بات ختم ہوچکی
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 654)
اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ… واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد… آج ایک عجیب بات سنیں… جو مسلمان ’’کنجوس‘‘ ہیں… بخیل ہیں… ان کے بڑے مزے ہیں… وہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کریں تو ان کو زیادہ اجر ملتا ہے… سخی لوگوں کے خرچ کرنے سے بہت زیادہ… حضرت آقا مدنی ﷺ نے کنجوسوں کے خرچ کرنے کو ’’افضل الصدقۃ‘‘ قرار دیا ہے … یعنی سب سے افضل صدقہ…
کنجوس کے مزے
کنجوسی بہت بری چیز ہے… ہم سب کو روز اور بار بار اس سے پناہ مانگنی چاہیے
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبُنِ
مگر یہ بیماری اکثر لوگوں کو لگ جاتی ہے… کیوں لگتی ہے؟ اس کی بڑی تفصیل ہے… بہت سی وجوہات ہیں…مثلاً بخیل مالداروں کی صحبت میں بیٹھنا… بیت الخلاء بغیر دعاء پڑھے ننگے سر جانا بھی اس کی وجوہات میں سے ہیں… اللہ بچائے… بڑا خطرناک مرض ہے… انسان کو نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے دیتا ہے… نہ کھانے دیتا ہے نہ خوش ہونے دیتا ہے… ہر وقت پیسے کی فکر… ہر وقت پیسے کی گنتی… ہر خرچے پر دل پریشان… نہ کوئی سکون نہ کوئی اطمینان…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبُنِ
لیکن اگر بخیل آدمی ہمت کرے… اور اپنے دل پر آری چلا کر نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرے تو اس کا اجرو ثواب بہت بڑا ہے… اور اس کا صدقہ ’’افضل الصدقۃ‘‘ ہے… وجہ بالکل واضح ہے…کسی سخی مسلمان نے قرآن مجید کی ایک آیت سنی کہ مال خرچ کرو… وہ اُٹھا اور اُس نے اپنی پوری جیب اُلٹ دی… مگر جب ’’کنجوس‘‘ نے وہی آیت سنی تو اب کشمکش میں پڑگیا…
ایمان نے اُبھارا کہ مال خرچ کر دو… مگر دل رونے لگا کہ مال خرچ کیا تو کم ہو جائے گا… اب اس کے دماغ میں ایک جنگ چل رہی… بے چارہ بے چینی میں مبتلا ہے… قبر، آخرت یاد آتی ہے تو سوچتا ہے چلو خرچ کر دوں مگر…پھر تو پیسے کم ہو جائیں گے…دل پر چھری چلی… پھر خود کو سنبھالا کہ یار ہمت کرو… اللہ تعالیٰ اور دے دے گا… مگر دل غصے ہو گیا کہ… پہلے کچھ مال بنا تو لو پھر حاتم طائی بن جانا… روز کا روز خرچ کرو گے تو محتاج ہی رہو گے… اللہ تعالیٰ کو تمہارے خرچے کی کیا حاجت ہے؟… مگر پھر ایمان نے بلایا کہ مال چھوڑ کر مر جاؤ گے کیا فائدہ ہو گا؟ خرچ کر دو… وہ تیار ہوا تو دل پرشیطان نے نیا وار کر دیا کہ … بچے بڑے ہونے والے ہیں اُن کی شادیاں کیسے کرو گے؟ بس اسی پریشانی میں وہ بیت الخلاء جا بیٹھا… وہاں سوچوں میں غرق… کبھی لوٹے میں پانی بھرتا ہے تو کبھی بھول جاتا ہے کہ میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں… ’’بیت الخلاء‘‘ کنجوسوں کی مالی منصوبہ بندیوں کا دفتر… اور شاعروں کی ’’قافیہ بندی‘‘ کا میدان ہے… لگتا ہے آج کل کی اکثر شاعری… خصوصاً مزاحیہ شاعری ’’ بیت الخلاء‘‘ہی میں تیار ہو رہی ہے…
بات دور نہ نکل جائے… خلاصہ یہ کہ کنجوس آدمی کے لئے مال خرچ کرنا… اپنے جسم سے گوشت کاٹ کر دینے کی طرح مشکل ہوتا ہے… مگر وہ ایمان کی آواز پر سر جھکاتا ہے اور نفس کی سخت مزاحمت کے باوجود … اپنا مال خرچ کرتا ہے تو اسے… بہت زیادہ اجر ملتا ہے… جس طرح کہ بزدل آدمی کو… جہاد کا اجر بہادر آدمی سے زیادہ ملتا ہے… کیونکہ اسے جہاد میں بہت زیادہ خوف اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے… عرض کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ… نعوذ باللہ کنجوسی یا بزدلی کوئی اچھی چیز ہے… نہیں ہرگز نہیں… یہ دونوں بہت خطرناک اور بہت عیب دار بیماریاں ہیں… جن چیزوں سے ہمارے آقا مدنی ﷺ نے پناہ مانگی ہو وہ چیزیں کبھی اچھی ہو ہی نہیں سکتیں… مقصد یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کو اس کے کسی گناہ کی وجہ سے… بخل ، کنجوسی یا بزدلی کی بیماری لگ چکی ہے تو اب وہ… شیطان کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے… اور نہ ہی دنیاداروں کی طرح اپنی کنجوسی کو… اپنی سمجھداری قرار دے… کنجوس کبھی سمجھدار نہیں ہوتا… ہاں ہر کنجوس خود کو بد قسمتی سے سمجھدار قرار دیتا ہے… حالانکہ اسے چاہیے کہ… وہ رو رو کر اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے کہ… یا اللہ بخل کی موذی بیماری سے نجات عطاء فرما… اور ساتھ ساتھ وہ خود پر جبر کر کے نیکی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کرتا رہے… اسے اس خرچ کرنے پر… سخی افراد سے زیادہ اجر وثواب ملے گا… صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا! یا رسول اللہ کون سا صدقہ ثواب کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ تو ایسے وقت میں صدقہ کرے جبکہ تو تندرست ہو اور خرچ کرتے ہوئے نفس کنجوس بن رہا ہو، تجھے تنگدستی کا ڈر ہو اور مالداری کی اُمید لگائے بیٹھا ہو اور صدقہ کرنے میں تو اتنی دیر نہ لگا کہ جب روح حلق کو پہنچنے لگے تو تو کہنے لگے کہ فلاں کو اتنا دینا او رفلاں کو اتنا دینا ( اب تیرے دینے اور اعلان کرنے سے کیا ہو گا) اب تو فلاں کا ہو ہی چکا ( الانفاق فی وجوہ الخیر حضرت بلند شہریؒ)
الحمد للہ قربانی کا مبارک موقع آ رہا ہے… عشرہ ذی الحجہ بھی آ رہا ہے… یہ مال کو خرچ کرنے اور قیمتی بنانے کے بہترین مواقع ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بخل اور کنجوسی کے مہلک مرض سے بچائے… جو مسلمان اس مرض کا شکار ہوں اور مالدار بننے کی خواہش میں مال جمع کر رہے ہوں… وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں… خوب کھلے دل سے مال خرچ کریں… واجب قربانی میں بھی… اور نفلی قربانی میں بھی …اور عشرہ ذی الحجہ میں اپنا زیادہ سے زیادہ مال جہاد فی سبیل اللہ، مساجد اللہ اور صلہ رحمی وغیرہ کے اچھے مصارف میں خرچ کریں ان کو اس خرچ کا بہت زیادہ اجر ملے گا… یہ مال ان کے لئے محفوظ ہو جائے گا… یہ مال ان کو اس دن کام آئے گا جب انسان… بہت مجبور اور محتاج ہو گا اور سامنے بڑے بڑے عذاب ہوں گے… اور کیا بعید ہے کہ… ان مبارک خرچوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ انہیں کنجوسی اور بخل سے ہی نجات عطاء فرما دیں… پھر تو ان کے مزے ہی مزے ہو جائیں گے…
دل پر نظر رکھیں
ہم سب اپنے دل پر نظر رکھیں… دل میں اگر یہ خیال آتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو… اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرو… اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کر کے خرچ کرو اور کمی کا اندیشہ نہ کرو… جب بھی دل میں ایسے ارادے آئیں تو انسان سمجھ لے کہ… اللہ تعالیٰ کا مقرب فرشتہ میرے دل پر اُترا ہوا ہے… اسے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے… ایسے مواقع پر انسان کو دو کام کرنے چاہئیں پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ… اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو اس قابل سمجھا کہ اس پر توجہ فرمائی، رحمت فرمائی اور اپنا فرشتہ اس پر اتارا… اور دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ جتنے مال خرچ کرنے کا ارادہ دل میں آیا ہو فوراً وہ مال خرچ کر دے… اس میں نہ تاخیر کرے اور نہ کچھ کمی کرے… جس نے یہ دونوں کام کر لئے اس کے دل پر یہ نعمت بار بار اُترتی رہے گی… اس کا مال اسی طرح قیمتی بنتا چلا جائے گا… اور اللہ تعالیٰ اس کے مال کو اور زیادہ بڑھاتے جائیں گے …اسے نہ دنیا میں کوئی کمی آئے گی اور نہ اسے آخرت میں پچھتاوا ہو گا… ان شاء اللہ… لیکن اگر ایسے ارادوں کے فوراً بعد دل میں بخل اور تنگی کے خیالات شروع ہو جائیں… اور یہ ڈر پیدا ہونے لگے کہ… خرچ کرنے سے تو میرا مال کم ہو جائے گا…میں محتاج ہو جاؤں گا…میرے بچے لوگوں کے محتاج ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ… تو وہ سمجھ لے کہ اس کے دل پر شیطان اتر آیا ہے اور وہ دل میں خوف اور بے یقینی ڈال رہا ہے… ایسے وقت میں اسے چاہیے کہ شیطان سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے… اور اپنے اس وسوسے کو زیادہ نہ بڑھنے دے… اور نہ ہی اسے اپنا عمل بنائے…
