ہے کوثر کا منظر مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو … محروم ، ذلیل اور برباد فرما دیتے ہیں… جو حضور اقدس حضرت محمد ﷺ سے دشمنی ، بغض اور عناد رکھے… اعلان فرما دیا …

إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ

یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے

إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ

جو بھی آپ ﷺ کا دشمن ہو گا… وہ ضرور ’’ ابتر ‘‘ ہو گا…

(إِنَّ) کے معنیٰ … یقیناً … بے شک …ضرور … ( شانئ) کا مطلب دشمن…

( شانئک) آپ کا دشمن … (ھو) وہی ہو گا (الابتر ) بے نام و نشان …دُم کٹا … وہ شخص جس کا ذکرِ خیر باقی نہ رہے…

اللہ تعالیٰ کا یہ محکم اور قطعی اعلان قرآن مجید کی سورۃ الکوثر میں ہے… تین آیات پر مشتمل … ایک مختصر سی سورت… جس کی ہر آیت پڑھتے ہوئے منہ مٹھاس سے بھر جاتا ہے… ان تین آیات میں الفاظ کا وہ آہنگ ہے کہ… دنیا بھر کی شاعری اس کے سامنے ہاتھ باندھ دیتی ہے… جادو اور فلسفہ اس کے سامنے پھیکا پڑ جاتا ہے… اور پھر ان آیات کا ایک خاص ترنم … تجوید … سبحان اللہ … عرب کے معروف شعراء اپنا کلام لکھ کر کعبہ شریف پر لٹکا دیتے تھے… آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ… ”سورۃ الکوثر“ لکھ کر وہاں سجا دو… جب یہ سورت عربی شعراء نے دیکھی تو بس دیکھتے ہی رہ گئے… کلام کو سمجھنے والے لوگ… اور فصاحت و بلاغت کے بابے تھے… مگر یہاں ان کی زبانیں بند ہو گئیں… بالآخر ایک استاذ شاعر نے سورت مبارکہ کے آخر میں لکھ دیا…

واللہ ما ھذا من کلام البشر

اللہ کی قسم یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے

ارشاد فرمایا :

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

’’ بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرما دی ہے ‘‘

سبحان اللہ ! ایک جملے میں ہزاروں سوالوں کا جواب… لاکھوں وسوسوں کا حل … کروڑوں الجھنوں کا علاج … اور ہر مایوسی کا توڑ …

الکوثر کے معنیٰ ’’ خیرِ کثیر ‘‘ … بہت زیادہ خیر … مسلسل بڑھنے والی خیر… ہمیشہ والی خیر … دنیا و آخرت کی خیر… ظاہر و باطن کی خیر… کبھی نہ ختم ہونے والی خیر …ہر زمانے میں نظر آنے والی خیر

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

(انا) بے شک ہم … (اعطیناک ) عطاء کر دی ہم  نے آپ کو… ( الکوثر) بہت زیادہ ، بہت بابرکت ، بہت عمدہ… بہت اعلیٰ خیر … ( الکوثر)  کا لفظ کثرت سے ہے… زیادہ،بہت زیادہ …

ذرا جھوم کر پڑھیں

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

عطاء فرمانے والا … اللہ تعالیٰ …جن کو عطاء فرمایا جا رہا ہے… وہ محمد رسول اللہ ﷺ … اور جو چیز عطاء کی جا رہی ہے … وہ ہے… بہت زیادہ خیر … خیر ہی خیر… اَندازہ لگائیں …مکہ مکرمہ کے ظلم و گھٹن والے ماحول میں جب یہ الفاظ حضرت آقا مدنی ﷺ پر نازل ہوئے ہوں گے تو آپ کس قدر خوش ہوئے ہوں گے…

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما تھے… آپ ﷺ کی آنکھ مبارک لگ گئی … پھر آپ ہنستے مسکراتے ہوئے جاگے اور فرمایا مجھ پر یہ سورت نازل ہوئی ہے…

