بلندی کا خیمہ مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ ہی بہترین حفاظت فرمانے والے ہیں…

ایک بڑی جنگ

حضور اقدس ﷺ کے مبارک زمانے میں مسلمانوں نے جن جنگوں اور سازشوں کا مقابلہ کیا… ان میں سب سے بڑی جنگ … ’’غزوہ احزاب‘‘ ہے… اس کا دوسرا نام ’’غزوہ خندق ‘‘ ہے… اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کے بارے میں قرآن عظیم الشان میں ’’سورہ احزاب‘‘ موجود ہے… دراصل اس زمانے میں ’’مدینہ مدینہ‘‘ کے اندر اور آس پاس… مکہ مکرمہ تک… اسلام کے جتنے دشمن موجود تھے… وہ سب متحد ہو گئے… اور ان دشمنوں کے پاس جتنی طاقت موجود تھی وہ انہوں نے ساری اس جنگ میں جھونک دی… اس جنگ کا ہدف… حضور اقدس ﷺ کی ذات مبارک تھی… یعنی اسلام کا جڑ سے خاتمہ… اس جنگ کے اصل منصوبہ ساز’’یہودی‘‘ تھے… انہوں نے انتھک سفارت کاری …اور بہت بڑی سرمایہ کاری کے ذریعہ… اسلام کے سب دشمنوں کو اکٹھا کیا… متحد کیا… وہ جنگجو قبائل جو اسلام اور مسلمانوں سے لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے… ان کو مال دے کر اس جنگ میں شامل کیا گیا… جبکہ اسلام کے نظریاتی دشمنوں کی بھی کمی نہیں تھی… دشمنوں نے اس جنگ کو… حضور اقدس ﷺ کے مبارک خیمے تک پہنچایا… اور ’’اہل مدینہ‘‘ کو عسکری، معاشی دباؤ میں لا کر مطالبہ کیا کہ… وہ نعوذ باللہ حضور اقدس ﷺ کو مدینہ منورہ سے نکال دیں یا نعوذ باللہ مشرکین کے حوالے کر دیں… ہر طرح کے اسلحے سے لیس دس ہزار جنگجو مدینہ منورہ کو اپنے محاصرے میں لے چکے تھے… جبکہ خود مدینہ منورہ میں یہودی اور منافق ایک خوفناک بغاوت کے لئے مکمل تیار تھے… آپ اس وقت کی زمینی صورتحال کو دیکھیں تو روح کانپ اٹھتی ہے… ظاہری اسباب کے تحت دشمنوں کے ناکام ہونے کا ایک فی صد امکان بھی موجود نہ تھا… اور مسلمانوں کے بچنے کی آدھا فی صد بھی امید نہیں تھی…

اسی لئے تو موت سے ذرہ برابر نہ ڈرنے والے شیروں کے بارے میں فرمایا گیا کہ…

 اس وقت ان کے دل اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے …اور آنکھیں دائیں بائیں پتھرا رہی تھیں… کیوں؟

اس لئے کہ جنگ… ان کے محبوب آقا ﷺ کے خیمے تک پہنچ چکی تھی… اور اب اسلام اور مسلمانوں کے بچنے کا ظاہری امکان … کوئی بھی نہیں تھا… کوئی بھی نہیں…

’’مدینہ مدینہ‘‘ ایک بہت بڑے لشکر کے گھیرے میں تھا… اور مدینہ مدینہ کے اندر گنجے ، مالدار اور طاقتور یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں تیار بیٹھے تھے… جبکہ گلیوں ، محلوں میں منافق … خوف پھیلاتے پھر رہے تھے… ایک ہی آواز ہر طرف لگ رہی تھی کہ… جو حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دے گا وہی زندہ رہ سکے گا…

ایک بات کی یاد دہانی

غزوہ احزاب کی بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک یاد دہانی عرض ہے… نماز کے آخری قعدہ کے آخری حصے میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں… حضرت آقا مدنی ﷺ نے تاکید فرمائی ہے کہ نماز کے آخر میں کچھ چیزوں سے پناہ مانگا کرو… خصوصاً چار چیزوں سے

