بہت قریب
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 643)
اللہ تعالیٰ ہمارے مال کو ’’ہمارا‘‘ بنائے… اسے ضائع ہونے سے بچائے ( آمین)
انسان کا اپنا مال وہ ہے… جو آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں کام آئے… جو اسے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب سے بچائے…جو اسے قبر کی سختی اور جہنم کی آگ سے بچائے… یا جو اس کی ضروری حاجات میں استعمال ہو جائے… اور اسے لوگوں سے سوال کرنے سے بچائے…
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ… بڑے اونچے صحابی ہیں… عشرہ مبشرہ میں سے ہیں… اصحاب بدر میں سے ہیں… غزوہ بدر سے لے کر آخر عمر تک جہاد سے کبھی پیچھے نہ ہٹے… حضور اقدس ﷺ کی دعاء کی برکت سے اُن کے مال اور ہاتھ میں عجیب برکت تھی… دن رات جہاد فی سبیل اللہ اور دین کے کاموں پر مال خرچ فرماتے تھے… مگر مال کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جاتا تھا… مال کی مشغولیت کی وجہ سے نہ کبھی جہاد چھوڑا اور نہ کبھی عبادات میں کوئی کمی فرمائی… غزوہ تبوک کے لئے بہت بڑی رقم ’’چندہ‘‘ فرمائی… اُن کا مال مسلسل خرچ ہونے کے باوجود چونکہ بڑھتا جا رہا تھا اس لئے وفات کے بعد میراث میں بھی… کافی خطیر رقم چھوڑی … لوگ اُن کی میراث کا تذکرہ منہ میں پانی بھر کر کرتے ہیں کہ… اتنے ٹن سونا اپنے ورثاء کے لئے چھوڑ گئے… حالانکہ ہمیں منہ میں پانی بھر کر یہ تذکرہ کرنا چاہیے کہ… انہوں نے جہاد پر کتنا خرچ فرمایا… دین پر کتنا لگایا… اور اہل عزت پر کتنا خرچ فرمایا… آئیے اُن کے بعض واقعات پڑھتے ہیں:
امام زہریؒ فرماتے ہیں:
o حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں اپنا آدھا مال چار ہزار درہم اللہ کے راستے میں صدقہ کئے… پھر چالیس ہزار صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار دینار صدقہ کئے، پھر پانچ سو گھوڑے اللہ کے راستے میں دئیے، پھر ڈیڑھ ہزار اونٹ اللہ کے راستے میں دئیے، اُن کا اکثر مال تجارت کے ذریعہ کمایا ہوا تھا…
oحضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں بیچی اور یہ ساری رقم قبیلہ بنو زہرہ، غریب مسلمانوں، مہاجرین اور حضور اقدس ﷺ کی ازواج مطہرات میں تقسیم کر دی،اس میںسے کچھ رقم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجی، انہوں نے پوچھا:یہ مال کس نے بھیجا؟ عرض کیا: حضرت عبد الرحمن بن عوف نے،پھر مال لے جانے والے نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے زمین بیچنے اور اس کی ساری قیمت تقسیم کر دینے کا قصہ بیان کیا، اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تو ازواج مطہرات کے ساتھ شفقت کا معاملہ صرف صابر ( ثابت قدم) لوگ ہی کریں گے…
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دعاء دی کہ اللہ تعالیٰ عبد الرحمن بن عوف کو جنت کے سلسبیل چشمے سے پلائے…
oایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی زیادہ مالداری پر کچھ تحفظ کا اظہار فرمایا تو اسے سن کر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنا پورا تجارتی قافلہ جو کہ سات سو اونٹوں پر مشتمل تھا… سارے سامان تجارت اور اونٹوں سمیت اللہ تعالیٰ کے راستے میں دے دیا…
جبکہ غزوہ تبوک میں آپ نے دو سو اوقیہ چاندی صدقہ فرمائی… ( ملخص حیاۃ الصحابہ)
مسلمانوں کو چاہیے کہ… حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے واقعات معلوم کریں اور توجہ سے پڑھیں تاکہ… مال خرچ کرنے کی صفت نصیب ہو… اور ہمارا مال ’’ہمارا‘‘ بن جائے…
حضرت سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ
حضرت سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ… بڑے اونچے درجے کے صحابی ہیں… عشرہ مبشرہ میں سے ہیں… اصحاب بدر میں سے ہیں… حضور اقدس ﷺ کے قرابت دار ہیں… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں… اور اسلام کے لئے سب سے پہلے تلوار اُٹھانے والے جانثار تھے…
