نئے سال کا روزنامچہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 659)
اللہ تعالیٰ نئے سال کو ہم سب کے لئے ’’مبارک‘‘ فرمائے… آج ’’حجاز مقدس‘‘ میں یکم محرم ۱۴۴۰؁ھ کی تاریخ ہے… ہمارے ہاں بھی کل یہی تاریخ ہو گی… اور جب ساری امت مسلمہ ایک ’’چاند‘‘ پر آ جائے گی تو ہر جگہ تاریخ بھی ایک ہو جائے گی ان شاء اللہ… چلیں آج نئے سال کا روزنامچہ ( یعنی ڈائری) تیار کرتے ہیں…
کچھ کام تو خود بخود ہوں گے
محرم الحرام شروع ہوتے ہی… کچھ کام تو خود بخود شروع ہو جاتے ہیں…آغاز محرم میں حضرت امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا تذکرہ مہکتا ہے… چونکہ آپ سے محبت رکھنے والے افراد آپ کا دن منانے کی بجائے آپ سے روشنی پانے کی زیادہ فکر رکھتے ہیں… اس لئے امت میں باقاعدہ’’یوم فاروق اعظم ‘‘ نہیں منایا جاتا… جبکہ بعض لوگ مناتے بھی ہیں… مگر عمومی ماحول چودہ سو سال سے یہ دن نہ منانے کا ہے… حضرت فاروق اعظم کی شان ، جلال اور انوارات… کسی ایک دن کے ساتھ خاص نہیں… ایک مسلمان کو پورا مسلمان بننے کے لئے… چاروں خلفائے راشدین کی سیرت کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے…یکم محرم کے بعد پھر پانچ محرم کے دن… ہمارے مخدوم مرشد حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کا عرس شروع ہو جاتا ہے… سنا ہے بڑی دھوم دھام ہوتی ہے… کوئی بہشتی دروازہ بھی کھلتا ہے… نماز وغیرہ کی زیادہ فکر نہیں کی جاتی البتہ… قوالی اور سماع کا زور رہتا ہے… حالانکہ حضرت بابا جی قدس سرہ کے آخری دن… یعنی چار محرم کی مصروفیات کے بارے میں سوانح نگار لکھتے ہیں:
( حضرت بابا جی شیخ الاسلام والمسلمین فرید الدین مسعود ذوالحجہ کے آخر میں بیمار ہو گئے… زندگی کا آخری دن یعنی چار محرم بیماری کی تکلیف کی وجہ سے) بے چینی اور تکلیف میں گذرا مگر تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں اور تمام وظائف بھی پورے کئے ، پھر عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے پوچھا کہ میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ حضرت عشاء کی نماز وتر کے ساتھ ادا کر چکے ہیں…اس کے بعد آپ پھر بے ہوش ہو گئے…جب ہوش آیا تو فرمایا کہ میں دوسری مرتبہ نماز ادا کروں گا… اللہ جانے پھر موقع ملے یا نہ ملے… مولانا بدر الدین کہتے ہیں کہ اس رات آپ نے تین مرتبہ عشاء کی نماز ادا کی… پھر آپ نے وضو کے لئے پانی منگوایا ، وضو کیا، دو رکعت نماز ادا کی پھر سجدے میں چلے گئے اور سجدے میں ہی آہستہ آواز سے یا حی یا قیوم پڑھتے ہوئے محبوب سے جا ملے ( انتہیٰ)
یہ ہے اصل بہشتی دروازہ… نماز، سجدے ، اللہ تعالیٰ سے آخری دم تک وفاداری …کاش عرس میں شریک لاکھوں افراد کو بھی… حضرت بابا جی کا یہ اصلی درد اور اصلی پیغام پہنچے… لوگوں نے تو نعوذ باللہ ایسے عظیم بزرگوں کو بھی… بلدیہ کا کونسلر سمجھ لیا ہے جو کہ… بس اُن کے دنیاوی مسائل حل کراتا رہے… حالانکہ اللہ والوں سے… اللہ کا راستہ پوچھا جاتا ہے…
پانچ محرم کے بعد پھر ہمارے محبوب، سید شباب اہل الجنۃ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سوگ شروع ہو جاتا ہے… جو کہ بہت خوفناک صورت اختیار کر جاتا ہے…پورا ملک سیاہی، بد امنی ، خوف اور ہنگامہ آرائی کا شکار ہو جاتا ہے… حضرت سیدنا بابا حسین شہید رضی اللہ عنہ نے اپنے بابا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت کبھی اس طرح منایا ہوتا تو… پھر ہمارے لئے بھی جواز نکلتا کہ… شہداء کرام کے دن اس طرح منایا کریں… حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بہت ہی عظیم، مقبول ، محبوب ، برحق اور مقتدیٰ شخصیت کے مالک ہیں… مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ اپنی نسبت بڑھائیں… محبت بڑھائیں… اور اُن سے جرأت ، عزیمت اور حکمت کے اسباق پڑھیں… مسلمان اگر اپنے سال کا آغاز  ذکر، عبادت، روزہ، دعاء اور خوشی سے کریں تو کتنا اچھا ہو… ابھی تو اکثر مسلمانوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا اسلامی سال کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا…
