربانی فرمائی … اور اپنی امت کی طرف
سے قربانی فرماتے رہے … آپ کی یہ نسبت آگے چلی تو صحابہ کرام نے اسے زندہ رکھا اور
حضرت علی رضی اﷲ عنہ پوری زندگی … حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی
کرتے رہے …آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہی دین آج بھی زندہ ہے… اور کامیابی کل بھی اسی
دین میں تھی … اور آج بھی اسی دین میں ہے … دنیا اپنے پاگل پن کو ترقی سمجھتی ہے
تو سمجھتی رہے … ہماری ترقی تو یہی ہے کہ ہم اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ
جڑے رہیں … اور عید کا دن آئے تو ہم بھی ان کی طرح قربانی کرتے ہوئے نظر آئیں …
پورے عشق کے ساتھ، پورے جوش کے ساتھ
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
وہ
مسلمان جن کے پاس قربانی کی واقعی استطاعت نہیں ہے وہ بالکل غم نہ کریں … ان کی
غربت خود ایک قربانی ہے… اور غریب کی شان امیر سے بہت اونچی ، بہت بلند ہے … اس
لئے امت کے غرباء فقراء بالکل غم نہ کریں … وہ دل میں نیت کرلیں کہ یارب! اگر آپ
ہمیں مال دیں گے تو ہم اس میں سے ضرور قربانی کریں گے … ہم اس کو جہاد پر لگائیں
گے … ہم اس میں سے زکوٰۃ خیرات، صدقات دیں گے … اور اس میں سے ’’ہدیے‘‘ دیں گے …
ان کی یہ نیت ان کو بہت اونچا لے جائے گی … یاد رکھیں اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر خوشی
خوشی راضی ہوجانا ایک ایسی عبادت ہے جس کے مقابلے کی عبادت کوئی نہیں … اس لئے غریب
بھی اپنی حالت پر خوش ہو کر، عشق اور جوش کے ساتھ ان دنوں اﷲ تعالیٰ کی تکبیر بلند
کریں …
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
ہم
سب اسی وقت کامیاب ہوں گے جب ہم اپنے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتوں کو مانیں
گے … اور ان کے طریقے پر چلیں گے … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر
غریبوں اور یتیموں کا کتنا خیال رکھا … ہم بھی یہی طریقہ اختیار کرلیں … چپکے چپکے
غریبوں کے گھر قربانی کا جانور پہنچا آئیں … یا عید کے دن پورے احترام کے ساتھ
پہلے ان کو گوشت دے آئیں … ہم عید کے دن شہداء کرام کی ماؤں سے ڈھیروں دعائیں لے
آئیں … اور ہم یتیم بچوں کے لئے اپنے بچوں جیسے کپڑے، جوتے بنائیں … بس اے
مسلمانو! ہم میں سے مال والوں کو یہ فکر لگ جائے کہ ان کا مال صرف ان کے لئے نہیں
ہے … اس مال میں بڑے بڑے حقوق ہیں اور بڑی ذمہ داریاں… ہم نے وہ حقوق ادا کردیئے
تو یہ مال جنت کا پھل ہے اور وہاں کی نہریں … اور اگر وہ حقوق ادا نہ کیے تو یہ
مال قبر کا اژدہا ہے اور جہنم کا کالا سانپ … یا اﷲ حفاظت فرما … یا اﷲ حفاظت فرما
…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
ہم
سے پہلے بہت لوگ اس دنیا میں رہتے تھے … آج ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے … وہ سب مر
گئے ہیں اور ان میں سے کئی لوگوں کی قبریں تک مٹ چکی ہیں … بس چند دنوں میں ہم بھی
قبروں میں جا سوئیں گے … سب مال، دُکان، مکان یہاں رہ جائیں گے… مرنے کے بعد ہمیں
پتہ چلے گا کہ وہاں نیک اعمال کی کتنی قدر ہے؟ … انسان تمنا کرے گا کہ مجھے زمین
پر واپس بھیجا جائے میں اپنی ساری دولت قربان کردوں گا … اور ایک لمحہ بھی ذکر سے
غافل نہیں رہوں گا … مگر جانے کے بعد واپسی نہیں ہوگی … پوچھا جائے گا کہ زندگی کیسے
گزاری؟… جوانی کن کاموں میں گزاری؟… مال کہاں سے کمایا کہاں لگایا؟… قبر کی تنہائی
اور آخرت کی منزلوں کی گہرائی اور مشکل مشکل سوالات… اگر آج ہم میں سے کسی کو تیس
ہزار فٹ اونچا اڑنے والے جہاز سے زمین پر گرا دیا جائے تو ہمارا کیا حال ہوگا… دنیا
سے برزخ اور آخرت کی منزلیں تو اس بھی زیادہ دور ہیں…اخلاص سے کیا ہوا ایک ایک عمل
کام آئے گا… کیا اس وقت ہمارے نامۂ اعمال میںا یک ایسی عید ہوگی جس میں ہم نے کوئی
گناہ نہیں کیا ہوگا؟… یہ بات آج ہمیں سوچ لینی چاہیے کیونکہ ابھی ہم زندہ ہیں۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
ایک
ایسی عید جو قیامت کے دن ہمیں مسکرا کر سہارا دے… اور جو جنت میں ہمارے ساتھ رہے…
ایک ایسی عید جس میں خوشیوں کی مسکراہٹ کے ساتھ چند آنسو بھی ہوں… جو گناہوں سے
استغفار کرتے ہوئے ٹپکے ہوں… جو اسیران اسلام کی رہائی کی دعا کرتے ہوئے گرے ہوں…
جو اپنے شہداء ساتھیوں کو ایصال ثواب کرتے ہوئے مچل پڑے ہوں…جو اﷲ تعالیٰ کی
نعمتوں اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے اظہار تشکر میں برس پڑے ہوں… یا جو فلسطین،
افغانستان، عراق، کشمیر اور برما وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں اورجانباز مجاہدوں کے
لئے دعائیں کرتے ہوئے گرے ہوں۔
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
ایک
ایسی عید جس پر ہمیں یاد رہے کہ ہم مسلمان ہیں… اس لئے ہم کوئی غیر اسلامی حرکت نہ
کریں… دن کا آغاز فجر کی باجماعت نماز سے ہو… اور پھر غسل ، خوشبو، سرمہ، عمامہ،
مسواک، پاک کپڑے اور زبان پر تکبیر، دل میں تکبیر… عیدگاہ کی طرف عشق کے ساتھ جلدی
روانگی، پہلی صف میں عید کی نماز توجہ اور خشوع کے ساتھ… اور پھر قربانی… مسلمانوں
کی غم خواری… اہل خانہ کے حقوق کی ادائیگی۔
دین اور جہاد کی محنت … والدین کی خدمت …
اپنے بیوی بچوں کی دلداری … تمام نمازیں باجماعت مسجد میں … قرآن پاک کی تلاوت اور
زبان، دل اور نظر کی حفاظت … یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ … رب تعالیٰ کی دعوت
حلال گوشت کے مزے اور دل کی گہرائیوں سے شکر … اور غفلت سے حفاظت
کیا
یہ سب کچھ ایک دن میں ممکن ہے؟ … جی ہاں جن کی قسمت اچھی ہو ان کے لئے تو اس سے بھی
زیادہ ممکن ہوجاتا ہے… کیونکہ بے شک ہم چھوٹے ہیں، دن بھی چھوٹا ہے مگر رب تعالیٰ
تو بڑا ہے، بہت بڑا ہے سب سے بڑا ہے…
اَللّٰہُ
اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلـٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ
الْحَمْدُ
٭٭٭
دعاء رحمت
٭ کچھ دیوانے، اﷲ والے جو بہت کچھ کما رہے ہیں،
بہت کچھ پا رہے ہیں
٭ ہم نے نے گائے پہنچادی ہے… ؟
٭ حضرت مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کا مشورہ کہ
حاسدوں کو اور جلاؤ
٭ حکیم العصر حضرت لدھیانوی شہیدؒ کی ایک اہم نصیحت
تاریخ اشاعت ۱۷ ذی
الحجہ ۱۴۲۸ھ
بمطابق ۲۸؍دسمبر
۲۰۰۷ء
شمارہ ۱۲۸
دعاء رحمت
اللہ
تعالیٰ کا احسان ہے کہ عید الاضحی خوب شان سے آئی… ہم پاکستان والوں نے صبح عید کی
نماز ادا کی، خوب لطف پایا اور پھر بارہ بجے سے جمعہ کی تیاری شروع ہوگئی اور جمعۃالمبارک
کی پرسکون نماز نصیب ہوئی… مسلمانوں میں قربانی کا جوش تھا ہر طرف جانور ذبح ہورہے
تھے اور تکبیر کی معطّر آوازیں گونج رہی تھیں… اللہ کرے عالم اسلام کو اجتماعی
طور پر یہ خوشیاں بار بار نصیب ہوتی رہیں اور مسلمانوں کو اپنی حکومت، اپنا نظام
اور اپنے حکمران نصیب ہوں… فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر اس سال بھی خون میں
نہایا رہا… اور کئی مسلمان اس سال بھی
آزادی اور حفاظت کی دعائیں مانگتے رہے…
اور اسیران اسلام سلاخوں کے پیچھے سسکتے رہے… ہاں جن لوگوں نے اپنی جانیں
اللہ تعالیٰ کو بیچ کر جہاد اور شہادت کے راستے کو اختیار کرلیا ہے وہ سب سے اچھے
رہے… ان کو ایمان نصیب ہو ا ا ور امن بھی… ساری دنیاموت سے ڈرتی ہے جبکہ یہ لوگ
موت سے عشق رکھتے ہیں… بس اسی لئے ان پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ کوئی ڈر…
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ … بارک اﷲ لھم…
عید
سے پہلے سب لوگ اپنی فکروں میں تھے جبکہ ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے مخلص اور جانباز کارکن
اسلام اور امتِ مسلمہ کی فکر میں لگے ہوئے تھے… انہوں نے عزم کر رکھا تھا کہ اس
سال قربانی کا گوشت دور دور تک پہنچائیں گے… ہاں اُن فاتحین کے گھروں تک بھی جو
افغانستان کی زمین پر امریکی بمباری کا نشانہ بنے اور اپنے پیچھے پیارے پیارے سرخ
سفید مسلمان بچے چھوڑگئے… اور مقبوضہ کشمیر
کے اندر تک بھی… اور اُن خیموں تک بھی
جہاں مسلمانوں کی عزت کے مینار سردیوں کی راتیں گزارنے پر مجبور ہیں… الرحمت ٹرسٹ
کے جانباز پورے ملک میں پھیل گئے… نہ تھکاوٹ کی پرواہ نہ جھوٹے پمفلٹوں کا کوئی غم
… کوئی کم عقل لاکھ بار مجاہدین کو ایجنسیوں
کا ایجنٹ کہتا رہے زمین خود ’’اہل ایمان‘‘ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے… سب لوگ اپنے
گھروں کی قربانی کا سوچ رہے تھے جبکہ الرحمت ٹرسٹ کے جانباز شہداء، اسیران، مجاہدین… اور مہاجرین کے گھروں کے لئے خوشیاں جمع کر رہے
تھے… اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو نظر بد سے
اور تفرقے سے بچائے رکھے آپ حضرات نے بہت کچھ کما لیا… بہت کچھ پا لیا۔
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ …
بارک
اﷲ لکم… بارک اﷲ فیکم…
یہ
ایک عجیب اور دلکش محنت تھی… کارکن اپنے
اپنے علاقوں سے قربانی جمع کرکے ایک طے شدہ مرکز میں بھجوا رہے تھے… اور وہ مرکز یہ قربانیاں مستحقین تک پہنچانے
کے لئے مختلف ذمہ داروں کو ’’وکیل‘‘ بنا رہا تھا…
اور ساتھ ساتھ یہ پیغام اور وارننگ بھی نشر کی جارہی تھی کہ… اے بھائیو! مسلمانوں نے ہم پر اعتماد کیا ہے
اور اپنی واجب قربانیوں کے لئے ہمیں وکیل بنایا ہے… پس آپ حضرات ایک ایک قربانی کو ادا کرنے کے
لئے اسطرح محنت کریں جس طرح اپنی ذاتی واجب قربانی ادا کرنے کیلئے کرتے ہیں… اور یاد رکھیں اگر ایک قربانی بھی رہ گئی تو یہ
بڑا وبال والا کام ہوگا… اگر اتفاق سے کوئی
قربانی وقت پر ادا ہوتی نہ محسوس ہو تو فوراً مرکز میں اطلاع دیں… مرکز وہ قربانی اُسی وقت ادا کردیگا… اِدھر یہ اعلان نشر ہورہا تھا اور اُدھر دھڑا
دھڑ قربانیاں تقسیم ہو رہی تھیں… الحمدللہ
ان اللہ والوں نے اس سال تین ہزار ایک سو تینتیس (۳۱۳۳) قربانیاں
اتنی دور دور تک تقسیم کردیں کہ اُن مقامات کے نام لکھنا ٹھیک نہیں اور اس کے
علاوہ سینکڑوں قربانیاں اجتماعی طور پر کراچی، بہاولپور اور کوہاٹ میں کی گئیں۔
ماشاء
اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ … بارک اﷲ لھم…
میرے
محبوب استاد حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب شہیدؒ نے ایک بار مجھ سے فرمایا
حاسدین کے حاسدانہ الزامات کی زیادہ صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے… بلکہ جو لوگ دین
کے کام پر جلتے ہیں اور دین کے خادموں پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں اُن کو مزید
جلانا چاہیئے… بس اپنا دامن صاف رکھو اور حاسدوں کو جلاتے رہو، جلاتے رہو… وہ اگر
کہیں کہ سنا ہے گاڑی خریدی ہے تو جواب دو ایک نہیں دو تین خرید رہے ہیں… اگر کہیں
کہ سنا ہے مکان بنایا ہے تو ان کو کہو جی چھوٹا سا بنایا ہے اور بڑے کی تلاش جاری
ہے… اللہ اکبر کبیرا… بڑے مکان کی تلاش
جاری ہے جنت کے بڑے مکان کی، بہت بڑے مکان کی…
اللہ پاک نصیب فرمائے۔
حضرت
مفتی صاحب شہیدؒ بڑے آدمی تھے… ہم وسعت ظرفی میں اُن کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے
تھے… اب انکی بات پر آدھا عمل کرتے ہوئے
اجتماعی قربانی کی اصل مقدار عرض کر رہا ہوں… بڑھا چڑھا کر نہیں… الرحمت ٹرسٹ
والوں کے مطابق اس سال ایک کروڑ ایک لاکھ اٹھہتر ہزار (۱۰۱۷۸۰۰۰) کی
قربانیاں تقسیم کی گئیں، جبکہ کل بہتر لاکھ باون ہزار کی مقامی اجتماعی قربانیاں کی
گئیں… یعنی کل پونے دو کروڑ۔
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ … بارک اﷲ لھم…
اچھا
پہلے ایک حدیث شریف سن لیں اور پھر ایک سچا واقعہ، حدیث شریف تو یہ ہے کہ حضور
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو
شخص اپنے کسی بھائی کے کام کے لئے چل کر جاتا ہے تو اس کا یہ عمل دس سال کے اعتکاف
سے افضل ہے اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہے
اللہ تعالیٰ ا سکے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں، ہر خندق زمین
و آسمان کی مسافت سے زیادہ چوڑی ہے… ایک
روایت میں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے ساتھ اسکی ضرورت پوری کرنے کیلئے
چلے پھرے، آپ ﷺ نے اپنی مسجد نبوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ (یہ عمل) میری
اس مسجد میں دو ماہ اعتکاف کرنے سے افضل ہے۔
(رواہ الطبرانی
فی الاوسط والحاکم و قال صحیح الاسناد الی آخرہ الترغیب)
اب
ایک واقعہ سنئے… افغانستان میں امارت
اسلامیہ کے زمانے میں ایک بڑے مجاہد تھے جو اُدھر دور دریا کے پار سے آئے تھے،
بہت مضبوط، بہت بہادر… امیر المؤمنین نے اُن کے بارے میں بشارت کا خواب دیکھا
تواُنہیں ایک خوبصورت سا لقب دیا اور بہت سے مجاہدین کا کمانڈر بنا دیا… وہ شیروں کی طرح لڑتے تھے اور ماں کی طرح مجاہدین
کا خیال رکھتے تھے… پھر جب نیٹو افواج اور امریکہ نے امارت اسلامیہ پر حملہ کیا تو
وہ مزار شریف کے محاذ پر تھے… پھر ایک دن بمبار ی ہوئی اور وہ شہید ہوگئے… مجھے عید
کے دن ان کی یاد آئی میں نے فوراً الرحمت ٹرسٹ کے ایک ذمہ دار سے رابطہ کیا اور
پوچھا اُن کے گھر قربانی کا کیا بنا؟… فرمانے لگے ہم نے گائے پہنچا دی ہے۔
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ … بارک اﷲ لھم…
اجتماعی
قربانی کے معاملے میں پورے ملک میں الحمدللہ اچھا کام رہا مگر کراچی کے چار اضلاع
نے ماشاء اللہ امتیازی اجر کمایا…
الرحمت
ٹرسٹ والوں نے کراچی کے دس ضلعے حضرات عشرہ مبشرہ کے نام پر بنا رکھے ہیں… ان میں ضلع سیدنا عمرؓ اول، ضلع سیدنا ابوبکرؓ
دوم، ضلع سیدنا عثمانؓ سوم اورضلع سیدنا طلحہؓ چوتھے مقام پر رہے… جبکہ رحیمیار
خان، پشاور، سیالکوٹ، بہاولپور، راولپنڈی، فیصل آباد اور کوہاٹ بھی امتیازی اضلاع
میں شامل ہوگئے۔
پچھلے
سالوں میں سوات کا کام بھی بہت ’’عجب‘‘ شان والا تھا مگر اس سال وہاں حالات خراب
رہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے مسلمانوں کی نصرت اور حفاظت فرمائے اور حکمرانوں کو توفیق
دے کہ وہ اپنے علاقے فتح کرنے اور مسلمانوں پر آپریشن کرنے سے باز رہیں۔ ملک کے
کئی علاقوں میں حالات کی خرابی… اور بعض ناواقف لوگوں کی جھوٹی طعنہ زنی کے باوجود
’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے اپنی شرعی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مصروف
ہے۔
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ … بارک اﷲ فیھم…
حضرت
اقدس حکیم العصر مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہیدؒ بڑے صاحب بصیر ت بزرگ تھے… ایک
بار مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ مجھے اُن کی خدمت میں لے گئے… یہ حضرت کی زندگی کے
آخری ایام تھے… فرمانے لگے کہ انشاء اللہ جماعت کا کام تو خوب چلے گا بس مخالفت
کرنے والوں کی پرواہ نہ کریں اور اُن سے الجھ کر اپنی توانائی ضائع نہ کریں…
الحمدللہ حضرت کے اس فرمان کو پلّے باندھنے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی…
لوگوں نے عجیب عجیب طریقے پر تنگ کیا اور قوت برداشت توڑنے کی پوری کوشش کی … طرح
طرح کے پمفلٹ، الزامات، خطوط اور جھوٹی باتیں… الحمدللہ جماعت کا مالیات کا نظام
شریعت کے مطابق ہے اور مرکزی قیادت میں شامل ساتھی تک مقروض رہتے ہیں… ہمارے نزدیک
جہادی اموال سے ذاتی جائیدادیں بنانا کسی مسلمان کا کام ہو ہی نہیں سکتا… اور اجتماعی اموال میں خیانت بدترین جرم ہے…
مگر اس کے باوجود لوگوں نے مالی معاملات پر بھی انگلیاں اُٹھائیں… الحمدللہ اُن سے
الجھے بغیر شہداء اور غازیوں کا یہ قافلہ کام کرتا رہا اور کر رہا ہے… قربانی مہم
سے عید کی رات دس بجے ان جانبازوں نے ہاتھ جھاڑے تو اسی وقت ’’چرم قربانی مہم‘‘ میں
لگ گئے… چندہ اور صرف چندہ ان لوگوں کا کام نہیں…
انکے چندے کے آگے اور پیچھے دین کے بڑے بڑے کام ہیں… اور الحمدللہ… چندہ مہم میں بھی یہ خیال غالب
رہتا ہے کہ مسلمانوں کو مال کے ذریعے قربانی دینے اور اسلام کی خدمت میں شریک ہونے
کے مواقع فراہم کئے جائیں… حقیقت میں مال کوئی حیثیت نہیں رکھتا… اللہ پاک کے پاس خزانے ہی خزانے ہیں…
زمین خزانوں سے بھری پڑی ہے اور آسمان خزانوں سے اٹے پڑے ہیں… مال کی ہوس اور لالچ وہی لوگ کرتے ہیں جو آخرت
سے غافل ہیں… جبکہ دن رات شہادت کی دعائیں
مانگنے والے ان اللہ کے بندوں کو مال کی ہوس نہیں جنت کی لالچ ہے اور آخرت کی کامیابی
کاحرص…
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ … بارک اﷲ فیھم…
ٹرسٹ
کے ذرائع کے مطابق الحمدللہ… کھالوں کی مہم بھی اچھی رہی… کراچی کے اضلاع سیدنا
ابو بکر ؓ، سیدنا عمرؓ… نمایاں رہے جبکہ باقی ملک میں رحیم یار خان، کوہاٹ، سیالکوٹ،
بہاولپور، ضلع سیدنا سعدؓ کراچی، صوابی، ضلع سیدنا عثمانؓ کراچی … اور فیصل آباد میں الحمدللہ اچھاکام ہوا…
اللہ
تعالیٰ اُن تمام مسلمانوں کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اجتماعی قربانی اور
چرم قربانی مہم میں اس بابرکت، امانتدار اور عملی ادارے ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے ساتھ
شرکت کی… اور اللہ تعالیٰ اُن کارکنوں اور
ذمہ داروں کو اپنی محبت اور رحمت کی نظر نصیب فرمائے جنہوں نے خوب محنت اور اخلاص
کے ساتھ کام کیا… اور اب انکی نظریں آرام
کے بستروں پر نہیں اونچی منزلوں اور اونچے پہاڑوں پر ہیں…
ماشاء اﷲ لا قوۃ اِلّا باﷲ
بارک
اﷲ لھم، بارک اﷲ فیھم، بارک اﷲ علیھم
٭٭٭
آئینے کے سامنے
مورخہ ۲۷دسمبر
۲۰۰۷ء
راولپنڈی لیاقت باغ
کے سامنے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن
بے نظیر بھٹو… زخمی
ہونے کے بعد چل بسیں…
اس موقع پر لکھی گئی
ایک تحریر
تاریخ اشاعت ۲۴ذی
الحجہ ۱۴۲۸ھ
۵ جنوری ۲۰۰۸ء
شمارہ۱۲۹
آئینے کے سامنے
اﷲ
تعالیٰ ہی نے موت کو پیدا فرمایا اور زندگی کو بھی… ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الذی
خلق الموت والحیٰوۃ لیبلو کم ایکم احسن عملا وہو العزیز الغفور
(اﷲ تعالیٰ ہر چیز
پر قادر ہے) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کس کے
کام اچھے ہیں اور وہ غالب، بخشنے والا ہے… (الملک۲)
بی
بی بے نظیر صاحبہ بھی اپنی چون(۵۴)
سالہ زندگی کے اعمال ساتھ لے کر اس دنیا سے چل بسیں… اور ان
کی اچانک اور ناگہانی موت پر سب حیران ہیں… مگر اﷲتعالیٰ کا نظام غالب ہے اور اس
کے نظام میں کوئی ’’بے وقت‘‘ نہیں مرتا… بلکہ ہر کسی کی موت کا لمحہ، طریقہ اور
جگہ مقرر ہے… بے نظیر صاحبہ سیاسی لحاظ سے ایک بڑی شخصیت تھیں ان کی خون آلود موت
پر پورا ملک ہنگاموں، ہڑتالوں اور دنگوں کی لپیٹ میں ہے… آج چار دن ہوگئے مگر ابھی
تک بازار بند ہیں اور سندھ میں لسانیت پرستی کا اژدھا شعلے پھنکار رہا ہے … اسلام
نے عورت کو ایک بلند، حساس اور باعزت مقام عطاء فرمایا ہے چنانچہ ایک عورت کے قتل
پر اکثر لوگ دکھی ہیں … اسلام آباد میں کچھ عرصہ پہلے جامعہ حفصہؓ کی مظلوم بیٹیوں
کو گولیوں اور بموں کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا… دلوں میں آگ اس وقت بھی بھڑکی
مگر اس کا انداز مختلف تھا … وہ مظلوم بہنیں اسلامی اور مشرقی خواتین تھیں اور ان
کے پیچھے کوئی سیاسی پارٹی … اور صوبائی نعرہ بازی نہیں تھی … جبکہ بے نظیر صاحبہ
مغرب اور امریکہ کی پسندیدہ لیڈر تھیں اور ان کی پارٹی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے…
بہرحال اس وقت ملک جل رہا ہے، سندھ میں گھر لٹ رہے ہیں … غنڈوں اور بدمعاشوں کے
قافلے ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں … معصوم بچیاں ہاتھوں میں قرآن پاک اٹھا کر
غنڈوں سے اپنی عصمت کی بھیک مانگ رہی ہیں … سندھ میں سندھی نہ بولنے والے مسلمانوں
کی دکانوں کو جلایا جارہا ہے اور ان کی خواتین پر مجرمانہ حملے کیے جارہے ہیں …
گاڑیاں جل رہی ہیں، بینک لٹ رہے ہیں، ریل کی پٹریاں اکھاڑی جارہی ہیں … اور لوگوں
کو برسر عام مارا جارہا ہے… مگر وزیرستان اور سوات میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے
گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بمباری کرنے والی حکومت معلوم نہیں کہاں ہے؟ … کہاں ہیں
بمبار طیارے اور لمبے لمبے فوجی کانوائے؟… کہاں گئی حکومت کی شہرۂ آفاق رٹ؟ … اﷲ
تعالیٰ ہم مسلمانوں پر اور اہل پاکستان پر رحم فرمائے یہاں موت سستی ہوچکی ہے اور
زندگی مہنگی … اور امن تو گویا کہ ہم سے روٹھ چکا ہے… حکومت کہہ رہی ہے کہ بے نظیر
بھٹو کو القاعدہ اور قبائلی مجاہدین نے مارا ہے … اور حکومت نے ان کے فون بھی
فوراً سن اور پکڑ لیئے ہیں… حکومت کی دلیل یہ ہے کہ مجاہدین نے بے نظیر صاحبہ کو
عورت ہونے کی وجہ سے اور مغرب نواز ہونے کی وجہ سے مارا ہے… دوسری طرف قبائلی
مجاہدین کا دعویٰ ہے کہ بے نظیر صاحبہ کو خود حکومت نے قتل کیا ہے… اور ہمارا اس
قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے… ان کا کہنا ہے کہ اسلام عورت کے قتل کی عموماً اجازت نہیں
دیتا … حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین جب اسلامی لشکر کو
جہاد کے لئے روانہ فرماتے تھے تو اس لشکر کو ایک حکم یہ بھی دیا جاتا تھا کہ
عورتوں کو مت قتل کرنا … دوسری بات یہ کہ بے نظیر صاحبہ تو حکومت میں نہیں تھیں تو
وہ ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتی تھی کہ ہم اسے قتل کرتے … یہ اور اس طرح کے بہت سے
دلائل …
ادھر
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ قتل حکومت اور حکومت نواز سیاسی پارٹی نے کروایا ہے…
خلاصہ یہ کہ جانے والی تو چلی گئی اب پیچھے والے … اس کے قتل کا الزام ایک دوسرے
پر ڈال رہے ہیں … اور پاکستان متواتر جل رہا ہے اور فسادات کے زخموں سے کراہ رہا
ہے… اس میں شک نہیں کہ مجاہدین اور پاکستان کا دیندار طبقہ اس بات کو پسند نہیں
کرتا تھا کہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی صدر یا وزیر اعظم بنیں … اور یہ بات بھی ٹھیک
ہے کہ بے نظیر صاحبہ نے پچھلے دنوں امریکہ کو خوش کرنے کے لئے کئی متنازعہ بیانات
دیئے جن پر وہ شاید وزیر اعظم بن کر بھی عمل نہ کرسکتیں … مگر اس سے یہ تو ثابت نہیں
ہوتا کہ انہیں مجاہدین نے قتل کیا ہے… کیونکہ ملک کے ریٹائر فوجی حکمران صدر پرویزمشرف
نے بے نظیر کو ہمیشہ اپنا رقیب سمجھا … ایک بار انہوں نے جھلا کر فرمایا کہ بے نظیر
تو امریکہ اور مغرب کی ڈارلنگ بنی ہوئی ہے … اس پر بی بی سی نے ایک دانشور کا یہ
تبصرہ نشر کیا کہ صدر صاحب دراصل حسد میں مبتلا ہوچکے ہیں … وہ کئی سال سے بلاشرکت
غیرے امریکہ کی ’’ڈارلنگ‘‘ تھے مگر اب جبکہ امریکہ کا دل ان سے اکتا گیا ہے اور وہ
بے نظیر کو لانا چاہتا ہے تو صدر صاحب بے نظیر کو اپنی سوکن اور رقیب سمجھ رہے ہیں…
اس سے پہلے صدر صاحب اپنی اکلوتی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بھی بے نظیر
صاحبہ کو دل کھول کر گالیاں دے چکے ہیں … اور چند دن پہلے انہوں نے اس بات کا بھی