(۱) جہنم کے عذاب سے ( یہ ہماری اہم ترین حاجت ہے)

(۲) عذاب قبر سے ( یہ بھی اہم ترین حاجت ہے)

(۳) زندگی اور موت کے فتنے سے … من فتنۃ المحیا والممات … زندگی میں بھی قدم قدم پر فتنے ہیں… مثلاً گناہوں کا حملہ…دنیا کی محبت میں مبتلا ہو کر آخرت سے غافل ہو جانا… گمراہ کرنے والے فرقے اور دوست… غافل کرنے والی پریشانیاں اور بیماریاں… برائیوں میں ڈالنے والی مالداری… ناشکری میں مبتلا کرنے والی غریبی… حرص اور لالچ کا بڑھ جانا… اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے لینے کا اِشراف… وغیرہ وغیرہ اور موت کے فتنے بھی بہت ہیں… خصوصاً …بُری موت… آخری وقت میں شیطان کا حملہ… مرنے کے بعد گناہوں کے ذرائع چھوڑ جانا وغیرہ…

(۴) دجال کے فتنے سے… یہی آج عرض کرنا مقصود ہے … دراصل جوں جوں ہم ’’قرون اولیٰ‘‘ سے دور ہوتے جا رہے ہیں… فتنہ دجال کے قریب ہوتے جا رہے ہیں… اور اس وقت دنیا میں کئی فتنے بالکل دجال کے فتنے کے ہم شکل ہیں… انہی فتنوں کو دیکھ کر کئی مفکرین نے دجال کی شخصیت کا انکار کر دیا ہے… وہ موجودہ دور اور اس میں امریکہ یورپ وغیرہ کے فتنے کو ہی… مسیح دجال کا فتنہ قرار دیتے ہیں…ان کی یہ بات تو بہرحال غلط ہے… ’’دجال اکبر‘‘ ایک شخص کی صورت میں آئے گا… اور اس کا فتنہ بہت ہی زیادہ سخت ہو گا… آج کے دور میں اس فتنے کا کچھ عکس موجود ہے…

آج کے یہ دجالی فتنے اگرچہ… اصل فتنہ دجال سے بہت کمزور ہیں مگر افسوس کہ اکثر مسلمان حکمران اور عوام… ان فتنوں کا شکار نظر آتے ہیں… اچھے خاصے دیندار لوگ بھی… تھوڑا سا مال آتے ہی فوراً جدت پسندی کی طرف دوڑنے لگتے ہیں… اور یوں خاندان کے خاندان دین سے محروم ہوتے جا رہے ہیں… ہر کوئی ناپاک کافروں کو کامیاب اور ترقی یافتہ سمجھ رہا ہے … اور انہی کی چال چلنے میں اپنی عزت محسوس کرتا ہے… یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے… اس سے بچنے کی ایک مضبوط تدبیر یہ بھی ہے کہ ہم… ہر نماز خواہ فرض ہو یا نفل … اس کے قعدہ اخیرہ میں … دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں…

اور یہ دعاء مکمل شعور اور توجہ سے کیا کریں… صحیح بخاری میں روایت ہے … حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا :

اذا تشھد احدکم  فلیستعذ باللہ من اربع

جب تم تشہد پڑھو تو ( اس کے آخر میں) چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرو…

یقول اللھم انی اعوذ بک من عذاب جہنم  و  من عذاب القبر ومن فتنۃ المحیا والممات ومن شر فتنۃ المسیح الدجال

یعنی تم کہا کرو

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ شَرِّ  فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ

یا اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے (بخاری)

ہم میں سے اکثر نے بچپن میں جب نماز یاد کی تو اس وقت ’’قعدہ اخیرہ ‘‘ کی جو دعاء جس نے یاد کر لی بس وہ ساری زندگی اسی کو دہراتا رہتا ہے… حالانکہ یہ دعاء کی قبولیت کا اہم موقع اور مقام ہے…ہمیں چاہئے کہ تشہد کے اخیر میں … خوب دعائیں مانگا کریں… اور سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ… تشہد کے بعد پہلے یہ مذکورہ بالا دعاء مانگیں… کیونکہ اس کی تاکید آئی ہے…اسی تاکید کی وجہ سے بعض تابعین حضرات تو اسے نماز کے واجبات میں شمار کرتے تھے… ایک تابعی کا قصہ ہے کہ انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے نماز کے آخر میں… یہ دعاء نہیں پڑھی تو انہوں نے اپنے بیٹے کو وہ نماز دہرانے کا حکم فرمایا…