منصوبہ بندی کر لیں
ہر انسان خسارے میں ڈوبتا جا رہا ہے… مگر وہ جو اپنی زندگی کے اوقات… ایمان، عمل صالح، حق کی دعوت اور صبر کی دعوت میں خرچ کر رہے ہیں… اس لئے ہمارے نئے سال کی منصوبہ بندی بھی انہی چار چیزوں پر منحصر ہونی چاہیے… اور ہمیں روز اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگنی چاہیے کہ… یا اللہ ہمیں خسارے سے بچا… ان الانسان لفی خسر … فرمایا تمام کے تمام انسان خسارے میں گرتے جا رہے ہیں… مگر وہ جو ایمان لائے… اور انہوں نے اعمال صالحہ کئے… اور حق کی دعوت دی اور صبر کی تاکید کی… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو خسارے سے بچائے… اور سورہ ’’والعصر‘‘ اچھی طرح سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے… یہ سورہ مبارکہ ایک پوری کتاب ہے، ایک مکمل نصاب ہے… اور پوری پوری تاریخ ہے… بس ضرورت اس بات کی ہے کہ… ہم گھاٹے ، نقصان اور خسارے سے ڈر جائیں… اور اس سے بچنے کے لئے اپنی جان، اپنا مال ، اپنا وقت… اور اپنا سب کچھ لگا دیں… اس لئے سال کے آغاز میں ہی ترتیب بنا لیں کہ… اس سال کے گھاٹے اور خسارے سے کس طرح بچنا ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ؟…کیا کہنا ہے او رکیا نہیں کہنا؟…کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا ؟ کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں لکھنا؟… کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا… ہمیں اپنی زندگی کا روزنامچہ خود تیار کرنا ہے… ہمیں اپنا حساب خود لینا ہے تاکہ آگے درد ناک حساب اور عذاب سے بچ جائیں… اگر اس سال ہم اپنی نماز ٹھیک کر لیں…مکمل ٹھیک ،مکمل مضبوط اور مکمل جاندار… اور ہم اس سال اپنا جہاد ٹھیک کر لیں … مکمل اخلاص ، قربانی اور وفاداری والا جہاد تو ان شاء اللہ … خسارے سے بچنے کے چاروں لوازمات مکمل ہو جائیں گے…
پہلی چیز کلمہ طیبہ یعنی ایمان
’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کے بغیر نہ ہم انسان ہیں، نہ مسلمان… اس کلمہ کے بغیر نہ زندگی اچھی نہ موت… اس کلمہ کے بغیر نہ دنیاکامیاب نہ آخرت کامیاب… ابھی تک تو کئی مسلمانوں کو کلمہ طیبہ صحیح تلفظ سے پڑھنا نہیں آتا… روز درست پڑھیں اور مسلمانوں کا کلمہ درست کرائیں… بہت سے مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کا معنی اور مطلب معلوم نہیں… ایمان چاہیے تو روز اس کے معنی پر غور کریں اور مسلمانوں تک پہنچائیں… اکثر مسلمانوں کو’’ کلمہ طیبہ‘‘ کے تقاضے معلوم نہیں… روز اُن تقاضوں کو معلوم کریں اور آگے پہنچائیں… ہم اگر اپنی زندگی کو’’ کلمہ طیبہ‘‘ کے دائرے میں بند اور محدود کر دیں تو… ہماری ہر تنگی دور ہو جائے گی کیونکہ’’ کلمہ طیبہ‘‘ کا دائرہ زمین سے بھی بڑا ہے اور آسمانوں سے بھی بڑا ہے…روز ذوق و شوق کے ساتھ بارہ سو بار کلمہ طیبہ کا ورد… اور کچھ وقت ایک سانس میں زیادہ سے زیادہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھنے کی کوشش… اور کبھی تنہائی میں… آنسوؤں کے ساتھ کلمے کا ورد… اور اس سب سے عظیم الشان نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر… کیا ہم اس سال تین سو پینسٹھ افراد تک… کلمہ طیبہ کی یہ دعوت پہنچا سکتے ہیں؟… نیت اور عزم کر لیں…
دوسری چیز اعمال صالحہ
اعمال صالحہ وہ اعمال جن کے کرنے کا حکم ہمارے محبوب مالک اللہ جلّ شانہٗ نے ہمیں دیا… اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ نے انہیں کر کے دکھایا… اور اُن کی ترغیب دی…
