بابا مسعود واقعی مسعود
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کی مجلس سے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ  657)
اللہ تعالیٰ کی ’’صلوٰت‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا سلام … ہمارے آقا حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وصحبہٖ وسلم پر… گستاخانہ خاکوں کا معاملہ گرم ہے… اللہ تعالیٰ کی، اُس کے تمام فرشتوں کی اور اُس کی تمام مخلوق کی ’’لعنت‘‘ منحوس خاکے بنانے والوں پر …چھاپنے والوں پر… اور اِن پرخوش ہونے والوں پر… جو لوگ یہ خاکے بناتے ہیں وہ سب ’’واجب القتل ‘‘ مردود اور ملعون ہیں…اُن کو قتل کرنا بڑی عبادت اور پکی مغفرت کا ذریعہ… اور اللہ تعالیٰ کے خاص قرب کو پانے کا’’ وسیلہ‘‘ ہے… میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی معذور ہوں… نہ ہی اپنے اندر اُن ناپاک خاکوں کو دیکھنے کی ہمت پاتا ہوں … اور نہ اس موضوع پر زیادہ لکھنے کی قوت رکھتا ہوں… عالم اسلام کے ہر مسلمان سے میری دردمندانہ گذارش ہے کہ … وہ اِن عذاب زدہ خاکوں کو نہ دیکھیں… نہ پھیلائیں… اور نہ اس حرکت کو معمولی اور قابل معافی جرم سمجھیں… اس موضوع پر زیادہ بات چیت نہ کریں… دل میں انتقام کی شمع روشن کریں اور جس کو جہاں بھی موقع ملے… ان خاکہ نویسوں کو واصل جہنم کریں… اُن کو جو بھی نقصان پہنچا سکتے ہوں پہنچائیں…اور دنیا کو بتا دیں کہ… حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ہم ادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتے… اس گستاخی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں ساری دنیا سے لڑنا پڑے تو ہم لڑیں گے… مرنا پڑے تو مر جائیں گے… ساری دنیا کو آگ لگانی پڑے تو لگا دیں گے…ایٹم بم اور طیارے اُن کے لئے خوف کی علامت ہوتے ہیں جو زندہ رہنا چاہتے ہوں… حضرت آقا ﷺ کی گستاخی کو برداشت کر کے زندہ رہنے کا شوق کسی کلمہ گو مسلمان کے دل میں نہیں ہو سکتا… پھر ڈر کس چیز کا؟ تم ہمارے زمانے کے لوگ ہو آؤ ہم سے بات کرو… ہمارے آقاﷺ کی طرف ہاتھ کیوں بڑھاتے ہو؟… اپنے ناپاک، بدبودار اور نجس ہاتھوں کا رخ حضرت آقا مدنی ﷺ کی طرف کرو گے تو… کتے سے بدتر موت مرو گے… میدان میں تو تم ہمارا مقابلہ کر نہیں سکتے… تمہارے فوجی پیمپر پہن کر غلاظت میں ڈوب جاتے ہیں… تم اپنے گھروں اور شہروں کو محفوظ نہ سمجھو… امت محمد ﷺ کا غیظ و غضب ہر پتھر کے نیچے تمہیں ڈھونڈ کر جلا دے گا… مسلمانو! مسلمان بنو… ان گستاخوں ، ظالموں سے ہر رشتہ توڑ ڈالو… اور اُن کے دماغوں کو اُن کی کھوپڑیوں سمیت اُڑا ڈالو… ہماری ان باتوں کو کوئی نفرت کا پیغام کہتا ہے تو کہتا رہے… کوئی دہشت گردی کہتا ہے تو کہتا رہے… کوئی انتہا پسندی کہتا ہے تو کہتا رہے… ہم حضرت محمد ﷺ کے بغیر کچھ نہیں… ہمارے دامن میں حضرت محمد ﷺ کی نسبت کے علاوہ کچھ نہیں… ناموس رسالت پر جان گئی تو مزے ہو جائیں گے… سارے گناہ مٹ جائیں گے… اور شہادت کا وہ مقام ملے گا