اعتراف کیا کہ بے نظیر کے ساتھ ان کے حالیہ سمجھوتے کے پیچھے امریکی دباؤ کار
فرماہے…
بہرحال
یہ ایک سنجیدہ اور گھمبیر مسئلہ ہے… بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایک تیر سے
تین شکار کرنے کی کوشش کی ہے… پہلا یہ کہ بے نظیر جیسی مضبوط سیاسی حریف کو راستے
سے ہٹا دیا گیا… دوسرا یہ کہ اس کا الزام مجاہدین کے سر ڈال کر ان کا گھیرا تنگ کیا
جائے… اور تیسرا یہ کہ انتخابات کو منسوخ کرکے ملک میں ’’صدرراج‘‘ کی راہ ہموار کی
جائے گی … اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے… پاکستان ہو یا
افغانستان، کشمیر ہو یا فلسطین، عراق ہو یا الجزائر مسلمانوں کے ہر ملک میں موت
بہت سستی اور زندگی بہت مہنگی ہوچکی ہے… مسلمانوں کے دشمن بہت طاقتور اور بدمست ہو
چکے ہیں اور وہ اس امت مسلمہ کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں… اس وقت مسلمانوں
کو ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جو خالص ان کا ہو… اور ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے
جو غیروں کے دباؤ سے آزاد اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والا بااخلاق اور بہادر انسان ہو…
زمین کا ایک ٹکڑا اور ایک مسلمان حکمران امت مسلمہ کی ضرورت ہے تاکہ خلافت کی وہ
گود آباد ہوسکے جس سے اسلام اور جہاد کے لشکر تیار ہوتے ہیں … آج ہر طرف موت ہی
موت ہے… سود سے خریدی گئی گاڑیوں کے روز ہونے والے ایکسیڈنٹوں میں بے شمار لوگ مر رہے
ہیں … فسادات اور دنگوں میں روزانہ درجنوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں … معلوم ہوا
کہ جہاد میں موت نہیں ہے… موت تو ہر جگہ اور ہر کام میں آجاتی ہے… بے نظیر بھٹو کی
موت میں بھی ہمارے لئے یہی سبق ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو کام کا بنائیں … اور ہر
وقت موت کے لئے تیار رہیں … مرنے کے بعد نہ بش کی دوستی کام آتی ہے اور نہ اقوام
متحدہ کی قرار دادیں … وہاں کا تو نظام ہی الگ ہے … آج ہر طرف لوگ قرآن خوانیاں کر
رہے ہیں … کیا ہی مزہ آئے کہ انسان اپنی زندگی میں ہر کام قرآن پاک سے پوچھ پوچھ
کر کرے… اور قرآن پاک کو اپنا رفیق بنائے …
کس
سے دوستی کرنی ہے اور کس سے نہیں؟ … قرآن پاک سے پوچھا اور سمجھا جائے … کیسی سیاست
کرنی ہے اور کیسی نہیں؟ یہ بھی قرآن پاک سے سیکھا جائے … کن سے ملنا ہے اور کن سے
لڑنا ہے؟ … یہ بھی قرآن پاک میں دیکھا جائے … کیا بش کی تعزیت ، کونڈا لیزا رائس
کے افسوس بھرے آنسو، اور ہیلری کلنٹن کا
خراج تحسین ایک فرض نماز کا بدل بھی ہوسکتا ہے؟ … مرنے کے بعد تو وضو، طہارت،
نماز، پردہ، حیا، غیرت، انصاف، زکوٰۃ، صدقات، جہاد، روزہ، حج وغیرہ اور ایمان کامل
کام آتا ہے نہ کہ قومی ایوارڈ اور عالمی برادری کا خراج تحسین… پیپلز پارٹی والوں
کو بھی چاہئے کہ خود کو لبرل، سیکولر اور مغرب پرست کہلوانے کو فخر نہیں عار سمجھیں…
اور پورے اخلاص کے ساتھ توبہ کرکے اسلام اور ملک کی خدمت کریں … آج پاکستان کو ایسے
حکمرانوں کی ضرورت ہے جو ’’بااخلاق‘‘ ہوں اخلاق کے معنیٰ بہت وسیع ہیں… خلاصہ یہ
کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہی اخلاق ہے… آج تو چور، غنڈے اور ڈاکو ملک کے
حکمران بنے ہوئے ہیں … ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے دل میں انسانوں کے لئے
پیار اور ایثار کا جذبہ ہو … آج ہر طرف دھاڑتے ہوئے پولیس افسروں، غراتے ہوئے ایجنسی
اہلکاوں، لوٹ مار کرتے ہوئے وزیروں اور غیروں کے ہاتھوں بکتے ہوئے حکمرانوں کے
ٹولے ہیں …
ہمیں
حالات کا کوئی شکوہ نہیں ہے … اﷲ تعالیٰ کو یہی منظور اور پسند تھا کہ ہم اس زمانے
میں پیدا ہوں … حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ
کونسا کوئی سنہری دور تھا۔ ہر طرف کفر تھا، شرک تھا، ظلم تھا… اور بے انصافی اور
قتل وغارت تھی … پھر اﷲ پاک نے اپنے آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دینِ حق دے کر
بھیجا تو صحابہ کرام رضوا ن اﷲ علیہم اجمعین نے اس نعمت کی قدر کی … اور ہر طوق
اپنے گلے سے نکال کر خود کو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا سچا غلام بنادیا … پھر اﷲ
پاک نے ان کو اپنی کتاب دی تو انہوں نے نعمت کی قدر کی… اور اپنی عقل، سوچ، قومی
رسومات کو ایک طرف کرکے کتاب اﷲ ہی کو اپنا رہنما بنالیا … بس پھر کیا تھا زمانہ
خود بخود بدلتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ’’خیرالقرون‘‘ بن گیا … پھر نہ
ابوجہل کی جہالت باقی رہی اور نہ روم و فارس کا ظلم اور بے انصافی… اﷲ پاک کا شکر
ہے کہ … رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دین اور فیض آج بھی اپنی اصل حالت میں ہمارے
پاس موجود ہے… اور کتاب اﷲ بھی اسی حالت میں موجود ہے جس پر وہ نازل ہوئی تھی، اس
میں ایک حرف یا لفظ کی تبدیلی نہیں ہوئی… پھر ہم زمانے کو کیوں نہیں بدل پا رہے؟ …
دراصل ہم میں دو چیزوں کی کمی ہے ایک قدردانی اور دوسری ہمت … جی ہاں ہم نے دین کی
قدر نہیں کی… اور ہمارے دل ہمت سے خالی ہیں… صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے روم وفارس
کو ایک مچھر کے برابر نہیں سمجھا جبکہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب امریکہ اور یورپ
کا مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے… صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے خود کو دین پر لگایا
جبکہ ہم نے خود کو دنیا پر قربان کیا ہوا ہے … ہمارے لئے ایکسیڈنٹ میں مرنا آسان
اور جہاد میں جانا پہاڑ کی طرح بھاری ہے… کسی کو بتایا جائے کہ رات کو ایک ہزار
بار درود شریف پڑھ لو تو وہ حیران ہوتا ہے کہ اتنا وقت کہاں سے لاؤں … جبکہ کمپیوٹر
پر ایک ویب سائٹ کھولنے میں تیس منٹ برباد کر دینا آسان ہے … اﷲ کے بندو! تیس منٹ
میں تو دو ہزار سے زائد بار درود شریف پڑھا جاسکتا ہے… مگر درود شریف تو قسمت والے
لوگ پڑھتے ہیں جن کے چہروں پر نور برستا ہے جبکہ آدھی رات کمپیوٹر پر انگلیاں پھیرنے
والے چہرے نور اور ایمان کی حلاوت سے محروم ہوتے ہیں… یہ ہماری ناقدری اور کم ہمتی
کی ایک چھوٹی سی مثال ہے… آخر وہ بھی انسانی ہاتھ تھے جنہوں نے بیت المقدس کو فتح
کیا … وہ بھی انسانی ہاتھ تھے جنہوں نے کافروں کے جرنیلوں کی گردنیں توڑیں … اور
وہ بھی انسانی ہاتھ ہوتے ہیں جو ایک شرمناک گناہ کے لئے تنہائی کی جگہ ڈھونڈتے
رہتے ہیں… اﷲ پاک کی مرضی کہ جس کو اونچی ہمت دے دے اور جس سے چاہے اس کے اعمال کی
بدولت ہمت چھین لے …
اﷲ
پاک ہم سب کو دین کی قدر … اور جہاد فی سبیل اﷲ کی ہمت عطا فرمادے… بے نظیر بھٹو
کے قتل پر پاکستان کے حکمران ملک کے دینی طبقے کو دھمکیاں دے رہے ہیں … بش اور
براؤن کے بیانات بھی خوف پھیلا رہے ہیں … ہم نے اس موقع پر یہ چند سطریں لکھ دیں
کہ مجاہدین اور دینداروں کو ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے… مجاہدین کا مقابلہ
کفر کی اصلی طاقتوں سے ہے جو بیت المقدس پر قبضہ کرچکے ہیں … جو کعبہ شریف اور
روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف ناپاک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں … اور جنہوں نے
مسلمانوں کے ممالک اور خطوں پر قبضہ کر رکھا ہے …
مدینہ
منورہ کے جانبازوں کا یہ مقابلہ مدینہ منورہ کی مکمل فتح تک انشاء اﷲ جاری رہے گا
… حکومت دل کھول کر تحقیقات کرے اور تحقیقات کرتے وقت ایک آئینہ بھی سامنے رکھ لے
… اسے اس ملک کو جلانے اور اس گلشن کو اجاڑنے والے چہرے خودبخود نظر آجائیں گے… ان
شا ء اﷲ
جنگل اداس ہے
ایک
’’ اﷲ والے‘‘ بزرگ کا والہانہ تذکرہ
(سوانحی خاکہ
حضرت حاجی محمد حسین صاحب مجددی نقشبندیؒ)
اسم
گرامی: الحاج محمد حسینؒ …ولدیت: جناب فقیر محمد صاحب… پیدائش: بمقام ککرے والہ
نزد اسٹیشن راجہ رام ( ظریف شہیدؒ) شجاع آباد ملتان
زراعت
پیشہ قوم سندیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور خود بھی اسی پیشے سے منسلک رہے… ناظرہ قرآن
کریم پڑھنے کے علاوہ کوئی ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی، والد محترم صاحبِ نسبت آدمی
تھے ان کا اصلاحی تعلق مسکین پور شریف (مظفر گڑھ ) کے گدی نشین حضرت پیر فضل علی
قریشیؒ سے تھا، والد صاحب کی پیروی کرتے ہوئے حاجی صاحب نے بھی بزرگوں کا دامن
تھام لیا اور حضرت قریشی صاحبؒ کی خوب خدمت کی ان کے بعد حضرت عبداﷲ بہلویؒ سے
تعلق قائم فرمایا اور ان کی بھرپور خدمت کی… انہی کی دعائوں اور توجہ سے ان کے
سلسلے کو آگے بڑھایا اور اپنے علاقے میں ایک خانقاہ قائم فرمائی… اخلاص، سادگی اور
بزرگوں کی خدمت کے سبب اﷲ تعالیٰ نے خوب نوازا… مرجع خلائق بنا دیا، ساری زندگی اﷲ
اﷲ کا ذکر کرتے اور کرواتے گزاری، تقریباً سو سال کی عمر میں یکم جنوری ۲۰۰۸ء
کو اپنی خانقاہ (ککرے والہ) میں اس دارِفانی سے کوچ فرما گئے… وفات سے دو روز قبل
اپنی زندگی کا گیارہواں حج کر کے واپس تشریف لائے تھے۔ (از مرتب)
تاریخ
اشاعت ۳ذالحجہ ۱۴۲۸ھ
۱۲؍جنوری۲۰۰۸ء
شمارہ۱۳۰
جنگل اداس ہے
اﷲ
تعالیٰ کے مخلص بندوں کا تذکرہ کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے… ہماری آج
کی مجلس اور محفل کا موضوع بھی … ایک اﷲ والا ہے جو چھ دن پہلے ہمیں چھوڑ کر اﷲ
تعالیٰ کے پاس چلا گیا … وہ بہت اﷲ اﷲ کرتا تھا، دوسروں کو بھی اﷲ اﷲ کراتا تھا
اور اﷲ اﷲ کا سبق پڑھتا اور پڑھاتاتھا … اس کے مزے ہوگئے کہ وہ اﷲ کے پاس چلا گیا
… اب ہم سوچیں کہ جو لوگ صبح و شام ’’دنیا دنیا‘‘ ’’پیسہ پیسہ‘‘ کرتے ہیں وہ تو دنیا
اور پیسہ یہاں چھوڑ جاتے ہیں … تو آگے کی زندگی کے لئے اپنے ساتھ کیا لے جاتے ہیں؟
…
ایک
خط ایک تمنا
میں
اپنے گھر میں نظر بندی کے دن گزار رہا تھا کہ ایک دن مجھے ڈاک ملی … اس ڈاک میں ڈیرہ
غازی خان سے ایک خط تھا اور اس خط میں ایک بزرگ اﷲ والے کا تعارف … خط میں یہ بھی
لکھا تھا کہ وہ آپ کے لئے دعاء کرتے رہتے ہیں آپ رہا ہوں تو ان سے ملنے کے لئے جائیں
… خط پڑھ کر دعاء کی کہ ملاقات ہوجائے اور دل میں تمنا بھی پیدا ہوئی کہ اﷲ والے
کا دیدار ہوجائے …
پہلی
ملاقات
رہائی
کے بعد کچھ ضروری کام، کچھ اہم اجلاسات اور کچھ لمبے سفر ہوئے مگر اپنی تمنا یاد
تھی… بالآخر حاضری ہوہی گئی … وہ ہمارے علاقے سے زیادہ دور نہ تھے، ہم چند گاڑیوں
کے قافلے میں ان کی طرف روانہ ہوئے اور الحمدﷲ آسانی سے پہنچ گئے … وہاں تو سادگی
ہی سادگی تھی۔ ایک پختہ مگر کم گنجائش والی مسجد، کچے مکانات والا گاؤں، مدرسہ کے
چند خستہ حال کمرے، پانی ٹپکاتے ہوئے کچھ گیلے گیلے باتھ روم… مگر ان سب کے درمیان
ایک ’’بڑا آدمی‘‘ جو خاموش رہتا تو چھایا رہتا اور بولتا تو لوٹ لیتا… عمر سو سال یا
اس سے کچھ کم یا زیادہ… آنکھوں سے محبت یوں ٹپکتی تھی جس طرح ابلتے چشمے کا پانی …
اور زبان سے اسم ’’اﷲ‘‘ یوں ادا ہوتا کہ گویا اس زبان کو اس نام کے علاوہ کوئی نام
آتا ہی نہیں … ہم تھوڑی دیر وہاں رکے سچی بات ہے بہت مزہ آیا… انہوں نے سرائیکی
زبان میں بیان فرمایا اور ہمارے سینوں پر انگلی رکھ کر ’’اﷲ اﷲ‘‘ کی ضربیں لگائیں،
ہمیں کھانا کھلایا، ڈھیروں دعائیں دیں اور فرمایا اپنے رفقاء کو یہاں بھیجتے رہیں
… تین دن کے لئے مجاہدین کو بھیجا کریں میرے پاس خود تو کچھ نہیں رو رو کر اﷲ تعالیٰ
سے دلوانے کی دعاء کرتا رہوں گا …
خبیث
کو اندر سے نکالیں
یہ
حدیث شریف تو بار بار پڑھی اور سنی تھی کہ شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح دوڑتا
ہے… مگر اس عظیم الشان حدیث کی اصل کیفیت اس بڑے اﷲ والے کے بیان سے سمجھ آگئی …
جب دل میں ذکر نہیں ہوتا تو شیطان وہاں اپنا اڈہ بنا لیتا ہے اور اپنی زہریلی سونڈ
سے دل میں ’’گناہ پرستی‘‘ کا ٹیکہ لگا دیتا ہے… اب انسان کا دل ہر وقت ناجائز خیالات
سے بھرا رہتا ہے… بدبودار گندے گٹر کی طرح ہر برائی اس کے دل میں ابلتی رہتی ہے…
زنا، لواطت، بے حیائی کے خیالات اور خوب گناہ کرنے، پیسہ بنانے اور عیاشی پانے کے
خیالات … لوگوں کے حقوق پامال کرنے اور اقتدار پانے کے خیالات اور پتہ نہیں کیا کیا
… اﷲ پاک ہماری حفاظت فرمائے … وہ اﷲ والا فرماتا تھا کہ اس خبیث شیطان کو اپنے
اندر سے نکالو تو بات بنے گی … ورنہ جسم بھی عذاب میں اور روح بھی عذاب میں … اور یہ
شیطان دل سے نکلے گا کیسے؟ … یہ تب نکلے گا جب دل اس کے اپنے مالک کو دے دو گے…
اور دل کا مالک ہے اﷲ تعالیٰ… پس دل میں اﷲ تعالیٰ کا نام، اس کا ذکر اور اس کی یادٹکا
دو … اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے بندے دل تو میرا گھر تھا
تم نے میرا گھر میرے دشمن یعنی شیطان کو دے دیا؟ …
جنگل
اور مجنون
مجنوں
کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ہر وقت ’’لیلیٰ لیلیٰ‘‘ کرتا تھا … اور اسے لیلیٰ کے سوا
کوئی اور نظر نہ آئے اس کی خاطر وہ جنگل میں نکل جاتا تھا… اور صحراؤں میں جاکر
’’لیلیٰ لیلیٰ‘‘ کرتا تھا … پھر مجنوں مرگیا تو وہ صحرا اور جنگل اداس ہوگئے… ہم
آج جس اﷲ والے کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ ’’سچا عاشق‘‘ پکا دیوانہ … اور حقیقی مجنوں
تھا… وہ فرماتے تھے کہ دل بھی اﷲ اﷲ کرے، کھال بھی اﷲ اﷲ کرے، ہر بال بھی اﷲ اﷲ
کرے، گوشت اور ہڈیاں بھی اﷲ اﷲ کریں… روح بھی اﷲ اﷲ پکارے اور جسم بھی اﷲ اﷲ کہنے
میں لگا رہے… اس حقیقی مجنوں نے بھی ایک ’’جنگل‘‘، ’’صحرا‘‘ آباد کر رکھا تھا… وہ
فرماتے تھے کہ نماز کے بعد روتے ہوئے اس صحرا کی طرف تیزی سے چلے جاؤ … اور اپنے
رب سے کہو میرے پیارے مالک میں آرہا ہوں … اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اے میرے
مالک میں آرہا ہوں … اے میرے رب میں تیری طرف چل رہا ہوں … تیرے حبیب صلی اﷲ علیہ
وسلم نے تیرا فرمان سنایا ہے کہ بندہ میری طرف چل کے آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں …
آجا میرے رب میرے دل کو آباد فرما دے اور مجھے معاف فرمادے … بس یہی باتیں کہتے
ہوئے اس جنگل کے کسی تنہا مقام پر جا بیٹھو اور دل سے ہر تمنا اور ہر غیر اﷲ کو نکال
کر خوب توجہ سے ذکر کرو… اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے آنسو بہاؤ … اور خوب توبہ
کرو …
اﷲ
والے کا یہ نصاب بہت عجیب تھا … جو بھی جنگل میں جا بیٹھتا اس کے سر کے بال بھی اﷲ
اﷲ کرنے لگتے اور جب اپنے گناہوں پر نظر پڑتی تو چیخیں نکل جاتیں … ہاں اس جنگل میں
دل کا بوجھ بہت ہلکا ہوجاتا تھا … آج میں سوچ رہا ہوں وہ جنگل کتنا اداس ہوگا …
کتنا اداس…
یاری
بڑھتی گئی
ایک
بار کی ملاقات کے بعد ’’شوقِ دیدار‘‘ بڑھ گیا… رفقاء کو تین دن کے لئے بھیجنے کا
سلسلہ بھی شروع ہوا… مگر ہر کسی کا ذوق اپنا اپنا … کچھ کو ماحول راس آیا اور کچھ
کو نہیں مگر حضرت کی ذات سے ہر کوئی متاثر ہو کر ہی آیا… ان کی ذات تو روشنی کے ایک
ہالے میں رہتی تھی… حالانکہ بہت سادہ تھے اور کمزور ونحیف … اکیلے ہی تشریف لاتے
اور اکیلے ہی گھر چلے جاتے… مگر جیسے ہی وہ مسجد میں آتے تو ہر کسی کو محسوس
ہوجاتا کہ ماحول میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے… دراصل ان کی ذات ذکراﷲ میں گم ہوچکی تھی
اور ذکراﷲ کی اپنی ایک ہیبت ہے اور اپنا ایک جلال … پھر ہمارا ان کے پاس آنا جانا
بڑھ گیا اور وہ بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے … الحمدﷲ الحمدﷲ دیکھا
ناں اﷲ پاک نے ملادیا … ایک بار انہوں نے اپنے اجتماع میں بیان کی دعوت دی جسے
سعادت سمجھ کر قبول کرلیا … اس دن اور رات ان کے ساتھ کئی نشستیں ہوئیں … وہ
بڑھاپے، تھکاوٹ، گرمی اور پیاس سے بے نیاز یہی سمجھاتے رہے کہ بس اﷲ تعالیٰ کے ذکر
سے دلوں کو آباد کرو … جی ہاں ان پر ایک خاص حال طاری تھا … پھر ہم نے ان کو اپنے
ہاں تشریف آوری کی دعوت دی… انہوں نے خوشی سے منظور فرمالی… تشریف لائے، بیان فرمایا،
ہمارے مرکز کو رونق بخشی، تھوڑا سا کھانا بھی خلاف معمول تناول فرمایا… اور واپس
تشریف لے گئے … ایک بار حالات کچھ خراب تھے بعض لوگوں کی باتوں سے دل پر وزن تھا ،
ان کی خدمت میں حاضری ہوئی … ذکر اﷲ کے بیان کے ساتھ فرمایا کہ کسی کے لئے بددعاء
نہ کرنا … سارے کام انشاء اﷲ ٹھیک ہوجائیں گے… اﷲ پاک نے ان کی زبان سے ایسی بات
ظاہر فرمادی جس سے فوری نفع ہوا … اﷲ پاک ان کو اس کا بہترین بدلہ عطاء فرمائے …
پھولوں
کے رنگ
گلاب
کا پھول سرخ بھی ہوتا ہے … اور سفید بھی… اور بعض جگہ گلابی بھی… اﷲ تعالیٰ کے اولیاء
اور دین کے علماء مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں… بعض لوگ کسی ولی کے رنگ کو دیکھ کر اسے
ہی ’’حق کا رنگ‘‘ سمجھ لیتے ہیں اور دوسروں پر تنقید شروع کردیتے ہیں… چند دن پہلے
حضرت اقدس لاہوریؒ… کے بارے میں ایک کتاب پر نظر پڑی… میں نے کافی محنت سے وہ کتاب
حاصل کی… وجہ بالکل صاف ہے کہ مجھے حضرت لاہوریؒ سے بہت محبت ہے… بچپن سے ان کا
نام اپنے خاندان میں سنا، پھر دوران تعلیم ان کے تذکرے ہوتے رہے… پھر ان کے ترجمہ
قرآن پاک اور حاشیہ کا مطالعہ کیا… ان کی سوانح پڑھی… اور کئی بار ان کے مرقد پر
حاضری ہوئی … ان میں سے ہر چیز نے ان کی محبت میں اضافہ کیا… ہم کراچی کے پڑھے
ہوئے مولوی لاہور کے اکابر تک پہنچنے میں کافی وقت لگاتے ہیں… کیونکہ کراچی ماشاء
اﷲ اکابر اور کتابوں کے بارے میں خود کفیل ہے… چنانچہ آیاتِ جہاد پر کام کرتے ہوئے
میری توجہ حضرت لاہوریؒ کے ترجمے اور حاشیے کی طرف نہ گئی … وہ تو ابھی چند سال
پہلے میں نے ان کا ترجمہ اور حاشیہ پایا اور اسے دو تین بار پڑھا اور ان کی بعض
تحقیقات کو آیات جہاد کی فہرست میں شامل کیا… بات دور نکل گئی، میں یہ عرض کر رہا
تھا کہ حضرت لاہوریؒ کے بارے میں ایک کتاب نظر سے گزری تو کافی محنت کرکے منگوائی
… مگر مطالعہ شروع کرتے ہی مایوسی اور پریشانی نے گھیر لیا… فاضل مصنف صاحب حضرت
لاہوریؒ کی تعریف میں ایک ہی جملہ لکھ کر دوسرے اولیاء اور علماء پر چڑھائی کردیتے
ہیں کہ … حضرت تو ایسے تھے، جبکہ آج کل بڑے بڑے علماء اور مشائخ میں یہ عیب ہے وہ
عیب ہے… میں نے چند صفحات تک تو برداشت کیا مگر جب ان کے قلم کی دھار اسی طرح
گردنوں کو کاٹتی رہی تو میں نے کتاب بند کردی… اور پھر دوبارہ نہیں کھولی… کچھ
عرصہ پہلے ہمارے اکابر میں سے ایک کی سوانح حیات چھپی جو کافی مفید تھی مگر اس میں
بھی ’’تنقید‘‘ کا انداز شامل ہوگیا مثلاً حضرت خود امامت کراتے تھے حالانکہ آجکل
بڑے بڑے علماء ومشائخ اس سے کتراتے ہیں … حضرت واسکٹ نہیں پہنتے تھے حالانکہ بڑے
بڑے اکابر الخ… میں نے یہ سوانح پڑھ کر اس کے مرتب صاحب کو خط لکھا کہ… اتنی مفید
اور موثر کتاب کو اگر تنقید سے پاک رکھا جائے تو کتنا اچھا ہو… بس اتنی بات ٹھیک
ہے کہ حضرت خود امامت کراتے تھے… اب اس کے بعد باقی علماء کی کھال اتارنے کی کیا
حاجت ہے؟… خلاصہ کلام یہ ہے کہ پھولوں کی طرح اولیاء کرام اور اکابر امت کے بھی
اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں… بس ضروری بات یہ ہے کہ اخلاص کی خوشبو ہو، اتباع سنت اور
شریعت کی پیروی کا نور ہو… یہ دو چیزیں جس میں ہوں وہ ٹھیک ہے خواہ اس کی زندگی کا
رنگ جیسا بھی ہو … کچھ کے ہاں زہد اور فقر کا رنگ ہوتا ہے… اور کچھ کے ہاں اسباب
کے استعمال کا… کچھ کچی عمارتیں پسند کرتے ہیں اور کچھ پکی عمارتوں میں روشنی پھیلاتے
ہیں… کچھ بے حد سادہ لباس زیب تن فرماتے ہیں اور کچھ شرعی حدود میں رہتے ہوئے بہترین
لباس پہنتے ہیں … بعض کے ہاں علم پر زور ہوتا ہے تو بعض کے ہاں ذکر پر… کسی پر انبیاء
علیہم السلام کی نسبت کا رنگ نظر آتا ہے اور کسی پر صحابہ کرام اور اولیاء کرام کی…
اس لئے کسی کے رنگ کو ’’حتمی چیز‘‘ سمجھ کر دوسروں کی کھال ادھیڑنا ٹھیک نہیں ہے…
مخلص، متبع سنت اور شریعت کے پیروکار بزرگ کے پاس سائیکل ہو وہ بھی ٹھیک اور پجیرو
گاڑیاں ہوتو وہ بھی ٹھیک… کپڑوں پر پیوند ہوں تو وہ بھی ٹھیک اور استری ہو وہ بھی
ٹھیک … لیکن اگر دنیا کی محبت ہو، مریدوں کے مال پر نظر ہو… مالدار مریدوں کی غریبوں
سے زیادہ قدر ہو… جہاد کی مخالفت ہو، سنت کی خلاف ورزی اور شریعت سے آزادی کی باتیں
ہوں تو پھر ہر رنگ برا ہے خواہ سادگی والا رنگ ہو یا شاہانہ رنگ…
القلم
کی سعادت
چاہ
ککرے والا شجاع آباد… کے رہائشی بزرگ اﷲ والے حضرت اقدس شیخ طریقت حاجی محمد حسین
صاحب نے سعادت مندی کی ایک طویل زندگی گزاری… انہوں نے گیارہ حج ادا کیے… چالیس
سال سے زائد عرصہ حضرت شیخ المشائخ بہلوی نور اﷲ مرقدہ کی خدمت میں گزارے… انہوں
نے پیر بننے سے پہلے ساٹھ سال تک مریدی کی اور پھر بھی یہی کہتے رہے کہ میں بے علم
ہوں اور میں پیر نہیں ہوں… بس اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روحانی علم کا ایک ذرہ
اپنے مرشد کی برکت سے نصیب ہوا ہے… اتنی طویل ذاکرانہ زندگی گزارنے کے بعد وہ اس
دنیا کو چھوڑ گئے ہیں
انا
ﷲ وانا الیہ راجعون … ان ﷲ ما اعطی ولہ ما اخذ وکل شی عندہ باجل مسمی… اللہم
لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ… اللہم اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منہا…
ایسے
اﷲ والوں کا وجود مسلمانوں کے لئے رحمت اور بخشش کا باعث ہوتا ہے… بہرحال ایک صدمہ
ہے اور ایک محرومی… مگر اﷲ اﷲ کرنے والا اﷲ کے پاس چلا گیا اُس کے لئے تو خوشی اور
شادی کا مقام ہے… حضرت حاجی محمد حسین صاحب نور اﷲ مرقدہ کے مجاہدین پر توجہات اور
دعاؤں کے احسانات تھے… ’’القلم‘‘ کی سعادت ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے اس مخلص بندے کے
تذکرے پر مشتمل یہ خصوصی نمبر شائع کر رہا ہے… اس میں آپ حضرتؒ کا سوانحی خاکہ اور
ان کا ایک کیمیا اثر بیان بھی ملاحظہ فرمائیں گے … اﷲ تعالیٰ حضرتؒ کے درجات بلند
فرمائے اور ان کے جملہ پسماندگان کو ان کے نقش قدم پر چلائے اور ان کے صدقات جاریہ
کو تاقیامت جاری رکھے… آمین یا ارحم الراحمین…
٭٭٭
معطر مجلس
آپ
نے دورد شریف پڑھا… اب یقین رکھیں کہ اس کے بدلے میں… آپ پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت
نازل ہوئی
دوردو
سلام کے فضائل اور مقام کو سمجھنے اور عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا راستہ پانے
کے لئے ملاحظہ فرمایئے
معطر
مجلس
تاریخ
اشاعت ۸محرم الحرام ۱۴۲۹ھ
۱۸جنوری ۲۰۰۸ء
شمارہ
۱۳۱
معطر مجلس
اﷲ
تعالیٰ آپ سب پر اپنی رحمت نازل فرمائے… ایک بار ابھی پوری محبت اور توجہ سے درود
شریف پڑھ لیجئے…
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الاُْمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ
وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا۔
آپ یقین
کرلیجئے کہ اﷲ پاک نے آپ پر دس رحمتیں نازل فرمائی ہیں، اس میں ذرہ برابر شک کی
گنجائش نہیں ہے … آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم پر ’’درود وسلام‘‘ پڑھنے کا حکم خود اﷲ
تعالیٰ نے ہمیں دیا … اور ہمارے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان