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

مکہ کے مشرک اپنے پیلے دانت نکال کر کہتے تھے کہ… محمد ( ﷺ) کے بعد کوئی ( نعوذ باللہ ) ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہو گا… جو بیٹے پیدا ہوئے وہ بچپن میں وَفات پا گئے… اور جو چند لوگ ساتھ ہیں… یہ بھی مر مٹ جائیں گے… جبکہ ہم اَصلی نسلی لوگ ہیں… معاشرے میں ترقی یافتہ… قوموں میں معزز… اور حاجیوں کی خدمت کرنے والے… انہیں پانی پلانے والے… ہمارے تجارتی قافلے… سردی گرمی ، مشرق مغرب چلتے ہیں… ہماری اَولادیں ہیں… بیٹے پوتے اور قبیلے ہیں… مسلمانوں کا قصہ تو چند دن کا ہے جو جلد ختم ہو جائے گا… ہم ہیں … اور ہم رہیں گے… تب آسمانوں کے دروازے کھلے… عرش سے قطعی فیصلہ نازل ہوا کہ… جن کو تم ختم ہونے والا کہہ رہے ہو… وہی ہر خیر ، ہر برکت ، ہر ترقی کے دنیا و آخرت میں مالک ہوں گے…

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

اور جو تم گستاخ… طعنے دینے والے خود کو بَرتر اور باقی سمجھ رہے ہو تو تمہارے لئے فیصلہ ہے کہ…

إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ

تم دنیا سے مٹ جاؤ گے … تمہارا دین مٹ جائے گا… تمہارا ذکر خیر کرنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا… تم جہنم میں اور تمہاری داستان … تاریخ کے کوڑے دان میں غائب ہو جائے گی…

جب یہ سورت نازل ہو رہی تھی تو حالات بالکل ایسے نہیں تھے کہ… ایمان کے بغیر اس سورت کے مضمون کو کوئی تسلیم کر سکے… جن کو ’’خیر کثیر ‘‘ کا مالک بتایا گیا تھا وہ محصور تھے…مظلوم تھے… انہیں مارا جاتا تھا… ستایا جاتا تھا… معاشرے کے لوگ عزت سے ان کا نام لینے کو تیار نہیں تھے… اور جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ بے نام و نشان ہوں گے… ان کا نام ہر طرف گونج رہا تھا… ان کی بدمعاشی ہر جگہ چل رہی تھی… ان کی طاقت آپے سے باہر تھی… اور ان کے مٹنے کے کوئی آثار نہیں تھے… مگر اس وقت بھی… مکہ مکرمہ کے مظلوم اور فاقہ کش مسلمان… رات کی تاریکیوں میں پورے یقین سے پڑھتے تھے…

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ … فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ… إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ …

اور انہیں اس میں ذرا برابر شک نہیں ہوتا تھا کہ… یہ بالکل سچ ہے … بالکل حق ہے… اور پھر کچھ عرصہ بعد … منظر بالکل واضح ہو گیا… آج کتنے لوگ … مکہ کے ان موٹی گردن والے … ’’چارلی ایبڈوز‘‘ کا نام جانتے ہیں ؟ … کتنے لوگ ان کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں ؟ کتنے لوگ ان کے نام سے کوئی حرارت ، کوئی کیفیت یا کوئی راحت پاتے ہیں ؟ … کوئی بھی نہیں… کوئی بھی نہیں… جبکہ حضرت محمد ﷺ کا نام نامی … اسم گرامی آج بھی… روزانہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان محبت، عقیدت اور احترام سے لیتے ہیں… ساری دنیا میں سب سے زیادہ بچوں کا رکھا جانے والا نام بھی ’’محمد‘‘ ہے… اور عرش سے فرش تک حضرت محمد ﷺ پر صلوٰۃ و سلام کا سلسلہ ہر لمحہ ، ہر ساعت اور ہر گھڑی جاری رہتا ہے…

إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثرَ

’’الکوثر‘‘ کا لفظ رب کریم نے ارشاد فرمایا… اہل علم کے لئے اس میں تحقیق کا دروازہ کھل گیا… حضرات مفسرین نے الکوثر کے پچیس سے زائد معانی بیان فرمائے ہیں… اور سچ تو یہ ہے کہ… ’’الکوثر‘‘ کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے… اور اس میں مزید بھی… ایسے معانی موجود ہیں … جن تک ابھی کسی انسان کی عقل نہیں پہنچ سکی… کیونکہ… آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جو ’’خیر کثیر‘‘ عطاء فرمائی ہے… وہ حد اور اندازے سے بہت زیادہ… اور حدود و قیود سے بہت ماوراء ہے… اس لفظ میں یہ بشارت موجود ہے کہ… آپ کا دین قیامت تک ختم نہیں ہو گا… آپ کی امت قیامت تک ختم نہیں ہو گی… آپ کا نام مبارک ہر آئے دن مزید عظمت پائے گا… آپ کی شان مبارک… ہر گھڑی بڑھتی چلی جائے گی… یہ جو ہر تیسرے دن کچھ مفکرین… یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ… اگر ہم نے فلاں بزدلی یا مصلحت اختیار نہ کی تو… اسلام اور مسلمان مٹ جائیں گے… یہ ان کی خام خیالی … بزدلی اور قرآن پاک سے جہالت ہوتی ہے… یہ دین مٹنے کے لئے آیا ہی نہیں ہے… آپ ﷺ آخری نبی ہیں … آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں … اور یہ امت آخری امت ہے… اس امت کے بعد کوئی امت نہیں… دنیا سے جب مسلمان ختم ہوں گے تو پھر فوراً قیامت آ جائے گی… ایسا نہیں ہو گا کہ کوئی مسلمانوں کو ختم کر کے… اس دنیا پر راج کرتا رہے… اسلام خود ’’الکوثر‘‘ ہے… اور اس امت میں ’’الکوثر‘‘ کے عجیب عجیب حالات اور افراد … ظاہر ہوتے رہتے ہیں… اس امت کے علماء بھی… الکوثر کا مصداق ہیں… اور اس امت کے اولیاء بھی … اس امت کے فاتحین بھی ’’ الکوثر‘‘ میں شامل ہیں اور اس امت کے غازی بھی… جبکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق…حضور اقدس ﷺ سے دشمنی رکھنے والا کوئی فرد… کوئی قبیلہ … یا کوئی گروہ… زیادہ عرصہ اس زمین پر قائم نہیں رہ سکتا…

إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ

اب آج کی آخری بات سنیں… اس بات کی تفصیل اگلی ملاقات میں آئے گی ان شاء اللہ … وہ بات یہ ہے کہ …

اسلام اور کفر کے درمیان جنگ ہوتی رہتی ہے… اور ہوتی رہے گی… مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ ہوتی رہی ہے… اور ہوتی رہے گی… اور اس جنگ میں… ظاہری فتح کبھی مسلمانوں کو ملتی ہے… تو کبھی کافروں کو… جنگ ایک ڈول کی طرح ہے… کبھی ایک فریق لے اُڑتا ہے تو کبھی دوسرا فریق… مگر ایک بات پکی ہے… وہ یہ کہ… اگر زمانے کے کفار اپنی جنگ کو ہمارے محبوب آقا حضرت محمد ﷺ کے خیمے تک لے آئیں تو پھر… اس جنگ میں…کفار کو ہی شکست ہوتی ہے… کیونکہ مسلمان کبھی یہ گوارہ نہیں کرتے کہ… جنگ ان کے محبوب آقا ﷺ کے خیمے تک پہنچے چنانچہ پھر ان سے جو ہوسکتا ہے وہ کرتے ہیں… اور وہ اس معاملے میں کسی بھی قربانی اور کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کرتے…دوسری طرف چونکہ حضرت آقا مدنی ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں… اور انسانوں کی طرح… دوسری مخلوقات بھی آپ ﷺ کی محبت و عقیدت سے سرشار ہیں تو اس جنگ میں … مسلمانوں کے ساتھ ساتھ …دوسری مخلوقات بھی… دشمنان اسلام پر حملہ آور ہو جاتی ہیں… آپ غزوہ احزاب پر غور کریں… عرب کے اتحادی لشکروں نے اس جنگ کو … منافقین کی مدد سے… حضرت آقا مدنی ﷺ کے خیمے تک پہنچانے کی کوشش کی… تب اس اتحادی لشکر کا ایسا بُرا حال ہوا کہ پھر وہ دوبارہ کبھی جمع نہ ہو سکے اور نہ مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکے… اہل یورپ کی یہ گستاخیاں … یہ خاکے … یہ بدمعاشیاں اگر اس جنگ کو… محبوب دو جہاں حضرت آقا مدنی ﷺ کے خیمہ مبارک تک لے جانے کی کوشش ہیں تو پھر … ساری دنیا یاد رکھے…

إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْأَبْتَرُ

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول  اللہ

اللہم صل وسلم علیٰ سیدنا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