مگر جمہور کا مسلک یہ ہے کہ …یہ دعاء یا کوئی بھی خاص دعاء ’’قعدہ اخیرہ‘‘ کے آخر میں واجب نہیں ہے… البتہ سنت ہے کہ کوئی بھی مسنون دعاء مانگ لے… چونکہ یہ قبولیت کا اہم ترین مقام ہے تو… اللہ والوں نے اس وقت کی دعاؤں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور وہ ضرورت کے تحت اس وقت کی دعاؤں میں تبدیلی بھی کرتے رہتے تھے… بہرحال یہ بہت سخت فتنوں کا زمانہ ہے… ہم ہر روز اور ہر نماز میں جب ’’دجال‘‘ کے فتنے اور زندگی موت کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں گے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا اور بہت حفاظت رہے گی… جن مسلمانوں کو ’’تعوذ‘‘ کی … یہ دعاء یاد نہ ہو… آج ہی یاد کر لیں… اور جنہوں نے اسے اپنی نماز کا حصہ نہیں بنایا وہ آج ہی اسے حصہ بنا لیں… خصوصاً مجاہدین کے لئے یہ بڑا اہم تحفہ ہے… ان پر فتنوں کا حملہ زیادہ ہوتا ہے… کیونکہ شیطان … جہاد کا سخت مخالف اور دشمن ہے…

منظر پلٹ گیا

غزوہ احزاب کا معرکہ… کئی دن چلا… دشمنوں کو اپنی فتح کا کامل یقین تھا… جبکہ مسلمان… سخت محاصرے اور دباؤ میں تھے… مگر انہوں نے ہمت بالکل نہ ہاری… اور اس بات کو ذہن سے ہی نکال دیا کہ… کبھی ہتھیار بھی ڈالے جا سکتے ہیں… جب مسلمان آخری سانس تک لڑنے کا عزم کر لیتے ہیں تو ان کی سانس بہت طویل اور طاقتور ہوجاتی ہے… لیکن اگر خدانخواستہ ہتھیار ڈالنے کا ارادہ دل میں آ جائے تو… کمزوری اور ذلت کا نہ تھمنے والا طوفان… ایک ایک سانس کو مشکل بنا دیتا ہے… اتحادی لشکر فوری فتح چاہتا تھا… اس لئے شروع میں… ان کی پھرتیاں اور گرج چمک بہت زیادہ تھی…

مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ… حضور اقدس ﷺ کے خیمے کے گرد ہر مسلمان کی زندگی نے اپنی گردن بچھا دی ہے… یعنی ہر زندگی اس مبارک خیمے کی حفاظت کے لئے قربان ہونے کو راضی ہے…اور مکمل تیار ہے…

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے… اللہ تعالیٰ توفیق دے تو غزوہ احزاب کو قرآن مجید کے نوراور دل کی روشنی سے پڑھ لیں…

دشمنان اسلام کو اس معرکے میں… ایسی عبرتناک شکست ہوئی کہ پھر وہ کبھی اس طرح جمع نہ ہو سکے اور نہ کبھی دوبارہ مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکے… قدرت کا انتقام اور مسلمانوں کا انتقام دونوں سب سے پہلے یہودیوں کے تعاقب میں دوڑے … بنو قریظہ کے سازشی سر کچل دئیے گئے اور پھر مسلمان ایسے اُبھرے کہ… اُبھرتے ہی چلے گئے… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ … اہل یورپ کی گستاخانہ تحریک اگر اسی طرح چلتی رہی تو… پھر… سرخ طوفان اور کالی آندھیاں ایسی ٹوٹیں گی کہ… دنیا کے کئی ممالک صرف کاغذ کے پرانے نقشوں ہی میں باقی رہ جائیں گے…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علیٰ سیدنا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ  وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