جس کے سامنے ہزار زندگیاں بھی کچھ نہیں… مسلمانو! شور مچانے سے کچھ نہیں ہو گا دشمنوں کے گھروں کے اندر شور اُٹھاؤ… مذمت کرنے سے کچھ نہیں ہو گا… یہ وہ جرم نہیں جو صرف’’ مذمت‘‘ سے دھل سکتا ہو… یہ اُن کی طرف سے سب سے بڑا اعلان جنگ ہے … جنگ کا جواب جنگ سے دو… تم اس نبی ﷺ کے امتی ہو جو خود میدانوں میں نکل کر جہاد فرمایا کرتے تھے… گھر بیٹھ کر خود کو ’’مجاہد‘‘ نہ کہلواؤ… اور صرف مذمت کر کے… دشمنوں کو اپنے اوپر نہ ہنساؤ…
اللہ کرے دشمنان رسول ﷺ ایک ایک کر کے… مارے جائیں… اور پھر کسی کو ہمت نہ ہو کہ وہ یہ جرم کر سکے… یا اللہ مجھے… اور رسول کریم ﷺ کی امت کے ہر فرد کو…سچا ایمان اور سچا عشق رسول ﷺ نصیب فرما… ہم سب کو عملی مجاہد بنا… ہم سب کو عشق کے اصل تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطاء فرما… ہمیں اس زمانے کے دجالی فتنے ’’سوشل میڈیا‘‘ کے شر سے بچا… دشمنان رسول ﷺ کو ختم کرنے کی ہمیں ہمت ، جرأت اور توفیق عطاء فرما… ہمارے دلوں سے مخلوق کا خوف، رعب اور دنیا کی محبت دور فرما… ہمیں شہادت کا دیوانہ بنا… اور ہم سے کام لے لے …آمین یا ارحم الراحمین…
حضرت مسعود… واقعی مسعود
آج کل’’پاک پتن ‘‘ کا نام بہت چل رہا ہے … وہاں جس اللہ والے کا مزار ہے… اُن کا نام نامی اسم گرامی… ’’مسعود‘‘ تھا…والدین نے ’’مسعود‘‘ نام رکھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے واقعی ’’مسعود‘‘ بنا دیا… سعادتمند ، خوش نصیب… سعادتوں کا مجموعہ… ورنہ نام کا ہر’’ مسعود ‘‘ تو ’’مسعود ‘‘ نہیں ہوتا… یا اللہ رحم… آپ کا لقب فرید الدین… اور عرف ’’ گنج شکر‘‘ تھا… وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک… مخلص، وفادار اور مقبول بندے تھے… وہ حضرت محمد ﷺ کے عاشق، دیوانے اور متبع امتی تھے…وہ سلسلہ چشتیہ کے تیسرے بڑے ستون اور حضرات اولیاء کرام کے سر کا تاج تھے… وہ علم ، عمل ، اخلاص، عبادت اور تبلیغ کے کامیاب شہسوار تھے… میں نے اُن کی زندگی … اور اُن کے حالات و اقوال پر غور کیا تو بس یہی سمجھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک ’’راز‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے… سب سے پہلے اُن سے تعارف… اپنے استاذ، اپنے شیخ اور اپنے مربی ومحسن حضرت مفتی اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ کی کتاب سے ہوا… حضرت نے ’’اولیاء پاک وہند‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی تھی… یہ کتاب اب نایاب ہے… میں نے اس پر کچھ کام کیا تھا تاکہ… اسے دوبارہ شائع کیا جا سکے مگر ابھی تک اس بارے قسمت نہیں جاگی… جو میرے اللہ کو منظور… پھر ابھی ’’عیدالاضحی‘‘ کے موقع پر…خبروں میںباربار ’’پاک پتن شریف ‘‘ کا نام پڑھا تو توجہ… حضرت ’’شیخ عالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نور اللہ مرقدہ‘‘ کی طرف ہو گئی… مختلف ذرائع سے اُن کے حالات زندگی پڑھے تو معلوم ہوا کہ… اُن کے ملفوظات پر مشتمل ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے… یہ کتاب حضرت شیخ بابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور سلسلہ چشتیہ کے چوتھے ستون… حضرت نظام الدین اولیاء نور اللہ مرقدہ نے لکھی ہے …اور اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے… تلاش کے بعد یہ کتاب مل گئی… نام اس کتاب کا ’’راحت القلوب ‘‘ ہے… صفحات کی تعداد ایک سو پچھتر ہے… جس میں اصل کتاب کا مواد ایک سو پچیس ( 125 ) صفحات پر مشتمل ہے… تھوڑی سی کل رات پڑھی اور باقی ابھی مکمل کر لی…
الحمد للہ بہت فائدہ ہوا… کتاب پڑھنے کی دعوت اس لئے نہیں دے سکتا کہ اول تو یہ کتاب ملتی نہیں… دوسرا یہ کہ اکابر صوفیاء کرام کی باتوں کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں… وہ بہت کچھ ایسا فرماتے ہیں جسے دلائل پر نہیں پرکھا جا سکتا… تب طرح طرح کی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور نادان و کم عقل لوگ… اُن اولیاء کرام کی گستاخی میں زمانیں دراز کرنے لگتے ہیں… جیسا کہ چند دن پہلے… انٹرنیٹ پر سرگرم ایک جاہل بے وقوف … حضرت ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہاتھ میں لے کر اس پر اور حضرت ہجویری پر… تابڑ توڑ جاہلانہ حملے کر رہا تھا… حتی کہ وہ اتنی جہالت پر اُتر آیا کہ… حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام پر چیخنے لگا کہ… بایزید کا مطلب ’’ابو یزید‘‘ ہے اور یزید نام کو اپنے نام کا حصہ بنانے والا شخص کیسے ولی ہو سکتا ہے؟حالانکہ یزید نام تو کئی حضرات صحابہ کرام کا بھی ہے…تیسرا یہ کہ کتاب راحت القلوب میں کئی عربی عبارات اور دعاؤں میں کتابت کی غلطیاں ہیں… عربی سے ناواقف لوگ اس میں خطاء کر سکتے ہیں… چوتھا یہ کہ… حضرات صوفیاء کرام کی کئی باتوں کا تعلق اُن کے کشف اور ذوق سے ہوتا ہے اور نقل در نقل میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں… ان چار وجوہات کی وجہ سے کتاب پڑھنے کی دعوت صرف اہل علم اہل ادب اور اہل دل کو ہی دی جا سکتی ہے ( اہل ادب سے مراد ادیب نہیں بلکہ باادب لوگ) … بہرحال یہ لاجواب کتاب ہے اور اس کے پڑھنے سے دل میں نور و سرور کا ایک دریا موجزن ہو جاتا ہے… اسی لئے آج رات جب کتاب شروع کی تو پھر ختم کرکے ہی دم لیا…
اللہ تعالیٰ حضرت شیخ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ تعالیٰ کے درجات بلند فرمائے… اور انہیں اس امت کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطاء فرمائے… اور آج جو لوگ اُن کے ساتھ اپنی نسبت کا دعویٰ کر رہے ہیں… اور جو لوگ اُن کی گدی کے وارث ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو بھی حضرت بابا جی کے نقش قدم پر چلائے… وہاں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے… اس کا حضرت بابا جی کی زندگی اور آپ کی مبارک تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا… اسی لئے عرض کیا کہ… وہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز تھے…
