منٹ اور گھنٹے صدیوں برابر
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 647)
اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے… حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز… صحابی نہیں ہیں… تابعی ہیں… مگر پھر بھی ان کے نام کے ساتھ …رضی اللہ عنہ… لکھا جاتا ہے… اور بالکل برحق لکھا جاتا ہے… رضی اللہ عنہ … کا مطلب اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا… یا دعاء… اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو… ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھنے کا کیا حکم ہے؟ بہت سے لوگ بعد کے کئی علماء کے نام کے ساتھ بھی… ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھتے ہیں… یہ مسئلہ اور علمی بحث پھر کبھی… آج رمضان المبارک کی بیس تاریخ ہے… ہم کچھ وقت اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب ولی کے ساتھ گذارتے ہیں… ولی بھی وہ جو ’’صدیق ‘‘ کے مقام پر فائز تھے… حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ…
عجیب بندے
اللہ تعالیٰ نے ’’والعصر‘‘ فرما کر… ایک عجیب راز سمجھا دیا ہے… مگر اللہ تعالیٰ کے بہت کم بندے اس راز کو سمجھتے ہیں…چنانچہ وہ بندے بھی… بہت عجیب بن جاتے ہیں عام لوگوں سے مختلف… عام روایات سے ہٹے ہوئے… ’’والعصر‘‘ کا راز یہ ہے کہ… زمانہ ٹھہرتا نہیں ہے گذر جاتا ہے… چنانچہ وقتی حالات کو بہتر بنانے کے لئے… اپنی اصل آخرت کی زندگی کو برباد نہ کیا جائے… تھوڑا سا صبر کرو… وقت گزر جائے گا… آپ سوچیں گے کہ یہ بات تو سب کو معلوم ہے… پھر یہ ’’راز‘‘ کیسے ہوئی؟… جی ہاں سب کو معلوم ہے… مگر اس بات سے فائدہ بہت کم لوگ اٹھاتے ہیں… اس لئے یہ واقعی ’’راز‘‘ ہے…  اکثر لوگ اپنی وقتی مجبوریوں کے سامنے بے بس ہوتے ہیں…بیمار ہوئے تو اب ضرور علاج کرانا ہے… استطاعت ہو یا نہ ہو… اس کی خاطر چوری کرنی پڑے یا خیانت… بھیک مانگنی پڑے یا ذلت اٹھانی پڑے… حتی کہ نعوذ باللہ کفر اور شرک تک کرنا پڑے تو کئی لوگ دریغ نہیں کرتے… گرفتار ہوئے تو ضرور رہا ہونا ہے… خواہ دین چھوڑنا پڑے… غربت اور ضرورت آئی تو… اب ضرور مالدار ہونا ہے… خواہ حرام گوشت بیچنا پڑے… اگر یہ لوگ سوچ لیں کہ… وقت گذر جاتا ہے… والعصر… یہ بات اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمائی ہے… پھر تھوڑا سا صبر کر لیا جائے… تو کیا حرج ہے… وہ ظالم حکمران جو… مخلوق کا مال لوٹ کر خزانے بھرتے رہے ان کا وقت بھی گذر گیا… وہ دفنا دئیے گئے… یا جلا دئیے گئے… اور وہ حکمران جنہوں نے انصاف کیا… خود تکلیفیں برداشت کیں… ان کا وقت بھی گذر گیا… اور وہ ہمیشہ کی راحتوں میں جا بسے… واقعی یہ عجیب لوگ ہوتے ہیں… جب ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے تو اسی وقت وہ فقر اختیار کر لیتے ہیں… جب ان کے پاس وسیع اختیارات ہوتے ہیں تو اسی وقت وہ بے اختیار ہو جاتے ہیں…
