قناعت کی جنت

مدینہ…………………مدینہ

اللہ تعالیٰ کے پاس ایک ’’خزانہ ‘‘ ہے… یہ ’’خزانہ‘‘ انسان کی ہر خواہش پوری کر دیتا ہے…آپ جانتے ہیں… انسان کی خواہشات کتنی ہیں؟ … سات سمندروں سے بھی زیادہ… صحراء کی ریت کے ذرّات سے بھی زیادہ… اسی لئے آپ نے دیکھا ہو گاجن کے پاس سب کچھ ہے وہ بھی… اور چاہتے ہیں… اور خود کو خالی خالی سمجھتے ہیں…

اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے ہر خزانے کے مالک ہیں…

وَ لِلہِ خَزَائِنُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ

مگر ہم جس خزانے کی بات کر رہے ہیں…وہ ایک خزانہ ہی اتنا بڑا ہے کہ… جس انسان کو مل جائے… اس کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے… اور اس کا دِل مکمل مطمئن ہو جاتا ہے… آپ ’’ارب پتی‘‘ لوگوں کے پاس جائیں… آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ بالکل مطمئن نہیں ہیں… پریشان ہیں، سخت پریشان…

کیونکہ ان کے پاس سب کچھ ہے… اللہ تعالیٰ کا یہ ”خزانہ“ نہیں ہے… یہ ’’خزانہ‘‘ دِل بھرتا ہے… مال بڑھاتا ہے… حسن بڑھاتا ہے… عزت بڑھاتا ہے… شان بڑھاتا ہے… رزق بڑھاتا ہے… سکون بڑھاتا ہے… خوشی بڑھاتا ہے… اور آدمی کو بادشاہوں سے زیادہ… طاقت اور اسباب دِلاتا ہے…

اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانے کا نام… ’’قناعت‘‘ ہے… یہ خزانہ پورا کا پورا اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے… اس کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور مالک نہیں… اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں عطاء فرما دیتے ہیں… اور جسے عطاء فرما دیتے ہیں… اُسے سب کچھ مل جاتا ہے… دنیا کی ہر نعمت اس کے قبضے میں آ جاتی ہے… اس کی آنکھیں سیر ہو جاتی ہیں… اس کا دل سیر ہو جاتا ہے… اور اس کی ہر چیز میں برکت ہو جاتی ہے… ’’قناعت‘‘ کی یہ نعمت اگر دنیا کے کسی بازار میں میسر ہوتی تو… لوگ اربوں کھربوں روپے خرچ کر کے… اس کا ایک ’’قطرہ‘‘ حاصل کرنا اپنی سعادت سمجھتے… مگر ’’قناعت‘‘ کسی بازار میں  نہیں ملتی… اسی لئے دنیا کے اکثر مالدار اس سے محروم ہیں… دنیا کے اکثر اِنسان اس سے محروم ہیں… حضرت آقا مدنی ﷺ نے سمجھایا کہ… جو لوگ دنیا کو ہی اپنی فکر بنا لیتے ہیں… اللہ تعالیٰ ان پر چار چیزیں ڈال دیتے ہیں… یہ چار چیزیں مرتے دم تک ان پر مسلط رہتی ہیں…

(۱) ھمّ … یعنی فکرمندی، رنج، پریشانی…

آپ دنیا میں مشغول کسی انسان کو بے فکر، بے غم نہیں دیکھیں گے… بلکہ ان پر ہر دم ہموم و غموم کی کڑوی بارش برستی رہتی ہے…

(۲) شغل… یعنی مصروفیت، مشغولیت…وہ کبھی فارغ نہیں ہوتے… دنیا ان کی مالکن بن جاتی ہے… اور ان کے گلے میں پٹا ڈال کر… کبھی کہاں کھینچتی ہے… اور کبھی کہاں… روایت ہے کہ… دنیا کو حکم دے دیا گیا ہے کہ… جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خدمت یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے کام کو اپنی فکر بنا لیں اے دنیا تو ان کی ’’خادمہ‘‘ بن جا… اور جو ’’دنیا ‘‘ کو اپنا مقصود بنا لیں تو اے دنیا تو ان کی ’’مالکن‘‘ بن جا…

(۳) فقر… یعنی محتاجی… انسان جس قدر دنیا دار ہوتا چلا جاتا ہے اسی قدر وہ لوگوں کا محتاج ہوتا چلا جاتا ہے… بادشاہوں سے لے کر زمانے کے مالداروں تک کو دیکھ لیں… جو قناعت سے محروم ہیں… وہ کس کس کے محتاج ہیں… محافظوں سے لے کر … باورچیوں تک کے… وکیلوں سے لے کر ججوں تک کے… انسانوں سے لے کر جانوروں تک کے… ایک ایک قدم پر محتاج…