کاش اُن کی خانقاہ سے ہی کوئی ’’رازدان ‘‘ اُٹھے … اور لوگوں کو اصل اور سچے ’’بابا فرید‘‘ سے جوڑ دے… وہ بابا فرید جو توحید و سنت کے علمبردار… دنیا سے زاہد و بے رغبت… عبادت و ریاضت میں اپنی مثال آپ… اللہ تعالیٰ کی معرفت کے روشن مینار… حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے باعلم پیروکار … سنت اور عشق رسول ﷺ کے دیوانے … اور اپنے جد امجد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی سے سرشار تھے…
حضرت شیخ الاسلام مجدد زمان
 خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر
آپ کو اللہ تعالیٰ نے لمبی عمر… دنیا کی سیاحت… زمانے کے اولیاء کرام کی صحبت اور علم و عمل کی بلند نسبت عطاء فرمائی تھی…
آپ کی ولادت شعبان کے مہینہ میں جبکہ وفات محرم الحرام کے مہینہ میں ہوئی…
ولادت کا سال ۵۸۹؁ھ بمطابق 1173 ؁ء ہے… اور وفات کا سال ۶۶۶؁ ھ بمطابق 1265 ؁ء ہے… یعنی آج سے تقریباً پونے آٹھ سو سال پہلے … ( تاریخ وفات میں اور اقوال بھی ہیں)آپ کی ولادت ملتان میں ہوئی… اس لئے آپ کی شاعری میں ’’سرائیکی ‘‘ اشعار بکثرت ہیں… وفات پاکپتن میں ہوئی… آپ کی پنجابی شاعری ’’مقبول جہاں‘‘ ہے… دینی علم مکمل حاصل فرمانے کے لئے افغانستان اور ماوراء النہر کے اسفار فرمائے … عربی ، فارسی اور سنسکرت کے الفاظ آپ کی شاعری میں موزوں ہوتے ہیں… زمانے کے بڑے بڑے علماء اور اولیاء سے فیض حاصل کیا… اور بالآخر روحانیت کا یہ شہباز… حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نور اللہ مرقدہ کے دست حق پرست کا اسیر ہوا… اور حضرت قطب کے بعد آپ ہی سلسلہ چشتیہ کے سربراہ بنائے گئے… آپ کا سلسلہ نسب اکثر مؤرخین کے نزدیک … حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے…
دلوں کی راحت
آپ کے ملفوظات کے مجموعہ کا نام ’’ راحت القلوب ‘‘ ہے… اور یہ ملفوظات واقعی ’’دلوں کی راحت‘‘ ہیں …ہمارے دل جب دنیا، عہدے اور خواہشات کی محبت میں پھنستے ہیں تو وہ… راحت اور سکون سے محروم ہو جاتے ہیں… اور جب ان دلوں میں… اللہ تعالیٰ کی محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو جاتی ہے تو پھر…راحت و سکون بھی واپس آ جاتے ہیں… حضرت والا کے یہ ملفوظات… مجالس کی شکل میں ہیں… حضرت نظام الدین اولیاء ہر مجلس کا آغاز اس کی تاریخ اور مجلس کے حاضرین کے ناموں سے فرماتے ہیں… اور ہر مجلس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ پھر اذان ہو گئی… حضرت فوراً نماز میں مشغول ہو گئے اور اہل مجلس وہاں سے اُٹھ گئے… تمام ملفوظات میں نماز کے بے حد اہتمام کا درس ملتا ہے… رمضان المبارک کی مجلس میں تحریر فرماتے ہیں…
اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ رمضان کا مہینہ ہے میں روز رات کو تراویح میں پورا قرآن پاک ختم کیا کروں گا… کوئی ہے جو میرا ساتھ دے؟ تمام حاضرین نے خوشی اور سعادتمندی کے ساتھ شرکت کا عزم کیا… پھر حضرت شیخ ایک رات میں دو دو قرآن ختم فرماتے تھے… ہر رکعت میں دس دس پارے پڑھتے تھے اور تھوڑی رات رہے فارغ ہوتے ( ص ۱۰۱)