بھی اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم پورا کرے گا اﷲ تعالیٰ ہر بار کے درود شریف کے جواب میں
اس پر دس درود نازل فرمائے گا … یعنی دس رحمتیں اور بہت سی نعمتیں اس کے علاوہ…
اسے کہتے ہیں یقین کی کیفیت … خوب یاد رکھئے کہ جتنا یقین پختہ ہوگا اسی قدر فائدہ
ملے گا … جب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بات فرمادی تو ہمیں اس میں شک کی اجازت ہی
کہاں ہے؟ … میں اپنے ساتھیوں سے عرض کیا کرتا ہوں کہ جب تمہیں محسوس ہو کہ اﷲ پاک
ناراض ہے تو فوراً سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم پڑھ کر دیکھو … اگر دل اور
زبان دونوں یہ مبارک کلمہ پڑھنے لگیں تو خوش ہوجاؤ کہ اﷲ پاک کی محبت متوجہ ہے… کیونکہ
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ یہ دوکلمے اﷲ تعالیٰ کو محبوب ہیں … سبحان اﷲ
وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم … اب شک کی کیا گنجائش ہے؟ … اجر اور فضیلت اسی کو ملتی ہے
جو یقین رکھتا ہے، شک کرنے والے تو ہمیشہ دھکے کھاتے رہتے ہیں … ظاہر پرست کہتے ہیں
کہ مولوی نے جنت کو سستا کردیا ہے کہ ایک بار درود شریف پڑھو تو جنت، وضو کے بعد ایک
دعاء کلمہ شہادت کی پڑھ لو تو جنت اور فلاں استغفار پڑھ لو تو جنت اور آیۃ الکرسی
پڑھ لو تو جنت … وہ کہتے ہیں کہ جنت اتنی سستی نہیں ہے مولوی نے اسے سستا کردیا ہے…
ظاہر پرستوں کی بات بالکل غلط ہے دراصل ان جاہلوں کو درود شریف، آیۃ الکرسی اور
استغفار کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہے… اگر انہیں ان اعمال کی قیمت کا اندازہ ہوتا
اور ان اعمال کے اثرات کا تھوڑا سا پتہ ہوتا تو وہ ایسی غلط بات نہ کہتے… بش کے
پاس دنیا بھر کی آرائشیں ہیں مگر اس کی زبان کلمہ نہیں پڑھ سکتی … کلمہ اور درود
شریف تو قسمت والے پڑھتے ہیں جی ہاں وہی قسمت والے جن پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت متوجہ
ہوتی ہے… اور کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو دوسرے اعمال کو جنم نہ دیتا ہو… جب کوئی کسی
کو گالی دیتا ہے تو اس گالی سے کتنے اعمال جنم لیتے ہیں … لڑائی، زخم، دشمنی،
انتقام، نفرت اور معلوم نہیں کیا کیا … اور جب کوئی کسی سے کہتا ہے ’’مجھے تم سے
محبت ہے‘‘ تو یہ ایک جملہ کتنے اعمال کو جنم دیتا ہے… پھر خود سوچئے کہ درود شریف
کے اثرات کتنے ہوں گے اور کلمہ طیبہ اور استغفار کے اثرات کتنے ہوں گے… اور ان
مبارک کلمات سے کتنے اونچے اعمال جنم لیتے ہوں گے… ایک آدمی ساری زندگی محنت کرتا
ہے اور مال خرچ کرتاہے، صرف اس بات پر کہ میں نے فلاں سے انتقام لینا ہے… وجہ کیا
ہے؟ جی اس نے میری ماں کو گالی دی تھی… صرف ایک گالی نے کتنے اعمال کو جنم دیا …
اور دوسرا آدمی کسی کی ساری زندگی خدمت کرتا ہے کہ اس نے فلاں موقع پر میرے حق میں
ایک جملہ ادا کیا تھا … جب انسانی جملوں کا یہ وزن ہے تو پھر قرآن پاک کی آیات کا
وزن کتنا ہوگا اور درود شریف کا وزن کتنا ہوگا …
اﷲ
اکبر کبیرا … منکرین حدیث اور نیچریوں نے مسلمانوں کو اُن مبارک کلمات کی برکت سے
محروم کرنے کی سازش کی ہے جو مبارک کلمات دلوں میں نور بھرتے ہیں، اعمال کی اصلاح
کرتے ہیں، جنت میں پھل پھول لگاتے ہیں … اور ایک مومن کو وزن دار مومن بناتے ہیں …
آپ ہمت کریں روزانہ ایک ہز ار بار درود شریف کا معمول بنالیں پھر دیکھیں کہ آپ کے
دل میں کس طرح سے سکون کے دریا بہتے ہیں … اور آپ کے اوقات اور اعمال میں کتنا وزن
پیدا ہوتا ہے… دنیا میں بے شمار لوگ بے شمار کتابیں لکھتے ہیں مگر جب درود شریف کی
کثرت کرنے والے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ نے قلم اٹھایا تو ان کی ہر
کتاب پورے عالم میں پھیل گئی… کیا شیخ صاحب کے پاس اپنی کتابیں پھیلانے کے لئے کوئی
جدید ٹیکنالوجی تھی… نہیں بلکہ وہ تو بہت سادہ سے فقیر منش انسان تھے… ہاں ان کے
دل میں ایمان تھا اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت… اور وہ تلاوت کلام پاک
اور درود شریف کی کثرت فرماتے تھے اور نمازوں کا پورا اہتمام کرتے تھے… چنانچہ ان
چیزوں کا فائدہ انہیں ملا، خود ان کے اعمال سنورتے چلے گئے، ان کے اوقات میں برکت
ہوتی چلی گئی … اور پھر جو کچھ انہوں نے لکھا وہ ہواؤں کے دوش پر سارے عالم میں پھیل
گیا … ان کے رسالہ ’’فضائل درود شریف‘‘ کو ہی لے لیجئے … حضور اقدس صلی اﷲ علیہ
وسلم کے عشق میں ڈوبے ہوئے کچھ اﷲ والوں نے ان سے یہ رسالہ لکھنے کی فرمائش کی …
حضرت شیخ ؒ خود عاشق صادق تھے … اور عاشق
صادق ہمیشہ اپنے آپ کو اپنے محبوب کے سامنے بے حد حقیر سمجھتا ہے… اور اسے ہمیشہ یہ
خیال رہتا ہے کہ محبوب کی بے ادبی نہ ہوجائے …
فاسٹ
فوڈ اور معدے کے اس زمانے میں عشق کا مطلب بہت کم لوگ سمجھتے ہیں … اکثر ناواقف
لوگ موبائل فون اور انٹرنیٹ پر لڑکیاں پھنسانے کو عشق سمجھتے ہیں … اﷲ کی پناہ، اﷲ
کی پناہ … اﷲ کی قسم یہ عشق نہیں یہ تو ’’پیشاب پرستی‘‘ ہے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کی
اور ہمارے اہل واولاد کی اس سے حفاظت فرمائے … حضرت شیخ الحدیثؒ سے جب درود شریف
کے فضائل پر رسالہ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو حضرت شیخ کانپ گئے … کہاں سیاہ زلفوں
والے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم اور کہاں میں … مگر اصرار بڑھتا گیا تو تیار ہوگئے کہ
چلو اس بہانے محبوب کے قرب کا کچھ ذریعہ ہوجائے گا … اب عشق کی نزاکتوں کا حال دیکھیں
… وہ شخص جس نے پچاس سال تک حدیث شریف کی بڑی بڑی کتابیں پڑھائیں … اور جن کے درس
میں حضرت مدنیؒ جیسے محدث چپکے سے آکر بیٹھ جایا کرتے تھے … جی ہاں وہ شخص جنہوں
نے مؤطا امام مالک کی شہرہ آفاق شرح لکھی اور جنہوں نے حضرت گنگوہیؒ کے علوم کو
قلم کی زبان بخشی … جی ہاں زمانے کے معتبر ترین شیخ الحدیث جب فضائل درود شریف
لکھنے بیٹھے تو بے حال ہوگئے اور قلم نے جواب دے دیا، تب انہوں نے حضرت حکیم الامۃ
تھانویؒ کے رسالہ ’’زاد السعید‘‘ کو بنیاد بنا کر اپنے قلم کو سہارا دیا … اور پھر
حضرت شیخ ؒ کا علم اپنی وہبی شان کے ساتھ
ٹھاٹھیں مارنے لگا … جی ہاں محبوب تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے… مگر جب ملاقات
ہوجائے تو پھر دل کھل جاتا ہے … ماشاء اﷲ حضرت شیخ ؒ نے کیا خوب رسالہ لکھا ہے… گزشتہ دنوں میرے
ایک قلبی عزیز حج پر تھے مجھے مصلّے پر بیٹھے بیٹھے پتہ نہیں کیا خیال آیا کہ ان
سے رابطہ کرکے کہا … آپ فضائل درود شریف پڑھ لیں … انہوں نے مکہ مکرمہ میں ایک رات
لگا کر پڑھ لیا اور بتایا کہ عجیب فائدہ ہوا … اس دن کے بعد سے میں نے اپنے کئی
رفقا ء کرام کو اس طرف توجہ دلائی، بخدا جس نے بھی پڑھا جھوم اٹھا اور ایک عالم
ومجاہد ساتھی نے تو باقاعدہ شکریہ ادا کیا کہ آپ نے مجھے یہ رسالہ پڑھوایا اﷲ تعالیٰ
آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے …
میری
آج کے کالم میں پڑھنے والوں سے بھی گذارش ہے کہ وہ حضرت شیخ الحدیثؒ کے رسالہ
’’فضائل درود شریف‘‘ اور حضرت حکیم الامۃؒ کے رسالہ ’’زادالسعید‘‘ کا مطالعہ فرمالیں
… زاد السعید کا مطالعہ تو ایک گھنٹے میں ہوجاتا ہے جب کہ فضائل درود شریف کو پانچ
گھنٹے میں ختم کیا جاسکتا ہے… اگر ایک مجلس میں ممکن نہ ہو تو دو چار دن میں پڑھ لیں
… انشاء اﷲ نور کا ایک راستہ، علم کا ایک دروازہ اور یقین کا ایک باب دل میں کھل
جائے گا … اور ہمارے ناپاک دل کو پاکی حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہوجائے گا … بے شک
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت، آپ کی حسین زلفوں کی محبت، آپ کے پیارے چہرے کی
محبت، آپ کی کالی کملی کی محبت، آپ کی دلکش مسکراہٹ کی محبت … آپ کی آل اولاد کی
محبت، آپ کے اصحاب کی محبت … اور آپ کے دین، آپ کے جہاد اور آپ کی ایک ایک سنت کی
محبت … بہت بڑی چیز ہے بہت ضروری چیز ہے…
یَا
رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا
عَلٰی
حَبِیْبِکَ مَنْ زَانَتْ بِہِ الْعُصُر
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پتھر کھا
کر، زخم سہہ کر اور فاقے اٹھا کر یہ پیارا دین ہم تک پہنچایا … خود سوچیں کہ اگر
ہم مسلمان نہ ہوتے تو کتنے بدترجانور ہوتے… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی محنت اور
روحانیت کا فیض ہے کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں، کسی دن صرف وضو کی نعمت پر غور کرلیں تو
سارا دن درود شریف پڑھنے سے زبان نہ تھکے… اس وضو نے ہمیں کتنا پاک رکھا ہوا ہے …
ورنہ دنیا تو ناپاکی میں کتوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے…
حضرت
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے کس کس احسان کا ذکر کیا جائے … اﷲ اکبر کبیرا … میں یہ
الفاظ لکھ رہا ہوں اور مؤذن کی آواز آرہی ہے…
اشہد
ان محمداً رسول اﷲ،
اشہد
ان محمداً رسول اﷲ
حضرات
صحابہ کرام خوش نصیب تھے، ہماری مائیں امہات المومنین تو بہت خوش نصیب تھیں … ان
سب کو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا دیدار بھی ملا اور قرب بھی اور ان کو آقا مدنی
صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع بھی ملا … اﷲ پاک کی قسم حضرت بلال، حضرت انس
اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضوان اﷲ علیہم اجمعین بہت سعادت مند تھے… انہوں نے حضرت
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے جوتے اٹھائے … اگر ساری دنیا کی سلطنت صرف اس سعادت پر
قربان کردی جائے تو سودا بہت سستا ہے… اﷲ اکبر کبیرا… جن کی زیارت کا شوق سب انبیاء
علیہم السلام اور فرشتوں کو تھا حضرات صحابہ کرام نے ان کی بڑی بڑی مجلسوں کا لطف
پایا … اﷲ اکبر کبیرا حضرات صحابہ کرام کی
خوش نصیبی بہت بڑی ہے، بہت اونچی ہے رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
اس
وقت مسلمانوں پر فتنوں کا زور ہے اور درود شریف کی کثرت ان فتنوں کا علاج ہے… وجہ
صاف ہے کہ درود شریف کی برکت سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت
ہی ہر مصیبت کو دور کرسکتی ہے… ہم اگر روزانہ ایک ہز ار بار درود شریف پڑھ لیں تو
اﷲ تعالیٰ کی دس ہزار رحمتیں بلاشبہ نازل ہوں گی … اور قیامت کے دن حضور پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم کا قرب بھی نصیب ہوگا … درود شریف چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی … حدیث شریف
میں درود شریف کے کئی صیغے وارد ہوئے ہیں … زاد السعید اور فضائل درود شریف میں
درود و سلام کے بیالیس صیغے جمع فرمائے ہیں اور چند دوسرے درود شریف بھی لکھے ہیں
…
اگر
ایک آدمی روزانہ ایک ہزار بار
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الاُْمِّیِّ وَآلِہٖ وَسَلِّمْ
ہی
پڑھ لے تو زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ لگتے ہیں… اﷲ کے بندو اور بندیو! یہ پندرہ منٹ
قبر اور آخرت میں بہت کام آئیں گے … ہم نے دور حاضر میں درود شریف کی ایک اور بڑی
برکت یہ دیکھی ہے کہ جو مسلمان صحیح عقیدے کے ساتھ درود شریف کی کثرت کرتے ہیں وہ
جہاد کا انکار نہیں کرتے … آپ جانتے ہیں کہ جہاد اسلام کا ایک محکم اور قطعی فریضہ
ہے… لغوی معنیٰ میں الجھے بغیر جہاد کا مطلب اتنا واضح ہے کہ بش اور ہیلری کلنٹن
تک بھی سمجھتے ہیں … جہاد کا انکار قرآن پاک کے ایک بڑے حصے کا انکار ہے جو کہ صریح
کفر ہے… جہاد کے معنیٰ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے غزوات مبارک نے بالکل واضح
فرمادیئے ہیں اور آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زخم اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خون
جہاد کا معنیٰ سمجھانے کے لئے سب سے مستند مضمون ہے … مگر شیطان ملعون نے طرح طرح
کے لبادے اوڑھ کر جہاد کے انکار کا فتنہ کھڑا کیا ہے… اﷲ تعالیٰ اس فتنے سے
مسلمانوں … کی حفاظت فرمائے… میرا تجربہ ہے کہ جو مسلمان صحیح عقیدے کے ساتھ درود
شریف کی کثرت کرتے ہیں وہ اس فتنے سے بچے رہتے ہیں …
مجھے
اﷲ تعالیٰ نے دنیا کے کئی ملکوں میں جانے کا موقع عطاء فرمایا ہے میں نے ہر جگہ
درود شریف کی کثرت کرنے والے علماء، بزرگوں اور عام مسلمانوں کو جہاد کا حامی پایا
ہے… یہ اس زمانے میں درود شریف کی ایک کھلی برکت اور کرامت ہے… مصنفین میں سے جہاد
کے بالکل صاف شفاف معنیٰ بیان کرنے میں حضرت تھانویؒ کو خاص کمال حاصل ہے… آپ نے
اپنی مایہ ناز تصنیف ’’نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ میں حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جہاد اور غزوات کو اتنا بے غبار اور دلنشین بیان فرمایا
ہے کہ دل سے دعائیں نکلتی ہیں … اور تفسیر بیان القرآن میں جہاد کے موضوع پر خاص
الخاص محنت فرمائی ہے اور سورہ توبہ کی ابتدائی انتیس آیات کی ترتیب جوڑنے میں چھ
ماہ کی دماغ سوز مشقت فرمائی ہے… یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت حکیم الامۃ
تھانویؒ جن ایام میں اپنی کتاب ’’نشرالطیب‘‘ لکھ رہے تھے ان دنوں ہر طرف زلزلے
آرہے تھے اور طاعون کا مرض عام تھا… مگر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک
تذکرے پر مشتمل اس کتاب کی برکت سے آپ کا علاقہ ہر طرح کے زلزلے اور آفات سے محفوظ
رہا… نشر الطیب کو پڑھ کر انسان کے آنسو بے اختیار ٹپکنے لگتے ہیں اور حضور اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم کی محبت انسان کے خون میں نور بن کر دوڑنے لگتی ہے… حضرت حکیم الامۃؒ
نے اس کتاب میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک حالات ’’ابتدائے نور‘‘ سے ’’انتہائے
ظہور‘‘ تک لکھے ہیں … اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے ہر دور کا نقشہ
کھینچا ہے… اگر ہمارے گھروں میں ایک بار اس کتاب کی تعلیم کرالی جائے تو بے انتہا
فائدے کی انشاء اﷲ امید ہے… حضرت تھانویؒ کے نزدیک بھی درود شریف کی کثرت کا بہت
اہتمام تھا اور آپ حضرت گنگوہیؒ کے قول کے مطابق کثرت درود شریف کی کم سے کم تعداد
تین سو بیان فرمایا کرتے تھے… آپ نے خود ’’نشر الطیب‘‘ میں اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت
کا تذکرہ فرمایا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے زمانے میں پورے علاقے میں برکت رہی اور
یہ علاقہ ہر طرح کی آفات سے محفوظ رہا…
بے
شک حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا مبارک تذکرہ اور آپ پر پڑھا جانے والا درود وسلام
مسلمانوں کے لئے ایک بڑی رحمت ہے … آج کل پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں ہر طرف
بدامنی اور مہنگائی کا دور دورہ ہے… حکومت کی نا اہلی اور ظلم نے ملک کو اندھیرے
اور بھوک میں دھکیل دیا ہے… لوگ آٹے کے لئے دھکے کھا رہے ہیں … اور غریبوں کے لئے
عزت سے جینا مشکل ہوگیا ہے … ان حالات پر ایک پورا کالم لکھا جاسکتا تھا … مگر
بندہ نے حالات کی خرابی لکھنے کی بجائے یہ قرآنی نسخہ عرض کردیا ہے کہ مسلمان حضور
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعلق کو مضبوط بنائیں … اور درود شریف وسلام کی کثرت کریں
… اس کے لئے چند کتابیں بھی عرض کردی ہیں… اﷲ تعالیٰ سے بہت امید ہے کہ وہ درود
وسلام کی برکت سے ہمارے حال پر رحم فرمائے گا … ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا
اور ہمارے لئے آسانیاں مقدّر فرمائے گا ان شا ء اﷲ …
بے
شک حالات کی خرابی برے اعمال کا نتیجہ ہے … اور برے اعمال کی اصلاح کے لئے درود شریف
ایک بہترین تحفہ ہے… آئیے آخر میں پھر محبت اور توجہ سے درود شریف پڑھ کر اپنی آج
کی اس معطر مجلس کو ختم کرتے ہیں… اﷲ کرے آپ سب اگلے ہفتے کا کالم آنے سے پہلے
پہلے زاد السعید اور فضائل درود شریف کا مطالعہ کرلیں
اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی
اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ،
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ
عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
الحمد
ﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی… سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین
والحمدﷲ رب العالمین…
٭٭٭
نور مانگو…
آج
ہر طرف اندھیرے ہی اندھیرے ہیںان اندھیروں سے نجات کیسے ملے؟
نور
کیا ہے اور کیسے ملتا ہے؟
وہ
مسلمان مرد اور خواتین جو انٹر نیٹ اور کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں وہ ضرور اس تحریر
کو پڑھیں … اور پھر اپنے عمل کا جائزہ لیں
زمانے
کے کافر نور سے بھرے ہوئے فدائی مجاہدین کا مقابلہ نہیں کر سکتے انشاء اﷲ
تاریخ اشاعت ۱۵
محرم الحرام ۱۴۲۹ھ
۲۵ جنوری۲۰۰۸ء
شمارہ ۱۳۲
نور مانگو…
اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو نور اور روشنی عطاء فرمائے… بے شک اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست
ہے وہ ان کو اندھیروں سے ’’نور‘‘ کی طرف نکالتا ہے…
اَللّٰہُمَّ
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ وَاَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی
النُّوْرِ
اے
ہمارے پروردگار ہمیں سیدھے راستے پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور عطاء
فرما…
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو اﷲ تعالیٰ نے بہت نور عطاء فرمایا تھا مگر آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم پھر بھی نور کا سوال کرتے تھے اور اﷲ تعالیٰ سے نور ہی نور… اور نور ہی
نور مانگتے تھے…
’’اے میرے
پروردگار میرے دل میں نور عطاء فرما، میری قبر میں نور عطاء فرما، میرے آگے، پیچھے،
دائیں بائیں، اوپر، نیچے نور عطاء فرما … میرے بالوں میں گوشت میں، ہڈیوں میں،
کھال میں اور خون میں نور عطاء فرما… یا اﷲ میرے نور کو بڑھا… اور مجھے نور عطاء
فرما…‘‘
نور
مانگنے کی یہ دعائیں حدیث شریف میں مختلف الفاظ سے آئی ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم مسجد جاتے وقت اور تہجد کے بعد خاص طور سے نور کی دعاء مانگا کرتے تھے …
اَللّٰہُمَّ
اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ فِیْ سَمْعِیْ
نُوْرًا وَّاجْعَلْ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ مِنْ خَلْفِیْ نُوْرًا
وَّمِنْ اَمَامِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَّمِنْ تَحْتِیْ
نُوْرًا اَللّٰہُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا۔ (مسلم)
زبان
میں نور، آنکھوں میں نور، کانوں میں نور ہر طرف نور ہی نور…
بات
بالکل واضح ہے کہ ہم ہر طرف سے اندھیروں میں گھرے ہوئے ہیں اور ہم نور کے بے حد
محتاج ہیں … اور اﷲ تعالیٰ خود نور ہے…
اَﷲُ
نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضِ
اور
ہر نور اسی کی طرف سے ملتا ہے، اور ہر روشنی اسی کی طرف سے آتی ہے… اور ہر نور کو
اسی نے پیدا کیاہے
’’حضرت جابر بن
عبداﷲ انصاری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا:
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے کس
چیز کو پیدا کیا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جابر! اﷲ تعالیٰ نے تمام چیزوں
سے پہلے تمہارے نبی(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے نور کو اپنے نور کے فیض سے پیدا کیا پھر
وہ نور جہاں اﷲ تعالیٰ نے چاہا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم تھا، نہ
جنت تھی نہ جہنم تھی، نہ فرشتہ تھا نہ آسمان تھا، نہ زمین تھی نہ سورج تھا، نہ
چاند تھا نہ دن تھا اور نہ انسان تھا۔ جب اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو
اس نور کے چار حصے کیے۔ ایک حصے سے قلم، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش پیدا کیا۔
(رواہ عبدالرزاق بسندہ، نشرالطیب)
حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سیدالبشر تھے… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اولاد آدم علیہ
السلام میں سے تھے
قُلْ
اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلیَّ (الکہف)
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نور
مخلوق میں سب سے پہلے بنایا گیا، ایک روایت میں ہے:
’’حضرت آدم علیہ
السلام نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مبارک نام عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا اﷲ
تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا: اگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نہ
ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ (رواہ الحاکم وصححہ، نشرالطیب)
حضرت
ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے
پوچھا آپ کو نبوت کس وقت مل گئی تھی؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس وقت
آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن
نشرالطیب)
اس
مسئلے کی تفصیل جاننی ہو تو حضرت حکیم الامۃ تھانویؒ کی کتاب ’’نشرالطیب‘‘ کا غور
اور محبت سے مطالعہ کرلیں… یہاں تو بس شوق دلانے کے لئے چند روایات نقل کردی ہیں،
ورنہ ہمارا آج کا موضوع کچھ اور ہے… یہاں نور بشر کے اختلافی مسئلے میں الجھنے کی
بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں حضرت تھانویؒ نے حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکمل زندگی کا کچھ خاکہ بھی بیان فرمایا ہے، جس میں کھانے، پینے،
اولاد، نکاح، ازواج مطہرات سب باتوں کا تذکرہ ہے… اس لئے مسئلہ اختلافی نہیں بنتا،
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تو نورانی فرشتوں سے بھی افضل ہیں … اور فرشتوں کے سردار حضرت
جبرئیل امین علیہ السلام سے بھی افضل ہیں … اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ پاک نے
جو نور عطاء فرمایا وہ مخلوق کو دیئے گئے ہر نور سے بر تر ہے… ہمارا آج کا موضوع
تو یہ ہے کہ ہم اندھیروں میں بھٹکنے والے انسانوں کو ’’نور‘‘ کی بے حد ضرورت ہے…
اگر ہمیں نور نصیب نہ ہوا تو ہم اندھیروں میں ڈوب جائیں گے اور اﷲ بچائے، اﷲ بچائے
اندھیروں کا سوداگر یعنی شیطان ہمیں اندھیر نگری یعنی جہنم کی طرف لے جائے گا … شیطان
کا اندھیرا، نفس کا اندھیرا، جسمانی تقاضوں اور شہوتوں کا اندھیرا، کفر کا اندھیرا،
نفاق کا اندھیرا … اور ناشکری، کم ہمتی، دنیا پرستی کا اندھیرا …
جی
ہاں اندھیرے بے شمار ہیں اسی لئے قرآن پاک میں جمع کا صیغہ لایا گیا ہے
’’الظلمٰت‘‘ ظلمۃ کہتے ہیں اندھیرے کو اور ظلمٰت اسی کی جمع ہے… جبکہ نور ایک ہے …
کیونکہ اﷲ ایک ہے اﷲ ایک ہے …
آج
ہماری روح اور ہمارا جسم اندھیرے میں ڈوبا جارہا ہے… اﷲ کی قسم گہرے سمندر میں ڈوب
جانا اتنا خطرناک نہیں جتنا گمراہی، نفاق اور کفر میں ڈوبنا خطرناک ہے… کیا ہم نے
کبھی غور کیا کہ ہم کتنے گہرے اور مہلک اندھیروں میں ڈوب رہے ہیں؟… کیا ہم نے کبھی ڈوبتے ہوئے بے بس انسان کی طرح