اُن اعمال میں سب سے اہم… اسلام کے پانچ فرائض ہیں
(۱) نماز (۲) زکوٰۃ (۳) رمضان المبارک کے روزے (۴) حج بیت اللہ (۵) جہاد فی سبیل اللہ
یہ فرائض ہی ہماری زندگی کا مقصد… اور ہماری زندگی کا حاصل ہیں… پھر درجہ ہے سنت رسولﷺ کا…جن میں اہم آپ ﷺ کے اخلاق مبارکہ کو اپنانا ہے… اور پھر درجہ ہے نوافل کا… اس سال ہم اپنے یہ تمام فرائض مکمل سیکھیں… مکمل ادا کریں…اور مکمل ادا کرنے کی نیت کریں… اعمال صالحہ کی تشریح بہت تفصیل مانگتی ہے… آج بس یہی خلاصہ کافی ہے…
تواصی بالحق
حق کی تاکید کرنا… یہ لازمی کام ہے…اس کے بغیر نہ دین مکمل… نہ خسارے سے پوری حفاظت ممکن… ہمارے اس دور میں حق کی دعوت ایک عیب بنا دی گئی ہے، ایک جرم بنا دیا گیا ہے…دین اسلام کا ہر حکم ’’حق ‘‘ ہے… جہاد ’’حق‘‘ ہے…آخرت ’’حق‘‘ ہے… آج اچھا آدمی وہ سمجھا جاتا ہے جو… کسی کو کچھ نہ سمجھائے… نہ اپنی اولاد کو دین کے معاملے پر روکے ٹوکے… اور نہ اپنے گھر کی خواتین کے دین کی حفاظت  کرے… آج مسلمان عورتوں میں کیسا بے پردہ اور گندا لباس رائج ہو رہا ہے… آج بار بار عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں… آج ہر باطل چمکدار اور ہر حق ’’قدامت‘‘ کی نشانی بنا دیا گیا ہے… آج حق کی دعوت دینا اپنے امن کو خطرے میں ڈالنا ہے… اور لوگوں میں ’’غیر محبوب ‘‘ ہونا ہے… مگر ہمیں اپنے رب کا حکم مان کر یہ کام کرنا ہو گا… خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے… اور ہر طرح کے نتائج سے بے پروا ہو کر…
تواصی بالصبر
گرتے ہوؤں کو تھامنا… بھاگنے والوں کو واپس لانا… لیٹے ہوئے افراد کو اٹھانا… خوفزدہ مسلمانوں کی ہمت بڑھانا… تھک جانے والوں کو نہ تھکنے دینا… مایوسی کے گڑھوں میں گرے ہوؤں کو نکالنا…حق کی دعوت آئے گی تو شیطان کے حملے ہوں گے…اور شیطانی قوتیں مکمل طاقت کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوں گی… جب دین کے راستے میں تکلیفیں آتی ہیں تو ’’صبر ‘‘ آسان نہیں ہوتا… بڑے بڑے ہاتھی پھسل جاتے ہیں… آخر بلا وجہ ماں باپ کی گالیاں سہنا… اپنی پرنور داڑھیوں پر تھپڑ برداشت کرنا… فورتھ شیڈول کی حیوانی پابندیاں جھیلنا… آئے دن قید و بند کے خوف میں رہنا… یہ سب آسان تو نہیں ہے… مگر کچھ لوگ مسلسل اپنا یہی کام بنا لیں… بلکہ ہر کوئی اس کام کو اپنا لے کہ… ہم نے امید کی روشنی کم نہیں ہونے دینی… ہم نے حوصلے کا بازار ٹھنڈا نہیں ہونے دینا… ہم نے حق کے داعیوں کو ہر طرح سے سنبھالنا ہے… آخر قرآن میں حضرات انبیاء علیہم السلام پر آنے والی مصیبتوں کے تذکرے کس لئے ہیں؟… اُن تذکروں سے ہر زمانے میں آکسیجن ملتی ہے توانائی ملتی ہے… تواصی بالصبر یعنی ڈٹے رہنے کی تاکید کرنا یہ ہر مسلمان پر لازم ہے میں آپ کو سنبھالوں اور آپ مجھے سنبھالیں… کوئی چھوٹا گر رہا ہو تو ہم اسے کہیں بیٹے! معاذ معوذ کو دیکھو… کوئی جوان گر رہا ہو تو ہم اسے سیدنا حسین کی یاد دلائیں… کوئی بڑا گر رہا ہو تو ہم کہیں… حضرت بس روشنی آنے والی ہے… تھوڑی سی ہمت اور فرما لیں… وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو دیکھیں… فدائی بے چین ہوتے ہیںکہ نمبر نہیں آ رہا، گناہ میں نہ ڈوب جائیں … تب ہم اُن کو پاکیزہ سہارا دیں… کوئی خوف پھیلا رہا ہو تو ہم ’’حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ کا نعرۂ مستانہ عام کرنا شروع کر دیں…
 فرمایا زمانے کی قسم… تمام کے تمام انسان خسارے میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں… مگر وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالحہ کئے اور حق کی تاکید کی…اور صبر و استقامت کی دعوت دی… وہ ماضی میں بھی خسارے سے بچ گئے… کامیاب ہو گئے…اور مستقبل میں بھی… بس وہی کامیاب ہوں گے…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