آگے لکھتے ہیں:
جو شخص ان چار باتوں کا خیال نہیں رکھتا (۱) زکوٰۃ ( ۲) صدقہ و قربانی (۳) نماز (۴) دعاء … تو اللہ تعالیٰ اسے چار خیروں سے محروم کر دیتا ہے…
ترک زکوٰۃ سے برکت جاتی رہتی ہے، ترک صدقہ سے صحت بگڑنے لگتی ہے، ترک نماز سے مرتے وقت ایمان سلب ہو جاتا ہے اور ترک دعاء سے پھر دعاء مستجاب ( یعنی قبول ) نہیں ہوتی ( ص۱۲۵)
راحت القلوب کا اصل موضوع
اس کتاب کا اصل موضوع … اول تا آخر… دنیا اور مال سے محبت کی مذمت اس کے نقصانات … اور اس سے چھٹکارا پانے کی فکر ہے…
حضرت نے اپنے واقعات بیان فرمائے کہ… آپ کو کیسی کیسی جاگیریں اور زمینیں ملیں مگر آپ نے قبول نہ فرمائیں… اور اپنے ان خلفاء اور مریدین کو سخت تنبیہ فرمائی جو مالداروں اور بادشاہوں کے قریب ہو گئے… اور آپ نے موت کا شوق اپنے مریدین میں پیدا فرمایا کہ… اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کریں… اور موت سے غافل نہ ہوں… آخری مجلس میں آپ نے حضور سرور کائنات ﷺ کی وفات کا واقعہ بیان فرمایا … اور روتے روتے … بے ہوش ہو گئے جب آپ کو ہوش آیا حضرت خواجہ نظام الدین کو مخاطب کر کے فرمایا !!
’’جن کے واسطے تمام عالم پیدا کئے( یعنی حضور اقدس ﷺ ) جب اُنہیں کو عالم میں نہ رکھا تو پھر میں اور آپ کون ہیں کہ زندگی کا دم بھریں…پس ہم بھی اپنے آپ کو رفتگان ( دنیا سے جانے والوں) میں شمار کرتے ہیں مگر زاد راہ کا فکر کرنا بہت ضروری ہے، غفلت اور گفتگو میں وقت نہیں کھونا چاہیے تاکہ کل قیامت کے روز شرمندہ نہ ہوں‘‘ ( ص ۱۷۴)
دنیا داری کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیے
(۱)درویشی پردہ پوشی کا نام ہے اور خرقہ ( یعنی بزرگوں والا لباس ) پہننا اس شخص کا کام ہے جو مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے عیبوں کو چھپائے اور انہیں کسی پر ظاہر نہ کرے مال دنیا میں سے اس کے پاس جو کچھ آئے اسے راہ خدا میں صرف کرے اور جائز مصرف میں اُٹھائے، خود اس میں سے ایک ذرے پر نظر نہ رکھے ( ص ۵۶)
(۲) اہل معرفت نے کہا ہے جس نے دنیا کو چھوڑ دیا وہ اس ہر حاوی ہو گیا اور جس نے دنیا کو اختیار کیا وہ مارا گیا… مولا اور بندے کے درمیان دنیا سے بڑھ کر کوئی حجاب نہیں جس قدر انسان دنیا میں مشغول ہوتا ہے، اسی قدر حق سے دور رہتا ہے
(۳) جو درویش دنیا میں مصروف رہتا ہو اور دنیاوی عہدے اور عزت کا طلبگار ہو سمجھ لو کہ وہ درویش نہیں بلکہ طریقت کا مرتد ہے کیونکہ فقر نام ہی اس چیز کا ہے کہ دنیا سے اعراض کیا جائے ( ص ۶۶)
(۴) جس قدر مالدار لوگوں سے بچو گے اسی قدر اللہ تعالیٰ سے نزدیکی ہوتی جائے گی چونکہ مالدار ( دنیا داروں) کے دل میں دنیا کی محبت پکی ہوتی ہے اس لئے ان کی صحبت سے نقصان ہوتا ہے ( ص ۶۷)
اہم ترین