(۴)امل … یعنی خواہشات ، توقعات ، امیدیں ، منصوبے… جو کبھی پورے نہیں ہوتے ایک کے بعد ایک خواہش… اور ایک کے بعد ایک حسرت…

مگر جسے ”قناعت“ نصیب ہو جائے وہ… بے فکر ہو جاتا ہے… اسے فراغت بھی خوب ملتی ہے…وہ محتاج بھی نہیں ہوتا اور اسے کسی چیز کے نہ ملنے کی حسرت بھی نہیں ہوتی…سبحان اللہ … کتنی خوبصورت اور حسین نعمت ہے… یہ قناعت… مگر اللہ تعالیٰ نے یہ پوری کی پوری اپنے قبضے میں رکھی ہے… دنیا کی اور بہت سے نعمتوں کی طرح… قناعت کی نعمت کا اس دنیا میں کسی کو عارضی مالک نہیں بنایا… البتہ… حضرت آقا مدنی ﷺ نے اپنی امت پر یہ احسان بھی فرمایا کہ…اسے ’’قناعت‘‘ مانگنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھا دیا… اور اپنے قول و عمل سے… ’’قناعت‘‘ کی قدر اپنی اُمت کے دل میں بٹھا دی… حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے… آپ ﷺ نے اپنی اُمت کو یہ عظیم الشان جامع دعاء سکھائی ہے…

اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اخْلُفْ عَلٰی کُلِّ غَائِبَۃٍ لِّیْ بِخَیْرٍ( مستدرک ، صحیح الاسناد)

اس کے پہلے جملے کا مطلب ہے

یا اللہ مجھے جو کچھ آپ نے عطاء فرمایا ہے… اس پر مجھے قناعت عطا ء فرما دیجئے…

یعنی اسے میرے لئے کافی فرما دیجئے… اس سے میری ضروریات پوری فرما دیجئے… اس سے مجھے دل کی ، نفس کی، روح کی خوشی اور اطمینان عطاء فرما دیجئے… اس سے میری آنکھوں اور دل کو سیرابی عطاء فرما دیجئے… اللہ ، اللہ، اللہ … آج اگر مسلمان اس دعاء کو اپنا لیں تو وہ کتنا عظیم خزانہ پا سکتے ہیں… اہل قناعت کے لئے یہ دنیا بھی جنت بن جاتی ہے… اور پھر ان کے لئے حضور اقدس ﷺ نے جو بشارتیں عطاء فرمائی ہیں… وہ سعادت کا عظیم باب ہیں…

آج ’’قناعت‘‘ کی جگہ ’’حرص‘‘ نے لے لی ہے … اور ’’حرص‘‘ انسان کو ہلاک کرتا ہے… بے چین کرتا ہے… گمراہ کرتا ہے… اور گناہوں میں ڈالتا ہے… حرص سے نفرتیں پیدا ہوتی ہیں… جبکہ ’’قناعت‘‘ ’’محبت‘‘ کا جام ہے…کوئی مسلمان اس دعاء کو اپنا لے… پھر قبولیت کا ہر لمحہ تلاش کرے اور یہ خزانہ مانگے… حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ وہ… طواف کے دوران رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان… یہی دعاء مانگتے تھے… بڑا خاص مقام … خاص لمحہ… اور اس میں ’’قناعت‘‘ کی دعاء…

قناعت آ گئی تو… ہر نعمت بڑھ جائے گی… ہر نعمت دل کو سکون دے گی… اپنے مال پر قناعت … اپنے رزق پر قناعت…اپنی بیوی پر قناعت… اپنے خاوند پر قناعت… اپنے بچوں پر قناعت… اپنے لباس پر قناعت…