اب ہم واجب یا نفل قربانی کا ارادہ کریں تو پھر اپنے دل پر نظر رکھیں کہ کب فرشتہ تشریف لاتا ہے تاکہ ہم شکر کریں اور اس ارادے کو اپنا عمل بنائیں… اور کب شیطان آتا ہے تاکہ ہم ا س کے شر سے پناہ مانگیں اور اس کی بات پر عمل نہ کریں…
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی آدم کے دل پر شیطان کی پہنچ بھی ہوتی ہے اور فرشتے کا نزول بھی ہوتا ہے شیطان ( تنگدستی، کمی وغیرہ) سے ڈراتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے اور فرشتہ خیر کے واقع ہونے کی امیدیں دلاتا ہے اور حق کی تصدیق کرتا ہے، پس تم میں سے جو شخص بھی اسے ( یعنی اچھی حالت کو ) محسوس کرے تو جان لے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے لہٰذااللہ کی حمد کرے… اور جو شخص دوسری بات محسوس کرے وہ شیطان سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگے یہ بات بیان فرما کر حضوراقدس ﷺ نے یہ آیت ’’اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَوَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَائِ ‘‘ تلاوت فرمائی ( الانفاق فی وجوہ الخیر بحوالہ مشکوٰۃ)
بات ہی ختم ہوگئی
دنیا جب سے بنی اور جب تک رہے گی… اس دنیا میں حضرت آقا مدنیﷺسے بڑا سخی نہ کوئی گذرا … نہ کوئی آئے گا… دنیا جب سے بنی اور جب تک رہے گی اس میں… حضرت آقا مدنی ﷺ سے بڑا عقلمند، دانشمند نہ کوئی گذرا… نہ کوئی آئے گا…
حضرت آقا مدنی ﷺ نے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں اور محتاجوں پر مال خرچ کرنے کے جو فضائل اور فوائد بتائے ہیں وہ آپ ﷺ کے علاوہ کسی نے نہیں بتائے… اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ’’معلم‘‘ بنا کر بھیجا ہے تعلیم کی جو اہمیت آپ ﷺ کے دل مبارک میں تھی… وہ کسی اور کے دل میں نہیں ہو سکتی…
اس لئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ…اگر قربانی کے جانور کی قیمت کسی رفاہی ، تعلیمی یا ہنگامی خدمت میں لگانا بہتر ہوتا تو… آپ ﷺ خود اس کی ترغیب دیتے… اور خود اسے اپنے عمل میں لاتے… مگر حال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کے قیام میں ہر سال نہایت پابندی سے قربانی فرمائی… نہایت شان سے قربانی فرمائی… اپنی امت کو قربانی کی تلقین فرمائی… اور اپنی امت کے غریب افراد کی طرف سے بھی خود قربانی فرمائی… اور ساتھ ہی آپﷺ نے یہ اعلان مبارک فرما دیا کہ…
’’دس ذی الحجہ ( یعنی عید کے دن) کوئی بھی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک( قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ‘‘( ترمذی)
تو بس بات ہی ختم ہو گئی… دانشمندی اور عقلمندی بھی اسی پر مکمل ہو گئی… اور امت کو واضح راستہ مل گیا کہ… عید کے دن سب سے محبوب، سب سے ضروری، سب سے مفید ، سب سے اعلیٰ اور سب سے اہم عمل… قربانی ہے…
مسلمانوں کے وہ دانشور جو قربانی کے عمل پر… اپنی دانش کی چھری چلاتے رہتے ہیں… ان بد نصیبوں سے اتنی گذارش ہے کہ… بات ختم ہو چکی ہے… اب فضول باتیں کر کے… کیوں اپنی آخرت برباد کرتے ہو… قربانی کرو ، قربانی … اگر دل میں جذبہ ہے تو… اپنے گھر کا سارا سامان اُٹھا کر… غریبوں میں بانٹ دو… مگر مسلمانوں سے… قربانی جیسا محبوب، مسنون، واجب اور قیمتی عمل نہ چھینو…
ادب سیکھو ادب… جب حضرت آقا ﷺ فیصلہ فرما دیں تو… بات ختم ہو جاتی ہے… پھر بھی اگر کوئی بک بک کرے تو وہ بڑا بدنصیب ہے … بڑا بد نصیب … یا اللہ آپ کی پناہ…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
( معذرت! گذشتہ کالم میں سازش کا حوالہ سورۃ بقرۃ لکھا گیا… درست یہ ہے کہ اس سازش کا تذکرہ سورۃ آل عمران آیت72 میں ہے)
٭…٭…٭