اُمید ہے کہ… ان شاء اللہ آپ ’’راحت القلوب ‘‘ کی سیر سے دلوں کی راحت پا رہے ہوں گے… میں نے مطالعہ کے دوران کئی مقامات پر نشان لگائے تاکہ وہ باتیں آج کے کالم میں آ جائیں… مگر’’ مضمون‘‘ طویل ہو چکا… اسی لئے ان باتوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوں… بس تین اہم ترین بعض باتیں مختصر طور پر عرض کر کے… مجلس ختم کرتے ہیں…
(۱) اہل سنت والجماعت
حضرت بابا جی ؒ ارشاد فرماتے ہیں :
جو شخص اپنے مریدوں کو مذہب اہل سنت والجماعت کے قانون پر نہیں چلاتا اور اپنی حالت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے موافق نہیں رکھتا وہ ’’رہزن ‘‘ ہے… دھویں سے آگ کا پتہ چلتا ہے اور مرید سے پیر کا یہ جو بیسیوں آدمی گمراہی میں پڑے دکھائی دیتے ہیں پس اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا پیر کامل نہیں ہے( ص ۷۷)
معلوم ہوا کہ مسلک ’’اہل سنت والجماعت ‘‘ ہی کامیابی کی ضمانت ہے… اور اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ’’فرقہ پرستی ‘‘ نہیں بلکہ… حق کی دعوت ہے…
حضرت بابا جی قدس سرہ سے محبت کے دعویدار اس کا ضرور اہتمام کریں ورنہ ان کا دعوی محبت… صرف زبانی رہ جائے گا…
(۲)صرف اسلام، صرف اسلام
حضرت اپنے تمام ملفوظات میں… اسلام کی حقانیت اور اسلام کی دعوت کو اپنا بنیادی موضوع بناتے ہیں اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے ہیں کہ… اپنے مذہب کا شجرہ یاد رکھیں جو کہ اسلام ہے… اور ائمہ کرام کے چار مذاہب میں سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کو فاضل تر قرار دیتے ہیں … کتاب کے صفحہ (۱۳۲) سے لے کر( ۱۳۴) تک یہی مضمون ہے… پس سکھ مذہب کے جو افراد حضرت بابا جی کے چند اشعار کو اپنی ’’گوربانی ‘‘ میں شامل کر کے… خود کو ’’حضرت بابا جی‘‘ کا معتقد قرار دیتے ہیں وہ… حضرت بابا جی کی بنیادی دعوت کو سمجھیں اور قبول کریں… حضرت بابا جیؒ اگر سب ادیان کو… حق پر سمجھتے تو آپ کے ہاتھ پر بے شمار غیر مسلم افراد اسلام قبول نہ کرتے…
(۳)فدائی مجاہدین زندہ باد
حضرت نظام الدین اولیاء تحریر فرماتے ہیں:
پھر اللہ تعالیٰ کی بزرگی ( یعنی عظمت) پر گفتگو شروع ہوئی… ( حضرت بابا فرید ؒ نے) ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب سے بزرگ ہے لیکن جب یہ بات ساری دنیا جانتی ہے تو اس نعمت سے محروم کیوں رہتی ہے اور فکر و ذکر میں عمر کس لئے صرف نہیں کرتی… پھرارشاد فرمایا کہ بعض بندے اللہ کے ایسے ہیں جو دوست ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کا نام سن کر جان و مال فدا کر دیتے ہیں ( ص ۱۲۱)
دیکھیں! اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب ولی …جان و مال قربان کرنے کی کیسی دلکش فضیلت بیان فرما رہے ہیں… اس زمانے میں اگر حضرت بابا جی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ملفوظات پر کوئی عمل کر رہا ہے تو … اسلام کے سچے فدائی مجاہدین ہیں… اور یہی خوش نصیب بندے… گستاخانہ خاکے بنانے والوں کو بھی خاک میں ملا دیں گے ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