آج کل لوگ … قناعت کا مطلب لیتے ہیں… صبرکرنا، گزارہ کرنا… یار جیسی تیسی ہو بس گزارہ کرو… یہ بالکل غلط مطلب ہے… قناعت تو بہت اونچی چیز ہے… اس میں انسان صبر اور گزارہ نہیں کرتا… بلکہ مکمل شان محسوس کرتا ہے… مکمل لطف پاتا ہے… اور اطمینان کی عجیب کیفیت اسے مست کردیتی ہے… چونکہ آج کل ’’قناعت‘‘ کی نعمت بہت کم ہے… اس لئے ہم لوگوں کو… اس کے ذائقے اور لذت کا بھی علم نہیں ہے…ایک شخص محل میں … سونے کے تخت پر بے چین بیٹھا ہے… اور دوسرا ایک جھونپڑی میں خوشی سے مست ہے…ان دونوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں… محل والا رو رہا ہے کہ فلاں فلاں خواہش پوری نہیں ہو رہی… اور جھونپڑی والا رو رہا ہے کہ… یا اللہ اتنی نعمتیں؟ اتنی نعمتیں؟ شکر کیسے ادا کروں… یہ دنیا کیا ہے؟ ایک دھوکا… فنا کا ڈھیر … موت اس دنیا کے سر پر کھڑی ہے… اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کی قیمت ایک مچھر کےپَر کے برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ عطاء فرماتے… اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز’’سونا‘‘ اور ’’ہیرے‘‘ ہیں… آپ کسی کو ہزاروں من سونا دے دیں… لاکھوں ہیرے دے دیں…مگر پانی نہ دیں… کھانا نہ دیں تو کیا… سونے اور ہیرے اس کی بھوک پیاس مٹا دیں گے؟ …انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان بخشی ہے… یہ جب خود کو حقیر دنیا کا غلام بناتا ہے تو… اس کا اس حرکت سے دل خوش نہیں ہوتا… اس کی روح مطمئن نہیں ہوتی… دل ناراض ہو جاتا ہے… روح بے چین ہو جاتی ہے…مگر جو انسان ’’قناعت‘‘ پا لیتا ہے… اس کا دل خوش ہو جاتا ہے اور اس کی روح خوشی سے پرواز کرنے لگتی ہے…وجہ یہ ہے کہ ’’قناعت‘‘ پانے والا انسان… اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت پر راضی ہوتا ہے… وہ کسی نعمت کو کم یا حقیر نہیں سمجھتا … جب یہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت پر راضی ، مطمئن اور خوش ہے تو اب… اللہ تعالیٰ بھی… اس کے تھوڑے سے تھوڑے عمل سے راضی اور خوش ہوتے ہیں… اور یوں… دنیا و آخرت کی کامیابی کا بندوبست ہو جاتا ہے… اس لئے ہمیں چاہئے کہ… ہم مال، مکان ، کوٹھی… مانگنے کی بجائے’’قناعت‘‘ مانگیں … ہم فضول خواہشات کی جگہ ’’قناعت‘‘ مانگیں…چونکہ ہم ’’قناعت‘‘ سے یکسر محروم ہیں… اور آج حرص ایک فیشن بن چکا ہے…دنیا کی محبت دین کا حصہ بنا دی گئی ہے… اس لئے ’’قناعت‘‘ ہم سے دور دور ہے… اور ہم سکون اور استغنا سے دور دور ہیں…

اس لئے ہمیں چاہئے کہ… اس نعمت اور اس خزانے کو پانے کی پوری فکر کریں… ہم سجدوں میں ”قناعت“ کی دعاء مانگیں… ہم اذان کے وقت قناعت کی دعاء مانگیں… ہم اذان و اقامت کے درمیان… زمزم پیتے وقت…اور محاذ جہاد پر قناعت کی دعاء مانگیں…

ہم میں کچھ ’’اہلِ قناعت‘‘ پیدا ہوں گے تو ان کی خوشبو… پھیلے گی… اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ترغیب ہو گی کہ وہ بھی اس نعمت کو پائیں…یہ نعمت ملے گی تو حرص کا طوفان تھمے گا… یہ نعمت ملے گی تو ہر وقت کڑھتے دل… شکر گزار بن کر مسکرائیں گے… اور اللہ تعالیٰ سے ہمارے شکوے کم ہو جائیں گے… قناعت آئے گی تو ہم… ایک دوسرے کے پاؤں سے زمین نہیں کھینچیں گے… ہم عہدوں اور منصب کے لئے نہیں لڑیں مریں گے… اور ہم … بے حیائی کے کالے سمندر میں غرق نہیں ہوں گے…

اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اخْلُفْ عَلٰی کُلِّ غَائِبَۃٍ لِّیْ بِخَیْرٍ…