انہوں نے اپنے ترکے میں کافی مال چھوڑا … حالانکہ نہ تجارت کرتے تھے، نہ دنیا کے کاموں میں کبھی مشغول ہوئے… نہ کبھی کوئی عہدہ قبول فرمایا … اور نہ کسی بڑی تنخواہ والے منصب پر رہے… ساری زندگی جہاد میں گذری… حضور اقدس ﷺ … اور پھر حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور کی تقریباً تمام جنگوں میں شریک رہے… اس جہاد کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مال میں بے پناہ برکت عطاء فرما دی تھی…
مال غنیمت میں سے کچھ اپنے خیر خواہ دوستوں کو دیتے وہ تجارت میں لگا کر… نفع کما دیتے… غنیمت میں غلام ملتے تو وہ بھی کما کر لے آتے… مگر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو نہ اپنے مال کا کچھ حساب معلوم تھا اور نہ وہ اپنے ذہن کو جہاد سے ہٹا کر کسی کام میں مشغول فرماتے تھے… لوگ اُن کے پاس امانت رکھوانے آتے تو فرماتے :امانت نہیں قرضہ کے طور پر دے دو… پھر وہ مال خرچ ہو جاتا …کیونکہ جہاد اور دین کے کاموں پر مسلسل خرچ کرتے رہتے تھے… آپ کے ایک ہزار غلام جب شام کو اپنی کمائی لا کر آپ کو دیتے تو اگلے دن سے پہلے آپ وہ سب تقسیم فرما دیتے …یوں آپ کے ذمہ کافی قرضہ چڑھ گیا… شہادت سے کچھ پہلے اپنے صاحبزادے کو وصیت فرمائی کہ… میرا قرضہ ادا کر دینا… اگر کہیں مشکل ہو تو میرے مولیٰ سے مدد مانگ لینا… صاحبزادے نے پوچھا کہ آپ کا مولیٰ کون ہے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ…
عربی میں مولیٰ چونکہ کئی معانی میں آتا ہے …اس لئے صاحبزادے نے وضاحت لے لی … قرضہ بہت زیادہ تھا… جبکہ مال کچھ بھی موجود نہیں تھا… بس کچھ غیر منقولہ جائیداد تھی… بظاہر یوں لگتا تھا کہ… ساری جائیداد بیچ کر بھی قرض ادا نہ ہو سکے گا… مگر جب بیچنا شروع ہوئے تو برکت اُتر آئی… سارا قرض اُتر گیا… اور پھر بھی چھ کروڑ کے لگ بھگ مال ورثاء کے لئے بچ گیا…
قسمت کی بات ہے
ایک ہی واقعہ ہے کہ… حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ترکہ چھ کروڑ کے لگ بھگ تھا… اس واقعے کو امام بخاریؒ … دعوت جہاد بنا دیتے ہیں … چنانچہ بخاری شریف میں آپ نے یہ واقعہ بیان کرنے کے لئے… یہ عنوان باندھا ہے:
’’ باب برکۃ الغازی فی مالہ حیاومیتا مع النبی ﷺ وولاۃ الامر‘‘
’’حضور اقدس ﷺ اور اپنے امراء کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والے غازی کے مال کی برکت زندگی میں اور وفات کے بعد‘‘
اس میں امام بخاریؒ نے کئی نکتے سمجھا دئیے:
(۱) مجاہد فی سبیل اللہ کو برکت نصیب ہوتی ہے
(۲) مال کی کثرت اور چیز ہے اور مال کی برکت اور چیز ہے
(۳) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کوئی مالی پیشہ یا مصروفیت اختیار نہیں فرمائی بلکہ جہاد ہی میں لگے رہے… مگر پھر بھی اُن کے مال میں برکت ہوتی رہی…
(۴) جہاد فی سبیل اللہ برکتیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے
(۵) حضور اقدس ﷺ کے زمانے کے بعد بھی جہاد کا حکم باقی رہا اور صحابہ کرام نے اپنے خلفاء کرام کے ساتھ مل کر جہاد کیا…
یہ تو ہوئی امام بخاریؒ کی قسمت کہ… ایک صحابی کے ترکے اور میراث کو بھی دینی اور جہادی دعوت بنا کر پیش کیا… جبکہ بعض لوگ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ترکہ بیان کرکے… لوگوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں اور این جی اوز بنانے کی دعوت دے رہے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ… حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکے میں چونکہ چھ کروڑ چھوڑے اس لئے تمام مسلمان زیادہ سے زیادہ مال بنائیں…ملٹی نیشنل کمپنیاں کھولیں… این جی اوز  بنائیں… وغیرہ وغیرہ… مال کی دعوت کا یہ اسلوب نہ تو قرآن مجید کے اسلوب سے ملتا ہے …نہ حضور اقدس ﷺ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا … اور نہ حضرات محدثین نے اس طرز کو اپنایا… معلوم نہیں… یہ لوگ کس کے طریقے پر چل رہے ہیں… اور مسلمانوں کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟…