اﷲ کو پکارا … اﷲ،اﷲ،اﷲ…
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بہت سے ساتھیوں نے درود
شریف سے دل لگا لیا ہے… جب مجھے اطلاع ملتی ہے کہ فلاں ساتھی نے ایک ہزار بار درود
شریف کا معمول بنالیا ہے تو دل سے دعاء نکلتی ہے… ورنہ آج تو ہمارا پورا ملک اندھیروں
میں بری طرح غرق ہے… ابھی الیکشن کا اندھیرا ہے… جھوٹ، دھوکا اور بدمعاشی … اندھیرا
ہی اندھیرا … کچھ اچھے لوگ بھی کھڑے ہیں اﷲ کرے وہ کامیاب ہوں اور کامیاب ہونے کے
بعد دین کی خدمت کریں … ہر طرف بدامنی کا اندھیرا … اور قتل و غارت کا اندھیرا… غیر
ملکی ایجنٹ ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور ہر طرف پکڑو، مارو، گھیرو اور کاٹو کا
اندھیرا ہے… سیاستدان چھپ چھپ کر قوم کو دھوکے دے رہے ہیں … کروڑوں اربوں روپے کے
اشتہارات پانی کی طرح نالیوں میں بہہ رہے ہیں … اور صدر مشرف اپنے یورپی دوستوں کو
منانے کے لئے غیر ملکی سیر پر ہیں … اندھیرا ہی اندھیرا، اندھیرا ہی اندھیرا… ہر
شخص کے دماغ میں شہوت کا بھوت سوار ہے… عورتیں چھپ چھپ کر غیر مردوں سے دوستیاں کر
رہی ہیں اور مردوں کی نگاہیں ہر عورت کو دیکھ کر کتے کی طرح بھونکنے لگتی ہیں …
اور حلال حرام کا فرق کرنے والے مسلمان تو اب بہت کم ہوتے جارہے ہیں … امت کے قیمتی
لوگ آدھا دن سوتے ہیں اور آدھی رات جاگ کر ضائع کرتے ہیں …اﷲ اکبر کبیرا… جوانی کے
قیمتی لمحات بستروں، کمپیوٹروں اور گپ بازیوں نے تباہ کردیئے … وہ مسلمان جن کے
ذمے پوری دنیا کو جگانے کی ذمہ داری تھی اذان کی آواز سن کر بھی نہیں جاگتے … اور
دن کے قیمتی لمحات بستروں میں دفن کردیتے ہیں …اﷲ ، اﷲ،اﷲ…
مدینہ
منورہ کا گنبد خضراء حیران ہے… اور مسجد اقصیٰ آنسو بہا رہی ہے کہ قوم کے قیمتی
سرمائے کو ذلت اور بے کاری نے جکڑ رکھا ہے … اگر یہ سب کچھ اندھیرا نہیں تو اور کیا
ہے؟
وہ
مسلمان نوجوان جو زمین کا سینہ چیر سکتے تھے… اور جو چاند پر اذان دے سکتے تھے
انٹرنیٹ پر اپنی زندگی اور جوانی تباہ کر رہے ہیں… ہر شخص نے اپنے کئی کئی نام
رکھے ہوئے ہیں اور ہر نام کا الگ ای میل ایڈریس… اور ہر نام سے الگ دوستیاں، الگ
لڑکیاں، الگ لڑکے… ہائے مسلمان ہائے تجھے کیا ہوگیا ہے؟…ای میل پر یاریاں کرنے
والے نوجوان! مدینہ منورہ کی طرف تو دیکھ … اﷲ کے لئے تھوڑی سی شرم کر… میں اکثر
عرض کرتا رہتا ہوں کہ امریکہ انشاء اﷲ مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر کمپیوٹر
اور انٹرنیٹ مسلمانوں کو برباد کرکے رکھ دیں گے…
یا
اﷲ حفاظت فرما، یا اﷲ حفاظت فرما… انٹرنیٹ نے مسلمانوں میں نفاق پھیلا دیا ہے…
بظاہر چہرے پر داڑھی، سر پر زلفیں مگر دل میں گناہوں کی پیپ اور خون… مجاہد اور
مسجد سے دور استغفراﷲ، استغفراﷲ…
مجھے
جنوبی افریقہ کا ایک نوجوان ملا… وہ غمزدہ تھا کہ اس نے اپنی زندگی کے کئی سال کمپیوٹر
پر ضائع کردیئے… وہ شہادت چاہتا تھا اور دل کا سکون … کیونکہ کمپیوٹر نے اسے برباد
کردیا تھا … اس نے بتایا کہ میں نے اسّی ہزار سے زائد صفحات اسکین کیے… اور زندگی
کے بے شمار دن اور راتیں اس منحوس کمپیوٹر پر ضائع کیے… آنکھیں کمزور، دل غافل،
کمر میں درد، خفیہ یاریاں، دھوکے بازیاں، گمراہیاں… اور وقت کا ضیاع یہ کمپیوٹر کا
ادنیٰ سا تحفہ ہے… پاکستان جیسے ملک میں تو انٹرنیٹ کی کوئی خاص دینی ضرورت ہے ہی
نہیں … آپ کو مسئلہ معلوم کرنا ہے تو الحمدﷲ ہر محلے میں عالم، مفتی موجود ہیں… آپ
کو قرآن پاک سننا ہے تو ایک سے ایک قاری موجود ہے اور ٹیپ اور کیسٹیں بھی موجود ہیں…
آپ نے کتابیں پڑھنی ہیں تو ہر شہر میں مکتبے کھلے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ دینی کتب
کے ذخیرے ہیں… آپ کو تقاریر سننی ہیں تو آڈیو کیسٹوں کا وسیع تر خزانہ دستیاب ہے…
پھر آپ کو نیٹ پر مغزماری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ … جس کو کھولنے میں اتنا وقت لگتا
ہے جس میں آپ آسانی سے ایک پارہ کلام الٰہی کی تلاوت کرسکتے ہیں… ہاں کافروں کے
ملکوں میں مقیم مسلمانوں کے لئے نیٹ کے ذریعے کچھ دینی فوائد حاصل کرنے کی سہولت
ہے… بات دور نکل گئی … عرض یہ کر رہا تھا کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، کیا ہم
نے کبھی اس اندھیرے سے نکلنے کی فکر کی ؟… کیا ہم نے کبھی اﷲ تعالیٰ سے تڑپ تڑپ کر
نور مانگا… یا اﷲ میں ڈوب رہا ہوں، ڈوب رہا ہوں… اے آسمان و زمین کے نور مجھے نور
دے دے، نور دے دے، روشنی دے دے، مجھے سنبھال لے، مجھے بچالے … چند دن پہلے میں ایک
حجام کی دکان پر بال کٹوانے گیا … دکان میں گھستے ہی گانے اور میوزک کی منحوس اور
ناپاک آواز کانوں سے ٹکرائی … میں تیزی سے باہر نکلنے لگا تو ’’نائی‘‘ نے ازراہ
ہمدردی آواز بند کردی اور خود ایک آدمی کی داڑھی مونڈنے میں مصروف ہوگیا … اندھیرا
ہی اندھیرا، اندھیرا ہی اندھیرا، ٹی وی ، کیبل، تصویریں، بے حیائی اورغیر شرعی
حجامت … معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کسی مسلمان کی دکان ہے یا کوئی مسلمان ملک … پوری
دیوار عورتوں کی نیم برہنہ تصویروں سے بھری ہوئی تھی… میں ذکر کرنا چاہتا تھا مگر
بتوں کے درمیان شرم آرہی تھی… اچانک نائی صاحب کی غیرتِ اسلامی جوش میں آئی اور وہ
مجھے سنانے کے لئے مذہبی گفتگو میں مگن ہوگئے … ان کا استرا سنت رسول کو مونڈ رہا
تھا اور ان کی زبان ڈاکٹر ذاکر نائک اور ڈاکٹر اسرار احمد کی تعریف میں قینچی کی
طرح چل رہی تھی… داڑھی مونڈوانے والے بزرگ بھی اس کے ساتھ شریک ہوگئے… یارا ڈاکٹر
ذاکر نائک نے تو سکھوں اور ہندوؤں کی بولتی بند کردی… یار وہ کتنے بجے آتا ہے، شام
آٹھ بجے اردو میں، کس چینل پر؟ پیس ٹی وی پر… ٹھیک ہے یار آج سے میں بھی دیکھوں
گا… ہاں یار ضرور دیکھنا بہت مزہ آتا ہے بہت لطف آتا ہے… اندھیرا ہی اندھیرا، اندھیرا
ہی اندھیرا… ہائے میرے اﷲ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کا نور بانٹتے رہے مگر ہم
مسلمان کہاں جاگرے… آج کتنے لوگوں کو قرآن پاک کی حقیقی سمجھ ہے؟ … ہے کسی کو فکر
کہ مجھے دین کا پتہ نہیں … غزوۂ بدر اور احد کو سمجھنے والے آج کتنے مسلمان ہیں؟
… کافروں کے ایجنٹ صبح سات بجے اپنے دفتروں اور ڈیوٹیوں پر پہنچ کر مسلمانوں کے
خلاف کام شروع کردیتے ہیں… جبکہ اسلام کے خادم دوپہر بارہ بجے ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں
…اندھیرا ہی اندھیرا، اندھیرا ہی اندھیرا…
آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے سمجھایا تھا کہ … فجر اور عشاء کی نماز میں خاص طور سے
مسجدوں کی طرف جایا کرو تمہیں نور ملے گا … اﷲ تعالیٰ نے سمجھایا کہ قرآن پاک میں
نور ہی نور ہے… مگر ہم مسجد اور قرآن پاک سے کس قدر دور ہوگئے … ہم اندھیروں میں
گرے تو کافر ہم پر چھا گئے … آج وہ ایٹمی اثاثے تباہ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں…
پاکستان کے حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں… یہ افغانستان اور کشمیر کی طرح ایٹمی اثاثے
بھی کافروں کے حوالے کرسکتے ہیں… ویسے بھی انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی لاج کب
رکھی ہے… یہ تو ذلت اور پستی کے اندھیروں میں ایسے ڈوبے ہیں کہ ان کو نور اور روشنی
کی خواہش بھی نہیں رہی… مگر میں ایک چھوٹا سا مسلمان امریکہ اور یورپ سے پوچھتا
ہوں کہ ٹھیک ہے تم ایٹمی اثاثوں کو لے جاؤ گے… مگر یہ بتاؤ کہ نور سے بھرے ہوئے
مسلمانوں کا کیا کرو گے؟… نور کا ایک ذرہ ایک سو ایٹم بموں سے زیادہ طاقتور ہوتا
ہے… اﷲ ، اﷲ ، اﷲ … اسلام کے وہ فدائی جن کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا نور ہے وہ تمہارے
کسی خواب کو پورا نہیں ہونے دیں گے… یاد رکھو تم سازش میں جیت سکتے ہو مگر جنگ میں
نہیں … اگر تمہارے پاس ہتھیار بہت ہیں تو کیا پروا مجاہدین کے پاس نور بہت ہے… اور
یاد رکھو ’’اینٹی نور میزائل‘‘ آج تک کوئی ایجاد نہیں کرسکا… اﷲ تعالیٰ کا وہ نور
جو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کو نصیب ہوا اور آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم اسے امت
میں بانٹ گئے وہ نور ابھی بہت سے سینوں میں سلامت ہے… انٹرنیٹ، موبائل اور کوٹھی
بنگلے کے لالچ نے ابھی تک بہت سے مسلمانوں تک رسائی نہیں پائی … نور کے یہ شعلے جب
تم پر برستے ہیں تو تم چیخیں مارتے ہو اور تمہاری قوت اور ٹیکنالوجی بے بس ہوجاتی
ہے… الحمدﷲ نور والے فدائیوں نے تمہیں عراق میں شکست دی ہے اور نور والے طالبان نے
تمہیں افغانستان میں خاک چٹائی ہے… کاش تم شرم کرتے کہ تینتیس ملک مل کر مجاہدین
کا مقابلہ کر رہے ہو اور پھر بھی ہار رہے ہو… معلوم ہوا کہ تم نور کا مقابلہ نہیں
کرسکتے… تو پھر آؤاور ضد چھوڑو اور تم بھی اس نور کے مستحق بن جاؤ … ہاں امریکہ
والو! مسلمان ہوجاؤ… ہاں! یورپ والو! مسلمان ہوجاؤ … آجاؤ اس نور کی طرف جو اﷲ پاک
نے قرآن کی صورت میں نازل کیا ہے… اور آجاؤ اس نور کی طرف جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کے دین کی صورت میں چمک رہا ہے… آجاؤ ظالمو آجاؤ… جانوروں جیسی شہوت پرستی
چھوڑ دو، مسلمانوں سے ٹکرانا چھوڑ دو، نائٹ کلبوں کے اندھیروں کو چھوڑ دو … آجاؤ
توحید، رسالت، اسلام اور قرآن کے نور کی طرف… یقینا تم کو سلامتی ملے گی… اور اگر
تم اس نور کی طرف نہ آئے تو پھر یاد رکھو تم اس نور کو بجھا نہیں سکتے… اور نہ اس
نور سے ٹکرا سکتے ہو…
یُرِیْدُوْنَ
لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اﷲِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاﷲُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ
الْکٰـفِرُوْنَ۔
اﷲ
تعالیٰ اس نور کو پورا فرما کر رہے گا… ہر کچے پکے گھر میں یہ نور پہنچے گا… اور
اسلام دنیا پر پھر غالب ہوگا… ضرور غالب ہوگا … اے مسلمانو! … اندھیروں سے توبہ کر
و… اﷲ تعالیٰ سے نور مانگو، نور مانگو، نور مانگو… اور نور کو ڈھونڈو اور نور کو
تلاش کرو …
اَﷲُ
نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضِ
اﷲ
ہی آسمان وزمین کا نور ہے
اﷲ،
اﷲ ، اﷲ …
٭٭٭
ایک بدنصیب گروہ
جب لوگ سعادتوں سے
اپنی جھولی بھر رہے تھے… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے جنت کی بشارت اور مقبول
دعائیں حاصل کر رہے تھے…اُسوقت انتالیس افراد کا ایک گروہ جنت کو چھوڑ کر جہنم کی
طرف سرپٹ دوڑ رہا تھا… اور کامیابی کے راستے کو چھوڑ کر اپنے ناکام ہونے کی خوشیاں
منا رہا تھا…
قرآنی آیات کی روشنی
میں
جہاد فی سبیل اﷲ کی
فرضیت اوراہمیت کو سمجھانے والی ایک تحریر
تاریخ اشاعت ۲۲
محرام الحرام۱۴۲۹ھ
یکم فروری۲۰۰۸ء
شمارہ ۱۳۳
ایک بدنصیب گروہ
اﷲ
تعالیٰ نے ہم مسلمانوں پر بہت بڑا احسان فرمایا کہ… ہمیں ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ جیسی
عظیم الشان نعمت عطاء فرمائی… بے شک جہاد بہت بڑی نعمت اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے…
اﷲ اکبر کبیرا… عزت کی زندگی اور شہادت کی موت… ایک مسلمان کو اور کیا چاہئے؟ … آج
نہ جہاد کے دلائل لکھنے ہیں اور نہ فضائل… الحمدﷲ دلائل اور فضائل آج کے اخبار میں
آپ کو بہت ملیں گے جو دوسرے رفقاء کرام نے لکھ دیئے ہیں… اﷲ تعالیٰ ان سب کا لکھنا
قبول فرمائے … دراصل جہاد کا مسئلہ بہت واضح ہے… جہاد والا کام تو فرشتوں کے ذمے
تھاپھر اﷲ پاک نے انسانوں پر احسان فرمایا اور انہیں جہاد والا کام دے دیا… اور
پھر اس امت پر خصوصی احسان فرمایا کہ جہاد کو ان کے دین کا حصہ بنادیا اور اپنے
محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو تلوار دے کر مبعوث فرمایا … اﷲ اکبر کبیرا… اب وہ
دن ہے اور آج کا دن ہے جنت کی حوریں خوب بنتی ہیں، سنورتی ہیں… اور خوب زیب وزینت کرتی ہیں… جی ہاں اﷲ تعالیٰ
کے راستے کے مجاہدین کے لئے… اور جنت خوب مہک رہی ہے… کافروں نے ایٹم بم بنا کر
اسلام کو مٹانے کا خواب دیکھا ہے… مگر جہاد مسکرا رہا ہے… جہاد جگمگا رہا ہے، جہاد
للکار رہا ہے… کافروں کے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں … اور شہیدوں کا خون ہر طرف
خوشبو بکھیر رہا ہے اﷲ پاک نے جہاد کی نعمت دے کر بہت بڑا احسان فرمایا اور جنت کے
لمبے راستے کو مختصر فرمادیا… پہلے یہ نعمت فرشتوں کے پاس تھی اب اس امت کے مجاہدین
کے پاس ہے اور فرشتے بھی محروم نہیں ہوئے اب ان کا کام مجاہدین کی مدد کرنا ہے اور
میدان جہاد میں رب کی نصرت بن کر اترنا ہے… اﷲاکبرکبیرا… دین کے دشمنوں نے جہاد کے
خلاف طرح طرح کے اعتراضات اور شبہات پھیلائے مگر ان کی کوئی بات وزنی نہیں ہے…
قرآن پاک کی آیتوں نے جہاد کے مسئلے کو بالکل واضح کردیا ہے… جہاد کا مسئلہ اتنا
واضح اور تاکیدی ہے کہ ماضی کے مفسرین اور فقہاء اس پر بحث کرتے رہے کہ اگر
خدانخواستہ مسلمانوں پر بڑی گمراہی کا حملہ ہو اور ان کی اکثریت جہاد چھوڑ دے تو
سچے اور حقیقی مسلمان اس وقت کس طرح سے فریضۂ جہاد کو ادا کریں گے؟ … امام قرطبیؒ
لکھتے ہیں:
کیف
یصنع الواحد اذا قصر الجمیع
یعنی
اگر کسی جگہ کے تمام لوگ جہاد چھوڑ دیں تو ایک آدمی اس وقت کس طرح سے جہاد کرے؟
پھر
اس کا جواب دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالے
۱) کسی
ایک مسلمان قیدی کو فدیہ دے کر چھڑائے، یعنی کسی گرفتار مجاہد کو فدیہ دے کر رہا
کرائے یا
۲) کسی دور دراز کے محاذ پر پہنچ کر خود لڑائی میں حصہ لے یا
۳) کسی مجاہد کو پورا سامان جہاد دے کر بھیجے۔ (القرطبی)
مقصد
یہ ہے کہ چھٹی نہیں ہے، ایک سچے اور حقیقی مسلمان کو کسی نہ کسی طریقے پر جہاد میں
حصہ لیتے رہنا چاہئے کیونکہ … جہاد کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور جہاد کے بغیر
ایمان والی موت نصیب ہونا مشکل ہوتا ہے… آپ حضرات نے مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؒ
کا نام سنا ہوگا، اہل علم ان کو تابعین کا سردار کہتے ہیں وہ فرمایا کرتے تھے کہ …
جہاد ہر مسلمان کی اپنی ذاتی اور ایمانی ضرورت ہے کیونکہ جو شخص جہاد اور نیت جہاد
کے بغیر مر جائے وہ منافقت کی موت مرتا ہے پس خود کو منافقت سے اور منافقت والی
موت سے بچانا فرض عین ہے…
مگر
اس زمانے کے کچھ نادان لوگوں نے ’’ترک جہاد‘‘ کو اپنے گلے کا ہار بنالیا ہے… وہ
کہتے ہیں کہ ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا؟ … استغفراﷲ، استغفراﷲ…
اسلام
کا جو فریضہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوگیا، اب اس کو منسوخ یا موقوف
کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، کسی کو بھی نہیں ہے… پرانے زمانے کے فقہاء اور
مفسرین اس پر بحث کرتے تھے کہ اکیلا آدمی کس طرح سے جہاد کرے جبکہ آج کے نادان
واعظ کہتے ہیں کہ … جہاد سرکار کا کام ہے، جہاد کی شرطیں پوری نہیں، جہاد کا وقت
نہیں آیا… اور جہاد کی فلاں فلاں قِسمیں ہیں …
اﷲ
رب العالمین ایسی باتیں کہنے والوں کے شر
سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، دراصل یہ لوگ کافروں کی طاقت سے مرعوب ہیں اور
اﷲ پاک کے لئے جان دینا نہیں چاہتے… غزوۂ تبوک کے موقع پر جو منافق جہاد کے لئے
نہیں نکلے تھے ان کے بارے میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
فکانوا
کالآئسین من الفوز بالغنیمۃ بسبب انہم کانوا یستعظمون غزو الروم فلہذا السبب
تخلفوا۔ (تفسیر کبیر)
یعنی
یہ لوگ رومیوں کی طاقت کو بہت بڑا (ناقابل تسخیر) سمجھتے تھے اور ان کے مقابلے میں
کامیابی سے گویا بالکل مایوس تھے۔
ایک
اور جگہ امام رازیؒ نے مسلمان اور منافق کا فرق لکھا ہے کہ مسلمان تو جہاد کا نام
اور اعلان سن کر جہاد کے لئے دوڑ پڑتے ہیں جبکہ منافق طرح طرح کے بہانے تراشنے
لگتے ہیں کہ کس طرح سے جہاد سے بچ جائیں:
والمقصود
من ہذا الکلام تمییز المومنین من المنافقین فان المومنین متی امروا بالخروج الی
الجہاد تبادروا الیہ ولم یتوقفوا والمنافقون یتوقفون ویتبلدون ویأتون بالعلل
والاعذار۔ (تفسیرکبیر)
پس
معلوم ہوگیا کہ … جہاد کے خلاف جو لوگ طرح طرح کے دلائل لاتے ہیں وہ دلائل نہیں
ہوتے صرف شیطانی وسوسے اور نفسانی بہانے ہوتے ہیں … جب آقا مدنی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم خود تلوار لے کر میدان جہاد میں لڑنے بار بار تشریف لے گئے تو بات ہی ختم
ہوگئی… جہاد کے معنیٰ بھی معلوم ہوگئے اور جہاد کی اہمیت بھی… اگر جہاد اہم نہ
ہوتا تو اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب وحبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس میں زخمی نہ ہونے دیتا
… آج کی مجلس کے شروع میں عرض کیا ہے کہ آج نہ جہاد کے دلائل بیان کرنے ہیں اور نہ
فضائل، بلکہ آج آپ سب کے ساتھ ایک ’’دعاء‘‘ کا تبادلہ (مبادلہ) کرنا ہے… یہ ایک
ضروری دعاء ہے جو میں آپ کے لئے مانگوں اور آپ میرے لئے مانگیں … دراصل قرآن پاک
نے سمجھایا ہے کہ بعض لوگ خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور بسا اوقات دیندار بھی
… مگر وہ بدنصیب لوگ ہوتے ہیں کیونکہ اﷲ پاک ان سے ناراض ہوتا ہے اور اس کی علامت یہ
ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو جہاد میں نہیں نکلنے دیتا … استغفراﷲ، استغفراﷲ…
اب
ہم نے تڑپ تڑپ کر یہ دعاء کرنی ہے کہ اﷲ پاک مجھے اور آپ کو ان لوگوں میں شامل
ہونے سے محفوظ فرمائے …
بدنصیب
لوگوں کا یہ گروپ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوا اور تاقیامت
رہے گا… قرآن پاک کی سورۃ توبہ کی آیت ۴۳ سے اس گروہ کا تذکرہ شروع ہوتا
ہے اور کئی آیات تک یہ دل ہلانے والا تذکرہ جاری رہتا ہے… ایک مسلمان اگر غور سے
ان آیات کو پڑھے تو غم اور خوف سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل لرزنے لگتا ہے…
حضرت آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے لئے تشریف لے جارہے تھے… آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو نکلنے کا حکم دیا… اس وقت اہل ایمان کی طرف سے ایمان
کے عجیب عجیب مناظر سامنے آئے اور صحابہ کرام سب کچھ لٹا کر رومیوں سے ٹکرانے کے
لئے تیار ہوگئے… مگر بدنصیب لوگوں نے طرح طرح کے بہانے بنانا شروع کردیئے، کسی نے
دینداری کا لبادہ اوڑھ کر کہا کہ جہاد میں نکلنے سے میرا دین تباہ ہوجائے گا تو کسی
نے اپنے گھر کا بہانہ بنایا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے بہانے سن کر ان کو گھر
رہنے کی اجازت دیتے رہے اس وقت سورۃ توبہ ایک گرج بن کر نازل ہوئی کہ… اے نبی (ﷺ)
اﷲ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان کو اجازت کیوں دی؟ … آپ کو چاہئے تھا کہ آپ
ان کو اجازت نہ دیتے تاکہ یہ سرعام رسوا ہوجاتے … اور پھر قرآن پاک نے وہ بات
فرمادی جو سخت دلوں کو پگھلا دیتی ہے:
ولکن
کرہ اﷲ انبعاثہم
اﷲ
پاک نے ان کے جہاد میں نکلنے کو پسند ہی نہیں فرمایا… اﷲ پاک نے ناپسند فرمایا کہ یہ
لوگ عزت وعظمت والے میدان جہاد میں پہنچیں پس اس نے ان کو سست کرکے عورتوں کے ساتھ
گھروں میں بٹھا دیا…
ہائے
اﷲ معافی … ہائے ربا معافی… ہائے مولا معافی…
تفسیر
مدارک اور روح المعانی وغیرہ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ یہ
انتالیس افراد تھے جن کے بارے میں ابتدائی طور پر یہ آیتیں نازل ہوئیں:
وکانوا
تسعۃ وثلاثین رجلاً (المدارک)
اﷲ
پاک ناراض ہوجائے یہ ایک مومن کے لئے جہنم سے بھی سخت عذاب اور سزا ہے … پس آپ میرے
لئے دعاء فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان انتالیس افراد کے گروہ میں شامل ہونے سے
بچائے اور میں آپ سب کے لئے یہی دعاء کرتا ہوں … یہ انتالیس افراد کس جہاد میں
جانے سے رکے تھے؟ … سب کو معلوم ہے کہ غزوۂ تبوک سے جو کہ ایک جنگ تھی … پس جہاد
کے شرعی معنیٰ بھی معلوم ہوگئے … اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جہاد سے محرومی ایک
بڑا عذاب اور مصیبت ہے… ہمیں اس وقت کسی اور پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ
ہمیں تو اپنی فکر ہے کہ ہم جہاد سے محروم نہ ہوجائیں… جہاد ایک مشکل فریضہ ہے کیونکہ
یہ اسلام کی بلند چوٹی کا سب سے اوپر والا مقام ہے… اوّل تو اتنے اونچے مقام تک
چڑھنے کے لئے کافی محنت لگتی ہے اور دوسرا اس مقام پر پہنچ کر گرنے کا بھی ڈر رہتا
ہے… جو لوگ دنیا کے تقاضوں اور شہوتوں سے ہلکے رہتے ہیں وہ جلد ہی چڑھ جاتے ہیں …
اور جو لوگ جماعت بن کر ایک دوسرے کو تھامے رکھتے ہیں وہ گرنے سے بچ جاتے ہیں … اﷲ
پاک ہمیں گرنے سے بچائے اور ہمیں جہاد سے محروم نہ فرمائے … دراصل یہ دنیا اور اس
کے تقاضے بہت ظالم اور دلکش ہیں … ایک مجاہد جب اس دنیا کی طرف دیکھنے لگتا ہے تو
اس کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ جہاد کی نورانی چوٹی سے گر جاتاہے … یا اﷲ رحم
فرما، یا اﷲ رحم فرما… پھر جہاد سے محرومی کا فتنہ بھی بہت عجیب ہے… اکثر گناہ ایسے
ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہونے کے بعد شرم اور خوف محسوس کرتا ہے… مگر ترکِ جہاد
کے گناہ کو شیطان نے دلکش بنادیا ہے… آپ جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ جانے والے کسی شخص
سے بات کریں وہ خود کو دنیا کا افضل ترین شخص ثابت کرے گا اور جہاد کرنے والوں پر
طرح طرح کی تنقیدیں کرے گا … اگر خدانخواستہ میں اور آپ بھی اسلام کی چوٹی سے پھسل
کر دنیا کے دلدل میں جاگرے تو ہمارا بھی یہی حال ہوجائے گا… اور بالآخر ایک دن موت
کے ظالم پنجے ہماری گردنیں دبا دیں گے اور ہم شہادت کی زندگی اور لذتوں سے محروم
ہوجائیں گے
یا
اﷲ رحم فرما، یا اﷲ رحم فرما…
مجھے
اور آپ کو یقین کرنا چاہئے کہ جہاد چھوڑنے کا نقصان صرف اور صرف خود ہمیں ہی پہنچے
گا… اگر جہاد چھوڑ کر ہم نے امریکہ میں بنگلہ بنالیا، دبئی میں محل خرید لیا، اپنے
گرد دنیا بھرکی عورتیں جمع کرلیں اور اپنے ذاتی جہاز لے لئے تب بھی ہم ایک ذلیل
مچھر سے بھی زیادہ حقیر رہیں گے… کیونکہ یہ تمام چیزیں میدان جہاد میں لگنے والی
مٹی کے بھی برابر نہیں ہیں… ہائے کتنے خوش نصیب ہیں وہ مجاہد جو اپنا امتحان پورا
کرکے شہید ہوگئے… اب کوئی کار، کوئی کوٹھی، کوئی عورت، کوئی عزت، کوئی لالچ ان کو
جہاد سے محروم نہیں کرسکتی…
مگر
ہم تو خطرے میں ہیں… ہر طرف خوف ہے اور طرح طرح کے فتنے … لوگ خوبصورت جوتی پہن کر
ناز نخرے کرنے لگتے ہیں… ہائے مسلمان تو تو روم وفارس کے خزانوں کو بھی نفرت سے دیکھتا
تھا اب تو جوتے، کوٹھی اور کپڑے میں عزت دیکھ رہا ہے… جہاد چھوڑ دو اور امن سے
رہو… یہ بدبودار نعرہ بے شمار لوگوں کو جہاد سے محروم کر چکا ہے… اﷲ پاک کی قسم جو
امن انسان کو جہاد سے دور کرتا ہو، اﷲ پاک کی رحمت سے دور کرتا ہو وہ امن نہیں ہے…
ہاں بے شک جو امن ببر شیر کو بندر بنادے وہ امن خود ایک ذلت اور عذاب ہے…
اے
القلم کے پڑھنے والو… مجھے اور آپ کو اپنے نفس کی نگرانی کرنی چاہئے اور اس کو
سمجھانا چاہئے کہ یہ … جہاد چھوڑنے پر ہمیں نہ ابھارے… یاد رکھیئے! جو نفس جہاد کے