اللہ تعالیٰ کی زمین… اللہ تعالیٰ کے وفاداروں سے کبھی خالی نہیں ہوتی…اللہ تعالیٰ کے ’’انعام  یافتہ‘‘ بندے…تھوڑے ہوں یا زیادہ… اس زمین کی زندگی بن کر موجود ہیں… الحمد للہ… ”اہلِ قناعت“ بھی موجود ہیں… اللہ تعالیٰ کا شکر کہ ہم نے ان میں سے بعض کی زیارت بھی کی ہے… ان کے شکر ، ان کے سکون اور ان کے اطمینان قلب کے سامنے کیا بادشاہ اور کیا بلین پتی… ماضی قریب کے کئی حسین و جمیل چہرے ذہن میں تشریف لانا شروع ہو گئے ہیں… خوشبودار، معطر یادیں… حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب… حضرت استاذ مولانا محمد اِدریس صاحب میرٹھی… حضرت استاذ مفتی احمد الرحمن صاحب… حضرت استاذ مولانا عبد القیوم صاحب چترالی… نور اللہ مراقدہم … پھر جہاد کی سعادت ملی تو… حضرت الامیر ملا محمد عمر مجاہد قدس سرہ… اور پھر فدائی مجاہدین کے ہنستے، مسکراتے … شاہانہ چہرے…

ہاں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر… بہت سے ’’اہل قناعت‘‘ ایمان والے دیکھے… نام لکھنا شروع کئے تومحسوس ہوا کہ …فہرست بہت لمبی ہے… کس کس کا اسم گرامی زیب قرطاس کروں… وہ حضرت اقدس مولانا منظور نعمانی نور اللہ مرقدہ…اور بزرگ دوست جناب سید سلیس احمد صاحب نور اللہ مرقدہ…

آج کل ہر طرف ’’قناعت‘‘ کی بہت ’’قلت‘‘ ہے… تو یہ قریبی زمانے کے حضرات بھی بہت پرانے وقتوں کے لگتے ہیں… قناعت نہ ہو تو انسان اس گھوڑے کی طرح ہوتا ہے…جس پر شیطان سوار ہو… اور اس کی لگام شیطان کے ہاتھ میں ہو… جب چاہے دل میں کسی ضرورت کا غم جگا کر رلا دے… جب چاہے کوئی مستقبل کا منصوبہ ضروری قرار دے کر بھیک منگوا دے… جب چاہے خواہشات کے کالے جنگل میں دھکیل دے… جب چاہے عہدے ، منصب اور عزت کے فانی چکروں میں دوڑا کر ذلیل کر دے…اور جب ”قناعت“ نصیب ہو تو انسان … اس گھڑ سوار کی طرح ہوتا ہے جو اپنے گھوڑے پر مضبوط بیٹھا ہو… اور اسے اپنی مرضی کی چال چلا سکتا ہو… جب چاہے روک دے اور جہاں چاہے دوڑا دے… ایک مسلمان کیوں کسی سے سوال کرے؟ ایک مسلمان کیوں کسی کو درخواست دے؟ …ایک مسلمان کیوں کسی کے سامنے دل اور ہاتھ پھیلائے؟ … مسلمان تو غنی رب کا بندہ ہے … اور روز بار بار کہتا ہے

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ

یا اللہ صرف آپ کی عبادت کرتا ہوں… اور صرف آپ سے مدد مانگتا ہوں…

قناعت ہو تو… کوئی اپنا ضمیر نہیں بیچتا… کوئی اپنی روح گروی نہیں رکھتا… کوئی اپنا بدن فروخت نہیں کرتا… کوئی خود کشی کے بارے میں نہیں سوچتا… کوئی اپنی بیٹیوں ، بہنوں کو اپنے لئے بوجھ نہیں سمجھتا… قناعت کی تو دنیا ہی الگ ہے…

اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اخْلُفْ عَلٰی کُلِّ غَائِبَۃٍ لِّیْ بِخَیْرٍ…

اللہ تعالیٰ مجھے … اور آپ سب کو ’’قناعت‘‘ کا یہ غیبی خزانہ… اپنے فضل سے عطاء فرمائے… اس کے لئے چند کام کرنے ہیں

(۱) قناعت کی دعاء بہت بہت مانگی جائے… جب تک محسوس نہ ہو کہ یہ دعاء قبول ہو گئی ہے اس وقت تک اس کی بالغ کثرت کی جائے اور جب محسوس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خزانہ عطاء فرما دیا ہے تو پھر یہ دعاء دیگر اہم دعاؤں کی طرح معمول کے مطابق …معمولات میں شامل رہے…

(۲) جن کے بارے میں حسن ظن ہو کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں…ان سے اپنے لئے مغفرت،عافیت اور ہدایت کے ساتھ… قناعت کی دعاء بھی کرائی جائے…ہماری زندگی میں ایسے کئی افراد آتے ہیں…یہ عطیہ اِلٰہی ہوتا ہے… مگر ہم ان سے عام اور وقتی دنیوی حاجات کی دعاء کروا کے اپنا موقع ضائع کر دیتے ہیں…