اس ترغیب کی کیا ضرورت ہے؟
انسان فطری طور پر مال سے محبت رکھتا ہے … دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال سے محبت نہ رکھتے ہوں… آپ کسی کو ترغیب دیں یا نہ دیں… مال کی طرف ہر شخص خود ہی دوڑ رہا ہے… مگر منبر رسول ﷺ پر بیٹھنے والے علماء کرام کی کیا ذمہ داری ہے؟ … حضور اقدس ﷺ کا فرمان گرامی ہے:
ان لکل امۃ فتنۃ وفتنۃ امتی المال ( ترمذی)
بے شک ہر امت کے لئے ایک بڑا فتنہ ہوتا ہے…اور میری امت کا بڑا فتنہ مال ہے…
حضور اقدس ﷺ کا ارشادمبارک ہے:
میں تم پر فقر وفاقہ کے آنے سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ ڈر ضرور ہے کہ دنیا تم پر زیادہ وسیع کر دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی تھی پھر تم اس کو بہت زیادہ چاہنے لگو جیسا کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا اور پھر وہ ( یعنی دنیا کی وسعت) تم کو تباہ کر دے جس طرح اس نے تم سے پہلوں کو تباہ کر دیا …( بخاری، مسلم)
یہ ہے دنیا کے بارے میں…’’ نبوی دعوت‘‘ کا انداز… لوگ دنیا کی طرف طبعی طور پر دوڑ رہے ہوتے ہیں… تب حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین میدان میںآ کر… لوگوں کو دنیا کی حقیقت بتاتے ہیں… وہ انہیں دنیا میں زیادہ مشغول ہونے سے روکتے ہیں… وہ انہیں مال خرچ کرنے کی جگہیں بتاتے ہیں… وہ انہیں فرائض پر مال لگانے کی دعوت دیتے ہیں … اور وہ اُن میں حُبّ دنیا کے جراثیم کم کرتے ہیں…
آہ افسوس
آج عالم کفر نے معاشی طور پر… ساری دنیا کو جکڑ لیا ہے… سود کی لعنت پر مبنی آج کا معاشی نظام غلامی کا سب سے بڑا پھندہ ہے… جب مسلمان اس نظام کی گرفت میں آ جاتے ہیںتو پھر نہ انہیں دین یاد رہتا ہے اور نہ جہاد… بلکہ وہ کفار کے ہاتھوں مجبور محض بن جاتے ہیں… اور تو اور وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے لئے آواز تک نہیںاُٹھا سکتے… کیونکہ اس سے اُن کے کاروباری مفادات … خطرے میں پڑتے ہیں … آج کوئی مسلمان ملٹی نیشنل کمپنی اسی وقت تک نہیںبنا سکتا ہے جب تک وہ… دشمنان اسلام کے سودی نظام کو پوری طرح اپنے اوپر مسلط نہ کر لے… اور اس سودی نظام کی شرائط کوقبول نہ کر لے…
ان حالات میں علماء کرام کے لئے جائز نہیں ہے کہ… وہ مسلمانوں کو جمع کر کے…زیادہ کمانے، زیادہ بنانے اور کمپنیاں کھڑی کرنے کی دعوت دیں… اگر انہوں نے ایسی دعوت دی اور کسی نے اُن کی دعوت قبول کرتے ہوئے اس آگ میں چھلانگ لگا لی تو… سود خوری، سود بازی اور سود کی اشاعت کا سارا وبال اُن علماء پر ہو گا جنہوں نے یہ دعوت دے دی تھی… ہاں اگر اسلامی حکومت ہو… اور اس حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے ایسی دعوت دی جائے تو اچھی بات ہے… فی الحال علماء کرام کا کام یہ ہے کہ …وہ لوگوں کو حلال مال کمانے… اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے … مال کے بارے میں اسلامی احکامات کی پیروی کرنے… اور جہاد پر زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کی دعوت دیں …جہاد ہو گا تو کفر کا نظام ٹوٹے گا… آزادی ملے گی… اور تب اسلامی معیشت اپنے قدموں پر خود بخود مضبوط کھڑی ہو جائے گی ان شاء اللہ…  ہماری یہ باتیں… آج کے مسلمانوں کو… بہت دور کے خواب لگتے ہیں… مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے… اسلام کے غلبے کا دور بہت قریب ہے… بہت قریب… بقدرۃ اللہ ، ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