روئے زمین کی وسیع حکومت کے بادشاہ… خلیفہ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی چھوٹی بیٹی روتی ہوئی ان کے پاس آئی … بیٹی کے آنسو باپ کے لئے بڑا امتحان ہوتے ہیں… خلیفہ وقت نے اسے گود لیا اور وجہ پوچھی… معصوم بچی کہنے لگی ابو! آج عید کا دن ہے… سب بچوں نے نئے کپڑے پہنے ہیں… جبکہ میرے پاس اور میرے بہن بھائیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں…
سب کے بچے خوشیاں منا رہے ہیں… جبکہ خلیفہ وقت کی بیٹی پرانے کپڑوں میں رو رہی ہے… بیٹی کی بات نے باپ کے دل پر اثر کیا… بیت المال تشریف لے گئے…اپنے خزانچی سے کہا: مجھے اگلے مہینے کا وظیفہ پیشگی مل سکتا ہے… خزانچی نے وجہ پوچھی تو قصہ ارشاد فرمایا… خزانچی نے کہا! امیر المومنین! ایک شرط پر  اگلے مہینے کا وظیفہ مل سکتا ہے… پوچھا کیا شرط ہے؟
خزانچی نے کہا…آپ اگلے مہینے تک زندہ رہنے کی ضمانت دے دیں…
یہ جواب سن کر رو پڑے اور واپس تشریف لائے… اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع فرمایا اور کہا… میرے بچو! دو باتوں میں سے ایک اختیار کر لو… یا تو تم اپنی خواہش پوری کرو اور تمہارا باپ جہنم میں جائے… یا تم صبرو کرو اور ہم سب جنت میں جائیں… بچوں نے کہا…ابو ہم صبر کرتے ہیں … اور پھر اس گھر میں عید کی خوشیاں لوٹ آئیں… انسان کی خوشی یا غم کا تعلق کپڑوں اور سامان سے نہیں… اپنی سوچ سے ہے… دل خوش تو سب کچھ خوش… یہ اس زمانے کی بات ہے… جب حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کی وجہ  سے… بیت المال اور خزانے منہ تک بھرے پڑے تھے… خوشحالی اس قدر پھیل چکی تھی کہ… لوگ صدقہ خیرات ہاتھوں میں لے کر فقیروں کو ڈھونڈتے پھرتے تھے…مگر دور دور تک کوئی فقیر نہیں ملتا تھا…حتیٰ کہ بعض گورنروں نے امیر المؤمنین کو لکھ بھیجا کہ…حضرت! خوشحالی اور مالداری اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ…عام لوگوں کے تکبر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے… فرمایا! اُن سب کو’’شکر‘‘ کی تلقین کرو۔
ہاں بے شک! شکر ’’تکبر‘‘ کا بہترین علاج ہے… حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ’’خلافت‘‘ کو ’’ذمہ داری‘‘ سمجھا اور پھر اس ’’ذمہ داری‘‘ کو ادا کرنے میں…خود کو اور اپنی اہل واولاد کو تھکایا…چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پورے ملک پر پھیل گئی… اور مخلوق نے سکھ کا سانس لیا…حضرت جانتے تھے کہ… یہ مشکل کام ہے مگر ’’والعصر‘‘ یہ وقت گزر جائے گا…اور آگے بہت کام آئے گا…چنانچہ…بہت جلد گزر گیا… صرف ڈھائی یا پونے تین سال اور پھر…رحمت ہی رحمت، راحت ہی راحت…
ایک بات یاد آگئی
اس سال رمضان المبارک میں ’’رنگ ونور‘‘ کا موضوع ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ رہا… ایسے میں ایک ضروری بات…فقراء مسلمانوں سے عرض کرنی ہے… وہ مسلمان جو مال خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے… یہ واقعہ پڑھ لیں…