خلاف ابھارتا ہو وہ ’’نفس امّارہ‘‘ ہے خواہ وہ کتنی ہی نیکیوں میں لگا رہتا ہو … جی
ہاں جہاد اﷲ پاک کا حکم ہے… اے نفس کیا تو اﷲ پاک کے حکم سے رو گردانی کرتا ہے؟…
جہاد کی فرضیت اور فضائل قرآن پاک نے بیان فرمائے ہیں … اے نفس اگر تو جہاد میں
نکلا اور تجھے شہادت نصیب ہوگئی تو تو ابد الآباد، یعنی ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں کا
مستحق بن جائے گا… تجھ سے نہ آنکھوں کا حساب ہوگا نہ کانوں کا … تجھ سے نہ قبر کی
پوچھ تاچھ ہوگی اور نہ حشر کا حساب… تو فرشتوں کے ساتھ گھومے گا اور ہواؤں اور
بادلوں میں تیرتا پھرے گا… تیرا رب تجھ سے راضی ہوگا اور جنت کی نہریں تیرے ساتھ
کھیلیں گی … اے نفس تیری جان حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں
ہے، جب وہ جہاد میں نکلے تو پھر تو خود کو قیمتی سمجھ کر کیوں گھر میں بیٹھا ہوا
ہے؟
اے
نفس! پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاد اور مجاہد کے جو فضائل ارشاد فرمائے ہیں
کیا تو ان تمام فضائل سے محروم رہے گا؟… پھر تو قیامت کے دن آقا صلی اﷲ علیہ وسلم
اور صحابہ کرام کا کس طرح سے سامنا کرے گا؟ … اے نفس! زندگی کے دن مقرر ہیں، موت
کا وقت مقرر ہے، روزی کے لقمے مقرر ہیں پھر تو جہاد کو چھوڑ کر کیا حاصل کرنا
چاہتا ہے؟ … جہاد کی مٹی، جہاد کے قدم، جہاد کی بھوک، جہاد کا ایک ایک لمحہ نعمت
اور رحمت ہے کیا تو ان تمام چیزوں سے محروم ہونا چاہتا ہے؟ … اے نفس! یہ دنیا بے
وفائی، ظلم، بیماری اور پریشانی کی جگہ ہے کیا تو اس پریشانی والی زندگی کی خاطر
راحتوں اور لذتوں والی زندگی قربان کر رہا ہے؟…
اے
مسلمان ! تیرے جہاد چھوڑنے سے کافروں نے کتنی طاقت بنالی ہے… اب سلمان رشدی ہماری
ماؤں کو گالیاں دیتا پھرتا ہے، وہ خبیث شخص، ازواج مطہرات پر زبان چلاتا ہے… امریکہ
کے دانشور کعبۃ اﷲ اور مسجد نبوی پر بمباری کی باتیں کر رہے ہیں… اور کافروں کے
لشکر عراق، افغانستان، کشمیر اور فلسطین میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کا
خون بہا رہے ہیں۔
اے
مسلمان تو نے دنیا کو سب کچھ سمجھا تو آج تجھے آٹے کے لئے قطار لگانی پڑتی ہے…
حالانکہ ایک زمانے میں روم وفارس کے بادشاہ تجھے خراج دے کر جیتے تھے… اے مسلمان
تو نے زندہ رہنے کا شوق پالا تو تجھے آج کافروں کے ملکوں میں جاکر ان کے کتے
نہلانے پڑتے ہیں … حالانکہ تو تو افضل ترین امت کا فرد تھا…
اے
مسلمان تو نے جہاد چھوڑا تو آج زمانے کے بدترین لوگ تیرے حکمر ان بن گئے وہ تجھے
دن رات بیچتے، مارتے اور ستاتے ہیں … اے نفس اﷲ تعالیٰ سے ڈر، اس دنیا کی حقیقت کو
سمجھ … کسی قبرستان میں جاکر مردوں سے بولنے کی کوشش کر… کسی گندگی کے ڈھیر پر دنیا
کی چیزوں کاحشر دیکھ … اور کسی بڑھاپے سے حسن کی بے ثباتی کا راز پوچھ … تب تو
جہاد چھوڑنے کے گناہ اور عذاب سے باز رہے گا…
اے
القلم کے پڑھنے والو… ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس کو سمجھائیں… اور یاد دہانی کے
لئے روزانہ آیاتِ جہاد، فضائلِ جہاد اور واقعات ِجہاد کا مذاکرہ کیا کریں… شیطان
کو جہاد سے سخت چڑ ہے… وہ جانتا ہے کہ جہاد بخشش اور جنت کا راستہ ہے، اس لئے وہ
ہرمجاہد کے پیچھے لگا رہتا ہے کہ کسی بھی طرح اسے جہاد سے محروم کرکے حقیر دنیا کا
ذلیل غلام بنادے… اس لئے ہمیں روز فضائل جہاد کی تعلیم کراکے اپنے ایمان کو تازہ
کرناچاہئے… اور فتح الجوّاد کا بھی بار بار مطالعہ کرناچاہئے…
مگر
ایک بات یاد رکھیں… اپنے نفس کو سمجھانے سے بھی فائدہ ہوگا، روزانہ کی تعلیم،
مذاکرے اور مطالعے سے بھی فائدہ ہوگا… مگر اصل مسئلہ تب حل ہوگا جب ہم اپنے دل میں
جہاد کی قدر بٹھا لیں گے، خود کو جہاد کا محتاج سمجھیں گے اور جہاد سے محرومی کو
عذاب جانیں گے… آپ دیکھیں ایک آدمی اپنی جان اور صحت کو اپنے لئے ضروری سمجھتاہے
تو پھر اس کی حفاظت کے لئے کتنی تدبیریں کرتا ہے ا ور کتنی دعائیں مانگتا ہے…
حالانکہ جہاد فی سبیل اﷲ ہمارے لئے جان اور صحت سے زیادہ ضروری ہے… جان نہ ہوئی تو
مرجائیں گے اور مرنا تو ویسے بھی ہے، صحت نہ ہوئی تو بیمار ہوجائیں گے… مگر جہاد
سے محروم ہوئے تو برباد ہوجائیں گے کیونکہ جہاد سے محرومی اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کی
علامت ہے… آپ ایک بار سورۃ توبہ کی آیت ۴۳ اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اور
اس کے بعد کی دس آیتوں کا مطالعہ کرلیں … اگر اﷲتعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی تو انشا
ء اﷲ اپنی کسی اگلی مجلس میں ان بارہ تیرہ آیات کا خلاصہ عرض کروں گا… آپ ان آیات
میں جھانک کر دیکھیں کہ جہاد سے محرومی کتنا بڑا عذاب اور کتنی عظیم رسوائی ہے…
اور اﷲ پاک چاہتا ہے کہ بعض لوگ جہاد میں نہ نکلیں… کیونکہ ان کا جہاد میں نکلنا اﷲ
پاک کو پسند نہیں ہے… اعوذباﷲ، اعوذباﷲ، استغفراﷲ، استغفراﷲ… یہ کتنی شدید وعید ہے
اور کتنا سخت عذاب کہ انسان اتنا گر جائے اور اتنا گندہ ہوجائے کہ اﷲ پاک اس کو
جہاد سے محروم فرمادے… یا اﷲ، یااﷲ، یااﷲ آپ کو آپ کی وسیع رحمت کا واسطہ کہ مجھے
ان لوگوں میں شامل ہونے سے اپنی پناہ میں لے لیجئے اور جو مسلمان مرد اور عورتیں
اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں ان کے لئے بھی یہی دعاء ہے کہ اﷲ پاک ان کو جہاد کی محرومی
سے اپنی پناہ میں رکھے اور یہی دعاء اپنے والدین، اہل خانہ، عزیز واقارب، دوست
احباب اور محسنین ومعاونین کے لئے بھی ہے… یا اﷲ یا ارحم الراحمین ہمیں اپنی ناراضی
سے بچالیجئے… اور ہمیں محرومی اور بدنصیبی سے بچالیجئے…
اے
القلم کے پڑھنے والو… آپ میرے لئے دعاء کریں، میں آپ کے لئے دعاء کرتا ہوں … جہاد
کا انکار کفر ہے، جہاد کا ترک محرومی ہے، اور شہادت ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت
ہے … ا ﷲپاک ہمیں کفر اور محرومی سے بچائے، مقبول شہادت کی نعمت نصیب فرمائے اور
انتالیس بدنصیب افراد والے گروہ میں شامل ہونے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… آمین یا
ارحم الراحمین یا اﷲ ، یا اﷲ، یا اﷲ…
٭٭٭
عالم ربانی حضرت
نعمانی ؒ
ایک صاحبِ علم مثالی
شخصیت کا تذکرہ اور علم دین حاصل کرنے کے فضائل
(سوانحی خاکہ
حضرت مولانا منظور احمد نعمانیؒ)
اسم گرامی: مولانا
منظور احمد نعمانیؒ … ولد: محمد مراد خان… قوم: مستوئی بلوچ پیدائش: ۱۹۲۵ء
علاقہ مڈمستوئی اوچ شریف ریاست بہاولپور میں ہوئی
آپ
کے والد محترم ایک سکول میں استاذ تھے ابتدائی تعلیم پرائمری تک ان سے حاصل کی اس
کے بعد دینی تعلیم شروع کی پاکستان کے مختلف معروف ونامور شیوخ سے شرف تلمذ حاصل کیا
اور دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند سے کرنے کی سعادت حاصل کی اس کے بعد اپنے قریبی
گائوں بستی گمانی میں اپنے استاذ مولانا حبیب اﷲ گمانوی صاحبؒ کے ساتھ مل کر تدریس
کا سلسہ شروع فرمایا اور تاحیات اسی سلسلے سے منسلک رہے ۱۹۶۲ میں
یہ مدرسہ طاہر والی منتقل ہو گیا اور اب تک قائم ہے انتہائی سادہ مزاج اور عاجزی
پسند تھے بڑی بڑی پیشکشوں کے باوجود اپنی بستی کو نہ چھوڑا… اﷲ تعالیٰ نے اس سادگی
کی برکت سے بڑے بڑے اہل علم کے رخ اس بستی کی طرف موڑ دیئے اور پاکستان کے کئی
معروف مدرسین آپ کے شاگرد ہیں علم کے ساتھ ساتھ عمل و تقویٰ میں بھی ایک خاص شان
کا تصلب تھا۔ (از مرتب)
تاریخ
اشاعت ۲۹ محرم الحرام ۱۴۲۹ھ
۸فروری ۲۰۰۸ء
شمارہ
۱۳۴
عالم
ربانی حضرت نعمانی ؒ
اﷲ
تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے بڑے علماء کرام سے تعلق، محبت اور
نسبت عطاء فرمائی ہے… علم اﷲ تعالیٰ کا نور ہے اور اﷲ تعالیٰ جس انسان سے خیر اور
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا علم عطاء فرماتا ہے … قرآن و حدیث میں جس
’’علم‘‘ کی فضیلت بیان ہوئی ہے یہ وہی علم ہے جو انبیاء علیہم السلام کے واسطے سے
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے … اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کو
بہت وسیع علم فرمایا ہے … آپ اگر اس امت کے علماء کرام کے حالات پڑھیں تو عقل دنگ
رہ جاتی ہے … ایک ایک عالم نے ہزاروں کتابیں لکھیں اور ایسی کتابیں لکھیں کہ زمانہ
ان کی مثال پیش نہیں کرسکتا … ان علماء کرام کے علم کو دیکھ کر خود سوچیں کہ رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا علم کتنا ہوگا … حیرت کی بات ہے کہ آج کل کے مسلمان سائنس
کے شعبدوں سے متاثر ہوتے ہیں اور اسلام کو سائنس پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں …
حالانکہ آجکل کے سائنسدان نور اور روشنی سے محروم اور جاہل ہیں … انہوں نے انسانوں
کے اخلاق تباہ کردیئے ہیں اور انسانوں کی صحت برباد کردی ہے… آج سائنس کی ترقی کا
دور ہے اور ہر آدمی بیمار ہے… جبکہ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں صحت کا
یہ عالم تھا کہ ایک حکیم صاحب مدینہ منورہ میں کئی دن تک رہے اور بالآخر یہ کہہ
کرچلے گئے کہ یہاں تو کوئی بیمار نہیں ہے … اﷲ اکبرکبیرا… لوگ کھیتی باڑی بھی کرتے
تھے، لمبے لمبے سفر بھی کرتے تھے، عبادات میں بھی لگے رہتے تھے، جہاد میں پورا
پورا دن گھوڑے کی پیٹھ پر تلواریں بھی چلاتے تھے، نیزے بھی گھماتے تھے اور رات کو
آرام سے سو کر اپنے وقت پر تہجد کے لئے بھی اٹھ جاتے تھے اور کئی کئی شادیاں حکیموں
کا تعاون حاصل کیے بغیر کرتے تھے… مطلب یہ ہے کہ سائنس کوئی اتنی بڑی چیز نہیں ہے
جس کو دیکھ کر ہم مسلمانوں کے دل سے ’’دینی علوم‘‘ کی قدر نکل جائے اور ہم قرآن و
سنت کے علم سے محروم ہو کر اے بی سی کو سب کچھ سمجھنے لگیں … چند دن پہلے میں ایک
جگہ سے گزرا تو زمین کی عجیب حالت دیکھی … کچھ لوگ زمین کھود کر پائپ بچھا رہے
تھے، قریب ہی گٹر لائن بچھی ہوئی تھی… اﷲ پاک نے اتنی خوبصورت زمین بنائی مگر
انسان نے اپنے آرام کی ہوس میں اس کو نالیوں، پائپوں، تاروں اور پتہ نہیں کن کن چیزوں
سے چھید دیا ہے… پہاڑوں کا حسن تباہ ہوگیا، دریاؤں کا شریں پانی کیمیکلوں کے زہر
سے ابلنے لگا، جنگلات کا طلسماتی منظر ماضی کا افسانہ بن گیا … ہر طرف مشینوں کا شور
ہے اور بیماریوں سے بھرے انسان …ہم ترقی کے دشمن نہیں ہیں مگر اس وقت جو کچھ ہو
رہا ہے یہ ترقی نہیں خود کشی ہے … یہ انسان اور انسانیت کو ختم کرنے کا ایک کھیل
ہے… ہاں بے شک اسی طرح قیامت آئے گی … تب معلوم ہوگا کہ علمِ دین کی کیا قیمت تھی…
دین کا علم انسان کو انسان بناتا ہے اور انسانیت کو ترقی دیتا ہے… اسی لئے تو
انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’دین کے علم‘‘ کو فرض
قرار دیا…
طلب
العلم فریضۃ علی کل مسلم (بیہقی)
یعنی
دین کے علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔
جی
ہاں اتنا علم جس سے حلال حرام کا پتہ چلے، پاکی ناپاکی کا حال معلوم ہو اور دینی
فرائض سے واقفیت ملے … اور فرائض ادا کرنے کا درست طریقہ معلوم ہو … اتنا علم تو
ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے… مگر افسوس کہ آج تو مسلمانوں کو اپنے عقیدے تک کا علم
نہیں، چنانچہ کوئی بھی کھڑا ہو کر ان کو گمراہ کردیتا ہے … آج تقریباً ہر شہر میں
’’امام مہدی‘‘ کا دعویٰ کرنے والے پاگل موجود ہیں اور کئی لوگ ان کے دعوے کو تسلیم
کرتے ہیں…
آج
ہر محلے اور علاقے میں نقلی پیر موجود ہیں … تعویذ فروش، توہم پرست اور ان پیروں
کے پاس عورتوں کا ہجوم ہے… مسلمان عورتیں چھپ چھپ کر ان پیروں کے پاس جاتی ہیں اور
اپنے ایمان کو برباد کرتی ہیں … دین کا علم اﷲ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتا ہے اور آج
کا مسلمان علم سے بھی محروم ہے اور اﷲ تعالیٰ کے خوف سے بھی، اس لئے وہ ہر کتے اور
بلی سے ڈرتا ہے… میرا کئی سال سے ارادہ ہے کہ بخاری شریف کے شروع میں امام بخاریؒ
نے علم کی فضیلت پر جو احادیث مبارکہ نقل فرمائی ہیں ان کا ترجمہ کرکے ایک کتابچے
کی صورت میں چھاپ دوں … ممکن ہے بہت سے مسلمانوں کی آنکھیں کھل جائیں کہ انہوں نے
علم سے محروم رہ کر اپنا کتنا بڑا نقصان کیاہے… اﷲ کے پاک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تو
ہمارے خیرخواہ تھے ان سے بڑھ کر ہمارا کون خیرخواہ ہوسکتا ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے علم کا ایک ایک حرف سیکھنے پر طرح طرح کے فضائل اور فوائد بیان فرمائے، قرآن
پاک نے علم کی فضیلت کو مختلف انداز سے بیان فرمایا … آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہاں
تک سمجھایا کہ علم انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہے، اور علم کا راستہ جنت کا
راستہ ہے اور جو کوئی اسلام کو زندہ کرنے کے لئے علم حاصل کرتا ہے اس کے اور انبیاء
علیہم السلام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہوگا
من
جاء ہ الموت وہو یطلب العلم لیحی بہ الاسلام فبینہ وبین النبیین درجۃ واحدۃ فی
الجنۃ۔(دارمی)
خیر
یہ ایک طویل موضوع ہے… میں صرف اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے سامنے ایک سوال
رکھنا چاہتا ہوں … کیا تمام انسانیت کی کامیابی اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقے میں نہیں ہے؟ … آپ کیا جواب دیں گے؟ … یہی نا کہ بے شک
تمام اولاد آدم کی کامیابی اس وقت اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے طریقے میں ہے اور اس بات میں شک کرنا بھی کفر کے مترادف ہے … تو پھر اﷲ
تعالیٰ کے احکامات کو جاننا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقے کو معلوم کرنا
کتنا ضروری ہوگیا … بس اسی چیز کا نام علم ہے… اور آج ہم اسی علم سے دور ہوتے
جارہے ہیں … یاد رکھیں علم کے بغیر جہالت ہی جہالت، اندھیرا ہی اندھیرا اور خسارہ
ہی خسارہ ہے… اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو دین کا علم پڑھائے اور
ان کو ہلاکت اور تباہی کے راستے سے بچائے… قرآن پاک کا علم، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی سنت کا علم، میراث کا علم، جہاد کا علم … اور مکمل شریعت کا علم … اﷲ تعالیٰ
علماء کرام کو جزائے خیر عطاء فرمائے انہوں نے انتہائی مختصر نصاب ترتیب دیا ہے …
آپ کا بچہ اٹھارہ انیس سال کی عمر تک عالم بن سکتا ہے… اس کے بعد آپ کی مرضی کہ اس
کو دین ہی میں لگادیں … یا ڈاکٹر، انجینئر بنادیں … اور عام مسلمانوں کو بھی چاہئے
کہ دین کا علم حاصل کریں… اور یاد رکھیں کہ عالم، فاضل بننا ضروری نہیں ہے… آپ
چلتے پھرتے اور دنیا کمانے کے دوران بھی علم حاصل کرسکتے ہیں … حضرات علماء کرام
نے لکھا ہے کہ علم حاصل کرنے کے جو فضائل قرآن وسنت میں آئے ہیں … ان کو حاصل کرنے
کے لئے مدرسہ میں داخلہ لینا ضروری نہیں ہے… حضرات صحابہ کرام نے تمام علوم رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم سے سن کر اور آپ کی صحبت میں رہ کر حاصل کیے … اور پھر میدانِ
جہاد کی برکت نے ان کے علوم کو ترقی دے دی … چنانچہ آج بھی ہر مسلمان اپنے علاقے
اور محلے کے مستند عالم صاحب سے علم حاصل کرسکتا ہے اور اس کے دو طریقے ہیں:
(۱) کچھ وقت نکال کر ان سے پڑھتے رہیں
(۲) ان
کے مشورے سے مستند علماء کرام کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں۔
ہمارے
بہاولپور کے مرکز جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ میں ایک مختصر علمی کورس ’’دورہ اساسیہ‘‘
کے نام سے پڑھایا جاتا ہے اس میں بھی شرکت کرسکتے ہیں … اور لاہور کے عالمِ دین
مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب نے ’’فہم دین کورس‘‘ کے نام سے تین کتابوں پر مشتمل ایک
نصاب متعارف کرایا ہے وہ بھی کافی مفید ہے … اﷲ پاک مجھے اور آپ سب کو علم نافع
عطاء فرمائے، علم چونکہ اﷲ تعالیٰ کا نور ہے اس لئے اس میں ایک ’’خاص لذت‘‘ ہے اور
یہ لذت جس کو نصیب ہوجاتی ہے اسے بغیر علم کے چین نہیں آتا … اور ایسے لوگوں کے
لئے علم حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ وہ سوتے، جاگتے، کھاتے پیتے جب بھی موقع
پاتے ہیں کتاب سے اپنا سر جوڑ لیتے ہیں … حضرت مفتی نظام الدین شامزیؒ کو دیکھا کہ
کھڑے کھڑے کسی کتاب کا مطالعہ شروع کردیتے تھے اور اسے مکمل پڑھ لیتے تھے … حضرت
مولانا جلال الدین حقانی کو دیکھا کہ سارا دن جہاد کے جلسے اور ملاقاتیں نمٹائیں
رات کو طلبہ سر کی مالش کرنے آئے تو ان سے احادیث کا مذاکرہ کرلیا … وہ لوگ جو علم
حاصل کرنے کے لئے ترتیبیں اور پلان بناتے رہتے ہیں ان کو علم کی لذت اور چسکہ نصیب
نہیں ہوتا، ورنہ علم تو ایک نور ہے انسان کسی بھی وقت، کسی بھی طریقے سے اسے حاصل
کرسکتا ہے…
ہمارے
قارئین کرام کو معلوم ہے کہ آج کا اخبار ایک بڑے عالم ربانی حضرت اقدس مولانا محمد
منظور احمد نعمانی صاحب نور اﷲ مرقدہ کے بارے میں خصوصی شمارہ ہے … آپ آج کے شمارے
میں حضرت نعمانیؒ کی سوانح حیات بھی پڑھیں گے اور ان کے علمی کارنامے بھی … انہوں
نے آدھی صدی سے بھی زیادہ عرصے تک دینی علوم کی دن رات خدمت فرمائی … یہ حضرت
نعمانیؒ کی کرامت ہے کہ آج جب میں ان کے بارے میں مضمون لکھنے بیٹھا تو ان کی
بجائے علم کی فضیلت پر بات چل پڑی … دراصل انہوں نے خود کو علم کی خدمت اور احیاء
کے لئے مٹادیا تھا … وہ ایک ایک دن میں بیس سے زیادہ اسباق پڑھا لیتے تھے حالانکہ یہ
کوئی آسان کام نہیں ہے… میں نے بھی کچھ عرصہ تدریس کی ہے مدرسہ کی طرف سے پانچ
اسباق تھے اور دو تین اسباق خارجی طور پر طلبہ کو پڑھاتا تھا … یعنی کل سات آٹھ
اسباق روزانہ اور اس میں دماغ کی چولیں ہل جایا کرتی تھیں اور گلا بیٹھ جاتا تھا…
اس لئے بیس اسباق کا لفظ آسان ہے مگر اس پر عمل کرنے لئے کتنا علم ا ور کتنی ہمت
چاہئے اس کو صرف اصحابِ تدریس علماء کرام ہی سمجھ سکتے ہیں … اور پھر کتابیں بھی
معمولی نہیں بخاری، ترمذی سے لے کر خیالی اور ملاحسن تک … منقولات بھی اور معقولات
بھی… ہم نے زمانۂ طالبعلمی میں سنا تھا کہ منطق اور علمِ کلام کے ماہر علماء جو
’’معقولی علماء کرام‘‘ کہلا تے ہیں کافی ’’بلند مزاج‘‘ ہوتے ہیں … یعنی کچھ اکڑ،
کچھ رعب، کچھ شان اور کچھ کج کلا ہی… حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ
نے بھی اپنے زمانے کے ایک ’’معقولی عالم‘‘ کا تذکرہ آپ بیتی میں فرمایا ہے کہ وہ
کہتے تھے بخاری میرے علاوہ کوئی نہیں پڑھا سکتا … مگر حضرت نعمانیؒ جو معقولات کے
مدرس ہی نہیں امام تھے، ہر طرح کی تعلّی، تکبر اور خود بینی سے بہت دور تھے اور
مکمل طور پر اخلاص کے رنگ سے منور تھے… اﷲ پاک کا شکر اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں
ان کی زیارت نصیب فرمائی، ا ن کی صحبت کا موقع عطاء فرمایا، ان سے استفادے کی توفیق
عطاء فرمائی … اور ان کے ساتھ محبت کا تعلق بخشا … بلاشبہ بلاشبہ وہ بہت بڑے آدمی
اور شان والے عالم دین تھے اور ان کو دیکھ کر اسلامی تاریخ کی صداقت کا یقین تازہ
ہوتا تھا …
اسلامی
تاریخ کی صداقت؟ … جی ہاں ماضی کے بڑے بڑے علماء کا تذکرہ اور ان کی علمی خدمات کی
تاریخ … بے شک حضرت نعمانیؒ بھی اسی قافلے کے ایک راہرو تھے ، ان کو دیکھ کر یقین
آتا تھا کہ واقعی ماضی کے علماء کرام کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سچ ہے اور
اس میں مبالغے کا کوئی شائبہ نہیں ہے… اور بے شک ’’علمِ نافع‘‘ انسان میں تواضع
اور بلند اخلاق پیدا کرتا ہے… ایک بار ان کی خدمت میں بطور ہدیہ چند نوٹ پیش کیے
تو واپس کرتے ہوئے فرمایا: اتنے سارے پیسے میں کیا کروں گا؟ … میں نے منت کی تو
قبول فرمالئے، کیا پندرھویں صدی میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مال سے اتنے بے
رغبت ہیں؟ … آج کی نام نہاد ترقی نے تو ہر انسان کو لالچی جانور بنادیا ہے … انسان
کرے بھی کیا… مالداروں کے نخروں نے غریبوں کے لئے زندہ رہنا مشکل بنادیا ہے اور نئی
نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو ویران کردیا ہے… آجکل بجلی اور گیس کا بحران ہے تو
ہر گھر کا چولھا ٹھنڈا ہے… پہلے یہی عورتیں آسانی سے لکڑی جلا لیتی تھیں … مگر نئی
ایجاد نے انسان کو مشین کا محتاج کردیا ہے جب مشین بند تو انسان بے کار…
جب
چھوٹے سے بچے کی معمولی دوا تین سو روپے سے لے کر ایک ہزار تک کی آتی ہو تو انسان
نے مال کا محتاج تو ہونا ہے… اس لئے آج بہت کم لوگ حرص اور لالچ سے محفوظ ہیں… ان
حالات میں اپنے وقت کا استاذ العلماء پانچ دس ہزار کی رقم کو حقیقی بے رغبتی سے پھینک
رہا تھا تو دل کو سکون ملا کہ واقعی اسلام کی باتیں سچی ہیں اور دین کا علم انسان
کے دل کو کتنا غنی کردیتاہے…
حضرت
نعمانیؒ کا کچا مدرسہ ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا… مگر مسافرانہ زندگی کی وجہ
سے ان کے پاس حاضری کم رہی … مجھے ان سے علم حاصل کرنے کا شوق تھا، ارادہ تھا کہ
دورہء حدیث کے بعد ایک سال ان کے پاس تکمیل کروں گا مگر … تعلیم کے آخری سال جہاد
سے دل لگا اور ادھر مادر علمی میں مدرس رکھ لیا گیا تو یہ تمنا حسرت بن گئی … میں
نے اس کی تلافی یوں کی کہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کو حضرت نعمانیؒ کے قدموں میں جا
بٹھایا … میں تو بہت دور جیل کاٹ رہا تھا، وہاں سے خط لکھا تو بھائیوں نے بات مان
لی اور یوں علم کے اس دریا کا میٹھا پانی ہمارے گھر تک بھی الحمدﷲ پہنچ گیا… یہ دنیا
تیزی سے قیامت کی طرف دوڑ رہی ہے، زمین کی پیٹھ پر چلنے والے اس کے پیٹ سے گزر کر
برزخ میں جمع ہو رہے ہیں … اور عالم ارواح سے نئی روحیں زمین پر آباد ہو رہی ہیں …
یہ زمین ایک ہوٹل کے کمرے کی طرح ہے جہاں ہر شخص کا قیام عارضی ہے… اﷲ پاک ہمیں
آخرت کی فکر نصیب فرمائے… میں کراچی میں تھا کہ حضرت نعمانیؒ کے وصال کی خبر آئی …
چونکہ ان سے دوطرفہ قریبی محبت کا رشتہ تھا، وہ استاذ بھی تھے اور محسن بھی، اس
لئے خبر سنتے ہی دل کو صدمہ پہنچا، میں نے دل کے صدمے کی قرآنی دوا دل پر لگائی …
وہ قرآنی دواء یہ دعاء ہے … انا ﷲ وانا الیہ راجعون
میں
نے حضرت نعمانیؒ سے صرف تین سبق پڑھے تھے ایک سبق تو افغانستان میں پڑھا تھا جب وہ
پہلے جہاد کے زمانے میں ہمارے ’’معسکر‘‘ میں تشریف لائے تھے اور میری خوش قسمتی کہ
میں ان کا میزبان، ڈرائیور، خادم اور مترجم تھا… ان کا پہلا سبق یہ تھا…
’’جہاد نماز
روزے کی طرح اسلام کا ایک فریضہ ہے اور اس کا منکر کافر ہے اور اسے بلاعذر ترک
کرنے والا فاسق ہے‘‘… حضرت نعمانیؒ کے اس سبق کا حوالہ بہت بعد میں ’’مبسوط سرخسی‘‘
میں ملا… مگر الحمدﷲ میں نے اپنے محبوب استاذ کا یاد کرایا ہوا یہ سبق بے شمار
مسلمانوں تک پہنچایا… دوسرا ایک سبق جلالین کا تھا اور تیسراایک سبق بخاری شریف
کا…
ایک
بار میں نے ان سے عرض کیا جلالین میں کونسا حصہ زیادہ مضبوط ہے… محلّیؒ والا یا سیوطیؒ
والا… فرمایا ہم تو استاذ والے کو ترجیح دیں گے یعنی محلّیؒ والا حصہ زیادہ مضبوط
ہے… جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے ماہر شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس
صاحب میرٹھیؒ نے بھی ایک بار فرمایا تھا کہ سیوطیؒ کی اصل تفسیر ’’الدرالمنثور‘‘
ہے، جلالین میں تو وہ اپنے استاذ کی نقل کرتے چلے گئے ہیں… تمنا تھی کہ حضرت نعمانیؒ
سے ’’الفوز الکبیر‘‘ پڑھ لوں… اس کے لئے ان کی خدمت میں حاضری بھی دی وہ راضی تھے
مگر بہت علیل … وعدہ فرمایا کہ صحت ملی تو انشاء اﷲ ضرور پڑھاؤں گا مگر ان کے
انتقال کی خبر آگئی… جس طرح آج صبح (۲۶محرم ۱۴۲۹ھ بمطابق ۵فروری۲۰۰۸ء) حضرت اقدس سید نفیس الحسینی شاہ صاحب کے انتقال کی خبر
آئی ہے… انا ﷲ وانا الیہ راجعون… حضرت شاہ صاحبؒ عالم اسلام کے نامور کاتب، رائے
پوری سلسلے کے مستند شیخ، سکہ بند شاعر، کئی اہم کتابوں کے مصنف، جہاد کے والہانہ
عاشق، مجاہدین کے سرپرست، کئی بڑے علماء کرام کے مرشد اور عالمی مجلس تحفظ ختم
نبوت کے مرکزی نائب امیر تھے… اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اللہم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ … حضرت اقدس
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی شہادت کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ کو مجلس تحفظ ختم
نبوت کا نائب امیر مقرر کیا گیا تھا… اور حضرت مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کے معروف
ادارے ’’اقراء روضۃ الاطفال‘‘ کی سرپرستی بھی آپ کے حصے میں آئی تھی… حضرت شاہ
صاحبؒ کو حضرت سید احمد شہیدؒ سے خصوصی محبت تھی چنانچہ آپ نے ان کے بارے میں ایک
وقیع کتاب بھی تحریر فرمائی… آپ کی بلند پایہ شاعری کا مجموعہ ’’برگ گل‘‘ کے نام
سے معروف ہے اور لاہور میں واقع آپ کی خانقاہ پر سالکین کا ہجوم رہتا تھا… اہل
علم، اہل دل ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں… اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ پر رحم فرمائے اور
اس میں اہل علم، اہل دل اور اہل جہاد کی کثرت فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین۔
٭٭٭
شیخ الحدیث حضرت
مولانا محمد اسحاق صاحبؒ
ایک
درودیش صفت ،مجاہدین کے سرپرست عالم دین کا تذکرہ
اور
’’الرحمت ڈائری کا مختصر تعارف
(سوانحی خاکہ
حضرت مولانا محمد اسحاق صاحبؒ)
اسم
گرامی: مولانا اسحاق صاحبؒ … ولد: مولانا محمد زمان … پیدائش: ۱۹۳۵
شمالی وزیرستان کے گائوں زیرکی میں ہوئی… والد محترم اپنے علاقے میں معزز شخصیت
تھے آپ کو دینی تعلیم کے لئے وقف کر دیا بڑی مشقتوں اور صعوبتوں سے تعلیم حاصل
فرمائی فراغت کے بعد تقریباً نو سال جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں تدریسی خدمات سر
انجام دیں… حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ سے دو مرتبہ دورہ تفسیر پڑھنے کی سعادت
حاصل ہوئی فرماتے تھے کہ حضرت لاہوریؒ کو مجھ سے بہت محبت تھی… اکوڑہ خٹک کی تدریس
کے دوران اپنے علاقے کے علماء نے توجہ دلائی کہ آپ کا علاقہ اور قرب وجوار کے
علاقے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں لہذا آپ اکوڑہ خٹک چھوڑ کر اپنے علاقے میں تشریف
لے گئے اور وہاں مولانا شارع الدین دیوبندیؒ اور مولانا محمد افسر صاحبؒ کے ساتھ
مل کر ایک کچے مدرسے کی بنیاد رکھی اس میں کئی سال تدریس کے بعد دارالعلوم نظامیہ
میرانشاہ تشریف لے گئے اور بعد میں اسی مدرسہ کا منصب اہتمام بھی سنبھالا… آپ نہایت
ہی سادہ مزاج اور عبادت گذار تھے اور مجاہدین سے والہانہ محبت فرماتے تھے اور
مسلمانوں کے اتحاد باہمی کے بہت خواہاں تھے اور تفرقہ سے پریشان اور رنجیدہ رہتے
تھے ۲۸ جنوری ۲۰۰۸ کو بوقت نیم شب
کلمہ پڑھتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ (ازمرتب)
تاریخ اشاعت ۶صفر ۱۴۲۹ھ
۱۵فروری ۲۰۰۸ء
شمارہ ۱۳۵
شیخ الحدیث حضرت
مولانا محمد اسحاق صاحبؒ
اﷲ
تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت پر رحم فرمائے… امت کے بڑے لوگ اور امت کے
غمخوار افراد تیزی سے اٹھتے جا رہے ہیں… خبر آئی ہے کہ جامعہ نظامیہ میر علی کے شیخ
الحدیث اور مہتمم حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب بھی انتقال فرما گئے ہیں…
انا
ﷲ وانا الیہ راجعون، اللہم اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منہا۔ اللہم لاتحرمنا
اجرہ ولا تفتنا بعدہ…
اگر
آپ کبھی میرانشاہ گئے ہوں تو آپ نے دارالعلوم نظامیہ ضرور دیکھا ہوگا… بنوں سے میرانشاہ
جاتے ہوئے ’’میرعلی‘‘ کے قریب سڑک کے کنارے دائیں طرف یہ شاندار مدرسہ قائم ہے…
ماشاء اﷲ بہت بارونق، کافی بڑا اور پرنور مدرسہ ہے، حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب
نوّر اﷲ مرقدہ اسی مدرسے کے ’’شیخ الحدیث‘‘ تھے… بلند قامت، بھاری بدن، رقیق القلب
اور جہاد کے پرزور حامی بلکہ خود مجاہد… کئی سال ہوئے ان سے ملاقات نہ ہوسکی مگر
ان کی شفقت اور محبت کا سلسلہ غائبانہ طور پر جاری رہا۔ ’’فتح الجوّاد‘‘ کی افتتاحی
تقریب میں اہتمام کے ساتھ تشریف لائے اور بہت نصیحت آموز بیان فرمایا… ان کے بیان
کا موضوع وہ سات افراد تھے جو حدیث شریف کے مطابق قیامت کے دن ’’عرشِ الٰہی‘‘ کے
سائے میں ہوں گے… اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے…
حضرت مولانا تو چلے گئے اور ماشاء اﷲ عرش کا سایہ پانے کے لئے کافی بڑے اعمال کا
خزانہ ساتھ لے گئے … اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے اعمال قبول فرمائے، وہ جید عالم
دین تھے، حدیث شریف کی بڑی بڑی کتابیں پڑھاتے تھے، شروع سے آخر تک مجاہدین
افغانستان اور مجاہدین کشمیر کے میزبان اور معاون رہے… یقینا یہ سارے اعمال بہت وزنی
ہیں… ایک بار بہت لمبا سفر کرکے ملاقات کے لئے بالاکوٹ تشریف لائے، غالباً ساڑھے
پانچ سال پہلے کی بات ہے… ان کی خدمت میں اسماء الحسنیٰ کی کتاب ’’تحفۂ سعادت‘‘ پیش
کی گئی، کافی دیر تک اس کا مطالعہ فرماتے رہے اور پھر فرمایا میں تو روزانہ اسماء
الحسنیٰ اس طرح پڑھتا ہوں کے ہر ’’اسم مبارک‘‘ کو سو بار پڑھ لیتا ہوں، یہ ٹھیک ہے
یا نہیں؟… بندہ ان کی تواضع پر بھی حیران ہوا اور اس بات پر بھی کہ اتنی مصروفیات
کے باوجود روزانہ ہر اسم مبارک کو سو بار پڑھنا ان کے لئے کس طرح سے ممکن ہوتا ہے…
بے شک اﷲ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کے اوقات میں خاص برکت عطاء فرماتا ہے… اور جو
لوگ جتنا زیادہ ذکر کرتے ہیں ان کے اوقات میں اتنی ہی برکت ہوتی ہے… پھر اسماء
الحسنیٰ کی شان دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نور کے ان خزانوں سے جن بندوںکو تعلق عطاء
فرمادیتا ہے وہ عجیب عجیب طریقوں سے ان کو پڑھتے ہیں… حضرت مولانا محمد اسحاق
صاحبؒ کا طریقہ تو آپ نے جان لیا کہ ہر اسم کو ایک سو بار پڑھنے کا معمول تھا،
جبکہ امامِ تفسیر حضرت مولانا محمد شریف اﷲ صاحب مدظلہ ایک اور ایمان افروز طریقہ
تلقین فرماتے ہیں… بے شک اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بلند ہے اور ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ میں
نور ہی نور اور روشنی ہی روشنی ہے… ان میں سے ہر اسم کی الگ لذت ہے اور الگ تجلّی…
تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ننانوے اسماء الحسنیٰ جو کہ ترمذی شریف کی حدیث میں آئے
ہیں ان کو یاد کرلیں… قرآن پاک کے اکثر نسخوں پر شروع میں یہ اسماء لکھے ہوتے ہیں…
یاد کرنے کے بعد ان کو محبت سے پڑھا کریں، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بشارت دی
ہے کہ جو ان اسماء کو یاد کرے گا اس کے لئے جنت ہے… بے شک ان اسماء الحسنیٰ میں
جنت کے مزے ہیں، ایک ایک اسم پڑھتے جائیں دل پر مرہم کی طرح ٹھنڈک اترتی ہے… پس آپ
سب بھائی اور بہنیں آج ہی ان کو یاد کرلیں اور پھر ان کو یاد رکھیں… اور جب دعاء
کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو ایک بار تمام اسماء محبت کے ساتھ پڑھ لیا کریں یا اﷲ ، یا
رحمن ، یا رحیم سے یاصبور تک…
اور
اگر کبھی کوئی مشکل ہو یا حاجت ہو تو دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر ان اسماء الحسنیٰ
کو اکیس بار پڑھ کر دعا کریں، بے شمار لوگوں کا تجربہ ہے کہ دعاء قبول ہوتی ہے…
خود ہمارے محبوب مالک اور رب نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے پیارے پیارے
نام ہیں ان ناموں سے اس کو پکارا کرو، ان ناموں کے ساتھ اس سے دعاء کیا کرو…
آج
اگر امت مسلمہ ’’مسجد‘‘ کو اپنا مرکز بنالے، جہاد کو اپنا اخلاق بنا لے اور نماز،
تلاوت، ذکر اور درود شریف میں دل لگا لے تو چند دن بعد امریکہ اوریورپ اس کو جزیہ
دینے پر مجبور ہوجائیں گے… رب کعبہ کی قسم اس بات میں نہ تو کوئی مبالغہ ہے اور نہ
کوئی تردّد… حضرات صحابہ کرام تھوڑے سے تھے، کمزورتھے اور بے اسباب تھے مگر وہ دنیا
پر چھا گئے… بے شک ان کو غلبہ دینے والا رب آج بھی موجود ہے… دیر ہماری طرف سے ہے
کہ ہم اپنی ذات کے اندھیروں میں گم ہیں اور ہم نے غلبے کے راستے کو اختیار نہیں کیا…
لوگ کہتے ہیں کہ جہاد کی فرضیت کی بات کرنے والے علماء عمر، علم اور تجربے میں
چھوٹے ہیں جبکہ بڑے علماء کرام تو جہاد کی زیادہ فضیلت کے قائل نہیں ہیں… لیجئے آج
میں آپ کو ایک بڑے عالم دین کا خط پڑھاتا ہوں، یہ خط میرے بائیں طرف رکھا ہوا ہے
اور میں نے آج ہی بڑی محبت سے اس پر عطر لگایا ہے… یہ خط حضرت مولانا محمد اسحاق
صاحبؒ کا ہے، جن کی عمر ستر اسی سال کے لگ بھگ ہوگی، اور وہ طویل عرصہ سے شیخ الحدیث
تھے… مدارس بنات کے ننھے منھے شیخ الحدیث نہیں بلکہ تجربہ کار، عمر رسیدہ اور ماہر
شیخ الحدیث… کچھ عرصہ پہلے ہمارے چند ساتھی ان سے ملے تو انہوں نے بندہ کے لئے یہ
خط تحریر فرمایا… اس خط میں انہوں نے ’’فریضۂ جہاد‘‘ کی جو فضیلت اور حکمت بیان
فرمائی ہے وہ مسلمانوں کے لئے سمجھنے اور یاد کرنے کی بات ہے… لیجئے ایک مستند
عالم دین کی تحریر ملاحظہ فرمائیے…
’’من جانب
الاحقر دعاء گو، دعاء جو، مدرس وخادم الطلباء جامعہ نظامیہ شمالی وزیرستان عیدک
الی
المحترم ………
خدائے
پاک ظاہر وباطن فتنوں سے محفوظ رکھے، خدائے پاک ہر طرح حفاظت فرمائے آمین
ملاقات
کا انتہائی شوق ہے، بالمواجہہ ملاقات میسر نہ ہوا نصف الملاقات کاغذ پر لکھ کر
اکتفا ہوا۔ چند ساتھی آئے تھے ان کے ملاقات سے بہت خوشی ہوئی، مجاہدین کے ملاقات
سے مجھ کو بہت خوشی حاصل ہوتا ہے… اسلام ا ور مسلمانوں کا عزت جہاد میں مضمر ہے،
کفار یہود ونصاریٰ کا ذلت جہاد میں رکھا ہوا ہے، جہاد سے مسلمان اور اسلام غالب
ہوتا ہے اور کفر اور کفار ذلیل ہوتے ہیں، اسلام کے ہر عمل کے بے شمار فوائد ہیں، لیکن
غلبۂ اسلام اور مسلمین اور ذلۃ کفار میں جہاد کا نمایاں دخل ہے، حتی یعطوا الجزیۃ
عن یدوہم صاغرون کے منظر کا انتظار جہاد سے ہوسکتا ہے (یعنی کفار ذلیل ہو کر
مسلمانوں کو جزیہ دیں) میں آپ صاحب کے ساتھ ملاقات کے وقت کہا تھا کہ کوئی دن ایسا
نہ گزرے جس میں تمہارا بیان نہ ہو۔ القلم کے ذریعے اپنے ارشادات ارشاد فرمائیے۔
الاحقر
دعاء گو، دعاء جو مدرس مدرسہ جامعہ نظامیہ شمالی وزیرستان عیدک۔
…………………
حضرت
مولاناؒ ایک بار ہمارے گھر تشریف لائے تھے، اس دن فرمایا کہ آپ روزانہ بیان یا تقریر
کیا کریں… پھر اس کے کچھ فوائد بھی بیان فرمائے، کچھ عرصہ بعد اوپر مدرسہ میں تشریف
لائے وہاں مجاہد ساتھیوں کا مظاہرہ دیکھ کر خوشی سے روتے رہے اور مجھے دوبارہ فرمایا
کہ روزانہ بیان کیا کرو اس میں خاص حکمت ہے… میں نے حضرت مولاناؒ کی نصیحت پر عمل
کی حتی الوسع کوشش کی ہے مگر اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے پورا عمل نہیں کرسکا… گذشتہ
چارسال سے تو بیان سننے والے بھی کبھی کبھار ملتے ہیں… ہفتے میں ایک دن تو رنگ و
نور کی صورت میں تمام قارئینِ القلم کے لئے بیان ہوجاتا ہے… باقی دنوں میں اگر کوئی
ہاتھ آجائے تو فضائل جہاد کتاب کی تعلیم کرادیتا ہوں… باقی جیسے اﷲ پاک کی مرضی …
دراصل مجھے تقریر کرنے کا شوق نہیں تھا اور بیان سے پہلے طبیعت پر کافی بوجھ رہتا
تھا، غالباً حضرت مولاناؒ نے اپنی فراست ایمانی سے اس حالت کو بھانپ لیا چنانچہ
انہوں نے یہ مشورہ صادر فرمایا اور اپنے اس آخری خط میں بھی اس کی یاد دہانی کرائی…
حضرت مولاناؒ کی مادری زبان پشتو تھی اور پشتو بھی قبائلیوں والی، اس کے باوجود
اردو اچھی بول لیتے تھے، مگر چونکہ اردو سے واسطہ کم پڑتا تھا اس لئے خط میں آپ نے
اس کا اثر دیکھا ہوگا… اردو چونکہ کوئی مقدس زبان نہیں ہے کہ اس میں تصحیح فرض کے
درجے میں ہو اس لئے میں نے ان کا خط من وعن پیش کردیا ہے… مسلمانوں کے لئے بس ایک
ہی زبان مقدس ہے اور وہ ہے ’’عربی‘‘ … اﷲ تعالیٰ مسلمانوں میں عربی زبان کو جاری
اور عام فرمائے… حضرت مولانا اسحاق صاحبؒ ہم سے جدا ہوگئے، اﷲ تعالیٰ ان کے درجات
بلند فرمائے، انشاء اﷲ چند ساتھی ان کے گھر اور مدرسہ جاکر القلم کے قارئین کے لئے
ان کے حالات زندگی جمع کرکے لائیں گے، اس وقت تک انتظار فرمائیں… اور دل کی توجہ
سے کچھ قرآن پاک پڑھ کر حضرت مولانا ؒ کی روح کو ایصالِ ثواب کریں… بے شک وہ ہمارے
شفیق محسن اور ہمدرد غمخوار تھے… اللہم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ
الرحمت
ڈائری
اﷲ
تعالیٰ نے ایک اور احسان فرمایا ہے… الحمدﷲ الحمدﷲ الحمدﷲ ’’الرحمت ڈائری‘‘ شائع
ہوچکی ہے… کافی عرصہ سے خواہش تھی کہ ایسی ڈائری تیار ہو جس کا ہر صفحہ علمی اور دینی
فوائد سے معمور ہو… اﷲ پاک کی توفیق سے ایک ترتیب طے ہوئی اور پھر چند ساتھیوں نے
محنت کی تو الحمدﷲ کام بن گیا… اب آپ الرحمت ڈائری کا پہلا صفحہ کھولیں گے تو
انشاء اﷲ خوشی اور حیرت میں ڈوب جائیں گے اور اگلا صفحہ کھولنے میں آپ کو کچھ وقت
لگے گا… ہر صفحے پر آپ کو ایک عقیدہ معلوم ہوگا، ایک سنت کا علم ہوگا، ایک آیت کا
ترجمہ نصیب ہوگا اور ایک بڑے گناہ سے واقفیت ملے گی… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ
العظیم … پھر رمضان کی تاریخیں شروع ہونے سے پہلے رمضان المبارک گزارنے کا طریقہ …
شوال کی تاریخ آنے سے پہلے عیدالفطر کے مکمل آداب اور ذوالحجہ کی تاریخیں شروع
ہونے سے پہلے ذوالحجہ کے اعمال آپ کے علم میں آجائیں گے…
اسی
طرح محرم، صفر، ربیع الاوّل اور دیگر مہینوں کے متعلق شرعی احکامات بھی اپنی اپنی
جگہ پر موجود ہیں … ڈائری میں جہادی آیات کا ترجمہ بھی ہے اور شہداء کا تذکرہ بھی…
جہاد کے اقوال بھی ہیں اور جہادی تاریخیں بھی… اور ان سب کے علاوہ رنگین صفحات پر
آیات قرآنی اور کتابوں کے تعارف کی ایک قوس قزح بکھری ہوئی ہے… اور ڈائری کا
اختتام اس دعاء پر ہوا ہے جس پر امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ کا
اختتام کیا ہے… یعنی سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
دل
سے دعاء ہے ان تمام ساتھیوں کے لئے جنہوں نے یہ دینی وعلمی تحفہ امت تک پہنچانے کے
لئے محنت کی ہے… اﷲ پاک ان سب کی سعی کو مشکور فرمائے
آمین
یا ارحم الراحمین… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم… وصلّ اللّٰہم علی حبیبک سیدنا
محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما…
٭٭٭
انتخابات، چند
اہم باتیں
مورخہ ۱۸
فروری ۲۰۰۸ء کوپاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابت ہوئے…
انتخابات میں پاکستان کی عوام نے صدر پرویز مشرف کی
پالیسیوں اور ان کے
حامیوں سے بھر پور نفرت کا اظہار کیا
نیز
دینی جماعتیں بھی زیادہ
ووٹ حاصل نہ کر سکیں
حالیہ انتخابات کے
تناظر میں چند اہم باتیں
تاریخ اشاعت ۱۳صفر
۱۴۲۹ھ
۲۲ فروری ۲۰۰۸ء
شمارہ ۱۳۶
انتخابات، چند
اہم باتیں
اﷲ
تعالیٰ ہر خیر عطاء فرمائے اور ہرشر سے بچائے، الیکشن ۲۰۰۸ء
کے نتائج تیزی سے آرہے ہیں… ابھی تک اگرچہ صورتحال واضح نہیں ہوئی مگر اتنا معلوم
ہوچکا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی پارٹی قاف لیگ کو عبرتناک شکست کا سامنا ہے… مجلسِ
عمل بھی ’’انتخابی ہزیمت‘‘ کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے… قوم پرست پارٹیوں نے کافی
سیٹیں جیت لی ہیں … اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سیٹوں پر سیٹیں جیتتی چلی
جارہی ہیں… قدّر اﷲ ماشاء … ہم لوگ تو انتخابی سیاست اور جمہوریت سے کافی دور ہیں،
اس لئے صرف اس دعاء پر اکتفاء کر رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو مسلمان حکمران
عطاء فرمائے… اﷲ تعالیٰ کے وفادار، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وفادار، اسلام کے
وفادار، جہاد کے وفادار حکمران … اﷲ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں مگر ہمارے اعمال
کی شامت ہر بار اپنا رنگ دکھاتی ہے… اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے…
آج کی مجلس میں حالیہ انتخابات کے بارے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں:
حضرت
شیخ آملیٹ
فرزند
راولپنڈی شیخ رشید صاحب اپنے دونوں حلقوں سے انتخابات ہار گئے ہیں… ہر کوئی اس خبر
کو نہایت خوشی کے ساتھ دوسروں کو سنا رہا ہے… شیخ صاحب ایک زمانے میں ’’مجاہد‘‘
تھے… وہ کشمیری مجاہدین کا ایک کیمـپ چلاتے تھے … ان دنوں ہم بھی ان سے ملاقی ہوئے … شیخ صاحب
نے ایک جدید کلاکوف رائفل دکھائی اور فرمایا کہ میں ہندوؤں کو مارنا چاہتا ہوں …
پھر وہ اسلامی جمہوری لیڈر بنے، علماء کے پاس جاتے تھے، مزاروں پر چادریں چڑھاتے
تھے، سر پر ٹوپی اوڑھتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے … پھر اچانک وہ فلموں کے بادشاہ
بن گئے اور بالآخر صدر پرویز کے ہاتھ پر بیعت کرکے وہ روشن خیالی کے گٹر میں
جاگرے… تب انہوں نے فرمایا میرا جہاد سے کیا واسطہ؟ … میں نے تو کبھی ائرگن بھی نہیں
چلائی … اور اگر ہم طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہمارا ’’آملیٹ‘‘
بنا دیتا … اﷲاکبرکبیرا… امریکہ اور اس کے تمام اتحادی مل کر بھی طالبا ن کاآملیٹ
نہیں بنا سکے جبکہ … شیخ صاحب روشن خیالی کی آگ میں جل کر کوئلہ ہوگئے … ان کی
’’ابن الوقتی‘‘ کچھ کام نہ آئی … عبرت ہے مسلمانو! عبرت! اﷲ تعالیٰ برے انجام سے
ہم سب کی حفاظت فرمائے… حالات کے ساتھ گھومنے والے لوگ خود کو عقلمند سمجھتے ہیں
مگر ایک دن حالات کی چکی ان کو پیس کر رکھ دیتی ہے…
یا
اﷲ ہمیں ہر معاملے میں اچھا انجام نصیب فرما اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے
عذاب سے بچا … یہی مفہوم ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی اس دعاء کا…
اَللّٰہُمَّ
اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الاُْمُوْرِ کُلِّہَا وَ اَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا
وَعَذَابِ الآْخِرَۃِ
ایک
عجیب اتفاق
صدر
پرویز مشرف بھی عجیب انسان ہیں، شروع سے لیکر آخر تک جس کسی نے بھی ان کا ساتھ دیا
وہ آخر میں ضرور پچھتایا … وہ فوجی جرنیل جنہوں نے ان کے لئے نواز شریف کا تختہ
الٹا وہ بھی پچھتائے… ان کے وہ دوست جنہوں نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے
مجاہدینِ ِافغانستان وکشمیر کے خلاف کارروائیاں کیں وہ بھی پچھتاتے پھرتے ہیں … ان
کے صحافی یار جنہوں نے ان کو ایک بڑا لیڈر بنا کر پیش کیا اب شرم کے مارے منہ
چھپاتے پھر رہے ہیں … میاں اظہر جیسے لوگ جنہوں نے ان کی خاطر قاف لیگ سجائی وہ کئی
سال تک چھپ کر پچھتاتے رہے … وہ لوگ جنہوں نے ان کے حکم پر باجوڑ اور لال مسجد کے
معصوم بچوں اور بچیوں کو ذبح کیا صبح شام پچھتاتے پھرتے ہیں … اور آج سے پچھتانے کی
باری شروع ہوئی ہے چودھری شجاعت کی، شیخ رشید کی … اور اعجاز الحق، شیر افگن سے لیکر
وصی ظفر تک کی… یا اﷲ بری صحبت سے ہم سب کی حفاظت فرما … حافظ حسین احمد صاحب رات
کو فرما رہے تھے کہ ایم ایم اے والے بھی اسی ’’نحوست‘‘ کا شکار ہوئے ہیں… کیونکہ
وہ بھی صدر صاحب کے بارے میں نرم رویہ رکھنے پر بدنام تھے، واﷲ اعلم بالصواب…
لال
مسجد کا خون کھولا ہے
اعجاز
الحق کے ہارنے کی خبر آئی تو بے اختیار غازی عبدالرشید شہیدؒ، مولانا محمد مقصود
احمد شہیدؒ … اور لال مسجد کے شہید بچے اور بچیاں یاد آگئے… اعجاز الحق نے جس طرح
سے اس معاملے میں مجرمانہ کردار ادا کیا یہ شکست اس کا ادنیٰ سا بدلہ ہے… لال مسجد
والے تو مرکر بھی جیت گئے جبکہ اعجاز الحق زندہ رہ کر بھی ہار گیا … اس نے جس طرح
سے مولانا محمد مقصود احمد شہیدؒ پر الزامات کے تیر برسائے اور ان کے باخدا ورثاء
کو ستایا وہ سب کچھ ناقابل فراموش ہے… وزارت اور کرسی کی ہوس نے اس شخص کو اتنا
گرایا کہ اس نے اپنے والد کے نام کو بھی رسوا کردیا… انتخابات میں ہارجیت کوئی بڑی
چیز نہیں ہوتی مگر پھر بھی معلوم نہیں کیوں اس شخص کے ہارنے پر اہلِ ایمان خوشی
محسوس کر رہے ہیں… اور کسی کو خوش ہونے سے تو کوئی روک نہیں سکتا…
بوریے
پر واپسی مبارک
پچھلے
انتخابات میں ’’اتفاقاً‘‘ بہت سے علماء کرام منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جا پہنچے
تھے… ایسا افغانستان پر امریکہ کے حملے کی وجہ سے ہوا تھا… پاکستان کے مسلمان
طالبان سے جذباتی وابستگی … اور مجاہدین سے بھرپور محبت رکھتے تھے، ظالم امریکہ نے
افغانستان پر حملہ کرکے معصوم بچوں کا قیمہ بنایا اور امارت اسلامیہ کو ختم کیا تو
پاکستان کے مسلمانوں میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی… انہی دنوں یہاں انتخابات
ہوئے تو مسلمانوں نے ہر داڑھی، پگڑی اور ٹوپی والے کو امریکہ کی نفرت میں ووٹ
ڈالا… اور یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسمبلیوں کا حلیہ ہی بدل گیا… چونکہ یہ
سب کچھ اتفاقا ہوا تھا اس لئے لوگ امید کر رہے تھے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا … حضرت
مفتی جمیل خان صاحب شہیدؒ کے ساتھ آخری ملاقات میں بندہ نے عرض کیا تھا کہ حضرت یہ
سب کچھ عارضی ہے… اس کو مستقل کامیابی سمجھ کر جمہوریت کو جہاد اور خلافت سے افضل
سمجھنا غلط ہے اور آپ لکھ لیں کہ اگلے انتخابات میں ایسا نہیں ہوگا… ملاقات کے بعد
مجھے اپنی بات اور انداز پر ندامت بھی ہوئی مگر سب کچھ کھلی آنکھوں سے نظر آرہا
تھا … پاکستان میں سب لوگ ووٹ نہیں ڈالتے… جی ہاں آدھے بھی نہیں ڈالتے… یہاں کی
آبادی کا صرف بیس پچیس فیصد حصہ ووٹنگ میں بمشکل حصہ لیتا ہے… بلکہ اوسط نکالی
جائے تو ووٹ ڈالنے والے افراد ملک کی آبادی کا پندرہ فیصد حصہ بنتے ہیں … یعنی سو
افراد میں سے صرف پندرہ افراد ووٹ ڈالتے ہیں … اور ان پندرہ فیصد افراد کو وڈیروں،
جاگیرداروں، خانوں (خوانین)، نوابوں اور لسانیت پرستوں نے اپنا غلام بنا رکھا ہے…
اس لئے ہر بار شکلیں بدل کر یہی لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں اور پھر علاج وغیرہ کے
بہانے ملکی خزانے سے برطانیہ کو خراج اور جزیہ دے آتے ہیں … علماء اور دینداروں کو
تو کوئی کوئی ووٹ دیتا ہے… ہاں بعض علماء کرام کی عقیدت کا حلقہ وسیع ہے اور بعض
اوقات حالات کی گرمی باشعور ووٹروں کو جمع کردیتی ہے… پچھلی بار حالات کی گرمی نے
ایم ایم اے کو جتوایا… اب چاہئے یہ تھا کہ یہ حضرات اسے اپنی زندگی کا آخری اور