(۳) حضور اقدس ﷺ کی مبارک زندگی کو بار بار پڑھا جائے… اور ہمیشہ پڑھا جائے… ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی زندگی اور بنات رسول ﷺ کی حیات مبارکہ کو پڑھا جائے… اللہ تعالیٰ سے قناعت پانے کے لئے ضروری ہے کہ… ہمارے دل میں قناعت کی قدر اور محبت ہو… اور یہ ”محبت“ ہمیں سیرت مطہرہ پڑھنے سے حاصل ہو سکتی ہے… قناعت سے روزی کم نہیں ہوتی… روزی تو مقدر کے مطابق ملنی ہے زیادہ یا تھوڑی… مگر ”قناعت“ کی برکت سے … روزی با برکت ہو جاتی ہے اور انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے…

(۴) اس فانی دنیا کی حقیقت کو سمجھیں… اور آخرت کے ہمیشہ ہونے کا یقین دل میں بٹھائیں …ہم دنیا میں … جنت کی خریداری کے لئے آئے ہیں… اس فانی دنیا کو آباد کرنے کے لئے نہیں…یہ بات جس دل میں جتنی مضبوط ہو گی… اسے اسی قدر جلد قناعت کی نعمت میسر ہو گی…

(۵) اہل قناعت کی صحبت اختیار کریں…اور ’’اہل حرص‘‘ کی صحبت سے بچیں…

(۶) جب بھی کوئی ضرورت سامنے آئے فوراً سوال کرنے… کسی سے مانگنے یا بہت پریشان ہونے کی بجائے یہ سوچیں کہ میرا رب موجود ہے…وہ ’’رب العالمین‘‘ ہے… پھر صلوٰۃ الحاجہ پڑھ کر آہ و زاری سے دعاء کریں… اور یہ عمل جاری رکھیں… اکثر تو ضرورت ہی دل سے نکل جاتی ہے… یہ اکثر شیطانی پھندے ہوتے ہیں…یا پھر وہ ضرورت من جانب اللہ پوری ہو جاتی ہے… اس دوران قناعت کی دعاء بھی… ہر نماز میں ’’التحیات‘‘ کے اخیر میں بڑھا دیں…

(۷) حضور اقدس ﷺ کی وہ احادیث مبارکہ پڑھیں… جن میں مال کے بارے میں آپ ﷺ نے حکمت والے حقائق بیان فرمائے ہیں… اور ان ایمان والوں کو فضیلت دی ہے جو کم مال رکھتے ہیں اور اس پر راضی ہوتے ہیں… حتیٰ کہ وہ جنت میں بھی پہلے جائیں گے… اور جنت میں وہ مالداروں سے زیادہ ہوں گے…

اسلام مال رکھنے، مال کمانے اور مال حاصل کرنے سے منع نہیں فرماتا… مال تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے… مگر یہ مال ہمارے لئے… راحت بنے…وبال نہ بنے… اس کے لئے بھی ’’قناعت‘‘ کی ضرورت ہے… اور مال کو مقصود بنا لینا… عزت کا معیار بنا لینا… اور خود کو مال کی خدمت کے لئے وقف کر دینا… یہ کسی مومن کو زیب نہیں دیتا…

آئیے مل کر… اللہ تعالیٰ سے… قناعت مانگتے ہیں…

اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اخْلُفْ عَلٰی کُلِّ غَائِبَۃٍ لِّیْ بِخَیْرٍ…

مضمون کچھ طویل ہو گیا…آخر میں مختصر طور پر اس دعاء کا ترجمہ سمجھ لیں… ( اللھم ) یا اللہ  (قنعنی) مجھے قناعت عطاء فرمائیے (بما) ہر اس چیز پر ( رزقتنی) جو آپ نے مجھے عطاء فرمائی ہے ( وبارک لی فیہ) اور میرے اس میں برکت عطاء فرمائیے

(واخلف علیٰ کل غائبۃ لی بخیر)

دعاء کے اس حصے کی تشریح تفصیل طلب ہے فی الحال خلاصہ سمجھ لیں کہ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں

(۱) ہر وہ چیز جو مجھے حاصل نہیں ہے، یا حاصل ہے مگر مجھ سے دور ہے تو مجھے اس کا نعم البدل عطاء فرمائیے

(۲) میری وہ چیزیں جن سے میں دور ہوں، میرے پیچھے ان سب کی نگہبانی فرمائیے…

قناعت کی دولت … مدینہ مدینہ

قناعت کی جنت … مدینہ مدینہ

قناعت کی نعمت جو سمجھائی ہم کو

بہت شکریہ اے … مدینہ مدینہ

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