غزوہ تبوک کے موقع پر جب حضورِ اقدسﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو جہاد میں نکلنے کا حکم فرمایا تو امیر، غریب سب نکل پڑے…مالدار مسلمانوں نے جن اونٹوں، گھوڑوں کا انتظام کیا تھا وہ حضور اقدسﷺ غریب مجاہدین میں تقسیم فرمارہے تھے… مگر اس کے باوجود کچھ مسلمان ایسے رہ گئے جن کو سواری نہ مل سکی… ان مسلمانوں کے حالات بڑے عجیب وایمان افروز تھے… انہوں نے اس موقع پر اتنے سچے آنسو بہائے کہ… قرآن مجید کی آیات میں اُن کے یہ قیمتی آنسو محفوظ ہوگئے… ان حضرات میں ایک حضرت سیدنا علبہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے… جب اُن کے جہاد پر جانے کا کوئی انتظام نہ ہوسکا تو وہ رات کو نکلے… اور کافی دیر تک رات  میں نماز پڑھتے رہے پھر رو پڑے اور عرض کیا… یااللہ! آپ نے جہاد میں جانے کا حکم دیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے پھر آپ نے نہ مجھے اتنا دیا کہ میں اس سے جہاد میں جاسکوں اور نہ اپنے رسولﷺ کو سواری دی جو مجھے جہاد میں جانے کے لئے دے دیتے…(اب میں یہ عمل کرتا ہوں کہ) کسی بھی مسلمان نے مال یا جان یا عزت کے بارے میں مجھ پر جو ظلم کیا ہو وہ معاف کردیتا ہوں اور اس معاف کرنے کا اجروثواب تمام مسلمانوں کو صدقہ کرتا ہوں… پھر (یہ صحابی) صبح لوگوں میں جاملے، حضور اقدسﷺ نے فرمایا: آج رات کو صدقہ کرنے والا کہاں ہے؟ تو کوئی نہ کھڑا ہوا… آپ نے دوبارہ فرمایا صدقہ کرنے والا کہاں ہے؟ کھڑا ہوجائے… چنانچہ حضرت علبہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اپنا رات والا قصہ سنایا…حضور اقدسﷺ نے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تمہارا یہ صدقہ مقبول خیرات میں لکھا گیا ہے۔ (حیات الصحابہؓ)
عجیب بندے
ہر آدمی عہدے اور منصب کی خواہش رکھتا ہے… مگر یہ عجیب بندے عہدے اور منصب سے ڈرتے ہیں، بچتے ہیں… حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو جب اندازہ ہوا کہ مجھے ’’خلیفہ‘‘ بنایا جاسکتا ہے تو اسی وقت سے کوشش میں لگ گئے کہ… انہیں یہ منصب نہ ملے… جب ان کے خلیفہ بننے کا اعلان ہوا تو مجمع میں سے دو افراد کے منہ سے بیک وقت انا للہ وانا الیہ راجعون
نکلی… ایک ہشام کے منہ سے کہ… مجھے خلافت کیوں نہیں ملی…اور دوسری حضرت عمر بن عبدالعزیز کے منہ سے کہ… مجھے خلافت کیوں ملی…
ہر آدمی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ…اپنی راحتوں میں اضافہ کرتا ہے… مگر یہ عجیب بندے عمر گزرنے کے ساتھ صرف ایمان میں ترقی کرتے ہیں… حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی…بہت شاہانہ تھی…ان کا لباس اور ان کی خوشبو کے ہر سو چرچے تھے…ایک جوڑا دوسری بار نہیں پہنتے تھے…ان کا صرف ذاتی سامان تیس اونٹوں پر چلتا تھا… مگر کردار پاک، مزاج میں شرافت اور دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف تھا…
خلافت ملی تو… بس ایک جوڑا کپڑے تھے اور پھر ان پر ایک کے بعد دوسرا پیوند… اہلیہ محترمہ کا سارا زیور بیت المال میں جمع کرا دیا… وہ اللہ کی بندی بھی اس پر راضی خوش رہی… الطیبات للطیبین…
والعصر… وہ وقت گزر گیا… آج تک یاد کیا جاتا ہے…قیامت تک یاد کیا جائے گا… نفس پرستوں کی صدیاں کوڑے کے ڈھیر میں… اور اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں کے منٹ اور گھنٹے… صدیوں سے قیمتی… یا اللہ! ہمیں بھی… اعتبار والا ایمان … مقبول اعمال صالحہ… حق پر مضبوطی … اور تواصی بالصبر نصیب فرما…
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