سنہری موقع سمجھ کر ہر خوف سے بے خوف ہوجاتے اور ملکی نظام کو صحیح سمت عطاء کرتے
… مگر چونکہ یہ جیت اتفاقی تھی اور پہلے سے کوئی تیاری اور پلاننگ نہیں تھی اس لئے
یہ تمام حضرات بھی انگریزی نظام کا حصہ بن گئے… اور حکمرانوں کے غلط اقدامات کی
بدنامی ان کے سر آگئی…
پھر
ایک اور المیہ بھی ہوا… جمہوریت کا چسکہ ایک خطرناک چیز ہے ہمارے اکابر تو جمہوریت
کا حصہ اس طور پر بنتے تھے کہ کسی طرح برائی کو کم کرسکیں… مگر اس بار جو حضرات
منتخب ہوئے ان کو حکومتی اہلکاروں نے اپنے گھیرے میں رکھا اور مسلسل ان کو
’’اعتدال پسند‘‘ بننے کی دعوت دیتے رہے… سوچنے کی بات تو یہ تھی کہ لوگوں نے ان کو
ووٹ ’’شدت پسند‘‘ ہونے کی وجہ سے دیئے تھے مگر یہ اسی دینی استقامت اور شدت سے دور
ہوتے چلے گئے… علماء کا کام مساجد کی آبادی ہے، مگر کسی وزیر نے مسجد کو اپنا دفتر
نہ بنایا… پروٹوکول کی لعنت ایک جرم ہے یہ لوگ بھی اس کو نباہتے رہے… انگریزی نظام
تعلیم ہر برائی کی جڑ ہے مگر یہ اسی نظام تعلیم کی کتابیں بانٹتے رہے اور لڑکیوں
کے کالج کھولتے رہے اور اپنے ان کارناموں پر میڈیا میں فخر بھی کرتے رہے… چنانچہ
اس بار لوگوں نے کہا کہ جناب! یہ سارے کام تو پیپلز پارٹی اور اے این پی والے بھی
کرسکتے ہیں اس لئے آپ واپس اپنے بوریے پر تشریف لائیے اور ہماری دینی خدمت کیجئے،
کیونکہ یہ کام … آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا … الحمدﷲ آج سے پھر یہ علماء
کرام اپنے بوریے اور چٹائی پر واپس آجائیں گے… یہ دوبارہ منبر ومحراب کو رونق بخشیں
گے… اب یہ کھل کر مجاہدین اور جہاد کی اہمیت بیان کرسکیں گے … اور اس بات پر غور
کرسکیں گے کہ ملک میں اسلامی نظام کیسے نافذ ہوگا …
انتخابات
میں کامیابی کے بعد علماء کرام کے طبقے پر چند منفی اثرات بھی پڑے تھے … مثلاً دنیاداری
اور فیشن کا زہد اور سادگی پر غلبہ ہو رہا تھا… نمازوں میں باجماعت حاضری میں
کوتاہی ہو رہی تھی… ٹی وی اور کیمرے کا استعمال بہت بڑھ گیا تھا… مصلوں پر بیٹھ کر
وزراء سے ’’موبائل ٹاکنگ‘‘ کو فخر سمجھا جارہا تھا… مخلوط اجلاسوں میں شرکت کی وجہ
سے روحانیت اور نورانیت ماند پڑ رہی تھی… میڈیا کے چبھتے سوالات سے بچنے کے لئے
صفائیاں دینے کا رجحان بڑھ گیا تھا… علماء کرام میں عالم، مفتی، مجاہد اور شہید کی
بجائے کونسلر، ناظم، ایم پی اور وزیر بننے کی دوڑ عروج پر تھی… سیاسی مداریوں کو
مطمئن رکھنے کے لئے مداہنت کا مرض بھی تیزی سے سرایت کر رہا تھا… خلاصہ یہ کہ مولوی
کی شان اور کج کلاہی خطرے میں تھے… مولوی صفہ کے چبوترے سے جتنا دور ہوتا ہے اسی
قدر عزت وایمان سے بھی دور ہوجاتاہے…
اب
الحمدﷲ عوام نے تعاون کیا اور علماء کو واپس جنت کے باغ یعنی مسجد میں لا بٹھایا…
ساری زندگی علماء کرام عوام کے ایمان کو بچاتے ہیں، اس بار عوام نے ووٹ نہ دے
کرعلماء کرام کے ایمان کو بچایا ہے… اس پر علماء کرام کو عوام کا شکریہ ادا کرنا
چاہئے…
اب
اس کے بعد دو راستے ہیں، ایک یہ کہ جمعیت العلمائے ہند کی طرح ہمارے علماء کرام بھی
انتخابات میں حصہ لینے سے توبہ کرلیں … اور دعوت، عبادت، خدمت اور جہاد کے ذریعہ
مسلمانوں کو متحد کریں اور اسلامی نظام کی راہ ہموار کریں… اور اگر انتخابات میں
حصہ لینا ہی ان کو مناسب معلوم ہوتا ہے تو اس کے لئے ایسے افراد کی کھیپ تیار کریں
جو ماحول کو بدلنے کی روحانی اور دینی طاقت رکھتے ہوں… اور احساس کمتری کے مرض سے
محفوظ ہوں… اور ان میں دینی غیرت اتنی پختہ ہو کہ ان کی موجودگی میں کوئی اسمبلی
حدود اﷲ کے خلاف کوئی بل منظور نہ کرسکے… پچھلے الیکشن میں لوگوں نے شدید اصرار
کرکے ہمارے محبوب ومخدوم حضرت اقدس مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحبؒ کو بھی
کھڑا کردیا تھا… حضرتؒ نے خاص دلچسپی نہ دکھائی چنانچہ کامیاب نہ ہوسکے… انتخابات
کے بعد ان کی خدمت میں حاضری ہوئی تو بہت خوش تھے، فرمایا اچھا ہوا ہم ہار گئے،
کون اس بڑھاپے اور بیماری میں دینی اسباق چھوڑ کر اسلام آباد کے فضول چکر لگاتا
رہتا… اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ علماء کرام انتخابات ہارنے پر خوش ہوتے ہیں اس لئے
ہم اس موقع پر ان کی خدمت میں کوئی تعزیت پیش نہیں کرتے… دو دن بعد جمعہ کا دن آئے
گا … علماء کرام منبروں پر بیٹھے ہوں گے اور باقی سب چوہدری، وڈیرے، خان ان کے
سامنے سرجھکا کر بیان سن رہے ہوں گے…
اے
مسلمانو! اصل عزت وہی ہے جسے اﷲ پاک عزت قرار دے اور جس عزت سے اﷲ پاک خوش ہو۔
نواز
شریف کی ذمہ داری
نواز
شریف صاحب کا سابقہ دور حکمرانی کوئی قابل تعریف نہ تھا… ان کے گرد بھی اسلام آباد
کے معروف ڈاکو اور قادیانی جمع تھے… مگر پھر اﷲ پاک ان کو اپنے گھر لے گیا، ان
دنوں ان کے اچھے اچھے بیانات وہاں سے آتے رہے… پھر اﷲ پاک نے ان کو جزوی آزادی دی
تو انہوں نے لندن میں بیٹھ کر بھی مسلمانوں کے اسلامی جذبات کی قدر کی… انہوں نے
جہاد کشمیر کو اپنا مشن قرار دیا… انہوں نے افغانستان پر امریکی حملے میں تعاون دینے
کو غلط کام قرار دیا… انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جسٹس افتخار محمد چودھری کی
کھل کر حمایت کی… انہوں نے مجاہدین کو انڈیا کے حوالے کرنے سے دوٹوک الفاظ میں
انکار کیا… پھر اﷲ تعالیٰ نے ان کا راستہ کھولا تو وہ واپس پاکستان آگئے… انہیں
اپنے ہم وطنوں سے ملنے اور اپنے مرحوم والد کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کا موقع ملا…
پھر انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا اور انتخابی مہم کے
دوران لال مسجد کے مظلوم خون کو بھی خوب یاد کیا… اب مجاہدین کی حمایت، مظلوم
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی اشک شوئی اور شہداء لال مسجد کے خون کی دہائی کی برکت سے
ان کو انتخابات میں مثالی کامیابی ملی ہے… نواز شریف صاحب نے جلاوطنی کا دور بھی
جھیلا ہے اور قید تنہائی کا غم بھی کاٹا ہے…
اب
ان کے لئے دین، ملک اور قوم کی خدمت کا بہترین موقع ہے… اقتدار میں آنے کے بعد
اقتدار کو طول دینے کی خواہش انسان کو برباد کردیتی ہے… نواز شریف یاد رکھیں کہ
امریکہ اور ساری کفری دنیا کو خوش کرکے بھی ماضی کے حکمران اپنا اقتدار نہیں بچا
سکے… اس لئے وہ اﷲ پاک کی رضا کے لئے اپنے وعدوں کو یاد رکھیں … اور ان ذمہ داریوں
کو نبھائیں جن کو نبھانے میں ان کے لئے دنیا آخرت کی کامیابی ہے… انشاء اﷲ…
حضرت لدھیانوی
شہیدؒ کے احسانات
حکیم العصر حضرت لدھیانوی
شہیدؒ کی یاد میں چند مفید باتیں
(سوانحی خاکہ
حضرت لدھیانوی شہیدؒ)
اسم گرامی … مولانا
محمد یوسف لدھیانویؒ …ولد … الحاج چوہدری اﷲ بخش ؒ
پیدائش
۱۹۳۲ء
ضلع لدھیانہ کے شمال مشرقی کونے میں دریائے ستلج کے درمیان ایک چھوٹی سی جزیرہ نما
بستی عیسیٰ پور میں ہوئی… پرائمری تک عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۳
سال کی عمر سے دینی تعلیم کا آغاز لدھیانہ کے مدرسہ محمودیہ اﷲ والا میں کیا … قیام
پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے اور ملتان کے ایک مضافاتی چک میں رہائش پذیر
ہوئے اور جہانیاں منڈی کے مدرسہ رحمانیہ میں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور
علوم کی تکمیل جامعہ خیر المدارس ملتان سے ہوئی … تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت اقدس
مولانا خیر محمد جالندھری ؒ سے سلسلہ اشرفیہ امدادیہ صابریہ پر بیعت کی ان کی وفات
کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی نوراﷲ مرقدہ کی طرف رجوع
کیا تو حضرت نے خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا۔ اسی کے ساتھ عارف باﷲ حضرت اقدس
ڈاکٹر عبدالحئی صاحبؒ عارفی نوراﷲ مرقدہ نے بھی سند اجازت و خلافت عطا فرمائی…
پاکستان کے مختلف علاقوں کے معروف مراکز علمیہ میں اعلی تدریسی خدمات سرانجام دیں
آخر میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کراچی میں تدریس فرماتے تھے … اﷲ
تعالیٰ نے زور قلم خوب عطاء فرمایا وقت کا کوئی فتنہ ایسا نہیں جو آپ کے قلم کی زد
سے بچا ہو بالخصوص قادیانیت کے فتنہ کا خوب تعاقب فرمایا اور آپ تحریک ختم نبوت کے
اساسی ستونوں میں سے تھے … ماہنامہ بیّنات،، ہفت روزہ ختم نبوت اور ماہنامہ اقراء
ڈائجسٹ کے علاوہ ملک کے مشہور علمی رسائل میں شائع شدہ سینکڑوں مضامین کے ساتھ بیسیوں
کتابیں بھی تالیف فرمائیں … جہاد اور مجاہدین سے والہانہ محبت رکھتے تھے امیر
المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر مد ظلہ کی طرف سے جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
قیام کے اعلان کے بعد سب سے پہلے حضرت لدھیانوی ؒ نے ان کے ہاتھ پر بیعت علی
الجہاد فرمائی اور بڑھاپے کی حالت میں امارت اسلامیہ افغانستان کے اگلے مورچوں تک
کا سفر فرمایا
۱۳ صفر۱۴۲۱ھ بمطابق ۱۸مئی بروز جمعرات علم وعمل کا یہ کوہ گراں اور شہادت کا آرزو
مند حکیم العصر جام شہادت نوش فرما کراپنی منزل پا گیا۔ (ازمرتب)
تاریخ اشاعت ۱۲صفر
۱۴۲۹ھ
۲۹ فروری۲۰۰۸ء
شمارہ ۱۳۷
حضرت لدھیانوی
شہیدؒ کے احسانات
اﷲ
تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی امت کے جن افراد کو غیر معمولی علم وحکمت
سے نوازہ… حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ بھی انہی افراد میں سے ایک
تھے…
ایک
بار روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر میر جاوید الرحمن حضرتؒ سے ملنے آئے، اس خصوصی ملاقات میں
حضرتؒ نے تحدیث بالنعمۃ کے طور پر فرمایا کہ الحمدﷲ مجھے اسلام کے ہر حکم کی حکمت
اﷲ تعالیٰ نے سمجھادی ہے… اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت ’’الحکیم‘‘ ہے یعنی حکمت والا…
چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا کوئی حکم اور کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا … ایک مسلمان بندے
کا کام یہ ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ کے حکم میں کوئی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے وہ ہرحکم
پر عمل کرے اور اﷲ تعالیٰ کی ہرتقدیر پر راضی رہے… مگر اﷲ تعالیٰ اپنے بعض بندوں
پر خصوصی انعام فرماتا ہے اور انہیں اپنے احکامات کی بعض حکمتیں سمجھا دیتا ہے…
مسند الہند حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ پر اﷲ تعالیٰ نے علم کا یہ خاص دروازہ کھولا، چنانچہ
وہ اپنی کتاب حجۃ اﷲ البالغہ میں اسی موضوع کو بیان فرماتے ہیں … یہ ہماری خوش نصیبی
تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زمانے کے ایک عالم حضرت لدھیانوی شہیدؒ کو بھی یہ خصوصی
علم عطاء فرمایا، اسی لئے حضرتؒ کو زمانے کے علماء کرام ’’حکیم العصر‘‘ کے لقب سے یاد
کرتے ہیں… حضرت لدھیانوی شہیدؒ نے اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دین کے ہر شعبے کو
سمجھا اور پھر اس کی خدمت بھی کی… انہوں نے اپنی علمی زندگی کا آغاز تدریس یعنی
علوم نبوت پڑھانے سے کیا… اور پھر زندگی کے آخری دن بھی حدیث شریف کی معروف کتاب
’’ابوداؤد‘‘ پڑھانے کے لئے ہی گھر سے نکلے… انہوں نے ختم نبوت کے تحفظ کا کام
اوائل جوانی سے شروع کیا اور پھر زندگی کے آخری دم تک وہ عشق رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کا یہ معرکہ لڑتے رہے… انہوںنے قادیانیت کو علمی طور پر موت کے گھاٹ اتارا،
الحمدﷲ ساری دنیا کے ناپاک قادیانی مل کر بھی ان کے دلائل کا جواب نہ دے سکے… وہ
حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی کتاب ’’تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ کے مدّاح تھے، ان کو یہ کتاب بھی
پسند تھی اور اس کا نام اور موضوع بھی… ایک بار کراچی سے لاہور اور پھر رائے ونڈ
ان کے ساتھ سفر کی سعادت ملی تو وہ اس کتاب کا تذکرہ فرماتے رہے… اور پھر انہوں نے
اسی طرز کو اپناتے ہوئے ’’تحفۂ قادیانیت‘‘ لکھ ڈالی… ایک انتہائی مدلّل اور صف
شکن کتاب … اﷲ تعالیٰ حضرتؒ کو جزائے خیرعطا فرمائے انہوں نے اس کتاب پر بہت محنت
فرمائی… ویسے بھی اﷲ تعالیٰ نے ان کو محنتی طبیعت عطاء فرمائی تھی مگر اس کتاب پر
تو انہوں نے اپنی جان توڑ دی … ہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق کا یہی تقاضا
تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مکمل ناطقہ بند کردیا جائے… اب حضرتؒ
آرام سے سوتے ہیں اپنے پرنور کچے مزار میں اور ان کے دو رفیق اور خادم بھی ان کے
ساتھ ہیں… کس کی مجال ہے کہ جاکر آرام میں خلل ڈال سکے… بے شک دین کے لئے محنت
کرنے والوں کو بہت آرام ملتا ہے، بہت آرام…
حضرتؒ
نے دین کے شعبہ احسان وسلوک کو بھی سمجھا اور اسے بھی اپنالیا… انہوںنے حضرت اقدس
علامہ خیر محمد جالندھریؒ سے بیعت کی، پھر ان کے بعد بھی اپنے نفس کی اصلاح کے لئے
فکر مند رہے… حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کے حلقۂ ادارت میں شامل ہوئے، یہاں
انہوں نے سلوک کی منزلیں طے کیں تو خلافت کے مستحق ہوئے… پھر انہوں نے اس روحانی
سلسلے کی بھی خوب خدمت کی… اور اپنے شیخ ومرشد کے حالات زندگی پر ایک پوری کتاب
تحریر فرمائی… حضرت شیخ ؒ چلے گئے تو حضرت
لدھیانویؒ نے گدّی نشینی کا اعلان کرنے کی بجائے ایک اور شیخ ڈھونڈ لیا… اور جس
زمانے ان کے قلم کا فیض عرب ویورپ تک پہنچ رہا تھا، اس زمانے میں بھی وہ ایک مرید
بن کر حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی ؒ کی
خانقاہ میں بیان سن رہے ہوتے تھے… حضرت عارفی
ؒ شاعری کا ذوق رکھنے والے ایک لطیف مزاج بزرگ تھے… حضرت لدھیانویؒ جو کہ
اشارہ شناس ادیب تھے حضرت عارفی ؒ کے گرویدہ
ہوگئے … ان سے باقاعدہ بیعت ہوئے اور خلافت بھی پائی… شیخوپورہ کے ایک سفر میں ان
کے ساتھ جانے کی سعادت ملی تو حضرت عارفی
ؒ کے تذکرے میں کھوئے رہتے تھے… ان کے واقعات سناتے تھے، ان کے اشعار
دہراتے تھے اور ان کے ساتھ اپنی دو طرفہ محبت کا تذکرہ کرتے تھے…
احسان
و سلوک کے شعبے میں کمال حاصل کرکے پھر اس سوغات کو دن رات لوگوں میں بانٹتے رہے،
اور ماشاء اﷲ اس شعبے میں بھی اپنے عروج تک پہنچے… یہاں تک کہ حضرت امام شامزئی ؒ جیسے اکابر نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور
ان کے مرید اور خلیفہ ہوئے… آخری زمانے میں تو لوگوں کا ان کی طرف بہت رجوع تھا
اور رمضان المبارک میں ان کا اعتکاف کافی پرہجوم ہوتا تھا… حضرت لدھیانویؒ کا خاص
شعبہ تحریر وتصنیف کا تھا وہ قلم کے شہسوار تھے … انہوں نے جوانی کے آغاز سے قلم
تھاما اور پھر آخری دم تک قلم سے دین کا نور پھیلاتے رہے… اس شعبے میں انہوں نے ایسا
کمال حاصل کیا کہ امت کے بڑے مصنّفین میں ان کا شمار کیا جاتا ہے… تمام مسلمانوں
سے میری درخواست ہے کہ وہ حضرت لدھیانوی شہیدؒ اور حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ
کے قلم سے علم وحکمت کی روشنی حاصل کریں… ان دو حضرات کا ہمارے زمانے کے مسلمانوں
پر بڑا احسان ہے … اﷲ تعالیٰ ان کو اپنی شایان شان بدلہ عطاء فرمائے… ہفت روزہ
القلم کے اس خصوصی شمارے میں ارادہ تھا کہ حضرت لدھیانویؒ کی کتابوں کا تعارف اپنے
مضمون میں عرض کروں گا،… مگر اس وقت تمام کتابیں ساتھ نہیں ہیں… اس لئے آج کی مجلس
میں حضرتؒ کے بعض احسانات کا تذکرہ کرتا ہوں… اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ قارئین کرام
تک بھی ان احسانات کا اثر پہنچے گا اور جو عمل کرے گا اس کا اجر حضرتؒ تک بھی
انشاء اﷲ پہنچے گا…
ایک
دعاء کی رہنمائی
حضرتؒ
کے ساتھ ایک بار ازبکستان کا سفر ہوا… یہ سفر ختم نبوت کی تحریک کا حصہ تھا… اس
سفر میں بخارا، سمرقند اور تاشقند کے تاریخی مقامات کا دورہ بھی ہوا… سمرقند کی ایک
تاریخی مسجد ’’جامع طلاء‘‘ کے دورے کے دوران جب تمام رفقاء سفر مسجد وغیرہ دیکھنے
میں منہمک تھے، حضرتؒ اچانک ان سے الگ ہوکر ایک چبوترے پر آکر لیٹ گئے… بظاہر لگتا
تھا کہ تھک گئے ہیں مگر شاید طبیعت پر بوجھ آگیا تھا کہ ماضی کے مسلمانوں نے کیا کیا
بنایا اور پھر غفلت زدہ لوگوں نے سب کچھ کافروں کے ہاتھوں تباہ کروادیا… بندہ نے
حضرت کو لیٹے دیکھا تو ان کے پاس آکر ان کے پاؤں دبانے لگا… حضرتؒ آنکھیں بند کرکے
مسلسل یہ دعاء پڑھ رہے تھے:
اَللّٰہُمَّ
اجْعَلْ خَیْرَ عُمْرِیْ آخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَوَاتِیْمَہٗ وَخَیْرَ اَیَّامِیْ
یَوْمَ اَلْقَاکَ فِیْہِ
ترجمہ : اے میرے
پروردگار میری بہترین عمر میری آخری عمر کو بنادیجئے اور میرے بہترین اعمال میرے
آخری اعمال کو بنادیجئے اور میری زندگی کا سب سے بہترین دن وہ بنادیجئے جس دن میں
آپ سے ملوں… یعنی موت کا دن…
یہ
’’حسن خاتمہ‘‘ کی بہترین اور مسنون دعاء ہے… میں خود اس وقت مدرسہ میں استاذ تھا
مگر میری توجہ اس اہم اور ضروری دعاء کی طرف نہیں تھی… اﷲ تعالیٰ حضرتؒ کو جزائے خیر
عطاء فرمائے کہ انہوں نے اس مبارک دعاء کی طرف توجہ کرادی… آج جس طرح سے ہر طرف
گمراہی پھیل رہی ہے… ہر نیک شخص یہی بتاتا ہے کہ پہلے میں یہ اچھا عمل کرتا تھا
مگر اب سستی ہوتی ہے… کئی لوگ جو بڑے بڑے مجاہد تھے آج کابل میں امریکہ کے ملازم
بنے بیٹھے ہیں… ان حالات میں اچھے انجام کی فکر رکھنا اور اس کی دعاء کرنا کس قدر
ضروری ہے، اس کا اندازہ ہر شخص خو دلگاسکتا ہے…
حضرت
علی کرم اﷲ وجہہ کی مَحبَّت
ہمارے
طالبعلمی کے زمانے کراچی میں ایک خوفناک فتنہ دینی مدارس میں سرایت کر رہا تھا… امیرالمؤمنین،
محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ پر (نعوذباﷲ، نعوذباﷲ)
کھلم کھلا تنقید کرنے والا زبان دراز خطیب ’’شاہ بلیغ الدین‘‘ ہمارے بعض علماء کے ساتھ
اسٹیجوں پر تقریریں کر رہا تھا… کئی عجیب وغریب مؤرّخ کراچی سے لیکر ملتان تک پیدا
ہوگئے تھے… ان سب کا ظاہری نعرہ ’’شیعوں کا ردّ‘‘ تھا مگر یہ سب لوگ مسلمانوں کو
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کاٹ رہے تھے… اﷲ اکبر کبیرا کیسی حماقت، اور جہالت والا
فتنہ ہے… حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا مقام تو فرشتوں سے بالاتر ہے… انہوںنے اپنی مکلف
زندگی کا ایک منٹ بھی کفر و شرک میں نہیں گزارا … پاک سراسر پاک، خوشبو کا مجموعہ
اور علم وشجاعت کے سمندر… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایسا ساتھ نبھایا کہ حق
ادا کردیا… ہجرت کی رات ایک سو تلواروں کے درمیان بے خوف آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے
بستر پر لیٹے رہے… آج پولیس سامنے آجائے تو بڑے بڑے مجاہدین کے رفقاء اپنے امیر کی
حفاظت بھول کر اپنی فکر میں پڑ جاتے ہیں… ہجرت کی رات تو ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا یقین
تھا، عرب کے اکثر قبائل اپنے بہادروں کو لے آئے تھے… بظاہر یہی امکان تھا کہ جب
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں پائیں گے تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ پر اپنی ساری
بھڑاس نکالیں گے… مگر علی رضی اﷲ عنہ کے تو ایک ایک بال پر ایمان اور بہادری کا
نور تھا، پوری رات اس بستر پر گزاری اور پھر ساری امانتیں لوگوں کے سپرد کرکے جلد
ہی آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں جا پہنچے… تبوک کے موقع پر انہوں نے مدینہ
منورہ کے محاذ کو سنبھالا… اور پھر دامادی کا شرف اﷲ اکبرکبیرا… چچا زاد بھائی …
سب سے پہلے مسلمان ہونے والے بچے … اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے محبوب اور جانباز
سپاہی، جن پر اﷲ تعالیٰ نے علم و قضاء کے دروازے کھول دیئے تھے… حضرت حکیم الامت
تھانویؒ نشر الطیب میں لکھتے ہیں:
محبوب
کے متعلقین سے محبوب کی وجہ سے محبت ہوتی ہے، خصوصاً جب وہ متعلقین محبوب کے پسندیدہ
بھی ہوں اور جب محبوب خود ان سے محبت کرنے کا حکم بھی کرے تو ان سے محبت کرنا
شرعاً محبو ب ہے۔ (ص۳۳۱)
آگے
چل کر لکھتے ہیں کہ جن لوگوں کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت اور حضرات
صحابہ کرام سے محبت اور تعلق نہیں ان کا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا
دعویٰ بھی غلط ہے… کراچی میں یہ فتنہ ایک ’’علمی فیشن‘‘ کے طور پر آیا تو اس نے
کافی لوگوں کے ایمان کو نقصان پہنچایا… ہمارے ہاں چونکہ طلبہ تاریخ کو زیادہ نہیں
پڑھتے جبکہ اس فتنے کے خوگر تاریخ دانی کے زور پر امام زہری اور بخاری شریف کے کئی
راویوں کو اپنے گمان میں شیعہ قرار دیتے تھے تو ان کی ایک طرح سے تاریخی دھاک بیٹھ
جاتی تھی… چنانچہ اسی کا اثر ہوا کہ ہمارے جلسوں اور اسٹیجوں پر حضرت علی رضی اﷲ
عنہ کا مبارک موضوع غائب ہوگیا… شانِ صدیقیؓ، شان فاروقیؓ، شان عثمانیؓ… اور حضرت
امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے مبارک موضوعات پر تو جلسے بھی ہوتے تھے اور تقریریں بھی
مگرشان علویؓ کا کہیں تذکرہ نہیں تھا… حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی شان اور
مقام مسلّم ہے اس میں ذرہ برابر شبہ کرنا گمراہی ہے مگر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا
مقام تو ان سے بھی بلند اور برتر ہے… پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے اپنے محبوب، اپنے
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے محبوب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا موضوع شیعوں کے سپرد کردیا
ہے… جلسوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا اسم گرامی آتا ہے تو نعروں پر نعرے
بلند ہوتے ہیں… اﷲ کرے تاقیامت بلند ہوتے رہیں… مگر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے نام پر
کیوں ہلچل نہیں ہوتی… کیا فاتح خیبر رضی اﷲ عنہ کی شان نعوذباﷲ کچھ کم ہے؟… حضرت
علی رضی اﷲ عنہ اگر دنیا سے خوارج کے فتنے کو ختم نہ کرتے تو آج اسلام پوری دنیا میں
نظر نہ آتا… انہوںنے ہر طرح کی قربانی دے کر اس خبیث فتنے کو ختم فرمایا… الغرض
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شان بہت بلند اور آپ کی شخصیت بے حد محبو ب ہے، بے حد
محبوب…
اﷲ
تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے حضرت لدھیانوی شہیدؒ کو جنہوں نے اس موضوع پر بہت
کام کیا اور ہم طالب علموں کو ایک بڑے فتنے … بلکہ ایک بڑی محرومی سے بچا لیا…
حضرتؒ کے ساتھ ایک بار سفر کی سعادت نصیب ہوئی، میرے شیخ ومرشد حضرت مفتی ولی حسن
صاحبؒ بھی ساتھ تھے… حضرت لدھیانویؒ نے خصوصی مجلس میں فرمایا کہ میں نے اﷲ تعالیٰ
سے دعاء کی کہ یا اﷲ میرا جو سب سے بڑا گناہ ہو وہ مجھے پتہ چل جائے تاکہ میں اس
سے توبہ کرلوں اور باز رہوں… تو دل میں آیا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے محبت میں کمی
ہے اور یہی آپ کا بڑا گناہ ہے… فرمایا بس اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے محبت میں
اضافہ ہوتا چلا گیا… اور جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ بعض تاریخی کتابوں کے
مطالعے سے واقعی یہ کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ… حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا مکمل اور
اونچا مقام دل ودماغ میں راسخ نہیں تھا…
حضرتؒ
کی اس بات نے سوچ کا ایک دروازہ کھول دیا… اور جب افغانستان کے جہاد میں تھوڑی سی
شرکت کی توفیق ملی تو ایک دن دشمنوں کے مدّمقابل سخت فائرنگ اور گولہ باری کے
دوران … اﷲ تعالیٰ نے دل میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی محبت پوری طرح سے پیدا فرمادی
… والحمدﷲ ربّ العالمین…
بھاڑ
میں جائے تاریخ اور تندور میں جلیں تاریخی حوالے … ہمارے لئے اصل چیز قرآن وسنت
ہے… اور الحمدﷲ قرآن وسنت سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا پورا پورا مقام معلوم ہوتا
ہے… تاریخ صرف واقعات دیکھتی ہے ان کو سمجھتی نہیں… اس لئے تاریخ کو قرآن وسنت کی
روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا ضروری ہوتا ہے… آج جہاد کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے
وہ اکثر خفیہ ہے… تاریخ کی آنکھیں خفیہ چیزوں کو تو نہیں دیکھ سکتیں… کل جو مورّخ
آج کی تاریخ لکھے گا اسے بھی یہ خفیہ باتیں نظر نہیں آئیں گی، پس وہ نظر آنے والی
چیزوں کو لکھ جائے گا اور باقی نوے فیصد حقیقی حالات اندھیرے میں رہیں گے… آج جب یہ
حال ہے تو ماضی میں بھی ایسا ہی تھا… جہاد، عزیمت اور اخلاص کے کام بہت خفیہ چلتے
ہیں… اور حالات کی چکّی میں بہت کچھ بدل جاتا ہے… اﷲ تعالیٰ حضرت لدھیانوی شہیدؒ
کو جزائے خیر عطاء فرمائے… انہوں نے مسلمانوں کی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ کرائی…
عارف باﷲ حضرت قاری محمد عرفان صاحب نور اﷲ مرقدہ نے بھی ایک بار اس بات پر بہت
خوشی کا اظہار فرمایا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی محبت کے بارے میں مسلمانوں کے
شعور کو بیدار کیا جارہا ہے… یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے بس اس کا اختتام اس بات پر
کرتا ہوں کہ ہم حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے محبت رکھیں یا نہ رکھیں، کم رکھیں یا زیادہ
رکھیں، ان کے مقام کو تسلیم کریں یا نہ کریں، حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر اس سے کوئی
فرق نہیں پڑے گا… وہ بہت ہی اونچی سعادتیں سمیٹ کر جاچکے ہیں… ہاں خود ہم پر ضرور
فرق پڑے گا… اﷲ پاک ہم سب کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، آپ کے اہل بیت اور آپ کے
صحابہ کرام سے ویسی محبت عطاء فرمائے جیسی محبت اﷲ تعالیٰ کو پسند ہے… آمین یا رب
العالمین… حضرت لدھیانوی شہیدؒ کے اور بھی کئی احسانات کا تذکرہ آج کرنا تھا، مگر
بات انہی دو احسانات پر ہی لمبی ہوگئی اور مضمون کی جگہ بھی مکمل ہوگئی ہے… حضرتؒ
کا ایک بڑا احسان یہ بھی تھا کہ وہ مجاہدین کو مسلسل ’’علمِ دین‘‘ کی طرف متوجہ
کرتے رہے… ان کا یہ احسان بھی ناقابل فراموش ہے کہ بندہ کی انڈیا سے رہائی کے بعد
انہوں نے مجاہدین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا… پھر ان کا سب سے بڑا احسان کہ انہوں
نے ’’جماعت‘‘ کی تنظیم تشکیل، ترتیب اور ترقی میں بے حد تعاون فرمایا… کراچی کی
بطحاء مسجد کی جگہ بھی حضرتؒ کے توسّط سے ملی، علماء کرام کا ایک فقید المثال
اجتماع حضرتؒ نے خود خط لکھ کر اپنی مسجد میں منعقد کرایا… اور پھر ’’بیعت علی
الجہاد‘‘ کے ذریعہ اپنی شفقت اور سرپرستی کو عروج کے آخری نقطے تک پہنچایا… اور
پھر ہمارے زمانے کے یہ غیر معمولی عالم دین، حکیم العصر حضرت لدھیانویؒ ’’بیعت علی
الجہاد‘‘ کی رسّی تھام کر شہادت کے بلند ترین مقام پر چڑھ گئے … سلام ہو ان پر اﷲ
تعالیٰ کا… اور بے شمار رحمتیں اور برکتیں … اﷲ تعالیٰ ان کے درجات کو قیامت تک
بلندی عطاء فرماتا رہے… اور ہمیں ان کے ساتھ وابستہ نسبت کی لاج رکھنے کی توفیق
عطاء فرمائے … آمین یا ارحم الراحمین
٭٭٭
خاک ہوجاؤگے
خاکے بنانے والو
یورپ
کے شیطانوں نے ’’ گستاخانہ خاکوں‘‘ کا ارتکاب کیا امت مسلمہ
کی
طرف سے یورپ کے لئے چند صاف صاف اور دو ٹوک باتیں
٭ہم جاپانی نہیں محمدی ہیں٭تم نے اپنی
ہلاکت کو پکارا ہے
٭مسلمانو! امریکہ یورپ چھوڑ دو
٭یہ خاکے دل کا دھواں ہیں٭جنگ کی تیاری
ایمانی
غیرت سے سرشار ایک رہنما تحریر
تاریخ
اشاعت ۲۸صفر ۱۴۲۹ھ
۷مارچ ۲۰۰۸ء
شمارہ۱۳۸
خاک ہوجاؤگے
خاکے بنانے والو
اﷲ
تعالیٰ ان کو غارت فرمائے ، یورپ کے شیطانوں نے پھر ’’ظلم عظیم‘‘ کا ارتکاب کیا
ہے… غلیظ نسل کے یہ گندے کیڑے دنیا کو ایک ایسی جنگ کی طرف لے جارہے ہیں جس کا کوئی
اختتام نہیں ہوگا… یہ سورج کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر نہیں بجھا سکیں گے،
نہیں بجھا سکیں گے، ربّ کعبہ کی قسم نہیں بجھا سکیں گے ہاں یہ لوگ خود خاک ہوجائیں
گے ع
خاک
ہوجاتے ہیں سورج کو بجھانے والے
قرآن
پاک نے اعلان کیا ہے کہ… ہمارے محبوب، ان پر ہم اور ہمارے ماں باپ اور اولاد فدا
حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اس کائنات کے ’’حقیقی سورج‘‘ ہیں…
یَا
اَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰـکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo وَدَاعِیًا
إِلَی اﷲِ بِإِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا (الاحزاب ۴۵،۴۶)
ترجمہ: اے نبی (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہم نے آپ کو بلاشبہ
گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اﷲ
تعالیٰ کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنایا ہے۔
حضرت
شیخ الاسلامؒ لکھتے ہیں:
پہلے
جو فرمایا تھا (پچھلی آیات میں) کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال
کر اجالے میں لاتی ہے۔ یہاں (اس آیت میں) بتلادیا کہ وہ اجالا اس روشن چراغ (یعنی
حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم) سے پھیلا ہے۔ شاید چراغ کا لفظ اس جگہ اس معنیٰ
میں ہو جو سورۂ نوح میں فرمایا: وَجَعَلَ
الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (اﷲ تعالیٰ نے چاند کو
نور اور سورج کو چراغ بنایا) یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آفتابِ نبوت وہدایت ہیں جس
کے طلوع ہونے کے بعد کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی، سب روشنیاں اسی نورِاعظم
میں محوو ومدغم ہوگئیں۔ (تفسیر عثمانی)
الحمدﷲ،
الحمدﷲ… سوا چودہ سو سال گزرنے کے باوجود نبوت اور ہدایت کا یہ سورج پوری شان سے
چمک رہا ہے … منگولیا کے پہاڑوں سے لیکر افریقہ کے جنگلات تک لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کا کلمہ گونج رہا ہے… سائبیریا کی برف بھی اَشْہَدُ اَنَّ
مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲ کا نعرہ سنتی ہے… اور سینا کے صحراؤں میں بھی اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ، اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کا نغمہ بلند ہو رہا
ہے… تم سمجھتے ہو کہ چند خاکے بنا کر اس سورج کو بجھا دو گے نہیں رب کعبہ کی قسم
نہیں… تم تو افغانستان پر لاکھوں ٹن بارود پھینک کر بھی ’’نورمحمدی‘‘ کو نہیں بجھا
سکے تم تو عراق میں سات لاکھ افراد کو قتل کرکے بھی اس چمکتے نور کا کچھ نہیں بگاڑ
سکے… یہ نور چمکتا رہے گا، اللّٰہم صلّ علٰی سیّدنا محمّد … یہ نور پورے عالم پر
غالب ہو کر رہے گا، اللّٰہم صلّ علٰی سیّدنا محمّد …
ہم
جاپانی نہیں محمدی ہیں
تم
سمجھتے ہو کہ تمہاری اس طرح کی حرکتوں سے ہم اپنے محبوب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے
کٹ جائیں گے… تم نے ہمیں جاپانی سمجھ لیا ہے کہ دو ایٹم بم کھا کر اپنی عزت کا
سودا کرلیں گے… یاد رکھنا ہم جاپانی نہیں محمدی ہیں… حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
کے سچے اور پکے غلام … ہم اگر کٹ جائیں تب بھی ہمارے جسم کے ٹکڑے آقا مدنی صلی اﷲ
علیہ وسلم کے وفادار رہتے ہیں… ہم اگر جل جائیں تو ہماری خاک کے ذرے بھی آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم پر درود پڑھتے رہتے ہیں… تم نے جاپانیوں پر دو ایٹم بم مارے تو انہوں نے
اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیا… مگر ہم محمدی ہیں ہم پر لاکھ ایٹم بم مارو گے
تب بھی ہمارا ہاتھ تمہاری گردنوں کی طرف بڑھے گا… ہم تو اپنے محبوب آقا صلی اﷲ علیہ
وسلم کی ایک مسکراہٹ کے بدلے اپنے جسموں کو ریزہ ریزہ کرانا سعادت سمجھتے ہیں… کیونکہ
ہمارا یقین ہے کہ محبوب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسکراہٹ اﷲ تعالیٰ کے راضی ہونے کی
علامت ہے…
ابوجہل
کے چیلو!… خاکے اور کارٹون کیوں بناتے ہو، آؤ مردوں کی طرح میدان میں اترو… اور
پھر دیکھو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام کیسے ہوتے ہیں…
تم
نے اپنی ہلاکت کو پکارا ہے
اﷲ
تعالیٰ نے ہمارے محبوب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کائنات کا مقصود بنایا
ہے… جس ظالم نے بھی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر حملہ کیا وہ تباہ
وبرباد ہوگیا… کسریٰ کی عظیم سلطنت اس لئے پارہ پارہ ہوگئی کہ انہوں نے حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط مبارک کو پھاڑا تھا… ایسا لگتا ہے کہ یورپ کی تباہی کا فیصلہ
’’اوپر‘‘ ہوچکا ہے… ہاں تمہارے عقیدے اور عمل سب بگڑ چکے تھے مگر ربّ تعالیٰ
برداشت فرمارہا تھا… مگر اب تمہارا وقت آگیا ہے… تم نے دنیا کو ’’حرام کاری‘‘ اور
نشے سے بھر دیا… تم نے اسلحہ بیچ بیچ کر انسانیت کو نیم مردہ کردیا… تم نے ترقی کے
نام پر انسانوں کا استحصال کیا… تم نے اپنی عیاشی کی خاطر زمین اور فضا کو زہریلی
آلودگی سے بھر دیا … پھر بھی تم بچے رہے، تم پر عمومی عذاب اس دنیا میں نہیں آیا…
مگر اب تمہارا وقت آگیا ہے… تم نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی
کرکے اﷲ تعالیٰ کے عظیم غضب کو آواز دی ہے… اب تم برباد کردیئے جاؤ گے… تمہاری
بربادی کیسے ہوگی؟… یہ ہم نہیں جانتے… مگر یہ تمنا ضرور ہے کہ اﷲ پاک تمہاری بربادی
کیلئے جس آگ کو استعمال فرمائے ہم اس کا ایک انگارہ ہوں… عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
کی آگ سے دہکتا ہوا یہ انگارہ تم پر موت بن کر گرے… پھر یہ انگارہ ٹھنڈی راکھ بن
جائے… اﷲ تعالیٰ اس راکھ کو حشر کے میدان میں لے جائے… اور جب آقا مدنی صلی اﷲ علیہ
وسلم مدینہ منورہ میں اپنے روضۂ اقدس سے حشر کے میدان کی طرف روانہ ہوں تو ان کے
قدم مبارک اس راکھ پر پڑیں…
اللّٰہم
صلّ علٰی سیّدنا محمّد، اللّٰہم صلّ علٰی
سیّدنا محمّد
مسلمانو!
امریکہ یورپ چھوڑدو
مقصود
کائنات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے… اور پھر بار بار
کرنے … اور پھر اڑیل گدھوں کی طرح اس پر ڈٹے رہنے کے بعد یورپ کا باقی رہنا بہت
مشکل ہے… یہ لوگ تباہ وبرباد کردیئے جائیں گے… مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ امریکہ اور
یورپ میں نہ رہیں… خصوصاً باہر سے جاکر وہاں آباد نہ ہوں… اور وہاں کے مقامی
مسلمان اپنے محلے اور کالونیاں بناکر کافروں سے الگ رہیں… آسمانوں سے غیظ وغضب کی
بارش جب اترتی ہے تو ’’عمومی عذاب‘‘ کا منظر قائم ہوجاتا ہے… دنیا کمانے کی خاطر
ان کافروں کی نوکری اور غلامی مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی… محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کبھی بھی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے گستاخوں کے ساتھ
خوشی سے نہیں رہ سکتے… اے مسلمانو!… حوضِ کوثر کا دربار سجنے والا ہے… قبر میں
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں سوال ہوگا… ہماری دنیا پرستی نے ان کافروں
کو اتنا دلیر کردیا ہے کہ انہوں نے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان پر انگلی اٹھائی
ہے… مسلمانو! … اپنے دین کو بچاؤ، اپنے ایمان کو بچاؤ، اپنی قبر کو بچاؤ، اپنی غیرت
کو بچاؤ… دنیا کے ڈالر، پونڈ، یورو کچھ نہیں… رزّاق صرف اﷲ تعالیٰ ہے صرف اﷲتعالیٰ…
یہ
خاکے دل کا دھواں ہیں
اس
زمانے کے یہود ونصاریٰ نے کتنی طاقت بنالی ہے؟… اس زمانے کے کیمونسٹوں کے پاس کتنی
طاقت ہے؟… اﷲ اکبر کبیرا… ان ظالموں کی طاقت ظاہری طور پر واقعی بہت زیادہ ہے… امریکہ
کے پاس اتنے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم ہیں کہ سات بار اس زمین کو تباہ کرسکتا ہے… روس
کے پاس تیس ہزار چھوٹے بڑے ایٹم بم ہیں جو تمام ملکوں کو منٹوں میں ختم کرسکتے ہیں…
خلائی نظام کے ذریعے یہ ممالک زمین پر چلتی چیونٹیوں کو دیکھ سکتے ہیں… اور زمین
کے اندر چلنے والے پانی کا رنگ معلوم کرسکتے ہیں… کمپیوٹر کے نظام کو اسلحے سے جوڑ
کر یہ امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے کسی بھی شہر، گھر یا مورچے کو تباہ کرسکتے ہیں…
ان کے پاس دیواروں اور بینکروں کے پیچھے دیکھنے والے آلات اور پرندوں کی طرح بے
تکلف اڑنے والے جنگی طیارے ہیں… ان کے پاس گیس اور لیزر کے ذریعے خفیہ مارکرنے کا
وسیع نظام موجود ہے… الغرض ان ظالموں کے پاس کافی طاقت موجود ہے… آپ نے مزید
معلومات لینی ہوں تو کسی مغرب زدہ دانشور سے لے لیجئے، وہ آپ کو ڈرا ڈرا کر اَدھ
موا کردے گا… مجھ جیسے فقیر نے تو کبھی ان کی طاقت اور ٹیکنالوجی پر غور ہی نہیں کیا…
اب آپ تھوڑا سا غور کیجئے… اتنی طاقت کے باوجود امریکی فوجیوں کے تابوت روزانہ
عراق اور افغانستان سے امریکہ بھیجے جارہے ہیں… سات سال ہوگئے امریکہ اور اس کے
اتحادی طالبان کو ختم نہیں کرسکے… میں خود جانتا ہوں کہ طالبان کے بڑے بڑے
کمانڈروں کو ٹیکنالوجی کی ہوا تک نہیں لگی… وہ تو موبائل فون کے بھی دو، تین بٹن
جانتے ہیں اور بس… پانچ سال ہوگئے امریکہ کی سوا لاکھ فوج، ہزاروں ٹینک اور بے
شمار طیارے عراق فتح نہیں کرسکے… وہاں آج بھی ہرگلی میں مجاہد بیٹھے ہیں… آخر یہ
سب کیا ہے؟ … آپ یقین کیجئے آج جتنی مادّی طاقت امریکہ، روس اور یورپ کے پاس ہے اس
کا ہزارواں حصہ بھی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس نہیں تھا… مگر انہوں نے آدھی دنیا
کو فتح فرمالیا تھا… اﷲ اکبر کبیرا… آپ ایک میز پر امریکہ کی جنگی طاقت کا نقشہ
بنائیے اور پھر سوچئے کہ امریکہ عراق اور افغانستان میں کیسے پھنسا ہوا ہے… آپ ایک
میز پر سوویت یونین کی طاقت کا نقشہ رکھیئے اور پھر سوچئے کہ سوویت یونین کا
سامانِ جنگ خوست اور پشاور کے بازاروں میں مال غنیمت بن کر کس طرح فروخت ہو تا
رہا… آپ اپنے سامنے انڈیا کی جنگی اور فوجی طاقت کا نقشہ رکھیئے اور پھر اسے کشمیر
میں اٹھارہ سال تک پھنسے ہوئے دیکھئے… آپ اسرائیل کی جنگی قوت کا ڈیٹا معلوم کریں
اور پھر کل ہی اس کی فوجوں کو غزّہ سے پسپا ہوتا دیکھیں… ہاں شاید آپ نے کبھی ان
تمام باتوں پر غور کرنے کی زحمت نہ کی ہو مگر یہود ونصاریٰ کے قائدین، مفکرین دن
رات اس پر غور کرتے ہیں… اور انہیں ہر جگہ اپنی ذلت اور شکست کے پیچھے لا الہ الا
اﷲ محمد رسول اﷲ کا کلمہ نظر آتاہے… جی ہاں وہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو میدانوں
میں لڑتا ہوا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں… وہ سمجھ گئے ہیں کہ عام انسان تو اتنی
طاقت اور بمباری کا مقابلہ نہیں کرسکتے… یقینا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا
معجزہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دین، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام، آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی روحانی قوت اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طاقت ان کے خلاف میدانوں میں لڑ رہی
ہے… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طاقت اور قوت کے پیچھے اﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی
قوت اور طاقت ہے… اور کافر خود کو اس طاقت کے سامنے بے بس محسوس کر رہے ہیں… انہوں
نے ہر طرح کا اسلحہ استعمال کرلیا، انہوں نے طرح طرح کی معاشی ناکہ بندی کرلی…
انہوں نے اسلامی ملکوں کے حکمران خرید لیئے… انہوں نے اسلامی ملکوں کی پوری پوری
فوجیں خرید کر ان کو استعمال کرلیا … مگر شکست جمع شکست جمع شکست ان کامقدر ہے… تب
انہیں غصہ آتا ہے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظیم ذات پر… اور وہ اپنے درد اور
غم میں گھٹ گھٹ کر روتے اور مرتے ہیں اور بے بسی کے ساتھ اپنے ہاتھ چباتے ہیں اور
کھسیانی بلی کی طرح خاکے اور کارٹون بناکر اپنے دل کی بھڑاس اور دھواں نکالتے ہیں…
مبارک ہو اسلام کے فدائیو! … مبارک ہو اسلام کے مجاہدو! … مبارک ہو جہاد کے
علمبردارو!… تم نے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کا حق ادا کردیا… تم نے ہر
میدان میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیا… بے شک اﷲ تعالیٰ نے جب
ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کو ’’سراجاً منیراً‘‘ بنایا ہے تو اس سورج نے تو قیامت
تک چمکنا ہے… جہاد بھی اسی سورج کی روشنی ہے… اور مجاہد کا جذبہ بھی اسی سورج کا
نور ہے… مبارک ہو ان مجاہدین کو جن کے سینوں میں نورِ محمدی اور روحِ محمدی (ﷺ) کی
روشنی چمک رہی ہے، دمک رہی ہے…
اللّٰہم
صلّ علٰی سیّدنا محمّد، اللّٰہم صلّ علٰی سیّدنا محمّد
جنگ
کی تیاری
اہل
یورپ نے گستاخانہ خاکے چھاپ کر جنگ کا بگل بجادیا ہے… دشمن جب سامنے آجائے تو جہاد
’’فرض عین‘‘ ہوجاتا ہے… اب ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنی طاقت کے مطابق گستاخوں کو
عبرتناک سزا دے کر جامِ کوثر کا مستحق بنے… عیاش یورپ مال کے بغیر ایک دن زندہ نہیں
رہ سکتا… مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے ساتھ اقتصادی جنگ بھی کریں اور میدانی بھی…
ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور پھر خود کو تولے کہ میں اس جنگ میں کیا کچھ
کرسکتا ہوں… افغانستان اور عراق کے مجاہدین تو مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ براہ
راست ان دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ کر رہے ہیں… یقینا ان کا اجر سب سے بڑھ کر ہے
اور ان کا کام ہر کام سے بڑا ہے… اگر تمام مجاہدین عقلمندی سے کام لیتے اور انہی
محاذوں پر ٹھیک ٹھاک ’’محمدی جہاد‘‘ کرتے تو دنیا کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا… مگر
بدنصیبی کہ چھوٹے چھوٹے نعرے دن رات مجاہدین کی طاقت کو توڑتے ہیں… اور کئی قیمتی
مجاہد ویڈیو سینٹروں پر بم مارتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں… تھوڑا سا سوچیں، اﷲ
تعالیٰ کے لئے سوچیں کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟… خیر یہ ایک الگ اور دردناک موضوع ہے…
بات یہ چل رہی تھی کہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرے… کوئی یورپ میں رہنا چھوڑ دے، کوئی
ان کے ساتھ تجارت چھوڑ دے… کوئی ان کی صفوں میں انتشار ڈال دے… قطرہ قطرہ دریا
بنتا ہے… نرم ہوائیں جمع ہو جائیں تو آندھی چل پڑتی ہے… بے ضرر ندی نالے اکٹھے
ہوجائیں تو سیلاب بن جاتا ہے… یورپ کو ایک روپے کا معاشی نقصان ہر مسلمان کی طرف
سے پہنچے تو یورپ کے لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم
اس وقت حضرت محبوب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے پورے وفادار بن جائیں… ہم قرآن، نماز،
جہاد اور سنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مکمل رشتہ جوڑ لیں… ہم آقا مدنی صلی
اﷲ علیہ وسلم کی جہادی سنتوں کو خاص طور سے سمجھیں اور زندہ کریں…
آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلواریں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نیزے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کے جنگی اور دفاعی ہتھیار… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنگ کے لئے چلنا… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا صفوں کو سیدھا فرمانا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بہادری کے ساتھ لڑنا… آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کا میدان جہاد میں اشعار پڑھنا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہزاروں برستے
تیروں کے درمیان مسکرا کر ڈٹے رہنا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنگی دستے روانہ کرنا…
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا زخمی ہونا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا زرہ پہننا … آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کا تلواریں تقسیم کرنا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بہادروں کو انعامات سے
نوازنا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مجاہدین کو رخصت کرنا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنگی
مشقیں منعقد کرانا… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنگی مشقوں میں حصہ لینا… آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا گلے میں تلوار لٹکا کر گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر مدینہ منورہ کے گرد حفاظتی
چکّر لگانا… صلی اﷲ علی محمد، صلی اﷲ علی محمد… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کس کس ادا
کا تذکرہ کروں… کیا فاتحانہ شان تھی کہ بال مبارک دراز (میں قربان) … ان پر جنگی
ٹوپی (میں قربان) … مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخلہ… کسی نے آکر پوچھا کہ ابن خطل
(گستاخ رسول) کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا پناہ مانگ رہا ہے… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم
نے جنگی ٹوپی سر سے اتارتے ہوئے فرمایا: ’’اقتلوہ‘‘ اس کو قتل کردو… صلی اﷲ علیہ
وسلم، صلی اﷲ علیہ وسلم … دل چاہتا ہے کہ دوڑتا ہوا مدینہ پاک پہنچوں اور روضہ
اقدس پر جاکر عرض کروں… آقا! میں، میرے ماں باپ اور میری اولاد آپ پر قربان، ابن
خطل کے خاتمے جیسا حکم یورپ کے گستاخوں کے لئے بھی جاری فرمادیجئے…
اللہم
صل علی سیدنا محمد، اللہم صل علی سیدنا محمد…
آپ
کے غلام تیار ہیں… یہ آپ کا معجزہ ہے کہ زیاد بن سکن رضی اﷲ عنہ کی طرح آپ کے
قدموں پر رخسار رکھ کے جان دینے والوں کی ہے آج بھی کمی نہیں… بلکہ اس سعادت پر
پوری دنیا قربان… مگر کچھ عرصہ مسلمان غافل رہے تو … یورپ نے اپنے گرد حفاظتی حصار
مضبوط بنالیا… ہمارے حکمران اور ہماری فوجیں ان کے غلام بن گئے… اس لئے آقا آپ کے
حکم کی ضرورت ہے… آپ کے حکم کے بعد تقدیر مسلمانوں پر مہربان ہوجائے گی… کافروں کے
حفاظتی حصار ٹوٹ جائیں گے… تب خاکے بنانے والے خاک ہوجائیں گے…
اللّٰہم
صلّ علٰی سیّدنا محمّد، اللّٰہم صلّ علٰی سیّدنا محمّد … اللہم صل علی سیدنا محمد
وآلہ وسلم تسلیمًا کثیرًا کثیرًا کثیرًا…
٭٭٭